Language: UR
مشرقِ وسطیٰ میں اُردن مشن کے قیام سے لےکر سیدنا حضرت امیر المومنین المصلح الموعود کی ربوہ میں بغرض رہائش تشریف آوری تک۔ (پرانے ایڈیشن کے مطابق جلد 13)
Vol-12 تاریخ احمدیت جلد سیزدهم مشرق وطی میں اُرد نے شرنے کے قیام سے لے کر سیدنا حضرتے امیر المؤمنين المصلح الموعود کی سے ربوہ میں بغرض رهائش تشریف آوری تک مؤلّفه دوست محمد شاهد الناشر..ادارة المصنفين، ربوه
نام کتاب مرتبہ طباعت موجودہ ایڈیشن تعداد شائع کردہ مطبع تاریخ احمدیت جلد دوازدہم مولا نا دوست محمد شاہد 2007 : 2000 نظارت نشر و اشاعت قادیان پرنٹ ویل امرتسر ISBN-181-7912-119-4 TAAREEKHE-AHMADIYYAT (History of Ahmadiyyat Vol-12 (Urdu) By: Dost Mohammad Shahid Present Edition : 2007 Published by: Nazarat Nashro Ishaat Qadian-143516 Distt.Gurdaspur (Punjab) INDIA Printed at: Printwell Amritsar ISBN-181-7912-119-4
بسم اللہ الرحمن الرحیم پیش لفظ اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں داخل فرماتے ہوئے اس زمانہ کے مصلح امام مہدی ومسیح موعود علیہ السلام کو ماننے کی توفیق عطا کی.قرونِ اولی میں مسلمانوں نے کس طرح دُنیا کی کایا پلٹ دی اس کا تذکرہ تاریخ اسلام میں جا بجا پڑھنے کو ملتا ہے.تاریخ اسلام پر بہت سے مورخین نے قلم اٹھایا ہے.کسی بھی قوم کے زندہ رہنے کیلئے اُن کی آنے والی نسلوں کو گذشتہ لوگوں کی قربانیوں کو یا درکھنا ضروری ہوا کرتا ہے تا وہ یہ دیکھیں کہ اُن کے بزرگوں نے کس کس موقعہ پر کیسی کیسی دین کی خاطر قربانیاں کی ہیں.احمدیت کی تاریخ بہت پرانی تو نہیں ہے لیکن خدا تعالی کے فضل سے الہی ثمرات سے لدی ہوئی ہے.آنے والی نسلیں اپنے بزرگوں کی قربانیوں کو ہمیشہ یادرکھ سکیں اور اُن کے نقش قدم پر چل کر وہ بھی قربانیوں میں آگے بڑھ سکیں اس غرض کے مد نظر ترقی کرنے والی قومیں ہمیشہ اپنی تاریخ کو مرتب کرتی ہیں.احمدیت کی بنیاد آج سے ایک سو اٹھارہ سال قبل پڑی.احمدیت کی تاریخ مرتب کرنے کی تحریک اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دل میں پیدا فرمائی.اس غرض کیلئے حضور انور رضی اللہ عنہ نے محترم مولانا دوست محمد صاحب شاہد کو اس اہم فریضہ کی ذمہ داری سونپی جب اس پر کچھ کام ہو گیا تو حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی اشاعت کی ذمہ داری ادارۃ المصنفین پر ڈالی جس کے نگران محترم مولانا ابوالمنیر نور الحق صاحب تھے.بہت سی جلدیں اس ادارہ کے تحت شائع ہوئی ہیں بعد میں دفتر اشاعت ربوہ نے تاریخ احمدیت کی اشاعت کی ذمہ داری سنبھال لی.جس کی اب تک 19 جلدیں شائع ہو چکی ہیں.ابتدائی جلدوں پر پھر سے کام شروع ہوا اس کو کمپوز کر کے اور غلطیوں کی درستی کے بعد دفتر اشاعت ربوہ نے
اس کی دوبارہ اشاعت شروع کی ہے.نئے ایڈیشن میں جلد نمبر ۱۳ کوجلد نمبر ۱۲ بنایا گیا ہے.حضرت خلیفتہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے قادیان سفر کے دوران تاریخ احمدیت کی تمام جلدوں کو ہندوستان سے بھی شائع کرنے کا ارشاد فرمایا چنانچہ حضور انور ایدہ اللہ کے ارشاد پر نظارت نشر واشاعت قادیان بھی تاریخ احمدیت کے مکمل سیٹ کو شائع کر رہی ہے ایڈیشن اول کی تمام جلدوں میں جو غلطیاں سامنے آئی تھیں ان کی بھی تصحیح کر دی گئی ہے.موجودہ جلد پہلے سے شائع شدہ جلد کا عکس لیکر شائع کی گئی ہے چونکہ پہلی اشاعت میں بعض جگہوں پر طباعت کے لحاظ سے عبارتیں بہت خستہ تھیں اُن کو حتی الوسع ہاتھ سے درست کرنے کی کوشش کی گئی ہے.تاہم اگر کوئی خستہ عبارت درست ہونے سے رہ گئی ہو تو ادارہ معذرت خواہ ہے.اس وقت جو جلد آپ کے ہاتھ میں ہے یہ جلد دوازدہم کے طور پر پیش ہے.دُعا کریں کہ خدا تعالیٰ اس اشاعت کو جماعت احمد یہ عالمگیر کیلئے ہر لحاظ سے مبارک اور بابرکت کرے.آمین.خاکسار برہان احمد ظفر درانی ( ناظر نشر و اشاعت قادیان)
بد الله الرحمن الرحيم و على عيد المسيح الموعود.۱۳ تاریخ احمدیت کی تیرہویں جلد که تاریخ احمدیت کی تیرمویں جلد طبع ہو کر اجاب کے ہاتھوں میں پہنچ ریجہ سے اس جلد میں جماعت احمدیہ کے تین تبلیغی مشنوں کا ذکر کیا گیا ہے - اردن مشن ۲- حجر من مشن سو مسقط مشن.ہر مشن کے متعلق مفصل طور پر بتایا گیا ہے کہ کس طرح سے اس کی داغ بیل پڑی اور پھر کس طرح سے اللہ تعالے نے ہمارے مبلغین کی مساعی میں برکت دی.اور غیر معمولی طور پر ان کو کامیابی حاصل ہوئی.جرمن شن کہ یہ خصوصیت بھی حاصل ہوئی کہ سید نا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ وہاں تشریف فرما ہوئے پھر حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثالث بھی نہ ہاں رونق افروز ہوئے.اور اس قطعہ زمین کو اپنی دعاؤں اور میہ کتوں سے نوازا جس کے نتا بجے ناظرین اس جلد میں ملاحظہ فرما میں گے.علاوہ ازیں اس جلد میں ہجرت کے بعد لاہور میں جماعت احمدیہ لاہور کا ہو جلسہ ہوا اور اس کیا حضرت مصلح موعود یی اللہ عنہ نے جن ارشادات سے نوازا ان کا بھی ذکر ہے، بغیر جو پہلا حلیہ بیدہ میں ہوا اور حضرت مصلح موعه و رضی اللہ عنہ نے پھر ایمان افروز تقاریر کیں اور جو دعائیں ربوہ کی ترقی اور اسلام کی سربندی کے لئے کی گئیں ان سب کا مفصل ذکر کیا گیا ہے.اس کے بعد حضور رضی اللہ عنہ جن حالات میں ربوہ میں مستقل رہائش کے لئے تشریف لائے الہ، اقعات کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے.آج کا ربوہ اُس وقت کے ربوہ سے بہت ملتے ہیں حضور یہاں رہائش کے لئے تشریف لائے اس وقت به بوہ میں کچی اینٹوں کے بنے ہوئے چند دفا تر اور چند مکانات تھے اور گھٹنوں گھٹنوں کلر اٹھتا تھا جس میں چلتے ہوئے پاؤں دھنس جاتے تھے.آہستہ آہستہ اللہ تعالے نے اس مقام کو برکت دی اور چند ہی سالوں میں صدر امین احمدیہ تھریکہ ، جدید لجنہ اماء الله اور وقف جدید کے دفاتر اور تعلیمی ادارہ جات کی شاندار عمارت میں معرض وجود میں آ گئیں اسیطرح گولبازار اور رحمت بازارہ گیا اور رسم کسی بچے مکانات بن گئے.حال ہی میں بنے ہوئے فضل عمر فاؤنڈیشن کے دفتر اور لائبریری کی خوبصورت عمارت نے دیوہ کی خوبصورتی میں اضافہ کر دیا ہے.اس سال حضرت امیرالمومنین خلیفہ اسیح الثالث ایده الله تعالے کا نہیں میں توسیم سے ! کے ایک حصہ کی مشرکین بھی پختہ بن گئی ہیں، اور سکسی مکوہوں کی گھاس اور پورہ سے لگ گئے ہیں.اسی طرح گولیا
اور رحمت بازار میں دونوں سڑکوں کے درمیان گھاس کے قطعات بنا دیئے گئے ہیں جن سے رابعہ کی خوبصورتی میں بہت اضافہ ہوا ہے.بہر حال جو دعائیں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعا لے عنہ نے افتات توہ کے موقعہ پر کہیں آن ہم انہیں پورا ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں آج یہاں ضروریات زندگی کے سب شعبے موجود ہیں اور یہیں باہر کی دنیا سے تعلقات رکھنے میں کوئی وقت پیش نہیں آتی.امسال کاغذ کی نایابی کی وجہ سے اندیشہ تھا کہ تاریخ احمدیت کی تیر موں میں جلد شائع نہ ہو سکے گی لیکن جنین اللہ تھی نے نے اپنے مشکل سے وسط دسمبرمیں نہیں کا مذہب کر دیا اور نقوش پولیس نے تاریخ احمدیت طبع کرنے کے لئے پوری جدوجہد کی.اللہ تعالے ان کو جزائے خیر دے خاکسار کو بھی اللہ تعالے نے اپنے فضل کے ساتھ سارے کام کی نگرانی کرنے کی توفیق دی.ہر سال تاریخ احمدیت کی ایک جلد شائع کی جاتی ہے یہ ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے اور اس کو دکھا لونگ سمجھ سکتے ہیں جو تصنیف اداث عت کا کام کرتے ہوئے.مکرم مولانا دوست محمد صاحب شاہد کو اس کے لئے دون رات ایک کرنا پڑتا ہے اللہ تعالے سے دعا ہے کہ وہ ان کو اپنے فضل سے نوازے اور ہمت عطا کرے کہ وہ تاریخ کے کام کو مکمل کر سکیں.آمین جی دوستوں نے کتاب کی کتابت پر دف پر پہنے اور دیگر امور میں مدر فرمانی ہے کہیں ان سب بھی ممنون ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیے ہماری ناچیز کوششوں کو قبول فرمائے اور انجام سنخیر کرے آمین ربنا تقبل منا انك انت السميع العليم خاکسار ابو المنير نورالحق بلوایات اور معین مینجنگ ڈائر کٹر دار اصلی ۲۱
صفحه ۱۴ الر 19 F.۲۱ ۲۲ ۲۴ ۳۰ ۳۵ نهرست مضامین تاریخ احمدیت جلد سنه نوان پہلا باب شرق اردن مشن کی بنیا د سے لے کر جلسہ سالانہ قادیان ۳۲۷ انتشار ۵۴۰ از تیک اردن مشن کی بنیاد فصل اول اردنی پرین میں احمدی مبلغ اور جماعت احمدیہ کا ذکر اردن کی اہم شخصیتوں تک پیغام احمدیت حضرت صلح موعود کا پیام دلی ارون شاہ عبداللہ بن حسین کے نام شاه اردن سے احمدی مبلغ کی ملاقات ایرون کے سب سے پہلے احمدی - اردون مشن کی اسلامی خدمات زائرین کی نظر میں - فصل دوم افتتاح ربوہ کے بعد نئی بستی کی آبادی اور تعمیر کے ابتدائی انتظامات خیموں کی از سر تو نصیب ربوہ کے خیرہ نشینوں کے لیل و نہار اور ان کی مشکلات بچہ ایک نظر تعمیر مرکزہ کے لئے محضرت مصلح موعود کا والہانہ شوق حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا مکتوب حضرت مصلح کو گرد کی ورمت میں حضرت مصلح موعود کی طرف سے راہنما اصولوں کی تعیین ہر کام کے لئے نگرانوں کا تقرر سر زمین ریوہ کا سرے اور نقشہ کی تیاری اور نظور دن میں شدید مشکلات صد را تخمین احمدیہ کی گزارشات ایک نظر میں قانونی جدو جہاں کامیابی پانی کی فراہمی کا مسئلہ.وجود این نفلی صدر انجمنی احمدید و تحریک بدید کا قیام
نوان صفحة عارضی تعمیرات کے لئے ضروری سامان کی فراہمی ربوہ میں پہلی عارضی عمارت کی بازیاد حضرت شرکت کے خواہش مند اہل حرفہ کو تیار رہنے کا حکم فصل سوم ربوہ میں حضرت مصلح موعود کی پریس کانفرنس اور اخبارات میں چہ چا اخبارات میں تفصیلی خبر اور جماعت احمدیہ کو خراج تحسین کو الف قادیان درویشوں کا سوشل بائیکاٹہ احمدیہ شفاخانہ کا قیام درویشان قادیان کے لیل و نہار نصل چهارم صاحبزادہ مرزا نسیم احمد صاحب کی درویشانہ زندگی کا آغاز مساجد تادیان کی حفاظت کے لئے ناقابل فراموش مساعی قادیان کے پہلے درویش کا انتقال بہشتی مقبرہ سے ملحق باغ کا مقدمہ انوالہ سلم خواتین کی بازیابی کے لئے عظیم الشان جد وجہد ۲۵ عشاق احمدیت کی دیار حبیب میں تشریف آوری در ولیوں کی مشکلات NC ۴۹ لم ۵۴ 웃으 م ۶ 4L لمے 29 دفتر زائرین کا قیام فصل نجم لم سالانه علیه ناویان / ۶۱۹۷۸ حضر به امیرالمومنین حسان در دو کا روح پور پیغام حضر صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا پیغام شعرت ام المودی نین له کا پیغام Ad q
صفحه ١٠٢ ۱۰۴ 1.6 1.6 1-9 lid ۱۵ 119 119 119 ۱۲۰ ۱۲۱ ۱۲۲ ۱۲۵ ۱۲۷ نوان حضرت نواب میاد که بیگم صاحبہ کا پینوزا در درد انگیز کام مقررین جلسه لوائے احمدیت کا لہرایا جانا جلسہ میں لاؤڈ سپیکر کا محمدہ انتظام اور نہ شکن حاضری دوسرا باب جات الان لا جون / ۱۹۲۸ سے لے کر جرمینی او مسقط میش کے قیامت کے 19 فصل اول جاسر سالانہ لاہور میں حضرت مصلح کی ایمان افروز تقریریں.افتتاحی تقریب اختتامی خطاب جلسہ کے دوسرے مقررین جلیل القدر صحابہ کا انتقال فصل دوم فصل سوم ۱۳۲۷ ایش / ۱۹۴۸ء کے بعض متفرن مگر اہم واقعات خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں خوشی کی تقریب امیر جماعت احمدیہ صوبہ سرحد کا بھارتی حکومت کے نام مشرقی پنجاب کے احمدی قیدیوں کی رہائی.چودری محمد ظفر اللہ خان صاحب وزیر خارجہ کی مسلم فلسطین سے متعلق خدمات کا ذکر پاکستان پریس ہیں.حضرت صلح موعود کا اہم پیغام فلسطینی احمدیوں کے نام مجالس خدام الاحمدیہ پاکستان کی رکن با نتع میں اسم شوری مجاهد امریکہ مرزا منور احمد صاحب کا وصال - انڈونیشیا کے دو مخلص احمدیوں کا انتقال
سنوان صفحة دمشق کے ایک مخلص احمدی کا انتقالی IPA ١٢٨ احمد نگر میں سیدنا حضرت امیرالمومنین کی تشریف آوری بیر ولی مشنوں کی سرگرمیاں ناسلین مشن مجاہد اردن کا دورہ شام پولینان سیرالیون مشن نائیجیریا مشن مشرقی افریقہ مشن امریکین احمدیوں کی پہلی سالانہ کا نفرنس مجاهد این احمدیت کی آمد در روانگی نئی مطبوعات تمہ منی مشن کا احیاء فصل چهاره خلافت ثانیہ کا چھتیسوال سال ۱۳۳۰ ابتدائی تبلیغی سرگرمیاں جرمن میں تحریک احمدیت کی داغ بیل نیورمبرگ میں جماعت کا قیام ۱۲۹ ۱۳ ۱۳۵ ۱۳۵ ۱۲۶ I+4 ۱۳۷ سوا ۱۳۸ جو میں مستشرق ڈاکٹر ٹن کی کے بعض سوالات اور حضرت مصلح موعود کے ایمان روز را با ۱۳۸ ہیمبرگ میں احمدیہ اور مبین مشنر کی ہو تھی کا نفرنس حضرت صلح ہو گو کا جوین می دو در حضو کا ایمان افروز خطاب اور دوسری اہم دینی مصروفیات امیر المومنین ٹاؤن ہالی ہیں.ہیمبرگ مسجد اور سیمی پریس بر من ترجمہ قرآن کی اشاعت بر من شن میں فراضیه تبلیغ بجالانے والے مجاہدین احمدیت مسجد فرانکفورت کی تعمیر و اختتام رسالہ الاسلام کا اجتماع ۱۴۵ 1N4 18.10.101 ۱۵
نوان صفحة ۱۵۳ ۱۵۴ ۱۵۴ ۱۵۶ 104 ۱۵۶ 100 (9) ۱۶۳ उपत 140 149 149 ۱۷۲ K 149 ۲۱۵ ۲۱۵ حضرت سیدہ نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ جرمنی میں ہیمبرگ مشن کی عمارت میں توسیع سیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالے کا مغربی جرمنی کی طرف پہلا سفر کتابوں کی عالمی نمائش میں مشن کی نمائندگی صدر مجبوری بنی گال کو اسلامی لٹریچر کی پیش کش ایک مشہور سیمی منا کو قبولیت دعا میں مقابلہ کرنے کی دعوت ادراس کا واضح انکار قیام مشن فرانکفورٹ کی دس سالہ تقریب اسپرانٹو زبان میں قرآن مجید کے ترجمہ کی اشاعت و مقبولیت وفاقی جمہوریہ جرمنی کے صدر کو جینی ترجمہ قرآن کی پیشکش حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا دوسرا اسلام مغربی جرمنی حیدر من کشن کا مرکز فرانکفورٹ میں جی مشن کی اسلامی و ملیر ماست مشن کی سہنری خدمات دوسروں کی نظر میں مسقط مشن کی بنیاد فصل پنج تیسرا باب ربوں کے پہلے سال در علیہ سے لے کہ سیدنا حضرت مسیح موجودکی دارالہجر میں فرضی باشی فصل اول.تشریف آوری تک زیادہ کا پہلا سالانہ جا انتظام جلسہ کے لئے حضرت امیرالمومنین کی ہدایات حضرت مصلح موعود کا معائنہ انتظامات کی خاطر ربوہ کا خصوصی سفر رو میشن کی منظوری اور گاڑیوں کی باقاعدت آمد درفت صدر مجلس خدام الاحمدیہ کی طرف سے تربیت یافتہ رضا کاروں کے لئے اپیل.جبہ ربوہ کا افتتاح اور حضرت الصلح الموعود کا المیدان امر در خطاب الفضل کی خصوصی اشاعت.خطبہ جمعہ میں جماعت کو ہمیشہ مرکزیت سے وابستہ رہنے کی موثر تحریک
نوان صفحه Fig ۲,۱۶ P 14 ۲۴۹ Fa.۲۵۰ ۲۵۰ ۲۵۲ ۲۵۱ ۲۵۵ ۲۵۰ FAN VAA مجلس مشاورت کا انعقاد حضرت امیر المومنین نسان موعود کا خواتین احمدیت سے خطاب حضرت امیر المومنین کی مردانہ ملبہ گاہ میں نہایت پر معارف تقریب اسکلاس دوم میں حضرت مصلح موعود کی ایمان افردنا خالت می تقریب ربوہ کے پہلے تاریخی جلسہ گانہ کے کوائف پہا ایک طائرانہ نظر جلسہ کی حیرت انگیر کا میابی پر حضرت مصلح موعود کا خطبہ جمعہ نصل دوم حضرت مصلح موعود کا سفر سنده و کوئٹہ.کری سے محمود آباد اسٹیٹ ناہلی اسٹیشن پر درود صفقہ نور نگر میں صادق آباد کی بنیاد اور گھوڑوں کی دیکھ بھال کیلئے ہدایات تغیر عظیم پیدا کرنے کے لئے سندھی پڑھنے لکھنے اور لوٹنے کی ضرورت احمد آباد اسٹیسٹ سے نجی جیجی سے کوار کوٹ میں خطہ تیجہ جماعت کو نئی آزما کشوں کے لئے تیار ہو جانے کا کا رمضان المبارک کی بہار سے متعلق بصیرت افروز خطابا در استماعی و عا ونما قرآن مجید کا اردو ترجمہ سیکھنے کی پر زور تحریک آیت قل ان صلاتي..الم کی لطیف اور پر معارف تفسیر اسی سلسل خطبات اسلام اور موجودہ مغربی نظرئیے کے موضوع پر ایک السہ عام میں اثر انگیز خطاب نصل حضرت نواب محمد الدین صاحب کا انتقال فصل چهارم ابود می حضرت مصلح موعود کی لغرض رہائش آمریکا سفر ربوہ کے چند بقیہ واقعات ضمية گروپ فوٹو ملین مین احمد بیت جلسہ مسلمانہ قادیان شملہ میں شریک ہونے والے بھارتی احمدیوں کی فہرست در ونیشان قادیان کی بقیہ فہرست حضرت نواب محمد الدین صاحب کا ایک مکتوب
بسم الله الرحمن الرحيم --- تحدة وتصلى على رسوله الكرية وَعَلَى عَبْدِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُود : پہلا باب شرق اردن میشن کی بنیاد سے شکر جلد سالانه قادیان سه تک ۲۶۱۹۴ انان ۱۳۲۷ مش با فتح ۱۳۲۷ میش ارت ۱۹۴۸ء تا دسمبر ۱۹۴۸ به فصل اول اُردن شن کی بنیاد خلیج فارس سے مراکش تک پھیلی ہوئی سکی کیا دنیا میں شرق اردن (JORDON ) ایک نہایت مشہور مملکت ہے.ارواج کا علاقہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ممتاز صحابی اور آپ کے خلیفہ ثانی حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے نامور فوجی جرنیل حضرت شرحبیل بن دشنہ رضی اللہ تعالی عنہ نے ذو القعدہ میں تم کیا اور صدیوں تک دمشق ہمتی اور فلسطین کی طرح جنوری ۶۹۳۵ سے بالکل اوائل میں اسلام لائے، نہا جرین حبشہ کے پاک گروہ میں شامل تھے.کئی غزوات میں حصہ لیا.حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں شام کی جنگی مہمات یہ بھیجوایا جہاں آپ نے ان میں عمر اس مقام پر سال وفات پائی (طبقات ابن مد جلده صفحریم و مطبوع ایرا : ۱۳۳۲ ه تاریخ طبری بلدرس صفحه ۲۳۵ مطبوعہ دار المعارف و فتوح المبادران صفحه ۲۲ مطبوعة ۹۳۳
شام کی اسلامی عملداری میں شامل رہا.مگر پہلی جنگ عظیم (جولائی سالہ نومبر ہ کے بعد اسے برطانیہ کے زیر حمایت ایک مستقل ریاست تسلیم کر لیا گیا.یہ ریاست دوسری جنگ عظیم در تبرستان اگست ۹۲) کے خاتمہ پر برطانوی انتخاب سے آزاد اور خود مختار ہو گئی اور عبد اللہ بن شریف حسین انہاشمی اس کے پہلے آئینی بادشاہ قرار پائے.شاہ عبد اللہ والی اُردن کی بادشاہت کے تیرے سال مولوی رشید احمد صاحب چغتائی واقف زندگی هرماه امان ماریا کو حیفا سے شرق الاردن کے دارالسلطنت عمان پہنچے اور ایک نئے احمدیہ مشن کی بنیاد ڈالی.یہ مشن ، ماہ وفار جولائی ۳ پیش تک جاری رہا.اس کے بعد آپ شام دلبستان میں تشریف لے گئے اور دین برحق کی منادی کرنے لگے.سید نا حضرت امیر المومنین المصلح الموعود رضی اللہ عنہ نے حضر مسیح موعود کی بدلیا مولوی رشید احمد صاحب پیغتائی کو قادیان سے رخصت کرتے وقت حسب ذیل ہدایات ان کی نوٹ ایک میں تحریر فرمائی تھیں کوئی کے رسول کو سلام اور علیہ وسلم فرماتے ہیں میر کارائی پائوں کے کرتے ے ہر کو چین سے تعلق نہ ہو کر آئی کی کرنا اسے عقد باتوں کے ٹکری کے پر سیر کرو.تبلیغی پر ا یا اسے بہت دی یا اتنی سی انکو یاد کریں اور امیر عمل کر بنی.کرانے کا ہے یا نہ قد ہ تو اور سن اس اس ساله که بار کینک ہم قریہ وہ لوگ کیا کہتے رہے کہ یہ ربیع آئے کہ سے اعلام لیکر دنیا فتح کرتی ہے یہ سبق پروانہ کو مسلتے کیوں کیا شرارت ۲ وقت : ۲۹۵
بانی ربوہ سید نا حضرت مصلح موعود اسلام کے چوتھے نئے اور مقدس مرکز ربوہ کا ابتدائی نقشہ ملاحظہ فرما رہے ہیں
یگار سیر یانیشی ناتوانیت دما و راس خانه معد شادی کے کی روزہ ہو ایلها بلنے سے زیادہ عبادت اور دعا مهر روزه بر تعداد ای گر اکیا شهر رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ان باتوں سے پر ہیز کرو جن سے تعلق نہ ہو.قرآن کریم فرماتا ہے لغو باتوں سے پر ہیز کرواد تخلیقی ہدایات بہت دی جا چکی ہیں ان کو یاد کریں اور ان پر عمل کریں کسی نے کہا ہے یا زرق در خود بشناس“ اس مقولہ کو یادرکھو ہم غریب لوگ ہیں ہم نے اپنے ذرائع سے کام لے کر دنیا فتح کرنی ہے یہ سبق بھولا تو تبلیغ یونہی بیکار ہو جائیگی.باقی فتح دعاؤں اور نماز اور روزہ سے آئے گی تبلیغ سے زیادہ عبادت اور دعا اور روزہ پر زور دو.خاکسار مرزا محمود احمد (۲۳) پھر سر نبوت را برایش که مولوی صاحب کا ایک خط ملا نظطہ کر کے ارشاد فرمایا :- اب وقت کام کا ہے.تبلیغ پر زور دے کر ایک موت وار کریں تا احمدیت دوبارہ زندہ ہو اور مالی اور روحانی قربانی کی جماعت کو نصیحت کریں.اب ہر ٹک کو ایسا منظم ہونا چاہیئے کہ ضرورت پڑنے پر وہیں تبلیغ اور سلسلہ کا بوجھ اٹھا سکے.پہلے بہت مستی ہو چکی.اب ایک مجزا نہ تخیر ہمارے مبلغوں اور جماعت میں پیدا ہونا چاہیے" ارون مشن کی ابتداء نہایت پریشان کن ماحول اور حوصلہ شکن حالات میں ہوئی.قضیہ فلسطین کے باعث ہر طرف ابتری پھیلی ہوئی تھی اور دور سے کثیر تعداد نظوم فلس اینی مسمانوں کی طرح سینا کے متعدد علمی گھرانوں کو ہی وبست کر کے شام و لبنان می پناہ گزین ہونا پڑا تھا بخود مولوی رشید احمد صاحب چغتائی جو حیفا ہی سے اردن میں تشریف لائے تھے محض اجنبی اور غریب الدیار تھے.مولوی صاحب موصوف نے اپنی تبلیغی علمی اور اصلاحی سرگرمیوں کا آغاز ایک ہوٹل سے کیا جہاں آپ صرف چند ہفتے تقسیم رہے مگر پھر جلد ہی انتخابات میں تنگی کی وجہ سے، اپنے ایک عرب دوست السيول عين الكريم الملفابطة ابن المساج محمد هلال المعايطة کے ساتھ ایک کمرہ میں رہائش پذیر ہو گئے.چند ماہ بعد جب فلسطین کے ایک مخلص عرب امری بیانگر این السيدة القران عمان میں آگئے تو مولوی صاحب ان کے پاس ایک مختصر کمرہ میں منتقل ہو گئے.یہ مرہ کرایہ پر لیا گیا تھا اور شارع المحله زریو سے روڈ پر واقع تھا.
اردنی پریس میں احمدی مبلغ مکرم مولوی صاحب نے عمان میں قیام پذیر ہونے کے چند روز بعد نہ صرف انفرادی ملاقاتوں کے ذریعہ پیغام حق پہنچانا شروع کر دیا اور جماعت احمدیہ کا ذکر بکہ ایران کے صوفیوں سے خصوصی روابطہ قائم کر کے پبلک کی حمدیت اور اس کی اسلامی، ندمات سے روشناس کرانے کے بہترین مواقع پیدا کر لئے.نتیجہ یہ ہوا کہ نہایت مختصر وقت کے اندر پورے اردن پر میں میں احمدی مبلغ اور احمدیت کے تذکرے ہونے لگے چنانچہ الاردن "الجزيرة" "النسر " "وكالة الأنباء العربية" اور " الدفاع " جیسے مقتدر اور بااثر اخباروں نے تعارفی نوٹ شائع کئے یہاں بطور نمونہ صرف دو اقتباس مع ترجمہ درج کئے جاتے ہیں :.ا الاردن " نے حسب ذیل نوٹ درج اشاعت کیا.• زَارَنَا فِي إِدَارَةِ هُدَةِ الْجَرِيدَةِ الْمُبيِّرُ الإِسْلَا فِي الْأَسْتَاذُ رَشَيْد يَحْمَدُ فتانِي الأَحْمَدِى الهندى فانستا به بعض الوقت وبالنظر لما يربط الدول الْعَرَبِيَّةُ بدولة الباكستانِ الْجَدِيدَةِ مِن رَوَابِطِ دينيَّةٍ وَاجْتِمَاعِيَّةٍ سألنا حضرته اسئلة كثيرة تَتَعَلَّقُ بالهند وبمسلميها وهندوكيها.والاستاذ ينتمى إلى الجماعة الاحمدية التي تبشر بالدين الإسلامي والمنتشرة في اقطار العالم وهو شاب في نحو الثلاثين ربيعاً أوقف حياته في خدمة دين الاسلام ونشره.وعلمنا انه زار عدداً من الشخصيات الدينية والحكومية وسيتشرت بمقابلة جلالة الملك المعظم وحدثنا عن تعلق مسلم الهند بالعرب ومحبتهم لآل البيت.و قد قال ان مسلمى الهند يعتقدون انهم مدينون دينا عظيما للعرب الذين نشروا بينهم لواء الاسلام فاهتدوا بهدیه و انهم لو فقدوا أعزّ ما لديهم في سبيل نصرة الحرب لما وفوا جزءاً من فضلهم هذا عليهم ثم قال ردا على سئوالنا ان مسلمى الهند متعلقون بأل البيت ومحبون لهم اعظم الحب.
وقد اطلعنا الأستاذ على النشرات الدينية التي تصدر في جميع بلدان العالم لنشر الدين الاسلامي من قبل الجماعات الاحمدية ثم قال ان الجماعة في انحاء العالم تنشر الدعاية القوية لفلسطين العربية ومقدساتها الدينية ويقاومون الدعاية الصهيونية وكتب امام الجماعة (حضرة ميرزا بشیر الدین محمود احمد مؤخدًا رسالة فى موضوع فلسطين نشرت باللغة الأردية 2 وترجمت إلى جميع اللغات دفاعاً عن فلسطين العربية " له مبلغ اسلام مولوی رشید احمد صاحب چغتائی الاحمد کی الہندی ہمارے دفتر میں بغرض ملاقات تشریف لائے.ہم نے آپ سے اُن دینی اور اجتماعی روابط و تعلقات کی بناء پر جو پاکستان کی نئی مملکت کو عرب حکومتوں سے وابستہ کرتے ہیں.بر صغیر کے مسلمانوں اور ہندوؤں کی نسبت متعد د سوالات کئے.جناب مولوی صاحب جماعت احمدیہ سے تعلق رکھتے ہیں جو مذہب اسلام کی تبلیغ و اشاعت کرتی اور اکناف عالم تک پھیلی ہوئی ہے.مولوی صاحب قریباً تیس سالہ جوان ہیں.آپ نے خدمت دین اور اشاعت اسلام کے لئے اپنی زندگی وقف کر رکھی ہے.ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ ملک کے بہت سے مذہبی راہنماؤں اور اعلیٰ سرکاری افسروں سے مل چکے ہیں اور عنقریب جلالة الملک شاہ معظم کی ملاقات سے بھی مشرف ہونے والے ہیں.آپ نے بر صغیر کے مسلمانوں کے عرب سے تعلق اور اہل بیت نبوی سے عقیدت و محبت کا بھی تذکرہ کیا.انہوں نے فرمایا کہ مسلمانان برصغیر کا اعتقاد ہے کہ وہ عربوں کے بیحد مقروض ہیں جنہوں نے اُن کے یہاں پرچم اسلام لہرایا اور جن کی راہ نمائی سے وہ ہدایت یافتہ ہوئے سو اگر وہ عربوں کی اعانت و تائید میں اپنی عزیز تمرین منابع بھی خرچ کر دیں تب بھی وہ اُن کی مہربانی را لة جيدة " الأمادن" همان نمبر ۱۲۰۲ مجله ۲۹ ۱۷ جمادی از اول راه مطابق ۲ اپریل ۱۹۹۸ ۰ سے متن میں الھند کا لفظ ہے جو بر صغیر پاک و ہند کے لئے استعمال ہوا ہے ،
کا صلہ نہیں دے سکتے.انہوں نے ایک سوال کے جواب میں مزید فرمایا کہ بر صغیر کے مسلمان اصل بیت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے گہری محبت و الفت رکھتے ہیں.مولوی صاحب نے وہ مذہبی لٹریچر بھی دکھایا ہو احمدی جماعتوں کی طرف سے دُنیا بھر میں دین اسلام کی اشاعت کے لئے شائع ہوتا ہے.پھر بتایا کہ جماعت احمدیہ فلسطین عربیہ اور اس کے مقدس مقامات کی حفاظت و تائید اور صہیونی پراپیگنڈا کے قلع قمع کے لئے سرگرم عمل ہے.چنانچہ حال ہی میں خود حضرت امام جماعت احمدیہ (حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد) نے مسئلہ فلسطین کے موضوع پر اردو میں ایک مضمون سپر وسلم فرمایا جو فلسطینی عربوں کے دفاع کی غرض سے دیگر زبانوں میں بھی شائع کیا بھا چکا ہے.ممتاز جريدة "النسر" نے لکھا :- " قدم العاصمة المبشر الاسلامي الهندي ميرزا رشید احمد چغتائی الاحمدى ليقوم بجولة في ربوع الأردن وهو من الجماعة الأحداية أحدى طوائف الاسلام ومركزها فى الهند وامامها الحالي حضرة ميرزا بشیر الدین محمود احمد وهذه الجماعة تعمل على الدعوة إلى الإسلام والتبشير بالدين الحنيف.وينتشر اعضاءها و مبشروها في جميع انحاء العالم وقد دخل فى الاسلام الون من الناس بفضل جهود افراد هذه الجماعة - كما أسست عددًا كبيراً من المساجد والجوامع والمراكز التبشيرية فى اكثر أرجاء العالم ومنها في انجلترا و امريكا و افريقيا وجزر الهند والصين واليابان والبانيا و فرنسا و ايطاليا وسويسرا وقد ترجمت الجماعة القرآن الكريم الى عشر لغات اجنبية.ويبلغ عدد الاحمديين فى العالم عدة ملايين وتعتقد جماعة الاحمديين بأن مؤسسها الاول حضرة ميرزا احمد (عليه السلام) المولود سنة ۱۸۳۵ء والمتوفى سنة ١٩٠٨ء هو المهدي المنتظر والمسيح الموعود والمجدد للقرن الرابع عشر هجرى.وقد
جاء ليقيم الشريعة المحمدية ويحى الدين ويخدم الاسلام حتى تكون الغلبة له.وقد الف وكتب ٨٠ كتابا حلها في تأئيد الاسلام والدفاع سے ہے.عنه.وبعضها باللغة العربية الفصحى.وقد اطلعنا المبشر الضيف على نشرات مختلفة تصدرها الجماعة الاحمدية في الهند وخارجها كما اخبرنا ان افراد هذه الجماعة قاموا بدعاية واسعة لقضية فلسطين في مختلف مراكزها وخاصة في الهند.حيث اصدار میرزا بشیر الدین رسالة باللغة الأردية يشرح فيها قضية فلسطين" له ا ترجمہ ان دنوں بر صغیر سے میرزا رشید احمد چغتائی الاحمدی مملکت شرق الاردن کے دورہ کی غرض سے دارالسلطنت عمان میں تشریف لائے ہوئے ہیں.آپ کا تعلق جماعت احمدیہ جو اسلامی فرقوں میں سے ایک فرقہ ہے جس کا مرکز هندوستان میں ہے اور حبس کے موجودہ امام حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد ہیں.یہ جماعت اعلائے کلمہ اسلام میں مصروف ہے اور اس کے افراد اور مبشرین اکناف عالم تک پھیلے ہوئے ہیں ہیں جماعت کی شاندار مساعی کے نتیجہ میں جہاں ہزاروں لوگ حلقہ بگوش اسلام ہو چکے ہیں وہاں دنیا کے اکثر حصوں میں مسجدیں، مدرسے اور تبلیغی مشن قائم ہو چکے ہیں جن میں سے بعض کے نام یہ ہیں : انگلستان، امریکہ ، افریقہ جاوا سماٹرا وغیرہ جزائر سہند ، چین ، جاپان، البانیہ ، فرانس، اٹلی ، سوئٹزر لینڈ وغیرہ.یہ جماعت وس غیر ملکی زبانوں میں قرآن مجید کے تراجم بھی کر چکی ہے.دنیا بھر میں احمدیوں کی تعداد چند رلین ہے.جماعت احمدیہ کا عقیدہ ہے کہ بانی جماعت احمدیہ حضرت میرزا احمد (علیہ السلام) (جن کی ولادت سے اپر میں اور وفات نشانہ میں ہوئی ، مہدی منتظر مسیح موعود اور چودھویں صدی کے مجدد ہیں اور آپ کی آمد شریعت محمدیہ کے قیام، احیائے دیں اور خدمت اسلام کے لئے ہوئی تھی تاکہ اسے علیہ نصیب ہو.آپ نے اتنی کے قریب کتابیں تالیف فرمائیں جو سب اسلام کے دفاع اور لجريدة " النسر ".عمان ٤ جمادی الثانی ۱۳۶۷ هـ مطابق ۱۳ اپریل ۶۱۹۴۸ نمبر ۴۰ جلد اول
تائید میں تھیں اور جن میں سے بعض فصیح عربی زبان میں ہیں ہمیں مولوی صاحب نے جماعت احمدیہ کی طرف سے بر صغیر اور بیرونی ممالک میں شائع ہونے والا لٹر پھر بھی دکھایا.نیز انس جد و جہد سے بھی مطلع کیا جو مسئلہ فلسطین کے بارے میں جماعت احمدیہ کے مختلف مشتوں نے کی ہے.بالخصوص برصغیر میں خود حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد ( امام جماعت احمدیه نے قضیہ فلسطین پر روشنی ڈالنے کے لئے ایک خاص مضمون شائع فرمایا.قیام اُردن کے دوران مولوی رشید احمد صاحب اُردن کی اہم شخصیتوں تک پیغام احدیت بینائی مصاعد عام عربی نے اوران کی بہت سی ممتاز شخصیتوں سے ملاقاتیں کیں اور اُن تک احمدیت کی آوازہ پہنچائی.مثلاً - السيد عبد الرحمن الخليفة رئيس الديوان الملکی (پرائیویٹ سکرٹری شاہ اُردن) صاحب السعاده سعید پاشا مفتی السيد محمدامین التنقيطي روزیر داخلہ اردن) وزیر تعليم و قاضي قضاة ) ) وزیر خارجه اردن) اردن میں لبنانی وزیر مفوض) م فوری پاشا ملقی عبد الله التجار شیخ عبد العزيز زار دن میں سعودی وتریز معوض عبد الله بكه تل -A رلیفٹننٹ جنرل فلسطینی مجاز کے نامور جرنیل و بیت المقدس کے فوجی گورنیا بہجت بك تلمونی رئیس محکمہ ہدایت ارید ( جو چار دفعہ اردن کے وزیر اعظم بنائے گئے) هزاع المجادلی رئیس بلدية العاصمه و مدیر التشريف المکیہ (آپ بھی بعد میں وزارت عظمی کے منصب پر پہنچے) علاوہ ازیں مکرم مولوی صاحب موصوف کو اسمبلی کے ممبروں، مختلف مدارس کے ہیڈ ماسٹروں اور سماجی لیڈروں سے بھی ملنے کا موقعہ ملا.جناب بہوت تلمونی سے اُردن میں مبشر احمدیت کی پہلی ملاقات ہوئی تو انہوں نے جماعت احمدیہ کی علیہا سلام کے لئے بین الاقوامی کوششوں کو بہت سراہا اور اپنے قلم سے حسب ذیل نوٹ لکھا.انه لما يثلج الصدر ويحيا القلب ان نرى بين ظهرانينا و في معظم
محمد اتحاد العالم مبشرین عالمین مسلمین امثال الأستاذ السيد رشيد احمد جغتائی الهندى الباكستاني يعلمون امور الشرع الإسلامي و يسعون لتعليمها لرفع رأية الإسلام فبارك الله فيهم واكثر من امثالهم و نفع البشر من علمهم والسلام على من اتبع الهدى.٤٨/٧/٥ رئيس محكمة بداية اربد.وزارة العدلية المملكة الاردنية الهاشمية یقینا یہ امر سینہ میں ٹھنڈک پیدا کرتا اور دل کو شگفتگی ، تازگی اور زندگی بخشتا ہے کہ ہم اپنے درمیان اور دنیا کے بیشتر علاقوں اور طرفوں میں مولوی رشید احمد صاحب چغتائی پاکستانی کی مانند تبلیغ کرنے والے مسلم علماء دیکھ رہے ہیں جو شریعت اسلامیہ کے مسائل سکھلانے اور اسلام کی تحقیقی تعلیم کو پیش کرنے میں کوشاں ہیں تا تسلیم اسلام کو دنیا میں سر بلند کر سکیں.اللہ تعالے ان میں برکت ڈالے.ایسے مبلغین بکثرت دُنیا میں پھیلا دے اور بنی نوع انسان کو اُن کے علم سے فائدہ پہنچائے اور ہدایت کی پیروی کرنے والوں پر خدا کی سلامتی ہو.در جولائی ۱۹۴۸ بہجت تیس محکمہ بدایة اربد وزارة العدليه المملكة الاردنية الهاشمي مکرم مولوی رشید احمد مراتب، چین تائی نے عیسائیوں کے ایک خصوصی اجتماع میں تقریم مسمانوں کے علاہ عیسائیوں کے گرجوں اور ان کی دیگر مجالس میں بھی راہ درسم پیدا کر کے ہر ممکن طریق سے انہیں احمدیت یعنی حقیقی اسلام سے متعارف کروایا چنانچہ اس ضمن میں ایک موقعہ پر دارالحکومت عمان میں اعلیٰ درجہ کے مشہور کلاب نادی عمان"
(AMMAN CLUB) میں عیسائیوں کے ایک خصوصی اور اہم اجتماع میں محترم مولوی صاحب موشون کو بھی خطاب کرنے کی دعوت دی گئی جسے آپ نے قبول کیا اور اس میں تقریبہ فرمائی.اس اجتماع میں بیٹھے بڑے عیسائی پادریوں کے علاوہ حکومت اردن کے متعدد وزراء اور بلاد عربیہ و دیگر ممالک کے سفرامر، پارلیمینٹ کے ایوان بالا اور زیریں کے کئی ایک ممبران و دیگر رؤسا ، سکولوں و کالیوں کے اساتذہ اور وکلار، مدیران جوائد وغیرہ غرض ہر مذہب وطبقہ کی چیدہ شخصیات موجود تھیں.اس جلسہ کی تفضل روداد اختبار الاردن " کے ایک خاص نمبر میں شائع کی گئی یہیں میں کیتھولک فرقہ کے فلاڈلفیا اور سارے شرق اُردن کے بشپ اور پادریوں وغیرہ مسلم و غیر مسلم جملہ مقررین کے شائع شدہ اسماء میں محترم مولوی صاحب موصوف کا نام بھی درج تھا.حضرت مسیح موعود کا پیغام والی اردن اور اردن مشن کا ایک نہایت اہم واقعہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا والی اُردن شاہ عبداللہ ابن الحسین کے شاہ عبداللہ ابن الحسین کے نام اہم پیغام اور اُن سے ملاقات ہے.اس واقعہ کا پس منظر یہ ہے کہ مولوی رشید احمد صاحب پچغتائی کو اردن میں آنے سے پہلے قیام فلسطین کے دوران و مورخہ ۲۲ افاد/ اکتوبر میں شاہ اردن سے مصافحہ کرنے کا موقعہ میستر آیا.جس کی اطلاع مولوی صاحب موصوف نے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں بھی بھیجوائی.نیز لکھا کہ اب ہے کہ میرا یہ سانحہ مجھے ارون میں پہنچنے اور ان سے دوبارہ ملاقات کا ذریعہ ثابت ہو گا کے حضرت مصلح موعود کے حضور هر ماه نبوت / نومبر یہ مہش کو یہ رپورٹ پیش ہوئی تو حضور نے ارشاد فرمایا :- د اگر ملک عبد اللہ سے ملیں تو انہیں میرا سلام کہیں اور کہیں کہ تئیں ان کے والد مرحوم سے ۱۹۱ء میں مکہ مکرمہ میں حج کے موقعہ پر مل چکا ہوں لمبی گفتگو ایک گھنٹہ تک ہوئی تھی.اس وقت میں نوجوان تھا.کوئی تئیس سال کی عمر تھی.اسی طرح میرے برادر نسبتی اُن کے بھائی ن اخبار الأردن " اعتمان مشرق اردن) خواص نمبر مجربه ۲۷ شعبان ۱۳۶۸ھ مطابق ۲۴ جون ۹۴۹ اردو سے وصل تویہ کا یہ مفہوم ہے جو خود مولوی صاحب کے ذریعہ سے زبانی معلوم ہوا.(مؤلف) سکه یعنی شریف مکہ.ان سے ملاقات کا ذکر تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحہ ۴۵۵ میں آچکا ہے : کے حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب مراد ہیں جو ان دنوں جھوٹے الزام کے نیچے ہندوستانی حکومت کی قید میں تھے.
امیر فیصل کے دوست تھے.شام میں اُن کے تعلقات قائم ہوئے تھے.بعد میں ان کی بادشاہیا کے زمانہ میں عراق میں، اُن سے طے اور انہوں نے ان کی دعوت بھی کی.میناب داری رشید احمد صاحب چغتائی نے حضرت مصلح موجود شاہ اردن سے احمدی مبلغ منی شہعنہ کا پیغام پہنچانے کے لئے وہ یہ محبت ہی یہی ہے یعنی اللہ یہ ماہ ہجرت کی ملاقات کو شاہ اردن سے اُن کے شاہی محل (قصر رغدان) میں ملاقات کی.ہمیں بادشاہ معظم آپ کے داخل ہونے پر کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور اھلاً و سھلاً و مرحباً کے الفاظ سے خوش آمدید کہا اور مصافحہ کیا جس کے بعد آپ نے بتایا کہ کس طرح انہوں نے گذشتہ عیدالانیہ سے دو یوم قبیل (۲۲ اکتوبر ینہ کو بادشاہ معظم سے بیت المقدس میں حرم شریف مسجد اتعلمی میں مصافحہ کیا جس کے بعد مولوی صاحب کے دل میں ملاقات کی خواہش پیدا ہوئی اور اس کا اظہار کبھی انہوں نے بذریعہ خط حضرت امام جماعت احمدیہ کی خدمت میں کیا.جس پر حضور نے بادشاہ معظم تا.اردو میں اپنا ایک پیغام بھجوایا.مبلغ احمدیت نے ان تعارفی الفاظ کے بعد شاہ اردن کی خدمت میں حضور کے پیغام کا عربی تر جمہ پیش کیا.شاہ اردن حضور کے پیغام سے بہت متاثر ہوئے اور آپ نے اس کے جواب میں حسب ذیل الفاظ لکھوائے اور اس پر سرخ روشنائی دستخط ثبت فرما دیتے :- الحضرة امام الجماعة الاحمدية ميرزا بشير الدين محمود احمد ! قد قرة على صديقنا رشيد احمد الاحمدی بسالتكم و اقرانی سلامكم في مطلع الجمل اللطيفه المتعلقه في وبوالدكة المرحوم و بأخي رحمه الله فشكرتكم على تلك الذكرى واثنيت عليكم ثناء المسلم للمسلم ، جزيتم خيرا و بورك فيكم فرانا نامل ان تراكم يوما ما إن شاء الله في احسن حالة المسلمين أجمعين.وإتني هنا سأعمل على مساعدة كل أخ من الهند الباكستان اذا احتاج الى تلك المساعد والسلام عليكم ورحمة الله -
It (ترجمه) بحضور حضرت امام جماعت احمدیہ میرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ! آپ کا پیغام ابھی ہمارے دوست رشید احمد صاحب احمدی نے مجھے پڑھ کر سنایا ہے اور آپ کا سلام بھی مجھے پہنچایا ہے جو آپ کے خوبصورت اور پاکیزہ جملوں کے شروع میں ہے اور جو مجھے سے اور میرے والد مرحوم اور میرے بھائی سے متعلق ہیں.میں اس یاد فرمائی یہ آپ کا شکر گزار ہوں اور آپ کی بہت تعریف کرتا ہوں جیسا کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی تعرایت کرتا ہے.بارگاہ الہی سے آپ کو جزائے خیر عطا کی جائے اور آپ کو برکت حاصل ہو.ہمیں امید ہے کہ ہم آپ کو کسی وقت تمام مسلمانوں کے لئے ایک عظیم الشان حالت میں پہنچا ہوا دیکھیں گے اور میں یہاں اپنے ہر پاکستانی بھائی کی جب بھی ضرورت پڑے مدد کرنے کے لئے تیار ہوں.والسلام علیکم ورحمتہ اللہ شاہ معظم نے یہ عقیدتمندانہ جواب لکھوانے کے بعد مولوی رشید احمد صاحب چغتائی کی ذاتی نوٹ بک پر اپنے قلم سے حسب ذیل عبارت تحریر فرمائی :.پس اس الرجی اورجم اردو و رامی علی پیر کریں وآله وصحبه اجمعه تر انتها بيت بهذا الدوخة المباركة للميت السوى اسپید رشید احمد جنائي الاحمدنا شهادة ان لا اله الا الله وان محمدا رسول المد وانیه وجميع المسلية تبنية السلام بالشراء کا ریت اثر را اعلام الحمارن شدند الاردن
بسم الله الرحمن الرحيم احدة وأصل نبيه الكريم واله وصحبه اجمعين إنني أثبت بهذا الدفتر المبارك للمبشر الإسلامى السيد رشيد احمد جغتائي الاحمدى شهادة ان لا اله الا الله وأن محمدا رسول الله والحييه وجميع المسلمين بتحية السلام عبد الله ا يجب القراء من الله عمان شرق الاردن (مهر) الديوان الهاشمی الرحمہ اللہ کے نام کے ساتھ ہے بے حد کرم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے میں ، اس مہارت کو شروع کرتا ہوں.میں اللہ کی حمد کرتا ہوں اور اس کے نبی کریم اور آپ کے آل و اصحا سب پر درود بھیجتا ہوں.میں احمدی مبلغ اسلام مولوی رشید احمد صاحب چغتائی کی اس بابرکت کاپی میں کلمہ شہادت لا اله الا الله محمد رسول اللہ تحریر کرتا ہوں اور میں مولوی صاحب کو اور تمام مسلمانوں کو اسلام علیکم کا تحفہ دیتا ہوں.والسلام (شاہی دستخط عبدالله رجب ۳ ہجری.عمان شرق الاردن دمهر، الديوان الباشمي مولوی رشید احمد صاحب چغتائی نے دوران ملاقات تحریک تجدید کے شائر میں مطبوعہ الیم ( ALBUM) سے حضرت مصلح موعود خلیفہ المسیح الثانی رخ کی شبیہ مبارک آپ کے سامنے رکھی.فوٹو دیکھتے ہی شاہ اردن کی زبان سے بیساختہ یہ الفاظ نکلے " ما احلى هذه الصورة : " کتنی ہی پیاری یہ تصویر ہے! مولوی صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فوٹو بھی دکھایا جسے آپ نے گہری نظر سے دیکھا.بعد ازاں مکرم مولوی صاحب نے شاہ معظم کی خدمت میں حضرت مصلح موعود کے مضمون
۱۴ مو تقسیم فلسطین اور اقوام متحدہ " کا عربی ٹریکٹ پیش کیا جسے شاہ نے بخوشی قبول فرمایا اور پورے ٹریکٹ پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالتے ہوئے جب اس میں جنرل سمطس کا نام دیکھا تو فرمایا دشمن فلسطین" پھر فرمایا کہ " میں اسے غور سے پڑھوں گا اور انشاء اللہ فائدہ اُٹھاؤں گا " آخر میں بادشاہ نے مملکت اردن اور پاکستان کے اسلامی روابط و تعلقات اور ایجاد و اتفاق پر گفتگو فرمائی.شاہی محل قصر یخدان میں ملک منظم سے یہ طاقات ببیس منٹ تک جاری رہی.اس ملاقات کی خبر عمان کے اخبار ” الاردن " نے اپنی ۲۱ رجب لاء مطابق ۲۹ منی شار کی اشاعت میں دی ہے గా سلطنت اُردن کے قدیم اور تاریخی شہر الکرک کو یہ شرف حاصل ہوا ارون کے سب سے پہلے احمدی کہ اردن میں سب سے پہلے وہں احمدیت کا بیج بویا گیا اور شہور کے پہلے احمدی دردوں قبيله المعایطہ کے سروالہ کے بڑے لڑکے السيد عبد الله الحاج محمد المعايطة اُن کے بعض افراد خاندان داخل سلسلہ احمدیہ ہوئے اور ارون مشن اگر چه صرف سو سال تک قائم رہ سکا تاہم اله تعالی اردن میشن کی اسلامی خدمات کے فضل کرم سے اس نہایت قلیل عرصہ میں اس کو خاصی ادات انا انا رسولہ اسکو زائرین کی نظر میں اہمیت حاصل ہو گئی اور اس کی اسلامی خدمات ملک کے اُونچے اور علمی طبقے میں بڑی قدر اور احترام کی نظر سے دیکھی جانے لگیں.اس حقیقت کا اندازہ ان تاثرات سے بخوبی ہو سکتا ہے جو اردن میشن کی اسلامی خدمات کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرنے اور میشن میں آنے والے زائرین نے خود قلمبند کئے اور جو ریکارڈ میں اب تک محفوظ ہیں.بین شخصیات کے تاثرات نہیں اس ریکارڈ میں ملتے ہیں ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں.۱۳۲ له مطيوع الفضل الرفتح او سمر کی یہ مضمون پر دھری محمد شریعت صاحب فاضل اینجاست احمدی شین بلاد عربیہ نے انہیں دنوں ترجمہ کر کے عربی ممالک میں بکثرت شائع کیا تھا که مشخصا از الفصل یکم تبوک استمبرش صفحه ۰۲ کے مولوی صاحب موصوف کو اس کے بعد بھی شاہ معظم سے اسی سال دو بار ملاقات کا موقعہ ملا.یہ ملاقاتیں حضرت مصلح موعوتوں کے مسئلہ فلسطین سے متعلق مطبوعہ عربی ٹریکٹ پیش کرنے کی غرض سے تھیں
ها استید محمد نزال العرموطی و بی میں دیوان قاضی القضاة و رئیس ندوه عربيد عمان السید سلیمان مدیدی (بالک و مدیر مجله "الیقظه محمد تیسیر بیان (ہیڈ ماسٹر مدرسہ علوم اسلامیہ مالک و مريد اختبار " الجزيرة " ) انتیس خليل نصر ( مدير " الاردن" السيد صحبي القطب (مالک مدیحه تجریده "النسر" الشيخ عبد الله الرباح ( شرعی وکیل الاستاذ خیری الحماد (اسسٹنٹ ڈائریکٹر وکالة الانباء العربیہ - عرب نیوز ایجنسی السید جودت الخطیب (آفیسر محکمہ پاسپورٹ اردن، السید عمر خلیل المعانی (ایڈووکیٹ عمان) الستید واصف فخر الدین (استاذ اسلامیه کالج عمان بعض اہم تاثرات کا عربی متن مع اردو ترجمہ کے ذیل میں سپرد قلم کیا جاتا ہے :- ا صاحب المعالی نوزی با شا ملقی وزیر خارجية المملكة الاردنية الهاشميه :- بسم الله الرحمن الرحيم سرني وَاللهِ لِقَاءَ الْمُسْلِمِ الْغَتُورِ رَشِيد احمد جغتائى الاحمدي و البَرْتُ فِيْهِ رَغْبَةً صَادِقَةً فِي تَحَقِيقِ مَبَادِئُ رَفِيعَةٍ يَعْتَقِدُ أَنَّهَا خَيْر مَا يُقَدَّمُ لِلنَّاسِ فِي مَشَارِقِ الْأَرْضِ وَمَغَارِبِهَا وَإِنَّ الْأَخْلَاصَ لِلْعَقِيدَة الَّتِي تَعْمُرُ فُؤَادَ : بَعَثَ بِهِ إِلَى الْأَقْطَارِ الْمُخْتَلِفَةِ بَعِيدًا عَنْ أَهْلِهِ وَ وَطَنِه فِي سَبِيلِ الدَّعْوَةِ الَّتِي تَعْتَبِرُ الْعَالَمَ كُلَّهُ وَطَنَا وَاحِدًا وَ الْعَالَمِينَ جَمِيعًا- أهْلاً لَهُ وَسُكَانَا حَفِظَهُ اللَّهُ وَأَبْقَاهُ ١٩٤٨/٧/٣١ ہز ایکسی لنسی نوزی پاشا طلقی وزیر خارجہ مملکت ارد نیه هاشمیه بسم الله الرحمن الرحیم فوری ملتی بخش را ایک فتور مسلمان عالم مکرم مولوی رشید احمد صاحب چغتائی سے ملاقات کر کے مجھے فلیت درجہ مسرت حاصل ہوئی ہے یا ان کی اس بچی ریپ سے بھی بہت متاثر ہوا ہوں جو وہ اپنے دل میں اُن بہترین اور عظیم الشان اصولوں اور تعلیم کو لوگوں میں قائم اور راسخ کرنے کے واسطے موجود پاتے ہیں، اور جس کے بارہ میں آپ کا اعتقاد ہے کہ یہی وہ بہترین چیز ہے جسے دنیا کے “
14 مشارق و مغارب میں ہر جگہ لوگوں کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے.وہ عقیدہ کہ نہیں سے اُن کا ول معمور ہے اور وہ پیغام جو تمام دنیا جہاں کے جملہ مالک کے گویا ایک ہی وطن تصور کرتا ہے اس سے والہانہ اخلاص ہی نے آپ کو اپنے وطن اور اہل وعیال سے دور مختلف ممالک میں پہنچا دیا ہے.آپ کے خیر مقدم اور بہتر قیام کی نیک خواہش کے ساتھ ہی میری دلی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کا حافظ و ناصر ہو اور آپ کو لمبی عمر بنتے.آمین.اسور ولائی سے مشیر صاحب المعالى سعيد باشا المفتى فوزی ملقی وزیر خارجه مملكته الدنیه هاشمیه وزير الداخلية للمملكة الاردنية الهاشمية " بَارَكَ اللهُ بِالسيد رشيد احمد الجغتائي وَ بِأَمْثَالِهِ الَّذِينَ يَعْلُونَ لِغَيْرِ الإِسْلَامِ وَالدِّينِ الْحَيَيْنِ.لَهُمُ بِذلِكَ أَجْرُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَفِي الآخِرَةِ - عمان سعيد المفتى 1924/5/18 وزير الداخلية للمملكة الأردنية الهاشمية" ہز ایکسی لینسی سعید پاشا المفتی وزیر داخلہ شرق الاردن اللہ تعالیٰ اپنی برکات و افضال محترم مولوی رشید احمد صاحب چغتائی اور آپ جیسے مبلغین اسلام پر نازل فرمائے کہ جو دین حنیف اسلام کی بھلائی اور بہتری کے واسطے سرگرم عمل ہیں.یقینا دنیا و آخرت میں انہیں اجر عظیم سے نوازا جائے گا.عمان ار فروری ۱۹۹۹ سعيد المفتي وزیر داخلہ مملکت اردنیه ہاشمیہ "
16 -٣- صاحب السعادة عبد الله النجار القائم باعمال المفوضية اللبنانية بعمان النَّاسُ أَعْدَاء مَا جَهِلُوا - لِذَلِكَ نَرْجُوا أَن يَفْهَمَ الْعَالَمُ وَلا سَيمَا الْغَرْنِي مِنْهُ حَقِيقَة الْإِسْلَامِ فَيَقُوى التاني بَيْنَ الْأَقْدَامِ عَلَى يَدِ الْمُبَشِّرِينَ المُخْلِصِينَ أَمْثَالَ المُبَشِّرِ الإسلامي السيد رشيد احمد جغتائى الاحمدي الَّذِي تَفَضَّلَ بِزِيَارَتِي وَحَدَّتَنِي بِلِسَانٍ عَرَبتُبين عبد الله النجار القائم بأعمال المفوضية الجمهورية اللبناني بعمان عمان میں جمہوریہ لبنانیہ کے سفیر ہز ایکسی لنسی عبدالله النجار لوگ لاعلمی اور نا واقفیت کے باعث ایک دوسرے سے دشمنی رکھتے ہیں.سو ہماری تمنا ہے کہ مکرم مولوی رشید احمد سه احب چغتائی جنہوں نے مجھے ملاقات کا شرف بخشا اور فصیح و بلیغ عربی زبان میں مجھے سے گفتگو کی.نیز آپ جیسے مخلص مبلغین کرام کے ہاتھوں تمام جہاں بالخصوص مغربی دنیا حقیقت اسلام کو سمجھ لے جس کے نتیجہ میں قوموں کے درمیان محبت و اخوت کو تقویت حاصل ہو.عبد الله النجار قائم باعمال المفروضیه در سفارت خانہ لینا نہیں ۱۹۴۸ / ۷ / ۱۷ مفتي الديار الأردنية همستان فضيلة الشيخ الأستاذ محمد قال البيضاوي الشنقيطي شَاءَ الْحَقِّ أَنْ يُصَادِفَةِ بِلِقَاءِ الْأُسْتَاء السيد رشید احمد جنتائى الأمري
IA المبشرب الدين الإسلامي في البُلْدَانِ الأَنبيَّةِ فَوَجَدْتُهُ مِثَالَا لِلْعَمَالِ واللعبِ وَالأَدَبِ الإسلامي والى الا ان اثبت لِتَوَاضِعِهِ الرَّغْبَةِ فِي أَن أُدوّنَ فِي دَفَتَرِه هَذَا المُبارك أَسْبِى فَهَا أَنَا أَسَجَلُهُ شَاكِرَا لَهُ جُمْدَهُ انشْرِ الأَسْلَامِ سَائِلا له التوفيق من الوله الى والحُونُ عَلَى مُهِمَّتِهِ عمان کا رجب ۱۳۶۷ 1920/0/10 مفتي الديار الأردنية محمد فال البيضاوي الشنقيطي مفتی اعظم مملکت ارونیه با شیر حضرت فضیلت مآب شیخ محمد فال بیضاوی شنقیطی میری خوش نصیبی نے مجھے غیر ممالک میں فریضہ تبلیغ بجالانے والے مبلغ اسلام مکرم مولوی رشید احمد صاحب چغتائی احمدی سے ملاقات کی سعادت بخشی.میں نے آپ کو کمال ، لطف اور ادب اسلامی میں مثالی شخصیت پایا ہے.آپ کی خواہش کے مطابق میں آپ کے اس رجسٹر میں اپنا نام درج کرتے ہوئے اشاعت اسلام کے لئے آپ کی مساعی کو قدر و شکریہ کی نگاہ سے دیکھتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالے آپ کی بعد و جہد میں آپ کا معین و مددگار ہو اور بہتر طور پر اس خدمت کو سر انجام دیتے رہنے کی توفیق بخشتا رہے.آمین.عمان - مفتی اردن محمد خال بیضاوی شنقیطی مار رجب ا ھ مطابق ۱۵مئی ۶۱۹۴۷
۱۹ فصل دوم افتتاح ربوہ کے بعد نئی بستی کی آبادی تعمیر کے ابتدائی انتظامات خلیفة الرسول حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اگر عراق میں کوفہ، بصرہ ، موصل اور مصر میں فسطا جیسے بڑے شہر بسائے تو سیدنا حضرت فضل عمر نے اپنے عہد خلافت میں سندیہ میں مختلف گاؤں آباد کرنے کے علاوہ اپنے دست مبارک سے ۲۰ تبوک استمبر ۱۳۲ رش کو جماعت احمدیہ کے نئے عالمی مرکز ریوں کی بنیاد رکھی اور حوادث کی آندھیوں اور مخالفت کے طوفانوں میں سے گزرتے ہوئے اپنی نیم شی دعاؤں، حیرت انگیز ذہانت ، بے مثال مدبرانہ قابلیت ، صلاحیت اور انتہا درجہ کی مشقت و سبا نفشانی سے ایک ق و دق صحرا کو ایک بارونق شہر میں بدل ڈالا جس سے دنیا کی مذہبی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوا.مرکز ارادہ کا قیام حضرت مصلح موعود کا ایک نہایت شاندار، عدیم النظیر اور زندہ و تابندہ کارنامہ ہے، نجو رستی دنیا تک مشہور عالم رہے گا.لہذا ضروری ہے کہ واقعات میں اس کا سلسلہ وارہ تذکرہ کیا جائے تا اسی کی تدریجی ترقی کے مختلف مراحل و اور ان پر مفصل روشنی پڑسکے.اس فصل میں ان ابتدائی انتظامات کا بیان مقصود ہے جو بستی کی بنیاد سے لیکر ہمیش کے آخر تک اس کی آبادی اور عارضی اور کچے مکانات کی تعمیر کے لئے عمل میں لائے گئے.ربنہ میں مرکزی دفاتر کا اجراء ربوہ کی افتتاحی تقریب کا ذکر پچھلی جلد میں آچکا ہے.افتتاح ربوہ کے بعد چودھری عبد السلام صاحب اختر ایم.اسے منتظم اعلیٰ نے بابلو فضل دین صاحب اور سیر اور دیگر احباب کے مشورہ سے اس مقدس مقام کو جہاں حضرت امیر الموتين المصلح الموعود رضی اللہ عنہ نے پہلی نماز ادا فرمائی تھی مرکز قرار دے کر اس کے چاروں طرف خیمے اور چھولداریاں نصب کرا دیں صحن میں صدر انجین احمدیہ پاکستان اور تحریک جدید دونوں اداروں کے دفاتر نئے مرکز میں کمل ملہ حاشیہ صفحہ ۲۱ پر ملاحظہ ہو.VUJ-12-
گئے اور بیرونی دنیا سے اُس کا سلسلہ مراسلت بھی چنیوٹ کے پتہ پر جاری کر دیا گیا.ماہ تبوک استمبر یہ مشن کو حضرت مصلح موعود کی طرف سے دفتر بیت المال کو بھی ربوہ بھجوانے کی ہدایت دے دی گئی نیز یہ کہ آئندہ سخط و کتابت ربوہ کے پتہ پر ہو.دفتر بیت المال کی نقل مکانی کے جلد بعد دفتر محاسب بھی قائم ہو گیا بلکہ دفتر حفاظت مرکز کے سوا اثر مرکزی دفاتر نے ربوہ میں کام کرنا شروع کر دیا.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی ہدایت پر ۲۶ ماه تبوک خیموں کی از سر نو تنصیب ستمبر میش کو ربوہ کے جیسے دوبارہ نصب کئے گئے.اس نئی ترتیب کے مطابق مضموں کا نقشہ یہ تھا.سڑک بجانب سرگودها بیست سال سیانت بيت المال آبادی تسلیم آڈیٹر ا لها جائے نمان علانات تالیف تا نظم جان داد بڑا خیمہ چھولداری قضا عليا وکالت وکالت وکالت وکالت شارت مال ویان شرق.شمال
۲۱ رود کے پیریشنوں کے لیل ونہار سلسلہ کے وہ ایثار پیشہ اور مخلص خدام جو مرکز احمدیت کی ابتدائی داغ بیل اور آبادی کے لئے اس وادی غیر ذی نفع میں ھوتی اور اُن کی مشکلات پر ایک نظر ان کے بیٹے گئے تھے کئی مازنک مشکلات کے ہوم میں گھرے رہے.ذیل میں ہم اُس دور کے دو خطوط کا مشخص درج کرتے ہیں جس سے ان کی مشکلات کا کسی قدر اندازہ ہو سکتا ہے:.- چودھری عبدالسلام صاحب اختر نے ۲۱ ماه تبوک ستمبر رمیش کو جناب ناظر علی صاحب کی سفارت >19] میں لکھا اس وقت سب سے بڑی وقت پانی کی ہے.تلکہ یہاں سے تقریباً پون میل کے ناسنہ پر ہے اور پانی دھوپ میں لانے کے لئے سخت پریشانی ہوتی ہے.ربوہ کی ڈاک پوسٹ ماسٹر چنیوٹ کی نفرت آنی چاہیئے.الفضل مینیوٹ ایجینسی کے ذریعہ ہے.جا جائے طبی انتظام کے لئے یہاں ایک کمپہ انڈر کی اور روشنی کے لئے کم از کم دو عدد لالٹینوں کی ضرورت ہے (ملخص سے چودھری عبدالباری صاحب نائب ناظ بیت المال نے ۲۵ تبوک استمبر کو ناظر اعلیٰ صاحب کے نام ایک چھٹی میں لکھا کہ یہاں حالت یہ ہے کہ ایک کے بعد دوسرا بیمار پڑ رہا ہے.کوئی طبی امداد نہیں.یہاں کل نفری ۲۵ سے زائد نہیں.لیکن اس میں سے بھی پانچ چھے بیمار ہیں.ہمارے اور سیر بھی بیمار ہوگئے ہیں.ان کا علاج کرنے والا کوئی نہیں.سروے کا کام ہو تو رہا ہے لیکن ذرا مست ہی ہے کل شام سے تیز ہوا چل رہی ہے.شاید ابھی دس دن اور لگیں کہ کام ختم ہو.چودھری سلطان احمد صاحب میرا نے پچار صد بوری گندم خرید لی ہے.ربوہ میں جگہ نہیں اس لئے مجبورا احمد نگر رکھی پائے گی.کل یہاں (حاشیہ متعلقہ صفحه ۱۱۹ ۲۸ ماه تبوک ستمبر کلیه شاتک صدرانین احمدیہ کے ۲۵ تیمے اور ۲۵ پھولداریاں نصب کی جانچی تھیں جن میں سے پار قیمت خریدی گئی تھیں.بقیہ کی تفصیل یہ ہے : ۲۵ جیسے کارخانہ دگر و محمد بین صاحب لاہور سے چالیس روپے ماہوار کرا یہ بچہ به ۱۶ کچھولداریاں ۱۲ روپے ماہوار کرایہ پہ اور ۵ پھولداریاں ۱۰ روپے ماہوار کرایہ پر شیخ ، علی احمد اینڈ سنز لاہور سے دو ماہ کے لئے حاصل کی گئی تھیں.ان خیموں اور چھولداریوں کی میعاد ۸ ماه توت الویری ایرانی تک ختم ہوتی تھی جس سے چار روز قبل حضور نے ماہ نبوت اویری ارشاد فرمایا کہ سوئے دفتر کے خیموں کے باقی خیموں کا کرایہ لیا جائے.دو ماہ کے بعد جیتنے دن زانہ لگیں گے ان کا کرایہ خیمہ میں رہنے والوں سے لیا جائے گا.نیز فرمایا کہ انہیں پہلے اس لئے بھیجا گیا تھا کہ وہ پھر وغیرہ بنا لیں اور ان میں وہیں.ے قائل انتظام آبادی و فراہمی سامان
باد شدید آندھی آئی جس نے نہ تیجے چھوڑے اور نہ باقی چیزیں (ملخصاً) سے تعمیر مراد کیلئے حضرت مصلح موعود کا حضرت مسلمانوں کی ابتدا ہی سے زیردست خواہش اور بے پناہ آپ والمبانه شوق تھی کہ نئے مرکز کی عارضی تعمیرات کا سلسلہ جلد شروع ہو اور آپ اس نہیں فی الفور منتقل ہو کر اس کی مستقل آبادی کا بندوبست اپنی نگرانی میں اور درپردہ انجام دیں چونکہ احمدیت کی مخالف جماعتیں قیام مرکز کے منصوبہ کو ناکام بنانے پر تلی ہوئی تھیں سازشوں کا گویا جال بچھا ہوا تھا اس لئے افتتاح زیدہ کے بعد حضور کا یہ والہانہ شوق فکر مندی، بیقراری اور تشویش میں ہار گیا اور آپ آٹھوں پہر اس کے لئے بے چین رہنے لگے.یہی وجہ ہے کہ ان دنوں حضور کی صدارت میں رتین باغ کے اندر صدر انجین احمدیہ اور تحریک جدید کے افسروں کی مشاورتی مجلس میں جو معاملات زیر خور آتے تھے ان میں تعمیر ربوہ کے مسئلہ کو مرکزی اور بنیادی حیثیت حاصل ہوتی تھی اور حضرت امیرالمومنین کی خصوصی توجہ اور انہماک کا تو یہ عالم تھا کہ حضور انور اس بارے میں اس طرح بجز بیات و تفصیلات تک میں رہنمائی فرماتے کہ اہل مجلس دنگ رہ جاتے.وانتاج ربوہ کے تیسرے روز ۲۲ تبوک استمبر برش کو حضور نے ہو مفصل ہدایات دیں ان کا ملخص مشاورتی مجلس کے ریکارڈ میں حسب ذیل الفاظ میں درج ہے: اختر صا حب سے مل کر ۱۴ ، ۱۹ ، ۱۸ ، ۲۰ ، ۲۲ اور ۴۴ کی جس قدر ریلیں مل سکیں لیتے.کی کوشش کی جائے اور اختر صاحب کو کہا جائے کہ جلد کوشش کریں“ ہ فی الحال ایک کمرہ ۱۲ × ۱۴ × ۱۳ کے چھ صد مکانات بنوالئے جائیں جن میں سے دو صد ادتی قسم کے دیکھے) اور چار صد اعلیٰ دیکھے) مکانات بنوا لئے جائیں.ان کا موٹا اندازہ یہ ہو گا.ادی امکانات : لکڑی کے گولے کھڑکیوں وغیرہ کے لئے ۲۵۰ • اعلیٰ مکانات : گیلی دوہرانہ دیار یا گیل : ے اصل چھٹی " شعبہ تاریخ احمدیت " ربوہ میں محفوظ ہے ؟ نے میاں عظام محمد صاحب اختر مراد ہیں جو اُن دنوں ریلوے کے اعلیٰ افسر تھے ، سے یعنی لوہے کے گارڈر : A
بالے اٹھارہ ہزار ریل آٹھ صد ۱۷ فٹ دروازوں وغیرہ کی ہوائی پیچھے قبضے وغیرہ روغن چنائی کچھ صد مکانات دیواریں وغیرہ متفرق ۱۲ A 4 روپے ان سب کاموں کے لئے آدمی مقرر کر دیں جو ان کا انتظام کریں اور اپنا اسٹیمیٹ بنائیں.ہر کمرہ میں ایک دروازہ، دو کھڑکیاں اور دو الماریاں اور تین روشندان ہوں گے.سب سے پہلے کچھ ماڈل مکانات بنائے جائیں.نیز انجمن ، ناظروں اور نائب ناظروں کے لئے بھی مکانات بنوائے اور اُن کے نقشے تیار کئے جائیں.ان کا کرایہ اُن سے لیا جائے گا.سیمنٹ کی تین ہزار بوریاں تحرید لی جائیں جو چنیوٹ میں رکھی جائیں.کچی اینٹوں کی تیاری فوراً شروع کی جائے اور پکی کے لئے پانچ لاکھ کا بھٹہ تیار کیا جائے.جامع مسجد کے لئے کم از کم ، ، کنال زمین رکھی جائے.قادیان خط لکھ کر مسجد مبارک و مسجد اقصی کی پیمائش منگوائی جائے زمین کے لئے روزانہ اخبار میں پوکھٹوں کی صورت میں اعلان ہو اور لوگوں کو LEASE کے متعلق دوسرے شہروں لندن - امریکہ - افریقہ وغیرہ کی مثالیں دے کہ تو جہ دلائی جائے کہ آجکل یہی دستور ہے اور یہی فائدہ مند صورت ہے.سروے جو ہو اس کے متعلق ہدایت ہو کہ ہر سوفٹ پر دیکھا جائے کہ ریلوے لائن سڑک کے درمیان کتنا فاصلہ ہے.“ اور پر مکان کا نقشہ فوراً تجویز ہونا چاہیے.ہمیں ایسا نقشہ چاہیے جس کا ایک پارٹ بنے اور
MY اُس کی آگے تکمیل ہو.پھر ہم نے اس میں یہ بھی دیکھتا ہے کہ کس طرح خرچ کم کیا جائے.پرائمری سکول فوراً ہمارے جاتے ہی شروع ہو جائے جس دن جائیں اسی دن سکول شروع ہو جائے.لکڑی ، ریل تو فوراً جمع ہونی چاہئیے.اگر یہ جمع ہو جائیں تو کام شروع ہو سکتا ہے.فوراً نام وارد فہرست بنا کر مجھے دیں کہ فلاں عملے کے لئے کتنے مکان چاہئیں." ہ بھی دیکھا جائے کہ کچے مکان وہاں رہ سکتے ہیں یا نہیں ؟ اگر رہ سکتے ہوں تو کچھے مکان بنا لئے جائیں کیونکہ پانچ سات مکانات کا بنا کر توڑنا مشکل نہیں اس حالت سے جو اب ہے“ وکیل المال کے دونوں افسروں میں سے ایک وہاں فوراً بھائے تاکہ روپیہ وصول ہو سکے.وہاں ڈاک خانہ والوں کو کھنا چاہیے جیسں میں عزیز احمد کو اتھارٹی ہو.فوراً ایک افسر اور کلرک تحریک وکیل المال وہاں جائے جب تک ذمہ دار افسر نہیں جائیں گے، کام نہیں ہو گا.شہروں اور قوموں کی آبادی بغیر تکلیف کے نہیں ہوتی ہے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا مکتوب حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے سر انار / اکتوبر ار میش کو حضرت مصلح موعود کی خدمت میں ربوہ حضرت مصلح موعود کی خدمت میں ۶۱۹۴۸ سے انتظامات سے متعلق حسب ذیل مکتوب لکھا :- قیام مرکز ربوہ کے کام کو سرسری نظر سے دیکھنے پر مجھے احساس ہوا ہے کہ یہ کام کسی اچھی تنظیم کے ماتحت نہیں پھیل رہا اور تقسیم کار بھی درست نہیں ہے.کام کے ایک حصہ کے متعلق جو کسیٹی بنائی گئی ہے اس کا کام صرف اتنا تجویز کیا گیا ہے کہ وہ ضروری اطلاعات مہیا کرے.رخواست ہائے خرید اراضی کا کام بھی امور عامہ سے تو لے لیا گیا ہے مگر ابھی تک کسی اور کے سپرد نہیں ہوا.میرے خیال میں بہتر ہوگا کہ قیام مرکز کے تعلق میں مختلف قسم کے کاموں کی تعیین کر کے پھر انہیں مختلف ذمہ دار افسروں کے سپرد کر دیا جائے اور بعض افسروں کے ساتھ مشورہ کے لئے کمیٹیاں بھی مقرر کر دی جائیں.موجودہ صورت میں غلط فہمی پیدا ہو رہی ہے جس کے نتیجہ میں کام کا بھی نقصان ہو رہا ہے.جو کام میرے ذہن میں آئے ہیں اُن کا نقشہ ذیل میں درج کر کے ارسال خدمت کر رہا ہوں.اگر حضور اسے منظور فرمائیں تو پھر اِن ے زیر مشاورتی مجلس ( رتن باغ لاہور)
۲۵ کانوں کے متعلق ہدایت فرما دیں کہ کیس کیس کے سپرد ہوں.(۱) فروخت و تقسیم قطعات (۲) مفت تقسیم ہونے والے قطعات کی تقسیم (۳) نقشہ آبادی کی تیاری اور اس کے متعلق حکومت سے منظوری حاصل کرنا.(۴) آبادی میں مجموعی ڈرینیج کا انتظام (۵) جماعتی عمارتوں ( مساعید، مهمان خانه ، دفاتر وغیرہ) کا نقشہ تجویز کرنا اور ان عمارتوں کی تیاری (4) پرائیویٹ عمارتوں کے نقشہ کی منظوری (6) دکانوں اور کارخانوں کے لئے قطعات تجویز کرنا.(۸) عمارتی سامانوں کے متعلق ضروری اطلاعات مہیا کرنا اور بعد منظوری بعض چیزوں کا مشترکہ انتظام کرنا (9) ربوہ کے لئے اسٹیشن اور ڈاکخانہ اور تارگھر اور ٹیلیفون ایکسچینج وغیرہ کا حکومت کے ذریعہ انتظام کروانا.(10) آبادی کے لئے بھلی و پانی کا مجموعی انتظام تجویز کرتا (11) جماعتی ضروریات کے لئے اجناس خور و نوش و ایند من و تیل وغیرہ کی فراری (۱۲) صدر انجمن و تحریک جدید کے دفتروں و اداروں کے منتقل کرنے کا انتظام (۱۳) قیمت قطعات اراضی کی وصولی (۴) نئی آبادی میں اجناس اور لیبر کے ریٹوں کو کنٹرول میں رکھنے کا انتظام (۱۵) پہرے اور حفاظت کا انتظام اگر حضور ان کے متعلق فیصلہ فرما دیں تو انشاء اللہ کام میں سہولت رہے گی اور اس میں حرج نہیں کہ ایک ایک آدمی کے سپرد ایک سے زیادہ شعبے ہوں اور پھر ان سب افسروں کی ایک مشترکہ کمیٹی ہو جو حضور کی ہدایت کے ماتحت کام کرے.والسلام خاکسار مرزا بشیر احمد ۲ - ۱۰ - ۴۸
۲۶ حضرت مصل مونود کی طرف سے اس مکتوب پر حضرت سینا الصلح الموعود رضی الہ تعالی عنہ نے ہر اور ور افادر اکتوبرش کو شہر کی آبادی کے لئے نہایت اہم راہنما اصول.راہنما اصولوں کی تعیین تبریز رائے چنانچہ ارشاد فرمایا.فروخت کا سوال نہیں ہ کمیٹی بنائی گئی ہے تقسیم قطعات کے متعلق اُن اصولوں کے مطابق فیصلہ کرے گی ہو شائع ہو چکے ہیں یا آئندہ بنائے جائیں گے.اس کا انچارچ اور سیٹر ہو گا.اس کے متعلق اصول یہ ہونا چاہیئے.دل جس ترتیب سے روپیہ آتا ہے اسی کے مطابق قطعات دیئے جائیں.جو روپیہ پہلے دیتا ہے اس کا پہلے حق ہے.ب، وسر اگر قرآن مجید نے بیان فرمایا ہے کہ جوشخص جنت میں اعلیٰ مقام قرب کا حاصل کرتا ہے تو اس کے قریبی رشتہ داربھی انعام کے طور پر قریب رکھے جاتے ہیں.اسی طرح یہاں بھی جو شخص پہلے روپیہ دے تو اُس کے قریبی رشتہ داروں کو اس کے قریب رکھنے کی رعایت دی جا سکے گی.بشرطیکہ اس کی وجہ سے کسی کا حق نہ مارا جائے اور سلسلہ کا نقصان نہ ہو.(ج) انشین اور تحریک کی عمارتوں کو مقدم رکھا جاوے.(د) میں شخص کو زمین ملے اس کے کاروبار کے لئے بھی قریب کی زمین رکھی جاوے.مثلاً دکان کا قریب بنانا.اس بات کی اہمیت رکھی جائے گی.اس دلیل کو بہ نسبت دوسری بات کے زیادہ مانا جائے گا بشرطیکہ رہ دوکان اپنی ذات میں مضر نہ ہو.جس چیز میں ہماری پالیسی اس کے مغلات ہوگی اُس میں اُس کا یہ حق نہ ہوگا یا کیریکٹر کے لحاظ سے.اسی طرح کوئی دوسرا کام جو معیشت سے تعلق رکھتا ہو مثلاً دفتر، کارخانہ.اس صورت میں اس کی مرضی کا خیال رکھا جائے گا لیکن سلسلہ کی ضرورت مقدم ہوگی.مفت تقسیم کے لئے بھی کچھ اصول پہلے مقرر کئے جائیں.مثلاً (3) تر یاد اور جن کے ذاتی مکان قاریان نہیں تھے.اب مختلف پیشہ وروں کو مد نظر رکھا جائے.زمین میں سبھی جائے گی لیکن مقدم رکھیں گے مکان والے کو کیونکہ زمین والا اس پلاٹ کے بغیر نہیں رہ رہا ہے.(ج) غریب تجمد قادیان میں رہتا تھا نہ ه نقل مطابقتی اصل.
۲۷ 0 (2) جس کا مکان یا پلاٹ قادیان میں تھا.(8) محلہ مسجد مبارک کے ہمارے قبضہ میں ہونے سے یہ نہیں سمجھا جائے گا کہ اس حلقہ میں کسی کے مکان یا پلاٹ کا ہوتا اس کے حق کو باطل کو دے گا.(و) پلاٹ اگر کم ہو بھا ئیں تو مکان والے کو مقدم رکھا جائے گابٹ علیکہ پیشہ وروں کی تقسیم کے لحاظ سے خالی زمین والے کو اہمیت حاصل نہ ہو.رمند پیشے یہ ہو سکتے ہیں.نائی ، دھوبی ، روزی ، لیبرد ، سقه ، موچی ، ترکھان ، لوہار ، معمار، قلعی گو اشنار ، رنگریز، پینجا، جوتا ، تیلی نقشہ جات کی تیاری کا کام اور سیٹر کا ہے.حکومت سے متعلقہ سارے کام نواب محمد دین صاحب کریں گے.اس وقت نقشہ کا کام عبد الباری کے سپرد ہے ، اسی کو رکھئے.اوور سیٹر.اس کی منظوری گورنمنٹ نے دینی ہے.جہاں تک نقشہ کی تیاری کا سوال ہے یہ او در سیر کا کام ہے.باقی اس کی منظوری کمیٹی دے گی.ایک کمیٹی بنائی جائے جو تمام عمارتی اور تعمیری کاموں کی سروے رپورٹ.اسٹیٹ اور بیٹا اور میٹر سے لے کر فیصلہ کرے گی.ب وہ کمیٹی اپنی ساری رپورٹ مکمل کر کے میرے پاس آخری منظوری کے لئے بھیجے گی کیونکہ روپیہ تو میرے ہاتھ میں ہے.- پرائیویٹ مکانوں کے نقشہ جات کی منظور کا بھی وہی کمیٹی دے جو انجمن کے نقشے منظور کرے گی ہر نقشہ ادور لیٹر کے پاس بھائے اور وہ کمیٹی میں بھجوائے.اس کے لئے بھی کچھ اصول ہوں.مثلاً گورنمنٹ میں یہ اصول ہے کہ اونچائی اتنی ہو.اور منتقد کا ٹوٹل کمرے کے ٹوٹل سے کیا نسبت رکھتا ہو.مثلاً اس کی شرط یہ ہوتی ہے کہ منفد کا ٹوٹل کمرے کے ٹوٹل کا م ہو.دو منزلہ مکان کے متعلق کچھ اصول ہوں.اس کی کھڑکیوں کے متعلق ریہ) ہو کہ دوسرے کی طرف کھڑکی نہ ہو ہے کہ دیواروں کے متعلق کہ اگر کوئی شخص کسی کو وزار کے استعمالی کی اجازت دیتا ہے تو پھر اس کی مرمت کا حق بھی اسے حاصل ہو گا.راه روشندان (فرهنگ عامره)
۲۸ صحن وغیرہ اور پانی کے نکاس کے متعلق حد بندی کر دی جائے.تالیاں نقشہ میں ضرور دکھائی جائیں.جو نالیاں اور پر نالے نقشہ میں نہ دکھائے جائیں وہ بند کرنے پڑیں گے.پہ نالہ کی تقسیم ہونی چاہیے اور اس کے متعلق اصول ہو کہ جس کے گھر کا پرنالہ ہو اسی کو اس کی آواز شنفتنی چاہیے ، دوسرے کو نہیں یا یہ کہ جس حد تک ہمسایہ اجازت دے دے.اس کمیٹی کا فرض یہ ہوگا کہ نگرانی کرے کہ اس قسم کی کوئی حرکت نہ ہو جس سے ہمسایہ کو نقصان پہنچے.ان قواعد کو چھپوا کر لوگوں میں تقسیم کیا جائے بلکہ امتحان لیا جائے تاکہ اجازت لینے والا پھنس نہ بجائے اصل غرض ان قوائد کی یہ ہوتی ہے کہ لوگ کسی کے محتاج نہ ہوں.ے.یہ کمیٹی بھی الگ ہونی چاہیے.اس میں امور عامہ ، ناظر علیم وتربیت، ہر محلہ کا پریزیڈنٹ اور وکیل الصنحت ہو.دوکانات کی تجویز بھی اہم سوال ہے.اس کے متعلق ایک باڈی بن جائے کہ کس قسم کی کتنی دوکانیں ہوں.بازار کی پوزیشن کے متعلق بھی غور ہو کہ کس جگہ بنایا جائے.ایک سیدھا بازار بنانا ہے یا کئی شاخوں میں گیس کس قسم کی دوکانیں ہوں.منڈیوں کے متعلق غلہ منڈی، سبزی منڈی.ایندھن کی سنڈی ، گوشت کی منڈی..میرے خیال میں ہر چیز ایک حد تک مشترکہ ہونی چاہیے.اگر گاہک آئے تو اس کو دے دیں ورنہ اپنی ضرورت پور استعمال کریں.لیکن درمانہ سے اور کھڑکی کا ماڈل بنوا لیا جائے تا اس کے مطابق سب چیزیں آجائیں.مثلاً دروازہ کھڑکی ۳۲۴ اوور سیر کے ساتھ ایک ڈراضسمین بھی رکھا جائے.اس کے متعلق اخبار میں اشتہار دیا جائے.تنخواہ کے متعلق کنجوسی نہ کی جائے.گورنمنٹ کا قانون ہے کہ جسے عارضی طور پر لیا جائے اس کو اصل ریٹ پر ۲۵ بر زیادہ دیتے ہیں.اگر ضرورت ہو تو آپ اس سے بھی زیادہ دے سکتے ہیں.ربوہ میں ایک آدمی نہ ہو.اگر آپ لوگوں کو یہاں بیٹھنا پسند ہے تو وہاں ایک شیڈ و انمین بنائی جائے بہر حال جب تک انجمن نہیں جاتی وہاں کوئی کام نہیں ہوگا.میرے خیال میں یہ بوجھے سلسلہ اُٹھائے کہ سامان لانے کے لئے لاری یا ابتداء میں ایک سائیکل والی گاڑی
۲۹ رکھ لی جائے اور ایک آدمی مقرر کر لیا جائے جو ہر گھر سے روزانہ پوچھ کہ سووا لایا کرہے.ایک ٹریکٹر نورا لیا جائے.اس کا ابھی آرڈر دیا جائے.D MODEL-4 لیا جائے.شیخ نور الحق کے ذریعہ منگوا لیا جائے.یہ ابھی وہاں پھلا جائے اور کام شروع ہو جائے.رو چار کشتیوں کا بھی انتظام ہونا چا ہیے تاکہ اگر گل پر بڑی قبضہ کرے تو ہم انہیں استعمال کر سکیں.اردگرد سے پٹھانوں کو جمع کرنے کے لئے ایک آدمی مقرر کیا جائے جو اُن سے کچی دیواروں کے تیارہ کرنے کے لئے معاہدہ کرے.کسی مقامی آدمی کو مقرر کر کے سین گا منگوایا جائے جو پانی کی تلاش کرے.موریه به اتحاد اکتوبر اپریش) امور عامہ کے ساتھ اس کا تعلق ہے.۱۰.پانی ، بجلی کے لئے اعجاز نصر اللہ کو مقرر کیا جائے.یہ مجھ سے مشورہ لیں.11 اجناس خور و نوش کے مہیا کرنے کے لئے خواجہ محمد امین کو بلا لیا جائے اور ان کا افسر میاں عبد اللہ خاں صاحب کو مقرر کیا جائے.۱۴- دفاتر تحریک و صدر انجمن کے منتقل کرنے کا کام ناظر اعلیٰ کے سپرد کیا جائے.۱۳ روپیہ کی وصولی محاسب یا بیت المال کے سپرد ہو گی.-۱۴ لیبر کا کنٹرول اُسی کا ہو گا جو انجنیر مقرر ہوگا اور اجناس کا کنٹرول اسی کے پاس ہو گا ہجو اجناس کا افسر مقرر ہوگا.۱۵.پہرہ وغیرہ کے انتظام کے لئے وہاں ایک ٹاؤن پریزیڈنٹ کے طور پر مقر کرو.وہی سب کام کرے گا.عبید الت سلام اختر کو مقرر کرو اور سب کو آرڈر کر دو کہ کام میں ان کی مدد کر ہیں.ان کو بھی لکھا جائے کہ دوسرے کاموں میں ہرج نہ ہو.کچھ پہریدار رکھ لئے جائیں.جو ریفیوجیز میں سے آسانی سے مل سکتے ہیں.پھیر و چیچی کے مشمت علی کا لڑکا آیا تھا اس کو رکھ لیا جائے.یعنی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی تجویز مے کا جو گورنمنٹ سے اسٹیشن اور ڈاک خانہ وغیرہ کا انتظام کرانے کے بارہ میں تھی.
ہر کام کے لئے نگرانوںکا تقر حضرت میری اور کی نوری با اصولی ہدایات کی روشنی میں صدر انجین احمدیہ نے کارکردگی کی رفتار تیز کرنے کے لئے حسب فریل نگران مقرر کر دیئے :- کام فروشت و تقسیم قطعات مفت تقسیم ہو نیوالے قطعات کی تقسیم نقشہ آبادی کی تیاری اور اس کے تم نگران حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب و حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب متعلق حکومت سے منظوری حاصل کرنا چودھری عبدالباری صاحب آبادی میں مجموعی ڈری نیے کا انتظام - جماعتی عمارتوں ، مساجد، همانخانه -A دفاتر وغیرہ) کا نقشہ تجویز کرنا اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ان عمارتوں کی تیاری پرائیویٹ عمارتوں کے نقشہ کی منظوری نظارت امور عامہ دوکانوں اور کارخانوں کے لئے قطاعات تجویز کرنا عمارتی سامان کے متعلق ضروری اطلا عام مہیا کرنا اور بعد منظوری بعض چیزوں کو کا مشترکہ انتظام کرنا ریوں کے لئے اسٹیشن اور ڈاک خانہ اور ] حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب خواجہ عبد الکریم صاحب وکیل التجارت و حسن محمد خان صاحب عارف نائب بخانه دار میاں غلام محمد صاحب اختر تارگھر اور ٹیلیفون ایکسچینج وغیرہ کا سکوت کے ذریعہ انتظام کروانا DRAINAGE (پانی کا نکاس) محمود احمد صاحب قائد الا ہور) نائب و
۳۱ آبادی کے لئے بجلی و پانی کا مجموعی ڈاکٹر عبد الاحد صاحب انتظام تجویز کرنا -41 جماعتی ضروریات کے لئے اجناس سید محمود اللہ شاہ صاحب خور و نوش و ایندھن تیل کی فراہمی سید عبدالجلیل شاہ صاحب نائب صدر امین و تحریک بدید کے دفتروں امام اداروں کے منتقل کرنے کا انتظام ناظر اعلے.وکیل الدیوان و ۱۳- قیمت قطعات اراضی کی وصولی تائب وکیل المال - قریشی عبد الرشید صاحب نئی آبادی میں اجناس اور لیبر کے ڈیویں ناظر صاحب امور عامه کو کنٹرول میں رکھنے کا انتظام پہرے اور حفاظت کا انتظام امور عامر سرزمین ربوہ کا سروے اور نقشہ کی تیاری سرزمین ربوہ کا سروے ایک نہایت کٹھن مرحلہ تھا.جس کے شروع کرنے کی اولین سعادت حضرت اور منظوری میں شدید مشکلات سید نامسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی جمعدار فضل الدین صاحب کمبوہ کو حاصل ہوئی.لیکن افسوس ابھی وہ تھوڑا سا کام ہی کو پائے تھے کہ درد گردہ میں میتلا ہو گئے.ازاں بعد ایک اور صاحب نے یہ خدمت اپنے ذمہ لی مگر وہ حاضر نہ ہوئے جس پر چودھری شریعیت احمد صاحب (وڑائی) اور سیٹر سے بات چیت کی گئی تو انہوں نے چوہدری محمد مختار صاحب اور پیٹر کو بھی اپنے ساتھ ربوہ جانے پر آمادہ کر لیا.لیکن چودھری شریف احمد صاحب رستہ میں ہی بیمار ہو کہ لائل پور سے واپس لاہور چلے گئے اور محمد مختار صاحب ربوہ پہنچ کر شدید انفلوئنزا کا شکار ہو گئے.بایں ہمہ انہوں نے کمال مستقل مزاجی ، تندہی اور جانفشانی سے سروے بہار کا رکھا اور دن رات ایک کر کے چند گے روز کے اندر اندر سروے کا ایک حصہ لینی لیول مکمل کر لیا جس کا ذکر ۲۹ تبوک استمبر بارش کی ایک رپورٹ میں بایں الفاظ ملتا ہے :- محمد مختار صاحب جب سے آئے ہیں سخت زکام اور نزلہ میں گرفتانہ ہیں لیکن اس کے شانی کا رو دفتر پرائیویٹ سکرٹری سے چودھری شاہ محمد صاحب کا تب کے چھوٹے بھائی ؟ سکھے سطح زمین کی ہمواری :
با وجود صبح سورج نکلتے ہی کام شروع کرتے رہے ہیں اور شام اس وقت تک کام کرتے رہے ہیں جب تک نظر کام کر سکتی تھی.کھانا بھی وہاں ہی کھاتے جہاں کام کرتے تھے خیموں میں دو پیر کو بالکل نہ آتے تھے.انہوں نے شدید محنت کر کے نصف کام کل تک کر لیا ہے.ان کے ساتھ مزدور بھی تھک کر چور ہو جاتے ہیں “ جناب محمد مختاکہ صاحب نہایت سرگرمی سے مصروف عمل تھے کہ قصور سے عبد القادر صاحب اودر سیر محکمہ کنٹور سروے کے لئے ربوہ میں پہنچ گئے.ان کے پاس ان کا اپنا موٹر سائیکل بھی تھا اور ضروری آلات بھی جناب محمد مختار صاحب کی طرح عبد القادر صاحب نے 9 روز تک نہایت عرق ریزی سے اس قومی فرض کی بجا آوری کی اور آخر اپنے دوسرے رفتار کار سیف اللہ صاحب او در سیر دلا کیوم اور سردار بشیر احمد صاحب مونگ رسول کے تعاون سے امضاد / اکتوبر پر پیش کی درمیانی شب کو گیس کی روشنی میں ایک بجے کے قریب کنٹور سروے مکمل کر لیا.یہ کام ہو چکا ت تعمیر کیٹی کے سکوری ملک محمد خورشید صاحب نے Layout شروع کر دیا جو ۳۰ اخا / اکتوبر لاش کو بخیر و خوبی کے اختتام پذیر ہوا جس کے بعد جناب قاضی محمد رفیق صاحب کنسلٹنگ آرکیٹکٹر نے Layout کا خاکہ کھینچنے اور ربوہ کامستقل نقشہ بنانے کا اہم اور نازک کام اپنے ہاتھ میں لیا.اور سر دار بشیر احمد صاحب تے ومونگ رسول) اور چودھری عبد اللطیعت صاحب اور میر واقعیت زندگی اور ایک اور دوست کے تعاون سے ماہ نبوت / نومبر پدرش کے پہلے ہفتہ تک آبادی ربوہ کا نقشہ تیار کرنے میں کامیاب ہو گئے.جس کی کاپیاں چودھری عبدالرحیم صاحب سیٹ ٹرانسمین لاہور نے کروائیں اور ان پر چودھری عبدالطیف صاحب او در سیر نے رنگ بھرے.بعد ازاں جھنگ میں رجسٹری کئے گئے.یہ نقشہ جلد ہی صوبائی ٹاؤن پلینر کو بغرض منظوری بھیجوا دیا گیا.اس عہدہ پر اُن دنوں پارسی حبیب جے.اے سوم بھی نامی متعین تھے.جنہوں نے محض روپوں کے لالچ میں بے شمار حیلوں بہانوں سے نقشہ کی منظوری کا معاملہ کئی ماہ تک کھٹائی میں ڈال دیا.اور.کنٹور سروے فن انجنیری میں زمین کے ایسے جائزہ کو کہتے ہیں جو سطح سمندر سے اونچائی کی لائنیں ظاہر کرے؟ کے سڑکوں اور پلاٹوں کے لئے تجویز : سے آپ امرتسر کی مشہور قاضی فیملی کے چشم و چراغ ہیں.ربوہ کی اکثر ابتدائی اور مرکزی عمارتوں کے نقشے آپ ہی نے تیار کئے ہیں :
۳۳ آخر مجرمانہ حد تک تغافل برتنے اور انتہائی پس و پیش کے بعد بڑی مشکل سے یکم فروری سایر کو دستخط تو کر دیئے لیکن ساتھ ہی از راہ شرارت ایک ایسی ٹاؤن پلینگ سکیم رکھ دی جس میں جماعت کی دینی اور مرکزی ضروریات کو نہایت بے دردی سے پامال کر کے رکھ دیا اور اس کے مقابل اُن امور کو چوسرے سے احمدیت کی بنیادی تعلیمات کے منافی تھے یا جن کو نسبتی طور پر ایک محدود رنگ کی اہمیت حاصل تھی ان کو باد بر نیروی وبیعت و حیثیت دے دی گئی اور ہر ممکن کوشش کی گئی کہ ربوہ کی زمین کا کثر حصہ آبادی کے لئے استعمال نہ کیا جاسکے.چنانچہ ایسی طرز پر نقشہ تیار ہوا کہ ربوہ کے موٹی رقبہ کا صرف ۲۰۱۰۳ فی صد رہ ہائشی پلاٹوں کے لئے مخصوص کیا گیا.جہاں شرقا غرباً تین چار سیل تک کے اس دیسیع و عریض علاقہ میں صرف تین مسجدیں منظور کی گئیں وہاں سنیما گھر کی تعمیر کے لے یہ صاحب بعد میں بغرض علاج امریکہ پہلے گئے اور وہیں فوت ہو گئے ؟ کے ٹاؤن پلیز کے تیار شدہ نقشہ پر ایک نظر کل رقبہ ۱۰۳۴ ایکٹ ۸۲۷۲ کنال رہائشی پلاٹ چار کنال وو - یکه وش مرله تعداد رقبہ کنالوں میں 14 ► ۴۳ ۶۲۴ ۳۱۲ ۹۳ 1.14 ۲۲۳۹ تناسب فیصد گل رقیه ۲۷۱۰۳ بر کل رقبہ بڑے پلاٹ (جس میں زراعتی رتبہ ، قبرستان، جنگلہ شامل نہیں ۲۲۰۰ کنال ۰ ۰ ۲۶۲۹۰ تمام کھن کی جگہیں اپنی OPEN SPACES شہر میں پختہ سڑک اور ریلوے لائن کے ساتھ اور بیرونی حمد کے ساتھ زیراستی قبه ، قبرستان و میله سه گاه شہر کی بقیہ سڑکوں کے لئے ۶۵۹ کنال * " Jir" 1114 Z ر از عید الفطبیعت صاحب اوور سیرا
۳۴ لئے فراخدلی سے وسیع قطعہ تجویز کیا گیا.اس کے علاوہ دوسرے ذرائع سے بھی زمین کے بیجا مصرف اور تعلم کھلا ضیات کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا گیا مثلاً -1 -A -4 شفاخانہ حیوانات کے لئے 1 کنال کا وسیع رقبہ تجویز کیا گیا جو ملک میں اُس وقت شاید ہی کسی بڑے سے بڑے زراعتی اور مرکزی مقام کے وٹرنری ہسپتال کو میتر ہو.عیفہ تعلیم کے لئے بلا وتبہ ۵۰ کنال کا احاطہ رکھ دیا گیا.پولیس لائنز اور سرکٹ ہاؤس کے نام پر ربوہ کے نقشہ میں بالترتیب ، ، اور ۲۱ کنال زمین مخصوص کر دی گئی.نیز پولیس اسٹیشن (تھانہ کے لئے ۱۲ کنال کا مزید رقبہ دیا گیا..ڈاک خانہ ، تار گھر اور ٹاؤن کمیٹی کے دفاتر کے لئے 4 کنال جگہ رکھی گئی جس کی کوئی ٹیک نہ تھی.ربوہ کی مجوزہ آبادی کے مشرقی جانب ۳۲۵ کنال رقبہ زراعتی اغراض کی خاطر مخصوص کر دیا گیا.حالانکہ اول تو یہ سارا قطعہ ہی مسلم طور پر نا قابل زراعت اور عام سطح سے بہت اونچا تھا.دوم اسے زرعی تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کرنا قطعی طور پر ناممکن تھا.۳۲۳ کنال بڑے بڑے کا رمضانوں کے لئے مختص کر دیئے گئے.حالانکہ غریب نہا جوروں کی اس بستی میں جو خالص اسلامی ماتوں کی ترویج واشاعت کے لئے قائم کی جار ہی تھی کسی بھاری انڈسٹری کا قیام مخارج از امکان تھا.-2 ربوہ کے تین پرائمری سکولوں کے لئے ۲ اکمال کے احاطے تجویز کئے گئے جو ضرورت سے کہیں زیادہ تھے.اس پریشان کن ٹاؤن پلیننگ سکیم کے بعد گورنمنٹ انڈسٹریز اینڈ میڈیکل ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے اور مارچ ۱۹۴۰ء کو جو شیڈول بھجوایا گیا وہ بھی اپنے اندر متعدد نقائص اور خامیاں رکھتا تھا.صدر انجمن احمدیہ پاکستان نے تنضرت المصلح الموعود رضی اللہ تعالی عنہ کی ہدایت پر نوٹیفائیڈ ایر یا کمیٹی کے توسط سے جناب ڈپٹی کمشنر صاحب جھنگ کی خدمت میں پلینٹنگ سکیم میں ترمیم کے لئے اور گورنمنٹ پنجاب کے متعلقہ محکمہ کو شیڈول کی ترمیم کے لئے الگ الگ درخواستیں ارسال کیں جن میں نہایت تفصیل کے ساتھ پیدا شدہ جملہ شرابیوں کا نہایت معقول و مدتل رنگ میں سنائزہ لیا اور اُن کے ازالہ کے لئے ٹاؤن پینٹنگ کے مستند لٹریچر کی روشنی میں اپنے مطالبات پیش کئے.
۳۵ صدر انجین احمدیہ پاکستان کی صدر امین احمدیہ پاکستان کی طرف سے بعد ازاں اپنے موقف کی تائید میں جو گزارشات حکومت کے اعلیٰ اور وقتہ دار حکام کے سامنے گزارشات ایک نظر میں بھی گئیں ان کا ملخص درج ذیل کیا جاتا ہے تا آئندہ آنے والے لوگوں کو علم ہو کہ ربوہ بساتے وقت جماعت احمدیہ کو کیسی کیسی مشکلات سے دو چار ہونا پڑا.صدر انجمن احمدیہ درخواست کرتی ہے کہ کو جگہ دیدہ کا لونی میں مکانوں کے لئے ٹاؤن پلینز صاحب نے تجویز کی ہے وہ پچاس فیصدی کے قریب ہے حالانکہ عام قائدہ یہ ہے کہ آبادی کے لئے ساٹھ فیصدی کے قریب بدبین چھوڑی جاتی ہے.پھر جو پچاس فیصدی زمین آبادی کے لئے چھوڑی گئی ہے اس میں سے بھی نصف سے کچھ زیادہ رقبہ پبلک انسٹی چیوشنز کے لئے پچھوڑا گیا ہے اور آبادی کے لئے کل رقبہ طہ سے کبھی کچھ کم رہ جاتا ہے.اس لئے ہمیں ایک ہزار کنال زمین اور دی بجائے تاکہ گورنمنٹ کے تجویز کردہ اصول کے مطابق ساٹھ فیصدی رقبہ ہمیں عمارت کے لئے اور مل جائے.علاوہ اس قانون کے ہمیں عملاً بھی ضرورت ہے.کیونکہ قادیان کی آبادی بنیں ہزار کے قریب تھی کم سے کم دس ہزار آدمی بسانے کے لئے تو یہاں بنگہ ہونی چاہیئے.چنانچہ مقررہ جگہ ختم ہو چکی ہے اور درخواستیں اور آرہی ہیں.اس لئے اب اس کا علاج یہی ہے کہ اوپن سپلینر ( OPEN SPACES کھلی جگہیں جو قاعدہ مقررہ سے بہت زیادہ ہیں ان میں سے کچھ اور علاقہ ہمیں آبادی کے لئے دیا جائے اور اس نئے علاقہ کے لئے انہوں نے کچھ تجاویز پیش کی ہیں جن کو میونسپل کمیٹی تے میں میں ڈی سی اور تحصیل دار میر میں منظور کیا ہے.اس کے بعد مسٹر نے اپنے ڈی سی ہونے کی حیثیت میں اس کی تائید میں نوٹ لکھا ہے کہ میں نے خود ربوہ کو دیکھا ہے.میرے نزدیک یہ درخواست انجمن کی معقول ہے.اور اسے منظور کرنا چاہیے.ٹاؤن بیلیز صاحب کو جب یہ درخواست برائے رپورٹ گئی تو انہوں نے اس پر یہ نوٹ لکھا کہ - انجمن سب تجویز کو پہلے خود منظور کر چکی ہے.- انجمین احمدیہ زمین بڑی قیمت پر فروخت کر رہی ہے.۴.انجمن نے کوئی فہرست نہیں دی کہ کس قدر در تو انہیں آچکی ہیں اور کتنی زمین کی ضرورت ہے.پلینر کی سکیم میں ۲۳۳۲ مکانوں کی گنجائش ہے اور اس میں، پانچی کس فی سکان کے
حساب سے دس ہزار سے زائدہ آدمی بس سکتے ہیں..میں نے سیکم میں اوپن سپیس کے طور پر 4 ہر جگہ چھوڑی ہے.حالانکہ میونسپل لاز کے رُو سے انٹر چھوڑنی چاہئیے.اس لئے اس زمین کو چھوٹا نہیں کرتا چاہیے..وہ رقبہ جو انجمن مانگتی ہے اس میں سے ایک حصہ جو گرین پیچڑ ہے ، نشیب ہے.اس پر آبادی مناسب نہیں..شمال مشرقی رتبہ بھی ویسا ہی ہے.چیلک بلڈنگ کے لئے جو رقبہ چھوڑا گیا ہے وہ بالکل ٹھیک ہے اور اسے اور کم نہیں کیا جاسکتا.ان دعا دی اور ان کے خلاف دھاری کی تفصیل میں پڑنے سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے.کہ موجودہ تسلیم شدہ طریق ٹاؤن پلین میں آبادی کے رقبہ کے متعلق کیا ہے.کیونکہ سب مسئلہ کا محور یہی سوال ہے.پنجمین کہتی ہے کہ اس میں قانون کے مطابق رقبہ آبادی کے لئے نہیں چھوڑا گیا.اور ٹاؤن پلیز صاحب کہتے ہیں کہ اس سے زیادہ نہیں چھوڑا جا سکتا ہے.ٹاؤن پلیننگ کے متعلق رائج الوقت کوڈ ( CODE) وہ میمورنڈم ہے جسے مسٹر یو - المر AYLMER.) پراونشل ٹاؤن پلینز گورنمنٹ پنجاب نے تیار کیا ہے.((UAYLMER COATES JU'S اور گورنمنٹ پنجاب نے اسے 1982ء میں گورنمنٹ پریس سے شائع کیا ہے.اس اشاعت کے صفر با پر لکھا ہے وہ * Since 1938 town planning schemes have begun to operate in Lahore and the same what as follows : area would now be developed sore- (a) Roads would use up about 30 percent and open spaces about 10 percent.(b) The remaining 6 acres would be divided into about 170 plots or 17 houses per acre overall.”
۳۷ یعنی کاہور میں منہ سے ٹاؤن پلاننگ کے منصوبوں کی ابتداء ہو چکی ہے اور اب ان علاقوں کی آبادکاری یوں شروع ہو گی :- (1) شاہراہوں کے لئے ۳۰ فیصد اور سیر گاہوں کے لئے 10 فیصد علاقہ استعمال ہو گا.(ب) بقیہ 4 ایک علاقہ قریباً ۱۷۰ پلاٹوں کے لئے یا ۱۷ مکانات فی ایک کا تعمیر کئے جائیں گے اس عبارت سے ظاہر ہے کہ ٹاؤن پلیننگ کے رائج الوقت قانون کے مطابق کسی ٹکڑہ زمین سے چالیس فیصدی سڑکوں اور اوپن پیر کے لئے لیا جا سکتا ہے اور باقی ساٹھ فیصدی زمین آبادی کے لئے چھوڑنی چاہیے.آئین کا دھومی ہے کہ اسے پا حصہ آبادی کے لئے ملا ہے اور اگر پبلک بلڈ نگر کو شامل کیا جائے تو وہ کے قریب ہوتا ہے.اب سوال یہ ہے کہ اگر ٹاؤن پلیز صاحب کے بیان کے رُو سے اوپن سپیز کے لئے مرض بر زمین چھوڑی گئی ہے تو پھر باقی زمین کہاں گئی ؟ ٹاؤن پلینر صاحب اس سے انکار نہیں کرتے که بود تبه انجمن پرائیویٹ یا پبلک بلڈ نگر کے لئے تجویز کیا گیا بتاتی ہے وہ غلط ہے بلکہ تسلیم کرتے این که ۲۲۰۰ مکان ایک ہزار چونتیں ایکٹر میں تجویز کئے گئے ہیں.جیسا کہ مذکورہ بالا مسٹر کوٹیں کی ٹاؤن پلینینگ سکیم سے اوپر نقل کیا گیا ہے.ٹاؤن پلیننگ سکیم میں چھ ایکڑ ہر دس ایکڑ سے آبادی کے لئے لئے جاتے ہیں.پس دو ہزار تین سو کا سوال نہیں پیدا ہوتا.سوال یہ ہوتا ہے کہ کیوں اُن کو ساتھ فیصدی زمین نہیں دی گئی جبکہ موجودہ رول ٹاؤن پلیننگ کے متعلق یہی ہے اس بیگہ یہ امر بھی غور طلب ہے کہ ٹاؤن پلیننگ میمورنڈم مرتبہ کورٹس اور منظور کردہ گورنمنٹ میں اوپن سپیسر کے بارہ میں لکھا ہے :.Page 9, Para 17 (iii) Open Spaces: are "Taking Lahore as an example there are about 1650 acres set aside for of open space of which about 1,000 acres private ose such as the University grounds, the Race Course, the Chiefs College ground, Government House and two golf courses.
۳۸ The proportion of open space in Lahore is about 2.4 acres per thousand population but most of this is set aside either for passive recreation such as Lawrence gardens, Gol Bagh and Hazuri Bagh or is used privately.” یعنی اہور کی مثال لی جائے تو یہاں پر ساڑھے سولہ سو ایکٹر سیر گاہوں کے لئے رکھے گئے ہیں، جن میں ایک ہزار ایکڑ تو پرائیویٹ استعمال کے لئے مخصوص کئے گئے ہیں.جن میں یونیورسٹی گراؤنڈ، ریس کورس ، چیفس کالج گراؤنڈ ، گورنمنٹ ہاؤس اور دو گالف کورس شامل ہیں سیر گاہوں کا تناسب ۲۰۴ ایکٹر فی ہزار کی آبادی میں رکھا گیا ہے.لیکن ان کا اکثر حصہ خاموش تفریح گاہوں کے لئے مخصوص کیا گیا ہے مثلاً لارنس گارڈن - گول باغ اور حضوری باغ یا ایسی جگہیں جو پرائیویٹ طور پر استعمال ہوتی ہیں.یہ عبارت ظاہر کرتی ہے کہ ایسے علاقے جن میں مکانیت کم ہو اور کھلی جیگر زیادہ ہو ، وہ بھی اوپن سپیسز میں شامل ہوتے ہیں.اس طرح تمام ریلوے لائنرز اور عید گاہ کے لئے جو سینکڑوں کنال رقیہ چھوڑا گیا ہے اور جسے انہین نے اوپن پیسز میں شامل نہیں کیا اوپن سپیس بن جائے گا.اور اس سے بھی زیادہ علاقہ اوپن سپینز میں چھٹا ہوا سمجھا جائے گا جتنا کہ انجیمین نے درخواست میں لکھا ہے.اُوپر کے حوالہ جات کو دیکھتے ہوئے یہ سوال امین کا معقول ہے کہ ان کو اتنی جگہ آبادی کے لئے نہیں دی گئی جتنی کہ قانون کی رو سے دی جانی چاہیئے.اس کے مقابل پہ ٹاؤن پلینر صاحب کا یہ جو اسی ہے کہ میں نے نقشہ اُن کو دکھا دیا تھا اور انہوں نے اسے منظور کر لیا تھا.اس جواب کے متعلق دو باتیں قابل غور ہیں.1.کیا کسی شخص کا کسی امر کو منظور کر لینا اسے اس کے قانونی حق سے محروم کر دیتا ہے ؟ ۲.ٹاؤن پلیز صاحب کے اپنے بیان کے مطابق انجمن نے لے آؤٹ کے بعد نقشہ منظور نہیں کیا بلکہ نقشہ لاہور میں ٹاؤن پلیز صاحب نے انجمن کے نمائندوں کو دکھایا اور انہوں نے منظور کیا.نقشہ کے دیکھنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس پر کوئی ایسی عبادت نہیں لکھی ہوئی کہ کتنے
۳۹ فیصدی زمین آبادی کے لئے چھوڑی گئی ہے.ان حالات میں اجمین کہہ سکتی ہے کہ اُن کو لے آؤٹ سے پہلے اصل حقیقت معلوم نہ ہو سکی تھی.جب لے آؤٹ ہوئی تو انہیں معلوم ہوا کہ جو حق از روئے قانون انہیں ملتا تھا وہ ان کو نہیں ملا.اس لئے ان کی رضامندی قانونی حیثیت نہیں رکھتی.یہ امر بھی مد نظر رکھنے کے قابل ہے کہ ضلع کے افسر صاحب نے جگہ کو دیکھ کر اور سرکاری ضروریات کو دیکھ کہ انجمن کے دعوئی کی تصدیق کی ہے اور کمشنر صاحب ڈویژن نے اس سے اتفاق کیا ہے.اور یہ امر بھی نظر انداز کرنے کے قابل نہیں کہ ہسپتال ، پولیس لائنز ، سرکٹ ہاؤس، میونسپل آفس ایسی عمارتیں ہیں کہ ان کے بنانے کے لئے انجین کو تو مجبور نہیں کیا جا سکتا ، حکومت کو ہی بنانی ہوں گی.کیا اتنے بڑے بڑے رقبوں پر ایسے چھوٹے سے قصبہ میں حکومت اتنا روپیہ خرچ کرے گی ؟ خصوصاً جبکہ اُسے زمین کی قیمت بھی خود دینی ہوگی کیونکہ پنجاب میونسپل ایکٹ سا مٹر کی دفعہ ۱۹۲ کے رُو سے دس فیصدی زمین کے رقبہ سے زائد زمین حکومت مفت نہیں لے سکتی بلکہ اس کی اسے قیمت دینی پڑتی ہے.یہ خرج عمارتوں کے علاوہ ہو گا اور جبکہ ضلع کا افسر نہ اتنی زمین کی ضرورت بتاتا ہے نہان میں بعض اداروں کی ضرورت بتاتاہے تو پران کار با کیانی و تومورتیاں کیا جاسکتا کرده کارت باس اور پولیس لائن بنوا کر دے.ہسپتال کے بنانے کا گو انجمن نے ارادہ ظاہر کیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم انہیں مجبور کر سکتے ہیں کہ وہ اپنے ذرائع سے زیادہ خرچ کر کے اس سے زیادہ نہ ملین میں ہسپتال بنائیں جتنی جگہ میں وہ خود ہسپتال بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں یا تو فیق رکھتے ہیں.ان حالات میں اگر یہ علاقے آباد نہ ہوئے تو گرد و غبار کے پھیلانے اور غلاظت کے جمع ہونے کا موجب ہوں گے یا ایک چھوٹی سی میونسپل کمیٹی پر نا قابل برداشت بار ثابت ہوں گے اور پھر حکومت ہی کو مدد کرنی پڑے گی.ٹاؤن پلینر صاحب نے ایک بات یہ لکھی ہے کہ انمین بڑی قیمت پر زمین فروخت کر رہی ہے.جہانتک حکومت کا سوال ہے وہ اس زمین کو فروخت کر چکی ہے.اور اگر وہاں بسنے والے پبلک ادارہ ہوں کی تعمیر کے لئے دعیسا کہ نقشہ سے ظاہر ہے یہاں تین کا لچ ، تین سکول ، ایک سائنس ریسر انسٹی چیوٹ ہسپتال اور انجمن کے دفاتر بننے کی تجویز ہے زمین کی قیمت کے نام سے مالی بوجھ اُٹھانا چاہیں تو اس پر کوئی اعتراض نہیں کر سکتا.کیونکہ انجمن ایک خیراتی ادارہ ہے شخصی تجارتی
۴۰ ادارہ نہیں ہے.ٹاؤن پلینز نے لکھا ہے کہ جنوب مشرق کا جو حصہ انجمن نے مانگا ہے اور جسے نقشہ پر گریں ظاہر کیا گیا ہے وہ نشیب میں ہے اس لئے وہاں عمارتیں نہیں بننی چاہئیں.نقشہ کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمین کے فروخت ہونے سے پہلے صرف دو مکان فروخت شدہ زمین میں تھے.اور وہ اس شکریہ میں تھے جیسے گرین ظاہر کیا گیا ہے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایسا نشیب نہیں جیں میں پانی کھڑا ہوتا ہو ورنہ یہ نہ ہوتا کہ سارے رقبہ کو چھوڑ کہ مکان بنانے والے صرف نشیب کا انتخاب کرتے.دوسرے نقشہ یہ ایک نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جگہ جیسے ٹاؤن پلیز صاحب نے ہیوی انڈسٹری کے لئے منتخب کیا ہے جس کے لئے بہت اونچی زمین کی ضرورت ہوتی ہے.اس رقبہ کی نسبت بہت نیچی ہے.چنانچہ نقشہ میں دیئے ہوئے کنٹور کے مطابق ساؤتھ ایسٹ کی مطلوبہ زمین کالیول ۵۹۳ سے ۵۹۷ ہے اور ساؤتھ ویسٹ کا جو علاقہ ٹاؤن پلیز صاحب نے ہیوی انڈسٹری کے لئے رکھا ہے اس کا کنٹور ۵۸۹ سے ۵۹۲ تک ہے.گویا رقبہ مطلوبہ کا لیول اس رقیہ سے جیسے آباد کرنے کا ٹاؤن پلیز نے خود نقشہ بنایا ہے چار فٹ اونچا ہے.لیکن یہ سوال مقامی نہیں بلکہ آئندہ جو قصبے عقل پراجیکٹ یا دوسری جگہوں میں نہیں گے ، سب پر اس کا اللہ پڑے گا اور یہ مثال بن جائے گی.( ملخص ختم صدر انجین احمدیہ پاکستان کی رقبہ آبادی میں اضافہ کی یہ قانونی قانونی بعد وجد میں کامیابی سارہ جوئی اور جدو جہد بہت حد تک کامیاب ہوئی جو محض خدا کے فضل و کرم اور حضرت مصلح موعود کی دعاؤں کا نتیجہ تھا ورنہ باہمی خط و کتابت اور افہام و تفہیم کے درمیان ٹاؤن پلینر کی تجویز کے ماتحت یہ سوال بھی اُٹھا دیا گیا کہ حکومت پاکستان زمین ہی ضبط کرے.ربوہ کی آبادی کے اعتبار سے پانی کی دستیابی کا مسئلہ نقشہ کی تیاری سے پانی کی فراہمی کا مسئلہ بھی زیادہ اہم تھا.اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو ابتدا ہی سے اس طرف خاص توجہ تھی.حضور کا منشار مبارک یہ تھا کہ پانی کے انتظام کا جائزہ لے کر ربوہ کے بالائی حرف
ٹیوب ویل نصب کیا جائے اور اس منصوبہ کو کملی جامہ پہنانے کے لئے کراچھا سے ایک بینر پر بھی منگوایا گیا مگر بعض وجوہ نے یہ سکیم پرسوں تک معرض التواء میں پڑی رہی.میوہ ٹی بی رنگ کا پہلا تجربہ پہاڑی کے دامن میں کیا گیا جہاں کیسے نصب تھے.یہ تجربہ قادیانی کہانی قریشی فضل حق صاحب اور ان کے ساتھیوں (غلام نبی صاحب و قریشی محمد اکمل صاحب نے کیا.) جو اس واد کا غیر ذی زرع میں تلکے لگانے کا عزم کر کے شروع ہوا سے یہاں سکونت پذیر ہو گئے تھے.یہ اصحاب کئی دنوں تک کھدائی کرتے رہے مگر ہ، فٹ کی گہرائی میں بھی پانی کا کوئی نام و نشان نہ مل سکا.مجبوراً انہوں نے ایک دوسرے مقام پر کھدائی شروع کر دی کہ اسی دوران ۴۰ فٹ کی گہرائی پر پہنچا کہ بورنا.ٹیوب میں پھنس گھی میں کو باہر کا انے کے لئے ایک اور گڑھا کھودا جانے لگا خدا کی قدرت امین اس وقت حضرت امیر المؤمنین المصلح الموعود کا ربوہ میں ورڈ مسعود ہوا ہو نہی حضور کے قدم مبارک اس مقدس زمین پر پڑے پھنسی ہوئی نالیوں میں کا ایک جنبش ہوئی اور آن کی آن میں ایک غیبی طاقت نے ان کا سرا پانی کی سطح تک پہنچا دیا.یہ اار : خاد/ اکتوبر میش کا واقعہ ہے.جناب چودھری عبدالسلام صاحب اشترایم.اے نے انہی دنوں الفضل میں اس ایمان افروزہ واقعہ یہ روشنی ڈالتے ہوئے لکھا:." نماز کے بعد حضور مسجد میں ہی بیٹھ گئے اور حکرم قامتی عبد الرحیم صاحب بھٹی سے مکاتبات کی تعمیر کے بارہ میں گفتگو فرماتے رہے.ابھی حضور قائمی صاحب سے کا سے گفتگو فرما ہی رہے تھے که مستری فضل حق صاحب جو گذشتہ بارہ دنوں سے نلکہ لگانے پر مقررہ تھے اور شب و روز مٹی کی کھدائی میں مصروف تھے بھاگے ہوئے آئے اور کہنے لگے کہ حضور کے یہاں تشریف نانے پر زمین سے پانی آگیا.یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ہمیں گذشتہ کئی روز سے پانی کی شدید تکلیف تھی.ایک جگہ ہے.فٹ تک مٹی کی کھدائی کی گئی مگر پانی نہیں آیا تھا بستری لے یہ جنریٹ تقسیم ہند سے قبل ایک بیرونی ملک سے درآمد کیا گیا تھا اور پاکستان بننے کے بعد کراچی ہی میں تھا ملے حضور کے ہمراہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب اور مولانا عبد الرحیم صاحب درد ایم.اے بھی تھے.
۴۲ صاحبان نے تنگ آکر دوسری جگہ کھدائی شروع کر دی تھی.مگر اتفاق کی بات ہے کہ دوسری جگہ بھی تقریباً ہم فٹ جا کہ نلکہ کی ٹیوب بُری طرح مٹی میں پھنس گئی اور حالت یہ ہوگئی کہ نہ تو وہ ٹیوب مٹی کے اندر جاتی تھی اور نہ ہی پاکسانی باہر آسکتی تھی.چنانچہ متری صاحبان نے صرف یہ دیکھنے کے لئے کہ ٹیوب کو کیا ہو گیا ہے ایک تیرا گڑھا کھودنا شروع کر دیا تھا.لیکن جس وقت حضور کے قدم اس زمین پر داخل ہوئے بستری فضل حق صاحب کا بیان ہے کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ جیسے نلکہ کی نال کو کوئی قوت خود بخود پانی کے قریب لے جا رہی ہے.چنانچہ حاضرین نے مستری صاحب کے یہ کلمات سنے کہ حضور پانی آگیا.تو بے اختیار الحمد للہ زبان پر بھاری ہو گیا.حضور اس کے بعد دیر تک مستری صاحب سے گفتگو فرماتے رہے اور ہر رنگ میں ان کی حوصلہ افزائی فرماتے رہتے.اس موقعہ پر جو پانی حضرت مصلح موعود کی خدمت میں پیش کیا گیا وہ سخت بدبو دارہ اور کڑوا تھا جس کی رنگت زردی مائل اور کسٹرائیل سے ملتی جلتی تھی.حضرت مصلح موعود نے پانی کی تلاش میں مزید ہدایات دیں جن کی تعمیل میں قریشی صاحب اور ان کے جواں ہمت ساتھیوں نے اپنی جد و جہد تیز سے تیز تر کر دی.اسی دوڑ دھوپ میں رش کا دوسرا مہینہ آپہنچا مگر کوئی کامیابی نہ ہوئی.آخر 1909 بڑی محنت و مشقت کے بعد موجودہ جامعہ نصرت کے پلاٹ میں پہلا ٹیسٹ بور کیا گیا.۲۰۰ فٹ تک کھدائی کی گئی اور.۸ فٹ اور 114 فٹ کی گہرائی سے برآمد شدہ پانی کی دو بوتلیں ۲۱ ماه تبلیغ فروری میش کو کیمیائی تجزیہ کے لئے لائلپور بھجوا دی گئیں.بورنگ سپیشلسٹ نے اور ماہ تبلیغ فروری +1909 کو یہ رائے دی :- r UNFIT FOR 15 WATER THE DOMESTIC PURPOSES.IRRIGATION AND یہ پانی زراعت اور گھر یلو استعمال کے قابل نہیں ہے.چنانچہ رحمت علی صاحب ( WELL SUPERVISOR BORINE OPERATOR LYALLPUR) نے، ۲۶ فروری ۱۹۴۹ کو تجربہ کے نتیجہ کی نقل بھجواتے ہوئے لکھا :- ه الفضل دار اضاور اکتوبر بش صفحه ۴ کالم ۰۲۱
مکرمی صدر صاحب امین احمدیہ رہوں.تسلیم ربوہ ٹرائل بور کے پانی کے ہر دو نمونہ بھات کے نتیجے ارسال ہیں.ہرد و نمونہ سبات کا پانی قابل استعمال زراعت اور پینے کے نہیں ہے.چونکہ اتنی لمبی تہوں کے باعث جو کہ مٹی کی گئی ہیں آگے کے پائپ سے مزید بورنگ کو نا مفید نہیں ہے.اس لئے بہتر ہو گا کہ آپ اس بود کو بند کر کے پائپ نکلوا دیویں اور موضع کھچیاں کی سرحد کے قریب ایک دوسرا ٹرائل پور کرا کے دیکھ لیں اس نتیجہ کے موصول ہونے پر جناب چودھری عبد السلام صاحب اختر نے یکم امان مارین کو حضرت مصلح موعود کی خدمت میں بذریعہ تار اطلاع دی جس پر حضور نے اپنے قلم مبارک سے لکھا:.✔ START BORING, NEAR RIVER LAND " SOUTHERN PART.IN RABWAH "آدمی یہ ہدایت لے کر جائے.عبد اللطیف صاحب سمجھ کر جائیں اور وہاں یہ کام خود شروع کر دائیں " حضور اقدس کے اس ارشاد کی تعمیل میں چودھری عبد اللطیف صاحب اور رسمیئر نے دریائے چناب کے قریب بورنگ کرایا.یہ بورنگ محمد ابراہیم صاحب ویل سپر وائزر کے ذریعہ ہوا.۲ ار امان ماریچ ریش کو چنیوٹ خزانہ میں ایک سو اٹھائیں روپے چودہ آنہ چھ پائی بورنگ فیس جمع ہوئی.16 امان / مارچ تک 9 فٹ گہرائی تک بورنگ ہوا.90 فٹ پر مٹی آئی.94 سے ۱۰۰ فٹ تک معمولی ایت اور ۱۰۰ سے ۱۸۰ فٹ تک ریت حسین میں کنکر پتھر کی آمیزش تھی.اس بورنگ سے جو پانی شامل ہوا لائلپور زرعی کالج میں برائے ٹیسٹ بھیجا گیا تو رپورٹ ملی کہ یہ پانی زرعی استعمال کے لئے مفید ہے ہذا بعد میں جب پلاٹ بندی ہوئی تو اس جگہ کو ٹیوب ویل کے لئے محفوظ کر لیا گیا.اگر چہ ایک لمبے عرصہ کے بعد اسی جگہ واٹر سپلائی سکیم کے تحت ٹیوب ویل کی تنصیب عمل میں آئی مگر جہان تک اندر دن شہر کو عمدہ پانی ملنے کا معاملہ تھا وہ جوں کا توں ہی رہا.محکمہ کی ہدایت پر جامعہ نصرت کے، احاطہ والا اورنگ بند کر کے محلہ دار البرکات کے بنوب، لہ ربوہ سے متصل اس کے جنوب مشرق میں ایک گاؤں
مشرقی کو نہ کے قریب کھدائی کا آغاز کیا گیا لیکن اس جگہ بو رنگ کے پائپ پھنس گئے تو اکھیڑ لئے گئے اور اس کی بجائے اسٹیشن کے قریب لائن کے دونوں طرف کھدائی کی جانے لگی.چند دنوں کی کوشش سے ربوہ اسٹیشن کی جنوبی سمت میں ایک جگہ نسبتاً میٹھا پانی نکل آیا اور ماہ شہادت اپریل ۳ ایش کہ پہلے سالانہ جلسہ کی تقریب پر ٹونکے لگا دیئے گئے.چھ سات ماہ کی لگاتار اور تھکا دینے والی محنت و مشقت کا نتیجہ لیں یہ چند نلکے ہی تھے جن میں سے اکثر کھاری یا نیم کھائی پانی کے تھے اور جو ہزاروں روپے خرچ کرنے کے بعد نصب کئے جا سکے تھے.یہ تو خدا تعالیٰ کی خاص عنایت ہوئی کہ اس جلسہ پر حکومت کے محکمہ حفظان صحت نے پانی بہم پہنچانے کے لئے ٹینکروں کا انتظام کر دیا وگرنہ پانی کی کمیابی مصیبت عظمی بن جاتی.ان سراسر مخالف اور بے بعد مایوس کن حالات میں جبکہ ظاہری اور مادی سامان بالکل ناکام ثابت ہو گئے حضرت رب العزت کی طرف سے اپنے مقدس تخلیفہ سید نا محمود المصلح الموعود کو یہ بشارت دی گئی کہ اللہ تعالے کوئی نہ کوئی صورت ایسی ضرور پیدا کر دے گا کہ ربوہ میں پانی کی کثرت ہو جائے.یہ عظیم الشان آسمانی خوشخبری ۲۱ار شہادت اپریل رش کو ایک الہامی شعر کے ذریعہ دی گئی جس کی تفصیل پر حضور نے روشنی ڈالتے ہوئے اگلے ہی روز خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا کہ " جلسہ کے اختتام کے بعد جس دن ہم ربوہ سے واپس چلے (یعنی ۲۱ اپریل سے براون جمعرات، مجھے ایک الہام ہوا....مجھ پر ایک غنودگی سی طاری ہو گئی.اس نیم غنودگی کی حالت میں میں نے دیکھا کہ میں مندا تعالے کو مخاطب کر کے یہ شعر پڑھ رہا ہوں ے جاتے ہوئے حضور کی تقدیر نے جناب ناؤں کے نیچے سے میرے پانی بہا دیا a میں نے اسی حالت میں سوچنا شروع کیا کہ اس الہام میں ” جاتے ہوئے “ سے کیا مراد ہے.اس پر میں نے سمجھا کہ مراد یہ ہے کہ اس وقت تو پانی دستیاب نہیں ہو سکا لیکن جس طرح حضرت اسمعیل علیہ السّلام کے پاؤں رگڑنے سے زمزم پھوٹ پڑا تھا.اسی طرح اللہ تعالے کوئی ایسی صورت پیدا کر دے گا کہ میں سے ہمیں پانی با فراط میتر
هام آنے لگے گا.اگر پانی پہلے ہی مل بھاتا تو لوگ کہہ دیتے کہ یہ وادی بے آب و گیاہ نہیں یہاں تو پانی موجود ہے.پھر اس وادی کو بے آب و گیاہ کہنے کے کیا معنی؟ اب ایک وقت تو پانی کے بغیر گزر گیا اور با وجود کوشش کے ہمیں پانی نہ مل سکا.آئندہ خدا تعالے کوئی نہ کوئی صورت ایسی ضرور پیدا کر دے گا کہ جس سے ہمیں پانی مل جائے.اس لئے فسر مایا کہ جاتے ہوئے حضور کی تقدیر نے جناب پاؤں کے نیچے سے میرے پانی بہا دیا پاؤں کے نیچے سے مراد یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اسماعیل قرار دیا ہے جس طرح وہاں اسماعیل علیہ السلام کے پاؤں رگڑنے سے پانی بہہ نکلا تھا.اسی طرح یہاں خدا تعالے میری دعاؤں کی وجہ سے پانی بہا دے گا.یہ ایک محاورہ ہے جو محنت کرنے اور ڈھا کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے.ہم نے اپنا پورا زور لگا دیا تا ہمیں پانی مل سکے لیکن ہم اپنی کوششوں میں کامیاب نہ ہوئے.اب خدا تعالیٰ نے میرے منہ سے یہ کہلوا دیا.کہ پانی صرف تیری دعاؤں کی وجہ سے نکلے گا ہم نہیں جانتے کہ یہ پانی کب نکلے گا اور کس طرح نکلے گا.لیکن بہر حال یہ الہامی شعر تھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالے کوئی نہ کوئی صورت ایسی ضرور پیدا کر دے گا جس کی وجہ سے وہاں پانی کی کثرت ہو جائے گی.انشاء اللہ تعالیٰ.اس شعر میں حضور " اور " جناب " دو لفظ کٹھے کئے گئے ہیں جو عام طور پر اکٹھے استعمال نہیں ہوتے.لیکن چونکہ یہاں ادب کا پہلو مراد ہے اس لئے " آپ " کے لفظ کی بجائے یہاں حضور اور جناب کے لفظ استعمال ہوئے ہیں.بہانے سے مطلب یہ ہے کہ پانی وافر ہو جائے گا.اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ الہام کس رنگ میں پورا ہوگا.ممکن ہے ہمیں نہر سے پانی مل جائے یا دریا سے پانی لے لیا جائے بنایا ہمیں کوئی اور اگر مل جائے جہاں پانی ہو اور اس وقت تک ہمیں اس کا علم نہ ہو.بہر حال یہ نہایت ہی خوشکن الہام ہے اور یہ الہام حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کے ایک الہام کی تائید کرتا ہے جو یہ ہے کہ ے نقل مطابق اصل :
يخرجُ هَتُهُ وَعَتُهُ دَوحَة إسمعيل ( تذکره صفحه ۵۳۹) یعنی خداتعالی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے غم اور فکر اور دعاؤں کی وجہ سے ایک اسماعیلی درخت پیدا کرے گا.وہ دوستہ اسمعیل سکے ہی ہوں اور اس سے بھی ہجرت کی خبر نکلتی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسّلام کو بتایا گیا تھا کہ خدا تعالے تیری اولاد میں سے ایک ایسا شخص پیدا کرے گا جو ایک بے آب و گیاہ وادی میں آبادی کے سامان پیدا کریگا.پہلے تو ہم اس کی قیاسی تشریح کرتے تھے لیکن اب خدا تعالیٰ نے میرے ذریعہ عملی طور پر اس کی تشریح کر دی اور مجھے اسماعیل قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ جاتے ہوئے حضور کی تقدیمہ نے جناب پاؤں کے نیچے سے میرے پانی بہا دیا یعنی جہاں میرا پاؤں پڑا خدا تعالیٰ نے وہاں پانی بہا دیا.“ اس حیرت انگیز پیشگوئی کے بعد ربوہ کی بے آب و گیاہ زمین میں ایک نمایاں تغیر محسوس کیا بھانے لگا.چنانچہ جہاں کھاری پانی کے مزہ اور رنگت میں تبدیلی ہونے لگی وہاں ریلوے لائن کے دونوں طرف میٹھا پانی دستیاب ہو گیا.حتیٰ کہ الہام خداوندی کے ظاہری الفاظ کے عین مطابق حصر مصلح موجود کے اپنے قطعہ زمین سے گویا میٹھے پانی کا چشمہ بھاری ہو گیا جس پر ربوہ کا پہلا ٹیوب ویں نصب ہوا.اور پھر آہستہ آہستہ پانی کی وہ بہتات ہوئی کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی دعاؤں کے طفیل ہر طرف سچ سمجھ پانی بہہ نکلا.ربوہ میں غلطی صد را نمین احمدیہ حضرت مصلح موعود نے ار امضاء / اکتوبر میش کو ربوہ میں مشترکہ طور پر کام چلانے کے لئے عارضی طور پر صدر انجین احمدیہ تحریک جدید کا قیام اور تحریک جدید کے ممبروں پر مشتمل ایک خلتی انجمن قائم فرمائی جس کا صدر چودھری عبدالسلام صاحب اختر کو اور سکرٹری مولوی عبدالرحمن صاحب انور کو مقرر فرمایا اور ہدایت فرمائی کہ روزانہ اجلاس ہوا کرے اور روزانہ اس کے فیصلہ جات کی تعمیل ہوا کرے نیز سب کام مشورہ سے ہوں اور ان کی روزانہ رپورٹ حضور کی خدمت میں بھیجوائی جائے.له الفضل ۱۸ ظهور/ اگست مش صفحه ۹۵ ۱۳۲۸ ۱۹۴۹ A
ام یہ امین ربوہ سے متعلق حضرت مصلح موعود کی بھاری فرمودہ ہدایات و ارشادات کی تعمیل کے لئے معرض وجود میں لائی گئی تھی اور اس نے حتی المقدور اپنا یہ فرض نہایت عمدگی سے نباہنے کی کوشش کی.عارضی تعمیرات کے لئے حضرت مصلح موعود اپنے تو یہ فراست اور دور بین نگاہ سے ابتداء ہی میں اس نتیجہ تک پہنچ چکے تھے کہ ربوہ کی مستقل آبادی سے پیشتر اس جگہ ضروری سامان کی فراہمی عارضی رہائش گاہوں یا جھونپڑوں کا بندوبست بہت ضروری ہے ظاہر ہے کہ یہ مقصد سرکنڈا ، عمارتی سامان اور کچی اینٹوں کی تیاری کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا تھا.ربوہ سے تیرہ چودہ میل کے فاصلہ پیر با ہیوال کے علاقہ میں سرکنڈوں کا ایک بڑا ذخیرہ موجود تھا بو خرید لیا گیا جس کی عمومی نگرانی چودھری عبد اللطیعت صاحب اور سیٹر واقف زندگی کے سپرد ہوئی اور باہیوال سے ربوہ تک کی ڈھلائی کے منتظم بدر سلطان صاحب اختر واقف زندگی بنائے گئے.عمارتی سامان سے متعلق حضور کا فرمان مبارک یہ تھا کہ سامان ارزاں اور اتنی کثیر تعداد میں خورید کیا جائے کہ نہ صرف مرکزی ضروریات پوری ہو جائیں بلکہ ربوہ کے دوسرے احمدی بھی اس سے فائدہ اُٹھا سکیں.ایک عمومی ہدایت یہ بھی تھی کہ دروازوں اور کھڑکیوں کا ایک ایسا معین ماڈل بنا لیا جائے جو ہر رہائش گاہ کے لئے سود مند ثابت ہو سکے حضور نے عمارتوں کی تعمیر کے لئے لکڑی کے چھوٹے ٹکڑوں کی خرید کا بھی حکم دیا.حضرت امیر المؤمنین کی ان اصولی ہدایات کی روشنی میں وزیر آباد ، نوشہرہ، جہلم اور پشاور وغیرہ میں عمارتی سامان کی جستجو کی جا رہی تھی کہ ڈی بی ہائی سکول بھا گھٹا نوالہ (ضلع سرگودھا) کے ایک مخلص احمدی ماسٹر جناب ممتاز صدائی صاحب کا ۱۹ر اتحاد) اکتوبر بارش کا ایک خط حضرت مصلح موعود کی خدمت میں پہنچا کہ یہاں ایک ہوائی اڈے کا سامان قابل فروخت بہت بڑی مقدار میں پڑا ہے اور خان میاں خالی نہیں سرگودہا کی تحویل میں ہے.اس اطلاع پر چودھری عبداللطیف صاحب اور سیر کو بھجوایا گیا جنہوں نے آکر یہ خوشکن رپورٹ دی کہ سامان واقعی کافی مقدار میں ہے اور اچھی حالت میں ہے.حضور نے ارشاد فرمایا " یہ سامان تو نعمت غیر مترقبہ ہے.فوراً آدمی جا کر سب سامان خرید لے.یہ مل جائے تو عمارت کا خرچ ہم کم ہو جائے گا.فوراً آدمی جائے
متاثر نہ ہو" قدیم اور مستند ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ اندازاً ساڑھے چار ہزار کی اور ساڑھے چار سو کے قریب دروازے اور کھڑکیاں بھاگٹا نوالہ سے خریدی گئیں جن پر صرف ہیں ہزارہ روپے صرف ہوئے اس عمارتی سامان نے نہ صرف عارضی تعمیرات کا مشکل مسئلہ حل کرنے میں بھارہ کی مدد دی بلکہ بعد کو جب وقتی رہائش گا ہیں گرا دی گئیں تو سامان اچھے داموں پر فروخت ہو گیا یا صدر انجمن تحریک جدید میں تقسیم ہو کہ بہترین جماعتی مصرف میں آیا بچنا نچہ حضور کے حکم سے غرباء کے لئے جود مکانات بنائے گئے ان میں بھی یہ سامان استعمال کیا گیا.جب عارضی کوارٹروں کے گرانے کا مرحلہ آیا تو حضرت مصلح موعود نے اپنے قلم مبارک سے یہ ہدایت تحریر فرمائی کہ یہ کام سکرڑی صاحب تعمیر کی نگرانی میں ہو کسی اور کا دخل نہ ہو کیسے کہ جو مال لگا ہے وہ ان کا ہے.ان کو موقعہ منا چاہیئے کہ سب کام سنبھال لیا ہے.میں ان کا سرٹیفیکیٹ لوں گا.دو دفعہ پہلی دفعہ کہ میرے سپرد یہ کام ہوا اور سب چیز موجود ہے.دوسری اور و یہ کہ میں نے یہ کام کیا ہے اور سب علی لیا ہے کچی اینٹ بھی بچائیں.کوشش کی بجائے " سے اس کے بعد جب سیکرٹری صاحب تعمیر ( عطا محمد صاحب) نے حضور کی خدمت میں مطلوبہ تصدیقات پیش کر کے سامان کی فروخت کے لئے اجازت چاہی تو حضور نے انہیں حکم دیا کہ فروخت کے قواعد پہلے منظور کرائیں " چنانچہ ان احکام کی تعمیل کی گئی اور اس طرح خلیفہ وقت کے بروقت اقدام اور رہنمائی کی بدولت قومی سرمایہ محفوظ ہو گیا.جہانتک خام اینٹوں کا تعلق تھا حضرت مصلح موعود نے ۲۹ ماہ نبوت / نومبر میش کو اپنے دستخط سے یہ ہدایت بھاری فرمائی کہ به حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے یہ ہدایت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کے مکتوب ( مورخه ۱۳۲۰ انعام اکتوبر ش پر رقم فرمائی.انہوں نے لکھا تھا کہ تھا یک جدید کے سینٹر کوارٹر بنائے گئے ہیں جن کی وجہ سے عارضی تعمیرات کا ایک حصہ گرانا پڑے گا.صاحبزادہ صاحب اُن دنوں تعمیرات تحریک جدید کے انچارچ کے فرائض انجام دے رہے تھے ،
۴۹ قلعی صدر انجین و تحریک جدید کا فرض قرار دیا بھاتا ہے کہ وہ یہ انتظام کرے کہ روزانہ پچیس ہزار کچی پیٹیں تیار ہوں اور جو سرکنڈڑا خریدا گیا ہے اسے کٹوا کر منگوایا جائے اور ! جو اخراجات ان کاموں کے لئے مطلوب ہوں ان کا اسٹیمیٹ پیش کر کے منظور کیا حاصل کی بجائے " اس ارشاد پر اگر چہ خشت نظام تیار کی جانے لگی مگر پانی کی کمی اور مزدوروں کی قلت کے عبات رفتار بے حد شست رہی.پیش آمدہ مشکلات کی بناء پر حضور سے درخواست کی گئی کہ چنیوٹ کے ایک ٹھیکیدار سے تیار شدہ کچی اینٹیں خرید لی جائیں.مگر حضور نے نہایت سختی سے یہ تجویز رد کردی اور فرمایا کہ ہرگز نہیں جس نے ایسا کیا اسے جماعت سے فارغ کر دیا جائے گا.میں کوئی تعدد نہیں سنوں گا...جس طرح بھی ہو روزانہ پچیس ہزار اینٹ تیار ہونی چاہیئے.اللہ تعالے جب اپنے برگزیدہ بندوں کے دل میں کوئی تحریک التقاء فرماتا ہے تو مضارت ہیں اس کے مطابق تغیرات اور مادی سامان بھی پیدا کر دیتا ہے.چنانچہ راجہ محمد نواز صاحب سابق نگران تعمیر کا بیان ہے کہ ایک موقع پر جب حضور نے انہیں حکم دیا کہ روزانہ پچاس ہزار کچی اینٹیں تیار ہونی چاہئیں تو خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے اتنی تعداد تیار ہونے لگی.روہ میں پہلی عارضی مات کی بنیاد اختر کی اینٹوں کی ایک معقول تعداد تیار ہوگئی المختصر جب تو سرماہ فتح / دسمبر پر پیش کو خیموں کی مشرقی جانب وسطی پہاڑی کے دامن میں پہلی عارضی عمارت کی تعمیر کا آغازہ ہوا.حضرت مفتی محمد صادق صاحب چنیوٹ سے تشریف لائے اور اپنے ہاتھوں سے اس کی بنیاد رکھی.اس موقعہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کے ربوہ میں موجود صحابہ نے بھی ایک ایک اینٹ نصب کی.یہ پہلی عمارت سات کمروں پر مشتمل تھی.یہ عمارت شروع میں چند ماہ تک دفتری گرام کے طور پر استعمال ہوتی رہی.چنا نچہ ایک کمرہ بابو نور احمد صاحب چغتائی کی زمین نگرانی سیمنٹ کے لئے مخصوص تھا.ایک میں دفتر جائداد کا لاہور سے خرید شدہ فرنیچر رکھا گیا.اور ایک میں انچارج صاحب لنگر خانہ نے گندم کا سٹاک رکھوایا.ایک کمرہ میں لائیبریری کی کتب تھیں جن کا انتظام اُن دنوں مولوی عبدالامین ایش ه والد ما بود موادی رشید احمد صاحب چغتائی مجالد بلاد غربید (وفات امر ظهور اگست ۳۳ ( ش )
صاحب، انور وکیل الدیوان تحریک تجدید کے سپرد تھا.یہ بھاروں مکر سے ۲۰×۳۰ فٹ کے تھے.بقیہ تین میں سے دو کمر سے دس دس فٹ مربع میں تھے اور ایک کمرہ ۲۰ × ۱۰ کا تھا.ماہ شہادت / اپریل میش کے پہلے جبکہ ربوہ پر اس پہلی عارضی عمارت میں لنگر خانے پہلے بیوہ قائم کیا گیا.لیکن اس کے بعد جب دوسرے عارضی لنگر خانے تیار ہو گئے تو یہ عمارت پرائیویٹ رہائش گاہ کے طور پر استعمال ہونے لگی جو اب تک موجود ہے.حضرت مصلح موعود کی طرح سے نئے مرکز کی آبادی افتتات راو ہ سے قبل اور بعد جماعت احمد کے مرکزی آرگن" الفضل“ میں پے در پے اعلانات کئے گئے کہ جو معمار، بڑھئی ہمستری، و تم میں شرک کے راہنما یا حرف کو تیر رہنے کاحکم تعمیر حلوائی، دودھ فروش ، نانبائی ، حجام ، دھوبی ، مزدور یا دوسرے اہل حرفہ جو شہری ضروریات کے کسی کام کا تجربہ رکھتے ہوں اور نئے مرکز میں کام کرنے کی سعادت حاصل کرنا چاہتے ہوں وہ اپنی درخواستیں بھیجوا دیں.ان اعلانات پر سینکڑوں دوستوں نے مخلصانہ لبیک کہا میں پر حضرت مصلح موعود نے جلسہ نامور مالیت کے موقعہ پر اظہار خوشنودی کیا اور انہیں ربوہ کے لئے تیار رہنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا :- ہماری تحریک پر بڑھٹی ، معماروں اور دیگر کا ریگروں نے کئی سو کی تعداد میں مرکز میں کام کرنے کی درخواستیں دی ہیں.میں اُن سب کو اطلاع دیتا ہوں کہ اب وہ پایہ ارکاب رہیں.جس وقت بھی انہیں اطلاع دی جائے انہیں فوراً ربوہ پہنچ کر کام شروع کر دینا چاہیے.یاد رکھو ہمارا ایک ایک دن بہت قیمتی ہے اور مرکز کے قیام میں ایک ایک گھڑی کی تعویق بھی ہمارے لئے مضر ہے" سے ملاحظہ ہو الفضل ۱ - ۱۱-۲۱ تبوک ستمبر له الفضل ۲۸ فتح / دسمبر میش صفحه ۳ +
اه فصل سوم ربوہ میں نرمی سے موجود کی پریس کانفرنس اور اخبار میں چرچا ریوں کی بے آب و گیاہ زمین جسے جماعت احمدیہ کے اولو العزم امام اور قائد سیدنا حضرت مصلح موعود ایک شاندارہ اسلامی شہر میں بدلنے کا تہیہ کئے ہوئے تھے، اگر چہ ابھی تک خفیوں کے ایک مختصر سے کیمپ کا منظر پیش کر رہی تھی مگر خالص انہی تصرف کے باعث عام لوگوں کی توجہ اور دلچسپی کا مرکز بنتی جا رہی تھی اور ضرورت تھی کہ پبلک کو اس بستی کے وسیع جماعتی منصوبہ سے متعارف کروایا جائے تا حکومت اور پاکستان کے عوام کو بھی باہمی تعاون سے نئی بستیاں آباد کرنے کا شوق دو ولولہ پیدا ہو اور ملک ایک نئی روح ، نئے عزم اور نئے جوش کے ساتھ ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونے لگے.حضرت مسلح وعود نے اس معظیم دینی ، قومی اور ملی مقصد کے پیش نظریے ماہ نبوت / نومبر میش کو ربوہ میں ایک پریس کا نفرنس سے خطاب فرمایا.اس کا نفرنس میں لاہور کے تمام مشہور و ممتاز اور کثیر الاشاعت اردو و انگریز کی اخبارات کے مدیہ اور نامہ نگار شامل ہوئے اور نہایت گہرا اثر لے کر گئے.الفضل کے وقائع نگار خصوصی جناب ثاقب زیروی کی مطبوعہ رپورٹ کے مطابق حضرت امیر مومنین سلسلہ احمدیہ کے بعض ممتاز اصحاب اور لاہور کے مدیروں اور چیف رپورٹروں کی معیت میں ہرماہ نبوت نومبر کو رتن باغ لاہور سے پونے نو بجے صبح موٹر کار میں روانہ ہوئے اور قریباً بارہ بجے ربوہ میں رونق افروز ہوئے.حضور کے ہمراہ مندرجہ ذیل بزرگ اور احباب سلسلہ تھے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ، حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل تعلیم الاسلام کالج ،شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ لا ہور ، چود ھر کی اللہ اللہ نغال صاحب بیرسٹر ایٹ لاء لاہور ، نواب محمد الدین صاحب ریٹائر ڈ ڈپٹی کہ شہر ، حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب درد ایم.اے ، ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب اور چودھری اگر نہ نصر اللہ خان صاحب.
۵۲ جمیدہ نگاروں کا قافلہ مندر جہ ذیل شخصیتوں پرمشتمل تھا :- کرنل فیض احمد صاحب نبیض رجبیعت ایڈیٹر پاکستان ٹائمز، میاں محمد شفیع (چیف رپورٹر پاکستان ٹائمز، مسٹر جمیل الزمان (چیف رپورٹر سول اینڈ ملٹری گزٹ) مولانا عبد المجید سالک مدیر اعلئے روزنامہ انقلاب) سردار فضلی (چیف رپورٹر روز نامہ احسان ) میاں صالح محمد صدیق رحیف نیوز ایڈیٹر روز نامہ مغربی پاکستان مولانا باری علیگ (برٹش انفارمیشن سروس) چودھری بشیر احمد (نائب مریمه روز نامه سفینه ) مسٹر عبداللہ بٹ (برٹش انفارمیشن سروس) مسٹر عثمان صدیقی (مینجر اینڈ چیف رپورٹرسٹار نیوز ایجینسی) پروفیسر محمد سرور (مدیر هفته وار آفاق جناب محمد صدیق ثاقب زیر وی ( نامہ نگار خصوصی الفضل ) معرفہ مہمانوں کے لئے نصب شدہ خیموں میں سے ایک خیمہ کے اندر کھانے کا انتظام تھا جو تعلیہ اسلام ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب کے سپرد تھا اور جنہوں نے اس فریضہ کو اس احسن طریق سے سر انجام دیا کہ تبد یدہ نگاروں نے ربوہ سے رخصت ہوتے وقت ان کا بہت بہت شکریہ ادا کیا.کھانے کے بعد حضور نے پولیس کے نمائندوں کو خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ اس زمین کو حکومت بالکل ناقابل کاشت قرار دے چکی ہے.گرمی کے متعلق ریسرچ والوں کا کہنا یہی ہے کہ یہاں گرمی بہت زیادہ پڑے گی.لیکن ہم اس جنگل کو منگل بنانے کا تہیہ کئے ہوئے ہیں.ایک عرصے کی کوشش کے بعد پانی نکلا ہے لیکن وہ نمکین زیادہ ہے لہذا ابھی مزید کوشش کی جائے گی.حضور نے "مربوع “ پر آباد کئے جانے والے شہر کا نقشہ سامنے رکھ کر بتایا کہ اس کی تعمیر امریکی طرز پر ہو گی جس میں ہسپتال ، کالج، سکول ویٹرنری ہسپتال ، ریلوے سٹیشن ، ڈاک خانہ ، واٹر ورکس اور بجلی گھر کے علاوہ صنعتی اداروں کے لئے بھی ایک طرف جگہ چھوڑی گئی ہے.حضور نے بتایا کہ ہم فی الحال پختہ بنیادوں پر کچی دیواریں ہی کھڑا کرنا چاہتے ہیں اور اس پر کم از کم تخریج کا اندازہ ۱۳ لاکھ روپیہ ہے.اس کے بعد جب ہمیں اللہ تعالے پختہ مکانات تعمیر کرنے کا موقعہ دیگا تو مزید ۱۷-۱۸ لاکھ روپیہ خرچ ہوگا.گویا تیس لاکھ کے قریب رقم تو اس پر سلسلہ ہی کو خرچ کرنی پڑیگی.دوسرے لوگ جو اپنے مکانوں پر خرچ کریں گے وہ اس کے علاوہ ہو گا.اس سے آپ لوگ اندازہ کر سکتے ہیں
RABWAN سید نا حضرت مصلح موعودؓر بوہ میں لاہور کے ممتاز اور نامورصحافیوں کے ساتھ ان تصاویر میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب.حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب مکرم محمد صدیق ثاقب صاحب زیروی اور چوہدری اسد اللہ خان صاحب بھی نظر آ رہے ہیں )
۵۳ کہ ہمیں یہ زمین کتنی مہنگی پڑے گی اور اس پر سلسلے کو کس قدر محنت اور مشقت کرنی پڑے گی.حضور نے اس کے علاوہ معدود اربعہ اور مغربی پنجاب کی ہندوستان سے لگنے والی سرحدوں پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ یہ جگہ صوبے کے عین وسط میں پڑتی ہے اور اگر اسی کے محل وقوع میں خالی قطعات ارض پر حکومت جدید نمونے کے صنعتی شہر آباد کرائے تویہ شہر پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی کا کام دے سکینگے.حضور کے خطاب کے بعد چند ضروری کاموں کی ویبہ سے پاکستان ٹائمز کے مدیر اعلیٰ کرنل فیض احمد صاحب ، مسٹر عثمان صدیقی ،شیخ بشیر احمد اور عبد الرحیم صاحب پراچہ واپس تشریف لے آئے حضور ان مہمانوں کو سڑک تک چھوڑنے کے لئے پیدل تشریف لے گئے.جناب فیض صاحب کے روانہ ہونے کے بعد اخبار نویسوں کا یہ مجمع بیٹھنے کے لئے مخصوص شیمے میں آگیا جہاں مدیہ اسلئے روزنامہ انقلاب جناب سالک نے اپنے کلام بلاغت نظام سے محفوظ فرمایا.یہ شعر و شاعری کا دور ابھی شروع تھا کہ ناز سے فراغت کے بعد حضور کا پیغامبر یہ پیغام لئے ہوئے پہنچا کہ آؤ ذرا دیوہ سے آگے پندرہ سولہ میں چل پھر آئیں.چنانچہ یہ سالی سے کا سارا قافلہ کاروں پر سوار ہو کو کئی ہزار ایکڑ بنجر زمین کے ایک میدان میں آگیا جس کے شمال میں بہت اونچی پہاڑیوں کا ایک لمبا سلسلہ تھا.ٹکڑے کی اہمیت کی وضاحت کے بعد پہاڑیوں کی بلندی پر بنے ہوئے چند مکالو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس پر ہندو یوگیوں کی ایک لیستی تھی اور یہ بستی پورے ہندوستان کے سارے یوگیوں کا مرکز تصور ہوتی تھی.اسے پنجابی میں بھگت بالناتھ کا ٹلہ یا ٹیلہ بھی کہا جاتا ہے.واپسی پر حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب اور اُن کے رفقار کار (مولوی عبد الرحمن صاحب اتور اور چودھری عبد السلام صاحب اختر نے مہمانوں کو پھائے پلائی اور چائے کے بعد قریباً پانچ بجے انتہائی خوشگوار ماحول میں جریدہ نگاروں کا یہ قافلہ حضور کے ہمراہ واپس لاہور کے لئے روانہ ہوا.راستے میں اگر شست روی کی وجہ سے کوئی کار قافلے سے دُور رہ بھائی تو حضور انور اپنی کار روک لیتے جب تک ساتھ نہ آملتی.المختصر یہ قافلہ حضرت مصلح موعود کی قیادت میں ٹھیک سوا آٹھ بجے شب واپس رتن باغ لاہور آپ نے گیا.ہے ے روزنامہ " پنسل " لاہور و ماه نبوت / نومبر میشه ار تو تیم
۵۴ اخبارات میں تفصیلی خبر اور حضرت امیر المومنین سیدنا و امامنا و مرشدنا المصلح الموعود شما خطاب اتنا اثر انگیز اور پر جذب تھا کہ صحافیوں نے جبلی اور جماعت احمدیہ کو خراج تحسین شہ سرخیوں سے اس کی مفصل خبر شائع کی اور جماعت احمدیہ اس کے امام ہمام کو اس عزم و ہمت پر خراج تحسین ادا کیا ا.اخبار احسان نے لکھا:.مغربی پنجاب میں امریکی طرز پر ایک نئے شہر کا کام شروع ہو گیا یہ شہر میں لاکھ کے مصر سے ایک سال میں مکمل ہو جائیگا اہور ۱۸ نومبر جماعت احمدیہ کے امیر مرزا بشیر الدین محمود احمد کی دعوت پر مقامی اخبار نویسوں کی ایک پارٹی جماعت احمدیہ پاکستان کے نئے مرکز ربوہ کو دیکھنے گئی جو لاہور سے کوئی ایک سو میل اور چنیوٹ سے پانچ میل کے فاصلہ پر دریائے چناب کے غربی کنارے چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں کے وائن میں ایک بے آب و گیاہ غیر مزرعہ اور نا قابل آبادی قطعہ زمین پر آباد کیا جا رہا ہے.زمین کا پیڈ کیا جو ایک ہزار پونتیں ایک کا پرمشتمل ہے اور جسے حکومت سے خرید لیا گیا ہے ان دنوں جماعت احمدیہ کی سرگرمیوں کا مرکز بن رہا ہے.یہاں ربوہ نام سے امریکی طرز پر ایک جدید تمرین شہر زیر تعمیر ہے جس کی لاگت کا ابتدائی اندازہ کوئی پچیس لاکھ روپے کے قریب لگایا گیا ہے جائے وقوع کے لحاظ سے ربوہ لائل پور اور سرگودھا کے عین وسط میں واقع ہے.اس کے تین طرف تو چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں قدرتی ڈیفنس کے طور پر کھڑی ہیں لیکن جنوب مغربی سمت سے یہ کھلا پڑا ہے اور اس کا سلسلہ دور تک، مزروعہ زمین سے ملتا چلا گیا ہے ریلوے لائن اور پختہ سڑک اس قطعہ زمین کے پاس سے گزرتی ہیں.لیکن زمین میں مادہ شور ہونے کی وجہ سے کئی کئی میل تک آبادی کا کہیں نام و نشان نہیں.صبح نو بجے روانہ ہو کہ اخبار نویسوں کا قافلہ کوئی تین گھنٹے میں ربوہ پہنچ گیا جہاں سینکڑوں رضا کا رشیے وغیرہ نصب کرنے میں مصروف تھے.اخبار تویسوں کے علاوہ اس قافلہ میں مرزا بشیر الدین محمود احمد ، صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب، مرزا بشیر احمد ، نواب محمد الدین، چودھری اسد اللہ خاں شیخ بشیر احمد ، مسٹر عبدالرحیم درد اور چودھری نصراللہ خاں شامل تھے.اور
AA ربوہ پہنچنے پر مرزا بشیر الدین محمود احمد نے اخبار نویسوں کو بتایا کہ انہوں نے نئے شہر کی تعمیر کا نقشہ امریکی طرز پر بنوایا ہے اور یہ شہر پاکستان بھر میں اپنی نوعیت کا پہلا شہر ہوگا.اس میں سکول ، کالج ، ہسپتال ، واٹر ورکس اور بجلی گھر، غرضکہ ایک جدید طرز کے شہر کے تمام لواقعات نہیتا کئے جائیں گے.ریلوے سٹیشن اور ڈاکخانہ ، تار گھر کھولنے کے لئے حکومت سے اجازت حاصل کر لی گئی ہے اور بہت جلد ان کی تعمیر کا کام شروع ہو جائے گا.مرزا صاحب نے بتایا کہ وہ خشک اور بنجر پہاڑیوں کو سیر گاہوں میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں.تاکہ ان پہاڑیوں پر مختلف قسم کے پھول اور سبزی وغیرہ اُگانے سے ایک تو موسم گرما میں اس نئے شہر کے لوگ گرمی کی شدت سے محفوظ رہ سکیں اور دوسرے ان پہاڑیوں پر سیرو تفریح کا لطف بھی اٹھایا جا سکے.آپ نے اخباری نمائندوں کے سامنے ربوہ نام کی تاریخی اہمیت مذہبی حیثیت کو اپنے الہامات اور رویاء کی روشنی میں واضح کیا اور امید ظاہر کی کہ وہ ایک سال کے اندر اندر نئے شہر کی تعمیر کے کام کو مکمل کر لیں گے.مرزا صاحب نے بتایا کہ نہ صرف مغربی پنجاب بلکہ مغربی پاکستان میں اس قسم کے کئی بنجر اور اور غیر آباد علاقے بے مصرف پڑے ہیں.اگر مشرقی پنجاب کے بڑے بڑے شہروں مثلاً جالندھر امر تسر اور لدھیانہ کے مسلمان اپنی سابقہ جماعت کو قائم رکھنا چاہتے ہیں اور اپنی صنعتوں کو کو آپریٹورکھنا چاہتے ہیں تو اُن کے لئے لازم ہے کہ وہ ربوہ کی قسم کے نئے قصبوں کو بائیں ویسے بھی کئی دفاعی ضرورتیں اس امر کا تقاضا کرتی ہیں کہ ہمارے صنعتی علاقے سرسید سے کافی ڈور ہوں اور ان کی ڈیفنس کا کوئی قدرتی انتظام ہو.صرف اسی صورت میں ہم اطمینان سے بیٹھ کر اپنی صنعتوں کو ترقی یافتہ ممالک کے معیار پر لا سکتے ہیں.آپ نے بتایا کہ یہاں ریوہ سے سرگودھا جانے والی سڑک پر کوئی سترہ اٹھارہ میل کے فاصلہ پر پہاڑیوں کے دامن میں تین چار ہزار ایکڑ پرمشتمل ایک سرکاری قطعہ زمین پڑا ہے.اس سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھایا جا رہا.اگر لدھیانہ یا امرت سرکے کا دیگر اس قطعہ زمین کو حاصل کر کے یہاں ایک صنعتی شہر آباد کرنا چاہیں تو حکومت سے بھی مدد کی امید کی بھاسکتی ہے.اختبار نویسوں کے اشتیاق پر مرزا صاحب نے اس قطعہ زمین کے دورہ کا بھی پروگرام بنایا
۵۶ چنانچہ میرے پہر پورے قافلے نے اس سرکاری اراضی کو بھی دیکھا.یہ اراضی ایک ایسی پہاڑی کے دامن میں واقع ہے جسے بعض روایتوں کی بناء پر گر و بالناتھ کا ٹیلہ کہتے ہیں.کہا جاتا ہے کہ رانجہا نے اس ٹیلہ پر گورو بالناتھ سے لوگ لیا تھا اور کان چھدوا کر مندریں ڈالی تھیں.کوئی سات سو برس سے یہ بلہ ہندو بوگیوں کے قبضہ میں تھا.لیکن گذشتہ فسادات کے موقعہ پر یہ ہو گی ہندوستان پہلے گئے تھے.آج کل یہ ٹلہ جس پر تقسیم سے پہلے اچھی خاصی آبادی تھی ویران پڑا ہے.اس قطعہ زمین میں کبھی کبھی پولیس والے چاند ماری کے لئے آجاتے ہیں.ورنہ یہ زمین بالکل بیکار پڑی رہتی ہے.مرزا صاحب نے کہا کہ اگر حکومت اس رقبہ میں ایک صنعتی شہر تعمیر کرانے کا پروگرام بنائے تو اس قسم کے دوسرے مقامات پر بھی نئے نئے شہر بننے کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں.ٹیلہ بالناتھ سے واپسی پر اختبار نویسوں کی طرف سے مولانا عبد المجید صاحب سالک نے ربوہ کے میزبانوں کا شکریہ ادا کیا اور یہ قافلہ مرزا بشیر الدین محمود احمد کے ہمراہ رات کے وقت واپس لاہور پہنچ گیا روز نامہ مغربی پاکستان نے حسب ذیل الفاظ میں شہر شائع کی.۲ روزنامه چنیوٹ سے چھ میل کے فاصلہ پر احمدیوں نے ایک شہر بنانے کاکام شروع کر دیا شہر جدید طرز اور امریکی نوعیت کا ہوگا ابتدائی سکیم کی تیاریاں لاہور ، نونیز آج مرزا بشیر الدین محمود احمد امیر جماعت احمدیہ کی دعوت پر لاہور کے تمام اخبارات کی ایک پارٹی نے ربوہ کا دورہ کیا جو چنیوٹ سے چھے میل کے فاصلہ پر واقع ہے جہب پر لیس پارٹی ربوہ پہنچی تو وہاں پر سر کردہ اصحاب نے اخبارات کے نمائندوں کا خیر مقدم کیا.ربوہ کا وہ علاقہ دکھایا جہاں تجدید طرز کا ایک چھوٹا سا شہر آباد کیا جائے گا.یہ جگہ چھوٹے چھوٹے ٹیلوں کے دامن میں ایک خوشنما قطعہ اراضی ہے.مرزابشیرالدین محموداحمد نے اخبارات کے نمائندوں کو بتایا کہ جماعت احمدیہ نے حکومت مغربی
پنجاب سے ایک ہزار سے کچھ زیادہ ایکٹ زمین خریدی ہے جہاں، امریکی طرفہ پہ ایک چھوٹا سا شہر تعمیر کیا جائے گا.ہسپتال ، کالج ، سکول ، وٹرنری ہسپتال ، ریلوے اسٹیشن ، ڈاکھنانہ، اٹر ورکس اور بجلی گھر لگانے کا بندو بست کیا جا چکا ہے.ماہرین تعمیرات نے شہر کی تعمیر کا ابتدائی نقشہ امریکی طرز پر تیار کر لیا ہے جو عنقریب ٹاؤن پلیسٹر کی منظوری کے لئے اُن کے سامنے رکھ دیا جائے گا.اس شہر کی ضروری عمارتوں کی تعمیر یہ تقریباً تیرہ لاکھ روپیہ صرف ہوگا.جو جماعت برداشت کرے گی.مرزا صاحب نے مزید بتایا کہ وہ شہر کو اس قدر دلفریب اور تجدید نوعیت کا بنانا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں ایک نمونہ ہو اور حکومت بھی اس قسم کے شہر ان علاقوں میں تعمیر کرے جو فضول پڑے ہیں.انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کو ایک بہترین نخطۂ ارضی بنایا جائے اور یہ اسی طرح ہی ممکن ہے.اگر حکومت ان علاقوں میں جدید طرز کے گاؤں اور شہر بنانے کا کام شروع کر دے تو تھوڑے ہی عرصے میں تمام پاکستان جنت نظیر بن سکتا ہے.انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ربوہ میں کارخانے بھی لگائے جائیں گے جو ضروریات زندگی تیار کریں گے.اس مقصد کے لئے ایک حصہ وقف کر دیا گیا ہے.آپ نے توقع ظاہر کی کہ جونہی حکومت نے شہر کی تعمیر کی اجازت دے دی تو بیک وقت کام شروع کر دیا جائے گا.اور ایک سال کے اندر اندر شہر کو مکمل کر دیا جائے گا.ربوہ کا دورہ کرنے کے بعد اخبار نویسوں کو ٹھیلہ بالناتھ کا دورہ کرایا گیا جہاں سات ہزار ایکرہ زمین بیکار پڑی ہے.آپ نے یہ بھی توقع ظاہر کی کہ اگر حکومت اس زمین پر ایک شہر تعمیر کرنے کا پروگرام بنائے.تو ایک بہترین شہر اس علاقہ میں تعمیر ہو سکتا ہے.- " سول اینڈ ملٹری گزٹ " کے نامہ نگار خصوصی نے لکھا :- احمدیوں کا نیا مرکز.ربوہ اہور کے اخبار تولیوں کی ایک پارٹی نے گذشتہ اتوار کو ربوہ کے مقام پر ایک نہایت خوشگوار ٹرپ کی.ربوہ شیخو پورہ اور سرگودھا کے درمیان کی سٹرک پر پینیوٹ سے تقریباً دس میل کے فاصلہ پر واقع ہے.اس جگہ جماعت احمدیہ نے اپنے مرکزی دفاتر قائم کرنے کے لئے ایک ہزار
پونتیں ایکٹر زمین خرید کی ہے.جماعت احمدیہ کے امام مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے اخبار نویسوں کو بتایا کہ سردست نئی بستی کے قیام پر تیرہ لاکھ روپیہ کے خرچہ کا اندازہ لگایا گیا ہے.ہم یہاں پر ایک ایسا معیاری قصبہ تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس میں ہسپتال، تعلیمی ادارے اور ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے علاوہ مقامی باشندوں کے لئے ہر ممکن سہولتیں مہیا کرنے کی کوشش کی جائے گی.دریائے چناب سے واٹر پمپ کے ذریعہ سے قصبہ کے لئے پانی مہیا کیا جائے گا.اخبار نویسوں کی پارٹی نے ربوہ سے پندرہ میل کے فاصلہ پر ایک اور موزون قطعہ زمین بھی دیکھا جہاں ایک صنعتی بستی قائم کی جاسکتی ہے.یہ قطعہ سرگودھا کی نہری نو آبادی سے تقریباً آٹھ میں کے فاصلہ پر ہے.نوم سٹار " کے چیف رپورٹر نے لکھا :- امام جماعت احمدیہ بود کو پکستان میں نمونہ کا شہر بنانا چاہتے ہیں لاہور سے سو میل دور.احمدیوں کا نیا مرکزہ ور در نومبر لاہور سے سو میل دور احمدی ایک شہر بنام دیوہ تعمیر کر رہے ہیں جو جماعت ہائے احمدیہ پاکستان کا مرکزہ ہوگا.شہر کے نام دیوہ کو جس کے معنے ایک پہاڑی ٹیلے کے ہیں.مذہبی اہمیت بھی حاصل ہے.احمدیوں کے معروف عقیدے کے مطابق حضرت عیسی علیہ السلام نے صلیب پر جان نہیں دی بلکہ ابھی ان پر خشی اور بے ہوشی کی سی حالت طاری تھی کہ ان کے حواری انہیں صلیب سے اُتار کر کشمیر کی طرف ہجرت کر گئے جہاں انہوں نے ایک پہاڑی ٹیلے پر پناہ لی احمدی قادیان سے اپنی حالیہ ہجرت کو بھی اسی ہجرت کے مشابہ جان کر کہتے ہیں کہ انہوں نے قادیان سے نکالے جانے کے بعد اس بے آب و گیاہ غیر مزرعہ کو ہستانی علاقہ میں پناہ لی ہے جس کا نام ربوع تجویز کیا گیا ہے.یہ شہر حبس کی تعمیر کے متعلق جماعت احمدیہ نہایت بلند اور حوصلہ افزاء عزائم رکھتی ہے بارہ سو ایکڑ اراضی پر پھیلا ہوا ہوگا اور اس کی تعمیر پر اوسط اندازے کے مطابق کم از کم پچاس لاکھ روپیہ
09 شویچہ آئے گا.ربوہ میں دو کالج ہوں گے.ایک لڑکیوں کا اور ایک لڑکوں کا.اس کے علاوہ کئی اور سکول، ایک بڑا ہسپتال، شفاخانہ حیوانات ، ڈاک خانہ اور تار گھر اور ریلوے سٹیشن ہوگا بیلی مہیا کرنے کے انتظامات بھی کئے جارہے ہیں بلکہ ایک جنریٹر تو پہنی بھی چکا ہے اور ابھی دو اور جزیٹر بہت جلد لائے بھائیں گے جماعت احمدیہ کے امام حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے اخبار نویسیوں کی ایک پارٹی کو (جو راجوہ دیکھنے کے لئے گئی تھی بتایا کہ وہ اسے پاکستان میں ایک نمونے کا شہر بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں جو امریکی طرز پر تعمیر کیا جائے گا.اس شہر میں صنعتی اداروں کے لئے بھی جگہ رکھی جائے گی جو شہری آبادی سے ذرا ہٹ کر ہو گی.توقع ہے کہ شہر کی تعمیر ایک سال کے اندر اندر ختم ہو جائے گی اور جماعت احمدیہ کا آئندہ سالانہ جلسہ تو اگلے دسمبر میں ہونے والا ہے بھی ربوہ ہی میں منعقد کیا جائے گا." -۵ پاکستان ٹائمز کے نامہ نگار خصوصی نے حسب ذیل خبر دی :- پاکستانی احمدیوں کا نیا مرکزہ " ریائے چناب کے دائیں کنارے چنیوٹ کے قرب میں ایک نئے مثالی شہر کی بناء رکھتے ہیں نهایت دور اندیشی اور صحیح تحقیق کا مظاہرہ کیا گیا ہے.اس شہر کی آباد کاری کے لئے بارہ سو (۱۰۳۴- ایکڑ مترجم) ایکڑ اراضی کا ایک قطعہ منتخب کیا گیا ہے اور اس کا نام ربوہ تجویز ہوا.ہے.پچی شاہراہ سے چند قدموں کے فاصلہ پر اتفاقا گزرنے والوں کے لئے یہ ایک خوبصورت مقام ہوگا.یہاں نہاجہ احمد یہ خلافت کا مرکز بنایا جائے گا.امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد نے جو اخبار نویسوں کے ہمراہ یہاں تشریف لائے تھے ، بیان کیا کہ ایک رویا جو انہوں نے کچھ دن ہوئے دیکھی تھی اور قرآن کریم کی ایک آیت نے ان کو اس اراضی کے انتخاب میں جسے حکومت نے ناقابل زراعت اور بنجر قرار دے دیا تھا مدد دی ہے.نجمین کے دفاتر ہسپتال ، سکول ، کالج اور سڑکیں تیار کرنے میں ساڑھے تیرہ لاکھ روپیہ کے ابتدائی خرچ کا تخمینہ کیا گیا ہے ہو نہی صوبائی مجوز تعمیرات تعمیری نقشہ جات کو منظور کرے گا ،
تعمیر کا کام شروع کر دیا جائے گا.اخبار نویسوں کو اس مقام سے پندرہ میل کے فاصلہ پر ایک اور سات ہزار ایکڑ کا قطعہ اراضی بھی دکھایا گیا جو ایک صنعتی شہر کی آباد کا کے لئے نہایت موزوں ہے.4."امروز" نے " قادیان کی بجائے ربوہ " کے عنوان سے یہ شذرہ لکھا اور قادیانی جماعت نے چنیوٹ کے قریب ایک بستی بسائی ہے جس کا نام ربوہ رکھا گیا ہے بیول اینڈ ملٹری گزٹ نے اس بستی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے.ربوہ کے معنی مقام خداوندی کے ہیں یہ بالکل غلط ہے.ربوہ عربی میں ٹیلے کو کہتے ہیں.قادیانیوں کے بانی مرزا غلام احمد تھے جو قادیان کے رہنے والے تھے.انہوں نے خنشلہ میں انتقال کیا.ان کے پہلے خلیفہ حکیم نورالدین تھے جنہوں نے 9ہ میں انتقال کیا.قادیانی جماعت کے موجودہ امام مرزا بشیر الدین محمود احمد جو مرزا غلام اگر صاحب کے بیٹے ہیں دوسرے خلیفہ ہیں.حکیم صاحب کے انتقال پر قادیانی جماعت دو گروہوں میں بٹ گئی تھی.ایک جماعت نے مرزا بشیر الدین محمود احمد کے ہاتھ پر بعیت کی دوسری نے جس کے سرگروہ مولوی محمد علی تھے ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے انکار کر دیا.اور لاہور کو اپنا مرکز بنایا.اس جماعت کے امیر مولوی محمد علی ہیں.دونوں جماعتوں میں عقائد کے لحاظ سے بھی اختلافات ہیں.مثلاً اول الذکر جماعت مرزا صاحب کو نبی کہتی ہے.ثانی الذکر کا خیال ہے کہ وہ مسیح موعود اور مجدد تو تھے لیکن نبی نہیں تھے.ان کے انکار سے کفر وزم نہیں آتا.قادیانی جماعت کے نزدیک، قادیان کو بڑا تقدس حاصل ہے.یہ کہنا مشکل ہے کہ ربوہ کو بھی وہ تقدس حاصل ہو گا یا نہیں ؟ "ڈان" نے لکھا -1 دریائے چناب کے کنارے احمدیہ جماعت کی نئی بستی لاہور.9 نومبر دریائے چناب کے دائیں کنارے پر متصل مینیسوٹ، ایک نیا شہر جس کا نام رابع رکھا گیا ہے.احمدیہ جماعت کے مہاجرین کی آبادی کے لئے جماعت احمدیہ تعمیر کر رہی ہے.اس شہر کے آغاز میں دو ہزار مکانات بنائے جائیں گے" 19A ►196'A ے پاکستان ٹائمز بر نومبر ۱۹ بحواله النفس لا تو میر شه : ١٢ سم اور میرا +
صدر انجمن احمدیہ کو انجین کے دفاتہ ، سکول، ہسپتال ، کالج ، سٹرکیں وغیرہ بنانے کے لئے فی الحال ساڑھے تیرہ لاکھ روپے کا خرچ برداشت کرنا پڑے گا.جو نہی محکمہ مجوز تعمیرات سے تعمیری نقشہ منظور ہو کر وصول ہو جائے گا تعمیر کا کام شروع ہو جائے گا نقشہ منظوری کے لئے پیش کر دیا گیا ہے." - مولانا وقار انبالوی نے سفینہ “ (۱۳) نومبر شاہ) میں لکھا :- زوہ حکومت اور عوام کے لئے ایک قابل تقلید مثال ہے گذشتہ اتوار کو امیر جماعت احمدیہ نے لاہور کے اخبار نویسوں کو اپنی نئی بستی ربوہ کا مقام دیکھنے کی دعوت دی اور انہیں ساتھ لے کر وہاں کا دورہ کیا.اس دورے کی تفصیلات اخباروں میں آچکی ہیں.ایک مہا جو کی حیثیت سے ہمارے لئے ربوہ ایک سبق ہے.ساٹھ لاکھ تنہا تو پاکستان آئے لیکن اس طرح کہ وہاں سے بھی اُجڑے اور یہاں بھی کس پر سی نے انہیں منتشر رکھا یہ لو مسلمان تھے.رب العالمین کے پرستار اور رو پیلین کے نام لیوا ہمساوات و اخوت کے علمبردار لیکن اتنی بڑی مصیبت بھی انہیں یکجا نہ کرسکی.اس کے برعکس ہم اقتصادی حیثیت سے احمدیوں پر ہمیشہ طعنہ زن رہے ہیں لیکن ان کی تعظیم، ان کی اخوت اور دکھ سکھ میں ایک دوسر کی حمایت نے ہماری آنکھوں کے سامنے ایک نیا قادیان آباد کرنے کی ابتداء کر دی ہے.مہاجرین میں وہ لوگ بھی آئے جن میں خدا کے فضل سے ایک ایک آدمی ایسی بستیاں بسا سکتا ہے لیکن ان کا روپیہ ان کی ذات کے علاوہ کسی غریب مہاجر کے کام نہ آسکا.ربوہ ایک اور نقطہ نظر سے بھی ہمارے لئے محل نظر ہے.وہ یہ کہ حکومت بھی اس سے سبق لے سکتی ہے اور مہاجرین کی صنعتی بستیاں اس نمونہ پر بسا سکتی ہے.اس طرح ربوہ عوام اور حکومت کے لئے ایک مثال ہے اور زبانِ حال سے کہہ رہا ہے کہ جیسے چوڑے دعوے کرنے والے منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں اور عملی کام کرنے والے کوئی دعوے کئے بغیر کچھ کر دکھاتے ہیں " سے اے بحوالہ الفضل ۹ تا ۱۳ نبوت / نومبر.
۶۲ فصل چهارم کوائف قادیان ۱۳۲۷ رش کا آغاز در ویشان قادیان کے لئے صبر و رضاء درویشوں کا سوشل بائیکاٹ سے ایک نہایت کٹن امتحان سے ہوا، تفصیل اس اجمال کی کے یہ ہے کہ آخری بڑے کنوائے کے بعد ایک دن اچانک بعض ترک درویشوں کے پاس آن پہنچے.یہ ٹرک جو پاکستان سے گورداسپور میں پناہ گزین پہنچانے کے لئے آئے تھے اور بلا وجہ واپسی پر قادیان کی مسلم آبادی کے انخلاء کے لئے بھجوا دیئے گئے ، درویشوں نے یہ کہہ کہ واپس کر دیئے کہ یہ ہمارے ٹرک نہیں.ہم ان پر نہیں جائیں گے اور نہ ہم میں سے اب کوئی پاکستان جانے والا ہے.اس واقعہ سے مقامی افسروں اور باشندوں دونوں کو یقین ہو گیا کہ احمدی فی الحقیقت مستقل طور پر قادیان میں بود و باش رکھنا چاہتے ہیں.یہ بات خاص طور پر ان مقامی باشندوں کو بہت شاق گزری جو ہ کی غارت گری میں نمایاں طور پر شامل اور احمدیوں کی کوٹھیوں اور بھائدادوں پر قابض ہو چکے تھے اور دل سے چاہتے تھے کہ درویشوں کو کسی نہ کسی طرح تنگ کر کے قادیان سے نکال دیا جائے.قادیان کے ایک متعصب ہندو دکاندار (امر ناتھ کے ساتھ جماعت کے تعلقات عرصہ سے کشیدہ تھے اور بیوپار کے سلسلہ میں اس پر بعض جماعتی پابندیاں عائد تھیں.اس ہندو دکاندار نے احمدیوں سے انتقام اور ان کے خلاف محاذ آرائی کا یہ موقعہ غنیمت بھانا اور اس پرانی کشمکش کو بائیاں کا نام دے کو پہلے سردار حکم سنگھ ایڈووکیٹ مجسٹریٹ قاریان کو استعمال دلایا.پھر یکم بنو ہی شاہ کو قادیان کے سب دکانداروں سے دستخط کرائے کہ وہ درویشوں کا مکمل سماجی بائیکاٹ کریں گے.اگلے : :
۶۳ روز یہ مشہور کر دیا گیا کہ ننکانہ صاحب میں مقیم سارے سکھ موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے ہیں.اس جھوٹی اور بالکل بے بنیاد افواہ نے شہر بھر میں ایک آگ سی لگادی اور غیظ و غضب کا ایک طوفانِ عظیم اہ پر آیا.درویشوں کو قادیان سے نکال باہر کرنے کی درپردہ سازشیں زور پکڑ گئیں.قبل ازیں فتنہ پرداز عناصر نے قادیان کے مجسٹریٹ اور ضلع گورداسپور کے ڈپٹی کمشنر کو میموریل بھی بھیجے کہ درویشوں کے گھروں سے ناجائز اسلحہ یہ آمد ہو رہا ہے لہذا ہمیں ان سے شدید خطرہ ہے.جب ان لوگوں نے دیکھا کہ وہ اس من گھڑت بات کے ذریعہ سے پبلک میں نفرت و حقارت کی چنگاری ڈالنے میں کامیاب ہو گئے ہیں تو انہوں نے سوشل بائیکاٹ کا بھی اعلان کر دیا.اس بائیکاٹ کو موثر اور کامیاب بنانے کے لئے عمر جنوری شائر کو گوردوارہ میں جلسہ ہوا.جس کے بعد بائیکاٹ شدت اختیار کر گیا.دودھ بند کرنے کے لئے احمدیہ بازار اور بیرونی راستوں میں پکٹنگ لگا دی گئی.احمدی شفا خانہ سے غیرمسلم مریض اُٹھالئے گئے.جن شریف اور معزز مہندو یا سکھ دوستوں نے ذاتی تعلقات کی بناء پر یا کسی اور وجہ سے احمدیوں کو سودا دیا ان کو بے عزت کیا گیا.بعض کا منہ کالا کیا گیا اور بعض کو جوتے بھی لگائے گئے.اس سختی کا رد عمل یہ ہوا کہ لوگوں میں آخر بائیکاٹ کے خلاف نفرت کا جذبہ پیدا ہو گیا.چنانچہ ۲۳ جنوری 19 کا واقعہ ہے سیٹھ پیارے لال صاحب کے لڑکے کشن لال صاحب نے کسی احمدی کو شلم لا کر دیئے میں پر دو سکھوں نے اس کو تھپڑ مارے جس کی وجہ سے قریب کے دوسرے ہندود کا نذار برہم ہو گئے چنانچہ بعض ہندو دکانداروں نے علانیہ کہا کہ ہم سودا دیں گے اور ہم اس فیصلہ کی پابندی نہیں کرتے.اور یہ کہ جماعت احمدیہ قادیان میں ۱۵ ہزار کے قریب تھی اور ہر طرح کی طاقت اور عزت کی مالک تھی لیکن ان کی طرف سے کبھی کسی کو کوئی تکلیف نہیں دی گئی لیکن یہ لوگ ابھی قادیان میں لے اس مفروض شیر کی بازگشت در ستمبر کو پھر منی گئی جبکہ دہلی کے اخبار پرتاپ " نے امرتسر کے نامہ نگار " کے حوالہ سے یہ خبر وضع کی کہ قادیان میں مقبرے کے پاس ایک اسلحہ ساز فیکٹری پکڑی گئی ہے جس میں سے بہت سا نا بھائز سامان برآمد ہوا ہے اور اس کے نتیجہ میں بارہ مسلمان گرفتار کئے گئے ہیں اس کے بعد اخبار جھے ہند جالندھر نے اپنی ۱۳ ستمبر کی اشاعت میں مزید لکھا کہ قادیان کے بہشتی مقبرہ کے پاس جو اسلحہ ساز فیکٹری پکڑی گئی ہے اس میں مزید آٹھ مسلمان پکڑ لئے گئے ہیں.حالانکہ یہ خبریں بال غلط تھیں جن کا مقصد ملکی فضا اور مقامی حالات کو مسموم کرنے کے سوا کچھ نہ تھا.
نام ها پوری طرح آباد بھی نہیں ہوئے اور سر پر سوار ہونا شروع ہو گئے ہیں.ازاں بعد اسی دن سکونت رائے، ہر نہیں لال دوار میشن (اس)، سادھو رام اور سائیں دکاندار مولوی برکات انر صاحب کے پاس آئے اور کشن لال کے واقعہ کا ذکر کیا.نیز کہا کہ وہ اس مقاطعہ کی خلاف ورزی کریں گے اور جماعت کو سودا دیں گے اور اس بارہ میں با قاعدہ فیصلہ کر کے اس کو منسوخ کرانے کی کوشش کریں گے چنانچہ ۲۵ جنوری کی شام کو پنڈت دولت نام صاحب کی صدارت میں ایک میٹنگ کی گئی جس میں مقامی اور بیرونی لوگ شامل ہوئے.اس میٹنگ میں مقاطعہ کو ختم کرنے کا فیصلہ ہوا.اور ۲۶ جنوری ۹۷ تہ سے اس پر عملدرآمد بھی شروع ہو گیا.احمدیہ شفاخانہ کا قیام ہے الہی میں نور ہسپتال قادیان جماعت کے قبضہ سے نکل گیا.مران ارش اور فرسٹ ایڈ تک کا سامان کبھی نہ رہا تھا.اس بے سرو سامانی کے عالم میں میجر ڈاکٹر محمود احمد صاحب کچھ سامان اور ادویات فراہم کر کے درویشوں کی ملیتی خدمات بجا لاتے رہے.شروع ماه صلح اجنوری دیش میں میجر صاحب پاکستان تشریف لے آئے اور یہ اہم فریضہ کیپٹن ڈاکٹر بشیر احمد صاحب کے سپرد ہوا جسے آپ خدمت خلق کی بہترین رُوح کے ساتھ قریباً ساڑھے سات برس تک نبھاتے رہے ہے.ابتداء میں درویشوں کا طبی مرکز ڈاکٹر احسان علی صاحب والی دکان میں قائم کیا گیا.ان دنوں درویشوں کی نقل و حرکت صرف احمدیہ محلہ تک محدود تھی اور غیر مسلم بھی خال خال ہی احمدی علاقہ میں قدم رکھتے تھے.ڈاکٹر صاحب موصوف کو احمدیہ شفاخانہ کا چارج سنبھالے ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ بائیکاٹ کا المناک سانحہ پیش آگیا.بائیکاٹ کے ایام میں آپ ایک مرتبہ چند دوستوں کے ہمراہ بہشتی مقبرہ دُعا کے لئے تشریف لے گئے.وہاں موضع مشکل کی ایک بڑھیا آئی اور کہا کہ تم لوگ نیک ہو.اس مقدس مزار پر کھڑے ہو.میرا داماد سخت بیمار ہے اس کی شفا کے لئے دُعا کرو.ڈاکٹر صاحب اور ان کے ساتھیوں نے کہا.مائی ، ہم دعا بھی کریں گے لیکن تم اپنے داماد کو ہمارے ڈاکٹر کو دکھا کر دوا وغیرہ بھی دو.پیکٹنگ کی سے آپ معروفا جولائی میش کو پاکستان منتقل ہوئے جیسا کہ ملک نے شہید احمدیت کوئٹہ ہے + صلاح الدین صاحب ایم.اے نے " مکتوبات اصحاب احمد تبلد دوم صفحہ ۱۱۴ کے معاشیہ میں لکھا ہے.قادیان اور اس کے ماحول میں غیر مسلموں کے اندر رواداری کی فضاق تم کرنے میں آپ کا بھاری عمل دخل تھا.آپ کی شفقت و مروت کا یہ اثر ہے کہ دور و نزدیک کے ہندو سکھ آبترک اُن کو یاد کرتے اور ان کا نام عزت واحترام سے لیتے ہیں"
مشکلات کے پیش نظر دوسرے دن اپنے داماد کو چارپائی پر اکٹھا کو بہشتی مقبرہ کے گیٹ تک لیے اٹھی ڈاکٹر صاحب نے وہاں بجا کہ مریض کو دیکھا اور ایک درویش کے ذریعہ دوا بھجوا دی.دو تین روز اور مرایض کو افاقہ ہوگیا اور بڑھیا پکٹنگ والوں کی پروانہ کرتے ہوئے ڈاکٹر صائب کی دکان پر آگئی اور دو تین روز بعد اس کا داماد دو نمین اور مریضوں کو ساتھ لے کر آگیا اور چند ہی روز بعد آس پاس کے جہا بھر بھی آنا شروع ہو گئے.پندرہ روزہ کے اندر اندر مریعیتوں کی تعداد ۳۰ ، ہم روزانہ تک پہنچ گئی..اس طرح کینگ اور بائیکاٹ عملاً بالکل بیکار ہو کر رہ گیا.اور مریضوں کی آمد کے ساتھ ساتھ بعض غیر مسلم دودھ اسبری و دیگر نه وریات زندگی بیچنے کے لئے آتا بھی شروع ہو گئے.ڈاکٹرا سالہ علی صاحب کی دکان فسادات کے بعد بالکل معالی تھی.اس میں صرف ایک میز اور دو خالی الماریاں اور پر رشیشیاں بڑی تھیں جن میں بعض میں بچھی ہوئی ادویات تھیں.دو پرانے اور زنگ آلود چاقو اور دو ایک قینچی کے علاوہ کوئی دوسرا سامان نہ تھا.فرنیچر وغیرہ کا انتظام تو سٹور سے کر لیا گیا.بردویات اور دیگر سامان مہیا کرنا ناممکن نظر آرہا تھا.دار مسیح اور قرب و جوار کے مکانات میں سے جہاں سے بھی کوئی بوتل شیشی غیرہ مہیا، دوسکی شفا خانہ میں جمع کر لی گئی.ان میں سے بعض میں کار آمد ادویات بھی بہتا ہوگئیں.اس اثناء میں گورنمنٹ کی طرف سے تقریباً مبلغ یکصد روپیہ کی مالیت کی چند ادویات ریفیوجی فنڈ سے درویشوں کو دی گئیں.اس عطیہ کو شکریہ کے ساتھ قبول کیا گیا.غیر ملم مریقہ ں کی حاضری روز بروز زیادہ ہوتی گئ اور تمام ، وائیں ختم ہوگئیں.اس موقعہ پر ایک معترز سکھ دوست کے ذریعہ مبلغ ۸۰ روپیہ کی ادویات امرتسر سے منگوائی گئیں یہ شہادت / اپریل یا ہجرت / مئی ایش تک مریضوں کی تعداد 9 سے..ا تک روزانہ پہنچ گئی.شفاخانہ کے ذرائع آمد مسدود ، اور فنڈ می رود کوتا.اس لئے فکر پیدا ہوئی کہ اتنے مریضوں کے اخراجات کیسے پورے ہو سکیں گے بچنا نچہ ڈاکٹر صاحب نے انجمن سے اس بات کی اجازت لی کہ غیر مسلم ذی استطاعت مریضوں سے علاج کیے معاوضہ میں آند دو آنہ وصول کرنے کی کوشش کی جائے چنانچہ تھوڑے ہی عرصہ میں سو ڈیڑھ سو روپیہ جمع ہو گیا میں سے مزید ادویہ انور سامان خریدا گیا اور اس طرح عوام کے علاج میں سہولت پیدا ہو گئی.ڈاکٹر صاحب اور دوسرے، درویش اپنے علاقہ سے باہر نہ بھا سکتے تھے.جوں جوں: مریض زیادہ آتے گئے.ان میں سے بعض کو دیکھنے کے لئے ان کے گھروں میں بھانا پڑا تا اور اس کے لئے خاص اہتمام کو نا پھرتا
۶۶ پہلے تو آپ پسند در ولیوں کی معیت میں جایا کرتے تھے لیکن آہستہ آہستہ خطرہ دور ہوتا گیا اور پھرڈاکٹر صاحب نے اکیلے ہی بجانا شروع کر دیا.اس طرح قریبی گاؤں میں جانے کے لئے بغیر ٹانگہ اور تین چار ہمرائیوں کے جانا خطرہ سے خالی نہ تھا.یہ خطرہ بھی پھر رفتہ رفتہ دور ہو گیا اور آپ تنہا ہی سب طرف مریض دیکھنے نکل کھڑے ہوتے.اور کچھ عرصہ بعد تو خدا کے فضل سے ہر جگہ دن ہو یا رات جانے میں کوئی رکاوٹ در رہ گئی.ماه محبت اسی مشن کے بعد شفاخانہ کی ساتھ والی دکان شامل کر کے اس کی توسیع عمل میں آئی.لیکن چند روز بعد جب یہ جگہ بھی ناکافی ثابت ہوئی تو حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب والا مکان خالی کروا لیا گیا.اس کی پھلی منزل میں دفتر کنسٹیشن ، ڈریسنگ ، ڈسپنسنگ، اوپریشن روم کے لئے علیحدہ علیحدہ کمرے بنائے گئے.بالائی منزل میں دو کمروں کو درویشوں کے لئے بطور بنا لیا گیا اور باقی حصہ میں دو ڈسپنسر اور ایک مدد گار کا رکن کی رہائش کا انتظام کر دیا گیا شقا تھانہ میں جو آمد متمول مریضوں سے ہوتی اس سے شفا خانہ کے لئے سامان و ادویات خرید کولی بھائیں اور خدا کے فضل سے ایک سال کے عرصہ میں عام استعمال کی ادویات و سامان شفا خانہ میں فراہم ہو گیا اور سوائے ابتدائی ۸۰ روپیہ کے شفاخانہ کو نہ مزید کسی سے امداد کی ضرورت پڑی نہ صدر امین احمدیہ کے خزانہ پر کوئی بوجھ ڈالا گیا جوں جوں ارد گرد کے علاقہ میں شفاخانہ کی شہرت پھیلتی گئی مریض بھی بکثرت آنے لگے.بعض غیر مسلم دُور دُور سے محض اس غرض سے آتے تھے کہ قادیان میں مسلمانوں کو دیکھ آئیں کے اور دوا وغیرہ بھی لیتے آئیں گے.اور پھر تو خدا کے فضل سے آہستہ آہستہ ایسی شہرت حاصل ہوئی کہ تمام مضلع گورداسپور کی مختلف جگہوں بلکہ ضلع امرتسر ہی سے نہیں شہر امرتسر سے بھی مریض آنے لگے.پہلے سال شفاخانہ نے کوئی غیرمسلم انڈور میں نہیں رکھا کیونکہ خطرہ تھا کہ کوئی حادثہ نہ ہو جائے.لیکن دوسرے سال شفاخانہ کے سامنے والا مکان جس میں دو چھوٹے چھوٹے کمرے تھے خالی کرا لیا گیا.سال رمیش میں آؤٹ ڈور مریضوں کی کل تعداد ۳۱۲۴۶ تھی جو سال پر میش میں ۴۵۳۴۹ A.YA.تک پہنچ گئی.اس سال انڈور میں ۲۳۱ مریض تھے جن میں کثیر تعداد غیر مسلموں کی تھی.سال ۱۳۳ پیش میں ۴۱۷۹۰ مریضوں کا علاج آؤٹ ڈور اور ۲۰۰ مریضوں کا مزاج انڈور کیا گیا.۳۳ ریش کے الفاء / اکتوبر تک کل تعداد آؤٹ ڈور کے مریضوں کی ۲۸۶۰۱ اور انڈور کی ۲۰۰ تھی.
احمدیہ شفاخانہ کے قیام کے وقت ڈاکٹر صاحب کے پاس دو صاحب بطور ڈسپنسر کام کرتے تھے.تین ماہ بعد ایک صاحب پاکستان چلے گئے.چونکہ کام زیادہ تھا اس لئے دو درویش احباب کو ڈسپننگ کی ٹریننگ کے لئے شفا خانہ میں رکھ لیا گیا.ان میں سے ایک محمد احمد صاحب مالا باری اور دو سر مبارک علی صاحب واقعت زندگی تھے.مبارک علی صاحب تھوڑے ہی عرصہ میں پوری ٹریننگ حاصل کر کے تسلی بخش کام کرنے لگے اور قریباً دس ماہ کام کرنے کے بعد مولوی فاضل کلاس میں داخل ہو کہ یہ کام چھوڑ دیا.ان کی جگہ ایک اور درویش مکرم ملک بشیر احمد صاحب ناصر کو کام پر لگایا جو بہت جلد کام سیکھ کر شفاخانہ کے لئے مقید وجود ثابت ہوئے.مکرم غلام ربانی صاحب ، مکرم ملک بشیر احمد صاحب اور مکرم محمد احمد صاحب مالا باری کو بطور ڈسپنر کام کرنے کا موقعہ ملا.کیونکہ قادیان میں کوئی لیبارٹری نہ تھی اور پیشاب، پاخانہ اخون بلغم وغیرہ ٹیسٹ کروانے کے لئے مریض کو امرتسر بھجوانا پڑتا تھا اس لئے یہ ہش کے مشروع ہیں.ایک مائیکروسکوپ اور لیباریٹری کا ضروری سامان خرید کر چھوٹے پیمانہ پر لیباریٹری کا کام بھی شروع کر دیا گیا.اس کے بعد پیش میں مستورات کی مخصوص امراض کے علاج کے لئے ایک نرس کی خدمات بھی حاصل کر لی گئیں لیے الحمد للہ یہ شفا خانہ جس کی بنیاد میجر ڈاکٹر محمود مرحوم کے ہاتھوں پڑی اور جس کو ترقی دینے میں کیپٹن بشیر احمد صاحب نے ساڑھے سات سال محنت شاقہ سے کام لیا تھا اب تک نہایت کامیابی سے چل رہا ہے اور خدمت خلق میں مصروف عمل ہے.اُن دنوں دیار حبیب میں رہنے والے درویشوں کے شب و روز درویشان قادیان کے کیل ہار کس طرح ایک پاک اور روحانی ماحول میں بسر ہو رہے تھے اس کا نقشہ ناظر بیت المال جناب عبد الحمید صاحب عاجز نے درج ذیل الفاظ میں کھینچا :- دار الامان میں ٹھہرنے والے درویشوں کی کل تعداد ۳۱۳ ہے جو قادیان کے مقامی احباب ، بیرونی خدام اور کارکنان صدر انجمین احمدیہ پشتمل ہے.مقامی امیر مکرم جناب مولوی عبد الرحمن صاحب جٹ مواد یفا مثل (ہیڈ ماسٹر مدرسہ احمدیہ) ہیں.خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں سے حضرت صاحبزادہ ه رساله درویش قادیان فتح اردسمبر انا مش و صلح اجنوری سایش صفحه ۶۸ - ۷۱ 3140 ا فضل ۲۰ احسان جون سرمایش صفحه ۵، الفضل در فتح دسمبر ابش صفحه ۹۶
YA مرزا ظفر احمد صاحب بار ایٹ لاء اور صاحبزادہ مرزا خلیل احمد صاحب یہاں مقیم ہیں جملہ در وایستا پرانے قادیان کے ایک محدود مطلقہ میں آباد ہیں جو مسجد مبارک ، دار المسیح ، مسجد اقصی اور علاقہ بہشتی مقبرہ پرمشتمل ہے.ان مقدس مقامات میں ٹھہرنے کا مقصد شعائر اللہ کو آباد رکھنا اور ان میں دعا اور عبادت سے روھانی فیض حاصل کرتا ہے.اختر صبح کی نمود سے کچھ وقت پہلے قریباً ساڑھے تین پونے چار بجے شب ایک بزرگ درویش رمیاں مولا بخش صاحب یا در چی لنگر خانہ کی رقت بھری آواز اس محدود مطلقہ میں سنائی دیتی ہے، پُر سوز اور کچھ درد لہجہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت امیر المومنین ایده الشر تعالی بنصرہ العزیز کے اشعار کانوں سے اتر کر دل و دماغ کی خوابیدہ حستوں کو بیدار کرنے کے لئے کافی ہوتے ہیں.مثال کے طور پر ملاحظہ ہوں :- یا الہی فضل کو اسلام پر اور خود بچا اس شکستہ ناؤ کے بندوں کی اب سن لے پکار رغبت دل سے ہو پابند نماز و روزه نظر انداز کوئی حصہ احکام نہ ہو خدمت دین کو اک فضل الہی جانو اس کے بدلہ میں کبھی طالب انعام نہ ہو چنا نچہ اس پیغام بیداری سے درویش اُٹھتے ہیں (اگرچہ متعدد درویش کافی عرصہ پہلے سے ہی عبادت و دعا میں مشغول ہوتے ہیں، اور با وضو ہو کر اپنے اپنے حلقہ کی مساجد میں ہائی است نماز تہ د ادا کرتے ہیں.مسجد مبارک میں مکرم مولوی شریعت احمد صاحب امینی مولوی فاضل، مسجد اقصی میں جناب مولوی غلام احمد صاحب ارشد مولوی فاضل اور مسجد محلہ ناصر آبا دمیں حسن خواجہ محمد متیل صاحب امامت کے فرائض سر انجام دیتے ہیں.قریباً پونے چھ بجے میاں سراج الدین صاحب مسجد اقصی کے پرانے خادم اور موذن نساز ایج سے اللہ اکبر کی آواز بلند کرتے ہیں جو قادیان کے سکوت کو توڑتی ہوئی فضاؤں میں 1
ایک خاص دل کشی پیدا کرتی ہے.اسی وقت مسجد مبارک اور مسجد ناصر آباد سے بھی اذان کی آوازیں سنائی دیتی ہیں.چھ بکے نہر کی نماز کے بعد تینوں مساجد میں سلسلہ کی کتب کا درس دیا جاتا ہے جو احباب بڑے شوق سُنتے ہیں.نماز و درس سے فارغ ہو کر درویش انفراد کی طور پر تلاوت قرآن مجید کرتے اور بہشتی مقبرہ میں دُعا کے لئے تشریف لے جاتے ہیں.ہر جمعہ کے روز فجر کی نماز کے بعد بہشتی مقبرہ میں اجتماعی طور پر دعا کی جاتی ہے.صبح آٹھ بجے احباب لنگر خانہ سے کھانا حاصل کرتے ہیں.یہ کھانا نہایت سادہ دال روٹی پر مشتمل ہوتا ہے.ہفتہ میں ایک دو دفعہ گوشت اور سبزی کا انتظام بھی کیا جاتا ہے.کھانے سے فارغ ہو کر ساڑھے آٹھ بجے صبیح روزانہ وقار عمل کا پروگرام شروع ہوتا ہے.یہ پروگرام محض ہیمی یا تفریحی کام نہیں ہے بلکہ ایک تعمیری اور تاریخی پروگرام ہے جس میں تمام درویشوں کی حاضری ضروری ہوتی ہے.درویشوں کی لگاتار کوششوں اور مسلسل محنتوں سے ایسے کام سر انجام دیئے جا رہے ہیں جو اپنی اہمیت کے لحاظ سے ایک لمبے عرصے تک تاریخی یادگار رہیں گے.اور آنے والی نسلیں ان کے کاموں کو رشک کی نگاہوں سے دیکھیں گی اور ان کے لئے درد دل سے دعائیں کریں گی.بہشتی مقبرہ کے ارد گرد قریباً پانچ فٹ چوڑی دیوانہ بنائی جارہی ہے.اس کا نصف سے زائد حصہ مکمل ہو چکا ہے.بہشتی مقبرہ میں پار پختہ کوارٹرز (دو منزلہ تیار کئے گئے جن میں دھوپ بارش اور رات کے وقت درویش آرام کر سکتے ہیں.ان کوارٹروں کی تعمیر اگر عام حالات میں کی جاتی تو زمین کی قیمت کے علاوہ اس کام پر سات آٹھ ہزار روپیہ خرچ ہوتا اور شاید کافی عرصہ اس رقم کی بجٹ میں منظوری حاصل کرنے کے لئے گند بھاتا مگر آفرین ہے ان درویشوں پر جنہوں نے تمام کام اپنے ہاتھ سے سرانجام دیے کو بغیر کوئی رقم خرچ کئے اس شاندار خدمت کو بجالانے کی سعادت حاصل کی.بہشتی مقبرہ ، مساعد اور گلی کوچوں کی صفائی کا کام اور لنگر خانہ کے لئے لکڑی وغیرہ کا انتظام بھی وقار کمل کا ایک حصہ ہے.علاوہ ازیں بہشتی مقبرہ کے ارد گرد باغ سے ملحقہ زمین میں بل پھلا کر سبزیاں وغیرہ کاشت کرنے کا کام بھی وقار عمل میں شامل ہے.وقار عمل کا کام خوش اسلوبی اور احسن طریق سے سر انجام دینے کے لئے ہم اپنے فاضل بھائی مولوی عبد الرحیم
6 صاحب اور ان کے رفقاء کے خاص طور پر ممنون ہیں.ساڑھے بارہ بجے دوپہر کو وقار عمل سے فراغت ہوتی اور آدھ گھنٹہ آرام کے بعد نماز ادا کرنے کے بعد قرآن مجید کا درس دیا جاتا ہے اور بعض ناخواندہ درویشوں کو نماز کا ترجمہ بھی سکھایا جاتا ہے.اسی طرح باقی نمازیں عصر، مغرب و عشاء اپنے اپنے وقتوں پر باجماعت ادا کی جاتی ہیں اور فارغ اوقات سلسلہ کی کتب کے مطالعہ اور دعاؤں میں صرفت کئے جاتے ہیں.ہفتہ میں دو دن (سوموار اور جمعرات ، تمام درویش روزہ رکھتے ہیں اور وقت کا بیشتر حصہ نو انسل اور دھاؤں میں گذارتے ہیں بعض ایسے درویش بھی ہیں جو کئی روز تک متواتر روزے رکھتے ہیں عضو ایلیا اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خاص دعاؤں اور توجہ کے اثر سے تمام درویشوں میں عبادت اور دعاؤں کے لئے ایک خاص شخت پیدا ہو چکا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ عبادت اور ذکر انہی کا رنگ محض وقتی اور ہنگامی بوش پر مبنی نہیں بلکہ اپنے اندر کمل کی استواری اور قوت ارادی کی پختگی کے اجزاء لئے ہوئے ہیں.جملہ درویش حضور کی نصیحتوں کے مطابق ملکی اور مسیح ناصری والی زندگی کا نمونہ دکھانے میں کوشاں ہیں اور مسلم برداشت کر کے ظلم کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں.اس مختصر عرصہ میں اکٹھا رہنے کی وجہ سے درویشوں میں جذبہ اخوت و مودت بہت بڑھ گیا ہے.باہمی ربط اور دوستانہ تعلقات کا اثر اس قدر وسیع ہے کہ اگر ایک دوست کا باہر سے خط موصول ہوتا ہے تو دوسرے درویش بھائی اس دوست کے عزیز و اقارب کی خیر و عافیت کے متعلق بڑے شوق سے استفسار کرتے ہیں جو احباب قادیان میں ڈھا کے لئے تحریر فرماتے ہیں.ان کے متعلق مساجد میں اعلان کیا جاتا ہے.اسی طرح بعض درویشوں کے عزیز و اقارب کی وفات پر یہاں نماز جنازہ غائب ادا کی جاتی ہے.گذشتہ ایام میں درویشوں کے باہمی تعاون سے حقہ نوشی کے خلاف مہم بھاری کی گئی تھی جو بہت حد تک کامیاب رہی اور کئی درویش جو عرصہ سے حقہ نوشی کی مرض میں مبتلا تھے اس مرض سے نجات پا گئے.اسی طرح ہمارے مکرم دوست ملک صلاح الدین مصلحب ایم.اے نے وصیت کی تحریک کو بھاری کیا جس کے نتیجہ میں کئی ایک درویشوں نے منتیں کرائیں.تحریک تجدید کے وعدوں میں درویشوں نے جس اخلاص اور قربانی کا ثبوت دیا وہ اپنی مثال آپ ہے.قادیان میں کوئی ایسا درویش نہیں رہا جس نے تحریک بدید کے چودھویں سال میں حصہ نہ
41 لیا ہو.اس امر پر حضور نے بھی خوش نودی کا اظہار فرمایا ہے.چند ایک علم دوست درویشوں نے سلسلہ کی کتب کے وسیع مطالعہ اور تقریرہ و تحریر میں مشق پیدا کرنے کے لئے ایک ادبی مجلس بنام مجلس درویشاں " قائم کی ہے جس کا اجلاس ہفتہ میں دو دفعہ منعقد ہوتا ہے اور پروگرام کے مطابق ممبران مذہبی مضامین پر تقریروں کی مشق کرتے ہیں.جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے دارالامان کے درویش ایک محدود حلقے میں مقید ہیں.بازاروں میں آمد و رفت بھی خالی از خطرہ نہیں.چونکہ ہر وقت حالات مخدوش ہو بھانے کا خطرہ رہتا ہے جین کے متعلق لوکل افسران بھی وقتاً فوقتاً ہمیں آگاہ کرتے رہتے ہیں.اشد مجبوری کے وقت نظارت امور عاصمہ کی تحریری اجازت سے تین چار درویش اکٹھے بازار جاتے ہیں اور اپنی ضرورت پوری کر کے جلد واپس آ جاتے ہیں.خدام میں سے بعض ایسے درویش بھی ہیں جن کی رخصتیں ختم ہو چکی ہیں بعض ایسے بھی ہیں جن کے کاروبار تباہ ہو رہے ہیں اور بعض کے خانگی حالات ان کے قریبی رشتہ داروں کی وفات اور دیگر کئی وجوہات کی بناء پر اگر چہ ظاہری طور پر تسلی بخش نہیں ہیں مگر یہاں ان کو ایک قسم کا اطمینان قلب حاصل ہے جو اور کہیں میسر نہیں ہو سکتا اور وہ خندہ پیشانی سے ہر مشکل اور تکلیف پر صبر و استقلال کے دامن کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے ہیں.اسی طرح بعض مقامی درویشوں کے اہل و عیال اور عزیز رشتہ داروں کی طرف سے بھی کئی افسوسناک اور پریشان کن خبریں موصول ہوئی ہیں مگر مبارک اور خوش بخت ہیں وہ درویش جو اپنی زندگی کے اصل مقصد پر نگاہ رکھتے ہیں اور دنیوی آرام و آسائش کو نظر انداز کرتے ہوئے دیار محبوب میں آزمائش و امتحان کی پر کیفت گھڑیاں گزار رہے ہیں.یہی وہ لوگ ہیں جن کو ذہنی پریشانیوں کی جگہ تسکین و اطمینان اور حرص و آرزو کے بدلے سبر وقناعت کی لا انتہا دولت حاصل ہے.یہی وہ جماعت ہے حبس کو اس ابتلاء کے زمانے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص انعامات کے لئے چنا اور انہیں در حقیقت دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی توفیق بخشی جملہ درویشوں کے قلوب اس یقین سے پر ہیں کہ حسین طرح اللہ تعالیٰ کی قدیم سنت کے مطابق موجودہ ایستادہ کا دورہ رونما ہوا ہے اسی طرح اس ابتلاء کے ساتھ وابستہ ترقیوں اور کامیابیوں کی راہیں بھی تقریب کھلنے والی ہیں" مل الفصل ا ور ۲۶ تبلیغ فروری همایش صفحه 14 ۱۱۹۴۸
صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب اس سال کا ایک اہم واقعہ یہ ہے کہ رامان) مادری ) کو حضرت امیر المومنين المصلح الموعود کے فرزند صاحبزادہ مرزا وسیم احمد کی درویشانہ زندگی کا آغاز صاحب کی درویش نہ زندگی کا آغاز ہوا.آپ اس روز پے نہ بیچھے شام پاکستان سے چودہ اصحاب کے ساتھ قادیان پہنچے بالے مساجد قادیان کی حفاظت کیلئے قادیان کے بیرونی محلہ جات کی وہ مسجدیں جو آنحضرت صلے اللہ صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سچے عاشقوں اور مخلص فدائیوں تا قابل فراموش مساعی کی سجدہ گاہ تھیں اور ہمیشہ ہی اُن کے نالہ ائے شب سے معمور اور اُن کے آنسوؤں سے تر بتر رہتی تھیں ہے پر پیش کے دوران چشم زدن میں خالی ہوگئیں.قادیان میں احمدی مسلمانوں کی انہیں اور دوسرے مسلمانوں کی چار مسجدیں تھیں.علاوہ ازیں پرانی عیب درگاہ اور سات قبرستان تھے.ان سب کی دیکھ بھال اور تحفظ کو درویشوں نے ابتدائی دور ہی سے اپنی زندگی کے بنیادی مقاصد میں شامل کر لیا.اس ضمن میں ماہ نبوت / نومبر رامش میں مولوی برکات احمد صاحب ہی.اسے ، ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے ، فضل الہی خاں صاحب اور پندرہ بیس درویش پہلی بار قادیان کی بیرونی مساجد کی حالت دیکھنے اور صفائی کرنے کے لئے گئے.چنانچہ انہوں نے مسجد دارد افضل صاف کی اور اس کا غسلخانہ اینٹوں سے بند کر دیا.مسجد نور کی چند کنگر یاں تازہ ہی شکستہ ہوئی تھیں.مسجد دار الیسر کی دیوار اپلوں سے آئی ہوئی تھی جو درویشوں نے صاف کر دی.پھر انہوں نے مسجد وارد الرحمت کی صفائی کی اور مسجد دار الفضل کی ٹوٹی ہوئی کھٹر کی بند کر دی.دوسری بار هر ماہ شہادت / اپریل پیش کو حضرت مولوی عبدا بر من صاحب امیر جماعت قادیان ملک صلاح الدین صاحب ایم اے ، معان فضل الہی خان صاحب ، مرزا محمد حیات صاحب نگران مقامی در ویشان قادیان اور بعض درویشوں پر مشتمل ایک وفد نے مقامی تھانیدار صاحب سے دار الفتوح تک جانے اور اس کا جائزہ لینے کی منظوری لی اور اگلے روز ۲۱-۲۲ درویش سپاہیوں کی معیت میں کرالیں پہنچے ، جھاڑو ، بالٹیاں اور کڑاہیاں لئے وہان پہنچے.اور نہ بجے سے ۱۳ بیجھے مسجد کو خلافت سے صاحت کرتے رہے.اور اس کی کھڑکیاں اور درواز سے اینٹ گارے سے بند کر دیئے.ے ریکارڈ کاریان شهر مرتبه مرزا محمد حیات صاحبه سابق درویش قادیان (غیر مطبوعه)
و اپنی پر احزاب کی مسجد شیخاں دیکھنے کا اتفاق ہوا.مسجد کے مینار منب بر ہو گئے تھے اور چھت کی دو کڑیاں ٹوٹ چکی تھیں.درویشوں نے مسجد میں جھاڑو دیا اور چند دن بعد چھت بھی مرمت کردی.ار ماہ شہادت / اپریل کی صبح کو مولوی برکات احمد صاحب، ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے، فضل الہی خان صاحب - رزا محمد حیات صاحب اور ضیاء الدین صاحب قادیان کی تمام بیرونی مساجد پرانی عیدگاہ اور اس سے متصل قبرستان کی طرف گئے بعید گاہ والے قدیم قبرستان کے کتبے توڑ پھوڑ دیئے گئے تھے مسجد دار الیسر کا اکثر حصہ گر چکا تھا.دیواریں اپلوں سے ڈھکی ہوئی تھیں اور اندر گدھوں کے کیلئے گاڑے ہوئے تھے مسجد دارالرحمت نہیں ہر طرف کوڑا کرکٹ بکھرا ہوا تھا.یہ آمدسے کا ایک مسقف حصہ ادھیڑا ہوا تھا.مینار چھت پر گرا ہوا تھا اور اندرونی عمارت سے الماریوں کے تختے غائب تھے مسجد نور کی عام حالت نسبتا بہتر تھی مسجد احمد آباد کے اندر جلا ہوں کی کھڈیاں بنی ہوئی تھیں.مسجد دار الستہ میں پناہ گزینوں نے ڈیرہ ڈال رکھا تھا اور صحن میں تانا بنا ہوا تھا.مسجد دار الفضل میں ہر طرف گندگی ہی گندگی ہی دکھائی دیتی تھی.اس مسجد کی الماریوں کے شیلف بھی نکال لئے گئے تھے مسجد دار البر کا غربی بھی پناہ گزینوں کی رہائش گاہ بنی ہوئی تھی صحن میں گدھا بندھا تھا اور باہر اپیلوں کے انبار لگے ہوئے تھے.مسجد دارالانوار کا نلکہ غائب تھا.مسجد میں پھولے بنے ہوئے تھے اور الماریاں شیلف سے خالی تھیں مسجدق در آباد کے احاطہ کی اینٹوں کا کوئی نام و نشان تک نظر نہ آتا تھا.الغرض مسجد نور کے کے سوا تمام مساجد کا حال سخت ابتر اور تکلیفت وہ مقاب در دنیشوں کا تیسرا قد ۲۲ شہادت / اپریل کو الہ ہر امام صاحب میر میونسپلٹی قادیان اور ایک کینٹیل کے سمیت مسجد دار البرکات غربی ، مسجد دار السعہ اور مسجد احمد آباد میں گیا اور اس نے غیر مسلم پناہ گزینوں ر کو مسجدوں کی عزت و حرمت بحال کرنے اور مسجدوں سے منتقل ہونے کی پر زور تحریک کی جس کا خاطر خواہ اثر ہوا.درویشان قادیان یہاں مساجد کا دورہ کرتے تھے وہاں ڈپٹی کمشنر صاحب گورداسپور اور مقامی مجسٹریٹ کو صورت حال سے برابر آگاہ رکھتے اور ان سے فوری توجہ کرنے کی درخواست کرتے رہے.نتیجہ یہ ہوا کہ ڈپٹی کمشنر صاحب گورداسپور نے ماہ جوتے مٹی پرمیش کے آخری ہفتہ میں مجسٹریٹ صاحب کو حکم دے دیا یکار مش مرتبہ مرزاحیات محمد صاحب نگران در ویشان قادیان مقامی (سال سیالکوٹ) * 1402-
که مسجدیں شرنارتھیوں سے فوراً خالی کرالی جائیں اور آئندہ بھی ان میں کسی کو آباد نہ کیا جائے قادیان کے پہلے درویش کا وصال ۲۶-۲۷ شہادت اپریلش که حافظ نور الہی صاحب متوطن کوٹ مومن ضلع سه گودها و امیر جماعت احمدیہ بہاولنگر جوه از صلح جنوری میش کو پاکستان سے قادیان پہنچے تھے اور نہایت فرشتہ سیرت ، دعا گر ، شب بیدار اور احمدیت کے سچے شیدائی تھے انتقال فرما گئے بحضرت حافظ صاحب وہ پہلے خوش نصیب بزرگ ہیں جن کا زمانہ درویشی میں وصال ہوا اور مسیح محمدی کے قدموں کی مناک بنے اور یہی وہ مخلصانہ تڑپ تھی جو انہیں کشاں کشاں اس مقدس نسبتی میں لے آئی تھی ہے بہشتی مقبرہ سے متصل باغ کے ساتھ سلسلہ احمدیہ کی بہت سی یادگاریں بہشتی مقب سے ملحق باغ کا مقدمہ وابستہ ہیں.یہی وہ بالغ ہے جس میں حضرت امام مہدی مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کا اپریل منہ سے لے کو ۲ جولائی نشہ تک اپنے اہلبیت اور خدام سمیت رہائش پذیر رہے.اسی کے اندر وہ شانشین ہے جہاں حضرت مسیح موعود علی اسلام بیٹھا کرتے تھے.اسی مشاہ کو اسی باغ میں خلافت کی پہلی بیعت ہوئی اور حضرت اقدس کا جنازہ پڑھا گیا.اس باغ میں جماعت کی عیدیں پڑھی جاتی رہیں اور فوت ہونے والے اکثر احباب جماعت کے جنازے بھی اس میں ہوتے رہے.الغرض قادیانی مقدس مقامات میں اس باغ کو ایک گونہ امتیازی حیثیت حاصل ہے.ہم ماہ شہادت ایمیل پش کا واقعہ ہے کہ بعض مقامی حکام کی انگوت پر ایک شخص وریام سنگھ اس باغ میں پایا گیا جس نے بتایا کہ یہ باغ کلا سوالہ کے ایک سکھ کی ماکیت ہے نہیں نے مجھے اپنا نگران بنا کہ بھیجوایا ہے.باغ کے محافظ درویشوں نے اسے اصل حقیقت بتا کر واپس کر دیا.مگر وہ اسی دن ظہر کے وقت ے حضرت حافظ صاحب کے والد کا نام حافظ محمد عارف تھا.شاہ میں پیدا ہوئے حضرت مصلح موعود کی تقریر " حضرت مسیح موعود کے کارنامے “ اور حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی کتاب " براہین احمدیہ“ سے متاثر ہوئے اور انشراح صدر کے لئے کچھ ماہ مصروف دعا رہے اور آخر و ارڈی نہ شاہ (مطابق ۲۴ فروری ۳ ) کی شب کو خواب میں حضرت مسیح موعود علیدات لام کے نورانی وجود کی زیارت ہوئی اور آپ مئی سلس ء میں داخل احمدیت ہو گئے.تفصیلی حالات کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۲۸ شہادت / اپریل ، ہجرت الٹی ، ۲۳۱۹ ہجرت اسٹی ، ۱۹ احسان جون میش آخرالد کے شمارہ میں ملک صلاح الدین صاحبہ ، ایم اے کے تسلیم سے آپ کے سوائے اور سیرت و شمائل پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ
۷۵ دوبارہ آیا اور کہنے لگا کہ مالک نے مجھے حکم دیا ہے کہ جب تک اسے تحریک یا جبرا نہیں روکا جاتا اسے باغ کے اندر ہی رہنا چاہیے.چونکہ اس بارہ میں کوئی تحریر دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا اس لیئے باہمی کشمکش تک نوبت جا پہنچی اور تحصیلدار صاحب اور نائب تحصیلدار نے باغ دیکھنے کے بعد رپورٹ کر دی کہ یہ باغ اور بہشتی مقبرہ دو بعدا عدا چیزیں ہیں اور ان کے مالکانہ حقوق بھی الگ الگ لوگوں کو حاصل ہیں.مقامی حکام نے اس رپورٹ کی توثیق و تصدیق کے لئے پٹواریوں سے نقشہ جات بنوائے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ واقعی بہشتی مقبرہ اور باغ کے مالک دو مختلف وجود ہیں اور یہ کہ باغ کے حقیقی مالک ہندوستان سے پاکستان جا چکے ہیں لہذا اسے شرنارتھیوں کے نام الاٹ ہونا چاہیئے یہ سب کارروائی چونکہ صریر کاغیر قانونی ، ناجائز اور خلافت حقیقت تھی اس لئے جماعت احمدیہ قادیان کی طرف سے احتجاج کیا گیا اور ذمہ دار افسران کے سامنے باغ کی مذہبی حیثیت رہ : : دشن کی طرح واضح کی گئی.جس پر ڈپٹی کمشنر صاحب نے عارضی طور پر باغ کی الاٹمنٹ کے خلاف حکم امتناعی جاری کر دیا اور بالآخر ماه تبوک استبر ۱۲ بهمش میں مشرقی پنجاب کی صوبائی حکومت نے فیصلہ کیا کہ بڑا باغ اور مقبرہ ہر تنور جماعت احمدیہ کے قبضہ میں رہیں گے.البتہ باغ کے ساتھ اور اسی میں شامل دو باغیچیوں پر در دنیوں کا قبضہ درست نہ سمجھا.یہی فیصلہ بہشتی مقبرہ سے ملحق ایک کھیت کی نسبت کیا گیا جو اس کی توسیع کے پیش نظر موادی مد علی صاحب سیالکوئی پنجابی شاعر سے لیا گیا تھا.لیکن ہندوستان کی احمدی جماعتوں کے مسلسل احتجاج اور پیم درخواستوں کے نتیجہ میں وہ مسلح جنوری یا پیش کو موخر الذکر فیصلہ بھی منسوخ کر دیا گیا.1901 ہش کے آخر میں بھارت سرکار نے فیصلہ کیا کہ تادیان رینسیو بھی ٹاؤن ہے.اس فیصلہ کے نتیجہ میں قادیان کی اراضی اور دوسری جائدادیں بانا بطہ طور پر غیر مسلم پناہ گزینوں کو الاٹ کر دی گئیں بھالانکہ اس سے قبل قادیان کی جانداروں پر محض اراضی قبضہ دیا گیا تھا.سماعت ہائے احمدیہ ہندوستان نے قرار دادیں پاس کہیں کہ صدنہ نجمین احمدیہ قادیان کی قادیان کی جائدادیں اس کو واپس دلائی جائیں.یہ معاملہ بہت طول کھینچے گیا اور سالہا سال تک کوئی شنوائی نہ ہوئی.بالآخر اش میں بھارتی حکومت نے تسلیم کر لیا کہ ه به وی بزرگ میں جین کی تبینی پنجابی نظمیں سن کر مسرت کے موعود علیہ السلام نے ۴ار نومبر شاہ کو دربار شام میں اظہار خوشنودی کرتے ہوئے ارشاد فریبا " یہ عمدہ کام ہے اور اس زمانہ کا یہی جب دہے جو لوگ پنجابی سمجھتے ہیں آپ ان کے لئے مفید کام کرتے ہیں " ( ملفولات سبد ، صفحه ۲۰۶۰۱۲۰۵)
صدر انجین احمدیہ قادیان تارکین وطن میں شامل نہیں.اور اپنے وہ اپنی جائداد پر قبضہ کرنے کا حق رکھتی ہے.درویشوں کو اس ابتدائی پر آشوب دور میں جن شاندار اسلامی خوانده هم خواتین کی بیابانی خدمات انجام دینے کی توفیق ریبت کریم بیلین کی طرف سے علی ان میں کے لئے عظیم الشان جد و جہد مسلمان مغویہ خواتین کی بازیابی اور تصور مسلمانوں کی حفاظت کا کارنامہ نہایت درجہ لائق تحسین ہے جس کی عظمت و اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ اس زمانہ میں درویشان قادیان کی زندگی عملاً قید سے بہتر نہیں تھی کیونکہ وہ ایک مختصر سے حلقہ میں محدودو محصور تھے اور انہیں اس حلقہ سے تھوڑا بہت ادھر ادھر جانے کے لئے بھی پولیس یا ملٹری کی امداد کی ضرورت ہوتی تھی.ایک بھاری وقت یہ تھی کہ بھارتی حکومت نے ضلع گورداسپور کو ممنوعہ علاقہ قرار دے رکھا تھا اس لئے پاکستان کی ملڑی یا پولیس بین الملکتی معاہدہ کے باوجود اغواشدہ مسلم خواتین کو برآمد کرنے کے لئے نہیں آسکتی تھی.لیکن چونکہ قادیان کے مینار سے پانچوں وقت اذان کی آواز بلند ہوتی جو دُور دُور تک سنائی دیتی تھی اس لئے متعدد مسلمان عورتیں اذان سننے کے بعد موقع پاتے ہی مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کے اس واحد مرکز میں پہنچ جاتی تھیں.بعض کو شریعیت عیسائی اور بعض کو شریعت مزاج سکھ چھوڑ جاتے تھے بعض عورتیں ارد گرد کے دیہات پر حملہ کے دوران قادیان آکر ٹھہر گئی تھیں.یا انہوں نے غیر مسلموں سے قادیان کی اسلامی بستی کا ذکر سنا تو وہ چپکے سے یہاں بھاگ آئیں.ماہ اضداد اکتوبر سے.او بھرت اسی میں تک ایسی عورتیں بشمول خون یا جبر کے باعث اسلام سے ارتداد اختیار کرنے والوں کے قریباً انشی کی تعداد میں درویشوں کے حلقہ میں پہنچیں.ان عورتوں میں ، حول قادیان کے علاوہ ہوشیار پو امرتسر، فیروز پور اور ریاست جموں کی بھی تھیں جن کی رہائش اور خوراک کا خاص اہتمام کیا گیا اور ان کو لڑکوں پر سوار کرا کے بحفاظت پاکستان پہنچا دیا گیا.منویہ عورتوں کی قادیان میں آمد یا قادیان سے روانگی پر قادیان کے مرکزی کارکنوں کی طرف سے تار اور فون کے ذریعہ سے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمد صاحب کی خدمت میں با قاعدہ اطلاع دی بھاتی.اور حضرت میاں صاحب ایسی خواتین کو ان کے ورثاء تک پہنچانے کے لئے اخبارات میں اطلاع شائع کراتے نے بطور استان آپ کا ایک اعلان ملاحظہ ہو: علاقہ قادریان کی اغوا شدہ عورتیں لاہور انگارہی ہیں ان کے در تار و جو پہنچکر یٹری کیمپ میں تیہ میں دیبقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر )
66 اور ان کے ورثاء کی تلاش میں ہر ممکن ذرائع بروئے کار لاتے.جناب ملک مصلاح الدین صاحب ایم.اسے درویش قادیان (مؤلعت اصحاب احمد) کا ایک اہم مکتوب اختیار انقلاب لاہور مورخہ 19 مئی شہر میں اغوا شدہ مستورات کی برآمدگی کے لئے قادریان کی نسائی " کے عنوان سے شائع ہوا جس سے اس سلسلہ میں درویشان قادیان کی اجتماعی کوششوں کا صحیح نقشہ آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے.ملک صاحب نے تحریر فرمایا کہ ناظرین کرام ! امروزه صحبت میں اغوا شدہ مستورات اور سکھ بنے ہوئے مسلمانوں کے متعلق قادریاں میں مقیم احمدیوں کی مساعی کا ذکر کرتا ہوں.ہم بہت محنت سے دریافت کر سہتے رہتے ہیں کہ اغوا شدہ عورتوں کے نام کیا کیا ہیں.وہ کس کس گاؤں میں کس کے پاس رہتی ہیں.اپنی اور ان کی بے بسی کی وجہ سے ہمارے دل پر کچھ کچھ گزرتی ہے اس کا اندازہ آپ نہیں کر سکتے.ان کی خاطر ہم ہر وقت کڑھتے ہیں.کبھی ڈپٹی کمشنر کو فون کرتے ہیں، کبھی سپرنٹنڈنٹ پولیس کو اطلاع دیتے ہیں کبھی مقامی تھانیدار اور مقامی مجسٹریٹ کو خبر پہنچاتے ہیں.کبھی کامرس کے عہدہ داروں یا ضلع کے پیسٹی آفیسر سے مدد چاہتے ہیں.اسی طرح میجر جنرل عبدالرحمن ڈپٹی ہائی کمشنر کو بھی فہرست بھجواتے ہیں غرض کہ ان کی خاطر ہم ماہی بے آپ کی طرح تڑپتے ہیں اور ان کی برآمدگی کے لئے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں.جب بھی کوئی عورت خاکروبوں کی مدد سے یا ہماری اذان سن کر یا غیر مسلموں کی باتوں سے معلوم کر کے کہ قادیان میں مسلمان رہتے ہیں ہمارے پاس پہنچنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو ہمارے دل بلیوں اچھلتے ہیں اور ہم خوشی کے مارے پھولے نہ سماتے ہوئے ایک دوسرے کو خوشخبری سناتے ہیں.ایسی عورتوں کے قیام کے لئے ایک کھلا جو بارہ مقرر ہے جس پر ایک ربقیه حاشیه صفحے گذشتند) قادیان سے فون پر اطلاع ملی ہے کہ ارد گرد کے علاقہ کی بین مسلمان عورتیں جن میں سے پیش کیوں کے بھی آئی ہوئی تھیں قریباً چودہ پندرہ کی تعداد میں بھائی ہو کہ قادیان میں جمع ہو گئی تھیں ان عورتوں کو گورداسپور کی پولیس قادریان سے گورداسپور لے گئی ہے، تاکہ وہاں سے اپنے انتظام میں لاہور پہنچا ہے.ان عورتوں میں مسماۃ علام فاطمہ صاحبہ جموں والی اور مسماۃ شریفہ بی بی نہ کی والی بھی شامل تھیں.ان کے دو شیو کو چاہیے کہ لاہور پہنچ کر سرکاری کیمپ میں بہترے ہیں تاکہ دیہ ہو جانے کی وجہ سے مصیبت زدہ عورتوں کو مرید تکلیف کا سامنانہ ہو.افسوس ہے پوری تفصیل فون پر معلوم نہیں کی جا سکی " الفضل یہ شہاد اپریل صفحه ۳ کالم ۳)
معمر بزرگ بابا بھاگ کا ہر وقت پہرہ رہتا ہے.وہ ان کی ضروریات مہیا کرتا ہے.وہاں کسی اور مرد کو بھانے کی اجازت نہیں.بابا مذکور حسیں تقدمت گزاری سے کام کرتے ہیں وہ اس امر سے ظاہر ہے کہ ایک شخص نے پاکستان سے لکھا ہے کہ اس کی ہمشیرہ بابا بھاگ کی مخلصانہ مقدمات کو یاد کرتی ہو تو رو دیتی ہے.ہمارے موجودہ امیر مولوی عبدالرحمن صاحب کوٹ سابق جنرل پریذیڈنٹ قادیان ہیڈ ماسٹر ذاتی طور پر بھی ان کا بہت خیال رکھتے ہیں.انہیں کپڑے اور جوتیاں بنوا دیتے ہیں اور ان کے لاہور پہنچنے سے پہلے پہلے ان کے اقارب کا ہو پاکستان میں ہوتے ہیں پتہ حاصل کر لیتے ہیں اور انہیں اطلاع بھجوا دیتے ہیں.چنانچہ جب عورت میں لاہور پہنچتی ہیں تو ان کے اقارب انہیں بلدی آکر لے جاتے ہیں.علاوہ ازیں اردگرد کے دیہات میں بکثرت ایسے مسلمان خاندان موجود ہیں جو سکھ بنے ہوئے ہیں لیکن پاکستان جانے کے خواہشمند ہیں.ہم انہیں اپنے پاس آنے کے طریقے بتاتے ہیں.تستی دیتے ہیں اور آجانے پہ ان کا روپیہ لے کہ صدر انجمین احمدیہ قادیانی کے خزانہ میں جمع کرلیتے ہیں تاکہ راستہ میں ضائع نہ ہو.یہ روپیہ انہیں ؟ اور پہنچ کر وہاں کی صدر آئین اویہ کے خزانہ سے کل جاتا ہے.قادیان پہنچ جانے پہ ان کے قیام و طعام کا انتظام کرتے ہیں اور نگرانی رکھتے ہیں کہ غیر مسلم انہیں علیحدگی میں نہ ملیں مبادا وہ اپنی سادہ لوحی سے دھو کہ ہیں اگر پھر واپس چلے جائیں.ان اغوا شدہ عورتوں اور سکھ بنے ہوئے مسلمانوں سے ہماری ذرا بھی سابقہ معرفت نہیں ہوتی لیکن ہم محض بمذبہ اخوت اسلامی سے سرشار ہو کہ بعد اتعاملے کی خاطر ان کی خدمت بجا لاتے ہیں اس سلسلہ میں میں دو ضروری باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں.ایک یہ کہ اگر کسی مسلمان عورت کے متعلق آپ کو علم ہو کہ مشرقی پنجاب میں ہے تو مہربانی کر کے اس کے جملہ کو الفت سے نہیں مطلع فرمائیں.ہم حتی الامکان بر آمدگی کے لیے پور کی پوری کوشش کریں گے.دوسرے یہ کہ پاکستان میں جو غیر مسلم اغوا شدہ عورتیں موجود ہیں ان کی برآمدگی کے لئے بانی ہر ایک شخص کو سر توڑ کوشش کرنی چاہیے کہ اول تو مذہبا یہ قبل اغوا انتہائی طور پر نا جائز ہے.دوم اُن کے بر آمد کرنے کا اثر یقینی طور پر مشرقی پنجاب میں بہت ہی اچھا پڑتا ہے.کون مسلمان پسند کرتا ہے، کہ اس کی مسلمان بہنیں بر ستور اغوا شده ره کہ غیروں کے گھروں میں پڑ کی ہیں ".لاہور کے احراری آرگن آزاد نے اپنی مٹی کی اشاعت میں یہ نمون یا کر سکا، درویشان قادیان کی مساعی پر تبصرہ کیا ہو تا ریخ مدیت جلد ۱ صفحہ ۳۹۳ - ۳۹۵ میں آچکا ہے ؛ İ ¦
69 اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ماہ توکہ استمبر عرش تک درویشان قادیان کی سرفروشانہ جد و جہد کے نتیمہ میں ۱۳۴ مرد و زن پاکستان پہنچ چکے تھے جن میں سے مسلمان عورتیں تھیں اور ۵۷ مسلمان مرد تھے.یہ درویشوں کی یہ بے لوث اور پاک ، اور مخلصانہ کوششیں جاری تھیں کہ ماہ نبوت / نومبر شد میں بٹالہ کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس قادیان، آئے اور سب احمدی آبادی کو مدرسہ احمدیہ کے صحن میں جمع کرکے، اُن کے نام اور پتہ جات وغیرہ نوٹ کئے اور یہ معلوم کیا کہ ان میں سے قادیان اور اس کے گردو نواح کے رہنے والے کتنے ہیں.نیز حکم دیا کہ قادیان میں چونکہ کوئی منظور شدہ کیمپ نہیں ہے اس لئے آپ لوگوں کو ارد گر د سے نکل کر آئے ہوئے مسلمان مردوں اور عورتوں کو اپنے پاس نہیں ٹھہرانا چاہیے ۲۵ نشاق احمدیت کی دیار حبیب حضرت صلح موعود نے مجلس مشاورت بر پیش میں تحریک ۶۱۹۴۸ فرمائی تھی کہ عشاق احمدیت قادیان کی جگہوں کو آباد کرنے کے لئے میں تشریف آوری اپنے نہیں پیش کریں بنضور کی اس آواز پر لبیک کہنے والوں ایک خوش نصیب تا فرار مشروع ماه مجید امئی سے یہ ہش میں صبح بجے لاہور سے روانہ ہوا حضرت سیدنا امیر المومنین المصلح الموعود نے افراد قافلہ کو شرف مصافحہ بخشا اور اجتماعی دعا کے ساتھ الوداع کہا.اس قافلہ میں بارہ صحابہ بھی سمجھتے جن میں حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب (امیر قافلہ ) اور حضرت بھائی عبد الرحمن صاح قادیانی جیسے قدیم اور ممتاز صحابہ بھی شامل تھے.یہ قافلہ لڑکوں کے ذریعہ قادیان پہنچا.ملٹری چوکی کے سیکھے افسروں نے قریباً پون گھنٹہ میں آنے والوں کی اہم وار فہرست تیار کی جس کے بعد یہ قافلہ مجسٹریٹ صاب ملٹری پولیس کی کافی تعداد ، چند سائیکل سواروں اور دو ایک شہسواروں کے جھرمٹ میں دارالشکر سے ہوتے اور فروٹ فارم ، اسٹیشن کو ٹھی حضرت چودھری فتح محمد صاحب، سیمال سے گذرتے ہوئے دارالا نوالہ کی بڑی سڑک سے داخل شہر ہوا اور مولوی عبد المغنی خاں صاحب اور نیک محمد میاں صاحب غزنوی کے مکان کے پاس تھا کہ ڈکار کے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس قافلہ کی آمد کے موقعہ پر ہر جستہ امیش کو مولانا ه الفضل هر تبوک استمبر بش صفحه ۰۴ الفضل لاہور، نبوت انو مبرمش صفحه ۱۵ SHNA له الفضل ۱۲ هجرت منی اش صفا الفضل اور ہجرت استی سکی اش صفر ۲ :
عبدالرحمن صاحب جٹ کے نام ایک خصوصی مکتوب لکھا جس میں نصیحت فرمائی کہ حملہ درویشوں کو میر کی طرف سے بعد سلام یہ پیغام پہنچا دیں کہ وہ ان بزرگوں کی آمد کو ایک خدائی نعمت سمجھتے ہوئے ان کی صحبت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانے کی کوشش کریں اور ان کے علم و عمل کو اپنے لئے مشعل راہ بنائیں.صحابہ کا مقدیس گروہ دن بدن کم ہوتا جا رہا ہے.باوجود اس کے ہم انہیں اپنے آپ کو ان کی محبت سے محروم کرتے ہوئے آپ کے پاس بھجوائے جا رہے ہیں.پس اس نعمت کی قدر کریں اور دعاؤں اور نوافل پر پہلے سے بھی زیادہ زور دیں اور باہم اتحاد اور تعاون اور بزرگوں کے ادب کا وہ نمونہ قائم کریں ہجو اسلام آپ سے چاہتا ہے.ہم نہیں کہ سکتے کہ ہمارا پیارا مرکز ہمیں کب واپس ملے گا.مگر جب تک تمہیں وہ واپس نہیں ملتا ان بزرگوں کا وجود اور ان کے ساتھ آپ جیسے مخلص اور جانثار درویشوں کا وجود اس شمع کا حکم رکھتا ہے جو ایک وسیع اور تاریک میدان میں اکیلی اور تن تنہا روشن ہو کر دیکھنے والوں کے لئے نور ہدایت کا کام دیتی ہے.اگر آپ مخلوص نیت اور سچی محبت اور پاک جذبہ خدمت کے ساتھ قادیان میں ٹھہریں گے اور اپنے آپ کو احمدیت کا اعلیٰ نمونہ بنائیں گے تو نہ صرف خدا کے حضور میں آپ کی یہ خدمت خاص قدر کی نگاہ سے یکھی جائے گی بلکہ آنے والی نسلیں بھی آپ کے اس نمونہ کو فخر کی نظر سے رکھیں گی " فهرست یہ قافلہ مندرجہ دلیل اصحاب پرمشتمل تھا ہے.: میاں محمد دین صاحب واصلباقی (والد ڈاکٹر غلام مصطفی صاحب) حلقہ مسجد مبارک) بھائی عبد الرحیم صاحب قادیانی بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی ام بابا شیر محمد صاحب - چودھری سلطان احمد صاحب میاں خیردین صاحب ه الفضل اور امی ۱۳۲۷ میش صفحه ۲ * ) امیر قافله) l " , "
، حلقه مسجد مبارک , ر ، حلقة مسجد اقصیٰ ، (حلقہ مسجد مبارک) i ( 4 ( ( اقصى " " " } ر ر " > 4 { > کے.حسن دین صاحب - A چوہدری فیض احمد صاحب ۹ مرزا محمود احمد بیگ صاحب -۱- بابا نور محمد صاحب با در چی صدیق احمد صاحب پسر نور محمد صاحب دکاندار ۱۲- محمد ابراہیم صاحب ٹیلر ۱۳ - نور محمد صاحب دکاندار ۱۴.ڈاکٹر عطر دین صاحب -10 (حافظ) عبد العزیز صاحب محلی های محمد دین صاحب تها لدی -۱۷ حافظ صدر الدین صاحب -IA -14 بابا جان محمد صاحب حاجی فضل احمد صاحب چوہدری محمد عبد الله صاحب ( براور مولوی تاریخ الدین، مصائب فاضل) چودھری شکر الدین صاحب ٣١ ۲۲- مولوی غلام محمد صاحب ۲۳ بابا عطا محمد صاحب ممرضا ۲۴ بابا فضل محمد صاحب -۲ شیخ محمد یعقوب صاحب شیخ غلام جیلانی صاحب ۲۷- چوہدری صدر الدین صاحب گھبرائی بابا اللہ دتہ صاحب دوالمیال بابا کرم الہی سائب
AY ۳۰.خواجہ ضیاء الحق صاحب ۳۱- عبداللہ خان صاحب ۳۲ مولوی الله دین صاحب ۳۳ - سید محمد شریف صاحب ۳۴- پی.محمد کٹی (موجودہ نام محمد احمد نعیم) اقصی ( اس دور میں درویشوں کو پریشان کرنے اور حکام کو ان کے خلاف اکسانے درویشوں کی مشکلات کے لئے کیا کیا تو بے استعمال کئے جارہے تھے ان کا کسی قدر انمازہ حربے اخبار انقلاب " ستمبر شانہ کے مندرجہ ذیل نوٹ سے لگ سکتا ہے: قادیان میں تین سو تیرہ احمدی ہر وقت موجود رہتے ہیں.اذانیں دیتے ہیں، نمازیں پڑھتے ہیں اور اپنے مذہبی مقامات کی حفاظت کرتے ہیں.ان کو احمد می اصطلاح میں درویش کہتے ہیں.ان درویشوں میں سے ایک صاحب حال ہی میں واپس آئے ہیں جنہوں نے قادیان کے سکھوں کے متعلق بعض نہایت دلچسپ باتیں سنائیں.مثلاً پچھلے دنوں سردار ایشر سنگھ تجميل روز پر مشرقی پنجاب) قادیان آئے.انہوں نے سکھوں اور سہندوؤں کے اجتماع میں تقریر کی.اس موقعہ پر ایک سکھ مقرر نے کہا کہ سردار! وہ جو ہندوستان میں ساڑھے چار کروڑ مسلمان رہتے ہیں ان کا ہم بندوبست کریں گے آپ فکر نہ کیجئے.آپ مہربانی کر کے ان تین سو تیرہ سے ہمیں نجات دلا دیجئے.یہ بات اتنی مہمل اور مضحکہ خیز تھی کہ سردار ایشر سنگھ بھی ہنسے بغیر نہ رہ سکے.ایک احمدی کے نام تیس روپے کا منی آرڈر آیا تو اس نے وصول کر لیا.تھوڑی دیر بعد وہ کیا دیکھتا ہے کہ پوسٹ تین بھاگا ہوا آرہا ہے.اس نے آتے ہی کہا کہ آپ کو پوسٹماسٹر صاحب بلاتے ہیں.یہ صاحب ڈاکتانے پہنچے تو پوسٹ ماسٹر صاحب نے کہا کہ ایک بڑی غلطی ہو گئی ہے وہ منی آرڈر کی رقم آپ واپس کر دیجئے.احمدی نے پوچھا وہ کیوں؟ له یہ فہرست ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے کی ایک غیر مطبوعہ تقریر سے ماخوذ ہے.الفضل میں افراد قافلہ کی تعداد ۳۵ لکھی ہے.معلوم نہیں ۳۵ ویں دوست کا کیا نام ہے :
Ap کہنے لگے.یہ منی آرڈر بغیر سفر تقسیم ہو گیا ہے.اب اسے مفسر کو انے کے لئے دہلی بھیجنا ہے.عرض کیا گیا کہ منی آرڈر کا سنسر کیا معنی ! اور پھر کوپن پر کچھ لکھا ہوا بھی نہیں جس کو سنسر کھانا ضروری ہو.آپ کی بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی.لیکن پوسٹماسٹر صاحب نہ مانے اور انہوں نے رقم واپس لے کر منی آرڈر سنٹر کرانے کے لئے دہلی بھیج دیا.ایک سکھ ڈی ایس پی نے ایک احمدی کو یونہی سڑک پر گر فتار کر کے ہندو اے.ڈی.ایم کی عدالت میں پیش کر دیا اور شکائیت کی کہ اس نے کردید کی خلاف ورزی کی ہے.اے ڈی ایم نے کہا کہ اس وقت قادیان میں کوئی کر نیو نہیں پھر خلاف ورزی کس چیز کی ہوئی.سکھ ڈی ایس پی نے کہا.نہیں صاحب کہ فیو موجود ہے.اسے ڈی ایم نے کہا آخر کر فید آرڈر تو میں ہی صادر کرتا ہوں.میں نے کوئی حکم نہیں دیا اور اس وقت اس علاقے کے کسی حصے میں کرفیو نہیں ہے.سکھ ڈی ایس پی ایک سکھ دوسرے پولیس.غصے میں آگئے اور ہندو اے ڈی ایم سے کہنے لگے.اچھا آپ سمجھتے ہیں کہ کو فیو نہیں ہے بہتر ہے ذرا خود باہر نکل کر دیکھئے.کو فیو ہے یا نہیں.اے ڈی ایم اس گستاخانہ دھمکی پر دم بخود رہ گئے.لیکن کیا کرتے.آجکل ہندو افسروں کو ہر جگہ سکھوں سے دینا پڑتا ہے.قادیان کے بہشتی مقبرے کے گرد احمدیوں نے ایک دیوار تعمیر کی جس میں جھلملیاں لگائی گئی ہیں جنہیں پنجابی میں پھرنا کہتے ہیں.سکھوں نے بالائی حکام کے پاس شکایت کر دی.کہ مرزائیوں نے تو پوں اور بندوقوں کے لئے مورچے بنائے ہیں.فوجی افسر موقع کا معائنہ کرنے آئے تو بہت ناراض ہوئے کہ تم خواہ مخواہ ہمارا وقت ضائع کرتے ہو.بھلا یہ بھی کوئی مورچے ہیں.کیا ان میں کوئی بندوق یا توپ لگائی جا سکتی ہے.پھر احمدیوں نے اپنے گھروں کی عمارتوں پر تو مورچھے نہ لگائے قبروں پر مورچوں کی کیا ضرورت تھی.شکایت کرنے والے سکھ خفیف ہوئے.ایک اور عجیب و غریب شکایت کی گئی ہے کہ صاحب یہ احمدی صرف تین سو تیرہ نہیں نہیں بلکہ ہزاروں ہیں.بات اصل میں یہ ہے کہ یہ سب اپنے تہہ خانوں میں چھپے رہتے ہیں اور صرف تین سو تیرہ باہر نکلتے ہیں.پھر وہ مصائب ہو جاتے ہیں اور تین سو تیرہ کی نئی
کھیپ تہ خانوں سے نکل آتی ہے مطلب غالباً یہ ہے کہ حکام ان احمدیوں کو تلاشیوں گرفتاریوں سے پریشان کریں “ اور چونکہ روزانہ بہت سے معروز غیر مسلم اصحاب قادیان کے مقامات مقدسہ کی دفتر نزائرین کا قیام زیارت کے لئے آتے تھے اس لئے ماہ فتح اودسمبر ہر مہیش میں زائرین کو مساجد، منارہ مسیح اور دوسرے مقامات دکھانے اور مناسب طریق سے پیغام اسلام پہنچانے کے لئے ایک خاص دفتر قائم کر دیا گیا.یہ دفتر امس رستہ میں بنایا گیا ہو قصر خلافت کے ساتھ ساتھ تحریک جدید کی عمارت سے دار المسیح کی طرف جاتا ہے.مکرم سید محمد شریف صاحب ، حضرت حاجی محمد دین صاحب آف نہال اور مکرم مولوی الہ دین صاحب کو یہ نئی ذمہ داری سونپی گئی اور یہ تینوں بزرگ بہت اخلاص ، محبت اور استقلال کے ساتھ یہ خدمت بجالانے لگے.فصل پنجم سالله مجله قادیان ۱۳ مرش ۱۳۲۷ بیش شراحة العربية عہد درویشی کے دوسرے سالانہ جلسہ کا انعقاد ۲۹ - ۲۷ - ۲۸ فتح دسمبر ۳۲ میش کو قادیان کی پرانی زنانہ جلسہ گاہ میں ہوا.اس جلسہ میں قادیان کے درویشوں اور غیر مسلموں کے علاوہ دہلی، میرٹھ ، مظفرنگر، شاہجہان پور ، ساند من (آگرہ) ، علی گڑھ ، امرونہ ، مالا بار ، بریلی ، کلکتہ، بمبئی ، مونگھیر، پٹنہ ، مظفر پور ، رانچی اور بھوپال کے ۶۶ احباب نے بھی شرکت فرمائی.یہ دوست ا مکمل فہرست ضمیمہ میں درج ہے.ان زائرین میں ایک معز غیر مبائع اور پانچ غیر ز جماعت دوست بھی تھے جنبہ میں بان احمدیوں کی شرکت حضرت مصلح موعود کی تحریک پر ہوئی حضور نے فرمایا دسمبرمیں جلسہ جو ہندوستان کے احمدی اگر تیریت سے پہنچ سکیں تو بوائے بھائیں.(مکتوب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب مورخه ۱۲۱ نبوت ان نمبر مکتوبات اصحاب احمد طبع اول اگست ۱۹۸۲ و جلد اول صفحه در مرتبه ملک میلاد الدین البانی (اس)
جلسه سالانه قادیان دارالامان ۳۲۷ اهش / ۱۹۴۸ء میں شمولیت کا فخر حاصل کرنے والے ہندوستانی احمدی صاحبزادہ مرز او سیم احمد صاحب اور حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب جٹ فاضل امیر جماعت احمد یہ قادیان بھی موجود ہیں.
اپنی اپنی جماعتوں کے نمائن سے تھے جو پہلے ۲۴ دسمبر افتح کو دہلی میں جمع ہوئے.پھر دہلی کے احمدی مبلغ مولانا بشیر احمد صاحب فاضل کی امارت میں پولیس اسکورٹ کے ساتھ قادیان پہنچے ہیں اور ۲۹ فتح ادسمبر کو دانس فاضل کی کے ساتھ روانہ ہو گئے بیٹے حضرت میر الامين المصلح المورد کارت پر در پیام اس مقدس تقریب پرحضرت می پونی امیرالمومنین مصلح الموعود نے ایک نہایت رُوح پرور اور سہندوستان کی احمدی جماعتوں کی عظیم نو کا خاص ارشام بیف یہ ارسال فرمایا جس نے ہندوستان پیغام کے احمدیوں میں عموماً اور درویشان قادیان میں خصوصاً زندگی کی نئی روح پھونک دی.اس پیغام کا مکمل متن درج ذیل کیا جاتا ہے اعُوذُ باللهِ مِنَ الشَّيْطانِ الرَّحيم بسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ حوال تحَمَدُهُ وَنَصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الكَرِية خدا کے فضل اور رحم کیسا نیا ماحول اور نئی ذمہ داریاں برادران جماعت احمدیہ قادیان و هندوستان یونین ! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته سامي میں آپ لوگوں کو سالانہ جلسہ کے موقعہ پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سنت قائم رکھنے کی توفیق پانے پر مبارکباد دیتا ہوں بسنا گیا.ہے کہ ہندوستان یونین نے ستوا کے قریب ہندوستانی احمدیوں کو جلسہ میں شامل ہو نے کی اجازت دی ہے گو یہ اجازت بہت بعد NAPh + الفضل ۲۸ فتح به مدرسته الله بیش صفحه ۵ و ۱۲۷ صلح جنوری مش صفحه ۳ به سے مولانا بشیر احمد صاحب مبلغ جماعت احمدیہ دہلی نے میلسہ سے واپسی پر حضرت مصلح موعود کی خدمت میں مفصل رو داد سفر ارسال کی تھی جو الفضل کی یکم تبلیغ / فروری میش کی اشاعت میں چھپی ہوئی ہے.دہلی کے اخبار سٹیٹمین نے اپنی ۲۷-۲۰ دسمبر کی اشاعتوں میں اس سیلسہ کی خبر شائع کی 4
Aч میں ملی ہے اور شاید اس سے جماعت کے لوگ فائدہ نہ اُٹھا سکیں.لیکن اگر بعض افراد کو اس سے فائدہ اُٹھانے کی توفیق ملی ہو تو میں انہیں بھی اس اہم موقعہ پر حصہ لینے پر مبارک باد دیتا ہوں.بر اور ان ! جماعتیں بڑے صدمات میں سے گذرے بغیر کبھی بڑی نہیں ہوتیں.قربانی کے مواقع کا میسر آتا اور پھر قربانی کرنے کی قابلیت ظاہر کر دینا ، یہی افراد کو جماعتوں میں تبدیل کر دیتا ہے اور اس سے جماعتیں بڑی جماعت بنتی ہیں.ہماری قربانیاں اس وقت تک بالکل اور قسم کی تھیں اور ان کو دیکھتے ہوئے نہیں کہا جا سکتا تھا کہ ہماری جماعت کے بڑے بننے کے امکانات موجود ہیں.مگر اب جو قادیان کا محادثہ پیش آیا ہے وہ اس قسم کے واقعات میں سے ہے جو قوموں کو بڑا بنایا کرتے ہیں.اگر اس وقت ہماری جماعت نے اپنے فرائض کو سمجھا ، اور اپنی ذمہ داریوں کو ادا کیا تو بڑائی اور عظمت اور خدائی برکات یقیناً اس کے شامل حال ہوں گی اور وہ اس کام کو پورا کرنے میں کامیاب ہوگی جو خدا تعالیٰ نے اس کے سپرد کیا ہے.میں قادیان کے رہنے والے احمدیوں کو اس امر کی طرف خصوصیت کے ساتھ توجہ دلاتا ہوں کہ وہ شور و شتر کا زمانہ جس نے عمل کے مواقع کو بالکل باطل کر دیا تھا اب ختم ہو رھا ہے.آہستہ آہستہ امن فساد کی جگہ لے رہا ہے.بہت سی جگہوں کے راستے کھل گئے ہیں اور باقی کے متعلق امید ہے کہ آہستہ آہستہ کھل جائیں گے.مگر تیس رنگ میں کام پھل رہا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ساری دنیا کی جماعت احمدیہ کا ایک مرکز پر جمع ہو جانا ابھی کچھ وقت چاہتا ہے.وہ وقت لمبا ہو یا کچھوٹا لیکن بہر حال جب تک وہ وقت نہ آئے جس حد تک موجودہ تعطل کو دور کیا جاسکے اس کا دور کیا جانا ضروری ہے.گذشتہ سال ہو تعطل واقع ہوا وہ معافی کے قابل تھا کیونکہ تمام علاقے آپس میں کئے ہوئے تھے اور ایک دوسرے تک خبر پہنچانا ناممکن تھا.لیکن اب وہ حالت نہیں رہی.اب کسی نہ کسی ذریعہ سے قادیان اور ہندوستان کی جماعتوں کا تعلق قائم رکھا جا سکتا ہے اور تبلیغ اور اشاعت کے کام کو بھی ہاتھوں میں لیا جا سکتا ہے.گذشتہ ایام میں جو تیا ہی آئی اس موقعہ پر قادیان کے اکثر احباب نے نہایت عمدہ نمونہ دکھایا اور قابل تعریفت قربانی پیش کی جس پر میں ہی نہیں ہندوستان
اور پاکستان کے لوگ ہی نہیں بلکہ دنیا کے دور دراز ملکوں کے لوگ بھی قادیان کے لوگوں کی قربانی کی تعریف کر رہے ہیں.امریکہ اور یورپ کے لوگ اب قادیان کو صرف ایک مذہبی مرکز کے طور پر نہیں دیکھ رہے بلکہ قربانی کرنے والے ایثار کرنے والے اور اس دُکھ بھری دنیا کو اس کے دُکھوں سے نجات دینے کی کوشش کرنے والے لوگوں کا مرکز سمجھ رہے ہیں.اس نقطہ نگاہ سے قادیان اب صرف احمدیوں کا مرکز نہیں رہا بلکہ وہ مختلف مفید عام کاموں کی خواہش رکھنے والے لوگوں کی توجہ کا مرکز بھی ہو گیا ہے.ابھی چند دنوں کی بات ہے کہ ایک مجلس میں شامل ہونے کا مجھے موقعہ ملا.میرے پاس امریکن قونصل جنرل کی بیوی تشریف رکھتی تھیں مجلس سے اٹھتے وقت میں نے ان سے کہا کہ اپنے خاوندہ سے مجھے انٹروڈیوس کرا دیں.انہوں نے اپنے خاوند کو مجھ سے ملوایا.ملنے کے بعد سب سے پہلے فقرہ جو امریکن قونصل جنرل نے کہا وہ یہ تھا کہ مجھے قادیان دیکھنے کی بہت خواہش ہے افسوس ہے کہ اس وقت چوک میں اس خواہش کو پورا نہیں کر سکا.میں نے کہا ہمیں بھی بہت خواہش ہے لیکن افسوس کہ اس وقت ہم بھی اس خواہش کو پورا نہیں کر سکتے.اسے سُن کر نہایت انسوس سے امریکن قونصل مقتول نے کہا.ہاں ہمیں بھی اس بات کا بہت افسوس ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے گو احمدیہ جماعت کی اکثریت قادیان کو چھوڑنے پر مجبور ہوئی ہے اور اب صرف چند سو احمدی قادیان میں رہ گئے ہیں لیکن قادیان پہلے سے بھی زیادہ دُنیا کی توجہ کا مرکز ہو گیا ہے اور اس کی وجہ وہی قربانی اور شاندار نمونہ ہے جو قادیان کے احمدیوں نے پیش کیا.اور آپ لوگ اس قربانی کی مثال کو زندہ رکھنے والے ہیں اور اس وجہ سے اس معاملہ میں سب سے زیادہ مبارک باد کے ستحق ہیں.لیکن صرف کسی چیز کو زندہ رکھنا کافی نہیں ہوا کرتا.اس چیز کو زیادہ سے زیادہ پھیلانا اصل کام ہوتا ہے.اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس نور آسمانی کو اپنے دل میں زندہ رکھتے جو آسمان سے اس وقت نازل ہوا تھا تو یہ بھی ایک بہت بڑا کام ہوتا.لیکن اتنا بڑا کام نہیں جو اس صورت میں ہوا کہ آپ نے اس نور کو اپنے دل ہی میں زندہ نہیں رکھا بلکہ ہزاروں لاکھوں اور انسانوں کو بھی اس نور سے منور کر دیا.صحابہ کرام نے اس ٹور کو اپنی زندگیوں میں زندہ رکھ کہ ایک بہت بڑا نمونہ دکھایا.لیکن اُن کا یہ نمونہ اس
سے بھی زیادہ شاندار تھا کہ انہوں نے نور محمدی کا ایک حصہ اپنے سینوں سے نکال کم لاکھوں اور کروڑوں دیگر انسانوں کے دلوں میں بھی بھر دیا.پس اے میرے عزیزو! آپ کی زندگی کا پہلا دور ختم ہوتا ہے اور نیا دور شروع کرنے کا وقت آگیا ہے.پہلے دوار کی مثال ایسی تھی جیسے چٹان پر ایک لیمپ روشن کیا جاتا ہے تاکہ وہ قریب آنے والے جہازوں کو ہوشیار کرتا رہے اور تباہی سے بچائے.لیکن نئے دور کی مثال اس سورج کی سی ہے جس کے گرد دنیا گھومتی ہے اور جو بار کی باری ساری دنیا کو روشن کر دیتا ہے.بیشک آپ کی تعداد قادیان میں تین سو تیرہ ہے لیکن آپ اس بات کو نہیں بھولے ہونگے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قادیان میں خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے کام کو مشروع فرمایا تھا تو اس وقت قادیان میں احمدیوں کی تعداد صرف دو تین تھی.تین تصو آدمی یقیناً تین سے زیادہ ہوتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوے کے وقت قادیان کی آبادی گیارہ سو تھی.گیارہ سو اور تین کی نسبت پیسے کی ہوتی ہے.اگر اس وقت قادیان کی آبادی بارہ ہزارہ کبھی بجھائے تو موجودہ احمدیہ آبادی کی نسبت باقی قادیان کے لوگوں سے پتہ ہوتی ہے.گویا جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے کام شروع کیا اس سے آپ کی طاقت دس گنے زیادہ ہے.پھر ہیں وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کام شروع کیا اس وقت قادیان سے باہر کوئی احمدیہ جماعت نہیں تھی لیکن اب ہندوستان میں بھی پیسیوں جگہ پر احمدیہ جماعتیں قائم ہیں.ان جماعتوں کو بیدار کرنا، منتظم کرنا ، ایک نئے عزم کے ساتھ کھڑا کرنا اور اس ارادہ کے ساتھ ان کی طاقتوں کو جمع کرتا کہ وہ اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کو ہندوستان کے چاروں گوشوں میں پھیلا دیں.یہ آپ لوگوں کا ہی کام ہے.ہم کہتے ہیں کہ قادیان احمدیوں کا مرکز ہے.آپ لوگ بھی کہتے ہیں کہ ہم اس لئے قادیان میں بیٹھے ہیں کہ یہ ہم احمدیوں کا مرکز ہے.اب یہ آپ لوگوں کا فرض ہے کہ مرکز کو مرکز کی حیثیت سے دنیا کے سامنے پیش کریں.مرکز چند مجاوروں کے جمع ہو کر بیٹھ جانے کا نام نہیں.مرکز ایک بے انتہار بعدیہ کا نام ہے جو اپنے ماحول پر چھا جانے کا ارادہ کر کے کھڑا ہو.مرکز کا نام قرآن کریم میں ماں رکھا ہے اور ماں وہی ہوتی ہے جو
٨٩ اپنا خون پلا کر بچوں کو پالتی ، بڑا کرتی اور جوان کرتی ہے.پس قادیان مرکز اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی چھاتیوں کا دودھ تمام طالبان صداقت کو پیش کرے ، اُن کو پالے اور اُن کی پرورش کرے اور ان کو پروان چڑھائے.پس آپ لوگ اب اپنی نئی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے نئے سرے سے اپنے دفاتر کی تنظیم کریں اور سہندوستان کی باتی جماعتوں کو دوبارہ زندہ کرنے اور زندہ رکھنے کی کوشش کریں.صرف یہی نہیں بلکہ اُن کو بڑھانے اور پھیلانے کی کوشش کریں.وہ تمام اعراض جن کے لئے احمدیہ جماعت قائم کی گئی تھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابوں میں لکھی ہوئی موجود ہیں.ان اغراض کو سامنے رکھ کر صد را نمین احمدیہ کی تنظیم کریں اور تمام ہندوستان کی جماعتوں کے ساتھ خط و کتابت کر کے اُن کو منظم کریں اور پھیلنے پھولنے میں مدد دیں.اس کام کے متعلق میں چند تجاویز آپ لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہوں : اول.ہندوستان یونین کی تمام احمدیہ جماعتوں کی لسٹیں جمع کریں.(جو لسٹیں وہاں موجود نہ ہوں وہ لیٹیں پاکستان کے مرکز سے منگوا لیں، (۲) پر لیس کو دوبارہ جاری کرنے کی کوشش کریں جب تک قادیان کا پریس واگزارہ نہیں ہوتا اس وقت تک ضروری اشتہارات لکھ کر دہلی بھجوا دیا کریں اور وہاں سے چھپوا کہ ریل میں منگوا لیا کریں اور پھر ڈاک کے ذریعہ تمام ہندوستانی جماعتوں میں تقسیم کر دیا کریں.(۳) چونکہ گذشتہ صدمہ سے بعض جماعتوں میں کمزوری پیدا ہوگئی ہے اس کو دور کرنے کے لئے مختلف علاقوں میں مبلغ مقرر کریں تاکہ وہ پھر پھر کے جماعتوں کی دوبارہ تنظیم کریں.اس وقت مبلغ صرف دہلی ، ہمیٹی ، حیدر آباد دکن ، بہار، اڑیسہ ، اور کلکتہ میں ہیں.جو نہی آپ کام کرنے کے قابل ہو جائیں اور اپنے انتظامات کو مکمل کر لیں دہلی کے مبلغ کی طرح باقی مبلغوں کو بھی براہ راست قادیان کے ماتحت کو دریا سنائے گا.مگر اب بھی حقیقتاً وہ آپ ہی کے ماتحت ہیں اور آپ کو اُن سے کام لینا چاہئیے.(۴) اس وقت قادیان میں قریباً دو درجن دیہاتی مبلغ ہیں.ان لوگوں
4.کو کوشش کر کے دہلی پہنچا یا جائے اور وہاں سے آگے سہندوستان کے مختلف علاقوں میں جہاہا احمدیہ جماعتیں قائم ہیں پھر بلا دیا جائے.یہ لوگ وہاں جا کر نہ صرف موجودہ جماعتوں کی تنظیم کریں با کمه جماعت کو وسیع کرنے کی کوشش کریں.چونکہ آپ لوگ انڈین اپنین ہیں ہیں اور وفادار شہریوں کی حیثیت میں ہیں کوئی وجہ نہیں کہ حکومت آپ میں اور دوسرے کام کرنے والے لمانوں میں کوئی فرق کرے.ان جانے والوں کے بدلے میں ہندوستان کی جماعتوں میں تحریک کر کے نئے واقفین بلوا کے قادیان میں رکھے بہائیں جو قادیان میں آکر تعلیم حاصل کریں اور پھر بیرونی جماعتوں میں پھیلا دیے لئے جائیں.سر دست اگر جلسہ میں کچھ احمد ہی باہر سے آکر شامل ہوئے ہیں تو اُن کے ساتھ پانچھ دیہاتی مبلغ بھجوا دیئے بھائیں جو مولوی بشیر احمد صاحب دہلوی کی نگرانی میں یو پی کے مختلف علاقوں میں کام کریں یو پی کی جماعتوں میں سے لکھنو ، شاہجہانپور ، اور بریلی ، آگرہ کی اچھی جن عتیں تھیں لیکن اب دیر سے ان کا پتہ ہی نہیں لگتا کہ وہ کہاں ہیں.اگر یہ لوگ وہاں جا کہ کام کریں تو نہ صرف وہ جماعتیں جلد منظم ہو جائیں گی بلکہ نئے سرے سے پھولنے اور پھلنے لگ جائیں گی.ان جانے والے مبلغین کو سمجھا دیا جائے اگر بعض جماعتیں گذشتہ صدمات کی برداشت نہ کر کے بالکل مردہ ہو چکی ہوں تب بھی گھبرائیں نہیں.ایک دو تین جتنے احمد ہی مل سکیں اُن کو جمع کر کے نئے سرے سے کام شروع کر دیں.پھر وہ انشاء اللہ یکھیں گے کہ ابھی چند دن بھی نہیں گزرے ہوں گے اور پہلے سے بھی زیادہ مضبوط جماعتیں وہاں قائم ہو جائیں گی بلکہ اردگرد کے علاقوں میں بھی احمدیت پھیلنے لگ جائے گی.یہ یاد رہے کہ سب کے سب مبلغوں کو اکٹھا نہ بھیجوایا جائے کیونکہ ممکن ہے کہ ان کے قائم مقاموں کے آنے میں دقت پیدا ہو اور قادیان کی احمدی آبادی کم ہو جائے.اس خطرہ کو آپ کبھی نہ بھولیں.اور ہمیشہ اپنے ذہن میں رکھیں.ہمیشہ پہلے باہر سے آنے والوں کو اندر لایا کریں اور پھر بعض دوسروں کو باہر جانے کی اجازت دیا کریں سوائے اُن پانچی کے تین کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے.(۵) چونکہ اب ملک میں ہند کا گاز در ہو گا اس لئے آپ لوگ بھی دیوناگری رسم الخط کے سیکھنے کی کوشش کریں اور ہندی زبان میں لٹریچر کی اشاعت کی طرف خاص توجہ دیں (4) جب تک باہر سے واقفین کے آنے کی پوری آزادی نہ ہو یہ بھی ہو سکتا ہے نگرانی میں سب سے اول یو پی کی تنظیم نو کا کام شروع
91 کہ کچھ طالب علموں کو مولوی بیشہ احمد صاحب اپنے ساتھ لکھ کر دہلی میں پڑھائیں اور کچھ طالبیٹیوں کو ساتھ رکھ کر مولوی محمد سلیم صاحب کلکتہ میں پڑھائیں اور کچھ طالب ہوں کو ساتھ رکھ کر موادی عبدالمالک صاحب حیدر آباد میں پڑھائیں اور پھر ان کو ارد گرد کے علاقوں میں پہیہ چلے جائیں لیکن یہ مد نظر رکھا جائے کہ ہندوستان کے چندوں سے ہندوستان کا فرق ہے ، سکے اور نادیان کی آبادی کا خرچ بھی وہیں سے نکل سکے.(6) قادیان میں احمدیوں کے آنے اور قادیان کے احمدیوں کو ہندوستان یونین میں جانے کے متعلق آزادی کرانے کے لئے آپ لوگ با قاعدہ کوشش کریں اور کوشش کرتے پہلے بھائیں تاکہ قادیان میں پھر زائرین آنے لگ جائیں.اور قادیان کی نہر ایک کھڑے پانی کے جوہر کی سی شکل اختیار نہ کرہ ہے.(۸) آبادی کی زندگی کے لئے عورتوں اور بچوں کا ہونا بھی ضروری ہے.آپ لوگ متواتر کا دستہ کے ساتھ خط و کتابت کریں اور کوشش کریں کہ ایسے حالات پیدا ہو جائیں کہ قادریانا کے سالہ ان کے بیوی بچے وہاں حفاظت کے ساتھ رہ سکیں.(4) جونہی قادیان میں کچھ ایسے نوجوان آجائیں جن کا تعلیم پانے کا زمانہ ہو تو تدلاً ایک سال کی بنیاد رکھ دی جائے جس کے متعلق کوشش ہو کہ وہ آہستہ آہستہ بڑھتا چلا جائے.(۱) ہند بستان یونین کی صدر انجمن حمدیہ نے ایک دن کے لئے بھی ہندوستان نہیں چھوڑا.اسی طرح وہاں کی تحریک بدید انہن بھی ہیں ہے.یہ انجمنیں قادیان کی جائداد کا مطالبہ کر سکتی ہیں.آپ کو بڑے سے زور سے اس امر کا مطالبہ کر نا چا ہیئے.افراد کی مہانداد کا بے شک جھگڑا ہو لیکن صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید تیم که مند دستان یونین میں موجود ہیں تو کیوں حکومت اُن کے بعد اُن کی بھا یاد نہ کرے.کالج ، سکول، ہسپتال ریتی چھلہ ، زنا نہ سکول، دارالانوار کا گیس ، بادس ، خدام الاحمدیہ کے دفاتر ، تحریک جدید کی زمینیں ، ان کے مالک قادیان میں بیٹھے ہے.آپ لوگ اس کے متعلق دعوی کریں اور ان افظوں میں کریں کہ جبکہ ان جگہوں کے مالک مدر انجمن احمدیہ ، تحریک جدید اور خدام الاحمدیہ آبادیان میں موجود ہیں اور سمیکہ ان جگہوں سے فائدہ اُٹھانے والے احمد کی ہندوستان یونین میں موجود ہیں تو کس قان کے ماتحت ان
۹۲ چیزوں پر قبضہ کیا گیا ہے.یہ چیزیں ہمارے سپرد ہونی چاہئیں اور ہمیں ان کے استعمال کا موقع دینا چاہیے یہ عقل کے ساتھ اور ادب کے ساتھ اگر ان مطالبات کو حکام کے سامنے بار بار رکھا جائے اور ان پر یہ روشن کیا جائے کہ ہندوستان یونین کے احمدی ہندوستان یونین کے وفادار ہیں جس طرح پاکستان کے احمدی پاکستان کے وفادار ہیں پھر ان سے باغیوں کا سا سلوک کیوں کیا جاتا ہے تو یقیناً حکومت ایک دن اپنا رویہ بدلنے پر مجبور ہوگی.(11) جب تک پر لیں نہیں ملتا اس وقت تک جماعتوں کے نام چھٹی لکھ کر ہر پندرھویں روز بھیجوانا شروع کریں جس میں جماعتوں کو اُن کے فرض کی طرف توجہ دلائی جائے.اگر عہدہ داران جنگہ چھوڑ گئے ہیں تو نئے عہدہ دار مقرر کرنے کی طرف تو بقیہ دلائی جائے.اگر عہدہ دار عہدوں پر موجود ہیں لیکن کام نہیں کرتے تو اُن کو کام کرنے کی طرف تو تہ دلائی جائے.اگر بالکل بیدار نہیں ہوتے تو اُن کو بدلنے کی طرف توجہ دلائی جائے.قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَدَ كُرُ ان نَفَعَتِ الذکری.اگر آپ پیچھے پڑ جائیں گے تو یقینا ایمان کی پنگاری پھر سلگ اٹھینگی سونے والے پھر بیدار ہو جائیں گے بلکہ مردے بھی زندہ ہو جائیں گے اور پھر تم و تازگی اور نشو و نا کے آثار ظاہر ہو نے لگ بھائیں گے.آپ تین سو سے زیادہ آدمی وہاں ہیں.اگر ان میں سے تھا آدمی کا خط پڑھے بجانے کے قابل ہو اور ہر چھٹی تین تین سو کی تعداد میں باہر بھیجی جائے تو ہر لکھے پڑھے آدمی کو پندرہ دن میں صرف تین چھٹیوں کو نقل کرنا پڑتا ہے اور یہ کوئی بڑا کام نہیں.ان پیٹھیوں میں ایمان کو اُبھارنے یا زندگی کو قائم رکھنے ، ہمت سے کام لینے اور خدا تعالیٰ کے اُن بے انتہا فضلوں میں حصہ لینے کی دعوت ہو جن کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وعد کیا گیا تھا.طرح طرح سے اور بار بار جماعتوں کو ہلایا جائے ، جگایا جائے اور نہ صرف ہلایا اور گایا جائے بلکہ تبلیغ کر کے اپنے آپ کو وسیع کرنے کی طرف توجہ دلائی جائے.اس وقت مسلمان بے کسی کی حالت میں پڑا ہے.اس وقت وہ سچائی پر غور کرنے کے لئے تیار ہے.وہ اس ہاتھ کے لئے ترس رہا ہے جو اس کو پکڑ کر سنعات کی طرف لے جائے.اگر آج آپ لوگ سے اس حکم کی تعمیل میں ۲۶ فتح ادسمبر کے اجلاس دوم میں جماعت ہائے احمدیہ ہندوستان کی طرف سے اتفاق رائے کے ساتھ ایک ریزولیوشن بھی پاس کیا گیا ؟
۹۳ صحیح طور پر جماعتوں کو بیدار کرنے کی طرف توجہ کریں تو ہندوستان میں احمدیت کے پھیلنے کا بے نظیر موقع ہے.سردست مولوی بشیر احمد صاحب یوپی کی جماعتوں کو منظم کریں اور یوپی کے تمام چندے سوائے تحریک تجدید کے چندہ کے جو غیر ملک کی تبلیغ پر خرچ ہوتا ہے قادیان بھجوائیں آپ لوگ باقاعدہ خط و کتابت کے ذریعہ سے ہمیں بتاتے رہیں کہ فلاں فلاں جماعت منظم ہو گئی ہے اور ان کا چندہ قادیان میں آنے لگ گیا ہے تا ایسا نہ ہو کہ دو عملی کی وجہ سے کوئی جماعت بالکل تباہ ہو جائے.جب آپ یو پی کی جماعتوں کو منظم کر لیں گے تو ہم دوسر کھو جوں کو باری بادی آپ کے سپرد کرتے چلے جائیں گے.خلاصہ کلام یہ ہے کہ اب خاموشی سے جھنڈے کو پکڑ کر کھڑے رہنے کا وقت گزر ہوگا.وہ کام آپ نے شاندار طور پر کیا جس کے لئے دنیا بھر کے احمدی آپ لوگوں کے ممنون ہیں اور آنے والی نسلیں بھی آپ کی ممتون رہیں گی.مگر انسان ایک بڑھنے والی ہستی ہے.ہر روز اس کے حالات متغیر ہوتے ہیں اور سر روز کے بدلے ہوئے حالات کے مطابق اسے کام کرنا پڑتا ہے کل کی روئی آج کام نہیں آسکتی اور آج کی روٹی آنے والے کل کام نہیں آسکتی.پس وہ عظیم الشان خدمت جس کے کرنے کی اللہ تعالیٰ نے آپ کو توفیق بخشی ہے.اس کا تقاضا ہے کہ آپ اب اگلا قدم اُٹھائیں اور قادیان کے خاموش مرکز کو ایک زندہ مرکز میں تبدیل کر دیں، بہندوستان یونین کی آباد کی ۲۸-۲۹ کروڑ کے قریب ہے.اس کی اصلاح اور اس کی نجات کوئی معمولی کام نہیں ، کسی زمانہ میں ساری دنیا کی آبادی اتنی ہی تھی.پس آج سے سینکڑوں سال پہلے ساری دنیا کی اصلاح کا کام جتنا اہم تھا اتنا ہی آج ہندوستان کی اصلاح کا کام اہم ہے جین لوگوں کو خدا تعالٰی نے قادیان کی چھوٹی سی بستی کو بڑھا کہ ایک سعی و عمل کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر بنانے کی توفیق بخشی وہ بھی انسان تھے اور آپ بھی انسان ہیں آپ اپنے آپ کو افراد کی حقیقت میں دیکھنا چھوڑ دیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً (النمل ) ابراہیم ایک اُمت تھا.جو لوگ خدا تعالے پر نظر رکھتے ہوئے اس کی عائد کردہ ذمہ داریوں کو سمجھتے ہیں وہ اپنے آپ کو فرد سمجھنا چھوڑ دیتے ہیں.ان میں سے ہر شخص اپنے آپ کو امت سمجھتا ہے اور اُن میں سے بعض شخص تو اپنے آپ کو دنیا سمجھتے ہیں.آپ لوگ بھی اور وہ
पे دوسرے دوست بھی جو باہر سے اس وقت قادیان میں تشریف لا سکے ہوں وہ بھی آج سے اپنا نقطہ نگاہ بدل دیں.آج سے ان میں سے ہر شخص اپنے آپ کو اُمت سمجھنے لگ جائے.وہ یہ سمجھے لے کہ جس طرح آم کی گھٹی میں سے ایک بڑا درخت پیدا ہو جاتا ہے ، جس طرح بڑ کے چھوٹے سے بیچ میں سے سینکڑوں آدمیوں کو سایہ دینے والا بڑا پیدا ہو جاتا ہے ، اسی طرح وہ اُمت بن کہ رہے گا.وہ ہندوستان کے گوشہ گوشہ میں اپنی نسلیں پھیلا دے گا.وہ منانوش قربانی کی جگہ اب اصلاح کے لئے اپنی قربانی کو پیش کرے گا.ہندوستان اس بات کا متقاضی ہے کہ اس کے اندر پھر سے انسانیت کو قائم کیا جائے.پھر سے صلح اور آشتی کو قائم کیا جائے پھر سے خدا تعالے کی محبت اس کے دل میں پیدا کی جائے اور یہ کام سوائے آپ لوگوں کے اور کوئی نہیں کر سکتا.عزم میم کے ساتھ اُٹھیں.طوفان کا سا جوش لے کر اٹھیں اور ہندوستان پر چھا جائیں جس کا نتیجہ ضرور یہ نکلے گا کہ وہ لوگ جو آج احمدیت کو بغض اور کینہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ایک دشمن کی حیثیت میں دیکھتے ہیں وہ اور اُن کی نسلیں آپ لوگوں کے ہاتھ چومیں گی.آپ لوگوں کے لئے برکتیں مانگیں گی اور دعائیں دیں گی کہ آپ لوگ اس بدقسمت ملک کو امن دینے والے اور صلح ، ور آشتی کی طرف لانے والے ثابت ہوئے استریت ایک نور ہے.احمدیت صلح کا پیغام ہے.اسمیت امن کی آواز ہے.تم اس ٹور سے دنیا کو منور کردہ تم اس پیغام کی طرف لوگوں کو بلاؤ.تم اس آواز کو دنیا کے گوشہ گوشہ میں بلند کرد و خدا تمہارے ساتھ ہو.خاکسالہ مرزا محمود احمد " مکتوبات اصحاب احمد علیہ السلام جلد اول مرتبہ ملک صلاح الدین صاحب ایم اے قادیان (بھارت) صفحہ ہم تا ۵ ۵ طبع اول مطبوع اگست ۵۳ دار ۲۲ فتح سمر بش کو قصر خلافت کی بالائی منزل میں صدر امین احمدیہ قادیان کا ایک اجلاس منعقد کیا گیا جس میں حضرت مصلح موعود کے اس انقلاب انگیز پی ام کی روشنی میں مناسب تجاویز زیر غور لائی گئیں اور نئے تقاضوں کے مدنظر ضروری مشورے کئے گئے ؟
۹۵ احباب جلسہ کے نام حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد حضر مصلحبزادہ مرزا بشیر صاحب کا پیغام صاحب نے درج ذیل پیغام دیا :.رو بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسوله الكريم وعلے عبد السيح الموعود هوالت امی ات احباب قاریان ! خدا آپ کے ساتھ ہو اور آپ کو بہترین فصلوں کا وارث بنائے.آمین ثم آمین.میں آپ کی خدمت میں جلسہ سالانہ سا ۹۴ مٹہ کے مبارک اور تاریخی موقعہ پراپنی طرف سے اور پاکستان کے جملہ احمدیوں کی طرف سے اکسلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ کا تحیہ پیش کرتا ہوں.گذشتہ انقلابی فسادات کے بعد قادیان میں جماعت احمدیہ کا یہ دوسرا سالانہ جلا ہے اور طبعاً اس جلسہ کا خیال ہو در اصل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کی مقدس یادگار ہے.ہمارے دلوں میں کئی قسم کے جذبات پیدا کر رہا ہے.مگر ہم خدا کے فضل سے مومن ہیں اور ہر مومن کا یہ کام ہے کہ وہ جذبات کے ہیجان کو غم و اندوہ اور مایوسی کے راستہ کی طرف ڈالنے کی بہائے بیش از بیش قوت عمل میں منتقل کرنے کی کوشش کرے.اور پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ خواہ قادیان کی یاد کتنی ہی شدید ہو اور اس کی کشش کیسی ہی زبر دست سمجھی جانے ، بہر حال جماعت کا سب سے مقدم کام اس غرض و غایت کو پورا کرنا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی بعثت کے ساتھ وابستہ ہے.اور میں اس موقعہ پر آپ لوگوں کو یہی پیغام دینا چاہتا ہوں کہ جہاں قادیان سے باہر آئے ہوئے احمدیوں کا یہ کام ہے کہ وہ فریضہ تبلیغ کے ادا کرنے کے ساتھ ساتھ خدمت مرکز کے کام میں بھی کوشاں رہیں وہاں اہل قادیان کا یہ فرض ہے کہ وہ قادیان میں بظاہر قاعد بن کر بیٹھے ہوئے بھی اس مجاہدانہ مقصد کی طرف سے غافل نہ ہوں میں کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسّلام مبعوث کئے گئے تھے.گویا جماعت کے دونوں حصوں کو دونوں قسم کے فرائض کی طرف بہ یک وقت توجہ رکھنی چاہئیے.گو زیادہ اہم مقصد بہر حال زیادہ توجہ کا حقدار ہے.آپ لوگ یہ خیال نہ کریں کہ قادیان میں محصور ہو کر بیٹھے ہوئے آپ
۹۶ فریضہ تبلیغ کس طرح ادا کر سکتے ہیں کیونکہ خدا نے مومن کے لئے ہر حال میں کسی نہ کسی جدیت سے ہر عمل صالح کا رستہ کھول رکھا ہے اور یقیناً اگر آپ چاہیں اور میں جانتا ہوں کہ آپ ضرور چاہتے ہیں، موجودہ وقت میں بھی ذیل کے تین طریق پر اپنے فریضے سے عہدہ برآ ہو سکتے ہیں :- (اول) ان شریعت مزاج اور سنجیدہ غیر مسلموں کو تبلیغ کر کے جو آپ کے ارد گرد رہتے ہیں یا آپ سے ملنے کے لئے آتے رہتے ہیں.اور آپ یقین رکھیں کہ مظلوم اور بے کہیں انسان کی تبلیغ میں ہمیشہ زیادہ اثر ہوا کرتا ہے.(دوم) دینی اور اخلاقی لحاظ سے اعلیٰ نمونہ قائم کر کے ، کیونکہ اچھا نمونہ ایسی چیز ہے جو دشمنوں تک کا دل موہ لیتا ہے اور بسا اوقات سیاسی لحاظ سے غالب انسان اخلاقی اور دینی لحاظ سے مغلوب ہو جایا کرتا ہے.(سوم) جماعت کی ترقی اور اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے خدا کے حضور دعائیں کر کے ، کیونکہ جب مؤمن ظاہری اسباب کے لحاظ سے لیے دست و پا ہو جاتا ہے تو خدا کا یہ ازلی قانون ہے کہ ایسے حالات میں اس کی دُھا کی تاثیر ہمیشہ بڑھ جایا کرتی ہے.پس یہ تین ایسے آسان اور موثر طریقہ ہیں جنہیں اختیار کر کے آپ قادیان کی موجودہ محصوریت کی زندگی میں بھی فریضہ تبلیغ ادا کر سکتے ہیں اور اپنی اہم ذمہداری سے عہد پر ہو سکتے ہیں.آپ کو یہ نکتہ کبھی نہیں بھولنا چاہئیے کہ یہ ایک متک جسم اور روح ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور ایک کی قرات دوست کی طاقت کا ذریعہ بنتی ہے وہاں یہ بھی سندرا کا امل قانون ہے کہ ایک خاص حد کے بعد ان دونوں کے رستے جن کے جدا ہو جاتے ہیں یعنی اس خاص حد کے بعد جسم کی طاقت روح کی کمزوری اور جسم کی کمزور کی روح کی طاقت کا ذریعہ بن بھاتی ہے.اسی لئے باوجود اس کے کہ اسلام نے رہبانیت یعنی تارک الدنیا ہونے کو نا جائز قرار دیا ہے وہاں اس نے بعض موقعوں پر ایک بروی قسم کی رہبانیت کی اجازت بھی دی ہے بلکہ صرف اجازت ہی نہیں دی بلکہ اسے پسند کیا اور اس کی تحریک فرمائی ہے.چنانچہ رمضان کے مہینے میں اعتکافت کا عشرہ اسی قسم کی جنہوی رہبانیت کا منظر پیش کرتا ہے کہ جب انسان گویا دنیا کے تمام تعلقات سے کٹ کر خالصتہ روحانی فضاء میں اپنا وقت گزارتا ہے اور ان ایام میں اس بات کے سوا اُس کا کوئی مقصد نہیں ہوتا کہ اپنے جسم کو بھول
96 کو روح کو روشن کرتے میں منہمک رہے.اور ایک طرح سے اس قسم کی کیفیت حج میں بھی پائی جاتی ہے جس میں انسان گویا اپنے مادی تعلقات کو کاٹ کر صرف خدا کے لئے یہ ایام گذارتا ہے اور اس قسم کا ماحول یقیناً روح کی ترقی اور اُس کی بلندی اور اس کے بلا کا موجب ہوتا ہے.یہی کیفیت آپ کے لئے قادیان کی موجودہ زندگی نے پیدا کر دیا ہے کیونکہ آسمیل وہاں آپ اپنے بیوی بچوں سے بھیدا، اپنے کاروبار سے کئے ہوئے ، اپنے ہر قسم کے دنیوی تعلقات سے دُور پھینکے ہوئے زندگی کے دن گزار رہے ہیں.یہ زندگی یقیناً اپنے بعض پہلوؤں کے لحاظ سے قیم کے لئے تکلیفہ وہ ہو گی.مگر آپ کو مبارکہ، ہو کہ یہی زندگی آپ کی دونوں کے لئے ایک ایسے خوشگوار مرغزار کاحکم رکھتی ہے جو اں مومن کی روح گویا خوشی کے ساتھ کھیلیں بھرتی ہوئی فرشتوں کی رفاقت اور خدا کے سایہ میں اپنا وقت گزارتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غار حرا میں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہوشیار پور کے ایک دور افتادہ کھنڈر مکان میں خود موقعہ کاش کہ کے مفلوت کی جگہ ڈھونڈی اور آپ جانتے ہیں کہ یہ دونوں صورتیں دنیا میں کسی عظیم انسان روحانی انتشار کا موبیہ بے بن گئیں.پس میرے دوستو! آپ کے لئے ہو موقعہ خود خدا نے ایک قسم کی وقتی اور جزوی رہبانیت کا پیدا کر دیا ہے اسے غنیمت سمجھو اور اپنی دعاؤں اور نوافل اور بہار نفس اور پاک نمونہ سے اُن بھاری تغیرات کو قریب تر لے آؤ ہو آسمان پر تو مقدر ہیں مگر ابھی تک زمین پر ظاہر نہیں ہوئے.گذشتہ سال کے غیر معمولی حادثات اور قیامت خیز انقلابات میں بھی ہمارے لئے اللہ تعالے کی خاص رحمت کا یہ ممتاز پہلو موجود ہے کہ یا یہود اس کے کہ جماعت کے بیشتر حصہ کو قادیان سے نکلنا پڑا قادیان کے وہ خاص مقدس مقامات جنہوں نے حضرت مسیح موعود عليه الصلواۃ والسلام سے براہ راست برکت حاصل کی لینی مسجد مبارک امسجد اقصی مینارہ ایسے بیت الدعاء ، دار اسیح ، مقبره بهشتی و غیره وہ سب ابھی تک خدا کے فضل سے جماعت احمدیہ کے قبضے میں ہیں اور آپ لوگوں کو ان کی خدمت کا شرف حاصل ہوا ہے اور اس طرح جماعت کو یہ موقعہ میسر آ گیا.ہے کہ اس کا ایک حصہ باہر آ کر تبلیغ کی جد وجہد میں مصروف ہے، اور دوسر حصہ مرکز میں بیٹھ کر مقدس مقامات کی خدمت بجا لا رہا ہے.یہ وہ خصوصیت ہے جو مشرقی
پنجاب کے کسی اور مقام کو حاصل نہیں ہوئی.مگر اس خصوصیت کی قدر کو دوبالا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہر حصہ اپنی خدمت کے مخصوص پہلو کے ساتھ ساتھ جہانتک اس کے لئے ممکن ہو دوسرے پہلو کو بھی مد نظر رکھے.یہ مت خیال کرو کہ ان فرائض کی ادائیگی میں حکومت کی طرف سے کوئی روک ہو سکتی ہے.دنیا کی کوئی متمدن حکومت فریضہ تبلیغ کی پرامن ادائیگی اور مقدس مقامات کی خدمت میں روک نہیں ہو سکتی.یہ وہ بنیادی حقوق انسانی ہیں جسے حکومت ہند نے بھی اپنے بار بار کے اعلانوں میں صراحت کے ساتھ تسلیم کیا ہے لیکن بہر حال قرآن شریعیت کے اس سنہری اصول کو مد نظر رکھنا ضروری ہے کہ اُدْعُ إلى سَبیلِ رَبِّكَ بِالكُرَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ رَجَادِ لَهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ یعنی اپنے رب کے راستہ کی طرف حکمت اور عمدہ انداز نصیحت کے طریق پر دعوت دو اور بحث اور مجادلہ کی صورت میں کبھی پسندیدہ اسلوب کو نہ کھوڑو کیونکہ اس طرح تم فریق ثانی کے دل کی کھڑکیوں کو زیادہ آسانی کے ساتھ کھول سکو گے.خدا کے فضل سے اب آہستہ آہستہ نارمل حالات پیدا ہو رہے ہیں اور مہارا فرض ہے کہ حالات کے اس تغیر سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اُن ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ دیں جو خدا نے ہم پر عائد کی ہیں.باقی اگر کوئی فرد اب بھی آپ لوگوں کے ساتھ جاہلانہ انداز میں پیش آتا ہے تو اس کے لئے اسلام کی صاف صاف تعلیم موجود ہے کہ اِذا خَاطَبَهُمُ الجَاهِلُونَ قالوا سلاما احمدیت کی تحریک غدا کے فضل سے ایک عالم یہ تحریک ہے جو اپنے منبع و ماخذ کی طرح تمام قیود زمانی و مکانی سے آزاد ہے کیونکہ احمدیت کی غرض و غایت اسلام کی تجدید اور دلائل وبراہین کی مد سے اسلام کی اشاعت ہے اور اسلام وہ مذہب ہے جو قیامت تک کے لئے اسود و احمر کی ہدایت کے واسطے قائم کیا گیا ہے.پس اسلام کی طرح احمدیت کے لئے مرت پاکستان اور ہندوستان کا سوال نہیں ہے بلکہ ہر ملک اس کا گھر اور ہر خطہ ارض اس کا آتشین ہے اور یقیناً جماعت احمدیہ کے افراد جہاں بھی ہوں گے اپنے ملکی قانون کے پابند اور پرین شہری بن کر رہیں گے.مگر ذمہ داریاں ہمیشہ دوہری ہوا کرتی ہیں یعنی جہاں ملک اپنے شہریوں پر کچھ پابندیاں لگاتا ہے وہاں وہ لازماً اپنے اوپر بھی اُن کے بعض حقوق تسلیم کرتا ہے.پس
49 اپنی حکومت کے حقوق اسے دو اور ضرور دو.مگر دوسری طرف اپنے حقوق بھی اس سے لو اور ضرور ہو.اور چونکہ ہمارے حقوق در اصل سب خدا کے حقوق ہیں اس لئے ہم مسیح : مری کے مشہور الفاظ میں کھ سکتے ہیں تو قیصر کا ہے وہ قیصر کو دو اور جو خدا کا ہے وہ تعدا کر دو کہ یہی دینا ودنیا میں حقیقی امن کا راستہ ہے.میں اس موقعہ پر اس بات کے اظہار سے بھی تک نہیں سکتا کہ قریباً آٹھ نو ماہ سے جہاں تک نمادیان کا تعلق ہے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ہر قسم کے کانوائے کا سلسلہ لگا ہوا ہے اس لئے قادیان کی موجودہ آبادی کا وہ حصہ جو در اصل پاکستان کا شہری ہے یعنی وہ اپنے مقدس مرکز کی زیارت اور اپنے مقدس مقامات کی خدمت کے لئے قادیان گیا اور پھر حالات کی مجبورکی کی وجہ سے ابھی تک واپس نہیں آسکا، وہ تقدمت مرکز کی روحانی خوشی کے ساتھ ساتھ طبعاً بعض جسمانی تکالیف اور پریشانیوں کا بھی شکارہ ہو رہا ہے.ہم حکومت کے متعلقہ حکام کے ذریعہ اس بات کی مسلسل کوشش کر رہے ہیں کہ ایسے دوستوں کو واپس آنے کا موقعہ مل جائے اور ان کی جگہ وہ دوست قادریان پہلے جائیں جو قادیان کے باشندے ہیں، اور اپنے مرکز میں واپس جا کر مخدمت دین کا موقعہ حاصل کرنا چاہتے ہیں.مگر افسوس ہے کہ انتہائی کوشش کے باد یو د ابھی تک اس معاملہ میں کامیابی حاصل نہیں ہو سکی.اس بات کے تو کہنے کی ضرورت نہیں کہ ان دوستوں اور ان کے عزیزوں کے ہتھے ہمیں دلی ہمدردی ہے مگر میں یہ بات تو ضرور کہوں گا کہ جب تک ہمیں اس معاملہ میں کامیاب نہیں ہوتی ایسے دوست قادیان کے قیام کو ایک نعمت خیال کرتے ہوئے اس سے پورا پورا فائدہ اٹھا نے کی کوشش کریں.انہیں وہ متوجہ عام ہے جو احمدیت کی تاریخ میں ہمیشہ یاد گار رہنے والا ہے اور انشاء اللہ ان کی آئندہ نسلیں ان کے رانا وقت کی خدمت کا قیامت تک فخر کے ساتھ ذکر کیا کریں گی اور بہرحال یہ ایک مادرانی جُدائی ہے.وَجَلَّ الْقَلَمُ بِمَا هُوَ كَائِن ، اور پھر مومن کی روح تو جسم کی برائی میں بھی قرب کا لطف حاصل کر لیا کرتی ہے.یہ الفاظ میں نے صرف احتیاط کے طریق پر ہر رنگ کی طبیعت کو مد نظر رکھ کر لکھتے ہیں ورنہ حق یہ ہے کہ قادیان کے دوستوں کی طرف سے میں قسم کی تشہیت اور فدائیت اور رضاء و محبت اور صبر و سکون کے خطوط مجھے ہر روزہ
100 پہنچتے رہتے ہیں وہ میرے لئے با عث خوشی ہی نہیں بلکہ حقیقتاً باعث فخر ہیں.بھائیو ! آپ میں سے بعض میرے عزیز ہیں بعض دوست ہیں اور بعض بزرگ بھی ہیں.ہاں رہی بزرگ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ابتدائی زمانہ میں حضور کی صحبت سے فیض پایا اور پھر اب تک اسی مئے عشق سے بیش از پیش سرشار چلے آتے ہیں.خدا آپ کی صحتوں اور عمروں میں برکت عطا کرے اور میں طرح اس نے آپ کی روحوں کو بلند کیا ہے اسی طرح وہ آپ کی زندگیوں کو بھی لمبا فرمائے تاکہ یہ ظاہر کے ٹوٹے ہوئے پیوند پھر اس دنیا میں بل بھائیں جس طرح کہ وہ عالم ارواح میں اب بھی ملے ہوئے ہیں.مگر غیب کا علم صرف بخدا کے ہاتھ میں ہے اور وہی اس بات کو جانتا ہے کہ اس دنیا میں کس کی ملاقات مقدر ہے اور کس کی نہیں.پس اے ہمارے قادیان کے بھائیو! میں اور ہمارے پاکستانی بھائی آپ سب کو خدا کے سپرد کرتے ہیں وہی خدا جس کی رحمت اور شفقت کے پروں کے نیچے ہم سب کا مشترک کیا ہے.واخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ.والسلام خاکسار مرزا بشیر احمد ان قادیان حال رتن باغ لامپور ۲۰ دسمبر ۱۹۴۸ و سامی ۲۰ حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا نے اس موقعہ پر حسب ذیل پیغام حضرت ام المومنین کا پیغام بھجوایا."السلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ مجھے آپ کی طرف سے درخواست پہنچی ہے کہ میں قادیان کے جلسہ سالانہ کے موقعہ پر آپ کو کوئی پیغام بھیجوں.سو میرا پیغام یہی ہے کہ میں آپ سب کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھتی ہوں اور یقین رکھتی ہوں کہ آپ بھی مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھتے ہوں گے کہ ایک دوسرے مکتوبات اصحاب احمد علیہ السلام میلاد اول " مرتبہ ملک صلاح الدین صاحب ایم.اسے قادیان (بھارت) بار اول مطبوعہ اگست ۱۹۵۳ از صفحه ۸۳ تا ۲۸۸
10 کے متعلق مومنوں کا سب سے مقدم فرض مقرر کیا گیا ہے.آپ لوگ بہت خوش قسمت میں کہ گذشته فسادات اور غیر معمولی حالات کے باوجود آپ کو خدا تعالٰی نے قادیان میں ٹھہرنے اور وہاں کے مقدس مقامات کو آباد رکھنے اور خدمت بجا لانے کی توفیق دے رکھی ہے.میں یقین رکھتی ہوں کہ آپ لوگوں کی یہ خدمت خدا کے حضور مقبول ہوگی اور احمدیت کی تاریخ میں ہمیشہ کے لئے مخاص یاد گار رہے گی.یں اور میں بیاہی جا کر قادیان میں آئی اور پھر خدا کی مشیت کے ماتحت مجھے ۱۹۴۷ء میں قادیان سے باہر آنا پڑا.اب میری عمر انٹی سال سے اوپر ہے اور میں نہیں کہہ سکتی کہ خدائی تقدیم میں آئندہ کیا مقصد ہے.مگرہ بہر حال میں اپنے خدا کی ہر تقدیر پر راضی ہوں اور یقین رکھتی ہوں کہ خواہ درمیانی امتحان کوئی صورت اختیار کرے قادیان انشاء اللہ جماعت کو ضرور واپس ملے گا مگر خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو موجودہ امتحان کو صبر اور معلوۃ کے ساتھ برداشت کر کے اعلیٰ نمونہ قائم کریں گے.چند دن سے قادیان مجھے خاص طور پر زیادہ یاد آرہا ہے.شاید اس میں جلسہ سالانہ کی آمد آمد کی یاد کا پر تو ہو یا آپ لوگوں کی اس دلی خواہش کا مخفی اثر ہو کہ میں آپ کے لئے ہیں موقعہ پر کوئی پیغام لکھ کر بجھواؤں.میری سب سے بڑی تمنا یہی ہے کہ جماعت ایمان اور اخلاص اور قربانی اور گل صالح میں ترقی کرے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش اور دعا کے مطابق میری سیمانی اور روحانی اولاد کا بھی اس ترقی میں وافر حصہ ہو.آپ لوگ اس وقت ایسے ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں جو خالصتا روحانی ماحول کا رنگ رکھتا ہے.آپ کو یہ ایام خصوصیت کے ساتھ دعاؤں اور نوافل میں گزار نے چاہئیں اور عمل صالح اور باہم اخوت و استحاد اور سلسلہ کے لئے قربانی کا وہ نمونہ قائم کرنا چاہیئے جو صحابہ کی یاد کو زندہ کرنے والا ہو.بخدا کو سے ایسا ہی ہو.آمین ! (دستخط) أم محمود رتن باغ لاہور - ۱۸ دسمبر ۱۹۹۵ ۱۹۵ لم ه رساله درویشان قادیان شائع کرده بزم در ویشان قادیان و میره از صفحه ۱۷ و بقیه به صفحه ۰۱۰
١٠٢ انبار تیم ایران این ایل وو ، حضرت ام المومنین اور حضرت مرزا پر سوز اور درد انگیز کلام البشیر احمد صاحب کے ایمان پرور پیغامات کے علاوہ اس جس میں پرسوز حضرت سیدہ تو آب مبارکہ بیگم صاحبہ کی ایک پر سوز اور تڑپا دینے والی نظم بھی دیو خاص اس تقریب کے لئے درویشان قادیان کو مخاطب کر کے کہی گئی تھی، پڑھی گئی جس کو سنتے ہی آنسوؤں کی گویا جھڑیاں لگ گئیں.ہر آنکھ اشکبار ہوگئی اور ہر دل درد اور رقت سے بھر گیا.یہانتک کہ غیر مسلم بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے.نظم یہ تھی.خوشا نصیب !! کہ تم قادیاں میں رہتے ہو دیار مہدی آخر زماں میں رہتے ہو قدم مسیح کے جس کو بنا چکے ہیں حرم تم اس زمین کرامت نشاں میں رہتے ہو سندا نے بخشی ہے " الدار کی نگی مانی اُسی کے حفظ اُسی کی اماں میں رہتے ہو فرشتے ناز کریں جس کی پہرہ داری پر ہم اس سے دور ہیں تم اس مکان میں رہتے ہو فضا ہے جس کی معطر نفوس عیسی اسی مقام فلک آستان میں رہتے ہو نہ کیوں دلوں کو سکون و سرور ہو حاصل که قرب خطہ رشک جناں میں رہتے ہو تمہیں سلام و دُعا ہے نصیب صبح وما جوار مرقد شاہ زمان میں رہتے ہو " شیں جہاں کی شب قدر اور دن عیدیں جو ہم سے پھوٹ گیا اُس جہاں میں رہتے ہو
١٠٣ کچھ ایسے گل ہیں جو پر مردہ ہیں جدا ہو کہ انہیں بھی یاد رکھو گلستاں میں رہتے ہو تمہارے دم سے ہمارے گھروں کی آبادی تمہاری قید یہ صدقے ہزار آزادی بلبل ہوں صحن باغ سے دور اور شکستہ پیکر پروانہ ہوں چراغ سے دور اور شکستہ پیکر " له اس با برکت جلسہ پر مندرجہ ذیل عنوانات پر تقریریں ہوئیں :- مقررین بعد خصوصیات اسلام د مولوی محمد حفیظ صاحب فاضل، تاریخ قاریان و مضمون مولوی برکات احمد صاحب جو میر رفیع احمد صاحب نے پڑھا)، احمدیت (حضرت حکیم خلیل احمد صاحب امیر جماعت مونگھیں اسلام کا اقتصادی نظام (شیخ عبدالحمید صاحب عاجز) حکومت و رعایا کے باہمی تعلقات ( مولوی عبد القادر صاحب حضرت مسیح موعود کی پیشگوئیاں (مولوی شریف احمد صاحب اتنی موجود اقوام عالم و مولوی محمد ابراہیم صاحب قادیانی) آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے اخلاق فاضلہ (مولوی بشیر احمد صاحب مبلغ وصلی، قومی استحاد (حضرت حکیم مغلیل احمد صاحب مونگیری) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق غیر مسلموں کی آراء (مولوی شریف احمد صاحب امینی) ذکر حبیب (حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی بستی باری تعالی (خواجہ محمد اسمعیل صاحب) مسئلہ جہاد ( مولوی محمد ابراہیم صاحب قادیانی) بانی سلسلہ احمدیہ اور جماعت احمدیہ کا غیر مسلموں سے سلوک (ملک سلان الاوروین صاحب ایم.اے) کے ان تقاریر کے علاوہ امیر مقامی حضرت مولوی عبد الامین صاحب جیٹ اسکیم فضل الرحمن صاحب مجاهد افریقہ اور صوفی مطیع الرحمن صاحب بنگالی صحب اہل امریکہ نے بھی حاضرین سے مختصر خطاب فرمایا له الفضل در صلح جنوری ۳۲۷ امر بش صفحه ۰۳ ر سمیر کو پاکستان سے دو موٹر کاروں پرمشتمل ایک مختصر قافلہ قادیان پہنچنے میں کامیاب ہو گیا تھا جو سلسہ میں شرکت درویشوں سے مصافحہ اور بہشتی مقبرہ میں لمبی دعا کرنے کی سعادت حاصل کرنے کے بعد اسی روز واپس چلا آیا.اس قافلہ میں حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب ، صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب امیاں مسعود احمد صاحب اور نذیر احمد صاحب ڈرائیور حضرت مصلح موعود کے علاوہ محکیم فضل الرحمن صاحب اور صوتی مطیع الرحمن صاحب
لوائے احمدیت کا لہرایا جاتا آخری دن یعنی ہو یا دسمبر کے پہلے اجلاس میں حضرت مولوی عبدار آمین فتح ا صاحب جٹ امیر مقامی نے بوائے احمدیت لہرایا.اس دوران میں احباب جماعت بنا تقبَّلَ مِنَا إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ کی ابراہیمی دعا پڑھ رہے تھے کہ ایک، درویش نے تین بار نعرہ تجر بلندکیا اور فضا اللہ اکبر کی پر شوکت آوازوں سے گونج اٹھی سمجھنڈا لہرانے کے بعد حضرت امیر مقامی نے تجدید عہد کے لئے حاضرین سے وہ الفاظ دہرائے جو حضرت مصلح موعود نے جلسہ جوابی ۱۹۳۹ء کے موقعہ پر لوائے احمدیت لہراتے وقت کہلوائے تھے.جلسہ میں لاوڈ سپیکر کا عمدہ انتظام اور خوشکن حاضری جلسہ میں لاؤڈ سپیکر کا عمدہ انتظام تھا.مقامی مجسٹریٹ سردار مولک سنگھ صاحب، ڈی ایس پی صاحب، انسپکٹر پولیس صاحب اور متعدد سب انسپکٹر شریک جلسہ رہ ہے اور جملہ تقاریہ نہایت توجہ اور و طبیعی اور دلچسپی سے سنیں.۲۷ رفتیم اوسمبر کے پہلے وقت کی کارروائی میں حاضری ساڑھے آٹھ سو کے قریب تھی جو دوسرے وقت میں چودہ سو تک پہنچ گئی جس میں ساڑھے تین سو تو احمدی تھے اور باقی سب غیرمسلم تھے جن کی تعداد ان جلسوں کی عام حاضری سے بھی بہت زیادہ تھی جو خود ہندوؤں اور سکھوں کے جلسوں میں شرکت کرتی رہی.اس طرح خدا کے فضل و کرم سے اسلام و احمدیت کی تبلیغ کا ایک ایسا اور موقع میسر آیا جو اُن دنوں مشرقی پنجاب بلکہ پورے ہندوستان میں بھی کسی دوسری مسلم جماعت کو سا عمل نہیں ہو سکتا تھا.اور تو درویشوں کے خلاف شروع سال کی تحریک مقاطعہ کا خدا تعالے کی طرف سے شاندار عملی جواب پودر آسمانی نصرتوں کا چمکتا ہوا نشان تھا.فالحمدللہ علی ذالک * البقیہ حاشیہ صفحہ گذشتہ بنگالی بالغ بریک بھی تھے.واپسی پر یہ قافلہ مسجد اقصٰی اور دار مسیح کے کنوئیں کا پانی لنگر خانہ مسیح موعود کی پچھتر روٹیاں بطور تبرک ساتھ لے گیا جس کی تقسیم کا ذکر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اپنے ایک خط میں بایں الفاظ فرمایا :- ہو پانی اور نان وہ قادیان سے کاٹے تھے وہ سب عزیزوں اور دوستوں میں تقسیم کر دیئے گئے اند بہت سے لوگوں نے اس تیرک سے حصہ پایا.میں نے دیکھا کہ جب مولوی فضل دین صاحب دوکیل قاتل، لنگر خانہ کے نان کا ٹکڑا منہ میں ڈال رہے تھے تو ان پر اس شدت کے ساتھ رقت طاری ہوئی کہ انہیں سنبھالنا مشکل ہو گیا" اور
دوسرا باب الانہ لاہور سے لے کر ۱۳۲۷ جرمنی او مستند مشن کے قیام ک
1-6 فصل اوّل ١٣ جل اللہ لاہور عیش میں حضر مصلح موعود کی ایمان افروز تقریریں -ST- جار بوده و سر متعلق اطلاع عام سال گذشتہ کی روایات کے عین مطابقی ۲۵-۲۶ فتح دسمبر پر بش کو یعنی جماعت احمدیہ رفت لاہور کا سالانہ جلسہ منعقد ہوا جس سے حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود نے دو بار خطاب فرمایا.افتتاحی تقریر حضور نے اپنی افتتاحی تقریر میں اس بنیادی نکتہ کی طرف توجہ دلائی کہ ہمارا مقصد غلبہ اسلام کی عمارت تک پہنچنا ہے.یہ مقصد عملی نمونہ کے دروازہ سے گزر کر ہی حاصل کیا جا سکتا ہے.چنانچہ فرمایا :- دنیا میں جتنے کام ہوتے ہیں ان کے کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی راستہ ہوتا ہے اور جتنے کام کرنے والے ہوتے ہیں ان کے سامنے بھی کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے.نہ ہی صحیح راستہ پہ پہلے بغیر کوئی قوم منزل پر پہنچ سکتی ہے اور نہ مقصد کے بغیر کوئی قوم یک جہتی سے کام کر سکتی ہے.
I-A 2 اس اس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یوں بیان فرمایا ہے.وَآتُوا الْبُيُونَ مِنْ ابوابھا.ہر گھر میں میں تم داخل ہونا چاہتے ہو اس کے دروازہ سے میں داخل ہو کر جاؤ یعنی ہر وہ کام جسے تم اختیار کرنا چاہتے ہو اس کے حصول کا بو طریق ہے وہ اخت سیار کرو.صحیح طریق اختیار کرنے کے بعد قوم کے پیش نظر کسی مقصد کا ہونا ضروری ہے.اگر کسی قوم کا کوئی مقصد نہ ہو تو وہ کا سیاب نہیں ہو سکتی.جس طرح دروازے میں داخل ہوئے بغیر گھر میں راضی ہونا مشکل ہے.اسی طرح اپنے مقصد کے مقرر کئے بغیر کامیابی محال ہے.لِكُلِّ تِجْعَةٌ هُوَ مُوَلّيها که بر وی مقتل شخص کا کوئی مقصد ہوتا ہے جسے سامنے دکھ کہ وہ پھلتا ہے.اسی طرح ہر قوم کا ہو کسی قانون یا تنظیم کے تحت اپنے آپ کو چلاتی ہے ؟ کوئی مقصد ہونا چاہیے.اگر بغیر مت سد کے کچھ لوگ کسی بیگہ اکٹھے ہو جائیں تو اُن میں نہ قربانی کی رُوح پیدا ہوتی ہے نہ آنا ہمت اور جوش پیدا ہو سکتا ہے نہ وہ کامیابی حاصل کر سکتے ہیں اور نہ ہی ایسا اعلیٰ پر وگرام جس پر عمل کر کے دنیا میں منہ از جگہ حاصل کر سکیں پیش کر سکتے ہیں.پس ہماری جمائت کو یہ دونوں زرین اصول کبھی نہیں بھولنے چاہئیں.ہمارا مقصد تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرما دیا ہے کہ اسلام کو دنیا میں غالب کرنا.پس ہمارا مقصد ہمارے سامنہ ہے.اسے حاصل کرنا ہمارا کام ہے..ایسا ء نیہ جو دلائل اور تعلیم کے لحاظ سے ہم دنیا کے سامنے پیش کر سکتے ہیں وہ تو قرآن کریم میں موجود ہے اور اعلیٰ تعلیم ہوں کی وجہ سے تمام مذہبی کتب سے افضل ہے اس میں موجود ہے.اور ہر شخص ہو غور کرے اس کو دیکھ سکتا ہے لیکن جب تک ان دلائل کو عملی طور پر پیش نہ کیا جائے محض دلائل سے کوئی شخص قائل نہیں ہو سکتا.لوگوں کا عام طریق ہوتا ہے کہ جب وہ دلائل سے عاجز آ جاتے ہی یا تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ بتاؤ تم نے اس تعلیم پر عمل کر کے کونسا تغیر اپنے اندر پیدا کر لیا ہے.کو نہ ما اعلیٰ مقام حاص کر لیا ہے.کو نسی فضیلت حاصل کر لی ہے بچنا نچہ آج دشمن اسی طریق سے اسلام پر طعنہ زن ہو رہا ہے.جب ہم اس کے سامنے اسلام کی تعلیم پیش کرتے ہیں تو وہ کہتا ہے بتاؤ اسلامی ممالک نے کونسی رواداری کی مثال پیش کی ہے اللہ اده البقره رکوع ۲۴ آیت ۱۹۰۰.• البقرا رکوع ۱۸ آیت ۵۱۴۹
1-9 کونسے فتنے فساد انہوں نے رفع کئے ہیں.کو نسا تغیر انہوں نے پیدا کیا ہے اور اگر انہوں نے اسلامی تعلیم پر عمل کر کے کچھ نہیں کیا تو اس تعلیم کو تم ہمارے سامنے کیوں پیش کرتے ہو.جب اس کے ماننے والے اُسے رو کر چکے ہیں تو نہ ماننے والے کیونکر قبول کریں.یہ ایسا زبر دست اعتراض ہے کہ اس کے سامنے ہمارے لئے بولنے کی کوئی گنجائش نہیں رہتی.پس ضرورت ہے کہ ہم اپنے اندر تغیر پیدا کریں اور اسلام کی تعلیم کے ساتھ عمل کا ایسا اعلیٰ نمونہ پیش کریں کہ دشمن بھی اسلام کی علمی و عملی برتری کا اقرار کرنے لگے جب تک ہم عملی نمونہ پیش نہ کریں ہم غلبہ نہیں پاسکتے.پس یہ وہ دروازہ ہے جس سے گزر کہ ہم اپنے مقصد کو پالیتے ہیں اور اسلام کے غلبہ کی عمارت میں داخل ہو سکتے ہیں.جہانتک ہمارے مقصد کا تعلق ہے وہ واضح ہے که قرآن کریم میں ہمارا فریضہ اسلام کو دو سے ادیان پر غالب کرنے میں کوشاں رہنا بیان فرمایا ہے لیکن جہانتک عمل کا سوال ہے اس میں ہم تمہید مت ہیں.فرمایا :- باتیں سننا بھی ضروری ہے اور اچھی باتیں سننی چاہئیں لیکن اب عمل کا زمانہ ہے.باتیں کم شنو اور عمل زیادہ کرو.حضرت امیر المومنین نے اپنے اختتامی خطاب میں مرکز ربوہ کے پہلے جلسہ اختتامی خطاب میں میں بکثرت آنے کی تحریک کرنے اور مرکز می چندوں اور جانی قربانیوں کی اہمیت پر روشنی ڈالنے کے علاوہ پوری قوت اور شوکت کے ساتھ خوشخبری سنائی کہ یہ قطعی اور یقینی بات ہے کہ اسلام اب آئے ہی کی طرف قدم بڑھائے گا.اب اسلام ہی کے غالب ہونے کی باری ہے اور کفر کے غالب ہونے کی باری ختم ہو چکی ہے حضور کی اس تقریبہ کا ملخص درج ذیل کیا جاتا ہے :- جیسا کہ احباب کو معلوم ہے یہ ہماری لاہور کی جماعت کا جلسہ ہے.یہ بہار مرکزی سالانہ جلسہ نہیں ہے.مرکز کی سالانہ جلسہ ہم نے اس سال اپنے نئے مرکز ریوہ میں منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے.لیکن چونکہ نئے مرکز میں جلسہ کرنے کی راہ میں ابھی بہت سی مشکلات حائل له الفضل ۶ فتح دسمبر صفحه 1
11.ہیں.اس لئے ہم نے غور و فیسکر کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس دفعہ بجائے کرسمس کے ایسٹر را پریل ۱۹۴۹ء) کی تعطیلات میں جلسہ منعقد کریں.اگر اس وقت تک اللہ تعالیٰ نے عمارتوں کی کوئی صورت پیدا کر دی تو انشاء اللہ بہتر انتظامات ہو جائیں گے.ورنہ موسم اس وقت تک اس حد تک بدل چکا ہو گا کہ اگر رہائش کے لئے مکان میسر نہ بھی ہوں تو کھلے میدان میں سویا جاسکے گا اور دن کو شامیانوں کے نیچے تقریریں ہو سکیں گی.پس چونکہ ہمیں ایسٹر کی تعطیلات میں جلسہ کرنا آسان نظر آیا اس لئے ہم نے اس دفعہ دسمبر میں اپنا مرکزی جلسہ ملتوی کر دیا ہے.لاہور کی جماعت نے اس التواء سے فائدہ اُٹھا کر اپنا جلسہ کر لیا ہے.اس سے لاہور کی جماعت نے بھی ثواب حاصل کر لیا ہے اور بیرونی جماعتوں کو بھی کسی حد تک جمع ہو کہ جماعتی مشکلات کو سمجھتے اور میرے خیالات سُننے کا موقع مل گیا ہے.ہمارا آئندہ جلسہ سالانہ انشاء اللہ نئے مرکز میں ہوگا اور وہ اس جگہ کا پہلا جلسہ ہوگا.بیرو نجات سے آئے ہوئے دوستوں کے ذریعہ سے اور اس لحاظ سے بھی کہ میری آوازہ اخبار کے ذریعہ سے باہر پہنچ جائے گی ، میں ساری جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں که در این جلسہ میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں آنے کی کوشش کرے.وہ جلسہ چونکہ نئے مرکز میں پہلا جلسہ ہوگا اس لئے خاص طور پر وہ دعاؤں کا جلسہ ہو گا تا کہ اللہ تعا لئے ہمارے نٹے مرکز کو سہارے لئے اور اسلام کی عظمت اور بڑائی کو ظاہر کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ با برکت کرے.پس ابھی سے تمام دوستوں کو تیاری شروع کر دینی چاہیئے.لیکن غلہ سے متعلق حکومت کی طرف سے عائد شہدہ پابندیوں اور غیر معمولی گرانی کی وجہ سے ہمارے لئے ربوہ میں وسیع پیمانے پر مہمان نوازی کرنا مشکل ہوگا.اس لیئے میں زمیندار دوستوں سے درخواست کرتا ہوں کہ جب وہ جلسے پر آئیں تو اُن میں سے ہر فرد اپنے ساتھ کم از کم تین سیر گندم یا آٹا ضرور لیتا آئے.اس تین سیر میں سے ڈیڑھ دو سیر تو خود اس کی اپنی خوراک کے لئے ہوگا اور باقی ڈیڑھ سیر اس کے دیگر غریب دوستوں یا اس کے ان شہری بھائیوں کے لئے ہوگا جو راشن وغیرہ کی پابندی کی وجہ سے غلہ نہیں لاسکیں گے اگر اس طریق پر عمل کیا گیا تو امید ہے کہ اتنی گندم مہیا ہو جائے گی جو تمام مہمانوں کے
لئے کافی ہو.گذشتہ دو سال سے عورتیں جلسہ میں شامل نہیں ہو سکیں حالانکہ قادیان میں جلسے کے موقع پر اگر مرد تیس ہزار ہوتے تھے تو عورتیں بھی پندرہ ہزار کے قریب ضرور ہوتی تھیں.ربوہ کے اس پہلے جلسے میں عورتوں اور بچوں کو بھی شامل ہونے کی اجازت ہوگی.اگر تعمیر کا سلسلہ نہ بھی شروع ہوا تو عورتوں کے لئے قناتوں کا انتظام کر دیا بھائے گا اور مرد کھلے میدان میں رہ سکیں گے.یہ ایک نہایت ہی خوش کن نظارہ ہو گا فطرتی سادگی کا.یہ نظارہ مگر میں میچ کے موقعہ پر ہر سال ہی نظر آتا ہے جبکہ لوگ مکانات کی قلت کی وجہ سے سڑکوں اور میدانوں میں پڑے ہوئے ہوتے ہیں.در حقیقت ابتدائی سادگی جو فطستے میں اللہ تعالیٰ نے رکھی ہے وہی دُنیا میں حقیقی امن قائم کر سکتی ہے.جب تک انسان اُن چیزوں پر اکتفا نہیں کرتے جو خدا نے دی ہیں اس وقت تک دنیا سے فتنہ و فساد کبھی میٹ نہیں سکتے.میں یہ بھی تحریک کرتا ہوں کہ دوست اپنی اپنی جگہ دالیں جمع کریں جو جلسے کے موقعہ پر کام آسکیں.لیکن چندہ جلسہ سالانہ پر اس کا اثر نہیں پڑنا چاہیے.اگر دوست ماش، چنا، مونگ اور مسور ثابت ابھی سے جمع کرنا شروع کر دیں تو یہ چیزیں کافی کام آسکتی ہیں.میں ایک اور ضروری تحریک بھی احباب کو کرنا چاہتا ہوں.اس وقت تک ربوہ کے گرد و نواح میں چیزیں کافی سستی ہیں.لیکن جو نہی قصبہ آباد ہو گیا چیزیں گراں ہونے کا احتمال ہے.شروع میں وہاں پر روپے کا پچار اور پانچ سیر کے درمیان دودھ مل جاتا تھا.اب جب ہمارے کچھ دفاتر چلے گئے ہیں دودھ روپے کا تین سیر ہو گیا ہے.جن علاقوں میں بھینسیں پالنے کا شوق ہے اور لوگ بھینسیں صدقہ کے طور پر دے سکتے ہیں انہیں بھینسیں ہدیہ سلسلہ کو پیش کرنی چاہئیں تا کہ مرکز کے قائم ہونے سے قبل وہاں پر اتنی بھینسیں موجود ہوں کہ ہم اس علاقہ سے دودھ نہ خریدیں اور قیمتیں بلا وجہ گراں نہ ہوں.ہماری تحریک پر بڑھٹی ، معماروں اور دیگر کا ریگروں نے کئی سو کی تعداد میں مرکز میں کام کرنے کی درخواستیں دی ہیں.میں ان سب کو اطلاع دے دیتا ہوں کہ وہ پابہ رکاب
١١٢ رہیں جس وقت بھی انہیں اطلاع دی جائے انہیں فوراً ربوہ پہنچ کر کام شروع کر دینا چاہئیے یاد رکھو ہمارا ایک ایک دن بہت قیمتی ہے اور مرکز کے قیام میں ایک دن کی تعویق بھی ہمارے سے لئے مضر ہے.ربوہ کی زمین کی قیمتوں کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا :- اس سلسلہ میں بعض لوگوں کو غلط فہمی ہوئی ہے حقیقت یہ ہے کہ زمین کی فروخت کا جو پہلا اعلان کیا گیا تھا اس میں دوسشر طیں رکھی گئی تھیں (۱) ایک سو روپیہ کنال کے حساب سے آٹھ سو کنال فروخت کی بجائے گی.(۲) ۱۵ار اکتوبر تک ایک سو روپیہ فی کنال کے حساب سے زمین دی جائے گی.گویا اس اعلان کا مطلب یہ تھا کہ دلی اگر ھار اکتو برے سے قبل ہی آٹھ سو کنال فروخت ہو گئی تو پھر مقرہ شرح پر فروخت بند کر دی جائے گی.(ب) اگر آٹھ سوکنال زمین فوت نہ ہوئی لیکن ار اکتوبر کی تاریخ آگئی تو اس صورت میں بھی مقررہ قیمت پر زمین کی فروخت بند ہو جائے گی.اس اعلان کے مطابق چونکہ ۶- اکتوبر کو ہی آٹھ سو کنال فروخت ہو گئے تھے.اس لئے گوھار اکتوبر کی تاریخ بھی نہیں آئی تھی لیکن فروخت بند کر دی گئی تھی.فرمایا : حقیقت یہ ہے کہ اگر خرچ کا قلیل سے قلیل بھی اندازہ لگایا جائے تو کوئی قصیہ پچیس تیس لاکھ روپے خرچ کئے بغیر نہیں بن سکتا.یہ رقم ان چیزوں پر خرچ ہوتی ہے ، جو قصبہ کے سارے باشندوں کے کام آتی ہیں جیسے مثلاً سکول کالج وغیرہ.اگر کچی عمارتوں کا اندازہ بھی لگایا جائے تو تیرہ لاکھ روپے سے کم نہ ہوگا.اب صاف بات ہے کہ یہ رقم دو ہی طریق سے لی جا سکتی ہے (1) خریداروں سے زیادہ قیمت وصول کر کے (۲) ساری جماعت سے چندہ لے کر نہ ظاہر ہے کہ اخلاقی طور پر ہم ساری جماعت سے یہ رقم نہیں لے سکتے.کیونکہ یہ رقم جن چیزوں پر خرچ ہوتی ہے ان سے زیادہ تر مقامی لوگوں نے فائدہ اٹھانا ہے.اب ایک ہی صورت رہ بھاتی ہے اور وہی ہم نے اختیار کی ہے.وہ یہ کہ زمین کی قیمت زیادہ وصول کی بجائے.میں دوستوں کو تحریک کرتا ہوں کہ وہ جلد سے جلد زمین اپنے لئے مخصوص کرائیں.
اس کے بعد حضور نے نئے مرکز کے قیام کے سلسلے میں بعض منافقین کی طرف سے پھیلائے ہوئے اس شبہ کا ذکر کیا کہ نئے مرکز کا قیام بتاتا ہے کہ گویا ہمیں قادیان واپس ملنے میں شبہ ہے.حضور نے فرمایا.ا.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے سلسلہ کا مستقل مرکز قادیان قرار دے دیا تو پھر کسی احمدی کہا نے والے دل میں مشبہ کس طرح پیدا ہو سکتا ہے.جبہ حضرت مسیح موتو دعلی استلام کی دیگر ہزاروں پیشنگوئیاں پوری ہوئیں تو ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ قادیان کے مرکز رہنے کی پیشگوئی نعوذ باللہ پوری نہ ہوگی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات میں صراستہ قادیان سے نکلنے کی پیشگوئی موجود ہے.ہم ہندو مجھے اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت گذشتہ سال کے واقعات کی تفصیلاً اطلاع دی بوستانہ میں شائع بھی ہوچکی ہے اور وہ لفظ بلفظ پورکی ہوئی.اس اطلاع میں نئے مرکز کے قیام اور قادیان کی واپسی کی خبر بھی موجود ہے.جب خدا نے انذار والے پہلو پور سے گئے تو ہم کس طرح گمان کر سکتے ہیں کہ وہ شیر کے پہلو پورسے نہ کرے گا.اس موقعہ پر کسی صاحب نے رافعہ کے ذراجہ دریافت کیا کہ کیا حضور کو پاکستان کے متعلق بھی کوئی اطلاع خدا تعالے کی طرف سے ملی ہے.حضور نے فرمایا :- اسلام کی ترقی مخدائی تفت دیروں میں سے ایک تقدیر ہے.یہ قطعی اور یقینی بات ہے کہ اسلام اب آگے ہی کی طرف قدم بڑھائے گا.اب اسلام ہی کے غالب ہونے کی باری ہے.اب کفر کے غالب ہونے کی باری ختم ہو چکی ہے.حضور نے سلسلہ تقریہ بھاری رکھتے ہوئے بتایا کہ قادیان کی تقدیس اسلام کی اشاعت اور اسلامی تعلیم کے قیام کا مرکز ہونے کی وجہ سے تھی.اگر چیز اب قادیان کی بجائے کسی اور مقام سے شروع ہو جائے گی تو وہ مقام بھی بابرکت ہو جائے گا.اسی طرح جس طرح ہجرت نبوی کے بعد کہ مکہ بھی با برکت رہا مگر خدا نے مدینہ کو بھی برکت دے دی جبری طرح گو اصل مسجد خانہ کعبہ ہے مگر مسلمان ہر جگہ اس کی نقل میں مسجد بناتے ہیں اور وہ مسجد با برکت ہو جاتی ہے.اسی طرح گو ہمارا اصل مرکز قادیانی ہے لیکن اس
۱۱۴ کی نقل میں جو بھی مرکز بنیں گے یقینا وہ بھی ہا برکہ ت ہو جائیں گے.جس خدا نے لگے اور مدینے کو برکت دی میں نہیں یقین دلاتا ہوں کہ اس کے خزانے میں ابھی اور بھی بہت سی برکتیں ہیں.تم صرف نیک نیتی سے دین کی خدمت کرنے کا تہیہ کر لو پھر میں بیگہ مرکز بناؤ گے وہ مقدس ہو جائے گی.حضور نے چندوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا.جب سے مرکزی دفاتہ کا اکثر حصہ ربوہ چلا گیا ہے یک دم چندوں میں کمی آگئی ہے چنا نچہ پچھلے تین ماہ ایک لاکھ روپے کا نقصان ہوا ہے.میں جماعتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ جلد سے جلد اپنے چندے وجود میں بھیج دیں.اگر یہ کسی جاری رہی تو لازمی طور پر دین کے موجودہ کاموں کو صدمہ پہنچے گا.آخر میں حضور نے فرمایا : انگریزوں کے پچھلے جانے سے اور پاکستان کے قیام سے لازمی طور پر ہماری ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں.ہمیں بدلے ہوئے حالات کو اور وقت کی نزاکت کو محسوس کرنا چاہیے.ہماری جماعت کو بالخصوص اپنا نظریہ بدل لینا چاہیئے.اب صرف چندوں سے ، نماز روزہ حج اور زکوۃ سے ہم اپنا فرض ادا نہیں کر سکتے.ہمیں اسلام کی حفاظت اور بقا کے لئے جانی قربانی کے لئے بھی اپنے آپ کو تیار رکھنا چاہیے.جس طرح مالی قربانی کے میدان میں ہم نے عدیم النظیر مثال دنیا میں قائم کی ہے.اسی طرح بھائی قربانی کے میدان میں بھی تمہارا امام تم سے ایسا نمونہ طلب کرتا ہے جس کی کوئی مثال نہ ہو.مومن بہادر ہوتا ہے.اگر ہماری جماعت مومن ہے تو پھر اسے بہادر بھی بننا چاہئیے اور صرف بہادر ہی ہماری جماعت میں رہنے کا حقدار ہے..بھار کے دور مقررین حضرت میموں کے ان ارانی مطابات کے علاوہ موانا بالعفو الحب مولانا ابو العطاء صاحب، جالندھری، چودھری اسد اللہ خاں صاحب ، قاضی محمد اسلم صاحب پروفیسر گورنمنٹ کالج لاہور ، مولانا جلال الدین صاحب شمش ، حضرت مفتی محمد صادق صاحب، حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اور بعض دیگر مقررین کی مختلف اہم موضوع پر تقریریں ہوئیں.الفضل لاہور ۲۸ فتح اردسمبر ۱۳۳۷ ش صفحه ۳- تفصیل الفضل ۲۶، ۲۸ فتح اردسمبر ۳۲ میش میں درج ہے.
جلسہ کے پہلے روز مفتی اعظم فلسطین امین اہیتی کے ذاتی نمائندے اشیخ عبد اللہ خوشیہ اور السید سلیم احسنی اور السید عبدالحمید یک (افغانستان میں فلسطینی سفیر بھی تشریف لائے الشیخ عبدالله خوشیہ نے محمد فلسطین اور اتحاد اسلامی کے موضوع پر عربی میں ایک موثر تقریر فرمائی جس کا اُردو ترجمہ حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے سنا یا میلہ فصل دوم جلیل القدر صحابہ کا انتقال شن میں مندرجہ ذیل جلیل القدر صحابہ نے وفات پائی حضرت حافظ سید عزیز اللہ شاہ صاحب والد ماجد حضرت سیدہ مہر آیا صاحبہ حرم رائے سیدنا المصلح الموعود ( وفات ۱۲ روف جونانی اش بوقت ایک بجے شب) توحید گزار ، بہت گریہ و بکا سے مولا کو یاد کرنے والے ، خاموش طبع ، خلوت پسند ، رقیق القلب، مہمان نوانہ اور حضرت سیدہ موجود میایت سلام اور آپ کے پنا نام اور خاندان سے بغایت درجہ محبت و عقیدت رکھنے والے بزرگ تھے حضرت مصلح موعود سے بہت قریبی رشتہ تھا مگر ادب و احترام کے باعث منصور کے سامنے کبھی آنکھ اُٹھا کر نہ دیکھتے تھے.یہ حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب نیتر بانی مغربی افریقیه (وفات مر تبوک استمبر ه ش بمقام گوجرانواله ) آپ کے مجاہدانہ کارناموں کا تذکرد " تاریخ احمدیت " کے متعدد مقامات پر آچکا ہے جس کے ے افضل لاہور ۲۶ فتح دسمبر صفحه او 14 له الفضل سواروفا ، و اروفا ، ۲۳ وفا / جولائی سی و نسل ، صلح / جنوری شد.
اعادہ کی ضرورت نہیں.۳- حضرت مرزا قدرت اللہ صاحبہ متوطن کو بچہ چابک سواران لاہور (ولادت : ۱۲۳۰ اکتوبر نشانده 495 بیعت و زیارت : ۱۹۰۲ ، ۱۲۰ وفات ۱۲۰ تبوک استمبر میش بمقام لاہور ) رش +190 پنجابی کے مشہور شاعر بابا ہدایت اللہ صاحب کے فرزند ارجمند تھے ، نہایت نیک ، خیر خواہ ، مہمان نواز، اور غیور اور ہوشیلے احمدی تھے.بچپن ہی سے آپ کو رویاد صادقہ ہوتی تھیں کہے حضرت مولوی حکیم قطب الدین صاحب متوطن بد و ملمی ضلع سیالکوٹ (بیعت : ۸۹۳ به غالباً ، وفات ۲۵ را خادر اکتوبر ریش حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پہلی بار زیارت ۱۸۸۴ء میں حضور کے قیام لدھیانہ کے دوران کی.جارسالانہ ۱۸۹۲ء کی فہرست اور ۳۱۳ اصحاب کبار میں آپ کا نام درج ہے.حضرت اقدس علیہ سلام اپنے البیت کے لئے دوا اور عرق تیار کرنے کا ارشاد آپ کو بھی فرمایا کرتے تھے حضور نے سفر نصیبین کے سہ رکنی وفد میں آپ کو بھی شامل فرمایا حضور کی بعض علمی تحقیقات کے سلسلہ میں بعض حوالہ جات پیش کرنے کا موقعہ ملا ہے حضرت شیخ میرزادی نا صاحب روطن مالوف قصبه میکند پور ضلع جالندهر، ونات المان مطابق اکتور رودبر ه اش بمقام را ولپنڈی ) *11 مجھے سے بہ اور مشال ملاحظہ ہو میلر سوم زیر عنوان " 19 کے بعبان تمتاز صحابہ حضرت مولانا نیر کے ایمان افروز جلد 1 صفحہ ۲۴۹ ، ۳۰۱ ، ۱۳۱۳ و بهار ۱۳ خود نوشت حالات و روایات زیبا و روایات یا ابه صہ تحر ۱۲ میں محفوظ ہیں.علاوہ انہیں الفضن کے مندرجہ ذیل پرچوں میں بھی آپ کے شمائل و اخلاق اور مخدمات کا ذکر ملتا ہے.۱۹ - ۲۳ - ۲۵ تبوک ستمبر و ۲۳ نبوات اتو میرا بش - ۲۶ شہادت اپریل ۲ ہجرت امنی بیش نیز لا ہو تاریخ احمدی ملا عبدالقادر صاحب السلام اسلامی سرا که شیر روایات صحابہ " جلد ۴ صفحه ۴ ۱۴ و جلد ۱۲ صفحه ۲۶۵ - ۲۹۱ ، در تاریخ احمد بوت لا آورد و مولفه خیابانا شیخ عبدالق اور صاتب توسلم عربي سلسلة الحملين الفضل ۲۶ رامان / مارچ برش صفحه ۶ + سے خود نوشت حالات کے لئے ملاحظہ ہو ر مسٹر روایات صحابہ مدت صفحه ۲۸۳ الفضل و مسلح جنوری برش صفحه ۳ کے میاں عطاء اللہ صاحب ایڈوکیٹ نے افضل 14 نبوت انو مبر کا سال ہی میں آپ کے حالات شائع کرا دیے تھے؟ !
116 حضرت حافظ عبد العلی صاحب برادر اکبر حضرت مولوی شیر علی صاحب متوطن اور حمد مضلع سرگودھا.ولادت ۱۳۵، بیعت و زیارت : ۱۸۹۳ ۶ بر موقعه مباحثه آنهم ، وفات : ما نبوت تو بریانی مقدمہ مارٹن کلارک کے دوران بٹالہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے.آپ خطبہ الہامیہ کی تقریب میں بھی موجود تھے.کئی بار حضور علی اسلام کے ساتھ کھانا تناول کرنے کا موقعہ ملائے حضرت شیخ نورالدین صاحب تاجر دار الفتوح قادیان ( وطن مالوف رندھاوا ضلع گورداسپور ، زیارت ، وقات ۱۹ نبوت / نومبر سرش به تمام نشکری (ساہیوال) بیعت ۱۸۹۹ء ، کم گو ، حلیم الطبع اور منتدین بزرگ تھے ہیں ( - حضرت با ابو احمد اللہ صاحب ( وفات نبوت نومبر ) شائر میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی تبلیغ سے داخل احمدیت ہوئے.دو بار انگلستان گئے جہاں کئی افراد کو مسلمان بنانے کی توفیق ملی شروع شروع میں آپ ہی جماعت احمدیہ نوشہرہ چھاؤنی کے پریذیڈنٹ اور سکرٹری مال تھے اور آپ ہی کے مکان پر نمازیں ادا کی جاتی تھیں.اہ میں قادیان میں رہائش پذیر ہو گئے.فسادات ۱۹۴۷ ء میں ہجرت کر کے سیالکوٹ آگئے اور وہیں دائی ائیل کو لبیک کہا." قاضی عزیز الدین صاحب متوطن فیض اللہ چک مضلع گورداسپور - (وفات در فتح اوسمبر ریش) ممتاز اور متمول زمیندار ہونے کے باوجود نہایت سادہ زندگی بسر کرنے کے عادی تھے.تبلیغ کا شوق تھا.غریب پروری اور مہمان نوازی میں نمونہ تھے کے مندرجہ بالا صحابہ کے علاوہ اس سال سلسلہ احمدیہ کے مخلص و ممتاز د همتاز تالبین کی وفات تابعین میں سے حضرت پیر اکبر علی صاحب کو ایل امیر جماعت احمدیہ کیا گیا در این صفحه ۲ شاده رجبر "روایات صحابہ جلد ۳ صفحه ۱۴۴ - ۱۴۰، جلد - صفحه ۲۱۷ ، فیلم ۱۱ صفحه ۱۳۴۷ سے رجسر " روایات صحابہ " جیند ۱۲ صفحه ۹ تا ۱۲ (خود نوشت روایات) ، الفضل ۲۴ نبوت / نومبر الامان الفصل بار فتح دسمبر م ش ه ۶ و ۴ر امان مار از پیش صفه " ، " تاریخ الحدید سرمد " صفحه 1 : صفحه ۲۶۵ - ۲۲۸ دار حضرت قاضی محمد یوسعت صاحب شهر قاضی خیل ہوتی ضلع مردان ) له الفضل ۱۲ رامان / ما دریچه مش صفحه ۶ +
IIA یروز پور اور ڈاکٹر بشیر مصور صائب آن پونچھ ڈپٹی ڈائریکٹ میڈیکل سروسز آزاد کشمیر کو رنمنٹ مولائے حقیقی سے جا ملے.له وفات ۲۵ ہجرت معنی یہ ہیں.حضرت مصلح موعود نے ۲۰ ہجرت اسی کار میش کو لاہور میں آپکا بزازه ۱۹۴ غائب پڑھایا.اور خطبہ ثانیہ میں فرمایا " پیرا کیر علی صاحب....ہماری مجلس شوری کی مالی سب کمیٹی میں بڑی سرگرمی سے حصہ لیا کرتے تھے.اور بڑے نیک اور تخلص انسان تھے....آپ فیروز پور کے رہنے والے تھے اور وہاں کی جماعت کے امیر تھے (الفضل هر انسان اجون بن صفوب کالم (۳) هک صلاح الدین بصاحب ایم.اے نے " تابعین اصحاب احمد" مجلد 4 میں آپ کے حالات زندگی شائع کر دیئے ہیں.جن سے آپ کے شمائل اور زریں خدمات سلسلہ پر روشنی پڑتی ہے.اخبار انقلاب روسی شاہ نے آپ کی وفات حسب ذیل فوٹ لکھا :- پیرا کہ علی کا انتقال فیروز پور کے مشہور ایڈووکیٹ اور سابق ایم ایل اے پیرا کبر علی صاحب، ۲۵ مئی رات کے بارہ بجے راولپنڈی میں دی گہرائے عالم میاو رانی ہو گئے.انا للہ وانا الیہ راجعون.پیر صاحب مرحوم نہایت کامیاب وکیل اور صاحب اثر ورسوخ تھے.سالہا سال تک آپ پنجاب کی مجلس قانون ساز کے مہر رہے اور مخلص آدمی تھے.گذشتہ ذاب میں آپ کو فیروز پور چھوڑ کر مغربی پنجاب آنا پڑا.آپ فالج میں مبتلا ہو گئے تھے.ہمیں پیر صاحب کے متعلقین سے اس حاد شر یا نگاہ میں دلی ہم دردی ہے.اللہ تعالی مرحوم کی مغفرت فرمائے اور پس ماندوں کو صبر جمیل عطا والقلاب ۲۹ مئی ۱۹۹۵ صفحه (۸) فرمائے سے انجاز انقلاب میں آپ کی وفات کی خبر مندرجہ ذیل الفاظ میں چھپی ڈاکٹر بشیر محمود کی شہادت پر آزاد کشمیر حکومت کا اعلان راولپنڈی کشمیر پبلسٹی بیورو ۱۴۴ جوان آزاد کشمر گورمنٹ کا ایک پریس نوٹ مظہر ہے کہ محترم ڈاکٹر بشیرمحمود صاحب ڈپٹی ڈائریکٹر میڈ یکی سروستر آزاد کشمیر گورنمنٹ گذشتہ دنوں شہید ہو گئے ہیں.آپ آزاد کشمیر گورنمنٹ کے بہترین مخلص کارکن تھے.اور تحریک کے شروع سے ہی پور کی محنت سے کام کر رہے تھے.آپ پہلے پونچھ میں پرائیویٹ پریکٹس کرتے تھے.گذشتہ سال کے شروع سے یہ مینگو پہلے گئے.موجودہ تحریک حریت کے آرگنائزڈ کرنے میں آپ نے بہت بڑا کام کیا اور خاص خدمات سر انجام دیں.شتر یک شروع ہونے بکہ آپ احباب کے مشہور ہے کشمیر سے باہر نکل آئے.آنے کے بعد آپ کی کئی ہزار کی ادویات اور دیگر سامان ڈوگرہ حکومت نے نسبط کر لیا.یا ہر آکر آپ نے آزاد افواج اور میٹریکل ڈیپارٹمنٹ کی تنظیم میں سرگرم حصہ لیا.ہر چھوٹا بڑا آپ کی تعریف میں رطب اللسان تھا.آزاد گورنمنٹ اور ریاستی عوام نے آپ کی جو انا مرگ کو بہت میموں کیا ہے.آپ مریضوں سے بہت اچھی طرح سے پیش آتے تھے.خدا تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ میں شفا کیسی رکھی تھی.دعا ہے کہ اللہ تعالی مرحوم کو اعلی علیین میں جگہ دستے" ( انقلاب ۱۷ این سشوار سفیر )
114 ۱۳۲۷ فصل سوم امین کے عین متفرق مگر اہم واقعیت اس سال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مبارک خاندان حضرت مسیح موعود میں خوشی کی تقاریب خاندان میں خوشی کی متعد تقاریب کا اعتقاد ہوا.ر صلح / جنوری در بش کو صاحبزادہ مرزا حفیظ احمد صاحب ( ابن حضرت مصلح موعود ) کی - شادی عمل میں آئی ہے ۲۲ انا اکتوبرش کو صاحبزادی سیدہ امتہ الباسط صاحبہ (دختر حضرت مصلح موعود ) کے رخستنانہ کی تقریب سعید منعقد ہوئی.آپ کا نکاح میر داؤد احمد صاحب سے ہوا تھا.کے حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ نے سیکنڈ ڈویژن میں ایم.اے کا امتحان پاس کیا ہے امیر جماعت احمدیہ سر حد حضرت قائنی محمد یوسف صاحب ہوتی ضلع مردان در امیر جماعت احمدی و پسر کا نام نے بھارتی حکومت کے نام ایک تدریا میں کی خبر انقلاب " ہونے بھارتی حکومت کے نام درج ذیل لنکوں میں شائع کی.: فوجی قوت سے قادیان کو ہندوؤں اور سکھوں کےحوالے کردینے کا اقدام ہندوستانی لیڈروں کو سه بعدی میں احمدی کا انتباہ پشاور - ۲۱ جنوری صوب بس بعد کی جماعت احمدیہ کے امیر نے مندرجہ ذیل تار پنڈت نہرو، مسٹرپٹیل ، ڈاکٹر گوپی چند بھارگو وزیر اعظم پنجاب مشرقی کو بھیجا ہے اور اس کی نقلیں اخبارات کو بھی بھجوائی ہیں.صوبہ سرھا کے احمدی یہ برداشت نہیں کریں گے کہ احمدیوں کو ان کے مذہبی مستقر قادیان سے الفضل ۲۱ر صلح / جنوری ۳۲ له مش صفحه ۱۳ له الفضل ۲۶-۲۸ مقام اکتوبر بش صفحه ۹۳ ۱۹۸ الفضل ۳۰ را خادم اکتو بر ۳۳ به بخش صفحه ۹۶
۱۲۰ جیرا نکال دیا جائے اور ہندوستانی فوجوں کے استعمال سے احمدیوں کو وہاں سے نکال کر ہندووں اور سکھوں کو اس بستی کا قبضہ دلایا جائے.ہم انسانیت اور انصاف کے نام پر ہندوستانی حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ قادیان اور ماحولھا کوئی الفور فرقہ احمدیہ کے حوالے کر دیا جائے.اگر ہماری یہ استدعا منظوری کا شرف حاصل کرنے سے قاصر رہی تو واضح رہے کہ ہم اپنا سب کچھ قربان کر دینے کا تہیہ کر چکے ہیں اور جب تک تمام غلط کاریوں کی تصحیح نہ ہو جائے، ہماری قربانیوں کا سلسلہ جاری رہے گا.فسادات ۱۹۴ ء میں مندرجہ ذیل متخلص احمدی قادیان مشرقی پنجاب کے احمدی قیدیوں کی رہائی اور اس کے ماتول سے گرفتار کئے گئے تھے.حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ، حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیال ایم.اسے جمبر پنجاب اسمبلی ، میجر چودھری شریف احمد صاحب باجوہ بی.اے.ایل.ایل.بی ، مکرم مولوی احمد خاں صاحب نشستیم و سابق مبلغ اسلام بر ما ، مگرم چودھری عبد العزیز صاحب محتسب امور عامه ، حکم چودھری علی اکبر صاحب در ملیں ماڑی بچیاں، مگرم جود مصری محمد عبداللہ صاحب کو ٹلہ صوبا سنگھ ، ڈاکٹر سلطان علی صاحب آفتہ ماڑی بچیاں.وغیرہ ان احباب کو گورداسپور اور بحالند در حین میں قید و بند کے انسانیت سوز مظالم برداشت کرنے پڑے.افسران جیل کا ارادہ انہیں مروا دینے کا تھا اور اس غرض کے لئے سیکھے بھی مقرر کئے جاچکے تھے مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک طرف حضرت امیر المومنین مصلح موعود کو خواب میں دکھایا گیا کہ " سید ولی اللہ شاہ صاحب آتے ہیں اور میرے پاس آکر ساتھ بیٹھ گئے ہیں، دوسری طرف خود حضرت سید زین العابدین ولی الله شاہ صاحب اور دوسرے اصحاب کو عالم رویاد میں رہائی کی بشارتیں دی گئیں.چنانچہ ان مبشر خوابوں کے عین مطابق یہ حضرات بین الملکتی معاہدہ کی بناء پر ہر ماہ شہادت اپریل میش کو جالندھر جیل سے لاہور کی سنٹرل جیل میں منتقل کئے گئے سے حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیال لاہور پہنچتے ہی اور دوسرے حضرات ارماہ شہادت اپریل میش کو ضمانت پر رہا کر دیئے گئے.NA اه انقلاب ۱۸ جنوری ۱۹۴۷ از صفحه ۴ له الفضل ، رافاه / اکتوبر ہمیشہ سے قیدیوں کی سپیشل " * ٹرین لاہور چھاؤنی سٹیشن پر پہنچی تو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت نواب محمد دین صاحب شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ لاہور ، چودھری اسد اللہ خان صاحب بار ایٹ اور دو سر احمدیوں پر جوش استقبال کیا والفضل اشہاد در ایمیل سر میں صفوی) 1977
شد سید نا حضرت مصلح موعود مبلغین احمدیت کے درمیان رونق افروز ہیں ( ناموں کی تفصیل ضمیمہ میں )
۱۲۱ احمدی اسیران کال کوٹھریوں اور آہنی سلاخوں میں بھی پوری جرات اور مومنانہ شان سے تبلیغ حق میں برابر مصروف رہے اور ۵۴۷ نفوس کو حلقہ بگوش احمدیت کرنے کا موجب بنے جن میں سے ۳۶ نئے احمدی بھائیوں کی سائی.شہادت اپریل ہی کو عمل میں گئی.احمدی قیدیوں کے اعزاز میں نہ صرف پاکستان میں پرمسرت تقاریب منعقد کی گئیں بیکه ۶ ماہ شہادت اپریل کو قادیان کے درویشوں نے بھی بورڈنگ مدرسہ احمدیہ میں ایک دعوت کا اہتمام کیا.تم ۶۱۹۴۸ چودھری موظف اللہ خاں صاحب نے اس زمانہ میں کی چودھری مختلف الشعراں وزیر خارجہ کی مسئلہ مسلمانان مسلمین کی حمایت میں جو عظیم استان فلسطین میتعلق خدا کا ذکر پاکستانی پریس میں کارنامے انجام دیئے ان کی دھوم سارے عالم اسلام ا.میں مچی ہوئی تھی.اس تعلق میں پاکستانی پریس کی چند تبریں بطور نمونہ ملاحظہ ہوں :- سر ظف اللہ کی روانگی نے عربوں کو ایک قابل قدر بیش قیمت امداد سے محروم کر دیا لندن (ومنئی، اسٹار کا خصوصی نامہ نگار مقیم ایک سیکس رقم طراز ہے کہ سر ظفر اللہ خاں کو روانگی نے عرب وفود کو ایک بیش قیمت امداد سے محروم کر دیا ہے جو کہ وہ ان سے فلسطین کے مسکار پہ اب تک حاصل کر رہے تھے.جس عزت کی نگاہ سے پاکستان کے وزیر خارجہ کو عرب و خود یہاں دیکھتے تھے اس کا مظاہرہ یہاں اس طرح ہوا کہ تمام کے تمام عرب و خود سر ظفر اللہ خان کو الوداع کہنے کے لئے گا ڈیا کے ہوائی مستقر پہ پہنچے.یہ محض تواضع نہیں تھی بلکہ اپنے ایک محسن کے لئے ہدیہ سکرانہ ہوتا.عرب آپ کی امداد سے محروم ہو جائیں گے لیکن وہ ان نازک دنوں میں آپ کی امداد کے بہت ہی شکر گذار ہیں.اب وہ اس موجودہ اجلاس کی اہمیت کو سمجھ رہے ہیں کیونکہ انتداب کا خاتمہ ہونے والا ہے" سے لندن یکم جون (اسٹار) لبنانی سفیر ڈاکٹر وکٹر خوری نے لیک سیکس سے واپسی پر ل النقل ۱۳ شہادت / اپریل ایش صفحه ۴ + کے الفضل سوار شہادت را برای سرمایش صفحه به سے افضل ۱۳ شہادت ، ۲۲ شہادت ، یکم ہجرت ۱۳۵۱ است که قدیم دیکار ارامش مرتبہ مرزا محمد حیات صاحب ، میشه ه زئ قت لاہور الرمئی ۱۹۴۷ و صفحه 1
۱۲۲ مجلس اقوام میں عرب مقاصد سے پاکستان کی ہم آہنگی پر پسندیدگی کا اظہار کیا.اور کہا.چودھری ظفر اللہ خان ایک بیش قیمت اور قابل ساتھی ہیں.پیرس (سٹار نیوز ایجینسی) ۲۰ ستمبر پاکستان کے وزیر خارجہ چودھری سرمد ظلف الشر خان کا نام یہاں اقوام متحدہ کی جنرل امینی کے صدر کے لئے بہت زور دار طریقے سے لیا جارہا ہے.انہوں نے اقوام متحدہ کے حالیہ اجلاس میں اس قدر شہرت حاصل کی ہے کہ ان کا درجہ دنیا کے بہترین پارلیمنٹری سیاست دانوں میں قائم ہو گیا ہے.لیگ آف نیشن میں ان کے تجربے کا بھی بہت سے لوگوں کو احساس ہے.ان کے سب سے زیادہ حامی عرب اقوام کے وفود ہیں.وہ اُن کے لئے اپنے تمام ووٹ دینے کے لئے تیار ہیں.اس کے علاوہ وہ دیگر ممالک کے ووٹ بھی حاصل کرنے کی کوشش کریں گے.خاص طور پر لاطینی امریکہ کے مالک کے ووٹ حاصل کئے جائیں گے “ سے الموعود حضرت علی موعود نے 10 ماہ بیت الی پر از پیش کو رتن باغ کے حضرت مصلح موعود کا اہم پیام مشاورتی اجلاس میں رشاد فرمایا کہ ارشاد فلسطینی احمدیوں کے نام شام والوں کو لکھا جائے کہ کسی نہ کسی طرح کہ پی رہا ہے والیوں کو اطلاع دیں کہ تنگی کے دن ہیں صبر سے گزار لیں اور کسی قیمت پر بھی کہا بیر کی زمین یہود کے پاس فروخت نہ کریں " سے مجالس خدام الاحمید پاکستان سر احسان ابوت پر یہ پیش گورتن باتے اور میں مجالس کی ریبون بیداری اور تنظیم نو سے متعلق متعدد بنیادی مسائل پر غور و فکر تو.کی رتن باغ میں اسلام شوری کے لئے ایک اہم شوری کا انعقاد ہوا.اس موقعہ پر جہاد کشمیر کے لئے احمدی رضا کاروں کی بھاری تعداد مہیا کرنے کا معاملہ خاص طور پر زیر غور آیا.شوری کی صدارت صدر مجلس حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے فرمائی.ذیل میں اس اجلاس کی وہ رپورٹ درج کی جاتی ہے جو اگلے روز معتمد مجلس نے ۱۴ احسان ابون لے "انقلاب" لاہور ۱۳ جولائی ۹۴ و صفحوم " سے " انقلاب لاہور ۲۲ ستمبر ۱۹۴۷ سفید ۶ کالم ۰۳ سے یہ کارروائی مشاورتی اجلاس رتن باغ لاہور (غیر مطبوع)
۱۲۳ مہش کو حضرت مصلح موعود کی خدمت میں پیش کی.حضور ایدہ اللہ نصرہ العزیز کی منظوری سے مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے مجالس مقدام الاحمدیہ اور نوجوانوں کی تنظیم کے لئے مجالس خدام الاحمدیہ کی مجلس شوری مورخہ ۳ ار احسان ۳۳ رمیش کو رکھی تھی اور جس جگہ ابھی تک باقاعدہ مجلس قائم نہیں ہوئی تھی وہاں کے پریذیڈنٹ صاحبان سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ ایک مستعد نوجوان نمائندہ بھجوائیں.اس تجویزہ کے ماتحت تمام مجالس اور تمام جماعتوں کو خطوط کے ذریعہ اطلاع دی گئی پھر اس کے بعد یاد دہانی کرائی گئی.کل مورخہ ۱۳ ر احسان کو پروگرام کے مطابق یہ شور کی منعقد ہوئی.جس میں شامل ہونے والے نمائندگان کی تعداد ایک سو نوے تھی.اس میں مرکزی عہدیدالہ اور مجلس خدام الاحمدیہ کے نمائندہ سے بھی شامل ہیں.سب سے پہلے صبح سات بجے نمائندگان کو فوجی پریڈ دکھائی گئی.اس دوران میں ہوائی حملہ کرنے، اس سے محفوظ رہنے ، دستوں کی آپس میں جھڑپ وغیرہ کا عملی مظاہرہ کیا گیا.آٹھ بجے کوٹھی رتن باغ کے ہال میں زیر صدارت حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر مجلس شوری کی کارروائی شروع ہوئی.تلاوت کے بعد خدام نے اپنا عہد دہرایا اور اس کے ساتھ ہی صدر محترم نے قادیان کی واپسی کے حصول کے لئے حضور کا تجویز فرمودہ شہد جو گذشتہ مشاعات پر حضور نے نمائندگان سے لیا تھا ، دہرایا.یہ مہ تجلیس خدام الاحمدیہ مرکز یہ تنے بڑے سائز پر پہلے سے چھپوا کر رکھا تھا جو اس وقت نمائندگان میں تقسیم کیا گیا.اس کے بعد صدر محترم نے اپنی افتتاحی تقریر میں اس شوری کے انعقاد کی غرض بیان فرمائی اور فرقان فوج کے اجراء کا ذکر فرمایا اور فرمایا کہ ایک ہزار نوجوان ہم نے ۲۱ سیون تک نہیا کرنا ہے.چنانچہ صدر محترم نے ضلع دار نمائندگان سے والنٹیٹرز بھیجنے کے وعدے لئے.مکرمی ملک عبد الرحمن صاحب خادم پلیڈ ر گزارت نے بھی اس کی ضرورت کو تفصیل سے بیان فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علایت لام کے الہامات سے سات معلوم ہوتا ہے کہ جماعت کو جہاد کرنا پڑے گا بلکہ بعض الہامات میں تو جہاد کے الفاظ موجود ہیں.
۱۲۴ ملک صاحب کی تقریر کے بعد صدر محترم نے رضا کار مہیا کرنے کے لئے ضلعوار قائدین کا تقرر فرمایا اور ان سے وعدے لئے کہ وہ ۲۱ چون حر تک اپنے رضا کار رتن باغ میں پہنچا دیں گے.اس وقت جو وعدے موصول ہوئے ان کی تفصیل حسب ذیل ہے :- ضلع سیالکوٹ ضلع جہلم ضلع گوجرانوالہ ضلع لائل پور ضلع راولپنڈی • ۲۵۰ ۵۰ 14.ضلع شیخو پوره ضلع لاہور ضلع گجر است ضلع سرگودها میزان ۶۵ 1...۹۶۵ صوبہ سندھ ، بلوچستان ، ضلع منشتگیری ، ضلع جھنگ کی طرف سے ابھی تک تحریری وعدہ نہیں آیا.ان سب کو خطوط لکھ دیئے گئے ہیں اس کے علاوہ مندرجہ ذیل امور فرقان فوج کے سلسلہ میں منظور ہوئے.ا ہر مجلس اپنے خدام کا ا ۱۲ فیصدی حصہ ہر سہ ماہی پر بھجوائے.۲.یہ خدام کم از کم تین ماہ کی تربیت کے لئے آئیں گے سوائے اس کے کہ مرکزہ بعض دوستوں کی مجبوری کو دیکھ کر اس سے کم عرصہ کی اجازت و دے دے.تمام مجلسیں پندرہ دن کے اندر اندر احزاب کی فہرستیں بھجوائیں.عرصہ تربیت میں زیر تربیت اقدام وقار عمل نے تشنی ہوں گے عہد و دعا کے بعد پوتے دو بجے بعد دو پہر یہ اجلاس ختم ہوا." چودھری عبدالسلام صاحب کی اس سال ضلع جھنگ کے مخلص احمدی نوجوان چودھری عبد السلام صاحب نے ریاضی کے امتحان میں کیمبرج یونیورسٹی میں اول شاندار کامیابی پوزیشن حاصل کی برصغیر پاک و ہند میں بہت ہی کم لوگوی اس سے قبل یہ اعزاز حاصل ہوا تھا.ہے ه الفضل ، روفا / بالائی سایش صفحہ ، + A
۱۲۵ مجاہد امریکہ مرزا متورا حجر صاحب کا وصال حضرت شہزادہ عبدالمجید صاحب، حضرت مولوی عبیدالله صاحب، مولوی رفیق احمد صاحب اور مولوی محمد دین صاحب قبل ازیں میدان تبلیغ میں جام موت نوش کر کے درجہ شہادت حاصل کر چکے تھے.اس سال مِنْهُمْ مَنْ قضى نحبه کے اس پاک گروہ میں مجاہد امریکہ مرزا منور احمد صاحب بھی شامل ہو گئے.اور اپنی زندگی کی قربانی اور اپنے عمل سے سلسلہ کی سچائی نمایاں کر دی اور ہمیشہ کے لئے مشعل راہ بن گئے.اللہ تعالیٰ ان سب کی تو بتوں پر اپنے فضلوں کی بارشیں نازل فرمائے.آمین.مرزا منور احمد صاحب مرحوم ماه ظهور اگست ۳۳۹ رش کے آخر میں امریکہ تشریف لے گئے تھے شکاگو میں کوئی ایک نہینہ قیام کے بعد آپ پٹس برگ کے حلقہ میں متعین کئے گئے.ابتداء میں یہ حلقہ امریکہ کے مشرقی ساحل پر بالٹی مور سے لے کر ڈیٹن تک پھیلا ہوا تھا جس میں کلیولینڈ اور مینگس ٹاؤن بھی شامل تھے ان سب احمدی جماعتوں کے دلوں میں آپ نے اپنی خوش خلقی ، سادگی اور محبت کی بناء پر ایک خاص مقام پیدا کر لیا تھا.دو سال کے مختصر سے عرصہ کے اندر اندر آپ نے اپنی شب و روز والہانہ جد و جہد سے پلٹس برگ کے احمدیوں میں زبر دست حرکت پیدا کر دی اور یہ حلقہ امریکہ مشن میں ایک ممتاز حیثیت اختیار کر گیا حتی کہ شکاگو کی مقامی جماعت نے بھی آپ کو اپنے یہاں تقریر کی دعوت دی کہ ان میں وہ روح پیدا کریں جو انہوں نے پٹس برگ کی جماعت میں پیدا کر دی ہے.مرزا منور احمد صاحب نہایت وجیہہ صورت ، بلند قامت اور اعلیٰ درجہ کے صحتمند نوجوان تھے.مگر آپ کی دیوانہ وار کوششیں صحت پر تشویش ناک حد تک اثر انداز ہو ئیں اور آپ ٹیومر کے عارضہ میں مبتلا ہو گئے جس کا اپریشن ۱۴ تبوک استمبر ہر مہیش کو ایک مقامی ہسپتال میں کیا گیا.چونکہ جسم پہلے ہی نڈھال ہو چکا تھا اور ٹیومر کا زہر انتڑیوں میں پوری طرح سرایت کر چکا تھا اس لئے اپریشن کے بعد کمزوری انتہا تک پہنچ گئی اور دوسرے ہی روز دین مصطفے کے اس انتھک بہادر اور جانباز سپاہی کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی.اناللہ و انا الیہ راجعون.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے مرحوم کی وفات پر اپنے ایک مفصل مضمون میں آپ کی نسبت تحریر فرمایا کہ عزیز مرزا منور احمد مرحوم کو میں بچپن سے جانتا تھا.اس لئے بھی کہ وہ ہمارے قریبی
عزیزوں میں سے تھے یعنی ہماری حمانی صاحبہ کے بھائی اور ہماری ایک بھا وجہ صاحبہ کے ہوں تھے اور اس لئے بھی کہ مرحوم کا بچپن سے میرے ساتھ خاص تعلق تھا.پس میں یہ بات بغیر کسی مبالغہ کے کہہ سکتا ہوں کہ مرحوم ایک بہت مخلص اور نیک اور ہو نہار اور محبت کرنے والا اور جذبہ خدمت و قربانی سے معمور نوجوان تھا.دن ہو یا رات، دھوپ ہو یا بارش، جب بھی انہیں کوئی ڈیوٹی سپرد کی بھاتی تھی وہ کمال مستعدی اور اخلاص کے ساتھ اس ڈیوٹی کو سر انجام دینے کے لئے لبیک لبیک کہتے ہوئے آگے آجاتے تھے اور پھر اپنے مفوضہ کام کو اس درجہ توجہ اور سمجھ کے ساتھ سر انجام دیتے تھے کہ دل خوش ہو جاتا تھا اور زبان سے بے اختیار دعا نکلتی تھی.میں سمجھتا ہوں کہ یہ اسی نیکی کا نتیجہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی زندگی وقف کرنے اور پھر بلاد امریکہ میں وطن سے بارہ ہزار میل دور جا کر فریضہ تبلیغ بسیجا لانے کی سعادت عطا کی بوت تو ہر انسان کے لئے مقدر ہے مگر مبارک ہے وہ نوجوان جسے یہ سعادت کی زندگی عطا ہوئی اور مبارک ہیں وہ والدین جنہیں خدا نے ایسا نیک اور خادم دین بچہ عطا کیا." مترور خود حضرت سیدنا الصلح الموعود نے ۱۲۴ تبوک استمبر یہ اہش کے خطبہ جمعہ میں آپ کا ۳۲۰ تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا :- مرزا منور احمد صاحب جو امریکہ کے مبلغ تھے میری ایک بیوی ام متین کے ماموں ، میر محمد اسمعیل صاحب مرحوم کے سائے اور نہایت مخلص نوجوان تھے.ان کے معدہ میں رسولی ہوئی اور وہ فوت ہو گئے.ویسے تو ہر ایک کو موت آتی ہے لیکن اس طرح کی مورت گو ایک طرف قوم کے لئے فخر کا موجب ہوتی ہے لیکن دوسری طرف اس کا افسوس بھی ہوتا ہے کہ ایک آدمی کو پندرہ بیس سال میں تیار کیا بھائے اور وہ جیوانی کی حالت میں فوت ہو جائے.یعنی بیگم صاحبہ حضرت میر محمد اسمعیل صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ.+ سے حضرت سیده مریم صدیقرام متین دحوم ثالث محضرت سید نا اصلح الموعود) مراد ہیں ، سے مرحوم مرزا محمد شفیع صاحب کے صاحبزادے تھے : کے الفضل لاہور ہوا تبوک استمبرش صفحه ۳ کالم ۲-۲ نیز افضل ۲۰ اتحاد / اکتوبرش صفحه ۵ *
۱۲۷ مرنا منور احمد صاحب کا کام نہایت اعلی درجہ کا کام تھا اور امریکہ کی جماعتوں میں انہی کی جماعت کو ان سے زیادہ محبت تھی.ابھی پچھلے دنوں امریکہ کی جماعتوں کی جو کانفرنس ہوئی ہے اس میں بھی یہ تسلیم کیا گیا کہ وہ علاقہ میں میں مرزا منور احمد صاحب مبلغ تھے دوسرے علاقہ کی جماعتو سے دینی کاموں میں بڑھ گیا ہے.پھر ان لوگوں نے اپنی محبت کا بھی ثبوت دیا.جب ڈاکٹروں نے جسم میں خون داخل کرنے کا فیصلہ کیا تو اُن کے علاقہ کے نو مسلموں میں سے عورتوں اور مردوں کی ایک بڑی تعداد نے اپنا خون پیش کر دیا اور چونکہ ان کی ٹائپ کا خون نہیں مانتا تھا اس لئے جس تو مسلم کو یہ معلوم ہو جاتا کہ میرا خون مرزا منور احمد کے خون کے مشابہ ہے تو دہ بے انتہا خوش ہوتا اور فخر کرتا کہ میرا خون ان کے خون سے ملتا ہے.جب مرحوم کے جسم میں خون کے داخل کرنے کی زیادہ ضرورت پیش آگئی اور ان کے خون کی ٹائپ کا اور خون نہ ملا تو ڈاکٹروں نے کہا آپ لوگ اپنا خون دے دیں ہم اپنے پاس سے ان کے ٹائپ کا خون استعمال کریں گے اور آپ کا خون آیندہ کے لئے رکھ لیں گے.اس پر ان سب نے اپنا خون پیش کر دیا.یہ چیز اس بات کی علامت ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے امریکہ کی جماعت اخلاص میں ترقی کر رہی ہے اور یہ مرحوم کے نیک نمونہ کا زبر دست ثبوت ہے" سے اس سال محمد یوسف صاحب پریذیڈنٹ جماعت انڈونیشیا کے دو مخلص احمدیوں کا انتقال احمدیہ پڈنگ اور امیر کو شا جیسے سلسلہ حمیدہ کے فدائی اور شیدائی داغ مفارقت دے گئے.امیر کو ما عابد زاہد بزرگ تھے جو میدان کے ابتدائی مشہور مباحثات در منعقدہ ۱۹۳۷) کے بعد مولوی ابو بکر صاحب سماٹر کی اور مولوی محمد صادق صاحب کی تبلیغ سے اپنے پیر طریقت صوفی شیخ کا من سمیت احمدیت میں داخل ہوئے اور احمدیت کی خاطر ہمیشہ نہایت بشاشت سے مصیبتیں برداشت کرتے رہے.ایک دفعہ تین مخالفوں نے آپ پر ڈنڈے سے حملہ کر دیا.انہوں نے کمال بہادری سے تینوں کا ایسا کامیاب مقابلہ کیا کہ صبح ان میں سے دو کے منہ پھوٹوں کی وجہ سے سوج گئے تھے اور شکلیں بھیانک سی بنی ہوئی تھیں.مولوی محمد صادق صاحب کا بیان ہے ے اس کا نفرنس کا ذکر اس باب کی فصل ششم میں آرہا ہے (مؤلف) له الفضل از افادر اکتوبرش صفحه کالم ۲ - ۴ :
کہ " امیر کوٹا لڑائی کے بعد کہہ رہے تھے کہ مومن بہادر ہوتا ہے اور خدا اس کا مددگار ہوتا ہے.ان کا چہرہ نہایت روشن تھا اور بہادری اور شجاعت کی وجہ سے وہ بڑے ہشاش بشاش نظر آتے تھے اور انہیں نہ پہلے کبھی خوف لاحق ہوا اور نہ اس واقعہ کے بعد ہی میں نے خوت و ہر اس کے آثار ان میں دیکھے“ امیر کو تما صاحب کو یہ تھر بھی حاصل تھا کہ انہوں نے سلسلہ احمدیہر کے قلمی جہاد میں نمایاں حصہ لیا.چنانچہ وہ بعض اوقات ساری ساری رات مکرم مولوی محمد صادق صاحب کی تصانیف پر نظر ثانی کرنے اور اسے ٹائپ کونے میں منہمک رہتے تھے اور مسلسل اور لگاتار محنت کے باوجود مکان کا حرف تک زبان پر نہیں لاتے تھے.جنگ عظیم کے دوران جبکہ بجاپانی حکومت انڈونیشیا پر قابض معنی مولوی محمد صادق صاحب نے جاپانی حکومت کو اسلام : احمدیت کی تعلیمات سے روشناس کرانے کے لئے ایک مفصل تبلیغی خط لکھا تھا.اس مضمون پر مولوی صاحب اور امیر کو کمانے ایک ساتھ دستخط کئے اور مضمون مغربی سماٹرا کے گورنر کی خدمت میں خود جا کر پیش کیا ہے مشق کے ایک مخلص احمدی کا انتقال اسید مصطفے نویاتی جو جماعت احمدیہ مشق کے ایک نهایت مخلص دوست تھے اور حضرت مولوی جلال الدین صاحب شمس مجاهد بلاد عربیہ کے ذریعہ حلقہ بگوش احمدیت ہوئے تھے.ار افاد /اکتوبر ی پر پیش کو حالت فرما گئے.سے ام نگر میں سیدنا حضر امیرالمومنین ۲۰ نیوت از میرات پیش کو حضرت مصل مولود بزداید مور راوی سے نومبر بذریعہ احمدنگر تشریف لائے حضور کے ہمراہ سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاب کی تشریف آوری کے نسبتی بھائی استاذ احمد آفندی فائق الدشقی، مولانا عبدالرحیم صاب درد اور ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب بھی تھے.حضور نے یہاں پہنچتے ہی سب سے پہلے جامعہ احمدیہ و مدرسہ احمدیہ کے طلباء و اساتذہ سے ایک ایمان افروز خطاب فرمایا اور انہیں بتایا کہ " تم لوگ ہر اول دستہ کے طور پر آئے ہو اور تم لوگ جنہوں نے الفضل اور بد امنی، ۳/ احسان جون ، هر احسان جون بش ، نے شیخ نور احمد صاحب منیر اور حضرت شمس صاحب نے ان کی وفات پر مضمون لکھے جو الفضل ، سر نبوت / نومبر اور مه رفتم دسمبر تلاش میں شائع ہوئے : +
۱۲۹ اپنی زندگیاں خدمت دین کے لئے وقت کی ہوئی ہیں.حضرت اسمعیل کی اس اولاد کی طرح ہو جنہوں نے وادی غیر ذی زرع میں بستی کو آباد کیا تھا.یہ کوئی اتفاقی بات نہیں ہے تعلیم الاسلام کا لج کو تو لاہور میں جگہ مل گئی اور ہائی سکول کو چین بوٹ میں مکان مل گیا.لیکن مدرسہ احمدیہ اور جام نہ احمدیہ کو یہاں احمد گہ نہ میں جگہ ملی جو دیور کا ہی حصہ ہے بلکہ یہ مقدائی منشاء کے ماتحت ہے" d حضور نے اپنے قلم سے جامعہ احمدیہ کے رجسٹر پر مندرجہ ذیل عبارت تو یہ فرمائی : میں وہی کہتا ہوں جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے جنگ اُکر کے موقعہ پر فرمایا الله اعلى واجل " ازاں بعد نور نے احمدنگر کی زیر تعمیر احمدیہ مسجد میں مغرب کی نماز پڑھا کہ اس کا گویا افتتاح و کرا دیا.اس مسجد کا سنگ بنیاد دوماہ قیل مکرم مولوی ابوالعطاء صاحب پر سپین جامعہ احمدید پرینڈ ٹرنر ما احمد کرنے مار اد اکتوبر بروز جمعتہ المبارک رکھا تھا.یہ احمد نگر کی پہلی احمدیہ مسجد ہے جو مشر پنجاب کے پناہ گزیں احمدیوں کے ہاتھوں تعمیر ہوئی میلے بیرونی مشغول کی گرمیاں : یہ سا ما احمدیر شن فلسطین کی تاریخ میں انتہائی پر فتن اور پر ابتلا تھا.ارض مقدس فلسطين شن :- میں بڑی بڑی طاقتوں کی سازش نے مسلمانان فلسطین کے سینے میں اسرائیلی حکومت کا خنجر گھونپ دیا اور اس علاقہ میں مشرقی پنجاب جیسے حالات پیدا زد گئے.بایں ہمہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمد یہ فلسطین کو توفیق بخشی کہ اس نے نہایت جانبازی اور سر فروشی کا ثبوت دیتے ہوئے اسلام کا جھنڈا اس علاقہ میں بلند رکھے اور اس کے مرکز جیفہ کی مسجدیں پنجوقتہ اذانوں کی گونج سنائی دیتی رہی.چنانچہ مولوی محمد شریف صاحب استا ریخ مشن نے مشن کی ۴۷ و یء کی رپورٹ میں لکھا :- بار چ ہ سے ستمبر م ۹۳ تک یہاں قیامت برپا رہی.آج یہاں کے دس لاکھ مسلمان عربوں میں سے ساڑھے آٹھ لاکھ مسلمان عرب جلا وطن اور بے نما نما ہو کر پڑوس ممالک میں پناہ له الفضل ۲۵ فرع / دسمبر به بش صفحه ۵ : در انتها دار اکتوبیمه در
گزین و خیمہ زن ہیں اور عیسائی دنیا کی خیرات اور اسلامی ممالک کے صدقات پر لب و اوقات کر رہے ہیں.جولائی سے نومبر تک یہ دیو نے جلیل ونقب میں بالائی ہدایتوں کے مطابق جنگ جاری رکھی.اور اس وقت عربی ممالک کی فوجیں اپنے اپنے ممالک میں بس چکی ہیں اور سابقہ فلسطین کات سے زیادہ حصہ یہودیوں کے قبضہ میں ہے.یور بین نماد لائل سے یہاں اسرائیل کی مردم شماری یہودیوں نے ماہ جون شالہ میں پہلی دفعہ کی.اس وقت ملک اسرائیل میں پچیس ہزار کے قریب غیر یہودی تھے جن میں سے دس ہزار کے قریب عرب تھے اور باقی دیگر اجنبی تھے اور یہ اس علاقہ کا حال ہے جہاں تو میر نہ میں ساڑھے چار لاکھ عرب رہتے تھے.گذشتہ حکومت نے مارچ ۱۹۴۰ مہ میں یہاں مسلسله آمد و رفت و رسل و رسائل بند کر دیا تھا.ریلیں بند کر دی تھیں اور سب لوگوں کو (سوائے یہودیوں سے کیونکہ ان کی حکومت کے اندر حکومت بن چکی تھی، اپنے اپنے علاقوں اور گھروں میں تحصور کر دیا تھا.۵ار مٹی سے جب یہودیوں نے حکومت اسرائیل قائم کو نا شروع کر دی.غیر یہودیوں کو جن کا نام موجودہ ایام میں 8 کلاس ہے ، جنگ کے عدد سے اپنے اپنے بجائے رہائش میں بند رکھا اور اب تک پابندی باقی ہے اور 8 کلاس پر مری رول نافذ ہے.اپنے بجائے رہائش سے دوسری جگہ جانے کے لئے ملٹری پرمٹ لینے کا حکم ہے.پرمٹ دو باتوں کے لئے بعد تحقیقات ملتا ہے.کوئی دوسری جگہ ملازمت یا مزدوری کرتا ہو یا قریب ترین خونی رشتہ دار کی ملاقات کے لئے.۲۳ اپریل شاہ کو یہودیوں نے حیفہ فتح کر لیا.۲۴ اور ۲۵ کو ملحقات حنیفہ پر قبضہ کر لیا.اس سلسلہ میں ۲۵ تاریخ کو ماؤنٹ کر مل پر واقعہ عرب آبادی با بیر کی باری آگئی صبح ہوتے ہی پچاروں اطراف سے مسلح فوجوں نے محاصرہ کر لیا اور ہمارے سامنے دو شرطیں پیش ہوئیں.ہجرت کرنا چاہیں تو ہتھیار وغیرہ دے کر ہجرت کے بجائیں.یہاں رہنا چا ہیں، تو ہتھیار وغیرہ اور جس قدر سپا ہی آپ کے پاس مقیم ہوں وہ ہمارے سپرد کر دیں.ہم نے
۱۳۱ ارشاد نبوى مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ وَعِرْضِهِ فَهو شمسید پر عمل کرنے کا سلام کو رکھا تھا.سپاہی کوئی ہمارے ہاں آیا نہ تھا.مغرب تک گوشہ گوشہ کی تلاش و تفتیش کر کے ALL CLEAR دیئے گئے ار اگست ۹۴۷اد سے جون ۱۹۴۰ تک سارے اصلی اسرائیل میں صرف ہماری مسجد سید نا محمود سے ہی پانچ وقت اذان بلند ہوتی رہی.باقی سب مساجد مہجور ہو گئیں بہاری آنکھوں کے سامنے شہر گر گئے اور آبادیاں ویران ہو گئیں.ان ایام میں جبکہ ہمارے چاروں طروت گولیاں برستی تھیں اور ہر بات یہ معلوم نہ ہوتا تھا کہ صبح ہم پر طلوع ہوگی یا نہیں، دعوت احمدیت کا کام با وجود محصور ہونے کے بھاری رکھا.اگرچہ بیرونی دنیا کے ساتھ مارچ سنہ سے فروری سنہ تک سلسلہ عام ڈاک منقطع رہا تاہم رسالہ "البشري " با قاعدہ جاری رکھا گیا.جن ایام میں سلسلہ ڈاک منقطع تھا.بیرونی ممالک کو جس قدر رسالہ بھیجا جاتا تھا وہ محفوظ رکھا جاتا تھا اور مقامی طور پر حیس قدر تقسیم کیا جا سکتا تھا، تقسیم کیا جاتا رہا.فروری 1999 میں بہت سے ملکوں کے ساتھ سلسلہ عام ڈاک روال ہوا.مگر تا ھائی سوائے عدن کے اس ملک کے جملہ اسلامی ممالک سے تعلقات کے منقطع ہونے کے باعث رسالہ بھیجا نہ جاسکا.رسالہ کے ہر نمبر کا مسودہ طبع کرنے سے پہلے ملٹری سنسر کو برائے حصول اجازت طلبات بھیجنا پڑتا ہے اور بعد طباعت بھی اس کی دو کا پیاں ارسال کرنی پڑتی ہیں اور یہی حکم دیگر مطبوعات کا ہے.بوقت تحریر ہذا مشرقی افریقہ ، حبشہ ، عدن ، مغربی افریقہ ، ارجنٹائن اور برازیل کو بھیجا جاتا رہا ہے.۱۹۴۷ء میں جس قدر عربی اخبارات و رسائل اس ملک میں شائع ہوتے تھے اب ان میں سے صرف ہمارا رسالہ ہی ہے جو جاری ہے.اگر چہ پہلے بھی سارے فلسطین میں سے کوئی بھی اسلامی دینی رسالہ شائع نہیں ہوتا تھا مگر اب تو ہر قسم کے رسائل ؟ اخبارات و کتب پر بھی قیامت برپا ہو چکی ہے.
اس سلسلہ میں رسالہ البشری کے علاوہ مندرجہ ذیل رسائل و اشتہارات بھی شائع کئے گئے :- -١- هيئة الامم المتحده (قرار تقسیم فلسطین ) ایک ہزار شائع کیا.میہ اشتہار حضرت اقدس کے مضمون فلسطین کا فیصلہ کا ترجمہ ہے.سلسلہ ڈاک کے بند ہونے سے چند روز پیشتر بلاد عربیہ کی احمدی جماعتوں کے علاوہ سب عربی اخبارات کے ایڈیٹروں کو ار سائل کر دیا گیا.فلسطین کے روز نامہ فلسطین “ نے اس پر عمدہ نوٹ لکھا.دیگر قریبی اسلامی ممالک سے تو کوئی اطلاع نہ مل سکی.سوڈان سے ایک خطر کسی کا موصول ہو گیا تھا جس سے معلوم ہوا کہ وہاں کے دو اخباروں نے اسے من وعن شائع کیا اور اچھے ریمارکس دیئے.۴۰ ساله کشف الغطاء عن وجه شريعة البهاء.ایک ہزار کی تعداد میں شائع ہوا.حجم ۲۴ صفحات.بہائیت کی مختصر تاریخ درج کرنے کے بعد بالمقابل دو کالموں میں اسلام کی تعلیم قرآن مجید سے اور بہائیت کی تعلیم کتاب اقدس سے درج کی گئی.اس رسالہ کے شروع میں حضرت اقدس کا چیلنج بنام زعیم بہائیت بھی درج کیا گیا.کہ دعا کے ذریعہ دونوں مذہبوں اسلام اور بہائیت کی حقانیت کسی آسمانی نشان سے ثابت کریں.اور یہ رسالہ بذریعہ رجسٹری دو مرتبہ زعیم بھائیت مسٹر شوقی کو ارسال کیا گیا.اس رسالہ کی اشاعت پر 9 ماہ گزرنے پر اور زعیم بہائیت کی طرف سے کوئی جواب موصول نہ ہونے پر ایک اور اشتہار بھار صفحہ کا اتمام الحجة على زعيم البهائیت شائع کیا گیا.مگر دوبارہ پیلینج کے باوجود وہ خاموش رہے.الاستاذ السید نورالدین سابق انسپکٹر مدارس تبلیول ہمارے دار تبلیغ میں آئے اور ہمارے رسالہ کشمت الغطاء اور چیلنج کی تعریف کی.انہوں نے پوچھا، کوئی جواب آیا.میں نے کہا نہیں: کہنے لگے جَزَاكَ الله خيرا الي اعرفه أَنَّهُ جَاهِنَّ لَن يَتَكَلَّمَ أَبَدًا بیجنگ عظمی ثانیہ کے شروع میں حضور نے اس منشاء کا اظہار فرمایا کہ حمامة البشرى کی اشاعت کی جائے چنانچہ اس کے شائع کرنے کی توفیق ملی.زائرین مشن کی تعدادق زیبا تین سو ہے جو سب کے سب الا ماشاء اللہ یہودی تھے.یہودیوں
کے ساتھ عام طور پر یشیل موسی کی پیشگوئی زیر بحث رکھی بھاتی رہی مگر یہودی اس کی اپنی عارضی فتح کے نشہ میں سرشار ہیں اور ان کی طبائع بھی سیاسیات کی طرحت ، اٹل ہیں.جائے رہائش میں محصور ہو نے اور سارے ملک میں قیامت برپا ہونے کے ایام میں کسی بیعت کی امید رکھنا بہت بڑی امید ہے.لگتا ہم اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے 4 اشخاص کو سلقہ بگوش احمدیت ہونے کی توفیق بخشی.تحریک جدید کے چودھویں سال میں شامل ہونے کے لئے بھی احباب حیفا کو دعوت دی گئی.ابھی جماعت حیفا شہر کے سب احباب کی فہرست بھی مکمل نہ ہوسکی تھی کہ حیفا ہیں عربوں کو شکست ہو گئی اور ہمارے احمدی احباب حیفا سے ہجرت کر گئے.بہت سے عرصہ کے بعد معلوم ہوا کہ سب احباب سوائے ایک احمدی دوست السید محمد سعید کے جو راستہ میں فوت ہوئے بخیریت دوسرے ملکوں میں پہنچ گئے.اس لئے جماعت کہا بیر ہی تو حیفا شہر کا ہی ایک حصہ اور جبل کو مل پر واقع ہے ، اس میں شریک ہو سکی اور چودھویں سال کے حساب میں ان کی طرف سے 14 / 96 کے وصول ہوئے.او الفرع ابو میں قادیان کی حفاظت کیلئے بھی یہاں میں نے جماعت کو دعوت دی تھی جس پر جماعت کیا بیر کی طرف سے ۱۵۹ پونڈ - اشلنگ جمع ہوئے “ لے ماه ظهور ، تبوک دا خاور مہیش میں مجاہد شرق الاردن مولوی مجاہد اردن کا دورہ شام و لبنان ارشیا سمر جین چغتائی نے شام ولیشان کا ایک کامیاب بلیغی دورہ کیا.بھیس میں انہوں نے فلسطین کے حمد پناہ گزینوں کو تلاش کر کے ان کو منظم کرنے کی کوشش کی اور علاوہ تبلیغی لٹریچر کی اشاعت کے اُن ممالک کی بعض اہم اور ممتاز شخصیتوں سے ملاقات بھی کی.مثلاً استید شکری بک قوتی صدرجمہوریہ شام، الشیخ عبد القادر المغربي (رکن مجمع العلمي العربي ، الاستاذ تحلیل مردم بے رئیس الجمع) جمیل مردم بے سابق وزیر اعظم شام، مسٹر جبریل مرد و زیر دانفله و قائم مقام وزیراعظم محمد ربه لبنان، شام و لبنان کے پریس اور ریڈیو نے اس دورہ میں خاصی دلچسپی ٹی.عمان کے اخبار "وكالة الانباء العربية انے ۲۹ اکتوبر ۱۹۴ء کی اشاعت میں آپ کی اردن میں واپسی کی خبر شائع کی.ات : الفضل ارسال جنوری له ش کے سفر کی تفیلات کے لئے ملاحظہ ہو الفصل ۲۰ ار امان ماریا -
۱۳ ماسٹر محمد ابراہیم صاحب مجاہد اٹلی حضرت مصلح موعود کے حکم سے ۳ رامان/ سیرالیون شن مارچ یہ ہش کو فری ٹاؤن میں وارد ہوئے.اور نہ صرف احمدیہ سکول کی نگرانی، اساتذہ کی راہ نمائی مشن کی خط و کتابت اور ریکارڈ کی درستی وغیرہ میں مبلغ انچارچ کا ہاتھ بٹانا شروع کیا بلکہ لٹریچر اور ملاقاتوں کے ذریعہ تبلیغ کو وسیع سے وسیع تر کرنے لگے جس پر حضرت مصلح موعود نے ۲۲ ماہ نبوت / نومبر مہش کی مشاورتی مجلس میں اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا کہ " محمد ابراہیم صاحب نے پراپیگنڈا کا صحیح طریق اختیار کیا ہے " سے ماہ امان / مارچ میں امیر صاحب سیرالیون اور خلیل صاحب نے بو سے بتا مہ اور لاگو مقامات کا دورہ کیا.لاگو میں ہم نفوس کی نئی جماعت قائم ہوئی.افریقہ کے مغربی ساحل پر گیمبیا کی ریاست ہے جو سیرالیون سے قریباً چار سو میل کے فاصلہ پر واقع ہے.اس سال ماہ امان / مارچ میں مجاہدین سیرالیون نے گیمبیا کے بعض دوستوں سے خط و کتابت جاری کی.لڑ کر بھجوایا اور اس کے مقامی اخبارات میں تبلیغی مضامین شائع کرائے.اس طرح اس ریاست میں احمدیہ شن سیرالیون کے ذریعہ پہلی بار حق و صداقت کی آواز پہنچی ہے نائیجیریا مشن کے دو ایمان افروز واقعات خاص طور پر قابل ذکر ہیں :- نائیجیر باشن : -1 وسط یہ ہش میں ایک عرب نے جو اہل مدینہ کے - نام سے موسوم تھا لیگوس میں احمدیت کے خلاف زہر اگلا اور مبلغ انچارج نائیجیریا مولوی نور محمد صاحب تیم سیفی کو لکھا کہ اگر تم کسی اسلامی ملک میں ہوتے تو تمہارا سر قلم کر دیا جاتا جناب سیفی صاحب نے حضرت امیر المومنین المصلح الموعود کی خدمت میں اس کی اطلاع دی تو حضور نے تحریمہ فرمایا کہ " اللہ اس بات پر زور دیں کہ عرب ممالک کی کوشش تو سر ظفر اللہ احمدی کو خاص طور پر اپنا نمائندہ مقرر کرنے کی ہے اور ابن سعود کے صاحبزادے ان کو دعوتیں دیتے ہیں.شام کی حکومت ان کو سب سے بڑا تحفہ دیتی ہے اور اب بھی ان کو خاص طور پر شام بلوایا گیا ہے له الفضل ۲۳ ماه می امیرایش صفحه ۵- 1 کالم سے رجسٹر کار وائی مشاورتی اجلاس ( رتن باغ) الفضل ۲۹ احسان جون س ش صفحه ۵ کالم ! که نقل مطابق اصل."آپ" ہوگا (مولف) }
۱۳۵ اور تم کہتے ہو ، اسلامی حکومت ہوتی تو تم کو مارا جاتا.لیکن فرض کرو کہ مارا جاتا تو کیا مگر میں صحابہ کو مارا نہیں جاتا تھا.مارا جانا تو اس امر کی علامت ہے کہ دلائل ختم ہو چکے اب ڈنڈے کے زور سے صداقت کا مقابلہ کیا جائے گا.مگر اس طرح صداقت نہیں دیا کرتی " اہل مدینہ نے جناب نسیم سیفی صاحب کو عربی میں مناظرہ کا چیلنج دیا تھا جو جناب نسیم بینی صاحب نے منظور بھی کر لیا تھا مگر وہ صاحب پہلو تہی کرتے رہے اور مباحثہ کئے بغیر واپس چل دئے.اور ۲.دوسرا واقعہ یہ ہوا کہ اچھے بوڑے کے ایک شخص نے مہدی ومسیح موعود ہونے کا اشتہار دیا جناب نسیم سیفی صاحب کو ان کے ایک تبلیغی خط کے جواب میں مناظرہ کی دعوت دی.ابھی یہ خطہ آیا ہی تھا کہ اس شخص پر مقامی حکومت کے خلاف بغاوت کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا اور جرم ثابت ہو جانے پر حفظ امن کی ضمانت طلب کر لی گئی ہے اور مشرقی افریقہ مشن به اس سال ماہ شہادت / اپریل کے آخر میں مولوی فضل الہی صاحب بشیر مشرقی افریقی مشن مقامی افریقی مبلغ معلم فضل احمد صاحب کے ذریعہ لی بو ہے (AS EMBOBAY) میں ۵ نفوس پر مشتمل نئی جماعت کا قیام ہو اسکے مکرم شیخ مبارک احمد صاحب ٹیمیں تبلیغ کی دیرینہ خواہش تھی کہ ایک لاکھ سواحیلی ٹریکٹ احمدیت و اسلام کی حقانیت اور ابطال عیسائیت پر شائع کر کے مشرقی افریقہ کے کونہ کونہ میں پھیلا دیئے بھائیں بچنا نچہ اس سال ی وی دی وی ار ام نوبت او میری کمپنی مبارک و صاحب اور تم میری بدری صاحب نے دوس ٹیکٹ چھپنے کے لئے پریس میں بھیجوا دیئے ہے کارایی امریکن احمدی جماعتوں کی پہلی سالانہ کا نفرنس سے تبوک استمبر امریکی حمدیوں کی پہلی سالانہ کا نفرنس مین کو تمام این منعقد ہوئی جس میں ناگوار ہیں ڈیٹین بنگ، انڈیانا پوست ، کلیولینڈ ، ٹنگیں ٹاؤن ڈوائن ، ہوم سٹینڈ نیو یارک اور کیس سٹی کے نجانے شرکت کی.له الفضل ۲۰ ظهور و گستر مش صفحه ۱۵ سے افضل ها روفا / جولائی همایش صفحه ۶ به ۱۹۸ ه الفضل در صلح جنوری پر مش صفحه به که تفصیلی روداد کیلئے طاحظہ ہو الفضل ۲۴ ۲۵ شیوک استمبر ش:
مجاہدین، حمیت کی آمد اور روانگی اسمبلی اسلام صوفی مطیع ا انت صاحب بنگالی امریکہ می الرحمن برسوں تک اعلائے کلمتہ الحق کرنے کے بعد ۲۸ تبلیغ / فروری یہ ہش کو واپس تشریف لائے بلے ۲- مولوی عبد القادر صاحب نبینم به تبوک استمبر رمیش کو ارجنٹائن میں تبلیغ اسلام کا فریضہ انجام دینے کے لئے لاہور سے روانہ ہوئے.طبوعات اس سال مندرجہ ذیل کتب اور پمفلٹ شائع ہوئے جن سے سلسلہ احمدیہ کے ٹریچر نئی میں قیمتی اضافہ ہوا :- تفسیر کبیر سورہ فاتحہ وسورہ بقرہ ابتدائی و رکوع -1 کام قیام پاکستان اور ہماری ذمہ داریا ں.“ ۳.آخر ہم کیا چاہتے ہیں " " الكفر ملت واحدة “ دیباچہ تفسیر القرآن (اردو ایڈیشن) احمدیت کا پیغام مظالم قادیان کا خونی روز نامچہ " QADIAN DIARY - A ( حضرت مصلح میشود ) " 4 ر حضرت مرزا بشیر احمد صالات , ( ( ( ( و.استحکام پاکستان اسماء القرآن في القرآن -11 قرآنی دعاؤں کے اسمرالہ ۱۲ تبلیغی خط الفضل د تبلیغ ضروری اش صفحه ۱- کا م ۲ له الفضل هر تبوک استمبر یش صفحه 1 ۶۱۹۴۸ رب على اننا عرفانی ( مولانا جلال الدین اصلا شمس)
۱۳۷ فصل چهارم جرمن مشن کا احیاء فت ثانیہ کا چھتیسواں سال ۱۳۳۰ پرین ۱۹۴۹ جرمن مشن جو پہلی بار مولوی مبارک علی صاحب بنگالی اور ملک غلام فرید صاحب ایم.اسے کے ذریعہ سے دسمبر ۱۹ ء میں قائم ہوا تھا اور مئی ۱۹۲۲ء سے بند تھا.۲۰ ما، صلح جنوری ۳ مہش کو چوہدری عبد الطیف صاحب بی.اسے واقف زندگی کے ہاتھوں بھاری ہو گیا.چوہدری صاحب نے ہمبرگ میں اپنا تبلیغی مرکز قائم کیا.شروع میں آپ کچھ بتدای تبلیغی سرگرمیاں عرصہ جو من زبان سیکھتے اور اس دوران میں انگریز ی سے کام چلاتے رہے.۲۴ ماه تبرت امنی پر میش کو آپ نے وسط شہر کی ایک سرکاری عمارت ( DERNIERE) کے دینے ہال میں پہلا تیلینی اجلاس منعقد کیا.علاوہ ازیں یو نیورسل لیگ، اور ہمبرگ سٹڈی کلب کے زیر اہتمام.زیر آپ کے لیکچر بھی ہوئے چوہدری صاحب نے تقریر کے بعد تحریر کی طرف توجہ دی.زیورک سے عشرت المصلح الموعودة كي تاليت THE LIFE AND TEACHINGS OF PROFKET MOHAMMAD کا بر من ترجمہ شائع کیا.یہ سلسلہ احمدیہ کی پہلی کتاب تھی جو مشن کے اس دور میں شائع ہوئی.برمنی میں تحریک احمدیت ی داغ میں سوٹرین مین کی سالی سے بعض جرمن قبل ازیں قبول اسلام کر چکے تھے مین میں سے عبد الکریم ڈانگر نے نمایاں اخلاص کا ثبوت دیا اور وہ مبلغ جرمنی کے دست و بازو بن گئے.۱۸ انصار اکتوبر کو مسٹر HANS نے جون مشن کے دور اول کی تفصیل پر تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحه ۳۸۶ - ۳۸۰ پر روشنی ڈالی جا چکی ہے ؟ له الفضل ۲۱ مصلح استوری اش صفحه له / الفضل ۲ احسان جون مش سفر ۲ کالم ۱ رش : ه الله مل ۲۴ تبوک استمر في کالم : هي افضل ۲۵ ظهور/ اگست له پیش صفر ۴ : 51479
NGER تار اور ۲۵ نبوت / نومبر کو مسٹر NOWA.ہر حلقہ بگوش احمدیت ہوئے جن کا اسلامی ؟ نام بالترتیب عبدالحمید اور عبد الرحیم رکھا گیا.اس طرح پہلے سال ہی ایک مختصر سی جماعت کی داغ بیل پر پڑ گئی.چوہدری صاحب ابتداء میں ایک نو مسلم مسٹر کہونے (KUNNE) مبلغ اسلام کی رہائشی مشکلات مرد یہاں رہتے تھے مگر اس شخص نے جماعت سے علی گی کے اختیار کر کے ملک میں آپ کا رہنا دو بھر کر دیا.جو منی سینگ عظیم میں شکست کے بعد ان دنوں غیر معمولی حالات سے دو چار تھا اور کسی مکان کے میتر آنے کی بظا ہر کوئی توقع نہ تھی مگر خدا تعالٰی نے ایسی تائید نصرت فرمائی کہ خود جرمنی حکومت نے مبلغ اسلام کے تہمبرگ میں رہائشی تفوق تسلیم کر لئے اور ان کے لئے رہائشی مکان کا بندوبست بھی کر دیا ہے نیوز برگ میں جماعت کا قیام اب تک صرف برگ میں اور یہ جمعت تھی لیکن ماہ تسلیغ احمدیہ نیورمبرگ سے کہا میں میں اس حق ہو گیا.ہ ہی میں اس کا حلقہ نیور مرگ تک متد ہو گیا.جہاں 1907 خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے تین نفوس پر مشتمل ایک نئی جماعت قائم ہو گئی.بعد ازاں جناب گھر ہو فر (HOFFER) بر من نو مسلم دوست وہاں پر آنریری مبلغ متعین ہوئے ہوس او نیک کمال اخلاص سے یہ خدمات بجالاتے رہے.جو من مستشرق ڈاکٹر ٹلٹاک کے بعض سوالات جرمنی کے ایک مستشرق ڈاکٹر کوٹ مٹاک P) تحریک احمدیت (BR.CURT TILTACK) اور حضرت مصلح موعود کے ایمان افروز جوابات کے بارہ میں ایک کتاب لکھنا چاہتے تھے.مبلغ جرمنی نے انہیں احمدیت یعنی حقیقی اسلام " مطالعہ کے لئے دی جس کی مدد سے انہوں نے خاصہ مواد جمع کر لیا.مزید راہنمائی اور وضاحت کے لئے انہوں نے یکم دسمبر ۱۹۵۷ء کو بذریعہ مکتوب چار سوالات حضرت مصلح موعود کی خدمت میں بھیجوائے :- 1- کیوں احمدیہ جماعت تحقیقی اسلام ہے ؟ ے رش میں وفات پائی : +192.الفضل و رفتی اس ام ال مره النسل دارد له الفضل و فتح دسمبر مین صفحه ۳ : ه الفضل ، ال اجرت امنى - 11- مش.1904 ۱۹۹۵۲
۱۳۹ (۴) احمدی لوگ ابراہیم ، موسیٰ ، برق ، زرتشت اور سیح کے متعلق کیا کہتے ہیں ؟ ۳.مذاہب کے لئے احمدیت کیا اہمیت رکھتی ہے اور معاشی اور سیاسی اعتبار بنی نوع انسان کو کیا فائدہ بخشتی ہے ؟ -۴ احمدیت کی تاریخ تنظیم، اشاعت اور اس کے معتقدوں کی تعداد کیا ہے؟ حضرت مصلح موعود نے ان سوالات کے جواب میں ایک حقیقت افروز مکتوب تحریر فرمایا جس کا مکمل متن درج ذیل کیا جاتا ہے :.کرمی : بسم الله الرحمن الرحیم نحمده ونصلى على رسوله الكريم السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاته آپ کا خط مورخہ یکم دسمبر سنہ ملا.آپ کے دریافت کردہ سوالات کے جواب مندرجہ ذیل ہیں :- پہلا سوال.کیوں احمدیہ جماعت حقیقی اسلام ہے ؟ جواب.احمدی جماعت کی نسبت ہو یہ کہا جاتا ہے کہ وہ حقیقی اسلام ہے اس کی وجہ یہ ہے که اسلام اس امر کا مدعی ہے کہ اس کی تعلیم آخری تعلیم ہے جو حصہ اجتہاد کے لئے چھوڑا گیا ہے اس میں ماہرین اسلام کو اجتہاد کرنے کا حق حاصل ہے اور جمہور اسلام کو بھی اجتہاد کرنے کا حق حاصل ہے لیکن وہ اجتہاد ایسے لوگوں پر نہ حجت ہے اور نہ ان کو پابند کر سکتا ہے جو اس اجتہاد سے متفق نہیں.ہر شخص کے سامنے ایسا مسئلہ آجائے گا اگر اس کی عقل اُسے تسلیم کرے گی تو وہ مانے گا اگر عقل تسلیم نہیں کر ے گی تو نہیں مانے گا لیکن کچھ حصہ شریعت اسلام کا ایسا ہے جو بطور نص کے آیا ہے یعنی قرآن کریم یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعد میوں میں اس کو واضح طور پر بیان کر دیا گیا ہے اور اس کے متعلق ترجمہ یا تشریح کا تو سوال پیدا ہو سکتا ہے اجتہاد کا سوال پیدا نہیں ہو سکتا.ایسی تعلیم اسلامی نقطہ نگاہ سے غیر متبدل ہے ہو ایسی فلیم کو نہیں مانتا اُسے یہ تو حق حاصل ہے کہ وہ کہے کہ قرآن کا ترجمہ غلط کر دیا گیا ہے جسے وہ لغت اور صرف ونحو کے قواعد سے ثابت کر سکتا ہے.لیکن اسے یہ حق حاصل نہیں کہ وہ یہ کہے کہ گو مفہوم لفظوں سے یہی نکلا تا ہے مگر میں زمانہ کی ضرورتوں کے لحاظ
سے اس میں فلاں فلاں تبدیلی پسند کرتا ہوں.اس تشریح سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اسلام کی اس تعلیم کے بموجب اب کوئی نیا غریب نہیں آسکتا.کیونکہ جیسا کہ بنایا گیا ہے اسلام کا دع بھی ہے کہ اس کی تعلیم دائمی ہے.پس اگر کوئی فرقہ نیا پیدا ہوتا ہے جو پرانے فرقوں سے اختلاف رکھتا ہے اور اس کا اختلاف بہت نمایاں نظر آتا ہے تو پرانے عوام یہ خیال کرتے ہیں کہ شاید ان لوگوں نے اسلام سے باہر کوئی نیا مذہب نکالا ہے.اسی طرح غیر مسلم لوگوں کو بھی یہ شبہ پیدا ہوتا ہے که شاید یہ کوئی نیا مذہب ہے.پس اس شہر کو دور کرنے کے لئے یہ لکھا جاتا ہے ، کہ احمدیت ہی حقیقی اسلام ہے.یعنی احمدیت کوئی نیا مذہب نہیں ہے بلکہ جہاں وہ دوسرے فرتوں سے اختلاف کرتی ہے وہاں وہ یہ دعوئی بھی کرتی ہے کہ یہ اختلاف اسلام سے نہیں ہے بلکہ موجودہ فرقوں سے ہے.اسلام کی صحیح تشریح وہی ہے جو کہ احمدیت پیش کرتی ہے.اب رہا یہ سوال کہ اس کا دعوی کہاں تک سچ ہے سو اس سوال کا فیصلہ اسی طرح کیا جائے گا جس طرح ہر سچائی کا کیا جاتا ہے.یعنی ہر انسان کو خدا تعالیٰ نے عقل دی ہے وہ اپنی عقل سے احمدیت کے دلائل کا موازنہ کرے گا اور پھر فیصلہ کرے گا.اگر احمدیت جو قرآن کی تشریح پیش کرتی ہے وہ قرآن کریم کی دوسری آیتوں کے مطابق ہے اور لغت عربی اور عربی گرامردونوں اُس کی تصدیق کرتی ہیں یا اسے جائز قرار دیتی ہیں اور عقل بھی اور ضمیر انسانی مجھی انہی معنوں کی تصدیقی کرتی ہے تو ماننا پڑے گا کہ احمدیت والی تشریح ہی درست ہے دوسری، تشریحی غلط ہے.اندر پونکہ رو تشریح ہے کوئی نیا عقیدہ نہیں ہے اس لئے اگر وہ تشریع درست ہے تو پھر احمدیت میں حقیقی اسلام ہے اور جو لوگ اس کے خالات عقیدہ بیان کرتے ہیں وہ در حقیقت اسلام سے دور جا پڑے ہیں اور اپنے خیالات کو اسلام کے نام سے پریڈ کرتے ہیں.دوسرا سوال - احمدی لوگ ابراہیم ، موسی ، بدھ ، زرتشت اور مسیح کے متعلق کیا کہتے ہیں ؟ جواب.یہ سوال جو آپ نے کیا ہے یہ بھی اُوپر والے سوال کا ایک حصہ ہے.اس سوال کے متعلق احمدیت جو تعلیم دیتی ہے وہ اس وقت کے مسلمانوں کے لئے عجوبہ ہے
اور وہ اس تعلیم کی وجہ سے بھی احمدیوں کو اسلام سے خارج سمجھتے ہیں.لیکن جیسا کہ بتایا جائیگا ید ان کی غلطی ہے.در حقیقت، ان کا اپنا عقیدہ اسلام سے تاریخ ہے.یہاں تک ابراہیم موسی اور عیسی کا سوال ہے ان کے متعلق سب مسلمان متفق ہیں کیونکہ ان تینوں نبیوں کا نام قرآن کریم میں آیا ہے اور ان کی نبوت کا اقرار کیا گیا ہے حضرت مسیح کے متعلق احمدیت کو غیر احمدی مسلمانوں سے اتنا اختلاف ہے کہ احمدی عقیدہ کے مطابق قرآن کریم سے ثابت ہے کہ حضرت علی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں (سورہ مائدہ آیت ۱۱۷ و آل عمران آیت ۵۵ و فساد آیت ۱۵۰) لیکن غیر احمدیوں کے نزدیک حضرت مسیح آسمان پر اٹھائے گئے ہیں اور اب تک زندہ ہیں.یہ عقیدہ عیسائیوں والا عقیدہ نہیں کیونکہ عیسائیوں کے نزدیک مسیح صلیب پر چڑھائے گئے اور اس پر فوت ہو گئے اور پھر زندہ کئے گئے مسلمان اس کو نہیں مانتے.وہ یہ کہتے ہیں کہ جب میسج کو صلیب پر پڑھانے کے لئے یہودی اور گورنمنٹ کی پولیس پکڑنے کے لئے گئی تو خدا تعالیٰ نے ان کو آسمان پر اٹھا لیا اور یہودا اسکر یوطی کہ یا کسی اور یہودی کو راس میں اُن کے اندر اختلاف ہے، بیٹے کی شکل دے دی گئی اور پولیس اور بیہودیوں نے اس شخص کو میسج سمجھ کر صلیب پر لٹکا دیا اور وہ اس پر مر گیا.احمد یہ عقیدہ یہ ہے کہ مسیح صلیب پر لٹکایا گیا لیکن قرآن کریم کے رُو سے وہ سلیب پر مرا نہیں اور انجیل کے رُو سے وہ صلیب پر سے زندہ اتار لیا گیا جب کہ صلیبی واقعات سے اور نیزہ مارنے کے واقعات سے ثابت ہوتا ہے کیونکہ نیزہ مارنے پر ستیان خون نکلا ہے.مردے میں سے خون نہیں نکلا کرتا، گوہ انجیل نے اسکی خون اور پانی کہ لفظ سے بیان کیا ہے مگر خون اور پانی الگ الگ تو نکلا نہیں کرتے.در حقیقت ستیال خون کو ہی خوان اور پانی کے لفظوں سے بیان کیا گیا ہے اور یہ ہمیشہ زندوں میں سے شکلا کرتا ہے.اسی طرح خود مسیح نے اپنے متعلق جو پیشگوئیاں کی ہیں ان سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ زندہ ہی صلیب سے اتارا گیا اور زندہ ہی قبر میں رکھا گیا.کیونکہ اس نے اپنے صلیب کے واقعہ کو یونس نبی کے مچھلی کے پیٹ میں جانیے والے واقعہ کے مشابہہ قرار دیا ہے.اور یونس نبی مچھلی کے پیٹ میں زندہ ہی گیا تھا اور زندہ ہی نکلا تھا.پیس اس پیشگوئی کے مطابق مستے بھی زندہ ہی قبر میں داخل ہوا اور زندہ ہی نکلا.اسی طرح ►
: ۱۴۲ صاف لکھا ہے کہ مسیح نے تھوما کو کہا کہ میرے زخموں میں انگلیاں ڈال میسیجیوں کے عقیدہ کے مطابق میسج کا جسم تو انسان کا جسم تھا وہ آسمان پر نہیں گیا نہ وہ آسمان سے آیا تھا اور صلیب جسم کو دی گئی تھی نہ کہ رُوح کو.پس زخموں کا موجود ہونا اور تھوما سے اس میں انگلیاں ڈلوانا بتاتا ہے کہ میسج اسی حیثیت سے دنیا میں موجود تھا میں حیثیت سے وہ صلیب سے پہلے تھا.صرف صلیب سے زخم اس پر آگئے تھے.اسی طرح لکھا ہے کہ مسیح کہتا ہے کہ میں بنی اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کو جمع کرنے کے لئے آیا ہوں.لیکن صلیب سے پہلے تو مسیح کو گمشدہ بھیڑوں تک جانے میں کبھی موقع ہی نہیں ملا.پس یقیناً وہ صلیب سے زندہ اتارا گیا اور پھر گمشدہ بھیڑوں کی طرف یعنی ایران، افغانستان اور کشمیر کی طرف گیا جیسا کہ تاریخ سے ثابت بھی ہے.اس کے متعلق آپ بانی سلسلہ احمدیہ کی کتاب " مسیح ہندوستان میں " پڑھیں یا سلسلہ کے مبلغ مولوی جلال الدین صاحب شمس کی کتاب " WERE DID JESUS DIE ' رکھیں."؟ مجرہ اور زرتشت کے متعلق دوسرے مسلمانوں کا خیال یہی ہے کہ وہ جھوٹے تھے مگر احمدیت کہتی ہے کہ وہ بھی سچے نبی تھے کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالے صاف فرماتا ہے وان مِنْ أُمَّةِ الأَخَلَا فِيهَا نَدِ بُرُ (سوره فاطر آیت ۲۴) کوئی قوم دنیا میں ایسی نہیں.جس میں نبی نہ آئے ہوں.یہی عقیدہ عقل کے مطابق ہے اور جب قرآن مانتا ہے کہ کئی قوموں کے نبیوں کا اُس نے ذکر نہیں کیا لیکن آئے وہ ضرور ہیں.اور جب ہمیں نظر آتا ہے کہ مختلف ملکوں میں ایسے لوگ گزرے ہیں جنہوں نے نہایت اعلیٰ درجہ کی تعلیم دی ہے اور باوجود اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرنے کے اللہ تعالیٰ نے انہیں تباہ نہیں کیا اور بڑی بڑی جماعتیں اُن کے ذریعہ قائم ہوئی ہیں سمان تکہ بائیبل اور قرآن کے رو سے جھوٹے ینی کامیاب نہیں ہوتے بلکہ تباہ کئے جاتے ہیں تو ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ یہ لوگ نبی تھے.اور اگر ہم اُن کو نبی نہ مانیں تو قرآن کریم کا یہ دعوئی چھوٹا ہوتا ہے کہ ہر قوم میں نبی آئے تھے.غیر احمدی کہتے ہیں کہ قرآن کریم نے نام نہیں لیا.ہم کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے قرآن نے نام نہیں لیا اور نہ وہ دنیا کے سارے نبیوں کا نام لے سکتا تھا..وہ کوئی
۱۳ STATISTies کی کتاب نہیں ہے.لیکن جب وہ کہتا ہے کہ ہر قوم میں نہیں آئے تو جو لوگ اُن قوموں میں ایسے پائے جاتے ہیں جن پر نبیوں کے حالات صادق آتے ہیں.کوئی وجہ نہیں کہ ہم ان کی نبوت کا اقرار نہ کریں.تیسرا سوال آپ کا یہ ہے کہ مذاہب کے لئے احمدیت کیا اہمیت رکھتی ہے اور سوشل لحاظ سے اور پولیٹیکل لحاظ سے وہ بنی نوع انسان کو کیا فائدہ بخشتی ہے ؟ اس سوال کا اصل جواب تو یہ ہے کہ احمدیت کوئی نیا مذہب نہیں ہے جیسا کہ اوپر بتا یا جا چکا ہے وہ TRUE اسلام ہے اس لئے سوشل اور پولیٹیکل WELFARE کے لحاظ سے جو اسلام دنیا کو فائدہ بخش سکتا ہے وہی فائدہ احمدیت دنیا کو بخشتی ہے PRACTICALLY یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اسلام کی تعلیم ان دونوں امور کے لئے ایک DEAD LETTER کے طور پر ہو چکی تھی.مسلمان ایک لمبے عرصہ کی کامیابیوں کے بعد مختلف قسم کی خرابیوں میں مبتلا ہو گئے تھے اور چونکہ وہ مذہبی آدمی تھے ان کی کانشنس اُن کو ملزم کرتی رہتی تھی اور کانشنس کے الزام کو انسان زیادہ دیر تک برداشت نہیں کر سکتا.اس لئے اُن کے لئے وہی رستے کھلے رہ گئے تھے.یا تو وہ اپنی بداعمالیوں کو چھوڑ کر صحیح اسلامی تعلیم کی طرف واپس آجاتے تب ان کی کانشنس ان کو الزام دینا چھوڑ دیتی مگر وہ اتنے مست ہو چکے تھے اور صحیح عمل سے اتنے دور ہو چکے تھے کہ وہ اس بات کو نا ممکن پاتے تھے.دوسرا راستہ ان کے لئے یہ کھلا تھا کہ وہ مذہب کی تشریح ایسے سنگ میں کر دیں کہ وہ ان کی بد اعمالیوں کو جائز قرار دے دے اور ان کی موجودہ سالت کو عین مذہبی حالت بتا دے.اگر ایسا ہو جاتا تو پھر بھی وہ ضمیر کی ملامت سے بچ کھاتے تھے.یہ رستہ زیادہ آسان تھا انہوں نے اس رستہ کو قبول کر لیا.احمدیت نے آکر پھر صحیح اسلامی تعلیم دنیا کے سامنے پیش کر دی اور ضمیر کو اُن قیدوں سے آزاد کر دیا جو کہ گذشتہ صدیوں میں اس کے اُوپر لگا دی گئی تھیں.اب وہ پھر زندہ ہو گی اور ادھر اسلام کی تعلیم زندہ ہوگی.نتیجہ یہ ہوگا کہ ضمیر اور عمل کی وہ سعید و جہد جو قوموں کو ہمیشہ راہ راست پر قائم رکھتی ہے احمدیت کی وجہ سے پھر بھاری ہو جائے گی.اور چونکہ اسلامی تعلیم سوشل اور
۱۴۴ ریٹیکل WELFARE OF THE HUMAN ANCE کے لحاظ سے نہایت اعلیٰ درجہ کی ہے لازماً ایک احمد ہی اس کی نقل کرنے پر مجبور ہوگا اور اسے دیکھ کر دوسرے مسلمانوں کا بھی ایک حصہ.پس دنیا میں وہ اعلی درجہ کی قدیم پھر قائم ہو جائے گی جس کو اسلام دنیا کے فائدہ کے لئے لایا تھا.مثلاً موٹی مثال یہ لیجئے کہ انگلیت کے نزدیک قرآنی تعلیم یہ ہے کہ کسی کو کسی عقیدہ کے ماننے پر مجبور نہ کیا جائے اور ہر انسان کو کوئی بات اپنے ماں باپ سے سون کر نہیں ماننی چاہیے بلکہ دلیل کے ذریعہ مانتی چاہیئے جب مسلمانوں کی تقویت عملی مرگئی اور تبلیغ کی مشکلات برداشت کرنے کی طاقت ان میں نہ رہی تو انہوں نے اس اسلامی تقسیم کو بدل کر ی تعلیم بنائی کہ غیرمسلم کو زبردستی مسلمان بنانا جائز ہے اور اگر کوئی مسلمان اپنا عقیہ ہرہ چھوڑ دے تو اس کو قتل کر دینا ضروری ہے.اس طرح انہوں نے سمجھا کہ ایک طرف تو اسلام بالکل محفوظ ہو گیا اب اس میں سے کوئی شخص یا ہر نہیں جائے گا.دوسری طرف بغیر تبلیغ کی مشکلات برداشت کرنے کے ہم کبھی کبھار غیر مسلموں کو مسلمان بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے.لیکن را تما سے ایک طرف تو مسلمانوں کا مذہب عقل اور محبت کا مذہب نہ رہا بلکہ ڈر اور بیوقوفی کا مذہب ہو گیا.دوسری طرف غیر تو ہوں اور مسلمانوں کے تعلقات بگڑ گئے.اب احمدیت نے اس تعلیم کو درست کیا ہے جب غیر قوموں کو معلوم ہو گا کہ اسلام تبلیغ اور لائل کے ذریعہ سے سچائی کو پیش کرتا ہے اور تمام اقوام کو اپنا بھائی قرار دیتا ہے، تو یقیناً پولیٹکل تعلقات اور سوشل تعلقات اچھے ہو جائیں گے اور تلوار سے مسلمان بنانے کی بجلہ مے مسلمان تبلیغی بعد و جہد کرے گا اور اس میں قربانی اور ایثار اور سہر کا مادہ پیدا ہوگا اور ہر مسلمان جب یہ جھینگا کہ میں آزادی سے اپنے متعلق فیصلہ کر سکتا ہوں تو یہاں، وہ غیر مذاہب سے متعلق تحقیقات کریگا وہاں وہ اپنے مذہب کے متدان کسی تحقیقات کرے گا اور آئندہ وہ ورثہ کا مسلمان نہیں ہو گا بلکہ ایک محقق کی حیثیت پیدا کر لے گا اور نہ صرف اس کا اپنا مذہب مضبوط ہوگا بلکہ وہ انسانی سوسائٹی کا نہایت مفید اور کار آمد ویبود ہو جائے گا.میں اس مضمون کے متفق زیادہ تفصیل سے نہیں لکھتا اس لئے کہ میں بتا چکا ہوں کہ احمدیت کوئی نیا مذہب نہیں ہے.اس بارہ ہیں جو اسلام کی تعلیم ہے وہی احمدیت کی تعلیم
۱۴۵ ہے.اگر آپ نے میری کتاب " احمدیت ، دیکھی ہے تو آپ ان دونوں امور کے متعلق جو اسلام کی تعلیم اس میں لکھی ہے اسے دیکھ لیں.گو مختصر ہے مگر بہر حال ان دونوں مضامین پڑھ روشنی ڈالتی ہے اور جو روشنی وہ ڈالتی ہے وہی فائدہ احمدیت پولیٹیکل اور سوشل لحاظ سے دنیا کو پہنچائے گی.چوتھے سوال کا جواب آپ کو بعد میں بھجوایا جائے گا ہے چونکہ یہ پہلا خط ہے جو آپ کی طرف سے ہمیں موصول ہوا اس لئے ہم پوری طرح یہ نہیں سمجھ سکتے کہ حقیقتاً آپ کے سوالات کی بیک گراونڈ کیا ہے.اس لئے اس خط کو پڑھنے کے بعد آپ دلیری سے اپنے خیالات کا اظہار کریں اور جو کچھ آپ کے دل میں سواران پیدا ہوں وہ ہمیں تفصیل سے لکھیں.ہم آپ کے ہر سوال کا خوشی سے جواب دینے کے لئے تیار ہیں.کا ہمبرگ میں احمدیہ یوں میں مشنر برمی میں تحریک حریت کا ایک انقلابی قدم میں نے اس ملک کو اسلام کی زندہ اور زیر دست طاقت کا پہلا احساس دلایا اور کی چوتھی کا نفرنس ایک نمایاں حرکت پیدا کردی ، جبرگ میں احمدکی اور امن مشنوں کی پوتھی کا نفرنس کا انعقاد ہے جو ۱۸ تا ۲۰ ماہ ثبوت او برام بیش میں ہوئی اور جس میں انگلستان ، سوئٹزرلینڈ، ہالینڈ اور سپین کے احمدی مجاھدین نے شرکت کی.اس کا نفرنس کا پولیس میں بہت چرچا ہوا.اخباروں نے اس کے فوٹو دیتے، خبریں شائع کیں ادارتی نوٹ بھی لکھے سب سے دلچسپ اور فکر انگیز تبصرہ جو منی کے ایک عیسائی اخبار کا تھا جس نے لکھا کہ.عیسائی مشن اور چرچ کیلئے ایک اہم سوال یہ سوال عیسائی دنیا کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے کہ اسلام نہ صرف اپنی اشاعت کے اولین دور میں عظیم روحانی اہمیت رکھتا تھا بلکہ اس زمانہ میں اپنے تبلیغی مشنوں کے ذریعہ یورپ میں بہت اہمیت اختیار کر رہی ہے.انہی دنوں اسلامی مشنوں کے انچار ج ہمبرگ میں جمع ہوئے تھے تاکہ دو اسلام کو کامیاب طور پر یورپ میں پھیلانے کے ذرائع پر غور کر سکیں.جرمنی ، انگلینڈ ، ہالینڈ، نے پر تھا سوال یہ تھا کہ احمدیہ جماعت کی تاریخ ، نظام، تبلیغ اور تعداد کی وضاحت فرمائیں اور
سوئٹرز لینڈ اور سپین میں اسلام کی تبلیغ آئندہ تقاریر اور لٹریچر کے ذریعہ زیادہ زور شور سے کی جائے گی.جرمنی میں اسلام کی کامیابی کا میدان زیادہ وسیع ہے.چند سال کے اندر اندر ہمبرگ میں مسجد بھی تعمیر کی جائے گی.ان واقعات سے ہمیں آنکھیں بند نہیں کرنی چاہئیں.ویسے اس بارہ میں احتجاج بلند کرنے کا کوئی فائدہ نہیں.اسلام گذشتہ تیرہ صدیوں میں اتحاد باہمی اور موثر اشاعت کے ذریعہ اپنے آپ کو ایک عالمی طاقت ثابت کر چکا ہے.ان حالات میں عیسائی دنیا کو ایک بہت بڑا اور مشکل ترین مرحلہ درپیش ہے “ لے سالار حضرت مصلح موعود کا جرمنی میں ورود جرمن مشن کی تاریخ میں وسط ریش کا دور ہمیشہ سنہری حروف میں لکھا جائے گا.کیونکہ اس میں حضرت موعود حضور کا ایمان افروز خطاب اور دوسری مصلح موعود نے سفر جو منی اختیار فرمایا.اور ۲۵ تا ۲۹ ماه اہم دینی مصروفیات احسان جون تک اس ملک میں رونق افروز رہے.دوران قیام ۲۶ ماہ احسان کو ڈاکٹر ٹاک حضور کے دست مبارک پر بیعت کر کے مشرف بہ اسلام ہوئے چین کا اسلامی نام حضور نے زیر تجویز فرمایا.بعد ازاں ہمبرگ کے ایک نامور حجر من مستشرق ڈاکٹر ملاقات کے لئے حاضر ہوئے حضور ان سے عربی میں گفتگو فرماتے رہے.·ABEL اسی روز حضور کے اعزاز میں بارہ بجے شام جماعت احمدیہ ہمبرگ نے ایک استقبالیہ تقریب کا انتظام کیا جس میں احمدیوں کے علاوہ دیگر معززین اور نمائندگان پریس نے بھی شرکت کی.عبد الکریم صاحب ڈنکر نے حضور کی خدمت میں ایڈریس پیش کیا جس کے جواب میں حضور نے کھڑے ہو کر ایک خالص ولولہ اور روحانی کیفیت کے ساتھ نصف گھنٹہ تک تقریر انگریزی میں فرمائی جس میں پہلے تو احمدی احباب کا شکریہ ادا کیا اور اس کے بعد ربوہ مرکز احمدیت کی تعمیر کی تفاصیل بیان فرمائیں.اور پھر فرمایا کہ جرمن قوم کا کیریکٹر بلند ہے اور انہوں نے ہمبرگ شہر کو اتنی جلد تعمیر کر لیا ہے.حضور نے فرمایا کہ جرمن قوم اس زندہ روح کے ساتھ ضرور جلد از جلد اسلام کو جو خود اسی روح کو بلند کرنے کے لئے تعلیم دیتا ہے قبول کرے گی حضور نے فرمایا کہ میں اس نبی صلے اللہ علیہ وسلم کا پیرو کار ہوں میں نے دنیا میں امن اور رواداری کو قائم کرنے کی پوری کوشش کی اور اپنے مخالفین جنہوں نے مسلمانوں کو تہ و تیغ کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت الفضل در صلح جنوری ۱۳۳۳ همین صفحه ۱ ۰ 1 19.00
نہ کیا، کو فاتح ہونے کی حیثیت میں کس طرح معاف کر دیا.حضور نے فرمایا کہ اسلام اس رواداری کی تعلیم کا حامل ہے اور اس کی مثال کسی اور مذہب میں نہیں ملتی.اسلام قومیت اور رنگ و نسل کی تمیز سے بالا ہے اور دنیا میں عالمگیر برادری اور اخوت کو قائم کرنے کے لئے زریں اصول پیش کرتا ہے.حضور کی اس محبت بھری تقریر کا جرمن ترجمہ مبلغ جرمنی نے بعد میں کیا.حاضرین نے خدا کے فضل سے حضور کی تقریر کو بہت پسند کیا.ہمبرگ کے ایک روز نامہ HAMBURGER ANZEIGER نے اپنی اشاعت مورخ ۲۸ جون میں حضور کی اس تقریر اور ہمبرگ گورنمنٹ کی طرف سے خوش آمدید کا ذکر ایک فوٹو کے ساتھ حسب ذیل الفاظ میں کیا:- " YON FLS ENNE امیرالمومنین ٹاؤن ہال میں احمدیہ جماعت کے امام حضرت مرزا محمود احمد صاحب کو کل ٹاؤن ہال میں MINISTER von نے خوش آمدید کہا.۶۶ سال کی عمر کے امیر المومنین نے کل جماعت کی طرف سے دی گئی دعوت پچائے کے موقعہ پر بیان کیا کہ ربوہ کی تعمیرکس طرح منارہ میں مخالف صلات میں ہوئی.ایک بے آب و گیاہ گاؤں کس طرح ایک بڑا شہر بنا جس میں اب مختلف تعلیمی اوار سے اور ایک مشنری کا لج تعمیر ہو پہنتے ہیں.اسلام صلح اور امن کا مذہب ہے اور عالمگیر اطاعت کو قائم کرنے کے اصول پیش کرتا ہے.اس لئے اسلام ہی آپ کے لئے مناسب حال مذہب ہے اور خاص طور پر جرمنی کے لئے عالمگیر مذہب ہونے کی بنا پر اسلام کا مستقبل خورشتی میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے.اسلامی روح جو منی میں زندہ ہے.احمدیہ جماعت کا جرمنی میں مرکز ہمبرگ ہے اور اس کے تبلیغی مشن مختلف ممالک میں موجود ہیں“ علاوہ ازیں نہ صرف ہمبرگ بلکہ برمنی کے بیسیوں اخبارات میں حضور کی آمد کی خبر حضور کے فوٹو کے ساتھ شائع ہوئی.قیام ہمبرگ کے دوران ۲۶ ہمبرگ میں مسجد کی تعمیر اور افتتاح حضرت ہی ہو جو دن میں جلد مسجد تعمیر کرنے لسانیا a ش کو ارشاد فرمایا تھا.سو اللہ تعالیٰ نے حضور کی یہ مبارک خواہش در سال کے اندر اندر پوری کردی چنانچہ ۱۲۲ تبلیغ ه الفقین دارونا / جولائی سال پیش سفر ۲ + ,1966
۱۴۸ فروری پیش کو ہمبرگ مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور ۲۲ احسان ایون میش کو چودهری 1902 محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے حضرت مصلح موعود کے ارشاد پر اس کا افتتاح فرمایا.افتتاحی تقریب کا آغاز تلاوت قرآن عظیم سے ہوا جو حافظ قدرت اللہ صاحب مبلغ ہالینڈ نے کی پھر چودھری عبدالطیف صاحب انچارج مشن نے مختصر تقریر میں مسجد کی غرض و غایت پر روشنی ڈالی.ازاں بعد صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے جو حضرت امیرالمومنین کے نمائندہ کی حیثیت میں تشریف لے گئے تھے.حضور پرنور کا مندرجہ ذیل پیغام انگریزی میں پڑھ کر سنایا :- "برادران اہل جرمنی ! السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاته میں ہمبرگ کی مسجد کے افتتاح کی تقریب میں شمولیت کے لئے اپنے بیٹے مرزا مبارک احمد کو بھیجوا رہا ہوں.افتتاح کی تقریب تو انشاء اللہ عزیزم چو ہدری محمد ظفراللہ خاں صاحب ادا کرینگے گر مرزا مبارک احمد میرے نمائندے کے طور پر اس میں شامل ہوں گے.میرا ارادہ ہے اللہ تعالیٰ مدد کرے تو یکے بعد دیگرے جو منی کے بعض اور شہروں میں بھی مساجد کا افتتاح کیا جائے امید ہے کہ مرزا مبارک احمد مولوی عبد اللطیف صاحب سے مل کر ضروری سکیمیں اس کے لئے بنا کہ لائیں گے تاکہ جلدی مساجد بنائی بھاسکیں.غدا کرے کہ جرمن قوم بلد اسلام قبول کرے اور اپنی اندرونی طاقتوں کے مطابق تشیع وہ یورپ میں مادیات کی لیڈر ہے روحانی طور پر بھی لیڈر بن جائے.فی الحال اتنی بات تو ہے کہ ایک جرمن نو مسلم زندگی وقعت کر کے امریکہ میں تبلیغ اسلام کر رہا ہے مگر ہم ایک مبلغ یا درجنوں نو مسلموں پر مطمئن نہیں بلکہ چاہتے ہیں کہ ہزاروں لاکھوں مبلغ جرمنی سے پیدا ہوں اور کروڑوں جرمن باشندے اسلام کو قبول کریں تا اسلام کی اشاعت کے کام میں یورپ کی لیڈری جعر من قوم کے ہاتھ میں ہو.اللہم آمین.الفضل ۲ تبلیغ فروری ۱۳۳۶ به بیش صفحه ۱ : ۶۱۹ ۱۳۳۶ لله الفضل ۲۶ احسان ایمون به مش صفحه ۱ : +1982 خاک در مرزا محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی "
۱۴۹ اس روح پر در پیام کا چوہدری عبدالطیف صاحب نے ترجمہ کیا.جس کے بعد صاحبزادہ صاحب نے ایک اثر انگیز تقریر کی جس کا جرمن زبان میں ترجمہ بھی ہچو ہدری عبد اللطیف صاحب نے کیا ہے.آخر میں چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے ایک پر مغز اور ایمان افروز تقریر فرمائی جس کا جرمن ترجمہ محترم عبدالکریم صاحب ڈنکر نے کیا.تقریر کا ترجمہ ہونے کے بعد آپ نے اجتماعی دعا کرائی اور مسجد کے دروازہ پر تشریف لے جا کر دروازہ کھولا.آخر میں چوہدری عبد اللطیف صاحب نے ظہر و عصر کی نمازیں جمع کرا کر پڑھائیں اور اس طرح یہ مبارک اہم اور تاریخی اجتماع اختتام پذیر ہوا.اس اجتماع میں شمولیت کے لئے یورپ کے مبلغین میں سے مکرم حافظ قدرت اللہ صاحب ہالینڈ سے مکرم شیخ ناصر احمد صاحب سویٹزرلینڈ سے، مکرم مولود احمد صاحب انگلینڈ سے اور مکرم سید کمال یوسف صاحب سویڈن سے تشریف لائے.اصلی لوکل حکام ، ہندوستان لبنان اور ہالینڈ کے کونسل جنرل اور دیگر معززین شہر، پر لیں اور ٹیلی ویژن کے نمائندے شریک ہوئے تھے به امید یک تیر سے یا تبلیغ اسلام کی سرگرمیوں میں میں اضافہ ہمبرگ مسجد اور سی پریس ہوگیا وہاں جرمن سیمی پریس میں تشویش و اضطراب کی ایک لہر دوڑ گئی.بعض اخبارات کی آراد ملاحظہ ہوں :- ا اخبار " LANDES ZEITUNG " نے اپنے اور جون شاہ کے شمارہ میں مہمبرگ کی مسجد ایک خطرے کا الارم " کی سرخی دے کر لکھا کہ اب اسلام میں نئی زندگی پیدا ہو رہی ہے.اور اس مذہب کے پیروؤں نے ہمبرگ میں اپنی پہلی مسجد بھی تعمیر کر لی ہے سیکھے - اخبار " WURZBURG“ نے لکھا:.ہمبرگ میں مسجد کی تعمیر عیسائی دنیا کی سستی اور اپنے مذہب سے بے رخی اور بے دلی پر دلالت کرتی ہے نہ کہ رواداری پر " یہ تقریر الفضل ۲۷ شہادت / اپریل ہر مہیش میں شائع ہو چکی ہے ؟ ول موگر ۲۸ امضاء ۱ جولائی ۱۳۳۶ بیش سے الفضل کار وفاء / جولائی.روز ۱۳۳۶ ش صفحه ۳-۴ : کے رسالہ تحریک جدید جنوری ۱۱۷ صفحه ۵۸ :
۱۵۰ ۳- ایک مذہبی اختبار " THE CHURCH " نے مندرجہ ذیل خیالات کا اظہار کیا :- کیا.عیسائیت اور اسلام کے درمیان HOLY WAR کا مرکز ہمبرگ بن چکا ہے.یہ اب ہم پر منحصر ہے کہ ہم کس طرح مسجد کی تعمیر کے ساتھ وابستہ خطرات کا مقابلہ کرتے ہیں.جماعت احمدیہ کا جرمنی کے لئے مبلغ مسٹر عبداللطیف ۱۹۴۶ بر میں ہمبرگ آیا اور سر میں مسجد کی تعمیر اس کی آٹھ سالہ کامیاب جد و جہد پر دلالت کرتی ہے" - - BILEFELD کے ایک اخبار کے ایک نامہ نگار نے " مساجد ہمارے ملک میں “ کے عنوان کے ماتحت لکھا :.میری حیرانی کی کوئی انتہا نہ رہی جبکہ مجھے اپنے ہمبرگ کے قیام کے دوران بتایا گیا کہ ہمبرگ میں ایک مسجد تعمیر ہو چکی ہے.مزید تحقیق کرنے پر مجھے اس بات کا علم حاصل کر کے اور بھی حیرانی ہوئی کہ جماعت احمدیہ ہمبرگ کی مسجد کے علاوہ برستی کے دیگر اہم مقامات پر کبھی باری باری مساجد کی تعمیر کا ارادہ رکھتی ہے.لے ش میں احمدیہ مسلم مشن سوئٹزر لینڈ نے جرمن ترجمہ جزمین ترجمہ قرآن کی اشاعت قرآن چھپوایا تو سوئٹزرلینڈ کے علاوہ جرمنی میں بھی اس کی اشاعت کی گئی.اس پر ہمہ نے اس ملک کے علمی طبقہ پر گہرا اثمر : 1- حجر من پر لیس میں بھی اس ترجمہ کی بڑی شہرت ہوئی اور جر من رسائل و جرائد نے اس پر عمدہ ہیولیو کئے.اس ترجمہ کے دو ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں.جر من مشن میں اب تک جن مجاہدین اسلام من مشن میں فری تبلیغ بجالانیوالے مجاہدین احمدیت ارتین اسلام کا یہ بجالانے کا موقع ہاہے و اُن کے نام یہ ہیں : مکرم یا بدری عبد اللطیف صاحب - ( ۲۰ صلح جنوری ۳ ریش تا ۲۴ ظهور اگست به مبش ا ا ار تبوک استمبر تار میش تا ۱۴ فتح دسمبر ریش ، ۲۵ مسلح جنوری در میش تا آخر هه میش -۴- الحاج مرزا لطف الرحمن صاحب زهم شهادت ۱۷ اپریل در سه تا در فتح راسه ۱۳۳۹ مش.اس تاریخ کو جو منی سے ٹوگو لینڈ مغربی افریقہ میں تشریف لے گئے، اور لو گولینڈ مشن کی بنیاد رکھی الفضل ۵ار تبوك استمبر يا الله بشه
۱۵/ مکرم مسعود احمد صاحب جیلی ( ۲ را مان ماری ریش تا ۱۲۳ هجرت ارمنی به بیش ۱۲۰۰ صلح جنوری ۱۳۴۷ ه ش تا ۲۱ اعداد /اکتوبر را تش؟ 719A 719 41 مکرم موازی مجمود احمد صاحب تیمیه ۱ ۲۱ رو فار جولائی سال پیش تا مش ) ۶۱۹۶۲ 1444 - مکرم مولوی فضل الہی صاحب انوری ( مراحسان جون یه مش تا ۲۰ فتح سمیرم میشه 197 31446 ار اتحاد اکتوبر ۵ یہ مہش کو دوبارہ ربوہ سے عازم جو منی ہوئے اور اس وقت مشن انچارج کی حیثیت سے مصروقت عمل ہیں.-- مکرم مولوی بشیر احمد صاحب شمس ( ۱۲ تبوک استمبر ۳۵ میش تا به فتح دسمبر میش) احمدصاحب رتبه مکرم قاضی نعیم الدین احمد صاحب ( ۹ار وفا بولائی پہ ہش سے جرمنی میں تبلیغ اسلام کا فریضہ اور کو رہے ہیں) سجد ہمبرگ کے افتتاح پر ابھی دو سال بھی نہ ہوئے تھے افتای مسجد فرانکفورٹ کی تعمیر افتتاح ایران مانی نے اس مشن کو دوسری مسیر تغیر کرنے کی کہ تعالیٰ توفیق دے دی لیے جس کے لئے مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب ہالینڈ سے تشریف لائے.علاوہ ازیں یورپ کے مبلغین میں سے مکرم حافظ قدرت اللہ صاحب، مکرم شیخ ناصر احمد صاحب ، مکرم عبدالحکیم صاحب الحمل ، الحاج مرزا لطف الرحمن صاحب ، مكرم عبد الشکور صاحب کنزے ، مکرم خان بشیر احمد صاحب رفیق اور مکرم کمال یوسف صاحب بھی شامل ہوئے.افتتاح کی کارروائی تین بجے بعد دوپہر مکرم چو ہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی زیر صدارت شروع ہوئی.تلاوت قرآن کریم حافظ قدرت اللہ صاحب نے کی مبلغ جرمنی نے اپنی تقریر کے ذریعہ حاضرین کو خوش آمدید کہا اور اس مبارک کام میں حصہ لینے والے احباب کا شکریہ ادا کیا.فرانکفورٹ کے چیف میٹر کے ذاتی نمائندہ )MR ALBRECWT) نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ یہ مسجد امن اور رواداری کے اصولوں کو بروئے کارلانے میں ممد و معاون ثابت ہوگی.آخر میں مکرم چو ہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نائب صدر عالمی عدالت انصافت نے اسلام کے عالمگیر پیغام پر نہایت ایمان افروز اور دلچسپ پیرائے میں صدارتی تقریہ انگریزی زبان میں فرمائی جس کا جو من ترجمہ ایک جرمن تو مسلم عبد الشکور گرے نے گیا.له الفضل ۱۷ تبوک استمبر همایش صفحه ۳
۱۵۲ اس کے بعد مکرم چوہدری صاحب نے دعا کروائی اور مسجد کا دروازہ کھول کر پہلے رسم افتتاح اواخرائی پھر ظہر اور عصر کی نمازیں پڑھائیں.یوم افتتاح کے موقع پر بوقت دو بجے مبلغ برمنی کا انٹرویو ریکارڈ ہوا.انٹرویو سے قبل مبلغ برمنی کی خواہش کے مطابق اذان بھی ریکارڈ کی گئی جو حافظ قدرت اللہ صاحب نے خوش الحانی سے دیا.یہ انٹرویو اسی روز پونے سات بجے ایک اہم پروگرام کے آخر میں نشر ہوا.اور اس طرح فرانکفورٹ کی تاریخ میں پہلی دفعہ اذان کے الفاظ فضا میں گونجھتے ہوئے سنائی دئے.اس انٹرویو کے دوران مبلغ برمنی نے مسجد کی اہمیت کو بیان کیا اور اسلام کے بارہ میں بعض غلط فہمیوں کو دور کیا.انٹرویو کے دوران جماعت کی تبلیغی مساعی کے بارہ میں بھی بعض امور مختصر طور پر بیان کئے.علاوہ ازیں سوس ( smss ٹیلی ویژن نے بھی افتتاح کی تقریب کے بعض ضروری حصے SWISS دکھائے.جرمنی کے تقریباً چالیس اخبارات نے مسجد اور افتتاح کی کارروائی کے بعض مناظر کے مختلف فوٹو بھی شائع کئے.نیز جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی پر عمدہ رنگ میں تبصرہ کیا.مثلاً اخبار نے ار ستمبر کو اسلام یورپ کی طرف بڑھ رہا ہے کی MANNHEIM MORGEN سرخی کے ساتھ مسجد کی افتتاحی تقریب کا فوٹو دیا اور لکھا :- حمد کے پیر وہ اس سے قبل تلواروں اور نیزوں کی مدد سے جنوبی فرانس تک آئے.موجودہ زمانہ میں یہ کام روحانی ہتھیاروں سے ہو رہا ہے.بہت سے اسلامی ممالک کے لوگ یورپ آتے ہیں جو ساتھ ساتھ اسلام پھیلانے کی بھی کوشش کرتے ہیں.اسی طرح مختلف تبلیغی فرقے جن میں سے ایک فرقہ نے ہجو خاص طور پر مرزا اسلام احمد (صاحب) قادیانی کا ہے اور تشہد میں پنجاب میں قائم ہوا مختلف جگہوں پر مساجد بنائی ہیں.لے جرمن زبان میں ماہنامہ " DER ISLAM " کا اجراء اگرچہ رسالہ اسلام کا اجراء ۱۹۴۰ء میں سوئٹزرلینڈ مشن سے ہوا تھا مگر اہش میں اس رسالہ کی اشاعت کا کام بھی جرمن مشن کے سپرد ہوا.اور یہ ہمبرگ سے چھپنے لگا شاہ میں جب بر من مشنوں کا مرکز ہمبرگ سے فرانکفورٹ میں منتقل ہو گیا تو رسالہ اسلام کی اشاعت بھی الفضل ۱۰/۸ نومبر ۱۹۵۹ء - رساله تحریک جدید جنوری ۱۹۶۸ء
۱۵۳ فرانکفورٹ سے ہونے لگی.یہ رسالہ خدا تعالیٰ کے فضل سے باقاعدگی کے ساتھ شائع ہو رہا ہے اور یورپ کے جرمن زبان بولنے والے علاقوں یعنی سوئٹزر لینڈ، آسٹریا اور جرمنی میں واحد اسلامی رسالہ ہے جو ان ممالک میں ربع صدی سے اسلام کے روحانی علمی ، تاریخی، معاشی اور ثقافتی نظام کی ترجمانی کے فرائض بجا لا رہا ہے.جرمنی میں اس رسالہ کی ادارت کے فرائض پوہدری عبداللطیف صاحب ادا کرتے رہے اور سنٹر میں جناب مسعود احمد صاحب جہلمی مدیر اول اور جناب ڈاکٹر محمد عبد الہادی کیوسی صاحب مدیر معاون کے طور پر مقرر ہوئے.بعد ازاں ادارہ تحریر میں مبلغ سوئٹزر لینڈ جناب چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ بھی شامل کر دیئے گئے.اکتور کار میں جناب مسعود احمد صاحب جہلمی کی پاکستان واپسی پر جناب مولوی فضل اپنی صاحب انوری بحیثیت مبلغ انچارج رسالہ کے ایڈیٹر مقرر ہوئے.یہ رسالہ اپنی طباعت اور مضامین ہر دو لحاظ سے معیاری ہے.بہر من بولنے والے ممالک کی مشہور لائیبریریوں اور یونیورسٹیوں اور مستشرقین کو بھجوایا جاتا ہے.اسی طرح یورپ کے ممالک ہالینڈ اور ڈنمارک وغیرہ میں بھی کثیر تعداد میں جاتا ہے.علاوہ ازیں تمام بیرونی مرکز ی مشتوں میں بھی بھیجوایا جاتا ہے.جو منی کے علمی حلقوں میں یہ رسالہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے.جرمنی کی ایڈ منسٹریٹو ہائیکورٹ کے چیف جسٹس پر وفیسر ڈاکٹر کھنہ ( 2 PROF.DR.KUL ) نے اپنے ایک خطا میں رسالہ کے معیدالہ کی تعریف کی اور لکھا کہ وہ ہر ماہ اس کی آمد کے منتظر رہتے ہیں.اسی طرح فرانکفورٹ کے میٹر DR W FAY جب اپنے عہدہ سے سبکدوش ہوئے تو انہوں نے ایڈیٹر رسالہ کو کہا کہ یہ رسالہ جو بطور میٹر کے انہیں دفتر میں کبھیجوایا جاتا تھا اب اُن کے ذاتی پتہ پر ارسال کیا جائے.جرمنی کے شہور ترین اخبار FRANKFURTER ALLGEMEINE کے ایڈیٹر MR.HARALD VOCKE سنتے رسالہ کے بھیجوائے بھانے کی خواہش کی اور مبلغ جر منی کو بتایا کہ وہ رسالہ کا دیسی سے مطالعہ کرتے ہیں.ہ ان میں مغربی جوانی کو یہ فخر حاصل حضرت سید نوااااااام ہوا کہ حضرت سیدہ نواب انته الحفیظ بیگم
۱۵۷ صاحبہ نے (یو مسجد زیورک و سوئٹزرلینڈ کے سنگ بنیاد کے سلسلہ میں تشریف لے جارہ ہی تھیں) ۱۹ تا ۲۲ ظہور ہمبرگ دار تبلیغ میں قیام فرما ہیں.جرمن پریس نے آپ کی آمد کی خبر نمایاں طور پر شائع کی اور اسلام میں عورتوں کے بلند مقام پر بھی روشنی ڈالی ہے ہمبرگ مشن کی عمارت میں توسیع کا سنگ بنیاد نہ کی DIE ہمبرگ مشن کی عمارت میں ویسی بیانیہ کے وقت پر کھاگیا.جرمنی کے مشہور اخیر 21 WELT نے ہر دو تقاریب کا ذکر کرتے ہوئے لکھا :- مر صرف یہ ایک واحد جماعت ہے جو دنیا بھر میں تبلیغ اسلام کے فرائض سر انجام دے رہی ہے" سید ناخلیفہ ایسیح الثالث اید اللہ علی ارمنی میں اسلام کے روحانی انقلاب کی بنیادی اینٹ حضرت مصلح موعود کے مقدس ہاتھوں سے کا مغربی جرمنی کی طرف پہلا سفر رکھی جا چکی تھی.اس بنیاد کو پہلے سے زیادہ مضبوط A مستحکم اور وسیع کرنے کے لئے مہدی مسعود کے نافلہ موعود سید نا حضرت امیر المومنین خلیفه اسم الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے مشہور عالم دورہ یورپ پریش) کے دوران مغربی جرمنی میں بھی تشریف لے گئے سے حضرت امیر مؤمنین ، سے.ار دفارا ولائی تک فرانکفورٹ میں رونق افروزہ رہے.ور وقار جولائی کو جماعت احمدیہ جرمنی کی طرف سے حضور کے اعزاز میں وسیع پیمانے پر ایک استقبالیہ تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں جرمنی کے احمدی مخلصین کے علاوہ شہر کے دوسرے معززین مثلاً پادری، وکلاء، اور پر وفیسر بھی شامل ہوئے.اس موقع پر چوہدری عبداللطیف صاحب انچارج مبلغ نے سپاسنامہ پڑھا جس کے جواب میں حضور نے ایک پر اثر انگریزی خطاب فرمایا جس میں جرمنوں کو یہ پر شوکت پیغام دیا کہ اللہ تعالی نے اسلام کی تائید اور نصرت کے لئے اپنے ایک موعود ہندے کو اس زمانہ کا مصلح اور مسیح موعود اور مہاری بنا کر بھیجا ہے جس نے دنیا کو چیلنج دیا کہ خدا تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزند جلیل ہونے کی حیثیت میں کثرت سے میرے ہاتھ پر نشان ظاہر کئے ہیں.اگر عیسائیوں میں سے کوئی یہ ثابت کر کے دکھائے کہ میے کے معجزات کیفیت اور کمیت میں میرے معجزات سے بڑھ الفضل افلح جنوری ۱۳۳۳ بیش صفحه ۳ * 191⑈ + که شخصا از رپورٹ مبلغ مرسله مورخه ۲۰ اپریل مشاهه کے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ زمانہ طالبعلمی میں بھی جو منی تشریف لائے تھے مگر زمانہ خلافت کا یہ پہلا سفر مکھتا ہے
۱۵۵ کر ہیں تو میں اسے ایک زرکثیر انعام دینے کے لئے تیار ہوں.اس تعلق میں حضور نے فرمایا.اس مسیح موعود کے تیسرے خلیفہ کی حیثیت میں دہی چیلنج دنیا کے سامنے پھر دہراتا ہوں.اگر دوسرے مذاہب کے رہنما میرے اس چیلنج کو قبول کرنے کے لئے تیار ہوں تو ہمیں خوشی ہوگی کیونکہ اس طرح پر دنیا اسلام اور بانی جماعت احمدیہ کی سچائی پر روشن نشان دیکھ لے گی بلد آخر میں حضور نے فرمایا.میرا یہ دعویٰ ہے کہ اسلام کا خدا ایک زندہ خدا ہے اور محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم ایک زندہ نبی اور مسیح موعود آپ کے فرزند جلیل ہیں حضور کے اس خطاب کا ترجمہ محمود اسمعیل روش نے کیا.فرانکفورٹ میں حضور پر نور کا قیام میشن ہاؤس میں تھا.اس موقع پر علاوہ جرمن نو مسلموں کے بہت سے دوسرے احمدی بھی اپنے آق کی زیارت کے لئے پہنچے ہوئے تھے.دوران قیام مسٹر والٹر ہالہ نے دستی بیعت کا شرف حاصل کیا.علاوہ ازیں اطالوی مستشرق ڈاکٹر کیو سی بھی بغرض ملاقات حاضر ہوئے حضور نے فرانکفورٹ میں جرمن قوم کے متعلق اپنا ایک پرانا مبشر خواب سنایا کہ ایک میگہ ہے وہاں ہنٹر بھی موجو د ہے اور وہ حضور سے کہتا ہے کہ آئیں میں آپ کو اپنا عجائب خانہ دکھاؤں بچنا نچہ وہ حضور کو ایک کمرہ میں لے گیا یہاں مختلف اشیاء پڑی ہیں.کمرہ کے وسط میں ایک پان کی شکل کا پتھر ہے جیسے دل ہوتا ہے.اس پتھر پہ لا الہ الا الله محمد رسول اللہ لکھا ہوا ہے حضور نے اس کی تعبیر یہ فرمائی کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جرمن قوم اگرچہ او پر یہ پتھر دل یعنی دین سے بیگانہ نظر آتی ہے مگر اس کے دلوں میں اسلام قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہے لیے حضرت خلیفہ اصبح الثالث ایدہ اللہ تعالے فرانکفورٹ کے بعد ۱۶ تا ۱۹ر وفا جولائی ہمبرگ میں کبھی رونق افروز رہے.ریڈیو ، ٹیلی ویژن اور اخبارات کے ذریعہ ملک بھر میں حضور کی آمد کا غیر معمولی چوھا ہوا اور لاکھوں افراد تک اسلام کا پیغام پہنچا.اندازاً ساٹھ ستر لاکھ نفوس کو ٹیلی ویژن کے ذریعہ تعاریف کا موقعہ ملا جو خالص خدائی تصرف تھا.ہمبرگ میں بھی حضور کے اعزاز میں شاندار استقبالیہ تقاریب منعقد کی گئیں جس میں معززین شہر له الفضل و از ظهور را گست ایش صفحه ۴ : الفضل ، از ظهور اگست مایش صفحه ۳-۴۰ الفضل ۲۷ دفا / جولائی س ش صفحه ای :
۱۵ کے علاوہ نمائندگان حکومت بھی شامل ہوئے.اٹلانٹک ہوٹل میں وسیع پیمانے پہ ایک پولیس کا نفرنس کا انعقاد بھی عمل میں آیا جس میں ملکی اخبارات کے نمائندوں کے علاوہ خبر رساں ایجنسیوں کے نمائند ہے مختلف ریڈیو سٹیشنوں اور مقالہ نگاہ دفیچر رائٹر، ۳۵ کی تعداد میں شامل ہوئے.حضرت امیر المومنین نے اس کا نفرنس میں با قاعدہ اخباری بیان باری کرنے کی بجائے سوال و جواب کے طریق کو ترجیح دی.اس موقع پہ نامہ نگاروں اور نمائندوں نے نہایت کثرت سے سوالات دریافت کئے جن کے جوابات حضور نے روح القدس کی تائید سے نہایت درجہ بشاشت اور بے تکلفی سے ایسے پر زور اور مدل رنگ میں دیتے کہ سب پر اسلامی دلائل کی معقولیت کا سکہ بیٹھ گیا.اس کا نفرنس نے نہ صرف ہمبرگ کے عوامی حلقوں میں ہی زبر دست تہد کہ مچا دیا بلکہ اخبارات نے بھی حضور کے سفر ہمبرگ اور پریس کانفرنس کی خبریں نمایاں طور پر شائع کیں یہ کتابوں کی عالمی نمائش میں شک کی نمائندگی نہیں کیوں کی مشہورعالی نمائش کے موقع پر اورینٹل اینڈ ریلیجس پبلشنگ کارپوریشن لمیٹڈار بوہ کی نمائندگی ہیں، فرانکفورٹ میشن نے ایک سٹال لگایا اور اس کے جملہ انتظامات مولوی فضل الہی صاحب 144^ انوری مبلغ اسلام نے سر انجام دیئے.ا ر سے پاکستان کی اس نمائش میں حصہ لے رہا ہے اور 149 لہ سے ہمارے جرمن تو مسلم احمدی دوست ہدایت الله صاحب بیولیش مستقل طور پر نمائش تمام ایام میں پاکستانی سٹال کی امداد کر رہے ہیں.صدر جمہوریہ سینیگال کو اس عالمی نمائش کے موقعہ پر ایک خاص تقریب منعقد ہوتی ہے جس میں انعام امن ( PEACE PRIZE ) دیا جاتا ہے.1970ء میں یہ اسلامی لٹریچر کی پیشکش العام جمہوریہ سنیگال کے صدر جناب سینگور کو دیا گیا.مبلغ جرمنی نے صدر موصوف کو فرانسیسی زبان میں شائع شدہ اسلامی کتب کا ایک سیٹ پیش کیا.+144^ ایک مشہور سیمی مناد کو قبولیت دعا میں مقابلہ ہش کا ایک نہایت اہم واقعہ جس سے اجر منی میں اسلام کو نمایاں روحانی فتح نصیب کرنے کی دعوت اور اس کا واضح اسکلیم ہوئی.انہایت احمد سلم من فراش کنورٹ کی طرف ا الفضل ۲۸ و نام جولائی ما مش مستحمر 1994 فرانکفورٹ الفل ۳۰ روفا الجولائی س ش صفحه ۴ :
106 سے دنیائے عیسائیت کے مشہور سی مناد ڈاکٹر سیموئل ڈاکٹریان کو قبولیت دعا میں مقابلہ کر نے کی بھوت اور ان کا واضح انکار ہے.ڈاکٹر سیموئل ماہ جنون شائد کے دوران فرانکفورٹ میں تشریف لائے تو فری کو سچن پر جانے ایک با اثر مقامی اخبار میں ڈاکٹر سیموئل کی تصویر کے ساتھ بڑے طمطراق سے اعلان شائع کیا کہ آپ فرانکفورٹ شہر میں ہر شام مسلسل پندرہ روز تک لیکچر دیں گے.نیز لکھا کہ زمانہ حاضر کے عظیم سیمی ستاد ڈاکٹر سیموئل خداوند لیوع کے عظیم تصرف کے ساتھ انجیل کی منادی کرتے ہیں اور ان کی تقاریہ سے مشرق وسطی ، افریقہ ، یورپ اور امریکہ میں زہر دست بیداری کے آثار پیدا ہو رہے ہیں مبلغ استسلام مسعود احمد صاحب جہلمی نے ارجون کو ڈاکٹر صاحب کا لیکچر سنا جس میں انہوں نے مسیح کے خون ، دنیا کی نجات اور الوہیت مسیح وغیرہ مسائل بیان کئے اور بڑے پُر جوش انداز میں اپنے مشن اور اپنے دوروں کی کامیابی کا ذکر کیا.مبلغ اسلام مسعود احمد صاحب جہلمی نے اگلے روزہ اسلام کے نمایندہ کی حیثیت سے بذریعہ خط پادری صاحب کو دعوت دی کہ وہ حق و باطل کا لے ڈاکٹر سیموئل بیروت کے بائیل بینڈ مشن کے انچارج اور کبھی دنیا کی ایک معروف شخصیت ہیں.آپ آرمینیا کے عیسائی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں مگر ابتدائی تعلیم یروشلم میں پائی ہے.ان کا دعویٰ ہے کہ ان آخری ایام میں یسوع مسیح کی آمد ثانی سے قبل آسمانی باپ نے انہیں روح القدس کی زبر دست روحانی قوت کے ساتھ تمام دنیا اور خصوصا مشرق وسطی کے ممالک کو بیدار کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے.ڈاکٹر صاحب موصوف اپنی کتاب سموئیل ڈاکٹر یان کی کہانی (DOCTORIAN میں اپنی زندگی کے مختصر حالات بیان کرتے ہوئے خداوند یسوع مسیح " سے اپنی ملاقاتوں اور روح القدس کی زبر دست طاقت سے عو ر ہونے کا جابجا تذکرہ کیا ہے.اس کتاب میں برازیل کے ایک میڈیکل ڈاکٹر کی شہادت بھی درج ہے کہ دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو گا جس کی زندگی کے حالات، خالی از دلچسپی ہوں (THE STORY OF SAMUEL DOCTORIAN) لیکن سیموئیل ڈاکٹر یان کی زندگی نہ صرف، دلچسپ بلکہ خدائی روح اور اس کے تصرف کا عظیم مظہر ہے.پادری ڈیوڈ گارڈنر نے کتاب کے پیش لفظ میں ڈاکٹر سیموئیل کے دورہ لندن (۱۹۶۳ء) کی اہمیت بیان کرتے ہوئے لکھا ہے.برطانیہ کے کئی عیسائی جو سالہا سال سے عیسائیت کی تجدید کے لئے دعائیں کر رہے تھے انہیں اپنی دعائیں خدا کے شکر میں وقف کر دینی چاہئیں کیونکہ تجدید کا آغاز یقیناً ہو چکا ہے.ملک کے مخدون حصوں میں روح القدس کی تعظیم تحریک کے آثار نمایاں نہیں : +
۱۵۸ فیصلہ کرنے کے لئے مرد میدان نہیں اور دوستانہ فضا میں تبادلہ خیالات کرنے کے علاوہ قبولیت دعا کا اُن سے روحانی مقابلہ بھی کرلیں.جناب مسعود احمد صاحب تعلیمی نے اس دعوت مقابلہ کے سلسلہ میں سیدنا حضرت خلیفہ ایسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں ڈھا کے لئے لکھا جس پر حضور نے تحریر فرمایا.آپ کا خط مورخہ ہم 19 مش مع نقل چھٹی بنام ڈاکٹر سیموئیل صاحب ملا.جزاکم اللہ احسن الجزاء اگر اس نے دعوت مقابلہ کو قبول کیا تو شکست کھائے گا.انشاء اللہ آپ جرات سے مقابلہ کریں.اگر ضرورت محسوس کریں تو زیورک سے چوہدری مشتاق احمد صاحب کو بھی بلائیں.اللہ تعالے آپ کی تائید و نصرت فرمائے.آمین " اس خط پر دستخط فرماتے ہوئے حضور نے اپنے قلم مبارک سے مزید لکھا."انشاء اللہ ایسا ہی ہوگا " ڈاکٹر سیموئیل کی طرف سے ہفتہ بھر جواب کا انتظار کیا گیا.لیکن جواب نہ آنا تھا نہ ہی آیا.انتظار کا وقت ختم ہونے پر خط کا جر من ترجمہ خاص تعداد میں شائع کر دیا گیا اور اس پر نمایاں حروف میں لکھا گیا.ڈاکٹر سیموئیل کے نام ایک خط جس کے جواب کا ابھی تک انتظار ہے“ " اور پروگرام یہ بنایا گیا کہ پندرہ روزہ تقاریر کے آخری دو ایام مورخہ ۳۰۰۲۹ ر بون یعنی ہفتہ اور اتوار کے روز جبکہ حاضرین کی تعداد بھی نسبتا زیادہ ہوتی تھی یہ خط نیمہ تقریر کے باہر تقسیم کیا جائے چنانچہ مورخہ ہوں کو جناب مسعود احمد صاحب امام مسجد فرانکفورٹ اور احمدی احباب وقت مقررہ سے نصف گھنٹہ قبل ہی نیمہ تقریر کے باہر کچھ فاصلے پر کھڑے ہو گئے اور مطبوعہ خط کی تقسیم شروع کر دی جس سے ہر طرف ایک زبردست ہلچل سی پیدا ہوگئی.خیال تھا کہ اپنی تقریر میں پادری صاحب اس دعوت کا ذکر کریں گے لیکن باوجود اس کے کہ سامعین میں سے تقریباً ہر شخص کے ہاتھ میں خط تھا پاور کی صاحب نے قطعا خط کا ذکر نہ کیا.البتہ اُن کی تقریر میں وہ پہلا سا جوش و خروش نہ تھا.تقریر کا اکثر حصہ اسلامی ممالک کے متعلق من گھڑت قصے سنا کر ختم کر دیا.اگلے روزہ بجے شام پادری صاحب کی خیمہ کے اندر تقریر تھی.احمدی احباب دوبارہ خیمہ کے قریب چھا کھڑے ہوئے کہ اسی اثناء میں ڈاکٹر سیموئیل کی موٹر کار کچھ فاصلہ پر آکر رکی مبلغ احمدیت مسعود احمد صاحب جہلمی آگے بڑھے اور ڈاکٹر صاحب سے خط کے جواب کی بابت دریافت کیا.وہ چلتے چلتے کہتے لگے ” میری تقریر نہیں ، انہوں نے کہا جناب تقریر میں تو ہم نے آپ کی پہلے بھی سنی ہیں ان میں تو آپ
۱۵۹ نے ہمارے خط کا ذکر تک نہیں کیا.اتنے میں وہ خیمہ کے اندر داخل ہو گئے مبلغ جرمنی نے سوچا کہ اب مزید بات چیت مناسب نہیں لیکن ایک عرب احمدی دوست ابراہیم عودہ تقریر کے بعد ڈاکٹر ، حب کے پاس چلے گئے.ڈاکٹر صاحب نے مصروفیت کا عذر پیش کر کے ٹیلیفون پر وقت مقرر کرنے کو کہا لیکن استید عودہ کے اصرار پر ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ابھی میں نے بعض لوگوں کو دھا کے لئے بلایا ہے.دعا سے فراغت کے بعد آپ مل لیں.کوئی پون گھنٹہ تک دعا جاری رہی.اس کے بعد ملحقہ پھوٹے خیمہ میں ڈاکٹر صاحب برادرم خوردہ کے پاس بیٹھ گئے.عودہ نے انہیں نہایت موثر رنگ میں تحریک کی کہ یہ فیصلہ کی بڑی آسان راہ ہے.آپ یہ دعوت مقابلہ قبول فرما لیں مگر ڈاکٹر صاحب نے دو ٹوک جواب دیا کہ جس دن سے مجھے یہ خط ملا ہے میں اس دن سے مقابلہ کی اجازت کے لئے خداوند لیسوع میسج سے دُعا کر رہا ہوں لیکن ہر روز جواب آتا ہے نہیں.اب کل ہی جب انہوں نے یہ خط تقسیم کیا تو میں نے پھر ڈھا کی لیکن جواب ملا " نہیں تم اپنا کام کرتے جاؤ ان کی طرف مت دھیان دو“ اس پر خودہ صاحب نے کہا تو پھر آپ صاف صاف کیوں نہیں کہ دیتے کہ آپ کو اس امر کا قطعاً یقین نہیں کہ ندا آپ کی دعائیں سنے گا.اس پر ڈاکٹر صاحب نے کریسی سے اُٹھتے ہوئے گھڑی کی طرف دیکھا اور کہا دیکھیں.آپنے دس منٹ کا مطالبہ کیا تھا اور اب نصف گھنٹہ ہونے کو ہے اور مجھے اور بھی مصروفیات ہیں.اس طرح یه بلند و بانگ دعا دی کرنے والے عظیم مسیحی مناد" اسلام اور محمد عربی صلے اللہ علیہ وسلم کے خادموں اور غلاموں کے مقابلہ میں آنے کی جرات نہ کرسکے اور اپنے عمل سے متصال اسلام پیر مہر تصدیق ثبت کر دی.قیام مشن فرانکفورٹ کی دس سالہ تقریب فضل سے دس سال کاکامیاب مرد نے ان پر امارات عرصہ گزرنے اپریل پیش کو فرانکفورٹ میں ایک پر وقار تقریب کا انعقاد عمل میں آیا.اس بابرکت تقریب کے رہتا رول مکرم بودهری ظفراللہ خان صاحب تھے.آپ تین روزہ تک مشن ہاؤس میں قیام فرما رہے.اپنے عرصہ قیام کے دوران آپ فرانکفورٹ میوزیم کے وسیع ہال مسکن برگ میں عصر حاضر کا مذہب (2005 RELICION) الفضل ما تبوک استمبر له مش صفحه ۳-۲۴ 1972
14.کے عنوان پر معرکتہ الآراء لیکچر دیا.اس کے علاوہ فرانکفورٹ میں بین الاقوامی شہرت کے میتھولک دینی ادارہ فلاسفیکل تھیولوجیکل انسٹی ٹیوٹ سینٹ جارج میں میسج کی آمادثانی " کے موضوع پر مدلل اور دلولہ انگیز تقریر فرمائی.بعد ازاں فرانکفورٹ کے مشہور ٹاؤن ہال میں چودھری صاحب موصوف کے اعزاز میں میٹر سائب فرانکفورٹ کی طرف سے استقبالیہ دعوت دی گئی.DR.BAUM اس پر وگرام کا اہم ترین حصہ مسجد نور میں استقبالیہ تقریب تھی جس میں ہالینڈ، اسپین ، سویڈن اور برطانیہ کے سفارتی نمائندوں نے شرکت کی.فرانکنورٹ کے میٹر ڈاکٹر فائی کے علاوہ بلدیہ کے بعض اہم افسران سیاسی پارٹی CBU کے سر براہ Vor Mood.2 مقامی مجسٹریٹ DR.VOLDE، لیبر آفس کے سربراہ DR SUNMIDT ، ریلوے کے پریذیڈنٹ WENDLER DR اور جرمنی کے بین الاقوامی شہرت کے ممتاز قانون دان PROF.DR.JANIKE ا نمائندہ بشپ اہم کیتھولک پادری 1 وغیرہ اسماء قابل ذکر ہیں.مبلغ اسلام جناب مسعود احمد صاحب جہی نے حاضرین کو خوش آمدید کہا.نومسلم احمدی دوست محمود سمعیل زوش نے دس سالہ مساعی کا جائزہ لیتے ہوئے احمدیت کے اغراض و مقاصد بیان کئے.فرانکفورٹ کے میٹر نے تقریر کرتے ہوئے مشرق و مغرب میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے بارے میں مشن کی مساعی کو سراہا.اور آئندہ ہر انگ میں تعاون کا یقین دلایا.جناب چودھری صاحب موسموں نے سامعین کو اپنے مخصوص انداز میں مذہب کی طرف توجہ نے کی تلقین کی.ٹیلی ویژن اور ریڈیو نے اس تقریب کی شیریں نشر کیں.فرانکفورٹ کے تینوں اہم اخبارات نے شاندار تبصرے لکھے.فرانکفورٹ سے شائع ہونے والے ہر منی کے اہم ترین اخبار FRANKFURTER ALLGEMEINE کی اشاعت مورخہ ۲۱ اپریل شہر کے لیے مضمون میں سے ایک اقتباس درج ذیل ہے :- جماعت احمدیہ اسلام کی ایک تبلیغی جماعت ہے جو تجدید و احیائے اسلام کے ساتھ ساتھ عیسائی خیر عیسائی اقوام اور اسلام کے مابین سنخ و رزاداری کے اصولوں کے تحت بہتر فضا اور خوشگوارہ ماحول پیدا کرنے کی علمبردار ہے.جو منی میں ہیمبرگ کے بعد فرانکفورٹ جماعت احمدیہ کا دوسرا مشن ہے.اسلام کے متعلق بیشمار تقاریر اور مذاکرات کے ذریعہ زبر دست، بیداری کے پیدا ہونے سے اس مشن کے کام کی غمازی ! i |
141 اور ہوتی ہے سکولوں ، مذہبی اداروں اور دیگر سوسائٹیوں کی طرف سے بڑی کثرت کے ساتھ اس مشن کو اسلام کے متعلق معلومات بہم پہنچانے کے دعوت نامے ملتے ہیں.یونیورسٹی 1 میونسپل لائیبریریوں کو یہاں سے کتب مہیا کی گئی ہیں.ترجمه و تصنیف کے دیگر کاموں کے علاوہ جو اس مشن سے وابستہ ہیں اسپرانٹو زبان میں قرآ کریم کا ترجمہ خاص طور پر قابل ذکر میں جو اس کے گہرے اشتراک عمل سے معرض وجود میں آیا ہے اس کے علاوہ مسجد نور فرانکفورٹ میں اسلامی ممالک سے آنے والے زائرین طلبہار، تاجروں اور سیا توں وغیرہ کے لئے روحانی مرکز ہی نہیں بلکہ اس اجتبی ملک میں ان کے لئے وطن کی فضا مہیا کرتی ہے" سے +1949 اسپرانٹو زبان میں قرآن مجید وسط بارش میں مشہور اطالوی مستشرق ، آٹھ زبانوں کی افضل اور جرمنی میں انشورنس کی بین الاقوامی کمپنی بجنرل انشورنس کے ترجمہ کی اشاعت مقبولیت کے جزل مینجر پروفیسر ڈاکٹرا لوکی وی ایک لمبی تحقیق اور دعاؤ اور استخارہ کے بعد جماعت احمدیہ میں داخل ہو گئے.سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے آپ کا اسلامی نام محمد عبد الہادی تجویز فرمایا.سنہ سے } ។ ព له ا ه به الفضل احسان جون ش ه الفضل ۴ تبوک استمبر یه مش صفحه ۴ : کے ڈاکٹر محمد عبد الہادی صاحب کیوسی احمدی ہونے کے بعد رسالہ " DER ISLAM DER ISLAN “ کے مدیر ہے.بارش میں پہلے آپ نے قادیان کی زیارت کی.پھر عید.سالانہ ربوہ میں شمولیت کا شرف حاصل کیا.پھر حرمین الشریفین کی زیارت سے مشرف ہوئے اور واپسی پر اپنے روحانی تاثرات اور قلبی واردات و مشاہدات رسالہ مذکور میں شائع کئے ہو بہت روح پرور تھے.ان مضامین کا ترجمہ مکرم مسعود احمد سانب جہالمی مبلغ جرمنی نے الفضل مصلح البنوری و ۱۲۹ هجرت ارمنی و ۱۳ احسان م بوان نہ سہی میں بھی شائع کرایا.ان مضامین کے شروع میں مکرم عبد الہادی صاحب کیوسی کے متعلق ان کا تعارف ان الفاظ میں کرایا گیا ہے :- ۱۹ میں آپ کو حج بیت اللہ کرنے کا شرف حاصل ہوا.واپس آکر آپ نے بیج بیت اللہ کے متعلقی ایک کتاب تصنیف کی ہے جو ڈائری کی صورت میں ہے اور بطور رہنمائے حج جرمن زبان میں نہایت مستند اور واحد کتاب ہے جس میں بیت اللہ شریف اور دوسرے مقامات مقدسہ کے متعلق نہایت فاستلانہ اور مستند
پروفیسر ڈاکٹر طا لو کیوسی تقریباً پانچ چھ سال سے احمدیہ مشن جو منی کے ساتھ گہرا رابطہ رکھتے تھے اور اسلام اور قرآن مجید کا مطالعہ کر رہے تھے.ابتدائی دو سال آپ نے عربی زبان سیکھنے اور اسلام کے بارے میں اپنی معلومات وسیع کرتے ہیں صرف کئے اور اس سلسلہ میں مکرم مولوی فضل الہی صاحب انوری مبلغ فرانکفورٹ نے آپ کی ہر مکن امداد اور رہنمائی کی.عربی کا ضروری علم سیکھنے اور اسلامی تعلیمات سے اچھی اور طرح متعارف ہونے کے بعد آپ نے صرف ایک سال کے اندر بین الاقوامی زبان اسپرانٹو ( ESPERANTO) میں قرآن کریم کا ترجمہ مکمل کر لیا.اس دوران میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالے کی دُعائیں تو جہات آپ کے شامل حال رہیں.اسپرانٹو ترجمہ قرآن کا دیباچہ چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے تحریر فرمایا.بقیه باشه صفحه گذشته) معلومات ہیں.اس کے علاوہ اسپرانٹو زبان میں ڈاکٹر صاحب موصوف کی ایک گراں قدر تصنیف بعنوان " ہادی برحق صلے اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں ڈنمارک کے مطبع میں زیر طبع ہے.اس کتاب کا نصف حصہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی مقدس سوانح پر مشتمل ہے اور بقیہ نصف حصہ میں ایک سو احادیث رسول کا ترجمہ اور تشریح مع عربی متن کے ہے.اسپرانٹو زبان کے ایک مشہور رسالہ (BIBLICAL REVIEW) میں اسلام کے متعلق اکثر ان کے مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں.لہ سے آپ اسپرانٹو کی مرکزی اکیڈمی کے عمبر منتخب ہو گئے ہیں.آپ کو اسپرانٹو جاننے والے حلقوں میں خدا تعالیٰ نے تبلیغ کی بڑی موثر توفیق بخشی ہے.شاہ سے آپ کو ہر سال اسپرانٹو کی عالمی کانگریس میں اسلام پر تقریر کے لئے مدھو کیا جاتا ہے.چنانچہ نشانہ سے آپ کو بحیثیت نمائندہ اسلام شمولیت کا اعزاز حاصل ہوا.شکار میں آسٹریا کے دارالحکومت دی آنا میں اور نہ میں لنڈن میں آپ نے کانگریس کے اجتماعات میں اسلام کی حقانیت پر پُر مغز مقالے پڑھے.راہ میں کانگریس کے اجلاس امریکہ میں تقریر کے علاوہ ایک یونیورسٹی میں آپ کو اسلام پر تقاریہ کی دعوت ملی جس میں آپ کا مقالہ اسپرانٹو اکیڈمی کے سیکوٹری صاحب نے پڑھ کر نمایاه تاریخ وفات ۹/۸ جون ۱۹۷۳ء لے یہ زبان جسے پروفیسر ڈاکٹر زامن ہوف ( DALL ZAMENNOF ) نے بین الاقوامی رابطہ کی غرض سے شملہ میں رائج کی تھی اب یورپین اور دوسرے متعدد ممالک میں بولی اور سمجھی بھاتی ہے.دنیا کی اہم مذہبی علمی اور سیاسی کتابوں کے تراجم اس زبان میں ہو چکے ہیں مگر اس میں قرآن کریم کا ترجمہ کرنے کی سعادت پہلی مرتبہ پروفیسر ڈاکٹر طا لو کیوسی ہی کو حاصل ہوئی ہے ؟
۱۶۴ قاہرہ کے ڈاکٹر ناسف اسحاق نے (جو اسپرانٹو کے عالم اور اسپرانٹو عربی لغت کے مصنف ہیں ) ترجمہ کی صحت کا جائزہ لیا اور اسپرانٹو کی عالمی تنظیم کے صدر پروفیسر ڈاکٹر لینے ( LAPENNA) نے اس پر ادبی نقطہ نگاہ سے نظر ثانی کی اور اسپرانٹو لٹریچر شائع کرنے والے کوپن ہیگن کے ایک پبلشر TOREN REHLET نے غیر معمولی دلچسپی اور محبت کے ساتھ اس ترجمہ کی اشاعت کا اہتمام کیا اور جماعت احمدید کی طرف سے وکالت تبشیر تحریک بعدید ایک خطیر رقم بطور عطیہ مذکورہ اشاعتی ادارہ کو دی جس کے باعث اصل لاگت سے بھی کم قیمت بطور ہدیہ مقرر کی گئی اور اسپرانٹو زبان میں شائع ہونے والے ورسائل میں اس ترجمہ کا خوب چرچا ہوا.اور ترجمہ کا پہلا ایڈیشن ہاتھوں ہاتھ بن گیا اور دوسرا ایڈیشن شائع ہو کہ قریب الاختتام ہے.اس ترجمہ کی اشاعت سے اسپرانٹو زبان ماشینے والوں کا رجحان اسلام کی طرف پڑھ رہا ہے.سندھ +1944 وفاقی جمہوریہ جرمنی کے صدر کو ہر ظہور اگست میش کو جرمن مشن کی طرف سے وفاقی جرمن ترجمر ف آن کی پیشکش جمہوریہ برمنی کے صدر ڈاکٹر سلف مینے بین Dr.Guar۸۴ GUSTAK HEINEMAN ) کو جر من ترجمتہ القرآن کا آسمانی تحفہ دیا گیا.یہ پیشکش ایک احمدی و ند نے کی جس کی قیادت مکرم چوہدری عبد اللطیف صاحب انچارج مشن نے کی ہے ش میں حضرت امیر المومنین ∙192- سته ای الا اله الا مال کا دارا سر مری جای ای سرمربی جرمنی تطلیقہ آسیح الثالث ایدہ اللہ تعالٰی نے مغربی افریقہ کے سفر کے دوران زیورک سے بذریعہ گاڑی پر شہادرت ایریا پیش کو دوبارہ فرانکفورٹ تشریف لے گئے اور ارشہادت / اپریل کو بذریعہ ہوائی جہاز لیگوس ( نائیجیر) کے لئے روانہ ہوئے.حضور کے پروگرام میں فرانکنورٹ شامل نہ تھا.لیکن زیورک جا کہ اچانک پروگرام میں تبدیلی ہو گئی اور فرانکفورٹ جانے کا بھی پروگرا، بن گیا.جرمن آمدی غیر متوقع طور پر اپنے پیارے امام کو اپنے درمیان پا کو فرط عقیدت سے آبدیدہ ہو گئے تصور نے فرانکفورٹ میں مجلس علم و عرفان میں، اپنے حقدام کو قیمتی ہدایات دینے گئے علاوہ ایک بصیرت افروز خطبہ جمیعہ بھی ارشاد فرمایا.حضور کے اس مختصر قیام نے جماعت جرمنی کو ایک زندہ الفضل اور ظہور اگست مش صفحه ۴ * ٣٠ الفضل به روز جولائی صفحو ه الفضل ۲۲ رشه دت اپریل برام پر مش صفحه ۰۳/۲
14 ایمان اور تازہ ولولہ بشار نماز جمعہ میں ایک زیر تبلیغ جو من نوانا بھی شامل ہوئے جن کو حضور کی روحانی توجہ نے اپنی طرف کھینچ لیا اور وہ بیعت کر کے اسلام جیسی نعمت سے مشرف ہوئے اور ہدایت اللہ کا نام پایا.جرمن مشن کا مرکز فرانکفورٹمیں ایک کا ایک ایک کر مر مرگ اور جرمنی کے انتہائی شمال میں واقع ہے لیکن ماہ شہادت / اپریل ہش سے یہ ہمبرگ سے فرانکفورٹ میں منتقل کر دیا گیا.یہ تبدیلی حضرت فاتح الدین خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے درود فرانکفورٹ سے صرف ایک روز قبل عمل میں آئی.چونکہ فرانکفورٹ جرمنی بلکہ یورپ کے وسط میں واقع ہے اس لئے یہاں مرکز کے قیام سے تبلیغ اسلام کے میدان میں وسعت پیدا ہو چکی ہے.نے نو مسلم احمدی مکرم ہدایت اللہ صاحب جن کا حجر من نام PC HUBSCH) ہیویش ہے قبول اسلام سے قبل بائیں بازو کے طلباء کے ایک لیڈر اور ہیپی موومنٹ کے ایک گروپ کے بانی تھے.آپ کا شمار جرمنی کے ممتاز شعراء میں ہوتا ہے.خدا تعالیٰ نے اپنے خاص الخاص فضل کے تحت انہیں اسلام کی طرف راہنمائی فرمائی اور حضورہ کے نشانہ میں فرانکفورٹ میں ورود مسعود سے کچھ ہی عرصہ قبل انہوں نے مسجد میں آنا شروع کیا تھا حضور کی دعا اور روحانی توجہ کے طفیل جلد ہی اللہ تعالٰی نے ان کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیا اور اسلام کو قبول کرنے کے بعد انہوں نے اخلاص اور رومانیت میں جس تیزی سے ہیمثال ترقی کی ہے وہ بہتوں کے لئے قابل ستائش ہے.ہر روز مسجد میں نماز کے لئے حاضر ہونا ان کی روحانی غذا ہے اپنی علمی اور قلمی اور شعری تمام قوتوں کو انہوں نے اسلام کے لئے ہمہ تن وقف کر رکھا ہے.اپنے خرچ پر اسلام کے متعلق ایک سہ ماہی رسالہ شائع کر کے یہی تحریک سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں میں تقسیم کرتے ہیں.ان کی شاعری جو اس سے قبل پر اگندہ خیالی کی آئنہ دار تھی اب اسلام اور ہادی برحق صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدح کے لئے وقف ہے.ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر اُن کے متعدد انٹرویو اور مضا بن اسلام کے حق میں نشر ہو چکے ہیں.شہر سار برکن کے ریڈیو کی فرمائش پر اپنی زندگی کے حالات پر مشتمل مقالہ انہوں نے سپرد قلم کیا جس میں نہی ازم سے اسلام کی طرف آنے کی روداد درج تھی.یہی مضمون میونخ کے ریڈیو نے بھی نشر کیا اور پھر ایک ناشر نے اسے شائع کرنے کی اجازت چاہی.قبول اسلام کے بعد آپ نے اپنی تمام آمد کا حصہ چندہ کے طور پر مشن کو ادا کر دیاہ
14A جرمن میشن کی اسلامی مطبوعات ( در تبلیغ جرمن کے قیام کو قریبی ربع صدی ہورہی ہے.اس عرصہ میں مشن نے نہایت شاندار لٹریچر پیدا کیا ہے جس کی تفصیل یہ ہے :.ا قرآن مجید (عربی جرمن) 1.Der Heilige Quran Arabisch-Deutsch 2.Islam Order Christentum اسلام یا عیسائیت ( اقتباس از دیبا چه تغیر القرآن مصنفہ حضرت مصلح الموعود 3.Die gesellschaftliche Bedeutung des Islam اسلامی تعلیمات کی معاشرتی اہمیت ) از محترم چودھری ظفر اللہ خان صاحب) 4.Der Islam und internationale Beziehungen م اسلام اور بین الاقوامی تعلقات ( از چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب) 5.Warum ich an den Islam glaube ! میں اسلام کو کیوں مانتا ہوں (نشری تقریر حضرت مصلح الموعوداً - میرا مذاب از چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب) 6.Mein Glaube 7.Die geschichtliche Bedeutung des Islam fur die abendlandische kultur مغربی تمدن میں اسلام کی تاریخی اہمیت (مصنفہ ڈاکٹر ٹنٹاک) 8.Jesus - Leben, Auftrag, Tod میسج.ان کی زندگی مشن اور وفات 9.Die wirtschaftliche Aufbau der der islamichen اسلام کا اقتصادی نظام ( از حضرت مصلح الموعود Gesellschaftsordnung 10.Muhammad - der ideale Mensch محمد انسان کامل ( ترجمه مضمون حضرت میر محمد اسمعیل صاحب ) -1.
11.Jesus in Kaschmir 12.Unsere I ehre 144 مسیح کشمیر میں ( از چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب ) ہماری تعلیم ( اقتباس از کشتی نوح) -N ۰۱۲ 13.Eine Warnung an die Welt Botschaft des Friedens zugleich ۱۳.دنیا کو ایک انتباہ اور امن کا پیغام (از حضرت خلیفہ مسیح الثالث ایدہ اللہ تعالے منصرہ العزیز) 14.Der Islam als Glaube an den Eine Gott ۱۴ اسلام بحیثیت دین توحید ( از چودهری مشتاق احمد صاحب باجوہ مبلغ سوئٹزر لینڈ) 15.Die Gnade Allahs ھا اللہ کی رحمت اسلامی عقائد و تعلیمات کا تعارف ( از مسعود احمد صاحب پہلی مبلغ برمنی) -16 14 16.Das Haus in Mekka مکہ کا گھر.تفصیلات مناسک سی.( از جناب ڈاکٹر محمد عبد الہادی کیوسی) میشن کی شہری خدمتا یہ مشن یورپ اور بالخصوص مغربی جرمنی میں اشاعت اسلام کا بھاری مرکز بن چکا ہے اور ہمبرگ اور فرانکفورٹ میں جہاں مساجد تعمیر ہو چکی ہیں انوار قرآنی دوسروں کی نظر میں کی تجلیات کا دائرہ روز بروز وسیع ہو رہا ہے.اس تعلق میں بطور ثبوت صرف چار آراء درج ذیل کی جاتی ہیں :.SPRING -1- سویڈن کے ایک مشہور علمی رسالہ " TIDENS TECKEN نے شہداء کے EP1T10 میں ایک مفصل مضمون شائع کیا.یہ طویل مضمون اس انٹرویو کی رپورٹ پر مشتمل تھا جو اس کے ایڈیٹر نے ہمبرگ میں چوہدری عبد اللطیف صاحب سابق مبلغ جر منی سے لیا تھا.اس مضمون میں جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی اور ان کے اثرات پر مفصل روشنی ڈالنے اور عیسائیت کی تباہی اور اسلام کے غالب آنے کے متعلق ان پیشگوئیوں کا بالتفصیل ذکر کرنے کے بعد بجو بانی سلسلہ احمدیہ سیدنا حضرت میسج موعود علیہ السلام نے فرمائی ہیں، عیسائی دنیا کو بایں الفاظ خبردار کیا گیا کہ اسلام میں رونما ہونے والے اس مسیح موعود کا وجود، اس کی قائم کردہ جماعت اور اس کے تبلیغی
146 مشن یہ سب چیزیں ہمارے لئے ایک چیلینج کی حیثیت رکھتی ہیں.ان حالات میں ہمیں اس امر پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا کہ ہم عیسائیوں میں وہی بعد یہ وہی سچائی وہی روح القدس موجود ہے جو ہمارے مسیح کی ابتدائی جماعت میں کار فرما تھا.اگر نہیں تو پھر ہم نے عیسائیت کے مقصد اور اس کی عرض و غایت کو فراموش کر دیا ہے.بیشک ہمارے گرجے وسیع پیمانے پر پھیلے ہوئے ہیں اور بہاری جماعتیں اور تنظیمیں جگہ جگہ موجود ہیں لیکن سچائی کی روح کے بغیر ہمارا مذہب ، ہمارے عقائدہ اور ہماری تنظیمیں سراسر غیر مفید اور بلییود ہیں اور ایک بڑ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں.ہر چند کہ اس اسلامی جماعت کے مشن عیسائیت کے لئے خطرناک نہیں کہلا سکتے لیکن ہمیں اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہئیے کہ یہ جماعت ایشیا ، امریکہ، یورپ اور افریقہ میں جارحانہ طور پر عیسائیت پر حملہ آور ہے.اس کے پیش کردہ دلائل ٹھوس مضبوط اور قوی ہیں.ان حالات میں جب ہم ان نتائج پر غور کرتے ہیں جو اس تبلیغی جد و جہد کے نکل سکتے ہیں تو ہم پر کیپکسی طاری ہو جاتی ہے.کیا ہم عیسائیوں میں وہ روحانی طاقت موجود ہے جس سے ہم اس جارحانہ تحریک کا مقابلہ کر سکیں.کیا ہم عیسائیوں پر یہ فرض عائد نہیں ہوتا کہ ہم اسلام کے اس چیلینج کا اپنے صحیح عقائدہ دکھا اور روح القدس کی برکت سے جواب دینے کے قابل ہو سکیں نے - پاکستان کے روز نامہ نوائے وقت لاہور مورخہ ۱۸ دسمبر ست اندر کی اشاعت خاص د علمی ادبی ایڈیشن) میں برمنی میں مسلمانوں کی سرگرمیاں“ کے زیر عنوان ایک فوٹ شائع ہوا.اس نوٹ کا متعلقہ حصہ مندرجہ ذیل ہے :- " مغربی جرمنی کے ایک کثیر الاشاعت پر پچھے میں محمد امین عبد اللہ کا ایک مضمون چھپا تھا جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ بون کے لاٹ پادری کے اخبارمیں کچھ عرصہ پیشتر بتایا گیا تھا کہ آٹھ توجد من مسلمان ہو گئے ہیں.اتنی بڑی تعداد میں جرمنوں کے مسلمان ہونے سے یہ خیال پیدا ہوا کہ آیا جرمنی میں آباد مسلمانوں کی کوئی منظم تحریک موجود ہے.اس سوال کا جواب مغربی جرمنی کی حکومت کے بلیٹن میں یوں دیا گیا ہے.مغربی جرمنی میں اسلام کی تین طریقے سے نمائندگی ہوتی ہے.پہلا یہ کہ مغربی جرمنی میں مسلم • الفضل از شهادت / اپریل الله مش صفحه 1
14A ممالک کے سفارت خانوں کے مسلمان ملازم جو منی میں موجود ہیں.ان میں مسلم ممالک کے طالب علم اور تا ہو بھی شامل ہیں اور مسلمانوں کا یہ گروپ سب سے بڑا ہے.اگرچہ ہمبرگ اور آئش میں مسلمانوں نے ایک ایک مسجد تعمیر کر لی ہے مگر سفارتی نمائندوں ، طالب علموں اور تاجروں کو کسی منظم اسلامی تحریک کا حصہ نہیں کہا جا سکتا.ان کے جو باہمی اجلاس ہوتے رہتے ہیں ان کا مقصد اسلام کی تبلیغ کرنا نہیں ہے مگر مذہبی، ثقافتی اور قومی روایات کو بر قرار رکھتا ہے.دوسرا گروپ مہاجرین کا ہے جو دوسری جنگ عظیم کے بعد مغربی جرمنی میں آباد ہو گئے ہیں.اور اب بظاہر مغربی جرمنی ہی ان کا وطن ہے.ان مسلمانوں کا ثقافتی مرکز میونخ ہے.میونخ میں مسجد کی تعمیر کے لئے وفاقی حکومت اور باویرید کی حکومت ان مسلمانوں کی امداد کر رہی ہے.ان دونوں گروپوں میں ایک چیز مشترک ہے.وہ یہ کہ پہلے گروپ کے مسلمان تو کچھ عرصہ کے لئے یہاں آتے ہیں.انہیں اپنی واپسی کا یقین ہوتا ہے.جبکہ دوسرے گروپ کے مسلمان اگر چہ اتنی دیر سے یہاں آباد ہیں مگر وہ اب بھی سوچتے رہتے ہیں کہ ایک روز وہ اپنے اپنے وطن کو واپس لوٹ جائیں گے.میرا گروپ جو اسلام کی تبلیغ کے لئے یہاں آیا ہے اس گروپ کا تعلق احمدیہ جماعت سے ہے.اور یہ گروپ گذشتہ دس سال سے مغربی جرمنی میں سرگرم کا رہ ہے.“ حکومت مغربی جرمنی کی طرف سے شائع ہونے والے ایک ہفتہ وار عربی خبر نامہ الرسالة نے ہم فروری ر کو لکھا:." اس ضمن میں یہاں ایک اہم اور تعجب خیز حقیقت کی طرف اشارہ کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے اور وہ یہ کہ جو منی اور باقی مغربی یورپ کے ممالک میں دعوت اسلام اور دیگر اسلامی کام حضرت اور صرف جماعت احمدیہ کی مساعی کے مرہون منت ہیں اور صرف یہی وہ لوگ ہیں جو اسلام کی دعوت تبلیغ کا بیڑا اُٹھائے ہوئے ہیں.اسی طرح جماعت احمدیہ ہی وہ پہلی تنظیم ہے جس نے دوسری جنگ عظیم کے بعد قرآن کریم کا جو من ترجمہ اصل عربی متن کے ساتھ شائع کیا ہے" سے شہ میں مغربی پاکستان کے تمام اہم اخبارات نے جو منی کی مساعد پر ایک مضمون شائع کیا جئیں میں مقالہ نگار نے فرانکفورٹ اور ہمیر گئی اسماریہ مساعد کا با تصویر تذکرہ کرتے ہوئے لکھا :- رسالہ به له تحریک بدید که بوه بابت ماه صلاح جنوری ارامش صفحه ۵۸ - ۱۵۹
149 قدرتی طور پر مشورے اور امداد کا ہر متلاشی مسلمان سب سے پہلے اپنی قدیم ترین مسجد کا رخ کرتا ہے.اُن کے امام بھی مقتدیوں کی فلاح وبہبود کے لئے ہر وقت کوشاں رہتے ہیں بہت سی مشکلات کی وجہ صرف یہ ہوتی ہے کہ نو وارد مسلمان بر من زبان سے نا واقف ہوتا ہے یہ مشکل امام مسجد کی مدد سے حل ہو جاتی ہے.مثلا فرانکفورٹ کی ڈور مسجد کے امام مسعود احمد پانچ زبانیں جانتے ہیں اور وہ فرانکفورٹ کے قرب و جوار میں لینے والے مسلمانوں سے اُن کی علاقائی زبانوں میں بات چیت کر لیتے ہیں.ہر ہفتے فرانکفورٹ اور اس کے قرب وجوار کی بستیوں سے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ان کی چھوٹی سی مسجد میں نماز جمعہ ادا کرنے پہنچتی ہے بہت سے مسلمانوں کے لئے خواہ وہ مراقش کے ہوں یا انڈونیشیا کے ، مشرقی افریقہ کے ہوں یا مغربی افریقہ کے مسعود احمد مشفق والد ، ہمدرد ، بہی خواہ ، ترجمان اور پیرو مرشد سبھی کچھ ثابت ہوتے ہیں.اس کے علاوہ فرانکفورٹ کی نور مسجد کے اس نو عمر امام کو اس بات کی بھی خوشی ہے کہ جرمن لوگوں میں اسلامی ثقافت و نظریات سے دلچسپی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے.بہت ممکن ہے کہ وفاقی جمہوریہ جرمنی کے صدر ڈاکٹر باٹنے من سے ان کی ملاقات نے بھی مسعود احمد صاحب کے ان خیالات کو تقویت پہنچائی ہو“ لے فصل پنیر مسقط میشن کی بنیاد عمان تو یہ عرب کی ایک مسلم ریاست ہے جو قطر اور حضرموت کے درمیان عرب کے مشرقی ساحل پر واقع ہے مسقط اس ریاست کا دارالسلطنت اور خلیج فارس کی بڑی اہم بندرگاہ ہے.یہاں مسلمانوں کی تعلیمی اور مذہبی حالت بہت ناگفتہ یہ ہے اور ان پہ ایک مجمود طاری ہے مگر عیسائیوں نے ے " نوائے وقت " لاہور ۲۹ جنوری ۱۹۷ صفحه ۵۱۰
16.جگہ جگہ ہسپتال کھول رکھتے ہیں جہاں وہ کھلے بندوں صلیبی مذہب کا پر چارہ کرتے ہیں اور سینکڑوں مسلمانوں کو حلقہ بگوش بعیسائیت کر چکے ہیں.اگر چہ احمدیہ مسلم من عدن پر یہ بش سے عرب کے مغربی ساحل کو عیسائیوں کی یلغار سے بچانے کے لئے ٹھوس خدمات بجا لا رہا تھا مگر مشرقی ساحل میں ان کی سرگرمیوں کا نوٹس لینے والا کوئی نہیں تھا.اور عربوں کی نئی نسل صلیبی مذہب سے متاثر ہو رہی تھی.اور مشکل یہ تھی کہ ان علاقوں میں داخلہ پر سخت پابندیاں تھیں.اتفاق ایسا ہوا کہ ایک احمدی دوست محمد یوسف صاحب بی.ایس سی ہو اُن دنوں مسقط حکومت کے فوڈ آفیسر تھے لاہور آئے تو حضرت مصلح موعود کے حکم سے مولوی روشن الدین صاحب فاضل واقف زندگی کو ان کے ساتھ روانہ کر دیا.اور ساتھ ہی ارشاد فرمایا کہ وہ ریاست میں ذریعہ معاش تلاش کریں.انہیں اپنے اور اپنے بچوں کے اخراجات خود برداشت کرنا ہوں گے.چنانچہ مولوی صاحب موصوف ۲ تبلیغ / فروری یہ مہش کو مسقط العرب میں پہنچے اور یوں نہایت بے بضاعتی کے عالم میں مسقط مشن کی بنیاد پڑی.آپ کے تشریف لے جانے سے قبل مسقط میں تین احمدی تھے.بلے ۱۹۴۹ له محمد عبد الحق صاحب احمدی پنشر پر و پرائٹر حق کیفی بینک روڈ مردان کا بیان ہے کہ "میرا تبادلہ اگست ۳۴داء کو پشاور سے مسقط ہو ا تھا.بیت الضلع ایک مقام ہے جو مسقط سے کچھ فاصلہ پر ہے اور یہاں سلطان مسقط کی انفنٹری ہے.میرا دفتر بھی وہیں تھا.میں سب سے پہلا احمدی تھا جو وہاں گیا تھا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے میرے ذریعہ سے سلطان کی فوج کے دو افراد احمدی ہوئے.(1) میاں فتح محمد صاحب ہو اس وقت سلطان کی فوج کے آمر ر تھے اور جو سیالکوٹ میں جہانتک مجھ کو یاد پڑتا ہے اوچھی ٹیبی کے رہنے والے تھے پہلے احمدی ہوئے تھے اور ان کے ذریعہ ان کی اہلیہ صاحبہ بھی سیالکوٹ میں احمدی ہوئی تھیں.یہ صاحب اب فوت ہو چکے ہیں.(۲) جناب محمد اعظم صاحب ہو اُن دنوں سلطان کی فوج کے ہیڈ کوارٹر میں ہیڈ کلرک تھے....مسقط سے ۹۳۵۳لہ میں میرا تبادلہ شار جاہ ، مسقط اور کویت کے درمیان ایک قصبہ میں ہوا.ان دنوں مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری حیفا میں تھے.آپ سے رسالہ البشری منگوا کر یہاں لوگوں کو دیا کرتا تھا.شارجہ میں ایک مصلحب غلام احمد صاحب احمد می رہتے تھے.یہ صاحب سونی پت کے باشندہ تھے اور پہلی جنگ عظیم میں شیراز سے ہوتے ہوئے وہیں آباد ہو گئے تھے اور وہیں شادی بھی کی تھی.مگر افسوس ان کی کوئی اولاد نہ تھی.وہ
11 مسٹر محمد یوسف بی ایس سی نے ابتدائی خرج کے طور پر کچھ تم مولوی صاحب کو پیش کی اور کہا کہ کچھ اور رقم مرکز سے لے کو تجارتی کاروبار شروع کرنا چاہیئے نیز حضرت امیر المومنین المصلح الموعود کی خدمت اقدس میں بھی لکھ دیا کہ اگر کچھ روپیہ مرکز سے بھی ہمیں مل جائے تو مولوی صاحب کو تجارت پر لگا دیں مگر حضور نے ارشاد فرمایا کہ تجارت میں کام زیادہ کرتا پڑتا ہے اور تبلیغ کے لئے وقت نہیں ہوتا ان کو ملازمت کروائیں.چنانچہ کچھ جد و جہد کے بعد مولوی صاحب کو ملازمت مل گئی لیکن تبلیغ حق کی پاداش میں خارش کر دیئے گئے.اور یہ صورت کئی بار پیش آئی اور تعصب کی وجہ سے کئی رکاوٹیں پیدا کی گئیں مگر آپ صبر و استقامت کے ساتھ دین کی خدمت میں مصروف رہے.ملازمت کے دوران جب آپ کو معقول مشاہرہ مل جاتا تو آپ مرکز کو اطلاع دے دیتے کہ میں گھر والوں کو یہاں سے خرج روانہ کر دوں گا.مگر جب حالات قابو سے با ہر ہو جاتے تو مرکز نخود ان کے بال بچوں کی مالی ذمہ داریاں سنبھال لیتا اور یہ صورت آپ کے پورے عرصہ قیام گمان تک قائم رہی.مستقلد میں ایک لمبے عرصہ تک تربیتی و تبلیغی فرائض انجام دینے کے بعد آپ ها تبلیغ فروری اش کو دوبئی منتقل ہو گئے اور جماعتی تربیت کے ساتھ ساتھ پیغام حق پہنچاتے رہتے اور بالآخر و ظہور را گست اہش کو واپس مرکز احمدیت ربوہ میں تشریف لے آئے.$1971 دستیه حاشیه صفحه گذشتہ حکیم صاحب کے نام پر مشہور تھے اور حکمت کا کام کرتے تھے.ایک بار رسالہ البتہ بنی کی تقسیم کی رپورٹ شیخ آن شار جاہ کو پہنچی تو انہوں نے دھمکی دی کہ میں یہ سلسلہ تبلیغ بند کر دوں اور نہ مجھ کو وہاں سے تبدیل کر دیا جائے گا.میں نے یہ رپورٹ حضر مصلح موعود کی خدمت میں بھی بھجوا دی تھی.دیهی مرقومه ۲۳ تاریخ فروری پیش مشموله فائل مسقط من تحریک جدید) 61904
KY تیسرا باب روہ کے پہلے سالانہ جی سے لیکر یہ تاحضرت مصلح مود کی دار راحت میں بغرض رہائش تشریف آوری تک فصل اول - ربوہ کا پہلا سالانہ جلسہ رازہ میں پہلا سالانہ مجلسه ۱۵-۱۶- ۷ در ماه شهادت / اپریل مشن کو منعقد ہوا.یہ مثالی جلسہ دنیائے احمدیت میں ایک منفرد و مخصوص تاریخی عظمت و شان کا حامل تھا اور قیامت تک پر سوز اور پر درد اجتماعی اور عاجزانہ دعاؤں کی وجہ سے دعاؤں کے سینہ کے نام سے یاد رہے گا.جلسہ کا روحانی پس منظر استیون اصلی امور نے جلسہ اور منعقدہ سربراہی میں اعان فرمایا تھا کہ ہمارا مرکزی سالانہ جلسہ ربوہ میں ایسٹر کی تعدیلات کے دوران ہوگا.اس فیصلہ پر جماعت کے بعض مرکزی کارکنوں کے علاوہ بیرونی جماعتوں کی طرف سے بھی حضور کی خدمت میں بکثرت مخطوط پہنچے کہ ان دنوں جلسہ کا ہونا سخت دشوار اور مشکل ہو گا.جلسہ کے لئے ہر چیز باہر سے پہنچانا ہوگی اور زمیندار اصحاب جن کی ہمارے یہاں بھاری اکثریت ہے فصلوں کی کٹائی کے باعث بہت کم شریک
جلسہ ہو سکیں گے.اس لئے یا تو جلسہ کی تاریخیں بدل دی جائیں یا جلسہ ہی لاہور میں منعقد کیا جائے.مگر حضور نے اس رائے سے اتفاق نہیں کیا بلکہ اُسوہ انبیاء و خلفاء کے عین مطابق اور رب کریم کے فرمان فَإِذَا عَزَمتَ نَتَوَعَل عَلَی اللہ کی تعمیل میں قطعی ارشاد فرمایا کہ یہ جلسہ بہر حال مقررہ تاریخوں پر ربوہ کیا میں ہوگا.اور بعد کے واقعات نے ثابت کر دیا کہ موعود اولو العزم خلیفہ نے اپنے نور فراست و بصیرت کی بناء پر جو فیصلہ کیا وہی صحیح مناسب اور مبارک تھا.ہی جلسہ ربوہ کا پس منظر کیا تھا اور اس کے راہ میں منعقد کئے جانے کی کیا حکمتیں کار فرماتیں حسرت اقدس نے اس پہلو پر نہایت شرح وبسط سے روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا : " جب کوئی شخص سمندر میں کودتا ہے یا کوئی جہاز غرق ہوتا ہے اور اس کی سواریاں سمندر میں گر جاتی ہیں تو آخر انہیں ساحل کی تلاش کرنی ہی پڑتی ہے.اس ساحل کی جستجو میں خطرات بھی ہوتے ہیں اور اس کی جستجو میں خوف بھی لاحق ہوتے ہیں.جب کوئی جہاز ڈوبتا ہے تو چاروں طرف پانی ہی پانی ہوتا ہے اور انسان نہیں جانتا کہ میں دائیں گیا تو مجھے خشکی سے گی یا بائیں گیا تو مجھے خشکی ملے گی ، سامنے کی طرف گیا تو مجھے خشکی ملے گی یا پیچھے کی طرف گیا تو مجھے خشکی ملے گی.یہ بھی انسان نہیں جانتا کہ اگر خشکی مجھ سے بہت دُور ہے اور میں کسی طرح بھی ساحل تک نہیں پہنچ سکتا تو اگر دائیں طرف تیرا تو مجھے کوئی جہاز یا کشتی میں سجائے گی یا بائیں طرف تیرا تو مجھے کوئی جہاز یا کشتی میں سجائے گئی ، آئینے کی طرف تیرا تو مجھے کوئی جہاز یا کشتی میل بجائے گی یا پچھے کی طرف تیرا تو مجھے کوئی جہاز یا کشتی مل جائے گی.ان آٹھوں باتوں میں سے اُسے کوئی بات بھی معلوم نہیں ہوتی.مگر پھر بھی وہ ایک جگہ پر کھڑا نہیں رہتا.بظاہر اس کا جگہ پر کھڑا رہنا یا ان چاروں جہات میں سے کسی ایک کا خشکی پر پہنچنے یا جہاز اور کشتی حاصل کرنے کے لئے اختیار کرنا برابر معلوم ہوتا ہے مگر باوجود اس کے کہ یہ سب باتیں برابر معلوم ہوتی ہیں.انسان پھر بھی جد و جہد کرتا ہے اور ساحل یا کشتی کی تلاش میں دائیں بائیں یا آگے پیچھے ضرور جاتا ہے.اسی طرح ہمیں بھی ساحل یا جہاز کے لئے جو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لئے مقدر ہے ، جستجو اور تلاش کی ضرورت ہے اور جلد سے جلد کسی ایسے طریق کار کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے جو اپنے اندر ایک استقلال اور پائداری رکھتا ہو.اس وقت تک جو کچھ خدا تعالے کی مثبت ظاہر
14N ہوتی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ربوہ ہی وہ مقام ہے جہاں اللہ تعالے کا یہ منشا ہے کہ ہماری جماعت دوبارہ اپنا مرکز بنائے اور جب کوئی نئی بنگہ اختیار کی بجاتی ہے تو اس کے لئے دعائیں بھی کی جاتی ہیں، اس کے لئے صدقہ و خیرات بھی کیا جاتا ہے اور اس کے لئے اللہ تعالے کی مدد اور نصرت بھی طلب کی جاتی ہے، اور یہ بہترین وقت ہمیں جلسہ سالانہ کے دنوں میں ہی میتر آسکتا ہے کیونکہ اس موقعہ بچہ وہاں ہزاروں ہزار افراد جمع ہوں گے اور ہزاروں ہزار افراد کے جمع ہونے سے طبیعتوں پر جو اثر ہو سکتا ہے اور ہزاروں ہزارہ افراد کی متحدہ دعائیں جو تاثیر اپنے اندر رکھتی ہیں وہ صرف چند افراد کے جمع ہونے سے نہ اثر ہو سکتا ہے اور نہ اُن کی دُعائیں خواہ وہ سچے دل سے ہی کیوں نہ ہوں اتنی تاثیر رکھ سکتی ہیں جتنی ہزاروں ہزار افراد کی دعائیں اثر رکھتی ہیں انہی باتوں کو دیکھتے ہوئے لیکں نے مناسب سمجھا کہ ہم ربوہ کا افت تاج جلسہ سالانہ سے کریں اور خدا تعالیٰ سے اس مقام کے بابرکت ہونے کے لئے متحدہ طور پر دعائیں کریں.بے شک ان شامل ہونے والوں میں غافل بھی ہوں گے ، سست بھی ہوں گے ، کمزور بھی ہوں گے، لیکن ان لوگوں میں چست بھی ہوں گے ، مخلص بھی ہوں گے ، سلسلہ کے فدا کار اور جانثار بھی ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کے مقرب بھی ہوں گے اور پیستوں اور خدا کاروں کی آواز کے ساتھ جب کمزوروں اور ناقص دعا کرنے والوں کی آواز خدا تعالیٰ کے سامنے "ہم" کہتے ہوئے پہنچے گی تو یقیناً اس " ہم “ میں جو برکت ہوگی وہ صرف چند افراد کے جاہتے سے نہیں ہو سکتی.پس بجائے اس کے کہ ربوہ کا کوئی افتتاح نہ کیا جاتا اور بجائے اس کے کہ چند افراد جو وہاں بس رہے ہیں انہی کا مینا ربوہ کے افتتاح کے لئے کافی سمجھ لیا جاتا میں نے چاہا کہ ہمارا اس سال کا سالانہ جلسہ ربوہ میں ہو تاکہ جب ہماری جماعت کے ہزاروں ہزار افراد اس جلسہ میں شامل ہونے کے لئے آئیں تو ہمارا جلسہ بھی ہو جائے اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور ایک بہت بڑی تعداد میں اکٹھے ہو کہ ہم متحدہ طور پر دعائیں کریں کہ وہ اس نظام کو احمدیت کے لئے بابرکت کرے اور اسے اسلام اور احمدیت کی اشاعت کا ایک زبر دست مرکز بنا دے.میں جانتا ہوں کہ منتظمین کو تکلیف ہوگی اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ شاید ہمیں پورا سامان بھی میسر نہ آسکے.یہاں اگر کسی چیز کی ضرورت محسوس ہو تو فوری طور پر نہتا ہو
140 سکتی ہے لیکن وہاں ایسا نہیں ہو سکتا.مثلاً لا ہور میں سینکڑوں باورچیوں کی دکانیں ہیں.اگر کسی وقت کھانا کم ہو جائے اور دو تین سو افراد کو کھانا بہتا کرنے کی ڈیوٹی پہ لگا دیا جائے تو میں سمجھتا ہوں دو تین گھنٹہ میں دس پندرہ ہزار آدمی کا کھانا آسانی سے مہیا ہو سکتا ہے.لیکن جو مقصد میرے سامنے ہے وہ اس رنگ میں پورا نہیں ہو سکتا.اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ لاہور کی بجائے ربوہ میں اس جلسہ کا انعقاد کیا جائے.باقی رہا تکلیف کا سوال، سو یہ بھی کوئی اہمیت نہیں رکھتا.اُس وادی غیر ذی زرع میں جس میں شور پانی نکلتا ہے ، اس وادی غیر ذی زرع میں جس میں چالیس چالیس پچاس پچاس میل تک کھیتی کا کہیں نشان تک نظر نہیں آقا حضرت ابراہیم علیہ السلام سے لے کر رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک لو گے بڑے بڑے وسیع جنگلوں میں سے گزرتے ہوئے ، ایسے جنگلوں میں سے جو صرف درندوں کے مسکن تھے ، ایسے جنگوں میں سے جہاں بعض دفعہ سو سو میل تک پانی کا ایک قطرہ تک میتر نہیں آتا تھا پیدل یا اُونٹنیوں پر سوالہ اپنے مشکیزوں میں پانی اُٹھائے حج کے لئے دوڑتے پچھلے آتے تھے ، اور دنوں نہیں ، جہینوں نہیں ، سالوں نہیں ، صدیوں نہیں ہزاروں سال تک وہ برابر ایسا کرتے چلے گئے.ہماری جماعت کو ایسا بے ہمت تو نہیں ہونا چاہیے کہ اگر صرف ایک دفعہ انہیں یہ کام کرنا پڑے تو وہ گھبراہٹ کا اظہار کرنے لگ جائیں.اس صورت میں بھی تم زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکو گے کہ عرب کے قبل از اسلام لوگوں نے جو کام دو ہزارہ چار سو دفعہ کیا وہ ہم نے بھی ایک وقعہ کر لیا حضرت ابراہیم علیہ السلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کا زمانہ ہم اکسو سے ۲۴ سو سال تک کا ہے اور ہر سال مجھ ہوتا ہے.اس لئے اگر صرف حج کو ہی لے لیا جائے عمرہ کو جانے دیا جائے تو ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ جو میں سو دفعہ یہ کام ان لوگوں نے کیا بھلا کہ ان لوگوں میں سے اکثر وہ تھے جو زمانہ نبوت کے بہت دور تھے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ابتدائی چند نسلوں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کو مستشے کرتے ہوئے درمیان میں صرف کفر اور تاریکی اور بے دینی کا زمانہ تھا.اس کفر کے زمانہ میں، اس تاریخی کے زمانہ میں، اس بے دینی اور الحاد کے زمانہ میں جو کام انہوں نے ۲۴ سود فعہ کیا بلکہ اگر گھر سے بھی
124 شامل کر لئے جائیں تو جو کام انہوں نے ۲۴ ہزار دفعہ کیا ہمیں اگر ویسا ہی کام صرف ایک دفعہ کرنا پڑے تو ہمارے نفسوں پر کسی قسم کا بوجھ نہیں ہونا چاہیے.بلکہ ہمیں خوش ہونا چاہیے کہ ہم بھی ہوں گا کر شہیدوں میں مل گئے.اللہ تعالے کی اپنے ہر کام میں حکمتیں ہوتی ہیں اور اس کی حکمتیں نہایت وسیع ہیں.دُنیا ان چیزوں کو نہیں دیکھیتی بین کو خدا دیکھ رہا ہوتا ہے یا جن کو خدا کے دکھانے سے اس کے فرشتے دیکھ رہے ہوتے ہیں.بہت سے بیج دنیا میں بوئے جاتے ہیں مگر ان بیجوں کے اچھا ہونے کے با وجود، زمینوں کے اچھا ہونے کے باوجود ، نگرانی اور دیکھ بھال کے اچھا ہونے کے باوجود الہی مصلحت اور الہی تدبیران بیجوں کو نہ اُگنے دیتی ہے نہ بڑھنے دیتی ہے نہ پھل پیدا کرنے دیتی ہے.مگر کئی بیچ دنیا میں ایسے ہوتے ہیں جو سنگلاخ زمینوں اور شور بیابانوں میں بوئے جاتے ہیں.ان کی خدمت کرنے والا کوئی نہیں ہوتا.ان کی نگرانی کرنے والا کوئی نہیں ہوتا ان کو پانی دینے والا کوئی نہیں ہوتا.مگر خدا تعالے کی مصلحتیں اور اس کی تقدیر ان بیجوں کو بڑھاتے بڑھاتے بہت بڑا سے درختوں کی صورت میں بدل دیتی ہے.اتنے بڑے درخت کہ ہزاروں ہزار لوگ اُن کے پھل کھاتے اور ان کے آرام دہ سایہ میں ہزاروں سال تک پناہ حاصل کرتے ہیں.خدا کے کام خدا ہی جانتا ہے.انسانی عقلیں اور تدبیریں خدا تعالیٰ کی مصلحتوں اور تدبیروں پر حاوی نہیں ہو سکتیں.ہم بھی کوشش کر رہتے ہیں کہ ایک شور زمین میں اپنا مرکز بنائیں.عرش پر بیٹھنے والا خدا اور آسمان میں رہنے والے فرشتے ہی جانتے ہیں کہ ہماری اس ناچیز حقیر اور کمزور جد و جہد کا نتیجہ کیا نکلنے والا ہے ہمارے لئے مشکلات بھی ہیں.ہمارے راستہ میں روکیں بھی ہیں.ہمارے سامنے دشمنیاں اور عداوتیں بھی ہیں.لیکن ہوتا وہی ہے جو خدا چاہتا ہے اور انسانی عقل اور انسانی تدبیر آخر بیکار ہو کر رہ بھاتی ہے.ہم سمجھتے ہیں اور ہم یقین رکھتے ہیں.بلکہ ہم سمجھتے اور یقین ہی نہیں رکھتے ہم اپنی روھانی آنکھوں سے وہ چیز دیکھ رہے ہیں جو دنیا کو نظر نہیں آتی.ہم اپنی کمزوریوں کو بھی جانتے ہیں ، ہم مشکلات کو بھی جانتے ہیں جو ہمارے راستہ میں حائل ہیں، ہم مخالفت کے اس اُتار چڑھاؤ کو بھی بھانتے ہیں جو ہمارے سامنے آنے والا ہے.ہم ان قتلوں اور
166 مارتوں کو بھی دیکھ رہے ہیں جو ہمیں پیش آنے والے ہیں.ہم ان ہجرتوں کو بھی دیکھ رہے ہیں ہو ہماری جماعت کو ایک دن پیش آنے والی ہیں.ہم ان جسمانی اور مالی اور سیاسی مشکلات کو بھی دیکھتے ہیں جو ہمارے سامنے رونما ہونے والی ہیں.مگر ان سب دھندلکوں میں سے پار ہوتی ہوئی اور ان سب تاریکیوں کے پیچھے ہماری نگاہ اس اونچے اور بلند نہ جھنڈے کو بھی انتہائی شان و شوکت کے ساتھ لہراتا ہوا دیکھ رہی ہے نہیں کے نیچے ایک دن ساری دنیا پناہ لینے پر مجبور ہوگی.یہ جھنڈا خدا کا ہوگا.یہ جھنڈا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لوگا.یہ جھنڈا احمدیت کا ہوگا.اور یہ سب کچھ ایک دن ضرور ہو کر رہے گا.بیشک دنیوی مصائب کے وقت کئی اپنے بھی یہ کہ اُٹھیں گے کہ ہم نے کیا سمجھا تھا اور کیا ہو گیا.مگر یہ سب چیزیں مٹتی پھلی جائیں گی.مٹتی چلی جائیں گی.آسمان کا نور ظاہر ہوتا چلا جائے گا اور زمین کی تاریکی دور ہوتی چلی جائے گی اور آخر وہی ہوگا جو خدا نے بھانا.وہ نہیں ہوگا جو دنیا نے پھاہا “ ربوہ اُن دنوں چونکہ لق و دق صحرا کا منظر پیش کر رہا تھا.انتظامات جا کے لئے حضر امیر اولین جہاں رہائشی مکانات کا نام و نشان تک موجود نہ تھا کی زریں ھدایات اور جس جگہ وسیع پیمانے پر کسی جلسہ کا انعقاد صرف اسی صورت میں ممکن خیال کیا جا سکتا تھا جبکہ کہا.ضروریات لاہور ، لائل پور ، سرگودھا یا چنیوٹ بغیر سے بہم پہنچائی جائیں اور ان کو زیر استعمال لانے کے لئے منظم طریق پر انتظامات کئے جاتے یہی وجہ ہے کہ سید نا حضرت امیر المومنین المصلح الموعود نے رش کے اوائل ہی سے اس طرف خصوصی توجہ فرمائی اور منتظمین جلسہ کو عارضی انتظامات کے بارے میں نہایت پر حکمت اور تاکیدی ہدایات جاری فرماتے رہے جن میں سے بعض بطور نمونہ بیان کی بھاتی ہیں :- روایات فرموده ۲۸ بلیغ فروری ) -1 جلسہ سالانہ کے لئے مندرجہ ذیل اشیاء فراہم کی جائیں :- مٹی کے تیل کے کنستر = له الفضل ۱۲ ہجر امنی ماه مش صفحه ۳ ۲ ۱ ۱۱۹۴۹ لاٹینیں "
16A موم بتیاں جن کی لمبائی کو اچھی اور موٹائی سے ہو د ۳۰۰ بنڈل ڈھائی سو بوری آٹا پسوا یا بھائے اور بوقت ضرورت دو سو بوری آٹا پسوانے کا انتظام رکھا جائے.پانی جمع کرنے کے لئے ہم ڈیول ائیل کے تعالی ڈرم فضل عمر د لیر 28 انسٹی ٹیوٹ لاہور سے حاصل کئے جائیں اور 100 سیکنڈ ہینڈ ڈرم اور حسب ضرورت گھڑے خرید لئے بھائیں.فولڈنگ کینوس ٹینک ) FOLDING) کی فراہمی کی کوشش کی جائے اور ٹینکر ic canvas tank ); ( TANKER) کرایہ پر لینے کی کوشش کی جائے.یہ مہیا نہ ہوں تو چنیوٹ میں سقوں کا انتظام کیا جائے روزانہ پچاس ہزار کچی اینٹ تیار کرانے کی کوشش کی جائے → ۹ - ۲۳ رامان / مارچ کو حضرت مصلح میشود کی خدمت اقدس میں حضرت مولوی عبد المغنی خاں صاحب ناظر دعوت و تبلیغ نے عرض کیا کہ کیا ہندوستان کے مبلغ جلسہ سالانہ میں شمولیت کے لئے پاکستان آجائیں.فرمایا.صرف اس صورت میں آنے کی اجازت ہے جبکہ یہاں سے واپس جانے کا پرمٹ بھی ساتھ لے کر آئیں حضور نے ہدایت دی کہ عورتوں کی جلسہ گاہ مردوں کے پنڈال سے ۲۰۰ فٹ پر سے ہٹا کر بنائی جائے اور اس کے گرد قناتیں لگائی بجائیں.گیلریاں اگر موجود ہیں تو مردوں کے لئے استعمال کی جائیں.جلسہ کی کارروائی صبح و شام اور رات کو ہو ، دوپہر کو نہ ہو.پوسٹر شائع نہ کئے جائیں.اگر لوائے احمدیت اس موقعہ پر لگایا جائے تو ساتھ ہی اتنا ہی اُونچ پاکستان کا جھنڈا بھی نصب کیا جائے.سنہ اس کے ساتھ ہی مہمانوں کی قیام گاہوں کے لئے ایسی طرز پر بیر کیں بنانے کا حکم دیا جو جلسہ کے بعد مناسب تبدیلی کے ساتھ شہر کی پختہ تعمیر کے آغاز تک دفاتر اور کارکنوں کے رہائشی مکانوں کے طور پر استعمال کی شفا سکیں.کے ے رجبر روداد اسبلاس ہائے رتن باغ لاہور سے چودھری عبد اللطیف صاحب اودر سیر کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ ہر ماہ شہادت / اپریل تک مہمانوں کی سب ہیر کیں پایہ تکمیل تک پہنچ گئیں.اسی طرح حضور کی عارضی رہائش گاہ بھی قریباً مکمل ہو س کی تھی.البتہ ناظر صاحبان کے اٹھارہ کمروں کا سیٹ ابھی زیر تعمیر تھا
169 - رمانہ شہادت / اپریل کو حضرت امیرالمومنین نے فرمایا کہ دفتروں نے جلسہ کے موقعہ پر ربوہ جانا ہے اور افسران نے دن رات کام کرنا ہے ان کے لئے تین سو چار پائیوں کا انتظام کر لینا چاہیئے تا کہ ان کو کام کے بعد آرام کا موقع مل سکے.نیز پچیس ہزار روپیہ کہیں سے قرض لے لیا بھائے اور آہستہ آہستہ کر کے بجٹ میں رکھ کر اس کو اُتار دیا بھائے اور اس رقم کے ذریعہ برتن اور دیگر سامان غرباء کے لئے خوار کر ربوہ میں کام کرنے والے غرباء میں تقسیم کیا جائے.ایسا سامان جو ربوہ میں بھائے گا اس کے انتظام کے لئے بابو فضل الدین صاحب سے گفتگو کی جائے.اگر وہ کام کرسکیں تو سامان کا چارج ان کو دیا جائے اور جب کوئی وہاں جائے تو وہ سامان ان کو دیں اور پھر واپس نہیں ہے حضرت امیر المومنين المصلح الموعود نے المحمود امانی انتقال کی خاطر بہ کا خصوصی مضر صرف ہدایات جاری کرنے پہ ہیں اکتفا نہیں کیا بلکہ نفس نفیس معائینہ انتظامات اور مزید راہ نمائی کے لئے ۲۴ ماه امان مانش کو لاہور سے ربوہ تشریف لائے.اس خصوصی سفر کی تفصیلات حضور ہی کے مبارک الفاظ میں درج ذیل کی جاتی ہیں حضور نے ۲۵ امان/ مارچ کے خطبہ جمعہ میں فرمایا :- جلسہ سالانہ کے متعلق جو وہاں انتظامات ہو رہے ہیں.میں کل ان کو دیکھنے کے لئے ربوہ گیا تھا.چونکہ اس جگہ پر کوئی رہائشی مکانات نہیں ہیں اس لئے ظاہر ہے کہ ہمیں وہاں رہائش کے ائے عارضی انتظامات ہی کرنے ہوں گے.چنانچہ اسی غرض کے لئے میں نے انجنیئروں سے مشورہ کرنے کے بعد ساڑھے تیرہ ہزار روپے کی منظوری عارضی شیر ڈر بنانے کے لئے دے دی ہے اور اس میں پچاس شیڈ بنائے بہا رہے ہیں.ہر شیڈ 14 فٹ لمبا اور 14 فٹ چوڑا ہے.درمیان میں ستون ہیں.اس طرح ہر شیڈ دو حصوں پر منقسم ہو جاتا ہے.ہمارا اندازہ یہ ہے کہ ہر شیڈ میں ۱۲۵ یا ۱۳۰ آدمی آ سکتے ہیں.اس طرح ۵۰ شیڈ میں تقریباً چھ ہزار آدمی کی گنجائش ہے.ان میں سے ہیں شیر مستورات کے لئے مخصوص کر دیئے گئے ہیں جن میں ۲ ہزار کے قریب مستورات کے رہنے کی گنجائش ہوگی لیکن چونکہ مسلسہ سالانہ کے ایام آنے تک موسم گرم ہو جائے گا اور لوگ تانبا پسند کریں گے کہ وہ باہر نکل کر سوئیں اس لئے اه و سیر رو داد اجلاس رتن باغ لاہور :
|A.خیال ہے کہ یہ عمارت ۲۰ - ۴۰ بلکہ ۵۰ ہزار آدمی کے لئے کافی ہوگی.کیونکہ صرف اسباب اندر رکھتا ہو گا.سونے کے لئے لوگ باہر لیٹنا زیادہ پسند کریں گے.اسباب کی حفاظت کو ر نظر رکھتے ہوئے اگر الگ الگ جماعتوں کو رکھا جائے.تب بھی ہمارا خیال ہے کہ یہ شیڈ ۱۲.بلکہ ہمیں ہزار آدمی کے لئے کافی ہوں گے.چونکہ جماعت جب جلسہ پر آتی ہے تو بالعموم اپنے چندے بھی ساتھ لاتی ہے اور بالعموم وہ ان ایام میں اپنے گذشتہ حسابات بھی دیکھنا چاہتی ہے.اس کے علاوہ مختلف دفاتر سے لوگوں کو مختلف کام ہوتے ہیں.بعض کو اپنے جھگڑوں اور تنازعات کے سلسلہ میں امور عامہ کے دفتر سے کام ہوتا ہے یا رشتہ ناطہ کے لئے وہ شعبہ رشتہ ناطہ سے گفتگو کرنا چاہتے ہیں یا بیت المال والوں سے وہ اپنے بجٹ کے سلسلہ نہیں ملنا چاہتے ہیں یا دفتر محاسب میں وہ اپنی امانتیں رکھوانا یا اپنی امانتیں نکلوانا چاہتے ہیں اس لئے ان دفاتر کے لئے بھی وہاں مکانات بنانے ضروری تھے چونکہ میں نے انجنیروں سے مشورہ کرنے کے بعد اس غرض کے لئے عارضی طور پہ بارہ کمرے بنانے کا حکم دے دیا ہے.اور وہیں خود انہ بنانے کی ہدایت بھی دے دیا ہے.اسی طرح جو مستقل افسر ہیں اور جن کو جلسہ سالانہ کے ایام میں رات دن کام کرنا پڑے گا ان کے لئے بھی علیحدہ انتظام کی ضرورت تھی چنانچہ اس کے لئے بھی میں نے کچھ مکانات الگ بنوانے کا فیصلہ کیا ہے اور متعلقہ کارکنان کو اس کے متعلق ہدایت دے دی ہے.یہ تمام مکانات صرف عارضی طور پر بتائے جائیں گے ان پر تقریباً ۲۰۱۸ ہزار روپیہ صرف ہو گا لیکن اس میں سے خرچ کا کچھ حصہ سلسلہ کو واپس مل بھائے گا.مثلاً جب یہ مکانات توڑے جائیں گے تو اُن کی کچھی اینٹیں کچھ تو ضائع ہو جائینگی لیکن انجنیئروں کا خیال ہے کہ دو تہائی اینٹیں آئندہ کی ضروریات کے لئے بیچ جائیں گی اسی طرح ان مکانات میں جو لکڑی استعمال کی جائے گی وہ بھی بچ جائے گی.ہمارا اندازہ یہ ہے کہ نصف کے قریب خرچ واپس مل بھائے گا اور صرف دس ہزار روپیہ ایسا ہوگا.جو جلسہ کی خاطر خرچ ہوگا.میں نے یوں بھی اندازہ لگایا ہے کہ اجمین کے جو دفاتر ہیں وہ قادیان کی نسبت اب بہت بڑھ گئے ہیں.قادیان میں ہمارا سد کے قریب کلرک تھا لیکن اس وقت غالباً زیادہ ہو چکا ہے.جس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی دفتر لاہور میں ہے کوئی چنیوٹ
JAI میں ہے اور کوئی احمد نگر میں ہے.اس کے علاوہ ہمارے دفاتر اب دو ملکوں میں تقسیم ہو چکے ہیں.گویا ہمارے دفتر کا کام پہلے کی نسبت بہت بڑھ گیا ہے.بلکہ اب تو ایک مستقل دفتر ظفات مرکز کے لئے ہی قائم ہو چکا ہے اور اس کا کام یہی ہے کہ قادیان کے متعلق جو مشکلات پیدا ہوں اُن کا ازالہ کرے.گورنمنٹ سے خط و کتابت کرے.بین اعتوں کو قادیان کے حالات سے باخبر رکھے اور ہر قسم کا ضروری ریکارڈ جمع کرتا رہے.پھر چونکہ قادیان کی صدر امین بھی قائم ہے.اس کے دفا تم الگ ہیں.مگر ان دفاتر کا صرف سرچ کے ساتھ تعلق ہے.ربوہ میں مکانات کی تعمیر یا صدر انجین احمدیہ پاکستان کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں.اسی طرح تحریک جدید کے بہت سے کارکنان ہیں.ان سب کارکنوں کو اگر ملایا جائے تو ہزار بارہ سو تک ان کی تعداد پہنچ جاتی ہے اور ان کی رہائش کے لئے کم سے کم اڑھائی تین سو مکانات کی ضرورت ہے.اب تو ہمارے تین مکان لاہور میں ہیں.کالے بھی نہیں ہے.کچھ مکانات چنیوٹ میں ہیں.۴۰-۵۰ مکانات احمد نگر میں ہیں اور کچھ حصہ کا رکنوں کا خیموں میں رہتا ہے.جب دفاتہ اکٹھے ہوں گے تو ہمیں ضرورت ہوگی کہ ان کے لئے اڑھائی سو خیمہ لگوایا ہجائے.اور اگر اڑھائی سونیمہ لگوا دیا جائے تب بھی اول تو خیموں میں وہ آرام میستر نہیں آسکتا جو مکانات میں ہوتا ہے.دوسرے اگر اڑھائی سو خیمہ خریدا جائے تو سوا لاکھ روپیہ میں آتا ہے.ان خیموں کو اگر دوبارہ مکانات بننے پہ بیچ بھی زیا جائے تب بھی ساٹھ ستر ہزار کا نقصان نہیں برداشت کرنا پڑے گا.اور اگر اڑھائی سوتیمیہ کرایہ پر لیا جائے تو اٹھارہ روپیہ ماہوار پر ایک خیمہ ملتا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ ۴۵۰۰ روپیہ ماہوار شتر که اید پر صرف ہوگا.اگر یہ خیمے ایک سال تک رکھے جائیں جب تک ہماری عمارتیں مکمل نہ ہو جائیں تو ۵۴ ہزار روپیہ سالانہ صرف کرایہ پر خرچ آجائے گا.اور پھر ان ٹیموں کے پہنچانے اور واپس لانے میں جو خرچ ہو گا وہ بھی چار چار پانچ پانچ روپے فی خیمہ سے کم نہیں ہو سکتا.ان امور کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے یہ سمجھا کہ اگر ہم ان عارضی عمارتوں کو جو جبلہ سر سالانہ کے لیئے بنائی جارہی ہیں بعد میں توڑیں نہیں بلکہ اسی طرح رہنے دیں تو ہمارا بیس ہزار روپیہ جو ان عمارتوں پر تخریج ہو گا.اس میں سے دس ہزار روپیہ تو یقیناً جلسہ سالانہ کے لئے خریج ہونا تھا ، باقی دس ہزار روپیہ جو لکڑی اور اینٹوں کی صورت میں ہمیں واپس مل سکتا تھا وہ ان عمارتوں کو سال بھر قائم رکھ
١٨٢ کہ ہمارے دفاتر اور کارکنوں کو اکٹھا رکھنے میں کام آسکتا ہے.میں نے اندازہ لگایا ہے کہ فی بیرک چھ چھ مکان بن سکتے ہیں.اور چونکہ پچاس یہ کیں ہیں اس لئے بعد میں بڑی آسانی سے تین سو مکان بن سکتا ہے.اگر ہم ان مکانات کو سال بھر رہنے دیں تو دس ہزار ہیں کا نقصان اُٹھانے کی بجائے ہمیں کم سے کم چالیس ہزارہ روپیہ کی بچت ہوگی.اگر ہم خیمے لگائیں تو ہمیں پچاس ہزار روپیہ سالانہ کرایہ ادا کرنا پڑے گا.اور اگر ہم خیمے خرید کر سال بھر کے بعد بیچیں تو ہمیں ساٹھ ستر ہزار روپے کا گھاٹا برداشت کرنا پڑے گا.لیکن اگر یہ شیڈ اور مکانات اسی طرح پر کھڑے رہیں اور چھ چھ مکان فی بیرک بنا دیئے جائیں تو تین سو مکان بن بھائے گا.ان پچاس شیڈوں کے علاوہ جو عارضی مکانات وہاں جلسہ سالانہ کے لئے بنائے جا رہے ہیں جن میں دفاتر بھی ہوں گے.ناظروں کے لئے مکانات بھی ہوں گے پرائیویٹ سکوڑی کا بھی دفتر ہوگا اور میرا مکان بھی ہو گا.اس پر ہمارے اخراجات کا اندازہ چار ہزار روپیہ ہے.کیونکہ بہر حال کسی چھوٹی سی جگہ میں یہ سارے دفاتر نہیں آسکتے ہیں بارہ افسروں کے لئے جگہ کی ضرورت ہوگیا.دفتر پرائیویٹ سکوڑی کے لئے جگہ کی ضرورت ہوگی اور پھر میری رہائش کے لئے جگہ کی ضرورت ہوگی.اس کے لئے ہم نے جو نقشہ تجویز کیا ہے اس کے مطابق پیار ہزار خرچ کا اندازہ ہے.اور اگر اس شوق کو پورے سال پر پھیلا دیا جائے تو پاس سو روپے ماہوار کا خرچ ہے جو سلسلہ کو برداشت کرنا پڑے گا.میں سمجھتا ہوں کہ اگر جلسہ سالانہ کے فورا بعد ہم دفاتر وہاں منتقل کرنا شروع کر دیں اور موجودہ عارضی عمارات کو قائم رکھیں تو بجائے نقصان کے ہمیں تھیں پھالیس ہزار روپیہ کا فائدہ رہے گا اور پھر مزید فائدہ یہ ہوگا کہ سب کا رکن اکٹھے رہیں گے اور کام میں پہلے کی نسبت زیادہ ترقی ہوگی کہ لے ربوہ اسٹیشن کی منظوری اور حضرت مصلح موعود کے ارشاد پر میاں غلام محمد صاحب اختر عرصہ سے ربوہ اسٹیشن کی منظوری کے لئے مسلسل دوڑ دھوپ کر رہے گاڑیوں کی باقاعدہ آمد و رفت تھے جو خدا کے فضل و کرم سے جلسہ کے قریب آکر کامیاب ہو گئی ه الفضل اور شہادت / اپریل مش صفحه ۲ - ۰۴
۱۸۳ اور ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ صاحب نے ۲۵ مارچ کو ربوہ بالنگ سٹیشن کی منظوری دے دی بلیلہ ازاں بعد مورخہ ۱سرامان / مارچ کی شام تک ربوہ کا نیاسٹیشن مکمل ہو گیا اور پلیٹ فارم اور بکنگ آفس بن گیا نیز ٹیشن کا تمام عملہ بھی رابوہ میں پہنچ گیا.پہلے اسٹیشن ماسٹر چو ہدری محمد صدیق صاحب آف نارووال مقرر ہوئے.یکم ماہ شہادت / اپریل کو گاڑیوں کی باقاعدہ آمد و رفت شروع ہو گئی.پہلی گاڑی جو سرگودھا کی طرف سے آئی، صبح سات بجکر بیس منٹ پر کھڑی ہوئی.اس موقعہ پر ربوہ کے تمام احمدیوں کے علاوہ احمدنگر کے بھی اکثر احباب نیز جامعہ احمدیہ کے طلباء قطار در قطار کھڑے تھے.حضرت قاضی حمد عبداللہ صاحب ا ظرفیت نے گاڑی آنے سے پہلے نہایت رقت انگیز دعا کرائی جنگل میں پہاڑیوں اور ٹیلوں کے درمیان اجتماعی دعا کا یہ نظارہ بڑا ہی پر کیف اور مجیب تھا جس سے الہام " جنگل میں منگل کا نظارہ آنکھوں کے سامنے پھر گیا.دُعا کے بعد دُور لالیاں کی طرف سے گاڑی آتی دکھائی دی تو تمام دوستوں نے فرط مسرت سے بے اختیار پر بجوش نعرے بلند کئے.ربوہ اسٹیشن سے پہلا ٹکٹ مولوی محمد اسمعیل صاحب معتبر آڈیٹر تحریک جدید نے خریدا.اور سب سے پہلی ٹرین پر تئیس روپے سات آنے کے ٹکٹ فروخت ہوئے ٹکٹ لینے والے دوست گاڑی میں سوار ہوئے اور گاڑی فر مائے تکبیر میں چل دی.دوسری گاڑی اس کے معا بعد چنیوٹ سے ربوہ آئی جس سے تعلیم الاسلام ہائی سکول اور جماعت چنیوٹ کے بیسیوں احباب کے علاوہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب بھی تشریف لائے حضرت مفتی صاحب نے جملہ حاضرین سے مصافحہ کیا جس کے بعد یہ گاڑی بھی روانہ ہو گئی.اس طرح خدا کے فضل کرم سے ربوہ اسٹیشن کا بابرکت افتتاح عمل میں آیا ہے اور اس وادی غیر ذی زرع کا رابطہ ریلوے نظام کے اعتبار سے پورے ملک سے قائم ہو گیا جس سے زائرین ربوہ کو بے انداز سہولت ہو گئی.بیچنا نچہ پہلے تاریخی جلسہ میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کے اکثر و بیشتر مہمان بذریہ گاڑی ہی ربوہ کی مقدس سرزمین میں تشریف لائے.b لے بذریعہ چھٹی 09/04/22 مورخہ له ۲۵ مارچ ۱۳۲۸ ۶ الفضل ۱۵ر شہادت / اپریل مش صفحه 4
IAN صدر علیں خدام الاحمدیہ کی طرف سے چونکہ جلسہ کے انتظامات کو خوش اسلوبی سے چلانے کے لئے سینکڑوں رضا کاروں کی اشد ضرورت تھی.تربیت یافتہ رضا کاروں کیلئے پیل اس لئے صدر مجلس خدام الاحمدیہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احد صاحب نے بذریعہ افضل اپیل کی کہ خصوصاً فرقان فورس کے تربیت یافتہ نوجوان جو نظام سلسلہ کے تحت کام کر چکے ہیں زیادہ سے زیادہ جلسہ میں شامل ہوں اپنا خیمہ نصب کرنے کا سامان ہمراہ لائیں.اور ارماہ شہادت اپریل کو ربوہ پہنچ کر دختر خدام الاحمدیہ میں اطلاع دیں تا اُن کی ڈیوٹی لگائی جاسکے لئے اس اپیل پر بہت سے نوجوان ربوہ پہنچ گئے.جلسه بود کا افتان اور ترسید نا الصلح الموعود هارماہ شہادت / اپریل کو بوقت نو بجے صبح ربوہ کی سرزمین میں جماعت احمدیہ کا پہلا مبارک اور تاریخی کا ایمان افروز خطاب سالانہ میلہ حضرت مصلح موعود کی ایمان افروز تقریر اور ہزار ہا مومنین کی درد و کرب اور سوز و گداز سے بھری ہوئی عاجزانہ دعاؤں اور التجاؤں کے روح پرور ماحول میں شروع ہوا.اس موقعہ پر حضرت مصلح موعود نے جو افتتاحی خطاب فرمایا.اس کا مکمل متن ذیل میں درج کیا جاتا ہے.حضرت امیر المومنین نے تشہیر و تعوذ کے بعد سورہ فاتحہ کی تلاوت فرمائی جس میں الحمد اللہ رب العالمین کا خصوصیت کے ساتھ تین بار تکرار فرمایا.اس کے بعد حضور نے فرمایا : یہ جلسہ تقریروں کا جلسہ نہیں.یہ جلسہ اپنے اندر ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے.ایسی تاریخی حیثیت جو مہینوں یا سالوں یا سدیوں تک نہیں بجائے گی بلکہ بنی نوع انسان کی اس دنیا پر جو زندگی ہے اس کے خاتمہ تک جائے گی.اس میں شامل ہونے والے لوگ ایک جلسہ میں شامل نہیں ہو رہے بلکہ رُوحانی لحاظ سے وہ ایک نئی دنیا ، ایک نئی زمین اور ایک نئے آسمان کے بنانے میں شامل ہو رہے ہیں.پس اس جبار کو تقریروں کا جلسہ مت سمجھو.تقریریں ہوں یا نہ ہوں.مختلف مضامین پر لیکچر سننے کا موقعہ ملے یا نہ ملے ، اس کا کوئی سوال نہیں جو اصل مقصد ہے وہ ہمارے سامنے رہنا چا ہیے.اور جو اصل مقصد ہے اس کو ہمیں ہر چیز پر اہمیت دینی چاہئیے.میں اب قرآن کریم کی کچھ آیتیں پڑھوں گا اور آہستہ آہستہ کئی ه الفضل - ارشہادت / اپریل کو مش صفحه 4
ربوہ کے پہلے تاریخی جلسہ سالانہ کے بعض ایمان افروز اور روح پرور مناظر سید نا حضرت مصلح موعود جلسہ گاہ کی طرف تشریف لے جارہے ہیں.
IAA دفعہ دہراؤں گا.پڑھے ہوئے، اور ان پڑھ جس قدر دوست یہاں موجود ہیں وہ بھی میرا ہاتھ دے سکتے ہیں اور انہیں ساتھ دینا چاہیے یعنی جب میں وہ آیتیں پڑھوں تو جوعت کے دوست کیا مرد اور کیا عورتیں ساتھ ساتھ ان آیتوں کو دہراتے پچھلے جائیں.ر اس موقعہ پر حضور نے ہدایت فرمائی کہ کوئی کا رکن بجا کہ عورتوں کی جلسہ گاہ سے پوچھ لے کہ ان کو آواز آرہی ہے یا نہیں تا کہ وہ محروم نہ رہ جائیں ) صورتوں میں سے جو عورتیں ایسی نہیں کہ ان پر ان ایام میں الیہ ، حالت ہے کہ وہ بلند آواز سے قرآن کریم نہیں پڑھ سکتیں، اُن کو چاہیے کہ وہ دل میں ان آیتوں کو دہراتی ھیلی جائیں.اور جین عدی توان کے لئے ان ایام میں قرآن کریم پڑھنا جائز ہے وہ زبان سے بھی ان آیتوں کو دہرائیں هر حال جن عورتوں کے لئے ان ایام میں زبان سے پڑھنا جائز نہیں وہ زبان سے پڑھنے کی بجائے صرف دل میں ان آیتوں کو دہراتی رہیں.کیونکہ شہ بعیت نے اپنے حکم کے مطابق جہاں مخصوص ایام میں، تلاوت قرآن کریم سے عورتوں کو روکا ہے، وہاں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ وہ دن میں بھی ایسے خیالات نہ لائیں یا دل میں بھی نہ برائیوں، بلکہ عرف اتنا حکم ہے کہ زبان سے نہ وہ ہرائیں.بلکہ بعض فقہاء کے نزدیک صرف قرآن کریم کو ہاتھ لگانا منع.سے مگر احتیاط یہی ہے کہ کثرت سے جبر بات پر مسلمانوں کا عمل رہا ہے اسی پر عمل کیا جائے.پس بجائے زبان سے دہرانے کے وہ دل میں ان آیتوں کو دہراتی میلی جائیں.میں نے بتایا ہے کہ میں کئی دفعہ آیات کو پڑھوں گا.ممکن ہے میں پہلی دفعہ جلدی پڑھوں ممکدان کا مفہوم انسانی سے سمجھ میں آسکے.اگر لفظوں کے درمیان فاصلہ زیادہ ہو اور انسان مانمون سے پہلے.واقع نہ ہو تو آہستگی سے پڑھنے کے نتیجہ میں مضمون بجائے اچھا سمجھ آنے کے کم سمجھ آتا ہے.مگر جو شخص اس کے ترجمہ سے واقف ہوتا اور مضمون سے آگاہ ہوتا ہے اس کا دلی جوش اور بو بہ بعض دفعہ اسے جلدی پڑھنے پر مجبور کرتا ہے.اس لئے پہلی دفعہ کی تابوت میں اپنے لئے مخصوص کروں گا.یعنی میں اس طرح پڑھوں گا جس طرح میرا اپنا دل چاہتا ہے.اس کے بعد تب میں تلاوت کودں گا تو اس امر کو مدنظر رکھوں گا کہ پڑھا ہوا اور ان پڑھ ، عالم اور تباہل ، بڑی عمر کا اور چھوٹی عمر کا ہر شخص لفظ لفظ اگر وہ چاہے
TAY اور اگر اس کے دل میں ارادہ اور ہمت ہو تو میرے پیچھے پیچھے چل سکے اور ہر لفظ کو دہرا سکے" ان تمہیدی الفاظ کے بعد حضور نے نہایت رقت آمیز رنگ میں قرآن کریم کی وہ دعائیں بلند آواز سے پڑھنا شروع کیں جو حضرت ابراہیم علیہ اسلام نے حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کو وادئی ملکہ میں چھوڑتے وقت اللہ تعالیٰ کے حضور کی تھیں.جماعت کے تمام دوست کیا مرد اور کیا عورتیں سب کے سب حضور کے ساتھ ساتھ ان دعاؤں کو دہراتے چلے گئے.یہ دعائیں جس طرح بار بار حضور نے پڑھیں اسی طرح ذیل میں درج کی بھاتی ہیں.حضور نے ابراہیمی دعاوی کو منتخب کرتے ہوئے اس موقع پر نہایت درد کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے عرض کیا :- رَبَّنَا إِنِ اسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ رَبَّنَا اتى اسْكَنْتُ مِن ذُرِّيَّتِي بِوَا بِغَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنا لِيُقِيمُوا الصَّلوة ربنا ليُقِيمُوا الصَّلوة للعمل التدة من الناس نمو اليْهِمُ والزُتْهُم مِنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ.رَبَّنَا إِنَّكَ تَعْلَمُ مَا تُخْفِي وَمَا نُعْلِنُ رَبَّنَا إِنَّكَ تَعْلَمُ مَا تُغْنِي وَمَا نُعْلِنُ وَمَا يخفى عَلَى اللهِ مِنْ شَيْء فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ اس کے بعد دوبارہ حضور نے انہی دعاؤں کو اس رنگ میں دہرایا.رَبَّنَا إِلَى اسْكُنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي ربَّنَا إِلَى اسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بوادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِندَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلاةَ فَاجْعَلُ افتُدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارزُقُهُمْ مِنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ.رَبَّنَا إِنَّكَ تَعْلَمُ مَا تُخْفِي وَمَا نُحْلِنُ ربَّنَا إِنَّكَ تَعْلَمُ مَا خُلِى وَمَا نُعْلِنُ
JAZ بنَا إِلَى اسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الهَرَمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلوة بينا لِيُقِيمُوا الصَّلوة ببنا ليُقِيمُوا الصَّلوة رَبَّنا لِيُقِيمُوا الصلوة رَبَّنا لِيُقِيمُوا الصَّلوة فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِى إِلَيْهِمْ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمُ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمُ وارزُقُهُم مِنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ.اس کے بعد حضور نے فرمایا :- آج سے قریباً ۴۵ سو سال پہلے اللہ تعالیٰ کے ایک بندے کو حکم ہوا کہ وہ اپنے اکلوتے بیٹے کو خدا تعالیٰ کی راہ میں ذبح کر ڈالے.یہ رویا اپنے اندر دو حکمتیں رکھتی تھی.ایک حکمت تو یہ تھی کہ اس وقت سے پہلے انسانی قربانی کو جائز سمجھا جاتا تھا اور خصوصی کے ساتھ لوگ اپنی اولاد کو خداتعالی کو خوش کرنے کے لئے یا اپنے بتوں کو خوش کرنے کیلئے قربان کر دیا کرتے تھے.اللہ تعالے کی مشید نے فیصلہ کیا کہ اب بنی نوع انسان کو اس مہیب اور بھیانک فعل سے باز رکھنا چاہیے.کیونکہ انسانی دماغ اب اتنی ترقی کر چکا ہے کہ وہ حقیقت اور مجاز میں فرق کرنے کا اہل ہو گیا ہے.پس اللہ تعالیٰ نے اپنے اس بندے کو جس کا نام ابراہیم تھا یہ رویا دکھائی.اس رویا میں جیسا کہ میں نے بتایا ہے ایک حکمت یہ بھی کہ آئیندہ انسانی قربانی کو روک دیا جائے.اور دوسر کی حکمت یہ تھی کہ خدا تعالے انسان سے حقیقی قربانی کا مطالبہ کرنا چاہتا تھا جو مطالبہ اس سے پہلے انسان سے نہیں ہوا تھا.بہر حال جب سے انسان اس قابل ہوا کہ اس پر الہام نازل ہو کسی نہ کسی صورت میں لوگ خدا تعالے کی عبادت کیا ہی کرتے تھے.لیکن ابھی ایسا نہ مانہ انسان پر نہیں آیا تھا کہ کچھ لوگ اپنی زندگیوں کو کلی طور پر
(AA خدا تعالیٰ کے لئے وقف کر دیں.نماز تو لوگ پڑھتے تھے ، روزہ بھی رکھتے تھے.ذکر اہی بھی لوگ کرتے تھے کیونکہ ان چیزوں کے بغیر روحانیت زندہ نہیں رہ سکتی.اگر آدم ایک رومانی انسان تھا تو نوح اور آدم اور اُن کے متبع یقیناً نماز بھی پڑھتے تھے.ذکر الہی بھی کرتے تھے اور روزہ بھی رکھتے تھے کیونکہ روح بغیر ان چیزوں کے چلا نہیں پاتی.اور روح کے چیلا پائے بغیر خدا تعالے کا قرب اور اس کا وصال حاصل نہیں ہو سکتا.مگر اس قربانی اور اُن قربانیوں میں کیا فرق تھا ؟ فرق یہ تھا کہ ہر شخص اپنے اپنے طور پر نمازیں ادا کرتا تھا.اور کوئی ایسا شخص بھی ہوتا تھا جس کو خدا تعالے بچن لیتا تھا اور اسے مقرر کرتا تھا کہ تم اپنی زندگی میں میری طرف سے مامور کی حیثیت رکھتے ہو.تم بنی نوع انسان کو مخاطب کرو اور انہیں میری طرف لانے کی کوشش کرو.یہ لوگ انبیاء علیہم السلام ہوتے تھے مگر ان کے علاوہ کوئی ایسے گروہ نہیں ہوتے تھے جو اپنی زندگیوں کو کسی مخصوص مقام سے وابستہ کر دیں اور دن اور رات ذکر الہی کے شغل کو بھاری رکھیں.اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ جہاں وہ اس غیر حقیقی قربانی کو منسوخ کر دے جو چھری کے ذریعہ سے بیٹوں کو قتل کر کے ادا کی جاتی تھی وہاں وہ اس حقیقی قربانی کی بنیاد ڈال وسے کہ دنیا کو چھوڑ کر انسان اپنی زندگی محض ہندا تعالیٰ کے لئے وقف کر دیا کہ رہے.پچھری انسانی زندگی کو ایک منٹ میں ختم کر دیتی ہے.بالکل ممکن ہے کہ جنہوں نے اپنی زندگی نمد انعالی کے لئے دی اور چھریوں اور نیزوں سے اپنے آپ کو قربان کروا دیا اگر وہ ایک سال اور زندہ رہتے تو مرتد ہو جاتے ایک سال اور زندہ رہتے تو اُن کے ایمان کمزور ہو جاتے.ایک سال اور زندہ رہتے تو اُن کے اندر عبادت کے لئے وہ جوش و خروش باقی نہ رہتا جو اس وقت انہوں نے دکھایا تھا.پس چھری کے سے انہوںنے اپنے مشتبہ انجام کو چھپایا ہے حقیقت یہ ہے کہ جو شخص اپنی مرضی سے اپنی زندگی کو قربان کرتا ہے یا جو شخص اپنی مرضی سے اپنی اولاد کو قربان کرتا ہے وہ اس بات اقرار کرتا ہے کہ وہ ڈرتے ہے کہ وہ اور اس کی اولاد لیے امتحانوں میں سے گزرتے ہوئے ناکام نہ رہ جائے.اور وہ اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لئے ہی اپنی زندگی یا اپنی اولاد کی زندگی کو ختم کر دیتا ہے مگر جو شخص ساری عمر قربان ہوتا رہتا ہے ، موت کے ذریعہ نہیں بلکہ ترک منہیات سے،
۱۸۹ ذکر انہی کی پابندی اختیار کرنے سے ، تبلیغ اسلام کو اختیار کرنے سے ، بنی نوع انسان کی تربیت کی ذمہ داری لینے سے ، وہ دلیرانہ اس سمندر میں کودتا ہے.وہ اپنا خاتمہ موت سے نہیں کرتا بلکہ وہ پنا ایمان اپنی زندگی سے ثابت کر دیتا ہے.مرنے والے کے متعلق کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اگر وہ زندہ رہتا تو ایماندار رہتا.مگر میں نے زندہ رہ کر اپنے ایمان کو ثابت کر دیا اور جس نے مدت تک اپنے ایمان کو سلامت سے جیا کہ عملی طور پر اس کے سچا ہونے کا ثبوت دے دیا ، اس کے متعلق دشمن سے دشمن کو بھی اقرار کرنا پڑتا ہے کہ اس نے اپنے عہد کو سچا ثابت کر دیا.میں نے کہا کہ جو شخص اپنی مرضی سے اپنی زندگی کو ختم کرتا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ میں نے ان لوگوں کو متنے کر دیا ہے جو اپنی مرضی سے اپنی زندگی ختم نہیں کرتے بلکہ خدا تعالے کی مشیت سے ان کی زندگی ختم ہو جاتی ہے یہ وہ لوگ ہیں جن کو شہداء کہتے ہیں.پس جو دلیل میں نے تلوار یا نیزہ سے اپنے آپ کو ختم کرنے والوں کے خلاون دی ہے وہ شہداء کے خلاف نہیں پڑتی اس لئے کہ شہداء نے خود اپنے آپ کو مار کر زندگی کی بعد و جہد سے آزاد ہونے کی کوشش نہیں کی بلکہ بخدا تعالے کی مشیت نے ان کے زندہ رہنے کی خواہش کے باوجود یہ چاہا کہ ان کی مادی زندگی کے دور کو ختم کر دے.اور ہرشخص سمجھ سکتا ہے کہ ان دونوں باتوں میں بہت بڑا فرق ہے.پس ہو دلیل میں نے اپنی زندگی ختم کرنے والوں کے خلاف دی ہے وہ شہداد کے خلاف نہیں پڑتی.اس لئے کہ وہ خود نہیں کرتے بلکہ ان کو دشمن مارتا ہے.ورنہ وہ تو یہی چاہتے ہیں کہ دشمن کو مار کہ اپنے ایمانوں کو اور بھی قوی کریں.اس امر کا ثبوت کہ وہ اپنی زندگی ختم کر کے میدان جد و جہد سے بھاگنا نہیں چاہتے ایک حدیث سے بھی ملتا ہے.حضرت عبد اللہ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک نہایت مقرب صحابی تھے جب شہید ہو گئے تو ان کے بیٹے حضرت ھائی کو ایک دفعہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نهایت افسردہ حالت میں سر جھکانے دیکھا.آپؐ نے بھائی سے فرمایا.بجابر ! تمہیں اپنے باپ کی موت کا بہت صدمہ معلوم ہوتا ہے.اس نے کہا.ہاں یا رسول اللہ باپ بھی
19.بہت نیک تھا جس کی وفات کا طبعی طور پر مجھے سخت صدمہ ہے مگر میری افسردگی کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارا خاندان بہت بڑا ہے اور اب اس کا تمام بار میرے کمزور کندھوں پر آپڑا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.جہا کہ اگر تمہیں معلوم ہوتا کہ تمہارے باپ کا کیا حال ہوا تو تم کبھی افسردہ نہ ہوتے بلکہ خوش ہوتے.پھر آپ نے فرمایا.جابر جب عبد اللہ شہید ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں سے کہا.عبداللہ کی روح کو میرے سامنے لاؤ جب عبد اللہ کی رُوح اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کی گئی تو اللہ تعالیٰ نے تمہارے باپ سے فرمایا کہ عبداللہ ہم تمہارے کارنامے پر اور اسلام کے لئے تم نے ہو قربانی پیش کی ہے اس پر اتنے خوش ہوئے ہیں کہ تم جو کچھ مانگتا چاہتے ہو مانگو.ہم تمہاری ہر خواہش کو قبول کرنے کے لئے تیار ہیں.اس پر عبداللہ نے یہ نہیں کہا کہ انہی جنت کے فلاں مقام پر مجھے رکھا جائے.اس پر عبد اللہ نے یہ نہیں کہا کہ الہی مجھے ایسی ایسی خوریں دے عبد اللہ نے یہ نہیں کہا کہ الہی مجھے جنت معلمان خدمت کے لئے دے.عبد اللہ نے یہ نہیں کیا کہ انہی مجھے ایسے ایسے باغات میں بھائیں بلکہ عبداللہ نے اگر کیا تو یہ کہا کہ اے میرے ربت اگر تو مجھے کچھ دینا چاہتاہے تو میری خواہش یہ ہے کہ تو مجھے پھر زندہ کر دے تاکہ میں پھر تیرے دین کی خدمت کرتا ہوا مارا جاؤں.اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ شہید ہونے والا اپنی مرضی سے مرنا نہیں چاہتا.وہ خطرے کے مواقع پر اپنی جان ضرور پیش کرتا ہے مگر اس کا دل چاہتا ہے کہ میں زندہ رہ کر ان تمام مشکلات کا مقابلہ کروں جو اسلام یا دین حقہ کو مخالفوں کی طرف سے پیش آنے والی ہیں.پس میں نے جو اعتراض خود کشی کرنے والوں یا جھوٹے جان دینے والوں پر کیا ہے وہ شہداد پر نہیں پڑتا.غرض حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ نے چاہا کہ وہ دین حقہ کے لئے ایسے قربانی کرنے والے پیدا کرے جو اپنی جان کو مار کہ اس دنیا کی جد وجہد سے بھاگنا نہیں چاہتے بلکہ دنیا میں زندہ رہ کہ دنیا کی کشمکشوں میں سے گزر کر دنیا کی مصیبتوں کو جھیل کی دنیا کی تکالیف کو برداشت کر کے اپنی مردانگی کا ثبوت دینا چاہتے ہیں اور بتانا چاہتے ہیں کہ خدا تعالے بندہ دنیا کی مصیبتوں اور تکلیفوں.سے
191 ڈرا نہیں کرتا یہی وہ حقیقی قربانی ہے جو شاندار ہوتی ہے.اس کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ کا نام لے کر سینہ میں خنجر مار لینا کوئی قربانی نہیں.وہ بہ دلی ہے ، وہ کمزوری ہے ، وہ دُون ہمتی ہے جو لوگوں کو دھوکا دینے کے لئے ایک قربانی کی شکل میں پیش کی جاتی ہے.ورنہ وہ خوب جانتا ہے کہ میں بزدل ہوں لیکن اس لئے کر رہا ہوں کہ دُنیا میں رہ کر میں مصیبتوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور وہ سمجھتا ہے کہ چند مصیبتیں آنے کے بعد ہی میرا ایمان کمزور ہو بجائے گا.اس لئے وہ اپنی زندگی کو ختم کر دیتا ہے.پس اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ حضرت ابا ہمیں علیہ السلام کے ذریعہ اس قربانی کی بنیاد ڈالے جو زندہ رہ کر اور دنیا کی کشمکشوں کا مقابلہ کر کے اور دنیا کی مصیبتوں کو برداشت کر کے انسان پیش کر سکتا ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کا سب سے بڑا کارنامہ در حقیقت یہی تھا.جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے وہ ردیار دکھائی جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ وہ اکلوتے بیٹے کو جو یقیناً اسماعیل تھے ذبح کر رہے ہیں تو چونکہ اس وقت لوگ اپنے بیٹوں کو خدا تعالیٰ کے نام پر ذبح کرتے تھے حضرت ابراہیم نے سمجھا کہ الہی منشاء یہ ہے کہ میں بھی اپنے بیٹے کو خدا تعالیٰ کے نام پر ذبح کر دوں.چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے اسمعیل کو جن کی عمر اس وقت تاریخ سے سات سال کی معلوم ہوتی ہے بتایا کہ میں نے ایسی ایسی رویا دیکھی ہے.سمعیل ہو اپنے باپ کی نیک تربیت کے ماتحت دین کو سمجھتا تھا اور جس میں یہ جیسی تھی کہ خدالله کے لئے قربانی کرنی چاہیئے اس نے فوراً حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس بات کو قبول کیا کہ خدا تعالیٰ نے جو حکم دیا ہے آپ اس پر عمل کریں.میں اسے حضرت اسمعیل کی ذاتی نیکی نہیں سمجھتا.جب وہ بڑے ہوئے تو یقیناً وہ نیک ثابت ہوئے اور انہوں نے اپنے عمل اور طریق سے خدا تعالے کو اتنا خوش کیا کہ اس نے انہیں نبوت کے مقام پر قائمہ کر دیا.مر الصبيُّ صَى وَلَوْ كَانَ نَبِيًّا بچہ بچہ ہی ہے خواہ وہ بعد میں نبی ہی کیوں بن جائے سات سال کی عمر میں حضرت اسمعیل علیہ السلام کا یہ نمونہ دکھانا یقیناً حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کی بیوی اور دوسرے رشتہ داروں کی نیکی کا مظاہرہ تھا حضرت سمعیل کی ذاتی خوبی نہیں تھا.مجھے اپنے گھر کا ایک واقعہ یاد ہے.میرا ایک بچہ جس کی عمر پانچ چھ سال تھی ایک دفعہ
۱۹۲ پچھلی منزل کی سیڑھی پر کھڑا تھا اور میں اُوپر تھا.اس کے ایک دو بھائی جو بڑی عمر کے تھے وہ اس کے پاس کھڑے اُسے ڈرا رہے تھے اور میرے کان میں ان کی آوازیں آ رہی تھیں.مجھے ان کی باتیں کچھ و پاسپ معلوم ہوئیں اور میں غور سے سننے لگا.میں نے شنا، ان میں سے ایک نے اُسے کہا.اگر تم کو رات کے وقت جنگل میں اکیلے چھوڑ آئیں تو کیا تم اس کے لئے تیار ہو گے.میں نے دیکھا کہ اس بات کے ٹھتے ہی بچے پر دہشت غالب آگئی.وہ ڈر گیا اور اس نے کہا.نہیں.اس کے بعد دوسرے نے کہا.اگر میں تم کو کہوں کہ تم رات کو اکیلے جنگل میں پہلے جاؤ ہے وہیں رہو تو کیا تم میری بات مانو گے؟ اس نے کہا نہیں.پھر انہوں نے کسی اور کا نام لے کر کہا کہ اگر وہ کہے تو پھر بھی مانو گے یا نہیں.اس نے کہا نہیں.اس کے بعد انہوں نے کسی بعد کا نام لیا کہ اگر وہ ایسا کہے تو کیا پھر بھی تم مانو گے یا نہیں.اس نے کہا نہیں.پھر انہوں نے میرا نام لیا اور کہا کہ اگر ابا جان کہیں تو کیا تم مینگل میں چلے جاؤ گے.اس نے پھر کہا.نہیں.پر انہوں نے کہا.اگر خدا کہے کہ تم جنگی میں چلے جاؤ تو کیا تم جاؤ گے ؟ میں نے دیکھا کہ اس بات کے سُنتے ہی اس کا رنگ زرد ہو گیا.مگر اس نے کہا.ہاں بھر میں مان لوں گا.اب دیکھو پانی چھ سال کا بچہ نہیں جانتا کہ خدا کیا چیز ہے.وہ صرف موٹی موٹی باتیں جانتا ہے.خدا تعالیٰ کے احکام کی اہمیت کو نہیں سمجھتا.مگر چونکہ صبح و شام وہ سنتا رہتا ہے کہ خدا تعالے کی روات بہت بڑی ہے اور اس کے احکام کو نہ ماننا کسی انسان کے لئے بھاگر نہیں ہو سکتا.اس لئے اور سب کا نام لینے پر اس نے انکار کیا.یہانتک کہ باپ کا نام لینے پر بھی اس نے یہی کہا کہ میں نہیں بھاؤں گا.مگر جب خدا تعالے کا نام لیا گیا تو اس نے سمجھا کہ اب انکار نہیں ہو سکتا.اور اس نے کہا کہ اگر خدا کہے تو پھر میں چلا جاؤں گا.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی جب اپنے بیٹے حضرت اسمعیل سے کہا کہ خدا تعالے نے مجھے رویا میں یہ دکھایا ہے کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں.اب بتا تیری کیا رائے ہے تو حضرت اسماعیل علیہ اسلام نے اس نیک تربیت کی وجہ سے جو انہیں حاصل تھی یہ جواب دیا کہ جب خدا نے ایسا کہا ہے تو پھر بے شک اس پر عمل کریں میں اس کے لئے بالکل تیار ہوں چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے حضرت اسمعیل کو جہ کل میں لے گئے.ان کی آنکھوں پر پٹی باندھی.
۱۹۳ انہیں زمین پہ لٹا دیا اور پھر چھری نکال کر چاہا کہ اس زمانہ کے رسم و رواج کے مطابق اپنے بیٹے کو مخداتعالی کے نام پر ذبح کر دیں.مگر خدا تعالے تو یہ بتانا چاہتا تھا کہ انسانی قربانی ناحب منہ ہے.چنانچہ جب انہوں نے چھیڑی نکالی اور ذبح کرنا چاہا تو فرشتہ نازل ہوا اور اس نے خدا تعالے کی طرف سے کہا کریا اِبرَاهِيمُ قَدْ صَدَّ تُتَ الدُّنْيَا - اے ابراہیم ! تم نے عملاً اپنے بچے کو ذبح کرنے کے ارادہ سے لٹا کر اور چھری نکال کر اپنے خواب کو پورا کر دیا ہے.مگر ہمارا منشاء یہ نہیں تھا کہ تم واقع میں اسے ذبح کر دو بلکہ ہم یہ بتانا چاہتے تھے کہ خواب میں اگر کوئی شخص اپنے بچے کو ذبح کرتے ہوئے دیکھتا ہے تو اس کی تعبیر کچھ اور ہوا کرتی ہے.ہم انسانی قربانی کو روکتا چاہتے تھے اور اسی لئے ہم نے یہ رویا دکھائی تھی.اس ذریعہ سے تمہارا ایمان بھی ظاہر ہو گیا اور ہماری غرض بھی پوری ہوگی.اسے ابراہیم ! آج سے انسانی قربانی کو بند کیا جاتا ہے.اب آئیندہ کسی انسان کو اس رنگ میں قربان کرنا جائز نہیں.چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وقت سے انسانی قربانی جو خود کشی یا دوسرے کو قتل کرنے کے رنگ میں جاری تھی، ٹک گئی.در حقیقت اس رویا میں یہ بتایا گیا تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ایک وادئی غیر ذی زرع میں اپنے بیٹے کو چھوڑ آئیں گے اور اس لئے چھوڑ آئیں گے لِيُقِيمُوا الصلوۃ تاکہ وہ خدا تعالے کی عبادت کو قائم کریں دوسری جگہ یہ ذکر آتا ہے کہ اُن کو بیت اللہ کے پاس اس لئے رکھا گیا تھا ، تاکہ وہ زائرین اور طواف کرنے والوں اور اعتکاف بیٹھنے والوں اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والوں کے لئے اس کے گھر کو آباد رکھیں.چنانچہ جب یہ قربانی سہاتی رہی.تو پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے رڈیا کے ذریعہ بتایا کہ وہ اپنے بیٹے اسماعیل اور اس کی والدہ کو بیت اللہ کی جگہ چھوڑ آئیں.بخاری میں روایت آتی ہے کہ جب اللہ تعالے کی طرف سے انہیں یہ حکم ہوا تو انہوں نے اپنا بچہ اُٹھا لیا.یا ممکن ہے انہوں نے کسی سواری کا بھی انتظام کر لیا ہو.روایت میں آتا ہے کہ بعض جگہ حضرت ہاجرہ بچے کو اُٹھا لیتیں.اور بعض
۱۹۴ جگہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اُسے اُٹھا لیتے.اس طرح حضرت ابراہیم علیہ سلام نے اپنی بیوی اور بچے کو ساتھ لے کر فلسطین سے مکہ کا رخ کیا.میرا اندازہ یہ ہے کہ فلسطین سے مکہ کوئی دو ہزار میل کے قریب ہو گا.سفر کرتے کرتے وہ خانہ کعبہ میں پہنچے.اس وقت صرف ایک مشکیزہ پانی کا اور ایک ٹوکری کھجوروں کی ان کے پاس تھی انہوں نے اپنی بیوی اور بچے کو وہاں بٹھایا اور کھجوروں کی ٹوکری اور پانی کا مشکیزہ اُن کے پاس رکھ دیا.مکہ میں اس وقت کوئی پانی کا چشمہ یا نہر نہیں تھی.کوئی نالہ بھی پاس سے نہیں گذرتا تھا.اور زمین کے لحاظ سے کوئی سر سبزی و شادابی اس میں نہیں پائی جاتی تھی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو وہاں رکھا.اپنی بیوی کو چھوڑا اور کہا.میں ایک کام کے لئے جا رہا ہوں.یہ کہہ کر آپ وہاں سے واپس چل پڑے.لیکن ۸۰ سال کی عمر میں پیدا ہونے والے اکلوتے بچے کی محبت نواہ کوئی نبی بھی ہو ، اس کے دل سے ٹھنڈی نہیں ہو سکتی.اب ابراہیمؑم نوے سال کی عمر کو پہنچ رہے تھے.اور اس عمر میں اُن کا اپنے بیٹے اور اس بیٹے کی شریف اور نیک ماں کو چھوڑ کر واپس پہلے جانا کوئی آسان امر نہیں تھا.پچاس ساٹھ گر گئے تھے کہ اُنہوں نے مڑ کر اپنی بیوی اور بچے کو دیکھا اور اُن کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے.پھر پچاس ساٹھ گر گئے تھے کہ محبت نے جوش مارا.اور انہوں نے پھر ایک بار اُن کو دیکھا.پھر کچھ دور گئے تو محبت نے پھر خوش مارا اور انہوں نے مڑ کر اُن پر نظر ڈالی وہ اس طرح کرتے چلے گئے یہانتک کہ وہ ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں سے اُن کا نظر آنا مشکل ہو گیا.اُس وقت اُنہوں نے اس طرف مونہہ کیا جدھر اُن کی بیوی بچے تھے جن کو چھوڑ کہ وہ ہمیشہ کے لئے بجھا رہے تھے اور جن کے زندہ رہنے کا بظاہر کوئی امکان نہیں تھا اور اللہ تعالیٰ کے حضور نہایت عاجزانہ طور پر انہوں نے ڈھا کی کہ رَبَّنَا اتى اسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَا بِغَيْرِ ذِي زَرْعٍ اسے ہمارے رب! انہوں نے ربنا کیا ہے رتی نہیں کہا.کیونکہ اس قربانی میں وہ اپنی بیوی کو بھی شامل کرتے ہیں.مگر اس کے بعد وہ انی کہتے ہیں انا نہیں کہتے.کیونکہ یہ فعل
۱۹۵ UNAGRICULTURAL UNCULTIVABLE اُن کی بیوی کی طرف سے نہیں تھا.ربنا اتی اسكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ - اے ہمارے رب ! میں نے اپنی ذریت کا ایک حصہ اس وادی میں لاکر چھوڑ دیا ہے.ایک حصہ انہوں نے اس لئے کہا کہ اس وقت تک حضرت اسحق بھی پیدا ہو چکے تھے.جب اُنہوں نے حضرت اسمعیل علیہ السلام کو ذبح کرنا چاہا تھا اس وقت تک حضرت اسحاق" پیدا نہیں ہوئے تھے.لیکن جب انہوں نے حضرت ہاجرہ اور حضرت اسمعیل علیہ السلام کو مکہ میں لا کہ کچھوڑا ہے اس وقت حضرت اسحاق پیدا ہو چکے تھے.اس لئے وہ فرماتے ہیں ربَّنَا إِلَى اسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ.الہی میں اپنی اولاد کا ایک حصہ اس وادی میں وکر چھوڑ دیا ہے غیر ذی زرع میں میں کوئی کھیتی باڑی نہیں ہوتی جیسے بوہ میں کوئی کھیتی باڑی نہیں ہوتی سرکاری کا غذات میں لکھا ہوا ہے کہ اس رقبہ میں نہ زراعت ہوتی ہے اور نہ اس وقت کی تحقیقات کے مطابق ہو سکتی ہے.عند بيتك المحرم تیرے پاکیزہ گھر کے پاس.اس وقت تک خانہ کعبہ نہیں بنا تھا.لیکن اس آیت سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ کسی زمانہ میں وہاں کوئی پرانا معبد تھا.اور جو لوگ یہ عقیدہ نہیں رکھتے وہ اس کے معنے یہ کرتے ہیں کہ جو معبد بننے والا ہے اس کے نزدیک میں نے اپنی اولاد کو لا کر رکھ دیا ہے.تیسرے معنے اس کے یہ کئے جاتے ہیں کہ بیت اللہ در حقیقت تقویٰ کا مقام ہے.پس عِندَ بَيْتِكَ الحرام کے یہ معنے ہیں کہ میں ایک ایسے مقام کے پاس انہیں چھوڑ رہا ہوں جہاں شیطانی خیالات کا دخل نہیں ہو گا.یعنی دین کی خدمت کے لئے میں انہیں یہاں چھوڑ رہا ہوں رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلوةَ - اے میرے رب میں ان کو یہاں چھوڑ تو رہا ہوں مگر اس لئے نہیں کہ یہ بڑی بڑی کمائیاں کریں یا بڑے بڑے جھتے بنائیں اور فتوحات حاصل کریں بلکہ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلوةَ اے میرے رب ! میں اس لئے ان کو یہاں چھوڑ رہا ہوں تاکہ وہ تیری عبادت کو اس جنگل میں قا ئم کریں.
194 فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِى إِلَيْهِمُ پس اے میرے رب تو لوگوں کے دلوں میں خود ان کی محبت ڈال اور انہیں اس طرف بجھکا دے.چونکہ یہ خالص تیری عبادت کے لئے وقف ہوں گے اور تیرے دین کی خدمت میں لگے ہوئے ہوں گے اس لئے اے میرے رب! تو لوگوں کے ایک طبقہ کے دلوں کو ان کی طرف جھکا دے اور ان کے دلوں میں ان کی عقیدت اور احترام پیدا کر دے.تا کہ وہ باہر کی دنیا میں رہ کر کھائیں اور اپنی کمائی کا ایک حصہ ان کے کھانے کے لئے بھیجوا دیا کریں.اور اسے میرے رب ! جب میں اپنی اولاد کو دین کی خدمت کے لئے یہاں چھوڑے بھا رہا ہوں تو میں یہ نہیں چاہتا کہ مسجد کے ملانوں کی طرح یہ جمعرات کی ردیوں کے محتاج ہوں.میں اپنی اولاد کو ایک جنگل میں چھوڑ رہا ہوں.میں اپنے بچتے کو بجو جوان ہے اور اس عمر سے گزر گیا ہے جس میں بچتے بالعموم مرجایا کرتے ہیں ایک ایسی جگہ چھوڑ رہا ہوں جس میں اس کی موت یقینی ہے.انسان ہونے کے لحاظ سے میں ہم غیب نہیں رکھتا اور میں نہیں جانتا کہ کل تو ان سے کیا سلوک کرے گا.میرا اندازہ انسانی علم کے لحاظ سے یہی ہے کہ میری بیوی اور بچہ یہاں مر جائیں گے نہیں نے انسان ہوتے ہوئے قربانی کے ہر نقطہ نگاہ میں سے جو سب سے بڑا نقطہ نگاہ تھا اس کو پورا کر دیا ہے.اب میں تیرا بھی امتحان لینا چاہتا ہوں.میں نے بندہ ہو کر وہ کام کیا ہے جو قربانی اور ایثار کے لحاظ سے اپنے انتہائی کمال کو پہنچا ہوا ہے.اب میں میری خدائی کو بھی دیکھنا چاہتا ہوں.فَاجْعَلْ اَفْتَدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِى الشهييم.میں نے اپنی بیوی اور بچے کو یہاں لا کر چھوڑا ہے اور یہ سمجھتے ہوئے چھوڑا ہے کہ وہ اس جنگل میں بھوکے اور پیا سے مر جائیں گے.اب اے خدا ! اگر تو خدا ہے تو یہاں اُن کے لئے لوگوں کو کھینچ لا اور ان کے قلوب اس طرف مائل کر دے.وَارزُقُهُمْ مِنَ الثَّمَرَاتِ مگر اسے خدا ! میں تجھ سے اُن کے لئے جمعرات کی روٹی نہیں مانگتا.لیکن تجھ سے اُن کے لئے چاول بھی نہیں مانگتا.بلکہ نہیں یہ مانگتا ہوں کہ یہ جگہ جہاں گھاس کی ایک پتی بھی
194 پیدا نہیں ہوتی.اس جگہ دُنیا بھر کے میوے آئیں اور یہ اُن میووں کو یہاں بیٹھ کر کھائیں تو روٹی دے گا تو میں نہیں مانوں گا کہ تو نے اپنی خدائی کا ثبوت دیا ہے.تو چاول کھلائے گا تو میں نہیں مانوں گا کہ تو نے اپنی خدائی کا ثبوت دیا ہے.تو زردہ اور پلاؤ کھلائے گا تو میں نہیں مانوں گا کہ تو نے اپنی خدائی کا ثبوت دیا ہے.میں تیری خدائی کا ثبوت تب مانوں گا جب یہ مکہ میں بیٹھ کر چین اور جاپان اور یورپ اور امریکہ کے میوے کھائیں تب میں مانوں گا کہ تو نے اپنی خدائی کا ثبوت دے دیا ہے.میں نے بندہ ہو کر ایک انتہائی قربانی کی ہے.اب اسے خدا ! میں تیری خدائی کو بھی دیکھنا چاہتا ہوں اور وہ بھی اس رنگ ہیں کہ اس وادی غیر ذی زرع میں دنیا کا ہر بہترین رزق تو انہیں پہنچا.خدا تعالٰی نے ابراہیم کے اس چیلنج کو قبول کیا اور اس نے کہا.اے ابراہیم ! تو نے اپنی اولاد کو ایک وادی غیر ذی زرع میں لا کر بسایا ہے اور مجھ سے کہا ہے کہ میں نے اپنا بیٹا قربان کر دیا ہے ، اب تو کبھی اپنی خدائی کا ثبوت دے تو نے کہا ہے کہ ہمیں نے ایک عاجز بندہ ہو کہ اپنی بندگی کا ثبوت دے دیا، اب اسے دا ! تو بھی اپنی خدائی کا ثبوت دے.اور تو نے ثبوت یہ مانگا ہے کہ یہ نہ کمائیں بلکہ بنی نوع انسان کمائیں اور انہیں کھلائیں اور کھلائیں بھی معمولی چیزیں نہیں بلکہ دنیا بھر کے میرے ان کے پاس پہنچیں.میں تیرے اس چیلنج کو قبول کرتا ہوں اور میں اس وادی غیر ذی زرع میں جہاں گھاس کی ایک پتی بھی نہیں اگتی تجھے ایسا ہی کر کے دکھاؤں گا.میں نے حج کے موقعہ پر خود اس کا تجربہ کیا ہے.میں نے مکہ مکرمہ میں ہندوستان کے گتے دیکھے ہیں.میں نے مکہ مکرمہ میں طائف کے انگور کھائے.میں نے مکہ مکرمہ میں اسلئے درجہ کے انار کھائے ہیں.گنے کے متعلق تو مجھے یاد نہیں کہ میری طبیعت پر اس کے متعلق کیا اثر تھا لیکن انگوروں اور اناروں کے متعلق میں شہادت دے سکتا ہوں کہ ویسے اعلیٰ درجہ کے انگور اور انارہ میں نے اور کہیں نہیں کھائے.میں یورپ بھی گیا ہوں.میں شام بھی گیا ہوں.میں فلسطین بھی گیا ہوں.اٹلی کا ملک انگوروں
19A کے لئے بہت مشہور ہے.یورپ کے لوگ کہتے ہیں کہ بہترین انگور اٹلی میں ہوتے ہیں.مگر میں نے اٹلی کے لوگوں سے کہا کہ مکہ کی دادی غیر ذی زرع میں ابراہیمی پیشگوئی کے ماتحت جو انگور میں نے کھائے ہیں وہ اٹلی کے انگوروں سے بہت زیادہ میٹھے اور بہت زیادہ اسلئے تھے.ہمارے ارد گرد قند بھار کوئٹہ اور کابل کا انار مشہور ہے.مگر میں نے جو موٹا سُرخ شیریں اور لذیذ انار مکہ میں کھایا ہے اس کا سینکڑواں حصہ بھی قندھار اور کوئٹہ اور کابل کا انار نہیں.غرض حضرت ابراہیم علیہ اسلام فرماتے ہیں.دَارُزُقُهُمْ مِنَ الثَّمَرَاتِ اسے خدا ! میں نے اپنی بندگی کا انتہائی ثبوت دے دیا ہے.اب تجھ سے میں کہتا تو اور.ہوں کہ تو بھی اپنی خدائی کا انتہا درجے کا ثبوت دے اور وہ ثبوت میں تجھ سے یہ مانگتا ہوں کہ یہ نہ کمائیں بلکہ لوگ کما کر ان کے پاس لائیں اور لائیں بھی معمولی چیزیں نہیں بلکہ دنیا بھر کے بہترین پھیل اور میوے لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ اے میرے رب میں احسان کے طور پر نہیں کہتا.میں یہ نہیں کہتا کہ اگر ایسا ہوا تب میرا بدلہ اُترے گا یا تب میری اولاد کی قر بانی کا بدلہ اُترے گا.میں نے بیشک ایک مطالبہ کیا ہے مگر اس لئے نہیں کہ میں نے کوئی قربانی کی ہے بلکہ میں نے یہ مطالبہ محض اس لئے کیا ہے کہ بندے نے اپنی بندگی کا انتہائی ثبوت دے دیا.اب تو بھی اپنی خُدائی کا ثبوت دے لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ.تاکہ میری اولاد ایمان پر قائم رہے اور اسے یقین ہو کہ کیسی زبر دست طاقتوں کا مالک وہ خدا ہے جس کی خدمت کے لئے وہ یہاں بیٹھے ہیں.بظاہر یہ ایک چیلنج معلوم ہوتا ہے کہ دیکھ لیں نے کتنی قربانی کی ، اب تو بھی اپنی خدائی کا ثبوت دے.مگر میری یہ غرض نہیں کہ تو میرے فعل کی وجہ سے انہیں یہ پھل کھلا بلکہ میری غرض یہ ہے کہ تیرے فعل سے مینی نوع انسان کے اندر ایمان پیدا ہو گویا اس میں بھی اصل غرض تیرے نام کی بلندی ہے ، اپنے نام کی بلندی نہیں.
194 ربَّنَا إِنَّكَ تَعْلَمُ مَا تُخْنِى وَمَا نَعلِنُ پھر ابراہیم کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ بچہ چھوٹا ہے بیوی جوان ہے.یہ میری دوسری وجی ہے.میری بڑی بیوی جو میری پھوپھی زاد بہن ہے میرے گھر میں موجود ہے اور اس سے نسل بھی ہو رہی ہے.ہاجرہ یہ بھی جانتی ہے کہ وہ میری چہیتی بیوی ہے اور یہ بھی بھانتی ہے کہ اس سے اولاد ہو گئی ہے.اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوگا کہ یہ ظالم اس بیوی کی خاطر مجھے یہاں چھوڑے جا رہا ہے اور اس بچے کی خاطر میرے اس بچے کو چھوڑ رہا ہے اس لئے وہ اللہ تعالیٰ کے حضور گر گئے اور انہوں نے کہا.رَبَّنَا إِنَّكَ تَعْلَمُ مَا تُخْفى وَمَا نُعلن.اسے میرے رب میں نے تیرے نام کی عزت کے لئے اپنے اوپر یہ دھبہ قبول کیا ہے.میں اپنی بیوی کو یہاں اس لئے نہیں چھوڑ رہا کہ میں اپنی پہلی بیوی کو اس پر مقدم رکھتا ہوں.میں اپنے بچے کو یہاں اس لئے نہیں چھوڑ رہا کہ میں اس بچے پر دوسرے بچہ کو مقدم رکھتا ہوں.بلکہ اے خدا ! اس بیوی کو میں اس لئے یہاں چھوڑ رہا ہوں کہ تو نے مجھے اس کا حکم دیا ہے اور اسے خدا ! یہ بچہ مجھے بہت عزیز ہے.اسحق سے ذلیل مجھ کر میں اسے بہار نہیں چھوڑ رہا ئیں اس کی وراثت میں اسے روک سمجھ کر یہاں نہیں چھوڑ رہا بلکہ سے خدا با وجود اس کے کہ یہ مجھے بہت پیارا ہے میں اسے اس لئے یہاں چھوڑتا ہوں کہ تونے اسے یہاں چھوڑنے کو کہا ہے نیلم کا التا ، یہ بے وفائی کا الزام ، یہ سنگدلی کا الزام ، اے خدا ! میں نے محض تیرے لئے قبول کیا ہے.میری بیوی اس نکتہ کو نہیں سمجھ سکتی.وہ سمجھے گی کہ میں نے دوسری بیوی کی خاطر اسے یہاں چھوڑا ہے.میرا بچہ بھی اس بات کو نہیں سمجھ سکتا.وہ بڑا ہو کر کہے گا کہ باپ کیسا ظالم تھا وہ مجھے اور میری ماں کو یہاں چھوڑ گیا.اے میرے رب ! میں اپنے دل کا درد کس کو بتاؤں سوائے تیری ذات کے جیسے سب کچھ علم ہے.تجھے پتہ ہے کہ میرے دل میں کتنا دکھ ہے.تجھ کو پتہ ہے کہ یہ ظاہری سنگدلی اور ظلم کا الزام میں نے محض تیرے حکم کو پورا کرنے کے لئے اپنے اوپر لیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ مَا يخفى عَلَى اللهِ من شَيْءٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ.ابراہیم نے کہا تھا.تو جانتا ہے کہ
میرے دل میں کتنا درد ہے اور یہ کہ ظاہری طور پر میں جو کچھ سنگدلی اور سختی کو رہا ہوں یہ محض تیرے لئے ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا يَنفى عَلَى اللهِ مِنْ شيء في الأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ - یہ خدائی کلام ہے، ابراہیم کا نہیں.فرماتا ہے خدا تعالے کو پتہ ہے کہ زمین اور آسمان میں کیا کچھ ہے.اس کے علم سے کوئی بات مخفی نہیں.وہ جانتا ہے کہ ابراہیم کا یہ فعل ایک بیج کی طرح زمین میں ڈالا بھا رہا ہے جس سے ایک دن ایک بڑی قوم پیدا ہو گی.اور وہ جانتا ہے کہ آسمان پر اس بیچے ہونے کے نتیجہ میں کیا عظیم الشان انعام مقدر ہے.جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہاتھ اُٹھا کر یہ دعا کی تو حضرت ہاجر ان کے دل میں شبہ پیدا ہوا کہ یہ جدائی کسی عارضی کام کے لئے معلوم نہیں ہوتی.بلکہ دائمی جدائی معلوم ہوتی ہے.وہ دوڑتی ہوئی آپ کے پیچھے گئیں.اور اُنہوں نے کہا.ابراہیم ! ابراہیم تم ہمیں یہاں کس لئے چھوڑے بھا ر ہے ہو.یہ تو عارضی جدائی معلوم نہیں ہوتی.تم ہمیں جنگل میں اکیلے چھوڑے جا ر ہے ہو.ابراہیم دیکھو.تمہارا بیٹا بھو کا مر بھائے گا.ابراہیم تمہاری بیوی یہاں موجود ہے اور اس کا بھی تم پر حق ہے.وہ مگر حضرت ابراہیم نے ان کی طرف نہیں دیکھا کیونکہ ان کی آوازہ بھرائی ہوئی تھی.ڈرتے تھے کہ اگر میں نے جواب دیا تو بیتاب ہو جاؤں گا اور رقت مجھے پر غالب آجائیگی اور یہ اس شان کے خلاف ہو گا جس کا یہ قربانی تقاضا کرتی ہے.جب حضرت ابراہیم نے کوئی جواب نہ دیا تو پھر ہاجرہ نے کہا.ابراہیم ؛ ابراہیم تم اپنی بیوی اور بیٹے کو کس لئے ایک ایسے جنگل میں چھوڑے جا رہے ہو جس میں ایک دن بھی رہائش اختیار نہیں کی جا سکتی.بھیڑئیے آئیں گے اور ہمیں ختم کر دیں گے.اور اگر بھیرہئیے نہ بھی آئے تب بھی پانی ختم ہو گیا تو ہم کیا کریں گے ، کھجوریں ختم ہو گئیں تو ہم کیا کریں گے.آخر کیوں تم ہمیں یہاں چھوڑے بجا رہے ہو؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پھر بھی ان کی طرف نہ دیکھا اور زبان سے کوئی جواب نہ دیا.آخر ہاجر نے آگے بڑھ کر اُن کا دامن پکڑ لیا اور کہا.بتاؤ تم کس پر ہمیں چھوڑے بھا رہے ہو
کیا خدا پر چھوڑے بھا رہے ہو ؟ تب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنا مونہہ موڑا اور آسمان کی طرف اُنگلی اٹھادی.جوئے نہیں کیونکہ بجانتے تھے کہ اگر میں بولا تو رقت مجھ پر غالب آجائے گی.انہوں نے صرف آسمان کی طرف اُنگلی اُٹھا دی.جس کا مطلب یہ تھا کہ ہاں خدا پر اور خدا تعالیٰ کے کہنے پر میں یہ کام کر رہا ہوں.احمدہ ایک عورت ہی سہی ، وہ ایک مصری خاتون ہی سہی جس کا ابراہیمی خاندان سے کوئی تعلق نہیں تھا.مگر وہ ابراہیمی تربیت حاصل کر چکی تھی ، وہ خدا کا نام سُن چکی تھی.وہ انہی قدرتوں کا مشاہدہ کر چکی تھی.جب حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے آسمان کی طرف اُنگلی اُٹھا کر بتایا کہ میں محض خدا تعالیٰ کی خاطر اور اسی کے حکم کی تعمیل میں تمہیں یہاں چھوڑے بھا رہا ہوں.تو ہابز کے فوراً پیچھے ہٹ گئیں اور انہوں نے کہا.إِذَا لَا يُضَيعُنا تب خدا تعالے ہم کو ضائع نہیں کرے گا.بے شک جہاں بجھانا ہے پچھلے جاؤ.چنانچہ حضرت ابراہیم چلے گئے.اور وہ بے وطن اور مسکین ہاجرہ، اسماعیل کی ماں : پھر اپنے خاوند کا منہ نہیں دیکھ سکی.حضرت اسماعیل علیہ السلام جب جوان ہوئے تو اس کے بعد پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام آئے.لیکن اس وقت حضرت ہا جو کہ فوت ہو چکی تھیں.تب خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت انہوں نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی جس کو ہم بیت اللہ کہتے ہیں اور جس کی طرف مونہہ کر کے نمازیں پڑھتے ہیں.جب حضرت ابراہیم علیہ السّلام دوبارہ آئے.اُس وقت بُو ہم قبیلہ کے لوگ وہاں بس چکے تھے ! حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ انہوں نے اپنی بیٹی بھی بیاہ دی تھی.اب وہ آبادی تھی.چند نیمے یا چند جھونپڑیاں تھیں جن میں لوگ رہتے تھے معلوم ایسا ہوتا ہے کہ جھونپڑیاں تھیں.کیونکہ روایات میں ذکر آتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام آئے تو حضرت اسماعیل اس وقت گھر پہ نہیں تھے.آپ گھر میں یہ پیغام
۲۰۲ دے گئے کہ جب اسماعیل آئے تو اس سے کہنا کہ تمہاری چوکھٹ اچھی نہیں اسے بدل دو.مطلب یہ تھا کہ تمہاری بیوی بد اخلاق ہے اس کی بجائے کوئی اچھے اخلاق والی بیوی کرد.حضرت ابراہیمؑ اس کے بعد بھی کئی دفعہ آئے.ایک اس وقت آئے جب انہوں نے حضرت اسماعیل کے ساتھ مل کر خانہ کعبہ کی بنیاد رکھی تھی.اور ایک اُس وقت آئے جب حضرت اسماعیل علیہ السلام گھر پر نہیں تھے.وہ اکثر شکار کے لئے دُور پہاڑوں میں نکل جایا کرتے تھے اور پھر شکار کا گوشت کھا کر رکھ لیتے اور استعمال کرتے.اتفاق ایسا ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام آئے تو حضرت اسماعیل شکار کی تلاش میں باہر گئے ہوئے تھے.آپ نے دروازہ کھٹکھٹایا تو اندر سے ایک عورت بولی بابا تو کون ہے ؟ آپ نے فرمایا.بی بی ! میں اسماعیل سے ملنے کے لئے آیا ہوں.اس نے کہا.بابا بجاؤ ، اسماعیل گھر پر نہیں.انہوں نے کہا.اچھا ، میں بھاتا تو ہوں مگر جب اسماعیل واپس آئے تو اس سے کہ دینا کہ تمہارے دروازہ کی چوکھٹ اچھی نہیں اسے بدل دو.حضرت اسماعیل علیہ السلام واپس آئے تو انہوں نے اپنی بیوی سے کہا کہ پیچھے کے واقعات بتاؤ.چونکہ اس وقت ملہ میں صرف چند گھر تھے اس لئے اُنہیں ایک دوسرے کے حالات معلوم کرنے کی طبعاً جستجو رہتی تھی اور بیٹا بھاری واقعہ وہ اس بات کو سمجھتے تھے کہ فلاں قبیلہ یہاں سے گزرا ہے اور وہ یہ یہ چیزیں لے گیا اور یہ یہ چیزیں دے گیا ہے بیوی نے کہا اور تو کوئی واقعہ نہیں ہوا.صرف ایک بڑھا آپ کے پیچھے آیا تھا.حضرت اسماعیل " کا دل دھڑکنے لگا کہ یہ بڑھا کہیں اُن کا باپ ہی نہ ہو.انہوں نے کہا.اُس بڑھے نے کوئی بات بھی کی تھی یا نہیں.اُس نے کہا.اُس بڑھے نے آپ کے متعلق پوچھا تھا.میں نے بتایا کہ آپ گھر پر موجود نہیں ہیں.حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کہا کہ کیا تم نے اس بڑھنے کی کوئی خاطر تواضع بھی کی.اس نے کہا.میں نے تو کوئی خاطر تواضع نہیں کی.البتہ جاتے وقت وہ ایک پیغام آپ کو پہنچانے کے لئے دے گیا تھا.اس نے کہا تھا کہ اسماعیل سے کہہ دیتا.
تمہاری چوکھٹ اچھی نہیں، اسے بدل دو.حضرت اسماعیل علیہ السلام نے یہ سنتے ہی کہا.بی بی میری طرف سے تم پہ طلاق.اس نے کہا.اس کا کیا مطلب ؟ حضرت اسماعیل نے کہا.وہ بڑھا میرا باپ تھا جو دو ہزار میل سے پہل کہ آیا مگر تم سے اتنا بھی نہ ہو سکا کہ تم انہیں کہتیں.تشریف رکھنے اور آرام کیجئے.تمہارے اخلاق ایسے نہیں کہ میرے گھر میں رہنے کے قابل سمجھی جا سکو.چنانچہ حضرت اسماعیل نے اُسے طلاق دے دی اور ایک اور شادی کر لی.کچھ عرصہ کے بعد پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام آئے.اتفاقاً اس دن بھی حضرت اسماعیل علیہ السلام باہر تھے.آپ آئے اور دروازہ کھٹکھٹایا.اندر سے ایک عورت نے جواب دیا کہ کوئی صاحب ہیں.بیٹھئے ، تشریف رکھئے.چنانچہ آپ اندر گئے.اس عورت نے آپ کی خدمت کی ، پیر ڈھلائے ، کھانے پینے کی چیزیں آپ کے سامنے رکھیں اور کہا مجھے سخت افسوس ہے کہ آپ بہت فاصلہ سے آئے مگر اسماعیل سے نہیں مل سکے.آپ ٹھہریئے اور ان کا انتظار کیجئے.اس عرصہ میں مجھ سے جو کچھ ہو سکتا ہے میں آپ کی خدمت کروں گی.مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام ٹھہر سے نہیں بلکہ واپس پہلے گئے.معلوم ایسا ہوتا ہے کہ اُن کی قوم کے افراد بہت پھیلے ہوئے تھے اور وہ ان کے ہاں ٹھہر جاتے تھے.جاتے ہوئے انہوں نے کہا.اسماعیل آسیب واپس آئے تو اس سے کہنا کہ فلاں طرف سے ایک آدمی آیا تھا اور اُس سے کہنا کہ تمہارے دروازے کی چوکھٹ اب بالکل ٹھیک ہے اس کو قائم رکھنا.چنانچہ حضرت اسماعیل جب واپس آئے اور انہوں نے اپنی بیوی سے کہا کہ کوئی نئی خبر سناؤ تو اس نے کہا.آج کی نئی خبر یہ ہے کہ ایک بڑھا آیا تھا.حضرت اسماعیل نے جلدی سے کہا.پھر ؟ اس نے کہا.میں نے اُن کو بٹھایا، پاؤں ڈھلائے ، پانی پلایا اور کھانے کے لئے اُن کے سامنے چیزیں رکھیں میں نے اُن سے یہ بھی کہا تھا کہ ٹھہرئیے جب تک اسماعیل واپس نہیں آ جاتے.مگر انہوں نے کہا کہ میں زیادہ انتظار نہیں کر سکتا.اس کے بعد وہ چلے گئے.
لام مگر بھائی دفعہ وہ ایک عجیب طرح کا پیغام دے گئے.انہوں نے کہا کہ اسماعیل سے کہہ دینا ، تمہارے دروازہ کی چوکھٹ بڑ کا اچھی ہے ، اسے قائم رکھنا.حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کہا.میری بیوی ! یہ آنے والا میرا باپ تھا.اور سفارش کر کے گیا ہے کہ میں تمہیں عزت و احترام سے اپنے گھر رکھوں.آخر وہ دن بھی آگیا جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل کو اپنے ساتھ لے کر اس گھر کی بنیاد رکھی جس کو خانہ کعبہ کہتے ہیں.چنانچہ اللہ تعالے فرماتا ہے :- وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَآمَنَّا وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إبْرَاهِيمَ مُصَلَّى ، وَعَهِدْنَا إلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَن طَمِّهَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَالِمِينَ وَالريم السجوده ( البقرة ركوع ها) اور جبکہ ہم نے وہ گھر جو ابراہیم نے بنایا اس کو لوگوں کے لئے بار بارہ آنے کا مقام بنا دیا ، زیارت گاہ بنا دیا.ثواب کی جگہ بنا دیا.وآمنا اور امن کا مقام بنا دیا.واتَّخِذُوا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلَّى.اور اسے لوگو ! جو خانہ کعبہ کے شیدائی بنتے ہو جو بیت اللہ کی محبت کا دم بھرتے ہو.تم ہر ایک چیز جو تمہیں پسند آتی ہے ، اس کی تصویر اپنے گھر میں رکھنے کی کوشش کرتے ہو.اگر کوئی پھل تمہیں پسند آئے تو تم اسے اپنے گھر لاتے اور اپنے بیوی بچوں کو چکھانے کی کوشش کرتے ہو.اسے کم عقلی! جب تم بازار میں خربوزہ دیکھ کر بس نہیں کرتے بلکہ وہ خربوزہ گھر میں لاتے ہو.جب تم کسی اچھے نظارے کو دیکھتے ہو تو اس کی تصویر کھینچتے اور اپنے بیوی بچوں کو دکھاتے اور آئندہ آنے والوں کے لئے گھر میں رکھتے ہو.تو کیا وجہ ہے ، کیا سبب ہے، اس میں کون سی معقولیت ہے کہ تم اپنے مونہوں سے تو خانہ کعبہ کی تعریفیں کرتے ہو.اپنے مونہوں سے تو خانہ کعبہ کے احترام کا اظہار کرتے ہو.لیکن تم ایک خربونے سے کو تو گھر میں لانے کی کوشش کرتے ہو.تم تاج محل کو دیکھتے ہو تو اس کی تصویر لینے کی کوشش کرتے ہو مگر تم خانہ کعبہ کے ظل کو اپنے ملک اور اپنے علاقہ میں لانے کی ا
کوشش نہیں کرتے.خانہ کعبہ کیا ہے ؟ ایک گھر ہے جو خدا تعالیٰ کی عبادت کے لئے وقف ہے.مگر یہ ظاہر ہے کہ ساری دُنیا کے انسان خانہ کعبہ میں نہیں جا سکتے پس جس طرح خدا تعالے چاہتا ہے کہ ابراہیم کی نقلیں دنیا میں پیدا کرے ، اسی طرح وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ تم مخانہ کعبہ کی نقلیں بناؤ جس میں تم اور تمہاری اولادیں تم اپنی زندگیاں دین کی خدمت کے لئے وقف کر کے بیٹے بھائیں.جس طرح وہ لوگ جو ابراہیم کے نمونہ پر چلیں گے، ابراہیمؑ کی اولاد اور اس کا ظل ہوں گے.اسی طرح یہ نقلیں خانہ کعبہ کی اولاد ہوں گی ، خانہ کعبہ کی نسل اور اس کا نمونہ ہوں گی.اور حقیقت یہ ہے کہ جب تک خانہ کعبہ کے قبل دنیا کے گوشے گوشے میں قائم نہ کو دیئے بھائیں اس وقت تک دیں پھیل نہیں سکتا.پس فرماتا ہے :- راتخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلَّى اے بنی نوع انسان ! ہم تجھ کو توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ تم بھی ابراہیمی مقام پر کھڑے ہو کر اللہ تعالے کی عبادتیں کرد.یعنی ایسے مرکز بناؤ جو دین کی اشاعت کا کام دیں.وعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَن طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ.اب بتاتا ہے کہ وہ مقام ابراہیمؑ کیا چیز ہے.وَعَهِدْنَا إِلى إِبْرَاهِيمَ - اور ہم نے ابراہیم کو بڑی پکی نصیحت کی.حمدیہ کے معنے ہوتے ہیں.اُس نے فلاں کے ساتھ عہد کیا.لیکن جب مھد کے ساتھ ائی کا صلہ آئے تو اس کے معنے ہوتے ہیں پکی نصیحت کرنا یا وصیت کرنا.پس فرماتا ہے ک عهدنا إلى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ.ہم نے ابراہیم اور اسماعیل کو بار بار نصیحت کی اور بار بار اس طرف توجہ دلائی آن طقرًا بيتي که تم دونوں میرے گھر کو پاک بناؤ اور ہر قسم کے عیبوں اور خرابیوں سے اس کو بچاؤ لِلطَّائِفن طواف کرنے والوں کے لئے وَ الْعَاكِفِین اور اُن لوگوں کے
* لئے جو اپنی زندگی وقف کر کے یہیں بیٹھے رہیں.طائفین وہ لوگ ہیں جو کبھی کبھی آئیں اور عاکفین وہ لوگ ہیں جو اپنی زندگی اسی گھر کی خدمت کے لئے وقف کر دیں.والربع السُّجُودِ اور اُن لوگوں کے لئے جو خدا تعالے کی توحید کے قیام کے لئے کھڑے رہتے ہیں اور اس کی فرماں برداری میں اپنی ساری زندگی بسر کرتے ہیں یا ان لوگوں کے لئے ہو رکوع اور سجود کرتے ہیں.یہ چیز ہے جو مقام ابراہیم ہے اور جس کو قائم کرنے کا اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا ہے.فرماتا ہے.ہماری نصیحت یہی ہے کہ دنیا کے گوشے گوشے میں خانہ کعبہ کی نقلیں بننی چاہئیں اور دنیا کے کونے کونے میں تمہیں اس کے ظل قائم کرنے چاہئیں.اس کے بغیر دین حق کی کامل اشاعت کبھی نہیں ہو سکتی." اس کے بعد حضور نے فرمایا :- " میں ایک دفعہ اس دعا کو پڑھ بھاؤں گا.اس کے بعد پھر دوبارہ پڑھوں گا تمام عورتیں اور مرد میری اتباع کریں " اس ارشاد کے بعد حضور نے جس رنگ میں تلاوت فرمائی اور جس طرح بعض دعاؤں کا بار بار تکرار فرمایا اس کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ ادعیہ درج ذیل کی بھاتی ہیں.وإِذْ قَالَ اِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا بَلَدًا - رَبِّ اجْعَل هذا تبدا منا وَارزُقُ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ وَارْزُقُ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ وارُزُقُ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ.ربَّنَا تَقَبَّلُ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ربَّنَا تَقَبَّلُ مِنَّا إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُه رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ربَّنَا تَقَبَّلُ منَا اِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
۲۰۷ ربنا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ حضور نے فرمایا : یہاں مُسلمین سے گو حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسمعیل مراد ہیں مگر دُعا مانگتے ہوئے مسلمین سے ہر شخص میاں بیوی بھی مراد لے سکتا ہے.ربَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ رينَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ رينا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ را وَاجْعَلْنَا مُسلمين للب رتنا وَاجْعَلْنَا مُسلمين لك ربَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسلِمينَ لَكَ وَمِن ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةِ مُسلِمَةً لَكَ اے ہمارے رب اجعل هذا بنا دے اس کو جس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ دُعا کی ہے اس وقت مکہ کوئی شہر نہیں تھا.وہ صرفت چند جھونپڑیاں تھیں جو ایک بے آب و گیاہ وادی میں نظر آتی تھیں.پس حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں کہ یہ زمین جو ویران پڑی ہوئی ہے اسے بنا دے ، کیا بنا رے ؟ بلدا.ایک شہر بنا دے.عام طور پر جو لوگ عربی نہیں جانتے وہ اس کے معنے یہ کرتے ہیں.کہ اس شہر کو امن والا بنا دے.حالانکہ اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہی منشاء ہوتا، تو آپ هذا بك دا کہنے کی بجائے هذا البلد فرماتے.مگر آپ هذا الب نہیں کہتے بلکہ هذا بدا امنا کہتے ہیں لیس پہ شہر کے بنانے کی دعا ہے.شہر کو کچھ اور بنانے کی دعا نہیں.رَبِّ اجْعَل هذا بكدا.اے میرے اب بنا دے اس ویران زمین کو ایک شہر - ایمنا ، مگر شہروں کے ساتھ فتنہ و فساد کا بھی احتمال ہوتا ہے.جب لوگ مل کر رہتے ہیں تو لڑائیاں بھی ہوتی ہیں.جھگڑے بھی ہوتے ہیں.فسادات بھی ہوتے ہیں.اور پھر شہروں کو فتح کرنے کے لئے
Y-A حکومتیں حملہ بھی کرتی ہیں.یا بعض شہر جب بڑے ہو جائیں تو اُن کے رہنے والے اپنا نفوذ بڑھانے کے لئے دوسروں پر حملہ کر دیتے ہیں.اور چونکہ یہ سارے مند شات، شہروں سے وابستہ ہوتے ہیں اس لئے میں تجھ سے یہ دعا کرتا ہوں کہ تو اسے امن والا بنائیں.نہ کوئی اس پر حملہ کرے.اور نہ یہ کسی اور پر حملہ کرے.وَارْزُقُ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ اور اس کے رہنے والوں کو شرات ویکیو میں پہلے بتا چکا ہوں کہ حضرت ابراہیم علیہ تسلام کی اس دُعا کا یہ مفہوم ہے کہ اے خدا ! میں تجھے سے ان کے لئے روٹی نہیں مانگتا.میں تجھ سے پلاؤ نہیں میں تجھ سے ڈینے کا گوشت نہیں مانگتا.بے شک یہ کبھی تیری نعمتیں ہیں.اور اگر ان کو بل بجائیں تو تیرا فضل اور انعام ہے.مگر میں جو کچھ چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ تو ان کو وہ پھل کھلا جو دس میں لے جا کر بھی سڑ جاتا ہے.تو دنیا کے کناروں سے ان کے لئے ہر قسم کے پھل لا اور انہیں ان پھلوں سے متمتع فرما.منْ آمَنَ مِنْهُمُ بِاللَّهِ وَالْيَوم الأخير - پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ دعا کی تھی کہ میری اولاد میں سے بھی نبی بنائیو.اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا که اگر وہ نیک ہوں گے تو ہم ان کو اپنے انعامات سے حصہ دیں گے ورنہ نہیں.بنی بڑا محتاط ہوتا ہے.جب خدا تعالیٰ نے یہ کہا کہ میں ہر ایک کو یہ انعام نہیں دے سکتا.جو نیک ہوگا صرف اسے انعام ملے گا.تو اس دوسری دُعا کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسی امر کو ملحوظ رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے کہا کہ یا اللہ جو نیک ہوں صرف ان کو رزق پیجید - قَالَ وَمَنْ كَفَرَ فَا مَتِّعَهُ قَلِيلًا م اضْطَتُ إلى عَذَابِ النَّارِ وَبِئْسَ المُصيره الله تعالیٰ نے فرمایا کہ رزق کے معاملہ تاں ہمارا اور حکم ہے.اور نبوت اور امامت کے معاملہ میں ہمارا اور محکم ہے.نبوت اور امامہ " صرف نیک لوگوں کو ملتی ہے ، مگر رزق ہر ایک کو ملتا ہے.پس جو کا فر ہو گا دنیا کی روزی ہم اس کو بھی دیں گے چنانچہ
۲۰۹ سینکڑوں سال تک مکہ کے لوگ مشرک رہے مگر ابراہیمی رزق اُن کو بھی پہنچتا رہا.ہاں تیری نسل ہونے کی وجہ سے وہ اُخروی عذاب سے بچ نہیں سکتے.مر جائیں گے تو وہ جہنم میں ڈالے جائیں گے اور وہ بہت بڑا ٹھکانا ہے.پھر فرماتا ہے.یاد کرو جب ابراہیم اولہ اسما عیل مل کہ بیت اللہ کی بنیادیں اُٹھا رہے تھے اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ سے دعائیں کر رہے تھے کہ خدایا تیرا گھر تو برکت والا ہی ہو گا.کون ہے جو اُسے برکت سے محروم کر سکے.ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ ہماری نسل میں سے ایسے لوگ پیدا ہوں جو نمازیں پڑھنے والے اور تیری یاد میں اپنی زندگی بسر کرنے والے ہوں تاکہ اس گھر کی برکت سے انہیں بھی فائدہ پہنچے.مگر اگلی اولادوں کو ٹھیک کرنا آئندہ نسلوں کو درست کرنا اور اپنے ایمانوں کی حفاظت کرنا ہمارے بس کی بات نہیں.رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنا.اے ہمارے رب ! ہم نے خالص تیرے ایمان اور محبت کے لئے یہ گھر بنایا ہے.تو اپنے فضل سے اسے قبول کرلے اور اس کو ہمیشہ اپنے ذکر اور برکت کی جگہ بنا دے.اِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ تو مہاری دردمندانہ دعاؤں کو سننے والا اور ہمارے حالات کو خوب جاننے والا ہے.تو اگر فیصلہ کر دے کہ یہ گھر ہمیشہ تیرے ذکر کے لئے مخصوص رہے گا تو اسے کون بدل سکتا ہے.وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ - اس آیت سے یہ نتیجہ بھلتا ہے کہ بیت اللہ بنانے کے در حقیقت دو حصے ہیں.ایک حصہ بندے سے تعلق رکھتا ہے اور دوسرا حصہ خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتا ہے جس مکان کو ہم بیت اللہ کہتے ہیں وہ اینٹوں سے بنتا ہے.چونے سے بنتا ہے.گارے سے بنتا ہے.اور یہ کام خدا تعالیٰ نہیں کرتا بلکہ انسان کو تا ہے مگر کیا انسان کے بنانے سے کوئی مکان بیت اللہ بن سکتا ہے.انسان تو صرف ڈھانچہ بنا تا ہے.روح اس میں خدا تعالے ڈالتا ہے.اسی امر کو مد نظر رکھتے ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ڈھانچہ تو میں نے اور اسمعیل نے بنا دیا ہے مگر ہمارے بنانے سے کیا بنتا ہے.ربنا تقبل منا.اے خدا تو ہمارے اس تحفہ کو قبول کر اور اسے اپنے پاس سے مقبولیت عطا فرما.ورنہ محض مسجدیں بنانے سے کیا بنتا ہے.کئی مسجد میں ایسی ہیں جو باپ دادوں نے بنائیں اور بیٹوں نے بیچ ڈالیں.کئی مسجدیں انیسی نہیں جو بادشاہوں
M یا شہزادوں نے بنائیں مگر آج اُن میں کتے پاخانہ پھرتے ہیں اس لیئے کہ انسان نے تو مسجدیں بنائیں مگر خدا نے انہیں قبول کیا پس حضرت ابراہیم اور حضرت منفیل کہتے ہیں کہ اے خدا ہم نے تو تیر اگر نایا ہے گر یہ محض ہمارے بنانے سے نیامت تک قائم نہیں رہ سکتا یہ اس وقد ما تک رہ سکتا ہے جب تک تو کیگا.اس لئے ربنا تقبل منا.اسے خدا ہم نے جو گھر بنایا ہے، اسے تو قبول فرما اور توسیع 35 اس میں رہ پڑے.اور جب خدا کسی جگہ نہیں جائے تو وہ کیسے ابوا سکتا ہے.گاؤں اجڑ جائیں تو اجڑ جائیں شہر اُجڑ جائیں تو ہو جائیں وہ مقام کبھی نہیں اجڑ سکتا جس جگہ خدا بس گیا ہو چنانچه یک وسین کہوں سال تک مکہ بے آباد رہا مگر کیونکہ غدا وہاں تھا اس لیے اس کی عزت قائم رہی حضرت ابراہیم علیہ السلام یہی دُعا مانگتے ہوئے فرماتے ہیں.رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا منیلین تک.اے خدا اس گھر کی آبادی تیرے بندوں سے وابستہ ہے.مگر محض لوگوں کی آبادی کوئی چیز نہیں.اصل چیز یہ ہے کہ اس سے تعلق رکھنے والے ایک ہوں.پس ہم جو بیت اللہ کو بنانے والے ہیں اور جو دو افراد ہیں.ہماری پہلی دُعا تو یہ ہے که تو خود نہیں نیک، بناد من ذريَّتِنَا أُمَّةً مسلمة لك اور پھر بیماری اولاد میں سے ہمیشہ ایک گروہ ایسا موجود رہے جو تیرا مطیع اور فرمانبردار ہو.وَارِنَا مَنَاسِكَنَا.پھر چاہے انسان کے دل میں کتنا ہی اخلاص ہو.اگر ایسے طریق مدارم نہ ہو کہ کس طرح کسی گھر کو آباد رکھنا ہے تو پھر بھی وہ غلطی کو بناتا ہے.اس لئے وہ دعا کرتے ہیں کہ اسے خدا نہ صرف ہمارے دلوں میں ایمان قائم رکھ بلکہ وقتا فوقتا نہیں یہ بھی بتاتا کہ یہ کہ ہم نے کس طرح اسے آباد رکھنا ہے اور ہم کو نساء و طریق عبادت اختیار کریں جس سے تو خوش ہو اور یہ گھر آباد رہ سکے.وتب علينا.مگر اس اخلاص کے باوجود ، اس الہام کے با وجود بھو یہ بتاتا رہے کہ کس طرح اس گھر کو آباد رکھنا ہے.اسے خدا ہم بندے ہیں اور ہم نے غلطیاں کرنی ہیں.تُو تو اب اور رحیم ہے تو ہمیں معاف کر دیا اور ہمارے گناہوں سے اور گند کرتا رہ - اتل انت التواب الرحيم تو بڑی تو بہ قبول کر نے والا اور رحیم ہے.قوآب اور رحیم نام اسی نئے لائے گئے ہیں کہ بندہ خواہ کتنی بھی نیک نیتی.میں کام کرے وہ غلطی کر بجھاتا ہے.ایسی روات میں تو ابیات اس کے کام آتی ہے اور اگر اچھا کام کرے تو اہمیت اس کے کام آتی ہے.رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُمْ لأَيْنَهُمْ اے ہمارے رب ! تو ان لوگوں میں گرس
جگہ رہیں گے ایک عظیم الشان رسول مبعوث فرما من دم اور اسے ہمارے رب! رسول کے آنے سے یہ ضرورت تو پوری ہو جائے گی کہ خانہ کعبہ سے جس طرح تعلق رکھنا ہے اس کا پتہ لگ جائے گا اور وہ سچے اور کے در مخلص مومن بن ابھائیں گے مگر اسے ہمارے رب ہم نے جو اپنی اولاد کو یہاں آکر ایسا یا ہے اس میں کچھ خود غرضی بھی ہے.ہماری یہ کبھی عرض ہے کہ تیرا نام بلند ہو اور ہماری یہ بھی عرض ہے کہ ہماری اولاد کے ذریعہ تیرا نام بلند ہو.ہم نے صرف تیرا گھر نہیں بنایا بلکہ اپنی اولاد کو بھی یہاں لا کر بسا دیا ہے.گویا ہم نے جو تیرے نام کی بلندی کی کوشش کی ہے اس میں کچھ خود غرضی بھی شامل ہے.ہم نے یہ مکان بنایا ہے اس لئے کہ تیرا نام بلند ہو اور ہم نے اپنی اولاد یہاں اس لئے بسائی ہے کہ اس کے ذریعہ تیرا نام بند ہو.پس ہم نے جو اپنی اولا یہاں بسائی ہے اس میں ہماری یہ مرض بھی شامل ہے کہ آنے والا رسول انہی میں سے ہو یا ہر سے نہ ہو.يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ.وہ تیری آیتیں پڑھ پڑھ کر سنائے تیرے نشانات اور معجزات کے ذریعہ ان کے ایمانوں کو بلند کرے.ويُعَلِّمُهُمُ الكِتابَ.اور تیری شریعت جس کے بغیر باطن پاکیزہ نہیں ہو سکتا اور جو انسان کو مکمل نمونہ بنا دیتی ہے نازل ہو اور وہ لوگوں کو سکھائے.والحكمة - اور اسے ہمارے رب ! جب وہ رسول آئے گا.انسانی عقل تیز ہو چکی ہو گی.اُس وقت افسانے بچہ نہیں ہو گا کہ اسے یہ کہا بھائے کہ اللہ اور فلاں کام کرے.اور جب وہ کہے کہ ہمیں کیوں کروں تو اُسے کہا جائے آنگے ایسے بکو اس مدت کر و علینی کے زمانہ میں اور موسی کے زمانہ میں اور نوح کے زمانہ میں ایسا ہو چکا.مگر یہ اب وہ بی آئیگا اس کا زمانہ انسانی عقل کے ارتقا کا زمانہ ہو گا.اس وقت بندہ صرف یہی نہیں سنے گا کہ کو وہ : بلکہ وہ پوچھے گا کہ کیوں کروں ؟ پس بعلم الكِتَابَ وَالحكمة - اسے ندا ! تُو اُس ! کو مولی کی طرح شریعت ہی نہ دیجیں.روح کی طرت صحبت ہی نہ دیکھیں.داؤد کی طرح احکام ہی نہ رکھیو.بلکہ ساتھ ہی ان کی وجہ بھی بتا د کینو اور ان احکام کی حکمت بھی واضح کیجیو.تا که نه عصرت نہ ان کے جسم تیربہ نے حکم کے تابع ہوں بلکہ انتہا کا دمارغ اور دل بھی تیرے محکم کے تابع ہو اور وہ سمجھیں کہ جو کچھ کہا گیا ہے فاسنہ کے ماتحت کیا گیا ہے.عقل کے ماتحت کہا گیا ہے ضرورت سے ماتحت کہا گیا ہے ، فوائد کے ماتحت کہا گیا ہے.ويد ليتم.اور اُن کو پاک کرے.دماغ کو ہی پاک نہ کرے بلک حکمت
۲۱۲ سکھا کہ اُن کے قلوب کو بھی محبت الہی سے بھر دے یہاں تک کہ وہ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ میں جذب کر دیں.انہی صفات ان میں پیدا ہو جائیں اور وہ پھلتے ہوئے انسان نظر نہ آئیں بلکہ خدا نمائی کا ایک آئینہ دکھائی دیں.إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيم - اے ہمارے رب ! ہم نے جو چیز مانگی ہے بہ ظاہر یہ نامکن نظر آتی ہے اور جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے ایسا کبھی نہیں ہوا لیکن ہم خوب جانتے ہیں کہ تجھے میں طاقت ہے تو عزیز خدا ہے تو غالب خدا ہے اور تیری شان یہ ہے جس بات کو کہے کہ کروں گا یہ میں ضرور ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے شت ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا کبھی نہیں ہوا.لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ تو ایسا کر سکتا ہے.انك انت الْعَزِيزُ الحَکیمُ.چونکہ تو عزیز خدا ہے اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ ایسا رسول آئے.اس پہ اعتراض ہو سکتا تھا کہ اگر پہلے خدا نے ایسا رسول نہیں بھیجا تو اب کیوں بھیجے ؟ اور اگر پہلے بھی ایسا رسول بھیجنا ضروری تھا تو پھر ایسے رسول کو نہ بھیجا کہ بنی نوع انسان پر کیوں ظلم کیا گیا ؟ اس اعتراض کا اتحکیم کہہ کر ازالہ کر دیا کہ ہم جانتے ہیں پہلے ایسا رسول آہی نہیں سکتا تھا.پہلے لوگ اس قابل ہی نہیں تھے کہ محمدی تعلیم کو بربریت کر سکیں.پس ایک طرف حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عزیز کہہ کر مقدائی غیرت کو جوش دلایا ہے اور کہا ہے کہ ہمارا مطالبہ غیر معقول نہیں ہم جانتے ہیں کہ تو ایسا کر سکتا ہے مگر تھے ہی تحکیم کہہ کر بتا دیا کہ ہم یہ نہیں سمجھتے کہ اگر پہلے تو نے ایسا رسول نہیں بھیجوایا تو نعوذ باللہ تو نے مخل سے کام نیا ہے.بلکہ ہم جانتے ہیں کہ اگر پہلے تو نے ایسا نبی نہیں بھیجا تو صرف اس لئے کہ پہلے ایسا نبی بھیجنا مناسب نہیں تھا.یہ کیسی کا مل دُعا ہے جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے بلند مقام اور آپ کے بلند ترین مدارج کو واضح کرنے والی ہے.مگر میں پھر کہتا ہوں.دنیا دوسری چیزوں کی نقلیں کرتی ہے.دنیا چاہتی ہے کہ اگر اسے اچھی تصویریں نظر آئیں تو اُن کو اپنے گھروں میں لے جائے وہ خوشنما اور خوبصورت مناظر دیکھتی ہے تو اُن کے نقشے اپنے گھروں میں رکھتی.مگر انسان کو یہ کبھی خیال نہیں آتا کہ وہ خانہ کعبہ کی بھی نفلیں بنائے
۲۶۱۳ جنہیں لوگ دیکھیں اور جہاں لوگ اپنی زندگیاں خدا تعالیٰ کے ذکر اور اس کے نام کی بلندی کے لئے وقف کر دیں.انسان کو یہ کبھی خیال نہیں آتا کہ میں اپنے دل میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو لاکر بٹھاؤں تا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونہ اور تصویر کو دیکھ کر اور لوگ بھی محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کا اظل بننے کی کوشش کریں بحالانکہ اگر دنیا میں ہر جگہ خانہ کعبہ کے ظل اور اس کی نقلیں نہ ہوں ، اگر دنیا میں ہر جگہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طل اور آپ کی نقلیں نہ ہوں تو وہ دنیا ہر گنہ رہنے کے قابل نہیں.دنیا تبھی بچ سکتی ہے ، دنیا تبھی زندہ رہ سکتی ہے ، دنیا تھی ترقی کر سکتی ہے جب ہر ملک کے لوگ تھانہ کعبہ کی نقل میں ایسی جگہیں بنائیں جہاں لوگ اپنی زندگیاں دین کی خدمت کے لئے وقف کر دیں اور انسان کوشش کرے کہ ہر خطر زمین پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھلتے ہوئے نظر آئیں.بہر حال یہ دعائیں ہیں جو خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے مانگیں.میں اس وقت اسی پر نہیں کرتا ہوں.اگر میری تقریر کے لمبا ہو جانے کی وجہ سے بعض تقریریں ضائع ہوگئی ہیں تو بیشک ہو جائیں.ہمارا مقصد اس جلسہ میں تقریریں کرتا نہیں بلکہ مٹھائیں کو گئے اس مقام کو با برکت بناتا ہے.میں نے دعائیں سکھا دی ہیں.یوں انسان کے ذہن میں دعائیں نہیں آتیں.مگر نبیوں کے ذہن میں جو دعائیں آتی ہیں وہ نہایت کامل ہوتی ھیں.خدا تعالیٰ کے نبی حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کے دل میں ایسے وقت میں جو خیالات آئے اور جو کچھ ان مقدس مقامات کے فرائض اور ذمہ داریاں ہیں اور کامیابی کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ کے جن فصلوں کی ضرورت ہے ان تمام چیزوں کو آپ نے اللہ تعالے سے مانگا ہے اور اب آپ سب لوگ میرے ساتھ مل کر دعا کریں.یہ زمین ابھی ہمیں پورے طور پر ملی نہیں.ہم تفاؤل کے طور پر اسے اپنا مرکز بناتے ہیں اور دعاؤں کے ساتھ اسے اپنا مذہبی مقدس مقام قرار دیتے ہیں.اس کے بعد ہمارا فرض ہو گا کہ ہم اس مقام کو ہمیشہ اپنے ہاتھ میں رکھنے کی کوشش کریں اور ہمیشہ دین اسلام کی خدمت اور خدا تعالیٰ کے نام کی بلندی کے لئے اسے استعمال کرنے کی کوشش کریں.پس آؤ جس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لے گئے تو آپ نے
۲۱۴۴ اللہ تعالٰی سے یہ دعا کی کہ اے خدا میں ابراہیم کی طرح تجھ سے یہ دعا کرتا ہوں کہ تو مدینہ کو بھی اسی طرح برکتیں دے جس طرح تو نے ملکہ کو برکتیں دی ہیں.اسی طرح ہم بھی اس مقام کے بابرکت ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کریں.ہم محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم نہیں لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم اور غلام ضرور ہیں.اور جہاں آقا جاتا ہے وہاں خادم بھی جایا کرتا ہے.گورنر کی جب کسی جگہ دعوت ہو تو اس مقام پر گورنر کا چپڑاسی پہنچے جایا کرتا ہے پس محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کے خادم ہونے کی حیثیت سے ہمارا بھی خدا پر حق ہے اور ہم بھی خدا تعالی کو اس کا یہ حق یاد دلاتے ہوئے اس سے کہتے ہیں کہ اے خدا جیس طرح تُو نے مکہ اور مدینہ اور قادیان کو برکتیں دیں اسی طرح تو ہمارے اس نئے مرکز کو بھی مقدس بنا اور اسے اپنی برکتوں سے مالا مال فرما.یہاں پر آنے والے اور یہاں پر بسنے والے ، یہاں پر مرنے والے اور یہاں پر بھینے والے سائے کے سارے خدا تعالیٰ کے عاشق اور اس کے نام کو بلند کرنے والے ہوں اور یہ مقام اسلام کی اشاعت کے لئے احمدیت کی ترقی کے لئے ، روحانیت کے غلبہ کیے لئے خدا تعالے کے نام کو بلند کرنے کے لئے محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کا نام اُونچا کرنے کے لئے اور اسلام کو باقی تمام ادیان پر غالب کرنے کے لئے بہت اہم اور اُونچا اور صدر مقام ثابت ہو.پس آؤ ہم دعا کریں کہ اللہ تعالے اس مقام کو ہمارے لئے باہر کات کرے اور ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم منشائے ابراہیمی ، منشار محمدی اور منشار مسیح موعود کے مطابق اس مقام کو خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے ایک بہت بڑا مرکز بنائیں اور خدادہ ہے کے فضل ہم کو اس کی توفیق عطا فرمائیں کہ ہم نے اس مقام کو اشاعت اسلام کے لئے مرکز قرار دے کر خودارادے کئے ہیں وہ پورے ہو جائیں کیونکہ سچی بات یہی ہے کہ ہم نے جو ارادے کئے ہیں اُن کو پورا کرنا ہمارے بس کی بات نہیں.ر اس کے بعد حضور نے ان ہزارہا مخلصین کے ساتھ جنہیں اللہ تعالی نے اس مقدس اجتماع میں کے بعد نے ہزار کے ساتھ اور ای نے اس مقدس ہوں شریک ہونے کی توفیق بخشی تھی اللہ تعالیٰ کے حضور ہاتھ اٹھا کر ایک لیبی دعا کی اور پھر فرمایا ،
۲۱۵ اب میں سجدہ میں گر کر دعا کرتا ہوں کیونکہ مسجد ڈھا کے لئے ایک خاص مقام ہوتا ہے.اگر جگہ نہ ہو تو لوگ ایک دوسرے کی پیٹھوں پر بھی سجدہ کر سکتے ہیں.دیہ الفاظ کہتے ہی حضور سجدہ میں گر گئے اور حضور کے ساتھ ہی ہزاروں مخلصین جو اس با برکت اجتماع میں شمولیت کے لئے دور و نزدیک سے تشریف لائے ہوئے تھے وہ بھی سر بسجود ہو گئے اور رب العرش سے اس مقام کے بابرکت ہونے کے متعلق آنسوؤں کی چھڑی اور آہ و بکا کے شور کے ساتھ دعائیں کی گئیں ) لينا تقبل منا إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ له شنل کی خصوصی اشاعت ادراہ شہادت اپریل کو ادارہ الفضل نے افضل کا ایک بیوہ غیر نکالا جس میں ہجرت اور مرکز د بیوہ اور جلسہ ربوہ کے متعلق مضامین اور نظمیں شائع کیں.ہجرت پاکستان کے بعد روزنامہ الفضل کا یہ پہلا خصوصی شمارہ تھا جو جماعت کی پر مسرت اور مقدس تقریب افتتاح پر منظر عام پر آیا اور جو ایک نئے موسم بہار کی آمد کا پتہ دیتا تھا خطبہ جمعہ میں جماعت کو ہمیشہ مرکز بیت امام تمام کی اس پر معارف اور ولولہ انگیز تقریر کے بعد حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب مبلغ انگلستان سے وابستہ رہنے کی موثر تحر یک امریکہ شیخ بشیر احمد صاحب ایڈوکیٹ لاہور اور مصر ، حضر سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے موثر تقاریر فرمائیں.۳ سے ۴ مجھے جمعہ و عصر کی نمازیں پڑھی گئیں.سید نا عضرت مصلح موعود نے خطبہ جمعہ میں مخلصین جماعت کے سامنے شہد کی مکھی کے تعجب خیز نظام کی مثال بیان فرمائی اور نہایت دلکش پیرایہ میں یہ نصیحت فرمائی کہ ہمیشہ اس بات کو یاد رکھو کہ تم نے بے مرکز نہیں رہنا.اسلام کا غلیہ اور احمدیت کی ترقی مرکز بیتہ ہی کے ساتھ وابستہ ہے.له قضیہ جمعہ اور نماز کی ادائیگی کے بعد پہلے دن کا اجلاس ودم منعقد ہوا جس میں مولوی غلام احمد صاحب فاضل بدوملہی ، حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل تعلیم الاسلام کالج اور حضرت له الفضل جلر سالانہ نمبر ۱۳۳۹ بهش ۱۹۶۰، صفحه ۵ تا ۱۳ ه مفصل تحطيه الفضل در احسان ارجون میش میں شائع شدہ ہے.؟
44 مولانا جلال الدین صاحب شمس نے مختلف علمی موضوعات پر پیاز معلومات تقریریں کیں.ایک مختصر سی تقریر جرمن تو مسلم ہر عبد الشکور کترے کی بھی ہوئی ہے ساڑھے نو بجے شب مجلس مشاورت رش ہوئی جو بارہ بجے شب مجلس مشاورت کا انعقاد ایک بھاری رہی.اجلاس میں پاکستان کی اکثر احمدی جماعتوں کے نمائندے موجود تھے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے آیندہ سال کے لئے قریباً اٹھارہ لاکھ روپیہ کا میزانیہ منظور فرمایا.اور تابزوں کو نصیحت فرمائی گروہ حکومت کے ٹیکس اور جماعتی چندے دیانت داری کے ساتھ اپنی صحیح اور اصل آمد کے حساب سے اور کیا کریں.اس تعلق میں حضور نے اپنی مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ ایک سعود سے کے سلسلہ میں ہمیں سو روپیہ ٹیکس ادا کرنا تھا.لگی ہمیں کہا گیا کہ اگر آپ رسید نہ لیں تو اس ٹیکس سے نچا سکتے ہیں.مگر میں نے کہا کہ ہم اپنی بچت کا ہرگز خیال نہیں کریں گے اور یہ کیس ضرور ادا کریں گے حضور نے فرمایا.اب تو ملک میں ہماری اپنی حکومت ہے.کیا ہم اپنی حکومت کو بھی ٹیکس نہ دیں ہے حضرت امیر المومنین صلح موعود کا جلسہ کے دوسرے روز (۱۶ شہادت / اپریل کو صبح آٹھ بجے حضرت مصلح موعود نے جماعت احمدیہ کی خواتین سے نہایت خواتین احمدیت سے پیر اثر خطاب شر انگیز اور مورگن خطاب فرمایا جس کے شروع میں حضور نے بتایا کہ اس جلسہ کی غرض و غایت اچھی طرح سمجھ لینی چاہئیے کہ یہ جلسہ تقریبوں کا نہیں، دعاؤں کا ہے.اس تمہید کے بعد حضور نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے صبرو استقامت کے بعض نہایت ایمان افروز واقعات بیان فرمائے اور بتایا کہ انبیاء کی سماعتیں ہمیشہ تکلیفوں سے عزت پاتی ہیں.پس اپنے نفس میں اور اپنی اولاد میں دین کی خاطر تکلیفیں برداشت کرنے کی عادت ڈالو.وہی عورت عزت کی مستحق ہے جو بچہ نہیں جنتی شیر جنتی ہے، جو انسان نہیں جینتی فرشتہ جنتی ہے.یہی وہ کام ہے جو صحابیات نے کیا.اور یہی تمہارے لئے حقیقی نمونہ اور حقیقی راہ نما ہے ہے له الفضل ۲۰ شہادت اپریل ۱۳۲۸ ش صفحه ۸ : " " صفحه ۵ که مفصل تقریر رسالہ " مصباح " بابت مئی 190 ء میں چھپ گئی تھی.
17
اوپر نماز گاہ (جہاں بعد میں یادگاری مسجد تعمیر ہوئی ) نیچے پہلا انگر خانہ
۲۱۷ اُس وقت جب کہ حضور پیکور نے خواتین حضرت امیر المومنین کی مردانہ جاسگاه احمدیت سے خطاب فرمایا مردانہ جلسہ میں نہایت پر معارف تقریر گاہ میں اجلاس اول کی کارروائی سوارس بجے تک جار کیا وہ ہی جس میں ملکہ عبدالرحمن حب نادم گھراتی بھی اسے ایل ایل بیت نبی محمد نذیر صاحب پر دنیہ جامعہ احمدیہ اور او البث ارت مولوی عبدالغفور صاحب کی عالمانہ تقریریں ہوئیں.دوپہر کے وقفہ کے بعد حسب پرو گرام نماز ظہر و عصر جمع کی گئیں اور تمام بجے سہ پہر کے قریب حضرت امیر المومنین جلسہ گاہ میں رونج افروز ہوئے اور حضور پر نور نے تلاوت قرآن کے بعد جو ماسٹر فقیر اللہ صاحب نے کی اپنی پر معارف تقریر شروع فرمائی.ابتداء میں حضور نے تادیان سے نکلنے کے لپس منظر یہ کسی قدر اختصار کے ساتھ روشنی ڈالتے ہوئے قادیان کی واپسی سے متعلق خدائی وعدوں کا تذکرہ فرمایا اور بتایا کہ دنیا کی کوئی طاقت ہے ہیں ہمارے اصل مرکز قادیان سے دوائی طور پر چھا نہیں رکھ سکتی.ہم نے خدائی ہاتھ دیکھتے ہیں اور آسمانی فوجوں کو اتر تے دیکھا ہے اگر ساری طاقتیں بھی بل کہ خدائی تقدیر کا مقابلہ کرنا چاہیں تو وہ یقین ناہم رہیں گی.اور وہ وقت ضرور آئے گا کہ جب قادیان پہلے کی طرح پھر جماعت احمدیہ کا مرکز بنے گا نخواہ صلح کے ذریعہ البیا ظہور میں آئے یا جنگ کے ذریعہ.بہر حال یہ مندائی تقدیر ہے جو اپنے معین وقت پر ضرور پوری ہو گیت ویان لے گا اور ضرور ملے گا لیکن اس وقت اس چیز کی ضرورت ہے کہ ہم نئے مرکز میں نئی زندگی کا ثبوت دیں.اور اس تنظیم کو پہلے سے زیادہ شان کے ساتھ قائم کریں جو آج تک سمار اطرہ امتیا نہ رہی ہے.اس کے بعد قادیان سے ہجرت کے متعلق مزید تفصیلات بیان کرنے سے قبل حضور نے تنظیم سے متعلق بعض نہایت اہم امور کی طرف توجہ دلائی اور جماعت کو زیادہ لمبی استقلال اور قربانی وایثار سے کام لیتے ہوئے فرائض ادا کرنے کی تلقین کی.چنانچہ فرمایا تبلیغی جماعتوں کی ترقی اور تنظیم میں اچھے لٹر پیر کا بہت دخل ہوتا ہے.اس سلسلے میں جماعت کی طرف سے انگریزی ترجمہ قرآن شائع کیا گیا تھا لیکنی اجاب نے اس سے خاطر خواہ فائدہ اٹھانے کی طرف بہت کم تو ستر کی ہے حالانکہ غیر ممالک کے باشندوں میں تبلیغ کا اس سے موثر طریقی اور کیا ہو سکتا ہے.شام - شرق اردن و خیرہ ممالک کے اخبارات نے اکا ترجمہ قرآن مجید پر نہا شاندار ریو لوٹ لے کئے ہیں اور بور میں تشرفتی لے آپ کی مکمل تقریر الفضل - ۱۰ ۱۱ ہجرت سرمئی ۱۳۲۸ بین / ۱۹۴۹ میں بھی رہتی ہے.
۲۱۸ میں اس کی اشاعت سے ایک کھل بھی بچے گئی ہے اور ان میں سے کئی نے جماعت احمدیہ کی اس کاپی ہے کوشش کے خلاف بہت غم و غصہ کا اظہار کیا ہے اس لئے اجاب کو انگریزی ترجمہ قرآن مجید خرید کر خاطر خواہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہیئے.اسی طرح تفسیر کبیر کی نئی جلدوں کی ان صحت میں پہلے کی نسبت کمی واقع ہوگئی ہے حالانکہ اس کی پہلی جلد بعد میں ایسی نایاب ہوئی کہ خود غیر احمدیوں نے سو سو روپے فی جلد خرید کر اس کا مطالعہ کیا آج کل آخری پارے کی آخری جلد لکھی جا رہی ہے.دوستوں کو اس کی خریداری میں تامل نہیں ہونا چاہیے.ایسا نہ ہو کہ بعد میں یہ قابل مہنگا ثابت ہو.الفضل کے متعلق تحریک کرتے ہوئے حضور نے فرمایا الفضل ایک جماعتی اخبار ہے دونوں کو چاہیے کہ اس کی خریداری بڑھا نہیں جہاں جہاں جماعتیں ہیں وہاں باتا عدہ ایجنسیاں قائم کی جائیں اور اسی طرح اس کی اشاعت کو وسیع کیا جائے.وقفہ زندگی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا نی زمانہ سلسلہ کی اہم ترین ضروریات میں سے ایک وقفہ زندگی کی تحریک ہے بغیر دقت زندگی کے جماعت کے کام نہیں مل سکتے.اس لئے نوجوانوں کو چاہیئے کہ وہ خار معتہ السلام کے لئے اپنی زندگیاں وقفہ کریں.اور اس طرح اسلام کو تمام دنیا میں غالب کہ ننے کے سامان بہم پہنچ نہیں.اس موقع پر حضور انور نے بیرون ممالک میں دقت زندگی کے فروغ کا بھی ذکر فرمایا.اور بتایا کہ بیرونی ممالک کے نو مسلم احمدی نوجوانوں میں یہ تحریک بہت دور ریکھ رہی ہے چنانچہ الی میں سے کئی تو جوانوں نے قبول حق کی سعادت حاصل کر نے کے بعد نیاز ند گیاں خدمت اسلام کے لئے وقف کی ہیں.اس ضمن میں حضور نے بیرونی ممالک میں جماعت احمدی کی تبلیتی جد و جہد میں وسعت کا تفصیلی ذکر کرتے ہوئے فرمایا اگرچہ ہمیں یہاں پر ایک زبر دست ابتداد سے دوچار ہونا پڑا ہے لیکن اللہ تعالے نے نعم البدل کے طور پر بیرونی ممالک میں ہماری تبلیغ کو بہت دین کر دیا ہے اس کے بعد حضور نے ہر ملک میں تبلیغ کی رفتانہ اور اس کے خوش کن نتائج پر علیحدہ علیہ دہ روشنی ڈالی.اس کے بعد حضور نے تحریک فرمائی کہ احباب جماعت کو آئندہ مرکز میں بابر بار آنے کی کوشش کرنی چاہئیے باہر بار آنے سے نہ صرف یہ کہ مرکز سے ان کا تعلق مضبوط ہوگا بلکہ وہ ترقی کی لکیریں اور دیگر جماعتی سرگرمیوں سے پوری طرح باخبر رہیں گے.اور ان کا کثرت کے ساتھ یہاں آنا ان
کے ایمان اور اخلاص میں ترقی کا موجب ہو گا اس مقام پر حضور نے ریلوے حکام کے تعاون کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اجاب جماعت کو ہدایت فرمائی کہ وہ جب بھی ہمیں حتی الوسع ریل کے ذریعہ ہی سفر کریں.تاکہ ریل کی آمدن ایسی دکھائی جا سکے جس سے ربوہ سیٹن کا تیام ریلوے کے لئے ہر لحاظ سے بفع رسمالی ثابت ہو.ربوہ میں زمین خرید کر مستقل رہائش اختیار کرنے والوں کو حضور نے تنبیہ فرمائی کہ ہم اس مرکز کو اسلامی تہذیب و تمدن اور معاشرت کا ایک مثالی نمونہ بنانا چاہتے ہیں اس لئے جو لوگ بھی مکان بن کر مستقل طور پر یہاں رہنا چاہیں گے انہیں بعض شرائط اور قواعدد صفو البط کی پابندی کرنی ہوگی مثلا ہر شخص کو خواہ اسکی تجارت کو نقصان ہو یا اس کے کاروبار کہ اس کا ان کے سال میں ایک ماہ خدمت دین کے لئے ضرور وقف کرنا ہو گا.ہر بچے اور بچی کے لئے سکول داخل ہو کہ تعلیم حاصل کرنی ضرو رکھ ہوگی.اور ہر فرد بشر کے لئے اسلامی اخلاق کو اس درجے اپنا نا میں ضروری ہوگا کہ وہ دوسروں کے لئے نمونہ بن سکے.مثلا نماز با جماعت کی پابندی ، ڈاڑھی رکھت دیره و غیره جو شخص ان چیزوں کی پابندی نہ کرے گا اسے ربعہ نہیں رہنے کی قطعا اجازت نہ دی جائے گی لیئے ان امور کی طرف توجہ دلانے کے بعد فرمایا : میرے نزدیک اب وقت آگیا ہے کہ ہم دماغی ترقی کی طرف خاص طور پہ توجہ دیں.اس وقت تک جو کتا ہیں ہماری جماعت کی طرف سے شائع ہوئی ہیں وہ کسی تنظیم کے بغیر شائع ہوئی ہیں.سوائے تفسیر کبیر کے.لیکن اب وقت آگیا ہے کہ جماعت کا ہر فرد وقتی از در اول کے ماتحت ایک خاص پروگرام کے ماتحت چلے اور اس طرح ترقی کرنے کی کو نا کرے.اس لئے میں نے سمجھا کہ میں نیا مرکز بن جانے کے بعد ایک خاص نظام قائم کروں تا جماعت کے افراد کی خاص طور پر تو بیتے ہو.اور اخلاق ، عقاید ، مذہب اور دیگر دینوی علوم پر ہر آدمی آسانی کے ساتھ شور حاصل کر سکے.اور اس کا یہی طریق ہے کہ آسان اُردو میں ایسی کتابیں شائع کی جائیں جو ہر مضمون کے متعلق ہوں اور علمی له الفضل ۲۰ شهادت / اپیل ۲۸ سواران / ۱۹۴۹ء ص ایضا الفضل ۱۶ جون ۱۹۶۱ صفحه ۳
مطالب پر حاوی ہوں.اور ایسی سیدھی سادی زبان میں ہوں کہ معمولی زمیندار ift - بھی انہیں سمجھ سکیں وہ قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی جس کے صرف پند افراد عالم ہوں ہم نے گر ترتی کرنا ہے تو میں اپنی جماعت کے علم کے درجہ کو بلند کرنا ہوگا.اس کا طریق یہی ہے کہ کتب کا ایک مسلمہ شروع کیا جائے جن میں دُنیا کے تمام موٹے موٹے علوم آنجائیں اور وہ بچوں، درمیانی تر ماروی اور پختہ کار لوگوں عرض سب کے لئے کافی ہوں.اس کے تین سلسلے ہوں گے.سلسلہ مڈل سے نیچے پڑنے والے بچوں کے لئے یا یوں سمجھ لیجیے کہ پہلا سلسلہ سال سے کم گھر والے بچوں کے لئے ہوگا.دوسرا سید انٹرنس پاس یا سولہ ست و سال تک کے بچوں کے لئے ہوگا.اور تیرا سلسلہ اس سے اوپر عمر والوں اور پختہ کار لوگوں کے لئے ہوگا.یہ کتابیں ایسی تسلیس اردو میں لکھی جائیں گی کہ ایک اونے سے اد نے اردو لکھنے والا بھی اسے سمجھ سکے.اس طرح میری رائے یہ ہے کہ یہ کہنا میں اس طرز پر لکھی جائیں کہ پہلی کتاب ۵۰ صفحات کی ہو.دوسری ۸۰ صفحات کی تو اور تیسری کتاب اوسط سوا سو صفحات پر شمتل ہو.اور پھر مردہ کتاب بھر سولہ سترہ سال تک کے افراد کے لئے ہو وہ سولہ ہزار الفاظ پر مشتمل ہو اور ہر وہ کتاب جو اس سے اوپر لے افراد کے لئے ہو.وہ ۳۵ ہزار الفاظ کا عمل ہو اور اس لئے کہ لکھنے والے اللہ کتابوں کو غور سے لکھیں اور مطالعہ کر کے نکھیں ان کے لئے ایک مرتم لطور الامام مقر کی جائے گی.تا کہ وہ اس علم کی کتا میں مطالعہ کرکے مضمون نہیں اور ایسی سلیس اردو میں لکھیں کہ ہر معمولی خواندہ اسے سکے.میرا خیال ہے کہ ہر اس کتاب کے لئے جو پچاسی صفحات کی ہو پچاس --- - ** روپے سے ایک سوید پیر تک کا انعام رکھا جائے.ان کتب کی خصورات یہ ہوں گی کہ ا.ان میں تمام قسم کے علوم کے متعلق باتیں ہوں گی ۲.یہ سلیس اردو میں ہوں گی جسے ایک معمولی اردو جاننے والا بھی سمجھ سکے..ان میں کسی قسم کی اصطلاح استعمال نہیں کی جائے گی.ان اصطلاحوں کی وجہ سے مضمون سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے....
۲۲۱ لیکن چونکہ کبھی کبھی بعض شوقین لوگ علماء کی مجلس میں بھی چلے جائیں گے اور ان کی باتوں سے لطف اندوز ہوں گے.اس لئے حاشیہ میں ان اصطلاحات کا بھی ذکر کر دیا جائے گا.اس طرح اسے یہ معلوم کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی کہ بر کلے اور کانٹ نے کیا کہا ہے.بلکہ کتاب کے حاشیہ میں ہی یہ لکھا ہوا ہوگا کہ پر کلے اور کانٹ کا یہ مقولہ ہے یا یہ خلال کتاب میں لکھا ہوتا ہے.غرض جب بھی وہ چاہے اپنے عام علم کو اصطلاحی علم میں بدل لے.یا سیدھی سادھی اردو میں پڑھ لے غرض ہر صفحہ کے نیچے پر ایک امر کا حوالہ دیا جائے گا تا حس کو شوق ہو تحقیق کر سکے.اس سلسلہ کی کئی کڑیاں ہوں گی.اڈل.بچوں کے لئے یعنی ابتدائی تعلیم سے مڈل تک کے بچوں کے لئے مگر اس سے وہ لوگ بھی فائدہ اٹھا سکتے ہوں.جو معمولی لکھنا پڑھتا ہی جانتے ہوں.دو بڑے بچوں کے لئے یعنی ہائی سکولوں کے طالبعلموں کے لئے.سوم - بڑوں کے لئے قطع نظر اس کے کہ وہ کا لجوں میں پڑھتے ہوں یا انہوں نے خود تحقیق کی ہو.چهارم - محض لڑکیوں کے لئے پنجم محض لڑکوں کے لیئے ششم محض مردوں کے لئے هفتم محض عورتوں کے لئے هشتم بیوی کے لئے نہم میاں کے لئے دھم.اچھے شہری کے لئے میرے نز دیک مختلف ضرورتوں کو مد نظر رکھتے ہو کے اس سے كتتب میں ان مضامین پیجٹ ہونی چاہیئے.پهلا سلسله اسبتی باری تعالے ۲.معیار شناخت نبوت ہو.دعا - فضاء وقدر - بحث لعبد الموت 4 بہشت و روزه ، -- معجزات - - فرشته و صفات الهیه ا ضرورت نبوت و
شریعت اور اس کا ارتقاء - دو تراسل له : ا عبادت اور اس کی ضرورت -۲ نماز ۳ ذکر -- روزه ه ج - - - زکوة ، معاطات اسلامی حکومت.اچھے شہر یا کے فرائض ۱۰ ورڈ.تعلیم - ۱۲- اخلاق اور ان کی ضر وریت ۱۳.تربیت افراد میں قوم کا فرض اور اس کی ذمہ داریاں - ۱۴۱ ملت شخص کہ مقدم ہے.10.خاندان فرد پر مقدم ہے.بعد.حکومت قوم پر مقدم ہے.16.حکومت اور رعایا کے تعلقات - ۱۸.ظاہر و باطن دونوں کی ضرورت اور اہمیت.ور اسرت باہمی اور اس کی وجہ سے غریب اگیر ، عالم جاہل پر وقد دوریاں ۲۰ - اسلام کا فلسفہ اقتصادیات الار مظلوم کے حقوق اور ان کا الغاء اور اس کا طریقہ - ۲۲.سال باپ کے حقوق اور ان کی ادائیگی.شادی کے بعد ماں باپ اور خاوند بودی کے حقوق کا تصادم اور اس کا علاج ۲۳ - میاں بیوی کے باہمی حقوق میاں بیوی کے ایک دوسرے کے والدین کے متعلق فرائض میاں بوری کے تعوق عربیت اولاد کے متعلق میاں بیوی کے حقوق خاندان کے افراد کے ورثہ کے لحاظ سے.آقا اور نوکر کے تعلقات ۲۵ تجارتی لین دین اور قرضہ کی ذمہ داریاں اور جائدادوں کے تلف ہونے صورتوں میں اور دیوالیہ ہونے کی صورت میں ہر فریق کی ذمہ داری ۲۶ - جہاد ۲۷ حفظان صحت حمالی حفظان صحت کیلیت ماحول - ۲۹.محنت کی عادت اور وقت کی پابندی.۳۰ تبلیغ اور اس کی اہمیے اسو.چندہ اور اس کی اہمیت - ۲۲- احمدیہ میں سہندوستان اور پاکستان کی خاص اہمیت سوسو زندگی وقف کرنے کی اہمیت.تیوالسلسله تاریخ مذسب قبل تاریخ - ۲ تاریخ بیند و مذاب از مانه تاریخ تاریخ بده مت ہم تاریخ در تست - ۵ - تاریخ معلمین عیدی بحر ریت سرو کنفیوشس وغیرہ 4- تاریخ دنیا قبل از تاریخ - تاریخ عرب قبل از تاریخ ۸- تاریخ سهند قبل از تاریخ - - تاریخ علاقہ جات پاکستان قبل از تاریخ
کام ۱۰ تاریخ شمالی افریقہ قبل سیخ - ۱۱ تاریخ یونان قبیل تیسری صدی اسمی ۲ تاریخ ایران قبل بادشاہان میکه وه فارسی - سو اس تاریخ ایران بعد بادشاهان و فارسی نازه ا نہ عمر نہ ہم اسیر ہوگی.(اس کی ضرورت میری سیرت سے پوری ہو چکی ہے.10.تواریخ خلفاء - ١- سيرة حضرت مسیح موعود عليه الصلواة واستلام - تاريخ احمد حبيته بزمانه حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام - السيرت حضرت خلیفہ اول نوا تاریخ احمدیت ( خطا هستند اول) ۲۰ تاریخ احدر بیست خلافت ثانیه - ۲۱ تاریخ احمدیت افغانستان ۲۲ تاریخ صحابی فر مسیح موعد و ۲۳ تاریخ اکابر صحابہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۲۴.تاریخ کا باصحاب حضرت مسیح موعود عليه الصلوة والسلام - ۲۵۰ تاریخ صح بتنا رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم - ۲۶ - تاریخ صحابیات حضرت مسیح موعود عليه الصلاة والسلام - ۲۰ تاریخ مبند بر خانه اسلام نہین محصول ہیں.ای.افغانوں سے پہلے زمانہ کی.ب.افغانوں کے زمانہ کی.ج.مغلیہ زمانہ کی.-۲۸ مبلغین اسلام سند دوستان ۲۹.سوانح صوفیائے کرام ۳۰ تاریخ اسلام اور یورپ ۲۱ - تاریخ عرب بعد از چهارم صدر با میری ۳۲ تاریخ اشاعت اسلام مغربی افریقیه ۳۳ - تاریخ اپنے سینیا.۳۲ تاریخ اذیفہ وسطی در جنوبی گزشتہ ہزار سال کی ۳۵ ستار بیج سوما و قبل از مسیح به بعد از سیم -ج- بعد از رمانه نبوی ۳۰۴ تاریخ قسطنطیه ی زمانه نبونی تک ب زماز نبوی که بعد اسلام کے قبضہ تک - ۷ اور تاریخ اسپانیه قبل از تسلط اسلام و بعد تسقط ۳۸ - تاریخی عظیمیه قبل از تسلط اسلام و بعد تسلط اسلام ہو.تاریخ رو با جنوبی بزمانه د اسلام ام تاریخ چین به مانه اسلام الم - تاریخ فلپاش و ملحقہ جزائر بزمانہ اسلام - بولم تاریخ انڈو نیشیا قبل از اسلام و بعید از اسلام سلام تاریخ سیلون بد
قبل از اسلام و بعد انه اسلام ۱۴- تاریخ بخارا و ملحقات قبل از اسلام و بعد از اسلام ۴۵ تاریخ دروس از ابتداد تا پندرھویں صدی.اور پندرھویں صدی سے.لے کر آج تک جس میں خصوصاً اسلام سے اس کے تعلقات پر روشنی ہو.- تاریخ مار کسترم ۴۷- تاریخ بالشوزم ۴۸- تاریخ شمالی امریکی و جفرانیه - ۴۹ - تاریخ جنوبی امریکی و جغرافیه - ۵۰ تاریخ جال سٹر یلیان نیوزی لینڈ وغیرہ - 01 - احوال الانبیاء.چوتھا سلسلہ :- 1- رسالہ کمیٹی نادانوں کے لئے.۲.رسالہ فر کیں.عد موٹے موٹے مضامین کے الگ الگ رسانے.ہم تاریخ انس ہ مسلمانوں کا سائنس میں حصہ.۶.قرآن اور علوم ، اسلام اور علوم م علم السحر و مسلمانوں کا علم الجری میں حصہ.فلکیات.مسلمانوں کا فلکیات میں حصہ ۱۲ - جغرانیہ عالم ہوا جغرافیہ ہیں مسلمانوں کا حصہ ۱۴ جغرافیہ طبیعات ۱۵ - جغرافیہ طبیعیات میں مسلمانوں کا حصہ.۱۶ درندے اور ان کے اہم افراد احد ان کی خصورتی ا چوندے اور ان کے اہم افراد اور ان کی خصوصیات ۱۸ - پرندے اور ان کے اہم افراد اور ان کی خصوصیات 19 - مکوڑے اور ان کے اہم افراد اور ان کی خصوصیات - ۲۰ رینگنے والے جانور اوران کے اہم افراد اور ان کی خصوصیات ۲۱.پانی کے اندر کے سانس لینے والے جانور اور ان کے اہم افراد اور ان کی خصوصیات سو ہو.پانی میں رہنے والے لیکن باہر نکل کو سانس لینے والے جانور اور ان کی خصوصیات روی کی جانور بری اور بجری اوران کی خصوصیات - ۲۴.خورد منی کیڑے اور ان کے اہم افراد اور ان کی خصوصیات ۲۵ انسانی پیدائش موجودہ دور میں مادہ جاتے.اس کے تغیرات اور اس کی صحت اور بخاری کی حالت اس کے انتقال کا طریقہ اور انتقال کے بعد پیدائش تک کے ادوار ۲۶ انسانی جسم کی تشریح ۲۷.صحت کی حالت میں اعضائے انسانی کے فرائض
۲۲۵ اور وظائف اور مختلف بیار یائی اور ان کے اساب 4 علم الطقاقات مو يسلم العبادات امور منطق ۲۲ف در منطق و الحفر و فلسفر فلسط ۳۵ - فلسفه تاریخ ۳۷ - طبقات الارض ۳۷ ارتقائے نسل انسانی ۳۸۰ علم اللسان ۱۹.علم النفس ام - ارتقائے عالم کائنات کے مختلف النواح میں امتیاز کی نشان الم - انسان اورنگی ایشیاء میں فرق.م علم البرق با کیفیت ماده * قومی اور ملی خدمات ایک آزاد شہری کی حیثیت سے احمدی دوستوں پر جو ذمہ دارباب عاید ہوتی ہیں حضور نے ان کی طرف تو جو رہتے ہوئے فرمایا.دوستوں کو پاکستان کی حفاظت اور مزارع میں بڑھے پوچھ کر حصہ لینا چاہئے.اس سلسلے میں یہ جانتا ضروری ہے کہ حفاظتہ نعرے لگانے اور جوش دکھانے سے نہیں ہوا کرتی حفاظت اور اسلام کی ایک ہی صورت ہے.اور وہ یہ کہ قوم مرنے مارنے کے لئے تیار ہو جائے لیکن مرنے مارنے کے لئے بھی ڈھنگ اور فن کی ضرورت ہوتی ہے.ضروری ہے کہ لوگ فنون جنگ سے کیا حضور اقفت حاصل کر کیا.دو ہر ممکن طریق اور موقعہ سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کریں.اس سلسلہ میں یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ نئے مرکز کا قیام اور اس سے وابستگی کی تلقین اس لئے ہے کہ ہم اپنے کام کو وسیع کریں.ان تین بہا یارت و نصائح کے بعد حضرت امیر المومنین نے فرمایا :- و اب میں اپنے اصل مضمون کی طرف آتا ہوں مگر اس سے پہلے میں آپے گوں کہ ایک واقعہ ر مانا چاہتا ہوں.آج سے تقریبا ۲۳ ۲۴ سو سال پہلے کی بات ہے.یونان میں ایک شخص ہوا کرتا تھا.وہ یہ تعلیم دیا کرتا تھا کہ خدا ایک ہے اور وہ دیویاں اور ثبت جن کے لوگ معتقد ہیں یا اعلی ہیں.ہاں خدا تعالے کا فرشتے موجود ہیں.اور کائنات کے مختلف کام ان کے سپرد ہیں.وہ یہ بھی کہا کر تا تھا کہ خدا تعالے اپنی مرضی اپنے نیک بندوں پر ظاہر کرتا ہے.اور اس کئے فرشتے اس کے نیک بندوں پر چلوں کر ہوتے ہیں اور ان سے کلام کرتے ہیں اس کی یہ بھی تعظیم تھی کہ جس حکومت کے اخت تم رہو اس کے درمیانبر دار ہو.اگر من الفضل اور سالی ترجان منظور ۱۹۱۱ء صدتا بم
تم نے دُنیا میں اموات نم رکھنا ہے تو تمہیں حکومت سے اپنے مطالبات ہمیشہ اس سے کے ساتھ منوانے چاہئیں.اگر کسی وقت تمہیں اس حکومت پر اعتماد نہ رہے بلکہ تم یہ سمجھتے ہو کہ وہ تمہارے مذہبی احکام کے بجالانے میں روک بنتی ہے اور تم ان ظالم ڈھاتی ہے اور جبر تمہارا مذہب تم سے چھڑانا چا ہتی ہے.تو تمہیں اس ملک کو پھوڑ دینا چاہیے.اوسالپی حکومت کے تحت جا کہ بس جانا چا ہیئے ہو خدائی احکام کے بجالانے میں کوئی کر کے پیا ر کرتی ہو." ه ای تعالی قرآن کریم میں بھی موجود ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر دو شخص کامل طور پر نبی نہیں تھا تو ایک نامور من اللہ یا محمد کی حیثیت ضرور رکھتا تھا.اس کا نام سقرالا تھا تعبد حکومت کو معلوم ہوا کہ وہ حکومت کے خلاف تعلیم دیتا ہے، تو اس پر مقدمہ چلایا گیا اور مقدمہ چلانے کے بعد ان یصلہ کیا گیا کہ اسے زہیر کا کر موت کے گھائے اُتار دیا جائے.پرانے زمانہ میں یہ بھی حنا کا ایک مطابق تھا کہ حسیں شخص کو موت کی سزا دی جاتی تھی اسے زہر بلا کر مار دیا جاتا تھلہ سقراط کی سزا کے لئے کوئی معین تاریخ مقررہ نہ ہوئی.ہاں یہ بتایا گیا میں دن نکلاں جہاز جو خلال جگہ سے چلا ہے اس ملک میں پہنچے ہوا تو اس کے دوسرے دن اس کو مار دیا جائے گا.سقراط کے ماننے والوں میں بہت سے ذی الٹر لوگ بھی تھے.وہ اس کے پاس جاتے اور اس پر نھ دیتے کہ وہ ملک کو چھوڑو ہے بعد کسی اور ملک میں جائے.افلاطون بھی سقراط کے شاگردوں میں سے ایک شاگر د تھا.وہ اپنی ایک کتاب میں لکھتا ہے کہ ایک دن سقراط کا فرنیو، نامی مشاگردان کے پاس گیا.وہ اس وقت میٹھی نیند سو رہے تھے ان کے چہرے پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی اور ان جسم سے اطمینان اور سکون خداہر تھا.فریقو پاس بیوی تھیں اور پیار سے آپ کا چہر نے دیکھا کام آپ کی اس حالت کو دیکھ کر کہ آپ نہایتہ اطمینان سے تصور ہے میں اس پر بڑا کر اللہ ہوا اس نے آپ کو جگا یا نہیں بلکہ آرام سے پاس ٹھیکہ آمید کا چہرہ دیکھتا رہا.جب آپ کی الحمد کی تو آپ نے دکھا کہ آپ کا مرتو نامی کرد پاس بیٹھا ہوا ہے اور پیار سے آپ کی طرف دیکھ رہا ہے آپ نے اس سے پو چھا تم کب آئے ہو ! اور کسی طرح یہاں اپنے محمد فریتو نے کہا میں آپ کو
۲۲۷ دیکھنے کے لئے آیا ہوں آپ نے کہا تم اتنی جلدی صبح صبح کس طرح آگئے ! فریو نے کہا جیل کے افسر میرے دوست ہیں.اس لئے اللہ آنے کی مجھے اجازت مل گئی ہے.میں آپ سے ایک ضروری بات کرنا چاہتا ہوں.انہوں نے کہا معلوم ہوتا ہے تم بہت ہیں سے یہاں بیٹھے بور تم نے مجھے جگایا کیوں نہیں فر تو نے کہا اس جیب کرتے ہیں داخل ہوا تو آپ سوئے ہوٹے تھے اور آپ کے چہرے پر مسکراہٹ کھیلی رہی تھی اس لئے میں نے آپ کو جگا یا نہیں بلکہ آپ کے پاس بیٹھ کر آپ کے چہرے کو دیکھتا رہا.اس بات کا تجہ پر گہرا اثر تھا کہ وہ شخص جس کی موت کا حکم سنایا گیا ہو کیس اطمینان اور سکون سے سویا ہوا سفر ما نے کہا میاں کیا خدا تعالے کی مرضی کو کوئی انسان دور کر سکتا ہے، فریقی نے کہا نہیں.سقراط نے کہا کیا تم اس کی مرضی پر خوشی نہیں ! فریق نے کہا ہاں ہم اس کی مرضی پر خوش ہیں بسقراط نے کہا جب خدا تعالے نے میرے لئے محبت کو مقدر کیا ہے تو اس کو کون بٹا سکتا ہے ؟ اور جب خدا تعالے نے بھی میرے لئے موت مقدر کی ہے اور میں اس کی رضا پر راضی ہوں تو پھر اس پر بے چینی کی کیا وجہ ؟ مجھے تو خوش ہونا چا ہیے کہ میرے خدا کی یہ مرضی ہے کہ وہ مجھے موت دے از تو تم بتاؤ کہ ایس وقت تم مجھے کیا کہنے آئے تھے فریقین نے جواب دیا میرے آقا میں آپ کو ایک بڑی خبر دینے آیا تھا کہ وہ جہا ز جن کی آمد کے دوسرے بون آپ کو زہر پلائے جانے کا فیصد ہے وہ گو ابھی تک پہنچا تو نہیں لیکن خیال رہے کہ آج شام کو پہنچ جائے کا اس لئے کل آپ کو مار دیا بہائے تھا اسی کو سقراط ہنس پڑے اور کہا کہ میرا تو خیال نہیں کہ وہ جہاد آج پینے کا یہاں پہنچے گا فریت نے کہا وہ جہان خلال جگہ پر لگا تھا ہے اور ایک آدمی خشکی کے ذریعہ یہاں آیا ہے اور اس نے بتایا ہے کہ وہ جہانہ آج شام ملک یہاں پہنچ جائے گا.کل کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا سقراط نے کہا فر تو بے شک اس شخص نے یہ بتایا ہے کہ جہان آج شام تک نہیں پہنچ جائے گا لیکن جب خدا تعالے نے جایا ہے.کہ وہ جہانہ کھل یہاں پہنچے گا تو دی بھی ہوگا.فرید نے کہا.میرے آقا آپ کو کیسے علم ہوا کہ وہ جہاد کل یہاں پہنچے گا.سقراط نے کہا میں نے خواب میں دیکھنا ہے کہ ایک خوبصورت عورت.
پاس آئی ہے اس نے میرا نام لیا اور کہا تیار ہو جاؤ پر سعول محنت کے اندار ہے تہا ہے لئے کھول لئیے جائیں گے.فریز کیا تم نے یہ نہیں سنا کہ جہاد آج اسلام کو یہاں پہنچے جائے گا.اور اگر جہاز آج یہاں پہنچ جائے تو کیا کل مجھے سزا دے دی جائے گی لیکن فرشتے نے مجھے کہا ہے کہ رسول تمہارے لئے جنت کے اندازے کھ لے جائیں گے اس لئے جہانہ آج نہیں آسے بھی کل آئے گا.اور پھر یوں مجھے نار دیا جائے گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.ایک طوفان آیا اور جہاز کور میں ٹھہر نا پڑا.اور وہ سرے دن وہ اس شہر میں پہنچ سکا اور تیسرے دن وہ مارے گئے.خندم آپ کی بات سننے کے بعد اُس شاگرد نے کیا آپ کیوں مند کر رہے ہیں.کیا آپ کو ہم پر رجسم نہیں آ نا اگر آپ نہ ندہ رہیں گے تو میں آپ سے بہت فوائد اصل ہوں گے.اگر آپ یہاں سے بھاگ جائیں اور کسی اور حکومت کے ندی سایہ این کشور و نا کہ دو یہ تو کیا ہی اچھا ہو.سقراط نے میں اس ملک سے کسی طرح بھاگ سکتا ہوں کیا میں عورتوں کا لباس پہن کر یہاں سے بھاگ جاؤں.اگس میں عورتوں کا لباس پہن کر یہاں سے بھاگ جاؤں تو لوگ کہیں گے سقراط محور تو کا لباس پہن کہ بھاگ گیا یا پھر میں جانوروں کی کھال میں لپیٹ کر یہاں سے بھاگ جاؤں یہ کیا اس سے دیہی عزت ہوگی؟ فریتو نے کہا میرے آقا یہ ٹھیک ہے لیکن لیکن ہم ان چیزوں کے بغیر آپ کو نکالیں گے.میں ایک مالدار آدمی ہوں اور نوی افسر میرے تابع ہویا.میں نے ان سے یہ فیصلہ کہ ٹیلہ ہے کہ وہ میری اس بارہ میں مدد کر نیا گئے.اور آپ کو عزت کے ساتھ کسی اور ملک میں چھوڑ آئیں گے.جن میں سے اُس نے کو بیٹے کا نام بھی لیا میسقراط نے کہا پھر تم جانتے ہو کیا ہوگا ایک بھاری رستم بطور تاوان دالی جائے گی اور جب ایک ہوگا تو فر تویہ تم ہی بتاؤ کہا یہ اچھی بات ہو گیا کہ میں اپنی جان بچانے کے لئے اپنے ایک شاگرد کو تباہ کر دوں فر تو نے کہا میرے آقا آپ اس کا خیال نہ کریں.آپ کے شاگرد بہت سے ہیں اور به رستم سهم آپس میرا تیکه در سری تقسیم کریں گے سقراط نے کہا بالکل ٹھیک ہے لیکن جب حکومت کو پتہ چلا تو وہ سب کو قید کرے گی.فریق نے کہا ہاں آتا مگر
۲۲۹ مدت کے بعد نہیں چھوڑ دے گی.سقراط نے کہا مگر کیا یہ اچھی بات ہوگی که میں اپنی جان بچانے کے لئے اپنے شاگردوں کو قید خانہ میں ڈلواؤں.فریقی نے کہا اگر آت آپ سو چھٹے آپ روحانیت کی تعلیم دیں گے اور لوگوں کو خدا تو نے کی طرف لائیں گے.یہ کتنا بڑا کام ہے اس کے لئے اگر ہم قید میں بھی گئے تو کیا ہوا سقراط نے کہا یہ بات ٹھیک ہے اور شاید یہ بات سوچنے کے قابل ہو.مگر فریقوئیں جو ۸۵ سال کا ہوگیا ہوں اگر کسی ملک میں جاتے ہوئے راستہ ہیں مر جاؤں تو مجھے کرنا عقلمند کہے گا کہ میں نے یونہی مضمعہ میں تباہی ڈال دی.پھر انہوں نے کہا اے میرے شاگر د تم بتاؤ تو سہی میں تمہیں اس حکومت کے بارہ میں حسن کے تہمت تم رہتے ہو یا تعلیم دیا کرتا تھا ، فریتو نے کہا آپ نہیں کہی تعلیم دیا کرتے تھے کہ اس حکومت کا ہمیشہ فرما نبردار رہنا چاہئیے.سقراط نے کہا اب تم ہی بتاؤ کہ میں اس چیز کی ساری عمر تعلیم دیتا رہا.اب اگر میں موت کے ڈر سے اس ملک سے بھاگ جاؤں تو دومین یہی کہے گی نہ کہ ہمیں یہاں کی زندگی میں جھوٹے دعوت کیا کرتا تھا پھر یا بتاؤ کہ کیا حکومت ظالم ہے.جس کی وجہ سے ہمیں اس ملک سے نکالنا ا.اس کے قانون کو توڑنا جائز ہے دنیا کی کوئی حکو مستند اپنے آپ کو ظالم نہیں کہتی.اگر کہا یہاں سے پوشیدہ کسی اور ملک میں بھاگ جاؤں تو یہ کیا بات دوسروں یہ کیا اڑ کر لے گی.ہر ایک یہی کہے گا کہ یہ تو وہی بات ہے جس پر اُس نے خود عمل نہیں کیا.میں اس حکومت میں پیدا تھا اور دیوے کے بعد چالیس سال کے اس لک میں ہم کیا چالیس سال کے عرصہ میں میرے لئے اس ملک کو چھو نہ جانے کا مو قعر ز تھا.حکومت یہ کہے گی کہ اگر ہم ظالم تھے تو یہ چالیس سال کے اواران میں کیوں با سر نہیں بھلا گیا.بلکہ یہ تو بجھا کہ سے الصاحت کا اتن قائل تھا کہ ہر شہر سے باہر بھی نہیں نکلتا تھا.میں ان باتوں کا کیا جواب دوں گا.عرض اس نے ایک طر حکایت کے بعد کہا.خلاصہ یہ ہے کہ کچھی نہیں رہیں کار اور حکومت کے مقابلہ کے لئے تیار نہیں ہوں گا..جیسا کہ میں نے بنایا ہے مسقراط کا یہ دعوتنا تھا کہ اسے الہام ہوتا ہے اور ہوں نے اپنے الہام کی ایک وین صورت کو پیش کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ جہاز آج
نہیں پہنچے گا گل پہنچے گا.میرے خدا نے مجھے کہا ہے کہ تمہارے لئے جندے کے درمان سے پرسوں کھول دیئے جائیں گے یہ اس بلانے کا ثبوت ہے کہ مشینی خدا تعالے سے تائید حاصلی کرنے والا تھا.اس نے اپنی جنگ سے نکلنے کا نام نہیں کیا، ہماری جماعت میں سے بھی بعض لوگ کہتے ہیں کہ میں قادیان سے باہر کیوں نکلا.وہ کہتے ہیں کہ کہیں تاریان سے نکلنا نہیں چاہیئے تھا.اور میں نے خود بھی کہا تھا کہ بھی قادیانی سے نہیں نکلوں گا.بلکہ ہمیں نے بتایا ہے کہ سقراط جو ایک ماحد من اللہ تھا اس کی زندگی میں بھی ایک واقعہ پیش آیا.اور اس نے اپنے شہر سے نکلنے سے انکار کر دیائے ؟ • جیب واقعہ سقراط کو لیونان میں پیش آیا ایسا ہی واقعہ مجھے ناریان پیش آیا.ایک اور واقعہ بھی ہے جو نہیں ایک اور نبی اللہ کے متعلق ملتا ہے حضرت مسیح علیہ السّلام کے متعلق یہ فیصلہ تھا کہ وہ یہود و کی باری ہمت کو دو ماہرہ دنیا میں قائم کریں گے.مگر آپ پر ایک وقت اب آیا جب سلا ملک آپ کا تین ہو گیا اور ایک کٹی دشمنی ایک خطر ناک صورت اختیار کر گئی.یہودیوں نے حکومت کے نمائندوں کے پاس آپ کے متعلق نکا میں لکھیں اور آپ کو پکڑوا دیا گیا.اور آخر حکام کو پیصلہ کر نے پر مجبور کیا گیا کہ آپ باغی ہیں جس طرح یونان کے مجسٹریٹوں نے یہ فصیلہ کیا کر سقراط باسنی ہے اسی طرح فلسطین کے مجسٹر میں نے فیصلہ کیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام باغی ہیں.دونوں کے متعلق ایک ہی قسم کا الزام تھا اسقراط کے پاس حبیب ان کے بنا کرد گئے احد آپ کو انہوں نے کہا کہ آپ ملک سے نکل جائیں.تو سقراط نے کہا نہیں نہیں ہیں اس ملک سے باہر نہیں نکل سکتا.خدا تعالے کی تہ یہ بھی ہے کہ میں یہاں رہوں، لطلب زہر کے ذریعہ مارا جاؤں اگر میں اس ملک سے باہر نکلتا ہوں تو خط تعد لئے کے منشاء کے خلاف کرتا ہوں.اور حضرت مسیح علیہ السّلام کو جب یہ کہا گیا کہ آپ کو پھانسی پر شکا کر ملا جائے گا تو آپ نے فرمایا کہ میں اس کے لئے تیار نہیں ہوں میں کوئی تدبیر کروں گا تا کسی طرح کہ سنا سے بیچے جاؤں.امریکہ علیہ السلام نے تدبیر کی اور جیب کہ آپ کو پہلے بتا دیا گیا تھا آپ کو دو تین دن تک قبر میں رکھی گیا اور پھره بان ے دورا نام افضل سوریه ۱۶ جولائی ١٩٧١ ١٣ م
٢٣ ے سے سلامت نکال لیا گیا.آپ اپنے والیوں سے ملے اور انجیلٹی کے بیان کے مطابق آپ آسمان پر اڑ گئے لیکن دنیوی تاریخ کے مطابق آن صلیبی ، ایران اور افغانستان کے درسته ہوتے موٹے ہندوستان چلے آئے پہلے آپ مدراس گئے پھر آپ گوارا چہار آئے پھر کو نگاہ کی طرف چلے گئے گھر رہاں موسم اچھانہ پاکر آپ تبت کے پہاڑوں کے راستہ ہے کشیر چلے گئے.گویا ایک طرف یہ مثالی پائی جاتی ہے کہ مامور سی اللہ کے متعلو یہ نصیلہ کیا گیا کہ اسے مار دیا جائے.اس کے ساتھی اسے نکالنے کے لئے بڑی بڑی رہیں خرچا کرتے ہیں اور پولیس بھی ان کے اس کام کیا بعد دی کرتی ہے مگر وہ انکار کر دیتے ہیں اور اپنے ساتھیوں کے اصرارہ کے بلو سجود یہ کہہ دیتے ہیں کہ وہ یہاں سے کسی اور ملک میں بنے کے لئے تیار نہیں گر حضرت میں علالت لام کو بھی ایک ہی واقعہ پیش ہوتا ہےوہ بھیا مامور من الله اور خود العاملے کے ایک نبی تھے اور جب کہ واقعات بتاتے ہیں کہ سقراط بھی ایک مامور من اللہ تھا.دونوں ایک بھی تنبیہ سے علم حاصل کرنے والے تھے.ایک ہی تم کا کام ان کے سپرد تھا.لیکن ایک کو سب کہا جاتا ہے کہ آپ یہاں سے نکل جائیں تو وہ یہ حجاب دیتا ہے کہ یں یہاں سے نہیں ہٹوں گا اور مدائحا نے کی تعلہ عیہ نہیں ہے کہ میں يبي بارا جاؤں اگر میں یہاں سے نکلتا ہوئی تو خدا تعالے کے منشاء کے خلاف کرنا ہوں لیکن دروس شخصی علی نبی علیہ السلام کو جب مرزا کا حکم مشتایا جاتا ہے تو آپ زمانے ہیں کہ میں کوشش کروں گا کہ یہاں سے نکل جاؤں اور کسی اور جگہ چلا جاؤں.یہ واقعات اس طرح کیوں ہوئے کیا سقراط جھوٹا تھا یا کیا حضرت مسیح نے ایک خطر ناک غلطی کی اور اپنے آپ کو تقدیر ابھی سے بچانے کی کوشش کی.حقیقت یہ ہے کہ سقراط اسی شہر کی طرف مبعوث تھا جس کے رہنے والوں نے آپ کو قتل کرنے کا سیعد کیا تھا.سقراط ان جگہوں کے لئے معبوث نہیں تھا جن کی طرف بھاگے جانے کے لیے اسے اس کے شاگر د مجبور کرتے تھے.سقراط دوسری قوموں کی طرف مسبوت نہیں تھا لیکن سچے علیہ السلام کو یہ کہا گیا تھا کہ تم مینی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں تک بھی میٹر یہ پیغام پہنچاؤ اور یہ بھیریں ایمان افغانستان امد کش بر میں بھی استی تھیں.بقراط اگر اپنے شہر کو چھوڑتا تھا تو وہ ایک مکتب اصلہ مدرسہ کو چھوڑتا تھا جس کے لئے اسے مقرر کیا گیا تھا.مثلاً ایک لوکل سکول میں کسی کو ہیڈ ماسٹر مقرر کیا جاتا ہے تو وہ
اس سکول کو بلا اجازت نہیں چھوڑ سکتا اگر وہ اس سکول کو بلا اجادت چھوٹے سے گاتو دہ جرم ہوگا.لیکن ایک انسپیکٹ کو اپنے حلقہ میں کسی جگہ پر جانا پڑتا ہے تودہ بلا اجازت چلا جاتا ہے.اور ایک لوکل سکول کا ہیڈ ماسٹر کسی دوسری جگہ نہیں جاتا، جب تک وہ اپنے بالا افسر سے چھٹی حاصل نہیں کہ لیتا لیکن ایک انسپکٹر بغیر جازت افسر بان کے اپنے حلقہ کا دورہ کرتا ہے.ایک پہیہ ماسٹر کو یہ کہا جاتا ہے کہ تم اگر اپنی جگہ کو چھوڑ کر دوسری جگہ گئے تو بھرم ہو گئے.لیکن انسپکٹر ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتا ہے تو اسے کوئی شخص مجرم نہیں گردانتا.اس لئے کہ اس کا دائرہ عمل اس حد تک وسیع ہے لیکن ایک پیڈیاٹر کا دائرہ عمل ایک سکول تک محدود ہے اور وہ اگر ماں سے نکلتا ہے نیت نون کو توڑتا ہے.ایسی سقراط ایک شہر کی طرف محبت کیا گیا تھا.اس کا دائرہ عمل محدود تھا.انگر دہ اس شہر کو چھوڑتا تھا نہ گنہ گار تھا کیونکہ اس کے مخاطب اسی کشمیر کے باشندے تجھے لیکن حضرت مسیح علیہ السلام نے فلسطین کو چھوڑا تو اس لئے کہ ان کے دائرہ خطاب میں کشمیر بھی شامل تھا.حضرت مسیح علیہ السلام نے جب مسلسطین کو چھوڑا تو آپ اپنے دائرہ عمل سے بھاگے نہیں بلکہ آپ اپنی دوسری ڈیوٹی پر چلے گئے.اگر آپ نے فلسطین میں بھی رہتے تو آپ فلسطین میں اپنا کام کر سکتے تھے اور نہ ہی بنی اسرائیل کی دوسری کھوئی ہوئی بھی ٹول تک خائفا نے کا پیغام پہنچا سکتے تھے حضرت مسیح علیہ السلام نے اگر فلسطین چھوڑا تو اس کے بعد آپ کا دائی عمل اور وسیع ہو گیا اور یہی وہ چیز ہے جس نے مجھے قاومان چھوڑنے کے لئے اپنی رائے کو بدلنے پر مجبور کیا میرے سپرد کچھ کام ہے تو صرف قادیانہ سے ہی نہیں تعلق رکھتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ و السلام اسلام کی اشاعت کے لئے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے نام کو بند کرنے کی خاطر ساری دنیا کی طرف مبعوث کئے گئے تھے.آپ کا مائی خطابه صرف قادیان تک محدود نہ تھا بے شک میں نے پہلے یہ فیصلہ کیا تھا کہ میں تاکیمیان میں بخار ہوں لیکن بعد میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے الہامات پر فخر کر کے مجھے یقین ہو گیا کہ جماعت کے لئے ایک ہجرت مقدر ہے.نویس نے سوچا کہ میرا کام فتاریان یا صرف ایک ملک سے وابستہ نہیں بلکہ دوسرے مالک سے بھی میرا تعلق ہے اگر میں نادیان میں رہتا ہوں تو اس کے یہ معنے ہیں کہ میں ان سب کاموں
۲۳۳ کو ترک کر دیتا ہوں جو میرے سپرد ہیں اور ایک جگہ اپنے آپ کو مقید کر لیتا ہوں بعیسا کہ بعد میں قادیان والوں کی حالت ہو گئی تھی.لیکن اگر میں قادیان سے باہر پھلا پھلتا ہوں تو میں صرف ایک چھوٹے سے وائرہ سے الگ ہوتا ہوں اور ایک وسیع دنیا کو ملانے پر قادر ہو جاتا ہوں.سقراط نے اپنے شہر کو اس لئے نہیں چھوڑا کہ ان کے مخاطب صرف اس شہر والے تھے.اور حضرت مسیح علیہ السلام نے فلسطین کو چھوڑا تو اس لئے کہ فلسطین میں ان کے مخاطبوں میں سے صرف دو قبیلے تھے، اور دس قبیلے فلسطین سے باہر تھے.حضرت مسیح علیہ السلام نے بھی لوگوں کی خاطر فلسطین کو چھوڑا.وہ فلسطین میں بسنے والوں سے سینکڑوں گنا زیادہ تھے.لیکن میں نے جن لوگوں کی خاطر قادیان کو چھوڑا ، قادیان اور اس کی آبادی اس کا ہزارواں حصہ بھی نہیں.پس یہ صحیح ہے کہ پہلے یہی فیصلہ کیا گیا تھا کہ میں قادیان نہیں چھوڑوں گا.لیکن جب میں نے دیکھا کہ ہمارے لئے ہجرت مقدر ہے تو میں نے قادیان کو چھوڑ کر یہاں پہلے آنے کا فیصلہ کیا.حضرت مسیح موعود علیہ سلوۃ والسّلام کا یہ الہام موجود تھا کہ " داغ ہجرت " اور ادھر میری خوابوں میں بھی یہ بات تھی کہ ہمیں قادیان سے باہر جانا پڑے گا میں نے دیکھا کہ یہ الہام تو موجود ہے مگر ابھی تک ہجرت نہیں ہوئی.اس لئے یا تو یہ نشین مسیح پر پیشگوئی صادق آئے گی اور یا اسے تھوڑا مانا پڑے گا یہی وہ چیزیں تھیں جن کی وجہ سے نہیں قادیان چھوڑنا ٹا.پھر یہ فیصلہ میں نے خود نہیں کیا بلکہ جماعت کے دوستوں کی طرف سے مجھے یہ مشورہ دیا گیا کہ نہیں قادیان سے باہر آجاؤں.ویسے میری ذاتی دلچسپیاں تو قادیان سے ہی وابستہ تھیں.لیکن میرے سامنے دو چیزیں تھیں.اول یہ کہ میں قادیان سے باہر چلا جاؤں اور قادیان میں ایک نائب امیر مقرر کر دوں.دوم یہ کہ میں ان سب کاموں کو ترک کر دوں جو میرے سپرد کئے گئے ہیں اور قادیان میں ایک زیدی کی حیثیت سے بیٹھا ہوں.اور اس بات کے حق میں کہ ہمیں قادیان میں ہی بیٹھا رہوں ایک رائے بھی نہیں تھی.ستمبر کو یہ زیملہ ہوا کہ چونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ اسلام کی اشاعت کا کام قادیا سے باہر آنے پر ہی ہو سکتہ ہے اس لئے ہم جندباتی چیز کو حقیقت پر قربان کریں گے.پس میں نے
ضروری سمجھا کہ آج میں دوستوں کو بتاؤں کہ ہم نے واقعات کو سامنے رکھ کر یہ فیصلہ کیا ہے اور ہمارا قادیان سے باہر ہونا ان حالات میں ہوا ہے.اگر سقراط کے طریق پر عمل کرتے اور قادیان میں ہی رہتے تو یہ بات غلط ہوتی.کیو نکہ ہمارے سمالات سقراط کے حالات سے نہیں ملتے تھے.ہم نے حضرت مسیح علیہ السّلام کی مثال پر عمل کیا کیونکہ آپ کے حالات ہمارے حالات سے ملتے تھے.خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی جی نہیں چاہتا تھا کہ آپ مکہ کو چھوڑیں.لیکن جب آپ نے دیکھا کہ اس کے بغیر اس پیغام کو ہوا آپ دنیا کی طرف لے کر مبعوث ہوئے تھے نہیں پھیلایا جا سکتا تو آپ مکہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے.حضرت ابوبکر فرماتے ہیں کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم غار ثور سے نکلے تو آپ نے آبدیدہ ہو کر اور مکہ کی طرف منہ کر کے فرمایا.اسے مکہ ! تو مجھے بڑا ہی پیارا تھا اور میں تجھے چھوڑنا نہیں چاہتا تھا.لیکن افسوس تیرے رہنے والوں نے مجھے یہاں رہنے کی اجازت نہیں دی.یہ فقرہ بتاتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کو چھوڑنا نہیں چاہتے تھے.آپ کو مکہ سے محبت تھی.لیکن اشاعت اسلام چونکہ مقدم تھی اور مکہ میں رہنے سے اس کی اشاعت کا کام باطل ہو جاتا تھا.اس لئے آپ نے مکہ چھوڑنا قبول کر لیا.میں نے بھی اسی سنت کے ماتحت قادیان چھوڑا.اور اب واقعات نے تصدیق کر دی ہے کہ میں اس میں حق بجانب تھا.عرض دین کی اشاعت پونکہ سب سے اہم تھی اس لئے میں نے قادیان چھوڑنا قبول کر لیا اور پاکستان آگیا.پہلے یہاں تک بیان فرمانے کے بعد حضور نے اجلاس برخاست کرتے ہوئے فرمایا کہ اس تقریہ کا دوسرا حصہ آپ اگلے دن جلسہ کے آخری اجلاس میں بیان فرمائیں گے چنانچہ نماز مغرب سے کچھ دیر پہلے اجلاس برخاست کر دیا گیا ہے جلسہ کا آخری دن کار شہادت اپریل کو جلسہ کا آخری اور تمیرا دن تھا.اس روز اجلاس اول میں حکومتقاضی محمد اسلم صاحب ہے ، حکم حکیم فضل الرحمن صاحب ، تمیرے روز کا ابھلاس اول مکرم مولوی ابو العطاء صاحب نے فاضلانہ تقریریں کیں جن کے بعد : / +1909 له الفضل وارو فار جولائی نمایش صفحه ۳- له الفضل ۲۰ شہادت اپریل العرش مکمل تقریر کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۲۸۲۰۳۰ شہادت / اپریل کیش ۲۹ ۳۰ شہادت اپریل و سیم ہجرت مئی ریش :
۲۳۵ ماری کے احمدیہ اللہ صاحب نے بھی مختصر تقریر کی ہے اجلاس دوم میں حضرت مصلح موعود ازاں بعدظهر و عصر کی نمازیں جمع کرانے کے بعد حضرت مصلح دیود بجے سٹیج پر تشریف لائے اور اس تاریخی جلسہ کے اختناقی کی ایمان افروز اختتامی تقریم اجلاس میں ایک نہایت ایمان افروز تقریر فرمائی.تقریر کے آغاز میں حضور نے فرمایا.بہت سی ایسی جماعتوں کی طرف سے پیغامات آئے ہیں جو جلسہ میں شامل نہیں ہو سکیں انہوں نے احباب کو محبت بھرا سلام کہا ہے اور دعاؤں کی درخواست کی ہے.بسب پیغامات تو سنائے نہیں جا سکتے.بعض اہم مقامات کے پیغامات سُنا دیتا ہوں.نیت سے پہلا پیغام تو قادیان کی جماعت کا ہے جو وہاں کے امیر موادی عبد الر من صاحب کی معرفت موصول ہوا ہے.اس میں وہاں کے دوستوں نے تمام اسباب کو السلام علیکم کہا ہے اور ڈھا کی درخواست کی ہے.قادیان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا، کو قادیان سے جدا ہونے کا صدمہ بہت بڑا صدمہ ہے لیکن میں نے دوستوں کو متواتر نصیحت کی ہے کہ وہ کسی قسم کے غم کو اس سلسلے میں اپنے اوپر غالب نہ آنے دیں لیکن ایک حصہ بذبات کا انسان کے ساتھ ایسا لگا ہوا ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا.قادیان سے نکلنا ایک ایسا ہم واقعہ ہے کہ اگر اس سلسلے میں ہم سوچنا اور غور کرنا شروع کر دیں تو ہمارے کاموں میں رشتہ پیدا ہونا شروع ہو جائے گا لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ ایک نہایت ہی تلخ واقعہ ہے.نہ معلوم کوئی بندائی فرشتہ تھا جس نے مجھ سے انگلستان جاتے ہوئے یہ شعر لکھوایا کہ یا تو ہم پھرتے تھے ان میں یا ہوا یہ انقلاب کے پھرتے ہیں آنکھوں کے آگے کوچہ ہے قادیاں میں خدا کے فرشتوں کے ذریعہ سے اپنی طرف سے اور بہاری جماعت کی طرف سے قادریان والوں کو وَعَلَيْكُمُ السّلام کہتا ہوں.در حقیقت وہ لوگ خوش قسمت ہیں.آنے والی نسلیں ہمیشہ عزت کی نگاہ سے اور استرام و محبت کے ساتھ ان کے نام لیا کریں گی اور ہزاروں لوگوں کو یہ حسرت ہوا کرے گی کہ کاش ہمارے آبار کو بھی یہ خدمت کرنے کی توفیق ملتی.اس کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل مقامات تا کسے السلام علیکم اور درخواست دعا پر مشتمل پیغامات پڑھ کر سنائے:.- چودھری مشتاق احمد صاحب باجوہ امام مسجد لنڈن از طرف جماعت احمدیہ لندن له الفضل ۲۲ شہادت / اپریل مش صفحہ ۳ پر اس تقریر کا تر ہمہ چھ پر گیا تھا ؟
۲۳۶ چودھری خلیل احمد صاحب تا سر ایم.اے انچاری احمد ید شن امریکہ ۳.انمیں التبلیغ احمد در شن گولڈ کوسٹ (افریقہ) ۴- رئیس التبلیغ احمدیہ شن مشرقی افریقہ ۵- جماعت احمدیہ کو لمبو مولوی مبارک احمد صاحب امیر جماعتہائے احمدیہ مشرقی پاکستان - مانوزین متقدمه قتل سندھ وضور نے انتظامات مجلسہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا.افسوس ہے کہ کھانے پینے کا انتظام بعض وجوہ کی بناء پر صحیح نہیں ہو سکا.ہمارا اندازہ دس ہزار مہمانوں کا تھا لیکن حاضری اللہ تعالیٰ کے فضل سے 14 ہزار سے بھی زیادہ ہوئی ہے.ہم نے صرف پانی کے انتظام پر دس ہزار روپیہ خرچ کیا تھا مگر اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا.اگر گورنمنٹ کے محکمہ حفظان صحت کی مہربانی سے ہمیں ٹینک نہ مل جاتے تو پانی کی بہت ہی تکلیف ہوتی تھی.صفائی کے محکمہ نے بھی ہماری مدد کی ہے.اسی طرح ریلوے کے محکمہ نے بھی ہمارے ساتھ تعاون کا بہت اچھا ثبوت دیا ہے.در حقیقت ان تینوں محکموں کی امداد کے بغیر ہمارا یہ جلسہ کا میاب نہیں ہو سکتا تھا.اس لئے ہم ان فلموں کا اور چونکہ یہ محکمے گورنمنٹ پاکستان کے ہیں.اس لئے ہم حکومت پاکستان کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں.پبلک ڈیوٹی کی ادائیگی کی وجہ سے یہ حکم یقینا اللہ تعالے کی طرف سے ثواب کے مستحق ہوں گے.جماعت احمدیہ نے قادیان سے کیوں محبت کی اس موضوع پر تقریرہ کرتے ہوئے حضور نے فرمایا.مقدس مقامات کو چھوڑنا قدرتنا طبع پر گراں گذرتا ہے بلکہ اسے گناہ تصور کیا جاتا ہے.لیکن اللہ تعالے کی مصلحتیں بعض دفعہ اس کام کو جو عام حالات میں گناہ سمجھا جاتا ہے تو اب بنا دیتی ہیں.مثلاً خانہ کعبہ کتنی مقدس اور بابرکت جگہ ہے لیکن رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے وہاں سے ہجرت کی.اگر مقدس مقامات کو چھوڑنا ہر حالت میں گناہ ہوتا تو آپ کبھی بھی سکے کے مقام کو نہ چھوڑتے.در حقیقت آپ کی ہجرت بھی آپ کی صداقت کا ایک نشان تھا کیونکہ سینکڑوں برس قبل اللہ تعالیٰ نے مختلف انبیاء کے ذریعہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کی خبر دے رکھی تھی.پس مقدس مقامات سے نکلنا کوئی نئی بات نہیں.اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے مکہ سے نکل جانے پر اسلام پر کوئی اعتراض نہیں آتا تو قادیان سے نکلنے پر کس طرح اعتراض کیا جا سکتا ہے خاص کر جبکہ ہمارا ایک حصہ ابھی تک قادیان میں بیٹھا ہوا ہے.ہاں یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ گذشتہ انبیاء نے جس قدر ہجرتیں کیں ان کی خبر تو ضرور پہلے سے 1 i
۲۳۷ موجود ہوتی تھی.کیا قادیان سے ہجرت کی پیشگوئی کی خبر بھی پہلے سے موجود تھی.سو اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں قادیان سے ہجرت کی پیشگوئی بھی پوری تفصیل کے ساتھ پہلے سے موجود ہے.اس کے بعد حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پچند الہامات اور اپنی متعدد رویا پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی جس میں قادیان سے ہجرت اور حضور کے ذریعہ جماعت کی حفاظت اور نئے مرکز میں جماعت کو اکٹھا کرنے کی خبر دی گئی تھی حضور نے بتایا کہ کس طرح نہایت حیرت انگیز رنگ میں یہ تمام امور پورے ہو چکے ہیں.آخر میں حضور نے فرمایا.دیکھو جو کچھ مندا نے فرمایا تھا وہ پورا کر دیا یہ خدا کا بہت بڑا فضل اور احسان ہے کہ اُس نے وعدے کے مطابق اس عظیم الشان ابتلاء میں مجھے جماعت کی حفاظت کرنے اور اسے پھر اکٹھا کرنے کی توفیق دی تمہیں چاہیے کہ اپنے رب کا شکر ادا کرو اور سچے مسلمان بنو.اور اپنے خدا کے فضل کی تلاش میں لگے رہو.یاد رکھو تم وہ قوم ہو جو آج اسلام کی ترقی کے لئے بمنزلہ بیج کے ہو تم وہ درخت ہو جس کے نیچے دنیا نے پناہ لینی ہے.تم وہ آواز ہو جس کے ذریعہ محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم اپنا پیغام دنیا کو سنائیں گئے تم وہ اولاد ہو جس پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فخر کریں گے اور اپنے مفدا کے حضور کہیں گے کہ اے میرے رت جب میری قوم نے قرآن پھینک دیا تھا اور تیرے نشانات کی قدر کرنے سے منہ موڑ لیا تھا تو یہی وہ چھوٹی سی جماعت تھی جس نے اسلام کے جھنڈے کو تھامے رکھا.اسے مارا گیا، اسے بدنام کیا گیا ، اسے گھروں سے بے گھر کیا گیا اور اسے مصیبت کی ہچکیوں میں پیسا " گیا مگر اس نے تیرے نام کو اونچا کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی.میں آسمان کو اور زمین کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ خدا نے جو کچھ کہا تھا وہ پورا ہوا.وہ پہنچتے وعدوں والا خدا ہے جو آج بھی اپنی بستی کے زندہ نشان ظاہر کرتا ہے.دنیا کی اندھی آنکھیں دیکھیں یا نہ دیکھیں اور بہرے کان منیں یا نہ منہیں لیکن یہ امرائل ہے کہ خدا کا دین پھیل کر رہے گا.کمیونزم خواہ کتنی ہی تقات پکڑ جائے مگر وہ میرے ہاتھ سے شکست کھا کر رہے گا.اس لئے نہیں کہ میرے ہاتھ میں کوئی
۲۳۸ طاقت ہے بلکہ اس لئے کہ میں محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کا خادم ہوں.خدا نے جو وعدے کئے وہ کچھ تو پورے ہو چکے اور باقی آئندہ پورے ہوں گے.آئندہ جو کچھ ظاہر ہوگا ہمیں اس کیلئے تیار رہنا چاہیے جن کندھوں پر آئندہ سلسلہ کے کاموں کا بوجھ پڑنے والا ہے اچا ہیے کہ وہ ہمت کے ساتھ اس بوجھ کو اٹھائیں یہانتک کہ محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی بادشاہت پھر دنیا میں قائم ہو جائے ہمیں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالے زندگی کی آخری گھڑی تک مجھے اپنے دین کی خدمت کرنے کی توفیق دے اور آپ لوگوںکو بھی اللہ تعالیٰ خدمت دین کی توفیق دے اور آپ اس وقت تک صبر نہ کریں بیتگ کہ اسلام دوبارہ ساری دنیا پر غالب نہ آجائے.اس کے بعد حضور نے دعا فرمائی اور پھر اس تاریخی بھلسے کے اختتام کا اعلان فرمایا ہے روہ کے پہلے تاریخی میلہ سالانہ کے دیور کے اس پہلے تاریخی جلسہ سالانہ کے تمام انتظامات بھی حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب بی اے بی ٹی ناظر فیات کوائف پر ایک طائرانہ نظر کو کے سپرد تھے اور حضرت صاحبزادہ مرزاغز نیز احمد صاحب ایم اے اور میاں عبدالمنان صاحب عمرایم اسے آپ کے نائب اور موادی محمد شفیع صاحب اشرف واقف زندگی انچارج دفتر کے فرائض بجا لاتے رہے.نظارت سپلائی کے انچارج جناب قاری محمد امین صاحب تھے اور جلسہ کے انتظامات کے متعلق تمام اشیاء کی فراہمی کا انتظام آپ کے سپرد تھا.نظامت کے سٹور کے انچارج عبد الو سید خان صاحب تھے.مہمانوں کے قیام و طعام کا بندوبست ناظم جلسہ کی حیثیت سے حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب بی اے بی ٹی بیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ذمہ تھا.آپ کے نائبین صوفی محمد ابراہیم صاحب، صوفی مقام محمد صاحب ، ماسٹر ابراہیم صاحب بی اے ، ماسٹر ابراہیم صاحب ناصر کتے چودھری حبیب احمد صاحب سیال معاون ناظر ضیافت تھے حضرت شاہ صاحب نے انتہائی بے سرو سامانی اور مشہ کلات کے ہجوم میں اپنے نائبین کے ساتھ عمدہ طور پر اپنی ذمہ داری ادا کی مہمانوں کی خدمت کے لئے تیس کے قریب محکمے اس نظامت کی براہ راست نگرانی میں کام کر رہے تھے مثلاً شعبہ روشنی و شعبه صفائی ، شعبه استقبال شعبه مهمان نوازی جس کے انچارج بالترتیب چودھری عبدالباری صاحب ، چودھری عبدالسلام صاحب انترایم رہے کہ الفضل ۲۱ شہادت ) اپریل مش صفحه ۳ - ۸ i
۲۳۹ چودھری صلاح الدین صاحب بی اسے اور مولانا ابو العطاء صاحب و چوہدری عبد الرحمن صاحب بی اے بی ٹی تھے.کھانا وغیرہ لنگر خانہ کے منتظم صوفی غلام محمد صاحب نائب ناظم جلسہ کی نگرانی میں تیار ہوتا تھا.دن رات چالیس تنور گرم رہے اور ایک ایک وقت میں ساتھ ساتھ دیگیں سالن وغیرہ کی تیار ہوتی رہیں.معزز مہمانوں کی آمد لمحہ بہ لمحہ بڑھ رہی تھی اور کام کرنے والوں کی تعداد کا ہر اندازہ غلط ہوتا رہا.اس لئے کارکنوں کی محدود تعداد پہ ہی کام کا بوجھ پڑ رہا تھا.اس کوشش میں کہ تمام مہمانوں کو کھانا پہنچ بھائے اس محدود عملہ سے زیادہ سے زیادہ کام لینے کی کوشش کی جاتی تھی جس کے نتیجہ میں نان پز اور باورچی بے ہوش ہو ہو جاتے تھے اور دوسرے عملہ کو بھی بعض اوقات ہیں بیس گھنٹے کام کرنا پڑا.حضرت امیر المومنین کی تحریک کے مطابق بہت سے احباب اپنے ہمراہ گندم آٹا دالیں وغیرہ لے کر آئے تھے بعض دوست تو کئی بوریاں گندم کی رائے بچنا نچہ مہمانوں کی خوراک کے لئے گندم کا کافی ذخیرہ ہو گیا تھا اور باوجود مہمانوں کی کثرت کے گندم کی قطعاً قلت محسوس نہ ہوئی.ایک پہاڑی کے دامن میں لنگر قائم کیا گیا تھا.جہاں تمام مہمانوں کے لئے کھانا تیار ہوتا تھا.اس جگہ ۴۵ تنور لگائے گئے تھے چونکہ لنگر خانہ مہمانوں کی قیام گاہ سے ذرا فاصلے پر تھا اس لئے پانچ ٹک قیامگاہوں تک کھانا لانے کے لئے مخصوص کر دیئے گئے تھے.جب کھانا قیام گاہوں تک پہنچتا تو اسے جماعت وارد تقسیم کر دیا جاتا.ہر جماعت کے لئے الگ الگ کارکن مقرر تھے جو کھانا کھلانے کی خدمت سر انجام دیتے.کارکنان کی کمی ، ان کی نا تجربہ کاری نئی جگہ اور نئے حالات کی وجہ سے انتظامات میں وقتوں کا پیدا ہونا تو لازمی تھا لیکن امید سے بڑھ کر جہان آنے کی وجہ سے مشکلات میں اور اضافہ ہو گیا تھا جس کی وجہ سے کھانا وقت پر نہ ملنے یا نا کافی ملنے کی شکایات بھی پیدا ہو جاتی تھیں لیکن احباب کو چونکہ مشکلات کا علم تھا اس لئے وہ نہایت خندہ پیشانی سے یہ تکلیف برداشت کرتے رہے.جہانوں کی رہائش کے لئے اشیشن کے دونوں طرف پچاس نئی اور عارضی کچی بیر کیں تعمیر کی گئی تھیں شعبہ تعمیرات کے انچارج مکرم ملک محمد خورشید صاحب تھے جنہوں نے اپنے نائین چو ہدری عبداللطیف صاحب اور راجہ محمد نواز صاحبہ کی امداد سے نہایت تنگ وقت میں یہ کام انجام دیا مستورات کی بیرکوں کے گردا گرد ایک اونچی دیوار کھینچ دی گئی تھی جس سے پردہ کا پورا پورا اہتمام تھا.خواتین کے لئے وس پر کیس مخصوص کی گئی تھیں.لیکن مورخہ ۱۴ار شہادت را پرین کی رات کو اتنی تعداد میں مستورات آگئیں
۲۴۰ کہ وہ بیگہ ان کے لئے قطعا نا کافی ثابت ہوئی.اس کی دیوار توڑ کہ قریب کی دو بیر کیں بھی مستورات کو دے دی گئیں.ان بیرکوں کے علاوہ احباب ایک معقول تعداد اپنے ساتھ پھولداریوں اور خیموں کی لائے ہوئے تھے جن کے نصب کرنے کے لئے ایک مخصوص جگہ وقف کر دی گئی تھی اور جن سے میدان ربوہ میدانِ عرفات کی یاد دلا رہا تھا.جلسہ میں کسیر وغیرہ کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے نیچے بچھانے کے لئے کھجور کی بنی ہوئی چٹائیوں کا انتظام کیا گیا تھا.دادی غیر ذی زرع ربوہ میں ۱۲-۱۷ ہزار نفوس کے لئے پانی کا مہیا کرنا ایک بڑا مشکل مرحلہ تھا.اس اجتماع میں صرف لنگر خانہ میں پانی کا روزانہ خرج سات ہزار گیلن تھا.بہر حال خدا تعالیٰ کے فضل سے ان تمام مشکلات پر قابو پا لیا گیا.اس سلسلہ میں ربوہ میں ۲۲ نلکے لگوائے گئے اور ٹینکروں کے ذریعہ ربوہ سے باہر ساڑھے سات میل کے فاصلہ سے پانی کے منگوانے کا انتظام کیا گیا.اسی طرح تقریباً ۲۸ ہزار گیلن پانی روزانہ بہتا ہوتا رہا.گورنمنٹ نے چار ٹینکر مع ضروری سٹان کے یہاں بھجوائے.پانی کے سٹاک کے لئے چھوٹی چھوٹی اپنی ٹینکیوں کا انتظام تھا اور وہ مناسب جگہوں پر رکھی ہوئی تھیں.جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے اس شعبہ کے منتظم چودھری عبد الباری صاحب بی.اے نائب ناظر بیت المال تھے جنہوں نے نہایت تندہی سے اس کام کو سر انجام دیا.قادیان میں تو ہزاروں ہزار تربیت یافتہ کارکن میسر آجاتے تھے لیکن یہاں مقامی کارکن قریب نہ ہونے کے برابر تھے.اس لئے بیشتر کارکن خود مہمانوں پر ہی مشتمل تھے.تعلیم الاسلام ہائی سکول چنیوٹ، بنا معه احمدیه ، مدرسہ احمدیہ کے قابل احترام اساتذہ اور جواں ہمت طلباء نے انتظامات جلسہ میں نمایاں کردار ادا کیا.جلسہ مستورات کے انتظامات کے سلسلہ میں خاندان حضرت مسیح موعود کی مستورات قابل رشک حد تک سرگرم عمل رہیں.بہت سی دیگر مہمان خواتین نے بھی ان کا نہایت اخلاص سے ہاتھ بٹایا بخواتین کا انتظام ایسا عمدہ تھا کہ خو دسید نا حضرت مصلح موعود نے اس کی بہت تعریف فرمائی.جلسہ سالانہ کے دو دن پہلے ہی شمع احمدیت کے پروانوں کی آمد شروع ہو گئی تھی اور خدا تعالے کے فضل سے توقع سے زیادہ تعداد جلسہ میں شامل ہوئی.باوجودیکہ فصل کی کٹائی کا موسم تھا پھر بھی دیہاتی جماعتوں کے احباب کثرت سے آئے بجلسہ میں نہ صرف پنجاب ہی کے احباب شامل ہوئے بلکہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے ہر صوبے کے احمدی دوست آئے.اسی طرح پاکستان علاوہ
قادیان ، بہار ، کلکتہ اور حیدر آباد سے بھی دوست تشریف لائے جن میں حضرت سلیٹے عبداللہ الہ دین خاص طور پہ قابل ذکر ہیں.اسی طرح جرمن کے نو مسلم بھائی عبد الشکور کنترے اور ماریشس کے برادرم احمد ید اللہ صاحب بھی شریک جلسہ ہوئے.۱۳ار اپریل کی شام سے وار اپریل کی شام تک ۷۷۳۷۱ مہمانوں کے کھانے کا انتظام کیا گیا جس سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کا یہ فرمان ایک نئی شان کے ساتھ پورا ہوا کہ الفاظات الموائد كان اعلى وصرت اليوم مطعام الاهالى نه یعنی کسی زمانہ میں دسترخوان کا پس خوردہ میری خوراک تھا مگر آج میں بے شمار گھرانوں کو رات دن کھلانے والا ہوں.دھوپ کی شدت کی وجہ سے جلسہ گاہ اور سٹیج پر خیمے لگا دیئے گئے تھے.مردانہ بھلگاہ کی کارروائی ۱۹۸ × ۱۹۸ نٹ کے شامیانے میں ہوئی.مردانہ جلسہ گاہ کے باہر سٹیج کے قریب ایک طرف ٹوائے احمدیت اور دوسری طرف لوائے پاکستان لہرا رہا تھا.لوائے احمدیت کی حفاظت کا کام خدام الاحمدیہ کے ایثار پیشہ نوجوانوں کے سپرد تھا.مردانہ جلسہ گاہ کے قریب بیجا پردوں کے اندر مستورات کی مجلس گاہ تھی.لاوڈ سپیکر کا نہایت عمدہ انتظام تھا اور حضرت المومنین المصلح الموعود کی تقاریر بیک وقت دونوں جلسہ گاہوں میں سنی بھائی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے لنگر خانہ سے طعام کے انتظام کے علاوہ عارضی طور پر بازار بھی لگایا گیا جس میں موسم کے لحاظ سے مہمانوں کی ضروریات مہیا کرنے کا انتظام رہا لیکن جب متوقع مقدار سے بہت بڑھ کر مسیح موعود کے مہمان نئے مرکز میں پہنچ گئے تو جس طرح لنگر خانہ کا انتظام عالیہ رہ گیا اسی طرح بازار میں بھی اشیائے ضرورت ختم ہو جاتی یہ ہیں.حکومت کی طرف سے جوانوں کی روانگی کے لئے ایک سپیشل ٹرین کا انتظام بھی کیا گیا تھا، گو وہ اصل وقت سے کئی گھنٹے تاخیر سے گئی.مہمانوں کی ایک معقول تعداد لاریوں کے ذریعہ بھی آئی اور گئی.ریلوے اسٹیشن ربوہ پر سٹاف کی کمی کی وجہ سے پورے ٹکٹ نہیں فروخت کر سکے.اسی طرح یہ شکایت بھی رہی کہ بعض اسٹیشنوں سے ربوہ کا ٹکٹ نہیں دیا گیا.سے آئینہ کمالات اسلام صفحه ۵۶۲ (طبع اول)
۲۴۲ جلسے کے ایام کے لئے گاڑیوں کے ساتھ کافی زائد ہوگیاں لگا دی گئی تھیں.مہمانوں کی طبی امداد کے لئے حسب سابق نور ہسپتال ہی یہ خدمت بجا لاتا رہا جس کے انچارج حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب تھے.گورنمنٹ نے بھی سول ہسپتال چنیوٹ کے انچارج کو ہدایت کی تھی کہ وہ بھی جلسہ کے موقع پر اپنے عملہ کو بھجوائے.الحمد للہ.اس قدر کثیر مجمع میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر طرح خیریت رہی.جلسہ میں حفاظت کا کام مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سپرد تھا.خود صدر محترم حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نفس نفیس اس کی نگرانی فرماتے رہے.آپ کے نائب مرزا بشیر احمد بیگ صاحیتے.یہ جلسہ چونکہ انتہائی بے سروسامانی کی حالت میں ہو رہا تھا.اس کے انتظام کے لئے خود حضر امیرالمومنین خلیفہ اسیح الثانی نے غیر معمولی طور پر توجہ فرمائی اور باوجود ناسازئی طبع کے ان ایام میں از حد مصروف رہے.بیرونی جماعتوں سے ملاقاتیں کرنے اور نہایت پر معارف اور مفصل تقاریر ارشاد فرمانے کے علاوہ حضور نے انتظامات جلسہ کے ہر شعیہ اور ہر پہلو کی ذاتی نگرانی فرمائی چنانچہ حضور لنگر خانہ میں تیاری تقسیم طعام کی مشکلات کو حل کرنے اور دیگر ضروری اور فوری ہدایات کے لئے بعض اوقات خود تشریف لاتے رہے.چنانچہ ایک موقعہ پر رات کے ایک بجے اور ایک دن پا ۲ بجے دو پر حضور لنگر خانہ میں تشریف لائے اور اپنی مفید اور ضروری ہدایات سے مشکل کشائی فرمائی.اسی طرح ار اپریل کو شام کی گاڑی پر حضور خود تشریف لے گئے اور چونکہ قلیبوں اور مزدوروں کا کوئی انتظام نہیں تھا اور ڈر تھا کہ ہنگامہ میں کوئی سامان ضائع نہ ہو جائے حضور مسلسل دو گھنٹے تک سٹیشن پر موجود رہے اور پوری حفاظت کے ساتھ جب تک ہر ایک شخص کا سامان اس کی فرودگاہ تک والنٹیروں کے ذریعہ نہیں پہنچ گیا ، حضور وہیں رہے اور اس طرح سب سے پہلے دن عملی طور پر کارکنوں کی تربیت کر کے استقبال کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی.ایام جلسہ میں صدر انجمن احمدیہ کے مختلف محکمہ بھات میں اشتراک عمل پیدا کرنے کا کام حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے کے سپرد تھا.اور اس کام میں آپ بعض اوقات d رات کے دو بجے تک مصروف رہے.کو العف جلسہ کا ایمان افروز تذکرہ کرنے کے بعد بالآخر یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ حضرت مصلح موعود کی منظوری سے صدر انجمین احمدیہ کی طرف سے اس تاریخی جلسہ کی ایک متحرک فسلم کا بھی انتظام الفضل ۲۳ شهادت / اپریل و ۲۱ احسان ایون :
۲۴۳ کیا گیا.مگر افسوس جس فرم نے سلسلہ احمدیہ سے جلسہ کی کارروائی محفوظ کرنے کے لئے منہ مانگے دام وصول کئے وہ اپنے عہد سے امر ہوگئی اورآئند نسلیں خلافت ثانیہ کے عہد مبارک کی ایک قیمتی یاد گار سے ہمیشہ کے لئے محروم رہ گئی.جلسہ کی حیرت انگیز کامیابی پر اس تفصیل سے ظاہر ہے کہ انتہائی مخالف حالات اور پر خطر ماحول کے باو بودید جلسه حیرت انگیز طور پر کامیاب رہا.حضرت مصلح موعود کا مفصل خطبہ جمعہ حضرت مصلح موعود نے خدا تعالیٰ کے بے شمار فضلوں، حمتوں اور برکتوں کے اس تازہ نشان پر اپنے خطبہ جمعہ فرموده ۲۲ شہادت / اپریل پیش میں مفصل روشنی ڈالی.چنانچہ فرمایا :- اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے رحم سے جماعت احمدیہ کا سالانہ جلسہ اس سال ہم اس جگہ پہ کرنے میں کامیاب ہو گئے جس کو آئندہ جماعت احمدیہ کا مرکز بنانے کی تجویز ہے.بظاہر حالات ہمیں اس جگہ پر اس سال یا بیان نہ کرنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی جیسا کہ میں نے اپنے ایک خطبہ میں بیان کیا تھا.جماعت کے دوستوں نے مجھے کثرت سے لکھنا شروع کر دیا فضا کہ اس سال ربوہ میں بھلہ سال نہ کر نا نا مناسب ہے.کیونکہ شدت کی گرمی کی وجہ سے لوگ وہاں ٹھہر نہیں سکیں گے اور پھر یہ فصلوں کے دن ہیں اور کٹائیوں کی وجہ سے لوگ کثرت سے اس جلسہ پر نہیں آسکیں گے.پھر نئی جگہ ہے ، وہاں رہائش کا کوئی بندوبست نہیں، پانی وغیرہ کی وقت ہے.یہ باتیں مجھے بھی نظر آتی تھیں.مگر میں جب سے قادیان سے آیا ہوں.میں یہ جانتا تھا کہ پانچ سالہ پیشگوئی کے مطابق ۱۹۴۹ء کا جلسہ سالانہ ہم کسی ایسی جگہ کریں گے جس کو ہم اپنی کہہ سکیں گے بچنا نچہ اس دفعہ جلسہ سالانہ کے متعلق یہ فیصلہ کیا گیا کہ کرسمس کی تعطیلات کی بجائے ایسٹر ہو لیڈیز میں کیا جائے لیکن جب جلسہ سالانہ کے ایسٹر ہولینڈیڈ میں کرنے کی تجویز ہو گئی اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس سال جلسہ سالانہ دسمبر کی بجائے اپریل میں منعقد ہو تو لوگوں نے یہ وہم کرنا شروع کر دیا کہ وہاں گرمی ہوگی ، کھانے پینے اور رہائش کی وقت ہو گی.پہلے خیال تھا کہ الیسٹر کی تعطیلات ماری میں ہوں گی اور مارچ کا موسم اچھا ہوتا ہے زیادہ گرم نہیں ہوتا.لیکن جب ایسٹر کی تعطیلاتہ اہم بیان میں نکلیں یایوں کہو کہ جب علم ہوا کہ ایسٹر کی تعطیلات اپریل میں ہوں گی تو لوگوں کے دلوں میں شبہ پیدا ہونا شروع ا الفضل ۱۶ سراپریل ۱۹۴۲ء
ہوا کہ اس دفعہ وہاں جلسہ کرنا ناممکن ہے لیکن جو امید ہمارے ذہن میں تھی اس کے خلاف لوگ بہت زیادہ تعداد میں آئے.ہمارا خیال تھا کہ اس دفعہ جلسہ سالانہ پر صرف دس ہزار آدمی آ سکیں گے کیونکہ ایک تو موسم اچھا نہیں تھا، گرمی زیادہ تھی.پھر یہ فصلوں کا وقت تھا اور کٹائیاں ہو رہی تھیں اور زمیندار کٹائی چھوڑ کر جلسہ پر نہیں آسکتے تھے.پھر بعض لوگ اس لئے بھی نہ آ سکے کہ نئی جگہ ہونے کی وجہ سے وہاں رہائش کا مناسب انتظام نہ تھا.لیکن تقسیم پرچی سے جو اندازہ لگایا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تین ہزار پانچ سو کے قریب وہ عورتیں تھیں جن کے کھانے کا انتظام لجنہ اماءاللہ کے ماتحت کیا جاتا تھا اور دس ہزار چھ سو کے قریب وہ پرچی تھی جس کا انتظام مردوں کے ذریعہ کیا بھاتا تھا.اس طرح یہ تعداد پندرہ ہزار کے قریب ہو جاتی ہے.لیکن ڈیڑھ ہزار کے قریب وہ لوگ تھے جو کھانے کی پرچی میں شمار نہیں ہو سکتے تھے کیونکہ وہ جلسہ سننے کے لئے تو آجاتے تھے مگر کھانے کے وقت واپس پہلے جاتے تھے مثلاً احمد نگر میں چھ سات سو آدمی ٹھہرے ہوئے تھے.وہ جلسہ سننے کے.انہ آتے تھے اور پھر چلے جاتے تھے.کھانا ربوہ میں نہیں کھاتے تھے.اسی طرح بعض لوگ چنیوٹ میں بھی ٹھہرے ہوئے تھے اس کے علاوہ چنیوٹ میں بھی کافی احمدی بستے ہیں.کچھ تو ہمارات کے بعد وہاں آکر بس گئے ہیں اور کچھ وہاں کے باشندے ہیں.بہر حال سات آٹھ سو کے قریب وہ لوگ تھے جو چنیوٹ میں ٹھہرے ہوئے تھے اور جلسہ سننے کے لئے روزانہ ربوہ آجاتے تھے اور چلے بھاتے تھے، وہاں کھانا نہیں کھاتے رھتے.احمدنگر اور چنیوٹ کے علاوہ بعض دوسری بیگہوں سے بھی لوگ صروف فیلسہ کے وقت آتے تھے جتنی کہ ایک دو سو آدمی لائل پور سے بھی ایسا آتا تھا.پھر کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے کھانے کا اپنا انتظام کہ ہوا تھا.مثلا سو کے قریب ہمارے ہی خاندان کے افراد تھے جن کے کھانے کا اپنا انتظام تھا.اس طرح پندرہ سو سے دو ہزار تک ان لوگوں کی تعداد ہو جاتی تھی جو انگر کے انتظام کے ماتحت کھانا نہیں کھاتے تھے بلکہ ان کا اپنا انتظام تھا.اس تعداد کو ملا کر سترہ ہزار کے قریب ایسے لوگ تھے ہو اس سال جلسہ میں شامل ہوئے اور ان مخالف حالات کے باوجود شامل ہوئے کہ جن کے ہوتے ہوئے بعض کہتے تھے کہ اس سال وہاں جلسہ سالانہ نہیں ہو سکے گا.بلکہ بعض مخالف ایسے تھے جنہوں نے ان مخالف حالات کی وجہ سے یہ پیشگوئیاں کرنی شروع کر دی تھیں کہ یہ جلسہ سالانہ اس سال نہیں ہو سکے گا مگر خدا تعالیٰ 1
۲۴۵ نے اپنا خاص فضل نازل کیا اور جلسہ ہوا.اور صرف ہوا ہی نہیں بلکہ اس کامیابی کے ساتھ ہوا کہ لوگ حیران رہ گئے.چنانچہ اتنے لوگوں کا وہاں آجانا تو حسن ظن کے ماتھے.بھی ہو سکتا ہے لیکن جو تکلیفیں اور مشکلات وہاں تھیں ان کے باوجود لوگوں کا دہاں رہنا اور ان کو خوشی سے برداشت کرنا یہ ایسی چیز تھی جو تائید الہی کے بغیر نہیں ہوسکتی تھی.مثلاً پہلے ہی دن سوا دو بجے رات تک بہت سے لوگ ایسے تھے جنہیں کھانا نہیں ملا تھا.مجھے ساڑھے بارہ بجے کے بعد یہ آواز میں آنی شروع ہوگئیں کہ ٹھہرو ابھی کھانا دیتے ہیں، ٹھہرو ابھی کھانا دیتے ہیں یہیں نے ایک آدمی لنگر خانے بھجوایا اور اس طرح مجھے علوم ہوا کہ روٹیاں بھی پہنچی ہی نہیں.کچھ روٹیاں پہنچی ہیں لیکن وہ بہت تھوڑے لوگوں کو مل سکی ہیں لیکن خود وہاں گیا اور نگر خانہ کے کارکنوں سے پوچھا کہ روٹی کا بھیم انک کیوں انتظام نہیں ہو سکا.اس پر مجھے بتایا گیا کہ ہماری تمام کوششیں بالکل نا کام ہو چکی ہیں.اس میں کچھ منتظمین کا بھی تصور تھا کیونکہ مجھے بتایا گیا تھا کہ اس دفعہ ساٹھ تندور لگائے جائینگے لیکن بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ صرف چالیس تندور لگائے گئے ہیں بڑال چونکہ عام طور پر یہ خیال تھا کہ طلب پر بہت کم لوگ آئیں گے اس لئے تندور کم لگائے گئے.باورچی بھی کم تھے.نتیجہ یہ ہو کہ کام کا بوجھ زیادہ پڑا گرمی کا موسم تھا جو شیڈ بنائے گئے تھے وہ کم تھے.پھر ایک طرف دیوار کھینچی ہوئی تھی جس کی وجہ سے ہوا نہیں آتی تھی نتیجہ یہ ہوا کہ ؟ با دری بیہوش ہوگئے ان کو دیکھ کر باقی باورچیوں نے کام چھوڑ دیا اور کہہ دیا کہ ہم اپنی جان کو مصیبت میں کیوں ڈالیں.اس وجہ سے ۹-۱۰ بجے تک روٹی کا کوئی انتظام نہ ہو سکا بلکہ اس وقت تک ان کو کام کرنے کی طرف کوئی رغبت ہی نہ تھی تھوڑے سے چاول ابالے گئے اور وہ صرف بچوں کو دینے گئے پھر جوں توں کر کے روٹی کا انتظام کیا گیا اور صبح کے پانچ بجے تک روٹی تقسیم ہوتی رہی اور وہ بھی بہت تھوڑی تھوڑی بھالانکہ بعض لوگ ایسے بھی تھے کہ جنہیں دو پہر کو بھی کھانا نہیں ملا تھا اور وہ رات بھی انہوں نے بغیر کھائے کے گزار دی مگر جاے اس کے کہ ان کی طبائع میں شکوہ پیدا ہوتا انہوں نے اس تکلیف کو بخوشی برداشت کیا، پھر دوسرا دن بھی اسی طرح گذرا.دوسرے دن بھی کھانا تیار کروانے کی بظاہر کوئی صورت نہیں بنتی.آستر میں نے افسروں کو سرزنش کی اور انہیں مختلف تدابیر بتائیں، اپنے بیٹوں کو اس کام پر لگایا اور بار آخر بعض ایسی تدابیریاں لی گئیں جن کے ذریعہ اگر پیٹ بھر کر نہیں تو کچھ نہ کچھ کھانا ضرور مل گیا مثلاً ہمارے ملک میں ایک آدمی کی عام غذا تین روٹی ہے لیکن میں نے یہ فیصلہ کیا کہ بجائے تین تین روٹی کے دو دو روٹیاں دی تھیں پھر یہ تدبیر بھی اختیار کی گئی کہ نا نہائیوں سے ٹھیکہ کر لیا گیا کہ اگر وہ اتنا کھانا تیار کر دیں تو انہیں مزدوری
-- کے علاوہ انعام بھی دیا جائے گا.اس طرح ان غریب آدمیوں نے لالچ کی وجہ سے کام کیا اور ہمارے جلد کے دن گذر گئے بغرض ان تمام تکلیفوں کے باوجود ہمارے لوگوں کا بشاشت کے ساتھ وہاں بیٹھے رہنا بتاتا ہے کہ یہ حض خدا تعالیٰ کے فضل سے تھا.پانی کے جو ہم نے نلکے لگوائے تھے وہ تمام نا کام گئے.البتہ پانی کے لئے جو سرکاری انتظام کیا گیا تھا اس سے بہت کچھ فائدہ ہوا لیکن پانی استعمال کرنے کی ہمارے لوگوں کو یقینی عادت ہوتی ہے اتنا پانی پر بھی مہیا نہ ہوسکا.رہائش کی یہ عادت تھی کہ جبن بارکوں میں پا ہم ہزار عورتوں کو لکھا گیا تھا ان کے متعلق دیکھنے والا یہ سلیم ہی نہیں کرتا تھا کہ ان پر کوں میں اتنی عورتیں رہ سکتی ہیں.جین بیرکوں میں عورتوں کو ٹھہرایا گیا تھا وہ کل سولہ تھیں.ان میں اگر لوگوں کو پاس پاس بھی سلا دیا جائے تو صرفت دو ہزار آدمی آسکتا ہے لیکن جلسہ پر جو عورتیں وہاں ٹھہری تھیں وہ ساڑھے چار ہزار کے قریب تھیں یہ اس طرح ہوا کہ انہوں نے سامان اندر رکھ دیا اور آپ باہرسو کر گزارہ کر لیا مردوں کا حال اس سے بھی برا تھا تمام مرد پارکوں کے اندر نہیں سو سکتے تھے اس لئے مردوں کو عورتوں سے زیادہ تکلیف ہوئی.کچھ گنجائش اس طرح بھی نکل آئی کہ میری تحریک کے ماتحت بعض اپنے ساتھ بانس ، کیلے اور رستلی لے آئے اور خود خیمے لگا کر انہوں نے جلسہ کے دن گزارے مجلس خدام الاحمدیہ کی طرف سے بھی یہ تحریک کر دی گئی تھی چنانچہ میں نے جب جلد کے انتظامات دیکھنے کے لئے چکر لگایا تو بہت سے خیمے لگے ہوئے تھے میرا خیال ہے کہ وہ سو ڈیڑھ سو کے قریب ہوں گے پھر کچھ لوگ مینیوٹ ٹھہر گئے اور کچھ لوگ ہو کر ٹھہر گئے اور اس طرت گذارہ ہو گیا غرض الله تعالیٰ کے فضل سے باوجود مخالف حالات اور مختلف تکالیف اور مشکلات کے خدا تعالے کی وہ خبر جس کو میں پہلے تعبیری طور پر سمجھتا تھا عملی طور پر بھی ثابت ہوئی اور وہی جو خیال کرتے تھے کہ اس سال جلسہ سالانہ نہیں ہو سکیگا انہیں بھی اقرار کرنا پڑا کہ اس جگہ رہائش کرنے کی وجہ سے لوگوں کی صحت پر بڑا اثر نہیں پڑا بلکہ اچھا ہی پڑا ہے.آندھیاں سارا دن چلتی رہتی تھیں اور گرد سارا دن آنکھوں میں پڑتی تھی لیکن لاہور میں میرا یہ حال تھا کہ مجھے آنکھوں میں اتنی تکلیف تھی کہ مجھے کئی بار دوائی لگوانی پڑتی تھی.درد کی وجہ سے مجھے شبہ ہو گیا تھا کہ کہیں کوئی بیماری ہی نہ ہو.دن میں چار پا کتنی دفعہ مجھے لوشن ڈلوانا پڑتا تھا تب جاکر کہیں میری حالت قابل برداشت ہوتی تھی لیکن ربوہ میں تو دن کے قیام ہیں مجھے صرف دو دفعہ لوشن ڈلوانا پڑا.اور پہلے سے میری آنکھیں اچھی معلوم ہوتی تھیں حالانکہ سارا دن مٹی آنکھوں میں پڑتی رہتی تھی.اسی طرح وہاں کے پانی کے متعلق ڈاکٹری رپورٹ یہ تھی کہ وہ زہریلا ہے اور انسان کے پینے کے ناقابل ہے لیکن ہم نے دیکھا کہ بجائے اس کے کہ وہ پانی ہم پر میرا اثر ڈالے اچھا اثر ڈالتا رہا.وہ
۲۴۷ بدمزہ ضرور تھا.ایک دن ایسا ہوا کہ میں نے مقابلہ میں پانی پی لیا یعنی دوسرا اور پانی میں نے پہلے پی لیا اور پھر وہاں سے نلکوں کا پانی پی لیا نتیجہیہ ہوا کہ قریباً سوا گھنٹہ تک منہ کا ذائقہ خراب رہا.لیکن باوجود اس کے کہ ڈاکٹری رپورٹ اس پانی کے متعلق یہ تھی کہ وہ انسان کے پینے کے قابل نہیں اس پانی نے بجائے تکلیف پہنچانے کے ہمیں فائدہ پہنچایا جب میں لاہور سے گیا میرے معدہ میں سخت تکلیف تھی اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے میری انتڑیوں پر فالج گر رہا ہے لیکن وہاں میری طبیعت اچھی ہوگئی.اجابت بھی اچھی ہوتی رہی.صوفہ آخری دن اسہال آنے شروع ہو گئے اور ملین کے قریب اسہال آئے لیکن باقی دنوں میں میری طبیعت اچھی رہی.میری بیوی ام ناصر نے بتایا کہ یہاں لاہور میں میں ایک دفعہ کھانا کھایا کرتی تھی لیکن ربوہ میں دونوں وقت کھانا کھاتی رہی.آج لاہور آکر پھر ایک وفعہ کھانا کھا رہی ہوں.اسی طرح کئی اور دوستوں نے بتایا کہ ربوہ کے پانی نے ان کی صحتوں پر اچھا اثر ڈالا ہے.اور با وجود گرد و غبار اڑنے کے اُن کی آنکھوں کو آرام آگیا.میں نے دیکھا ہے کہ یہاں واپس آکر میری آنکھوں میں پھر تکلیف شروع ہوگئی.یہاں آکر میں دو تین دفعہ دوائی ڈلوا چکا ہوں بفرض ضد اتعالیٰ نے محض اپنے فضل سے ایسے سامان کر دیئے کہ بجائے اس کے کہ اچھا کھانا نہ ملنے کی وجہ سے بہاری صحت پر کوئی برا اثر پڑتا ہماری صحت پر اچھا اثر پڑا.بجائے اس کے کہ وہاں پانی اچھا نہ ملنے کی وجہ سے ہماری محنتوں پر برا اثر پڑتا ربوہ کے پانی نے ہماری صحتوں پر اچھا اثر ڈالا.بجائے اس کے کہ گرد و غبار اُڑنے کی وجہ سے ہماری آنکھیں خواب ہوتیں ہماری آنکھیں پہلے سے بھی اچھی ہو گئیں.وہاں کے قیام میں آنکھوں میں اتنی گرد پڑی کہ اگر سال بھر کی گرد کو جمع کیا جائے تو اتنی نہ ہو گی لیکن اس گرد و غبار نے بہاری آنکھوں کو اور بھی منور کر دیا.اسی طرح روٹیوں اور سالن کے بہیا کرنے میں بہت سی مشکلات تھیں لیکن وہی روٹیاں جو کچی ہوتی تھیں بجائے اس کے کہ ہمارے معدوں کو خراب کرتیں ان کے کھانے سے ہمارے معدوں میں اور زیادہ طاقت محسوس ہونے لگ گئی.پھر علاقہ نیا تھا.اس وجہ سے بھی بعض دقتوں کا احتمال تھا مگر اس میں بھی خدا تعالیٰ کا خاص فضل ہوا.اور وہاں تبلیغ کثرت سے ہوئی.قادیان کے جلسوں پر ضلع جھنگ کے صرف پھالیں پینتالیس آدمی آیا کرتے تھے لیکن اس جلسہ پر سب سے زیادہ آنے والے جھنگ کے لوگ تھے.لجنہ اماء اللہ نے جو عورتوں کی تعداد کے متعلق ضلعوار رپورٹ دی ، اس کے مطابق جلسہ پر آنے والی ایک ہزار پندرہ عورتیں ایسی تھیں جو ضلع جھنگ سے آئی تھیں چونکہ ہم نئے نئے وہاں گئے تھے ارد گرد کے لوگوں نے ہمارے متعلق باتیں سنیں تو وہ بھلسہ پر آگئے.اس طرح
۲۴۸ تبلیغ کے لئے ایک اور راستہ نکل آیا.میرے ایک عزیز لالیاں ٹھہرے ہوئے تھے.ربوہ میں چونکہ رہائش کا خاص انتظام نہیں تھا اس لئے وہ لالیاں ٹھہر گئے اور ڈاک بنگلہ ریزرو کر والیا.انہوں نے مجھے بتایا کہ جب وہ سٹیشن پر رخصت ہونے لگے تو ایک پٹھان شور مچا رہا تھا.وہ پٹھان قادیان نہیں آیا تھا لیکن ربوہ کا جلسہ اس نے دیکھا تھا چونکہ یہ لوگ اسلامی ممالک کے قریب رہتے ہیں اس لئے اسلامی باتوں کا ان کے دلوں پر اچھا اثر پڑتا ہے.اس عزیزہ نے بتایا کہ وہ پٹھان شور مچارہا تھا کہ ایسا جلسہ ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا اور نہ ایسی تقریر ہم نے پہلے سنی ہے.اس کے پاس کوئی مولوی طرز کا ایک آدمی کھڑا تھا.اس نے کہا یہ لوگ تو کا فر ہیں ان کا جلسہ کیا اور ان کی تقریریں کیسی.اس نے کہا وہ کا فرنہیں ہو سکتا.وہ تو ستو بکرا روز کھلاتا ہے وہ کافر کیسے ہو سکتا ہے.یہ اسلامی تہذیب کا اثر تھا جو اس پٹھان کی طبیعت پر ہوا پٹھان ایک مہمان نواز قوم ہے اس نے جب جلسہ پر مہمان نوازی کا انتظام دیکھا تو اس کی طبیعت پر بہت اچھا اثر ہوا.اسی طرح پونچھ کے علاقہ کی ایک عورت میری ایک بیوی کے پاس آئی پہاڑی علاقہ کے لوگ عام طور پر مہمان نواز ہوتے ہیں لیکن وہ ایسے علاقہ کی تھی جو مہمان نواز نہیں تھا.وہ عورت میری ایک بیوی کے پاس آئی.ان سے کہا کہ ہمارے ہاں تو مہمان آئے تو چار پائی الٹ دیتے ہیں اور جہان کو کھانا نہیں کھلاتے.آپچھے ساروں کو کھانا دیتے ہیں.بہرحال نئی جگہ اور نیا علاقہ ہونے کی وجہ سے کئی بیٹے لوگو کی ہماری باتیں سننے کا موقعہ ملا ئیں لاہور والوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں اگر چہ یہ بات میری عقل میں نہیں آتی کہ لاہو اس دفعہ سیکنڈ رہا ہے.لجنہ اماءاللہ کی طرف سے جو عورتوں کی تعداد مجھے دی گئی ہے اس کے مطابق ۹۷۵ عورتیں لاہور کی تھیں.یہ بات میں نہیں سمجھ سکا کہ اتنی عورتیں کہاں سے آئیں.دو اڑھائی سو تک تو بات سمجھ میں آجاتی ہے اتنی عورتیں تو قادیان کی مہاجر عورتیں ہوسکتی ہیں لیکن پھر بھی ساڑھے چھ سو کی تعداد باقی رہ جاتی ہے.اور اگر ہ ، 4 عورتیں لاہور کی تھیں تو جلسہ میں مرد بھی شامل ہوئے تھے.اگر ان کی حاضر کی بھی یہی نسبت تھی تو پھر لاہور کا ضلع حاضری کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر آجاتا ہے.سرگودھا، لائلپور اور سیالکوٹ کا ضلع اپنی احمدی آبادی کے لحاظ سے بہت کم شامل ہوئے.ان اضلاع سے آنے والے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہونی چاہیئے تھی.آبادی کے لحاظ سے ان ضلعوں سے آنے والے بہت کم لوگ تھے متناع سرگودھا سے آنے والوں کی تعداد باقی دو اضلاع سے نسبت زیادہ تھی اور لائلپور اور سیالکوٹ کی تعداد بہت پیچھے تھی.بہر حال اللہ تعالے نے ہمارے تعلیہ کو نہایت کامیابی سے گزارہ ہے " الفضل ظهور را گست و بیش صفحه ۴۰۲ A ×1979
۲۴۹ روانگی فصل دوم حضرت مصلح موعود کا سفر سندھ کوئٹہ سال ہت ۳۲ (۱۹۴۹ء) کی دوسری شمشی ہی کا قابل ذکر اور اہم واقعہ سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی امیر الم منين المصلح الموعود کا سفر سندھ و کوئٹہ ہے.حضور الار ماہ کبریت / مئی کو لاہور سے سندیت کے لئے مع اہل بیت و خدام روانہ ہوئے اور ہر ماہ کے بعد اور تبول تمبر کو کوٹ سے رواد هم کره ، تبوک ریتمبر کو داپ ہم لاہور تشر یفید لے آئے لیکے اس سفر میں پچاس نفوس پر مشتمل قافلہ حضور کے تھر کاب تھا جو روہڑی سے دو حصوں میں ہمرکاب دوحہ تقسیم ہو گیا.حضرت امیر المومنین اور اہل بیت میں سے حضرت سیدہ ام مین حرم ثالث اور حضرت سیدہ بشری بیگم صاحبہ حرم رابع اور حضور کے بعض ما جزاره اور نه برا و بیان اور بین خدام مثلاً حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب ابھی مشیر اور چودھری سلطان احمد صاحب سپرنٹنڈنٹ اور پینٹ کی اور شیخ نور الحمن صاحب پر نٹنڈنٹے ایم این سنڈیکیٹ اپنے ضرور قار یکارڈ کے ساتھ سندھ تشریف لے گئے.اور حضرت ام المومنین حضرت سیده ام ناصر حرم اول حضرت سیده ام در سیم حرم ثانی رسما به اولی امته ال زرین صاحبہ اور میاں محمد دیدن اسب پیرا تو یہ سیکرٹری اور مونوکی محمد تقویب نه، حب طاهر اینجار به شعبه نزد در نویسی کو ٹر کی طرف روانہ ہوئے.حضرت امیر المومنين مع اہل بیت ۱۲۲ هجرت منی کو بوقت چند مجھے صبح حیدر آباد میر طور خاص | پہنچے پھر بذریعہ کار سوادی ہے مہر دور پیامی میں رونق افروز ہو نے میاں را داریم احمد صاحب اور ایسٹ کے دوسرے مخلص کارکنوں نے حضور کا استقبال کیا ہے حضور کا یہ مبارک بستر خرید زیادہ تر انتظامی نوعیت کا تھا اس لئے حضور یہاں پہنچتے ہی مختلف اسٹیٹ کے کارکنوں کے ذریعہ سور قال کا جائزہ لینے اور ضروری ہدایات دینے میں دن رات سر گرم عمل ہو گئے مله الفضل اور بحجرت ملی ۱۳۲۸ ش ۱۹۴۱ اوست که تفضل را توی رتبه ۱۳۲۸ میشی ۱۹۳۹ د صدا و ج ۲ الفضل ۲ احسان جون ۱ ۲۲ است - ۱۹۴۹ء ص ۲ - تے
۲۵۰ شاہ برسٹیٹ ۴ - احسان جوان کو حضوراقدس مع اہلبیت کنری کری سے محمود آباد تشریف لے گئے میاں عبدالرحیم احمد ابادی دی بار تاقت و صاحب بھی ہمراہ تھے.وی سندھ جننگ اینڈ پریسینگ فیکٹری کی طرف سے دوپہر کا کھانا پیش کیا گیا کھانے کے بعد حضور پیر تک مجلس میں رونق افروز ہو کر اجاب سے گفتگو فرماتے رہے ظہر و عصر کی نماز یں حضور نے فیکٹری کی مسجد میں پڑھا ئیں پھر یہ قافلہ شام کے وقت کری سے روانہ ہو کر سوا سات بجے شام محمود آباد اسٹیٹ میں وارد ہوایست یہ راؤ د مظفر شاہ صاحب مینو اسٹیٹ اور ماسٹر فضل کریم صاحب اکا ؤنٹنٹ مع عملہ اسٹیٹ اور دیگیا جناب اپنے مقدس آقا کا خیر مقدم کرنے کے لئے موجود تھے یہ حضور نے دو روز تک محمود آباد اسٹیٹ کا معائنہ فرمایا.ر احسان کر جون کو حضور طا ہر آباد اور خلیل آباد کی فصل کا تاریخی امین پر ورود معائنہ کرنے کے لئے تشریف لے گئے لی ہر آباد کو بسانے کی | کو یہ زیر عمل تھی اس لئے حضور نے مع ندام اجتماعی دعا فرمائی.پھر احسان / جوان کو تا ۲ بجے بعد دوپہر حضور نے بذر لیہ گانے والی ایشین پر قدم رکھا جہاں چوہدری صلاح الدین صاحب جنرل مینجر حمد آباد اشیت نعام اللہ صاحب عطا، ایم ایس سی انار با تجرباتی فارم سید مسعو د مبارک صاحب اور جمهوری نظام احمد صاحب بسرا ڈپٹی مسنجر اپنے دیگر عمار سمیت اهلا وسهلا و مرحبا کہنے کے لئے آئے ہوئے تھے کیو علقہ طقه اور گرین صادق آباد کی بنیاد پر احسان ارمان کی صبح کو منور نے حلقہ نورنگا اور حلقہ حضور ار برگ و مرزن کی دیکھ بھال کیلئے برات محمد آباد کی شادی ملاحظہ فرمائیں.حلقہ نور اگر میں ایک نی بستی کی بنیاد رکھی جارہی تھی جسور وہاں بھی تشریق ہا ئے گئے اور خدام سمیت دعا فرمائی اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے نام پر اس بستی کا نام صادق آباد تجویز فرمایا ۹ جوان کی مبینہ تو حضرت اتریس نے محمد آباد سٹیٹ کے گھوڑوں اور ان کے سامان کا جائزہ لیا اور جو بہت صلاح الدین صاحب جزا مینجر کو بابت فرمائی کہ ہفتہ میں کم ازکم ایک یا کھو ڈولی اور زہنیوں وغیرہ کا معائنہ کیا جانا چاہئیے یہ بھی دیکھا جائے کہ آیا گھوڑوں کی صحیح دیکھ بھال تا ہے یا نہیں آیاز نیوں کا قابل مرمت سامان در مستند کرایا جاتا ہے.چھڑا کہ پالش کیا جاتا ہے یا نہیں یہ یہ به لم الفضل ۱ احسان جون ۳۲۰ اتش ۱۹۴۹ء له الفضل انسان ا حمدان ۱۳۲۸ ش / ۲۶۱۹۴۹ الفضل ماراحسان جون ۱۳۲۸ / ۶۱۹۴۹ ص۲ دانگی
۲۵۱ معائنہ عہد سلیمان کا ایک ورق تھا جو دہرایا جارہا تھا.تغیر عظیم میدا کرنے کے لئے دار احسان جوان کو حضور نے نا سازی طبع کے باوجود محمد آباد میں نے ان کے اور لینے کی تلقین سٹیٹ میں نماز جمعہ خود پڑھائی اور نہا یستہ روح پر در خطبه ارشاد فرمایا جس میں سندھ کی جما عتوں کو اپنے اندیر توربینی اور تبلیغی لحاظ سے تغیر عظیم پیدا کرنے کی طرف توجہ دلائی نیز کمزور تحریک فرمائی کہ سندھی پڑھنا لکھنا اور بولنا سیکھو تا پنجابی اور سندھی کا بعد دور ہو جائے اس بارہ میں یہان تک تاکید کی کہ اگلے سال اگر یں زندہ رہا تو ہی یہاں کے کارکنوں کا امتحان لوں گا کہ انہوں نے کہاں تک میری آواز پر لبیک کہا ہے.ار ماہ احسان جون کو اکاؤنٹنٹ صاحب احمد آباد نے بھی سالانہ احمد آباد اسٹیٹ سے کنجیجی بجٹ پیش کیا.حضور نے دو نئی بستیاں آباد کرنے اور اُن کے نام میاری آباد اور سی آباد رکھنے کا ارشاد فرمایا.مقامی جماعت کی طرف سے دعوت طعام دی گئی.اس موقعہ پہیہ حضور نے ایک مختصر تقریر میں قرب الہی کے حصول اور اپنے اندر تقیہ کی پیدا کرنے کی نصیحت فرمائی.بعد ازاں حضور گھوڑے پر سوار ہو کر نیا سر روڈ ریلوے سٹیشن پر تشریف لے گئے اور بذریعہ ٹرین مع قافلہ تین بجے بعد دوپیر کنجیبی رونق افروز ہور ہے.صاحبزادہ مرزا اور احمد صاحب اور چودھری فضل الرحمن صاحب مینجر ناصر را ابد نہ ہوئے.استقبال کے لئے موجود تھے جضور مع اہل بیت بذریعہ کار اور باقی قافلہ بیل گاڑیوں پر ناصر آبا اسٹیٹ پہنچا.کار احسان / جون کو حضور نے خطبہ کلیہ میں ارشاد فرمایا کہ شریعیت کو سمجھنے اور اس پر معارف خطبہ عمل کرنے کی کوشش کرد دور نہ اگر کوئی ناقص رہ گیا تو یقینا تمہارے شاب میں کمی واقع ہو جائے گی صحابہ کرام اس بارے میں بہت احتیاط سے کام لیتے اور چھوٹی سے چھوٹی بات یاد رکھ کر اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے تھے.یہی جذبہ تھا جس کی وجہ سے صحابہ نے اپنے اعمال نہ افکار کی تکمیل کرایہ تھیں.نمازہ جمعر میں میر پور خاص اور احمدیہ انتیس کے اجاب کثیر تعداد میں حاضر ہے.نماز عصر کے بعد پانچا ہوں نے حضور کے دست مبارک پر بیعت کی ہے.☑ له الفضل به انسان جوان ۱۳۲۰ منتشر ۱۹۲۹ مصلای استان دارای سری ۱۳ / ۱۱۹۳۹ ۱۲۰ الفضل ۲۳ احسان / خرید ۱۳۲۸ ۱۹۴۹ ۶ -
نجیجی سے کو ٹیٹر اسٹیٹ کا وسیع پیمانے پر دورہ و معائنہ کرنے اپنے خدم اور کارکنان کو قیمتی صدایات سے نوازہ نے اور الخطبات جمعہ کے ذریعہ مخلصین جماعت کے اندر فکر و عمل کی نئی قوت بھرنے کے بعد مع اہل بیت د رام ۲۱ احسان رمون کو ایک بجے اور دوپہر کنچی سے روانہ ہوئے اور اگلے روز ۲۲ احسان ربون کو پیار بجے کے قریب بخیریت کوئٹہ پہنچنے اسٹیشن پویا حسین کو ئٹہ اپنے امیر میاں بشیر احمد صدا جیب کے ہمراہ بھاری تعداد میں اپنے مقدس دمحبوب آقا کی پیشوائی کے لئے حاضر تھے.حضور نے سب کو شرف مصافحہ بھینٹا اور پھر مع اہل بیت کاروں کے ذریعہ سے (جن کا اہتمام مقامی جماعت نے کیا تھا ، اپنی قیام گاہ واقع پارک ہاؤس میں تشریف لائے ہو قیام کو ٹنڈ کے اکثر و بیشتر ایام میں حضرت مصلح موعود کی طبعیت سخت علیل رہی حضرت مسیح علیہ السلام کا قول ہے کہ روح تو مستعد ہے مگر جسم کمزور ہے تو یہی کیفیت حضور پر نور کا تھی.جو نہی ہماری کے حملہ میں معمولی سا افاقہ محسوس فرماتے حضور کی دینی مصروفیات میں ایسی نمایاں تیزی اور غیر معمولی سرگرمی پیدا ہو جاتی کہ دیکھنے والا ورطہ حیرت میں پڑ جاتا اس حقیقت کا اندازہ قیام کوئٹہ کے آئندہ دریا شدہ کو الف سے باآسانی لگ سکے گا.حضرت امیر المومنین اصلح الموعود تقریباً ایک ماہ تک سندھ کی احمدی جاعت کوئی زمانوں کے لے تار ہوجانے کا حکم استان برای موجود تھا حضرت میر یونسی ۲۴ / کو نے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا کہ ہماری جماعت کو اب نئی آزمائشوں کے لئے تیار ہو جانا چاہیئے چنانچہ فرمایا : جہاں تک میں سمجھتا ہوں اور جہاں تک اللہ تعالے کے دیئے ہوئے علوم اور اس کی دی ہوئی خبروں سے مجھے معلوم ہوتا ہے جماعت کے لئے اب ایک ہی وقت ہیں دو قسم کے زمانے آرہے ہیں اور الہی جماعتوں کے لئے ہمیشہ ہی یہ دونوں زمانے متوازی آیا کرتے ہیں یعنی ایک ہی وقت میں ترقی اور ایک ہی وقت میں تکالیف اور مصائب کا زمانہ شروع ہو جاتا ہے اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کہ وہ آخری زمانہ نہیں آجاتا جس میں تمام تکالیف ختم ہو جاتی ہیں اور معرفت ترقیات ہی ترقیات باقی و الفضل بیگم وقار جولائی ۱۳۲۰ / ۶۱۹۲۹ مت له متی
۲۵ رہ جاتی ہیں لیکن الہی سنت یہ ہے کہ جب بیرونی مصائب کا نہ مانہ ختم ہو جاتا ہے تو اندرونی مصائب شروع ہو جاتے ہیں.صحابہ اس نکتہ کو خوب سمجھتے تھے اسی وجہ سے سیب اللہ تعالے نے مسلمانوں کو عرب پر فتح دی تو اس کے بعد وہ خاموش ہو کہ نہیں بیٹھ گئے بلکہ انہوں نے قیصر اور کرے دو زبر دست بادشاہوں سے لڑائی سروتا کردی.لوگ خیالی کہتے ہیں کہ شاید دنیا کا لالچ یا دنیا کی بڑائی کی فی مہیش میں صحابہ نے ایسا کیا لیکن واقوت اس کی تردید کرتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ اس کی وجہ سوائے اس کے اور کوئی نہیں تھی کہ حضرت ابوبکر یہ جانتے تھے کہ جاب بھی بیرونی خطرہ کم ہوا اندرونی فسادات شروع ہو جائیں گے اس لئے جب قیصر نے حملہ کیا تو انہوں نے سمجھ لیا کہ یہ قیصر نے حملہ نہیں کیا بلکہ خطر نے ایک راہ نکالی ہے تاکہ مسلمان ایک مصیبت کے ذریعہ اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہوں اور اپنے اندر نئی زندگی اور نیا تغیر پیدا کریں حضرت عمر اور حضرت عثمان نے بھی ان حملوں کو ایک خدائی انتباہ سمجھا اور وہ لڑائی کے لئے تیار ہو گئے تاکہ مسلمان بیدار رہیں اور ان کے اندر نئی روح اور نئی کہ ندگی پیدا ہوتی رہے.حقیقت یہ ہے کہ مصائب خدا کی طرف سے اس لئے آتے ہیں تا کہ قوم میں آرام کے سامانوں کے پیدا ہونے کی وجہ سے بھی طو پر وہ دنیا کی طرف مائل نہ ہو جائیں.انفرادی طور پر تو ایسے ہزاروں لوگ مل سکتے ہیں جو بڑی بڑی دونوں کے مالک ہونے کے باوجود خدا تعالے کو نہیں بھولتے مگر قومی طور پر اس مقام پر پہنچنا بڑا مشکل ہوتا ہے تو میں اسی وقت تک اللہ تعالے کی طرف متوجہ رہتی ہیں جب تک وہ مصائب اور آفات میں گھری رہتی ہیں پس مصائب کا نہ مانہ روحانی ترقی کے لئے ایک نہایت ضروری چیز ہے اگر کسی وقت باہر سے مصائب نے آئیں تو مومن کو چاہیئے کہ وہ اپنے لئے اندرونی طور پر خود مصائب تائش کرنے کی کوشش کرے.یہ غلط خیال ہے کہ انبالا صرت ابتدائی زمانہ ہیں آیا کرتے ہیں ترقی کے زمانہ میں ابتلاؤں کا سلسلہ بند ہو جاتا ہے حقیقت یہ ہے کہ انبیاء کی جماعتوں کی ترقی اور ابتلاء یہ دو توام بھائی ہیں.ابتدائی سے ابتدائی زمانہ میں بھی ابتلا آتے ہیں اور تنہائی عروج کے وقت بھی ابتکار آتے ہیں.الفضل ۲ دق جولائی ۳۲۸ اسپینر ۶۱۹۴۹- صد -
دورالي حضرت امیر المومنین نے میں حقیقت ایک دوسرے رنگ ہیں.۲۹ روفا / جولائی کو بھی خطبہ جمعہ کے واضح کی اور کھلے لفظوں میں انتباہ فرمایا کہ :- الہی جماعتوں کا یہ طریق ہوتا ہے کہ دشمن انہیں مارنا چاہتے ہیں تو ان کے افراد اس سے گھبراتے نہیں بلکہ اپنے آپ کو موت کے لئے پیش کرتے چلے جاتے ہیں اور اگر ہم ایک نبی کی جماعت میں تو یقینی ایک دن ہمارے مخالف نہیں کھیلنے کی کوشش کریں گے اور چاہیں تھے کہ اس کانٹا کہ اس رستہ سے ہٹا دیا جائے مگر جب ایسا وقت آئے گا تو کیا وہ لوگ جو اب اپنی آمد کا بڑا حصہ بھی بطور چندہ نہیں دیتے اس وقت سینکڑوں روپے کی ماہوار آمد کو چھوڑ دیں گے ؟ جماعت پر جب بھی ایسا وقت آئے گا وہ اپنے آپ کو بغیر احمدی کہنا شروع کر دیں گے اور اپنے دلوں کو اس طرح تسلی دے لیں گے کہ خدائی لئے تو ی علم الغیب ہے ده تو جانتا ہے کہ ہم دلی سے احمدی ہیں.اُس وقت جماعت کا کتنا حصہ ہوگا جو باقی رہ جائے گا اور کہے گا کہ اچھا تم نہیں مارنا چاہتے ہو تو مارتے جاؤ.ملازمتوں سے الگ کرنا چاہتے ہو تو الگ کر دو.ملک بدر کرتے ہو تو ملک بدر کردو جیل خانوں میں ڈالتے ہو تو جیل خانوں میں ڈال دو.ہم وہاں بھی فریضہ تبلیغ کو نہیں چھوڑیں گے تم نہیں پھانسی دیتے ہو تو دے دو ہم پھانسی کے تختوں پر بھی نعرہ ہائے تکبیر بلند کریں گے.جب جماعت میں ایسا رنگ پیدا ہو جائے گا تو پھر وہی افسر جو ملک بدر کرنے پر مامور ہوں گے.اسی طرح جیلیخانوں کے افسر اور جلاد و غیر سبب احمدیت کو قبول کرلیں گے کہ احمدیہ جماعت واقعی الہلی جماعتوں والا رنگ رکھتی ہے لیکن جو شخص ابھی سے اپنے آپ کو اس گھڑی کےلئے تیار نہیں کہ تا اس پر ہم کیسے امید کر سکتے ہیں کہ ره وقت آنے پر ثابت قدم رہے گا.بے شک جماعت میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو اپنی د نیری جائدادوں اور اپنی آمدنوں پر لات مار کر دین کی خدمت کے لئے آگئے ہیں.مگر پھر بھی جماعت کا ایک حصہ سست اور غافل ہے اور اس پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا.یاد رکھو! جب تک جماعت کا اکثر حصہ نبیوں کی جماعتوں کی طرح مار کھانے کے لئے تیار نہیں ہو جاتا ہم اپنے مقصد کو حاصل نہیں کر سکتے.مارکھانا بڑے حوصلے کی بات ہے جو مارتے ہیں وہ دنیا کی توجہ اپنی طرف نہیں پھیر سکتے.مگر جو مار کھاتے ہیں ان کی طرف دنیا کی توجہ پھر جاتی ہے.الفضل منظور / اگست ۱۳۲۸ش ۲۶۱۹۴۹
۲۵۵ مضان المبارک کی برکات سے متعلق ۲۶ روقار جولائی کو انتیسواں روزہ تھا.اس موقع پر جماعت احمدیہ کوئٹہ بصیرت افروز خطاب اور اجتماعی شما کے تمام احجاب مردوزن پارک ہاؤس میں اجتماعی دعا کے لئے جمع ہوئے حضرت امیر المومنین نے باوجود نا سازی طبع کے شمولیت کی اور ارت و فرمایا.* رمضان بڑی ہر کمتوں والا مہینہ ہے اس میں انسان خدا تعالے کے فضلوں کے حصول کے.لئے جتنی بھی کوشش کر سکے اسے کرنی چاہئیے.سب سے بڑا سبق جو رمضان نہیں دینے کے لئے آتا ہے وہ یہ ہے کہ مومن کو چاہئے کہ اپنی روحانیت کی تکمیل کے لئے دوسرے ایام میں بھی روزہ سے رکھتا رہے مگر افسوس ہے کہ اس زمانہ میں اس طرف بہت کم توجہ کی جاتی ہے رمضان آتا ہے تو لوگ روزے رکھنے اثر دعا کر دیتے ہیں اور بعض اتنا تعہد کرتے ہیں کہ مسافر اور مریض بھی روزے رکھتے ہیں.اور کوئی نہ کوئی ایسی توجیہہ تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے ان کے لئے روزہ رکھنا جائز قرار دیا جاسکے لیکن اس کے بعد سارا اسال اس سبق کو بھلا دیا جاتا ہے اور کبھی نفلی روزے نہیں رکھتے جاتے حالانکہ یہ ایام صرف اپنی ذات میں ہی نہیں بلکہ دوسرے ایام میں بھی روزے رکھنے کی طرف توجہ دلاتے ہیں.اسلام کی بڑی بڑی عبادتیں نماز روزہ.زکوۃ اور تی ہیں لیکن اگریم غور کے ساتھ کام میں تو نہیں یہ چاروں عبادتیں نوافل کے ساتھ وابستہ نظر آتی ہیں مثلا نما کے لئے اگر دیدن میں پانچ وقت مقرر ہیں لیکن اس کے ساتھ کئی نوافل نگا مجھے گئے ہیں.حج اگر چہ سال میں ایک دفعہ مقرر ہے مگر اس کے ساتھ عمرہ لگا دیا گیا ہے جو سال میں ہر وقت ہو سکتا ہے.زکوۃ اگر چہ سال میں ایک دفعہ مقرر ہے مگر اس کے ساتھ صدقہ لگا دیا گیا ہے جو ہر وقت کیا جا سکتا ہے اسطرح رمضان بھی یہ بتانے کے لئے آتا ہے کہ دوسرے ایام میں بھی ہمیں روزے رکھنے چائیں.گویا رمضان ٹرینگ کا مہینہ ہے اور جبس غرض کے لئے اس میں مشق کرائی جاتی ہے اگر وہ پوری نہ ہو تو مشین کا فائدہ ہی کیا ؟ ایک سپاہی کو پریڈ گولی چلانا اور دوسرے فنون حربہ اس لئے سکھائے جاتے ہیں نا وہ وقت آنے پر قوم اور ملک کی خدمت کر سکے.اگر وہ وقت پر یہ کہہ دے کہ میں نے جو کچھ کر نا تھا اٹنگ کے عرصہ میں کر لیا ہے تو اسے کو ان عقلمند کہے گا.صحابہ میں نفلی روزے رکھنے کا خاص ہوش پایا جاتا تھا لیکن دیکھتا ہوں کہ
You ہماری جماعت کے دوست اک طرف بہت کم توجہ دیتے ہیں.دوستوں کو چاہئے کہ علا رمضان میں روزے رکھنے کے تعلی روزے بھی وقتا فوقت رکھتے رہا کریں اس سے جہال جیسے رکھنے والے کو ثواب ملے گا وہاں دوسرے لوگوں میں بھی دونوں کی تحر یک باری ہوگئی.بے شک رمضان میں برکتیں زیادہ ہیں لیکن یہ اس لئے آتا ہے تا مومنوں کو ان بات کی عادت ڈالے کہ وہ دوسرے ایام میں بھی روزے رکھکر اپنا رہ جانیت کی تکمیل کیا کریں “ اس نصیحت کے بعد حضور نے اجاب سمیت مبی دعافرمائی.اختام دعا پر جماعت احمدیہ کوئٹہ کی رفت سے سب احباب کی افطاری کرائی گئی.اے ۲۹ قرآن مجید اردو ترجو سیکھنے کی ان تحریک اور انار جولائی کو صفہ نے باریک ہائوس میں ایک نہایت اہم پاک لیکچر دیا.اخبار پکار کو ٹرک نے اپنے ۱۳ اگست ۱۹۴۹ء کے الیشوع میں اس نظریہ کا مندر جہ ذیل ملخص شائع کیا : مروز البشیر الدین امیر جماعت احمدیہ کی تقریه کوئٹ وار کہلائی آج شام سات بجے پارک ہاؤس لٹن روڈ میں امیر جماعت احمدیہ نے ایک نظریہ کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ لوگوں کو اردو بولنا چاہیئے انہوں نے حاضرین جن میں اکثریت جماعت احمدیہ کے مہروں کی تھی پر زور دیا کہ وہ پنجابی زبان کو ختم کروایا.انہوں نے مزیلہ کہا کہ ہر ایک کو چاہئیے کہ وہ قرآن کا کم از کم اردو ترجمہ ضرور یاد کریں اس تقریه میں آپ نے ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ ایک دفعہ میرے پاس دیو بند کے دو مولوی آئے اور مجھے کہا کہ آپ کیا پڑھے ہوئے ہیں ؟ میں نے ان کو جواب دیا کہ محمد رسول اللہ بھی قرآن پڑھے ہوئے تھے.میں بھی قرآن پڑھا ہوا ہوں.مرزا صاحب نے تلفن یا یہ منٹ تلاتری کی اور اس کے بعد متعدد شہریوں اور نمائندگان پرسیس سے ملے اور اپنی قیام گاہ میں تشریف لے گئے.(نامہ نگار ) ، ه انفصل بار ظہور اگست ۱۳۲/ ۶۱۹۴۹ ے.اس اخبار کے مالک و مدیر جناب عبدالکریم صاحبہ بھٹ تھے.یہ اخبار ۱۹۴۸ء سے نکلن شروع ہوا تھا.
آیت قُلْ إِنَّ صَلاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي اسید نا حضرت السلع الموجود له رب العالمین کا لطیف اور پر منان الخیر العمل الاخوات خلیفہ المسیح الثانی نے ۲۵ را خال التوبه ۲۵ اسی / ۱۹۳۶ ء کو عالم رویا سی ویکھیا کہ: و بہت سے لوگ منبع ہیں دال میں اُن کے سامنے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر تعریے کر رہا ہوں اور آیت قل ان صلواتی و نسکی و محیای و هماتي لله رب العالمين کولے کر اس کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتا ہوں.فرمایا: اس سے میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالے نے بیج کے طور پر اس آیت کے مطالب کو میرے قلب میں داخل کر دیا ہے اور جب ضرورت ہوگی وہ اس کے مطالب کو میرے ذریعہ سے روشن دریائے یہ ایک عظیم پیشنگوئی سفر کو ٹر کے دوران پوری ہوگئی جب کہ حضور نے اس آیت کریمہ کی لطیف تفسیر چہ ایک سلسلہ خطبات شروع از بایا بوه از ظهور را اگست سے لے کرہ اور ظہور راکت تک جاری رہا.ان یه معارف خطبات میں حضور انور نے ایک نئے اسلوب اور اچھوتے اور دل نشین پیرائے میں یہ حقیقت روز روشن کی جرات نما این کمر دکھائی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عباد ہیں ، قربانیاں ، زندگی اور موت حقیقتاً رب العالمین کی رضا اور خوشنودی کے لئے تھی اس سلسلہ کے آخری خطبہ میں مصور نے مسلمانان عالم کی توجہ اس انقلاب انگیز نکتہ کی طرف منعطف فرمائی کہ د رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالے نے تمام مسلمانوں کا مطاع قرار دیا ہے میں آپ پہنچا ایمان رکھنے والوں کا فرض ہے کہ میں طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نوع انسان کے لئے انتہائی قربانیوں کا مظاہرہ کیا اسی طرح وہ بھی اپنی اپنی روحانی استعداد کے مطابق ان قربانیوں میں حصہ لیں تاکہ اللہ تعالے انہیں بھی محمد رسول اللہ لی اللہ علیہ وسلم کے قرب میں جگہ دے اور جس مارح آپ تمام اندار سے افضل ہیں اس طرح آپ کی امت بھی اپنی قربانیوں میں تمام امتوں نے فصل له الفضل المار الطاور اکتو به ۳۳۵اش کر ۶۱۹۴۶
٢٥٠ ثابت ہوے اسلام اور موجودہ مغربی نظرئیے کے موضوع پر ۲۱ر ظهور / اگست 4 بجے شام جماعت احمدیہ ایک جلسہ عام میں اثر انگیز خطاب کوئٹہ کے زیرا انجام مارک ہاوس کے احاطہ میں ایک شاندار بلہ منعقد ہوا سبی میں حضرت مصلح موعود نے سوا گھنڑ تک..السلام اور موجودہ مغربی نظرئیے کے موضوع پر ایک فکر انگیز خطاب فرمایا جو ہیں اسلام کے مخصوص نظریات میں سے توحید ، طلاق ، حرمت شراب کرات ازدواج ، جوا اور سزائے موت میں سے ایک ایک کو لے کر ثابت کیا کہ زمانہ حاضرہ میں مغرب کو اسلام کے مقابل بچے نہ ہی سیاسی اور اقتصادی تھیوری میں شکست فاش اٹھانا پڑی ہے اپنے خطاب کے آخر میں فرمایا کہ تمام الی اور تباہی کی بڑھی ہے کہ مسلمان قرآن کریم پر رشتے نہیں صرف رسمی ایمان رکھتے ہیں ورنہ وہ سمجھتے کہ تمام سرکت قرآن کریم پر عمل کرنے میں ہے اور اگر ہم ذرا بھی اس کے احکام سے ادھر ادھر بیٹے تو ہمیں بھی نقصان پہنچے گا اور ہماری آئندہ نسلیں بھی تباہ ہوں گی کہئے اس جلسہ عام میں احباب جماعت احمدیہ کے علاوہ چھ سو کے قریب غیر احمدی معززین بھی شامل ہوئے جن کی نشست کے لئے کرسیوں سو غیر احمدی کی کا انتظام تھا ذاتی ہے کے فضل وکرم سے اس تقریر کا تمام سامعین پر نہایت گرا اثر ہوا ہے کوئٹہ میں حضرت مصلح موعود سے ایک فوجی افسر کی ملاقات کو ٹر میں ایک فوجی افسر کی ملاقات ہوئی.پیر صاحب ہندوستان کی وسیع جنگی تیاریوں سے خوفرو یہ تھے اور کشمیر کی واپسی کو نا ممکن تصور کرتے تھے مگر حضرت مصلح موعود نے انہیں قرآن مجید کی روشنی میں ایسا بصیرت افریقہ جواب دیا جو ایک مخلص مسلمان کی تسلی و تشفی کے لئے کافی و وافی تھا.حضرت مصلح موعود کے الفاظ میں اس واقعہ کی تفصیل حسب ذیل ہے فرمایا : " میں کوئٹہ گیا تو ہالی مجھے کچھ فوجی افسر لینے آئے.ادھرادھر کی باتیں ہوتی رہیں اسی دوران میں کشمیر کا بھی ذکر آگیا میں نے کہا کشمیر مسلمانوں کو ضرور بنا چاہئیے.ورنہ اس کے بغیر پاکستان محفوظ نہیں رہ سکتا.دوسرے دن میرے پرائیویٹ سیکرٹری نے مجھے لکھا کہ خلال کرنیل صاحب آپ سے لینے کے لئے آئے آپ وہ کہتے ہیں کہ میں نے الگ بات کرنی ہے.میں نے ان کو لکھا کہ آپ کو کوئی کے خطبات کے متن کے لئے ملاحظہ ہو الفضل 4 فتح ۳۳۸ اش / دسمبر ۱۹۵۵ ۶ ه ۳۰ فتح ۳۰۸ اسش بر دسمبر ۰۶۱۹۵۹ Gu صلح ۱۹۳۹ شنبه ۱۹۷۰ - اسم صالح ال ۳ است رنویر کا ۶۱۹۷۲ 4+ الفضل امور ظهور ۳۲۸ آتش را اگست و ۶۱۹۴ و ۳-۴۰ سه ایضاً
غلطی تو نہیں گی یہ توکل مجھے مل کر گئے ہیں انہوں نے کہا یہ بات تو درست ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک بڑا ٹویٹ بات کرنی ہے.نہیں نے کہا لے آؤ بچنا نچہ وہ گئے میں نے کہا فرمائیے آپ نے کوئی الگ بات کرنی تھی کہنے لگتے ہی ہاں میں نے پوچھا کیا بات ہے؟ کہنے لگے کہ آپ نے کہا تھا کہ ہمیں کشمیر لین چاہئیے اور اس کے لئے ہیں قربانی کرنی چاہیے.یہ بات آپ نے کسی بنا پر کہی تھی کیا آپ کو معلوم نہیں کہ ہندوستان کے پاس نوچ زیادہ ہے میں نے کہا میں خوب جانتا ہوں کہ اس نستا ہوں کہ اس کے پاس فوج زانہ ہے.کہنے لگے تو کیا آپ جانتے ہیں کہ جو بند د نہیں ہمارے پاس ہیں وہی ان کے پاس ہیں.میں نے کہا ٹھیک ہے کہنے لگے کیا آپ کو معلوم نہیں ان کے پاس ڈم ڈم کی فیکٹری ہے جو ہزاروں ہزار بندوق ان کو ہر مہینے زیاد کر کے دیتا ہے میں نے کہا ٹھیک ہے کہنے لگے کیا آپ کو معلوم نہیں کہ ان کے پاس اتنا گولہ بارود ہے اور آٹھ کروڑ کا گولہ بارود جو ہمارا حصہ تھا وہ بھی انہوں نے ہم کو نہیں دیا میں نے کہا ٹھیک ہے کہنے لگے آپ کو معلوم نہیں ان کے ہاں ہوائی جہازوں کے چھہ سکواڈرن ہیں اور ہمارے ہاں صرف دو ہی نہیں نے کہا ہلے کہنے لگے ان کی اتنی آمد ہے اور ہماری اتنی آمد ہے میں نے کہا یہ بھی ٹھیک ہے کہنے لگے جن کالجوں میں دو پڑھتے ہیں انہیں کالجوں میں تم بھی پڑھے ہیں ہمیں ان پر علمی رنگ میں کوئی برتری حاصل نہیں.میں نے کہا یہ بھی ٹھیک ہے.کہنے لگے پھر جب ہماری فوج کم ہے اور ان کی زیادہ ہے گولہ بارود ان کے پاس زیادہ ہے تو میں ان کے پاس زیادہ ہیں.ہوائی جہاز ان کے پاس زیادہ ہیں آمد ان کی زیادہ ہے اور ہم کبھی انہی کا لجوں میں پڑھے ہوئے ہیں جن میں وہ پڑھتے.ہمارے اندر کوئی خاص لیاقت نہیں تو پھر آپ نے کسی بناء پر ہیں کہا تھا کہ نہیں کشمیر لینا چاہیے.میں نے کہا دیکھو قرآن کریم میںاللہ تعالئے فرماتا ہے كَمُ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتُ فِئَةً كَرَة بِانِ اللہ.کہ کئی چھوٹی چھوٹی جماعتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی جماعتوں پر غالب آجایا کرتی ہیں.اللہ تعالے نے یہ بات اسی لئے کیا بی فرمائی ہے کہ تم تھوڑے اور کمزور ہو کر ڈرانہ کرد خداتع کے طاقت رکھتا ہے کہ تمہیں بردی ملبہ دے دے اس لئے آپ گھبراتے کیوں میں اللہ تعالیٰ پر توکل رکھیئے بے شک آپ چھوٹے ہیں لیکن خدا تعالے آپ کو طاقت دے دے گا.پھر میں نے کہا میں تم کو ایک مولی بات بتاتا ہوں.تم مسلمان ہو کیا تمہیں معلوم ہے یا نہیں کہ قرآن نے یہ کہا ہے کہ اگر تم مارے جاؤ گے تو جنت میں جاؤ گے کہنے لگا جی ہاں.میں نے کہا اب دو مور میں ہیں کہ اگر تم میدان میں کھڑے رہو گئے اور زندہ
رہو گے تو جیت جاؤ گے.اور اگر مارے جاؤ گے تو جنت میں چلے جاؤ گے اب بتاؤ کیا تمہارے اللہ نے کا کوئی ڈر ہو سکتاہے کیونکہ تم مجھتے ہو کہ اگر میں لڑائی کے میدان میں کھڑا رہا اور راہ رہا تو دو ہی صورتیں ہیں یا جین جاؤں یا جنت میں پہلا جاؤں گا پس تمہاری بہادری کا ہندو کس طرح مقابلہ کر سکتا ہے.وہ تو یہ جانتا ہے کہ اگرمی دریا تو بدر بن جاؤں گا یا سور بن جاؤں گا پاکت بن جاؤں گا ہر اس کا تناسخ ہے.تم یہ تو جانتے ہو کہ مرکے جنت میں چلے جائیں گے اور وہ یہ جانتا ہے کہ مر کے کیا بن جاؤں گا.سور بن جاؤں گا بندر بن جاؤں گا تو مسلمان اور ہندو کا کوئی مقابلہ ہی نہیں ہو سکتا اسے تو کتا یا سٹور بننے کا وڈ لگا ہوا ہے اور تم میں جنت میں جانے کا شوق ہے.تمہارا اور اس کا مقابلہ کیسے ہو سکتا ہے.تو حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے لئے دلیری کے اتنے مواقع پیدا کر دیئے گئے ہیں کہ اس کو کوئی گزند آہی نہیں سکی تاید فصل سوم حضرت نواب محمد الدین صاب کی تقال سیدنا حضرت امیر المومنین اصلح الموعود کو مثه می ہی تشریف فرما تھے کہ حضور انور کی خدمت میں یہ روح ایسا اطلاع پہنچی که خانه بها در حضرت چوہدری نواب محمدالدین شاه مری میں انتقال فرما گئے.إنا لله وانا البارد الحون له حضرت نواب صاحب سلسلہ احمدیہ کی نہایت معروف ولی از شخصیت اور انتہائی مخماس بزرگ تھے جنہوں نے مسیح محمدی کا مبارک زمانہ پایا اور تحریک احمدیت سے دلی طور پر وابستہ ہوئے مگر سعیت حضرت مصلح موعود کے دست مبارک پر ۱۹۲۷ء کے لگ بھگ کی.✓ میر روحانی جلد سوم ۲۷۶ تام ۲۸ - نامستر الشركته الاسلامیه رکوه - راجعون سے اخل مادر وفا کر جولائی ۱۳۲۸ پیش / ۱۴۹:وت ، آپ مشہور را جوت باجوہ خاندان سے تعلق ربانی روایات پر
ربوہ کے ابتدائی دور کا ایک نہایت اہم اور یاد گار فوٹو سامنے سیدنا حضرت مصلح موعودؓ ہیں.دائیں کرسی پر.حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب.۲.حضرت نواب محمد دین صاحب ۳.؟.۴.حضرت مولاناعبدالرحیم صاحب درد -۵-۴-۶ - حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خانصاحب.حضرت مصلح موعود کے بائیں جانب حضرت قمر الانبیاء تشریف فرما ہیں
حضرت چوہدری صاحب اپنے خود نوشت حالات قبول احمدیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے بقیه ها شیر مت رکھتے تھے.آپ کے جد امجد راجہ فتح چند جی نے سب سے پہلے قبول اسلام کا شرف حاصل کیا.تاریخ آئینہ اکبری میں آپ کا قابل تعریف الفاظ میں تذکرہ ملتا ہے.راجہ فتح سنگی می صوبہ پسر دور کے گورنہ تھے آپ ہی کی اولاد میں سے سحضرت جان شهر صاحبہ اور حضرت اسماعیل صاحب جیسے اولیاء پیدا ہوئے جن کا مقبرہ کیلا سا گاؤں کے نزدیک ہے اور جن کے لڑکے عنایت اللہ خان کے نام رقصبہ تلونڈی عنایت خان آباد ہوا حضرت چو دھری محمد الدین صاحب اسی قصبہ میں شام میں پیدا ہوئے والد ماجد کانام صوبہ خیال تھا.حضرت چوہدری صاحب کی ابتدائی تعلیم نشتارو میں شروع ہوئی آپ نے انگریزی تعلیم صرف میٹرک تک حاصل کی اور بیواری کی اسامی سے ملازمت میں قدم رکھا.گھر اپنے خلوص محنت اور دیانتداری کے سبب بڑے بڑے عالی مراتب اور بروند مناسب تک پہنچے چنانچہ مروی تحصیلدار ڈیرہ اسماعیل خان اور انشاء میں اکٹرا اسسٹنٹ کمشنر مقرر ہوئے 19ء سے 197 ء یک دہلی میں پہلے سیٹلمنٹ افیسر بھر سے ایک 141 کیڑا اسٹنٹ کر رہے نشہداء میں نواب صاحب ریاست مالیر کوٹلر نے آپ کی خدمات حکومت سے مستعار حاصل کیں اور آپ نے ریاست میں مہم بندو بست کے فرائض نہایت کامیابی سے انجام دیئے.ان خدمات کے علم میں ۱۹۱۸ء میں آپ کہ خان بہادر کا خطاب دیا گیا شاہ میں آپ پاکسین اور خانیوال میں سب ڈویژنل آفیسر رہے ۱۹۲۲ و میں آپ پو نچھ ریاست میں مہتم بندو بست در یو نیو آفیسر کی حیثیت میں فرائض بھالتے رہے پھر ضلع رمبنک کے ڈیٹی کمشنر مقرر ہوئے ہ میں آپ کی خدمات ریاست بہاول پور نے حاصل کریں.آپ اپنے مختصر قیام ریاست میں ایک ایسی کی تیار کرنے میں کا میاب ہو گئے.بنی ہیں ریاست کو ۳۸ کروڑ کا نامہ ہوتا اگر انوس یہاں آپ کو دربار ریاست کے اندرونی خلفشار اللہ انتشار کے با علیشا صرف ایک سال تک رہنے کا موقعہ میسر آیا تا ہم آپ کی خدمات جلیلہ کا اقرار اخبار پاؤنیر نے اپنی ۲۰ طوری ۱۹ ء کی اشاعت میں نمایاں طور پر کیا.اپریل مسئلہ میں آپ ضلع شیخو پورہ میں ڈپٹی کمکہ مقررہ ہوئے اردو میں سرکار کی ملازمت سے ریٹائر ہو گئے.آپ کی الود اسی پارٹی میں پنجاب کے گورز سر جعفری ڈی ماؤنٹ مونیس اور سردار بوٹا سنگھ پریذیڈنٹ پنجاب کونسل نے آپ کی بہت تعریف کی.اکتوبر ۱۹ء میں آپ کو نسل آف اسٹیٹ کے عمر منتخب ہوئے ۱۳ء سے ۱۹۳۵ و یک جے پور کے پردھان منتری یعنی پرائم منسٹر رہے اور نواب کا خطاب ملا بعد میں قریباً با برس تک ریاست جودھ پور کے ریونیو منسٹر ہے.الغرض پوری زندگی خدا وند کریم کے انعامات کا ایجاد محدود ہے گر آپ کے ماما نہ ٹھاٹھ باٹھ رہا تھا ، پارسائی اور روحانیت ہی کا درویشانہ رنگ غالب رہا.نہایت مرنجان مریم طبیعت رکھتے تھے اور سلم و غیر مسلم سب بڑی قدر و احترام کی نظر سے دیکھتے تھے نہایت خلیق غایت درجہ حمول منصف مزاج ، راستگو غربیوں کے بعد رد و انکساری خدا ترکی اور شب بیدار اکثر بڑے بڑے مقدمات کا فیصلہ لکھنے سے پہلے بہت دعائیں کرتے تھے.(الفضلی ۲۶ منار جولائی ۱۳۳۸ ۱۹۴۹ ملخصاً او مضمون سید علی شاہ صاحب ایس ٹی ای این ڈبلیو آر میر پور خاص بسنده ) K V01-12-
ہیں : پچاس سال گزرے ہیں.میں امراء میں سیالکوٹ ہائی سکول میں پڑھتا تھا.اسی سکول میں حضرت مولوی عبد الكريم صاحب رضی اللہ عنہ مدرس تھے ہیں عموما ہر روز عصر کے بعد مولوی صاحب کی خدمت میں حاضر وا کرنا.آپ اکثرا ایسے وقت میں شیخ نتھو صاحب (والد ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب) کما دوکان پر یا میاں مولا بخش صاحب بوٹ فروش کی دکان پر ملتے تھے.حضرت مولوی صاحب کی تقریرہ بہت موثر اور صحیح ہوا کرتی تھی میں نے سکول میں عربی کا مضمون سے رکھا تھا اور مولوی صاحب سے عرفی کی ابتدائی کتاب پڑھا کرتا تھا.اسی زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات اور کست قبول برا این احمدیہ اور میر حتم آرید ، وغیرہ کا بہت چرچا تھا اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب جن کی طبیعت پہلے نیجریت کی طرف زیادہ راغب تھی حضرت مولودی نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ کی صحبت کے اثر سے نیچریت سے بیزار ہوکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی غلامی میں داخل ہو گئے تھے مولوی صاحب حکیم حسام الدین صاحب والی مسجدی در یک قرآن دیا کرتے تھے اور اسی میں چوہدری نصر اللہ خان صاحب مرحوم شامل ہوا کرتے تھے.سیالکوٹ سکول سے تاریخ ہو کر کہیں اسی ضلع کے بندوبست میں ڈینگ پر تحصیل ظفر دال میں تعینات ہوا اور متواتر کئی سال تک دیہاتی زندگی بسر کی.ظفر دال میں حافظ فصیح الدین صاحب تحصیلدار تھے جو بظا ہر بہت متشرع اور دیندار الحدیث تھے اور شروع میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام سے حسن ظنی رکھتے تھے گر بعد میں سخت مخالف ہو گئے.۱۸۹۶ ء میں حبیب لاہور میں جلسہ مذاہب تھا.میں حافظ صاحب کے ساتھ جلسہ میں گیا.تو حضرت مولوی عبد النوم صاحب شیخ پر تھے اور حضرت سیح موعود علیہ الصلوة والسلام کا مضمون سنار ہے تھے عجیب کیفیت تھی.سب لوگ ہمہ تن گوش تھے.تقریر سلنے کے بعد شام کو جب ہم مکان پر پہنچے تو حافظ فصیح الدین صاحب سے حافظ محمد یوسف صاحب ایکڑا اسٹنٹ کمر منے خضر فله مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مضمون کے متعلق دریافت کیا.انہوں نے کہا.اسلام اس سے بہتر مضمون میں نے کبھی نہیں سنا.الغرض باد بود مخالفت کے انہوں نے اس مضمون کا نہایت اصلئے ہونا تسلیم کیا.ین شاید میں صاحب نکشتہ بند و نسبت پنچایت کے دفتر میں سپرنٹنڈنٹ تھا.اور لا بھر میں چر مدی شهاب الدین صاحب ، مولوی محمد علی صاحب اور میں ایک ہی مکان سیما رہتے تھے.جوہی جاتا
۲۶۳ اور مولوی صاحب ان دنوں وکالت کے امتحان کی تیاری کر رہے تھے.مولوی صاحب اکثر تادیان جاتے رہتے تھے وکالت پاس کرنے کے بعد جب انہوں نے کلی طور پراپنے آپ کو دینی خدمت میں لگا دیا تو ان کی اس قربانی کا میری طبعیت پر بہت اثر ہوا.کچھ عرصہ بعد میں ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے بندوبست میں تعینات ہوا.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب وہاں بھی اکثر مجھے تبلیغی خط لکھا کرتے تھے.میں حسن ظن اور اخلاص رکھتا تھا.اور یہ تو نہیں چندہ بھی دیا کرتا تھا.اخبار الحكم اور البدر کا بھی خریدار تھا اور ہمیشہ پڑھا کرتا تھا لیکن جب میں دیکھتا کہ بعض لوگ بعیت کرنے کے بعد مرتد ہو جاتے ہیں تو میں سوچا کرتا کہ حسن علی رہنا زیادہ بہتر ہے بمقابلہ اس کے کہ بعیت کر کے پھر ارتداد کا خطرہ لاحق ہو.مجھے کو تو شروع سے حسن ظن رہا ہے لیکن جب کبھی میں سنت کہ نہال نے سبجیت کی ہوئی تھی اور وہ مرتد ہو گیا ہے تو میں اکثر یہ تخلیقات کرنے کی کوشش کرتا کہ اس کے ارتداد کی کیا وجہ ہوئی ؟ اکثر مرتدین سے گفتگو کرنے کا بھی موقع ملا.مثلاً ڈاکٹر عبد الحکیم صاحب یالوی ہے.جب وہ کئی رنا لے مخالفت میں لکھنے کے بعد خاموش ہو گئے تو لین نے پوچھا اب آپ خاموش کیوں ہیں ؟ انہوں نے کہا.اب احدیت کا باقی کیا رہ گیا ہے جو میں کچھ لکھوں گویادہ بزعم خود احدیت کو ختم کر چکے تھے.بعض لوگ جو باوجود ظاہری قربانیوں کے جماعت سے کٹ جاتے ہیں.اس کی وجہ وہی ہے جو دنیا میں سب سے پہلے خلیفہ حضر آدم علیہ السّلام کے منکروں کو پیش آئی تھی یعنی وہ مجھے لگ جاتے ہیں کہ اب ہم پر سارا دارومدار ہے اور ان میں اپنی لیاقت اور قربانیوں وغیرہ کے خیال سے تکبر اور رعونت آجاتی ہے جس سے خدائی قانون کے ماتحت ان کا سارا کیا کرایا کہ یاد ہو جاتا ہے.اللہ تعالے ہم سب کو اس تکبر اور رعونت کی بیماری سے محفوظ رکھے اور ہمارے بچھڑے ہوئے دوستوں کو پھر حضرت مسیح موعود علی الصلوۃ والسلام کی تیار کردہ کشتی میں سوار ہو نے اور آپ کے پاس بیٹھنے کی توفیق دے.ہر اک نیکی کی جڑ یہ انتظار ہے اگر یہ بوڑھ رہی سب کچھ رہا ہے یہی اک نخر شان ادیب ہے بجز تقوا سے زیادت ان میں کیا ہے ڈرو یارو کہ وہ بینا خدا ہے اگر سوچو یہی دار الجزا وہے.ہمارے خاندان میں سب سے پہلے میرے مرحوم بھائی چوند ری محورین نے بیعت کی اس کے
تم ۲ بعد رفتہ رفتہ قریباً سارا خاندان احمدی ہو گیا.میں ۱۹ ء میں دہلی بندوبست میں اسسٹنٹ سینٹ آفیسر تھا.میر قاسم علی صاحب ایڈیٹر فاروق اسی بندو بست میں ناظر تھے.میر صاحب جک کابینه پرت ادیان جارہے تھے میں نے اپنے لڑکے محمد شریف (حالی ایڈووکیٹ منشکری) کو تھا اس تایت پرائمری میں پڑھنا تھا میر صاحب کے ساتھ بھیج دیا وہاں اس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواة و السلام کی بعیت کا شرف حاصل ہوا.دہلی کے زمانہ میں محمد شریف کا چھوٹا بھائی محمد سعید چیچک سے سخنت بجاہ ہو گیا.اس کی حالت نہایت تشویشناک تھی اور ہم قریبیا مایوس ہو چکے تھے.میر قاسم علی صاحب نے دعا کے لئے حضرت مسیح موعود علی الصلاة والسلام کی خدمت میں تار دیا.اور شام کو ہمیں تسلی دی کہ اس وقت قادیان میں محمدسعید کی صحت کے لئے دعا ہورہی ہے زیادہ مفکر نہیں کرنی چاہیے چپ اس قدر تھی کہ خطرہ تھا کہ اگر وہ بیچ بھی گیا تو اس کی آنکھیں نہیں بچے سکتیں کی جگہ اللہ تو نے نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی عالی برکت سے محمد سعید کو کامل شفا عطا فرمائی.باوجود ان سب باتوں کے میری قسمت میں نہیں تھا کہ میں صحابی ہوتا.اور مجھے اخلاص رکھنے کے باوجود بعیت کی توفیق بہت دیرہ ہیں علی جب حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے انتقال پر جماعت میں اختلاف پیدا ہوا اور ہمارے دوست جن کی میرے دل میں بہت عزت تھی قادیان چھوڑ کر لاہور جا بیٹھے تو مجھے بڑی حیرت ہوئی.اپنی دنوں میں نے لڈیا دیکھا جو میں نے اپنے بھائی چوہدری غلام حسن صاحب کو سنایا جس سے مجھ پر یہ ظاہر ہوا کہ خلافت ثانیہ حی ہے.اب وہ دور شروع ہوا جب میں نے حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبات اور تحریروں کو پڑھنا شرویے کیا.اور ان سے ہمیشہ بہت فائدہ اٹھایا اختلاف کے چند روز بعد میں سیالکوٹ سے لاہور آرہا تھا راستہ میں وزیر آباد سٹیش پریشی نواب خان صاحب مرحوم محصلدار مجھے مل گئے.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت میں سرشار نظر آیا کرتے تھے اور ہر وقت سلسلہ کی باتیں کیا کرتے تھے اس روز خلاف معمول در زیر آباد سے گوجرانوالہ پہنچنے تک انہوں نے سعد کے متعلق جب کوئی تذکرہ نہ کیا تو میں نے کہا معلوم ہوتا ہے آپ منکرین خلافت میں شامل ہو چکے ہیں.کیونکہ وہ ذوق تبلیغ اور حضرت مسیح موعود علیہ التاوٰہ والسلام سے محبت آپ میں نہیں رہی.میرا یہ قیاس صحیح نکات دوستی کا دم جو بھرتے تھے وہ سب روشن ہے پر نہ چھوٹے ساتھ تونے اے میرے حاجت برار ي
لاہور پہنچ کر میں چودھری شہاب الدین صاحب کے مکان پر ٹھہرا.درباں میری برادری کے میرے ایک عزیز موجود تھے جو مخلص احمدی ہوا کرتے تھے.اور مجھے تبلیغی خط لکھتے رہتے تھے.ان سے میں نے رہی سوال کیا کہ آپ محمد امین خلافت میں سے ہیں یا منکرین میں سے انہوں نے کہا آپ نے بہت سخت لفظ استعمال کیا ہے.میں خلافت ثانیہ کو نہیں مانتا ان سے اس سلسلہ میں گفتگو ہوتی رہی.دوسرے دن وہ صبح جاگے تو انہوں نے کہا رات کو خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی وہ نظم ہی پڑھتا رہا ہوں جن میں دسنتا ہے.زمین تاریاں اب محترم ہے ہجوم خلق سے سے ارض حرم ہے اسی نظم میں ہے.بشارت دی کہ اک بیا ہے تیرا ہو ہوگا ایک دن محبوب میرا کروں گا دار اس مکہ سے اندھیرا دکھاؤں گا کہ اک عالم کو پھیرا بشارت کیا ہے اک دل کی غذا دی فسبحان الذى اخرى الاعادي ان کے والد صاحب اور سارا کنبہ احمدی ہیں میں ان کے خواب کی کیفیت ان سے سن کر بہت خوش ہوا اس خیال سے جو کہ ان کا مصدقین میں شامل ہونا ان کے والد صاحب کے لئے بڑی مسرت کا بہشت ہوگا.ان کے والد صاحب اور ان کا خاندان ہماری باتوہ برادری میں نہایت مخلص احمدی ہیں.پچھلے سال میں نے افصل میں پڑھا تھا کہ انہوں نے حضرت امیرالمومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ نی لے بنصرہ العزیز کی خدمت میں لکھا کہ : میری روح کا زائد از چالیس برس حضور سے تعلق ہے، اور اس پر حضرت امیرالمومنین ایدا تعالے نے تحریر فرمایا.آپ جیسے مخلص کا یہی مقام ہے.اللہ تعالے خا من فضل کرے " لامجد سے دوسرے دن میں اپنی ملازمت پر کیا گیا اور الہ میں معلوم ہوا کہ ہمارے عزیز عرینہ دست نصر تقی خلافت میں شامل نہیں ہو سکے.اگر پیر می امید رکھتا ہوں کہ خداوند کریم ان کے منتفی اور صالح والد صاحب کی دعائیں ان کے حق میں قبول فرمائے گا.اور ان کو اپنے والد صاحب کی زندگی میں یہ سعادت نصیب ہوگی.این سعادت بزور بازو نیست - تار بخشند خدائے بخشنده
جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں.میں اخلاص تو بہت بہت سے رکھتا تھا لیکن بیعت کا شرف مجھے حضرت خلیفتہ السیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیہ کے زمانہ میں عطا ہوا.اس اثناء میں میرے بھائی اور میری اہلیہ اور بچے مجھ سے بہت پہلے بیعت کر چکے تھے اور مجھے نہایت افسوس ہے کہ میں اس مقام کو بہت دیر سے پہنچا.کہیں نے جو اخلاص حاصل کرنے کے بعد بیت میں اس قدر دیر لگادی آج مجھے اسکا سخت انسویس ہورہا ہے لیکن جگہ گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں اکثر ایسے انجاب ہیں جن پر صداقت کھل چکی ہے مگر وہ کسی دنیوی رکاوٹ کے ماتحت ابھی تامل میں ہیں.ایسے دوستوں سے ہیں کہتا ہوں.من نه کروم شمار مدر بکنید الی نہ ہو کہ اسی تامل اور ترودو میں موت آجائے.اور امام وقت کی شناخت ہے محروم رہ جاؤ.پس نہایت ضروری ہے کہ جب انشراری صدر ہو جائے تو بعیت میں توقف نہ کیا جائے ہوتے حضرت نواب صاحب کے دل میں یہ حسرت و ارمان زندگی بھر قائم رہا کہ میں نے حضرت مسیح مو و علی اسلام کا مقدس زمانہ دیکھیا، میرے خاندان کے آدمیوں نے بیعت کی ملی کہ میرے بیٹے کو چودھری محمد شریف صاحب ) بفضلہ تعالے اصحابہ کے پاک گروہ میں شامل ہونے کی توفیق مل گئی مگر میں محروم رہا.اس محرومی کے شدت جاس نے جمعیت کے بعد آپ کے دل میں خدمات سلسلہ کے لئے بہت جوش پیدا کر ڈالا جو رب جلیل کے فصل در غایت ماہ مارا گیا اور آپ پرانے سال میں میں نوجوانوں سے بڑھ کر شوق دوستم د ی سے مصروف عمل رہنے حضرت مصلح موجود نے ہجرت پاکستان کے بعد بھوک ستمبر ۱۳۲۷ سال ۱۹۴۸ میں آپ کو صد امین احمدیہ پاکستان کا پہلا ناظر رحمت در تبلیغ مقر فرمایا.اور آپ نے یہ خدمت اپنا بیست محنت و استعمال سے ادا کی دیگر اصل کام جس کی خاطر فہ کے عز وجل نے اپنی تقدیر خاص سے آپ کو خلعت ربوہ سے نوازا اور الہی اور برکتوں سے محمور زندگی علی فرمانی مرکز احمدیت ربعہ کے قیام کا عظیم الشان کارنامہ تھا جو آپ کے ہاتھوں خدا کے فضل روزنامه والعقل معد شهر ۲۸ به ۱۹۳۱ء م اور موسم کا
442 اور حضرت مصلح موجود کی دعادی اور روحانی توجہ کے فضیل معرض وجودی آیا.اور پھر قیا مت تک آپ کی یاد گار رہے گا اسی بے مثال خصوصیت کے باعث عید نا حضرت مصلح موجود نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں قیام مرکزہ کے سلسلہ میں آپ کی سنہری خدمات کا ذکر نہایت شاندار الفاظ میں کرتے ہوئے فرمایا.ا جس طرح میرے قادیان سے نکلنے کا کام کی عطاء اللہ صاحب کے ہاتھہ سے سرانجام پانا تھا اسطرح ایک نئے مرکز کا قیام ایک دوسرے آدمی کے سپرد تھا.ہو سمجھے آیا اور کن لوگوں سے آگے پڑھ گیا.میری مراد نواب محمد دین سات بار قوم سے ہے.جن کی اسی ہفتہ میں وفات واقع ہوئی ہے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ان کی خدمات کی وجہ سے ربوہ میں کوئی ایسا نشان مقرر کیا جائے جس کی وجہ سے جماعت ہمیشہ ان کی قربانیوں کو یاد رکھے.اور اس بات کو مت بھو لے کہ کس طرح ایک انٹی سالہ بوڑھے نے بوخنت اور جفا کسی کا عادی نہیں تھا جو ڈپٹی کمشنر اور ریاست کا وزیر رہ چکا تھا ہو کہ صاحب جائداد اور متمول آدمی تھا.۱۹۴۷ء سے ۱۹۴۹ء کے شروع تک باد عید اس کے کہ اس کی طبیعت اتنی متحمل ہو چکی تھی کہ وہ طاقت کا کوئی کام نہیں کرسکا تھا.اپنی صحت اور اپنے آرام کو نظر انداز کرتے ہوئے رات اور وان ایک کر دیا.اس لئے کہ کسی طرح جماعت کا اند امرکز قائم ہو جائے.سینکڑوں دفعہ وہ افسروں سے ملے.ان سے جھگٹ کئے لڑائیاں کیں نہیں اور خوشامدیں کیا اور پھر مرکز کی تلاش کے لئے بھی پھرتے رہے.انہیں اس کام میں اتنا انتھا کہ تھا کہ ایک دفعہ میں اکیلا رادہ کیا.اور انہیں اطلاع نہ دی.میں نے تمہارہ ضعیف العمر آن خوار ہیں.انہیں تکلیف نہ دی جائے.ان کو ریٹائر ہوئے بھی بائیس سال ہو چکے تھے.جب میں واپس آیا تو انہوں نے کہا no مجھے سخت افسوس ہے کہ اس دفعہ کی آپ کے ساتھ انہیں جاس کا مجھے بھی اطلاع دیتے تو میں ساتھ چلا جاتا.میں نے کہا صرف آپ کی تکلیف کے خیال سے میں نے آپ کو اطلاع نہیں بھجوائی تھی.انہوں نے کہا میری تو خواہش تھی کہ میں آپ کے ساتھ جانا اور اب نہ نہانے کی وجہ سے مجھے انتہائی رنج ہوا.عرض اس کام کے لئے انہوں نے دن رات ایک کر دیا تھا.اور یقینا اس کام کے لئے اللہ تعالے کے نزدیک وہی موزوں ہوئی تھے.ہمارے مرکز کا قائم میں نا کوئی معمولی بات نہیں جبکہ بڑی اہم چیز ہے اگر ما را نیر کی کامیاب ہوگا.اور نہیں یقین ہے کہ وہ کامیاب ہوگا تو یہ ایک دیسی ہی اہمیت رکھتے والی چیز ہوئی.جیسے کہ دنیا کے بڑے بڑے مذہبی مرکبتہ دل کی تعمیر اہمیت رکھتی تھی.مقامات مرکز می ا قیام ایک بہت بڑا کام ہوتا ہے اور میں کہتا ہوں کہ ہمارے جدید مرکز کے قیام کا سہرا
یقینا نواب محمد دین صاحب مرحوم کے سر پر ہے اور یہ عزت اور رتبہ انہی کا حق ہے کا جب تک یہ ملامت قائم رہے گی.لوگ ان کے لئے دعا بھی کریں گے اور ان کی قربانی کودیکھ کر نوجوانوں کے دلوں میں یہ نہ بھی دیا ہوگا کہ ان جیسا کام کیا کہ ایک بڑھا بیمار اور بکر در آدمی اور کیا اس کی یہ حالت کہ وہ دین کو بھی وہاں موجود ہے.رات کو بھی وہیں موجود ہے اور اپور میں پیش کر رہا ہے کہ آج میں خلال سے ملا تھا.آج خلال سے ملا تھا.اب بھی جب مری میں.تھے وفات سے دس دن پہلے انہوں نے مجھے لکھا کہ اب ربوہ میں تعمیر کا کام شروع ہونے والا ہے اور چونکہ یہ کام نگرانی چاہتا ہے.اور میری صحت ٹھیک ہوگئی ہے اس لیے میرا ارادہ ہے کہ ربوہ چلا جاؤں اور کام میں مدد دول بغرض ہرکارے وہ سر دے سینکر دل کام ہوتے ہیں لیکن بہت برکت والا ہوتا ہے.وہ آدمی جس سے کوئی ایسا کام ہو جائے جو اپنے اندر تاریخی عظمت رکھتا ہو.میں سمجھتا سول کہ اس کام کا ان کے ہاتھ سے ہوتا ان کی کسی بہت بڑی نیکی کی وجہ سے تھا اور میں ہو سکتا ہوں کہ وہ مجھے آئے مگر آگے گزر جائے.صحت سے پہلے وہ اندیت کے قائل تو تھے.چنانچہ جب وہ دہلی میں افسر مال لگے ہوئے تھے اور میر قاسم علی صاحب رہاں تھے تو انہوں نے اپنے لڑکے چوہدری محمد شریف صاحب وکیل کی بیعت کرادی تھی لیکن خود بعیت نہیں کرتے تھے غالباً ۱۹۲۷ میں انہوں نے بعیت کی ہے مجھے یاد ہے جب انہوں نے بعیت کی تو ساتھ یہ درخواست کی کہ میری صحت ابھی مخفی رہے انہوں نے کہا ہیں ریٹائر ہو چکا ہوں اور اب ملازمتیں ریاستوں میں ہی مل سکتی ہیں.اس لئے اگر میری بعیت نما ہر زہر ت ملازمت حاصل کرنے میں سہولت رہے گی.جب وہ ہمارے سلسلہ میں داخل ہوئے ہیں اس وقت • ور ریاست مالیر کو شہر یا جے پور میں ملازم تھے.بعیت کر کے وہاں جانے کی بجٹ مشکلہ چلے گئے.ہمیں بھی چند دنوں کے لئے شملہ گیا اور انہوں نے مجھے دعوت میں بلایا اور کہا.اور تو میں کوئی خدمت نہیں کو ایک لیکن یہ کر سکتا ہوں کہ دعوت پر بڑے بڑے آدمیوں کو بلا نواں اور آپ کا دانت کر دوں اور مجھے تو اب مل جائے گا میں دعوت پر چھا گیا.انہوں نے بڑے بڑے آدمی بلائے ہوئے تھصہ میں اس انتظار میں تھا کہ کوئی اعتراض کریں، اور میں اس کا جواب دوں کہ درہ کھڑے ہو گئے اوروا امرین کا شکر یہ ادا کرتے ہوئے تقریر میں انہوں نے کہا یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ امام جماعت احمدیہ یہانی
تشریف لائے ہیں.جو شخص کی قوم کا لیڈر ہوتا ہے نہیں اس کا احترام کرنا چاہیئے.وہ ہمیں دینا کی باتیں سنائیں گے خواہ ہم انہیں یا نہ مانیں.ان سے نہیں فائدہ پہنچے گا.اس طرح تھوڑی دیرہ تقریر کرتے رہے دو میں منٹ کے بعد وہ تقریر کرتے ہوئے یکدم ہوش میں آگئے اور کہنے لگے اس زمانہ میں ایک شخص آیا اور وہ کہتا ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوں اگر آپ لوگ اسے نہیں مانیں گے تو آپ پر خدائی لے کی طرف سے عذاب آجائے گا.جب وہ تقریر کر کے بیٹھ گئے تو نہیں نے کہا دیکھیئے نواب صاحب میں نے تو ظاہر نہیں کیا.کہ آپ احمدی ہیں.آپ نے تو خود ظاہر کر دیا ہے.وہ کہنے لگے مجھ سے رہا نہیں گیا.میں نے کہا ئیں تو پہلے ہی سمجھتا تھا کہ سچی احمدیت چھپی نہیں رہتی.آپ خواہ کتنا بھی چھپائیں یہ ظاہر ہو کر رہے گی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ چند بے باقاعدگی کے ساتھ دیتے تھے.مگر جماعتی کاموں میں انہو ں نے چند سال پہلے تک کوئی نمایاں حصہ نہیں لیا تھا.لیکن یہ موقعہ انہیں ایسا ملا کہ جب تک یہ مرکز قائم رہے گا.ان کا نام بطور یاد گار دنیا میں لیا جائے گا.یہ ضروری نہیں کہ قادیان کے واپس مل جانے پر اس مرکہ کی اہمیت کم ہو جائے اول تو ہمیں ایک ہی وقت میں کئی مرکز درون کی ضرورت ہے.دوسرے یہ مرکہ ایک ہے کوئی کے ماتحت قائم کیا جارہا ہے اور جو مرکز پیش گوئی کے ماتحت قائم کیا جائے، اس میں اور دوستر مرکز دن میں بہر حال امتیاز ہوتا ہے.یہ مقام چونکہ اللہ تو لیے کی پیش گوئی کے ماتحتہ قائم کیا جارہا ہے اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ خدا تعالے کے فرنٹتے اس کی حفاظت کریں گے اور اس کی کہ کہیں اس سے وابستہ رہیں گی.اور یقینا اس مقام سے تعلق رکھنے کی وجہ سے نواب صاحب مرحوم کا نام بھی قیامت تک قائم رہے گا.مجھے چوہدری مشتاق احمد صاحب کا انگلستان سے جو خط ملا ہے اس میں انہوں نے میری ۱۹۲۲ رکی ایک خواب لکھی ہے.جو یہ ہے کہ میں نے رڈیا میں ان کی بیوی کا شم که دیکھیں کہ دہ کہ رہی ہے کہ بابا جی اتنے بیمار ہوتے لیکن نہیں کسی نے اطلاع تک نہیں
دی.چو ہد کا صاحب لکھتے ہیں کہ بالکل ایک ہی واقعہ اس وقت ہوا ہے نہیں ان کی بھاری کی اطلاع تک نہیں ملی اور اب دوفات کی خبر بھی صرف آپ کی طرف سے ملی ہے خاندان کے کسی اور فردگی طرف سے نہیں ملی.حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے رشتہ داروں میں سے بھی کسی کو ان کی بیماری کی خبر نہیں ملی چوہدری محمد شہ ایف صاحب وکیل نے مجھے لکھی کہ وفات سے پہلے دان شام کے وقت ڈاکٹر آیا اور اس نے کہا کہ خطرہ کی کوئی بات نہیں.جو مہدی عزیز احمد صاحب و سب مجھ ہیں) مجھے اطلاع کا خط لکھنے لگے تو اند صاحب نے منع کر دیا اور کہا کیا ضرورت ہے ؟ پس خواب میں ہم سے مراد صرف کلثوم ہی نہیں بلکہ سارے رشتہ دار مراد تھے میں نے یہ ذکر تفصیل کے ساتھ اس لئے کہا ہے کہ تا اس قسم کے لوگوں کے نیک انفعال اند کے لئے بطور یاد گار رہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.اذكر و أموتكم بالخير عام طور پر اس کے یہ معنے کئے جاتے ہیں کہ مردوں کی برائی بیان نہیں کرنی چاہیئے وہ قوت ہو گئے ہیں اور ان کا معاملہ اب خدا تھا لے اسے ہے.یہ معنی اپنی جگہ درست ہیں لیکن در حقیقت اس میں ایک قومی نقطہ بھی بیان کیا گیا ہے آپ نے اذکر و المولی بالخیر نہیں فرمایا بلکہ آپ نے موت کا لفظ استعمال کیا ہے.یعنی اپنے مردوں کا ذکر نیکی کے ساتھ کرو.جس کے معنے یہ ہیں کہ آپ نے یہ صحابہ کے متعلق ارشاد فرمایا ہے.دوسری جگہ آپ فرماتے ہیں اصحابی کالنجومِ بِاتِّهُمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْمُ - میرے سب صحابی استادوں کی مانند ہیں تم ان میں سے جن کے پیچھے بھی ملو گے ہدایت پا جاؤ گے ابہ میں سے ہر ایک کو کوئی نہ کوئی خدمت دین کا موقعہ ایسا ملا ہے تیں ہیں وہ منفرد نظر آتا ہے اسی لئے آپ نے مو تا کم " کا لفظ استعمال فرمایا ہے کہ تم اُن کو ہمیشہ یاد رکھا " کرد تا تمہیں یہ احساس ہو کہ ہمیں بھی اس قسم کی قربانیاں کرنی چاہئیں.اور تانوجوانوں اہمیشہ قربانی ایثار اور جمرات کا ان پیدا ہوتا ہے اور وہ اپنے بزرگ اسلاف کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتے رہیں نہ ان روزنامه الفضل امور وفات مطابق ۲۱ جولائی ۱۹۲۹ صلات.طلابية -
فصل چهارم یایی روی بدن با تشرینی گری اور مرکز احمدیت کے نئے دور کا آغاز ۱۹ تبرک ستمبر ۱۳۷۸ ۱۹۴۹ء) کو مرکز احمدیت راوہ ایک نئے اور انقلاب آخری دور میں داخل ہوا.کیونکہ اس روز حضرت مصلح موعود جو اب تک لاہور میں قیام فرما تھے مستقل طور پر تشریف لئے آئے.اور حضور کے انفاس قدسیہ، اور روحانی توجہات کی بدولت نہ صرف یہ پاک دستی ایک فعال مرکز کی حثیت سے جلد جلد ترقی دارالفت کے منازل طے کرنے گی بلکہ غلبہ اسلام کی ہم مں پہلے سے زیادہ قوت و شرکت پیدا ہو گئی.اور آسمانی بارش بہت کا ذکر قریب سے قریب تر نظر آنے لگا.حضرت امیر المومنین المصلح الموجود کے اس اہم اور یادگار سفر ربوہ کی مفصل رود ار حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے قلم مبارک سے ہدیہ قارئین کی جاتی ہے.فرماتے ہیں : و یوں تو حضرت امیرالمومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تو لے بنصرہ العزیز کئی دفعہ ابو مالاری لے جا چکے ہیں اور گزشتہ جلسہ سالانہ بھی ربوہ میں ہی منعقد ہوا تھا جب کہ حضرت امیر المومین ایدہ اللہ تعالے نے مع اہل و عیال کئی دن تک ربوہ قیام فرمایا تھا.لیکن یہ سب صفر عارضی تنگ رکھتے تھے اور ابھی تک حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالے کی مستقل سکونت رتن باغ لاہور میں ہی تھی لیکن بوسفر 9 ستمبر ۱۹۲۹ء کو بعد دو شنبہ اختیار کیا گیا وہ راجہ کی مستقل رہائش کی مومن سے تھا.گویا دوسرے الفاخیر میں یہ ہماری قادیان سے ہجرت کی تکمیل کا دن تھا.جب کہ خلیفہ وقت اور امام جماعت قادیان سے باہر ہونے کے بعد اپنی عارضی رہائش گاہ سے منتقل ہو کر جماعت احمدیہ کے قائم مقام مرکز ربہ یہ میں رہائش رکھنے کی عرض سے تشریف لے گئے پس پیشن
جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ایک یادگاری دن تھا.....اس لئے میں مختصر طور پر اس سفر کے چشم دید حالات تاریخ احمدیت کو ضبط میں لانے کی غرض سے درج ذیل کرتا ہوں.در اصل گو میرا دنت ابھی تک لاہور میں ہے.مگر میں نے اس سفر کی تاریخی اہمیت کو محسوس کچھہ کے یہ ارادہ کیا تھا کہ میں انشاء اللہ اس سفر میں حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزیہ کے ساتھ جاؤں گا اور سفر اور ربوہ کی دعا میں شریک ہو کر اُسی دن شام کو لاہور واپس پہنچ جاؤں گا.چنانچہ خدا تعالے نے مجھے اس کی توفیق دی جس کے نتیجہ میں ذیل کی چند سطور پی دی یا خون کرنے کے قابل ہوا ہوں.حضرت امیرالمونین ایدہ اللہ تعالے انصرہ العزیز کا فیصلہ تو یہ تھا کہ انشا اللہ یہ تمبر ۱۹۴۹ء کو صبح ، بجے لاہور سے روانگی ہوگی مگر دفتری انتظام کے نقص کی وجہ سے یہ روانگی وقت مقرہ پر نہیں ہو سکی.چنانچہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعا لئے آٹھ بجے صبح کی بجائے دس بج کر پچاس منٹ پر یعنی تقریباً گیارہ بجے رتن باغ لاہور سے بذریعہ موٹر روانہ ہوئے.حضور کی موٹر میں حضرت ام المومنین اطال الله بف کہا اور حضرت سیدہ ام ناصر احمد صاحبہ اور شاید ایک دو بچاں ساتھ تھیں اور حضور کے پیچھے دوسری موٹر میں حضرت صاحب کی بعض دوسری صاحبزادیاں اور ایک ہو اور بعض بچے اور میاں محمد اویہ عنف صاحب پرائیویٹ سیکڑی سوار تھے تیسری موٹر میں سید لیٹری بیگم مهر آپا صاحبہ اور محرقہ ام وسیم احمد صاحبہ اور بعض دوسرے بچے تھے اور ان کے پیچھے چوتھی موٹر میں خاک مرزا بشیر احمد اور میرے اہل و عیال اور معز بیزه آمنه بگیم سیال اور محترمی چوہدری عبدالمیں ر صاحب سپرنٹنڈنٹ انجنیر و اور میاں غلام محمد صاحب اختر اے پی او سوار تھے.شاہدرہ سے کچھ آگے نکل کر حضرت صاحب نے اپنی موٹر روک کر انتظار کیا کیونکہ ابھی تک تیسری موٹر نہیں پہنچی تھی.اور کچھ وقت انتظار کرنے کے بعد آگے روانہ ہوئے.ایک لاری اور دوٹرک کافی عرصہ بعد روانہ ہوئے..رین باغ سے روانہ ہونے سے پہلے حضرت امیر المرجین ایدہ اللہ تعالی استقر المرینی نے ہدایت فرمائی کہ سب لوگ رتی باغ سے روانہ ہوتے ہوئے اور مہر ربوہ کی سر زمین میں واجن ہوتے ہوئے یہ قرآنی دعا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ کی ہجرت کے وقت سکھائی گئی تھی.ٹیڈ جیتے جائیں یعنی تَرَبِّ ادْخِلَنْ مَدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِ بَنِي مُخْرَجَ مِا في وَاجْعَلُ لِي مِن لَّدُنكَ
احول کے مناظر سُلطَانًا نَّصِيرًا - چنانچہ اس دعا کے درد کے ساتھ ت فلہ روانہ ہوا.اور راستہ میں بھی یہ دعا برابر جامد ی ر ہیں.چونکہ روانگی میں دیرہ ہوگئی تھی اس لئے موڑیں کافی تیز رفتاری کے ساتھ گئیں اور سفر کا آخری حصہ تو غالباً ستر پچھتر میل فی گھنٹہ کی رفتار سے طے ہوا ہو گا اور اسی غرض سے راستہ میں کسی جگہ ٹھہرا بھی نہیں گیا.ہی وجہ ہے کہ محر می شیخ البشیر احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور کی موڑ جو لاہور سے قریبا ڈیڑھ گھنٹہ پہلے مانہ ہوئی تھی اور اس میں محترقی مولوی عبد الرحیم صاحب در در بھی بیٹھے ہوئے تھے.وہ نہیں راستہ میں ہی ربوہ کے قریب جناب کے پل پر مل گئی تھی یہ گویا اس سفر کی پانچویں موٹر تھی.اس کے علاوہ ایک چھٹی موڑ بھی تھی.جس میں محترمی ملک محمد علی صاحب رمیں ملتان اور ہمارے بعض دوسرے ۶ نیہ بیٹھے تھے لیکن چونکہ یہ موٹر چونکہ بعد میں چلی اور زیادہ رفتار بھی نہیں دیکھ سکی اس لئے وہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے ربوہ میں داخل ہونے کے کچھ عرصہ بعد پہنچی.چناب کا پل گزرنے کے بعد جس سے آگے ربوہ کی سر زمین کا آغازہ ہوتا ہے.حضرہ امیر المومنین ایدہ اللہ تو لے بنصرہ العزیزہ اپنی لاڈ سے اتر آئے اور دوسرے سب ساتھی بھی اپنی اپنی موٹروں ال اور بھی سے اتر آئے.البتہ مستورات موٹروں کے اندر بیٹھی رہیں اس جگہ اتر کر بعض دوستوں نے اعلان کی غرض سے اور اہل راجہ تک اطلاع پہنچانے کے خیال سے راہ اور اور رائفل کے کچھ کارتوس ہوا میں چلائے اس کے بعد حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے رفقاء میں اعلان فرمایا کہ میں یہاں قبلہ رخ ہو کر مسنون دعا کرتا ہوں.اور ہمارے دوست بھی اس دعا کو بلند آواز سے، وہراتے جائیں اور مستورات بھی اپنی اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے یہ دعا دہرائیں.اس کے بعد حضور نے ہاتھ اونچے کر کے یہ دعا کرنی شروع کی.رب ادخلني مدخل صدق و اخرجني مخرج صدق واجعل لى من الألك سلطانا نصيرا وقل جاء الحق وزهق الباطل إن الباطل كان زهوقاً.یعنی اے میرے رب مجھے اس بستی میں اپنا بہترین پرکنوں کے ساتھ داخل کر اور پھر اے میرے آقا مجھے اس لیستی سے نکال کر اپنی اصل قیام گاہ کی طرف اپنی بہتری کہ کتوں کے ساتھ لے جا.اور اسے مومنو تم خدا کی برکتوں کو دکھی اس آواز کو بلند کرد که حق آگیا اور باطل بھاگ گیا.اور باطل کے لئے تو بھاگتا ہی مقدر ہو چکا ہے.
یہ دعا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے چناب کا پل گزر کر اور قبلہ رخ ہو کر ربوہ کی سرزمین کے کنارے پر کھڑے ہو کر کئی دفعہ نہایت سونا اور وقت کے ساتھ دہرائی اور اس کے بعد موٹروں میں بیٹھ کر آگے روانہ ہوئے.کیونکہ ربوہ کی موجودہ بستی چناب کے میں سے تقریبا دو میل آگے ہے.اس عرصہ میں بھی سب دوست اوپر کی دعا کو مسلسل دہراتے چلے گئے جب ربوہ کی بستی کے سامنے موٹریں پہنچیں تو اس وقت ریوہ اور اس کے گردو نواح کے سینکڑ ٹول دوست ایک شامیانے کے نیچے حضرت صاحب کے استقبال کے لئے جمع تھے.اس وقت جب کہ میں ڈیڑھ بجے کا وقت تھا سب کے آگے حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالے کی موٹر تھی.اس کے بعد ہماری موٹر تھی.اس کے بعد غائب سیدہ بیٹری بیگم صاحبہ مہر آپا کی موٹر تھی.اس کے بعد حضرت صاحب کی صاحبزادیوں کی موٹر تھی.اور اس کے بعد غالباً محترمی شیخ بشیر احمد صاحب کی موڑ تھی.جب حضرت صاحب اپنی موٹر سے اترے تو ربوہ کے چند نمائندہ دوست جن میں محترمی مرنا اگر یہ احمد صاحب ایم اے ناظرا علے اور محترمی سید ولی اللہ ثہ صاحب ناظر امور عامه " امیر مقامی اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور عزیز ڈاکٹر منوراحمد سلمہ اللہ اور بعض ناظر صاحبان اور تحریک جدید کے کلام سبائی اور محترمی مولوی ابو العطار صاحب وغیرہ شامل تھے آگے نے اور حضور کے ساتھ مصافحہ کر کے حضور کو اس شامیانہ کی طرف لے گئے جو چند گز مغرب کی طراف نصب شدہ تھا.اور حسین میں دوسرے سب دوست انتظار کر رہے تھے.حضرت حمام سب اس وقت بھی رب از خلني مدخل صدق والى وعاد مرا رہے تھے اور وہ سروں کو بھی ہدایت فرماتے تھے کہ میرے ساتھ ساتھ یہ دعا د ہراتے جاؤ.شامیانے کے نیچے پہنچ کر حضرت صاحب نے وضو کیا اور پھر سب دوستوں کے ساتھ قبلہ رخ ہو کہ ظہر کی نماز ادا فرمائی.یہ گویا درود ریوہ کا سب سے پہلا کام تھا.نماز اور سنتوں سے فارغ ہو کہ حضور نے ایک مختصر منی تقریر فرمائی.جس میں فرمایا کہ میں امید رکھتا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت کی سنت کو سامنے رکھ کر آپ لوگ رستہ تک آگئے اگر استقبال کریں گے تاکہ ہم سب متحدہ دعاؤں کے ساتھ ربوہ کی سرزمین میں داخل ہوتے مگر آپ نے ایسا نہیں کیا اس لئے اب میں اس کی کو پورا کرنے کے لئے پھر اس دعا کو دہراتا ہوں اور سب دوست بلند راز سے میرے پیچھے اس دعا کو دہراتے جائیں چنانچہ آپ نے شاید مین یابانی
و قه رب ادخلني مدخل صدق اور قل جاء الحق وزهق الباطل، والى وعاد برائی اورب دوستوں نے بلند آواز سے آپ کی اتباع کی.اس کے بعد حضرت صاحب نے مختصر طور پر اس دعا کی تشریح فرمائی کہ یہ دعا وہ ہے جو مدینہ کی ہجرت کے وقت آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سکھلائی گئی تھی اور اس میں ادخانی (مجھے داخل کر کے الفاظ کو اخر جینی مجھے نکال کے الفاظ پر اس لئے مقدم کیا گیا ہے تاکہ اس بات کی طرف اشارہ کیا جائے کہ مدینہ میں داخل ہو کو رک جانا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت کی غرض وغایت نہیں ہے بلکہ یہ صرف ایک درمیانی و سطر ہے.احساس کے بعد پھر مدینہ سے نکال کر مکہ کو واپس حاصل کرنا اصل مقصد ہے اور پھر اس کے ساتھ قل جاد الحق والی وی کو شامل کیا گیا تا کہ اس بات کی طرف اشارہ کیا جائے کہ مومن کی ہجرت حقیقت اعلام کلمتہ اللہ کی غرض سے ہوتی ہے نیز اس میں اس باتہ کی طرف بھی اشارہ ہے کہ محمد رسول اشد صلی علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت خدا کے فضل سے مقبول ہوئی ہے کیونکہ خدا نے اس کے ساتھ ہی حق کے قائم ہونے اور باطل کے بھاگنے کے لئے دروازہ کھول دیا ہے اور پھر اسی تمثیل کے ساتھ حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالی نے قادیان کا ذکر کیا.کہ ہم بھی ت ادیان سے نکالے جا کر ہجرت پر مجبور ہوئے ہیں.مگر ہمارا یہ کام نہیں کہ اپنی ہجرت گاہ میں ہی دھرنا مار کر بیٹھے جائیں.بلکہ اپنے اصل اور دائمی مرکز کو واپس حاصل کرنا ہمار اصل فرض ہے اس تقریر کے بعد جس میں ایک طرف موٹروں میں بیٹھے بیٹھے مستورات بھی شریک ہوئی تھیں حضرت امیر المومنین اپنی ربوہ کی عارضی فرودگاہ میں تشریف لے گئے جو ریلوے سٹیشن کے قریب تعمیر کی گئی ہے.میں نے اس فرودگاہ کو عارضی فرودگاہ اس لئے کہا ہے کہ اب تک جتنی بھی عمار نہیں ربوہ میں بنی ہیں وہ در اصل سب کی سب عارضی ہیں.اور اس کے بعد پلاٹ بندی ہونے پر مستقل تقسیم ہوگی اور لوگ اپنے اپنے مکان بنوائیں گے حضرت صاحب کے مکان میں ربوہ کی مستورات استقبال کی غرض سے جمع تھیں جن کی قیادت ہماری ممانی سیدہ ام داؤد صاحبہ فرما رہی تھیں.اس کے بعد حضرت صاحب اور دوسرے نزول اور اہل قافل نے کھانا کھایا جو صدر انجمن احمدیہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لنگر خانہ کی طرف سے پیش کیا تھا نایا ربوہ وارد ہونے کے معابعد یہ پروگرام بھی تھا کہ حضرت صاحب اپنی مجوز مستقل داشتن گار کے ساتھ متصل زمین میں مسجد کی بنیاد بھی رکھیں گے.لیکن چونکہ اس مسجد کی دانا بیل یں کچھ غلطی نظر آئی اس لئے اسے کسی دوسرے وقت پر ملتوی کر دیا گیا.عصر کی نماز حضور نے اس
مسجد میں ادا فرمائی تو حضور کے عارضی مکان کے قریب ہی عارضی طور پر بنائی گئی ہے.اور اسی لئے اسے مجد کی بجائے ، جائے نماز کا نام دیا گیا ہے.کیونکہ بعدمیں یہ مسجد منتقل جگہ کی طرف نقل کر دیا جائے گی.یہ جائے نماز ایک کھلے چھپر کی صورت میں ہے جس کے نیچے لکڑی کے ستونوں کا سہلا دیا گیا ہے.اور اس کے سامنے ایک فراخ کچا صحن ہے اور اس مسجد کے علاوہ بھی ایک دو عارضی مسجدیں رابعہ میں تعمیر کی جا چکی ہیں کیونکہ اس وقت ربوہ کی آبادی ایک ہزار نفوس کے قریب بتائی جاتی ہے اور آبادی کی نوعیت بھی ایسی ہے کہ عام نمازوں میں سب دو نقل کا ایک مسجد میں جمع ہونا مشکل سمجھا گیا ہے.عصر کی نماز کے بعد دوستوں نے حضور سے مصافحہ کا شرف بھی حاصل کی الیم سفر ربوہ کے چند لقیہ واقعات ا حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ کے اس یادگاری سفر کے پیش نظر ا حجاب ربوہ نے پانچ بکروں کے ذبح کرتے کا بھی انتظام کیا تھا.کیو نکہ خاص موقعوں پر یہ بھی ایک مسنون طریق ہے.کر دلی کے ذبحہ کرنے کے علاوہ ربوہ کی جماعت نے اس موقعہ پر پٹریوں کو کھانا کھلانے کا بھی انتظام کیا تھا.چنانچہ بہت سے غریبوں کو دعا اور تو بلا کی غرض سے کھانا کھلایا گیا.سیر الی ربوہ نے بار میں کچھ قدرت بھی تقسیم کرنے کا انتظام کیا تھا کہ یہ بھی ایسے مو قعون برکت کا ایک ردھانی ذریعہ ہے.- دوپہر کے کھانے کے بعد جو حضرت مسیح موعود کے لنگر کی طرف سے صدر انجنین احمدیہ نے پیش کیا.شام کا سے کے کی س ص د انجن نے کھانا اہل ربوہ کی طرف سے پیش کیا گیا ہے.سید نا حضرت مصلح موعود اپنی ذات میں تجلیات الہیہ امر برکات ربانی کا زندہ اور چلتا پھر یا نشان تھے اور آپ کے نزول کو آسمانی نوشتوں میں بہت مبارک قرار دیا گیا تھا.مگر یہ مبارک سفر تو خدائی برکتوں کا 417 ایک دریائے نور اپنے ساتھ لایا جب کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نقاد کے آخری درجہ تک پہنچنے والے مقربان بارگاہ الہی کے اقتداری خوارق کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :.ه الفضل ۲۲ توکی تیر ۱۳۲۸ ش ۲۹ ۱۵ و ن الفضل ۲۷ تبوک شمبر ۱۳۲۶ بیش / ۲۰۱۹۲۹
اور جیسا کہ وہ مبارک ہے ایسا ہی اس کے اقوال و افعال و حرکات اور سکنات اور خوراک اور پوشاک اور مکان اور زبان اور اس کے جمیع لوازم میں برکت دکھ دیتا ہے تب سر یک چیز جو اس سے مس کرتی ہے بغیر اس کے جو یہ دعا کرے برکت پاتی ہے اور اس کے مکان میں برکت ہوتی ہے.اس کے دروازوں کے آستانے برکت سے بھرے ہوتے ہیں اس کے گھر کے درواڑوں پر برکت برستی ہے جو ہر دم اس کو مشاہدہ ہوتی ہے اور اس کی خوشبو اس کو آتی ہے جب یہ سفر کرے تو خدا تعالے امنے اپنی تمام برکتوں کے اس کے ساتھ ہوتا ہے اور تعبیر یہ گھر میں آوے تو ایک دریا نوں کا ساتھ لاتا ہے.وأخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمــــــين ه آنگیز کمالات اسلام ص۶۹
۲۷۸ تاریخ احمدیت گروپ فوٹو مبلغین احمدیت فوٹو ر نیشنل لیگ کور کی ماہانہ ٹریننگ کی تقریب انعامات مورخه ۱۶ مارچ ۶۱۹۳۶ بمقام دیوان خانه سالار جيش مرزاگل محمد صاحب قادیان کو بیسیوں پر ردائیں سے بائیں ) ( شیخ محمود احمد صاحب عرفانی مدیه الحکم -۲- سید سید احمد صاحب ۳- سید نا حضرت اميرالمومنين المصلح الموعود خليفة المسيح الثانى - مرزا گل محمد صاحبہ ه حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب قطار ردائیں سے بائیں ( 1- مولوی چراغ الدین صاحب ۲- مولوی محمد حسین صاحب - مولوی محمد شریف صاحب - مولوی عبد المالک خان صاحبه - مولوی غلام مصطفی مساب - مولوی عبد الغفور صاحب ہے.مولوی نعمت الله ما بابا - د مولوی غلام احمد صاحب بدر و عمی مولوی احمد خان صاحب نسیم قطارت (دائیں سے بائیں ) - 1- عبدالواحد خان صاحب خادم خاص حضرت مصلح موعود - مولوی علی طور صاحب اجمیری - سید یوسف شاه صاحب -۴- مولوی ظل الرحمن صاحب ۵ ملک محمد عبد الله صاحب - موازی محمد سمائیل صاحب دیا نگردی - مولوی ظہور حسین صاح -- عبد الرحمن جنبید ہاشمی صاحب -۹ - خان میر صاحب خارم خاص حضرت مصلح موعود وارت ۱- چوہدری منظفر الدین صاحب بنگالی ۲ - مولوی عبد الواحد صاحب کشمیر - مولوی محمد صادق صاحب چغتائی کنجاہی.لوت -:- یہ نایاب اور قیمتی تصویر جس کا تذکرہ الحکم ۲۱ مارچ ۱۹۳۶ عرصہ میں موجود ہے مولانا عبد المالک خان صاحب ناظر اصلاح دارشاد ربوہ کی جد و جہد سے دستیاب ہوئی.فجزاه الله تعالی )
سالانه قادیان منتقد ۲۰ ۲۰۷۷ دوم بھارتی احمدیوں کی فہرست ا مولانا بشیر احمد صاحب انار با احمدی میشن و امیر جماعت احمدیہ دبلی محکوم تقید محرکات احمد صاحب الفارمیشن افیسر دہلی مجھے شیخ محمد لطیف صاحب غلام نبی صاحب ناسک ه شیخ محمد عمر صاحب سر سپوری.نبی حسن صاحب احمدیہ فرنیچر سٹور و بچه داری محمد ا نپوشید صاحب ظهور الدین صاحب و حکیم خلیل احمد صاحب مونگیر 11 ۱۲ IW 4 • سید وزارت حسین صاحب صحابی پرو فیسر اختر احمد آمد نوری ڈاکٹر سید منصور احمد صاحب شمیم احمد صاحب سٹوڈنٹ میڈیکل کالج ۱۴ ، سید غلام مصطفی صاحب ۱۵ - دوست محمد صاحب ۱۶ و مولوی محمد عقیل صاحب کملی 14 اور آن خطر اور مظفر اور والے نائب امیر ویلی " اخیر احمدی در است) بہار = مولوی سمیع اللہ صاحب محمد مظہر صاحب پال
10 محکم دوست محمد ص سی ایس آئب امیر جماعت احمدید کلکته ۲۰ ، بابو محمد رفیق صاحب ۲۱ ، ظفر احمد صاحب بانی ۲۲ ، نصیر احمد صاحب بانی ۲۳ ، محمد اسحق صاحب ۲۴، محمد رفیق صاحب و بیره ۲۵ ، رشید احمد صاحب محمود ۲۶ ، ظفر احمد صاحب مديرون ۲۷ : ڈاکٹر اصغر حسین صاحب ۲۸ : مقصود احمد صاحب بہاری ۲۹ و رضوان الدین صاحب نیو i 7 ۳۰ ، سیف الدین صاحب پر منی هم شمس الدین صاحب 1 ۳۱ ، بدیع الزمان صاحب ۳۲ و سید بدرالدین صاحب سونگر هوی ۳۳ ، مولوی عبد اللطیف صاحب ہوگاہ ام ۳ محمود احمد صاحب (تبسیار بار کسی) ' ۳۵ منیر احمد صاحب و ۳۶.مولوی امیر علی صاحب ہوڑہ ۳۷، مواد فضل کریم صاحب ۳۸ دی محمود احمد صاحب مالا باری ۳۹، حلیم محمد الدین صاحب التجارب احمدی شن طبی - ۲۰ ، کے عبداللہ صاحب اہم سی کے.عبد اللہ صاحب الم کی عنایتہ اللہ صاحب س پی عبد الحمید صاحب مغرل بنگال و شیر میائی دوست) + :
ی مکرم محمد اسماعیل صاحب طالب علم حاجی بقا ء اللہ صاحب شوز مر چندے ۴۵ de ۴۹ ۵۰ ✓ " محمد یونس صاحب ٹیلر ماسٹر احسان الحق صاحب ٹیلی اسٹر حافظ رحمت الہی صاحب متری بشیر احمد صاحب میر کھو مظفر نگر بنگر ضلع مظفر نگر الطان حسین خانصاحب ادو سے پور کی ضلع شاہجہانپور ره امام علی صاحب ۵۲ + or 1 ON ۵۵ ۵۸ ۵۰ $ + حافظ سخاوت علی صاحب شاسیا لور بہادر خان صاحب سیکرٹری مالی ساند مین ضلع آگرہ همزه بی عبد القادر صاحب سٹوڈنٹ مانی گڑھ یونیورسٹی محمد شہاب صاحب بیاری ضمیر احمد صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ امر دیم مظہر الاسلام صاحب پسر مکرم مفتی حمید احمد صاحب امرد به عبدالحمید صاحب سیکرٹری مال جماعت احمدیہ ء عبد النفور صاحب 婚 ' ۶۳ سلیم احمد صاحب ارش واحمد صاحب ولد ننھے میاں صاحب نھے میاں صاحب رحیم اللہ خاص م ५५ * محمد اسمی صاحب مالا بار بغیر احمدی دوست بھوپال " " قریشی محمد یونس صاحب عبد الحی ساحید برق افروید مرتبه مولانا بشیر احمد صاحب فاضل مبلغ دہلی )
* ۱۳۲۷ ہش ۱۹۴۷ء کے در ولیش یہ نشان ان درویشوں کیلئے ہے جو قادیان سے آگئے.شمار ولدیت سکونت کیفیت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد قادیان ناظر دعوت وتبلیغ قادیان صاحب خليفة اتيح الثاني الصلح الموعود ۲.مولوی محمد حفیظ صاحب فاضل محمد اسماعیل صاحب بقا پوری قادیان (وفات ۲۹ اپریل ۲۰۰۷ء) مدرس مدرسہ احمدیہ، ایڈیٹر بدر، وفات ۵ نومبر ۱۹۸۷ یعقوب علی صاحب گھنو کے ضلع وفات ۶ دسمبر ۱۹۹۸ ۳.منظور احمد صاحب سیالکوٹ ۴ افتخار احمد صاحب اشرف ماسٹر محمد علی صاحب اظہر قادیان وفات ۱۶ جولائی ۱۹۹۰ء ۵ بابا اللہ دتہ صاحب ماہیا صاحب پلال والا ریاست جموں وفات ۱۳ دسمبر ۱۹۷۸ء فتح محمد صاحب محمد عبد اللہ صاحب قادیان قادیان وفات ۶ نومبر ۱۹۹۱ء وفات ۳۱ جولائی ۱۹۷۳ ء || بابا نور احمد صاحب باور چی عمر دین صاحب مستری محمد اسماعیل صاحب نظام دین صاحب راج گڑھلا ہور وفات ۸ دسمبر ۱۹۷۰ چوہدری عبد القدیر صاحب چوہدری سردار خان صاحب مونکی ضلع وفات ۱۳ اپریل ۱۹۸۷ء ۱۰ چوہدری حسن دین صاحب فضل دین صاحب چوہدری فیض احمد صاحب حافظ غلام غوث صاحب ۱۲ مرز امحمود احمد صاحب مرز امحمد کریم بیگ ۱۳ محمد ابراہیم صاحب غالب دلاور علی صاحب بہار ۱۴ نور محمد صاحب پونچھی فضل احمد صاحب پونچھی ۱۵ ڈاکٹر عطر دین صاحب صحابی میاں بھولا صاحب گوجر انوالہ قادیان وفات ۵ چون ۱۹۷۵ مقادیان وفات ۲۸ اگست ۱۹۷۸ء قادیان وفات ۲۰ جون ۱۹۸۶ء قادیان وفات یکم اکتوبر ۱۹۸۳ء قادیان وفات ۱۲ اکتوبر ۱۹۸۲ء قادیان ۱۴ دسمبر ۱۹۷۴ء ۱۶ حافظ عبد العزیز صاحب محمد بخش صاحب منگل باغبان وفات ۲۰ فروری ۱۹۷۳ء ۱۷ میاں اللہ دین صاحب صحابی میاں احمد دین صاحب شاہدرہ لاہور وفات ۲۸ دسمبر ۱۹۸۲ء سید حسین شاہ صاحب گلی حسام الدین وفات ۶ اکتوبر ۱۹۷۷ء ۱۸ سید محمد شریف صاحب سیالکوٹ ۱۹۷۸ ء سے ناظر بیت المال خرچ کے اہم عہدہ پر فائز تھے ( بدر قادیان ۱۲۳ اپریل ۱۹۸۷، صفحہ ۱)
سید نا حضرت مصلح موعود یا مستقل رہائش کے لئے دارا بھرت میں ورود مسعود
ربوہ میں دفتر پرائیویٹ سیکریٹری کی پرانی خام عمارت سامنے کا ایک کمرہ حضرت مصلح موعودؓ سے ملاقات کے لئے مخصوص کیا گیا تھا
۲۸۳ نام ولديت سکونت کیفیت محمد احمد صاحب نسیم کمپونڈر ای حسن کئی صاحب مالا باری کینا نور مالا بار ۲۱ جولائی ۱۹۷۵ حافظ محمد عارف صاحب کوٹ مومن وفات ۲۶ اپریل ۱۹۴۸ء حافظ نور الہی صاحب ۲۱ عبد الاحد خان صاحب کا بلی مکرم فتح محمد خان ۲۲ بابا محمد دین صاحب قادیان وفات ۲/ ۳ اگست ۱۹۶۸ء بھولا صاحب بہ کے گوجرانوالہ قادیان وفات سے جولائی ۱۹۶۸ء ۲۳ حاجی ممتاز علی خان صاحب صحابی حضرت خان صاحب ذوالفقار قادیان وفات ۲۹ ؍ جولائی ۱۹۵۴ء علی صاحب گوہر ۲۴ منشی محمد دین صاحب صحابی نوردین صاحب ۲۵ حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب مہتا گوراں دتامل کھاریاں قادیان وفات ۱۰ نومبر ۱۹۵۱ء وفات ۶٫۵ جنوری ۱۹۶۱ء قادیانی صحابی بمقام خانیوال مدفون بهشتی مقبره قاریان ۲۶ بابا شیر محمد صاحب دتے خان صاحب قادیان وفات ۲۹ اگست ۱۹۴۹ء ۲۷ بابا سلطان احمد صاحب نور علی صاحب ۲۸ ملک خیر دین صاحب کرم دین صاحب قادیان ۲۹ بابا جان محمد صاحب شاہ محمد صاحب ۳۰ با با فضل احمد صاحب صحابی میر و او صاحب گھٹیالیاں سیالکوٹ وفات ۲۲ جنوری ۱۹۶۵ء ضلع سیالکوٹ وفات ۱۷ نومبر ۱۹۲۹ء ۳۱ چوہدری محمد عبد اللہ صاحب علی گوہر صاحب لائل پور وفات ۲۶ اگست ۱۹۵۲ قادیان وفات ۱۲ مارچ ۱۹۵۸ء وفات ۲۳ جون ۱۹۶۹ء ۳۲ بابا غلام محمد صاحب ۳۳ عطا محمد صاحب فوجدار صاحب مانگا ضلع سیالکوٹ وفات ۱۲۰ اپریل ۱۹۶۷ جمعیت صاحب نو ہٹ لدھیانہ چک ۲۹۵لائلپور وفات ۶ نومبر ۱۹۶۲ء ۳۴ حاجی فضل محمد صاحب موج دین صاحب ۳۵ کپورتھلہ وفات ۲۶ نومبر ۱۹۶۶ء شیخ غلام جیلانی صاحب سمندر دین صاحب کپور تھلوی لائل پور وفات ۱۶ مئی ۱۹۶۵ء حافظ صدر دین صاحب صحابی محمد دین صاحب قادر آباد سیالکوٹ ۳۷ بابا اللہ دتہ صاحب صحابی باز خاں صاحب دوالمیال جہلم وفات ۱۰ فروری ۱۹۵۰ء ۳۸ بابا کرم الہی صاحب صحابی عید اصاحب دفات ۳ اپریل ۱۹۵۸ء بھڈیار امرتسر وفات ۲۵ ستمبر ۱۹۵۹ء ۳۹ کیپٹن ڈاکٹر بشیر احمد صاحب چوہدری مہردین صاحب دسوہہ لائل پور " تاریخ واپسی سے جولائی ۱۹۵۱ء ایم ایس سی ۴۰ بشارت احمد صاحب سیالکوٹی وفات اا نومبر ۱۹۸۷ء میڈیکل آفیسر ٹاؤن کمیٹی ربوہ خوشی محمد صاحب در بان قادیان ۴۱ محمد ابراہیم صاحب خادم مهتاب دین صاحب قادیان مدفون بہشتی مقبره ربوده
۲۸۴ نام ولديت علم دین صاحب ۴۲ ماسٹر محمد یسین صاحب سكونت کوئیٹ * کیفیت ۴۳ صوفی خدا بخش صاحب گوہر خان صاحب زیرہ ضلع فیروز پور * حال ربوه ۴۴ میر محمد اکبر صاحب میر محمد بخش صاحب ۴۵ عبدالکریم صاحب حجام اللہ وہ صاحب گوجرانوالہ تو گڑی گوجرانوالہ "بے اجازت واپس جماعت سے وابستہ نہیں ۴۶ مولوی عبد الوہاب صاحب عمر حضرت مو حضرت مولانا نور الدین قادیان خلیفة اریح الاول حسن بخش صاحب ۴۷ مستری جان محمد صاحب ۴۸ محمد تمیم صاحب قادیان محمد الدین صاحب سیلونی قادیان * * * ملک عبد الرحمن خان صاحب نوشہرہ سیالکوٹ ۴۹ ملک محمد عبد اللہ صاحب ۵۰ ملک محمد یوسف صاحب ۵۱ دوست محمد صاحب * ککے زئی رتو چھ ضلع جہلم ملک علی محمد صاحب ڈیرہ غازی خان قادیان پیرن خان ۵۲ حضرت بھائی عبد الرحیم صاحب چند سنگھ صاحب قادیانی صحابی قادیان * * مدفون بہشتی مقبره ربوه * ۵۳ نور محمد صاحب ماشکی اللہ دتہ صاحب ماشکی ۵۴ صدیق احمد صاحب نور محمد صاحب ماشکی قادیان ۵۵ حضرت حاجی محمد دین صاحب نور احمد صاحب تهالوی تہال ضلع گجرات * وفات ۹ جون ۱۹۶۵ء مدفون بهشتی مقبره ربوه تهالوی ۵۶ بابا صدرالدین صاحب ۵۷ چوہدری شکر دین صاحب نواب دین صاحب بن باجوہ بن باجوہ سیالکوٹ * فضل داد صاحب تگرال محجرات ۵۱ شیخ محمد یعقوب چنیوٹی صاحب حاجی تاج محمود صاحب چنیوٹ ضلع وفات ۱۳ جولائی ۱۹۶۰ء ڈھا کہ مدفون بہشتی مقبرہ ربوہ جھنگ ۵۹ خواجہ ضیاء الحق صاحب عبدالحق صاحب گوجر ضلع سیالکوٹ ۲۰ عبد اللہ خان صاحب فتح محمد صاحب بھڑ وال سیالکوٹ لے * ے یہاں ۲۳ در ویش صحابہ کی فہرست حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے قلم سے ہفت روزہ الرحمت لا ہور ( ۱۶ جنوری ۱۹۵۰ صفحه ۸) پر شائع شدہ ہے.فہرست میں ہر صحابی کا سال بیعت بھی درج ہے.
۲۸۵ حضرت نواب محمد الدین حنا کا ایک نایاب کتب د درج ذیل مکتوب حضرت نواب محمد الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت شیخ محمد الدین صاحب مختار عام کو لکھا تھا یہ مکتوب اس غیر معمولی شخص انہماک محنت و جانفشانی اند اما کسی ذمہ داری کا آئینہ دار ہے جو رب کریم کی طرف سے حضرت نواب صاحب کو قیام مرکز نو کے لئے عطائھا تھا.اس مراسلہ پر کوئی تاریخ درج نہیں مگر مضمون کی اندرونی شہادت اور بعض قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قطعی طور پر ۲۰ تبوک ۳۲۷ایش ستمبر ۱۹۲۰) سے قبل کی تحریر ہے جبکہ اسما مرکز کا انفتاح عمل میں نہیں آیا تھا.یہ مکتوب حضرت شیخ صاحب نے مولف کتاب کو مرحمت فرمایا تھا.) اسر مال ۱ لاہور کرمی سمہ تعالے السلام علیکم در حمتہ اللہ وبرکاتہ ! خط پہنچا.غلہ گندم جو خرید نے کی تجویز ہے جو خریدنے اس کے حفاظت سے رکھنے اور چوہوں اور کھڑ سے بچانے کے لئے کسی مناسب مکان کا اور دیگر میں یا چنیوٹ میں آیا استفام ہو سکے گا.اس بات کی اطلاع فرما دیں.امید ہے انشاء اللہ چند روز میں ٹاؤن پلاننگ آفیسر امد ان کے ساتھ ہمارا کوئی شرعیہ ہو گا) چک ڈگیا نہ سرکاری کا موقعہ دیکھنے پہنچیں گے.آپ پٹواری کا بھی پتہ رکھیں.اور خود بھلی چنیوٹ میں موجود رہیں.اور پرانے زمانہ میں ان پہاڑوں سے سنگ تو کش شائد انیس بنایا کرتے تھے.چک ڈگیانہ کے جنوب میں ایک دو میل کے فاصلہ پر ایک موضع سنگتراشان سے معلوم نہیں آیا اس موضع میں یا چنیوٹ میں کوئی سنگ تراش آیا بھی ہے یا نہیں.آج کل چاندنی راتیں ہیں اگر ہو سکے آپ چنیوٹ سے چل کر صبح سویرے دریا کے پار چک ڈگیا نہ میں دریا کے کنارے صبح کی نماز پڑھا کریں اور نماز اور دعا سے تاریخ ہونے کے بعد چک میں ٹھنڈے دفت گشت لگایا کریں اور امور ذیل پر غور کیا کریں.ا.دریا سے پمپ کے ذریعہ پانی آراضی زیر بحث پر پڑھانے کے لئے کونسا موقعہ موزون ہو گا؟ -
۲۸۶ اراضی زیر بحث میں ایک ٹیوب ویل آب پاشی کے لئے خود الگاتا ہے اس کے لئے کون سا موقع موزوں ہو گا.عمارتوں کے لئے پختہ نئیں تیار کرنے کے بھٹے لگانے ہوں گے ان کے لئے کوئی موقع ہوتا کیا ہے.- آئنده ماه ساون میں پھلدار درخت آم و غیره اور نیز شیشم و یوکلپٹس و د هر یک و کیم کے درخت رقبہ زیر بحث میں کس کس موقع پر لگانے مناسب ہوں گے.یہ بھی معلوم کریں.آیا اس نواح میں کہیں درختوں کی نرسری ہے اگر نہ ہو تو احمد نگر کوئی مناسب نرسری ذخیره درختان کے لئے تجویز کیا جائے.- موضع احمد نگر کا بہت سا رقبہ سڑک پخته ما بین چنیوٹ دلالیاں کے رہائیں جانب چنیوٹ سے لالیاں جاتے ہوئے بنجر پڑا ہے.اگر وہ رقبہ مناسب قیمت پر ہم خریدد سیوں تو غالباً اس کو نہری بنایا جاسکتا ہے.وہ رقبہ دیکھیں اور معلوم کریں کہ کس کی ملکیت ہے اور آیا اس کا خمیر کرنا مناسب ہوگا.اپنے طور پر یہ حالات معلوم کریں یہ ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں کہ ہم اس کو خریدنا چاہتے ہیں..آپ یہ بھی غور کریں کہ مکانات بنانے کے لئے کونسا قطعہ موزوں ہوگا.یعنی آبادی دیہ کہاں ہوتی چاہتے تمارے کارہ نے اور کالج وسکول فضل عمر انسٹی ٹیوٹ لائبریری وغیرہ کے لئے کونسا موقعہ موزون ہوگا.؟ قبرستان کہاں ہونا چاہیئے.- احمد نگر یں کچھ رقبہ نہر سے آسائش ہو تا ہے.آپ وہ راجباہم رکھیں جب سے اس رقبہ - کو نہری پانی ملتا ہے.آپ نہر محکمہ میں رہ چکے ہیں.پٹواری نہر د ضلعدار سے بھی ملیں.اور اس امر پر غور کریں کہ اس موضع کے باقی رقبہ کو جو اس وقت نہری نہیں ہے نہری آبپاشی میں لانے کے لئے کیا تجویز ہوسکتی ہے ؟ کور رنمنٹ کو ضرورت ہے غلہ کی پیداوار بڑھا نے کی.اور اس ضرورت کی حرف توجہ دلا کر اس رقبہ کی آبپاشی کا انتظام کیا جاسکتا ہے.اگر یہ بنجر رقبہ سرکارکیا ہے.تو سردست ہم سرکار سے ماریشی کاشت پر لینے کی درخواست کر سکتے ہیں.
۲۸۷ ہوا امور میں نے اوپر درج کئے ہیں ان میں سے بعض کے متعلق آپ مولوی ابو العطار حساب اور احمد نگر میں دوسرے دوستوں سے بھی مشورہ کر سکتے ہیں.اور اس علاقہ کے پرانے زمینداراں سے بھی اپنے طور پر معلومات حاصل کر سکتے ہیں.۱- جب کام شروع ہوگا.حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزینیا کی لاش کے لئے چنیوٹ میں کوئی موزوں مکان ( کی ضرورت ہوگی.چنیوٹ اسٹیشن کے نزدیک شہر سے باہر کوئی بنگلے ہیں جو شاید پناہ گزینوں کے قبضہ میں ہوں گے.ان کا خیال رکھیں حبیب ان میں سے کوئی ننگہ خالی ہو لوٹا اپنے نام الاٹ کرانے کی کوشش کریں.حضرت صاحب کے طبیعت سے آپ واقف ہیں.حضور ہرگز یہ پسند نہیں کرتے کہ کسی کو تکلیف پہنچے جو مکان آپ حاصل کریں ایسے طور پر عمل ہو کہ کسی کو وجہ شکایت نہ پیدا ہو.11- احمد نگر اور لالیاں میں بھی حضور کے لئے مکان ہونا چاہئے جہاں آپ کبھی کبھی استراحت فرما سکیں.لالیاں ہیں تو ڈاک بنگلہ موجدہ ہے لیکن احمد نگر میں ایسی صورت نہیں وہاں جس جگہ ٹھیکہ ہم نے کھانا کھایا تھا وہ ٹوٹے پھوٹے مکانات ہیں.گاؤں کے اندر مسجد کے نزدیک اگر کوئی مکان ہو جو تھوڑے نظیر و تبدل کے بعد حضور کی عارضی رہائش کے لئے موزوں بن سکے تو بہتر ہو گا.بلاس یہ وادی غیر ذی زرع میں مہاجرین قادیان کی بستی کی بنیاد رکھی جانے والی ہے.ہمارے دوستوں کو جو چنیوٹ میں ہیں اور جو احمد نگر میں میں تعطیل کے دن وہاں پہنچے کہ دعائیں کرنی چاہئیں اور وہ نظار و قائم کرنا چاہیے جو حضرت ابراهیم علیہ السلام نے مکہ معظمہ کی بنیاد رکھتے وقت اپنی دعاؤں سے قائم کیا تھا.۱۳ اس نواح میں جو احمدیوں کے مواضعات اضلاع جھنگ، لائل پور سرگودھا میں واقعہ ہیں.اُن کا بھی آپ پتہ لے رکھیں.١٢- لالیاں اور چنیوٹ میں غالباً کپاس وغیرہ کے کارخانے ہیں.ان کی میعاد اگست تک ہے.جن لوگوں نے پچھلے مہینوں میں کارخانوں کو ٹھیک طور پر نہیں چلایا ان سے کارخانے لے کر غالبا دوسروں کو بچہ انتظام کے اہل ہوں دیئے جائیں گے ان کارخانوں کی بابت کبھی آپ معلومات حاصل کریں.
MAA کیا دریا کے کنارے چنیوٹ میں کوئی لکڑی منڈی ہے.انشاء اللہ ہم اپنی عمارتوں کے لئے دیار اور چیڑ وغیرہ کی لکڑی وزیر آباد سے دریا کے راستہ لایا کریں گے اور ڈگیا نہ کے مجاز لکڑی منڈی کا موقع تجویز کرنا ہوگا.-14.چنیوٹ اور احمد نگر کے درمیان کسی مناسب موقع پہ اٹل لیپ کی تجویز بھی کرنی ہوگی.۱۷- اگر آپ ریلوے لائن پر چنیوٹ کی طرف سے لالیاں کو چلیں تو چیک ڈگیاں میں ایک موقعہ پر پلا ہے اس پل سے بارشی پانی مثال مشرق سے جنوب مغرب کو دریا کی طرف جاتا ہے.اگر اس بارشی پانی کو روکنے کے لئے اس نالی پر دو تین موقعوں پرچھوٹے چھوٹے بند لگادیئے جائیں تو بارشی پانی کی چند ایک چھڑیاں نشیب میں بن جائیں گی اور اغلب ہے کہ اچھی بارش کی صورت میں دہاں اتنت پانی مجھے ہو جائے کہ مال مویشی کے لئے کئی ماہ تک کام سکے.اس کے متعلق آپ خریت کا اندازہ کر کے حضرت میاں صاحب کی خدمت میں روپے کریں ۱۴ چک ڈگیاں کا رقبہ عموما کلا بھی ہے کل اٹھی زمین میں کیکر کا درخت اگر میں نکلے تو زمین دست ہونے میں الم ملتی ہے اس لئے بارشیں لائنوں میں بارش کے موسم میں کھڑ میں گر کیک کا بیچ دیا مہارے تو کیکر چل نکلیں گے.19- ان چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں میں کوئی درخت نہیں ہیں کیونکہ بکریاں چراتی ہیں ان پر درخت اگنے نہیں پاتے.اگر ہم کوئی چھائی منع کر دیں تھے تو امید ہے ان پہاڑوں پر گھاس اور ایندھن کی کچھ پیداوار ہو سکے.پہاڑیوں کے دامن میں ایسے موقع تلاش کرنے چاہئیں جہاں تھوڑا سا بند لگانے سے پیار کے بارشی پانی کے چھوٹے تالاب چھپڑیاں بن جادی جود پوریں چھوٹی چھوٹی پاڑیوں کے دامن کی رہنے والے زمیندار آبنوسٹی کے ایسے تالاب بنا رکھتے ہیں.۲۰ شروع میں ماہ کے لئے ہم کو عملہ کے لئے اور معماروں اور مزدوروں کے لئے چھیروں کی ضرورت ہوگی.اس علاقہ میں پھسپر بند مل جایا کرتے ہیں اس کے متعلق بھی آپ تمام کریں کہ کیا اسے چھپر بند مل سکتے ہیں.ا ان پہاڑیوں کے اوپر چھوٹے چھوٹے مکان بنے ہوئے ہیں اور ایک اچھی سچنہ بلڈنگ دریا کے کنارے ریلوے بریت کے نز دیک چنیوٹ کی جانب واقع ہے.وہ غالباً خالی ہے.ہم ایسے خالی مکانات کا قبضہ
۲۸۹ لے لیوکیا.جب تک ہمارے مکانات نئے قصبہ میں تیار نہیں ہوتے.یہ مکانات استعمال میں آ سکیں گے.امید ہے آپ بفضلہ تعالئے ہر طرح صحت وعافیت سے ہوں گے.آپ کا محمد الدني نقوش پریس لاهور