Language: UR
مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ پاکستان کے پہلے سالانہ اجتماع سے لے کر جماعت احمدیہ کے سالانہ جلسہ 1951ء تک۔(پرانے ایڈیشن کے مطابق جلد 14)
تاریخ احمدیت جلد چہار دہم مجلس سے خدام الاحمدیہ مرکز یہ پاکستان کے پہلے سالانہ اجتماع سے لے کر جماعت احمدیہ کے سالانہ جلسہ ۱۳۳۰ ش یکے ۱۹۵۱ء مؤلّفه دوست محمد شاهد الناشر:- ادارة المصنفين، ربوه
تاریخ احمدیت جلد سینز دہم مولا نا دوست محمد شاہد 2007 : 2000 نظارت نشر و اشاعت قادیان پرنٹ ویل امرتسر نام کتاب مرتبه طباعت موجودہ ایڈیشن تعداد شائع کردہ مطبع ISBN - 181-7912-120-8 TAAREEKHE-AHMADIYYAT (History of Ahmadiyyat Vol-13(Urdu) By: Dost Mohammad Shahid Present Edition : 2007 Published by: Nazarat Nashro Ishaat Qadian-143516 Distt.Gurdaspur(Punjab) INDIA Printed at: Printwell Amritsar ISBN-181-7912-120-8
سید نا حضرت مصلح موعود اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب انجنیئر نگ کالج لاہور کے احمدی طلبا میں رونق افروز ہیں (۲ ما و شہادت ۳۳۰اهش ۱۹۵۱ء )
بسم اللہ الرحمن الرحیم پیش لفظ اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں داخل فرماتے ہوئے اس زمانہ کے مصلح امام مہدی و مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے کی توفیق عطا کی.قرونِ اولیٰ میں مسلمانوں نے کس طرح دُنیا کی کایا پلٹ دی اس کا تذکرہ تاریخ اسلام میں جا بجا پڑھنے کو ملتا ہے.تاریخ اسلام پر بہت سے مؤرخین نے قلم اٹھایا ہے.کسی بھی قوم کے زندہ رہنے کیلئے اُن کی آنے والی نسلوں کو گذشتہ لوگوں کی قربانیوں کو یا درکھنا ضروری ہوا کرتا ہے تا وہ یہ دیکھیں کہ اُن کے بزرگوں نے کس کس موقعہ پر کیسی کیسی دین کی خاطر قربانیاں کی ہیں.احمدیت کی تاریخ بہت پرانی تو نہیں ہے لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے الہی ثمرات سے لدی ہوئی ہے.آنے والی نسلیں اپنے بزرگوں کی قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھ سکیں اور اُن کے نقش قدم پر چل کر وہ بھی قربانیوں میں آگے بڑھ سکیں اس غرض کے مد نظر ترقی کرنے والی قو میں ہمیشہ اپنی تاریخ کو مرتب کرتی ہیں.احمدیت کی بنیاد آج سے ایک سو اٹھارہ سال قبل پڑی.احمدیت کی تاریخ مرتب کرنے کی تحریک اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دل میں پیدا فرمائی.اس غرض کیلئے حضور انور رضی اللہ عنہ نے محترم مولا نا دوست محمد صاحب شاہد کو اس اہم فریضہ کی ذمہ داری سونپی جب اس پر کچھ کام ہو گیا تو حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی اشاعت کی ذمہ داری ادارۃ المصنفین پر ڈالی جس کے نگران محترم مولانا ابوالمنیر نورالحق صاحب تھے.بہت سی جلد میں اس ادارہ کے تحت شائع ہوئی ہیں بعد میں دفتر اشاعت ربوہ نے تاریخ احمدیت کی اشاعت کی ذمہ داری سنبھال لی.جس کی اب تک 19 جلدیں شائع ہو چکی ہیں.ابتدائی جلدوں پر پھر سے کام شروع ہوا اس کو کمپوز کر کے اور غلطیوں کی درستی کے بعد دفتر اشاعت ربوہ نے
اس کی دوبارہ اشاعت شروع کی ہے.نئے ایڈیشن میں جلد نمبر ۱۴ کوجلد نمبر ۱۳ بنایا گیا ہے.حضرت خلیفۃ السیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے قادیان سفر کے دوران تاریخ احمدیت کی تمام جلدوں کو ہندوستان سے بھی شائع کرنے کا ارشاد فرمایا چنانچہ حضور انور ایدہ اللہ کے ارشاد پر نظارت نشر و اشاعت قادیان بھی تاریخ احمدیت کے مکمل سیٹ کو شائع کر رہی ہے ایڈیشن اول کی تمام جلدوں میں جو غلطیاں سامنے آئی تھیں ان کی بھی تصحیح کردی گئی ہے.موجودہ جلد پہلے سے شائع شدہ جلد کا عکس لیکر شائع کی گئی ہے چونکہ پہلی اشاعت میں بعض جگہوں پر طباعت کے لحاظ سے عبارتیں بہت خستہ تھیں اُن کوحتی الوسع ہاتھ سے درست کرنے کی کوشش کی گئی ہے.تا ہم اگر کوئی خستہ عبارت درست ہونے سے رہ گئی ہو تو ادارہ معذرت خواہ ہے.اس وقت جو جلد آپ کے ہاتھ میں ہے یہ جلد سیز دہم کے طور پر پیش ہے.دُعا کریں کہ خدا تعالیٰ اس اشاعت کو جماعت احمد یہ عالمگیر کیلئے ہر لحاظ سے مبارک اور بابرکت کرے.آمین.خاکسار برہان احمد ظفر درانی ( ناظر نشر و اشاعت قادیان)
الله العلي الحمية وتعالى عند ال الموعول تاریخ احمدیت کی چودہویں جلد نحمده ونصلى على رسو الكثيل للہ ا نے کی دی ہوئی توفیق اور اس کی عنایت سے جلسہ سالانہ ۱۹۷۳ء کی مبارک تقریب پر تاریخ احمدیت کی چودہویں سادہ طبع ہو کر اجاب کی خدمت میں پیش ہو رہی ہے یہ جلد ۱۹۴۹ء کے مجلس خدام الاحمدیہ کے مرکز ربوہ میں پہلے اجتماع سے لے کر سالانہ جلسہ ربوہ ۱۹۵۱ء تک کے ایمان افروز رو پر در اور انقلاب آخری واقعات پرمشتمل ہے اس جید کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں سید نا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے بہت سے غیر مطبوعہ پیغامات مراسلات اور تقریرات کے علاوہ حضور کے سفر بھیرہ کے موقع کی پر معارف تقریر پہلی بار مکمل طور پر شائع ہورہی ہے اس حراج متعدد نایاب اور بالکل غیر مطبوعہ فوٹو و صلح موعود کے خدا نما عید مبارک کی پیاری یاد کو تازہ کر رہے ہیں نہایت عمدہ طباعت کے ساتھ شامل اشاعت ہیں ۱۹۵۱ء میں السید عبد الوہاب عسکری عراقی نمائندہ مؤتمر عالم اسلامی رابعہ تشریف لائے ان کے اعزاز میں جامعتہ المبشرين من دعوت دی گئی جامعتہ المبشرين ان دنوں اس کچی عمارت میں تھا جو جلسہ سالانہ کے لنگر کے لئے بنائی گئی تھی.اس تقریب میں حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس اور حضرت سید زین العابدین ولی الله شاہ صاحب مرحوم اور مکرم شیخ نور احمد صاحب مغیر مبلغ بلاد سر یہ بھی شامل ہوے خاکسارہ ان دنوں جامعتہ المبشر ان کے پرنسل کے فرائض ادا کر رہا تھا اس تقریب کے فوٹو لئے گئے ان میں سے دو فو ٹو خاک کے پاس محفوظ تھے.وہ بھی اس جلد می تاریخی یاد گار بن رہے ہیں.زمانہ کے حالات بڑی سرعت سے بدل رہے ہیں پچھلے سال کی نسبت اس سال بہت زیادہ مہنگائی ہو گئی ہے اور تقریباً ہر چیز کی قیمت دگنی اور حیض نیزوں کی قیمت دگنی سے زیادہ ہوگئی ہے کا غز جو پچھلے سال پہ روپہلے ریم تھا اب انتی رو پے درم خرید گیا ہے ان حالات میں اخراجات طباعت کا بڑھ جاتا اگر یہ تھا ہر حال قیمت تقرینا لاگت کے مطابق رکھی گئی ہے اجاب سے درخواست ہے کہ وہ کتاب کو خرید کر تعاون فرمائیں تا کہ تاریخ احمدیت کی تکمیل کے فرض سے ہم جلد سبکدوش ہو سکیں.بالآخر اللہ تعالے سے دعا ہے کہ وہ ہماری مساعی کو قبول فرمائے (آمین ) لاكساس البو المنير نور الحق مینجنگ ڈا ٹیکہ ادارة السندين ربوہ - الار در گیر ان السر
فیست مضامین تاریخ احمدیت جلد چهاردهم به اهلا باب خلس خدام الاحمدیہ مرکوز یہ پاکستان کے پہلے نوان حضرت برابر میلان کو رہائش ربوہ کے نوید پا رو بروز خطبه نمید سالانہ اجتماع سے لے کر اوکاڑہ اور راولپنڈی منافق طبع لوگوالے کی اصلاح کرتے اور کے شہدائے احمدیت کی شہادت کے حالات تک خلیفہ وقت کو اطلاع دینے کی تحریک ترقیوں اور ابتلاؤں کا متوازی سلسلہ فصل اول حضرت امان مولود کا ایکپر سرگودھا فصل پنجم به مجلس خدام الاحمدیه میکنه یه کی پیالے سالانہ اختیا رام امیر سلیم مشن تھا اسکو کا قیام مشن کی شاد.فصل دوم اخبار المرحمت کا اجراء اور حضر الملح وعودت ابتدائی تبلیغی سرگرمیابی ۳۷ ۴۱ ۴۲ کا بصیرت افروز افتتاحی مضمون فصل سوم سلم سہی لیٹ کا اجراء آن شب آن با کادر پورپ کو رات مدارک ۲۴۲ مسجد مبارک ربوہ کے سنگ بنیاد کی مقد مر تقریب ۱۵ مصدقہ اشاعت اسلام میں وسعته حضرت امیرایلو مین کی تتراهید آوری بیرونی مخلصین کی آمد حضرت مصلح موع ورود کی ھدایات خصوصی نماز عصر اور بنیاد کی تقریب حضرت امام تمام کا ایمان افروز خطاب ایمان تعمیر سید سے قبل صدقہ مسجد مبارک کی تعمید اور افتتان ادرا 14 مبلغ اسلام کا ایشار ٹرینیڈاڈ کو روانگی ال سایش بالا ایلین دندان یک بار است نگرانی من شن کے دور ثانی کی خدمات پر ایک نظر 은은 흔↓ N4 ارت اطهر مونین خلیفه این السالت مونس الی ۴۸ فصل ششم کو انقضا نما در باران فصل چهارم تا در این شیعیان حکومت کی پالی این تبلی ۴۹ ۵۴
نوان صفر و شان کار وحدت کا ایک تار کی خصو ا ا ا ا ناگاوا ۵۶ حضوریت ملی موجود ہ کا ایک اہم نہان جلسہ قادیان کے لئے پہلا پاکستانی قاند پاکستانی تو فلہ کا غیر متقدم فصل مشتم ، کشمیری کیا متصواب رائے کے سلسلہ میں نایی با الگانتان در امر کریمی کا سالار جلسه ۱۴ تانی برای بی حضرت امام جماعت احمدیہ کا ذکر ۱۰۱ قاربان اور راوہ میں سالانہ ملیت ان (۱۹۷۹) میلانین کی بیرونی ممالک سے آمد او جنگی حضرت امیرالمونین کی دوسری تعریمہ لیا.20 کی حسینی خصو صیات فصل مشم جلیل القدر صحابہ کا انتقال فصل نہم *L 수 ی شعریات نصوروم کتاب اسلام اور کیت زمین کی امت بصمت مجلس مشاورت ۲۹ باش / ۱۹۵۰ء کا انعقا وضاع وطن کی تیاری میں حصہ لینے اور بیڈ لیکچر H.۱۳۲۸ میشی (۱۹۴۹ء کے بینی من دو گرام ۹۵ سندھ.اوکاڑہ اور روایت کی لی و احمدیوں کی المناکہ خاندان حضرت مسیح موعود می تقاریب حسرت نصورت گرائنہ ہائی سکول ربوہ میں را روانی کا سامانمان عالم کو ایسته میان ایسا کو میری این موارد کا خصوصی ایستاد متر ی صلح و اختار نواسیوں کے دانلود سمیت ما در کشمیر سمینه انجمن حمایت اسلام کے مشاعرہ میں احمدی شاعر کے کلام کو اشتہر امیت پاکستانی کیا ہے.انوں کو نہ محبت مات جدید امیر یا نبی الامی ای دارای 90 $ شهادت خلافت ثانیه کانها و یا سال ۳۲۹ اشتها اسلام اور یاسیت زمین کی برش است محلی شما در ستاد کان النار 116 و قلع طین کی تیاری میں حصہ لینے کی تو نور کار ایک ۱۱۸ ین اسلام کے لئے با ل کر تیار کرنے و تحریک ۱۲۴ ن که رت مسیح موعود کا ستر اوسه د سند به اسب ایمنی خاص علمی تفرسات کو نظر من دور القرآن جمل فلم سے حقیقت افروز خاناب ر انہیں نام اور کمیونزم کے موضوع پر لکیر M ipx
نوان صفر کراچی میں ایک خاص خطبہ جمعہ کو اچھا پریس کانفرنس IM سنوات | صفحہ ۱۳۵ دعوت چائے میں شرکت اور مراجعیت فصل دوم مسلم لیگی حکومت کا معاندانہ رویہ اور ۱۴۵ کو الف قادیان ۳۲۹انش ۶۱۹۵۰ حضرت مصلح موعود کی راہ نمائی حفہ مصلح موعود کی اہم سیکیم اوکاڑہ اور اس کے ماحول کی آتیش فضا ۱۳۹ نظام محمل من خوش گوار تعبیر میں ماسٹر غلام محمد صاحب کا واقعہ شہادت ۱۵۱ فصل سوم پنجاب بوریس کا جانبدارانہ روبی اور سی کی مدت ۱۵۳ سالانه صلبه قادیان ۱۳۲۹است / ۶۱۹۵۰ اجار تنظیم ان امور کا پرزور تو در حکومت سے مطالبہ ۱۵۴ اور منہ مصلح موجود کاری پودر پیام حضرت مصلح موعود کی طرف سے جماعت احمدیہ کو اپنے ۱۵۰ کو الف جلسہ اندر روحانی انقلاب بر پا کرنے کی تلفین.۲۰۰ ۲۵ Y-9 ۲۱۲ راولپنڈی میں چوری بدرالدین صاحب کی شہادت ۱۵۸ قافلہ پاکستان کے مختصر حالات فصل چهارم اخبارات کی بھوانی نگاه کن و من دو خبریں ۱۵۹ کوائف ریده ۱۳۱۹ ش / ۶۱۹۵۰ سید نا حضرت مصلح موعود کی طرف سے ۱۶۰ ربوہ با قاعدہ اسٹیشن بن گیا جماعت کو تبلیغ متن کا خصوصی ارشاد دوسرا باب حضر مصلح موصوف کی ذاتی لائبریر بی ریدہ ہیں مصباح کا اجراء ۲۱۵ ۲۱۶ ۲۱۶ حضر من صلاح مواد کے سفر مجید را سے لے کر ۱۷۴ مکانات کی تعمیر کا آغاز احمدیہ سجدہ سمندی کے حادثہ آتشزدگی تک مرکزی همدات کا سنگ بنیا دا د تعمیر فصل اوّل (401 فصل نجم ۲۱۷ سالانه طلبه د یوه اور حض ال مصلح موعون کی ۲۱۹ حضرت مصلح موعورت کا سفر به میره ۱۶۴ طرف سے مانیں احمدیہ کے دو الزامات حضرت امیرالمومنین کا اہل بھیرہ سے ۱۹۸ کا تحقیقیت افروز جواب پر معارف اور ایمان افروز خطاب برطانوی ایجنٹ ہونے کے الزام کا جواب ۲۲۰
نوان صفر نوان صفر باؤنڈری کیش میں لگ میمورنڈم پیش کرنے کے سلسلہ احمدیہ کے متعلق ایک تاریخی روایت اور حضرت مصلح موعود کی رہنمائی اعتراض کا جواب انیا تنظیم اریا ور میں سالانہ جلسہ ربوہ کی رشید ۲۳ سال احمدیہ کے متعلق ایک تاریخی روایت P44 فصل ششم کیسے بارہ میں ایک مقابل روایت جلیل القدر صحابہ کا انتقال ۲۳۹ حضرت مصلح مولوی کا ایک ارشاد خاص فصل هفتم انگی اسلامی نظام کے قیام سے متعلق ۲۶۹ صاجزاد همداکرم خان صاحب کی شہادت ۲۵۶ جماعت احمدی اور مغربی پاکستان پر پیس ۴۷۰ حضرت صلح موعود کا اگریزی زبان این خطاب ۲۰۰ در روند دل مقتدر کشمیری مسلمانوں کی طرف ۲۷۲ جلسہ سیالکوٹ پر سنگباری اور ایک سعید روح کا قبول احمدی ۲۵۷ سے احراری شورش کے خلاف استجائے خدا کے لئے کشمیر اور کشمیر لوں پر رحم کریں ۲۷۴ ودی اور ظفر اللہ خان صاحب کو قتل کرنے کی سازی (۲۵۰ حضرت امیرالمومنین کی ایک اہم نصیحت ۲۷۹ نوجوانان احمدیت کو قربانیوں کی دعوت ۲۸۱ اور حضرت مصلح مو لورین کی تحر یک دم چری سر ظفر اللہ خان صاحب کے ۲۵۹ بیرونی مشغوں کی تبلیغی سرگرمیاں بارہ میں ایک تشویش ناک خبر ۲۸۲ مجاهد بین احمدیت کی مرکتہ میں تشریف آوری ۲۸۶ حضرت میر طومنین کی طرف سے احرار کے ایک مبلغین احمد میت کی بیرونی ممالک کو روانگی جعلی اور کیٹ کی تردید مسلمانوں اور پاکستان کا قیام اسلام کے قیام پر منحصر ہے جماعت احمدیہ کی مرکزہ کی تنظمیوں اور علمائے سلسلہ کی نئی مطبوعات فصل شمر ششم دعاؤں کے منہ کی خاص تحریک طلبائے انجینرنگ کالج لاہور سے بڑا اثر خطاب علمی اساس کو احساس ذمہ داری کی تلقین نمائندہ عراق عبد الرحاب عسکری کی ربوده آمد خاندان مضمون کے موجود کی متعلق ایک ضروری المان ۲۶۵۰ احمدی و در منظر عام اسلامی کے دوسرے لانہ
نوان مشهد نوان صفر اجلاس میں بنیادی حقوق کی رپورٹ پر لیا سلسلہ راجعه ۲۳۳۰ آتش / ۱۹۵۱ء تک کا تبصرہ حبت الہی کے موضوع پر یہ معارف خطبات احمدیہ مسجد مسمندری کی آتش زندگی.فصل اول جامعہ نصرت کا انتشات اور حضرت مرا میلیون ۳۱۰ خلافت ثانیہ کا سوال سال سوم انش 190 کا ایمان افروز خطابه دعائوں کے چلہ کی خاص تحریک YAC تحریک دعا کی اہمیت پر مزید بر دشتی ۲۹۲ جامعہ نصرت کا انتاج اجمیری چند محنتوں کا والہانہ ای کی جامعہ نصرت زندہ کا پس منظر ۲۹۳ حضرت امیر المومنین کا بصیرت افروز خطای ۳۱۵ Pi ملتان کا نفرنس کے جواب میں فتنوں کا خصوصی نمبر ۲۹۳ ابتدائی ستان طلبار انجینی رنگ کالج لاہور سے حضرت ۲۹۴ دوسرے کوائف امیر المومنین کا پراثر خطاب عبد الوہابی عسکری کی زیادہ میں آمد حضرت مصلح موعود کی دعاؤں کے نتیہ ہیں ۲۲۰ ۲۹۴ جامعہ نصرت کی حیرت انگیز ترقی امیدی دین و ترعالم اسلام کے دوسر کے نان با ۲۹۵ جا مصر قصرت کا خاص اور شالی سلامی اموال ۳۳۸ دید مر اسلامی دور الی مدیون این امر تبلیغ کیا کرنے کی تحریک ۲۰۰ سیدنا حضرت مصلح موعود کا اظہار نوشنودی ۳۳۸ بنیادی حقوق کی کمیٹی کی رپورٹ پیمانے سلسلہ ۲۹۹ کا نصره فصل دوم تحریک جدید کی طرف سے سیون ش کا ۲۰۱ قیام اور اس کی عظیم نشان اسلامی ضداست تم ۳۰ سید نا محضرت مہدی معہود کی تحریرات محبت الہی کے موضوع پر پر معارف اخطبات ۲۰۱ احمد یہ مسجد سمندری کی اتنی زندگی ضلع لائل پور کے معروف مسلمانوانے کا کھلا انتہار نفرت روز نامه جدید نظام کا اختیا میرا باب ۳۰۴ مالدیپ اور سیوان میں حضرت صوفی غلام محمد الحمید کی شنیده می ده سالگی ۲۰۷ مشکلات کے باوجود یا عالمی میلوں کی خاص اقدامات ۳۴۱ حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی تشریف یوری سلام ۳ جا دور نصرت رجوع کے انتاج سے لے کر سالانہ جلسہ اور پتویرہ میں احمدیت کا زبردست پر چار
نوان صفحه حضرت موادی عبد اللہ صاحب مالا باری ۳۴۶ ربوہ سے رسالہ التبلیغ کا اجراء کی پوہ بولش تبلیغی جد و جہد السلام میں سورین کا اجراء رسالہ کی شہری بندش ۳۴۸ حضرت امیرالمومنین کے دو بینام تحریک جدید کے سیلون نشن کا قیام ۳۸ یوم تحریک جدید کے موقع پر ** نوان ۳۵۷ جماعتی تر ببینید و اصلاح کا نظام ۳۴۸۰ صوبہ سرحد میں دو احمدیوں کی دردناک شہاری ۱۳۶۲ مالی قربانیوں میں تنقی لائبریریوں کا قیام دی میسج کا احیاء مشرقی صوبہ میں ذیلی مین کی بنیاد ۳۴۹ نواب زادہ لیاقت علی شادی کی مخالفت اور ۳۶۳ ۳۴۹ سفاکانہ قتل ۵۰ جماعت احمدیہ کی طرف سے گہرے رنج ونیم ۳۶۶ ۳۵۱ کا اظہا را در خدمت ملک قوم کے عزم کا الان الحصيلي ۳۵۱ حضرت اميرالمومنين صلح الموعود کا حادث قتل ۳۶۷ سنہلی زبان میں سلسلہ احمدیہ کا روسی لڑکیر ۳۵۱ سلسلہ لا اسلامک لٹریچر سینٹر ۳۵۳ پر بصیرت افروز تبصره شائع ہونے والے استان بریکر کی تفصیل ۲ ۳۵ سالہ قتل کے تقیقاتی کمیشن کی بھی بیٹے ملک بھر کے وسیع دور سے اور ان کا اللہ ۳۵۴ راہدے کے حق میں پاکستانی روپس کی آواز قرآنی اسبانی کی ریلیے اشاعت ۳۵۵ حضرت مصلح کو عورت کی پانچ ہدایات مشن کی اسلامی خدمات کا نہ و عمل فصل چهارم مستقبل کے لئے انتظامیہ کی تشکیل ۳۵ حضرت مصلح موعود کا خصوصی پیغام مجاعت فصل سوم رسالہ التبلیغ کا اجراء صوبہ سرحد کے دو احمدیوں کی شہادت نوابزادہ لیاقت علی خان صاحب وزیر اعظم پاکستان کا مفاد فقتل انڈو نایبیا کے نام اخبار الرحمت اور على خدينا ۳۷۸ و کے اسلام امارات اور لائل پور کے مغلیہ ہائے سیرت پانی ۳۹۰ میں ہنگامہ آرائی جلس سیرت الني عنان اور حضرت مصلح موعود کا حقیقت امروز شنبه ۳۵۷ جلسه بصیرت النبی لائل پور ۳۹۱ ۳۹۲
توان ދ اخبار بابر کا دوبارہ اجراء اور سید نا حضرت ۳۹۴ تغییرات عالم اور جماعت احمدیہ مصلح موعود کا انتامی مضمون فصل پنجم عالم اسلام کے مسائل پر پیشہ اور دعائے خاص کی ستر یک حضرت امیرالمومنین اصلح الموعود کی علم ومعرفت عقیدہ احمدیحیت کی فاستخانہ شان سے لبریز تقاریر نوان مز ۳۹۹ S ۴۰۱ تحریک احمدیت کے دس بنیادی اصول ۴۰۲ سالانہ جیل راوه ۳۳۰ ایش کرا ۱۹۵ ء کی ۳۹۸ اندان کی برتری مقدس تقریب کے 19ء " اسلام کے روحانی طلبہ کا شاندار تصویر ۴۰۳ مخالفت کو انعام سمجھنے اور سالانہ علیہ کے ایام ۳۹۹ عالم روحانی کا دربار خاص کو شکر گنہاری کی طرح بسر کرنے کی تلقین أم تصاویر سیدنا حضرت امیر المومنين الصلح الموعود اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب انجنیر رنگ کالج لاہور کے احمدی طلبہ میں رونق افروز ہیں.سید نا حضرت مسیح موعود و کا ورود کراچی سیدنا حضرت مصلح مولویتہ کے سفر کر اچی 190 ء کا ایک منظر - سیدنا حضرت مصلح موعود کراچی پریس کا نفرنس کو خطاب فرمارہے ہیں.- ضرت مصلح موعود اہل بھیرہ سے خطاب فرما ر ہے ہیں.مسجد مبارک ربوہ کا ایک ٹرکیف منظر السید عبد الوہاب عسکری عراقی انمائندہ موقر عالم اسلامی جامعتہ المبشرن میں - جلب الانہ ریوہ ۱۹۵۱ء کے ردت پیر در انظار ہے.
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ = محمدُهُ وَنُصَلّ عَلَى رَسُولِهِ الكريم وعلى عبده السيح الموعود پہلا باب ما دام الاحمدی کرنی پاکستان کے سے سال نیا سال شکر اوکاڑہ اور راولپنڈی کے شہدائے احمدیت کی شہاد کے حالات تک ستید نا حضرت خلیفة السيح الثاني الصلح الموعود کی ترقیوں اور ابتلاؤں کا متوازی الا اور کہا کا قصد کیا ہی میں آچکا ہے.اس ہجرت واقعہ کچھیلی جلد اہم اور ناقابل فراموش واقعہ کے بعد جماعت احمدیہ کا قدم عظیم الشان ترقیات اور خوفناک ابتلاؤں کے ایک متوازی سلسلہ پانی داخل ہو گیا.یہ زمانہ احمدیت کے لئے بڑی تنگی اور مصیبت کا زمانہ تھا مگر جہاں خدا تعالیٰ نے اپنے فضلوں اور قدرتوں کے پہلے در پے حیلو سے دکھائے وہاں حضرت مصلح موعود اور دوسر سے بزرگان سلسلہ احمدیہ نے
بالخصوص اور باقی افراد جماعت نے بالعموم علی قدر مراتب اپنے مولیٰ کریم سے وفاداری اور میرو تو تمل کا وہی بے مثال نمونہ دکھایا جس کا نقشہ حضرت محمدی محمود وسیح موعود علیہ السلام نے درج ذیل الفاظ میں کھینچا ہے :- ایک قوی تو کل ان کو عطا ہوتی ہے اور ایک محکم یقین ان کو دیا جاتا ہے اور ایک لذیذ محبت اللي جو لذت وصال سے پرورش یاب ہے اُن کے دلوں میں رکھی جاتی ہے.اگر ان کے وجودوں کو ہاون مصائب میں پیسا جائے اور سخت شکنجوں میں دے کر نچوڑا جائے تو ان کا عرق بجز محبت الہی کے اور کچھ نہیں.دنیا اُن سے ناواقف اور وہ دنیا سے دور تر و بلند تر ہیں.خدا کے معاملات ان سے خارق عادت ہیں.اُن پر ثابت ہوا ہے کہ خدا ہے.اُنہی پر کھلا ہے کہ ایک ہے.جب وہ دعا کرتے ہیں تو وہ ان کی سنتا ہے جب وہ پکارتے ہیں تو وہ انہیں جواب دیتا ہے.جب وہ پناہ چاہتے ہیں تو وہ ان کی طرف دوڑتا ہے.وہ باپوں سے زیادہ ان سے پیار کرتا ہے اور ان کی در و دیوار پر برکتوں کی بارش یہ ساتا ہے.پس وہ اس کی ظاہری و باطنی و روحانی و جسمانی تائید وں سے شناخت کئے جاتے ہیں.اور وہ ہر یک میدان میں اُن کی مدد کرتا ہے کیونکہ وہ اس کے اور وہ اُن کا ہے" سے تحریک احمدیت کے خلاف ہنگامہ آرائیوں اور کھلی جارحانہ کاروائیوں کا دائرہ تو زیادہ تر بر صغیر پاک و ہند میں ہی محدود رہا مگر جماعت احمدیہ کی شاندار پیش قدمی نہ صرف برصغیر کے اندر بلکہ دنیا بھر میں ایک فاتحانہ شان کے ساتھ بھاری رہی.پہلے سے قائم شدہ احمدی مشنوں میں اسلام کی پاک و مقدس خدمات کا سلسلہ زور پکڑ گیا.نئے مشن قائم ہوئے.نیا لٹریچر شائع ہوا.علاوہ ازیں سلسلہ احمدیہ کا جدید مرکز دیکھتے ہی دیکھتے ایک عالی شان شہر میں تبدیل ہو گیا جس کی بدولت انوارِ قرآنی قدیم و جدید دنیا تک بڑی تیزی سے پھیلنے لگے.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ أَوَلَا وَاخِرًا وَظَاهِرًا وَبَاطِنَا - أَسْلَمْنَالَهُ هُوَ مَوْلِينَا فِي الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ نِعْمَ الْمَوْلَى وَنِعْمَ النَّصِيرُ ه سرمه پشم آریه صدای حاشیه طبع اول ؟
ام فصل اوّل دنیا کی مذہبی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے سلام یای ایتائے زمانہ میں ایمان لانے والے زیادہ تر جوان ہی ہوتے ہیں.عہد شباب میں قومی مضبوط اور طاقت ور ہوتے ہیں اور دلوں میں ایک اُمنگ ولولہ اور جوش موجزن ہوتا ہے اس لئے وہ ایک لمبے عرصہ تک نور صداقت کو پھیلا سکتے اور اس کی اشاعت و ترور یکی میں حصہ لے سکتے ہیں.خاص طور پر تبلیغی، اصلاحی اور جمالی سلسلوں کے لئے تو اور بھی ضروری ہے کہ اُن کے اندر آسمانی تعلیم کو مدت دراز تک اپنی اصلی صورت میں محفوظ رکھنے کے لئے تعلیم کو ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل کرنے کا معیب اور بابرکت نظام پورے تسلسل سے موجود رہے تا وہ اپنے ظاہری ڈھانچہ اورحقیقی روح دونوں کے ساتھ رائج و نافذ ہو اور پختہ بنیادوں پر جاری رہ سکے.تاریخ مذاہب کے اسی انقلابی اصول اور اٹل فلسفہ کی بناء پر حضرت مصلح موعود ہو نے ہم.ضروری ١٩٣٦ء ۱۹۳ء کو مجلس خدام الاحمدیہ جیسی عالمی تنظم کی بنیاد رکھی جس کے متحدہ ہندوستان میں اماری مار ستار تک) و سالانہ اجتماعات ہوئے.پاکستان میں مجلس کا پہلا سالانہ مرکزی اجتماع ۳۰ ۳۱ / اضاء/ اکتوبر و یکم نبوت / نومبر کو ربوہ کے لیے آب و گیاہ اور وسیع میدان میں منعقد ہوا.اس اجتماع کی ایک نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ حضور نے مقدام الاحمدیہ کے نظام میں اس بنیادی تبدیلی کا اعلان فرمایا کہ خدام الاحمدیہ نے چونکہ دینداری کی ان تمام توقعات کو اس حد تک پورا نہیں کیا جس حد تک یکی چاہتا تھا اس لئے آئندہ کے لئے مجلس غدام الاحمدیہ کا صدر میں ہوا کروں گا اور شوری کی طرح اس کے اجتماع بھی میری ہی صدارت میں ہوا کریں گے اور نائب صدر کا کام محض تنفیذ احکام صدر ہوگا حضرت امیرالمونین نے اس تنظیمی تبدیلی کی نسبت یہ وضاحت فرمائی کہ اس کا تعلق میرے ساتھ ہے تمہارے ساتھ نہیں.نائب صدر میر انمائندہ ہو گا لہذا تمہیں نائب صدر کے احکام کی پابندی صدر ہی کے احکام مجھے کہ
کرنا ہوگی.نائب صدرا اپنے عمدہ کی حیثیت سے صدر انجین احمدیہ کا ممبر ہٹوا کر ے گا.لہ پاکستانی دور کے اس پہلے سالانہ اجتماع میں نوجوانیان احمدیت نے تین دن خالص علمی ، ورزشی اور دینی مصروفیات میں گزارے اور حضرت مصلح موعود نے اس اجتماع میں احمدی نوجوانوں کو تین بار خطاب سے نوازا اور ان کو بہت سی قیمتی نصائح فرمائیں جو ہمیشہ مشعل راہ کا کام دیں گی مثلاً :.ا خدام الاحمدیہ ایک روحانی جماعت ہے لہذا اس سے توقع کی جاتی ہے کہ یہ روحانی تقاضوں کو پورا کر رہے.- انتخاب میں محض اس لئے کوئی نام تجویز کرنا کہ حضرت یح موعود علیہ اسلام کی اولاد میں سے ہے خدام الاحمدیہ کی اس روح کے منافی ہے جس کے قیام کے لئے یہ تحریک جاری کی گئی ہے.دیکھنا یہ چاہیے کہ اس کا عمل اسلام اور احمدیت کی شان کے مطابق ہے یا نہیں.اہل بیت کے معاملے میں تو قرآن کریم کا ارشاد نہایت ہی سخت ہے کہ اگر وہ کوئی غلطی کریں گے تو انہیں دگنی سزا ملے گی پس کار جب تک مذہب کی صحیح روح کیسی شخص میں پیدا نہ ہو جائے اس وقت تک کوئی صحیح مومن نہیں ہو سکتا.احمدی نوجوان کے معنے یہ ہیں کہ اسے اپنی زبان پر قابو ہو، وہ چھنتی ہو، وہ دیندار ہو ، وہ پنجوقتہ نمازی ہو ، وہ قربانی و ایثار کا مجسمہ ہو اور کلمہ حق کو زیادہ سے زیادہ پہنچانے میں نڈر ہو.ہے فرمایا " فیشن اور سماج کے رواج تمہیں مرعوب نہ کرنے پائیں.انبیاء کی تاریخ پر نظر دوڑا کر دیکھو وہ کہاں فیشن سے مرعوب ہوتے تھے ؟ انہوں نے کب نوکریاں پہلے جانے کے ڈر سے اپنے فرائض کی صحیح ادائیگی چھوڑ دی تھی؟ کلمہ حق کو ہر حال میں نڈروں کی طرح پہنچانے کے لئے تیار ہو جاؤ مجھے ہرگزہ ان عقل مندوں کی ضرورت نہیں جو قدم قدم پر لوگوں سے مرعوب ہوتے پھریں بلکہ مجھے ان دیوانوں اور پاگلوں کی ضرورت ہے جو خدا کی بات منوا کر ہی چھوڑیں.اپنے اندر عمل کا جذبہ پیدا کرو اور دنیا والوں کے تمسخر کی پروا نہ کرو.یا د رکھو تعریف وہی اچھی ہے جو آسمان پر ہو دنیا والوں کی تعریف اس آسمانی تعریف کے مقابلہ میں کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتی ہے سے له الفضل امر ثبوت ۱۳۲۸۵/ نومبر ۱۹۳۹ه مث : الفضل یکم نبوت ۱۳۲۸۵ / نومبر ۱۹۹۹ حث الفضل - نبوت ۱۳۷۱/ نومبر ۱۹۳۹ مرمت به
قواعد کی پابندی ہر حالت میں لازمی ہوتی ہے.جو قومیں دلیلوں سے قاعدے توڑنے کا جواز نکالنا شروع کر دیتی ہیں اُن کی ذہنیتیں شکست خوردہ ہو جاتی ہیں.افسر جو قانون بنائیں سب سے پہلے اس پر خود کار بند ہوں.اے خلاصہ یہ کہ حضرت امیر المومنین المصلح الموعود نے اپنی زندگی بخش اور روح پرور تقریروں ہی ملیں کی گذشتہ جد وجہد کا تجزیہ کیا، اس کے عمدہ کاموں کو سراہا اور خامیوں کو دور کرنے کی تلقین فرمائی اور آئندہ کے لئے قوم کے نو نہالوں کی تربیت کی باگ ڈور خود اپنے مقدس ہاتھ میں نے لی.سے حضور کی اس بر وقت توجہ اور براہ راست نگرانی کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ مجلس بہت جلد چوکس اور بیدار ہو کر پہلے سے زیادہ خدمت خلق میں سرگرم عمل ہو گئی.فصل دوم اخبار الرحمت کا اجراء او حضر مصلح موعود کا حکومت ہندوستان نے اخبار افضل پر پابندی عائد کر دی تھی حضرت مصلح موعود بصیرت افروزافتتا حی مضمون نے حکم دیا کہ ہندوستان کی احمدی جما عنون جماعتوں کے لئے ایک نیا اخبار لاہور سے جاری کیا سجائے جو خالصتاً تبلیغی اور اخلاقی اقدار کا علمبردار ہو.له الفضل هم نبوت ۱۳۲۸۵/ نومبر ۱۹۲۹ ص۲ سے اجتماع کے پہلے روز غدام کی تعداد ڈیڑھ ہزار تھی اور ۸ خیمے نصب ہوئے.اجتماع میں دینی معلومات اور پیمائش ذہنی کے امتحانات ہوئے جن کے دلچسپ پر چھے الفصل ۲ نبوت و ۲۴ نبوت ه ۱۳۲۴ میں چھپ چکے ہیں پیمائشیں ذہنی کا پرچہ شعبہ نفسیات تعلیم الاسلام کالج نے مرتب کیا تھا.خدام کے ساتھ ساتھ اطفال کے علمی اور ورزشی مقابلوں کے پروگرام بھاری رہے.پہلے دن احمدی بچوں نے اپنے مقام اجتماع میں ۲۶ جیسے لگائے (الفضل یکم نبوت ۱۳۳۲۸۵/ نومبر ۱۹۳۹ ص۳) ه" کر
خير راس پر ۱۲۱ نبوت ها/ نومبر ۱۹۳۹ء کو مکرم شیخ روشن دین صاحب تنویر کی ادارت علی الرحمت جاری کیا گیا جو ہجرت هی روئی سولہ تک ایک کامیاب دینی ترجمان کی حیثیت سے باقاعدگی کے ساتھ نکلتا رہا.اخبار الرحمت کے پرنٹر پبلیشر مکرم مسعود احمد خان صاحب دہلوی اور مینیجر مکرم مولوی محمد عیب دالله صاحب اعجاز تھے.شروع میں یہ اخبار کو اپریٹو کیپیٹل پرنٹنگ پریس وطن بلڈنگ لاہور میں چھپتا تھا لیکن بعد میں اس کی طباعت پہلے ویسٹ پنجاب پرنٹنگ پریس موہن لال روڈ لاہور میں پھر پاکستان ٹائمز پریس لاہور میں ہوئی.درمیان میں اس کے بعض پرچے جیلانی الیکٹرک پر میں سہسپتال روڈ لاہور میں بھی چھپتے رہے.اخبار الرحمت کی بنیاد چونکہ حضرت مصلح موعود کے مبارک ہا فصول سے رکھی گئی تھی اس لئے جماعت کے اس نئے ترجمان نے اس خلاء کو فوری طور پر بہت حد تک پورا کر دیا جو اخبار الفضل کی جبری بن یش نے پیدا کر دیا تھا.اس اخبار میں پورے التزام کے ساتھ حضرت مصلح می عورت کے روح پرور خطبات چھپتے تھے بر صغیر پاک و ہند کے علماء سلسلہ کی تقاریر اور مضامین نیز بیرونی ممالک کے مجاہدین کی معلومات افزا رپورٹیں بھی شائع کی جاتی تھیں.ربوہ کی تازہ خبریں بھی باقاعدگی سے درج کی جاتی تھیں.علاوہ ازیں اس میں مرکز احمدیت قادیانی اور دوسری ہندوستانی جماعتوں کی تبلیغی او تنظیمی جد و جہد پر بھی روشنی ڈالی جاتی تھی.سید نا حضرت امیر المومنین صلح موعود نے الرحمت کے اجراء پر ایک نہاین مفصل حقیقت افروز انشناسی مضمون سپر و قلم فرمایا جو اس کے پہلے شمارہ کے محروم اور ہم پر شائع ہوا.ذیل میں اس مبارک مضمون کا متن درج کیا جاتا ہے :.اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم ، نحمده ونصلى على رسوله الكريم والسلام على عبده المسيح الموعود سے اس پہلے پرچہ میں اسلام ایک رحمت کا پیغام ہے" کے عنوان سے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا ایک قیمتی نوٹ بھی شائع ہوا ؟
هواند خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ بسم الله مجربها ومرسها ور الرَّحِيم الرَّحِمتُ اصر آج سے چھتیس سال پہلے نہایت خطرناک حالات اور بالکل بے بسی اور بیکسی کی صورت میں میں نے الفضل اخبار ہماری کیا تھا جو پہلے ہفتہ وار شروع ہوا اور اب روزانہ اخبار کی صورت میں شائع ہو رہا ہے اور اس وقت ناک کے مقتدر پر جو نہیں شمار کیا جاتا ہے تقسیم ہند کے بعد یہ پرچہ ہندوستان سے پاکستان میں آ گیا.اپنی مرضی سے نہیں کیوری سے.ملک کے حالات ہی کچھ ایسے ہو گئے کہ مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کا رہنا اور خر بی پنجاب میں ہن.وؤں اور سکھوں کا رہنا قریباً ناممکن ہوگیا.یہ حالات یقیناً تکلیف دہ تھے تخلیے ، وہ ہیں اور تکلیف دہ رہیں گے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان حالات کے پیدا کرنے میں قدرت کی کوئی مصلحت بھی تھی.وہ کیا تھی ؟ شاید اس کا بیان ابھی مناسب نہ ہو.بہر حال ان حالات کی وجہ سے علاوہ افراد کے بہت سے ہندو اور سکھ اخبار بھی مغربی پنجاب سے نکل کر مشرقی پنجاب کی طرف منتقل ہو گئے اور بہت سے.لمانوں کے اخبار مشرقی پنجاب سے نکل کر مغربی پنجاب میں آگئے.جہاں تک اخباروں کا تعلق ہے شائد نقصان ہندوؤں اور کھوں کا زیادہ ہوا اورمسلمانوں کام کیونکہ مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کا ایک ہی مقتدر اخبار افضل تھا لیکن مغربی پنجاب میں ہندوؤں کے کئی بڑے بڑے پرچے تھے مثلاً ٹربیون" " پرتاپ ملاپ جیت " ویر بھارت ہو پرچے جس ملک میں گئے لان کا ان کی ہمدردیاں اُن ممالک سے وابستہ ہوگئیں.افضل گو ایک مذہبی پرچہ تھا لیکن کبھی کبھار اس میں نیم سیاسی مضامین بھی شائع ہوتے تھے جن میں اپنی دیرینہ پالیسی کے مطابق پوری احتیاط سے کام لیا جاتا تھا اور خیال رکھا جاتا تھا کہ بین الا قوامی منافرت کی کوئی است پیدا نہ ہو لیکن ایک پاکستانی اخبار کے جذبات ہر حال پاکستانی ہی ہو سکتے تھے میرے علم میں تو ایسی کوئی بات نہیں نگر ہندوستان کے بعض صوبوں کی حکمہ مفتیوں نے الفضل کے بعض مضامین کو
A قابل اعتراض سمجھ کر اس کا داخلہ بند کر دیا.اور اب تو قریباً سارے ہندوستان میں ہی سوائے دہلی کے اس کا داخلہ بند ہے بہندوستانی حکومت کے پاس جب اس کے متعلق احتجاج کیا گیا تو انہوں نے جواب میں لکھا کہ مرکزی حکومت نے افضل کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا اور براہ راست اس کے ماتحت علاقوں میں، اس کا داخلہ ممنوع قرار نہیں دیا گیا.باقی رہیں صوبہ جاتی حکومتیں سو وہ اس معاملہ میں آزاد ہیں.اگر کسی صوبہ جاتی حکومت نے ایسا کیا ہو تو آپ اس سے براہِ راست احتجاج کریں.الفضل چونکہ ایک مذہبی پر بچہ تھا اس لئے ہندوستان کی جماعتوں کے جذبات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس پرچہ ہیں سیاسی مضامین کلینتا ممنوع قرار دئے جائیں تا کہ کسی بغیر گورنمنٹ کو اس پر اعتراض کا موقع نہ ملے لیکن یہ تدبیر بھی کارگر نہ ہوئی اور باوجود اس کے کہ الفضل میں سیاسی مضمون چھپنے بند ہو گئے ہندوستان کے مزید صوبوں میں اس کا داخلہ بند کیا جاتا رہا.اور جیسا کہ اوپر لکھا جا چکا ہے اب قریباً سارے ہندوستان میں اس کا داخلہ بند ہے.جس طرح ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی تھی کہ الفضل کے کونسے مضامین کی وجہ سے اس کا داخلہ ممنوع قرار دیا جانے لگا ہے اسی طرح ہماری سمجھ میں یہ بات بھی نہیں آئی کہ الفضل میں سیاسی مضامین کے ممنوع ہو سجانے کے باوجود اس کا داخلہ مزید صوبوں میں کیوں بند کیا جاتا رہا مگر ہر حال یہ حکومت اپنے مصالح کو خود سمجھتی ہے اور دوسرے لوگوں کی سمجھ میں خواہ وہ مصالح آئیں یا نہ آئیں ان کے لئے احکام حکومت کی پابند ہی لازمی اور ضروری ہوتی ہے خصوصاً جماعت احمدیہ کے لئے جس کے اصول میں یہ بات داخل ہے کہ جس حکومت کے ماتحت رہو اس کے احکام کی فرمانبرداری کرو اس لئے ہم نے مناسب سمجھا کہ بجائے اس کے کہ الفضل کے خلاف جو قدم اٹھایا گیا ہے اس پر پروٹیسٹ کر میں اور اس کے ازالہ کے لئے کوئی جد و جہد کریں گیا کریں ایک نیا اخبار جاری کر دیا جائے جو کلیتاً سیاسیات سے الگ ہوتا کہ ابن جماعت ہائے احمدیہ کی تنظیم اور تبلیغ میں کوئی روک پیدا نہ ہو جو ہندوستان میں رہتی ہیں.اس ارادہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے یہ دُعا کرتے ہوئے کہ وہ اس پر بچہ کو با برکت بنائے اور ان مقاصد کی اشاعت میں کا میاب کرے جن کا ذکر ذیل میں کیا جائے گا.یکن الرحمت کو بھاری کرتا ہوں.یہ پر بچہ خالص مذہبی پرچہ ہو گا.اور جہاں اس کی پالیسی یہ ہوگی کہ یہ افصاحت اور عدل کے قوانین کے مطابق مختلف مذاہب کے لوگوں میں عقل اور اخلاق کی پیروی
کی روح پیدا کرے وہاں اس کی بیڑ بھی پالیسی ہوگی کہ وہ سیاسیات سے الگ، رہتے ہوئے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ایک بہتر فضا پیدا کرنے کی کوشش کرے.ہمیں نہایت ہی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کئی ہندوستانیوں نے مسٹر گاندھی کے ان اعلانات کو بھلا دیا ہے کہ ہر ہندو اور سکھ اور غیر مسلم کو جو پاکستان میں رہتا ہے پاکستان کا مخلص اور وفادار شری ہوکر رہنا چاہیئے.اور کئی مسلمانوں نے قائد اعظم کے ان اعلانات کو بھلا دیا ہے کہ مہرسلمان کو جو ہندوستان ہیں رہتا ہے ہندوستانی حکومت کا مخلص اور وفا دار شہری ہو کہ رہنا چاہیئے.ان لیڈروں کے نشاء کے خلاف کچھ لوگ ایسے پیدا ہوگئے ہیںجو یہ مجھتے ہیں کہ سی غیر مسلم کو پاکستان میں رہنا ہی نہیں چاہیے اور اگر ایسا ہو تو پھر پاکستان میں رہنے والے غیرمسلم کو دل میں پاکستان سے دشمنی رکھنی چاہیئے اور ہندوستان میں رہنے والے سلمان کو دل میں ہندوستان سے دشمنی رکھنی چاہئیے.اگر گاندھی جی اور قائد اعظم کے بیانات نہ بھی ہوتے تب بھی یہ ہندیہ اور روح نہایت افسوسناک اور مذہب اور اخلاق کے خلاف تھی میگا ان دو زبر دست مستیوں کے اعلانات کے خلاف اس قسم کے جذبے کا پیدا ہونا نہایت ہی تعجب انگیز اور افسوسناک ہے.ہندوستان کی موجودہ دو علاقوں میں تقسیم بن مصلحتوں کے ماتحت ہوئی تھی.ان علامتوں سے زیادہ کھینچ تان کر اس مسئلہ کو کوئی اور شکل و بینا کسی صورت ہیں جائز نہیں ہو سکتا.جو تقسیم اٹل ہو گئی تھی تو میں نے اُسی وقت یہ اعلان کیا تھا کہ اگر تقسیم ہوئی ہی ہے تو پھر کوشش کرنی چاہیئے کہ دونوں ملکوں کے باشندوں کو ایک دوسرے کے ملک میں بغیر پاسپورٹ کے آنے جانے کی اجازت ہو.تجارت پر کسی قسم کی کوئی پابندیاں نہ ہوں کہ لیکن افسوس کہ اُس وقت میری آواز صدا بصحرا ثابت ہوئی اور شاید آج بھی یہ آواز صدا بصحرا ثابت ہوگی مات حضرت مصلح موعود کے اس خیال کے پیچھے صرف یہ جذبہ کار فرما تھا کہ بھارت کو تبلیغ اسلام کے ذریعہ پھر سے مسلم بند یعنی پاکستان بنانے کا راستہ کھلا رہے چنانچہ فرماتے ہیں.ہم ہندوستان کو چھوڑ نہیں سکتے یہ ملک ہمارا ہونے وڑوں سے زیادہ ہے.بہار کی شستی اور غفلت سے عارضی اور پر یہ ملک ہمارے ہاتھ سے گیا ہے.ہماری تلواریں جس مقام پر جا کر کی ہو گئیں وہاں سے ہماری زبانوں کا حملہ مشروع ہو گا اور اسلام کے خوبصورت اصول کو مشین کے (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر )
اگر میری بات کو مان لیا جاتا تو وہ خون ریزی جو مشرقی پنجاب اور کشمیر میں ہوئی ہے ہرگز نہ ہوتی.ہم گلی طور پر آزاد بھی ہوتے مگر ہماری حیثیت اُن دو بھائیوں سے مختلف نہ ہوتی جو اپنے والدین کی جائداد تقسیم کر کے اپنے پھو ہے الگ کر لیتے ہیں.وہ یقینا اپنی اپنی جائداد کے گلی طور پر مالک ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے ماتحت نہیں ہوتے.ان کا کھانا پینا بھی الگ الگ ہوتا ہے.ان کی آمد میں بھی الگ ہوتی ہیں اور ان کے خرچ بھی الگ ہوتے ہیں مگر باوجود اس کے وہ بھائی بھائی ہوتے ہیں.اگر ماں باپ کی جائداد سے تقسیم کرنے سے دو بھائی دشمن نہیں بن جاتے تو ہندوستان کے تقسیم کرنے سے مسلمان اور ہند و کیوں دشمن بن جائیں تقسیم وشنی نہیں پیدا کرتی تقسیم کے پیچھے کسی غلط روح کا ہونا دشمنی پیدا کرتا ہے میں چاہتا تھا کہ اس غلط روح کو کچل دیا جائے اور بھائیوں بھائیوں کی طرح مسلمان اور ہند و اپنی آبائی جائداد کی تقسیم کا فیصلہ کریں مگر میری اس آواز کو اس وقت نہ شناگیا.میری راس آواز کو بعد میں بھی نہ سنا گیا.پاکستان کے ایک متعقب بعنصر نے میرے ان خیالات کی وجہ سے مجھے پاکستان کا فقیہ کالمسٹ قرار دیا اور انہوں نے یہ نہ سوچا کہ میں وہی کہہ رہا ہوں جس کا اعلان بار بار قائد اعظم نے کیا تھا.صرف فرق یہ تھا کہ قائد اعظم نے ایک مجمل اصل بیان کیا تھا اور میں مشروع سے ان تفاصیل کو بیان کر رہا تھا جن تفاصیل کے ذریعہ سے ہی قائد اعظم کا بیان کہ وہ اصل عملی صورت اختیار کر سکتا تھا.میرے ان خیالات کی وجہ سے ہندوستان کے احمدیوں کو بھی ہندوستان میں گشتنی اور بقیہ حاشیہ صفحہ گذشتہ :.ہم اپنے ہندو بھائیوں کو خود اپنا جز و بنالیں گے مگر اس کے لئے ہمیں راستہ کو کھلا رکھنا چاہیے (الفضل ، شہادت ۳۲۵ امت) ور الرقمت چونکہ ہندوستان کے لئے ہماری کیا گیا تھا اس لئے بر صغیر کے ماحول کو اشاعت اسلام کے لئے ساز گار بنانے کا مسئلہ اولیت رکھتا تھا ورنہ حضور ایک بین الاقوامی تبلیغی جماعت کے آسمانی راہ نما تھے اسلئے امن کے معاملہ میں بھی علاقائی یا ملکی سطح کی بجائے مستقل طور پر ایک عالمی مسلک رکھتے تھے جو حضور کے الفاظ میں یہ ہے :- ہمارا تو یہ عقیدہ ہے کہ ساری دنیا کی ایک حکومت قائم ہوتا باہمی فسادات دور ہوں اور انسانیت بھی اپنے جوہر دکھانے کے قابل ہو مگر ہم اس کو آزا د قوموں کی آزاد رائے کے مطابق دیکھنا چاہتے ہیں یا الفضل ۲۲ احاد ۲۲ اکتوبر ۱۹۳۵ )
گردن زدنی سمجھا گیا.شاید کسی اور مسلمان فرقہ کو اس قدر نقصان ہندوستان میں نہیں پہنچا جس قدر کہ احمدی جماعت کو پہنچا ہے.اور اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ ان کا امام گاندھی جی کے بیان کردہ اصل کی ترجمانی کے صحیح طریق ان کے سامنے پیش کر رہا تھا ہم نے ایک سچائی کے لئے دونوں ملکوں میں تکلیف اٹھائی اور شاید دونوں ملکوں کے متعصب لوگوں کے ہاتھوں سے آئندہ بھی ہم دونوں ملکوں میں تکلیف اُٹھائیں گے لیکن ہم اس دائمی سچائی کوجو قرآن کریم میں بار بار بیان کی گئی ہے کبھی نہیں چھوڑ سکتے کہ جوشخص جس حکومت میں رہتا ہے وہ اس کا فرمانبردار رہے اور اس کے ساتھ پوری طرح تعاون کرے.اور اگر کسی وقت وہ یہ مجھتا ہے کہ وہ اپنے مذہب اور اخلاق کو قائم رکھتے ہوئے اس ملک میں رہ نہیں سکتا تو اس ملک سے ہجرت کو جائے.اگر اس ملک کی حکومت اُس کو ہجرت بھی نہ کرنے دے تو پھر وہ آزاد ہے کہ خدا تعالیٰ نے اسے جو بھی ذریعہ بخشا ہو اُسے کام میں لاتے ہوئے اپنی آزادی کی جد و جہد کرے.جب کانگریس گورنمنٹ کے خلاف کھڑی ہوئی تھی تو انہی اصول کی وجہ سے میں نے کانگریس کی مخالفت کی تھی ورنہ میں کانگرس کا دشمن نہیں تھا.نہ ملک کی آزادی کا دشمن تھا.کانگریس کے کئی لیڈر میرے واقف تھے اور بعض دوست بھی اور وہ مختلف اوقات میں مجھ سے تبادلۂ خیالات کرتے رہتے تھے.وہ جانتے تھے اور جانتے ہیں کہ یکیں ملک کی آزادی کا اُن سے کم حامی نہیں تھا.مجھے ان سے اختلاف صرف اُس طریقہ کار کے متعلق ہے؟ جو میرے نز دیک ملکی حکومت کے بن جانے پر بھی تفرقہ کو بڑھانا پہلا جاتا ہے.جو کچھ میں نے اس وقت کہا تھا آج پاکستان اور ہندوستان میں لفظاً لفظ صحیح ثابت ہو رہا ہے.حکومت کے بائیکاٹ کے اعلانات کئے جا رہے ہیں.سٹرائیکیں کی جارہی ہیں اور ملک میں رہتے ہوئے انتشار اور اختلاف کے سامان پیدا کئے جا رہے ہیں.لیکن جو انگریز کے زمانہ میں انگریز کے خلاف ایسی باتوں کی اجازت نہیں دیتا تھا.یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ خود ملکی حکومتوں کے قائم ہو سجانے کے بعد پاکستان یا ہندوستان میں میں ایسی باتوں کی اجازت دے دیتا.چنانچہ ہ را ایسے موقع پر جو پاکستان یا ہندوستان میں پیدا ہوا میں نے اپنی جماعت کو یہی حکم دیا کہ وہ حکومت وقت کی پورے طور پر وفاداری کریں اور جو ذمہ داریاں حکومت کی طرف سے شہریوں پر عائد کی جائیں ان ذمہ داریوں کو دیانتداری سے ادا کریں.یقیناً تعلیم پاکستانی اور ہندوستانی حکومتوں کی نظر میں ایک نعمت غیر مترقبہ کبھی جانی چاہیئے تھی مگر افسوس کہ ہندوستان میں ایسا نہیں کیا گیا اور بعض صوبہ جاتی حکومتوں نے اس قیمتی خزانے کی مت در
۱۴ نہیں کی جو احمد یہ جماعت کی صورت میں اُن کے ملک کو حاصل ہوا تھا.احمد ہی جماعت ہر ملک کیلئے ایک قیمتی جوہر ہے.وہ وفاداری اور اخلاص کے ساتھ اپنے ملک کی حکومت کے ساتھ تعاون کرتی ہے اور کرتی رہے گی.وہ انصاف اور عدل کے لئے قربانی کرنے والی جماعت ہے مگر حکومت کے ساتھ عدیم تعاون اس کے اصولوں کے خلاف ہے.وہ عدل اور انصاف کو عدل اور انسان کے ذریعوں سے ہی حاصل کرنا بہا ہتی ہے.وہ عدل اور انصاف کے حاصل کرلے کے لئے غیر منصفانہ اور غیر عادل آذرائع کے اختیار کرنے کو جائز قرار نہیں دیتی.ہر سمجھدار انسان اس جماعت کو سر اور آنکھوں پر بٹھائے گا.ہر سمجھدار حکومت ایسی جماعت کو قدر اور عزت کی نگاہوں سے دیکھے گی اور یکں اُمید کرتا ہوں کہ اگر اس سے پہلے نہیں تو آئندہ ہندوستان کی مختلف صوبائی حکومتیں اور مرکزی حکومت ان احمدی تعلیمات کو مد نظر رکھ کر جوئیں نے اوپر بیان کی ہیں احمدیوں کے متعلق اپنے رویہ کو تبدیل کرے گی.مجھ سے بعض ہندوستانی جو ادھر آتے رہتے ہیں انہوں نے بعض دفعہ ان امور پر تبادلۂ خیالات کیا ہے اور بعض ایسے سوالات کے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے ہمارے نقطہ نگاہ کو پورے طور پر نہیں سمجھ ہی لا یہ کہ اگر آپ ہندوستان کے احمدیوں کو ہندوستان کی وفاداری کی تعلیم دیتے ہیں تو کیا پاکستان کے احمدی کشمیر کے معامہ میں پاکستانی حکومت کا ساتھ نہیں دیں گے ؟ میری اوپر کی تشریح کے بعد یہ سوال کیسا مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے جو کچھ میں نے اوپر بیان کیا ہے اس کا تو یہ طلب ہے کہ ہمارے نزدیک قرآن کریم کی تعلیم ہے کہ جو شخص جس حکومت میں رہے وہ اس کا فرمانبردار رہے اور اس کے ساتھ تعاون کرے.اس تعلیم کا یہ طلب ہے کہ ہر پاکستان میں رہنے والا احمدی اپنی حکومت کا پوری طرح فرمانبردار ہو گا اور اس کے مقاصد اور مفاد میں پوری طرح تعاون کرے گا.اور ہندوستان میں رہنے والا ہر احمدی حکومت ہندوستان کا پوری طرح فرمانبردار ہو گا اور اس کے مقاصد اور مفاد میں اس سے پوری طرح تعاون کرے گا.اتنی واضح تعلیم کے بعد اس قسم کا شبہ پیدا ہی کسی طرح ہو سکتا ہے ؟ یہ سوال تو بے شک کیا جا سکتا تھا کہ کیا ہندوستان میں رہنے والا احمدی اپنی حکومت کے ساتھ پوری طرح تعاون کرسے گا ؟ اس کا جواب یقینا میں یہ دیتا کہ ہاں کرے گا.لیکن ہر حکومت کی وفاداری کی تعلیم کر یہ کہنا کہ کیا پاکستان میں رہنے والا احمدی پاکستان کی حکومت سے بغاوت کرے گا با کل احمقانہ اور جاہلانہ سوال ہے.دوپہر کی بیان کردہ تعلیم کا یہ
لازمی نتیجہ ہے کہ پاکستان میں رہنے والا ہر احمدی حکومت پاکستان کی پوری فرمانبرداری کرے گا اور اُس کے تمام مقاصد اور مفاد میں اس کے ساتھ تعاون کرے گا.اگر پاکستان ہم سے یہ مطالبہ کر ہے کہ ہم ہندوستان کے احمدیوں کو ہندوستان سے بغاوت کی تعلیم دیں تو ہم ایسا کبھی نہیں کریں گے.اور اگر ہندوستان کی حکومت ہم سے یہ مطالبہ کرے کہ ہندوستان میں رہنے والے احمدیوں کو امن سے رہنے دینے کی قیمت ہمیں یوں ادا کر نی چاہیئے کہ پاکستان کے احمدی پاکستان کی حکومت سے غداری کریں یا اس سے عدم تعاون کریں تو ہم ایسا کبھی نہیں کریں گے.ہمارا امذ ہب یہ کہتا ہے کہ جس حکومت میں رہو اس کے فرمانبردار رہو.پس جو ہندوستان میں رہتے ہیں ہم اُن کو یہی کہیں گے کہ ہندوستان کی حکومت کی فرمانبرداری کرو اور جو پاکستان میں رہتے ہیں ہم ان کو یہی کہیں گے کہ پاکستان کی حکومت کی فرمانبرداری کہ وہ اور یہی تعلیم ہماری انڈونیشیا، عرب، یونائیٹڈ سٹیٹس آن امریکہ، انگلستان، فرانس، جرمنی ، ہالینڈ، سوئٹزر لینڈ، ایسے سینیا ، مصر اور دیگر حکومتوں کے ماتحت رہنے والے احمدیوں کو ہوگی کیسی کی سمجھ میں ہماری بات آئے یا نہ آئے ہماری سمجھ میں بھی یہ بات نہیں آتی کہ ہمارے بیان کردہ اصولوں کے بغیر دنیا میں امن قائم کس طرح رہ سکتا ہے ؟ اگر ہندوستانی اپنے سے ہمدردی رکھنے والے لوگوں کو یہ تعلیم دیں کہ وہ جہاں کہیں جائیں ہندوستان کے ایمینٹ بن کر رہیں تو دوسری قومیں ان کو برداشت کسی طرح کریں گی ؟ اور اگر پاکستانی اپنی رعایا یا اپنے سے ہمدردی رکھنے والے لوگوں کو یہ تعلیم دیں تو اسی سلوک کی ان کو بھی امید رکھنی چاہیے.ہر سیاسی حکومت کو اپنے باشندوں کو ہی حکم دینا ہو گا کہ تم اپنی حکومت کے فرمانبردار رہو.اور اگر باہر جاؤ تو عارضی طور پر اُس حکومت کے قوانین کی پیروی کرو اور ایک مذہبی گروپ کو اپنے افراد کو یہی تعلیم دینی ہوگی کہ تم جس ملک کے باشندے ہو اس ملک کے وفادار رہو.لین یہ اخبار اسی پالیسی کے ماتحت ہر ملک کے احمدیوں کو تعلیم دے گا کہ وہ اپنی اپنی حکومت کے فرمانبردار اور مطیع رہیں اور اُس کے ساتھ سچا تعاون کریں.۲.اس وقت سب سے بڑی مصیبت دنیا پر یہ آئی ہوئی ہے کہ حکومتیں اپنے آپ کو اخلاقی نظام سے باہر سمجھتی ہیں.اخلاقی نظام کی پابندی صرف افراد کے لئے ضروری سمجھی جاتی ہے.اس کے نتیجہ میں بہت سے فساد اور خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں.الرحمت اس مسئلہ کو بار بار سامنے لائے گا اور اپنی
اس کمزور آواز کو بلند سے بلند کرتا چلا جائے گا کہ حکومتیں اور افراد دونوں ہی اخلاقی ذمہ داریوں کو اپنے اوپر حاکم تصور کریں اور اپنے آپ کو اخلاقی حکومت سے بالا خیال نہ کریں ہم سمجھتے ہیں کہ سچائی، دیانت اور عدل کے قوانین کو اگر پوری طرح مد نظر رکھا جائے تو بہت سی مشکلات جو اس وقت ناقابلِ صل معلوم ہوتی ہیں آسانی سے حل ہو سکتی ہیں.ہر قوم کو دوسری قوم کا حق دینا چاہئیے اور ایک ملک میں رہنے والی سب قوموں کو آپس میں بھائی بھائی بن کر رہنا چاہیئے.سیاسی اختلافات کی بنیاد ملک کی ترقی پر رکھنی چاہئیے نہ کہ قوموں کے اندر اختلاف اور انشقاق پیدا کرنے پر.ہماری یہ کوشش ہو گی کہ ہم سب سے پہلے جماعت احمدیہ کو اس کے اخلاقی فرائض کی طرف توجہ دلائیں جوں میں اُن کے مذہبی پیشواؤں نے ہم سے اتفاق کیا ہے اور اُن کو اپنے پیشواؤں کی سچی پیروی کی ہدایت کریں.۳.اس وقت ایک عظیم الشان حادثہ کی وجہ سے مسلمانوں میں انتشار پیدا ہو رہا ہے اور وہ حیران ہیں کہ انہیں کیا کرنا چاہیے ؟ اس اثر سے احمدی جماعت بھی آزاد نہیں.ہمارے نزدیک اس انتشار کی کوئی وجہ نہیں تھی.ملک کی تقسیم کے بعد بھی سلمان ہندوستان میں آزادی سے رہ سکتا ہے اگر و عقل سے کام نے سیاسی پہلوؤں کو نظر انداز کرتے ہوئے ہم مذہبی اور اخلاقی پہلو جماعت اور دوسر نے سلمانوں کے سامنے رکھتے رہیں گے جن کی روشنی میں وہ ہندوستان کی حکومت کا ایک مفید مجنز و بن سکیں اور بہندوستان میں امن اور عزت کی زندگی بسر کر سکیں.ہم ایسی ہی خدمت اُن ہندوؤں اور سکھوں کی بھی کرنے کے لئے تیار رہیں گے جنہوں نے پاکستان میں رہنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے یا جو آئندہ ایسا فیصلہ کریں.غرض اس پرچہ کی بنیا دمذہب اور اخلاق پر ہوگی اور مصلح اور آشتی پر ہوگی.یہ پرچہ سیاسیان سے الگ رہے گا.اختلافات کو بڑھائے گا نہیں کم کرنے کی کوشش کرے گا.جہاں تک عوامی تعلقات کا سوال ہے یہ پاکستان اور ہندوستان کے عوام کے جوش میں آئے ہوئے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرے گا اور ہر غداری کی رُوح کو خواہ وہ پاکستان میں سر اٹھائے یا ہندوستان میں سر اٹھائے دبانے کی کوشش کرے گا بلکہ صرف ہندوستان اور پاکستان میں ہی نہیں دنیا کے ہر گوشہ کے لوگوں کے لئے " الرحمت رحمت کا نشان بنے کی سعی کرے گا.اللہ تعالیٰ ہمیں اس ارادہ میں پورا اترنے کی
۱۵ توفیق دے اور اس رستہ کی مشکلات کا مقابلہ کرنے کی ہمت بخشے اور اپنی مدد اور نصرت سے سچائی عدل اور انصاف کے غلبہ کے سامان مہیا کرے.کیں پھر اسی آیت کو دہراتے ہوئے جس کو یکی او پر لکھ چکا ہوں اس مضمون کو ختم کرتا ہوں بشیم اللہ مجْرِهَا وَمُرْسَهَا یعنی اسے خدا ! میں اس کمزور کشتی کو ایک متلاطم سمندرمیں پھینکتا ہوں تیرا ہی نام لیتے ہوئے اور تجھ ہی سے مدد طلب کرتے ہوئے تو اپنے فضل سے اس متلاطم سمندر ہی اس کشتی کو آرام سے چھلنے میں مدد دے اور اپنی حفاظت میں اس کے منزل مقصود پر پہنچنے کے سامان پیدا فرما.آمین یا سلط فصل سوم مسجد مبارک ہو کے سنگ بنیاد کی مقدس تقریب سر انار انتظار اکتبر شیر کو بود اور دوشنبہ کا دن اور 9 ذی الحجہ کی بابرکت تاریخ تھی جو سب مسلمانان عالم کے لئے عموماً اور دنیا ئے احمدیت کے لئے خصوصاً دوسری خوشیوں اور مستر توں کا موجب بنی کیونکہ اُس روزنماز عصر کے بعد ٹھیک اس وقت جبکہ دنیا بھر سے عشاق رسُولِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم میدان عرفات میں وقوف کر کے خدا تعالیٰ کے حضور متفرعانہ دعاؤں میں مصروف تھے خلیفہ وقت امام ہمام سید نا حضرت مصلح موعود نے اپنے مقدس ہاتھوں سے تحریک احمدیت کے نئے مرکز ربوہ کی مسجد مبارک کا سنگ بنیا د رکھا.اس مقدس تقریب میں روحانی اور معنوی " اعتبار سے دنیا کے دوسرے احمدیوں کو شامل کرنے کے لئے سید نا مصلح موعود کی ہدایت پر پاک و ہند کی جماعتوں اور لنڈن مشن کو بذریعہ تارا اطلاعات دی گئیں نیز الفضل میں بھی اعلان کر دیا گیا کہ ر اضاء کو ساڑھے پانچ بجے بعد دو پر مسجد کا بنیادی پتھر رکھا جائے گا اور دعا ہو گی.احباب بھی اپنی اپنی جگہ دعا میں شریک ہوں.له الرحمت ۲۱ نبوت ۱۳۲۵ / نومبر ۱۱۹۲۹ ۲۳۰ : ۵۲ الفضل ۲ اخاء ه۱۳۲۸ / اکتوبر ۱۹۲۹مه رزا بشیر احمد صاحب نے افضل کا یہ اعلان پڑھتے ہی درویشان قادیان کو پہلے تارہ دینا پھر نون کر کے اس بات کی تسلی کر لی کہ آپ کا پیغام صحیح صورت میں درویشوں تک پہنچ گیا ہے ؟ گیا
14 حضرت امیر المؤمنين المصلح الموعودة الشفاء / اکتوبر کو لاہور حضرت میر المومنین کی تشریف آوری سے 9 بجکر چالیس منٹ پر بذریعہ کارروانہ ہوئے اور بارہ پیکر پینتالیس منٹ پر ربوہ پہنچے حضور کے ہمراہ خاندان مسیح موعود کی بیگمات کے علاوہ صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منو را حمد صاحب اور مکرم میاں محمد یوسف صاحب پرائیویٹ سیکرٹری بھی تھے.چونکہ الفضل میں اس مسجد کے سنگ بنیا د رکھے جانے کی خبر شائع ہو چکی تھی اور بیرونی مخلصین کی آمد دفتر پرائیویٹ سیکر ٹری کی طرف سے بذریعہ تار بھی جماعتوں کو اطلاعات بھیجوائی جاچکی تھیں اس لئے لاہور منٹگمری ، سرگود با شر، چک علم جنوبی سرگودھا ، چک ۲۳، چات چک عشه ، چک ،۹۹، چک ۱۲۲ سرگودہا، لائل پور، چک مثلا لائل پور ، جھنگ مگھیانہ ، جڑانوالہ سیالکوٹ شہر، میانوالی ، بھکر، چنیوٹ، احمدنگر اور لالیاں وغیرہ کے بہت سے مخلص افراد اس تاریخی تقریب میں شمولیت اور دعا کی غرض سے ربوہ پہنچ گئے.میانوالی سے صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب.A.S.ڈپٹی کمشنر بھی تشریف لائے.لاہور سے آنے والے دوستوں میں شیخ بشیر احمد صاحب بی.اسے ایل ایل بی ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ لاہور، چوہدری اسد اللہ خان صاحب، میاں غلام محمد صاحب اختر پرسنل آفیسر ریلو ے ، چوہدری عبدالحمید صاحب انجنیئر، اور چوہدری عبد اللہ خان صاحب خاص طور پر قابل ذکر ہیں.جماعت احمد یہ ربوہ کے تمام مردوں اور بچوں کے علاوہ مقامی خواتین بھی دعا کی غرض سے موجو د تھیں.حضرت مصلح موعود کی ہدایت خصوصی موعود بنیا د رکھے جانے کا وقت بعد نماز عصر مقررتھا اور چونکہ یہ ایک مقدس تقریب تھی جس میں اللہ تعالیٰ کے گھر کی بنیاد رکھی جانے والی تھی اس لئے حضرت امیر المومنین الصلح الموعود کی ہدایت کے ماتحت نظارت علیا نے وہ دعائیں جو حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل علیہما السلام نے بیت اللہ کی بنیادیں اٹھاتے وقت فرمائی تھیں دستی پریس پر طبع کر وا دی تھیں تا لوگ ان دعاؤں کو یاد رکھیں اور بنیاد رکھے جانے کے وقت اور اس سے قبل بآواز بلند دہراتے رہیں چنانچہ نماز عصر کے وقت یہ طبع شدہ دعائیہ اور اق لوگوں میں تقسیم کئے گئے اور سب دوست ان دعاؤں کو دہراتے رہے.عصر کی نماز سے قبل حضرت امیر المومنین المصلح الموعود کی مندرجہ ذیل ہدایات موصول ہوئیں جو
12 مولانا جلال الدین صاحب شمس قائمقام ناظر اعلی نے پڑھ کر سنائیں :- دعا کے وقت اینٹوں اور گارے تک میں صفیں ہوں گی.ار صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک صفت.دوسری صف خاندان حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے نرینہ افراد گی.۳ تیسری صدف، واقفین زندگی کی.یہ تینوں متوازی ہوں گی اور اینٹ گارا اس کی جگہ سے پکڑ کر وہاں تک پہنچائیں گی جہاں میں کھڑا ہوں گا.ایک ایک تغاری گارے یا چھونے کی اور تین تین اینٹ ہر ایک صدف کے لوگ مجھ تک پہنچائیں گے.اس وقت چند حفاظ ادعیہ رفع بیت اللہ بلند آواز سے دہراتے جائیں گے اور ساتھ ہی سب حاضرین دعائیں دہرائیں گے.اس کے بعد نماز مغرب ہوگی عصر کی نماز بنیاد رکھنے سے پہلے ہوگی.اس کے بعد بنیاد شروع ہو گی.والسلام خاکسار مرزا محمد و احمد بعد ازاں حضور کے ارشاد پر مزید یہ اعلان ہوا کہ ان کے علاوہ چوتھی صفت امراء جماعتہائے احمدیہ اور ناظران سلسلہ کی اور پانچویں صف ماہرین قادیان کی ہوگی.باقی دوست ایک طرف کھڑے ہو کر دعا میں مشغول رہیں.اس کے بعد حضور نے اس نظام پر پانی کے خاندان حضرت مسیح موعود کی خواتین بہار کہ اور صحابیات و مهاجرات قادیان کی دو مزید صفوں کا بھی حکم دیا.ا حضرت امیر المومنین المصلح الموعود نے نماز عصر اسی جگہ پڑھائی نماز عصر اور بنیاد کی تقریب جہاں بنیاد رکھی جانے والی تھی اور جہاں دھوپ سے بچاؤ کے د لئے خیمہ کا انتظام کیا گیا تھا جب حضور نماز عصر سے فارغ ہوئے تو اس کے معا بعد تمام دوست او پر کی بیان کر دو ترتیب کے مطابق اپنی اپنی صفوں میں پہنچ گئے اور پھر دست بدست حضور کی خدمت میں اینٹیں اور سیمنٹ کی تاریاں پہنچائی گئیر رید ، اینٹیں خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زینہ افراد نے نہین انیمیہ صحابہ حضرت مسیح موعود علی الصلوۃ والسلام نے تین انتار واقعین زندگی نے
IA تین اینٹیں امراء جماعتہا ئے احمدیہ اور ناظران سلسلہ نے این انیٹیں مہاجرین قادیان نے تین اینٹیں خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیگات نے اور تین اینٹیں صحابیات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام اور مہاجرات نے پیش کیں.اسی طرح ہر دفعہ سیمنٹ کی تغاری بھی دست بدست حضور تک پہنچائی جاتی رہی.خاندان سے موعود کی بیگمات اور صحابیات سے حضور نفیس نہیں آگے بڑھ کر تغاری لیتے اور بنیادوں تک لا کر استعمال فرماتے رہے.۶۱۹۴۹ اس جگہ یہ امر قابل ذکر ہے کہ بنیادی اینٹوں میں اوپر کی تعداد کے علاوہ دو انٹیں سب د مبارک (قادیان کی انٹیوں میں سے بھی لگائی گئیں تو صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب اار شہادت کا پریل کو قا دیادہ سے لائے لیے گویا کل ۲۳ اینٹیں بنیاد میں لگائی گئیں.اس دوران میں حضرت امیرالمونین بار بار بلند آواز سے دعائیں مانگنے پہلے جاتے تھے اور تمام مجمع بھی ریت اور سوز کے ساتھ ان دعاؤں کو دہراتا رہ با حضور کی آواز میں اُس وقت ایک خاص قسم کا درد اور سوز پایا جاتا تھا جب تمام انٹیں رکھی جا چکیں تو حضرت امیر المونين خليفة السبع الثاني الصلح الموعود نے کھڑے ہو کر نہایت خشوع و خضوع اور انتہائی عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور پھر یہ دعائیں کیں کہ : رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَمِيعُ الْعَلِيمُ رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةٌ مُسْلِمَةٌ لَكَ من وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أنت الا المُرَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ ايتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الكتب وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ) : (البقره: آیت ۱۲۸ تا ۱۲۹) ، ایک، ایک وہی حضور نے کئی بار دہرائی اور حضور کے ساتھ ہی تمام مجمع ان دعاؤں کو دہراتا چلا گیا.مجمع پر ایک رقت کا عالم طاری تھا اور سینکڑوں آنکھیں پر آپ تھیں.اس کے بعد حضور نے فرمایا آپ ہیں خاموشی سے دعا کروں گا دوست بھی میرے ساتھ شریک ہوں چنانچہ حضور نے ہاتھ اُٹھا کر لمبی دعا فرمائی اور دوسرے دوست بھی دعا میں مشغول ہو گئے.بو الفضل ۲۵ / اضاء/ اکتوبر ۸ ص کالم ، بے / ۱۳۲۸۵ صر :
19 حضرت امام ہمام کا ایمان افروز خطاب ادعا سے فارغ ہونے کے بعد ا کر حویلی نے سورۃ فاتحہ کی تلاوت کی اور اس کے بعد فرمایا :- نبر پر رونق ۲۵ " حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک الہام تھا کہ آپ کے ہتم اور غم نے اسمعیل کا درخت اگایا.اس میں پیش گوئی تھی کہ ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یا اُن کی رُوح کے لئے نہایت تکلیف دہ ہو گا ایسا تکلیف دہ کہ آپ کی روح تڑپ تڑپ کر اور زاری کو کر کے خدا تعالیٰ کے حضور مجھے گی اور اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اسمعیلی درخت اُگائے گا.ہمعیل کا درخت کیا ہے ؟ اسمعیل کا درخت خانہ کعبہ ہے.اس الہام میں پیش گوئی تھی کہ ایک زمانہ میں احمدیوں کو قادیان سے ایک حد تک ہاتھ دھونا پڑے گا اور ان کے ہاتھ دھونے کے بعد اللہ تعالیٰ ایک نئے مقدس مقام کی بنیاد رکھے گا ہم کہتے ہیں کہ ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے اسی مقام کی بنیاد رکھ رہے ہیں اور چونکہ یہ ایک مرکزی مقام ہے اور ساری دنیا کے لوگوں سے اس کا تعلق ہے، اس لئے ساری دنیا کے لوگوں کو ہمیں اس کی تعمیر میں حصہ دینا چاہئیے پیس لیں اس موقعہ پر تمام جماعتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی اپنی توفیق کے مطابق اس مسجد کی تعمیر میں حصہ لیں.میرا خیال ہے کہ میں کیے ہیں ہزار روپیہ بلکہ میں پینتیس ہزار تک اس پر خرچ ہو جائے گا.ربوہ کی جماعت کو چا ہیے تھا کہ وہ اس میں سپیل کرتی مگر غالبا یہاں کے کارکنوں کا ذہن اِدھر گیا نہیں.لائلپور کی جماعت کا ذہن ادھر گیا اور وہ اپنا چند آج اپنے ساتھ لائی ہے جو ۷۳۳ روپیہ آٹھ آنہ ہے.آخریہ مسجد تعمیر ہوگی یہ مرکزی مسجد ہوگی اس وجہ سے اس میں ساری ہی جماعت کا حصہ بھی چاہیئے.ہماری جماعت تو مخلصین کی جماعت ہے.مومنین کی جماعت ہے.عارفین کی جماعت ہے.مکہ کے لوگ جن میں شرک پایا جاتا تھا اور جو دین سے دور چلے گئے تھے ان میں بھی خانہ کعبہ کی تعمیر میں حصہ لینے کا اتنا جذبہ پایا جاتا تھا کہ ایک دفعہ جب کہ خانہ کعبہ کی عمارت کمزور ہو گئی انہوں نے ارادہ کیا کہ چندہ کر کے وہ اس کی تعمیر نئے سرے سے کریں تعمیر کرتے وقت جب وہ اس مقام پر پہنچے جہاں حجر اسود رکھا جانا تھا تو سارے قبائل میں له يُخْرِجُ هَمَّهُ وَغَمُهُ دَوحَةُ اسمعیل رند که ۱۶ فروری است والحکم از فروری شما در جام وه
لڑائی شروع ہو گئی کچھ کہتے تھے کہ اسے ہم اٹھا کر رکھیں گے.یہ لڑائی اتنی بڑھی کہ نوجوانوں نے تلواریں کھنچے ہیں اور انہوں نے کہا کہ ہم اپنے مخالف کے خون کی ندیاں بہا دیں گے مگر اپنے سوا کسی اور کو یہ شرف حاصل نہیں ہونے دیں گے.آخر قوم کے بڈھوں نے کہا کہ یہ صورت تو خطر ناک ہے چلویہ فیصلہ کر لو کہ جو شخص اس وقت کے بعد سب سے پہلے ادھر آئے اُس کے ہاتھ سے ہم بنیا درکھوائیں اور اُس کے فیصلہ کو قبول کرلیں اور سب نے اس سے اتفاق کرلیا.چونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک خانہ کعبہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں آنے والا تھا اس لئے اس فیصلہ کے بعد جو شخص سب سے پہلے نمودار ہوا وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے.آپ کو دیکھ کر سب کے سب اس بات پر متفق ہو گئے کہ ہم بنیاد کا معاملہ آپ کے ہی سپرو کرتے ہیں.آپ نے ایک چادر لی اور حجر اسود کو اپنے ہاتھ سے اُٹھا کر اس پر رکھ دیا اور پھر ہر قبیلہ کے سردار کو کہا کہ اس چادر کا ایک ایک کو نہ پکڑ لو چنانچہ تمام قبائل کے سرداروں نے اُس چادر کا ایک ایک کو نہ پکڑ لیا اور اُسے اُٹھا کر اُس مقام پر لے گئے جہاں اُسے رکھنا تھا.جب وہاں پہنچ گئے تو آپ نے پھر اپنے ہاتھوں سے حجر اسود کو اٹھایا اور اس کے اصل مقام پر اسے رکھ دیا.اس طرح وہ سارے کے سارے خوش ہو گئے مگر اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے پیش گوئی بھی کروادی کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہی آئندہ خانہ کعبہ کی تعمیر ہوگی.خانہ کعبہ کی تعمیر کے ثواب میں شامل ہونے کے لئے اگر عرب کے مشرکین اتنا اصرار کرتے تھے تو مومنین کو تو بہر حال ان سے زیادہ ایمانی غیرت کا مظاہرہ کرنا چاہیئے.جہاں بھی قومی طور پرکسی کام کا سوال ہو زندہ قوم کے زندہ افراد اصرار کیا کرتے ہیں کہ ہمیں اس میں حصہ دیا جائے نہیں ربوہ کے مخلصین کو چاہیئے تھا کہ چاہے وہ غریب تھے اپنے ایمان کے لحاظ سے وہ اس میں دوسروں سے پہلے حصہ لیتے.بہر حال جیسا کہ میں پہلے کہ چکا ہوں باہر کی جماعتوں میں سے سب سے پہلے لائلپور کی جماعت نے ۷۳۳ روپے آٹھ آنے اس برین کے لئے پیش کئے ہیں اسکے علاوہ کچھ وعدے اور کچھ نقد روپیر بھی اکٹھا ہوا ہے.یکی نے اپنی طرف سے ۲۱ روپے نقد دیتے ہیں اور پانچ سو روپلے کا وعدہ کیا ہے.اس کے علاوہ ہمارے خاندان کے افراد کے چندے کی فہرست یہ ہے:.صاحبزادہ مرزا منو را احمد صاحب مع بیوی بچے ساله طبری، ابن ہشام ، زرقانی، تاریخ خمیس به ۲۱ روپیے
صر آپا سیده بشری بیگم صاحبہ مرز امظفر احمد صاحب مع ستيده امتہ القیوم صاحبه حضرت ام المؤمنين (حضرت) سیده ام وسیم احمد صاحب (حضرت) سیده ام ناصر احمد صاحب سیده امتہ المنصیر صاحبه /۱۰ روپے ۲۱/۰./ ۵/۰ " ٣٠/٠ 1.راس موقع پر حضور نے فرمایا کہ بعض جو یہاں نہیں ان کے رشتہ داروں نے خود ان کی طرف سے چندہ لکھوا دیا ہے تا وہ پہلے دن کے چندہ میں شامل ہو جائیں ان کی فہرست یہ ہے :- (حضرت مرزا ناصر احمد صاحب مرزا مبارک احمد صاحب مرزا حفیظ احمد صاحب مرزا رفیع احمد صاحب /۲۱ روپے ۲۱/۰ " ۵/۰ p/- مرزا خلیل احمد صاحب مرز ا وسیم احمد صاحب مرزا طاہر احمد صاحب مرزا اظہر احمد صاحب " " D/ ۲۱ /- ۵/۰ ۵/۰ میاں عبد الرحیم احمد صاحب و سیده الله الرشید صاحبه و بچگان ۵ سید داؤود احمد صاحب وستیده امتہ الحیکم صاحبه میاں مسعود احمد خان صاحب نه (حضرت) مرزا بشیر احمد صاحب مع بیگم صاحبہ (حضرت) مرزا شریف احمد صاحب (حضرت) سیده نواب مبار که بیگم صاحبہ لے آپ نے جماعت لائل پور میں دس روپے چندہ الگ بھی دیا ؟ ۵/۰ P/ " ۳۱/۰ " ۲۱/۰ ٢١/٠ 1/
(حضرت نواب میاں عبداللہ خال صاحب و ) امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ.مرزا محمید احمد صاحب مع اہلیہ صاحبہ مرزه امنیر احمد صاحب مرزا مبشر احمد صاحب مرزا امجید احمد صاحب امتہ الحمید بیگم صاحبہ امتہ المجید بیگم صاحبہ (حضرت) مرزا عزیز احمد صاحب نصیرہ بیگم صاحبہ اہلیہ (حضرت) مرزا عزیز احمد صاحب استیده کم 11 روپے ۵/۰ " ۵/۰ را 0/- " 0/- ۵/۰ ۵/۰ " ۵/۰ " ۵/۰ مالی و حضرت مرحم الام صاحب.رضی اللہ تعالٰی عنہ بشری بیگم صاحبہ بنت (حضرت) میر محمد الحق صاحب مرزا انور احمد صاحب " ۵/۰ D/ 4 1./- 11/ " 1." ۵/۰ " ۵/۰ ۵/۰ لوگ 11/- " " ۵/۰ ۵/۰ - /ه مرزها منصور احمد صاحب و سیدہ ناصرہ بیگم صاحبہ مرزا رحیق احمد صاحب مرزا حنیف احمد صاحب مرز امحمد احمد صاحب مرزا ظفر احمد صاحب مع اہلیہ صاحبہ (حضرت) سیده مریم صدیقہ صاحبہ (اسم متین) اچھی اماں صاحبہ والدہ سید محمد احمد صاحب (امتہ اللطیف صاحبہ) سید محمد احمد صاحب
۲۳ پیر صلاح الدین صاحب و امتہ اللہ بیگم صاحبہ امتہ القدوس صاحبه مرزا داؤد احمد صاحب مع اہلیہ صاحبہ نوابزادہ میاں عباس احمد صاحب مع اہلیہ صاحبہ بے بی مرزا رشید احمد صاحب مع اہلیہ صاحبہ و بجگان مرز العیم احمد صاحب امتہ الحفیظ صاحبه اس کے بعد حضور نے فرمایا :- /۱۱ روپے /ه لوگو 11/- " " ۱/۰ روپیہ ۱۱/۰ روپے 1 0/- " بعض جماعتوں کی طرف سے میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سنت کی اتباع میں خود ان کا نام چندہ کی فہرست میں لکھ دیا ہے جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ مگر میں تھے اور معیت عنوان ہو رہی تھی تو رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم نے اپنا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھا اور فرمایا یہ عثمانی کا ہاتھ ہے میں سمجھتا ہوں کہ اگر وہ یہاں ہوتا تو بیعت سے کبھی پیچھے نہ رہتاہے باہر کی جماعتوں کو چونکہ یہ آوازہ دیہ میں پہنچے گی اس لئے میں نے ان کو خواب میں شریک کرنے کے لئے ان کی طرف سے خود نخود چنده تجویز کر دیا ہے.ان لوگوں کا چندہ پہلے دن کے ثواب میں شمولیت کی وجہ سے میں نے لکھ دیا ہے.وہ زیادہ کرسکتے ہیں لیکن اگر یکم کریں تو میں ادا کر دوں گا :- جماعتہائے مشرقی پاکستان /۱۰۰۰ روپیہ \/> i ۵۰۰/۰ 1-1/- 1·1/ 1.1/- جماعتہائے سندھ اسٹیٹس جماعت کوئٹہ جماعت لاہور جماعت شام جماعت انڈونیشیا شه این سعد
۱۰۱/۰ روپیہ " 1-1/ 4+/- " 11/- 〃 11/- 11/- 11/- 11/ ۱۰۱/۰ ۵۱/۰ " / " 1•1/- مور " 1.1000/0 1/- ۲۴ جماعت ماریشیس جماعت فلسطین جماعت سوئٹزرلینڈ جماعت لنڈن جماعت ہالینڈ جماعت جرمنی جماعت سپین جماعت فرانس (حضرت) سیٹھ عبد اللہ بھائی صاحب خاندان (حضرت) سیٹھ محمد غوث صاحب جماعت قادیان چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب آمنہ بیگم صاحبہ زوجہ چوہدری عبد اللہ خان صاحب انہوں نے خود چندہ لکھوایا اور نتقدا داکر دیا) جها نوشته امری که جماعت مشرقی افریقہ جماعت مغربی افریقہ اس سے آگے وہ فہرست ہے جنہوں نے خود اس موقع پر چندہ لکھوایا :.میاں محمد یوسف صاحب پرائیویٹ سیکر ٹری منی بچگان 1-1/ میاں غلام محمد صاحب اختر پرسنل آفیسر ریو سے مع اہل و عیال ۱۰۱ چوہدری اسد اللہ خاں صاحب مع اہل و عیال ۵۲۱/۰ کیپٹی مبارک احمد صاحب و امته الجيب صاحبه اختر بنت اختر صاب - / ۲۱ قریشی عبدالرشید صاحب مع اہلیہ صاحبہ ۲۱/۰
جماعت احمدیہ ناسور (کشمیر) (حضرت) چوہدری فتح محمد صاحب کسیاں چوہدری غلام محمد صاحب کڑیال شہید ۲۵ ۵۰ روپیه (لقد ادا کیا) 1·1% ۵۱۰ شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور رشیخ مشتاق حسید صاحب نام کے خاندان کی طرف سے ) بجامعه احمدیه محمد شریف صاحب مخالد کی پھوپھی صاحبہ کا ترکہ " ۱۰۰۰/۰۰ " ۲۰۰/- ۳۰۰/۰ ر حضور نے فرمایا محمد شریف صاحب خالد کی پھو بھی فوت ہوگئی ہیں ان کا ترکہ تین سور و پہلے تھا جو انہوں نے اسی غرض کے لئے رکھا ہوا تھا کہ مسجد کے لئے دیں گے چنانچہ اب وہ یہ روپیہ پیش کرتے ہیں ) حضور کی طرف سے سبب ان وعدوں کے اعلانات ہوئے تو مجمع میں سے اکثر دوستوں نے اپنے اپنے وعدے پیش کرنے شروع کر دئے اس پر حضور نے فرمایا کہ افراد اپنے وعدے دفتر بیت المال میں لکھوائیں یہاں صرف جماعتوں کے وعدے لکھے جائیں گے چنانچہ اس پر جن جماعتوں نے اپنے وعدے لکھوائے وہ یہ ہیں :.مدرسه احمدید جماعت شیخو پوره جماعت منٹگمری شهر جماعت چک ۹۹ شمالی ضلع سرگودها جماعت رسالپور جماعت ایستی نگر ۱۰۰۰ روپے ۵۲۱- ۳۰۱/۰ ۵۱/۰ 21% 11/ واقفين ربوه جماعت چک ۶۸ لائل پور جماعت چک 9 شمالی سرگودھا " " 1-1/ ۴۷/۰ 101-
۵۰۰ روپے " ۲۰۰/۰ ۳ / " " ۵۰/۰ 1-1/ 1·1% 1/- " ۱۰۰/۰ ۳۱/۰ ۲۰۰ ۵۰/۰ 11/ 11/- " ۲۰۰/ " 11/ D/ ۱۲۰/ ۵/۰ " J+/- ۵۰۰/۰ را " D./." ۲۵ ۲۶ سرگودها شهر جماعت ڈسکہ جماعت ہموساں (کشمیر) جماعت سیالکوٹ جماعت کو ٹلی ضلع میر پور آزاد کشمیر دفتر پرائیویٹ سیکرٹری تعلیم الاسلام ہائی سکول جماعت میانوالی چک ، یه شمالی سرگودها جماعت کہوٹہ جماعت چنیوٹ جماعت سیالکوٹ چھاؤنی جماعت صریح چک ۱۶ تحصیل جڑانوالہ جماعت بربط (آزاد کشمیر) جماعت لاہور چھاؤنی بزم محمود (احمد نگر) پریم احمد ( احمد نگیریم کارکنان صدر امین احمدیہ جماعت الله آباد ریاست بہا ولپور تاجه این دیوه جماعت کلکته جماعت پیک ۲۰ کو کھو وال جماعت بجایم
۵۲۱ روپے ۵/۰ 1.۵/۰ 01/ " D./." P./.٢١/٠٠ 1-1/- " ۲۱/۰ " ۵۰/۰ " ۵۰/۰ " ۵۱ 1./ " 1.% مریکی ۲۱/۰ ۵۰/۰ " 11/- ۲۷ مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ جماعت منتخ پور ضلع گجرات جماعت پنڈی بھٹیاں جماعت چک کے ریاست بہاولپور جماعت احمدیہ احمد نگر جماعت لالیاں جماعت چک 2 ضلع لائل پور جماعت احمدیہ اونچے مانگٹ بہلول پور ضلع لائل پور اطفال الاحمدیہ ربوہ جماعت چیک ۱۳۵۷ جنوبی سرگودھا جماعت حافظ آباد ضلع گوجرانوالہ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ جماعت باد و لهی جماعت پیر کوٹ ضلع گوجرانوالہ جماعت بھیرہ جماعت علی پور چک عملہ ضلع لاہور جماعت پیچہ وطنی ان وعدوں کے علاوہ مختلف افراد نے دفتر بیت المال میں پہنچ کر جو وعدے لکھوائے یا نقد رقوم ادا کیں ان تمام کی مجموعی میزان سترہ ہزار سے اوپر نکل گئی.تقریر کے بعد حضور نے وہیں مغرب کی نماز پڑھائی جس کی آخری رکعت میں پھر ان نماز مغرب دعاؤں کو ہرایا جوحضرت ابراہیم اور حضرت امیل علیہما السلام نے خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت کی تھیں اور اس طرح یہ مبارک تقریب اختتام پذیر ہوئی.
۲۸ دیگر کوائف اراس مبارک تقرب میں خاندان حضرت والی اسلام کے بن نرینہ افرادنے حقد لیا ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں :.صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب ، صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب ، صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب ، میر داؤ د احمد صاحب ، میان مسعود احمد خان صاحب ، صاحبزادہ مرزا رفیق احمد صاحب صاحبزاده مرزا مبشر احد صاحب (ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب کے صاحبزادے ) ، صاحبزادہ مرزا غلام احمد رضا این حضرت مرزا عر بین احمد صاحب)، صاحبزادہ میاد محمود احمد خال صاحب میان مسعود احمد خانصاب کے صاحبزادے).حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقدس خاندان کی جن مبارک خواتین کو اس میں حصہ لینے کا موقع ملا ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں :.حضرت سیده ایم ناصر احمد صاحب ، حضرت سیده ایم وسیم احمد صاحب، حضرت سید البشری بیگم صاحبه اسیده امتہ القیوم بیگم صاحبہ اسیده امته الباسط صاحبه است، امتد الأمير صاحبه، استيد امته الجمیل صاحبه اسید محمود بیگم صاحبہ بیگم صاحبہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب، سیده ریحانہ بیگم صاحبہ بنت حضرت مرزا عزیز احمد صاحب الیه حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جن صحابہ کو اس مبارک تقریب میں شمولیت کا موقع ملا ان کے نام حسب ذیل ہیں :- ا - حضرت مفتی محمد صادق صاحب ۲.حضرت قاضی عبدالرحیم صاحب ۳ - حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب م حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاب ۵ - مکرم سید محمو د عالم صاحب 4 - مکرم چوہدری برکت علی خان صاحب.حضرت مولوی غلام نبی صاحب مصری ۸ به مکرم ڈاکٹر غلام غوث صاحب - مکرم میاں محمد یوست نا پرائیویٹ سیکرٹری ۱۰- مکرم سید محمود اللہ شاہ صاحب ۱۱ - مکرم سید محمد اسمعیل صاحب ۱۲ - مکرم شیخ فضل احمد صاحب ۱۳ مکرم منی تنظیم الرحمن تنا ہیڈ کلرک نظارت امور عامه ۱۴ مکرم منشی عبد الخالق صاحب الفضل در اکتوبر ۹۲۹ مگ جنگ، منٹ
۲۹ ۱۵ - مکرم منشی سر ملت رخان صاحب ۱۶ مکرم مرزا احمد بیگ صاحب ۱۷ - مکرم چوہدری محمد شریف صاحب منٹگمری ۱۸ مکرم مولوی عبدالحق صاحب بدولی ۱۹ محرم خواجہ عبیداللہ صاحب ریٹائر ڈ ایس ڈی او ۲۰- مکرم مولوی محمدعبداللہ صاحب بو تالوی ۲۱ - مکرم بھائی محمود احمد صاحب ۲۲ - مکرم حکیم دین محمد صاحب ۲۳- مکرم محمد عبداللہ صاحب جیل رسانه ۲۴- مکرم مولوی فضل دین صاحب وکیل -۲۵ ۲- مکرم شیخ محمد حسین صاحب پیشنر ۲۶۰ مکرم با با حسن محمد صاحب ۲۸- مکرم ماسٹر نور الہی صاحب ۲۷ - مکرم عبید اللہ صاحب رانجھا ۲۹ - مکرم بابو فقیر علی صاحب الم - مکرم خدابخش صاحب مومن ۳۰.مکرم بابو محمد اسمعیل صاحب معتبر ۳۲- مکرم رسائیدار کردم و او خان صاحب موم ۲ - مکرم مولوی غلام احمد صاحب ۳۳- حضرت چوہدری نستح محمد صاحب ۳۴ - مکرم خوشی محمد صاحب چک ۳۲ سرگودها ۳۵ - مکرم خدا بخش صاحب ساکن اور حمد ۳۶ - مکرم فقیر محمد صاحب سیکھواں ۳۷.مکرم عبد اللہ صاحب بھا گو وال ۳۸- مکرم حكيم فضل الرحمن صاحب -۳۹- مکرم مولوی جلال الدین صاحب شمس م.مکرم صوفی غلام محمد صاحب ۲۱ - مکرم ماسٹر عطاء محمد صاحب ۲۳ - مکرم میاں غلام محمد صا حب اختر بی او ۲۴- مکرم مستری محمد دین صاحب ۴۵.مکرم احمد دین صاحب مؤذن ۴۶ - مکرم امیر بخش صاحب پہلوان ۴۷ - مکرم چوہدری فضل احمد صاحب ۲۸.مکرم ڈاکٹرمحمد ابراہیم صاحب ۴۹.مکرم مرزا مولا بخش صاحب ۵۰ مکرم محمد افضل صاحب ۵۱ - مكرم محمد اسمعیل صاحب ۵۲ مکرم عطاء محمد صاحب ۵۳ - مکرم عبد السلام خان صاحب ۵۴ میکرم رحمت خاں صاحب ۵۶ مکرم رحیم بخش صاحب ۵۵ مکرم عبد الجيب صاحب مکرم عبد الرحیم صاحب شرف پولا ۵۸ - مکرم عنایت اللہ صاحب یم محمد دین صاحب ۶۰.مکرم احمد دین صاحب
۶۱ - مكرم محمد ظهور صاحب ۶۲ - مکرم شیخ نذر محمد صاحب ۶۳ - مکرم شیخ رحمت اللہ صاحب ۶۴ مکرم چوہدری غلام محمد صاحب 96 - مکرم چوہدری غلام رسول صاحب ۶۶.مکرم شمشیر خان صاحب ۶۷ - مکرم علی احمد صاحب 49- مکرم مستری عبد الکریم صاحب نیله ۶۸ مکرم مالی صاحب ننگل باغبانان واقفین تحریک جدید جو اس تقریب میں شریک ہوئے ان کی تعداد ۸۸ تھی.امرائے جماعتہائے احمدیہ جو اس موقع پر تشریف لائے ان کے اسماء یہ ہیں :.شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور.مرزا عبدالحق صاحب امیر جماعت احمدیہ سرگودہا.شیخ محمد احمد صاحب مظہر امیر جماعت احمد یہ لائل پور چوہدری محمد شریف صاحب امیر جماعت احمد نیشکری چوہدری عبد اللہ خاں صاحب امیر جماعت احمدیہ کراچی ملک غلام نبی صاحب امیر جماعت احمدیہ چک ۹۷ شمالی ضلع سرگودھا.ایہاں یہ ذکر کرنا ضرور کی معلوم ہوتا ہے کہ قبل ازیں ۱۹ تبوک هشیار تعمیر مسجد سے قبل صدقہ بروز پیریستینا ستمبر ۱۹۴۶ بروز پیر سید نا حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الثانی ڈیڑھ بجے کے قریب ربوہ تشریف لائے تو اس وقت مسجد مجوزہ کی نشاندہی ہو چکی تھی حضور کے اس مجوزہ مسجد کے اندر داخل ہونے کے بعد اہل ربوہ کی طرف سے تین بکرے مسجد کے تین کونوں پر ذیج کئے گئے ایک حضرت مرزا عزیز احمد صاحب ناظر اعلیٰ نے ، دوسرا صا حبزادہ مرزا منور احمد صاحب نے اور تیسرا حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب امیر مقامی نے اپنے ہاتھ سے ذبح کیا.اسی طرح جب حضور اپنے گھر کے اندرو اخل ہونے لگے تو اس وقت بھی دو بکرے مقامی انجمن احمدیہ ابوہ کے جنرل سیکرٹری مکرم شیخ محمد الدین صاحب مختار عام نے ذبح کئے لیے مسجد مبارک کا نقشہ مکرم حفیظ الرحمان مسجد مبارک کی تعمیر اور افتتاح صاحب وہ میڈیا انٹس میں نے تیار - واحد لے روزنامہ الفضل لاہور ۱۹- اضاء ۱۳۳۲۸۵ / اکتوبر ۱۹۴۹ئه م * روزنامه الفضل لاہور و انحاء ۱۳۲۸۵ / اکتوبر ۱۹۲۹مه مث :
مسجد مبارک ربوہ کا ایک پر کیف منظر
کیا اور اس کی تعمیر حضرت سیح موعود کے جلیل القدر صحابی حضرت قاضی عبد الرحیم صاحب کی زیر نگرانی ماه مطور / اگست ۱۹۵۷ء میں پائیہ تکمیل تک پہنچی مینار بعد میں بنے ہیں ربوہ کی یہ پہلی مستقل مسجد ہے جس کے بنانے کی توفیق اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو عطا فرمائی مسجد کے ایک رنگ میں مکمل ہونے پر حضرت مصلح موعود نے ۲۳ امان ۱۳۳ مارچ ۱۹۵۷ م کو اس میں پہلا خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا اور افتتاح سے قبل بطور شکرانہ ایک لمبا سجدہ شکر کیا اور حضور کی اقتداء میں باقی تمام دوست بھی سجدہ ریز ہو گئے.فصل چهارم ر ایرانی ارباش بود ک بعد پلان پر خالی یا اساسات امور میرا اواسی نا حضرت الا ان ال الموعود نے ربوہ میں مستقل رہائش کے بعد پہلا خطبہ جمعہ بہتر تبوک ۱۳۲۷ /ستمبر ۱۹۲۹ء کو ارشاد فرمایا حضور نے ملہ حفیظ الرحمن صاحب ڈرافٹس مین آجکل انگلستان میں ہیں آپ لکھتے ہیں : یکی ۱۴ جولائی ائر کو ربوہ میں آیا میرے سپرد دفتر تعمیرات کی پلینگ برانچ کی گئی یعنی صدرانجمن احمدیہ اور تحریک جدید کی تمام پختہ عمارات کے نقشہ جات کے ڈیزائن تیار کرنا میرے ذمہ لگایا گیا.سب سے پہلا نقشہ مسجد مبارک ربوہ کا تیار کیا گیا.دفتر تعمیر کے ایک کہتے کمرے میں رات کے وقت گیس کی روشنی کی گئی اور خاکسار نے محترم قاضی عبدالرحیم صاحب بھٹی کی ہدایات کے مطابق نقشہ تیار کیا.کیونکہ منظوری کے لئے نقشہ جلد کمیٹی میں پیش ہونا تھا اس لئے رات کے وقت کام کیا گیا پھر نقش کمیٹی کی خوری کے لئے بھجوا دیا گیا اور ڈپٹی کمشنر مسٹر بٹ نے اس پر منظوری کے دستخط کئے یا اصحاب احمد جبار 4 صفحہ ۷۴ ۷۶ مؤلفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم.اسے طبع اول جنوری ۹۵ ار حضور اگر چه ۱۹ تنبہ کی ۲۰۶ ۱۳ /ستمبر ۱۹۲۹ کو دار در بوہ ہوئے مگر جلد ہی حضرت سیدہ ام متین صاحبہ کی بیماری کی وجہ سے لاہور تشریف لے گئے جہاں ۳۳ تبوک کو مسجد احمدیہ دہلی دروازہ میں خطبہ دیا.اس کے بعد اگلا جمعہ معاویہ نے ربوہ میں پڑھایا جو رہائش ربوہ کا پہلا جمعہ تھا.سد را نمین احمدیہ ربوہ کی مرکزی (بقیہ حاشیہ ۳ پر)
۳۲ یہ خطبہ قصر خلافت کی کچی عمارت سے تصل عارضی مسجد میں دیا جس میں احمدیت کے اس نئے دینی مرکز کے قیام کی غرض و غایت پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ اس پاک ہستی میں صرف انہی مخلصین کو رہنا چاہیئے جو عملاً واقف زندگی ہوں ہمیشہ خدا تعالیٰ پر تو کل دیکھیں اور ہر وقت خدمت دین کے لئے تیار رہیں.حضرت امیر المومنین کے اس روح پرور خطبہ کے بعض ضروری اقتباسات درج ذیل کئے جاتے ہیں :." اب یہاں ہماری عمارتیں بنی شروع ہوگئی ہیں لوگ رہنے لگ گئے ہیں دکانیں کھل گئی ہیں کچھ کارخانوں کی صورت بھی پیدا ہو رہی ہے کیونکہ میگیاں وغیرہ لگ رہی ہیں مزدور بھی آگئے ہیں پیشہ ور بھی آگئے ہیں اور دفتر بھی آگئے ہیں مگر یہ سب عارضی انتظام ہے منتقل انتظام کے لئے یہ شرط ہوگی کہ صرف ایسے ہی لوگوں کو ربوہ میں رہنے کی اجازت دی جائے گی جو اپنی زندگی عملی طور پر دین کی خدمت کے لئے وقت کرنے والے ہوں میرا یہ مطلب نہیں کہ یہاں رہنے والا کوئی شخص دکان نہیں کر سکتا یا کوئی اور ہمیشہ نہیں کر سکتا.وہ ایسا کر سکتا ہے مگر عملاً اُسے دین کی خدمت کے لئے وقف رہنا پڑے گا جب بھی سلسلہ کو ضرورت ہوگی وہ بلا چون و چرا اپنا کام بند کر کے سلسلہ کی خدمت کرنے کا پابند ہو گا مثلاً اگر تبلیغ کے لئے وفد جا رہے ہوں یا علاقہ میں کسی اور کام کے لئے اُس کی خدمات کی ضرورت ہو تو اُس کا فرض ہو گا کہ وہ فوراً اپنا کام بند کر کے باہر چلا جائے اپنی شرائط پر لوگوں کو زمین دی جائے گی اور جو لوگ اس کے پابند نہیں ہوں گے انہیں یہاں زمین نہیں دی جائے گی ہم چاہتے ہیں کہ یہ جگہ ایک مثالی جگہ ہو جس طرح ظاہر میں ہم اسے دین کا مرکز بنا رہے ہیں اس طرح حقیقی طور پر یہاں کے رہنے والے سب کے سب افراد دین کی خدمت کے لئے وقف ہوں وہ بقدر ضرورت دنیا کا کام بھی کرتے ہوں لیکن ان کا اصل مقصد دین کی خدمت اور اس کی اشاعت ہو یوں تو صحابہ بھی دنیا کے کام کرتے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر میں کوئی ایک سپاہی بھی ایسا نہیں تھا جو تنخواہ دار ہو کوئی دکاندار تھا، کوئی زمیندار تھا، کوئی مزدور تھا، کوئی لوہار تھا، کوئی ترکھان تھا، نہ ض بارے کے سارے پیشہ ور تھے جس طرح آپ لوگوں کی دکانیں ہیں اسی طرح ان کی بھی دکانیں تھیں ہیں طرح بقیہ حاشیہ صفحہ گذشتہ : سالانہ رپورٹ ۲۸-۱۳۲۹اہش / ۴۹-۱۹۵۰ء کی بھی معلوم ہوتا ہے کہ 19 تبوک تا ۷ نبوت ۳۲ حضور لاہور میں قیام فرمار ہے لیکن اس دوران خطبہ جمود کے لئے با قاعدگی سے ربوہ تشریف لاتے رہے.(حت )
آپ لوگوں کی زمینداریاں ہیں اسی طرح اُن لوگوں کی بھی زمینداریاں تھیں.اگر آپ لوگ مختلف پیشوں سے کام لیتے ہیں مزدوری کرتے ہیں یا بڑھی اور لوہار کا کام کرتے ہیں تو وہ بھی یہ سب کام کرتے تھے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب جنگ کے لئے نکلتے تو وہ سب کے سب آپ کے ساتھ چل پڑتے تھے اُس زمانہ میں جنگ تھی اس زمانہ میں تبلیغ کا کام ہمارے سپرد ہے.آپ صحابہ سے فرماتے پہلو تو وہ سب چل پڑتے تھے وہ یہ نہیں کہتے تھے کہ ہماری دکانیں بند ہو جائیں گی.پھر یہ بھی نہیں کہ اُن کے بیوی بچے نہیں تھے.آہٹکل لوگ یہ کہ دیا کرتے ہیں کہ اگرہم دین کی خدمت کے لئے جائیں تو ہمارے بیوی بچوں کو کون کھلائے گا ، سوال یہ ہے کہ آیا صحابیہ کے بیوی بچتے تھے یا نہیں ؟ اگر تھے تو جنگ پر جانے کے بعد انہیں کون کھلانا تھا چحقیقت یہ ہے کہ مذہب کی ترقی قربانی سے وابستہ ہے روپیہ ایک عارضی چیز ہے جیسے تحریک جدید کے ابتداء میں ہی لیکن نے کہ دیا تھا کہ روپیہ ایک ضمنی چیز ہو گی تحریک جدید کی اصل بنیاد وقف زندگی پر ہوگئی مگر میں دیکھتا ہوں کہ اب واقفین میں سے ایک حصہ کا رجحان روپیہ کی طرف ہو رہا ہے اور وہ یہ سوال کر دیا کرتے ہیں کہ ہم کھائیں گے کہاں سے ؟ سمالانکہ وقف کی ابتدائی شرطوں میں ہی صاف طور پر لکھا ہوا ہے کہ زندگی وقف کرنے والا ہر قسم کی قربانی سے کام لیگا اور وہ کسی قسم کے مطالبہ کا حقدار نہیں ہو گا.حقیقت یہ ہے کہ جو شخص بعد کے لئے قربانی کرتا ہے خدا خود اُس کا مددگار ہو جاتا ہے.آخر ہمارے وقف کے دو ہی نتیجے ہو سکتے ہیں یا تو ہمیں ملے یا نہ ملے.میں ہمارے" کا لفظ اس لئے کہتا ہوں کہ میں بھی ہوائی سے دین کی خدمت کے لئے وقف ہوں اور یکس جب دین کی خدمت کے لئے آیا تھا اس وقت میں نے خدا تعالیٰ سے یا خدا تعالیٰ کے نمائندوں سے یہ سوال نہیں کیا تھا کہ میں اور میرے بیوی بچے کہاں سے کھائیں گے مگر اب تم میں سے کئی لوگوں کو یہ نظر آتا ہے کہ میرے پاس روپیہ بھی ہے اور یکں کھاتا پیتا بھی با فراغت ہوں مگر سوال یہ ہے کہ میں نے تو کوئی شرط نہیں کی تھی جو کچھ بندا نے مجھے دیا یہ اس کا احسان ہے میرا حق نہیں کہ میں اُس کی کسی نعمت کور و کروں لیکن جب میں آیا تھا اُس وقت میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ پہلے میرے اور میرے بیوی بچوں کے گزارہ کی کوئی صورت پیدا کی جائے اس کے بعد میں اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے وقف کروں گا یہ خدا کا سلوک ہے جس میں کسی بندے کو کوئی اختیار نہیں یا و مرض اللہ تعالیٰ پر تو قتل ہیں انسان کو حقیقی زندگی دیتا ہے اور تو نکل رہی ہر قسم کی برکات کا انسان
۳۴ گوشتی بناتا ہے جب حضرت ابراہیم اور حضرت معیل علیہما السلام کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے مکہ بنوایا تو اس وقت اس نے یہی کہا کہ یہاں تو شکل سے رہنا اور خدا تعالیٰ سے روٹی مانگنا بندوں سے نہ مانگنا اسی نیت اور ارادہ کے ساتھ ہمیں قادیان میں بھی رہنا چاہیئے تھا مگر وہ احمدیت سے پہلے کی بنی ہوئی بستی تھی اور بھی بہت سے لوگ اس سبق سے نا آشنا تھے لیکن یہ نئی بستی جہاں ایک طرف مدینہ سے مشابہت رکھتی ہے اس لحاظ سے کہ ہم قادیان سے ہجرت کرنے کے بعد یہاں آئے وہاں دوسری طرف یہ مکہ سے بھی مشابہت رکھتی ہے کیونکہ یہ نئے سرے سے بنائی جارہی ہے اور محض احمدیت کے ہاتھوں سے بنائی جارہی ہے جس طرح حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل علیہما السلام کے ہاتھ سے اللہ تعالے نے مکہ معظمہ بنوایا وہاں بھی خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل علیہما السلام کی نسل سے ہی کہا تھا کہ تم اپنی روٹی کا ذمہ دار مجھے سمجھنا کسی بندے کو نہ بجھنا پھر میں تم کو دوں گا اور اس طرح دوں گا کہ دنیا کے لئے حیرت کا موجب ہو گا چنا نچہ دیکھ لو ایسا ہی ہوا مکہ والے بے شک محنت مزدوری بھی کرنے لگ گئے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں اگر وہ محنت مزدوری چھوڑ دیتے تب بھی جیس طرح بنی اسرائیل کے لئے خدا تعالیٰ نے ایک جنگل میں من و مسلولی نازل کیا تھا اسی طرح مکے والوں کے لئے من و سلوی اترنے لگے کیونکہ وہاں پر رہنے والوں کا رزق خدا تعالیٰ نے اپنے ذمہ لیا ہوا ہے اسی طرح ہم کو بھی اس جنگل میں جس جگہ کوئی آبادی نہیں تھی تھیں جگہ رزق کا کوئی سامان نہیں تھا جو مکہ کی طرح ایک وادي غیر ذی زرع تھی اور جہاں مکہ کی طرح کمھاری پانی ملتا ہے اور جو اس لحاظ سے بھی منہ سے ایک مشابہت رکھتا ہے کہ مکہ کی طرح یہاں کوئی سبزہ وغیرہ نہیں اور پھر مکہ کے گرد میں طرح پہاڑیاں ہیں اس طرح اس مقام کے ارد گرد پہاڑیاں ہیں.اللہ تعالیٰ نے موقع دیا ہے کہ ہم ایک نئی بستی اللہ تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے کے لئے بسائیں پس اس موقع پر ہمیں بھی اور یہاں کے رہنے والے سب افراد کو بھی یہ عزم کر لینا چاہیئے کہ انہوں نے خدا سے مانگتا ہے کسی بندے سے نہیں مانگنا تم اپنے دل میں سہنسو تمسخر کرو کچھ سمجھو حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں سب سے معززہ روزی وہی ہے جو خدا تعالیٰ سے مانگی جائے.وہ کوئی روزی نہیں جو انسان کو انسان سے مانگ کر ملتی ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے (مگر یہ اعلی مقام کی بات ہے اور اعلیٰ درجہ کی روحانیت کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اور شاہ تم میں سے بہتوں کی سمجھ میں بھی نہ آئے ) کہ وہ روزی بھی اتنی اچھی نہیں جو خدا تعالیٰ سے مانگ کر مانتی ہے، بلکہ اعلیٰ روزی وہ ہے جو
۳۵ خدا تعالیٰ خود دیتا ہے اور بے مانگے کے دیتا ہے.مجھے اپنی زندگی میں ہمیشہ ہنسی آتی ہے اپنی ایک بات پر اگر یہ ابتدائی مقام کی بات تھی اور اعلی مقام ہمیشہ ابتدائی منازل کو طے کرنے کے بعد ملتا ہے اور ابتدائی مقام یہی ہوتا ہے کہ انسان سمجھتا ہے میں نے خدا سے مانگنا ہے) کہ میں نے بھی بغدا سے کچھ مانگا اور اپنے خیال میں انتہائی درجہ کا مانگا مگر مجھے ہمیشہ ہنسی آتی ہے اپنی بیوقوفی پر اور ہمیشہ گلف آتا ہے خدا تعالیٰ کے انتظام پر کہ جو کچھ ساری عمر کے لئے لیکں نے مانگا تھا وہ بعض دفعہ اس نے مجھے ایک ایک ہفتہ میں دے دیا ئیں زمین پر شرمندہ ہوں کہ میں نے کیا حماقت کی اور اس سے کیا مانگا اور وہ آسمان پر ہنستا ہے کہ اس کو ہم نے کیسا بدلہ دیا اور کیسا نام اور شرمندہ کیا.پھر میں نے سمجھا کہ مانگنا بھی فضول ہے کیوں نہ ہم اللہ تعالیٰ سے ایسا تعلق پیدا کریں کہ وہ ہمیں بے مانگے ہی دیتا چلا جائے ایک شخص جو کسی بڑے آدمی کے گھر مہمان جاتا ہے وہ اگر اس سے کیا کر کہے کہ صاحبہ میں آپ کے گھر سے کھانا کھاؤں گا تو اس میں میزبان اپنی کتنی ہتک محسوس کرتا ہے جب وہ اس کے ہاں مہمان آیا ہے تو صاف بات یہ ہے کہ وہ اس کے ہاں سے کھانا کھائے گا.اس کا یہ کہنا کہ میں آپ کے ہاں سے کھانا کھاؤں گا یہ مفہوم رکھتا ہے کہ وہ میزبان کے متعلق اپنے دل میں یہ باظتی محسوس کرتا ہے کہ شائد وہ کھانا نہ کھلائے.اسی طرح اللہ تعالی کا جو مہمان ہو جاتا ہے اسے اللہ تعالیٰ خودکھلاتا اور پلاتا ہے اگر وہ اس سے مانگے تو اس میں اس کی اعلیٰ وارفع شان کی بہتک ہوتی ہے.مگر خدا کا سلوک ہر بندے سے مختلف ہوتا ہے.وہ جو ندا کے لئے اپنی زندگی وقف نہیں کرتے ان کو بھی وہ روزی ہم پہنچاتا ہے اور جو اس کے لئے اپنی ساری زندگی کو وقف کئے ہوئے ہوتے ہیں ان کو بھی روزی ہم پہنچاتا ہے.وہ فرماتا ہے كُلَّا نُمَدُ هَؤُلَاء وَهُؤلاء ہم اس کے لئے بھی روزی کا انتظام کرتے ہیں جو ایمان سے خارج اور دہریہ ہوتا ہے اور اس کے لئے بھی روزی کا انتظام کرتے ہیں جو ہم پر کامل ایمان رکھنے والا ہوتا ہے.یہ دو گروہ ہیں جو الگ الگ ہیں.ایک وہ ہے جو ہمیں گالیاں دیتا ہے اور کہتا ہے کہ میں خود کمائی کروں گا اور اپنی کوشش سے رزق حاصل کروں گا.ایک گروہ وہ ہے جو کہتا ہے کہ کمائی لغو چیز ہے بلکہ میں نے تو خدا تعالیٰ اسے بھی نہیں مانگنا اس کی مرضی ہے چاہیے دے یا نہ دے.فرماتا ہے ہم اس گروہ کو بھی دیتے ہیں اور اُس گروہ کو بھی دیتے ہیں.ایک ھؤلاء ان لوگوں کی طرف جاتا ہے جو بد ترین خلائق ہوتے ہیں اور جو مادیات کے اتنے دلدادہ اور عاشق
ہوتے ہیں کہ سمجھتے ہیں سب نتائج کی بنیا د مادیات پر ہی ہے اور ایک ھؤلاء ان لوگوں کی طرف جاتا ہے جو مادیات سے بالکل بالا ہو کر اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں کہ سمجھتے ہیں ہم نے خدا سے بھی نہیں مانگنا اور ایک درمیانی گروہ ہوتا ہے وہ اپنے اپنے درجہ کے مطابق ظاہر میں کچھ مادی کوششیں بھی کر لیتے ہیں اور پھر ساتھ اس کے اللہ تعالیٰ پر توکل بھی رکھتے ہیں کبھی مانگتے ہیں اور کبھی نہیں مانگتے یا اپنی نہ ندگی میں سے کچھ عرصہ کوشش اور بعد و جہد کرتے ہیں اور کچھ عرصہ کوشش اور جدوجہد کو ترک کر دیتے ہیں.ظاہری تدبیر حضرت خلیفہ اول یعنی اللہ عنہ نے بھی کی.آپ طب کرتے تھے اور روپیہ کماتے تھے اور ظاہری تدبیر ہم نے بھی کی ہم بھی زمیندارہ کرتے ہیں اور بعض دفعہ تجارت بھی کر لیتے ہیں مگر اس نیت سے کرتے ہیں کہ اس کا نتیجہ خدا تعالیٰ کی مرضی پر منحصر ہے.اگر وہ کہے کہ میں نے تمہیں کچھ نہیں دینا تو ہمیں اس سے کوئی شکوہ زمیں ہو گا ہمیں اس کے فیصلہ پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا ہم پھر بھی یہی کھیں گے کہ وہ ہماری اتنی ہی حمد کا مستحق ہے جتنی حمد کا اب تحق.ہے بلکہ وہ ہماری اتنی حید کا مستحق ہے جتنی حمد م کر بھی نہیں سکتے ہیں اس مقام کے رہنے والوں کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ تو کل سے کام لیں اور ہمیشہ اپنی نگاہیں اللہ تعالیٰ کی طرف بلند رکھیں جو دیا تدار احمدی ہیں میں ان سے کہوں گا کہ اگر و کسی وقت یہ دیکھیں کہ وہ تو کل کے مقام پر قائم نہیں رہے تو وہ خود بخود یہاں سے پہلے جائیں اور اگرخود نہ جائیں تو جب ان سے کہا جائے کہ چلے جاؤ تو کم سے کم اس وقت ان کا فرض ہو گا کہ وہ یہاں سے فوراً چلے جائیں.یہ جگہ خدا تعالیٰ کے ذکر کے بلند کرنے کے لئے مخصوص ہونی چا ہیے یہ جگہ خدا تعالیٰ کے نام کے پھیلانے کے لئے مخصوص ہونی چاہیے.یہ جگہ خدا تعالیٰ کے دین کی تعلیم اور اس کا مرکز بننے کے لئے مخصوص ہونی چاہیئے ہم میں سے ہر شخص کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنی اولاد اور اپنے اعزہ اور اقارب کو اس رستہ پر چلانے کی کوشش کر ہے.یہ ضروری نہیں کہ وہ اس کوشش میں کامیاب ہو سکے.نوح کی کوشش کے باوجود اس کا بیٹا اس کے خلاف رہا.لوط کی کوشش کے باوجود اسکی بیوی اس کے خلاف رہی.اسی طرح اور کئی انبیاء اور اولیاء ایسے ہیں جن کی اولادیں اور بھائی اور رشتہ دار ان کے خلاف رہے ہم میں سے کوئی شخص یہ نہیں کر سکتا کہ وہ اپنے خاندان میں سے کتنوں کو دین کی طرف لا سکے گا مگر اس کی کو شمش ہی ہونی چاہئیے کہ اس کی ساری اولاد اور اسکی ساری نسل دین کے پیچھے چلے اور اگر اس کی کوشش کے باوجود اس کا کوئی عزیز اس رستہ سے دُور
پسرم چلا جاتا ہے تو سمجھ لے کہ وہ میری اولادین سے نہیں میری اولا دو ہی ہے جو اس منشاء کو پورا کرنے والی ہے جو الی منشاء ہے جو شخص دین کی خدمت کے لئے تیار نہیں وہ ہماری اولا دمیں سے نہیں ہم اپنی اولاً کو مجبور نہیں کر سکتے کہ وہ ضرور دین کے پیچھے ملیں ہم ان کے دل میں ایمان پیدا نہیں کر سکتے خدا ہی ہے جو ان کے دلوں میں ایمان پیدا کرسکتا ہے لیکن ہم یہ ضرور کر سکتے ہیں کہ جو اولاد اس منشاء کو پورا کرنیوالی نہ ہوا سے ہم اپنے دل سے نکال دیں.بہر حال اگر خدا تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں اعلیٰ مقام دے تو ہمیں کوشش کرنی چاہئیے کہ صرف ہم ہی نہیں بلکہ ہماری آئندہ نسلیں بھی اس مقام کو دین کا مرکز بنائے ھیں اور ہمیشہ دین کی خدمت اور اس کے کلمہ کے اعلاء کے لئے وہ اپنی زندگیاں وقف کرتے چلے جائیں لیکن اگر ہماری کسی غلطی اور گناہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ یہ مقام نہیں نصیب نہ کرے اور ہماری ساری اولادیں یا ہماری اولادوں کا کچھ حصہ دین کی خدمت کرنے کے لئے تیار نہ ہو.اللہ تعالیٰ پر توکل اسکے اندر نہ پایا جاتا ہو.ندا تعالیٰ کی طرف انابت کا مادہ اس کے اندر موجود نہ ہو تو پھر ہمیں اپنے آپ کو اس امر کے لئے تیار رکھنا چاہیے کہ جس طرح ایک مرد جسیم کو کاٹ کر الگ پھینک دیا جاتا ہے اسی طرح ہم اس کو بھی کاٹ کر الگ کر دیں، اور اس جگہ کو دین کی خدمت کرنے والوں کے لئے ان سے خالی کروالیں اے منافق طبع لوگوں کی املات کرنے اور سیدنا حضرت امیرالمونین الصلح الموجو نے ار ماه نبوت ۱۳۲۸۵/ نومبر کو مقام خلیفہ وقت کو انکی اطلاع دینے کی تحر یک انبوہ ایک اہم خطبہ ارشاد فرمایا ج میں تحریک فرمائی کہ منافق طبع لوگوں کی اصلاح کی جائے اور خلیفہ وقت کو ایسے لوگوں کی اطلاع دی جائے.نیز اس امر تفصیل سے روشنی ڈالی کہ طبقہ منافقین کے پیدا ہونے کے بنیادی وجوہ اور اسباب کیا ہیں چنانچہ فرمایا : ی طبقہ کہاں سے آتا ہے ؟ اس کے متعلق یاد رکھنا چا ہیئے کہ اس کی موٹی موٹی جگہیں یہ ہیں.قرآن کریم میں آتا ہے ، بعض لوگ دلائل ہیں کہ ایمان لے آتے ہیں لیکن جب ان سے قربانیوں کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو وہ ان کی برداشت نہیں کرسکتے.مثلاً جب وہ نماز نہیں پڑھتے تو لوگ ان سے پوچھتے له الفضل ٦- انهاء ۱۳۵۲۸۵ / اکتوبر ۴۱۹۲۹ صفحه ۰۵:۴،۳
۳۸ ہیں کہ تم نماز کیوں نہیں پڑھتے.آخر اس سوال کا وہ کیا جواب دیں گے.کیا وہ یہ جواب دیں گے کہ بھئی ہم کمزور ہیں گنہگار ہیں.اس جواب کے لئے بڑی ہمت کی ضرورت ہوتی ہے.ان کا جواب یہ ہوتا ہے کہ یکس نے تمہارے بڑے بڑے آدمیوں کو دیکھا ہوا ہے وہ بھی نمازیں نہیں پڑھتے گویا وہ اپنا الزام دوسرش پر لگا دیں گے تا ان کا وہ عیب چھپ سجاوے.یہ بات ان سے اگر کوئی کمزور ایمان شخص سن لے گا تو وہ دوسری جگہ پر بجائے گا اور کہے گا کہ میں نے ایک معتبر شخص سے سُنا ہے کہ فلاں فلاں شخص نماز نہیں پڑھتا وہ معتبر شخص کون ہو گا وہ معتبر شخص وہی منافق ہوگا جس نے اپنا عیب چھپانے کے لئے اپنا الزام دوسروں پر لگا دیا یا مثلا چندہ ہے ایک شخص چندہ نہیں دیتا لوگ اس سے پوچھتے ہیں کہ بھٹی تم چندہ کیوں نہیں دیتے.وہ اپنے عیب کو چھپانے کے لئے کہہ دیتا ہے کہ بھٹی چندہ کیا دیں مرکز میں بیٹھے لوگ چندے کھا رہے ہیں.یہ تو کوئی شخص نہیں کہ سکتا کہ میں بے ایمان ہوں، کمزور ہوں اس لئے چندہ نہیں دیتا بجائے اس کے کہ وہ کہے بھٹی میں بے ایمان ہوں ، کمزور ہوں وہ کہہ دیتا ہے مرکز میں بڑے بڑے لوگ چندے کھا رہے ہیں اس لئے میں چندہ نہیں دیتا.اس طرح وہ اپنی عزت کو بچانا چاہتا ہے.غرض بد عمل لوگ اپنے عیب اور کمزوری کو چھپانے کے لئے اور اس پر پردہ ڈالنے کے لئے ہمیشہ دوسروں پر الزام لگاتے ہیں.ان لوگوں کی بڑی پہچان یہ ہے کہ پہلے معترض کا اپنا عمل دیکھا جائے کہ وہ چندہ دیتا ہے یا دیانتداری میں خود شہو ر ہے یا وہ خود تو کسی سے دھوکہ نہیں کرتا.اگر وہ خود چندہ دیتا ہے، وہ خود دیانتداری میں مشہور ہے تب تو ہم یہ شبہ کر سکتے ہیں کہ شاید اس کی بات سچی ہو یا شاید اس نے کسی غلط فہمی کی بناء پر کوئی بات کہہ دی ہو لیکن جس کی دیانت خودمشتبہ ہے وہ خود چندہ نہیں دیتا اور پھر وہ دوسروں پر اعتراض کرتا ہے وہ منافق ہے پس ہر وہ شخص جو دوسروں پر خیانت اور بد دیانتی کا الزام لگائے پہلے اسے دیکھو کہ آیا وہ خود دیانتدار ہے خود چندوں میں چست ہے.اگر وہ خود ایماندار ہو تب تو میشک اس کی بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے لیکن پھر بھی یہ ضروری نہیں کہ اس کی بات فی الواقع بچی ہو.ہوسکتا ہے کہ وہ جو کچھ کہ رہا ہے محض غلط فہمی کی بناء پر ہو.دوسری وجہ منافقت کی یہ ہوتی ہے کہ نئی نسل کی تربیت اچھی نہیں ہوتی پہلے لوگ تو سوچ سمجھ کر ایمان لاتے ہیں لیکن نئی نسل تو سوچ سمجھ کر ایمان نہیں لائی ہوتی وہ تو پیدائشی احمدی ہوتے ہیں اس لئے بڑی تربیت کی وجہ سے وہ جلد منافقت کی طرف مائل ہو جاتے ہیں.جو
۳۹ سوچ سمجھ کر ایمان لاتا ہے اس کا ایمان اتنا کمزور نہیں ہوتا کہ ٹھوکر کھا جائے لیکن جو شخص سوپ سمجھے کہ ایمان نہیں لایا بلکہ محض پیدائش کی وجہ سے وہ احمدی ہے اس کا ایمان اتنا مضبوط نہیں ہوتا جتنا اس شخص کا جو خود سویتا سمجھ کر ایمان لایا ہوں.مفوض نئی گو د میں بھی منافقت زیادہ گھر کر جاتی ہے.اب اگر یہ صحیح ہے کہ ہر احمدی کی تربیت اچھی نہیں تو یہ ماننا پڑے گا کہ منافقت احمدیوں میں بھی ہو سکتی ہے.منافقت کی تیسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ بعض دفعہ ایمان دار اور نامی شخص بھی کمزوری دکھا جاتا ہے.اور چونکہ ہر کمزوری معاف نہیں ہوسکتی اس لئے بعض دفعہ اسے سلسلہ کی طرف سے سزادی جاتی ہے اور بعض اوقات اس سزا کی وجہ سے وہ ٹھوکر کھا جاتا ہے یا اس کے اندر لنبض اور کینہ پیدا ہو جاتا ہے پس اگر کوئی شخص منافقت والی بات کر رہا ہو تو دیکھو کہ آیا وہ ایسا شخص تو نہیں جسے کسی جوم کی بناء پر سلسلہ کی طرف سے سزادی گئی ہو یا اس کے کسی قریبی رشتہ دار یا دوست کو سزا دی گئی ہو اگر ایسا ہے تو یہ زیادہ قرین قیاس ہے کہ وہ اپنا بدلہ لے رہا ہے.جو لوگ مخلص نہیں وہ میرے مخاطب نہیں لیکن جو لوگ پیچھے مبائع اورمخلص ہیں میں انہیں ہدایت دیتا ہوں کہ ایسے لوگ جہاں کہیں بھی ہوں ان کی اطلاع مجھے دیں بعض اطلاعیں مجھے مل چکی ہیں اور ان کے متعلق میں قدم اُٹھانے والا ہوں لیکن اگر تم لوگ بھی مجھے اطلاع دیتے رہو گے تو مجھے اپنے کام میں مدد ملے گی مثلاً میرے پاس ایک روایت پہنچتی ہے کہ فلاں شخص منافق ہے لیکن ایک روایت کے ساتھ کسی کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا جا سکتا اور اگر ہم اس شخص کا نام پہلے ہی لے دیں تو اس کے خلاف غلط روایات جمع ہونی شروع ہو جائیں گی اس لئے ایسا کرنا اس پر ظلم ہو گا لہوں جماعت کے ہر فرد کو چاہیے کہ جہاں کہیں بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہوں جو ایسے لوگوں کے سامنے باتیں کرتے ہوں جو اصلاح پر مقرر نہیں کئے گئے ان کی اطلاع مجھے دے.اصلاح پر مقرر خلیفہ ہے.صدر انجمن احمد یہ ہے مجلس شوری ہے.ناظر ہیں اور بعض کاموں میں تحریک تجدید اور تحریک تجدید کی انجمن ہے اور ان کے بدالوک ایر اور لوکل امیر کی انجن سے میں کسی فرد کا نام ہیں لے رہا.اگر ان سات کے سامنے کوئی شخص کوئی بات کرتا ہے تو وہ منافق نہیں اس لئے کہ یہ اصلاح پر مغرور ہیں لیکن ان سات کے سوا اگر وہ کسی اور کے سامنے کوئی بات کرتا ہے تو ہم اسے منافق کہیں گے یہ ضروری نہیں کہ وہ منافق ہو لیکن وہ اس
بات کا اہل ہے کہ اس کا جائزہ لیا جائے کہ آیا وہ امتی ہے یا منافقی پس اگر کوئی شخص خلیفہ وقت نظام جماعت یا افراد جماعت کے خلاف ان سات قسم کے لوگوں کے سوا کسی اور کے سامنے کوئی بات کرتا ہے تو ایسے شخص کی رپورٹ میرے پاس آنی چاہیئے تاکہ اگر وہ اصلاح کے قابل ہے تو اس کی اصلاح کی جائے ہمارے ہاتھ میں صرف یہی ہے کہ ہم اس کا مقاطعہ کر دیں یہ نہیں کہ اسے مار پیٹ کریں مار پیٹ کرنا گورنمنٹ کے ہاتھ میں ہے.بہر حال جماعت کو زندہ رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ اس قسم کے لوگوں کی اصلاح کی جائے کہیں پھر یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ رحم کے یہ معنے نہیں کہ باغ میں گھاس اُگا ہو اور اسے کاٹا نہ جائے اگر کوئی باغبان اس گھاس پر رحم کرتا ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ درخت مرجھائے گا.اگر کوئی شخص سانپ پر رحم کرتا ہے تو اس کے یہ معنے ہیں کہ سانپ اس کے بچہ کو کاٹ لے گا.باؤلے گئے پر اگر کوئی رحم کرتا ہے تو اچھے شہری مارے جائیں گے یہ رحم نہیں ظلم ہے.رحم کی مستحق سب سے اول جماعت ہے.رحم کا ستحق سب سے اول سلسلہ ہے.رحم کا ستحق سب سے اول نظام سلسلہ ہے.اور جو شخص ان کے خلاف باتیں کرتا ہے وہ اس قابل نہیں کہ اسے جماعت میں رہنے دیا جائے یا راہ حضرت مصلح موعود نے اس تحریک کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا :- منافق لوگ جماعت کو یا مجھے اس وقت تو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے کیونکہ یہ ہماری ترقی کا رنا ہے.اس وقت ان کی حیثیت ایک مچھر کی بھی نہیں مچھر کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے مگر وہ کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے لیکن پھر بھی انہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اگر یہ بیچ قائم رہا تو جب جماعت کمزو ہو جائے گی اس وقت اسے نقصان پہنچائے گا اس لئے ہمارا یہ فرض ہے کہ نہ صرف ہم اپنی اصلاح کریں بلکہ ایسے لوگوں کی بھی اصلاح کریں جو جماعت کے لئے آئندہ کسی وقت بھی مضر ہو سکتے ہیں.پس ان لوگوں کو کچلنا ہمارا فرض ہے خواہ ان کے ساتھ ان سے ہمدردی رکھنے والے بعض بڑے لوگ بھی کچلے جائیں اور ہر مخلص اور بچے مبالغ کا یہ فرض ہے کہ وہ اس بارہ میں میری مددکر ہے اور ایسے لوگوں کے متعلق مجھے اطلاع دے.اور اگر کوئی احمدی میرے اس اعلان کے بعد اس کام میں کو تا ہی کرے گا تو خدا تعالیٰ کے نزدیک مومن نہیں ہو گا بلکہ اُس کی بیعت ایک تسخر بن جائے گی کیونکہ سه روزنامه الفضل مورخہ یکم فتح ١٣٣١ / یکم دسمبر (۱۹۴ء ص ۵۲)
اس نے جان و مال اور عزت کے قربان کرنے کا وعدہ کیا لیکن جب خلیفہ وقت نے اسے آواز دی تو اس نے کسی کی دوستی کی وجہ سے.اس آواز کا جواب نہیں دیا.پس ہر احمدی کا یہ فرض ہے کہ وہ منافقین کی اطلاع مجھے دے.تم اس بات سے مت ڈرو کہ سو میں سے پچاس احمدی نکل جائیں گے تم پچاس سے ہی سو بنے ہو بلکہ تم ایک سے سوہنے ہو پھر اگر سو میں سے پچاس نکل جائیں گے تو کیا ہوا پس یہ مت خیال کرو کہ ان لوگوں کے نکل جانے سے جماعت کو کوئی نقصان پہنچے گا.گھاس کاٹ دینے راه سے باغ سے سبزہ تو کم ہو جاتا ہے لیکن درخت نشو نما پاتا ہے اور باغ زیادہ قیمتی ہو جاتا ہے.جناب ملک صاحب خان صاحب نون ریٹائر ڈ پٹی اکثر حضرت مصلح موعود کا لیکچر سرگودها کا نے حضرت امیر المومنین اصلح الموعود کی خدمت میں سرگودہا تشریف لانے اور اپنے خطاب سے اہل سرگودھا کو نوازنے کی درخواست کی تھی ہو حضور نے قبول فرمائی چنانچه حضور دارماہ نبوت ۱۳۲۸/ نومبر ۲۹ہ کو سرگودھا تشریف لے گئے اور نماز جمعہ پڑھانے کے بعد کمپنی باغ کے وسیع احاطہ میں ایک نہایت پر عمارت اور مؤثر تقریر فرمائی جس میں پاکستانیوں کو بدلے ہوئے حالات ہیں ان کی نئی ذمہ داریوں کی طرف بڑے دلنشیں پیرا نہیں تو جہ دلائی.یہ تقریر یا ان کے سر پر سے شروع ہو کر شام کے چھے بجے تک جاری رہی حضور کا خطاب پلک نے کمال ذوق و شوق اور دطبیعی سے سنا اور مجمع پر کتے کا ساعالم طاری رہا.رو مائے شہر اور حکام ضلع کے علاوہ سرگودھا کے دیگر معززین اور غیر احمدی احباب ہزار ہا کی تعداد میں تشریف لائے اور حضور کے روح پرور ارشادات سے مستفیض ہوئے.علاوہ ازیں سرگودھا کے علاوہ پنجاب کے دوسرے اضلاع کی احمدی جماعتوں کے دوست بھی کثیر تعداد میں شامل جلسہ ہوئے.ان دنوں جناب مرزا عبد الحق صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ سرگودھا کے فرائض سرانجام دے رہے تھے.آپ نے قریباً اڑھائی ہفتہ پیشتر بذریعہ الفضل حضور کے لیکچر کی خوش کنی خیر شائع کرائی نیز اطلاع دی کہ احباب کے لئے دو پہر و شام کے کھانے اور قیام کا انتظام ملک صلوح فان صاحب نون کی کوٹھی پر ہوگا.آپ نے یہ بھی اعلان کیا کہ ضلع سرگودھا کے احمدی نوجوان دس نومبر لعینی یک رات کی دوپہر کو سرگودھا پہنچ جائیں تا ہر وقت انتظامات جلسہ میں حصہ لے سکیں لیے اس جلسہ کے 0/1909 شد روزنامه افضل یکم فتح ه۱۳۲۸ دسمبر ۱۹۳۹ مه به سه روز نامه افضل ۲۵ را خار هر ۱۳۲۸ بر اکتوبر ۶۱۹۲۹ / که روزنامه
۴۲ ناظم محمد اقبال صاحب پراچہ (جنرل مینجر دی یو نائیٹیڈ ٹرانسپورٹ سرگودھا) تھے جنہوں نے افضل مورخه بار نبوت ۱۳۲۸۵/ / نومبر ۱۹۹۹ء میں عازمین جلسه سر نومبر میں عازمین جلسہ سر گودھا کے لئے ایک ضروری نوٹ لکھا اور مہمانوں سے انتظامات مجلسہ کی مشترکہ ذمہ داری میں تعاون کی اپیل کی.محترم پر اچھہ صاحب نے لاہور سے سرگودھا جانے والے احباب کی سہولت کے پیش نظر سپیشل بسوں کا بھی انتظام کیا جیسا کہ اخبار الفضل در نبوت هر ۱۳/ نومبر ۱۹۲۶ صفحه ۲ سے پتہ چلتا ہے.مرزا عبدالحق صاحب ایڈوکیٹ امیر صوبائی پنجاب اپنی سوا کے میں اسی عظیم الشان جلسہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :- ۴۱۱۹۴۹, ۱۹ء میں ہم نے سرگودھامیں ایک جلسہ عام کمپنی باغ میں کروایا جس میں حضرت خلیفہ ایسے الثانی کی تقریر ہوئی جس کا بہت اچھا اثر ہوا.اس جلسہ کہ سارے اخراجات محترم ملک صاحب خاں صاحب نون رئیس سرگودھا نے اور کئے.اس میں بہت وسیع پیمانے پر کھانے کی دعوت بھی دی گئی جس میں حکام اور روس کو بھی شامل کیا گیا مولویوں نے اس جلسہ کو منسوخ کر وا نا چا ہالیکن ڈپٹی کشت تمہیں پہلے اجازت دے چکے تھے انہوں نے منسوخ کرنے سے انکار کر دیا یا اسے فصل پنجم احمد یه کم میشن گلاسگو کا قیام سکاٹ لینڈ برطانیہ کلاں کا ایک ملک ہے جو لے ہی سے انگلینڈ کے ساتھ قانونا الحاق رکھتا ہے انگلینڈ کی طرح اس ملک کے پر انسٹنٹ چرچ کو بھی بہت شہرت حاصل ہے جس کے مدارس البیات ایڈنبرا (FDANBURGH ) گلاسگو (GLASSW) اور ایبرڈن (ABERDEEN ) میں قائم ہیں گلاسگو سکاٹ لینڈ کا سب سے بڑا اور برطانیہ میں لنڈن کے بعد دوسرے نمبر کا شہر ہے جہاں پاکستان، اه تابعین اصحاب احمد مجلد هفتم صدا که شبیع اول ماہ نومبر ۱۹مه به تقریر کا کمل متن الفضل ۲۸ نومبر اور ۱۹۷۱ : ۵ دسمبر ۱۹۶۲ء میں شائع ہوا ہے انسائیکلو پیڈیا بریٹیز کا زیر لفظ سکاٹ لینڈ
۴۳ ہندوستان اور مصر کے مسلمان بھی خاصی تعداد میں آباد ہیں کمیونٹی ریلیشنز کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق سکاٹ لینڈ میں مقیم پاکستانیوں کی تعداد چھ ہزار اور بھارتیوں کی تعداد چار ہزار تک پہنچ گئی ہے لیے سکاٹ لینڈ میں اسلام و احمدیت کا بیج حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس مشن کی بنیاد دانوں کے در کے قریب لایا گیا ایسا اینٹ یونیورسٹی کی ایک طالبہ مس وائٹ لو (MISS.WHITE LOW ) اور مسٹر فیر شا(MR.FARSHAK) نے قبول اسلام کیا ہے ضرور تھی لہ میں حضرت مصلح موعود کی خاص ہدایت پر مسٹر بشیر احمد آرچرڈ نے گلاسگو میں اور ریسل مین کی بنیاد رکھی ہے یہاں آپ کے سوا اور کوئی احمدی نہ تھا مگر دو راہ بھی نہ ہوئے تھے کہ ابتدائی تبلیغی سرگرمیاں انسداد حلقہ بگوستیں احمدیت ہوگئے جی میں سے دو جن ایک کا نام بشیر احد اور دوسرے کا عبدالحق پنداشت PINDER) تھا مقدم الذکر حکمہ ریلوے میں کام کرنے والے ایک پاکستانی تھے اور دوسرے سکاٹش مسلمان.ر ماہ ہجرت ۱۳۲۸۰ مئی ۱۹۴۹ کو مسٹر بشیر آرچرڈ نے تبلیغ اسلام کے لئے پہلی پبلک میٹنگ منعقد کی اور اس کے بعد باقاعدگی سے لیکچروں کے ذریعہ پیغام حق کا معلقہ وسیع کرنے لگے چنانچہ گلاسگو کے بعد، ار ظهور ۲ / اگست ۱۹۴۷ء کو ایڈنبرگ میں بھی ایا اس کرنے کا اہتمام کیا جو بہت کامیاب رہا.اسی طرح گلا سٹر میں بھی آپ نے لیکچر دیا.اس کے علاوہ آپ نے سکاٹ لینڈ میں اسلامی لٹریچر کے پھیلانے کی طرف بھی توجہ دینا شروع کردی راد مساوات لاہور ۱۳ جون ئه مه له افضل ۲۷ امضاء ۱۳۹۶ / اکتوبر ۱۹۴۰ ص۲ مد سے رپورٹ مرسلہ بشیر آرچرڈ زیر عنوان " TABLIGH IN SCOTLAND" : " الفضل ۲۰ رایان ه ۳۲ مگ گلاسگو میں آپ ابتداء CASTLE MILK CRESCENT, CROFT FOOT 69 میں رہتے تھے بعد از ان دوسرے مقامات میں رہائش پذیر ہوئے مثلاً (1) 279 ROAD, GLASGOW 0.2 LANGCIDE (2) 36 ROAD House MANSION GLASGOW S.t شو الفضل ١٩ هجرت حية الفضل ١٢ احسان ه۱۳۳۲۸ ص :
اور اپنی سرگرمیوں کا آغاز مندرجہ ذیل پمفلٹوں سے کیا :- - تبریج یسوع ہندوستان میں (THE TOMB OF JESUS-CHRIST IN INDIA) مرتبہ حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس امام مسجد لنڈن.- کلیسیا کے نام کھلا چیلنچ (AN OPEN CHALLENGE TO THE CHURCH) از چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ.↓ (A ۳.ایک آسمانی پیغام ( A DIVINE MESSAGE ماه ظهور ۱۳۲۹ اگست 192 ء میں آپ نے سائیکلوسٹائل مشین سے مسلم ہیرلڈ کا اجراء ایک اہوار رسالہ مسلم ہیرالڈ (MUSLIM HERALD) جاری کیا.ماه شهادت ۱۳۳۹ / اپریل سنٹر میں آپ کی جدو جہد سے گلاسگو میں پہلی بار یوم پیشوایان مذاہب منایا گیا جس میں نہیں افراد شامل ہوئے.ماہ احسان ها ۳۲ کر جون ۹۵ہ سے آپ نے تبلیغی سرگرمیاں تیز تر کر دیں اور ھر گھر پہین کا اسلام و احمدیت کی دناری کی او بگلاسگو کے بڑے بڑے سماجی اور بندہ ہیں لیڈروں کو اسلامی لٹریچر بھجوایا یے ماه اضاءه ۱۳۲۹۵ / اکتوبر ۱۹۵۰ میں پرچ بشپ آن یارک اور پوپ کو دعوت مذاکره آپ نے آرچ بشپ آن یارک (ARCH BISHOP OF YARK ) اویج کے دوبارہ جی اٹھنے اور آسمان پر چڑھ جانے کی نسبت چیلنج دیا مگر انہیں یہ چلینج قبول کرنے کی جرأت نہ ہو سکی.اگلے سال آپ نے منہ کے شروع میں پوپ ۶۱۹۵۱ سے یہ پمفلٹ عبدالرحمن صاحب دہلوی (حال کارکن نظارت امور عامہ ) نے جماعت احمدیہ کوئٹہ سے چندہ جمع کر کے شائع کرایا تھا اور اس کے ڈاک خرچ کا ایک حصہ شیخ محمد اقبال صاحب (خلف الرشید حضرت شیخ کریم بخش صاحب نے ادا کیا.یہ پمفلٹ یک ورقہ اور ایک طرف چھپا ہوا تھا اور اس کی پہلی قسط بجو دو ہزار پر مشتمل تھی ۱۸ روفا ۲۶ / جولائی ۱۹۴۹ئر کو مسٹر بشیر آو پرڈ کے پاس پہنچی جیسا کہ اُن کی ایک تبلیغی رپورٹ میں درج ہے : که بعنوان " A CHALLANGE POPE TO THE AND HIGH DIGNITARIES"
۴۵ اور کلیسا کے دوسرے مذہبی راہنماؤں کو بذریعہ اشتہاری دعوت مذاکرہ دی مگر پوپ کے سیکرٹری کی رسید کے سوا کوئی جواب نہیں دیا گیا.۱۳۳۰ ر میں آپ نے اشاعت اسلام کے حلقہ کو وسیع حلقہ اشاعت اسلام میں وسعت کرنے کے لئے متعد نئے اقدامات کئے مثلاً ہر اتوار کو اسلامی لٹریچر کا سٹال لگانا شروع کیا جس سے تبلیغ کی نئی راہیں کھیلیں گلاسگو کی لائبریریوں میں اسلامی لڑ پر رکھوایا اسے مکرو سیم سیفی صاحب رئیس التبلیغ مغربی افریقہ اور پھر کر ملک عمر علی صاحب کے ہمراہ آپ نے تبلیغی دورہ کیا اور یہوواہ ٹینس ( JEHOVA WITNESSES ) فرقہ کے لوگوں سے گفت گو کی حدة اس سال مسٹر بشیر آچرڈ نے عرشہ جہاز کے مسلمان عملہ سے بھی رابطہ قائم کیا.حضرت سیٹھ عبد اللہ الہ دین حنا نے اسلام اینڈ میں ( ISLAM AND PERCE ) کے دونستے مشن کو بھجوائے تھے جو آپ نے غیر مسلموں تک پہنچائے.علاوہ ازیں اپنے بہت سے مضامین سائیکلوسٹائل کر کے کتابی صورت میں شائع کئے.ان مضامین میں اسلام اینڈی سے اور کرسچین اویک کے خاص طور پر قابل ذکر ہیں.مؤخرالذکر مضمون کا عربی ترجمه اسْتَيْقِطُوا اَيُّهَا الْمَسِيحِتُونَ " کے عنوان سے فلسطین کے رسالہ البشرا کے میں بھی شائع ہوا.اللہ تعالیٰ نے آپ کی کوششوں میں برکت ڈالی اور ماہ فتح ۲۹ سے لے کر باہ شہادت ه تیک تیمی سعید رو میں قبول اسلام سے مشرف ہوئیں بیعت کرنے والوں میں دو لوگینڈ کے ہاشندے اور ایک سکائش تھا.انجاہد گلاسگو مسٹر بشیر آرچرڈ شروع سے ہی نہایت قلیل رقم پر گزارہ کو ہے مبلغ اسلام کا ایثار تھے.مر ظہورن (مطابق اگست ۱۹۴۹ء) کو ایک نومسلم انگریز در کے ہاں آپ کی شادی ہوئی جس سے آپ کے اخراجات میں اضافہ ہوا تاہم آپ نے مرکز سے اپنے مشاہرہ ه بعنوان HIGH DIGNITARIES" TO THE POPE · AND ISLAM AND PEAce ✓ "A CHALLANGE CHRISTIAN AWAKE ✓ که رساله البشری فلسطین اسناد و نبوت ۱۳۳۲ صفحه ۱۶۲ تا ۱۷۶ : شہ ان میں سے مسٹر بی ٹار زویکا ( MR.B.TOR EVERA ) کو پہلے ایمان نصیب ہوا.سیدنا حضرت الصلح الموعود نے ۱۸ر امان ۱۳۳۲ کو ان کی نسبت اپنے قلم مبارک سے لکھا.انعام اللہ نام رکھیں "
میں اضافہ کی کوئی درخواست نہ کی بلکہ ماہ احاد ۱۳۳۹ / اکتوبر شاہ سے اپنا ماہانہ تلیف الائونس (۵ پوند) بھی بند کرا دیا اور خود پر انے ٹکٹوں عطر اور سٹیشنری کی فروخت اور ٹائپ اور سائیکلو سٹائل کر کے مشن کے اخراجات چلانے لگے.مسٹر بشیر آکر چھڈ نے جب اس خطہ میں بغرض تبلیغ قدیم رکھا تو حالات سراست موفق رینیڈاڈ کو روانگی سے جو کہ ابتدا میں تھے حتی کہ ابتداء میں جب آپ نے اشتہارات کی تقسیم شروع کی توکئی لوگ سخت برہم ہوئے اور اشتہار پھاڑ کر زمین پر پھینک ڈالے مگر آپ نے پوری بشاشت اور استقلال کے ساتھ اشاعت اسلام کی جد و جہد جاری رکھی اور قریباً ساڑھے تین سال تک نہایت محبت ، اخلاص اور وفا شعاری سے پیغام حق پہنچاتے رہے اور ماہ اختار ه ۱۳۳ / اکتوبر تار میں مبلغ اسلام کی حیثیت سے ٹرینیڈاڈ تشریف لے گئے ہے ماه اختار هر ۳ اکتوبر ۱۹۵۷ متر گلاسگومش در تبلیغ لندن کی براہ راست نگرانی میں سے لے کر او خار مشت را اکتوبر ۱۱۶ مر تک گلاسگو مشن براہ راست بندانش کی نگرانی میں رہا.اس دوران میں متعد د پاکستانی احمدی یہاں پہنچ گئے اور ایک خاصی جماعت قائم ہو گئی جس کی تنظیم کے لئے مبلغ انگلستان بشیر احمد خان صاحبے فیق نے ۱۸ روفا ۱۳۳۸/ / جولائی ۱۹۵ئہ کو سکاٹ لینڈ کا خصوصی سفر کیا.لنڈن مشن کے ایک مخلص احمدی چوہدری عبد الرحمن صاحب بھی آپ کے ہمسفر تھے.اس سفر کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ گلاسگو میں ایک نمایاں تبدیلی پیدا ہو گئی اور اُس نے لنڈی نیشن سے باقاعدہ منسلک ہو کر ماہوار چندہ بھی ادا کرنا شروع کر دیا میں اہ یادر ہے ان ایام میں آپ کے مکان کا ہفتہ وار کرایہ ہی تین پونڈ تھا ہے سے گلاسگوشن کی ابتدائی فائل سے پتہ چلتا ہے کہ دیگر ذرائع کے علاوہ احمدیہ ٹریڈنگ کمپنی (بازار گنڈا والا امرتسر) کی طرف سے بھی آپ کو پرانی ٹکٹیں بھجوائی جاتی تھیں.۲۶ شہادت جن کی رپورٹ میں آپ نے ٹکٹوں کی فروخت مسلم ہیرلڈ کی اشاعت اور اپنی دیگر تبلیغی مساعی کا ذکر کیا جس پر حضرت مصلح موعود نے اپنے دست مبارک سے تحریمہ فرمایا رسالہ بھی مل گیا اللہ تعالی برکت ڈالے " الفضل -۲۲ اخبار ۱۳۳۱۵ / اکتوبر ۱۹۵۷ ص : که آن دونوں آپ نائب امام دانگلستان میشن) کے فرائض انجام دے رہے تھے ؟
۲۷ سے لنڈن مشن کی آمد میں اضافہ ہوا.حضرت مصلح موعود کی خدمت میں بشیر احمد خان صاحب رفیق کی رپورٹ (۲۴) تبوک ۳۸ پیش ہوئی تو حضور نے اس پر رقم فرمایا :.سکاٹ لینڈ کا ایک احمدی میرے سفر میں مجھے ملنے کے لئے آیا تھا " مکروم بشیر احمدخال صاحب رفیق سفر سکاٹ لینڈ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :.سکاٹ لینڈ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری چھوٹی سی جماعت موجود ہے چونکہ منظم نہیں تھی اسلئے مؤرضہ اور جولائی شائر کو خاکسارنے سکاٹ لینڈ، نوٹنگھم، بریڈفورڈ، لیڈز وغیرہ کا نظمی و تربیتی دورہ کیا میکرم چوہدری عبد الرحمن صاحب نے اپنی کا ماں مقصد کے لئے پیش کی.آپ نے اپنے وقت کی بھی قربانی گئی اور اس سارے دورہ میں ساتھ رہے اور ہر مکن تعاون کیا میرم چوہدری عبد الرحمن صاحب السلہ سے بجد تعاون کرنے والے احباب میں سے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے اور زیادہ سے زیادہ خدمت دین کی توفیق عطا فرمائے.آمین گلاسگو میں خاکسار نے احمدی احباب کو مکرم منصور احمد صاحب کے مکان پر جمع کیا ( مکرم منصور صاب مکرم چوہدری علیمحمد صاحب بے بی.اے بی ٹی کے صاحبزادے ہیں اور مخلص نوجوان ہیں اور تنظیم کی برکات اور چندوں کی باقاعدہ ادائیگی کے موضوع پر تقریر کی.تقریر کے بعد مکرم احمد صاحب کو متفقہ طور پر جماعت ادیہ گلاسگو کا امیر سیکرٹری مال منتخب کیاگیا چنانچہ اب خدا تعالیٰ کے فضل سے سکاٹ لینڈ کی جاء منتظم طور پر کام کر رہی ہے.واپسی پر خاکسار نے نوٹنگھم میں جماعت قائم کی میکرم آزاد صاحب یہاں کے امیرو سیکرٹری مال مقرر ہوئے.چونکہ یہاں کے احمدی دوست قریب قریب رہتے ہیں اس لئے خاکسار نے ان کو ایک دوست کے مکان پر جمع ہو کر کم از کم ایک نماز ضرور با جماعت پڑھنے کی تحقین کی میکروم آزاد صاحب بہت مخلص اور نیک نوجوان ہیں.اس دورہ کے دوران میں متعد ومسلم و غیرمسلم احباب کو تبلیغ بھی کی.ایک دوست کے ساتھ اسلام میں عورت کی حیثیت اور تعدد ازدواج کے موضوع پر مباحثہ کے رنگ میں بے حد دلچسپ گفت گو ہوئی راس گفت گو میں محرم چوہدری عبدالرحمن صاحب نے بھی حصہ لیا سے ملخصا از رپورٹ بشیر احمد خان صاحب رفیق ۲۰ تنبوک ۱۳۳۰ /ستمبر ۹۵ غیر مطبوعه به حضرت مسیح موعود : لیہ السلام کے صحابی ، ان دنوں آپ ریویو آف ریلیجنز میں قلمی خدمات بالا رہے ہیں، سے افضل و امان امارات
مریم مشن کے ورثانی کی خدمات پرایک نظریات اور امرود حضرت خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے حکم سے دوبارہ سکاٹ لینڈ میں تبلیغ اسلام کی حیثیت سے مقرر ہوئے جہاں آپ اب تک اعلائے کلمہ اسلام میں سرگرم عمل ہیں.یہ سکاٹ لینڈ مشن کے احیاء کا دور ہے جس مینیشن کی تبلیغی او تنظیمی سرگرمیوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے میشیر اسلام مختلف سکولوں ، سوسائٹیوں، گرجوں اور کلبوں میں اسلام پر تقاریر کر چکے ہیں.گلاسگو کے علاوہ ملک کے دوسرے قصبات تک بھی پبلک تقاریر اور تبادلہ خیالات کے ذریعہ حق و صداقت کی آواز بلند کی جارہی ہے.دعوت اسلام (INVITATION TO ISLAM) کے نام سے ایک انگریزی پنلٹ پانچ ہزار کی تعداد ی تقسیم کیا جا چکا ہے علاوہ ازیں احمدیہ گوٹ پر ماہ سائیکلوسٹائل کر کے شائع کیا جاتا اورمشن کی مضبوطی کا موجب بنتا ہے سکاٹ لینڈ میں اشاعت اسلام کا ایک موثر ذریعہ مسلم ہیرلڈ رسالہ بھی ہے جو کرم بشیر احمد خان صاحب رفیق کی جد وجہد سے براہ راست لنڈن میں چھپتا ہے اور جس میں دیگر نہایت قیمتی اور معلومات افزاء مقالوں کے علاوہ مسٹر بشیر احمد آرچرڈ کے مضامین بھی سپر واشاعت ہوتے رہتے ہیں.سکاٹ لینڈ مشن کے اس دور ثانی حضرت امیر یرامون الدراسي يقة اصح الثال کا سفر سکاٹ لینڈ کاسب سے نمایاں اور متان قم سید نا حضرت امیر المؤمنین کا اس سر زمین میں ورود مسعود ہے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ اس وفا دلار جولائی عہ کو اپنے مشہور سفر یورپ کے دوران لنڈن سے منع قافلہ عازم سکاٹ لینڈ ہوئے لیے راستہ میں حضور نے سکاچ کارنر کے مقام پر رات بسر کی اور اگلے روز یکم ظہور بروز منگل گلاسگو رونق افروز ہوئے.سکاٹ لینڈ کی پوری جماعت احمدیہ حضور کی قیام گاہ رائل سٹور ڈ ہوٹل) کے سامنے نہایت بے تابی سے چشم براہ تھی سب سے قبل مکرم بشیر احمد آرچر صاحب نے حضور کا استقبال کیا جس کے بعد حضور نے سب احباب کو شرف مصافحہ بخشا اور پھر مع خدام مشین ہاؤس تشریف لے گئے جہاں مغرب و ے اس سفر میں کا رلانے کی سعادت مکرم بشیر احمد خاں صاحب رفیق کو محاصل ہوئی ہے سے لپ سٹرک ایک عوامی قیام گاہ ہے جس کے اردگرد کوئی آبادی نہیں گلاسگو بہانے والے لوگ اکثر یہیں رات گزارتے ہیں ؟
۴۹ عشاء کی نمازیں پڑھائیں.بعد نماز احباب جماعت نے حضوراقدس کے دست مبارک پر بیعت کو نیکی سعادت حاصل کی بیجیت کے بعد حضور نے لمبی دعا کی.ہر ظہور کو حضور نے ایک استقبالیہ تقریب میں شرکت فرمائی جو حضور کے اعزاز میں منعقد کی گئی تھی.اس موقع پر پولیس کے نمائندے بھی موجود تھے جنہوں نے بکثرت سوال کئے اور حضور نے برجستہ اور بد قتل جواب دئے.اسی روز سہ پہر کو حضور ایڈنبرا تشریف لے گئے جہاں احمدی احباب کو اپنے مقدس آقا کی زیارت سے فیضیاب ہونے کا موقع میسر آیا اس سفر میں مکرم بشیر احمد صاحب آرچہ ڈہ مکرم محمد ایوب صاحب (سابق صدر جماعت احمد به گلاسگو) مکرم ڈاکٹر سعید احمد صاحب اور بعض دیگر مخلصین جماعت بھی حضور کے ہمراہ تھے.قیام گلاسگو کے دوران حضور نے وہائی مسجد کے لئے زمین خریدنے کی نسبت بھی ضروری ہدایات دیں حضور گلاسگو کے بعد بریڈ فورڈ اور ہڈرزفیلڈ کا کامیاب دورہ فرمانے کے بعد ور طور ۱۳۳۶ سر اگست ۹۶۷امہ کی 29 شام کو واپس لندن تشریف لے آئے بلکہ ۶۱۹۴۹ المختصر گلاسگو کا وہ اسلامی مشن جو میں سید نا حضرت مصلح موعود کی توجہ سے ه ۱۳۲۸ نا خلاصہ قائم ہوا تھا خلافت ثالثہ کے عہد مبارک میں اسلام کے علمی و روحانی انقلاب کے پیدا ثالثہ کرنے میں اہم رول ادا کر رہا ہے اور مسلم سکاٹ لینڈ کی روحانی تعمیر میں مصروف ہے جس سے اس تثلیث کدہ میں اسلام کے پر امید اور روشن مستقبل کی جھلک نمایاں نظر آرہی ہے.فَالْحَمْدُ لِلهِ علے ذلك.که فصل ششم کوائف قادیان اس سال کی ایک بھاری خصوصیت یہ ہے کہ درویشان قادیان جو ۱۳۳۷ تک قادیان میں قیدیوں روزنامہ افضل اور ۳ از طور / اگست حضور کے اس تاریخی سفر کی مفصل رو دا د خلافت ثالثہ کی تاریخ ر میں آرہی ہے (مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو افضل 19 طور یہ ص ۳ )
کی سی زندگی بسر کر رہے تھے اور اپنے حلقے سے باہر پولیس کی حفاظت کے بغیر قدم نہیں رکھ سکتے تھے.نہ صرف قادیانی کے محلوں میں بلا روک ٹوک جانے لگے بلکہ قادیان کے مضافات اور بعد ازاں بٹالہ میں بھی دو ایک دفعہ صرف مقامی پولیس کو اطلاع دے کر پہنچ گئے بہندو سکھ اصحاب کے نزدیک مسلمانوں کا ان کے در میان بلا خوف و خطر چلنا پھرنا ایک اچنبھے کی بات تھی اور وہ ایک ہجوم کی شکل میں اکٹھے ہو جاتے تھے ماه شهادت / اپریل کے پہلے ہفتہ میں کئی درویشوں نے نظام سلسلہ سے درخواست کی کہ انہیں کی ۱۹۴۹ کاروبار کی غرض سے بیرونی دبیات اور بٹالہ اور گورداسپور وغیرہ میں جانے کی اجازت دی جائے مگر حضرت مصلح موعود نے ارشاد فرمایا کہ میرے نزدیک اس سے بچنا چاہیے.اس ہدایت کی روشنی میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے مزید یہ نصیحت فرمائی کہ میری رائے میں قدم تدریجی اُٹھانا چاہیئے چنانچہ درویشان قادیان نے نہایت حزم و احتیاط سے آمد و رفت کا سلسلہ شروع کیا اور انہیں یہ دیکھ کر انتہائی مسرت ہوئی کہ غیرمسلم پاک کے جذبات نفرت میں کافی کمی واقع ہوگئی ہے اور کم از کم بالہ اور گورداسپور میں ان کے جانے پر کسی قسم کاکوئی مظاہرہ نہیں ہوا البتہ حیرت و استعجاب کا اظہار ضرور کیا گیا جو ایک طبیعی امر تھا.اس صورت حال نے درویشوں کے حوصلے بہت بند کر دئے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے ایک مطبوعہ نوٹ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ خوشگوار تبدیل جس سے درویشوں کا دور محصوریت اللہ عزوجل کی عنایت اور فضل و کرم کی بدولت دورہ رابطہ میں بدل گیا، ماہ شہادت و ہجرت ماہ کے دوران ہوئی چنانچہ آپ نے افضل - ارماہ ہجرت منہ میں لکھا: آہستہ آہستہ نقل و حرکت کی سہولت پیدا ہو رہی ہے چنانچہ ہمارے بعض دوست بعض ضروری کاموں کے تعلق میں متعدد دفعہ بٹالہ جاچکے ہیں اور ایک واقعہ گورو اسپور بھی ہو آئے ہیں اور واپسی پر عاستہ میں دھار یوال بھی ٹھرے تھے ایسے موقعوں پر وہ ہمیشہ احتیاطا چار چار پانچ پانچ کی پارٹی میں بھاتے ہیں اور جلد واپس آجاتے ہیں ؟" امیر المومنین سید نا حضرت مصلح موعود نے گذشتہ سالانہ جلسہ قادیان (ه) کے موقع پر بو روح پرور پیغام دیا اس میں خاص طور پر یہ ہدایت فرمائی تھی کہ قادیان میں احمدیوں کے آنے اور سلامی پیغام کا متن تاریخ احمدیت جلد ۱۳ نفر ۸۵ تا ۹۴ میں درج ہے؟
قادیانی کے احمدیوں کو ہندوستان یونین میں جانے کے متعلق آزاد کرانے کے لئے آپ لوگ باقاعدہ کوشش کریں اور گوشش کرتے پہلے جائیں.حضور کے اس فرمان مبارک کی تعمیل میں ہندوستان بھر کی احمدی جماعتوں نے نے بھارت کے گورنر جنرل ، وزیر اعظم، ہوم منسٹر گورنر مشرقی پنجاب اور ہوم منسٹر مشرقی پنجاب کو قرار دادیں پاس کرکے بھو نہیں کہ جماعت احمد یہ ایک پر امن مذہبی جماعت ہے جس کا مذہبی مرکز قادیان ہے جس کی مرکز می تنظیم صدر انجی یہی ہے اور جسکے ذمہ ہندوستان کی تمام مقامی احمدی جماعتوں کی مذہبی تعلیمی اور اخلاقی نگرانی کا کام ہے.فسادات شکار کے باعث یہ تعلق منقطع ہو گیا اور مرکز سے عہدیدار مبلغین اور سیکر جماعتوں کی نگرانی کے لئے نہیں بھجوائے جاسکے اور نہ بیرونی مقامی جماعتوں کے افراد اور عہدیدار ہی قادیان پہنچ کر مذہبی اور اخلاقی امور میں مرکز سے ہدایات لے سکتے ہیں.اس طرح بھارتی جماعتوں کی تنظیم اور تعلیم و تربیت کو بہت نقصان پہنچ رہا ہے لہذا ہم درخواست کرتے ہیں کرسکومت ہمارے لئے اپنے مقدس مرکز قادیان میں بلا روک ٹوک کثرت سے جانے کے لئے سفر کی سہولت اور حفاظت کا انتظام فربا ئے اور اس طرح مرکزی عہدیداروں اور مبلغین وغیرہ کے لئے آسانیاں مہیا کر ہے ہم یہ بھی عرض کرتے ہیں کہ قادیان صرف مرکز تی تعلیمی ایمن کا ہیڈ کوارٹر ہی نہیں بلکہ اس میں جماعت احمدیہ کے خصوصی بیت رکھنے والے مقامات مقدسہ بھی ہیں.یہیں بانی جماعت احمدیہ پیدا ہوئے اور منصب نبوت پر فائز ہوئے خدا کے بے شمار نشانات آپ کے ذریعہ ظاہر ہوئے اور آپ نے خود اس بستی کے متعلق فرمایا کہ قادیان خدا کے رسول کا تخت گاہ ہے اور خدا نے اس کو برکت دی ہے.اندرو صورت قادیان کی زیارت ہمارا مذہبی فریضہ ہے اور ہم حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ بھارتی احمدیوں کے لئے دہلی سے قادیان اور پھر واپسی تک کے لئے سفر کی حفاظتی تدابیر بروئے کار لائی جائیں جس کے لئے عملی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ قادیان جانے والے احمدی جماعت احمدیہ دہلی کے مقامی مبلغ و امیر مولودی بشیر احمد صاحب بیماراں سٹریٹ کی معرفت سرکاری افسروں کو مناسب وقت پہلے یہ اطلاع دیا کریں کہ فلاں تاریخ کو اتنے افراد قادیان جانا چاہتے ہیں یا مرکز کی نمائند ہے اور دوسرے احمدی ه مثلا بھٹی، شاہجہانپور، بنارس، دہلی سہارنپور کانپور بیٹن، جے پورشہر کلکتہ لکھنو مظفر پور، کٹک، پورسای بعد درک و گھیر بھاگلپور ، سکندر آباد دکن، میرٹھ، الہ آباد، بریلی علی گڑھ رانچی موسی بنی مائنز، فیض آباد پلیسی (بہار)
۰۵۲ فلاں تاریخ کو قادیان سے روانہ ہونا چاہتے ہیں ان ہر دو صورتوں میں سرکاری سطح پر حفاظتی انتظام فرمایا جائے.حضرت امیر المومنین خلیفہ ایسیح الثانی نے بن خلیفتہ المسیح الثانی نے ۱۵ ۱۶ نبوت ۱۳۶۵/ نومبر ۱۹۴۶ کو مولوی عبد ال جیر صاحب جنٹ امیر جماعت احمدیہ قادیان کے نام حسب ذیل مکتوب تحریر فرمایا :- لسہ قریب آرہا ہے آپ آپ کو پوری طرح کوشش کرنی چاہیئے کہ مختلف جگہوں سے کی ہیں تیں آدمی کم سے کم مستقل مہاجر ہو کر قادیان آجائیں اور کہیں تین آدمیوں کو قادیان سے فارغ کی کے او سر بھجوا دیا جائے کیونکہ غالباً اتنے لوگ وہاں ہیں جو ادھر آنا چاہتے ہیں.یا ان کے مالیات ایسے ہیں کہ ابن کو ادھر بھیجوا دینا چاہیئے.اس طرح دس بارہ نوجوانوں کو بلوا کر دیہاتی مبلغوں کی طرح تعلیم دینی چاہیئے.بلکا نہ، مالابار ، ہان اور بنگال سے ایسے آدمی منگوانے چاہئیں اس طرح کے.اضلاع سے اور جو موجودہ دیہاتی مبلغ ہیں وہ تین سال سے پڑھ رہے ہیں ان کو باہر بھجوانا چاہیئے تا وہ کام کریں.پہلے موجودہ جماعتوں کو سنبھالنے اور ان کو بڑھانے کی کوشش ہونی چاہیئے اسکے بعد نئے نئے تبلیغی مرکز مختلف صوبوں میں کھولنے چاہئیں یہ وقت انتہائی کوشش کا ہے کوئی مشکل نہیں کہ اگر آپ لوگ توجہ کریں تو سال ڈیڑھ سال میں لاکھ دو لاکھ کی جماعت ہندوستان میں پیدانہ ہو جائے.اگر ایسا ہو جائے تو چھ سات لاکھ سالانہ کی آمد آسانی سے قادیان میں ہوتی رہے گی جو زمانہ کے ساتھ بڑھتی چلی جائے گی اور آپ لوگ پھر مدرسہ احمدیہ دینیات کا بھی ہائی سکول و تعلیم الاسلام کالج وہاں بنانے کی توفیق پالیں گے.جو زمانہ زندہ رہنے کی کوشش کا تھا اللہ تعالیٰ نے خیریت سے اس زمانہ کو گذار دیا ہے آپ آپ نے آگے بڑھنے کی کوشش کرنی ہے.نئے ماڈل سوچنے کا ابھی سوال نہیں قادیان میں جو کچھ پہلے تھا اسے دوبارہ قائم کرنے کے لئے کسی کیم کے سوچنے کی ضرورت نہیں وہ سکیم تو سامنے ہی ہے اس کے لئے صرف ان باتوں کی ضرورت ہے:.اقول : قادمان میں عورتوں، بچوں کا مہیا کرنا، اڑیسہ، کانپور اور بہار میں بہت غریب عورتیں مل جاتی ہیں جو شادیاں کر سکتی ہیں اُن کی اِن علاقوں میں شادیاں کروائیے اور قادیان میں عورتیں ہوائیے.دوم : ہزاروں ہزار مسلمان جو مارا گیا ہے ان کے بیوی بچے ابھی دہلی اور اس کے گردو نواح
۵۳ میں موجود ہیں ایسے پندرہ ہیں بچے منگوائیے اور پرائمری سکول کھول دیجیئے.دس مہیں نوجوان باہر سے وقت کی تحریک کر کے دیہاتی مبلغ بنانے کے لئے منگوا لیے اور مدرسہ احمدیہ قائم کر دیجئے.اگر پرانا پر لیں نہیں ملا تو نئے پولیس کی اجازت لیجئے.دستی پرلیں پتھروں والا ہو یہ سود و سو میں آجاتا ہے بلکہ خود قادیان میں بنوایا جا سکتا ہے اس پر ایک پرچہ ہفتہ وار چھاپنا شروع کر دیئے آپ لوگوں کے لئے کام اور شغل نکل آئے گا.کچھ لوگ کا تب بن جائیں گے کچھ کا غذ لگانے والے اور سہتی چلانے والے بن جائیں گے اور کئی لوگوں کے لئے کام نکل آئے گا.آبادی بڑھے گی تو تعالی جگہوں کو دیکھ کر لوگوں کو جو لالچ پیدا ہو جاتا ہے وہ بھاتا رہے گا اور جو خالی ٹکڑے پڑے ہیں ان میں نئی عمارتیں بن جائیں گی.مسوه د حکیم خلیل احمد صاحب میرے خیال میں اگر وہاں آجائیں یا اور کوئی حکیم تو ایک مطلب بھی کھول دیا جائے اور ایک طبیبہ کلاس کھول دی جائے دیہاتی مبلغ بھی طلب سیکھیں اور مرزا وسیم احمد صاحب بھی طب سیکھ لیں اور ایک بہت بڑا دواخانہ کھول دیا جائے جس کی دوائیں سارے ہندوستان میں جائیں خدا چا ہے تو لاکھوں کی آمدنی اس ذریعہ سے ہو سکتی ہے.یہ خط تمام ممبران انجمن کو شناویں تا سب لوگ اس سکیم کو اپنے سامنے رکھیں اور جلد سے جلد اس سکیم کو پورا کرنے کی کوشش کی بجائے " نہ سید نا حضرت مصلح موعود نے 4 شہادت ۱۳۲۸ / اپریل ۱۹۴۹ئر کو بذریعہ مکتوب ارشاد فرمایا کہ ہندوستان کی جماعتوں کو منظم کرنے کی جو میں نے ہدایت دی ہے اس کے بارے میں یاد رکھیں کہ سب سے اول یو پی بمبئی ، بہار اور مدراس کے چند سے جمع کرنے پر زور دیں نیز سب جگہوں پر سالانہ جلسے کرانے اور قادیان کے لئے زندگی وقف کرنے پر زور دیں جو اپنے بال بچوں سمیت رہیں.اسی طرح ہندوستان کے احمدی نوجوانوں کو تبلیغ کے لئے وقف ہونے کی تحریک کریں.حضور نے اس مکتوب میں یہ بھی حکم دیا کہ قادیان میں تبلیغی کالی کھول دیں تا ہندوستان میں تبلیغ وسیع ہو سکے.صدر انجین احمدیہ قادیان ہندوستانی جماعتوں کی تنظیم کے لئے اس سال صرف یہ قدم اٹھا سکی کہ نظارت بیت المال کی طرف سے مولوی تمام احمد صاحب ارشد کولو پی بھجوا دیا جنہوں نے بڑی.سے مثل ۳۶ دفتر خداست در ویشال براده به
۵۴ محنت اور جانفشانی سے اس علاقہ کی جماعتوں کو از سر کو منظم کیا اور اُن کا باقاعدہ سروے کر کے احمدی افراد کی فہرستیں تیار کیں.قادیان کے متعلق حکومت کی پالیس میں تبدیلی بجائے اس کے بھارتی حکومت ہندوستان اس کہ..احمدیوں کی درخواست پر ہمد روانہ غور کر کے حق و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتی اس نے اپنی پالیسی میں اور زیادہ سخت گیری اور سختی پیدا گردی اور براہ راست درویشوں پر بعض نئی پابندیاں عائد کر دیں.لکھا:.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے انہی دنوں اس صورت حال کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے قادیان میں ایک بظا ہر نارمل حالات پیدا ہو رہے ہیں اور ہمارے دوستوں کو نقل و حرکت کی کافی سہولت بھی گئی ہے لیکن حالات کے گہرے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ تبدیلی ابھی تک کسی طرح تسلی بخش نہیں بھی جاسکتی حقیقتا یہ تبدیلی کے قوم کے اقتدار کی جگہ ہندو قوم کے اقتدار کا رنگ رکھتی ہے جبتک سیکھ قوم اور سکھ پالیسی کا غلبہ رہا قادیانی اور اس کے ماحول میں بر بلا ظلم و تشدد اور لوٹ مار کا منظر نظر آثار ہا لیکن اب آہستہ آہستہ اس منظر نے بدل کر مہند و اقتدار کی پالیسی کو جگہ دے دی ہے جس میں بظا ہر نارمل حالات کا دور دورہ نظر آتا ہے اور بہتری کی جائے تنظیم کے حالات دکھائی دیتے ہیں کی تنظیم کے اس ظاہری پردہ کے پیچے نقصان پہنچنے کی منظم ایسی نظر آ رہی ہے.چنانچہ نئے دور میں حکومت کی پالیسی نے تین ایسی باتوں کو چنا ہے جو وپس کی تبدیلی کی طرف واضح اشارہ کر رہی ہیں یہ (1) قادیان میں یا یوں کہنا چاہئیے کہ مشرقی پنجاب میں الفضل کا داخلہ حکومت مشرقی پنجاب کے حکم کے ماتحت بند کر دیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اب ہمارے قادیان کے دوست حضرت امیرالمونین خلیفہ المسیح ایدہ کے خطبات اور جماعتی تحریکات اور احمد پیشنوں کی رپورٹوں وغیرہ سے کلیہ محروم ہو گئے ہیں یا بالفاظ دیگر جماعت کی نذہ تنظیم کے مرکزی نقطہ سے بالکل کاٹ دئے گئے ہیں.بظاہر اس حم کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ الفضل میں ایسی باتیں شائع ہوتی ہیں جو حکومت ہندوستان کے مفاد کے خلاف ہیں لیکن ظاہر ہے کہ افضل کی پالیسی میں کوئی نئی تبدیلی پیدا نہیں ہوئی بلکہ فسادات کے بعد سے ایک ہی پالیسی چلی آرہی ہے بلکہ حق یہ ہے کہ آب الفضل میں پہلے کی نسبت زمینی مضامین کی طرف
زیادہ توجہ ہوتی ہے کیونکہ یہی اس کی غرض و غایت ہے اور سیاسی نوعیت کے مضامین بہت کم ہوتے ہیں باوجودان حالات کے الفضل کا فسادات کے بعد تو جاری رہنا مگر آب آکر بند کیا جانا حکومت کی تبدیل شدہ پالیسی کی ایک واضح دلیل ہے.(۲) قادیان جماعت احمدیہ کا مقدس مقام ہے اور دُنیا بھر کا مسلمہ اصول ہے کہ ہر قوم اپنے اپنے مقدس مقامات کی خدمت اور احترام کے لئے تحائف اور ہدایا اور مالی نذرانے بھیجا کرتی ہے اور آج تک دنیا کی کسی مہذب حکومت نے اس قسم کے مالی یا جنسی تحائف میں روک نہیں ڈالی اور اس وقت تک قادیان میں بھی اس قسم کے تخالف جاتے رہے ہیں لیکن حال ہی میں بعض ان منی آرڈروں کو جو باہر سے قادیان بھجوائے گئے تھے ہندوستان کی حکومت نے روک لیا ہے حالانکہ جو احمدی قادیان میں بیٹھے ہیں اُن کے گزارہ کی کوئی صورت نہیں ہے کیونکہ ان کی سب جائیدادیں ان کے ہاتھ سے چھینی جا چکی ہیں.پس ان حالات میں بیرونی منی آرڈروں کو روکنا مقامی مسلمان آبادی کو بھو کے مارنے کے مترادف ہے.(۳) قادیان میں سالہا سال سے یعنی تقسیم پنجاب سے بھی پہلے سے حکومت جماعت احمدیہ کو اس بات کی اجازت دیتی رہی ہے کہ وہ لنگر خانہ اور دوسرے احمد یہ اداروں کے لئے اکٹھی گندم خرید لیا کریں لیکن اس سال حکومت مشرقی پنجاب نے اس بات کی اجازت نہیں دی اور ہدایت جاری کی ہے کہ ہر احمدی اپنا الگ الگ راشن کارڈ حاصل کرے جس کی غرض سوائے اس کے کوئی نظر نہیں آتی کہ قادیان کے احمدیوں کی خوراک کے مسئلہ کو اپنے ہاتھ میں محفوظ کر لیا جائے.ہمارے دوستوں کی طرف سے یہ دلیل پیش کی گئی کہ جو نظام سالہا سال سے چلا آیا ہے اسے اب بدلنے کی کوئی وجہ نہیں.اور انفرادی راشن کارڈوں میں یہ خطرہ بھی ظاہر ہے کہ ہر شخص کو اپنا علیحدہ علیحدہ راشن لینے کے لئے بازار جانا ہوگا جس میں ٹکراؤ کے امکانات بڑھ جائیں گے.اور پھر جب قادیان کی احمدی آبادی معین ہے اور اس میں حکومت کی اجازت کے بغیر کمی بیشی نہیں ہو سکتی تو پھر اکٹھی خرید کی اجازت دینے میں یہ خطرہ بھی نہیں ہو سکتا کہ ضرورت سے زیادہ گندم خرید کی جائے گی یا کہ خرید کے بعد ضائع کر دی جائے گی.علاوہ ازیں گندم کا جو بھی ذخیرہ ہوگا وہ بہر حال قادیان میں ہی رہے گا اور حکومت کی نظروں کے سامنے ہوگا مگر باوجود ان معقول دلیلوں کے گورنمنٹ نے اپنے حکم کو نہیں بدلا اور ابھی تک یہ اصرار کر رہی ہے کہ ہر احمدی انفرادی راشن کارڈ حاصل کرے.
۵۶ اُوپر کی باتوں سے واضح ہے کہ بر ملاظلم وتشد داور لوٹ مار کا دور دورہ تو آب بظاہر گذر چکا ہے لیکن اس کی جگہ ایسی پالیسی نے لے لی ہے جسے مخفی گر منظم تشد دکا نام دیا جاسکتا ہے.بہر حال ہماری اصل اپیل خدا کے پاس ہے اور وہی انشاء اللہ اپنی جماعت کا حافظ و ناصر ہوگا اور درمیانی ابتلاء خواہ کوئی بھی صورت اختیار کریں آخری فتح و ظفر یقینا خدا کے نام کی ہے اور دُنیا کی کوئی طاقت اسے ٹال نہیں سکتی وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَظِيم.Lee دشمنان اسلام واحمدیت کا ایک معاندان اسلام کا وہ طبقہ دورہ یشوں کواپنے محبوبہ مقدس مرکز سے بے دخل کرنے کی سازشوں میں تباہ گن منصو بہ اور اُس کی ناکامی مصروف چلا آرہا تھا ۱۹۴۹ء میں اللہ رکھا نامی ایک منافق کو احمدی آبادی کے خلاف کھڑا کر کے اپنے مذموم اور ناپاک منصوبہ کی کامیابی کے خواب دیکھنے نگا.اللہ رکھا گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ کا باشندہ اور حضرت میر محمد الحق صاحب کے زمانہ میں دار الشیوخ قادیان میں رہا کرتا اور اس ادارہ کے لئے مختلف دیہات سے آٹا اکٹھا کر کے لایا کرتا تھا.فسادات ۱۹۴۷ء میں یہ شخص قادیان سے اپنے گاؤں چلا آیا لیکن چند ماہ بعد جماعتی اجازت کے بغیر غیر آئینی صورت میں ہندو پاک سرحد پار کر کے قادیان پہنچ گیا.مقامی جماعت نے اُسے ہر طرح سمجھایا کہ وہ واپس چلا جائے اور باضابطہ اجازت لے کر آئے مگر وہ تو مخالفین احمدیت کا آلہ کار تھا بھلا کیسے چلا جاتا.جہاں دشمنانِ احمدیت کی نگاہ میں دوسرے تمام درویش خار کی طرح کھٹکتے تھے اور ان کا قادیان میں رہنا انہیں گوارا نہیں تھا وہاں اس شخص کی غیر قانونی آمد پر کبھی اعتراض نہیں اُٹھایا بلکہ اُسے اُن کی ہمیشہ پشت پناہی حاصل رہی.اللہ رکھانے قادیان کے نظام احمدیت کو پارہ پارہ کرنے کے لئے سب سے پہلے وہی حربہ جماعت کے خلاف استعمال کرنا شروع کیا جو خلفائے راشدین اور خلافت راشدہ کے دشمنوں کا طرہ امتیاز رہا ہے یعنی اُس نے قادیان پہنچتے ہی صدر انجمن احمدیہ کی مرکزی شخصیتوں کو برسر عام اعتراضات کا نشانہ بنانے کی با قاعدہ مہم جاری کر دی جس پر حضرت مصلح موعودؓ نے ایک تحریری پیغام کے ذریعہ اسے اپنی روزنامه الفضل ۲۰ / اجرت ۱۳۲۸ هش مئی ۱۹۴۹ء ص ۲ -
شرمناک روش بدلنے کی طرف توجہ دلائی مگر جب اس کی روش میں پہلے سے زیادہ اشتعال اور تیزی کا رنگ پیدا ہو گیا تو حضور نے اس فتنہ پرورت مقاطعہ کرنے کا حکم دے دیا نیز ہدایت فرمائی کہ درویش اسے اپنے حلقہ میں داخل نہ ہونے دیں حضور نے اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل اعلان مقاطعہ کیا جو افضل 4 ظور ۳۲۰ اگست ۱۹۴۷ ئہ کے الفضل میں بھی شائع ہوا :- میاں اللہ رکھا سیالکوٹی حال قادیان چونکہ جماعت میں فتنہ پیدا کرتے ہیں اور جماعتی نظام میں خلل ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں اس لئے لیکن اس اعلان کے ذریعہ انہیں اپنی جماعت سے خارج کرتا ہوں اور قصد سے بچنے کے لئے تمام احمدیوں کو حکم دیتا ہوں کہ ان سے سلام کا م بند رکھیں اور اپنی مجالس میں آنے کی اجازت نہ دیں تاکہ وہ خواہ مخواہ جماعت کی بدنامی کی کوئی صورت پیدا نہ کر دیں.میں ان کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ ان کے اندرا گر ذرہ بھی ایمان کا باقی ہے تو اس سے باز آجائیں اور اپنی حرکات کو چھوڑ دیں اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو ان کا معاملہ خدا تعالیٰ سے ہو گا اور وہ اپنی عاقبت آپ خراب با کریں گے.مرزا محمود احمد خلیفتہ اسیح الثانی " اگر چہ شیخص مبالعین کی طرف منسوب ہوتا تھا لیکن دل سے خلافت کا ہی منکر تھا اس لئے اُس نے حضور کے حکم کو ماننے سے انکار کر دیا اور اپنی منافقت پر پردہ ڈالنے کے لئے علی الاعلان کہنا شروع کر دیا کہ وہ حضرت خلیفہ مسیح الثانی کو خدا کا برحق تخلیفہ مانتا ہے لیکن اس ذاتی معاملے میں ان کی بات پر عمل کرنے کے لئے تیار نہیں.اور ساتھ ہی اس نے اپنے مکان کی چھت پر درویشوں کے خلاف نہایت بد زبانی اور بد کلامی کا مظاہرہ کرنا شروع کیا.چند دن بعد سلسلہ احمدیہ کے مخالفوں کی شہ پر ایک پھٹا ہو اعلی لے کر دار ایسے کے بیرونی دروازے پر پہنچ جاتا اور زبردستی اند رکھنے کی کوشش کرتا نیز کہتا وہ احمدی ہے اس کو کوئی مخارج نہیں کر سکتا اور اس کا حق ہے کہ وہ بھی مقامات مقدسہ کی زیارت کرے اور مساجد میں عبادت بجالائے.دار ایج کے اندر جانے میں جب کامیابی نہ ہوتی تو وہ دفتر تحریک جدید کے سامنے مصلی بچھا لیتا جہاں نماز تو کم پڑھتا لیکن خدا کے درویش بند وں کو گالیاں زیادہ دیتا.درویش یہ المناک نظارہ دیکھ کر بہے ہیں رہ جاتے اور سلسلہ کی روایات اور ہدایات کے مطابق صبر وتحمل کے دامن کو نہ چھوڑتے.معاندین احمدیت روزانہ اپنی آنکھوں سے یہ مظاہرے دیکھ کر بڑی خوشی کا اظہار کرتے اور اسے
۵۸ ۱۹۴۹ ہنگامہ آرائی کے نت نئے سے نئے ڈھنگ بتاتے.اس سلسلہ میں انہوں نے اس شخص کو یہ بیٹی پڑھائی کہ وہ درویشوں کی بر سر عام بازاروں میں توہین و تحقیر کرے چنانچہ اس کے مطابق ماہ جولائی شاہ کے آخر میں اس نے یہ شرارت کی کہ بازار سے گذرتے ہوئے ایک احمدی درویش کو پکڑ لیا اور اسے نہایت درجہ فحش اور بازاری گالیاں دیں اور پھر رات کو ایک کوٹھے پر چڑھ گیا اور یہ فخریانہ پراپیگنڈا کرنا شروع کہ دیا کہ احمدیوں نے گذشتہ فسادات میں غیر مسلموں کا قتل عام کیا ہے اور سلامی خلال غیرمسلم کوموت کے گھاٹ اتارا ہے.ران افترا پردازیوں نے جو مسلسل کئی ماہ سے جاری تھیں ستمبر ۱۹۲۹ میں ایک تکلیف دہ مقدمے کی شکل اختیار کر ا پنا پنکہ اللہ رکھا نے سردار مولک سنگے سابق ریذیڈنٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں سند رسمہ 1609 ذیل میں درویشوں کے خلاف زیر دفعہ.مقدمہ دائر کر دیا :.زیر ۷..ن ا خان فضل اللى صاحب امور عامه و منش محمد صادق صاحب مختار عام ۳ - مولوی برکات احمد صاحبہ، راجیکی بی اسے ناظر ا مواد عامہ ہم.ملک صلاح الدین صاحب ایم.اسے مؤلف اصحاب احمد - مولوی برکت علی صاحب جنرل پریزیڈنٹ جماعت احمدیہ قادیان 4 چوہدری فیض احمد صاحب گجراتی صوفی عبد القدیر صاحب - خواجہ عبد الكريم منا و محمد اشرف صاحب گیرانی 1 محمد مکی صاحب سرساوی 11 محمد رفیق صاحب سرساوی ۱۲ - میر - 1A فیع احمد صاحہ ۱۳- محمد ابراہیم صاحب خادم ۱۴ محمود احمد صاحب سر گو دھی عبد الحمید صاحب دکاندار ۱۶ بیمار کی عملی صاحب کمپونڈ ۱۷- مولوی محمد عبد اللہ صاحب ۱۸ - سلطان احمد صاحب کھاریان) ( یہ درویش مقدمہ کی کاروائی شروع ہونے سے قبل انتقال فرماگئے تھے ) 19- شیر خد صاحب پٹھان ۲۰- چوم کو سعید احہ صاحب جبار ۲۱ کیپٹن ڈاکٹر احمد بشیر احمد صاحب ۲۲ مستری غلام قادر صاحب ۲۳ - بدر بین صاحب عامل ۲۴۳- افتخار احمد صاحب الشریف ۲۵ شیر سر صاحب ٹھیکیدار بھدا.- احمد تمبر 19 کو منہ کی باضابطہ کارروائی بٹالہ میں شروع ہوئی.عدالت نے ان درویشیوں کو نوں باری کیا کہ وہ بیان کریں کہ کیوں آپ سے ایک سال کے لئے ہزار ہزار روپے کی ضمانت حفظ امی شدنی بیانے درویشوں کے عمارت دینے سے انکار کیا جس پر اللہ رکھا کا بیان ہوا ہو بے بنیاد اور
۵۹ بے سروپا الزامات کا مجموعہ تھا.دوران بیان اس نے عدالت کو بھی بتا یا کہ وہ حضرت خلیفہ ایسے کے حکم کی تعمیل کے لئے ہر وقت تیار ہے اگر اس ذاتی معاملہ میں ان کا کوئی حکم نہیں مان سکتا.اللہ رکھا کی طرف سے منوہر سنگ، پر تم سنگھ اپناہ گیر اور ماسٹر رام سنگھ اور ریشم سنگی منشی جو کی پر نہیں قادیان نے گواہی دی.اور درویشوں کی طرف سے بٹالہ کے دو وکیل بخشی سائیں داس صاحب اور لالہ رام من صاب ایڈووکیٹ بطور وکیل پیش ہوئے مگر انہیں پہلے دانی وحی اور اس کے گواہوں پر جرح کرنے کا موقع نہیں ملا.درویشوں نے ہ۳.نومبر ۱۹۳۹ئر کو شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور اور صدر بار ایسوسی ایشن لاہور کی لکھی ہوئی ایک مدلل بحث بھی عدالت میں پیش کی مگر مجسٹریٹ صاحب نے اس پر کوئی توجہ دینے کی بجائے باقی بحث بند کرا دی اور درویشوں کو ایک ایک ہزار کی ضمانتیں پیش کرنے یا انہیں ایک ایک سال قید کئے بجانے کا فیصلہ سناد یا غریب درویش بھلا ہو میں ہزار روپے کی رقم کہاں سے لاتے انہوں نے عرض کیا کہ ہمارے پاس ضمانت کے لئے کوئی رقم نہیں ہاں وہ جائیداد ضرور ہے جس پر اس وقت حکومت مشرقی پنجاب کا قبضہ ہے چنا نچہ مجسٹریٹ نے یہی ضمانت قبول کرلی.جو درویش اپنی جائیدادیں نہ رکھتے تھے ان کی طرف سے بھائی شیر محمد صاحب ، میاں عبدالرحیم صاحب امانت سوڈا واٹر اور ڈاکٹر عطر دین صاحب نے اپنی جائیداد میں بغرض ضمانت پیش کر دیں مقدمہ کے فیصلہ کے ایک ماہ بعد یکم جنوری شائمہ کو الہ رکھا قادیان چھوڑ کر پاکستان پہلا آیا اور اس مقدس نیستی کی فضا اس فتنہ سے ہمیشہ کے لئے پاک ہو گئی.اللہ رکھانے پاکستان پہنچ کر حضرت مصلح موعودہ کی خدمت میں حسب ذیل خط لکھا:.}} بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم سید نا حضرت اقدس امیر المومنين السلام علیکم بنده مظلومیت کی حالت میں حضور کی خدمت میں حضور کے ارشاد کے مطابق امیر صاحب قادیان کی اعجاز سے آیا ہے اور تصور کے ارشاد کے مطابق قادیان رہتا تھا.قادیان سے کبھی بھی منہ پھر انہیں سکتا.قادیان میرا مقدس شہر میرے پیارے حضر مسیح موعود کا مقدس شہر اور وہاں آپ کا مزار اور مذہبی یادگاریں ہیں جہاں ہم لوگ جاتے ہیں.کہیں احمد ہی ہوں حضرت مسیح موعود کو مانتا ہوں اور خلیفہ وقت کو مانتا ہوں آپ بھی اگرینی انے چاہا تو حضور کے ارشاد سے ہی قادیان جاؤں گا حضور کی ناراضگی میں نہیں
جاؤں گا یا اے اس خط پر حضرت مصلح موعود نے فرمایا کہ : معاف تو ہم نے کر دیا ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس نے جھوٹ نہیں بولا اور منافق نہیں ہے میری صحت اچھی ہونے پر یک مجلس میں بلوا کر پیش کروں گا کہ یہ جھوٹ بول کر قادیان کو تباہ کر نیکی کوشش کرتا رہا اور منافق ہے " ہے جلسہ قادیان کے لئے پہلا پاکستانی قافلہ اس سال بھی سالانہ جلسه ادیان حسب دستور ۲۶ ۲۷ ۲۸ فتح ۱۳۲۸۵ / دسمبر ۴۱۹۲۹ کو منعقد ہوا جس میں علاوہ قادیان اور ہندوستان کی دیگر جماعتوں کے شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت احمد یہ لاہور کی قیادت میں کہیں پاکستانی احمدیوں کا ایک قافلہ بھی شامل ہوا اور اس مقدس و مبارک اجتماع کی برکات سے مستفید ہوا.اس پہلے پاکستانی قافلہ کے مستند حالات و کوائف حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے قلم سے دریج ذیل کئے بہاتے ہیں :- قادیان جانے والے قافلہ کے لئے قری؟ :: درخواستیں موصول ہوئی تھیں جن میں سے حکومت کی مقرر کردہ حد بندی کے ماتحت عروہ پہنچا اس کا انتخاب کرنا تھا چنانچہ پچاس افراد کا انتخاب کر کے انہیں اطلاع دی گئی کہ ۲۳ دسمبر کی شام تک سب لوگ لاہور پہنچ جائیں چنانچہ یہ جبکہ کچھ اس انسداد ۲۴۰ دسمبر کی شام تک لاہور پہنچ گئے.ان میں تین کوڑھی دیہاتی عورتیں بھی شامل تھیں جو مقدس مقامات کی زیارت کے علاوہ اپنے بچوں کو ملنے کے لئے دبا رہی تھیں جو اس وقت قادیان میں در دنیشی زندگی کبیر کر رہے ہیں.حسن اتفاق سے حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بھی ایک تقریب کے تعلق میں.تاریخ کی شام کو لاہور تشرلی لے آئے اور قافلہ کی روانگی کے خیال سے ۲۵ تاریخی کی صبح کو بھی لاہور میں ٹھہر گئے چنانچہ حضور کی نہایت دردمندانہ اور پرسوز دعاؤں کے ساتھ یہ پچاس افراد کا کے اصل خدا شعبہ تاریخ احمدیت میں محفوظ ہے؟ سے حضور کا یہ ارشاد بھی شعبہ تاریخ احمدیت میں محفوظ ہے نیز الفضل میں شائع شدہ ہے ؟
۶۱ قافلہ ہر یکے موٹر ٹرانسپورٹ کمپنی کی ڈولاریوں میں لاہور سے روانہ ہوا.یہ قافلہ رتن باغ سے ۲۵ تاریخ کی صبح کو نو بجے روانہ ہوا اور قافلہ کی کل تعدادہ تھی کیونکہ پچاس ممبر ان قافلہ کے علاوہ دو ڈرائیور اور دو کلیہ کنڈ کٹڑ بھی اس قافلہ میں شامل تھے.رستہ میں کچھ وقت رکنے کے بعد قافلہ قریبا ساڑھے ہیں بجے بارڈر پر پہنچا جہاں مسٹر اے جی چیمہ مجسٹریٹ درجہ اول اور مسٹر الیں.ایس جعفری ڈپٹی کمشنر لاہور چی درجہ انہیں رخصت کرنے کے لئے پہلے سے پہنچ چکے تھے.قافلہ کو الوداع کہنے کے لئے بہت سے دوست بارڈر تک ساتھ گئے ان لوگوں میں یہ خاک ، بھی شامل تھا اور وہاں ہم سب نے روانگی کی آخری دعا کر کے اپنے بھائیوں کو رخصت کیا.میری گھڑی کے مطابق ہمارے قافلہ نے دس بج کو سینتیس منٹ پر پاکستان اور ہندوستان کی سرحد کو عبور کیا اور پھر ہم تھوڑی دیر تک ان کی لاریوں کو دیکھتے ہوئے اور دعا کرتے ہوئے لاہور واپس آگئے.جیسا کہ پہلے سے پروگرام مقرر تھا اس قافلہ نے ۲۵ دسمبر کو قادیان جاکر ۳۰ دسمبر کو واپس آنا تھا چنانچہ یہ قافلہ دو بجے بعد دو پہر قادیان پہنچ گیا اور سب سے پہلے بہشتی مقبرہ میں جا کر حضرت مسیح موعود عليه الصلاة و السلام کے مزار پر دعا کی جہاں قادیان کے بہت سے دوست قافلہ کے استقبال کے لئے پہنچے ہوئے تھے.ایک طرف تو بچھڑے ہوئے بھائیوں سے ملاقات دوسری طرف قادیان کا ماحول اور تیسری طرف بہشتی مقبرہ کا مقام ان سب باتوں نے مل کر اس دعا میں وہ سوز و گداز پیدا کر دیا جو اہل قافلہ کی رپورٹ کے مطابق صرف دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا.بہر حال ہمارے یہ دوست تیس دسمبر کی صبح تک قادیان میں ٹھہرے اور جلسہ کی شرکت کے علاوہ جو حسب دستور ۲۶ ، ۲۷، ۲۸ تاریخوں میں مقرر تھا ان ایام کو مقامات مقدسہ میں خاص دعاؤں اور عبادت میں گزارا.اور سب واپس آنے والے وست بلا استثناء کہتے ہیں کہ قادیان کے جملہ درویش اپنی جگہ نہایت قربانی اور لکیت کے جذبہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کے اوقات دعاؤں اور نوافل سے اس طرح معمور ہیں جس طرح ایک عمدہ اسفنج کا ٹکڑا پانی سے بھر جاتا ہے.اور سب درویش یہ عزم رکھتے ہیں کہ خواہ موجودہ حالات میں ان کا قادیان کا قیام کتنا ہی لمبا ہو جائے وہ انشاء اللہ پورے صبر اور استقلال اور قربانی کے ساتھ اپنی جگہ پر قائم رہیں گے بلکہ ان میں سے بعض نے اس بات پر حیرت ظاہر کی کہ جب ہم خود انتہائی خوشی اور رضا اور روم کے ساتھ یہاں بیٹھے ہوئے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے بعض پاکستانی رشتہ داروں کو ہماری جبہ
سے کوئی گھبراہٹ ہو.قادیان کے قیام کے دوران میں ہمارے دوستوں کو اُن ہندوستانی احمدیوں کی ملاقات کا بھی موقع ملا جو ہندوستان کے مختلف صوبوں سے جلسہ کی شمولیت کے لئے قادیان آئے تھے اور ان میں محترمی شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی حیدر آباد دکن اور چوہدری انور احمد صاحب کا ہوں امیر جماعت احمدیہ کلکتہ اور مولوی بشیر احمد صاحب امیر جماعت دہلی اور تحکیم خلیل احمد صاحب مونگیری اور سیٹھ محمد اعظم صاحب تاجر حیدرآباد دکن اور سیدار شد علی صاحب ارشد تا بجولکھنو اور مولوی محمد سلیم صاحب مبلغ مغربی بنگال بھی شامل تھے.اور تین دوست کشمیر سے بھی آئے تھے.ان ایام میں قادیان کے ہندوؤں اور سکھوں نے پاکستانی اور ہندوستانی زائرین اور بعض در ولشیوں کو چائے کی دعوت دی اور اس موقع پر ہمارے کئی دوستوں نے جن میں شیخ بشیر احمد صاحب امیر قافلہ پاکستان اور شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی اور حکیم خلیل احمد صاحب مونگیری شامل تھے دعوت دینے والوں کا شکریہ ادا کرنے کے علاوہ مناسب رنگ میں تبلیغ بھی کی.اور ہمارا جلسہ تو گویا محبت تبلیغ ہی تھا کیونکہ اس میں بیشتر تعداد غیر مسلموں کی شامل ہوئی تھی اور وہ سب ہمارے مقررین کی تبلیغی تقریروں کو نہایت درجہ تو جہ اور سکون سے سنتے رہے.بلکہ وہ اس بات کو سخت حیرت کے ساتھ دیکھتے تھے کہ یہ چند گنتی کے مسلمان اس درجہ غیر اسلامی ماحول میں گھرے ہوئے ہیں اور پھر بھی کرن جوت کے ساتھ ہمیں اسلام کا پیغام پہنچاتے اور اسلام زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں.ہمارا قافلہ ۳۰ دسمبر کو 1 بجے کے قریب قادیان سے روانہ ہو کر ہم بجے سہ پہر کے قریب رتن باغ لاہور میں پہنچ گیا اور بہت سے دوستوں نے دعا کے ساتھ اس کا استقبال کیا اور پھر محترمی شیخ بشیر احمد صاحب امیر قافلہ اور محترمی میرمحمد بخش صاحب ایڈووکیٹ رپورٹ دینے کی غرض سے ربوہ بھی پہنچے.قافلہ میں شامل ہونے والے اصحاب کے نام درج ذیل کئے جاتے ہیں :.شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور امیر قانند ۲- مولوی محمد صدیق صاحب بالغ مغربی افریقہ حال لاہور ۳ شیخ مبارک احمد صاحب مبلغ مشرقی افریقہ حال ربود ضلع جھنگ ۴- شیخ محمد عمر صاحب (مهاشه، مبلغ ریوه در مرزا و احمد حسین صاحب (گیانی مبلغ ریوه ۶ میر حمد بخش صاحب ایڈووکیٹ کو برانوالہ ، چوہدری محمداحمد صاحب واقف زندگی کارکن تعلیم الاسلام کالج لاہور شکیل احمد صاحب مونگیری لاہور و منشی عبد الحق صاحب کا تب جو دھامل بلڈ نگ لاہو
۲۳ ۱۰ مولوی عطاء اللہ صاحب واقف زندگی ربوہ ۱۱- چوہدری نوراحمد صاحب سان سنتر اپنی صد آمین حالی عنان ۱۲ - چوہدری غلام محمد صاحب کوٹ رحمت خالی شیخو پوره ۱۳.ماسٹر محمد شفیع صاحب الم مبلیانوالہ لائلپور ۱۴- مرزا مهتاب بیگ صاحب آن قادیان حال سیالکوٹ ۵ار مرزا محمد حیات صاحب مالک دواخانہ رفیق حیات سیالکوٹ ۱۶.خواجہ محمد عبد اللہ صاحب، عرف عبدل جہلم ا خواجہ عبدالواحد صاحب گوجرانوالہ ۱۸ والده عثمان علی درویش بنگالی مال ربوده ۱۹ - چوہدری فضل احمد صاحب ہیڈ ماسٹر بھیکہ (میانوانی) ۲۰ محمد یعقوب صاحب کا تب لافضل لاہور ۲۱ مستری عبدالحمید صاحب گوجرہ لائل پور ۲۲ - ملک نورالحق صاحب دوالمیال جہلم ۲۳- ملک محمد شفیع صاحب منٹگمری ۲۴- چوہدری لال خیال صاحب کھاریاں گجرات ۲۵ چوہدری فیض احمد صاحب گھٹیالیاں چیف اسپکٹر بیت المانی ریوه ۲۶ حاجی خدا بخش صاحب لیا نوالی مہاراں سیالکوٹ ۲۷.مبارک احمد صاحب العجانه احمد نگر (جھنگ) ۲۸- عبدالغفار صاحب شادیوال (گجرات) ۲۹- ملک محمد ابراہیم صاحب لالہ موسی (گجرات) ۳۰- محمد یوسف صاحب شادیوال (گجرات).ڈاکٹر برکت اللہ صاحب کو اٹ فتختان (کیمی پور ۳۲- مریه ( آسن بیگ صاحب ٹنڈو آدم سنده ۱۳۳- میان مولا بخش حماسب مخالفاہ ڈوگراں (شیخوپونه) ۳۴.ملک عبدالکریم صاحب تر گڑی (گوجرانوالہ) ۳۵ شیخ عبد الکریم صاحب چنیوٹ ۳۶- چوہدری نور محمد صاحب کوئٹہ.مسماة ظلام فاطمہ صاحبہ پر یم کوٹ (گوجرانوالہ ، ۳۸- قاضی مبارک احمد صاحب احمد نگر (جھنگ) ۳۹- پیچوہدری محمد نضال صاحب بن باجوہ (سیالکوٹ) ہم مینور احمد صاحب پر مولوی محمد ابراہیم صاحب قادیانی چنیوٹ ۴۱ - مالک نیاز محمد صاحب کسووال (نسٹ گری) ۴۲.ڈاکٹر محمد یعقوب نمان عاحب لاہور ۴۳.میاں مبارک امید صاحب پنڈی بھری (شیخو پوره) ۴۴- سردارمحمد صاب بھوڑ چک عشار شیخو پوره ۴۵ مسماۃ جیوا رتن باغ لاہور ۴۶ - ڈاکٹر محمد دین صاحب امین آباد (گوجرانوالہ) ہم - منیر احمد صاحب احمد نگر (جھنگ) ۴۸ - مرزا عبد المنان صاحب واہ کیمپلپور) ۴۹ منظور احمد صاحب شیخ پر رگجرات) ۵۰- ڈاکٹر محمد احمد صاحب حمید یہ فارمیسی جڑانوالہ زنائل پور کے ان کے علاوہ دو مزید احمدی دوست یعنی مستری عبد الکیم صاحب لاہور اور میاں نذیر احمد صاحب
ڈسکہ کنڈکٹر کی حیثیت میں شامل ہوئے " سال قادیان کی انوار و برکات سے فیضیاب پاکستانی قافلہ کے خیر مقدم کا منظر بڑا پاکستانی قافلہ کا خیر مقدم ہی ترکیف اتارا تو نبی انا نے جو واہگہ کی پاکستانی حد و دی ال خوش ہوتے ہی پاکستان زندہ باد ، احمدیت زندہ باد اور حضرت امیر المومنین زندہ باد کے نعرے بلند کئے جماعت احمدیہ لاہور کے بہت سے احباب نے آگے بڑھ کر زائرین کا استقبال کیا اور زیارت مرکز سے مشرف ہونے پر مبارکباد پیش کی.امیر قافلہ شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ نے احباب لاہور کو درویشان قادیان کا ایک مختصر لیکن پیارا پیغام سنایا جو السلام علیکم اور درخواست دعا کے دو مختصر جملوں پر مشتمل تھا.قافلہ دعائیں کرتا ہوا واہگہ سے روانہ ہو کر نہین باغ پہنچا جہاں مقامی جماعت کے بہت سے احباب جمع تھے قافلہ کے یہاں پہنچنے پر فضا دوبارہ نعروں سے گونج اٹھی.زائرین نے رتن باغ کی مسجد میں نماز عصر ادا کی جس کے بعد امیر قافلہ نے ایک رقت آمیز دعا کرائی اور تمام زائرین کو بجانے کی اجازت دی بیلے فصل هفتم قادیان اور بوہ میں سالانہ ملا ۶۱۹۴۹ ۰۱ حسب سابق اس سال بھی احمدیت کے دائمی مرکزہ قادیان کا سالانہ جلسه ۲۶ تا ۲۸ مه فتح ه۸۳۲ دسمبر ہ کو زنانہ جلسہ گاہ میں منعقد ہوا.اس جلسہ میں قریباً ایک ہزا را فرا دنے شرکت کی تقسیم ہند کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ پاکستانی احمدی شامل مجلہ ہوئے.زائرین میں پاکستان کے ڈپٹی ہائی کمشنر مقیم جالندھر میجر جنرل راجہ عبدالرحمن صاحب کا نام قابل ذکر ہے میلہ میں ۳ ہندوستانی احمدی تشریف لائے جن میں چار مستورات اور پانچ بیچتے بھی شامل تھے.حضرت مولوی عبد الرحمن صاحب بنٹ امیر حجامت ه روزنامه الفضل ، صلح ه۱۳۲۹ / جنوری ۱۱۹۵۰ ۲۰ له الفضل ۳۱ فتح ه۳۲۸ / نمبر ۱۹۳۹ صدا و من
قادیان نے اپنی افتتاحی تقریر میں بعض مقتدر احمدی اکابر کے پیغامات اور دنیا بھر کے احمدی مشنوں کے مراسلات سُنائے.ازاں بعد پاکستانی قافلم کے امیر شیخ بشیر احمد صاحب ایڈوکیٹ لاہور نے صدارتی تقریر میں بتایا کہ حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی نے دیگر بابرکت ارشادات کے علاوہ مجھے یہ پیغام پہنچانے کے لئے فرمایا تھا کہ اپنے رب پر بھروسہ رکھو.اس کی کامل اطاعت کرو.اس پر کامل یقین اور اس کی کامل اطاعت کے ساتھ دنیا میں امن قائم ہو سکے گا.“ مندرجہ ذیل مقررین نے اس جلسہ سے خطاب کیا: - مکرم عبدالحمید صاحب عاجز (ہستی باری تعالی ) -۲- حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی الكبير ( ذكر حبيب ) -۳- مکرم مولوی شریف احمد صاحب امتینی ( حضرت مسیح موعود کے کارنامے ) ۴ مکرم مولوی محمد ابراہیم صاحب قادیانی ( پیشگوئی مصلح موعود ) -۵- مکرم مولوی محمد حفیظ صاحب بقا پوری ( صداقت مسیح موعود ) مکرم ملک صلاح الدین صاحب ایم اے مؤلف اصحاب احمد (جماعت احمدیہ کا سلوک غیر مسلموں سے ) ہے.مکرم مولوی بشیر احمد صاحب مبلغ دہلی ( صداقت مسیح موعود از روئے ہندو سکھ مذہب ) -۸- مکرم مولوی محمد سلیم صاحب مبلغ کلکتہ ( اسلام اور کمیونزم.قادیان سے ہماری ہجرت ) ۹ - مکرم مولوی عبد القادر صاحب دہلوی ( اسلام میں عورت کا درجہ ) ۱۰ مکرم مولوی برکات احمد صاحب را جیکی بی اے ( قادیان کی تاریخ ) مکرم گیانی مرزا واحد حسین صاحب (سکھ مسلم اتحاد ) ۱۲- حضرت حکیم خلیل احمد صاحب مونگھیری ( حکومت در عایا کے تعلقات اسلام کے نقطہ نظر سے ) ۱۳ مکرم مہاشہ محمد عمر صاحب (ہندو مسلم اتحاد) ۱۴ مکرم مولوی محمد اسمعیل صاحب یاد گیر ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق فاضلہ ) ۱۵- مکرم شیخ مبارک احمد صاحب سابق رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ ۱۶ مکرم مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری مبلغ سیرالیون مؤخر الذکر مبلغین نے افریقہ میں تبلیغ اسلام کے موضوع پر اظہار خیال فرمایا.
۶۶ اس مبارک اجتماع پر بالاتفاق ایک قرارداد پاس کی گئی جس میں بھارتی حکومت کو توجہ دلائی گئی کہ :- ا.قادیان میں مقیم درویشوں کو یہ اجازت ضرورمانی چاہئے کہ اُن کے اہل وعیال اُن سے مل سکیں.-۲- قادیان میں قریباً پچاس ساٹھ ایسے احمدی زائر مقیم ہیں جو ایام فسادات میں یہاں آئے تھے اور اب وہ واپس اپنے وطن پاکستان جانے کے لئے بے تاب ہیں.اس کے علاوہ قادیان کے بعض ابتدائی باشندے یہاں از سر نو آبادہونا چاہتے ہیں.۳.حکومت نے صدر انجمن احمدیہ قادیان کی قیمتی جائداد مترو کہ قرار دے کر اپنے قبضہ میں لے رکھی ہے حالانکہ یہ انجمن آب بھی قادیان میں قائم ہے.۴ - قادیان کے بعض تعلیمی اداروں کو بہت جلد واگذار کر دیا جائے کیونکہ محض ان اداروں کے نہ ہونے کی وجہ ہی سے احمدی بچوں کی تعلیم نظر انداز ہورہی ہے.۵- جو ہندوستانی احمدی مذہبی اور دینی تعلیم سیکھنے کے لئے باہر جانا چاہیں انہیں ہر قسم کی سہولتیں دی جائیں.احمدیوں کی جو مسجدیں اور قبرستان ملکی فسادات کے دوران مسمار کئے جاچکے ہیں وہ واگزار کی جائیں اور انکی مرمت و تعمیر کے لئے مناسب انتظامات کئے جائیں.ے.قادیان احمدیوں کا مذہبی مرکز ہے مگر حکومت نے شرنارتھیوں کو بعض حالات کے تقاضا کے تحت اس میں رہنے کی اجازت دے دی ہے نیز قادیان میونسپلٹی نے قادیان کے بعض ایسے محلوں اور گلیوں کے اسلامی نام بدل دئے ہیں جن سے مذہبی تقدس اور سلسلہ احمدیہ کی بعض قدیم روایات وابستہ ہیں.اس اقدام سے احمدیوں کے جذبات کو سخت ٹھیس پہنچی ہے.قادیان کے محلوں اور گلیوں کے پہلے اسلامی نام بحال کئے جائیں اور جماعت احمدیہ کے مذہبی حقوق کا تحفظ کیا جائے.اخبارسول اینڈ ملٹری گزٹ کے خصوصی نامہ نگار نے اس جلسہ کی مفصل روداد لکھی جو اس اخبار کی ۲۹ دسمبر ۱۹۴۹ء (ص ۶) کی اشاعت میں شائع ہوئی ہے جلسہ بوہ ٹھیک انہی تاریخوں میں جبکہ حضرت مہدی معہود علیہ السلام کی مقدس ہستی میں شمع احمدیت کے پروانے جمع ہوئے سرزمین ربوہ میں احمدیت کے نئے مرکز کا دوسرا سالانہ جلسہ لے خبر کا متن ضمیمہ میں ملاحظہ ہو.
منعقد ہوا جس میں دیگر علمائے سلسلہ کی تقاریر کے علاوہ حضرت امیر المومنین خلیفہ اسی الثانی الصلح الموعود نے اپنے روح پرور اور ایمان افروز خطابات سے نوازا.حضور نے اپنی افتتاحی تقریر میں فرمایا : ہماری موجودہ مثال ان کمزور پرندوں کی سی ہے جو دریا کے کسی خشک حصہ میں ستانے کے لئے بیٹھے جاتے ہیں اور شکاری جو ان کی تاک میں لگا ہوا ہوتا ہے ان پر فائر کر دیتا ہے اور وہ پرندے وہاں سے اُڑ کر ایک دوسری جگہ پر جا کر بیٹھ جاتے ہیں ہم بھی آرام سے اور اطمینان سے دنیا کی چالاکیوں اور ہوشیاریوں اور فریبوں سے بالکل غافل ہو کر، کیونکہ مومن چونکہ خود چالاک اور فریبی نہیں ہوتا وہ دوسروں کی چالاکیوں اور فریبوں کا بھی اندازہ نہیں لگا سکتا.اپنے آرام گاہ میں اطمینان اور آرام سے میٹھے تھے اور ارادے کر رہے تھے کہ ہم میں سے کوئی اُڑ کر امریکہ بجائے گا، کوئی انگلستان بنائے گا، کوئی جاپان جائے گا اور دین اسلام کی اشاعت ان جگہوں میں کرے گا لیکن میالاک شکاری اس تناک میں تھا کہ وہ ان غافل اور سادہ کوچ پرندوں پر فائر کرے چنانچہ اس نے فائر کیا اور چاہا کہ وہ ہمیں منتشر کر دے مگر ہماری جماعت جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات میں پرندہی قرار دیا گیا ہے اپنے اندر ایک اجتماعی روح رکھتی تھی.یہ مشرقی پنجاب سے بہت سی قومیں بہت سے گاؤں نکلے، بہت سے شہر نکلے، بہت سے علاقے نکلے لیکن انہوں نے اپنے فعل سے ثابت کر دیا کہ وہ قومی روح اپنے اندر نہیں رکھتے تھے.وہ پراگندہ ہوگئے ، وہ پھیل گئے، وہ منتشر ہو گئے یہاں تک کہ بعض جگہ پر بھائی کو بھائی کا، باپ کو بیٹے کا اور ماں کو اپنی لڑکی کا بھی حال معلوم نہیں.صرف وہ چھوٹی سی قوم، وہ تھوڑے سے افراد جو دشمن کے تیروں کا ہمیشہ سے نشانہ بنتے چلے آئے ہیں.اور جن کے متعلق کہنے والے کہتے تھے کہ دشمن کے حملہ کا ایک ریلا آنے دو پھر دیکھو گے کہ ان کا کیا حشر ہوتا ہے ؟ جونہی حملہ ہوا یہ لوگ متفرق ہو جائیں گے منتشر اور پراگندہ ہو جائیں گے وہی ہیں جو آج ایک مرکز پر جمع ہیں وہ کثیر التعداد آدمی جو وہاں سے نکلے تھے و پھیل گئے وہ بکھر گئے وہ پراگندہ ہو گئے مگر وہ چھوٹی سی جماعت جس کے متعلق کہا جاتا تھا کہ ایک معمولی سا ریلا بھی آیا تو یہ ہمیشہ کے لئے منتشر ہو جائے گی وہ مرغابیوں کی طرح اٹھی تھوڑی دیر کے لئے ادھر اُدھر ڈی مگر پھر جمع ہوئی اور ربوہ میں آکر بیٹھ گئی چنانچہ جو نظارہ آج تم دیکھ رہے ہو یہ خواہ اتنا شاندار نہیں
NA جتنا قادیان میں ہوا کرتا تھا کیونکہ ابھی ہماری پیرانیانی کا زمانہ ختم نہیں ہوا لیکن اور کونسی قوم ہے نہیں کی حالت تمہارے جیسی ہے.اور کونسی جماعت ہے، جو آج اس طرح پھر جمع ہو کر ایک مقام پر بیٹھ گئی ہے یقینا اور کوئی قوم ایسی نہیں اپس تمہارے اس فعل نے بتا دیا کہ تمہارے اندر ایک حد تک قومی روح ضرور سرایت کر چکی ہے تم آڑے بھی تم پراگندہ بھی ہوئے، تم منتشر بھی ہوئے مگر پھر جو تمہاری جبلت ہے، جو تمہاری طبیعت ہے، جو چیز تمہاری فطرت بن چکی ہے کہ تم ایک قوم بن کر رہتے ہو اور ایک آواز پر اکٹھے ہو جاتے ہو یہ فطرت تمہاری ظاہر ہو گئی اور دنیا نے دیکھ لیا کہ کوئی طاقت تمہیں ہمیشہ کے لئے پراگندہ نہیں کر سکتی.اس کے بعد حضور نے شعبان شہر کے مشہور واقعہ غزوہ بنو مصطلق پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا :- مجھے اس وقت یا د تو کیا آگیا ایک واقعہ تھا جس کا اس بات کے کہتے کہتے میری آنکھوں کے سامنے نفقہ کھنچ گیا.ایک جنگ کے موقع پر نہار اون با جرین میں جھگڑا ہو گیا.اور یوں حلوم ہونے پر ہوا لگا جیسے آج مہاجر اور انصار آپس میں لڑہی پڑیں گے.اس وقت عبد اللہ بن ابی ابن سلول دیرینہ منافق نے کہا اسے انصار یہ تمہاری ہی غلطیوں کا نتیجہ ہے کہ تم ان لوگوں کے منہ سے ایسی باتیں سن رہے ہو میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ تم ایسا قدم مت اٹھاؤ مگر تم نہ مانے اب شکر ہے کہ میری بات تمہاری سمجھ میں آرہی ہے تم ذرا ٹھہرو اور مجھے مدینہ پہنچ لینے دو پھر دیکھو گے کہ مدینہ کا سب سے زیادہ معزز شخص یعنی وہ کمبخت (نعوذ باللہ مدینہ کے سب سے زیادہ ذلیل آدمی یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں سے نکال دے گا اور یہ فتنہ ہمیشہ کے لئے دُور ہو جائے گا.عبد اللہ کا بیٹا مومن تھا وہ ایک سچا مسلمان تھا جب اس نے اپنے باپ کی یہ بات سنی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا یا رسولی اللہ میرے باپ نے جو بات کہی ہے اس کی سزا سوائے قتل کے اور کوئی نہیں ہو سکتی اور میں یقین رکھتا ہوں کہ آپ یہی سزا اسے دیں گے لیکن میرے دل میں خیال آتا ہے کہ اگر کسی اور مسلمان کو آپ نے کہا اور اس نے میرے باپ کو قتل کر دیا اور پھر کوئی کمزوری کا وقت مجھ پر آ گیا اور وہ مسلمان میرے سامنے آیا تو ممکن ہے میرے دل میں خیال آجائے کہ یہ میرے باپ کا به سیرت خاتم النبیین حصہ دوم طبع اول ص ۲۳۲ تا صد ۲۳ مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب
79 قاتل ہے اور میں جوش میں آکر اس پر حملہ کر بیٹھوں اور اس طرح بے ایمان ہو جاؤں.یارسول للہ میری درخواست یہ ہے کہ آپ مجھے ہی یہ حکم دیجئے کہ میں اپنے باپ کو اپنے ہاتھ سے قتل کروں تا کہ کسی مسلمان کا کینہ میرے وال میں پیدا نہ ہو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہمارا ایسا کوئی ارادہ نہیں کہ ہم تمہاری باپ کو قتل کریں اس نے بات کی اور اپنے اندرونہ کو ظاہر کر دیا ہماری طرف سے اس پر کوئی گرفت نہیں.اب بات بظا ہر ختم ہو گئی اور وہ آئی گئی ہوگئی.انصار اور مہاجر آپس میں پھر جاگیر ہو گئے.عبدالہ بن ابی ابن سلول پھر الیل اور شرمندہ ہو کر اپنے نیم میں جاگا.پھر انصار اور مہاجرین میں بھائیوں بھائیوں کا سا نظارہ نظر آنے لگا غیر اس کی بات بھول گئے رشتہ دار اس کی بات بھول گئے، دوست اس کی بات بھول گئے دشمن اس کی بات بھول گئے لیکن اس کا بیٹا اس بات کو نہیں بھولا اور بغیر اس واقعہ کے ایسے اور کسی چیز کا خیال تک نہیں آیا جس وقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری مدینہ منورہ میں داخل ہو چکی اور اسلامی لشکر اندر داخل ہونے لگا تو وہ لڑکا اپنی سواری سے کود کر گلی کے کنارے پر کھڑا ہو گیا اور جب اپنے باپ عبد اللہ بن ابی کو دیکھا تو اس نے تلوار نکال کر اپنے باپ سے کہا تمہیں یاد ہے تم نے وہاں کیا الفاظ کہے تھے تم نے کہا تھا کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم مدینہ کا سب سے زیادہ ذلیل انسان ہے اور تم سب سے معزز انسان ہو.غذا کی قسم محمد رسول اللہ سے اللہ علیہ وسلم نے تم کو معاف کر دیا لیکن میں تمہیں معاف نہیں کروں گا اور تمہیں اس وقت تک مدینہ میں داخل نہیں ہونے دوں گا جب تک تم تین دفعہ میرے سامنے یہ اقرار نہ کرو کہ میں سب سے زیادہ ذلیل ہوں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ معززہ انسان ہیں.باپ نے دیکھ لیا کہ آج اس بیٹے کی تلوار ی سے پیٹ میں جائے بیر نہیں رہے گی، آج اس کی تلوار میرے دل کو چیرے بغیر نہیں رہے گی اس نے اپنے سارے ہمنشینوں اور تلسیوبی کے سامنے جن میں وہ اپنی بادشاہت کی لائیں مارا کرتا تھا اقرار کیا کہ ہاں میں مدینہ کا سب سے زیادہ ذلیل شخص ہوں اور محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ معتز زانسان ہیں.مجھے یہ واقعہ یاد آگیا اور نہیں نے کہا خدا کی رحمتیں ہوں عبداللہ کے بیٹے پر کہ اس نے اس طعنہ کو نہیں بھایا اور تب تک اس نے آرام نہیں کیا جب تک اپنے باپ کے منہ سے اس نے یہ نہ کھلوایا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی سب سے زیادہ معوز وجود ہیں اور صلے
اس کا باپ سب سے زیادہ ذلیل آدمی ہے مگر خدا رحم کرے ہم پر بھی جن کے سامنے دنیا نے محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کو اتنی گالیاں دی ہیں کہ کسی ذلیل ترین انسان کو بھی وہ گالیاں نہیں دی گئیں مگر ہم آرام سے بیٹھے ہیں ہمارے دلوں میں یہ جوش پیدا نہیں ہوتا کہ ہم وہ بات غیر کے منہ سے کھلوا سکیں جو عبد اللہ کے بیٹے نے عبد اللہ کے منہ سے کہلوائی کس طرح ہم کو چکن آرہا ہے کس طرح ہمارے دل ادھر اُدھر کی باتوں میں مشغول ہیں.اگر عبداللہ کے بیٹے مقتنا ایمان ہی ہمارے دلوں میں ہوتا حالانکہ چاہیئے تھا کہ اس سے بہت زیادہ ایمان ہوتا تو ہمارا فرض تھا کہ ہم اس وقت تک میسر نہ کرتے جب تک دنیا کو گھٹنے ٹیک کر یہ الفاظ کہنے پر مجبور نہ کر دیتے کہ دنیا کا سب سے زیادہ معتر ز وجود محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کا ہے اور اس کا دشمن سب سے زیادہ ذلیل ہے ہم ایک دفعہ پھر یہاں جمع ہوئے ہیں خدا تعالیٰ کی عنایت اور اس کی مہربانی سے آؤ ہم بیچے دل سے یہ عہد کریں کہ ہم کم سے کم عبد اللہ کے بیٹے جتنا ایمان دکھائیں گے اور جب تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کا اقرار دنیا سے نہیں کروالیں گے اس وقت تک ہم اطمینان اور چین سے نہیں بیٹھیں گے یا اے حضور نے افتتاحی خطاب کے علاوہی ۱۲۸٫۲ فتح حضرت امیر المومنین کی دوسری تقریریں کیدوسری دسمبر کو مفصل تقاریر فرمائیں جن میں ان پیشگوئیوں پر تفصیلا روشنی ڈالی جو اس زمانہ میں حضور کے بابرکت وجود سے پوری ہوئیں.ربوہ میں زمین خریدنے اور اس میں مکان بنانے کی نصیحت کی غرباء کے مکانات کے لئے چندہ کی تحریک فرمائی.انگریزی ترجمہ قرآن کی ایک اور جلد تیار ہونے کی خوشخبری دی.خدام الاحمدیہ کو پابندئی نماز، ذکر الہی ، شعار اسلامی کے قیام خدمت خلق اور بہادری جذبہ قربانی اور ایثار کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا بہادری کا نمونہ دکھاؤ اور ماریں کھانے ، گالیاں شنکر برداشت کرنے کی عادت ڈالو لیکن بے غیرتی مت دکھاؤ کیونکہ بہادری بے غیرتی کا نام نہیں.زراعت کے تعلق میں اگلے سال احمدی زمینداروں اور ماہرین فون کی ایک مجلیس شوری بلانے کا ارادہ ظاہر کیا.تجارت کے بارے میں بتایا کہ اس کے بغیر جماعت ترقی نہیں کر سکتی نیز یہ کہ ہم نے ایک چیمبر آف کامرس قائم کیا ہے.چھوٹے بڑے سب تاجروں کو چاہیے کہ وہ اس میں شامل ہوں تا جماعت منظم ہو سکے حضور نے دوران تقریر مہاجرین کو خوش رہنے کی بھی تلقین فرمائی پھر اس تجویز شه ع الفضل السر فتح ه م نه مکمل متن الفضل 16 ستمبر 1961ء فقد ون 15 میں شائع ہوا
کا اعلان کیا کہ قضیوں کا بورڈ قائم کیا جائے جو مشرقی پنجاب سے آنے والے مقروضوں کے تنازعات کا فیصلہ کرے جس شخص کا کسی دوسرے کے ذمہ قرض ہو وہ محکمہ قضاء میں نالش کرے.البتہ اگرکسی کو رجسٹرڈ بالمیٹڈ کمپنیوں کے بارہ میں شکایت ہو تو وہ سرکاری عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے کیونکہ محالہ کو لٹکانا فساد پیدا کرتا ہے اور اس سے دلوں پر رنگ لگتا اور فتنہ پیدا ہوتا ہے.الغرض حضور نے پیش آمدہ حالات میں احباب جماعت کی راہنمائی فرمائی سے ر اس جلسہ میں گذشتہ جلسہ کے مقابل سامعین کی تعداد تیرہ ہزار جلسہ ربوہ کی لعیض خصوصیات کے بر کی بات بنے گی جیسا کہ یارسول اینڈ میری گرد +1909 اور پاکستان ٹائمز (موریضہ) ۳۱ دسمبر ۹ہ نے سٹار نیوز ایجنسی کے حوالہ سے خبر شائع کی.جلسہ میں مستورات کے لئے ایک الگ لنگر خانے کا انتظام کیا گیا.لجنہ اماءاللہ کی متظلمات اپنی ضرورت کے مطابق کھانا پکواتیں اور اپنے زیر نگرانی تقسیم کراتی تھیں.یہ پہلا تجربہ تھا جوبہت کامیاب رہا.اس دفعہ مہمانوں کے قیام کے لئے دو سو بر کی تیار کی گئیں جن میں حضرت امیر المومنین اصلح الموعود کی ہدایت کے مطابق کچی اینٹوں کے علاوہ پانچ لاکھ پکی اینٹیں بھی استعمال کی گئیں.یہ کام حضرت صاجزاء مرزا عزیز احمد صاحب ناظر اعلیٰ کی مسلسل تگ و دو اور شب وروز کی محنت شاقہ سے پایہ تکمیل کو پہنچا.بیرکوں کے علاوہ پانچ سو سنتیں خیموں اور چھولداریوں کا بھی بندو بست کیا گیا.1979 باه شهادت ۱۳۲۸ / اپریل ۱۹۴۹ کے پہلے جلسہ ربوہ میں تو مصارف کثیر کے باوجود پانی کی سخت وقت رہی تھی اور ٹینکروں کے ذریعہ ساڑھے سات میل کے فاصلہ سے پانی منگوانا پڑا تھا مگر اس جلسہ پر زندہ خدا کا پر زندہ نشان ظاہر ہوا کہ خدا تعالیٰ کی اس بشارت کے مطابق کہ ربوہ میں با افراط پانی میسر آنے لئے گانے نہ صرف یہ کہ بیوہ کی بنجر اور کلر زدہ زمین میں سے میٹھا پانی نکلا بلکہ اس کثرت سے نکالا کہ جلسہ سالانہ پر آنے والے نہیں ہزار مہمانوں کی ضروریات بآسانی پوری ہوتی رہیں.اور پھر نکلا بھی عین اس جگہ کے قریب جو پہلے سے پاس شدہ نقشہ کے مطابق حضرت مصلح موعود کے مکان کے لئے مخصوص سے تھی ہے له الفضل صلح ۱۳۲۹۵ ص۴۳ * سے تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد ۱۳ ص ۲، ص۳ کے جلسہ سالانہ کے تفصیلی کو الف روزنامہ الفضل ۱۶۰۱۳۰۱ صلح ه۲۹ میں شائع شدہ ہیں : ؛
فصل ششم جلیل العقد اصحاب کا انتقال راس سال متعدد جلیل القدر صحابہ نے انتقال کیا جن کا تذکرہ ذیل میں کیا جاتا ہے :.ہے (ولادت اندازا بیعت ۲۳ نومبر ۱۸۶۹ ١- حضرت میاں خیر الدین صاحب لکھوائی : ۸۸۹ام وفات ، در امان ۳۳۳۸۸ مارچ ۱۹۴۹ بعمر انٹی سال) حضرت میر محمدی علیہ السلام کے ان اولین صحابہ میں سے تھے جن کو بہیت اولی سے بھی قبل حضور سے تعلق عقیدت و ارادت تھا.حضرت اقدس علیہ السلام نے اپنے تین سو تیرہ اصحاب کبا رمیں آپ کا نام آئینہ کیار کمالات اسلام میں ۹۸ نمبر پر اور ضمیمہ انجام آنھم میں ۳۲ نمبر بر درج فرمایا ہے.ار میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے حکم ایک سہ رکنی وفد نمیدین کے آثار قدیمہ کی اس موقع پر چھان ہیں اور سفر مسیح ناصری کی مزید تحقیقات کے لئے تیار کیا گیا سیکھوانی برادران نے جومالی قربانی پیش کی اس پر خور حضرت ہیں موعود علیہ اسلام نے اپنے عظیم مبارک سے اظہار خوشنودی کیا اور تحریر فرمایا :- ان چاروں صاحبوں کے چندہ کا معاملہ نہایت عجیب اور قابل رشک ہے کہ وہ دنیا کے مال سے نہایت ہی کم حصہ رکھتے ہیں گویا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرح ہو کچھ گھروں میں تھاوہ سب لے آئے ہیں، اور دین کو آخرت پر مقدم کیا جیسا کہ بیعت میں شرط تھی کا ہے عمر میں جب حضور علیہ السلام نے مینارہ مسیح کے لئے اپنے غلام سے ایک ایک سو روپیہ چندہ کی ایک فرمائی تو حضرت میاں صاحے اور ان کے بھائیوں نے منے اپنی والدہ ماجدہ کے درخواست پیش کی کہ ہم اس چندہ میں شامل ہونا اپنی سعادت سمجھتے ہیں لیکن اِس قدر وسعت نہیں کہ ہم میں سے ه والد احمد مولوی قمرالدین صاحب کے اشتہار علیہ الوداع مشموله تبلیغ رسالت جلد ہشتم صدا
۷۳ ہر ایک سو سو روپیہ دے سکے اس لئے ہم چاروں ہی ایک سور و پیر دیں گے اگر منظور فرمایا جاؤے.حضور نے یہ درخواست منظور فرمالی اور جب خلافت ثانیہ کے عہد مبارک میں مینارہ اسی کی تکمیل ہوئی الله تو ان تینوں خوش نصیب بھائیوں اور ان کی والدہ کے نام مینارہ اسیج پر کندہ کئے گئے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام عموماً دوسروں کی اقتداء میں نماز پڑھا کرتے تھے لیکن بعض واقعہ آپ خود بھی نماز پڑھاتے تھے حضرت میاں خیر الدین صاحب کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ آپ نے دو بار حضور کی اقتداء میں نماز پڑھی.ایک بار قبل از دعوی مسجد اقصی میں شام کی نماز جس کی ایک رکعت میں حضور نے سورۃ والتین کی تلاوت فرمائی.دوسری دفعہ نمازظہر حضور کی اقتداء میں پڑھنے کا موقع ملا.حضور مقدمہ کرم دین کے سلسلہ میں گورداسپور تشریف لے جارہے تھے اور حضور نے یہ نماز بڑی نہ پر پڑھائی آپ نظام الوصیت سے بھی وابستہ تھے اور مجاہدین تحریک جدید میں بھی شامل تھے.پنجگانہ نماز بلکہ تجد کا نہایت درجہ التزام رکھتے تھے.روزوں کی پابندی میں اپنی نظیر آپ تھے.۱۳۳۶ ۱۹۴۶ میں قادیان سے ہجرت کر کے جہلم شہر میں فروکش ہو گئے تھے جہاں گاڑی کے ایک حادثہ سے انتقال فرما گئے بیٹے ولادت جنوری ۱۸ ۲ - میان خیر الدین صاحب متوطن قادر آباد تحصل قادیان - بیعت خنشله ، زیارت 199 ه، وفات هم رو فاها مطابق ہر جولائی ۱۹۴۹ئر بمقام احمد نگر ضلع جھنگ) آپ کے والد میاں محمد بخش صاحب ابتداء میں ہی شامل احدیت ہو گئے تھے.آپ کا گھرانہ گوری خاندان حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے زیر سایہ ہی رہتا تھا اور نہ صرف یہ کہ اس مبارک خاندان کے دوسرے افراد قادر آباد ( قادیان سے متصل ذیلی بستی میں جاتے اور مستری صاحب کو شرف خدمت حاصل ہوتا بلکہ ایک بار خود حضرت مسیح موعود و صدی معہود علیہ السلام تشریف لے گئے.فرمایا کرتے تھے جب میں تجاری کا کام ه روایات صحا به غیر مطبوعہ جلد ۱۳ ص ۲۵ که روایات صحابه غیرمطبوعه جلد ۱۳ ص ۴۲ تا ۲۵۵۰ و جلد صدا تا صہ میں آپ کی بیان فرمودہ روایات محفوظ ہیں ؟ ۳ الفضل ، ۳۰ امان ۲۱۵ مث کالم ۲ ه الفضل ١٣ وفا ه۱۳۳۲ م کالم را : شه و شه رجسٹر روایات صحابہ جلد ع ص ۲۳ (غیر مطبوعہ ) الفضل ، اروفا ١٣٢٧ من كالم.
۷۴ سیکھنے لگا تو حضور کو دعا کے لئے عرض کیا تو حضور نے دعا فرمائی جس کی وہبر سے اللہ تعالیٰ نے بے حد برکت دی.آپ حضرت اقدس علیہ السلام کی صداقت کے ایک عظیم نشان کے مینی شاہد بھی تھے جس کی تفصیل ان کے الفاظ میں یہ ہے :." جب ہمارے ملک میں طاعون پھوٹی تو ہمارے گاؤں قادر آباد میں بھی شروع ہوگئی اور بہت سے لوگ بیمار ہو گئے منجملہ ان میں سے میرے والد صاحب بھی تھے ہیں اور میری والدہ صاحبہ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے پاس گئے آپ اُس وقت کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے میری والدہ صاحبہ نے سارا حال بیان کیا اور دعا کے لئے بھی عرض کی.آپ نے ہاتھ اُٹھا کر دعا فرمائی اور اپنے میز کی دراز سے ایک بریسی (جد وار) کی گنڈی دی اور فرمایا کہ اس کو رگڑ کر پھوڑے پر لگاؤ اور چار پانچ آنے کے پیسے بھی دیئے اور آپ نے یہ حکم دیا کہ تم رَبِّ كُلَّ شَيْئُ خَادِمُكَ رَبِّ فَاحْفَظَنِي وَانْصُرْنِ وَارْحَمْنِی بہت پڑھو اور لوگوں کو بھی پڑھاؤ میری والدہ صاحبہ نے عرض کیا کہ مجھے یہ دعا یا دنہیں رہے گی آپ اس کو کاغذ پر لکھ دیں تو آپ نے یہ دعا ایک کا غذ پر لکھ دی اور یہ بھی فرمایا کہ تم گھروں سے نکل جاؤ اور لوگوں سے بھی کہہ دو کہ وہ بھی گھروں سے نکل جائیں تب ہم نے گھر آکر والد صاحب کی چار پائی گاؤں کے باہر درختوں کے نیچے بچھائی اور لوگوں کو بھی کہا کہ تم گھروں سے نکل جاؤ..جو ان میں سے نکلے وہ بچ گئے اور باقی سب کے سب موت کا شکار ہوئے اور ہم نے حضور کے حکم کے مطابق تریسی کی گھنٹی پھوڑے پر لگائی اور عارت كُل شَيْيُّ خَادِمُكَ رَبِّ فَاحْفَظْنِي وَانْصُرْنِي وَ ارحمنى بکثرت پڑھی اور سب لوگوں کو یاد کرائی تب خداوند تعالیٰ نے مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعا سے اور آپ کے بیان کردہ علاج سے ہمارے والد صاحب کو شفا بخشی اور ہمیں نظموم و ہموم سے نجات بخشی یا لے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عید مبارک کی بعض مرکزی تعمیرات میں آپ کو مخدمت بجالانے کا موقع یلا تقسیم ملک سے پہلے جماعت احمدیہ قادر آباد کے پریزیڈنٹ تھے ہجرت نہ کے بعد اہل و عیال سمیت احمد نگر متصل ربوہ میں پناہ گزین ہوئے یہاں بھی ایک سال تک سیکرٹری ضیافت رہے.مہمانوں کی خدمت شوق سے کرتے تھے طبیعت میں بہت فروتنی اور ملنساری تھی.بزرگان سلسلہ کی خدمت کو سعادت اے رجسٹر روایات صحابہ جلدی ص۲۳
سمجھتے تھے.اکثر وقت تلاوت قرآن عظیم میں گزارتے تھے.خود بھی نمازوں کے پابند تھے اور اپنے رشتہ داروں کو بھی پابندئی صلوہ کی تاکید کیا کرتے تھے مومی اور صاحب رؤیا تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ مبارک کے حالات درد مند لہجے میں شنایا کرتے تھے.المختصر ایک نیک سیرت سچے او مخلص احمدی بزرگ تھے.اے سے اولادت شاه بیعت تامر ، وفات -۳- حضرت شیخ مشتاق حمید صاحب : ۲۴ ر طور ه ۳۳ را مطابق ۲۳ را گست ۶۱۹۳۹ حضرت شیخ مشتاق حسین صاحب کے قبول احمدیت کا مختصر واقعہ یہ ہے کہ آپ نے دتی دروازہ لاہور کے باہر جماعت احمدیہ کی طرف سے دیواروں پر ایک پوسٹر لگا ہوا دیکھا جس میں دعویٰ حضرت مسیح موعود کا ذکر تھا پوسٹ پڑھتے ہی آپ کے دل میں حضور علیہ السلام کی محبت پیدا ہو گئی اور آپ نے بیعت کا خط لکھ دیا.اس کے بعد سلسلہ کے ساتھ جوں جوں واقفیت بڑھتی گئی آپ ایمان و عرفان میں ترقی کرتے چلے گئے حتی کہ طاعون کی شدت کے زمانہ میں جبکہ عام موتا موتی لگ رہی تھی اور لوگوں پر خوف و ہر اس طاری تھا آپ دیوانہ وار مصروف تبلیغ رہتے تھے.آپ کا قیام ان دنوں اندرون بھائی دروازہ لاہور محلہ پٹ رنگاں کے ایک چوبارے میں تھا نچلی منزل میں اور لوگ رہتے تھے جو سب لقمہ طاعون ہوئے جس پر لوگوں نے انہیں چوبارہ خالی کر کے کسی اور مکان میں منتقل ہونے کا مشورہ دیا مگر آپ نے فرمایا کہ طاعون کے کپڑے احمدیوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کشتی نوح سے پیش کر کے فرمایا کرتے تھے کہ اگر تم بھی طاعون سے محفوظ رہنا چاہتے ہو تو آؤ احمدیت قبول کر لو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد مبارک میں آپ کو سالانہ جلسہ قادیان میں شرکت کرنے کا بھی شرف حاصل ہوا.۱۵ میئی شاہ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے مسلمانوں کے مشہور روشن خیال سیاسی لیڈر مسٹر فضل حسین صاحب بیرسٹر کی ملاقات ہوئی جس کے دوران آپ بھی موجود تھے جو له الفضل ، اروفا ٢ احد ملخصا از مضمون مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری، ملاحظہ ہو الفضل در ظور ۳۲ اصل به سه مولوی صدرالدین صاحب فاضل (مجاہد ایران) اور مولوی عبد المنان صاحب شاہد مرتی اصلاح و ارشاد آپ ہی کے بیٹے ہیں ؟ سے لاہور تاریخ احمدیت صر موقفہ مولا ناشیخ عبد القادر صاحب نوسلم ، طبع اول فروری ماه کے مولف کتاب لا ہور تاریخ احمدیت اور اخبار الفضل (۱۲۳ ظهور ها) کے مطابق حضرت شیخ صاحب کا اس بیعت تسلہ رہی ہے ه الفضل ۲ ظهوره شه ملاحظہ ہو بدر ۲۴ مئی شله من و تاریخ احمدیت جلد سوم برج اول ماه + ر به بدر۲۴ هنگ و
رئیس دہلی حافظ عبد الکریم صاحب کو ساتھ لے کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے لیے حضرت شیخ صاحب لاہور میں ریلوے کلرک تھے پھر عہد خلافت اولی میں سرکاری ملازمت ترک کر کے پشاور آگئے اور فوج میں گوشت کی سپلائی کرنے لگے امر میں ان کا قیام سیٹھ رحمت اینڈ سنز کے احاطہ میں تھائیے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی وفات کی اطلاع پشاور میں پہنچی تو آپ پہلے احمدی تھے جنہوں نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی فضل عمران کی بیعت بذریعہ تار کی شروع جون سر میں حضرت حافظ روشن علی صاحب غیر مبالدین سے مباحثہ کے لئے پشاور تشریف لے گئے تو آپ ہی کے ہاں مقیم ہوئے ہیں پشاور میں کچھ عرصہ رہائش کے بعد آپ گوجرانوالہ آگئے بٹر سے مجلس مشاورت میں گوجرانوالہ کی طرف سے نمائندگی کے فرائض انجام دینے لگے.قیام گو جرانوالہ کے دوران آپ نے سیکرٹری تبلیغ کی حیثیت سے تعد تبلیغی پمفلٹ لکھے ہیے آپ عاشق قرآن تھے اور اکثر پر نم آنکھوں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ شعر پڑھا کرتے تھے وہ دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوہوں شر آن کے گرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے ارہا فرمایا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ قرآن کریم کا طواف کروں.آپ سلسلہ کے سارے اخبارات منگوایا کرتے تھے.کتا بیں بھی خاصی تعداد میں جمع کر رکھی تھیں بعض اوقات کتابوں کے کئی کئی نسخے خریدتے اور زیر تبلیغ افرادمیں تقسیم کر دیتے تھے.شو نے حضرت شیخ صاحب پانچ ہزار می مجاہدین تحریک جدید میں شامل تھے.سے یہ مباحثہ سے لاہور تاریخ احمدیت مش ۲۸ ) موقفہ مولانا شیخ عبد القادر صاحب) به سے تاریخ احمدیہ (سر بعد) منا ، مثلا مولفه حضرت قاضی محمد یوسف صاحب امیر جماعت احمد یہ سرمد جون شاہ کو حضرت مولوی غلام حسن صاحب کے مکان پر ہوا تھا جہ سے لاہور تاریخ احمدیت ف ۲۸۴ مولفہ مولانا شیخ عبدالقادر صاحب فاضل نومسلم ) : نه ايضا : اے اولاد : (۱) شیخ : نذیر احمد صاحب مرحوم (۲) شیخ بشیر احمد مرحوم سینئر ایڈوکیٹ و سابق بھی ہائی کورٹ مغربی پاکستان (۳) شیخ محمد اسلم صاحب مرحوم (۴) شیخ محمد اسحق صاحب (۵) باجرہ بیگم مرحومه (۶) سلیم بیگم مرحومه (۷) آمنه بیگم صاحبہ (۸) محمودہ بیگم صاحبہ ؟
-۴- حضرت مرزا غلام رسول صاحب ایڈرج ه۱۳۲۸ مطابق ۵ اکتوبر ۱۹۳۹) ولادت 4 بیعت ائه، وفات ه رافا اصل وطن موضع پنڈی لالہ ضلع گجرات تھائی بی اے تک تعلیم اسلامیہ کالج لاہور میں پائی تھی.آپ بیعت سے قبل کالج کی تعلیم کے دوران بھی اکثر قادیان جاکہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بابرکت مجلس میں حاضر ہوا کرتے تھے چنانچہ آخر دسمبر شائر میں جبکہ حضور نے رسالہ الوصیت و تصنیف فرمایا آپ قادیان میں تھے.ایک روز نماز عصر سے قبل حضرت اقدس مسجد مبارک میں تشریف فرما تھے کہ آپ مسجد میں پہنچے حضور اُس وقت رسالہ الومیت کی وہ تصنیف اور بہشتی مقبرہ کے قیام کے مقصد پر روشنی ڈال رہے تھے کہیے فرمایا کرتے تھے کہ میں حضرت مسیح موعود کی پاکیزہ زندگی، دینی غیرت اور انتہائی درجہ کے تقونے و طہارت سے بہت متاثر ہوا خلافت ثانیہ کے قیام پر اگرچہ آپ فوراً مبالعین میں شامل نہیں ہوئے مگر انہیں نور فراست سے جلد ہی معلوم ہوگیا کہ غیر با لعین کی اصل جنگ حضرت سینا محمود کے خلاف نہیں خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف ہے تب آپ اُن سے بد دل ہو گئے.پھر ایک روز اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نیان ہوا کہ حضرت خلیفہ ایسیح الثانی اس وقت قرب الہی کے سب سے بلند مقامات پر فائزہ ہیں اس پہ آپ نظام خلافت سے وابستہ ہو گئے ہے کر مارچ ۹۳لہ کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے علاقہ ملکانہ کی شدھی کے خلاف جہاد کا اعلان کیا اس پر جن سر فروشوں نے لبیک کہا ان میں آپ بھی شامل تھے آپ تین ماہ کی رخصت لے کر اس تبلیغی جہاد میں شمولیت کے لئے تشریف لے گئے اور گرانقدر خدمات سرانجام دے کر حضور کی سند خوشنودی حاصل ے بروایت حضرت قاضی محمد یوسف صاحب امیر جماعت احمدیہ سرحد ( تاریخ احمد یہ سرحد ص ) + ۲ افضل ار اضاء هم مث ، الرحمت لاہوره فتح ۳۲۵۵ ص ۳ بروایت حضرت قاضی محمد یوسف صاحب امیر ܀ جماعت احمدیہ (تاریخ احمد یه سری ۱۷۳) به که روایت مرزا غلام رسول صاحب در جیر روایات صحابہ جلد ۳ ۳۱ ) : هم الفضل مراخاء ۱۳۲۸ صد کالم ۴۰۳ :
ZA دوران جہاد کا واقعہ ہے کہ ۲۶ جولائی ۱۹۷۳ کو موضع اسپار ضلع متھرا میں ایک مسلمان راجپوت فیائی نام نے مسجد کے باہر مسجد ہی کی زمین میں بکرے کی قربانی کی.مرتدین آئے اور خفیہ طور پر گوشت لے گئے قریباً تین بجے بعد دو پر آریوں کو شیر ہوئی تو انہوں نے لوگوں کو آپ کے خلاف اکسایا اور کم و بیش چالیس پچاس کی تعداد میں ستم ہو کہ آپ کی رہائش گاہ پر حملہ کر دیا مولوی صاحب کو گالیاں دیں.پھر ان کی جھونپڑی پر حملہ کر کے اسے گرا دیا آپ نیچے دب گئے اور ایک شخص نے آپ کو بازوؤں سے کھینچ کر باہر نکال پھر وہ لوگ آپ کو کھینچتے ہوئے گاؤں سے باہر لے گئے آپ اپنے بعض کا غذات لینے کے لئے سجد میں داخل ہونے لگے تو مسلح لوگ مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو گئے اور انہوں نے بزور روکا اور آپ کو دھکے دے کر گاؤں بدر کر دیا گیا مگر آپ اسی گاؤں میں ڈٹے رہے.چنانچہ جناب شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ ضلع لائل پور اس واقعہ کی تفصیل میں فرماتے ہیں :." میں مرحوم تین ماہ کی رخصت لے کر تبلیغی جہاد کے لئے آئے تو موضع سپار ضلع متھرا میں ن کی تعیناتی بطور مبلغ ہوئی گاؤں میں ایک کچا کو ٹھہ محمد کے نام سے موسوم تھا اس کے ساتھ ایک چھت تلے انہوں نے تنہاد پیر اجمایا اور کام شروع کیا اور اس خوشی اور حسین تدبیر سے کام کیا کہ قرب وجوار کے آریہ پر چارک اپنی چالبازیوں میں ناکام اور دیو بند می معاندین اپنی در اندازیوں میں خائب و خاسر ہو کر رہ گئے.دونوں قسم کے مخالفین کو ایک ایسے ذہین اور فطین حریف سے پالا پڑا تھا جوہر جوڑ کا توڑ اور ہر زہر کا تریاق ان کے مقابلے میں اپنے پاس مہتا رکھتا تھا.اسی طرح یہ کام جاری تھا کہ عید الاضحیہ آگئی مرزا صاحب مرحوم نے قربانی کا گوشت گاؤں میں تقسیم کیا تو شد بھی قبول کرنے والوں کے کام و دہن بھی اس سے محروم نہ رہے.آریہ پر چار کوں کوجب اس کا علم ہوا تو وہ سرسیٹ کر رہ گئے.آخر ایک بڑا جمع کر کے انہوں نے اشتعال انگیز تقریریں کیں کہ اس مولوی نے گوشت کی چند بوٹیوں سے تمہارا دھرم بھرشٹ کر دیا اور ہمارا صرف کثیر اور محنت سب اکارت گئے نتیجہ یہ تھا کہ میں چالیس بلوائیوں نے مولوی صاحب مرحوم پر ہلہ بول دیا، انہیں زدو کوب کیا اور چھپران کے اوپر گرا دیا پھر انہیں زمین پر گھسیٹا اور قتل پر آمادہ ہو گئے لیکن انہی میں سے چند ملکا نے جو مولوی صاحب کے زیر بارا احسان به بیان عبد اللہ خان صاحب بھٹی بی اے بی ٹی نائب امیر وفد المجا زرین گره افضل ۳ اگست ۱۹۳۳ م کالم مریم بیان میں سہو غیائی کی بجائے غیائی چھپ گیا تھا جس کی تصحیح کر دی گئی ہے ) ؟
29 تھے مانع آئے اور مولوی صاحب مرحوم کی جان سلامت رہی.پھر انہوں نے تقاضا کیا کہ ہمارے گاؤں سے نکل جاؤ مرحوم نے مومنانہ عزم و استقلال سے جواب دیا کہ یہ گاؤں میرے امام نے میرے سپرد کیا ہے میں اپنا کام کسی صورت میں چھوڑ نہیں سکتا سے تا سر نہ وہم پا نکشم از سر کویش نامری و مردی قدم فاصله دارد ایے پر خطر ما حال میں مرحوم برابر اپنے فرض پر مجھے رہے.آگرہ ہمارا تبلیغی مرکز تھا وہاں بھی بعد میں اطلاع ہوئی مرحوم کا یہ نمونہ ایسا اعلیٰ تھا کہ خد حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اس پر خوش نوری کا اظہار فرمایا اور ہمارے دوستوں کے حوصلے بلند سے بلند تر ہو گئے.حالات کا تقاضا تھا کہ مجرموں کے خلاف مقدمہ چلایا جائے تاکہ دوسرے مبلغین کے خلاف اس قیم کی شرارتیں آریوں کی طرف سے برپا نہ ہوں اور اس کا قومی احتمال بھی تھا.پولیس نے بو تفتیش ملزمان کا چالان نہ کیا تو مولوی صاحب مرحوم کی طرف سے استغاثہ دائر ہو گیا اور شہر تھا میں بعدالت انگریز مجسٹریٹ مسٹر فرائیٹس سماعت شروع ہوئی.ان دنوں تبلیغی سفر دور و نزدیک کرنے پڑتے تھے ساتھ نه سامان نه بیستره سبکبار مردم سبک ترید وند حق این است صاحبدلان بشنوند بار ہا ایسا اتفاق ہوا کہ کچھ رات گئے گاڑی پتھر اسٹیش پر پہنچی.کوئی ٹھکانہ توتھا نہیں ہم پلیٹ فارم نہ ہی ایک طرف کو ایک چادر بچھا کر پڑے رہتے تھے اور مرزا صاحب مرحوم کی زندہ دلی اور خوش طبعی سے باتوں باتوں میں وقت کٹ جاتا اور وہ خود ان کاموں میں ایسی لذت اور سرور محسوس کرتے تھے کہ گویا کوئی مشکل کوئی بات ہی نہیں.مرحوم اس وقت جو ڈیشنل کمشنر پشاور کے ریڈر تھے اور اپنی قابلیت اور دیانت کی وجہ سے ممتاز اور معتمد علیہ ناموافق حالات کے ماتحت مقدمہ کی کامیابی بظاہر شکل نظر آتی تھی لیکن مرحوم کی ذہانت تدبیر اور خصوصاً شبانہ روز دعاؤں نے اس مہم کو آسان کر کے چھوڑا مقدمہ کی بیٹی کے دن مرحوم کا قاعدہ تھا کہ احاطہ عدالت میں ایک طرف اگر عالم تنہائی میں گھنٹوں سربسجدہ اور دوست بندھا رہتے اور جب مقدمہ کے لئے آواز پڑتی تو اکثر وہ جائے نماز سے اُٹھ کر ہی عدالت کے کمرے میں جاتے.
یہی ان کا معمول اور وظیفہ تھا.اور بایں ہمہ ان کی خود اعتمادی، زندہ دلی اور بے تکلفی میں ذرا فرق نہ آتا تھا ہر وقت خوش نظر آتے تھے اور میں انہیں زندہ دل صوفی کہا کرتا تھا.اس زمانے کی ڈائری اتفاق سے میرے پاس محفوظ رہ گئی ہے جس کا ایک ورق مندرجہ بالا کیفیت کا آئینہ دار ہے اور یہ تاریخ فیصلہ مقدمہ سے متعلق ہے.وهو هذا :- ۱۳ اکتوبر ۹۲۳ه بروز بدھ بے و بچے کچھری پہنچے ہم درج ہیں انتظار و دعا کرتے رہے.اتنے میں بارہ بج گئے.ہاں رات میشی کار صاحب کو خواب آیا کہ چلتے چلتے ان کی ایڑیاں زخمی ہوگئیں کسی نے مرہم لگایا اور اچھی ہوگئیں.اسی شب مجھے دو خواب آئے ایک میں مجسٹریٹ سے میں کر رہا ہوں کہ مقدمہ صاف ہے سزا کیوں نہیں دیتے.اس نے کہا کہ مستغیث کا بیان کچھ کمزور ہے.میں نے کہا معالات کے ماتحت ایسا ہی بیان ہونا چاہیے تھا.اس نے کہا اچھا ئیں سزا تجویز کرتا ہوں اور ایک ملزم تو خود مجھے آگرہ کہہ گیا ہے کہ اس کے دو بید لگا دو اور فیصلہ لکھنا شروع کیا.اسی طرح پیش کا ر صاحب کو اسی شب خواب آیا کہ عبد اللہ سقہ ساکن اُس پار نے ایک سانپ ایک سوئی میں بند کر کے دیا اور چوہدری فتح محمد صاحب نے اسے مارڈالا صبح ہم نے ایک دوسرے کو خوا نہیں سنائیں اور کچہری روانہ ہوئے.ایک بجے کے قریب آواز پڑی ۱۶ ملزمان میں سے ۱۳ کو سزا ہوئی اور ایک ایک سال کے لئے حفظ امن کی ضمانتیں ملزمان سے لی گئیں اور جرمانہ میں سے ایک صد رو پر مستغیث کو حرجانہ دلایا گیا ہمارے دل سجدے میں مجھک گئے.لپک کر ڈاکخانہ گئے.تاریخدمت حضرت صاحب اور خطوط لکھے گئے.ملزمان اور ان کے آریہ مرتی اور وکلاء مبہوت اور ہم اور ہمارے ملک نے ہمرا ہی مسرور تھے پیشی کا رصاحب اسی وقت اُس پار جانے کے لئے مشتاق لیکن صلاح ٹھہری کہ اس رات پیشکار صاحب اُس پار کی بجائے مانا کے بنگلے ٹھریں سردار خان آکر اطلاع دے.خیال ہے کہ فوری رینج کا اثر زائل ہوکر صبح دیہ میں امن ہو جائے گا یا " دوسرے دن سات اخبارات کے نام فیصلہ مقدمہ کی تاریں دے دی گئیں یا م عجیب تنظیم الحال انسان تھے مقدمہ ختم ہوتے ہی پھر اپنے کام پر جا ئے.پھر وہی مسجد کا کچا کوٹھے وہی چھتر اور پھر وہی تبلیغ کا سلسلہ تھا اور پھر حریفان را نه سرباند و نه دستار اس کے ایک ماہ بعد بہت سے سڑکانے ضلع اسپار کے باشندے واپس اسلام میں داخل ہوئے اور
Al مولوی صاحب کی دعائیں مستجاب ہوئیں مضمون لمبا ہو گیا ہے لذیذ بود حکایت در از تر گفتم تزریق لیکن تین باتیں ابھی قابل ذکر ہیں.ایک دن مولوی صاحب مرحوم بڑے غمناک پہنے میں فرمانے لگے کہ بھٹی میں نے تو ابھی وہ کام نہیں کیا جو کرنا چاہیئے تھا تین ماہ کی رخصت لے کر دوبارہ آؤں گا.اس قدر احساس و ایثار کے باوجود ان کا یہ بے ساختہ انکسار بہت ہی درد انگیز تھا.انہی ایام میں انسپار کے آریہ پر چارک نے کچھ سلوا پوری ایک تیوہار کی تقریب پر مولوی صاحب کے لئے بھیجا مرحوم فوراً اس کی چال کو بھانپ گئے اور لانے والے کو سختی سے ٹوکا کہ پنڈت جی سے جا کر کہہ دو کہ ھے عطائے تو بخشیدم بہ لقائے تو یہ ناپاک کھا تا ہم نہیں کھا سکتے.بات یہ تھی کہ آریوں کی عامیانہ اور ملتی ہوئی دلیل ان دنوں میں ایک یہ بھی تھی کہ مسلمان ادنی ہوتے ہیں، اس لئے ہندوؤں کے ہاتھ کا کھا لیتے ہیں اور ہندو اعلیٰ ہونے کی وجہ سے مسلمان کے ہاتھ کا نہیں کھاتے مبلغین کو ان ایام میں خصوصیت سے ہدایت تھی کہ ہندوؤں کے ہاتھ کی کوئی چیز قطعا نہ کھائیں.استغاثہ کے دو گواہ غیاثی اور سردار خان نامی موضع اسپار کے دو ملکانے تھے جنہوں نے مولوی صاحب کے فیض محبت کی بدولت بڑی ہمت دکھائی اور اپنے دیہ کے جتھے کے مضلات بحق استغاثہ شہادت دی تھی.اس کے بعد دیہ میں ان کا رہنا آسان نہ تھا دونوں قادیان پہلے گئے اور مجھے یہ علوم ہے کہ مولوی صاحب مرحوم کئی سال تک اپنے پاس سے ماہانہ وظیفہ انکو دیتے رہے.کالے حضرت مرزا غلام رسول صاحب دعا گو اور ستجاب الدعوات بزرگ تھے پنجوقتہ نمازوں کے علاوہ تہجد کا بہت التزام کرتے تھے.آپ کی دعاؤں میں اتنا سوز اور اتنی شدت والحارج ہوتا تھا که لیسا اوقات یوں معلوم ہوتا کہ آپ کے سینہ میں ایک ہنڈیا اُبل رہی ہے.آپ کو دعاؤں کی تاثیرات پر زبر دست ایمان تھا.آپ نے ایبٹ آباد میں مکان بنا نے کے لئے زمین خریدی تو صوبہ سرحد کے ایک بڑے اور نقد شخص نے آپ پر مقدمہ دائر کر دیا اور کہا کہ میں یہاں مرزائیوں له روزنامه الفضل ۲۶ اخاء ١٣٢٨ ما
Ar کے قدم نہیں جمنے دوں گا.قانونی طور پر اُس کا کیس بظاہر بہت مضبوط تھا مگر آپ نے جرأت ایمانی سے کہا کہ اب انشاء اللہ مجھے ضرور کامیابی ہوگی کیونکہ اب تمہارا مقابلہ غلام رسول سے نہیں بلکہ احمدیت سے ہے چنانچہ عجیب تعرف الہی کے ماتحت اس مقدمہ کا فیصلہ آپ کے حق میں ہو گیا.تلاوت قرآن کریم نہایت ذوق و شوق سے کرتے تھے.فرض روزوں کے علاوہ نفلی روزے بھی کثرت سے رکھتے تھے.سیکیوں مظلوموں ہمسکینوں اور غریبوں کی امداد کے لئے آپ کے اندر ایک خاص خوش تھا اور آپ اس میں روحانی لذت و فرحت محسوس کرتے تھے بعض موقعوں پر اپنے اپنی ملازمت تک کو خطرے میں ڈال کر صوبہ سرحد کی عظیم شخصیتوں کے مقابلے میں لعض غریب مظلوم 1411-15 اور سیکس لوگوں کی علی الا علمان مدد کی.آپ کے گھر میں مہمانوں کا عموما تانتا بندھا رہتا تھا.آپ سائر میں پشاور گورنمنٹ ہائی سکول کے استفاد ہو کر آئے مگر جبانہ مدرسی ترک کر کے دفتر سیشن جج پشاور میں انگریزی مترجم مقرر ہوئے اور رفتہ رفتہ ترقی کر کے سیشن جج کے مثل خواب مقرر ہوئے بالآخر جوڈیشنل کمشنر کے ریڈر (مثل خواں) بنادئے گئے.آپ سرود ہائیکورٹ کے نہایت کامیاب اور ماہر سینٹر ریڈر تھے اور بڑے سے بڑے افسر بھی آپ کی قانونی باریک نظری اور تجر معلومات کے قائل اور آپ کی محنت، دیانتداری اور پاکیزگی کے معترف تھے میٹوبہ سرحد کی ہائی کورٹ کے انگریز چیف جج اور جوڈیشنل کمشنر مٹر فریزر نے بعض نا جانے تصرفات یعنی رشوت لینے میں آپ سے مدد لینا چاہتی مگر آپ نے صاف انکار کر دیا اور صاحب کی مخالفت کی نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کی ملازمت تک خطرے میں پڑ گئی.آپ نے دعا کی تو آپ کو بتایا گیا کہ اتنی دفعہ متواتر یہ بھی دعا کر و لا اله الا انتَ سُبْحْنَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّلِمِينَ اور تجد بھی پڑھو.چنانچہ آپ نے تہجد اور دعاؤں کا خاص مجاہدہ کیا.چند دن بعد آپ نے خواب میں دیکھا کہ آپ کی آنکھیں انگارے کی طرح سُرخ ہوگئی ہیں اور جس شخص کی طرف آپ دیکھتے ہیں وہ مر جاتا ہے.اسی اثناء میں آپ نے دیکھا کہ انگریز چیف ج بھی آپ کے سامنے آیا اور مرگیا چند روز بعد اس کو سیل کے مرض کی تشخیص ہوئی اور وہ چھٹی لے کر ولایت چلا گیا اور پھر کبھی واپس نہیں آیا.آپ مالی قربانی کو خاندانی اور قومی ترقی کا ذریعہ سمجھتے اور سلسلہ احمدیہ کی مالی تحریکوں میں ضرور حصہ لیتے تھے چنانچہ حضرت قاضی محمد یوسف صاحب امیر جماعت احمدیہ سرحد کا بیان ہے کہ :.i
" اپنے چندوں میں با قاعدہ تھے.موصی تھے.ہر مرکزی تحریک میں ضرور حصہ لیتے بلکہ مقامی چندوں میں بھی امداد کرنے سے دریغ نہ کرتے.ایک دفعہ 19 میں خاکسار نے حقیقہ اسیح نامی کتاب لکھی طباعت کے واسطے روپے کی ضرورت تھی مولوی صاحب کو معلوم ہوا تو آپ نے بیوی سے ذکر کیا کہ میرے پاس اس وقت کوئی پیسہ نہیں ہے.یہ کتاب تبلیغ کے لئے چھاپنی ضروری ہے.ان کی بیوی صاحبہ نیکی میں ان کے نقش قدم پر تھیں انہوں نے اپنے زیور اتار کر دے دیئے یا اے خلیفہ وقت سے عقیدت و شیفتگی کا یہ عالم تھا کہ مرض الموت میں جب کہ آپ بستر مرگ پر تڑپ رہے تھے آپ نے اپنے فرزند مرزا عبد اللہ جان صاحب سے کہا کہ کل حضور ربوہ میں سجد مبارک کی بنیا درکھیں گے اس موقع پر مسجہ احمدیہ پشاور میں بھی اجتماعی دعا ہو گی تم نے اس میں ضرور شامل ہوتا ہے.آپ آخر دم تک قرآنی آیات اور دعاؤں کا ورد کرتے رہے.مومن اگر تقوی وطہارت سے کام لے تو کبھی نہیں مرتا» " صالح بنو متقی بنو خدا تمہاری مدد کرے گا، آپ کے آخری الفاظ تھے کیے آپ کا جنازہ آپ کے چھوٹے بھائی مرزا غلام حیدر وکیل نوشہرہ نے پڑھایا اور آپ امانتا احمد قبرستان پشاور میں سپردخاک کئے گئے سے حضر می نشی سید صادق حسد صاحب مختار اور یوپی و حکیم ار علی صاحب :- بیعت در اپریل له، وفات در اغار هش ۱۳۹۶ مطابق ۶ اکتوبر شاه بهر نوے سال ) ۳۱۳ اصحاب کبار میں آپ کا نام ۱۳۸ نمبر پر درج ہے ؟ داخیل احمدیت ہونے سے قبل بھی آپ کا شمار یوپی کے کامیاب اور مشہور وکیلوں میں ہوتا تھا الرحمت ۵ فتح ه ١٣٢ / ديسمبر ٩٢٩ ص : ٢٣ الفضل ۱۴ اخاء ۱۳۲۸ ۶۵ : + ے اولاد مرزا عبد الحفیظ صاحب، مرزا عبداللہ جان صاحب، مرزا منصور احمد صاحب، مرزا منظور احمد صاحب، مرزا بشیر احمد صاحب.ان کے علاوہ تین بیٹیاں آپ کی یادگار ہیں ؟ کے رجسٹر بیعت ش الفضل ۱۳ وفاها حت کالم ۳ نوٹ سید رضا حسین احمدی عرائض نویں کلکٹری اٹاوہ یوپی) ضمیمہ انجام آتھم ص ، ملفوظات مسیح موعود جلدی صفحہ ۱۹۸ ۱۹۹ میں بھی آپ کا ذکر ملتا ہے ؟
آپ اُردو، فارسی اور عربی زبانوں میں ید طولیٰ رکھتے تھے اور علمی حلقوں میں آپ کا سکہ بیٹھا ہوا تھا.شعر و ادب کا شوق ابتداء ہی سے تھا.ایام جوانی میں آپ نے صبح صادق کے نام سے ایک ماہنامہ جاری کیا جس میں سیاسی، ادبی وعلمی مضامین کے علاوہ مشاعرہ کی چیدہ چیدہ نظمیں بھی شائع کی جاتی تھیں.یہ مشاعرہ آپ ہی کے زیر اہتمام ہوتا تھا اور اس میں نواب فصیح الملک داغ دہلوی اور ملک الشعراء حضرت امیر مینائی لکھنوی ہر ماہ مصرعہ طرح پر اپنا کلام بھیجتے جو اس رسالہ کی زینت ہوا کرتا تھا.حضر مینشی صاحب اٹاوہ، مین پوری ، آگرہ، کانپور وغیرہ اضلاع میں احمدیت کا ایک محکم ستون تھے، آپ کی دیانت اور انصاف پروری کا یہ عالم تھا کہ غیر احمدی دوست بھی اپنے تنازعات میں آپ کو بخوشی ثالث بناتے اور بلا چون و چرا آپ کا فیصلہ قبول کر لیتے تھے.انا وہ میں ان من حمایت اسلام نے ایک مڈل سکول جاری کر رکھا تھا جس کا سال میں ایک مرتبہ ایک جلسہ ہی ہوتا تھا جس میں علماء مذہبی تقریر میں کرتے تھے.ایک بار دوران حملہ مسلمانوں اور آریوں کے مابین مباحثہ منعقد ہوا جس کی صدارت کے لئے مسلمانوں نے خاص طور پر آپ کا انتخاب کیا.آپ کے نیک نمونہ اور تبلیغ سے بیسیوں لوگ احمدی ہوئے لیے آپ کی پوری عمر قلمی جہاد میں گذری.آپ کے زور دار معلومات افروز اور مشفقانہ مضامین رسالہ تشمعید الازبان " ریویو آن پیجینز اور الفضل میں شائع ہوتے تھے شیعہ لٹریچر پر آپ کو خاص دستگاہ تھی اور حضرت نانشی خادم حسین صاحب بھیروی کی طرح اس تحریک کے بہترین ناقد و مقر تھے.لکھنو کے ایک مجتہد العصر سے آپ کا تحریری مناظرہ ہوا مگر آٹھ دس پر چوں کا جواب دینے کے بعد وہ میدان چھوڑ گئے.آپ کی مختصر لائبریری میں بعض لا جواب اور نایاب قلمی نسخے موجود تھے یہ رسالہ صبح صادق اور اخبار اظہار الحق کے علاوہ آپ کے قلم سے مندرجہ ذیل تالیفات شائع ہوئیں :- صادق کلمات ثنائی ہفوات - ازالۃ الشکوک (رو آریہ سماج) الحق دہلی تصدیق کا مر تبانی ر قرآری میشنوی پیام صادق تیلیفو خط جمعه شیعی عمل عمل نمک سیف الله القصار علی روسی اشراً ه مثلا خانزاده عبد علی خان آف اٹا وہ حافظ سلیم المصاحب الا وی حال داده : سنه الفضل نبوت هر ۳
هم صام الحق در شیعه تحریک - اماده می شیعه سنی تحریری مباحثه ترکیب بند صادق منظوم ہے کشف الاسرا تبری ا ولادت اندازاً شاه بیعت و زیارت - حضرت ملک مولا بخش صاحب : سر ستاره ، وفات ، ۱۳۰۷ خار منگنه ۲۷، ۲۸ مطابق اکتوبر ۱۹۹) ملک صاحب نے حضرت مہدی معہود کی پہلی زیارت مباحثہ آتھم کے دوران سر میں کی.ان دنوں حضور امرتسر میں رونق افروز تھے میاں نبی بخش صاحب رفوگر امرتسری نے حضور کے اعزاز میں ایک دعوت دی میاں صاحب کے مکان کے ساتھ ہی ملک صاحب کرایہ کے مکان میں رہتے تھے.یہ مکان کڑا اہلو والیہ کو پیشیخ کمال الدین میں واقع تھا اور وسیع تھا اس لئے اس کے صحن میں حضرت اقاری کو بٹھایا گیا.ملک صاحب نے اس وقت اپنے کو ٹھے پر سے جوڑ کو دیکھا.۱۸۹ء میں آپ بیمار ہو گئے اور بغرض علاج حضرت مولانا نور الدین کی خدمت میں قادیان پہنچے اور عرض کیا کہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ سال کا مرض ہے جو لاعلاج ہے.اس پر حضرت مولانا صاحب نے بڑے جوش سے کہا حکیموں کے بادشاہ نے فرمایا ہے.اِلِ دَاءٍ دَواءُ ہر بیماری کی دوا ہے بعضر مولوی صاحب نے ایک دو انتجویز فرمائی جس کے استعمال سے آپ کوئی دو ہفتہ میں شفایاب ہو گئے سفر قادیان میں امرتسر کے ممتاز صحابی حضرت ڈاکٹر عباداللہ صاحب آپ کے ساتھ تھے.اس تعلق کی وجہ سے ملک صاحب ڈاکٹر صاحب کے محلہ میں ہی تقسیم ہو گئے اور ان سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعض کتب حاصل کرکے مطالعہ کرتے رہے.اسی اثناء میں ایک دفعہ حضرت مولوی محمد احسن صاحب امروہی نے مسجد احمدیہ امرتسر میں خطبہ جمعہ پڑھا اور سُورۃ نور کی آیت استخلاف سے حضرت قدس علیہ السلام کی صداقت پر استدلال کیا.چند روز بعد آپکو شہادۃ القرآن کے مطالعہ کا موقع ملا اور آپ دل سے احمدی ہو گئے اور دسمبر ست اللہ کے سالانہ جلسہ پر حضرت ان کو اله فهرست بعنوان " واذا الصحف نشرت " مرتبہ میاں عبد العظیم صاحب تاجر کتب قادیان ما اصحاب احمد جلد اول صل! راز ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے قادیان سے الحکم ار جنوری صد کام ما میں آپ کا نام فہرست میائین میں مرقوم ہے یہ سکے الفضل ۳۰ را ار ار ما به
AY مین پاک علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کر لی.ملک صاحب موصوف کو سیدنا حضرت سیح موعود کے زمانہ مبارک میں کئی بار قا دیان جانے اور حضور سے روحانی فیض اٹھانے کا موقع ملا.ماسٹر عبدالحق صاحب قصوری بی.اسے سابق طالب علم مشن کالج لاہور نے جو عرصہ تین سال سے عیسائی تھے ۲۶ دسمبر شہ کو پانچ سوالات لکھ کر پیش کئے جس کے جواب میں حضور نے مفصل تقریر فرمائی کہ ملک صاحب موصوف کو یہ تقریر سننے کا شرف حاصل ہے.ماسٹر عبد الحق صاب اس تقریرہ سے متاثر ہو کر اسلام لے آئے کیے ملک صاحب فرماتے ہیں :.14.# اہ میں ) صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب شہید کے کابل میں سنگسار ہونے کے فوراً بعد ہم قادیان گئے تو مغرب کی مجلس کے بعد اس کا تذکرہ تھا.غالباً احمد نور صاحب کا بلی آئے تھے اور انہوں نے حالات سُنائے تھے حضور کو سخت صدمہ تھا حضور نے ارادہ ظاہر فرمایا کہ ہم اس کے متعلق ایک کتاب لکھیں گے مجھے چونکہ حضور کے فارسی اشعار سے بہت محبت ہے میں نے عرض کیا حضور کچھ فارسی اشعار بھی ہوں حضور نے جھٹ زما یا نہیں ہمارا مضمون سادہ ہو گا لیکن جب کتاب تذکرۃ الشہادتین شائع ہوئی تو اس میں ایک لمبی پر درد فارسی نظم تھی.مجھے اس وقت خیال آیا کہ کیسے پاک لوگ ہیں اپنے ارادہ سے نہیں بلکہ صحیح رہائی تحریک کے ماتحت کام کرتے ہیں ورنہ ان کو شعرگوئی سے کوئی نسبت نہیں " حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے آخری سفر دہلی سے واپسی پر اور نومبر اللہ کو مین کو لام رائے کنہیا لال صاحب وکیل کے لیکچر ہال امرتسر میں تقریر فرمائی جس کے دوران ایک ہنگامہ عظیم برپا کر دیا گیا.ملک صاحب اس ہنگامہ کے وقت لیکچر ہال میں موجود تھے چنانچہ وہ اس واقعہ کی تفصیل بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں:." جب ہم نے دیکھ لیا کہ حضور جا چکے توہم حضرت مولوی نور الدین صاحب کے ہمراہ...باہر بازار میں نکلنے لگے کسی شخص نے حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور ٹھہر جاویں لوگ الحکم ۱۴ فروری شر سے الحكم، ار جنوری شاه (رودا و بیعت کی
پتھر مار رہے ہیں حضرت مولوی صاحب نے ایک درد بھرے دل سے کہا وہ گیا جس کو مارتے تھے مجھ کو کون مارتا ہے یہ ہر کسی کو نصیب نہیں " ملک صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے انتقال کی المناک اطلاع کیسے ملی ؟ اس واقعہ پر آپ درج ذیل الفاظ میں روشنی ڈالتے ہیں :- " حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کی خبر میرے ایک چھا صاحب نے مجھے اُس وقت دی جب میں عدالت مطالبہ خفیفہ امرتسر میں ایک عرضی دعوئی کا انگریزی ترجمہ کر رہا تھا.اس وقت گو چند لمحوں کے لئے ہی ایسا ہوا مگر میری نظر بالکل جاتی رہی اور سامنے پڑے ہوئے کاغذ کے حروف نظرنہ آتے تھے.دوسرے روز ہم ہمہ ڈاکٹر عیا واللہ صاحب اور دوسرے دوستوں کے صبح کی گاڑی سے بٹالہ اور وہاں سے لیکر پر قادیان گئے.وہاں حضور کے چہرہ کو جو اس وقت بھی نورانی تھا دیکھا.انتخاب خلافت را ولی ہوا اور پہلے جن لوگوں نے بیعت کی ان میں میں نے بھی خلافت اولیٰ کی بیعت کا شرف حاصل کیا ہے ۱۹۳۴ء میں آپ سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوئے.تو حضرت خلیفہ ایسی الثانی کے حکم پر نائب ناظر بیت المال مقرر کئے گئے.ازاں بعد حضور نے آپ کو اراضیات سندھ کی نگرانی کے لئے بھیجوایا جہاں کچھ عرصہ کام کرنے کے بعد آپ بیمار ہو گئے طبیعت سنبھل جانے پر قادیان آگئے تو حضرت امیر المومنین نے آپ کو ناظم بھائیداد کی خدمت سپرد فرمائی جس پر آپ آخر عمر تک فائز رہے.بالفاظ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بہت زندہ دل خوش مزاج بزرگ تھے ، قرآن عظیم کے مطالعہ اور اس پر غور و تدبر کرنے کا بہت شوق تھا.جب کسی آیت کی لطیف تفسیر ذہن میں آتی اسے نوٹ کر لیتے اور اپنے بچوں کو سناتے تھے.الفضل" اور ریویو آن پیجز" انگریزی میں آپ کے کئی مضامین چھپے ہوئے ہیں.ہو میو پیتھی دوائیں ہمیشہ گھر میں رکھتے اور گفت دیا کرتے تھے.آپ کے اخلاق میں تحمل، ملنساری، جرات، اصابت رائے اور موقع شناسی کے اوصاف بہت نمایاں تھے ماتحتوں سے عمدہ سلوک تھا.بہت اچھے دوست اور دوستوں کے لئے قربانی کا مادہ رکھتے تھے.عرصہ تک عدالتوں میں کام کرنے کے باعث مرقو یہ قانون سے خوب واقف تھے.ڈرافٹ تیار کرنے ے یہ واقعات ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے کی تالیف اصحاب احمد جلد اول طلا تا ہے اسے ماخوذ ہیں.
^^ اور خلاصہ نکالنے میں ماہر تھے اور اسی لئے حضرت مصلح موعود نے انہیں اپنے سامنے اپیلیں پیش کرنے کا فریضہ بھی سونپ رکھا تھا غیر احمدی اور ہند و وکیل بھی آپ کے مداح تھے.دورانِ ملازمت جہاں جہاں گئے سلسلہ احمدیہ کی تبلیغ میں سرگرم رہے اور کئی لوگوں کی ہدایت کا موجب بنے نظام الوقیت سے بھی وابستہ تھے اور تحریک جدید کے دفتر اول کے مجاہدوں میں سے تھے..سیالکوٹ میں وفات پائی اور قبرستان سائیں مونگاولی میں بطور امانت دفن کئے گئے بیٹے ته (ولادت ؟ میاں نورمحمد صاحب کھوکھر امیر اور ضلع ملتان است علم بیعت به ۵ در وفات ۲۸ - اخاء هو العمر ۷۴ سال ) میاں نوراحمد صاحب مدرس مدرسہ امدادی بستی وریام ملا نہ ڈاک خانہ ڈوب کلاں تحصیل شور کوٹ ضلع جھنگ جن کا ذکر حضرت مہدی معہود نے حقیقۃ الوحی کے نشان ۱۳ میں فرمایا ہے آپ کے چھوٹے بھائی تھے میاں نوراحمد صاحب نے آپ کو تبلیغ بھی کی اور حق پانے کے لئے استخارہ بھی بتایا اور ایک حمائل شریف مترجم حضرت شاہ رفیع الدین بھی وھی کہ اسے بلا ناغہ پڑھیں اور خدا تعالیٰ سے دعا مانگتے رہیں.تلاوت قرآن مجید اور استخارہ کے نتیجہ میں آپ کو پروانہ وار بیعت اور حضرت مسیح موعود کی زیارت کا شوق پیدا ہو گیا اور آپ مولوی محمد فاضل صاحب احمدی کو ساتھ لے کر قادیان پہنچے.چار پانچ روز مسجد مبارک میں حضرت اقدس کے ساتھ نماز با جماعت: دا کی ۱۵ را گست عنہ کو بوقت عصر حضور تشریف لائے تو آپ بیعت کے لئے آگے بڑھے بیعت کے بعد حضور نے ان سے ملتان کے کو الف دریافت فرمائے اور پوچھا کہ اس طرف سلسلہ کی مخالفت کثرت سے نہیں.ے مفصل حالات کے لئے ملاحظہ ہو اصحاب احمد جلد اول مثلا تا شا ملقہ ملک صلاح الدین صاحب ایم.ہے ايضا الفضل ٢٠ نومبر ۱۹۳۹ ص۵۲ : الرحمت ۱۲۸ نومبر ۱۹۹۹ ص : ه والد ماجد مولوی غلام احمد صاحب ارشد سالی درویش قادیان به سه الحکم ۲۲ اگست سنشائه آن روزنامه الفضل يكم فتح ۱۳۲۸ به
A4 آپ نے عرض کیا بہت لوگ مخالف ہیں.اس پر حضرت اقدس نے ایک روح پرور تقریر فرمائی جسکے آخری الفاظ یہ تھے:.خدا تعالیٰ کی قدرت دیکھو کہ جہاں ہماری مخالفت میں زیادہ شور اُٹھا ہے وہاں ہی زیادہ جماعت تیار ہوئی ہے.جہاں مخالفت کم ہے وہاں ہماری جماعت بھی کم ہے ؟ حضور کی یہ تقریر میع کو الف ملتان الحجم ۲۴ اگست نشہ میں چھپ چکی ہے.میاں نور محمد صاحب غریبوں کے ہمدرد اور منکسر المزاج تھے.نماز تہجد کے با قاعدہ پابند تھے حضرت مسیح موعد وعلیہ الصلوۃ والسلام کا ذکر کرتے ہوئے آپ کی آنکھوں سے اکثر آنسو رواں ہو جاتے تھے.خاندان حضرت مسیح موعود سے بے انتہا محبت تھی.ترقی احمدیت ، درویشان قادیان اور سیا سلسلہ اور خاندان حضرت مسیح موعود کے لئے درد دل سے دعائیں کیا کرتے تھے.گنگا رام ہسپتال لاہو میں فوت ہوئے.جنازہ حضہ تصلح موعود نے پڑھایا اور تدفین قبرستان ربوہ میں ہوئی.لہ ملفين (ولادت ۶-۱۸۶۶مه ، زیارت - حضرت منشی محمد اسماعیل صاحب سیالکوٹی وفات ۱۰ دسمبر ۱۹۹) - یری { : ۱۸۹۳ در بیعت ته حضرت میں نوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹیج کے پھوپھی زاد بھائی تھے.سیالکوٹ کے اکابر صحابہ حضرت میر سام الدین صاحب ہے ، حضرت میر حامد علی شاہ صاحب ، حضرت چوہدری نصر اللہ خان جنات آپ سے بوجہ تقدیمی اور پارسائی بہت محبت رکھتے تھے تبلیغ احمدیت کا خاص شخص تھا.خلافت ولی کے عہد مبارکہ میں آپ کو قادیان بلا لیا گیا.آپ قادیان اور اس کے ماحول میں قرآن پڑھاتے اور پیغام احمدیت پہنچانے رہے تھے.کئی لوگ آپ کے نیک نمونہ سے شامل احمدیت ہوئے سیکس ملہ کی ہر تحریک پر لبیک کہتے تھے.آپ مدیسی تھے اور شریک جدید کا چندہ اعلان ہوتے ہی ادا کر دیتے تھے.آپ نے چند مسجد لنڈن اور تراجم القرآن کی تحریک میں بھی حصہ لیا.حضرت مفتی صاحب کو ارتداد مالکانہ کے دوران شاہ اور سلمہ میں دو بار علاقہ اجمیر میں بھیجا گیا.۱۹۳۹ سر میں آپ نے چار ماہ تک تیریاں اور مرتے پور ضلع ہشیار پور میں تبلیغ کی ہمیشہ دور میں اردو اپنے پاس ه روزنامه الفضل يتم فتح مکه مت.شه
رکھتے اور بغرض تبلیغ تقسیم کیا کرتے تھے.سید نا حضرت مصلح موعود ہم نے ان کی وفات پر فرمایا :- و منشی محمد اسمعیل صاحب نهایت ساده طبع نیک اور صاحب الہام آدمی تھے ان کو کثرت سے الہام ہوتے تھے.اور وہ کثرت سے دعائیں کرنے والے انسان تھے.نماز تہجد کے اتنے پابند تھے کہ بیماری کی حالت میں بھی تجد نہیں چھوڑی.آپ سمال میں ہی سیالکوٹ میں فوت ہوئے ہیں.آپ مولوی عبدالکریم صاحب کی بڑی بیوی (جن کو مولوی صاحب کی وجہ سے ہم مولویانی کہا کرتے تھے ) کے بھائی تھے.نہایت مخلص اور اچھے نمونہ کے احمدی تھے اور تبلیغ میں اِس طرح منہمک رہتے تھے کہ ایسا انہماک بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے.سکول سے پیش کی اور ریل اور ڈاکخانہ کے محکموں میں جو کوئی ہند و قادیان آجا تا اس کو پکڑ لیتے اور اسے قرآن کریم پڑھانا شروع کر دیتے ہیں نے خود ایک ہندو کو دیکھا ہے جس نے اُن سے قریباً ہمیں سپارے ترجمہ کے ساتھ پڑھ لئے تھے.وہ دل سے مسلمان تھا.اب شاید پاریشن کے بعد وہ ہندوستان چلا گیا ہو کیونکہ اس کا نام ہندوانہ ہی تھا لیکن دراصل وہ مسلمان تھا.نمازیں پڑھتا تھا.اسی طرح روزے بھی رکھتا تھا.وہ صرف انہی کے طفیل اور ان کی تبلیغ کے نتیجہ میں مسلمان ہوا تھا لے حافظ حمامات بادام مواد والصلاة والسلام حضرت حافظ جمال احمد صاحب مجاہد بارشیں : سے ان تمتاز صحابہ یںسے تھے جو عنوان مشہاب سے حضوڑ کے دامن سے وابستہ ہوئے اور مئی شائر میں بمقام لاہور حضرت اقدس کی زیارت سے مشرف ہوئے چنانچہ فرماتے ہیں :- میرے والد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں بذر راجہ خط حضور اقدس کی بیعت کی تھی اور میں اُس وقت قریباً پندرہ سولہ برس کا تھا جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة و السلام آخری ایام میں لاہور میں قیام فرما تھے لاہور میں آیا اور مجھے حضور کی زیارت نصیب ہوئی اور میری آمد سے پندرہ سولہ روز بعد حضور اس دار فانی سے رحلت فرما گئے یا سے که روزنامه الفضل ۱۶ تبلیغ ه۳۳۹ ۱ مطابق ۱۶ فروری ۹۵ از جنگ به کے روایات صحابہ (غیر مطبوعہ) جلد ۲۴
91 حضرت حافظ صاحب کو صحابہ حضرت مسیح موعود میں منفرد خصوصیت حاصل ہے کہ آپ اکیس برس تک بارشیں ہیں جہاد تبلیغ میں سرگرم عمل رہے.آپ ۲۷ جولائی شیر کو قادیان سے مالشیس پہنچے اور ۲۷ فتح ه۱۳۲۰ دسمبر ۹۲ ئہ کو ماریں ہی میں انتقال فرما گئے اور سینٹ پیری میں سپرد خاک کئے گئے لیے آپ کی وفات کی اطلاع پر حضرت امیر المومنین المصلح الموعود نے ۳ - دسمبر ئلہ کو ہو خطبہ دیا اس میں آپ کی وفات کو نشان قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ " حافظ جمال احمد صاحب کی وفات اپنے اندر ایک نشان رکھتی ہے اور وہ اس طرح کہ جب وہ ماریشس بھیجے گئے تو اس وقت جماعت کی مالی حالت بہت کمزور تھی اتنی کمزور کہ ہم کسی مبلغ کی آمد ورفت کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے تھے کہیں نے تحریک کی کہ کوئی دوست اس ملک میں بجائیں.اس پر حافظ صاحب مرحوم نے خود اپنے آپ کو پیش کیا یا کسی اور دوست نے تحریر کیا کہ حافظ جمال احمد تصاحب کو وہاں بھیج دیا جائے.چونکہ پہلے وہاں صوفی غلام محمد صاحب مبلغ تھے اور وہ حافظ تھے اس لئے احباب جماعت نے وہاں ایک حافظ کے جانے کو ہی پسند کیا.گو صوفی غلام محمد صاحب بی.اے تھے اور ان کی عربی کی لیاقت بھی بہت زیادہ تھی اور حافظ جمال احمد صاحب غالباً مولوی فاضل نہیں تھے ہاں عربی تعلیم حاصل کی ہوئی تھی اور قرآن کریم حفظ کیا ہوا تھا لیکن ہر حال انہیں صوفی صاحب کی جگہ مبلغ بنا کر باریشی بھیج دیا گیا.حافظ صاحب مرحوم کی شادی مولوی فتح الدین صاحب کی لڑکی کے ساتھ ہوئی تھی جنہوں نے شروع شروع میں نجابی میں کام لکھے اور جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوے سے پہلے کے تعلق رکھنے والے دوستوں میں سے تھے.ان کے سسرال کے حالات کچھ ایسے تھے کہ انکے بعد ان کے بیوی بچوں کا انتظام مشکل تھا اس لئے انہوں نے مجھے تحریک کی کہ انہیں بیوی بچے ساتھ لے جانے کی اجازت دی جائے.چونکہ اس وقت سلسلہ کی مالی حالت اتنی کمزور تھی کہ پیسے پیسے کا خرچ بو تھل معلوم ہوتا تھا اور ادھر حافظ صاحب مرحوم کی حالت ایسی تھی کہ انہیں اپنے بیوی بچے اپنے پیچھے رکھنے مشکل تھے میں نے کہا کہ میں آپ کو بیوی بچے ساتھ لے جانے کی اجازت دیتا ہوں مگر اس لے حضرت حافظ صاحب کی آخری رپورٹ (جس میں مخالفت احمدیت کے لئے تائیدی نشانات اور اپنی بیماری کا ذکر ہے، الفضل ۱۱- امان هر ۲۹ د مارچ اور میں درج شدہ ہے ؟
۹۲ شرط پر کہ آپ کو ساری عمر کے لئے وہاں رہنا ہو گا.اس وقت کے حالات کے ماتحت انہوں نے یہ بات مان لی اور سلسلہ اور ان کے درمیان یہ معاہدہ ہوا کہ وہ ہمیشہ رہیں گے.ایک لمبے عرصہ کے بعد جب ان کے لڑکے جوان ہوئے اور لڑکی بھی جوان ہوئی انہوں نے مجھے تحریک کی کہ میرے بچے جوان ہو گئے ہیں اس لئے ان کی شادی کا سوال درپیش ہے آپ مجھے واپس آنے کی اجازت دیں تا بچوں کی شادی کا انتظام کر سکوں لیکن میری طبیعت پر چونکہ یہ اثر تھا کہ وہ یہ عہد کر کے وہاں گئے تھے کہ ہمیشہ وہیں رہیں گے اس لئے میں نے انہیں لکھا کہ آپ کو اپنے عہد کے مطابق عمل کرنا چاہیئے انہوں نے جواب دیا کہ مجھے اپنا عہد یاد ہے لیکن میری لڑکی جوان ہو گئی تھی جس کی وجہ سے مجھے واپس آنیکی ضرورت پیش آئی.اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں نہیں رہوں تو میں اپنی درخواست واپس لے لیتا ہوں بعد میں محکمہ کی طرف سے بھی کئی دفعہ تحریک کی گئی کہ انہیں واپس بلا لیا جائے لیکن میں نے ہمیشہ یہی کہا کہ انہوں نے عہد کیا ہوا ہے اور اس عہد کے مطابق انہیں وہیں کا ہو رہنا چاہیے.ابھی کوئی دو باہ ہوئے میں نے سمجھا کہ چونکہ اب حالات بدل چکے ہیں اور اب نیا مرکز بنتا ہے اس لئے ان کو بھی نئے مرکز سے فائدہ اُٹھانے کا موقع دینا چاہئے میں نے انہیں یہاں آنے کی اجازت دے دی اور محکمہ نے انہیں واپس بلوا بھیجا لیکن خدا تعالیٰ کا یہ فیصلہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ اپنے عہد کو پورا کریں.جب تک ان کی اپنی خواہش واپس آنے کی تھی وہ زندہ رہے چونکہ وہ آخری اختیار رکھنے والے نہیں تھے اسلئے اپنی خواہش کے مطابق وہ واپس نہیں آسکتے تھے لیکن جب یکی نے اجازت دے دی تو خدا تعالیٰ نے کہا اب ہم اپنا اختیار استعمال کرتے ہیں اور انہیں وہیں وفات دے دی.یں سمجھتا ہوں کہ یہ سارے واقعات اپنے اندر ایک نشان رکھتے ہیں.ایک شخص عمد کرتا ہے اور سالہا سال تک اس پر پابند رہتا ہے اس کے بعد وہ اسے توڑتا نہیں، مگر بعض مجبوریوں کی وجہ سے واپس آنے کی اجازت مانگتا ہے لیکن میں احرار کے ساتھ ان کی درخواستیں رو کرتا چلا جاتا ہوں اور وہ چُپ کر جاتا ہے.پھر حکم بھی اس کے بلانے پر اصرار کرتا ہے لیکن میں اسے واپس بلانے کی اجازت نہیں دیتا.یہ بھی نہیں کہ حافظ صاحب کوئی بڑی عمر کے تھے شاید وہ مجھ سے چھوٹے تھے.انہوں نے جب خود واپس آنا چاہا تو میں نے ان کی درخواستیں رو کر دیں جب محکمہ نے ان کے واپس بلانے پر اصرار کیا تب بھی میں نے اصرار کیا کہ وہ اپنے عہد کو پورا کریں.لڑکوں کے متعلق انہوں نے اصرار
۹۳ کیا کہ ان کی تعلیم کا حرج ہو رہا ہے تو میں نے کہا اچھا انہیں یہاں بھیج دو چنا نچہ ان کا ایک لڑکالا ہو پڑھتا ہے اور مسلسلہ کی طرف سے اسے امداد دی جاتی ہے لیکن قادیان سے نکلنے کے بعد مجھے خیال آیا کہ انہوں نے نیا ماحول تو دیکھا نہیں اس لئے انہیں واپس بلا لیا جائے اور اس نئے ماحول سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیا جائے لیکن نے انہیں واپس آنے کی اجازت دی.لیکن جب اس حکم پر عمل کرنے کا وقت آیا تو خدا تعالیٰ نے انہیں واپس بلا لیا تا وہ اپنے عہد کو پورا کرنے والے نہیں اور منهم مَنْ قضى نَحْبَہ کی جماعت میں شامل ہو جائیں.اس آیت قرآنیہ میں خدا تعالیٰ نے بتایا ہے کہ مِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ کچھ تو ایسے صحابہ ہیں جنہوں نے موت تک اپنے عہد کو نباہا ہے.و مِنْهُمْ مَنْ يَنْتظر اور کچھ ایسے ہیں کہ وہ اس انتظار میں ہیں کہ انہیں موقع ملے تو وہ اپنے عہد کو پورا کریں : اسی تسلسل میں فرمایا :- " ہماری جماعت میں بھی خدا تعالیٰ نے ایسے لوگ پیدا کئے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ حافظ جمال احمد صاحب بھی انہی میں سے تھے جن کے متعلق بعد اتعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا کہ مِنْهُمْ مَنْ قَضى نخبة.وہ یہاں سے عمد کر کے گئے تھے کہ وہ وہیں کے ہو رہیں گے جب ہم نے چاہا کہ وہ آجائیں تو خدا تعالیٰ نے کہا نہیں میں ان کا عہد پورا کروں گا.ماریشیس ایک ایسا ملک ہے جہاں بہت ابتداء سے ہمارے مشن سجارہے ہیں میری خلافت کے دوسرے یا تیسرے سال سے وبائی مشن بجھارہے ہیں.ایسے پرانے ملک کا بھی یہ حق تھا کہ وہ کسی صحابی یا تابعی کی قبرا اپنے اندر رکھتا ہو.ہم شرک نہیں کرتے ہم قبروں پر سے مٹیاں لینے والے نہیں ہم قبروں پر پھول چڑھانے والے نہیں ہمیں تو یہ بھی شنکر تعجب آتا ہے کہ ابن سعود کے نمائندے بھی قبروں پر پھول چڑھانے لگ گئے ہیں.مجھے حیرت آتی ہے کہ اگر کوئی پھول چڑھانے کی مستحق قبر تھی تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر تھی.کیا حضرت ابو بکرین کو کھول نہ ملے کہ وہ آپ کی قبر مبارک پر پھول چڑھاتے.کیا حضرت عمر کو پھول نہ ملے کہ وہ آپ کے مزار پر پھول چڑھاتے.اگر آپ کے مزار پر ان بزرگوں نے پھول چڑھائے ہوتے تو ہم اپنے خوان سے پھولوں کے پودوں کو بیچتے تا آپ کے مزار پر پھول چڑھائیں مگر افسوس زمانے بدل گئے لے نقل مطابق اصل :
۹۴ اور ان کی قدریں بدل گئیں لیکن ہم موقد ہیں مشرک نہیں بلکہ ہمیں تو ان موقدوں پر افسوس آتا ہے جو توحید پر عمل کرتے تھے لیکن اب ان کے نمائندے قبروں پر جاتے ہیں اور پھول چڑھاتے ہیں.دنیا میں جو لوگ اچھے کام کر جاتے ہیں ان کی قبروں پر جانا اور ان کے لئے دعائیں کرنا ہی ان کے لئے پھول ہیں گلاب کے پھول اُن کے کام نہیں آتے عقیدت کے پھول ان کے کام آتے ہیں.اور یہ صحیح ہے کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کی راہ میں جان دیتے ہیں ان کے مزاروں پیر دعا کرنا لبسا اوقات بہت بڑی برکتوں کا موجب ہو جاتا ہے.ان سے مانگنا جائز نہیں ہاں ان کی قربانی یاد دلا کرخدا تعالیٰ سے مانگنا چاہئے جیسے حضرت عمر کے زمانہ میں قحط پڑا تو آپ نے دعا کی کہ اے اللہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہم آپ کا واسطہ دے کر تجھ سے دعا مانگا کرتے تھے اب وہ تو ہمارے پاس نہیں ہیں ان کے چا عباس کا واسطہ دے کر تجھ سے دعا کرتے ہیں کہ اس قحط کو دور فرما جیسے لوگ کہتے ہیں بچوں کا صدقہ اسی طرح خدا تعالیٰ سے بھی اس کے پیاروں کا واسطہ دے کر یا لگنا جائز ہے.لیکن سمجھتا ہوں کہ ماریشس اس بات کا مستحق تھا کہ اس میں کسی صحابی یا کسی ایسے تابعی کی جس کا زمانہ حضرت مسیح موعود علی الصلوۃ والسلام کے قریب پہنچتا ہو تب ہوتا وہ اس کے مزار پر خدا تعالیٰ اسے دعا مانگیں میں نے صحابی یا تابعی اس لئے کہا ہے کہ مجھے معلوم نہیں کہ حافظ صاحب مرحوم صحابی تھے یا نہیں جب سے میں انہیں دیکھتا رہا ہوں وہ حضرت خلیفہ اسی اول کا زمانہ تھا.اور اگر میرے دیکھنے پر اسکی بنیاد ہو تو وہ تابعی تھے " یں دوسرے نوجوانوں کو بھی اس طرف تو ہمہ دلاتا ہوں کہ احمدیت کی ترقی بغیر قربانی اور بغیر وقف کے نہیں ہو سکتی.انہیں بھی اس چیز کا احساس ہونا چاہیئے سینکڑوں ہیں جنہوں نے اپنے آپکو خدمت دین کے لئے وقف کیا مگر سینکڑوں انتظار کرنے والے بھی آگے آئیں تا ان کے نام خداتعالی کے رجسٹر میں لکھے جائیں یا لے کا کھا ان جلیل القدر صحابہ کے علاوہ مندرجہ ذیل صحابہ بھی انتقال کر گئے :- ۱ - شیخ عمر نبش صاحب جنگوی (بیعت منه ، وفات ، ار تبلیغ ها بعمر ۱۲ سال که ه روزنامه الفضل ۱۲ تبلیغ ۱۳۳۲۹۵ / ۱۲ فروری ۴۱۹۵ ص سه روز نامه الفضل ۲۳ تبلیغ ۲۳/۸۳۲۵۵ فروری ۱۹۳۵ ܀
۹۵ میاں محمد دین صاحب ساکن بھیڑ یار ضلع امرتسر بیعت شر، وفات ۱۶ را غار ۱۳۹۲ - منشی غلام حید ر صاحب سب انسپکٹر اشتمال اراضی گوجرانوالہ بیعت شنشائه ، وفات نبوت ه۱۳۲۸ بزرگ صحابیات میں سے اس سال محترمہ کریم بی بی صاحبی را علیه حضرت منشی امام الدین صاحب تے پٹواری) اور محترمہ عزیز بیگم صاحب کی اہلیہ حضرت خان صاحب منشی برکت علی صاحب شملوی ) بالترتیب بار اخاء اور ۲۱ فتح کو اپنے مولائے حقیقی سے جاملیں.فصل نهم ۳۲۰ / ۱۹۴۹ء کے بعض متفرق مگر اہم واقعات اب ہم ۱۹۲۳۲ کے بعض متفرق مگر اہم واقعات پر روشنی ڈالتے ہیں.اس سال بھی رب جلیل کے پاک وعدوں کے مطابق خاندان سیح موعود میں تقاریب مسرت، حضرت سی محمدی کے خاندان میں اضافہ ہوا.چنانچہ ۲۲ مسلح کو صاحبزادہ مرزا حفیظ احمد صاحب کے ہاں اور ہم - ایمان کو میاں عباس احمد خال هنا کے ہاں لڑکا پیدا ہوا اور ۲۷ - ۲۸ با تبلیغ کی درمیانی شب کو صا حبزادہ مرزا داؤ احمد صاحب کے ہاں اور ۲۳ر ماہ نبوت کو صاحبزادہ مرزا حمید احمد صاحب کے ہاں لیڈ کی تولد ہوئی.نصرت گرلز ہائی سکول جو ہجرت کے بعد اضاء ۱۳۳۶ سے نصرت گرلز ہائی سکول ربوہ میں ہے کہ امان من یک رتی باغ میں جاری رہا اس سال لے کر تک له الفضل ۲۸ اخاء ه٣٣٨ ٣ الفضل صلح ۱۳۳۹ سه اصحاب احمد جادم من ا و مؤلفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے) ج ه الفضل ۱۴ صلح ۱۳۲۹۵.: ه تاشه الفضل ۲۶ صلح، در امان، ۲۴ نبوت ه۱۳۲۸ :
۹۶ با و شهادت را اپریل میں ریو منتقل کردیا گیا سلسلہ احمدیہ کا یہ پہلا مرکزی تعلیمی ادارہ تھا جو دار الحجرت میں قائم ہوائی صلح (جنوری) کو بیگم سلم تصدق حسین حضرت امیرالمومنین کی مسلمانان عالم کونصیحت نے نئے مفتی فلسطین کے ذاتی نمائندہ اشیخ عبداللہ غوثیہ اور سید سلیم الحسینی کے اعزاز میں ایک دعوت کا انتظام کیا تھا جس میں حضور نے صحیحت فرمائی کہ اگر ہم فی الحقیقت کا میاب ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں ہر کام سوچ سمجھ کر اور ایک خاص سکیم کے ماتحت کرنا چاہئے.سے ۱۹ با مسلح پر جنوری کو رتن باغ لاہور جو من أوسلم کو حضرت مصلح موعود کا خصوصی ارشاد کارایی میں جرمن تو مسلم پر عبد الشکور کے اعزاز میں ایک دعوت دی گئی جس میں اکا بر جماعت کے علاوہ مغربی پنجاب کے اعلیٰ احکام، پولیس اور فوج کے اعلی افسر پروفیسر، سکالرز، موقر جریدہ نگار کے علاوہ متعدد با اثر شخصیتوں نے شرکت کی جن میں لاہور کے ڈپٹی کمشنر مسٹر جعفری سابق ڈپٹی کمشنر لاہور مسٹر ظفرالاحسن بیگم سلم تصدق حسین تھنا ایم ایل اے چوہدری نصر اللہ خان صاحب ایم.ایل.اسے اور جناب علاؤ الدین صاحب صدیقی کے اسماء خاص طور پر قابل ذکر ہیں.سیدنا حضرت مصلح موعود نے اِس تقریب سعید پہ ایک نہایت روح پر ور تقریر کی تیس کی ابتداء میں فرمایا کہ میرے آقا و مولا کے ارشاد کے مطابق اسلام اور اس کے پیچھے متبع ہی کونے کے پتھر میں وہ جس پر بھی کریں گے ایسے پاش پاش کر دیں گے اور جو اُن پر گرے گا وہ بھی چکنا چور ہو جائے گا.اس کے بعد حضور نے فرمایا ہر کنز سے اس سے پہلے جس نہ ہوا سے وابستہ تھے اُس میں بشریت کو لعنت قرار دیا گیا تھا لیکن اسلام شریعت کو برکات خداوندی سے معمور گردانتا ہے.لو دائیں سر عابد کویر باه رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ پاکستان بابت ۳-۱۳۲۹ پیش را ۵-۱۹۵۰ ۲۰۰۰ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تا ریخ لجنہ اماءاللہ حصہ دوم صفحہ ۱۲۴ - ۱۲۶ راز حضرت رسیده ام امنین تمامی حرم سید نا حضرت مصلح موعود یعنی اللہ تعالیٰ عنہ ) با له الفضل من صلح ٣٢ صلا
کو نصیحت کروں گا کہ وہ جو اب اپنے تمام اعزہ و اقرباء کو چھوڑ کر خدا کے دامن سے وابستہ ہو گئے ہیں شریعیت کو اپنی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی کرنے کی کوشش کریں.اور میں طرح وہ پہلے ہر سٹور کے سپاہی تھے آج میرے آقا محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے جاں نثار سپا ہی نہیں کہ خدا ان کے ہاتھ پرفتوحات کی بارشیں کمر سے اور پیدائشی مسلمانوں سے کہ میں بڑھ چڑھ کر ایمان و اعتقاد پیدا کرنے کی کوشش کریں راہ سے حضرت مصلح موعود اخبار والیوں کے قافلیمیت میان کشمیری اور بین هشت فروردی 1479 امر کو سید نا حضرت فضل عمر الصلح الموعود فرقان فورس کے مجاہدوں کا جائزہ لینے کے لئے بھمبر سے ہوتے ہوئے محاذ کشمیر پر تشریف لے گئے.اس سفر میں بند رہی.ذیل جسمانیوں کو حضور کی بابرکت معیت کا مبارک اور زرین موقع بیشتر آیا :- ا - ثاقب صاحب زیدوی ( نامہ نگار خصوصی الفضل لاہور) ۲ - میاں محمد شفیع صاحب (چیف رپورٹر روزنامہ پاکستان ٹائر ، لاہور) سردار نسلی صاحب ( بیت رپور ٹر روزه نامه " احسان لاہور ) پرانا محمد مرور صاحب زادیہ آفاق، لاہور سنور یہ روایتہ جیپ کا رتبہ بھمبر سے ہوتے ہوئے نوشہرہ کے جنوب میں نکیسر کے اس مشہور قلعے کے قریب پہنچے جس کی پیشانی پر احمد شاہ ابدالی کی سطوت و شوکت کا نشان عیاں تھا اور میں کی تحکم، دیوارون سے مکرا کر پیش کی ڈور ارنونوں کے کولوں کو بیسیوں ہی نہیں سینکڑوں بارشتہ کی کھانا پڑی تھی اور مین کے قرب وجوار میں شہدا کے فضل سے احمدیت کے شہر دل اور جان نثار نوجوان اپنی جان تھیلی پر رکھتے ہوئے ان مقدم بر زبان کے چہ چہ کی پاک بانی اور تھا نفت کر رہے تھے.سے د استمرت مصلح موعود کو اس مبارک سفر کے دورا وہ محاذ پر ایک واقعہ نے یکا یک قا: یان کی شد الفضل به صلح هر ۲ دست به سے کمرے صاحب کیا ہی بد قسمت انسان نہیں کہ انہوں نے نصیحت ہمیں خلیفہ وجود کی زبان مبارک سے نہیں، اور بجائے ، ا ق و اخلاص میں قدم آگے بڑھانے کے اسلام ہی سے پورٹ، گئے ہیں ملی افضل بار امان ۲۰۱۳۲۲ :
۹۸ ایسی یا فولادی کہ آپ بے چین ہو کر تڑپ اٹھے مگر آپ نے اپنے قلبی غم واندوہ کو کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیا اور کمال ضبط نفس کا ثبوت دیتے ہوئے چند منٹ تک بالکل خاموشی اختیار کئے رکھی چنانچہ فرماتے ہیں:.یکن تھوڑے دن ہوئے کشمیر کے محاذ پر فرقان فورس دیکھنے گیا.فرقان فورس والوں نے میرے کھانے کا انتظام کیا ہوا تھا ئیں جب وہاں گیا تو ایک جگہ پر ہاتھ دھلانے کے لئے دو چھوٹے لڑکے کھڑے تھے.مجھے بڑا تعجب تھا کہ جس جگہ جاتے ہوئے بڑی عمر والے اور پختہ کار لوگ ہچکچاتے ہیں وہاں پر یہ چھوٹی عمر کے دونوں بیچتے آئے ہوئے ہیں اور خوشی سے اپنی ڈیوٹی کو نبھارہے ہیں.وہ دونوں ہاتھ دھلانے کے لیئے وہاں کھڑے تھے.چھوٹی عمر میں اتنی بڑی قربانی کرنے کی وجہ سے مجھے ان کا یہ فعل پیارا لگا اور نادانی اور غفلت ہیں میں نے سوال کیا کہ تم کہاں سے آئے ہو.ئیں نے خیال کیا کہ وہ کہیں گے کہ ہم گجرات سے آئے ہیں ، جہلم سے آئے ہیں، راولپنڈی سے آئے ہیں یا سیالکوٹ سے آئے ہیں.بین ان سے کوئی دوسیرا جواب سننے کے لئے تیار نہیں تھا لیکن میں نے جب یہ سوال کیا کہ تم کہاں سے آئے ہو تو ان دونوں لڑکوں نے بے اختیار کہا ہم قادیان سے آئے ہیں.مجھے یہ جواب سننے کی امید نہ تھی اس لئے مجھے اپنی حالت کو سنبھالنے کے لئے بہت زیادہ جد وجہد کی ضرورت پڑی میرے ساتھ اس وقت اخباروں کے نمائندے بھی تھے اور بعض دوسرے افسر بھی.میں نے زور سے اپنی زبان دانتوں میں بالی.میں نے ایسا محسوس کیا کہ اگر میں اپنے آپ کو نہیں روکوں گا تو میری چیخیں نکل جائیں گی کئی غیر احمدی بھی اس وقت مجھ سے ملنے کے لئے آئے ہوئے تھے لیکں نے ان سے کوئی بات نہیں کی اور میں بات کر یہی نہیں سکا تھا.انہوں نے شاید یہ بجھا ہوگا کہ میں بہت مغرور ہوں اور ان کے ساتھ بات کرنا نہیں چاہتا لیکن میں مختصر جواب دے کر اپنے جذبات پر قابو پانے کی کوشش کر رہا تھا.پندرہ بیس منٹ بعد جا کر کہیں میری طبیعت سنبھلی اور میں بات کرنے کے قابل ہوا.غرض یکں نے یہ عہد کیا ہوا ہے کہ میں قادیان کے چھوٹ جانے پر غم نہیں کروں گا اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کے بغیر ہمارا گزارہ نہیں.آپ لوگ بھی اپنے تمام جوشوں کو دباتے چلے جائیں خدا تعالیٰ وہ وقت جلد لے آئے گا جب تمہارے دبائے ہوئے جذبات ایک طوفان کی شکل اختیار کریں گے اور وہ طوفان ہر قسم کے خس و خاشاک کو اڑا کے پر سے پھینک دے گا لیکن جب تک وہ مرکزہ جماعت کو نہیں ملتا سب جماعت کو ایک دوسرے مرکز کی طرف منہ کر نا ہوگا کیونکہ مرکز کے بغیرکوئی حاجات نہیں رہسکتی است ه الفضل در احسان ۱۳۲۸۵ ۵۰ |
44 انین حمایت اسلام کے مشاعر یا احمدی شاعر کے کام کی تولیت اور نان نفقہ کو انجی ہیں.حمایت اسلام لاہور کا ایک مشاعرہ ہوا جس میں جناب ثاقب زیر وی صاحب نے ایک نظم پڑھی جو حاصل مشاعرہ بھی گئی.گورنر جنرل الحاج خواجہ ناظم الدین صاحب نے مشاعرہ میں اس نظم کو دوبارہ سننے کی فرمائش کی اور یہ اعزاز اکسس نشست میں کسی دوسرے شاعر کو نصیب نہ ہوسکا.دوسرے دن لاہور کے تقریباً تمام اخبارات میں اس نظم کا چرچا تھا چنانچہ اخبار انقلاب نے ۲۸ مارچ کر منہ کالم ملے پر ثاقب نے سب کو مات دی“ کے عنوان سے حسب ذیل خبر شائع کی.لاہور ۲۶ مارچ.انجمن حمایت اسلام کے مشاعرے میں ایک انیس سالہ نوجوان شاعر صدیق ثاقب زیر وی کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ ہر ایک ایسی گورنر جنرل پاکستان نے اُس سے فرمائش کی کہ وہ تیسری بار اپنا کلام شنائے.اس مشاعرے میں بڑے بڑے شعراء نے حصہ لیا لیکن عوام اور خواص سب نے ثاقب کے کلام کو اتنا پسند کیا کہ اسے تین بار سٹیج پر بلایا گیا.یہ عادت کسی اور کو حاصل نہیں ہوئی.ثاقب کی نظم کا عنوان تھا میرا جواب ، جو ایک اخبار پولیس کی طرف سے شراب کی پیش کش پر کی گئی تھی.یہی نظم خواجہ ناظم الدین کر خاص طور پر پسند آئی اور انہوں نے اسی کو دوبارہ پڑھوایا.جماعت احدیت وفاداریوں کا نایاب نے ایک مضمون ماعت احمدی اور حکومت مجاز کی وفاداری ا م ا ا ا ا ا ا را که دوستان پاکستان میں یہ اعتراض اٹھا یا کہ کے احمدی اس وقت تک اپنی اپنی حکومتوں کے وفادار رہیں گے جب تک ان کے امام جماعت کی طرف سے ایسا حکم ہوگا جب اُن کا حکم نہیں رہے گا ان کی وفاداری بھی ختم ہو جائے گی.اس اعتراض کے جواب میں حضرت صلح موعود ضہ نے " جماعت احمدیہ اور حکومت مجاز کی وفاداری کے عنوان پر حسب ذیل مضمون سپر قلم فرمایا..ہماری جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ اسلام کے رو سے جس حکومت میں بھی کوئی شخص رہے اس حکومت کا اسے وفادار رہنا چاہیے.اگر کبھی حالات خلان ہو جائیں اور وہ وفادار نہ رہ سکے تو اُسے اس ملک سے ہجرت کر جانی چاہئیے.انگریزوں کے زمانہ میں اس عقیدہ کی وجہ سے ہندوؤں ہنگھوں اور
: مسلمانوں نے ہماری مخالفت بھی کی لیکن ہم نے بی عقیدہ نہیں بدلا کیونکہ عقائد کوبا ال دینا کسی انسان کے اختیار میں نہیں عقائد خدا تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں اور ان کو خدا ہی بدل سکتا ہے.ہمارے نزدیک قرآن کریم کی تعلیم کو کوئی شخص بدل نہیں سکتا.ہم بانی سلسہ احمدیہ کو بھی قرآن کریم کی تعلیم کا بدلنے والا نہیں مانتے بلکہ اس کا خادم مانتے ہیں.ہمارے عقیدہ کی رو سے وہ اسلام کے کیسی چھوٹے سے چھوٹے حکم کو بھی تبدیل نہیں کر سکتے تھے.جب بانی سلسلہ احمدیہ بھی کسی حکم کو تبدیل نہیں کر سکتے تھے تو پھر ان کا کوئی خلیفہ خواہ کتنا بڑا ہو کسی حکم کو کس طرح تبدیل کر سکتا ہے پس یہ خیال کر لینا کہ ہندوستان یا پاکستان کے احمدیوں کی اپنی حکومتوں سے وفاداری اسی وقت تک ہو گی جب تک امام جماعت احمدیہ ان کو ایسا کرنے کا حکم دیتا ہے اول درجہ کی حماقت اور بیوقوفی ہے این معاملہ میں امام جماعت احمدیہ کوئی حق ہی نہیں رکھتا.اسلامی تعلیم کو دوہرانا اس کا کام ہے اُسے بدل نہیں سکتا.اگر کسی وقت جماعت احمدیہ کا امام ہی ملک کی جماعت کو یہ حکم دے کہ تم اپنی حکومت کے وفادار نہ رہو تو اس کے معنی یہی نہیں ہوں گے کہ وہ یہ کہتا ہے کہ تم اپنی حکومت کے وزاد آ نہ رہو بلکہ احمدیہ جماعت کے مذہبی مسلمات کے رو سے اس کے یہ معنے ہوں گے کہ تم نعوذ بالله من ذلك قرآن کریم اور خدا تعالیٰ کے فرمانبردار نہ رہو.اور کیا کوئی نائب اپنے افسر کے حکموں کو بدل سکتا ہے خلیفہ بے شک جماعت کا امام ہے لیکن وہ ہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کا تابع ہے محمد رسول اللہ صلے اللہ لیہ وسلم کا تابع ہے.قرآن کریم کا تابع ہے.اللہ تعالیٰ کا تابع ہے اسے اپنے بالا افسروں کے احکام کے بدل دینے کا حق ہی کہاں ہے.پس یہ کہنا کہ جماعت احمدیہ قادیان کی وفاداری چونکہ امام جماعت احمدیہ کے حکم کے ساتھ وابستہ ہے جو پاکستان میں رہتا ہے اس لئے ان کی وفاداری پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا.ایک غلات عقل قول ہے حکومت کی وفاداری کا حکم ہمارے نزدیک قرآن کریم کا حکم ہے اور قرآن کریم خدا تعالیٰ کیا کہتا ہے ہے.ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ دنیا کی جس حکومت میں بھی کوئی احمدی رہتا ہے اس حکومت کا اس کو وفادار رہنا چاہیے.کوئی خلیفہ یہ حق نہیں رکھتا کہ وہ اس حکم کو بدل دے کیونکہ خلیفہ ڈکٹیٹر نہیں ہے وہ نائب ہے اور نائب اپنے سے بالا حکام کے احکام کا والیہ اہی فرمانبردار ہوتا ہے جیسا کہ دوسرے لوگ پائے ل الفضل در شهادت ۳۲ ح ۳ : ܀
در ماه شهادت ۱۳۲ کو فضیل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ پاکستانی سائنسدانوں کو نی صحت میں میں ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں حضرت مصلح موعود نے پاکستانی سائنسدانوں کو نصیحت فرمائی کہ انہیں استقلال کے ساتھ اپنی جد و جہد جاری رکھنی چاہیئے.اخبار انقلاب ۱۴ اپریل ۱۹۴۹ء میں اس تقریرہ کا خلاصہ درج ذیل لفظوں میں چھپا :- " حضرت مرز البشیر الدین محمود احمد نے کہا پاکستان کے سائنسدانوں کو اس بات پر حوصلہ نہیں ہارتا چاہیے کہ ان کے پاس نہ مناسب تعداد میں آیات ہیں نہ سکالم.اگر تم میں رسول اکرم مسلم کے پیروؤں کا جوش موجود ہے تو جس طرح اسلام ایک چھوٹی سی جگہ سے نکلا اور دنیا کے کونے کونے میں پھیل گیا اسی طرح تمہارے لئے یہ بات مشکل نہیں ہونی چاہیئے کہ سائنس کی دنیا میں اسی طرح کامیابی حاصل کرو نے 66 حضرت مصلح موجود نے اور ہجرت جماعت احمدیہ لاہور کی تلی تعلیمی ذمہ داریاں کو بذریعہ خطبہ جمعہ جماعت احمدیہ لاہور کی تبلیغی تعلیمی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی.چنانچہ فرمایا :- " اگر لاہور کی جماعت کمزور ہوگی، اگر لاہور کی جماعت اپنے مقام کو جو اس کا جائز حق ہے حاصل نہ کرے گی تو اُس کا اثر صوبہ کی دوسری جماعتوں پر بھی مزور پڑے گا.اور وہ تبلیغ جس کے رستے اب خدا تعالیٰ نے کھول دئے ہیں اور اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے جو مواقع ہمیں میسر آپکے نہیں انہیں زبردست دھکا لگے گا جس کا ازالہ آسانی سے نہیں ہو سکے گا لیکن لاہور کی جماعت اگر اخلاص سے کام لے گی اور اپنے فرض منصبی کو مجھے گی تو ہماری تبلیغ اور بھی وسیع ہو جائے گی اور جماعت يَوْمًا فَ يَوما بڑھتی چلی جائے گی.اگر لاہور کی جماعت لاہور میں اپنے اثر کو اتنا نمایاں اور ظاہر ر دے کر شو کو بھی تسلیم کرنا پڑے کہ جماعت احمدیہ نے اپنا ایک نقش قائم کر دیا ہے تو اسکا نتیجہ یہ ہو گا کہ صوبہ کے باقی اضلاع ، شہروں اور دیہات میں احمدیت اس سے زیادہ سرعت کے ساتھ پھیلنے لگ جائے گی جس سرعت سے وہ اب پھیل رہی ہے.اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت کے مطابق تین چار ماہ تک ہم ربوہ میں جا بسے اور ایسی سہولتیں ہمیں حاصل ہوگئیں کہ اسے ہم مرکز بنالیں تو پھر جماعت کا تنظیمی مرکز تو بے شک ربوہ ہی ہو گا لیکن یہ بات نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ اس کا سیاسی مرکز ایک ه انقلاب ۱۴ اپریل ۱۹۴۹ در صف ہے
흐 ١٠٢ رنگ میں لاہور سی ہوگا کیونکہ جماعت کا تنظیمی مرکز جس جگہ ہو ضروری نہیں کہ دوسرے لوگ جو جماعت سے لچسپی رکھتے ہیں وہ بھی اپنی توجہ کا مرکز سے بنا لیں.لوگ قدرتی طور پر سہل ترین طریق کو اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں.انہیں اپنے ذاتی کاموں کے لئے لاہور آنا پڑتا ہے جب وہ لاہور آتے ہیں تو قدرتی طور پر ان کی توجہ ان اداروں اور تحریکوں کی طرف بھی ہوتی ہے جن کے مرکز یا مرکزوں کے ظل ا لاہور میں موجود ہیں.گویا وہ ایک تیر سے دو شکار کر لیتے ہیں.وہ یہاں آکر اپنے ضروری کام بھی کرتے ہیں اور ایسے ادارے اور تحریک سے واقفیت بھی حاصل کر لیتے ہیں جو اُن کی توجہ کا مرکز بن رہا ہو.پس جہاں تک لاہور کو سیاسی حیثیت حاصل ہے ہم اس جماعت کو بعد میں بھی نظر انداز نہیں کر سکتے.اگر لاہور میں جو مشکلات ہمیں نہیں آرہی ہیں وہ دور ہو جائیں اور ہمیں ایسی جگہیں مل جائیں جہاں ہم مرکز کا ایک حصہ رکھ سکیں تو مرکز بھی مقامی جماعت کے ان کاموں میں محمد ثابت ہوگا جس کے کرنیکی دفترداری اس پر ڈال دی گئی ہے" سے ارمنی ۱۹۴۹ مر کو حکومت پاکستان کی طرف سے حضر مصلح موعود کا ایک اہم بیان کشمیر میں استصواب رائے کے لئے تین سب کمیٹیوں کشمیر میں استصواب رائے کے سلسلہ میں کسی تشکیل کا اعلان کیا گیا.(PUBLICITE ADVISORY COMMITTEE ) ا.پیلیسائٹ اڈوائزری کمیٹی" ۲ ریفیوجی ری سہیلی ٹیشن اڈوائزری کمیٹی" RE-HABLITATION (REFUGEE ADVISORY COMMITTEE ) (PUBLICITY COMMITTEE ) POLICY پالیسی پالیسی کمیٹی.سرکاری اعلامیہ میں وضاحت کی گئی کہ ہر ایک کمیٹی میں پاکستان اور آزاد کشمیر کی حکومتوں اور عوام کے نمائندہ عمر کتنی تعداد میں ہوں گے چونکہ یہ نئی جدوجہد بھی تحریک آزادی کشمیر کے اسی سلسلہ کی لازمی کڑی تھی جس کا آغاز ۱۹۳۷ء میں سید نا اصلح الموعود کی صدارت و قیادت میں ہوا تھا اس لئے حضور کو قدرنا اس اعلان پر بے انتہاء خوشی ہوئی اور آپ نے اس کا نہایت دلچسپی سے مطالعہ کرنے کے بعد ایک اہم بیان دیا جس کا متن اخبار انقلاب میں حسب ذیل الفاظ میں شائع ہوا :- الفضل ۲۱ ظهور ۱۳۳۸۵ ص۴۷۳
١٠٣ میرے دل میں تڑپ ہے کہ کشمیر آزاد ہو مرزا بشیر الدین کا بیان لاہور را ارمٹی.جماعت احمدیہ کے امام مرزا بشیرالدین محمود نے حسب ذیل بیان فرض اشاعت جاری کیا ہے :.حکومت پاکستان کے محکمہ بغیر پورٹ فولیو نے ، ارمئی شہر کو ایک اعلان شائع کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کشمیر میں استصواب رائے کے لڑنے کے لئے ایک پالیسی طے کر لی ہے اور اس کے اصول انہوں نے شائع کر دئے ہیں اور مختلف کاموں کے لئے سب کمیٹیاں بنادی ہیں.چنانچہ اعلان سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک سب کمیٹی پیلیسائٹ اڈوائزری کمیٹی کے نام سے مقرر کی گئی ہے.دوسری ریفیوجی در پیلی ٹیشن او ائندی کیٹی اور تیسری پلیٹی پالیسی کیٹی کے نام سے.ان تینوں کمیٹیوں کی شات ری اس طرح کی گئی ہے کہ پلی کمیٹی میں چار مہر پاکستان پبلک کے نمائندے یا آزاد کشمیر گورمنٹ کے نمائندے ہیں اور تین مسلم کا نفرنس کے نمائند سے ہیں.دوسری میں تو مر ہیں جن میں سے ڈو آزاد کشمیر گورمنٹ کی طرف سے ہیں اور مسلم کا نفرنس کے نمائندے ہیں اور پانچ پاکستانی حکومت یا پاکستان پبلک کے نمائندے ہیں.تیسری س کمیٹی یعنی پروپیگنڈا کی کمیٹی میں سات ممبر ہوں گے جن میں سے کچھ پاکستانی حکومت کے نمائندے ہوں گے اور ایک مسلم کانفرنس کانمائندہ ہو گا.اس اعلان سے معلوم ہوتا ہے کہ آزادی کشمیر کی جد وجہد کے خاتمہ کا زمانہ اب قریب آرہا ہے اور یہ جد و جہد اپنے آخری دور میں داخل ہونیوالی ہے.مجھے چونکہ قدر تار اس نئی جد و جہد سے پچسپی ہے جو اس سابقہ مسلسلہ کی ایک کڑی ہے جس کا ئیں صدر رہا ہوں.مجھے خصوصیت سے یہ تڑپ ہے سر کشمیر کے مسلمان آزاد ہوں اور اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں سے مل کر اسلام کی ترقی کی جد و جہدیں نمایاں کام کریں.اس مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے کیں تمام ان لوگوں سے جو کشمیر کے کام سے پوسی رکھتے ہیں اپیل کرتا ہوں کہ اب جبکہ یہ آزادی کی تحریک آخری ادوار سے گزر رہی ہے اپنی سب طاقتیں اس کی کامیابی کے حصول کے لئے لگا دیں اور ایسی باتوں کو ترک کر دیں جو اس مقصد کے حصول میں روک ثابت ہو سکتی ہوں.یہ صاف اور سیدھی بات ہے کہ جو اہمیت مقصد کو حاصل ہوتی ہے ذریعہ کو حاصل نہیں ہوتی ہم خیال لوگوں کے ذرائع مختلف ہوسکتے ہیں مگر مقصد الگ الگ نہیں ہو سکتے.پیڑھی ظاہرام ہے کہ ایک متحد خیال کو مختلف تدابیر پر قربان نہیں
۱۰۴ کیا جا سکتا مختلف تدابیر ہی میں سے بعض کو مقصد وحید کے لئے قربان کیا جائے گا.پس پاکستان کے ارباب حل و عقد کو یہ موقع دینے کے لئے کہ وہ ایسی پالیسی کو جسے و ہی سمجھتے ہیں اچھی طرح پھلا سکیں تمام مہاجرین کشمیر اور پاکستانی مسلمانوں کو سہولتیں ہم پہنچانی چاہئیں تا کہ پاکستانی حکومت ڈھیھی سے کام کرسکے اور ان نتائج کو پیدا کرنے میں کامیاب ہو سکے جو وہ پیدا کرنا چاہتی ہے.یہ لکی نہیں کہتا کہ کوئی شخص اپنے اختلاف رائے کو ان لوگوں کے سامنے بھی پیش نہ کرے جو حکام مجاز ہیں ان کے سامنے اپنے خیالات کو بغیر جوش اور تعصب کے رکھ دینے ہیں کوئی حرج نہیں لیکن المیا رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیئے کہ اصل کام کی جگہ لڑائی جھگڑوں کے تصفیہ میں لگے رہیں اور اصل کام کا حرج ہو جائے.پس تمام مختلف الخیال کشمیری مہاجرین کو اس کام کے لئے اکٹھے ہو جانا چاہیئے اور حکومت پاکستان کے مقدر کردہ اداروں سے مل کر اس طرح زور لگا نا چا ہیئے کہ کشمیر کا الحاق پاکستان سے ہو جائے اور عظیم الشان خطرہ جو ہر وقت پاکستان کے سامنے رہتا ہے گلی طور پر دور ہو جائے.یہ یادرکھنا چاہیئے کہ اول تو اعلان بھی کشمیر کے نمائندوں کا نام نہیں ہے.اگر اہل کشمیر میں سے بعض کو بعض سے اختلاف بھی ہو.تو یہ کو ان کہہ سکتا ہے کہ ہر نمائندہ ضرور اُن سے اختلاف خیال رکھتا ہو گا لیکن اگر فرض کرو ایسا ہو بھی تو کیا چند دنوں کے لئے ایک مخصوص کام کے لئے جس پر کشمیر کے مسلمانوں کی زندگی اور موت کا انتھار ہے وہ میرے کام نہیں لے سکتے ہیں تمام اہل کشمیر سے جن پر میرا پہلی جنگ آزادی کی وجہ سے یقیناً حق ہے کہتا ہوں کہ پاکستانی حکومت کی مذکورہ بالا تجاویز کو کامیاب کرنے کے لئے وہ پوری طرح تعاون کی روح کا مظاہرہ کہ میں کشمیر اگر پاکستان سے ملا تو دوسروں کا ہی نہیں ان کا بھی فائدہ ہوگا.اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرے اور ان اسباب کو دور کر دے جو تفرقہ اور شقاق کا موجب ہوتے ہیں یا راہ ۲۰۰ ۱۳ ۱۹۲۹ء کی یہ خصوصیت نائیجیریا، انگلستان اور امریکہ میں کامیاب بلا ہی لیے ہے کہ اس سال نائیجیریا اور نکلے کی احمدی جماعتوں نے سالانہ مجلسوں کا سلسلہ شروع کیا اور امریکہ کی دوسری کا نفرنس منعقد ہوئی.یہ سب اجتماعات خدا کے فضل و کرم سے بہت کامیاب رہے.چنانچہ شه انقلاب لاہور ۱۸ مئی ۱۹۲۹
۱۴،۱۳ ظهور ۱۳۲۸۵، مطابق ۱۳ ۱۴- اگست ۱۹۴۹ئر کو جماعت احمدیہ نائیجیریا کا پہلا سالانہ جلس مسجد احمد یہ لیگوس میں انعقاد پذیر ہوا جس میں مقامی احباب کے علاوہ المارد، کوٹہ ، رجب واڈے، الینے ، ایسے ، اجڑے ، اودین ، اونڈو، اکیسٹی پوپا ، اولیو، اومو ، اووو آڈو اکمیتی ، زاری ، آگے ڈنگی کی احمد ہی جماعتوں کے احباب شامل ہوئے.جلسہ کے چارا اجلاس ہوئے جن میں مولوی نور محمد صاحب تیم سیفی امیر و انچارج نائیجیریا، قریشی محمد افضل صاحب اور مولوی سید احمد شاہ صاحب (پاکستانی مجاہدین ) کے علاوہ مندرجہ ذیل نائیجیرین احمدیوں نے اپنے خیالات کا اظہار فرمایا :- الفابیض صالح آن اوٹا ، مسٹر سے بی ابا نوگون ، آئی ڈی اولو کو ڈانا، الحاج اسے اسے ایبٹوالا آن الارو، الحاج عبد الوحید فلا دیو آن زاریا ، انکے اوسنیا لو، بی.بی با لوگوں ، الفا اسے بی ڈنمالا آف اجڑے.جلسہ کے اختتام پر ایک مقامی غیر احمدی عالم الحاج عبدالله آدم فارغ التحصیل الا زہر یونیورسٹی مصر نے جماعت احمدیہ کی یورپ میں اسلامی خدمات کو سراہا.جلسہ کے ایام میں سالانہ مجلس مشاورت کے اجلاس بھی ہوئے جن میں فضل عمر احمد یہ سکول کے قیام اور احمد یہ اخبار دی روتھ کے اجراء کے لئے اخراجات کی تحریک کی گئی.نائیجیریا کے پریس نے اس کامیاب جلسے کی رپورٹیں شائع کیں.چنانچہ اخبار افریقین ایکسپریس نے ۲۳ اگست ۱۹۴۹ء کے شمارہ میں صفحہ اول پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شبیہ مبارک اور حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب تیر بانی نائیجیریا مشن کی تصویر شائع کی اور لکھا :- و صد ر انجمن احمدیہ قادیان کی شاخ نائیجیریا مشن نے اپنی پہلی سالانہ کا نفرنس کے اجلاسوں میں نہایت اہم امور پر کیت کی ہے جو جماعت احمدیہ اور تمام مسلمانان نائیجیریا کے مفاد سے وابستہ ہیں.اس پہلی سالانہ کانفرنس میں صوبہ بات کے ساتھ نمائندے شامل ہوئے.علاوہ ازیں معززین شہر اور جبکہ مذاہب کے علماء نے شرکت کی.احمد یہ سکول کھولنے کے لئے خاص تجاویز زیر غور آئیں فیصلہ کیا گیا ہے کہ یہ سکول واسط بوک ۳۲۸۵/ / ستمبر ۱۹۲۹ء میں مسجد احمدیہ واقع اجو گیو اسٹریٹ میں ہماری کیا جاوے.اس سکول میں تمام بالمباء کو بلا امتیاز مذہب و ملت داخلہ کی اجازت ہو گی.کوٹر
1.4 اور اتنے میں دار التبلیغ کی تعمیر کے ریزہ ولیوشن بھی پاس ہوئے.اس کے علاوہ اخبارہ ٹروتھ جاری کرنیکا بھی فیصلہ کیا گیا جس کا مقصد مسلمانان نائیجیریا کے حقوق کی حفاظت ہو گا.سے ۲.ر جماعت احمدیہ انگلستان کا پہلا سالانہ جلسہ ۲۹ ، ۳۰ ماه انحاء ه۱۳۲۸ مطابق ۲۹ ۳۰ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو منعقد ہوا.جلسہ کا پہلا دن آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے لئے مخصوص تھا.جس میں مختلف مذاہب کے درج ذیل نمائندوں نے دربار رسالت میں ہدیہ عقیدت پیش کیا :- پروفیسر پر فرسٹ صدر شعبہ مذہب و فلسفه گریگری پیرسن کالج - مسٹر ڈسمنڈ مشہور برطانوی مصنف.۳ سوامی اویکا نندن صدر لنڈن ویدانتا سوسائٹی.آلدر من ایڈیٹر ساؤتھ ویسٹ ہیرلڈ.چینی ڈاکٹر چی پی ایچے ڈی.-4.مسٹر ٹونیک ایڈیٹر ایسٹرن ورلڈ.اسی روز نماز مغرب و عشاء کے بعد بشیر احمد صاحب آرچر ڈمبلغ سکاٹ لینڈ نے مناظر قادیان کی فلم ہو کھائی.دوسرے دن مسٹر بلال نسل کی صدارت میں صبح گیارہ بجے سے لے کر نماز ظہر تک جلسہ ہوا جس میں سب سے پہلے چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ کی تحریک پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے حضور جماعت احمدیہ انگلستان کی طرف سے اظہار عقیدت و محبت کا متفقہ ریزولیوشن پاس کیا گیا جس کے بعد انگریز نو مسلموں میں سے مسٹر فرید احمد کلین ، مسٹر جمال الدین ڈائر ، مسٹر بشارت احمد گریک، مسٹرعبدالکریم ہر بیٹ اور سٹر بشیر احمد آرچرڈ نے میں نے اسلام کیوں قبول کیا کے موضوع پر تقریریں کیں.ان تقریروں کے معاً بعد یورپ کے مبلغین نے میرے مشن کے کام" کے عنوان پر خطاب فرمایا.آخر میں میر عبدالسلام صاحب نے بائبل کی روشنی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حقانیت ثابت کی.آخری اجلاس میں جو بعد نماز ظہر وعصر مشروع ہو کر سات بجے شام تک تمہاری رہا جماعت انگلستان کے تبلیغی اور تربیتی نظام کو وسیع کرنے کے لئے آٹھ اہم قرار دادیں پاس کی گئیں یہ له روزنامه الفضل ١٠ - تبوك ٣٣٨ ها روزنامه الفضل ۲۵ فتح ه ملا ، ص۱
- گذشتہ سال (۱۳۲۶ / ۱۹۲ء) میں جماعت ہائے احمد یہ امریکہ کی پہلی یک روزہ سالانہ یہ کا نفرنس منعقد ہوئی تھی.اس سال تئیس برگ میں ۱۷، ۱۸ تبوک ه۱۳۲۸ (ستمبر ۱۹۴۴) کو دوسری ام کانفرنس کا انعقاد ہوا.اس کا نفرنس کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ حضرت امیر المومنین المصلح الموعود نے ایک خاص پیغام اس کے لئے ارسال فرمایا جس میں حضور نے میرے پیارے دوستو اور روحانی بچوں کے پر محبت خطاب کے بعد جماعت امریکہ کو فرمایا :- " مجھ سے خلیل احمد صاحب ناصر مبلغ انچارج امریکہ نے اس بات کی خواہش کی کہ میں آپ کو آپکی دوسری سالانہ کانفرنس کے موقع پر ایک پیغام بھیجوں " آج سے ۲۹ سال پہلے میکس نے مفتی محمد صادق صاحب کو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے صحابیوں میں سے ہیں ، آپ کے ملک میں اسلام کی تبلیغ کے لئے بھیجا تھا تا کہ وہ آپ کے سامنے ذرات عالی اور ہدایت کے راستہ کو پیش کریں.اس وقت شاید ان کی باتوں کو ایک بوڑھے مجذوب کی بڑ سمجھا گیا مگر آخر اسی آواز کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ نے وہ لوگ پیدا کئے جو امریکہ میں سچائی اور صداقت کے علمبردار ہوئے ؟ آگے پھیل کر حضور نے رقم فرمایا :- احمدیت خدائے ذوالجلال کا پیغام ہے یہ کسی انسان کا کام نہیں.پس آپ ہمیشہ اس بات کی کوشش کریں کہ آپ کو اسلام اور احمدیت کا زیادہ سے زیادہ علم حاصل ہوتا کہ آپ کے اعمال خدا تعالے کی رضا کو حاصل کرنے والے ہوں.خدا تعالیٰ نے قرآن مجید کے ذریعہ ایک مکمل شریعیت آپ کو دی اور اس پر عمل کرنا آپ کے ہی فائدہ کے لئے ہے “ حضور نے جماعت کو نصیحت فرمائی کہ آپ اس عظیم الشان موقع کو جو کہ آپ کو خدا تعالیٰ کا پیغام شروع میں ماننے کی وجہ سے حاصل ہوا ہے فائدہ اُٹھائیں اور اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی خدمت میں لگا دیں.اگر کسی میں کوئی کمزوریاں ہوں تو ان کی نقل نہ کریں بلکہ آپ بخدا تعالیٰ کے کلام کو اپنے لئے مشعل راہ بنائیں" آخر میں حضور نے دعا کی کہ خدا تعالیٰ آپ کی اور ان مبلغین کی جو آپ کے ملک میں نہیں اور آپ کے ملک کی مدد فرمائے اور آپکی کوششوں کے نتیجہ میں آپ کا ملک اسلام کے لئے ایک قلعہ ثابت ہو اور اللہ تعالی کی برکتیں اور رحمتیں
۱۰۸ آپ پر نازل ہوں " (مکمل پیغام متن میں درج ہے ) چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے بھی اس کا نفرنس میں شرکت کی اور دو دفعہ خطاب فرمایا.اس کا نفرنس کا افتتاح چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر مبلغ انچار ج امریکہ نے کیا.کانفرنس میں رشید احمد صاحب شکاگو محترمہ علیہ علی صاحبہ ، احمد شہید صاحب، محترمہ امتہ الطیف صاحبہ نے بالترتیب تبلیغ، مال، تعلیم اور تمدن و معاشرت سے متعلق رپورٹیں سنائیں جن پر مختلف احباب نے اپنے مشورے پیش کئے اور غور تمحیص کے بعد آئندہ سال کے لئے لائحہ عمل تجویز کیا گیا جسے بروئے کار لانے کے لئے ایک سیکرٹری کا انتخاب عمل میں آیا حضرت مصلح موعود کے پیغام نے خصوصاً امریکن احمدی خواتین میں ایسا زبر دست جوش و خروش پیدا کر دیا کہ حوضی حضور کا پیغام پڑھا باپ کا محترمہ علیہ علی صاحبہ نے تقریر کی کہ حضرت امیر المومین خلیفہ اسیح الثانی کا یہ نہایت ہی پیارا پیغام سننے کے بعد ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم مزید قربانی کریں.اس امر کے اظہار کے لئے کہ احمد بی نو مسلم عورتیں حضور کے ارشاد پر ہر قربانی کے لئے تیار ہیں ہم لبنات امریکی مشن فوری طور پر ۵۲۵ ڈالر فقد حضور کی خدمت میں پیش کرتی ہیں.یہ اخلاص کا منظر نہایت ہی روح پرور اور انیان افزا تھا کہ ان نوسلم مستورات نے جو بظاہر اسلام میں ابھی تک حدیث العہد تھیں قربانی کا شاندار نمونہ دکھایا.کا نفرنس میں مندرجہ ذیل جماعتوں کے نمائندے شامل ہوئے :- پٹس برگ ، بالٹی مور، نیو یارک ، ڈوکین ، بریڈک ، ہوم سٹرٹ، ڈمین، سینٹ لوئیس، الیسٹ سینٹ لوئیس، کین سٹی، آئی یو واکسٹی ، شکاگو، کلیولینڈ، میکس ٹاؤن ، ڈی ٹرائٹ، انڈیانا پولس.حضرت امیر المومنین کے فوری ارشاد کے مطابق مولوی عبد القادر صاحب یتیم بذریعہ ہوائی جہاز پاکستان سے پیس برگ پہنچے اور کا نفرنس میں شرکت کی.عبد القادر صاسب جنینم کے درود پر جماعت تمدید امریکہ نے اپنے پیار سے امام ہمام کا بہت شکریہ ادا کیا کہ پچھلے سال اس تعمیر کو جو موجودہ کنونشن کا پہلا دن ہے بجاہ امریکہ مرزا منور احمد صاحب دفن ہوئے اور اس پر ایک سال نہیں گزرا تھا کہ خدا تعالے نے انہیں ایک نیا مبلغ عملا فرمانہ یا.لہ به روزنامه الفضل ۲ ، ۶ افاد ۳۰۳۸۵
1-9 بیروت کے اختبار الیوم نے ۲۲ لبنانی پریس میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا تذکرہ کانون الاول ۱۹۳۹ ہ کے پرچے میں حضرت امام جماعت احمدیہ کی عظیم شخصیت کے بارے میں مندرجہ ذیل تعارفی نوٹ شائع کیا." يتمتع الخليفة ميرزا بشیر الدین محمود احمد بمكانة دينية كبيرة في باكستان، وهو من لاهور عاصمة البنجاب، ويبلغ من العمر ٢٠ عامًا ويعتبر ثقة في امور الاسلام ويتولى رئاسة الجماعة الاحمديين؛ الذين ينتشرون في كل بقعة من بقاع العالم مبشرين بتعاليم الدين الاسلامي الحنيف، ويرجع اليه الفضل الاول في انشاء مراكز التبشير في اكثر بلدان العالم، وقد لعب هذا الزعيم الديني المسلم دورًا ها ما في كشمير و في تأسيس دولة باكستان لجماعته نظام خاص من الفقير الى الوزير، وهو أي السيد ميرزا بشير الدين تقى ورع ومستجاب الدعوات وقد كتب عن حياته السيد محمد ظفر الله خان وزیر خارجية باكستان باللغتين الانكليزية والأردية.ولهذا الزعيم الديني الكبير مؤلفات متعددة في الاسلام وفى تفسير تعاليمه باللغتين الأردية والانكليزية، وقد سبق له أن تولى رئاسة لجنة كشمير كما مثل مسلمي الهند فى مؤتمر الاديان الذي انعقد في عام ١٩٢٤ في لندن....له خلیفہ میرزا بشیر الدین محمود احمد کو پاکستان میں مذہبی اعتبار سے بڑی عظمت و اہمیت حاصل ہے آپ کی عمر اس وقت ساٹھ سال ہے اور آپ کا تعلق پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے ہے.آپ اسلامی مسائل میں ثقہ سمجھے جاتے ہیں اور جماعت احمدیہ کے امام ہیں جو اکناف عالم تک پھیلی ہوئی ہے اور اسلامی عقائد کی تبلیغ کر رہی ہے اور دنیا کے اکثر ممالک میں تبلیغی مراکز کے قیام میں اس کا نمایاں له اليومز البيروت، ۲۲ كانون الأول بحواله البشرى المجلد ۱۶- ربيع الاول ۱۳۷۰ هجرية دسمبر ۱۹ م م ۲۳ : ۲ یاد رہے کہ حضور ان دنوں لاہور میں فروکش تھے ہے کے یادر ہے
11.دخل ہے.اس مسلمان مذہبی لیڈر نے پاکستان کی تاسیس اور مسئلہ کشمیر میں کار ہائے نمایاں انجام دئے ہیں.جماعت احمدیہ کے افراد فقیر سے لے کر وزیر تک ایک خاص نظام سے وابستہ ہیں.میرزا البشیر الدین منتقی، پارسا اور تجاب الدعوات ہیں.محمدظفر اللہ خان وزیر خارجہ پاکستان نے انگریزی اور اردو زبانوں میں آپ کی سیرت لکھی ہے.اسی عظیمہ مذہبی لیڈر نے اسلام اور اسلامی تعلیمات کی تفسیر میں اردو اور انگریزی میں بہت سی کتابیں لکھی ہیں.آپ کشمیر کمیٹی کے صدر بھی رہے ہیں.اسی طرح آپ نے مسلمانان ہند کی طرف سے مذاہب عالم کا نفرنس میں بھی نمائندگی کی جو ۱۹۳۳ء میں بمقام لنڈن منعقد ہوئی تھی.مبلغین کی بیرونی ملات آمار روانی ایس ایل سی و یا بیوی اور بیرون ملک میں فریقہ تبلیغ کھانے کے بعد پاکستان تشریف لائے.ا - مولوی محمد صدیق صاحب انچار ج مشن مسیرالیون (آمد لاہور ۳ احسان ه۳۳ الله ملک محمد شریف صاحب مبلغ اٹلی ( آمد لاہور یکم تبوک ما ہے ۳ - شیخ نور احمد صاحب منیر مبشیر اسلامی بلاو موبیه ) آمده بوده در فتح هشی شیخ نور احمد صاحب منیر کے استقبال کے لئے دوسرے مضامین کے علاوہ سید نا حضرت امیر المومنین المصلح الموعود بھی ربوہ اسٹیشن یہ تشریف لے گئے ہیں اسی طرح شیخ صاحب کی آمد سے دو روز قبل (۵ار فتح کوم مولانا محمد صادق صاحب مجاہ انڈونیشی سنگا پور کے لئے روانہ ہوئے تو اس موقع پر بھی حضور پر نور اسٹیشن پر رونق افروز تھے اور حضور نے ود آپ کو دعاؤں سے الوداع کیا بیت این سال مند و به دلیل کم آبیش مصنفین سلسلہ کی طرف سے شائع ہوئیں جن سے جماعتی نئی مطبوعات لٹریچر میں بے بہا اور مفید اضافہ ہوا :- لائف آن احمد (مولانا عبد الرحیم صاحب درد ، مقامات النساء (مولوی ابو العطاء صاحب جالندھری البیان فی اسلوب القرآن - اعجاز القرآن ما يثبت بالقرآن لله له الفضل ۶ وفا ، ۲ تبوک ، ۲۱ رفته ۱۳۲ الفضل ٣٠ فتح مث
حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی منم تلخيص العربيه با خلاصته المنجد (حکیم عبد اللطیف صاحب ابد) اندار و لبشارات (حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب) فقه احمدیہ حصہ دوم (مولوی عبد اللطيف مات بہاولپوری) سیرت خاتم النبتين حصہ سوم (مولفہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.ا سے ہے صاحب لے اخبار انقلاب نے اپنے اور جون 199 کے شمارہ میں سیرت خاتم النبیین حصہ سوم پر حسب ذیل تبصرہ کیا :- سیرت خاتم النبيين (حصہ سوم جزء اول ( صاجزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے کی کتاب " سیرت خاتم النبیین کے دو حصے شائع ہو چکے ہیں اور تمام حلقوں نے ان کی تعریف کی ہے.اب اس کتاب کا تیسرا حصہ شائع ہوا ہے جس میں غزوہ بنو قریظہ کے بعد سے آنحضرت کے تبلیغی خطوط تک کے واقعات درج کئے گئے ہیں اور یہ حصہ کوئی سوا دو سو صفحےپر ختم ہوا ہے.مرزا بشیر احمد صاحب کا علم و فضل کسی تعریف و تعارف کا محتاج نہیں.اس کے علاوہ آپ کا انداز تحریر بے حد سادہ سلیس اور دلنشیں ہے.چونکہ سرت پر آپ کی نظر بہت وسیع ہے اس لئے آپ کی کتاب میں بے شمار ایسے واقعات بھی کہیں گے جو سیرت کی عام کتابوں میں حذف کر دئے گئے ہیں.مرزا صاحب اس حقیقت سے پوری طرح باخبر ہیں کہ جب کوئی مسلمان موقف آنحضرت مسلم کی سیرت پر کتاب لکھتا ہے تو اس کا مقصد محض تاریخی واقعات بیان کرنا نہیں ہوتا بلکہ حضور کی حیات طیبہ کے تمام شعبوں کو اجاگر کرنا اور حضور کی تعلیمات کی طرف پڑھنے والوں کو متوجہ کرنا مقصود حقیقی ہے چنانچہ کتاب زیر تبصرہ میں فاضل مؤلف نے جابجا اس مقصد کو مد نظر رکھا ہے اور بیان سوانح کے ساتھ ساتھ ازدواج، مساوات اسلامی، تعلقات آقا و خادم تقسیم دولت، مساوات اقتصادی ، فلسفه دعا معجزات ، دین و سیاست اور بعض دوسرے مسائل پر اسلامی نقطہ نگاہ سے اور سیرت مقدسہ کی روشنی میں بحث بھی کر دی ہے گویا پڑھنے والے کو نہ صرف حضور کی سیرت مقدسہ کے واقعات معلوم ہو جاتے ہیں بلکہ اسوۂ حسنہ کی پیروی کا راستہ بھی مل بھاتا ہے..."
فصل دوم کتاب السلام اور ملکیت زمین کی اشاعت مجلس مشاورت ۶۱۹۵ کا انعقاد دفاع وطن کی تیاری میں حصہ لینے اور دیدار پرتیارکرنے کی تحریک حرم مصل، موعود کاسفرکوٹ و سندھ اوکاڑہ اور راولپنڈی میں دو احمدیوں کی المناک شہادت ) خلافت ثانیہ کا بھی سوال سال هـ 171900 اسلام اور ملکیت زمین کی اشاعت پاکستان میں کمیونسٹ تحریک نے مختلف سیاسی پارٹیوں کے ساتھ مل کر یہ آواز بلند کرنا شروع کی کہ ملکیت زمین کے بارے میں ہمارے ملک میں اصلاح کی ضرورت ہے مگر جو اصلاح تجویز کی اگر چہ وہ تفصیلا وہی تھی جو کمیونزم نے تجویز کی ہے لیکن اس کا نام اسلامی اصلاح رکھ دیا بعض حلقوں نے اسلامی تعلیمات کو توڑ مروڑ کر ایسی شکل دینے کی کوشش کی کہ لوگ اس تحریک کو اسلامی ہی سمجھیں بعض نے رسول اکرم صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے تعامل کو نظرانداز کر کے کچھ نئے معنی ان آیات اور احادیث کو دے دیئے جن سے اُن کے نظریہ کی تصدیق ہوتی تھی.بر سر اقتدار مسلم لیگ پارٹی نے اس پروپیگنڈا سے متاثر ہو کہ زمینداری سسٹم کی اصلاح کے لئے پنجاب، سندھ، سرحد اور مشرقی بنگال میں کمیں مر کر دیں جن کی رپورٹوں پر غور کرنے کے بعد مرکزی سلم لیگ نے ایک رپورٹ تیار کی جس پر سلم لیگ کی مجلس عاملہ نے زمیندارہ اصلاح سے تعلق کچھ
اصول وضع کئے اور فیصلہ کیا کہ بڑی بڑی زمینداریائی اور جاگیر داری بہر حال مجلد ختم کر دی جائے.اور صوبجاتی حکومتوں کو توجہ دلائی کہ وضع کردہ اصولوں کو بھاری کرنے کی کوشش کریں.جہاں تک حکومت وقت کے نمائندوں کے فیصلوں کا تعلق تھا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو اس پر بحث کرنے کی چنداں ضرورت نہ تھی کیونکہ آپ کا یہ قطعی ملک تھا کہ سیاسی امور سیاسی لوگوں پر ہی چھوڑ دینے چاہئیں لیکن ایک بین الا قوامی مذہبی جماعت کے دینی راہ نما کی حیثیت سے آپ نے یہ گوارا نہ کیا کہ اسلام کے نام پر کوئی ایسی بات کہی جائے جو اسلام سے ثابت نہ ہو چنا نچہ آپ نے اسی اہم مذہبی فرض کی بجا آوری کے لئے " اسلام اور ملکیت زمین کے نام سے ایک پرواز معلومات کتاب سپر و فیلم فرمائی جو صلح ۱۳۳۹ / جنوری نظام میں شائع ہوئی.یہ کتاب بارہ ابواب پر تمل تھی اور اس میکنی ملکیت اشیاء کے قانون ، ملکیت زمین کے اصول ، جاگیرداری، وسیع رقبہ اراضی کی ملکیت ، لگان اور بٹائی پر زمین دینے اور حکومت کا عوام کی جائیداد پر جبراً قبضہ کرنے کے مسائل پر خالص اسلامی نقطہ نگاہ سے روشنی ڈالی نیز سندھ زمیندارہ کمیٹی اورمسلم لیگ کی زمیندار کیوں کی بعض خامیوں پر بھی عقلی بحث کی.اور آخر میں کسانوں اور کاشت کاروں کی حالت زار کی اصلاح کے لئے ایسی مفید تجاویز بتائیں جن سے ملک میں رائج شدہ فرسودہ زمیندارہ نظام کی کایا پلٹ سکتی تھی.ان تجاویہ کا خلاصہ یہ تھا :- ا.زمیندار ان تمام طریقوں کو استعمال کریں جن کے ذرایعہ مغربی ممالک کے زمیندار آمدن پیدا کرتے ہیں.مثلاً غیر ملکی کاشت کار اپنی مملوکہ جائداد کے ہر حصہ کو ہر طریق سے آمدن پیدا کرنے میں لگاتا ہے اور اپنے فارم میں باغ لگا کر شہد کی مکھیاں ، مرغیاں اور گائے پال کر اور علاوہ غلہ کے سبزی ترکاری پیدا کر کے زمین کے چپہ چپتہ کو اس طرح استعمال کرتا ہے کہ زمین سونا اُگلنے لگتی ہے.- حکومت دیہات میں سوختنی اور تعمیری لکڑی کے ذخائر قائم کرنے کا انتظام کرے تا کسانوں، کاشت کاروں اور زمینداروں کا کھاد این دھن کی بجائے پیداوار بڑھانے کے کام آسکے..ہمیں اپنے زمیندارہ نظام کی اصلاح کے لئے امریکہ اور روس کی بجائے (جہاں وسیع اور گھاری زمینیں پڑی ہوئی ہیں یا آبادی کے وسیع مواقع موجود ہیں، اٹلی ، جنوبی انگلستان اور
۱۱۴ وسطی جرمنی میں جانا چاہیئے ممکن ہے فرانس اسپین، شام اور لبنان سے بھی اس بارہ میں ہم کو کچھ مدد مل سکے جو وفدان ملکوں کے دورہ کے لئے جائیں ان کو عملی طور پر ایسے کھیتوں میں کام کرنے کی ہدایت ہو جن کی گل زمین دنل پندرہ ایکڑ سے زیادہ نہ ہو.وہ عملی طور پر معلوم کریں کہ انکے مالکوں کی کیا حالت ہے؟ اگر ہمارے ملک سے اچھی حالت ہے تو وہ کس ذریعہ سے بنائی بھائی ہے اور کہاں سے اس کے لئے آمد پیدا کی جاتی ہے ؟ ملکی صنعت و حرفت کو ترقی دی جائے اور اسے صرف بڑے بڑے شہروں میں محدود کرنے کی بجائے پورے ملک میں ایسے طریق پر پھیلایا جائے کہ زمیندارہ آبادی اپنے کاموں کو چھوڑے بغیر صنعت و حرفت میں ترقی کر سکے اور اس کی دلچسپیاں اپنی زراعت کے ساتھ بھی باقی رہیں.ه - کاشت کار کو یہ بتانے کے لئے پراپیگینڈا کی مہم چلائی جائے کہ مزدوری سے ہر گز نفرت نہیں کی جانی چاہیے.4 - زمین کے مالک کاشت کاروں سے جو جاہرانہ اور ظالمانہ سلوک روا رکھتے ہیں اس کی روک تھام کے لئے قانون بنایا جائے.بیگار بند کرانے کے لئے سزائیں مقرر کی جائیں حکومت کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ مزار عین اور زمین کے مالکوں سے مشورہ کر کے یہ قانون بھی پاس کرا دے کہ ہر زمین کا مقاطعہ تین سے چھ سال تک کے لئے ہو گا.اس مقررہ عرصہ سے پہلے کسی مزارع کو زمین سے بے دخل نہیں کیا جا سکے گا.۷ - ابتدا ر جب پنجاب اور سندھ میں شہری کھودی گئیں تو ماہرین سائنس نے قبل از وقت بتا دیا تھا کہ اتنے اتنے سال میں یہاں سیم شروع ہو جائے گی لیکن باوجود اس کے حکومت کی طرف سے اس کا مقابلہ کرنے کی تیاری وقت پر نہ کی گئی.اول تو نہریں بناتے وقت ایسی احتیاطیں اختیار کی جانی چاہئیں کہ سیم یا تو پیدا نہ ہو یا کم سے کم پیدا ہو لیکن اگر اس کے لئے بھاری اخرا سایا درکار ہوں تو کم سے کم معالجاتی تدابیر تو فوراً ہی شروع ہو جانی چاہئیں..حکومت کو کاشت کے متعلق صحیح اور بر وقت راہ نمائی کرنی چاہیئے.تجربہ سے معلوم ہوا ہے کہ عام طور پر ایک ہی جگہ کا بیج استعمال کرتے رہنا فصل کو نقصان پہنچاتا ہے.اچھی فصلوں کے لئے ضروری ہے کہ مختلف دوسری جگہوں سے بیچ منگوا کر ڈالا جائے.پھر اس معاملہ پر بھی
غور کیا جائے کہ کلر اور سیم یا پانی کے بغیر کونسی اجناس پر ورش پا سکتی ہیں.اور ہمیں وہ بیچ نکالنے پڑیں گے جو کلر اور سیم میں یا بغیر پانی کے بھی پرورش پاسکیں اور نہروں کو محدود کیا جائے تاکہ ہمارا ملک دلدل بن جانے سے بچ جائے ورنہ جس رنگ میں ہمارے ملک میں کیم بڑھ رہی ہے تیس یا پینتیس سال میں اس رفتار کے ساتھ اس کی حالت ایسی خطرناک ہو جائے گی کہ ملک کے لئے خوراک مہیا کرنا بھی مشکل ہو جائے گا.۹ - افتادہ زمینوں کے صحیح استعمال کی طرف توجہ دینے کی بھی ضرورت ہے.غیر مسلموں کی متروکہ زمین کا بھی بہت سا حصہ نکلوانے کے قابل ہے.۱۰- اگر گورنمنٹ تحقیقات کرائے تو اسے معلوم ہو گا کہ سندھ میں کئی لاکھ غیر پاکستانی زمیندارہ یا غیر زمیندارہ مزدوری کر رہا ہے.یہ لوگ بیکانیر، جھیلی ، جودھ پور، جے پور، کچھ اور تقتل کے علاقہ سے آتے ہیں اور مقاطعہ پر زمینیں لے کر کاشت کرتے ہیں یا زمیندارہ مزدوری کرتے ہیں.یہ لوگ جو ادھر سے آتے ہیں بعض صورتوں میں بڑے منظم ہوتے ہیں اور بعض صورتوں میں کانگرس کے مقر کر وہ افسران کے ساتھ آتے ہیں نیطرہ کے وقت میں یہ لاکھوں کی آبادی من است ہی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے.کیا وجہ ہے کہ اپنے ملک کی آبادی کے لئے گزارہ کی صورت نہ پیدا کی بجائے اور بغیر ملک کے لوگوں کو یہ موقع دیا جائے.کاشت کار کی آمد ایک کافی حد خود کام کیوں ہو جاتا ہے اگراس کو بچایاجائے تو اس سے بھی زمیندار کی حالت بہتر ہو جائے گی.۱۲- کاشت کار فخر ومباہات اور شادی بیاہ پر بہت خرچ کر دیتا ہے جس سے اسے بچنا چاہیئے.۱۳ حکومت کو ایسے ذرائع سوچنے چاہئیں جن سے کاشت کاروں کو مقدمہ بازی کی لعنت سے نجات ملے صحیح طور پر عوام کی تربیت کی جائے تو مقدمات کم ہوں گے اور گورنمنٹ اور کاشتکا دونوں کا روپیہ بچے گا.۱۳- اگر تعالین باہمی کی انجمنیں بنائی جائیں اور ان کو سودی اصول کی بجائے تجارتی بنیاد پر چھلایا جائے اور گورنمنٹ ایک حد تک روپے یا اجناس کی وصولی میں مدد کرے تو کاشت کار کی کئی فوری ضروریات پوری ہوسکتی ہیں اور وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکتا ہے.
اس کتاب میں حضور نے ایک طرف مسلم لیگی حکومت کو بھی زیر دست انتباہ کیا کہ اگر اس نے غیر طبیعی یا غیر شرعی تجاویہ کی طرف توجہ کی توہ کمیونزم کے حملہ کا مقابلہ کرنے کی طاقت کھو بیٹھے گی دوسری طرف بڑے زمینداروں کو بھی توجہ دلائی کہ :.اسلام کی بنیا د اخوت اور رحم پر ہے.ان کو اپنے بھائیوں کی مشکلات کے حل کرنے ہیں سیاسی لیڈروں سے زیادہ کو شاں ہونا چاہئیے.اگر وہ غریب زمیندار کی مددخود خوشی سے کریں گے اور ایسے قوانین کے بنانے میں حکومت کا ہاتھ بٹائیں گے جن سے ظلم دور ہو جائے اور ان کا غریب بھائی آرام سے زندگی بسر کرے تو یہ بات دین اور دنیا دونوں میں ان کے لئے عربت اور آرام کا موجب ہوگی اور وہ اپنے پیدا کرنے والے کے سامنے سرخرو جا سکیں گے ورنہ وہ سمجھ لیں کہ اگر حکومت اسلامی احکام کے ادب سے کوئی جابرانہ قانون نہ بھی بنائے تو بھی خدائی عذاب سے اُن کو دو چار ہونا پڑے گا اور کوئی چیز بھی ان کو نہ بچا سکے گی یہ تھے حضرت مصلح موعود کی اس معرکۃ الآراء تصنیف کی بھاری خصوصیت یہ تھی کہ اس میں آپ نے مسلمانان عالم کو اس حقیقت کی طرف متوجہ کر کے اتمام محبت کر دی کہ یہ اس وقت کمیونزم کا خوف دنیا پر طاری ہو رہا ہے لیکن دیکھتا ہوں کہ وہ بڑی بڑی حکومتیں بھی جو اس وقت کمیونزم کا مقابلہ کرنے کا دعوی کر رہی ہیں اُن کے دل اندر سے کھوکھلے ہو رہے ہیں.اردو زبان کا یہ مشہور مقولہ ہے کہ زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو یعنی جب دنیا میں لوگ کثرت سے ایک آواز اُٹھانے لگتے ہیں تو قلوب مرعوب ہو جاتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ الہی فیصلہ ہے اور اسی طرح ہو کہ رہے گا حالانکہ وہ آواز محض ایک رو ہوتی ہے جیسے بہاؤ کی طرف پانی بہتا ہے لیکن ہمیشہ بہاؤ کی طرف پانی بہنے دینا کوئی عقلمندی نہیں ہوتی جن لوگوں نے یہ کہا کہ پانی بہاؤ کی طرف بہا کرتا ہے اُن کے ملک اُجڑتے رہے لیکن جنہوں نے یہ کہا کہ بے شک پانی بہاؤ کی طرف بہتا ہے.لیکن بہاؤ کا بنا نا بھی خدا تعالیٰ نے انسان کے اختیار میں رکھا ہے آؤ ہم نئے بہاؤ بنائیں انہوں نے ہریں بنائیں اور نالے بنائے اور ویران ملکوں کو آباد کر دیا پس کوئی شخص میری بات سُنے یا نہ سنے ہیں یہ صاف کہ دینا چاہتا ہوں کہ ہمیں کمیونزم کے خون کی وجہ سے کوئی بات نہیں کہنی چاہئیے.اگر به اسلام اور ملکیت زمین ص ۲۶۲ ، ۲۶۳ ہے جب
112 کمیونزم اچھی چیز ہے تو اس سے خوف کے کوئی معنی نہیں ہمیں شوق سے اس کو قبول کرنا چاہیے اور اس کے خلاف سب باتوں کو چھوڑ دینا چاہئیے خواہ مذہب کے نام پر کسی جاتی ہوں یا کسی اور نام پر جو بات ٹھیک ہے وہ بہر حال ٹھیک ہے لیکن اگر کمیونزم غلط ہے تو پھر محض اس وجہ سے کہ وہ ایک ایسی تعلیم پیش کر رہی ہے جس کی وجہ سے عوام الناس اُس کی طرف بھاگے جا رہے ہیں ہمارا اُس کو قبول کر لینا خود کشی کے مترادف ہوگا اور ہمیں بہادروں کی صف میں نہیں بلکہ بزدلوں کی صف میں کھڑا کر ے گا..۶۱۹۵۰ هری اس سال جماعت احمدیہ کی اکتیسویں ملی مشاورت مجلس مشاورت کا انعقاد مریضہ ۹۰۸۷۷ شہادت کو منعقد ہوئی جس میں علاوہ دیگر اہم فیصلوں کے ۱۷۶۵۴۲۱ روپے کا بجٹ آمد و شرح منظور کیا گیا مشاورت کا انتظام نصرت گرلز ہائی سکول کے صحن میں کیا گیا.حمل ۳۷۷ نمائندگان نے شرکت کی جن میں مغربی افریقہ ، مشرقی افریقہ، امریکہ سپین، شام، مصر اور ہالینڈ وغیرہ کی احمدی جماعتوں کے ۱۳ نمائندے بھی تھے.تے ہجرت کے بعد سے اب تک نمائندگان مشاورت زمین پر ہی بیٹھتے تھے اور اُن کے لئے گرمیوں با کا کوئی انتظام نہ ہوتا تھا مگر اس دفعہ حضور نے کارکنوں کو اول نمبر پر یہ ہدایت فرمائی کہ :- " وہ مجلس شوری کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے آئندہ اس کے لئے سامان جمع کریں.ہماری جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ رہے گی اور مجلس شوری بھی ہمیشہ ہوتی رہے گی بلکہ یہ زیادہ سے زیاد منتظم ہوتی چلی جائے گی اس لئے ضروری ہے کہ نمائندگان اور زائرین کے بیٹھنے کے لئے مناسب انتظام کیا جائے یا سے اس ضمن میں حضور نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ مجلس میں ہر ضلع کے نمائندوں کو اکٹھا بٹھایا جائے زائرین کو بھی الگ ایک ترتیب سے بٹھانے کا انتظام کیا جائے اور خدام الاحمدیہ کی طرح شورٹی کے کارکن بھی مشاورت کے دوران پیچ لگائیں تاکہ نمائندگان سے ان کا امتیاز ہو سکے.قبل ازیں تحریک جدید ے اسلام اور ملکیت زمین، ص۲، ص۲ ( اس کتاب کا منہ میں سندھی ایڈیشن بھی چھپ گیا ) سے رپورت مجلس مشاورت همه ص و الفضل در شهادت هر ۲ ص سے رپورٹ من ۶۱۹۵۰ +
۱۱۸ انجین احمدیہ کا بجٹ ممبران مجلس تحریک تجدید با ہمی مشورہ سے بنا لیتے تھے اور پھر حضور سے منظوری لے لیتے تھے مگر اس مشاورت پر حضور نے اس فیصلہ کا اعلان فرمایا کہ آئندہ تحریک جدید کا بجٹ بھی مجنس شوری میں پیشیں ہوا کرے.قیام پاکستان کی جدو جہد میں بھر کوپر حصہ فاع وطن کی تیاری میں حصہ لینے کی پر زور تحریک لینے کے باعث جماعت احمدیہ پاکستان پر یہ دوہری ذمہ داری عائد ہوتی تھی کہ وہ دوسرے محب وطن پاکستانی شہریوں سے بڑھ کر اس نوزائیدہ مملکت کے استحکام میں کوشاں رہے اور اس کے دفاع اور تحفظ کی خاطر فوجی ٹریننگ سیکھے تا جب اسلام، پاکستان اور ملت، اسلامیہ کے لئے جانی قربانیاں پیش کرنے کا موقع آئے تو جماعت احمدیہ کے مجاہد صف اول میں کھڑے ہو کر مثالی نمونہ قائم کرسکیں.اسی پاک مقصد کے پیش نظر فرقان بٹالین کا قیام عمل میں لایا جا چکا تھا اور حضرت مصلح موعود کی ہدایت پر بہت سے احمدی نوجوان محافظ کشمیر پر شاندار خدمات، انجام دے رہے تھے مگر ایک طبقہ مجرمانہ غفلت اور کوتاہی کا ثبوت دے رہا تھا جس پر حضرت امیر المؤمنین نے مشاورت ه۱۳۲۹ میں انتہائی خفگی کا اظہار کیا اور جماعت کو آزادی ملک کے نتیجہ میں عائد ہونے والے قومی اور ملکی فرائض کی طرف توجہ دلاتے ہوئے بتایا :- قادیان میں رہتے ہوئے ہمارے لئے ایک مشکل تھی ورنہ ان دنوں بھی ہم یہی پسند کرتے کہ دشمن سے لڑ کر مر جائیں اور وہ مشکل یہ تھی کہ ہمیں حکومت سے لڑنا پڑتا تھا اور حکومت سے لڑنا ہمارے مذہب میں جائز نہیں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ قادیان سے ہمارا پیچھے ہٹنا حرام اور قطعی حرام ہوتا اگر حکومت سے مقابلہ نہ ہوتا.مگر چونکہ خدا کا حکم تھا کہ حکومت سے نہیں لڑنا اس لئے ہم پیچھے ہٹ گئے جیسے منہ میں رہتے ہوئے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے لئے دشمن سے جنگ کرنا جائز نہیں تھا مگر جب آپ مدینہ تشریف لے گئے تو لڑائی آپ کے لئے جائز ہو گئی.غرض ، اب حالات بالکل مختلف ہیں اب اگر پاکستان سے کسی ملک کی لڑائی ہو گئی تو حکومت کے ساتھ ہو کہ ہمیں لڑنا پڑے گا اور حکومت کی تائید میں ہمیں جنگ کرنی پڑے گی اس لئے اب پیچھے ہٹنے کا کوئی سوال ہی نہیں لے + ه ریپورت مشاورت ۱۳۲۹ ص ۱۲
119 حضور نے یہ بنیادی نکتہ ذہن نشین کرانے کے بعد بڑے موثر پیرایہ میں تحریک فرمائی کہ احمدیوں کو ملکی قانون کے تحت فوجی ٹریننگ کے ہر ممکن موقع سے کما حقہ فائدہ اُٹھانا چاہیے اور مجھے لینا چاہیے کہ جہاد اور جنگ کی تیاری تو چندہ سے بہت زیادہ اہم ہے.جیسے نماز فرض ہے اسی طرح دین کی خاطر ضرورت پیش آنے پر لڑائی کرنا بھی فرض ہے لیے چنانچہ فرمایا : " جن امور کو اسلام نے ایمان کا اہم ترین حصہ قرار دیا ہے ان میں سے ایک جہاد بھی ہے بلکہ یہاں تک فرمایا ہے کہ جو شخص جہاد کے موقع پر پیٹھ دکھاتا ہے وہ جہنمی ہو جاتا ہے اور جہا د میں کوئی شخص حصہ ہی کس طرح لے سکتا ہے جب تک وہ فوجی فنون کو سیکھنے کے لئے نہیں جاتا کشمیر کی جنگ کا شروع ہونا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک اہم موقع تھا جس سے ہماری جماعت بہت کچھ فائدہ اٹھا سکتی تھی بلکہ اب بھی اُٹھا سکتی ہے لیکن اگر کشمیر کی جنگ نہ ہوتی تب بھی ہماری جماعت کا فرض تھا کہ وہ فوجی فنون کو سیکھنے کے لئے اپنے نو جوانوں کو پیش کرتی تاکہ اگر براہ راست پاکستان پر ہی حملہ ہو جاتا تو وہ اپنی قوم اور اپنے ملک کی حفاظت کا کام سر انجام دے سکتی.ظاہر ہے کہ جو نوگ فوجی خدمت سے جی چراتے ہیں اس وجہ سے جی چراتے ہیں کہ ان کی اس کام سے جان نکلتی ہے حالانکہ دنیا میں جب بھی کوئی قیمتی چیز کسی کو ملے گی لوگ اسے اس سے چھینے کی کوشش کریں گے حضرت عیسی علیہ السلام ساری عمر یہ کہتے رہے کہ اگر کوئی شخص تمہارے ایک گال پر تھپڑ مارے تو تم اپنا دوسرا گال بھی اس کی طرف پھیر دو لیکن دشمنون نے اس شخص کی قوم پر بھی تلوار سپلائی اور خود حفاظتی پر مجبور کر دیا.اسلام کتنا صلح کی مذہب ہے مگر مسلمانوں کو حکومت ملی تو ان کے ملک کو تباہ کرنے کے لئے چاروں طرف سے دشمن کود پڑے.رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے دل میں بنی نوع انسان کی محبت اس قدر استوار تھی کہ گولڑائی میں سب سے زیادہ بہادر آپ سمجھے جاتے تھے مگر آپ دشمن کو اپنے ہاتھ سے مارتے نہیں تھے صرف لوگوں کو ہدائتیں دیتے تھے کہ اس اس طرح لڑائی کرو گویا آپ کا دل نہیں چاہتا تھا کہ لڑائی کریں لیکن چونکہ دشمن نے آپ کو لڑنے پر مجبور کر دیا اس لئے آپ کو بھی اس کے مقابلہ میں نکلنا پڑا.صرف ایک دفعہ ایک دشمن نے اصرار کیا کہ آپ اس سے لڑائی کریں اور آپ اس کے مجبور کرنے پر اس کے مقابلہ کے لئے تیار ہو گئے مگر بعض دفعہ ایمان کے ساتھ محبت مل کر ایک عجیب مضحکہ خیز مثال پیدا کر دیتی ہے.رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی رپورٹ مشاورت ه۱۳۳۲۳۹ ص۱۳.
بہادری اور جرأت کا حال سب کو معلوم تھا مگر ایک لڑائی میں جب کفار کا ایک جرنیل مقابلہ کے لئے نکلا اور اس نے چلینج کیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے مقابلہ کے لئے نکلیں تو صحابہ آپ کے گرد اکٹھے ہو گئے کہ آپ کی حفاظت کریں حالانکہ آپ ان سے زیادہ بہادر تھے.چنانچہ آپ نے فرمایا رستہ چھوڑ دو اور اسے آنے دو.جب وہ آگے بڑھا اور اس نے حملہ کر دیا تو رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے اس کے وار کو روک کر اپنا نیزہ لمبا کر کے محض اس کے جسم کو چھوا اور وہ اسی وقت واپس لوٹ گیا.لوگوں نے اس ے کہاکہ تم تو اتنے بہادر ھے مگر آج ہم نے کیا کیا کہ یہ ادھر تمہارے جسم سے چھوا اور ادھر تم واپس لوٹ آئے.اس نے کہا تمہیں حقیقت نہیں معلوم تمہیں میں نظر آرہا ہے کہ وہ نیزہ میرے جسم سے چھوا ہے تم مجھے سے پوچھو جس کے نیزہ لگا ہے مجھے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ دنیا جہان کی ساری آگ میرے جسم میں بھر دی گئی ہے.یہ ایک معجزہ تھا جو اللہ تعالیٰ نے ظاہر فرمایا مگر ہر حال اس سے ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم لڑائی سے نفرت کرتے تھے لیکن اس کے باوجود آپ کو لڑنا پڑا.پس یہ خیال کرنا کہ ہم محبت اور پیار سے تبلیغ کرنے والے ہیں ہمارے ساتھ کسی نے کیا لڑنا ہے یا یہ کہ ہمارا ملک صلح پسند ہے اس پر کسی نے کیا حملہ کرنا ہے محض جہالت ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم ہر وقت اپنے آپ کو تیار رکھیں اور فوجی ٹرینگ حاصل کریں تا وقت پر اپنے ملک کی حفاظت کر سکیں.پیں جماعت کو اب یہ فیصلہ کر کے یہاں سے جانا چاہیئے کہ وہ اپنے سارے نوجوانوں کو نکال کر فوجی ٹریننگ کے لئے بھجوائے گی....تاکہ جب کبھی جہاد کا موقع آئے یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے مطابق کہ " مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ وَعِرْضِهِ فَهُوَ شھید ہمیں اپنے ملک، اپنے اموال اور اپنی عزتوں کی حفاظت کے لئے قربانی کرنی پڑے تو ہم اس میدان میں بھی سب سے بہتر نمونہ دکھانے والے ہوں اور دوسرے مسلمان ہمیں یہ نہ کر سکیں کہ یہ مولوی ملک کی حفاظت کے وقت کچے ثابت ہوئے اور یہ کوئی بڑی بات نہیں.کافر بھی بڑی بڑی قربانیاں کیا کرتے ہیں.تاریخوں میں لکھا ہے کہ ایک لڑائی کے موقع پر مسلمانوں کی طرف سے ایک شخص کفار پر حملہ آور ہوا اور اس نے ایسی بے جگری کے ساتھ لڑائی کی اور اس طرح کفار کو تہ تیغ کرنا شروع کیا کہ مسلمان اس کو دیکھ دیکھ کر بے اختیار کہتے کہ خدا اس شخص کی جزائے خیر دے یہ اسلام کی کتنی بڑی خدمت سر انجام دے رہا ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کسی نے اس دنیا کے پر وہ پر کوئی روزنی دیکھنا ہو تو وہ اس شخص کو دیکھ لے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات فرمائی تو صحار سخت
حیران ہوئے کہ اتنی بڑی قربانی کرنے والے اور آگے بڑھ بڑھ کر حملہ کرنے والے کے متعلق رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم نے یہ کس طرح فرما دیا کہ اگر کسی نے اس دنیا کے پردہ پر کوئی دوزخی دیکھنا ہو تو وہ اسے دیکھ لے.ایک صحابی کہتے ہیں میں نے کئی لوگوں کو اس قسم کی باتیں کرتے سنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ سلم نے یہ کیا فرما دیا اورمیں نے سمجھا کہ مکن ہے اس سے بعض لوگوں کو ٹھوکر لئے چنا نچہ میں نے قسم کھائی کہ میں اس شخص کا پیچھا نہیں چھوڑوں گا جب تک میں اس کا انجام نہ دیکھ لوں.چنانچہ وہ کہتے ہی میں اس کے ساتھ ساتھ رہا یہاں تک کہ وہ لڑتے لڑتے زخمی ہوا اور اسے لوگوں نے اٹھا کر ایک طرف لٹا دیا.وہ درد کی شدت کی وجہ سے کراہتا تھا اور پہنچیں مارتا تھا صحابہ اس کے پاس پہنچتے اور کہتے کہ ابشر بالجنة " تجھے جنت کی خوشخبری ہو.اس پر وہ انہیں جواب میں کہتا آبشرُونِ بِالنَّارِ مجھے جنت کی نہیں دوزخ کی خیر دو اور پھر اس نے بتایا کہ میں آج اسلام کی خاطر نہیں لڑا بلکہ اسلئے لڑا تھا کہ میرا ان لوگوں کے ساتھ کوئی پرانا ابض تھا.آخر وہ صحابی کہتے ہیں اس نے زمین میں اپنا نیزہ گاڑا اور پیٹ کا دباؤ ڈال کر خود کشی کرلی.جب وہ مرگیا تو وہ صحابی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں پہنچے تو انہوں نے بلند آواز سے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد رسول اللہ صلے اللّہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں.آپ نے بھی جواب میں فرمایا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اس کا رسول ہوں.پھر آپؐ نے فرمایا تم نے یہ بات کیوں کی ہے.اس نے کہا یا رسول اللہ آپ نے فلاں شخص کے متعلق یہ بات کہی تھی اس پر بعض صحابہ کے دل میں شبہ پیدا ہوا کہ اتنے بڑے نیک انسان کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیا کہ دیا ہے مگر میں نے کہا خدا کے رسول کی بات جھوٹی نہیں ہو سکتی اور میں نے قسم کھائی کہ میں اسے چھوڑوں گا نہیں جب تک میں اس کا انجام نہ دیکھ لوں.چنانچہ میں اس کے ساتھ رہا اور آخر وہ خود کشی کر کے مر گیا.تو بے دین لوگ بھی ملک کی خاطر اور حمیت کی خاطر اور جاہلیت کی خاطر بڑی بڑی قربانیاں کیا کرتے ہیں.پس جان اتنی قیمتی چیز نہیں کہ اسے اس طرح سنبھال سنبھال کر رکھا جائے لیکن جب سینکڑوں سال کی غلامی کے بعد کسی کو آزادی ملے اور سینکڑوں سال کے بعد کسی کو اس بات کے آنیار نظر آنے لگیں کہ خدا تعالیٰ پھر اسلام کی سربلندی کے مواقع بہم پہنچا رہا ہے تو اس وقت بھی اپنے حالات میں تغیر پیدا نہ کرنا اور غلامی کے احساسات کو قائم رکھن بڑی
۱۲۲ خطرناک بات ہے.ہم تو انگریزوں کے زمانہ میں بھی یہ کہا کرتے تھے کہ غلامی اور چیز ہے اور اطاعت اور چیز جب گاندھی کہتا کہ ہم کب تک انگریزوں کے غلام رہیں گے تو یکی ہمیشہ اس کے جواب میں یہ کہا کرتا تا کہ میں تو انگریز وں کا غلام نہیں میری منیر خدا تعالیٰ کے فضل سے اب بھی آزاد ہے اور اگر مجھے جائز رنگ میں ان کا مقابلہ کرنا پڑے تو میں ان کا مقابلہ کرنے کے لئے ہر وقت تیار ہوں.فرض غلامی کے غلط اور گند سے احساسات اس وقت بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے میرے اندر نہیں تھے لیکن دوسرے لوگ اگر ان ہی احساسات کو اب بھی لئے چلے جائیں اور یہ نہ سمجھیں کہ آئندہ ان پر کیا ذمہ داری آنے والی ہے تو یہ بالکل تباہی والی بات ہوگی.بہر حال جماعت کو یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اب ان باتوں کو قطعی طور پر برداشت نہیں کیا جا سکتا“ نیز فرمایا :- تمہیں سمجھ لینا چاہیئے کہ اب تمہاری وطنی حکومت ہے اور وطنی حکومت اور غیر حکومت میں بڑا بھاری فرق ہوتا ہے.ہمارے اصول کے مطابق تو غیر حکومت جو امن دے رہی ہو اس کی مددکرنا بھی ضروری ہوتا ہے اور وطنی حکومت کی مدد کرنا تو اس حدیث کے ماتحت آتا ہے کہ " مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِه وَعِرْضِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ ، جو شخص اپنے مال اور اپنی عزت کا بچاؤ کرتے ہوئے مارا جائے وہ شہید ہوتا ہے.یہ شہادت چاہیے اتنی شاندار نہ ہو جتنی دینی جہاد میں جان دینے والے کی شہادت ہوتی ہے لیکن بہر حال یہ ایک رنگ کی شہادت ضرور ہے اور انسان جتنا بھی ثواب حاصل کر سکے اس کے ثواب حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئیے ہیں ایک کرنل نے شنایا کہ کشمیر میں ایک بڑا سخت مورچہ تھا، مہاراجہ کشمیر کا اس کے متعلق یہ اعلان تھا کہ یہ مورچہ چھ مہینے تک فتح نہیں ہوسکتا.یہ ان کی ایک خاندانی جگہ تھی جسے انہوں نے بڑا مضبوط بنایا ہوا تھا.اس نے بتایا کہ ہمیں حکم ہوا کہ پٹھانوں کو آگے بھیجو.اس وقت کابل کی طرف سے پاوندے آئے ہوئے تھے فوجی افسر نے انہیں اپنے ساتھ لیا اور نقشوں سے بتانا شروع کیا کہ فلاں سنگر سے رستہ گذرتا ہے فلاں جگہ نالہ ہے، فلاں رستہ بڑا خطرناک ہے کیونکہ وہاں دشمن نے مائنز بچھائی ہوئی ہیں پہلے اس طرف سے جانا پھر پہاڑی کے اس طرف پہلے جانا پھر اس نالے کو عبور کرنا.وہ گھر ائیں کہ یہ اپنی بات کو ختم کیوں نہیں کرتا اور یہ بتاتا کیوں نہیں کہ ہم نے کرنا کیا ہے.جب وہ بات کر چکا تو انہوں نے
١٣٣ کہا کہ تم صرف اتنا بتاؤ کہ ہم نے کرنا کیا ہے ؟ اس نے کہا فلاں قلعہ پر قبضہ کرنا ہے.انہوں نے کہا لیس اتنی بات تھی تم نے خواہ مخواہ ہمارا اتنا وقت ضائع کیا.اس کے بعد وہ سیدھے اس قلعہ کی طرف چل پڑے اپندرہ میں گر گئے تھے کہ دشمن کو علم ہوگیا اور اس نے فائرنگ شروع کر دی.ان کے چالیں پچاس آدمی وہیں ڈھیر ہو گئے.اس پر انہوں نے ان لاشوں کی اوٹ میں آگے بڑھنا شروع کر دیا پھر کچھ مرے تو انہوں نے ان کی لاشوں کو آگے رکھ لیا اس طرح وہ اپنی لاشوں کو پناہ بناتے ہوئے ہی آگے بڑھتے چلے گئے اور جس قلعہ کے متعلق یہ کہا جاتا تھا کہ وہ چھ مہینے تک فتح نہیں ہوسکتا اس قلعہ پر شام کے وقت ہمارا جھنڈا لہرا رہا تھا.اس کرنل نے بتایا کہ وہ اتنی دلیری سے آگے بڑھے کہ ہمیں دیکھ کر حیرت آتی تھی ہم ان سے کہتے کہ دشمن سے چھپو اور وہ ناچنے لگ جاتے اور کہتے کہ ہم تو حلہ سے پہلے نا چا کرتے ہیں.یہ دنیوی چیزیں ہیں جو ایمان کے نہ ہوتے ہوئے بھی مختلف قوموں میں پائی جاتی ہیں.اگر یہ پہلی چیزیں ہی ہمارے اندر نہیں پائی جاتیں تو اگلی خوبیاں ہم میں کہاں ہو سکتی ہیں حقیقت یہ ہے کہ دنیا دار لوگ جتنی قربانیاں کرتے ہیں وہ ایک چھوٹا پیمانہ ہوتا ہے جس کو دیکھتے ہوئے مومن اپنی آئندہ ترقی کی عمارت تیار کرتا ہے.اگر نئی عمارت بنانے کی بجائے ہم اس پیمانہ کی قربانیاں بھی نہ کریں جس پیمانہ کی قربانیاں عام دنیا دار لوگ کیا کرتے ہیں تو ہم سے زیادہ اپنے دعووں میں جھوٹا اور کون ہوسکتا ہے.پس آپ لوگ اچھی طرح سمجھ لیں کہ اب یہ فضلت زیادہ دیر تک برداشت نہیں کی جاسکتی.دنیا میں کبھی بھی مذہب نے قربانی کے رستوں کے بغیر ترقی نہیں کی.قرآن کریم میں اللہ تعالی صاف طور پر فرماتا ہے کہ کیاتم یہ سمجھتے ہوکہ تم کو وہ تکلیفیں نہیں پہنچیں گی جو پہلے لوگوں کو پہنچی ہیں.اگر تم ایسا خیال کرتے ہو تو یہ تمہاری غلطی ہے.اب دو ہی باتیں ہو سکتی ہیں یا توتم یہ جھو کہ قرآن لعوذ باللہ جھوٹا ہے اس نے یوں ہی ایک گپ ہانک دی ہے اور یا تم یہ مجھو کہ احمدیت جھوٹی ہے اس نے ترقی ہی نہیں کرنی پھر اس کے لئے جان کی قربانی کی کیا ضرورت ہے.اور اگر قرآن نے جو کچھ کہا وہ سچ ہے اور اگر احمدیت بھی سچی ہے تو لا ز ما اپنے ملک کی عزت کی حفاظت کے لئے اس وقت جو موقع پیدا ہوا ہے اس میں تمہیں حصہ لینا پڑے گا کیونکہ یہ تغیر اللہ تعالیٰ نے اسلام کی ترقی کے لئے پیدا کیا ہے ہم نہیں جانتے کہ اسلام کی آئندہ ترقی کے لئے زیادہ قربانیاں ہم کو ہندوستان میں دینی ہوں گی یا افریقہ میں لیکن فرض کردو فریقہ میں پیش آتی ہیں تو وہاں کے احمدی ہمارا نمونہ دیکھیں گے اگر ہم اس وقت اپنی جانوں کو قربان کرنے
کے لئے آگے بڑھیں گے تو ہم ان سے کہ سکیں گے کہ پاکستان میں ہم کو دینی جہاد کا موقع تو نہیں ملا لیکن ہماری دنیوی حکومت پر یا ہمارے ملک اور ہماری قوم پر جب حملہ ہوا تو ہم نے اس کی حفاظت کے لئے اپنی جانوں کو قربان کر دیا ہے.یہ خونہ ہے جس سے وہ سبق سیکھیں گے اور اپنی جانوں کو قربان کرنے کے لئے آگے بڑھیں گے یہ لے چونکہ دنیا کے مختلف ملکوں اور قوموں تبلیغ اسلام کیلئے بری لٹریچر تیارکرنیکی تحریک عریات میں تحریک احمدیت کا اثر و نفوذ تیزری سے بڑھ رہا تھا اس لئے حضرت امیر المومنین اصلح الموعود خلیفہ اسیح الثانی نے اسی مجلس شوری نہیں نئی ضروریات اور حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے جدید لٹریچر تیار کرنے کے لئے ایک مفصل حکیم جماعت کے سامنے رکھی جو یہ تھی.فرمایا :- ہمارا سلسلہ اس وقت مختلف ممالک میں پھیل رہا ہے اور لوگ ہم سے لٹریچر کا مطالبہ کرتے ہیں مگر ہمارے پاس کوئی لٹریچر ایسا نہیں ہوتا جو اُن کی ضروریات کو پورا کرنے والا ہو.ابتدائی زمانہ میں احمدیت صرف ہندوستان میں محدود تھی اور یہاں زیادہ تر ان مسائل کا چرچا تھا کہ حضرت میشی علیہ السلام زندہ ہیں یا نہیں ، اقبال کسے کہتے ہیں، یا جوج ماجوج سے کیا مراد ہے، آئیوائے مسیح اور مہدی کی علامات کیا ہیں، جہاد کا کیا مسئلہ ہے.یہ اور اسی قسم کے دوسرے مسائل پر جماعت نے لٹریچر شائع کیا.اس کے بعد احمدیت انگلستان میں پھیلی تو عیسائیوں کے مخصوص مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے انگریزی لٹریچر شائع کیا گیا لیکن اب ہماری جماعت ایسے ملکوں میں پھیل رہی ہے جن میں اردو تو نہیں بولی جاتی لیکن وہاں مسائل وہی ہیں جو ابتدائی زمانہ احمدیت میں ہمیں نہیں آئے یعنی دیبال سے کیا مراد ہے بیج نامرئی نے آنا ہے یا نہیں، جہاد کی کیا حقیقت ہے، ہیچ اور محمدی کی پیشگوئیاں کیس طرح پوری ہوئی ہیں.ایسٹ افریقہ ، ویسٹ افریقہ ، انڈونیشیا، ماریشمی، مڈغاسکر اور عرب ممالک میں میں مسائل پوچھے جاتے ہیں.اور جب وہ ہم سے کہتے ہیں کہ لاؤ اپنا ٹر پر توہم ان کے سامنے اپنا لٹریچر پیش کر دیتے ہیں جن میں ان مسائل کا تفصیلی طور پر کوئی ذکر نہیں ہوتا.پس جہاں ہمیں تجدید لٹریچر کی ضرورت ہے وہاں ہم نے اپنے پرانے لٹریچر کو کہیں عربی زبان میں بدلنا ہے، کہیں سه رپورٹ مجلس مشاورت ۱۳۲۹ ص۳ ۶۱۹۵۰
۱۲۵ انڈونیشین میں بدلنا ہے، کہیں افریقین میں بدلتا ہے اور اس کے لئے بڑی بھاری جد و جہد اور کوشش کی ضرورت ہے.یہ ایک بہت بڑا علمی کام ہے جو ہماری جماعت نے سر انجام دینا ہے یہ اگر تم صحیح معنوں میں کام کرنا چاہتے ہوتو پہلے تم فیصلہ کرو کہ تم نے کرنا کیا ہے ؟ اور جماعت کو اس وقت کن مسائل پر قلم اٹھانے کی ضرورت ہے مگر یہ تو کبھی فیصلہ ہی نہیں ہوتا اور جو جی میں آجائے اس کے متعلق اشتہار ہو جاتا ہے لیکن سمجھتا ہوں کہ یہ ایک بہت بڑا نقص ہے جس کا ازالہ ہونا چاہیئے اس اور یک صدر انجمن احمدیہ کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ فوراً اس غرض کے لئے ایک کمیٹی مقرر کرے اس کمیٹی کے نصف ممبر تحریک جدید کے ہوں اور نصف مبر صدر انجمن احمدیہ کے ہوں ، اس کمیٹی کا یہ فرض ہوگا کہ وہ اپنے کام کی ہفتہ وار رپورٹ میرے سامنے پیش کرے.اس کمیٹی کا یہ کام ہو گا کہ وہ لسلہ احمدیہ کا قدیم اور جدید لٹریچر شائع کرنے کے لئے ایک مفصل سکیم تیار کرے جو میرے سامنے پیش کی جائے اور پھر منظور شدہ لائنوں پر جماعت کے لئے لٹریچر مہیا کرے.اس غرض کے لئے کمیٹی کا سب سے پہلا کام یہ ہوگا کہ وہ تمام ممالک کی ایک لسٹ تیار کرے اور پھر ان زبانوں کی ایک لسٹ تیار کرے جو ان ممالک میں بولی جاتی ہیں.اور پھر یہ جائزہ لے کہ ہر ملک کے لوگوں کے لئے کس قسم کے لٹریچر کی مزورت ہے اور کون کون سے مسائل مخصوصہ ہیں جن کے لئے وہ لوگ ہم سے لٹریچر کا مطالبہ کر سکتے ہیں یا جن مسائل میں ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم ان کی راہنمائی کریں.اس طرح یہ بھی غور کیا جاوے کہ اس وقت ہندوستان اور پاکستان کے لوگ کن کن مسائل کو زیر بحث لاتے ہیں اور پھر یہ بھی دیکھا جائے کہ آیا اس مقصد کے لئے ہمارے پاس کوئی سابق لٹریچر موجود ہے یا نہیں، اگر ہے تو کون کون سا ہے پھر اس ام پر بھی غور ہونا چاہیئے کہ ہمارے پہلے لٹریچر میں کون کون سے مسائل پر زیادہ تفصیلی مواد موجود ہے جس کا خلاصہ شائع کرنے کی ضرورت ہے اور کن مسائل پر ہمارے پاس کم مواد ہے جن پر تفصیل سے لکھنے کی ضرورت ہے.تمام امور پر غور کرنے کے بعد عملی کام شروع کیا جائے اور نہ صرف جماعت کو بلکہ غیر ممالک کے لوگوں کو بھی ان کی زبانوں میں لٹریچر مہیا کیا جائے یا سے حضرت امیر المومنین حضرت مصلح موعود کا سفر کومنٹو سندھ اوربعض عالمی تقریب اصلی موجودی نے اس ے رپورٹ مجلس مشاورت ۲۹ ص ۲۳ تا مش ۲ : FIA D' الموصوف
۱۲۶ سال بھی دینی و جماعتی اغراض کے لئے کوئٹہ اور سندھ کا سفر کیا حضور معہ افراد قافله در احسان (جون) کو لاہور سے عازم کوئٹہ ہوئے جہاں آپ دو ماہ قیام فرما ر ہے.پھر ظہور (اگست) کو سندھ روانہ ہوئے ہے اور اس ظہور (اگست) کو سندھ اسٹیٹس کا دورہ ختم کر کے یکم تبوک (ستمبر) کو حیدرآباد اور.تبوک (ستمبر کو کراچی میں رونق افروز ہوئے اور سیح موعود کے دلی منتوں اور دیگر بے شمار بندگان الہی کو اپنے علوم ظاہری و باطنی سے فیضیاب کر کے ۲۱ تبوک (ستمبر) کو لاہور تشریف لائے کیے یوں تو اس اللہی اور مبارک سفر کا ایک ایک دن برکات سماوی کے نزول کا باعث تھا مگر اسکے دوران بعض ایسی خاص علمی تقریبات کا انعقاد بھی ہوا جس نے اس سفر کی افادیت کو مستقل اور دائمی حیثیت دے دی جن کا ذکر آئندہ سطور میں کیا جاتا ہے.حضرت مصلح موعودؓ کے سفر کوئٹہ کی بڑی غرض یہ تھی کہ ایک تو کوئٹہ میں درس القرآن آپ رمضان کے روزے زیادہ سوات سے رکھ سکیں دوسرے قرآن کریم کے چند پاروں کے نوٹ مجلس میں بیٹھ کر لکھوا دیں تاکہ احباب جماعت بھی فائدہ اٹھائیں او پھر یہ نوٹ صاف ہونے کے بعد ان دوستوں کو بھجوا دئیے جائیں جو انگریزی ترجمہ قرآن کو ایڈٹ کر رہے تھے کیونکہ پچھلا درس ختم ہو چکا تھا.پندرہ پارے انگریزی تفسیر قرآن کے شائع ہو چکے تھے او مزید مضمون کا تقاضا کیا جارہا تھا.چنانچہ یکم رمضان المبارک ۱۳۶۷ھ مطابق ۷ ارجون نشار کو ایک لمبی دعا کے بعد سورہ مریم سے درس قرآن کریم کا آغاز کیا جو وجع المفاصل اور در دلفرس کے شدید حملہ کے باوجو دبارہ روز تک مسلسل جاری رہا اور رمضان المبارک کے اختتام پر بھی درس دیائیشہ ادریس کے علاوہ حضور نے سات خطبات دیئے اور اماءاللہ جلسہ عام سے حقیقت افروز خطاب مجلس خدام الاحمدیہ کوئٹہ اور جنہ اما الد کوٹ کے اجتماعات میں بھی تقریر کی نیز یکم خطور (اگست) کو ایک جلسہ عام سے بھی خطاب فرمایا جس میں سول له تاسه الفضل و احسان ۲۷ ظهور ، ۱۳ رتبوک ، ۲۲ تبوک ۲۹ : شے سفر کوئٹہ کے ضروری کو الفت مولانامحمد یعقوب صاحب طاہر نے الفضل ۲۷ طور ۱۳۹۶ / اگست ۹۵ائر میں شائع کر دئے تھے جن سے مخلصین جماعت احمدیہ کوئٹہ کی اپنے امام ہمام سے والہانہ عقیدت و الفت کا بھی پتہ چلتا ہے ؟ له الفضل ۲۴ احسان ۱۳۳۹ اصلا : افضل ۲۷ ظهور ۱۳۹۵ +
۱۲۷ اور ملٹری کے اعلیٰ افسر بھی شامل تھے.حضور نے اپنے خطاب میں درج ذیل دو سوالات کے نہایت شرح وبسط سے جواب دیئے:.ا احمد بی مسلمان دوسروں کے ساتھ نمازیں کیوں نہیں پڑھتے ؟ احمدیت مسلمانوں کے لئے کیا مستقبل پیش کرتی ہے ؟ جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے حضور نے مذہبی، عقلی، واقعاتی اور عملی پہلوؤں کے اعتبار سے اس کے مدلل اور عارفانہ جواب دئے.چنانچہ حضور نے فرمایا یہ سوال اپنے اندر کئی پہلو رکھتا ہے جن میں سے ایک اس کا مذہبی پہلو ہے ہمارا بانی سلسلہ احمدیہ کے متعلق یہ عقیدہ ہے کہ وہ ان پیش گوئیوں کے مطابق دنیا میں مبعوث ہوئے ہیں جو مسیح و صدی کی آمد کے متعلق اسلام میں پائی جاتی تھیں.یہ سوال الگ ہے کہ ان کا دعوی صحیح تھا یا غلط ہر حال جب ہم انہیں مسیح و مہدی تسلیم کرتے ہیں تولا ہما ہم سے انہی باتوں کی امید کی جائے گی جو رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم نے آنے والے کے متعلق بیان فرمائی ہیں.اور جب ہم احادیث کو دیکھتے ہیں تو ان میں تمہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نظر آتا ہے کہ کیف اَنْتُمْ اِذَا نَزَلَ فِيكُمُ ابْنُ مَرْيَمَ وا مَا مُكُمْ مِنْكُمْ تم اس وقت کیسے اچھے حال میں ہو گے جب بیج تم میں نازل ہوگا اور اس وقت تمہیں نمازیں پڑھانے والا تم ہی میں سے ہو گا.دوسری روایت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ واقَكُمْ مِنْكُمْ تمہاری نماز کی امامت ایسا شخص کرے گا جو تم میں سے ہوگا.اب اس کے دو ہی معنی ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ سلمانوں کو اس وقت مسلمان ہی نماز پڑھایا کریں گے اور دوسرے یہ کہ مسیح کی جماعت کو میسج کے پیرو ہی نمازیں پڑھایا کریں گے.پہلے معنی ایسے ہیں جو یہاں چسپاں نہیں ہو سکتے ہیں کیونکہ یہ کہنا کہ مسلمانوں کو مسلمان ہی نمازیں پڑھایا کریں گے اس کے یعنی ہیں کہ گویا پہلے عیسائی اور یہودی اور زرتشتی بھی ان کے امام ہوا کرتے تھے مگر مسیح کے آنے کے بعد صرف مسلمان ہی نمازیں پڑھایا کریں گے.پس یعنی تو بالبد است باطل ہیں لازماً اس کے دوسرے معنی ہی ہو سکتے ہیں کرسی کو ماننے والوں کا امام اپنی میں سے ہو گا.پس یہ تو سوال ہو سکتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب سیح موعود ہیں یا نہیں.یہ نہیں ہوسکتا کہ اگر وہ مسیح موعود ہیں تو ان کی جماعت دوسروں کے پیچھے نماز کیوں نہیں پڑھتی یا پھر یہ بحث ہو سکتی ہے کہ یہ حدیث غلط ہے یا یہ کہ اس کا کچھ اور مطلب ہے مگر نماز کا مطالبہ نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کا مطلب تو یہ ہوگا کہ تم
۱۲۸ رسول کریم صلے اللہ علیہ سلم کی بات کیوں مانتے ہو.دوم، رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ امام وہ ہو جو اتنی ہو.اس حکم کی موجودگی میں بھی یہ مطالبہ خلاف عقل ہے کیونکہ جماعت احمدیہ کا یہ عقیدہ ہے کہ و خدا تعالیٰ کے ایک مامور پر ایمان رکھتی ہے اور جب اس کا یہ عقیدہ ہے تو لازمی طور پر اسے یہ بھی ماننا پڑے گا کہ وہ دوسروں سے تقویٰ میں، طہارتمیں اور پاکیزگی میں افضل ہے اور جب جماعت احمدیہ کے لوگ دوسروں سے اتنی ہوئے اور رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ امام وہ ہونا چاہیئے جو اتھی ہو تو یہ کس طرح مطالبہ کیا جا سکتا ہے کہ انتفی شخص دوسروں کے پیچھے نماز پڑھے.آخر وہ اپنے عقیدہ کے مطابق مسیح و مہدی پر ایمان رکھتے ہیں.کیا سیح و مہدی کو ماننے والے کا اتنا بھی حق نہیں کہ وہ اپنے آپ کو انفلی سمجھے یہ حضور نے فرمایا :- اس مسئلہ کا ایک عقلی پہلو بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ خلف :.ہر مامور کو ماننے والے ابتداء میں تھوڑے ہوتے ہیں، تھوڑے ماننے والے کثرت سے ملیں تو اپنا جو ہر کھو بیٹھتے ہیں.پس ان کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ دوسروں سے الگ رہیں.یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے حکم دیا ہے کہ کونوا مع الصّادِقِين تم ہمیشہ سچوں کے ساتھ بیٹھا کرو کیونکہ انسان اپنے ہم میلیس کے اخلاق اور اس کی عادات کو اختیار کر لیتا ہے.ب :.پھر مامور کا سوال بھی جائے دو کم از کم اتنا تو ہر ایک شاعر تسلیم کرتا ہے کہ احمدی جماعت بنیا امر میں تبلیغ کرتی ہے اور اس میں وہ دوسروں سے ہزاروں گنے زیادہ ہے اگر وہ دوسروں میں جذب ہو جائے تو یہ خدمت اسلام ختم ہو جائے گی اور جس طرح اور لوگ اپنی طاقتوں اور اپنے روپیہ کو دنیوی کاموں میں صرف کر رہے ہیں وہ بھی دنیوی کاموں پر روپیہ وغیرہ صرف کرنے لگ جائے گی.پس اس نیکی اور خدمت اسلام کا بھی تقاضا ہے کہ احمدی دوسروں سے الگ رہیں.ج :.یہ تو احمدی جماعت سے امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ اپنے آپ کو جھوٹا کہے وہ ہر حال اپنے آپ کو سچا کہے گی اور وہ اپنے آپ کو سچا کہتی ہے تو اس کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ اس سچ کو ہر ایک تک پہنچائے.اب اس کے لئے کوئی طبعی ذرائع ہونے چاہیئے تھے تاکہ لوگوں کو احمدیت کے بارے میں سننے کا شوق پیدا ہو.نماز وغیرہ مسائل ہی ہیں جو لوگوں کو ادھر تو جہ دلاتے ہیں جب لوگ دیکھتے ہیں کہ یہ
۱۲۹ ہمارے ساتھ نمازیں نہیں پڑھتے تو ہر ایک کے دل میں خیال پیدا ہوتا ہے یکیں ان کو سمجھاتا ہوں اور جب وہ ہمارے پاس آتے ہیں تو ہماری تبلیغ کا رستہ کھل جاتا ہے اور اس طرح سینکڑوں بلکہ ہزاروں لوگوں کو احمدیت کی واقفیت ہو جاتی ہے.تقریر جاری رکھتے ہوئے حضور نے فرمایا:.اس مسئلہ کا ایک واقعاتی پہلو بھی ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے علماء کے فتونی کفر کے کئی سال بعد تک نماز کو منع نہیں کیا بلکہ خود بھی ان کے پیچھے نمازیں پڑھتے رہے مگر علماء اپنے فتوی کی شدت میں بڑھتے چلے گئے یہاں تک کہ انہوں نے اپنی مسجدوں پر لکھ کر لگا دیا کہ اس مسجد میں گنتے مرزائی کو واصل ہونے کی اجازت نہیں، جس جگہ احمدیوں کا پیر پڑ جاتا اسے ناپاک سمجھا جاتا اور پانی سے دھویا جاتا.کئی جگہ مسجدوں کی صفیں اس لئے جلا دی گئیں کہ ان پر کسی احمدی نے نماز پڑھ لی تھی.جب انہوں نے اس معامہ کو انتہا تک پہنچادیا تو اللہ تعالیٰ نے بھی حکم دے دیا کہ اب ان کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے جیسے رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم مکہ میں بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نمازیں پڑھتے رہے پھر مدینہ تشریف لے گئے تو وہاں بھی سترہ نہینے تک آپ نے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نمازیں پڑھیں مگر یہودی اور عیسائی ہمیشہ یہی کہتے رہے کہ ہم سے ڈر کر اس طرف نمازیں پڑھی جاتی ہیں آخر خدا نے بیت اللہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دے دیا.اس پر یہود نے شور مچا دیا کہ دیکھو کتنا بڑا ظلم ہے اتنا پرانا قبلہ تھا مگر اسے چھوڑ دیا گیا.گویا جب تک بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نمازیں پڑھتے رہے نعوذ باللہ ڈرپوک کہلائے اور جب چھوڑا تو ظالم بن گئے یہی حالت علماء کی ہے کئی سال تک ہماری جماعت انکے پیچھے نمازیں پڑھتی رہی مگر یہ لوگ یہی کہتے رہے کہ احمدی اتنے ناپاک ہیں کہ اگر یہ سجدیں بھی داخل ہو جائیں تو مسجد کو صاف کرنا چاہئیے.اس پہ اللہ تعالیٰ نے ان کے پیچھے نمازیں پڑھنے سے حکما منع کر دیا.پس جب خود علماء نے ہمارے خلاف فتوے دئے ہیں اور اب تک انہوں نے اپنے فتووں کو واپس نہیں لیا تو احمد یوں پر کیا الزام ہے.حضور نے فرمایا علماء کی طرف سے جو سلوک احمدی جماعت سے ہوتا رہا ہے وہ بھی اس مطالبہ کو بہائر نہیں کرتا.نماز علماء پڑھاتے ہیں اور ان کا یہ حال ہے کہ شروع سے ہمیں دُکھ دیتے چلے آئے ہیں سب سے پہلے احمدیوں کے واجب القتل ہونے کا انہوں نے فتویٰ دیا.پھر حضرت مسیح موعود علی الصلوة
۱۳۰ و السلام پر دہلی اور امرتسر میں پتھراؤ کیا گیا.لاہور میں آپ کی وفات پر بد ترین نمونہ دکھایا گیا اورمصنوعی لاش بنا کر اس پر پاخانہ پھینکا گیا، جوتیاں ماری گئیں اور احمدیوں کی شدید دل آزاری کی گئی ہم اس سلوک کی پرواہ نہیں کرتے لیکن جب ہم سے اس قسم کے سوالات کئے جاتے ہیں تو ہمیں یہ باتیں یاد آجاتی ہیں.پھر مجھ پر سیالکوٹ میں پتھر برسائے گئے، میرے قتل کی تدبیریں کی گئیں، کابل میں ہمارہ کے احمدیوں کو سنگسار کیا گیا مصریں ہمارے ایک احمدی کو شہید کیا گیا.گذشتہ سال اسی کو شٹر میں ڈاکٹر میر محمود کوخنجر مار کر شہید کر دیا گیا.کیا اس کے بعد کہا سجا سکتا ہے کہ ہمارے ساتھ نمازیں کیوں نہیں پڑھتے.کیا یہ سلوک نماز پڑھانے کی ہی تمہید ہے ؟ اس کے بعد حضور نے فرمایا اس مسئلہ کا ایک عملی پہلو بھی ہے.کوئی بتائے کہ کیا مسلمانوں پر بھی کوئی مصیبت آئی ہے جس پر ہم نے ان کا ساتھ نہ دیا ہو یا احمدی قومی کاموں میں دوسروں سے پیچھے رہے ہوں.ملکانہ میں ارتداد ہوا تو ہم پہنچے ، بہار کے فسادات میں ہم نے مسلمانوں کی مدد کی پنجاب کے فسادات میں ہم نے مسلمانوں کی مدد کی، مسلم لیگ کی ہم نے مدد کی ہمشرقی پنجاب کے فسادات کے دوران ہم نے مسلمانوں کی مدد کی.ان حالات میں نماز پڑھ لینے سے کیا فرق پڑ جائے گا اور اس کا نتیجہ کیا ہو گا.آخر غرض تو یہی ہے کہ اختلاف عقائد کے باوجود مسلمان انتقاد رکھیں اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہم ہمیشہ اس میں حصہ لیتے رہے ہیں پھر کونسی نئی تبدیلی ہے جو اس مسئلہ سے پیدا ہو جائے گی.حضور نے فرمایا :.اس مسئلہ کا ایک سیاسی پہلو بھی ہے.قومی کام ایک ایک فرد یا جماعت میں تقسیم ہوتے ہیں.فوج سے فوجی بات کر سکتے ہیں، پولیس سے پولیس والے اور مجسٹریٹ سے مجسٹریٹ.نماز ایک مذہبی عقیدہ ہے اور اس کی امامت علماء کے سپرد ہے پس وہی حق رکھتے ہیں کہ اس کا تصفیہ کریں تعجب ہے کہ ایک فوجی افسر سے اگر فوجی امور کے تصفیہ کے لئے کوئی : دوسرا بات کرے تو وہ کہیں گے یہ فوجی امر ہے.بالمقابل فوجی افسر بات کرے لیکن نماز کا تصفیہ ایک فوجی افسر جسے قوم کی طرف سے بولنے کا حق نہ میں ایک سیاسی لیڈر جیسے قوم کی طرف سے مذہبی فیصلہ کا اختیار نہیں وہ تصفیہ چاہتا ہے حالانکہ یہ امر دونوں فریق کے علماء میں طے ہو سکتا ہے.پس آپ اپنے علماء میں تحریک کریں کہ وہ احمدیوں سے کہیں کہ ہم آپ کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں آپ ہمارے پیچھے نماز پڑھیں.ان کی طرف سے یہ سوال اٹھایا جائے تو جماعت کے علماء ان سے بات کر سکتے ہیں ورنہ تعلیم یافتہ طبقہ میں سے کونسا شخص
١٣١ ہے جویہ کہے کہ میں تمام پاکستان کی مساب کا ذمہ دار ہوں کہ وہاں کے علماء احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھیں گے احمدی ان کے پیچھے نماز پڑھیں.نہ وہ ایسا دعوی کر سکتے ہیں ان وانی کی بات علماء مانیں گے.پھر ایسا مطالبہ جو وہ خود اپنے علماء سے نہیں منوا سکتے کس طرح تقویٰ کے مطابق ہو سکتا ہے.آخر قومی کام قوم کے نمائندے کرتے ہیں اور نمائندے بھی اس محکمہ کے جس سے وہ سوال تعلق رکھتا ہو لیں جو نمائندہ نہیں اور دین کے بارہ میں علماء کا نمائندہ نہیں اسے ایسی باتیں ہی نہیں کرنی چاہئیں منصف مزاج آدمی کو اگر کوئی بات غلط معلوم ہوتی ہے تو پہلے وہ اپنی قوم سے غلطی منواتا ہے پھر دوسرے فرقہ کی طرف توجہ کرتا ہے.اپنی معرکۃ الآرا تقریر کے دوسرے حصہ میں حضور نے فرمایا :- دوسرا سوال یہ کیا گیا ہے کہ احمدیت مسلمانوں کے لئے کیا مستقبل نہیں کر سکتی ہے میرے نزدیک یہ سوال صحیح الفاظ میں پیش نہیں کیا گیا.احمدیت کوئی نیا دین نہیں کہ اس نے کوئی نیا پروگرام بنانا ہے احمدیت تو اسلام کی ترقی کی ایک کڑی ہے فوجی محکمہ بال ایک سکیم بناتا ہے اس کے حصے وہ مختلف افسروں کے سپرد کرتا ہے، ہر افسر اپنے اپنے حصّہ اور اپنے وقت کو پورا کرتا ہے، اجزاء بدلتے جاتے ہیں مگر سیکیم ایک ہی رہتی ہے کیونکہ ہر نیا بنر و پرانی سکیم کا ایک حصہ ہوتا ہے نئی شئے نہیں ہوتی پیس سوال یہ ایک ہی رہتی ہے ہرنیای و ہے کہ اسلام نے مسلمانوں کا کیا مستقبل اس زمانہ کے بارہ میں تجویز کیا ہے جسے پورا کرنے کے لئے احمدیت کھڑی ہوئی ہے.حضور نے فرما با ستقبل خدا تعالیٰ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقر کر سکتے ہیں.مرزا صاحب ایک نائب کمانڈر ہیں ان کا اور ان کی جماعت کا کام یہ ہے کہ کمانڈر کی مقرر کی ہوئی سکیم کو جاری کریں اور کامیابی تک پہنچائیں.فوجی یہ مجھ لیں کہ خدا تعالیٰ بادشاہ ہے محمد رسول اللہ نے اللہ علیہ وسلم چیف آف دی جنرل سٹان ہیں اور مرزا صاحب لوکل کما نڈر ہیں مگر چونکہ یہ کمان جگہ کی بجائے وقت میں پھیلی ہوئی ہے.لوکل کمانڈر کو اصولی پلین چیف آف دی جنرل سٹاف سے آتی ہے تفصیلات ان کے مطابق وہ خود طے کرتا ہے.حضور نے فرمایا :- دعائے ابراہیمی میں محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کا یہ کام بتایا گیا ہے کہ يَتْلُوا عَلَيْهِم أَيتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَ ير هم گویا تعلیم آیات تعلیم کتاب ، تعلیم حکمت اور تزکیہ (یعنی پاک کرنا اور اسلام کو پھیلانا ) ی تعلیم ہے جو مختلف زبانوں کے لحاظ سے تفصیلات میں تو بدلے گی لیکن اصول وہی رہیں گے.رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد ہمیشہ جو کہا نڈر آئے ان کا کام یہ تھا کہ لوگوں کو اسلام پر قائم رکھیں یا دوسرے له البقره: ۱۲۹ *
۱۳۲ -- لفظوں میں یوں کہو کہ ملک کی حفاظت کریں لیکن پھر ایک ایسا زمانہ آیا کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مسلمانوں کی توجہ ہٹ گئی اور اس کے نتیجہ میں انہیں دنیوی شکست بھی پہنچی، دشمن غالب آ گیا اور چھا گیا.اب اس زمانہ کے مامور کا پروگرام یہ ہے کہ تلاوت آیات اور تعلیم کتاب و حکمت اور تزکیہ پھر سے کرے اور اسلام کی ترقی کے لئے پھر سے سکیم بنائے سواس نے تلاوت آیات اور تعلیم کتاب اور تعلیم حکمت کی اور اس کی جماعت ایسا کہ رہی ہے.حضور نے فرمایا :.قومیں ہمیشہ آئیڈیریٹ سے ترقی کرتی ہیں حضرت مرزا صاحب نے مسلمانوں کے سامنے آئیڈیے رکھ دیئے ہیں جن سے مسلمانوں کے لئے ترقی کرنے کا امکان پیدا ہو گیا ہے، مثلاً حضرت مرزا صاحب نے مندرجہ ذیل عظیم الشان اصول پیش کئے ہیں جن کو مان کر مسلمان دشمن کے روحانی حملہ سے بچے جاتا ہے اور دشمن اس کے آگے آگے بھاگتا ہے:.1 - قرآن کریم کا کوئی حصہ منسوخ نہیں.- قرآن کریم اپنے اند رشاندار ترتیب رکھتا ہے.الہام الہی کا دروازہ ہمیشہ کے لئے کھلا ہے.۴.مسلمان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شاگردی اور اتباع میں اعلی سے اعلیٰ درجے حاصل کر سکتا ہے.نبی معصوم ہوتے ہیں خصوصا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بالکل معصوم تھے اور آپ پر دشمن کے ہرقسم کے اعتراضات باطل ہیں.4 - مسیح علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں.مسیح علیہ السلام کی طرف خدائی صفات منسوب کرنا غلطی ہے.اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے مجرات ہر گز نہیں دکھائے جاتے جو صفات الہیہ کے خلاف ہوں.ان تمام پہلوؤں پر حضور نے تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا اس زبانہ کے حالات کے لحاظ سے حضرت مرزا صاحب نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ مسلمان اپنی اپنی جگہ اپنے بچاؤ کی تو بے شک کوشش کریں لیکن چونکہ اس وقت ان کے خلاف مذہبی بننگ نہیں کی جاتی اس لئے شیر ادیان سے اس وقت تبلیغی جنگ کی جائے گی اور تبلیغ سے ہی اسلام کو سب دنیا میں پھیلایا جائے گا.پس اس وقت مسلمان اگر دنیا پر IDEAS
۱۳۳ غالب آسکتے ہیں تو تبلیغ کے ذریعہ ہی مگر افسوس مسلمان اس چیز کو بھول گئے ہیں جو اُن کے غلبہ کا ایک ہی ذریعہ ہے.یہ تقبل ہے جو مرزا صاحب نے پیش کیا ہے اور لیکن یقین رکھتا ہوں کہ یہی وہ حربہ ہے جس سے اسلام اس وقت ساری دنیا میں غالب آ سکتا ہے.لے کوئٹہ کے غیر متعصب اور متین غیر احمدی طبقہ نے یہ پر معارف اور بد تل لیکچر بہت پسند کیا اور تسلیم کیا کہ امام جماعت احمدیہ نے اپنی جماعت کا موقف نہایت خوش اسلوبی سے صحیح ثابت کر دکھایا ہے چنانچہ شیخ کریم بخش صاحبث نائب امیر جماعت احمدیہ کو میٹر نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود کی خدمت میں لکھا کہ :.حضور کی کل کی تقریرہ سے پبلک پر بہت اچھا اثر ہوا ہے اور میں نے کئی غیر احمدیوں سے سنا ہے کہ آج ہمیں احمدیت کے متعلق پورا علم ہوا ہے.ہمارے ایک غیر احمدی مہمان شیخ عبدالرحمن صاحب نے بھی جلسہ ہیں کہ دیا تھا کہ حضرت صاحب بہت ذہین اور عالم بزرگ ہیں اور ان پر فضل خدا بہت اچھا اثر ہوا ہے.لوگوں نے بہت پیپسی سے حضور کے لیکچر کو سُنا حالانکہ مجلس میں بہت سے کر شیعہ سنی اور اہل حدیث موجود تھے.بندہ کا تو یہ خیال ہے کہ احمدیت کے متعلق کوئٹہ میں پہلا موثر لیکچر ہے جو حضور نے فرمایا اور عام پبلک میں بخوبی مقبول عام ہوا سے اسی ضمن میں دوبین غیر از جماعت مسترزین کے تاثرات ملاحظہ ہوں :- 1.کیپٹن محمد اظہر حسن انصاری صاحب :- نہایت بصیرت افروز لیکچر تھا.مجھے ان لوگوں پر جو دوران لیکچر میں اٹھا رہے تھے اگر وہ نماز عصر کے لئے اُٹھے تھے، سخت غصہ آرہا تھا لیکن اس سے بہت محظوظ ہوا.لیفٹیننٹ سید احمد شعاع زیدی (فرید آبادی ) :- اس لیکچر کا خوب لطف آیا " ۳ - جمعدار محمد ہاشم صاحب :- شرافت کا تقاضا ہے کہ خواہ ہم انکار کریں صداقت صداقت ہی ہے.MESS میں جاگ گئی ایک ن الملخص الفضل لاہور و ظوره ۱۳۲۹ صد تا صثہ سے ان دنوں میاں بشیر احمد صاحب پاسپورٹ آفیسر امیر جماعت کے فرائض انجام دے رہے تھے : سے مکتوب کرده ۲ ظهور ۳۲۲۹ :
جمعدار صوبیدار صاحب بات بارہ بجے تک خوب اس لیکچر پر بحث کرتے رہے سوائے ایک دو کے جو مخالف تھے باقی بہت مزاج تھے.نماز الگ پڑھنے کے دلائل ہر طرح سے نہایت مسکت تھے.مجھے لیکچر سے نہایت ہی کو حانی خوشی حاصل ہوئی ہے ۴.مسٹر غلام احمد منشی (سومین آفیسر اصل وطن ہونا ) :- یہ لیکچر شنکر میں ان لوگوں کے ساتھ اتفاق نہیں کرتا جو محض دشمنی کی وجہ سے جماعت احمدیہ کی مخالفت کرتے اور گالیاں بکتے ہیں لیکچر نہایت عمدہ تھا اور میں نے بہت پسند کیا.۵ - مسٹر محمد صادق صاحب پر انچہ دسویلین آفیسر - اصل وطن میانی ضلع شاہ پور ) :- لیکچر بہت عمدہ تھا.اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں میں آپ کی جماعت کی تنظیم بہترین ہے..مسٹر نصیر الدین حیدر (سومین آفیسر اصل وطن یوپی ) :- و مضمون بہت اچھا تھا حضور کے علم کی وسعت اور قابلیت میں ذرا بھر کلام نہیں لے یکم تبوک حیدر آبادمیں اسلام اور کمیونزم کے موضوع لیکچر نیک استار شد کو حضرت مصلح موعود ی نے حیدر آباد کے تھیو سافیکل ہال میں اسلام اور کمیونزم کے موضوع پر ایک حقیقت افروز لیکچر دیا جو قریباً ڈیڑھ گھنٹہ تک جاری رہا.صدر جلسہ مکرم محمد حافظ صاحب بار ایٹ لاء رٹائرڈ ہے.ڈی.ایم و ڈپٹی کلکٹر تھے حضور نے اسلام اور کمیونزم کے اختلاف پرتفصیلی طور پر روشنی ڈالتے ہوئے مندرجہ ذیل نکات بیان فرمائے.اول :- اسلام کی بنیاد ایک ایسے خدا کی ذات پر ہے جو زندہ اور فعال ہے لیکن کمیونزم کے بانی اپنی کتب میں واضح طور پر کہتے ہیں دنیا کا کوئی خدا نہیں بلکہ وہ خدا تعالیٰ سے تمسخر کرتے ہیں اور اس کی ذات پر ایمان لانے والوں کو بیوقوف قرار دیتے ہیں.ابتدائی ایام میں روس میں ایسے تماشے بھی دکھئے جاتے تھے جن میں خدا تعالیٰ کو ایک مجرم کی حیثیت میں پیش کیا جاتا تھا اور پھر اس مجسمہ کو پھانسی کے تختہ پر لٹکایا جاتا تھا ایسی صورت میں ایک مسلم کہلانے والے کا کمیونزم کے ساتھ جوڑ ہی کیا ہوسکتا ہے ؟ دوم : کمیونزم مذہب کا مخالف ہے اور اس کا سارا سسٹم ایسا ہے جو مذہب کو تباہ کرنے والا له ما خودانہ ریکارڈ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری ۳ر طور ۱۳۹۵
سید نا حضرت مصلح موعودؓ کراچی پریس کانفرنس کو خطاب فرمارہے ہیں
۱۳۵ ہے.ہمارے مشن اس وقت قریباً تمام ممالک میں ہیں لیکن روس میں ہم نے ایک دفعہ اپنا مبلغ بھیجا تو اسے سخت دُکھ دئے گئے اور آخر انہوں نے اپنے ملک سے باہر نکال دیا.اس کی وجہ یہی ہے کہ کمیونزم میں یہب کی کوئی جگہ نہیں.سوم :- اسلام کی بنیاد روحانی صفائی پر ہے لیکن کمیونزم یہ کہتی ہے کہ روح کوئی چیز نہیں اور یہ کہ دنیوی مسائل کو کلی طور پر مادیات کے ساتھ حل کیا جا سکتا ہے اس کا خیال ہے روحانیت کو پیش کرنے سے غرباء کو نقصان پہنچتا ہے اور ان کے حقوق تلف ہوتے ہیں.چهارم :- اسلام کی بنیا د نبوت پر ہے لیکن کمیونزم کے نزدیک سارے نبی نعوذ باللہ جھوٹے اور مفتری تھے بلکہ مذہب کے بانی ان کے نزدیک -- امراء کے ایجنٹ تھے تا کہ امراء ترقی کرتے جائیں اور غرباء ہلاک ہوتے جائیں.پنجم :- اسلام کی بنیاد کلام الہی پر ہے لیکن کمیونزم کے نزدیک یہ کوئی چیز نہیں.ششم :- اسلام کی بیا ولبعث بعد الموت پر ہے لیکن کمیونزیم اس کے بالکل خلاف ہے گویا کمیونزم ہمارے پہنچ ارکان اسلام کے بہی خلاف ہے.اور جب اس کا اسلام کے ساتھ اس قدر بنیادی اختلاف ہے تو ایک باغیرت اور سمجھدار مسلمان کس طرح کہہ سکتا ہے کہ ایک مسلمان بھی ہوں اور کمیونسٹ بھی.جماعت کے دوستوں کے علاوہ جلسہ میں تین سو کے قریب غیر احمدی معززین بھی موجود تھے جو بے حد متاثر ہوئے اور صدر جلسہ نے بھی اپنے صدارتی ریمارکس میں تقریر کی بہت تعریف کی بیٹے جماعت احمدیہ کراچی نے انہی دنوں وکٹوریہ روڈ میگزین لیں کراچی میں ایک خاص خطبہ جمعہ میں ایک شاندار دو منزلہ مسجد قریباً ایک لاکھ روپے کی لاگت سے تعمیر کی تھی.اس مسجد کی تیاری اور تعمیر کے انچارج شیخ عبد الحق صاحب ایس ڈی اوتھے جنہوں نے ہایت محنت اور اخلاص کے ساتھ اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا.تے حضرت امیر المؤمنين خليفة السيح الثاني الصلح الموعوون تبوک ۱۳۳۹ / ستمبر نشانہ کو اس مسجد میں خطبه جمعه ارشاد فرمایا جس کے آغاز میں حضور نے کراچی کی مخلص جماعت کو مبارکباد دیتے ہوئے فرمایا کہ: له الفضل ۱۳ر تبوک ه۳۲۹ ا حت له الفضل ۲۲ تبوک ۱۳۳۹
سب سے پہلے تو میں جماعت کے دوستوں کو اس بات کی مبارکباد دیتا ہوں کہ ان کو خدا تعالیٰ نے یہاں مسجد بنانے کی توفیق عطا فرمائی ایکس نے دو دفعہ یہاں تقریر کی ہے میں نہیں کہہ سکتا کہ دونوں دفعہ ایک ہی ہال میں تقریر ہوئی تھی یا الگ الگ ہال تھے ہر حال اُوپر کے بر آمد وں اور نیچے کے برآمدوں کو ملا کر یہ مسجد ان ہالوں سے بڑی نظر آتی ہے.جب انسان خدا تعالیٰ کے لئے کوئی جگہ بناتا ہے تو آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ اس کی ترقی کے سامان بھی پیدا کر دیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو وقتاً فوقتاً اس قسیم کے الہام ہوتے رہتے تھے کہ آپ اپنے مکانات کو وسیع کریں تاکہ آنے والے لوگ وہاں آکر رہیں.چنا نچہ ان الہامات میں سے ایک یہ بھی الہام تھا کہ وسیع مكانك اپنے مکان کو وسیع کر ویکی نمیشہ ہی جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا رہا ہوں کہ اپنی حیثیت کے مطابق ان کو سجدیں بناتے رہنا چاہیئے لیکن افسوس ہے کہ جماعت ہمیشہ ہی اپنی توفیق سے زیادہ بڑی جگہ کی تلاش میں رہتی ہے.یہ سجد بھی غالبا نہ منیتی اگر آج سے آٹھ دس سال پہلے مجھے متواتر یہاں آنے کا موقع نہ ملتا اور جماعت پر یہ زور دینے کا موقع نہ ملتا کہ جس طرح بھی ہو زمین خرید لوچنانچہ میرے ایک ایسے ہی سفر کے زمانہ میں یہ زمین دیکھی گئی اس وقت بھی بعض مقامی دوستوں کی تجویز تھی کہ اس سے بڑی جگہ لینی چاہیئے مگر میں نے کہا کہ زمین جو بھی ملتی ہے لے لو اور بڑی کا انتظار نہ کر وایسا نہ ہو کہ یہ بھی ہاتھ سے جاتی رہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ جگہ آباد ہے اور یہاں ایک شاندار مسجد بنی ہوئی ہے.مجھے یاد ہے کہ جماعت کا ایک حصہ اس کی تائید میں تھا اور دوسرا حصہ اس بات کی تائید میں تھا کہ کوئی اور بڑی جگہ تلاش کی جائے مر اللہ تعالیٰ نے جماعت پر فضل کیا اور ان کو ہدایت دی کہ وہ چھوٹی چیز پر قناعت کریں تا کہ اللہ تعالے اس کے بعد ان کے لئے بڑی چیز کے سامان پیدا کرے.دنیا میں کوئی مسجد ایسی نہیں بن سکتی جس میں زیادہ سے زیادہ افراد جو ممکن ہوں آسکیں.خانہ کعبہ کی مسجد کے برابر شاید کوئی مسجد نہیں لیکن کچھ دن ایسے بھی آتے ہیں جب خانہ کعبہ میں بھی نمازی سمانہیں سکتے اور بازاروں اور دکانوں پر کھڑے ہو کر لوگ نمازیں پڑھتے ہیں مسجد نبوی جو مدینہ منورہ کی ہے اس کا بھی یہی حال ہے کہ اس میں بھی بعض اوقات نمازی پوری طرح سما نہیں سکتے پس یہ خیال غلط ہے کہ ہم آئندہ کی تمام ضرورتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کوئی مسجد بنائیں اور جب تک ان ضرورتوں کے مطابق مسجد نہ بن سکے ہم اپنی نماز کے لئے کوئی انتظام نہ کریں.یں تو سمجھتا ہوں یہ اسی مسجد کی برکت ہے کہ آج سے چار سال پہلے موجودہ نمازیوں سے پانچواں حصہ بھی
سید نا حضرت مصلح موعود کا ورود کراچی میں (۱۹۵۰ء) شناور
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کے سفر کراچی ۱۹۵۰ ء کا ایک منظر
۱۳۷ جماعت نہیں تھی بلکہ جو لوگ مجھے اس وقت نظر آرہے ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم کہ سکتے ہیں کہ دسواں رحمتہ بھی جماعت نہیں تھی صرف ایک کمرہ جماعت نے کرایہ پر لیا ہوا تھا مجھے یاد ہے جب لکھی جمعہ کے لئے جاتا تو زیادہ سے زیادہ ایک وقت میں تین صفیں ہوا کرتی تھیں بلکہ ایسے جمعے بھی گذرے ہیں جب دو نہیں بھی نہیں ملتی تھیں اور وہ کمرہ اس مسجد کے برآمدہ کے کوئی تیسرے حصہ کے برابر ہو گا بعد سے حد نصف ہوگا جب انسان نمد اتعالیٰ کے لئے گھر بناتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس گھر کی آبادی کے بھی سامان پیدا کیا کرتا ہے اب اس خیالی میں نہ رہو کہ یہ جب ہم نے بنالی ہے اور ہمارا فرض پورا ہو گیا ہے جیسا کہ اس وقت نظر آرہا ہے اس نسبی کے بنتے ہی یہ مسجد بھر بھی گئی ہے.شاہ پھر حضور نے یرقیمتی نصیحت فرمائی کہ :- وہ جماعت نے جب یہ جگہ بنائی ہے تو اسے اب یہ بھی کوشش کرنی چاہیئے کہ کراچی میں جہاں جہاں احمدی زیادہ ہیں اور وہ اس مسجد سے دور رہتے ہیں وہاں بھی چھوٹی چھوٹی مساجد بنا دے کیونکہ دوسروان کے گھروں میں جا کر نماز پڑھنا بعض دفعہ فتنہ کا موجب ہو جاتا ہے میں نے دیکھا ہے جس شخص کے گھر پر نماز پڑھی جاتی ہے بعض دفعہ جب اس سے نماز پڑھنے والا کسی بات میں اختلاف کرتا ہے تو وہ غصہ میں آکر کر دیتا ہے کہ تم میرے گھر پر نہ آیا کرو حالانکہ وہ اس کے گھر پر نہیں جاتا بلکہ مسجد میں جاتا ہے.اگر وہ اسے اپنا گھر قرار دیتا تو یہ اس کے مکان پر نہ جاتا.اس رنگ میں دین کی بھی ہتک ہوتی ہے اور آنے والے شخص کی بھی بہتک ہوتی ہے پس پہلے تو مجبوری کی حالت میں یوں کہنا چاہیئے کہ جمال جہاں جنات کے دوست اکٹھے ہو سکیں وہاں کسی دوست کے مکان پر اکٹھے ہو کر نمازیں پڑھ لیا کر یں.پھر اس کے بعد کوشش کرنی چاہئیے کہ ہر محلہ میں ایک چھوٹی سی مسجد بنائی جائے چاہے وہ ایک مرلہ کی ہی کیوں نہ ہو.لیکہ اگر میونسپل قانون میں اجازت ہو تو معمولی کچی اینٹوں کی ہی مسجد بنائی جائے یا شے حضرت اقاس نے ان تمہیدی کلمات کے بعد بتایا کہ :.تحت کچھ عرصہ سے میرے کانوں میں اسے امر ہے پڑ رہا ہے اور یہاں آکر کی متفرق صورتوں اور متفرق جہات سے میرے کانوں میں پڑا ہے کہ کراچی میں کچھ لوگ ایسے ہیں، جو اپنے مال یا دولت کی وجہ سے مغرور نے الفصل ۲ ستمبر ۱۱۹۵۰ ۲۰ : ه و اوین کے درمیاں وضاحتی الفاظ ناقل سے ہیں ؟ بن الفضل ٢٢ ستمبر ١٩ م
ہو کر پیا سیاہ کے لئے بدنامی اور رفتنہ کا موجب بنے ہوئے ہیں لیکن دکھتا ہوں کہ جماعت میں ان کے متعلق کئی قسیم کی رائیں ہیں لیکن جومجھ پر اثر ہے وہ یہ ہے کہ کافی حصہ جماعت کا ایسا ہے جو ان کی دولت یا مال کی وجہ سے یہ خیال کرتا ہے کہ بڑے لوگ ہم سے الگ ہو گئے ہیں ریسلسلہ کا بڑا نقصان ہوا ہے بارہ ازان بعد حضور نے زبر دست قوت و شوکت سے بھرے ہوئے الفاظ میں اس خیال کی لغویت اور بطلان پر تفصیلی روشنی ڈالی چنانچہ فرمایا.خدا تعالیٰ کا قائم کردہ خلیفہ اور یہ دو دو چار چار یا پانچ پانچ ہزار روپیہ کمانے والے آپس میں نسبت ہی کیا رکھتے ہیں.ان لوگوں کی تو اتنی بھی حیثیت نہیں متقی ہاتھی کے مقابلہ میں ایک مچھر کی ہوتی ہے.شاید تم میں سے بعض لوگ یہ خیال کرتے ہوں کہ خلیفہ بیمار رہتا ہے اور وہ بڑھا بھی ہوگیا ہے اب شاید وہ جلد ہی مر جائے گا پھر ان لوگوں کے مقابل پر ہمارا کیا حال ہو گا میں ایسے لوگوں سے یہ کہتا ہوں کہ اردو کا محاورہ ہے کہ ہاتھی زندہ لاکھ کا اور مردہ سوالاکھ کا یا ہم وہ لوگ ہیں جو مر کہ زیادہ طاقتور ہوا کرتے ہیں.ہماری زندگی میں خدا تعالیٰ ہمارے دشمن کو بالعموم محفوظ رکھتا ہے کیونکہ وہ ارحم الراحمین ہے لیکن ہماری موت کے بعد وہ ہمارے لئے اپنی غیرت دکھاتا ہے جس کے مقابلہ میں کسی قریب ترین عربیہ یا عاشق کی غیرت بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتی.پس ان لوگوں کی کوئی ہستی نہیں بلکہ مجھے تعجب آتا ہے کہ تم ان کی طرف کیوں توجہ کرتے ہو.ان کے افعال اور ان کی باتیں محض ایک نشان دکھانے کے لئے زندہ رکھی جاتی ہیں.کیا تم نے نہیں دیکھا کہ عجائب گھروں میں مرے ہوئے سانپ رکھے جاتے ہیں.کیا تم نے نہیں دیکھا کہ عجائب گھروں میں مردہ بچھو سکھے جاتے ہیں جس طرح عجائب گھروں میں مردہ سانپ اور مرد ہر چھو ر کھے جاتے ہیں اسی طرح خدا ئی سلسلہ میں ایسے لوگ رکھے جاتے ہیں تا کہ لوگ ان کو دیکھ کر نصیحت حاصل کریں.وہ اس لئے نہیں رکھے جاتے کہ ان کو کوئی طاقت حاصل ہوتی ہے.وہ اس لئے نہیں رکھتے جاتے کہ ندا تعالیٰ کے سلسلے کے مقابلہ میں ان کو کوئی حیثیت حاصل ہوتی ہے.بلکہ وہ اسلئے رکھے جاتے ہیں تاکہ لوگ انہیں دیکھ کر ہوشیار رہیں اور وہ اس حقیقت کو ہمیشہ اپنی آنکھوں کے سامنے رکھیں کہ بعض لوگ چند قدم چل کر ایسے خطر ناک گڑھے میں گر جاتے ہیں ؟ کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جو پوزیشن شائر میں تھی اس سے اب سینکڑوں گئے زیادہ ہے له الفضل ۲۲ ستمبر ان حث : ه الفضل ۲۲ ستمبر 90 م +
۱۳۹ اور دنیا کے بہت سے ایسے ممالک میں اب احمدیت قائم ہے جن ممالک میں حضرت مسیح موعود علی اسلام کے زمانہ میں ایک بھی احمدی نہیں تھا.تو بات وہی ہے کہ ہاتھی زندہ لاکھ کا اور مردہ سوال کھ کا بلکہ سوال کی بھی انسانی نقطہ نگاہ کے لحاظ سے کہا گیا ہے ورنہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کے لحاظ سے تو کروڑوں کروڑ بھی کہا جائے تو کم ہے پس شاید تم میں سے کسی کے دل میں یہ خیال ہو کہ اگر میں مرگیا تو کیا ہو گا؟ اس میں کوئی شیر نہیں کہ آخر ہر انسان نے مرنا ہے اور میری صحت تو شروع ہی سے کمزور چلی آرہی ہے.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی وفات سے چند دن پہلے ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کو بلایا اور میری طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ڈاکٹر صاحب آپ کچھ اس کی طرف بھی توجہ کریں مجھے تو اس کی صحت کا سخت مشکر رہتا ہے ایسی صحت کے ساتھ میں نہیں کر سکتا کہ یہ کچھ حصہ بھی زندہ رہے گا یا نہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کے چند دنوں بعد وفات پاگئے اور میں جو ہر وقت بیمار رہتا تھا اب بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے زندہ ہوں مجھ سے بہت زیادہ قوی اور مضبوط انسان مجھ سے پہلے گذر گئے.حافظ روشن علی صاحب مجھ سے بہت زیادہ قوی تھے اور ان کی عمر بھی میرے قریب قریب تھی وہ بڑے مضبوط اور طاقتور تھے مگر ۱۹۲۹ء میں میرے دیکھتے ہی دیکھتے فوت ہو گئے.میر محمد اسحق صاحب مجھ سے بہت زیادہ قوی اور مضبوط تھے اور دو سال مجھ سے پھوٹے تھے مگر نہ میں وہ بھی فوت ہو گئے اور میں جس کے متعلق یہ کہا جاتا تھا کہ اب مرا کہ اب مرا اب اپنی عمر کے باسٹھویں سال میں سے گزر رہا ہوں بہت سے تندرست اور سکول میں میرے ساتھ پڑھنے والے نوجوان جو بچپن میں ہر میدان میں مجھے شکست دیا کرتے تھے اور جو مجھ سے بہت زیادہ قوی اور مضبوط تھے وہ قریباً سارے کے سارے فوت ہو چکے ہیں شاید ان میں سے کوئی ایک دو ہی اب زندہ ہوں پس یہ امر تو خدا تعالیٰ کی مرضی پیر منحصر ہے اور جب یہ اس کا قائم کر وہ سلسلہ ہے تویہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ میری موت کا وقت آجائے اور دنیا یہ کہے کہ مجھے اپنے کام میں کامیابی نہیں ہوئی میری وذات خدا تعالیٰ کے منشاء کے مطابق اُس دن ہوگی جس دن میں خدا تعالیٰ کے نزدیک کامیابی کے ساتھ اپنے کام کو ختم کر لوں گا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وہ پیش گوئیاں پوری ہو جائیں گی جو میں میرے ذریعہ سے اسلام اور احمدیت کے کلیبر کی خبر دی گئی ہے.اور وہ شخص بالکل قدیم علم اور جہالت کا شکار ہے جو ڈرتا ہے کہ میرے مرنے سے کیا ہوگا.حضرت مسیح موعود علی الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ کیں تو جاتا ہوں لیکن خدا تمہارے لئے قدرت ثانیہ
۱۴۰ بھیج دے گا مگر ہمارے خدا کے پاس قدرت ثانیہ ہی نہیں اس کے پاس قدرت ثالثہ بھی ہے اور اسکے پاس قدرت ثالثہ ہی نہیں اس کے پاس قدرت رابعہ بھی ہے.قدرت اولیٰ کے بعد قدرت ثانیہ ظاہر ہوئی اور جب تک خدا اس سلسلہ کو ساری دنیا میں نہیں پھیلا دیتا اس وقت تک قدرت ثانیہ کے بعد قدرت ثالثہ آئے گی اور قدرت ثالثہ کے بعد قدرت رابعہ آئے گی اور قدرت رابعہ کے بعد قدرت خامسہ آئے گی اور قدرت خامسہ کے بعد قدرت سادسہ آئے گی اور خدا تعالیٰ کا ہاتھ لوگوں کو معجزہ دیکھاتا پھلا سجائے گا اور دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی طاقت اور زبر دست سے زبر دست بادشاہ بھی اس سکیم اور مقصد کے راستہ میں کھڑا نہیں ہو سکتا جس مقصد کے پورا کرنے کے لئے اس نے حضرت مسیح موعود علی الصلاة و السلام کو پہلی اینٹ بنایا اورمجھے اُس نے دوسری اینٹ بنایا.رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا کہ دین جب خطرہ میں ہوگا تو اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت کے لئے اہل فارس میں سے کچھ افراد کھڑا کرے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان میں سے ایک فرد تھے اور ایک فرد یکں ہوں لیکن رجال کے ماتحت ممکن ہے کہ اہل فارس میں سے کچھ اور لوگ بھی ایسے ہوں جو دہیں اسلام کی عظمت قائم رکھنے اور اس کی بنیا دوں کو مضبوط کرنے کے لئے کھڑے ہوں پس ہمارا مقابلہ کرنے والا ہمارا مقابلہ نہیں کرتا خدا تعالیٰ کا مقابلہ کرتا ہے ملے آخرین منصوبہ ، خلافت کی حقیقی اور بلندشان ایک نہایت لطیف مثال سے واضح کی چنانچہ فرمایا:.کیا تمہیں دنیا میں کو ئی شخص ایسا نظر آتا ہے خواہ وہ کروڑ پتی ہو، حاکم ہو، وزیر ہو، بادشاہ ہو جو خدا تعالیٰ کو مار سکے پھر یہ کس طرح خیال بھی کیا جاسکتا ہے کہ یہ لوگ بعد اتعالیٰ کے مقابلہ میں کامیاب ہو جائیں گے.اب تو ہم نے سینما دیکھنے سے روکا ہوا ہے اس سے پہلے تم بھی دیکھتے تھے اور میں نے بھی سینما دیکھا ہے.اگر تم سینا کی تصویر پر گولی مارو تو کیا وہ اُس ایکٹر کو جائنگے گی جس نے اس میں کام کیا ہے وہ تو اُس وقت ہالی وڈ یا بیٹی یا کراچی میں زندہ پھر رہا ہوتا ہے اگر تم دس ہزار گولی بھی مارو تو اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا اس طرح ہم بھی تصویریں ہیںاور ہم پر حملہ کرنے سے بھی کچھ نہیں ہوتا.اگر تم دولاکھ تو ہی چلا دو اور اگر تم تصویر کی دھجیاں بھی اُڑا دو تب بھی تم اس شخص کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے کیونکہ جو چیز تمہارے سامنے ہے وہ محض ایک نشان اور تصویر ہے اصل چیز تو آسمان پر ہے اور وہ له الفضل ۲۲ ستمبر ام من
تمہارے قبضہ و تصرف سے باہر ہے پس تمہیں اصل حقیقت کو دیکھنا چاہئیے اور اس پر غور کرنا چاہیے ہم بہل نہیں ہیں اور اگر ہم اصل ہوتے تو دنیا ہمیں کبھی کی تاکہ نیکی ہوتی ہم تصویر یں ہیں اس لئے دنیا ہمیں جتنا بھی نقصان پہنچاتی ہے دین کا کچھ نہیں بگڑتا تصویر وں میں بعض دفعہ بادشاہ کا جلوس بھی دکھایا جاتا ہے اب اگر کوئی شخص بادشاہ کے جلوس پر گولیاں برسائے تو کیا بادشاہ مرجائے گا ؟ اس طرح ہم بھی تصویریں ہیں ہم کو خدا تعالیٰ نے اس لئے بھیجا ہے تاکہ اس کی حکومت دنیا میں قائم ہو.میں طرح تصویر پر گولی چلانے والا اصل کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا اسی طرح اگر کوئی شخص ہم پر گولی چلاتا ہے تو گو ہم مرجاتے ہیں ہم ختم ہو جاتے ہیں لیکن اس ش کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا جس کو قائم کرنے کے لئے اس نے ہمیں کھڑا کیا ہے.بلکہ اگر کوئی بادشاہ کے جلوس پر گولی پٹاتا ہے تو بادشاہ کومعلوم ہو جاتا ہے کہ یہ لوگ میرے مخالف ہیں اور وہ پہلے سے بھی زیادہ سخت تدابیر اختیار کرتا ہے ہمیں اپنے اندر خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کے ساتھ تعلق پیدا کر و حضرت مسیح موعود علیہ الصلاة والسلام یا ان کے خلفاء ہے شک بوجہ خدا تعالیٰ کا نمائندہ ہونے کے ادب کے قابل ہیں لیکن وہ مقصود نہیں ان کے لئے اس نے یہ نیکی نہیں بنائی بلکہ اپنے لئے بنائی ہے.پس یہ مجھ لو کہ تم جس کام کے لئے کھڑے ہو وہ غصہ اتعالیٰ کا ہے اور اس کے نام کو تم نے روشن کرنا ہے باقی ساری چیزیں اظلال کے طور پر ہیں اور اظلال آتے بھی ہیں اور بہاتے بھی ہیں ہاں خدا تعالیٰ یہ ضرور کرتا ہے کہ جب ظل کی کوئی شخص بہتک کرتا ہے تو وہ اسے اپنی ہتک قرار دیتا ہے یہ نہیں ہو سکتا کہ تم کسی کے دوست کی تصویر کو جوتیاں مارو اور وہ اسے برداشت کرے.اسی طرح ہم ہیں تو انسان لیکن خدا کتا ہے کہ یکس نے اس کو اپنی شکل پر پہنچا ہے لیکن نے اس کو اپنا قائم مقام بنا کر کیا ہے اس لئے تو نے اس کو جوتی نہیں ماری بلکہ مجھ کو جوتی ماری ہے، تو نے اس کو گالی نہیں دی بلکہ مجھ کو کالا رہی ہے ، تو نے اس کو دلیل نہیں کیا بلکہ مجھ کو ذلیل کیا ہے.اس لئے ایسا آدمی بچتا نہیں آدم سے لے کر اب تک ایسا آدمی نہیں بچا او قیامت تک نہیں بچ سکتا یہ ہے قیام کراچی کے دوران دوسرا اہم واقعہ یہ ہے کہ حضور نے ۱۲ تبوک از تیر کراچی پریس کانفرنس کا ایک پریس کانفرس سے خاب برای جی میں سات ہی عالم کو اس حقیقت کی طرف متوجہ کیا کہ ان کا مستقبل فریضہ تبلیغ کی ادائیگی سے وابستہ ہے.6195 له الفضل ٢٢ ستمبر ١٩ حث.
۱۴۲ حضور کا بیان انگریزی میں تھا جس کا ترجمہ حسب ذیل ہے :- اسلامی دنیا میں ان دنوں بیداری اور نئی زندگی پیدا ہونے کے آثار نمودار ہیں.ہر جگہ کے مسلمانوں میں بیداری نظر آرہی ہے اور وہ اس امر کے لئے کوشاں ہیں کہ وہ ان خطرات کو جن کے بوجھ کے نیچے وہ کچھ عرصہ سے دبلے ہوئے ہیں اپنے اوپر سے اتار پھینکیں.البتہ یہ بیداری جو ان میں پیدا ہوئی ہے وہ فی المحال قومی بیداری ہے.بے شک چند مسلمان ایسے پائے جاتے ہیں جو ایک متحد اسلامی دنیا کا خواب دیکھ رہے نہیں مگر ان کے خیالات اس وقت تک محض سطحی ہیں جن کو وہ تا حال کسی مستقل شکل میں نہیں ڈھال سکے.اس وجہ سے ان خیالات کے پس پشت قربانی کی روح موجود نہیں ہے.یہ امرکسی سے مخفی نہیں کہ محض خواہشات بغیر ضروری عزم کے کسی نتیجہ پرنہیں پہنچاسکتیں.ادھر حالات یہ ہیں کہ کوئی سلام کوموت نہ اس بات کے لئے تیار ہے اور نہ ہی خواہشمند ہے کہ وہ اسلامی دنیا کے استحاد کے لئے اپنے قومی فوائد ک خیر باد کہ سکے.پان اسلامی تحریک کے پیچھے بعینہ وہی خیالات کام کر رہے ہیں جن کو جمہوریت کے لداء ممالک یعنی یورپ اور امریکہ ایک متحد سیاسی محاذ قائم کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں لیکن بعض یورپین مصنفین اسلام کے خلاف اس قدر زہر اگل چکے ہیں کہ پانی اسلامک کا حصہ تصور ہی یورپ اور امریکہ کے ملک کے باشندے کو کیپکپا دینے کے لئے کافی ہے.اسلام جو فی الواقع اسلامی دنیا کے لئے ایک قوت متحرکہ ہے یا کم از کم ہونی چاہیئے اس کو مغربی اقوام تحقیر اور بے اعتمادی کی نظر سے دیکھتے ہیں ان حالات میں میرا پیغام مسلمان نوجوانوں کے لئے اور خصوصیت سے صحائف نویں احباب کے لئے یہ ہو گا کہ وہ اسلام کو نظر عمیق کے ساتھ مطالعہ کریں اور اس کی تعلیم کو اپنے اندر ایسے رنگ میں جذب کریں کہ جس کا اثر ان کی تحریروں میں نمایاں ہو.اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ غیرمسلم اسلام کی خوبیوں سے واقف ہوسکیں گے ان کویہ بھی چاہئیے کہ اپنے فرمسلم ہم پیشہ لوگوں سے اسلام کی تعلیم کے متعلق اورخصوصیت سے اس پہلو کے متعلق کہ اسلام غیر مذا ہب کے ساتھ کس رویہ کو اختیار کرنے کی تعلیم دیتا ہے کھلے اور آزادانہ طور پر تبادلہ خیالات کریں.مجھے کامل یقین ہے کہ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ چند سالوں میں ہی اسلام کے متعلق جو غلط فہمیاں پھیلائی گئی ہیں وہ رفع ہو جائیں گی اور ان لوگوں کو جو اسلام کو اپنی لاعلم کی وجہ سے شبہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں یقین ہو جائے گا کہ اتحاد السلمین کی تحریک بھی ایسی ہی بے لوث اور پاکیزہ ہے جیسا کہ مختلف عیسائی اقوام کو متحد کرنے کی تحریکیں.
; ۱۳ البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ مغربی یورپین ممالک میں تحریک کی بنیا د سیاسی اصولوں پر ہے لیکن پان اسلامک کی تحریک کی بنیاد محض مذہبی اصولوں پر ہے.مگر اس کے اسباب اس رویہ میں پائے جا سکتے ہیں جو یورپی اقوام خود اسلام کے متعلق رکھتی ہیں.گذشتہ سات سو سالوں کی تاریخ اس امر پر شاہد ناطق ہے کہ یور بین اقوام نے جو مسلمانوں پر غلبہ حاصل کیا اس کی وجہ نہ کوئی سیاسی اختلاف تھا اور نہ یہ کہ ان کے ساتھ بے انصافیاں کی گئی تھیں بلکہ اس کی وجہ صرف مذہبی تعصب تھا.اسلامی سلطنت کے خلاف جو بغاوت جنوبی اٹلی اور سلی میں کھڑی کی گئی ممکن ہے وہ اپنے اندر سیاسی پہلو رکھتی ہو مگر جو صلیبی جنگ اور لڑائیاں سپین والوں نے جنوبی سپین کی اسلامی سلطنت کے خلاف کیں ان کو سیاست کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا نہ ہی ان فتوحات کے متعلق کہا جا سکتا ہے جو عیسائیوں نے مراکو، الجیریا، ٹریپولی ، لیبیا ، آذربائیجان ، بخارا اور ایسے ہی اور ملکوں میں حاصل کیں.بے شک برطانیہ اور چند دیگر یور میں سلطنتوں نے جو فتوحات بعد کی صدیوں میں حاصل کیں وہ محض سیاسی فتوحات تھیں لیکن بولڑائیاں تیرھویں، چودھویں اور پندرھویں صدی میں لڑی گئیں ان کی وجوہات ہرگز ہرگز سیاسی نہ تھیں.ہان اسلامک تحریک یقینا ان عیسائی ادیبوں اور سیاستدانوں کی تحریروں اور ریشہ دوانیوں کا رد عمل ہے جنہوں نے سات سو سال متواتر نہ صرف اسلام کے خلاف سخت زہر اگلا بلکہ ان کی انتہائی کوشش رہی کہ وہ مختلف اسلامی سلطنتوں کے درمیان نسلی اور تاریخی وجوہ پر اختلاف کے بیج بوئیں اس لئے پان اسلامک تحریک کے موجد اور بانی مبانی ہر گز قابل ملامت نہیں قرار دیئے جا سکتے.اس جگہ اس حقیقت کا اظہار نا مناسب نہ ہو گا کہ آخری صدی کے دوران میں عیسائیوں کی آپس کی لڑائیوں میں جہاں کہیں بھی وہ لڑی گئی ہوں ہمیشہ ہی یہ نعرہ بند کیا گیا کہ عیسائی متن کے محافظ ہنوں یہاں تک کہ دوسری عالمگیر جنگ کے دوران میں ایک ہندوستانی نمائندہ نے جو اب کر مسلم لیگی اور مشہور پاکستانی ہے، اپنی تقریر میں یورپ میں کہا کہ عیسائی تمدن خطرہ میں ہے اور مہندوستان اس کی حفاظت میں ضرور لڑے گا.پس اگر یورپ اور امریکہ یہ حق رکھتے ہیں کہ وہ آپس میں متحد رہیں اور عیسائی تمدن کی حفاظت میں جنگیں کریں اور دوسروں کو اس میں شمولیت کی دعوت دیں تو پھر مسلمانوں کو آپس میں متحد رہنے اور اسلامی نمتون کی حفاظت کے لئے جنگیں کرنے کا کیوں حق حاصل نہیں ؟
سیم میرا اگر عیسائی تمدن کی چیخ و پکار کو ایک سیاسی تحریک قرار دیا جا سکتا ہے نہ کہ صلیبی جنگ.اور جس کا مدعا اور مقصد یہ قرار دیا جاتا ہے کہ نا انصافیوں اور تفوق تلفیوں کو دور کیا جائے تو پیپر بان اسلامک تحریک کو کیوں ایک مذہبی جہاد سمجھا جاتا ہے اور اسے بھی کیوں ایک سیاسی بعد و جہد نہیں تصور کیا جاتا ؟ راس سوال کے علمی پہلو کی طرف نہیں غور کرنے کی ضرورت ہے.مختلف اسلامی ممالک کا وجود یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہر ملک اپنے اپنے فوائد اور جد اجرا خواہشات رکھتا ہے پس جب تک ہر اسلامی ملک مختلف نام سے پکارا جائے گا تب تک ان کے فوائد بھی جدا جدا ر ہیں گے.اگر تمام اسلامی ممالک سیاسی معاشرتی، تمدنی اور اقتصادی لحاظ سے ایک مرکز پر جمع ہو جائیں تو اس وقت مختلف دوستوں کی ضرورت باقی نہ یہ ہے گی.اسلامی ممالک مثلاً پاکستان، افغانستان ، ایران ، سیر یا سعودی عرب ، عراق مهر اور انڈونیشیا با وجود وسعت آبادی کے لحاظ سے چھوٹے ہونے اور اپنی اپنی خود مختارانہ سلطنت رکھنے کے اس امر کے اقراری ہیں کہ وہ اس نقطہ پر تاحال نہیں پہنچے کہ جہاں پر سب کا کامل اتحاد ہو سکے.ان حالات میں اتحاد بھی حاصل ہو سکتا ہے کہ ہر ایک سب کی خاطر قربانی کر سکے.ہمیں اس معاملہ میں آہستہ آہستہ مگر احتیاط سے قدم اٹھانا چاہیے اور اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے عزم بالجرام سے کام لینا چاہیئے.اگر ہم ایسا کریں گے تو وہ دن دور نہیں کہ جیب اسلامی تمدن ایک صلیت ہوگی جو ہر سلمان کے اندر ایک ایسا جوش و خروش پیدا کر دے گی جو عیسائی تمدن کے نعرے کے پیدا کر وہ جوش سے بہت زیادہ ہو گا.پہلا قدم جو ہمیں اس بارے میں اٹھانا ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے آپ کو پان اسلانگ کے حامی اور پکے مسلمان کہنا نے سے ہرگز نہ ڈرنا چاہیئے.سیاسی دنیا میں اپنے حقوق حاصل کرنے کی سعی کر نا ہمارا پیدائشی حق ہے اور اس کو ہرگز مذہبی جنون نہیں کہا جا سکتا یه چیزو نانہ حالت تب ہی پیدا ہو سکتی ہے کہ جب کہ دنیا میں انعات اور حسین معاملگی کا خاتمہ ہو چکا ہوتا ہے.ہر ہاتھ وہ بہروں کے حق غصب کرنے میں کوشاں ہوتا ہے.دو سرا قدم یہ اٹھانا چاہیئے کہ ہم ان خیالات کو مسلم اور غیرمسلم ممالک میں کثرت سے پھیلائیں تاکہ مسلمان پور کے طور پر اس زمانے کی ضروریات کو مجھ سکیں اور غیرمسلم مسلمانوں کی جائز خواہشات کا صحیح اندازہ لگاسکیں.اس کے پہلو بہ پلو اسلامی تعلیمات کی اشاعت غیرمسلم ممالک اور غیرمسلموں میں از بین ضروری ہے جیسا کہ آپ لوگوں کو علم ہے کہ احمدیہ جماعت جس کے امام ہونے کا مجھے فخر حاصل ہے گذشت ہی چائیں
۱۴۵ سال سے اشاعت اسلام کے فرائض سر انجام دے رہی ہے.ہمارے مشن اس وقت تمام عیسائی ممالک مثلاً امریکہ ، انگلستان، فرانس ، ہالینڈ، جرمنی، سوئٹزرلینڈ اور بہت سے مغربی افریقہ کے ممالک میں ہیں اور اس وقت ایک عیسائیوں میں سے تقریبا تیس ہزار افراد مشرف بہ اسلام ہو چکے ہیں.ان نومسلموں میں سے بعض نے اپنی زندگیاں اسلام کے لئے وقف کر دی ہیں.امریکہ کے ایک نومسلم اور جرمنی کے ایک نو مسلم اس وقت پاکستان میں اسلامی تعلیم کا اس نظریہ سے مطالعہ کر رہے ہیں کہ حصول علم سے فراغت کے بعد اپنے اپنے ملک میں تبلیغ اسلام کے فرائض سر انجام دیں.نومسلموں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور انشاء اللہ چند سالوں میں بسلسلہ عروج تک پہنچ جائے گا.مادیات کا یہ زمانہ ہم سے حقیقت فراموش نہیں کر سکتا کہ جب کبھی بھی ظاہری طاقت کا مقابلہ سچائی سے پڑا ہے سچائی ہی ہمیشہ غالب رہی ہے.مجھے کئی مغربی سیاستدانوں سے گذشتہ دو سالوں میں ملنے کا اتفاق ہوا ہے اور میں نے اُن کو یہ ہن نشین کرانے کی کوشش کی ہے کہ جہاں کہیں بھی کمیونزم کا مقابلہ مغربی تمدن سے ہوا ہے تو کمیونزم میں میں سے نو جگہ کامیاب ہوئی ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ غربی ممالک قوت بازو سے کامیابی حاصل کرنا چاہتے بین بر خلاف کمیونزم کے کہ وہ مزعومہ اصول کو پیش کرتے ہیں.اسی وجہ سے مغربی اقوام کے ساز و سامان طاقتیں انحطاط پر ہیں مگر روس روز افزوں ترقی پر ہے.ا مغربی اقوام جب تک اپنی صیحت پر عمل پیرا نہ ہوں گی ان کا قدم تنزل کی طرف جاتا رہے گا.مسلمانوں کا بھی یہی حشر ہو گا اگر انہوں نے اسلام اور اس کے زرین اصولوں کی اشاعت کا کام غیر یکم ممالک میں اپنے ہاتھوں میں فوری طور پر نہ لیا کیونکہ ان کا مستقبل اسی سے وابستہ ہے.وہ جو اس کار خیر میں حصہ نہیں لے سکتے ان کے راستہ میں تو روک نہ نہیں جو اس کام کو کر سکتے ہیں اور کر رہے اه ہیں.یاد پنجاب میں احرار اور اُن کے بہ بنو علماء اہ مسلم لیگی حکومت کا معاندانہ رویہ سے جو آگ احمدیوں کے خلاف بھڑکا رہے تھے اور حضرت مصلح موعود کی راہ نمائی دو شکار ہیں اور بھی شدت اختیار کر گئی مٹی کو مسلم لیگی حکومت کے بعض افسروں نے بھی مخالفین پاکستان سے گٹھ جوڑ کر کے درپردہ ایک مخالفانہ له الفضل مرا خار هر ۲ اکتوبرنده ها، مت به
تحریک چلانی شروع کر دی جس پر سیدنا حضرت مصلح موعودیہ کو بھی اپنے خطبات کے ذریعہ جماعت کو اصل صورت حال سے بار بار آگاہ کر کے پرزور طور پر تلقین کرنا پڑی کہ اس کا فرض اولین ہے کہ وہ اپنے خلاف جھوٹے پراپگینڈا کی قلعی کھولنے کے لئے عوام کو احمدیت کے صحیح اسلامی عقائد سے باخبر کرے.کیونکہ پاکستان کی سالمیت ، قیام امن اور جماعت احمدیہ کی ترقی کا اس کے سوا کوئی اور حل ممکن نہیں تھا ان دنوں سرکاری افسران کسی طرح معاندانہ روش اختیار کئے ہوئے تھے اس کی تفصیل حضور ہی کے الفاظ میں ہدیہ قارئین کی جاتی ہے.فرمایا :- (۱) گذشتہ دنوں بعض افسروں نے سرکلر جاری کیا تھاکہ ان کے محکمہ کے تمام ملازم یہ فارم پر کر کے بھجوائیں کہ وہ کس کس فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور احمدی ہونے کی صورت میں یہ بھی لکھیں کہ قادیانی احمدی یا لاہوری احمدی.اس سرکلہ کی عبارت ظاہر کرتی ہے کہ اس سے کوئی نیا فتنہ کھڑا کرنا مقصود تھا بعض غیر احمدی اخباروں نے بھی اس پر نوٹس لیا ورلکھا کہ اس تجویز سے صاف پتہ لگتا ہے کہ بعض فرقوں کے خلاف کوئی کارروائی کرنا مقصود ہے کیسی فرد کے خلاف بے شک کا رروائی کی جائے اس میں ہمیں کوئی اعتراض نہیں لیکن اگر کسی فرد کے خلاف کا رروائی کرنا مقصود ہے تو پھر اس کے فرقہ سے کیا مطلب؟ وہ خواہ کسی فرقہ سے تعلق رکھتا ہو اگر وہ جرم ہے تو آپ اس کے خلاف کارروائی کریں لیکن پہلے یہ دریافت کرنا کہ تمہارا فرقہ کونسا ہے اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ کسی فرد کی شرارت کی وجہ سے اس کے خلاف کارروائی کرنا مقصود نہیں بلکہ کسی خاص فرقہ میں ہونے کی وجہ سے اس کے خلاف کوئی شرارت کرنا مقصود ہے.ان واقعات کو دیکھتے ہوئے ہماری جماعت کو چاہئیے تھا کہ وہ اپنے اندر ایک بیداری پیدا کر لیتی اور اس آدمی کی ماننت جو آتش فشاں پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھا ہوتا ہے اپنے آپ کو تیار کر لیتی خواہ کوئی دوبارہ غلط ڈائری لکھ لئے اور گورنمنٹ کے پاس جھوٹی رپورٹ کر دے واقعہ یہی ہے کہ تبلیغ کے بغیر ہمیں چارہ نہیں (مگر اپنے رسوخ سے کام لے کر تبلیغ کرنا یا جبر کرنا یہ ہمارے مذہب میں جائز نہیں).پس ایک طرف تبلیغ کرنی چاہئیے اور دوسری طرف خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگنی چاہئیں تھی ہم کامیاب ہو سکتے ہیں اور اپنے مقصد کو حاصل کر سکتے ہیں تبلیغ تمہاری تعداد کو بڑھائے گی اور دعائیں خدا تعالے کے فضل کو کھینچیں گی تبلیغ سے ہر درجہ اور حلقہ کے لوگ احمدی ہوں گے یا پھر انہیں کم از کم یہ پتہ
لگ جائے گا کہ احمدی کیسے ہوتے ہیں.بے شک وہ احمدی نہ ہوں لیکن انہیں یہ تو پتہ لگ جائے گا کہ احدیت کی تعلیم کیا ہے اور جب انہیں احمدیت کی تعلیم کا پتہ لگ جائے گا تو پھر اگر کوئی شخص احمدیوں کے خلاف ان کے کان بھرنے کی کوشش کرے گا تو وہ فورا کہ دیں گے کہ ہم بجانتے ہیں کہ احمدی ایسے نہیں ہیں.لیکن اگر وہ احمدیت کی تعلیم سے واقف نہیں تو جس طرح کوئی ان کے کان بھرے گا اُن کے پیچھے لگ جائیں گے.گویا تبلیغ کے ذریعہ ہمیں دو فائدے حاصل ہونگے اول جو لوگ صداقت کو قبول کرنے کی جرات رکھتے ہیں وہ صداقت کو قبول کر لیں گے اور جو صداقت کو قبول کرنے کی جرات نہیں رکھتے وہ ہمارے حالات سے واقفیت کی بناء پر کلمہ شیر کم کریں گے ---- دعاؤں سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ان سے اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہوتی ہے یا اے (۲) پاکستان میں ہمارے خلاف پروپیگینڈا کیا جاتا ہے اور مجلسوں میں لوگوں کو اکسایا جاتا ہے کہ وہ ہمارے آدمیوں کو قتل کر دیں، ہماری جائدادوں کو کوٹ لیں اور دوسرے لوگوں کو یہ تحریک کی جاتی ہے کہ وہ اپنے مکانات پر نشان انگا لین تا قتل عام کے وقت انہیں کوئی نقصان نہ پہنچے پیار سے پاکستان میں ایسا ہو رہا ہے.گورنمنٹ کا کام ان قائم کرنا ہے گورمنٹ کا کام اس قسم کے فتنوں کو دبانا ہے مگر وہ دیکھ رہی ہے اور اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتی.پولیس کے آدمی جاتے ہیں، اور وہ ان مجالس میں جا کر ڈائریاں لیتے ہیں لیکن وہ اس قسم کی باتوں کا ڈائریوں میں ذکر نہیں کرتے بعض جگہوں میں تو ڈائریاں کی ہی نہیں جانتیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ کی مقامی پولیس ولی سے ان کے ساتھ ہے اور بعض جگہ پولیس نے ڈائریاں کی ہیں لیکن ضلع حکام نے حکومت تک ان باتوں کو پہنچا یا نہیں.ایک جلسہ میں ایک شخص نے کہا کہ تم میں سے کون ہے جو احمدیوں کو قتل کرے.ایک آدمی نے اُٹھ کر کھائیں حاضر ہوں.پولیس نے ڈائری نہیں لکھی لیکن ایک مجسٹریٹ نے جو وہاں موجود تھا اپنی ڈائری میں یہ بات لکھ دی کہ میرے سامنے مقرر نے یہ سوال کیا کہ تم میں سے کون کون خلال فلان احمد یوبی کو قتل کرنے کے لئے اپنے آپ کو پیش کرتا ہے تو ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے کہا میں اس کام کے لئے حاضر ہوں اور اپنا نام پیش کرتا ہوں جب پولیس کے افسروں سے پوچھا گیا کہ کیوں پولیس کی ڈائری میں یہ بات نہیں آئی تو انہوں نے ه الفضل در جولائی شار ص :
جواب دیا کہ وہ آدمی پاگل تھا اس لئے اس واقعہ کو نہیں لکھا گیا.یعنی جب شرارت کا پتہ لگ گیا تو یہ کہ دیا گیا کہ وہ پاگل تھا حالانکہ اگر کھڑا ہونے والا پاگل تھا تو کیا تقریر کر کے اشتعال دلانے والا بھی پاگل تھا مگر ہم نے اپنے طور پرحقیق کی ہے وہ شخص ہرگز پاگل نہیں ایک کام کاج کرنیوالا آدمی ہے (۳) اور جگہوں کو تو جانے دو ایسی جگہ پر جب میں نے تقریر میں کہا کہ اگر تم تبلیغ کر و تو بلوچستان جیسے چھوٹے سے صوبے کو احمدی بنا لینا کوئی مشکل امر نہیں تو پولیس کے بعض نمائندوں نے کتنا جھوٹ بولا انہوں نے گورنمنٹ کے پاس ڈائریاں بھیجیں اور ان کی نقل دوسرے صوبجات میں بھی بھیجوائی گئی کہ امام جماعت احمدیہ نے تقریر کی ہے کہ گورنمنٹے کے محکموں میں جو بڑے بڑے احمدی افسر ہیں وہ اپنے تختوں کو مجبور کر کے احمدی بنائیں اور اگر وہ احمدی نہ ہوں تو انہیں وق کر کے محکمہ سے نکائی دیں.اس قسم کی ڈائریوں تک ہی نہیں نہیں کی گئی فوجی حکام کو بھی ورغلائے کی کوشش کی گئی کہ انہوں نے کیا کارروائی احمدی افسروں کے خلاف کی ہے مگر جس طرح سول میں اچھے افسر بھی ہیں اسی طرح فوج میں بھی شریف افسر ہیں ان افسروں نے ان رپورٹوں پہ کوئی توجہ نہ دی اور رکھ دیا فوج میں امن ہے ہم ایسی تحریروں پر کارروائی کر کے خود فساد پیدا کرنے کے لئے تیار نہیں.ہمارے دشمن جب اس کا رروائی میں ناکام رہے تو انہوں نے پہلے افسروں پر جو بالا افسر تھے ان کے پاس رپورٹیں کروائیں مگر ان کی طرف سے بھی یہ جواب دیا گیا کہ کوئی فساد بھی نظر آئے تو کسی کے خلاف کا رروائی کی جائے جب فساد ہے ہی نہیں تو ہم خود فساد کیوں پیدا کریں، ہاں اگر فساد پیدا کروانا ہے تو اور بات ہے.مجھے ایک احمدی افسر نے بتایا کہ جب یہ ڈائری میرے پاس پہنچی کہ خطبہ جمعہ میں امام جماعت احمدیہ نے یوں کہا ہے تو کیں نے کها یکی خود احمدی ہوں اور کہیں خود وہاں موجود تھا میں نے وہ خطبہ جمعہ سُنا ہے وہاں کوئی ایسی بات نہیں ہوئی تم جھوٹ بول رہے ہو.اس پر وہ پولیس کا نمائندہ فوراً بات بدل گیا اور کہتے لگا مجھ سے غلطی ہوگئی ہے.غرض جہاں پاکستان میں ایک شریف عنصر ہے وہاں ایسا متخصب عنصر بھی ہے جسے پاکستان کے بھلے سے غرض نہیں اسے صرف اپنے دلی تغیض اور کینہ کے نکا لنے سے رض ہے اور وہ پاکستان کو تباہ کرنا زیادہ پسند کرتا ہے بہ نسبت اس کے کہ اسے کوئی احمد کیا
۴۹ نہ ندہ نظر آئے اور ایسا عنصر جھوٹ، دھوکے اور فریب سے ہرگز پر ہیز نہیں کرتا جو افسر شرافت اور انصاف اور پاکستان کی محبت سے معاملہ کرنا چاہتے ہیں وہ بھی ایسے موقع پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ خواہ ایسی رپورٹوں پر کارروائی نہ کریں مگر ایسے جھوٹوں کو کوئی سزا بھی نہ دیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر انہوں نے ایسا کیا تو یہ سوال انتظامی نہیں رہے گا بلکہ سیاسی ہو جائے گا اور انہیں اپنا دامن چھڑوانا مشکل ہو جائے گا پس ان کا انصاف نصف راستہ تک پھیل کر کھڑا ہو جاتا ہے یا اے مسلم لیگی حکومت کی طرف سے ملک دشمن عناصر اوکاڑہ اور اس کے ماحول کی آتشین فضا کی پشت پناہی کے خوفناک نتائے گناہ انار ار اکتوبر شاہ کے شروع میں رونما ہونے شروع ہو گئے جبکہ مغربی پاکستان میں ہر طرف جماعت احمدیہ کی مخالفت کا طوفان اُٹھ کھڑا ہوا اور خصوصا اوکاڑہ اور اس کے گردو نواح میں احمدیوں کے قتل عام کے علم گھلاو حفظ کئے جانے لگے چنانچہ افضل کے نامہ نگار نے مرکزی احمدیت میں یہ اطلاع ١٣٠٣٩ دی که یکم اکتوبر کو احراریوں نے بعض احمدیوں کا جب کہ وہ کسی چک کی طرف سجارہے تھے جلوس بنا کر ان کا تعاقب کیا.سات افراد کے منہ پر سیاہی کی، ان پر مٹی اور کھڑ بھیان کا اور اسمیں دھنگے دیتے ہوئے اوکاڑہ ریلوے سٹیشن پر لے آئے چند پولیس والوں نے ان کو بچانا چاہا تو شرپسند شفر نے ان تانگوں پر بھی حملہ کر دیا جن میں احمدی اور پولیس کانسٹیبل سوار تھے.اس کے بعد احراریوں نے شہر بھر میں جلوس نکالا.احمدیوں کو گالیاں دیں اور پولیس والوں پہ احمدیوں کی پاسداری کا الزام لگا کر انہیں کو سا.یہ سیلوس دیر تک مسجد کے سامنے ناچتا رہا.اسی شام کو چوہدری غلام قادر صاحب نمبردار پریذیڈنٹ جاری کیہ اوکاڑہ اور شیخ غلام قادر صاحب پر احراریوں نے حملہ کیا اور ریلوے لائن کے نزدیک سخت پتھر او کیا جن سے دونوں احمدی مجروح ہو گئے.بے" اس فتنہ انگیزی نے چند دنوں میں ہی کیا صورت پکڑ لی؟ اس کا نقشہ اوکاڑہ کے ایک غیر احمدی دوست جناب محمد عابد صاحب بعد الندھری نے انہی دنوں درج ذیل الفاظ میں کھینچا.الفضل در جولائی ۱۹۵۰ ص ۴۱۳ الفضل ٦ اكتوبر ائر : ا
۱۵۰ ہفتہ عشرہ کے عرصہ تک بعض ناعاقبت از پیش اور خود غرض لیڈروں کی غلط لیڈرشپ کی بناء پر ایک طوفان بدتمیزی بر پا رہا.اور احراری غنڈوں نے اسلام کے نام پر اخلاق سوزن نہیں نہیں.بلکہ اسلام سوز حرکات کا ارتکاب کیا مگر ان کے تعلق کچھ تحریر کرنے سے قبل میں یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں نہ مرزائی ہوں اور نہ ہی مرزائیت سے مجھے کوئی لگاؤ ہے بلکہ ایک حقیقت نگار کی حیثیت سے جو کچھ میری ان آنکھوں نے اس غنڈہ گردی کے دوران میں دیکھا ئیں بقول کسے قلم کی عصمت و ان میں کی عصمت سے کم بجھتے ہوئے اس کا تفصیلی جائزہ لوں گا یا ان ابتدائی الفاظ کے بعد لکھا :- " یکم اکتوبر حقیقت یہ ہے کہ اکتوبر کی ٹیم کو جبکہ چند مرزائی مبلغ اوکاڑہ سے دو اڑھائی میل دور واقع ایک دیہہ چک ، میں بغرض تبلیغ روانہ ہوئے تو شہر سے ۲۰، ۲۵ غنڈے ان کے پیچھے ہو لئے اور وہاں ان کی تمام مساعی کوناکام بناتے رہے اور واپسی پر راستہ میں کوٹ نہال سنگھ کے قریب ان بیچاروں کے منہ سیاہ کر کے ان کا تمسخر اڑاتے ہوئے شہر کی طرف لے آئے جہاں کمیشن کے قریب شہر کے امن کو خاک میں ملانے والے بعض دیگر افراد نے بھی مرزائیت مردہ باد اور مرزائے قادیان مردہ باد و دیگر اسی قسم کے متک آمیز نعرے لگائے اور مرزائی مبلغین پر پتھراؤ کیا.اس شور و غوغا کو شنکر پولیس وہاں پہنچ گئی اور مرزائی مبلغین کو اپنی حفاظت میں لے لیا مگر جب پولیس کے تانگہ پر غنڈہ عصر نے حملہ کر دیا تومجبوراً پولیس نے آٹھ نو حملہ آوروں کو زیر دفعہ 1 گرفتار کر لیا.ان گرفتاریوں کے فوراً ہی بعد شہر میں زبر دستی پڑتال کروادی گئی مگر حقایم بالا نے نہایت ہوشمندی اور ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے گرفتار شدگان کو رہ کر دیا اور اس طرح شہر میں فرقد اریت کی سلگتی ہوئی آگ کو کسی حد تک ٹھنڈا کر دیا.۲ اکتوبر :- یہ دوسرادن بخیر و عافیت گزرگیا اور اگرچہ اس دن بظاہر امن رہا اور کسی قسم کا کوئی ناگوار واقعہ پیش نہ آیا مگر اس حقیقت کو کسی صورت جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ کشیدگی اور کھچاؤ اس دن بھی کسی حد تک پایا جاتا تھا.۱۳ اکتوبر : ۳ اکتوبر کا دن بھی ۲ بجے تک امن وامان کے ساتھ گذر گیا مگر ۲ بجے کے قریب
جبکہ پولیس نے نقیض امین کے اندیشہ میں حافظ فضل الہی سابق صدر ومن کا نفرنس کو گرفتار کر لیا تو شہر کی فضا پھر سے مکدر ہوگئی اور کوئی تین بیان ہے کے قریب ہے.اکتوبر کو عام ہڑتال اور رات کو مصنوعی چوک اوکاڑہ میں ایک جلسہ عام کا اعلان کر دیا.جلسہ میں مقررین نے نہایت اشتعال انگیز اور تهدید آمیز تقریریں کر کے عوام کے جذبات کو کافی حد تک اکسایا اور یہی اکساہٹ دوسرے دن یعنی ہر اکتوبر کو ایک مرزائی کے قتل پر منتج ہوئی.ہے.اکتوبر:.اس دن کے لئے عام ہڑتال کا اعلان کیا گیا تھا چنا نچہ صبح سے ہی غنڈوں اور ناہم چھوٹے چھوٹے بچوں کے گروہ در گروہ بازاروں کا چکر کاٹنے لگے اور اگر کسی غریب خوانچہ فروش نے غلطی سے یا پھر اپنے بچوں کی بھوک اور افلاس سے تنگ آکر کوئی شے فروخت کرنا چاہی تو اِن غنڈوں نے اس غریب کی ساری پونجی کولوٹ لیا اور جو کسی کے ہاتھ لگالے کر چلتا بنا.اسی پر اکتفا نہیں بلکہ سارا دن یہ لوگ بازاروں اور گلیوں میں چھوٹے چھوٹے جلوسوں کی شکل میں آوارہ گردی کرتے رہے اور مرزائیوں کے خلاف نہایت اشتعال انگیز نعرے لگاتے رہے یہاں تک کہ مسجد احمدیہ کے دروازے پر جا کہ ان لوگوں نے نہایت تهدید آمیز الفاظ استعمال کئے اور مسجد کے صحن میں گندگی تک پھینکنے سے گریز نہ کیا.شام کے تین بجے ایک جلوس عام کا اعلان کیا گیا تھا مگر جناب سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس کی بر وقت مداخلت اور پچک غم میں ایک مرزائی کے قتل نے جلوس نکالنے کی جرات نہ ہونے دی.اسی دن شام کونگری سے سپیشل پولیس فورس منگوائی گئی اور شہر کے تمام اہم ناکوں پر پولیس کی چوکیاں بیٹھا دی گئیں سلام اس رپورٹ میں جس شہید احمدیت کی طرف اشارہ ماسٹر غلام محمد صاحب کا واقعہ شہادت کیا گیا ہے وہ ماسٹر غلام محمد صاحب تھے جو چک شہر میں دیہاتی سکول کے ٹیچر تھے اور قسیم ملک سے قبل جماعت احمد یہ تھیلیاں ضلع ہوشیار پور میں سیکرٹری مال تھے ہے رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۹۵ م میں آپ کے واقعہ شہادت کے حالات میں لکھا له الفضل ار اكتوبر الدمن الفضل اما کتوبرت انه من *
ہے :- ۱۵۲ یکم اکتوبین ائر کو ایک احمدی مولوی نور دین سات دوسرے احمدیوں کے ساتھ تبلیغی مہم پر پیک میں گیا.یہاں کے غیر جدیوں نے ان مبلغوں کو گھیر لیا پھر ان پر کیچڑ پھینکی.ان کے چہروں پر کالک کی اور گندے پانی میں سے انہیں ہنگا کر ریلوے سٹیشن اوکاڑہ تک پہنچایا.پولیس میں اس واقعہ کی رپورٹ لکھائی گئی جس پر ایک شخص مولوی فضل الہی امیر دفعات ۱۴۷ ۳۲۲۰ زیر حراست لے لیا گیا.اس گرفتار ہی کے خلاف احتجاج کے طور پر اوکاڑہ میں دکانیں بند ہوگئیں اور ہر اکتوبر کی رات کو ایک جلسہ عام ہوا جس میں ہزاروں اشخاص شامل ہوئے بہت سے مقررین نے تقریریں کیں جو بے انتہا اشتعال انگیز تھیں.ایک مقرر نے جلسے کے نوجوان حاضرین سے اپیل کی کہ مرزائی فتنہ سے قوم کو نجات دلاؤ.دوسرے دن محمد اشرف نے جو تقریریں سن چکا تھا ایک چھرے سے مسلح ہو کر غلام حمد کا تعاقب کیا جبکہ وہ اوکاڑہ جارہا تھا مباشرت نے غلام محمد کو ایک نہر کے قریب جالیا اور اس کے چھرا گھونپ دیا.غلام محمد کا زخم کاری تھا چنانچہ وہ تھانے کو لے جانے سے پہلے ہی مر گیا محمد اشرف ایک مجسٹریٹ کی عدالت میں پیشی کیا گیا جہاں اس نے یہ بیان دیا :- پہلے یہ کہا کہ تمبر میں پھر کہا کہ اکتوبر کی تیسری تاریخ کو اوکاڑہ میں ایک جلسہ ہوا جس میں رضوان بشیر احمد، مولوی ضیاء الدین، قاضی عبد الرحمن ، چو ہد ری محبوب عالم اور صدر جلسہ نے جو غالباً قاضی تھے پر جوش تقریریں کی جن میں بتایا کہ مرزائی نبی کریم صل اللہ علہ وسلم کو گالیاں دیتے ہیں ہم حضور کی عظمت کے لئے اپنی جانیں دے دیں گے.تقریر میں یہ کہا گیا کہ جولوگ ان کو (احمدیوں کو پہچان کر نابود کرنے پر آمادہ ہیں وہ اپنے ہاتھ اٹھائیں.جلسے میں علم دین غازی کا ذکر بھی کیا گیا اور اس کی سرگذشت سنائی گئی میں نے اس سے پہلے بھی علم دین غازی کی سرگذشت پڑھی تھی اور ایک دفعہ اس کے مقبرے پر بھی گیا تھا.اس کے بعد جلس ختم ہو گیا ئیں گھر واپس آگیا.تقریروں کے الفاظ رات بھر میرے دماغ میں گونجتے رہے صبح اٹھ کر یں سائیکل پر یک جا گیا جہاں ماسٹر تفریکی چھٹی پر اپنے گھر گیا ہوا تھا.ایک چک میں ٹھرا رہا تا وقتیکہ وہ سکول میں نہ آ گیا.گاؤں کے چوک کی ایک دکان پر میں نے ایک سگریٹ پیا میجب یک باہر نکالا ما سٹر سکول میں نہ تھا مجھے یقین تھا کہ ماسٹر مرزائی ہے.اور میں اسی نیت سے آیا تھا پک میں بکس نے ایک سید سے پوچھا کہ آیا حضور نبی کریم کے زمانے میں ہمارے بچوں کو پڑھانے پر کوئی کا فر مقرر تھا ؟ اس ماسٹر کو کیا حق ہے کہ وہ ہمارے پچک میں تقسیم ہے.زمین الاٹ کرا رکھی ہے اور بچوں کو پڑھا رہا ہے.اس کے بعد یکین نے ایک لڑکے سے
۱۵۳ پوچھا کہ ماسٹر کہاں گیا ہے ؟ اس نے بتایا کہ وہ چیک مینیجر کو گیا ہے کہیں نے پوچھا سا ئیکل پر یا پیدل؟ جواب ملا سائیکل پر میرے پاس اُس وقت ایک چھرا تھا میں نے اس کو دو میل کے فاصلے پر جالیا.وہاں میں نے اپنے سائیکل سے اتر کر اس کے سائیکل کو دھنگا دیا اور اسے گرا لیا لیکن نئے ماسٹر کو چھ سے سے ایک ضرب لگائی اور وہ بھاگ کر چھوٹی نہر کے پانی میں گھس گیا.چھرا ٹھیک نہ رہا ئیں نے اسے درست کیا اور پھر پانی میں اور ضربیں لگائیں لیکن اس کو مار ہی رہا تھا کہ ادھر ادھر سے کچھ لوگ جمع ہو گئے اور انہوں نے مجھے روکا ئیں نے ان سے کہا کہ مجھے نہ ریکو میں ایک کافر کو قتل کر رہا ہوں.ایک اور اجنبی شخص نے مجھ سے سوالات کئے میں نے اس کو بھی یہی بتا یا کہ میں نے ایک کا فرکو ہلاک کر دیا ہے.پھر یکی اوکاڑہ چلا گیا نے ناعاقبت اندیش اور خود غرض لیڈروں کے اس ظلم وستم کے پنجاب پولیس کا جانبدارانہ رویہ خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کی بجائے پنجاب پر این خصوصاً اور تسنیم کی معذرت آنان در تسنیم را جور نے اصل حقائق کو مسخ شدہ صورت آزادی اور لاہور ") ہیں نہایت درہمہ رنگ آمیزی سے شائع کیا جس پر اخبار الفضل نے سختی سے نوٹس لیا اور بالآخر ادارہ سنیم کو حسب ذیل الفاظ میں معذرت شائع کرنا پڑی :- لاہور ،ا.اکتوبی قیم جماعت اسلامی ضلع منٹگمری اطلاع دیتے ہیں کہ تسنیم کے نامہ نگار اوکاڑہ نے قادیانیوں کے متعلق جو خبریں بھیجی ہیں وہ جذباتی اور خلافت واقعہ ہیں اس لئے نامہ نگار مذکور کو تسنیم کی نامہ نگاری سے علیحدہ کر دیا.ادارہ کو ان خبروں پر افسوس ہے جو نا مہ نگارہ مذکور نے قادیانیوں کی اشتعال انگیزی کے متعلق بھی ہیں تسنیم میں عورت اور مسلک کا داعی ہے اس کا تقاضا ہے کہ ہمارے کالموں میں دانستہ کوئی ایسی چیز شائع ہو جو خلاف واقعہ ہوا کہ افسوس تسنیم کے علاوہ کسی اور اخبار کو اس اخلاقی جرات کی توفیق نہ ہوسکی حالانکہ محمد عابد صاحب جالندھری کے الفاظ میں ان اخبارات نے یا پھر ان کے نامہ نگاروں نے حق و صداقت کا منہ چڑانے ہیں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا تا ہے ے رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۲۱۹۵۳ ۲۵/۲۲ به مجلس احرار کا ہفت روزہ ترجمان و اعت اسلامی کا روزنامہ 2 حوالہ روز نام المحصل - اکتوبر ۱۹ هم به له الفضل 1 اکتوبر 2190
۱۵۴ جہاں تک صوبہ سرسید کا تعلق ہے اس کے اخبارات نے انتہائی اخبار حلیم (پشاور) کا پُرز مرنوٹ غیر جانبدارانہ روش اختیار کی بلکہ پشاور کے ہفت روزہ اور حکومت سے مطالبہ تنظیم نے اپنی ۲۶ اکتوبر زائد کی اشاعت میں احرار کی پاکستان دشمن سرگرمیاں کے زیر عنوان مندرجہ ذیل پر زور نوٹ پر واشاعت کیا :- کسے معلوم نہیں کہ مجلس احرار بھی کانگریس کی طرح مسلمانوں کے محبوب مطالبہ پاکستان کی روز اقول سے شدید مخالفت کرتی رہی ہے.پاکستان کو پلیدستان اور قائد اعظم کو اول درجہ کا فرقہ پرست کہنے والی اس نام نہاد اور پاکستان دشمن جماعت نے قیام پاکستان کے بعد ملک کے قومی اتحاد کے شیرازہ کو بکھیرنے کے لئے پنجاب میں مذہبی تبلیغ کے نام سے گذشتہ عرصہ میں جو کا نفرنسیں اور جلسے کئے ان احرار مبلغوں نے نہ صرف شیعہ سنی مناقشات کو ہوا دی بلکہ جماعت احمدیہ کے خلاف ہلاکت آفرین زہر اگلا.اس کی تفصیل ہم کسی گذشتہ اشاعت میں دے چکے ہیں.احرار نے اپنے یہ تبلیغی جلسے پنجاب کے ان اہم مرکزی مقامات اور دیہات میں کئے جہاں کے نوجوان پاکستانی افواج میں ملک و ملت کی خدمت کر رہے ہیں اور آئندہ بھی یہی علاقے ملک کی خدمت کے لئے نوجوانوں کی بھرتی دے سکتے ہیں پنجاب کے سادہ لوح دیہاتیوں میں پاکستان کی فوجی قوت اور قومی اتحاد کو کمزور کرنے کے لئے مرزائیت اور احمدیت کو کا فر اور خارج از اسلام بے دین فرقہ ظاہر کر کے عوام سے کہا گیا کہ تمہیں یہ کیا معلوم ہے کہ راس وقت پاکستان کے جتنے اہم سرکاری شعبے ہیں ان میں شیعوں اور احمدیوں کی حکمرانی ہے اور خاص کر پاکستان کی طرف سے سر ظفر اللہ کا بطور وزیر خارجہ تقر مسلمانوں کے لئے مذہبی اوریکی نقطۂ نظر سے شدید خطرہ و نقصان کا باعث ہے.اسلام کسی حالت اور کسی صورت میں احمدیوں سے اشتراک عمل کی اجازت نہیں دیتا.لہذا مسلمانو ! احمدیوں کی خفیہ ریشہ دوانیوں اور سر ظفر اللہ کے ہندوؤں سے کشمیر کے سودا کے ساز باز و غیر مسلم دشمن حرکات سے بر وقت خبر دار رہو.اگر سر ظفر اللہ اسی طرح وزارت خارجہ کے اہم عہدہ پر فائز رہا تو بس میں سمجھو کہ تمہارا اسلام اور کلچر وغیرہ سب مٹ جائیں گے حالانکہ سر ظفر اللہ کی سلامتی کونسل میں نہ صرف پاکستان بلکہ تمام اسلامی ممالک کے مسائل سے گہری، بے لوث اور ٹھوس تر جانی کے باعث تمام عرب ممالک نسر ظفر اللہ پر اپنے اعتماد کا اظہار کر چکے ہیں اور مسلم ممالک کے حقوق
140 کی نگہداشت کے لئے اقوام متحدہ کے ادارہ میں سر ظفراللہ کی موجودگی کو اسلامی ممالک کی خوش قسمتی سے تعبیر کیا جا رہا ہے.نیز پاکستان کے قیام اور بعد میں پاکستان کے استحکام کے لئے مسلم جماعت احمدیہ کو ہو بے مثال اور نا قابل فراموش قربانی ادا کرنی پڑی ہے اس کے پیش نظر چاہیئے تو یہ تھا کہ اس جماعت کی جو اپنا ناموس اور گھر بار اور کروڑوں روپیہ کی جائداد اور اپنا مرکز چھوڑ کر پاکستان بھی تھی...قدر کی جاتی...یقیناً پاکستان کے لئے اس جماعت کی قربانیاں باقی مسلمانان ہند کے مقابلہ میں اگر زیادہ قابل قدر نہیں تو اس درجہ حقیر اور خلاف انسانیت سلوک کے قابل نہیں کہ احرار کی خفتہ انگیز تقاریر سے متاثر ہو کہ اوکاڑہ میں وہاں کے غنڈوں کے ہاتھوں نہ صرف کہ چندہ احمدیوں کے منہ کالے کئے گئے بلکہ مسجد احمدیہ میں گندگی تک پھینکی گئی اور غنڈوں کا انتقامی جوش ایک بے گناہ احمدی مسلمان کمی شہادت کا باعث بھی بنا.ابھی اوکاڑہ کی فضا احمدیوں کے مزید کشت و خون کے لئے مکرر بیان کی جاتی ہے.گو ارمنی طور پر وہاں پولیس کی چوکیاں بٹھا کر امن قائم کر دیا گیا ہے.ضرورت ہے کہ آنریل ڈاکٹر لیاقت علی خان صاحب وزیر اعظم پاکستان اپنی اولین توجہ اوکاڑہ کے تازہ سانحہ پر دین اور وہابیوں، شیعوں اور احمدیوں کو کفر و الحاد کی سندیں دینے والی پاکستان دشمن ا را بر جماعت کی اس قسم کی فتنہ انگیز تقریروں پر کڑی پابندی عائد کی جائے اور سانحہ اوکاڑہ کا اصل پس منظر معلوم کیا جائے کہ آیا وہ کونسے اسباب تھے کہ پورے چار دن اوکاڑہ کے غنڈوں نے امریہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر وہاں کے احمدیوں پر عرصہ حیات تنگ کئے رکھا.چونکہ پاکستان کا قیام ایک جمہوری اور قومی ریاست کی بنیاد پر عمل میں لایا گیا ہے.اس لحاظ سے ہمارا مطالبہ ہے کہ ہر پاکستانی کو ملکی قانون کے اندر رہتے ہوئے پوری مذہبی آزادی حاصل ہونی چاہئیے.سانحہ اوکاڑہ کے اصل محرک جو لوگ ہیں انہوں نے اسلامی اصولوں کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنی پاکستان دشمنی کا ثبوت دیا ہے اور ان کے اس فعل سے پاکستان کے قومی اتحاد کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا ہے حکومت کا فرض ہے کہ ایسی مجرمانہ اور غیر ذمہ دارانہ حرکات کا آئندہ کے لئے مکمل سد باب کرے اور پاکستان میں رہنے والی تمام ایسی نام نہاد مذہبی جماعتوں کی تقریر و تحریر پر پابندی عائد کی بجائی ضروری ہے جو فرقہ وارانہ جذبات کی انگیخت کا باعث ہوں "
167 حضرت مصلح موعود کی طرف جماعت احدیہ کو شہید احدیت اسر الامام صاحب کے بلاناک واقعہ شہادت پر ستر مصلح موسی والے ۶ - اخبار اپنے انار و کافی انقلاب برا کرنے کی تلقین کو ای عارفانہ خطبہ ارشاد فرمایا جس میں حضور نے جماعت پر واضح کیاکہ معیوں کی جماعتوں کو پتھر، کنٹر اور کانٹوں پر سے ہی گزرنا پڑ تا ہے مگر یا درکھو جب تم خدا کے لئے اپنے آپ کو بدل دو گے تو خدا تمہارے لئے ساری دنیا کو بدل دے گا.چنانچہ فرمایا : آج میں اختصار کے ساتھ اس امر کی طرف جماعت کو خصوصا جماعت کے نوجوانوں کو تو جہ دلاتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کی مخالفت بہت سخت ہوتی جاتی ہے.وہ لوگ جو کل تک ہماری جماعت کی تعریف ہیں رطب اللسان تھے آج ان کے خون کے پیاسے نظر آ رہے ہیں.آپ لوگوں نے اخبار میں اوکاڑہ کے واقع پڑھتے ہوں گے کہ وہاں ہمارے ایک دوست کو شہید کر دیا گیا ہے.اب پردہ ڈالنے کے لئے یہ کہا جارہا ہے کہ قتل کرنے والے کی مخالفت کی بناء کوئی لین دین کا جھگڑا تھا مگر ساتھ ہی یہ تسلیم کیا جا رہا ہے کہ وہ جھگڑا دو سال کا پرانا تھا.حالانکہ اگر یہ بات درست بھی تسلیم کر لی جانے کہ دو سال پہلے کا کوئی جھگڑا تھا تب بھی اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس وقت اس کا قتل کرنا در حقیقت ان مولویوں کی انگیخت کا نتیجہ تھا جنہوں نے ہماری جماعت کے خلاف تقریریں کیں.ورنہ اگر صرف یہی جھگڑا اختلاف کا باعث تھا تو اس نے گذشتہ دو سال میں یہ فعل کیوں نہ کیا.اگر ایک شخص دیکھے کہ کوئی اُن کے بچے کو پیٹ رہا ہے اور وہ اُس وقت خاموش رہے لیکن دو سال کے بعد مارنے والے کو پیٹنے لگے اور کہے کہ میں اس لئے پیٹ رہا ہوں کہ اس نے آج سے دو سال پہلے میرے بچہ کو مارا تھا تو کوئی شخص اس کی بات کو تسلیم کریگا ی شخص کہے گا کہ اب اتنا عرصہ گزر بھانے کے بعد تمہارا پیٹینا اگر اشتعال کی وجہ سے ہے تب بھی اس اشتعال کو کسی اور چیز کے تازہ کر دیا ہے.اسی طرح اس استعمال کو نہ زندہ کرنے والا، اس اشتعال کو تازہ کرنے والا اور اس اشتعال کو اُبھارنے والا مولویوں کا لوگوں کو جوش دلانا اور ان کا احمدیوں کے خلاف تقریریں کرنا تھا، اوریہ ایک انگہ کا مال نہیں ہر جگہ یہی ہو رہا ہے.ان حالات میں پہلی نصیحت تو یکن جماعت کے دوستوں کو یہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ ان امور کو ابتا، بشر نہ سمجھیں بلکہ دینی ترقی کا ذریعہ سمجھیں.یہ بزدلوں اور بے اینا دل کا کام ہوتا ہے کہ وہ مصائب کے آنے پر گھبرا جاتے ہیں.
106 قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ کے ابتداء میں ہی منافق کی یہ علامت بیان فرمائی ہے کہ جب کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ ٹھہر جاتا ہے اور جب آرام اور راحت کا وقت آتا ہے تو سہیل پڑتا ہے.مومن وہ ہوتا ہے جو مصائب کے وقت اور بھی زیادہ مضبوط ہو جاتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ احزاب کے موقع پر جب مسلمانوں سے کہا گیا کہ لوگ اکٹھے ہو رہے ہیں اور وہ تمہیں مارنے کی تشکر میں ہیں تو انہوں نے کہا یہ تو ہمارے ایمانوں کو بڑھانے والی بات ہے کیونکہ ہمارے خدا نے پہلے سے ان واقعات کی خبر د سے دیکھی تھی.اس سے ہمارے ایمان متزلزل کیوں ہوں گے وہ تو او ریہی بڑھیں گے اور ترقی کریں گے پس ایسے امور سے مومنوں کو یہ مجھنا چاہئیے کہ اللہ تعالیٰ ہمار سے مدارج کو بلند کرنے کے سامان پیدا کر رہا ہے ہم میں سے کون ہے جس نے ایک دن مرنا نہیں مگر ایک مورت کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ طبعی موت ہوتی ہے اور دوسری موت کے متعلق فرماتا ہے کہ ایسے مرنے والے ہمیشہ سے زندہ ہیں بلکہ فرماتا ہے کہ تم ان کو مردہ مت کہو وہ زندہ ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُن کو رزق مل رہا ہے یعنی اُن کی روحانی ترقیات کے سامان متواتر ہوتے پہلے جائیں گے.دشمن تو یہی دیکھنا چاہتا ہے کہ وہ تم کو مٹا دے اور وہ تم کو غمگین بنا دے مگر جب وہ دیکھتا ہے کہ تمہیں مارا جاتا ہے تو تم اور بھی زیادہ دلیر ہو جاتے ہو، تم اور بھی زیادہ خوش ہو جاتے ہو اور کہتے ہو کہ خدا نے ہماری ترقی کے کیسے سامان پیدا کئے ہیں تو اس کا حوصلہ پست ہو جاتا ہے " ور نیز فرمایا :- حضرت مسیح موعود علیہ السلام پہلے ایک تھے پھر ایک سے دو ہوئے ، دو سے چار ہوئے، بچار سے آٹھ ہوئے ، آٹھے سے سولہ ہوئے ، سولہ سے نہیں ہوئے ، بتیس سے چونسٹھ ہوئے ، چونسٹھ سے ایک ہو اٹھائیس ہوئے اور اسی طرح ہم بڑھتے پہلے گئے کب وہ وقت آیا کہ ہمارا دشمن کمزور تھا اور ہم طاقت ور تھے.ہماری تاریخ میں کوئی وقت ہم پر ایسا نہیں آیا کہ دشمن کمزور ہو اور ہم طاقتور ہوں، یا کرہے وہ وقت آیا کہ ہمارے پاس سامان تھے اور دشمن کے پاس سامان نہیں تھے ہمیشہ ہمارے دشمن کے پاس ہی سامان تھے اور ہمارے پاس کوئی سامان نہیں تھے یا کب وہ وقت آیا کہ دشمن نے ہمیں امن دینے کا ارادہ کیا ہو اور اس کے اس ارادہ کی وجہ سے ہم بچے ہوں ہمیشہ ہی دشمن نے ہمارے قتل کے ولے دیئے لیکن ہمیشہ ہی خدا نے ہم کو بچایا اور خدا تعالٰی نے ہم کو بڑھایا پس وہ کونسی نئی چیز ہے میں سے نہ گھبراتے ہو
۱۵۸ یا کو نسی نئی بات ہے جو تمہیں تشویش میں ڈالتی ہے.کیا کوئی نبی دُنیا میں ایسا آیا ہے جس کی جماعت نے پھولوں کی سی سے گزر کر کامیابی حاصل کی ہو پتھر اور کنکر اور کانٹے ہی ہیں جن پر سے نبیوں کی جماعتوں کو گزرنا پڑا اور انہی پر سے تم کو بھی گزرنا پڑے گا.جس طرح ایک بکری کے بچہ کے پیر میں جب کانٹا پیچھے جاتا ہے تو گلہ بان اس کو اپنی گود میں اٹھا لیتا ہے اسی طرح خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کرتے ہوئے اگر تمہارے پاؤں میں کانٹا بھی پیچھے گا تو ایک غریب آجڑی نہیں، ایک کمزور گلہ بان نہیں بلکہ زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا خدا تم کو اپنی گود میں اٹھا لے گا لیکن اگر تم ڈرتے ہو تو تم اپنے ایمان میں کمزور ہو اور ان نتائج کے دیکھنے کے اہل نہیں جو انبیاء کی جماعتیں دیکھتی چلی آئی ہیں.تم اپنی مستیوں اور غفلتوں کو دور کرو.بایوسیوں کو اپنے قریب بھی نہ آنے دور تمہیں خدا تعالیٰ نے شیر بنایا ہے تم کیوں یہ سمجھتے ہو کہ تم میریاں ہو.جدھر تمہاری باگیں اٹھیں گی ادھر سے ہی اسلام کے دشمن بھاگنے شروع ہو جائیں گے اور بعد ھو تمہاری نظریں اُٹھیں گی ادھر ہی صداقت کے دشمن گرنے شروع ہو جائیں گے.بے شک خدا تعالیٰ کے دین کے قدیم کے لئے تم ماریں بھی کھاؤ گے.تم قتل بھی کئے جاؤ گے تمہارے گھر بھی بھلائے جائیں گئے بے تمہا را قدم ہمیشہ آگے ہی آگے بڑھتا چلا جائے گا اور کوئی طاقت تمہاری ترقی کو روک نہیں سکے گی.اٹلی شقت یہی ہے کہ اس کی جماعتیں مرتی بھی ہیں، اس کی جماعتیں چلی بھی جاتی ہیں، اور اس کی جما معنی بالا پر دنیوی لقمان بھی اٹھاتی ہیں مگر ان کا قدم ہمیشہ ترقی کی طرف بڑھتا ہے.اور یہی وہ معجزہ ہوتا ہے جو سنگدل سے سنگدل دشمن کو بھی ان کے آگے جھکا دیتا ہے اور انہیں فتح اور کامیابی حاصل ہو جاتی ہے پس اپنے اندر ایسی تبدیلی پیدا کرور نمازوں پر زور دو.دعاؤں پر زور دو شب بیداری پر زور دور سردتر و نیران پر زور دو.دین کی خدمت پر زور د و تبلیغ پر زور دو اور اپنے اندر تبدیلی پیدا کر جب تم خدا کے لئے اپنے آپ کو بدل لو گے تو بند تمہارے لئے ساری دنیا کو بدل دے گا اسے راولپنڈی میں جو بڑی بد الدین ان کی شدت ا ا ر ا م م صاحب کی دردناک شہادت ماسٹر غلام محمد بڑا | کا زخم بالکل تازہ ہی تھا کہ صرف چند روز بعد جماعت احمدیہ راولپنڈی کے ایک سادہ مزاج اور خاموش طبع بزرگ اور صحابی چوہدری بدرالدین صاحب نے لدھیانوی گولی مار کر شہید کر دئے گئے.الفضل ١٠ اکتوبر ۹۵ ئه م تا مث :
۱۵۹ چوہدری صاحب موصوف شائر میں پیدا ہوئے تھے.ابتدائی تعلیم قادیان میں پائی.ایک روایت کے مطابق انہوں نے 1999ء کے لگ بھگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی.عرصہ دراز تک جماعت احمدیہ لدھیانہ کے سیکرٹری مال اور سیکرٹری امور عاصمہ رہے.آپ کو یہ بھی فخر ما حصل تھا کہ ایک بار حضرت امیر المؤمنين المصلح الموعود اور حضرت ام المومنین کالیر کوٹلہ تشریف لے جاتے ہوئے آپ کے مکان واقع سرائے نو انت تصل اسٹیشن لدھیانہ میں قیام فرما ہوئے تھے.فسادات 9 مہر میں آپ گوالمنڈی راولپنڈی میں پناہ گزین ہو گئے تھے.راولپنڈی میں احرار کا نفرنسوں نے سخت اشتعال پھیلا دیا تھا ، افخاد / اکتوبر ٹائر کو ساڑھے چھ بجے شام گوالمنڈی کے باغیچہ میں آرہے ا را تھے کہ فائر بریگیڈ کے پاس ایک شخص ولایت خان نے ان پر پیچھے سے فائر کیا اور گولی ان کی پشت کو چیرتی ہوئی پیٹ کی طرف سے نکل گئی لیہ اتفاق سے اس وقت ایک سب انسپکٹر پولیس نے جو کسی کام کے تعلق میں باہر سے راولپنڈی آئے ہوئے تھے قاتل کو گولی چلاتے دیکھ لیا اور اسے موقع پر ہی گرفتار کر کے اس کا پستول چھین لیا.اور جیسا کہ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۹۵۳لہ کے فاضل ججوں نے اپنی رپورٹ میں ذکر کیا ہے.عینی شاہدوں میں سے ایک نے جس پرسیشن جج اور ہائی کورٹ دونوں نے اعتبار کیا ہے ہ بتایا کہ جب جرم کو عین موقع پرگرفتار کیا گیا تو اس نے خود یہ اعتراف کیا تھا کہ کہیں نے بد دین کو الٹے ہلا کر کیا ہے کہ وہ احمدی ہے یا سے داری بدرالدین صاحب گولی لگنے سے گر پڑے.اُن کے ایک داماد ڈاکٹر میر محمد صاحب قریشی نے آپ کو فوراً اہم لیس کار کے ذریعہ سول ہسپتال پہنچایا مگر آپ جانبہ نہ ہو سکے اور اگلے دن گیارہ بجے کے قریبہ بہ اپنے حقیقی مولا کے پاس پہنچ گئے.فَانَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَامُونَ بیوی کے عالم میں بھی آپ کی زبان پرینونہ دمائیں اور کر طیبہ جاری رہائی آپ اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے مگر آپ نے اپنے پیچھے چونتیس افراد کا کنبہ بطور باز گار چھوڑا.چوہدری صاحب کی المناک شہادت پر اخبارات کی جھوٹی گمراہ کن او متضاد خبریں خواندی راولپنڈی کے تما غیر احمدی ۲۷ افضل - اضاء و ۱۶ نبوت ۳۲۹ و سه رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب سرش داد و ایڈیشن) سے تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ا نو ہزار جبار مضمون محمود احمد صاحب ناصر اسسٹنٹ انسپکٹر آن مرکس یو کے مایو
14- معززین و شرفاء نے قاتل کی اس ناجائز کاروائی کو نہایت ہی ظالمانہ فعل قرار دیا مگر اس دفعہ بھی پنجاب کے اخبارات نے جن میں احرار اور جماعت اسلامی کے ترجمان پیش پیش تھے اصل واقعہ شہادت کے متعلق بالکل غلط گراہ گن اور متعنا و اطلاعات شائع کیں حتی کہ تسنیم نے ۱۳ اکتو بربنانے کے پر پچہ میں یہ خبر وضع کی کہ رسول کریم کی شان میں گستاخی کرنے پر ایک قادیانی کو گولی کا نشانہ بنا دیا یہ اس کے بر فکری تسنیم مورخہ ۱۵ اکتوبر نشر ) میں ہی مجلس احرار را ولپنڈی کے سیکرٹری کی اطلاع چھپی کہ یرقتل روز نامہ تعمیر راولپنڈی کی اور اکتوبر کی شائع شدہ خبر کے مطابق ایک مکان کی وجہ سے جھگڑا ہونے پر ہوا ہے او پاکستان ٹائمز نے ۱۴.اکتوبر نشانہ کی اشاعت میں یہ بتا یا کہ کبوتر بازی کا جھگڑا تھا جو قتل پر منتج ہوا ہے.بھالانکہ قاتل نے واضح رنگ میں یہ اعتراف کیا تھا کہ میں نے ایک احمد ہی کو قتل کیا ہے کیونکہ علماء نے ہم کو یہی بتایا ہے کہ یہ لوگ اسلام کے دشمن اور واجب القتل ہیں.سید نا حضر مصلح موعود کی رو سے حضرت مصلح موعود نے اس واقعہ شہادت پر بھی ۱۳ اخاء کو خطبہ دیا جس میں اس بات پر جماعت کو تبلیغ حق کا خصوصی ارشاد اظہار افسوس کیا کہ جب ہم میں قادیان سے کار ہجرت کر کے آئے تو میں نے جماعت کو تبلیغ کی طرف توجہ دلائی تھی اور کہا تھا کہ لوگ آج تمہاری تعریفیں کرتے ہیں حتی کہ اخبار زمیندائن تک میں احمدی جماعت کی بہادری کی تعرینیں ہو رہی ہیں لیکن ان عارضی تعریفوں پر مت بھاؤ اور یاد رکھو کہ تم ان حالات میں سے گزرنے پر مجبور ہو کہ جن حالات میں سے پہلے نبیوں کی جاتیں گذری ہیں تمہیں خون بہانے پڑیں گے تمہیں جانیں دینی پڑیں گی.اس پر کچھ افراد اور جماعتوں نے کہا کہ آجکل جماعت کی بہت تعریف ہو رہی ہے.اس وقت تو تبلیغ بالکل نہیں کرنی چاہئیے.میں نے ان سے کہا کہ وہ دن آنے والے ہیں کہ یہی تعریف کرنے والے تمہیں گالیاں دیں گے اور تم اُس وقت کہو گے کہ آج ہماری بہت مخالفت ہے.اس لئے ہمیں تبلیغ نہیں کرنی چاہئے.گو ون تو تم تبلیغ سے اس لئے غافل ہو جاتے ہو کہ لوگ تمہاری تعریف کرتے ہیں اور کچھ دن تم تبلیغ سے اس لئے فاضل ہو جاتے ہو کہ لوگ تمہاری مخالفت کرتے ہیں.پھر وہ دار کب آئے گا جب تم تعب بلیغ کرو گے ؟ ة النمل سے ر نومبر ۹۵ نشر میشه ( مضمون چوہدر ی کریم اللہ صاحب ظفر میلین اسلام سپین؟
حضرت امیر المومنین نے ان درد بھرے کلمات کے بعد احباب جماعت کو نہایت پرجوش الفاظ میں دوبارہ تاکیدی حکم دیا کہ وہ پیغام احمدیت پہنچانے کی طرف پوری توجہ دیں چنانچہ فرمایا :- یاد رکھو یہ واقعات تمہیں بیدار کرنے کے لئے ہیں.تم کب سمجھو گے کہ تم ایک نامور کی جماعت ہو.تم کب سمجھو گے کہ تم دنیا سے نرالے ہو.تم کب مجھو گے کہ خدا تمہارے خون کے قطروں سے دنیا کی کھیتیوں کو نئے سرے سے سرسبزو شاداب کرنا چاہتا ہے.جب تک تم یہ نہیں سمجھو گے نہخدا تعالیٰ کی مد د تمہارے پاس آئے گی اور نہ تم ترقی کا منہ دیکھ سکو گے.تم مت جو کہ تبلیغ کے نتیجہ میں بہت کم لوگ سلسلہ میں داخل ہوتے ہیں.محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ کے نتیجہ میں بعض کے نزدیک مکہ میں صرف اتنی اور بعض کے نز دیک تین سو آدمی اسلام میں داخل ہوئے تھے.گویا تیرہ سال کی تبلیغ سے ان دونوں میں سے جو تعداد بھی سمجھ لو انٹی سمجھو یا تین سو مجھو صرف اتنے لوگ ہی اسلام میں داخل ہوئے لیکن جب وقت آیا تو دو سال کے اندر اندر سارا عور مسلمان ہو گیا.اصل میں یہ چیز بطور امتحان کے ہوتی ہے تبلیغ خدا اس لئے کرواتا ہے تا احد میں تم خوش ہو کر کہہ سکو کہ ہماری محنت اور ہماری قربانی اور ہماری جد وجہد اور ہماری تبلیغ کے نتیجہ میں دنیا مسلمان ہوئی ہے ورنہ دنیا کو مسلمان کرنا خدا کا کام ہے جس دن خدا یہ دیکھ لے گا کہ اسلام اور احدیت کے پھیلانے کے لئے جماعت نے ہرقسم کی قربانیاں کر لی ہیں.اس نے اپنے بالوں کو بھی قربان کر دیا ہے.اس نے اپنی بھانوں کو بھی قربان کر دیا ہے.اسنے اپنی عزتوں کو بھی قربان کر دیا ہے.اس نے اپنے رشتہ داروں کو بھی قربان کر دیا ہے.اس نے اپنے اوقات کو بھی قربان کر دیا ہے.اس نے اپنے وطنوں کو بھی قربان کر دیا ہے تو وہ اپنے فرشتوں سے کہے گا کہ جاؤ اور دنیا کے دلوں کو بدل دو اور لوگوں کو ان کے پاس کھینچ کر لے آؤ.اور جب خدا کی مدد آجائے تو لوگ اس کے سلسلہ میں داخل ہونے سے رک نہیں سکتے.وہ آپ فرماتا ہے اِذا جاء نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًالُ فَسَبَعْ بحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا ٥ جب خدا دیکھتا ہے کہ اس جماعت نے تبلیغ کا حق ادا کر دیا ہے تو وہ خود لوگوں کے دلوں کو بدل دیتا ہے ورنہ صرف تبلیغ سے لوگوں کے دلوں کو بدلا نہیں جاسکتا.اگر محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ سے ہی سلمان لوگ ہوتے تو صرف عرب کے لئے ہی شاید کئی صدیاں درکار ہوتیں.آپ کی تبلیغ سے ایک چھوٹی سی جماعت تیار ہوئی اور
۱۶۲ باقی لوگوں کے دلوں کو فرشتوں نے خود بدل ڈالا.پس اس بات کو عجیبہ نہ سمجھو کہ تمہاری تبلیغ کے نتیجہ میں دنیا کس طرح احمدی ہو جائے گی.تمہاری تبلیغ صرف تمہارے ایمان کو ثابت کرے گی تمہاری تبلیغ صرف تمہارے یقین کو ثابت کرے گی.تمہاری تبلیغ صرف تمہارے تعلق باللہ کو ثابت کرے گی.تمہاری تبلیغ صرف اس بات کو ثابت کرے گی کہ تم خدائی قانون کے معترف ہو جس دن یہ مقام تمہیں حاصل ہوگیا اور جس دن تم نے یہ ثابت کردیا کہ خدا کے حکم کی کمیل میں تم کسی سے نہیں ڈرتے اس دن وہ آپ ہی آپ لوگوں کے دلوں کو بدل دے گا جیسے رسول کریم صلے اللہ علیہ سلم نے اس زمانہ کے متعلق خبری دیتے ہوئے فرمایا کہ وہ دن ایسے ہوں گے کہ رات کو لوگ کا فرسوئیں گے اور صبح اٹھیں گے تو مسلمان ہوں گے پھر خدا خو د لوگوں کے دلوں کو بدلے گا اور وہ انہیں کھینچتے ہوئے تمہاری طرف لے آئے گا.دو ارب دنیا کے دلوں کو بدلنا تمہارے اختیار میں نہیں خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے.خدا تعالیٰ صرف یہ چاہتا ہے کہ تم اپنے دلوں کو بدل دو اور یہی تبلیغ کانتیجہ ہوتا ہے تبلیغ یہ نتیجہ پیدا نہیں کرتی کہ دنیا مسلمان ہو جائے تبلیغ پر تیجہ پیدا کرتی ہے کہ تم مسلمان ہوجاؤ.اگر تم تبیان نہیں کروگے تو اسکے منے یہ ہیں کہ تم ڈرتے ہو کہ لوگ ہمیں دُکھ دیں گے لیکن جب تمہارے اندر تبلیغ کا جوش پیدا ہو جاتا ہے اور وہ جوش ثابت کر دیتا ہے کہ تم لوگوں سے نہیں ڈرتے تو خدا تعالیٰ اپنے بندوں سے کہتا ہے مخالفت کا زمانہ ختم ہوگیا.کفر کا زمانہ جاتا رہا بجاؤ اور ہمارے مامور کی ڈیوڑھی پر سر رکھ دو کہ اس کے بغیر تمہاری نجات نہیں.اور جب خدا کہتا ہے تو دنیا آپ ہی آپ کبھی چلی آتی ہے.جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے ہمیں یہی نظارہ نظر آتا ہے عیسائیت کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ ہوا.ایک دن عیسائیوں کے پادری روم کے گڑھوں اور ان کی غاروں میں پناہ لئے بیٹھے تھے شام کے وقت ان کے قتل کے فتوے جاری تھے اور صبح کو تمام روم میں ڈھنڈورا پیٹا جارہا تھا کہ بادشاہ نے آج رات خواب میں دیکھا ہے کہ عیسائیت سچا مذہب ہے اس لئے روم کا بادشاہ عیسائی مذہب میں شامل ہوگیا ہے.آئندہ حکومت کا مذہب عیسائیت ہو گا.آج سے جو عیسائیوں کو دکھ دے گا یا ان کو قتل کرے گا وہ پکڑا جائے گا اور اسے سزادی جائے گی.شام کو وہ اس غم سے سوتے ہیں کہ یہ معلوم صبح تک ہم میں سے کون زندہ رہے اور کون مارا جائے.اور صبح کو اُٹھتے ہیں تو وہ دنیا کے بادشاہ بنے ہوئے ہوتے ہیں اور ان کا دشمن فاروں کی طرف بھاگ رہا ہوتا ہے.یہی حال محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوا.اور جو کچھ
۱۶۳ اب تک ہوتا رہا وہی تمہارے ساتھ ہو گا مگر مجھے افسوس ہے کہ میرے بار بار تو جہ دلانے کے باوجود تم اب تک اس بات کو نہیں سمجھ سکے تم ہی بتاؤ کہ کس ذریعہ سے یک تم کو سمجھاؤں اور وہ کونسا طریق ہے جس سے میں تم پر اس حقیقت کو واضح کروں.آخر تم حضرت عیسی علیہ اسلام کو راستباز سمجھتے ہو اور تم محمد سول اللہ صل للہ علیہ وسلم کوخداتعالی کا راستباز انسان سجھتے ہو، اور ان سے جو کچھ گزرا وہ تمہارے سامنے ہے لیکن اگر تم پھر بھی نہ کبھو توئیں کیا طریق عمل اختیار کروں.اگر تم اتنی وضاحت کے باوجود بھی نہ سمجھو تو پھر تمہیں سمجھانا میرے بس کی بات نہیں لیکں تو خدا تعالیٰ سے پھر یہی کہہ سکتا ہوں کہ میں نے جو کچھ کرنا تھا وہ کر چکا مگر یکیں انہیں یقین نہیں دلا سکا اب تو آپ ہی ان کو سمجھا کیونکہ ان کو سمجھانا میرے بس کی بات نہیں یا اے له الفضل ، از اکتوبر ته ما
۱۶۴ دوسرا باب حضر مصلی بود کاری یاراحمدریای عماد الشتری تک رماه نبوت ۳۲۹ بار نومبر ۱۹۹۵ احسان ۳۳ ارجون (۱۹۵) - فصل اوّل حضرت مصلح موعود کا سفر بخیر بھیرہ کی سرزمین تاریخ احمدیت میں بہت بڑی اہمیت رکھتی ہے کیونکہ اسی میں حضرت حاجی الحرمین حکیم الامت علیفہ مسیح الاول مولانا نورالدین جیسا نورانی اور پاک وجود پیدا ہوا سرسید نا حضرت میں موجود علیہ السلام نے ایک بار فرمایا کہ بھیرہ کو قادیان سے ایسی مناسبت ہے جیسے کہ مدینہ کو منکر سے کیونکہ پھیری سے ہم کو نصرت علی ہے یا ملے حضرت مصلح موعود ایک مدت سے بھیرہ تشریف لے بھانے کا ارادہ رکھتے تھے اور آپ نے نہ صرف اپنی حرم محترم اور حضرت خلیفہ اول نہ کی صاحبزادی حضرت امتہ الحی صاحبہ سے اُن کی زندگی میں اس کا وعدہ کیا تھا بلکہ ان کی وفات (۱۰- دسمبر ۱۹۲۳ م ) کے بعد احباب جماعت کے سامنے بھی اپنی اس دلی آرزو اور خواہش کا اظہار فرمایا چنانچہ سالانہ جلسہ الہ کے موقع پر اعلان فرمایا :- "یہ بھی ارادہ ہے کہ آنے والے سال میں اگر خدا تعالیٰ توفیق دے تو ہندوستان کے بڑے بڑے شہروں کا ٹور کروں پر ہما کے دوستوں کا خیال ہے کہ میرے جانے سے اچھی تبلیغ ہو سکتی ہے.بنگال ذکر حبیب ص ۱۶۲ ) مولفہ حضرت مفتی محمد صادق بها حب مبلغ اسلام امریکہ)
۱۶۵ کے دوستوں کی بھی مدت سے خواہش ہے کہ میں وہاں جاؤں.اگر یہ سفر تجویز ہو تو راستے کے بڑے بڑے شہروں میں بھی ٹھر سکتے ہیں.اور اگر یہ سفر کامیاب ہو تو اور علاقوں میں بھی جا سکتے ہیں.بھیرہ بچھانے کا ارادہ مدت سے ہے کیونکہ وہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کا وطن ہے یا لے حضور کی یہ مبارک خواہش ہجرت قادیان کے چوتھے سال ۲۶ ماه نبوت ۳۲۹۵ (مطابق ۲۶ نومبر شاہ) کو پایہ تکمیل کو پہنچی.اس روز حضور دارالہجرت ربوہ سے صبح سات بج کر دس منٹ پر بذریعہ کار بھیرہ کے لئے روانہ ہوئے.حضور کی قیادت میں جانے والا قافلہ پانچ کاروں اور ایک نہیں پر مشتمل تھا جس میں جماعت احمد یہ بھیرہ کے ممتاز احمدیوں کے علاوہ صدر انجمن احمدیہ کے ناظر ، تحریک تجدید کے وکلاء جامعہ احمدیہ، جامعتہ المبشرین، مدرسہ احمدیہ اور تعلیم الاسلام ہائی سکول کے محترم اساتذہ اور دیگر اکا بر سلسلہ و بزرگان جماعت تھے.علاوہ ازیں ایک لبس قبل ازیں ربوہ سے سید داؤ د احمد صاحب کی قیادت میں بھی روانہ ہوئی جس میں حضرت امیر المومنین بن کے صاجزادگان خاندان مهدی موعود کے دیگر ارکان اور بامعہ احمدیہ، جامعتہ المبشرین اور مدرسہ احمدیہ کے بعض طلباء شامل تھے.حضور معہ قافلہ آٹھ بجے کے قریب امیر جماعت ہائے احمد یہ سرگودہا مرزا عبد الحق صاحب ایڈووکیٹ کے ہاں پہنچے.مرزا صاحب موصوف نے حضور اور دیگر ارکان قافلہ کو چائے پیش کی.جس کے بعد حضورہ بحیرہ منٹ پر بھیرہ جالے کے لئے بھلوال کی طرف روانہ ہوئے لیکن ابھی ۲۵ میل کے قریب ہی سفر طے ہوا تھا کہ نہر کے ایک پل کے قریب ہی (جو سٹرک کو کاٹتی ہوئی گزر رہی تھی ملک صاحب خان صاحب نون معه رفقاء کار سٹرک پر راستہ روکے ہوئے کھڑے نظر آئے.اور حضور کی کار جونہی ٹھہری اپنے گاؤں فتح آباد چلنے کے لئے کچھ اس اخلاص و لجاجت کے ساتھ التجاء کی کہ حضور اس تاریخی سفر کی مبارک ساعتوں میں سے چند لمحے فتح آباد کے لئے قربان کر دینے پر آمادہ ہو گئے.یہاں سے قافلے کے دو حصے ہو گئے ہیں اور ایک کار تو سیدھی بھیرہ پہنچی اور تین کاریں منفتح آباد پہنچیں.یہاں حضور نے کوئی بیس منٹ کے قریب آرام فرمایا.بھیرہ والوں پر بھی اپنے وطن کی عظمت کا انکشاف شاید آج ہی ہوا تھا کہ ان کے وطن کی زمین الفضل ، جنوری ۱۹۳ مک کالم نکن
میں کیسا بے بہا نگینہ پیدا ہوا تھا جس کی آب و تاب دیکھنے کے لئے مصلح موعود جیسا جلیل القدر اور موعود خلیفہ راشد آرہا تھا مکرم فضل الرحمن صاحب بسمل ہی.اسے بی ٹی بھیرہ کے بیان کے مطابق شہر میں مخالفین نے جامع مسجد کے قریب بسوں کے اڈہ پر شورش برپا کرنے کا پروگرام بنایا تھا امنا حضور کی کار اور ہمراہی قافلہ کو ایک اور راستہ سے شہر میں داخل کیا گیا.جب حضور کو اس کا علم ہوا تو حضور نے فرمایا کہ شورش والی جگہ سے گزرنے میں کوئی حرج نہ تھا اگر لوگ دُکھ بھی دیتے تو میں برشورات شت کرتا ہر حال قافلہ کی کاریں اور نہیں جونہی شہر میں داخل ہوئیں یوں دکھائی دیتا تھا جیسے سارے کا مارا بھیرہ ہی خیر مقدم کے لئے لپک پڑا ہے.قافلہ بعدھر سے بھی گزرا سٹرکوں ، گلیوں اور راستوں کے دونوں طرف لوگ پرے کے پرے جمائے کھڑے تھے اور محمود کی زیارت کے شیدائی پروانہ وار گرتے پڑتے نظر آتے تھے بیسیوں طلباء بجامعتہ المبشرین اور جامعہ احمدیہ و مدرسہ احمدیہ کے اپنے اپنے ذرائع سے پہلے ہی یہاں پہنچ چکے تھے اور آس پاس کی جماعتوں کے احباب بکثرت اسوء تقریب میں شرکت کی برکت حاصل کرنے کے لئے صبح ہی سے موجود تھے.سید نا حضرت امیر المومنین کار سے اُترتے ہی سب سے پہلے حضرت خلیفہ مسیح الاوّل کے آبائی مکان میں تشریف لے گئے جس کا بیشتر حصہ پہلے ہی مسجد پر شتمل تھا اور جس کے باقی حصے اب بھی تمام مسجد ہی کے نام وقف ہیں.اسی مکان کے ایک کونے میں احباب جماعت نے حضور کو کرم دین نامی تنور والے کی رہائش گاہ بھی دکھائی جس کو اللہ تعالیٰ نے غیر احمدی ہونے کے باوجود محض حضرت خلیفہ ربیع الاول کی محبت اور عظمت کی وجہ سے تعصب و تنظر کے اس تند و تیز جھکڑوں میں ثابت قدم رہنے کی توفیق دی تھی.ه مخدوم الطاف احمد صاحب پریزیڈنٹ جماعت احمدیہ میانی کا بیان ہے کہ حضور جب بھیرہ پہنچے تو بزرگوارم والد صاحب جناب مخدوم محمد ایوب صاحب ہی.اسے (علیگ) صدر جماعت احمدیہ بھیرہ استقبال کے لئے آگے بڑھے تو حضور نے از راہ شفقت و محبت بزرگوارم والد صاحب سے معانقہ فرمایا اور یہ بات بزرگوارم والد صاحب کے زندگی بھر بڑے فخر کا موجب رہی + کے یہ الفضل کے رپورٹر کا بیان ہے مگر جناب فضل الرحمن صاحب ہمبل بی.اے بی ٹی بھیرہ کے ایک مکتوب (مورخہ ابان هرات ) سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا نام لال تھا یہ ۳
196 جب مکہ و مدینہ شریف سے واپسی پر سارے بھیرہ والوں نے حضور کا مجلسی اور تمدنی بائیکاٹ کر دیا تھا یعنی کہ توروالوں نے روٹی تک پکانے سے انکار کر دیا لیکن کریم دین نے ہر قسم کے لالچ اور رعب داب کی پروانہ کرتے ہوئے حضور سے بائیکاٹ کرنے سے انکار کر دیا تھا حضور نے بھی اس کے اس اقدام کی قدر کی اور اس کو اپنے آبائی مکان کا ایک حصہ دے دیا جس میں اس کے خاندان کے بعض لوگ اب بھی رہتے ہیں.اس واقعہ کا دوہرانا تھا کہ حضور کی آنکھوں میں وہ زمانہ پھر گیا اور آپ نے خواہش کی کہ گو اس کا لڑ کا غیر احمدی ہی ہے لیکن اُس سے کہا جائے کہ وہ میرے لئے روٹی اپنے ہاتھ سے پکائے چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور ایسا ہی ہوا اور احمدیت کے اس عظیم الشان خلیفہ نے اس کریترین کے بیٹے غلام احد کے ہاتھ سے پکی ہوئی روٹی کھائی جس کے باپ نے کبھی احمدیت کے شیدائی اور آپکے شفیق استاد سے مصائب کے دور میں وفا کی تھی.حضور دیر تک مسجد نور میں کھڑے ہو کر حضرت خلیفہ اسبح الاول رضی اللہ عنہ کے خاندانی حالات ، جائداد، اور اوائل زندگی کے واقعات کے متعلق بھیرہ کے عمر رسیدہ احباب سے دریات فرماتے رہے.پھر اس مسجد میں شکرانے کے دو نفل ادا کئے پھر صدرمقامی مخدوم محمد ایوب صاحب کی استدعا پر مسجد میں سنگ مرمر کا ایک یاد گار کتبہ نصب فرمایا جس پر حضور کی بھیر میں تشریف آوری کا ذکر تھا اور اس کے بعد دعا فرمائی.مکانات کے ملاحظہ کے بعد سید نا حضرت خلیفہ اول کا وہ مطلب دیکھنے کے لئے تشریف لے گئے جو ر ہائشی مکانات میں تبدیل کیا جاچکا تھا.بچے، بوڑھے ، جو ان پر وانوں کی طرح گرنے پڑتے تھے مستورات دو رویہ چھتوں پر سے پھول نچھاور کر رہی تھیں.راستے میں مختلف موڑوں پر دروازے نصب تھے جن پر شہری حروف میں اَهْلاً وَ سَهْلاً وَ مَرْحَبًا لکھا ہوا تھا اور فضا ہر دو منٹ بعد اسلام زنده باد احمدیت زنده باد " حضرت امیر المومنین زندہ باد کے پر جوش نعروں سے گونج اٹھتی تھی.الغرض ایک عجیب بابرکت ہما ہمی تھی جس نے عقیدتوں کو پر لگا دیئے تھے.مطب کے دیکھنے کے بعد حضور محمد افضل صاحب ملک کے مکان پر تشریف لے آئے ہیں جماعت کی طرف سے وسیع پیمانے پر دعوت طعام کا انتظام تھا.کھانا تناول کرنے کے بعد حضور نے تھوڑی دیر تک آرام فرمایا مگر یہ آرام محض بیٹھنے تک ہی محدود تھا کیونکہ اس کے دوران بھی حضور سے تعارف
14A کا سلسلہ جاری رہا اور حضور بھیرہ اور بھیرہ والوں کے متعلق استفسارات فرماتے رہے.نماز ظہر کے لئے حضور جماعت احمد یہ بھیرہ کی دوسری مسجد میں تشریف لے گئے اور نظر و عصر کی نمازیں پڑھائیں.نمازوں کے معا بعد امیر جماعت مقامی کی استدعا پر پہلے آپ نے ایک سنگ یادگار اس مسجد میں نصب فرمایا اور پھر دعا کے بعد بر سر منبر تشریف لے آئے.حافظ مبارک احمد صاحب نے تلاوت کلام پاک کی اور جناب ثاقب زیر وی نے رسول اکرم صلے اللہ علیہ وسلم کی شان میں ایک نعت پڑھی.بعد ازاں مخدوم محمد ایوب صاحب ہی.اسے (علیگ) صدر جماعت احمدیہ بھیرہ نے مقامی جماعت کی طرف سے سپاسنامہ پیش کیا.سپاسنامہ کے بعد حضرت امیر المومنین الصلح الموعود حضرت امیر المومنین کا اہل بھیرہ سے نے ایک پر معارف اور نہایت ایمان افروز خطاب پر معارف اور ایمان افروز خطاب فرمایا جوپانچ منٹ کم دو گھنٹہ تک جاری رہے حضور نے سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- ایک ربع صدی سے زیادہ عرصہ ہوا یعنی قریباً تیس سال ہوئے جب سے میرے دل میں ایس شہر میں آنے کا شوق ہوا.بھیرہ بھیرہ والوں کے لئے ایک اینٹوں اور گارے یا اینٹوں اور چونے سے بنا ہوا ایک شہر ہے مگر میرے لئے یہ اینٹوں اور چونے کا بنا ہوا شہر نہیں تھا بلکہ میرے استاد جنہوں نے مجھے نہایت محبت اور شفقت سے قرآن کریم کا ترجمہ پڑھایا اور بخاری کا بھی ترجمہ پڑھایا ان کا مولد ومسکن تھا.بھیرہ والوں نے بھیرہ کی رہنے والی ماؤں کی چھاتیوں سے دُودھ پیا ہے اور یکس نے بھیرہ کی ایک بزرگ ہستی کی زبان سے قرآن کریم اور حدیث کا دودھ پیا پس بھیرہ والوں کی نگاہ میں جو قدر بھیرہ شہر کی ہے میری نگاہ میں اس کی اس سے بہت زیادہ قدر ہے.بچپن سے ہی میری صحت کمزور تھی اور میں اکثر بیمار رہتا تھا جس کی وجہ سے یکس پڑھنے میں بھی کمزور تھا.میری آنکھوں میں گھرے تھے اور گلے میں سوزش رہتی تھی اس لئے نہ تو میں پڑھ سکتا تھا اور نہ دیکھ سکتا تھا.اس وقت حضرت خلیفہ اول مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ نے جو بھیرہ کے رہنے والے تھے مجھے بلا کر کہا میاں ! تم مجھ سے قرآن پڑھا کرو تمہیں نہ دیکھنے کی تکلیف ہوگی اور نہ پڑھنے کی تکلیف ه الفضل ۲۹ نومبر ۹۵ رصد
سید نا حضرت مصلح موعود اہل بھیرہ سے خطاب فرمارہے ہیں
۱۶۹ ہو گی کیونکہ میں ہی بولا کروں گا اور میں ہی کتاب دیکھا کروں گا چنانچہ میں نے آپ نے قرآن کریم کا ترجمہ پڑھنا شروع کر دیا ئیں قرآن کھول کر سامنے رکھ لیتا تھا اور مولوی صاحب پڑھتے بھی جاتے تھے اور ترجمہ بھی کرتے جاتے تھے.میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ آیا یہ میری ذہانت کا نتیجہ تھا یا ان کے اخلاص اور محنت کا کہ چودہ پندرہ سال کی عمرمیں چھ ماہ کے اندر تھوڑا تھوڑا وقت پڑھنے کے بعد قرآن کریم کا ترجم ختم ہو گیا.پھر جب میری عمر میں باٹھیں سال کی ہوئی تو آپ نے مجھے بلایا اور کہا.میاں با تم مجھ سے بخاری شریف پڑھا کرو چنا نچہ میں نے بخاری شریف پڑھنی شروع کر دی.گلے کی سوزش کی وجہ سے مجھ سے پڑھا نہیں جاتا تھا اور آنکھوں میں گھروں کی وجہ سے میں کتاب کو دیکھ نہیں سکتا تھا چنا نچہ آپ آدھ پارہ بخاری کا روزانہ اپنے سامنے رکھ لیتے تھے اور آدھے کا آدھا پارہ پڑھا دیا کرتے تھے.آپ خود ہی پڑھتے جاتے تھے اور خود ہی ترجمہ کرتے جاتے تھے اور دو اڑھائی ماہ میں چھٹیاں وغیرہ نکال کر میں نے بخاری کا ترجمہ ختم یا پھر عربی کے کچھ ابتدائی رسالے بھی میں نے آپ سے پڑھے.پس یہ علم تھا جو آپ نے مجھے سکھایا اور جس کی وجہ سے میرے اندر مزید مطالعہ کا شوق پیدا ہوا.آپ جو کچھ مناسب سمجھتے تھے بیان کر دیتے تھے اور اگر میں سوال کرتا تو مجھے روک دیتے تھے.ہمارے ایک ہم جماعت تھے.تھے تو وہ بڑی عمر کے لیکن دوبارہ کلاس میں شامل ہوئے تھے ان کا نام حافظ روشن علی صاحب تھا.آپ حضرت نوشہ کے خاندان میں سے تھے جن کا مزار رنمل تحصیل پھالیہ ضلع گجرات میں ہے اور گری کے مانگوں میں سے تھے آپ بڑے عالم تھے اپنی کے داباد ( حافظ مبارک احمد صاحب) نے ابھی قرآن کریم کی تلاوت کی ہے جب مولوی صاحب کوئی معنے بیان کرتے تو چونکہ حافظ روشن علی صاحب ذہین اور خاص علم حاصل کر چکے تھے اس لئے آپ اعتراض کرنا شروع کر دیتے تھے اور کہتے ان معنوں پر یہ یہ اعتراض پڑتا ہے.میری عمر اس وقت ۲۰، ۲۱ سال کی تھی میں نے جب حافظ صاحب کو اعتراض کرتے دیکھا تو میرے دل ان بھی ایک گدگدی سی اُٹھی اور میں بھی اعتراض کرنے لگا مولوی صاحب کو مجھ سے بہت محبت تھی ایک دو دن تک تو آپ نے برداشت کیا پھر فرمایا میاں تمہارا معاملہ اور ہے اور محافظ صاحب کا معاملہ آور ہے یہ ہے مولادی.ان کا طریق ہوتا ہے بال کی کھال نکالنا لیکن تم مولوی نہیں تم نے تو دین حاصل کرنا ہے.پھر فرمایا میاں ! یہ تو دیکھو مجھے تم سے کتنا عشق ہے اگر میں ان معنوں سے جو بیان کرتا ہوں زیادہ معنے جانوں تو تمہیں نہ بناؤں اگر مجھے کوئی اور معنے معلوم ہوتے تو میں ضرور بتا دیتا اگر میں نے تمہیں کوئی
12.اور معنے نہیں بتائے تو اس کا یہی مطلب ہے کہ مجھے صرف اتنے ہی معنے آتے ہیں.پھر فرماتے میاں ! اتنا تو سوچو کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے اللہ کا بندہ میں ہی ہوں یا تم بھی ہو.کیا یہ میرا ہی فرض ہے کہ اسلام پر جو اعتراض پڑتا ہے اس کا جواب دوں.اور جن معنوں کو یکس سمجھ نہیں سکا وہ بھی بتاؤں یا تمہارا بھی فرض ہے کہ تم خود سوچو اور اسلام پر پڑنے والے اعتراضات کا جواب دو تیم سوال نہ کیا کرو بلکہ خود سوچا کرو اور ان اعتراضات کے خود جواب دیا کرو.آپ نے جو کچھ مجھے پڑھایا میں اس کی بھی قدر کرتا ہوں لیکن جو آپ نے مجھے نہیں پڑھایا وہ میرے لئے زیادہ قیمتی ہے کیونکہ جونہی یہ آواز کہ کیا صرف میرا ہی فرض ہے کہ اسلام پر پڑنے والے شبہات کا جواب دوں یا تمہار ابھی فرض ہے.کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں میں ہی اللہ کا بندہ ہوں ا تم بھی اللہ کے بندے ہو تیرے کانوں میں پڑی اس نے میرے اندر ایک آگ لگا دی.گویا اسرافیل فرشتے نے صور پھونکا ہے میں نے پوچھنا بند کر دیا اور سوچنا شروع کر دیا.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے علم کے سمند ر سکھا دیے.اب اگر کوئی اسلام کا دشمن اسلام پہنتے ہی اعتراض کرنے میں انہیں خدا تعالیٰ کے فضل سے قرآن کریم سے ہی رو کر سکتا ہوں.چونکہ بھیرہ آنے کا شوق مجھے مدت سے تھا اس لئے یہاں آکر میں خوش بھی ہوں کہ میری ایک دیرینہ خواہش پوری ہوئی مگر بھیرہ کی دیواروں میں داخل ہونے کے بعد میرے دل کے زخم دوبارہ ہرے ہو گئے بھیرے کی ہی ایک لڑکی امتہ الحی سے جو سنضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ المسیح اول رضی اللہ عنہ کی بیٹی تھیں میری شادی ہوئی اور ہم دونوں میں بہت محبت تھی.بے وقوف لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید اسلام اور روحانیت کے یہ معنے ہیں کہ میاں کو بیوی سے محبت نہ ہو اور بیوی کو میاں سے محبت نہ ہو لیکن جو لوگ اسلام اور روحانیت کو سمجھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اسلام ہی ایک مذہب ہے جو خاوند کو بیوی سے اور بیوی کو خاوند سے محبت کا حکم دیتا ہے.بحضرت عائشہ یہ فرماتی ہیں رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم لبعض دفعہ جس گلاس میں ہم پانی پیتیں اسی گلاس میں اسی جگہ ہونٹ رکھ کر پانی پیتے اور فرماتے ہیں یہ بتانے کے لئے ایسا کرتا ہوں کہ مجھے تم سے کتنی محبت ہے.پھر حضرت عائشہ فرماتی ہیں ایک دفعہ میرے سر میں شدید درد ہو رہا تھا ئیں تڑپ رہی تھی رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم تشریف لائے آپ نے فرمایا، عائشہ، صبر کرو لوگ بیمار ہوا ہی کرتے ہیں.حضرت عائشہ فرماتی ہیں شدت درد سے مجھے تکلیف ہو رہی تھی اور رسول کریم
141 صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو جو مجھے دین سکھانے کے لئے تھی سمجھی نہیں مجھے غصہ آگیا کہ مجھے شدید سر درد ہو رہا ہے اور بجائے اس کے کہ آپ مجھ سے ہمدردی کا اظہار کرتے آپ کہتے ہیں صبر کر و لوگ بیمار ہوا ہی کرتے ہیں.میں نے غصہ سے کہا یا رسول اللہ آپ کو کیا میں مر جاؤں گی تو دوسری شادی کر لیں گے.حضرت عائشہ تکلیف میں کہتی تھیں.ہائے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا عائشہ اگر یہ بات ہو تو ہائے تو نہیں.ہائے ہیں.اور چند دن کے بعد آپ بیمار ہو کر فوت ہو گئے.حضرت عائش جب تک زندہ رہیں ہمیشہ ہی اس بات پر افسوس کیا کرتی تھیں کہ میں نے یہ فقرہ کہا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو صدمہ پہنچا کہ میں نے آپ کی محبت پر شبہ کیا ہے کاش میں یہ فقرہ نہ کہتی اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم سے پہلے مرجاتی تا یہ صدمہ نہ دکھتی.غرض نا واقف اور جاہل لوگوں نے یہ سمجھا ہے کہ ایک مسلمان کے معنے ہیں کہ وہ کوئی پتھر دل کا انسان ہے.گویا مسلمان وہ ہے جس میں محبت اور وفا کے جذبات پائے ہی نہیں بھاتے حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم محبت اور وفا کا مجسمہ تھے.ایک دفعہ آپ ایک مجلس میں بیٹھے صحابہ سے باتیں کر رہے تھے کہ ایک شخص آیا اور اس نے کہا.یارسول اللہ ! آپ کی بیٹی آپ کو بلا رہی ہے کیونکہ اس کا لڑکا بیمار ہے آپ باتوں میں مشغول تھے آپ نے فرمایا اچھا آتا ہوں اور پھر باتوں میں لگ گئے تھوڑی دیر کے بعد پھر ایک شخص آیا اور اس نے عرض کیا یا رسول اللہ آپکی بیٹی یاد فرماتی ہیں.لڑکے کی حالت زیادہ خراب ہے.آپ نے فرمایا اچھا آتا ہوں اور پھر باتوں میں شغول ہو گئے تیسر شخص آیا اور اس نے عرض کیا یا رسول اللہ جلدی تشریف لائیے لڑکے کی حالت بہت زیادہ خراب ہو گئی ہے.آپ تشریف لے گئے اور اپنے نواسہ کو گودمیں لے لیا.تھوڑی دیر میں اس کی جان نکل گئی آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے.آپ کے پاس ایک انصاری تھے وہ بھی ملانوں کی ذہنیت کے تھے.انہوں نے کہا آپ خدا تعالیٰ کے رسول ہیں اور رو رہے ہیں بھلا رسول کو جذبات سے کیا تعلق.آپ نے فرمایا نمدا تعالیٰ نے ہر انسان کے اندر خواہ وہ رسول ہو یا غیر رسول محبت کے جذبات پیدا کئے ہیں اگر بخدا تعالیٰ نے تمہیں محبت کے جذبات سے محروم رکھا ہے تو میرے پاس اس کا کیا علاج ہے.مرض آج سے چھتیس ستائیں یا اٹھائیس سال پہلے اعتہ ابھی مرحومہ سے جب ہم دونوں باتیں کیا کرتے تھے میں کہا کرتا تھا کہ میں تمہیں تمہارے ابا کے وطن لے جاؤں گا پھر اللہ تعالیٰ کی مشقت کے ماتحت
۱۷۲ لیکن یہاں نہ آسکا اور امتہ الحی مرحومہ فوت ہو گئیں.اور جب مجھے بھیرہ آنے کا موقع ملا تو ان کی وفات پر تھیں سال گزر رہے ہیں.پس جو نبی یکی بھیرہ میں داخل ہوا وہ باتیں مجھے یاد آگئیں کہ میں نے امتہ الحی مرحومہ سے ان کے ابا کا وطن دکھانے کا وعدہ کیا تھا لیکن خدا تعالیٰ کی مشقت تھی کہ جب تک وہ زندہ رہیں مجھے یہاں آنے کا موقع نہ ملا اور جب مجھے یہاں آنے کا موقع ملا تو بھیرے کی بیٹی اور میری بیوی امتہ الحی مرحومہ فوت ہو چکی تھی.بہر حال جیسے اللہ تعالیٰ کی مشقت ہوتی ہے اسی طرح ہوتا ہے لیکن امتہ الحی مرحومہ کو بھیرہ لا سکا یا نہ لا سکا یہ سب رسمی باتیں ہیں.انسان کے اندر محبت کے جذبات ہوتے ہیں جن کی وجہ سے یہ چیز پیدا ہوتی ہے لیکن اگر فلسفیانہ نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ کوئی بات نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بدر کی جنگ میں تشریف لے گئے تو جو لوگ قید ہو کر مسلمانوں کے قبضہ میں آئے ان میں آپ کا ایک داماد بھی تھا جس کو کفار جبراً جنگ کے لئے ساتھ لے گئے تھے.آپ نے قیدیوں سے کہا تم فدیہ دو اور رہائی حاصل کر لو.آپ کے داماد نے کہا میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ہاں لکھے جا کر کچھ انتظام کر دوں گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہت اچھا یہ نوجوان ایک شریف الطبع انسان تھا با وجود اس کے کہ لوگ اسے کہتے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کو کھ دو وہ دکھ نہ دیتا وہ کہتا میں مسلمان نہیں اور محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم سے کوئی عقیدت نہیں رکھتا لیکن پھر بھی ان کی لڑکی کو کیوں ماروں چنانچہ وہ باوجود دوسروں کے انسانے کے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کو دکھ نہیں دیتا تھا جب وہ واپس ملنے گیا تو گھر میں کوئی چیز نہ تھی جو خد یہ کے طور پر دی جاتی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کے پاس ایک سونے کا ہار تھا جو شادی کے موقع پر والدہ کی طرف سے اسے دیا گیا تھا اس نے اپنے خاوند کو وہ ہار دے کر کہا یہ ہار لے لو اور اسے فدیہ کے طور پر بھجوا دو مسجد میں جا کر جب دوسرے لوگوں نے فدئے پیش کرنے شروع کئے تو ایک شخص رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ کے داماد نے یہ ہار بطور فدیہ بھیجوایا ہے.رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے جب ہار پر سے کپڑا اٹھایا تو آپ کی آنکھیں میں آنسو آگئے.آپ تھوڑی دیر خاموش رہے پھر صحابہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اگر آپ خواشی سے منظور کر لیں کہ یہ ہار واپس کر دیا جائے تو میں اس کی سفارش کرتا ہوں.ہار تو ہا ر ہی ہے مگر اسی میں اتنا فرق ہے کہ یہ ہار میری مرحومہ بیوی کے ہاتھ کا تحفہ ہے جو اس نے اپنی بیٹی کو دیا تھا اور میری
بیٹی کے پاس نہیں یہی ہار اپنی والدہ کی ایک یادگار ہے اس کے سوا اور کوئی یاد گار نہیں.مجھے یہ ہار دیکھ کر امر یہ ہوا کہ باوند کی جان بچانے کے لئے میری بیٹی نے ایک ہی چیز جو اس کے پاس والدہ کی یادگار علی بطور فدیہ بھیج دی ہے.اگر آپ لوگ خوشی سے اسے معاف کر دیں تو ئیں یہ ہار واپس کر دوں یا کہ رام تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جانیں قربان کرنے کے لئے تیار تھے.ہار کی بھلا حیثیت ہی کیا تھی صحابہ نے عرض کیا اس سے زیادہ خوشی ہمارے لئے اور کیا ہوگی کہ ہم اس ہار کو جو حضرت خدیجہ جے نے اپنی بیٹی کو بطور تحفہ دیا تھا اسے واپس کر دیں چنانچہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے وہ ہار واپس کر دیا.دیکھو سونے میں کیا رکھا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا وطن چھوڑا ، جائدادیں چھوڑیں، مکان چھوڑے اور شیت الہی کے مقابلہ میں ان کی کچھ پروا نہ کی.پھر آپ کی شان تو بڑی تھی صحابہ نے بھی اپنا سب کچھ خدا تعالیٰ کے لئے قربان کر دیا لیکن سونے کے اس بہار کو دیکھ کر رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کو صدمہ پہنچا اس لئے کہ یہ حضرت خدیجہ کا دیا ہوا ہار تھا سونے کا سوال نہیں اگر وہ مٹی کا بھی بنا ہوا ہوتا تو آپ کو تکلیف ہوتی کیونکہ اس کا جذبات کے ساتھ تعلق تھا.پس امتہ الحی نے مرنا تھا اور وہ مرگئی.میں پہلے مر جاتا یا وہ پہلے مرگئی اس میں کوئی فرق نہیں یہ خدا تعالیٰ کا قانون تھا جو پورا ہو الیکن یہ جذبات کی چیز ہے کہ جب ہم دونوں باتیں کیا کرتے تھے تو میں ان سے وعدہ کیا کرتا تھا کہ میں تمہیں تمہارے ابا کا وطن دکھاؤں گا لیکن جب وقت آیا کہ میں نے بھیرہ دیکھا تو وہ ہستی جس سے میں وعدہ کیا کرتا تھا کہ میں اسے اس کے ابا کا وطن دکھاؤں گا وہ دنیا سے گزر چکی تھی.جیسا کہ میں بتا چکا ہوں مجھے یہاں آنے کی دیرینہ خواہش تھی.مقامی جماعت کے بعض دوست ڈرتے تھے کہ کہیں دوسرے لوگ شورش نہ کریں اور انہوں نے چاہا کہ میں بھیرہ نہ چلوں لیکن میری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ آخر یہاں کے لوگ میری وجہ سے شورش کیوں کریں گے.آخر کوئی کسی کے عادت ہوتا ہے تو اس لئے کہ وہ اس کا کام بگاڑتا ہے میں نے ان کا کیا بگاڑا ہے کہ وہ میرے خلاف ہوں گے.اگر کوئی شخص میرے یہاں آنے کی وجہ سے شورش کرے گا تو وہ غلط فہمی کی بناء پر ہوگی.وہ اس خیال سے شورش کرے گا کہ میں (نعوذ باللہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کا دشمن ہوں مجھ کو تو یہ خالفت اچھی لگتی ہے کہ یہ میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم ) کی محبت کی وجہ سے ہے.آخر دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہاں کسی سے میرا زمین کا جھگڑا ہے یا مکان کا جھگڑا ہے.لیکن گورداسپور کا رہنے والا
۱۷۴ ہوں اور ہجرت کے بعد ضلع جھنگ میں مقیم ہوں.اور جہاں تک جائداد کا سوال ہے یہاں سے کسی رہنے والے کو مجھ پر شکوہ نہیں ہو سکتا.اگر کسی کو مجھ پر کوئی شکوہ ہے تو کسی جائداد کے جھگڑے کی وجہ سے نہیں بلکہ وہ شکوہ مولویوں کی ان باتوں سے ہے کہ میں (نعوذ باللہ ) محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتا ہوں مجھے مارنے کو تیار ہو جاتا ہے یا مجھ پر پتھراؤ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے.وہ اسلئے ایسا کرتا ہے کہ وہ اپنی غلط محبت کی وجہ سے مجھے رسول کریم صل اللہ علیہ سلم کا دشمن سمجھتا ہے.میرے لئے تو یہ بھی خوشی کا موجب ہے کہ وہ میری مخالفت کی وجہ سے شورش کرتے ہیں جو انہوں نے عملاً نہیں کی یا وہ مجھے پر حملہ کرنے کا ارادہ کرتے ہیں جو عملاً انہوں نے نہیں کیا.اگر وہ عملاً بھی ایسا کرتے تب بھی میں خوش ہوتا کہ ان کے اندر میرے آقامحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت تو ہے.آخر یکیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اتباع میں سے ہوں آپ کو شعر کی صورت میں ایک الہام ہوا اس کے الفاظ لیکن پہلے شنا دیتا ہوں اور پھر اس کا ترجمہ کر دوں گا.اس وقت لوگ بڑی مخالفت کرتے تھے میں ابھی بچہ ہی تھا لا ہور میں حضرت سیح موعود علیہ الصلوۃ والسّلام ایک دعوت سے واپس تشریف لا رہے تھے آپ جب بازار میں سے گزر رہے تھے لوگ چھتوں پر کھڑے ہو کر آپ کو گالیاں دیتے تھے اور کہتے تھے مرزا دوڑ گیا مرزا دوڑ گیا.اسی اثناء میں میں نے ایک بڑھے کو دیکھا جس کا ایک ہاتھ کٹا ہوا تھا اور اس پر تازہ ہلدی لگی ہوئی تھی جس سے معلوم ہوتا تھا کہ ابھی ہاتھ کٹے زیادہ دیر نہیں ہوئی.میں نے دیکھا کہ وہ بڑھا اپنا صحیح ہاتھ کئے ہوئے ہاتھ پر مارکر کہہ رہا تھا مرزا نٹھ گیا مرزا نٹھ گیا.میں حیران تھا کہ آخر یہ کیوں کہتا ہے مرزانٹھ گیا.اسی طرح حضرت مسیح موعود لاہور شہر میں جا رہے تھے کہ پیچھے سے کسی نے حملہ کیا اور آپ زمین پر گر گئے.اس طرح لوگوں کو پتھراؤ کرتے ہم نے کئی دفعہ دیکھا ہے.غرض ان دنوں مخالفت بڑے زوروں پر تھی اور قدرتی طور پر جماعت کے بعض دوستوں کو بھی غصہ آجاتا تھا کہ آخر یہ لوگ بلا وجہ ایسا کیوں کرتے ہیں اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہام ہوا اے دل تو نیز خاطر اینان نگهدار کا آخر کنند دعوی حست بمیرم یعنی حضرت مسیح موعود کے دل میں خدا تعالیٰ یہ الفاظ ڈالتا ہے اور فرماتا ہے اسے ہمارے مامور ایہ
160 مسلمان جو تمہیں گالیاں دیتے ہیں تو پھر بھی ان کا لحاظ کر آخر یہ تمہیں کو گالیاں دیتے ہیں تمہیں مارنے کو کیوں دوڑتے ہیں اور تم پر حملہ آور کیوں ہوتے ہیں.یہ لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی وجہ سے تمہیں مارتے اور گالیاں دیتے ہیں اس لئے ان کا لحاظ رکھنا بھی بڑا ضروری ہے.غرض ہماری جو مخالفت ہوتی ہے دیکھنا یہ ہے کہ اس کے پیچھے کیا بات ہے.کیا تم سمجھتے ہو کہ یہ لوگ جو تمہیں گالیاں دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تمہاری چائے بھی شراب سے بدتر ہے (گویا شراب پینا جائز ہو سکتا ہے لیکن ہماری چائے پینا جائز نہیں) اگر انہیں پتہ لگ جائے کہ میرے اندر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا جو شعلہ مبل رہا ہے وہ ان کے لاکھوں لاکھ کے اندر بھی نہیں مل رہا تو وہ فوراً تمہارے قدموں میں گر جائیں گے یہ لوگ مخالفت اسی لئے کرتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہیں اور میرے ساتھی محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے مخالف ہیں یہ مخالفت بعض غلط فہمیوں کے نتیجہ میں ہے.اسی لئے جب میں نے سنا کہ لوگ میرے آنے پر شورش کریں گے تو مجھے غصہ نہیں آیا مجھے یہ شنکر کہ لوگ میری مخالفت کی وجہ سے شورش کریں گے خوشی ہوئی کہ ابھی میرے آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی چنگاری ان کے اندر سلگ رہی ہے اگر چہ وہ کسی غلط فہمی کی بناء پر ایسا کر رہے ہیں لیکن اس کا موجب رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی محبت ہی ہے اس لئے ہمیں بجائے غصہ میں آنے کے تبلیغ کی طرف توجہ دینی چاہیئے اور ان کی غلط فہمیوں کو دور کرنا چاہیئے.اگر کسی شخص کا بھائی بیمار ہو جاتا ہے تو وہ اسے زہر دے کر مارا نہیں کرتا ، وہ اسے گلہ گھونٹ کر مارا نہیں کرتا بلکہ اس کا علاج کرتا ہے اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم بجائے ناراض ہونے کے اس مخالفت کو رفع کرنے کی کوئی تدبیر کریں.اگر لوگ مخالفت کرتے ہیں اور مجھے یابانی سلسلہ احمدیہ کو یا تمہیں برا بھلا کہتے ہیں تو جماعت کو یاد رکھنا چاہئیے کہ وہ تمہارے بھائی ہیں اور کسی غلط فہمی میں مبتلا ہیں پس تم بجائے ناراض ہونے کے دعائیں کرو، ان مخالفت کرنے والوں کو اصل حقیقت سے واقف کرو جب تم انہیں اصل حقیقت سے واقف کر دو گے تو انہیں پتہ لگ جائے گا کہ هم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن نہیں بلکہ آپ کے بچے عاشق ہیں اور وہی لوگ جو تمہیں مارنے پر آمادہ ہیں تمہاری خاطر مرنے کے لئے تیار ہو جائیں گے.آخر مکہ والوں نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی کتنی مخالفت کی تھی.وہ رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم کی مخالفت اسی لئے کرتے تھے کہ وہ سمجھتے تھے یہ شخص دین حقہ یعنی اُن کے آباء و اجداد کے دین کی مخالفت کرتا اور اسے بگاڑتا ہے لیکن جیب
189 انہیں پتہ لگ گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی دین حقہ لائے ہیں تو وہی مکہ والے جو آپ کو مارنے کے درپے تھے آپ کی خاطر قربانیاں کرنے اور اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار ہو گئے.رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے اثر ترین دشمن عقبہ، شیبہ، عام اور ابو جہل تھے اور ان کے ساتھ لگا ہوا ابو سفیان تھا.یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے رسول اکرم کی ابتداء سے مخالفت کی.ایسی شدید مخالفت کی جس کی مثال دنیا کے پر وہ پر نظر نہیں آتی.ابوجہل کی مخالفت کا یہ حال تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک چٹان پر بیٹھے ہوئے کسی مسئلہ کے متعلق سوچ رہے تھے صبح کا وقت تھا.ابوجہل پاس سے گذرا اس نے جب آپ کو چٹان پر اس طرح خاموش بیٹھے دیکھا تو شیطان نے اس کے دل میں شرارت پیدا کی.اس نے آپ کو گالیاں دیں برا بھلا کہا اور پھر آپ کو ایک تھپڑ مارا اور کہا تو باز نہیں آتا اپنی باتوں سے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چکے بیٹھے کسی مسئلہ کے متعلق سوچ رہے تھے.جب ابو جیل نے آپ کو تھپڑ مارا آپ نے صرف اتنا کہا ئیکس نے آپ کا کیا بگاڑا ہے کہ تو میرا دشمن ہو گیا ہے میں نے تو تمہیں صرف خدا تعالیٰ کا پیغام سنایا ہے.آپ نے یہ فرمایا اور چٹان پر بیٹھ گئے حضرت حمزہ ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے.آپ نہایت ہی ویر، بہادر اور مضبوط پہلوان تھے.آپ ہر وقت شکار میں لگے رہتے تھے اور دین کے متعلق سوچنے کا کبھی آپ کو خیال بھی نہیں آتا تھا جب ابو جہل نے خستہ رسول اللہ کو مارا تو آپ کی ایک پرانی لونڈی اس واقعہ کو دیکھ رہی تھی.پڑا لی لونڈیاں اور خادم بھی گھر کے فرد بن جاتے ہیں.اس لونڈی نے جب یہ نظارہ دیکھا تو اسے بہت دکھ ہوا، و مسلمان تو تھی نہیں وہ سارا دن کام کر تی جاتی تھی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دوسرے بزرگوں کو یاد کر کے بڑبڑاتی جاتی تھی کہ آمنہ کے بچے نے ان کا کیا بگاڑا ہے کہ وہ یونہی اسے مارتے ہیں اور وہ انہیں کچھ بھی تو نہیں کرتا.سارا دن اس کے سینہ کے اندر آگ لگی رہی.رسول کریم اس پتھر پر سے اُٹھے اور اپنے گھر تشریف لے گئے.حضرت حمزہ شکار کے لئے باہر گئے ہوئے تھے.شام کو وہ تو بھی بنے نیزہ اور تلوار لڑکائے ہوئے تیر کمان پکڑے ہاتھ میں شکار ٹکائے گھر واپس آئے بحضرت حمزہ کا گھر میں داخل ہونا تھا کہ وہ لونڈی کھڑی ہوگئی اور اس نے کہا تم بڑے بہا در یبنے پھرتے ہو ہر وقت اسلحہ سے مسلح رہتے ہو کیا تمہیں معلوم نہیں کہ صبح ابو جہل نے تمہارے بھتیجا سے کیا کیا.حضرت حمزہ نے کیا کیا بات ہے.یہ سوال سنگر لونڈی روپڑی اور اس نے کہا نہیں دروازہ میں کھڑی تھی کہ محمد رسول الہ
144 س پتھر پر بیٹھے ہوئے تھے اور چپ کر کے بیٹھے ہوئے تھے کہ ابو جہل پاس سے گزرا اور بغیر کچھ کہے اسنے آپ کے منہ پر تھپڑ مارا اور برا بھلا کہا.آپ نے صرف اتنا کہا کہ اسے لوگو ئیں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے یکس نے تمہیں کیا دکھ دیا ہے کہ تم مجھے مارتے ہو ئیں صرف خدا تعالیٰ کا پیغام تمہیں سُناتا ہوں.پھر وہ لونڈی غصہ میں آکر کہنے لگی خدا کی قسم مجد نے ابوجہل کو کچھ بھی تو نہ کہا تھا.ایک جاہل عورت کی زبان سے یہ بات شنکر حمزہ کو غیرت آگئی اور فوراً واپس لوٹے.شام کا وقت تھا.ابوجہل سرداروں کی جگہ پر بیٹھا ہوا تھا اور اس کے ارد گرد دوسرے سرداران منہ بیٹھے تھے.رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم کی بدگوئیاں ہو رہی تھیں حضرت حمزہ خانہ کعبہ میں داخل ہوئے اور سیدھے اس جگہ پہنچے جہاں ابو جہل دوسرے سرداروں کے ساتھ بیٹھا محمد رسول اللہ کی بدگویاں کر رہا تھا.ہاتھ میں تیر کمان تھی آپ نے اس کا ایک سرا پکڑ کر ابوجہل کے منہ پر دے مارا اور کہا تو بڑا بہادر بنا پھرتا ہے میری لونڈی نے مجھے بتایا ہے کہ میرا بھتیجا آج صبح جب ایک پتھر پر بیٹھا تھا تو تو نے اسے تھپڑ مارا اس نے تمہیں کچھ جواب نہ دیا.اب میں تمہیں مارتا ہوں اگر تم بہادر ہو تو میری مار کا جواب دو.یہ واقعہ ایسا اچانک ہوا کہ ابو جہل گھبرا گیا اس کے ساتھتی ہوئش سے کھڑے ہوئے اور سعزت حمزہ کے ساتھ لڑنے کو اُٹھے مگر ابو جہل پر صداقت کا اثر تھا وہ کہنے لگا جانے دو مجھ سے ہی صبح غلطی ہوگئی اور تھی حضرت حمزہ واپس آئے اور اس مکان کا پتہ لے کر جہاں ان دنوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تھے وہاں پہنچے اور عرض کیا کہ میں مسلمان ہوتا ہوں.یہ ابوجہل کی دشمنی کا حال تھا.بلا وجہ رسول کریم کی دشمنی کیا کرتا تھا.اگر یہ ہوتا کہ آپ توحید کا وعظ کر رہے ہوتے اور ابو جبل پاس سے گذرتا اور آپ کا وعظ شنکر غصہ میں آجاتا تو کچھ جواز بھی نکل سکتا تھا لیکن آپ خاموش تھر پر بیٹھے کسی مسئلہ کے متعلق سوچ رہے تھے اور ابو جہل نے بلاوجہ آپ کو پھر مارا.یہ ابو جہل کی مخالفت کی حالت تھی.اس کا بیٹا عکرمہ بھی اس کے نقش قدم پر چلتا تھا اور وہ آپ کی دشمنی میں انتہاء کو پہنچا ہوا تھا.بیسیوں مسلمانوں کو اس نے مارا اور قتل کیا یہاں تک کہ خدا تعالیٰ نے اسلام کو فتح دی اور سول کریم ایک فاتح کی حیثیت میں مکہ میں داخل ہوئے اور آپ نے چند افراد کو جو تعداد میں سات کے قریب تھے اور جنہوں نے مسلمانوں کو مارا تھا ان کو انسانیت کے خلاف جرائم کرنے کی وجہ سے مار دینے کا حکم دیا.یورپ والوں نے بھی بعض لوگوں کو اسی قسم کے جرموں کی بناء پر قتل کیا یا پھانسی پر لٹکایا
۱۷ چنا نچہ گذشتہ جنگ کے اختتام پر ہی جب بعض سر کردہ جرمن لیڈروں پر مقدمہ چلایا گیا تو یہ کہاگیا کہ انہیں جنگ کے بدلہ میں نہیں بلکہ ان انسانیت سوز جرائم کے عوجن میں پھانسی پر لٹکایا جاتا ہے جو ان سے سرزد ہوئے.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ سلم نے بھی فتح مکہ کے بعد ان سات افراد کے متعلق یہ احکام جاری کئے کہ اگر یہ لوگ خانہ کعبہ کے پردوں کو پکڑ کر بھی کھڑے ہوں تب بھی انہیں قتل کر دیا جائے چنانچہ وہ لوگ مگر چھوڑ کر بھاگ گئے.ان سات افراد میں عکرمہ بھی تھا اس کی بیوی دل سے مسلمان ہو چکی تھی وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے عرض کیا یارسول اللہ میں دل سے مسلمان ہوں میرا خاوند مکہ چھوڑ کر بھاگ گیا ہے.وہ اسلام کا کتنا دشمن ہی ہی لیکن پھر بھی آپ کا بھائی ہے.کیا یہ بہتر ہوگا کہ وہ کسی اور ملک میں جا کر کسی بغیر کے ماتحت رہے اور وہاں دھکے کھاتا پھرے یا یہ بہتر ہے کہ آپ اسے معاف کر دیں اور وہ آپ کے زیر سایہ زندگی بسر کرے.آپنے فرمایا اچھا ہم اسے معاف کرتے ہیں وہ واپس آجائے ہم اسے کچھ نہیں کہیں گے اس کی بیوی نے پھر عرض کیا.یا رسول اللہ ! وہ بڑی غیرت والا شخص ہے اگر آپ یہ کہیں گے کہ و مسلمان ہو کر یہاں رہے تو وہ یہاں نہیں رہے گا.اگر آپ اجازت دیں کہ وہ کافر ہوتے ہوئے بھی یہاں رہ سکتا ہے تو وہ واپس آجائے گا.آپ نے فرمایا بہت اچھا ہم اسے مسلمان ہونے کے لئے نہیں کہیں گے وہ اپنے مذہب پر قائم رہ سکتا ہے.عکرمہ کی بیوی رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم سے یہ عہد لے کر عکرمہ کی تلاش ہیں گئی.فکر و حبشہ کی طرف بھا گا مہا رہا تھا وہ جہاز میں سوار ہونے کو تیار تھا کہ اس کی بیوی وہاں پہنچی.وہ جگہ مکہ سے سات دن کے فاصلہ پر تھی بیوی نے خاوند سے کہا تم کہاں چھارہے ہو.یہاں تمہارا اپنا بھائی حاکم ہے.کیا یہ بہتر ہے کہ تم اس کے ماتحت رہو یا یہ بہتر ہے کہ تم غیر کی غلامی کر و عکرمہ نے کہا کیا تجھے علم نہیں کہ مجھے قتل کر دینے کے احکام جاری ہو چکے ہیں.اس نے کہا تم محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کو نہیں بھانتے تمہارے سینہ میں کفر کی آگ بھڑک رہی ہے لیکن جانتی ہوں کہ جو کچھ انہوں نے مجھے سے کیا ہے.انہوں نے سچ کہا ہے.انہوں نے کہا ہے کہ اگر مکر مہ مکہ واپس آجائے تو میں اسے معاف کر دونگا عکرمہ نے کہا اچھا انہوں نے اگر معاف بھی کر دیا تو وہ مجھے مسلمان ہونے کے لئے کہیں گے لیکن میں تو مسلمان نہیں ہوں گا.بیوی نے کہا، نہیں عکرمہ.انہوں نے کہا ہے کہ وہ تمہیں مسلمان ہونے کے لئے بھی نہیں کہیں گے تم اپنے مذہب پر قائم رہ کر مکہ میں رہ سکتے ہو.عکرمہ نے کہا.کیا یہ پہچ ہے.یونی نے کہا
164 ہاں یہ بالکل سچ ہے میں نے خود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی ہے، عکرمہ نے کہا.اچھا یکی چلتا ہوں لیکن لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے یہ باتیں سنوں گا تب مانوں گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجلس میں بیٹھے تھے کہ مکرمہ کی بیوی اسے ساتھ لئے حاضر ہوئی انگریز نے کہا مد ( کریمی نو ابھی ایمان نہیں لایا تھا اور وہ آپ کو اسی نام سے پکارتا تھا، میری بیوی کہتی ہے کہ آپ نے مجھے معاف کر دیا ہے آپ نے فرمایا تمہاری بیوی ٹھیک کہتی ہے.عکرمہ نے کہا میری بیوی نے ایک اور بات بھی کہی ہے اور وہ یہ ہے کہ مکیں مگر میں اپنے مذہب کو مانتے ہوئے بھی رہ سکتا ہوں مجھے اپنا مذہب تبدیل کرنے کے لئے مجبور نہیں کیا جائے گا.آپؐ نے فرمایا تمہاری بیوی ٹھیک کہتی ہے عکرمہ نے کہا اَشْهَدُ أَنْ لا إلهَ إِلَّا اللهُ وَاشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عکرمہ میں نے تجھے مسلمان ہونے کے لئے نہیں کہا عکرمہ نے کہا اتنا بلند حوصلہ اور ایثار خدا تعالیٰ کے رسول کے سوا اور کسی میں نہیں ہو سکتا جب میں نے اپنے کانوں یہ بات من لی کہ آپ نے مجھ جیسے شدید دشمن کو بھی معاف کر دیا ہے تو ئیں آپ کی رسالت پر ایمان لے آیا ہوں اب آگے دیکھو مکرمہ میں کتنی جلدی فرق پڑتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا کہ یہ ہم صرف تمہارے قصوروں کو ہی نظر انداز نہیں کرتے بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ تم کچھ مانگ لو اگر ہماری طاقت میں ہوا تو ہم تمہاری خواہش کو پورا کر دیں گے تو اس کے منہ سے یہ بات سجتی تھی کہ مجھے دو سو اونٹ دے دیں.میرے مکان مجھے واپس دے دیں لیکن وہ کلمہ پڑھتے ہی بدل چکا تھا.اس نے عرض کیا یا رسول اللہ میں آپ سے صرف اتنا عرض کرتا ہوں کہ آپ خدا تعالیٰ سے یہ دعا کہ ہیں کہ میں نے آپ سے لڑائیاں کر کے جو گناہ سہیڑے ہیں خدا تعالیٰ وہ گناہ مجھے معاف کر دے.پھر اسی عکرمہ نے مسلمان ہونے کے بعد وہ قربانی دکھائی جس کی نظیر نہیں ملتی.جب حضرت عمرہ کے زمانہ میں اسلامی فومیں قیصر کی نوجوں سے لڑنے کے لئے گئیں تو ایک جگہ پر دشمن کو زور حاصل ہو گیا دشمن نے ایک ٹیلہ پر عرب تیر انداز بھائے جو صحابہ کو پہچانتے تھے اور انہیں ہدایت تھی کہ صحابہ نہ کو چن چن کر ان کی آنکھوں پر تیر ماریں چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور اکثر صحابہ اندھے ہو گئے مسلمانوں کو فٹ کر پڑی کہ صحابہ کی جانیں ضائع ہو رہی ہیں حضرت عکرمہ حضرت ابو عبیدہ نے کے پاس گئے.حضرت ابو عبیدہ اسلامی فوج کے کمانڈر تھے اور کہا صحابہ کی یہ حالت مجھ سے دیکھی نہیں جاتی دشمن کی تعداد بہت زیادہ ہے جب تک ہم اچانک حملہ
IA.کر کے انہیں خوفزدہ نہیں کریں گے یہ پیچھے نہیں ہٹیں گے آپ مجھے اجازت دے دیں کہ میں تمھیں آدمی ساتھ لے کر کفار کے لشکر کے قلب پر حملہ کروں تا وہ تقر بتر ہو جائے.حضرت ابو عبیدہ نے کہا یہ بات خلاف عقل ہے کہ ۶۰ ہزار دشمن کے مقابلہ پر تئیس آدمی جائیں.حضرت عکو میری نے کہا آخر ہم مر ہی جائینگے اور کیا ہوگا حضرت ابو عبیدہ نے کہا لیکن اتنی بڑی ذمہ داری نہیں لے سکتا.حضرت ابو عبیدہ نے حضرت خالد بن ولید کو بلایا اور ان سے کہا عکرمہ کیوں کہتا ہے.خالد نے کہا عکرمہ نے ٹھیک کہا ہے جب تک دشمن پر ہمارا رعب نہیں پڑے گا وہ پیچھے نہیں ہٹے گا.حضرت ابو عبیدہ نے کہا اس کے یہ معنے ہونگے که یکن تلین مسلمان مروا دوں.خالد نے کہا آخر آدمی مرا ہی کرتے ہیں.تب حضرت ابو عبیدہ نے عکرمہ کی بات مان لی.ہاں انشا کر دیا کہ تین آدمی کی بجائے ساٹھ آدمی ان کے ساتھ کر دئے تا دشمن کے ہر ہزار کے مقابلہ میں ایک مسلمان ہو جائے.دوسرے دن ان ساٹھ افراد نے اپنے گھوڑوں کی باگیں اٹھائیں اور ساتھ ہزار دشمن میں گھس گئے پہلی صف والے ابھی تلوار ہی اٹھا ر ہے تھے کہ یہ ویف گذر چکے تھے.جب دوسری صف والے تلواریں اُٹھانے لگے تو یہ تیسری صف میں پہنچ چکے تھے.دشمن فوج کا کمانڈر جس سے قیصر نے یہ وعدہ کیا تھا کہ اگر اس نے مسلمانوں کے مقابلہ میں فتح حاصل کی تو وہ اسے اپنی لڑکی بیاہ دے گا.وہ تخت پر بیٹھا ہوا تھا یہ وہاں پہنچے لشکر کو بھی ہوش آپکی تھی یہ مرتے گئے لیکن پیچھے نہ ہٹے.جب یہ عین اس جگہ پر پہنچے جہاں کمانڈر بیٹھا تھا تو وہ گھبرا کر بھاگ اُٹھا لیکن ساٹھ کے ساٹھ یا تو زخمی ہو گئے یا مرگئے اتنے میں جب مسلمانوں نے دیکھا کہ ان کے ساتھ جانباز سپاہی لڑ رہے ہیں تو انہوں نے دشمن پر حملہ کر دیا اور دشمن کو جب خیر پہنچی کہ ان کا کمانڈر بھاگ گیا ہے تو وہ بھی بھاگ گئے.فتح کے بعد جب تلاش کیا گیا تو سوائے چند کے جو شدید زخمی تھے باقی سب مر چکے تھے.گرمی کا موسم تھا شدت پیاس کی وجہ سے زخمیوں کی زبانیں باہرنکل رہی تھیں.بعض سپاہی پانی کی گلیاں لے کر وہاں پہنچے جب وہ حضرت عکرمہ کے پاس گئے تو آپ کو سخت پیاس لگی ہوئی تھی انہیں پانی پینے کے لئے کہا گیا جب وہ پانی پینے لگے تو ان کی نظر اپنی داہنی طرف پڑی آپ نے دیکھا کہ حضرت فضل حضرت عباس کے بھائی شدت پیاس کی وجہ سے تڑپ رہے ہیں.آپ نے ان کی طرف اشارہ کیا اور کہا پہلے انہیں پانی دور جب وہ وہاں پہنچے تو انہوں نے اپنے پہلو میں ایک اور زخمی دیکھا جو شدت پیاس کی وجہ سے تڑپ رہا تھا انہوں نے اس کی طرف اشارہ
[A] کیا کہ پہلے اسے پانی پلاؤ.دس آدمی زخمی پڑے ہوئے تھے ان دستوں کے پاس جب آدمی چھا گل لے کر گئے تو انہوں نے دوسرے کی طرف بھیج دیا تا کہ اسے پہلے پانی پلایا جائے.جب وہ آدمی دسویں کے پاس پانی لے کر گیا تو وہ مر چکا تھا.نویں کے پاس گیا تو وہ بھی مر چکا تھا.آٹھویں کے پاس گیا تو وہ بھی مر چکا تھا.اسی طرح وہ ہر ایک کے پاس سے ہوتا ہوا دوبارہ مکرمہ کے پاس گیا تو وہ بھی مر چکے تھے.ب دیکھو کجا یہ کہ ابو جہل کی دشمنی کی یہ حالت تھی کہ اس نے انتہائی مخالفت کی اور کیا یہ کہ جب اسکے بیٹے عکرمہ کو بیتہ لگ گیا کہ اس کے باپ نے غلطی کی تھی تو وہی کہ یہ جو اپنی ذاتی عربات اور وجاہت کی خاطر اپنے باپ کے نقش قدم پر چلتا ہوا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑائی کیا کرتا تھا اسنے اپنے آپ کو رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی خاطر اس طرح قربان کیا کہ اس کی نظیر کم ملتی ہے.خالد ہیں بن ولید کو دیکھ امسلمان ان کا نام لیتے تھکتے نہیں لیکن وہ بھی رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم کا اثر ترین دشمن تھا.عمرو بن العاص کی بھی مسلمان تعریف کرتے ہیں کہ وہ بہترین جرنیل تھے لیکن وہ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اشد ترین دشمن تھے.ان کو دیکھو اور ان کی اولا دوں کو دیکھے احمد کے واقعات کو دیکھو وہ شخص جس کی وجہ سے فتح مبدل بشکست ہو گئی تھی وہ خالد بن ولید ہی تھے.وہ حملہ جس کی وجہ سے سلمان لشکر میں کہرام مچ گیا تھا وہ خالد کا ہی کیا ہوا تھا اور خالد ہی ہے جس کے متعلق رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سيف من سيونِ اللہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے.وہی خالد اسلام کی لڑائیوں میں اتنا زخمی ہوا کہ جب وہ مرنے لگا تو اس نے کہا میرے سر سے لے کر پاؤں تک کوئی ایسی جگہ نہیں جس میں تلوار کا نشان نہ ہو لیکن یہ وہی خالد تھا جس نے اسلامی لشکر کو پسپا کر دیا تھا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو زخمی کر دیا تھا دوسرا جو نیل جس نے خاندہ کے ساتھ مل کر مسلمان لشکر پر حملہ کیا وہ عمر و بن عاص تھا جس نے بعد میں حضرت عمرہ کے زمانہ میں مصر فتح کیا لیکن جنگ احد کے وقت یہی دونوں تھے جنہوں نے حملہ کر کے صحابہ کو زخمی کر کے رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم پر پھینک دیا اور آپ کو بھی زخمی کر دیا.حضرت عمرو بن عاص کے بیٹے حضرت عبداللہ عمرو " آپ سے پہلے مسلمان ہو چکے تھے (جو لوگ حدیث سے واقف ہیں وہ عبداللہ بن عمرو ا ور عبد اللہ بن عمر میں فرق نہیں کرتے.درحقیقت یہ دونوں الگ الگ شخصیتیں ہیں.حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے بہت سی روایات مروی ہیں، حضرت عمرو بن العاص جب فوت
TAF ہونے لگے تو آپ رو رہے تھے حضرت عبداللہ بن عمرو نے کہا باپ کیا آپ بھی روتے ہیں.اگر آپ کفر کی حالت میں مرتے تب تو کوئی بات تھی خدا تعالیٰ نے آپ کو اسلام نصیب کیا اور اب تو آپ کے لئے بشارت ہی بشارت ہے.حضرت عمرو بن عاص نے کہا بیٹا تمہیں معلوم نہیں اسلام کے ساتھ میری دو کیفیتیں رہی ہیں جب تک میں مسلمان نہیں ہوا تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مجھے اتنا بغض تھا اور اسلام کے ساتھ مجھے اتنی دشمنی تھی کہ میں نے کبھی آنکھ اٹھا کہ آپ کی شکل نہیں دیکھی تھی.اگر میں اس وقت مرتا اور کوئی شخص مجھ سے یہ پوچھتا کہ آپ کی شکل کیا تھی تو میں آپ کی شکل نہ بتا سکتا.پھر جب اسلام لایا تو مجھے آپ سے اتنا عشق پیدا ہوا اور میرے اندر آپ کی اس قدر محبت جاگزین ہوئی کہ میں آپ کے رعب کی وجہ سے آپ کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھتا تھا.اگر اب مجھ سے کوئی پوچھے کہ آپ کی شکل کیا تھی تو میں نہیں بتا سکتا.کفر کی حالت میں تخت کی وجہ سے میں نے آپ کی شکل نہ دیکھی اور اسلام کی حالت میں محبت اور عشق کی وجہ سے آپ کی طرف آنکھ اُٹھا کر نہ دیکھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں اگر فوت ہو جاتا تو کوئی فکر نہ تھا لیکن آپ کی وفات کے بعد کئی غلطیاں مجھ سے سرزد ہو گئی ہیں میں نہیں جانتا ان غلطیوں کی وجہ سے قیامت کے دن بھی آپ کا دیدار نصیب ہو یا نہیں.اور وہ یہ کہہ کر پھر رونے لگ گئے.ہماری جماعت کے لوگ مخالفت سے گھبراتے اور غصہ میں آجاتے ہیں لیکن مخالفت کی وجہ سے گھرانے اور غصہ میں آجانے کی کوئی وجہ نہیں.یہ لوگ مخالفت کیوں کرتے ہیں ؟ یہ لوگ اس لئے مخالفت کرتے ہیں کہ ان کا خیال ہے کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف ہیں اور نعوذ باللہ آپ کو گالیاں دیتے اور اسلام کو بگاڑتے ہیں.گویا وہ مخالفت رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم کی محبت اور اس غلط فہمی کے نتیجہ میں کرتے ہیں کہ ہم اسلام کے دشمن ہیں ہمیں دعائیں کرنی چاہئیں اور ساتھ ہی ساتھ تبلیغ کرنی چاہئیے.آخر ہم ان کی غلط فہمیوں کو کیوں دور نہیں کرتے.اگر ایک مولوی ہمارے متعلق یہ کہتا ہے کہ ہم حضرت امام حسین کی ہتک کرتے ہیں تو تم نے کیوں لوگوں کو یہ نہیں بتا یا کہ ہم حضرت امام حسین کی ہتک نہیں کرتے بلکہ ان کی تم سے بھی زیادہ عزت کرتے ہیں.اگر تم نے انہیں یہ بتایا ہوتا کہ حضرت سیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو یہ کہا ہے 5
۱۸۳ خاکم نشار کوچه آل محمد است تو وہ حقیقت سمجھے جاتے اور مولویوں سے کہتے کہ کیا یہ فقرہ کہنے والا شخص حضرت امام حسین کا دشمن یا ہنگ کرنے والا ہو سکتا ہے لیکن تم گھروں میں بیٹھے رہے اورگھر بیٹھے بیٹھے تم نے مجھ لیا کہ لوگوں نے اس کے معنے سمجھ لئے ہیں.پھر فرض کر و اگر دشمن یہ کہتا ہے کہ مرزا صاحب (علیہ الصلوۃ والسلام) نے مولویوں کو گالیاں دی ہیں تو تم ان کے سامنے گالیوں کی ایک فہرست رکھ دیتے کہ یہ گالیانی مولویوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دی ہیں.یہ سب گالیاں کتابوں میں چھپی ہوئی ہیں تم وہ کتابیں ان کے سامنے رکھ دیتے اور انہیں بتاتے کہ کیا یہ مولویوں کا کام ہے تو ساری بات ان کی سمجھ میں آجاتی میشلا اگر کوئی کیسی کو حرام زادہ کہے اور وہ اسے کہے بے ایمان یہ بات مت کہو اور پہلا شخص جس نے اسے حرام زادہ کہا ہے اس سے لڑنے لگ پڑے.اب اگر تیسرا شخص پاس سے گذرتا ہے اور وہ اس سے دریافت کرتا ہے میاں تم لڑتے کیوں ہو اور وہ کہتا ہے اس نے مجھے بے ایمان کہا ہے تو اگر پہلا شخص اسے یہ بتا دیتا ہے کہ اس نے مجھے حرام زادہ کہا ہے اور قرآن و سعدیث نے ایسا کہنے سے منع فرمایا ہے تو وہ کہے گا یہ تو قرآن اور حدیث کی بات کہتا ہے یہ گالی نہیں گالی وہ ہے جو تم نے دی.پس اگر تم لوگوں کے پاس جاتے ہو اور انہیں بتاتے ہو کہ مولویوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ و السلام کو یہ یہ گالیاں دی ہیں اور ان کے جواب میں آپ نے انہیں یہ کہا ہے کہ قرآن کریم نے ان سے منع فرمایا ہے تو وہ مولویوں کے پاس جاتے اور انہیں کہتے مرزا صاب کو تم نے یہ یہ گالیاں دی ہیں اب اگر انہوں نے اس کے جواب میں کچھ کہا ہے تو شریعت میں اس کا نام گالی نہیں.اس پر مولوی یا تو یہ کہ دیتے کہ یہ ہماری کتابیں نہیں یا یہ فتوی دیتے کہ ہمارے ماں بنا اور آباء و اجداد جھوٹے اور مفتری تھے لیکن یہ صاف بات ہے کہ وہ یہ فتویٰ ہرگز نہیں دیں گے کہ ہمارے ماں باپ جھوٹے اور مغزی تھے.اگر ایک اہل حدیث تمہارے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ مرزا صاحب نے مولویوں کو گالیاں دی ہیں تو تم جھٹ اپنی کی کتابیں ان کے سامنے رکھ دو اور کو که مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور دوسرے علماء اہل حدیث نے مرزا صاحب کو یہ یہ گالیاں دی ہیں اور مرزا صاحب نے انہیں ان گالیوں سے منع فرمایا ہے لیکن جب ایک مولوی یو ہنی شور مچا دیتا ہے کہ مرزا صاحب نے مولویوں کو گالیاں دی ہیں تو لوگوں کو چونکہ پتہ نہیں ہوتا کہ ان کے
IN باپوں نے مرزا صاحب کو کیا کچھ کہا ہے.اس لئے وہ مخالفت کرنے لگ جاتے ہیں تم ان کے پاس جاؤ اور ان کے سامنے ان کی کتابیں رکھ دو اور بتاؤ کہ تمہارے علماء نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ اسلام کو یہ یہ گالیاں دی ہیں اور کیا یہ اسلام کی تعلیم کے مطابق ہے.بعض غیر اسلامی گالیاں نہیں اور بعض غیر اسلامی نہیں مثلاً احمق ہے کسی کو احمق کہنا شرافت کے تو خلاف ہے لیکن اسلام کے خلاف نہیں.لیکن اگر کوئی حرام زادہ کہہ دیتا ہے تو یہ اسلام کے خلاف ہے اسلام نے ایسا کہنے سے منع فرمایا ہے.پھر اس قسم کی احادیث موجود ہیں کہ اگر کوئی کسی کو بڑا کلمہ کہتا ہے تو وہ اس کی طرف لوٹ آتا ہے.اب یا تو یہ باتیں احادیث سے نکال دو اور اگر انہیں احادیث سے نہیں نکالتے تو پھر غصہ میں کیوں آتے ہو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جو کسی مسلمان کو کافر کہتا ہے وہ خود کا فر ہو جاتا ہے اگر کوئی کسی کو کا فرکھتا ہے تو وہ خود کا فر ہو جاتا ہے.اب یا تو یہ حدیث کاٹ دو اور یا ہماری بات مانو ہم کوئی نیا فتوئی نہیں دیتے آج سے چودہ سو سال قبل سے یہ باتیں کتابوں میں لکھی ہوئی ہیں ہم تو آج پیدا ہوئے ہم امام مسلم کے ساتھ تو نہیں بیٹھے تھے ہم امام بخاری کے ساتھ تو نہیں بیٹھے تھے ہم ابو داؤد اور ترمزی کے ساتھ تو نہیں بیٹھے ہم نسائی اور ابن ماجہ کے پاس تو نہیں بیٹھے تھے لیکن ان بزرگوں نے اپنی اپنی کتابوں میں یہ باتیں لکھی ہیں اور وہ اب تک موجود ہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بہبودی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہتے ہیں یہ جھوٹا ہے اللہ تالے کہتا ہے تم اسے جھوٹا کیونکر کہ سکتے ہو ؟ حضرت موسی علیہ السلام کی کتاب میں جو پیش گوئیاں اس کے متعلق پائی جاتی ہیں اور وہ اس کے حق میں پوری ہو گئی ہیں کیا وہ پیش گوئیاں اس نے موبی نی علیہ السلام کو لکھوا دی تھیں.اگر آج سے کئی سو سال قبل کی لکھی ہوئی باتیں اس شخص کے حق میں پوری ہو جاتی ہیں تو یہ شخص یقینا سچا ہے اگر یہ جھوٹا ہوتا تو خدا تعالیٰ اتنے سو سا! قبیل کی کسی ہوئی باتیں اس کی ذات میں کیوں پوری کرتا غرض جو بات مسلمان عیسائیوں اور یہودیوں کے اعتراضات کے جواب میں کہتے ہیں وہی بات ہم کہتے ہیں کہ سلم اور بخاری میں یہ باتیں لکھی ہیں ہم تو اس وقت موجود نہیں تھے کہ ہم نے خود یہ باتیں لکھوا دیں.اگرتم کہو کہ میں مسلم اور بخاری کے وقت میں موجود تھا تو تمہیں یہ بھی مانا پڑے گا کہ کیں فرشتہ ہوں اور اگر میں فرشتہ ہوں تو تم فرشتے کی کیوں مخالفت کرتے ہو اور اگر میں انسان ہوں تو صات بات ہے کہ یہ باتیں میں نے مسلم اور بخاری کو نہیں لکھوائیاں پھر اگر انہوں نے یہ باتیں خدا تعالیٰ کی
۱۸۵ طرف منسوب کر کے لکھی ہیں تو اگر خدا اور اس کے رسول کا دشمن تھا تو یہ باتیں میرے ساتھ کیسے پوری ہو گئیں آخر اس کی بھی تو کوئی دلیل ہونی چاہئیے مثلاً رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ آنیوالا مسیح شادی کرے گا اور اس کے نتیجہ میں اس کی اولاد بھی ہو گی يَتَزَوج وَيُولد له اب سیدھی بات ہے کہ خالی شادی کوئی اہم بات نہیں لوگ شادیاں کرتے ہی ہیں.مان لیا مرزا صاحب چھوٹے ہی ہیں لیکن یہ تو بتائیے کہ اگر آپ جھوٹے تھے تو خدا تعالیٰ یہ بات پوری نہ ہونے دیتا.اول تو آپ شادی ہی نہ کرتے یا اگر شادی کرتے تو آپ کی بیوی مر جاتی یا وہ اچھے خاندان سے نہ ہوتی یا اس کے ہاں اولاد نہ ہوتی یا اولا د پیدا ہوتی تو وہ مرجاتی لیکن وجہ کیا ہے کہ ایک شخص خدا تعالیٰ پر افترا بھی کرتا ہے لیکن خدا تعالیٰ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی سب باتیں اس کی ذات میں پوری کر دیتا ہے یا مثلاً رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ آنے والے مسیح اور مہدی کے زمانہ میں سورج اور چاند کو رمضان کے مہینہ میں گر میں لگے گا اور فرمایا یہ ایک ایسی آیت ہے کہ یہ کسی اور مدعی نبوت پر پوری نہیں ہوئی.یہ بات شیعوں اور سنیوں سب کی کتابوں میں لکھی ہوئی ہے اور یہ کہ میں پوری ہوئی.گجرات کا ایک افعہ ہے کہ ایک مولوی کہتا تھا مرزا علی الصلوۃ والسلام) سچا کیسے ہوسکتا ہے.حدیث میں یہ لکھا ہے کہ جب میں آئے گا سورج اور چاند کو گرہن لگے گا اور ایسا گر ہن اس سے قبل کسی مدعی نبوت کے زمانہ میں نہیں لگا ہو گا.جب یہ گرہن لگا تو اس مولوی کے ہمسایہ میں ایک احمدی رہتا تھا اس نے اسے بتایا کہ گرہن لگنے کی علامت پوری ہو گئی تب وہ مولوی کوٹھے پر کھڑا ہو کر سورج گرہن دیکھتا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا اب لوگ گمراہ ہو جائیں گے اب لوگ گمراہ ہو جائیں گے.یہ نہیں کہا کہ یہ خدا تعالیٰ کا ایک نشان ہے جس کے نتیجہ میں لوگ ہدایت پائیں گے بلکہ وہ کہتا تھا کہ اس کے نتیجے میں لوگ گمراہ ہو جائیں گے.اب سوال یہ ہے کہ جو جھوٹا ہوتا ہے اس پر بچوں والی علامتیں کیسے پوری ہو سکتی ہیں مثلا حکومت ہے وہ افسر مقرر کرتی ہے اور اس کی علامتیں مقرر کرتی ہے.وہ گزٹ شائع کرتی ہے کہ خلال افسر فلاں جگہ پر مقرر کیا گیا ہے.مثلاً ایک ڈپٹی کمشنر ہے حکومت کہتی ہے فلاں شخص کو فلاں ضلع میں ڈپٹی کمشنر مقر رکیا جاتا ہے سب محکمے اس کے ماتحت ہوں گے تحصیلدار، ضلع دار ، گرد اور اور پٹواری سب اس کے تابع ہوں گے.اس کے بعد ایک شخص آتا ہے گزٹ میں اس کا نام چھپ جاتا ہے.سب محکمے اس کی اطاعت کرتے ہیں لیکن لوگ کہتے ہیں یہ جھوٹا ہے بھلا گورنمنٹ ایسا کرنے دیتی ہے اگر کوئی ے مشکور مجتبائی باب نزول عیسی بن مریم به دار قطنی جلد را مشاء
LAY شخص عملی طور پر اپنے آپ کو افسر ظاہر کرے گا تو فوراً اسے گرفتار کر لے گی.اور اگر کوئی حکومت ایسٹ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی تو کیا خدا تعالیٰ اتنا کمزور ہے کہ ایک شخص اس پر الزام لگاتا ہے اور اختر کرتا ہے کہ منا اتعالیٰ اسے وحی کرتا ہے لیکن خدا تعالیٰ سب پیش گوئیاں اس کی ذات میں پوری کر دیتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اس زمانے میں عیسائیوں کا زور ہوگا اورعیسائیوں کا زور ہو جاتا ہے.بندا تعالیٰ فرماتا ہے اس زمانہ میں یا جوج اور ماجوج چاروں طرف سے پہاڑوں کی چوٹیوں اور سمندروں کی لہروں پر سے گذر کر دنیا پر قابض ہو جائیں گے اور وہ قابض ہو جاتے ہیں لیکن لوگ کہ دیتے ہیں شخص جھوٹا ہے یہ بالکل وہی بات ہے کہ کسی بز دل کو فوج میں بھرتی کر لیا گیا لڑائی میں اسے تیر آلگا اور اس کے جسم سے خون بہنے لگا.وہ بزدل تو تھا ہی تیر لگنے کے بعد وہ میدان میں کیسے ٹھر سکتا تھا وہ بیساختہ پیچھے کو بھا گا وہ دوڑتا چلا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا یا اندیہ ختخواب ہی ہو یا اللہ یہ خواب ہی ہو.تیر تو جسم میں لگ چکا تھا اور خون مہر رہا تھا اب اس کے کہنے سے کہ یا اللہ یہ خواب ہی ہو خواب کیسے بن سکتا ہے.یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک شخص میں یہ سب علامات پوری ہو چکی ہوں لیکن لوگ کہیں یا اللہ یہ جھوٹا ہی ہو یا اللہ یہ جھوٹا ہی ہو یہ باتیں بھلا ہو سکتی ہیں مومن تو خوش ہوتا ہے کہ یہ باتیں پوری ہوئیں پس جاؤ اور لوگوں کویہ بتاؤ بخاری اور سلم یہ دیکھتے ہیں اور یہ سب کچھ پورا ہو گیا ہے.اب کیا ہم اس وقت موجود تھے کہ ہم نے خود یہ باتیں انہیں کھوا دیں اور اگر ہم اس وقت موجود نہ تھے تو پھر آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے ماننے میں انکار کیا ہے.خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ مِنْ كُلِّ حَدَ بِ يَنْسِلُون و يا جوج اور یا جوج پہاڑی رستہ سے بھی آئیں گے اور نشیب کے رستہ سے بھی.وہ سمندر کے رستہ سے بھی آئیں گے اورخشکی کے رستہ سے بھی اور ساری دنیا پر چھا جائیں گے.بائیبل میں لکھا ہے اسے جوج روسی اور مس اور توبل کے فرمان ولا حز قیل بائے ) یہ سب باتیں پہلے سے لکھی ہوئی ہیں اگر ان میں سے ایک بات پوری ہوگئی تو یقینا دوسری بھی ٹھیک ہے.اگر روس کا ذکر آگیا تو یقینا دوسرا فریق برطانیہ اور امریکہ ہے.یہ دانیال اور حزقیل کی پیش گوئی ہے.قرآن کریم فرماتا ہے یہ یا جوج ماجوج تمام دنیا پر چھا جائیں گے اور ہم دیکھتے ہیں کہ یہ سب باتیں پوری ہوگئی ہیں.آج سے سو سال قبل کسی کا وہم بھی ہوسکتا تھا کہ روس اس طرح ترقی کر جائے گا لیکن اس صدی والوں کو کتنا ہوں کہ سر میں جاپان نے روہین 19 له الانبياء : ٩٠
IAL کو کس طرح گرایا تھا.اس وقت کیا کوئی خیال بھی کر سکتا تھا کہ ایک دن روس انتاز و رپکڑ جائے گا کہ دوسری حکومتیں اس سے لرزنے لگ جائیں گی لیکن نوشتوں میں لکھا تھا کہ تو دنیا میں پھیلے گا اور کی تجھے تباہ کر دوں گا.اور ادھر یا جوج کے متعلق لکھا ہے کہ وہ سمندوں کی اوروں اور پہاڑوں کی چوٹیوں سے گذر کر دنیا پر چھا جائے گا یہ کتنی صاف پیش گوئی ہے کیا تم اسے قرآن کریم سے نکال دو گے یا تو تم کہو یہ غلط ہے لیکن سوال یہ ہے جب یہ پیش گوئی پوری ہو چکی ہے تو غلط کیسے ہو سکتی ہے ؟ یہ تو وہی بزدلی والی بات ہے کہ یا الہی خواب ہی ہو یا الہی خواب ہی ہو.ایک قوم جس کا نام با ٹیبل میں آتا ہے اور جس کے پھیلنے کے متعلق قرآن مجید اور بائیبل میں پیشگوئی تھی وہ دنیا میں پھیل گئی.اب کیا تم یہ کہونگے کہ قرآن اور بائیبل ٹھوٹے ہیں اس لئے کہ مرزا صاحب جھوٹے ثابت ہو جائیں.اسلامی طریق و یہ تھاکہ تم کہتے کہ مرزا صاحب بچے ہیں کیونکہ اس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہتے ثابت ہوتے ہیں.**** ایک راجہ نے دربار میں کہا میں نے بینگن کھائے ہیں بڑا مزہ آیا بینگن بڑی لذیذ سبزی ہے ایک درباری نے کہا ہاں ہاں حضور مینگن بڑی لذیز چیز ہے.وہ طلبت بھی پڑھا ہوا تھا اس نے کہا اس میں یہ یہ خوبیاں ہیں پھر کیا حضور اس کی شکل دیکھیں تو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی صوفی نماز کے لئے کھڑا ہو.چند دنوں کے بعد راسیہ نے دربار میں کہا میں نے بینگن کھائے تو مجھے بواسیر ہوگئی میں سمجھتا تھا کہ یہ بہت اچھی چیز ہے لیکن اب معلوم ہوا ہے یہ بڑی ناقص چیز ہے.اب ہر چیز میں برائیاں بھی ہوتی ہیں اور خوبیاں بھی ہوتی ہیں سنکھیا کو دیکھ لو سنکھیا مارتا بھی ہے اور زندہ بھی کرتا ہے.اسی طرح دوسری چیزوں کا حال ہے لیکن جب راجہ نے کہا کہ میں نے بینگن کھائے تو مجھے تکلیف ہو گئی یہ بہت ناقص سبزی تھی، تو وہی درباری اُٹھا اور اس نے کہا ہاں ہاں حضور یہ بڑی ناقص چیز ہے اس میں یہ یہ برائیاں ہیں اور پھر اس کی شکل بالکل ایسی ہے جیسے کسی چور کو اس کے ہاتھ باندرہ کر سولی پر لڑکا دیا جائے.لوگوں نے پوچھا یہ کیا بات ہے اگلے دن تو تو نے بینگن کی اتنی تعریف کی کہ بعد نہ رہی اور آج اتنی موقت کی کہ گویا اس جیسی بلید چیز دنیا میں کوئی نہیں.اس نے کہا کی راجہ کا نوکر ہوں بینگی کا نوکر نہیں اسی طرح اسے بھا ئیو باہم میں اس سے کیا کہ عیسی علیہ السلام آئیں گے یا نہیں تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نوکر ہو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر آج تم یہ اعتراض کرتے ہو کہ آپ کے
IMA حدیث اور سنت کے خلاف جاتے ہیں حالانکہ آپ حدیث و سنت سے اپنے دعوی کے ثبوت میں دلائل دیتے تھے.پھر آپ حنفیوں میں پیدا ہوئے اس طرح آپ ان کے عقیدوں سے واقف تھے پھر آپ قرآن کریم سے دلائل دیتے تھے.ان دنوں مولوی محمد حسین صاحب بڑے عالم سمجھے جاتے تھے وہ اعتراض کرتے وقت کہتے تھے کہ قرآن میں یہ لکھا ہے حدیث میں یہ لکھا ہے سنت رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام قرآن و حدیث سے ہی ان اعتراضات کے جواب دیتے تھے اور فرماتے قرآن میں یہ لکھا ہے حدیث میں یہ لکھا ہے.حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفتہ اسیح اول رضی اللہ عنہ ایک دفعہ اتفاق سے قادیان آئے اور کسی کام کے لئے لاہور ٹھر گئے.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی لاہور آئے ہوئے تھے انہوں نے خیال کیا کہ مولوی صاحب حضرت مسیح موعود علی الصلوۃ والسلام کے مقرب ہیں ان سے بحث مباحثہ ہو جائے چنانچہ مولوی میرحسین منا نے اشتہار بازی شروع کر دی.حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اسی اول رضی اللہ عنہ کی دو ماہ کی رخصت تھی اور وہ لاہور میں ہی ختم ہوگئی مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے کہا بتاؤ حضرت عیلی علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں یا زندہ ہیں اور وہ حیات میں کے بارہ میں احادیث سے دلائل دیتے لیکن حضرت خلیفہ اسے اول ان کا قرآن کریم سے رد کر دیتے اور قرآن کریم سے وفات مسیح ثابت کرتے.مولوی محمد حسین صاحب قرآن کریم کی طرف نہیں آتے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ حضرت خلیفہ ایسیح اول کو بھی قرآن کریم سے ہٹا کر احادیث کی طرف لے آئیں.آنٹر حضرت خلیفہ السیح اول نے اس کی بات کو جھوٹا کرنے کے لئے کہا کہ جو بخاری کہے وہ میں مان لوں گا.ایک دوست نظام الدین نامی تھے انہیں حج کرنے کا بڑا شوق تھا انہوں نے دس ا حج کئے تھے وہ بمبئی تک پیدل جاتے اور آگے جہاز کے ذریعہ سفر کرتے انہوں نے براہین احمدیہ پڑھی ہوئی تھی اور انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی دونوں سے عشق تھا جب یہ لوگ شور مچاتے کہ مرزا صاحب کہتے ہیں کہ قرآن کریم کی رو سے عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں تو یہ بات ان کی سمجھ میں نہ آتی تھی کہ مرزا صاحب قرآن و حدیث کے بلند پایہ عالم ہو کہ اتنی بڑی غلطی کے مرتکب ہوئے ہیں.ایک دفعہ وہ حج کے لئے گئے جب واپس آئے تو کسی شخص نے ان سے اس بات کا ذکر کر دیا کہ مرزا صا حب نے یہ کہا ہے کہ عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں اور یہ امر قرآن کریم
1A9 سے ثابت ہے.انہوں نے کہا مرزا صاحب میرے دوست ہیں لیکن جانتا ہوں کہ وہ بہت بڑے عالم ہیں اور قرآن و حدیث کے مسائل سے بخوبی واقف ہیں وہ ایسا نہیں کہہ سکتے.وہ کہنے لگے یا تو مرزا صاحب نے یہ کہا نہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہوگئے ہیں اور اگر کہا ہے تو میں ان کے پاس جاؤں گا اور انہیں کہوں گا کہ وہ ایساد عوئی نہ کریں اور وہ مان لیں گے چنانچہ وہ قادیان آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ و السلام کے پاس حاضر ہو کر کہنے لگے ہیں حج پر گیا ہوا تھا جب واپس آیا تو میں نے یہ عجیب بات شنی کہ آپ نے فرمایا ہے عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے فرمایا ہاں میں نے یہ بات کہی ہے.انہوں نے کہا میں لوگوں سے کہہ آیا ہوں کہ میں مرزا صاحب سے کہوں گا کہ آپ یہ دعوئی نہ کریں تو آپ لاہور یاد ہی کی کسی مسجد میں تو یہ کا اعلان کریں اگر وہ نہ مانے تو میں کہوں گا کہ اگر یہ امر قرآن کریم سے ثابت نہ ہو سکے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواة والسلام نے فرمایا ہاں اگر یہ امر قرآن کریم سے ثابت نہ ہوا تو میں ایسا کرنے کے لئے تیار ہوں.انہوں نے کہا اچھا میری تسلی ہو گئی ہے میں نے مولوی صاحب سے کہا ہے کہ وہ قرآن کریم کی تین سو آیات سے حضرت علی علیہ السلام کی حیات ثابت کر کے دکھائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تین سو آیات کی کیا ضرورت ہے اس کے لئے ایک آیت ہی کافی ہے.میاں نظام دین صاحب کو شبہ پڑا کہ شاید قرآن کریم میں حیات مسیح کے متعلق تین سو آیات نہ ہوں اس لئے انہوں نے کہا اچھا دو سو آیات سے ہی وہ حیات مسیح ثابت کریں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے پھر فرمایا کہ اس کے لئے ایک آیت ہی کافی ہے.انہیں پھر تبہ پڑا کہ شاید قرآن کریم میں حیات مسیح کو ثابت کرنے کے لئے دو سو آیات بھی نہ ہوں اس لئے انہوں نے کہا اچھا وہ ایک سو آیات سے حیات مسیح ثابت کریں.آپ نے فرمایا نہیں اس کے لئے ایک آیت ہی کافی ہے اور پھر وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح نیچے اتر تے گئے جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدا تعالیٰ سے لوط کی بستی کے متعلق فرمایا تھا خدایا اس میں اگر چالیس تجھ پر یقین رکھنے والے ہوں کیا تب بھی تو اسے تباہ کر دے گا تو خدا تعالی نے کہا اسے ابراہیم ! تب میں انہیں معاف کر دوں گا.اس سے آپ کو شبہ ہوا کہ شاید اس بستی میں اتنے مومن نہ ہوں اس لئے آپ آہستہ آہستہ نیچے اُترتے گئے یہاں تک کہ آپ دنیل تک آگئے اور خدا تعالیٰ نے کہا ابراہیم اگر اس میں دنس مومن بھی ہوں تب بھی یکیں اس بستی کو تباہ نہیں کروں گا
19.اور جب حضرت ابراہیم کو معلوم ہوا کہ اس بستی میں دسن مومن بھی نہیں تو آپ نے دعا کرنی چھوڑ دی.اسی طرح میاں نظام الدین صاحب بھی دنی آیات پر آگئے اور جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا نہیں دینی آیات تو کیا وہ ایک آیت سے ہی حیات مسیح ثابت کر دیں تو وہ کہنے لگے آخرقرآن کریم میں حیات بسیج کو ثابت کرنے والی اتنی کم آیات تو نہیں ہوں گی وہ خوشی خوشی لاہور پہنچے مولوی محو میں صاحب ابٹالوی اس وقت مسجد چینیاں والی میں بیٹھے تھے اور وہ وہ دن تھا جب حضرت خلیفہ اسی اولی منی نے یہ بات مان لی تھی کہ قرآن کے علاوہ آپ بخاری بھی پیش کر سکتے ہیں اور مولوی محمد حسین صاحب بہت خوش تھے کہ وہ بالآخر حضرت خلیفہ مسیح اول کو قرآن کریم سے ہٹا کر احادیث پر لے ہی آئے ہیں مولوی محمد حسین صاحب میں خود نمائی کا شوق پایا جاتا تھا وہ اپنے شاگردوں کو بتا رہے تھے کہ مولوی نور الدین نے مرزا صاحب کا شاگرد ہے اور بہت بڑا طبیب ہے میں نے اسے یوں رگیدا اور یوں لتاڑا اور آخر وہ احادیث کی طرف آہی گیا.اتنے میں میاں نظام الدین صاحب آگئے اور انہوں نے مولوی محمد سید صاحب بٹالوی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا آپ یونہی کام خراب کر رہے ہیں مرزا صاحب تو سیدھے سادھے آدمی ہیں اور وہ قرآن کریم کو مانتے ہیں میں انہیں یہ بھی منوا آیا ہوں کہ اگر قرآن کریم میں سے ہم دنی آیات حیات مسیح کی نکال دیں تو وہ دہلی یا لاہور کی کسی مسجد میں وفات مسیح کے عقیدہ سے توبہ کرلیں گے اور یہ دس آیات بھی یکی نے ہی کہی ہیں ورنہ وہ تو کہتے ہیں کہ تم حیات سیح کی ایک ہی آیت قرآن کریم سے نکال دو لیکن میں نے کہا دنل سے بھی کیا کم آیات ہوں گی.آپ مولوی نور الدین صاحب سے جھگڑا کرنا چھوڑ دیں اور دس آیات حیات مسیح کی بتا دیں مولوی محمد حسین صاحب غصہ میں آکر کہنے لگے تم کو کس نے کہا تھا کہ اس معاملہ میں دخل دیتے ہیں مولوی نور الدین کو گھسیٹ کر حدیث کی طرف لایا ہوں اور تم پھر قرآن کریم کو بیچ میں لے آئے ہو.میاں نظام الدین صاحب اس صدمہ میں چند منٹ خاموش بیٹھے رہے پھر کہنے لگے اچھا مولوی صاحب عبد ھر قرآن ہے ادھر ہیں.اور اس کے بعد قادیان بنا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کرلی.پر حقیقت یہی ہے کہ جومسلمان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت رکھتا ہے اس کے دل میں یہی ہے کہ جدھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ادھر میں ہوں تم جاؤ اور انہیں بتاؤ کہ لوگ تمہیں دھوکہ دیتے ہیں اور تم دھوکہ میں آکر ہماری مخالفت کرتے ہو تم ان کے سامنے قرآن رکھو اور کہو ہم پر کیا
141 الزام رکھتے ہو قرآن کریم میں سب کچھ لکھا ہے اسے پڑھو اور پھر اس پر عمل کرو.ان کے سامنے احادیث رکھو اور کہو کہ جو کچھ ہم کہتے ہیں وہ سب احادیث میں پہلے سے موجود ہے ہم نے اپنے پاس سے یہ عقیدہ نہیں گھڑ لیا بلکہ آج سے کئی سو سال پہلے یہ بات احادیث میں لکھی ہوئی موجود تھی اس طرح ایک شخص جس کے اندر کفر اور ارتداد پیدا نہیں ہوا وہ جب دیکھے گا کہ خدا تعالٰی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس طریق کے اختیار کرنے پر خوش ہیں تو اس کا جوش ٹھنڈا ہو جائے گا.جس طرح نظام الدین نے کہا تھا کہ جد در قرآن ادھر ہیں.یہ لوگ بھی کہیں گے بدھ محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم ادھر ہم.اور تم دیکھوگے کہ جو لوگ آج قسمیں کھاتے ہیں کہ وہ تمہاری پھائے نہیں ہٹیں گے تمہیں ماریں گے اور تمہارا بائیکاٹ کر ینگے وہ تمہارے ساتھ چھوٹ جائیں گے اور کہیں گے جد مصر قرآن ادھر ہم انہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم سے دشمنی نہیں.انہیں یہ غلط فہمی ہو گئی ہے کہ تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کے دشمن ہو.تم ان پہ ثابت کر دو کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کے دشمن نہیں دوست ہیں پھر ان کے دل صاف ہو جائیں گے.ابھی مسلمانوں کے اندر انسانیت زندہ ہے، ان کے اندر محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی محبت کی چنگاری موجود ہے تم اسے ٹھنڈا کرنے کی بجائے گرم ہوا دو یہ مخالفت خود بخود ہٹ جائے گی.یہاں آیا تو یکی بمیار کی حالت میں ہوں اور جیسا کہ دوستوں کو محسوس ہو رہا ہوگا کہ میرا گلا بیٹھ رہا ہے اور یکن بولنا نہیں چاہتا تھا لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے نہیں مدتوں کی انتظار کے بعد اس بستی میں آیا ہوں اور اس نہستی سے مجھے رومانی اور جسمانی تعلق ہے.اس سینتی کے ایک معزز گھرانے کی لڑکی میری بیوی تھی اور اس ہیوی سے میری اولاد بھی ہے.پھر اس بستی کے ایک معزز شخص سے میں نے قرآن کریم اور بخاری کا ترجمہ پڑھا.پس اس بستی سے مجھے روحانی اور جسمانی نسبت ہے.میرا دل کہتا ہے کہ جس کو میں سچا سمجھتا ہوں، اس کو یہاں کے رہنے والے لوگ بھی سچا سمجھنے لگ جائیں اور جس طرح ان کا حق ہے کہ وہ مجھے کیں تم غلطی پر ہو ہم سے کہتے ہیں اسی طرح میرا بھی حق ہے کہ میں انہیں کہوں میں حق پر ہوں تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے کیونکہ یہ ناپسندیدہ امر ہے کہ کوئی شخص دوسرے کو کہے مجھے تو تمہیں غلطی میں مبتلا تجھے کا حق ہے لیکن تمہیں ایسا کرنے کاحق حاصل نہیں.کوئی مذہب ایسا نہیں جس کا تم نام لو اور میں نے اسکی کتا ہیں نہ پڑھتی ہوں.ایک پاگل شخص جو مولوی محمد علی صاحب کی جماعت سے تعلق رکھتا اسے رہ کبھی کبھی
۱۹۲ مجھے خط لکھ دیتا ہے اور اس کی نقل مولوی محمد علی صاحب کو بھیج دیتا ہے اور کبھی مولوی محمد علی صاحب کو خط لکھتا ہے اور اس کی نقل مجھے بھیج دیتا ہے.ایک دن وہ میرے پاس آیا اور کہا کیا آپ میرے خطوط پڑھتے ہیں میں نے کہا ہاں.اس نے کہا اچھا آپ میرے خطوط پڑھتے ہیں.یکس نے کہا جب کوئی شخص کہتا ہے کہ مجھے خدا تعالیٰ نے یوں کہا تو میں اس کے خطوط کیوں نہ پڑھوں.وہ حق پر ہو یانہ ہو لیکن میرا فرض ہے کہ وہ چیز جسے وہ خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہے ضرور پڑھوں.وہ مولوی محمد علی صاحب کے پاس گیا اور انہیں کہنے لگا آپ بڑے تنگ دل واقع ہوئے ہیں لیکن آپ کا مرید تھا لیکن آپ میرے خطوط نہیں پڑھتے اور جبر کا ایک مرید نہیں تھا وہ کہتا ہے کہ یکی تمہارے خطوط پڑھتا ہوں.غرض میں نے دنیا کے ہر مذہب کا لٹریچر پڑھا ہے.میں نے مفتیوں کا لٹریچر پڑھا ہے میں نے شیعوں کا لٹریچر پڑھا ہے.میں نے خارجیوں کا لٹریچر پڑھا ہے ہندوؤں ، زرتشیوں اور عیسائیوں کا لٹریچر کیں نے پڑھا ہے.مجھے جب خوداتعالیٰ کہے گا بتاؤ تمہیں کس طرح پتہ لگا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ و السلام سنتے ہیں تومیں کہونگا یں نے ہر مذہب کی کتب کا مطالعہ کیا ہے اور ان سے مجھے یہی معلوم ہوا ہے کہ حضرت مسیح موعود علی الصلاة والسلام نے جو کچھ کہا ہے وہ ٹھیک ہے لیکن جس نے دوسرے مذاہب کا لٹریچر نہیں پڑھا وہ خدا تعالیٰ کو کیا جواب دے گا.خدا تعالیٰ کہے گا مان لیاشتی مذہب سینچا ہے لیکن جب تم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا شائع کردہ لٹریچر نہیں پڑھا تمہیں یہ کس طرح پتہ لگا کہ وہ اپنے دعوئی میں پہنچتے نہیں.ظاہر ہے کہ وہ اس سوال کا جواب نہیں دے سکتا.رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم جب وعظ فرماتے تو ابو جہل اور اس کے ساتھی شور مچا دیتے تھے اور آپ کی بات نہیں سنتے تھے.اب خواہ وہ اپنے خیال میں پیچھے بھی ہوں پھر بھی وہ خدا تعالیٰ کو کیا جواب دیں گے جب انہوں نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی بات کوٹنا ہی نہیں اور اس پر غور نہیں کیا.پس یکی جھوٹا سہی ، احمدیت جھوٹی سی لیکن خدا تعالے کے سامنے تم کیا جواب دو گے.اگر تم نے احمدیت کا لٹریچر پڑھا ہوتا اور پھر تم سے حضرت سیح موعود علیہ الصلاة و السلام کے ماننے میں غلطی ہو جاتی تو مکہ سکتے تھے خدا یا اہم نے ان کے عقائد کو بغور پڑھا تو تھا لیکن ہم نے یہی نتیجہ اخذ کیاکہ یہ جھوٹے ہیں تو خدا تعالی کہے گا اچھا تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے اور یہ قابل معافی ہے لیکن ایک شخص اگر یہ کہے کہ میرے پاس ایک شخص آیا تھا اور اس نے کہا تھا کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوں لیکن میں نے اسے پرے دھکیل دیا اور کہا تم جھوٹ بولتے ہو تو خدا تعالیٰ کہے گا تم نے میری
١٩٣ ہنگ کی.ایک شخص نے تمہارے سامنے یہ کہا کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوئی اور خدا تعالیٰ نے مجھے یوں کہنا ہے لیکن تم نے اس کی بات کو بغور سنا نہیں اور اسے رہ کر دیا.ایک شخص اگر ایسی بات کہتا ہے اور تخم سمجھے ہو کہ یہ محض افتراء ہے تو تم اسے سمجھا دو کہ میاں یہ بات درست نہیں لیکن اس کی بات من او کیونکہ اگر تم اس کی بات سنتے ہی نہیں تو خدا تعالیٰ کے سامنے کیا جواب دو گے کہ اسے میں نے کیوں رد کر دیا تھا.محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم جب وعظ فرمایا کرتے تھے تو مکہ والوں نے لوگوں کو یہ کھا دیا تھا کہ جب یہ وعظ کریں تو تم وہاں سے بھاگ جاؤ، کانوں میں انگلیاں ڈال لو اور اس کی بات نہ سنو.تیر کا سال تک آپ نے تبلیغ کی اور مصائب اور تکالیف کا مقابلہ کیا.ایک دفعہ حج کے موقع پر جب لوگ کثرت سے مکہ میں جمع ہو گئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جہاں کچھ آدمیوں کو کھڑا دیکھتے نہیں تبلیغ کرنے لگ جاتے بعض لوگ آپؐ کی بات سنتے اور حیرت کا اظہار کر کے علیحدہ ہو جاتے اور بعض باتیں سن رہے ہوتے تو ملنے والے ان کو ہٹا دیتے اور بعض جو مکہ والوں سے آپ کی باتیں شئن چھکے ہوتے وہ ہنسی انٹرا کہ آپ سے جُدا ہو جاتے.اس دوران آپ کی نظر مدینہ کے سات افراد پر پڑی مکہ والے اردگر د بھاگتے پھرتے تھے اور جس طرح یہ مولوی کہتے ہیں کہ احمدیوں کی چائے شراب سے بدتر ہے وہ بھی لوگوں کو آپؐ کے خلاف بہکاتے تھے اور آپ کی باتیں سننے سے منع کرتے تھے سب لوگوں نے آپ کو رد کر دیا لیکن جب آپ مدینہ والوں کے پاس گئے تو انہوں نے آپ کی باتیں سننے پر آمادگی کا اظہار کیا.انہوں نے آپ کی باتیں سنیں اور متاثر ہوئے اور کہا اس سال ہم تھوڑی تعداد میں آئے ہیں اگلے سال ہم زیادہ تعداد میں آئیں گے اور آپ کی باتیں سنیں گے چنانچہ اگلے سال بارہ آدمی آئے آئین کی باتیں اُن کے دلوں میں گھر کر گئیں اور وہ آپ کی بیعت کرکے واپس چلے گئے اور اگلے سال اس سے زیادہ تعداد میں آنے کا وعدہ کیا.چنانچہ اگلے سال ایک بڑا قافلہ آیا جس میں عورتیں اور بچے بھی تھے لیکن مخالفت کا اتنا جوش تھا کہ مشرکین مکہ لوگوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات نہیں سننے دیتے تھے اس لئے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے وادی عقبہ میں مدینہ سے آنے والوں سے رات کے بارہ بجے ملاقات فرمائی.مدینہ والوں نے جب آپ کی باتیں سنیں تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ نے جو کچھ بیان کیا وہ سب ٹھیک ہے ہم آپ کی بیعت کرنا چاہتے ہیں چنانچہ آپ نے ان کی بیعت کی حضرت عباس کو بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ساتھ لے گئے تھے حضرت عباس
۱۹۴ آپ سے دو سال بڑے تھے اور دل سے آپ پر ایمان لے آئے تھے جب وہ لوگ بیعت کر چکے تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ اس بستی نے آپ کو قبول نہیں کیا آپ ہماری بستی میں آجائیں.حضرت عباس نے کہا یہ آسان بات نہیں مگے والوں کو پتہ لگا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لے گئے ہیں ت وہ مدینہ پر حملہ کر دیں گے تم پہلے سوچ سمجھ لو یہ نہ ہو کہ پر مقابلہ سے گریز کرو.انہوں نے کہا ہم نے خوب سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا ہے ہم ہر حال رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کو ساتھ لے جانا چاہتے ہیں حضرت عباس نے کہا اچھا معاہدہ کر لو چنا نچہ ایک معاہدہ ہوا کہ اگر مدینہ میں آپ پر یا مهاجرین پر کسی نے حملہ کیا تو ہم آپ کی حفاظت کریں گے لیکن اگر مدینہ کے باہر کوئی لڑائی ہوئی تو ہم مانعت کے مزار نہیں ہوں گے کیونکہ سارے عرب سے لڑائی مول لینا ہمارے بس کی بات نہیں.اتنے میں کیسی نے کفار مکہ کو یہ خبر دے دی کہ مدینہ سے ایک قافلہ آیا ہے اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کر رہا ہے ان کا جلد کوئی انتظام ہونا چاہیے.رسول کریم صل اللہ علیہ و سلم کو بھی یہ بات پہنچ گئی اور آپ نے خیال کیا ایسا نہ ہو وہ مسلمانوں کو کوئی نقصان پہنچائیں اس لئے آپؐ نے فرمایا اب گفت گو ختم کر دینا چاہیئے اور یہاں سے پہلے جانا چاہیئے لیکن مدینہ والے اب ایمان لا چکے تھے اور موت ان کی نظروں میں حقیر ہو چکی تھی انہوں نے کہا ہم کمزور نہیں ہم بھی عرب میں اگر مشرکین مکہ نے کوئی نقصان پہنچانا چاہا تو ہم ان کا مقابلہ کریں گے اور آپؐ پر جو انہوں نے ظلم کئے ہیں ان کا بدا لینگے جب آپ مدینہ ہجرت کر کے تشریف لے گئے تو یہ معاہدہ موجود تھا.جب آپ جنگ بدر کے لئے باہر تشریف لے گئے اور خدا تعالیٰ نے الہا کا آپؐ کو یہ خبر دے دی کہ آپ کا مقابلہ قافلہ سے نہیں ہو گا بلکہ مکہ سے آنے والے شکر کے ساتھ ہو گا تو آپ نے اپنے ساتھیوں کے سامنے یہ سوال پیش کیا کہ اب قافلہ کا کوئی سوال نہیں صرف فوج ہی کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے اس پر ایک کے بعد دوسرا صابر کھڑا ہوا اور اس نے کہا یارسول اللہ جب ہم مدینہ سے لڑائی کے لئے نکلے ہیں تو بہر حال ہمیں لڑائی سے بھاگنا نہیں چاہیے.یا رسول اللہ اگر دشمن ہمارے گھروں پر چڑھ آیا ہے تو ہم اس سے ڈرتے نہیں ہم اس کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں.ہر ایک کا جواب شنکر آپ یہی فرماتے لوگو مجھے مشورہ دو لوگو مجھے مشورہ دو.مدینہ کے لوگ اس وقت تک خاموش تھے جب رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم نے بار بار فرمایا مجھے مشورہ دو تو ایک انصاری کھڑے ہوئے اور انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ مشورہ تو آپ کو مل رہا ہے مگر
۱۹۵ پھر بھی جو آپ بار بار مشورہ طلب فرما رہے ہیں تو شاید آپ کی مراد ہم باشندگان مدینہ سے ہے.آپ نے فرمایا ہاں.اس نے عرض کیا یا رسول اللہ شاید آپ اس لئے ہمارا مشورہ طلب کر رہے ہیں کہ آپکے مدینہ تشریف لانے سے پہلے ہمارے اور آپ کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا اور وہ یہ تھا کہ اگر مدینہ میں آپ پر اور مہاجرین پر کسی نے حملہ کیا تو ہم آپ کی حفاظت کریں گے لیکن اگر مدینہ کے باہر کوئی لڑائی ہوئی تو ہم اس میں حصہ لینے کے پابند نہیں ہوں گے.آپؐ نے فرمایا ٹھیک ہے.اس نے کہا یا رسول اللہ جس وقت وہ معاہدہ ہوا تھا ہم پر آپ کی حقیقت پورے طور پر روشن نہ ہوئی تھی لیکن اب جبکہ ہم نے آپ کے معجزات اور نشانات دیکھ لئے ہیں ہم پر آپ کا مرتبہ اور آپ کی شان پورے طور پر ظاہر ہو چکی ہے یا رسول اللہ اب اس معاہدہ کا کوئی سوال نہیں ہم موسیٰ کے ساتھیوں کی طرح آپ سے یہ نہیں کہیں گے کہ فَاذْهَبْ أَنتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا اِنَّاهُهُنَا فَاعِدُون که جاتو اور تیرا رب اپنے دشمنوں سے جنگ کرتے پھرو ہم تو یہیں بیٹھے ہیں بلکہ ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور بار سول اللہ دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ آئے.یا رسول اللہ جنگ تو ایک معمولی بات ہے یہاں سے تھوڑے فاصلہ پر سمند ر ہے آپ تمھیں حکم دیجئے کہ سمندر میں اپنے گھوڑے ڈال دو اور ہم با در این کند میں اپنے گھوڑے ڈال دیں گے.یہ کتنا بڑا تغیر ہے جو اسلام میں داخل ہونے کے بعد صحابہ کے اندر پیدا ہو گیا.پسی حقیقت یہی ہے کہ لوگ احمدیت سے ناواقف ہیں انہیں یہ معلوم نہیں کہ خدا تعالے نے ان پر کتنا بڑا احسان کیا ہے کہ اس تاریک زمانہ میں اس نے اپنا ایک مامور بھیجاتا وہ اسلام کو باقی ادیان پر غالب کر دے.ان لوگوں کے پاس جاؤ اور ان سے دریافت کرو کہ ہم کا فر ہی سہی مان لیا ہم قرآن کریم کے منکر ہیں، رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے مخالف ہیں لیکن یہ تو بتاؤ کہ ہم نے امریکہ او لنڈن میں مسجدیں بنائی ہیں کیا مسجدین کا فر بناتے ہیں.پھر یہ بتاؤ کہ دوسرے فرقوں کے نوجوان ہو و لعب میں اپنا وقت بسر کر رہے ہیں لیکن ہمارے نوجوان اپنی زندگیاں وقف کر کے محض خدا کی خاطر باہر نکل گئے ہیں اور وہ کافروں کو مسلمان بنارہے ہیں.کیا یہ کام کا فر کرتے ہیں.یہ سوچنے کا مقام ہے کہ کیا صرف کا فرکو ہی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق ہے مومن کو آپ سے عشق نہیں لیکنی نے ایک دفعہ احرار کو یہ چیلنج دیا تا کہ تم بھی تبلیغ کی غرض سے باہر نکل کھڑے ہو اور ہم بھی تبلیغ کے لئے المائده : ۲۴
۱۹۶ باہر نکل آتے ہیں پھر دیکھیں گے کہ کس کی کوشش کے نتیجہ میں اسلام پھیلتا ہے لیکن اس چلینج کا جواب موصول نہیں ہوا.اگر ان کے پاس سچائی ہے تو وہ میدان میں کیوں نہیں آتے.یہ سیدھی بات ہے کہ جو لوگ ہماری مخالفت کرتے ہیں اور عشق رسول کا دعوی کرتے ہیں وہ بھی اسلام کی اشاعت کے لئے باہر نکل کھڑے ہوں ہم بھی باہر نکلتے ہیں اگر ہم جھوٹے ہیں تب بھی اسلام کے لئے ہر حال یہ طریق مفید ہو گا اور دنیا کو پتہ لگ جائے گا کہ اسلام کے لئے اور محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کے لئے کون قربانی کرتا ہے اور محض زبانی دعووں پر کون اکتفاء کرتا ہے لیکن ہوتا کیا ہے کہ بجائے اس کے کہ یہ لوگ میرا چیلنج قبول کرتے ہمارے خلاف جلسے کرتے ہیں اور تقریروں میں یہ فتویٰ صادر کرتے ہیں کہ احمدیوں کی چائے شراب سے بھی بدتر ہے شراب پی جا سکتی ہے لیکن ان کی چائے پینا جائز نہیں.ان کا پکا ہوا گوشت خنزیر کے گوشت سے بھی بدتر ہے تم سور کا گوشت کھا لو لیکن ان کا پکا ہوا گوشت نہ کھانا کیا ان فتووں سے محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم اور اسلام کو کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے.اسلام کو بدہ پہنچ سکتا ہے تو اس طرح کہ میرا مبلغ اگر دن مسلمان بناتا ہے تو یہ بنیں مسلمان بنائیں.میرا مبلغ اگر ایک روٹی کھا کر گزارہ کرتا ہے تو یہ آدھی روٹی کھائیں.اگر وہ ایسا کریں تو کیا میری آنکھیں کھل نہ جائیں گی.یہ کتنا بڑا نشان ہو گا تمہاری صداقت کا اور اس سے اسلام کو کتنا بڑافائدہ پہنے گا ہماری لڑائی بھی ختم ہو جائے گی اور مقابلہ بھی ہو جائے گا.مثلاً یہ تو مقابلہ ہوگا کہ دریا کا بند ٹوٹ جائے تو کون دریا کا بند باندھتا ہے.یہ خدمت خلق کا کام ہے لیکن اگر ہم بند بنانے سے پہلے آپس میں لڑ پڑتے ہیں اور لوگ پانی کی زدمیں آکر تباہ و برباد ہو جائیں تو کیا یہ خدمت خلق ہوگی.فرض اگر یہ لوگ اپنے دعووں میں سچے ہیں تو یہ بھی تبلیغ کے لئے باہر نکل جائیں اور ہم بھی تبلیغ کے لئے باہر جاتے ہیں پھر جو فریق جیت جائے گا اسے حق ہو گا کہ وہ معاہدے کو جھوٹا کہہ سکے اور لوگ بھی سمجھے لیں گے کہ کون جیتا اور کون ہارا اور اس سے اسلام کو بھی فائدہ پہنچے گا لیکن مارنے، گالیاں دینے اور اس قسم کے فتوے دینے میں کیا رکھا ہے.کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو پتھر نہیں پڑھتے تھے.ایک دفعہ مولوی شاد الشر صاحب قادیان آئے اور انہوں نے ایک لیکچر دیا اور لوگوں کے سامنے یہ بات پیش کی کہ میاں محمود احمد بھی کل نہ جائیں اور کی بھی کلکتہ جاتا ہوں پھر دیکھیں گے کہ کس پر پتھر پڑتے ہیں اور کس پر پھول برستے ہیں بلکہ اس چیز کا پتہ امرتسر کے اسٹیش پرزہ لگ جائے گا.لوگ اس بات کوئی کر نعرہ ہائے تکبیر بلند کرنے لگے
196 ان کی اس بات کا جواب میں نے اسی دن عصر کے وقت دیا کہ مولوی صاحب نے خود ہی اس جھگڑے کا فیصلہ کر دیا ہے مجھے اب کسی دلیل کی ضرورت نہیں مولوی صاحب نے کہا ہے کہ کلکتہ تک جا کر ہم دیکھتے ہیں کہ پتھر کس کو پڑتے ہیں اور پھول کسی پر برسائے جاتے ہیں.آپ عالم آدمی ہیں احادیث نکال کر دیکھیں کہ مگر والے پتھر کیس کو مارتے تھے اور پھول کس پر پھینکتے تھے اگر پتھر رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کو پڑتے تھے اور پھول ابو جہل پر پھینکے جاتے تھے تو میں سچا اویہ جھوٹے لیکن اگر پھول رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پرپھینکے جاتے تھے اور پتھر ابو جہل کو مارے جاتے تھے تو میں جھوٹا اور یہ بیچے.رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم جب تبلیغ کے لئے طائف تشریف لے گئے تو طائف والوں نے لڑکوں کو اکسایا انہوں نے آپ پر پتھر پھینکنے شروع کر دئے آپ وہاں سے چلے آئے اور رستہ میں ایک باغ میں پناہ گورین ہوئے.آپ کے ساتھ حضرت زید بھی تھے اور وہ بھی زخمی تھے.آپ کے پاؤں سے لہو بہ رہا تھا.وہ بارغ اتفاقاً آپ کے ایک شدید دشمن کا تھا مگر ہمیں زراعت نہیں ہوتی تھی اس لئے بعض لوگوں نے مکہ سے با ہر زمین خرید کہ باغات لگائے ہوئے تھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس باغ کے کنارے پر بیٹھ گئے اس لئے کہ اگر آپ اس کے اندر گئے تو باغ کا مالک کیا کہے گا.ایسے موقع پر ایک شدید سے شدید دشمن میں بھی شرافت کا احساس پیدا ہو جاتا ہے جب اس باغ کے مالک نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی حضرت زید کی یہ حالت دیکھی تو اس نے کہا ان پر ظلم ہوا ہے خود تو اسے جرات نہ ہوئی اس نے اپنے ایک غلام کو جو نینوا شہر کا رہنے والاتھا حکم دیا کہ ان کو اچھے اچھے انگور کھلاؤ وہ غلام انگور لے کر آپ کے پاس گیا اس نے جب آپ کو سر سے پاؤں تک زخمی دیکھا تو وہ حیران ہوا اور آپ سے دریافت کرنے لگا کہ ایسا کیوں ہوا.آپ نے فرمایا لیکن لوگوں سے کہتا ہوں کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہوں اور وہ مجھے مارتے ہیں.وہ غلام عیسائی تھا جب اس نے آپ سے تمام قصہ سناتو عیسائیت کی یاد اُس کے دل میں پھر تازہ ہو گئی اس نے محسوس کیا کہ اس کے سامنے خدا کا ایک نہی بیٹھا ہے تھوڑی دیر کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غلام سے کہا اسے میرے بھائی یونس بن متی کے بیٹے یکس تمہیں خدا تعالیٰ کی کچھ باتیں سنانا چاہتا ہوں چنا نچہ آپ نے اسے تبلیغ شروع کی اور تھوڑی ہی دیریں وہ اجنبی غلام آنسوؤں سے بھری ہوئی آنکھوں کے ساتھ رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم سے لپٹ گیا اور آپکے سرا ہاتھوں اور پیروں کو بوسہ دینے لگا باغ کے مالک نے پہلے تو تر می کھا کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسل
14^ کے لئے انگور بھیجے تھے لیکن جب اس نے دیکھا کہ اس کا غلام عقیدت مندانہ طور پر آپ کے پاس بیٹھا ہے تو وہ غضب ناک ہو گیا اور اپنے غلام کو بلاکر کہنے لگا شخص میرا رشتہ دار ہے لیکن جانتا ہوں یہ مجنون ہے اس غلام نے کہا یہ نہیں ہوسکتا اس کی باتیں تو نبیوں والی معلوم ہوتی ہیں.لوگ کہتے ہیں جب اوکھلی میں سر دیا تو موہلوں کا کیا ڈر.اگر کوئی صداقت کی مخالفت کرتا ہے تو کسی مومن کو مخالفت سے گھیر انا نہیں چاہیے.حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف کو جب شہید کیا جا رہا تھا تو دیکھنے والوں کا بیان ہے اور انہوں نے شہادت دی ہے کہ جب آپ پر پتھر برسائے جارہے تھے اس وقت آپ یہ کہہ رہے تھے اسے اللہ ! تو ان لوگوں پر رحم کر دراصل ان کو پتہ نہیں کہ میں کون ہوں یہ مجھے جھوٹا اور مرتد خیال کرتے ہیں اور اپنے خیال میں ایک نیکی کا کام کر رہے ہیں حقیقت یہ ہے کہ جس کے اندر سچائی ہوتی ہے وہ تکالیف اور مصائب سے گھبراتا نہیں.لوگ اس کی مخالفت کرتے ہیں تو وہ اپنا رستہ چھوڑ نہیں دیتا وہ کہتا ہے اچھا جتنا ستانا ہے ستالو جب اس کے پاس حقیقت ہے تو وہ ڈرے گا کیوں.ہاں اگر وہ سمجھتا ہے کہ اس کے پاس سچائی نہیں تو وہ بے شک ڈرے گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نجران کے عیسائیوں کا جب وفد گیا تو ان سے تبادلہ خیال ہوا مسجد میں بیٹھے کر گفت گو شروع ہوئی اور گفتگو لمبی ہو گئی.وہ باتیں سنتے رہے آخر انہوں نے کہا ہماری نماز کا وقت ہو گیا ہم باہر جا کر نماز ادا کرلیں نبی کریم نے فرمایا آپ اپنی عبادت ہماری مسجد میں ادا کر نہیں آخر ہماری مسجد خدا تعالیٰ کے ذکر ہی کے لئے بنائی گئی ہے لیکن اب یہ رواداری باقی نہیں مسجدوں پر اب یہ لکھا ہوا ہوتا ہے اس مسجد میں کوئی وہابی گنا یا مرزائی سور داخل نہ ہو.رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم جن کی اتباع کا یہ لوگ دعوئی کرتے ہیں وہ تو عیسائیوں سے فرماتے ہیں تم اپنی عبادت ہماری مسجد میں ہی کر لو لیکن یہ لوگ مسلمانوں کو بھی مسجد میں عبادت کرنے سے منع کرتے ہیں اب یہ حدیث میری لکھی ہوئی نہیں ہے لیکن اس وقت موجود نہیں تھا جب بخاری اور مسلم لکھی گئی تھی.انہیں پتہ بھی نہیں تھا کہ میں کس زمانہ میں پیدا ہوں گا.جب فتح مگر ہوئی تو رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم نے چند لوگوں کے متعلق یہ احکام نافذ کئے تھے کہ جہاں کہیں بھی وہ ملیں قتل کر دئے جائیں ان لوگوں میں ایک عکرمہ بھی تھے.آپؐ کے پاس عکرمہ کی بیوی آئی اور اس نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ میرے خاوند کو قتل کرنے کے احکام واپس لے لیں اور اسے اپنے مذہب پر قائم رہتے ہوئے مکہ میں رہنے کی اجازت دیں.آپ نے نے فرمایا اچھا اگر وہ یہاں آجائے تو ہم صرف اسے معاف ہی نہیں کریں گے بلکہ اس کے مذہب میں یہ خطرات
199 بھی نہیں کریں گے.یہ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق تھا مگر ہمارے مخالف کہتے تو یہ ہیں کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم ہمارے آقا اور سردار ہیں مگر جو کام یہ لوگ کرتے ہیں وہ آپ کے رویہ کے خلاف ہیں اگر یہ سب لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والے کام کرنے لگ جائیں تو دشمن کس طرح اسلام سے باہر جا سکتا ہے.رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک یہودی آیا آپ نے اسے کھانا وغیرہ کھلایا اور رات وہ وہیں سو گیا لیکن جاتے ہوئے وہ بستر پر پاخانہ کر گیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دیکھا تو فرمایا تم نے مہمان پر ظلم کیا کہ اسے پاخانہ کرنے کی جگہ نہ بتائی چونکہ اسے پاخانہ کرنے کی جگہ کا پتہ نہیں لگا اس لئے وہ بہتر یہ ہی پاخانہ پھر گیا.آپ نے ایک عورت کو بلایا اور اسے فرمایا تم پانی ڈالتی بجاؤ اور کیں خود کپڑا دھوتا ہوں.اس عورت نے پانی ڈالتے ہوئے کہا خدا تعالیٰ اس شخص کو غارت کرے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا گالی مت دو پتہ نہیں اسے کتنی تکلیف ہوئی ہو.یہ آپ کے اخلاق فاضلہ کا ہی نتیجہ تھا کہ لوگ آپ کے پاس آتے اور مسلمان ہوتے جاتے.جب نور قلب پیدا ہو جائے ، جب وسعت قلب نصیب ہو جائے اور جب روحانیت دکھائی بھائے تو کیا کسی کی عقل ماری گئی ہے کہ وہ جہنم میں جائے تنور میں جان بوجھ کر کوئی نہیں پڑتا جتنے لوگ جہنم میں جائیں گے غلط فہمی کی بناء پر جائیں گے.پس تم ان کے پاس جاؤ اور انہیں سمجھاؤ جب ان کے اندر نور ایمان پیدا ہو جائے گا، جب ان کی محبت تیز ہو جائے گی تو جو لوگ آج تمہارے مارنے کا فتوی دیتے ہیں اگر کوئی تمہیں پتھر مارے گا تو وہ خود اپنے سینہ پر لیں گے.سول کریم صل للہ علیہ سلم کے تعلق یک واقعہ آتا ہے کہ ایک شخص نے بظاہر اسلام قبول کر لیا اوروہ جنگ حنین میں شریک ہوا لیکن اس کی نیت یہ تھی کہ جس وقت لشکر آپس میں ملیں گے تو یکی موقع پا کر رسول کریم صلی اللہ علیہ سلم کو شہید کر دوں گا جب لڑائی تیز ہوئی تو اس شخص نے تلوار کھینچ لی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اکیلے تھے صرف حضرت عباس ساتھ تھے.اُس شخص نے موقع غنیمت جانا اور آگے پڑھ کر وار کرنا چاہا.خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کو الہانا بتا دیا کہ شخص کے اندر مخالفت کی آگ بھڑک رہی ہے.وہ شخص خود شہادت دیتا ہے لیکن آپ کی طرف بڑھتا گیا اور میں خیال کرتا تھا کہ اب میری تلوا یہ آپ کی گردن اڑا دے گی لیکن جب یکی آپ کے قریب پہنچا تو آپ نے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھایا اور سینہ پر رکھ کر فرمایا اے خدا تو اس کو شیطانی خیالات سے نجات دے اور اس کے بغض کو دور کر دے.وہ شخص کہتا ہے کہ مجھے بکرم یوں معلوم ہوا کہ آپ سے زیادہ پیاری چیز اور کوئی نہیں.اسکے
بعد رسول کریم صل اللہ علیہ سلم نے فرمایا آگے بڑھو اور لٹوئیں نے تلوار سونت لی اور خدا کی قسم اگر اس وقت میرا باپ بھی زندہ ہوتا اور وہ میرے سامنے آجاتا تو میں اپنی تلوار اس کے سینہ میں گھونپ دینے سے بھی ذرا دریغ نہ کرتا.یہ محبت تھی جس نے اس کی دشمنی کو دور کر دیا.پس تم محبت سے تبلیغ کرو اور نرمی سے سمجھاؤ اور دعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ ان لوگوں کے اندر بھی محبت پیدا کر سے ان کی دنیا داری نبض اور کینہ و فساد کی آگ کو مٹا دے انہیں ایمان بخشے، انہیں اسلام کی محبت بخشے، محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا جذبہ بخشے اور بجائے اس کے کہ یہ ہمیں مارتے پھر میں یہ بھی آگے بڑھیں اور عیسائیت کے سینے میں خبر گھونپ دیں لے اس تقریر کے بعد حضور نے حاضرین سمیت دعا فرمائی.ماسہ کے بعد میاں فضل الرحمن صاحب و میا دعوت چائے میں شرکت اور مراجعت محمد اقبال صاحب پر مرنے حضور کے اعزاز میں دعوت عمر انہ پیش کی جس میں کوئی ڈیڑھ سو سے زائد احمدی و غیر احمدی معززین مدعو تھے.بچائے کے اختتام پر بعض غیر احمدی دوستوں کی فرمائش پر اور حضور کی اجازت سے جناب ثاقب زیر وی صاحب نے اپنی ایک نظم میرا جواب سنائی حضور سے بعض غیر احمدی معززین کا تعارف کرایا گیا.ان تمام تقاریب کے بخیروخوبی اختتام پذیر ہونے کے بعد حضور معہ قافلہ شام کو چھ بجکر دس منٹ پر واپس عازم ربوہ ہو گئے.اس مبارک سفر میں ۲۶ نومبر نبوت کی صبح سے لیکر رات کے دس بجے تک مرزا عبد الحق صاحب امیر جماعت احد یہ سرگودہا اور میاں محمد اقبال صاحب پر اچہ کو حضور کی معیت کا شرف حاصل کرنے اور انتظامات کی نگرانی کرنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے لے شعبہ زود نویسی کے غیر مطبوعہ ریکارڈ سے ماخوذ ہے ه الفضل ۲۹ نومبر ۱۹ نبوت ۱۳۲۹ ص :
فصل دوم کوائف قادیان یہ سال تنظیمی تعلیمی اور تبلیغی لحاظ سے بہت مبارک سال تھا کیونکہ اس میں قادیان نے سیدنا حضرت مصلح موعود کی خصوصی دعاؤں اور توجہات و ہدایات کی بدولت اپنی پوزیشن ایک فعّال مرکز کی حیثیت سے پہلے سے بہت مضبوط و مستحکم بنالی اور ہندوستان میں جماعت احمدیہ کی ترقی کا میدان بھی وسیلے سے وسیع تر ہو گیا.حضرت امیر المؤمنين المصلح الموعود نے وسط ماه نبوت حضرت مصلح موعود کی اہم کیم (نومبر ۹ہ ) میں قادیان اور بھارت کی دیگیر احمدی جماعتوں ی تیم جدید کے لئے ایک اہم کی تجویز فرمائی جس کی تفصیلات ایک مکتوب سے لڑتی ہیں جو حضور نے ۱۴، ۵ ار ماہ نبوت مہ کو امیر جماعت احمدیہ قادیان کے نام تحریر فرمایا.حضور نے لکھنا کہ :." اب آپ کو پوری طرح کوشش کرنی چاہئیے کہ مختلف جگہوں سے تمہیں نہیں آدمی کم سے کم مستقل مہاجر ہو کر قادیانی آجائیں اور کمپیں تیس آدمیوں کو قادیان سے فارغ کر کے ادھر بھجوا دیا جائے کیونکہ نائباً اتنے لوگ وہاں ہیں جو ادھر آنا چاہتے ہیں یا ان کے حالات ایسے ہیں کہ ان کو ادھر بھیجوا دینا چاہیئے.اس طرح دینی بارہ نوجوانوں کو بلوا کر دیہاتی مبلغوں کی طرح تعلیم دینی چاہیئے.مالکانہ مالا بار، بہار اور بنگال سے ایسے آدمی منگوانے چاہئیں اور جو موجودہ دیہاتی مبلغ ہیں وہ تین سال سے پڑھ رہے ہیں انکو باہر بھجوانا چاہیے تاوہ کام کریں.پہلے موجودہ جماعتوں کو سنبھالنے اور ان کو بڑھانے کی کوشش ہونی چاہیے.اس کے بعد نئے نئے تبلیغی مرکز مختلف صوبوں میں کھولنے چاہئیں.یہ وقت انتہائی کوشش کا ہے کوئی مشکل نہیں کہ اگر آپ لوگ توجہ کریں تو سال ڈیڑھ سال میں لاکھ دو لاکھ کی جماعت ہندوستان میں پیدا نہ ہو جائے.اگر ایسا ہو جائے تو چھ سات لاکھ سالانہ کی آمد آسانی سے قادیان میں ہوتی رہیگی جوزمانہ کے ساتھ بڑھتی چلی جائے گی اور آپ لوگ پھر مدرسہ احمدی روایات کا نہ ہائی سکول تو یتیم الاسلام
٢٠٢ کا لج وہاں بنانے کی توفیق پائیں گے.جو زمانہ زندہ رہنے کی کوشش کا تھا اللہ تعالیٰ نے خیریت سے اس زمانہ کو گذار دیا ہے اب آپ نے آگے بڑھنے کی کوشش کرنی ہے.نئے ماڈل سوچنے کا ابھی سوال نہیں.قادیان میں جو کچھ پہلے تھا اسے دوبارہ قائم کرنے کے لئےکسی سکیم کے سوچنے کی ضرورت نہیں وہ سکیم تو سامنے ہی ہے اس کے لئے صرف ان باتوں کی ضرورت ہے:.اول : قادیان میں عورتوں، بچوں کا مہیا کرنا.اڑیسہ، کان پور اور بہار میں بہت غریب عورت مل جاتی ہے جو شادیاں کر سکتے ہیں ان کی ان علاقوں میں شادیاں کروائیے اور قادیان میں عورتیں سوائیے.دوم:.ہزاروں ہزار مسلمان جو مارا گیا ہے ان کے بیوی بچے ابھی دہلی اور اس کے گردو نواح میں موجود ہیں ایسے پندرہ نہیں بچے منگوائیے اور پرائمری سکول کھول دیجئے.دس نہیں نوجوان باہر سے وقف کی تحریک کر کے دیہاتی مبلغ بنانے کے لئے منگوائیے اور مدرسہ احمدیہ قائم کر دیجئے.اگر پرانا پریس نہیں ملتا تو نئے پر لیس کی اجازت لیجئے.دستی پر لیس پتھروں والا ہو یہ سو دو سو میں آجاتا ہے بلکہ خود قادیان میں بنوایا جاسکتا ہے اس پر ایک پرچہ ہفتہ وار چھا اپنا شروع کر دیئے.آپ لوگوں کے لئے کام اور شغل نکل آئے گا.کچھ لوگ کا تب بن جائیں گے، کچھ کا غذ لگانے والے اور سبھی چلانے والے بن جائیں گے اور کئی لوگوں کے لئے کام نکل آئے گا.آبادی بڑھے گی تو خالی جگہوں کو دیکھ کر لوگوں کو جو لالچ پیدا ہو جاتا ہے وہ جاتا رہے گا اور جو خالی ٹکڑے پڑے ہیں ان میں نئی عمارتیں بن جائیں گی.سور: حکیم خلیل احمد صاحب میرے خیال میں اگر وہاں آجائیں یا اور کوئی حکیم تو ایک مطلب بھی کھول دیا جائے اور ایک طبیہ کلاس کھول دی جائے.دیہاتی مبلغ بھی طلب سیکھیں اور مرزا وسیم احمد ما طب سیکھ لیں اور ایک بہت بڑا دواخانہ کھول دیا جائے جس کی دوائیں سارے ہندوستان میں جائیں.خدا چاہے تو لاکھوں کی آمدنی اس ذریعہ سے ہو سکتی ہے.یہ خط تمام ممبران انجمن کو شنا دیں تاسب لوگ اس تنظیم کو اپنے سامنے رکھیں اور جلدسے جلد اس سکیم کو پورا کرنے کی کوشش کی جائے " اس سکیم کو جلد از جلد بروئے کارلانے کے لئے حضور نے اپنے مکتوب مورخہ ۳۱ صلح ۱۳۲۹ / جنوری ۱۹۵ء میں تاکیدی ارشاد فرمایا کہ: " ایک ہی طریق آپ کے لئے کھلا ہے کہ ہندوستان سے نئے آدمی منگوائیے..اور جو پاکستان واپس آنا چاہتے ہیں واپس آ جائیں...ایک سوختی میں آدمی کی درخواست آچکی ہے جو پاکستان واپس
۲۰۳ آنا چاہتے ہیں.وہ قریباً سب کا سب ایسا ہے جس کو سلسلہ خرچ دے رہا ہے.وہی خرچ ہندوستان والوں کو کیوں نہیں دیا جا سکتا.وہاں ہندوستان والے آدمی بلائے جائیں انہیں گزارے دئے جائیں اور جو آدمی واپس کئے جانے چاہئیں ان کو واپس کروا دینا چاہیے.ان کی تعداد زیادہ سے زیادہ سو ہے کیونکہ سب پاکستان واپس آنا نہیں چاہتے.پس آسانی کے ساتھ یہ تبادلہ ہوسکتا ہے بغیر قادیان کو خطرہ میں ڈالنے کے یہ نیز فرمایا : قادیان ایک مذہبی مرکز ہے مقبرہ یا درگاہ نہیں ہے تبلیغ کے وسیع استے ہندوستان میں کھلے میں پاکستان سے بھی زیادہ لیکن نئے علماء پیدا کرنے کی کوشش نہیں ہو رہی ہم پاکستان سے تو علماء وہاں نہیں بھیج سکتے ھی چھ سات علماء جو وہاں ہیں انہوں نے ہی علماء پیدا کرنے ہیں.اگر نئے علما و پیدا کئے بغیر یہ لوگ مرگئے تو وہ علاقہ علماء سے خالی ہو جائے گا....میں دیہاتی مبلغ قادیان میں میٹھا ہے یکی بار بار لکھتا ہوں کہ ان کو باہر نکالو اور ان کی جگہ ہندوستان سے دوسرے آدمی منگواؤ.یہ ہیں آدمی اگر سارے ہندوستان میں تبلیغ کرے گا تو کتنا بڑا تغیر پیدا ہو جائے گا....اگر بینش خاندان باہر سے منگوائے جائیں اور انہیں تیس روپیہ ماہوار دیا جائے تو چھ سو روپیہ ماہوار خرچ پڑے گا.ایک تو یہ فائدہ ہو گا کہ ان کے بیوی بچے بھی ساتھ آجائیں گے دوسرا فائدہ یہ ہو گا کہ وہ آزادی کے ساتھ ملک میں پھر سکیں گے.تیسرا فائدہ یہ ہوگا کہ ہمیں نئے شہروں میں ہماری تبلیغ شروع ہو جائے گی مرون بیس شہروں کی تنظیم سے ہی چھ سوروپیہ چھوڑ ایک ہزار روپیہ مہینہ کی آمد بڑھ جائے گی اور ایک سال کے اندر نئے احمدیوں کے ذریعہ سے دو تین ہزار روپیہ ماہوار کی آمد بڑھ جائے گی " نظام عمل میں خوش گوار تغیر حضور کے ان تاکیدی ارشادات نے درویشانی قادیان کے خوشگواری نظامی عمل میں ایک خوشگوار تبدیلی پیدا کر دی اور اُس کے متعدد اثرات رونما ہوئے.مثلاً :- ۱ - ۲۲ شہادت (اپریل) کو قادیان سے بارہ مستلقین ہندوستان کے مختلف اطراف میں بھجوائے گئے جس کے نتیجہ میں جماعت کی تربیت و تبلیغ میں نئی روح پیدا ہو گئی.۲ - یوپی سے ۳۵ احمدی خاندانی منتقل ہجرت کر کے قادیان میں آگئے جس سے قادیان کی احمد می
آبادی میں اضافہ ہوا.۲۰۴.احمدی بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے پرائمری سکول جاری ہوا.- نئے مبلغین پیدا کرنے کے لئے جامعتہ المبشرین کا قیام عمل میں لایا گیا ہے ۵ - مشرقی پنجاب میں بعض غیر مسلموں نے خفیہ طور پر قبو ان اسلام کیا اور بعض نو مسلم خوش عقیدگی سے نے قبول نومسلم ۰۴ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مصلح موعود کا ترک بھی مانگنے لگے ہے 4 - نظارت بیت المال قادیان کے ماہ وفاه ۱۳۳۲ کے گوشوارہ آمد سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت تک ہندوستان و کشمیر کی حسب ذیل جماعتیں جماعت احمدیہ کے مالی جہاد میں سرگرم عمل ہو چکی تھیں :- قادیان.دہلی.بچو پور شاہجہان پور.انبیٹہ لکھنو ساندھی علی گڑھ.جے پور اٹا وہ.میرٹھ کا نور.راٹھ مسکرا.بنارس علی پور کھیڑا.امروہ.رام پور کشن گڑھے جھانسی مصالح نگر مظفر پور پٹنہ.بھاگلپور.موسی بنی مائنز خانپور ملکی.جو بھنڈار.مونگھیر جمشید پور کلکتہ دار جیلینگ سونگھڑہ.بھدرک.پنکالوں کوڑا پلی کشک.سری یا ریدن یدا.پوری.کیرنگ.کو ٹیلہ کندرہ باڑہ.او ایم پی سنبل پور سر لونیا گاؤں بیٹی.ویسیگوالا.باندھ حیدر آباد سکندر آباد یادگیر- دیودرگ - اولکور- رائچور شموگہ کینا نور کالی کٹ بنگلوری پلینگا ڈی سامان کو لم.ٹیلی چری - آسنور یشورت- ماندوجین کند پورہ.بانڈی پورہ - بھدرواہ.یہ صرف اُن جماعتوں کے نام ہیں جنہوں نے ماہ وفا میر میں مرکزی چندوں میں حصہ لیا..اس ماہ حیدر آباد دکن نے سب سے زیادہ چندہ دیا دوسرے نمبر پر قادیان اور تیسرے نمبر پر مدراس و میسور کی جماعتیں رہیں..اس سبال (مادہ ہجرت میں ۲۴ درویش اپنے گھر یلو حالات کی وجہ سے پاکستان آئے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی کوشش سے اِس سال درویشوں کو پہلی بار یہ موقع ملا کہ وہ واہگہ کی ہند و پاک سرحد پر اپنے اعزہ واقارب سے ملاقات کر سکیں چنانچہ اس دور ١٩٥٠ له رساله در ویشان قادیان ص ۲۲ (بریم و رویشان قادیان مطبوعه دسمبر نشانه ) سے مکتوب حضرت مرزا بشیر احمد صاحب الحضور حضرت مصلح موعود مورخه ۵ - امان ۱۳۲۹
۲۰۵ کے ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ضمن میں پہلی ملاقات ۲۹ ماہ ہجرت ۱۳۳۹ کو ہوئی اور حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ بھی اس موقع پر تشریف لائے چنانچہ انہوں نے ۳۱.ہجرت کو حضرت مصلح موعود کی خدمت میں لکھا:."1 ۲۸ مئی شام کی گاڑی سے میں معہ بارہ چودہ درویشوں کے راپنے اپنے عزیز ان کی ملاقات کے لئے، واہگہ گیا تھا.یہ سب درویش ایسے تھے جن کے رشتہ داروں کی طرف سے بذریعہ تاریا خطوط اطلاعات آچکی تھیں چنانچہ ۲۹ مئی کی صبح کو 9 بجے ہم سب نے ملاقات کی سوائے دو درویشوں کے باقی سب کے ورثاء آئے ہوئے تھے.پاکستان کی طرف سے ایک سو افراد تشریف لائے.ملاقات دن میں دو بار ہوتی ہے بعض دوستوں نے خواہش ظاہر کی کہ ہم اس رعایت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے شام کو پھر ملاقات کریں میں چونکہ صرف ایک رات کے لئے باہر گیا تھا اس لئے مجبوری مجھے تو واپس آنا پڑا اور باقی درویش وہیں رہ گئے اور وہ شام کو دوبارہ ملاقات کر کے دوسرے دن واپس آئے.۲۹ ماہ ہجرت مئی کے بعد ۱۵ار احسان / جون کو قریباً ایک سو پاکستانی احمدی بچوں اور خواتین نے درویشوں سے ملاقات کی.اراحسان /جون کو ۸۰ افراد کو باہمی ملاقات کا موقع میسر آیا.فصل سوم سال احمد قادیان با او حضرت مصلح بود کا روح پرور پیغام ۶۱۹۵۰ اس سال بھی سالانہ جلسہ قادیان ۲۶-۲۷ - ۲۸ فتح ۱۳۲۹۵ / دسمبر شاہ کی مقررہ تاریخوں میں منعقد ہوا.اس مقدس تقریب پر حضرت امیر المومنین خلیفہ ایسی الثانی المصلح الموعود نے حسب ذیل روج پر ور پیغام ارسال فرمایا :-
۲۰۶ عوذ بالله من الشيطان الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم } نحمده ونصلى على رسوله الكريم والسلام على عبده المسيح الموعود هوالت خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ امر اسے برادران کرام جو قادیان میں مسنون جلسہ سالانہ کے موقع پر ہندوستان کے مختلف کناروں سے جمع ہوئے ہیں میں پہلے تو آپ لوگوں کو مبارکباد دیتا ہوں کہ آپ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ مرکز میں اسکے مقرر کردہ جلسہ میں اس کے مامور کے مقدر کردہ ایام میں خدائے وحدہ لاشریک کا ذکر بلند کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں آپ لوگوں کو یاد رکھنا چاہیئے کہ احمدیت ایک صوفیوں کا فرقہ نہیں ہے بلکہ احمدیت ایک تحریک ہے، ایک پیغام آسمانی ہے جو دنیا کو بیدار کرنے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے بندے کے لئے ایسے وقت میں نازل ہوا ہے جبکہ دنیا خدا کو بھول چکی تھی اور مذہب سے بیزار ہو چکی تھی اور اسلام ایک نام رہ گیا تھا اور قرآن صرف ایک نقش رہ گیا تھا.نہ اسلام کے اندر کوئی حقیقت باقی رہ گئی تھی اور نہ قرآن کے اندر کوئی معنے رہ گئے تھے.اسلام اسلام کہنے والے تو کروڑوں دنیا میں موجود تھے قرآن پڑھنے والے بھی کروڑوں موجود تھے لیکن نہ مسلمان کہلانے والے اسلام پر غور کرتے تھے نہ قرآن پڑھنے والے قرآن کے معنے سمجھتے تھے.خدا تعالیٰ نے چاہا کہ اس غفلت اور اس ہستی کو دور کرے اور اسلام کو نئے سرے سے دنیا میں قائم کرے اور پھر اپنا وجود اپنے تازہ نشانوں کے ساتھ دنیا پر ظاہر کرے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی کمالات اپنے پیروؤں اور اپنے جانشینوں کے ذریعہ سے دنیا کو دکھلائے اور آپ کے حسن سے جہان کو روشناس کرنے پر جہاں تک فرد کی اصلاح کا سوال ہے کسی ایک فرد کا بھی اِس طریق کار کو اختیار کر لینا احمدیت کے مقصد کو پورا کر دیتا ہے لیکن جہاں تک اسلام کو دنیا میں پھیلانے کا سوال ہے کسی ایک فردیا دن ہزار افراد کے ساتھ بھی یہ مقصد پورا نہیں ہو سکتا بلکہ یہ قصد اسی وقت پورا ہو سکتا ہے جبکہ اسلام اور احمدیت کے پیغام کو ہندوستان اور دنیا کے گوشہ گوشہ میں پھیلا دیا جائے ، سوتوں کو جگایا جائے ، غافلوں کو ہوشیار کیا جائے ، وہ جن کو توجہ نہیں ان کو توجہ دلائی جائے، وہ جو اسلام سے متنفر ہیں ان کے دل میں اسلام کی محبت پیدا
۲۰۷ کی جائے ، جو اسلام سے ناواقف ہیں انہیں اسلام سے واقف کیا جائے.کوئی کان نہ رہے جس میں اسلام اور احمدیت کی آواز نہ پڑے.کوئی آنکھ نہ رہے جو احمدیت کے لٹریچر کے پڑھنے سے محروم ہو.کوئی دل باقی نہ ہو جس کو خدائے وحدہ لا شریک کے سند نیسے سے آگاہ نہ کر دیا جائے.اور آپ جانتے ہیں که یه کام بغیر تنظیم کے بغیر کوشش کے بغیر جد وجہد کے بغیر سعی لامتناہی کے پورا نہیں ہو سکتا.آپ کے دل بے شک اس صدمہ سے چور ہوں گے کہ ایک بڑی بھاری جماعت کٹ کے ٹکڑے ہو گئی ہے اور آپ هندوستان جیسے وسیع ملک میں تھوڑے سے رہ گئے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ لوگ جو آج قادیانی میں جمع ہوئے ہیں وہ ان سے بہت زیادہ ہیں جو سال کے جلسہ میں قادیان میں جمع ہوئے تھے.ان سے بہت زیادہ ہیں جو ۸۹اء کے جلسہ قادیان میں جمع ہوئے تھے.وہ ان سے بھی بہت زیادہ ہیں جو ۹۳ار کے جلسہ قادیان میں جمع ہوئے تھے.وہ ان سے بھی زیادہ ہیں جو ائر کے جلسہ میں قادیان میں جمع ہوئے تھے.اور وہ ان سے بھی زیادہ ہیں جو ش؟ کے جلسہ میں قادیان میں جمع ہوئے تھے لیکن یہ اہ اور سر اور سائر اور ۹ہ اور شملہ میں قادیان میں جمع ہونے والے لوگ ہر سال اس یقین سے زیادہ سے زیادہ معمور ہوتے چلے جاتے تھے کہ ہم دنیا پر غالب آنے والے ہیں اور دنیا کو احمدیت کی تعلیم منوانے والے ہیں.آپ لوگ تو ان سے بہت زیادہ ہیں.آپ کی مالی حیثیت بھی ان سے زیادہ ہے.آپ کی دنیوی تعلیمیں بھی ان سے زیادہ ہیں.صرف اس بات کی ضرورت ہے کہ آپ ان لوگوں والا ایمان پیدا کریں اور یہ آپ کے لئے کوئی مشکل بات نہیں کیونکہ وہ نشان جوان لوگوں کے سامنے تھے ان سے بہت بڑے نشان آپ کے سامنے ہیں.شاہ کے بعد تیرہ سال برابر حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نشانات ظاہر ہوتے رہے اور آپ کی وفات سے لے کر اس وقت تک بھی آپ کے نشانات نئی نئی صورتوں میں دنیا پر ظاہر ہو رہے ہیں.پھر خدا نے میرے ذریعہ سے بہت سے غیب ظاہر کئے ہیں جو کہ مردوں کو زندہ کرنے والے ہر وں کو شنوائی بخشنے والے اور اندھوں کو بینائی بخشنے والے ہیں پس آپ کے ایمانوں کو زیادہ کرنے والے جو سامان موجود ہیں وہ اُن لوگوں سے بہت زیادہ ہیں جوش دار کے لوگوں کو میسر تھے ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ آپ لوگ اپنے اوقات کو ان نشانوں کے پڑھنے اور سوچنے اور ان پر غور کرنے میں صرف کریں اور ان سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کریں.اگر آپ ایسا کریں تو دنیا کی محبت آپ کے دلوں سے یقیناً سرد ہو جائے گی
۲۰۸ اور دین کی محبت کی آگ آپ کے دلوں میں سلگنے لگ جائے گی اور آپ صرف اپنی نشانوں پر جو ظا ہر ہو چکے ہیں زندہ نہیں رہیں گے بلکہ خدا تعالیٰ آپ کے اندر سے بولنے لگے گا اور آپ خود خدا تعالیٰ کا ایک نشان بن بھائیں گے.کیا یہ سچ نہیں کہ ہمارا خدا سب دنیا کو پیدا کرنے والا خدا ہے.کیا یہ سچ نہیں کہ دنیا کا ذرہ ذرہ اس کا مملوک اور غلام ہے.کیا یہ سچ نہیں کہ دنیا کی تمام بادشاہتیں اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں اتنی بھی تثبیت نہیں رکھتیں جتنا کہ ایک مچھر ایک ہاتھی کے مقابلہ میں حیثیت رکھتا ہے.پھر آپ کے حوصلوں کو کپت کرنیوالی کیا چیز ہے ؟ صرف ارادے کی کمی ہے ورنہ نشانوں کی کوئی کمی آپ کے پاس نہیں.آج آپ لوگ یہ عہد کر لیں کہ ہم احمدیت کو نئے سرے سے پھر ہندوستان میں قائم کریں گے.اس کے گوشے گوشے میں احمدیت کا پیغام پہنچا دیں گے.اس کے خاندان خاندان سے احمدیت کے سپاہی نکال کر لائیں گے.اس کی قوم قوم کو احمدیت کا غلام بنا کر چھوڑیں گے اور یہ کام مشکل نہیں ہے.حق ہمیشہ غالب ہوتا ہے اور ناراستی ہمیشہ مغلوب ہوتی ہے.پس آپ لوگوں کو چاہیے کہ ام ایک تو اس بات کا عزم کرلیں، کہ ایک زندہ احمدی کی زندگی آپ بہر گریں گے نہ کہ مروہ احمدی کی (۲) آپ اپنے علاقہ اور اس کے اردگرد احمدیت کے پیغام کو اس زور سے پھیلائیں گے کہ لوگ مجبور ہو جائیں اس پر کان، دھرنے کے لئے اور لوگ مجبور ہو جائیں اس کو ماننے کے لئے (۳) صدر انجمن احمدیہ قادیان کے ساتھ مل کر سلسلہ کے لٹریچر کی اشاعت کے لئے ایک وسیع سیم بناز کہ ہندوستان کی ہر زبان بولنے والوں کے لئے احمدی لٹریچر موجود ہو (۴) اپنے نو جوانوں کو یہ تحریک کہیں گے کہ وہ نہ ندگیاں وقت کریں اور دین سیکھیں اور پھر اپنے اپنے علاقوں میں دین پھیلانے کی طرف توجہ کریں (۵) قادیان میں پریس کے قیام کے لئے کوشش کریں گے کہ بغیر قادیان میں پریس کے قیام کے با قاعدہ لٹریچر باہر کی جماعتوں کو نہیں پہنچ سکتا (۶) اپنے چندوں میں باقاعدگی اختیار کریں گے اور نئے آنے والے احمدیوں پر بھی چندوں کی اہمیت ظاہر کریں گے تاکہ جماعتی فنڈ مضبوط ہو اور تبلیغ کے کام کو زیادہ سے زیادہ وسیع کیا جاسکے (۷) جلسہ سالانہ میں تو اب آپ لوگ آنا شروع ہو ہی گئے ہیں لیکن اس کے علاوہ بھی قادیان میں آتے رہیں گے تاکہ مرکز سے آپ کے تعلقات زیادہ سے زیادہ مضبوط ہوں اور آپ لوگوں کے آنے سے مرکز والوں کا حوصلہ بلند رہے اور مرکز کے لوگوں کے ساتھ ملنے سے آپکے
٢٠٩ ایمان میں تازگی ہو.اگر آپ پہ لوگ ان باتوں پر عمل کریں گے تو لیکن امید کرتا ہوں کہ اگلے سال کا جلسہ اس سال کے جلسے سے بہت بڑا ہو گا اور اگلے سال کی جماعت اس نسالی کی جماعت سے زیادہ مخلص ہو گی اور اگلے سال کی مالی وسعت اس سال کی مالی وسعت سے کہیں بڑھ کر ہوگی اور خد اتعالیٰ کے فضل کی ہوائیں چلنے لگ جائیں گی.مایوسی کے بادل چھٹ بھائیں گے امیدیں دلوں میں کلبلانے لگ جائیں گی.عزم اور لیتین قلوب میں ڈیرہ لگالیں گے اور پھر احمدیت کی روحانی فوج بنی نوع انسان کو گھیر کر خدا تعالیٰ کے دروازے کے آگے لانے کے لئے ایک پر شوکت اور پر سمیت مارچ کر رہی ہوگی.خدا تعالی آپ کے ساتھ ہو.والسلام نما کسار مرزا محمود استار (خلیفة المسیح الثانی " نے اس جلسہ سالانہ میں ساڑھے تین سو کے قریب مقامی درویش بزرگوں اور بھائیوں کو الف جلسہ کے علاوہ پاکستان کے 14 افراد شریک ہوئے.اس کے علاوہ ہندوستان کے مختلف علاقوں مثلا حیدر آباد دکن ہیملٹی ، بہار، یوپی ، بنگال اور کشمیر سے اڑھائی سو احمدی احباب نے شرکت کی جن میں سے حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب ، حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی چوہڑی اتور احمد صاحب کا ہلوں امیر جماعت احمد یہ کلکتہ ، حضرت حکیم خلیل احمد صاحب مونگیری اور حضرت سید وزارت حسین صاحب امیر جماعت ہائے احمد یہ صوبہ بہار کے نام بالخصوص قابل ذکر ہیں.غیرمسلم حضرات بھی کثرت سے جلسہ میں شریک ہوتے رہے چنانچہ ۲۷ دسمبر کے دوسرے اجلاس میں نو سو کے قریب غیر مسلم حضرات موجود تھے.شہر کے ہندو سکھ محززین کے علاوہ ڈی سی صاحب گورداسپور.ڈی ایس پی صاحب گورداسپور آر ایم صاحب بٹالہ.انسپکٹر صاحب سی آئی ڈی.پریذیڈ نہ لیے صاحب یو سپین کمیٹی بٹالہ اور پیسٹی آفیسر ز گورداسپور و شملہ بھی جیسے میں شامل ہوئے.پروفیسر عبدالمجید صاحب سابق سفیر حکومت ہند منتقنه بعدہ بھی تینوں دن میلہ میں شامل ہوتے رہے.سٹیج کے دائیں طرف اوائے احمدیت امرار رہا تھا جیسے کے پہلے درون درویشان قادیان باری باری اس کا پہرہ دیتے رہے اور آخری دن پاکستان اور ہندوستان کے احباب نے پہرہ دینے کی سعادت حاصل کی.اس سال احمدی خواتین کو بھی اللہ تعالیٰ نے اس جلسہ میں شامل ہونے کی توفیق بخشی چنانچہ پاکستان و ہندوستان کی متعدد خواتین پیسے میں شامل ہوئیں جن کے لئے حضرت مولانا سید ا الفضل ۳۱ دسمبر ۱۹۵۰ صفحه ۴-۵ ۲ بٹالہ کے رہنے والے ہیں یونیورسٹی کی سینٹ کے ممبر اور پنجاب سروس کمیشن کے چیئر مین بھی رہے ہیں شملہ میں ان کا مستقل قیام ہے ( مکتوب ملک صلاح الدین صاحب ایم اے ۱۳ را پریل ۱۹۸۲ء)
۲۱۰ محمد سرور شاہ صاحبہ کے مکان میں جلسے کی تقاریر سننے کا انتظام کیاگیا تھا جہاں پر لاؤڈ سپیکر کے ذریعہ آواز بخوبی پہنچتی تھی.مہمانوں کے قیام و طعام اور جلسہ کے دیگر تمام انتظامات سر انجام دینے کی معاودت دیار حبیب کے خوش قسمت درویشوں نے حاصل کر رکھی تھی جلسہ کے منتظم اعلیٰ صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ناظر دعوۃ و تبلیغ اور آپ کے نائب مولوی عبد القادر صاحب دہلوی جنرل پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ قادیان تھے.ان کے ماتحت قریباً تمام درویش بھائی اپنی اپنی ڈیوٹی بڑی تندہی سے سرانجام دے رہے تھے بہت سے ایسے درویش تھے جنہیں سالہا سال کے بعد اسی موقع پر اپنے کسی عزیز یا بزرگ سے ملنے کا موقع ملاتھا اور وہ بھی نہایت محدود وقت کے لئے لیکن وہ اس عرصہ میں بھی اپنے ذاتی جذبات اور تعلقات کو قربان کرکے جلسہ کے سلسلہ میں اپنے فرائض سر انجام دینے میں مصروف نظر آتے تھے اور ر اس طرح اپنے عمل سے ثابت کر رہے تھے کہ وہ فی الحقیقت تمام دنیوی تعلقات اور علائق سے منہ موڑ کر اپنے تئیں خدا تعالیٰ کے لئے وقف کر چکے ہیں.ہندوستان سے تشریف لانے والے اکثر دوست مدرسہ احمدیہ اور یور ڈنگ مدرسہ احمدیہ کے کمروں میں رہائش رکھتے تھے جلسہ کی تصاویر لینے کی خدمت میاں منور علی صاحب درویش (پروپرائٹر علی سٹوڈیو) اور چوہدری انور احمد صاحب کا ہلوں امیر جماعت احمدیہ کلکتہ سر انجام دیتے رہے.۲۷ فتح (دسمبر) کی رات کو مسجد اقصی میں محترم شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور کی صدارت میں ایک تربیتی جلسہ ہوا جس میں حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی، مولوی محمد سلیم صاحب مبلغ سلسلہ عالیہ احمدیہ اور چوہدری محمد عبد اللہ خان صاحب امیر جماعت احمدیہ کراچی نے مختلف تربیتی امور پر تقاریر فرمائیں.جلسہ مجھے بعد حضرت مولوی راجیکی صاحب نے اجتماعی دعا کرائی اور دعا کے بعد اپنا یہ کشف بیان فرمایا کہ جب دعا شروع ہوئی تو سید نا حضرت مسیح موعود عليه الصلوة والسلام بھی عالم کشف میں مسجد میں تشریف لائے اور دعا میں شامل ہوئے (الحمد للہ) مورخه ۲۹ فتح ( دسمبر) بروز جمعہ میجر جنرل عبد الرحمن صاحب ڈپٹی ہائی کمشنر پاکستان تعینہ جالندھر قادیان تشریف لائے، پاکستانی زائرین کی طرف سے شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ نے آپ کا خیر مقدم کیا.بورڈنگ مدرسہ احمدیہ میں آپ نے پاکستانی زائرین سے ملاقات فرمائی.شام کو آپ واپس تشریف لے گئے.۲۹ فتح (دسمبر کی صبح کو پاکستان سے جانے والے احباب نے اپنے امیر شیخ بشیر احمد صاحب
ایڈووکیٹ کی سرکردگی میں گروپ فوٹو کھنچوائی پھر مقبر بہشتی میں اجتماعی دعا کی میسجد اقصی میں نوافل ادا کئے اور ساڑھے نو بجے مقامی پولیس کے انتظام کے ماتحت محلہ دار الانوار، دار البرکات، دار الفضل، دار الرحمت اور دار الفتوح کی مساجد کے علاوہ تعلیم الاسلام کالج اورمسجد نور میں جاکر بڑی رقمت اور در کے ساتھ اجتماعی دعا کی تعلیم الاسلام ہائی سکول اور نور ہسپتال میں سے ہوتے ہوئے بڑے بازار کی طرف سے واپس دار سیج آئے.مورخہ ۲۹ ماہ فتح (دسمبر) کونماز جمعہ کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے باغ کے اس مخصوص حصہ میں جہاں حضور علیہ السلام کا جنازہ پڑھا گیا تھا اور جو حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی کی سعی او نگرانی میں اس حصہ کی حد بندی کر کے اسے باقی جگہ سے علیحدہ کر دیا گیا تھا ) حیدر آباد کے نہایت مخلص خاورم سلسلہ حضرت سیٹھ محمد غوث صاحب کا جنازہ حضرت مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل امیر جماعت مقامی نے پڑھا.حضرت سیٹھ صاحب موصوف کا ۲۸ فروری ۱۹۹۴ئر کو حیدر آباد میں انتقال ہوا تھا اور آپ کو وہیں امانتاً دفن کر دیا گیا تھا.اس جلسہ کے موقع پر آپ کے فرزند سیٹھ محمد اعظم صاحب نے آپکا تابوت حیدر آباد سے دارا نامان لائے.حضرت سیٹھ صاحب اگر چہ صحابی نہیں تھے لیکن اپنی شاندار خدمات سلسلہ کی وجہ سے حضرت مصلح موعود کی اجازت پر مقبرہ بہشتی کے قطعہ صحابہ میں دفن کئے گئے.جنازہ سے قبل مؤرخ احمدیت حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نہ نے پرنم آنکھوں کے ساتھ احباب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :- اس وقت میری آنکھوں کے سامنے ، ہر مئی شائر کا دن ہے جبکہ ٹھیک اسی میدان میں ہمارے آقا اور محسن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جنازہ رکھا گیا تھا اور یہی وہ میدان تھا جس میں ہم نے خلافت اولی کی بیعت کی تھی.وہ بیعت اسی امری کی تھی کہ ہم خلیفہ وقت کو واجب الاطاعت امام سمجھتے ہیں.حضرت سیٹھ محمد غوث گذشته ۴۲ سال میں وہ پہلے خوش قسمت انسان ہیں جن کا جنازہ ٹھیک اس جگہ اور اسی حلقہ میں پڑھا جارہا ہے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جسم اطہر رکھا گیا تھا اور جنازہ پڑھا گیا تھا.خدا تعالیٰ کے بے شمار فضل ہوں محترم بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی پر جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس حلقہ زمین کو محدود کرنے کی توفیق دی.لیکن اس امر کی تصدیق کرتا ہوں کہ ٹھیک اسی جگہ حضور علیہ السلام کا ه ۱۹ مارت ۱۹۶۳ء کو سیٹھ صاحب ہجرت کر کے پاکستان آگئے اور اب ربوہ میں رہائش پذیر ہیں ؟
۲۱۲ جنازہ پڑھا گیا تھا.یاد رکھو مقامات مقدسہ پرستش کے لئے نہیں ہوتے ہاں وہ اس لئے ضرور ہمارے لئے قابل احترام ہوتے ہیں تاکہ ہم انہیں دیکھ کر اپنے نفوس کا تزکیہ کرنے اور ان مقامات سے وابستہ برکات کو حاصل کرنے کی کوشش کریں.حضرت عرفانی صاحب نے حضرت سیٹھ محمد غوث صاحب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :- وہ بڑے مخلص، مفادم سلسلہ تھے.وہ گداز تھے حضرت صاحب کی محبت میں اور یہی رنگ دوستوں سے ان کی محبت کا تھا ئیں مبارکباد دیتا ہوں ان کے بیٹے عزیزمحمد اعظم کو کہ انہیں آج ان کا تابوت یہاں لانے کی توفیق ملی : جلسہ کے ایام کی سب سے بڑی اور نمایاں خصوصیت وہ دعائیں، عبادتیں اور نمازیں تھیں جو اراکی کو ہر وقت اللہ تعالیٰ کی برکتوں اور رحمتوں سے معمور رکھتی تھیں مسجد مبارک اور مسجد اقصی، دار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام خصوصاً بيت الدعاء بيت الذکر اور بیت الفکر تو مومنین کی خشوع وخضوع سے نکلی ہوئی دعاؤں اور مناجاتوں کی آماجگاہ بنی رہیں.علاوہ ازیں صبح سوا پانچ بجے مساجد میں با جماعت نماز تہجد ادا کی جاتی جس میں احباب بڑے ذوق و شوق سے حصہ لیتے تھے.مقبر بہشتی میں مزار حضرت مہدی موعود علیہ السلام پر حاضر ہو کر دعائیں کرنے والے احباب کا بھی ہر وقت تانتا لگا رہتا خط اینه قافلہ پاکستان مورخه ۲۵ ماه فتح (دسمبر بروز پیر صبیح قاقامہ پاکستان کے مختصر حالات سونے کے تن با ے سے اہورا منی بس سروس کی تھی نو بجے باغ و نہوں میں روانہ ہوا.قافلہ کے امیر شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ لاہور تھے جو لیس نماز میں سوار تھے اور ان کے ماتحت لیس کے انچارج میاں عطاء اللہ صاحب وکیل امیر جماعت راولپنڈی اور میں ہے کے انچارج چوہدری محمد عبداللہ خاں صاحب امیر جماعت کراچی تھے.اس موقع پر الوداع کرنے کے لئے بہت سے احباب جمع تھے.پھر حضرت مولوی غلام رسولی صاحب راجیکی نے اجتماعی دعا کرائی اور پریس فوٹو گرافر نے فوٹو لئے.روانگی کے وقت حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی رقم فرمودی ضروری ہدایات کی ایک ایک کاپی تمام زائرین کو دے دی گئی.ان ہدایات میں امیر قافلہ کی اطاعت الفضل ، جنوری ۱۹۵۷ نه صب تا حه :
۲۱۳ کرنے کے علاوہ اس امر کی خاص طور پر صیحت کی گئی تھی کہ اس مقدس سفر کے دوران میں اپنے دلوں کی نیت کو پاک وصاف رکھنا چاہیئے اور دعاؤں پر خاص زور دینا چاہیئے تا کہ خدا تعالیٰ ایل سفر کو نہ صرف آپ کے لئے اور نہ صرف اہلِ قادیان کے لئے بلکہ تمام جماعت کے لئے اور احمدیت اور اسلام کے لئے مبارک اور مشر نمرات حسنہ بنائے، چنانچہ ارکان قافلہ نے روانہ ہوتے ہی دعائیں شروع کر دیں اور سفر کا زیادہ سے زیادہ وقت دعاؤں میں گزارا جب قافلہ واہگہ سرحد پر پہنچا تو شیخ محمود الحسن صاحب جنرل سیکرٹری جماعت لاہور اور شیخ نذیر احمد صاحب کے علاوہ خان محمد شفیع خان صاحب ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر لاہور بھی قافلہ کو الوداع کہنے کے لئے موجود تھے.ضروری امور کی سر انجام دہی کے بعد پونے بارہ بجے قافلہ کے ارکان پیدا ہندوستان کی سرحد میں داخل ہوئے.امرتسر کے ڈپٹی کمشنر سردار بہادر سردار نریندرسنگھے صاحب نے ہندوستان کی طرف سے قافلہ کا خیر مقدم کیا پراسیس فوٹو گرافر نے آپ کی معیت میں قافلہ کی تصویر لی.آپ کچھ عرصہ ٹھرنے کے بعد امر تسر پہلے آئے.ہندوستانی سرحد پر قادیان کے دو درویش چوہدری فضل اللي صاحب اور بشیر احمد صاحب ٹھیکیدار بھی درویشان قادیان کی نمائندگی میں موجود تھے.ڈی بھی صاحب امرتسر کے جانے کے بعد قابلہ ہوں میں سوار ہو کر ہندوستان کیسٹر آفس کے آگئے ڑکا جو سرحد سے تھوڑے فاصلے پر کا ہی گڑے نامی گاؤں کے قریب واقع ہے.سامان وغیرہ کی تلاشی ہونے کے بعد ایک بیچ کر ہمیں منٹ پر انڈین پولیس کے حفاظتی دستے کے ہمراہ قافلہ روانہ ہوا پونے دو بجے امرتسرمیں سے گزرا اور پونے تین بجے بٹالہ پہنچ گیا یہاں بھی بعض درویش استقبال کے لئے موجود تھے.چند منٹ بٹالہ ٹھرنے کے بعد قافلہ سری گوبند پور والی سڑک کے راستے سے قادیان روانہ ہوا پنجگرائیں کے موڑ پر اسے کچھ رکنا پڑا کیونکہ نمر کی پڑی کا دروازہ بند تھا.جب یہاں سے قافلہ روانہ ہوا تو چند منٹ بعد ہی مینار بسیج نظر آنے لگا اسی وقت امیر قافلہ کے ارشاد پر اجتماعی دعا شروع کر دی گئی جو دیر تک جاری رہی.جوں جوں منارہ اسی نمایاں نظرآتا تھا اور قادیان کی محبوب بستی قریب آتی جاتی تھی اہل قافلہ میں خوشی اور غم کے لیے ملے مہذبات سے عجیب کیفیت پیدا ہو رہی تھی.جب قادیان اور پر آگیا تو در و ایشان، قادیان کا مجمع نظر آنے لگا جو کئی گھنٹوں سے قافلہ کا منتظر تھا.آخر وہ مبارک ساعت آگئی
۲۱۴ جبکہ پانچ نیچے یہ ہیں موضع بیل کلاں سے مقبرہ بہشتی کی طرف بہانے والی سڑک پر باغ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قریب ٹھر گئیں.درویشان قادیان نے قافلہ کا خیر مقدم کیا مقامی جماعت کے امیر حضرت مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل نے آگے بڑھ کر امیر قافلہ شیخ بشیر احمد صاحب سے مصافحہ اور معانقہ کیا اس موقع پر حضرت سیٹھ عبدالله اله دین صاحب آن سکندر آباد دکن اور ہندوستان سے تشریف لانیوالے شد و دیگر احباب بھی موجود تھے.قادیان کے بعض ہندو سکھ اصحاب بھی آئے ہوئے تھے.چونکہ نماز کا وقت بہت تنگ ہو رہا تھا اس لئے کیسوں سے اُترتے ہی قافلہ نے حضرت مولوی راجیکی صاحب کی اقتداء میں اسی جگہ نماز ظہر و عصرا داکیں.نماز کے بعد ارکان قافلہ نے باری باری تمام مقامی احباب سے مصافحہ کیا پھر یہ سارا مجمع مقبر بہشتی ہیں اپنے آقا و مطار سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مزار مبارک پر حاضر ہوا اور بڑے درد، رقت اور سوز کے ساتھ لمبی دعا کرنے کے بعد قافلہ دار ایسیح میں داخل ہوا.مورخه ۳۰ ماه فتح (دسمبر بروز ہفتہ نماز فجر کی ادائیگی کے بعد ارکان قافلہ کا مسجد مبارک میں درویشان قادیان اور ہندوستان کے احمدی احباب سے تعارف اور ملاقات کا انتظام کیا گیا تھا چنا نچہ مسجد کے مغربی حصہ میں ارکان قافلہ لائن میں کھڑے ہو گئے ہندوستانی احباب اور درویشان کرام باری باری لائن کے ساتھ گذرتے چلے بھاتے اور ہر دوست سے ملاقات کرتے جاتے.ملاقات اور تعارف کے بعد پاکستانی زائرین سفر کی تیاری میں مصروف ہو گئے لیبوں پر سامان لدوانے کے بعد سوا نو بجے قافلہ کے ارکان اور مقامی احباب سب مقبرہ بہشتی میں جمع ہو گئے.یہاں حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے مزار مبارک پر لمبی الوداعی دعاکی گئی پھر قافلہ کی روانگی تک ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا سب احباب ایک دوسرے سے بغلگیر ہو رہے تھے مگر اس حالت میں کہ آنکھوں سے بے اختیار آنسو رواں تھے.اخلاص اور درد سے بھری ہوئی یہ ملاقاتیں جاری رہیں حتی کہ دس بجکر پچپن منٹ پر اجتماعی دعا کے بعد لسبیں روانہ ہوگئیں جبکہ قافلہ کا ہر رکن اشکبار آنکھوں کے ساتھ دعاؤں میں مصروف تھا اور درویش بڑے درد اور رفت کے ساتھ یہ شعر پڑھ رہے تھے کہ سے ہم بھی کرتے ہیں دُعا اور آپ بھی مانگا کریں جلد شاہ قادیانی تشریف لائے تادیاں
۲۱۵ الغرض قافلہ روانہ ہو گیا اور قادیان اور اس کے درویش آنکھوں سے اوجھل ہو گئے حتی کہ ہر عبور کرتے ہوئے قادیان کی آخری جھلک یعنی منارة امسیح بھی نظروں سے اوجھل ہو گیا.سوا بارہ بجے قافلہ بٹالہ کی سڑکوں کو عبور کر رہا تھا اور دو بجے امرتسر سے گذرتا ہو اسرحد پر پہنچ چکا تھا.چار پانچ درویش سرحد تک چھوڑنے کے لئے آئے.اس جگہ ہر و عصر کی نمازیں باجماعت ادا کی گئیں.چار بجے انڈین کسٹم آفس کے ارکان نے ہمارے سامان کی تلاشی لینا شروع کی.یہ تلاشی کتنی کڑی تھی اور کتنی صبر آزما اس سلسلہ میں امیر قافلہ کا بیان انہی دنوں اخبارات میں بھی شائع ہو گیا تھا.مختصر یہ کہ دلوں کے قافلہ سرحد پر پہنچا اور ساڑھے پانچ بجے تک مشکل ایک لیس کی مکمل اور دوسری بیس کی ادھوری تلاشی ختم کی گئی اور ر اس امر کا سخت خطرہ پیدا ہو گیا کہ شاید قافلہ کو رات سرحد پر ہی گزارنی پڑے کیونکہ دونوں ملکوں کے سرحدی پھاٹک ساڑھے پانچ بجے داخلہ کے لئے بند ہو جاتے ہیں.آخر امر تسر کے ڈی سی صاحب کی مداخلت سے یہ کٹھن مرحلہ کسی نہ کسی طرح ختم ہوا لیکن اس وقت دونوں طرف کے سرحدی پھاٹک داخلہ کے لئے بند ہو چکے تھے اور مغرب کا وقت ہو رہا تھا.آخر دو گھنٹہ کی خاص کوشش کے بعد یہ مرحلہ بھی طے ہوا اور رات کے آٹھ بجے قافلہ پاکستان کی سرحد میں داخل ہوا ہے: فصل چهارم کوائف کوه ه۱۳۲۹ ۱۹۵۰ اگر چہ دونوں مراکز احمدیت میں ترقیات کا سلسلہ متوازی شکل میں جاری رہا مگر ربوہ کی وادی غیر ذی زرع کی رفتار ترقی نسبتا زیادہ تیز رہی اور ہر لحاظ سے اس کی اہمیت و شہرت میں اضافہ ہوا.ربوہ با قاعدہ کمیشن بن گیا امامان هم تکرار ما را نشان میں رات والیان ریلوے ر مارچ کے ایک خاص گزٹ کے ذریعہ ربوہ کو باقاعدہ اسٹیشن بنا دیا گیا ہے ه افضل اور جنوری ۱۹۵۱ مرمت به ۱۲ افضل ۲۳۴۲ مارچ ۱۹۵ ه ص.܀
۲۱۶ اور دوسرے اسٹیشنوں کی طرح ماہ شہادت ۱۳۳۹ / اپریل ۱۹۵۰ر سے مال و اسباب کی بکنگ بھی ہونے لگی.حضر بمصلح موعود کی ذاتی لائبریری جو ماہ احسان حضرت مصلح مور کی ذاتی لائبریری کیوں میں مندر جو شام میں اہور سے چنیوٹ لائی گئی تھی امان هم له م مارچ سنٹر میں چنیوٹ سے ربوہ منتقل کی گئی ہے مصباح کا اجراء الجنہ اماءاللہ مرکزیہ کا ترجمان مصباح جو ماہ وفا ۱۳۳۶ / جولائی ۱۹۴۷ء کے فسادات میں بند ہو چکا تھا اس سال ماہ شہادت / اپریل میں دوبارہ جاری ہوگیا مصباح پہلے پنجاب الیکٹرک پریس لائل پور میں چھپتا تھا پھر طور ۳۳ / اگست ۱۹۵۴ء سے ضیاء الاسلام پر لیں ابوہ میں چھپنے لگا یہ پہلا رسالہ تھا جو ربوہ سے شائع ہوا یہ اراضی ربوہ کی مستقل الائمنٹ ابتداء میں ربوہ کے عارضی محلہ جات کے یہ نام تھے.ب.ج- درس - ص - ط - تبوک ه ۳۳ / ستمبر ۹۵۷ار میں اور مکانات کی تعمیر کا انعت از حضور ملی موجود کے حکم سےان کو مندرجہ ذیل ناموں سے موسوم کیا گیا.دارالیمین (1) باب المانجواب (ب) دار النصر (ج) ، دار البرکات (د) دار الرحمت (س) دار الصدر (عن) دار الفضل (1) - ان محلہ جات میں مستقل الائمنٹ کا کام اس سال شروع ہوا چنا نچہ اس سلسلہ میں دفتر کمیٹی آبادی ربوہ کی طرف سے ۲۵ صلح / نوری اور ۹ تبلیغ / فروری کو ریوہ کا نقشہ دے کر یہ پہلا اعلان جاری کیا گیا کہ :.H ایک کنال اور دینی مرلہ کے پلاٹ محلہ جات الشت - ب - ج - داور رس میں واقع ہیں.ایک کنائی اور دس مرلہ خریدنے والے دوست اطلاع دیں کہ وہ کسی محلہ میں پلاٹ خریدنا چاہتے ہیں اور یہ کہ اگر وہ پسند کردہ پلاٹ میں نہ آسکیں تو اُن کی دوسری پسند کیا ہوگی پھر حملہ کے قطعات مقرر میں ان اے رپورٹ سامانه صد را نمین احمدیه راوده ۸ ۱۳-۱۳۲۹ مش / ۶۱۹۴۹-۱۹۵۰ء مٹہ سے مزید فصیل کیلئے 194.ملاحظہ ہو تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد دوم مشار مواقہ امتہ اللطيف مصاحبه سیر برای انسان الجنہ اماء الله مرکزی ) +
FIZ میں دوستوں کو حسب پسند الائمنٹ کی کوشش کی جائے گی لیکن اگر کسی محلہ میں قطعات کی مقررہ تعداد سے زائد کا مطالبہ ہوا تو جن دوستوں کی رقمیں پہلے داخل خدا نہ ہوئی ہیں انہیں ترجیح دی جائے گی جن دوستوں کی طرف سے کوئی اطلاع نہیں آئے گی ان کے لئے محلے کا فیصلہ قرعہ اندازی سے کیا جائے گا.یہ اعلان پہلے کیا جا چکا ہے کہ رشتہ داروں کو بھی اکٹھا کرنے کی کوشش کی جائے گی بعض دوستوں کی طرفت سے اطلاعات آچکی ہیں باقی جو دوست بھی پلاٹ اکٹھے کروانا چاہیں وہ اطلاع دیں لیکن یہ خیال رہے کہ صرف خونی رشتہ یعنی باپ، بیٹا، بہن، بھائی اور ایسی طرح بیوی کے خونی رشتے اکٹھے کئے جائیں گے جن دوستوں نے اپنی پہلی اطلاعات میں رشتہ کی اطلاع نہیں دی وہ اس کے مطابق مکمل اطلاعات دوبارہ بھیجوا دیں.ایسی اطلاعات دفترمیں از فروری تک پہنچ جانی چاہئیں کالے اس اعلان کے بعد جس میں الاٹمنٹ کے طریق کار پر فصل روشنی ڈالی گئی تھی بذریعہ الفضل ۱۴ تبلیغ بر فروری کو یہ اعلان بھی شائع کیا گیا کہ مطلوبہ اطلاعات کے لئے ۲۸ ماه تبلیغ فروری تک انتظار کیا جائے گا اس کے بعد انشاء اللہ قطعات کی الاٹمنٹ شروع کر دی بھائے گی لیکن جو دوست فوری طور پر مکان تعمیر کرانے کے خواہشمند ہوں ان کے لئے قطعہ بھی فوراً الاٹ کر دیا جائے گا.این اطلاعات کے مطابق جلد ہی الاٹمنٹ شروع کر دی گئی سب سے پہلے جن محملوں کی الاٹمنٹ شروع ہوئی وہ محلہ الف ( دار الیمین) اور عن (دار الصدر) تھے.اس کے بعد محلہ ب (باب الابواب) اور ط (دار الفضل) کی الاٹمنٹ کی گئی.دارا الصدر میں سب سے پہلی کو بھی نواب محمداحمد صاحب کی تعمیر ہوئی.دارالیمن میں پہلا مکان ٹھیکیدار نور احمد صاحب کا بنا اور باب الابواب اور دار الفضل میں آبادی کی داغ بیل ڈالنے کی سعادت بالترتیب چوہدری عبد اللطیف صاحب اور کیپٹن نواب دین صاحب کے حصہ میں آئی.مرکزی عمارات کاسنگ بنیاداور میر را اور امی کو حر مال مو د نے اپنے ۲۹ ماہ ہجرت / حضرت موعود وست مملوک سے سوا سات بجے صبح اپنے ذاتی مکان کا اور اس ماہ ہجرت کو مندرجہ ذیل مرکزی عمارات کا سنگ بنیاد رکھا اور دعا فرمائی:.تعلیم الاسلام ہائی سکول - قصر خلافت - دفاتر تحریک جدید - دفاتر صدر انجمن احمدیہ - دفاتر له الفضل ۲۵ صلح ۲۹ حث سے یہ مکان ربوہ بھر میں پہلا رہائشی اور ذاتی مکان تھا جو تعمیر ہوا ؟
۲۱۸ لجنہ اناء اللہ مرکزیہ.اس موقع پر حضور کے علاوہ حضرت مفتی حمد صادق صاحب نیز جرمنی معمر اور سوڈان وغیرہ ممالک کے بعض احمدی احباب نے بھی اینٹیں رکھیں اور اجتماعی دعا میں شرکت کی سیٹ سید نا حضر مسلح موعود نے ۵- احسان ۱۳۳۶ کو ارشاد فرمایا کہ تعمیر کے اسٹیمیٹ حاصل کئے جائیں اور مجھے بھجوائے جائیں کسی صورت میں بھی کسی عمارت کا کام شروع نہیں ہو نا چا ہیئے جب تک کہ میری نظور کردہ اخراجات کی تعد اور انجنیئر سے گارنٹی نہ لی جائے تے چنا نچہ اس ہدایت کے مطابق یہ سب تعمیرات مکمل ہوئیں جن کے اخراجات کا ذکر رپورٹ سالانہ صدر نہیں احمدیہ ۶۱۹۵۰-۱۹۸۱ ء میں شائع شدہ ہے میکے اه رافضل ۲ احسان ۱۲۹۸ جون ۱۹۵۶ مل : TAY ے ارشاد بر لقول ریزولیوشن صدر انجمن احمدیه لعبة غام * سے سلسلہ احمدیہ کی مرکزی تعمیرات اور دوسری پبلک عمارات کے لئے سیمنٹ ایک ضروری چیز تھی جس کی فراہمی کے لیے صدر انجین احمدیہ نے سرگودہا کے ایک تاجر سے دو ویگن کا سودا کیا مگر وہ بنیانہ وصول کرنے اور و دین کے لالیاں تک پہنچانے کے باوجو د سیمنٹ کو ٹرکوں پر لدوا کر واپس سرگودھالے گیا اور ربوہ کو سیمنٹ دینے بلکہ پیشگی رقم تک واپس کرنے سے منحرف ہو گیا.بالآخر نوبت عدالت تک پہنچی.صدر انجمن احمدیہ نے ایک طرف اپنی رقم اور خریج مقدمہ وصول کر کے یہ اضی نامہ کر لیا دوسری طرف مسلسل جد و جہد کے بعد سال کے آخریلی ڈالمیا سیمنٹ کمپنی کی ایجنسی قائم کرلی اور الفضل (۳۱ فتح ۱۳۲۹ دسمبر ۱۹۹۵ ) میں اعلان کیا کہ : جو دوست جس مقدار میں سیمنٹ خریدنے کے خواہش مند ہوں وہ اس کی قیمت انداز آپریشگی خزانہ صدر انجین احمدیہ میں داخل کر کے اس کی اطلاع سیکرٹری تعمیر کو بھی ساتھ ہی کر دیں تا کہ وہ انکی ضروریات کو ملحوظ رکھ کر زیادہ سے زیادہ سیمنٹ سٹاک کر سکیں.اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ احباب کو کسی وقت کے بغیر اور بدول زائد خرچ کے معقول حیثیت پر ربوہ میں سیمنٹے مہیا ہو سکے گا یا
۲۱۹ فصل پنجم سال انجلسہ کو اور مصیل مواد کی طرف سے مخالفین احمدی دو الزامات کا حقیقت افروز جواب راوده کا تیسرا سالانه جلسه ۲۶ تا ۲۸ با وفتح های دبیرستان کو منعقد ہوا جس میں پاکستان کے علاوہ مشرقی افریقہ ، برٹش گی آنا، جرمنی، ہالینڈ، بورنیو اور انڈہ دیش یا وغیرہ ممالک کے احمدی بھی کثیر تعداد میں شامل ہوئے ہیں اُن ایام میں احمدیت کے مخالف احراری اور دوسرے علماء عوام کو بھڑ کانے کے لئے نہایت وسیع پیمانے پر غلط فہمیاں پھیلا رہے تھے خصوصاً حضرت مسیح موعود کے معاذ اللہ برطانوی ایجینٹ ہونے اور ہ کے باؤنڈری کمیشن میں الگ میمورنڈم پیش کر کے ضلع گورداسپور کے کٹوانے کے الزامات کو ملکہ پھر میں ہوا دی جارہی تھی.سید نا حضرت امیر المونین اصلح الموعود نے جہاں اپنی روح پرور اور پر معارف تقاریر میں بہت سیسی علمی، تربیتی اور تبلیغی مسائل پر روشنی ڈالی وہاں ان دونوں الزامات کا (۲۷ مادہ فتح کو بڑی شرح و بسط سے تنقیدی جائزہ لیا اور نہایت مدلل مسکت اور حقیقت افروز جواب دیا.شروع میں حضور نے بتایا کہ اس وقت جو جماعتیں ہماری مخالفت میں پیش پیش ہیں وہ مجلس احرار، علامہ مشرقی کی اسلام لیگ اور اسلامی جماعت ہے.مجلس احرار نے اپنی تقاریر میں متواتر ہمارے قتل کی تحریک کی ہے اور ٹیسٹنگر پر مبین کھلے بندوں یہ کہا ہے کہ ایک رات تمام احمدیوں کے مکانوں پر نشانات لگا دو اور پھر کسی وقت ان سب کو قتل کر دو کیسی جگہ گورنمنٹ کو توجہ دلا رہی ہے کہ وہ ہمیں خلاف قانون قرار دے دیں یا اقلیت قرار دیدیں یہ لوگ جو چاہیں کہیں لیکن ان کے نز دیک پاکستان میں چونکہ اسلامی حکومت ہے.اس لئے ہمیں انکی باتوں لے تفصیلی کو الف الفضل ۱۳۱ دسمبر ۱۹۹۵، ۲-۳-۱۳ جنوری ۱۹۵۱ء میں شائع ہوئے پر
۲۲۰ کا جواب دینے کی بھی ضرورت نہیں پھر گھلے بندوں ہم پرچھا حملے کرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں اور ہم پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی (نعوذ باللہ ) ہتک کر رہے ہیں حالانکہ اگر دنیا میں کوئی ایسا فرقہ موجود ہے جو رسول کریم کے عشق میں گدانہ اور آپ کے نام اور عزت کو قائم کرنے والا ہے تو وہ صرف احمدیت ہی ہے.ہماری تو بنیاد ہی یہ ہے کہ رسول کریم کا نور ہمیشہ قائم رہے گا.آپ ہمیشہ زندہ رہیں گے اور آخری زمانہ میں آپ کے ہی ایک غلام نے آپ کے دین کو زندہ کرنا ہے کیا کوئی عقلمند کہ سکتا ہے کہ ایسا فرقہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کر سکتا ہے.یہ عقلی طور پر محال ہے یہ ہو نہیں سکتا کہ ایک شخص کسی دوسرے کے شاگر دہونے کا بھی دعونی کرے اور پھر اس کو جاہل بھی کہے بیان اس تمہید کے بعد حضور نے سب سے پہلے اس افترا کی قدامی کھولی کہ احمدی انگریزی استعمار کے ایجنٹ ہیں چنانچہ حضور نے فرمایا :- ہماری جماعت کے خلاف لوگوں میں اشتعال پیدا برطانوی اینٹ ہونے کے الزام کا جواب کرنے کے لئے مخالف علماء کی طرف سےجو غلط نہیں پیدلو کی جاتی ہیں ان میں سے ایک بڑی غلط فہمی یہ پھیلائی جاتی ہے کہ انگریزوں کی عادت تھی کہ وہ رعایا میں تفرقہ ڈال کر حکومت کیا کرتے تھے چنانچہ اس عادت کے مطابق انہوں نے ہندوستان کے مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کے لئے احمدیوں کو کھڑا کیا گویا احمدی نعوذ باشد انگریز کے ایجنٹ ہیں اور انہی کی سکیم کے مطابق اس جماعت کا وجود عمل میں آیا ہے.یہ اعتراض اس قدر بودا اور دور از حقیقت ہے کہ میں حیران ہوں لوگوں نے اسے کیونکر قبول کر لیا.اگر وہ ذرا بھی غور کرتے اور سوچتے اور تدبر سے کام لینے کی عادت پیدا کرتے تو اس غلط فہمی میں بھی مبتلا نہ ہوتے.اس اعتراض کی لغویت تو اس سے ظاہر ہے کہ خود اپنی علماء کے پیشرو ایک زمانہ میں جبکہ انگریز حکمران تھا بڑے زور سے کہا کرتے تھے کہ مرزا صاحب حکومت کے باغی ہیں اگر ان کی طرف فوری توبہ نہ کی گئی تو حکومت کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا.چنا نچہ حضرت کی موجودعلیہ الصلوۃ و السلام کے پانچ سات سال بعد کی کتب جو مخالف علماء کی طرف سے چنانچہ لکھی گئیں ان میں کہیں بھی یہ اعتراض نظر نہیں آتا کہ مرزا صاحب انگریزوں کے ایجینٹ ہیں بلکہ ان کی له الفضل 4 جنوری 19 ئه م کالم عا یہ
۲۲۱ تمام کتب میں یہ لکھا ہوا ہے کہ مرزا صاحب حکومت کے مخالف اور باغی ہیں لیکن اب یہ کہا جاتا ہے کہ احمدی انگریزوں کے اینٹ ہیں.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کی اصل غرض لوگوں کو اشتعال دلانا ہے.جب انگریزوں کو اشتعال دلانا مقصود تھا تو یہ کہا جاتا تھا کہ مرزا صاحب حکومت کے باغی ہیں اور جب عوام کو اشتعال دلانا چاہا تو کہ دیا کہ احمدی انگریزوں کے ایجنٹ ہیں.اگر احمدی انگریزوں کے ایجنٹ تھے تو مولوی محمدحسین صاحب بٹ نوشی اور لدھیانہ کے علماء نے اُس وقت یہ کیوں لکھا کہ مرزا صاحب انگریزوں کے مخالف اور حکومت کے باغی ہیں.ذمہ دار افسروں کو ان کے خلاف فوری کارروائی کرنی چاہیے.انہوں نے تو اس اعتراض کو اتنی اہمیت دی تھی کہ حضرت مسیح موعود و علیہ السلام کو جب ایک دفعہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہانا بتایا گیا کہ سے سلطنت برطانیه تا هشت سال بعد ازان صنعت و فساد و اختلال ا بعض روایات میں ایام ضعف و اختلال کے الفاظ بھی آئے ہیں ، تو بعضی مصلحتوں کی بناء پر اسے شائع ہ کیا گیا بلکہ صرف اپنی جماعت کے دوستوں کو بتانے تک اکتفاء کیا گیا لیکن مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو ہر وقت اسی ٹوہ میں رہتے تھے کہ کوئی قابلِ اعتراض بات بل بجائے انہوں نے یہ الہام کسی احمدی سے شن لیا اور فوراً ایک مضمون لکھا کہ کیا میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ یہ شخص ( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام) حکومت کا باغی ہے.اب اسے یہ امام بھی ہونے لگا ہے کہ حکومت برطانیہ چند سال تک ہی ہے.اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فی الواقعہ انگریزوں کے الیمینٹ تھے اور جماعت احمدیہ انگریزوں کی قائم کردہ تھی تو آپ کو انگریزوں کے خلاف الہام کیوں ہوا یہ تو کوئی کہ سیکھتا ہے کہ حضرت سیح موعود علی الہ سلام کو انگریزوں نے قائم کیا کہ کیا بھی ہوسکتا تھا کہ آپ انہی کے خلاف اپنے الہامات دوستوں کو بتاتے اور پھر وہ پورے بھی ہو جاتے.آپ کو یہ الہاد اور میں ہوا اور شادی کے بعد سے انگریزوں سرا کی حکومت میں صنعت و اختلال شروع ہو گیا.ملکہ وکٹوریہ فوت ہوئی اور آہستہ آہستہ کینڈا، آسٹریلیا اور ہندوستان میں بیداری پیدا ہوئی اور انہوں نے آزادی حاصل کر لی.پس یہ عقلی طور پر محال ہے که حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو انگریزوں کا ایجنٹ قرار دیا جائے.اگر آپ کو انگریزوں نے قائم کیا تھا تو چاہیئے تھا کہ وہ آپ کو ایسی باتیں سکھاتے جو ان کی تائید کرنے والی ہوتیں کیونکہ جہاں لے ملاحظہ ہو اشاعۃ السنہ جلد ۱۶ صفحہ ۱۶۸ ( حاشیہ) کے تذکرہ طبع سوم ص ۷۶۶ و تاریخ احمدیت جلد دوئم طبع دوئم ص ۲۰۴
۲۳۴ یہ لوگ سیاست میں بڑھتے ہوئے ہیں وہاں مذہبی تعصب میں بھی بڑھتے ہوئے ہیں چنانچہ سابق بادشاہ ایڈورڈ ہشتم کی تخت سے دستبرداری کا واقعہ اس کا ثبوت ہے کہ ان کا ایک عورت مر مپسن سے تعلق تھا.وہ دیر سے شاہی دعوتوں میں بلائی جاتی تھیں.ان میں خود وزیر اعظم بھی شامل ہوتے تھے.وہ اکثر اوقات شاہی حلقہ میں رہتی تھیں اور شاہی نوکر ان کی خدمت پر مامور تھے لیکن کسی وزیر نے ان کے میل جول پر اعتراض نہ کیا.مسٹر بالڈوں جنہوں نے بعد میں اعتراض کیا وہ کئی دفعہ ان ناچ گانوں میں شامل ہو چکے تھے جن میں وہ عورت ایڈورڈ ہشتم کے ساتھ شریک ہوتی تھی لیکن جب ایڈورڈ ہشتم کی تاجپوشی کی رسوم طے ہونے لگیں ،اور اس غرض کے لئے ایک خاص کی ٹی عمل میں آئی اور اس نے اپنی رپورٹ بادشاہ کے سامنے رکھی تو بادشاہ نے مذہبی رسم کا حصہ ادا کرنے سے انکار کر دیا اور صاف طور پر کہ دیا کہ میں اس پر یقین نہیں رکھتا اس لئے مجھے معذور سمجھا جائے.جب یہ بات وزراء اور پادریوں کو معلوم ہوئی تو انہوں نے سخت برا منایا اور آرچ بشپ آون کنٹر بری نے اس تقریب میں شامل ہونے سے انکار کر دیا اور پھر مسٹر بین کے ساتھ شادی کے واقعات کو بہانہ بنا کہ ان کے خلاف اس قدر شور بلند کیا گیا کہ آخر ایڈورڈ ہشتم کو تخت سے دستبرداری کا اعلان کرنا پڑا.یہ دلیل ہے اس بات کی کہ انگریز مذہب کے بارہ میں نہایت متعصب واقع ہوئے ہیں.اسی طرح برطانیہ کے وزیر اعظم مسٹر ایٹلی کی بہن سخت کر پادری تھی.ہمارے مشن میں بھی وہ آیا کرتی تھی.وہ ساؤتھ افریقہ میں بطور مشتری کام کیا کرتی تھی نہیں انگریز خواہ چھوٹے ہوں یا بڑے ان میں اسلام کے خلاف اور عیسائیت کی تائید میں ایک شدید جذبہ پایا جاتا ہے - ۱۹۲۲ مہ میں میں جب انگلستان گیا تو ایک دہریہ ڈاکٹر سے میرا تبادلہ خیالات ہوا.جب اس سے میری گفت گو ہوئی تو اس نے دو چار فقرات کے بعد ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کر دیا یکی نے کہا آپ تو خدا کو بھی نہیں مانتے محمد رسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم پر کیوں اعتراض کرتے ہیں صرف ہستی باری تعالیٰ تک اپنی گفت گو کو محدود رکھیں مگر اُس نے پھر اعتراض کر دیا میں نے اسے دوبارہ نرمی سے سمجھایا لیکن وہ باز نہ آیا.آخر جب اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کیا تو میں نے حضر مسیح علیہ السلام پر اعتراض کر دیا.اس پر اُس کا چہرہ سرخ ہو گیا اور کہنے لگا میں مسیح (علیہ السلام) کے متعلق کوئی بات سننے کے لئے تیار نہیں.لیکں نے کہا اگر تم مسیح کے متعلق کوئی بات سننے کے لئے تیار نہیں تو کیا میں ہی ایسا بے غیرت ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے متعلق اعتراضات سنتا چلا
جاؤں اور خاموش رہوں.غرض برطانیہ کے ایک دہریہ کو بھی عیسائیت سے محبت ہے عیسائیت کی محبت میں برطانیہ اور امریکہ سب سے زیادہ بڑھے ہوئے ہیں.وہ ایک ارب پونڈ سے زیادہ اپنے مشنوں پر سالانہ خرچ کرتے ہیں اور چھوٹے حکام سے لے کر وائسرائے اور بادشاہ تک گر بھا میں جاتے ہیں پھر کیا یہ عجیب بات نہیں کہ علماء کے خیال کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کھڑا تو انگریزوں نے کیا مگر آپ کو کہا یہ کہ تم کو عیسی مر گیا ہے.کیا یہ بات کسی انسانی عقل میں آسکتی ہے ؟ جو حکومت اربوں روپیہ عیسائیت کی اشاعت کے لئے خرچ کر رہی ہے، جس کی بنیا در سی سیع کی انو مہیت پر ہے جس کے پادریوں میں اتنی طاقت ہے کہ ان کی مخالفت کی وجہ سے ایک بادشاہ بھی استعفیٰ دینے پر مجبور ہو جاتا ہے کیا اسنے مسلمانوں کو کمزور کرنے کے لئے یہی کہلوانا تھا کہ عیسی مرگیا ہے حالانکہ عیسی کے سرنے میں عیسائیت کی موت ہے.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی جب سیالکوٹ میں نشہ میں تقریر ہوئی تو علماء نے آپؐ پر کفر کے فتوے لگائے اور ان میں سب سے پیش پیش پیر جماعت علی صاحب تھے.ڈھنڈورے پیٹے گئے اور اشتہاروں اور اعلانوں کے ذریعہ یہ پراپیگنڈا کیا گیا کہ جوشخص مرزا صاحب کی تقریر سننے جائے گا اس کا نکاح ٹوٹ جائے گا.آپ کی یہ تقریر ایک سرائے ہیں ہوئی تھی لوگ با وجود ان فتووں کے تقریر سننے کے لئے گئے مولوی اشتہار بانٹتے تھے اور لوگوں کو پکڑ پکڑ کر کہتے تھے کہ دیکھو اس میں کیا لکھا ہے تو لوگ یہ کہ کر آگے پہلے جاتے کہ نکاح کا کیا ہے نکاح تو پھر سو روپیہ دے کر ہم پڑھائیں گے لیکن مرزا صاحب شاید دوبارہ یہاں نہ آئیں لیکچر کے بعد جب آپ جائے قیام کی طرف روانہ ہوئے تو لوگوں نے آپ کی گاڑی پر خشت باری شروع کر دی.ان دنوں سیالکوٹ میں ایک انگریز لیفٹیننٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس تھا جس کا نام بیٹی ( BETTI ) تھا اس نے لوگوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ مسلمانو یہ ہمارے خدا کو مار رہا ہے لیکن میں خاموش کھڑا التقریر سن رہا ہوں اور تمہارے مذہب کو زندہ کہ رہا ہے اور تم شور مچارہے ہو.غرض ہم نے عیسائیوں کا خدا مار دیا لیکن پھر بھی ان کی نظروں میں ہم انگریزوں کے ایمینٹ ہیں اور یہ لوگ ان کے خدا کو زندہ آسمان پر بیٹھائے ہوئے ہیں اور پھر بھی انگریزوں کے مخالف ہیں.یکی بتا چکا ہوں کہ یہ بات عقلی طور پر محال ہے کہ ہمیں انگریز وڈی کا ایجنٹ کہا جا سکے.اب یکی واقعاتی مثالیں لیتا ہوں.اگر احمدیوں کو فی الواقعہ انگریزوں نے قائم کیا ہیت تاتو مروری
تھا کہ پادری جو واقعہ میں عیسائیت کے ایجنٹ ہیں اور جن کی مدد سے عیسائیت ہر ملک میں پھیلی ہے وہ ان کے دوست ہوتے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوا سب سے پہلے جن لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مخالفت کی وہ پادری ہی تھے.امرتسر میں پادری رالیا رام کا ایک مشہور پر یس تھا.ایک دفعہ آپ نے ایک تو وہ چھپنے کے لئے بھجوایا اور مستودہ کے ساتھ ایک خط بھی رکھ دیا جس میں طباعت کے متعلق ہدایات درج تھیں.اس وقت کسی علیحدہ خط کا پیکٹ میں رکھنا قانونا ایک جرم تھا.آپ رلیا رام کے کٹوم ( CUSTOMER ) تھے اور دکاندار اپنے گاہک سے کوئی برا سلوک نہیں کرتا لیکن ریلیا رام نے ایک انگریز سپرنٹنڈنٹ ڈاکخانہ جات کی مدد سے آپ پر مقدمہ چلا دیا مقدمہ میں خود سپرنٹنڈنٹ مین ہوا مجسٹریٹ نے آپ سے دریافت کیا کہ کیا آپ نے سیکیٹ میں خط ڈالا ہے.آپ نے فرمایا ہاں میں نے مستوده کے ساتھ خط بھی بھیجا تھا.آپؐ کی اس سچائی کا مجسٹریٹ پر نہایت گہرا اثر ہوا، سپرنٹنڈنٹ ڈاک خانہ جات نے بہتیر از ور لگایا کہ آپ کو کسی طرح سزا ہو جائے لیکن مجسٹریٹ نے کہا لیکن سچ بولنے والے کو سنرا نہیں دے سکتا اور اس نے آپ کو ہر سی کر دیا.غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی سب سے پہلے عیسائی پادریوں نے ہی مخالفت کی.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مشہور مخالف پادری تھا کر داس تھا.اس نے اسلام اور احمدیت کے خلاف ریویو براہین احمدیہ" " ازالته المرزا قادیانی " ذنوب محمدیہ اور انجیل یا قرآن چار کتابیں لکھی ہیں.پھر پادری ایس پی جیکب ( P - A CO2.5 ) تھا اس نے آپ کے خلافت، ایک کتاب لکھی جس کا نام مسیح موعود تھا.ڈاکٹر گرئیس و ولڈ ( DR.GRI SWOLD ) نے مرزا غلام محمد قادیانی " کے نام سے آپ کے خلاف ایک کتاب لکھی.پھر مشہور پادریوں فتح مسیح ، وارث مسیح، عماد الدین سراج الدین ، عبداللہ آتھم اور ہنری مارٹن کلارک نے آپ کی مخالفت کی بعجیب بات یہ ہے کہ عبداللہ اعظم سرکاری ملازم تھا اور ڈپٹی کے عمدہ پر فائز تھا.اگر انگریزوں نے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کھڑا کیا تھا توکیا انہوں نے اپنے ایک اعلیٰ اور سے کہنا تھا کہ وہ آپ کی مخالفت کرے.پھر ڈاکٹر مہنری مارٹن کلارک نے آپ پر اقدام قتل کا مقدمہ چلایا.امرتسر کے ڈی ہیں.اسے ای مارینیو نے آپ کے نام خلاف قاعدہ وارنٹ گرفتاری جاری کیا.کیا یہ ایلیٹوں والا سلوک ہے جو آپ سے کیا گیا.پھر قادیان جانے والے ہر احمدی کا نام نوٹ کیا جاتا تھا.کیا یہ اس بات کی علامت ہے کہ
۲۲۵ احمدیت انگریزوں کی قائم کی ہوئی ہے.ہمارے بڑے بھائی مرزہ اسلطان احمد صاحب مرحوم بیان کیا کرتے تھے کہ ابھی وہ احمدی نہیں ہوئے تھے کہ وہ ڈی سی جالندھر کو کسی کام کے سلسلہ میں ملنے کے لئے گئے.اس نے کہا مجھے یہ معلوم کر کے بڑی خوشی ہوئی ہے کہ آپ اپنے باپ والا عقیدہ نہیں رکھتے.مرزا سلطان احمد صاحب گو احمدی نہیں تھے لیکن ان میں غیرت پائی جاتی تھی.انہوں نے ڈی میسی کو کہا کہ آپ نے تو مجھے حرام زادہ قرار دیا ہے.اس نے کہا آپ کو کس نے ایسا کہا ہے میں نے تو نہیں کہا.مرزا اسلطان احمد صاحب نے جواب دیا کہ جو شخص اپنے باپ کا معاف ہوتا ہے وہ حرام زادہ ہی ہوتا ہے.اس پہ اُس نے معذرت کی کہ مجھ سے غلطی ہو گئی ہے.غرض عیسائیوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اتنی مخالفت پائی بھاتی تھی کہ ایک عیسائی ڈی میسی مرزا سلطان احمد صاحب کو اپنے باپ کی جماعت میں شامل نہ ہونے پر مبارکباد دیتا ہے.قار یان جانے والوں پر پہرہ اُس وقت تک قائم رہا جب تک کہ آپ کی وفات سے دو سال قبل ائیٹس (ABDELTS ) نہ آیا.اُس نے یہ سوال اُٹھایا کہ یہ پورہ کیوں ہے.جب اس بات کا کوئی شہوت، نہیں کہ مرتا صاحب نے حکومت کے خلاف کوئی اقدام کیا ہے وہ ایک مذہبی آدمی ہیں تو پھر یو نہی اتنے آدمی دستہ پر کیوں بٹھائے جاتے ہیں اور کیوں اتنا روپیہ خرچ کیا جاتا ہے ، چنانچہ اس کے آنے پر خفیہ پولیس کی ڈائریوں کا مسلہ ختم ہوا.اگر ہم انگریزوں کے ایجنٹ ہوتے تو پادری مارٹن کلارک ہماری مدد کرتا لیکن اس نے ہماری مخالفت کی اور اس کی تائید مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے کی مولوی میر حسین صاحب بھانوی نے کہا کہ عدالت میں میں بھی یہی کہوں گا کہ مرزا صاحب نے عبد الحمید کو آپ کے قتل کے لئے بھیجا تھا اور سر ڈگلس صاحب گورداسپور آئے تو پادریوں نے انہیں بار بار کہا کہ مرزا غلام احمد ہمارے دین کی بہتک کرتا ہے اسے کسی نہ کسی طرح ضرور سزاملنی چاہیئے.پھر جب امرتسر کے ڈی سی مسٹر ہے.ای مارٹینو نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تسلامت وارنٹ گرفتاری جاری کرائے اور بعد میں اسے خیال آیا کہ اس نے یہ حکم خلاف قانون دیا ہے وہ گورداسپور کے کسی ملزم کے نام وارنٹ جاری نہیں کر سکتا تو اس نے ڈپٹی کمشنر گورداسپور مسٹر ڈگلس کو تار دیا کہ میں نے غلطی سے مرزا غلام احمد قادیانی کے جو وارنٹ گرفتاری جاری کئے ہیں انہیں منسوخ سمجھا جائے.انگریز افسر عموماً اپنے ساتھیوں سے مشورہ لے لیتے ہیں انہوں نے دوسرے افسروں کو بلوا کر ان سے مشورہ لیا مسلمان افسروں نے کہا مرزا غلام احمد صاحب
۲۲۶ مذہبی آدمی ہیں اور ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتے ہیں یہ مناسب نہیں کہ ان کے نام وارنٹ گرفتاری جاری کیا جائے.اگر انہیں بلانا ضروری ہے تو کوئی آدمی بھیج کر انہیں بلا لیا جائے.انہوں نے مشورہ مان لیا اور گورداسپور سے حضور کے نام نوٹس جاری کر دیا گیا کہ آپ بٹالہ میں پیش ہوں اور پولیس کے ایک افسر جلال الدین یہ نوٹس لے کر قادیان آئے جب آپ عدالت میں پیش ہوئے تو آپ کو دیکھتے ہی ان کے دل کی کایا پلٹ گئی اور انہوں نے عدالت کے چبوترے پر گریسی بچھا کر آپ کو عزت کے ساتھ بٹھایا.ولوی محمد حسین صاحب بٹالوی تو اس بات کے حریص تھے کہ آپ کو سہتھکڑیاں لگی ہوئی دیکھیں.ان کا خیال تھا کہ مقدمہ کرنے والا انگریز ہے، فیصلہ کرنے والا انگریز ہے اوریکی اہلحدیث کا ایڈووکیٹ بطور گواہ جارہا ہوں اب تو مرزا صاحب کو ضرور پھانسی کی سزا ہوگی.وہ اس دن ایک بڑا جبتہ پہن کر عالمانہ شان ہیں آئے اور سمجھتے تھے کہ مرزا صاحب کو مہتھکڑیاں لگی ہوئی ہوں گی اور یکں انہیں دیکھ کر مسکراؤں گا.مگر جب عدالت میں آئے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بجائے ہتھکڑی لگنے کے اعزاز کے ساتھ مجسٹریٹ کے پاس کرسی پر بیٹھے ہوئے دیکھا مولوی صاحب آپ کا یہ اعزاز دیکھ کر جل گئے دیدہ مولوی صاحب جو تھیسائیوں کی تائید میں گواہی دینے کے لئے عدالت میں آئے تھے انہیں تو انگریزوں کا دشمن کہا جاتا ہے اور مرزا صاحب جن پر انگریزوں نے قتل کا مقدمہ کھڑا کیا تھا انہیں انگریزوں کا دوست قرار دیا جاتا کیلئے ) مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے عدالت میں آتے ہی آگے بڑھ کر مجسٹریٹ سے کہا مجھے بھی کرسی دی جائے.ڈپٹی کمشنر میران ہوا کہ کیا یہ ملاقات کا کمرہ ہے کہ کرسی مانگی جارہی ہے.اُس نے کہا تم کون ہو مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی نے کہا ئیں اہل حدیث کا ایڈووکیٹ ہوں اور مشہور مولوی ہوں.ڈپٹی کمشنر نے کہا تم گواہی دینے آئے ہو ملاقات کرنے نہیں آئے پھر کر سی کا مطالبہ کیسا ؟ مولوی محمد حسین صاحب نے کہا اگر عدالت میں مجھے کرسی نہیں ہل سکتی تو مرزا صاحب کو کیوں کرسی دی گئی ہے ، ڈپٹی کمشنر نے کہا ان کا نام خاندانی کرسی نشینوں میں ہے.مولوی صاحب نے کہا تجھے بھی کرسی ملتی ہے اور میرے باپ کو بھی کریسی ملتی تھی.لیکن جب لاٹ صاحب کو ملنے جاتا ہوں تو وہ مجھے کرسی دیتے ہیں.ڈپٹی کمشنر نے کہا تک ایک امت کہ پیچھے ہٹ اور سیدھا کھڑا ہو جا.یہ سنتے ہی اردولی آیا اور اس نے مولوی صاحب کو کمرہ سے باہر کہ دیا مولوی صاحب وہاں سے نکلے تو خیال کیا کہ اگر یہ بات باہر نکل گئی تو بد نامی ہوگی اس لئے اندر کے معامہ کے انتخا کے لئے ایک کرسی پر جو برآمدہ میں پڑی تھی بیٹھے گئے.اردلیوں کو چونکہ معلوم ہو چکا
۲۲۷ تھا کہ کرسی کی درخواست پر اسے جھاڑ پڑی ہے انہوں نے خیال کیا ایسا نہ ہو کہ مولوی صاحب کو یہاں بیٹھے دیکھ کر صاحب ہم پر ناراض ہو انہوں نے اس کرسی پر سے بھی انہیں جھڑک کر اٹھا دیا مولوی مصلحب وہاں سے بھی ذلت کے ساتھ اُٹھ کر باہر چلے گئے.عدالت کے باہر ہزاروں آدمی مقدمہ کی کارروائی سننے کے لئے کھڑے تھے.ان میں سے بعض تو یہ دعائیں کر رہے تھے کہ اسے خدا ! اسلام کے پہلوان کو عیسائیوں کی طرف سے دائر شدہ مقدمہ میں بری کر دے.اور کچھ لوگ مخالفت کی وجہ سے وہاں جمع تھے تا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام سرا پاکر باہر نکلیں تو وہ خوشی کے شادیانے بجائیں.ان لوگوں میں سے بعض تو زمین پر بیٹھے تھے اور کچھ چادریں بچھا کر ان پر بیٹھے ہوئے تھے مولوی صاحب نے اپنی شب کی چھپانے کے لئے مناسب سمجھا کہ کسی چادر پر ہی بیٹھے جائیں تاکہ باہر کے لوگ یہ جھیں کہ انہیں اندر بھی کر سی ملی ہو گی.انہوں نے ایک چادر کا کنارہ کھینچا اور اس پر بیٹھ گئے لیکن ان کا بیٹھنا ہی تھا کہ چادر کے مالک نے کہا اٹھ اٹھ تو نے میری چادر پلید کر دی ہے مسلمان ہو کہ اسلام کے ایک سپاہی کے خلاف عیسائیوں کی تائید میں گواہی دینے آیا ہے.غرض عیسائیوں کی مخالفت انتہاء کو پہنچی ہوئی تھی لیکن پھر بھی ہم تو انگریزوں کے ایکنیٹ ہیں اور یہ ان کے مخالف.یہ مربعوں کی درخواستیں دیں اور ملازمتیں حاصل کرنے کے لئے انگریزوں کی خوشا میں کرتے پھر میں تو پھر بھی انگریزوں کے مخالف ہیں لیکن ہم جن پر انگریزوں نے متقدمات کئے ان کے ایجنڈے ہیں.غرض سہتے افسر آئے وہ سارے کے سارے ہمارے نے خالف رہے.صرف میرے زمانے میں ایڈوائزر پر یہ اثر ہوا کہ احمدیوں سے جو برتاؤ کیا جارہا ہے وہ کسی غلط فہمی کی بناء پر ہے.وہ ہمیشہ ہمیں عزت کی نگاہ سے دیکھتا تھا اور ہر مجلس میں کہنا تھا کہ احمدیوں سے جو سٹوک روا رکھا گیا ہے وہ درست نہیں لیکن ایمرسن کے زمانہ میں پھر انگریز حکام ہمارے خلاف ہوگئے اور یہ مخالف جنس کے زمانہ تک جاری رہی.آخر بتاؤ وہ کونسی چیز ہے جس کی وجہ سے ہمیں انگریزوں کا ایجنٹ کہا جاتا ہے.کیا یہ ہماری انگریز دوستی کی علامت ہے کہ وہ میں کرمنل لاء امنڈ منٹ ایکٹ کے ماتحت مجھے نوٹس دیا گیا کہ تمہیں اپنی حفاظت کے لئے باہر سے احمدیوں کو بلانے کی بھی اجازت نہیں.اور یہ نوٹس مجھے گیارہ بجے رات کو دیا گیا اور پھر چار پا پولیس افسر، دو سپرنٹنڈنٹ پولیس اور ایک ڈپٹی کمشنر اس لئے قادیان بھیجے گئے تاکہ تلواروں کی لوگوں کے نیچے مولوی عطاء اللہ صاحب بخاری تقریر کریں.اس سے کیا ظاہر ہوتا ہے آیا یہ کہ انگریز احمدیوں کا
۲۲۸ دوست تھا یا یہ کہ انگریز احمدیوں کا مخالف تھا.پس یہ الزام جو ہماری جماعت پر عائد کیا جاتا ہے بالکل بے بنیاد اور واقعات کے سراسر خلاف ہے یا لے باؤنڈری کمیشن میں ن میمونم ا ا ا اس پہلے الزام کا واقعاتی جائزہ لینے کے بعد فرمایا:- " احرار نے عوام کو بھڑ کانے کے لئے یہ جھوٹا الزام بھی یکیشن میں الگ پیش کرنے کے اعتراض کا جواب تراشا ہے کہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحبے باؤنڈری کمیشن کے موقع پر ملک سے غداری کی چنانچہ اخبار آزاد اور دسمبر 1999ء لکھتا ہے :." اگلے دن سکھوں نے اپنا کیس نہیں کیا کہ نکا نہ ہماری زیارت گاہ ہے اسے کھلا شہر قرار دیا جائے ہمارے ظفر اللہ خاں صاحب بھی آن موجود ہوئے کہ آج کی پھر پیش ہونا چاہتا ہوں مجھے بھی اجازت دی جائے.آج میں نے مسلمانوں کا کیس نہیں نہیں کرتا بلکہ جماعت احمدیہ کا کیس سکھوں کے مقابلہ میں نہیں کرنا ہے تاکہ قادیان بھی کھلا شہر قرار دیا جائے ستیل واد نے اعتراض کیا کہ اس نام کی کیا کوئی قیت ملک میں موجود ہے.ظفر اللہ نے کہا ہم اقلیت ہیں ہم تمام مسلمانوں سے علیحدہ ہیں یا 151959 آزاد و دسمبر ۱۹۲۹) یہ ان لوگوں کا بیان ہے جو اپنے آپ کو شریعت کے ٹھیکیدار سمجھے اور ختم نبوت کے محافظ کہلاتے ہیں.اور جن کا لیڈر یہ کہا کرتا ہے کہ یکس آلِ رسول ہوں.اس جھوٹ کے بعد انہیں پتہ لگا کہ احمدیوں کی طرف سے میمورنڈم چوہدری ظفر اللہ خال صاحب نے پیش ہی نہیں کیا بلکہ شیخ بشیر احمد صاحدی نے پیش کیا تھا.اس پر سول اینڈ ملٹری گزٹ میں انہوں نے یہ نوٹ شائع کر دیا کہ : شیخ بشیر احد نے جو لاہور کی جماعت احمدیہ کے امیر ہیں باؤنڈری کمیشن کے سامنے اپنی جاگت کی طرف سے وکالت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ضلع گورداسپور جو اس وقت تک ۳ مارچ مکہ کی ابتدائی سکیم کے مطابق پاکستان کا حصہ تھا ضرور اس سے علیحدہ کر دیا جائے اور قادیانیوں کی ایک علیحدہ او آزاد ریاست بنادی جائے.اس نے اپنے دعوی کی بنیا د اس بات پر رکھی تھی کہ چونکہ قادیانی مسلمانوں کا حصہ نہیں ہیں اس لئے ان کو علیحدہ وحدت تسلیم کیا جائے ! ر آپ اسے.سول اینڈ ملٹری گزٹ اار دسمبر ر ) ظاہر ہے کہ اس بات کو مسلمانوں کے سامنے پیش کرنے کے معنی ہی یہ تھے کہ جن لوگوں کو واقعات له الفضل ۱۹ مارچ ۱۹۶۳ء مطابق ۱۹ رایان ۱۳۲۲ بهش صده تا مکه به
۲۲۹ امی علم نہیں وہ کہیں گے کہ آخر کچھ نہ کچھ تواس نے ضرور کہا ہوگا مگر بعدمیں انہیں پتہ لگا کہ یہ بات بھی ثابت نہیں ہو سکتی اس پر انہوں نے دوسرا رخ بدلا اور کہا :- جب تین مارچ ۹۴ار کے بیان سے ضلع گورداسپور کے پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ ہو چکا تھا اور جب وہ مسلم اکثریت کا ضلع تسلیم کر لیا گیا تھا اور جب قادیان بھی اس ضلع میں شامل تھا اور اس طرح قادیان کو پاکستان میں شامل ہونا تھا تو پھر آپ کو کیا ضرورت محسوس ہوئی تھی کہ مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت سے علیحدہ اپنا محضر کپیش کرتے اور آپ کے اس جواب کے کیا معنی کہ ہم نے محض اس لئے پیش کیا تھا کہ قادیان پاکستان میں شامل ہو جائے جب کہ اس کے پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ ایک عرصہ پہلے ہی ہو چکا تھا اور جب اس فیصلہ پر ہندوستان کو بھی اعتراض نہ تھا ہم الفضل اور ان کے وکیل شیخ بشیر احمد کو چیلنج کرتے ہیں کہ اس محضر کو جو آپ نے مسلمانوں سے جدا جماعت احمدیہ کی طرف سے پیش کیا تا من وعن شائع کرو تا کہ ملت اسلامیہ کومعلوم ہوسکے کہ تم نے ہم سے جدا کیا بات چیت کی تھی اور سر مارچ کے واضح بیان کے بعد گورداسپور ہم سے کیوں چھین لیا گیا.151900 ) آزاد یکم جنوری شاید) یہ وہ الزامات ہیں جو عام مسلمانوں کو بھڑ کانے کے لیے احمدیوں پر لگائے گئے.یہ صاف بات ہے کہ اگر عوام کو یہ محسوس ہو کہ احمدیوں نے ضلع گورداسپور کو جدا کرنے کی کوشش کی اور وہاں جو خونریزی ہوئی ہے وہ محض احمدیوں کی وجہ سے ہوئی ہے تو لا زگا ان کے اندر جوش پیدا ہو گا.چوہدری ظفر اللہ خالی صاحب کے متعلق جب یہ بات کہی گئی کہ انہوں نے گورداسپور کو پاکستان سے علیحدہ کرانے کی کوشش کی تو چونکہ وہ حکومت کے رکن تھے اس لئے حکومت مجبور ہوئی کہ وہ اس کی تردید کرے بچنا نچہ حکومت نے اعلان شائع کیا کہ : یہ کہا گیا ہے کہ جولائی ۹۴۷لہ میں باؤنڈری کمیشن کے روبرو آنریل چوہدری محمد ظفراللہ خان موجودہ وزیر خارجہ پاکستان نے مسلم لیگ کی طرف سے کہیں کشیں کرتے ہوئے اس بات پر اصرار کیا کہ انہیں جماعت احمدیہ کی طرف سے بھی بحث کرنے کی اجازت دی جائے اور پھر بحث کے دوران میں انہوں نے کمیشن سے کہا کہ قادیان کو کھلا شہر قرار دیا جائے اور یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے دوران بحث اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ احمدیہ جماعت عام مسلمانوں سے ایک علیحدہ امتیازی حیثیت کی مالک ہے پھر
۳۳۰ ان مفروضہ بیانات کی بناء پر یہ بحث کی بجاتی ہے کہ آنریل چوہدری صاحب کی اس بحث نے کہ جماعت احمدیہ ایک علیحدہ فرقہ ہے گورداسپور کئے مسلمانوں کی عام آبادی کے تناسب کو کم کر دیا ہے اور کمیشن نے اس جماعت کی علیحدہ حیثیت کی وجہ سے گورداسپور کے مسلم اکثریت والے مضلع کو مسلم اقلیت کا ضلع قرارہ سے کر پاکستان کی حدود سے نکال دیا ایوارڈ کی رو سے اسے پاکستان میں شامل ہونا چاہیے تھا.حکومت کو یہ اعتراضات شنکر سخت تعجب اور حیرت ہوئی ہے کیونکہ اسے پہلے ہی یہ علم تھا کہ ان اعتراضاً میں کوئی حقیقت نہیں اور یہ اصل واقعات کے بالکل خلاف ہیں لیکن اس کے باوجود حکومت نے ان اعبر امتنا ی پوری پوری تحقیقات کی جس نے یہ ثابت کردیا کہ یہ الزامات اور اعتراضات کلیتہ بے بنیا ، خلاف واقعہ اور جھوٹے ہیں.آنریبل چوہدری محمد ظفر اللہ خاں ہر گنہ جماعت احمدیہ کی طرف سے پیش نہیں ہوئے نہ آپ نے ان کی طرف سے کسی کیس کی وکالت کی اور نہ انہوں نے کبھی بحث کے دوران ہمیں وہ باتیں کہیں جو ان کی طرف منسوب کی گئی ہیں.یا سے جب گورنمنٹ کی طرف سے یہ اعلان ہوا تو اجواریوں نے سوچا کہ اب کیا کریں اب تو گورنمنٹ نے بھی تردید کر دی اور ہمارا جھوٹ ظاہر ہو گیا چنانچہ انہوں نے اپنا رخ بدل لیا.دیکھئے کیا ہی نریم الفاظ میں اعلان ہوتا ہے " آزاد" لکھتا ہے :- " برسبیل تذکرہ تقریر کی روانی اور خطابت کے جوش میں سرظفر اللہ کا نام بھی آتا رہا لیکن اصل مبحث قادیانی جماعت تھی نہ کہ سر ظفر اللہ کی ذات آزاد ۲ جون ۱۹۵۰ امت اب ذرا اس کو پہلے بیان کے ساتھ ملا کر دیکھو کیا چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کا نام ضمنا آتا رہا ہے ؟ پہلے انہوں نے کہا تھا " ہمارے ظفر اللہ بھی آن موجود ہوئے کہ آج یکی پھر پیشیں ہونا چاہتا ہوں ، مگر احرار کے نز دیک یہ واقعات کا ذکر نہیں صرف خطابت اور تقریر کی روانی کا جوش ہے.پھر کہا تھا " آج میں نے مسلمانوں کا کیس پیشیں نہیں کرنا بلکہ جماعت احمدیہ کا کیس سکھوں کے مقابلہ میں پیشیں کرنا ہے یہ یہ بھی جوش خطابت ہے اور چوہدری ظفر اللہ خان کا ذکر ضمنا آرہا ہے در اصل مخاطب جماعت احمدیہ ہے.گویا ظفر اللہ اصطلاح ہے اور مراد اس سے جماعت احمدیہ ہے.یہ کتنا بڑا جھوٹ ہے جو انہوں نے بولا.پہلے کہا چوہدری ظفر اللہ خان نے یوں کہا لیکن اس کے بعد آزاد نے مندرجہ ذیل مضمون لکھا جو میں سارا سنا دیتا ہوں پہلے لیکں نے اس کا تھوڑا سا حصہ سُنایا تھا :.
السوق حکومت نے اس بیان سے عوام کو جبل مرکب میں ڈالنے اور غلط فہی میں مبتلا کرنے کی جو کوشش کی ہے وہ انتہائی مذموم ہے (اس لئے کہ ان کے جھوٹ کو ظاہر کیا گیا ہے اور ایسا کرنا سخت غلطی ہے) اس بیان کا مقصد محض قادیانی جماعت پر عائد شدہ الزامات کو سر ظفر اللہ پر منطبق کر کے عوام کے ذہنوں سے اس اثر اور دلوں سے ان تاثرات کو دور کرتا ہے جو کہ مرزائی جماعت کے متعلق ان کے دلوں میں موجود ہے.برسبیل تذکرہ تقریر کی روانی اور خطابت کے جوش میں سر ظفر اللہ کا نام بھی آتا رہا لیکن اصل مبحث قادیانی جماعت تھی نہ کہ سر ظفر اللہ کی ذات (گویا جو کچھ ہوانہ وار خطابت سے ہوا یعنی جب احرار میں زور خطابت پیدا ہوتا ہے تو وہ سو فیصدی جھوٹ بولا کرتے ہیں پھر کسی کو کی حتی ہے کہ ان کی اس عادت کے باوجود ان پر اعتراض کہ ہے ).پھر لکھا ہے : " ہمارا الزام سر نہ اللہ کی ذات پر نہیں بلکہ قادیانی جماعت پر ہے (گویا جہاں ہم نے ظفراللہ کہا ہے وہاں قادیانی جماعت سمجھو ) وہ جماعت کہ سر ظفر اللہ جس کا انفین ناطقہ ہے (یعنی ہم نے خلاصہ جماعت احمد یہ نہیں لکھا ظفر اللہ لکھ دیا ہے ) اور وہ الزام یہ نہیں کہ گورداسپور کیوں گیا (گویا یہاں گورداسپور کا سوال ہی نہیں بلکہ وہ الزام یہ ہے کہ جب مسلم لیگ، تمام مسلمانوں کی واحد نمائندہ بی حالت تھی تو مرزائیوں نے مسلم لیگ کے نمائندے سے الگ اپنا وکیل کیوں پیش کیا.اور جب انتخابات کے ذریعہ یہ فیصلہ ہو چکا تھا کہ حق نمائندگی صرف مسلم لیگ کو ہی حاصل ہے تو مرزائی وکیل کو باؤنڈری کمیشن کے سامنے یہ کہنے کا کیا حق تھا" قادیان بین الا قوامی یونٹ بن چکا ہے اور اسے حق ہے کہ ہندوستان میں رہے یا پاکستان میں ؟ اور یہ سب کچھ اس وقت کیا گیا جب سر ظفر اللہ مسلم لیگ کے نمائندہ کی حیثیت سے موجود تھے اور جب تمام مسلمان انہیں اپنا نمائندہ تسلیم کرتے تھے تو انہوں نے بشیر احمد کو جدا پیش ہونے سے کیوں نہ روکا اور کیوں قادیانیوں کو بعدا پیشی کے خلاف احتجاج نہ کیا.اصل بات ، اصل مسئلہ، اصل ملزم، اصل مجرم قادیانی جماعت ہے کہ جس نے جدا نمائندہ اور الگ محضر پیش کیا اور مسلم لیگ کو نمائندہ تسلیم کرنے سے عملاً انکار کر دیا.حکومت نے سر ظفر اللہ کے متعلق تحقیقات تو فرمائی اور اس کی تردید بھی کی تاکہ کسی طرح قادیانی جماعت کا چہرہ ڈھل سکے.کیا حکومت پاکستان اس بات کی تحقیقات کو بھی تیار ہے کہ قادیانی جماعت نے وزارتی کمیشن سے کیا مطالبہ کیا تھا اور باؤنڈری کمیشن کے سامنے کیا بحث تھی.یہ آزاد ۲ جون ۹۰ ++
۲۳۲ اس بیان میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ :- حکومت نے اس بیان سے عوام کو جبل مرکب میں ڈالنے اور غلط فہمی میں مبتلا کرنے کی جو نا کام کوشش کی ہے وہ انتہائی مذموم ہے.اس بیان کا مقصد محض قادیانی جماعت پر عائد کردہ الزامات کو سر ظفر اللہ پر منطبق کر کے عوام کے ذہنوں سے اُس اثر اور دلوں سے ان تاثرات کو دور کرنا ہے جو کہ مرزائی جماعت کے متعلق ان کے دلوں میں موجود ہیں." آخر میں لکھا ہے:.برسبیل تذکرہ تقریر کی روانی اور خطابت کے جوش میں سر ظفر اللہ کا نام بھی آتا رہا لیکن اصل مبحث قادیانی جماعت تھی نہ کہ سر ظفر اللہ کی ذات یں نے اصل مضمون پڑھ دیا ہے اس میں جماعت کا کہیں ذکر نہیں صرف چوہدری ظفر اللہ خان نتنا کا ذکر ہے.پیں آزاد کا یہ دعوئی صراحتاً جھوٹا ہے.نہ زور خطابت کا اس سے تعلق ہے نہ کسی اور شے کا خالصتا ظفر اللہ خان صاحب پر الزام ہے اور وہ بھی خلاف واقعہ کیونکہ سر ظفراللہ خان صاحب نہ جماعت کی طرف سے پیش ہوئے اور نہ انہوں نے...یہ باتیں کہیں.اب میں یہ بتاتا ہوں کہ اس بیان میں جتنی باتیں بیان کی گئی ہیں وہ سب کی سب جھوٹی ہیں، کیونکہ یہ طبقہ جو احرار سے تعلق رکھتا ہے ایک فیصدی بھی بیچ نہیں بولتا پہلی بات تو میں نے بتا دی ہے کہ یہ جھوٹ ہے کہ الزام چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب پر تھا جماعت پر نہیں تھا.اب یکی دوسری بات لیتا ہوں.دوسری بات یہ کہی گئی ہے کہ جب مسلم لیگ مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت تھی تو مرزائیوں نے مسلم لیگ کے نمائندے سے الگ اپنا وکیل کیوں پیش کیا.میرا جواب یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کے الگ میمورنڈم میشیں کرنے کی وجہ احرار اوران کے ہم خیال تھے اگر وہ نہ ہوتے تو ہم کو لیگ سے علیحد میمورنڈم پیش کرانے کی ضرورت کیا تھی.واقعہ یہ ہے کہ جب باؤنڈری کمیشن مقرر ہوا تو طبعاً ہر جماع نے خدمت قوم کے خیال سے اپنے اپنے میمورنڈم تیار کئے اور یہ خیال کیا گیا کہ جتنے زیادہ میمورنڈم ہوں گے اتناہی کمیشن پر زیادہ اثر ہوگا.زمیندار بھی کہیں گے ہم پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں.تاجر بھی کہیں گے ہم پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں اور اسی طرح دوسرے لوگ بھی.ہندوؤں کی طرف سے بھی بیسیوں انجمنوں نے میمورنڈم پیشیں کرنے کا ارادہ کیا.اسی خیال کے ماتحت
۲۳۳ جماعت احمدیہ نے بھی ایک میمورنڈم تیار کی اور غالباً گورداسپور سلم لیگ کی طرف سے بھی ایک میمورنڈم تیار کیا گیا.اور وہ لوگ جنہوں نے یہ میمورنڈم تیار کیا تھا ان کے نام یہ ہیں.غلام فرید صاحب ایم ایل اے شیخ کبیر الدین صاحب شیخ شریف حسین صاحب وکیل جو احراریوں کے لیڈر تھے مولوی محبوب عالم صاحب ہو اوکاڑہ میں احراریوں کے لیڈر بنے ہوئے ہیں اور مرزا عبدالحق صاحب وکیل.کیا یہ لوگ مسلم لیگ کو مسلمانوں کا واحد نمائندہ خیال نہیں کرتے تھے.اسی طرح امرتسر کی ایک نی نے بھی علیحدہ یور نام پیش کرنے کا ارادہ کیا.اور بعض انجنوں نے جالندھر اور ہوشیار پور سے بھی یہی ارادہ کیا کہ علیحدہ میمورنڈم پیش کیا جائے حقیقت یہ ہے کہ ہر ایک کے اندر ایک خاص جوش تھا کہ کسی طرح پاکستان کی طرف سے زیادہ سے زیادہ میمورنڈم بنائیں اور یہ کہیں کہ ہم پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں اس کا حکومت پر اثر ہوگا.گویا صرف قادیانیوں نے ہی علیحدہ میمورنڈم پیش نہیں کیا بلہ مسلم لیگ کی ایک شاخ نے بھی ایسا کرنے کا ارادہ کیا.اور جنہوں نے علیحدہ میمورنڈم پیش کرنے کا ارادہ نہیں کیا وہ وہی لوگ تھے جو کہتے تھے ہم پاکستان کی آپ بھی نہیں بننے دیں گے.اس لئے نہیں کہ وہ سلم لیگ کے نمائندے تھے بلکہ اس لئے کہ وہ پاکستان کا وجود ہی گوارا نہیں کرتے تھے.ورنہ خود لیگیوں نے بھی علیحد میمورنڈم تیار کئے تھے تاکہ لیگ کو مضبوطی حاصل ہو جب میمورنڈم پیش کرنے کا وقت قریب آیا اور چوہدری صاحب مسلم لیگ کی طرف سے نمائندہ مقرر ہوئے تو انہوں نے جماعت کو اطلاع دی کہ فیصلہ یہ ہوا ہے کہ دونوں فریق کی طرف سے صرف کانگریس اور لیگ کے میمورنڈم پیش ہوں کیونکہ دو ہی نقطہ نگاہ ہیں اور یہ دونوں انجمنیں دو مخالف خیالات کی نمائندگی کرتی ہیں اس پر جماعت نے اپنے میمورنڈم کے پیش کرنے کا ارادہ چھوڑ دیا (یاد رہے کہ احمدیہ میمور نام تیار کر کےمسلم لیگ کو بھجوا دیا گیاتھا تاکہ کوئی اعتراض ہو تو وہ بتا دیں مگر انہوں نے اس پر کوئی اعتراض نہ کیا ) اس کے بعد کانگریس نے کسی مصلحت کے ماتحت اپنے وقت میں سے کچھ وقت سکھوں کو دے دیا اور اسی طرح اچھوتوں کو بھی.شاید ان کا یہ مطلب ہو کہ سکھوں کے مطالبے تو وہی ہیں جو کانگریس کے ہیں لیکن چونکہ یہ اجڑ قوم ہے کہیں یہ نہ کہ دیں کہ جب تک سردار جی نہ بولیں گے ہم راضی نہیں ہوں گے.اور جب سیکھ بولے تو شاید چھو توں میں بھی یہ خیال پیدا نہ ہو جائے اس لئے ان کو بھی وقت دو رپہلے فیصلہ سکے
۲۳۴ مطابق وقت صرف لیگ اور کانگریس میں تقسیم تھا اگر لیگ یا کا نگر میں اجازت نہ دیتی تو کوئی اور میمورنڈم پیش نہ ہو سکتا.جب اس فیصلہ کا علم مسلم لیگ کو ہوا تو اس خیال سے کہ ہندوؤں کی طرف سے بعض دوسری قوموں کے لیٹر بھی پیش ہوں گے شاید اس کا بھی کوئی اثر پڑ جائے لیگ نے فیصلہ کیا کہ ہم بھی ایک ملحود میمورنڈم تھے.پیش کر دیں چنانچہ لیگ کی طرف سے ہمیں اور عیسائیوں کو ہدایت ملی کہ علیحدہ علیحدہ میمورنڈم پیش کرو ورنہ ہم پہلے ایسا کرنے کا ارادہ چھوڑ چکے تھے.کوئی کہ سکتا ہے کہ عرف احمدیوں کو ہی علیحدہ میمورنڈم پیش کرنے کی اجازت کیوں دی گئی گورداسپور کی مسلم لیگ کو اجازت کیوں نہ دی گئی.اس کا جواب یہ ہے کہ مسلم لیگ گورداسپور بر حال مسلم لیگ کہلاتی ہے اور کوئی عقل مند نہیں کر سکتاکہ وہ مرکزی سلم لیگ کے ساتھ متفق نہیں ہوگی لیکن احراریوں نے یہ پراپیگنڈا کیا ہوا تھا کہ احمدی سلمان نہیں اور شبہ تھا کہ ہندو سیکھ ریڈ کلف کو یہ نہ کہ دیں کہ مسلمان احمدیوں کو مسلمان نہیں سمجھتے اس لئے ان کی آبادی کو نکال کر دیکھا جائے کہ آیا گورداسپور میںمسلم اکثریت ہے یا غیر مسلم اکثریت حقیقت یہ ہے کہ ضلع گورداسپور میں 4 ہزار احمدی تھے اور انہیں ملا کہ مسلمان ۵۱۶۱۴ تھے جس کے یہ معنی تھے کہ اگر احمدیوں کو باقی مسلمانوں سے علیحدہ کر دیا جاتا تو مسلمان ۲۵۶۶۹ رہ جاتے اور غیر سلم زیادہ ہو جاتے تھے پس احراریوں نے جو یہ شرارت کی کہ احمدیوں کو باقی مسلمانوں سے علیحدہ سمجھا جائے اس کی وجہ سے مسلم لیگ نے فیصلہ کیا کہ ہم علیحہ میمورنڈم پیش کریں ورنہ ہند و کہ دیں گے کہ یہ سلمان نہیں اور ثبوت میں احراریوں کا فتویٰ پیش کر دیں گے.گویا احمدی اس لئے الگ پیش نہیں ہوئے کہ وہ اپنے آپ کو الگ سمجھتے تھے بلکہ ان کے الگ پیش ہونے کی ضرورت اس لئے سمجھی گئی کہ احراریوں نے یہ اعلان کیا ہوا تھا کہ احمدی مسلمان نہیں.اگر ان سے علیحدہ پاکستان کی حمایت یہ میمورنڈم پیش نہ کرایا جاتا تو ضلع گورداسپور میں مسلمان بڑی نمایاں اقلیت ہو جاتے تھے چنانچہ بعد میں سر تیجا سنگھ کی جرح نے ثابت کر دیا کہ اتوار سنگھوں اور ہندوؤں کی سکیم کا کیس طرح احمد یہ میمورنڈم نے خاتمہ کر دیا سرتا سنگھ نے احمد می میمورنڈم کے پیش ہونے پر سٹپٹا کرکہا کہ احمدیہ موومنٹ کا اسلام میں موقف کیا ہے ؟“ یعنی آپ لوگ تو مسلمانوں میں ہیں ہی نہیں آپ ان کی طرف سے کس طرح بول رہے ہیں پشیخ بشیر احمد صاحب نے جو احمدیوں کی طرف سے میمورنڈم پیشیں کر رہے تھے جواب دیا کہ ہمارا دعوئی ہے کہ ہم اول سے آخر تک مسلمان ہیں ہم اسلام کا
۲۳۵ ایک رحصہ ہیں یا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوؤں اور سکھوں کا منصوبہ تھا کہ وہ کہیں احمدی مسلمان نہیں.انہیں نکال کر معلوم کرو کہ آیا ضلع گورداسپور میں سلمان اقلیت میں ہیں یا اکثریت ہیں.لیگ اسے بھانپ گئی اور اس نے پاکستان کی حمایت میں احمدیوں سے علیحدہ حضرت پیش کر وا دیا.دیکھو یہ احراری جھوٹے ہیں پہلے انہوں نے کہا میمورنڈم چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے پیش کیا تھا اور اس لئے علیحدہ میمورنڈم پیش کیا کہ احمدی مسلمان نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ میمورنڈم شیخ بشیر احمد صاب نے پیش کیا اور سر تیجا سنگھ کے اس سوال کے جواب میں کہ احمدیوں کا موقف کیا ہے شیخ بشیر احمد صاب نے کہا ہم شروع سے آخر تک مسلمان نہیں اور اپنے آپ کو اسلام کا ایک تقصہ سمجھتے ہیں گرا حوار جھوٹ بول کر کتے ہیں کہ ہم نے باؤنڈری کمیشن کے سامنے یہ کہا کہ ہم سلمان نہیں ہم مسلمانوں سے الگ ہیں.کیسی شاعر کا شعر ہے ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چہ چا نہیں ہوتا یہ لوگ کھنا بھی جھوٹ بولیں انہیں کوئی کچھ نہیں کر سکتا لیکن بدنام ہم ہیں ہم کتے ہیں ہم مسمانوں کا ایک حصہ ہیں لیکن وہ کہتے ہیں، انہوں نے کہا تھا ہم مسلمان نہیں ہے کو نہیں کہہ دینا کیا چھوٹی سی بات ہے ؟ خلاصہ یہ ہے کہ احمدیوں کا الگ میمورنڈم پیشیں کرنا احمدار کی اس شرارت کو ختم کرنے کے لئے تھا کہ احمدی مسلمان نہیں کیونکہ اگر اس کا جواب احمدی میمورنڈم میں دوسرے مسلمانوں کی حمایت کر کے نہ دیا جاتا تو گورداسپور میں مسلمانوں کی اکثریت کو ہندو سکھ اعدادو شمار سے غلط ثابت کر سکتے تھے.یادر ہے کہ میٹالہ تحصیل میں مسلمانوں کی تعداد تین لاکھ ساٹھ ہزار کے قریب تھی اور احمدی ووٹ پچپن ہزار ووٹ میں سے پانچ ہزار سے اوپر تھا اور تحصیل گورداسپور شکر گڑھ اور پٹھانکوٹ میں دو ہزار سے زائد تھا اس ووٹوں کے لحاظ سے احمدیوں کی تعداد زیادہ...بنتی ہے مگر چونکہ احمدیوں میں تعلیم زیادہ تھی اس لئے تعلیم کی وجہ سے ان کے ووٹ ساٹھ ہزار میں سے اتنے بن گئے.صرف قادیان میں احمدی بارہ ہزار سے زائد تھے اور ارد گرد کے پانچ چھ دیہات میں مزید پانچ ہزار تھے.گویا صرف قادیان اور اس کے اردگرد کے دو دو میل کے خلقہ میں احمدی سترہ ہزار تھے یعنی ۶۵ ! سارے ضلع کی آبادی کے.اگر قادیان کے علاوہ کوئی احمدی
۲۳۶ نہ ہو تا تب بھی احمدیوں کے نکالنے سے مسلمان اقلیت میں آجاتے تھے ہیں احمدیوں سے میمورنڈم پیش کروانا مسلمانوں کے مفاد کے لئے نہایت ضروری تھا اور لیگ نے جو فیصلہ کیا وہ با لکل درست تھا.دوسری بات یہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ فیصلہ کے مطابق وقت صرف مسلم لیگ اور کانگریس کو ملا تھا.اگر مسلم لیگ ہمیں اجازت نہ دیتی تو احدی میمورنڈم پیش ہی نہیں ہو سکتا تھا.خان افتخار حسین صاحب آف ممدوٹ ، خواجہ عبدالرحیم صاحب سابق کمشنر ، چوہدری اکبر علی صاحب اور دوسرے سلم لیگی لیڈر اس بات کے گواہ ہیں کہ وقت صرف مسلم لیگ کو دیا گیا تھا ہمیں براہ راست وقت نہیں ملا بلکہ مسلم لیگ نے اپنے وقت میں سے ہمیں کچھ وقت دیا ورنہ ہم الگ محضر پیش ہی نہیں کر سکتے تھے.پھر کمیشن کے دونو سلمان جج جسٹس محمد منیر اور سابق جسٹس و حال گورنرسندھ ہر ایکسی لینسی شیخ دین محمد صاحب بھی اس کے گواہ ہیں، ان لوگوں کو معلوم ہے کہ اس میمورنڈم کے پیش کرنے میں برابر ان مسلم جوں سے مشورہ کیا جاتا رہا کیونکہ ان حجوں کے متعلق فیصلہ کیا گیا تھا کہ یہ قوم کے نمائندے ہیں، نہیں خود مسٹر جسٹس منیر کی کوٹھی پر گیا ہز ایکسی لینسی شیخ دین محمد صاحب گورنرسندھ بھی وہاں آگئے تھے.اسی طرح چوہدری نذیر احمد صاحب ممبرسروس کمیشن بھی اتفاقا آگئے تھے میرے ساتھ شیخ بشیر احمد صاحب اور درد صاحب بھی تھے ہم نے اس میمورنڈم پر قانونی طور پر ویس کس (DISCUSS ) کی اور اس کی کا پہیاں ہم نے ان میں سے اکثر کو الگ بھی دے دی تھیں پس یہ سوال نہیں کہ ہم نے مسلم لیگ سے الگ محضر پیش کیوں کیا بلکہ سوال یہ ہے کہ الگ محضر پیش کرایا گیا اور اس کی وجہ میں بتا چکا ہوں کہ احرار کی یہ شرارت تھی کہ احمدی مسلمان نہیں اور اس کا انہوں نے پراپیگینڈا کیا ہوا تھا.اگر ہم علیحدہ پیش نہ ہوتے تو ریڈ کلف کو ادھر ادھر کے بہانے بنانے کی ضرورت ہی نہ تھی وہ احراریوں کا اپنا فتویٰ پیش کر کے کہہ سکتا تھا کہ چونکہ احمدی مسلمان نہیں اس لئے ان کو نکال دیا جائے تو مسلم آبادی ۲۵ فیصد رہ جاتی ہے اس لئے یہ ضلع بسند دوستان میں شامل ہونا چاہیئے.اس میمورنڈم کوکر پیش کرنے کا فائدہ یہ ہوا کہ ریڈ کلمات کو اور بہانے تلاش کرنے پڑے جن کی وجہ سے ہم آج تک انگریزوں کو بدنام کر رہے ہیں.اُس وقت مسلم لیگ احراز یوں کی شرارت کو بھانپ گئی اور اس نے دھوکہ نہیں کھایا.اب انگریزوں کے پاس اس فیصلہ کو درست ثابت کرنے کے لئے کوئی وجہ جواز نہیں.چنانچہ جب کوئی انگریز ہمارے پاس آتا ہے وہ شرمندہ ہو جاتا ہے.ان لوگوں کے ہندوستان سے تعلقات ہیں، مہند داستان کو پاکستان کے مقابلہ میں جو ر کا پہنچی اس کا اثر زائل کرنے
۳۳۷ کے لئے یہ شرارتیں کروائی جارہی ہیں اور یہ پراپیگنڈا کر وایا جارہا ہے کہ ضلع گورداسپور کا پاکستان سے الگ ہونا احمدیوں کی وجہ سے تھا.حالانکہ ہم نے میمورنڈم صرف اس لئے پیش کیا تھا کہ احراری چونکہ ہمیں مسلمانوں سے خارج سمجھتے تھے.اس لئے تم ہمیں سلم سمجھ یا غیرمسلم ہم ہر حال پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں اور ہم مسلم لیگ کے ساتھ ہیں، لہ (سرحد) خبار تنظیم پورمیں سالانہرو کی رپورٹ اور سرور کے ہفت روزہ اخبار کی اشاعت میں اس جلسہ کی حسب ذیل الفاظ میں رپورٹ شائع کی :- تعلیم نے اپنی کار مجنوری 1 زبور شریف میں سلم جماعت احمدیکا اٹھواں سالانہ اجلاس نشاه ۲۶ دسمبرنامه بروز نکاح حضرت امیر امام جاوید جناب ابشیرالدین محمون انفتاح فرایا علماء کرام اور مبلغین جماعت احمدیہ کی حالات حاضرہ پر قرآن و احادیث فقہ و تاریخ کے مطابق اسلامی شعور ذہن و شکر کے اعتبار سے موثر تقریریں و مواعظ ! پشاور - ۲۵ دسمبر کو شام کی گاڑی سے تنظیم کے نامہ نگار خصوصی زبوہ روانہ ہوئے اور ہر کو پہلے اجلاک میں شامل ہوئے مندرجہ حالات ہمارے نامہ نگار کے چشم دید اور اپنی قلم سے لکھے ہوئے ہیں میں پر خار تعلیم ہر طرح سے اعتماد رکھتا ہے.پنڈال میں اسی ہزارہ (۸۰۰۰۰) نفوس کے لئے انتظام تھا اور یہ شخص پور کی ذمہ داری سے اہل اس کے ٹائم میں اپنی نشست پر پہنچ جاتا تھا.جماعت احمدیہ کے امام نے پہلے روز نینی ۲۶ دسمبر سر بروز منگل تلاوت قرآن اور حمد و نعت کے ساتھ اجلاس کا افتتاح فرمایا.اس وقت عجیب کیفیت تھی اور ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ اس زمانے کے محمود نے اپنے لئے کئی ہزار ایاز پیدا کرلئے ہیں اور یہ نہیں ہو رہا تھا کہ مستقبل میں کفر و شرک کے سومنات کرتے ہوئے نظر آئیں گے.مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے نبوت کا دھونے کیا ہے اور اس کے عقیدت مند پیغمبر آخر زمان کی امت میلی له الفضل ٣٠ تبوك / ستمبر ۱۹۷۴ ۲ تا ۲
اسے نبی کا درجہ دیتے ہیں.مسلمانوں کا جماعت احمدیہ سے صرف ایک اختلاف ہے کہ وہ مرزا صاحب کو صرف اتنی ہی خیال کریں دوسرے اختلافات مثلاً پولٹیکل عقیدوں کے متعلق یا جہاد کے متعلق تھے تو اس کا بھی پاکستان کے قیام میں جہانداری اور جہانبانی کی ذمہ داری نے اعتدال پسندانہ رویہ اختیار کر لیا ہے اور پاکستانی مسلمانوں کے ہر فرقے کا مرکز اب لندن، امریکہ ، لیکن گراڈ، برلن اور ٹوکیو نہیں رہا بلکہ اب کراچی ہے.جنگ اور صلح زندگی کے عظیم، انشان نصب العین میں سے ہے اور جنگ اور صلح کو چاہیے کوئی مذہبی نقطۂ نظر سے حمل کرے یا اس کو دینی اور دنیاوی جد و جہد قرار دے مقصد ایک ہی بنتا ہے.جناب مرزا بشیر الدین صاحب محمود نے اپنی وسطی اور اختتامی تقریر مورخہ ۲۷ دسمبر بروز بدھ اور ۲۸ دسمبر نشه بروز جمعرات ہیں صاف فرما دیا کہ ہمارا نصب العین اسلام ہے.جماعت احمدیہ اسلام کے لئے زندہ رہے گی اور اسلام ہی کے لئے مرے گی.جماعت احمدیہ کا دستور العمل قرآن کریم ہے جس نے ہر وقت اور ہر زمانے میں انسان کی راہ نمائی کی ہے اور انسان نے اس کتاب الہی سے اپنے لئے مقام انسانیت اور فلاح و بہبود کا راستہ متعین کیا.اسلام تمام دنیا پر غالب رہا ہے اور غالب رہے گا حضرت رسول کریم محمد رسول اللہ صلعم سب نبیوں کے امام و پیشوا ہیں اور نسل انسانی کے سب سے بڑے خیر خواہ اور مختار حیثیت کے نبی اور رسول ہیں.مرزا بشیر الدین صاحب کی تقریر میں درد تھا وہ درد جو کسی پشتی پیر کے حلقہ قوالی میں کبھی نہیں ہو سکتا.آج ہمارے پیروں اور سجادہ نشینوں کو سبق حاصل کرنا چاہیئے کہ ان کے گردونشیں میں قوال ہی قوال رہتے ہیں لیکن مرزا بشیر الدین صاحب نے فعالوں کا گر وہ پیش کیا ہے.حضرت جناب ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب سابق مبلغ انگلینڈ و ا مریکہ ، جناب پروفیسر قاضی محمد سالم صاحب ایم.اے ، جناب مولا نا عبد المنان صاحب ایم.اے ، جناب قاضی محمد نذیر صاحب لائل پوری، جناب مولوی عبد الغفور صاحب ، جناب چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ سابق امام مسجد لنڈن، صاحبزادہ مرزا نا عمر احد صاحب ایم.اسے ، جناب ملک عبد الرحمن صاحب خادم، جناب سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب، جناب مولوی ابو العطا صاحب فاضل پرنسپل جامعہ احمدیہ جناب خواجه جلال الدین صاحب شمس فاضل سابق امام مسجد احمد یہ لندن، جناب مولوی رحمت علی صاحب فاضل مبلغ انڈونیشیا جن کی ہر تقریر اور ہر لفظ اور ہر مباحث میں انسانوں کو انسان اور انسانیت میں درسی
۲۳۹ حیات اور دنیا و آخرت کے نجات کا ذریعہ قرار دے کر بتا یا کہ توحید باری تعالیٰ اور رسول عربی صلے اللہ علیہ وسلم اور اللہ کی کتاب قرآن کریم ہی نجات آخرت کا وسیلہ ہے اور اس سے ہر شخص سرشار ہے.ہمارا نامہ نگار لکھتا ہے کہ پاکستان کے پیر اور پیرزادے اگر ربوہ کے اجتماع میں ہوتے تو کافی سبق لیتے جہاں علماء اور فضلاء کا اجتماع عظیم تھا، جہاں انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا.اختلاف ہمارا بھی جماعت احمدیہ سے اتنا ہی ہے جتنا ہمارے پیروں اور سجادہ نشینوں اور پیر زادوں کا ہے لیکن حق بات حق ہے.مرزا بشیر الدین محمود صاحب بھی اپنے مریدوں سے چندہ وصول کرتے ہیں لیکن وہ تعمیر پیر خرچ کرتے ہیں.ربوہ میں دس ہزار کنال زمین خریدی ہے، سندھ میں محمود آباد سٹیٹ قائم کیا ہے.اپنے مریدوں سے لیتے بھی ہیں لیکن پھر تکلیف میں ان کی امداد بھی کرتے ہیں.کاش کہ ہمارے علماء، پیران ، سجادہ نشینان بھی ایسے ہی حالات پیدا کریں جو آج مرزا بشیر الدین صاحب محمود نے پیدا کئے ہیں نصیحت جہاں سے بھی ملے غنیمت ہے" (نامہ نگار) فصل ـ جلیل القدر صحاب كا انتقال ۱۳۲۹ / ۱۹۵۰ء میں متعدد بزرگ صحابه رحلت فرما گئے جن میں سے احسن کا تذکرہ ان فصل میں کیا جاتا ہے.تاریخ وفات اار صلح ۱۳۹۵ مطابق -۱- مولوی رحمت اللہ صاحب نوری - ار جنوری ۱۹۵) آپ حضرت مهدی موعود علیہ السلام کے سرخ سیاہی کے شہرہ آفاق آسمانی نشان کے حامل بزرگ حضرت مولوی عبداللہ صاح این سنور ہی کے فرزند ارجمند تھے.آپ ہجرت ۱۹۲۷ء کے بعد موضع ثابت شاہ متصل پنڈی بھٹیاں ضلع گوجرانوالہ میں تھے کہ پیغام اصل
۲۴۰ آگیا نعش بذریعہ لاری ربوہ لائی گئی.حضرت مصلح موعود منتظر رہے کہ کوئی اطلاع دے تو جنازہ پڑھائیں مگر افسوس مسجد میں اعلان تک کئے بغیر ان کی نماز جنازہ پڑھا دی گئی اور آپ سپر د خاک کر دئے گئے اور حضور انور جنازہ میں شرکت نہ فرما سکے.ایک قدیم اور ممتاز صحابی کے لخت جگر کی نماز جنازہ کے بارے میں غفلت اور کوتاہی کا یہ ایسا افسوسناک مظاہرہ تھا کہ حضرت امیر المؤمنين المصلح الموعود نے اسے آئندہ نسلوں کی راہ نمائی کے لئے پوری جماعت کے سامنے رکھنا ضروری سمجھا چنانچہ حضور نے ۱۳ صلح ۱۳۳۵ کو خطبہ جمعہ کے شروع ہی میں اس نا قابل برداشت سانحہ کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :- پیشتر اس کے کہ میں خطبہ کے مضمون کی طرف توبہ کمروں میں اس امر یہ اظہا یہ افسوس کرنا چاہتا ہوں کہ پرسوں یہاں ایک پرانے صحابی کا جنازہ آیا جس کے والد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قریتین صحابہ میں سے تھے اور آپ کے ایک بہت بڑے نشان کے حامل تھے لیکن یہاں کے کارکنوں نے ایسی بے اعتنائی اور غفلت برتی جو میرے نزدیک ایک نہایت شرمناک حد تک پہنچی ہوئی ہے.جنازہ مہمان خانہ میں لایا گیا مگر کسی نے تکلیف گوارا نہ کی کہ وہ اس کی طرف توجہ کرے اور نہ ہی اس جنازہ کا مسجد میں اعلان کیا گیا.میں دوسرے دن دوپہر تک، انتظار کرتا رہا کہ کوئی مجھے اطلاع دے اور یکں نماز جنازہ پڑھاؤں لیکن کسی نے مجھے اطلاع نہ دی جب درد صاحب آئے تو انہوں نے مجھے بتایا کہ جنازہ کسی نے پڑھا دیا ہے.بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ میری طرف سے یہ کہ دیا گیا کہ میں بیمار ہوں اور جنازہ کے لئے باہر نہیں آسکتا اس لئے جنازہ پڑھا دیا جائے.اس میں کوئی شبہ نہیں یکی بیمار تھا اور باہر نہیں آسکتا تھا لیکن جب وصیت کا کاغذ میرے پاس دستخط کے لئے آیا تو ان کے تعلقات کی وجہ سے جو ان کے والد صاحب کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے تھے میں نے فیصلہ کیا کہ خود جنازہ پڑھاؤں مگر یونی کر دیا گیا کہ میں نے جنازہ پڑھانے کی اجازت دے دی ہے حالانکہ مجھے اطلاع ہی نہیں دی گئی ہیں کل دوپر تک انتظار کرتا رہا.رات کو تو میں نے خیال کیا کہ مناسب نہیں سمجھا گیا کہ رات کو جنازہ پڑھا جائے او کل دوپہر تک میں نے سمجھا کہ رشتہ داروں کے آنے کی وجہ سے دیر ہو ہی جاتی ہے اس لئے شاید دیر ہو گئی ہو لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ جنازہ خود پڑھا دیا گیا ہے اور میری طرف سے یہ کہ دیا گیا کہ یکی میار ہوں، اس لئے جنازہ کے لئے باہر نہیں آسکتا جنازہ پڑھا دیا جائے.لیکں نے یہ کیس ناظر صاحب اعلئے کے سپرد کر دیا ہے، اور تمام ایسے آدمیوں کو جنہوں نے یہ حرکت کی ہے سرزنش کی سجائے گئی خصوصا وصیت
کا محکمہ بہت حد تک اس کا ذمہ دار ہے.یکی جماعت کو بدقسمت سمجھوں گا اگر وہ اپنی تاریخ سے ناواقف ہو جائے جو جنازہ آیا تھا وہ عبداللہ صاحب نورٹی کے بیٹے کا تھا جو صوفی عبد القدیر صاحب نیاز کے بڑے بھائی اور مولوی عبدالرحیم صاحب درد ( ناظر امور خارجہ صدر انجمن اسحمدیہ ) کے پھوپھی زاد بھائی تھے مولوی عبداللہ صاحب سنوری کی ہستی ایسی نہیں کہ جماعت کے جاہل سے جاہل اور نئے سے نئے آدمی کے متعلق بھی یہ قیاس کیا جا سکے کہ اسے آپ کا نام معلوم نہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا و کشفت جس میں کپڑے پر سُرخ روشنائی ظاہری طور پر دکھائی دی مولوی صاحب اس نشان کے حامل اور خشیم دید گواہ تھے.ان کی آنکھوں کے سامنے وہ چھینٹے گرے اور پھر خدا تعالیٰ نے انہیں یہ مزید فضیلت بخشی تھی کہ ایک چھینٹا ان کی ٹوپی پر بھی آپڑا گویا خدا تعالیٰ کے عظیم الشان نشان میں اور ایسے نشان ہیں جو دنیا میں بہت کم دکھائے جاتے ہیں وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ شامل تھے لیکن اُن کے لڑکے کا جنازہ مہمان خانہ میں پڑا رہا مگر کسی نیک بخت کو یہ نہیں سو جھا کہ وہ مساجد میں اعلان کرے کہ فلاں کا جنازہ آیا ہے احباب نماز میں شامل ہوں ؟ پھر فرمایا : ہر حال ایسے کارکنوں کے خلاف مناسب اقدام کیا جائے گا اور انہیں سرزنش کی جائے گی لیکن چونکہ یکی جنازہ میں شریک نہیں ہو سکا اس لئے نماز جمعہ کے بعد میں اُن کا جنازہ پڑھاؤں گا یا سے چنانچہ حضور نے جمعہ کے بعد مولوی رحمت اللہ صاحب کا جنازہ پڑھایا اور اس طرح ہزاروں احمدیوں کو خلیفہ وقت کی اقتدا میں ایک اہم قومی و جماعتی فریضہ کی بجا آوری کا شرف حاصل ہوا.اولادت له قريباً- پہلی زیارت نشر المقام لدھیانہ - بیعت ۶ فروری ۱۹۹۳ه.وفات ۲۱ ر انسان / جون ۹۵ حضرت پیر صاحب سلسلہ احمدیہ کے بانی را بزرگوں میں سے تھے بہجرت قادیان سے قبل ریاست جموں کے محکمہ تعلیم میں ملازم تھے لیکن جب حضرت حاجی الحرمین الشريفين مولانا نور الدين خليفة السيح الاول) له الفضل ۲۲ جنوری ۱۹۵۰ مطابق ۱۲ صلح ۲۹ ما :
۲۴۲ مستقل طور پر قادیان تشریف لے گئے تو آپ نے بھی ہجرت کر لی اور اقدار میں رہائش پذیر ہو گئے.آپ نے محض اس جذبہ سے کہ حضرت مہدی موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصانیف بہترین صورت میں چھپ کی کتابت سیکھی پچنانچہ حضرت اقدس علیہ السلام کی بہت سی کتابوں کے پہلے ایڈیشن آپ ہی کے قلم سے لکھے ہوئے ہیں اور بہت دیدہ زیب اور نفیس ہونے کے علاوہ نہایت صاف اور صحیح چھپے ہوئے ہیں.حضور علیہ السلام نے اپنے اشتہار.اکتوبر شام میں خاص طور پر آپ کی اس عظیم خدمت کا ذکر طور کرتے ہوئے تحریہ فرمایا :.بطور شکر احسان باری تعالٰی کے اس بات کا ذکر کرنا واجبات سے ہے کہ میر سے اہم کام تحریر تالیفات میں خدا تعالیٰ کے فضل نے مجھے ایک عمدہ اور قابل قدر مخلص دیا ہے لینے عزیزی میاں منظور محمد کاپی نویس جو نہایت خوشخط ہے جو نہ دنیا کے لئے بلکہ محض دین کی محبت سے کام کرتا ہے اور اپنے وطن سے ہجرت کر کے اسی جگہ قادیان میں اقامت اختیار کی ہے اور یہ خدا تعالیٰ کی بڑی عنایت ہے کہ میری مرضی کے موافق ایسا مخلص سرگرم مجھے میسر آیا ہے کہ پانی ہر ایک وقت دن کو بارات کو کاپی نویسی کی خدمت اس سے لیتا ہوں اور وہ پوری جان فشانی سے خدا تعالیٰ کی رضا مندی کے لئے اس خدمت کو انجام دیتا ہے یہی سبب ہے کہ اس روحانی جنگ کے وقت میں میری طرف سے دشمنوں کو شکست دینے والے رسالوں کے ذریعہ سے تابڑ توڑ مخالفوں پر غیر ہو رہے ہیں.اور در حقیقت ایسے موید اسباب میسر کر دیا یہ بھی خدا تعالیٰ کا ایک نشان ہے جس طرف سے دیکھا جائے تمام نیک اسباب میرے لئے میستر کئے گئے ہیں اور تحریر میں مجھے وہ طاقت دی گئی ہے کہ گویا میں نہیں بلکہ فرشتے لکھتے جاتے ہیں گو بظا ہر میرے ہی ہاتھ ہیں پیر صاحب کتابت کے دوران ہی جوڑوں کے درد کی وجہ سے معذور ہو گئے تو انہوں نے حضرت اقدس علیہ السلام کی منظوری سے حضور کے صاحبزادگان اور صاحبزادیوں کو قرآن شریف ناظرہ پڑھایا اور انہی کی تعلیم کی غرض سے لیستر نا القرآن" کا مشہور و معروف قاعدہ ایجاد کیا جس کے ذریعہ نہ صرف بر صغیر بلکہ بیرونی ممالک کے لاکھوں ان پڑھ لوگوں کو قرآن کریم پڑھنے کی توفیق علی اور اس وقت تک اسکے بہت سے ایڈیشن چھپ چکے ہیں.اس قاعدہ کی تعریف میں حضور نے شائر میں اپنی اولاد کی آئین میں له تبلیغ رسالت جلد ہشتم من :
۲۴۳ فرمایا پڑھایا جس نے اس پر بھی کرم کہ جزا دے دین اور دنیا میں بہتر رہ تعلیم اک تو نے بت نیزا اپنے تعلیم مبارک سے لکھا:.نسبحان الذي اخر الاعادي قاعدہ میسر نا القرآن بچوں کے لئے بے شک مفید چیز ہے.اس سے بہتر اور کوئی طریقہ تعلیم خیال میں نہیں آتا ہے خلافت ثانیہ کے قیام پر پیر صاحب نے رسالہ " تشمیذ الاذہان میں پسر موعود نشان فضل" اور قدرت ثانیہ کے عنوان سے تین معرکۃ الآراء مضامین لکھے جن میں حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی تحریرات سے ثابت کر دکھایا کہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدخلیفہ اسیح الثانی ہی اشتہار ۲۰ فروری مشتملئر کے حقیقی مصداق اور مصلح موجود ہیں.یہ مضامین جن میں سے دو کتابی شکل میں بھی چھپ گئے ان مباحث کی پیر چے میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے ان کی وفات پر ایک نوٹ میں لکھا کہ حضرت پیر صاحب کے مزاج میں تصوف بہت غالب تھا مگر اس کے ساتھ زندہ دلی بھی بہت تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفہ اول اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے ساتھ خاص عقیدت رکھتے تھے ؟ اے حضرت مصلح موعود نے ان کی وفات پر فرمایا :- پر منظور محمد صاحب جنہوں نے قاعدہ لیتر ن القرآن ایجاد کیا تھا وہ پرسوں فوت ہو گئے ہیں.پیر صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے صحابی تھے اور پھر حضرت خلیفہ اسی الاول جن کے سالے تھے ہم مبینی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد ہیں پر صاحب ان کے استاد بلکہ ہم تینوں بھائیوں اور ہماری میں مبارکہ میگم کو قرآن کریم پڑھانے کے زمانہ میں ہی انہوں نے قاعدہ میسر نا القرآن ایجاد کیا تھا تو له الفضل ۱۲۳ جون ۹۵ ئه من له الفضل در جولائی 19 رمث
۲۴۴۴ روفات ۲۳ تبلیغ ۱۳۹۵ مطابق ۲۳ فروری -- : - ڈاکٹر عبد الله صاحب آن نیروبی - نشر ) 111900 مشرقی افریقہ کے اولین صحابہ میں سے تھے.آپ کا نام الحکم ار اپریل 19ئر میں شائع شدہ ہے آپ ضلع گجرات کے رہنے والے تھے اور ایک لمبے عرصہ سے نیروبی (مشرقی افریقہ میں مقیم تھے بلکہ نیروبی کے ابتدائی آباد کاروں میں سے تھے اور اسی بناء پر احمدیہ مسجد نیروبی کی ملحقہ ذیلی سڑک کا نام نیروبی میونسپلٹی نے احمدی روڈ رکھا تھا.حضرت ڈاکٹر رحمت علی صاحب مرحوم دبیرا در حضرت حافظ روشن علی صاحب) یوگنڈا ریلوے کی تعمیر کے سلسلہ میں ابتدائی بھرتی میں جب مشرقی افریقہ گئے تھے ان کی تبلیغ کے طفیل جہاں اور کئی نیک روحوں کو احمدیت قبول کرنے کی سعادت حاصل ہوئی وہاں مرحوم کو بھی احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی.نیروبی کی عالی شان احمد یہ سجد کی تعمیر و چندہ جمع کرنے اور دیگر متعلقہ کاموں میں آپ نے آغاز کار ہی سے نمایاں حصہ لیا.علاوہ ازیں احمدیہ مسجد نبورا کی نہایت خوبصورت عمارت کے چندہ کی فراہمی میں بھی آپ نے بڑی محنت و کاوش سے کام کیا.اپنی موٹر کار پر اس بڑھا پہلے میں جوانوں کی طرح مختلف دیہات و قصبات میں اور دوستوں کے پاس جاتے رہے اور تحریک کر کے چندہ وصول کرنے میں مدد دیتے رہے.ڈاکٹر صاحب ہمیشہ اپنے عزیزوں کو یہ تلقین کرتے کہ شہری زندگی کی وجہ سے اور بعض اوقات مجبوریوں کی وجہ سے بھی لوگ مہمانوں کی خدمت کما حقہ نہیں کر سکتے تمہار اگر ہمیشہ مہمانوں کے لئے کھلا رہے اور مہمانوں کی خدمت سے کبھی تمہیں گریز نہیں کرنا چاہیے.کانفرنسوں اور دیگر مواقع پر آپ مہمانوں کو حتی المقدور اپنے عزیزوں کے گھروں میں لے جاتے.باوجود بڑھا پے اور بیماری کے خود ترش پر لیٹ جاتے اور مہمانوں کو چارپائی اور بہتر دیدیتے مبلی سلسلہ سے بالخصوص محبت و پیار کا سلوک کرتے اور ان کی ہدات سے خود بھی خوش ہوتے اور اپنے بچوں بچیوں کو اُن کی مہمان نوازی کی تلقین کرتے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی المصلح الموعود سے آپ کو بے انتہاء محبت تھی کسی کو حضور یا خاندان کے مقدس افراد اور منہ نے مسیح موعود علیہ اسلام کی اولاد طیبہ کے متعلق کچھ کہتے گئے تو نہایت سختی سے اس کا مقابلہ کرتے اور اس کا بہترین جواب پیش کرتے اور ہمیشہ جماعت اور اپنے عزیزوں کو فتنہ پروازوں کی شرارتوں کے متعلق اصل حالات بتا کر آگاہ کر دیتے.
۲۴۵ ڈاکٹر صاحب مرحوم انقلاب ہندوستان اور ہجرت قادیان کے وقت قادیان میں تھے.اُن دنوں ڈاکٹر صاحب کے منہ سے اکثر خدا تعالیٰ سے خطاب کرتے ہوئے یہ الفاظ نکلتے کہ دیا الہی تو قادیان میں ہی وفات دے دے؛ لیکن جب سلسلہ کے نظام کے ماتحت آپ کو قادیان سے ہجرت کر کے پاکستان آنا پڑا تو آپ جناب الہی میں یہ عرض کرنے لگے کہ اگر قادیان میں میری وفات مقدر نہیں تو افریقہ کی سر زمین ہی ہیں نے چلیں.مرحوم کی یہ دعا قبول ہوئی اور آپ کی وفات نیروبی میں ہوئی اور احمد یہ قبرستان نیروبی میں سپرد خاک کئے گئے.حضرت ڈاکٹر صاحب موصی تھے اور مقامی اور مرکزی تحریکوں میں سرگرم حصہ لیتے تھے.بہت سے نیک کام کئے طبیعت میں خاص مزاح تھا اور مرنجاں مریخ طبیعت کے مالک تھے.بیچتے، جوان اور بوڑھے سب ہی ان کی مجلس اور گفتگو سے حفظ اُٹھاتے.نیروبی کے ہر قوم کے لوگ جو ان کے واقف تھے ، انہیں بہت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے لیے اجزا کی (ولادت، قریباً ۸۸۳۵ - وفات ۲ امان ۱۳۹۶ مطابق ۲ مارچ نامه بعمر ۱۵ سال) حکیم صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی اور حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے شاگر بھی تھے اور آپ کے ساتھ بہت عرصہ دربار کشمیر میں ملازم رہ چکے تھے اور اکثر چشم دید حالات جو نہایت ایمان افروز ہوتے شنایا کرتے تھے.پیرانہ سالی کے باوجود نماز پنج گانہ کو بالالتزام ادا کرتے اور ہر نماز کے وقت تازه وضو کرتے تبلیغ کے بہت شائق تھے اور اکثر مریضوں اور ملنے والوں کو تبلیغ کرتے اور اشتہارات یا کتب سلسلہ بھی تقسیم کرتے رہتے تھے.آپ سلسلہ پر نہایت سچا ایمان رکھنے والے اور سیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کا بے حد ادب و احترام کرنے والے بزرگ تھے.۳۲ راء کو حضرت اقدس خلیفہ اسیح الثانی کراچی تشریف لائے تو انہوں نے نظر کمزور ہونے کی وجہ سے اپنے نواسہ چوہدری فیض عالم خان صاحب کو ساتھ لیا اور نماز جمعہ کے بعد حضور سے مصافحہ کیا اور بہت خوشی ظاہر کی.له الفضل ۱۹ رامان ه۱۳۹ / مارچ شاه مث وملخصا از مضمون مولانا شیخ مبارک احمد صاحب سابق رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ) :
۲۳۶ انہی دنوں آپ سے سوال کیا گیا کہ آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں سب سے اچھی بات کونسی دیکھی ؟ فرمایا :- یکس نے سب سے اچھی بات اُس وقت یہ دیکھی کہ صحابہ سیح موعود علیہ السلام میں ہر وقت ایک یہ چند بہ موجزن رہتا تھا کہ حضور علیہ السلام کی طرف سے کوئی حکم یابند مت لے تو وہ عاشقوں کی طرح اس کو کرنے کو تیار رہتے تھے اور ہر صحابی کا یہی خیال بلکہ خواہش اور تڑپ ہوتی تھی کہ یہ خدمت مجھے دی جائے اور اس کام کے کرنے کا مجھے ہی شرف حاصل ہوا اور یہ ان میں ایک والہانہ جذبہ تھا جو صحابہ میں سب سے اچھا مجھے نظر آیا ہے بیعت ۱۹۹۴ - زیارت - حضرت سید محمد قاسم میاں بخاری شاہجہانپوری است بر وفات ۱۳۳۲۹ / ۱۹۵ بعمر ۸۱ سال قریباً) حضرت سید محمد قاسم صاحب اُن عشاق احمد یت میں سے تھے جن کو قادیان دارالامان میں بار بار آنے اور اس کی برکات سے بہت مستفید ہونے کا موقع ملا.آپ نے ۲۳ ستمبر ۱۹۳۹ئر کو اپنی چشم دید روایات بیان کرتے ہوئے فرمایا :- (1) میں نے حضور ( حضرت مسیح محمدی علیہ السلام - ناقل) کی خدمت میں دو سوال کئے تھے ایک تو رشتہ کے متعلق تھا اور ایک نماز کے بارہ ہیں.نماز عشاء میں وتر کے متعلق سوال تھا کہ وتر کیسے پڑھے جاویں ؟ آپ نے فرمایا کہ وت کہتے ہیں دو کے اوپر جو ایک ہوتا ہے اور ایسے تین ہو جاتے کے ہیں اس لئے دو رکعت پڑھ کر سلام پھیرنے کے بعد پھر کھڑے ہو کر ایک رکعت پڑھنی چاہیئے.دوسرا سوال رشتوں کے متعلق تھا.میں چونکہ سادات خاندان سے ہوں مجھے اور میرے والد صاحب کو قومیت کا بہت خیال تھا مگر یہاں یہ کہا گیا کہ کوئی امتیاز نہیں.یہ بات میرے وانتھر کے کے لئے گراں تھی میں نے حضور سے عرض کی کہ اس کے متعلق یہ مشکلات ہیں تو حضور نے یہ فرمایا کہ ہمارا یہ منشاء نہیں ہے کہ امتیاز مٹایا جائے بلکہ اس کے اُوپر ضد یا ہٹ کر کے مصیر نہ ہونا چاہیئے.ه الفضل ۳۰ مارچ ۹۵ ه ص ( ملخصاً) به سه والد ماجد سید محمد ہاشم صاحب بخاری مبلغ نمانا و سیرالیون روایات صحابہ (غیر مطبوعہ) جلد علا من ۲۲، ص۲۲۰ : آه نام سید محمد تقی میاں صاحب ؟ صالح :
۲۴۷ ہماری جماعت میں سید بھی ہیں آپ ان سے رشتہ کر سکتے ہیں.ہاں اگر سید نہ ملیں تو سید پر اصرار نہیں کرنا چاہیئے.(۲) یکی مسلسل چالیس سال سے جلسہ میں شرکت کر رہا ہوں ایک ناغہ بھی نہیں کیا.(۳) جب دوا تریاق الہی تیار ہوئی تو میری خواہش پر حضرت صاحب نے مجھے بھی کچھ دیا اور کچھ کونین بھی عطا فرمائی تھی.(۴) ایک گرتہ حضرت ام المومنین نے نے حضرت صاحب کا عطا فرمایا تھا جو اس وقت میرے لڑکے ستید محمد ہاشم نمای بخاری کے پاس محفوظ ہے.حضرت صاحب نے مجھے براہین احمدیہ کے پہلے چاروں حصے خود اپنے دست مبارک سے عطا فرمائے تھے.حقیقۃ الوحی بھی آپ کی عطیہ میرے پاس ہے.نزیاق القلوب تحفہ گولڑویہ اور خطبہ الہامیہ عطا فرما کر حضور نے فرمایا تھا کہ ان کتابوں کو ایک جلد میں کر لینا، ریویو اردو بھی حضور نے ہی میرے نام جاری فرمایا تھا.ایک سال کے بعد یکی خریدار بن گیا ہے آپ کی وفات پر حضرت مصلح موعودؓ نے ۳۰ احسان هر ۱۳۲۹ جون ۱۹۵ئہ کے خطبہ جمعہ میں فرمایا :- قاسم میاں اکثر قادیان آتے رہتے تھے اور دیر دیر تک قادیان رہا کرتے تھے.حافظ مختار احمد صاب شاہجہانپوری کے قریبی رشتہ داروں میں سے تھے بہندوستان کے گذشتہ فسادات میں جو تباہی مسلمانوں پر آئی اس کا صدمہ ان پر گراں گزرا اور اسی صدمہ کی وجہ سے وہ نڈھال ہو گئے اور فوت ہو گئے “ سے ربیعت ۸۹ یا ۸۹۹ائر وفات ۲۰ روفا ه۱۳۳۹ ایا - - حضرت بابا محمد حسن صاحت - مطابق ۲۰ جولانی شار بعمر اسی سال ) -۶- ۲۰ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے موصی ما با با حسن محمد صاحب بھی پھل جیسے " کے عنوان سے مندرجہ ذیل نوٹ سپر و قلم فرمایا جس سے حضرت بابا صاحب کے حالات و سوانح اور شمائل و خدمات پر مختصر مگر بلیغ روشنی پڑتی ہے.فرمایا :- بابا صاحب مرحوم او جبلہ مضلع گورداسپور کے رہنے والے تھے اور صحابیوں کی ایک خاص پارٹی روایات صحابہ جلد ۱ ص ۲۲، ص ۲۳) (غیر مطبوعه) : ۵۲ الفضل در جولائی ۱۹۵۰ ܀ والد ماجد مولانا رحمت علی صاحب مجاہد جاو او سمارا اپنے اصل نام محمد حسن ہی ہے دور یکارڈ بہشتی مقرہ)
کے رکن تھے جو چھ مخلصین پر شتمل تھی یعنی ایک تو بابا صاحب مرحوم کے قریبی عزیز میاں عبد العزیز صات مرحوم اور منشی امام دین صاحب مرحوم اور دوسرے سیکھوائی متصل قادیان کے تین مشہور و معروف بھائی یعنی میاں جمال الدین صاحب مرحوم اور میاں امام الدین صاحب مرحوم اور میاں خیر دین صاحب مرحوم ان چھ بزرگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر اوائل زمانہ ہی میں سبعیت کی اور پھر آخر تک بیعت کے عہد کو نہایت اخلاص اور استقلال کے ساتھ نبھایا.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے زمانہ میں ان کا قادیان میں آنا جانا بھی اکثر اکٹھا ہوا کرتا تھا.ان میں سے میاں عبد العزیز صاحب مرحوم نے ایک رات قیام گورداسپور کے دوران میں جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیمار تھے حضور کی ایس رنگ...میں خدمت کی اور ساری رات اس طرح جاگ کر کائی کہ بعد میں حضور نے ان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ خدا کا ہم پر کتنا فضل ہے کہ حضرت عیسی صلیب کے واقعہ پر اپنے حواریوں کو بارہانہ دعا کے لئے جگاتے تھے اور وہ پھر بھی بار بار سو جاتے تھے مگر ہم نے منشی عبد العزیز صاحب کو بار بار سونے کے لئے کیا مگر وہ پھر بھی اپنے اخلاص میں ایک منٹ کے لئے بھی انہیں سوئے اور ساری رات خدمت میں لگے رہے.بہر حال بابا حسن محمد صاحب مرحوم جو مولوی رحمت علی صاحب مبلغ جاوا کے والد تھے اس مقدس شمش ممبر پارٹی کے رکن تھے جنہوں نے اوائل میں ہی احمدیت سے مشترون ہونے کی سعادت پائی اور پھر ان کی زندگی کا ہر نیا دن انہیں خدا سے قریب تر کرتا گیا.افسوس کہ ایسے مخلص صحابیوں سے ہماری جماعت بڑی سرعت کے ساتھ محروم ہوتی جارہی ہے اور نئی پودمیں سے اکثر نے ابھی تک وہ دریں وفانہیں سیکھا جس کے بغیر طلائی جماعتیں دنیا پر چھا نہیں سکتیں.با با حسن محمد صاحب نے قریباً اپنی ساری عمر و حفظ و نصیحت اور قرآن شریف پڑھنے پڑھانے میں گذاری اور ان کے وعظ کا طریق بھی ایسا دلکش ہوتا تھا کہ سننے والے دیہاتی لوگ اس سے بہت محظوظ ہوتے تھے اور فائدہ اٹھاتے تھے اور میرے خیال میں ان سے غالباً سینکڑوں عورتو اے نے قرآن شریف پڑھا اور دینی مسائل سیکھے ہوں گے حتی کہ جب وہ آخری ایام میں حضرت خلیفہ ایسے الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے چنیوٹ میں مقیم ہوئے تو کئی بغیر احمدی عورتیں بھی ان کے درس میں شامل ہوتی تھیں اور میں نے سنا ہے کہ وہ ان کی وفات پر اس طرح روتی تھیں میں طرح ایک نیک اور شفیق باپ کی موت پر سعادت مند بچے روتے ہیں لیکن غالبا با با صاحب مرحوم کا سب سے بڑا امتیاز یہ تھا کہ انہیں
۴۴۹ موضیوں میں سے موعی را ہونے کا شرف حاصل ہوا کیونکہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے امہ کے شروع میں رسالہ الوحقیقت لکھ کر وحیت کی تحریک فرمائی تو اس تحریک پر سب سے اول نمبر پر لبیک کہنے والے بابا حسن محمد صاحب مرحوم ہی تھے اور ان کی وصیت کا عمل درج ہوڑا اور دوسرا امتیاز ان کا یہ ہے کہ ان کے اکلوتے فرزند مولوی رحمت علی صاحب کو سمندر پار فریضیہ تبلیغ ادا کرنے کا سب دوسرے مبلغوں سے زیادہ لمبا موقع ملا ہے کیونکہ انہوں نے غالباً ۲۵ سال سے زیادہ جاوا ، سماٹرا میں تسلیخ کی سعادت حاصل کی ہے اور ظاہر ہے کہ اولاد کی نیکی میں مومن باپ کا بھی ضرور حصہ ہوتا ہے کیا ہے حضرت بابا صاحبینے کی روایات جو انہوں نے ۳۰ ، ۳۱ دسمبر ئر کو قادیان میں چوہدری عبد الستار صاحب بی.اے (آنرز) ایل ایل بی کے سامنے بیان فرمائیں الفضل (مورخہ ۲۳ تا ۲۸ h تبوک ۲ ستمبر ( ۱۵ ) میں چھپ چکی ہیں اور بہت ایمان پرور ہیں.ها حضرت ماسٹر مولا بخش صاحب متوطن موضع منیان تحصیل رو پر ضلع انبالہ دولادت ائر بیعت ۱۹۰۳ئه - زیارت قادیان ستمبر شناسه - وفات و ظهورها مطابق ور اگست ۱۹۵مه) حضرت ماسٹر صاحب کو داخیل احمدیت ہونے کا تحریک مرزا ندا بخش نے صاحب کی کتاب عسل مصفی سے ہوئی جو انہیں مولوی محمد تقی صاحب سنوری مدرس سرمہند کے ہاں ملی تھی.آپ شائر سے حضور کے وصال تک ہر سال موسمی تعطیلات ہیں ایک ماہ حضورہ کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے.آپ کی روایت ہے کہ :.یکس ایک دفعہ قادیان آیا ہوا تھا غالباً ستمبر کا مہینہ تھا سن مجھے یاد نہیں مسجد مبارک بڑھ چکی تھی صبح آٹھ بجے کا وقت ہوگا میں اکیلا ہی مسجد مبارک میں ٹہل رہا تھا کہ حضور اندر سے تشریف لے آئے میں نے مصافحہ کیا حضور مسجد مبارک کے پرانے حصہ میں بیٹھ گئے.اندر کی سیڑھیوں سے حضرت مولوی له الفضل ۲۵ وفاه ۱۳۳۲۹ / جولائی ۱۹۵۰ ماہ سے پروفیر العطاء الرحمن صاحب طالب مرحوم پروفیسر جامعه نصرت ربوہ اور مولوی عبد القادر صاحب تیم سابق مبلغ امریکہ کے صاحبزادے اور مودی حافظ بشیر الدین علی براہ صاحب مبلغ ماریشیس و بڑا دعر بہ یہ آپ کے دانا وہیں ہے
۲۵۰ نور الدین صاحب اور ڈاکٹر یعقوب بیگ بھی آگئے حضور ان سے باتیں کرنے لگے لیکن حضور کے ہاتھ دبانے لگا.دباتے دباتے جب میرے ہاتھ دائیں ہاتھ کے پنجہ کے قریب تھے تو حضور کو یکدم جھٹکا لگا اور حضور کا سارا جسم پل گیا.حضور فور یہی اندر تشریف لے گئے پھر کوئی بات نہیں کی.حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اول فرمانے لگے کہ اب وحی کے نزول کا وقت ہے 191A-19 خلافت ثانیہ کے بابرکت دور میں جن بزرگ صحابہ کو عرصہ دراز تک مرکز سلسلہ میں تعلیمی خدمات بجالانے کا موقع میسر آیا ان میں حضرت ماسٹر صاحب موصوف کو ایک، امتیازی مقام حاصل ہے.آپ ۱۹۸-۱۹ ء میں سپیشل ٹیچر کی حیثیت سے مدرسہ احمدیہ کے سٹاف میں شامل ہوئے ہے اور لمبی مدت تک اس مرکزی ادارہ سے منسلک ہو کہ نونہالانِ احمدیت کو اپنے علم سے فیضیاب کرتے رہے.وارالہجرت ربوہ میں ۲۱ ر اخار ها / اکتوبر ۹ہ کو لوئر مڈل سکول جاری کیا گیا جس کے آپ پہلے ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے.حضرت مصلح موعود، حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب اور حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحبین کے جن صاحبزادوں اور صاجزادیوں کے آپ استاد تھے اُن میں سید نا حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب (خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ ) اور صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صا بھی شامل ہیں.حضرت ماسٹر صاحب تحریک جدید کے دفتر اول کے مجاہد تھے.قرآن مجید سے عاشقانہ تعلق اور لگاؤ تھا نمازوں اور تہجد کے باقاعدگی سے پابند تھے اور حضرت مولوی شیر علی صلاحیت کی طرح اکثر نمازیں محلہ دارالعلوم (قادیان سے چل کر مسجد مبارک میں ادا کیا کرتے تھے.خاندان حضرت مسیح موعود کے فدائی تھے.اکرام ضیف کا خاص اہتمام کرتے تھے.ہر ایک شخص سے نہایت خندہ پیشانی اور خوش اخلاقی سے پیش آتے تھے.آپ کے دل میں بزرگوں کا احترام اور خدمت خلق کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا.غایت درجہ صابر وشاکر اور قانع بزرگ تھے دوست سوال درانہ کرنا ان کی طبیعت کے خلاف تھا.ملازمت سے سبکدوشی کے بعد ٹیوشن کر کے اپنے بیٹوں کو اعلی تعلیم دلوائی اور انہیں سلسلہ احمدیہ کی خدمت کے لئے وقف کر دیا.آخر عمر میں نحیف اور بوڑھا ہونے کے باوصف غیر معمولی ہمت و استقلال سے کئی کئی گھنٹے تک نہایت بشاشت سے سلسل کام کیا کرتے تھے اور ہ رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ قادریان ۶۱۹۱۸- ۱۹۱۹ء ملا مرتبہ حضرت خلیفہ ڈاکٹر رشید الدین صاحب ایل ایم ایس ٹریسٹی و جنرل سیکرٹری صدر انجمن احمدیہ مطبوعہ انوار احمد یہ پریس قادیانی : !
۲۵۱ فرمایا کرتے تھےکہ مجھے فارغ بیٹھنا دوبھر معلوم ہوتا ہے اور میں کام میں خوش رہتا ہوں.دن کو سونا پست نہیں کرتے تھے اور اسے سستی کی علامت سمجھتے اور فرماتے تھے کہ شست آدمی اکثر بیمار رہتا ہے اور یکں ساری عمر میں دو ایک مرتبہ کے سوا کبھی بیمار نہیں ہوا.ور ماه ظهوره / اگست ۹ہ کو ملک عمر علی صاحب کھو کھر ریس ملتان کے ہمراہ کوئٹہ سے واپس آکر ملک صاحب کے آبائی گاؤں کی طرف تشریف لے جا رہے تھے کہ ملتان اور لودھراں اسٹیشن کے رمیان ریل گاڑی میں ہی حرکت قلب بند ہو جانے سے وفات پائی.۲۰ را خاء ۲۹ / اکتوبر نشہ کو حضرت مصلح موعود نے جمعہ کے خطبہ ثانیہ کے بعد آپ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :.از ماسٹر مولا بخش صاحب ان بزرگوں میں سے تھے جو استثنائی ہوتے ہیں.باوجود اندھے ہو جانے کے اُن کا پڑھانے کا شوق نہیں جاتا تھا.ان کی عمر ۸ سال سے اوپر ہوگی کیونکہ مجھے خیال پڑتا ہے کہ وہ نہیں پچیس سال سے ریٹائر ہو چکے تھے.وہ ہمیشہ پڑھاتے رہتے تھے.جہاں بھی خدمت کا کوئی موقع نکلتا وہ اپنے آپ کو اس کے لیے پیش کر دیتے.باوجود زور دینے کے میں نے دیکھا ہے کہ وہ پیسے نہیں لیتے تھے میری بچیوں کو بھی انہوں نے پڑھایا ہے مگر با وجود زور دینے کے انہوں نے پیسے نہیں لئے بعض دفعہ میری طبیعت پر یہ امر گراں بھی گذرتا تھا لیکن وہ ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ میں ثواب کی خاطر یہ کام کروں گا حالانکہ میں جانتا ہوں کہ ان کی بانی بات بہت کمزور تھی.اس دفعہ وہ کو ٹٹ گئے تو انہیں دیکھ کر مجھے رحم آگیا....یہ لوگ ہیں جو شہید کہلانے کے مستحق ہیں.۸۰۰۷۵ سال کی عمر تھی نظر اتنی کمزور کہ میں بات کرتا تھا تو پہچانتے تھے لیکن پڑھانے کے لئے وہ ہر جگہ پہلے جاتے تھے ممکن ہے وہ کسی سے کچھ لے بھی لیتے ہوں لیکن عام خیال تھا کہ وہ مفت ہی پڑھاتے ہیں حالانکہ ان کا گزارہ بہت حقیر تھایہ وہ لوگ تھے جنہیں دیکھے کر خوشی ہوتی ہے کہ جماعت میں ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جن پر فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَ مِنْهُمْ من ينتظرے کی آیت صادق آتی ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اپنے فرائض ادا کر دئیے ہیں اور کچھ اپنے فرائض کو ادا کرنے کے لایا تیار بیٹھے ہیں " سے ره احزاب : ۲۴ به مفصل حالات ملک صلاح الدین صاحب ایم.اسے نے رسالہ اصحاب احمد مئی و جولائی و نومبر ۹۵ار میں شائع کر دیئے ہیں مندرجہ بالا اقتباسات معلومات بھی اسی سے ماخوہ ذہیں ہے
۲۵۲ د ولادت حمله بیعت ۱۹۰ مر ، وفات - حضرت ڈاکٹر محم طفیل صاحب بٹالوی : به ماه ظهور ۱۳۹۶ / اگست ۸۹) حضرت ڈاکٹر صاحب کے مختصر حالات تاریخ احمدیت جلد سوم میں شاعر کے ممتاز صحابہ کے ضمن میں آچکے ہیں.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے حضرت ماسٹر مولا بخش صاحب اور آپ کی وفات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا:.یہ دونوں بزرگ بہت نیک اور مخلص اصحاب میں سے تھے جو عرصہ ہوا اپنے وطنوں سے ہجرت کر کے قادیان میں آباد ہو چکے تھے اور پھر گذشتہ انقلاب کے نتیجہ میں قادیان سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے اور دونوں کو سلسلہ کے محکم تعلیم میں کافی خدمت کا موقع میسر آیا اور سین اتفاق سے دونوں بالا آخر مدرسہ احمدیہ سے (جو سلسلہ کی ایک مخصوص دینی درسگاہ ہے، اپنی ملازمت کا عرصہ پورا کر کے ریٹائر ہوئے مگر اس ریٹائر منٹ کے بعد بھی ان کی خدمت کا سلسلہ جاری رہا.چنانچہ ماسٹر مولا بخش صاحب مر توم حضرت امیر المومنین خلیفہ اسی ایدہ اللہ کے چھوٹے بچوں اور ہمارے خاندان کے دوسرے بچوں کو پرائیویٹ ٹیوٹر کی حیثیت میں پڑھاتے رہے اور ماسٹر محمد طفیل صاحب مرحوم کو جلسہ سالانہ کے ایام ہیں سلسلہ کے مہمانوں کی خدمت کا نمایاں موقع ملتا رہا.دونوں اصحاب موصی تھے اور نماز اور دیگر اعمال صالحہ کے بجالانے میں خوب چوکس اور ستعد لکھتے یہ نے وله (ولادت اندازاً شائر - وفات ۳ تبوک ۹ - حضرت مولانا محمد امیر صاحب آن آسامی ۱۳۹۵ مطابق سمر ستمبر ۹۵ العمر ۹۶ سال) حضرت مولانا صاحب علاقہ آسام میں احمدیت کے ستون اور بڑے جوشیلے مخلص اور بہا در احمدی تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا شمارے میں پہلا تیبینی اشتہار جو انگریزی اور اردو میں شائع ہوا ہ تھا حضرت امام الواعظین مولوی غلام امام صاحب منی پور کے ذریعہ آپ کے ہاتھ لگا اشتہار کا پڑھنا تھا کہ آپ کا چہرہ روشن ہو گیا اور آپ نے بلا تامل بیعت کا خط حضرت اقدس کی خدمت میں لکھ دیا.له الفضل ، تبوک ۱۳۳۹ /ستمبر ۹۵ه متا زیر عنوان دو مخلصین کی وفات سے والد ماجد خان بہادر محمد عطاء الرحمن صاحب سابق ہوم سیکرٹری حکومت آسام ۳ تفصیل تاریخ احمدیت جلد دوم میں آچکی ہے ؟ ۳۱۳۵۲ صحابہ کہار میں سے تھے.آپ کا نام ضمیمہ انجام آنتقم م۲۲ ۲۳ پر مندرج ہے ؟
۲۵۳ اکر فرمایا کرتے تھے کہ میں مدت سے مسیح موعود اور مہندی محمود کی آمد کا منتظر تا کیونکہ مجھ تقسیم ہوئی تھی کہ یہ زمانہ امام الزمان کے نزول کا مقتضی تھائیں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ مسیح موعود علیہ السلام کا ظور میری زندگی میں ہوا اور ان کو مت بول کرنے کی توفیق ملی.رت جلیل کے قائم کر وہ پاک سلسلہ میں شامل ہونے کے بعد آپ پر مصائب کے بادل چھا گئے اور آپ کو زمانہ دراز تک دنیا وی مشکلات اور صعوبتوں کو برداشت کرنا پڑا مگر آپ ہر ابتلاء پرتاب قدم رہے اور ہر فتنہ کے موقع پر نہ صرف یہ کہ آپ خود ایک مضبوط چٹان کی طرح حق و صداقت پر قائم رہے بلکہ اپنے وعظ و تبلیغ کے نتیجہ میں قریباً دو سو اشخاص کو تحریک احمدیت سے وابستہ کرنے میں کا میاب ہوئے.حضرت مولوی صاحب یہ ایک عالم متجر تھے.قرآن کریم سے ۱۱ کو مشق تھا اور مندر تھا ہم نے محض اپنے فضل و کرم سے ان کو فہم قرآن کا ایک خاص ملکہ عطا فرمایا تھا مشکل سے مشکل مقامات کو دعاؤں کے ذریعہ حل کر لیتے تھے اور سلسلہ کے بعض بزرگوں کی تفاسیر سے توارد ہو جاتا تھا.سلسلہ عالیہ کی کوئی کتاب ایسی نہیں جو انہوں نے مطالعہ نہ کی ہو.عمر کے آخری دو سال میں آپ کی بینائی بالکل کمزور ہو گئی تھی اور مطالعہ نا ممکن ہو گیا تھا پھر بھی اخبارات سلسلہ اور تازہ تالیفات و تصنیفات اپنی بیٹیوں سے شنا کرتے تھے.درثمین سے تو آپ کو ایک بے نظیر عشق تھا.بھارت کی کمزوری کے اس زمانے میں بھی درثمین آپ کے تکیہ کے نیچے رکھی رہتی تھی.آنکھوں پر زور ڈال کر اشعار یاد کرنا آپ کا محبوب شغل تھا.اکثر فرمایا کرتے تھے کہ دو تین میری کمزوری کے لئے ٹانک اور میری بیماری کے لئے دوا اور روحانی غذا ہے.آخری دنوں میں بار بار وقت پوچھا کرتے تا کوئی نماز فوت نہ ہو جائے یہاں تک کہ آخری رات تہجد اشارے سے پڑھی.آپ رویا صالحہ کی نعمت سے بھی مستفیض تھے اور تعبیریں بتایا کرتے تھے اور صاحب المام بھی تھے گو وہ اپنے الہاموں کو ظاہر کرنا پسند نہیں کرتے تھے.ماہ ۱۰ زیارت خواجه عبدالرحمن صاحب این افسر امیر جماعت احمد کشمیر اسنوا - البيان له الفضل سور اخاء ۱۳۲۹ / اکتوبر ۱۹۹۰ مگ هـ
۲۵۱۳ ام وفات فتح ۱۳۳۲۹ / دسمبر ۹۵) - خواجہ صاحب کشمیر میں احمدیت کی جیتی جاگتی تصویر تھے یا کہ میں اپنے والد میاں حبیب اللہ صاحب کے ساتھ قادیان دارالامان میں گئے اور تعلیم الاسلام ہائی سکول میں داخل ہوئے اور میٹرک تک تعلیم بھی اس مرکزی ادارہ سے پائی اور حضرت مهدی موعود علیہ السلام کی بابر کت مجالس میں بھی شامل ہوئے.آپ کی مستعد و چشم دید روایات حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اپنی کتاب سیرت المہدی حصہ دوم و سوم میں درج فرمائی ہیں ہے.فسادات کے بعد حضرت مصلح موعود نے خواجہ صاحب موصوف کو مقبوضہ کشمیر کی تمام احمدی جماعتوں کا پہلا امیر مقرر فرمایا اور آپ اس قومی خدمت کی بجا آوری کے لئے صبح و شام سرگرم عمل ہو گئے.جماعتی کاموں کے سلسلہ میں آپ مختلف جماعتوں کا دورہ ختم کر کے سرینگر پہنچے تو ہمار ہو گئے اسی حالت میں اپنے گاؤں آسنور لائے گئے اور ڈیڑھ ماہ بعد واصل بحق ہو گئے بیٹے حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے آپ کی وفات پر حسب ذیل نوٹ لکھا :- یکن اس عزیز کو اُس وقت سے جانتا تھا جب کہ وہ چھوٹی عمر میں قادیان کے ٹی آئی ہائی سکول یں تعلیم حاصل کر رہے تھے.لیکن اُس وقت اس سکول کا ہیڈ ما سٹر تھا اور خواجہ صاحب مرحوم سکول کے بورڈنگ میں رہتے تھے بلحاظ اسکول اور اور ڈنگ کا افسر ہونے کے مجھے ان کے حالات اور اخلاق دیکھنے کا بہت اتفاق ہوتا رہا.مرحوم ایک نہایت ہی نیک اور شریف طالب علم تھے کبھی کسی کے ساتھ اُن کا کوئی جھگڑا نہ ہوا.اپنے استادوں کا اتنا ادب کرتے تھے کہ سب اُن سے خوش رہتے تھے.اس کے بعد جب وہ اپنے وطن جا کہ ملازم ہو گئے تب بھی اُن سے خط و کتابت کا سلسلہ بھاری رہا سلسلہ احمدیہ کی صداقت کا ان کو طبعاً ایک جوش تھا اور نہایت اخلاق کے ساتھ وہ دوسروں پر اپنا نیک اثر ڈالتے تھے خدا تعالیٰ کی توحید اور محمد صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت اور حضرت مرزا صاحب کی مسیحیت اور حد و تیت پران کو صدق دل سے ایمان تھا اور اُن کی طبیعت میں یہ جوش تھا کہ خدا تعالیٰ کی توحید کشمیر میں اور تمام ملکوں میں پھیل جائے اور قائم ہو جائے اور سب لوگ مشرک کو ترک کر کے توحید پر قائم ہو جائیں.انکی " سه سیرت المہدی حصہ دوم صفحه ۲۸-۲۹ - ۳۰ ، حصہ سوم صفحه ۲۴ - ۳۰-۳۲-۶۸-۱۷۱ ۵۲ الفضل ۲۶ دسمبر نشان مش مضمون خواجہ عبد الغفار صاحب ڈار سابق ایڈیٹر اخبار اصلاح سرینگر حال راولپنڈی)
۲۵۵ وفات کا مجھے بہت افسوس ہوا کیونکہ اُن کی بیماری کی کوئی خبر نہیں آئی تھی اور ان ایام میں وہ میرے دو پوتوں کی خبر گیری کرتے تھے جو میرے بیٹے معنی منظور مرحوم کی وفات کے بعد کشمیر میں رہ گئے تھے اور سیاسی انقلابات کے سبب ان کا میرے پاس آنا ایک مدت تک نہ ہو سکا.خواجہ صاحب مرحوم ہر طرح سے ان کی تعلیم و تربیت اور پرورش کی طرف متوجہ رہے اور میں انہیں بچوں کی ضرورت کے مطابق خرچ بھیجتا رہا.مرحوم نے اپنے بیواہلہ کو تعلیم و تربیت کے واسطے قادیان بھیج دیا تھا اور تب سے اُن کے دو لڑ کے پاکستان میں مقیم ہیں اور نیکی میں اپنے باپ کے نقش قدم پر چلنے والے ہیں...جب یکی نے اپنی کتاب میں شائع کرنے کے لئے سرینگر میں قریے کا فوٹو لیا تو مرحوم بھی میرے ساتھ اس فوٹو میں شامل تھے اور میری کتاب کی تصنیف کے کام میں مجھے امداد دیتے رہے “ سے ران اکابر صحابہ کے علاوہ میاں رمنان علی صاحب جھنگ کا بھی اسی سال انتقال ہوا.میاں صاحب نے لکھو کے مدرسہ دینیہ میں تعلیم کے دوران مخالف علماء سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تذکرہ کشتا اور تحقیقات شروع کر دی اور بالآخر داخل احمدیت ہو گئے.آپ لدھیانہ اسٹیشن پر حضرت مسیح موعود " علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت سے مشرف ہوئے.چنانچہ آپ کا بیان ہے :- حضرت مسیح موعود علیہ اسلام سیکنڈ کلاس میں تشریف رکھتے تھے.ریل کا ڈبہ ریزرو نہیں کرایا ہوا تھا.اس وقت ایک گھنٹہ تک وہ گاڑی لدھیانہ اسٹیشن پر کھڑی رہی.اس وقت گاڑی کے اندریں نے حضرت صاحب کی بیعت کی.بہت سے ہندو اور مسلمان سٹیشن پر کھڑے ہو گئے تھے تا کہ آپ کی زیارت کر سکیں اور پلیٹ فارم کھا کھچ بھر گیا ؟ سے آپ کی اولاد میر محم عبداللہ صاحب میر عبدالسلام صاحب میر عبد الوہاب صاحب امتر الرنیم مصاحبہ امتہ الرحمن صاحبہ امتہ اللہ صاحبہ نے یہ ۱۹۳۵ء کا واقعہ ہے : ۳ الفضل ۳ صلح ۱۳۳۲ / جنوری مرمت کا لم عمل حضرت مفتی صاحب کی یہ کتاب تحقیق جدید تعلق قبرسی کے نام سے بکڈپو تالیف و اشاعت قادیان نے اکتوبر ۱۹۳۶ ء میں ڈیڑھ ہزار کی تعداد میں شائع کی.کتاب کے صله تا ۹۵ میں ان عبرانی الفاظ کی فہرست درج ہے جو کسی نہ کسی پہلو سے کشمیری زبان میںستعمل ہیں.یہ شہرست خواجہ عبد الہ آن صاحب ہی نے تیار کی تھی.(خواجہ صاحب کے مزید حالات کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ احدیت کشمیر هند ، ما مولفه جنب قرانی مداسداله صاحب فاضل مرتبی سلسلہ احمدیہ مطبوعہ منیاء الاسلام پریس ریوه ۱۳۵۳ / ۱۹۷۳ )
۲۵۶ آپ نے ہر میں ملازمت سے سبکدوش ہونے پر قرآن شریف مکمل حفظ کیا اور صحاح ستہ مطالعہ کہیں.آپ کو مسائل دینیہ خصوصاً احادیث کتب سلسلہ اور ثنائی لٹریچر پر خاصا عبور تھا.پابند صوم و صلوة ، شب بیدار اور جماعت کے مالی جہاد میں باقاعدگی سے حصہ لیتے تھے اور خاندان حضرت مسیح موعود کے ولی محبتوں میں شامل تھے یہ آپ جھنگ میں مدفون ہیں یہ ۶۱۹۵۰ فصل مفتم کے بعض متفرق مگر اہم واقعات ابزار محمد اکرم خان صاحب کی شہادت اس ان کے شروع کا ای المناک واقعہ چارسدہ ضلع پشاور کے رئیس اور مخلص احمدی صاجزادہ محمد کریم خان صاحب کا واقعہ شہادت ہے جو ارماہ صلح / جنوری کو پیش آیا سید نا حضرت مصلح موعود نے خطبہ جمعہ میں اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :.وہ 27 سال کی عمر کے تھے اور ایک رئیس خاندان میں سے تھے.یہ وہی ہیں جن کے متعلق ان کے بھائی نے بیان کیا تھا کہ ہم نے ایک اٹھنی احمدیوں کو دے دی ہے اور ایک اٹھنی غیر احمدیوں کو.یہ پہلے پیغامی جماعت کے ساتھ تھے بعد میں مبائعین میں شامل ہو گئے.خیال کیا جاتا ہے کہ ان کی شہادت ہیں لبعض مولویوں کا ہاتھ ہے لیکن ممکن ہے یہ غلط ہو کیونکہ پٹھانوں میں چھوٹی سے چھوٹی رنجش پر بھی ایک دوسرے کو قتل کر دیا جاتا ہے.ہر حال وہ نہایت مخلص اور جوشیلے احمدی اور مبلغ تھے سکے تھے ه اصحاب احمد جلد دہم مث۱۶، ص۱۶ مولفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے.ناشر احمدیہ بک ڈپو ربوہ بار) سے ماسٹر سعد اللہ خان صاحب ٹیم تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ آپ ہی کے فرزند ہیں : سے استصل ۱۲ تبلیغ ماه سے حضرت قاضی محمد یوسف صاحب امیر جماعتہائے احمدیہ سرحد کی تحقیق کے مطابق صاجزادہ الکریم نماں کو احمدیت کی تحریک 1989 ابتداء حضرت مولوی محمد الیاس صاحب سے پہنچی تھی تاریخ احمدیہ سرحد صفت ۲ مطبوع د منظور عام پر یس پشاور )
۲۵۷ حضرت امیر المومنین المصلح الموعود نے انڈونیشین حضر معلم موندو کانگریزی زبان میں خطاب اساسی را با ام الکوتی اور پروین ملک کے الحمد ی مسٹر زنگ دیگر احمدی مہمانوں کے اعزاز میں ارماہ صلح کو ایک دعوت عصرانہ دی بس میں سورۃ بقرہ رکوع عمل کی تلاوت کے بعد انگریزی زبان میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا : قربانی کرو اور کرتے چلے جاؤ.خدا تعالیٰ کے احکام پر مجنونانہ عمل کرو اور کرتے چلے جاؤ اور نتائج کے متعلق کوئی تردد نہ کرو کیونکہ جس کے ہاتھ میں نتائج ہیں وہ انشاء اللہ اپنے سلسلہ کو خود بار آور کرے گا اور اُسے ہر قسم کی تباہی سے بچائے گا.اے ۹ ارماد صلح پر جنوری کو جماعت جل سیالکوٹ پر سنگباری او ایک عید رح کا قبول احمدیت محمد اب بالکوٹ نے بینک ملک احمدیہ منعقد کیا جس کا پہلا اجلاس صبح ساڑھے دس بجے سے لیکر ڈیڑھ بجے تک احراریوں کی مزاحمت کے باوجود جاری رہا جس سے پرنسپل جامعہ احمدیہ مولانا ابو العطار صاحب، مولانا جلال الدین صاحب شمس اور چوہدری اسد اللہ خان صاحب نے تقریریں کیں.اس کے بعد جب دوسرے انیل اس میں ملک بلوار مجھے صاحب خادم گجراتی کی تقریر شروع ہونے لگی تو احرار اور خاکساروں نے شور مچانا اور مانترین جلسہ پچر بے دریغ پنچھ پھینکنا شروع کر دئے اور ساتھ ہی لاؤڈ سپیکر لگا کر بائی سلسلہ احمدیہ جماعت احمدیع ل کا پر یہ سلسلہ اور وزیر خارجہ پاکستان کے خلاف گالیاں دینے لگے.پولیس نے صورت حال پر قابو پانے کی ہرممکن کوشش کی لیکن جب یہ لوگ اپنی ان غیر اسلامی حرکات سے باز نہ آئے تو بالآخر حکام نے امیر جماعت احمدیہ کو جلسہ بند کر دینے کی تلقین کی.احمدی اس دوران میں نہایت پر امن رہتے اور حکومت سے تعاون کرتے ہوئے بیا.نیتم کر دیا.احراریوں کی ٹولیاں جلسے کے بعد بازاروں میں گشت لگا کر بھی اکا دکا احمدیوں کو زد و کوب کرتی رہیں اور دو ایک احمدیوں کی دکانیں بھی ٹوٹیں گر ا حمد یوں نے قانون کو ہاتھ میں لینا گوارا نہ کیا.احمدیوں کے اس صحیح اسلامی نمونہ کا یہ اثر ہوا کہ ایک شخص نے دا خلیل احمدیت ہونے کا اعلان کیا اور کہا کہ اگر یہی اسلام ہے.بنو احراریوں نے آج پیش کیا ہے تو مجھے له الفضل ۲۶ صالح / جنوری ۱۹ ۲
۲۵۸ اس کی قطعاً ضرورت نہیں.مجھے یہ گھر بہتر ہے ترے اسلام سے تو بہ ہ چوہدری محمدظفر الدخان صاحب کو قتل کرنیکی سازش امنیت اصلی مرور کوشه ای حضرت شروع میں چوہدری محمد ظفر اللہ خال صاحب اور حضرت مصلح موعود کی تحریک تھا کی نسبت ایک تشویشناک رویا دکھائی گئی.چوہدری صاحب آئی دنوں نیو یارک میں پاکستان کی نمائندگی کے تعلق میں قیام فرما تھے بحضور نے مورخه ۱۳- امان کر مارچ کو ان کے نام حسب ذیل تار دیا :- "Telegrame.No 273 Dated 13.3.1948.To_ Siz Zafrullah Khan Newyork.I have seen Newyork Radie announced You have been slain it ordinarly means unexpected....success, but it may be a warning, so be careful Mahmood Ahmad.(ترجمه) یکی نے رویا میں دیکھا ہے کہ نیو یارک ریڈیو نے اعلان کیا ہے کہ آپ شہید کر دئیے گئے.عام طور پر اس کی تعبیر کوئی غیر متوقع کامیابی ہوتی ہے لیکن یہ ایک انذار بھی ہوسکتا ہے.اس لئے آپ محتاط رہیں.محمود احمد سے ڈیڑھ دو سال بعد ۲۹ نشہ میں چودھری محمدظفر اللہ خاں صاحب کے نام گنام خطوط ۱۳۰ / ۱۹۵۰ میں آنے شروع ہو گئے جن میں آپ کو قتل کی دھمکیاں دی گئیں.یہ بات ہونی اخبارات کے ذریعہ منظر عام پر آئی حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے مندرجہ ذیل مضمون کے ذریعہ احباب جماعت کو دعائے خاص کی تحریک فرمائی: له الفضل ار صلح ١٣٢٩ جنوری ۱۹۵۰ مه الفضل ۲ امان ه۳۳۲۹ / مارچ ۱۹ ص : ܀
۲۵۹ اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم : نحمده ونصلى على رسوله الكريم هو الله خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ اصر چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحب کے باہ میں ایک تشویش اکتبر حال ہیں، اخبارات میں شائع ہوا ہے کہ سر ظفر اللہ خان صاحب کو تہدید کی خطوط ملے ہیں جو ہمیں انہیں قتل کی دھمکی دی گئی ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ انہیں ہر شر سے محفوظ رکھے.اس بارہ بین احباب کی اطلاع کے لئے تحریرہ ہے کہ ۱۹۴۷ء کی شوری سے پہلے جب یکی سندھ گیا تو میں نے وہاں یہ رویا دیکھا کہ کوئی مجھے کہتا ہے یا یکں نے اخبار میں دیکھا ہے کہ نیویارک ریڈیو اعلان کر رہا ہے کہ سر ظفر اللہ خان کو شہید کر دیا گیا ہے لیکن نے اُس وقت بچوہدری صاحب کو اس بارہ ہیں، اطلاع دی کہ گہ خواب میں قتل سے مراد کوئی بڑی کامیابی یا ظاہری تعبیر کے لحاظ سے یہ خواب مندر بھی ہو سکتی ہے اس لئے وہ احتیاط رکھیں.اب اس تازہ خیر سے معلوم ہوتا ہے کہ اس خواب کے مضمون کو ظاہری صورت میں پورا کرنے کی سکیم دشمنوں کے مد نظر ہے.مختلف اطلاعات بلا کر جو نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ ہندو لیڈروں نے پہلے احرار کے ذریہ سے پاکستان میں چو ہدری صاحب کے خلاف پراپیگنڈا کر وایا اور انہوں نے بعض مجالس ہیں یہاں تک کہا کہ امام جماعت اگریہ اور سر ظفراللہ کو قتل کیوں نہیں کر دیا جاتا جیسا کہ مجھے بعض لوگوں نے آج سے کوئی ایک ماہ پہلے اطلاع دی تھی اس پراپگینڈا سے استہ کھولنا مقصود تھا کہ اگر خدانخواستہ دشمن اپنے منصوبہ میں کامیاب ہو تو ہندو لیڈر کر سکیں کہ ان کے مارنے والے خود مسلمان تھے.اس کے ساتھ ہی کہا جاتا ہے ایسی سکیم کو اور زیادہ موثر بنانے کے لئے بنگال سے چند ہندو نوجوان مسلمانوں کے لباس میں بھیجوائے گئے ہیں جو امریکہ میں چو ہدری صاحب پر حملہ کریں تاکہ ہندو لیڈر یہ کر سکیں کہ ان کا اس کام میں کوئی دخل نہیں یہ کام مسلمانوں نے خود طیش میں آ کر کیا ہے.حالانکہ احراری پراپیگنڈا بھی ان کے اشارے سے شروع کیا گیا ہے اور اب یہ کوشش بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے.اللہ تعالیٰ کی نیت ہے کہ بعض دفعہ کسی مندر.امر سے ہوشیار کرنے کے لئے وہ خواب یا السلام سے
٢٦٠ اطلاع دے دیتا ہے تاکہ دعا اور تدبیر سے مومن اسے ٹلا سکے.سو ا حباب کو چاہیئے کہ چوہدری صاحب کے لئے ان دنوں میں خاص طور پر دعا کریں تاکہ اللہ تعالیٰ احرار اور ہندوؤں کے مشترکہ منصوبہ سے انکو بھی اور سب جماعت کو بھی محفوظ رکھے.کاش ہندو لیڈر یہ مجھتے کہ ایسی کمینہ سازشیں فسادات کا ایک ایسا دروازہ کھول دیتی ہیں کہ ان کو بند کرنا مشکل ہو جاتا ہے.کاش احرار یہ سمجھتے کہ وہ اپنے لئے تباہی کا گڑھا کھود رہے ہیں.اللہ تعالیٰ اس وقت اسلام کو فتح دینا چاہتا ہے.احرار اور ہندو لیڈر دیکھے لیں گے اور دنیا بھی دیکھ لے گی کہ اس کھیل کا خدا تعالیٰ کیا جواب دیتا ہے.خاکسار مرزا محمود العمد یا اے در اتعالیٰ کے خلیفہ موعود اور اس کے پاکباز بندوں کی دعائیں جناب الہی میں قبول ہوئیں اور نہ صرف یہ امر از لغد ہندو لیڈروں کا چوہدری صاحب کے خلاف یہ خفیہ منصوبہ ناکام ہو گیا بلکہ چند ماہ بعد یہ حقیقت بھی طشت سے ازبام ہونے لگی کہ احراز بھارت کے آلہ کار اور ایجنٹ کی حیثیت سے ملک میں فساد بر پا کرنا چاہتے ہیں چنانچہ بر صغیر پاک و ہند کے مشہور مسلمان لیڈر خواجہ سن نظامی صاحب دہلوی نے ان بن گیا کہ : ہو لوگ اس وقت مسلمانوں کے فرقوں خاص طور پر قادیانیوں کے خلاف تقریریں کرتے پھرتے ہیں پاکستان کے دشمن اور بھارت کے اینٹ ہیں سکے احرار پاکستان کا تختہ الٹنے ر امیرالمومنین کی رات اور کے ایک اعلی تریکی کی ترشیا کے نے اب کت وشیں لئے خطابت سے کام سے کہ اشتعال پھیلا رہے تھے مگر اس سالی ان کی فساد انگیز کارروائیوں نے ایک نیا رخ بدلا اور وہ یہ کہ انہوں نے جماعت احمدیہ کو بدنام کرنے کے لئے خود ایک ٹریکٹ لکھا اور کراچی ، گوجرانوالہ لاہور اور لائل پور سے شائع کرایا اور پھر لاہور کے اخبار آزاد، زمیندار اور سفینہ وغیرہ میں احمدیوں کے خلاف احتجاج کر کے ملک بھر میں ختنہ اُٹھا نا شروع کر دیا.رستید نا حضرت علی موعود نے اس جعلی اور شر انگیز ٹریکٹ کا جواب ایک مفصل مضمون میں دیا جو افضل میں چھپنے کے علاوہ بذریعہ اشتہار بلک بھر میں شائع کیا گیا.یہ مضمون حسب ذیل الفاظ میں تھا :- له الفضل ۲۸ تبليغ ۱۳۳۲۹۵ / فروری ۹۷ ار ت ؟ افزاری آمد گوی آزاد ۲۱ چون سنه
۲۶۱ اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم : نحمده ونصلى على رسوله الكريم هوالت خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ اصر مسلمانوں اور پاکستان کا قیام اسلام کے قیام پرمنحصر ہے " قرآن کریم میںاللہ تعالیٰ مسلمانوں کی یہ شان بتاتا ہے کہ وہ جھوٹ سے بچتے ہیں.رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی شان نبوت سے پہلے اہل مکہ پر اسی صفت سے ظاہر تھی کہ وہ صدوق و امین کہلاتے تھے یعنی نہایت راستباز اور ہر امانت کو پورا کرنے والے.آج بھی اگر مسلمان کوئی عززت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو سچ ہی سے عزت حاصل کر سکتے ہیں لیکن افسوس کہ اس وقت بھی کہ اسلام اور مسلمان دشمنوں کے نرغہ میں گھر ہے ہوئے ہیں اور سرحد پار دشمن ان کی تاک میں لگے ہوئے ہیں بعض مسلمان کہلانے والے بلکہ علماء کہلانے والے اور اسلام کی حفاظت کا دعوی کرنے والے جھوٹ اور فریب سے کام لے رہے ہیں چنانچہ پرسوں مجھے کو جانو آ کے دو دوستوں کی طرف سے اشتہارات ملے ہیں جن کے نیچے ناظر دعوت و تبلیغ انجمن خدام احمد صلی اللہ علیہ وسلم گوجرانوالہ شہر لکھا ہے.یہ اشتہار سراسر جھوٹا اور افتراؤں کا پلندا ہے.جماعت احمدیہ میں ناظر مرکزی سیکرٹری کو کہتے ہیں اور اس مفتری اور کذاب کو یہ بھی معلوم نہیں کہ گوجرانوالہ جماعت احمدیہ کا مرکز نہیں اور وہاں کوئی نظر نہیں ہے.پھر لطف یہ کہ وہ آنمین نداریم احمد کا ناظر ہونے کا دعوی کرتا ہے اور خدام احمد نام کی کوئی انہیں احمدیوں میں نہیں پھر اس مفتری نے احمد کے آگے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام ہے صلی الہ علیہ وسلم لکھا ہے یہ بھی اس کی جہالت نہیں بلکہ شرارت پر دلالت کرتا ہے.جماعت احمد یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی اور نبی یا مامور کو صل اللہ علیہ وسلم نہیں لکھتی ہیں نے یا سلسلہ کے ناظروں نے کبھی بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو لی اللہ علیہ وسلم نہیں لکھا پیس صرف شہر کے نام میں ہی اس شخص نے تین جھوٹ بولے ہیں اور وہ خیال کرتا ہے کہ وہ مخدا تعالیٰ کی اور اسلام کی جھوٹ بول کر خدمت کرتا ہے حالانکہ ہوندا اور اس کا رسول اور دین اسلام ٹیوٹ کے ہرگز محتاج نہیں وہ بچے ہیں اور سچ سے فتح پاسکتے ہیں جھوٹ شیطان کے لئے ہے خدا اور اسکے
۲۶۲ رسول کے لئے نہیں ہے.وہ مفتری ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ اسلام جھوٹ کا محتاج ہے.راس اشتہار کا عنوان ہے امیر المومنین خلیفتہ اسیح الثانی حضرت مرز البشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ تعالیٰ کا تازہ ترین الهام" اکھنڈ ہند دستان یہ عنوان بھی سراسر جھوٹا اور افترا ہے مجھے ہرگز ایسا کوئی الہام نہیں ہوا ہے اور میں نے یا میری جماعت نے ہرگز کوئی ایسا الہام شائع نہیں کیا.پس میں اس کے جواب میں صرف یہ کہ سکتا ہوں کہ لعنت اللہ علی الکاذبین خدا تعالیٰ کی لعنت ہو اس پر جو جھوٹ بولتا ہے.اس شخص نے اپنے نام کو چھپایا ہے لیکن خدائے علیم وخیر اس کے نام کو جانتا ہے پس کی خدائے علیم و خیر سے جو جھوٹ کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے جو پوشیدہ در پوشیدہ رازوں سے واقف ہے جس نے اپنی پاک کتاب قرآن کریم میں جھوٹ سے منع فرما دیا دعا کرتا ہوں کہ اسے خدائے علیم و خیر، اسے خدائے قادر وتوانا تو جانتا ہے کہ تو نے ایسا کوئی الہام مجھے نہیں کیا اگر باوجود اس کے میں نے یہ جھوٹ تجھ پر بولا ہے اور اس قسم کا الہام تیری طرف منسوب کیا ہے تو اسے نمدا یک تیری سچائی اور پاکیزگی کی قسم دے کر تجھ سے کہتا ہوں کہ تو مجھے اور اُن لوگوں کو جو اس جھوٹ میں میرے شریک ہوں نیست و نائوو کرد سے تا کہ دنیا پر یہ واضح ہو جائے کہ خدا تعالیٰ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولنے والا تباہ اور برباد کیا جاتا ہے.اور اسے میرے بخدا اگر یہ اشتہار احرار یا اسی قسم کے اور لوگوں کی طرف سے جھوٹ اور افترا او ناکہ وہ گناہ لوگوں کو بدنام کرنے کے لئے ہے تو اسے میرے رب جو سچائی سے پیار کرنے والا اور مظلوم کی ند دکرنے والا ہے میں تجھ سے عاجزانہ درخواست کرتا ہوں کہ اس قسم کے جھوٹے اشتہار دینے والوں اور اپنے افترا سے اسلام کو بدنام کرنے والوں پر اپنی لعنت بھیجے اور اپنے عذاب میں ان کو پکڑتا تیرا نام دنیا میں روشن ہو اور صداقت دنیا میں پھیلے اور تیرا نام لے کر جھوٹ بولنے والوں کو عبرت حاصل ہو.یہ تو میری خدا تعالیٰ سے اپیل ہے اور اس قسم کا اشتہار دینے والوں سے لیکن یہ کرتا ہوں کہ جھوٹ وہی بولتا ہے جس میں ایمان نہیں ہوتا اور جو خدا تعالیٰ پر تو قتل نہیں رکھتا اس لئے ایسے شخص کو سچائی اور صداقت کے نام پر بلا نا فضول ہے وہ تو لالچ ہی کا شکار ہوتا ہے پیس لیکن ان لوگوں سے کہتا ہوں کہ اسے پیٹ کی خاطر جھوٹ بولنے والو اگر اس اشتہار میں تم نے سچ بولا ہے تو میں ایک ہزار بہ و پیہ تمہارے لئے مقرر کرتا ہوں کہ وہ میری تحریر پیش کرو جس میں لکی نے یہ لکھا ہو کہ اکھنڈ ہندوستان کی تائید میں مجھے الہام ہوا ہے یا یہ کہ پاکستان کے عارضنمی ہونے کے بارے میں مجھے الہام
ہوا ہے، اگرتم ایسا ثابت کر دو تو فوراً ایک ہزار روپیہ میں تم کو انعام دوں گا اور جھوٹ بولنے کی ذلت مجھے الگ نصیب ہوگی.حقیقت یہ ہے کہ جب تک ہند و مسلمان میں اختلاف انتہاء کو نہیں پہنچا میری کوشش تھی کہ کسی طرح کی تقسیم نہ ہو اور اس کے بارہ میں میں نے اپنے ذاتی خیالات کئی دفعہ ظاہر کئے تھے مگر کوئی الہام شائع نہیں کیا مگر جب مئی 1914ء میں یہ بات ظاہر ہو گئی کہ اب یہ اختلاف مٹائے نہیں مٹ سکتا لیکں نے اپنی رائے بدل لی اور پورے زور سے پاکستان کی تائید شروع کر دی.چنانچہ تقسیم ملک سے پہلے ہی میں نے پاکستان کی تائید میں لکھنا شروع کر دیا جو الفضل اور دوسرے احمدی لٹریچر میں موجود ہے.اور اس وقت جب احراری اس امر کی کوشش میں تھا کہ پاکستان کی پ بھی نہ لکھی جائے لیکں اس امر کی تائید میں تھا کہ پاکستان سب کا سب مکمل ہو جائے اور خدا تعالیٰ اسے عزت اور شان کے ساتھ قائم رکھے.اگر مجھے کوئی الہام ہوا ہے تو یہی کہ اللہ تعالیٰ اسلام کو عزت بخشے گا اور مسلمان ذلیل ہو کہ دشمن کے سامنے نہیں گرے گا بلکہ قدم یہ قدم آگے بڑھے گا مشکلات ہوں گی عارضی طور پر قدم پیچھے بھی ہٹیں گے لیکن انجام اچھا ہی ہوگا.اسلام کے لئے اب فتح مقدر ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا اب بلند ہو کر رہے گا اور احراری یا دوسرے لوگ اسے نیچا نہیں کرسکیں گے.انشاء اللہ.خاکسار مرزا محمود احمد امام جماعت احمدیه را d جماعت احمدیہ کی مرکزی تنظیموں اور تحریک عورت ایک عالی ترک ہے جس کے احمدیت تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے یوں تو جماعت علماء سلسلہ کو احساس ذمہ داری کی تلقین کے ہر فر کو بین الاقوامی ذہن پیدا کرنے اور اس کے مطابق اپنے فرائض کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ضروری ہے مگر جماعت احمدیہ کی مرکز می تنظیموں اور علماء سلسلہ پر تو اولین فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنے مقام کو سمجھیں اور فرض شناسی کا ثبوت دیں.حضرت مصلح موعود نے خطبہ جمعہ (۲۸ شہادت / اپریل ) میں اس نکتہ کی طرف اس سال بھی بڑی وضاحت سے توجہ دلائی اور فرمایا :.یں نے مدت سے جماعت کو اس طرف توجہ دلانی شروع کی ہے کہ اسے اپنی ذمہ داریوں کو زیادہ له الفضل و رانان ۱۳۲۹۵ مارچ ۱۹۵۰ ص۰۳ *
۲۶۴ سے زیادہ محسوس کرنا چاہیے سب سے پہلے فرض کا محسوس کرنا ان مرکز بی انجمنوں پر عائد ہوتا ہے جو اس کام کے لئے مقرر ہیں امینی صدر انجین احمدیہ اور تحریک جدید اور پھر صدر انجمن احمدیہ اور تحریک تجدید کے ناظر اور وکلاء یعنی جن اعضاء سے یہ دونوں انجمنیں بنتی ہیں ان پر یہ فرض عائد ہوتا ہے.اور پھر ان سے اتر کر دوسرے کا رکن جو ان کے ماتحت ہیں ان پر یہ فرض عائد ہوتا ہے.ان کے علاوہ نہایت ہی اہم طور پر فرض جماعت کے علماء پر عائد ہوتا ہے جو نذہبی خیالات اور اخلاقی معیاروں کے لئے ایک راہنما کی حیثیت رکھتے ہیں اور ایک نمونہ کی شکل میں دیکھے جاتے ہیں.ان سب کو یا درکھنا چاہئیے کہ بڑے کاموں کے لئے دماغ کا ہر وقت کام میں لگائے رکھتا ضروری ہوتا ہے اور یہی وہ عادت ہے جس کے ماتحت کوئی شخص کسی بڑے کام کے قابل نہوسکتا ہے." انبیائے کرام کو ہم دیکھتے ہیں کہ رات دن وہ اپنی قوم کی اصلاح و بہبودی کے فکر میں لگے رہتے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نسبت فرماتے ہیں کہ میں سوتے ہوئے بھی جاگتا ہوں.اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ سوتے ہوئے واقعی جاگ رہے ہوتے تھے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ لیکن سونے لگتا ہوں تب بھی قوم کی اصلاح و بہبود کے لئے سوچ رہا ہوتا ہوں اور جب جاگنے لگتا ہوں اس وقت بھی تیرا د باغ انہی افکار میں مشغول ہوتا ہے.گویا آپ کا یہ دعوی تھا کہ میں چوبیس گھنٹے قوم کی ترقی و اصلاح کے کاموں اور ان کے صحیح طور پر سر انجام پانے کی تشکر میں لگا رہتا ہوں.حضرت عمر فرماتے ہیں کہ میکی و نماز پڑ تا رہا ہوتا ہوں اور اسلامی لشکر بھی تیار کروا رہا ہوتا ہوں.اب بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ حضرت رای نماز سے غافل ہوتے تھے اور وہ ایسا کام کرنے لگ جاتے تھے جس کا نماز کے ساتھ تعلق نہیں ہوتا تھا.آپ فرماتے ہیں اُصَلّى وَاجَهَرُ الْجُيوش میں نماز پڑھتا ہوں اور ساتھ ساتھ لشکر کی تیاری میں بھی لگا رہتا ہوں.یہ کیفیت نا تجربہ کار اور جاہل لوگوں کے لئے واقعی ٹھوکر کا موجب ہوسکتی ہے وہ سمجھیں گے کہ پھر نماز کیا ہوئی لیکن واقف کار جانتا ہے کہ منکر کا ایک مقام ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان ایک وقت میں دو دو تین تین کاموں میں مشغول رہتا ہے نماز بھی پڑھ رہا ہوتا ہے اور قوم کے کاموں میں بھی مصروف ہوتا ہے.مجھے کئی دفعہ لوگ ملنے کے لئے آتے ہیں میں بعض کا غذات دیکھ رہا ہوتا ہوں وہ خاموش ہو جاتے ہیں تائیں اپنے کام سے فارغ ہو جاؤں لیکن یکں انہیں کہتا ہوں کہ بات کریں میں آپ کی بات بھی سُنتا جاؤں گا اور اپنا کام بھی کرتا جاؤں گا اور یہ چیز میرے لئے ممکن ہوتی ہے لیکن
کھانا کھاتے ہوئے بھی سوچ رہا ہوتا ہوں.پانی پیتے ہوئے بھی سوچ رہا ہوتا ہوں.پیشاب کرتے وقت بھی سوچ رہا ہوتا ہوں.پاخانہ کرتے وقت بھی سوچ رہا ہوتا ہوں.غرض کوئی وقت مجھے ایسا نظر نہیں آتا جب میرا دماغ فارغ ہو یا میر او مارغ فارغ ہونا چاہیے یا میرا دماغ فارغ ہو سکے لیکن اس کے مقابلہ میں لیکن یہ دیکھتا ہوں کہ ہماری یہ دونوں انجمنیں بیکار اور عضو معطل کے طور پر ہیں.ایک ادبی سے اوٹی کاغذ جو ان کے سامنے آتا ہے ان کی توجہ کو پھر الیتا ہے اور اہم چیزوں کے متعلق تو ان کا دماغ چلتا ہی نہیں یکی نے بار بار توجہ دلائی ہے کہ اپنے اوقات کو اس طرح صرف کرنا چاہیئے جس طرح ایک قومی لیڈر اپنے اوقات کو صرفت کرتا ہے یہ اہ حضرت اعلان کیا اور ایران خاندان حضرت میں موجود کے متعلق ایک ضروری اعلان الصلع المونو کی خدمت میں یہ دودھ است کرتے آرہے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے لئے خاندان نبوت“ کے الفاظ ترکی کو دیئے جائیں.حضور نے اس درخواست کو شرف قبولیت بخشتے ہوئے.ہر ماہ ہجرت ۱۳۳۵ کو بد ولیعہ الفضل حسب ذیل اعلان عام فرمایا :- اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم : نحمده ونصلى على رسوله الكريم : هو الن خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ناصر خاندان حضرت سیم موعود علی اسلم کے متعلق ایک ضروری اعلان ایک صاحب دیر سے یہ لکھ رہے تھے کہ خاندان نبوت کا لفظ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے خاندان کے متعلق نہ لکھا جایا کرے مجھے پر چونکہ یہ اثر تھا کہ اس کے پیچھے صرف بزدلی کا منذ یہ ہے کہ اس سے غیر احمدی پڑتے ہیں.اس لئے لیکن کوئی وجہ نہیں پاتا تھا کہ جب ایک بات میں صداقت پائی جاتی ہے له الفضل ، ہجرت ۱۳۲۹ مئی ۱۹۵۰ء ص :
۲۶۶ تو اس کو کیوں نہ استعمال کیا جائے لیکن متواتر خط و کتابت میں (ان صاحب نے ایک بات لکھی میں نے میری طبیعت پر اثر کیا اور وہ بات یہ تھی کہ خاندان نبوت سے یہ وھو کا لگتا ہے کہ شاید یہیں ایک خاندان نبوت ہے اور یکں نے سمجھا کہ اس قسم کا دھوکا ضرور پیدا ہو جاتا ہے اس لئے اس لفظ کا استعمال ٹھیک نہیں.اصل نبوت تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلاة والسلام کی نبوت تولی ہے پی اصل خاندان نبوت تو رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کا خاندان ہے جس نے اپنی قربانیوں سے او اپنے ایثار سے اور اپنی خدمت اسلام سے یہ ثابت کر دیا کہ ان کے دل میں اس فضلی اور احسان کی بہت بڑی قدر ہے جو خدا تعالیٰ نے انہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گلے میں پیدا کر کے کیا ہے پس ایسا کوئی لفظ جس سے یہ شبہ پیدا ہو جائے کہ کسی اور خاندان کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خواندان کے علاوہ کوئی امتیاز دیا جاتا ہے تو خواہ وہ نادانستہ ہی ہو پسندیدہ نہیں اس لئے میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ آئندہ الفضل میں اور دوسری احمدی تحریروں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے شاندان کو خاندان نبوت کی بجائے نماند ان کیسے موجود لکھا جایا کرے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے جتنے دعاوی ہیں وہ سارے کے سارے مسیح موعود کے لفظ میں شامل ہو جاتے ہیں کیونکہ ؟ نام آپ کا حاوی نام ہے رپی خاندان مسیح موعود کہنے سے وہ تمام باتیں اس خاندان کی طرف منسوب ہو جاتی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے تعلق کی وجہ سے ان کی طرف منسوب ہو سکتی ہیں.اصل سوال تو یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کا نماندان اپنے عمل سے اپنے آپ کو اس مقام کا اہل ثابت کرے جو مقام خدا تعالیٰ نے ان کو بخشا ہے.اگر ان میں سے ہی بہتی دنیا کے کاموں میں لگ جائیں اور روٹی انہیں خدا تعالیٰ پر مقدم ہو تو انہیں خاندان نبوت کہا سمائے یا خانوادہ الوہیت کہا جائے بلکہ خواہ خدا ہی کہ دیا جائے ہر تعریف، ان کے لئے ہتک کا ہی موجب ہو گی کیسی عزت کا موجب نہیں ہو گا بلکہ یہ کچھا جائے گا کہ ان کی تعریف کرنے والے لوگ ان کو زیادہ سے زیادہ خدا تعالی اسے پھر انا چاہتے ہیں.خاکسار مرزا محمود احمد یا اے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ا ریہ کے متعلق ایک است او صور مسلم مو و کی رہنمائی ہیں جبکہ آپ کی دوسری شادی نہیں له الفضل ۲ ۱۹ ها :
ہ کار تھی ایک فرشتہ کے ذریعہ ایک دوا بتائی گئی جس کے استعمال سے خدا نے برکت ڈال دی) اور آپ کو اس کا بے انداز فائدہ ہوائی یہ دوا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کی روایات کے مطابق " نہ دجام عشق تھی جو اشارہ غیر کے ماتحت آپ کو سکھائی گئی ہے مگر حکیم فضل الرحمن صاحب مرحوم نے حضرت خلیفہ اول کی سوانح عمری میں اور حکیم خود حسین صاحب مرہم عیسی نے اپنی کتاب مائتہ عامل میں اس نسخہ کو سہواً حضرت خلیفہ اول کی طرف منسوب کر دیا جس کی بیچ کے لئے نورت مصلح موعود نے مندرجہ ذیل مضمون شائع فرمایا :- اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم : الحمد لله وتصلى على رسوله الكريم نمدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هوالت ماصر سلسل احمد کے متعلق ایک تاریخی روایت کے بار میں ایک مقابل روایت حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی سوانح عمری میں جو تحکیم فضل الرحمن صاحب مرحوم کی شائع کرده بیریاض نور الدین کے ابتداء میں درج ہے اور حکیم محمدحسین صاحب مریم علیہ کی نئی طبی کتاب مائتہ عامل ہیں وائی زد جام معشوق کے بارہ میں ایک روایت شائع ہوئی ہے نہیں کا مفہوم یہ ہے کہ زوجامع عشق کا نسخہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیا اور یہی نسخہ آپ نے ایک مریض کو دیا تھا جس سے اس کو بہت کچھ فائدہ ہوا اور اس کے اولاد ہوئی اور اس نے آپ کو بہت کچھ انعام دیا.یوں تو یہ ایک معمولی بات ہے لیکن تاریخی روایتوں کو زیادہ سے زیادہ صحیح کرنے کی کوشش چاہیئے.اس لئے اس بارہ میں جو بات میں نے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ سے سنی ہوئی ہے وہ بھی یکی درج کرتا ہوں.مجھے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے یہ بتایا تھا کہ یہ نسخہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کسی اور شخص نے بتایا تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ نسخہ تیار فرمایا.انہی دنوں میں حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ آپ سے ملنے کے لئے آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ نسخہ بہت اچھا ہے آپ کو بھی نہیں کچھ دوائی دیتا ہوں آپ بھی استعمال کر کے دیکھیں حضرت نعلینہ سے تریاق القلوب طبع اول ۲۶۰ تنه الفضل ۲ مئی ۹۳۶م مث کالم :
۲۶۸ اول رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے وہ دوائی لے کر رکھ لی اور یہ استعمال نہیں کی کیونکہ بو بہ طبیب ہونے کے میرا یہ خیال تھا کہ فائدہ تو تشخیص پر مبنی ہوتا ہے جب میں کسی شخص کی بیماری یا اس کی کمزوری کی وجہ مشخص نہ ہو کسی دوائی کو اس کے لئے مفید نہیں کہا جا سکتا.اس لئے میں نے ادب کی وجہ سے دوائی تو رکھ لی مگر استعمال نہ کی.واپس جہتوں بجاتے ہوئے میری اہلیہ بھی ساتھ تھیں ہم راستہ میں ایک رئیس کے پاس ٹھرے اس کے اولاد نہیں ہوتی تھی میری بیوی نے اس کی بیوی سے پوچھا کہ تمہارے اولاد کیوں نہیں ہوتی.اس نے کہا اولاد کیا ہوتی ہے میرے خاوند میں تو بعض مردانہ کمزوریاں پائی جاتی ہیں آپ ہی حکیم صاحب سے کہیں کہ وہ کوئی دوائی دیں.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب میری بیوی نے مجھ سے یہ ذکر کیا تو چونکہ ہم مسافرت میں تھے اور تو کوئی دوائی تھی نہیں ہیں نے وہی گولیاں زرجام عشق اس کو دیدیں.ایک دو دن کے استعمال سے اسے بے نظیر فائدہ ہوا جس کا نتیجہ بعد میں معلوم ہوا کہ اس کے اولاد بھی ہوگئی.جب ہم چلنے لگے تو اس کی بیوی نے میری بیوی کو یہ کہ کرکہ آپ نے تو ہمارا اجڑا گھر بسا دیا ہے اپنے سونے کے کڑاہے اتار کو تحفہ کے طور پر دے دیئے اور مجھے بھی اُس رئیسں نے بہت سی رقم اور دوسری چیزیں تحفہ میں دیں تب میرے دل میں خیال آیا کہ خدا تعالیٰ کے بندوں کی کوئی بات بھی حکمت سے خالی نہیں ہوتی.میں نے تو سمجھا تھا کہ یونسی دوستانہ رنگ میں حضرت مسیح موعود عليه الصلوۃ والسلام نے گولیاں مجھے دے دی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے اُن سے یہ گولیاں اس لئے دلوائی تھیں کہ وہ میرے کام آنے والی تھیں اور مجھے اُن سے بہت فائدہ پہنچنے والا تھا.یہ روایت میں نے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ سے سنی ہے اور یکس سمجھتا ہوں کہ یہ روایت بھی ہماری تاریخ میں محفوظ ہو جانی چاہیے.اس روایت کی تفصیلات سے مجھ پر یہ اثر ہے کہ یہ زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے کیونکہ عظیم درایت میں یہ قاعدہ بیان کیا گیا ہے کہ تفصیلی روایت مجمل روایت کی شارح ہوتی ہے.ممکن ہے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے مختصراً یہ فرمایا ہو کہ ہم نے یہ گولیاں ایک رئیس کو دیں تو اس کو فائدہ ہوا.اور اتنا حصہ روایت کا اوپر والی روایت کے خلاف نہیں بلکہ اس کے عین مطابق ہے اور سننے والے نے دوسرے ذرائع سے یہ بات معلوم کر کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام بھی نسخہ استعمال فرماتے تھے یہ خیال کر لیا کہ وہ رئیس والا واقعہ پہلے کا ہے اور حضرت سیے مولو علیہ الصلوۃ و السلام کے اس نسخہ کے استعمال کرنے کا واقعہ بعد کا ہے اور اس طرح روایت
۲۹ کی شکل بدل دی یا سال حضر میں صلح موعود کا ایک ارشاد خاص ۱۱۳ احسان جون کو حضرت صلی موعود رضی الله عنه مصلح نے ایک خطبہ جمعہ کے ذریعہ ایک بار پھر جماعت احمدیہ کو عالمگیر اسلامی نظام کے قیام سے تعلق یہ خصوصی ہدایت فرمائی کروہ تبلیغ کے ادای احمدیت کے روحانی غلبہ اور فتح کی سرگرمیوں کو تیز تر کر دیں تا جلد سے جلد صحیح اسلامی نظام کا دنیا بھر یں نفاذ ہو سکے چنانچہ فرمایا :- یہ امرظاہر ہے کہ جب بھی کبھی کسی مامور کی جماعت کو خدا تعالیٰ علیہ دیا کرتا ہے تو پہلے وہ افراد پیدا یا کرتا ہے تو پھر غلیہ دیا کرتا ہے.حضرت موسی علیہ السلام کے وقت میں بھی ایسا ہوا.حضرت عیسی کے وقت میں بھی ایسا ہوا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں بھی ایسا ہوں اور اب بھی ایسا ہی ہوگا یہ کبھی نہیں ہوگا کہ خدا تعالی لاکھ دولاکھ افراد کو دنیا پر غالب کر دے وہ پہلے لاکھ دو لاکھ کو دس نہیں کروڑ بنائے گا اور پھر انہیں غلبہ بخشے گا.اور یا اگر ہمیں خدا تعالیٰ نے فوری طور پر ترقی دی تو پھر کسی ایسے ملک میں جس کی آبادی پانچ چھ لاکھ کی ہو دو تین لاکھ آدمی اس جماعت میں داخل کرے گا اور اس جگہ پر احمدیت کو غلبہ عطا کرے گا اور پھر ایک سے دو امر ہے اور دوسرے سے تیسر ے ملک پیر غلبہ عطا کرتا جائے گا لیکن ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کہ خدا تعالیٰ افراد میں کثرت کے بغیر کسی جماعت کو پہلا غلبہ عطا کرے اگر ہمارے افراد کی زیادتی نہیں تو ہم دنیا میں صحیح جمہوریت کو قائم نہیں کر سکتے.اسلام جبر کو جائز نہیں سمجھتا اگر ہم تھوڑی تعداد کے ذریعہ دنیا میں حکومت کو قائم کریں گے اور اسلامی نظام کو دنیا میں جاری کریں گے تو یہ ظلم ہوگا اور اسلام ظلم کی اجازت نہیں دیتا اور اسلام کی بناوٹ ہی اس قسم کی ہے کہ و صحیح جمہوریت کو قائم کرتا ہے ا سکے ا چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ امام حضرت مصلح موعود کا ایک شخص مگر معارف نوٹ میدان دی اس سال کوشن میں حصرت لندن امیرالمومنین کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضور نے انہیں لندن مشن سے متعلق بعض اہم ہدایات دینے کے علاوہ مندرجہ ذیل الفاظ بھی ان کی نوٹ ٹیک میں تحریمہ فرمائے.یہ الفاظ حضور نے نا سازی طبع له الفضل ۳ بر می من له الفضل در جولائی ۱۹۵ مٹ
کے باعث حضرت سیدہ اقم متین صاحبہ منظله العالی سے کھوائے تھے اور نیچے اپنے دستخط ثبت فرما دیے تھے.اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم : نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود هو الذ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ اصر کتنے بدقسمت ہیں وہ لوگ جن کے مکان سونے کی کانوں پر بنے ہوئے تھے لیکن ان سونے کی کانوں سے فائدہ غیر ملکی لوگوں نے اٹھایا مگر ان سے بھی زیادہ بد قسمت ہیں وہ لوگ جو تعلق باللہ کی سرنگ پر حیران بیٹھے ہیں غیر قومیں آئیں گی اور اس سرنگ کے ذریعے سے خدا تعالی تک پہنچیں گی، بعض انسان کتنا بد تمت ہوتا ہے " مرزا محمود احمد کام سے پریس احراری فتنہ نے جہاں عوامی فضا کو بہت مسموم اور جماعت احمدی اور مغربی پاکستان پری زارا اور کیا ان غریب پاکستان کاشت ولی پریس زہر آلو و وہاں محب وطن بھی آئی کے اثرات کی لپیٹ میں آگیا تاہم معض اخبار گا ہے گا ہے حق و انصاف کی خفیف سی آواز بھی بلند کرتے رہے.اس سلسلہ میں پنجاب کے روزنامہ آفاق“ اور پشاور کے ہفت روزہ تنظیم کے نوٹ یہاں درج کئے جاتے ہیں تا اُس دور کے غیر جانبدار اور سنجیدہ صحافت کا نقطہ نگاہ بھی سامنے آ جائے.(1) اخبار آفاق" (لاہور) نے 14 جولائی 19 مہ کی اشاعت میں پروفیسر محمد سرور صاحب کا حسب ذیل مضمون شائع کیا :- ہمارا یہ اصرار کہ مملکت پاکستان کا دستوری اساس جمہوری ہو اور پاکستان دستور ساز اسمبلی کی منظور کردہ قرار داد مقاصد کے الفاظ میں مملکت تمام حقوق و اختیارات کو عوام کے منتخب کر وہ نمائندوں کے ذریعے کام میں لائے....(کیونکہ) خدا نے اختیارات سوائے جمہور کے کسی اور کو تفویض نہیں کئے ہیں اور اس کا فیصلہ خود ہمہور له الفضل ۱۳ جولائی ۱۹۵۰ ص۳ I |
کے سپرد ہے کہ اس اقتدار کو کن لوگوں کے ذریعے استعمال کیا بجائے " اور یہ اس لئے جیسا کہ اس قرار داد مقاصد میں وضاحت کر دی گئی ہے.ہے جمہور ہی اختیارات کی امانت کے حامل ہیں اور انہی کو اختیارات کو استعمال کرنے کا مجاز ٹھرایا گیا محض پاکستان کے عوام کی بہبودی کے پیش نظر ہے اور چونکہ ان عوام کی غالب اکثریت مسلمان ہے اس لئے جو نظام حکومت ان کی بہبودی کا ضامن ہوگا اور بہبودی سے ہماری مراد صرف پیٹ پالنے کی آسٹو گی نہیں بلکہ اُن کی معنوی اور روحانی فلاح بھی ہے اُت غیر اسلامی کہنا صحیح نہیں.ہمارے نزدیک حکومت کے نظم ونسق کو جمہور کے سامنے جواب دہ ماننا اور اسے جمہور کے تاریخ بھنا اسلام کے منافی نہیں اور اسی کا نام سیاسی زبان میں جمہوریت ہے اور پھر جب ہم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ پاکستان کی حکومت ندایی حکومت نہ ہو تو مذہب سے ہماری مراد اصلا مذہب نہیں ہوتا جو کہ انسانیت کا جوہر ہے اور میں کے بغیر انسان انسان نہیں بلکہ حیوان ہو جاتا ہے.در اصل مذہبی حکومت سے ہمارا مطلب کسی مذہبی طبقہ کی حکومت ہے اور اسی کے ہم خلاف ہیں اور اسے اس زمانہ میں انسانیت کے لئے سب سے بڑا روگ سمجھتے ہیں.مثال کے طور پر ہم نہیں چاہتے کہ پاکستان میں احمدی فرقے کی حکومت ہو، نہ ہم اس کے روادار ہیں کہ شیعیت پاکستان کا سرکاری مذہب ہو.اسی طرح جماعت اسلامی اسلامی نظام کی جو تعبیر کرتی ہے وہ بیثیت ایک مذہبی فرقے کے اُس کی تعبیر ہے اُسے اسلام کا نام دیا اور اسلام اور اس کے پیش کردہ نظام کو مترادف سمجھنا صحیح نہیں.یعنی جماعت اسلامی کا کہنا ہے کہ اسلام جاگیر داری کا مخالف نہیں یا یہ کہ ہماری حکومت میں ذمی یعنی غیر مسلم کو ووٹ کا حق نہیں ہو گا.اسی طرح وہ سمجھتی ہے کہ اگر کوئی غیر مسلم مسلمان ہو جائے تو بہت اچھا لیکن اگر ہماری حکومت میں کوئی مسلمان مرتد ہو گا اور یاد رہے کہ مرتد کی تعریف وہی ہوگی جو یہ جماعت کرے گی ) تو اسے قتل کر دیا جائے گا.اس طرح آج اس زمانے میں جماعت اسلامی کا غلام اور لونڈی بنانے کی اجازت دینا اور اسے اسلامی نظام سمجھنا یہ سب باتیں مسلمانوں کی ایک مخصوص مذہبی جماعت کی فقہی تعبیریں ہیں اور انہیں پاکستان کا دستوری اساس نہیں بنایا جا سکتا.اس کو ہم اصطلاحاً مذہبی
۲۷۲ حکومت کہیں گے.لیکن اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ صاحب ! اسلام دشمن سے بھی انصاف کا حکم دیتا ہے اور تقویٰ اور الصبات اُس کے نزدیک ہم معنی ہیں.وہ انسان اور انسان میں کسی تفریق کا روادار ہیں.نیز اس کا حکم ہے کہ اپنے غیر مسلم ہمسائے تک کو بھائی سمجھو اور ایسا نہ ہو کہ خود تو پیٹ بھر لو ور سے بھوکا چھوڑ دو.اور پھر اسلام مشورے کو حکومت کا انساس، مانتا ہے اور اس کا منشاء یہ ہے کہ امیر کوئی کام جمہور سے پوچھے بغیرنہ کرے اور وہ اپنے آپ کو اُن کے سامنے مسئول سمجھے اور یہ کہ امیر کو منتخب اور معزول کرنے کا حق جمہور کو ہے اور وہ ظلم اور معاہد شکنی سے روکتا ہے وغیرہ وغیرہ.اس لئے ضروری ہے کہ دستور پاکستان کا اساس اسلام کے یہ عمومی اور عالمگیر اصول ہوں ہمارے خیال میں کوئی شخص بھی اسلام کے ان عمومی اصولوں کو اساں دستور بنانے پر معترض نہیں ہوگا.نہ کشتی، نہ شیعہ ، نہ احمدی، نہ ہندو، نہ عیسائی اور نہ پارسی، اور ان عمومی حضرونوں پر جو حکومت بنے گی اُسے سب پسند کریں گے.وہ بھی جو اُس کے ماتحت رہتے ہوں گے اور وہ بھی جو اُس سے ہزاروں میل دور کے ملک کے باشندے ہوں گے....دوسرے یہ کہ ہم تمام پاکستانیوں کو ایک قوم مانتے ہیں یعنی اُن سب کو جو اس سر زمین کے باشندے ہیں یا جنہوں نے اب اس کو اپنا وطن بنا لیا ہے ہم ان میں سے کسی قسم کی سیاسی تفریق کے حامی نہیں.یہاں کا ایک ہندو بھی اُتنا ہی پاکستانی ہے جتنا ایک مسلمان.اگر ایک ہند و عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو جائے تو وہ ہماری پارلیمنٹ میں اسی طرح بیٹھنے کا حقدار ہے جس طرح ایک مسلمان اور اُس کو ترقی کے تمام مواقع ملنے چاہئیں کہ میں طرح کہ مسلمانوں کو یعنی قانونا ہندو اور مسلمان کی تمیز نہیں ہونی چاہیئے.اسی طرح ہمارے نزدیک شیعہ اور سنی اور مسلمان اور احمدی میں سیاسی تفریق بھی صحیح نہیں اور گو ہم ذاتی طور پر جماعت احرار کے بزرگوں کے بے حد نیازمند ہیں لیکن احمدیوں کو اقلیت قرار دینے کی جدوجہد جو انہوں نے شروع کر رکھی ہے اس سے کبھی ہمیں اتفاق نہیں رہا کیونکہ ایک جمہوری ملک میں سیاسی اکثریتیں اور اقلیتیں نہیں ہوتیں.ہم انور پاشا مرحوم کی مشہور تر کی انجمن اتحاد و ترقی کے اس مشہور فقرے کے کہ " سب کی ایک سی ذمہ داریاں اور ایک سے حقوق" کے قائل ہیں اور یہی جمہوری نظام کا اصل اصول ہے.اب اگر پاکستان میں کسی ایک مذہبی فرقے کی |
۲۷۳ حکومت مان لی جاتی ہے تو اس سے پاکستان کی قومی وحدت پارہ پارہ ہو جائے گی اور شیعہ اشستی اور مسلمان اور احمدی کا جھگڑا ہماری زندگی کا معمول ہو جائے گا.اس لئے جہاں تک حکومت کا تعلق ہے جمهوری نظام میں کسی کے مذہبی اعتقادات سے بحث نہیں کی جاتی.اگر منڈل مملکت کا وفادار ہے تو وہ ہزار ایسے مسلمانوں سے جو مملکت کے وفادار نہیں اچھا ہے.اسی طرح اگر ظفر اللہ خاں اپنے فرائض ایمان داری سے سر انجام دیتا ہے تو اسے احمدی بنا کر مطعون کرنا قانوناً غلط قرار دینا چاہیئے ہے (۲) اخبار تنظیم پشاور نے لکھا: کون نہیں جانتا کہ امام جماعت احمدیہ مرزا بشیر الدین محمو د نے بنفس نفیس حضرت قائد اعظم کے حضور میں پہنچ کر اپنے ور اپنی جماعت کے حلقہ و ناداری کا نہ صرف یقین و لا یا بلکہ پاکستان کے حصول میں مسلمانوں کی دوسری جماعتوں سے بڑھ کہ من حیث الجماعت مالی و جانی قربانیان پیشیں کیں اور نا قابل تلافی نقصانات برداشت کئے اور حضرت میرزا بشیر محمود نے اپنی جماعت کو مسلمانوں کے سواد اعظم سے وانگی کے خطبات و بیانات ارشاد فرمائے کشمیر کے سلسلہ میں آپ کی جد وجہد عیاں ہے.آپ کے والد کے ایک بہت بڑے چہیتے مریدیخان سر محمد ظفر اللہ خان ابھی تک پاکستان کے ایک بہت بڑے منصب پر فائز ہیں اور قلمدان وزارت خارجہ سنبھالے ہوئے ہیں.آپ نے جس قابلیت سے مجلس اقوام میں پاکستان، سیدر آباد دکن او کشمیر کے مسائل پیش کئے ہیں وہ آتی دنیا کے لئے مشعل راہ اور تاریخ میں سنہری حروف سے نقش کرنے کے قابل ہیں ہم خود قادیانی نہیں اور نہ ہمیں پیر پرستی ہے کوئی واسطہ ہے.ہمیں یہ معلوم ہے کہ اگر صدیق اکبر، عمر فاروق عثمان بختی اور علی المرتضی محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لاتے تو ان کو بھی اسلام میں کوئی وقعت نہ ہوتی صحابہ کرام اور اُن کے نقش قدم پر چلنے والے مسلمانوں کو جو عورت نصیب ہوتی ہے وہ حضرت عمر کے الفاظ میں صرف مسلمان ہونے کی صورت میں اسلام نے ہی بخشی ہے.ہم جماعت الحمدیہ کو خواہ وہ لاہوری ہو یا قادیانی اسلامی فرقوں کی ایک کڑی تصور کرتے ہیں اور یورپ و جرمن ہیں اس جماعت کی دونوں شاخوں کی سرگرمی کو بنظر تحسین دیکھتے ہیں ہمیں بعض تبلیغی حلقوں اور سلم معاصرین سے شکایت ہے کہ وہ اس جماعت کے بعض اراکین پر جاسوسی اور اس قسم کے کئی اور الزامات تراشتے ہیں.ہمیں پاکستان کے لئے مرزا بشیر الدین کو جس کو ہم مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کا فرزند ہونے کے ه آفاق" لاہور ۱۶ جولائی 192 مرحث بعنوان" آخر جمہوری ریاست ہی کیوں ؟
۲۷۴ ساتھ ساتھ مغل خون کا ایک مجسمہ سمجھتے ہیں.اور ہمیں یہ یقین ہے کہ ان کی غیرت و حمیت کا یہ تقاضا ہو گا جیسا کہ اس نے بارہا اظہار بھی کیا ہے کہ ہندوستان و پاکستان غلامی کی لعنت سے آزاد ہو گئے ہیں...مسلے درد مند دل مقتدر کشمیری مسلمانوں کی ایک کشمیری رائے شماری کی بنا پر فیصلہ کرنے کا اصول یو این او ، بھارت اور پاکستان تینوں احراری شورش کے خلاف احتجاج تسلیم کرنے کا اعلان کر چکے تھے اور یہ خیال ہو چلا تھا کہ وادی کشمیر کے باشندے آزادانہ انتخاب کے ذریعہ اپنا فیصلہ پاکستان کے حق میں دیں گے کہ احرار میدان مخالفت میں آگئے اور احمدیوں کو غیر مسلم قرار دئے جانے کا مطالبہ کرنے لگے.چونکہ کشمیر کے اُس مرکزی حصہ میں جو انتخاب کے معاملہ میں فیصلہ کن حیثیت اختیار کر سکتا تھا احمدی بھاری تعداد میں موجود تھے، اور موجود ہیں اس لئے یہ خطرہ پیدا ہوگیا کہ اگر احرار اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب ہوگئے اور احمدیوں و غیرمسلم قرار دے دیاگیا تو کشمیری مسلمانوں کا اتناب غیرمسلم آبادی کے مقابل کم رہ جائے گا اور بھارت انتخاب کے مسلہ جمہوری طریق سے پورے کشمیر کو اپنے ملک کا اٹوٹ انگ بنانے میں کامیاب ہو جائے گا.اس تشویشناک صورت حال نے دردمند دل رکھنے والے کشمیری مسلمانوں کو لرزا دیا اور اُن کی طرف سے حسب ذیل اشتہار ملک بھر میں تقسیم کیا گیا.اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيمِ بي الله الرحمن الرحيم خدا کے لئے کشمیر اور کشمیر لوں پرسم کریں! تمام مسلمانان پاکستان کی خدمت میں عموماً اور اہالی صوبہ سرسید و آزاد علاقہ کی خدمت میں خصوصاً ہم ساکنان کشمیر کی طرف سے عرض ہے کہ ہم لوگ پانچ سال سے متواتر مصائب اور ظالم کا تختہ مشق بن رہے ہیں.ساری آبادی کشمیر کے مسلمانوں کی کوئی بہنیں تیس لاکھ ہے اس میں سے قریباً ایک لاکھ سے زائد مارا گیا ہے یعنی پانچے فیصدی سے بھی زیادہ اور بعض کی جائدادیں منقولہ ہوں یا غیرمنقولہ دشمنوں کے ہاتھوں میں ہیں اور باقی غلامی کی زندگی بسر کر رہتے ہیں.نہ بجائے ماندن ہے نہ پائے رشتوں نے اے نظام پیشاور ۲۰ جولائی منشائد ؟
۲۷۵ پنجاب اور دیگر علاقوں سے جو مسلمان مغربی یا مشرقی پاکستان میں گئے ہیں انہیں غیر مسلموں کی متروکہ جائدادوں میں سے زمین ، مکان ، دوکانیں لی ہیں اور ان میں سے نوے فیصدی آباد ہو چکے ہیں اور بعض تو پہلے سے اچھی حالت میں ہو گئے ہیں.بڑے بڑے کارخانوں کے مالک بن چکے ہیں.اس میں کوئی شک نہیں کہ وطن اور علاقہ کا چھوڑنا بھی بہت قربانی ہے اور ابتدائی دنوں میں جو ان لوگوں نے جانی قربانیاں پیش کیں، وہ بھی بہت بڑی قیمت رکھتی ہیں ہم ان کی قدر کرتے ہیں لیکن ہم نے صرف مقابلہ کے لئے لکھا ہے کہ ان میں سے اکثر نے جائداد کے مقابلہ پر جائداد اور تجارت کے مقابلہ میں تجارت اور کارخانہ کے مقابلہ میں کارخانہ حاصل کر لیا ہے لیکن وہماری قربانیاں بھی اسی رنگ کی ہیں مگر ہم نے حاصل کچھ نہیں کیا ہم اب تک بھی مہاجر ہیں اور خدا معلوم کب تک نہا جھہ رہیں گے.کشمیر ویلی اس وقت تک ساری کی ساری شیخ عبد اللہ کی حکومت میں ہے اور ہمارا وطن اور ہماری جائدا دیں دشمن کے قبضہ میں ہیں ہم صرف اس امید پر جی رہے ہیں کہ خدا تعالیٰ اپنے فضل سے کشمیر پاکستان سے ملا دے تو ہم جاکر چھتوں کے نیچے سوئیں، اپنی تجارتیں اور اپنی زمینیں سنبھالیں اور اپنے بیوی بچوں سے ملیں جو ایک سیاسی دیوار کے اُس طرف ہماری یاد میں ظالموں کی ٹھوکریں کھا کر جی رہے ہیں تین طرح ہم انکے ملنے کی اُمید میں دیوار کی دوسری طرف خدا کے فضل اور اس کے بعد اس کے اُن بناروں کی کوششوں کے نتیجہ پر آس لگائے بیٹھے ہیں جنہوں نے اسلام کے رشتہ کا احترام کر کے ہمیں غلامی سے آزاد کرانے کا بیڑا اٹھایا ہے خصوصاً صوبہ سرحد اور آزا د قبائل علاقہ کے لوگ جنہوں نے عملاً جنگ کشمیر میں حصہ لے کر سینکڑوں ہزاروں شہداء کے خون سے ہماری وادی کو ہمیشہ کے لئے وادئی شہداء بنا دیا ہے اور کشمیر اور سرحد اور آزاد علاقہ کے درمیان محبت اور پیار کی ایک مضبوط گرہ باندھ دی ہے.مگر جہاں ہم آپ لوگوں کی قربانیوں اور ہمدردیوں کے ممنون ہیں وہاں ہم آپ سے یہ بھی امید کرتے ہیں کہ آپ اپنے نیک کام کو انجام تک پہنچائیں اور کسی غلطی کے مرتکب ہو کر اور کسی غلطی کرنے والے کا ساتھ دے کر اپنی ساری کوشش کو خاک میں نہ ملا دیں.برادران ! آپ جانتے ہیں کہ گذشتہ سالوں میں ہمیں یہی امید دلائی جاتی رہی ہے کہ کشمیرمیں سے اشاری ہو کر اس کے مطابق فیصلہ ہوگا اور کشمیر آزاد بی حاصل کر کے آرام کا سانس لے گا ایک ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ دنوں سے ہندوستانی گورنمنٹ کی شہ پر وہ لوگ جو پہلے کانگریس کا بایاں بازو تھے ایسے سوالات پیدا
کر رہے ہیں جو کشمیر کی رائے شماری کو سخت نقصان پہنچانے والے ہوں گے.مثلاً اس وقت یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ مرزائیوں کو ایک اقلیت قرار دیا جائے.اسی طرح مرد بھی.جہاں تک مذہب کا سوال ہے ہم خود مرزائی نہیں ہیں اور اہلسنت و دیگر مختلف فرقوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ہم میں سے بعض مرزائیوں کی سخت مخالفت کرتے رہے ہیں اور اب تک کرتے ہیں مگر یہاں تک کشمیر کے مسئلہ کا سوال ہے ہم اس فرقه دارانہ اختلاف کو کشمیر کی آزادی میں رخنہ انداز ہونے دینا کسی صورت میں پسند نہیں کرتے.آپ لوگ جانتے ہیں کہ ہندوستانی حکومت کچھ عرصہ سے مغربی حکومتوں پر یہ زور دے رہی ہے کہ جن جن علاقوں میں جس فریق کی اکثریت ہو ائی علاقوں کو اپنے ہمدرد لوگوں سے ملا دیا جائے.وہ کہتے ہیں کہ پاکستان اس اصل کو پنجاب اور بنگال کے حق میں مان چکا ہے کیوں نہ وہی اصل کشمیر کے تعلق بھی تعلیم کیا جائے کیونکہ پاکستان ایک دفعہ اس اصل کو تسلیم کر چکا ہے.اس دلیل کا اثر مغربی دماغ پر بہت پڑھتا ہے اور قریباً ہر یو این او کے نمائندے نے زور لگایا ہے کہ اس پر فیصلہ ہو جائے تو اچھا ہے اور مغربی اخبارات خصوصا امریکہ اور انگلستان کے اخبارات اس نظریہ کی تائید میں مضامین بھی لکھتے رہے ہیں.ان حالات یہ ہمیں بہت ہوشیار رہنا چاہئیے کہ کشمیر کا کوئی حصہ ایسا نہ ہو جہاں کی رائے شماری مشکوک ہو جائے.اگر ایسا ہوا تو کشمیر کا مستقبل با الکل تاریک ہو جائے گا اور کشمیر کا مسلمان زندہ درگور ہو جائے گا.اس حقیقت کو مد نظر رکھ کر اگر آپ کشمیر کے نقشہ کو دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ جیتوں کے ہندو علام کے ساتھ اگر انت ناگ (اسلام آباد) کا علاقہ مل جائے تو سرینگر کا تعلق جموں سے ہو جاتا ہے کیونکہ ایک طرف اننت ناگ سری نگر کو راجوری اور اودھم پور سے ملاتا ہے تو دوسری طرف جموں سرینگر روڈ انت ناگ میں سے ہو کر گزرتی ہے لیکن اننت ناگ پاکستان سے ملے تو سری نگر لا زگا پاکستان سے ملنے پر مجبور ہوتا ہے کیونکہ کوئی باقاعدہ راستہ اسے ضلع اننت ناگ سے باہر حمتوں سے نہیں ملاتا پیس اننت ناگ ضلع کی حیثیت رائے شماری کے لحاظ سے نہایت اہمیت رکھتی ہے.ہم لوگ جو اس علاقہ کے رہنے والے ہیں جانتے ہیں کہ اس علاقہ میں مرزائیوں کا کافی زور ہے اور اچھے زمیندار اور تاجر اور بعض سالم گاؤں پاس پاس احمدیوں کے ہیں.گذشتہ سے پیوستہ الیکشن میں شیخ عبد اللہ کی پارٹی کے خلاف احمدی ہی کو نسل کے لئے کھڑے ہوئے تھے مگر گو وہ شیخ عبداللہ
کی پارٹی، ڈوگروں اور مولویوں کے مشترکہ محاذ کی وجہ سے جیت نہ سکے مگر ان تین طاقتوں کے نمائندے سے احمدی نمائندے کے ووٹ صرف دو سر کم تھے.اور سب لوگ جانتے ہیں کہ شیخ عبداللہ نے اتنا خطرہ محسوس کیا تھا کہ سارے کشمیر کو چھوڑ کر وہ اس علاقہ میں آگئے تھے اور اپنی ساری طاقت احمدیوں کو شکست دینے میں لگا دی تھی.اس علاقہ میں اکثر ڈوگرہ رؤساء کی جائدادیں ہیں اور غریب مسلمان ان سے دبے ہوئے ہیں.اُن کے مقابل پر احمدی ہی کھڑے ہوتے ہیں کیونکہ وہ زمیندار اور تاجر اور منتظم ہیں.انکی مدد سے ہی ہندو ڈوگروں کا مقابلہ ہوتا ہے.چنانچہ رشی نگر کا مشہور مقدمہ اس کا گواہ ہے کہ ڈوگرہ رئیس کا مقابلہ احمدی جماعت نے مل کر کیا.اگر احمدی جماعت بھی ان لوگوں سے جاملے تو مسلمانوں کی طاقت اس درمیانی علاقہ میں بہت کمزور ہو جاتی ہے اور سری نگر اکثر شرف سے اسلامی علاقوں سے کٹ جاتا ہے.ن حالات میں ہم پوچھتے ہیں کیا احد لوں کے خلاف موجودہ شورش کشمیر کے مفاد میں ہوگی؟ ایک قوم سے آپ کتنی ہی اُمید رکھیں مگر اسے کا فراور مرتد اور اچھوت قرار دیے کہ اُس سے یہ خواہش رکھنی کہ وہ آپ کے حق میں ووٹ دیں کتنی خلات عقل بات ہے.آخر جب ایک شخص دوسرے سے ملتا ہے تو یہ مجھ کر ملتا ہے کہ دوسرا شخص اُس کا دوست ہے.اگر دوسرا اپنی دشمنی کا ثبوت دے تو وہ اُسے ووٹ کیوں دے گا اور دشمنی ظاہر کرنے والا اُس سے امید ہی کیوں رکھے گا پس گردنی دنی اور اقلیت قرار دے کر اور اُن کے خلاف شہروں میں بلوے کر کے بعض آدمیوں کو قتل کر کے یہ امید کرتا کہ کشمیر کا احمدی شوق سے آگے بڑھے گا اور کہے گا کہ میں پاکستان جانا چاہتا ہوں کہانتک عقل کے مطابق ہے؟ اور احمدیوں کو جو بڑی تعداد میں اس علاقہ میں پائے جاتے ہیں اور جنہوں نے پہلے اپنی شیشی میں ڈوگرہ حکومت کے دانت کھٹے کر دیئے تھے ڈرا دینا اور پاکستان سے متنفر کر دینا تا کہ وہ ڈوگروں اور شیخ عبد اللہ کی جماعت سے مل کر پاکستان سے الگ رہنے کا ووٹ دیں کشمیر کے مستقبل کے لئے کس قدر خطر ناک ہے.یہ صاف بات ہے کہ جو لوگ ایسا کر رہے ہیں انہیں ہندوستانی حکومت سے مد دیل رہی ہے اور وہ کشمیر کی رائے شماری کو ناکام بنانے کے لئے ایسا کر رہے ہیں مگر ہم کو چھتے ہیں کہ سرحد کا وہ فیتو مسلمان جس کے خون سے ہماری وادیاں چمک رہی ہیں کیا اپنی قربانی کو اس طرح صنائع ہونے دے گا ؟ اگر رائے شماری سے فیصلہ ہوتا ہے اور اگر رائے شماری
۲۷۸ کو کامیاب بنانا ہے تو ہمیں احمدیوں کے خلاف شور کر کے انہیں ڈرانے سے اجتناب کرنا ہوگا ورنہ نتیجہ خطرناک نکلے گا اور اُس وقت ندامت ظاہر کرنے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا اور ہم لوگ ہمیشہ کے لئے مہاجہ ہی بنے رہیں گے.اللہ تعالیٰ اس عذاب سے ہمیں بچائے ہے کا اس اشتہار کے نیچے مندرجہ ذیل کشمیری مسلمانوں کے دستخط ثبت تھے :.(۱) میر عبدالعزیز صاحب بی.اسے آمنہ (جائنٹ سیکریٹری آل جموں وکشمیرمسلم کانفرنس) حال را ولپنڈی (۲) مرزا احمد بیگ نون در بر مجلس عاملہ کمیٹی آف ایکشن و جنرل کونسل آل جموں و کشمیر سلم کا نفرنس، حال پیشاور (۳) تاج الدین مالک تاج محل ہوا ، میرا کا امریکی مالی مقیم اکبری گیٹ لاہو (۲) خواجہ علی محمد بابا بی.اے ایل ایل بی ایڈووکیٹ پریذیڈنٹ ضلع مسلم کا نفرنس بارہ مولا حال مظفر آباد (۵) خواجہ غلام مصطفے ملک ایم ایل اے کشمیر تحصیل اننت ناگ حال مظفر آباد (۲) سیدمحمد مقبول شاہ شناگی سپرنٹنڈنٹ دفتر آل جموں و کشمیرمسلم کا نفرنس مرکز یہ راولپنڈی (۷) خواجہ غلام قادر سوپوری ممبر جنرل کونسل آل جموں و کشمیر کا نفرنس حال مظفر آباد (۸) خواجہ غلام احمد کرنائی آن سوپور میبر منزل کونسل آل جموں وکشمیر مسلم کا نفرنس حال مظفر آباد (۹) منظور الحق ڈار بمبوری فرزند خواجہ غلام محمد صاحب خادم مرحوم مبر جنرل کونسل آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس حال را ولپنڈی (۱) ایم.اسے حفیظ بھی اسے ایل ایل بی ایڈووکیٹ سرینگر جنرل سیکہ ٹرم مسلم لیگ سرینگر کشمیر حال ایبٹ آباد (۱۱) خواجہ بشیر احمد فرزند حاجی مامہ کلو صاحب جنرل فروٹ مرچنٹ نشاط سرینگر حال مری (۱۲) عبد الغنی خان سابق نمبر دار ملیال تحصیل ہندواڑہ ریفیوجی اسسٹنٹ حال مری (۱۳) وزیر غلام مهدی ایم.اے.ایل ایل بی آف اسکرد و حال راولپنڈی (۱۴) غلام حسن ڈار مخدومی سابق سیکرٹری کشمیر پریس رپورٹر ز ساکن بیچ بیاره کشمیر حال مری (۱۵) ڈاکٹر سجاد حسن بٹ ڈینٹس سابق چیف آرگنائزیر انجمن مهاجرین کشمیر حال مظفر آباد - (۱۷) خواجہ غلام محمد کارسو پوری ممبر مجلس عاملہ آل جموں و کشمیر سلیم کا نفر نس حال مری (۱۷) غلام مهدی استانی مرور کنگ کمیٹی آئل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس حال مری (۱۸) عبد الرحمن بٹ صدر ڈسٹرکٹ ہزارہ مسلم کا نفرنس حال مقیم ایبٹ آباد (۱۹) خواجہ عبدالرحمن جنرل سیکرٹری مسلم کا نفرنس ہزارہ حال ایبٹ آباد (۲۰) (مولوی) عبدالعزیزہ مالک کشمیر کلاتھ ہاؤس ایبٹ آباد (۲۱) محمد شریف قریشی پیلیٹی سیکر ٹر ی مسلم کا نفرنس ہزارہ (۲۲) ماسٹر عبدالرحمن قریشی را جوڑی حال ایبٹ آباد ضلع ہزارہ (۲۳) خوا به علائم سول i
۲۷۹ وانی آن بارہ مولہ میجر جنرل کونسل آل جموں و کشمیرمسلم کانفرنس حال مظفر آباد (۲۴) سید محمد هدایت الله شاه را جور وی جنرل سیکرٹری انجمن تحفظ سادات کشمیر حال پاکستان (۲۵) پیرزادہ نشتر کا شمیری سابق صدر انجمن درس الاسلام کشمیر پیسٹی سیکرٹری آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس حال مظفر آباد (۲۶) پیرزاده غلام احسن ساکن مرا تحصیل گوله گام شمر حال مقیم مظفر آباد (۲۷) عبدالرزاق ڈار آن بڈگا کشمیرحال مقیم و کیمپ پاکستان (۱۲۸) محمد طیف خان آن گالری شیر حال ایبٹ آباد (۲۹) شیخ عبدالرحمن ساکن اسلام آباد حال مقیم مظفر آباد (۳۰) خواجہ ثناء اللہ میر آن کوره با تحصیل بارہ مولہ حال مقیم پیشاور (۳) منشی حبیب اللہ بٹ چھتہ بلی سرینگر حال مقیم پیشاور (۳۲) رابعہ عطاء اللہ خان برادر را به محمد عنایت الله خان صاحب علاقہ دار پلڈار تحصیل ہندو واڑہ کشمیر (۳۳) سردار مسیح خالی درانی فرزند سردار محمد اکرم خان صاحب وزیر وزارت کشمیر حال مقیم پیشاور (۳۴) سعید احمد خان (ایف ایس سی، سرینگر کشمیری حال مقیم راولپنڈی (۳۵) خواجہ حبیب اللہ ڈار آن بارہ مولہ حال جنرل کلاتھ مرچنٹ پشاور (۳۶) خواجہ علی محمد ھو سرینگر کشمیر حال لیدر مرچنٹ پشاور (۳۷) خواجہ غلام رسول رشی وائس پریزیڈنٹ آزاد کشمیر چمیر آن کامرس حال راولپنڈی (۳۸) محمد مظفر فاضلی ساکن بانڈی پورہ حال مهاجر راولپنڈی (۳۹) شاعر کشمیر خواجہ احمد اللہ غازی سوپوری حال راولپنڈی (۴۰) سردار بشیر احمد خان آف سرینگر فرزند سردار عمراؤ خال صاحب سپرنٹنڈنٹ پولیس کشمیر حال راولپنڈی " ۱۵ تبوک استمبر کو حضرت امیر المؤمنين المصلح الموعود نے امرانین کی ایک ایمانی بات کوبتایاکہ حضرت امیرالمومنین : وہ وقت قریب سے قریب تر آرہا ہے جب دنیوی نقطہ نگاہ سے یا تو احمدیت کو اپنی فوقیت ثابت کر نی ہوگی اور یا اس ہد و جہد میں فنا ہونا پڑے گا اور دینی نقطہ نگاہ سے اور روحانی نقطہ نگاہ سے خدا تعالیٰ کی طرف سے ان تغیرات کے رونما ہونے کا وقت آچکا ہے جو احمدیت کو ایک لمبے عرصہ سے تک کے لئے دنیا میں قائم کر دیں گے اور اس کا غلبہ اس کے دوستوں اور اس کے مخالفوں سے منوالیں گے مگر ان تمام تغیرات کے لئے انسان کی قربانیاں اور انسان کی جد وجہد نہایت ضروری ہوتی ہے.اس حقیقت کو واضح کرنے کے بعد حضرت امیر المومنین نے مخلصین احمدیت کو نصیحت فرمائی کہ :- یہ زندگی صرف چند روزہ ہے.اس دنیا میں نہ میں نے ہمیشہ رہتا ہے نہ آپ نے اگر ہم خدا تعالیٰ
کے نام کو بلند کرنے کے لئے اپنے ہاتھ سے ایک نیک بنیاد قائم کر دیں گے تو ہم اور ہماری نسلیں ہمیشہ کے لئے زندہ ہو جائیں گی لیکن اگر ہم اس نیک بنیاد کو قائم کرنے میں حصہ نہیں لیں گے تو آپ لوگوں کو یا د رکھنا چاہیئے کہ گوروحانی نقطہ نگاہ کے ماتحت ہم کچھ کریں یانہ کریں یہ سلسلہ ہر حال ترقی کرتا چلا جائیگا کیونکہ یہ کسی انسان کا نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا قائم کردہ سلسلہ ہے لیکن دنیوی نقطہ نگاہ کے ماتحت ہم اور ہماری اولادیں ان انعامات سے محروم ہو جائیں گی جو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس سلسلہ کی خدمت کرنے والوں کے لئے مقدرہیں اور جولا زنا ایک دن ملنے والے ہیں.زمین ٹل جائے، آسمان ٹل جائے آخر احمدیت نے دنیا میں قائم ہونا ہے اور یہ خدا تعالیٰ کی ایک اہل تقدیر ہے.اس کی طرف یہ منسوب کرتا کہ اس نے اپنا ایک مامور بھیجا مگر وہ ہار گیا ایک پاگل پن کی بات ہے.اگر خدا ہے اور اگر خدا اپنے نبیوں کو بھیجا رہا ہے اور اگر خدا تعالیٰ نے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کو بھیجا تھاتو ہم اپنے وجودمیں شبہ کر سکتے ہیں ہم اپنے کان، ناک، منہ اور زبان میں شہر کر سکتے ہیں ہم اپنے بیوی بچوں کے وجود میں شبہ کر سکتے ہیں مگر ہم اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ سکتے کہ خدا تعالیٰ کا مامور اور مرسل جس تعلیم کو لے کر آیا ہے وہ یقینا اپنے وقت پر کامیاب ہوگی دشمن اس سے ٹکرائے گا تو پاش پاش ہو جائیگا جس طرح ایک دریا کی زبر دست لہریں چٹان سے ٹکرا کر پیچھے ہٹنے پرمجبور ہوتی ہیں اسی طرح انکی مخالفت ناکام ثابت ہوگی اور یہ سلسلہ عروج حاصل کرتا پہلا جائے گا ہمارا کام صرف اتنا ہے کہ ہم یہ دیکھیں کہ خدا تعالیٰ کی تقدیر سے ہم نے کتنا فائدہ اُٹھایا ہے.لوگ نہ ہونے والی چیزوں کے متعلق اپنا پورا زور صرف کر دیا کرتے ہیں اور ہم تو وہ کام کر رہے ہیں جو یقینا ہونے والا ہے اور جس کی پشت پراللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہے.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں.جس بات کو کہے کہ کروں گا یہ میں ضرور ملتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے اگر خدا تعالیٰ کی بات ٹل جائے تو اس کی خدائی ہی باطل ہو جائے.اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کی باتوں میں فرق یہی یہی ہوتا ہے کہ بندہ بعض دفعہ پورے سامانوں کے ساتھ اُٹھتا ہے اور نا کام ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ جس بات کا فیصلہ کرلئے اس کے پورا ہونے میں کوئی چیز روک نہیں بن سکتی.آپ لوگوں کی خوش قسمتی ہوگی اگر آپ اس کام میں حصہ لے کر آنے والی کامیابی کو قریب کر دیں اور خدا آجائے
۲۸۱ کی بات کو پورا کر کے اس کا ہتھیار بن جائیں کیونکہ وہ شخص جو خدا تعالیٰ کا ہتھیار بن جاتا ہے وہ بابرکت ہو جاتا ہے.حضرت میں موعود علی الصلوۃ والسلام کو خدا تعالی نے لانا فرمایا کہ میں تھے بہت برکتوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.اگر حضرت مسیح موعود کے کپڑے آپ کے جسم سے چھو کر بابرکت ہو گئے تو یہ مجھ لو کہ اگرتم خداتعالی کے ہتھیار بن جاؤ گے تو م میں کتنی برکت پیدا ہو جائے گی یقینا اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے جسم کے ساتھ چھو جانے کی وجہ سے آپ کے کپڑوں کو برکت حاصل ہوگئی تو وہ شخص جو خدا تعالیٰ کا ہتھیار بن کر خود اس کے ہاتھ میں آجائے گا وہ ان کپڑوں سے بہت زیادہ با برکت ہوگا کیونکہ حضرت مسیح موعود کو بھی اگر برکت دی تو خدا تعالیٰ نے دی اور آپ کے کپڑوں کو بھی اگر برکت دی تو خدا تعالیٰ نے دی ہیں یقیناً وہ ان برکتوں کا وارث ہو گا جو دنیا کی بڑی سے بڑی حکومتوں اور طاقتوں میں بھی نہیں پائی جائیں “ لے نوجوانان احمدیت کو قربانیوں کی دوا ا ا ا ا ا ا ا باب ہی منعقد ہوا جس میں حضر کا سالانہ اجتماع ربوہ میں امیر المومنین الصلح الموعود نے خدام کو بہت سی قیمتی ہدایات دیں بالخصوص مذہب کی اس بنیادی روح کی طرف متوجہ فرمایا کہ عقید ے اور قوت متحرکہ کے مجموعے کا نام ایمان ہے عمل کے بغیر محض عقید ہ کوئی نتیجہ پیدا نہیں کر سکتا ہے اس سلسلہ میں انہیں قربانیوں کی پر زور دعوت دیتے ہوئے فرمایا :- یاد رکھو کہ اسلام کی ترقی کا وہ زمانہ تمہیں نصیب ہوا ہے جو پھر کبھی نہیں آئے گا جس طرح یہ درست ہے کہ اسلام جنت اب گرا ہے اتنا کبھی نہیں گرے گا اسی طرح یہ بھی یقینی امر ہے کہ جس شان سے اسلام اب پڑھنے کا اتنا آئندہ کبھی نہیں بڑھے گا اور تمہیں خدا نے قربانی کرنے کا جو موقع دیا ہے وہ آئندہ کسی کو میسر نہ آئے گا.آج زمین و آسمان کا خدا ایک غلام کی حیثیت سے دنیا کی منڈیوں میں پک رہا ہے اور تمہاری چھوٹی سے چھوٹی قیمت بھی اسے خرید سکتی ہے.خدا کی خدائی انسانی ذہن کے مطابق ہوتی ہے.جب یکی نے خدا کو غلام کہا تو میرا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہمارا واحد اور احمد خدا نعوذ باللہ غلام ہے بلکہ میرا مطلب یہ ہے کہ آج دنیا کی نگاہ میں اس کی یہی حیثیت ہے اور آج تمہی ہو جنہوں نے اپنے بندا کی عزت اور عظمت دنیا میں دوبارہ قائم کرنی ہے.جس قربانی کیلئے الفضل ۲۹ تبوک (ستمبر) من له الفضل ۲۵ راخه : (اکتوبر) ۱۳۲۹ ص۲ ے
۲۸۲ تمہیں بلایا جا رہا ہے وہ پہنچ ہے اس اجر کے مقابلہ میں جو اس کے بدلہ میں تمہارے لئے مقدر ہے.تمہیں خدام الاحمدیہ کی طرف سے قربانی کے لئے بلایا جائے گا.تمہیں تحریک جدید کی طرف سے قربانی کے لئے بلایا جائے گا تمہیں صدر انجمن کی طرف سے قربانی کے لئے بلایا جائے گا تمہیں لوکل انجمن کی طرف سے قربانی کے لئے بلایا جائے گا.شاید تمہیں خیال آئے کہ کیوں چاروں طرف سے تمہارے لئے ہی قربانی قربانی کی آواز آرہی ہے مگر یا در رکھو جب زمین میں ہر طرف سے تمہارے لئے قربانی قربانی کی آواز اٹھ رہی ہو گی تو عین اس وقت اس کے بالمقابل آسمان پر ہر طرف سے تمہارے لئے انعام انعام انعام انعام کی آواز اٹھ رہی ہوگی نہیں اس کام کو چھوٹا مت سمجھو بلکہ بڑ سمجھو اور اس کام کی نوعیت اور اہمیت کے مطابق ہی تم قربانی پیش کرو اے جماعت احمدیہ کے عالمگیر اسلامی مشنوں کی تبلیغی سرگرمیاں بیرونی مشنوں کی تبلیغی سرگرمیاں اس سال بھی نمایاں اضافہ کے ساتھ جاری ہیں بعض مشنوں کے چنا ضروری کو الف درج ذیل کئے جاتے ہیں :.جماعت احمدیہ دمشق - نم۲۶ ماه نبوت (نومبر) ۱۳۹۵ کو سیرت النبی کا جائے شام شن - امام نقد کیا جس میں مولوی رشید احمدصاحب چغتائی کے علاوہ شام کی بعض اہم شخصیات نے بھی تقریریں کیں.مشتق کے اخبار الكفاح (۱۶ صفر ) اور القبس ۷۱ار صفر تا ) نے اس جلسہ کی خبر شائع کی.چنانچہ اخبار الكفاح نے لکھا:- الجماعة الاحمدية تحتفل بسيرة النبي اقامت الجماعة الاحمدية بدمشق احتفالًا عظيما نهار امس لبيان سيرة الرسول الاعظم محمد صلی الله علیه وسلم وألْقِيَتْ فيه خطب قيمة من قبل بعض الشخصيات السورية كما وتكلم فيها ايضا الاستاذ الباكستاني میرزا رشید احمد چغتائی ،الاحمدي، الذي ذكر قوة قدسية النبي صلى الله عليه وسلّم و تأثيرها في قلوب اصحابه والأخرين من العرب له الفضل ٣١ را خاء ۱۳۲۹۵ / اکتوبر ۹۵ ئه م :
۲۸۳ والعجم - وهنا أهل الشام على ما بوركت بلادهم و شرفت اراضيهم بقدوم فخر الكائنات اليها حيث وطأت قدمه صلى الله عليه وسلم عليها وكان لهذه الخطب اثرها العظيم في قلوب الحاضرين الذين اكثروا من الصلوا والسلام على سيدنا محمدا فضل الرسل وخاتم النبيين عليه افضل الصلوات واتم التسليم ، لك (ترجمہ) جماعت احمدیہ کا جلسہ سیرت النبی جماعت احمد یہ دمشق نے کل ایک عظیم الشان جلسہ حضرت رسول اعظم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت بیان کرنے کے لئے منعقد کیا جس میں بعض شامی اشخاص کی قیمتی تقاریر کے علاوہ میرزا رشید احمد چغتائی احمدسی پاکستانی نے بھی تقریر کی جس میں آپ نے حضرت نبی کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ اور حضور کے صحابہ اور عرب و عجم کے دوسرے لوگوں کے دنوں میں اس کی تاثیر کا ذکر کیا اور آپ نے اہل شام کو اس بات پر مبارکباد دی کہ ان کے ملک کو یہ خاص برکت حاصل ہوئی اور ان کی سر زمین کو حضور فخر کائنات صلے اللہ علیہ وسلم نے اپنی تشریف آوری سے مشترک فرمایا جبکہ حضور کے مبارک قدموں نے اسی کو برکت بخشی ران تقاریر کا بڑا شاندار اثر حاضرین کے قلوب پر ہو انہوں نے سیدنا محمد افضل المرسل خاتم انہیں افضل الصلوات و اتم است علیم پر اکثرت درود و سلام بھیجا.اخبار القبس نے لکھا :- حفلة سيرة النبي اقامت الجماعة الاحمدية اول امس احتفالا تكلم فيه عدد من الخطأ عن سيرة الرسول الاعظم وتحدّ ثوا عن قدسية الرسالة التي قام بها هذا العربي العظيم (ص) الّذى اَتَسَ مُدنية - مازال العالم يسير اه جريدة الكفاح" دمشق ۱۶ صفر : ۱۳۷
۲۸۴ بهديها حتى اليوم له (ترجمه) جلسه سیرت النبی پرسوں جماعت احمدیہ نے جلسہ منعقد کیا جس میں بہت سے مقررین نے حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ پر تقاریر فرمائیں اور رسولِ عربی صلے اللہ علیہ وسلم کی شان قدسیت کو بیان کیا جنہوں نے شہریت کے ایسے اصول وضع فرمائے ہیں جن سے دنیا آج تک راہنمائی حاصل کرتی چلی آرہی ہے.ماہنامہ البشری جو پندرہ سال سے اسلام و احمدیت کا نور پھیلا رہا تھا فلسطین شن: اس سال بھی باقاعدگی سے جبل الرمل حیا سے چھپتا او ر و م میں بھجوایا جاتا رہا.البشری میں حضرت مہدی مسعود علیہ السلام کی تصانیف میں سے آئینہ کمالات اسلام الهدى والتبصرة لمن يری کے اقتباسات کے علاوہ سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کے جواب کا مکمل عربی ترجمہ بھی چھپا جو السید عبدالله اسعد العودہ کی کاوش کا نتیجہ تھا.علاوہ انہیں ابی عبد الرزاق کے قلم سے براہین احمدیہ حصہ پنجم کے ایک حصہ کا ترجمہ شائع ہوا.الاستاذ رشدی البسطی کے متعدد نوٹ اور مضامین بھی شامل اشاعت ہوتے رہے.البشری نے اخبار اليوم، یانا اور النهضه الاردن (۲۲ - فروری نشاہ ) کے حوالہ سے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی اس معرکۃ الآراء تقریر کا بھی ذکر کیا جو آپ نے سلامتی کونسل میں مسلسل مات گھنٹے تک کی اور جس میں ثابت کیا تھا کہ کشمیر ہر اعتبار سے پاکستان کا جزولاینفک ہے.بیرون پاکستان جماعت احمدیہ کا سب سے پہلا کالج ۳ ماه صلح ۲۹ ۱۳۰ کو یا گولڈ کوسٹ (غانا) میں گھلا اور ڈاکٹر سفیرالدین بشیر احمد پی ایچ ڈی لندن اس کے غاناشن پہلے پرنسپل مقرر ہوئے لیے یہ کالج ابتداء میں کماسی کی ایک عارضی عمارت میں کھولا گیا.(۲۹۵ به جريدة القبس وشق ١٧ صفر ۱۳ مطابق ۲۸ نومبر ۵ه : ه باه شهادت ۱۳۳۹ : سه الفضل ۲ احسان ۲۹ مطابق 4 جون ۱۹۵ ص ۳ +
۲۸۵ ۱۵ ریاه احسان (جون) کو مولوی فضل الہی صاحب بشیر نے لینڈی مشرقی افریقیہ : میں سہیلی سود کی بنیاد رکھی لیے میں امام مسجد لندن چو ہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ نے ومبلڈن سپر چولسٹ انگلستان شن : چوری میں نرمی کی جس میں جاعت احمدیہ کے مخصوص علم کلام کی روشنی میں پیغام حق پہنچایا.رسالہ دی لندن سپر چولسٹ (THE LONDON SPIRTULIST) گے فزک نیوز (PSYCIC NEWS ) اور وی فرینڈ ) THE PRIEND ) نے اس تقریر پر عمدہ ریمارکشن شائع کئے.(۲) چوہدری صاحب کی زیر قیادت سماعت احمدیہ انگلستان کے ایک وفد نے وزیر اعظم بریا تھا کی نوک قرآن مجید کی انگریزی تفسیر تحفہ پیش کی.وزیر اعظم نے اس مقدس تحفہ کو نہایت احترام اور جذبات تشکر کے ساتھ قبول کیات اس سال سوئٹزرلینڈ سے DER ISLAM" اور انڈونیشیا سوئٹزر لینڈ انڈونیشیا سے اسلام کے نام سے نئے احمدی رسائل جاری ہوئے.(1) سال کے آغاز سے احمدی جماعتوں کی تنظیم و تربیت کے لئے احمدیہ گزٹ امریکی مشن جاری کیا گیا.(۲) امریکن نو مسلموں کو اسلامی تعلیم سکھانے کے لئے نور الدین سکول کھولا گیا ہے (۳) جماعت احمدیہ امریکہ کا تیسرا سالانہ جلسه ۳۰۲ ماہ تبوک رستمبر کو انعقاد پذیر ہوا.یہ پلا موقع تھا کہ لجنہ اماءاللہ اور خدام الاحمدیہ کی تنظیموں نے مرکزی حیثیت سے اپنے اپنے اجتماع منعقد کئے.جلسہ کے دوران چھ افراد نے قبول اسلام و احمدیت کا اعلان کیا.اس دفعہ گذشتہ جلسوں کی نسبت بہت زیادہ مندوبین اور اراکین نے شرکت کی.جماعت ہائے احمدیہ امریکہ کے آئندہ سال کے پروگرام کے له الفضل ۲۲ وفا ه۱۳۲۹ ص۳ ه شماره ۲۵ فروری ۹۵ مه شماره ضروری ۱۹۵۰ ص۲۹ ۲ شماره ۲۲ فروری ۱۹ شه کے ترجمہ کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ، شہادت ۱۳۲۹ اصله (استار) بحواله المفصل ۱۲۳ ہجرت ۱۴ مو ۱۳۲۹ ملکه الفضل ۲۱ احسان هر ۱۳۲۹ ص۲
PAY متعلق بعض نہایت ہی اہم فیصلے کئے مثلاً (۱) جنوبی ریاستوں میں ایک نیا تبلیغی مرکز قائم کیا جائے.(۲) امریکہ کی کم از کم سولائبریریوں میں اسلامی لٹریچر رکھوایا جائے (۳) آئندہ سال کے اندر اندر قبرستان کے لئے جگہ خرید کی جائے.وغیرہ وغیرہ لیے اس سال مشرقی افریقہ ، انڈونیشیا اور انگلستان جاہدین احمدی کی مرز میں ترکی اور ایسے ہی وہ یہ راز میں واپس تشریف لائے کے بعض مجاہدین مرکز چنانچہ مولوی نور الحق صاحب اور مبلغ مشرقی افریقہ، مولانا رحمت علی صاحب مبلغ انڈونیشیا ، چوہدری شتاق احمد صاحب با جوه امام مسجد لندن بالترتیب ۱۲ ، ۳۰ ماہ شہادت و ۱۶ ماہ ظہور کو اعلائے کلمئہ اسلام کا فریضہ بجالانے کے بعد لاہور پہنچے ممتاز بزرگانی سلسلہ کے علاوہ کثیر التعداد احمدیوں نے اپنے کامیاب مجاہد بھائیوں کا پر جوش استقبال کیا ہے مبلغین احمدیکی بیرون ملک روانگی یا او را یاری اور ہالینڈ کے ہوئے :.ا.سعود احمد خان صاحب ۲ - مولوی عبد الخالق صاحب ۳ - مولوی محمد صدیق صاحب مرتسری ۴ - مولوی عطاء اللہ صاحب کلیم ۰۵ مولوی نور محمد صاحب نسیم سیتی ۶ - مولوی عبد الکریم صاحب ۷.مولوی ابوبکر ایوب صاحب - مولوی غلام احمد صاحب بشیر له الفضل.ارتبوک هی ۱۳۲۹ الفضل ۲۶ - امان ۱۳۹۵ شد الفضل ۴ در نبوت ه ۱۳۲۹ ص۲ } لئے مرکز سے مندرجہ ذیل مبلغین اسلام روانہ Pp9 روانگی از لاہور ۲۵ رباه انان کنم برا کے نانا کر کے را " خوار " کوئی " " " " " برائے ایران اور ماہ انشاء ) برائے پرالون را " برائے کھانا ا برائے نائیجیریا در شان برائے میر ایون ۲۳ رمان نبوت و برائے ہالینڈ " برائے ہالینڈ ه الفضل ۱۳ شهادت ۲ هجرت و ۱۶ طور هر صدا ه الفضل يكم نبوت ۳۲۹ صلا $1900 ۶۱۹۵۵
۳۸۷ میں جماعت احمدیہ کے مرکزی صیغہ نشرو اشاعت علما سلسلہ کی نئی مطبوعات رب کی رات سے پانیوں کی کثرت اشاریے کے علاوہ علما سلسلہ کی مندرجہ ذیل کتابیں شائع ہوئیں :- - قیام پاکستان و جماعت احمدیه (از علامہ جلال الدین صاحب سابق میل با دوربیه و امام بجد انام ۲ - چالیس جواہر پارے از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ) ۳ - روز نامچه مبلغین یا ڈائری ۹۵ مه " (مرتبه نظارت دعوت و تبلیغ ربوہ) ۴ - انقلاب عظیم کے متعلق انذار و بشارات ( حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب) فصل ششم دُعاؤں کے بیلہ کی خاص تحریک لاینینگ کالا ہوسے پرانا خطاب نمائندہ مزاق عبدالوہاب بیکری کی بو میں آمد احمدی مقدم وتمر ام اسلامی کے دو سر بالا اجلاس میں بنیادی حق کی بیٹی کی پوری علمائے سلسلہ کا تبصرہ محبت الہی کے موضوع پر معارف خطبات احمد سید سمندری کی آتشزدگی ۱۳۳۰ پیش خلافت ثانیہ کا انتیسواں سال دگاؤں کے چلہ کی خاص تحریک اور کیا ا پاکستان میں جماعت احمدیہ کی مخالفت بہت ترقی کر رہی تھی اور احراری اور کانگریسی علماء کا ایک خاص گروہ ایسا میدان ایہ تفصیل کے لئے ملا حظہ ہو رپورٹ صدر انجین احمدیہ پاکستان ۱۶۲۹۵۰۰۰۶۱۹۳۹ ۱۹۵۰ - ۶۱۹۵۲ +
۲۸۸ مخالفت میں نکل آیا تھا کہ اس کا کام سوائے اس کے اور کوئی نہیں رہا تھا کہ وہ احمدیہ جماعت کے خلاف لوگوں میں جوش پھیلائیں اور ان کو فساد پر آمادہ کریں.ان تشویش ناک حالات کے پیش نظر سید نا امیر المومنین حضرت مصلح موعود نے ۱۲ تبلیغ هن ۱۳۴۳ / فروری شاہ کو دعاؤں کے چلہ اور سات نعلی روزوں کی تحریک فرمائی.حضور نے اس تحریک کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا :- ہماری جماعت....ایک مذہبی جماعت ہے.اور پھر صرف مذہبی جماعت ہی نہیں وہ ایک انقلابی جماعت ہے.اس نے دنیا کے خیالات، دنیا کے افکار، دنیا کے عقائد اور دنیا کے عمل کو بدلنے کا بیڑا اٹھایا ہے.بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ ان کاموں کے لئے خدا تعالیٰ نے اسے کھڑا کیا ہے.اور انقلابی جماعتیں پہلے اپنے اندر انقلاب پیدا کیا کرتی ہیں.تم دوسروں میں اُس وقت تک انقلاب پیدا نہیں کرسکتے جبتک تم اپنی ذاتوں میں انقلاب پیدا نہیں کر لیتے ، جب تک دنیا تمہیں دیکھ کر یا تمہاری محبت میں آدھ گھنٹڑیا گھنٹہ رہ کر چھلانہ اٹھے کہ تم ویسے آدمی نہیں جن کو ہم جانتے تھے اس وقت تک تم تغیر پیدا نہیں کر سکتے.اسی طرح انقلابی جماعتوں کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ دنیا ان کی مخالفت کرے.اگر دنیا کسی انقلابی جماعت کی مخالفت نہیں کرتی یا وہ اس کی اتنی مخالفت نہیں کرتی جتنی وہ ایسے مواقع پر کیا کرتی ہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ اس کے اپنے اندر کوئی نقص ہے.اگر ایک باز سے پڑیا ڈرتی نہیں تو سمجھ لو اس بازمیں کوئی نقص ہے.اگر ایک ماں باپ کے سامنے اور ان کی موجودگی میں بچہ شرارتیں کہ تا چلا جاتا ہے تو سمجھ لو ماں باپ میں کوئی نقص ہے.اگر کوئی استاد جماعت میں بیٹھا ہے اور لڑ کے شرارتیں کر رہے ہیں اور کھیل کود میں لگے ہوئے ہیں تو سمجھ لو استاد میں کوئی نقص ہے.اسی طرح اگر کوئی جماعت انقلابی جماعت ہونے کا دعوی کرتی ہے لیکن لوگ اس کی مخالفت نہیں کرتے تو سمجھ لو کہ اس جماعت میں کوئی نقص ہے.پس مخالفت اپنی ذات میں عجیب نہیں بلکہ اس کا نہ ہونا عجیب ہے.حضرت خلیفہ ایسے الاول فرمایا کرتے تھے کہ ان کے دوست نے ایک کام شروع کیا وہ بڑی عمر کے تھے اور حضرت خلیفہ مسیح الاول ان سے چھوٹے تھے اس لئے وہ آپ کا بے تکلفی سے نام لے دیتے تھے انہوں نے کہا نورالدین میں نے ایک کام شروع کیا ہے مگر معلوم ہوتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کو پسند نہیں.حضرت خلیفہ المسیح الاول منے فرمایا آپ کو یہ خیال کیونکر ہوا کہ آپ کا وہ کام خدا تعالیٰ کو پسند نہیں.انہوں نے کہا ئیں نے یہ کام دوتین ہفتہ سے شروع کر رکھا ہے لیکن ابھی تک اس کی کسی نے مخالفت نہیں کی.اور جو کام خدا تعالیٰ کی طرف سے
۲۸۹ ہوتے ہیں ان کی ضرور مخالفت ہوا کرتی ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تحریک خدا تعالیٰ کو پسند نہیں کو تین دن کے بعد ان کو کسی کی طرف سے مغلظ گالیوں سے پر ایک خط آیا.وہ حضرت خلیفہ اسیح اول کے پاس آئے اور کہنے لگے نورالدین مبارک ہوئیں نے جو کام شروع کر رکھا ہے وہ خدا تعالیٰ کو پسند آگیا ہے تجھے آج ایک شخص کی طرف سے مغلظ گالیوں کا ایک پلندا آیا ہے.غرض ہر الہی جماعت کی مخالفت لازمی ہے لیکن اسے یہ خیال رکھنا چاہیئے کہ آیا اس نے اپنے آپ کو اس مقام پرکھڑا کر لیا ہے کہ دنیا اس سے خفا ہوا اور خدا تعالیٰ اس سے راضی ہو.اگر یہ دونوں باتیں پیدا نہیں ہوئیں اور خدا تعالیٰ بھی اس سے ناراض ہو گیا ہے اور دنیا بھی اس پر ناراض ہے تو وہ خسر الدنيا والأخرة ہو گیا.دنیا میں بھی اسے گھاٹا ہوا اور اگلے جہان میں بھی اسے گھاٹا ہوگا.پس ہماری جماعت جو انقلاب پیدا کرنے کی دعویدار ہے اس کی مخالفت تو ضروری ہے لیکن ہمارا مقام یہ ہے کہ ہم پہلے اپنی اصلاح کریں.یہ روحانی انقلابی جماعتوں کی مخالفت یکساں نہیں رہتی کبھی زوروں پر ہوتی ہے اور کبھی کم ہو جاتی ہے.جیسے سورج پڑھتا ہے غروب ہوتا ہے اور دوسرے دن پھر چڑھتا ہے.انسان کو کسی وقت بھوک لگی ہوئی ہوتی ہے اور کسی وقت وہ سیر ہوتا ہے اسی طرح مخالفت میں بھی اُتار اور چڑھاؤ پایا جاتا ہے کبھی مخالفت ایسی شدید ہوتی ہے کہ وہ انسانی مقابلہ سے بالاتر ہو جاتی ہے اور کبھی وہ اتنی کمزور ہوتی ہے کہ اس کا مقابلہ انسان کی طاقت کے اندر ہوتا ہے ایسے وقت میں وہ بوجھ خود اُٹھاتا ہے لیکن جب اس کا مقابلہ اس کی طاقت سے بالا ہو جاتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا اور اس سے استمداد کرتا ہے.ہماری جماعت پر بھی یہ مصائب مختلف رنگوں اور مختلف زبانوں میں آئے ہیں.ہم پر وہ وقت بھی آیا جب ہماری مخالفت اتنی شدید ہو گئی کہ اس کا مقابلہ ہماری طاقت سے بالا تھا ایسے مواقع پر ہم نے ہمیشہ خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کیا اور اس سے مدد مانگی.اور جب ہماری دعائیں اور گریہ وزاری اس مقام پر پہنچ گئی جب موش بھی ہل جایا کرتا ہے تو وہ شنی گئیں اور مخالفت با مدت ہو کر رہ گئی.یہ زمانہ بھی ہم پر ایسا آرہا ہے جب اندرونی اور بیرونی طور پر نیز بعض حکام کی طرف سے بھی اور رعایا کی طرف سے بھی ، علماء کی طرف سے بھی اور امراء کی طرف سے بھی نرمی ہر جمعہ اور ہر گروہ میں ایک حقہ ایسا ہے جو احمدیت کی مخالفت پر تکا ہوا ہے.لائے.له الفضل اور تبلین هر فروری ۱۹۵۷ ماه 719A1
٢٩٠ اس قسم کے نازک مواقع پر یکس جماعت کو اتنے حصّہ میں شریک کر تا رہا ہوں کہ میں انہیں دعا کی طرف تحریک کیا کرتا ہوں اور مخلصین نے ہمیشہ میر میں اس تحریک کو قبول کیا ہے اور انہوں نے اس طرح دعائیں کی ہیں کہ خدا تعالیٰ نے مصیبت کو ٹلا دیا.سوئیں ایک دفعہ پھر اس نازک موقع پر جس کی اہمیت کو جماعت نہیں سمجھتی حتی کہ قریب ترین لوگ اور اعلیٰ درجہ کے افسر بھی اسے نہیں سمجھتے جماعت میں دعا کی تحریک کرتا ہوں اسے اس تمہید کے بعد فرمایا : یہ وقت بہت نازک ہے اور اس وقت یکی جماعت کے مخلص دوستوں کو بلاتا ہوں اور ان سے کھتا ہوں کہ وہ دعاؤں میں لگ جائیں.اس وقت سب سے زیادہ کام دینے والی رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی بیان فرمودہ دعا ہے اللهم إنَّا نَجْعَلكَ فِي نُحُوْرِهِمْ وَنَعُوْذُبِكَ مِنْ شُرُوْرِهِمْ کہ اے خدا ہم دشمن کے مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتے ہم اس کے سامنے کھڑے نہیں ہو سکتے اس لئے چاہتے ہیں کہ ان کے مقابلہ میں ہماری طرف سے تو کھڑا ہو جا.ہم ان کی شرارتوں سے تیری پناہ مانگتے ہیں.دوسری بات ہو اس موقع پر زیادہ مفید ہے کہتی ہے وہ سُبْحَانَ اللهِ وَبِحمدِ لا سُبْحَانَ اللہ العظیم کا ورد ہے.تیسری چیز درود ہے اور چوتھی چیز نماز میں زیادتی ہے.جو لوگ تہجد پڑھے سکتے ہیں وہ تہجد کے وقت یہ دعا کیا کریں.اور تو تہجد نہیں پڑھ سکتے وہ کسی اور وقت دو نفل پڑھ لیا کریں.خواہ اشراق کے وقت یعنی 9 بجے کے قریب یا عصر سے پہلے دو نفل پڑھ لیا کہ میں اور ان نفلوں میں خصوصیت سے یہ دعائیں مانگا کریں.ہم اپنا پہلا چکہ چالیس دن کا مقرر کرتے ہیں.چونکہ خطیب کے شائع ہونے میں کچھ دیر لگے گی اس لئے جو احباب اس چلہ میں شریک ہونا چاہتے ہیں اُن کی سہولت کے لئے ہم آج سے چودہ دن بعد یہ چلہ شروع کرینگے یعنی یہ چلہ ۱۶ ؍ فروری سے شروع ہو گا اور چالیس دن جاری رہے گا یعنی ۷ رمان چ تک.اس کے ساتھ ہی میں یہ تحریک بھی کرتا ہوں کہ ان ایام میں سات زے رکھے جائیں.ہر ہفتہ میں پیر کے روز روزہ رکھا جائے.پہلا پیر ان ایام میں 19 فروری کو آئیں گا اور ۱۲ اپریل تک یہ سات روزے ختم ہوں گے.یہ روزے اس طرح بھی رکھے جاسکتے ہیں کہ جن پر له الفضل التبليغ ه ۱۳۵۳ / فروری ۹۵۷ئه م به
٢٩١ کوئی فرضی روزے ہوں وہ ان ایام کے روزوں کو اپنے فرضی روزوں کی جگہ رکھ لیں عورتیں جن کو بعض ایام میں روزے منع ہوں یا بیمار ہوں ہفتہ میں جمعرات کو یا اگلے ہفتوں میں جمعرات میں روزے رکھ کر اپنی کمی پوری کر سکتی ہیں.شاید لوگ ہنسیں گے کہ اتنے بڑے مجموعی ارادوں کے مقابلہ میں انہوں نے کیا تیر مارا ہے لیکن جو سنتے ہیں انہیں سہنستے دور ہمارے خدا کو انہوں نے نہیں، دیکھنا، ہمارے خدا کے تیروں اور سہتھیاروں کو انہوں نے نہیں دیکھا لیکن ان کے نہ دیکھنے کی وجہ سے تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ خدا تعالیٰ نہیں ہے.ان کے نہ دیکھنے کی وجہ سے تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ خدا تعالیٰ کی گرفت کوئی معمولی گرفت ہے.ہمارا خدا وہی ہے جس کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے تُعِزُّ مَنْ نَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرِ تُوجس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ذلت دیتا ہے.تمام خیر اور نیکیاں تیرے قبضہ میں ہی ہیں یہی وہ چیز ہے جس کے ساتھ خدا تعالیٰ کے انبیاء ہمیشہ فتح پاتے رہے ہیں.حضرت ابراہیم کے پاس کونسی فوج تھی، حضرت نوح کے پاس کونسی فوج تھی.کوئی دس سال کی کوشش سے اور اربوں ارب روپیہ خوش کرنے کے بعد امریکہ نے ایٹم بم ایجا د یا ہے اور اب روس اس کی نقل کر رہا ہے.لاکھوں آدمی اس کام پر لگے رہے اور سینکڑوں سائنسدان اس کی تیاری میں دن رات مشغول رہے.لیکن نوع کو دیکھو وہ رات دن تبلیغ میں لگا رہا.اس نے ایک تیر اور کمان بھی نہیں بنائی وہ صرف دعاؤں اور لوگوں کو تبلیغ اور نصیحت میں لگا رہا.اس کے لئے آسمان پر ایٹم بم تیار ہو رہے تھے ، عرش پر اس کے لئے تو ہیں بن رہی تھیں.چنانچہ ایک دن آیا کہ آسمان سے بھی پانی برسا اور زمین نے بھی پانی اگل دیا اور اس سے اتنا مسلح لاقہ برباد ہوگیا جس کو دن ہزار ایٹم بم بھی برباد نہیں کر سکتے ہیں جو کچھ میں تمہیں دیتا ہوں وہ بہت زیادہ طاقت ور ہے.اتنی طاقت اور قوت دُنیا کی حکومتوں کے پاس نہیں ہوتی لیکن ضرورت ایمان کی ہے، ضرورت یقین کی ہے ، ضرورت عمل کی ہے.جو خدا کی طرف ایک قدم بڑھتا ہے خدا اس کی طرف دو قدم بڑھتا ہے.اور جو خدا کی طاقت پر یقین رکھتا ہے اس کے سامنے دُنیا کی ساری طاقتیں ہیچ ہو جاتی ہیں.اے ۱۹۵۱ له الفضل ال۱ تبلیغ ه ۱۳۳۳ / فروری ها و حت فرموده ۲ فروری ۹۵ اند به
۲۹۲ حضور نے ۱۲۳ تبلیغ / فروری کو بھی اس تحریک کی اہمیت و تحریک ما کی اہمیت پر مزید روشنی اور بریزید روشن والی اور ارشاد را با به ضرورت پر فرمایا ہم میں سے ہر شخص کو اس مخالفت کے دیکھتے ہوئے یہ سوچنا چاہیئے کہ کیا اس میں وہ تقوی پایا جاتا ہے جو انسان کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے محفوظ رکھتا ہے.کیا اس میں کامل سچائی پائی جاتی ہے.کیا وہ غریب تو نہیں کرتا.کیا وہ دھوکہ بازی سے تو کام نہیں لیتا.کیا وہ نمازوں کا پابند ہے.کیا وہ انصاف سے کام لیا ہے.کیا وہ خداتعالی سے سنتی مت رکھتا ہے.کیا وہ اسلام کے لئے ہرقسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار ہے.کیا وہ بنی نوع انسان کا ہمدرد ہے.اگر یہ تمام باتیں اس میں پائی جاتی ہیں تو اسے سمجھ لینا چاہئیے کہ اس مخالفت کے ذریعہ خدا تعالیٰ اسے مارنے نہیں لگا کیونکہ اس نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جو خدا تعالی کونا راضی کرنے والا ہو لیکن اگر افراد قوم میں کثرت ایسے لوگوں کی ہو جو یہ کہیں کہ ہم میں یہ باتیں نہیں پائی جاتیں.نہ ہمارے دلوں میں خدا تعالیٰ کی سچی محبت پائی جاتی ہے.نہ ہم اس کے لئے قربانی کرتے ہیں.نہ ہمارے اندر دین کی خدمت کا کوئی جوش پایا جاتا ہے.نہ ہم نمازوں کے پابند ہیں.نہ ذکر الہی کے عادی ہیں.نہ جھوٹ اور فریب سے بچتے ہیں.نہ ظلم اور فساد سے پر ہیز کرتے ہیں.نہ اخلاق کے معیار پر پورے اترتے ہیں تو پھر انہیں سمجھ لینا چاہئیے کہ یہ مخالفت کسی نشان کے ظہور کا پیش خیمہ نہیں ہو سکتی یہ انہیں گناہوں کی سزا دینے کے لئے پیدا کی جا رہی ہے.اس صورت میں انہیں بہت زیادہ شکر کرنا چاہیے اور اپنی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیئے.عام حالات میں انسان کا غافل رہتا بعض دفعہ قابل معافی بھی ہو جاتا ہے لیکن اگر سامان ایسے ظاہر ہو رہے ہوں جن سے یہ خطرہ ہو کہ میر سامان شاید ہماری سزا کے لئے پیدا کئے جارہے ہیں تو اس کے بعد بھی اگر کوئی شخص اپنی اصلاح نہیں کرتا تو اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ اپنے آپ کو اور اپنے خاندان اور اپنی قوم کو تباہ کرتا ہے.پس یہ معمولی حالات نہیں جماعت کو اپنے اندر بیداری پیدا کرنی چاہیئے اور اپنی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیئے تا کہ اگر کچھ لوگوں کے اعمال کی وجہ سے یہ سزا کا سامان بھی ہو تب بھی وہ اپنے اندر ایسی تبدیلی پیدا کر لیں کہ یہ عذاب رحمت کا موجب بن جائے جیسے یونانی کے زمانہ میں ہوا کہ خدا تعالیٰ نے یونا نبی کی قوم پر اپنا عذاب نازل کرنا چاہا مگر جب اس قوم نے اپنی اصلاح کی اور تو یہ اور گریہ وزاری سے کام تو وہی عذاب اس کے لئے رحمت بن گیا.پس ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ عذاب آتے ہیں مگر وہ انسانوں
۲۹۳ کے لئے رحمت بن سجاتے ہیں.اسی لئے یکس نے یہ تحریک کی ہے کہ اِن دنوں اپنی کامیابی اور دشمن کی ناکامی کے لئے متواتر دعائیں کی جائیں اور ہر پیر کے دن روزہ رکھا جائے تاکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اگر کوئی خوابی یا نقصان اس وقت ہمارے لئے مقدر ہو تب بھی اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کو بدل دے ہمیں طاقت اور غلبہ عطا فرمائے اور ہمارے دشمنوں کو ان کی کوششوں میں ناکام بنا دے لے حضور کی اس خصوصی تحریک پر دنیا بھر کی احمدی جماعتوں نے احمدی جماعتوں کا والہانہ لبیک المان طورپر لبیک کہا اور مخلصین جماعت نے نہ صرف ۶ رای...تبلیغ / فروری سے لے کر ۲۷ ریاہ امان/ مارچ تک متفرعانہ اور نیم شبی دعائیں کیں اور آنسوؤں سے اپنی سجدہ گاہوں کو تر کر دیا بلکہ نفلی روزوں کا بھی التزام کیا.یہ ایام گویا پاکستان میں طاغوتی اور رحمانی طاقتوں کی کشمکش کے تھے.ایک طرف باطل کے پرستار تقریروں اور تحریروں کے ذریعہ قریہ قریہ میں حق و صداقت کے خلاف نفرت و حقارت کی آگ بھڑکا رہے تھے تو دوسری طرف حضرت مہدی موعود کی مظلوم جماعت جو حقیقی معنوں میں خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ سلم کی عاشق و خدائی تھی شبانہ روز دعاؤں کے باعث حضرت مہدی موعود کے اس شعر کا مصداق بنی ہوئی تھی کہ ہے عدو جب بڑھ گیا شور و فغاں میں یہاں ہم ہو گئے یار یہاں میں احراریوں نے ۲۹۵ ۱۳۰ جواب انشاء ملتان کانفرنس کے جوب میں افضل کا خصوصی نمبر کے اور میں تحفظ ختم نبوت کے نام ۱۹۵۰ آخر پر ملتان میں ایک کانفرنس منعقد کی جس میں احراری لیڈروں نے جماعت احمدیہ پر بے بنیاد اعتراضات کئے.احراری ترجمان آزاد نے ۲۶ دسمبر شاہ کے پرچہ میں اس کانفرنس کی روداد شائع کر کے ملک بھر میں اس کے زہر یلے اثرات پہنچا دئیے.مولانا جلال الدین صاحب شمس ناظر تالیف و تصنیف نے ان اعتراضات کے جواب میں ایک مبسوط و مدل مقاله سپر و قلم فرما یا جود بر فروری ۱۹۵مه (مطابق ۲۸ تبلیغ ۳۲) کے الفضل میں شائع کیا گیا.مولانا شمس صاحب نے ۳۲ صفحات کے اس خاص نمبر میں نہ صرف ہر احراری لیڈر کی تقریرہ پر ه الفضل رامان ه۱۳۰۳۰ مارچ ۹۵۷ه من به
۲۹۴ محققانہ تبصرہ کیا بلکہ ان کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کا نہایت خوبی سے ازالہ کیا جس سے ملک کے سنجیدہ اور اہل علم طبقہ کو احراری تحریک کے خد و خال سمجھنے اور جماعت احمدیہ کا علم کلام مجھتے ہیں بھاری مدد لی.طلبہ انجینیرنگ کالج لاہور سے ۲ م و شهادت / اپریل کو بعد از عصر انجنین رنگ کا لی لاہور کے احمدی نوجوانوں نے حضرت مصلح موعود کے اعزاز میں ایک عورت حضرت امیر المومنین کا پرا شر خطاب عمرانہ دی، پی دعوت تعالیم الاسلام کا لی کے احاطہ میں دی گئی یہ جو اُس دور میں لاہور ہی میں تھا.حضرت مصلح موعود نے اس موقع پر ایک پر معارف لیکچر دیا.حضور نے سورہ ممتحنہ کے آخری رکوع کی آخری آیت کی روشنی میں جس میں خدا تعالیٰ کی صفت منصور کا ذکر ہے فن انجنیری کے اصول کا ذکر فرمایا.اس تقریب میں انجنیئرنگ کالج کے پرنسپل ڈڈاکٹر ائیں.ڈی ظفر مرحوم اور پر فیروں کے علاوہ اکا بر سلسلہ میں سے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی شرکت فرمائی پیلے عبد الوہاب اسکری کی بااااااااا میں جو عراق کی طرف سے مؤتمر عالم اسلامی کے نمائندہ تھے الخارج الدكتور عبد الوہاب سکری (ایڈیٹر السلام البغدادی) لہ ئہ کے شروع میں سلسلہ احمدیہ کے جدید مرکز ربوہ میں تشریف لائے.۲۴ ماہ صلح / جنوری کو جامعتہ المبشرین میں آپ کے اعزاز میں ایک اہم جلسہ منعقد کیا گیا جس کی صدارت شیخ نور احمد صاحب منیر سابق مبلغ دمشق نے کی.اس جلسہ میں الدکتور عبد الوہاب عسکری نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا :- " تقسیم ملک کے بعد جو تبا ہی آئی اس سے جس طرح دوسرے مسلمان محفوظ نہیں رہے آپ لوگ بھی اس کی زد سے نہیں بچ سکے لیکن اتنی بڑی تکالیعت کو برداشت کرنے کے بعد اس علاقہ میں آپ جس قسم کی جد و جہد کر رہے ہیں اور اپنی زندگی کا جو ثبوت آپ لوگوں نے پیش کیا ہے وہ ہمارے لئے قابل تقلید ہے اور میں اسے دیکھ کر بہت خوش ہوا ہوں.سبقت کی جو روح آپ لوگوں میں پائی جاتی ہے اور آپ جو تیز رفتاری سے ترقی کر رہے ہیں بلا شک یہ حضرتر صاحب المقام الجلیل امام جماعت احمدیہ کی خاص توجہات کا نتیجہ ہے" پھر کہا :- یکس نے آپ کی سماعت کو بہترین جماعت پایا ہے جو نیکی کا حکم دیتی ہے.نماز قائم کرتی ہے.زکوۃ الفضل در شهادت ۳۳ اصل و مکتوب چوہدری خالد سیف اللہ صاحب اسٹنٹ ڈائریکٹر واپڈا ہوے اوسمن آباد.لاہو
السید عبدالوہاب عسکری عراقی نمائندہ موتمر عالم اسلامی جامعتہ المبشرین میں تقریر فرمارہے ہیں ب عسکری جامعه المبشرین کے اساتذہ طلبہ اور بزرگان سلسلہ کے ہمراہ السید عبدالوہاب
۲۹۵ دیتی ہے.خدا تعالٰی نے جو کچھ انہیں دیا ہے خرچ کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے رستہ میں جہاد کرتی ہے.ان صفات کی مالک جماعت اس لائق ہے کہ اس کا مستقبل شاندار اور روشن ہو کیونکہ خدا تعالیٰ اپنے مومن بندوں کی ہمیشہ مدد کرتا ہے لے لے ومتر عالم اسلام می میم ایک اسلامیہ احمدی و موتمر عالم اسامی کے سالانہ اجلاس میں یا الیتیمی کا نام ہے جس کا قیام ضروری امر میں پاکستان کے پہلے دارالسلطنت کراچی میں ہوا.اس موقع پر سلم نمائندگان نے مؤتمر کا ایک دستور مرتب کیا جس کی بنیاد قرآن عظیم کے ارشاد ربانی " إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ پیہ رکھی.19: مؤتمر کا دوسرا سالانہ اجلاس اس سال و سے ۱۳ر فروری تک کراچی میں منعقد ہوا جس میں ۳۵ اسلامی ملکوں کے مندوبین نے شرکت کی اور دنیائے اسلام کو درپیش مسائل پر اپنے ممالک کی نمائستگی کی اور شفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ کشمیر فلسطین اور دوسرے ان تمام اسلامی ممالک کو آزاد کرانے کی متحدہ کوشش کی جائے.حضرت مصلح موعود کی دیرینہ خواہش تھی کہ عالیم اسلامی کے متفرق اجزاء کسی طرح ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کہ اپنی عالمگیر مشکلات حل کرنے کی راہ سوچیں اور ایک دوسرے سے اُن کا رابطہ اور تعلق قائم ہو.چنانچہ ہجرت ۱۳ رمئی راہ کے بعد حضور نے لاہور، راولپنڈی، پشاور، کوئٹہ اور کراچی میں متد و تقریریں فرمائیں جن میں اس اہم ضرورت کی طرف مسلمانوں کو توجہ دلائی.علاوہ ازیں ه ۱۳۲۹ / شاہ میں کراچی کے صحافیوں کی کانفرنس میں مسلمانوں کی تنظیم اور اتحاد پر بہت زور دیا.و تر عالم اسلامی چونکہ وحدت عالم اسلام کے لئے پہلا خوشکن قدم تھا جس کو اٹھانے کی توفیق پاکستان کو میسر آئی تھی اس لئے حضرت مصلح موعود کے ارشاد مبارک پر مؤتمر کے اس دوسرے اجلاس میں مرکز احمدیت سے ایک احمدی وفد نے خاص طور پر شرکت کی.بستید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ناظر و عوت و تبلیغ اس وفد کے امیر تھے اور چوہدری مشتاق احمد صاحب با جوه وکیل التبشیر تحریک جدید اه افضل ، تاریخ هن به سے وطن جانے کے بعد الدكتور عبد الوہاب عسکری نے اپنی کتاب مشاهداتی فی سماء الشرق میں بھی یہی رائے ظاہر کی.ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد عن مناا ہے
۲۹۶ اور ملک عمر علی صاحب نائب وکیل التبشیر اس کے رکن.احمدی وفد کو مؤتمر کے ہر اجلاس کی کارروائی میں شامل ہونے کا موقع ملا.نمائندگان وفود سے الگ الگ ملاقاتیں کیں، ان کی تقاریر سنیں اور اُن تقاریب میں شریک ہوا ہو مؤتمر کے نمائندوں کو سرکاری طور پر دی گئیں.جماعت احمدیہ کراچی نے اس موقع پر حضرت مصلح موعود کی ۱۳۲۹ 19۵ء کی کراچی پریس کا نفرنس کو عربی اور انگریزی زبانوں میں شائع کیا جو بیرونی ممالک کے مندوبین میں سے ایک معتد بہ حصہ کو دیا گیا تاوہ اپنے ملکوں میں واپسی جائیں تو حضرت امام جماعت احمدی کے قیمتی افکار و خیالات کو عملی جامہ پہنانے کی تدابیر اختیار کریں.امیر و فد حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے اپنے ایک مفصل بیان میں مؤتمر عالیم اسلامی کو عالم اسلامی میں وحدت اور اتحاد پیدا کرنے کی مبارک تحریک قرار دیا اور اپنے ایک مفصل بیان میں اس کی سرگرمیوں کو خراج تحسین ادا کرتے ہوئے بتایا کہ :- " تمام عرب مندوبین نے اس بات پر زور دیا کہ تمام باہمی فرقہ بندیوں کی حدود سے بالاتر رہ کر اس موتمر عالم اسلامی کی بنیاد اُٹھانی چاہیئے ورنہ یہ سانس لیتے ہیں موت کا منہ دیکھے گی.اقوام عالم کے مشتر کہ اسٹیج سے یہ آواز ایک احمدی کے دل میں کسی قسم کی خوشی پیدا کر سکتی ہے.اس کا اندازہ اس مسلمہ حقیقت سے کیا جا سکتا ہے کہ عرصہ...سے ہماری جماعت کے اسٹیج سے یہ آواز بار بار بلند کی جارہی ہے کہ مسلمانوں کو اپنی مشترکہ اعراض کی خاطر ایک سٹیج پر جمع ہوکر روح تعاون کے ساتھ اپنی عالمگیر مشکلات کا اصل سوچنا اور اپنی حالت بہتر بنانے کے لئے اکٹھا ہو جانا چاہیے اور ہمیں خوشی ہے کہ ہماری آواز بازگشت بے نتیجہ نہیں رہی اور اب ممالک اسلامیہ کے درمیان وحدت پیدا کرنے کی غرض سے مؤتمر عالیم اسلامی کی داغ بیل ڈالی جارہی ہے.“ اُن دنوں پاکستان اور بیرونی ممالک کے بعض لوگ یہ سمجھے تھے کہ موتم عالیم اسلامی کا قیام محض ایک سیاسی سٹنٹ ہے جس سے حکومت پاکستان اپنی ہر دلعزیزی اور قبولیت بڑھانا چاہتی ہے تاکہ ملکی انتخابات کے لئے موافق اور سازگار حالات پیدا ہوں.جواب نمائندگان میں سے بھی ایک نمائندہ نے اس قسم کے خیالات کا اظہار کیا اور کہا کہ ان وفود کے پاس اُن کی حکومتوں کی طرف سے کوئی اختیار نہیں اور نہ حکومتیں ایسا اختیار دے سکتی ہیں بلکہ اگر اختیار دے بھی دیتیں تو اعتماد نہیں کیا جاسکتا کہ وہ ہماری آواز کے ساتھ اپنی مقررہ اور مستقل پالیسی کو ہم آہنگ کریں گی.امیرو در حضرت سید
۲۹۷ ولی اللہ شاہ صاحب نے اس عرب نمائند سے کو بھی جواب دیا اور اپنے بیان میں بھی بتایا کہ موتر عالم اسلامی کے قیام اور بقاء سے کم از کم جو فائدہ ہمیں پہنچ سکتا ہے وہ یہ ہے کہ باہمی تعارف اور ایک دوسرے کے حالات سے واقفیت حاصل ہونے کے علاوہ عالم اسلامی کے استاد کی ضرورت کا شتوں اور احساس پیدا ہو جانا خود ایک بڑی نعمت ہے.تقریباً ہر ایک نمائندے نے بداند آواز اور موثر انداز میں بارباز شنایا کہ مسلمان مسلمان نہیں رہے تم مسلمان بنو یہ آواز بھی احساس بیداری پیدا کرنے والی ہے.اور جب قوم میں ایک وفعہ احساس پیدا ہو جائے تو اُمید کی جاتی ہے کہ دوسرا قدم بھی اٹھایا جائے.پس احساس بیداری سے فائدہ اٹھانا چاہئیے نہ کہ مایوسی سے اس کو ضائع کر دینا چا ہیے پا حضرت شاہ صاحب نے اس بیان میں مزید فرمایا کہ :- یک نے محسوس کیا ہے کہ جمعیت علماء میں بھی قابل قدر این نخستین موجود ہیں جو بھی ہیں کہ اسلامی فرقوں کے درمیان جو اختلافات ہیں ان کی نوعیت زیادہ تر تاویلی اور اصطلاحی ہے ہمیں ابن اختلافات سے بلند اور با لارہ کے عالم اسلامی کے لئے تنظیم و مدت کا سٹی کھڑا کرنا چاہیے، مجھ سے ایک عالم نے کہا کہ نبوت اور ختم نبوت کی تعریف میں جو اختلاف آپ کے اور ہمارے درمیان ہے وہ ور جیل سے صلاحی تعریف کا اختلاف ہے ورنہ اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو یہ اختلات الیہ ما نہیں کہ ابن ہم آپسی نہیں دست و گریبان ہوں.آپ بھی مانتے ہیں کہ اسلام کی شریعت کامل ہے اور اس کے بعد کوئی شریعیت نہیں اور نبوت کی تعریف میں صرف یہ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اسے ہم کلام ہونا اور نہی کے لئے ضروری نہیں کہ وہ صاحب شریعت بھی ہو اور ہمارے علماء نبی کے لئے شریعت کا لانا ضروری قرار دیتے ہیں.تو یہ صرف اختلاف تعریفہ کا ہے.یہ ایسا اختلافت نہیں کہ آپس میں دست و گر بیان ہوا جائے علماء کے طبقہ میں اس قسم کی آزاد خیالی کا پیدا ہونا خوش کن ہے.جوں جوں ہمارا نقطہ نظر وسعت اختیار کرتا جائے گا اور رواداری کی دُور ہم میں کار فرما ہوگی ہم ایک دوسرے کے قریب ہو تے چلے جائینگے اور جو ہمارے درمیان تیلیج ہے کم سے کم ہو تی چلی جائے گی.اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ موتمر عالم اسلامی کے ذریعہ سے مسلمانوں کے درمیان وحدت کی صورت پیدا ہونے کے امکانات موجود ہیں نہ ملے له الفضل ، در امان مارچ
۲۹۸ حضرت مصلح موعود نے اور امان از تاریخ کونا مهرآباد سندھیوں میں حلقہ تبلیغ وسیع کربیٹی تحریک سندھ کے مقام پر ایک اہم خطبہ ارشاد فرالیا جس میں اسعدی جماعتوں کو تحریک فرمائی کہ وہ صوبہ کے اصل باشندوں یعنی سندھیوں میں حلقہ تبلیغ کو وسیع کریں.چنانچہ فرمایا :- " جب تک تم سندھیوں میں احمدیت کی تبلیغ نہیں کرتے یا جب تک تم ان کے ساتھ اس طرح مل مبل نہیں جاتے کہ تمہارا تمدن بھی سند بھی ہو جائے ، تمہارے کپڑے بھی سندھیوں جیسے ہو جائیں ، تمہاری زبانیں بھی سندھی ہو جائیں اُس وقت تک تمہاری حیثیت محض ایک غیر ملکی کی رہے گی.یہ کتنی واضح چیز ہے جو نظر آرہی ہے مگر سوال یہ ہے کہ کتنے آدمی ہیں جنہوں نے اس حقیقت پر کبھی غور کیا ہے.اس وقت بیرونی جماعتوں میں سے سو ڈیڑھ سو آدمی یہاں آیا ہوا ہے اور ہم خوش ہیں کہ جماعت میں زندگی کے آثار پائے جاتے ہیں کہ ایک جنگل میں اتنے آدمی اکٹھے ہو گئے ہیں لیکن اگر ہم غور سے کام لیں تو یہ زندگی کے کیا آثار ہیں کہ جس ملک میں ہم بیٹھے ہیں اس ملک کے باشندے ہمارے اندر موجود نہیں.یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے ہم انگلستان میں ایک بہت بڑا جلسہ کریں اور اس میں پاکستان کے پاکستانی، افریقہ کے حبشی، انڈونیشیا کے انڈونیشین سیلون کے سیلونی، برما کے برمی، افغانستان کے افغان اور عرب ممالک کے حرب سب موجود ہوں لیکن انگلستان کا کوئی آدمی نہ ہو اور ہم بڑے خوش ہوں کہ ہمارا جلسہ نہایت کامیاب ہوا ہے.سوال یہ ہے کہ وہ جلسہ کیا کامیاب رہا جس میں اور ممالک کے لوگ تو موجود تھے اور انگلستان کا کوئی آدمی موجود نہ تھا.اس طرح تو ہم نے اپنے روپیہ کو مائع ہی کیا کیونکہ جس ملک کے لوگوں پر ہم اپنا اثر پیدا کرنا چاہتے تھے اُس ملک کا کوئی فرد اس میں موجود نہیں تھا.اسی طرح ہم جب سندھ میں آئے ہیں تو سندھ کے لوگوں کی خاطر آئے ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ ہم سندھیوں میں اپنی تبلیغ کے حلقہ کو وسیع کریں اور ان کو اپنے اندر زیادہ سے زیادہ تعداد میں شامل کریں.غرض اگر غور سے کام لیا جائے اور سوچنے کی عادت ڈالی جائے تو یہ چیز ہمارے سامنے آجاتی ہے اور ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ در حقیقت اس صوبہ میں رہتے ہوئے ہم نے اپنی ذمہ داری کو سمجھا ہی نہیں حقیقت یہ ہے کہ اس ملک کے رہنے والوں کا حق پنجابیوں سے زیادہ ہے اور ہمارے لئے خوشی کا دن دراصل وہ ہو گا جب ہمارے جلسہ میں اگر پانچ سو آدمی ہوں تو ان میں سے چار سو سند بھی ہوں اور ایک سو پنچابی ہو.اگر ہم ایسا
٢٩٩ تغیر پیدا کر لیں تب بے شک یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہم نے اپنے فرض کو اداکر دیا ؟ لے پاکستان میں دستور سازی کی جو مہم تین سال سے جاری تھی بنیادی حقوق کی کمیٹی کی رپورٹ پر اس نے راتو رات کوایک مینی اور اختیار کرلی نے علمائے سلسلہ کا تبصرہ یعنی ملک کی دستور ساز اسمبلی نے بنیا دی حقوق کی کمیٹی کی عبوری رپورٹ منظور کر لی.اس رپورٹ کے سارے پہلوؤں پر غور وفکر کے لئے حضرت امیر المومنین المصلح الموعونہ کے ارشاد مبارک پر ایک کمیٹی تشکیل کی گئی جس میں مندرجہ ذیل ممتاز علما کے سلسلہ شامل تھے :.ا.حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ناظر دعوت و تبلیغ سابق پروفیسر تاریخ الادیان تخلیه صلاح الدین ایوبی بیت المقدس - ۲ مولانا جلال الدین صاحب شمسی سی ناظر تالیف و تصنیف سابق مبلغ بلاد یو بیه و امام مسجد لندن.۳.ملک سیف الرحمن صاحب مفتی سلسله احمدیه و سند یافته از صد ر هندی مدرسه فتح پوری دہلی سابق مدرس دارالعلوم دیوبند - ۴- مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری پرنسپل جامعہ احمد یہ سابق مبلغ بلاد عربیه - ۵ - حضرت مولوی فضل الدین صاحب مشیر قانونی سلسلہ عالیہ احمدید - مولوی خورشید احمد صاحب شاد پر و فیسر جامعتہ المبشرین سند یافتہ شیخ الحدیث ڈابھیل.مولوی محمد احمد صاحب ثاقب پروفیسر جامعتہ المبشرین و سند یافتہ صدر مدرس مدرسه فتح پوری دہلی سابق تدریس وارالعلوم دیوبند - - ابوالمنیر مولوی نور الحق صاحب پرو فیسر جامعه المبشرین.9.چوہدری غلام مرتضی صاحب بارایٹ لاء مشیر قانونی سلسلہ عالیہ احمدیہ ۱۰۰ مولوی تاج الدین صاحب قاضی سلسلہ عالیہ احمد ہے ار مولوی محمد صدیق صاحب پروفیسر جامعتہ المبشرین سند یافتہ شیخ الحدیث ڈابھیل.ان علماء نے قرآن و سنت کی روشنی میں عبوری رپورٹ کی دفعات کا تفصیلی جائزہ لیا اور اس کے اہم پہلوؤں پر ایک سیر حاصل تبصرہ لکھا جو الفضل (۲۴ - امان هن ۱۳۳ ) میں شائع ہوا.اس تبصرہ کے بعض اہم نکات حسب ذیل تھے :.اول : جہاں تک حدود شرعیہ کا سوال ہے جیسے قصاص، زنا ، سرقہ وغیرہ ان میں قرآن مجید اور سنت نے کسی کا استثناء نہیں کیا لہذا حدود شرعیہ میں نہ تو صدر مملکت کا استثناء مناسب ہے اور له الفضل ۲۸ - ا مان هن صده
٣٠٠ نہ صدر رصوبہ کا نہ کسی اور کا.البتہ جن احکام کے نافذ کرنے کا قانون نے کسی عہدیدار کو حق دیا ہے ان کے نفاذ کے بارہ میں کوئی فوجداری نائی نہیں کی جا سکتی خواہ اس فیصلہ سے لوگوں کو اختلاف ہی ہو ایسے امور کی سماعت صرف مجلدن شوری یعنی اسمبلی میں ہو گی.دوه :- صدر مملکت یا صدر صوبہ کی گرفتاری، قید یا حاضری کا حکم اس کے عہدہ کے دوران کسی عدالت کی طروت سے بھاری کیا جا سکتا ہے.سوم :- صدر مملکت کو حدود شرعیہ کے معاف کرنے کا حق نہیں مثلاً قتل اور جروح میں قصاص نجی معافی یا دیت کی صورت میں سزا کی تبدیلی کا صرف مقتول کے وارث یا زخم خورہ کی رضا مندی سے صدر کو حق حاصل ہو سکتا ہے ورنہ نہیں اور باقی امور میں مصالح ملکی اور سیاسی کے ماتحت حق دیا جا سکتا ہے.چهارم :- اسلام میں صدر سلکت کو دستور معطل کرنے کا اختیار کبھی حاصل نہیں البتہ اگر کسی وقت کی وجہ سے وقتی طور پر دستور پرعمل کرنا ناممکن ہو جائے تو اس وقت صدر مملکت کو یہ اختیار ہونا چاہئیے کہ یہ اعلان کرنے کہ چونکہ موجودہ حالات میں دستور پر عمل کرنا نا ممکن ہو گیا ہے اس لئے لیکن حالات کی درستی تک جس کے لئے میعاد معینی نازکور ہونی چاہئیے اختیارات کو اپنے ہاتھ میں لیتا ہوں یا فلاں فلا نمائندوں کو یہ اختیار سپرد کرتا ہوں.پنجم :- اسلام نے عدالتی فیصلہ کے بغیر کسی شخص کو قید میں رکھنا جائز نہیں رکھا.البتہ خاص حالات میں ہنگامی ضرورت کے وقت اگر کسی کو گرفتار کیا جائے تو اس کا معاملہ قریب سے قریب وقت میں عدالت کے سامنے پیش کیا جانا چاہئیے.البتہ اگر ضرورت سمجھی جائے تو عدالت کو از خود یا حکومت کی درخواست پر مقدمہ کی سماعت بند عدالت میں کرنے کا اختیار ہے.یہ اسلامی اصول کہ کسی کو عدالتی فیصلہ کے بغیر قید میں نہیں رکھا جا سکتا آئینی حکومت کو قائم رکھنے کے لئے نہایت ضروری ہے.کیونکہ جو حکومت یہ سمجھے گی کہ وہ عدالت کے فیصلہ کے بغیر کسی کو قید میں نہیں رکھ سکتی تو وہ لازماً اپنے قانون کو زیادہ مکمل کرنے کی کوشش کرے گی.ششم: عبوری رپورٹ کے تختہ دوم دفعہ ۱۱-۱۳ میں مذہبی تعلیم و آزادی کے لئے اسلامی فرقوں کے سایہ مسلمہ کا اضافہ کیا گیا تھا جس پر علمائے مسلسلہ نے حسب ذیل رائے دی کہ :.
٣٠١ لفظ مسلمہ خود تشریح طلب ہے اگر مسلمہ سے مراد قرآن کریم اور حدیث کی رو سے مسلمہ لیا جائے تو اس کے لئے کسی قید کے بڑھانے کی ضرورت نہیں کیونکہ قرآن و سنت کا حکم سب کے لئے ماننا ضروری ہے اور اس کے خلاف پھلنا نا جائز ہے.اور اگر مسلمہ سے مراد حنفی ، شافعی، مبلی ، مالکی وغیرہ فرقے لئے جائیں تو ایسی قید کسی طرح جائز نہیں سمجھی جا سکتی.قرآن مجید میں یہ کہ ان بیان ہوا ہے کہ فلاں صدی تک کے لوگوں کو امور شرعیہ میں استنباط کرنے کا حق ہوگا اور فلائی صدی کے بعد کسی کو یہ حق نہیں ہو گا.اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو اجتہاد کرنے کا حق تھا تو یہ حق ہمیشہ کے لئے قائم ہے.کیسی خاص فرقہ کے ساتھ اس حق کو مقید نہیں کیا جا سکتا ہیں اگر رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی ایک مجتہد کی جماعت کو بھی مسلمہ جماعت قرار دیا جائے تو پھر لازما ہرمسلمان کہلانے والی جماعت کو مسلمہ جماعت قرار دینا پڑے گا.اور دوسری طرف اگر کسی جماعت کو یا اس کے عقائد کو غیر مسلمہ قرار دیا گیا تو پھر رسول اللہ لی اللہ علیہ وسلم کے بعد کی ساس کو بھی مسلمہ قرار دینا جائز نہیں ہوگا.ا تحریک احمدیت کے قیام اور حضرت محمد کی موعود محبت الہی کے موضوع پر پر معارف خطبات کی بہشت کا مقصد حمید محبت الہی ہے جیساکہ حضرت اقدس علیہ السلام فرماتے ہیں :.وہ کام جس کے لئے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا میں اور اس کی مخلوق کے رشتہ میں جو کدورت واقع ہو گئی ہے اس کو دور کر کے محبت اور اخلاص کے تعلق کو دوبارہ قائم کروں پائے پھر فرماتے ہیں :.میری ہمدردی کے جوش کا اصل محرک یہ ہے کہ میں نے ایک سونے کی کان نکالی ہے اور مجھے جواہرا کے معدن پر اطلاع ہوئی ہے اور مجھے خوش قسمتی سے ایک چمکتا ہوا اور بے بہا ہیرا اس کان سے ملا ہے اور اس کی اس قدر قیمت ہے کہ اگر میں اپنے ان تمام بنی نوع بھائیوں میں وہ قیمت تقسیم کروں تو سب کے سب اس شخص سے زیادہ دولتمند ہو جائیں گے جس کے پاس آج دنیا میں سب سے بڑھ کر سونا اور چاندی ہے.وہ ہیرا کیا ہے ؟ سچاہندا.اور اس کو حاصل کرنا یہ ہے کہ اس کو پہنچانا اور نچا ایمان اس پر لانا اور سچی محبت کے ساتھ اُس سے تعلق پیدا کرنا اور پیچی برکات، اُس سے پانا یہ ہے ٹے لیکچر لاہور ص سے الجین را
۳۲ حضرت امیر المومنين الصلح الموعود چونکه حسن و احسان میں حضرت مہدی مسعود علیہ السلام کے مشیل و نظیر تھے اس لئے آپ کو اپنے بابرکت دور خلافت کے آغاز ہی سے سب سے بڑافت کر یہی دامن گیر رہا کہ جماعت احمدیہ کا ہر فرد کسی طرح خدا تعالیٰ سے مخلصانہ تعلق پیدا کرنے اور اُن کا مولیٰ اُن سے راضی ہو جائے.چنانچہ حضور انور نے سالانہ جلسہ ۱۳۲۲ / ۱۹۴۵ پر اپنے اس درد اور تڑپ کا اظہار بایں الفاظ کیا کہ : مجھے ہمیشہ یہ تڑپ رہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت تمہارے دلوں میں پیدا ہو جائے اور اس سے سچا اور مخلصانہ تعلق تم کو حاصل ہو.اور میں اس غرض کے لئے ہمیشہ کئی قسم کی کوششیں کرتا رہا ہوں.یکس نے ہزاروں رستے اور ہزاروں ذرائع تمہارے سامنے رکھنے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ان ذرائع پر مل کر کے سینکڑوں اور ہزاروں مخلص بھی پیدا ہوئے مگر پھر بھی ہماری جماعت میں حقیقی اخلاص کی ابھی نمی ہے جس کے لئے لیکن اللہ تعالیٰ سے متواتر دعائیں کرتا رہتا ہوں.اب اس موقع پر میکس ایک دفعہ پھر جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ یاد رکھو کہ میری موت یا حیات تو کوئی چیز نہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی موت بڑی چیز تھی اور محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی موت ان سے بھی بڑی چیز تھی مگر اس حقیقت کے باوجود یکں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ اگر جماعت حقیقی ایمان پر قائم ہو اور وہ خدا تعالیٰ سے سچا اور مضبوط تعلق رکھتی ہو تو کسی بڑے سے بڑے نبی کی وفات بھی اس کے قدم کو متزلزل نہیں کر سکتی بلکہ بعض برکات اور ترقیات ایسی ہوتی ہیں جو انبیاء کی وفات کے بعد قوم کو حاصل ہوتی ہیں بشر طیکہ قوم صحیح رنگ میں ایمان پر قائم ہو پس اپنے اندر ایسی تبدیلی پیدا کر و اور اپنے نفوس میں ایسا تغیر رونما کرو کہ تمہارے دلوں میں یہ بات گڑ جائے کہ ہم نے اپنے آپ کو خدا تعالیٰ سے وابستہ کرنا ہے اور اُس کی محبت اور پیار حاصل کرنا ہے ، اسے حضرت مصلح موعود نے جماعت کو تحریک احمدیت کے اس بنیادی نقطہ کی طرف ایک بار پھر تو جبہ ولانے کے لئے اس سال محبت الہی کے پیارے موضوع پر متحد و خطبات دیئے.یہ سلسلۂ خطبات ۳۰ ماه امان سے لے کہ ۲۰ ماہ شہادت تک جاری رہا.ران پر معارف خطبات میں حضور نے کمال وضاحت سے بتایا کہ مذہب کے عملی حصہ کی بنیاد محبت الہی له الفضل ٢٢ صلح ه ۱۳۳۹ / جنوری ۱۹۶۰مه صلا به
٣٠٣ پر اپنے جسے عام اصطلاح میں تعلق باللہ کہتے ہیں خدا تعالیٰ سے ملنے کے لئے کیسی جنتر منتر کی ضرورت نہیں بلکہ ان فطرقی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے جو ہر انسان میں پائی بھاتی ہیں جیس طرح لوگ اپنے ماں باپ ، بیٹے بیٹی اور بھائی بہنوں سے تعلق پیدا کر لیتے ہیں.جس طرح لوگ کسی کو اپنا دوست بنا لیتے ہیں وہی فطری طریق خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کے لئے ہیں.ماں باپ سے ہر ایک انسان محبت کرتا ہے اس لئے کہ اُن کی طرف آپ ہی آپ توجہ ہو جاتی ہے اور وہ خود بھی اسے یاد دلاتے رہتے ہیں کہ ہم تمہارے خیر خواہ ہیں لیکن اُستادوں سے لوگوں کو بہت کم محبت ہوتی ہے اس لئے کہ وہ عام طور پر اپنے احسانات کو دہراتے نہیں.اللہ تعالیٰ کی ذات ماں باپ اور استاد سے بھی زیادہ مخفی ہے اس لئے وہاں تو سبہ کی زیادہ ضرورت ہے.اس کی محبت پیدا کرنے اور اس کے قرب کو حاصل کرنے کے لئے چیزیں وہی ہیں، گروہی ہیں لیکن ضرورت صرف توجہ کی ہے.بعض موٹی موٹی چیزیں ہیں جن پر لوگ عمل نہیں کرتے اس لئے وہ قرب الہی سے محروم رہتے ہیں مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جب کھانا کھاؤ تو پہلے بسم اللہ پڑھ لیا کرو.اب کھانا شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ کہنے کے یہی معنے ہیں کہ یہ کھانا مجھے خدا تعالیٰ نے دیا ہے لیم اللہ کے لفظی معنے تو یہ ہیں کہ یک خدا تعالیٰ کے نام کے ساتھ شروع کرتا ہوں لیکن اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ کھانا خدا تعالیٰ کا ہے میرا کوئی حق نہ تھا کہ اسے کھاؤں مگر خدا تعالیٰ نے مجھے ایسا کرنے کی اجازت دی ہے اور اس نے کہا ہے تم کھا لو اس لئے میں کھا رہا ہوں.نہ گندم میری پیدا کی ہوئی ہے، نہ پانی میرا بنایا ہوا ہے، نہ نمک میرا بنایا ہوا ہے، نہ مرچ میری پیدا کی ہوئی ہے، نہ گوشت میرا پیدا کیا ہے، نہ ترکاریاں یکس نے پیدا کی ہیں ، یہ سب چیزیں میرے باپ دادا کی پیدائش سے بھی پہلے کی ہیں.بڑے سے بڑے خاندان کا ذکر بھی سو پشتوں سے آگے نہیں جاتا لیکن گندم ، پانی ، ترکاری ، گوشت ، نمک، مرچ اور لونگ وغیرہ ہزار پشتوں سے بھی پہلے سے موجود ہیں اور جب یہ سب اشیاء میری پیدائش بلکہ میرے باپ دادا کی پیدائش سے بھی پہلے کی ہیں تو یہ میری نہیں ہو سکتیں بسم اللہ کے معنے ہی یہ ہیں کہ سب چیز ہیں خدا تعالی کی ہیں لیکن اُس نے ہمیں اجازت دی ہے کہ تم اسے کھا لو اور ہم کھا رہے ہیں.پھر یہ بات بھی اسلام نے سکھائی ہے کہ جب تم کھانا کھا چکو تو الحمد للہ کہا کرو اور دوسری دفعہ خدا تعالی کو یاد کر لی کر دی گویا الحمدللہ کہنا خدا تعالیٰ کے احسان کا دوسری بار شکریہ ادا کرنا ہے.اگر کوئی انسان اس پر مداومت اختیار کر سے تو آپ ہی آپ اس کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت پیدا ہو جائے گی "
۳۰۴ محبت الہی کا دوسرا اہم نسخہ حضور نے یہ بیان فرمایا کہ : خدا تعالیٰ کے حسن کو الفاظ میں بیان کیا جائے.اسے بار بار دہرایا جائے اور آنکھوں کے سامنے اس کی تصویر لائی جائے تا انسان مجبور ہو جائے کہ اس سے پیار کرے.اور اس کا نام قرآن کریم میں کرائی رکھا گیا ہے.رب، رحمن ، رحیم، مالک یوم الدین ، ستار، قدوس، مومن، ہمیں ، اسلام، جبار ، قمار، اور دوسری صفات الہیہ یہ سب نقشے ہیں جو ذہین میں کھینچے جاتے ہیں جب متواتر ان صفات کو ذہن میں لاتے ہیں اور ان کے معنوں کو تر جمہ کر کے ذہن میں بٹھا لیتے ہیں تو کوئی صفت خدا تعالیٰ کی کان بن جاتی ہے تو کوئی صفت آنکھ بن جاتی ہے.کوئی صفت ہاتھ بن جاتی ہے.اور یہ سب مل کر ایک مکمل تصویر بن جاتی ہے اور اسی کے نتیجہ میں محبت الہی پیدا ہوتی ہے ا سکے گذشته سال تحفظ ختم نبوت کی آڑ میں بعض پاکستانی احمدیوں احمدیہ مسجد سمندری کی آتشزدگی کو شہید کر دیا گیا تھا اس سال نام نہاد می نظمیں ختم نبوت نے ر مادہ ہجرت مئی کو سمندری (ضلع لائل پور) کی احمد نی مسجد کو آگ لگا دی ہے جیسا کہ اخبار الفضل کے نامہ نگار نے اطلاع دی - احراری نقارہ پیٹ کر اپنے حواریوں کو اکٹھا کر کے مسجد احمدیہ پر ٹوٹ پڑے اور اسے آگ لگاوی یہ ہجوم نہایت ہی فساد انگیز نعرے لگاتا ہوا مسجد کے اندر داخل ہوا اور اس میں مقیم احمدیوں کو زخمی کر دیا واٹر پمپ اکھاڑ کر اس کا سامان اٹھا کر لے گئے سے نل الان اسلام کو اور شرانگیز اقدام ل الالو کےمعز مسلمانوں کاکھلا اظہاریت نے دونوں کے علاقوںمیں عنایت ہی سے قرب نفرت اور غصے کی لہر دوڑ گئی.اس حقیقت کا اندازہ درج ذیل خطوط سے بآسانی لگایا جا سکتا ہے جو ان دونوں ضلع لائلپور کے شرفاء اور سر بر آوردہ مسلمانوں کی طرف سے اخبار الفضل میں شائع ہوئے.(1) سمندری کے معزنہ مسلمانوں کا استجاج :- ہم حنفی المذہب مسلمان ہیں ہمارا جماعت احمدیہ سے کوئی تعلق نہیں مگر ہم اس بات پر نفرت کا له تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۱۰-۱۳-۱۹ روفا ه ۱۳۳ / جولائی ۹۵ : له الفضل ١٧ هجرت ۱۳۳۵ مئی ۹۵۷ه ما به سه ریضا
۳۰۵ اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ سمندری میں جن لوگوں نے احمدیہ سجد کو جلایا ہے ان لوگوں نے نہایت گندہ فعل کیا ہے اور ان کی یہ ترکت پاکستان کے مسلمانوں کو سخت بد نام کرنے کا موجب ہے.صرف ہم ہی نہیں ہر شریف انسان کے دل میں ایسی حرکت کرنے والوں کے متعلق نفرت اور غصہ کے جذبات پائے جاتے ہیں.عبادت گاہوں کو جلانا خواہ وہ کسی مذہب اور فرقہ کی ہوں نہایت ہی شرمناک حرکت ہے جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا.مہربانی فرما کہ ہماری یہ رائے اخبار میں شائع کر دیں ہم تمام مسلمانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس مکر وہ فعل پر نفرت کا اظہار کریں تا کہ ملک کی فضا خواب نہ ہو.(دستخط - محمد حسین تنظیم خود ۲ محمد شفیع تعلیم خود ۳- له دوی تعلیم خود ۲۴ محمد دین در محمدعبداله سمندری خاص ) (۲) چک ۳۸۰ گ ب متصل سمندری کے مسلمان شرفاء کے تاثرات :- سمندری میں احمدیوں کی مسجد کو بھلا کہ شرارت پسند عنصر نے بہت ہی گندہ نمونہ پیش کیا ہے عبادت گاہ کو بھلانا خواہ وہ کسی فرقہ کی ہو نہ صرف اسلام کی رو سے گناہ ہے بلکہ اخلاقی لحاظ سے بھی بہت قابل شرم فعل ہے.پاکستان خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک امن پسند جمہوری ملک ہے.اس ملک میں کسی فرقہ کی عبادت گاہ کو جلانا ایسا فعل ہے جس کی ہندو سکھ، یہودی اور عیسائی سے بھی تو قمع نہیں ہے.افسوس ہے کہ ہمارے ملک کے مسلمان اسلام کی خدمت سے تو محروم تھے ہی اب ان میں سے چند شرارت پسند لوگوں نے اپنے اعمال سے اسلام کو بدنام کرنے والی حرکتیں شروع کر دی ہیں جن کو تمام مشریف الطبع پاکستانی مسلمان نہایت نفرت اور حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.ہمارا جماعت احمدیہ سے مذہبی اختلافت ہے مگر ہم اس فعل کو بہت برا اور ظالمانہ فعل سمجھتے ہیں.دستخط 1 محمد شفیع ۲ جلال الدین ۳- محمد حسین ۴ - HAKAMALI "- MOHAMMAD RAFI (۳) چک ۳۸۴ گ به تعمل سمندری کے مسلمان شرفاء کے تاثرات :- جن لوگوں نے سمندری کی احمدیہ مسجد کو جلایا ہے انہوں نے اسلام اور قرآن مجید کی تعلیم کے بالکل انٹ کر کے پاکستان کے مسلمانوں کو بدنام کرنے اور پاکستان کی پرامن فضاء کو برباد کرنے کی کوشش کی ہے.ہم باوجود جماعت احمدیہ سے مذہبی اختلاف رکھنے کے اس فعل پر سخت نفرت کا اظہار کرتے ہیں
اور توقع رکھتے ہیں کہ حکومت ایسے شریر لوگوں سے باز پرس کرے گی اور جو لوگ مجرم ثابت ہوں ان کو سزا دیگر آئندہ کے لئے ملک کی فضا کو پاکیزہ بنائے گی.دستخط -۱ غلام محمد ۲ - سردار محمد (۴) احراریوں کی حرکت اسلام کو ذلیل کرنے والی ہے :.مجھے باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ بعض شرپسند عناصر نے سمندری میں ایک مسجد کو جلا دیا ہے ہیں اور میرے دوست اس فعل پر انتہائی نفرت کرتے ہیں.جب ہم ان واقعات کو مشرقی پنجاب کی سرزمین پر دیکھتے تھے تو انہیں دشمنان اسلام کے صریح مظالم قرار دیتے تھے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ تحریر پسند عناصر کے حد سے گذرنے کی وجہ سے پاکستان میں بھی عبادت گا ہیں محفوظ نظر نہیں آتیں.پاکستان ایک ایسی مملکت ہے جس کے حصول کے لئے لاکھوں انسانوں نے اپنی زندگیاں اس لئے قربان کیں کہ یہاں اسلامی نظام رائج ہو سکے.کیا ان کی روحیں اس ظالمانہ حرکت کو دیکھ کر تڑپ نہ گئی ہوگی ہم آج بھی اسلام کے نام پر ہر قربانی کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن پاکستان میں اسلام کو ذلیل ہوتا نہیں دیکھ سکتے اور نہ ہی حکومت کو اس چیز کی اجازت دے سکتے ہیں کہ مسجدیں جلتی دیکھ کر حکومت کی مشینری میں کوئی حرکت پیدا یکیں اور میرے احباب حکومت سے پر زور استدعا کرتے ہیں کہ پاکستان کی سالمیت کے ان دشمنوں اور خدا کے باغیوں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں کوئی کسر باقی نہ رکھے.خاکسار محمد العلمان حسین طالب علم بی.ایسی سی (زراعت) زراعتی کالج لائل پور" (۵) احراریوں کی حرکت سراسر خلاف اسلام ہے:.جناب ایڈیٹر صاحب الفضل السلام علیکم سمندری ہاں مسجد کو جو آگ لگائی گئی ہے یہ سراسر غلطی ہے اور خلافت اسلام حرکت ہے مسجد خدا کا گھر ہے اس میں جس فرقہ یا خیال کا آدمی بھی عبادت کرنا چاہیے کر سکتا ہے مسجد اس کو نہیں روکتی کہ فلاں آدمی نماز پڑھے اور فلاں نہ پڑھے مسجد فرقہ پرستی سے بالا جگہ ہے.مسجد میں ایک شیعہ بھی نماز پڑھ سکتا ہے، ایک اہلحدیث بھی پڑھ سکتا ہے، ایک، احمدی فرقہ کا آدمی بھی پڑھ سکتا ہے مسجد کا نام سب کے لئے قابل عزت ہے کتنے افسوس کی بات ہے کہ بجائے اس کے کہ !
۳۰۷ اپنے اپنے عقیدہ کے مطابق عبادت کی جائے بعض لوگوں نے یہ طریق اختیار کیا ہے کہ دوسروں کو عبادت کرنے سے روکا جائے اور ان کی مسجد کو بلایا یا گرایا جائے مسجد کو آگ لگانا اسلام کے سراسر خلاف ہے ایسے لوگوں کو دین سے کیا محبت ہو سکتی ہے جو دوسروں کو خدا کی عبادت کرنے سے روکیں.(دستخط ) عبدالرزاق پروپرائٹر اقبال پرنٹنگ پر لیں.لائل پور ) (۶) یہ فعل از حد شرمناک ہے :.جناب ایڈیٹر صاحب افضل السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاته یکن ایک حنفی المذہب مسلمان مہاجر ہوں.جب یکن نے سمندری میں احمدیہ جماعت کی مسجد کو جلانے کی خبر سنی تو مجھے بہت دکھ ہوا کہ ہم لوگ سیکھوں کے مظالم پر روتے تھے خود ہمارے پاکستان میں بھی بعض ایسے گندے اور ظالم لوگ موجود ہیں جو سید کو جلا دینے میں شرم محسوس نہیں کرتے.میں حیران ہوں کہ جب یہ خبر دوسرے ملکوں کے لوگ سنیں گے تو کیا کہیں گے.یہ فعل بہت ہی شرمناک ہے.پاکستان کی رعایا اور حکومت دونوں کو مل کر کوشش کرنی چاہیئے کہ اس قسم کے فسادی لوگ ایسی حرکتیں نہ کر سکیں جن سے پاکستان اور اسلام کی بدنامی ہو اور ملک کا امن خراب ہو جائے.(4) مذہب کے نام پر دھبہ :.عبد الغنی چک موجب تحصیل و ضلع لائل پور) جناب ایڈیٹر صاحب الفضل ! السّلام علیکم و رحمتہ اللہ کچھ دن ہوئے میں نے خبر سنی کہ سمندری میں ایک مسجد کو آگ لگادی گئی.میرے خیال میں جس نے بھی مسجد کو آگ لگائی ہے خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہے یہ اس نے اپنے مذہب کے نام پر دھبہ نگایا ہے کیونکہ مذہب اسلام یہ کسی بھی حالت میں اجازت نہیں دیتا کہ کسی بھی عبادت گاہ کو آگ لگائی جائے.محمد ابراہیم تقسیم خو و منشی محلہ لائل پور نے لاہور نے اخبار جدید نظام نے اپنی ۲۸ مئی ۹ہ کی روزنامہ جدید نظام" کا احتجاج اشاعت میں اس افسوسناک سانحہ پر حسب ذیل احتجاجی نوٹ لکھا:.له الفضل و احسان هر ۱۳ جون ۱۹۵م.۳ را
۳۰۸ کچھ عرصہ سے حکومت پاکستان کو پاکستان کی دیرینہ دشمن اور مخالف جماعت مجلس احرار کے ارکان نے یہ یقین دلانے کی ناکام کوشش کر رکھی ہے کہ مجلسی احتمالہ کی سیاسی پالیسی بالکل ناکام ہو چکی ہے اس لئے وہ لوگ جو کل تک یہ اعلان کیا کرتے تھے کہ ہندوستان میں کوئی ایک بھی ایسا مسلمان موجود نہیں ہے جو پاکستان کا قیام تو در کنار پاکستان کی صرف پ ہی بنا کر دکھاوے لیکن آج جبکہ خدا کے فضل و کرم سے پاکستان کا قیام ہی عمل میں نہیں آیا بلکہ دنیا کی بہترین طاقتور حکومتوں میں سے ایک اعلے پایہ کی حکومت کے طور پر شمار ہونے لگا ہے تو دشمنان پاکستان کی تحریک پر پاکستان کی بعض ایسی جماعتوں نے جو ہمیشہ مشرکین اور کفار کی سٹیج سے تحریک پاکستان اور قیام پاکستان اور بانی پاکستان کے خلاف ذلیل قسم کے خیالات کا اظہار کرتے رہے ہیں اور بانی پاکستان حضرت قائد اعظم مرحوم و مغفور کو عام جلسوں میں نعوذ باللہ کا فراعظم کے خطاب سے نوازتے رہے آج وہی لوگ حکومت پاکستان کو دھوکہ دینے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں اور دوسری طرف مسلمانوں کے مختلف فرقوں میں منافرت پھیلا کہ آپس میں سر پھٹول کرانا اپنا شیوہ بنا چکے ہیں جیسا کہ ضلع لائل پور کی ایک مسجد کو آگ لگا کر تماشا دکھایا گیا ہے.عبادت گاہ خواہ کسی کی ہو ہر لحاظ سے قابل احترام ہے.مرزائیوں سے ہمیں بھی مذہبی اور عقیدہ کے لحاظ سے احراریوں سے زیادہ اختلافات ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ان کی عبادت گاہوں کو آگ لگا کر جلا دیں.ہمارے عقیدہ کے مطابق کوئی مسلمان اس وقت تک مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک وہ حضور نبی کریم حضرت محمد رسول اللہ کو خدا کا آخری نبی اور سچا نبی نہ مانیں کچھ عرصہ ہوا امپرومنٹ ٹرسٹ کا پور نے سڑکوں کی فراضی کی سکیم کے پیش نظر کا نہور کی ایک معبد کا پیشاب خانہ گرا دیا توطول و عرض ہند میں مسلمانوں نے پر زور احتجاج کیا اور اتنازبردست پروسٹ کیا کہ اس عظیم سانحہ کا ذکر کئے بغیر بتر عظیم ہند کی تاریخ مکمل نہیں کی جا سکتی.پھر ابھی کل کی بات ہے کہ لنڈے بازار میں صدہا مسلمان ظفر الملت حضرت مولانا ظفر علی خاں کی زیر قیادت مسجد شہید گنج کے تحفظ کے لئے زخموں سے چور خاک و خون میں لت پت ہو کر تڑپ رہے تھے اور اس حالت میں ان کی لاٹھیوں اور گولیوں سے زخمی جسموں پر گھوڑ سوار دستے سرپٹ دوڑائے گئے تھے لیکن مسجد کے عاشق مسلمان کا پائے ثبات ڈگمگا نہ سکا.ہزاروں مسلمان زخمی ہوئے اور بیشمار
۳۹ جام شہادت نوش کر کے مسجد کی عزت کے تحفظ پر اپنے نفسوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح قربان کر گئے.ان حقائق کے پیش نظر کیا کسی کو یقین آسکتا ہے کہ مسلمانوں نے مسجد کو آگ لگا کر راکھ کر دیا ہو ؟ نہیں ہرگز نہیں.مسلمانوں سے اس قسم کی توقع کا وہم وگمان بھی نہیں کیا جاسکتا.البتہ ہمارے اعزاری بھائی جومسجد شہید گنج کے تحفظ کے لئے جانیں دینے والوں کو حرام موت مرنے والے کہتے تھے کسی مسجد کو آگ لگا کر راکھ کر دیں تو یه دور از قیاس امر نہیں.خانہ خدا (مسجد) کو جلا کر راکھ کر دینے کے بعد احراری بھائیوں کا مقار خصوصی اخبار آزاد مسجد کو مرزائیوں کا گر جا کہ کہ اس خفت کو محو کر نا چاہتا ہے جو دنیا کی نظروں میں رہتی دنیا تک ہمیشہ ان کے شامل حال رہے گی لیکن اختلاف عقائد کی بناء پر دوسرے فرقہ والوں کی مسجد کو گرجا گھر کہ کر جلا دینے کا جو دروازہ کھولا گیا ہے قطع نظر آسمانی حکومت کی غداری کے کہ جینے اپنی آخری کتاب قرآن مجید میں گرجا اندر اور سجد وغیرہ ہر قسم کے عبادت گھروں کی یکساں تعظیم کا تاکیدی حکم دیا ہے ملک کے خرمن امن کو جلانے کا باعث ہوگا.ذرا سوچئے کہ مرزائیوں کی مسجد کیوں جلائی گئی، اس لئے کہ علماء نے انہیں کا فر کہا ہے لیکن کیا علمی نے دیوبندی عقائد والوں کو کا فرنہیں کہا.کیا ہمارے احراری بھائی جو عموما دیو بندی خیال کے ہیں بریلوی علماء احنات و اہل سنت و الجماعت کے فتاوای کفر بھول گئے اور کیا انہیں معلوم نہیں کہ مذہبی طور پر تحتِ اسلامیہ کا کوئی گروہ اور فرقہ ایسا نہیں ہے جس پر گھر کا فتویٰ نہ لگایا گیا ہو.یہاں تک کہ مفتیان عرب شریف بھی اس ثواب میں برابر کے شریک ہیں.شمس العلماء مولانا حالی حیات جاوید میں سرسید مرحوم پر اس قسم کے فتاوی کی تفصیل بیان کرتے ہوئے مکہ معظمہ کے اربعہ مذاہب کے مفتیوں کے فتاوی کا خلاصہ لکھتے ہیں کہ " یہ شخص ( سرسید مرحوم ، مال اور معضل ہے بلکہ ابلیس لعین کا خلیفہ ہے.اس کا فتوی کیو دو نصاری کے فتنہ سے بھی بڑھ کر ہے.بخدا اس کو سمجھے.ضرب اور مبس سے اس کی تادیب کرنی چاہئیے یا ہم آخر میں حکومت اور عوام دونوں کو اس طرف پوری توجہ دلاتے ہوئے اپیل کر دیں گے کہ اس شتر کو جلد سے جلد ختم کرنے کے لئے کوئی موثر اقدام کریں ورنہ پاکستان کے لئے یہ چنگاری کہیں انگ ثابت نہ ہو جس کا بجھتا ہے بعد محال مشکل ہو گا " بالآخر یہ بتانا ضروری ہے کہ احراریوں کا چالان ہوا.سزا ہوئی اور ہائی کورٹ سے قرارداد مجرمیت قائم رہی اور ہائی کورٹ نے مبلغ چار صد روپیہ جرمانہ کی سزاد یگر یہ روپیہ پریذیڈنٹ انجمن احمدیہ کو ادا کرنے کا حکم دیا.
تیسرا باب جار مونضرت بوی کے افتتاح سے لیکر سالانہ جلسہ کو سال ۹۵ از یک ١٣٣ ١٣٣٠ ماه و ماه هستم هنا ۶۱۹۵۱ فصل اوّل ۶۱۹۵۱ جامعہ نصرت کا افتتاح اور حضرت مصلح موعود کا ایمان فروز خطا حضرت المصلح الموعود کے زمانہ خلافت میں احمد ہی خواتین نے دینی کار مہ نصرت بوہ کا پس منظر و عی میدان میں حیرت انگیر ترقی کی چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ قادیان اور ربوہ دونوں مراکز سلسلہ میں تعلیمیافتہ عورتوں کی تعداد غیر تعلیمیافتہ عورتوں سے ہمیشہ زیادہ رہی جس کا اصل سبب تعلیم نسواں کے باب میں حضور کی ذاتی دلچسپی تھی جو قرآن عظیم کے گہرے مطالعہ کے نتیجہ میں پیدا ہوئی.در اصل حضور نے ابتداء ہی سے یہ قرآنی را ز پالیا تھا کہ وہی قوم ترقی کر سکتی ہے جس کی ساری عورتوں کا دینی معیار بلند ہو چنانچہ آپ کلام ربانی " تو گوا عِبَ أَتْرَا بال سے یہ لطیف استدلال فرمایا له النباء نع
کرتے تھے کہ اِس میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ ایسی برکتیں دے گا کہ جب وہ مقام مفاز میں پہنچیں گے تو اُن کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہوگی کہ اُن کی عورتوں کا دینی معیار بھی اُونچا ہو جائے گا اور پھر وہ اس معیار میں ایک دوسری کے برابر ہوں گی.غرض گواعب میں اُن کے معیار کے اُونچے ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے یعنی عورتوں کا دینی معیار بلند ہو گا اور نسب میں جوش اور جوانی اور بلندی پائی جائے گی اور اکشراب سے اِس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اُن کی ترقی قومی ترقی ہوگی انفرادی نہیں یعنی سب میں یہ جوش ایک دوسرے سے ملتا جلتا پایا جائے گا.چنانچہ اسلامی تاریخ کا اگر مطالعہ کیا جائے تو کثرت سے ایسی عورتوں کی مثالیں نظر آتی ہیں یا بے حضرت مصلح موعود نے اسلام کے عہد ثانی کی تاریخ میں ایسی بلند تخیل کو عملی شکل دینے کے لئے اوائل خلافت ہی سے اقدامات شروع کر دیتے تھے چنانچہ اللہ میں پنجاب کے مختلف مقامات پر لڑکیوں کے لئے لیکن مدرسے کھلوائے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد مبارک میں جاری شدہ مدرستہ البغات گرلز سکول ) کو جس کی جماعت بندی شاہ سے ہو چکی تھی کہ مگر جو ابھی بالکل ابتدائی مراحل میں سستے گذر رہا تھا پرائمری سے ترقی دے کر پہلے مڈل پھر ہائی سکول تک پہنچایا.ازاں بعد بالکل اسی طرح نصرت گرلز ہائی سکول کے ساتھ اپریل ۹۳۶ہ اس سے ایک دینیات کلاس کا اضا فہ فرمایا جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ساتھ ایک شاخ دینیات تجاری فرمائی تھی جو خلافت اولی میں مدرسہ احمدیہ جیسے عظیم دینی ادارہ کی شکل اختیار کرگئی.اس ابتدائی دور میں کلاس کی طالبات سے تعلیم کے ساتھ ساتھ مصباح کے لئے باقاعدہ تربیتی مضامین لکھوائے جاتے تھے اور حضرت میر محمد اسحق صاحب پر و فیسر جامعہ احمدیہ کلاس میں نہایت قیمتی اور معلومات افروز لیکچر دیتے تھے جو طالبا میں اسلام سے وابستگی اور دلچسپی کا موجب بنتے تھے.حضرت مصلح موعود نے اس کلاس کے لئے شروع میں ایک عاریتی نصاب تجویز فرمایا اور مستقل نصاب کے لئے حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب ہے اور قاضی محمد اسلم ے تفسیر کبیر (النساء) ص کالم لا.سے الفضل (قادیان) ۲- فروری ۱۹۱۶ ء م کالم را ے قادیان گائیڈ" ما ز مرتبہ میاں محمد یا بین مصاحب نے تاجر کتب قادیان ، مطبوعه ۱۲۵ نومبر ۶۱۹۲۰ کے رپورٹ سالانہ صدر انجمن اسمه قادیان ۶۱۹۳۵ - ۱۹۳۶ء ص ۱۲ شه رپورٹ سالانہ صدر انجمن اسحمدیہ قادیان ۱۱۹۳۹ - ۱۹۳۷ء من ب
۳۱۲ صاحب ایم.اسے (کینٹب) پر مشتمل کمیشن مقر فرمایا جس کی رپورٹ پر حضور نے قیمتی ہدایات دیں اور پھر حضور کی سکیم کے مطابق کلاس کی طالبات تعلیم وتربیت کے زیور سے آراستہ ہوتی رہیں.ما و شهادت ها ( اپریل ۹۲) میں کلاس کے نصاب میں انقلابی تبدیلیاں عمل میں لائی گئیں جبکہ مجلس تعلیم نے حضرت مصلح موعود کی خصوصی ہدایت پر ایک نیا نصاب تجویز کیا اور حضور کے اصولی ارشاد کے ماتحت مشورہ دیا کہ شاخ دینیات کے کورس کو دو دو سال کے چار درجوں میں یعنی گل آٹھ سالوں میں پھیلا کم مقرر کیا جائے جس میں دینیات ، اُردو، عربی، انگریزی ، تاریخ ، تدبیر منزل و غیرہ مضامین رکھے جائیں.دینیات کی تعلیم لازمی ہو اور اس پر زیادہ زور دیا جائے.عربی کی تعلیم ابتدائی چھ سالوں تک لازمی ہو اور اس کے بعد اختیاری ہو اور انگریزی کی تعلیم صرف ابتدائی چار سالوں تک لازمی ہو تیجہ تعلیم کے معزز ارکان نے دو دو سال کے بچار درجوں کے بالترتیب حسب ذیل نام تجویز کئے.در عبر صالحہ وجیہ اشده درجه عالمہ.درجہ فاصلہ.ہر درجہ میں دینیات کا کورس قرآن مجید - حدیث.فقہ اور کلام کی کتابوں پر تمل تھا.مجلس نے آخری درجہ میں پاس ہونے کے لئے ایک مفصل تحقیقی مضمون کا سپر و قلم کرنا بھی لازمی قرار دیا.حضرت امیر المومنین المصلح الموعود کی خدمت میں جب مجلس تعلیم کے اس مجوزہ نصاب کی تفصیلی رپورٹ بغرض منظوری پیشی ہوئی تو حضور نے اپنے قلیم مبارک سے بعض ناگزیر اور ضروری ترمیمات کے ساتھ حسب ذیل فیصلہ فرمایا :- یکی نے مجلس تعلیم کا نصاب تجویز کردہ برائے شعبہ دینیات بمدرسہ بنات دیکھا ہے اس میں مندرجہ ذیل تبدیلیاں ہونی چاہئیں :- ا - درجات کے نام یہ ہوں: میٹرک کے مقابلہ پر درجہ حمیدہ.اس کے اوپر عاملہ اور اس کے اوپر نے رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیه قادیان ۶۱۹۳۴ - ۶۱۹۳۵ کے اس غرض کے لئے صدر مجلس تعلیم حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی صدارت میں ۲۷ تبلیغ ۱۳۳۳ کو ایک خصوصی اجلاس منعقد ہوا جس میں حسب ذیل اصحاب نے شرکت فرمائی : - حضرت مولوی محمد دین صاحب تھی.اسے ، خان بہادر چوہدری ابوالہاشم خان صاحب مولوی عبد المنان ما عمر کے حضرت سا جزادہ مرزا نا ما اخد صاحب.پروفیسر عبد القادر صاحب مولوی سیف الرحمن صاحب مولوی ابو المنير نورالحق صاحب حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب وسرد (سیکرٹری سے تفصیلی نصاب اور اجلاس کی مفصل کاروائی مجلس تعلیم کے قدیم ریکارڈ ہی محفوظ ہے.
۳۱۳ علیمہ اور اس کے اوپر علامہ اور اس کے اوپر ایک آخری انتہائی درجہ اکٹھا کر کے ) اس کا نام فقیہہ رکھا جائے.۲ - شعبہ دینیات اور پنجاب یونیورسٹی کی تعلیم کو اکٹھا کر کے مخلوط نہ کیا جائے بلکہ دونوں کو الگ الگ رکھا جائے مگر کوشش کی جائے کہ شعبہ دینیات میں زیادہ سے زیادہ طالبات آئیں.انگریزی کا کورس زیادہ رکھنا چاہئیے.درجہ عالمہ پاس کرنے کے بعد طالبات میں اتنی استعدا و پیدا ہو جانی چاہیئے کہ وہ انگریزی سمجھ سکیں اور صحیح انگریزی بول اور لکھ سکیں.م درجہ علیمہ میں بھی انگریزی کا مضمون رکھا جائے تا جو طالبہ چاہے ان درجوں میں انگریزی کو پڑھ سکے.مضمون اُردو کے مقابل پر انتخابی ہو..اردو میں پاس ہونا ضروری ہونا چاہئیے اور اپنی زبان ہونے کی وجہ سے اس پر زیادہ زور دینا چاہئیے.درجہ علیمہ میں اُردو کو انگریزی کے ساتھ ALTERNATIVE رکھ دیا جائے تا جو اردو پڑھنا چاہے وہ اگر دو پڑھ سکے اور جو انگریزی پڑھنا چاہے وہ انگریزی پڑھ سکے.تمام لازمی مضامین جی کا پڑھایا جانا ضروری قرار دیا جائے وہ در بہ علمیہ میں ختم کر دیئے جائیں.در بعد علیمہ میں جو تمدن ، اقتصادیات، علم النفس (کے مضامین تجویز کئے گئے ہیں ان کی جگہ ایک مضمون علم التعریفات والاصطلاحات رکھا جائے اور اس میں صرف مذکورہ بالا مضامین ہی نہیں بلکہ تمام مزوری علوم حاضرہ کو شامل کیا جائے اور ہر علم کی تعریف اور مختلف کیفیت بتائی جائے.اس کے لئے ایک فہرست RECOMANDED BOOKS کی تجویز کر دی جائے جو طالبات خود پڑھیں اور ان کے لئے ہر مضمون پر چھ سات لیکچر سال میں مقرر کر دیئے جائیں جن میں انہیں تمام نصا کے مضامین ضروری کی اصطلاحات اور تعریفات سمجھا دی بھائیں اور اس کے لئے ضروری ماخذ وغیرہ بتادیے جائیں.انگریزی اور عربی اصطلاحات بھی حتی الوسع خطوط وسدا نی میں دیدی جائیں.درجہ علامہ میں صرف دو مضامین رکھے جائیں جو ہر طالبہ مندرجہ ذیل مضامین میں سے خود اپنی پسند کے مطابق منتخب کر سکے (1) قرآن شریف (ب) حدیث (ج ) فقہ وتصوت (۱) کلام مشمول دینیات سے و علوم مناظرہ (ح) عربی (خم ) تاریخ (س) انگریزی.یہاں ایک لفظ صحیح پڑھا نہیں گیا (ناقل)
۳۱۴ ۹ درجہ فقیہ میں صرف ایک مضمون لکھنا ہو گا جس کا موضوع منظور کر دو جلس تعلیم ہوگا اور حسب شرائط مجلس تعلیم دو سال میں تحقیقات کرکے مکمل کرنا ہو گا نیز اس کے ساتھ اس مضمون کے متعلق مجوزہ کورس کا مطالعہ کرنا ہو گا دستخط حضرت خلیفہ اسیح الثانی مورخہ ۲۰ بیش ۱۳۲۲ اه شارخ دینیات کے اس جدید نظام کو عملی جامہ پہنانے کے لئے قادیان میں ایک کامیاب آغاز ہو گیا اور طالبات کی ایک معقول تعداد نے جن میں امتہ الرشید شوکت صاحبہ (اہلیہ ملک سیف الرحمن صاحب مفتی سلسلہ احمدیہ ) نصیرہ نزہت صاحبہ (اہلیہ حافظ بشیر الدین صاحب مبشیر ماریشیس و بلا د تربیه و افریقہ اور مبارکہ صاحبہ (اہلیہ حافظ قدرت اللہ صاحب مبلغ ہالینڈ انڈونیشیا ) بھی شامل ہیں قادیان کے اس دینیات کالج سے علیمہ کی سند بھی حاصل کی مگر جلد ہی ملک تقسیم ہوگیا جس کے بعد مرکز ربوہ میں اس شاخ کا احیاء عمل میں لایا گیا.بدلے ہوئے اور نئے ماحول اور مخدوش حالات میں صرف چند جامعہ نصرت کا افتتاح طالبات نے اس میں داخلہ لیا جس پر الہ تعالی نے جماعت احمدیہ کے مخیتور آسمانی قائد اور اولوالعزم امام حضرت مصلح موعود کی توجہ کو اس طرف مبذول کر دیا کہ مرکز احمدیت ربوہ میں شاخ دینیات کو بند کر کے اس کی بجائے عورتوں کا کالج قائم کر دینے کا وقت آن پہنچا ہے.چنانچہ حضور نے خالص اللی منشاء کے مطابق ھ مطابق ۱۹۵۱ء میں جامعہ نصرت کی بنیاد رکھی نے ماہ احسان کو اس کا اجراء عمل میں آیا اور اس کا افتتاح اپنے مقدس ہاتھوں سے ۱۲ار احسان منی کو فرمایا.یہ مبارک تقریب سات بجے صبح شروع ہو کر ساڑھے آٹھ بجے اختتام پر یہ افتتاحی تقریب کا آغاز | ہوئی.ربوہ کی احمدی خوانین کا ایک جم غفیر اس تقریب سعید کے موقع پر دعا کی غرض سے جامعہ نصرت میں جمع تھا حضور کی تشریف آوری پر کارٹی کی ایک طالبہ امتا نی بیگم صاحبہ نے تلاوت قرآن کریم کی.ے ریکارڈ مجلس تعلیم به سه تاریخ لجنہ اماءاللہ پہلی جلد ۳۲ در قم فرموده حضرت سیده ام متین صاء به ظله العالی) نا بشر دختر مجنہ اماءاللہ مرکز یہ ربوہ سال اشاعت - دسمبر ۱۱۹۷۰ +
۳۱۵ تلاوت کے بعد حضور پر نور کے تشہد و تعوذ اور سورة حضرت امیر المومنین کا بصیرت افروز خطاب فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.زمانہ کے حالات بدلتے ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ انسان بھی بدلتا چلا جاتا ہے.یہ ایک عام قانون ہے جو دنیا میں جاری ہے.دریا چلتے ہیں اور پہاڑوں اور میدانوں کے نشیب و فرازہ کی وجہ سے ان کے بعض حصوں پر دباؤ پڑتا ہے اور اس کے نتیجہ میں کچھ دور جا کر دریا کا رخ بدل بہاتا ہے.بعض دفعہ دس دس پندرہ پندرہ نہیں ملیں ، تیس تیس میل تک دریا بدلتے چلے جاتے ہیں اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان بدلتے ہیں اور ان کے ساتھ زمانہ بدل جاتا ہے.یہ دونوں قسم کے نظارے ہمیں دنیا میں نظر آتے ہیں کبھی زمانہ کے بدلنے سے انسان بدلتے ہیں اور کبھی انسانوں کے بدلنے سے زمانہ بدلتا ہے اذین کمزور ہوتا ہے تو زمانہ کے بدلنے سے وہ بدل جاتا ہے اور جب طاقتور ہوتا ہے تو اس کے بدلنے سے زمانہ بدل جاتا ہے.کمزور قومیں اپنی حاصل شدہ عظمت اور طاقت کو زمانہ کے حالات کے مطابق بدلتی چلی جاتی ہیں.وہ اپنے ہمسایوں سے بد رسوم کو لیتی ہیں ، اپنے ہمسایوں سے بداخلاق کو لیتی ہیں ، اپنے ہمسایوں سے سستی اور جہالت کو لیتی ہیں، اپنے ہمسایوں سے جھوٹ اور فریب کو لیتی ہیں، اپنے ہمسایوں سے ظلم اور تعدی کولیتی ہیں، اور وہی قوم جو کسی وقت آسمان پر چاند اور ستاروں کی طرح چمک رہی ہوتی ہے نہایت ذلیل اور حقیر ہو کر رہ جاتی ہے.تم اپنے ہی اسلاف کو دیکھو اگر تمہیں اپنے بناؤ اور سنگھار سے فرصت ہو کہ تمہارے اسلاف کیا تھے اور اب تم کیا ہو ؟ مجھے بتایا گیا ہے کہ کالج کی طالبات نے جب مضمونوں کا انتخاب کیا تو ان میں سے اکثر نے تاریخ سے بچنے کی کوشش کی.یہ بالکل ایسی ہی بات ہے جیسے ہم کسی بچہ کو کہیں کہ آور ہم تمہیں تمہارے ماں باپ کا نام بتائیں اور وہ بھاگے.تاریخ کیا ہے، تاریخ تمہیں بتاتی ہے کہ تمہارا باپ کون تھا ؟ تمہا را وا دا کون تھا ؟ تمہاری ماں کون تھی ؟ تمہاری نانی کون تھی ؟ تاریخ تمہیں بتاتی ہے کہ تمہارے آباء واجداد کیا تھے ؟ اور اب تم کیا ہو ؟ تاریخ سے کسی شخص کا بھا گنا یا اس مضمون کو بو جھیل سمجھنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص اپنے آبا واجد کی بات مسلنے کے لئے تیار نہ ہو.حالانکہ اگر دنیوی لحاظ سے کوئی مضمون ایسا ہے جس کے حصول کے لئے ہمیں لڑنا چاہیے تو وہ تاریخ ہی ہے.تاریخ سے بھاگنے کے معنے ہوتے ہیں طبیعت میں مردہ دلی ہے.جیسے کسی کمزور آدمی کو زخم لگ جاتا ہے تو وہ کہلتا ہے مجھے نہ کھاؤ میں نہیں دیکھتا میرا دل ڈرتا ہے.تاریخ
٣١٩ سے بھاگنے والی قوم وہی ہوتی ہے جو ڈرپوک ہو جاتی ہے اور ڈرتی ہے کہ اگر میرے ماں باپ کی تاریخ میرے سامنے آئی اور اس میں میرا بھیانک چہرہ مجھے نظر آیا اور مجھے پتہ لگا کہ میں کون ہوں تو میرا دل برداشت نہیں کرے گا چونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اس آئینہ میں میری شکل مجھے نظر آئے گی اس لئے وہ اپنی شکل کے خیال اور تصور سے کہ وہ کتنی بدصورت ہوگی اسے دیکھنے سے اجتناب کرنے کی کوشش کرتا ہے.یہ بات فطرت انسانی میں داخل ہے کہ وہ اپنے آباء و اجداد اور اپنی اولاد اور اپنے رشتہ داروں کو اپنی شکل کا دیکھنا چاہتا ہے.کئی ماں باپ جن کے ہاں کسی حادثہ یا بیماری کی وجہ سے بدصورت بچے پیدا ہو جاتے ہیں ان سے ان کی مائیں بھی نفرت کرنے لگتی ہیں اور وہ بدصورت بچے اپنے دوسرے بھائیوں سے نفرت کرتے ہیں اس خیال سے کہ یہ ہم سے اچھے ہیں.اس طرح جب تاریخ میں انسان اپنے آباء کو دیکھتا ہے کہ انہوں نے یہ یہ کارنامے سر انجام دیئے اور ان کی یہ شان تھی اور اس کے مقابلہ میں وہ یہ دیکھتا ہے کہ ہم کیا ہیں.اور پھر وہ اس میلین اور طریق کو دیکھتا ہے جو اس نے اور اس کے ساتھیوں نے اختیار کیا ہوا ہے تو دیانتداری کے ساتھ وہ یہ سمجھنے پرمجبور ہو جاتا ہے کہ میری غفلت اور میری سہل انگاری اور میری اپنے فرائض سے کوتا ہی اور میری عیش و آرام کی زندگی مجھ کو مجرم بنانے کے لئے کافی ہے.اسے تاریخ کے اس آئینہ میں اپنا گھناؤنا چہرہ نظر آجاتا ہے اور وہ خیال کرتا ہے کہ جب میں پڑا نے حالات پڑھوں گا اور دیکھ لوں گا کہ وہ لوگ جو میرے آباد تھے ان کاموں سے نفرت کیا کرتے تھے تو مجھے بھی اپنے اندر تغیر پیدا کرنا پڑے گا پس وہ اپنے بد صورت چہرہ کو ان کے خوبصورت چہرہ سے ملانے سے گھبراتا ہے اور اس لئے تاریخ سے دور بھاگتا ہے.جب آج کل کا مسلمان تاریخ کے آئینہ میں یہ دیکھتا ہے کہ اس کے باپ اور ماں ہمالیہ سے بھی اونچے قدوں والے تھے.آسمان بھی ان کے دبدبہ سے کا پتا تھا اور اس کے مقابلہ میں وہ اپنی تصویر کا خیال کرتا ہے کہ بالکل ایک بالشتیہ نظر آتا ہے اور اس کی مثال ایک کا رک جتنی بھی نہیں جو دریا میں بہتا چلا جاتا ہے.سیمنارہ کی تریں اُٹھتی ہیں اور اس کے آباء و اجداد کی مضبوط چٹان سے ٹکراتی ہیں اور وہ بلند و بالا ہونے والی نہریں جن کو دیکھ کر لبسا اوقات انسان یہ خیال کرتا ہے کہ وہ دنیا کو کہا کر لے جائیں گی وہ اس کے آباء واجداد کی چٹانوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جاتی ہیں.ان کا پانی بھاگ بن کر رہ جاتا ہے، اور اس چڑان کے قدموں میں وہ جھاگ پھیل رہی ہوتی ہے.ہوا میں پہلے پھٹ پھٹ کر غائب ہوتے پہلے جاتے ہیں اور اس کو نظر آتا ہے کہ اس کے آباء و اجداد کی کیا شان تھی پھر وہ اپنی
۳۱ طرف دیکھتا ہے کہ ایک چھوٹی سی ندی جس کی حیثیت ہی نہیں ہوتی اس میں وہ ایک کا رک کی طرح ادھر ادھر پھر رہا ہے کبھی وہ کسی چٹان سے ٹکراتا ہے اور کبھی کسی سے کی بھی دائیں طرف چلا جاتا ہے اور کبھی بائیں طرف کبھی وہ خس و خاشاک کے ڈھیروں میں چھپ جاتا ہے اور کبھی گندی بھاگ میں، اور ہرشخص اس کی لرزتی اور کپکپاتی ہوئی سالت کو دیکھ کہ اس سے اپنا منہ پھیر لیتا ہے اور کہتا ہے یہ کیا ہی ذلیل چیز ہے تاریخ سے بھاگنے والا وہی بزدل ہوتا ہے جس میں یہ جرات نہیں ہوتی کہ وہ حقائق کے آئینہ میں اپنے باپ دادا کی شکل کے سامنے اپنی شکل رکھ سکے.بہادر اور ہمت والا انسان خود جاتا ہے اور اس آئینہ کو اٹھاتا ہے اور وہ اس آئینہ میں اپنی شکل کو دیکھ کر اپنے مستقبل کا فیصلہ کرتا ہے اور کہتا ہے ہاں میرے آباء و اجداد اگر چٹان تھے تو میں بھی چٹان بن کر رہوں گا.وہ اگر طوفان تھے تو میں ان سے بھی اُونچا طوفان بنوں گا.وہ اگر سمندر کی لہروں کی طرح اُٹھتے تھے تو ئیں ان سے بھی اُونچا اٹھوں گا.تم جانتی ہو کہ وہ لڑکی جس کے نمبر کلاس میں زیادہ ہوتے ہیں وہ نمبروں کو چھپاتی نہیں بلکہ ہر ایک کو بتاتی ہے.نمبروں کا بتاتا ایسا ہی ہوتا ہے جیسے انسان کا اپنا منہ دیکھانا.وہ اپنا اندرونہ دیکھاتی ہے.اور جس کے نمبر کم ہوتے ہیں وہ ان کو چھپایا کرتی ہے پس تاریخ کے پڑھنے سے گریز در حقیقت بزدلی کی علامت ہے.در حقیقت یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس شخص کو اپنے مکر وہ چہرے کا پتہ ہے اور اس شخص کو اپنے آباء و اجداد کے حسین چہرے کا بھی پتہ ہے.مگر ان دونوں باتوں کے معلوم ہونے کے بعد وہ یہ جرات نہیں رکھتا کہ ایک آئینہ میں دونوں کی اکٹھی شکل دیکھ سکے.یہاں تک توئیں نے صرف عام پیرایہ میں اس مضمون کی اہمیت بیان کی ہے اگر مذہبی پہلو سے لوتو تاریخ ہی ایک مسلمان کو بتا سکتی ہے کہ کسی طرح ایک ریگستان سے ایک انسان اٹھا اور اس نے اپنی مقناطیسی قوت سے اپنے اردگرد کے فولادی ذروں کو جمع کرنا شروع کیا پھر تھوڑے ہی عرصہ میں وہ ایک علاقہ میں پھیل گیا، پھرملک میں پھیل گیا، پھر زمین کے تمام گوشوں میں چپے چپے پر اس کی جماعت پھیل گئی.قرآن کریم نے مسلمانوں کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ ان کا نام بَرَرَہ “ اور سفرہ“ رکھا ہے یعنی ان کے قدم گھر میں ٹکتے ہی نہیں تھے.دنیا کے گوشوں گوشوں میں پھیلتے چلے جاتے تھے اور جہاں جاتے تھے اپنی خوش استلاقی اور اعلی درجہ کے چپلن کی خوشبو پھیلاتے بجاتے تھے لیکن کیا وہ پھیلنے والا مسلمان اور کجا آج کا سمٹنے والا مسلمان کجا وہ زمانہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں فرمایا کہ مردم شماری کرو
اور دیکھو کہ اب کتنے مسلمان ہو چکے ہیں.مردم شماری کی گئی ، مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کی تعداد سات سو نکلی.تم جانتی ہو کہ ربوہ کی آبادی اِس وقت اڑھائی ہزار کے قریب ہے گویا تمہاری ربوہ کی آبادی کا با حقہ تھے.اور یہ وہ مردم شماری تھی جو ساری دنیا کے مسلمانوں کی تھی کیونکہ اس وقت مدینہ سے باہر مسلمان بہت تھوڑے تھے سوائے حبشہ کے کہ وہاں کوئی پچاس کے قریب مسلمان ہوں گے یا مکہ میں کچھ سلمان تھے جو ڈر کے مارے اپنے ایمان کا اظہار نہیں کرتے تھے اور کھلے بندوں اسلام میں شامل نہیں تھے.غرض مردم شماری کی گئی اور سات سو کی آبادی نکلی.وہ صحابہ ضمین کے سپرد یہ کام تھا وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ کلم کے پاس آئے اور انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مسلمانوں کی آبادی سات سو نکلی ہے.پھر انہوں نے کہا یا رسول اللہ آپ نے مردم شماری کا حکم کیوں دیا تھا ؟ کیا آپ کو یہ خیال آیا کہ سلمان تھوڑے ہیں ؟ یا رسول اللہ ! اب تو ہم سات سو ہو گئے ہیں اب ہمیں دنیا سے کون مٹا سکتا ہے ؟ آج کیا جاتا ہے کہ مسلمان ساٹھ کروڑ ہیں لیکن ان کا ساٹھ کروڑ کا دل اتنا مضبوط نہیں جتنا ان سات سو کا دل مضبوط تھا.آخر یہ تفاوت جو دلوں کے اند رہے تمہیں اس کا کس طرح پتہ لگ سکتا ہے بغیر تاریخ کے مطالعہ کے.ایک ایک مسلمان نکلتا تھا اور دنیا کی طاقتیں اس کے سامنے جھک جاتی تھیں.وہ نقال نہیں تھا بلکہ خود اپنی ذات میں اپنے آپ کو آدم سمجھتا تھا.وہ یقین رکھا تھا کہ دنیا میری قتل کرے گی میرا کام نہیں کہ میں اس کی نقل کروں.تم اگر تاریخ پڑھو توتمہیں پتہ لگے گا کہ آج تم ہر بات میں یورپ کی نقل کر رہی ہو تم العض دفعہ کہ دیتی ہو خلال تصویر میں میکن نے ایسے بال دیکھے تھے اُن جب تک میں بھی ایسے بال نہ بنالوں مجھے چکن نہیں آئے گا، خلال پوڈر نکلا ہے جب تک میں اسے خرید نہ لوں مجھے قرار نہیں آئے گا.اس کے معنے یہ ہیں کہ تم سمجھی ہو کہ تمہارا دشمن بڑا ہے اور تم چھوٹی ہو.اگر تم بڑی ہو تو اس کا کام ہے کہ وہ تمہاری نقل کرے اور اگر وہ بڑا ہے تو پھر تمہارا کام ہے کہ تم اس کی نقل کرو.حضرت عمر کے زمانہ میں اسلامی لشکر ایران کے ساتھ ٹکڑے رہا تھا کہ بادشاہ کو خیال آیا کہ یہ عرب ایک شریب ملک کے رہنے والے بھو کے نگے لوگ ہیں اگر ان کو انعام کے طور پر کچھ روپیہ دے دیا جائے تو ممکن ہے یہ لوگ واپس پہلے بائیں اور لڑائی کا خیال ترک کر دیں.چنانچہ اس نے مسلمانوں کے کمانڈر انچیت کو کہلا بھیجا کہ اپنے چند آدمی میرے پاس بھجوا دیئے جائیں میں ان سے گفت گو کرنا چاہتا ہوں.جب وہ ملنے کے لئے آئے تو اُس وقت بادشاہ بھی اپنے دارالخلافہ سے نکل کر کچھ دور آگے آیا ہوا تھا اور
٣١٩ عیش اور تنعم کا ہرقسم کا سامان اس کے ساتھ تھا.نہایت قیمتی قالین بچھے ہوئے تھے.نہایت اعلی درجہ کے کا وچ اور کرسیاں بچھی ہوئی تھیں اور بادشاہ تخت پر بیٹھا ہوا تھا کہ مسلمان سپاہی آپہنچے سپاہیوں کے پاؤں میں آدھے چھلے ہوئے چھڑے کی پوتیاں تھیں جو مٹی سے آئی ہوئی تھیں اور ان کے ہاتھوں میں نیزے تھے جس وقت وہ دروازے پر پہنچے چو ہدار نے آواز دی کہ بادشاہ سلامت کی حضوری میں تم حاضر ہوئے ہو اپنے آپ کو ٹھیک کرو.پھر اس نے مسلمان افسر سے کہا تمہیں معلوم نہیں کہ کسی قسم کے قیمتی قالین بچھے ہوئے ہیں تم نے اپنے ہاتھوں میں نیزے اٹھائے ہوئے ہیں ان نیزوں سمیت قالینوں پر سے گذرو گے تو ان کو نقصان پہنچے گا.اس مسلمان افسر نے کہا تمہارے بادشاہ نے ہم کو بلایا ہے ہم اپنی مرضی سے اس سے ملنے کے لئے نہیں آئے اگر ملنے کی احتیاج ہے تو اس کو ہے ہمیں نہیں، اسے اگر اپنے قالینوں کا خیال ہے تو اسے کہہ دو کہ وہ اپنے قالین اٹھالے ہم جوتیاں اتارنے یا نیزے اپنے ہاتھ سے رکھنے کے لئے تیار نہیں.اُس نے بہتیرا پروٹسٹ کیا اور کہا کہ اندر نہایت قیمتی فرش ہے جوتیاں اُتار دو اور نیزے رکھ دو مگر انہوں نے کہا یہ نہیں ہو سکتا اس نے ہم کو بلایا ہے ہم اپنی مرضی سے اس سے ملنے کے لئے نہیں آئے.غرض اسی حالت نہیں وہ اندر پہنچے.وہاں تو بڑے سے بڑا جرنیل اور وزیر بھی زمین بوس ہوتا اور بادشاہ کے سامنے سجدہ کرتا تھا مگر یہ تنی ہوئی چھاتیوں اور اُٹھی ہوئی گردنوں کے ساتھ وہاں پہنچے بادشاہ کو سلام کیا اور پھر اس سے پوچھا کہ بادشاہ تم نے ہمیں کیوں بلایا ہے ؟ بادشاہ نے کہا تمہارا ملک نہایت جاہل ، پیست، درماندہ اور مالی تنگی کا شکار ہے اور پھر عرب وہ قوم ہے کہ جو گوہ تک ( ایک ادنی جانور ہے) کھاتی ہے وہ عمدہ کھانوں سے نا آشنا ہے، عمدہ لباس سے نا آشنا ہے اور بھوک اور افلاس نے اسے پریشان کر رکھا ہے معلوم ہوتا ہے اس تنگی اور قحط کی وجہ سے تمہارے ولوں میں یہ خیال پیدا ہوا ہے کہ ہم دوسرے ملکوں میں جائیں اور اُن کو ٹوٹیں ہیں تمہارے سامنے تمہاری این تکلیف کو دیکھتے ہوئے یہ تجویز پیش کرتا ہوں کہ تمہارا جتنا لشکر ہے اس میں سے ہر سپاہی کو ایک ایک اشرفی اور ہر افسر کو دو دو اشرفیاں دے دوں گا تم یہ روپیہ لو اور اپنے ملک میں واپس چلے جاؤ مسلمان کما نڈر نے کہا اسے بادشاہ یہ جو تم کہتے ہو کہ ہماری قوم گوہ تک کھانے والی تھی اور ہم غربت اور ناداری میں اپنے ایام بسر کر رہے تھے یہ بالکل درست ہے ایسا ہی تھا مگر اب وہ زمانہ نہیں رہا خدا تعالیٰ نے ہم ہیں، اپنا ایک رسول بھیجا اور اس نے ہم کو خدا تعالی کا پیغام پہنچایا اور ہم نے اسے قبول
۳۲۰ کر لیا تمہارا یہ خیال ہے کہ ہم ولوؤں کے لئے نکلے ہیں مگر ہم رو پوؤں کے لئے نہیں نکلے تمہاری قوم نے ہم سے جنگ شروع کی ہے اور اب ہماری تلواریں تبھی نیام میں جائیں گی جب یا تو کلمہ شہادت پڑھ کر مسلمان ہو جاؤ گے اور یا پھر مسلمانوں کے باجگزار ہو جاؤ گے اور ہمیں جزیہ ادا کر و گے.ایران کا بادشاہ جو اپنے آپ کو نصف دنیا کا بادشاہ سمجھتا تھا وہ اس جواب کو شنکر برداشت نہ کر سکا.اُسے غصہ آیا.اس نے چو ہدار سے کہا جاؤ اور ایک بوری میں مٹی ڈال کر لے آؤ.وہ بوری میں مٹی ڈال کر لے آیا تو اس نے کہا یہ بوری اس مسلمان سردار کے سر پر رکھ دو اور اسے کہ دو کہ میں تمہارے سروں پر خاک ڈالتا ہوں اور سوائے اس مٹی کے تمہیں کچھ اور دینے کے لئے تیار نہیں.وہ مسلمان افسر جس کی گردن ایران کے بادشاہ کے سامنے نہیں تھکی تھی اس موقع پر اُس نے فوراً اپنی گردن جھکا دی پیٹھ پر پوری رکھی اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ بھاؤ با دشاہ نے خود ایران کی زمین ہمارے سپرد کر دی ہے مشرک تو وہی ہوتا ہے بادشاہ نے یہ سنا تو اس کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی اور اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ان لوگوں کو جلدی پڑو مگر وہ اس وقت تک دُور نکل چکے تھے انہوں نے کہا اب یہ پکڑی بھانے والی مخلوق نہیں ہے.پھر وہی بادشاہ جس نے یہ کہا تھا کہ میں تمہارے سروں پر خاک ڈالتا ہوں وہ میدان چھوڑ کر بھاگا.پھر ملک چھوڑ کر بھاگا اور شمالی پہاڑیوں میں جا کر پناہ گزین ہو گیا اور اس کے قلعے اور محلات اور خزانے سارے کے سارے مسلمانوں کے قبضہ میں آگئے.ابو ہریرہ وہ غریب ابو ہریرہ ہے جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں سارا دن بیٹھے رہنے کے خیال سے کوئی گزارہ کی صورت پیدا نہیں کرتا تھا اور جسے بعض دفعہ کئی کئی دن کے فاقے ہو جایا کرتے تھے ایک دفعہ وہ مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ انہیں کھانسی اٹھی انہوں نے اپنی جیب میں سے رومال نکالا اور اس میں بلغم تھوکا اور پھرکا کی بیخ ابوہریرہ یعنی واہ واہ ابو ہریرہ کبھی تو تو فاقوں سے بہیوش ہو جایا کرتا تھا اور آج تو کسری کے اُس رومال میں تھوک رہا ہے جیسے بادشاہ تخت پر بیٹھتے وقت اپنی شان دکھانے کے لئے خاص طور پر اپنے ہاتھ میں رکھا کرتا تھا.لوگوں نے کہا.یہ کیا بات ہے.انہوں نے کہا میں آخری زمانہ میں مسلمان ہوا تھا ئیں نے اس خیال سے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی باتیں لوگوں نے بہت کچھ سن لی ہیں اور اب میرے لئے بہت تھوڑا زمانہ باقی ہے یہ عہد کر لیا کہ میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے دروازہ سے نہیں ہوں گا سارا دن مسجد میں ہی رہوں گا تا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب
۳۲۱ بھی باہر تشریف لائیں لیں آپ کی باتیں سن سکوں کچھ دن تو میرا بھائی مجھے روٹی پہنچاتا رہا مگر آخر اس نے روٹی پہنچانی چھوڑ دی اور مجھے فاقے آنے لگے بعض دفعہ سات سات وقت کا فاقہ ہو جاتا تھا اور بھوک کی شدت کی وجہ سے لیکن بے ہوش ہو کر گر جاتا تھا.لوگ یہ سمجھتے کہ مجھے مرگی کا دورہ ہو گیا ہے.اور عربوں ہیں یہ رواج تھا کہ جب کسی کو مرگی کا دورہ ہوتا تو وہ اس کے سر پر جوتیاں مارا کہتے تھے اور سمجھتے تھے کہ یہ مرگی کا علاج ہے.جب میں بے ہوش ہوتا تو میرے سر پر بھی وہ جوتیاں مارنی شروع کر دیتے حالانکہ یکی بھوک کی شدت کی وجہ سے بے ہوش ہوتا تھا.اب کجا وہ حالت اور کجا یہ بحالت که ایران کا ختنہ انہ مسلمانوں کے قبضہ میں آیا اور اموال تقسیم ہوئے تو وہ رومال جو شاہ ایران تخت پر بیٹھتے وقت اپنے ہاتھ میں رکھا کرتا تھا وہ میرے حصہ میں آیا.مگر ایران کا بادشاہ تو آرائش کے لئے اس رو مال کو اپنے ہاتھ میں رکھا کرتا تھا اور میرے نزدیک اس رومال کی صرف اتنی قیمت ہے کہ میں اس میں اپنا عظیم تھوک رہا ہوں.سوائے تاریخ کے کونسی چیز ہے جو تمہیں اپنے آباء کے ان حالات سے واقف کر سکتی ہے اور تمہیں بتا سکتی ہے کہ تم کیا تھے اور اب کیا ہو.کسی ملک میں مسلمان عورت نکل جاتی تھی تو لوگوں کی مجال تک نہیں ہوتی تھی کہ وہ اس کی طرف اپنی آنکھ اُٹھا سکیں آج کل ربوہ کی گلیوں میں احمدی عورتیں پھرتی ہیں تو ہمیں ڈر ہوتا ہے کہ ایسا نہ ہو باہر کا کوئی اوباش یہاں آیا ہوا ہو اور وہ کوئی شرارت کر دے لیکن ایک وہ زمانہ گذرا ہے کہ مسلمان عورتیں دنیا کے گوشے گوشے میں جاتیں اکیلے اور تن تنہا جاتیں اور کسی کو جرات نہیں ہوتی تھی کہ وہ ان کی طرف ترچھی نگاہ سے دیکھ سکے اور اگر کبھی کوئی ایسی غلطی کر بیٹھتا تو وہ اس کا ایسا خمیازہ بھگتا کہ نسلوں نسل تک اس کی اولاد ناک رگڑتی چلی جاتی.مسلمان اپنے ابتدائی دور میں ہی دنیا میں پھیل گئے تھے.رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی وفات پر ابھی اسی نوے سال ہی گذرے تھے کہ وہ چین اور ملایا اور سیلون اور ہندوستان کے مختلف گوشوں میں پھیل گئے.ادھر وہ افریقہ کے مغربی ساحلوں تک چلے گئے تھے اور ان کی لہریں یورپ کے پہاڑوں سے ٹکرا رہی تھیں.اس ابتدائی دور میں مسلمانوں کا ایک قافلہ جس کو سیلون کے بدہ بادشاہ نے خلیفہ وقت کے لئے کچھ تحائف بھی دئے تھے سیلون سے روانہ ہوا اور اُسے سندھ ہیں
۳۲۲ ا ٹوٹ لیا گیا سندھ میں ان دنوں راجہ داہر کی حکومت تھی.جب اس قافلہ کے ٹوٹ جانے کی خبر مشہور ہوئی تو گورنر عراق کا والی مکران کو محکم پہنچا کہ ہمارے پاس یہ خبر پہنچی ہے کہ مسلمانوں کا ایک قافلہ جو سیلون سے چھلا تھا وہ سندھ میں لوٹا گیا اور مسلمان مرد اور عورتیں قید ہیں تم اس واقعہ کی تحقیق کر کے ہمیں اطلاع دور والی مکران نے راجہ داہر سے دریافت کیا تو اس نے اس واقعہ سے انکار کر دیا مسلمان چونکه خود را استباز تھے اس لئے وہ سمجھتے تھے کہ دوسرے لوگ بھی سچ بولتے ہیں.جب راجہ داہر نے انکار کر دیا تو انہوں نے بھی مان لیا کہ یہ بات سچ ہو گی کچھ عرصہ کے بعد ایک اور قافلہ انہوں نے اسی طرح گوٹا اور ان میں سے بھی کچھ عورتیں انہوں نے قید کیں.ان عورتوں میں سے ایک عورت نے کسی طرح ایک مسلمان کوجو قید نہیں ہوا تھا یا قید ہونے کے بعد کسی طرح رہا ہو گیا تھا، کہا کہ میرا پیغام مسلمان قوم کو پہنچا دو کہ ہم یہاں قید ہیں اور مسلمان حکومت کا فرض ہے کہ وہ ہم کو بچائے.اس وقت خلیفہ بنو امیہ افریقہ پر چڑھائی کی تجویزیں کر رہا تھا اور سپین فتح کرنے کی سکیم بن رہی تھی اور تمام علاقوں میں یہ احکام بھاری ہو چکے تھے کہ جتنی فوج میسر آسکے وہ افریقہ کے لئے بھجوا دی جائے.اُس وقت وہ پیغا مہر پہنچا اور اس نے عراق کے گورنر کو جو حجاج نامی تھا اور جو سخت بد نام تھا یہ پیغام پہنچایا.اس میں بد نامی کی بھی باتیں ہوں گی مگر اس جیسا نڈر، بہادر اور اسلام کے لئے قربانی کرنے والا آدمی بھی اس زمانہ میں ہمیں شاذ و نادر ہی نظر آتا ہے.آنے والے نے حجاج سے کہا کہ میں سندھ سے آیا ہوں وہاں بیکے بعد دیگر نے دو مسلمان قافلے لوٹے گئے اور کئی مسلمان قید ہیں.راجہ داہر نے گورنر مکران سے یہ بالکل جھوٹ کہا ہے کہ ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا.حجاج نے کہا ئیں کس طرح مان لوں کہ تم جو کچھ کہ رہتے ہو درست کہہ رہے ہود ہر بات کی دلیل ہوتی چا ہئے بغیر کسی دلیل کے ہیں تمہاری بات نہیں مان سکتا.اس نے کہا آپ مانیں ! نہ مانیں واقعہ یہی ہے کہ وہ لوگ جھوٹ بول رہے ہیں.حجاج نے کہا اول تو تمہاری بات پر یقین کر نیکی کوئی و بعد نہیں ہم نے گورنر مکران کو لکھا اور اس نے جو جواب دیا وہ تمہارے اس بیان کے خلاف ہے دوسرے تمہیں یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ خلیفہ وقت کا حکم ہے کہ جتنی فوج میسر ہوا فریقہ بھیج دو پس راس وقت ہم اپنی فوجوں کو کسی اور طرف نہیں بھیج سکتے.غرض اس نے ہر طرح سمجھا یا مگر جارج پر کوئی اثر نہ ہوا اور اس نے کہا میرے حالات اس قسم کے نہیں کہ یک اس طرف توجہ کر سکوں.جب وہ ہر طرح دلائل دے کر تھک گیا تو اس نے کہا میرے پاس آپ کے لئے اور خلیفہ وقت کے لئے ایک پیغام بھی ہے.بجاج
۳۲۳ نے کہا وہ کیا ہے.اس نے کہا جب میں چلا ہوں تو ایک مسلمان عورت جو قید ہونے کے خطرہ میں تھی اور اس وقت تک قید ہو چکی ہوگی اس نے مجھے یہ پیغام دیا تھا کہ اسلامی خلیفہ اور عراق کے گورنر کو ہماری طرف سے یہ پیغام دے دیں کہ مسلمان عورتیں ظالم ہندوؤں کے ہاتھ میں قید ہیں اور ان کی عزت اور ان کا ناموس محفوظ نہیں ہے ہم مسلمان قوم سے مطالبہ کرتی ہیں کہ وہ اپنے فرض کو ادا کرے اور ہمیں یہاں سے بچانے کی کوشش کرے.کوئی ملک نہیں کوئی قوم نہیں دو یا تین عورتیں ہیں اور میں یا پچیس مرد نہیں جن کے بچانے کے لئے بعض دفعہ ضلع کا ڈپٹی کمشنر بھی یہ کہہ دیتا ہے کہ میرے پاس سپاہی موجود نہیں یہ ایک معمولی واقعہ ہے اس کا حجاج پر یہ اثر ہوتا ہے کہ وہی حجاج جو یہ کہ رہا تھا کہ ہمارے پاس فوج نہیں ہم یورپ پر حملہ کی تیاری کر رہے ہیں وہ اس پیغام کو شنکر گھبرا کر کھڑا ہو گیا.اور جب اس آنے والے آدمی نے پوچھا کہ اب آپ مجھے کیا جواب دیتے ہیں تو حجاج نے کہا اب کہنے اور سننے کا کوئی وقت باقی نہیں اب میرے لئے کوئی اور فیصلہ کرنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اب اس کا جواب ہندوستان کی فوج کو ہی دیا جائے گا چنانچہ اس نے بادشاہ کو لکھا اس نے بھی یہی کہا کہ ٹھیک فیصلہ ہے اب ہمارے لئے مشورہ کرنے کا کوئی موقع باقی نہیں.اور اس فیصلہ کے مطابق مسلمان فوج سندھ کے لئے روانہ کردی گئی.درمیان میں کوئی ہزار میل کا فاصلہ ہے یا اس سے بھی زیادہ.اور اس زمانہ میں موٹروں کے ساتھ بھی اس فاصلہ کو آسانی کے ساتھ طے نہیں کیا جا سکتا تھا لیکن بادشاہ نے حکم دیا کہ آپ مسلمانوں کی عزت اور ناموس کا سوال ہے بغیر کسی التواء کے جلد سے جلد منزل مقصود پر مسلمانوں کا پہنچنا ضروری ہے چنانچہ مسلمان و رمیان میں کہیں ٹھہرے نہیں.انہوں نے اونٹوں اور گھوڑوں پر رات اور دن سفر کیا اور بارھویں دن اس فاصلہ کو جو آج ریلیوں اور موٹروں کے ذریعہ بھی اتنے قلیل عرصہ میں طے نہیں کیا جا سکتا اپنی انتھک محنت اور کوشش کے ساتھ ملے کرتے ہوئے وہ ہندوستان کی سرحد پر پہنچ گئے.اب تو تمہارا اپنا وجود ہی بتا رہا ہے کہ اس مہم کا نتیجہ کیا ہوا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ آٹھ ہزار سپاہی جو بصرہ سے پہلا تھا اس آٹھ ہزار سپاہی نے دو مہینہ کے اندر اندر سندھ ، ملتان اور اس کے گردو نواح تک کو فتح کر لیا اور وہ قیدی بچائے گئے.عورتیں بچالی گئیں.اور سندھ کا ملک جس میں راجہ داہر کی حکومت تھی اسے سارے کا سارا فتح کر لیا گیا اور پھر مسلمان لشکر ملتان کی طرف بڑھا.مگر بد قسمتی سے بادشاہ کی وفات کے بعد اس کا بھائی تخت نشین ہوا اسے ان لڑائیوں میں بادشاہ
۳۲۴ سے بھی اختلاوہ تھا اور افسروں سے بھی اختلاف تھا جب اپنے بھائی کی وفات کے بعد وہ حکومت کے تخت پر بیٹھا تو اس نے محمد بن قاسم کو جو ایک فاتح جرنیل تھا اور جو ارادہ رکھتا تھا کہ حملہ کر کے بنگال تک چلا جائے معزول کر کے واپس آنے کا حکم دے دیا اور جب وہ واپس آیا تو اسے قتل کروادیا ورت مندوستان کا نقشہ آج بالکل اور ہوتا آج صرف یہاں پاکستان نہ ہوتا بلکہ سارا ہندوستان ہی پاکستان ہوتا جن ملکوں کو عربوں نے فتح کیا ہے ان میں اسلام اس طرح داخل ہوا ہے کہ کوئی شخص اسے قبول کرنے سے بچا نہیں.غیر قو میں جو ہندوستان میں آئی ہیں ان کے اندر تبلیغی جوش نہیں تھا اس لئے انہوں نے چند علاقوں کو فتح کیا ہے.وہاں کے رہنے والوں میں اسلام کی دشمنی بھی تھی، اسلامی تعلیم سے منافرت بھی تھی.اور پھر ان فاتح اقوام کا سلوک بھی زیادہ اچھا نہیں تھا.لیکن عرب تو اس طرح کچھ جاتا تھا کرد و وہ جس ملک میں جاتا اپنے آپ کو حاکم نہیں سمجھتا تھا بلکہ لوگوں کا خادم سمجھتا تھا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ تھوڑے عرصہ میں ہی سارے کا سارا ملک مسلمان ہو جاتا.پس اگر اس زمانہ میں ہندوستان کو فتح کر لیا جاتا تو یقینا آج سند دوستان ایرانی اور مصر کی طرح ایک مسلمان ملک ہوتا کیونکہ وہ لوگ عربوں کا نمونہ دیکھتے تھے ، ان کی خدمت اور حسن سلوک کو دیکھتے تھے.ان کی دیانت اور راستبازی کو دیکھتے تھے اور ان اخلاق سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے تھے.ان کے سامنے عرب اور غیر عرب کا سوال نہیں ہوتا تھا بلکہ صرف سچائی کا سوال ہوتا تھا وں کے بعد بغض اور کیتے آپ ہی آپ مٹ جاتے ہیں.تمہارے باپ دادا کے یہ حالات سوائے تاریخ کے تمہیں اور کسی ذریعہ سے معلوم ہو سکتے ہیں، یہی چیز ہے جو تمہیں فائدہ پہنچا سکتی ہے ورنہ محض دو دو نے چار سے یعنی دو کو دو سے ضرب دی جائے تو چار حاصل ہوتے ہیں تمہیں کیا نفع حاصل ہو سکتا ہے لیکن اگر تم تاریخ پڑھو اور تم ذرا بھی عقل رکھتی ہو ذرا بھی جستجو کا نا وہ اپنے اندر رکھتی ہو تو تمہاری زندگی صنائع نہیں ہو سکتی.مضمون تو میں نے اور شروع کیا تھا مگر میں رو میں ہر کہ کہیں کا کہیں چلا گیا.یکں کہ یہ رہا تھا کہ کبھی زمانہ بدلتا ہے اور لوگ اس کے ساتھ بدلتے چلے جاتے ہیں اور بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے ساتھ زمانوں کو بدل دیتے ہیں مسلمان قوم وہ تھی جو زمانہ کے ساتھ نہیں بدلی بلکہ زمانہ کو اس نے اپنے ساتھ بدل دیا.وہ جہاں جہاں گئے انہوں نے لوگوں کو اپنے اخلاق کی نقل پر مجبور کر دیا، اپنے لباس کی نقل پر مجبور کر دیا ، اپنے تمدن کی نقل پر مجبور کر دیا اور وہ دنیا کے استاد اور رہنما تسلیم کئے گئے.
۳۲۵ آج مسلمان عورت یورپ کی بے پردگی کی نقل کر رہی ہے حالانکہ کبھی وہ زمانہ تھا کہ سلمان عورتوں کے پردہ کو دیکھ کر یورپ کی عورتوں نے پر وہ کیا چنانچہ ننز (NUNS ) کو دیکھ لو یورپ ایک بے پہ دملک تھا اور بے پردگی ان میں فیشن سمجھا جاتا تھا لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ مسلمان عورت پر وہ کرتی ہے تو بہت بعد تک انہوں نے بھی پر وہ لے لیا.چنانچہ ننز (NANS) میں گو گو را پر وہ نہ ہو لیکن ان کی نقاب بھی ہوتی ہے نہ ن کی پیشانی بھی ڈھکی ہوئی ہوتی ہے اور ان کے ہم پر کبھی بھی ہوتا ہے جس سے ان کے تمام اعضاء ڈھکے ہوئے ہوتے ہیں.اور گو ہم اسے پورا اسلامی پر وہ نہ کر سکیں مگر نوے فیصدی پر وہ ان میں ضرور پایا جاتا ہے حالانکہ یہ وہ عورت تھی جو اسلام کے یورپ میں جانے سے پہلے منگی پھر تی تھی اور جیسے بندریا کو ایک گھگھری پہنا دی جاتی ہے اسی طرح انہوں نے ایک گھنگھری پہنی ہوتی تھی چنانچہ یورپ کی پرانی تصویر یں دیکھ لو عورتوں کے بازو ٹانگیں اور سینہ وغیرہ سب ننگا ہوتا تھا مگر جب مسلمان عورتوں کو انہوں نے پر وہ کرتے دیکھا تو انہوں نے بھی پردہ کے بہت سے حصوں کو لے لیا مگر یورپ اب پھر اسی پہلے زمانہ کی طرف جا رہا ہے اور مسلمان عورت بھی پردہ اُتار کر خوش ہوتی ہے کہ وہ یورپ کی نقل کر رہی ہے آج کی مسلمان عورت یہ کہتی ہے کہ ہم زمانہ کے ساتھ چلیں اور پرانی مسلمان عورت یہ کہتی تھی کہ زمانہ میرے ساتھ چلے.یہ اپنی غلامی کا اقرار کرتی ہے اور وہ اپنی بادشاہی کا اعلان کرتی تھی کہ مجھے کیا ضرورت ہے کہ لیکن دوسروں کی نقل کروں لوگوں کا کام ہے کہ وہ میری نقل کریں.غرض کیں کہ یہ رہا تھا کہ ایک زمانہ تھا کہ ہمارے لئے تعلیم میں مشکلات تھیں، ایک عیسائی قوم ہم پر حاکم تھی اور مغربی تعلیم دلوانے میں ہمارے لئے مشکلات تھیں پس میکس اس بات پر زور دیتا تھا کہ ہماری لڑکیاں دینیات کلاس میں پڑھیں اور اپنا سارا زور نذہبی اور دینی تعلیم کے حصول میں صرف کریں.اور شاید جماعت میں اکیلا ئیں تھا جو اس بات پر زور دیتا تھا ورنہ جماعت کے افسر کیا اور افراد کیا ان سب کی مختلف وقتوں میں یہی کوشش رہی کہ ہائی سکول کے ساتھ، ایک، بورڈنگ بنانے کی اجازت دے دی جائے تاکہ بیرونجات سے لڑکیاں آئیں اور وہ قادیان میں رہ کر انگریز تعلیم حاصل کریں.اسی طرح اس بات پر بھی زور دیا جاتا رہا کہ لڑکیوں کے لئے کالج کھولنے کی اجازت دی بجائے مگر لیکں نے ہمیشہ اس کی مخالفت کی لیکن آج میں اس زنانہ کالج کا افتتاح کر رہا ہوں.یہ تیسری قسم کی چیز ہے نہ میں زمانہ کے ساتھ بدلا نہ زمانہ میرے ساتھ بدلا بلکہ خدا تعالی نے زمانہ میں ایسی خوشگوا
۳۲۶ تبدیلی پیدا کر دی کہ اب تعلیم کو اسلامی طریق کے ماتحت ہم کالج میں رائج کر سکتے ہیں.یہ کہ اس تعلیم کی آئندہ کیا تفصیلات ہوں گی اس کو جانے دو لیکن یہ کتنا خوشگوار احساس ہے کہ پاکستان بننے کے بعد یونیورسٹی کے مضامین میں ایک مضمون اسلامیات کا بھی رکھا گیا ہے جس میں اسلامی تاریخ پر خاص طور پر زور دیا بھائے گا.پس ہم زمانہ کے ساتھ نہیں بولے، زمانہ بھی ہمارے ساتھ نہیں بدلا کیونکہ جو زور ہمارے نزدیک اسلامی تعلیم پر ہونا چاہیئے وہ ابھی نہیں ہے لیکن خدا تعالیٰ نے زمانہ کو سمو دیا ہے اور اسے کچھ ہمارے مطابق کر دیا ہے پس ان بدلے ہوئے حالات کے مطابق جبکہ ہم سہولت کے ساتھ کالج یہ بھی دینیات کی تعلیم دے سکتے ہیں میں نے فیصلہ کیا کہ دینیات کا سر کو اڑا دیا جائے اور اسی کالج میں لڑکیوں کو زائد دینی تعلیم دی جائے تاکہ وہ کالج کی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی لحاظ سے بھی اعلیٰ درجہ کی معنویات حاصل کر لیں اور اسلام پر ان کی نظر وسیع ہو جائے.عیسائی حکومت ہوں تعلیم میں پہلے دخل دیا کرتی تھی وہ اب باقی نہیں رہی ہیں میں نے فیصلہ کیا کہ اب ہمیں کالج قائم کر دینا چاہیئے تاکہ ہماری لڑکیاں اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے پاکستان میں جو اعلیٰ تعلیم یافتہ عورتیں ہیں ان کی برابری کر سکیں اور ایک مقام پر ان کے ساتھ بیٹھ سکیں.گو ہونا تو یہ چاہیئے کہ اس تعلیم کو حاصل کرنے کے بعد تمہاری مافی کیفیت اور ہماری قلبی کیفیت اور تمہاری ذہانت دوسروں سے بہت بالا اور بلند ہو اور جب بھی تم انکے پاس بیٹھی وہ بہ نسوس کریں کہ تمہارا علم اور ہے اور ان کا اور تمہارا علم آسمانی اور ان کا زمینیں اور اگر تم قرآن کریم کو سمجھنے کی کوشش کرو اور اس پر غور کرنے کی عادت ڈالو تونہ کوئی بڑی بات نہیں.تم انٹرنس پاس ہو لیکن میں انٹرنس میں فیل ہوا تھا بلکہ واقعہ تو یہ ہے کہ میں مڈل پاس بھی نہیں کیونکہ میں مڈل میں بھی فیل ہوا تھا.درحقیقت قانون کے مطابق میری تعلیم پرائمری تک تم ہو جانی چاہئیے تھی کیونکہ جہال تک مجھے یاد ہے میں نے پرائمری کا امتحان بھی پاس نہ کیا تھا مگر چونکہ گھر کا سکول تھا اس لئے اساتذہ مجھے اٹلی کا اسوں میں بٹھاتے چلے گئے پیس میکی پرائمری پاس بھی نہیں تھا اور تم تو میٹرک کا امتحان پاسکس کت کی ہو پھر الیون.اسے بنو گی اس کے بعد بی.اسے بنو گی اور پھر انشاء اللہ ایم اے کی کلا سر گھل جائینگی اور تم ایم.اسے ہو جاؤ گی.اگرتم یہ جھو کہ قرآن کریم کے علوم کے مقابر میں دنیا کے علوم بالکل میں ہمیں تویقینا تم تلاش کر دگی کہ قرآن کریم میں وہ علوم کیوں پائے جاتے ہیں.پہلے ہمیشہ ایمان پیدا ہوتا ہے اور پھر کسل پیدا ہوتا ہے اگر تمہیں یقینی ہو کہ قرآن کریم میں وہ علم بھرا ہوا ہے جو دنیا میں نہیں تو یقینا تم تلاش
۳۲۷ کر نوگی کہ وہ ہے کہاں ؟ اور جب تم تلاش کرو گی تو وہ تمہیں مل جائے گا.قرآن کریم خود بتاتا ہے کڑہ ایک بند خزانہ ہے اس کے الفاظ ہر ایک کے لئے کھلتے ہیں.اس کی سورتیں ہر ایک کے لئے کھلی ہیں مگر اس کے لئے گھلی ہیں جو پہلے ایمان لانا ہے.وہ فرماتا ہے لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَرُونَ د وہ لوگ جو ہماری برکت اور رحمت سے ممنوج کئے جاتے ہیں وہی سمجھ سکتے ہیں کہ قرآن کریم میں کیا کچھ بیان ہوا ہے.باقی عربی کتابیں عربی بجانے سے کبھی جاسکتی ہیں لیکن قرآن کریم ایمان سے سمجھا جا سکتا ہے اگر تمہیں کامل ایمان حاصل ہو اور پھر تم اس کو دیکھو تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دنیا کی کسی مجلس میں دنیا کی کسی یونیورسٹی کی ڈگری یافتہ عورت سے تم نیچی نہیں ہو سکتیں وہ تمہیں اسی طرح دیکھیں گی جس طرح شاگرد اپنے اساتذہ اور معلمین کو دیکھتے ہیں کیونکہ تمہارے پاس وہ چیز ہوگی بنو اُن کے پاس نہیں ہوگی.مگر مصیبت یہ ہے کہ احمدی نوجوان بھی ابھی اس بات پر تو ایمان لے آیا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنا مامور بھیجا.وہ اس بات پر بھی ایمان لے آیا ہے کہ احمدیت سچی ہے مگر ابھی اس بات پر اسے پختہ ایمان حاصل نہیں ہوا کہ قرآن کریم میں ہر چیز موجود ہے اگر یہ بات حاصل ہو جاتی تو آج ہماری جماعت کہیں سے کہیں پہنچ جاتی.اگر تمہاری جیب میں روپیہ موجود ہو تو کیا ضرورت ہے تم صندوق کھوئے جاتی ہو تم اپنی جیب میں ہاتھ ڈالتی ہو اور روپیہ نکال لیتی ہو.اگر واقعہ میں ایک احمدی مرد اور عورت کے دل میں یہ ایمان ہو کہ قرآن کریم میں ہر چیز موجود ہے تو وہ کسی اور طرف جائے گا کیوں ؟ وہ قرآن پر غور کرے گا اور اسے وہ کچھ ملے گا جو اسے دوسری کتابوں سے مل سکتا ہی نہیں تب اُس کی زندگی دوسروں سے زیادہ اعلیٰ ہوگی اور وہ ان میں ایک ممتاز حیثیت کا حامل ہو گا.بے شک بعض مجبوریوں کی وجہ سے اُسے بھی یونیورسٹیوں میں پڑھنا پڑے گا مگر اس کو آخری ڈگری دینے والا کوئی چانسلر نہیں ہوگا، کوئی گورنر نہیں ہو گا، کوئی وزیر نہیں ہو گا بلکہ اُسے آخری ڈگری دینے والا خدا ہو گا اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی ڈگری کے مقابلہ میں انسانوں کی ڈگری کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتی.نوم یہ کالج میں نے اس لئے کھولا ہے کہ اب دین اور دنیا کی تعلیم چونکہ مشترک ہو سکتی ہے اسلئے اسے مشترک کر دیا جائے اس کالج میں پڑھنے والی دو قسم کی لڑکیاں ہو سکتی ہیں کچھ تو وہ ہوں گی جن کا مقصد یہ ہوگا کہ وہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد دنیوی کام کریں اور کچھ وہ ہوں گی جن کا مقصد یہ ہوگا له الواقعة : 69
۳۲۸ کہ وہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد دین کی خدمت کر یں.لیکن دونوں سے کہتا ہوں کہ دینی خدمت بھی دنیا سے الگ نہیں ہوسکتی اور دنیا کے کام بھی دین سے الگ نہیں ہو سکتے.اسلام نام ہے خدا تعالیٰ کی محبت اور بنی نوع انسان کی خدمت کا.اور بنی نوع انسان کی خدمت ایک دنیوی چیز ہے جس طرح خدا تعالیٰ کی محبت ایک دینی چیز ہے.پس جب اسلام دونوں چیزوں کا نام ہو اور جب وہ لڑ کی جو اس لئے پڑھتی ہے کہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد دنیا کا کام کرنے اور وہ لڑکی جو اس لئے پڑھتی ہے کہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد دین کا کام کرنے دونوں اپنے آپ کو مسلمان کھتی ہیں تو اس کے معنے یہ ہیں کہ جو لڑ کی اس لئے پڑھتی ہے کہ وہ دنیا کا کام کرے اُسے کیا معلوم ہے کہ خدا تعالیٰ سے محبت کرنا بھی دین کا حصہ ہے اور جولٹ کی اس لئے پڑھتی ہے کہ وہ دین کا کام کرے اسے کیا معلوم ہے کہ بنی نوع انسان کی خدمت کرنا بھی دین کا حصہ ہے پس دونوں کا مقصد مشترک ہو گیا جو دینی خدمت کی طرف جانے والی نہیں انہیں یاد رکھنا چاہیئے کہ بنی نوع انسان کی خدمت کرنا بھی دین کا حقہ ہے.دین کے معنے صرف سبحان اللہ سبحان اللہ کرنے کے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی مخلوق کی خدمت کرنے اور اُن کے دُکھ درد کو دور کرنے میں حصہ لینے کے بھی ہیں.اور جولڑ کیاں دنیا کا کام کرنا چاہتی ہیں انہیں یا درکھنا چاہیئے کہ اسلام نے خدا تعالیٰ کی محبت پر بھی زور دیا ہے پس انہیں دنیوی کاموں کے ساتھ خدا تعالیٰ کی محبت کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے بلکہ ہمیشہ اس کی محبت اپنے دلوں میں زیادہ سے زیادہ پیدا کرتے پہلے جانا چاہئیے.اور چونکہ دونوں قسم کی لڑکیاں در حقیقت ایک ہی مقصد اپنے سامنے رکھتی ہیں اس لئے وہ جو اختلاف تمہیں اپنے اندر نظر آسکتا تھا وہ نہ رہا اور تم سب کا ایک ہی مقصد اور ایک ہی مدعا ہو گیا.پس یہ مقصد ہے جو تمہارے سامنے ہوگا اور اس مقصد کے لئے تمہیں دینی روح بھی اپنے اندر پیدا کرنی چاہیئے اور بنی نوع انسان کی خدمت کا جذبہ بھی اپنے اندر پیدا کرنا چاہیئے تا کہ وہ مقصد پورا ہو جس کے لئے تم اس کا لج میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے آئی ہو.دوسرے کالجوں میں پڑھنے والی لڑکیاں ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کو بھلا کر دنیوی کا موں میں ہی منہمک ہو جائیں مگر چونکہ یہ کالج احمدیہ کالج ہے اس لئے تمہارا فرض ہو گا کہ تم دونوں دامنوں کو مضبوطی سے پکڑے رہو اگر ایک دامن بھی تمہارے ہاتھ سے چھٹ جاتا ہے تو تم اس مقصد کو پورا نہیں کرسکتیں جو تمہارے سامنے رکھا گیا ہے
۳۲۹ اور جس کے پورا کرنے کا تم نے اقرار کیا ہے.پس ان ہدایات کے ساتھ میں احمدیہ زنانہ کالج کے افتتاح کا اعلان کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ جو اس کالج میں پڑھانے والی ہوں گی وہ بھی اس بات کو تو نظر رکھ کر پڑھائیں گی کہ طالبات کے اندر ایسی آگ پیدا کی جائے جو ان کو پارہ کی طرح ہر وقت بیقرار اور مضطرب رکھے.جس طرح پارہ ایک جگہ پر نہیں ملتا بلکہ وہ ہر آن اپنے اندر ایک اضطرابی کیفیت رکھتا ہے اسی طرح تمہارے اندروہ سیماب کی طرح تڑپنے والا دل ہونا چاہیئے جو اس وقت تک تمہیں چکیں نہ لینے دے جب تک تم احمدیت اور اسلام کو اور احمدیت اور اسلام کی حقیقی روح کو دنیا میں قائم نہ کر دو.اسی طرح پر وفیسروں کے اندر بھی یہ جذبہ ہونا چاہیئے کہ وہ هیچی طور پر تعلیم دیں.اطلاقی فاضلہ سکھائیں اور سچائی کی اہمیت تم پر روشن کریں.تمہیں برا تو لگے گا مگر واقعہ یہی ہے کہ عورت سے بہت کم بولتی ہے.اس کے نزدیک اپنے نفاوند کو خوش کرنے کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے اور سچائی کی کم.جب اسے پتہ لگتا ہے کہ فلاں بات کے معلوم ہونے پر میرا خاوند ناراض ہو گا تو بھی اس معاملہ میں جھوٹ ہی بولتی ہے سچائی سے کام نہیں لیتی کیونکہ وہ ڈرتی ہے کہ اگر میں نے پیچ بولا تو میرا خاوند ناراض ہو گا.وہ ایک طرف تو یہ دعوی کرتی ہے کہ میں محکوم نہیں مجھے مرد کے برابر حقوق حاصل ہیں اور دوسری طرف وہ مرد سے ڈرتی ہے.اگر اس کا مرد سے ڈرنا ٹھیک ہے تو پھر وہ محکوم ہے، اُسے دنیا کے کسی فلسفہ اور کسی قانون نے آزاد نہیں کیا.اور اگر وہ مرد کے برابر قومی رکھتی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ جھوٹ بولے اور اسی طرح صداقت پر قائم نہ رہے جیس طرح آزاد مرد صداقت پر قائم رہتے ہیں یہ ایک چھوٹا مسئلہ ہے لیکن تمہاری اصلاح کے ساتھ نہایت گہرا تعلق رکھتا ہے.تمہیں اپنے دل میں یہ فیصلہ کرنا چاہیئے کہ تم آزاد ہویا نہیں.اگر تم آزاد نہیں ہو تو کہو کہ خدا نے ہم کو غلام بنا دیا ہے.اور چھوڑو اس بات کو کہ تمہیں مردوں کے برابر حقوق حاصل ہونے چاہئیں.اور اگر تم آزاد ہو تو خاوند کے ڈر کے مارے جھوٹ بولنا اور راستی کو چھپانا یہ لغو بات ہے.اسی طرح یکیں دیکھتا ہوں کہ ہمارے ملک کی عورت میں کام کرنے کی عادت بہت کم ہے بلجنہ بنی ہوئی ہے اور کئی دفعہ میں اسے اس طرف تو جہ بھی دلا چکا ہوں مگر مہنوز روز اول والا معاملہ ہے.تمہیں اپنے کالج کے زمانہ میں اس بات پر بھی غور کرنا چاہیئے کہ عورت کی زندگی زیادہ سے زیادہ کس طرح مفید بنائی جا سکتی ہے.یہ پرانا دستور جو ہمیشہ سے چلا آیا ہے اور اب بھی ہے کہ کھانا پکانے
٣٣٠ کا کام عورت کے ذمہ ہے اس میں اب تبدیلی کی ضرورت ہے کیونکہ اس کے نتیجہ میں عورت صرف کھانے پینے کے کام کے لئے ہی رہ گئی ہے اس کے پاس کوئی وقت ہی نہیں بچتا جس میں وہ دینی یا مذہبی یا قومی کام کر سکے.یورپ کے مدبرین نے مل کر اس کا کچھ عمل سوچا ہے اور اس وجہ سے انکی عورتوں کا بہت سا وقت بچے جاتا ہے.مثلاً یورپ نے ایک قسم کی روٹی ایجاد کر لی ہے جسے ہمارے ہاں ڈبل روٹی کہتے ہیں.یہ روٹی عورتیں گھر میں نہیں پکا تیں بلکہ بازا ر سے آتی ہے اور مرد، عورتیں اور سب اسے استعمال کرتے ہیں.مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ بادشاہ کے ہاں کیا دستور ہے آیا اُس کی روٹی بازار سے آتی ہے یا نہیں لیکن یورپ میں ایک لاکھ میں سے ننانوے ہزار نو سو ننانوے یقینا بازاری روٹی ہی کھاتے ہیں اور اس طرح وہ اپنا بہت سا وقت بچالیتے ہیں.اس کے علاوہ انہوں نے اس قسم کے کھانا پکانے کے برتن ( COOKER ) نکالے ہوئے ہیں جن سے بہت کم وقت میں سبزی اور گوشت وغیرہ تیار ہو جاتا ہے.پھر انہوں نے اپنی زندگیاں اس طرح ڈھال لی ہیں کہ عام طور پر وہ ہوٹلوں میں کھانا کھاتے ہیں.یورپ میں بالعموم چار کھانے ہوتے ہیں صبح کا ناشتہ ، دوپہر کا کھانا، شام کا ناشتہ اور رات کا کھانا.عام طور پر درمیانی طبقہ کے لوگ صبح کی چائے گھر پر تیار کر لیتے ہیں باقی دوپہر کے کھانے اور شام کی چائے وہ ہوٹل میں کھا لیتے ہیں اور شام کا کھانا گھر پر پکاتے ہیں پھر رو ملک ہونے کی وجہ سے ایک وقت کا کھانا کئی کئی وقت چلا جاتا ہے.اور پھر کھا نے انہوں نے اس قسم کے ایجاد کرلئے ہیں جن کا ذخیرہ کیا جا سکتا ہے مثلاً COLD MEAT ہے.روٹی بازار سے منگوائی اور کولڈ میٹ کے ٹکڑے کاٹ کر اس سے روٹی کھائی لیکن ہمارے ہاں ہر وقت چولہا جلتا ہے.جب تم کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے آتی ہو تو تمہیں یہ بھی سوچنا پڑے گا کہ تم اپنی زندگی کیس طرح گزارو گی.اگر چولہے کا کام تمہارے ساتھ رہا تو پھر پڑھائی بالکل بیکار چلی جائے گی.تمہیں خود کر کے اپنے ملک میں ایسے تغیرات پیدا کرنے پڑیں گے کہ چوہے چھونکنے کا شغل بہت کم ہو جائے اگر یہ شغل اسی طرح جاری رہا تو پڑھائی سب خواب و خیال ہو کر رہ جائے گی.یہی چولہا پھونکنے کا شغل اگر کم سے کم وقت میں محدود کر دیا جائے مثلاً اس کے لئے ایک گھٹنہ صبح اور ایک گھنٹہ شام رکھ لیا جائے تب بھی اور کاموں کے لئے تمہارے پاس بہت سا وقت بچ سکتا ہے.یہ مت خیال کرو کہ تم نو کر رکھ لوگی، نوکر رکھنے کا زمانہ اب جا رہا ہے اب ہر شخص نوکر نہیں رکھ سکے گا بلکہ بہت بڑے بڑے
۳۳۱ لوگ ہی تو کر رکھ سکیں گے کیونکہ نوکروں کی تنخواہیں بڑھے رہی ہیں اور ان تنخواہوں کے ادا کرنے کی متوسط طبقہ کے لوگوں میں بھی استطاعت نہیں ہو سکتی.جب یکی یورپ میں گیا ہوں تو اُس وقت تک ابھی نوکروں کی تنخواہیں اتنی زیادہ نہیں ہوتی تھیں تب ہم نے جو عورت رکھی ہوئی تھی اسے ہم ۲ شکنگ ہفتہ وار یا ساٹھ روپیہ ماہوار دیا کرتے تھے اور ساتھ ہی کھانا بھی دیتے تھے.پھر ان کی یہ شرط ہوا کرتی تھی کہ ہفتہ میں ایک دن کی پوری اور ایک دن کی آدھی چھٹی ہوگی.ڈیڑھ دن تو اس طرح نکل گیا جس میں گھروالوں کو خود کام کرنا پڑتا تھا.آقا بتیری شور مچاتی رہے کہ کام بہت ہے وہ کھیگی مکن نہیں آسکتی کیونکہ میری چھٹی کا دن ہے.پھر جتنا وقت مقرر ہو اُس سے زیادہ وہ کام نہیں کرے گی کتنا بھی کام پڑا ہو وہ فوراً چھو کر چلی جائے گی اور کہے گی کہ وقت ہو چکا ہے.در اصل اس میں ان کا کوئی قصور نہیں بلکہ واقعہ یہ ہے کہ ان کے اختیار میں ہی نہیں ہوتا کہ زیادہ کام کریں کیونکہ وہاں پر طبقہ کے لوگوں کی الگ الگ انجمنیں بنی ہوئی ہیں.کوئی گھر کے نوکروں کی انجمن ہے ، کوئی قلیوں کی انجمن ہے، کوئی انجمن میں کو ٹلہ ڈالنے والوں کی انجمن ہے، کوئی استادوں کی انجمن ہے ، ان انجمنوں کی سفارش کے بغیر کسی کو نوکری نہیں ملتی.اگر وہ زائد کام کریں تو انجمن کی نمبری سے اُن کا نام کٹ جاتا ہے اور پھر انہیں کہیں ملازمت نہیں ملتی ہمیں وہاں مضمون لکھنے کے لئے ایک ٹائپسٹ کی ضرورت تھی دفتر نے ایک عورت اس غرض کے لئے رکھی جو چیکو سلو کیا کی رہنے والی تھی.اسے ہمارے...مضامین پڑھنے کے بعد سلسلہ سے لچسپی ہو گئی مگر مشکل یہ تھی کہ اُس کا وقت ختم ہو جا تا اور ہمارا کام ابھی پڑا ہوا ہوتا.بعض دفعہ ہمیں دوسرے ہی دن مضمون کی ضرورت ہوتی اور وہ کہتی کہ میں اب جا رہی ہوں کیونکہ وقت ہو گیا ہے مگر چونکہ اسے ہمارے سلسلہ سے لو سپی ہوگئی تھی اس لئے وہ کہتی کہ میں زائد وقت کی ملازمت تو نہیں کر سکتی لیکن میں یہ کر سکتی ہوں کہ مضمون ساتھ لے جاؤں اور گھر پر اسے ٹائپ کروں انجمن والے مجھے گھر کے کام سے نہیں روک سکتے اس وقت میرا اختیار ہے کہیں جو چاہوں کروں آپ مجھے اُس وقت کی تنخواہ نہ دیں میں آپ کا کام مفت میں کر دوں گی اگر آپ مجھے کچھ دینا چاہیں تو بعد میں انعام کے طور پر دے دیں.اس طرح وہ دشمن کا کام کیا کرتی تھی کیونکہ ڈرتی تھی کہ اگر انہیں پتہ لگا کہ میں چھ گھنٹہ سے زیادہ کہیں کام کر تی ہوں تو وہ مجھے نکال دیں گے اور پھر مجھے کہیں بھی نوکری نہیں ملے گی.یہ چیزیں ابھی ہمارے ملک پلی نہیں آئیکن لیکن جب آئیں تو
۳۳۲ پھر لوگوں کے لئے بہت کچھ مشکلات پیدا ہو جائیں گی.اب تو وہ پانچ سات روپیہ میں نوکر رکھ سکتے ہیں لیکن جس دن نوکر کی پچاس روپیہ تنخواہ ہوگئی اور سو روپیہ نہیں ملا تو تم نوکر کہاں رکھو گی.آجکل یورپ میں نوکر کی تنخواہ تین پونڈ ہفتہ وار ہے جس کے معنے آجکل کے پاکستانی روپیہ کی قیمت کے لحاظ سے ایک سو نہیں روپیہ ماہوار کے ہیں اور کھانا بھی الگ ہی دینا پڑتا ہے.اس زمانہ میں اوپر کے طبقوں کی تنخواہیں گر رہی ہیں اور نیچے کے طبقہ کی تنخواہیں بڑھتی جارہی ہیں.اس کے معنی یہ ہیں کہ جو شخص سات آٹھ سو روپیہ ماہوار لیتا ہے وہ بھی ملازم نہیں رکھ سکتا صرف ہزاروں روپیہ ماہوار کمانے والا ملازم رکھ سکتا ہے.ایسی صورت میں ہی ہو سکتا ہے کہ ایک وقت کا کھانا دوتین وقتوں میں کھا لیا یا ایک وقت ہوٹل میں جا کر کھا لیا اور دوسرے وقت کے کھانے میں کولڈ میٹ استعمال کر لیا.اس طرح بہت سا وقت اور کاموں کے لئے بیچ سکتا ہے.پھر بہار ہے ہاں یہ بھی ایک نقص ہے کہ بچوں کو کام کرنے کی عادت نہیں ڈالی جاتی.بچے دسترخوان پر بیٹھے ہیں اور شور مچاتے ہیں کہ اتھی نوکر پانی نہیں لاتا کہ ہم ہاتھ دھوئیں، امتی نوکر نے برتن صاف نہیں گئے.امریکہ میں ہر بچہ اس بات کا پابند ہوتا ہے کہ وہ اپنے کھانے کے برتن کو خود دھوکہ دیکھے اور اگر وہ نہ دھوئے تو اُسے سزا ملتی ہے کیونکہ ماں اکیلی تمام کام نہیں کرسکتی اگر وہ کرے تو اُس کے پاس کوئی وقت ہی نہ بچے.وہ اسی طرح کرتی ہے کہ کچھ کام خود کر تی ہے اور کچھ کاموں میں بچوں سے مدد لیتی ہے.غرض یورپ میں اول تو روٹی بازار سے منگوائی جاتی ہے.پھر انہوںنے کو ڈھیٹ اویر اسی قسم کی اور چیزیں ایسی بنائی ہیں جن کا ذخیرہ کیا جاسکتا ہے اور بجائے اس کے کہ ہروقت گرم کھانا کھایا جائے وہ اس سے روٹی کھا لیتے ہیں.پھر ایک وقت کا پکا ہوا کھانا دو وقتوں میں کھا لیتے ہیں سا اور پھر کام میں بچوں کو بھی شامل کیا جاتا ہے اور اس طرح بہت سا وقت بچا لیا جاتا ہے.تھوڑے ہی دن ہوئے لیکں نے ایک لطیفہ پڑھا جو امریکہ کے ایک مشہور رسالہ میں شائع ہوا تھا اور جس سے اُن لوگوں کے کیریکٹر پر خاص طور پر روشنی پڑتی ہے.ایک باپ کہتا ہے کہ میری سمجھ میں یہ بات کبھی نہیں آئی کہ میرے بچوں کو کبھی کبھی یہ تو بھول جاتا ہے کہ آج ہم نے سکول جاتا ہے.کبھی یہ بھی بھول جاتا ہے کہ ہم نے اپنے برتن صاف کرنے ہیں کبھی یہ بھی بھول جاتا ہے کہ ہم نے اپنے کپڑے بدلتے ہیں کبھی یہ بھی بھول جاتا ہے کہ ہم نے اتنے بجے سوتا ہے لیکن اگر کبھی ہنسی میں میں نے اپنے بچوں
۳۳۳ کوئی وعدہ کیا ہوا ہوتا ہے اور اُس پر پانچ سال بھی گزر چکے ہوں تو وہ ان کو نہیں بھولتا.اس مشکال سے ان کے کیریکٹر کا پتہ لگتا ہے کہ وقت پر سونا ، وقت پر سکول جانا ، وقت پر کپڑے بدلنا اور کھانے کے برتن و ھونا یہ سب بچوں کو سکھایا جاتا ہے اور یہ باتیں ان کے فرائض میں شامل کی جاتی ہیں.اس رنگ میں انہوں نے ایسا انتظام کیا ہوا ہے کہ ان کا بہت سا وقت بچ جاتا ہے.پھر بچوں کے پالنے کا کام ایسا ہے کہ جس میں بہت کچھ تبدیلی کی ضرورت ہے.یورپ میں تو عورتیں بچے کو پنگھوڑے میں ڈالتی ہیں ، چوسنی تیار کر کے اس کے پاس رکھ دیتی ہیں اور مکان کو تالا لگا دفتر میں چلی جاتی ہیں.جب بچے کو بھوک لگتی ہے وہ خود چوسنی اُٹھا کر منہ سے لگا لیتا ہے لیکن ہمارے ہاں اگر ماں دو منٹ کے لئے بھی بچے سے الگ ہو جائے تو وہ اتنا شور مچاتا ہے کہ آسمان سر پر اُٹھا لیتا ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ ماں بچے کو الگ نہیں کرتی اسے ہر وقت اپنے ساتھ چھٹائے پھرتی ہے.بچہ پیدا ہوا اور اسے گودمیں ڈال لیا اور پھر تین چار سال تک اسے گود میں اُٹھائے پھرتی ہیں.بلکہ ہمارے ملک میں تو پانچ پانچ سال تک لاڈلے بچوں کو اُٹھائے پھرتی ہیں.یہ سارے رواج اس قابل ہیں کہ ان کو بدلا جائے.جب تم ہمت کر کے الی رسوم کو بد لو گی تو آہستہ آہستہ باقی عورتوں میں بھی تمہارے پیچھے چلنے کا شوق پیدا ہو جائے گا.یکس نے بتایا ہے کہ سب سے پہلے روٹی پکانے کے طریق میں تبدیلی کی ضرورت ہے.عربوں میں بھی بازار سے روٹی منگوانے کا طریق ہے مگر وہاں تنور کی تخمیری روٹی ہوتی ہے انگریزی روٹی کا رواج نہیں جتنے ملکوں میں بازار سے روٹی منگوانے کا طریق رائج ہے ان سب میں خمیری روٹی کھائی سجاتی ہے.خمیری روٹی ہمیشہ تازہ ہی پکا کر کھانی پڑتی ہے.بہر حال بغیر اس کے کہ روٹی کا سوال حل ہو ہماری عورتیں فارغ نہیں ہو سکتیں.اور بغیر اس کے کہ بچہ پالنے کے طریق میں تبدیلی ہو ہماری عورتیں فارغ نہیں ہو سکتیں.جب تک بچہ گود میں رہے گا یاماں بیکار رہنے پر مجبور ہوگی یا بیٹی مجبور رہے گی.کام کے لئے فراغت اسے اسی وقت ہو سکتی ہے جب بچہ کو پیدا ہوتے ہی پنگھوڑے میں ڈال دیا جائے اور پھر وقت پر اسے دودھ پلا دیا جائے.گود میں اسے نہ اٹھایا جائے.مغرض جب تک یہ سوال حل نہیں ہوتا ماں کی زندگی بیکار رہے گی، اور جب تک کھانے کا سوال حل نہیں ہوتا عورت کی زندگی بیکار رہے گی.یہ بھی ہو سکتا ہے کہ روزانہ چار وقت کے کھانے کی بجائے صرف دو وقت کا کھانا رکھ لیا جائے اور ناشتہ کا کوئی سادہ دستور نکالا جائے اور کھانے ایسے تیار کئے جائیں جو کئی کئی وقت کام آسکیں اور روٹی باز
سے مشکوائی جائے لیکن اگر صبح شام کھانا پکانے کے برتن مانجھنے کا کام عورت کے ہی سپرد رہے گا تو وہ بالکل بیکار ہو کر رہ جائے گی اور کسی کام کے لئے وقت صرف نہیں کرے گی.پس جہاں دینی مسائل کو مد نظر رکھنا تمہارے لئے ضروری ہے وہاں ان عائلی مشکلات کو حل کرنا بھی تمہارے لئے ضروری ہے بہندوستان میں مسلمانوں کے تنزل اور ان کے انحطاط کی بڑی وجہ یہی ہوئی ہے کہ جب ان کے پاس دولت آگئی تو انہوں نے اس قسم کے مشاغل بیکاری کو اختیار کر لیا.گھروں میں مرد بیٹھے چھالیا کاٹ رہے ہیں ، گلوریاں بنارہے ہیں اور عورت بھی کھانے پکانے میں مصروف ہے چیز کی جارہی ہے جا رہی ہے اب یکی ہے اب بھی بنا رہی ہوں تیرا پیر تا نوع گرا کی بنالوں کبھی کہتی ہے یکی کہ وہ تو کھانے اور حکومت سنبھال لی.یہ صیبت جتنی ہندوستان میں ہے باہر نہیں.عرب میں جا کر دیکھ لو سارا عرب بازار سے روٹی منگواتا ہے مصر میں جاکر دیکھو سارا مصر بازار سے روٹی منگواتا ہے اور سالن بھی وہ گھر پر تیار نہیں کرتے بازار سے ہی منگوا لیتے ہیں.وہاں لوبیا کی پھلیاں بڑی کثرت سے ہوتی ہیں صبح کے وقت مکہ میں پہلے جاؤ قاہرہ میں چلے جاؤ بازاروں میں لوبیا کی دیگیں تیار ہوں گی اور ہر شخص اپنا برتن لے جائے گا اور تنور کی روٹیاں اور لوبیا کی پھلیاں لے آئے گا.غریب اسے یونہی کھا لیتے ہیں..اور امیر آدمی گھی کا تڑکا لگا لیتے ہیں.اسی طرح دوپہر کے وقت روٹی بازار سے آتی ہے اور سالن کے طور پر بھی وہ کوئی مستی سی چیز لے لیتے ہیں اور گزارہ کر لیتے ہیں.مگر ہمارے ہاں یہ حالت ہے کہ لوگ بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہم وہ ماما رکھنا چاہتے ہیں جو ایک سیر آٹے میں اتنی چھلکے پکا سکتی ہو.بازار والوں نے اپنا کام اس طرح ہلکا کر لیا کہ سیر آٹے میں چھ روٹیاں تیار کر لیں اور انگریزوں نے سیر میں چار اور بعض دفعہ دو اور انہوں نے اپنے کام کو اس طرح بو جھل بنا لیا کہ اشتی اشتی پھل کے بنانے لگے.یہ سب شغل بیکاری ہیں جن کو دور کرنا پڑے گا اور جن کو دور کر کے ہی تم اپنا وقت بچا سکتی ہو.آخر علم کے استعمال کے لئے تمہارے پاس وقت چاہیئے.اگر تم نے اپنے آپ کو ایسا بنا لیا کہ تمہارے پاس کچھ بھی وقت نہ بچا توتم نے کرنا کیا ہے پس پہلا سوال وقت کا ہے تم کو اپنی زندگی ایسی بنانی پڑے گی کہ تم ان کاموں کے لئے اپنے اوقات کو فارغ کر سکو پھر تمہارے لئے آسانی ہیں آسانی ہے اور تم اس وقت سے فائدہ اُٹھا کر بیسیوں ایسے کام کر سکتی ہو جو تمہاری ترقی کے لئے ضروری ہیں پس یہ مسلہ بھی تمہیں ہی حل کرنا پڑے گا اور اگر تم حل کرلو
۳۳۵ تو تمہاری مائیں آپ ہی آپ تمہاری نقل کرنے پر مجبور ہوں گی ہم نے دیکھا ہے کہ لڑکی پرائمری پاس ہوتی ہے تو جاہل، مائیں اپنی لڑکی کے آگے پیچھے پھرتی ہیں اور کہتی ہیں ہماری یہ بیٹی پرائمری پاس ہے بڑی عقل مند اور ہوشیار ہے.اگر مائیں اپنی پرائمری پاس لڑکیوں کی بات رو نہیں کر سکتیں تو تم ہی.اسے ہو گی تمہاری بات وہ کیوں ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں گی.یہ کام جوئیں نے بتایا ہے اسے معمولی نہ مجھ یہی وہ چیز ہے میں نے ہمارے ملک کی عورت کو بریکا بنا دیا ہے.دوسری قوموں نے تو اس مسئلہ کو حل کر لیا اور چھ سات گھنٹے بچالئے لیکن تمہیں کھانے پکانے کے دھندوں سے ہی فرصت نہیں ملتی.اگر ہم بھی چھ سات گھنٹے بچا لو تو یقین تم آن اقوام سے بہت زیادہ ترقی کر سکتی ہو کیونکہ اگر وہ چھ گھنٹے بچاتی ہیں تو دو گھنٹے قومی کاموں میں صرف کرتی ہیں اور چار گھنٹے پارچ گانے میں صرف کر تی ہیں لیکن تم اپنا سارا وقت قومی اور مذہبی کاموں میں صرف کروگی اس لئے یورپ کی عورت کے مقابلے میں تمہیں اپنے کا مواد کے لئے تین گنا وقت مل جائے گا.اور جب وہ چھ گھنٹوں میں سے چار گھنٹے ناپے گانے میں صرف کرے گی اور تمہارا تمام وقت خالص دینی کاموں میں صرف ہو گا اور اس طرح تم ان سے تین گنا کام کرو گی تو تمہاری سنتی یقینی ہے کیونکہ وقت کے لحاظ سے یورپ کی تین تین عورتوں کے مقابلے میں تمہاری ایک، ایک عورت ہو گی.اس وقت تمہاری سو عورت بھی یورپ کی ایک عورت کے قابل میں کوئی حقیقت نہیں رکھتی کیونکہ ہمارا علم بھی کم ہے اور تمہارے پاس اپنے قومی کاموں کے لئے بھی وقت نہیں بچتا لیکن جب تم علم حاصل کر لوگی تو قومی کاموں کے لئے وقت بھی ان سے زیادہ صرف کروگی تو تمہاری ایک عورت کے مقابلہ میں یورپ کی سو عورت بھی کوئی حقیقت نہیں رکھے گی.جب تک یورپ کا ماحول ایسا ہے اور اس کا طریق عمل ایسا ہے کہ اس کی ایک عورت تمہاری سو عورت کے برابر ہو گی اس کا جیتنا یقینی ہے.لیکن جب تم اپنے آپ کو ایسی بنا لوگی کہ تمہاری ایک عورت ان کی سو عورت کے برابر ہو گی تو پھر تمہارا جیتنا یقینی ہے.ران ریمارکس اور نصیحتوں کے ساتھ لیکن اپنے خطبہ کو ختم کرتا ہوا کائی کا افتتاح کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمارے زنانہ کو الجی کی اس چھوٹی سی بنیاد کو اپنی عظیم الشان برکتوں سے نواز سے اور یہ چھوٹا سا ادارہ دنیا کے تمام علمی اداروں پر چھا جائے یا اسے له الفضل واروفا ه / جولائی ۱۹۵۷ء من تا مث+
راس ایمان افروز خطاب کے بعد حضور نے لمبی دعا فرمائی اور یہ مبارک تقریب اختتام پذیر ہوئی.سید نا حضرت امیر المومنين الصلح الموعود نے حضرت سیدہ آیتم متین صاحبہ کو ابتدائی سٹاف جامعہ نصرت کی نگران اور محترمہ فرخنده اختر صاحبہ (اہلیہ حضرت سیدمحمود اللہ شاہ صاحب ) کو پرنسپل مقر فرمایا اور پہلے سال تعلیمی و تدریسی ذمہ داریاں مندرجہ ذیل اساتذہ کے سپرد کی گئیں :- حضرت سیده ایم متین مریم صدیقہ صاحبہ (عربی) مولانا قاضی محمد نذیر صاحب لائل پوری دینیات) محترمه فرخنده اختر صاحبه (انگریزی و اقتصادیات) حضرت پر و فیسر علی احمد صاحب ایم.اسے (اردور فارسی) چوہدری علی محمد صاحب بی.اسے بی ٹی ( تاریخ ) محترمه استافی سردار صاحبه (عربی) جامعہ نصرت جو سال اول کی صرف سولہ طالبات پر شتمل تھا حضرت سیدنا المصلح الموعود کی عمارت ذاتی کوٹھی میں جاری ہوا ۱۳ / ۱۹۹۲ء میں اس کو دفتر لجنہ اماءاللہ مرکز یہ میں کھولا گیا ۱۳۳۲ / ۱۹۵۳ء میں جامعہ نصرت کی موجودہ مستقل عمارت کے پہلے پچار کمر سے تیار ہوئے تو یہ اس میں منتقل کر دیا گیا.۱۲۰ / ۱۹۶ میں اس کی وسیع عمارت میں بارہ دری کا اضافہ ہوا ۸ - امان ۳۴۹ ما په نشه کو سید نا حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے دست مبارک سے اس کے سائنس بلاک کا سنگ بنیا در کھا اور اسی سال ایف ایس سی میڈیکل اور نان میڈیکل کلاستر کا اجراء ہوار منٹ ہیں 19 مہر میں اس کی طالبات پہلی بار ایف ایس سی کے امتحان میں شامل ہوئیں.جامعہ نصرت کے ساتھ دار الاقامہ (ہوسٹل کا قیام عمل میں آیا اور محترمہ استانی دوسرے کوائف | سردار صاحبہ اس کی پہلی ناظمہ سپر نٹنڈنٹ) تھیں.۱۹۵۲ تبلیغ ها ۳ / فروری ۹۵ میں جامعہ نصرت کا پہلا ٹورنامنٹ ہوا.اسی سال سے جان تقسیم انعامات کا آغاز ہوا اور پہلی بار حضرت امیم داؤد نے صدارت فرمائی اس رسالہ کی تقریب انعامات
۳۳۷ (1992 میں حضرت مصلح موعود رونق افروز ہوئے اور ایک اہم خطاب فرمایایه نه و ه۱۹۹/۱۳۹۴ میں بالترتیب حضرت سیدہ ام مستکین صاحبہ اور حضرت سیدہ نواب مہار کہ بیگم صاحبہ صدارت کے فرائض انجام دیئے.۱۳۲۱ - ۱۳۲۲ پیش / ۱۹۶۲ - ۱۹۲۳ء میں پہلی بار جلسہ ہائے تقسیم اسناد کی سادہ اور موثر تقریب منائی گئی جس میں حضرت سید ہ نوابہ مبارکہ بیگم صاحبہ نے شرکت فرمائی.ہ ہ میں رسالہ "النصرت جاری کیا گیا.۳۴ ستارہ میں سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اور شام میں حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے علا قسیم اسناد کی صدارت فرمائی اور خطاب سے نواز آب اسی سال حضرت سیدہ ام متین صاحبہ نے نظارت تعلیم کے امتحان میں اول پوزیشن حاصل کرنے والی طالبات کے لئے " نصرت جہاں میڈل عطا کرنے کا اعلان فرما یا هر و انتشار و هدا اللہ کے جلسہ ہائے تقسیم اسناد میں بالترتیب بیگم صاحبہ صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب اور حضرت بیگم صاحبہ سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے صدارت کے فرائض انجام دیئے.حضرت مصلح موعود کی دعاؤں کے نتیجہ میں جامعہ نعت ایک زندہ جماعت کی مالی درس گاہ حضرت مصلح موعود اور امام مہمام ایدہ اللہ تعالے جامعہ نصرت کی حیرت انگیز او فقید المثال ترقی کی دعاؤں کا زندہ اعجاز اور قرآنی آیت و گواریت اترابا کی عملی تعبیر و تفسیر ہے جس نے اپنے بائیس سالہ دور میں تعلیمی، تربیتی اور دینی ہر اعتبار سے حضر سیده ام متین صاحبہ اور محترمہ فرخنده اختر صاحب جیسی بزرگ ہستیوں کی سرپرستی اور نگرانی میں فقید المثال ترقی کی ہے.وہ جامعہ جو گنتی کی صرف چند لیکچرر خواتین سے جاری ہوا اب اس کے سٹاف میں سند یافتہ فرض شناس اور شفیق و مونس پروفیسر او لیکچر خواتین شامل ہیں.اور جہاں پہلے سال صرف سولہ طالبات کا لج میں داخل ہوئیں وہاں ۱۳۵۳ / ۱۹۷۳ء میں طالبات کی تعداد ساڑھے تین سو سے بھی بڑھ چکی ہے.جامعہ نصرت کی کامیابی کا تناسب کیفیت و کمیت کی رو سے یونیورسٹی اور بورڈ کے تناسب سے له مصباح ماه نبوت ۱۳۳۴ش/ نومبر ۱۹۵۵ء و الازهار لذوات الخمار حصہ دوم ها ، ما : کے حضور کا پر معارف خطبہ مدارت مصبات باره احسان ۱۳۴۷ ش ر جوان ۱۹۶۸ء ص ا تا حد میں شائع شدہ ہے :
۳۳۸ ہمیشہ ہی زیادہ رہا ہے اور اس کی طالبات نے مخصوص مضامین میں اچھی پوزیشن لے کر طلائی تمغے ہی حاصل نہیں کئے بلکہ بورڈ اور یونیورسٹی کے امتحانات میں بھی اول آتی رہی ہیں.دنیا ان کا عضو جامد صورت میں لازمی اور جامعہ نصرت کا خالص اور مثالی اسلامی ماحول اس کی علمی وتربیتی سرگرمیوں کا فقط مرکز یہ اور اس کی روح رواں ہے اور مغربی دنیا کے اس چیلنج کا واقعاتی اور مسکت جواب ہے کہ کپردہ عورت کی ترقی میں وک ہے.علاوہ ازیں جامعہ نصرت کے پاک اور بابرکت اسلامی ماحول نے قرن اول کی علم پر مسلم خواتین کی یاد تازہ کر دی ہے جس کا اعتراف دوسروں کو بھی ہے.چنانچہ ڈاکٹر علی محمد صاحب پر نسپل لاہور کالج نے اس کے معائنہ کے بعد اپنے تاثرات درج ذیل الفاظ میں لکھے :- ربوہ اپنی لڑکیوں کی تعلیم کے لحاظ سے تمام پنجاب میں سبقت لے گیا ہے.عجب سماں ہے پڑھنے الیان اور پڑھانے والے ایک ہی مقصد کے تحت رواں دواں ہیں.ان میں سے کسی کی بھی توجہ کسی اور طرف نہیں اس نے کوث جذبہ کو دیکھ کر بے اختیار کہنے پر مجبور ہوں کہ یہ اسلامی تعلیم کی فضاء ربوہ ہی میں پائی جاتی ہے.سیدنا سید نا حضرت مصلح موعود کا اظہار خوشنودی سیدنا حضرت لوعود نے یکم وفا ۱۳۳ پیش جولائی ۱۹۵۵ء کو جامعہ نصرت کے خوش کن نتائج پر غایت درجہ خوش نودی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا :- امسال یونیورسٹی کے امتحانات کے نتائج صرف بائیس فیصدی نکلے لیکن ہمارے ربوہ کی لڑکیوں کے کالج درجامعہ نصرت) کا نتیجہ تریسٹھ فیصدی رہا اور ان پاس ہونے والی طالبات میں سے اکثر وہ ہیں جن کی فیس پریا و یکی خود ادا کرتا تھا وہ کالج کی نہیں تھی نہیں کر سکتی تھیں لیکن ہم نے اُن کے اخراجات کو ہی دوست کیا اور اسی طرح عورتوں کی تعلیم کا ایک بڑا مرکز تھا وہاں پر کل تعلیم کا تناسب باسٹھ فیصدی تھا.لڑکوں کی تعلیم کا تناسب نوے فیصدی تھا اور عورتوں کی تعلیم کا نتنا سب سو فیصدی تھا.لوگ کہتے ہیں کہ کوئی قوم پر وہ میں ترقی نہیں کر سکتی لیکن ہماری طرف دیکھو کہ ہماری بچیوں کو جو عو رتیں پڑھاتی ہیں وہ بھی پردہ کی پابند ہیں.خود میری اپنی بیوئی کالج کی پرنسپل ہے وہ عربی میں ایم.اے ہے اور وہ ان دنوں محترمه فرخنده اختر صاحبہ لاہور میں ایم.اس کی تیاری کر رہی تھیں اور حضور کی حرم حضرت سیدہ اتم متین صاحبہ در شهر پرنسپل کے فرائض بھی انجام دے رہی تھیں ہے
۳۳۹ اس کام کا کچھ معاوضہ نہیں لیتی لیکن وہ خود بھی پردہ میں رہتی ہیں.اگر ضرورت کے موقع پنہ کالم میں بعض مرد تعلیم کے لئے لگائے جاتے ہیں تو وہ بھی پردہ کے پیچھے بیٹھ کر پڑھاتے ہیں اور لڑکیاں بھی پہنے وہ میں ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود یونیورسٹی کے بائیس فیصدی نتائج کے مقابل میں ان کا نتیجہ تریسٹھ فیصدی ہے.حقیقت یہ ہے کہ جب کبھی عورتیں پختہ عزم اور ارادہ کر لیں گی تو وہ علم حاصل کر لیں گی اور دنیا کو دکھا دیں گی کہ پردہ میں رہ کر بھی ہر چیز حاصل کی جا سکتی ہے ؟ اے تھے فصل دوم ی کی یا امامانای نیا ۱۳۳۰ ہش کر ۱۹۵۱ء کا نہایت اہم واقعہ تحریک جدید کی طرف سے کہ میلون مشن کا قیام ہے.سید نا حضرت مہدی معہود علیہ السلام کے عہد مبارک میں سیدنا حضرت مهدی مودی را حضور کی تحریرات یورپ ، امریکہ اور افریقہ کی طرح جنوبی مالدین اور سیکون میں ہند سے آگے مالدیپ اور سیلون (سری لنکام کے جزائر تک بھی پہنچ چکی تھیں چنانچہ اس دور کی قدیم دستا ویزات سے ثابت ہے کہ حضرت اقدس علیہ اسلام کی ایک تصنیف سے متاثر ہو کر محل دیپ کے ایک بزرگ آج السلطان حاج محمد حمادالدین تو تو منفرط " صاحب منصور کی زندگی میں ہی حضور کے دعوی پر ایمان لے آئے اور اپنا بیعت کا خطہ (جو دو صفحات پرمشتمل تھا ، حضور کی خدمت اقدس میں قادیان نتیجا سلسلہ کے لڑکچر سے پتہ چلتا ہے کہ محل ویپ کی طرح سیلون میں بھی 1914ء کے دوران حضرت مسیح پاک علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات کی برکت سے ایک سیلونی عالم دین آئی ایل ایم عبدالعزیز صاحب له الفضل ا طور ۱۳۳۴ پیش / اگست ۶۱۹۵۵ ص ا ب سے مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ لجنہ بار اللہ جلد دوم مرتبہ امته اللطیف صاحبہ ناشر دفتر لجنہ اماءاللہ مرکز یہ طبع اول جنوری ۱۹۷۲ ء ہے سے یہ تاریخی خط شیعه تاریخ احمدیت رہوا کے ریکارڈ میں محفوظ ہے :
۳۴۰ ایڈیٹر مسلم گارڈین داخل احمدیت ہوئے اور حضور کو محبت بھر امکو بھی لے لکھا تا ہم سیلون کے پبلک حلقوں تک احمدیت کی پہلی موثر و منظم آواز خلافت ثانیہ کے اوائل میں بلند ہوئی جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ممتاز صحابی حضرت صوفی غلام محمد صاحب بی.اے یعنی اللہ عنہ قادیان سے بارشیں جاتے ہوئے کو ارمانع ۱۹۱۵ء کو سیلون (سری لنکا) کے مرکزی شہر کو لمبو ( COLOMBO) پہنچے اور تین ماہ تک وہاں قیام کر کے مہدی معہود کے ظہور کی پر جوش منادی کرتے رہے.حضرت صوفی صاحب نے سیلون ہیں تبلیغ احمدیت رت صوفی غلام محمد صاحب کی تبلیغی مسائی کا آغاز جنگ مسلم پر میری ایسوسی ایشن کو لبو کے زیر اہتمام ایک لیکچر سے کیا جس میں آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد اور آپ کی پیش گوئیوں اور نشانات پر جو اپنی آنکھوں سے آپ نے مشاہدہ کئے مفصل روشنی ڈالی - ۲۵ ر اپریل ۱۹۱۵ ء کو آپ کا سلیو آئی لینڈ میں کامیاب انگریزی لیکچر ہوا جس کی ترجمانی کے فرائض مسٹر ٹی کے لائی نے انجام دیئے.یہ لیکچر بہت مقبول ہوا مجلسہ کے اختتام پر اکثر حاضرین نے نہایت ارادت مندی کے ساتھ آپ سے مصافحہ کیا اور ہاتھ چومے.جلسہ کے پریذیڈنٹ ایک پیر سڑ تھے جنہوں نے صوفی صاحب کو بتایا کہ میں دل سے احمدی ہوں.نیز ان کے بھائی قریش اور مسٹرٹی.کے.لائی اور بعض اور سعید روحیں باقاعدہ بیعت کر کے حلقہ بگوش احمدیت ہو گئیں اور اس طرح چند ماہ کے اندر اندر سیلون کی ایک مخلص احمد یہ جماعت معرض وجود میں آگئی ہو تیس کے قریب محمد، سمجھدار ہو تو یمیافتہ افراد پشتمل تھی یے حضرت صوفی صاحب نے کولمبو میں انجمن احمدی تشکیل کی اور مسٹر ڈ کے لائی ( T.K LYE ) کو اس کا سیکرٹری مقرر کر کے ماہوار چندہ کا انتظام کیا.یکم مئی کو آپ کا نڈی ( KANDY) بھی تشریف لے گئے اور گرینڈ ہوٹل کا نڈی میں مقیم ہوئے.شام کو آپ کے پاس عبد الجواد شمس الدین اور غوث نامی تین مسلمان بغرض ملاقات آئے.مر مئی کی رات کو غوث محمد کی دعوت پر آپ مولود کی ایک مجلس میں پہنچے یہاں آپ نے اس رسم کے خلاف انگریزی میں فی البدیہ تقریر کی اور عبدالجواد نے اس کا ترجمہ کیا.اس تقریر کا پورے شہر میں بہت چرچا ہوا.بعض نے ا یہ مکتوب آپ نے کولہو سے ۲۹ فروری ۱۹۰۸ء کو لکھا اور یو یو آف ریلیجیز انگریزی دسمبر ۱۹۱۶ء ( صفحه ۴۶۸-۴۲۷) میں اس کا متن شائع شدہ ہے.له الفضل ۲۲ مارچ ۱۹۲۷ء ص : له الفضل ۲۳ مئی ۶۱۹۱۵ ص ۱
۳۴۱ آپ کو وہابی مشہور کر دیا اور بعض آپ کی تائید میں اُٹھ کھڑے ہوئے اور آپ کی خدمت میں تلاش حق کے لئے آنے لگے.4 مئی کو آپ نے کا نڈی مسلم بینگ بین ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام ایک جلسہ کو خطاب کیا جس میں کھلے اور واضح لفظوں میں جماعت احمدیہ کے مخصوص علم کلام خصوصا وفات مسیح اور صداقت سیح موعود کے دلائل پر بڑی شرح وبسط سے روشنی ڈالی اور کانڈی کے باشندوں پر حجت تمام کر دی ہے اس لیکچر کی اگرچہ ملاؤں نے مخالفت کی اور ہر طرف ایک شور بپا کر دیا مگر حق کے طالب حضرت مہدی موعود کے دعوئے اور حالات کی تفصیل معلوم کرنے کے لئے ہوٹل میں آپ کے پاس آتے رہے اور آپ انہیں دینی ادن تک پورے نہ ور شور سے پیغام حق پہنچانے کے بعد واپس کولمبو میں آگئے اور کمبلوں میں احمدیت کا بیج بونے کے بعد اگلے ماہ مارشمس روانہ ہو گئے.مشکلات کے باوجود جماعت احمدیہ حضرت صوفی غلام محمد صاحباب کے بعد ۱۹۱۵ء میں ہی جماعت احمدیہ سیلون مشکلات میں گھر گئی مسیلون کی حکومت سیلون کی مخلصانہ خدمات نے یہ فیصلہ کیا کہ آئندہ اس ملک میں احمدی مبلغین کو یہ کہ کو داخلہ کی اجازت نہ دی جائے گی یہ ان حالات کے باوجود سیلون کے مخلص احمدیوں نے، اشاعت احمدیت کا اخبار سیلون انڈی پینڈنٹ نے ۱۳ مئی ۱۹۱۵ء کے پرچہ میں اس کا میاب لیکچر کی بایں الفاظ رشائع کی :- " ایک بہت دلچسپ اور پر معلومات لیکچر اسلام کے متعلق مولوی غلام محمد بی.اے نے گانڈ پر ہلم ینگ بین ایسوسی ایشن کے ہال میں دیا مسٹر این ڈی ایمیٹ صدر جلسہ تھے انہوں نے لیکچرار کا حان دین سے تعارف کرایا اور فاصل لیکچرار نے اسلام کی پاکیزگی کو قرآن کریم اور احادیث نبوی کے حوالجات سے ثابت کیا اور بتایا کہ وہ تمام باطل خیالات جو مسلمانوں کے اندرباہر سے آگئے ہیں نکال دئے جائیں اور اسلام کو اصل پاکیزگی کے ساتھ اختیار کیا جائے.اس لیکر کو نہایت قابلیت کے ساتھ مسٹر ایس ٹی سابق مدار متاع کا ٹھی نے تامل زبان میں ترجمہ کر کے حاضرین کو شنا دیا.خاتمہ لیکچر پرمسٹر اے ایم اے عزیز می ایسوسی ایشن نے لیکچرار کیلئے شکریہ کا وٹ تجویز کیا اور آئی ایم.یوسف آنریری سیکرٹر نے تائید کرتے ہوئے مریم کا بھی یہ ادا کیا یہ سر سی پیک منٹارا ( CH MAN TARA) (احمدی) آنریری سیکرٹڈی اور سینٹ الیشور یس کلب کلیو آئی لینے کا انکی تشریف آوری او اباد کیلئے شکریہ ادا کیا گیا مسٹر لیں.ایم.احسان نے ماضرین کی تشریف آوری کا تامل میں شکریہ ادا کیا صاحب صدر طیبہ کیلئے شکریہ کا وٹ پاس کرنے کے بعد علینہ خیر و خوبی برخاست ہوا یہ ترجمہ (بحوالہ افضل ۳ بر مئی ۱۹۱۵ ء من له الفضل
۳۳ کام نهایت سرگرمی سے جاری رکھا اور ہر سال باقاعدگی سے سالانہ جلسوں کا انعقاد کرتے رہے کے علاوہ ازیں تبلیغی ٹریکٹیوں کا ایک سلسلہ نیز ۱۹۱۷ء سے " THE MASSAGE (تامل نام نمودن ) کے نام سے ہفتہ وار تے اخبار بھی جاری کیا جو ۱۹۴۳ تک چھپتا رہا جس سے احمدیت کا پیغام جزیرہ کے علمی طبقوں تک پہنچا.اس ابتدائی دور میں سیلونی احمدیوں کو کئی تکالیف پہنچیں.بعض پر جھوٹے مقدمے بنائے گئے بعض کو احمدیت کی پاداش میں زدو کوب کیا گیا ہے مگر یہ مصائب کے طوفان سیلونی احمدیوں کے ایمان و اخلاص کو متزلزل کرنے کی بجائے مستحکم کرنے کا موجب بنے جس پر خود حضرت امیر المومنین خلیفہ السیح الثانی رضی اللہ عنہ نے سالانہ جانہ ۱۹۱۹ء پہ اُن کی خاص تعریف فرمائی.ایک اور موقع پر مجلس شوری کے اجلاس میں فرمایا " سیلون کی جماعت بعض ہیں میں سے جن میں کمزوری ہو لیکن ان میں بڑے بڑے مخلص بھی بین ۱۹۲۰ء کے آخر میں جماعت احمدیہ سیلون نے ایک نہایت ہی عمدہ موقع کا مکان مسجد اور پریس کے لئے دو ہزار روپیہ میں خریدا نشستمبر ۱۹۲۱م میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک ممتاز صحابی حضرت سردار عبد الرحمن صاحب بی.اے رضی اللہ عنہ سیلون میں چند روز کے لئے تشریف لے گئے.جماعت احمدیہ سیلون نے ٹاؤن ہال میں آپ کا پبلک لیکچر دلایا.سامعین سب کے سب تعلیم یافتہ تھے.اس سے قبل کسی مسلمان کا پبلک لیکچر اس ہال میں نہیں ہوا تھا.اس لیکچر کے علاوہ آپ قریباً روزانہ ہی انگریزی میں لیکچر دیتے رہے جس کا ترجمہ تائل میں سنایا جاتا جولائی ۱۹۲۳ء میں حکومت نے سیلون میں احمدی مبلغین کے داخلہ پر ۱۹۱۵ ء سے عائد شده پابندی محدود رنگ میں بعض شرائط کے ساتھ واپس لے لی.یہ پابندی سر بیوک الفورڈ سابق گورنر نائیجیریا کی آمد پر دور ہوئی جو نائیجیریا میں جماعت احمدیہ سے خوب واقف تھے یہ ر اس سلسلہ میں سیلون گورنمنٹ کے نائب کا لونیل سیکرٹری انکے.آر بلٹ نے ۲۶ جولائی ۱۹۳۰ء کو آنریری سیکرٹری احمدیہ ایسوسی ایشن سیلون ۳۰- شارٹس روڈ کولمبو کو جو خط بھیجا اس کا ترجمہ بہ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء ص ۳ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سال جماعت احمدیہ سیلون نے گھی پوری (SAMPOLA) میں تیرھواں سالانہ جلسہ منعقد کیا ؟ سه راس آرگن نے ایک اپنا وسیع حلقہ اللہ پیدا کیا ہے ه الفضل ۲۷ مئی ۱۹۱۹ء ص و اسر مئی ۱۹۱۹ ء ص ب شه رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۵ء منا : له الفضل در نومبر ۱۹۲۰ء ص و له الفضل ۲۹ ستمبر ۶۱۹۲۱ مث ه که رپورت مجلس مشاورت قادیان ۶۱۹۲۷ ص ۳ +
سوم سر حسب ذیل ہے :- جناب من ! آپ کے خط مرسلہ 19 جولائی ۱۹۲۳ء بنام کا نوٹیل (COLONIAL ) سیکرٹری کے بارے میں جو مسلمان احمدی مبلغین کی پابندیوں کے متعلق تھا، مجھے آپ کو اس بات پر مطلع کرنے کی ہدایت ہوئی ہے کہ ہز ایکسی لینسی گورنر بہادر نے بخوشی حکم صادر فرمایا ہے کہ احمد سی سیلین کے سیلون میں داخل ہونے کے متعلق جو ممانعت تھی اس کو دور کیا جائے اور یہ کہ وہ حسب ذیل پابندیوں کے ساتھ سیلون میں داخل ہو سکتے ہیں : (1) تمام جلسے جس میں کہ یہ سکیمیں اپنے ایڈریس اور لیکچر دیں سیلوں کی احمدیہ جماعت کے ہیڈ کوارٹر میں ہونے چاہئیں جو کہ سلیو آئی لینڈ کے شہر کو لمبو میں واقع ہے.(۲) کوئی وعظ یا گلیوں میں جلسہ کرنے کی ان مبلغین کو اجازت نہ ہوگی.(۳) اور ایسے تمام مشتری جزیرہ میں وارد ہونے کے بعد چوبیس گھنٹہ کے اندر اندر بذات خود حاضر ہو کر کالونیل سیکرٹری کے دفتر میں اپنے آنے کی رپورٹ دیں.مشنریوں کو یہ شرائط منظور کرنا ہوں گی اور ایک تحریہ کالونیل سیکر ٹری کو دینی ہوگی کہ اگر وہ لوگ ان شرائط کی خلاف ورزی کریں گے تو ان کو اس مجرم میں جزیرہ سے فورا باہر نکل جانا ہوگا بشرطیکہ ان کو ایسا کرنے کا حکم دیا گیا.لیکن ہوں آپ کا خادم.اپنے.آر.بلڈ نائب کا لونیل سیکرٹری لے راس جزوی آزادی کے بعد سیلون کے احمدیوں کی تبلیغی جد و جہد میں نمایاں اضافہ ہوا اور مرکزہ کی طرت سے مولوی اے پی ابراہیم صاحب میلون شن کے انچارج مقرر کئے گئے.سے حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی تشریف آوری در اکتوبر ۱۹۴۷ کوحضرت مودی موڈ کے محبت صادق مدیر بندر اور احمدیہ سلم مشن اور جزیرہ میں احمدیت کا زبر دست چرچا امریکہ کے بانی حضرت مفتی حمد صادق صاحب سیلون میں تشریف لائے اور ہر نومبر ۱۹۲۷ء تک یہاں قیام فرمارہے گی حضرت مفتی صاحب کی آمد نے حقیر سے اخبار ٹائمز آن سیلون مورخه ۲۲ اگست ۱۹۲۳ء (جواله الفضل ار ستمبر ۱۹۲۳ م ) + سے یہ پورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء ص ۳ به س الفضیل ۲۱ اکتوبر ۱۹۴۷ء جنگ ه الفضل ١٨ / نومبر ١٩٢٧ء من :
۳۴۴ صوفی غلام محمد صاحب کے زمانہ کی یاد تازہ کر دی اور جزیرہ بھر میں احمدیت کی گویا دھوم مچ گئی.حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے کولمبو کی مختلف سوسائٹیوں میں اسلام اور احمدیت سے متعلق متعدد کامیاب لیکچر دیئے آپ نے ایک لیکچر اسلام اور عیسائیت کے موضوع پر دیا اور مسلمانوں نے تسلیم کیا کہ اسلام کی تائید میں انہوں نے کبھی ایسی زبردست تقریر نہیں سنی.ایک لیکچر بدھسٹ انجمن کے ہال میں ہوا جس کا تمام انتظام بدھ لوگوں نے کیا.جلسہ میں غیر معمولی حاضری تھی مفتی صاحب نے بدھوں کے کالج کا بھی معائنہ کیا.نیز کولمبو میں بدھوں کے سب سے بڑے مذہبی پیشوا سے بھی ملاقات کی اور انہیں خبر دی کہ اِس زمانہ کا بدھ قادیان میں آچکا ہے بدھ لیڈر نے کہا کہ بدھ آسمان سے آئے گا اور ہم اُس کو آسمان سے نازل ہوتے خود دیکھیں گے.آپ کا ایک عیسائی مناظر ڈی سلوا کے ساتھ اتو بہت سیج اور دعونی مسیح موعود کی صداقت پر دوبارہ مناظرہ بھی ہو ا جس میں پادری صاحب لاجواب ہو گئے.ان ٹیچروں اور آپ کی نجی ملاقاتوں کے نتیجہ میں کئی غیر احمدی مزین احمدیت کے بہت قریب آگئے بلکہ بعض علماء نے یہاں تک مشہور کر دیا کہ مفتی صاحب في المواقع ولی اللہ ہیں جو محض اتفاق سے احمدیوں کے ہاتھ لگ گئے ہیں اور وہ ان سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں مگر دراصل وہ احمدی نہیں ہیں.ابتدائی چند لیکچروں کے سوا اکرلیکچروں کا انتظام غیر احمدی معززین نے اپنے خرچ پر کیا اور نہایت خوشی کے ساتھ اپنی گرہ سے ہال کا کرایہ اور اشتہار وغیرہ کے اخراجات ادا کئے.حضرت مفتی صاحب نے عیسائیوں کے ویہلی کالج کی لٹریری سوسائٹی میں بھی ایک لیکچر دیا.دیکھرامریکہ کے عام حالات پر تھا اور صدر جلسہ خود پرنسپل تھے جو لندن کے پادری تھے.حضرت مفتی صاحت سیلونی بدھوں کے مرکزی شہر کانڈی میں بھی تشریف لے گئے جہاں آپ کے دو لیکچر ہوئے.ایک کا عنوان تھا ” پیغام اسلام یکچر ٹاؤن ہال میں ایک معزز وکیل جارج ڈی سلوا صاحب نے صدارت کی.ہال سامعین سے بھرا ہوا تھا آخر میں معززین شہر نے کہا کہ ہمیں یہ خوشی ہے کہ اسلام اس قدر خوبیوں سے پر ہے جیسا کہ مفتی صاحب نے بیان کیا ہے.دوسرا لیکچر اسی شہر کے بدھسٹ ہال میں ہوا.حضرت مفتی صاحبے نے اپنے لیکچر میں دور جدید کے بدھہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی پیش کیا.یہ کچھ بھی بہت مقبول ہوا.حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے اپنے لیکچروں میں صداقت اسلام کے علاوہ تحریک احمدیت کے مخصوص مسائل پر بھی روشنی ڈالی اور اپنے عقائد کو بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا.چنانچہ یہ ایک مشہور واقعہ ہے کہ آپ کے ایک لیکچر کے دوران جس کے صدر مسٹر برہان، ایک وکیل تھے کسی اہلحدین دوست نے
۳۴۵ دعوی کیا کہ قرآن شریعت میں بہت سی آیات ہیں جن میں لکھا ہے کہ حضرت عیسی زندہ آسمان پر ہیں حضرت مفتی صاحب نے فرمایا مولوی صاحب تو کہتے ہیں بہت سی آیات ہیں اگر وہ ایک بھی ایسی آیت دکھا دیں جس میں لکھا ہو کہ عیسى حتى في السماءِ تو میں اسی مجلس میں مولوی صاحب کو مبلغ تین سو روپے انعام دوں گا.اس پر لوگوں نے خوب تالیاں بجائیں اور سب مولوی صاحب کی طرف دیکھنے لگے کہ اب وہ تین سو روپے انعام لینے ہی والے ہیں مگر مولوی صاحب دم بخود ہو کر بیٹھ گئے.اس پر ایک اور صاحب نے اُٹھ کہ کہا کہ اگر حضرت عیسی آسمان پر نہیں تو اُن کی قبر دکھاؤ حضرت مفتی صاحب نے فی البدیہہ جواب دیا کہ آپ کے دادا کا دادا زندہ ہے یا مر گیا ہے ؟ اگر مر گیا ہے تو اس کی قیر دکھاؤ ورنہ کہا جائے گا کہ وہ بھی آسمان پر ہے.اس جواب پر دوسرے صاحب نے بھی چپ سادھ لی.حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے لیکچروں کا سیلون پریس میں بہت پر چھا ہو البطور نمونہ دو انگریزی اخبارات کے دو نوٹ درج ذیل کئے جاتے ہیں :.اخبار سیلون ڈیلی نیوز (۲۵ اکتوبر ۱۹۲۷ء) نے لکھا کہ :.ولزلے کالج لٹریری ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام ڈاکٹر ایم.ایم.صادق نے کل طلباء کے سامنے زیر صدارت پرنسپل کالج ہذا ریورنڈ ہچنسن اپنے وہ تجربات بیان فرمائے جو آپ کو قیام یورپ و امریکہ کے زمانہ میں حاصل ہوئے تھے.دوران تقریبہ آپ نے کئی ایک دلچسپ واقعات بیان کئے اور غیر ممالک میں زندگی بسر کرنے کے متعلق طلباء کو وہاں کے اخلاق اور طرز معاشرت کے بارے میں مفید معلومات بہم پہنچائیں.(ترجمہ) اخبار سیلون انڈی پینڈنٹ لے ۲۵ اکتوبر ۱۹۲۷ء کی اشاعت میں ایک نامہ نگار کے حوالہ سے لکھا:.ینگ مسلم لیگ جو کہ روشن و مارغ اور آزاد خیال افراد پر شتمل ہے، کے اجلاس میں دو معزز اشخاص ڈاکٹر صادق اور مسٹر حمید کو نیومورسٹریٹ کے سکول میں حفظان صحت کے متعلق حضرت رسول کریم صلے للہ علیہ وسلم کے ارشادات بیان کرنے کا موقع دیا گیا.نامہ نگار نے مزید لکھا کہ میں بخوشی اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ مسلم لیگ کے ممبروں نے اخوت اور رواداری کا نمونہ دکھایا ہے.گذشتہ سال جب خواجہ کمال الدین صاحب سیلون میں لیکچروں کے متعلق
سلام.خط و کتابت کر رہے تھے تو اس کے خلاف ایک عام مخالفت کی ہر پیدا ہوگئی تھی اور وہ اس جزیرہ میں نہیں آسکے تھے.اب حالات تبدیل ہو گئے ہیں اور قومی بیداری کے ساتھ رواداری کی روح بھی پیدا ہو رہی ہے.غیر مسلم اصحاب نے فائنل ڈاکٹر کے ساتھ مختلف مسائل پر پیچ اور ملاقاتوں کا انتظام کیا.ڈاکٹر صاحب یہاں قلیل عرصہ ہی ٹھہریں گے اس لئے عام مسلمانوں کو چاہیے کہ تعدد ازواج ، غلامی، اگراہ فی الدین اور جہاد کے متعلق لیکچر دلوانے کا انتظام کر کے صحیح مذہب اسلام کی تبلیغ کا موقع بہم پہنچائیں جائے حضرت مولوی عبداللہ صاحب مالاباری کی صدر انجمن احمدیہ قادیان کی سالانہ رپورٹ ریکم مئی ہر اپریل ۱۹۳۳ء) سے معلوم ہوتا ہے کہ مولوی پر جوش تبلیغی جد و جہد ۱۹۳۲ء تک بجزیره سیلون میں کولمبونی گمبو ( NE GOMBO) گیمپل اور انکا میں الحمد یہ جماعتیں قائم ہو چکی تھیں اور سیلونی احمدیوں کی تعداد اسی تک پہنچ چکی تھی.اس جزیرہ کی تبلیغی مہم ان دنوں مرکز کی طرف سے حضرت مولوی عبد اللہ صاحبث بالا باری پھلا رہے تھے جو عربی، ملیالم اور انگریزی کے عالم و فاضل اور بڑے بلند پایہ مقرر تھے اور سیلون اور مالا بار میں باری باری سے اعلائے کلمہ الحق میں مصروف عمل رہتے تھے اور اشاعت اسلام و احمدیت کا کوئی تقریر ی اور تحریری موقع ہاتھ سے نہیں بھانے دیتے تھے.حضرت مولوی صاحب ۳۳۰ ہش/ ۱۹۵۱ء تک سیلون میں بڑے موثر رنگ میں اشاعت احمدیت کے جہاد میں دیوانہ وار منہمک رہے.حضرت مولوی صاحب نے اس جزیرہ میں کس جانفروشی اور خلوص سے اشاعت احمدیت کا فریضہ ادا کی ہے؟ اس کا اندازہ صدر انجمن اسعدیہ قادیان کی قبل از تقسیم مطبوعہ رپورٹوں سے بخوبی لگ سکتا ہے.بطور نمونہ حضرت مولوی صاحب کے قلم سے دار التبلیغ سیلون کی صرف ایک رپورٹ (بابت ۱۹۳۷-۱۹۲۸) ملاحظہ ہو.فرماتے ہیں:.دو سال زیر رپورٹ رہی ہے اتنا ہی ہے ) میں ساڑھے تین ماہ نما کسار میلون میں مقیم رہا.مقررہ اندازہ کے لحاظ سے ہم ماہ سیلون میں ٹھرنا تھا لیکن کالی کٹ میں مصری فتنہ کے زیر اثر بعض افراد کے ہلاکت میں پڑنے اور جماعت کا اس سے متاثر ہونے کا خطرہ پیدا ہو جانے کی وبعد سے مقررہ میعاد کے گذرنے سے دو ہفتہ پہلے مجھے سیلون سے مالا بار کو واپس جانا پڑار سیلون میں چار مقامات پر جماعتیں موجود ہیں جن میں مرکزی ه حضرت مفتی صاحب کے سفر سیلون کے سلسلہ میں ملاحظہ ہو الفضل (۱۲ اکتوبر از نومبر ۱۵ر نومبر ۱۹۲۷ +
۳۴۵ جماعت کو لہو کی ہے.جس طرح شہر کولمبو جزیرہ سیلون کا صدر مقام ہے کو لمبو کی جماعت بھی دیگر جماعتوں سے بڑی اور اہم ہے.اس لئے خاکہ مار کا قیام زیادہ تر اسی جماعت میں رہا ہے.اس کے علاوہ پانا دورا (PANADIRA) نیگومبور گیمپولا کی جماعتوں میں بھی کئی دفعہ دورہ کر تا رہا.پھر ٹوٹا (MATURATE) اور پوست اوا (PUSSUL AWA ) دو مقامات کے بھی دورے کئے گئے سیلون میں بھی انفرادی گفتگو، تحریر اور تقریر کے ذریعہ تبلیغ کے فرائض اور خطبات و نصائح اور درس و تدریس کے ذریعہ جماعتوں کی تعلیم و تربیت کے فرائض سر انجام دیتا رہا.قریباً ڈیڑھ صدا فراد کو پرائیویٹ گفت گو کے ذریعہ تبلیغ حق پہنچائی گئی اور اسلام اور احدیت کے متعلق ہے علمی لیکچر دئیے گئے جن میں اسلام کی برتری ، احمدیت کی صداقت اور غیر اسلامی عقائد کی تر دید بیان کی گئی.ان میں سے زیادہ لیکر را و ترکمپنی کے صحن میں دیئے گئے تھے اور کچھ لیکچر یہاں کی سنٹرل جیل میں دیئے گئے جہاں ہر اتوار کو جا کر قیدیوں میں لیکچر دینے کے لئے جیل خانہ جات کے انسپکٹر جزل سے اجازت حاصل کی گئی تھی اور دو لیکچر میدانوں میں اور ایک لیکچر بہندوؤں کے ایک مشہور ہال میں دیا گیا تھا.جماعت کا ہفتہ واری اخبار مالی مشکلات کے سبب بند ہو جانے کی وجہ سے انسان تحریر کے ذریعہ تبلیغ کرنا مشکل ہو گیا تھا اس لئے عرصہ زیر رپورٹ میں ٹریکیوں کی اشاعت سے یہ کام لیا گیا.چنانچہ تھا کسار نے اس عرصہ میں پچارٹر ایکٹ لکھے.ایک چار صفحات کا اور تین چار صفحات کے.اور جاگت کے خرت پر یہ ٹریکٹ ہزاروں کی تعداد میں طبع کر اگر لوگوں ہی تقسیم کئے گئے.راس کے علاوہ خطبات ، انفرادی نصائح اور درس و تدریس کے ذریعہ سے جماعتوں کی تعلیم و تربیت کا فریضہ ادا کیا گیا.ہر ہفتہ انصار الل کی میٹنگ میں حاضر ہو کر ان کو ضروری ہدایات دیتا اور علی باتیں بتاتا رہا.بعض دوستوں کو قرآن کریم کا درس سناتا رہا.خط و کتابت کے ذریعہ تبلیغ کرنے کے علاوہ دیگر مقامات کی جماعتوں کی تربیت اور اصلاح کے لئے بھی سیلوں سے مالابار اور ساتان کولم وغیرہ مقامات میں کئی خطوط بھیجے گئے....الفرض اس عرصہ میں سیلون کی مختلف جماعتوں میں ٹھر کو پرائیویٹ گفتگو، تقریر اور تحریر کے ذریعہ تبلیغ حق پہنچانے اور نصائح اور درس و تدریس سے بنا عتوں کی تعلیم و تربیت کرنے کے فرائض خاکسار عبد الله بالا باری از کولمبو سے سر انجام دیتا رہا.دیکم نے رپورٹ دیکم مئی ۶۱۹۳۷- ۳۰ اپریل ۱۱۹۳۸) ۱۲ مثلا :
۳۴۸ اخبار تھو دن چونکہ عرصہ سے بند ہو چکا تھا اس لئے احباب جماعت اسلامیہ سورین" کا اجراء کو روحانی غذا ہم پہنچانے کے لئے جماعت سیلون کے مخلص دوست اور عبدالمجید صاحب نے اسلامیہ سورین نامی رسالہ باری فرمایا.چونکہ عبدالمجید صاحب ۱۹۱۵ء سے ہی جماعت کے اخبار تھوون سے وابستہ چلے آرہے تھے اس لئے اُن کی ادارت میں اس رسالہ نے جماعت کو تبلیغی و علمی میدان میں آگے بڑھانے میں بہت مدد دی.پھر بعض احباب کی مالی مدد سے انہوں نے اسلام ہے سورین پریس بھی قائم کر لیا جس سے جماعت کے لڑیچر کی طباعت میں مزید آسانی پیدا ہوگئی کچھ عرصہ مفید کام کرنے کے بعد جب تھو دن دوبارہ جاری ہوا تو یہ رسالہ بھی تھو دن میں مدغم ہو گیا.ظهور ۱۳۳۰ بهش / اگست ۱۹۵۱ء کو جماعت احمدیہ تحریک جدید کے سیلون مشن کا قیام سیلون ک تاریخ کا ایک نیا اور انقلاب انگیز دور شروع ہوا جبکہ سیدنا حضرت امیر المومنین المصلح الموعودہ کے حکم سے مولوی محمد اسمعیل صاحب منیر (مع اہلیہ) اس جزیرہ میں پہنچے اور تحریک جدید کے زیر انتظام مستقل مشن کی بنیاد رکھی مولوی صاحب تہ بیبا پونے سات برس تک سیلون کے طول و عرض میں نہایت جوش ، اخلاص اور متعدی سے اشاعت احمدیت میں سرگرم عمل رہے اور بالآخر جنوبی اور وسطی ہند کا طویل سفر کرتے ہوئے درشہادت ۱۳۳۷ ش / اپریل ۱۹۵۸ء کو ربوہ میں تشریف لائے.آپ اگر چہ مقامی زبان سے واقف نہ تھے لیے ماحول سراسر اجنبی تھا.ویزا صرف تین ماہ کا ملا تھا اور ایک ایسے نازک موقع پر مرکزہ کی طرف سے بھجوائے گئے تھے جبکہ جماعت سیلون اندرونی اور خارجی مشکلات سے دو چار تھی مگر خدا کے فضل اور حضرت مصلح موعود کی دعاؤں کی برکت سے انتہائی بے سروسامانی کے باوجود آپ کے دور میں اشاعت حق کے نئے سے نئے رستے کھلے اور آپ کی کوششوں میں غیر معمولی برکت ڈالی گئی.جماعت احمدیہ سیلون نے آپ کے زمانہ قیام میں جو نمایاں خدمات سر انجام دیں ان میں سے بعض کا تذکرہ ذیل میں کیا جاتا ہے.جماعت سیلون کو ایک نظام سے منسلک کرنے کے جماعتی تربیت اصلاح کا نظام لئے پر سیلونی احمدی خاندان کے ہر فرد کے مختصر اور ه تبلیغی اور تربیتی تقاریر کے موقع پر اردو سے تال میں ترجمانی کے فرائض بھائی ہے بشیر احمد صاحب اور اسے.ائیں محمود احد صاحب نے اور انگریزی سے تامل میں ترجمہ کے فرائض کی.اسے احد صاحب اور اہم جمال الدین صاری نے انجام ہے
۳۴۹ ضروری کو الو بہ کا ریکارڈ تیار کیا گیا مجلس خدام الاحمدیہ مجلس اطفال الا ندیہ اور لجنہ اماءاللہ کی مرکزی تنظیموں میں نئی حرکت پیدا ہوئی اور احمدیوں کی نوجوان نسل کی تربیت واصلاح کے لئے مختلف تدابیر بروئے کار لائی گئیں.اور احمدی عورتوں نے بھی محترمہ مبارکه نسرین صاحبہ (اہلیہ مولوی صاحب موصوف) کی رہنمائی میں تبلیغ و تربیت کے پروگرام میں اہم کردارادا کیا.جماعت احمدیہ سیلون نے کو لمبو میں اپنے مستقل مشن ہاؤس اور مرکزی مسجد کی تعمیر احمدیہ باغ کے لئے قریبا پندرہ ہزار روپے جمع کئے جن میں سے پانچ ہزار روپے کی لاگت سے مسجد احد بی نیگیوں کے دائیں جانب ایک ایکڑ زمین خریدی گئی اور اس طرح جماعت کی وسعت کے پیش نظر ایک احمدیہ باغ کی صورت میں اس مسجد کی تو صبیح عمل میں آئی.یہ سجد آپ کے زمانہ میں سیلون مشن کی واحد مسجد تھی.کو لمبو میں انجمن احمدیہ کا ایک قدیم کمرہ تھا جماعت سیلون انجمن احمدیہ کے قدیم کمرہ کی مقت نے ایک بھاری رقم سے اس کی بھی مرمت کرائی اور اس میں لائبریر سی کا ابتداء ہوا.اس عرصہ میں جماعت احمدیہ سیلون کے چندوں میں نمایاں ترقی ہوئی اور مالی قربانیوں میں ترقی سیلون کے مخلص احمدی مردوں اور عورتوں نے ویت ، تحریک جدید وقت جدید اور دوسری مرکزی تحریکوں میں شامل ہونے کے علاوہ مقامی اور ہنگامی چندوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حمہ نیا اور مالی قربانیوں میں بھی ایک عمدہ مثال قائم کی.کولمبو اور ریگیورین احمدیہ لائبریریاں قائم کی گئیں.کولمبو کی فضل عمر لاشری لائبریریوں کا قیام میں سات سو کے قریب جلدیں آپ کی واپسی کے وقت موجو د تھیں اور ریویو آن رئیجبر انگریزی کے تقریباً مکمل فائل مہیا ہو چکے تھے.بیگمبو لائبریری کے لئے مولوی محمد امیل ے مثلاً تاریخ ولادت تاریخ بیعت - ولدیت سکونت ہمیشہ آمد اور چندہ جات سے اس فنڈ سے دن ۳۳۶ انت / جولائی 1906 میں ایک سے نزلہ عمارت کو لمبر شہر کے وسط میں خرید کی گئی.یہ عمارت ۳۲ ہزار یان خرید ی گئی تھی اور اہزار روپے قرض کے عوض مکان رہن رکھا گیا تھا.یہ بہت شاندار عمارت تھی جو افسوس مولوی صاحب، کے بعد مخالفین کی شرارت کے باوے جماعت کے ہاتھوں سے نکل گئی ؟
۳۵۰ صاحب تیر نے اپنی ایک الماری اور بہت سی کتابیں بطور عطیہ دیں.اس دور میں جماعت احمدیہ سیلون کا پورا انگریزی اخبار دی میسیج " THE) دی بسیج کا احیاء (MESSAGE جو ۱۳۷۲ مش / ۱۱۹۴۳ سے بند ہو چکا تھا دوبارہ پوری آب و تاب کے ساتھ ماہ ظہور ۳۳۴ پیش / اگست ۱۹۵۵ء سے نکلنا شروع ہوا.یہ انگریزی و تاتل اخبار سیلون کے علاوہ جنوبی ہند، بورنیو ، برما اور بلایا میں بھی بھیجا جاتا تھا.اور تعلیمیافتہ مسلم اور بغیر مسلم حلقوں میں بڑی دلچسپی سے پڑھا جاتا تھا.ماہ صلح ۱۳۳۶ پیش / جنوری ۱۹۵۷ء میں اس اخبار کے سنہلی ایڈیشن کا بھی اجراء کیا گیا.اس زبان میں یہ پہلا اسلامی اخبار تھا اور اس کی اشاعت پر سنہالی پر لیس نے قابل قدر تبصرے کئے پینسلی ایڈیشن کے پہلے پر بچہ میں حضرت مصلح موعود کی شبیہہ مبارک کے ساتھ حضور کا حسب ذیل افتتها می مضمون اشاعت پذیر ہوا :- اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم و نحمده ونصلى على رسوله الكريم هو الن خدا کے فضل اور رحم کیسا تھ سامر سنهایز برادران جماعت احمدیہ کا سنہالی رسالہ نکل رہا ہے اور اس کے لئے تمہیدی نوٹ یکی لکھ رہا ہوں.لیکن آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ سیلوں کے ساتھ مسلمانوں کا تعلق آج کا نہیں بلکہ بہت پرانا ہے.کیمرج ہسٹری آف انڈیا میں لکھا ہے کہ سیلون کے بادشاہ نے حجاج کو جو امیہ خلافت کی طرف سے مشرقی صوبہ کا گورنر تھا ان مسلمانوں کے بتا ملی بھجوائے جو کہ سیلون کے بادشاہ کے علاقہ میں فوت ہوئے تھے.اس میں یہ بھی لکھا ہے کہ ایک غیر مصدقہ روایت سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ سیلون کا بادشاہ خود بھی مسلمان ہو گیا تھا اور امیر خلیفہ کو بار بھیجا کرتا تھا.ہند وستان پر محمد بن قاسم کے حملہ کی وجہ بھی یہی تھی کہ بیلون کے بادشاہ نے جو مسلمان بیت ملی خلیفہ اسلام کو بھجوائے تھے ان پر سندھ کے ساحل کے قریب کچھ ہندو ڈاکوؤں نے محملہ کر کے انہیں گرفتار کر لیا تھا انہیں کے بچانے کے لئے محمد بن قاسم سندھ پر حملہ آور ہوئے تھے اور یہی بنیا د عالم اسلام اور ہندوستان میں جنگ کی تھی.پس قدیم سیلون سے مسلمانوں کا ایک ہزار سال سے زائد ناقل) کا تعلق ہے ہم اس تعلق کو زیادہ کرنے
۳۵۱ کے لئے پھر اس مالک میں آئے ہیں اور امید اے تے ہیں کہ آپ لوگ بھی ہم ارئے مشن سے وہی سلوک کریں گے ہو کہ آٹھویں صدی عیسوی کے سیکون بادشاہ نے مسلمانوں سے کیا تھا.خدا تعالیٰ آپ کے دلوں کو...ہدایت کے لئے کھول دے اور جس طرح ہم قدیم زمانہ میں بھائی بھائی تھے اس زمانہ میں بھی ہم بھائی بھائی ہو جائیں اور اس خطرناک زمانہ میں اپنے ملک و ملت کی حفاظت کے لئے دوش بدوش ایک دوسرے کی حفاظت کرنے کے لئے کھڑے ہو جائیں.اللهم آمین خاکسار (دستخط) مرزا محمود احمد خلیفة المسیح الثانی ا پہلی بار سیلوں کے مشرقی صوبہ میں جو مسلم اکثریت کی وجہ سے مشرقی صوبہ میں ذیلی شن کی بنیاد سینوں کا پاکستان کماتا ہے یکم امتار و پیش از اکتوبر 1900ء میں جماعت احمدیہ کا ایک ذیلی مشن قائم کیا گیا جس کے انچارج مولوی مد تیم صاحب تھے جماع احمد یہ سیلون نے اس مشن کے لئے اپنی بلڈ نگ خریدی.۱۳۳۱ اہش / ۱۹۵۲ء میں سید نا حضرت المصلح الموعود سهیلی زبان میں سلسلہ احمدی اسیری را در بر ندارید و یا یہ انکشا کیا گیا کہ رضی اللہ بذریعہ ہمارے سلسلہ کا لٹریچرس نہایز زبان میں بھی شائع ہونا شروع ہو گیا ہے اور اس کے نتائج اچھے نکلیں گے یے حضور فرماتے ہیں :.میں خواب میں کہتا ہوں کہ سنگھالیز زبان تو ہے یہ سنہا لیز کیوں لکھا ہے.پھر میں سوچتا ہوں کہ سنہا نیز زبان کونسی ہے یا اے ۱۳۳۱ ایش/ ۱۹۵۲ء میں اگر چہ یہ زبان ملک میں بکثرت بولی بھاتی تھی لیکن اسے کوئی خاص اہمیت حاصل نہ تھی لیکن ۳۳۵ ہش / ۱۹۵۶ء میں حالات نے حیرت انگیز پلٹا کھایا اور نئی پارٹی "سری لنکا فریڈم پارٹی “ ( SRI LANKA FREEDOM PARTY) بر سر اقتدار آئی جس نے دو ماہ کے اندر سهیلی زبان کو واحد سرکاری زبان کا درجہ دے دیا.اس وقت جماعت احمدیہ سیلون کے لئے اس زبان میں کتابیں شائع کرنے کا بظاہر کوئی امکان نہیں تھا.نہ روپیہ تھا نہ مترجم اور نہ اس خواب کی عملی تعبیر کے لئے کوئی ذرائع موجود تھے لیکن جلد ہی پردہ غیب سے ایسے سامان پیدا ہوگئے کہ مترجم بھی میسر آ گیا له الفضل به افتح ۱۳۳۱ ایش/ دسمبر ۱۹۵۲ء ص کالم :
۳۵۲ اور ستملی لٹریچر کی اشاعت کے فنڈ بھی غیر احمدی دوستوں ہی نے فراہم کر دئیے اور پھر سنسلی لٹریچر بڑی کثرت سے چھپا اور ملک بھر میں خدائی خبر کے مطابق مقبول بھی بہت ہوا جو صداقت احمدیت کا ایک چمکتا ہوا نشان ہے.مولوی محمد اسمعیل صاحب میر اس ایمان افروز نشان کی تفصیل میں فرماتے ہیں :."وہاں کے احمد یڈیشن کے پاس قطعاً ایسے وسائل موجود نہیں تھے کہ وہ اس زبان میں لٹریچر کی اشاعت کا انتظام کر سکتی و فعنہ خدائی تقدیر حرکت میں آئی اور نہایت غیر معمولی طور پر اس زبان میں اسلامی لٹریچر کی اشاعت کا خود بخود انتظام ہو گیا اور وہ اس طرح کہ ابھی سہیلی کو سرکاری زبان کا درجہ ملے ہوئے چند ماہ ہی ہوئے تھے کہ ایک معزز شخص ڈاکٹر اے سی.ایم سلیمان صاحب A.C.M (SALAIMAN جن کے نام سے بھی کیں واقعت نہ تھا موٹر کار میں احمدیہ شن ہاؤس تشریف لائے اور انہوں آتے ہی یہ سوال کیا کہ آپ لوگ سنہلی میں اسلامی لٹریچر کیوں شائع نہیں کرتے ، میں نے مالی اور بعض دوسری مشکلات کا ذکر کیا.انہوں نے کہا آپ مجھے کوئی کتاب دیں لیکن اس کا سنہالی زبان ہیں ترجمہ کرنے کا انتظام کرتا ہوں.چنانچہ میں نے انہیں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر سلسلہ کی ایک کتاب دے دی جس کا نام LIFE AND TEACHINGS OF H.P.MOHAMMAD تھا ہفتہ عشرہ کے بعد جب وہ دوبارہ آئے تو کتاب کا ترجمہ اور طبع شدہ پروف ساتھ لے کر آئے.چنانچہ چند یوم میں نظر ثانی کے بعد انہوں نے وہ کتاب پانچ ہزار کی تعداد میں چھپوا دی.اس کے بعد انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی معركة الآراء تصنیف اسلامی اصول کی فلاسفی دی گئی.اسے بھی انہوں نے بعد ترجمہ نہایت قلیل مدت میں پانچ ہزار کی تعداد میں چھپوانے کا انتظام کر دیا.چونکہ اس وقت حکومت سنہالی کو خاص اہمیت دے رہی تھی راس لئے خود وزیر اعظم نے اس زبان میں اسلامی لٹریچر کی اشاعت میں خاص دلچسپی کا اظہار کیا بیتی کہ انہوں نے ہماری درخواست پر اس کتاب کے ساتھ اشاعت کے لئے بخوشی اپنا ایک پیغام بھی بھیجوا دیا چنا نچہ وہ پیغام بھی کتاب کے ساتھ شائع ہوا.کتاب کی طباعت کے بعد اس کی اشاعت کا آغاز ایک خاص تقریب میں کیا گیا جس میں بعض وزراء اور حکومت کے اعلیٰ افسران بھی شریک ہوئے سیکھے له وزیر اعظم مسیلون (WORD - RD - BANDARANAI KE.عدم نے اس تقریب پر ایک خصوصی پیغام دیا جس ) میں کہا " بدھسٹ اور سنیلیز ہونے کے لحاظ سے میں اس کتاب " ISLAM DHARMAYA " کے لئے مختصر پیغام بھیجنے میں فخر محسوس کرتا ہوں.اس ملک کی تاریخ کے اس اہم دور میں سنہالی زبان میں (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر )
۳۵۳ چنانچہ ان وجوہ کی بناء پر کتاب کا ملک بھر میں بہت پھر بچا ہوا اور لوگوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا.الغرض نہایت بے سروسامانی کے باوجود اللہ تعالے نے محض اپنی قدرت نمائی کے ذریعہ حضور کے کشف کو پورا کرنے کے خود سامان فرمائے اور اس طرح یہ امر ہم سب کے لئے از دریا و ایمان کا موجب بنا نے اسلامک لٹریچر سنٹر اس دور میںجماعت احمدیہ سیلون کے ایک مستقل اشاعتی ادارہ اسلامک لٹریچر سنٹر کی بنیاد پڑی جس کا حساب و کتاب اور کرک الگ تھا اور جس کی نگرانی مولوی محمد اسمعیل صاحب نیز مشن انچارج اور جماعت احمدیہ کے نہایت مخلص بزرگ ایم.اسی.ایم.حسن صاحب جنرل احمد یہ پریذیڈنٹ آل سیلون و سیکرٹری مال کو لمبو کرتے بقیه حاشیه صفحه گذشته -: اسلامی کتاب کا شائع ہونا باعث اطمینان ہے کیونکہ اس کے ذریہ سے ایک دوسرے سے تعلقات بڑھیں گے.یہ کتاب جو عام فہم زبان میں تیار کی گئی ہے یقینا سنت ملی زبان میں اسلامی ٹریچر کی ضرورت کو پورا کرنے والی ہوگی اور مجھے امید ہے کہ یہ بہت سے لوگوں تک پہنچے گی یا کتاب کے مترجم مسٹر پی.آپکے.ویدیگے نے اپنی تقریر میں بتایا کہ جب وہ ترجمہ کر رہے تھے تو کئی غیر مسلموں نے ان کی شدید مخالفت کی مگر.انہوں نے اس قومی اور مذہبی خدمت کو تکمیل تک پہنچانا ضروری سمجھا اور اس کتاب کے مطالعہ کے بعد انہیں اس سے عقیدت ہوگئی جس کی وجہ سے اس کا ترجمہ بہت کم وقت میں ختم ہو ا کر اس تقریب پر کتاب کے ترجمہ کی اشاعت کا اعلان سیلون کے وزیر ڈاکخانہ جات و براڈ کاسٹ نے کیا.لک کے ہر یہ افرنا مے نے اس موقع کا نمایاں، ذاریع تصاری کے کیا اور احمد دیش کے اس کارنامے کو قومی خدمت قرار دے کو خوب سراہا.اسی طرح سیلوا، ریڈ دیں مسلسل کئی ایام تک جماعت احمدیہ کی اس عظیم الشان خدمت کی خبر نشر ہوتی رہی جان تکہ قبل ازیں امیر جماعت احمدیہ کے خلاف زیر دست پراپیگنڈا کیا جا رہا تھا.اسی طرح ایک حلقہ کے نمبر آف پارلیمنٹ آنریل سر رازک نشید (SIR RAZIK FAREED) نے جماعت احمدیہ سیلون کی درخواست پر اس کتاب کی پہلی کا پای وزیر ڈاکخانہ تھا و براڈ کاسٹنگ اور سنہلی کے بلند پایہ شاعر آزیبل عبد الستار مار یکیو ( A..MARIKAR ) کی خدمت میں کمیشن کی اس تقریب میں پاکستان میں سیلوان کے مشہور ہائی کمشنر مٹرٹی.بی.جایا (371.7.3 ) بھی تشریف لائے اور جماعت کی اس شاندار اسلامی و قومی خدمت پر خراج تحسین ! دا کیا ہے ماشيه صفحه هذا الفضل ۲۲- آمریت ۱۳۳۷ آش رهنی ۲۰۶۱۹۵۸ :
۳۵۴ تھے.غیر احمدی دوست کثرت کے ساتھ اس ادارہ کی کتابیں خریدتے تھے.سنٹر سے سیلون کے علاوہ پاکستان ہندوستان، ملایا اور پر را کو بھی کتابیں بھجوائی بجاتی تھیں.مولوی صاحب نے جب واپسی پر نئے مبلغ تر میشم عبد الرحمن صاحب شاہد سیلونی کو چارج دیا تو اِس ادارہ کے سٹاک میں پچاس ہزار سے زائد کتابیں تھیں جن کی قیمت اُس وقت تیس ہزار روپے کے لگ بھگ ہوگی مختلف کتب فروشوں کے پاس سنٹر کی جو کتابیں برائے فروخت رکھی تھیں اُن کی تعداد اس کے علاوہ تھی.اس سنٹر کی آمد کے نتیجہ میں جماعت احمد یہ سیلون نے سکول کے مسلم طلباء کے لئے بعض غیر کتابیں شائع کیں سنہالی ریڈرز ( تام) کا ستودہ ابھی محو تعلیم کے پاس بغرض منظور ی پڑا تھا کہ مولوی صاحب کو سیلوں سے روانہ ہونا پڑا.اس سنٹر کی نگرانی میں ریلی آن ریلیجیز انگریزی کی توسیع اشاعت کے لئے بھی جد و جہد کی جاتی تھی نیز سلسلہ احمدیہ کا مرکزی لٹریچر اور غیرملکی احمدی اخبارات بھی منگوائے جاتے تھے.اس ادارہ کے انچارج کلرک عباس مبارک احمد صاحب تھے.آپ کا وجود معتمات سے تھا.آپنے نہایت ذوق و شوق سے یہ قومی فریضہ ادا کیا.اس دور میں نہایت وسیع پیمانہ پر انگریزی، قاتل ہنسلی تفصیل شائع ہونیوالے اسلامی لٹریچر کی فصیل زبانوں میں اہم ہوئے اور اسلامی ایر پر کئی بیٹا بھی تراجم ہوئے لٹریچر شائع جسکی تفصیل یہ ہے.اسلامی اصول کی فلاسیفی، لیکچر لاہور" (حضرت مسیح موعود).ہمارا رسوال تخفر شهزاده و وازی ( حضرت مصلح موعود - نماز مترجم، احادیث النبی، قرآن مجید کی دو سورتیں ، صداقت مسیح موعود ، وفات سیم ، مسئلہ نبوت، اسلامی قاعدہ (ستلی).اسلام کا خلاصہ (قائل، انگریزی ) معترضین کے جوابات ، کہ ورع السلام.اس کے علاوہ لاکھوں کی تعداد میں ٹریکٹ بھی شائع کئے گئے.بیٹے جماعت کے کہ جماعت کے مرکزی لٹریچر جس میں انگریزی تفسیر القرآن بھی شامل لائبریریوں میں احمدیہ پر کچھ تھی اور مقامی لٹریچر کے سیٹ ملک بھر کی تھی میں اہم پیر میلیون میں رکھوائے گئے.لائبریریوں ملک کے سب علاقوں کے وسیع دور سے کرکے گوشہ گوشہ ملک بھر کے وسیع دوسے اور ان کا اثر میں پیغام حق تقاریر کے ذریعہ پہنچایا اور اسلامی ہ تحریک جدید کے سیلون میشن کی مندرجہ بالا معلومات اس مشن کے قدیم ریکارڈ (۳۳۰ ایش کرا ۱۹۵ ۶ تا ۱۳۳۸ ش 1924 ء) سے حاصل کی گئی ہیں.یہ ریکارڈ دفتر وکالت تبشیر ربوہ میں موجود ہے ؟
۳۵۵ کی بکثر تقسیم کی جس کی وجہ سے شن کا دائرہ واقفیت بڑا وسیع تھا یہاں تک کہ ایک دفعہ پاکستانی ہائی کمشن کے فسٹ سیکریٹری مسٹر انور کے ایک لیے دورے کا انتظام ہوا تو جہاں بھی وہ گئے وہاں احمدی مبلغ کی تقریر کے مطالبہ کو پا کر وہ خوش ہوئے جو ان کے ہمسفر ہی تھا.قرآن عظیم کی تعلیمات کو پھیلانے کی غرض سے قرآنی اسباق قرآنی اسباق کی وسیع اشاعت بذریعہ ڈاک بھیجوانے کا سلسلہ شروع ہوا جس پر حضرت المصلح الموعود نے خوشنودی کا اظہار کیا اور ارشاد فرمایا کہ مسلمانوں کو قرآن سے محبت ہے اس لئے اس سلسلہ کو بھاری رکھو“ چنانچہ یہ اسباق اتنے مقبول ہوئے کہ بعد میں کتابی شکل میں OF ISLAM کے نام سے شائع ہوئے اور میٹرک کے طلبہ کو اسلامیات کے مضمون میں اپنے حمد ثابت ہوئے کہ غیر مسلم طلبہ نے بھی اس کتاب کو پڑھ کر اس مضمون کا امتحان دیا اور اعلیٰ نمبر حاصل کر کے استحمان پاس کیا.بعدہ اس کتاب کا تامل ترجمہ بھی بڑا مقبول ہوا.احمدیہ کلام من کی اسلامی خدمات سے عوام الناس کے میشن کی اسلامی خدمات کا رو مکمل علاوہ خواص بھی متاثر ہوئے بغیرنہ روس کے نوجوان تو سکے.بڑی کثرت سے احمدیہ لٹریچر کا مطالعہ کرنے لگے.یہ بات بعض متعصب اور خود غرض علماء کو پسندند آئی تو ان میں سے ایک نے اپنی تقریر میں (جو سیلون ریڈیو سے نشر ہوئی ، جماعت احمدیہ پر کچھ جھوٹے از آنا عائد کئے جس کا فوری نوٹس اس شکل میں بھی لیا گیا کہ وزیر براڈ کاسٹنگ سے پارلیمینٹ کے ایک مہبر MP) CHELVAN AYA KAM نے ذیل کے چند سوال کئے جن کے جو جوابات پارلیمنٹ میں وزیر باد کا مشنگ نے دیئے تھے وہ ان کے سامنے درج ہیں :- سوال :.کیا وزیر ڈاکخانہ جات اور براڈ کاسٹنگ کو علم ہے کہ 9 نومبر ۱۹۵۷ء کو سیلون ریڈیو نے ایک ایسی تقریر نشر کی ہے جس میں جماعت احمدیہ کے بانی حضرت احمد کو نا لائم اور نامناسب الفاظ میں یا د کیا گیا.جواب: ہال سوال : کیا وزیر موسیہون کو یہ علم ہے کہ سیلون میں احمد یہ جماعت کے پیرو کار بکثرت ہیں.جواب :.ہاں
سوال : کیا وزیر موسعون یہ جانتے ہیں کہ حضرت احمد کی عزت نہ صرف اس کے پیرو کرتے ہیں، بلکہ دوسرے لوگ بھی کرتے ہیں.جواب :.ہاں سوال :.نیز کیا اس اخلاق معوز تقریر نے نہ صرف احمدیوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہوگی بلکہ دوسرے لوگوں کی بھی ناراضگی کا موجب بنی ہوگی.جواب : - ہاری سوال : کیا وزیر موصوف نے ملزم کو پکڑنے اور اسے سزا دینے کے لئے کوئی فوری اقدام کیا ہے.جواب :.متعلقہ افراد کے خلاف محکمانہ اقدام کیا گیا ہے.سوال :.آئندہ اس قسم کی بات کا اعادہ نہ ہونے کے لئے کیا کچھ کیا گیا ہے.جواب :.براڈ کاسٹنگ کے ڈائریکٹر جنرل کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اس قسم کی بات کا اعادہ نہ ہونے دیں.سوال :.جن لوگوں کے جذبات کو اس تقریر نے ٹھیس پہنچائی ہے اس کی تلافی کیسے کی گئی ہے.جواب :.براڈ کاسٹنگ کے ڈائریکٹر جنرل نے ۲۲ نومبر ۱۹۵۷ء کو اپنے خط 6 / DD/NS کے ذریعہ جزل سیکرٹری سیلوان احمدیہ مسلم ایسوسی ایشن کو معذرت نامہ بھیجوا دیا ہے یہ مولوی محمد اسمعیل صاحب منیر نے ایک آخری اور اہم مستقبل کیلئے انتظامیہ کی تشکیل قدم یہ اٹھایا کہ سیلون سے روانگی سے قبل سر بر آوردہ میلونی احمدیوں کے مشورے سے مشن کو چلانے کے لئے ایک انتظامیہ تجویز کی جس کو تقسیم کار کے اصول پریشن کے ضروری فرائض سپرد کئے مثلاً اخبار THE MESSAGE کے تینوں ایڈیشنوں کی ادارت.مالی امور اور تقسیم، لٹریچر سنٹر کی حفاظت اس کے حسابات اور نگرانی.لائبریری کا انتظام خط و کتابت مشن ہاؤس سے تعلق معاملات.جماعت سیلوان کی عمومی نگرانی وغیرہ یہ سب تفصیلات مولوی صاحب کے PARLIAMENTARY DEBATES, VOL 30 اس مشورہ میں نئے انچارج میشن قریشی عبدالرحمن صاحب شاہد، مبارک احمد صاحب ایڈیٹری اور ایم ای، ایم حسن صاحب جنرل پریزیڈنٹ جماعت سیلون شامل تھے ؟ : i i
۳۵۷ مکتوب مور در ۱۲ ماه تبلیغ ۱۳۳۷ پیش / فروری ۱۹۵۸ء میں درج ہیں جو انہوں نے مرکز سلسلہ میں مزید مشورہ اور راہ نمائی کے لئے ربوہ لکھا تھا اور جو اُس احساس ذمہ داری کا آئینہ دار ہے جو اسلام کے ایک مخلص سپاہی اور فرض شناس مبلغ کے دل میں ہمیشہ موجزن رہنا چاہئیے ؟ فصل سوم رسالہ التبلیغ کا اجرا و برس کے واحمدیوں کی شہادت نوابزادہ لیاقت علی نا صاحب رام پاکستان اساف کا قتل امرت مصلح عبودكا حقیقت افروز تبصره سیلون مشن کے حالات پر فصل روشنی ڈالنے کے بعد اب ہم باہ طور ۱۳۳۰ اہش / اگست ۱۹۵۱ء اور اس کے بعد رونما ہونے والے واقعات کا بالترتیب ذکر کرتے ہیں.راس زمانہ میں حضرت سید زین العابدین بن اللہ شاہ صاحب ربوہ سے ساتہ التبلیغ کا اجراء ناظر دعوت و تبلیغ ربوہ کی نگرانی میں صدر انجمن احمدیہ پاکستان کے صیغہ نشر و اشاعت نے (جس کے متم ان دنوں محرم شیخ عبد القادر صاحب تو سلم تھے ) احراری مخالطه انگیزیوں کے بر وقت ازالہ کے لئے کم وبیش پچاس ٹریکٹ لاکھوں کی تعداد میں شائع کئے ؟ کئے جوته بلیغ احمدزیت کا نہایت مفید ، موثر اور کارگر ذریعہ ثابت ہوئے.چونکہ مرکز سے ان کو انفرادی طور پر کیا ھوا نے کا ڈاک خرچ زیادہ ہوتا تھا اس لئے التبلیغ کے نام سے ایک مختصر رسالہ کا ڈکلریشن اور ایل نمبر ( ۵۶۹۵ ) حاصل کیا ے رپورٹ سالانه صدرانجمن احمدیہ پاکستان (۱۹۵۰ - ۶۱۹۵۱ و ۱۹۵۱ -۱۱۹۵۲) میں ان ٹریکٹوں کے عنوانات - رو درج شدہ ہیں ؟
۳۵۸ گیا.یہ رسالہ یکم ظہور ۱۳۳۰ آتش / اگست ۱۹۵۱ء سے ۳۳۲ اہش / ۱۹۵۳ء کے شروع تک کرم شیخ پیش - عبد القادر صاحب کی ادارت میں جاری رہا.رسالہ التبلیغ جو ٹریٹ کی صورت میں چھپتا تھا گورنر ، وزراء، سرکاری عہدیداران ، ڈاکٹر، وکلاء ائمہ مساجد، تجار، اساتذہ، طلباء ، ایڈیٹر، لائبریریوں کے ناظم غرضکہ پاکستان کے ہر طبقہ کے لوگوں کو بھجوایا جاتا تھا اس کے اجراء کے ساتھ ہی غیر احمدی معززین کی ایک کثیر تعداد نے خود بخود خواہش کی کہ یہ اُن کے نام جاری کر دیا جائے چنانچہ ان کی اس خواہش کو پورا کیا گیا.شروع میں یہ رسالہ بذریعہ ڈاک اڑھائی ہزار کے قریب بھیجوایا جاتا تھا لیکن ۳۳۱ اہش / ۱۹۵۲ء میں اس کی ماہوار تعداد اشاعت ساڑھے چھ ہزار اور ۱۳۳۲ پیش / ۱۹۵۳ء میں چودہ ہزار تک پہنچ گئی.استدار نے احمدیت کے خلاف ملکی فضا کو مسموم کرنے کی جو خطرناک راہ بھی اختیار کی التبلیغ نے اس کا ڈٹ کر علمی تعاقب کیا اور دلائل و شواہد کی روشنی میں تحریک احمدیت کے صحیح خد و خال نمایاں کو نیکی بھر پور بعد و جہد کی.التبلیغ چونکہ ۱۳۳-۱۳۳۲ ش / ۱۹۵۱ - ۱۹۵۳ء کی مدافعانہ مہم کا ایک یادگار حصہ ہے - اس لئے اس میں شائع شدہ اہم مضامین کے عنوانات کا ذکر کرنا اس دور کی تبلیغی معرکہ آرائیوں کی نوعیت کو سمجھنے ملی محمد و معاون ہو گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت ہمیشہ کے لئے زندہ ہے.پہلی جلد کے عنوانات ۲.جماعت احمدیہ کے عقائد ۳ - وفات مسیح ۴ کاذب مدعی نبوت کے متعلق قانون الهی ۵ خیر خواہان پاکستان سے دردمندانہ اپیل 4 منصب نبوت اور اس کی خصوصیات - نشان رحمت کی عظیم الشان پیش گوئی - روحانی نظام کی تکمیل کے لئے قرآنی اصول حضرت مسیح موعود کی صداقت کے آسمانی اور زمینی نشان ۱۰ پیش گوئی نشان رحمت کے تعلق ہیں چکتے ہوئے بیسیوں نشانات ۱۱-۲- نشان رحمت کا انداری حصہ کیونکر پورا ہوا ۱۳ جہاد کے متعلق ایک غلط فہمی کا ازالہ نہ پیش گوئی نشان رحمت محکمات اور متشابہات کی کسوٹی پر نشان رحمت کا انداری حصہ محکمات اور متشابہات کی کسوٹی پر 14 شرعی تعزیر کے متعلق صحیح اسلامی ے وہ نمبر جس میں یہ مضمون شائع ہوا ؟
۳۵۹ تعلیم ۱۷ ۱۸ نشان رحمت ۱۹ - زار بھی ہوگا تو ہو گا اُس گھڑی با حال زار.ا.زار بھی ہوگا تو ہو گا اُسی گھڑی باحال زار ۲- احرار کی دفاع دوسری جلد کے عنوانات -^ پاکستان کے نام سے ملک کے امن کو برباد کرنے کی ناپاک کوشش.تعلیم حضرت مسیح موعود علیہ السلام مع ومن الشرائط ۵۰۴ مسیح ابن مریم ایک سو بیس برس زنده رہے کہ مسلمانوں کے آپس میں اختلافات مٹانے کا واحد ذریعہ قرآن مجید ہے.اظہار حق عمل اظہار حق - ایک اعتراض کا جواب ۱۰- احمدیت کوئی نیا مذ ہب نہیں اور نئی جماعت بنانے کی وجہ ۱۲- حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا اہل بیت رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت و اخلاص ۱۳ الیسٹر کے موقع پر عیسائی صاحبان کے نام پیغام ہا.احمدیوں کو دوسری جماعتوں سے علیحدہ رکھنے کی وجہ ۱۵ مسلمانوں کی اصلاح کے لئے پہلا اور نہایت ضروری قدم ۱۶- اهدنا الصراط الْمُسْتَقِيمَ ۱۷-۱۸- احراری مقررین کی جلسہ چنیوٹ منعقدہ 14 اپریل میں غلط بیانیاں.ایک ہزار روپیہ انعام -۲۳ - واقعہ کراچی کے متعلق رائے عامہ ۲۴.آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی شان ۲۵ جماعت احمدیہ صدق دل سے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین مانتی ہے کیا مولوی عبد الحامد صاحب بدایونی کو جرات ہے ؟ ۲۷.جو خاتم النبیین کا منکر ہے وہ یقینا اسلام سے باہر ہے ۲۸-۲۹ - احمدیت کے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ ۲ ۳۰ فیصلہ کی آسان راہ ۳۱- ۳۲.ہماری جماعت کا نام احمد یہ جماعت کیوں رکھا گیا ۳۵- حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی ایک عظیم خدمت ۳۶ بانی سلسلہ احمدیہ کے دعوی نبوت کی و مناحت خود اپنی قلم سے ۳۸ سانتیت محمدیہ کے متعلق جماعت احمدیہ کا عقیدہ.ا گلہ ختم نبوت اور احمدیت ۳- مدیران زمیندار کی انگریز پستی تیسری جلد کے عنوانات سے واضح ثبوت.مندرجہ بالا مضامین کا ایک حصہ حضرت مسیح موعود اور حضرت مصلح موعودہ کے اقتباسات پرمشتمل ہے جو نہایت عمدگی کے ساتھ انتخاب کر کے سپر د اشاعت کئے گئے بعض مضایدی حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبہ اور بعض دوسرے اہل قلم بزرگوں اور دوستوں کی محنت و کاوش کا نتیجہ تھے مگر ایک معتدبہ حصہ مدیر التبلیغ " مکرم شیخ عبد القادر صاحب کے قلم سے نکلا.
۳۶۰ "التبلیغ باقاعدگی سے چھپ رہا تھا کہ ۳۳۲اہش /۱۹۵۳ء کے اوائل میں رسالہ کی جبری بندش مغربی پنجاب کی دولتانہ وزارت کی طرف سے سیفٹی ایکٹ کے تحت غیر معین عرصہ کے لئے بند کر دیا گیا.ہے ۲ تبوک ۳۳۰ پیش رستمبر ۱۹۵۱ء کو تحریک جدید کے حضرت امیرالمومنین کے دو پیام مطالبات کو میں نہیں کرنے اور دوستوں کو اس کے نشین یوم تحریک جدید کے موقع پر مالی جہاد میں شمولیت کی دعوت دینے کے لئے پاکستان بھر میں یو م تحریک جدید منایا گیا.بانی تحریک جدید سید نا حضرت امیر المومنين المصلح الموعود نے ۲۸ ظهور اگست کو جما عتوں کے نام حسب ذیل پیغام دیا اور ہدایت فرمائی کہ میرا یہ پیغام تحریک جدید کے جلسہ ۲ تیر کے موقع پر جماعت میں پڑھ کر سنایا جائے یا اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرّحمن الرّحيم و محمداً وتصلى على رسوله الكريم.خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الت السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاته اصر..اسے دوستو احرار اور ان کے ہم نوا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کو جھوٹا، کذاب ، دجال اور دشمن اسلام کہتے ہیں.باقی سب دنیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اسی قسم کے ناموں سے یاد کرتی ہے.دنیا میں اس قدر گالیاں کسی سابق نبی کو نہیں دی گئیں بلکہ وسوالی حصہ بھی نہیں دی گئیں مقبنی کریمی اور آریہ امریکہ میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو دی گئی تھیں.مرت ایک احمدیہ جماعت ہے جو سب راست بازوں کو مانتی ہے اور ان کی سچائی کو دنیا پر ظاہر کرنے کی مدعی ہے.جماعت احمدیہ کی تعداد اتنی کم ہے کہ اتنے بڑے حملہ کا جواب دینے کی اس میں طاقت نہیں سوائے اس کے کہ وہ انتہائی قربانی سے کام لے اور نمدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کرے.لے یہ تفاصیل صدر انجین احمدیہ پاکستان کی سال ۱۳۳۰ ، ۱۳۳۱ ۱۳۳۲ ہش کی سالانہ رپورٹوں میں مذکور ܀܀
۳۶۱ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس قسم کی قربانی کے قریب بھی ابھی جماعت نہیں آئی اس لئے ایک دفعہ پھر یکیں آپ لوگوں سے خواہ مرد ہوں خواہ عورت خواہ بچے ہوں کہتا ہوں کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم اور مسیح موعود کو مارنے کے لئے شمن جمع ہیں.اپنی غفلت چھوڑ دو.قربانی کو بڑھاؤ اور اس کی رفتار کو تیز تر که دور تحریک جدید کے چندوں کو جلد سے جلد ادا کر وہ سادہ زندگی اور یہ بچانے کی عادت ڈالو اور تبلیغ کو وسیع کر دو.دنیا پیاسی مر رہی ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ارواح مومنوں کو روحانی جہاد کے لئے آگے بگا رہی ہیں تم کب تک خاموش رہو گے.کب تک بیٹھے رہو گے قربانی کرو اور آگے بڑھو اور اسلام کے جھنڈے کو بلند کرو.خاکسار مرز امحمود احمد رام اگلے سال مخلصین سلسلہ کو تحریک جدید کی مالی قربانیوں کی طرف دوبارہ متوقہ کرنے کے لئے در اضاء/ اکتوبر کو دوسرا یوم تحریک جدید منایا گیا جس کے جلسوں میں حضرت مصلح موعودؓ کا ایک اور ولولہ انگیز پیغام پڑھا گیا جس نے مخلصین کو قربانی و ایثار کے جذبہ سے سرشار کر دیا.یہ پیغام حضور ہی کے الفاظ میں درج ذیل کیا جاتا ہے.فرمایا :- " تحریک تجدید کی طرف سے جماعت کو ہوشیار کرنے کے لئے اور وعدہ کرنے والوں کو وعدے یاد دلانے کے لئے ہر اکتوبر کو یوم تحریک بعدید منایا جا رہا ہے مجھ سے خواہش کی گئی ہے کہ لیکن اس دن کے لئے ایک پیغام جماعت کے نام دوں لیکن اس خواہش کو پورا کرنے کے لئے چند سطور لکھوا رہا ہوں لیکن میں سمجھتا.ہوں کہ پیغام خود آپ کے دل سے پیدا ہونا چاہیے.اگر آپ کا دل آپ کو اس موقع پر کوئی پیغام نہیں دے رہا تو میرا پیغام کچھ لوگوں کے لئے تو ضرور مفید ہو جائے گا لیکن اُن لوگوں کی اکثریت کے لئے مفید نہیں ہو گا.جن کا دل اس موقع پر انہیں کوئی پیغام نہیں دے رہا.تحریک جدید کی فرض نوجوانوں میں احمدیت کی روح پیدا کرنا ہے اور تبلیغ اسلام و احمدیت کو دنیا کے کناروں تک پھیلانا ہے.حضرت مسیح موعود کی پیش گوئی تھی کہ مصلح موعود زمین کے کناروں تک شہریت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی.اس کے نام کو دنیا کے کناروں تک پھیلانے کے سوائے اس کے کوئی معنے نہیں کہ احمدیت اس کے ذریعہ سے دنیا کے کناروں تک پہنچے.پس در حقیقت اس پیش گوئی میں له الفضل ۲۸ ظهور ۳۳۰ آتش / اگه نام قصه
۳۶۲ تحریک جدید کے قیام کی پیش گوئی تھی اور تحریک جدید کا قیام اسی پیش گوئی کے ذریعہ سے ۱۹۳۴ء سے نہیں بلکہ ۱۸۸۶ء سے ملتا ہے یعنی اڑتالیس سال پہلے سے خدا تعالٰی اس کی بنیا د قائم کر چکا تھا.اور اگر اور گہرا غور کریں تو ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ در حقیقت ۱۳۴۸ سال پہلے تحریک تجدید کا قیام ہو چکا تھا کیونکہ اللّہ تعالیٰ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرماتا ہے کہ اس نے اسلام کو اس لئے بھیجا لیظھری على الدين کلمہ کہ تاکہ اسلام کو دنیا کے سب مذاہب پر غلبہ ہو جائے.اور مختر بن لکھتے ہیں کہ جس زمانہ کے متعلق یہ شہر ہے وہ آخری زمانہ یعنی مسیح اور مہدی کا زمانہ ہے.پس تحریک جدید در حقیقت اسی پیش گوئی کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ہے اور ہر احمدی جو اس تحریک میں حصہ لیتا ہے اور پھر اپنے وعدہ کو پورا کرتا ہے اور وقت پر پورا کرتا ہے وہ لیظھر کا عَلَی الدِّینِ کلیہ ہے کی پیش گوئی کا مصداق ہے اور بہت بڑا خوش نصیب ہے کہ خاتم النبیین کی بعثت کی غرض کو پورا کرنے والوں میں شامل ہوتا ہے اور محمدی فوج کے سپاہیوں میں اس کا نام لکھا جاتا ہے.اور بدقسمت ہے وہ جس کو اس کا موقع ملا اور وہ تحریک بدید میں شامل نہ ہوا.راسی طرح بد قسمت ہے وہ جس نے منہ سے تو اس میں شامل ہونے کا اقرار کیا لیکن عملاً اس میں کمزوری دکھلائی.پس اے عزیز و اتم احمدیوں میں سے کوئی احمدی ایسا نہیں ہونا چاہیے جو اس تحریک میں شامل نہ ہو اور کوئی ایسانہ ہونا چاہیئے جو وعدہ کر کے اس میں کمزوری دکھائے بلکہ چاہیے کہ کوئی شریف الطبع اور نیک غیر احمدی بھی اس تحریک سے باہر نہ رہے خواہ ابھی اسے جماعت میں داخل ہونے کی جرات نہ ہوئی ہو ا ہے صوبہ سرحد میں دو احمدوں کی دردناک شہادت ارادیت ان کا اصل مرکز گرچه اول غیر می کا اصل پر پنجاب اور پھر بلوچستان تھا مگر اس سال اس کی چنگاریاں صوبہ سرحد کے کنارے تک بھی پہنچ گئیں اور مخالف علماء کی اشتعالی انگیز تقریروں نے علاقہ مانسہرہ کے سادہ مزاج عوام کے جذبات بھی احمدیوں کے خلاف بھڑ کا دینے جس کا تکلیف دہ نتیجہ امر تبوک ۱۳۳۰ هش رستمبر ۱۹۵۱ء کو یہ بر آمد ہوا کہ کوئٹہ، اوکاڑہ اور راولپنڈی کے بعد یہاں بھی دو مظلوموں کا خون بہایا گیا یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک مخلص صحابی حضرت مولوی عبد الغفور صاحب اور ان کے سات سالہ معصوم بچے عبد اللطیف نہایت بے دردی سے شہید کر دیئے گئے.مولوی صاحب موضع تمر کھو بہ ڈاک خانہ پر کنڈ تحصیل مانسہرہ کے باشند سے تھے.وسنی برس کی عمر الصف ع له الفضل یکم افاء ۱۳۳۱ پیش کر اکتوبر ۱۹۵۲ء 4 سے اش ا
سره سم میں قادیانی پہنچے اور ۱۹۰۶ء میں حضرت مهدی موعود علیہ السلام کی بیعت سے مشرف ہوئے.آپ کو قادیان کی پیاری اور پرانوار و برکت لیستی سے اس قدر محبت و عقیدت پیدا ہوگئی کہ اپنے بڑے بھائی حضرت حکیم نظام جان صاحب کو بھی آنے کی تحریک کی جس پر حکیم صاحب ستقل ہجرت کر کے قادیانی بھی کے ہو گئے.مولوی عبد الغفور صاحب کی قادیان میں ایک لاکھ روپے کی بجائداد زمین اور مکانات کی صورت میں تھی.اس کے علاوہ دریائے سرن سے پار دو گاؤں مصر اور ماڑی میں بھی ایک لمبا سلسلہ آپ کی ملوک ارانی کا تھا جو آٹھ سو گھماؤں پر پھیلا ہوا تھا جس کا ایک سرا ضلع ہزارہ سے اور دوسرا سرا ریاست امب سے جاتا تھا.اس کے علاوہ دریائے سرن کے کنارے آپ کی چھار پن چکیاں تھیں جن میں سے ایک کی حقیت آنچے لحق صدر انجین احمدیہ دیوہ کر دی تھی.آپ کا معمول تھا کہ روزانہ اذان سے پہلے اٹھتے اور اپنے ملازم کو ہمراہ لے کر دریا سے پار چکیوں پر چلے جاتے تھے.نماز فجر وہیں ادا کرتے اور اسی عرصہ میں اُن کا سات سالہ بچہ عبد اللطیف بھائے لیکر وہاں پہنچ جاتا دونوں ناشتہ کرتے اور زمین کی دیکھ بھال کے بعد اپنے گاؤں کوٹ آتے.۳۱ تبوک /ستمبر کو بوقت صبح آٹھ بجے آپ اپنے تھے بچہ (عبد اللطیف) کو لے کر اپنے گھر سے بن چکیوں کی نگہداشت کے لئے نکلے.آپ چار فرلانگ تک گئے تھے کہ ایک کمین گاہ سے آپ پر بندوق کا فائر کیا گیا جس کے بعد آپ کو اور آپ کے بچہ کو کلہاڑی سے شہید کر دیا گیا.ظالم قاتل بھاگ گئے اور بے گوروکفن لاشوں کی نگرانی آپ کا گھر یلوگتا کرتا رہا جو بھی آپ کی لاش کی طرف بھاتا اور کبھی ان کے بچہ کی نعش کی طرف بھاگتا مولوی عبد الغفور صاحب نے اپنے پیچھے ایک بیوہ ، تین لڑکے اور تین لڑکیاں یادگار چھوڑیں لیے پاکستان کے دشمنوں نے محض اختلاف رائے نوابزادہ لیاقت علی خان کی مخالفت اور تا اکانت قتل یا به اختلال دو قتال داشتند کاجو کی پر و خونی چکر چلا رکھا تھا اور میں طرح اسلام کے نام پر عوام کی ذہنیت کو بدامنی اور شورنش کے لئے با قاعدہ تیار کیا جارہا تھا اس کا خمیازہ پاکستان کو اپنے محبوب قائد ملت نواب زادہ لیاقت علی خان سفاکانہ قتل لے آپکے تفصیلی واقعات اپنے مقام پر آئیں گے.انشاء اللہ یہ کہ الفضل ۲۵ تبوک ۱۳۳۰ پیش مضمون حکیم عبد الواحد صاحب مانسهره) و الفضل ۴ار اضاء ۳۳۰ ایش ( مضمون حمید قریشی صاحب ابن حکیم نظام جان صاحب ) ؟
۳۶۴ کی صورت میں بھگتنا پڑا.نواب زادہ لیاقت علی خاں جو قیام پاکستان سے لے کر اب تک پاکستان کی وزارت عظمی کے منصب کا بار اُٹھائے ہوئے تھے ۱۶ اکتوبر ۱۹۵۱ء (مطابق ۱۶ را خاء ۳۳۰ اہش کو کمپنی بارغ راولپنڈی کے ایک عظیم الشان اجتماع سے خطاب کرنے کے لئے کھڑے ہوئے.ابھی آپ برادران اسلام کے دو نہایت پیارے لفظ ہی کہ پائے تھے کہ ہزارہ سے آنے والے ایک بدبخت شخص سید اکبر نے آپ پر گولی چلا دی قائد ملت ڈائس پر گر پڑے اور تھوڑی دیر بعد زخموں کی تاب نہ لا کر جاں بحق ہو گئے.نواب زادہ لیاقت علی خاں ایک عظیم قومی لیڈر تھے جنہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری ۱۹۴۶ء کی عبوری حکومت میں قائد اعظم کے نائب ہونے کی حیثیت سے اور پاکستان کے پہلے وزیر اعظم ہونے کی حیثیت سے بھی نمایاں سیاسی خدمات انجام دی تفصیلی تاہم با وجود اپنی ران خدمات کے وہ بھی عمر بھر قائد اعظم کی طرح جماعت اسلامی کے سیاسی لیڈروں اور اخباروں کے تنقیدی نشتروں کا ہمیشہ نشانہ بنے رہے چنانچہ اس کے بانی و امیر مودودی صاحب نے ایک سال قبل اُن پر دورہ امریکہ کے دوران قوم کا ۲۵ لاکھ روپیہ خرچ کرنے کا الزام بھی لگایا جس کی خان لیاقت علی خاں نے کراچی کے جلسہ عام میں پر زور تردید کی اور کہا :- اس الزام میں پانچ فیصدی بھی صداقت نہیں...ہم علماء کا احترام کرتے ہیں لیکن اگر علماء ہی جھوٹ پر اتر آئیں تو مت کا نخدا حافظ یا ملے ایک اور موقع پر ان کو واشگات لفظوں میں کہنا پڑا :- به مولانا مودودی انتشار پھیلاتے ہیں.وہ پاکستان کے امیر المومنین بننا چاہتے ہیں یہ سکے خان لیاقت علی خاں کی دردناک موت سے مچھ ایک قومی المیہ تھی جس پر سوائے افسوسناک طرز عمل ملک کے انتشار پسند عناصر کے کوئی خوش نہ ہوسکتا تھا مگر یہ حقیقت ہے کہ مسلم لیگ کے بعض ممتاز سیاسی لیڈروں نے اس موقع پر افسوسناک ذہنیت کا ثبوت دیا.مثلاً جناب که امروزه کار اگست ۱۹۵۰ (بحوالہ جماعت اسلامی کا رخ کردار صا از چوہدری طبیب احمد صاحب مطبوعہ پاکستان ٹائمز پریس لاہور.مارچ ۱۹۶۳ء) سے مولانا مودودی کی نظر بندی کیوں، ص۲۲ ناشر شعبه نشر و اشاعت جماعت اسلامی پاکستان به
۳۶۵ حمید نظامی مدیر نوائے وقت نے اپنے ایک مکتوب میں لکھا :- لیاقت نے پچھلے دو ماہ جنگ کا اتنا زیادہ پر واپیگنڈا کیا تھا اور لوگوں کے جذبات میں اتنا اشتعال پیدا کر دیا تھا کہ خدا کی پناہ.اس کے بعد لیاقت علی نے فقدان جرات اور فقدان تدبر کا جو ثبوت دیا اس سے عوام میں بڑی بددلی پھیلی ممکن ہے یہ قتل اسی بدولی کا نتیجہ ہو.ہر سال جو کچھ ہوا بہت برا ہوا.خدا بجانے اب ملک کا کیا حشر ہوگا ؟ لیاقت علی نے نہ اپوزیشن بننے دی ہے نہ مسلم لیگ میں کوئی مضبوط آدمی رہنے دیا اب کہیں انتشار نہ پھیل جائے " سے پھر لکھا :.لیاقت علی سے پاکستان کو حقیقی خطرہ تھا.وہ اس ملک کو ڈکٹیٹر شپ کی طرف لے جا رہے تھے اور لازمی طور پر اس کی تباہی کا موجب بنتے.لیاقت علی میں ہٹلر کی کوئی خوبی نہ تھی مگر اس کی سب بُرائیاں موجود تھیں.دس سال بعد ہی مؤرخ لیاقت علی کے کام کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لے سکتا ہے.وہ پاکستان کے لئے ایسے ایسے مسائل پیدا کر گئے ہیں کہ ان کے جانشینوں کے لئے انہیں حل کرنا بڑا مشکل ہوگا سے ے ان صاحب نے اس حادثہ قتل سے تھوڑا عرصہ قبل جبکہ خان لیاقت علی خاں نے یہ اعلان کیا تھا کہ ہند وستان پاکستان کے خلاف جارحانہ عزائم رکھتا ہے اور اس نے اپنی فوجیں پاکستان کی سرحد پر تجھے کہ رکھی ہیں یہ نظریہ قائم کیا کہ میرے خیال میں لیاقت علی نے انتہائی مبالغہ آرائی کی ہے.لیاقت علی کا اقتدار خطرے میں ہے وہ عوام کی توجہ کو اندرونی اور ملکی مسائل سے بیٹا کر دوسری طرف منتقل کر دینا چاہتا ہے ضرو جب تک ہندوستان کا وزیر اعظم ہے دونوں ملکوں میں جنگ نہیں ہوگی.گو کشمیر کے بارے میں اُسکا ویہ انتہائی نامعقول ہے مگر وہ پاکستان سے جنگ کبھی پسند نہیں کرے گا البتہ پاکستان کشمیر کے حصول کے لئے سنگ شروع کر سکتا ہے مگر لیاقت علی بھی کشمیر کے لئے جنگ کبھی نہیں کرے گا وہ صرف سٹنٹ سے کام لے گا.نشان منزل حمید نظامی مدیر نوائے وقت کے خطوط کا مجموعہ " پر نٹر شعیب نظامی قندیل پریس لاہور روبها طبع اول ۱۲ فروری ۲۶۱۹۷۰ ه " نشان منزل" ص ۲۳ و ۳ه نشان منزل कल के
۳۶۶ جماعت احمدیہ کی طر بے گہرے رنج والم کا اظہار اس اندازان کرو تصور کے بر کس جماعت احمدیہ کے امام حضرت مصلح موعود نے درد بھرے دل اور خدمت ملک قوم کے عوم کا اعلان کے ساتھ گورنر جنرل پاکستان فضیلت آب جناب غلام محمد صاحب کو تعزیتی تار دیا جس میں خان لیاقت علی خاں کی اندوہناک وفات پر گہرے رنج و غم کا اظہار فرمایا اور گورنر جنرل پاکستان کو اپنے اور اپنی جماعت کے کامل تعاون اور حکومت اور اہل پاکستان کی ہر ممکن خدمت کا یقین دلایا.گورنر جنرل پاکستان کے نام تارہ کا متن یہ تھا :- یکی اپنی طرف سے اور جماعت احمدیہ کی طرف سے پاکستان کے پہلے وزیر اعظم مسٹر لیاقت علی خاں کی نہایت اندوہناک وفات پر جو ایک نہایت بزدل اور سفاک قاتل کے ہاتھوں واقع ہوئی گھر سے رنج والم کا اظہار کرتا ہوں اور ملک پر اس نازک وقت میں میں اپنی اور اپنی جماعت کی طرف سے آپ سے کامل تعاون اور حکومت و اہل پاکستان کی ہر ممکن خدمت کا یقین دلاتا ہوں سے راس کے علاوہ حضور نے مرحوم وزیر اعظم پاکستان کے صاحبزادہ نواب زادہ ولایت علی خاں کو بھی تعزیت نامہ تحریر فرمایا.نواب زادہ ولایت علی خاں نے حضور کی خدمت میں اس کے جواب میں خاص طور پر شکریہ کا خط لکھا جو ضمیمہ میں شامل ہے.یہی نہیں حضرت مصلح موعود کی ہدایت پر ۱۷ امضاء / اکتوبر کی رات کو اہل ربوہ کا ایک غیر معمولی تعزیتی بیلیسہ بھی حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب در و ایم.اے سابق مبلغ انگلستان و ناظر امور عامہ و خارجہ کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں خان لیاقت علی خان کی سیاسی اور تنظیمی صلاحیتوں کو نہایت شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا گیا اور مندرجہ ذیل قرار داد متفقہ طور پر پاس کی گئی :.ہم جماعتہائے احمدیہ پاکستان کی مرکزی جماعت کے ارکان اپنے محبوب وزیر اعظم خان لیاقت علی خان کے قتل کے ساتھ عظیم پر دلی رنج وغم کا اظہار کرتے ہیں.اس ناگہانی صدمہ کا دکھ اور تعلق اور بھی شدید ہو جاتا ہے جب ایک طرف ان نازک حالات پر نظر پڑتی ہے جن میں ہمارا ملک (پاکستان) گذر رہا ہے اور دوسری طرف ہمارا ذہن اُن خدا داد صلاحیتوں کی طرف جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے الفضل ۱۹ را خاء ۳۳۰ رانش صل ؟ !
وزیر اعظم خان لیاقت علی خالی کو عطا کی ہوئی تھیں اور وہ ان صلاحیتوں کی بدولت ان تمام گھیوں کو باآسانی سیکھا سکتے تھے جو اس نازک وقت میں ہماری اس خدا داد مملکت کو درپیش ہیں.وہ عظیم قابلیت جس کا مظاہرہ قائد اعظم کی وفات کے بعد امور سلطنت کی انجام دہی میں لیاقت علی خان نے کیا اس کی یاد ہمیشہ پاکستانیوں کے ذہنوں میں جاگزین رہے گی اور وہ ہمیشہ انتہائی تعظیم اور محبت کے جذبات کے ساتھ اپنے قائد کو یاد کرتے رہیں گے.ہم بیگم لیاقت علی خاں ، اُن کے بچوں اور حکومت پاکستان سے اس عظیم سانحہ پر اپنی دلی ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے اس عزیم میم کا پھر اعلان کرتے ہیں کہ ہم پاکستان کی خدمت اور تعمیرو تحفظ کے سلسلہ میں ہرممکن قربانی کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کریں گے.آخر میں ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس مصائب اور آزمائشوں کے دور میں ہماری اس مملکت کا محافظ اور کفیل ہو“ ہے حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود کا | حضرت امیر المومنین الصالح الموعود نے صرف تعزیتی تاره خط اور مرکزی جلسہ کے انعقاد پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ حادثہ قتل پر بصیرت افروز تبصره حضور نے ۲۶ اکتوبر ۲۶/۶۱۹۵۱- اخاء ۱۳۳۰ متش کو ایک مبسوط خطبہ جمعہ دیا جس میں اس حادثہ قتل کے پس منظر پر خالص دینی نقطہ نگاہ سے روشنی ڈالی اور کیش آمدہ واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے دنیائے اسلام کو موٹا اور پاکستان کے باشندوں کو خصوصاً اسلام کی اس بنیادی اور حقیقی تعلیم کی طرف توجہ دلائی کہ اسلام میں شرعی تعزیر کی اجازت کسی فرد کو نہیں بلکہ اس کا اختیار صرف اور صرف حکومت وقت کو حاصل ہے.تصور کا یہ خطبہ جمعہ جو اسلام کے نظام حیات کے ایک اہم پہلو کی ترجمانی کا شاہ کار ہے جیسہ درج ذیل کیا جاتا ہے.حضور نے سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- پچھلے جمعہ کو عین اُس وقت جبکہ لیکن جمعہ میں آنے کی تیاری کر رہا تھا مجھے بخار چڑھنا شروع ہو گیا اور سرور د بھی ہونے لگی جس کی وجہ سے یک مسجد میں نہ آسکار اس کے دو تین دن بعد نہ لہ شروع ہو گیا جس کی وجہ سے بخار بھی ہو جاتا تھا.اب مرض میں کمی تو ہے لیکن گلے میں ابھی خواہش باقی ہے اس لئے لیکن زیادہ لمیا خطبہ نہیں پڑھ سکتا.گو مرض میں اتنا افاقہ ضرور ہے کہ میں خطبہ جمعہ پڑھ سکتا ہوں.له الفضل ۱۹ اتحاد ۳۳۰ اش صا :
۳۶۸ اس وقت میرا ارادہ اس واقعہ کے متعلق کچھ کہنے کا ہے جو گذشتہ ہفتہ راولپنڈی میں وزیر عظم پاکستان نواب زاده خان لیاقت علی خان کے ساتھ گزرار جہاں تک انسانی زندگی کا سوال ہے ہر انسان نے ہر حال مرنا ہے.چاہے وہ قاتل کی چھری سے مرجائے.بچاہے وہ ہیضہ سے مر جائے.بچاہے وہ بخار کی شدت سے مرجائے.اور چاہے وہ سہل اور دق سے مربھائے.موت تو بہر حال آتی ہے.رسونی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے لكل داء دواء إلا الموت ہر بیماری جب تک کہ وہ بیماری کی صورت میں ہے اس کا علاج ہے لیکن وہ چیز جو بظاہر بیماری ہے لیکن دراصل وہ موت کا پیغام ہے اس کا کوئی علاج نہیں پس انسان نے مرنا تو ہے لیکن بعض چیزیں تکلیف دہ پہلو اپنے ساتھ رکھتی ہیں.اگر کسی کو اچانک موت آجاتی ہے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ وہ حسرت ناک ہوتی ہے.گو دراصل اچانک حادثہ کی وجہ سے جو موت آتی ہے وہ مرنے والے کے لئے آرام دہ موت ہوتی ہے مثلاً اگر وہ آٹھ دس دن ٹائیفائڈ میں مبتلا رہتا.راتوں کو بھاگتا.تکلیف کی وجہ سے کراہتا اور پھر اسے موت آجاتی تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ موت اسے بہر حال آئی تھی لیکن یہ موت اُس کے لئے تکلیف دہ ہوتی لیکن اگر اس کا اچانک ہارٹ فیل ہو جاتا ہے یا اسے گولی لگتی ہے اور وہ فوراً مر جاتا ہے تو یہ موت بظاہر آرام دہ موت ہے لیکن اس لحاظ سے تکلیف دہ ہوتی ہے کہ مرنے والے کو وصیت کا موقع نہیں ملتا.اور قرآن کریم میں آتا ہے کہ اگر کسی کے سر ذمہ داری ہو جیسے اُس نے ادا کرنا ہو تو اُس کے لئے وصیت کرنا ضروری ہے.جب کسی کے پاس قومی اسرار ہوتے ہیں تو باپ بیٹے کو وصیت کرتا ہے.آگے بیٹیا اپنے بیٹے کو وصیت کرتا ہے.پھر وہ اپنے بیٹے کو وصیت کرتا ہے.اسی طرح ایک سلسلہ چلتا چلا جاتا ہے.اور کوئی قوم کا میاب اسی وقت ہوتی ہے جب اُس کا تسلسل قائم ہوا اور تسلسل کو قائم رکھنے کے لئے نصیحت اور وصیت کرنا ضروری ہوتا ہے لیکن اگر کسی کی اچانک موت ہو جائے تو یہ موقع اُس سے چھین لیا جاتا ہے.اور جن باتوں کا مرنیوالے کو تجربہ ہوتا ہے.جن خطرات کا اُسے علم ہوتا ہے اور بعض فوائد جو اس کے علم میں اس کی قوم محاصل کر رہی ہوتی ہے اگر اُسے چند دن بیمار رہنے کے بعد موت آئے تو وہ اپنے جانشینوں کو بعض نصائح کر دیتا ہے.وہ انہیں بتا دیتا ہے کہ فلاں فلاں فائدہ تم اس طرح حاصل کر سکتے ہو.اور ساتھ ہی وہ یہ بھی بتا دیتا ہے کہ تمہارے سامنے فلاں فلاں قسم کے خطرات ہیں ان خطرات سے بچنے کا یہ طریق ہے.اس رنگ میں اس کی موت زیادہ تکلیف دہ نہیں ہوتی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اچانک موت کو تکلیف وہ اسی لئے فرمایا ہے کہ مرنے والے کو وصیت کا
٣٦٩٠ موقع نہیں ملتا اور اس طرح اس کی اولاد، اس کا خاندان اور اس کی قوم اس کے تجربات سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتی لیکن سب سے اہم چیز یہ ہوتی ہے کہ ایسی موت جو اچانک آجاتی ہے مثلاً اگر کسی کی حرکت قلب بند ہو بھاتی ہے اور وہ فوراً مر جاتا ہے تو کسی شخص پر افسوس نہیں ہوتا لیکن جب یہ موت کسی انسان کے ہاتھوں سے ہو تو جہاں تک مرنیوالے کا سوال ہے یہ کوئی بہ سی بات نہیں اُس نے بہر حال مرنا تھا.بلکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ موت موتبو الے کے لئے آرام وہ ہے.گولی لگی اور مرگیا.اس طرح اسے زیادہ تکلیف نہ ہوئی لیکن خاندانی اور قومی لحاظ سے اس میں کئی قباحتیں ہوتی ہیں.ایک قباحت تو میں نے بتادی ہے کہ مرنیوالے کو وصیت کا موقع نہیں ملتا اور اس طرح اس کی اولاد ، اس کا خاندان اور اس کی قوم اس کے تجربات سے فائدہ نہیں اٹھا سکتی.دوسری قباحت یہ ہوتی ہے کہ جب کوئی قومی خادم کسی انسان کے ہاتھوں مارا جاتا ہے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ قومی اخلاق میں بہت کچھ خوابی پیدا ہو چکی ہے کیونکہ کام کے تسلسل سے قوم ترقی کرتی ہے اور جب افراد میں یہ احساس پیدا ہو جائے کہ ہم آپ ہی آپ اپنا مفتی نے سکتے ہیں تو اس کے منے یہ ہیں کہ تسلسل قائم نہیں رہ سکتا اور قوم حکومت پر اعتبار کرنے کی بجائے خود بدلہ لے لیتی ہے.حالانکہ تسلسل محکومت سے قائم رہتا ہے.اگر افراد میں یہ احساس پیدا ہو جائے کہ وہ اپنا بد لہ آپ لے سکتے ہیں تو اس کے یہ معنے ہیں کہ وہ حکومت کو بیکار سمجھتے ہیں.اگر یہ احساس کہ ہم اپنا بدلہ خود لے سکتے ہیں ساری قوم یا اس کے اکثر افراد یا اس کے بعض افراد میں پیدا ہو جائے تو حکومت قائم نہیں رہ سکتی وہ حکومت آج نہیں تو کل اور کل نہیں تو پرسوں ٹوٹ جائے گی اور اس کا نظام باقی نہیں رہے گا.پس وہ واقعہ جو خان لیاقت علی خان کے ساتھ گزرا جہاں تک ان کا اپنا سوالی ہے یہ کوئی غیر معمولی چیز نہیں ہم سمجھتے ہیں کہ وہ نسبتاً آرام میں رہے کیونکہ اگر وہ کسی اور ذریعہ سے وفات پاتے تو دس پندرہ دان بیماری کی تکلیف اُٹھاتے.اب چونکہ وہ گولی لگنے سے یکدم مرگئے ہیں اس لئے یہ موت ان کی ذات کے لئے آرام وہ ثابت ہوئی ہے لیکن قومی لحاظ سے یہ بہت خطرناک چیز ہے.اس کے معنے یہ ہیں کہ پاکستان کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرنے والوں میں نظام کی پابندی کا احساس باقی نہیں رہا.مان لیا کہ قاتل کابل کا رہنے والا تھا لیکن وہ پاکستان میں آبسا تھا اور پاکستان کی قومیت کو اُس نے قبول کر لیا تھا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قاتل کو کسی غیر قوم نے اس ذلیل فعل کے لئے اکسایا تھا لیکن ہم اسے غیر قوم کا فرد نہیں کہہ سکتے.ہم سب باہر سے آئے ہیں.اگر وہ پاکستانی نہیں تو مغل بھی پاکستانی نہیں مغل بھی باہر سے آئے
ہیں.سید بھی پاکستانی نہیں کیونکہ وہ بھی مکہ اور مدینہ سے آئے ہیں.اسی طرح پاکستان کی اکثر دوسری قومیں بھی باہر سے آئی ہیں.کوئی ایران سے یہاں آبسا ہے.کوئی شام سے آیا ہے اور کوئی دوسرے ممالک سے کو اس ملک کی قومیت کو اختیار کر چکا ہے.اس طرح تو کوئی بھی پاکستانی نہیں.انگلستان کے ملک میں بھی جرمن اور فرانسیسی موجود ہیں اور وہ اسی ملک کے باشندے کہلاتے ہیں.انگلستان کے بادشاہ کا خاندان بھی جرمنی ہے لیکن ہم یہ نہیں کر سکتے کہ وہ انگلستان کا رہنے والا نہیں کیونکہ جوکسی ملک میں آبستا ہے وہ اسی ملک کا باشندہ کہلاتا ہے.پس گوخان لیاقت علی خان کے قاتل کے تعلقات پر شبہ ہے کہ افغانستان نے اُسے اُن کے قتل پر اکسایا تھا لیکن چونکہ قاتل پاکستان میں آبسا تھا اور پارٹیشن سے پہلے کا یہاں رہتا تھا اس لئے وہ پاکستانی تھا اور اس کے یہ معنی ہیں کہ بعض پاکستانیوں کو نظام حکومت پر اعتبار نہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ ایک فرد کا فیصل تھا اور ایک فرد کا فعل ساری قوم کا فعل نہیں کہلا سکتا.لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ایک فرد کے فعل سے ساری قوم ذلیل ہو جاتی ہے.ہمارے ہاں ایک ضرب المثل ہے کہ ایک پچھلی سارے تالاب کو گندہ کر دیتی ہے.اس لئے بیشک وہ ایک فرد کا کام تھا اور اس کی ساری قوم ذمہ دار نہیں ہو سکتی لیکن اس کی وجہ سے ساری قوم ذلیل ہو گئی ہے.پس جہاں تک خدا تعالیٰ کے سامنے ذمہ داری کا سوال ہے یہ ایک فرد کا کام ہے لیکن جہاں تک شہرت کا سوال ہے اس سے قوم ذلیل ہوگئی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ قوم میں وقت، عورت اور زندگی کا کوئی احساس نہیں، او یہ کتنی ذلت کی بات ہے.یوں سمجھ لو کہ اگر کسی خاندان میں سے کوئی لڑکا یا لڑکی بد کار ہو جاتا ہے تو اس کی ذمہ داری خدا تعالیٰ کے سامنے اُس لڑکی یا لڑکے کے ماں باپ اور بہن بھائیوں پر عائد نہیں ہوگی خدا تعالیٰ کے سامنے وہی لڑکی یا لڑکا مجرم ہو گا لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی شخص اس خاندان کی لڑکی لینے پر تیار نہیں ہوتا اور نہ کوئی اُس خاندان کے کسی لڑکے کو اپنی لڑکی دینے پر رضامند ہوتا ہے حالانکہ اس میں خاندان کا کوئی قصور نہیں ہوتا.وہ اس سے اُتنا ہی متنفر ہوتا ہے جیتنے دوسرے لوگ اس سے متنفر ہوتے ہیں لیکن بوعہ ایک لڑکی یا لڑکے کی بدکاری کے وہ خاندان دنیا کی نظروں میں ذلیل ہو جاتا ہے.اس جہاں تک خدا تعالیٰ کے سامنے ذمہ داری اور سزا پانے کا سوال ہے خان لیاقت علی خان کا قاتل خود ذمہ دار ہے قوم ذمہ دار نہیں لیکن جہاں تک عزت اور شہرت کا سوال ہے اس سے لوگوں میں بدختی پیدا ہو گئی ہے کہ اس قوم کو نظام حکومت سے پیار نہیں.اور جب دشمن کو اس چیز کا پتہ لگ جائے گا کہ رعایا نظام
حکومت سے پیار نہیں رکھتی تو وہ کتنا دلیر ہو جائے گا.غرض قومی لحاظ سے یہ واقعہ جو خان لیاقت علی خان کے ساتھ گذرا نہایت خطرناک ہے لیکن مجھے یہ مضمون خطبہ جمعہ میں بیان کرنے کی ضرورت نہیں تھی لیکن اسکے متعلق الگ مضمون بھی لکھ سکتا تھا.لیکں نے اس مضمون کو خطبہ جمعہ میں بیان کرنے کے لئے اس لئے انتخاب کیا کہ اس کا ایک مذہبی پیکو بھی ہے یعنی یہ فعل نتیجہ تھا اسلام کی تعلیم کو بگاڑنے کا.یہ عمل تیجہ تھا احمرار لوں کے وعظوں کا کہ احمدیوں کو قتل کر دور جس قوم میں یہ روح پیدا کر دی جائے کہ جس کسی سے تمہیں اختلاف ہو تم اُسے خروقتل کر دو تو ملک کا کوئی آدمی بھی محفوظ نہیں رہ سکتار مثلاً ایک احراری کھڑا ہوتا ہے اور کرتا ہے کہ احمدیوں کو مار دو لیکن ایک دوسرا شخص جس کو احمدیوں سے بغض نہیں ہوتا وہ جب یہ سمجھتا ہے کہ جس کسی سے اختلاف ہو اُسے خود مار دینا چاہئیے تو وہ کسی دوسرے شخص کو جس سے اُسے اختلاف ہو گا مار دے گا.پس یکی کہتا ہوں کہ بے شک قومی لحاظ سے خان لیاقت علی خان کا قتل نہایت افسوس کی بات ہے اور سیاسی لحاظ سے یہ امر ملک کے لئے نہایت نقصان وہ ہے لیکن اس کا مذہبی پہلو اور بھی خطرناک ہے اور وہ یہ ہے کہ ہماری سیاست تو گئی تھی اب مذہب پر بھی حملہ ہو گیا ہے اور دنیا گھتی ہے کہ ہم وحشی ہیں اور جسے چاہتے ہیں قتل کر دیتے ہیں.کسی نے کہا ہے کیا زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجے دہن بگڑا سیاست پر تو ہمارے حملہ ہوا ہی تھا اب مذہب پر بھی حملہ ہو گیا ہے.دنیا اس بات سے فاضل نہیں کہ احراری کیا کہتے ہیں.احراری مولوی علی الاعلان سٹیجوں پر چڑھ کر کہتے ہیں کہ تم احمدیوں کو قتل کیوں نہیں کرتے لیکن کوئی انہیں منع نہیں کرتا.حکومت کا نظام موجود ہے.گورنر جنرل اور سنٹرل وزراء اور صوبائی گورنر اور صوبائی وزراء اور دوسرے سیکرٹری موجود ہیں لیکن احراری اس کے باوجود ٹیموں پر کھڑے ہو کر کہتے ہیں کہ حکومت اپنے فرض کو ادا نہیں کر رہی.اسے جانباز مسلمانو! تم خود رسول کریم کی ہتک کا بدلہ لو (حالانکہ یہ اعماری خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرنے والے اور ننگ اسلام ہیں ) اور احمدیوں کو قتل کر دو.اور جب یہ فتونی رعایا کے سامنے لایا جائے گا کہ اسلام، قرآن کریم اور قانونی سب اس بات پر متفق ہیں کہ جس کسی سے تمہیں اختلاف ہو تم اُسے مار دو تو صرف احمدیوں ہی کو نہیں مارا جائے گا بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی جس سے کسی کو اختلاف ہو گا مار دیا جائے گا.بخان لیاقت علی خان سیاسی اختلاف کی وجہ سے نہیں مارے گئے کیونکہ سیاست دوسرے شخص کے مارنے کو جائز قرار نہیں دیتی.مادر نے
۳۷۲ کا جواز جھوٹا مذہب دیتا ہے کیونکہ مولوی کھلے بندوں سیڑھی پر چڑھ کر یہ کہتا ہے کہ جس شخص کی بات تمہیں بری لگے تو تم اسے مار دو گلنے والے اسی نکتہ کو وسیع کرتے ہیں اور اپنے دشمنوں پر بھی یہ فتوی لگا دیتے ہیں یجب تک حکومت اس منبع کو ختم نہیں کرتی ملک میں امن قائم نہیں رہ سکتا.حکومت نے ایک کمیشن مقرر کیا ہے جو اس بات کی تحقیقات کرے گا کہ حفاظتی تدابر میں کیوں کو تا ہی ہوئی ہے.یکی نے بھی جب یہ بر سنی تھی تو جہ پر یہی اثرتا کہ منتظمین نے پوری طرح نگرانی نہیں کی.اب معلوم ہوا ہے کہ حکومت پر بھی یہی اثر ہے.لیکن تم کتنی بھی ہوشیاری کر لو جب افراد میں یہ احساس پیدا ہو جائے گا کہ جس کسی سے اخستان ہو تم اسے مارد و تو کونسی طاقت ہے جس کے ذریعہ تم کسی کو کروڑ افراد سے بچالو.لاہور ہیں جو صوبہ کی حکومت کا مرکز ہے وہاں آکر احراری علماء نے یہ حدیثیں سنائیں کہ تم جو چیز نا پسندیدہ دیکھو اسے ہاتھ سے دور کر دو.اگر تم ہاتھ سے دور نہیں کر سکتے تو زبان سے اس کی مذمت کرو.اور اگر تم زبان سے بھی اسکی برائی نہیں کر سکتے تو دل میں ہی بڑا مناؤ اور ان کو احمدیوں پر چسپاں کر کے کہا گیا کہ اسے با غیر مسلمانو ! کیوں رسول اللہ صلعم کی بہتک کا بدلہ نہیں لیتے.ان مجالس میں جن میں یہ حدیثیں سنائی جاتی تھیں حکومت کے بعض وزراء اور اس کے سیکرٹری موجود ہوتے تھے.جب کھلے بندوں اور حکومت کے ذمدار کارکنوں کے سامنے یہ سنایا جاتا تھا کہ اختلاف کا ازالہ جبر اور تعدّی سے کرنا جائزہ ہی نہیں بلکہ فرض ہے، اور اگر تم اختلاف کا ازالہ نہیں کرتے تو تم کافر ہو جاؤ گے.جب ملک کے آٹھ کروڑ باشندوں میں یا اساس پیدا کر دیا جائے تو پولیس تو ایک فرد سے بچا سکتی ہے.دو افراد سے بچا سکتی ہے یا میں افراد سے بچا سکتی ہے لیکن جب یہ شک ہو کہ ایڈی کانگ اور پولیس والوں نے بھی علماء سے یہ سبق لیا ہے کہ جس کسی سے اختلاف ہوا سے قتل کر دو تو کسی کی بھان کیسے محفوظ رہ سکتی ہے.سو جب تک مولویوں کو بند نہیں کیا بھائے گا کسی کی حفاظت نہیں ہو سکے گی.نہ میری ، نہ کسی وزیر، گورنر یا کمانڈر انچیف کی.انگلستان کی حکومت سینکڑوں سال سے قائم ہے لیکن ابھی تک اس میں کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوا کہ کوئی وزیر قتل کر دیا گیا ہو لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں بعض افسروں پر حکومت کو شبہ پڑ جاتا ہے کہ وہ زور سے حکومت کا تختہ الٹ دینا چاہتے ہیں.اگر چہ ابھی مقدمہ چل رہا ہے لیکن ہر حال اس قسم کا واقعہ ہو چکا ہے.ادھر ہندوستان میں گاندھی بھی کو جنہیں وہاں نئی وقت کہا جاتا تھا مار دیا گیا ہے.اس کی وجہ صرت ایک ہے کہ مولویوں اور پنڈتوں نے یہ شور ڈالنا شروع کیا ہے کہ جب تمہیں کسی شخص سے اختلاف پیدا I
۳۷۳ ہو جائے تو فوراً قانون ہاتھ میں لے لو.یہ ذہنیت جتنی جتنی پھیلتی جائے گی اتنی اتنی پولیس اور فوج بیکار ہوتی جائے گی.پولیس اور فوج محدود ہوتی ہے اور وہ ایک سیر تک ملک میں کنٹرول کر سکتی ہے.صوبہ پنجاب کی پولیس کوئی آٹھ دس ہزار ہے لیکن آبادی دو کروڑ ہے.اب آٹھ دس ہزار پولیس سے یہ امید کہ ناکہ وہ دو کروڑ کی نگرانی کر سکے گی درست نہیں.صوبہ میں زیادہ سے زیادہ پانچ فیصد ی مجرم ہو سکتے ہیں گویا کوئی دس لاکھ آدمی ایسے ہو سکتے ہیں جو لوٹ مار، ڈا کے ، نقب زنی اور قتل و غارت کو جائز سمجھتے ہیں.ان دس لاکھ آدمیوں کو پولیس کہاں سنبھال سکتی ہے.اسی واسطے ملک میں کوئی چھ سات ہزار چوری ہوتی ہے لیکن کوئی نہیں کہتا کہ ایسا کیوں ہے.کیونکہ اس قدر نگرانی کی پولیس سے امید ہی نہیں کی جا سکتی.یہ فردی خرابی ہے اور فرد کی نگرانی نہیں کی جا سکتی.اگر کوئی قومی خیال ہوتا ہے تو اس تنظیم کا کوئی پریذیڈنٹ ہوتا ہے.کوئی سیکرٹری ہوتا ہے اور اس طرح اس کا پتہ چل جاتا ہے لیکن جہاں فرد کے دماغ کو بگاڑ دیا جائے وہاں کوئی پولیس کام نہیں دے سکتی مثلاً اگر کوئی کمیونسٹ جماعت ہو تو اس کا کوئی پریذیڈنٹ ہو گا.کوئی سیکر ٹری ہوگا اور کوئی کنونیز ہو گا.اور اس سے معلوم ہو جائے گا کہ یہ لوگ فلاں فلاں ہیں اور فلاں فلاں جگہ ان کا مرکز ہے اور پیران کی نگرانی کی جا سکتی ہے لیکن اگر کوئی فرد کوئی ارادہ کر دے تو اس کی نگرانی نہیں کی جا سکتی کیونکہ اس کی سکیم اس کے اپنے دماغ میں ہوتی ہے اور کوئی ذریعہ ایسا نہیں کہ اُسے معلوم کیا جا سکے مثلاً کوئی پریذیڈنٹ نہیں، کوئی سیکرٹری نہیں کوئی دفتر نہیں جس میں جمع ہونیوالوں سے معلوم ہوسکے کہ کچھ لوگ مل کر کوئی کام کر رہے ہیں اور اس سے ان کی نگرانی کی صورت پیدا ہو جائے.یہاں بھی چونکہ ایک فرد تھا جس نے خباثت کی اس لئے اس کی خباثت کا قبل از وقت پتہ نہیں لگ سکا تھا سب باتیں اس کے دماغ میں تھیں.پس فرد کے دماغ کو بگاڑ دینے سے امن پر یاد ہو جاتا ہے.جب کوئی سازش تنظیم سے ہوتی ہے تو اس کا پتہ لگانا آسان ہوتا ہے لیکن جب افراد کے دماغ بگڑ جائیں تو کوئی چیز اُن کی نگرانی نہیں کر سکتی.چونکہ مولویوں نے افراد کے دماغوں کو گندہ کر دیا ہے، اس لئے مزید خباثت کو روکنے کے لئے ضروری ہے کہ ان مولویوں کو روکا جائے.یہی لوگ دماغ کو صحیح بنانے والے بھی ہیں بشرطیکہ ان میں ایمان ہو.اور یہی لوگ دماغ کو گندہ کر دیتے ہیں، جب ان میں ایمان نہیں ہوتا.پیس میرے نزدیک ان خطرات کو دور کرنے کا ذریعہ یہ ہے کہ مولویوں کو افراد کی ذہنیت خراب کرنے سے روکا بھائے..
۳۷۴ حکومت کی طرح میرا خیال بھی یہ ہے کہ جلسہ کا انتظام ٹھیک نہ تھا.قادیان میں مساجد میں میری یہ ہدایت تھی کہ پہلی صف میں معروف لوگ بیٹھیں.اب پھر سے لگا دیئے گئے ہیں مگر یہ ہر گز ویسے مفید نہیں.انسانی فطرت میں یہ بات ہے کہ جب کوئی دوسرا آدمی سامنے ہو تو انسان کسی پر وار کرنے سے گھبراتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ کسی دوسرے شخص کو گولی نہ لگ جائے.پھر وہ اس وجہ سے بھی گھبراتا ہے کہ اگر اس کا پہلا وار بھی خلال گیا تو وہ پکڑا جائے گا.اس لئے منتظمین کو چاہیئے تھا کہ وہ جلسہ کا انتظام کرتے وقت سٹیج کے سامنے معروف لوگوں کو بٹھاتے.پھر یہ بتایا گیا ہے کہ قاتل نے خان لیاقت علی خان کو مائنہ پستول سے مارا ہے.وہ بڑا پستول ہوتا ہے اور بڑے پستول کو چھپایا نہیں جاسکتا.اتنی بڑی چیز لے کر وہ شخص سٹیج کے سامنے بیٹھا ہوا تھا یا وہ جیب میں ڈالے ہوئے تھا لیکن کسی شخص کو قبل از وقت اس کا علم نہیں ہوسکا.پھر کہتے ہیں کہ وہ شخص چادر اوڑھے ہوئے تھا.یہ بات اور بھی زیادہ خطر ناک ہے.ہمارے ہاں بھی آنی العقیاط کر لی جاتی ہے کہ جب کوئی شخص ملاقات کے لئے آئے اور وہ چادر اوڑھے ہوئے ہو تو منتظم اس کی چادر اتروا دیتے ہیں حالانکہ یہاں ملاقات والے اکثر مرید ہوتے ہیں بعض لوگ جوشیلے ہوتے ہیں اور وہ میرے پاس شکایت کرتے ہیں کہ ہماری اس طرح ہتک کی گئی ہے تو میں انہیں سمجھاتا ہوں کہ آپ تو مخلص ہیں لیکن کوئی بدمعاش بھی تو اس طرح یہاں آسکتا ہے.پچھلے دنوں مسلم لیگ کے ایک نمبر مجھے ملنے آئے.وہ مجھے اندر آتے ہی کہنے لگے کہ وہ اپنا پستول باہر چھوڑ آئے ہیں کیونکہ انہوں نے پسند نہیں کیا کہ پستول لے کر اندر آئیں.اور در حقیقت یہ عام اور ضروری احتیاط ہے.لیکن اس شخص کے پاس مائز ر پستول تھا جو بڑے سائز کا ہوتا ہے لیکن کسی کو معلوم نہیں ہوتا کہ وہ پستول پکڑے ہوئے ہے یا اس کی جبیب میں کوئی بڑی چیز ہے.پھر جب وہ شخص فائر رتا ہے تب بھی اسے کوئی دیکھتا پھروہ فائر کرنےکی بھی کرتا ہے.اس سے کرتا ہے تب بھی اُسے کوئی نہیں دیکھتا.پھر وہ دوسرا فائر کرنے کی بھی جرات کرتا ہے.اس سے شعبہ پڑتا ہے کہ اس کے دائیں اور بائیں اُس کے ساتھی بیٹھے ہوئے تھے.یہ امر اور بھی خطرناک ہے کہ وہ آدمی مارا گیا.تمام متمدن دنیا میں ایسے آدمی کو مارا نہیں جاتا تا سازش پکڑ ہی بھائے.اس سے یہ خیال ہوتا ہے کہ شاید اس کے ساتھ اُس کا کوئی دوسرا ساتھی بھی تھا.انارکسٹر اسی طرح کرتے ہیں.وہ جب کسی شخص کو کسی لیڈر کے مارنے پر مقرر کرتے ہیں تو ایک اور شخص کو اُس کے مارنے پر بھی مقرر کر دیتے ہیں تا وہ پکڑا نہ جائے لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ لوگوں
۳۷۵ نے قاتل کو پیٹ پیٹ کر مار دیا تھا.اگر ایسا ہوا تو یہ اور بھی افسوسناک امر ہے کیونکہ اس سے سازش کے کھلنے کا امکان بہت کم ہو گیا.پولیس کو فوراً اس شخص کے گرد گھیرا ڈال لینا چاہیئے تھا اور اُسے زندہ گرفتی کرنا چاہیے تھاتا اس کے ذریعہ سے اصل سازش کا سُراغ مل سکتا.اس کا بچاتا اس کی خاطر ضروری نہیں تھا بلکہ اس کا بچا نا ملک کی خاطر ضروری تھاتا اس سے سازش کا پتہ لگایا جاتا ممکن ہے تحقیقات سے یہ معلوم ہو کہ حفاظت کا ہر مکن انتظام کر دیا گیا تھا اور بعض وہم ہے کہ اس میں کوئی کوتاہی ہوئی ہے بلکہ یہ ایک اتفاقی حادثہ تھا جو ہو گیا.پھر یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی مجرم بھی بل بجائے لیکن اِس سے یہ امر حمل نہیں ہو سکتا کہ مولویوں نے افراد کی ذہنیت خواب کر دی ہے.جب تک یہ ہوتا رہے گا اور قانون ہاتھ میں لینے کا وقف ہوتا رہے گا نہ پولیس کام دے سکے گی نہ فوج کیونکہ جب افراد کے ذہنوں کو گندہ کر دیا جائے اور قانونہ کے ادب کو ختم کر دیا جائے اور اختلاف کی صورت میں قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی تعلیم دی بجائے تو پھر کس کس پر شبہ کیا جائے گا یا کس کس کو شبہ سے بالا سمجھا جائے گا.اس صورت میں خود وزراء کے ایڈی کا نگوں پر بھی شبہ ہو سکتا ہے کہ شاید اُن کے دل میں بھی قتل کا خیال ہو.کیونکہ اگر افراد کی ذہنیت کو بگاڑ دیا جائے تو پھر خواہ کوئی سیکرٹری ہو یا ایڈسی کانگ وہ اپنے افسر سے ناراض ہو سکتا ہے اور اختلاف رائے کی وجہ سے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا ارادہ کر سکتا ہے.جن ملکوں میں یہ کھایا جاتا ہے کہ حکومت کا کام ہے کہ کسی شخص کو مجرم قرار د سے افراد کو یہ اختیار حاصل نہیں وہ ملک پر امن ہیں.اس قسم کی پابندی سب سے زیادہ انگلستان میں ہے اور وہ پر امن ہے.امریکہ کتنی بڑی جمہوریت ہے لیکن وہاں افرا دپر کنٹرول نہیں کیا جاتا اس لئے وہاں فساد ہوتے ہیں.جرمنی والے بھی قانون کے پابند ہیں اس لئے وہاں فساد نہیں ہوتے.بے شک ہٹلر کے وقت میں حکومت کی طرف سے رعایا پر سختیاں ہوئیں لیکن یہ کہ افراد ایک دوسرے پر سختی کریں یہ کبھی نہیں ہوا.اور ملکوں میں بھی یہ طریق پایا جاتا ہے لیکن سب سے زیادہ محفوظ انگلستان ہے اور اس کے بعد جرمنی ہے.پھر دوسرے ممالک میں انسانوں کے ہاتھوں سے مارے جانے والے بالعموم وہ ہوتے ہیں جو ملک میں بدنام ہوتے ہیں لیکن یہاں اندھیر یہ ہے کہ ہندوستان میں گاندھی جی کو مارا جاتا ہے جنہیں وہاں نبی کہا جاتا تھا اور را دهر پاکستان میں خان لیاقت علی خان کو مارا جاتا ہے جن کو ملک کی آزادی کو برقرار رکھنے والا اور اسکو ترقی دینے والا کہا جاتا ہے.یہ حض مولویوں کی ذمہ داری ہے.یہ کھیل ہے جو وہ ہمارے ساتھ کھیل رہے
تھے لیکن حکومت نے ائی کو منع نہ کیا جس کی وجہ سے یہ گندہ زیادہ پھیل گیا.تم اگر کسی کو کہتے ہو کہ فلان کو مارو مثلاً بیچتے ہیں ماں باپ یا بہن بھائی کھیل کے طور پر بعض دفتہ انہیں سکھاتے ہیں کہ فلاں کو بارو تو وہ مارتے ہیں اور ماں باپ بہن بھائی اس پر پہنتے ہیں.دوسرے دن وہ بچے ماں باپ کے منہ پر تھپڑ مارتے ہیں اور اُس وقت روکنا کوئی معنے نہیں رکھتا.ایک دفعہ اگر تم انہیں کہو گے کہ فلاں کو مارو تو وہ پھر دوسروں کو ماریں گے اور تم روک نہیں سکو گے.پس یکی حکومت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ افراد کی ذہنیت کو بدلے ورنہ امن قائم کرنا مشکل ہو جائے گا.لیڈر مرتے جائیں گے اور نئے لوگوں کو آگے آنے کا موقع ملے گا.پھر مولویوں اور دوسرے لوگوں کی جانیں بھی محفوظ نہیں ہوں گی.روس میں دیکھ لو زار نے جو طریق رعایا سے اختیار کیا تھا وہی طریق رعایا نے اُس کے خلاف پھلایا.پس یہ کھیل محدود نہیں چلے گی.ہمارے خلاف پر کھیل کھیلا گیا تھا لیکن آخر پاکستان کے نہایت اہم اور ابتدائی لیڈر کے خلاف ایک بدباطن نے وہی حربہ چھلا دیا کیونکہ دلوں سے قانون کے ادب اور سوچنے اور نفس پر قابو پانے کا جذبہ مٹا دیا گیا تھا.اگر یہ بات جاری رہی تو ایک دن یہ مولوی د بھی محفوظ نہیں رہیں گے.خود انہی کے متعلق کسی بات پر خفا ہو کر ان پر بھی حملے کریں گے.میری عمر کوئی دس گیارہ برس کی ہوگی کہ میں امرتسر گیا اور دیکھا کہ ایک مولوی صاحب بڑی داڑھی والے مہ پہنے ہوئے اور ہاتھ میں عصا لئے جا رہے تھے.اُن کے پیچھے پیچھے ایک اور آدمی تھا جو ہاتھ جوڑتا اور اُن کی منتیں کرتا جا رہا تھا اور کہتا جاتا تھا کہ یکی مفلس و غریب ہوں میری حالت پر رحم کھائیں.اور مولوی صاحب پیچھے مڑ کر اُسے گھورتے اور کبھی کبھی گالی بھی دے دیتے تھے.جب مولوی صاحب دور نکل گئے ہیں نے اُس شخص سے پوچھا کیا بات ہے ؟ اس نے بتایا کہ میں نے اس خبیث کے پاس ایک سو روپیہ رکھوایا تھا اب واپس مانگتا ہوں لیکن یہ واپس نہیں دیتا.سو مولویوں میں حرام خور بھی ہیں، ظالم بھی ہیں اور ان میں دوسرے عیوب بھی پائے جاتے ہیں.اس سے اگر انہوں نے ایسی تعلیم دی تو ایک نہ ایک دن ان پر بھی وار ہوگا.کیونکہ ہو نہیں سکتا کہ ان سے کسی اور کو اختلاف نہ ہو.اصل امن والی تعلیم قرآن کریم کی ہے.یہ کتنی پاکیزہ تعلیم ہے کہ حکومت کے سوا کسی کو شرعی تصویر دینے کا اختیار نہیں.اور حکومت بھی اسی تعزیر کا اختیار رکھتی ہے جوں کا اختیار اسے قرآن کریم نے دیا ہے..گویا پہلے عوام کے ہاتھ بند کئے پھر حکومت کے ہاتھ یہ کہ کر بند کر دیئے کہ تم بھی قضاء کے ذریعہ ہی
تعزیر کا اختیار رکھتے ہو.ایک دفعہ ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی یا رسول اللہ ! اگر میں اپنی عورت کے پاس غیر مرد کو دیکھوں تو آیا مجھے اس کو قتل کرنے کی اجازت ہے ؟ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اگر تم اسے قتل کرو گے تو اس کے بدلہ میں تمہیں قتل کیا جائے گا.تم گواہ پیش کرو.اُس شخص نے کہا یا رسول اللہ اتنا دیوث کون ہو گا کہ وہ اپنی عورت کے پاس غیر مرد دیکھے تو وہ گواہ ڈھونڈتا پھرے.اسلام نے ایسے شخص کی سزا قتل رکھتی ہے تو کیوں نہ میں اُسنے ماروں برسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم نے ایسا کیا تو پکڑے جاؤ گے اُس وقت تک زائی کو رجم کیا جاتا تھا اور وہ صحابی بھی اسے قتل کرنے کے لئے ہی اجازت چاہتے تھے لیکن رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ با وجو اس کے کہ تم نے اپنی عورت کے پاس غیر مرد کو دیکھا لیکن تم قاضی کے پاس جاؤ وہ فیصلہ کر لے گا کہ تم ٹھیک کہتے ہو یا غلط.اب یہ کتنی واضح دلیل ہے کہ اسلام نے کسی صورت میں بھی شرع تعزیہ کی جن میں قتل کرنا، ہاتھ پاؤں کاٹنا اور قید کرنا شامل ہیں کسی فرد کو اجازت نہیں دی.ہاں بعض سزاؤں کی اجازت دی ہے مثلاً ایک باپ یا استاد بچے کو اس کے کسی قصور پر مار سکتا ہے.پھر قومی سزاؤں کا قوم کو اختیا رہے، مثلاً کسی قصور پر ہم ایک شخص کو جماعت سے خارج کر دیتے ہیں تو اس کا ہمیں اختیار ہے کیونکہ یہ شرعی تعریر نہیں.جو شرعی تعزیریں ہیں مثلاً قتل کرنا ، ہاتھ پاؤں کاٹنا ، قید کرنا ، کوڑے لگانا وغیرہ ان کا اختیار حکومت کو ہے اور وہ بھی قضاء کے ذریعہ حکومت عارضی طور پر کسی کو قید کر سکتی ہے لیکن بعد میں اس کا فیصد قضا نہیں کرے گی.اگر تم اسلام کی اس تعلیم کو ملک میں بھاری کردو تو کوئی قتل ممکن ہی نہیں.نہ آگ لگائی جاگتی ہے اور نہ کسی کو مارا پیٹا سما سکتا ہے.اس تعلیم کو جاری کرنے کے بعد ہی ملک میں امن قائم ہوسکتا ہے.تم پہلے اسلامی ذہنیت پیدا کرو.یہ نہیں کہ ایک طرف مولوی یہ ہے کہ ملک میں اسلامی تعلیم پھیلاؤ اور دوسری طرف یہ کہے کہ فلاں شخص اسلامی تعلیم کے خلاف چلتا ہے.اس لئے اسے قتل کہ دو بہم حکومت کو کئی دفعہ اس طرف توجہ دلا چکے ہیں لیکن اس کی طرف سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی نتیجہ یہ ہوا کہ جو ذہنیت احمدیوں کے خلاف پھیلائی گئی تھی وہ پاکستان کے خلاف پھل گئی.اور اگر اس ذہنیت کو جلد ہی تبدیل نہ کیا گیا تو صرف احمدیوں کے خلاف ہی نہیں بلکہ لوگ ان مولویوں کے خلاف بھی جو یہ فتوے دیتے ہیں کا روائی کریں گے.غرض یہ ذہنیت نہایت خطرناکی ہے اگر اسے جلد روکا نہ گیا تو یہ ملک کے لئے بہت بڑے خطرے کا موجب ہوگی.اگر مو لوسی حقیقت میں ملک میں اسلامی حکومت
قائم کرنا چاہتے تو وہ رعایا کو کھاتے کہ شرعی تعزیر آن کے اختیار میں نہیں شرعی تعزیر حکومت کے اختیار میں ہے بلکہ حکومت بھی شریعی تعزیر قضاء کے ذریعہ دے سکتی ہے.اگر واقعہ میں یہ تعلیم دی جائے تو خاد لیاقت علی خان تو پاکستان کے پریمیئر تھے پاکستان کا ایک غریب سے غریب لڑ کا بھی نہیں مارا جا سکتا.جب ہر شخص کے ذہن میں یہ بات بٹھادی جائے کہ ایسا فعل خدا تعالی کے منشاء، اس کے رسول کی تعلیم، قرآن کریم ، اخلاق ، حب الوطنی ، روح نظام اور ملک و ملت کے خلاف ہے تو کوئی شخص ایسا فعل کرنے کی جرات نہیں کرے گا.اگر خان لیاقت علی خان جنگل میں بھی ہوتے اور سوائے اُن کے اور قاتل کے وہاں کوئی نہ ہوتا لیکن قاتل کے ذہن میں اسلام کی صحیح تعلیم ہوتی تو کبھی نہ مارے جاتے.ایسی صورت میں پولیس وغیرہ کی کوئی ضرورت نہ تھی.پس اصل چیز یہ ہے کہ اسلام کی صحیح تعلیم کو قائم کر وہ یہ ملاں جو ہار کو کی تعلیم کو پھیلا رہے ہیں خان لیاقت علی خان کے قتل کے اصل ذمہ دار ہیں جب تک حکومت انکے منہ بند نہیں کرے گی ملک میں امن قائم نہیں ہو سکتا یا لے حکومت پاکستان نے اس حادثہ قتل کی تحقیقات کی حادث قتل کے تحقیقاتی کمشن کی رپورٹ کے ایک ایک کی امریکی یکی نے اگر پسند طور ے لئے پر یہ رائے ظاہر کی کہ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ وزیر اعظم مرحوم کا قتل سید اکبر کا محض انفرادی فعل تھا یا کسی سازش کا نتیجہ تاہم کمیشن نے قاتل کے اس شرمناک فعل کے امکانی محرکات کا جائزہ لیتے ہوئے اس محرکہ کا بھی ذکر کیا کہ اس جرم کی تہ میں اس کے انتہاء پسندانہ مذہبی نظریات کارفرما تھے اور یہ وہی مکانی پہلو تھا جس پر حضرت مصلح موعود نے اپنے خطبہ جمعہ ملی مفصل روشنی ڈالی تھی اور جس سے حضور کے نظریہ کی لفظ لفظاً تائید ہوتی تھی.چنانچہ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں اس مذہبی محرک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جھ رائے قائم کی اس کا خلاصہ جماعت اسلامی کے آرگون کوثر ( رستمبر ۱۹۵۷ء) کے الفاظ میں یہ تھا :- اگر و به قتل یہ ہو کہ سید اکبر نے مسٹر لیاقت علی خاں کو اس لئے موت کے گھاٹ اُتار دیا کہ وہ اسکے معیار اسلام پر پورے نہیں اتر تے تھے تو یہ ایک خوفناک صورت حال کا پتہ دیتا ہے، اور کمیشن حکومت کو توجہ دلائے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اگر اس قسم کے رجحانات ملک میں پنپ رہے ہوئی تو ان کو سختی سے دیا دینا چاہیے.اس سلسلے میں کمیشن کی طرف سے اس امر کا بھی ذکر کیا گیا تھا کہ اس کے سامنے بعض اخباروں له الفضل در نبوت ۱۳۳۰ ش مرتاد
کے مضامین اور بعض مصنفین کی تحریریں بھی پیشیں کی گئیں جن میں مسٹر لیاقت علی خان کے خلاف نہایت سوقیانہ انداز میں رائے زنی کی گئی تھی.اس کے بعد کمیشن نے اُن لوگوں کو آڑے ہاتھوں لیا جن کا تصور اسلام اس کے نزدیک نہایت بھونڈا اور خام ہے اور ان کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے جماعت اسلامی اور اس کے بعض حاشیہ بہ داروں پای رپورٹ کے حق میں پاکستانی پریس کی آواز سے وہ پاکستان اور اورانگریزی پریس نے کے تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ کے اس زاویہ نگاہ کی متفقہ طور یہ تائید کی اور عوام اور حکومت کو فرقہ پرستی اور ملائیت کے اس خوفناک اور سنگین خطرہ سے خبردار کیا جو ملک میں ہر لمحہ اور ہر طرف سیلاب رواں کی طرح بڑھتا چلا آرہا تھا.مثلاً اخبار آفاق نے لکھا :- محبت وطوی پاکستانی ہم سے اتفاق کریں گے کہ کمیشن نے آزادی صحافت اور اسلام کا نام لے کر عمائدین ملک کے خلاف گندگی اچھالنے والے اخبارات کے اصل عزائم کو بے نقاب کر کے ایک بہت بڑی خدمت انجام دی....اسلام و سالحیت کے یہ اجارہ دار اور بزعم خویش ملک و قوم کے یہ مخلص خادم اپنے سیاسی مخالفین کو فاسق و فاجر اور بد دیانت کہتے رہے..ہمیں یہ کہتے ہیں مطلق قائل نہیں کہ در اصل یہی لوگ قائد ملت کے قاتل تھے کیونکہ اپنی لوگوں کی تحریروں نے وہ ماحول پیدا کیا جس کی پیداوار کمیشن کے الفاظ میں سید اکبر بھی تھا " اخبار انسان (لاہور) نے یہ نوٹ سپر د اشاعت کیا کہ :- ہمیں کمیشن کی اس رائے سے پورا پورا اتفاق ہے حقیقت یہ ہے کہ لبعض طالع آزما جماعتیں جو اسلام کے نام کو استعمال کرتی ہیں، اقتدار کے بھو کے بیٹے ہوئے سیاسی مہرے لیاقت مرحوم کے خلاف تقریر وں میں زہر اگل رہے تھے ---- اخبارات محاصر نوائے وقت بالخصوص اور اس کے انداز میں سوچنے والے ایک دو اور جرائد لیاقت مرحوم اور ان کی قابل احترام رفیقہ حیات کی بابت جھوٹے واقعات اشتراع کر کے طرح طرح سے انہیں بدنام کرتے اور اہم کا تمسخر اڑاتے رہے.نتیجہ ظاہر تھا نفرت و حقارت کا یہ زہر پھیلا اور اس نے سید اکبر کو جنم دیا.اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ نے کمیشن کی رپورٹ پر حسب ذیل شذرہ لکھا یہ
ہماری سیاسی زندگی کے دامن پر جو سب سے زیادہ تاریک داغ ہے اس پر انگلی رکھ دی گئی ہے.یہ بات کہ ایک مسلمان کو دو سر امسلمان اسلام کے نام پر قتل کر دیے یہ ایک نزاعی بحث نہیں ہے بلکہ ملاؤں کے مذہب کا ایک مسلمہ ہے.ایک مسلمان خواہ وہ کتنا ہی دیانتدار اور زندگی میں پاکباز ہوا گر وہ ملا کے معیا یہ اسلام پر پورا نہیں اتر تا تو اس کو فوراً کافر" کا خطاب دے دیا جاتا ہے اور ایسی صورت میں یہ ایک بڑا دینی کارنامہ سمجھا جاتا ہے کہ اس کی جان لے لی جائے.اگر مذہبی جنون کا نظریہ قبول کر نیا جائے تو نواب زادہ لیاقت علی اسی نفسیات کا شکار ہوئے.جاہل مذہبی جنونی قاتل نے اپنے ہی اسلامی معیار پیر ان کو پرکھا اور اس سے فروتر پایا.ملا کے مسلمہ مذہبی معیار کے مطابق یہ بات اس امر کا کافی جواز تھا کہ اُن کی جان لے لی جائے.جو حادثہ وزیر اعظم مرحوم کو پیش آچکا ہے وہ ہر وزیر کو پیش آسکتا ہے بشرطیکہ ام کے جوش کو اس کے خلاف کافی طور پر بھڑکا دیا جائے...اس رپورٹ نے اس خطرناک رجحان کی طرف متوجہ کر کے بڑی خدمت سر انجام دی ہے...ہمارا اعتقاد ہے کہ رائے عامہ کو اس عظیم معاشرتی خطر ہے کے علاوہ منظم ہونا چاہیے.مذہب کے نام پر تشد د اسلام میں بہت عام ہے.چھوٹے چھوٹے اختلافات نے بڑے بڑے فساد ہر پاکئے ہیں اور لوگوں کے سر توڑے ہیں.ملا کے نز دیک مغربی لباس پہنتا بھی کفر" ہے.داڑھی مونچھ کا منڈا ہوا ہونا تو کفر کی سب سے بڑی علامت ہے.علما کو اسلام کا آخری حکم بنا دینا اُس پاکیزہ دین کی توہین ہے جو محبت ، وسعتِ نظر اور ہمد روٹی انسانی کا پیغام لے کر آیا.علاوہ ازیں یہ پاکستان کی تخریب کا بھی یقینی راستہ ہے.ان دنوں حالات فی الواقع خوفناک ہوتے جارہے ہیں جسٹس محمد منیر کا انتباہ نہایت بر وقت اور بر محل ہے.مثلا کا خطرہ بڑھ رہا ہے وہ موجودہ نظام کو الٹ دینے کے لئے باہر نکل آیا ہے اور اس کو بد نام کہ رہا ہے.اس کا ہتھیار وہی پرانا ور یہ ہے کہ ہر چیز کو غیر اسلامی قرار دے دیا جائے.کا فر سازی ایٹم بم سے بھی زیادہ خطرناک ہے.انکوائری رپورٹ نے میچ طور پر موجودہ رفتار میں پاکستان کی تخریب کے جراثیم کو دیکھ لیا ہے.(ترجی) اخبار پاکستان ٹائمز نے کمیشن کی رپورٹ پر درج ذیل ادارتی نوٹ لکھا.مسٹر لیاقت علی خان کے قتل کے متعلق کمیش نے فوری حالات پر جور وشنی ڈالی ہے اس سے کچھ کم اہم اور قیمتی اس کی وہ شد یا تنقید نہ ہو گی جو ہماری قومی زندگی کے مذہبی جنون کے رجحانات کے بارے میں کی گئی ہے.پاکستان کے قیام کے وقت ہی سے قومی زندگی کے تمام معقول اور ترقی پسند عناصر
۳۸۱ افسوس اور خطرے کے احساس کے ساتھ اپنی قوم میں خطرناک متعصبانہ رجحانات کو دیکھ رہے ہیں.یہ بات کہ یہ حالات بالآخر مسٹر لیاقت علی خان کے قتل کے کس حد تک ذقتہ دار ہیں اس کا معلوم کرنا آسان نہیں ہے لیکن یہ واقعہ ہے کہ یہ ہمارے جید قومی میں داخل ہو گئے ہیں اور بہت سے لوگ پہلے ہی حیران ہیں کہ ہماری قومی زندگی ان سے کس طرح نجات حاصل کرے گی بیشتر اس کے کہ وہ اس کو کوئی ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہو ان رہ جحانات سے ملک کو کتنا خطرہ ہے.اس بات پر کمیشن نے پوری طرح زور دے دیا ہے اور حکومت کو اس نے متنبہ کر دیا ہے کہ اگر اُن کو اپنے رُخ پر جاری رہنے دیا گیا تو اس سے پاکستان کی ترقی میں بڑی رکاوٹ واقع ہو گی.اے حضرت مصلح موعود کی پانی امام ہدایات اور اکتوبر کو بعد از صر جماعت احمدیہ کی تجدید مرکزی درس گاہ جامعتہ المبشرین کی ایک الوداعی تقریب میں جمعتہ المبشری کی طرف سے سب سے پہلے کامیاب ہونیوالے مبلغین کو الوداعی پارٹی دی جس میں حضرت امیر المومنين المصلح الموعود نے بھی از راه شفقت و ذرہ نوازی شرکت فرمائی اور ایک معلومات افروز تقریر کے ذریعہ اساتذہ اور طلباء جامعہ کو پانچ نہایت اہم اور قیمتی ہدایات سے نوازا جو تحقیق و تشخص اور علمی ترقی کے میدان میں ہمیشہ خضر راہ ثابت ہوں گی.حضور پر نور نے اپنے خطاب کے شروع میں پہلی ہدایت یہ فرمائی کہ طلباء کی صحت کا پہلی ہدایت خیال رکھا جائے اور وہ اس کے مقابل پرمحنت کا خیال رکھیں ؟ دوسری اہم چیز جس کی طرف حضور نے توجہ دلائی وہ یہ تھی کہ عربی زبان میں یہ دوسری ہدایت خصوصیت ہے کہ اس کا ہر حرف الگ پڑھا جاتا ہے.جب تک ہر حرف کو الگ نہ پڑھیں تلفظ ٹھیک نہیں ہوتا.دوسری زبانوں میں ہم حروف کو ایک دوسرے میں مخلوط کر دیتے ہیں لیکن عربی زبان میں ہم حروف کو ایک دوسرے میں مخلوط نہیں کر سکتے...حروف کو ایک دوسرے میں مخلوط کرنے کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ان کے معنی کچھ نہیں نہیں گے...یہ دست درازی کم از کم قرآن کریم پر نہیں ہونی چاہیئے تیرہ سو سال سے مسلمانوں نے اس کو محفوظ رکھا ہے تمہیں بھی اسے محفوظ رکھنا چاہیئے اور قرآن کریم کی تلاوت پر خاص تو سمجہ دینی چاہئیے " انه بخوان اخبار کوتر لاہور ۲ ستمبر ۱۱۹۵۲ ص) (جماعت اسلامی کا ترجمان )
۳۸۲ تیسری ہدایت حضور نے مقررین کے لئے دی جو یہ تھی کہ جب ایک واعتہ کھڑا ہوتا میسری ہدایت ہے تو اس وقت وہ سامعین کو کچھ بتانے کے لئے کھڑا ہوتا ہے پیں اسے لوگوں سے گھبرانے کی کیا وجہ ہے ؟ جو اس سے سیکھنا چاہتے ہیں ہیں تقریر آہستگی کے ساتھ کہنی چاہئیے.پھر آہستہ آہستہ جب سامعین کے دماغوں اور تقریر کرنے والے کے دماغ میں توازن قائم ہو جائے تو بے شک وہ اپنی آواز بلند کر رہے اور الفاظ بھی جوش سے ادا کرے لیکن اگر وہ شروع میں ہی جلدی جلدی بولنے لگ بھاتا ہے تو سامعین تاڑ جاتے ہیں کہ وہ ان سے ڈر رہا ہے اس لئے وہ اس کا اثر قبول نہیں کرتے یہ حضور کی چوتھی ہدایت یہ تھی کہ ہمارے طلباء مطالعہ کے لئے بہت کم وقت نکالتے چوتھی جو بھی ہدایت ہیں اپنے وقت میں سے ہمیشہ ایک حصہ زائد مطالعہ کے لئے بھی نکالنا چاہیئے.ہما را اندازہ ہے کہ ایک اچھا پڑھنے والا ایک گھنٹہ میں اوسطاً ہر صفحے پڑھتا ہے.عربی ٹائپ ذرا چھوٹا ہوتا ہے اور کتاب کے صفحات بڑے ہوتے ہیں اس لئے اگر آپ لوگ زائد مطالعہ کے لئے ایک گھنٹ روزانہ بھی دیں تو اوسطاً دس پندرہ صفحات فی گھنٹہ پڑھے جا سکتے ہیں.اس ضمن میں حضور نے یہ بھی بتایا کہ اسی لئے لیکں نے عربی کتابیں منگوا کر دی ہیں جن میں علیم ادب، عظیم تاریخ ، فلسفہ، منطق، صرف و نحو ، علم نحو علم معانی اور دوسرے علوم پر لکھی ہوئی کتابیں موجود ہیں.میرا منشاء یہی ہے کہ ایک دو سال میں دس پندرہ ہزار روپیہ صرف کر کے ایک لائبریری بنائی جائے جو کالج کے لحاظ سے مکمل لائبریری ہو چنا نچہ اس سلسلہ میں میں نے انگریزی کی بعض کتابیں بھی منگوا کر دی ہیں.یہ کتابیں مختلف علوم کے متعلق ہیں ؟ مقالہ (THESIS) لکھنے کے بارے میں اساتذہ اور طلبہ دونوں کو مخاطب کر کے پانچویں ہدایت به خاص ہدایت فرمائی کہ یہ :- مضمون ایسے رنگ میں بیان کرو کہ پڑھنے والا اسے سمجھ سکے.اور اس کے لئے ضروری ہے کہ اس کے لئے بطنی عنوان مقرر کئے جائیں پھر ماہرین کی ایک کمیٹی اس پر غور کرے اور اس کی ترتیب بھی بتائے پھر لٹریچر بھی بتایا جائے کہ کون کو ایسی کتابوں میں یہ مضمون مل سکتا ہے....پیر تھیں کے لئے ضرور کیا ہے کہ اس کے عنوان مقرر ہوں، اس کی ترتیب بتائی بہائے اور کچھ مشورہ دیا سہائے کہ ایمضمون فلاں فلاں کتا یہا سے مل سکتا ہے.پھر ضمون زیادہ لمبا نہیں ہونا چاہیے.ایم.اے میں جو تھیس (THESIS) لکھے جاتے ہیں وہ بھی پچاس ساٹھ صفحات کے ہوتے ہیں.اگر مضمون چھوٹے ہوں گے تو نخواہ لکھنے والا پہلے
۳۸۳ دو ماہ میں ایک سطر بھی نہ لکھ سکے اور تیسرے ماہ وہ دن کالم روزانہ لکھے تو بھی وہ ۳۰۰ کالم لکھ لے گا جو ہے اس مطبوعہ صفحات کے برابر ہو گا اور یہ کافی لمبا مضمون ہے.اس طرح مفید لٹریچر مل سکتا ہے اور بلینے میں آسانی پیدا ہو سکتی ہے، سلہ حضرت مصلح موجود ہ نے بیش قیمت ہدایات پر مشتمل تقریر کے بعد مجامعتہ المبشرین کے اساتذہ طلبہ اور فارغ التحصیل مبلغین کے لئے دعا فرمائی.اور یہ حضور کی دعا ہی کا اثر ہے کہ اس سال جامعہ پاکس کرنے والے مبلغین کو جو جامعہ المبشرین کے پہلے پھل کہلانے کے مستحق ہیں اندرون، پاکستان کے علاوہ بیرونی ممالک میں بھی اعلائے کلمہ اللہ کی توفیق ہی ہے.ان میں سے اکثر اب بھی خدمت اسلام میں مصروف عمل ہیں.اس پہلی کلاس کے بعض مبلغین کے نام مع ان کے ممالک تبلیغ کے حسب ذیل ہیں :.مرزا محمد اور نہیں صاحب ( بور نیو- یوگنڈا.انڈونیشیا) مولوی عبد القدیر صاحب شاہد (غان سیرالیون) عبد اللطیف صاحب پریمی (غانا) مولوی محمد صدیق صاحب گورداسپوری (سیر انیون رنمانا امریکہ مولوی مبارک احمد صاحب سابقی (نایبیریا.لائبیریا) میرمسعود احمد صاحب (ڈنمارک) صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب ( انڈونیشیا، مولوی محمد اجمل صاحب شاہد (نائیجیریا) اه الفضل ، فتح ۳۰ ریش مکہ پر حضور کا مکمل خطاب شائع شدہ ہے ؟
فصل چهارم سیدنا حضر المصلح الموعود کا خصه خصوصی بنام مال دا وايا کے نام اخبار الرحمت او رسل عزا خلفاء، ملتان اول امیوں کے کہ اگر انہی میں سنگام آرائی، اخبار بد کا دوبارہ اجراء اور حضرت مصلح موڈ کا پر معارف افتتا حی مضمون ا اس سال کے آخرمیں جماعت احمدیہ انڈونیشیا کی سیدنا حضرت المصلح الموعود کا خصوصی پیغام | جماعت احمد یا نڈونیشیا کے نام کے لئے حضرت میں نمونی اصلی بالی وڈ نے ایک امیر الموعود دوسری سالانہ کا نفرنس منعقد ہوئی.اس کا نفرنس خصوصی پیغام ارسال فرمایا جس میں انڈونیشیا کے مخلص احمدیوں کو اپنے عملی نمونہ تعلیم و تربیت مرکز احمدیت سے گہری وابستگی اور غیر متزلزل ایمان کے ذریعہ انڈونیشیا کی اکثریت کو احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں شامل کرنے کی ولولہ انگیز تحریک فرمائی.اس پیغام سے انڈونیشیا کی احمدی جماعتوں میں ایک نیا ذوق و شوق اور جوش و خروش پیدا ہو گیا.ذیل میں حضرت مصلح موعود کے اس پیغام کا متن درج کیا جاتا ہے.بسم الله الرّحمن الرّحيم : نحمده ونصلى على رسوله الكريم احباب جماعت انڈونیشیا ! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته مجھے عزیزم شاہ محمد صاحب مبلغ انچارج انڈونیشیا کے ایک خط سے یہ معلوم کر کے نہایت افسوس ہوا که گذشتهہ سال با وجود ان کی تحریک کے میں جماعت انڈو نیشیا کے سالانہ جلسہ میں کوئی پیغام نہ بھیجو اسکار ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جن دنوں بہ یک بیمار تھا اُن دنوں میں ایسا خط پہنچا.ہے ورنہ جماعت انڈونیشیا
۳۸۵ جس نئے دور میں سے گزر رہی تھی اس کے لحاظ سے ضروری تھا کہ میں اسے پیغام بھجواتا.جہاں تک امام جماعت کے پیغاموں کا سوال ہے چونکہ جماعتیں اب ساری دنیا میں پھیل گئی ہیں یہ توانید از عقل ہے کہ امام جماعت کی طرف سے ہر جماعت کو ہر سال کوئی نیا پیغام پہنچے لیکن یہ خواہش ہو جماعت کی بالکل معقول ہے کہ کسی خاص اور اہم موقع پر جو اُ سے پیش آئے اُس کے امام کی طرف سے اسکو کوئی تسلی، مبارکباد یا رہنمائی کا پیغام پہنچے.پس چونکہ انڈونیشیا کی جماعت ایک نئے نظام کے ماتحت چلائی جانے والی تھی میری طبیعت اچھی ہوتی تو میں ضرور مختصر پیغام اُن کی کا اندرنس کے موقع پر بھجواتا لیکن گذشتہ سال جلسہ سے پہلے بھی اور اس کے بعد بھی میں شدید بیمار ہو گیا تھا.مجھے اس بات پر نہایت خوشی ہے کہ جماعت انڈونیشیا جس کی ابتداء ۱۹۲۶-۲۷ پر میں ہوئی تھی اب خدا تعالیٰ کے فضل سے کافی ترقی کر چکی ہے اور منظم ہونے کی کوشش کر رہی ہے.مجھے اس بات پر بھی خوشی ہے کہ انڈونیشیا کے نوجوان تعلیم کے لئے احمدیہ مرکز میں آتے رہتے ہیں.گو اتنی توجہ اس طرف نہیں ہوئی جتنی کہ ہونی چاہیئے تھی لیکن سمجھتا ہوں اور تجربہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انڈونیشیا ان ممالک میں سے ہے جن کے لئے خدا تعالیٰ نے سعادت مقدر کی ہوئی ہے.انڈونیشین لوگوں میں مجھے وہ کیبر نظر نہیں آتا ہو بعض دوسرے مہ: ایک کے لوگوں میں نظر آتا ہے.ان کی طبائع میں صلاحیت اور نرمی ہے اور وہ پنچ کے متلاشی معلوم ہوتے ہیں.پس یکی سمجھتا ہوں اگر جماعت احمد یہ اپنے فرمن کو اچھی طرح پہچانتی تو جماعت جو اس وقت دس ہزار کے قریب ہے یقیناً ایک لاکھ سے بھی زائد ہوتی.پس یکی جماعت کے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے فرض کو پہچانیں اور کم از کم یہ کوشش کریں کہ اُن کی جماعت اگلے سال دس ہزار سے بہنیں ہزار ہو جائے پھر اس سے اگلے سال میں ہزار سے چائیں ہزار ہو جائے اور پھر اس سے اگلے سال چالیس ہزار سے اسی ہزار ہو بہائے اور اسی طرح ہر سالی جماعت اپنی تعداد میں بڑھتی چلی جائے مگر یہ بھی ہو سکتا ہے جب ہر انڈونیشین احمدی اپنے فرض کو سمجھے اور مناسب لڑریچر کثرت کے ساتھ مہیا کیا جائے اور مبلغوں کی تعداد موجودہ تعداد سے زیادہ ہو.موجودہ پولیٹیکل حالات ایسے ہیں کہ پاکستان کے مبلغ اُس ملک میں زیادہ نہیں جا سکتے لمپس مناسب تدبیر ہی ہے کہ انڈونیشیا کے نوجوان تعلیم کے لئے پاکستان آئیں اور پھر یہاں سے تعلیم پاکر لے سہو ہے پیکشن ۱۹۲۵ء میں قائم ہوا تھا (ناقل)
۳۸۶ اپنے ملک کو واپس جائیں لیکن کھیلے ایک دو سال سے اس طرف کچھ تو جہ دیکھتا ہوں مگر وہ تو بر ضرورت سے ابھی بہت کم ہے.پھر جماعت کی ترقی کے لئے یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ اُس کا امام سے براہ راست تعلق ہو اور وہ اس کی دعاؤں سے حصہ لے مگر مجھے افسوس ہے کہ امریکہ اور مغربی افریقہ کے مقابلہ ہیں جو دونوں عالی امام کے ساتھ تعلق پیدا کرنے میں نہایت ہی آگے آگے ہیں انڈونیشیا کی جماعتوں نے اُس رنگ میں امام سے تعلق پیدا نہیں کیا.اب کچھ عرصہ سے ایک دو جماعت کے عہدیداروں نے اور چند افراد نے خط و کتابت شروع کی ہے اور یہ ایک نیک تبدیلی انڈونیشیا میں پیدا ہوئی ہے لیکن ابھی اس میں بہت کچھ اصلاح کی ضرورت ہے.جس کو بھی جس زمانہ میں خدا تعالیٰ ساری جماعت کا امام بناتا ہے وہ باقی جرات کا روحانی باپ ہوتا ہے.اور جب تک افراد جماعت کا تعلق اُس سے ایسی صورت میں نہ ہو جیسا کہ شریف اور نیک بیٹے کا اپنے باپ سے ہوتا ہے اس وقت تک وہ شخص یا وہ قوم یا وہ ملک ان کو جانی برکات کا امیدوار نہیں ہو سکتا جو خدا تعالیٰ کی طرف سے اُن لوگوں پر نازل ہوتی ہیں جو اس کیے مقرر کہ وہ خلیفہ کے ساتھ تعاون کرتے اور اس کے ناصرو یادگار بنتے اور اُس کے کام کو دنیا میں پھیلاتے ہیں.ہماری جماعت ایک روحانی جماعت ہے اور اگر وہ سچی ہے تو پھر یہ بھی سچی بات ہے کہ جو کوئی بھی اس جماعت کے نظام کی اتباع کرے گا اور اس کی قدر کرے گا اور اس کے ساتھ تعاون کرے گا وہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کا وارث ہوگا.کیونکہ جب ایک ادنی انسان بھی اپنے ساتھ تعاون کر نیوانے کی قدر کرتا ہے اور اس کی مدد کرتا ہے تو خدا تعالیٰ جو غیر محدود ذرائع رکھنے والا ہے اُس کی نسبت یہ کب اُمید کی جا سکتی ہے کہ وہ اس کے مقرر کردہ خلیفہ یا اُس کی مقرر کردہ جماعت کے ساتھ تعاون کرنے والوں اور محبت کرنیوالوں اور اخلاص رکھنے والوں کی قدر نہیں کرے گا اور ان کی مدد نہیں کرے گا.یقیناً جو لوگ اس رستہ کو اختیار کریں گے وہ اپنی روح کے اندرایک تبدیلی پائیں گے اور اپنے آپ کو خلیفہ وقت کا روحانی بیٹا ثابت کرتے ہوئے بعد اتعالیٰ کا اس دنیا میں روحانی فرزند بننے کا فخر حاصل کریں گے اسلام کا خدا محبت کرنے والا سخدا ہے اور وہ فرمانبردار بندوں سے اس سے بھی زیادہ محبت کرتا ہے جتنا کہ محبت کر نیوالا باپ اپنے بیٹوں سے محبت کرتا ہے.مگر باپ کی محبت حاصل کرنے کے لئے بھی انسان کو کچھ نہ کچھ کرنا پڑتا ہے.صلاحیت اور نیک اطوار اور تعاون اور محبت ہی باپ کی طبعی محبت کو ابھار تے I
ہیں اسی طرح خدا تعالیٰ کی محبت کے ابھارنے کے لئے بھی ضروری ہے کہ جو اس کے اظلال دنیا میں موجود ہوں اور جو اس کا نظام دنیا میں قائم ہو اس کے ساتھ تعاون کیا جائے اور اس کی مدد کی جائے اور اس کی اطاعت کی بجائے اور اس کے کام کو دنیا میں پھیلایا جائے.مجھے اس بات سے خوشی ہے کہ انڈونیشیا ان ممالک میں سے ہے جن میں ارتداد بہت کم ہوتا ہے جو مانتے ہیں وہ سچے طور پر مانتے ہیں بعض اور ممالک میں ہر شخص پایا جاتا ہے کہ ایمان اور ارتداد بالکل اس طرح چلتے ہیں نہیں طرح دو متوازی لیکن مختلف، اطراف میں بہنے والے دریا.یکی امید کرتا ہوں کہ آپ لوگ اور بھی زیادہ اپنے عملی نمونہ اور تعلیم اور تربیت کے ساتھ اس بات کو نا ممکن بنا دیں گے کہ کوئی شخص احمدیت میں داخل ہو کر پھر اس سے تواپس لوٹے.اسی طرح آپ لوگ ہمیشہ اس بات کو مد نظر رکھیں گے کہ مرکز احمدیت سے آپ لوگوں کا تعلق مضبوط ہو.آپ کا ایمان غیر متزلزل ہو اور آپ کا رشتہ قطع نہ ہونے والا ہو.زمین و آسمان ٹل سکیں مگر آپ لوگ امن وابستگی کو نہ چھوڑ سکیں جو خدا تعالیٰ نے آپ کے دلوں میں احمدیت اور اس کے مرکز سے پیدا کی ہے.میں امید اور یقین اور دعا کے ساتھ اس پیغام کو ختم کرتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ آپ لوگ ایک نئی طاقت اور نئی قوت کے ساتھ کو اشاعت احمدیت میں لگ جائیں گے اور مجھے وہ دن دیکھنے کی خوشی نصیب ہو گی جب انڈونیشیا کی اکثریت احمدی ہو گی اور احمدیت کی روشنی میں اسلام کے اولین علمبرداروں میں انڈونیشیا کا مالک بھی ہو جائے گا.انکو ہم آمین شما کسار (دستخط) مرزا محمود احمد 19% اسيدنا حضر من المصالح الموعود کے عہد خلافت کا ایک زندہ اخبار الرحمت اور عزل خلفاء تقابلی را روشی اور والی کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے نظام الان فراموش رائی مرات کے قیام و استحکام کے لئے ہمیشہ ہی جو کبھی لڑائی لڑی اور جب بھی نظام خلافت کے خلاف کوئی خفیف سی آواز کسی گوشہ سے بھی بلند ہوئی آپ خدا کے ایک بری پہلوان اور شیر کی طرح میدان مقابلہ میں اثر پڑے.آپ کا قبیلعی عقیدہ تھا کہ اگر کلمہ شریف کی تفسیر کی جائے تو اس تفسیر میں اس مسئلہ کا مقام سب سے بلند ہوگا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کلہ طیبہ اسلام کی احساس ہے مگر یہ کلمہ اپنے اندر جو تفصیلات رکھتا ہے اور جن امور کی طرف اشارہ کرتا ہے اُن میں سے سب سے بڑا امریکہ خلافت ہی
ہے جہاں تک عزا خاخاء کے ناپاک نظریہ کا تعلق ہے آپ اس کو اسلام کی روح کے سراسر خلافت سمجھتے تھے اور یقین رکھتے تھے کہ گو خلیفہ کا اقر را انتخاب کے ذریعہ سے ہوتا ہے لیکن بہیت (استخلاف) کی نہیں، صریح اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ امت کو اپنے فیصلہ کا اس امر میں ذریعہ بناتا پہلے اور اس کے دماغ کو خاص طور پر روشنی بخشتا ہے لیکن مقدریہ اصل میں اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے.چنا نچہ فرماتا ہے کیس تن افتم کہ وہ خود ان کو خلیفہ بنائے گالیوں کو شفاء کا انتخاب مومنوں کے ذریعہ سے ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا الہام لوگوں کے دلوں کو اصل حقدار کی طرف متوجہ کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ بتاتا ہے کہ ایسے منافاء نہیں نہیں فلاں فلاں خاصیتیں پیدا کر دیتا ہوں اور یہ خلفاء ایک انعام الہی ہوتے ہیں.ظاہر ہے کہ ایسے شخص کو امت اسلامیہ معزول نہیں کر سکتی این شخص کو تو شیطان کے پہلے ہی معزول کریں گے ہاتھ اللہ تعالیٰ کی مصلحت خاص نے حضرت مصلح موعود کے فولادی قلم سے اس سال عزل خلفاء کے ناپاک خیال کو پاش پاش کرنے کا ایک نیا موقع پیدا کر دیا.واقعہ یہ ہوا کہ لاہور کے ایک ادبی اور علمی اخبار "الرحمن نے ایک مضمون قدوسی کے اخباری نام سے شائع کیا جس میں نا دانستہ طور پر تاریخ اسلام کا ایک ایسا ورق چھپ گیا جس میں دوسری روایتوں کے ساتھ جبلہ بین ایم کے متعلق ایک ایسی کمزور روستا بھی آگئی جس میں نعوذ باللہ حضرت خلیفہ ثانی سید نا عمر رضی اللہ عنہ کو عبادہ بن صامت کے ملامت.کرنے کا ذکر تھا جس سے یہ تاثر پیدا ہو سکتا تھا کہ گویا اسلام کی رو سے معاذ اللہ خلیفہ برحق کا عزلی بھی جائز ہے.لہذا حضرت امیر المومنین نے ۲۴- اضاء ۳۳۰ امیش کو " اخبار الرحمت و عزل خلفاء کے عنوان سے ایک پر جلال تنقیدی نوٹ لکھا جس میں بتایا کہ قرن اول میں حضرت عثما رہے اور حضرت خار جیسے نامردو خلفاء نے مسئلہ عنوان خلفاء کے خلاف زبردست جہاد کیا اور ہزار وا مسلمانوں نے محض اس لئے ا تقریر حضرت خلیفہ مسیح الثانی جلسه سالانه ۶۱۹۳۹ " خلافتِ راشد صدا به سه خلافت ها شده سے یہاں مزید وضاحت کرنا ضروری ہے کہ جبہ، الرحمت نے یہ مضمون شائع کیا اس وقت نه تو یه اخبار شیخ روشن دین، صاحب تنویر مدیر الفضل کی ادارت میں نکلتا تھا اور نہ اسے جماعت کے ابی ترجمان ہی کی حیثیت حاصل تھی جے
۳۸۹ اپنی جانیں راہ حور میں نچھاور کر دیں کہ وہ اس باطل نظریہ کو ایک لمحہ کے لیئے بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے.علاوہ ازیں اسلام کے دور ثانی نہیں حضرت مولانا نورالدین خلیة البیع الاول رضی اللہ عنہ نے اپنے عمل سے اس نظریہ کا باطل ہونا ثابت کر دکھا یار پیس پیسٹ کیسی نئے احمدی اور نسلی احمدی کے لئے بھی کوئی نیا مسئلہ نہیں اور اس پر اسلام کے دورہ اقول اور ثانی میں ایک فید لہ من مسنگ امت مسلمہ کے لئے متعین ہو چکا ہے.اس سلسلہ میں حضور نے نہایت درجہ قوت و شوکت بھرے الفاظ میں تحریر فرمایا: اگر خلیفہ اسلام میں معزول ہو سکتا تھا تو یقیناً حضرت علی نے مجرم ہوں، کیونکہ ان کی اپنی تماعت کے ایک بڑے حقہ نے کہہ دیا تھا کہ ہم آپ کو خلافت سے معزول سمجھتے ہیں لیکن بجائے اس کے کہ قروسی کی روح کو خوش کرنے کے لئے سمرت علی خلافت چھوڑ دیتے انہوں نے تلوار میان سے نکال لی اور ہزارو ، ہزار خارجی کو قتل کر کے رکھ دیا.اگر خلیفہ معزول ہو سکتا ہے تو ان لوگوں کا قصور کیا تھا.وہ تو وہی بات کرتے تھے جس کا قرآن نے ان کو حتم دیا تھا.جب ایک مسلمان کا قتل بھیجی دو رخی بنا دیتا ہے تو کیا کہیں گے قدوسی سائب حضرت علی ترکی متعلقہ جنہوں نے ہزاروں، ہزار مسلمان کو اس مسئلہ پر منتقل کر کے رکھ دیا.دوسری مثال حضرت عثمان کی ہے حضرت عثمان سے بھی باغیوں کا یہی مطالبہ تھا کہ آپ خلافت چھوڑ دیں ہم آپ کو معزول کرتے ہیں.حضرت عثمان نے اپنے نرم مزاج ہونے کی وجہ سے تلوار تو نہیں نکالی لیکن خود اپنی جان قربانی کے لئے پیش کر دی اور عمل کا عقیدہ رکھنے والوں کا منہ کالا کر دیا.حضرت ابو بکر نے خلافت کی ضرورت کا مسئلہ ثابت کیا اور حضرت عثمان اور حضرت علی نے خلیفہ کے معزول نہ ہونے کا مسئلہ ثابت کیا.گویا ابتدائی خلافت راشدہ نے اپنے عمل اور اپنے فیصلہ سے ان مسائل کو حل کر دیا تھا اور پھر ہمارے زمانہ میں آکے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے عہدیہ، یہ سوال اُٹھا اور آپ نے فرمایا تم کون ہوتے ہو مجھے معزول کرنیوالے گویا ابتدائے اسلام اور ابتدائے احمدیت میں یہ سکے زیر بحث آئے یا اسے خدائے ذوالجلال کے خلیفہ موجود کے قلم مبارک سے نکلے ہوئے ان کلمات نے صور اسرافیل نیا نام دیا جس کے نتیجہ میں دنیا بھر کے مخلصین احمدیت خصومنا الرحمت کے مدیر اور اس اخبار کے نگران ناظر و عوت و تبلیغ کی خفته روحوں کو بیکا ایک بیدار کر دیا اور خلافت سے محبت کا پاک چشمہ جو الفضل ۲۸ اخاء ۱۳۳۰ تاش / اکتوبر ۱۹۵۱ء ص :
۹۰ اُن کے سیلیٹوں میں پہلے سے موجزن تھا اُن کی زبانوں اور فلموں سے بھی بھاری ہو گیا اور وہ نظام خلافت کے حقیقی اور جانثار خادموں اور چاکروں کی طرح اپنے پیارے امام کے حضور ندامت پھر سے الفاظ میں اپنی کوتاہی اور غفلت کا اظہار کر کے معافی کے خواستگار اور دعاؤں کے طلب گار ہوئے.چنانچہ ناظر صاحبه دعوت و تبلیغ کا معذرت نامہ الفضل میں چھپا اور ایڈیٹر صاحب" الرحمت نے نہ صرف قدوسی صاحب کے مضمون کی الرحمت ہمیں پھر زور تردید کی بلکہ منصور کی خدمت میں نہایت ادب کے ساتھ عراق کیا کہ :- و الرحمت کا کوئی مستقل دفتر نہ تھا.ڈاک کا کوئی معقول انتظام نہ تھا.مجھے دونوں طرف کام کرنا پڑتا تھا اور اکثر ادھر اُدھر بیٹھ کر ہی پر چہ ترتیب ہوتا تھا اور ڈاک اکثر دفتری دستبرد کی نذر ہو جاتی تھی لیکن اس کے باوجود یکی دفتری افراتفری کی آڑ نہیں لیتا غلیلی ہر حال غلطی ہے اور است تسلیم کرنے ہی ہمیں سنجات معضمر ہے اور یکں اس پر سخت نادم ہوں.خلافت ایک رحمت ہے ایک ، برکت جس کے عنقا ہو جانے کی وجہ سے نہ صرفت قوم کی جمعیت کا شیرازہ بکھر جاتا ہے بلکہ میرے نزدیک تو اس قوم پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارشیں بھی لڑک جاتی ہیں.خلافت کے عزل کا نا پاک خیال بھی دل میں لانا اپنی عاقبت اور اپنے انجام پر اپنے ہاتھوں کلہاڑا چلانے کے متراد من ہے.لیکس نے حضور کے ارشادات اور مکرم جناب ناظر صاحب کا اعلان پڑھنے کے بعد جتنی دفعہ بھی اپنے دل کو ٹٹولا ہے مجھے اُس میں مخلافت سے محبت ، ارادت اور والد ما نہ عقیدت کے سوا اور کچھ نہیں ملا اور یہی میرا سرمایہ حیا یہ ہے “ لے العرض الرحمت کے کالموں میں سمانہ عمل سے تعلق بظاہر چند ضمنی فقروں کی اشاعت جماعت احمدیہ میں خلافت کے بابرکت اور دائمی نظام کے ساتھ پہلے سے بڑھ کر عقیدت و اُلفت پیدا کرنے کا موجب بن گئی اِس طرح رحمت خداوندی نے شہتر کے اندر سے ہی بالآخر خیر و برکت کا نیا سامان پیدا کر دیا.تان اور لائلپورکے جلہ ایران میں ہنگام آرائی را و نبوت ان کر نوبر ۱۸ ریاه ۱۳۳۰ اہش 1951 کو جماعت احمدیہ کی طرف سے لائل پور اور ملتان میں حضرت خاتم الانبیاء امام الاصفیاء حضرت مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی ه الفضل الارنبوت ۱۳۳۰ ایش/ نومبر ۱۹۵۸ء مث :
سیرت ، فضائل و برکات اور ارفع اور فقید المثال شان پر روشنی ڈالنے کے لئے جلسے مقرر تھے جو ایک با قاعدہ سوئی کبھی سکیم کے ساتھ ہنگامہ آرائی ، قانون شکنی، تشد د انگیزی اور غنڈہ گردی کی نذر کر دیئے گئے.جماعت احمدیہ ملتان نے سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جلسہ کرنے کا مجله بر سر النبي ملتان انتظام پبلک جگہ بات لنگے میں کیا تھا.ضلع کے ذمہ دار افسران جناب ڈی سی تعا حسین اور ایس پی صاحب ملتان کو جماعت کی طرف سے، ایک وفد نے قبل از وقت اطلاع کر کے اجازت حاصل کرنی تھی.نیز جلسہ کے بجائے مقررہ پر انعقاد کا اعلان بذریعہ پوسٹر شہر بھر میں کر دیا گیا تھا پولیس کی کافی جمعیت قبل از وقت پہنچ گئی تھی.بعد ازاں سٹی انسپکٹر صاحب، پراسیکیوٹنگ ڈی.ایس پی صاحب اور دو سب انسپکٹر اور ڈیوٹی مجسٹریٹ صاحب بھی سلسہ شروع ہونے سے قبل پہنچ چکے تھے چنانچہ حسب اعلان ٹھیک دو بجے زیر صدارت مکرم مولوی احمد خان صاحب نسیم سابق مبلغ بڑا جلسہ کی کارروائی شروع کر دی گئی.تلاوت و نظم کے بعد صدر صاحب نے اعلان کیا که دوران تقاریر میں جس وقت ہمارے آقا و مولا سیدنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام آئے ہر شخص بلند آواز سے درود شریف پڑھتا ر ہے اور پہلی تقریر رحمۃ للعالمین کے موضوع پر مولوی عبد المحمود صاحب، مبشر مولوی فاضل شروع کریں.اس کے بعد مولوی صاحب موصوف نے اس پاکیزہ موہانوں پر نہایت ادب و احترام کے جذبات سے محبت بھرے الفاظ میں ابھی چند تمہیدی کلمات ہی کہے تھے کہ احراریوں نے جو ایک خاص منصوبہ کے تحت پہلے ہی بھاری تعداد میں جمع ہو چکے تھے مقرر کی طرقت ایک رقعہ بھیجا جو ابھی صدر جلسہ تک پہنچا بھی نہیں ہوگا کہ یہ لوگہ، ہلہ کر کے جلسہ گاہ میں نشور مچانے لگے ہم جلسہ نہیں ہونے دیں گے پہلے ہماری باتوں کا جواب دو " سر ظفر اللہ مردہ باد مرزا محمود مردہ باد" مرزا غلام احمد مُردہ باد اس نعرہ بازی کے ساتھ ہی شامیانہ کے بانس اور کیلے اکھیڑ نے شروع کر دیئے.دریاں کھینچنی شروع کر دیں اور احمدیوں سے دست و گریبان ہونے لگے اسی دوران میں پولیس کے جو آدمی پہلے دور بیٹھے ہوئے تھے شور و غوغات نکر پہنچے گئے اور بیچ بچاؤ ه حال ناظر اصلاح و ارشاد مقامی ربوه :
۳۹۲ شروع کر دیا مگر مشتعل ہجوم اپنی اسن شکن حرکات میں تیز تر ہوتا گیا.احمدیوں کو سختی سے روک دیا گیا تھا کہ وہ کسی گالی نیا کمینہ حرکات کا جواب تک نہ دیں بلکہ صبر سے کام لیں چنانچہ احمدیوں نے اس ہدایت پر پوری طرح عمل کیا جب صورت حال قابو سے باہر ہونے لگی تو پولیس نے چند سرغنوں کو ہتھکڑیاں لگا دیں مگر جلسہ گاہ سے باہر نہیں لے جاسکی.ڈیوٹی مجسٹریٹ صاحب نے یہ محسوس کر کے کہ صورت سرمائی ان کے قابو سے باہر ہے جلسہ بند کرنے کا حکم دے دیا اور ساتھ ہی اعلان کر دیا کہ اب جلسہ نہیں ہو گا لوگ چلے جائیں.اب جماعت احمدیہ نے تو ڈیوٹی مجسٹریٹ صاحب کے اعلان پر جلسہ بند کر دیا مگریہ شوریدہ سر اس مقام پہ جماعت احمدیہ اور جماعت کے بزرگان کے خلاف انتہائی اشتعال انگیزی اور دریدہ دہنی کا مظاہرہ کرتے رہے اور پھر سارے شہر کا چکر لگا کر احمدیوں کی دکانوں اور مکانوں کے سامنے کھڑے ہو کر خاص طور پر اشتعال انگیز اور دل آزار نعصر سے لگائے.چونکہ یہ جلسہ خالص مذہبی و دینی اور صرف آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے لئے مخصوص کیا گیا تھا جس میں استعمال کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی تھی اس لئے شرفار ملتان کی طرف سے ختم نہ ہے کے نام بنا و محافظوں کے اس فعل پر اظہار نفرت کیا گیا ہے جماعت احمدیہ لائل پور کا جلسہ سیرت النبی کمپنی باغ لائلپور میں منعقد ہو رہا جلسه سیرت النبی لا پلیور تھا جس کی اطلاع ایک روز پیشتر پولیس کو دے دی گئی تھی.دو بچے جلسہ کا وقت تھا لیکن ڈیڑھ بجے کے قریب احراریوں نے شہر کے لوگوں کو اکٹھا کیا اور احمد یہ پنڈال کے قریب آکر اپنا اڈہ لگا دیا.اس امر کی اطلاع فوراً پولیس کو کر دی گئی.ابھی پولیس نہیں پہنچی تھی کہ یہ لوگ احمدیوں کے پنڈال میں گھس آئے اور کھڑے ہو کہ اعلان کیا کہ احمدیوں کا جلسہ ہر گز نہیں ہونے دیں گے.یہ کہہ کر انہوں نے اپنے ساتھیوں سمیت احمد یوں پر حملہ کر دیا.گوسیاں اُٹھا کر احمدیوں پر پھینکنی شروع کر دیں اور سامان توڑنا شروع کر دیا.احمدیوں نے بمشکل تمام اس حملے کو روکا.اتنے میں پولیس انسپکڑ صاحب معہ دو تین سپاہیوں کے پہنچ گئے مگر حملہ آوروں نے ان سے بھی صاف کہہ دیا کہ وہ احمدیوں کا جلسہ ہر گز نہیں ہونے دیں گے اور پھر دوبارہ انسپکڑ کی موجودگی میں پنڈال پر حمد کر دیا جیسے احمدی رضا کاروں نے بمشکل تمام اد الفضل ۱۲۱ نبوت ۳۳۰، ہمش / نومبر ۱۹۵۱ء صنف :
م روکا.احراریوں کو بے قابو دیکھے کہ اس اثناء میں انسپکڑا پولیس صاحب نے مزید جمعیت پولیس منگوائی احراریوں کا کثیر مجمع ہو چکا تھا جو مزید پولیس کے آنے پر کچھ تو منتشر ہو گیا اور باقی وہیں رہا.ہاں بعد ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر صاحب اور سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس اور مجسٹریٹ صاحب موقع پر پہنچے اور انہوں نے یہ سارا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا.اس شور و شر کے دوران سلسہ کی کارروائی بند رہی اور پھر لاؤڈ سپیکر کے بغیر تقریر کی اجازتے ہو گئی اور سلسلہ احمدیہ کے ممتاز عالم مولانا ابو الحط اور صاحب نے سیرة النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر تقریر فرمائی.پولیس نے موقع پر دنوں کے قریب فتنہ پردازوں کو گرفتار کیا اور ۲۵ احمدی خلیے کے اندر سے گرفت ام شه کرلئے جو ۲ بجے شب عمانت پر رہا کر دیئے گئے.یہ لیسہ ایک متر ز غیر احمدی دوست اور لائل پور کے سابق سرکاری وکیل چوہدری شریف احمد صاحب ایڈووکیٹ لائل پور کی صدارت میں ہوا جنہوں نے اخلاقی جرات سے کام نے کرمعزز سپر نٹنڈنٹ صاحب پولیس اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر صاحب کو توجہ دلائی کہ احرار نے احمدیوں پر ظلم و تعدی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہلے باکانہ حملہ کیا ہے لیے در اصل ضلع لائل پور میں احمدیوں کے خلاف منظم حملہ اور اعلانیہ قانون شکنی کا یہ پہلا واقعہ نہیں تھا بلکہ اس سے پیشتر مندرجہ ذیل واقعات حکومت اور پولیس کے نوٹس میں لائے جا چکے تھے:.-۱- شوریدہ سروں نے اپنے اخبار میں اعلان کرنے کے بعد مولوی فضل دین صاحب بنگوی احمدی پر کارخانه با زائد لائل پور میں قاتلانہ حملہ کیا.تھیلی ا.ان کے صدر نے دھوبی گھاٹ کی گراؤنڈ میں نہایت اشتعال انگیز تقریر کی جس میں حضرت امام جماعت احمدیہ پر ناپاک جملے اور احمدیوں کے خلاف قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی تلقین کی.۳- مولوی محمد اسمعیل صاحب مبلغ جماعت احمدیہ لائل پور پر بازار میں حملہ کیا گیا.- مسجد احمدیه سمندری روز روشن میں نذر آتش کر دی گئی.- ٹوبہ ٹیک سنگھ میں احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیز تقریریں کی گئیں جن میں ایک مخلص احمدی پیر محمد یوسف صاحب بی.اے کے منملان قتل اور حملہ کرنے کی تلقین کی گئی..اسی طرح آئے دن لائل پور کے اخبارات میں روز بروز من گھڑت جھوٹے فتنے چھاپ کر لوگوں لے فریقین کا چالان ہوا اور دو سال تک مقدمہ چلتارہا اور پھر یہ دونوں مقدمے حکومت نے واپس لے لئے الفضل ۲۰ نومبر ۱۹۵۱ء صفحه ۲ سے رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب صفحه ۲۹ - ۱۹۵۳ء
۳۹۴ کو احمدیوں کے خلاف اکسایا گیا ریٹ الغرض لائل پور اور اس کے مضافات میں ختنہ انگیزی کا باقاعدہ سلسلہ جاری تھا اور اس کی ایک کی سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس جلسہ پر حملہ کی صورت میں ظاہر ہوئی جس نے تحفظ ختم نبوت" سے متعلق احرار کے سب بلند بانگ اور بے بنیا د دعاوی کی قلعی کھول کر رکھ دی.الجبار یدیہ کا دوبارہ اجراء اور حضرت مصلح موعود کا ہفتہ وار اخبار بور جو اخبار الحكم کی بدر“ طرح سلسلہ احمدیہ کے ابتدائی دور کی پر معارف افتتا حی مضمون تاریخ کا امین و پاسبان اور حضرت مسیح موعود و مهدی محمود کا دست و بازو تھا اور ۱۹۱۳ء میں بند ہو چکا تھا ۲۰ ریاہ فتح ۱۳۳۰ ہش کر دسمبر ۱۹۶۵ء کو دوبارہ قادیان سے جاری کر دیا گیا.بدر کے دور جدید کا پہلا پرچہ نمونے کا تھا جس کے بعد ، رامان ۱۳۳۱ پیش / مارچ ۱۹۵۲ء میں یہ باقاعدگی سے شائع ہونے لگا.شروع میں مولوی ہو گیا احمد صاحب را جی کی اس کے ایڈیٹر اور مولوی محمد حفیظ صاحب بقا پوری اس کے نائب ایڈیٹر مقرر ہوئے.بار تبلیغ ۳۳۳ اش / فروری ۱۹۵۴ء سے لیکہ ۲۸ طور ۱۳۳۵ / اگست ۱۹۵۶ء تک ملک صلاح الدین صاحب ایم.اپنے نے اس کی ادارت کے فرائض انجام دئے جس کے بعد در تبوک ۱۳۳۵ است رستمبر ۶۱۹۵۶ سے اس وقت تک مولوی محمد حفیظ صاحب بقا پوری اِس کے ایڈیٹر ہیں اور نہایت جانفشانی اور کامیابی سے یہ اپنا فرض منصبی بجا لا رہے ہیں.حضرت مصلح موعود نے بدر کے باقاعدہ اجر اسم حسی بیان اختتامی مضمون سپر و قلم فرمایا جو اسکی را نائن ۳۳۱ امیش کی اشاعت میں صفحہ اول پر شائع کیا گیا :- اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم : نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود له الفضل ۲۰ نبوت ۳۳۰۰ میش/ نومبر ۱۹۵۱ء ست به ته سے بر سطور ه ار ما دانستنی ۱۳۷۲ ش ( مطابق دار دسمبر ۱۹۷۳ء) کو لکھی جارہی ہیں ؟
۳۹۵ هو الن خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ اصر برادران جماعت احمدیہ ہندوستان! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته اللہ تعالیٰ کی مشیت اور اس کے خاص تصرف کے ماتحت ہندوستان کی جماعتیں اب پاکستان اور ہندوستان کے نام سے دو حصوں میں تقسیم ہو چکی ہیں.اور نہ صرف یہ کہ سیاسی طور پر تقسیم ہو چکی ہیں بلکہ بین المکتی اختلافات کی وجہ سے آپس میں میل جول بھی بہت ہی محدود رہ گیا ہے جسکی وجہ سے ہندوستان کی جماعتیں پاکستان میں شائع شدہ لٹریچر سے خواہ وہ موقت الشیوع ہویا مستقل ہو بہت حد تک محروم رہ گئی ہیں.ان حالات میں یہ ضروری تھا کہ قادیان سے ایسے لٹریچر شائع کرنے کی تدبیر کی جاتی جو کہ آسانی کے ساتھ ہندوستانی جماعتوں تک پہنچ سکتا.چنانچہ اس بات کے مد نظر یکیں نے صدر انجمن احمدیہ قادیان کو بار بار ہدایت کی کہ وہ کم سے کم ایک ہفتہ واری اخبار قادیان سے جاری کرنا شروع کریں تاکہ قادیان اور ہندوستان کی دوسری جماعتوں میں اتصال واتحاد پیدا ہو.مجھے اطلاع دی گئی ہے کہ بدر کے نام سے ایسے اخبارت جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور وہ عنقریب شائع ہونیوالا ہے.یہ مضمون میں اسی اخبار کے لئے بھیجوا رہا ہوں.سب سے پہلے تو یکی اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ اس اخبار کو بہتر سے بہتر کام کرنے کی توفیق بخشے، اور اس اخبار کو پھلانے والوں کو ظاہری اور باطنی علوم عطا کرے جن سے وہ قوم اور ملک کی صحیح راہنمائی کر سکیں اور جماعت احمدیہ کو اس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اس اخبار کو خرید کر اخبار کی اشاعت کو وسیع سے وسیع کرتے چلے جائیں اور ملک کے ہر گوشہ میں اسے پھیلا دیں یہاں تک کہ یہ اخبار روزانہ ہو جائے اور وسیع الاشاعت ہو جائے.اس اخبار کا نام بد ر رکھا گیا ہے اور یہ نام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پسندیدہ تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے رویا اور کشوف شائع کرنے میں ایک زمانہ میں اس اخبار کو خاص اہمیت حاصل ہو گئی تھی کیونکہ مفتی محمد صادق صاحب ہی اس کے ایڈیٹر تھے اور مفتی محمد صادق قنا ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ و السلام کے پرائیویٹ سیکرٹری کا کام کرتے تھے اس لئے انہیں اللہ کے چار سے جلد حاصل کرنے کا موقع دوسروں سے زیادہ مل جاتا تھار یکی امید کرتا ہوں کہ اب ان
۳۹۶ الہامات کی تشریح اور تفسیر اور اُن کا مقصد اور مدعا بتانے اور شائع کرنے میں یہ اخبار رہے گا.برادران.ہم سب جانتے ہیں کہ یہ وقت ہندوستان اور پاکستان کے لوگوں کے لئے بڑا نازک ہے اور شجاعت کیلئے خصوصاً نازک ہے مگر ہم ایک ایسے خدا کے بندے ہیں اور اس پر ایمان اور قین رکھتے ہیں جس کے ایک اشارہ سے دنیائیں پیدا ہوتی اور ٹتی ہیں اور قومیں ابھرتی اور کرتی ہیں اور حکومتیں قائم ہوتی اور تباہ ہوتی ہیں.ہیں ہمارے حوصلے دوسرے لوگوں کے حوصلوں کی طرح نہیں ہونے چاہئیں.جن کا کام خدا نے کرنا ہے اُنہیں ایسے حالات کی طرف نگاہ کرنا جائز ہی نہیں ہو سکتا آپ لوگ خدا کا ہتھیار ہیں.آپ لوگ خدا کی تدبیر ہیں.آپ لوگ وہ نیا بیچ ہیں جو خدا تعالیٰ نے دنیا میں بکھیرا ہے.نہ خدا کا ہتھیار کند ہو سکتا ہے.نہ خدا کی تدبیر ضائع ہو سکتی ہے.نہ خدا کے پھینکے ہوئے بیجوں کو کیڑا کھا سکتا ہے.پس اپنی نظریں آسمان کی طرف رکھو اور زمین کی طرف مت دیکھو.یہ نہ دیکھو کہ تمہارے دائیں بائیں کون ہے بلکہ یہ دیکھو کہ تمہارے سر پر کس کا سایہ ہے.محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا تمہارے ہاتھوں میں ہے اور فرشتوں کی فوجیں تمہارے پیچھے ہیں سچائی اور حق اور انصاف کو تم نے قائم کرنا ہے.نیکی اور تقویٰ کو تم نے دنیا میں پھیلاتا ہے.آئندہ دنیا کی زندگی اور اُس کی ترقی تمہارے ساتھ وابستہ ہے.اور کائنات کی حرکت تمہارے اشاروں پر تیز یا سست ہونے والی ہے.اپنی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو تبلیغ کو وسیع کرو.زیادہ سے زیادہ کچھبتی یکرنگی اور اتحاد پیدا کرو.اپنے مرکز کے ساتھ تعاق کو مضبوط کرو اور ایسا کبھی نہ ہونے دو کہ تمہیں قادیان آنے کی فرصت حاصل ہو اور تم اس سے فائدہ نہ اٹھاؤ.دنیا تم پر ہنس رہی ہے.اس لئے کہ تم پارہ پارہ ہو چکے ہو لیکن خدا کے فرشتے آسمان پر تمہار سے لئے ہنس رہے ہیں اس لئے کہ تم فاتح، کامیاب اور کامران ہو.اندھا جو کچھ بیان کرتا ہے وہ قابل اعتبار نہیں نابینا جوکچھ دکھتا ہے وہ بیچ ہے پس خدا کی باتوں پر یقین رکھو اور لوگوں کی باتوں پر کان نہ دھروہ ہو گا وہی جو خدا چاہتا ہے خواہ اس امر کے دستہ میں مشکلات کے پہاڑ ہی کیوں نہ ہوں.اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو اور تم کو ایسے طریق پر کام کرنے کی توفیق دے کہ خدا کے فضلوں کی بارشیں تم ہے ہوا اور ہمیشہ ہوتی رہے.آئین کے ہفت روزه اخبار بار قادیان ۷ - امان ۳۳۱ اش از مارچ ۶۱۹۵۲ م *
٣٩٧ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اخبار بدر کے ذریعہ ہندوستان بھر میں اسلام و اخبار بد کی اہمیت | احمدیت کا نور رضایت تیزی سے پھیل رہا ہے اور قدیم الہی نوشتوں کے مطابق وہ دن جلد یا بدیر بہر حال آنے والا ہے جبکہ دوسری تمام دنیا کی طرح ہندوستان میں بھی اسلامی حکومت کا پرچم پوری شان و شوکت سے ہرانا شروع ہو جائے گا.چنانچہ حکیم الملت حضرت ستید ولی اللہ شاہ صاحب محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کشفی قوت اور آسمانی بصیرت کی روشنی میں یہ حیرت انگیز پیش گوئی کی " إِنِ اتَّفَقَ غَلَبَةُ الْهَنُوْدِ مَثَلًا عَلَى إِقْلِيمِ هِنْدَوَستَانِ غَلَبَةً مُسْتَقَرَّةً عامَةً وَجَبَ فِي حِكْمَةِ اللَّهِ أَنْ يُلْهِمَ رَؤُسَاتَهُمُ الشَّدِينَ بِدِينِ الْإِسْلَامِ كما الهم الترك له یعنی اگر ہندوؤں نے کسی زمانہ میں بر صغیر ہند پر اپنا قبضہ و تسلط قائم کر کے غلبہ پالیا تو حکمت خداوندی کی رو سے بھی واجب ہو جائے گا کہ اللہ تعالیٰ ہندوؤں کے لیڈروں کو دین اسلام کے قبول کرنے کا الہام کرنے جیسا کہ اُس نے ترکوں کو الہام فرمایا تھا ( اور وہ محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم ) کی غلامی میں شامل ہو گئے).علاوہ ازیں زمانہ حاضر کے امام موعود مهدی مسعود علیہ السلام نے خدا سے علم پا کر تنظیم الشان خبر دی که : مجھے یہ بھی صاف لفظوں میں فرمایا گیا ہے کہ پھر ایک دفعہ ہندو مذہب کا اسلام کی طرف زور کے ساتھ رجوع ہوگا " سے نیز فرماتے ہیں سے خوب کھل جائے گا لوگوں پر کہ دیں کس کا ہے ہیں ، پاک کر دینے کا تیر تمتد کعبہ ہے یا ہر دوار ران خدائی بشارتوں کی روشنی میں دروایشان قادیان ، جماعت احمد یہ ہندوستان اور ان کے واحد مرکزی ترجمان "بدر" کی ملک گیر تبلیغی بعد و جہد کا حقیقی مقام بآسانی متعین کیا جاسکتا ہے.ة التقيمات الا یہ جلد اول ص از حجة الاسلام اشیخ قطب الدین شاہ ولی اللہ المتوفی 114 هـ ) طبع مدینہ برقی پریس بجنور.یونی که اشتهار ۱۲ ر با سره ۲۶۱۸۹۷
فصل پنجم حضرت امیر الموني المصلح الموعود علم معرف سے لبریز تقاریر را سالانہ جلسہ کوہ سہ کی مقدس تقریب پر یہ ۱۳ ۶۱۹۵۱ جماعت احمدیہ کا سالانہ جلسہ ربوہ حسب معمول اس سال سالانہ جلسہ یوں سہ کا انعقاد بھی ۲۶ تا ۲۸ یا فتح / دسمبر کو اپنی مخصوص دینی روایات ۶۱۹۵۱ اور خالص اسلامی اور روحانی ماحول میں منعقد ہوا.ہزار ہا پاکستانی احمدیوں کے علاوہ امریکہ ، انگلستانی ترکی ، جرمنی، فرانس ، سوڈان ، حبشہ چیں چھینی ترکستان اور انڈونیشیا وغیرہ ممالک کے بعض احمدی بھی اس با برکت اجتماع میں تشریف لائے.اے علاوہ ازیں پاکستان کے بعض ممتاز صحافیوں نے بھی شرکت کی اور حضرت امام جماعت احمدیہ کی پری جذب و کشش شخصیت ، جماعت احمدیہ کی وحدت و تنظیم اور بعد یہ ایثار و عمل سے غایت درجہ متاثر ہوئے جیسا کہ ضمیمہ سے منسلک ایک پرانی یادداشت سے بھی پتہ چلتا ہے جو الفضل کے موجودہ ایڈیٹر مسعود احمد خان صاحب دہلوی کے قلم سے لکھی ہوئی.آپ ان دنوں اخبار الفضل کے نمائندہ خصوصی کی حیثیت سے دوسرے صحافیوں کے ساتھ شامل جلسہ ہوئے تھے.سید نا حضرت مصلح موعود نے اس تقریب پر اپنے مستقبل دستور کے مطابق مردانہ جلسہ گاہ سے تین بار خطاب فرمایا اور آپ کی علم و عرفان سے لبریز تقریروں نے مومنوں کے دل و دماغ کو قرآنی انوار الفضل تحکیم صلح ۱۳۳۱ مش / جنوری ۱۹۵۲ء ص : که قبل ازیں حضور جلسہ سالانہ کے موقع پر احمدی خواتین میں الگ بھی تقریر فرمایا کرتے تھے لیکن اس دفعہ خود عورتوں نے اپنے اس شوق کو چھوڑنے پر آمادگی کا اظہار کیا البتہ یہ خواہش کی کہ حضور مردانہ جلسہ گاہ میں ہی عورتوں سے بھی کچھ خطاب فرما دیں چنانچہ حضور نے اس درخواست کو شرف قبولیت بخشا اور لبینات کو تبلیغ ، چندہ دفتر لجنہ اور چندہ مسجد ہالینڈ کی طرف تو حید دلائی.(الفصل ہر صبح ۱۳۳۱ ایش هما ) |
جلسه سالانه ربوه ۳۳۰اهش ۱۹۵۱ء کے روح پرور نظارے
سے منور کیا اور جماعت احمدیہ کے افراد میں خاتم الانبیاء حضرت محمدمصطفے صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت و شیفتگی کی نئی شمعیں روشن کر دیں.مخالفت کو انعام سمجے اور سالانہ جلسہ کے ایام کو حضرت امیر مومنین نے اپنی اختصاص تقریرہ میں ارشاد فرمایا :- شکر گزاروں کی طرح سر کرنے کی تلقین و حقیقت سب سے محفوظ مقام سب سے عزت والا مقام ، سب سے مزے والا مقام اس وقت اگر دنیا میں کسی کو حاصل ہے تو وہ آپ لوگوں کو ہی حاصل ہے.دنیا کے بڑے سے بڑے بادشاہ ، دنیا کے بڑے سے بڑے عالم ، دنیا کے بڑے سے بڑے حکمران ، دنیا کے بڑے سے بڑے لیڈر انسانی امداد پر بھروسہ کرتے ہیں.ان کی تکلیفوں کے وقت کچھ انسان آگے آتے ہیں مگر تمہاری تکلیفوں کے وقت خدائے واحد خود آسمان سے اتر آتا ہے.پس یہ ایام بہترین ایام ہیں جو کسی قوم اور کسی فرد کو کبھی حال ہوئے ہوں یہیں وہ نام ہے ہو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جماعت کو حاصل ہوا.یہی وہ انعام ہے جو حضرت علیسی کی جماعت کو حاصل ہوا یہی وہ انعام ہے جو حضرت موسی کی جماعت کو حاصل ہوا.اور یہی وہ انعام ہے جس کے لئے خدا نے ہمیں یہ دعا سکھائی له ہے کہ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ.پس یہ چیز جو کہ بہترین انعاموں میں سے ہے اور وہ ضلعت جو ہمیشہ ہی اللہ تعالیٰ کے خاص لوگوں کو پہنایا جاتا ہے وہ آج آپ لوگوں کو پہنایا گیا ہے اور درحقیقت ہم اس لئے بھی یہاں جمع ہوئے ہیں تاکہ اپنے رب کے حضور میں اپنا اظہار تشکریہ کریں اور اس کی خدمت میں عرض کریں کہ ہم اس انعام کی قدر کرتے ہیں جو آپ کی طرف سے ہم پر نازل کیا گیا ہے.پس اپنے ان ایام کوشکر گذاروں اور قدر دانوں کے ایام کی طرح گزار و لغو باتوں ، فضول باتوں اور بیکار باتوں میں اپنے اوقات صرف مت کرو یا نہ سید نا حضرت مصلح موعود نے اپنے دوسرے روز کی پر معارف تغیرات عالم اور جماعت احمدیہ تقریر میں جو کم ہی ہونے چا رکھنے تک جاری رہی جماعت احمدیہ کی عالمگیر تبلیغی تربیتی اور بالی سرگرمیوں پر مفصل تبصرہ کرنے اور اس کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے بتایا کہ : له الفاتحه : 4-6 : له الفضل علیم صلح ۱۳۳۱ شد / جنوری ۶۱۹۵۳ ص۲
اس سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے تبلیغی مشنوں میں اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجہ میں ہماری تبلیغ میں وسعت پیدا ہوئی ہے اور جماعت نے ترقی کی ہے جس مقام پر ہم آج ہیں یقینا گذشتہ سال وہ مقام ہمیں حاصل نہ تھا اور جس قسم کے تغیرات اِس وقت رونما ہو رہے ہیں ان سے پتہ پہلتا ہے کہ جس مقام پر ہم آج ہیں آئندہ سال انشاء اللہ ہم اس سے یقیناً آگے ہوں گے.یہ تغیرات نہ تمہارے اختیارات میں ہیں نہ میرے یہ خدا تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہیں.پس انسانی تدابیر کو نہ دیکھو بلکہ خدائی تقدیر کی اُنگلی کو دیکھو جو یہ بتا رہی ہے کہ حالات خواہ اچھے ہوں یا بڑے احمدیت کی گاڑی پھر خیال چلتی جائے گی.انشاء اللہ نے حضور نے عالم اسلام کے مختلف اہم مسائل پر تبصرہ کرتے ہوئے عالیم اسلام کے مسائل پر تبصرہ فرمایا :- اور دعائے خاص کی تحریک اس سال ہمارے علاوہ عام مسلمانوں کے لئے کی کافی مشکلات رہی ہیں.مثلاً کشمیر کا مسئلہ ہے جو حل ہونے میں ہی نہیں آتا.میرے منہ دیک اس مسئلہ کو یوں غیر معین بوھہ کے لئے ملتوی کرنا قرین مصلحت نہیں ہے.ایک لمبے عرصہ تک باشند گانی کشمیر کو ایک غیر ملکی حکومت کے ماتحت رہنے دینا اور پھر یہ امید کرنا کہ وہ ہمیں ووٹ دیں گے کوئی ایسی تشفی کی بات نہیں ہے.پھر ہمارے ملک میں اسی سال نواب زادہ لیاقت علی صاحب کا قتل بھی ایک افسوسناک واقعہ ہے جو نتیجہ ہے مولویوں کے اس پر اپیگینڈا کا کہ جس سے اختلاف رائے ہو بے شک اسے قتل کر دیا کرو مسئلہ فلسطین بھی کشمیر کے مسئلہ سے کم اہم نہیں ہے.یہ ایک چھوٹا ساملک ہے اور وہاں لاکھوں مہا جرین کو آباد کرنے کا سوال درپیش ہے.پاکستان کو یہ سہولت تھی کہ یہ ایک وسیلح ملک ہے جہاں مہاجرین کافی تعداد میں بسائے جا سکتے تھے لیکن وہاں یہ حالت نہیں ہے.مہاجرین کی آبادکاری کے سوال کے علاوہ اس مسئلہ کا ایک نازک اور اہم پہلو یہ ہے کہ ہمارے آقامحمدمصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے جوار میں دشمن اسلام کو بیسا دیا گیا ہے.میں نے تو ابتداء میں ہی اس حدت کا اظہار کیا تھا لیکن اب تو یہودی علانیہ اپنی کتابوں میں مدینہ منورہ اور مکہ معظمہ پر قابض ہونے کے ناپاک عزائم کا اظہار کے لئے لگے ہیں.علاوہ از محمد ایران میں تبیل کا مسئلہ، مصر کا برطانیہ سے تنازعہ، سوڈان کی بے چینی اور شام کے فسادات یہ سب ایسے امور ہیں له الفضل ٢ صلح ۱۳۳۱ ش ص
جو مسلمانوں کے لئے تکلیف دہ ہیں.ہم تعداد میں بہت تھوڑے ہیں اس لئے ان مشکلات کے ازالہ کے لئے کمالا زیادہ حصہ نہیں لے سکتے لیکن کم از کم دعا کا ہتھیار تو ہمارے پاس ہے پیس آؤ ہم دعا کریں کہ اللہ تعا لئے مسلمانوں کی ان مشکلات کو اپنے خاص فضل سے دور کرے اور نقصان کی بجائے ان مشکلات کو اسلام کی ترقی کا ذریعہ بنائے لے اس جلسہ سے کچھ عرصہ پیشتر مخالف احمدیت اخبار نے حکومت پاکستان عقیدہ احمدیت کی فاتحانہ شان کو امام جاعت احمدیہ کے خلاف کاروائی کرنے کا مشورہ دیا تھا.حضرت امیر المومنین امصلح الموعود نے ایسے اخبار نویسوں کو مخاطب کرتے ہوئے ملال انگیز الفاظ میں کہا:.تمہارے کہنے پر حکومت بے شک مجھے پکر سکتی ہے قید کر سکتی ہے مار سکتی ہے لیکن میرے عقیدہ کو وہ دیا نہیں سکتی اس لئے کہ میرا عقیدہ جیتنے والا عقیدہ ہے اور وہ یقیناً ایک دن جیتے گا تب ایسا تکبر کرنیوالے لوگ پشیمان ہونے کی حالت میں آئیں گئے؟ لیکن ساتھ میں فرمایا :.خواہ اُس وقت یکی ہوں یا میر قائم مقام تم سے بھی ہر حال پوست و الا سلوک ہی کیا جائے گایہ ہے.حضرت مصلح موعود نے عقیدہ احمدیت کی اس فاتحانہ شان کی ایک دوسرے موقع پر مزید تشریح بھی کی اور فرمایا کہ احمدیت صداقت اور سچائی پھیلانے آئی ہے اس لئے ایک وقت آنے والا ہے کہ 99 فیصدی لوگ اس میں داخل ہو جائیں گے اور اس وقت باقی لوگ یہ خیال کریں گے کہ شاید اب احمدی ان کے عضلات فتوی دیں گے لیکن...جب خدا تعالی ہمیں اکثریتعطا کرے گا تو ہم باقی لوگوں سے کہیں گے کہ جو باتیں تمنے پہلے کسی ہیں ہم وہ بھی معاف کرتے ہیں اور آئندہ بھی تم اپنا اختلاف ہم سے ظاہر کر سکتے ہویے کبھی تم نے کوئی ایسی صداقت بھی دیکھی ہے یا دنیامیں کوئی ایسی سچائی بھی آئی ہے جس نے یہ اعلان کیا ہو کہ وہ گھٹے گی بڑھے گی نہیں.کیا حضرت موسی علیہ السلام یہ نہیں کہا کرتے تھے کہ وہ بڑھیں گے گھٹیں گے نہیں.اور جب حضرت موسی علیہ السلام کہا کرتے تھے کہ وہ بڑھیں گے گھٹیں گے نہیں تو کیا وہ اس وقت فساد کرتے تھے اور سرزنش کے قابل تھے.کیا حضرت عیسی علیہ السلام یہ نہیں کہا کرتے تھے کہ وہ بڑھیں گے گھٹیں گے نہیں.اور جب وہ کہا کرتے تھے ہم بڑھیں گے گھٹیں گے نہیں تو کیا وہ فساد کرتے تھے یا شرارت کرتے تھے له الفضل بر صلح ۱۳۳۱ ش / جنوری ۱۹۵۲ من له الفضل سور صلح ۱۳۳۱ مش / جنوری ۲۱۹۵۲ م اور چوں کہ احمدیت سچائی اور صداقت پھیلانے آئی ہے.
اور کیا وہ قابل مواخذہ تھے.پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی یہی بات کہی کہ ہم بڑھیں گے گھٹیں گے نہیں.اور جب آپ نے یہ بات کی کہ ہم بڑھیں گے گھٹیں گے نہیں تو کیا آپ فتنہ پھیلا رہے تھے.یہ بات تو عقل کے ہی ملا منہ ہے.جو صداقت بھی دنیا میں آئے گی وہ یوں کہنے گی کہ ہم نے بڑھنا ہے.سچائی کی علامت بھی یہی ہوتی ہے کہ وہ بڑھے.کیا کسی کا کسی عقیدہ کو صحیح سمجھے کہ مان لیناخت نہ ہوتا ہے، ہر گز نہیں.اگر ہم انگلینڈ میں جا کر کہیں کہ ہم یہاں اتنی تبلیغ کریں گے کہ بادشاہ بھی احمدی ہو جائے گا تو یہ فتنہ نہیں ہو گا.یہ فساد نہیں ہوگا.وہ اتنا ہی کر سکتا ہے کہ کہ دے کہ میں احمد می نہیں ہوتا ہم کہیں گے اچھا تم احمدی نہ ہوئے تو تمہاری اولاد احمدی ہو جائے گی.یہ صداقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا.کجا یہ کہ اسے ختنہ کہا جائے.جب ہم سجھتے ہیں کہ احمدیت بہتی ہے توہم یہ یقین بھی رکھتے ہیں کہ نوے فیصدی تو کیا اس سے بھی زیادہ لوگ اس میں داخل ہوں گے ڈالے تحریک احمدیت کے دن بنیادی اصول عقیدہ احمدیت کیوں جیتنے والا ہے ؟ اس کی تشریح و تو ضیح میں حضرت مصلح موعود نے اپنی اس تقریر کے دوران اور ان کی برتری نهایت لطیف پیرایہ میں بتایا کہ عقیدہ وہی درست ہوسکتا ہے جس کی تائید عقل و نقل اور جذبات صحیحہ سے ہوتی ہے اور احمدیت کا ہر عقیدہ اس معیار پر پورا اترتا ہے.اس سلسلہ میں حضور نے بطور نمونہ احمدیت کے مندرجہ ذیل دش اصول کا ذکر فرمایا :- ا.تمام انسان جو اب تک پیدا ہوئے اپنا کام ختم کر کے فوت ہو چکے ہیں.خواہ وہ بڑے ہوں خواہ چھوٹے ، خواہ روحانی بزرگ ہوں یا ماری..رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم ان معنوں میں خاتم النبیین تھے کہ تمام سابقہ نبیوں کی نبوت آپ کی صلی تصدیق کے بغیر ثابت نہیں ہو سکتی اور آئندہ آنے والے مامورین بھی آپ کی مہر سے ہی کسی در سبہ کو پہنچ سکتے ہیں محض آخری ہونا کوئی فخر کی بات نہیں.ہو.اسلام کا روحانی غلبہ تمام دنیا پر ہو گا.العام اللی کا دروازہ قیامت تک کھلا ہے.۵ - قرآن کریم ایک زندہ ، نا قابل منشوخ اور ایک غیر محدود و مطالب والی کتاب ہے.الفضل ١٣ تبليغ ۳۳ اش / فروری ۱۹۵۲ ص ۹۳۳
۶ - خدا تعالٰی ہمیشہ اپنی قدرتوں کے ذریعہ سے اپنے آپ کو ظاہر کرتا رہتا ہے.ے.مذہب کی بنیاد اخلاق پر ہے.A قانون شریعت اور قانونِ قدرت کا متشارک اور متشابہ ہونا ضروری ہے.9 - اسلام کے تمام احکام حکمت پر مبنی ہیں اور اسی وجہ سے قرآن کریم کے مطالب میں ترتیب پائی جاتی ہے.۱۰.خدا تعالیٰ ہمیشہ ایسے آدمی پیدا کرتا ہے جو تزکیہ نفس کہ ہیں.اس کے بعد حضور پر نور نے اپنی وشی اصولوں میں سے ایک ایک کو نہر وار کیا اور آفتاب عالمتاب کی طرح ثابت کر دکھا یا کہ تحریک احمدیت کا ہر نظریہ، ہر اصول اور ہر عقیدہ عقل و نقل اور جذبات صحیحہ کے عین مطابق ہے.اس لئے یہ قطعی اور یقینی بات ہے کہ عقائد احمدیت ہی امور کو نیا میں قائم ہوں گے.اے مثلاً حضرت مسیح موجود علیم الصلاة والسلام نے دنیا کے اسلام کے رومانی غلبہ کا شاندار تصو کااور سامنے ہر اصول پیشین فرمایا کہ اسلام کا روحانی غلبہ تمام دنیا میں ہو گا.حضرت مصلح موعود نے نہایت اثر انگیز طریق اور ایک تجدید اور سائینٹفک طرز سے اس اصول کی حقانیت بیان کی اور احمدیت کے نقطہ نگاہ سے اسلام کے مٹھ حالی نظلہ کا شاندار تصور پیش کرتے ہوئے فرمایا :- یہ اصل بھی نہایت اہم ہے اور مسلمان بغیر اس مطمح نظر کے دنیا میں کبھی بھی حقیقی سر بندی حاصل نہیں کر سکتے.یہ عجیب بات ہے کہ مسلمان پہلے تو اس اصل کو کسی نہ کسی شکل میں تسلیم کرتا تھا مگر اب ہمار می مخالفت میں اُس نے اس اصل کو بھی چھوڑ دیا ہے.پہنے کہتا تھا کہ مسیح اور مہدی دنیا ہیں آئیں گے تو سب کفار کو مسلمان بنا لیں گے اور گو وہ کہتا ہی تھا کہ تلوار کے زور سے مسلمان بنا ئیں گے مگر یہ سیدھی بات ہے کہ جب سیچ اور مہدی نے آنا تھاتو کچھ نہ کچھ اس کے ذریعہ روحانیت نے بھی غلبہ پاتا تھا مگر اب جوں جوں ہماری تبلیغ وسیع ہوتی جارہی ہے اور جوں جوں و پیچ اور مہدی کی آمد سے مایوس ہوتا جا رہا ہے تعلیم یافتہ طبقہ نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ قرآن کے ہوتے ہوئے ہمیں کسی کیلئے اور حمدی کی ضرورت ہی کیا ہے.گویا تھوڑا بہت بعد وہ سچائی کے قریب نہ تقریر دلپذیر کا یہ حصہ الفضل ۲۱ - امان ۱۳۴۱ اہش میں پہلی بار چھپا جس کے بعد خوابی محمد شریف صاحب سیکوری اصلاح وارشاد ( حال پریزیڈنٹ، جماعت احمدیہ حلقہ دہلی دروازہ لاہور نے اسے کتابی شکل میں بھی چشمہ ہدایت کے نام سے شائع کر دیا تھا ؟
تھے وہ بھی ختم ہو گیا.اب دنیا میں صرف ہماری ہی جماعت ہے جو اس مسئلہ کو پیش کرتی ہے کہ اسلام روحانی طور پر ساری دنیا پر غالب آئے گا مسلمان اس بات کو رد کرتا ہے اور وہ کہتا ہے ہمیں اس روحانی غلبہ کی ضرورت نہیں ہم چاہتے ہیں کہ سیاسی طور پر ایران آزاد ہو جائے.شام آزاد ہو جائے فلسطین آزاد ہو جائے لبنانی آٹا ر ہو جائے.سعودی عریب آزاد ہو جائے.مصر سے انگریزی فوجیں نکل جائیں.پاکستان کی حکومت مضبوط ہو جائے، سوڈان کو آزادی حاصل ہو جائے.اگر یہ ممالک سیاسی رنگ میں مکمل آزاد می حاصل کرلیں تو مسلمان سمجھتے ہیں کہ وہ کامیاب ہو گئے مگر یکں پوچھتا ہوں اگر یہ ساری باتیں ہم کو حاصل ہو جائیں.اگر پاکستانی ایک کے مضبوط اسلامی ملک بن جائے اور تھوڑی بہت اس کی طاقت میں جو کمی ہے وہ دُور ہو جائے ، اگر ایران کے تیل کے چشموں کا سوال حل ہو جائے اور پھر اس کی مالی حیثیت بھی اتنی مضبوط ہو جائے کہ اس کا خزانہ ہر قسم کا مالی بوجھ اٹھانے کے لئے تیار ہو جائے.اگر سعودی عرب بھی آزاد ہو جائے اور اس کے تیل کے چشمے اُسی کے قبضہ میں آجائیں اور وہ موجودہ آمد سے دس نہیں گنا آمد اسے دینے لگیں.اگر مصر میں سے بھی انگریزی فوجیں نکل جائیں.اگر شام کے جھگڑے بھی ختم ہو جائیں اور آئے دن جود وہاں قتل کی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں اور کبھی کوئی کمانڈر انچیف مارا جاتا ہے اور کبھی کوئی وزیر یہ سب باتیں ختم ہو جائیں.اگر پاکستان میں اندرونی طور پر جو جھگڑے پائے جاتے ہیں وہ بھی ختم ہو جائیں اور دشمنوں کی سازشیں اور ریشہ دوانیاں جاتی رہیں تب بھی تم غور کر کے دیکھ لو کہ اس موجودہ دنیا کے نقشہ پر روس اور امریکہ اور انگلینڈ اور فرانس کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا ان ممالک کی آزادی اور ان کی طاقت ہمارے لئے کوئی بھی فخر کی چیز ہوگی.یہ ساری حکومتیں آزاد بھی ہو جائیں تو دنیا کی پالیٹکس میں ان کی کیا حیثیت ہو سکتی ہے.روس اور امریکہ اور انگلینڈ اور فرانس کے مقابلہ میں ان کا کیا درجہ تسلیم کیا جاسکتا ہے.اگر ایک بادشاہ کے گھر کے پاس کسی غریب آدمی کا مکالنی ہو اور فرض کرو کہ اس کے پاس کسی وقت لاکھ دو لاکھ روپیہ بھی آجائے تب بھی بادشاہ کے مقابلہ میں اس کی کیا حیثیت تسلیم کی جا سکتی ہے.جس دن اس کا روپیہ ختم ہو جائے گا اسی دن اس کی ساری حیثیت جاتی رہے گی اور وہ پھر دنیا میں ایک بے حقیقت پچیز بن کر رہ جائے گا.پس سوال ہے ہے کہ اگر وہ سب کچھ ہو جائے جو مسلمان چاہتے ہیں تب بھی دنیا میں مسلمان کی کیا حیثیت ہو گی کیا اس کا پھیلاؤ کیا اس کا روپیہ.کیا اس کی فوج کیا اس کی تعداد اور کیا اس کی طاقت اس قابل سمجھی جا سکتی ہے کہ دنیا کی پالیٹکس پر کوئی غیر معمولی اثر پیدا کر سکے اگر نہیں کو بتانہ اس مسلح نظر سے اسلام کو کیا فائدہ ! i
۴۰۵ مسلمان نوجوانوں کے اندر اس طرح نظر سے وہ کونسا انقلاب پیدا ہو سکتا ہے کہ ہر سلمان کا دل اچھلنے لگے کہ نیکی بھی اس مطمح نظر کے حصول کے لئے کچھ کوشش کروں شاید کہ میرا نام بھی تاریخ میں محفوظ ہو جائے زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو پولیٹکل دنیا میں ایک تیسرے درجہ کی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے اور تیرے درجہ کی حیثیت کوئی ایسی چیز نہیں جو انتہائی مقصود قرار دیا جا سکے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسلمان ممالک کی آزادی ضروری چیز ہے.کون چاہتا ہے کہ وہ ہمیشہ غلام بنا رہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ طمح نظر ایسا ہو سکتا ہے جس سے مسلمان نوجوانوں کی رگوں میں نیا خون دوڑنے لگے اور کیا اس کے ذریعہ سے اسلام کو کوئی اہم پوزیشن دنیا میں حاصل ہو جاتی ہے.پس سوال یہ نہیں کہ اسلامی ممالک کی آزادی اچھی چیز ہے یا نہیں سوال یہ ہے کہ اگر وہ آزادی انکو حاصل ہو جائے تو پھر ہم کیا بن جاتے ہیں.ایک غریب آدمی میں کے گھر میں آٹا بھی نہیں ہم یہ نہیں کہتے کہ اسے آٹا نہ ملے مگر آٹائیل جانے سے کیا اس کی دنیا میں کوئی پوزیشن قائم ہو سکتی ہے.اگر سیر بھر آٹے کا اس کے لئے انتظام بھی ہو جائے تب بھی وہ جن کے پاس کئی کئی کروڑ روپیہ ہے ان کے مقابلہ میں اُس کی کوئی حیثیت نہیں ہو سکتی پس ہم یہ نہیں کہتے کہ مسلمان حکومتوں کو آنا وی حاصل نہ ہو.ہم چاہتے ہیں سلیمانی ممالک آزاد ہوں ، ہم چاہتے ہیں کہ مسلمان حکومتیں طاقتور ہوں لیکن جو سوال ہمارے سامنے ہے وہ یہ ہے کہ اس آزادی کے بعد دنیا میں ہماری پوزیشن کیا بنتی ہے مسلمان اس بات کا مدعی ہے کہ وہ ساٹھ کروڑ ہے عیسائیوں نے جو تازہ جغرافیہ لکھا ہے : اس میں انہوں نے مسلمانوں کی تعدا داڑتالیس کروڑ میں لاکھ مالی لی ہے لیکن دنیا کی آبادی دو ارب چالیس کروڑ ہے.دو ارب پچالیس کروڑ ہی میں اڑتالیس کروڑ بیس لاکھ تمام آبادی کا چوتھا حصہ بنتے ہیں.گویا اگر سارے سلمان آزاد ہو جائیں.اگر ہر اسلامی ملک میں اتنی ہی دولت ہو جتنی امریکہ میں پائی جاتی ہے، اتنا ہی اسلحہ ہو جتنا امریکہ میں پایا جاتا ہے، اتنی ہی تجارت ہو بتنی امریکہ میں پائی بھاتی ہے.پھر بھی روپیہ میں سے چوٹی انہیں حاصل ہوگی.اب تم خود ہی بتاؤ کہ بارہ آنے بڑے ہوتے ہیں یا چوٹی بڑی ہوتی ہے.چوتی ہر حال چھوٹی ہوتی ہے اور بارہ آنے بڑے ہوتے ہیں.وہ ہندو جس کو ہمارے آدمی تحقیر کے طور پر کی اڑ کر اڑ کہا کرتے تھے وہ بھی آزادی کے بعد بتیس کروڑ آبادی کا مالک بن چکا ہے.پھر پچین کو دیکھ لو.اس کی آبادی اور رقبہ کو لے لو اس کی آبادی پچاس کروڑ ہے.اگر مسلمان اڑتالیس کروڑ ہی ہوں تو خالی چین کے لوگوں کی تعداد مسلمانوں
۴۰۶....سے زیادہ ہے پر سوال یہ ہے کہ اگر ایسا بھی ہو جائے تو یہ کونسا مقصد ہے جو ہر مسلمان کے سامنے رہنا چاہیئے.میں نے بتایا ہے کہ اگر کوئی آدمی مر رہا ہو تو ہماری خواہش ہوگی کہ خدا کرے وہ بچ جائے لیکن کیا جو شخص مرنے سے بچے بجائے وہ بادشاہ ہو جایا کرتا ہے یا کوئی بڑا علم ہو جایا کرتا ہے مسلمانوں کی آزادی کے لئے بہد و جہد کے معنے صرف اتنے ہیں کہ مسلم باڈی پالیٹکس میں مرض پیدا ہو چکا ہے اور وہ اس مرض کو دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.ہماری خواہش ہوگی کہ وہ مرض دور ہو جائے بلکہ ہماری دعا ہو گی کہ وہ مرض دور ہو جائے.لیکن اگر یہ مرض دور ہو جائے تب بھی دنیا کی قوموں میں بیٹھتے وقت ایک سلمان کی کیا پوزیشن ہو گی ؟ اگر ایران بھی آزاد ہو جائے.اگر مصر کے مسائل بھی حل ہو جائیں.اگر فلسطین اور شام اور لبنان بھی آزاد ہو جائیں.اگر سوڈان بھی آزاد ہو جائے.اگر تمام اسلامی ممالک کے جھگڑے ختم ہو جائیں.ان کی طاقت بڑھ جائے.ان کا روپیہ زیادہ ہو جائے.ان کی عظمت ترقی کر جائے.تمام دولت ان کے ہاتھ میں آجائے.تمام تجارت جو اس وقت امریکہ کے پاس ہے اس پر ان کا قبضہ ہو جائے پھر بھی بارہ آنے کے مقابلہ میں وہ چار آنے کے مالک رہتے ہیں.اور جب ان کی حالت یہ ہوگی کہ چوٹی ان کے پاس ہوگی، اور بارہ آنے غیر کے پاس ہوں گئے تو اسلام کس طرح غالب آیا اور محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی عظمت کسی طرح قائم ہوئی.غرض جو شخص بھی اس مسئلہ پر اس رنگ میں غور کرے گا اور عقل سے کام لے گا وہ بعثت محمدیہ کی یہ غرض قرار دینا کہ سیاسی لحاظ سے ایران آزاد ہو جائے مصر آزاد ہو جائے.شام او فلسطین آزاد ہو جائیں.لبنان آزاد ہو جائے.سوڈان آزاد ہو جائے.پاکستان مضبوط ہو جائے اپنی انتہائی بیست خیالی منور کرے گا.وہ شرمائے گا کہ یکں یہ کیا کہہ رہا ہوں اور کونسا مقصد ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی طرف منسوب کر رہا ہوں.کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اِس لئے آئے تھے کہ یہ چھوٹے چھوٹے علاقے آزاد ہو جائیں.کیا محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم اس لئے آئے تھے کہ مسلمان دنیا میں ایک چھوٹی کی حیثیت حاصل کر لیں.یکی تو سمجھتا ہوں اگر میرے واہمہ اور خیال میں بھی ایسا نظریہ آئے تو میرا ہارٹ فیل ہو جائے کہ لیکن کتنا پست نظریہ اس عظیم الشان اور مقدس انسان کی بعثت کے متعلق رکھ رہا ہوں جسے خدا نے اولین و آخرین کا سردار بنا یار میں تو سمجھوں گا میرے جیسا جھوٹا انسان دنیا میں اور کوئی نہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے عظیم الشان رسول کی طرف اتنا چھوٹا ، اتنا معمولی اور اتنا ادنی درجہ کا خیال متسوب
کر رہا ہوں کہ اتنا بڑا رسول اس لئے آیا تھا کہ ایران کے تیل کے بیٹے آزاد ہو جائیں.اس لئے آیا تھا کہ مصر آزاد ہو جائے.اس لئے آیا تھا کہ فلسطین اور شام اور لبنان کے جھگڑے دُور ہو جائیں.لیکن جانتا ہوں کہ مخالف یہ کہیں گے کہ دیکھا ہم نہیں کہتے تھے یہ لوگ مسلمانوں کے دشمن ہیں انہیں اسلامی ممالک کی آزادی سے کوئی تعلق نہیں لیکن لیکن ان کے اعتراضات کی پرواہ نہیں کرتا لیکن جانتا ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور آپ کی شان کیا ہے.کہیں جانتا ہوں کہ اس عظمت اور شان کے مقابلہ میں اس اونی ترین مقصد پر آکر ٹھہر جانا قطعی طور پر اپنی نا بینائی کا اظہار کرنا ہے.اگر محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی عظمت ایران کے تیل کے چشموں کے آزاد ہوئے سے قائم ہوتی ہے.اگر محمدرسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی عظمت مصر سے انگریزی فوجوں کے نکل جانے سے قائم ہوتی ہے تو پھر جب انگریزوں نے ایک ایک ملک سے مسلمانوں کو کان پکڑ کر نکال دیا تھا تو تمہیں کہنا چاہیے تھا کہ عیسائی کی عظمت ظاہر ہوگئی بلکہ عیسائیت کی موجودہ طاقت کو نظر رکھتے ہوئے تمہیں اب بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ عیسائیت اسلام پر بازی لے گئی لیکن ہر باشعور انسان جو حقیقت کو جانتا ہے اور سمجھ سکتا ہے کہ ملکوں کی آزادی بالکل اور چیز ہے اور مذہب کا غلبہ ایک دوسری چیز ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے دنیا میں آکر یہ اصول پیش فرمایا کہ تمهاره ی مطمح نظر نهایت اونی ہے تمہیں اپنے افکار کو بلند کرنا چاہیئے.تمہیں سمجھنا چاہئیے کہ تمہارا کیا منصب ہے اور کونسا کام ہے جو خداتعالی نے تمہارے سپرد کیا ہے.بے شک سیاست کے لحاظ سے بھی مسلمانوں کی اصلاح ضروری ہے.بے شک دولت کے لحاظ سے بھی مسلمانوں کو ترقی کی ضرورت ہے.بے شک تمدن کے لحاظ سے بھی مسلمانوں کو اپنے اندر تغیر پیدا کرنے کی ضرورت ہے.مگر محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی غرض یہ تھی کہ اسلام کو روحانی طور پر دنیا میں غالب کیا جائے.اب اس کی تشریح کرو تو اس عظیم الشان مقصد کے یہ معنے بن جاتے ہیں کہ اسلام اور مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے دلائل اتنی طاقت پکڑ جائیں کہ مسلمانوں کے ساتھ باتیں کرتے وقت وہ کئی کترانے لگیں.آج یورپ میں جو بھی لٹریچر شائع ہوتا ہے اس میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ اسلام میں فلای نقص ہے اور اسلام میں فلاں خرابی ہے، لیکن کل اسلام کو ایسا غلبہ حاصل ہو کہ یورپ کے رہنے والے اپنی کتابوں میں یہ لکھیں کہ اسلام میں فلاں بات بہت اعلیٰ ہے مگر عیسائیت بھی اس سے بالکل معالی نہیں شیخ کی فلاں فلاں بات سے ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے بھی دنیا کے سامنے یہی بات پیش کی تھی.آج کا یورپ زدہ مسلمان یورپ کی ڈیما گرمی کو دیکھ کر کہتا ہے کہ قرآن سے بھی کچھ کچھ ایسے ہی اصول ثابت ہوتے ہیں اور یہ خوبی ہمارے اندر
بھی پائی جاتی ہے یہ اپالوجی ( APOLOSY) ہے جو آج کا مسلمان نہیں کر رہا ہے اور یہ اسلام کے لئے فخر کا دن نہیں.اسلام کے لئے فخر کا دن وہ ہو گا جب یورپ اور امریکہ میں یہ کہا جائے گا کہ یہ اسلامی پر وہ جو سلمان پیش کرتے ہیں اس کی کچھ کچھ انجیل سے بھی تائید ہوتی ہے اور ہمارے شیخ نے بھی جو فلاں بات کہی ہے اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس قسم کا پر وہ ہونا چاہیے.اسلام کے لئے فخر کا دن وہ ہوگا جب یورپ اور امریکہ کا عیسائی اپنی تقریروں میں یہ کہے گا کہ کثرت ازدواج کا مسئلہ جو مسلمان پیش کرتے ہیں بے شک یہ بڑا اچھا مسئلہ ہے اور عیسائیوں نے کسی زمانہ میں اس کے خلاف بھی کہا لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے پوری طرح غور نہیں کیا تھا.اصل بات یہ ہے کہ عیسائیت کے وہ بزرگی جو پہلی صدی میں گزرے ہیں انہوں نے بھی دو دو تین تیکھیے شادیاں کی ہیں ، پس کثرت ازدواج کی خوبی صرف اسلام میں ہی نہیں بلکہ عیسائیت میں بھی پائی جاتی ہے جی دن یورپ اور امریکہ کے گرجوں میں کھڑے ہو کہ ایک پادری اپنے مذہب کی اس رنگ میں خوبیاں بیان کریگا وہ دن ہو گا جب ہم کہیں گے کہ آج اسلام دنیا پر غالب آگیا اب ہمیں اپالوجی (AP01037 ) کی ضرورت نہیں، اب دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ یہ خوبیاں ان کے اندر بھی پائی جاتی ہیں.یہ ہو گا اسلام کا غلبہ اور یہ ہوگا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کا دن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کا وہ دن ہو گا جب دو ارب چالیس کروڑ کی دنیا میں چالیس کروڑ مسلمان نہیں ہو گا بلکہ دوار مسلمان ہوگا اور چالیس کروڑ غیر مذاہب کا پیرو ہوگا مگر یہ نظریہ کس نے پیش کیا صرت حضرت مرزا صاحب نے پیش کیا اور یہی وہ چیز ہے جس پر آپ پر کفر کا فتوی لگایا گیا اور کہا گیا کہ اسلام کے تعلیہ کا یہ کونسا طریق ہے.اسلام تو اس طرح غالب آ سکتا ہے کہ تلوار ہاتھ میں کی جائے اور کفار کو تہ تیغ کر دیا جائے.مگر غور کر کے دیکھ لو کہ کونسا نظریہ ہے جو اسلام کی عظمت کو قائم کرنے والا ہے اور کون سا مطمح نظر ہے جس پر ایک بنچا مسلمان تسلی پا سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے یہ مطمح نظر پیش کیا ہے کہ اسلام کو روحانی غلبہ سب دنیا پر حاصل ہوگا اور روحانی غلبہ کے معنے یہ ہیں کہ دنیا کے سیاسی اور اخلاقی اور مذہبی معیاروں کو بدل دیا جائے گا.آج یہ کہا جاتا ہے کہ اسلام قابل اعتراض نہیں کیونکہ یور و پین تهذیب کی فلای فلانی بات کی وہ تائید کرتا ہے یا وہ ڈیما کرسی جو آج یورپ پیش کرتا ہے بڑی اچھی چیز ہے مگر اسلام نے بھی اس ڈیما کرسی کی تائید کی ہے یہ طریق جو آج مسلمانوں نے اختیار کر رکھا ہے یہ ہرگز اسلام کے لئے کسی عزت کی بات نہیں.ہم تو اس دن کے منتظر ہیں جب امریکہ کے منبروں پر
کھڑے ہو کر عیسائی پادری یہ کہا کریں گے کہ وہ اسلامی حریت اور آزادی جس کو قرآن پیش کرتا ہے ہماری قوم بھی اس سے بالکل خانی نیلی اور ہم اس کی تائید میں اپنی کتابوں کے حوالے پیش کرتے ہیں یا وہ اخلاقی، مذہبی اور سیاسی معیار جو اسلام پیشیں کرتا ہے اسی سے ملتے چلتے معیار ہماری کتابوں میں بھی پائے جاتے ہیں.ا غرض آج کل کا مسلمان آزادی کا تو دعوی کرتا ہے مگر ذہنی غلامی اختیار کرتے ہوئے وہ چاہتا ہے کہ وہ بھی مغربی تہذیب کے اچھے نقالوں میں سے بن جائے اور انہی کے نام پر اُن کی نقل کرنے میں عزت محسوس کرتا ہے اور اگر وہ آزادی ظاہر کرتا ہے تو ضرو، اتنی کہ کسی میں مغربی تہذیب کا نقال بینا چاہتا ہے اور کسی میں کمیونسٹ نظریہ کا نقال بنتا چاہتا ہے.اور نقل خواہ دن متفرق آدمیوں کی کی جائے ہر حال نقل ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دنیا کے سامنے یہ ظلم نظر رکھا کہ کسی دن یورپ بھی میرا انقال ہو گا اور امریکہ بھی میر انتالی ہو گا.اب دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے جو بات کسی کہ دنیا کاسیاسی اور اخلاقی اور مذہبی نقطہ نظر بدل کر ان کو مسلمان بنا لینا اور پھر اسلام کے مطابق ان کے اعمال کو ڈھال دیتا یہ عظیم نظر ہے جو تمہیں اپنے سامنے رکھنا چاہیئے اس کا قرآن کریم سے بھی ثبوت ملتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى ودين الحق N NAAT LENA ( سورہ صف نے خدا ہی ہے جس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں بھیجا ہے ہدایت دے کر اور دین حق و سے کریہ تلوار دے کر اور ڈنڈا دے کر نہیں.لیظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ گلہ تاکہ وہ سارے دینوں پر اسے غالب کر ے سارے ملکوں پر نہیں کیونکہ ملکوں پر قبضہ کر لینا کوئی بڑی بات نہیں بڑی بات یہی ہے کہ دلوں پر قبضہ ہو.اب دیکھو اس آیت میں وہی چیز بیان کی گئی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے پیش فرمائی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا یہ مقصد نہیں کہ ایران کے تیل کے چشمے آزاد ہو بجائیں مصر سے انگریزی فوجیں نکل جائیں.شام اور فلسطین آزاد ہو جائیں.یہ باتیں ہوں گی اور ضرور ہوں گی مگر ہر حال یہ ابتدائی چیزیں ہیں مسلمان اس کے لئے جد و جہد کر رہا ہے اور وہ ایک دن اپنی سلامی کا جامہ پچاک چاک کر کے پھینک دے گا لیکن یہ آزادی اس کا مقصد نہیں.جب کسی کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو وہ اس کا ناک بھی پونچھتا ہے مگر اس کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ بچہ پیدا ہو تو میں اس کا
تاک پو نچھا کروں گا مقصد اس کا یہی ہوتا ہے کہ وہ بڑا عالم فاضل ہے عقل بھی یہی کہتی ہے کہ چند ریاستوں پر کسی کا قبضہ کر لینا کوئی بڑی بات نہیں.دلوں کو بدل دنیا اور ان کو فتح کر لینا یہ بڑی بات ہے.فرض کرو پاکستان کسی وقت اتنی طاقت پکڑ جائے کہ وہ حملہ کرے اور سار سے امریکہ کو فتح کرنے اور امریکہ کے لوگ ہمیں ٹیکس دینے لگ جائیں لیکن امریکہ کا آدمی اسلام اور قرآن کو گالیاں دیتا ہو تو یہ بڑی فتح ہوگی یا امریکہ آزا دور ہے لیکن امریکہ کے ہر گھر میں رات کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ ولم پر درود بھیج کر سونے والے لوگ پیدا ہو جائیں تو یہ بڑی بات ہوگی ؟ پس عقل بھی یہی کہتی ہے کہ یہی مقصد سب سے بالا ہے.یا مثلاً پاکستان کی ہندوستان سے کسی وقت لڑائی ہو جائے اور پاکستان ہند وستان کو فتح کرلے تو بھی یہ کونسی فتح ہے.پہلے بھی یہی کہا گیا تھا ہندوستان کو فتح کر لیا گیا لیکن پھر وہ فتح کس طرح بے حقیقت بن کر رہ گئی اور کس طرح مسلمان سخت ذلت کے ساتھ وہاں سے نکلے کہ ہر شخص سے بزبان حال یہ کہہ رہا تھا کہ ست بہت بے آبدہ و ہو کہ تیرے کو چھ سے ہم نکلے لیکن اگر پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بتائے ہوئے مقتصد کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے مسلمان کھڑا ہو اور وہ پھر ہندوستان میں داخل ہو تلوار کے زور سے نہیں بلکہ قرآن کے زور سے.بندوق کے زور سے نہیں بلکہ سچائی کے زور سے.شام لال ہند و عبداللہ بن جائے.سند رواس من و عبد الرحمن بن جائے.ویدوں کی جگہ قرآن پڑھا جانے لگے تو آج تو تم اس طرح نکلے ہو کہ وہ تمہیں نکال کر خوش ہوئے ہیں لیکن اگر تم یہ فتح حاصل کر لو اور تم کسی دن آن سے یہ کہو کہ اب ہمارا کام ہندوستان میں ختم ہو چکا ہے اب ہم چھین کو بجاتے ہیں تو تم دیکھو گے کہ اس دن سارے ہندوستان میں گہرام مچ جائے گا اور ہر شخص رونے لگ جائے گا اور کہے گا خدا کے لئے ہمیں چھوڑ کر نہ جاؤ تم ہمارے لئے غیر اور برکت کا موجب ہو.یہ چیز ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیش فرمائی اور اسی کی قرآن بھی تائید کرتا ہے اور عقل بھی تائید کرتی ہے اور بعذ بات صحیحہ بھی تائید کرتے ہیں کیونکہ
جذبات صحیحہ اس بات کو کبھی تسلیم نہیں کرتے کہ کسی کو مکہ مار کر اس سے یہ کہا جائے کہ تو مجھے پیار کرنیکین محبت اور پیار کے ساتھ اسے اپنا غلام بنا لو تو پھر تم اسے کہو بھی کہ خدمت نہ کرو تو وہ کہے گا مجھے تو اب لینے دیں اپنی خدمت سے محروم کیوں کرتے ہیں ا سا ہے حضرت امیر المومنين الصلح الموعودية کی تیسری تقریر سیر روحانی عالم روحانی کا دربار خاص کے شہرہ آفاق سلسلہ سے تعلق رکھتی تھی جس میں حضور نے خدا تعالیٰ کے دربار خاص کا قرآن مجید سے روح پرور نقشہ کھینچا اور پھر اس دربار کے روحانی گورنر جنرل محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کے لیے مثالی مقام پر ایسے اچھوتے رنگ میں روشنی ڈالی کہ حاضرین پر وجد کی کیفیت طاری ہو گئی.حضرت مصلح موعود کی اس مبارک اور یاد گار تقریر کے اختتامی الفاظ یہ تھے کہ :.اللہ تعالیٰ نے اس مقام محمود کی تجلیات کو اور زیادہ روشن اور نمایاں کرنے کے لئے اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اور آپ کے بعد مجھے پیدا کیا اور ہم سے ائی تھے آپ کے حسن کی وہ تعریف کروائی کہ آج اپنے تو الگ رہے بیگانے بھی آپ کی تعریف کر رہے ہیں اور یورپ اور امریکہ میں بھی ایسے لوگ پیدا ہو رہے ہیں جو محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم پر درود اور سلام بھیجتے ہیں مگر یہ تغیر کیوں ہوا اسی لئے کہ اس روحانی دربارِ خاص کا بادشاہ جس انعام کا اعلان کرتا ہے وہ انعام چلتا چلا جاتا ہے اور کوئی انسان اس کو چھینے کی طاقت نہیں رکھتا.جب اس نے اپنے دربارمیں یہ اعلان کیا کہ اسے ہمارے گورنر جنرل ہم تجھے ایسے مقام پر پہنچانے والے ہیں کہ دنیا تیری تعریف کرنے پر مجبور ہو گی تو کون شخص تھا جو خدا تعالیٰ کے اس پروگرام میں حائل ہو سکتا، اس نے محمدی انوار کی تجلیات کو روشن کرنا شروع کیا اور اس کے جس کو اتنا بڑھایا کہ دنیا کی تمام خوبصورتیاں اس جیلی چہرہ کے سامنے ماند پڑ گئیں اور دوست اور دشمن سب کے سب یک زبان ہو کر پکار اٹھے کہ حرم حقیقتا محمد اور قابل تعریف ہے، صلی اللہ علیہ وسلم.له الفضل ۲۱ - امان ۱۳۴۱ش/ مارچ ۱۹۶۲ء من قاص
سے ۴۱۲ غرض یہ کیسا عظیم الشان دربار ہے کہ اس میں بادشاہ کی طرف سے اپنے درباری کو ہو انعام دیا گیا وہ دنیا کی شدید مخالفت کے باوجود قائم رہا، قائم ہے اور قائم رہے گا.حکومتیں اُس روحانی گورنر جنرل کے مقابلہ میں کھڑی ہوئیں تو وہ مٹا دی گئیں، سلطنتوں نے اس کو ترچھی نگاہ سے دیکھا تو وہ تہ و بالا کر دی گئیں.بڑے بڑے جابر بادشاہوں نے اُس کا مقابلہ کیا تو وہ پتھر کی طرح مسل دیئے گئے، کیونکہ اس دربار خاص کا بادشاہ یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ اُس کے مقریہ کہ وہ گورنر جنرل کی کوئی بہتک کررہے یا اس کے پہنائے ہوئے مجبتہ کو کوئی اُتارنے کی کوشش کرے.وہ اپنے درباریوں کے لئے بڑا غیور ہے اور سب سے بڑھ کر وہ اس درباری کے لئے بغیرت مند ہے جس کا مبارک نام محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہے خدا تعالی کی اُس پر لاکھوں برکتیں اور ر کروڑوں سلام ہوں - امين يارب العلمين له بالخير ۲، سیر روحانی جلد دوم ملا ، ما ناشر الشركة الاسلامیہ نیٹیڈ یوہ اپریل ۱۹۵۶ - +
ا همه تاریخ احمدیت جلد یا زدم سالانہ جلسہ قادیان ۱۳۲۸ حق میں شریک ہونے والے ہندوستانی बत्तव احمدی ۲ حضرت امیر المومنين الصلح الموعور کا تعزيت الحاج صالح سعودی کے انتقال پر ۳.حضرت مصلح موعود کا ایک غیر مطبوعہ ارشاد مبارک حضرت مصلح موعود اور حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا گروپ فوٹو ۵ حضرت مصلح موعود کے دست مبارک سے لکھے ہوئے ایک مکتوب کا چہ بہ ۶- فوٹو السيد عبد الوہاب عسکری مع بزرگان شعله د استانده و طلبه جامعتہ المبشرين ربوہ لاہور ریڈیو کا نشریه - ۸ لاہور نوابزادہ ولایت علی خان کا مراسلہ حضرت مصلح موعود کی خدمت ہیں.9 بدر (قادیان کے اجراء پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا برتی پیغام - ۱۰- حضرت مصلح موعود کے فریم فرمودہ بعض سوالات کے جواہات سالانہ جلسہ ان کے بارے میں بعض ممتاز صحافیوں کے تاثرات د انگریز کی حقسم سالانه جلسه قاریان ہی کی روولو، سول اینڈ ملٹری گزٹ ہیں.حضرت مسیح موعود کا پیغام جماعت لمحہ یہ امریکہ کی دو سری سالانہ کا لفرنس کے موقع پر ؛ سالانہ جلسہ قادریان را میں شریک ہونیوالے بند وانی احمدی شریک -۱- مولانا بشیر احمد صاحب انچارج احمد یه کم مشن د بلی و امیر جماعت احمدیہ دہلی (امیر وفد ) مرد محمود حسین صاحب کیونڈر ویی وفی ۳ - کرم کی ان صاحب اصلی ترسیم شوب
I م مختاند گرم خانه احمد صاحب پسر با او نذیر احمد صاحب ولی ۲۵ مکرم حاجی بشیر احد صاحب بجو اور ضلع مهار نشود.یوپی سابق امیر جما محبتہ احمدیہ دہلی.کرم ضد حسین صاحب در یکید ار بشیر احمد مناسب بگره ضلع مظفر نگر.۲۷.مودی عبد اللطیف نصب مبلغ رنیز ۲۸ امیر احمد صاحب - عبد المجيد صاحب گرمه امیر صا عبر مدون البشیر احمد صاحب مبلغ.4 انوار احمد صاحب اہلیہ ثانی با بدنذیراحمد صا حسب سابق امیر ریاست جدید ، ۲۰ جمش یاد تھر صاحب و زبیدہ بیگم صاحبه اعله منیر احمد صاحب این باید ۳۱- به سلیمان احمد سلیمان نذیر احمد صاحب ضابق امیر جماعت احمد بید ا سجاد احمد صاحب مکرم حافظ سخاوت علی صاحب شاہجہان پور یوانی ۳۳ ، فرمان احمد مناسب ، حاجی محمد نذیر صاحب رو و الطاف خان صاحیان اور پور کی ضلع ، ملا.کہ امام علی مناسب.گیا نما بشیر احمد ماست مبلغ بجو و سه ضلوع مهار نور پونی ۶۳۵ مولوی محمد صادق صاحب مبلغ.شاہجہان پور ولوی عطاء اللہ صاب بلغ رسانه من فتن اگر ۱ ، قریشی محمد عقیل صاحب شاہجہان پور پولی ۲۷ ، بہادر خان صاحب - و سید قاسم میان صاحب الله ۱۳۸ و سردار خان صاحب ابجوار محمد صاحب راٹھے نسلی تعمیر لوید ۳۹ - بشیر احمد خان صاحب 1 اسرار محمد صاحب کردیا ۱۸ و محمدتقی صاحب -19 و محمد کریم مناسب نمره ۲۰ در دیدار محمد صاحب راٹھ ۲۱ محمد حنیف صاحب کمری و سید ارشد علی صاحب مرسوم لکهنود شید ارشد صاحب به قریشی مین را حمد صاحب مر کام لکھنو اختر حسین صاحب لکنر یم و سعید محمد خان صاحب ام به عنایت الله خان صاحب بدانم منور احمد خان صاحب صالح مگر آگ ފ وه یذیڈنٹ جماعت احمدیه) مام جعفر خان صاحب ۴۴ محمود احمد نهان صاحب دم و سیره از احمد شان صاحب م.ما سراح ان الحق صاحب "
ا احمد کام کریم ما سٹر کبیر احمد صاحب میرٹھ یولی من کرم محمود احمد صاحب - جلد آباد دکن ، مولوی نور شید احمد صاحب بینا کی و ۴ و قریشی محمد یونس صاحب بريلي ۵۰ ، قریشی حبیب احمد صاحب اف - - قریشی مستند و احمد صاحب or و • حاجی لقاء اللہ صاحب بھوپال ۵۳ و افتی اور اخیر صاحب ۵۴.ملک علی بخش صاحب * 00 + 04 + O - 09 الدین ال و جمال محمد الہ دین صاحب ه مسیح الدین صاحب عيد الرؤف صاحب خور احمد صاحب غوری یمه عمر اعظم ساتین 64 محترم الیہ صاحبہ سیٹی میرا عظیم صاحب << انیه ای که می بایت ارشاد احمد صاحب امرد چه بولي امینه دیگر هم به بیست و ضمر احمد صاحب محمد صدیق صاحب نائو الدین صاحب ۷۹ - محمد انور صاحب این.سیر معین الربيع صاحب محمد اسماعیل صاحب نے یاد گیر عمر اسماعیل صاحب ۲ و محمد العقوب صاحب ۶۰ ، ننھے میاں صاحب ۶۱ مفتی عبد الرحیم صاحب ۶ - باسر عبد الحمید صاحب ریم اللہ صاحب ۶۴ ، عبد الحئی صاحب ۶۶۵ بشیر احمد صاحب مراد آباد یوپی AY عبد الحی صاحب ، چوہدری اور عہد کی بشیر محمد صاحب ۸۵، مولوی محمد دین صاحب این مسله احمدیه و SAY + عبد الحق صاحب ۸۷ شیر امر صاحب AA حضرت مولوی عبدالله ام الباری بین ما را مورد الانبار شہامت علی صاحب کا نہور پولی ۸۹ - عبد الرشید صاحب مورو احمرت شیخ یعقوب ما در اب عرفانی تمدید اکان.مولوی زین الدین صاحب د حضرت مولوی فضل و این مادرت مطلع على مر الہ دین صاحب ، ۹۱، علی امیر علی صاحب مي عبد الله من الحب
۱۳ مکرم محیر صاحب ۹۴ + علی محی الدین صاحب 0 ، شیخ محمد رفیق صاحب بالایار ۱۱۹ کرم سید محمدصدیق صاحب باقی کلکتہ مغربی بنگال مدراس ۱۱۷، میاں دوست محمد یاسی به محمد 1116 ۱۱۸ ڈاکٹر اصغر حسین صاحب ۹۶ نے حضرت سید وزار تا این صاحب اورین بہار ۱۱۹ بابو محمد صديق صاحب الرمز • وو ↓ → ► 4 ڈاکٹر سید منصور احمد صاحب ، مظفر پور.بہار میر تقیل صاحب مکمل دوست محمد صاحب بہار ۱۰۱ ، محسن احمد صاب داؤد احمد صاحب تسنیم احمد صاحب ۱۰۵ خمر عاشق حریری صاحب خانپور میکی ۱۰ - محمد خورشید عالم صاحب محمد نظام الدین صاحب ✓ 1-0 1-4 # 1.6 ۱۰۰ ر رات مولوی سمیع اللہ صاحب ۱۹ - محمد ظریف صاحب ۱۱۰ حافظ الہی بخش صاحب 111 : حسن محمد صاحب حضرت حکیم علی احمد صابه او گیری سيد عبد الغفار صاحب ر مورد یا سلیم صاحب ال مبلغ کلانته معانی اشکال ١٣٠ سيد عبد الشكور صاحب ۱۲۱ مقصود احمد صاحب ۱۲۲ سید بشیر احمد صاحب ۱۲۳ سید بشیر الرحمن صاحب البشير ۱۴ خیال شریف احمد صاحب ۱۲۵ میاں محمد انور صاحب میاں شفیق احمد صاحب ۱۲۷، مولوی فضل کریم صاحب ۱۲۸ - سهیل احمد صاحب ۱۲۵ سیف الدین صاحب لاء مخلص الرحمن صاحب اسرا نے حافظ عبد المنان صاحب ۱۳۲ء سراج الدین صاحب ۱۳۳ ، مولوی عبد الرحیم صاحب مرحوم انسپیکر بیت المال ۱۳ کالے خان صاحب رحیم بخش صاحب پور میری انور احمدصاحب البول امیرجماعت تمدید کاک
- حضرت اميرالمومنين المصلح الموعود کاری کے انتقال دالله م الزمن الرحيم "ريو" ۲۷ شباط سه ۱۹۵۰م عزيزي السيد محمد الحاج صالح سلمكم الله تعالى السلام عليكم ورحمة الله وبركاته وبعد فقد تلقينا بمنتهى الاسف الخبر الناجح بوفاة والدهم الحاج صالح العودى رحمه الله فانا لله وانا اليه راجعون هل ابن انتى و ان طالت سلامته يوما على آلة حدباء محمول ان والدهم المرحوم كما علمت كان اوّل شخص دخل في الجماعة الاحمدية من الكبابير وكان مثالاً للجد والنشاط والاخلاص في سبيل نشر الدعوة الحقة بين ابناء وطنه فجزاه الله منا خير الجزاء على ما أبدى من الاخلاص والمحبة وادعو الله ان يتغمده برحمته الواسعة.واسكنه فسيح جنانه ويجزل له الاجر والثواب في دار النسيم ويلهمكم واخوانكم وبقية أقربائكم على فقده الصبر الجميل ، روفقهم ان تكونوا خير خلف لخير سلف و ادعو الله تعالى ان يشفى المولوى يحمد شريف شفاء لا يغادر سقما و بلخوا سلامي إلى جميع الأخوات في الكبابير ورحيتي بأن يكونوا قدوة حسنة ومثالاً أسمى يلدين ياتون بعدهم والسلام عليكم.ميرز المحمود احمد الخليفة الثاني للمسيح الموعود عليه السلام ر سارا بیٹری ستمبر ۱۹۵۰ مشکاه ۱۹۹)
(ترجمه) ربوه ۲۷ ماه شباط ۱۹۹ بسم الله الرحمن الرحيم ایم سید محمد صاحب ابن الحارج صالح صاحب سلیم اللہ تعالے ! السلام عليكم ورحمة الله وبرضاته کے بعد واضح ہو کہ آپ کے والد الحاج صالح العووی اب اللهکی منتیں جوں ان پر) کی وفات کی ناکہانی خبر سن کر از صد افسوس ہوا - انا لله و انا الیه راجعون كُل أبن أدى وَ إِنْ طَالَتْ سَلَامَتُهُ يوما على آلَةٍ حَدُ بَاءَ يَحمول د ہر شخص اخواہ وہ کتنی ہی لمبی عمر پائے ایک روزہ موت کا شکار ہونے والا ہے) آپ کے والد مرحوم ، جیسا کہ مجھے علم ہے ، کہا بیر کے پہلے شخص ہیں جو جماعت احمدیہ میں داخل ہوتے.وہ ابناء وطن میں دعوت حقہ کی اشاعت و تبلیغ کا فریضہ سعی کوشش ، بشاشت اور اخلاص سے پہچانا نے میں ایک نمونہ.اللہ تعالئے انہیں ہمار کی طرف سے ان کے اخلاص ومحبت کی بہترین جزا دے.میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالے انہیں اپنی بے پایاں رحمتت ڈھانپ سے.انہیں اپنی کو مع جنتوں میں جگہ دے اور دار النعیم میں اُن کا اجر و ثواب فراواں کرے اور آپ کے اور آپ کے بھائیوں اور دیگر رشتہ داروں کے دل پر اپنی طرف سے صبر جمیل نازلی فرمائے اور آپ کو اپنے نیک پیش رو کے نیک جانشین بننے کی توفیق عطا فرمائے.نیز میں دُعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالئے مولوی محمد شریف صاحب کو ایسی کامل شفاء عطا فرمائے جو مرض کا کوئی حصہ باقی نہ رہنے دے.کابر کے تمام بھائیوں کو میرا سلام پہنچادی اور میری یہ وصیت بھی کردہ اپنے سے بعد میں آنے دانوں کے لئے نیک نمونہ اور اعلیٰ مثال بنیں.والسلام عليكم میرزا محمود احمد خلیفہ ثانی حضرت مسیح موعود علیہ السلام " بخش
۲- حضرت مصلح موعود کا یک ام اور فی بوره ارشادمبارک چوہدری اور حسین صاحب ایڈوکیٹ امیر جماعت احمد شیخوپورٹ کے نام مورخه ۲۹ روفات ۱۳۹۳ سر جولائی (۱۹۵) و میرے نزدیک حکومت سے مل کر اور اس کے تعاون سے کام کریں.اس کے اداروں میں آگے اگر ان کی اصلاح کریں.زیادہ سے زیادہ احمدیوں کو داخل کرو میں پیشیخوپورہ بہترین محفوظ جگہوں میں سے ہے ہمارے: شتے دار لاہور سے صرف اس لئے آئے ہیں کہ حکام نے اشارہ کیا تھا کہ جنگی ضرورتوں کے لئے رتن باغ بود حامل بلڈنگ لے لئے جائیں گے ورنہ وہ بھی نہ آتے.جماعت کو میری طرف سے تسلی دیں.مشکلات ہر کام میں آتی ہیں گر انشا اللہ فتح پاکستان کی ہے.یہ موقع بہت فائدہ اور ثواب اٹھانے کا ہے.مرزا محمود احمد ستیار ادارات امازاده برای این کارا پائو طلبہ انجنیرنگ کالی لامجد کے ساتھ ) دائیں سے بائیں کہ میلوں پیر سید محمد خیر البشر صاحب - فضل الرحمن صاحب ( زعیم مجلس خدام الاحمدی) ڈاکٹر ایس ڈی مظفرنی - ایچ ڈی و پرنسی انجیرنگ کا بلا.حضرت اقدس سید نا الصلح الموگو رضی اللہ عنہ قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمد صاحب پروفیسر کی اسے ملک ایم ایس سی را نیز نگ احمر اور نان صاحب د نائب زمین ) عبد السمين صاحب.رکھڑے ہونے والے) خوشی محمد صاحب (باڈی گارڈ) ظفر اقبال صاحب عبدالحمید صاحب حمید احمد صاحب البرل سیک شمری ) رشید احمد صاحب ملک را مجد مجد الله صاحب - خالد سیف اللہ صاحب محمد بشیر احمد صاحب محمود احمد صاحب نیچیر - محمد عالم صاحب باڈی گارڈ،
حضرت مصلح موجود کے دست مبارک سے لکھے ہوئے ایک مکتوب کا چوریہ دو مندرجہ ذیل مکتوب حضرت اميرالمومنين الصلح الموعود نے ماہ ہجرت / مئی ۱۳ (۱۹۵۰ء) میں مولوی رشید احمد صاحب چنتای مبانی بود عربی مقیم باستان کے نام تحریر فرمایا تھا ) عزیز ما رسیده اند عمل الف سنه رسمی علی درجہ کا ورد پر جاتے.قوراد کی فکر ہو تے ہیں عربی کا سیلہ یہیں سے کوکا حصہ تھوڑ اہم وا نہ ہو ( آج کل بعض جھے حدت کرنے کا سوچا ہو رہے ہیں بذریعہ ڈاک میری ندہ مجھے بھی وارسی اور جسم کے لمهندس - جو ارسال کرده باشی - ر کی طرح میں تو رائے مطالع کی اشیا پر نہیں طور په وار پر مقیمی دینی.تاریخی.لابی ہر قیم کا کیک کا ہرستہ بات کیوں کہ سی نا کر رویان مکمل کر ناس - والعدم کا تصدی ارار سے
السيد عبد الوہاب عسکری بزرگان سلسلہ اور اساتذہ وطلبہ جامعتہ المبشرین کے ساتھ (صفحہ ۲۹۴) پہلی تصویر.حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب، السيد عبد الوہاب عسکری.؟.مولانا عبد الرحمن صاحب انور ، حضرت ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب،؟ دوسری تصویر ) دائیں سے بائیں ( پہلی قطار ).مولوی عبد الکریم صاحب کا ٹھر گڑھی مولانا ابوالخير نورالحق صاحب - شیخ نور احمد صاحب میر مبلغ بلاد عربيه - السيد عبدالوباب السكري حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب - ے - حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس عبد الله رضوان صاحب (مرحوم) ۹ - مولوی محمداحمد صاحب ثاقب پچھلی قطار - ۱- مولوی حکیم محمد اسمعیل صاحب چوار ی محمود احمد صاحب چیه - مولوی محمد امین صاحب ۵- مولوی محمد اشرف صاحب ناصر کبیر الدین صاحب.مولوی خورشید صاحب مغیر چارہ کوئی.مولوی غلام باری صاحب سیف ۹ سید سعید احمد صاحب، ۱۰؟ ملک سیف الرحمن صاحب مفتی سلسلہ عالیه احمدية - ے.لاہور ریڈیو کانشرية - ریہ میں منعقدہ تعزیتی جلسہ کی خبر ۱۸ اکتوبر شام کو ریڈیو پاکستان لاہور سے اپنے نام حسب ذیل الفاظ میں نشر ہوئی : در کل ربوہ میں جماعت محمدیہ کا اجتماع ہوا.ربیہ پاکستان میں احمدیوں کا مصدر تقام ہے لا اس اجتان میں قائد ملت کی وفات پر انتہائی رنج والم ک قرار داد پاس کی گئی یہ اس سے قبل عمار اکتوبر کو شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور کے پیام کا ایک امیر ترین الفاظ یہ تھے قائد قسمت کی وفات پر شیخ بشیر احمد امیر جماعت احمدیہ لاہور نے ایک بیان میں قوم کو پہلے ور سے بھی زیادہ متحد اور منظم ہونے کی تلقین کی ہے یا
ویزا محمد ولایت علی خان کا مراسلہ حضر میں صلح موعود کی خدمت میں نواب زادہ لیاقت علی خان صاحب وزیر اعظم پاکستان کے سفاکا و قتل پر حضرت مصلح موعود نے آن کے فرزند نواب زادہ محمد ولایت علی خان صاحب کے نام تعزیت کا خط لکھا جس کے جواب میں امن کا مندر بر ذیل مکتوب حضرت مصلح موعود کی خدمت میں پہنچا.لفافہ پر انگریزی میں یہ پتہ درج تھا حضرت مرضها بنير الك محمد احمد بین باغ می موند؟ الله الرحمن الرحيم م زوارنیس وا جور در تویی ۱۹۵۱ در محترى السلام عليكم پیغام تعزیت موصول ہوا اس جا تحمل مردانہ میں آپ کی ہمدردی کا دلی شکریہ ہیں آپ سے اتفاق ہے کہ قائد ملت کی شہادت ایک قومی سانحہ اور تھی نقصان ہے.اس ناقابل تلافی نقصان ہیں ہم آپ کو پیرانہ کا شریک تصور کرتے ہیں.ہم بھی آپ کے ساتھ بارگاہ ایزدی میں دست بدعا ہیں کہ اللہ تعا نے نہیں صبر جمیل عطا فر مائے قوم کو اتحاد، نظم وندید اور تنظیم کی دولت سے مالا مال کرے اور قائد اعظم اور قائد ملت کے نقش قدم پرچلنے کی توفیق عطا فرمائے.سوگوار محمد در لابیست علی خان خیر شوع) قادیان سے بدر کے اجرا پر یہ الانبیا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمد صاحب کا برقی پیغام ملت صالح الدين صاحب ام لانے کے نام ) ر مین سیارے کے اجرا می نوش آورید گاتا ہوں کیونکہ یہ در حقیقت اس بدر کامل کا نیا ظہور ہے کہ میں نے حضرت سید موسی علیہ الصلوة والسلام کے عہد مبارک میں افق قادیان پر طلوع کیا.میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ
تعالئے اسے اس طور پر برکت دے کہ یہ اختبارہ اس جریم مادی کا سارنگ اختیار کی ہے کہ چین کے نام کا یہ حال ہے اور اللہ تعالے اسے چار دانگ عالم میں آسمانی نور پہنچانے کا موجب بنے.آئین" راجہ بلند ۱۰ ردیکه الله ) حضرت بنا المصلح الامام کے ستم فرمود این سوالات کے غیر مطبوعہ جوابات ر ۱۳۳۰ مش مطابق ۶۱۹۵۱ ) مرزا عبد الوہاب ماحد به شرکت نے ۲۴ وفار بوائی سن ۱۳ (۱۹۵۱) کو حضر بمصلح موجود کی خدمت میں بذریعہ خط تین سوالات عرض کئے.الف - اگر امام اور مقتدی ایک ہی صف میں کھڑے کوئی نماز اس کریہ ہے ہوں تو کیا صف بالکل سیدھی ہوئی چاہیئے یا امام تھوڑا سا آگے ہو.یا.جمعہ کے وقت دو خطبے ہوتے ہیں ایک تو یا جواز دو یا یونسی زبان میں چا ہیں پڑھیں اور دوسرا ہم ہوئی ہیں ہوتا ہے کیا دوسرا خطبہ پہ منے کی بجائے تم دعائیں یا سات درود شریف پڑھ سکتے ہیں کیا یہ جائز ہے.ج.جب الہام انہی نازل ہوتا ہے تو اس وقت ہم کی کیا حالت ہو تی ہے.حضرت امیرالمومنین نے اس کے باللہ تقریب مندرجہ ذیل جوابات لکھدائے :- اگر امام اور نقدی ایک ہی صف میں ہیں تو کوئی ضرورت نہیں کہ مفت پیچھے ہو.حدیثوں سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جان کو اپنے ساتھ کھڑا کیا اور اگر امام یہ بتانے کے لئے کہ اصل مقام اس کا آگے ہے، آگے کھڑا ہو جائے تب بھی کوئی حرج نہیں " کا دوسرا خالیہ وہی ہے جو سنون عربی کا ہے پڑھنا ضروری ہے وہ خود رسول الی اللہ علی و کم کا بتایا ہوا ہے." ر کیفیت نزول الہام سے متعلق سوال پر ارشاد فرمایا ) کور کا نہیں ہوتی ہیں کبھی جاگ رہا ہوتا ہے اور یہ کیفیت ہوتی ہے کہ ہے کسی اور نے جم پر قبضہ کو لیا ہے اور الفاظ زبان سے جاری ہو جاتے ہیں اور عالی دیوی سے علیحدہ ہو جاتا ہے کبھی سوتے
میں الفاظ زبان پر جاری کر دیئے جاتے ہیں جو دوسرے بھی سن لیتے ہیں.بسا اوقات جاگتے ہیں بھی وہ سمجھتا ہے کہ دوسرے سن رہے ہیں مگر دو سرے نہیں سن رہے ہوتے کہ بھی خواب دکھائی جاتی ہے اور آخر میں الہام سے بدل جاتا ہے کبھی جاگتے میں الہام ہوتا ہے وہ کہتا ہے کہ میرا سیم دو مرے کے تقیہ میں چلا گیا.لیکن دوسرے لوگ نہیں محسوس کر رہے ہوتے.سوالات میں شرم نہیں کرتے ورنہ علم نہیں بڑھتا.ایک غیر احمدی خانواده شیده وحید صاحب را معرفت تم میری عبدالمجید صاحب انو مس کی شیرین نے سیالکوٹ سے اپنے خطہ میں تحریہ کیا کہ : آج کل پاکستانی سرحدوں پر ہندوستانی فوجوں کے اجتماع کی وجہ سے جو صورت حالات پیدا ہو گئی.ہے اس کے مد نظر جہاں حفاظت نور ان تیاری کے پیش نظر بہت سے اقدام اٹھائے جار ہے ہیں.وہاں عورتوں کو بھی جگہ جگہ APP.اور نہ سنگ وغیرہ کی ٹریفنگ دی جار ہی ہے....اے آر پی ، فرسٹ ایڈ اور رنگ کی ٹریننگ دینے کا انتظام تو ٹرینڈ نرسوں ہی کے سپرد ہے اور سب لڑکیاں ان چیزوں کے سیکھنے میں غیر معمولی جوش و خروش کا اظہار بھی کر رہی ہیں.اگرچہ دوران ٹرینینگ میں تو میم
کو پر وہ انار نے کی ضرورت نہیں لیکن جنگ کے دنوں میں ہسپتال میں کام کرنے کے دوران میں پرونے مکمل طور پر اتارنا پڑے گا کیونکہ وہاں پر یہ قصہ اور وہ کر زخمی سپاہیوں کی مرسم ہی کی اجازت تو نہیں ہوگی......سے ہم آپ سے پوچھنا چاہتی ہیںکہ ہمارا اس طرح پر دہ آنا نا اسلام کے خلاف نہیں ہے " اس پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنے مسلم مبارک سے حسب ذیل حجاب در قم فرمایا : " آپ کا خط ملا.قرآن کریم میں جو پردہ کی آیت ہے اُس سے صاف ظاہر ہے کہ پردہ حالات کے مطابق بدل سکتا ہے.میں جہاں تک مریم مٹی اور خدمت کا سوال ہے.ناقل ) یہ جاننہ ہے اور اس سے دریغ کرنا درست نہیں.مگر جہاں تک پردہ کا لحاظ رکھا جا سکتا ہے وہ کیوں نہ کیا جائے ؟ کیا ہمارا فرض میں ہونا چا ہئے کہ مرحکم شریعیت کا نوریں اسی نوں نے اٹھارہ سو سال سے اسلامی ضروری پر دہ پر عمل کیا ہے.سر اور گردن ڈھانکتی ہیں.لاتوں کا لباس مناسب رکھتی ہیں.چھپائی فور ی طرح ڈھانکنی ہے لنقل مطابق صل ) کیوں پاکستان ہیں یہ احتیاط نہ ہو اور خدمت قوم کے بہانہ سے لڑکیاں ڈاکٹروں سے کھیلنی ہنستی پھریں.اگر وہ اس سے بچیں اور حکومت اس میں ان کی مدد کرے جو اب نہیں کر رہی تو ہر مسلمان عورت کو خدمت قوم کے لئے نکل کھڑا ہونا چاہیئے.۴.لائل پور کے کسی صاحب نے لکھا : " میں نے اپنی خالہ کی لڑکی کے ساتھ دودھ پیا تھا کیونکہ میری والدہ فوت ہوگئی تھی.میری خالہ کی تین لڑکیاں ہیں کیا ان میں سے کسی کی شادی میرے ساتھ ہو سکتی ہے دیوبندی مولوق سے دریافت کیا گیا تھا اس نے کتاب کنز الرقائق کی رو سے جائزہ قرار دیا ہے سید نا حضرت مصلح موعود نے اس سوال کا مندرجہ ذیل جواب لکھوایا :- آپ کی خالہ زاد بہنیں تمام کی تمام آپ کی حقیقی بہنیں ہی ہوں گی.آپ کا اُن میں سے کسی کے ساتھ نکار جائزہ نہیں.یہ ان مولوی صاحب نے غلط کہا ہے ذرا ان سے کہئے کہ وہ ہمیں اس کتاب کا نام اور حوالہ لکھیں.ہاں اُن لڑکیوں کا رشتہ آپ کے بھائیوں سے ہو سکتا ہے.اگر آپ سے نہیں کیونکہ لڑکیوں نے اس صورت میں آپ کی والدہ کا دودھ بھی پیا ہو گا.اس لئے یہ بالکل غلط ہے ، پور مددی سردار خان صاحب نے مری روڈ راولپنڈی سے ۱۸ اگست ۱۹۵۱ ء کو بذریہ مکتوب دو سوال عرض کئے :.
کیا موجودہ صورت میں اگر جنگ ہو خواہ ہندوستان پر پاکستان یا پاکستان ہندوستان پر حملہ کرے تو کیا ماعت اور یہ کیلئے یہ جہاد ہوگا یا اگر جہاد ہو گا اور اس جنگ میں مرنے والے احمدی شہید کہلائیں گے تو دوسرے مسلمان (خیر احمدی، شہید کہلائیں گے یا نہیں ؟ اگر نہیں ترکیوں ؟ " حضرت اقدس نے اپنے دست مبارک سے اس کے جواب میں لفافہ پر ہی رقم فرمایا : " رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے مَنْ قُتِلَ دُونَ عِرْضِهِ وَمَالِهِ فهو سيد.دوسرے رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم نے ایک شریک ، جہاد کے بار میں فرمایا کہ وہ دوزخی ہے.سو جہاد کے بھی مدارج ہیں اور جہاد کا نواب معتقدات کے مطابق ملتا ہے ؟ - مولوی علی محمد صاحب سلم منٹگمری رسا میدان کے ایک سوال کے جواب میں اپنے قلم سے رقم فرمایا :- ر ظہر کے بعد چار درست ہے لیکن مغرب کے بعد سات دو ہی ہیں.اس کے بعد نفل جتنے چاہیے پڑھئے تبریک ۱۳۳۰ کے مطابق ہر ستمبر ۱۹۹۱ به شیر محمد صاحب قرائی نے نیروبی سے مورخہ 10 ستمبراہ ۱۹ در نوک کو بذریه خط استفادہ کیا کہ رخصت کے موقع پر چائے پیش کرنا شریعت اسلامی یا اس کام عدلیہ کے خلاف ہے یا ملا ہوتے ؟ حضور نے اپنے مسلم مبارک سے یہ تو اب بحریہ زما یا کہ : و یہ درست ہے کہ ہم نے اس چانٹے کی سیم کی جماعت کر دی ہے سنت سے ثابت نہیں اور غریبوں پریٹیا ا پڑتا ہے.سالانہ ان کے بارے میں ہو کے بعض با اثر و متاز صحافیوں کے تاثرات ای غیر مطبوعہ یاد داشت لفضل کے خصوصی رپورٹر کے قلم سے) در میاں محمد شفیع نے کہا ر حضرت صاحب جب ماہر نفسیات ہیں نے اپنی زندگی میں کوئی نہیں دیکھا میں سمجھتا ہوں ان جیسا
تیرک سیاستدان اور ماہر نفسیات شاید ہی اس صدی میں کوئی ہوا جلو اس پر پاکستان ٹائمز کے مسٹر نور شہید نے کہا کہ حضرت صاحب نے مسلمانوں کے مصائب کا علاج خرب بتایا کہ سب ان کے ہاتھ پر اکٹھے ہو جائیں یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے.یہ سنتے ہی میاں شیع جھوٹ بولی اٹھے.نہ میں بھی کہتا ہوں کہ سارے مسلمان ان ہی کے ہاتھ پر اکٹھے ہو جائیں یا اس پر سردار فضلی نے کہا }; پیار صاحب ایمان سلامت لے کر جاؤ گے یا نہیں ؟ " بو ہ بولے " مذاق نہیں کر رہا ہوں بلکہ سچ کہہ رہا ہوں کہ اگر سارے مسلمان ان کے ماخذ پر جمع ہو یا ہیں تو یہ ساری قوم کو کر دیں گے اور آرام کرو اور سارا پراچہ خود اٹھا لیں گے اور پھر ان کی سلامیقوں سے فائدہ اُٹھا نے کا موقع بھی نکل آئے گا." ایک اور موقع پر میاں شفیع نے کہا :- ہ تم نے یہ نہیں دیکھا کہ حضرت صاحب کیسے کیسے دنیوی مائل عام فہم طریق پر پیش کرتے ہیں اور پھر اس قدر مدل کہ انکار کی گنجائش نہیں..پھر میاں شفیع نے یہ بھی کہا : J مجھے تو طلبہ میں جس چیز نے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے وہ مناظت کا انتظام تمھا.کاش راولپنڈی کے جلسہ میں ایسا ہی انتظام ہوتا تو میرا ایڈر خان لیاقت علی کبھی قتل نہ ہوتا.لوگ تو شاید خالت کے ایسے کڑے سے انتظامات پراعتراض کر لیا لیکن میرے نز دیک یہ چیز قابل ستائش ہے میں اس تاثر کا ذکر ڈائری میں ضرور کروائے گا.رپور میں گھومتے وقت ایک اور تاثر جس کا اظہار کیا یہ تھا کہ دیکھو ان لوگوں نے وہ کام کر دکھایا ہے جو دوسرے مہاجر تو کیا خود ہماری حکومت نہیں کر سکی.ربوہ
14 کے پہچانے کا کوئی ایک شہر بتاؤ جواب تک حکومت نے آباد کیا ہو.اگر ہم لوگ ؟ ایسے صاحب عزم ہوتے تو آج نہ معلوم کتنے ہی نئے شہر آباد ہو چکے ہوتے.حسب جلسہ ختم ہوا اور جلسہ گاہ سے ہزاروں کی تعداد میں اجانب باہر نکلنے شروع ہوئے تو ہم ایک طرف کھڑے دیکھ رہے تھے.میاں شفیع نے سب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا :- ان لوگوں کے انتشار میں بھی تنظیم کی جھلک موجود ہے.سب نے پوچھا مطلب کہا.ربوہ کے علاوہ اگر کوئی اور موقع ہوتا یہ ہزاروں لوگوں اور کاروں کی آمدو رفت کی وجہ سے ایسی شور زمین سے گرد و غبار کے بادل اُٹھ رہے ہوتے اور وہاں ہمارا تمہارا چانا مشکل کو بناتا لیکن یہ لوگ کیسے آہستہ آمین قدم اٹھا ر ہے ہیں.یہ سب ذہنی تربیت کے تحت غیر شعوری طور پر ان سے ظہور میں اکہ چاہتے.مطبوعہ لاہور آرٹ پریس لاہور.
(7) (5) Most of their educational institutions, hostels, etc.should also be restored to them as the education of Indian Ahmediyas was being seriously impaired.(6) Adequate facilities should be allowed Indian Ahmediyas who wanted to perform frequent pilgrimage or receive religious education.(7) Several of their mosques, graveyards, etc., were damaged or destroyed during the disturbances of 1947.These should be restored and suitable arrangements made for repair.(8) Qadian is the religious centre of the Ahmediyas and although the Government has settled refugees under the stress of circumstances, the action of local Municipal Committee in changing Islamic names of streets and mohallas injures the religious susceptibi- lities of Ahmediyas.The Ahmediya Community requests the Govern- ment to restore the Islamic names and protect the religious rights of the community.(The Civil & Military Gazettee, December 29, 1949, page 6) :
(6) Although Pakistan Ahmediyas were anxious to visit Qadian, which had acquired an international importance and had peculiar sanctity for their faith, because of circumstances beyond their control they could not do so.He, however, hoped that God's will would prevail in the long run and the reign of Satan, temporarily eclipsing the world, would soon disappear.SIMILARITY OF TEACHINGS The Jalsa consisted of discourses on religious subjects relating to the existance of God, deeds and prophecies of the founder, some of his miracles, and the teachings of the Ahmediya faith.The speakers laid great emphasis on the similarity of teachings of all religions including Hinduism, Sikhism, Islam and Christianity and they stressed the need for proper understanding of each other's point of view, discarding feelings of hatred and animosity.The Jalsa adopted a lengthly resolution, which was sponsored by the Indian Ahmadiyas and also unanimously voted by the Indian Ahmediyas.It expressed gratitude to the Governments of India and East Punjab for the facilities provided for the participation of Ahmediyas from India and Pakistan and sought permission to convey the following requests: (1) That Qadian is the spiritual and religious headquarters of the Ahmediya Community spread all over the world.Several Ahmediyas had to leave this place owing to the disturbances of 1947 and were now anxious to return and settle here.(2) So long as the return of all Ahmediyas cannot be arranged, the families of those still living in Qadian should be allowed to visit them.(3) There are 50 to 60 Ahmediya pilgrims who arrived here during the disturbences of 1947 and they are anxious to go back to their homes in Pakistan.Likewise some elderly inhabitants of Qadian are eager to return here.(4) Property worth two crorse belonging to the Sad ar Anjuman, Qadian, a body registered in 1906, seized by Government as evacuee property should be restored because its headquarters continued to be at Qadian and its members had never migrated.
59th JALSA AT QADIAN Thousand Ahmadiyas Present (From Our Own Correspondent) -- QADIAN, Dec.28.After nearly 24 years, 56 Ahmediya Muslims including two women, headed by Sheikh Bashir Ahmad, arrived here on Sunday from Pakistan for the 59th Annual Jalsa of the Ahmediya community of Qadian.Simultaneously, 138 Indian Ahmadiya Muslims including four women and five children drawn from all parts of the country arrived here on Sunday.They were escorted to the Ahmediya colony in the town and were lodged in different houses.Touching scenes were witnessed when the Indian Ahmadiyas met the Pakistani Ahmediyas.All of them offered prayers both in the mosque and at the Bahishti graveyard.Closely guarded by armed police and their own volunteers, the Jalsa was held in the previous year's compound and was attended by about 1,000 persons in all.Among the visitors was Major-General Abdur Rehman, Pakistan's Deputy High Commissioner in Jullundur.Maulvi Abdur Rehman Jatt, head of the local Ahmediyas, inaugurated the Jalsa, describing it as the third after partition, and read out messages from distinguished Ahmediyas and heads of branches from all parts of the world.Sheikh Bashir Ahmad, who headed the delegation from Pakis- tan, then occupied the Chair.He mentioned how Hazrat Mirza Bashir- ud-Din Mahmood Ahmad owing to pre-occupations could not send them a special message this year but he had come to see them off and had in his blessings asked them to carry on with faith in God.He had also said that there could be peace in the world through faith in God.
( 4 ) God and your country, through your untiring efforts and the grace of God, becomes one of the first strongholds of God and His true and living religion-Islam, which is truly represented in our time by Ahmadiyyat.AMEN.Yours very sincerely, KHALIFATUL MASSIAH II The Moslem Sunrise, Page 11-13, Fourth Quarter, 1949, Chicago 4, Illionois, U.S.A.
--- (3) and set a grand example of true obedience to God and His religion for your contemporaries and for the coming generations, so much so that you become in the eyes of God; the deliverers of your country and your people; and become like the first disciples of the prophets of old..Those disciples had no special claims on God; their only claim was that they were the first to believe, first to make sacrifices and first to live a life which was not in conformity with the lives of their country- men.They bore and bore well all rebuke; they took with a light heart all ridicule and stuck to the way which God chose for them and thus they became the chosen people of God.Old orders and governments die out giving place to new ones but thesc disciples' good name has been kept alive all along.Mighty nations have perished; strong governments have succumbed but these people never died and are still living in the memories of millions of people who love them more than their own kith and kin.Dear Friends and my spiritual children! Fortunately you have got the same opportunity, being the first bearers of truth in the United States of America, being disciples of the disciples of the Promised Messiah (peace be on him)-beloved of God, His only begotton son, in the same sense as the Christ was.God has no son but those who gain His presence and win His pleasure through steadfast love and never wavering faith, become like sons to Him.Nay even more than that.A father may forsake his son in certain circumstances but God never forsakes His beloved ones.You have a further blessing that you found the time of the Promised Son and so you are not mere disciples of the disciples of the Promised Messiah (peace be on him) but are also like the first disciples themselves.So rise to the grand occasion and act according to your exalted position.Do not forget that everybody is directly responsible to his God.Therefore, do not copy anybody's weaknesses but follow the word of God and His Prophet and try to live a life even more pious and cleaner than the lives of those who have come to teach you.I also hope that my representatives there, will set a good example for you and will not act in a way detrimental to the cause of Islam and misleading the seekers after truth.Woe to him who gets the opportunity of bringing people to the fold of God but delivers them to His eternal enemy-Stan.May God help you, your preachers and your country, so that all of you gain the blessings of
(2) inspired interpretation of Islam.Probably they thought that this grey bearded man was mad just as the peoples of old thought every prophet and his disciples were mad.But those who thought so were made themselves.The sheep that does not recognize the shepherd is mad and destined for destruction, for it becomes the prey of that old wolf- Satan; and loses all hope of salvation.My dear friends and children! No country and no people are absolutely without any seekers after truth.The voice which was taken ´as the babble of a mad man by many, began to attract some of those who were destined to be the pioneers and torch-bearers of truth in the United States of America.May be some of them are still alive, may be none are.Even if all of them have left this world, their spirits might be hovering over your heads just now seeing in you the seed which is being broadcast by God in the wilderness, as well as in some well prepared soil, to grow in time and become a heavy crop to give a new life to missions and millions of people of your country.My friends and children! Ahmadiyyat is the message of God Almighty and not a scheme conceived by any mortal being.So you should look upon it as such and try to follow it literally and with great care.No good citizen breaks the law of his country and so is the case of a true believer.He knows that the law of God is based upon infallible philosophy and is for his good and betterment.So always try and strive to know more and more about Islam and Ahmadiyyat, so that your actions may be in complete accord with the law chosen for you by your Creator.God Almighty says in the Holy Quran."To-day I have brought to perfection the spiritual code according to which you have to live and thus I have filled for you the cup of my blessings to its very brim." This verse shows that every order and injunction given by the Holy Quran is for the spiritual uplift of man and not as an arbitrary order to make the human beings feel their serfdom to God.God has nothing to gain if we follow "The Law".It is we who benefit from it and so the person who is lukeworm in his obedience to the law in letter and in spirit, is himself the loser.Woe to him who finds the door of heaven opened for him but turns his face and goes astry.So I advise you with all the love I bear for you, to avail yourselves of this great opportunity of being pioneers of the truth in your country
A MESSAGE TO AHMADIYYA MUSLIMS ON THE SECOND ANNUAL CONVENTION OF THE AMERICAN MISSIONS EPTEMBER 17-18 1949 Hazrat Amirul Muminin, Khalifatul Masih II, Head of the Ahmadiyya Movement in Islam, York House, Lytton Road, Quetta, Pakistan, 2nd September, 1949.My dear friends and spiritual children G of the United States of America, Assalamu Alaikum-wa-Rahmatullahi-wa-Barakatuhu.I have been asked by our Missionary-in-Charge in the United States of America, Mr.Khalil Ahmad Nasir, to write a message for you to be read in your Second Convention.It is a great pleasure for me to do so.Twenty-nine years ago, I sent Mufti Mohammad Sadiq, an old companion of the Promised Messiah (peace be on him), to introduce the Ahmadiyya Movement in your country.He after reaching the United States of America, chose Chicago as the centre of his mission.His was a lonely voice raised in support of the truth about a quarter of a century back; and probably the people laughed when they heard him preach Islam and call them to Ahmadiyyat-the true and divinely