Language: UR
یورپ کی روحانی فتح کیلئے نئے احمدیہ مشنوں کے قیام سے لیکر ربوہ کے عالمی مرکز کی بنیاد تک۔(پرانے ایڈیشن کے مطابق جلد 12)
تاریخ احمدیت جلد دواز دهم ورپ کی روحانی فتح کیلئے نے احد شینواک جام سے لیکر ربوہ کے عالمی مرکز کی نیاز تنگ مؤلفى دوست محمد شاهد الناشر ادارة المصفين، ربوه
تاریخ احمدیت جلد یاز دہم مولا نا دوست محمد شاہد 2007 : 2000 نظارت نشر و اشاعت قادیان پرنٹ ویل امرتسر : : : مرتبہ طباعت موجودہ ایڈیشن تعداد شائع کردہ ISBN-181-7912-118-6 مطبع TAAREEKHE-AHMADIYYAT (History of Ahmadiyyat Vol-11 (Urdu) By: Dost Mohammad Shahid Present Edition : 2007 Published by: Nazarat Nashro Ishaat Qadian-143516 Distt.Gurdaspur (Punjab) INDIA Printed at: Printwell Amritsar ISBN-181-7912-118-6
سید نا حضرت مصلح موعودؓ کے سفر تو رخم کا ایک یاد گار فوٹو ۶ شہادت ۳۲۷ اهش اپریل ۱۹۴۸ ء.ناموں کی تفصیل ضمیمہ میں درج ہے )
بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى عَلَى رَسُولِهِ الكَري وَعَلَى عَبْد المسيح الموعود پیش لفظ اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں داخل فرماتے ہوئے اس زمانہ کے مصلح امام مہدی و مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے کی توفیق عطا کی.قرونِ اولیٰ میں مسلمانوں نے کس طرح دُنیا کی کایا پلٹ دی اس کا تذکرہ تاریخ اسلام میں جا بجا پڑھنے کو ملتا ہے.تاریخ اسلام پر بہت سے مؤرخین نے قلم اٹھایا ہے.کسی بھی قوم کے زندہ رہنے کیلئے اُن کی آنے والی نسلوں کو گذشتہ لوگوں کی قربانیوں کو یا درکھنا ضروری ہوا کرتا ہے تا وہ یہ دیکھیں کہ اُن کے بزرگوں نے کس کس موقعہ پر کیسی کیسی دین کی خاطر قربانیاں کی ہیں.احمدیت کی تاریخ بہت پرانی تو نہیں ہے لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے الہی ثمرات سے لدی ہوئی ہے.آنے والی نسلیں اپنے بزرگوں کی قربانیوں کو ہمیشہ یادرکھ سکیں اور اُن کے نقش قدم پر چل کر وہ بھی قربانیوں میں آگے بڑھ سکیں اس غرض کے مدنظر ترقی کرنے والی قو میں ہمیشہ اپنی تاریخ کو مرتب کرتی ہیں.احمدیت کی بنیاد آج سے ایک سو اٹھارہ سال قبل پڑی.احمدیت کی تاریخ مرتب کرنے کی تحریک اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل میں پیدا فرمائی.اس غرض کیلئے حضور انور رضی اللہ عنہ نے محترم مولا نا دوست محمد صاحب شاہد کو اس اہم فریضہ کی ذمہ داری سونپی جب اس پر کچھ کام ہو گیا تو حضور رضی اللہ تعالیٰ کو اہم تو عنہ نے اس کی اشاعت کی ذمہ داری ادارۃ المصنفین پر ڈالی جس کے نگران محترم مولانا ابوالمنیر نور الحق صاحب تھے.بہت سی جلدیں اس ادارہ کے تحت شائع ہوئی ہیں بعد میں دفتر اشاعت ربوہ نے تاریخ احمدیت کی اشاعت کی ذمہ داری سنبھال لی.جس کی اب تک 19 جلدیں شائع ہو چکی ہیں.ابتدائی جلدوں پر پھر سے کام شروع ہوا اس کو کمپوز کر کے اور غلطیوں کی درستی کے بعد دفتر اشاعت ربوہ نے
اس کی دوبارہ اشاعت شروع کی ہے.نئے ایڈیشن میں جلد نمبر ۱۲ کوجلد نمبر ۱ بنایا گیا ہے.حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے قادیان سفر کے دوران تاریخ احمدیت کی تمام جلدوں کو ہندوستان سے بھی شائع کرنے کا ارشاد فرمایا چنانچہ حضور انور ایدہ اللہ کے ارشاد پر نظارت نشر و اشاعت قادیان بھی تاریخ احمدیت سے مکمل سیٹ کو شائع کر رہی ہے ایڈیشن اول کی تمام جلدوں میں جو غلطیاں سامنے آئی تھیں ان کی بھی تصحیح کردی گئی ہے.موجودہ جلد پہلے سے شائع شدہ جلد کا عکس لیکر شائع کی گئی ہے چونکہ پہلی اشاعت میں بعض جگہوں پر طباعت کے لحاظ سے عبارتیں بہت خستہ تھیں اُن کو حتی الوسع ہاتھ سے درست کرنے کی کوشش کی گئی ہے.تا ہم اگر کوئی خستہ عبارت درست ہونے سے رہ گئی ہو تو ادارہ معذرت خواہ ہے.اس وقت جو جلد آپ کے ہاتھ میں ہے یہ جلد یاز دہم کے طور پر پیش ہے.دُعا کریں کہ خدا تعالیٰ اس اشاعت کو جماعت احمد یہ عالمگیر کیلئے ہر لحاظ سے مبارک اور بابرکت کرے.آمین.خاکسار برہان احمد ظفر درانی ( ناظر نشر و اشاعت قادیان)
بسم الله الرحمن الرحيمة محمد وَنَصَلَّى عَلَى رَسُوله الكريمة تاریخ احمدیت کی بارھویں جلد د رقم فرموده حفر چوهدری محمد ظفر اللہ خانصاحب صدر عالمی عدالت احسان ادارۃ المصنفین کی طرف سے تاریخ احمدیت کی بارھویں جلد طبع ہو کر احباب جماعت کے ہاتھوں میں پہنچ رہی ہے.اس کے بیشتر حصہ کو میں نے دیکھا ہے.اس میں مغلیہ، فرانس ، سپین، سوئٹرز لینڈ اور ہالینڈ میں اشاعت اسلام کے لئے جماعت احمدیہ کے نئے مشنوں کے قیام کا ذکر ہے اور اس بات کا مفصل تذکرہ کیا گیا ہے کہ کی حالات میں میشن قائم ہوئے اور احمدی مبشرین نے کیس کیس رنگ میں اشاعت اسلام کا فریہ ادا کرتے ہیں مساعی جمیلہ کیں ار ان مسائی کے نتیجہ میں اب تک کس قدر سعید رو میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کے نیچے جمع ہوئی ہیں.۱۹۴۷ میں ہجرت کے بعد حضرت مصلح موعود خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ جب لاهور تشریف فرما تھے تو آپ نے پاکستان کے بڑے بڑے شہروں پشاور، راولپنڈی، کوئٹہ اور کراچی میں انتظام پاکستان کے متعلق ٹیچر دیے تھے.ان میکروں میں حضور نے اس بات کو مفصل طور پر بیان فرمایا کہ پاکستان ایک مضبوط متحد اور تحکم مملکت کیسے بن سکتی ہے.ان لیکچروں کی تفصیل بھی اس جلد میں بیان کر دی گئی ہے.اگر آج بھی اہالیان پاکستان ان امور کو مشعل راہ بنائیں تو پاکستان ایک مضبوط اور قابل احترام مملکت بن سکتا ہے.اسرائیلی حکومت کے قیام پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے مسلمانان عالم کو متحد کرنے کی غرض سے ایک بین الاقوامی تحریک اُٹھائی تھی جس پر شرق بوعلی کے مسلم پریس نے بالاتفاق فراری اسکیمیں اور کیا اور اس بات کا اعتراف کیا کہ اس فتنہ پر کاری ضرب لگانے کے لئے حضور رضی اللہ عنہ کی تحریک کو اپنائے بغیر کوئی چارہ نہیں.اس جد وجہد کا بھی اس جلد میں ذکر ہے.کتاب کے آخر میں پاکستان میں جماعت احمدیہ کے عالمی مرکز ربوہ کے قیام
مية اور افتتاح کا ذکر ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق جماعت کو بکھرنے کے بعد مضبوط شیرازے میں جمع کر دیا اور ایسا عظیم مرکز عطا کیا جس سے پھر اعلائے کلمتہ اللہ کا کام شروع ہوگیا اور مبشرین اسلام بیرون پاکستان اشاعت اسلام کے لئے جانے لگے.الغرض یہ جلد پہلی جلدوں کی طرح نہایت ضروری اور اہم امور پر تشتمل ہے.ہمارے نوجوانوں کا اپنی تاریخ سے واقف ہونا نہایت ضروری ہے اس لئے میں جماعت کے نوجوانوں سے خصوصا اور دیگر احباب جماعت سے عموماً درخواست کرتا ہوں کہ وہ نئی چیلد کو جلد از جلد حاصل کر لیں اور اپہلی شائع شدہ جلدوں کا اگر اُنہوں نے مطالعہ نہیں کیا تو ان کا مطالعہ بھی کریں تا وہ مقصد میں کے حصول کے لئے ہم نے تن من دھن قربان کرنا ہے وہ ہر وقت ہمارے سامنے رہے.وبالله التوفيق.والسلام کانسار ظر الله خان
بسم الله الرحمن ال نحمده ونصلى عَلَى رَسُولِهِ الكَري وَعَلَى عَبد المسيح الموعود لفظ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی توفیق سے تاریخ احمدیت کی بارھویں جلد مکمل ہو کو احباب کی خدمت میں پیش ہو رہی ہے.گیار ٹھٹویں جلد میں اُن واقعات کا ذکر تھا ہو یا تقسیم ملک کے بعد رونما ہوئے نیز ہجرت کے بعد حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے جس عزم اور بہادری سے جماعت کے نظام کو دوبارہ قائم فرمایا اسکا ذکر کیا گیا تھا.اس جلد میں حضور کی اس عظیم جدوجہد کا ذکر ہے جو آپ نے پاکستان میں وارد ہونے کے بعد استحکام پاکستان کے لئے کی.آپ نے لاہور، کراچی، کوئٹہ اور پشاور کا سفر اختیار کیا اور ملک عزیز کے ان بڑے بڑے شہروں میں پبلک سب کچھر دیئے جن میں ان امور کو مفصل طور پر بیان فرمایا جن کو مد نظر رکھنے سے پاکستان مضبوط بنیادوں پر قائم ہو سکتا ہے جضورت کے ان بصیرت افروز خطبات سے آپ کی عظیم بصیرت اور ذہانت کا پتہ چلتا ہے.جماعت احمدیہ کا اہم شن دنیا میں اسلام کی اشاعت ہے.اس فرینہ کو سر انجام دینے کے لئے منقلیہ، فرانس، سپین، سوئٹزرلینڈ اور ہالینڈ میں جن حالات میں تلبیغی مشن قائم ہوئے اور مبلغین کو جو جد و جہد کرنی پڑی اس کا بھی مفصل ذکر جلدہ کے شروع میں کیا گیا ہے.پاکستان میں جماعت احمدیہ کے عالمی مرکز ربوہ کا قیام ہماری تاریخ میں ایک عظیم واقعہ ہے.اس کا افتتاح کس رنگ میں عمل میں آیا اس کا مفصل ذکر بھی اس جلد کا حصہ ہے.کتاب کے آخر میں ایک ضمیمہ لگایا گیا ہے جس میں افتتاح ربوہ کے موقع پر افتتاح کی مبارک تقریب میں شامل ہونے کی سعادت حاصل کرنے والے احباب کے اسماء کا اندراج کیا گیا ہے.اسی طرح سیدنا حضرت امیر المؤمنين المصلح الموعودا و حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کے بعض خطوط کا عکس
بھی دیا گیا ہے.ادارۃ المصنفین تمام ان اصحاب کا جنہوں نے اس جلد کی تیاری میں کسی نہ کسی رنگ میں مدد کی ہے ولی شکریہ ادا کرتا ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان سب کی محنت کو نوازے اور اپنے فضلوں کا وارث کرے.(آمین) خاکسار ابوالمنير نور الحق ادارة المصنفين ربوع کتابت : حمید الدین ربوه
66 فه سر مضامین تاریخ احمدیت تبلد دوازدهم عنوان صفحه عنوان دیباچه تحریر فرموده محترم چوہدری محمد ظفرالله خالصات عیسائی لیڈروں کو قبولِ اسلام کی دعوت پہلا باب سفر پالیم صفحه ۲۱ ٢٢١ یورپ ، مشرق وسطی اور مشرق بعید کے نئے مرکز پر بوجھ ڈالے بغیر شن جاری رکھنے کا عزم اہل کلیسا کے غلط نظریات کی تردید کے لئے تبیینی ۲۳ احمدی مشنوں کی بنیاد سے لے کر متفرق مگر اہم واقعات تک.فصل اول احمدیہ سلم من فرانس کا قیام اسلام کا دور اول اور فرانس.لیکچروں کا سلسلہ.فرانسیسی لٹریچر کی تیاری پہلی فرانسیسی روح کا قبول اسلام مجاہد فی انس کی مرکز میں واپسی حضرت مصلح موعود کا قیام فرانس تبلیغ اسلام کے 4 تبلیغی مساعی کا فرانس پر اللہ فصل دوم لئے جد و جہد اور پر سوز دعائیں.فرانس میں تبلیغی مشکلات احمدی مسلم سپین میشن کا احیاء اور اس کی شاند در حضرت امیر المومنین کا نہایت اہم بیان دوسری جنگ عظیم کے بعد فرانس میں احمدیہ سلام میشن ۱۲ اسلامی خدمات کا قیام.احمدی مجاہدین کے پیرس میں پہلے تین روز ۱۲ تجار یونا سپین کے پہنچتے ہیں.فرانس مشن کی پہلی رپورٹ ۱۴ پیکن میں تبلیغی مشکلات تبلیغ کی قانونی اور سرکاری اجازت اور پریس کانفرنس روسی ترجمان کا قبول اسلام " ۲ ۲۹ تبلیغی سرگرمیوں کا باضابطہ آغاز.دو ہسپانوی باشندوں کا قبول اسلام MI رائٹر کے نامہ نگار کا ایک مضمون اسلام کا نیا حملہ 12 لیکچر اسلام کا اقتصادی نظام کے ہسپانوی ترجمہ ۳۳ یورپ پر کی اشاعت.فرانس میں پہلا تبلیغنی پبلک جلسہ ۲۰ کتاب کی مقبولیت
عنوان حضرت مصلح موعود کا اظہار خوشنودی صفحه عنوان ۳۶ قرطبہ میں ورود مسعود حضرت مصلح موعود کا مکتوب گرامی بارسلونہ کی غرناطہ میں آمد ایک ہسپانوی خاتون کے جواب میں.اسلامی اصول کی فلاسفی کے ہسپانوی ترجمہ کی اشاعت ۳۷ شوکتِ اسلام کے لئے حضور کی پر سوز دعائیں اور ان کی قبولیت پر آسمانی بشارت.احد میشن کی دیگر ابتدائی نوسالہ عمومی سرگرمیاں ۴۲ غرناطہ سے طلیطلہ تک از ماه ظهور راگست تا من برادری ) تو مسلموں کی تعلیم و تربیت اسلام پر سرکاری پابندی ۶۱۹۵۶ حضرت مصلح موعود کی طرف سے خطبہ جمعہ میں زیره دست احتجاج - جماعت احمدیہ کی طرف سے منظم احتجاج مشرقی پاکستان کے مسلم پریس کا احتجاج را مراجعت حضرت امیر المومنین کے انٹرویو کی اشاعت گرفته میڈرڈ کے مشہور اخبار ہیں.۴۶ احمدید یہ سلم میشن سپین رجسٹر ڈ ہو گیا وار التبلیغ سپین کی شاندار خدمات پر ایک طائرانہ نظر افریقہ اور مشرق وسطی کے مسلمان سفیروں کو پیغام حق لیغ اسلام پر پابندی کے بعد سے خلافت ثانیہ ۵۳ احد یشن کے ذریعہ حلقہ بگوش اسلام ہونے والوں تبلیغ اسلام کے اختتام تک تا ) نکرده تقاریب و اجتماعات میں شرکت تبلیغ بذریعہ خطوط ۶۱۹۷۵ ۵۶ کے اسماء.سینی کی نسبت حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی صفحه 41 " " HA و" پر شرکت پیش گوئی.چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب اور صاحبزادہ فصل سوم مرزا مبارک احمد صاحب کی سی تین میں تشریف آوری منقلیه درسیلی میں اشاعت اسلام سین بشی کی نشاۃ ثانیہ خلافت ثالثہ میں حضرت مصلح موعود کا عزم بالجزم اسلامی لٹریچر کی وسیع پیمانہ پر ترسیل اور اس کے مبلغین اسلام کا سی تسلی ہمیں ورود سيدنا المصلح الموعود کی طرف سے اظہار خوشنودی ۷۴ اثرات سر براہ مملکت سپین کے نام تبلیغی مکتوب فصل چهارم حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ سوئٹزرلینڈ میشن کا قیام تعالیٰ کا مبارک سفر سپین.زار روپے میں احمدی مجاہدین کے ابتدائی چنے ایام امیری J 64
صفحه عنوان ٹریکٹ ” قبر مسیح کی اشاعت اور احمد می میان کو A ملک سے باہر نکالنے کی مسیحی سازش.تبلیغی اجلاسوں کا نہایت مفید سلسلہ AM عنوان صفحه پر زور اور موثر تحریک.سوئٹزرلینڈ کے عیسائی چوچ کا رد عمل مسجد کی تکمیل اور اخبارات میں چرچا ۱۳۴ سوئٹر لینڈ مشن کے ذریعہ جرمنی میں اشاعا السلام مسجد محمود سوئٹزرلینڈ کا چوہدری محمد ظفر اللہ خاں ۱۳۵ ابتدائی دور میں قبولِ اسلام و احمدیت کرنے والے خوش نصیب - AN صاحب (صدر جنرل اسمبلی ) کے ہاتھوں پر شوکت افتتاح - ۱۴۱ رسالة الاسلام" کا اجراء اور اس کی مقبولیت ۸۰ مسجد محمود کے ملک گیر اثرات و برکات تبلیغی ٹریکٹوں اور جرمن ترجمہ قرآن کی اشاعت ۹۱ صاجزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر (۱۴۴ سوئٹزر لینڈ میں.اور اس کے وسیع اثرات.جر من ترجمہ قرآن پر سوئیس پولیس کے شاندار تبصرے ۹۴ حضرت خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کا حضرت سید نا المصلح الموعود کا زیورچ میں رو مسعود ۱۰۹ مبارک سفر سوئٹزرلینڈ.زیورچ میں حضرت مصلح موعود کی نہایت اہم دینی مصروفیات 111 مسجد محمود میں اس کی تقریب عید الاضحیہ رومن کیتھولک کے پوپ کو تبلیغ اسلام احمد یڈیشن کی اسلامی خدمات اور حلقہ مخالفین سوئٹر لینڈ کے علمی طبقوں میں اسلام کا عام چرچا آسٹریا میں تبلیغ اسلام احمدیہ گزٹ کا اجراء ۱۳ A " افصل نیم احمدیہ سلم میشن ہالینڈ کا قیام مستقل مشن کا قیام ۱۱۹ مبلغ اسلام کی ابتدائی تبلیغی سرگرمیاں ۱۲۱ دو مجاہدین تحریک جدید کی آمد اور حلقہ تبلیغ میں زیور میں تعمیر مسجد کے لئے قطعہ زمین کا حصول مرگ وسعت.۱۴۵ ۱۴۷ ۱۴۸ ۱۵۳ ۱۵۴ 19.قطعہ زمین پر کھدائی اور دعا لائیڈن یونیورسٹی کے مسلم طلباء کے اجلاس " اخراجات کے تعلق میں صاجزادہ مرزا مبارک احمد ۱۲۳ ہالینڈ میں تبلیغی ٹریکٹیوں کی اشاعت اور اُن کا اثر ۱۶۱ تبلیغی اجلاسوں کا آغاز صاحب کا فوری اقدام - حضرت سید ہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کے دست ابتدائی ولندیزی احمدی مبارکہ سے سوئٹزرلینڈ کی پہلی مسجد کا سنگ بنیاد بلکہ ہالینڈ اور پریس کے نام تبلیغی خطوط چندہ مسجد کے لئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی ۱۳۰ " کی کو چوت میں خوشگوار تبد یلی والی
عنوان مبلغین اسلام کی ہالینڈ میں سہ روزہ کا نفرنس ڈوچ ترجمہ قرآن کی طباعت و اشاعت صفحه ۱۶۵ 114 عنوان ترکی اور مراکش کے مسلمانوں کی خدمت نابیناؤں کے لئے ڈریچ ترجمہ قرآن کے لئے خصوصی ملکہ ہالینڈ اور عمائد مملکت کو قرآن مجید کا تحفہ اور ۱۷۲ تعاون.پریس صفحه 196 " عیسائی حلقوں کی طرف سے ہالینڈ میں چرچ کے 197 مسجد ہالینڈ کے لئے قطعہ زمین کا حصول ۱۷۴ زوال کا واضح اعتراف 160 مسجد بیگ کی ابتدائی خبر ڈیچ استخبارات میں حضرت مصلح موعود کی طرف سے چندہ کی تحریک ۱۷۷ فتوحات عیسائی چوری کی نظر میں.اور احمدی مستورات کا شاندار مالی جہاد سنگ بنیاد حضرت مصلح موعود کا پیغام ی افتتاح کی بابرکت تقریب تکمیل مسجد کے لئے مزید چندہ کی تحریک ہالینڈ میں اسلام کی واضح پیش قدمی اور ابتدائی ہالینڈ میں جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات 169 مسلم زعماء کی نظر میں.، ہالینڈ مشن کا پیدا کر وہ لٹریچر IA.ہالینڈ کے بعض مخلص احمدیوں کا تذکرہ احمدیہ دار التبلیغ ہالینڈ میں نامور شخصیتوں کی آمد ہالینڈ میں حضرت مصلح موعود کی تشریف آوری فصل ششم " مرکز احمدیت سے دوسرے مجاہدین اسلام کی آمد احمدیہ مسلم من بورنیو کا قیام و رسالہ الاسلام" کا اجراء ۱۸۵ احمدیت کا نفوذ مستقل مشن کا قیام ایک مشہور عیسائی پادری سے پہلک مناظرہ کیتھولک اور پرائٹسٹنٹ عیسائیوں کا اسلام کے ۱۸۷ بور نیومیں دوسرے مجاہدین احمدیت کی آمد خلاف گٹھ جوڑ اور حضرت مصلح موعود کا پر حکمت ارشا بورنیو میں ٹھوس علمی لٹریچر کی اشاعت تبلیغی دورے 4 جماعت کی سرگرمیوں سے عیسائی حلقوں میں اضطراب مذاہب عالم کا نفرنس میں اسلام کی مور نمائندگی ۱۸۸ اور احمدیت کے خلاف عیسائی حکومت کی مخالفت حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا سر زمین ہالینڈ میں ۱۸۹ کا آغاز.دو بار ورود ستوده ینگ کونگی اسٹیٹ میں دورے خدائے ذوالجلال کی قدرت کے ایک نشان کا ظہور 190 سیکشن میں پہلا جلسه پیشوایان مذاہب 146 ٢٠٩ ۲۱۲ ۲۱۳ ۲۲۴ 4 ۲۲۵ کیتھولک سنٹر کو دعوت متقابلہ 140 یک کٹی میں پہلا پبلک جلسہ
صفر عنوان رسالہ PEACE کا اجراء عنوان ۲۲۸ مبشیر اسلامی کا عدن میں ورود را ناؤ میں احمدی مبلغ اور جماعت احمدیہ کے ۲۲۹ ابتدائی تبلیغی سرگرمیاں خلاف فتنه مباحثہ راناؤ سرکاری مخالفت ۲۳۲ علماء کی مخالفت صفح ۳۴۴ ۲۴۶ مر حکومت کی مسلم کش پالیسی کے خلاف موثر آواز ۲۳۳ شیخ عثمان میں دار التبلیغ کا قیام اور اس کے ۲۴۷ مشرقی ساحل میں احمدیت کی آواز ۲۳۴ عمده اثرات حضرت مصلح موعود کی بعض خصوصی ہدایات ۲۳۵ عبدالله محمد مشبوطی کی قبول احمدیت وسیع تبلیغی دوره " ۲۳۷ علماء کی طرف سے کمشنر کو عرضی اور اس کا رد عمل ۲۴۸ ڈاکٹر حافظ بدرالدین احمد صاحب کا سفر فلپائن ڈاکٹر فیروز الدین صاحب کا انتقال " ۲۵۰ ۲۵۱ " را ۲۵۲ " ۲۵۳ " ۲۵۵ برونائی اسٹیٹ میں احمدیت پاکستانی باشندوں میں تنظیم کی جد و جہد سر اوک کے خیر سگالی وفد کو پیغام حق مبلغین کا تعارفی دوره افریقی ایشیائی جرنلسٹوں سے ملاقات نئی مشکلات ۲۳۸ " ایک اور عالیم آغوش احمدیت میں عیسائی مشنری کا تعاقب مباحثے اور انفرادی ملاقاتیں بیرونی شخصیتوں تک پیغام حق ۲۳۹ مبلغ عدن کی واپسی ایک عربی مکتوب کی اشاعت ریڈیو پر احمدیت کے خلاف پروپیگینڈا اور محمود عبد الله شبوطی کا عزم ربوہ اس پر احتجاج.احمدیہ مسلم سالانہ کا نفرنس کی بنیاد کمرنگ سا باہ کی احمدی جماعتیں بعض مخلصین کا تذکرہ فصل هفتم عدن مشن کا قیام عد آن کا محل وقوع اور تبلیغی اہمیت عدن مشن کے قیام کا پس منظر ۲۴۰ پہلا پیلاک جلسه محمود عبداللہ شبوطی کی مراجعت وطن اور تبلیغ حق فصل مشتم ۲۴۱ کو الف قادیان از ۱۶ ماه نبوت / نومبر تا ۳۱ فتح دسمبر ۲۴۳ درویشان قادیان کے لیل و نہار حضرت مرزا بشیر احمد صاحے کے م ۲۲۴ اہم خطوط -.
صفحہ عنوان فصل نهم عنوان لاہور سے ناصر آباد تک ہ اللہ کے بعض متفرق مگر اہم واقعات ناصر آباد میں قیام اور کراچی کے لئے روانگی چو ہد ری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی اقوام متحدہ میں ۲۶۴ کراچی میں آمد مسئلہ فلسطین سے متعلق پر شوکت تقریر خطبہ جمعہ میں خدا تعالیٰ کی خوشنودی اور رضا حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کا ۲۶۸ اختیار کرنے کی تحریک.سفیر انگلستان بیرونی مشنوں کے حالات مجاہدین احمدیت کی بیرونی ممالک کو روانگی اور واپسی ۲۷۰ انقلاب انگیز خطاب.چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا تقرر ۲۷۱ کراچی میں پولیس کا نفرنس وزیر خارجہ پاکستان کی حیثیت سے.کی نئی مطبوعات بعض جلیل القدر صحابہ کا انتقال دوسرا باب خالق دینا ہال میں عظیم الشان پبلک لیکچر ۲۶۹ تھیو سافیکل ہال میں خواتین اسلام سے جماعت احمدیہ کو تین بنیادی نصائح ۲۷۳ سفر پیشاور گاڑی پشاور شہر کے اسٹیشن پر پشاور میں پہلا پبلک لیکچر ہیں صفحه PAY ۲۸۷ ۲۸۸ ۲۹۲ ۲۹۶ ۳۰۱ ٣٠٩ حضرت مصلح موعود کی استحکام پاکستان سے ۲۷۷ لنڈی کوتل کے شنواری اور آفریدی سرداروں کے ۳۱۳ متعلق مغربی پاکستان کے مشہور شہروں میں پبلک ایک وفد کی ملاقات.تقاریر سے لے کر جماعت احمدیہ کے نئے مرکز ربوہ اخبار الجمعية" (پشاور میں حضرت مصلح موعودہؓ کا ۳۱۴ اہم بیان.کی بنیاد تک.(خلافت ثانیہ کا انتیسوال سال ۱۳۹۲ ) پاکستان خبر رساں ایجینسی اور پہلی تقریر فصل اول پشاور میں دوسرا پبلک لیکچر استحکام پاکستان کے لئے کراچی، پشاور، راولپنڈی ۲۸۰ حضرت امیر المومنین کے ارشادات خصوصی تقاریب میں اور کوئسٹر میں نہایت ولولہ انگیز پلک تقریر میں ، پشاور مین فلیس علم و عرفان بیش قیمت ارشادات نیز دوسری جماعی و دینی قیام پشاور کے آخری ون کی غیر معمولی مصروفیات مصروفیات سفر سنده می کو اپنی پشاور سے چارسد و تک ۳۱۵ میر کے ۲۸۲ پارسدہ سے اوتمان زئی اور خان برادران سے ملاقات ۳۲۱ ارسدہ سے اتمان زئی اورخان برادران سے ملاقات ۲۱
عنوان اوتمان زئی سے راولپنڈی تک صفحه ۳۲۲ عنوان صفحه فسادات پنجاب کی تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ ۳۶۵ راولپنڈی کے جلسہ عام میں حضرت مصلح موعود کان میں تذکرہ.اثر انگیز خطاب اور اس کا پریس میں پھر بچا.حضرت مصلح موعود کا رد عمل الفضل کے نامہ نگار خصوصی کی رپورٹ ۳۲۷ حضرت مصلح موعود کے قلبی تاثرات اور پر بلال ۳۶۷ راولپنڈی سے واپسی سفر کوئٹ ۳۲۹ پیش گوئی.ہو گی کوئٹہ سے مراجعت حضرت مصلح موعود کے لئے رہائش گاہ کا انتظام اور ۳۲۹ فصل دوم مخلصی کوئٹہ کے اخلاص وایمان کا روح پرور نظارہ سید نا حضرت صلح موعود کا اہم مکتوب - ۳۳۲ چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب کے نام PHA کوئٹہ میں آمد جماعت احمدیہ کوئٹہ کی طرف سے مہمان نوازی ۳۳۳ ہند و پریس کا جماعت احمدیہ کے خلاف گمراہ کن ۳۷۲ حضرت امیر المومنين خليفة اسم الثاني المصلح الموعود ۳۳۶) اور زہریلا پروپیگنڈا کا مسلمانان بلوچستان سے پہلا بصیرت افروز خطاب قادیان سے متعلق ایک نہایت اہم جماعتی عہد نامہ ۳۷۶ بلوچستان پریس میں ذکر پنجاب پولیس میں خیر ۳۴۳ حضرت مصلح موعود کا پیغام پنجاب یونیورسٹی کی ۳۴۴ اُردو کا نفرنس کے نام." پاکستان کا مستقبل کے موضوع پر ایمان افروز تقریر جماعت احمدیہ کی طرف سے نصاب ک بیٹی حکومت ۳۷۷ اوڑک کا تفریحی سفر حضرت امیر المومنین نے کے پر شوکت خطبات جمعہ اور ۳۵۱ فصل سوم ۳۵۰ مغربی پنجاب کو مخلصانہ مشورہ.عید ا حقیقت افروز تو ملیتی تقریریں و مجالس علم و عرفان فتنہ صیہونیت کے خلاف زیر دست اسلامی ۳۸۳ تحریک اور استعماری طاقتوں کی سازش.قائد اعظم اور روح پرور درس القرآن.علمائے کوئٹہ کی مخالفت اور سعید الفطرت لوگوں ۳۵۸ محمد علی جناح کی وفات پر حضرت امیر المومنین نے کا بیان پر معارف مضمون احمدیت کا پیغام اس کی کا احمدیت کی طرف رجوع.ڈاکٹر میجرمحمود احمد صاحب کی المناک شہادت ۳۵۹ مقبولیت اور غیر ملکی زبانوں میں تراجم مینارڈ ہال بلوچستان اور پنجاب کے مشہور اخبارات کی طرف ۳۶۱ میں حضرت امیر المومنین کا اہم لیکچر سے پر زور مذمت.استعماری طاقتوں کی سازش اور اس کا انکشاف ۳۹۳
عنوان صفر عنوان صفحہ ۴۲۲ ۴۳۳۱ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جنات کی وفات اور ۴۰۳ افتتاح مرکز کے ابتدائی انتظامات سقوط حیدر آباد کے مصائب اور حضرت مصلح موعود مرکز پاکستان کا نام ربوہ " رکھا گیا.حضرت مصلح موعودؓ کے قلم سے رسالہ احدیت کا ۴۰۶ افتتاح ربوہ کے انتظامات کے لئے ذمہ دار ۴۲۴ پیغام کی تصنیف و اشاعت، ادار کی مقبولیت اصحاب کا تقرر لاہور سے ربوہ کے لئے پہلے قافلہ کی روانگی ۴۲۲ اور غیر ملکی زبانوں میں تراجم.حضرت امیر المومنین کا بصیرت افروز لیکچر ہم لاہور سے ربوہ کے لئے دوسرے قافلہ کی روانگی ۴۲۷ حضرت مصلح موعود کی تشریف آوری اور نماز ظهر ۴۲۹ مینار ڈ ہال لاء کالج لاہور میں.فصل چهارم کی اڈینگی.حضرت مصلح موعود کے مقدس ہاتھوں سے اشاعت ۴۱۰ حضرت مصلح موعود کا بصیرت افروز خطاب ۴۳۰ اسلام کے نئے مرکز توحید ربوہ کا روح پرور استان اجتماعی دعا نئے پروستاتان پانچ بکروں کی قربانی مرکز پاکستان کی مجوزہ اراضی کا تاریخی پس منظر ۴۱۰ نئے مرکز کا پہلا پھیک _ ۴۴۲ ۴۴۳ " حضرت مصلح موعود کی فوری ہدایات مرکز پاکستان ۲۱۱) ربوہ اور اس کی وجہ تسمیہ کی نسبت حضرت ۴۲۴ کی اراضی سے متعلق.تعمیر کٹی کی تشکیل ۴۱۳ چنیوٹ اور احمد نگر میں مرکزی ماحول کے استحکام ۴۱۵ کے لئے اہم ذیلی انتظامات.جماعت کو مرکز پاکستان کی نسبت پہلی اطلاع ۴۱۷ اور بعض فیصلوں کا اعلان.مصلح موعوت کا اعلان.ضمه تاریخ احمدیت حضرت مصلح موعود کا مکتوب مبلغ اسلام سپیکین ۴۴۲۵ کی بیگم صاحبہ کے نام.حضرت صاجزادہ مرزا البشیر احمد صاحب کا گرامی نام ۴۴۸ ۴۵۱ مرکز پاکستان میں جگہ حاصل کرنے کے لئے مبلغ سینین کی بیگم صاحبہ کے نام.مخلصین جماعت کی طرف سے مثالی اسماء گروپ فوٹو مقام تورخم جوش و خمره وش بستی کی آبادی میں قانونی پیچیدگی اور ۲۲۱ صاحب کوئٹہ کے معروضات کے جواب میں.اس کے ازالہ کے لئے خصوصی ارشاد مبارک.افتتاح ربوہ کی تقریب میں شامل اصحاب حضرت مصلح موعود کے مبارک کلمات ڈاکٹر غفور الحق خان ۴۵۳
بني الله الرحمن الرحمة وعلى عبد المسيح پہلا باب یورپ مشرق وسطی اور مشرق بعید کےنئے احمد کی مشقوں کی بنیاد سے پیر کے متفرق مگر اہم اقعات ۱۳ حرام ۶۱۹۴۷ غرناطہ کی آخری کم ریاست پر نویں صدی ہجری اور پندرھویں صدی عیسوی کے آخرمیں عیسائی بادشاہ فرڈی نینڈ کا قبضہ ہوا اور مسلمانوں کے پاؤں یورپ سے بالکل اکھڑ گئے.اس حادثہ سے لیکر آج تک مغربی ممالک اپنی سیاسی بالا دستی اور عالمی اقتدار کے باعث اسلام کے راستہ یمن ایک زبر دست اور فولادی دیوار بنے ہوئے ہیں جس کا جلد سے جلد پاش پاش کر دیا ملت اسلامی کا اولین فرض ہے.اور یہی وجہ ہے کہ یورپ کی روحانی فتح تحریک احمدیت کا بنیادی مقصد اور اس کے نصب العین کالازمی حصہ ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے فرزند علی امام الزمان حضرت سیدنا اسیح الموقود والمهدى المسعود علی الصلوة والسلام تحریر فرماتے ہیں :.خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں.کیا یورپ اور کیا ایشیا ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے
بندوں کو دین واحد پر تبع کرتے ہیں خدا تعالی کا مقصد ہے جس کے لئے میں دنیا میں بیجا گیا یا اے حضرت اقدس علیہ اسلام کے دلی میں یورپ پر اسلام کا جھنڈا گاڑنے کی کتنی شدید تڑپ تھی اس کا کسی قدر اندازہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے ایک چشم دید واقعہ سے ہوتا ہے حضرت مفتی صاحب کی روایت ہے کہ :.غالباً 1949ء کا ذکر ہے ایک واقعہ یکیں لاہور سے قادیان آیا ہوا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے پاس حضور کے اندر کے کمرے میں بیٹھیں تھا کہ باہر سے ایک لڑکا پیغام لایا کہ قاضی آل محمد صاحب آئے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایک نہایت ضرور کی پیغام لایا ہوں حضور خودشن ہیں حضور نے بجھے بھیجا کہ ان سے دریافت کر دو کیا بات ہے بے قاضی صاحب سیڑھیوں میں کھڑے تھے میں نے جا کر دریافت کیا انہوں نے کہا کہ مجھے حضرت مولوی محمد احسن صاحب نے بھیجا ہے ایک نہایت ہی عظیم الشان خوشخبری ہے اور خود حضرت صاحب کو ہی شنانی ہے سیکس نے پھر جاکر عرض کیا کہ وہ ایک عظیم الشان خوشخبری لائے ہیں اور صرف حضور کو ہی سنانا چاہتے ہیں حضور نے فرمایا آپ پھر جائیں اور انہیں سمجھائیں کہ اس وقت مجھے فرصت نہیں وہ آپ کو ہی شنا دیں اور آپ آکر مجھے شنا دیں میں نے حکم کی تعمیل کی اور قاضی آل محمد صاحب کو سمجھایا کہ وہ خوشخبری تجھے شنا دیں میں حضرت مصلحب کو شفا دیتا ہوں تب قاضی صاحب نے ذکر کیا کہ ایک مولوی کا مباحثہ حضرت مولوی محمد احسن صاحب کے ساتھ تھا اور اس مولوی کو خوب پچھاڑا اور لتاڑا گیا اور شکست فاش دی گئی میں نے آکر یہ خبر حضرت صاحب کے حضور عرض کی حضور نے تقسیم کرتے ہوئے فرمایا میں نے سمجھا کہ یہ خبر لائے ہیں کہ یورپ مسلمان ہو گیا ہے ؟" سے گو جماعت احمدیہ کا قیام ۲۳ مارچ ۱۸۸ کے کولہوں مگر حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے ہاتھوں حث د الوصیت حد طبع اول ۲۴ دسمبر شاه میگزین پریس قاریان + ۵۲ " ذكر جلب موافہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ صہ طبع اول - العنا" سیرت المهدی حصہ اول صفحه ۲۸۹ - ۱۲۹۰ مرتبه حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد مضام طبع ثانی ستمبر ۱۹۳۵مه ناشر احمدیہ کتاب گھر قادیان سے اس سلسلہ میں ملاحظہ ہر تحقیقی مقالہ بعنوان بیعت اولی کی تاریخ مطبوعة الفرقان ربوه ماه هجرت ارمنی من این صدا - ۳۱ ۱۳۵۰ ش ۱ 8.1 1921
مغربی دنیا میں تبلیغ اسلام کی بنیاد را سے رکھی گئی جبکہ حضور نے خدا تعالی کی منشاء مبارک کے مطابق نشان نمائی کی عالمگیر دعوت کے لئے ہزاروں کی تعداد میں انگریزی کا یہ انعامی اشتہار یورپ اور امریکہ کی تمام نام شخصیتوں کو رجسٹری کر کے بھیجوایا.اس اشتہار کا متن شرت تیم آریہ میں شائع شدہ ہے.۱۸۹۲ء میں حضور نے مسلمانوں کو یورپ میں واعظ بھجوانے کی پرزور تحریک کی اور فرمایا :- تُو مُوَ الإِشَاعَةِ الْقُرْآنِ وَسِيرُوا فِي الْبُلْدَانِ وَلَا تَصِبُوا إِلَى الْأَوْطَانِ وفِي الْبِلادِ الانكليزية قُلُوبَ يَنْتَظِرُونَ إِعَانَتَكُمْ وَجَعَلَ اللَّهُ رَاحَتَهُمْ في معَانَاتِكُمْ فَلَا تَصَمُّمُوا صَمُوتَ مَنْ دَأَ وَتَعَامًا وَ دُعِيَ وَتَعَامَا الَا تَرَوْنَ بكاءَ الْأَحْزَانِ فِي تِلْكَ الْبُلْدَانِ وَاصْوَاتِ الْخَلَانِ فِي تِلْكَ الْعُمْرَانِ قَوْمُوا لِتَخْلِيمِ الْعَانِينِ وَهِدَايَةِ الضَّالِّينِ وَلَا تَكُبُوا عَلَى سَيْفِيكُمْ وَسِنَائِكُمْ وَاعْرِفُوا أَسْلِحَةَ زَمَانِكُمْ فَإِنَّ لِكُلِّ زَمَانِ سَلَاحَ آخَرُ وَ حَرْبُ آخَرُ فَلَا تُجَادِلُوا فِيمَا هُوَا جُلَى وَأَظْهَرُ وَلاشَكَ أَنَّ زَمَانَنَا هَذَا يَحْتَاجُ إلى أَسْلِحَةِ الدَّلِيلِ وَالْحَجَةِ وَالْبُرْهَانِ لَا إِلَى الْقَوْسِ وَالسَّهْمِ وَالسَّنَانِ فاعِدُّوا لِلْاَعْدَاءِ مَا تَرَوْنَ نَافِعَا عِندَ الْعُقَلَاءِ وَلَنْ يَمْكَنَ أَنْ يَكُونَ لَكُمُ الْفَتْحُ إِلَّا بِأَقَامَةِ الْحُجَّةِ وَإِذَا لَهِ الشُّبْهَةِ وَقَدْ تَحَرَّكَتِ الْأَرْوَاحُ يطَّلَبِ صَدَاقَةِ الْإِسْلَامِ فَادْخُلُوا الأَمَرَ مِنَ ابْوَابِم..فَإِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ وَفِي الصَّلاتِ وَاعْبِينَ فَابْعَثُوا رِجَالًا مِنْ نَ مُرَةِ الْعُلَمَاءِ لِيَسِيرُوا إِلَى الْبِلَادِ الْإِنكِيرِيَّةِ كَالْمُعَشَاءِ لِيُتِمُّوا عَلَى الْكَفَرَةِ مُجَعَ الشَّرِيعَةِ الْغَرَّاءِ وَلَا شَكَ اَنَّ تَفْهِيمَ الصَّالِينَ الْغَافِلِينَ وَاجِبُّ على العُلَمَاءِ الْعَارِفِينَ فَقُومُوا لِلَّهِ وَاشِيعُوا هَدَاهُ وَلَا تُؤْمِنُوا عَلَيْهَا جَزَاء مَنْ سَوَاءٌ فَإِن فَعَلْتُمْ وَكَمَا قُلْتُ عَمِلَهُمْ فَبَقَى لَكُمْ مَا ثِرَ الخَيْرِ إلى أخرِ الزَّمَانِ وَتَبْعَثُونَ مَعَ أَحِبَّاءِ الرَّحْمَنِ وَتُحْشَرُونَ فِي عِبَادِ اللهِ الْمُجَاهِدِينَ فَاسْمَعُوا رَحِمَكُمُ اللهُ وَقُومُوَ اللَّهِ قَانِتِينَ..وَ مَنْ ذَهَبَ إِلَى الْبِلَادِ الْإِنْكَلِيزِيَّةِ خَالِصَا لِلَّهِ فَهُوَ اَحَدُ مِنَ الْأَصْعِيَاء
وإن تُدْرِكْهُ الوَفَاتُ فَهُوَ مِنَ الشُّهَدَاءِ له ترجمہ یہ قرآن کے شائع کرنے کے لئے کھڑے ہو جاؤ اور شہروں میں پھرو اور اپنے ملکوں کی طرف میل مت کرو.اور انگریزی ولاتیوں میں ایسے ول ہیں جو تمہاری مردوں کے انتظار کر رہے ہیں.اور دانے تمہارے دریچ اور ان کے رنج میں راحت رکھی ہے پس تم اس شخص کی طرح چپ مست ہو جو دیکھ کر آنکھیں بند کرے.اور بلایا جاوے اور پھر کنارہ کرے.کیا تم ان ملکوں میں ان بھائیوں کا رونا نہیں سنتے اور ان دوستوں کی آوازیں تمہیں نہیں ہنچتیں ؟ اے لوگو !! قیدیوں کو چھڑانے کے لئے اور گھراہوں کی ہدایت کے لئے کھڑے ہو جاؤ اور تلوار، ور نیزوں پر افروختہ ہو کر مت گیرو اور اپنے زمانہ کے ہتھیاروں اور اپنے وقت کی لڑائیوں کو پچانو کیونکہ ہر ایک زمانہ کے لئے ایک الگ مہتھیار اور الگ لڑائی ہے نہیں اس اس میں منت جھگڑ وجوظاہر ہے.اور کچھ شک نہیں کہ ہمارا زنان دلیل اور یہ ان کے ہتھیاروں کا محتاج ہے.نیر اور کمان اور نیزہ کا محتاج نہیں پس تم دشمنوں کےلئے وہ ہتھیار تیار کرو جو عند التقاء نافع ہیں اور ہرگز مکن نہیں جو بغیر محبت قائم کرنے اور شبہات دور کرنے کے تمہیں فتح ہو اور بلاشبہ روحیں اسلامی صداقت طلب کرنے کے لئے حرکت میں آگئی ہیں پسی تھیں مقصد کے لئے دروازہ میں سے داخل ہو.پس گرم پتے ہوا اور صلاحیت کی طرف راغ ہوتو علماء میں سے آدمی مر کرو تا کہ واعظ بن کر انگریزی ملکوں کی طرف جائیں اور تا کافروں پر شریعیت کی محبت پوری کریں اور کچھ شک نہیں کہ گرا ہوں کا مجھانا عالموں پر فرض ہے پس خدا تعالیٰ کے لئے کھڑے ہو جاؤ اور اس کی ہدایت کو پھیلاؤ اور اس پرکسی اور کے بدلہ کی اُمید مت رکھو پس اگر تم نے ایسا کیا اور میرے کہنے پر عمل کیا تو خیر زمانہ تک نیک یاد گار تمہاری باقی رہے گی اور تم مقبولوں کے ساتھ اُٹھائے جاؤ گے اور خدا کے مجاہد بندوں میں تمہارا حشر ہو گا سو ا جوانمردی رکھنا و نخدا تعالیٰ تم پر رحم کرے.اور فرمانبردارین کہ اٹھ کھڑے ہو.اور جو شخص وعظ کے لئے انگریزی ملکوں کی طرف خالصا للہ جائے گا پس وہ برگزیدوں میں سے ہوگا.اور اگر اس کو موت آجائے گی تو و شہیدوں میں سے ہو گا یہ عصر حاضر کے مجاہد اعظم سید ناسیح الموعود علیہ الصلوۃ و السلام نے تبلیغی جہاد کی اس پر زور ترکی کے بعد ندا کی پاک وحی سے علم پا کر ایک مسلم یورپ اور سلم امریکہ کا تخیل پیش کرتے ہوئے یہ خوشخبری ه نورالحق حصه ثانیه صفحه ۵۰ تا ۵ طبع اول ذی القعد ۱۳ مئی جون ۹۹۲ار مطبع مفید عام لاہور ۵۵۰ ء وہ
وی که : خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے کہ وہ خالص اور مکتی ہوئی توحید جو ہر ایک قسم کی شرک کی آمیزش سے خالی ہے جو اب نابود ہو چکی ہے.اس کا دوبارہ قوم میں دائمی پور دالگا دوں.اور یہ سب کچھ میری قوت سے نہیں ہوگا بلکہ اس خدا کی طاقت سے ہو گا جو آسمان اور زمین کا خدا ہے.لیکن دیکھتا ہوں کہ ایک طرف تو ندا نے اپنے ہاتھ سے میری تربیت فرما کر اور مجھے اپنی دمی سے شرف بخش کہ میرے دل کو یہ جوش بخشا ہے کہ میں اس قسم کی اصلاحوں کے لئے کھڑا ہو جاؤں اور دوسری طرف اس نے دل بھی تیار کر دئے ہیں جو میری باتوں کو ماننے کے لئے مستعد ہوں.یکیں دیکھتا ہوں کہ جب سے خدا نے مجھے دُنیا میں مامور کر کے بھیجا ہے اسی وقت سے دنیا میں ایک انقلاب عظیم ہورہا ہے.یورپ اور امریکہ میں جو لوگ حضرت عیسی کی خدائی کے دلدادہ تھے اب ان کے محقق خود بخود اس عقیدہ سے علیحدہ ہوتے جاتے ہیں.اور وہ قوم جو باپ دادوں سے بتوں اور دیو توں پر فریفتہ تھی بہتوں کو ان میں سے یہ بات سمجھ آگئی ہے کہ ثبت کچھ چیز نہیں ہیں اور گو وہ لوگ ابھی رومانیت سے بے خبر ہیں اور صرف چند الفاظ کو رسمی ور پر لے بیٹھے ہیں لیکن کچھ شک نہیں کہ ہزار ہا بیہودہ رسوم اور بدعات اور شرک کی رسیاں انہوں نے اپنے گلے پر سے اتار دی ہیں اور توحید کی ڈیوڑھی کے قریب کھڑے ہو گئے ہیں میں امید کرتا ہوں کہ کچھ تھوڑے زمانہ کے بعد عنایت الہی ان میں سے بہتوں کو اپنے ایک خاص ہاتھ سے دھکا دے کر نیچی اور کامل توحید کے اس دارالامان میں داخل کر دے گی.یہ امید میری محض خیالی نہیں ہے بلکہ خدا کی پاک وحی سے یہ بشارت مجھے ملی ہے.له حضرت اقدس علیہ السلام نے اس روحانی انقلاب کو قریب سے قریب تر لانے کے لئے مغربی ممالک میں تبلیغ اسلام کا صحیح اور واحد طریق حسب ذیل الفاظ میں بیان فرمایا :- آجکل ان ملکوں میں جو اسلام نہیں پھیلتا اور اگر کوئی مسلمان ہوتا بھی ہے تو وہ بہت کمزوری کی حالت میں رہتا ہے.اس کا سبب یہی ہے کہ وہ لوگ اسلام کی اصل حقیقت سے اقف طع دیگر نے لیکچر اسلام اور اس ملک کے دیگر مذاہب " ۳۲۰-۳۵ طبع اولی مجموعه رفاہ عام ٹیم پریس لاہور- س متمبر 9 شه و س ست
نہیں اور نہ ان کے سامنے اصل حقیقت کو پیش کیا گیا ہے.ان لوگوں کا حق ہے کہ ان کو حقیقی اسلام دکھلایا جاوے جو خدا تعالیٰ نے ہم پر ظاہر کیا ہے.وہ امتیازی باتیں جو کہ خدا تعالے نے اس سلسلہ میں رکھی ہیں وہ ان پر ظا ہر کرنی چاہئیں اور خدا تعالیٰ کے مکالمات اور مخاطبات کا سلسلہ ان کے سامنے پیش کرنا چاہئیے.اور ان سب باتوں کو جمع کیا جاوے جن کے ساتھ اسلام کی عربیت اس زمانہ میں وابستہ ہے.ان تمام دلائل کو جمع کیا جا سے جو اسلام کی قدرت کے واسطے خدا تعالیٰ نے ہم کو سمجھائے ہیں؟ لہ ستید نا المصلح الموعود نے حضرت امام الزمان مهدی مسعود علیہ السلام کے بیان فرمودہ طریق تبلیغ کو عملی جامہ پہنانے اور مغربی ممالک کے کونے کونے تک حقیقی اسلام کی آواز پہنچانے کے لئے سب سے پہلا اور بر وقت قدم یہ اٹھایا کہ انگلستان میں احمدیہ دار التبلیغ کا قیام فرمایا اور پے در پے مبلغ بھجوانے ۱۹۲۴ شروع کئے جب اسلامی دعوت وتبلیغ کی راہ کسی قدر ہموار ہوگئی تو حضور جولائی سر میں بنفس نفیس یورپ تشریف لے گئے تا ان ممالک کے تفصیلی حالات ومشکلات کا قریب سے مطالعہ کرنے اور وہاں کے ہر طبقہ اور ہر نقطہ خیال کے لوگوں سے مشورہ کرنے کے بعد تبلیغ اسلام کی ایک مستقل سکیم اور ایک مکمل نظام تجویز فرمائیں.اس مبارک سفر نے جو قریباً ساڑھے چار ماہ میں اختتام کو پہنچا.نہ صرف یورپ کی اسلامی مہم جواب تک نہایت محدود اور بالکل ابتدائی اور مختصر صورت میں تھی پہلے سے زیادہ منظم اور تیز کر دی بلکہ اس کے اثرات انگلستان سے نکل کر آہستہ آہستہ یورپ کے دوسرے ممالک میں بھی پھیلنے لگے.اس کے بعد تحریک جدید جیسی عالمی تحریک کا آغاز ہوا جس کے مجاہد میں سیکین ہنگری البانیہ اور یوگوسلاویہ تک اور اڈ میں اٹلی اور پولینڈ تک جاپہنچے اور یورپ کے ان خطوں نے حضرت مصلح موعود کے تربیت یافتہ شاگردوں کی زبانوں سے براہ راست اسلام کا پیغام شنا لیکن ابھی تبلیغی مهم ابتدائی مراحل میں سے گزر رہی تھی کہ کم ستمبر ۱۹۳۴ء کو دوسری عالمگیر اور خوفناک جنگ عظیم چھڑ گئی جس کا خاتمہ ۱۵ اگست ۱۹۴۷ء کو ہوا اچھے سال کے اس درمیانی عرصہ میں حضرت مصلح موعود نے اپنی پوری توجہ ان مجاہدین تحریک تجدید کی تربیت کی طرف رکھی جنہوں نے حضور کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے خدمت اسلام کے لئے زندگیاں وقف کی تھیں.چنانچہ جونی بیرونی ممالک کے رستے کھلنے شروع ہوئے ه بدر قادیان ۲۱ فروری ۶ ۱۹مه صد کالم علا ہے
آپ نے ماماہ نتیجے ۳۲۴ میش کو نو مجاہدین کا ایک قافلہ قادیان سے انگلستان روانہ فرمایا جس نے حضرت ۶۱۹۴۵ مولانا جلال الدین صاحب شمس امام مسجد لنڈن کی نگرانی میں تبلیغی ٹریننگ حاصل کرنے کے بعد دیکھتے ہیں دیکھتے فرانتی یسین پسلی سوئٹزرلینڈ اور جرمنی میں احمد یشن قائم کر دئیے.ان شنوں کو ابتداء میں کیا کیا مشکلات پیش آئیں تبلیغی سرگرمیوں کے شروع کرنے اور جاری رکھنے کیلئے کن ذرائع کو بروئے کار لایا گیا اور ان کے کیا نتائج برآمد ہوئے ؟ وغیرہ ضروری اُمور کا مفصل ذکر ذیل میں ہرشن کے تحت کیا جاتا ہے.فصل اول ام فیلم مشن فرانس کا قیام احمدیہ اسلام کا دور اول اور فانا اوراس کا شور را با نام یورپ کے مال مغرب میں واقع ہے جو سپین کے شمال میں ہے اور اس سے ملحق ہے.فرانس میں اسلام کا نام پہلی بار میں ہنچا جبکہ مشہور عالم مسلمان جرنیل طارق بن زیاد فتمندی کا جھنڈا لہراتے ہوئے جیل الطارق (جبرالٹر تک پہنچ گئے.سے میں امیر افریقی موسی بن نصیر نے پورے اندیس پرمسلم حکومت قائم کر دی ہے اس کے بعد حضرت عمر بن عبد العزیز " د ولادت با وفات ۲۵ رجب شهر فروری ) نے جن کو سید نامحمدی مسعود علیہ السلام نے نیک اور عادل بادشاہ قرار دیا ہے لیے اسمح بن مالک خوانی و کما نڈر بناکر بھجوایا.تاریخ سے یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچتی ہے کہ اسلامی لشکر حضرت عمر بن عبدالعزیز کی خلافت کے پہلے ہی سال میں کوہ پیر نیز PYRENEES MOUNTAINS) کو عبور کر کے فرانس کی سرحد میں ه ابن خلدون حقصه تیم باب ۲۳ ( تألیف علامہ عبدالرحمن ابن خلدون المغربي - ولادت سے وفات بشم - ہ تحفہ گولڑویہ ص۱۳۵ طبع اول : ترجمه نفح الطيب مثلا از علامہ شہاب الدین ابو العباس التلمساني المقری (۶۱۵۹۲ - ۶۱۶۷۸) مترجم مولوی خلیل ارمانی مراد جوی مطیع مسلم یونیورسٹی انسٹی شیر علی که به ۰۹۱۹۲
داخل ہو چکا تھا اور گال (CAUL) قوم سے معرکہ آزمائی ہو رہی تھی کی پر و فیسر فلپ کے بیتی.اسمح بن مالک خولانی کی فتوحات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ کہ میں اس نے سب مانیہ ( SEPTIMANIA) اور اریونہ کو فتح کر لیا.ادیونہ کی گڑھی کو بعد میں عربوں نے ایک بڑا قلعہ بنا دیا اور اس میں اسلحہ اور اناج کے گوداموں کے ساتھ ایک اسلحہ ساز کارخانہ بھی قائم کر دیا.اسی سال اسمج نے ڈیوک اکو تانیا کے صدر مقام تولوز کو فتح کرنے کی کوشش کی اور میں جام شہادت نوش کیا یا فرانسیسی مولف، محقق ڈاکٹر ستاد ولی بان لکھتا ہے، آٹھویں صدی عیسوی میں جب عربوں نے فرانس پر حملہ کیا تو یہ ملک ان بادشاہوں کی حکومت میں تھا جو سلاطین کاہل الوجود کے نام سے شہور ہیں.جاگیر داروں اور امراء کے مظالم سے حالت ابتر ہورہی تھی اور اسی لئے وہ بآسانی عربوں کے ہاتھ آگیا اور انہوں نے بلا کوشش بلیغ اکثر جنوبی شہروں پر قبضہ کر لیا.پہلے انہوں نے لانگے ڈاک میں نازبان کے شہر کو فتح کیا اور سلے میں ایک تین کے پایہ تخت نورسی کا محاصرہ کیا مگر کامیاب نہ ہوئے.اس کے بعد انہوں نے یکے بعد دیگرے کار کا سان، نیم کلیان - ماکان - اوتون وغیرہ کو فتح کیا اور دریائے رو آن صوبہ جات اور ڈائینے اور برکان کے صوبوں تک پہنچ گئے.فرانس کا آدھا ملک دریائے تو آر کے کنارے سے فرانش کا نتے تک بتدریج عربوں کے قبضہ میں آگیا ہے رلکھتا ہے ہے کہ میں مارسیلز کے حاکم نے ان سے پرو وانس لے لیا اور انہوں نے آوں پر قبضہ کیا شہر میں وہ سینٹ ٹروپے میں موجود تھے اور دسویں صدی تک ان کا دخل پرو و انس پر رہا شه میں وہ و آلے اور سوئٹزرلینڈ تک پہنچ گئے تھے.اور بعض مؤرخین کہتے ہیں کہ وہ پخش تک آگئے تھے پہلے علامہ شہاب الدین ابو العباس المقری کی کتاب نفح الطيب" سے معلوم ہوتا ہے کہ عساکر اسلامیہ امیر عبد الرحمن الاوسط بن الحکم اول کی زیر سر کردگی میں فرانس سے پیش قدمی کرتے ہوئے برطانیہ تک نیز ص 119 حق ے انسائیکلو پیڈیا برٹنیکا ENCYCLOPAEDIA RRITANICA ) زیر لفظ پین جلد ۲ ، پر وفیسر کے حتی کی تحقیق کے مطابق جبال ایران کو سب سے پہلے الحر بن عبد الرحمن انتفی نے شکر یا سائے میں عبور کیا تھا THE ARABSA ) کو عبدارحمن کلکٹر SHORT HISTORYS این جہان نے لکھا ہے کہ حضرت امیر المومنین سید ناعم بن عبد العزیز کے حکم سے قرطبہ میں ایک شاندار ای تعمیر کی گیا تھا اور آپ ہی کے فرمان شاہی سے قرطبہ دار السلطنت قرار پا یا نفح الطيب، مؤلفه علامه متری و ے عرب اور اسلام می دی عربی.اسے شارٹ ہسٹری مترجم پروفیسر سید مبارزالدین صاحب رفعت ایم.اسے محمد معین خان صاحب بی.اے.ناشر ندوۃ المصنفین.دہلی : تمدن عرب (ترجمہ) ص ۳۸۵- از ڈاکٹر گستاولی بان ہے ته ايضا :
جاپہنچے تھے.جماعت احمدیہ کی طرف سے فرانس میں تبلیغ اسلام کی حضرت مصلح موعود کا قیام فرانس تبلیغی سرگرمیوں کا برا اور است آغاز میں ہوا جبکہ حضرت براہ سر اسلام کیلئے جدو جہد اور پر سوز دعائیں مصلح موعود اپنے خدام کے ساتھ وسیلے کا نفرنس میں شرکت اور مسجد فضل لنڈن کا سنگ بنیاد رکھنے کے بعد ۲۶ اکتوبر سے ۳۱ اکتوبر ی تک فرانس کے دارالحکومت پیر کی میں رونق افروز رہے ہے پیرس کے ریلوے سٹیشن پر سٹر خالد شیلڈ ریگ امام مسجد پیرس اور مسٹر گوسٹن ڈیورینڈ (نمائندہ HAVER جیسی ہم نے حضور کا استقبال کیا ، مسٹر گوسٹن ڈیورنڈ نے ایک انٹرویو کے دوران پوچھا کہ آپ کے سفر کا مقصد کیا ہے ؟ حضرت امیر المومنین نے فرمایا :- "یکی اس غرض سے یورپ میں سفر کر رہا ہوں کہ یورپ کی مذہبی حالت کو اپنی آنکھ سے دیکھ کر صحیح اندازہ کروں جس سے مجھ کو ان ممالک میں اشاعت اسلام کے لئے ایک مستقل سکیم تیار کرنے میں مد د ملے.اور میرا یہ مقصد ہے کہ چونکہ میں دنیا میں صلح کا جھنڈا بلند کرنا چاہتا ہوں یاں دیکھوں کہ مشرق اور مغرب کو کونسے امور ملا سکتے ہیں یا سکے اسی طرح الجیریا کے ممتاز مسلم لیڈ رسید محمد سماوی مبر سپریم کونسل کو بھی بتایا کہ مغربی ممالک میں جانے سے میرا اند عایہ ہے کہ ان ممالک کی مذہبی حالت کا معائنہ کر کے اشاعت اسلام کے لئے ایک سکیم تجویز کیون بگیرید جہاں تک فرانس کا تعلق تھا حضور نے اس مقصد کی تکمیل کے لئے ۲۶ اکتوبر کو ایک مجلس مشاورت منعقد فرمائی اور فیصلہ فرمایا کہ پیری کے صحافیوں، مشرقی دنیا پر رکھنے والے مصنفوں، سیاسی لیڈروں اور غیر ملکی سفیروں کو پیغام اسلام پہنچانے کے لئے تین پارٹیاں سرگرم عمل ہو جائیں.اگر چہ وقت مختصر تھا اور زبان کی ناواقعی بہت بڑی سد راہ تھی مگر چونکہ قیام فرانس مشن کا ایک بنیادی مقصد یہ حضور انور مولانا عبد الرحیم صاحب درد چوہدری نید ظفر اللہ خان صاحب اور حضور کے ٹائپسٹ کا قیام گرانٹ ہوٹل ڈی پورا میں تھا اور باقی تمام قافلۂ نمرام روسیو نامی گلی کے چار ہوٹلوں میں فروکش ہوا رالفضل ۲۹ نومبر ۱۳ صد کالم ، نہ ریوٹر (REUTER ) کی طرح ایک خبر رساں ایجنسی کا نام سن الفضل ۲۶ نومبر ۱۹۲۳ ما کالم.یہ گفتگو ایک ترجمان کے توسط سے ہوئی حضور انگریزی میں ارشاد فرماتے تھے اور ترجمان اس کا فرانسیسی میں مطلب بیان کرتا تھا کے الفصل ۱۸ دسمبر ۱۹۳۲ م کالم عمه
بھی تھا کہ اسلام کی آواز بہر کیف پیرس کے مختلف حلقوں تک پہنچائی جائے اس لئے انتہائی کوشش کی گئی کہ تبلیغ حق کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے چنانچہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی اور حضرت هما جزادہ مرزا شریف احمد صاحب نے اخبار نویسوں سے حضرت حافظ روشن علی صاحب ، چوھدری محمد شریف صاحب اور مولوی عبد الرحمن صاحب مصری نے مشرقی مصنفین اور مشرقی ممالک کے سفراء سے اور حضرت خان ذو الفقار علی خان صاحب اور چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے انگریزی اور مغربی بیرونی سے ملاقاتیں کیں.خود حضرت مصلح موعود نے قیام پیرس کے دوران مسٹر گوسٹن ڈیورنڈ (نمائندہ ہورس ایجنسی ) پرنس آف ویلیز کی ایک رجمنٹ کے کپتان لارڈ کر یو برٹ منسٹر پیرس اور ایڈیٹرز کی جرنل کو شرف ملاقات بخشا وزیر اعظم فرانس موسیلوین کارے ( M.POINCARE سے بھی ملاقات کا پروگرام تھا مگر انہیں فوری طور پر پیرس سے باہر صدر فرانس کے پاس جانا پڑا اس لئے یہ پروگرام ملتوی کر نا پڑا جس پر ان کی طرف سے معذرت کا خط بھی آیا.حکومت فرانس ان دنوں ایک عالی شان اور خوش نما مسجد تعمیر کرا رہی تھی حضور معہ خدام ۲۹ اکتوبر ئر کو بوقت ڈھائی بجے اس شاندار مسجد میں تشریف لے گئے مسجد میں متعدد فرانسیسی اخبارات کے نامہ نگار اور سینما والے اور آرٹسٹ بھی موجود تھے.دروازہ پر ناظم مسجد نے بہت سے موقر مسلمانوں کے ساتھ حضور کا استقبال کیا اور زیر تیم مسجد کے تمام حصے دکھائے مسجد مراکش طرز پریمیر ہو رہی تھی.مراکش کے مسلمان کا ریگر اور فرانسیسی معمار بھی کام کر رہے تھے مگر صناع زیادہ تر مغربی تھے.مسجد کے محراب میں حضور نے کھڑے ہو کہ اپنی جماعت کے ساتھ ایک لمبی دعا کی بلکہ آپ سب سے پہلے شخص تھے جس نے یہاں دعا کی اور فرمایا :- میں نے تو یہی دعا کی ہے کہ یا اللہ مسجد ہم کو ملے اور ہم اس کو تیرے دین کی اشاعت کا ذریعہ بنانے کی توفیق پائیں " سے استید تا اصلح الموعود نے فرانسیسی قوم کے کیریکٹر کا قریبی مطالعہ کرتے فرانس میں تبلیغی مشکلات ہوئے خاص طور پر یہ انا گیاکہ فرانسیسیوں میں قومی تعقیب انتہار کو پہنچا ہوا ہے.چنانچہ حضور نے ہم ماہ احسان / جون ۳۳۵ میش کو فرمایا :- ۶۱۹۴۲ له الفضل ۱۸ دسمبر م صدا
فرانس والوں میں اپنی چیز کے متعلق بہت تعصب پایا جاتا ہے.انگریزوں کی چونکہ بہت بڑی ایمپائر ہے اور وہ ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اس لئے ان کا رویہ دوسروں کے متعلق روادارانہ ہو گیا ہے مگر فرانسیسیوں کا طریق جدا ہے.وجہ یہ کہ گو ان کی بھی ایمپائر ہے مگر ان کے مقبوضات اتنے پھیلے ہوئے نہیں.اور ان کا رویہ ایسا ہے کہ ان کے ماتحت جتنی اقوام ہیں وہ پنپ نہیں سکتیں مجھے خود بھی اس کا تجربہ ہے.پیرس میں فرانسیسیوں نے چندہ کر کے ایک اچھی بڑی مسجد بنوائی ہے.اس کے ساتھ دکانیں قہوہ خانے اور ہوٹل وغیرہ بھی ہے تاکہ مراکش وغیرہ سے آنے والے مسلمان یہاں ٹھہریں.ہم پیرس گئے تو حکام نے دعوت دی کہ ہم مسجد دیکھنے آئیں.جب ہم مسجد دیکھنے روانہ ہوئے تو معلوم ہوا کہ موٹر ڈرائیور کو پتہ نہیں کہ مسجد کہاں واقع ہے.ایک جگہ دو آدمی کھڑے باتیں کر رہے تھے ہم میں سے کسی نے جا کر ایک سے پوچھا سجد کہاں ہے ؟ تو اس نے کندھے ہلاک کہ دیا کہ میں نہیں جانتا اور چل دیا.دوسرے شخص نے بتایا کر یں اٹیلین ہوں اور وہ فرانسیسی ہے.آپ لوگوں نے چونکہ انگریزی میں اس سے پوچھا اس لئے اس نے کہ دیا کہ میں نہیں جانتا.وجہ یہ کہ فرانسیسی اپنی زبان کے سوا کسی دوسری زبان میں بات کرنا سخت ناپسند کرتے ہیں اور ایسے شخص کو حقارت سے دیکھتے ہیں جو فرانسیسی نہ جانتا ہو.اٹالین نے کہا وہ انگریزی جانتا تھا اور مجھ سے انگریزی میں ہی باتیں کر رہا تھا اور اسے مسجد کا پتہ بھی تھا.میرا تو واقف تھا اس لئے باتیں کر رہا تھا مگر آپ لوگوں کے انگریزی میں بات کرنے پر بُرا منا کر چلا گیا.تو فرانسیسیوں میں اس قسم کا تعصب پایا جاتا ہے پھر ان کا یہ بھی طریق ہے کہ اپنی بات بہت سختی سے منواتے ہیں.بیشک انگریز نرمی کرتا ہے مگر وہ نرمی ایسی ہی ہوتی ہے جیسی وہ اپنے کتے سے کرتے ہیں.اس کے طریق عمل سے پتہ لگتا ہے کہ وہ دوسرے کو آدمی نہیں سمجھتا بلکہ گستاخیال کرتا ہے.اس کے مقابلہ میں فرایسی بیشک سختی کرتا ہے مگر ایسی ہی سختی جیسی غلام سے کی جاتی ہے.اس کے طریق سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ انسان تو سمجھتا ہے مگر اپنا غلام (اس کی مثال یہ ہے کہ.ناقل ) اگر کسی انگریز کی دعوت کریں تو میز اگرسی، چھری کانٹے کا انتظام کرنے کی منسکہ پڑ جاتی ہے اور اس طرح ے یہ مثال شامیوں نے ۱۹۳۲ء میں حضرت مصلح موعود کے سامنے ایک مجلس میں بیان کی تھی ؟
گویا ہم انگریز کو ہی اپنے گھر نہیں لاتے بلکہ اس کے گھر کو اور اس کے تمدن کو بھی لانے پر بور ہوتے ہیں کیونکہ اگر ایسا انتظام نہ کریں تو انگریز ناک بھوں چڑھاتا ہے اور طبیعت خراب ہے کا بہانہ بناکر کھانے کی طرف پوری طرح متوقبہ نہیں ہوتا مگر فرانسیسی کے لئے ایسا انتظام کیا جاوے تو وہ نا پسند کرتا ہے اس لئے اسے بلانے پر کوئی فکر لاحق نہیں ہوتا.اور جب اُسے بلایا جائے تو ہمارے ساتھ فرش پڑھ کر خوشی سے کھا پی لیتا ہے اور خوب بے تکلف ہو کر باتیں کرتا ہے.ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ جاتے وقت میزبان کو ہتھکڑی لگا کر ساتھ ہی لے جائے غرض انگریز اور فرانسیسی کے یہ نکیر میں یہ ایک نمایاں فرق ہے...اس ماحول میں تبلیغ کرنا بہت مشکل کام ہے، جو شخص دوسرے کو ادنی اور حقیر سمجھتا ہے اس سے بات کرنا بہت مشکل ہوتا ہے اور اگر کوئی بات کی بھی جاوے تو راہ سے کچھ وقعت نہیں دیتا اور اس کا اثر قبول نہیں کرتا ہے دوسری جنگ عظیم کے بعد فراس ان شد و مشکلات کےباوجود واقعات کے اول اور خلیفہ اصلی د قران الموعود نے جنگ عظیم کے خانہ کے بعد فرانس میں تبلیغی مشن کھولنے میں احمد مسلم میشن کا قیام کا ارشاد فرمایا جس پر حضور کے حکم سے لنڈن میں مقیم تحریک کے پید ۳۲۵ امین کے دو مجاہدین یعنی ملک عطاء الرحمن صاحب اور مولوی عطاء اللہ صاحب ، ارماه همجرت ارمنی هلالالالالالا و پیرس پہنچے گئے اور ایک ہوٹل کے کمرہ کو اپنا مرکز بنا کر نہایت مخصر سے پیمانے پر کام شروع کر دیا مولوی عطاء اللہ صاحب جلد ہی فرانس سے افریقہ بھجوا دئے گئے اور مشن چلانے کی تمام ذمہ داری ملک عطاء الرحمن صاحب کو سونپ دی گئی.مبشرین نے حیثیت کے ماحول میں پہلے تیکنی دن کیس طرح گزار ہے؟ اس کی احمدی مجاہدین کے پیرس تفصیل ملک عطاء الرحمن صاحب کی ایک ابتدائی رپورٹ میں جمیں ملتی میں پہلے تین روز ہے.وہ لکھتے ہیں :- :- شام کے وقت ہم گاڑی سے اُترے رات کا وقت تھا.ماحول ہر طرح اجنبی تھا یہاں کے ه الفضل بر رماه احسان جون ۱۳ شه مگه نه هر ماہ ہجرت برمی ان کو ان تلقین کے اعزاز میں پر مهرماه هم بارداری جماعت احمد یہ لنڈن کی طرف سے ایک الوداعی تقریب عمل میں آئی ہے ان
در و دیوار ، یہاں کے لوگوں اور زبان سے مکمل اجنبیت تھی.فرانسیسی قوم بہت متعصب، تنگ دل اور شکی واقع ہوئی ہے.چنانچہ بجائے اس کے کہ اس دوران میں جو ہمیں ملا اجنبیت کی وجہ سے ہمارے ساتھ ہمدردی سے پیش آتا ہماری اجنبی شکلوں اور لباس کی وجہ سے ہمیں مشکوک نظروں سے دیکھتا..آخر سٹرک سے ہٹ کر ایک ہوٹل میں جانے کا اتفاق ہوا اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ٹھرنے کے لئے جگہ مل گئی.۱۸ مئی.پیرس اور فرانس میں ہمارا پہلا دن تھا.فی الحال دو کام مد نظر تھے رہائش کا کوئی مستقل انتظام اور فرانسیسی زبان سیکھنے کے لئے معلومات کا حاصل کرنا سب سے پہلے برطانوی سفارت خانہ میں گیا رہائش کے لئے امداد کے سلسلہ میں انہوں نے صاف انکار کردیا اور کہا کہ پیرس میں ان دنوں پی شکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے.زبان سیکھنے کے سلسلہ میں بعض اداروں کا پتہ دیا.اس کے بعد برطانوی قونصل خانہ میں گیا وہاں بھی انہی امور کے سلسلہ میں ابض معلومات اور پتے حاصل کئے.وہاں سے وہ تعلیمی اداروں اور ایک پرائیویٹ سکول میں گیا اور ممکن معلومات حاصل کیں.اس دوران ایک ایسے ادارہ میں بھی گیا جہاں مختلف ممالک کے طلباء کے لئے مقابلہ بہت ہی کم خرچ پر رہائش اور کھانے کا انتظام ہے...19 مئی.دفاتر بند تھے کہیں جا نہ سکتا تھا حضور ایک اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں اور وفتر کو مفصل رپورٹ بھیجوائی ہمارے سامان میں کتابوں کا ایک بنڈل تھا جو پیرس پہنچے پر ہیں نہ ملاتھا.کل اور آج پھر ہم متعلقہ دفاتر میں گئے لیکن اس کا کچھ پتہ نہ چلا کہ کہاں رہ گیا ہے.لنڈن میں یا ڈو و یا گیلے کی بندرگاہ پر رہ گیا.ان تینوں مقامات پر دفتر متعلقہ کی طرف سے خط لکھوائے اور تاریں بھیجوائیں.ایک فرانسیسی نوجوان سے دو اڑھائی گھنٹہ تبلیغی گفت گو ہوتی رہی...وہ نوجوان آبدیدہ ہو گیا اور بڑے درد سے کہنے لگا افسوس ہم نے یہ مذہب اپنے آباء سے اس رنگ میں پایا ہے کہ ہم اسے چھوڑ نہیں سکتے.میرے والدین نے تو میرے اندر عیسائیت ہمیشہ کے لئے بھرنی چاہی ہے، اور پھر دی ہے لیکن مجھے محسوس ہونے لگا ہے کہ آپ کی باتیں میرے عقائد سے مجھے ہلانا چاہتی ہیں." یہ لوگ اپنے مذہب کے لئے اس قدر ضدی اور متعصب واقع ہوئے ہیں کہ تبدیل مذاہب
کا انہیں و ہم بھی نہیں ہو سکتا.ہے ۲۰ مئی.آج شبیح پیرس میں مختلف مقامات پر مختلف امور کے سلسلہ میں چند خطوط لکھے.ایک پرائیویٹ تعلیمی ادارہ اور ایک دفتر میں بھی گیا.اس تعلیمی ادارہ کی منتظمہ سے تعلیم اور رہائش کے سلسلہ میں بعض معلومات حاصل کیں اور آخر میں اسے پون گھنٹہ کے قریب تبلیغ کی.اس نے بھی یہی کہا کہ اسلام کی تعلیم کس قدر خوش نما ہے.متل اور حقائق پر مبنی ہے لیکن میں روس کیتھولک ہوں یہ نہ خیال کرنا کہ میں اپنا مذ ہب کبھی چھوڑوں گی یہ فرانس کے حالات سیاسی ملکی مذہبی اور قومی تبلیغ کی راہ میں روکیں رکھتے ہیں جنہیں صرف اور صرف ہمارا خدا ہی دور کر سکتا ہے جو انشاء اللہ ضرور دُور کرے گا اور احمدیت جلد ایک دن اپنے اپنی مقصد میں کامیاب ہوگی، انشاء اللہ " سے فرانس میشن کی پہلی رپورٹ (مجاہدین فرانس نےحضرت مصلح موعود کی خدمت اقدس میں جو پہلی رپورٹ بھیجی اس میں خاص طور پر فرانسیسیوں کے قومی تعصب اور حضرت مسیح موعود ہوش ربا گرانی پر اظہار تشویش کیا گیا تھا.حضرت مصلح موعود نے ے اگرچہ فرانس میں اسلام کے خلاف صدیوں سے شدید تعصب پایا جاتا ہے مگر حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے عہد حکومت کے گہرے اثرات آج تک فرانس کے علم و تمدن میں موجود ہیں.چنانچہ جیسا کہ فرانس کے ایک فاضل مصنف موسیو ڈھنڈی نے تسلیم کیا ہے.فرانسیسی سرمایہ علم و ادب میں ہمیں بے شمار عربی الفاظ مصطلحات ملتی ہیں.یہی بات موسیدو سو تری ہونے لکھی ہے ڈاکٹر گستاولی بان نے " تمدن عرب کے آخر میں بعض ایسے عربی الفاظ کی فہرست بھی دی ہے جو آج تک فرانسیسی زبان میں مرقوع ہیں.سترھویں صدی عیسوی تک مسلم اطباء کی تالیفات فرانس کی درسی کتابیں بنی رہیں.انگلستان کا مورخ سنگر تو بیاں تک لکھتا ہے کہ پیرس کی یونیورسٹی میں پروفیسروں کو قسم کھا کر یہ عہد کرنا پڑتا تھا کہ ہم کوئی لفظ ایسانہ پڑھائیں گے جو ارسطو اور اس کے ترجمان ابن رشد کی تعلیم کے خلاف ہو.اگرچہ اس سنہری دور پر صدیاں گزرگئیں مگر مسلم خون کا اثر اب تک فرانسیسیلوں میں جاتی ہے.چنانچہ جیسا کہ فرانسیسی محقق ڈاکٹر گستا ولی بان نے، تمدن عرب میں لکھا ہے.فرانس کے بعض علاقوں میں عربوں کی اولا دیا آسانی پہچانی جا سکتی ہے تمدن عرب از ڈاکٹر گستاولی بان عرب اور اسلام پروفیسر فلپ.کے.حتی ، طب العرب" مسٹر ایڈورڈ جی بر آؤن یورپ پر اسلام کے احسان" ڈاکٹر غلام جیلانی برقی) سے افضل ہو.۲۵ پیش من ۵۳ احسان جون ۹ م + سے دوسری جنگ عظیم میں جرمن فوج نے فرانس کی میجینیو (MAGINOT) لائن توڑ کر رکھ دی اور ۲ جون 19ء کو پیرس میں داخل ہوگئی جس کے بعد مارشال بیان کی نئی حکومت نے جرمنی کے سامنے ہتھیار ڈال دئے جو من نے فرانس پر قبضہ کر کے ملک میں سخت لوٹ مار کی اور فرانس کئی سال تک قحط کا شکار ہو گیا.روزمرہ استعمال کی چیزوں کے نرخ تین گنا سے بھی بڑھ گئے اور آلما تک کمیاب ہو گیا.غرضکہ جنگ کی وجہ سے فرانس کی غذائی صورت حال عد درجہ نازک صورت اختیار کر گئی و N
۱۵ 71984 ر ماه احسان برتون ان کی مجلس علم و عرفان میں مجاہدین فرانس کی ان مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا.کی علم ذکر فرمایا.یہ باتیں مبلغین نے لکھی ہیں اور ہمیں یہ پہلے بھی معلوم تھیں ہم نے نا واقفیت میں مبلغین کو نہیں یہ بھیجا اور نہ مہلتیں ان سے ناواقف تھے.در اصل جو قوم کامیاب ہونا چاہتی ہے اسے ہر قسم کی تکالیف برداشت کرنی پڑتی ہیں.اور ہمارے مبلغ ہی سمجھ کر گئے ہیں کہ انہیں کانٹوں پر چلنا ہے اور کانٹے انہیں پیشی بھی آئے ہیں اور وہ خدا تعالیٰ کے لئے خوشی سے برداشت کر رہے ہیں.ہمیں یقین ہے کہ اور بھی جو مبلغ جانے والے ہیں وہ یہی سمجھ کر جائیں گے اور یہی سمجھ کر جانا چاہیئے حقیقی لیڈر کا یہ کام ہوتا ہے کہ صاف صاف بتا دیتا ہے کہ فلاں کام کرنے میں تکالیف ہوں گی ہمشکلات پیش آئیں گی، تلواروں کے سایہ میں چلنا ہوگا.ہرقسم کی تکالیف اور مشکلات برداشت کرنی پڑیں گی جس نے چلنا ہے وہ چلے.اس کے بعد جو چلتے ہیں وہی کامیاب ہوتے ہیں.ہماری مشکلات اور تکالیف کی تو ابھی ابتداء ہے.لوگ ابھی تک تمہیں کھیل سمجھتے ہیں اور ہماری طرف زیادہ متوجہ نہیں ہوتے لیکن جب کوئی قوم ترقی کرنے لگتی ہے اور جلد جلد قدم بڑھاتی ہے تو اس کی زیادہ مخالفت کی جاتی ہے اور اسے زیادہ دکھ اور تکالیف دی جاتی ہیں.کفار نے جتنا بغض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ کی زندگی میں ظاہر کیا متعہ کی زندگی میں ظاہر نہیں کیا تھا.یے سے ابتدائی ڈیڑھ سال میں تبلیغ کا کوئی باقاعدہ کام نہ کیا جا سکا سب سے بڑی فرانسیسی زبان سیکھنے روک زبان کی تھی.انگریزی میں کوئی موثر کام کرنا ممکن نہ تھا.اول تو وہاں کی طرف خصوصی توجہ انگریزی جاننے والے بہت کم ملتے تھے.اور جو کوئی انگریزی جانتا تھا وہ اس میں بولنا پسند نہ کرتا تھا.اس وقت کے پیش نظر ملک عطاء الرحمن صاحب نے فرانس پہنچتے ہی اپنی پوری توجه فرانسیسی زبان سیکھنے کی طرف مبذول کر دی جس میں انہیں نمایاں کامیابی ہوئی بلکہ تقریباً سوا دو سال کے بعد مشہور احمدی انگریز مسٹر بشیر آرچرڈ یورپ کے احمدی مشنوں کا دورہ کرتے ہوئے سب سے پہلے پیرس میں ملک صاحب سے ملے تو انہیں فرانسیسی پر خاصہ عبور حاصل ہو چکا تھا.چنانچہ انہوں نے اپنے سفر نامہ کے تاثرات میں لکھا:.له الفضل ۲ ماه احسان جون ۱۳۳۵ نمایش
یکی لنڈن سے سر ستمبر والے کو روانہ ہوا اور اسی شام پیرس میں پہنچا.میں پیرس میں چند گھنٹے ٹھرا اور رات کو زیورک (سوئٹزرلینڈ) کے لئے روانہ ہو گیا جہاں ہمارہ اکشن قائم ہے.پیرس ریلوے ٹیشن پر برادرم ملک عطاء الرتمن صاحب موجود تھے برادرم ملک صاحب مجھے اپنے ہمراہ اپنی جائے رہائش پر لے گئے.آپ کے پاس صرف دو چھوٹے چھوٹے کمرے ہیں.دوران گفتگوئیں نے ان کے کام کے متعلق معلومات محاصل کیں.آپ اپنے وقت کا ایک منٹ بھی ضائع نہیں کرتے اور نماز فجر سے لے کر رات دیر تک اپنے کام میں مصروف رہتے ہیں آپ نے فرانسیسی زبان پر اچھا عبور حاصل کر لیا ہے اور ابھی تک زبان کو سکھنے اور مہارت پیدا کرنے میں کوشاں ہیں.ان کی خواہش ہے کہ فرانسیسی زبان میں لٹریچر شائع کر سکیں.ان کے کھانا پکانے کے انتظامات بہت سادہ ہیں اور خوراک بھی بالکل سادہ ہے.(ترجمہ) سے بلی کی قانونی اورسرکاری اجازت اورپریس ایک قانون کے مطابق تبلیغ اسلام کے کے حکومت الملکی کی اجازت ہما صل کرنا ضروری تھا جس کے لئے کا نفرنس سے تبلیغی سرگرمیوں کا باضابطہ آغاز ملک عطاء الرحمن صاحب پیش سے برابر کوشش کر رہے تھے آخر ایک نہیں جدو جہد کے بعد یا تبلیغ ضروری اش کے آخری عشرہ میں فرانس کی وزارت / خارجہ نے اجازت دے دی لیکن ابھی کام شروع کرنے کے لئے پولیس کے محکمہ اعلیٰ کی اجازت و منظوری حاصل کرنے کی روک سید راہ تھی جو بڑی تگ و دو ، دوڑ دھوپ اور کئی مشکلات کے بعد ۲۲ ماہ احسان جون پیش کو دور ہوئی.ملک صاحب نے پولیس کی اجازت ملنے سے ڈیڑھ دو ماہ قبل ملک میں آئندہ تبلیغی پروگرام کا ایک قابل عمل ڈھانچہ بنا لیا تھا اور فرانس کو اول مرحلہ پر ہی تحریکیں احمدیت سے روشناس کرانے کے لئے ایک تبلیغی پر یس کا نفرنس کے انعقاد اور ایک پمفلٹ اور ایک ٹریکٹ کی ترتیب واشاعت کی تیاری شروع کر دی تھی اور پریس سے رابطہ قائم کرنے کے لئے رائٹر ( REUTER ) اور فرانسس کی ایک مقامی خبر رساں ایجنسی سے بھی تعلقات پیدا کر لئے چنا نچہ جونہی منظوری کی دوسری سرکاری اطلاع پہنچی انہوں نے پولیس کا نفرنس کا اعلان کر دیا.بیس ہزار کی تعداد میں چار صفحات پر مشتمل پمفلٹ ه الفضل ۳۰ تبوک ستمبر ا مت کا لم م : ۱۳۲۵ میش ۶۱۹۴۶ تو +
16 EST VENU LE MESSIE اور پانچ سو کی تعداد میں بار صفحات پشتمل ٹیکس سے شائع کرنے کے علاوہ دعوت نامے بھی طبع کرائے جو جملہ مشہور با اثر اخبارات کے علاوہ ملک کے دوسرے شہروں کے مستند اخبار است کو خاص اہتمام سے بھجوائے.پولیس کا نفرنس پروگرام کے مطابق ماہ وفا جولائی ہی اہمیت کے دوران پیرس کے ایک بڑے ۶۱۹۴۸ ہوٹل میں منعقد ہوئی جس میں ایک درجن کے قریب اخباری نمائندے شامل ہوئے سیکھے پر یس کا نفرنس کے چند ماہ بعد رائٹر کے نامہ نگار نے ملا عطاء الرحمن رائٹر کے نامہ نگار کا ایک مضمون صاحب سے ایک خصوصی انٹرویو لیا اور ایک تفصیلی مضمون تیار اسلام کا نیا حملہ یورپ پتہ کر کے اپنی عالمگیر سروس کے ذریعہ سے تمام ممالک میں بغرض اشاعت بھیجوایا.اس مضمون کا ملخص یہ تھا کہ :.کبھی صرف یہی مشاہدہ میں آتا تھا کہ مغرب مشرق کی تادیب و تعلیم کے لئے مشرق کی ہر وقت پر چھا رہا ہے.عام علم و صنعت میں ہی نہیں بلکہ مغرب مشرق کا معظیم دین و روحانیت بھی بن چکا تھا لیکن اب تھوڑے عرصہ سے اس کے بر خلاف مشرق اپنی ویر سینہ روایات اور تعلیم کے ماتحت مغرب کو تدریس دین اور اسرار روحانیت سے واقف کرانے کے لئے مغربی ممالک کی طرف غیر معمولی اہتمام سے بڑھتا ہوا نظر آنے لگا ہے.یہ ہم ایک وقت سے اسلام کے نام له الفضل ها تبلیغ ر فروری مٹ کالم کا پمفلٹ کے پہلے صفحہ پرحضرت سیح موعود علیہ اسلام کی شبیہ مبارکی تھی ۱۵ ۹۳ جس کے اوپر الہام میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا " درج تھا اور اسے تصویری زبان میں واضح کرتے کے لئے دنیا کے نقشہ پر قادیان سے نور کی شعاعیں ان ممالک تک دکھائی گئی تھیں جہاں جہاں احمدیت کی خیر پہنچ چکی ہے حضور کی شبیہ مبارک کے بعد مختصر تمہید کے ساتھ حضور کا اقوام عالم کے نام صلح و آشتی اور امن و سلامتی کا پیغام دیا گیا تھا جو الوصیت مسیح ہندوستان میں اور اسلامی اصول کی فلاسفی کے تین اقتباسات کی صورت میں تھا.آخر میں اسلامی پیغام سکتے اور یا مور وقت سے وابستہ ہونے کی موثر اپیل کی گئی تھی ( الفضل ۱۳ تیوکی رستمبر ۱۳۲۴ آرش مت ) اس پمفلٹ کی ایک کاپی فرانس مشن کے ریکارڈمیں محفوظ ہے.اس ٹریکٹ میں اختصار کے ساتھ حضرت کی موعود علیہ السلام کی بعثت سے متعلق انبیاء سابق کی پیش گوئیوں اور نشانات کا تذکرہ کرنے کے علاوہ خود حضور کی بعض پیش گوئیاں بھی دی گئی تھیں اور سلسلہ احمدیہ کی مختصر تاریخ بھی (الفض مل ۱۲ و فار جولائی ۱۳۲۷ پیش شمت ) * سے ان دنوں ملک صاحب کا پتہ یہ تھا BOULEVARD PEAEIRE 220 ٹیلیفون نمبر ۲۱۶۵ تھا اور ٹیلیگرام کے لئے احمد آباد.پیرس ( ANMADABAD, PARIS) کے الفاظ رجسٹر کرائے گئے تھے.
IA پر قرآنی تعلیم کی اشاعت کے لئے مغربی ممالک بالخصوص یورپ میں شروع ہو چکی ہے.اسلام کایہ عمل یورپ پر تحریک احمدیت کی طرف سے شروع کیا گیا ہے.چنانچہ احمدیت کے مبلغ یورپ کے بیشتر ممالک میں اپنے مراکز قائم کر چکے ہیں.حضرت احمد (علیہ الصلوۃ والسلام، تحریک احمدیت کے بانی ہیں.انہوں نے وفات مسیح کا عقیدہ پیش کر کے اس تحقیق کا انکشاف فرمایا ہے کہ مسیح (علیہ اسلام ، صلیب پر فوت نہیں ہوئے تھے بلکہ بیہوشی کی حالت میں انہیں صلیب پر سے اتارا گیا اور پھر وہ عراق، ایران ، افغانستان سے ہوتے ہوئے تبت وہ ہندوستان میں آئے اور آخرسر شگر میں مقیم ہوگئے چنانچہ علہ خانیار سرینگر میں ایسی قبر بھی موجود ہے جو قبر مسیح کے نام سے مشہور ہے.حضرت احمد (علیہ السلام نے اپنی کتاب مسیح ہندوستان میں میں اس انکشاف پر تفصیلی بحث کی ہے.اس سلسلہ میں انہوں نے بیان فرمایا ہے کہ واقعہ صلیب سے ۷۲۱ سال قبل شاہ اسور یہود کے بعض قبائل کو سمریا میں قید کر کے لے گیا تھا.ان میں سے ایک حصہ بالآخر ہندوستان میں آباد ہو گیا.حضرت احمد (علیہ السلام) نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ افغان اور کشمیر کے قدیم باشندے در اصل اسرائیلی نسل سے ہیں چنانچہ اس کی تائید میں بعض قابل اعتماد بہترین کی آراء پیش کی گئی ہیں جن کی روشنی میں ان اقوام کے خدو خال و نقوش اور رسوم و عادات اس تھیوری کی تائید کرتے ہیں.چنانچہ بعض عیسائی متفقین اس انکشاف میں دلچسپی لے رہے ہیں.تحریک احمدیت کے موجودہ امام حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر العربني ہیں.اسلامی تبلیغ کی عالمگر ہم انہی کی قیادت میں عمل میں آرہی ہے.ان کا یہ دعوی ہے کہ تمام حقائق اور تمام صداقتیں خدا کے آخری اور اکمل کلام قرآن پاک میں موجود ہیں اور دونیا میں کوئی صداقت نہیں جو قرآن مجید میں موجود نہ ہو.یورپ پر اس حملہ کی تیاری آج سے دس سال قبل شروع کی جا چکی تھی مگر لڑائی کی وجہ سے مجوزہ پروگرام ملتوی ہوتا چلا گیا.لڑائی کے معا بعد اس غیر معمولی مہم کے سلسلہ میں اسلام کے مبلغ فرانس اٹلی سپین ، سوئٹزرلینڈ اور ہالینڈ وغیرہ پہنچ گئے.چنانچہ اس تھوڑے عرصہ میں وہ ان ممالک میں اپنے مراکز باقاعدہ قائم کر چکے ہیں.---
(چوہدری مشتاق احمد صاحب با جوه امام لنڈن مسجد کی زیر نگرانی ایک انگریز نوسلم برائن آرچر ڈبرسٹل (انگلینڈ) جن کا اسلامی نام بشیر احمد ہے اسلامی علم پڑھ رہے ہیں انہیں اسلام کی تبلیغ کے لئے تیار کیا جا رہا ہے بشیر احمد آرچر قادیان سے لنڈن اس وقت بھجوائے گئے تھے جب قادیاں تقسیم ہند کے وقت ہندوستان میں شامل کیا گیا تھا اور اہل ت دیان زبر دستی وہاں سے نکالے جا رہے تھے.اس وقت تک سپین اسلامی تجنید کے لحاظ سے زیادہ زرخیز ثابت ہو رہا ہے.غالباً صدیوں کی شورش حکومت کے ورثہ و ترکہ کی وسعہ سے ! فرانس کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ اسلامی تعلیم و تبلیغ کے لئے یہ ملک دنیا بھر میں سب سے زیادہ سنگلاخ ہے.فرانس میں تبلیغ اسلام کا دشوارترین کام ملک عطاء الرحمان کے سپرد کیا گیا ہے.وہ آجکل پیرس میں تقسیم ہیں اور حال ہی میں اپنی تبلیغی مہم کا آغاز کر چکے ہیں.ملک عطاء الرحمن (جنہیں دیگر مسلمانوں کی طرح سگرٹ اور شراب سے مکمل پرہیز ہے ، کے نزدیک فرانس خاصہ دلچسپ تلک ہے.باوجود اس کے مذہبی عقائد کی سختی سے پابند سی ان کے لئے فرانس کے مشہور عالم لذیذ کھانوں اور بے مثال شرابوں کے چکھنے میں سختی سے روک ہے.جماعت احمدیہ ابھی تک تقسیم پنجاب کو خلاف انصاف و عدل ایک ظالمانہ فیصلہ سمجھتی ہے کہ جس کے ماتحت قادیان کو ہندوستان میں شامل کیا گیا ہے.چنانچہ ان کے نزدیک انہیں انتہائی مظالم اور سختی کے ساتھ اپنے مقدس مرکز سے ہجرت پر مجبور کیا گیا ہے.پندرہ ہزار سے بیس ہزار احمدی اپنے مرکز سے ہجرت کر کے پاکستان میں منتقل ہونے پر مجبور کر دئے گئے.تمام مرکزی دفاتر و تنظیم کو وقتی طور پر لاہور میں قائم کیا گیا لیکن جہاں وہ اس ظلم کے خلاف مظاہری لحاظ سے ہر طرح احتجاج کر رہے ہیں وہاں ان کے نزدیک یہ ہجرت خدائی نوشتوں کے ماتحت ہے کہ جس کی پیش گوئی حضرت احمد د علیہ السلام) کے الہامات میں پہلے سے موجود تھی اور یہی نہیں بلکہ ان کا ایمان ہے کہ جس طرح یہ ہجرت پہلے سے آسمانی نوشتوں میں موجود تھی ان کے مرکز قادیان کی واپسی کا بھی خدائی وعدوں میں وضاحت سے ذکر ہے اور وہ ایک
دن ضرور اپنے مرکز میں واپس ٹوٹیں گے ارے تبلیغی پریس کا نفرنس نے فرانس میں اشاعت و تبلیغ اسلام و فرانس میں پیا تبلیغی پاک علیہ احمدیت کے لئے ایک خوش کن اور نمایاں حرت سی پیدا کر دی تھی ملک صاحب نے اس سے فائدہ اُٹھانے اور اپنے تبلیغی حلقہ کو مزید وسعت دینے کے لئے ۱۳.ماه نبوت بر نومبر ان کو وسیع نماد پر ایک پبلک جلسہ کا انتظام کیا جو ملک میں اپنی نوعیت کا میرے پہلا اور کامیاب اجتماع تھا پوسٹر، ریڈیو اور پولیس تینوں ذرائع سے جلسہ کا اعلان کیا گیا.علاوہ ازیں قریباً ایک ہزار مطبوعہ دعوت نامے بھجوائے گئے.مدعوین میں پیرس کی بعض ادبی سوسائٹیوں کے نمبر اور پیرکس یونیورسٹی کے پروفیسر اور بعض مستشرقین بھی تھے.یہ جلسہ پیرس کے ایک بڑے پبلک ہال میں پیرس یونیورسٹی کے ایک پر وفیسر کی صدارت میں ہوا جس میں مجاہد فرانس نے جنگ اور اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت سیح موعود علیہ السلام کے الہامات اور پیش گوئیوں کی روشنی میں " کے موضوع پر ایک گھنٹہ تک لیکچر دیا جو تو یہ سکولی اور پسی سے سنا گیا اور سامعین نے کچھ وقفہ کے بعد اس موضوع پر تقریر کرنے کی خواہش کی جلسہ میں تبلیغی ٹریکٹ اور پمفلٹ بھی تقسیم کئے گئے ہیے اس جلسہ کے بعد ملک صاحب کو پیرس کی فلو سائیکل سوسائٹی کے زیر اہتمام ہستی باری تعالیٰ اور وجود ملائکہ کے مضمونوں پر لیکچر دینے کا موقعہ ملا.ان بیچوں میں لوگوں نے پہلے سے بھی بڑھ کر چوس پی لی اور سوالات کے ذریعہ اپنی معلومات میں اضافہ کیا ہے عیسائی لیڈروں کو قبول فرانس میں ان دنوں وہ کے قریب مشنری سوسائٹیاں تھیں جن کے ہزاروں مناد دنیا کے اکثر ممالک میں عیسائیت کا پراپیگنڈہ کر رہے اسلام کی دعوت تھے.ان سوسائٹیوں میں سے بعض کے بڑے بڑے فرانسیسی شہروں میں ه اختبار مورخ را تومیران ه اخبار الفضل مؤرخه او نبوت / نومبر ۱۳۷ حث جہ سے ملک صاحب کی ایک مطبوعہ رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان نوں جہ پریس پر یہود کا کافی اثر و نفوذ تھا.اور ریڈیو پر تو وہ کو یا مسلط تھے بعض دوستوں نے کہا یہ اسرائیل کسی اسلامی جلسہ کا کہاں اعلان کرنے دیں گے پاکھی ملک صاحب نے کوشش برابر جاری رکھی اور نتیجہ یہ ہوا کہ خدا کے فضل سے ریڈیو کے اسرائیلی افسر اعلان جلسه پر رضامند ہو گئے.ازاں بعد جب آپ نے اپنی آٹھ تبلیغی تقاریر کا سلسلہ جاری کیا تو ان تقریروں کا اعلان بھی ریڈیو سے نشر کیا گیا جس سے یہودیت نواز عیسائی ریڈیو پر اسلام کی بالواسطہ رنگ میں تبلیغ بھی ہوگئی در الفضل ریڈیوپر و سه الفضل ۲۷ ماه نبوت / نومبر من له الفضل ۳۱ فتح / دسمبر / 1974 حت کالم ، ۲۷ امان / مارچ ا حت کالم - ۲۷- امان / مارچ کے 1900 ་་
۲۱ ایک سے زائد مراکز قائم تھے.ملک صاحب نے ان سوسائٹیوں اور ان کی شاخوں کو ایک مطبوع خط بھیجوایا جس میں انہیں بتایا کہ مسیح صرف بنی اسرائیل کے نبی تھے مگر اسلام کا نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) رحمۃ للعالمین ہے اور آپ کی لائی ہوئی شریعیت سارے جہانوں اور زبانوں کے لئے ہے.فرانس کے ساتھ ہی لیجیم کا مشہور ملک ہے جہاں زیادہ تر فرانسیسی رائج ہے.اور گورا سکے بعض حصوں میں فلیمنگ زبان بھی بولی جاتی ہے مگر شائستہ اور اعلیٰ طبقہ میں فرانسیسی کو ہی پسند کیا جاتا ہے.ملک عطاء الرحمن صاحب اس ملک تک پیغام احمدیت پہنچانے کے لئے ۲۶ رمان نبوت کو پہلے اس کے دار الحکومت برسلز میں اور پھر شہور شہر ا نٹورپ میں تشریف لے گئے.آپ کو دونوں شہروں میں اخباری نمائندوں سے ملاقات کرنے اور پبلک مقامات پر تبینی ٹریکٹ تقسیم کرنے کا موقعہ ملا.اس یک روزہ سفر کا یہ اثر ہوا کہ برسلز کے بعض اخبارات نے پہلی بار اسلام اور احمدیت کی نسبت عمدہ نوٹ شائع کئے مثلاً اخبار فیرڈی مانش (PHARE DI MANCHE ) نے یورپ پر اسلام کا حمال" کے عنوان سے حسب ذیل شذرہ سپر د اشاعت کیا :- یورپ پر اسلام کا حملہ" کچھ دن ہوئے ایک ذہین النظر، خوش کلام اور سنجیدہ طبع صاحب ہمارے اختبار "PHARE DIMANCH E کے دفتر میں ملنے کے لئے آئے مسیح کے نمائندہ کے طور پر انہوں نے ہم سے اپنا تعارف کرایا.معلوم ہوا کہ ایک مسیح ہندوستان میں مبعوث ہوئے ہیں.انہوں نے اپنے معتقدین کے پر یہ کام کیا ہے کہ وہ زمین کے کناروں تک ان کا پیغام پہنچائیں چنانچہ مسلمان اب اس طرح عیسائیوں کو اسلام کی طرف کھینچنا چاہتے ہیں.قرآن کے ذریعہ نہ کہ پہلے کی طرح تلوار کے ذریعہ.چنانچہ یہ اپنے رنگ کا نیا اور جدید طریق ہو گا.مسیح کے اس نمائندہ کے بیان کے مطابق حضرت احمد علیہ السلام) وہ موعود مسیح ہیں کہ جنکے متعلق مختلف انبیاء نے کتب سابقہ میں پیش گوئیاں فرمائی تھیں چنانچہ وہ ساری پیش گوئیاں حضرت احمد (علیہ الصلوۃ والسلام) کے وجود میں پوری ہوئیں.مثلاً گندمی رنگ، قدرے نکنت ، کدعہ بستی ہیں، وغیرہ وغیرہ.ان تمام پیش گوئیوں کے مطابق وہ ہندوؤں کے لئے کوشن ہوئے.
۲۲ زرتشتیوں کے لئے میسو دراہمی ، عیسائیوں کے لئے میسیج اور مسلمانوں کے لئے مہدی.ان تمام امور میں کیونکر شک کیا جا سکتا ہے اور پھر اس پیشگوئی پر کیوں شک ہو گا کہ جو اس مہدی نے فرمائی ہے کہ ساری ہی دنیا اپنے خاتمہ سے پہلے اسلام قبول کرے گی.اس نمائندہ کے بیان کے مطابق تحریک احمدیت نے دنیا کی تمام وسعتوں میں اپنے مراکز اور جماعتیں قائم کی ہیں.امریکہ اور انگلستان اور فرانس میں بھی ہو سکتا ہے کہ کبھی بلجیم میں بھی ان کی جماعت قائم ہو.چنانچہ اس کے علاوہ ہم اور کیا کر سکتے ہیں کہ خدا ان صاحب کو اس مقصد کے لئے نیک مواقع عطا فرمائے.کیا تمام مذاہب اور عقائد اعزاز و اکرام کے حقدار نہیں ؟ " ہے مرکز پر بوجھ ڈالے بغیر پاک وہند کی احمدی جماعتیں چونکہ سانحہ ہجرت کے دوران شدید مالی بحران سے دوچار تھیں اس لئے فیصلہ کیا گیا کہ فرانس مشن اور دوسرے میشن جاری رکھنے کا عزم لئے جاری شدہ احمدی مشنوں کوفی الحال بند کر دیا جائے مگر سب نے فرانس ملک عطاء الرحمن صاحب نے دوسرے مجاہدین یورپ کی طرح اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ مرکز پر میشن کے اخراجات کا بوجھ ڈالے بغیر تبلیغ اسلام کا کام جاری رکھیں گے.انہیں اس گہوارہ الحاد و وہر بیت میں رہنے کی اجازت دی جائے.چنانچہ سید نا المصلح الموعود نے ان کی یہ درخواست قبول کرلی اور ۲۶ ماہ نبوت / نومبر ﷺ کے خطبہ جمعہ میں فرمایا :- فرانس میں مستلقے بھیجے گئے مگر کامیابی کی کوئی صورت پیدا نہ ہوئی.وہاں کے بھی مبلغ کو جو لاہور کے ہی ہیں کہا گیا کہ تم واپس آجاؤ تو انہوں نے بھی کہا کہ مجھے واپس نہ بلایا جائے لیکن یہاں اپنی کمائی سے کام کروں گا.انہیں وہاں چھوڑ دیا گیا اور انہیں اپنے خرچ پر کام کرنے کی اجازت دی گئی.اب وہاں بھی کام شروع ہو گیا ہے.ان کی تار آئی ہے کہ اب وہاں بھی عیسوں اور تقریروں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے.پریسں اور دوسرے لوگ بھی توجہ کر رہے ہیں.آج ہی اطلاع ملی ہے کہ وہاں کی ایک سوسائٹی نے اقرار کیا ہے کہ اگر الہام کے متعلق مضامین لکھے جائیں تو وہ خود بھی ان کی اشاعت میں مدد کرے گی " سے ۱۳۲۸ کیش الفضل ۱ صلح جنوری من یورپ میں جماعت احدیہ کی تبلیغی مساعی سه الفضل در فتح اردسمبر ه ۱۳ ا ح کالم لا ؟ 1989
۲۳ ہل کلیسا کے غلط نظریات کی تردید فرانس اور دوسرے مغربی ممال میں اہل کلیسا کے تعقیب نے اسلام کی خوبصورت اور حسین و دلکش تصویر کو ایسے مکروہ کے لئے تبلیغی ٹیچروں کا سلسلہ بھیانک اور گھناؤنے رنگ میں پیش کیا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے.عوام ہی نہیں اچھے پڑھے لکھے اونچے طبقہ کے لوگ بھی اسلام کے بارے میں انتہائی غلط اور بے بنیا و نظریات رکھتے اور ان کی فخریہ اشاعت کرتے ہیں.ان دنوں چونکہ افریقہ کے بعض مسلمان ممالک فرانس کے مقبوضات میں شامل تھے اس لئے فرانسیسی عام طور پر اسلام کو بھی سخت حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے اور ان کے نزدیک اسلام معاذ اللہ صرف زن اور زوپرستوں اور جبر و تشدد کا مذہب سمجھا جاتا تھا.ملک صاحب چونکہ اپنے مفید لیکچروں کی وجہ سے پیرس کے علمی حلقوں میں کسی حد تک متعارف ہو چکے تھے اس لئے اب آپ اسلام کے خلاف پھیلائے جانے والے اعتراضات کی بر سر عام اور پالک میں انار کرنے کی طرف متوجہ ہوئے اور آپ نے پیرس کا ایک معروف ہال کرایہ پر لے کر ٹیچروں کا ایک سلسلہ شروع کر دیا جو قسط اول کے طور پر مندرجہ ذیل آٹھے عنوانات پرمشتمل تھا یہ حقیقی اسلام (۲) عیسائیت اور دیگر مذاہب (۳) اسلام میں عورت کی حیثیت (۳) اسلام اور تعدد ازدواج (۵) اسلام اور جنگیں (۶) اسلام اور غلامی (4) اسلام اور صوفی ازم (۸) اسلام کے پانچ ارکان.ان لیکچروں کا پوسٹروں اور پریس ریڈیو سے بھی اعلان کیا جاتا تھا اور لوگ ہر سکھر میں پہلے سے زیادہ ذوق و شوق سے شامل ہوتے اور فائدہ اُٹھاتے تھے.لہ مغربی ممالک میں لوگ اس درجہ مصروف رہتے ہیں کہ ان کے لئے روز مرہ فرانسیسی لٹریچر کی تیاری کے پروگرام میں سے لیکچروں یا پرائیویٹ ملاقاتوں کے لئے وقت نکالنا انتہائی مشکل ہوتا ہے.ان حالات میں تلیغی میدان کو وسعت دینے کے لئے لٹریچر کی افادیت بہت بڑھ جاتی ہے ملک عطاء الرحمن صاحب نے فرانسیسی زبان میں کچھ دسترس حاصل کر نی تو انہیں جلد سے جلد فرانسیسی لٹریچر تیار کرنے کی شکر دامنگیر ہوئی.چنانچہ انہوں نے پہلے تو پر یس کا نفرنس کے موقعہ پر پلٹ KIPYA + ه الفضل ۲۷ امان / مارچ ۱۹۴۹ء
۲۴ اور ٹریکٹ شائع کئے اور فرانس او را جیم دونوں جگہ اس کی اشاعت کی.اس کے بعد اسلامی اصول کی فلاسفی کے فرانسیسی ترجمہ پر نظرثانی کی یہ اسلام کا اقتصادی نظام کا فرانسیسی ترجمہ کیا.علاوہ ازیں " اسلام اور تحریک احمدیت سے تعلق تعارفی اور بنیادی معلومات پرمشتمل دو کتابیں تالیف کیں لے فرانس میں پہلی دورہ جسے قبول اسلام کی سعادت نصیب پہلی فرانسیسی رو کا قبول اسلام ہوئی یا تعلیم یافته فراسیسی خاتون MADAME MARAAERITE DEMAGANY تھیں جو ۲۳ ماہ ہجرت رمی کو بیعت فارم پر کر کے داخل احمدیت ہوئیں اور حضرت مصلح موعود نے ان کا اسلامی نام عائشہ رکھا.ملک صاحب جب تک فرانس میں تبلیغ اسلام کے فرائض بجالاتے رہے یہ خاتون ان کے فرانسیسی تراجم میں ان کا ہاتھ بٹاتی رہیں بیٹے ملک عطاء الرحمن صاحب قریباً سوا پانچ برس تک فرانسس کی مجاہد فرانس کی مرکز میں واپسی سنگلاخ زمین میں کلمہ حق بلند کرنے کے بعد ماہ نبوت / نومبر ہ کو واپس مراکز میں تشریف لے آئے اور ساتھ ہی پیریشن بھی بند ہو گیا.اگر چہ ملک صاحب کی لگاتار اور ان تھک مخلصانہ کوششوں کے تبلیغی مسائل کا فرانس پراش با وجود رانا میں نے سلمان ہونے والوں کی تعداد میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا مگر ان کو یہ کامیابی ضرور نصیب ہوئی کہ انہوں نے دہریت اور مادہ پرستی کے مرکز میں برسوں تک نہایت استقلال اور پامردی کے ساتھ نہ صرف اسلام کا دفاع کیا بلکہ اہل فرانس کے علمی طبقہ کو اس کے اصولوں کی برتری اور اس کی زندہ طاقت کا احساس دلا دیا.آپ کا پیغام سن کر جہاں ایک قلیل طبقہ تو اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے تصور سے لرزاں خوفزدہ اور مبہوت ہو گیا کیونکہ اس کے نزدیک یہ بات کہ اسلام، ابھی زندہ موجود ہے ایک ناقابل برداشت صدمہ سے کم نہ تھی وہاں وہ عنصر جو مغربی تہذیب کے گھناؤنے، حیا سوز اور شرمناک اثرات اور دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں سے مضمحل ہو کر مایوس ہو چکا تھا.دعوتِ اسلام کو زندگی کے نئے پیغام سے تعبیر کرنے لگا، بچنا نچہ جیسا کہ ذکر آچکا ہے فرانس کے ایک اخبار نے اگر جماعت احمدیہ کی تبلیغی ہم کو یورپ پر اسلام کا عملہ قرار دیا تو ولیم کے ایک اخبار نے اسے یورپ کے لئے زندگی کا نیا پیغام قرار دیتے ہوئے یہ امید ظاہر کی کہ کاش اسلام له الفضل ۱۵ تبلیغ فروری ۳۲ ما حدث ه الفضل و ظهور اگست ۱۳۳۹ صدا ۶۱۹۴۹ +
۲۵ ہی دنیا میں قیام امن کا ذریعہ ثابت ہو کر دنیا کی مشکلات دور کرنے کا باعث بنے.ملک عطاء الرحمن صاحب نے ۲۹ ماہ نبوت / نومبر کو علی ارشاد تعلیم الاسلام کالج کے 1981- زیر اہتمام ایک تقریر میں اہل فرانس کے اس ملے جلے رو عمل تفصیل سے روشنی ڈالی تو حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل کا لج دایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا.ملک عطاء الرحمن صاحب کی تقریر سے یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی کے نتیجہ میں آج اسلام کسمپرسی کی حالت سے نکل کر عیسائیت پر حملہ آور ہونے کے قابل ہو گیا ہے.آج جو مذاہب مسلمانوں کی مجرمانہ غفلت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اسلام پر حملہ آور ہو رہے ہیں وہ خود ان کے خیالی معیار پر پورے نہیں اترتے پس ہمیں اسلام کے خلاف صدیوں کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کا ازالہ کر کے ایسے حملہ آوروں کو بتا دینا چاہیے کہ وہ خود کتنے پانی میں ہیں ؟ جب ہم اسلام کی اصل تصویر اور ان کے اپنے مذاہب کی موجودہ ہیئت کذائی انہیں دکھانے میں کامیاب ہو جائیں گے تو وہ کھرے کھوٹے میں خود تمیز کر کے اسلام قبول کر لیں گے ہمارا فرض ہے کہ ہم دنیا کو اسلام کے منور چہرے سے روشناس کراتے چلے جائیں اور ساتھ ساتھ دوسرے حملہ آور مذاہب کا چہرہ بھی انہیں دکھاتے رہیں جب دونوں تصویریں بیک وقت دُنیا کے سامنے آکر ذہن نشین ہو جائیں گی تو یہ خُلُونَ فی دِینِ اللهِ افواجا کا نقشہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے پس اگر آئندہ بین تین ابر مس تک نو مسلموں کی تعداد میں اضافہ نہ بھی ہو تب بھی ہمیں اسلام اور دیگر نا ہمیں کا اصل چہرہ دکھانے میں مصروف رہنا چاہیئے جس دن یہ کام باحسن وجوہ پایہ تکمیل کو پہنچ گیا اسی دن دنیا دیوانہ وار اسلام کی طرف دوڑ پڑے گی اور ہمیں اپنی تمام مساعی کا اچانک ثمرہ مل جائے گا یا کہ + الفضل ۱۳۰ ماه نبوت / نومبر ۱۳۳۰ راشد ۶۱۹۵۱
۲۶ فصل دوم نه امیر سینیشن کا احیاء اور اس کی شاندار اسلامی بابا سید نا حضرت امیر المومنین المصلح الموعود کے دل میں سنین کے اندر از سیر کو اسلامی حکومت قائم کرنے کی اس درجہ تڑپ تھی کہ جب مارچ ۱۹۴۰ء میں برطانوی وزیرتی میشن مہندوستانی سیاست کی گتھیاں سمجھانے کے لئے ہندوستان آیا تو حضور نے اُسے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ :- "کیا سپین میں سے نکل جانے کی وجہ سے ہم اسے بھول گئے ہیں ؟ ہم یقینا ، اسے نہیں بھولے.ہم یقیناً ایک دفعہ پھر سپین کو لیں گے.ہماری تلواریں میں مقام پر جاکر گند ہوگئیں وہاں سے ہماری زبانوں کا حملہ شروع ہوگا اور اسلام کے خوبصورت اصول کو پیش کر کے ہم اپنے بھائیوں کو خود اپنا جنز و بنالیں گے " سے اس اعلان پر ابھی دو ماہ بھی نہیں ہوئے تھے کہ مجاہد تحریک جدید مولوی کرم الہی صاحب ظفر اور مولوی محمد اسحق صاحب ساقی ۱۳ احسان (جون) کو سپین کو محمد رسول اللہ کے قدموں پر لانے کا عزم کر کے نی سے روانہ ہوئے اور ار بایو احسان (جون) کو اس کے دار الحکومت میڈرڈ میں پہنچ گئے.دونوں احمدی جوان قریبا چھ ماہ سے دوسرے مجاہدین کے ساتھ لندن میں مقیم تھے اور نہایت بے تابی سے سپیکین میں داخلہ کی اجازت کا انتظار کر رہے تھے.یہ مجاہدین میڈرڈ پہنچ کر ON DEZ ECHEGRAY نامی گلی به منقبه مد.PENS ے جیسا کہ تاریخ احمدیت جلد ہشتم میں آچکا ہے حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود کے حکم سے سپیکین میں پہلا مشق ملک محمد شریف صاحب گجراتی نے مارچ ء میں قائم کیا تھا جو اندرونی خانہ جنگی کے باعث بند کر دینا پڑا اور ملک صاحب سکین سے نکل کر اٹلی میں تشریف لے گئے ؟ ه الفضل در ماه شهادت / اپریل ۱۳۲ ماه و ه الفضل ۵ ، ۱۷ احسان /جون 51944 ۱۳۲۵ 71977 سے MADRID اسلامی نام ما ترید یا مجبریط
۲۷ سيدنا المصلح الموعود نے فرزندان احمدیت کے سپین میں حضرت امیر المومنین کا نہایت اہم بیان سنے کی اطلاع پر مسجد مبارک ادیان میں ایک تقریر کرتے مجاہدین سپین کے پہنچنے پر ہوئے سیتی میں مسلمانوں کے شاندار عروج اور دردناک سپین زوال کی تاریخ پر نہایت تفصیل سے روشنی ڈالی اور فرمایا :- اسلامی تاریخ میں ایک نہایت ہی اہم واقعہ سپین پر اسلامی لشکر کا حملہ ہے جس سے یورپ میں اسلام کا قیام ہوا.یوں تو سارے انسان ہی خدا تعالیٰ کے نزدیک ایک جیسے ہیں اور کسی جماعت یا کسی طبقہ کو کسی دوسری جماعت پر فوقیت نہیں لیکن یورپ اس اسلامی حملہ کے بعد سارے مشرق پر چھا گیا.گویا یہ اسلامی حملہ ایسا تھا جس نے ذوالقرنین کے بند کو توڑ دیا.یورپ سویا ہوا تھا اسلامی حملہ نے اُسے بیدار کر دیا.یورپ فاضل تھا اسلامی حملہ نے اُسے ہوشیار کر دیا.اس نے بیدار ہوتے ہی ایشیا اور افریقہ پر قبضہ کر لیا مسلمان اگر تہمت دکھاتے اور جو چیز ان کو دی گئی تھی اسے مضبوطی سے پکڑے رکھتے اور اپنی طاقت کو کمزور ہونے سے بچاتے تو آج مسلمانوں کی یہ حالت نہ ہوتی کہ بجائے اس کے کہ ایشیا یورپ پر قابض تھا آج یورپ ایشیا پر قابض ہے.اور بجائے اس کے کہ اسلام کے غلبہ اور شوکت کی وجہ سے یورپ میں عیسائیت کا نام و نشان نہ ملتا آج عیسائیت ایشیا میں اسلام کو کمزور کر رہی ہے...اس ملک میں آج تک مسلمانوں کے بنائے ہوئے عالی شان محلات موجود ہیں.غرناطہ اور قرطبہ میں اس اس قسم کے محلات تھے کہ تاج محل ان کے مقابل پر کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتا._ انسان جب ان کے کھنڈرات کی تصویروں کو دیکھتا ہے تو عش عش کر اُٹھتا ہے.غرناطہ میں ہزاروں باغات تھے مسلمانوں کے وقت میں جگہ جگہ لائبریریاں تھیں بعض کتب میں لکھا ہے کہ چھ سات سو کے قریب وہاں لائبریریاں تھیں اور بعض لائیبریریوں میں لاکھ لاکھ ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ کتابیں تھیں.سارا یورپ وہاں تعلیم حاصل کرنے کے لئے آتا تھا جس طرح آج لوگ بر آن اور انگلینڈ میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے جاتے ہیں یہی حال اس وقت قرطبہ اور غرناطہ کا تھا اور فرانس کی یونیورسٹیوں میں اٹھارھویں صدی تک وہاں کی لکھی ہوئی کتابیں OGARANADA ♣ CORDOYA ♣
پڑھائی جاتی رہی ہیں.جس ملک میں مسلمانوں نے اس شان سے حکومت کی آج وہاں کوئی ایک مسلمان بھی نہیں ملتا.کوئی غیر ملک سے وہاں تعلیم کے سلسلہ میں یا اور کسی کام کے لئے گیا ہو تو اور بات ہے لیکن اس ملک کا کوئی باشندہ مسلمان، نظر نہیں آئے گا.وہ لوگ جنہوں نے سینکڑوں سال تک سپین پر حکومت کی وہ آج سپین کے زیر نگیں ہیں اور وہ لوگ جو سپین کے بادشاہ تھے آج سپین کے غلام ہیں.یہ واقعات ایسے اہم ہیں جن کو کسی وقت بھی پھیلایا نہیں جا سکتا.آٹھ سو سال کی حکومت کوئی معمولی بات نہیں لیکن آج اس ملک کی یہ حالت ہے اس میں کسی مسلمان کی ہو اتک سونگھنے کو نہیں ملتی.اندلس میں مسلمانوں کو جوشان و شرکت حاصل تھی اور پھر اس کے بعد جو سلوک وہاں کے مسلمانوں سے کیا گیا اسی طرح منتقلیہ میں مسلمانوں کا جو رعب و دبد یہ تھا اور اس کے بعد جس طرح انہیں وہاں سے نکالا گیا جب میں نے یہ حالات تاریخوں میں پڑھے تو میں نے عزم کیا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی توئیں ان علاقوں میں احمدیت کی اشاعت کے لئے اپنے مبتلقین بھجواؤں گا جو اسلام کو دوبارہ ان علاقوں میں غالب کریں اور اسلام کا جھنڈا دوبارہ اس ملک میں گاڑ دیں.پہلے میں نے ملک محمد شریف صاحب کو اس ملک میں بھیجا لیکن کچھ عرصہ کے بعد وہاں اندرونی جنگ شروع ہوگئی اور سپین کے انگریزی فصل نے ان سے کہا کہ آپ یہاں سے چلے جائیں، پھر میں نے ان کو اٹلی بھیج دیا مگر آب جو و خود گئے ہیں ان میں میں نے سپین کو بھی مد نظر رکھا ہے اور اب خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے مبلغ سپین کے دار السلطنت میڈرڈ میں پہنچ گئے ہیں جیسا کہ اخبار میں شائع ہو چکا ہے.دو آدمی اتنے بڑے علاقہ کے لئے کافی نہیں ہو سکتے اور تمہیں اس کے لئے مزید کوشش جاری رکھتی ہوگی مگر سر دست ہم ان دو کو ہی ہزاروں کا قائمقام سمجھتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے لئے کثرت سے اہم مقامات پر نئے تبلیغی رستے کھل رہے ہیں اور وہاں سے پیاسی رو میں پکار رہی ہیں کہ ہماری سیرابی کا کوئی انتظام کیا جائے لیکن ہمارے پاس نہ اتنی تعداد میں آدمی ہیں کہ ہم ہر آواز پر ایک وفد بھیج دیں اور نہ ہی و خود بھیجنے کے لئے اخراجات ہیں.ایسے حالات میں ایک مومن کا خون کھولنے لگتا ہے، خصوصاً
۲۹ سکین اور منتقلیہ کے واقعات کو پڑھ کر تو اس کا خون گرمی کی حد سے نکل کر اُبلنے کی حد تک پہنچے جاتا ہے.جہاں ہمارے آباء و اجداد نے سینکڑوں سالوں تک حکومتیں ہیں اور وہ ان ممالک کے بادشاہ رہے وہاں مسلمانوں سے یہ سلوک کیا گیا کہ ان کو جبراً عیسائی بنا دیا گیا اور آج وہاں اسلام کا نام لینے والا بھی کوئی نہیں پھر یہ علاقے اس لحاظ سے بھی خصوصیت رکھتے ہیں کہ وہاں سے تمام اور مین ملکوں میں تبلیغ کے رستے کھلتے ہیں پس اس فریضہ کو سر انجام دینے کے لئے ضرورت ہے اخلاص کی ضرورت ہے متواتر قربانی کی ضرورت ہے بلند عزائم کی ہی سے مجاہدین سپین کو فرانس کے احمدی متلقین کی طرح اول قدم پر ہی شدید سپین میں بیغی مشکلات تبلیغی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مغربی ممالک میں مدتوں سے جور و چل رہی تھی اس کی ابتداء مسلمانوں کے مکمل اخراج کے بعد سپین ہی سے ہوئی تھی اور یہ ملک صدیوں سے نہایت متعصب اور ظالم و نشد و کیتھولک چرپر CATHOLIC ) ( CHURCH کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنا ہوا تھا جہاں کیتھولک فرقہ کے سوا کسی دوسرے مذہب بلکہ عیسائی فرقہ پروٹسٹنٹ (PROTESTANT) تک کو اپنے مخصوص نظریات پھیلانے کی اجازت نہ تھی.ملکی آئین کے مطابق دوسرے مذاہب والے اگر چہ حکام کو اطلاع دے کہ اپنے مکان کے اندر عبادت تو کر سکتے تھے مگر باہر اپنا بورڈ وغیرہ آویزاں نہیں کر سکتے تھے.میں جو منی کی شکست کے بعد جب بین الاقوامی سیاست نے پلٹا کھایا تو اس ملک کی خارجہ پالیسی میں بھی کسی قدر لچک پیدا ہوگئی اور اس نے اسلام کے نام سے انتہائی نفرت کے باوجود شام، شرق الاردن اسعودی عرب اور ترکی وغیرہ مسلم ممالک سے سفارتی تعلقات قائم کرلئے پاس طرح خدا کے فضل و کرم سے اگر و مستلقین احمدیت کو بھی سپین میں داخلہ کی اجازت مل گئی مگر خفیہ پولیس مش کی خاص نگرانی پر تعین کر دی گئی ہے مولوی کرم اٹھی صاحب ظفر نے ESCULA NaciouAL DE idiomas میں داخلہ لیا اور چھ ماہ میں اپنا مافی الضمیر ادا کرنے کے قابل ہو گئے.زبان سیکھنے کے ساتھ ساتھ ایک روسی ترجمان SR ENviauE Kuzinin کی خدمات حاصل کر لیں اور پرائیویٹ ملاقاتوں میں اسلام ه الفضل ، ارونا / جولائی ۱۳۲۵ میشو له الفضل 10 فتح دسمبر همه
کی آواز بلند کرناشروع کر دی اور نہایت حکیمانہ انداز سے عیسائی عقائد کی حقیقت واضح کرنے کے لئے حضرت مسیح علیہ السلام کے زندہ صلیب سے اُترنے اور کشمیر میں چلے آنے کا تذکرہ کرنے لگے سپین میں عیسائیت کے خلاف یہ پہلا علمی محاذ تھا جس کا ہسپانوی عیسائیوں سے کوئی معقول جواب نہ بن پڑتا تھا جس پر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدس پر رکیک حملے شروع کر دیتے تھے.دوسرے مغربی ممالک کی طرح یہاں بھی یہ اعتراض عام طور پر بڑی شد و مد سے کیا جاتا تھا کہ اسلام کی اشاعت تلوار سے ہوئی مبلغین اسلام نے اس خطرناک غلط فہمی کے ازالہ کی طرف بھی خاص توجہ دینا شروع کردی.نجام دیں یہ ہی کی طرف سے جو سب سے پہلی رپورٹ مرکز میں نہیں وہ ما و و فار جولائی یہ کی تھی جس میں مندرجہ بالا ابتدائی سرگرمیوں کا ذکر کرنے کے بعد لکھا تھا کہ :- یہاں کے لوگ دوسرے لوگوں اور دوسری اقوام کی نسبت سخت بغض اور تعصب رکھتے ہیں.یہاں کے لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہمارا ملک تمام ممالک سے بہر حال محمدہ اور بہتر ہے اور دیگر تمام ممالک کو متقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں خصوصاً مسلمانوں سے ایسا بغض ہے کہ انہیں دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے جس کا سب سے بڑا سبب یہاں کے پادریوں کی فتنہ پردازی ہے.رعایا کی ضمیر پر پادریوں کا قبضہ ہے.کوئی شخص اپنی مرضی کے مطابق کچھ نہیں کر سکتا حتی کہ دفتر میں کام کرنے کے لئے بھی ضروری ہے کہ چرچ سے کیتھولک ہونے کا سرٹیفیکیٹ حاصل کیا جائے یا اے ہسپانیہ میں احمدیہ سلم مشن کا پہلا شمر ان کے روسی ترجمان کا قبول روسی ترجمان کا قبول اسلام اسلام تھا جو شام کے وسط آخر میں حضرت مصلح موعود کے تھاجو و یا سیاسی اعجاز قبولیت دعا کے نتیجہ میں حلقہ بگوش اسلام ہوائیے ه الفضل ۱۵ از ظهور اگست ۱۳۲۵ به ص : نے مولوی کریم الہی صاحب ظفر کی رپورٹ میں اس خوش قسمت جو ان کا ذکر بایں الفاظ ملتا ہے :- یہ سعید نوجوان ملک روس کا اصل باشندہ ہے اس کا باپ زار کے زمانہ میں جنرل سٹاف میں کمانڈنٹ کے عہدہ پر مامور تھا.یہ نوجوان خارکون میں پیدا ہوا.انقلاب روس کے بعد اس کے باپ (باقی اگلے صفحہ میں )
WI میں اسلام نے اس ملک کے اصل باشندوں دو ہسپانوی باشندوں کا قبول اسلام پر براہ راست نفود و اثر پیدا کرنا شروع کر دیا چنانچہ اس سال کے وسط میں دو ہسپانوی جوانوں پر بھی (جن میں سے ایک کا نام مسٹر مینگل اور دوسرے کا مسٹر فلپی ارویو مینٹری تھا، صداقت، اسلام منکشف ہوگئی اور وہ بیعت کر کے داخیل احمدیت ہو گئے.حضرت مصلح موعود نے ان کا اسلامی نام بالترتیب اجمیل احمد اور فلاح الدین تجویز فرمایا یہ مسٹر فلیپی ارویو نے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں جو مکتوب لکھا وہ چونکہ اس لحاظ سے خاص اہمیت رکھتا ہے کہ اس سے احمدیہ سلم سپین مشن کے ابتدائی حالات اور ہسپانیہ کے سب سے پہلے نو مسلموں بقیه حاشیہ صفحہ گزشتہ : کو روس سے بھاگ کر جان بچانی پڑی اور انتھونیا میں چلے گئے جو آزاد ریاست تھی.پھر جلد ہی وہاں سے جنوبی امریکہ آگئے اور اس نوجوان نے ارجنٹائن میں تعلیم حاصل کی.اور وہاں چونکہ ہسپانوی زبان بولی جاتی ہے اور انگریزی تھی.اس لئے دونوں زبانیں وہاں سیکھیں میں اتھو نیا واپس آیا کیونکہ اس کو اس ملک کے حقوق شہریت حاصل تھے.انھونیا میں جب روس کا قبضہ جرمنی سے معاہدہ ہو جانے پر ہو گیا تو اس کا وہاں ٹھہرنا ناممکن ہو گیا.چنانچہ پینش زبان جاننے کی وجہ سے سپینش محکمہ اطلاعات میں جرمنی میں ملازم ہو گیا.بعد میں ایک کر نیل کی مدد سے 1997 میں سپین آگیا ہم میں روز ر لنڈن سے روانہ ہوئے تو وکٹوریہ سٹیشن پر خاکسار نے نہایت الحاج سے دعا کی کہ اسے مولا کریم اپنے گتا ہوں اور کمزوریوں کا مجھے اعتراف ہے مگر ان کو نظر انداز کرتے ہوئے سیدنا حضرت الصلح الموعود کی قویت قدسیہ کے طفیل ہی ایسا نشان دکھلا کہ يَنصُرُكَ رِجَالُ نُونِي إِلَيْهِمْ مِنَ السَّمَاءِ مَا نشان پورا ہو.پہنا نچہ تھا امی ایک ایجنسی سے اس نوجوان کو ہمارے ساتھ کہ دیا کہ ہمیں کوئی نہایت سستی سی رہائش کی جگہ تلاش کر دے.یہ ملک بیکاری کے لحاظ سے بالکل ہندوستان کے مشاہد ہے.باوجود اس کے که نوجوان ہر لحاظ سے قابل ہے.ٹائپ ، شارٹ ہینڈ اور اس کے علاوہ پانچ کچھ زبانیں جانتا ہے نیکن عرصہ سے باوجود انتہائی کوشش کے بیکار تھا اور اسے اسی روز ہی ملازمت اس ایجنسی میں بطور تر جانا ملی تھی اور اس کا پہلا کام ہمارے ساتھ ہی شروع ہوا.یہ بعض مشکلات میں تھا.جس ہمدردی اور رنسن سلوک سے بوجہ اجنبی ہونے کے یہ ہمارے ساتھ پیش آیا اس سے متاثر ہو کر نا کسار نے فوراً حضرت اقدس المصلح الموعود اطال الله قاره و اطلع شموس طالعہ کی خدمت میں خصوصیت سے دردمندانہ طور پر دعا کے لئے درخواست کی.اور اللہ تعالٰی کے فضل سے اس کی مشکلات دور ہوگئیں اور حضور کی دعاؤں کی قبولیت کو دیکھ کر اس نے اسلام قبول کر لیا، الحمد لله على ذالك " الفضل ۲۰ تبوک / ستمبر ۱۳۲۵ م ) عاشی تعلقہ صفحہ ہذا : له SR MIGUEL MIRANDA : + SR JESUS FELIPE ARROYO L + مجھے الفضل سور و فائر جولائی مٹ
۳۲ کے کوائف پر روشنی پڑتی ہے اس لئے اس کا اُردو ترجمہ فائدہ سے خالی نہیں.انہوں نے لکھا:.میرے پیارے آقا سنٹرل لینگوئیج سکول میں ساتی صاحب اور ظفر صاحب سے جہاں وہ سپینش اور خاکسار انگریزی اور فرانسیسی سیکھ رہے ہیں، واقفیت ہوئی.اس دوستانہ تعارف کے بعد مجھے ان سے گفت گو کرنے کی خواہش پیدا ہوئی جو کہ بہت آسانی سے پوری بھی ہوگئی.انہوں نے دوسرے روز ہی مجھ سے میرا نام دریافت کیا جو ابا میں نے اپنا نام بتایا.پھر دوران گفت گو ساتی صاحب نے حضرت مسیح علیہ السلام کی زندگی اور موت کے بارے میں گفتگو شروع کر دی لیکن تنگی وقت اور کلاس کا وقت ہونے کی وجہ سے سلسلہ گفت گو ختم نہ ہو سکا.مزید گفتگو کے لئے مجھے اُنہوں نے اپنے مکان پر دعوت دی تیں مکان پر گیا اور نا ہی گفتگو ہوئی.مذہبی گفتگو کا سلسلہ کئی روز بلکہ مہینوں بھاری رہا اور اس اثناء میں میں نئے ٹیچنگیز آف اسلام اور مسیح ہندوستان میں " کا بھی مطالعہ کیا.پہلے پہل تو میں اسلام سے بہت متنفر تھا کیونکہ میرے رگ و ریشہ میں کیتھولک مذہب سمایا ہوا تھا لیکن روزانہ کی بحث وگفتگو نے آخر مجھ پر اسلام کی صداقت منکشف کر دی.یکن بے انتہار کر گزار ہوں اس خدا کا جس نے مجھے اسلام کی تعلیم سے واقفیت کی توفیق بخشی اور جس نے حضور کو دنیا کے مختلف اطراف میں مبتلقین بھجوانے کی توفیق عطا فرمائی خصوصیت سے سرزمین سپین میں جہاں اسلام نے کئی صدیوں تک حکومت کی.میکن نے شرائط بیعت پڑھ لئے ہیں اور میں اقرار کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی مدد سے زندگی بھر ان پر عمل کروں گا اور آپ کے تمام محکموں کو بجالاؤں گا.آخر میں حضور کی خدمت میں نہایت انکسار سے درخواست کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ مجھے ہر حالت میں ان پر عمل کرنے کی اور فرمانبرداری کی توفیق بخشے اور دن بدن ایمان میں زیادہ سے زیادہ ترقی کروں اور میرا ہردن اطاعت و فرمانبرداری میں بسر ہو اور خدا تعالیٰ مجھے نور روحانیت عطا فرما دے جس کے ذریعہ اور لوگوں کو منور کر سکوں جو ابھی تک ایمان نہیں لائے.حضور کا فرمانبردار خادم خیلی اردویو سینکٹر اس " له 11488 الفضل ۳ و فار جولائی
یشن ابھی ابتدائی مراحل میں تھا کہ ماہ اضاور اکتوبر سے لیکچر اسلام کا اقتصادی نظام میانی کا یہ کام ہوگیا ورکرز کو سے بند کر دینے کا خرچ ختم کے ہسپانوی ترجمہ کی اشاعت فیصلہ کرنا یا مولوی کرمانی صاحب نظر نے تالین اسلام کا پڑ ها جھنڈا سرنگوں ہونا کسی طرح گوارانہ کیا اور اخراجات مشن چلانے کے لئے عطر فروخت کرنے کا کام شروع کر دیا.میڈرڈ کارپوریشن کی طرف سے پھیری والوں ک مال بیچنے کی ممانعت تھی جس کی وجہ سے بڑی مشکلات پیش آئیں مگر انہوں نے اپنا کام جاری رکھا جو عملاً سپین میں ایک چلتا پھرتا تبلیغی ادارہ تھا جس کو حکومت کے سپاہی مشتبہ نظروں سے دیکھتے تھے بلکہ ایک بار جب آپ خوانچہ لگا ئے عطریات فروخت کر رہے تھے خفیہ پولیس کے پانچ آدمی آپ کو گرفتار کر کے لے گئے اور چار گھنٹہ تک زیر حراست رکھائیں ہسپانوی زبان میں کوئی اسلامی لٹریچر موجود نہیں تھا اس خلاء کو جلد سے جلد پر کئے بغیر تبلیغی مسائی ران چوہدری محمد اسحق صاحب ساتی ماہ شہادت / اپریل میں مین سے پاکستان بلوا لئے گئے.شاہ مولوی کریم انہی صاحب ظفر تحریر فرماتے ہیں:.بر صغیر ہند و پاکستان کی تقسیم کے وقت جب فسادات کی وجہ سے جماعت کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور قادیان سے ہجرت کر کے پاکستان جانا پڑا تو الی تنگی کی وجہ سے سید نا حضرت لمصلح الموعود نے یورپ کے بعض مشنوں کو بند کرنے کا فیصلہ فرمایا اور میں سپین کا مشن بھی تھا.خاکسار نے حضور پر نور کی خدمت مبارک میں عرض کیا کہ مشن نہ بند کریں خاکسار خود اخراجات پیدا کرنے کی کوشش کر رہے گا.چنانچہ لنڈن میں جو عطر کا کا م سیکھا تھا کام آیا.عطر کی شیشیاں بھر کر بعض دوستوں کے ذریعہ فروخت کرنے کی کوشش کی مگر آمد بہت قلیل ہوتی تھی.میڈرڈ یونیورسٹی کے ایک انگریز پروفیسر SR MORRIS سے تعارف تھا.ان کی اہلیہ ہسپانوی خاتون تھیں انہوں نے تحریک کی کہ RASTRO سنڈے مارکیٹ کیوں نہیں جاتے؟ چنانچہ ایک ہسپانوی دوست کے ساتھ سنڈے مارکیٹ جانا شروع کر دیا.خدا کے فضل سے پہرا تو ار کو تین چار پونڈ بکر کی ہو جاتی تھی.اسی طرح ایک واقف فیملی نے رائے دی کہ آپ نیشنل انڈسٹری نمائش ZARAGOZA بھائیں چنانچہ کہ ؟ اکتوبر ۹۲ میں وہاں گیا، الحمد شر وہاں اچھی بکری ہوئی میں اشبیلیہ بھی گیا.ماہ مئی 199 میں VALEHETA کی صنعتی نمائش میں بھی شامل ہوا اور اس سال BARCELONA کی معنی نمائش میں بھی حصہ لیا اور کچھ رقم بھی جمع کر لی " داشت باس از مکتوب محرره ۱۲ر احسان ارجون ه بنام مؤلف " تاریخ احمدیت " ) : ه الفضل يكم تبوک /ستمبر هم من یکم
ملک پر کوئی نتیجہ خیز اثر نہیں ڈال سکتی تھیں مبلغ اسلام مولوی کرم الہی صاحب ظفر نے اس شدید کمی کو محسوس کرتے ہوئے پہلے ہی سال حضرت امیر المومنین الصلح الموعود کے مشہور لیکچر اسلام کا اقتصادی نظام“ کا ہسپانوی ترجمہ مکمل کیا اور اس کی اشاعت کے لئے وزارت تعلیم میں درخواست کر دی اور ساتھ ہی ماہ و خار جولائی ماہ میں اس کتاب کا انگریزی ایڈیشن محکمہ سنسر شپ میں پیش کر دیا.۶۱۹۴۷ خیال تھا کہ چونکہ سپین کی حکومت دن رات کمیونزم کے خلاف پراپیگینڈا کر رہی ہے اس لئے اس کتاب کی اشاعت کی ضرور اجازت مل جائے گی خصوصاً اس لئے کہ اس میں دوسرے مذاہب کے خلاف ایک لفظ تک بھی موجود نہیں اور خالص مثبت انداز میں اسلام کے معاشی نظریات کی ترجمانی کی گئی تھی مگر اس معاملہ نے بہت کھول کھینچا.ہوا یہ کہ چو ہد ری کرم الہی صاحب ظفر نے کتاب کے دیباچہ میں لکھا تھا که کمیونزم کا علاج صرف اسلام ہے سینسر والوں نے اصرالہ کیا کہ اس فقرہ سے اسلام کا لفظ کاٹ دیا جائے.اس پر مولوی صاحب موصوف نے بعض ذمہ دار افسروں سے ملاقات کی اور بار بار در تو نہیں دیں کہ عیسائیت کا ذکر کئے بغیر اسلامی تعلیم پیش کی گئی ہے.آخر خدا خدا کر کے خوا د کتابت کے بعد یہ معامه وزارت تعلیم تک پہنچا اور کتاب کے اس فقرہ میں کسی قدر ترمیم کے بعد کتاب شائع کرنے کی اجازت مل گئی سی پولیس نے ماہ ہجرت مئی میں اسے چھاپنا شروع کیا اور ۲۳ ماه ظهور/ اگست کو اس کا پہلا نمونہ تیار کر کے دیا.اخبار الفضل سے معلوم ہوتا ہے کہ کتاب کا تین ہزارنسخہ شائع کیا گیا را اور اس پر پانچ سو پونڈ سے بھی زیادہ لاگت آئی جو اصل تخمینہ سے قریباً ایک تہائی حصہ زیادہ تھی لیئے ے ان دنوں پروفیسر SAD.JUAN BENEYTO PEREZ محکمہ سنسر شپ کے انچارج تھے جو پریس کے ڈائریکٹر جنرل بھی رہے اور آج کل سپین کی پریس کونسل کے صدر ہیں.چونکہ سنسر شپ نے بہت سی تبدیلیوں کا مطالبہ کیا تھا اس لئے پروفیسر صاحب ند کور نے مولوی کرم الہی صاحب نظر کو بلا کر کہا کہ خواہ مخفیف ہی ہو کوئی تبدیلی ہر حال کر دیں.چنانچہ دنیا چہ میں جہاں یہ لکھا تھا کہ اسلام جو سب سے زیادہ سچا اور مکمل مذہب ہے " مولوی صاحب نے اسلام کے بعد جو میرے نزدیک" کے الفاظ کا اضافہ کر دیا جس پر کتاب شائع کرنے کی اجازت یل گئی.اس سلسلہ میں PEDRO EXEMO.S.R.ROCAMORA ڈائریکٹر جنرل پراپیگنڈا اور SR.CERDERA حال حج سپریم کورٹ سپلی و مبر رائل مارل اور پولیٹکل سائنس اکیڈیمی کے عمیر) نے گرانقدر امداد دی.یہ کتاب AFRO Dicio AGUA Do پریس میں چھپی ہے سے سپین مشن کی ایک رپورٹ کے مطابق اس کتاب دمع ترجمہ کی قیمت کے تقریباً چار سو پونڈ انفراجات ہوئے تھے
نتیجہ آپ زیر بار ہو گئے.اسی دوران آپ کو راہ اخا / اکتوبر میں صوبہ اراگون کے قدیم ترین ۶۱۹۴۶ شهر ماراگو تا کی قومی صنعتی نمائش میں پھیری لگا کر عطر بیچنے کی اجازت مل گئی جس سے خدا تعالیٰ کے فضل سے اتنی آمد ہوئی کہ سب قرضہ بے باق ہو گیا." تلک میں تبلیغی ٹیکیٹوں کی اشاعت اور پبلک اجتماعات کے انعقاد میں بھاری کتاب کی مقبولیت مرکا میں تھیں مگر اس کتاب کی اشاعت نے پشتین میں تبلیغ کی ایک نئی اور وسیع راہ کھول دی.ایک فوری اثر یہ بھی ہوا کہ پین کے بعض متعصب عیسائیوں نے بھی یہ بر ملا اقرار کرنا شروع کر دیا کہ اسلام کا اقتصادی نظام ہی دنیا کے دکھوں دردوں کا بہترین اور کامیاب علاج ہے.کتاب کے متعلق بہت سے خطوط موصول ہوئے جن میں سرکردہ علمی و سیاسی طبقہ کے افراد نے نهایت اعلی تاثرات کا اظہار کیا تھا.چنانچہ سپریم ٹریبونل کے پریذیڈنٹ نے کتاب پڑھ کر حسب ذیل مکتوب لکھا :.میڈرڈ ۲۴ را پیریل ۹۵ائر امیر کرم الہی ظفر نهایت مکرم و محترم Sy.D.iOSE CASTANI یکن آپ کے نوازش نامہ کا بہت شکر گزار ہوں، اس کے ساتھ ایک بہتر میں کتاب ہے جس کے مطالعہ نے میری طبیعت پر نہایت شاندار اور اعلی تاثرات پیدا کئے ہیں.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ (اللہ تعالیٰ ، آپ کو اس ملک (سپین) میں اور اس کے باہر بھاری کامیابی عطا کرے گا.کتاب حالات حاضرہ کے متعلق نہایت دلچسپ ہے.آپ کا نیازمند (دستخط) و (ترجمہ) سین کے عوامی اور خصوصی حلقوں کے علاوہ ملکی پریس نے بھی کتاب پر بہت محمدہ تبصرے شائع سے ہے جن میں اِس کتاب کی بیان کردہ تعلیمات کی برتری کا اقرار کیا.ن 19 علم له الله الموز میڈرڈ کے مشہور اور نیم رسالہ انسٹی ٹیوٹ آف پولیٹکل سائنس کا مفصل ریویو" تاریخ احمدیت " جلد دہم صفحہ ۴۶۹ ، ۴۷۰ پر نقل کیا جا چکا ہے ؟
۳۶ مختصر یہ کہ حضور کی اس بلند پای تصنیف کی وجہ سے بفضلہ تعالی تبلیغ اسلام کے کام میں بہت وحت پیدا ہو گئی اور سنجیدہ طبقہ میں اسلامی تعلیمات کی برتری کے احساس کو پیدا کرنے میں بھاری بعد دہلی لیہ حضرت امیر المومنین المصلح الموعود نے سپین شن حضرت مصلح موعود کا اظہار خوشنودی کے انچار مستی مولوی کرمانی صاحب حفر کی تبلیغی کوششوں پر (۲۶ میاہ نبوت/ نومبر کے خطبہ جمعہ میں اظہایہ خوشنودی کرتے ہوئے ۱۹۴۸ فرمایا :- دہ پانیہ کے مبلغ نے بہت اچھا نمونہ دکھایا ہے.جب سلسلہ کی مشکلات بڑھیں اور ان نقصانات کے بعد جو مشرقی پنجاب میں ہوئے ہم مجبور ہو گئے کہ وہاں سے شن بٹائیں اور اسے بتایا گیا تو اس نے لکھا کہ مجھے واپس نہ بلایا جائے بلکہ مجھے اجازت دی بجائے کہ میں اپنے گزارہ سے یہاں کام کروں.چنانچہ اس نے پھیری کا کام کر کے گذار کیا اور نہ صرف گذارہ کیا بلکہ اس نے ایک کافی رقم جمع کر کے میرے لیکچر اسلام کا اقتصادی نظام کا ترجمہ کر کے شائع کیا.دو اڑھائی ہزار روپیہ کے قریب اس پر خرچ آیا اور اب وہ اس فکر میں ہے کہ وہ اس کام کو وسیع کرے " سے حضرت مصلح موعود کا مکتوب گرامی | ایک خاتون نے جو اسلام کا اقتصادی نظام سے باست متاثر تھی ، حضرت سیدنا المصلح الموعود خاتون بارسلونہ کی ایک ہسپانوی خاتون بی جواب میں کی خدمت میں ہسپانوی زبان میں ایک خط لکھا جس کے جواب میں حضور نے تحریر فرمایا :- ماہ ایک عرصہ سے سی آئی ڈی نے تبلیغ اسلام کی نگرانی ترک کر دی تھی مگر کتا رہے اسلام کا اقتصادی نظام کے منظر عام پر آنے کے بعد اس کا سلسلہ بارہ شروع ہو گیا.چنانچہ ایک بار خفیہ ہوا ایس کا ایک آدمی کیتھولک چوپ کی یہ پورٹوں کی بناز پر آپ کے پاس آیا اور پوچھنے لگا کہ کیا تم نے کوئی کتاب شائع کیا ہے یا اس کے بعد مفسر شپ کا اجازت نامہ دیکھنے کا مطالبہ کیا آپ نے اسے نہایت و مناحت سے بتایا کہ شعیب بندہ اسلام کا مبلغ ہے تو میرا کام اسلام کی تبلیغ کرتا ہے آپ لوگوں کو اس پر تعجب نہیں ہونا چاہیئے.بندہ ہرگز ہر گز ملک کے سیاسی معاملات میں دخل نہیں دیتا.میرا اسکین ۶۱۹۵۲ میں پانچ سالہ قیام اس بات پر شاہد ہے یے دا افضل اور صلح / جنوری ها صحت کالم ملت ) : الفضل در فتح و سمبر به من به له
۳۷ ہسپانیہ ایک ایسا ملک ہے جس نے اسلام کی ایک دفعہ پہلے بھی روشنی دیکھی تھی لیکن اُس وقت اس کی روشنی جنگ کے ذریعہ ظاہر ہوئی تھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ آخر میں مشتبہ ہو گئی.آب وہ روشنی محبت اور صلح کے پیغام کے ذریعہ ظاہر ہوئی ہے اس وجہ سے وہ دائمی ہوگئی اور کبھی نہ مجھے گی اور کبھی وہاں سے نکالی نہ جائے گی یہ اہ اسلامی اصول کی فلاسفی کے کتاب اسلام کا اقتصادی نظام شائع ہوچکی تومولوی کرمانی حساب ظفر کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ ستیہ نا حضرت مسیح موعود و ہسپانوی ترجمہ کی اشاعت مهدی محمد علی الصلوة والسلام کی محرکة الآراء اور حقائق وصلات عليه سے پر اور قرآنی علوم سے لبریز کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی کا بھی ہسپانوی ترجمہ شائع کریں.لیکن اس کتاب کی اشاعت ایک زبر دست محرکہ تھا.سب سے دشوار اور حل طلب مسئلہ اجازت کا تھا محکم سینسر شپ کے انچارج پروفیسر BENEYTO BEN نے بہو " اسلام کا اقتصادی نظام کی اجازت میں ممد و معاون تھے اپنی ذاتی ذمہ داری پیر اس کتاب کی بھی اجازت دے دی اور ساتھ ہی تاکید کر دی کہ جلد طبع کر کے شائع کر دو تا کوئی روک نہ پڑ جائے.چنانچہ مولوی صاحب نے مائه (۳ ) میں یہ کتاب بھی اُسی مطبع (AFRO Dicio AGLADO) کو دے دی جہاں پہلی کتاب طبع ہوئی تھی.کتاب پانچ ہزار کی تعداد میں چھپ کر تیار ہو چکی تھی اور سرورق لگ رہا تھا کہ سپین حکومت کے وزیر تعلیم نے ایک خاص آرڈر کے ذریعہ مطبع والوں کو حکم جاری کر دیا کہ کتاب کی اشاعت روک دی جائے اور اس کی تقسیم شدہ کا پہیاں ضبط کر لی جائیں.اس پر مولوی صاحب نے وزیر تعلیم سے ملنے کی کوشش کی ، خطوط پر خطوط لکھے ، تار دیے، مختلف شخصیتوں سے بار بار ملاقاتیں کیں.چوھدری محمد ظفراللہ خاں صاحب نے بھی (جو اُن دنوں حکومت پاکستان کے وزیر خارجہ تھے ہسپانوی سفراء پر کتاب پر سے پابندی اُٹھا لینے کے لئے زور دیا لیکن وزارت تعلیم نے جواب تک دینا گوارا نہ کیا.آئرستین کی وزارت نمارجہ نے ایک روز مولوی صاحب موصوف کو بلا کر کہا کہ اگر آپ این کتاب میں سے بعض عبارتیں حذف کرنے کو تیار ہوں تو ہم اسے شائع کرنے کی اجازت دے دیں گے.مولوی ه افضل ۱۲ صلح استوری ها ۱۳۱۳ ص : ۶۱۹۵۲ ه نام SR SOSE ILEANOZ MARTIN (یہ صاحب اب فوت ہو چکے ہیں ) ؟
عدا حب نے کہا کہ آپ ایک ایسی بات کا مطالبہ کہ رہے ہیں جسے دنیا کا کوئی بھی انصاف پسند اور عقلمند انسانی تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہو سکتا.یہ خالص ایک مذہبی کتاب ہے اور اس کے مصنف ہمارے نزدیک اللہ تعالیٰ کے فرستادہ تھے.ان کی کتاب میں تبدیلی کا کسی کو حق نہیں پہنچتا.علاوہ ازیں ماہ تبوک استمبر منہ میں لنڈن کے پاکستان آفس نے بھی بذریعہ میٹھی اطلاع دی کہ اگر 1901 کتاب میں ہسپانوی حکومت کی رائے کے مطابق ترمیم وصیح کر دی جائے تو یہ پابندی اٹھالی جائے گی مگر مبلغ اسلام نے اسے بھی اپنے تارا در فصل مکتوب میں یہی جواب دیا کہ تبدیلی ناممکن ہے.یہ سلسلہ مراسلت ابھی جاری تھا کہ اس اثناء میں سنسر شپ کا محکمہ وزارت تعلیم کی بجائے وزارت اطلاعات کے ساتھ وابستہ کر دیا گیا.اس تبدیلی سے کتاب کا معاملہ از سر کو اٹھا نا پڑا انجناب ظفر صاحب نے ایک مفصل خط ڈائریکٹر آف پراپیگینڈا کو لکھا اور ملاقات بھی کی مگر انہوں نے چند دنوں کے بعد جواب بھجوایا کہ وہ سابق وزیر تعلیم کا فیصلہ منسوخ نہیں کر سکتے جبکہ دوسرے مذاہب کے بارے میں حکومت کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے کہ قبل ازیں پریس کے مالک نے وعدہ کر رکھا تھا کو اگر کتاب کی تمام قیمت ادا کر دی جائے تو وہ کتاب مشن میں لے جانے کی اجازت دے دے گا مگر اس نے بھی معذرت کر دی اور بتایا کہ ڈائریکٹر جنرل نے کہا ہے کہ جب تک کتاب پر سے پابندی نہیں اُٹھائی جاتی ساری ذمہ داری مطبیع والوں پر ہوگی.اس پر تبلیغ اسلام نے ڈائریکٹر جنرل آف پراپیگنڈا کو پے در پے خطوط لکھے.ایک زور دار خط کے ذریعہ ان کو قائل کرنے کی بہت کوشش کی کہ پیچھے مذہب کی نشانی یہ ہے کہ غیر مذاہب کو کھلی تبلیغ و اشاعت کی اجازت دیتا ہے.ڈائریکٹر جنرل صاحب نے بظاہر بڑی ہمدردی کا خط لکھا کہ آپ کی کوششوں کا معترف ہوں مگر ساتھ ہی یہ دو ٹوک جواب دیا کہ سپین میں کیتھولک کے سوا کسی مذہب کو تبلیغ کی قانوناً اجازت نہیں ہے مولوی کرم الہی صاحب ظفر نے مختلف شخصیتوں کے ذریعہ سے بھی اس پابندی کے اُٹھائے جانے کی بہت کوششیں کیں مگر کوئی کامیابی نہ ہوئی ہے خدا کی قدرت! اُن ایام میں جبکہ سین گورنمنٹ کی طرف سے کتاب پر نہایت سختی سے پابندی عائد الفضل ۲۷ ماه نبوت / نومبرهنه تا کالم وله الفضل ۱۲ صلح / جنوری ها 4 کالم ع ء سے الفصل 19 ر شہادت / اپریل ها مث کا لم.ہے ۲۲ ۶۱۹۵۲ Fitor
۳۹ تھی خدائے قادر و توانا ذو الجد والعلیٰ نے اہم ہسپانوی شخصیتوں تک کتاب پہنچانے کا یہ سامان پیدا کر دیا کہ لنڈن کے ایک نئے احمدی دوست محمد یسین صاحب نے مولوی صاحب موصوف سے وعدہ کیا کہ اسلامی اصول کی فلاسفی کا ہسپانوی ترجمہ اور ہسپانیہ کے چوٹی کے معزز اشخاص کے پتے ہمیں بھجوا دیں ہم لندن سے یہ کتاب اُن کو بھیجوا دیں گے.چنانچہ انہوں نے کتاب پہنچنے پر لنڈن ہی سے بذریعہ ڈاکٹ ہسپانوی معززین کو پہنچانا شروع کر دی.اسی دوران میں مولوی صاحب نے اسلامی اصول کی فلاسفی کا ایک نسخہ سپین کے صدر جنرل فرانکو کی خدمت میں بھی بھیجوا دیا جنرل موصوف نے ایک خط کے ذریعہ کتاب کا دلی شکریہ ادا کیا اور لکھا کہ کتاب انہیں بے حد پسند آئی.اس خط کے بعد مولوی صاحب نے کتاب کی محدود رنگ میں تقسیم شروع کر دی، پولیس والے اکثر جواب طلبی کے لئے آتے تھے لیکن جب آپ ان کو جنرل فرانکو کا خط دکھاتے تو وہ خط کی نقل لے کر پھل دیتے تھے.اس کے علاوہ اور بھی بہت سے اہم لوگوں نے کتاب سے تعلق اپنے اعلی تاثرات کا اظہار کیا.چنانچہ سر میں کارڈ مینل آرچ بشپ اشبیلہ نے کتاب ملنے پر حسب ذیل مکتوب لکھا :.اشبیلہ کا آرچ بشپ کا ر ڈینیل، کرم الہی ظفر امیر شن احمد یہ نہین کو سلام کیتے ہوئے اللہ تعالٰی سے سلامتی طلب کرتا ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی کے بھیجوانے پر دلی ممنون ہوں اور خوشی کا اظہار کرتا ہوں.کتاب میں نے انتہائی دلچسپی سے پڑھی ہے.اللہ تعالیٰ کا فضل آپ پر ہو اور باقی سب پر بھی.میں اس حقیقت کا اقرار کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ مجھے ہر وہ تحریک بہت پسند ہے جو انسان کو بادی زندگی سے نکال کر روحانیت کی رفعتوں پر لے جائے اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے میں محمد ہو.صرف اللہ تعالیٰ کے تعلق سے ہی امن و سلامتی و باہمی اخوت ، نیکی اور خوشی حاصل ہو سکتی ہے.ہم جس دور میں سے گزار رہے ہیں وہ بے لگام مادہ پرستی کا دور ہے جس میں بے شمار لوگ خطر ناک طور پر ملوث ہو چکے ہیں اور وہ اس امر کو بھول چکے ہیں کہ اس دنیا کی زندگی حقیقی اور ابدی زندگی نہیں بلکہ دائمی اور روحانی زندگی اللہ تعالی کے نیچے تعلق سے حاصل ہوتی ہے.
۴۰ آپ کی کتاب میں بے شمار ایسی عبارتیں موجود ہیں جو ہمیں نیکی کی طرف لے جاتی ہیں.اور اللہ تعالیٰ کے نام پر ہمارے درمیان اتحاد، اتفاق اور اخوت پیدا کرنے کا ذریعہ ہیں.ان عبارتوں کی وجہ سے ہمارے پختہ عقیدہ ہے کہ مسیح خدا کے بیٹے اور تمام دنیا کے نجات چنده تھے کوئی اثر یا فرق نہیں پڑتا.ہو.خدا تعالی سے تمام اسلامی دنیا کی خوشحالی طلب کرتا ہوں.اس کی رحمت آپ پر دستخط (ترجمه) اس سے خط کا بھی بہت فائدہ ہوا.عوام اور پولیس میں سے جو لوگ مولوی صاحب موصوف کے پاس آتے تو آپ انہیں اس کی فوٹو کاپی دکھا دیتے جس سے ان پر یہ گہرا اثر پڑتا کہ جب ان کے ایک مذہبی رہنما کو کتاب بہت پسند آئی ہے تو کتاب مفید ہی ہو گئی لیے بالآخر چودہ برسوں کے بعد انفارمیشن منسٹر D.MANUEL FRAGA نے نہ صرف اِس کتاب کے شائع کرنے کی بینکہ ایک ٹریکٹ میں اسلام کو کیوں مانتا ہوں کے چھپوانے کی بھی با قاعدہ سرکاری اجازت دے دی.اس کتاب کا پہلا ایڈیشن پانچ ہزار کی تعداد میں اور دوسرا ایڈیشن چھ ہزار کی تعداد میں چھپ کر سپین کے سر کہ وہ علمی سیاسی اور مذہبی طبقوں کے اکثر معتز نہ اشخاص تک پہنچ چکا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے عام طور پر اس کی نسبت بہترین خیالات کا اظہار کیا گیا ہے.ذیل میں بطور نمونہ بعض ہسپانوی مقتدر شخصیتوں کے تاثرات درج کئے جاتے ہیں جن سے اس شاندار کتاب کے وسیع اثرات کا پتہ چلتا ہے :- 51904 عند : لے پین مشن کی مطبوعہ رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مولوی کرم الہی صاحب ظفر نے اس کتاب کی عام اشاعت تک مشن ہاؤس میں اس کتاب کا درس بھاری رکھا.(الفضل ۲۲ مسلح جنوری ۱ م کالم ) / سے اس ٹریکٹ کا پہلا ایڈیشن پانچ ہزار اور دوسرا ایڈیشن چھ ہزارس کی تعداد میں چھپ کر تقسیم ہو چکا ہے اور ہسپانوی عوام نے اسے بے حد پسند کیا ہے.ایک اعلیٰ سرکاری افسر نے اسے پڑھ کر بلیغ اسلام سے کہا کہ میں دستخط کر دیتا ہوں کہ میں ٹریکٹ میں بیان کردہ اسلامی تعلیم سے سو فیصدی اتفاق کرتا ہوں بلیغ اسلام نے مر گوند TARACONA میں یہ ٹریکیٹ تقسیم کئے.ایک نوجوان یہ ٹریکٹ پڑھ کر حلقہ بگوش اسلام ہوئے جن کا نام حضرت خلیفتہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالٰی نے محمود احمد نہ کھا ہے
(1) پریذیڈنٹ رائل اکیڈیمی آفت قرطبہ D.RAFAEL CASTESON Y MORTIOZ) DE ARIZALA نے درج ذیل مکتوب کی صورت میں خراج تحسین ادا کیا :- قرطبہ - ۳۰ نومبر ۱۹۶۵ جناب گرم الی ظفر احمدیہ سلم میشن میڈرڈ نهایت واجب الاحترام آپ کا نوازش نامہ اور کتاب مصنفہ (حضرت ) احمد مسیح موعود علیہ السلام) علی ہیں ایس کے بھیجوانے پر دلی شکریہ ادا کرتا ہوں لیکں نے اس کتاب کو انتہائی لچسپی اور تو قبہ سے پڑھا ہے اس میں بیان کردہ تعلیم حقائق و معارف اور علم وعرفان سے پر ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام کی گئی ہے جس کے مطالعہ سے میرا دل و دماغ معطر ہو گیا.میں نے ڈائریکٹر آف انسٹی ٹیوٹ (ESTUDIOS CALFALES) جن کا نام D.ViCENTE GARICA FIGUER A ہے اور جو چیف آف سٹیٹ کے کرنل بھی ہیں کہ یہ کتاب پڑھنے کے لئے دی.ان کو یہ کتاب اس قدر دلچسپ معلوم ہوئی کہ آپ نے اس ماہ کی ۲۰ تا ریخ کو رائل اکیڈیمی میں اس کے متعلق ایک لیکچر دیا.ہم ایک رسالہ الملک" شائع کرتے ہیں جس میں عموماً خلفاء بنو امیہ آف قرطبہ کے تاریخی اور آثار قدیمہ سے متعلق مضامین شائع کرتے ہیں.اگر آپ ہمیں رسالہ ریویو آن یلیجنید بھجوا دیا کریں تو یہ رسالہ ہم آپ کو بھجوا سکتے ہیں.آخر میں پھر دلی شکریہ ادا کرتا ہوں.دستخط ( ترجمه ) (۲) کلچر ہ پانی (CULTURE HIS PAN ) کے ڈائریکٹر صاحب نے لکھا :- روحانی علم و عرفان سے پیر کتاب پڑھ کر بے حد خوشی ہوئی ہے :.(۳) میڈیکل پروفیسر ممبر رائل اکیڈیمی آف میڈلین (D.ALFONSO DELAFUENTE ) و نے مولوی کرم الہی صاحب ظفر کے نام لکھا کہ :.) سه ماهنامه تحریک جدید ریده فتح دسمبر (ایڈیٹر مولانا سیم مبینی صاحب) +
۴۲ جناب من یکیں آپ کا اسلامی اصول کی فلاسفی کے بھجوا نے پوٹ کر یہ ادا کرتا ہوں کتاب انسان کی روحانی ترقی کے لئے علم و عرفان اور وعظ ونصیحت سے پُر ہے جس کی آجکل شدید ضرورت ہے جبکہ دنیا ضلالت و گمراہی میں مبتلا ہے اور لوگوں کا اللہ تعالی کی ہستی پر یقین نہیں رہا.میں خلوص دل سے آپ کو دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں.اور آخر میں دوبارہ شکریہ ادا کرتا ہوں.اس کا مطالعہ میرے لئے بے حد مفید ثابت ہوا ہے لیے (ترجمہ) (۴) ایک میڈیکل سکول کے پرنسپل اور سائل اکیڈیمی کے مبر سروتی نووا نے ہر مئی ۹ہ کو لکھا:.SR VİLLA NOVA یکی نے بڑی خوشی سے اس کا مطالعہ کیا اور اسے بے حد مفید پایا.لیکن اس کتاب کے مطالعہ سے بے حد متاثر ہوا ہوں.نہایت اعلیٰ اخلاقی تعلیم احسن رنگ میں بیان کی گئی ہے.یہ کتاب عالمگیر خوبیوں کی حامل ہے جس میں اسلامی تعلیم کا گہرا فلسفہ بیان کیا گیا ہے ہم سب کو اس سے فائدہ اُٹھانے کی ضرورت ہے.میں دوبارہ آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور خلوص دل سے اپنی دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہوں " سے احمدی یشن کی دیگر ابتدائی والا عمومی گرایان امید دارای این یکی یکی و ابتدائی اور نہایت اہم اور اثر انگیز مطبوعات کا ظهور ۱۳۲۲ تا امان هر ۱۳:۳۵ د از ماه طور تا تاریخ است ۱۹۴۷ء ۶۱۹۵۶ یکجائی تذکرہ کرنے کے بعد اب ہم پھر پیچھے بیٹتے ہیں اور امن مشن کی بعض دیگر ابتدائی نو سالہ عمومی سرگرمیوں پر روشنی ڈالتے ہیں.چونکہ سپین میں تبلیغی مشکلات بے انداز تھیں اس لئے مولوی کرم الہی صاحب ظفر نے جماعت احمدیہ کے مستقل سیاسی مسلک اور روایات کے عین مطابق قانون ملکی کا احترام کرتے اور اُس کی حدود میں رہتے ہوئے اُن تمام ذرائع کو حتی الامکان بروئے کارلانے کی انتہائی کوشش فرمائی جو ملک کے مختلف حلقوں سے خوش گوار تعلقات قائم کرنے اور اُن تک حق و صداقت کی آواز پہنچانے میں کی طرح بھی مفید و معاون بن سکتے تھے مثلاً :- الفضل ١٢ وفا / جولائی ما کالم کا ہے ت الفضل ۱۲ ر و فار جولائی ۱۲۸ ص۳.۱۲- 1979
۴۳ - احمد یہ دارالتبلیغ میں ہر اتوار کو دوپہر کے بعد اسلام کے بارے میں دلچسپی لینے والوں اور معلومات حاصل کرنے والوں کا گویا ہجوم رہتا تھا مولوی صاحب موصوف اس موقع سے کما حقہ فائدہ اُٹھاتے.اُن کے سامنے موقع محل کے مطابق مختصر تقریر کرتے اور سوال وجواب کی صورت میں اسلام کے خلاف مختلف شبہات کا ازالہ کرتے تھے..اس عرصہ میں آپ نے سپین کے سفارت خانوں، سرکاری افسروں تعلیمی اداروں اور ملک کے دیگر مختلف حلقوں اور باہر سے آنے والے لوگوں سے روابط و مراسم پیدا کرنے کی کوششیں برابر جاری رکھیں چنانچہ اس دور کی رپورٹوں میں ہسپانوی مراکش کے ولی عہد شہزادہ مولائی مہدی بن حسن به مہسپانوی کمرشل ایچی سفیر ارجنٹائن، برطانوی سفیر ، سفیر برائے پاکستان مصری بغیر فرانسیسی سفیر ، وزیر پبلک ورکس اور گوائی کے وزیر مختار، امریکی سفیر، فلپائن کے سفیر، کولمبیا اور لبنان کے صحافیوں ، سپین کے مشہور مؤلف و مؤرخ DR.GREGNO MANON اور سین کی مختلف خطاب یافتہ شخصیتوں (COUNTS) سے ملاقاتوں کا ذکر ملتا ہے.اس زمانہ میں مجاہد اسلام نے سفارت ارجنٹائن کے افسروں سے بالخصوص گہرے دوستانہ تعلقات پیدا کرلئے تھے اور ان لوگوں کو اکثر خوش گوار ماحول میں تبلیغ کے مواقع ملتے رہتے تھے اسی اثنا میں ملٹری ٹیچی کے سیکرٹری نے سائی کو شائل مشین کا تختہ احمدی مسلم مشن کو پیش کیا." ۴.مولوی کرم الہی صاحب ظفر نے اپنی تبلیغی سرگرمیوں کو میڈرڈ دارالحکومت ہی میں محدود نہیں رکھا بلکہ وقتاً فوقتا سپین کے دوسرے مشہور شہروں مثلاً اشبیله، تا ر گوتانه برشلونه تشریف لے جاکر پیغام حق پہنچانے کی کوشش کی.بلدیہ سپین کا تیسرے نمبر پر پڑا شہر ہے جو بحیرہ روم کے سے ان ایام میں مراکش کے بیشتر حصہ پر فرانس نے قبضہ کر رکھا تھا مگر ایک حصہ سپیکین کے ماتحت تھا.اس علاقے میں ایک مورش سردار محکمران تھے جن کا نام المولائی حسن تھا جو خلیفہ پیش مرا کو کے نام سے ملقب تھے.یہاں انہی کے ولی عہد کا ذکر ہے ؟ 419 AY له الفضل 19 شهادت / اپریل های من و تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۲۷ نبوت / نومبر ۱۲۲ صلح جنوری ها با خاور اکتوبر ها رو فار جولائی ه تب سے اسلامی نام / ۱۹۵۲ ر انفاء / ماترید یا مجریطه : له EVILLA گر : ، F14A4 ◆ZARAGOZA ad BARCELONA I : VALENCA
۴۴ ساحل پر واقع اہم بندرگاہ ہے اور جہاں جابجا اسلامی عہد حکومت کے آثار قدیمہ ملتے ہیں مجاہدی.اسلام نے عوام میں اس علاقے کی طرف بھی تبلیغی سفر کیا اور ایک گاؤں انکھن سیڈل فارو ( ALKWAN SI DEL FORO) میں اسلام کی منادی کی لیے.آپ نے اسلام کا اقتصادی نظام اور اسلامی اصول کی فلاسفی کے ہسپانوی ترجموں کے علاوہ عام طور پر ملک میں درج ذیل لٹریچر معززین کوبطور تحفہ یا قیمتا دیا خطبہ الہامیہ" (عربی) میسج ہندوستان میں (انگریزی) " اسلامی اصول کی فلاسفی (انگریزی و فرانسیسی - اسلام کا اقتصادی نظام" (انگریزی) - کمیونزم اینڈ ڈیموکریسی انگریزی از حفتر مصلح موعود با شیخ کہاں فوت ہوئے ؟ " (انگریزی).ران کتابوں میں سے بعض بیرونی ممالک میں بھی بھجوائی گئیں مثلا" اسلام کا اقتصادی نظام پریذیڈنٹ ری پبلک ارجنٹائن کو جنہوں نے کتاب موصول ہونے پر تحریری شکریہ ادا کیا یہ ۵- آپ نے تبلیغ اسلام کی وسعت کے لئے ایک کارگر ذریعہ یہ اختیار کیا کہ زیر تبلیغ احباب کے نام بکثرت خطوط لکھے جن میں ان کے شکوک و وساوس کا ازالہ کیا اور صحیح اسلامی تعیم پیش کی لیے مندرجہ بالا ذرائع کے نتائج خدا کے فضل و کرم سے بہت خوشکی نکلے اور نومسلموں کی تعلیم والوں کی اس نئی جماعت نے مولوی کرم الہی صاحب ظفر پر ان کی تعلیم و تربیت کی بھاری ذمہ داری ڈال دی جس سے عہدہ برآ ہونے کے لئے انہوں نے خاص تو قبر دی اور نومسلموں کو نماز، اذان اور تکبیر کھانے بیشترنا القرآن پڑھانے اور عام دینی مسائل سے آگاہ کرنے کا کام بھی برابر جاری رکھا.نتیجہ پین کے بعض نئے اسلامی بھائی جن میں مبارک احمد صاحب بہت نمایاں تھے تبلیغ اسلام کی جد و جہد میں سرگرم حصہ لینے لگے.و س کے نتیجہ میں ہر سال نو مسلموں میں اضافہ ہوتا چلا گیا.اسلام میں آتے سپین میں مبلغ اسلام کی تبلیغی سرگرمیاں اگر چہ شروع ہی سے کیتھولک اسلام پرسرکاری پابندی پادریوں کے لئے ناقابل برداشت تھیں لیکن آب جو اسلام کا اثر و ه الفضل ۱۲ انفاء / اکتوبر من له الفضل ۲۲ مصلح جنوری ها حت کالم دم سے الخضر و ۲۷ نبوت / نومبر له من ، ۱۲۲ صلح / جنوری هم م م م م م ت : هر 51981 ۱۹۵۲ ۶۱۹۵۲
۴۵ نفوذ بڑھنے لگا اور سعید رو میں حق و صداقت قبول کرنے لگیں تو انہوں نے ماہ مارچ 1 ء میں سرکاری حلقوں سے گٹھ جوڑ کر کے تبلیغ اسلام پر پابندی لگوا دی لیہ پاکستانی سفارت خانہ کی طرف سے ۲۶ مارچ شکار کو اس کی اطلاع بھی پہنچ گئی.اس افسوسناک اور رنجیدہ اقدام کی تفصیل مولوی کریم الھی صاحب ظفر کے قلم سے لکھی جاتی ہے.آپ تحریر فرماتے ہیں :.ماہ مارچ کے شروع میں ایک روز صبح سفارت پاکستان کے فرسٹ سیکرٹری مسٹر افضل اقبال نے مجھے بلا کر کہا کہ ہسپانوی حکومت آپ کی طرف سے لوگوں کو قبول اسلام کی دعوت دینے کو اپنے ملک کی کانسٹی ٹیوشن کی خلاف ورزی تصور کرتی ہے.میرا بھی یہی مشورہ ہے کہ آپ کوئی ایسا کام نہ کریں جسے حکومت ملک کے قانون کی خلاف ورزی تصور کرے.بعد میں انہوں نے یہ نوٹس کی صورت میں لکھ کر بھی بھیجوا دیا.میں نے ان کو کھا کہ مذہبی آزادی انسان کا پیدائشی حق ہے جسے دنیا کی ہر مہذب حکومت تسلیم کرتی ہے اگر سپین کی کوئی ایسی CONS Ti Turion ہے تو اسے انہیں تبدیل کرنا چاہیے ورنہ پاکستان کو بھی ان کے مشنریوں کو تبلیغ کی اجازت نہیں دینی چاہئیے.اگر وہ مجھے ملک سے باہر نکالنے کی دھمکی دیتے ہیں تو ہماری حکومت ان کے مشنریوں کو بھی نکل جانے کا نوٹس دیدے.کہنے لگے ہمارا ملک مذہبی آزادی کو تسلیم کرتا ہے مگران کا ملک تسلیم نہیں کر تا ہم ان کو ان کے ملکی قانون بدلنے کے لئے کیسے مجبور کر سکتے ہیں ؟ خاکسار نے ہسپانوی وزیر خارجہ کو ایک خط لکھا کہ میں دس سال سے پین میں تقسیم ہوں آپ تک میرے خلاف کوئی شکایت پیدا نہیں ہوئی اب حکومت میری سرگرمیوں کو کیوں ہ انہیں دنوں کا واقعہ ہے کہ جناب ظفر صاحب ایک روز گلی میں اسلام کی عام اخلاقی تعلیم بیان فرما رہے تھے کہ ایک صاحب نے کہا کہ تم ہمارے ملکی قانون کے خلاف اپنے مذہب کی تبلیغ کر رہے ہو ؟ سامعین نے اس کی مداخلت پر سلامت کی مگر وہ سیدھے پولیس والوں کے پاس پہنچے پولیس افسر صاحب نے ایک سپاہی بھیج کہ آپ کو بلوایا اور تنبیہ کی کہ آپ کو شارع عام میں ہر گز کوئی بات نہیں کرنی چاہیے ورنہ حکومت سپین آپ کو ملک سے نکالنے پر مجبور ہوگی.کیتھولک مجلس عمل ACTION CATHOLIC کے ممبر نے بھی کہا کہ وہ اپنا پورا زور صرف کریں گے کہ آپ کو ملک سے نکال دیا جائے.خود شکایت کنندہ نے بتایا کہ چورہ آپ کی ہر حرکت و نقل کی نگرانی کر رہا ہے اور ساین چر چے کو اس ملک میں آپ کی موجودگی کسی طرح گوارا نہیں ؟
ناپسندیدگی کی نظر سے دکھتی ہے ؟ ہسپانوی حکومت سرکاری طور پر کیتھولک گورنمنٹ ہے اس کا دعوی ہے کہ یہ مذہب پہنچا ہے جو خدا تعالیٰ سے تعلق قائم کرنے کا ذریعہ اور اعلیٰ اخلاق کا حامل ہے.میری تبلیغ کا مقصد بھی محض اعلیٰ اخلاق کا قیام اور بنی نوع انسان کا خدا تعالیٰ سے حقیقی تعلق قائم کرنا ہے.میری تبلیغ کا واحد مقصد یہ ہے کہ خدائے وحدہ لا شریک کو تمام مخلوق پہچان لے.نیز میں نے اس بات پر زور دیا کہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اسلام ہرگز ملک سپین کے لئے کسی قسم کا خطرہ نہیں بلکہ اس سرزمین کی حقیقی فلاح و بہبود کا خواہش مند ہے.خط کا جواب ملا کہ وزیر خاریجہ صاحب نے آپ کے خط کا اچھا اثر لیا ہے.در اصل ساری شرارت پادریوں کی ہے کہ انہوں نے پولیس والوں اور حکام کو انگیخت کی ہے یہ سے حضرت مصلح موعود کی طرف سے حکومت پی کے اس فیصلہ کی اطلاع ملے پر حضرت مصلح موعود نے ۲۰ شہادت / اپریل کو ربوہ میں ایک پر ملال خطبہ جمعہ میں زبر دست احتجاج خطبہ پڑھا جس میں فرمایا.کرم الہی صاحب ظفر کو گورنمنٹ کی طرف سے نوٹس دیا گیا ہے کہ ہمارے ملک میں اسلام کی تبلیغ کی اجازت نہیں ہے.چونکہ تم لوگوں کو اسلام میں داخل کرتے ہو جو ہمارے ملک کے قانون کی خلاف ورزی ہے.اس لئے تمہیں وارننگ دی جاتی ہے کہ تم اس قسم کی قانون شکنی نہ کرو ورنہ ہم مجبور ہوں گے کہ تمہیں اپنے ملک سے نکال دیں ہمارا ملک اسلامی ملک کہلاتا ہے لیکن یہاں عیسائی پادری دھڑتے سے اپنے مذہب کی تبلیغ کرتے ہیں اور کوئی انہیں عیسائیت کی تبلیغ سے نہیں روکتا لیکن وہاں ایک مبلغ کو اسلام کی تبلیغ سے روکا جاتا ہے اور پھر بھی ہماری حکومت اس کے خلاف کوئی پروٹسٹ نہیں کرتی.وہ کہتے ہیں میں نے پاکستان کے ایمبیسڈر سے کہا کہ تمہیں تو ہسپانوی حکومت سے لڑنا چاہیئے تھا اور کہنا چاہیے تھا کہ تم اسلامی مبلغ پر کیوں پابندی عائد کرتے ہو؟ جبکہ حکومت پاکستان نے اپنے ملک میں عیسائی پادریوں کو تبلیغ کی اجازت دے رکھی ہے اور وہ ان پر کسی قسم کی له الفضل مروفا / جولائی ۳
مام پابندی عائد نہیں کرتی.اس نے کہا یہ تو درست ہے مگر سپین کی وزارت خارجہ کا سیکرٹری یہ کہتا تھا کہ تم اپنے ملک میں لوگوں کو جو بھی آزادی دینا چاہتے ہو میشک دو ہمارے ملک کی کانسٹی ٹیوشن اس سے مختلف ہے اور ہمارے ملک کا یہی قانون ہے کہ یہاں کسی کو اسلام کی تبلیغ کی اجازت نہیں دی جاسکتی.بہر حال یہ ایک افسوس کا مقام ہے کہ ہماری حکومت دوسری حکومتوں سے اتنا ڈرتی ہے کہ وہ اسلام کی حمایت بھی نہیں کر سکتی بحالانکہ اس کا فرض تھا کہ جب ایک اسلامی مبلغ کو ہسپانوی حکومت نے یہ نوٹس دیا تھا تو وہ فوراً پروٹسٹ کرتی اور اس کے خلاف اپنی آواز بلند کرتی مگر پروٹسٹ کرنے کی بجائے ہسپانوی حکومت نے یہ نوٹس بھی ہمارے مبلغ کو پاکستانی نمائندہ کے ذریعہ ہی دیا ہے.وہ لکھتے ہے کہ میں نے ایک وزیر سے کہا کہ مجھے یہ نوٹس براہِ راست کیوں نہیں دیا گیا تو اس نے کہا یہ نوٹس براہ راست تمہیں اِس لئے نہیں دیاگیا کہ اگر ہم تمہیں نکال دیں تو پاکستانی گورمنٹ ہم سے خفا ہو جائے گی پس ہم نے چاہا کہ پاکستانی سفیر تمہیں خود یہاں سے پہلے جانے کے لئے کہے تاکہ ہم اتے خلاف حکومت پاکستان کو کوئی خفگی پیدا نہ ہو..پاکستانی گورنمنٹ کے نمائندے کے ذریعہ ہسپانوی گورنمنٹ کی طرف سے ہمارے مبتلخ کو یہ نوٹس دیا گیا ہے کہ چونکہ تم اسلامی مبلغ ہو اور ہمارے ملک کے قانون کے ماتخت کسی کو یہ اجازت نہیں کہ وہ دوسرے کا مذہب تبدیل کرے اس لئے تم اسلام کی تبلیغ نہ کر دو ورنہ ہم مجبور ہوں گے کہ تمہیں اپنے ملک سے نکال دیں.شاید کوئی محبت اسلام رکھنے والا سرکاری افسر میرے اس خطبہ کو پڑھ کر اس طرف تو تہ کرے اور وہ اپنی امیلیسی سے کہے کہ تم ہسپانوی گورنمنٹ کے پاس اس کے خلاف پروٹسٹ کرو اور کہو کہ اگر تم نے اسلام کے مبلغوں کو اپنے ملک سے نکالا تو ہم بھی عیسائی مبلغوں کو اپنے ملک سے نکال دیں گے.بیشک اسلام میں مذہبی آزادی کا حکم دیتا ہے مگر اسلام کی ایک لیے بھی تعلیم ہے کہ جزاء سيسة سينةٌ مِثْلُها یعنی اگر تمہارے ساتھ کوئی غیر منصفانہ سلوک کرتا ہے تو تمہیں بھی حق ہے کہ تم اس کے بدلہ میں اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرو.پس اگر کوئی
حکومت اپنے ملک میں اسلام کی تبلیغ کو روکتی ہے تو مسلمان حکومتوں کا بھی حق ہے کہ وہ اس کے مبلغوں کو اپنے ملک میں تبلیغ نہ کرنے دیں.اسی طرح چا ہیئے کہ ہماری گورنمنٹ انگلستان کی گورنمنٹ کے پاس بھی اس کے خلاف احتجاج کرے اور کہے کہ یا تو پین کی حکومت کو مجبور کر و کہ وہ اپنے ملک میں اسلام کی تبلیغ کی اجازت دے نہیں تو ہم بھی اپنے ملک میں عیسائیت کی تبلیغ کو بالکل روک دیں گے.اسی طرح وہ امریکہ کے پاس احتجاج کرے اور کہے کہ وہ ہسپانوی گورنمنٹ کو اپنے اس فعل سے روکے ورنہ ہم بھی مجبور ہوں گے کہ عیسائی مبلغوں کو اپنے ملک سے نکال دیں.بہر حال یہ ایک نہایت ہی افسوسناک امر ہے کہ ایک ایسا ملک جو پاکستان سے دوستانہ تعلقات رکھتا ہے ایک اسلامی مبلغ کو نوٹ دیتا ہے کہ تم ہمارے ملک میں اسلام کی تبلیغ کیوں کرتے ہوئے ایک دفعہ پہلے بھی پانچ سات نوجوان ہمارے مبلغ کے پاس بیٹھے ہوئے باتیں کر رہے تھے کہ سی.آئی.ڈی کے کچھ آدمی وہاں آگئے اور انہوں نے کہا کہ تم حکومت کے باغی ہو کیونکہ حکومت کا مذہب رومن کیتھولک ہے اور ہم نے سُنا ہے کہ تم مسلمان ہو گئے ہو.ان نوجوانوں نے کہا ہم حکومت کے تم سے بھی زیادہ وفادار ہیں لیکن اِس امر کا مذہب سے کیا تعلق ہے ؟ انہوں نے کہا دراصل پادریوں نے حکومت کے پاس شکایت کی ہے کہ یہاں اسلام کی تبلیغ کی جاتی ہے اور گورنمنٹ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم تمہاری نگرانی کریں.انہوں نے کہا تم ہمیں دوسرے کی باتیں سنتے سے نہیں روک سکتے اگر ہمارا دل چاہا تو ہم مسلمان ہو جائیں گے لیکن تمہیں کوئی اختیار نہیں کہ تم دوسروں پر جبر سے کام لو.اُس وقت سے یہ مخالفت کا سلسلہ جاری تھا جو آخر اس نوٹس کی شکل میں ظاہر ہوا.بہر حال یہ ایک نہایت ہی افسوسناک امر ہے کہ بعض عیسائی ممالک میں اب اسلام کی تب شیخ پر بھی پابندیاں عائد کی جارہی ہیں.پہلے عیسائی ممالک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلاف رات اور دن جھوٹ بولتے رہتے تھے ہم نے ان افتراؤں کا جواب دینے اور محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی حقیقی شان دنیا میں ظاہر کرنے کے لئے اپنے مبلغ ۱۳۳۵ ہو ہ یہ واقعہ ۲۹/ صلح / جنوری سم کا ہے 1909
۴۹ بھیجے تو اب ان مبلغوں کی آواز کو قانون کے زور سے دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اسلام کی تبلیغ سے انہیں جبر کرو کا جاتا ہے مسلمان حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ اسلام اور سند رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نام کی بلندی کے لئے عیسائی حکومتوں پر زور دیں کہ وہ سپین کو اس سے روکیں ورنہ تم بھی مجبور ہوں گے ہ ہم عیسائی مبلغوں کو اپنے ملکوں سے نکال دیں.دیکھو سویز کے محاطہ میں مصر کی حکومت ڈٹ گئی اور آخر اس نے روس کو اپنے ساتھ ملانیا.اگر سویز کے معاملہ میں محروٹ سکتا ہے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نامہ کی بلندی کے لئے پاکستان کی حکومت اگر ڈٹ جائے تو کیا وہ دوسری اسلامی حکومتوں کو اپنے ساتھ نہیں ملا سکتی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عزت یقینا کر وڑ کروڑ سویز سے بڑھ کر ہے.اگر ایک سویز کے لئے امریکہ اور برطانیہ کے مقابلہ میں مصر نے غیرت دکھائی اور وہ ڈٹ کر کھڑا ہو گیا تو کیا دوسری اسلامی حکومتیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے اتنی غیرت بھی نہیں دکھا سکتیں.انہیں عیسائی حکومتوں سے صاف صاف کہہ دینا چاہیے کہ یا تو تم اسلامی مبیشترین کو اجازت دو کہ وہ تمہارے ملکوں میں اسلام کی اشاعت کریں ورنہ تمہارا بھی کوئی حق نہیں ہو گا کہ تم ہمارے ملکوں میں عیسی است ای تبلیغ کرو.اگر تم ہمارے ملک میں عیسائیت کی تبلیغ کر سکتے ہو تو تمہارا کیا حق ہے کہ تم کہو کہ ہم اسلام کی باتیں نہیں سن سکتے.بیشک ہمارے مذہب میں رواداری کی تعلیم ہے مگر ہمارے مذہب کی ایک یہ بھی تعلیم ہے کہ اگر کوئی تمہارے ساتھ لیے انصافی کرے تو تم بھی اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرو.یہ ایک نہایت صاف اور سید معا طرز ہے مگر افسوس ہے کہ مسلمان حکومتوں کا ذہن ادھر نہیں جاتا اور وہ اسلام کے لئے اتنی بھی غیرت نہیں دکھائیں مبتنی کرنل ناصر نے سویز کے متعلق غیرت دکھائی.اگر مسلمان حکومتیں مستند رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کے لئے سویز جتنی غیرت بھی دکھائیں تو سارے جھگڑے ختم ہو جائیں اور اسلام کی تبلیغ کے راستے کھل جائیں.اور جب اسلام کی تبلیغ کے
راستے کھل گئے تو یقیناً سارا یورپ اور امریکہ ایک دن مسلمان ہو جائے گا یا سمند حضور کے اس خطبہ نے جماعت احمدیہ میں تشویش و جماعت احمدیہ کی طرف منتنظیم احتجاج اضطراب کی اور رواداری ، اسکی شعر و ادبیاتی شاخوں کی طرف سے احتجاجی قرار دادیں پاس کی گئیں سفارت خانوں کو یاداشتیں بھجوائی گئیں.احمدی اخبارات ور سائل نے مضامین اور اداریے لکھے.اراحمدی مسلمانوں کے علاوہ مشرقی پاکستان کے دوسرے مشرقی پاکستان کے مسلم پریس کا احتجاج اسلم پوری نے بھی اس موقعہ پرغیرت ایمان کا نمایاں ثبوت " اس دیا اور اس بندش کے خلاف پر زور اور موثر آواز بلند کی چنانچہ مشرقی پاکستان کے مشہور روزنامہ اسی اور نے اپنی اور جون لہ کی اشاعت میں سپین اور اسلام کے عنوان کے تحت ایک ہم سفر اوار یہ سپر الیکم کیا میں میں لکھا کہ یہ پین میں چونکہ حکومت کا مذہب STATE RELI sian صرف عیسائیت ہے اس لئے وہاں دوسرے مذاہب کی تبلیغ کی اجازت روک دی گئی ہے.اس بنا پر سپین کی حکومت نے جماعت احمدیہ کے مبلغ کو جو وہاں تبلیغ اسلام کا کام کر رہا تھا کیا جانے کا حکم دیا ہے.حکومت سپین کے اس حکم کے خلاف جماعت احمد یہ صدائے احتجاج بلند کر رہی ہے.اس کی طرف سے کثرت سے احتجاجی خطوط بھیجوائے بھا رہے ہیں.ان میں سے ایک انتخابی خط کراچی میں غیر ملکی سفارت خانوں کو بھی یادداشت کے طور پر دیا گیا ہے.احمدیہ جماعت ی بے چینی بالکل بی ام ہے.یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے جس کا جماعت احمدیہ کے بڑے سے بڑے نقاد بھی انکار نہیں کر سکتے کہ مغربی ممالک میں اسلام کا پیغام عرف جماعت احمدیہ ہی اپنی ان تھک کوششوں کے ذریعہ پہنچا رہی ہے.قریباً ہر ایک ملک میں ہر ایک مذہب کو اپنی اشاعت کا کم و بیش موقع عتا ہے اور یہی بین الاقوامی مسلمہ اصول ہے.بند اسپلین کی حکومت کا اس بنیادی حق کو چھیننا ایک ایسا امر ہے کہ جس پر جماعت احمدیہ کے ممبران بے چین ہوئے لے الفصل ۱۵ ہجرت / مئی ۱۳۳۵ خطبه ۲ ص ۳ 11424 ¦
بغیر نہیں رہ سکتے اور اس معامہ میں دوسرے مذاہب کے مشنری اور تمام رواداری برتنے والے اور بین الا قوامی انسانی حقوق کی حفاظت کے خواہاں اصحاب بھی جماعت احمدیہ کی ہمنوائی کریں گے.ISABELLA حکومت سپین کا قابل نفرت حکم ہمارے سامنے پرانے زمانہ کے ایسا بیلا اور فرڈی نینڈ FERDINAND کی حکومت کا نقشہ پیش کرتا ہے.نیز ہمیں سپین میں عرب تمدن کے شہری زمانہ اور طارق و موسی بن نصیر کی بے نظیر بجرات بھی یاد دلاتا ہے.در حقیقت معلوں نے ہی سپین کی تاریخ کو بنا یا تھا.انہوں نے اپنے زمانہ میں عمارت سازی، انڈسٹری علم موسیقی ، ادب اور علوم و فنون کو ترقی دی تھی مگر وقتی طور پر عربوں کی یہ چلائی ہوئی شمعیں نا موافق حالات کی وجہ سے بجھادی گئیں مگرکچھ عرصہ بعد وہی یورپ کے ظلمت کدوں میں روشن ہوگئیں.اسی کو تاریخ میں یورپ کی نئی زندگی (RENAISSENCE ) کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے.ایک وقت تھا کہ سپین سے عراب حکومت کو اور مسلمانوں کو به نوک شمشیر نکال دیا گیا مگر ایسا کرنے والوں نے اسلام کو سپین سے نکال کر بولوں سے زیادہ خود یورپ کے تمدن کو نقصان پہنچایا.اسی وجہ سے مشہور عیسائی مؤرخ لین پول لکھتا ہے :- اسی طرح سے سپین والوں نے اس عرب ہنس کو قتل کر دیا جو روزانہ ایک سنہری انڈا دیا کرتا تھا.اور اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ یورپ کا تمدن پانچ سو سال پیچھے پڑ گیا ہے مندرجہ بالا تمام حقائق سپین کے موجودہ در تب بھی تسلیم کرتے ہیں.اور آج کل جنرل فرانکو سپین کی اس پرانی غلطی کا ازالہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.یہ حقیقت انکی مساعی سے آشکار ہو رہی ہے.چنانچہ انہوں نے مسلم ممالک میں اپنے تمتری منتر بھجوا کراو را فرایہ میں اپنے مقبوضہ سلم علاقہ کی آزادی کا اعلان کر کے اسی بات کا واضح ثبوت فراہم کیا ہے آج کل سپین میں یہ مقولہ مشہور ہے کہ پیرائیز پہاڑ سے ہی افریقہ شروع ہو جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ سپین اور افریقہ میں گہر احمد فی تعلق ہے.
۵۲ ماضی اور حال کے ان مختلف حقائق و واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے آج سپین کو فٹ کا یہ حکم خاص طور پر اسلامی دنیا کے لئے حیران کن اور انتہائی تکلیف دہ ہے اور لیجا دل میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ سپین اور اسلامی دنیا کی دوستی اور تعلقات کیا صرت ایک کھوکھلی نمائش ہے اور کیا آج بھی سپین میں پرانے زمانہ کی طرح اسلام کے متعلق گفت موجود ہے.اگر ان حقائق کو نظر انداز کر دیا جائے تو پھر بھی مذہب کی تبلیغ ہر ایک انسان کا بنیادی حقی ہے جس کو حکومت سپین نے اپنے حکم کے ذریعہ سے ختم کر نا چاہا ہے.اس کے متعلق حکومت پاکستان کو خور و شکر کرنا چاہئیے اور اس کے جواب میں اسے سفارتی کاروائی اور حکومتی خط و کتابت کے علاوہ حکومت کو اپنے ملک میں دوسرے مذاہب کے مبلغین کے بارے میں بھی نئے سرے سے اصول وضع کرنے چاہئیں.اس ضمن میں ہماری ہمسایہ حکومت بھارت کا رویہ بھی قابل غور ہے.نہ معلوم اس سلسلہ میں ہماری حکومت نے بھی کچھ غور وفکر کیا ہے یا نہیں.(ترجمہ) مشرقی پاکستان کے دوسرے مشہور اخبار اتفاق انے 19 جون شہر کے پرچے میں لکھا کہ : حکومت فرانکو نے حال ہی میں سپین میں صرف عیسائیت کو STATE RELIGION ہونے کا اعلان کیا ہے اور دوسرے مذہب کی تبلیغ پر پابندی عائد کر دی ہے اسی وجہ سے میڈرڈ میں مقیم مبالغ اسلام کو سپین سے پہلے جانے کا حکم جاری کیا گیا ہے.حکومت پین کا یہ فعل بین الا قوامی حقوق انسانیت پر ایک کاری ضرب ہے اور تمام عالم اسلام کے لئے خصوصا انتہائی طور پر تکلیف دہ ہے بین ایک زمانہ میں یورپ میں اسلامی تمدن کا مرکزہ تھا اور یہاں فلسفہ ، ادب ، علوم وفنون اور علیم صنعت و حرفت نے اس حد تک ترقی کر لی تھی کہ بعد میں یہی چیز یورپ کی نئی زندگی کا باعث بنی.بلا مبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ در اصل سپین میں عربوں کے ذہنی ارتقاء نے ہی موجودہ ماڈرن یورپ کو جنم دیا.پھر بین الاقوامی اصول کی رو سے بھی مذہبی آزادی کا حق ہر ایک کے لئے تسلیم له الفضل ام رو فار جولائی هر ماه ۶۱۹۵۶
۵۳ کیا گیا ہے.سپین کی موجودہ حکومت عالم اسلام کے ساتھ گہرے دوستانہ تعلقات پیدا کرنے کی خواہاں ہے لیکن اگر اس نے ایسا رویہ اختیار کیا جو عالم اسلام کو تکلیف دینے والا ہو تو اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوگا کہ ٹین ایک نمائشی خواہش ہے.حکومت کا یہ حکم پرانے زمانہ کے ایسا بیلا اور فرڈی نینڈ کے بغض و تعصب سے کم نہیں ہے حکومت فرانکو نے مذہبی آزادی کو ختم کرنے لئے جو حکم جاری کیا ہے اس پر حکومت پاکستان کو بیدار ہونا چاہیے اور ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ فوری طور پر سیاسی گفت و شنید سے اس ہم معاملہ کو طے کرے (ترجمہ) نے ۲۱۹۵۶ مشرقی پاکستان کے ایک اور موقر جریدہ بلت (۲۱ جون تشار) نے لکھا :.ایک خبر سے یہ معلوم ہوا ہے کہ حکومت سپین نے اپنے ملک سے مبلغ اسلام کو نکل جانے کا حکم دیا ہے.کہا جاتا ہے کہ یہ حکم پاکستانی سفارت خانہ کے ذریعہ سے دیا گیا ہے.یہ امر انتہائی تکلیف دہ ہے.مذہبی مبلغ کی آزادی کا ہر ملک میں ہونا نہایت ضروری ہے.پاکستان میں عیسائی مبلغین عیسائیت کی تبلیغ نہایت آزادی کے ساتھ بلا روک لوک کر رہے ہیں ہمیں یہ امید ہے کہ ہماری حکومت اس حکم کے ازالہ کے لئے مناسب کارروائی فرمائے گی ! (ترجمہ) سے تبلیغ اسلام پر پابندی کے بد سے اب اگر چہ موت کی رات کے لیے اسلام کیا ہیں قانونا بند کر دی گئیں اورمسلم میشن پر پولیس کی خفیہ نگرانی اور خلافت ثانیہ کے اختتام تک بھی سخت ہوگئی تھی جس نے عوامی ذہین پر ایک حبیبت کی طاری کر دی تا ہم خدا کا یہ فضیل خاص ہوا کہ ملک کے ۱۳۳۵ ۶۱۹۵۶ چھوٹے اور بڑے، پہلے اور اونچے علقوں کی اسلام سے دلچسپی میں کوئی کمی نہیں آئی.لوگوں کے اس یلے میلے قلبی رجحان کی ایک ابتدائی ملک مبلغ اسلام کی ایک ماہانہ رپورٹ ربابت ماہ احسان/ کے مندرجہ ذیل چند فقروں سے خوب نمایاں ہوتی ہے.فرماتے ہیں :.روزانہ دو یا چار وردی والے پولیس کے آدمی میرے پاس آجاتے ہیں.دو دفعہ خفیہ جون 81909 المرحث ه اور وقار هو الفضل درو فار جولائی مث : کے الفضل و وفا جولائی هارم به 81904 ۶۱۹۵۶
کا پولیس والوں نے بھی دخل اندازی کی.لوگ جب اسلام کے متعلق شوق اور دلچسپی کا اظہار کرتے اور کتب خریدتے تو خاکسار اُن سے اُن کا پتہ مانگتا تو ان میں سے بعض کی حالت قابل رحم ہوتی پولیس کے ڈر سے ہاتھ کانپ رہے ہوتے تھے اور بعض تو جلدی سے بھاگ جانے کی کرتے ہے اے مرعوبیت اقتدار اور تلاش حق کی اس کشاکش میں احمدی ستقع کی تبلیغی مساعی محدود پیمانہ پر خلافت ثمانیہ کے اختتام تک نہایت باقاعدگی سے برابر جاری رہیں ان کا خلاصہ یہ ہے.اسلامی لٹریچر کی اشاعت : سپین کے طول و عرض میں مندرجہ ذیل اسلامی طریچر کی اشاعت کی گئی.۱ - انگریزی ترجمہ قرآن مجید ، ۲.اسلام کا اقتصادی نظام، ۳- لائف آف محمد ۲ کمیونزم اینڈ ڈیمو کریسی هاکشتی نوح ، 4- احمدیہ موومنٹ ، - نظام نو ، شیر کشمیر میں: 1- میشیح کہاں فوت ہوئے ؟.میں اسلام کو کیوں مانتا ہوں ، ۱۱.اسلامی اصول کی فلاسفی، ۱۲- رسالہ ریویو آف ریلیجیز اس سلسلہ میں جن لوگوں کوشن کی طرف سے لڑیچ دیا گیا ان میں مندرجہ ذیل شخصیت میں خاص طور پر قابل ذکر ہیں سپین کے وائس پریذیڈنٹ، ان کے پرائیویٹ سیکریٹری اور ملٹری ڈاکٹر پانچ لیفٹینٹ کرنل فوجی افسر صد ر امریکہ جانسن ، سپین کے متعد د سیول گورنر سول گورنر آن DADANO 03 اور شہر ALMERIDA کے میٹر جائنٹ سیکرٹری وزارت رفاہ عام ، جائنٹ سیکرٹری انفاریش نشری چیف آف پروٹوکل وزارت خارجہ، وائس پریذیڈنٹ وون (D.AS USTIN) انفارمیشن منسٹر D.MANUEL FRAGA ) پروفیسر ڈاکٹر LOPEZ DEGBOZ ، پرونیر...JUANDENCYTS ، مشہور وکیل JUAN BRANO ، وزیر اعظم اطالیہ ، وزیر خارجہ املی ، چھلی کے قونصل ( S.D.CARLOS SANDER) ، عرب ، اطالیہ اور پرتگال کے قونصل خانوں کے سر بر آوردہ اصحاب، میلگا (MALGA ) شہر کے آرچ بشپ ، یونیورسٹی کے لاء پروفیسر + i له الفضل ۳ ارونا ر جولائی ۱۳۳۷ ص۳ کے سپین میں قریباً ۵۲ صوبے ہیں.اوائل تک ستائیں گورنروں تک اسلامی اصول کی فلاسفی" " اور اسلام کا اقتصادی نظام بھجوایا جا چکا تھا.(الفضل ۲ ہجرت مئی ص هند
۵۵ D.PASCHAL MARINE " "EGRA) ، وزیر تعلیم د ، جوڈیشنل انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر (D.İSİDROAR CEN SALH یونیورسٹی کے وائس چانسلر ، جنرل | SALHMAHEH '(DURGOS) ڈانٹو کے جنرل سول سیکر ٹری ابھی پر فلم کو ریا اے پرائیویٹ ملاقاتیں سر اس دور میں بیبینی اسلام نے بھاری تعداد میں اہل سپین سے ملاقاتیں کر کے ان تک پیغام حق پہنچانے کی کوشش کی.سنک کے نامور معززین میں سے صدر مملکت جنرل فرانکو محکمہ امور عامہ کے چیف، وزارت خارجہ کے جنرل سیکرٹری ، سول گورنر BADAGAZ ، المیریا AL MERI EA کے میٹر ، سپین کے واحد سرکاری خبر رساں ایجنسی کے ڈائر یکٹر، ٹیلی گراف آفس کے آفیسر ڈائریکٹر جوڈیشنل انسٹی ٹیوٹ سے ملاقاتیں خاص اہمیت رکھتی ہیں بیک اس کے علاوہ نائب صدرمملکت سے مولوی کرم اپنی صاحب ظفر نے در ماه تبلیغ فروری کو ایک خصوصی ملاقات کی میں کی تفصیل انہیں کے الفاظ میں درج ذیل کی جاتی ہے :- 19 فروری سوا ایک بجے ہز ایکسی لینیسی نے ملاقات کے لئے وقت دیا اور مجھے اپنے دفتر میں تاکہ لیا.خاکسار نے ان کی خدمت میں قرآن کریم (انگریزی) کا تحفہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا متقدس اور مکمل کلام ہے تو اس کے پیارے نبی سید نا حضرت محمد رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا اور قرآن کریم اصل تورات اور انجیل کی سچائی کو تسلیم کرتا ہے.بائبل کے بیان کر وہ تمام انبیاء کو خدا تعالیٰ کے بیٹے مبعوث کرده رسول مانتا ہے.احد تعالی کے قرآن کی سچائی پر آپ ایمان لائیں تا آسمانی برکات سے آپ اور آپ کی قوم بھی حصہ ہے میں نے ایڈ میں میں مزید لکھا کہ قادیان کی ایک چھوٹی سی گنا ہ بستی میں سیدنا حضرت احمد علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوئے ہیں جھی کے مقدس وجود بین مسیح موعود کی آمد ثانی کی پیشگوئی پوری ہو گئی ہے.آپ کی آمد کے ساتھ ایک نئے روحانی دور کا آغاز له الفضل در شهادت ۱۳۳۸ ایش مت، هدر احسان ۱۳۳۸ مش صه یکم و نا ۳۳۹ بهش مت، و شهادت ۳۴۲ ایش مشه ۲۰ هجرت ۱۳۴۲ اش هست ، ۱۲۳ صلح ۳۳۵ دانش هست ، ۱۰ احسان ۳۲۲ انش من به و روفا ۴۲ ۱۳ ش ، ۲۳ صلح ۳۴۵ ریش : سے کا الفضل ۱۳- وفا / جولائی م م ، ا ر احسان جون 7 ۱۰ $1967 71970
اور مردہ پرستی اور ضلالت وگمراہی کے دور کا خاتمہ ہوتا ہے.وائس پریذیڈنٹ صاحب نے نہایت شوق اور غور سے ہماری باتوں کو شنا، ان کی خدمت میں لائف آف محمد احمدیہ موومنٹ ، کشتی نوح اور اسلام کا اقتصادی نظام کا ہسپانوی ترجمہ بھی پیش کیا.دروازہ تک الوداع کہنے آئے اور اسلامی طریق پر السلام علیکم کرتا.ان کے پرائیویٹ سیکرٹری ، ان کے ملٹری ڈاکٹر اور پانچ لیفٹینٹ کرنل فوجی افسروں کو بھی تبلیغ کا موقعہ ملا اور اسلامی اُصول کی فلاسفی مدہ پانوی ترجمہ، مطالعہ کے لئے بطور تحفہ پیش کیں.اہم مذہبی اورعلمی شخصیتوں کو اسلامی اصول کی فلاسفی بطور تحفہ بھجوائی گئی ہیں علاوہ ازیں مبلغ اسلام کو اس عرصہ میں ریاست اینڈورا (ANDORA ، جرمنی، ہالینڈ، برطانیہ جنوبی امریکہ کو لیبیا پر نگال اور میر والا کے بعض باشندوں کو تبلیغ کرنے اور مندرجہ ذیل ملک کے سفیروں یا نمائندوں کو احمدیت یعنی حقیقی اسلام سے متعارف کرانے کا موقع ملام چکی، برطانیہ ، یونان، شام، مراکش، الجیریا، تیونس، مصر، عراق، لبنان، سعودی عرب اليبياء امریکہ اللہ کی ، انڈیا، جرمنی ، ارجنٹائن.ا مختلف تقاریب و اجتماعات تبلیغ کا موثر ذریعہ بنتے ہیں.تقاریب و اجتماعات میں شرکت موسوی کرم الی صاحب مظفر نے سپین میں بیش می روید سے ہر ممکن فائدہ اُٹھایا ہے.چنانچہ انہوں نے اس زمانہ میں بھی جب تبلیغ اسلام پر سرکاری پابندی عائد تھی ملک کی صنعتی نمائش ویکی ٹیرین سوسائٹی کے سینٹر سپین یونیورسٹی ، اخوان مینو کی تعلیم اور پاکان نیشنل ڈستے کے اجتماعات میں شرکت کر کے تبلیغ اسلام کا فریضہ ادا کیا.مولوی کریم الہی صاحب ظفر نے اس دور میں بعض تبلیغی سفر بھی کئے مثلاً گرینگا GRANGA ) میڈرڈ کے نواح میں ایک گاؤں ہے جہاں آپ اس میں تین ہفتہ تک چرچ کی شدید ھی یہ ر کی سفر ه الفضل ۲۰ ہجرت رمئی ۱۳۴۲ مت له الفضل وارو فار جولائی ه م : الفضل 71440 ۱۴ر شهادت / اپریل ۳۳۱ مت ، ۲۸ شهادت / اپریل ها ۶۱۹۵۹ A HADA اکتوبر ۳۳ م : ه الفضل ۲۸ شهادت / اپریل هم من 31439 له الفضل الاخاء ن ايضا
۵۷ مخالفت کے باوجود اشاعت اسلام میں مصروف رہے یہ ر اس عرصہ میں تبلیغی خط و کتابت کا سلسلہ بھی باقاعدہ جاری رہا خصوصاً تبلیغ بذریعہ خطوط بارسیلونہ کے باشندوں سے مجھے لیکے ر اس دور کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ اس میں سلسلہ چوہدری محمد ظفراللہ خاں صاحب اور حمدیہ کی دو مقتدر شخصیتوں ینی چو ہدری محمد ظفرالله دو مین چوہدری صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی خان صاحب صدر عالمی اسمبلی اور صاحبزادہ مرزا سپین میں تشریف آوری، مبارک احمد صاحب (وکیل الاعلی و التبشیر تحریک جدید ) نے احمدیہ سلم مشن سپین میں مختصر قیام فرمایا.اور چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب روم میں 0.F.A کے اجلاس کی صدارت کے لئے تشریف لیجا رہے تھے.میڈرڈ ہوائی مستقر یہ چوہدری کرم اپنی صاحب ظفر، اسلامی ممالک کے اکثر سفراء : وزارت خارجہ سپین کے ڈائریکٹر جنرل (SIR MARQUES DENER NA ) نے استقبال کیا.چوہدری صاحب ایک گھنٹہ کے لئے احمدیہ مشن ہاؤس میں تشریف لے گئے جہسپانوی نو مسلم آپ کی ملاقات سے بے حد خوش ہوئے.اس موقعہ پر میڈرڈ کے پریس ، ریڈیو اور ٹیلیویژن پر بھی احمد یشن کا ذکر آباد کے صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب جو اُن دنوں مغربی افریقہ کے مشنوں کا دورہ کر رہے تھے واپسی پر ایک روز کے لئے سید مسعود احمد صاحب مبلغ انچارج سیکنڈے نیویا کی معیت میں ۱۲۳ ہجرت /مئی کو میڈرڈ پہنچے.آپ کی تشریف آوری بھی ہسپانوی احمدیوں کے لئے غیر معمولی مسرت کا موجب ہوئی.احمدیوں کے علاوہ ایک ہسپانوی کرنل (FRADE ) اور ایک ہسپانوی مصنف (ALARCON) کو بھی آپ سے ملاقات کا موقعہ ملا صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب قبل ازیں بھی ایک بار سپین میں تشریف لے گئے تھے.اس دورہ میں بشیر احمد صاحب رفیق امام مسجد لنڈن اُن کے ہمراہ تھے بیش له الفضل اور خاور اکتوبر له الفضل اار اخار / اکتوبر سے افضل مصر F141 + ا ص : ص ہجرت رمئی ها را کالم را له الفضل ، وفا / جولائی ما کالم عل 51947 + الفضل در هجرت امی هنر صدا کالم ت : +19
خلافت ثالثہ کے عہد مبارک سے سپین مشن ایک نئے دور میں داخل ہو سکین مشن کی نشاۃ ثانیہ چکا ہے جبکہ نہ صرف اس کی تبلیغی سرگرمیوں کی وسعت پذیری اور رفتار خلافت ثالثہ میں ترقی دونوں میں بہت اضافہ ہوا اور ہو رہا ہے بلکہ اب اس کا طریق کار اور پروگرام پہلے سے زیادہ معین، واضح اور نمایاں صورت اختیار کر چکا ہے.خلافت ثالثہ کے ابتدائی چار پانچ سال میں اس مشن کی طرف سے اسلامی لٹریچر کی وسیع پیمانہ پر سب سے زیادہ تو یہ اس امرکی طرف وہی گئی کہ ملک کے مشہور کی سب سے توجہ دی ترسیل اور اس کے اثرات اداروں اور نام نمیتوں تک اسلامی لٹر پر بکثرت پہنچا دیا جائے نامور شخصیتوں تک لٹریچر اس لٹر پھر میں سید نا حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کا پیغام امن اور حرف انتباہ خاص طور پر شامل تھا چنانچہ اس عرصہ میں جن نمتازا ور مشہور لوگوں کو اسلامی لٹریچر دیا گیا ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں :.۱ ہز ایکسی لینسی (SR.RENE SHIEK ) پریذیڈنٹ نکر ابو آ (MICRABUA ) وسطی امریکہ.-- نکرا ملڑی اٹیچی صاحب افسر رابطه (CHIEF OF PROTOCOL) کرا بو - ہنری ٹی ( I LANDE DOSTION.در ) جلاوطن بادشاه سپین تقسیم پرتگال -.سپین کے مشہور ڈاکٹر D.CARLOS TIME NEZ وزیر اقتصادیات سپین ہز ایکسی لیسی ABLE D.PEDRO CUAL VILL D.ANTO MIS OLIVIERA SALAZAR وزیر اعظم میرگال پریذیڈنٹ رائل اکیڈیمی فزیکل سائنس.سے له ۷.سیکرٹری پرین ایسوسی ایشن بیه سابق وزیر خارجه سپین D.ALBERTO MARTIN ARTATO ۹ - D.JUAN BENEY۳۵ پریذیڈنٹ کو نسل آن پریس سپین.اے مثلاً ۱۳۲۸ میں رائل میڈیکل اکیڈیمی ، رائل اکیڈمی آف ہسٹری ، جوڈیشل رائل اکیڈ ہی.رائل اکیڈیمی آف فارسی کے ۱۳ ممبروں کو اسلامی اصول کی فلاسفی بھجوائی اور بعض کو اسلام کا اقتصادی نظام بھی.سے رسالہ تحریک جدید و فائز جولائی ۱۳۳۵۵ الفضل ۱۲ و فار جولائی ۱۳۲ ص ۳ : A 81979 +
۵۹ D.FELIPEXIMENEZ SHDIDOYAL-).-11 یفٹیننٹ جنرل SR CON DE CASALOTA ۱۲ لیبر یونین کے وزیر D.EMIGNE GAREIS RAMAL ہر ایسی ایسی منزل فرانکو صدر مملکت سپین مع وزراء کونسل S.E, SR, D.FRANCISCO FRANCO BAHAMONDE ۱۴- پریذیڈنٹ فرانس ہز ایکسی لینسی موسیو جارج پوپیڈو (GEORGE POMPIDO) ا شخصیتوں نے اسلامی لٹریچر کے مہیا کئے جانے پر نہ صرف شکریہ ادا کیا بلکہ اس کا ڈی پی سے مطالعہ کر کے نہایت عمدہ تاثرات کا اظہار کیا مثلا لیبر یونین کے وزیر (RAHAL نئے اسلامی اصول کی فلاسفی "کمیونزم اینڈ ڈیمو کریسی " اسلام کا اقتصادی نظام پیغام امن اور ایک حرف انتباہ کی نسبت لکھا:.(D.EMIGNE GAREIS یکی خط کا بنواب دیر سے دے رہا ہوں کیونکہ نیا چارج لینے کی وجہ سے بے حد مصروفیت رہی ہے لیکن یہ کتب پڑھنے کا بے حد اشتیاق تھا.کچھ دن ہوئے ہیں نے کتب پڑھ لی ہیں.آپکو یقین دلاتا ہوں کہ یکتب علوم روحانی کا خزانہ ہیں اور انتہائی دلچسپ ہیں.آپ کا دلی شکریہ اورا کرتا ہوں کہ مبلیغ اسلام مولوی کرم الہی صاحب ظفر نے ماہ فتح سربراہ مملکت مین کے نام تبلیغی مکتوب دسمبر ١٩٦ ء میں مملکت سپین کے سر براہ مہرایکسی لینسی جنرل فرانکو کی خدمت میں ایک اہم تلیغی مکتوب لکھا جس میں اسلام اور احمدیت کے اہم بنیادی عقائد کا خام بیان کیا اور آخرمیں انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرزند علی مہدی معہود علیہ اسلام پر ایمان لانے کی دعوت دی.صدر مملکت جنرل فرانکو نے اس مکتوب کے موصول ہونے پر ۲۴ دسمبر کو شکریہ کا خط لکھا.له الفضل ، احسان /جوان ها سے (ترجمہ) الفضل ۷ار احسان / جون + 11940
7142 سپین حضرت امیر المومنین خلیفه اسم الثالث ما و برتر این کادو بیتی کی پوری تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف سے لکھا جائے گا کیونکہ ایدہ اللہ تعالیٰ کا مُبارک سفیر سپین میں روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزند علیل اس سید نا احمد اسیح الموعود کا تیسرا خلیفہ راشد مغربی افریقہ کے نہایت درجہ کامیاب اور بے شمار برکتوں سے معمور دورہ سے واپسی پر لنڈن سے بذریعہ ہوائی جہاز سپین کے درالحکومت میڈرڈ (ماترید میں رونق افروز ہوا سے اس مبارک سفر میں حضرت سید منصورہ بیگم صاحبه وظله العالی صاجزادہ مرزا مبارک احمد عنایت وکیل اعلی تحریک جدید ، چو ہدری ظہور احمد صاح باجوہ پروفیسر چوہدری محمدعلی صاحب ایم.اسے ہے بشیر احمد خانصاب رفیق اور محمد سلیم صاحب ناصر کوبی امیر المومنین خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالی کی بابرکت رفاقت کا شرف حاصل ہوا ہے جناب بشیر احمد خان صاحب رفیق کا بیان ہے کہ : ہوائی جہاز میں یہ سفر قریباً دو گھنٹے میں طے ہوا.جوں جوں میڈرڈ قریب آتا گیا حضور کی طبیعت میں ایک اضطراب کی سی کیفیت نظر آنے لگی میڈرڈ کا ہوائی اڈہ نظروں کے سامنے آیا تو حضور نے پیچھے مڑ کر فرمایا :- " مجھے تو طارق کے گھوڑوں کے ٹاپوں کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں کیا تم کو بھی سنائی دے رہی ہیں ؟ تہ حضور نے اس سرزمین کو رجس کا ذرہ ذرہ مسلمانوں کی شوکتِ رفتہ اور عظمت پارینہ کا دائمی نشان اور ان کی عبرت ناک شکست اور الم انگیز پسپائی پر خون کے آنسو رلا رہا ہے ، قریباً ایک ہفتہ تک اور ان اپنے مبارک قدموں سے برکت بخشی.حضور کے اس مبارک سفر سپین کی تفصیلات تو خلافت ثالثہ کے عہد مبارک کی تاریخ میں بیابی ہونگی له الفضل ۲۰ ہجرت رمی های ما که حال ناظر امور عامه و خارجه ریوه به سه حال نوین 7142 تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے سابق امام مسجد فضل لنڈن حال پرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیفتہ المسیح ؟ هم الفضل در هجرت امی نمونه ايضا ما کالم ہے F1921
บ یہاں کہیں مختصراً صرف اس قدر بتاتا ہے کہ حضور انور پہلے دو روز میڈرڈ (ماتریدی میں قیام فرما رہے بعد ازاں دوسرے تاریخی مقامات قرطبہ ، غرناطہ اور طلیطلہ کی طرف تشریف لے گئے.چنانچه حضور مع قافله ۲۷ ہجرت مٹی کی صبح کو میڈرڈ سے روانہ ہو کر شام قرطبہ میں ورود سعود کے و تقریبہ نے نور کا ایمیلیا ، ہوٹل میں تھا منظر وقفہ کے بعد حضور شام کو مسجد قرطبہ میں تشریف لے گئے.اس موقع پر حضور کے پر انوار اور خدا نما چہرہ کی زیر دوست مقناطیسی اور روحانی کشش کے بعض عجیب اثرات دیکھنے میں آئے.ایک تو یہ کہ جب حضور پہنچے تو قرطبہ کالج کے ایک پروفیسر پہلے ہی موجود تھے جو حضور کے رخ مبارک سے اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے از خو زخود مسجد دکھانے کے لئے اپنی خدمات پیش کر دیں.دوسرے یہ کہ محراب کے گھر دلو ہے کا نگلہ لگا ہوا تھا اور کسی کو محراب کے اندر جانے کی اجازت نہیں تھی مگر مسجد کے عیسائی محافظ نے بغیر کسی درخواست کے بلاتا تل حضور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ حضور جنگلہ کے اند رمحراب میں تشریف لے چلیں اور ساتھ ہی آہنی جنگلے کا دروازہ بھی کھول دیا.محراب میں داخلے کا نظارہ نہایت دردناک تھا بحضور تو خستم دعا بنے ہی ہوئے تھے قافلہ کے باقی تمام افراد پر بھی رقت طاری تھی.حضور نے محراب میں کھڑے ہو کر نہایت الحاج وزارتی سے دُعا کی.حضور نے قرطبہ میں دعاؤں سے معمور ایک شب گزارنے کے بعد اگلے روز علی اصیچ غرناطہ میں آمدہ مسجد قرطبہ اور قرطبہ کے شور محل القصر کو دوبارہ ملاحظہ فرمایا اور پھر رات روانہ ہوئے اور شام کو مو ناطہ پہنچے حضور کا قیام قصر الحمراء کے ایک مقصہ (یعنی غرناطہ میں ہوٹل میں تھا.اگلے روز حضور نے الحمراء کا پرشکوہ محل دیکھا تے شوکت اسلام کیلئے حضور کی پرسوز گائیں نور اور نے دین سے پانی کے لئے روانی کے وقت سے ہی اپنے پیارے رب کے حضور پرسوز اور ان کی مقبولیت پر آسمانی بشارت دعاؤں کا جو خاص سنا شروع کر رکھا تھاوہ فخرنا سلسلہ میں نقطۂ عروج تک پہنچ گیا.اور غرناطہ ہی میں رب جلیل نے اپنے پاک الہام سے ان کی قبولیت کی + CORDOVA ' ه OGRANADA + سے الفصل 1 بجرت مئی ها 71941 +
بھاری بشارت عطا فرمائی.اِس ایمان افروز واقعہ کی تفصیل امیر المومنین سید نا حضرت فاتح الدین خلیفة المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کے مبارک الفاظ میں درج ذیل کی جاتی ہے.فرمایا :- یکن بہت پریشان تھا.سات سو سال تک وہاں مسلمانوں کی حکومت رہی ہے.اُس وقت کے بعض غلط کار علماء کی سازشوں کے نتیجہ میں وہ حکومت مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گئی.وہاں کوئی مسلمان نہیں رہا ہم نے نئے سرے سے تبلیغ شروع کی چنانچہ اس ملک کے چند باشندے احمدی مسلمان ہوئے.وہاں جا کر شدید ذہنی تکلیف ہوئی ہر ناطہ جو بڑے لیے عرصہ تک ار الخالی رہا ، جہاں کئی لائبریریاں تھیں ، یونیورسٹی تھی، جس میں بڑے بڑے پادری اور شپ مسلمان اُستادوں کی شاگردی اختیار کرتے تھے مسلمان وہاں سے مٹا دیئے گئے.غرض اسلام کی ساری شان و شرکت مادی بھی اور روحانی بھی اور اخلاقی بھی شادی گئی ہے.طبیعت میں اس قدر پریشانی تھی کہ آپ اندازہ نہیں کر سکتے.غرناطہ جاتے وقت میرے دل میں آیا کہ ایک وقت وہ تھا کہ یہاں کے درو دیوار سے درود کی آوازیں اٹھتی تھیں آج یہ لوگ گالیاں دے رہے ہیں طبیعت میں بڑا تکدر پیدا ہوا چنانچہ میں نے ارادہ کیا کہ میں حد تک کثرت سے درود پڑھ سکوں گا پڑھوں گا تا کہ کچھ تو کفارہ ہو جائے لیکن اللہ تعالٰی کی حکمت نے مجھے بتائے بغیر میری زبان کے الفاظ بدل دیئے گھنٹے دو گھنٹے کے بعد اچانک جب میں نے اپنے الفاظ پر غور کیا توئیں اس وقت درود نہیں پڑھ رہا تھا بلکہ اس کی جگہ لا الهَ إِلَّا انت اور لَا اِلهَ اِلَّا ھو پڑھ رہا تھا یعنی توحید کے کلمات میری زبان سے نکل رہے تھے.تب میں نے سوچا کہ اصل تو توحید ہی ہے.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشت بھی قیام توحید کے لئے تھی یکی نے فیصلہ تو درست کیا تھا یعنی یہ کہ تجھے کثرت سے دعائیں کرنی چاہئیں لیکن الفاظ خود منتخب کر لئے تھے.درود سے یہ کلمہ کہ اللہ ایک ہے زیادہ متقدم ہے.چنانچہ میں بڑا خوش ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے خود ہی میری زبان کے رخ کو بدل دیا.ہم غرناطہ میں دو راتیں رہے.دوسری رات تو میری یہ حالت تھی کہ دس منٹ تک میری آنکھ لگ جاتی پھر گھل جاتی اور میں دُعا میں مشغول ہو جاتا.ساری عرات یکیں سو نہیں سکا.ساری رات اسی سوچ میں گزرگئی کہ ہمارے پاس مال نہیں یہ بڑی طاقتور قومیں ہیں.
۶۳ بادی لحاظ سے بہت آگے نکل چکی ہیں.ہمارے پاس ذرائع نہیں ہیں، وسائل نہیں ہیں ہم انہیں کسی طرح مسلمان کریں گے بعضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کا جو یہ مقصد ہے کہ تمام اقوام عالم ملقه بگوش اسلام ہو کر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خادم بن جائیں گی.یہ بھی اقوام عالم میں سے ہیں یہ کس طرح اسلام لائیں گی اور یہ کیسے ہو گا ؟ عرض اس قسم کی دعائیں ذہن میں آتی تھیں اور ساری رات میرا یہی عالی رہا.چند منٹ کے لئے سوتا تھا پھر جاگتا تھا.پھر چند منٹ کے لئے سوتا تھا.ایک کرب کی حالت میں میں نے رات گزاری.وہاں دفنی بڑی سیلدی چڑھ جاتا ہے.میرے خیال میں تین یا ساڑھے تین بجے کا وقت ہوگا میں صبح کی نماز پڑھ کر لیا تو یکدم میرے پر غنودگی کی کیفیت طاری ہوئی اور قرآن کریم کی یہ آیت میری زبان پر جاری ہو گئی :- وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ اِنَّ اللهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًاه (الطلاق آیت ۴) راس بات کا بھی جواب آگیا کہ ذرائع نہیں کام کیسے ہوگا اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ اند پر تو کل رکھو اور جو شخص اللہ پر توکل رکھتا ہے اسے دوسرے ذرائع کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہتی وہ اس کے لئے کافی ہے.اِنَّ الله بالغ آمد - اللہ تعالیٰ جو اپنا مقصد بناتا ہے اسے ضرور پورا کر کے چھوڑتا ہے اس لئے تمہیں یہ خیال نہیں آنا چاہیے یہ خوف نہیں پیدا ہونا چاہئیے کہ یہ نہیں ہو سکتا ی ہوگا اور مغرور ہو گا کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی بعثت کی غرض ہی یہ ہے کہ تمام اقوام عالم کو وحدت اسلامی کے اندر جکڑ دیا جائے اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں میں لا کر کھڑا کر دیا جائے.دوسرا یہ خیال تھا اور اس کے لئے میں دعا بھی کرتا تھا کہ خدایا یہ ہو گا کب ؟ اکس کا جواب بھی مجھے مل گیا.قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْ ءٍ قَدْدًا
۶۴ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا ایک اندازہ اور تخمینہ مقرر کیا ہوا ہے جس وقت وہ وقت آئے گا ہو جائے گا تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں.مادی ذرائع اگر نہیں ہیں تو تم شکر نہ کرو اللہ کافی ہے وہ ہو کر رہے گا.چنانچہ میرے دل میں نوناطہ سے طلیطلہ تک حضور انور فراط میں دو روزہ قیام کے بعد دیگر تشریف لے گئے طلیطلہ طلیطلہ میں اب تک چار قدیم مساجد باقی ہیں جو تین کے نیشنل ٹرسٹ کی تحویل میں ہیں.ان مساجد میں وہ چھوٹی سی مسجد بھی ہے جس کے متعلق مشہور ہے کہ یہاں، طارق بن زیاد نے اس سرزمین پر قدم رکھنے کے بعد سب سے پہلی نماز پڑھی تھی حضرت خلیفہ ایسیح الثالوث ایک اللہ تعالیٰ نے طلیطلہ کی اس تاریخی مسجد میں دعا کی حضرت اقدس جب دعا کے بعد مسجد کے قریبی دروازہ سے گزر کر باہر تشریف لائے تو یونیورسٹی کے ایک پر و فیسر نے بتایا کہ یہ وہ دروازہ ہے جو مسلمانوں کے دور حکومت میں خلیفہ کے لئے مخصوص تھا یہ دورۂ طلیطلہ کی ایک بھاری خصوصیت یہ بھی ہے کہ حضرت اقدس ایدہ اللہ تعالیٰ نے یہاں پین میں اسلام او مسلمانوں کی گم گشتہ عظمت و شوکت کی بازیابی کے لئے ایک خاص کیم بھی تجویز فرمائی جس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب بھی سپین میں تشریف لے جاچکے ہیں.حضور انور نے اپنے خطبہ جمعہ فرموده ۱۲ احسان ارجون ہمالیہ میں اس خاص سکیم کی طرف.192.اشارہ کرتے اور اس کے لئے خصوصی دعا کی تحریک کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :- سپین کے متعلق لیکن ایک اور کوشش کر رہا ہوں میں کو ظاہر کرنا اس وقت مناسب نہیں لیکن جس کے لئے دعا کرنا آج ہی ضروری ہے.اس لئے بڑی کثرت سے یہ دعا کہ میں کہ جس مقصد کے لئے یں سپین گیا تھا اور جین کے پورا ہونے کے بظا ہر آثار پیدا ہو گئے ہیں اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور رحم سے ہمارا کام کر دے کیونکہ ہم کمزور اور عاجز بندے ٢١٩٤٠ له الفضل ۱۵ر وفا / جولائی ۱۳۹۵ ہجرت مئی من 1 ص ها + TOLEDO الفضل
۲۵ ہیں.پھر وہ دن ساری اُمت مسلمہ کے لئے بڑی خوشی کا دن ہو گا بعض اس کو پہچانیں گے اور خوش ہوں گے بعض نہیں پہچانیں گے یہ ان کی بدقسمتی ہوگی لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ دن ساری ام سلمہ کے لئے خوشی کا دن ہوگا اے مراجعت حضرت خلیفہ اسی ایدہ اللہ تعالی طلیطلہ کی یادگار مسجدوں کو دیکھنے اور دعا کرنے کے بعد شام کو واپس میڈرڈ پہنچے اور اپنی نیم شبی دعاؤں اور اشکبار اور پرنم آنکھوں سے آسمان پر مسلمین کی ایک بنیادی اینٹ رکھنے کے بعد یکم مایہ احسان جون ما کو میڈرڈ سے بذریعہ ہوائی جہاز لندن تشریف لے گئے اور یہ مبارک سفر بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوا.حضرت امیر المومنین کے انٹرویو کی اشاعت اگر حضرت امیرالمومنین خلیفتہ ایسی الشالات ایدہ اللہ تعالیٰ کا دورہ سپین نہایت مختصر تھا میڈرڈ کے مشہور اخبار میں تاہم ہسپانوی پریس میں حضور انور کی آم کا خوب چرچا ہوا.چنانچہ میڈرڈ کے ایک کثیر الاشاعت اخبار پو اکیلو (PUEBLO) نے اپنی ۲ جون شاعر کی اشاعت میں حضور کا ایک مفصل انٹرویو شائع کیا جس کا ترجمہ درج ذیل کیا جاتا ہے :- اسلام کے ایک شہزادے کا میڈرڈ میں ورود مسعود مجھے اپنی زندگی بھر میں ایک زندہ مجسمہ کے اتنا قریب ہونے کا موقعہ نہیں ملا جتنا آج حضرت امام جماعت احمدیہ سے مل کر نصیب ہوا.حضرت اقدس کا نورانی چہرہ دیکھ کر یکں ورطۂ حیرت میں پڑ گیا.میں جو میڈر ڈیں دنیوی مشاغل اور لہو و لعب میں مصروف زندگی دیکھنے کا عادی ہوں مجھے حضرت امام جماعت احمدیہ کے ساتھ جو دس ملین جماعت کے روحانی مقتدار ہیں ان سے بات کرنے کے لئے کافی ذہنی تیاری کی ضرورت پیش آئی ہوٹل ہلٹن کے جس کمرے میں حضور تشریف رکھتے ہیں خوشبو سے معطر تھا.کمرے کے اندر داخل ہوتے ہی حضور اقدس کی دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی نظر نے مجھے پر جو اثر کیا میں اس کی کیفیت الفاظ میں بیان کرنے کی طاقت نہیں رکھتا.جماعت احمدیہ جو دنیائے اسلام کا ایک جدید فرقہ اور زبردست منظم تبلیغی اور فقال ه الفضل ۱۵ و فار جولائی ۱۳۴۹ 4
۶۶ جماعت ہے.ان کے افراد کی تعداد دس ملین ہے.حضور اقدس کا نام حضرت مرزا ناصر احمد ہے حضور اس جماعت کے امام ہیں جو اسلام میں ایک نیا فرقہ ہے اور زبردست منظم تبلیغی اور فعال جماعت ہے جو اس صدی میں ظاہر ہوئی.یہ دس ملین کی جماعت ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے.اس جماعت کے متعلق مشہور ہے کہ عیسائیت کا یہی ایک جماعت (خصوصاً ) افریقہ میں مقابلہ کر رہی ہے.یکن اس پر اثر شخصیت اور بزرگ مقدس ہستی جن کی سفید ریش مبارک اور سفید عمام میں تقدس کا نشان پایا جاتا ہے گفت گو کے نیاز حاصل کرتا ہوں.میں اس حقیقت کا دلی طور پر اظہار کرتا ہوں کہ حضور اقدس کا وجود حقانیت کا زندہ ثبوت ہے.ہم سب برابر ہیں جماعت احمدیہ اور باقی مسلمانوں میں بنیادی عقائد کا کوئی فرق (نہیں).ان کے لئے قرآن کریم کا مل کتاب اور اللہ تعالیٰ کا پاک کلام ہے میں سے عقائد صحیحہ ، اعلیٰ کامل اصول اور احکامات کا روحانی چشمہ بہتا ہے میں کی تعلیم سب مسلمانوں پر فرض ہے.اسلام کی تعلیم غیر متبدل ہے.خدا تعالیٰ کو واحد مانتے ہیں.ہم عیسائیوں کے تثلیث کے عقیدہ کو نہیں مانتے اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے بندے کے درمیان براہ راست تعلق قائم کرتا ہے.اسلام میں خدا تعالیٰ کو اللہ کہتے ہیں حضرت امام جماعت احمدیہ کے خیالات اور افکار میں انسانیت کے لئے گہری ہمدردی اور محبت کے جذ بہ کا نمایاں اللہ پایا جاتا ہے.بنی نوع انسان سے سچی ہمدردی اور سچی محبت اس امر میں اسلام اور عیسائیت کی تعلیم دیں ، کوئی فرق نہیں.اسلام کا پیغام محبت کا پیغام ہے فرمایا.ہم نے اپنے مبلغوں کے ذریعہ اس محبت کا پیغام اہل افریقہ تک پہنچایا.ہم نے کئی لاکھ دلوں کو فتح کر لیا ہے.سوال : دنیا میں بد امنی قتل و غارت کا جو فساد برپا ہے اس کا کیا علاج ہے ؟ جواب :.دنیا میں انشاء اللہ تعالی امن و سلامتی کا نظام قائم ہو کر رہے گا.دنیا کی
14 تاریخ میں ایک مثال بھی ایسی نہیں کہ سچی محبت کا پیغام ناکام ہوا ہو محبت کا پیغام ہمیشہ ہی کامیاب ہوا ہے.ضرورت اس امر کی ہے کہ انسان انسان سے محبت کرنا سیکھے اور حقیقی ہمدردی سے پیش آئے.سوال : آپ کے نزدیک امن و انصاف کی کیا تعریف ہے ؟ جواب : - امن و امان اور ظلم و تعدی دو متضاد چیزیں ہیں.دنیا میں کئی لوگ امن قائم کرنے کا دعوی کرتے ہیں لیکن عملی طور پر وہ ظلم اور بے انصافی سے کام لیتے ہیں اور اس امر کا عملی ثبوت بہم پہنچاتے ہیں کہ وہ دل سے تحقیقی طور پر دنیا میں امن قائم کرنا نہیں چاہتے جب یکن امن و سلامتی کے الفاظ استعمال کرتا ہوں تو دل سے حقیقی طور پر امن وسلامتی کا خواہش مند ہوں.افریقہ کے باشندے ہمارے متعلق پونی گواہی دے سکتے ہیں کہ ہم دنیا میں بچے دل سے امن و سلامتی قائم کرنا چاہتے ہیں.پچاس سال کے عرصہ میں جب سے ہم نے وہاں مشن کھولے ہیں ہم وہاں سے ایک پائی تک بھی نہیں لائے ہم نے ہزاروں پونڈا اہل افریقہ کی بہتری اور بھلائی کے لئے خریج کئے ہیں.افریقہ کے احمدی احباب کا غیر از جماعت احبا پر نہایت ہی اچھا اثر پڑا ہے.وہ محض ان کے نیک نمونہ کی وجہ سے ہے.آخری سالوں میں جماعت احمدیہ نے ڈنمارک ، سوئٹزرلینڈ، جرمنی ، ہالینڈ وغیرہ میں اپنی مسجدیں بنائی ہیں میڈرڈ میں بھی ایک چھوٹی سی جماعت موجود ہے.ان کا اپنا مشن کھلا ہوا ہے.یہ آخری گفت گو ہے جو حضرت امام جماعت احمدیہ سے کرسکا مجھے بتایا گیا ہ پاکستانی سفیر نے بلایا ہے.اسی طرح آپ ساتھ والے کمرے میں داخل ہو گئے اور خوشبو کی دلربا مہک اپنے پیچھے چھوڑ گئے یا نہ خلافت ثالثہ کے مبارک دور کی ایک برکت یہ بھی ہے کہ امر یم میں تین میٹر ہوگیا سے حکومت سین نے احمدیہ مسلم مش سین کو باقاعدہ رجسٹرڈ کر لیا ہے جس کے بعد اب پولیس کی طرف سے کڑی نگرانی اور بے وجہ تنگ کرنے کا سلسلہ بھی ختم ہو گیا له الفضل ظهور/ اگست هه م
ہے اور تبلیغ اسلام پر بھی آب قانوناً کوئی پابندی نافذ نہیں ہے.فَالْحَمدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِك لیے دار التبلیغ سپین کی شاندار خدمات پر احمد پیشمی نے اس وقت تک اسلام کی جو شاندار خد تا ایک طائرانہ نظر انجام دیں ان سے اس ملک میں اسلام کا مستقبل صاف طور پر روشن نظر آنے لگا ہے جس کا بھاری ثبوت یہ ہے کہ چرچ کی اسلام کے خلاف جاری شدہ نفرت کی ظالمانہ ہم آہستہ آہستہ بے اثر ہوتی جارہی ہے اور قلوب و اذہان میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید اور مسلمانوں سے نفرت و حقارت کے خیالات و جذبات میں بتدریج نمایاں کمی واقع ہو رہی ہے اور ان کی جگہ رواداری اور محبت نے لینی شروع کر دی ہے.ایک زمانہ وہ تھا جبکہ سینی کاملی پرہیں اسلام اورمسلمانوں کو نظر انداز کر دیتا تھا مگر آپ پریس کا رجعت پسندانہ انداز فکر و طرز عمل بھی بدل رہا ہے.اس خوش گوار تغیر و تبدل کا ایک نمونہ بارسیلون ہفتہ وار رسالہ REVISTA کا وہ فضل مضمون بھی ہے جو اُس نے اپنی ۱۹ تا ۲۵ جولائی بٹائے کی اشاعت میں شائع کیا ہے یہ مضمون چونکہ اسلام سے متعلق سپین کے موجودہ بدلتے ہوئے رجحانات کی ایک واضح تصویر پیشین کرتا ہے اس لئے اس کے ایک حصہ کا ترجمہ دیا جانا ضروری ہے.اخبار ند کور نے کرم الہی ظفر مبلغ اسلام کے خیلی بعنوان سے لکھا:.احمدیت کے بنیادی اُصول سمجھنے مشکل نہیں ہیں ہاں ہمارے لئے ان کا قبول کرنا مشکل ہے کیونکہ ہم یورپ کو زیادہ ترقی یافتہ سمجھتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ سب اقتدار ہمارے ہاتھ میں ہے.ہمارا مقصد صاف ہے جیسا کہ گزشتہ وقتوں میں دُہرایا جا چکا ہے.کیا مشرق ہی ہمیں اخلاق حسنہ سکھائے ؟ ہو سکتا ہے مشرق ہی ہمیں آکر اخلاق حسنہ سکھائے 31921 ا مبلغ اسلام مولوی کرم الی صاحب ظفر کا مکتوب بنام مؤلف "تاریخ احمدیت ( مورخه هم از احسان برجون هم REVISTA نے اس مضمون کے ساتھ ایک گروپ نوٹ بھی شائع کیا جس میں مبلغ اسلام مولوی کرم الہی صاحب ظفر کے ساتھ سابق سفیر سپین مقیم کراچی.سابق وزیر محنت پین.سابق وزیر خارجه سپین SR MARTIN.30 RTA (حال SANT DRRIO..جنرل سیکرٹری آف سٹیٹ کونسل اور سابق سفیر پاکستان تقسیم میڈرڈ سید میراں محمد شاہ صاحب بھی کھڑے تھے ہے S.R.ARTAJO
۶۹ جبکہ TOYW BEE کہتا ہے کہ آخر میں یہ دو متوازی تمدن اکٹھے ہو جائیں گے.BERTRAND RUSSELL کہتا ہے کہ یورپ اپنی مادہ پرستی کی وجہ سے اپنی تہذیب کا گلا گھونٹ رہا ہے اس لئے خیال گزرتا ہے کہ شاید یہ سچ ہی ہو.یچ تو یہ ہے کہ انتہائی ضلالت اور خوفناک مصائب کے اندر ایک نیا تہذیب و تمدن جنم لے رہا ہے ہمیں اس کو اس کی علامات سے پہچاننا چاہیے تا کہ انسان کا حقیقی و قار و عاریت قائم ہو" پین کشن کی تبلیغی سرگرمیوں کا دائرہ سپین سے باہر افریقہ اور افریقہ اور مشرق وسطی کے مشرق وسطی تک وسیع ہو چکا ہے چنانچہ اس مشن کی طرف سے مسلمان سفیروں کو پیغام حق سفیر مرو مصطفی لطفی سفیر شام انشأة السبی، سعی مراکو ماند ( نمائنده لیبیا، نمائندہ الجزائر ، نمائندہ موری طانیہ کو اسلامی اصول کی فلاسفی (عربی) “ اسلام کا اقتصادی نظام " روبي نَحْنُ مُسْلِمُونَ" (عربی) " سفینہ نوح " دعوتِ احمدیت و غرضها " اور دیگر کتب اور پمفلٹ پیش کئے گئے.ان ممالک کے سفارتی عملہ کے باقی مہروں کو بھی سلسلہ کا لٹریچر مطالعہ کے لئے دیا گیا اور لما اعتقد الاسلام کی وسیعی تقسیم کی گئی ہے.علاوہ ازیں انور سادات (صدر مصر) - بو محی الدین (صدر الجزائر ) محسن ثانی (والی مراکش) حبیب بورقییہ (صدر ٹیونس) میجر جنرل جعفر نمیری (صدر سوڈان)، کرنل قزافی (صدر لبیبیا) - جنزل حافظ الاسد (صدر شام کو بھی فلسفہ أصول الاسلامیہ" " نظام الاقتصاد فی الاسلام ی سفینه نوح " دعوۃ احمدیت و غرضها، و غیره " عربی لٹریچر بھجوایا گیا.احمد یڈیشن کی کوششوں کا یہ بھی نتیجہ ہے کہ خدا کے فضل سے مرا کو کے دو تعلیم یافتہ مسلمان بن عیسی (CENTA شمالی افریقہ مقبوضہ سین) اور احمد عروشی (ربط) حلقہ بگوش احمدیت ہو چکے ہیں.احمدیہ یشن کے ثمرات و نتائج کا اندازہ اس سے لگ سکتا محمد احمد پیش کے ذریعہ حلقہ بگوش اسلام کے سرکاری پابندیوں اور کی بولک چریا کی پر نور ہے کیتھولک یہ ہونے والوں کے اسماء بھی لغت کے با وجود وسط احسان جون من ۱۳۵ تک سیتین کے مندرجہ ذیل انتیس افرا د اسلام قبول کر چکے ہیں.51961
اسلامی نام 1 - مکرم محمد احمد صاحب آف استھونیا ۲ - مکرم انوار احمد صاحب ۳.مکرم اجمل احمد صاحب ۴.مکرم بشیر احمد صاحب (ڈاکٹر) ۵ - مکرم فلاح الدین صاحب 4 - مکرم مبارک احمد صاحب ے.مکرم عطاء اللہ ناصر صاحب فهرست ہسپانوی نام مکرم سعید احمد صاحب و سعیدہ صاحبہ ۱۰ - مكرم عبد اللطیف صاحب ۱۱ - مکرم بشیر الدین صاحب ۱۲- مکرم بعبد الرحیم صاحب بارسلونه ۱۳ مکرم انیس عبد الباقی صاحب غرناطه (وکیل) ۱۴- مکرم منصور احمد صاحب ۱۵- مکرمہ نصیرہ صاحبہ (جرمنی میں فوت ہو گئیں ) ۱۶- مکرم سیف الاسلام صاحب SR EURIQUE Kuzmin SR MANNEL BUEND SR MIGUEL MIRANDA SR LUIS CAREND SR JESUS JCLIPE ARROYO SR FERNANDO CHICARAN DA SR ANTONIO IGLESIA LAGUNA SRS CARLOS COLME NARES SR LUIS DE VAL SR VICENTE CARBALLO SR JOSE ABAD SR ALBERDI SR JOSE MARIA GARZON SR TA CARMEN SR MANUEL BUENO PRELLE ZO ۱۷ مکرم عبد السلام صاحب و ناصرہ صاحبہ (SRS.FMILIO CASTILLOS (CENTA ۱۸- مکرم ظفر اللہ صاحب ۱۹ مکرمہ امتہ اللہ صاحبہ (اہلیہ) ۲۰- مکرم عطاء المنان صاحب ۲۱ - مکرم بشارت الرحمن صاحب ۲۲ مکرمه منصورہ عائشہ صاحبہ Pozo SR FRANCISCO SR ANGEL MORENO GARCIA SR FRANCISCO DUCHEN SRTA CARMENDEL RID
21 ۲۳.مکرم محمد احمد صاحب ۲۴- مکرم عبد الواحد محمود صاحب ۲۵- مکرم عبد الاحد ناصر صاحب ۱۶ مکرم منور احمد صاحب ۱۲۷ مکرم عبدالحی صاحب و اہلیہ صاحبہ ۲۸- مکرم بشیر احمد صاحب ۲۹ مکرم نور الحق صاحب SR XAVIERIcarti GarCTA SR EDUARDO DE CORDOBA SR FERNENDO BARREJOU SR VICENTE BRIZ ALVAREZ SR RESTI TUTO SINDO SR JOSE REQUENA, Gouzalez SR MIGUEL SEQUI شید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے سپین سین کی نسبت حضرت خلیفہ ایسیحا کے مستقبل کی نسبت ایک نہایت پر شوکت پیش گوئی ۲۹ الثالث پیشگوئی ادثات کی پُر شوکت پیش گوئی ماہ احسان ارجون مے کو فرمائی جس کو درست کر کے سپین شن کے حالات و کوائف ختم کئے جاتے ہیں منصور نے ارشاد فرمایا :- ہم مسلمان سپین میں تلوار کے ذریعہ داخل ہوئے اور اس کا جو حشر ہوا وہ ظاہر ہے.اب ہم وہاں قرآن لے کر داخل ہوئے ہیں اور قرآن کی فتوحات کو کوئی طاقت نے اکل نہیں کر سکتی ہے فصل سوم صقلیہ سسلی میں شاعت اسلام ملیہ اٹلی کے پہلے حصہ میں ایک جزیرہ ہے جہاں یورپ میں سپین کے بعد دوسرے نمبر کی اسلامی له الفضل ، وفار جولائی کالم ".
۷۲ حکومت قائم تھی اور مین کے ذریعہ مسلمانوں کی ہسپانوی سلطنت کے خاتمہ کے بعد بھی قریباً دو صدیوں تک پوری شان و شوکت سے اسلام کا جھنڈا لہراتا رہا تھا جنقلیہ کے اسلامی دور میں بکثرت اصحاب فضل و کمال پیدا ہوئے جو اپنے علم وفن میں ہسپانوی علماء کے ہم پلہ، نابغتہ الدہر اور یکتائے روزگار تھے اور یہ جزیرہ ہرقسم کی اسلامی یونیورسٹیوں کا مرکز تھا لیکن افسوس جو دردناک حشر - پانوی مسلمانوں کا ہوا وہی اس خطہ کے برگشتہ نصیب مسلمانوں کا ہوا.میں عیسائی بادشاہ راجرا قول نے منقلیہ کے آخری مسلمان تاجدار ابن البصباغ کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور مسلمان عیسائی حکومت کی رعایا قرار پائے.میں فریڈرک نے تمام معلوی مسلمانوں کو اٹلی کے علاقہ (بوجارہ) نوسیرا میں جلا وطن کر دیا مگر یہاں بھی عیسائی بادشاہوں نے ان پر عرصہ حیات تنگ کر دیا اور یہ غریب اور نہتے مسلمان ناقابل برداشت تکالیف برداشت کرتے کرتے بالآخر جبراً عیسائی بنائے گئے بیت میں یہ پورا علاقہ اسلام کے نام لیواؤں سے خالی ہو گیا.سے ۶۱۲۴۹-۵۰ حضرت مصلح موعود نے جب اندکس اور مصفیہ میں مسلمانوں کے حضرت مصلح موعود کا عزم بالجزم ترعب و جو یہ اور پھر ان کے اخراج کی درد ناک تاریخ پڑھی تو آپ نے مصمم ارادہ کیا کہ ان علاقوں میں ضرور احمدی مبلغین بھجوائیں گے.چنانچہ فرماتے ہیں :.اگر کوئی مسلمان مُردہ دل ہو تو اور بات ہے ورنہ ایک غیرت رکھنے والے مسلمان کے قول پر ان حالات کا مطالعہ کرنے کے بعد جو زخم لگتے ہیں ان کے اند سال کی کوئی صورت نہیں ہو سکتی سوائے اس کے کہ وہ اپنا خون دل پتیار ہے..جب میں نے یہ حالات تاریخوں میں پڑھے تو میں نے عزم کیا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی تو میں ان علاقوں میں احمدیت کی اشاعت کے لئے اپنے مبلغین بھیجواؤں گا جو اسلام کو دوبارہ ان علاقوں میں غالب کریں اور اسلام کا جھنڈا دوبارہ اس ملک میں گاڑ دیں " سے حضرت امیر المومنین المصلح الموعود کی اس دیرینہ خواہش مبلغین اسلام کا سسلی میں ورود کی تکمیل کے لئے ماسٹر محمد ابراہیم صاحب خلیل اور مولوی ے تفصیلی حالات کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ منقلبہ" از جناب مفتی انتظام اللہ صاحب شہابی اکبر آبادی - ناشر ندوۃ المصنفین اردو بازار جامع مسجد دہلی + له الفضل ١٧ وفا / جولائی ۳ صدا کالم ہے ۱۷ وفا/ کی
۷۳ محمد عثمان صاحب حضور کے حکم پر ۱۴ ماہ شہادت/ اپریل ۳۵ کو لنڈن سے اٹلی اور متعلیہ کیلئے ماه روانہ ہوئے بلے ۶۱۹۴۶ اور یہ پہلے مبلغین تھے جو جنگ عظیم کے خاتمہ کے بعد یورپ کی روحانی فتح کے لئے لنڈن سے بھجوائے گئے بیان مبلغین نے کچھ وقت فلارنسی رائٹی میں پیغام میں پہنچایا بعد ازان مینہ دریسیلی) کو اپنا مرکز بنا کر اشاعت اسلام کی مہم کا آغاز کر دیا جس کے نتیجہ میں یہاں ایک حرکت سی پیدا ہوگئی چنانچہ نہ صرف یہ کہ اٹلی اور سیسلی کے پریس میں اسلام کا پہر چاہوا اور ان کے متعلق مضامین شائع کئے بلکہ بعض لوگوں نے قبول اسلام کی سعادت بھی پائی.مجاہدین اسلام کی تبلیغی سرگرمیاں ابھی بالکل ابتدائی حالت میں تھیں کہ سیسلی کی کیتھولک حکومت نے ان کو ملک میں مزید قیام کی اجازت دینے سے انکار کر دیا جس پر پہلے مولوی محمد عثمان صاحب آخر ستمبر میں سینہ کو خیر باد کر کے فلارنس (اٹلی) پچھلے آئے پھر ماسٹر محمد ابراہیم صاحب خلیل بھی اور نومبر کو جنیوا پہنچ گئے جہاں ان کا قیام ۱۳ جنوری شیر تک رہا جس کے بعد آپ حضور انور کے حکم سے فری ٹاؤن سیرالیون) میں تشریف لے گئے.آپ کو سیرالیون میں گئے ہوئے تھوڑا عرصہ ہی ہوا تھا کہ مولوی محمد عثمان صاحب بھی اعلائے حق کیلئے فلورنس سے سیرالیون پہنچ گئے اور تبلیغ اسلام میں مصروف ہو گئے.له الفضل ٢٠- يجرت مئی ۱۳۲۵ ۶۵۵ جناب ماسٹر محمد ابراہیم صاحب خلیل مجاہد رسولی کا بیان ہے کہ ۱۱۹۴۶ ہم پہلے لنڈن گئے تین ماہ وہاں رہے.اٹلی کے ویزا کی کوشش کی حکومت اٹلی نے لکھا کہ کسی مبلغ کو اٹلی جانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی حضرت مصلح موعود کی خدمت میں دعا کے لئے لکھا.آخر معجزانہ طور پر ویزامل گیا اور ہم دونوں ٹرین کے ذریعہ پیرس سے روم پہنچے جب سوئٹزرلینڈ کے ملک سے ہماری گاڑی جارہی تھی تو وہاں کی حکومت نے ہماری تلاشی لی اور ہمارے تو لی بستر وہاں ہی رکھ لئے ہم حیران و پریشان ، وہ سیوس زبان بولیں ہم نہ مجھیں.آخر تسلی کرنے کے بعد ایک ماہ تک ہمارے بستر بخیریت فلورانس پہنچ گئے ؟؟ کے شروع میں ملک محمد شریف صاحب گجراتی مبلغ کی ماسٹر محمد ابراہیم صاحب النیل کے ساتھ میلہ میں تشریف لے گئے.یہ 19 احسان جون ۱۵ کا واقعہ ہے.یہ تلقین اٹیلین اور انگریزی زبان کے ٹریکٹ ۹۲ بھی ساتھ لے گئے تھے (الفضل ہے.وفا جویائی و مت کے مثلاً پروٹسٹنٹ عیسائیوں کے اخبار" لانوشے روشنی.نوری روم نے دار تم بر ہ کی اشاعت میں مسلمان مبلغ کے عنوان سے احمدی مشنوں کے تبلیغی کارناموں کا مختصر تذکرہ شائع کیا اسیلی میں محمد " کے عنوان سے تو رین سے چھپنے والے ایک اخبار ( ILLUSTRATIENE DEL POPOLS ) نے ۲.مارچ ے کے ایشروع میں ایک مضمون سپر د اشاعت کیا اور اس میں متبعین مسلمی کے فوٹو بھی دیئے.اس کے علاوہ بلونیا سے شائع ہونیوالی ایک کتاب (CADOTTAINA DELL ISLAM ) کے صفحہ ۱۳۵ تا ۱۳۸ میں تحریک احدیت کا ذکر کیا گیا.کتاب کے مصنف کا نام MORE NO..) ہے ؟ شه ان تاریخوں کا تعین مکرم باشر مجد ابراہیم صاحب غلیل کے ویزا سے ہوتا ہے الفضل ۳۱ دسمبر ۱۹۴۸ء صفحہ ا کے مطابق آپ ۰ ۳ دسمبر ۱۹۴۸ء کولندن سے فری ٹاؤن کیلئے روانہ ہوئے تھے.
۷۴ اس تفصیل سے ظاہر ہے کہ صقلیہ میں اگر میت تبیین سيدنا الصلح الموعود کی طرف اظہار خوشنودی اسلام کا قیام نایت مختص تھا مگر اس ایل سے وصہ میں خدا کے فضل و کرم سے اسلام کا بیج بو دیا گیا.حضرت سیدنا المصلح الموعود ان مبلغین کے سیسلی میں پہنچنے پر کس درجہ مسرور و محفوظ ہوئے.اس کا اندازہ اس سے لگ سکتا ہے کہ جب حضور کی خدمت میں مبلغین اٹلی کی طرف سے یہ خوش کن اطلاع پہنچی کہ پہلے دو روزمیں ہی خدا کے فضل و کرم سے دو نفوس حلقہ بگوش اسلام ہو گئے ہیں تو حضور نے انہی دنوں مجلس علم و عرفان میں اس پر خوش نودی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا :- " صقلیہ کے لوگ آجکل اپنی آزادی کے لئے کوشش کر رہے ہیں.اس علاقے کے مسلمانوں کو جبراً عیسائی بنایا گیا تھا لیکن امتداد زمانہ کی وجہ سے وہ اب اپنے آبائی مذہب کو بالکل بدل گئے ہیں منتقلیہ میں رہنے والوں میں سے لاکھوں ایسے ہیں جو مخلص، دیندار اور پرہیز گار مسلمانوں کی اولادیں ہیں ان کے آباؤ اجداد اسلام کے فدائی اور بہت متقی لوگ تھے لیکن یہ لوگ اسلام سے بالکل غافل ہیں اور عیسائیت کو ہی اپنا اصلی مذہب سمجھتے ہیں لیکں نے اٹلی کے مبلغین کو لکھا کہ آپ اس علاقہ میں تبلیغ پر زور دیں، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ ان کے آباء و اجداد کی ارواح کی تڑپ اور ان کی نیکی ان کی اولادوں کو اسلام کی طرف لے آئے پہلا خط ان کا جو مجھے پہنچا اس میں انہوں نے لکھا تھا کہ ہم اب روم سے آگئے ہیں اور صقلیہ کی طرف بھا رہے ہیں.پھر ان کا دوسرا خط مجھے پہنچا کہ ہم مینہ میں پہنچ گئے ہیں.لوگ ہمارے لباس کو دیکھ کر جوق در جوق ہمارے ارد گرد جمع ہو جاتے ہیں.ہم ان کو یہ وعظ کرتے ہیں کہ تمہارے باپ دادا تومسلمان تھے تمہیں کیا ہوگیا کہ تم اسلام سے دور پہلے گئے ہو.اب دوسر ایسی آگیا ہے آؤ اور اس کے ذریعہ حقیقی اسلام میں داخل ہو جاؤ تغییر اخط اُن کا نے سیسلی کے ابتدائی نو مسلموں کا نام محمود اور بشیر رکھا گیا ؟ نے سے یہ دونوں خط جن میں سے ایک ملک محمد شریف صاحب کا اور دوسرا ماسٹر محمد ابراہیم صاحب خلیل کا لکھا ہوا تھا الفضل کی ہم وفار جولائی میں کی اشاعت میں محفوظ ہیں حضور نے یہ خط ملاحظہ فرمانے کے بعد اپنے قلم سے تحریر فرمایا اللہ تعالی نے میری خواہش پوری کی اس وقت سپین اور سلی دونوں سابق اسلامی ملکوں میں ہمارے مبلغ پہنچ گئے ہیں اور تبلیغ اسلام کا کام مشروع ہو چکا ہے ؟
مجھے آج ملا ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے یہاں کے دو نوجوان احمدی ہو گئے ہیں.دونوں بہت جوشیلے احمدی ہیں.احمدیت کی تبلیغ کا بہت جوش رکھتے ہیں.ایک کا نام ہم نے محمود رکھا ہے اور دوسرے کا نام ہم نے بیر رکھا ہے.ان کا خط بھی مجھے آیا ہے جس میں انہوں نے بیعت کا لکھا ہے.ہمارے لئے یہ حالات خوش کن ہیں.اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں توفیق دے کہ یہ دونوں ملک اسپین اور منقلیہ.ناقل ) ہمارے ذریعہ پھر اسلام کا گہوارہ بن جائیں“ اس کے ساتھ ہی حضور نے جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ :." جہاں ہمارے مبلغین بیرونی ممالک میں تبلیغ کے لئے جا رہے ہیں اور وہ ہماری طرف سے فریضہ تبلیغ ادا کر رہے ہیں وہاں ہم پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم ان کی اعداد صحیح طور پر کریں اور ان کے اخراجات کو پورا کرنے کی کوشش کریں..ہمارے مبلغین کا تو بیرونی مالک میں یہ محال ہے کہ ان میں سے ایک بینے ماسٹر محمد ابراہیم صاحب نے جنگل میں جا کر درختوں کے پتے کھا کر پیٹ بھرا اور دوسرے بھی نہایت تنگی کے ساتھ گزارہ کرتے ہیں لے علاوہ ازیں حضرت سیدنا المصلح الموعود نے ایک اہم مضمون بھی سپر قلم فرمایا جس میں سیسلی کے نی مسلموں کے خطوط کا چربہ اور ترجمہ دیتے ہوئے تحریر فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کس قدر احسان ہے کہ اُس نے اسلام کی شوکت گزشتہ کو واپس لانے کے لئے ہماری جماعت کو قائم کیا ہے اور پھر ہمارے نوجوانوں میں اخلاص اور قربانی کی روح پیدا کی ہے اور آج ہم سپین اور مسلی دونوں جگہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے دوبارہ اسلام کا جھنڈا گاڑنے کی جد وجہد میں مشغول ہیں.الحمد اللہ ملے ذ ذلك ، گو صقلیہ شن نامساعد حالات کی وجہ سے جلد بند کر دینا پڑا مگر یورپ میں قیام توحید سے متعلق خدائی بشارتوں کی بناء پر ہمیں یقین ہے کہ جلد یا بدیر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے خدام ایک بار پھر اس علاقہ میں پہنچیں گے اور اس کے چپہ چپہ پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت قائم کر کے له الفضل ۱۷ و فار جولائی ه م ب له الفضل امر و فار جولائی را کالم و وفا : ۶۱۹۴۶
ہی دم لیں گے.انشاء اللہ تعالیٰ ہے فصل چهارم سوئٹزر لینڈ مشن کا قیام سوئٹزرلینڈ وسطی یورپ کا مشہور ملک ہے جو عیسائیت کی عالمگیر تبلیغی ہم میں خاص اہمیت رکھتا ہے.اس ملک میں درجن کے لگ بھگ ایسی مشنری سوسائیٹیاں ہیں جو دنیا کے مختلف حصوں میں عیسائیت کا پرچار کر رہی ہیں.ایک محتاط اندازہ کے مطابق اس ملک کے اٹھارہ سو کیتھولک یا دوری دنیا میں صلیبی مذہب کی تبلیغ کر رہے ہیں.سوئٹزرلینڈ کے ساتھ جرمنی، فرانس، اٹلی اور آسٹریا کی سرحد میں ملتی ہیں.اس ملک کا بہتر فیصد علاقہ جرمن زبان بولتا ہے اور بقیہ حصہ میں فرانسیسی اور اطالوی زبان رائج ہے.یہ ملک اگر چہ ایک چھوٹا ملک ہے مگر چونکہ بین الاقوامی اعتبار سے اسے ایک خاص مرکزی حیثیت حاصل ہے اس لئے یہاں سے اُٹھائی ہوئی آواز کا اثر ہمسایہ ممالک خصوصا جر منی پر بہت خوشگوار پڑتا ہے.وجہ یہ کہ سوئٹزرلینڈ کے اپنے پڑوسی ملکوں سے ہمیشہ گہرے اور عمدہ تعلقات رہے ہیں.سید نا حضرت امیر المومنین خلیفة لمسیح الثانی المصلح الموعود کی دور رس نگاہ انتخاب نے پر میں قلب یورپ کے اس اہم ملک کو بھی اشاعتِ اسلام کے لئے چنا اور اس میں مضبوط تبلیغی مرکز قائم کرنے کے لئے لنڈن سے شیخ ناصر احمد صاحب کو (چوہدری عبد اللطیف اور مولوی غلام احم 51906 ہ کے چوہدری عبد اللطیف صاحب اور مولوی غلام احمد صاحب بشیر ۱۲ نبوت / نومبر کو سوئٹزرلینڈ سے ہالینڈ بھجوا دیئے گئے جہاں حافظ قدرت اللہ صاحب کے ہاتھوں.وقار جولائی کو احد یہ مشن کا قیام عمل کا ۱۳۲۶ کو میں آچکا تھا جو مری عبد اللطیف صاحب کچھ عرصہ سویٹزر لینڈ میں بینی خدمات بجالانے کے بعد صلح جنوری تبلیغی ۲۰ کو جرمنی میں تقبل مشن کی بنیاد رکھی جیساکہ آگئے مفصل ذکر آئے گا الفضل در تبلیخ / فروری 11 ام الفضل یکیم زمان / مارچ ها 51989 اما 51974
66 کے ہمراہ، سوئٹرز لینڈ بھجوا دیا تا نہ صرف اس ملک میں پیغام حق پہنچایا جائے بلکہ جرمنی سے آنے جانے والوں میں بھی تبلیغ کا راستہ جلد گھل جائے اور جرمنی میں داخلہ کی اجازت ملتے ہی وہاں بھی احمدیہ سلم مشن کھولا جا سکے.مجاہدین تحریک جدید کا یہ وفد ار افاد / اکتوبر کو لنڈن کے وکٹوریہ اسٹیشن سے بوقت - ۶۱۹۴۶ و بجے صبح بذریعہ گاڑی روانہ ہوا اور پیرس میں مجاہدین فرانس کے ساتھ نماز جمعہ کی ادائیگی اور مختصر قیام کے بعد ۳ار اخار اکتوبر کو دوپہر کے وقت سوئٹزرلینڈ کے مشہور شہر زیور پچ پہنچا حضرت مصلح موعود کی خدمت میں اس کی اطلاع ۵ارا خاد/ اکتوبر کو سفر دہلی سے واپسی پر بذریعہ تار قادیان موصول ہوئی اور اس کا تذکرہ بھی حضور نے اسی شام مجلس علم و عرفان میں اول نمبر یہ کیا نیز فرمایا.جرمنی میں احمدیہ تبلیغی مشن قائم کرنے کے لئے بار بار کوشش کی گئی کہ احمدی مبلغین کو جرمنی میں جانے کی اجازت دی بھائے مگر امریکہ نے بھی اور برطانیہ نے بھی اجازت نہیں دی.اس پر میں نے اپنے جرمنی جانے والے مبلغین کو ہدایت کی کہ وہ ہالینڈ چلے جائیں جو جرمنی کی سرحد پر ہے اور وہاں سے جرمنی میں بھی تبلیغ کی جا سکتی ہے.مگر یہ کوشش بھی بہت لیبی ہوگئی.ہالینڈ کی گورنمنٹ کو برطانوی گورنمنٹ نے بھی توجہ دلائی مگر اس نے کوئی جواب نہیں دیا.جب میں نے دیکھا کہ یہ صورت بھی پیدا ہوتی نظر نہیں آتی تو میں نے یہ ہدایت بھیجوائی کہ سوئٹزرلینڈ کا علاقہ ایسا ہے جہاں لوگوں کی حالت اچھی ہے اور جنگ کی وجہ سے وہاں سیاسی حالات اس قسم کے پیدا نہیں ہوئے کہ نازک صورت ہو اس لئے وہاں بھانے کی کوشش کی جائے.چونکہ پہلے یہ بات تجربہ میں آچکی تھی کہ غیر ممالک کا سکہ مشکل سے ملتا ہے اٹلی کے مبلغ اس وجہ سے سخت تکلیف اُٹھا چکے تھے اس لئے لیکن نے ہدایت کی کہ سوئٹزرلینڈ کا سینہ اتنا یا صل کر لیا جائے کہ کم از کم چھ ماہ گزارا ہو سکے اور پھر سوٹزرلینڈ کو جائیں سپین میں سجانے کا راستہ خدا تعالیٰ نے اس طرح کھول دیا کہ وہاں ایک ہندستانی رہتا تھا اس کے پاس کافی بیگہ تھا اور وہ واپس آنا چاہتا تھا اسے انگریزی سیگہ کی ضرورت تھی اتفاقا وہ ہمارے مبلغین سے ملا اور اس نے کہا اگر تمہیں ضرورت ہو تو میرے پاکس یہاں کے کافی سکتے ہیں انگریزی سیکہ سے تبادلہ کر لیں چنا نچہ تبادلہ کرلیا گیا اور اس طرح
LA پہیوں کے مبلغین کے ایک سال کے خریت کا انتظام ہو گیا.اٹلی کے لئے کوشش کی گئی جس کا نتیجہ نکل چکا ہو گزشتہ مہینوں کا خرچ بھیجنے کی گورنمنٹ نے اجازت نہیں دی تھی اس لئے ہمارے مبلغین کو محنت و مشقت کر کے پیٹ پالنا پڑا مگر اس طرح تبلیغ کا کام اچھی طرح نہ کر سکتے تھے اب انہیں خرچ بھیجنے کا انتظام ہو گیا ہے.اس تلخ تجربہ کی وجہ سے میں نے ہدایت کر دی تھی کہ سوئٹزرلینڈ کے خرچ کا انتظام ہوسکے تو مبلغ جائیں.اب انتظام ہونے پر جرمنی جانے والا وفد سوئٹزر لینڈ چلا گیا ہے اور ایسی جگہ جا کر ٹھرا ہے جو جو منی کی سرحد پر ہے " سے _ شیخ ناصر احمد صاحب نے انچارج احمدیہ مشن سوئٹزرلینڈ کی حیثیت زیور بیح میں احمدی مجاہدین سے ابتدائی چھ ایام کی مختصر رپورٹ در اخا / اکتوبر بروز جمعہ تھے ابتدائی چھ ایام مرکزمیں بھی اس میں تحریر کیا کہ.سوار انحاء بروز اتوار دو پر ایک بچ کر اٹھارہ منٹ کی گاڑی سے ہم تینوں دبرادرم چوہدری عبد اللطیف صاحب - برادرم مولوی غلام احمد بشیر صاحب اور خاکسار نا صراحمد سوئٹزرلینڈ کے شہر زیور پہنچے گاڑی سے اُترنے سے قبل ہم نے خد اتعالیٰ کے حضور دعا کی کہ وہ اپنی خاص قدرتوں اور طاقتوں کے ذریعہ ہمیں کامیاب فرمائے اور ہر قدم پر اس کی تائید اور نصرت ہمارے شامل حال ہو.تاہم اس نہایت ہی عظیم الشان ذمہ داری کو با حسن وجوہ ادا کر سکیں جس کا بار وقف کے گراں قدر فریضہ نے ہمارے کمزور کندھوں پر رکھا ہے پیر زمین سوئٹزرلینڈ پر قدم رکھتے وقت خاموش دعا کی گئی اور نیک فال کے طور پر پہلا کل تبلیغ حق کا اس نئی سر زمین کو مخاطب کر کے منہ سے نکالا کہ خدا ہماری آواز میں برکت رکھ دے اور ہمارا طرز تبلیغ نیک طبائع کی کشش کا موجب بنتے.سامان کی پڑتال کرنے کے بعد ہم ایک ہوٹل میں گئے جس میں ابتدائی تین ایام کے لئے جگہ کا انتظام کیا تھا اسٹیشن اور ہوٹل کے درمیان چند سو گز کا فاصلہ تھا لیکن اس قلیل فاصلہ کے طے کرنے کے دوران میں بے شمار افراد ہمارے گرد جمع ہونا شروع ہوگئے.انہیں ہم اپنی پگڑیوں اور اچکنوں به الفصل ۱۸- اضاء / اكتوبر هه ١٣٣٥ ٢ ص ٣ : در
69 میں عجوبہ نظر آئے.اکثر نے اس لباس میں کسی انسان کو پہلی بار دیکھا ہوگا.لوگ حیرت سے ایک وستر کی طرف دیکھتے کہ یہ کون لوگ ہیں؟ اور کہاں سے آئے ہیں ؟ بعض ہنس دیتے.غرضکہ شہر میں قدم رکھتے ہی ہمیں ایک حیران اور ششدر ریپبلک کا سامنا کرنا پڑا.جوں جوں وقت گزرتا جائے گا عوام کی حیرت کم ہوتی جائے گی لیکن ابھی ان کی حیرت کے بہت سے مواقع ہیں.کچھ وقت ہمیں زبان کی وقت سر کرنے کے لئے در کا ہے ہم اپنے ساتھ دو قسم کے ٹریکٹ جرمن زبان میں طبع کرا کر لائے ہیں جن میں اپنے آنے کی غرض، اسلام کی صداقت حضرت سیح موعو علیہ الصلوۃ واسلام کی تشریف آوری اور قبر شیح کا اعلان وغیرہ امور درج ہیں.ہم ابھی یہ ٹریک تقسیم نہیں کر رہے کیونکہ جب تک ہم ان کی زبان میں تفصیل کے ساتھ بات کرنے اور لٹریچر کی اشاعت کے لازمی نتیجہ کے طور پر پیشیں کئے بجانے والے سوالات کا جرمن زبان میں جواب دینے کے قابل نہ ہو جائیں اس وقت تک ان ٹریکٹوں کی اشاعت سے کما حقہ فائدہ نہیں ہو سکتا.امید ہے کہ انشاء اللہ العزیز جلد ہی ہم اس قابل ہو جائیں گے.وبالله التوفيق...یہاں ایک بڑے بنک کے ایک ڈائریکٹر مسٹر آرنی کے ساتھ ہمارا غائبانہ تعارف ہو چکا تھا جو مکرم چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب کے ایک دوست کے دوست ہیں ہم اگلے روز ان سے ملے بہت خوش خلقی سے پیش آئے ہم نے سب سے پہلے انہیں کیسی مکان کا انتظام کرنے کے لئے کہا کیونکہ اس وقت سب سے بڑی ضرورت ہماری بہی تھی بصورت دیگر یورپ کے اس حصد در ربعہ گراں ملک میں جہاں دنیا بھر سے عموما اور جنگ کے مصیبت زدہ یورپ سے خصوصاً لوگ تفریح کے لئے آتے ہیں ہمارا بہت خرچ ہو رہا ہے.اشیاء یہاں لندن سے بہت مہنگی ہیں.بچائے کی ایک پیالی کی قیمت تقریباً ہر نہیں ہے اور اسی نسبت سے ہوٹلوں اور دوسرے بورڈنگ ہاؤسوں کے کرائے ہیں مسٹر آر ٹی نے بتایا کہ زیورچ میں مکان ملنا بہت دشوار ہے تاہم وہ کوشش کریں گے.ہم ٹامس ملک کے دفتر میں بھی گئے اور وہاں سے کچھ معلومات حاصل کیں اور بعض ضروری امور سر انجام دیئے.دار تاریخ کو برطانوی کونسل جنرل کے دفتر میں جا کر ہم نے اپنے نام رجسٹرڈ کرائے اور اس کے بعد شہر میں پھرتے رہے تا حالات کی واقفیت حاصل کریں...
A ابھی ابھی جبکہ میں رہ سطور لکھ رہا ہوں ہم شہر سے باہر جا کر نماز جمعہ ادا کر کے واپس آئے ہیں.ہم کسی کھلی جگہ کی تلاش میں دُور نکل گئے.پہاڑیوں پرچڑھ کر چلتے چلتے جب کوئی جگہ نہ ملی تو جنگلات کا رخ کیا اور قریباً ہے اگھنٹہ کی تلاش کے بعد گھنے جنگلات میں بلند اور خوبصورت درختوں کے جھنڈے تلے جاکر ہم نے اذان کہی جو اس طور پر پہلی اذان ہو گی کہ نماز جمعہ کے لئے دی گئی.اس کے بعد ہم نے نماز ادا کی اور خدا تعالیٰ کے حضور دعا کی کہ وہ ہمیں اس علاقے میں مسجد تعمیر کرنے کی توفیق دے ہمیں یہ نماز جمعہ ہمیشہ یاد رہے گی.یہ ہماری بے کسی اور ابتدائی کمزور حالت کا نشان ہو گی.اور ہم اپنے خدا سے امید رکھتے ہیں کہ وہ ہماری عاجزانہ دعاؤں کو ضرور قبول فرمائے گا اور ہمیں اپنے اعلیٰ اور مقدس نام کو پھیلانے کی توفیق عطا فرمائی گا ہے مایہ الفاء / اکتوبر ۱۳۳۵ تا آخر کا زمانہ سوئٹزرلینڈ میشن کی داغ بیل کا زمانہ تھا جب کہ ۶۱۹۴۷ ملک میں بے سرو سامانی کے عالم میں نہایت مختصر پیمانہ پر تبلیغی جد وجہد کا آغاز کیا گیا جو بوجہ اجنبی ماحول کے گردوپیش کے حالات کا جائزہ لینے، رہائش کا انتظام کرنے اور غیر زبان سیکھنے اور پرائیویٹ ملاقاتوں میں پیغام حق پہنچانے تک محدود رہی ہے.اس ابتدائی زمانہ میں مبلغین اسلام نے جن لوگوں کو تبلیغ اسلام کی ان میں (اینگلو انڈین سیفیلی، مسٹر ڈین، (ڈنمارک، مسٹر لیبر مین ، مسٹر سٹائل ، مسٹر شیف اکنکٹ مزفلہ کیتھولک پادری شرانہ، مسٹر ایگریمین ، مسٹر برونہ (زیورچ یونیورسٹی کے مشہور پروفیسر اور پروفیسر نارا بھی تھے یہ ان ملاقاتوں کے علاوہ متلقین نے بعض تبلیغی خطوط بھی لکھنے مثلا ز یورک سے باہر سینٹ گالن سے ایک صاحب نے بذریعہ خط معلومات طلب کیں جن کو مفصل مکتوب لکھا ہے ایک روز انہیں یہودیوں کی ایک مجلس میں جانے کا اتفاق ہوا.وہ یہ سنکر حیران و ششدر رہ گئے کہ کیا مسلمان مبلغ بھی اپنا دین پھیلانے کے لئے یہاں آنے کی جسارت کر سکتے ہیں.یہودیوں ہی کو نہیں اکثر سولیس باشندوں کو بالغین اسلام کے آنے کی عرض معلوم کر کے بعد درجہ حیرت ہوتی تھی اور وہ کہتے تھے کہ اسلام دنیا میں کیسے پھیل جائے گا.اس زمانہ میں شیخ ناصر احمد صاحب سے ایک بڑے ڈاکٹرنے کہا کہ ہم دکھی کے کہ کس طرح سوئٹزر لینڈ کے لوگ اسلام کو قبول کر لیتے ہیں.غرضکہ ان ابتدائی ایام میں لوگ احمد می بینی الفضل ۲۶ انفاء / اکتوبر ۱۳۲۵ مرا له الفضل ۱۲ فتح / دسمبر در صفحه ۵۰۴ الفضل ۲۸ شہادت / اپریل ها ۶۱۹۴۷
☑ کی باتیں اکثر ہنسی میں اڑا دیتے تھے اور اس ملک میں اشاعت اسلام کو ناممکن تصور کرتے تھے.میشیح نگری گھر کی آنکھ بھی تیز ہوتی ہے.اگر چہ اُن دنوں احمدیہ سلم ریکٹ قبر میے کی اشاعت اور احمدی میشن اپنی زندگی کے ابتدائی دور سے گند ر ہا تھا مگر مبلغین کو ملک سے بانہ نکالنے کی سہمی سازش کے چرچ نے شروع ہی میں بھانپ لیا کہ سوئٹزرلینڈ سے اُٹھنے والی اسلام کی بظاہر کمزور آواز صلیبی مذہب کے لئے صہیب خطرہ ثابت ہوگی چنانچہ جوانی مجاہدین اسلام نے قبریہ کے ٹریکٹ کی اشاعت شروع کی توجہ چ احمدی مبلغین کو ملک سے باہر نکالنے کی سازشیں کرنے لگا.یہ وقت مجاہدین کے لئے بہت صبر آزما تھا.ذیل میں شیخ ناصر احمد صاحب کے قلم سے اس کی تفصیل درج کی جاتی ہے شیخ صاحب نے ماہ تبلیغ / فروری : 1 : کھار پورٹ میں لکھا وہ ۶۱۹۲۸ گزشتہ سال یہاں قبر مسیح کے اعلان پر مشتمل ٹریکٹ کی اشاعت کے نتیجہ میں مخالفت کا ایک غبار اُٹھا تھا.سخت کلامی سے لبریز خطوط ہمیں آئے.اخبارات میں مضامین ہمارا مضحکہ اُڑانے اورشن کی مخالفت کی مرض سے لکھے گئے.پادری طبقہ بالخصوص بوجہ اپنی نوعیت کے ہمارا مخالف ہوگیا بچنا نچہ ان ہی دنوں کی بات ہے کہ ایک پادری صاحب نے ہماری مالک مکان کو کہلا بھیجا کہ وہ حیران ہے کہ اس نے ہمیں رہنے کے لئے جگہ کیوں دے رکھی ہے.اکتوبر کے شروع میں ہم نے جبکہ برادران غلام احمد بشیر اور چو ہدری عبد الطینی الطبيبة صاحبان ابھی نہیں تھے اپنے ویزا کی توسیع کی درخواست دی.چار ہفتہ کے بعد ہر دو صاحبات ہالینڈ تشریف لے گئے.قریباً چار ماہ تک اس درخواست کا کوئی جواب نہ آیا یہ پیر غیر معمول اور تشویش ناک تھی.گزشتہ ماہ کے آخر میں خاکسار کو کسی ذریعہ سے معلوم ہوا کہ میرے یہاں قیام کی اجازت کا معاملہ چرچ کونسل کے سامنے ہے.اس خبر میں مجھے خطرہ کی سرخی نظر آئی چنانچہ احتیاطی طور پر بعض تدابیر اختیار کیں.۱۲ فروری کو خاکسار ایک کام کے سلسلہ میں پولیس کے دفتر میں گیا وہاں سے معلوم ہوا کہ پولیس نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ میری درخواست کورد کر دیا جائے اور یکم مارچ تک ملک چھوڑ دینے کے احکام مجاری کئے جائیں نادان پولیس مکین نے یہ بھی کہا کہ چونکہ آپ کا مشن پورا ہوگیا ہے اور ایک سال کا عرصہ اس کیلئے کافی ہے اس لئے آپ آپ کو چلے جانا چاہیے.میں نے کہا کہ آپ اپنے عیسائی مشقوں کو بھی له نقل مطابق اصل
مصر وغیرہ ممالک سے واپس بلا لیں.کہنے لگا ہمارے مشنوں اور آپ کے مشنوں میں فرق ہے میں نے کہا بہت اچھا، اور اس کا شکریہ ادا کر کے واپس آگیا.مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ کاغذات تصدیق کے لئے بر آن دارالحکومت بھیجوائے ہوئے ہیں جہاں سے آخری احکام جاری ہوں گے حقیقت یہ ہے کہ اس ملک کے لوگوں میں ایک خاص قسم کی کچی پائی جاتی ہے جو شاید یورپ کے کسی اور ملک میں مفقود ہو.وجہ اس کی یہ ہے کہ بوجہ مخصوص اور معلوم حالات کے یہ ملک ایک رصہ سے جنگوں سے محفوظ رہا ہے اور اس امر نے انہیں ایک بے جا فخر عطا کیا ہے اور یہ سمجھتے لگ گئے ہیں کہ ان کی ذاتی خوبیاں، ان کا حسن تدبیر اور نہ جانے کیا کچھ ان کے امن کی ضمات ہیں لیکن یہ ایک غلط فہمی ہے.ملک کے افراد میں اس غرور کی جھلک نمایاں ہے اور انانیت کے جذبہ کو ان کی اس حالت نے بہت تقویت دی ہے.چنانچہ یہ لوگ اپنی انفرادی مرضی کے خلاف کوئی بات سننے کو تیار نہیں اور ہمچو با دیگر نے نیست کا راگ الاپتے ہیں.دوسری بات اس سلسلہ میں یہ ہے کہ یہاں کی پولیس جو غیر ملکوں سے متعلق ہے اس کے اختیارات بہت وسیع ہیں کیونکہ ان کا صیغہ ہوم ڈیپارٹمنٹ کے ماتحت نہیں اس لئے یہ لوگ من مانی کارروائیاں کرتے ہیں.اور غیر ملکیوں کے لئے قوانین بھی سخت ہیں.معلوم ہوا ہے کہ بسا اوقات پولیس نے اپنے اس رویہ کے باعث غیر ملکیوں کو خواہ مخواہ تکلیف پہنچائی ان پر اور تو کسی شعبہ حکومت کا اقتدار نہیں اس لئے انجام کا رفیڈرل کورٹ میں جا کر پولیس کے خلاف فیصلہ ہوا اور بیچارے غیر ملکیوں کے حقوق کی حفاظت ہوئی ہیں نے محسوس کیا کہ پولیس کے چھوٹے بڑے میں میرے خلاف مخالفت کی آگ لگی ہوئی ہے.اسی تنگ دلی اور کم ظرفی سے یہاں کے چرچ کو خاطر خواہ حصہ ملا ہے.وہ جنہوں نے صدیوں تک اپنے جھوٹے عقائد کے خلاف کوئی زبان ہلتی اور کوئی قلم چلتی نہ دیکھی تھی آج یہ کیا ہوا کہ اچانک ان کے " ایمان" کی جڑوں پر تب رکھ دیا گیا اور شیخ کے سپاہی قلم و زبان سے باطل کا بطلان کرنے لگے.ان کے نزدیک تو ہمارا ایک سال کا عرصہ ہی ہمارے مشن کی تکمیل کے لئے کافی ہے.وہ لوگ جن کے دلوں میں عیسی کی چھوٹی خُدائی کا بت ہے وہ کب برداشت کر سکتے ہیں کہ کوئی اس بت کو توڑے.نہ صرف توڑے بلکہ بے دردی سے
۸۳ توڑے بہم محمود کے سپاہی بفضل خدا اس سومنات کے ثبت کو توڑیں گے، توڑیں گے.اے خدا؟ ہمارے سہتھوڑے کو بھاری اور اس کی ضرب کو کاری بنا.آمین.اس سلسلہ میں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ پولیس والوں نے اپنی پوزیشن کو بیرونی دنیا کی نظروں میں محفوظ بنانے کے لئے ایک جعلی عذر کی آڑ لی اور کہا کہ چونکہ مرکز احمدیت اب میشن کے اخراجات برداشت نہیں کہ سکتا اسلئے آپ یہاں ٹھر نہیں سکتے.اب یہ تو مستقبل بتائے گا کہ ہم ان کے اس باطل منذر کوکس طرح باطل ثابت کریں گے اور پولیس کو اس آخری دلیل کا سہارا بھی نہ ملے گا.انشاء اللہ العزیز.تاہم خاکسار اس امداد کو ریکارڈ کرنا چاہتا ہے جو اس نازک وقت میں ہماری کو احمدی بہن محترمہ محمودہ کی طرف سے ملی.ان ایام میں ایک رقم کی ضرورت تھی جسے بطور ثبوت کے پیش کیا جا سکتا ( بوقت ضرورت کہ سلسلہ ہمارے اخراجات کا کفیل ہے محترم محمودہ نے کہا کہ ان کے پاس تین کندہ فرینک کی ایک رقم ٹیکس کی ادائیگی کے لئے موجود ہے میں کی فی الحال ضرورت نہیں چنانچہ یہ رقم لے کر اپنے نام پر بنک میں جمع کرادی گئی تا ہمارا کی مضبوط ہو جائے.اس رقم کے ساتھ مریم محمودہ نے لکھا.خدا آپ کی مدد کرے، خدا با لخصوص ایس موقعہ پر آپ کے ساتھ ہو یا اے مفسلسلہ سوئٹزرلینڈ میں اشاعت اسلام کا با قاعدہ کام مرد تبلیغی اجلاسوں کا نہایت مفید سلسلہ سے شروع ہوا جبکہ شیخ ناصر احمد صاحب نے تبلیغی اجلاسوں کا سلسلہ جاری کیا.اس ضمن میں پہلا اجلاس صلح جنوری ها کو ایک ہوٹل کے کمرہ میں ۶۱۹۴۸ منعقد کیا گیا.گو اس پہلے اجلاس کی حاضری تو بہت کم تھی مگر اس نئے تجربہ نے ملک میں تبلیغ کا ایک نیا رستہ کھول دیا ی حلقہ واقفیت میں وسعت پیدا ہوتی گئی اور اسلام میں لچسپی لینے والوں کی تعداد بھی ه الفضل در امان ماریچ هم به نه ملک عطاء الرحمن صاحب مجاهد فرانس کوه رفت / دسمبر بہ الله کے اجلاس میں شمولیت کا موقع ملا تو وہ اس کی کا میابی کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور لکھا " اجلاس بفضلہ تعالیٰ خوب کامیاب تھا مغربی ممالک کی مذہب سے بے رغبتی اور اسلام سے تعصب کے پیش نظر حاضری غیر معمولی تھی الفضل در تبلیغ فروری ه ۳ ص) ان اجلاسوں کے لئے دعوت نامے بھیجوانے کے علاوہ اخبارات میں اعلان شائع کئے جاتے تھے.اجلاس میں ۱۹۴۹ بالعموم پہلے شیخ ناصر حمد صاحب کسی اہم موضوع پر خطاب فرماتے پھر حاضرین کو سوالات کے ذریعہ اسلام سے متعلق مزد معلوتا حاصل کرنے کا موقع دیا جاتا بعض اجلاسوں میں اسلامی لٹریچر بھی تقسیم کیا گیا.سال میں ایک بار دیگر مذاہب کے نمائندوں کو البقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر
M بڑھنے لگی.ابتدا میں یہ اجلاس زیورچ میں کئے جاتے تھے مگر بعد ازاں برن ، بازل، باؤں، ونڈ تیمور ، سینٹ گالن ، شاف ہاؤزن میں بھی ان کا انعقاد عمل میں لایا گیا اور ہر مقام پر کامیاب رہے اور ان سے تبلیغ و اشاعت اسلام کی ہم کو تیز کرنے میں بھاری مرد ملی.جو منی میں ابھی مستقل میشن کا قیام عمل میں نہیں آیا تھا کہ خط و سوئٹرز لینڈ مشن کے ذریعہ کتابت کے ذرید کم و بیش بین افراد پرمشتمل ایک جماعت جرمنی میں اشاعت اسلام) قائم ہو چکی تھی جس کی دیکھ بھال کے لئے شیخ نا صراح صاحب کنٹرول کمشن جرمنی سے اجازت لے کر گا ہے گا ہے تشریف لے جاتے رہے ہے اس دوران میں آپ کو جو منی میں اشاعت اسلام کے متعدد مواقع میسر آئے بلکہ ایک بار تو ہمبرگ ریڈیو نے آپ کی ایک تقریر یعنی نشر کی، تقریر کا موضوع تھا یورپی ممالک میری نظر میں: اس تقریر کے بعض اقتباسات درج ذیل کئے جاتے ہیں تا معلوم ہو سکے کہ مجاہدین احمدیت مغربی دنیا کو کس جذبہ اور قوت و شوکت سے خدائے واحد ویگانہ کا پیغام پہنچاتے ہیں :- آج یورپ خستہ حالی میں ہے.جرمنی میں جو تباہی اور ہولناک بر بادی نظر آرہی ہے وہ یور میں اقوام کی معروف محنت و قابلیت کی متناقض ہے.اس صورت حالات کی اس قوت استعماری سے مطابقت دکھلانا مشکل ہے جس کی بدولت یورپ کو صنعتی ترقی حاصل ہوئی.یکں اپنے نفس سے یہ سوال کرتا ہوں کہ یورپ کی صنعت و سائنس کس کام کی اگر اس کے نتیجہ میں پائدار امن حاصل نہیں ہوا ؟ اس میں سائنس کا قصور نہیں، ہم اسے ملزم نہیں کر سکتے.بنیادی طور پر کہیں کوئی نقص ہے.یورپ نے مادی ترقی کو ایک خوشحال سوسائٹی کی بنیاد سمجھا.آج یورپ مادیت میں اس قدر مستغرق ہو چکا ہے کہ روح کی طرف توجہ کرنے کا وقت ہی نہیں ملتا...روحانی دائرہ میں میں یورپ کو بہت قلاش پاتا ہوں.اس موقع پر مجھے خدا کے رسول محمد صلے اللہ علیہ وسلم کا ایک قول یاد آ گیا ہے جو آپ نے کئی صدیاں پیشتر فرمایا کہ حاشیه صفحه گزشتہ بھی ایک پلیٹ فارم اور ایک ہی موضوع پر بولنے کی دعوت دی جاتی تھی تا لوگ اسلام اور دیگر مذاہب کا باآسانی تقابلی مطالعہ کر سکیں.(الفضل ، ظهور/ اگست ۳۶ ۳ ) : عاشی تعلقه صفحه هذا الفضل، ظور / اگست ۳۲ مٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ مندرجہ بالا مقامات میں اس کا تبلیغی 71982 FINDA اجلاس منعقد کئے جاچکے تھے : سے چوہدری عبداللطیف صاحب انچارچ مبلغ جرمنی مشن کے خوب مورہ اور محبت سرمئی مار سے ماخونه
۸۵ ایک شخص نمودار ہو گا جو بہت جھوٹ بولے گا اور ایک آنکھ سے کانا ہو گا.کیا اس سے یہ معلوم نہیں.وہ ہوتا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یورپ میں مادیت کے ظہور کو قبل از وقت بھانپ لیا تھا.مادیت جواب نخستگی اور بدحالی کے عالم میں ٹھوکریں کھاتی ہے کیونکہ ایک آنکھ سے کافی ہے.اور روح کی دات نظر نہیں کرتی مغرب کے خلاف یہ کوئی تو این آمیز کلمہ نہیں جب یہ کہا جائے کہ یورپ کی ایک آنکھ تو تیز اور صاف دیکھتی ہے لیکن دوسری ظلمت سے نور کو شناخت نہیں کر سکتی.کیا یہ تعجب انگیز امر ہیں کہ مغربی اقوام نے پہاڑوں کی بلندیاں اور سمندروں کی گہرائیاں تو سر کرلیں پر نہ بجھیں تو اپنے نفس کو.وہ ہر حادثہ کا سبب تلاش کرتے ہیں اور واقعات کو سائنس کی تحقیقات کی روشنی میں دیکھنا پسند کرتے ہیں تحقیق کے اس جنوں کو برا قرار نہ دیا جاتا اگر زندگی کے دوسرے پہلو کی جستجو بھی اسی جوش و خروش سے ہوتی.یہ لوگ اگر سمندروں کی گہرائیوں سے موتی نکال لاتے ہیں تو اُن کے لئے خدا کی تلاش کیوں ممکن نہیں ؟...انسان کو اب نئے میرے سے کوشش کرنی چاہئیے اور ایک نئی بنیاد پر اگر اتحاد عالم کی کو ئی بنیا دیل سکے تو سب اقوام کی یہ خوش قسمتی ہو گی.ہاں یہ بناء محض اسی صورت میں قابل اعتماد ہوسکتی ہے جب یہ انسانی دماغ کی اختراع نہ ہو بلکہ آسمانی الهام پر مبنی ہو...انسان پر بوجہ آزاد ہونے کے بھاری ذمہ داری یہ ہے کہ اپنے آپ کو انسان ثابت کرے صنعت، سائنس اور تمدن تبھی مفید ہیں اگر ہم اپنی خواہشات کو صحیح راستوں پر چھلائیں.یہ چیز ہے جس کی مغربی ممالک کو بالخصوص ضرورت ہے.میں دوہراتا ہوں کہ ہم پاکستانی ماوتیت کے عالم میں یورپ کو قطعاً حقیر نہیں جانتے.ہمارے لئے مایوس ہونے کی بھی کوئی وجہ نہیں.ایک مومن بہت نہیں ہارسکتا، وہ اس یقین کی چٹان پر قائم ہے کہ خدا ہماری مدد کرے گا.خدا صرف ہندوستانیوں یا مصریوں ہی کا خدا نہیں، وہ یورپ کا بھی خدا ہے ہم خواہ اسے چھوڑ دیں لیکن وہ ہمیں ترک نہیں کرتا.وہ صرف ہم سے یہ چاہتا ہے کہ ہم اس کے فرمانبردار رہیں جونہی انسانیت خدا کی طرف جھکے گی اس کی سب مشکلات خود نخود رفع ہو جائیں گی.شاید یورپ اِس میدان میں بھی ایک مثال قائم کر سکتا ہے.اگر یورپ پہنچے خدا کی تلاش
۸۶ اسی جوش محنت اور توجہ سے شروع کر دے جس محنت اور جوش اور توجہ سے وہ دوسرے امور کی جستجو کرتا ہے اور دیگر سب اقوام کے لئے بھی راہبر بن جائے گا یہ (ترجمہ) نجام سوئٹزرلینڈ شیخ ناصر احمد صاحب کی ان تھک تبلیغی ابتدائی دور میں قبول اسلام و احمدیت مسائل اور ایمان و ار کوششوں کے عمل بتائی میری کرنے والے خوش نصیب کے آغاز میں رونما ہونے لگے چنانچہ ۱۲- ما صلح / جنوری کو اس ملک کی پہلی روح نے قبول اسلام کیا اور اس کا نام حمودہ رکھا گیایہ محمودہ کے بعد شیخ صحاب کے ذریعہ سے جو خوش نصیب حلقہ بگوش اسلام و احمدیت ہوئے ان میں سے جن کے نام یہ ہیں :- (۱) پی ہے.ایف کے (۲) عبد الرحمن المحمدی بن کوپی (۳) ہر ایرک و ٹیسٹائن ERICH WETISTEIN) (HERR (اسلامی نام حمید رکھا گیا) ۳ (۴) محمد المعیل ابراہیم راشد مصری که (۵) ہر کارل کمیٹٹ (WERR CARL SCH MIDT ) ( اسلامی نام عبدالرشید رکھا گیا ہے (۶) ہر ( MERA AUGUST BARDER ) ( اسلامی نام بشیر رکھا گیا ہے ) ہر ایٹ ڈر اگسٹ بارڈر دو کے ٹیری (HERR ANDRE BIT21) (اسلامی نام سعید رکھا گیا ) (۸) ہر ہیروزئیر HERR) (NARRO ZEIER (اسلامی نام امین رکھا گیا ہشت (۹) کمال فولما شه الفضل ۱۳ ہجرت مئی مت سے یہ ایک کیتھولک عقیدہ رکھنے والی جرمن نژاد خاتون تھیں جن کا ه پیدائشی نام فراؤ والی ولدہ پر تھا.ابتداء میں ان کے سوس خاوند نے ان کے اسلامی رحمان کو پسند نہ کیا لیکن یہ امران کے شوقی میں کمی کا باعث نہ بن سکا شیخ صاحب موصوف کی متعدد مواقع پر لی گفتگوؤں اور خطوط کے ذریعہ تبلیغ کے بعد اُن کے دل میں انشراح پیدا ہوا اور بیعت فارم پُر کرنے کے ساتھ ہی فی الفور منوعات کا استعمال ترک کر دیا اور بذریعہ خط اس عزم کا اظہار کیا کہ آپ کی بھی بہاؤ کے خلاف تیرنے کی کوشش کروں گی " (الفضل ۲۵ تبلیغ فروری ام الفضل در امان مارچ ، الفضل ۸ در امان / مارچ ها من له الفضل ۱۲ شهادت / اپریل هه م و ۱۳۴۷ رصد 11400 ه الفصل ۲۴- احسان جون هم که من به من له الفضل ۷ از ظهور/ اگست من به که الفضل ها ۱۹۵۰ $1409 شهادت را پریل و مد کے چوہدری مشتاق احمدصاحب با جوه د موجوده انچارج سوئٹزر لینڈ مشن کمال فولمار شه مرحوم کے حالات زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں :.سوئٹزرلینڈ کے دارالحکومت ہرن کی یونیورسٹی میں ان کے والد صاحب قانون کے پر وفیسر تھے.مرحوم کو ان کے مضمون سے شعف پیدا نہ ہوا رفتی، تجارتی تعلیم حاصل کی اور پھر زرگی انجینئر نگ میں لگ گئے تعلیم کی تکمیل کے بعد کچھ عرصہ ٹریکٹروں کی فرم میں ملازم ہوگئے اور مسلمان ملکوں خصوصا مراکش اور ترکی میں اس د بقیه حاشیہ انگلے صفحہ پر
اشاعت اسلام کی مہم کو چلانے کے لئے چونکہ لسانی جہاد کے ساتھ قلمی رسالہ الاسلام کا اجراء جہاد بھی ضروری تھا اس لئے شیخ صاحب موصوف نے ایک مخلص اور اس کی مقبولیت احمدی محمد راشد صاحب مصری کے مالی تعاون سے ایک سائیکلو ٹائل بقیہ عائشہ صفحہ گزشتہ :- فرم کی نمائندگی کے سلسلہ میں جاتے رہے اور اس طرح اسلام میں دلچسپی پیدا ہوگئی مجھے باقی ممالک کا تو علم نہیں لیکن یورپ کے ممالک میں خاصی تعداد ان احمدیوں کی ہے جو مختلف ملکوں میں گھومتے رہے ہیں.یہ بھی ایک طیوری صفت ہے.اللہ کی تقدیر اس طرح ان میں وسعت نظر پیدا کر دیتی ہے اور ان کو ایک نئے ماحول سے قدرے مانوس کر دیتی ہے اور ان کے لئے صداقت کی شناخت میں سہولت پیدا کر دیتی ہے.اللہ تعالیٰ جو خدمت مرحوم سے لینا چاہتا تھا.اس کے لئے مزید تربیت کی ضرورت تھی.ان کی شادی جرمن میں ایسے باپ کی بیٹی سے ہوئی جو اخبار نویس تھا اور وہ خود اخبار ایڈٹ کرنے لگے جنگ کے بعد وہ سوئٹزرلینڈ آگئے اور ایک فارم خرید لیا.زمینی بارہ اور صحافت ان کا شغل ہوگیا ی شار میں (جبکہ برادرم شیخ ناصر احمد صاحب یہاں مبلغ انچارج تھے) کا واقعہ ہے کہ ان کی ہمشیرہ نے جو معلمہ ہیں اپنے ایک مضمون " اسلام میں عورت کی حیثیت کی تیاری کے سلسلہ میں ان سے قرآن کریم کے حوالہ جات میں مدد چاہتی.ان کے پاس اس وقت قرآن کریم کا کوئی نسخہ موجود نہ تھا، انہیں مشن کا پتہ کسی اخبار سے مل گیا اور انہوں نے نشن سے قرآن کریمہ طلب کیا.اس طرح مشن سے رابطہ پیدا ہوا اور کار دسمبر 9ار کو انہوں نے بیعت کر لی ، الحمدلله برادرم فولمانہ ہماری ہر مجلس کی زینت ہوتے.میرے بار بار کہنے پر بیوی بچوں کو بھی ہمراہ لانا شروع کر دیا.ایک دفعہ ہم نے گھر میں ان کے بیوی بچوں کو مدعو کیا.برادرم فولمار مرحوم نے مجھے کہا کہ اس سفر نے سینکڑوں صفحات کے مطالعہ سے زیادہ کام دیا.ایک موقعہ پر عربوں کی حمایت میں اجلاس تھا مقصود یہ تھا کہ حالات بتائے جائیں اور چندہ کی اپیل کی جائے.برادرم کمال فولار کو بلایا مگرنہ آئے.بعد میں مجھے بتایا کہ انہیں عربوں پر ظلم وستم کا اس قدر رہتی ہے کہ انہیں ڈر تھا کہ وہ اپنے پر ضبط نہ رکھ سکیں گے اس لئے نہ آئے.میں جب سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز تشریف لائے تو انہیں جماعت کی طرف سے حضور کی خدمت میں ایڈریس پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی حضور جب اس موقعہ پر ان سے ملے اور معلوم ہوا کہ وہ کینسر سے بیمار ہیں تو فرمایا میں آپ کے لئے ایک بوٹی بھیج دوں گا و استعمال کیجئے.چنانچہ حضور نے بوٹی بھجوائی برادرم کمال مرحوم نے جذبات تشکر کے ساتھ اس کا استعمال شروع کیا اور بتایا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت فائدہ ہوا.معلوم نہیں اللہ تعالٰی نے بوٹی میں کچھ تاثیر رکھی ہے یا کوٹی بھیجوانے والے کی دعا کی تاثیر تھی صحت پر بڑا اچھا اثر پڑا.برادرم مرحوم نے چاہا کہ وہ ہدایت کے مطابق استعمال کرتے ہی رہیں.محترم صاجزادہ مرزا مبارک احمد صاحب بعد میں بھجواتے رہے.اور آخری بار تو انہوں نے اٹھی دو سو خو راکین بھجوائیں وہ ختم نہ کر پائے تھے کہ مرحوم ان کی ضرورت سے بے نیاز ہو گئے.ربقیہ حاشیہ انگلے صفحہ پر
AA مشین کا انتظام کر کے ما وافاد / اکتوبر سے DER ISLAM" (الاسلام) نامی ایک ماہوار رسالہ جاری کیا.اس رسالہ کا پہلا پرچہ تین اور ان پرمشتمل تھا جس میں اسلام کی تعلیم ، قرآن کریم ، احادیث النبی اور ملفوظات حضرت مسیح موعود کے اقتباسات درج تھے کہ یہ رسالہ جس کی ابتداء نہایت سادہ اور منتصر صورت میں ہوئی اپنے اثر و نفوذ میں بہت جلد ترقی کر گیا اور اس کے علمی اور مدلل مضامین اسلام سے لچسپی لینے والے حلقہ میں نمایاں اضافہ کا موجب ہوئے "DER ISLAM" (الاسلام) نے سوئٹزرلینڈ کے پڑھے لکھے طبقہ پر کتنا گرا اثر ڈالا ؟ اس کا اندازہ لگانے کے لئے بعض سوئیں لوگوں کی آزاد کا ملف العد کافی ہو گا :- ا.ایک شخص نے لکھا :- آپ کے رسالہ" اسلام" کا دسمبر کا ایشوع میرے لئے ایک نہ بولنے والی یادگار بن کر رہ گیا ہے.اس رسالہ کے ذریعہ آپ مسلمانوں کے خلاف غلط فہمیوں اور تعصبات کے پہاڑ کو اُٹھا رہے ہیں..ایک صاحب نے اپنی رائے یہ دی کہ : " مجھے بغداد میں تین سال بطور پروفیسر رہنے کا موقعہ ملا.رسالہ " اسلام" ہر بار میرے لئے وہاں کی خوش گوار یاد کو تازہ کر دیتا ہے.۳.پرچہ کا باقاعدگی سے مطالعہ کرنے والے ایک دوست نے خط لکھا کہ :.مجھے تین سال سے رسالہ" اسلام" کا مطالعہ کرنے کا موقعہ ملتا ہے.اس کے مضامین میرے لئے حد درجہ ڈچسپ اور امید افزاء ہیں.ان سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ہاں کی ناہی اور فرقو دارا بقیہ حاشیه صفحه گذشته برادرم فولما طویل القامت اگر انڈیل، بارعب انسان تھے.میں نے جب بھی پوچھا کیا حال ہے الحملہ کہا خطوط میں بھی الحمد لری لکھتے لیکن کینسر کی مرض ختم نہ ہوئی تھی.اللہ تعالی کے فضل سے حضور کی دعاؤں اور حضور کی محبت سے تجویز فرمائی ہوئی بوٹی سے تو ان کی حالت کچھ بہتر رہی مگر پھر کینسر کے زخم سے خون بہنا مشروع ہو گیا مسنر و مارکو اہلیہ ام نے ہفتہ عشرہ کے لئے اپنے ہاں مدعو کیا تا وہ اس ماحول میں کچھ عرصہ روہ کہ اسلام کا مطالعہ کرسکیں.اس دوران میں مسر قولمار نے زور دیا کہ اس کے شوہر کو ضرور ہسپتال جانا چاہیئے.میرے اصرار پر وہ آمادہ ہو گئے مگر افسوس ہے کہ کوئی صلاح انکی زندگی کو بہانہ کر اللہ کو پیارے ہوگئے یہ ا ل ل ر تی وی را میری حاشیہ متعلقہ صفحہ ہذا : له الفضل در خاور اکتوبر ۲۲۰ نبوت / نومبر - الاسلام کا پہلا نسخہ اقبال احمد خاں صاب 109- ایم ایس سی اسکالر فضل عمر انسٹی ٹیوٹ) نے جو ان دنوں انگلستان میں تھے دو پونڈ میں خریدا افضل ۲ نبوت / نومبر
٨٩ جماعتوں کی طرف سے اسلام کے خلاف کس قدر خطرناک غلط باتیں پھیلائی جاتی ہیں ؛ وقت آگیا ہے کہ ایک بار اس بڑے مذہب پر پیچ روشنی ڈالی جائے اور اس کی تعلیم کو صحیح وضاحت کے ساتھ پیش کیا جائے " قارئین الاسلام میں سے ایک کا تاثر یہ تھا کہ: اگر چہ رسالہ اسلام ہر نوع کے لوگوں کے مذاق کے مطابق تیار کیا جاتا ہے تاہم میرے لئے یہ پرچہ ہر ماہ خاص رنگ میں تسلی بخش مواد لاتا ہے.اس کے ذریعہ نہ صرف اسلامی تاریخ اور اسلامی تعلیمات کو خاطر خواہ رنگ میں پیش کیا جاتا ہے بلکہ ایک مسلمان کے طرز خیال اور اسکے فلسفہ حیات پر بھی روشنی ڈالی جاتی ہے.یہ ہے -۵- ایک اور صاحب نے اپنے تاثرات مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کئے کہ :.رسالہ اسلام کا جوبلی نمبر شائع کرنے پر میں دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں.بخدا تعالیٰ آپ کے کام میں مستقبل میں بھی برکت ڈالے.کام کے دوران میں آپ کو بہت سے مواقع خوشی کے اور بہت سے مواقع مایوسی کے بھی آئے ہوں گے تاہم آپ اس امر پر یقینا خوش ہو سکتے ہیں کہ آپ کو متعدد مقامات پر اسلام کے خلاف بالکل بے بنیاد اور غلط باتوں کی تردید کی توفیق ملی.میں اس امر کا اندازہ بخوبی لگا سکتا ہوں کہ آپ کا کام آسان نہیں.وہ متعصب نظریات جو صدیوں سے پہلے آتے ہیں وہ ایک دن میں دُور نہیں کئے جا سکتے.یہ بہت صبر....چاہتا ہے کیونکہ بہت سی طاقتیں محض اس کام پر لگی ہوئی ہیں تا لوگوں کے سامنے اسلام کو ممکن ترین بھنڈی شکل میں پیش کیا جائے.مثال کے طور پر اکثر ایسے مضامین پڑھنے میں آتے ہیں جن میں لکھا ہوتا ہے کہ محمد اگر چہ مذہبی آدمی تھے تاہم آپ دنعوذ باشد بہت چالاک تھے.حیرت ہے کہ یہ باتیں ایک ایسے شخص کے متعلق کہی جاتی ہیں جس کے متعلق اس کی بیوی (جو اسے یقینا سب سے زیادہ جانتی تھی، یہ شہادت دیتی ہے کہ آپ کی زندگی آپ کی تعلیم کے مطابق اور آپ کی تعلیم آپ کی زندگی کے مطابق تھی سے 4.ایک صاحب نے لکھا:.له الفضل ۲۷ و فار جولائی راحت له الفضل به صلح جنوری ها وفار ها ۲۹ /
میں رسالہ اسلام کے نئے پرچہ کا ہر فعہ شوق سے انتظار کرتا ہوں.آپ کا یہ رسالہ مہینہ میں دو بار بلکہ ہر مہفتہ شائع ہونا چاہیے تا اسلام مقدس کے خلاف یورپین پر یس کے ذریعہ پھیلا ہے جانے والی غلط فہمیوں اور تعصبات کا جواب دیا جا سکے یہ ے.ڈنمارک سے ایک شخص نے لکھا کہ :.تحریک احمدیت پر شائع ہونے والے سلسلہ مضامین کو پڑھ کہ انہیں حضرت مرزا صاحب کی صداقت کا یقین ہو گیا ہے.آپ محض محدث نہ تھے.اور خلافت اسلامی تعلیم، احادیث اور بانی سلسلہ احمدیہ کی تحریرات کے مطابق صراط مستقیم ہے یا لے.ایک سولہ سالہ نوجوان نے لکھا:.اسلام سے مجھے پسی ہے کیونکہ یہ ایک اہم عالمگیر مذہب ہے.ان ممالک میں اسلام کو لوگ نہیں جانتے بلکہ بہت سی غلط فہمیوں میں مبتلا ہیں.جماعت احمدیہ اسلام کی بہت خدمت کر رہی ہے.یہ جماعت اسلام کی عزت کو دوبارہ قائم کرتی ہے.آپ کی کوششوں کا بہت بہت شکریہ سوئٹزرلینڈ کی نوجوانی سرگرم عمل جماعت احمدیہ کو میرے ولی جذبات پہنچا دیں یہ لوگ ہر احترام کے اہل ہیں ہمیں ان کی قدر کرنی چاہیے یا تے ایک اتنی سالہ شخص نے مندرجہ ذیل خیالات کا اظہار کیا :- اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ مجھے رسالہ اسلام کے ذریعہ معرفت الہی کا علم ہوا.خدا تعالیٰ کے قوانین کے بارے میں پڑھا.ہاں خدائی قانون نہ کہ انسانی اپنی یہ کوشش جاری رکھئے تا اس تاریکی کے زمانہ میں خدائی نور کا حلوہ قائم رہے.میری زندگی میں آپ پہلے شخص ہیں جو خدائی مصداقت کو جانتے ہیں.آپ کے پاس خدائی نور ہے اور خدا تعالیٰ کی معرفت ہے اور آپ اس روشنی کو تاریکی کے در میان روشن کرنا چاہتے ہیں.یہ تاریکی بہیت میں ہے اور تاریک انسانی ارواح میں اس روشنی کو بلانے کے لئے آپ کی جرات کے باعث خاموش طور پر آپ کو شاباش کہتا ہوں کہیے رسالہ الاسلام" نہایت با قاعدگی کے ساتھ بلا ناغہ پہلے چھ سال سائیکلوسٹائل کر کے نکلا کرتا تھا یہ صاحب بعد میں حلقہ بگوشین احمدیت ہو گئے ، له الفضل ۲۹ رو فار جولائی سن الفضل ۳۰ ثبوت لو برهم لوبر
41 پھر پولیس میں چھپنے لگا شروع میں اسے اگر چہ سوئٹزرلینڈ کے مخصوص حالات و کوائف کو پیش نظر رکھ کر ہی مرتب کیا جاتا تھا اور زیادہ تر اسی میں اشاعت پذیر ہوتا تھا مگر جوں جوں تبلیغی دنیا میں اس کی اہمیت و ضرورت پڑھتی گئی اور اس کے مندرجات و مضامین میں خاص تنوع اور محققانہ رنگ نمایاں ہوتا گیا تو اسے سویڈن ڈنمارک، ناروے، آسٹریا، جرمنی، ہالینڈ، فرانس، مشرقی جرمنی، انگلستان، اسپین ، یوگوسلاویہ، پولینڈ لڑکی فلسطین، مصر، افریقہ کے ممالک، شمالی امریکہ ، کینیڈا، انڈو نیشیا ، پاکستان میں بھی بھیجوایا جانے لگا.یہ ماہنامہ اب تک نہایت با قاعدگی اور اہتمام کے ساتھ جاری ہے اور اس کی ادارت کے فرائض مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ مجاہد اسلام سوئٹزرلینڈ، مکرم مسعود احمد صاحب ایم.اے اور ڈاکٹر ایم.اے.اپنے بچوسی (51 M.A-H.CHUS ) بجالا رہے ہیں.تبلیغی ٹریوں اور جرمن ترجمہ قرآن با شب برای دو روی زبان کے پلیٹو نے جو جاہ میں ان جرمن مجاہدین اسلام لنڈن سے چھپوا کر لائے تھے سوئٹزرلینڈ کے کی اشاعت اور اس کے وسیع اثرات باشندوں میں میں اسلامی خیالات و افکار کا پیلا جی صحیح بو دیا تھا مگر خدا کے فضل اور اس کی توفیق سے اس بیج کے بڑھانے اور بالآخر ایک ایسے تناور درخت کی شکل دینے کے لئے جس کی دور دور تک پھیلی ہوئی شاخوں پر حق جوئی کے پر ندسے آرام کر سکیں ایک نهایت بلند پایہ علمی اور وسیع لٹریچر درکار تھا یہی وجہ ہے کہ شیخ ناصر احمد صاحب نے جرمن زبان پر عبور حاصل کرتے ہی جرمن لٹریچر کی طرف اپنی پوری توجہ مبذول کر دی اور سب سے پہلے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت ، مقام، اعلان بریشی، کرسمس اور سال نو کے پیغامات پرشتمل چار ٹریک کے مشن کی طرف سے چھپوا کر ملک میں تقسیم کئے نیز ان اخبارات و رسائل کو بھجوائے جن میں احمدیہ مسلم میشن سوئٹزرلینڈ کی نسبت مضامین شائع ہوئے تھے اور جن کی تعداد با وان تھی کہ ان ٹریکٹیوں کے بعد آپ نے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ پر ایک کتا بچہ بھی شائع کیا اور زیورک کے له الفضل الوار شهادت اپریل انی له لا له الفضل ، در تبلیغ فروری همت / موخر الذکر ٹریکٹ کا نام "ندائے آسمانی تھا جس میں حضرت مسیح موعود کی تحریرات سے چھ مختلف اقتباسات جمع کئے گئے تھے.یہ ٹریکٹ بذریعہ ڈاک ممتاز شخصیتوں کو بھجوایا گیا.اس ٹریکٹ کے اخراجات کا بڑا حصہ چوہدری ظهور احمد صاحب با جوه تبلیغ انگلستان نے اپنے دادا مرحوم کی رُوح کو ثواب پہنچانے کے لئے ادا کئے.(الفضل ۲۱ صلح جنوری الفضل و صلح ر جنوری ما /
۹۲ علاوہ لوز آن اور بر آن نیز دوسرے مقامات پر بھی اس کی اشاعت کی.علاوہ ازیں فلسطین، شمالی امریکہ اور ہالینڈ کے احمدی مشنوں کو بھی بھجوایا کیونکہ ان ممالک میں بھی جرمن زبان بولنے والے لوگ بستے ہیں لیے اس کتابچہ کا نام محمد تھا.سوئٹزرلینڈ کے ایک اخبار نے اس پر حسب ذیل الفاظ میں تبصرہ کیا :- اسلام حملہ آور ہوتا ہے ! ہم عیسائی کیا کہ رہے ہیں ؟ یہ ایک لیکچر کا عنوان تھا جسے شنے کے لئے خاکسار گیا.مقرر نے حاضرین کو بتایا کہ اسلام یہاں بھی پھیلایا جا رہا ہے کہ جو من لٹریچر کے ضمن میں سب سے اہم قدم جو شیخ ناصر احمد صاحب نے اُٹھایا وہ یہ تھا کہ آپ نے جرمنی ترجمہ قرآن کے اس مسودہ پر جو حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کی زیر نگرانی انگلستان میں الله ۶۱۹۵۴ تیار ہوا تھا سالہا سال تک اس پر کمال محنت و جانفشانی سے نظر ثانی کی اور م ارتبلیغ / فروری کو اس نظرثانی کی ار اس کی طباعت مکمل ہوئی اور DER HEILSE QURAN کے نام سے اسے شائع کر دیا گیا.یہ پلا ترجمہ قرآن تھا جو جماعت احمدیہ کی طرف سے جنگ عظیم دوم کے بعد یورپ کی کسی زبان میں چھپا اور خدا تعالے کے فضل و کرم سے بہت مقبول ہوا اور بہت بیلد نایاب ہو گیا جس پر شیخ صاحب نے تفسیر صغیر کی روشنی میں دوبارہ نظر ڈالی اوریہ ترمیم شدہ ترجمہ بھی نہایت مفید اصلاحات و ترمیمات کے ساتھ اور نہایت دیدہ زیب اور نفیس شکل میں ماہ نبوت ر نومبر میں منظرعام پر آ گیا جناب شیخ ناصر اصر صاحب اس ترجمہ کی خصوصیات اور طباعت سے متعلق بعض ضروری تفصیلات پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:.تفسیر صغیر کے ترجمہ کی روشنی میں پہلا ترجمہ قرآن کریم کا جرمن زبان میں شائع کرنے کی اس مشن ۶۱۹۵۴ کو توفیق علی ہمارے جرمن ترجمہ کا پہلا ایڈیشن 19ء میں شائع ہوا تھا جس پر خاکسار نے کئی سال محنت کی تھی.جب یہ ایڈیشن ختم ہونے کے قریب آیا تو خاکسار نے نئے ایڈیشن کی نظر ثانی کا کام شروع کر دیا.اس کام پر ایک سال گزرنے کے بعد تفسیر صغیر چھپ گئی اس لئے ایک بار پھر له ١٣ الفضل والاخاء / اکتوبر تب سے الفصل ۲۳ هجرت منی هه من له الفضل 71900 تبلیغ فروری صاب کے یہ دوسرا ایڈیشن ۲۵۳ صفحات پر مشتمل ہے اور اس کے ابتداء میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے قلم مبارک کے لکھے ہوئے شہرہ آفاق دیباچہ تفسیر القرآن کا جرمن زبان میں ترجمہ بھی شامل کیا گیا ہے جو ۳ در صفحات کو محیط ہے اور جس نے اس ترجمہ کی افادیت و عظمت کو چار چاند لگا دیئے ہیں.یہ ایڈیشن ہیگ (ہالینڈ) میں طبع ہوا اور VERLAG DER ISLAM ZURICH کی طرف سے شائع کیا گیا شہ جرمن ترجمہ قرآن کا پہلا ایڈیشن کیں کٹھن مراحل میں سے گزر کر منظر عام پر آیا اس کی تفصیل مکرم شیخ ناصر احمد صاحب کے قلم سے.ار احسان رجوانہ کے الفضل میں شائع شدہ ہے ؟
۹۳ اس نے ترجمہ کی روشنی میں جرمن ترجمہ کی نظر ثانی کا کام شروع کیا گیا اور ساتھ ساتھ نوٹ بھی کھے گئے مختلف آیات کے ۲۴۲ تشریکی نوٹ کتاب میں شامل کئے گئے پچھوٹے چھوٹے حاشیہ کے فوٹ اس کے علاوہ ہیں.کتاب کی ظاہری خوبصورتی کے لئے ایک موزوں ٹاپ خرید کیا سینکٹروں نہیں بلکہ ہزاروں مقامات پر مفید اصلاحات ترجمہ میں کی گئیں اور جرمن زبان کے اسلوب کے مطابق مضمون کو بیان کرنے کی کو شش کی گئی جس سے ترجمہ میں مزید روانی آگئی.ہمارا پایا ترجمہ بھی بہت اچھا تھا اور اس کی بہت تعریف ہوئی تھی.تاہم یہ دوسرا ایڈیشن خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت ہی مفید اصلاحات کا حامل ہے.اور بعض افراد نے دونوں ترجموں کا مقابلہ کر کے بہت تعریفی رنگ میں خطوط لکھتے ہیں.بالخصوص نوٹوں کے ذریعہ بہت سے شکل مقامات پڑھنے والے کے لئے حمل ہو گئے ہیں.کتاب کا مجم آٹھ صد صفحات سے اوپر ہے.اس کام میں علاوہ دوسری مشکلات کے مالی مشکلات بھی تھیں.ادھر قرآن کریم کی مانگ بہت تھی اور آرڈر پر آرڈر جمع ہو رہے تھے.تاجران کتب بار بار پوچھتے تھے انہیں مختلف میعادیں دی گئیں.بالآخر نومبر تک کتاب کو مارکیٹ میں لانے کا خاکسار نے تہیہ کرلیا.اگست تک مطبع والوں نے کام شروع نہ کیا تھا.وقت بہت تھوڑا تھا صرف پروف دیکھتے اور اصلاح کرنے کا کام ہی اس قدر وقت طلب تھا کہ روزانہ نصف دن اس کام پر لگانے سے یہ کام چار مہینوں میں ختم ہوتا تھا.کام کے آخری مراحل کو تیز تر کرنے کے لئے وسط اکتوبر میں خاکسار نے ہالینڈ جا کر مطبع والوں کے ساتھ مل کر کام کیا.یہ وقت بے حد مصروفیت کا تھا.آخر اس تمام تگ و دو کا نتیجہ کام کے بر وقت ختم ہونے کی صورت میں نکل آیا جو خدا تعالیٰ کے خاص فضل کے بغیر ممکن نہ تھا.پہلے ایڈیشن کی طباعت کے وقت قرآن کریم کی مانگ اتنی زیادہ نہ تھی جتنی اب جبکہ وہ ایڈیشن نایاب ہو گیا تھا.پہلے ایڈیشن نے مارکیٹ کو تیار کرنے میں مدد دی اور جب مارکیٹ تیار ہوگئی تو کتاب ختم ہو گئی اس لئے دوسرے ایڈیشن کو ملتوی کرنا بہت مضر ہوتا.علاوہ ازیں دوسرے لوگ بھی ترجمہ کو مارکیٹ میں لا رہے تھے جس کے نتیجہ میں ایک تو لوگ غلط ترجمہ پڑھتے اور اسلام سے دور ہو جاتے دوسرے ہما را ترجمہ فروخت نہ ہوتا یہ سب امور خاکسار کے نئے کام کو مکمل مشکلات کے با وجود ایک معین وقت تک ختم کرتے
۹۴ میں محترک ثابت ہوئے.مورخہ 11.نومبر کو ہیگ کی مسجد میں ایک خاص تقریب کے دوران میں مطبع کی فرم کے ڈائریکٹر MR.STO K نے خاکسار کو پہلا تیار شدہ نسخہ قرآن کریم کا پیش کیا.اس پر خاکسار نے قرآن کریم کی خوبیوں اور نئے ایڈیشن کی تیاری اور ضرورت پر مختصر تقریر کی.اس کام پر خاکسار کے کم پیش تین سال صرف ہوئے.اور اگر پہلے ایڈیشن کے کام کو بھی ساتھ ملالیا جائے تو یہ کام گیارہ برس کی محنت کے بعد بعد اللہ ختم ہوایستید نا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کو ترجمہ کی طباعت مکمل ہونے کی اطلاع ہوئی تو حضور نے ازراہ ذرہ نوازی حسب ذیل تار خاکسا کو ارسال فرمایا :- ترجمہ : یکی مبارکباد دیتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ کے کام کو یورپ میں اسلام کی اشاعت کے لئے ایک نہایت موثر ذریعہ بنائے (خلیفہ المسیح) علاوہ ازیں حضور نے خط کے ذریعہ فرمایا :- جزاك الله بہت خوشی ہوئی.اللہ تعالیٰ اس ترجمہ کو قبول کرے " ایک اور خط میں حضور نے فرمایا :- اللہ تعالیٰ واقعہ میں اس کو یورپ کے لئے فائدہ مند بنائے آرہا ہے اس طرف احرار یورپ کا مزاج اس کے ذریعہ وہ لوگ جن کو تعصب نہیں اسلام کی طرف مائل ہو جائیں گے آمین ری تقریر کی اشاعتی و شیرینی کی ندی تاریخ میں جرمن ترجمہ قرآن پر سویس پریس کے ایک اہم اور انقلابی واقعہ تھا جس نے ملک بھر میں دھوم شاندا تیرے مچادی.سوئٹر لینڈ کے اہل قلم نے اس کارنامہ کو خوب سراہا اور سوئیس پولیس نے دل کھول کر اس پر بڑے مفصل اور شاندار تبصرے شائع کئے بطور نمونہ لبعض اخبارات و رسائل کی آراء و افکار کا ترجمہ دیا جاتا ہے :- + ه الفضل در از زمان / مارچ هه م ه از
۹۵ (1) ایک مشہور بدھ جماعت کے ماہنامہ " DIE EINSIGHT " شائر کے آٹھویں شمارہ کے صفحہ ہے پر جرمن ترجمہ قرآن کریم کی نسبت حسب ذیل ریمارکس شائع ہوئے :.صفحات پرمشتمل جرمن ترجمہ قرآن مع عربی متن.پہلا مستند اور قابل اعتماد ترجمہ - قیمت ۱۸ مارک جماعت احمدیہ کی طرف سے زیورچ اور ہمبرگ کے مشنوں کے نام سے شائع شدہ یہ ترجمہ قرآن کریم اس لحاظ سے قابل توجہ ہے کہ جماعت احمدیہ کے دوسرے خلیفہ حضرت میرزا محمود احمد صاحب نے اس کے شروع میں.۱۵ صفحات پرمشتمل ایک ویب پر تصنیف کیا ہے جو بہت دلچسپ امور پر اس لحاظ سے روشنی ڈالتا ہے کہ اسلام کا مطمح نظر دیگر مذاہب کی تعلیمات ک بارہ میں کیا ہے.اس دنیا چہ کے پہلے حصہ میں قرآن کریم کی ضرورت پر بحث کی گئی ہے اور بائبل اور ویدوں کے ہستی باری تعالیٰ کے متعلق نظریات کی وضات کی گئی ہے.خاص طور پر یسوع مسیح (JESUS CHRIST) کی پوزیشن کو واضح کیا گیا ہے کہ وہ عالمگیر نبی نہ تھے کیونکہ انہوں نے خود واضح الفاظ میں لیکن صرف بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کو اکٹھا کرنے کے لئے آیا ہوئی زرتی ملی اگر اس امر کو ظاہر کیا ہے کہ ان کی بعثت کا مقصد بنی اسرائیل کے لئے محدود تھا اور وہ تمام دنیا کی طرف مبعوث نہیں ہوئے تھے.صفحہ ۲۳ پر یہ بھی تحریر ہے کہ حضرت بڑھا بھی عالمیگر تعلیمات نہیں لائے.اگر چہ ان کی تعلیمات ان کی وفات کے بعد چین میں پھیلیں لیکن ان کا اپنا ذہن ہندوستان کی چار دیواری سے باہر کبھی گیا ہی نہیں.آگے چل کر تمدن و تہذیب اور کلچر کی اہمیت کے بارہ میں اسلامی نظریات کو پیش کیا گیا ہے اور یہ سوال اُٹھایا گیا ہے، کیا پہلی کتب میں کوئی ایسا نقص تو نہیں آگیا تھا جس کی وجہ سے ایک نئی کتاب کی ضرورت شدید طور پر دنیا کو محسوس ہو رہی تھی اور قرآن کریم اس ضرورت کو پورا کرنے والا تھا" نئے اور پرانے عہد نامہ میں سے متعدد حوالے پیش کرنے کے بعد اس سوال کا جواب مثبت ہیں دیا گیا ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ اس بات کی واقعی ضرورت تھی کہ خدا تعالیٰ ایک نئے الہام کو نازل کرتا جو غلطیوں سے منزہ ہوتا اور بنی نوع انسان کو اعلیٰ اخلاق اور اعلیٰ روحانیت کی طرف لے جانے والا ہوتا اور وہ کتاب اور الہام قرآن کریم ہے " راسی طرح ویدوں کی ظالمانہ تعلیمات، توہمات ، تناقف اور خلاف اخلاق تعلیمات پر سیر کن بحث
94 کی گئی ہے تا کہ ان قابل اعتراض تعلیمات کی روشنی میں قرآن کریم جو کہ ان باتوں سے بالا اور منزہ ہے، کی تعلیمات کی اہمیت واضح کی جائے.دوسرے حصہ میں جمع القرآن پر بحث کی گئی ہے اور اسلامی تعلیمات کی خصوصیات بیان کی گئی ہیں ان میں سے بعض ہم ذیل میں درج کرتے ہیں.قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ خدا تعالیٰ پر ایمان کیسا لانا چاہیے.اس کی ہستی کے ثبوت کیا ہیں.اور وہ اس امر پر زور دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہی تاریکی کے وقتوں میں اپنا کلام نازل کر کے اور اپنی غیر معمولی قدرتوں کو ظاہر کر کے اپنی ہستی کو ثابت کرتا رہتا ہے ؟ نجات کیا ہے اور کس طرح حاصل ہوتی ہے.قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ نجات تین قسم کی ہے.کامل - ناقص اور ملتوی بجاتے.کامل نجات انسان اس دنیا سے حاصل کرتا ہے.قرآن تعلیم اور دماغی نشو و نما پر خاص زور دیتا ہے.وہ ہنکر اور غور کرنے کو مذہبی فرائض میں سے قرار دیتا ہے.وہ لڑائیوں اور جھگڑوں سے روکتا ہے اور کسی حالت میں بھی حملہ میں ابتداء کرنے کی اجازت نہیں دیتا " قرآن کریم غلامی کی اجازت نہیں دیتا.وہ صرف جنگی قیدیوں کے پکڑنے کی اجازت دیتا ہے مگر اس کے لئے بھی یہ شرط مقرر کرتا ہے کہ ہر قیدی اپنے حصہ کا حرجانہ ادا کر کے آزاد ہونے کا حق رکھتا ہے یا قرآن کریم ہی وہ کتاب ہے جو انسان کی روح اور اس کی پیدائش کے متعلق مکمل بحث کرتی ہے اس بارہ میں دوسری کتب یا تو خاموش ہیں یا قیاس آرائیوں پر اکتفا کر تی ہیں.قرآن کریم یہ بھی بتاتا ہے کہ خدا تعالی تمام اشیاء کی علت العلل بھی ہے یعنی تمام کی تمام مروان اس سے نکلی ہیں اور سب کی سب مخلوق اس کی طرف لوٹتی ہے.انسان کی پیدائیش کے متعلق قرآن کریم بتاتا ہے کہ تورات اور انجیل کے دعووں کے خلاف انسان کی پیدائش تدریجی طور پر ہوئی ہے." انسانی پیدائش سے تعلق قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو اس لئے پیدا کیا گیا ہے تاوہ خدا تعالیٰ کی صفات کو ظاہر کرے اور اس کا نمونہ بنے یا اس تمہید کے آخر میں مرزا محمود احمد صاحب نے جماعت احمدیہ کے بانی کی وفات کے بعد شار
96 میں پیدا شده اختلافات کا ذکر کیا ہے جن کی وجہ سے جماعت کے وجود کو خطرہ لاحق ہو گیا یہاں تک کہ خدا نے انہیں خود مصلح موعود بنایا اور توفیق دی کہ وہ جماعت کے شیرازہ کو دو بارہ قائم کرسکیں اور انہیں دشمنوں پر غلبہ عطا کیا.مندرجہ ذیل فقرات قابل غور ہیں :.یہاں تک کہ خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو میرے ذریعہ سے دُنیا بھر میں پھیلا دیا اور قدم قدم پر خدا تعالیٰ نے میری راہنمائی کی اور بس یوں مواقع پر اپنے تازہ کلام سے مجھے مشرف فرمایا یہانتک کہ ایک دن اس نے مجھے پر یہ ظاہر کر دیا کہ میں ہی وہ موعود فرزند ہوں جس کی خبر حضرت مسیح موعود نے شدید میں میری پیدائش سے پانچ سال پہلے دی تھی.اُس وقت سے خدا تعالی کی نصرت اور مدد اور بھی زیادہ زور پکڑ گئی.اور آج دنیا کے ہر بر اعظم پر احمدی مشتری اسلام کی لڑائیاں لڑرہے ہیں.راس کتاب کا بیشتر حصہ عربی اور جرمن متن پر مشتمل ہے.عربی جاننے والے احباب کے لئے یہ امر لذت کا باعث ہوگا کہ وہ جرمن ترجمہ کا اصل عربی متن سے مقابلہ کر سکیں گے.اس کتاب کے شروع میں جو یہ دعوی کیا گیا ہے کہ یہ ترجمہ ایک قابل اعتماد ہید پرشتمل ہے اور علمی طبقہ کے لئے اپنے عربی متن کے سائے جس کی وجہ سے اسلامی تعلیمات اور اسلامی دنیا کو جاننے کے لئے ایک نیا دروازہ کھولتا ہے سے ہمیں اس سے نکلی اتفاق ہے.(ترجمہ) (۲) ایک مشہور علمی اور ادبی ماہوار رسالہ GEO POLITIK (اگست سطر میں انڈونیشیا مین تعقیم جرمن سفیر DR.OTTO VON MENTIG DR.OTTO کے قلم سے حسب ذیل تبصرہ شائع ہوا :- دوسری جنگ عظیم کے بعد سے قرآن کریم کے مستند جز من ترجمہ کی ضرورت شدت سے محسوس ہوتی رہی ہے.جرمنی سے قریبی اور مشرق وسطیٰ کے ممالک سے دوبارہ تعلقات قائم ہونے کے حیات جر میں عوام میں قرآن کریم کے مطالعہ کا شوق بڑھ رہا ہے.احمدیہ جماعت کے زیورک اور ہمبرگ کے مشنوں نے اور میٹل اینڈ ریلیجیں پیشنگ کارپوریشن ربوہ (پاکستان) کی طرف سے ممنونانہ انداز میں جبر ۶۱۹۵۲ قرآن کریم کے مستند جو من تراجم کی کمی کو پورا کرنے کی سعی کی ہے.قرآن کریم کا یہ ترجمہ صاف ستھرے باریک کا غذ پر ہالینڈ میں چھپا ہے اور اس کے دائیں طرف اصل عربی متن محبت اور پوری احتیاط کے ساتھ ایک ماہر تحریر کے ہاتھ سے لکھا ہوا ہے اور اپنی تحریہ کی خوبی کی وجہ سے اس ترجمہ کو کتابی متاع کا موجب بناتا ہے.جرمن ترجمہ ہر صفحہ کے بائیں طرف درج کیا گیا ہے.ہر سورۃ کے شروع میں
" سورۃ کا عربی نام اور اسی طرح سورۃ کے نزول کا مقام دیگہ یا مدینہ - آیت کا نمبر اور رکوع درح کیا گیا ہے.قرآن کریم کے دو زبانوں کے مقنوں رخنہیں ۶۲۹ صفحات میں مکمل کیا گیا ہے) سے پہلے مفصل دنیا چہ دو حصوں میں درج کیا گیا ہے.اس دیباچہ کے مصنف جماعت احمدیہ کے امام حضرت مرزا محمود احمد صاحب ہیں.اس دیباچہ کے پہلے حصہ میں قرآنی تعلیمات کا دوسرے بڑے مذاہب عیش است یہودیت اور ہندو ازم کی تعلیمات سے موازنہ کیا گیا ہے.دوسرے حصہ میں جمع القرآن اور اس کے نزول کی تفصیل کے ساتھ ساتھ اس کی تعلیمات کی خصوصیات پر بحث کی گئی ہے.قرآن کریم کے اس جرمن ترجمہ کے متعلق شائع کرنے والوں نے لکھا ہے کہ وہ یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ یہ ترجمہ بہترین ہے.قدامت پسند علماء کی رائے کے مطابق قرآن کریم کا ترجمہ دوسری نہ بانوں میں محال ہے.اس بارہ ہیں تمام کوششیں تفسیر قرار دی جا سکتی ہیں مسلمانوں کے لئے یقیناً اس ترجمہ کے متعلق کہیں کہیں اعتراض کی گنجائش ہوگی لیکن چونکہ اس ترجمہ کو اصل عربی متن کے ساتھ شائع کیا گیا ہے اس لئے اس کے شائع کرنے والوں نے اس احتیاط اور یقین کا سامان بہم پہنچا دیا ہے کہ اس کو پڑھنے والے اسلام کی صحیح تصویر حاصل کر سکیں گے.قرآن کریم کی مستند اور شہور علماء کے ہاتھ سے لکھی ہوئی مختلف تفاسیر اس بات کو واضح طور پر ظاہر کرتی ہیں کہ قرآن کریم کا ایسا ترجمہ شائع کرنا جوسب کی رائے میں درست ہو کتنا مشکل کام ہے.اس ترجمہ کے نئے ایڈیشن کے متعلق اس امر کا اہتمام غالباً مناسب ہوگا کہ ہر سورۃ کا جرمن ترجمہ بھی درج کیا جائے اور مختصر طور پر یہ بھی واضح کیا جائے کہ یہ نام کیوں تجویز کیا گیا ہے.جرمن پبلک کے لئے یہ بھی ضروری ہوگا کہ مشکل اور اہم آیات کا مطلب تفصیلی فٹ نوٹ کی صورت میں درج کیا جائے.ترجمہ (۳) مشهور سوئیس اخبار " NEUE ZURCHER ZEITUNG" نے اپنے اور اگست ہے 11960 کے ایشوع میں لکھا:.گذشتہ کئی سال سے زیور میں احمدیہ مسلم مشن کی ایک شاخ قائم ہے.جماعت احمدیہ اسلام ہی کا ایک روشن خیال فرقہ ہے جس کا نام اس کے بانی مرزا غلام احمد آف قادیان پنجاب (۶۱۸۳۵ ۱۹۰۸ء) کے نام پر رکھا گیا ہے.آپ کا دعویٰ تھا کہ ندا تعالیٰ نے آپ کو الہام الہی کے ذریعہ اسلام اور (حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی خدمت کے لئے مامور کیا ہے.آپ خدا تعالیٰ کی طرف سے خطا کر وہ رسالت و نبوت کے بھی دعویدار تھے لیکن نبوت کے باوجود آپ کا دعوی تھا کہ آپ متر آنی
44 شریعیت اور (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کے کامل متبع ہیں.اور آپ کوئی نیا قانون لے کر نہیں آئے.گویا اس طرح وہ اپنے آپ کو صرف تنبیہہ کرنے والا سمجھتے رہے جسے نبی پاک کے بروز کامل کی صورت میں قرآن کریم کی پیش گوئیوں کے مطابق مسیح اور مہدی ہو کر آنا تھا اور جس کا کام مادی دنیا میں صرف روحانی بیچ ہونا تھا.آپ نے اپنی پیش گوئی کے ذریعہ اطلاع دی تھی کہ آپ کی جماعت زمین کے کناروں تک پھیلے گی اور آپ کے متبعین کو قرب الہی حاصل ہوگا.اس پیغام ربانی کے ساتھ آپ کا ظور نشہ میں آپ کے اپنے گاؤں میں ہوا اور آپ نے اس وقت ان نشانات و معجزات کا ذکر کیا جن سے آپ کے مشن اور پیش گوئیوں کی صداقت کا اظہار ہوتا تھا ابتدائی مخالفت کے باوجود آپ کی جماعت پھیلتی ہی گئی حتی کہ ہندوستان اور بیرونی مسلم دنیا میں اسکی شاخیں قائم ہوگئیں.ہ میں آپ نے جماعت کے خلیفہ (امام) کی حیثیت سے بعیت لینی شروع کی 14 میں آپ کے پہلے خلیفہ (حضرت حکیم الامت مولانا نورالدین رضی اللہ عنہ) کی وفات پر جماعت میں کچھ اختلاف پیدا ہو گیا اور کچھ لوگ جنہیں بعد میں لاہوری پارٹی کے نام سے موسوم کیا گیا اس وجہ سے الگ ہو گئے کہ وہ حضرت احمد کو نبی ماننا پسند نہ کرتے تھے بلکہ صرف مصلح سمجھتے تھے جماعت قادیان متفقہ طور پر حضرت احمد کے فرزند (حضرت) مرزا محمود احمد کے ہاتھ پر جمع ہوئی اور آپ کو خلیفہ تسلیم کر لیا.کہا جاتا ہے کہ آپ کی پیدائش سے قبل ہی خدا تعالیٰ نے آپ کے موعود خلیفہ ہونے کے متعلق خبر دے دی تھی.آپ ہی کے عہد خلافت میں اسلام کا مشن یورپ میں قائم ہوا جس کا مرکز انگلستان ہے لیکن مشن کا کام فرانسی ، سپین، ہالینڈ، جرمنی اور کچھ سال سے سوئٹزر لینڈ میں بھی جاری ہے اسی طرح شمالی اور جنوبی امریکہ میں بھی جماعت تبلیغ کا کام کر رہی ہے.جماعت احمدیہ کے عقائد کی بنیاد اسلام کی معروف تعلیم پر ہے.صرف تین انور میں اختلاف پایا جاتا ہے :.اول : یسوع مسیح جو خدا کے نبی اور (حضرت محمد (مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل بطور ارہا ص آئے تھے.وہ صلیب پر فوت نہیں ہوئے بلکہ ان کی حالت وفات یافتہ شخص کے مشابہ ہوگئی تھی وہ اپنی قبر سے اٹھ کر مشرق کی جانب روانہ ہو گئے تاکہ کشمیر میں اپنی تبلیغی سرگرمیوں کو جاری رکھ
میکس اشیح کی زندگی کے بارہ میں اسی طرح کے اور غلط خیالات بھی ان میں پائے جاتے ہیں) آپ نے ۱۲۰ سال کی عمر کے بعد کشمیر میں وفات پائی جہاں سرینگر شہر میں دفن ہوئے اب تک ان کا مقبرہ موجود ہے لیکن غلطی سے اس مقبرہ کو یوز آصف کی طرف منسوب کیا جاتا ہے.دوھ.جہاد یعنی جنگ مقدس کا استعمال مفکرین کے استیصال کے لئے ناجائز ہے.اسلام کی تبلیغ قرآنی دلائل کی روشنی میں صرف امن و آشتی سے ہی کی جانی چاہئیے.سوم: موعود صدی حضرت احمد ہیں جو یسوع کے مشیل اور حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش حقیقی ہیں بر خلاف عام مسلمانوں کے بو ایسا عقیدہ نہیں رکھتے ہیں.گو جماعت احمدیہ قرآن کریم کی تشریحات کے بارہ میں آزادی کی قائل ہے لیکن ان کا کوئی عقیدہ اسلام کے منافی نہیں مسلمانوں کے عام فرائض نماز، روزہ اور زکواہ کے علاوہ جماعت احمدیہ کی طرف سے دین داری اور اخلاق فاضلہ پر خاص زور دیا جاتا ہے اور ہر فرد و قوم کے ساتھ پر امن برتاؤ کرتے کی تلقین کی بھاتی ہے.اس طور پر جماعت احمدیہ جو اسلام ہی کا ایک فرقہ ہے اور اصلاحی تحریک ہے اپنے آپ کو دلچسپ طریق پریشں کرتی ہے.پرانی رسومات کے خلاف یہ جماعت اسلام کو محض مذہب تک محدود رکھتی ہے اور ان کا یہ استدلال قرآنی تعلیم پر مبنی ہے.حکومت برطانیہ نے بھی جماعت احمدیہ کے اس موقف کو تسلیم کیا ہے کہ جماعت متشائمہ سے ہی اپنی تبلیغی سرگرمیوں میں مصروف رہی ہے اور انہوں نے سیاسیات ملکی میں حصہ نہ لے کر یہ کام اور لوگوں کے سپر د رکھا ہے.عالیہ ترجمہ القرآن بھی ان کی تبلیغی کارروائیوں کا ہی ایک اہم حصہ ہے مشہور و معروف مشرقی علوم کی اشاعت کی ذمہ دار فرم : OTTO HARRASSONSITE نے جو پہلے پہل LEIPZIG میں قائم ہوئی تھی اس کتاب کو خوبصورتی اور نفاست کا لباس پہنایا ہے.یہ ترجمہ جو عربی متن کے ساتھ ہے انڈکس ، مبشوط دنیا چہ اور تشریح الفاظ کے ساتھ رکسون کی لچک دار جلد میں خوبصورت طباعت کے ساتھ اور باریک کا غذ پر شائع کیا گیا ہے اور اپنی تمام خصوصیات کے باوجود نہایت تھوڑی قیمت پر میسر آتا ہے.کہا جاتا ہے کہ یہ پہلا جامع ترجمہ ہے جو مسلمانوں کے زعم میں یور میں اقوام کے سامنے محمد (صل اللہ علیہ وسلم) کی تعلیم کو پیش کرتا ہے.اگرچہ عربی زبان کے اسلوب و محاورات کو جانچنے
اور اس کی جزئیات پر نظر رکھنے کے قابل وہی شخص ہو سکتا ہے جس کی تربیت اسلامی ماحول میں ہوئی ہو دراصل یہ ترجمہ بھی پرانے تراجم سے کوئی خاص اختلاف نہیں رکھتا اور جہاں کہیں تھوڑا بہت اختلاف بھی ہے اسے کوئی خاص اہمیت حاصل نہیں.سورۃ فاتحہ کے مطالعہ کے وقت بھی کوئی خاص فرق معلوم کرنا مشکل ہے.جہاں نئے ترجمہ کا ہر لحاظ سے غیر متقدم کیا گیا ہے وہاں 4 صفحات پرمشتمل دیباچہ جسے مرزا محمود احمد (خلیفہ ثانی نے تصنیف کیا ہے ایسے تبلیغی پراپیگنڈا پر مبنی ہے جس کا نوٹس لیا جانا ضروری ہے.ناشرین کو واقعی اس کا حق پہنچتا ہے لیکن کیا ہم بھی اس پروپیگینڈا کو جانچنے اور اس پر تنقید کرنے کا حق رکھتے ہیں ؟ دنیا چہ کا دوسراحعه مجمل طور پر قرآنی تعلیمات کو پیش کرتا ہے جو یسوع مسیح کی مخصوص تعلیم سے ٹکراتی ہیں.پہلے حصہ میں بتایا گیا ہے کہ پرانی کتب مقدسہ کے ہوتے ہوئے نئی کتاب قرآن مجید کی کیا ضرورت تھی.پرانے مذاہب کا اختلاف اس بات کا متقاضی تھا کہ کوئی نیا مذہب ان کی جگہ لے جس کا دائرہ عمل تمام اقوام عالم ہوں کیونکہ بائبل اور انجیل کے خدا خاص خاص اقوام کے قومی خدا تھے حتی کہ جب شیر بپتسمہ دینے کے لئے اقوام کا ذکر کرتے تو اُن کا مطلب بنی اسرائیل کے قبائل ہوا کرتا تھا.اسی طرح ویدوں ، زرگشت اور کنفیوشس کا حلقہ عمل خاص اقوام تک محدود رہا صرف اسلام ہی تو عیدی الٹی کا معلم ہے اور اس کا پیغام ساری دنیا کے لئے ہے.پہلی کتب میں بہت سی خامیاں ہیں.اس کے علاوہ یہ متضاد امور سے بھر گور ہیں.خالص اللی الفاظ ملتی ہیں قائم نہیں رہے.ان کی تعلیم وحشیانہ غیر مقبول اور غلاط فلسفہ الہیات پر مشتمل ہے.یہی وجہ تھی کہ ایک کامل و مکمل کتاب کی ضرورت پیش آئی جو قرآن مجید کے وجود سے پوری ہوئی باقی تمام مذاہب مکمل اور آخری مذہب ہونے کے دعویدار نہیں ہیں بلکہ ان سب میں ایک موعود نبی کی خبر موجو د ہے جو (حضرت) محمد (صلعم) ہیں جن کے ذریعہ آخری فتح اسلام کے حق میں مقدر ہو چکی ہے.تاریخ کے یہ اوراق خواہ کتنے ہی حیران کن ہوں لیکن یہ تصویر کسی طور پر سامنے آئی ؟ اس بارہ میں یہ کہنا ضروری ہے کہ (حضرت) مرزا احمد (علیہ السلام ) ان معاملات کو ناموزوں پیمانوں سے
١٠٢ ناپتے ہیں.وہ اپنے خیال میں اگر کوئی معمولی سی خامی ان کتب میں دیکھتے ہیں جو مقابلہ کے وقت انہیں نظر آتی ہے اس کے متعلق وہ یک طرفہ نظریہ قائم کر لیتے ہیں اور اکثر اوقات ان کا فیصا معمولی اور نامتنا طریق پر ہوتا ہے.واقعہ یہ امر صداقت پر مبنی نہیں کہ عہد نامہ عتیق جس کو جمع کرنے پر ایک ہزار برس لگے متضاد امور مشتمل اور عہد نامہ جدید میں بہت سے اور لوگوں کے کلام کا دخل ہے.ہر وہ بات جس سے قومی حدبندی کی تنقیض ہوتی ہے اس سے احتراز کیا گیا ہے.مثلاً کیسعیاہ ہے یا ملاقی 1 : 11 یا اس کی غلط تعبیریں کی گئی ہیں.مثلاً متی ۲۸ : ۱۹ - دوسری طرف فریضہ جہاد پر خاموشی اختیار کی گئی ہے جس کے ذریعہ اسلام کو محمد رسول اللہ صلعم کی شروع عمدنی زندگی سے ہی بزور شمشیر پھیلایا گیا اسلام کے اس اہم مسئلہ میں بڑی آسانی سے اصلاح کر دی گئی ہے.مزید یہ زور دیا گیا ہے کہ بنی اسرائیل کے لئے بھاؤ وگری کے مرتکب کو جو موت کی سزا کا حکم توریت نے دیا ہے (خروج ۲۲:۱۸) یہ وحشت و بربریت پر مبنی ہے کیونکہ حقیقی جادوگر کبھی ہستی پر ظاہر نہیں ہوئے.البتہ توریت کی اس تعزیر کا اطلاق ان فن کاروں پر ہوتا ہے جو اپنی شعبدہ بازیوں سے لوگوں کے لئے سامان تفریح بہم پہنچاتے ہیں.لیکن آخری دونوں سورتوں کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ خود (حضرت محمد سحر کا ہے یا اس سے ملیتی ملتی کسی شے کے وجود کو تسلیم کرتے رہے ہیں.عہد نامہ جدید کے پیرے مستی ۱۲ : ۴۷ اور یوحنا ۲ : ۳ پر سخت نقطه چینی کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ اس میں ماں کی عزت کو برقرار نہیں رکھا گیا لیکن حقوق نسواں سے متعلق قرآنی دلائل (ص) چوتھی سورت کے ہوتے ہوئے بہت کم سچائی پر مبنی نظر آتے ہیں.اس طرح نہ صرف اسلام بلکہ قرآن کی ایک معیاری اور خوبصورت تصویر کو پیش کیا گیا ہے اور سارے قرآن کو ایسے ربط باہمی سے منسلک قرار دیا گیا ہے جس سے (پڑھنے والے کو منگتی اور مدنی زندگی میں نازل ہونے والی سورتوں میں کوئی اختلاف نظر نہیں آسکتا.نہ اسے ان اہم مقامات کا پتہ لگ سکتا ہے جہاں موضوع سے ہٹ کر نیا موضوع چھیڑا گیا ہے.نہ قاری کو ان دلچسپ تبدیلیوں پر آگا ہی ہو سکتی ہے جومحمد (صلی اللہ علیہ وسلم کے خیالات میں وقتاً فوقتاً پیدا ہوتی رہی ہیں مثلا دوسرے i
١٠٣ حصہ میں توحید الہی پر بہت زور دیا گیا ہے اور الحاد پرسخت حملے کئے گئے ہیں.یہودیوں اور عیسائیوں کے خلاف سخت رویہ روا رکھا گیا ہے لیکن جهانی فردوس کی نعماء کا ذکر کرتے وقت صرف وفادار بیویوں کو نہ کہ سیاہ چشم خوروں کو مجاہدین شہداء کا نتظر دکھایا گیا ہے.اگر چہ محمد صلے اللہ علیہ وسلم) کو جو جھوٹے نبی کے نام سے پکارا جا تا رہا ہے اس کی کتنی ہی پر زور تردید کیوں نہ کی جائے جیسا کہ بیل (BALE) کا پادری ہر اتوار کو بلاناغہ پرانے طریق کے مطابق اپنے منبر سے یہ آواز اُٹھاتا ہے کہ بھوٹے محمد کے قلعوں کو مسمار کر دو یہ تب بھی عہد نامہ عقیق کے نبیوں اور (حضرت محمد (صلعم) کا موازنہ ان کے (حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ) کے حق میں بہت غیر مفید ثابت ہوتا ہے سوائے اس کے کہ ایس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ جو باتیں محمد رسول اللہ (صلعم) کی زندگی ہی میں منصہ شہود پر آگئی تھیں ان کے حصول کے لئے یہودیت اور عیسویت کو صدیوں کی مساعی کرنی پڑیں اور وہ بھی مختلف طریق عمل پر اس حقیقت سے بھی انکار مشکل ہے کہ محمد رسول اللہ (صلعم ، مکی زندگی میں بلاشبہ نبی تھے.ان کا سراپا ان کے مشن میں محو تھا اور انہوں نے دیانتدار مصلح یا ریفارمر کی زندگی بسر کی لیکن بونی آپ مدینہ میں منتقل ہوئے آپ میں وہ تمام صلاحیتیں نظر آنے لگیں جو ایک کہنہ مشق سیاستدان میں ہونی چاہئیں.جو اپنے مقصد کے حصول کے لئے کیا کچھ نہیں کر گزرتے.وہ اس زمانہ میں خدا کی طرف سے ایسی وحی کے بھی مدعی ہیں جن میں ان کے ذاتی مراعات کا جواز یا ذکر ہے اور ان مراعات کا دائرہ کسی حد تک اخلاقیات پر بھی حاوی ہے.اسی طرح سورۃ ۳۳ : ۲۹ جس میں آپ کے لئے ازواج کی تعداد کا ذکر ہے یا جب آپ کی نظر خوبصورت زینب پر جاپڑی جو آپ کے مقتدی کی بیوی تھی.آپ کی خواہش تھی کہ زید کے عقد سے آزاد ہونے کے بعد اس سے شادی کر لیں تو ایک وحی کے ذریعہ تمام شک مخالفت کو دیا دیا گیا () اسی طرح سورۃ لا میں ذکر ہے کہ فرشتہ وحی آپ کو ریچی واندوہ کے بنچوں سے آزاد کرانے کے لئے حرم نہوئی میں بھی اترا کرتا تھا.بائبل اور قرآن (کریم) کی اصلیت کا موازنہ اور ان پر بحث کرتے ہوئے بھی بعد ابد ایمانے استعمال کھئے گئے ہیں: (۴) آسٹریا کے مؤقر جریدہ BI BEL UNDLI TURBIE نے اپنی اشاعت اگست و ستمبر
۱۰۴ ۱۹۳ میں قرآن کریم کے جرمن ترجمہ پر درج ذیل الفاظ میں ریویو شائع کیا :- قرآن کریم کا نیا شائع کردہ ترجمہ عربی زبان اور اس کے لٹریچر کو سمجھنے میں کافی مدد ینے کا موجب ہوگا.آمریکا میں الہیات اور مشرقی علوم کے طالب علموں کو جو عربی میں ڈاکٹری کے امتحان میں شامل ہو رہے میں ادب عربی میں مہارت پیدا کرنے کے لئے اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے یا (۵) زیورخ کے با اثر اخبار DAS BUCKER BLATT نے اپنی ۲۴ ستمبر کی اشاعت میں لکھا :- صفحات پرمشتمل خوبصورت رکسون کی جلد میں قرآن کریم کا ترجمہ عربی زبان سے بنو مون زبان میں ریسل مین زیورخ کے زیر اہتمام شائع ہوا ہے.اصل کتاب کے ساتھ الفاظ کی تشریح اور انڈیکس کے علاوہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب (خلیفة المسیح الثانی کے قلم سے ایک مبسوط دی یاپھر بھی شامل ت.گزشتہ کئی سال سے سوئٹزرلینڈ میں احمدیہ سلم میشن قائم ہے جس کا صدر مقام زیورخ میں ہے عربی اور جرمن زبان کے حالیہ ترجمے کی اشاعت کا سہرا اسی مشن کے سر ہے.اصل کتاب سے پہلے تقریباً ڈیڑھ صد صفحات پر مشتمل ایک لمبا دیباچہ شامل ہے جس کے فاضل مصنف کا ذکر اوپر آچکا ہے جو سیح موعود کے دوسرے خلیفہ اور جماعت احمدیہ کے موجودہ امام میں مسلمان اس بات کے دعویدار ہیں کہ اسلام کے ظہور کا مقصد یہودیت و عیسویت کا استیصال ہے اور ان کا یہی دعوئی نیم مخاصمت کی وجہ ہے.عربی متن اور اس کے ترجمہ کے بارہ میں علمی حلقوں سے تنقید کی آوازیں سنی گئی ہیں لیکن ان کا ذکر اس موقع پر ہے جا ہوگا ہم اس ترجمہ کی اشاعت کا خیر مقدم کرتے ہیں.HENNING نے جو ترجمہ REKLAME, UNIVERSITY کی لائبر میری کے لئے کیا تھا وہ بھی چونکہ آپ نایا ب ہے اس لئے بھی یہ ترجمہ ان لوگوں کی ضرورت پورا کرنے کا موجب ہے جو اسلام کا اصل چہرہ اور اس کی روح ان کی کتاب مقدس سے دیکھنے کے خواہاں ہیں.(ترجمہ) (4) اخبار $ 1) FIER ARBERT UND DESINNUNG, STUTLTGUST نے یکم فروری سوار کو ایک طویل تبصرہ سپر و قلم کیا جس کا ملخص درج ذیل کیا جاتا ہے :.انیسویں صدی میں اشاعت اسلام کے سلسلہ میں جماعت احمدیہ کی مساعی خاص طور پر قابل ذکر
1.0 ہیں.اس جماعت نے حال ہی میں قرآن کریم کا ترجمہ جرمن زبان میں شائع کیا ہے.یہ ترجمہ پہلا نہیں بلکہ اسکی خوبی یہ ہے کہ اسے ایک اسلامی جماعت نے خود اپنے زیر اہتمام شائع کرنے کا اہتمام کیا ہے اور جرمن ترجمہ کے ساتھ عربی متن بھی دیا گیا ہے.احمد یہ جماعت کی بنیا د حضرت میرزا غلام احمد صاحب (علیہ الصلواۃ ( والسلام) نے ۱۸۸۰ء میں رکھی جو ۱۸۳۵ء میں قادیان میں پیدا ہوئے.انہوں نے دعوی کیا کہ وہ چیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق چودھویں صدی کے سر پر بطور مسیح اور محمدی ظاہر ہوتے ہیں وہ ۱۹۰۸ء میں فوت ہوئے اور ۱۹۱۴ء سے حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب جماعت کے دوسرے خلیفہ اور امام ہیں.اس ترجمہ قرآن کریم کا دیباچہ انہی کی قلم سے لکھا ہوا ہے.اس دیباچہ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اسلام سے پہلے مذاہب وقتی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے آئے تھے لیکی حضرت نبی کریم اور اسلام کے ذریعہ مذہب کی تکمیل ہوئی.مثال کے طور پر حضرت کیسے صرف بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کو اکٹھا کرنے آئے تھے.گو ان کے حواریوں نے بعد میں دوسروں کو تبلیغ کرنی بھی شروع کی لیکن محضرت مسیح کا پریشن نہ تھا کیونکہ متی شام میں صاف لکھا ہے :- میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ تم اسرائیل کے سب شہروں میں نہ پھر میکو گے جب تک کہ ابن آدم نہ آئے گا یہ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کے ذریعہ اسلام سے پہلے قائم شدہ مذاہب کے اختلافات کو دور کیا گیا جو وقتی اور قومی تعلیموں کی وجہ سے پیدا ہو گئے تھے.پس گزشتہ مذاہب کا اختلاف اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ وہ دنیا کو متحد کرنے والی آخری تعلیم کے دستہ ہیں روک نہیں بلکہ ان کا وجود ہی ایک ایسی عالمگیر اور کا ہا تعلیم کا متقاضی ہے.حمد نامہ قدیم انسانی ضروریات کو مکمل طور پر پورا کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اس میں تناقضات اور اختلافات موجود ہیں اور اس میں مصنف نے اپنے خیالات کو بھی درج کر دیا ہے.پھر عہد نامہ قدیم میں ظالمانہ احکام موجود ہیں.غلاموں کے لئے سخت اور انسان موز احکام درج ہیں، چنانچہ خروج ۲۱ میں لکھا ہے.:.اگر کوئی اپنے غلام یا لونڈی کو لاٹھیاں مارے اور وہ مار کھاتی ہوئی مرجائے تو اُسے سنا دی جائے لیکن اگر وہ ایک دن یا دو دن بیٹے تو اسے سزا نہ دی بہائے اس لئے کہ وہ اس کا
مال ہے.یہ اس تعلیم میں غلاموں کے لئے کتنی سختی ہے.پھر بائیبل میں خلافت عقل تعلیم بھی موجود ہے.چنانچہ اخبار باب ۲۰ آیت ۲۷ میں لکھا ہے :.مرد یا عورت جس میں من ہو یا وہ جادوگر ہو تو وہ قتل کئے جا دیں چاہیے کہ تم ان پر پتھراؤ کرو اور ان کا خون انہیں پر ہووے یا ی کیسی تعلیم ہے.یہ سب اختلافات ظالمانہ اور خلاف عقل تعلیمات قرآن کریم کی ضرورت پر دانت کی تھی ہیں.عہد نامہ جدید یعنی انا جمیل مسیح کے اقوال پر مشتمل نہیں کیونکہ مسیح اور ان کے حواری نیودی النسل تھے اس لئے اگر مسیح کا کوئی قول محفوظ ہو سکتا ہے تو عبرانی زبان میں لیکن انجیل کا کوئی نسخہ عبرانی زبان میں محفوظ نہیں بلکہ تمام اناجیل یونانی زبان میں ہیں.اناجیل کے اندر بھی اختلافات اور تو ہمات کثرت سے پائے جاتے ہیں.مثلاً مرقس اس میں لکھا ہے :- ہے:.." اور روح اسے فی الفور بیابان میں لے گئی اور وہ وہاں بیابان میں چالیس دن تک رہ کو شیطان سے آزمایا گیا اور جنگل کے جانوروں کے ساتھ رہتا تھا اور فرشتے اس کی خدمت کرتے تھے " وہ انسان جو حضرت مسیح کی عظمت اور ان کے مقام کا قائل ہے اس نتیجہ پر پہنچنے پر مجبور ہے کہ یہ مقامات انا جیل میں بعد میں داخل کئے گئے ہیں.پھر سیج نے اناجیل میں اپنے نہ ماننے والوں کے خلاف جو سخت الفاظ استعمال کئے ہیں مثلاً انہیں سور اور گتے قرار دیا اور اپنی والدہ کا بھی لحاظ نہیں کیا اور اس کی بے ادبی کی.یہ سب امور ہماری رائے میں بعد کے آنے والے لوگوں نے ایجاد کئے ہیں جبکہ مسیح اس دنیا سے جاچکے تھے اور ایک مصنوعی اور خیالی مسیح اس زمانہ کے نادان اور دین سے نا واقف لوگ بنا رہے تھے.ان سب امور کے پیش نظر خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک نئے الہام کی ضرورت تھی جو اس قسم کی غلطیوں سے پاک ہوا اور بنی نوع انسان کو اعلیٰ اخلاق اور اعلیٰ روحانیت کی طرف لے جائے اور وہ کتاب قرآن مجید ہے.قرآن کریم ایک مکمل اور عالمگیر شریعت ہے جو کامل نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے وجود باجود سے معرض وجود میں آئی.بائبل میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے بارہ میں مستعد و پیش گوئیاں بھی موجود ہیں خیالی
1.6 خدا تعالیٰ کے حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام سے وعدے جس طرح حضرت موسی کے ذریعہ پورے ہوئے اسی طرح حضرت اسمعیل کی نسل سے جو وعدے تھے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود سے پورے ہوئے.اس طرح یسعیاہ اور دانیال کی پیش گوئیوں کے مصداق آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم ہیں اور استثناء پی کی پیشگوئی نبی کریم مسلم کے وجود میں نہ کہ شرح کے وجود میں پوری ہوئی کیونکہ اس پیش گوئی کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک نئی شریعیت کے حامل ہیں اور شیخ کو کوئی شریعیت نہیں دی گئی.اور پھر اس پیشگوئی کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کومکمل تعلیم دی گئی.اسی طرح متی یام کی پیش گوئی کے مصداق آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم ہیں.آخر وہ کون تھا جس سے عیسائیت اور یہودیت ٹکرائی اور پاش پاش ہوگئی.یہ سب امور دیباچہ میں بیان کئے گئے ہیں.۲۱ قرآن کریم خدا تعالیٰ کا کلام ہے جو سو ۲ سال کے عرصہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا حضر مسیح خدا کے بیٹے نہیں بلکہ دیگہ انبیاء کی طرح ایک نبی تھے اور وہ صلیب پر فوت نہیں ہوئے.اسلام اور قرآن کے ذریعہ ہی دین و ایمان کی تکمیل ہو سکتی ہے.عیسائی دنیا اس سوال کا جواب کیا دے گی کہ اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے اور نبی کریم کے ذریعہ دین کی تکمیل ہوئی.امام جماعت احمدیہ اس دیباچہ میں عیسائی دنیا کو مندرجہ ذیل الفاظ میں چیلنج کرتے ہیں :- اگر مسیحی پوپ یا اپنے آرچ بیشیوں کو اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ میرے مقابل پر اپنے پر نازل ہونے والا تازہ کلام پیش کریں جو بعد اتعالیٰ کی قدرت اور علم غیب پر تمل ہو تو دنیا کو سچائی کے معلوم کرنے میں کس قدر سہولت ہو جائے گی یہ امام جماعت احمدیہ اپنے آپ کو مصلح موعود قرار دیتے ہیں جن کی پیدائش کی خبر حضرت مسیح موعود ینے ان کی پیدائش سے پانچ سال قبل ۱۸۸۶ ء میں دی تھی.وہ اپنے الہامات کو اسلام اور قرآن کی قدرت کے ثبوت میں پیش کرتے ہیں اور ان کا دعوی ہے کہ قرآن کے نئے علوم اُن پر کھولے گئے ہیں اور دوسر مسلمان جماعت احمدیہ کی مخالفت پر کمر بستہ ہیں.افغانستان میں ۱۹۲۴ء میں دو احمدیوں کو شہید کیا گیا جماعت احمدیہ جہاد کی تعریف دوسرے مسلمانوں کی طرح یہ نہیں کرتی کہ آنے والا مسیح اور
1.A مہدی کافروں کا تلوار سے قلع قمع کرے گا.ان کے عقیدہ کے مطابق حضرت شیخ صلیب پر فوت نہیں ہوئے بلکہ مطلب سے زندہ اُترے اور پھر مریم عیسی کے ذریعہ سے شفاء پائی اور بعد میں کشمیر گئے اور سرینگر میں فوت ہوئے.یہ بات غلط ہے کہ قرآن کریم معجزات کا قائل نہیں بلکہ قرآن کریم پورے یقین کے ساتھ ذکر کرتا ہے.اور امام جماعت احمدیہ نے دیگر امور کے علاوہ نبی کریم کی پیش گوئیوں کو بھی معجزات قرار دیا ہے.ہاں قرآن کریم اس قسم کی بجاہلانہ باتیں نہیں کہتا کہ محمد رسول اللہ حقیقی مُردے زندہ کیا کرتے تھے یا سورج اور چاند کی رفتار کو ٹھرا دیا کرتے تھے یا پہاڑوں کو چلایا کرتے تھے ، یہ تو بچوں کی کہانیاں ہیں.ان باتوں کو قرآن کریم نہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرتا ہے اور نہ کسی اور نبی کی طرف بلکہ اگر پہلی کتب میں اس قسم کی باتیں استعمال ہوئی ہیں تو قرآن کریم ان کی تشریح کرتا ہے اور تاتا ہے کہ یہ باتیں محض استعارہ استعمال ہوئی ہیں اور لوگوں نے انہیں حقیقی رنگ دینے میں غلطی کی ہے میخ کی الوہیت اور ان کی طرف خدائی قوتوں کو منسوب کرنے کا بھی جماعت احمدیہ نے رد کیا ہے.جماعت احمدیہ اس بات کو بھی پیش کرتی ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائرۂ رسالت میں حضرت موسی اور حضرت عیسی کی تعلیمات کے برعکس تمام دنیا کو مد نظر رکھا.ان کی تعلیمات میں حضرت موسی کی تعلیمات اور حضرت عیسی کی نرمی اور بردباری اور محبت کی تعلیمات کامل طور پر موجود ہیں.وہ دشمنوں سے ضلع کرنے اور اہلی زندگی کے لئے بالخصوص عالمگیرا اور کامل مثال ہیں.حضرت مسیح موعود نے اس بات کو بھی واضح کیا ہے کہ انہوں نے قرآنی مسیح (حضرت عیسی علیہ السلام) کے خلاف کبھی نہیں لکھا کیونکہ خدا تعالیٰ کے نیچے نبی تھے بلکہ جہاں جہاں انہوں نے مسیح پر حملے کئے ہیں وہاں انجیل کے میسج پر انجیل کی تعلیمات کے مطابق الزامات لگائے ہیں جیسے وہ دنیا کا نجات دہندہ اور خدا کا بیٹا قرار دیتے ہیں.اگر نجات بیح کے دامن سے ہی وابستہ ہے تو پھر اس بات کا کیا جواب ہے کہ جو انبیاء اور راست باز لوگ مسیح سے پہلے گزرے ان کی نجات کیسے ہوئی جبکہ یے پر ایمان نہیں لائے تھے.اسلام اب عیسائیت کے خلاف زور سے حملہ آور ہے اور احمدیت کے مرکز میں یہ پروپیگینڈا پورے زور سے جاری ہے.اور یہ امر عیسائی دنیا کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے.(ترجمہ) (6) ڈاکٹر محمد عبد اللہ صاحب ماضی منیجر مدارس دینیہ مصر نے جو میں ترجمہ قرآن کے متعلق مندرجہ
1.4 ذیل رائے تحریر کی :- " أَمَا التَّرْجَمَةُ نَفْسُهَا فَقَدْ اخْتَبَرتُها فِي مَوَاضِعَ مُخْتَلِفَةٍ وَفِي كَثِيرٍ مِنَ الْآيَاتِ فِي مُخْتَلَفِ السُّورَ فَوَجَدْتُهَا مِنْ خَيْرِ التَّرْجَمَاتِ الَّتِي ظَهَرَتْ لِلْقُرانِ الْكَرِيمِ فِي أَسْلُوبِ دَقِيةٍ مُختَالٍ وَ مُحَاوَلَةٍ بَارِعَةٍ لِأَدَاءِ المعنى الذِي يَدُلُّ عَلَيْهِ التَّعْبِيرَ الْعَرَبِيُّ الْمُنَزِّلَ لِآيَاتِ الْقُرْآنِ الْكَرِيم له یعنی جہاں تک ترجمہ کا تعلق ہے میں نے مختلف مقامات اور مختلف سورتوں کی بہت سی آیات کا رجم بنظر غائر دیکھا ہے.میں نے اس ترجمہ کو قرآن مجید کے جملہ تراجم سے جو اس وقت منصہ شہود پر آچکے ہیں بہترین پایا ہے.اس ترجمہ کا اسلوب نہایت محتاط علمی رنگ لئے ہوئے ہے.باریک بینی کو مد نظر رکھنا گیا ہے اور معانی قرآن کی ادائیگی میں انتہائی علمی قابلیت کا اظہار کیا گیا ہے تاکہ عربی میں نازل شدہ قرآنی آیات کی کماحقہ ترجمانی ہو سکے.سے سوئٹرزلینڈ مشن کو اپنی زندگی کے نویں سال یہ دائمی فخر نصیب حضرت سیدنا المصلح الموعود کا ہوا کہ حضرت سید نا المصلح الموعود جب دوسری بار یورپ زیور میں ورود سعود تشریف لے گئے تو حضور زیورج (سوئٹزرلینڈ میں بھی 9 ماہ ہجرت رمئی سے ۱۰ ماه احسان جون تک جلوہ افروز رہے حضور کی رہائش سے تعلق جملہ انتظارنا کی سعادت شیخ ناصر احمد صاحب کے حصہ میں آئی جس پر حضور نے درج ذیل الفاظ میں بذریعہ تار اظهار خوشنودی فرما یا کہ : " ہم خدا کے فضل سے اہل و عیال کے ساتھ بغیریت پہنچ گئے ہیں جنیوا سے آگے تمام انتظامات شیخ ناصر احمد ( مبلغ سلسلہ نے کئے تھے جو کہ بہت عمدہ تھے.شروع میں تازہ روغن ہونے کی وجہ سے کچھ تکلیف ہوئی لیکن چند گھنٹے کے بعد یہ تکلیف رفع مجلة الازهر فروری 2 11469.+ S بحواله الفضل ۳۱ امان / پایه
11.ہو گئی ہے سيدنا المصلح الموعود کا سوئٹزرلینڈ میں درود مسعود ڈاکٹر پروفیسر روسیو کی نگرانی میں معائنہ اور علاج کی غرض سے تھا.اور حضور نے نہ صرف ان سے طبی مشورہ لیا بلکہ زیورپ میں ڈاکٹر پرو فیسر روزگیر ہو میو پیتھی ڈاکٹر گیزل اور مشہور معالج ڈاکٹر (DR.B0510 ) سے اور جنیوا میں ہومیو پیتھ ڈام ڈاکٹر شٹرٹ DR.SCHMIDT ) سے مشورہ فرمایا.تمام طبی ٹسٹ مکمل ہو چکے تو ڈاکٹر لوسیو نے ۲۳ مئی ۱۹۵۵ء کو طبی رپورٹوں کا مطالعہ کرنے کے بعد اپنی تشخیص بتائی.چنانچہ حضور انور نے اُسی روز حسب بل خصوصی پیغام بذریعہ تار ارسال فرمایا :- خدا کا شکر ہے کہ تمام طبی ٹسٹ مکمل ہو گئے ہیں اور بیماری متعین کر لی گئی ہے مشہور معالج ڈاکٹر یوسیو ( DR.BOS10 ) نے رپورٹوں کا مطالعہ کرنے کے بعد آج اپنی تشخیص سے مطلع کر دیا ہے ان کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے خون اور شریانیں اور باقی ہر چیز معمول کے مطابق پائی گئی ہے لیکن یہ کہ مجھے بہت زیادہ آرام کرنا چاہیے اور اگر ممکن ہو سکے تو مجھے یہاں کچھ زیادہ عرصہ قیام کرنا چاہئیے.پھر یہ کہ میری تقریریں زیادہ مختصر $1900 له الفضل ۱۲ ہجرت رمئی ها مرا مکرم جناب چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ نے (جنہیں اس سفرمی تصلح موعود کے پرائیویٹ سیکرٹری ہونے کا شرف حاصل ہوا حضور کے قیام زیورچ کی ایک رپورٹ میں تحریر فرمایا :- مئی کو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ تقریباً ایک بجے زیورچ پہنچے اور کاروں میں سوار ہو کر تا نا.اپنی جائے رہائش 2 BEGONIAN STRASSE میں آیا.یہ ایک چار منزلہ مکان ہے جس کے نیچے کی دو لیٹیں شیخ ناصر احمد صاحب نے کوشش کر کے مالک سے جلدی جلدی تیار کروالیں بقیہ حصہ ابھی زیر مرمت ہے اور ان فلیٹوں کے آگے کی سیڑھیاں ، ہاں وغیرہ میں ابھی پینٹ ہو رہا ہے.خدا تعالی کے خاص بندوں کی جو علوم آسمانی کے امین اور عارف اسرار یہ بانی ہوتے ہیں حسیں بہت تیز ہوتی ہیں حضور کو بدبو بہت ناگوار گزاری اور ایما معلوم ہوا کہ یہاں رہنا ممکن نہیں مگر فلیٹ کے اندر ایسی بونہ تھی.آہستہ آہستہ اس فلیٹ کی خوبیاں بھی حضور کے سامنے آئیں اور حضور نے جب میں شام کو مانگر و کیس پر جنیوا سے زیوریت پہنچا یہی خیال ظاہر فرمایا کہ فلیٹ اچھی ہے اور کرایہ کے لحاظ سے بہت عمدہ ہے !! ر الفصل ۲۴ هجرت ارمنی ها ۳۱۳ م کالم ) سے ڈاکٹر پروفیسر روسیوز یورک کے ہسپتال KANTONSPITAL میں کام کرتے تھے اور سوئٹزرلینڈ کے مشہور " ڈاکٹر تھے ہز ایکسی لینسی مسٹر غلام محمد گورنر جنرل پاکستان انہیں کے زیر علاج رہے ؟
ہونی چاہئیں.انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ سال حملے کے نتیجے میں جو زخم لگا تھا وہ خطرناک تھا اور یہ کہ مری کی رائے درست نہیں تھی، ایکسرے فوٹو سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ چاقو کی نوک گردن میں ٹوٹ گئی تھی جو اب بھی اند رہی موجود ہے اور ریڑھ کی ہڈی (سپائنل کارڈ) کے قریب ہے.خدا کا شکر ہے کہ جن خطر ناک معائنوں سے بچنے کی کوشش کی جارہی تھی اب انکی ضرورت باقی نہیں رہی یا اے زیور آج میں حضرت مصلح موعود کی التی تشخیص کے بعدحضرت سیدنا الصلح الموعود یورپ میں مزید ڈھائی ہفتے رونق افروز رہے.اگر چہ قبل ازیں بھی حضور کی دینی نہایت اہم دینی مصروفیات مصروفیات برابر جاری رہیں چنانچہ حضور مرکزی ڈاک ملاحظہ فرمانے اور یورپ میں تبلیغ اسلام کو کامیاب طور پر وسیع کرنے کی سکیم تیار کرنے میں شب وروز منمک رہے نیز لندن میں یورپ اور امریکہ کے مبلغین کی تبلیغی کانفرنس بلانے کا فیصد سوئٹزرلینڈ ہی میں فرمایا لیکن قیام زیورچ کے آخری ایام میں حضور کی دینی مصروفیات یکایک بڑھ گئیں اور اہل سوئٹزرلینڈ کو عموما او سویں احمدیوں کو خصوصا اپنے مقدس و محبوب آقا کی مبارک و روح پرور مجالس سے فیضیاب ہونے اور حضور کے روح پرور کلمات وارشادات سننے کے ایسے ایسے قیمتی مواقع میسر آئے جو ہمیشہ کے لئے اس سر زمین کے فرزندوں کیلئے سریائیہ افتخار رہیں گے.اس سلسلہ میں حضرت مصلح موعود کی دینی سرگرمیوں کا مختصر اور تاریخ و آ خاکہ درج ذیل کیا جاتا ہے :.۲۴ ہجرت (مٹی) حضور نے عید الفطر کی تقریب پر جماعت کے نام یہ پیغام دیا کہ " ایک دوست نے لکھا ہے کہ آپ عید پر کوئی پیغام دیں چنانچہ میں یہ پیغام بھجواتا ہوں اللہ تعالیٰ ہمارے دوستوں کے روزے قبول فرمائے اور عید اُن کے لئے بہت بہت مبارک کرے سے ۳- احسان (جون) آج حضور نے خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا.م احسان (جون) آج حضرت اقدس زیورج کے احمدیہ مشن میں تشریف لائے اور معائنے الفضل ۲۴ هجرت امنی ها ما : الفضل ۲۲ ہجرت / مئی ۱۳۳۲۵ ۳۰ 81900 الفضل ۲۲ ہجرت / مئی وصل له الفضل ، ر احسان ارجون له ها ۶۱۹۵۵
کے بعد اپنے دست مبارک سے تحریر فرمایا کہ خدا تعالیٰ سوئٹزرلینڈ کے باشندوں کی اپنے دین کی طرف رہنمائی فرمائے اور اُن کا حامی و ناصر ہو تے در احسان (جون) آج حضور کی طبیعت نسبتا بہتر رہی حضور نے آج سوئٹزرلینڈ کے احمدی احباب کو بیلوار پارک (BELVOIR PARK) میں چائے پر مدعو کیا.اس موقع پر حضور نے احباب سے خطاب کرتے ہوئے اس تقریب کو باپ اور بیٹیوں کی ملاقات سے تعبیر فرمایا.سوئٹزرلینڈ کے احمدی احباب نے اپنے آقا اور روحانی باپ کو اپنے درمیان رونق افروز پا کر بے حد خوشی اور مسرت کا اظہار کیات.احسان (جون)) محضور نے آج چائے پارٹی کے موقع پر سوئٹزرلینڈ کے احمدی احباب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : اے میرے روحانی چو میں تم سے مل کر بہت خوش ہوا ہوں بھیشیک سوئٹزرلینڈ ایک چھوٹا سا ملک ہے لیکن اگر تم اللہ تعالیٰ کی ہدایات پر عمل کرو گے تو بڑے بڑے ملک بھی تم پر رشک کریں گے اور اللہ تعالے تمہیں ہمیشہ ہمیش قائم رہنے والی عزت عطا کرے گا بحضور نے انگریزی زبان میں خطاب فرمایا اور شیخ ناصر احمد صاحب ( مبلغ سوئٹزرلینڈ کو جرمن زبان میں ترجمہ کرنے کی سعادت حاصل ہوئی.سے ر احسان (جون) آج سوئس ٹیلیویژن کے ذریعہ حضور انور کا انٹرویو نشر ہوا حضور نے یہ انٹرویو انگریزی زبان میں دیا جس کا ترجمہ مکرم شیخ ناصر احمد صاحب ہی نے جرمن زبان میں کر کے شنا یا حضور نے سفر یورپ کی مرض ، رمضان المبارک کی اہمیت ، جماعت احمدیہ کی تبلیغی جد وجہد اور اس کی ضرورت سے متعلق سوالات کے جوابات دیئے.یوگوسلاویہ کا ایک باشندہ حضور کے دست مبارک پر بیعت کر کے داخل احمدیت ہوا ہے آج شب کو حضور کا ایک انٹرویو بھی سوئس ٹیلیویژن کے ذریعہ نشر ہوا اور اس ملک کے خوش نصیب باشندوں نے خدا کے مقدس مصلح موعود کا پر انوار اور مقدس چہرہ اپنی آنکھوں سے دیکھا اور حضور کو اسلام کے حقیقی تصور اور اس کی اہمیت پر گفت گو فرماتے ہوئے سنا.ٹو له الفضل نمر احسان ارجون من له الفضل ١٨ تے ايضاً + 31488 + 51900 احسان جون ايضا : ه الفضل - احسان جون ۳۳۲ مرا به ار 41440 +
ار احسان (جون) آج حضور نے نماز جمعہ پڑھائی.نہ حضرت امیر الومنین المصلح الموعود تین دن تک سوئٹزرلینڈ کی سرزمین کو اپنے مقدس وجود سے برکت عطا کرنے اور اس کے باشندوں کو نور اسلام سے منور کرنے کے بعد - اس احسان (جون) کو ڈھائی بجے بعد دو پر زیورچ سے جنوبی سوئٹزرلینڈ کے مقام لوگانو (LOGANO ) تشریف لے گئے جہاں سے روانہ ہو کر مهدیشه ار احسان (جون) کو اٹلی کی مشہور بندرگاہ دنیس میں پہنچے اور سوئٹزرلینڈ کی اسلامی تاریخ کا ایک زریں ورق الٹ گیا.کا بعون نسبت و سوم (POPE JOHN XXIII) رومن کیتھوں کے پوپ کو تبلیغ اسلام انتخاب کے آخر میں عیسائیوں کے بڑوں کیتھولک فرقے کے نئے پوپ کی حیثیت سے ہوا تو محترم شیخ ناصر احمد صاحب (مبلغ اسلام سوئٹزرلینڈ) نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ حسنہ کے مطابق ان کے نام ایک خصیا تبلیغی مکتوب لکھا جس میں مروجہ عیسائی معتقدات و نظریات کا غلط ہونا ثابت کرنے کے بعد انہیں دعوتِ اسلام دی اور تو بہ دلائی کہ وہ اسلام کی دائمی تعلیمات اور خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مقدس زندگی اور پاک سیرت کا یورپ کے روایتی تعصب سے بالا ہو کر مطالعہ کریں اور بانی تحریک احمدیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی ماموریت پر غور کر کے اُس صداقت کو قبول کرنے کی سعادت حاصل کریں جسے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اکتان عالم میں پھیلانے کے لئے مبعوث فرمایا ہے ہے.اس خط کے بعد شیخ صاحب نے بعض اور تبلیغی خطوط بھی پوپ کے نام لکھے.احمدیہ مشن کی لیسانی و قلمی اسلامی خدمات سوئٹزر لینڈ کے احمد میشن کی اسلامی خدمات حلقہ مخالفین کو کسی طرح گوارا نہیں تھیں.اور میچ جو اور حلقہ مخالفین ابتداء ہی سے مبلغین اسلام کی آمد کو اپنے لئے زبردست چیلنج سمجھتا تھا اسلام کے روحانی انقلاب کی راہ روکنے کے لئے اب آہستہ آہستہ کھل کر سامنے الفصل ۱۴ احسان /جون 11400 ایضا الفضل د نبوت / نومبر د :.شیخ صاحب نے اسی مکتوب کا جو من ترجمہ ایک چھوٹی تقطیع کے رسالہ کی صورت میں چھپوا لیا اور اس کے نسخے سوئٹزرلینڈ اور آسٹریا کے نئے احمدیوں کو بغرض تقسیم بھیجوائے.الفضل ۱۵ ہجرت رسمی 51439
۱۱۴ آنے لگا.چنانچہ اخبار KI REHENZEITUNG LUCERNE نے اپنی..فروری سٹار کی اشاعت میں مجاہدین احمدیت کی سرگرمیوں کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتے اور ان کو چرچ کے لئے خطرہ قرار دیتے ہوئے انتباہ کیا کہ :.یہ مسلمانوں کی ایک جماعت اس کوشش میں ہے کہ اسلام کی تعلیمات کو ہر جگہ پہنچائے.اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ مسلمان مبلغین ہمارے ملک میں بھی مقدر کئے جائیں کیونکہ سوئٹزرلینڈ بھی اب اُن علاقوں میں شامل ہوچکا ہے جن میں اسلامی مبلغین مصروف عمل ہیں مختلف طریقے جو یہ جماعت اس بعد و جہد کے سلسلہ میں عمل میں لائے گی بظاہر ہے.وہ نام جس کا گزٹ میں ذکر کیا گیا ہے وہ بھی کم دلچسپ نہیں ہمیں اس امر کا خیال بھی نہیں آسکتا تھا کہ کبھی AUGUST BADER ↳ JAKOM FREI بھی اسلام کی خدمت میں لگ جائیں گے یہ زیادہ دیں کی بات نہیں جب اس امر کا علم ہوا کہ اسلام کا منظم تبلیغی کام سوئٹزر لینڈ میں بھی شروع ہو رہا ہے.اس امر کا بھی اعلان ہو چکا ہے کہ یہ جماعت زیورک میں ایک مسجد کی تعمیر کا ارادہ رکھتی ہے.گو ہمیں اس سے خائف نہیں ہونا چاہیئے لیکن بہتر یہ ہے کہ ہم اپنے آپکو مناسب وقت کے اندر اندر وہ اس کے مقابلہ کے لئے تیار کر لیں اور اسے یہ مجھ کو نہ چھوڑ دیں کہ وہ کسی عسلی خطرہ کا پیش خیمہ نہیں ہے.اگر چہ وقتی طور پر وہ خطرہ معلوم نہیں ہوتا تاہم ہمیں اس امر کی ترغیب دلا رہے ہیں کہ ہم اپنی دینی معلومات اور مذہبی طریقہ زندگی کے متعلق گہرا مطالعہ شروع کر دیں کیا ہے اسی طرح اخبار SEN WEIZ ST.CALLE USE SEN نے اپنے نے مارچ 1907ء کے الیشوع میں لکھا:.آج مسلمانوں کے ثقافتی حلقوں میں تبلیغ و اشاعت کی شدید خواہش پیدا ہو رہی ہے.یہ خواہش جو اپنے بنوش کی وجہ سے اچانک پھوٹ پڑی ہے.اور مین مبصرین کے لئے مصنفین نے ہے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی دنیا اچانک اپنی قوت سے دوبارہ آگاہ ہو گئی ہے (ترجمہ) بحوالہ مغرب کے افق پر تقریر سالانہ جلسہ مل جناب صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب ر وكيل التبشير تحریک جدید ربوه) صفحه ۰۲۹۰۲۸ له
110 ایسی قوت سے جو سیاسی نہیں بلکہ نظریاتی ہے.ایک ایسی خواہش جو تین صدیوں تک دبی رہی اچانک شعلہ بن کر یورپ کے ثقافتی حلقوں کو متاثر کرنے کے عزیم میم میں تبدیل ہوچکی ہے تا کہ مسلمان قرآن اور ملال کے لئے موجودہ ترقی یافتہ تبلیغی کام کے ذریعہ نئے آفاق تلاش کر سکیں.اسلام عرصہ سے اپنی اشاعت کے اس نئے جوش اور نئے ولولہ کی وجہ سے یورپ کو اپنی کوششوں کا مرکز قرار دے چکا ہے اور محض یہی نہیں بلکہ اپنے قدموں کو مضبوطی سے جما رہا ہے.اگر کوئی اس حقیقت کو خوش فہمی سمجھ کر نظر انداز کرنے کی کوشش کرے تو اسے ان حقائق پر غور کرنا چاہیئے.زیورک میں چند سالوں سے ایک اسلامی تبلیغی مرکز قائم ہے جود اپنا رسالہ خود شائع کرتا ہے.اور جو اپنے لیکچروں اور خطبات کے ذریعہ سوئٹزر لینڈ کی ہر سوسائٹی اور ایسوسی ایشن سے ہر ممکن تعلق پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے.وہ اسلامی لٹریچر کی سرگرم اشاعت کے کسی موقع کو ضائع نہیں ہونے دیتا، خاص طور پر نوجوانوں میں ایسے مواقع کو کسی صورت میں بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتا.زیورک کا یہ اسلامی مرکز کسی لحاظ سے بھی ایک الگ تھلگ کوشش نہیں بلکہ ایک بہت بڑی منظم سکیم کی ایک شاخ ہے.اب ہر ایک شخص کو یہ حقیقت مد نظر رکھنی پڑے گی کہ شرخ دیو آہنی پردے کے پیچھے آڑلئے بیٹھا ہے اور وہ اپنی تمام ترطا قتوں کو مجتمع کئے ہوئے منتظر ہے کہ کب اسے موقع میسر آئے اور وہ مغرب کا گلا گھونٹنے کے لئے میدان میں آئے.اس اثناء میں اسلام بھی یورپ کا مقابلہ کرنے کے لئے نہایت اطمینانی کیساتھ پیش قدمی کر رہا ہے مگر اس کی پیش قدمی اس کی محتاط ، محرک اور مؤثر قوت کے ساتھ ہے جو اس کا خاصہ ہے." شد F1971 ١٣٠ ہ میں سوئٹزرلینڈ کے مخالف اسلام طبقے کیا سوچ رہے تھے اور کیا کر رہے تھے؟ اس کا نقشه شیخ ناصر احمد صاحب نے اپنی ماہ تبوک استبر اللہ کی رپورٹ میں بایں الفاظ کھینچا.مخالفینی کے حلقہ میں سے ایک شخص نے گمنام خط لکھا کہ اپنا بستر بوریا باندھ کر واپس پہلے جھاؤ اور پھر د کوٹو ایک رسالہ میں ہمارے ایک مضمون پر کڑی تنقید شائع ہوئی لیکی له ترجمه بحوالہ مغرب کے افق پر صفحہ ۲۹ - ۳۰ به
۱۱۶ مضمون نگار نے بات کو محض بگاڑ کر پیش کیا اور لوگوں کو ہمارے خلاف، اُبھارنا چاہا ہم نے مختصر رنگ میں اس کا جواب دیا.ان ہی دونوں خاکسار کو پولیس والوں نے ایک بیان کے لئے بلایا اور مضمون مذکورہ بالا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں لوگوں کے مذہبی جذبات کا خیال رکھنا چاہئیے خاکسار نے انہیں جوابا کہا کہ ہمیں اس امر سے سخت حیرت ہے کہ اس مضمون میں جو اسلام میں خدا تعالیٰ کے تصور کے موضوع پر لکھا گیا ہے کسی صحیح الدماغ انسان کو کوئی اعتراض ہوسکتا ہے خاکسار کے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ پولیس افسر نے ہمارے مضمون کو خود پڑھا تک نہ تھا.لہذا خاکسار نے مناسب سمجھا کہ انہیں نفسِ مضمون سے آگاہ کر دیا جائے چنانچہ خاکسار نے بتایا کہ ہم نے مضمون دیکھا ہے کہ اسلام میں مندا صرف ایک وجود ہے جس کا نہ بیٹا ہے نہ بیوی.خدا تعالیٰ کا یہ تصور عیسائیت کے تصور تثلیث سے بالکل مختلف ہے.شاید ایک عیسائی توحید باری تعالٰی کے تصور کو نہ سمجھ سکے لیکن ہم مسلمان تثلیث کو نہ میں سمجھ سکتے نہ ہی خدا تعالٰی کی عبادت میں کسی کو شریک کر سکتے ہیں.ہمارے نزدیک مشکل یا مصیبت کے اظہار کے وقت ایسور ع خدا پکار نا خدا تعالٰی کی شان کے خلاف ہے.نہ ہی ہم اہنیت کے قائل ہیں نہ ہی صلیبی موت کے.اسلام کے خدا کو کسی عدد کی حاجت نہیں وہ کسی کام کو کرنے پر مجبور نہیں وغیرہ.اس پر پولیس افسر نے کہا کہ آپ کو یہ سب باتیں کہنے کا حق ہے اور یہ مذہبی آزادی کے عین مطابق ہے.خاکسار نے کہا کہ آپ کے نز دیک مخالف مضمون نگار نے کوئی معقول بات بھی پیشیں کی ہے یا صرف جذباتی طور پر ہمارے خلاف لوگوں کو اُبھارا ہے.اُس نے جواب دیا کہ اس کے نزدیک بھی مضمون متعلقہ کو جرنلزم سے کوئی تعلق نہیں.خاکسار نے کہا کہ اگر اس قسم کے لیے ضر مضمون پر بھی اعتراض ہو سکتا ہے تو پھر اسلام کی تبلیغ ہی بند کر دینی چاہئیے.قرآن کریم کی اشاعت ممنوع قرار دینی چاہیئے بلکہ ہر بات جو موجودہ چرچ کے خلاف ہے اسے حکماً روک دینا چاہیئے لیکن پھر ملک میں مذہبی آزادی نہیں رہے گی بلکہ مسلمان تو الگ رہے یہودیوں کو بھی خلاف قانون قرار دینا پڑے گا کیونکہ مسلمان تو بہر حال حضرت شیخ کی عزت کرتا اور انہیں خدا تعالیٰ کا نبی مانتا ہے برعکس اس کے یہودی آپ کو نعوذ باللہ کذاب اور ملعون سمجھتے ہیں.خاکسار
کی باتوں کو پولیس افسر اچھی طرح سمجھ گیا.راہ نیز لکھتے ہیں :- مخالفت کے ذکر کے سلسلہ میں عیسائی مشنری کو نسل کے ایک رسالہ کا ذکر بہت ضروری ہے جو انہوں نے گزشتہ عرصہ میں شائع کیا ہے.یہ ایک دو ماہی رسالہ ہے جس کا نام WONDERE R " ہے.اسے شائع کرنے والی کونسل کے اراکین دنیا مشتری سوسائیٹیز ہیں جو اس ملک کی طرف سے دُنیا کے مختلف حصوں میں عیسائیت کا پرچار کر رہی ہیں.(سوئٹزرلینڈ کا ملک عیسائیت کی عالمگیر تبلیغی مہم میں خاص حیثیت رکھتا ہے صرف کیتھولک فرقہ کے ہی اٹھارہ صد مبلغ دُنیا بھر میں کام کر رہے ہیں.ایک شہر بازل کی ایک تبلیغی انجمن نے ہی ۲۲۵ مبلغ بھجوا رکھے ہیں، الخلف یہ ہے کہ یہ سارے کا سارا رسالہ ہماری تبلیغی مساعی کے بیان پرمشتمل ہے اور اس مشن کی کارروائیوں کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور لوگوں کو ہماری جانب سے خطرہ سے غیر وار کر کے لکھا گیا ہے کہ یہ احمدی لوگ ایک خاص جذبہ سے سرشار ہیں ان کی سکیموں کو حقیر نہ جانو اور نہ ہی ان کی کارروائیوں سے لاپڑاہی بر تو بلکہ اپنے آپ کو ان کے مقابلہ کے لئے تیار کر لو کیونکہ اگر یہ لوگ ایک غلط بات کی تائید میں اس قدر محنت اور قربانی کا نمونہ دکھا سکتے ہیں تو کیا ہم عیسائی لوگ اس کی خاطر ان سے بھی زیادہ قربانی نہیں دیکھا سکتے جس نے ہمارے لئے اپنی جان تک دے دی ارسالہ مذکورہ میں ایک صفحہ پر ہمارے قبر مسیح والے اشتہار کی فوٹو دی گئی ہے.ایک صفحہ پر قرآن کریم کے جرمن ترجمہ کا ایک پورا صفحہ دیا گیا ہے اور جماعت کی تاریخ حضرت مسیح موعود کے دعاوی حضور کی پیش گوئیوں میشنوں کے قیام یورپ کی مساجد میسجد زیورک وغیرہ امور کا ذکر کیا گیا ہے.یورپ میں تبلیغ اسلام کی تاریخ میں یہ پہلا موقعہ ہے کہ چرچ نے اس تفصیل اور شدت کے ساتھ ہمارا نوٹس لیا ہے.پہلے یہ لوگ ہمیں کم مایہ اور خیر سمجھتے تھے لیکن اب ان کے تفکرات میں ایک نمایاں انقلاب آ رہا ہے اور یہ اپنے لوگوں کو له الفضل ٣٠ نبوت / نومبر ۱۳ ۳۰
||A ہمارے مقابلہ کے لئے تیار کرنا چاہتے ہیں.ضمنی طور پر یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری کمزور کوششوں کی فوقیت اور اللہ کا اعتراف بھی ہے.گذشتہ دنوں ایک مشہور اخبار میں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کے درمیان ایک بحث کا سیلسلہ چل پڑا ہمارے لئے اس مباحثہ میں دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ایک مضمون نگار نے لکھا کہ اسلام اس قدر سرعت سے آگے بڑھ رہا ہے اور اب اس ملک میں بھی قدم جما چکا ہے.اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے اندرونی اختلافات کو بھلا کر اس بیرونی خطرہ کا مقابلہ کریں.اس رپورٹ کی تیاری کے دوران میں اطلاع ملی ہے کہ ایک کتاب اسلام کے تعلق ایک مخالف نے شائع کی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ اسلام کا چرچا اس قدر پڑھتا جاتا ہے کہ عوام کو اس کی اصل تعلیم سے آگاہ کرنا ضروری ہے یا سے ویٹزرلینڈ کے علمی طبقوں میں ۱۳۳۸۰ کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ اس میں سوئیس کے علمی حلقوں میں اسلام کا خوب چرچا ہوا.چنانچہ شیخ ناصر احمد صاحب اسلام کا عام چرچ نے لکھا.ان دنوں سوئٹزر لینڈ میں مختلف مواقع پر اسلام پر لیکچر ہورہے ہیں.اخبارات میں مضامین بھی آئے دن چھپتے رہتے ہیں.در اصل ہماری تحریک پر ہی زیورک کی یونیورسٹی میں ایک سلسلہ تاریر کا جاری ہوا جس میں ایک پروفیسر نے اسلام کو لیکچر دئے.احمدیت کا ذکر بھی کیا.آخری لیکچر کے دن ہم نے ایک اشتہار سائیکل سٹائل کر کے سامعین تقسیم کیا اور انہیں دعوت دی کہ اسلام پر مزید معلومات ہم سے حاصل کریں اور رسالہ اسلام طلب کریں.چنانچہ اس پر بہت سے لوگوں نے اپنے اپنے اس غرض کے لئے ہمیں بھجوائے.یوں ریڈیو پر بھی چند مہینوں سے ایک سلسلہ لیکچروں کا شروع ہے جس کا عنوان ہے اسلام اور مغرب.اس پروگرام میں حصہ لینے والوں نے بعض دفعہ اسلام کے بارہ میں بہت اچھی باتیں کہی ہیں.ایک دفعہ ایک صاحب نے احمدیہ جماعت کی تبلیغی مساعی کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ صرف ایک ہی تنظیم ایسی ہے جو اسلام کی تبلیغ کا کام کر رہی ہے.یہ لوگ تربیت یافتہ الفضل ٣٠ نبوت / نومبر A 35941
114 نوجوانوں کے ذریعہ تحریر و تقریر کے مہتھیاروں سے اسلام کو پھیلا رہے ہیں.آسٹرین ریڈیو پر بھی ایک پروفیسر نے اسلام پر ایک لیکو نشر کیا جس کی نقل ہم نے منگوائی سے وٹزرلینڈ یشن کے ذریعہ بزنی کے علاوہ آسٹریا تک بھی اسلام آسٹریا میں تبلیغ اسلام کا پیغام پہنچا اس سلسل میں شیخ ناصر احد صاحب نے اس لیے میں 144.آسٹریا کے دورے بھی کئے بگھی میں سے وہ کی رپورٹ خود شیخ صاحب کے قلم سے لکھی جاتی ہے.پہلا دورہ: وہ تحریر فرماتے ہیں:.آسٹریا کے دورہ کے سلسلہ میں مورخہ 19 جون کو اتریبوک کی یونیورسٹی میں خاکسار نے اسلام کی روحانی دنیا " کے موضوع پر ایک مفصل لیکچر دیا.اس ٹیچر کے بعد سامعین کو مزید معلومات حاصل کرنے کی دعوت دی گئی چنانچہ رہائش گاہ پر ایک گروپ سامعین کا آیا اور دیر تک گفتگو ہوتی رہی.تقریر کے موقعہ پر سلمان ممالک کے بہت سے طلباء بھی موجود تھے جنہوں نے ہماری مسائلی کو بہت تحسین و قدر کی نگاہ سے دیکھا.تقریر سے پہلے بھی انفرادی گفت گو ہوتی رہی.اس لیکچر کا اعلان لو کل اختیارات میں شائع ہوا.نیز ریڈیو پر بھی متعدد بار اس کا اعلان نشر کیا گیا.خاکسار اس موقعہ پر ایک پروفیسر ڈاکٹر FRAN Z سے بھی ملا اور یونیورسٹی میں مزید نیچروں کے مواقع پر گفتگو ہوئی.چنانچہ ہمبر میں وہاں دو لیکچروں کا انتظام ہو گیا ہے.علاوہ انہیں آسٹریا کے دوسرے شہروں میں بھی لیکچروں کے انتظام کے لئے خط و کتابت ہورہی ہے.جون کے مہینہ میں وتی آنا گیا اور وہاں مقامی احمدی افراد سے متعدد انفرادی اور اجتماعی ملاقاتیں کر کے تبلیغی کام کو وسیع کرنے کی ایک کیم پر غور کیا گیا انشاء اللہ العزیزیہ سکیم تیار کر کے اس پر عمل شروع کر دیا جائے گا.ག»་ LEONHARD اه الفضل ۱۵ هجرت رمی هه مو که قبل از این شیخ صاحب موصوف کی آسٹریا کے بعض دوستوں سے تبلیغی خط و کتابت کرنے اور کتب بھیجوانے کا سلسلہ جاری تھا جیسا کہ مشن کی رپورٹ دازوفار جولائی تا تہوک/ ستمبر ) سے ثابت ہے.چنانچہ لکھا ہے:- آسٹریا سے بھی خطوط سوالات پر مشتمل آئے جن کے تفصیلی جوابات خاکسار نے بھیجوائے اور لٹریچر کی ترسیل نیز خطوط کے ذریعہ وہاں بھی تبلیغ کا سلسلہ جاری رہا یا $190A الفضل ۲۳ امضاء / اکتوبر )
۱۳۰ وی آتا میں خدا کے فضل سے ایک چھوٹی سی جماعت قائم ہو چکی ہے.اپریل میں ایک خاندان نے بیعت کی.جون میں ایک اور خاتون نے.اس خاتون کے خاوند ڈاکٹر خالد رسیڈلر چند سال سے احمدیت قبول کر پیتے ہیں.مورخہ ۱۴ جون کو خا کسانہ آسٹریا کے فیڈرل صدر DR.ADOLF SCHARB HERN سے اُن کے ایوان خاص میں ملاقات کے لئے گیا.اس موقعہ پر ان کی خدمت میں قرآن کریم کا ایک نسخہ پیش کیا گیا گفتگو کے دوران میں صدر محترم نے خود ہی اس امر کا اعتراف کیا کہ مسلمانوں نے اپنے زمانہ اقتدار میں عیسائی حکومتوں کے مقابلہ میں بہت زیادہ رواداری کا نمونہ دکھایا ہے.اس سے ایک روز قبل خاکسار نے وہی آنا کے صدر بلدیہ FRANZ SONAS کو بھی ایک نسخہ قرآن کریم کا بطور تحفہ پیش کیا.وی آنا کے ایک اخبار میں ایک نوٹ شائع کرایا گیا تا اسلام سے دلچسپی رکھنے والے حضرات خاکسار سے مل کر مزید معلومات حاصل کریں.ایک روز ایک چھوٹے سے گروپ کے ساتھ گفتگو کرنے اور لٹریچر تقسیم کرنے کا موقع ملا.وی آنا میں ہی خاکسار ایک لیکچروں کی انسٹی ٹیوٹ کے ڈائر یکٹر سے ملا اور اسلام پر تقاریر کا انتظام کر وایا.آسٹریا کے دورہ کی خبر یو نائیٹڈ پریس آسٹرین پریس ایجنسی رائٹر اور وی آنا کے اخبارات کو دی گئی ہیں دوسرا دوره :- آسٹریا کے دورہ کے سیلہ ملہ میں مورخہ 4 اکتوبر کو ایک جگہ HOLLABRUNN میں پبلک یونیورسٹی میں خاکسار کا لیکچر اسلام کی روحانی دنیا کے موضوع پر ہوا.حاضری بہت خوش کن تھی اور سامعین نے یہ فصل لیکچر بہت شوق اور توجہ کے ساتھ شناء مورخہ ۱۳.اکتوبر کو وی آنا میں ایک لیکچر اسلام اور نئی اسلام کے موضوع پر ہوا.اس کے بعد اسلام پر ایک اور لیکچر وی آنا میں مورخہ ۲۰ اکتوبر کو ہوا.بعد میں سامعین کو اُن کی خواہش پر پر پیش کیا گیا.اس سفر کے دوران میں خاکسار نے سالزبرگ، وہی آنا ہونا ایران اور گر ائر میں مختلف اداروں سے ملاقاتیں کر کے آئندہ لیکچروں کا اجمالی پر وگرام طے کیا.وی آنا ه الفضل ۱۲۰ ظهور اگست ۱۳۹۵ مرد
۱۲۱ کے احمدی افراد سے متعدد ملاقاتیں انفرادی اور اجتماعی رنگ میں کی گئیں تبلیغ کے کام کو ہمت دینے کے ذرائع پر غور کیاگیا.وہیں ایک آسٹرین نوسلم میاں بیوی کا نکاح ان کی خواہش پر اسلامی طریق پر بھی پڑھا گیا.اُن کی شادی قبول اسلام سے پہلے کی ہے.و سمیر نشر میں شہر آنزبرگ کی یونیورسٹی میں دو لیکچروں کا انتظام تھا جن کا اعلان علاوہ اخبارات کے ریڈیو کے ذریعہ بھی کیا گیا.اکتوبر والے لیکچروں کا اعلان بھی پوسٹروں اور ریڈیو کے ذریعہ ہوا تھا...مریضہ 4- دسمبر کو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ نیز تعلیم الاسلام پر ایک تقریر ہوئی، بعد میں بعض سامعین نے علیحدہ بیٹھ کر مزید سوالات کے ذریعہ معلومات حاصل کیں یا شه ملک میں قبول اسلام کرنے والوں کی تعداد جب بتدریج بڑھنے لگی تویہ احمدیہ گزٹ کا اجراء ضرورت محسوس ہوئی کہ سوئیں احمدیوں کی دینی و روحانی تربیت، مرکز اور مشن سے مضبوط رابطہ اور تعلق پیدا کرنے اور ان کے سامنے جماعت کے مالی جہاد کی تحریکات رکھنے کے لئے ایک مخصوص پرچہ شائع کیا جائے، چنانچہ شیخ ناصر احمد صاحب نے اس اہم ضرورت کی تکمیل کے لئے منہ کے شروع سے احمدیہ گزٹ جاری کیا جس سے نہ صرف نئے مسلمانوں کی تربیت و اصلاح میں بھاری عدو ملی بلکہ رسالہ اسلام کے صفحات پر جو بہاؤ امت حجم کے باعث تھا وہ بھی کم ہو گیا.ہے زیورپ میں تعمیر مسجد کیلئے مغربی ممالک میں اشاعت اسلام کا بہترین ذرید سبد کاقیام ہے کیونکہ یہ اسلام کے روحانی انقلاب اور آسمانی نوبت خانے کا قطعہ زمین کا حصول علامتی نشان ہونے کے علاوہ اسلامی درسگاہ بھی ہے اور خدائے واحد کی عبادت کا مرکز بھی.جناب شیخ ناصر احمد صاحب مسجد کی اس خصوصی اہمیت سے بخوبی واقف تھے اور شروع ہی سے دلی تڑپ رکھتے تھے کہ سوئٹزرلینڈ میں اسلام کی پنجوقتہ منادی کے لئے جلد سے جلد مسجد تعمیر کی جائے چنانچہ اس غرض سے شیخ صاحب نے مری کے وسط اول میں سب سے پہلے شہر کے میٹر سے ملاقات کی بعد ازاں دوسرے مقامی حکام سے متحد دباریل کر موزون قطعہ زمین کے حصول کی کوشش کی.آخر مسلم کی شبانہ روز جد وجہد کے بعد خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے معجزانہ طور له الفضل ۲ شهادت / اپریل ا الفضل ٢١ شهادت / اپریل الله امور 1 ۶۱۹۶۱
۱۲۲ پر مدد فرمائی اور نہایت نامساعد حالات میں ایک گرجا گھر کے سامنے نہایت با موقع قطعہ زمین کا انتظام ہو گیا ہے قطعہ زمین کے انتظامات کے ابتدائی مراحل طے کرنے کے بعد ماہ شہادت / اپریل میں بلڈنگ پرمٹ کی درخواست دی گئی جو تعمیر کے پروگرام میں مشکل ترین مرحلہ تھا.یہ مرحلہ کی طرح اس کی تفصیل شیخ صاحب موصوف کے قلم سے درج ذیل کی جاتی ہے لکھتے ہیں.پہلے ایک اعلان گزٹ میں شائع ہوتا ہے تا اعتراض کرنے والے اپنے اعتراض کورٹ میں پیش کریں اس کے بعد ایک محکمہ سے دوسرے محکمہ میں فائلیں جاتی اور باریک نکتہ چینی اور جرح قدح ہوتی ہے جس پر کئی ہفتے لگ جاتے ہیں.استثنائی حالات میں معاملہ بالائی حکومت کے پاس بھی جاتا ہے.خاکسار نے ہر مرحلہ پر اپنی درخواست کا جائزہ لیا اور قدم قدم پر افسران سے ملالہ آرکیٹیکٹوں، کارپوریشن کے محکمہ جائداد والوں تعمیر کے حکم کے افسران غرض ہرقسم کے اراکین کے ساتھ قدم قدم پر تعلق قائم رکھا معاہدہ کی رو سے مسجد کی تعمیر کا کام سمیر نشدم تک ایک خاص مرحلہ پر پہنچ جانا چاہیئے...ایک مرحلہ پر چرچ والوں نے بھی مداخلت کی اور حکومت کو لکھا کہ ان لوگوں کو مسجد نہ بنانے دی جائے کیونکہ اسی جگہ ایک چرچ بھی ہے حکومت نے چرچ کی اس درخواست کو رد کر دیا ہے.یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ بالخصوص اعلیٰ متمام سے مفید رنگ میں ملنے کی توفیق ملی اور چرچ کی مخالفت بے ثمر رہی ہے جس طرح قطعہ زمین کے حصول کی سعادت محترم جناب شیخ قطعہ زمین پر کھدائی اور دعا نام احمد صاحب کے حصہ میں آئی اسی طرح اس پرتھی مسجد کے جملہ انتظامات سوئٹزرلینڈ مشن کے دوسرے انچارج اور مجاہد تحریک جدید محترم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ کی زیر نگرانی پائیہ تکمیل کو پہنچے جو مرکز کے حکم سے مار کے آغاز میں لنڈن سے سویٹزرلینڈ S1947 تشریف لے گئے اور وہاں اب تک خدمات دینیہ بجالا ر ہے ہیں.چودھری صاحب نے اس وفار جولائی کوئیل ڈوزر کے ذریعہ کھدائی کا کام شروع کرایا.کھدائی سے پہلے جماعت احمدیہ زیو پرت نے اجتماعی دعا کی کہ للہ تعالی مسجد کی تعمیر کو بابرکت فرمائے اور یہ سوئٹزرلینڈ میں اشاعت و غلبہ اسلام کا ایک موثر ذریعہ ثابت ہو سکے الفضل ، وفار جولائی مد و در حیرت می و له الفضل ۱۲۵ ظهور است من له الفضل دار ظهور در بزرگه 31904
۱۲۳ چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ اخراجات مسجد اخراجات کے تعلق میں صاجزادہ مرزا کے تعلق میں گرم مصاجزادہ مرا مبارک ام صاحب محترم مبارک احمد صاحب کا فوری اقدام کے فوری اقدام کا تذکرہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں.وکیل التبشیر ہونے کے باعث تمام مشنوں سے طبعاً ایک گہرا رابطہ ہے لیکن اس مسجد محمود کے ساتھ تو آپ کا ایک خاص تعلق ہے وہ یہ کہ زیورک میں تعمیر کے بلند معیار کے تقاضا کے باعث ایک بڑی رقم کی ضرورت تھی اور پھر زر مبادلہ کا سوال تھا.حکومت پاکستان سے نصف سے بھی کم رقم کا زرمبادلہ ملا بقیہ رقم بیرونی ممالک سے جہای زرمبادلہ کی پابندی نہیں، مہیا ہوتی تھی.مرکز کی عظیم ذمہ داریوں کے پیش نظریہ بوجھ اتنا زیادہ محسوس ہوتا تھا کہ خود مجھے اس پر اصرار کی ہمت نہ تھی.خوش نصیبی سے اس شعبہ کے انچارج محترم میاں صاحب تھے انہیں غیر معمولی جرات اور تو کل حاصل تھا.محترم میاں صاحب کی منظوری کا تاریلا جس کے بعد گرامی نامہ مورخہ ۲۵ جولائی کو ملا.اس میں آپ نے تحریر فرمایا :- مسجد کی تعمیر کے متعلق وکالت مال صاف انکاری تھی مجلس تحریک ذمہ داری لینے کو تیار نہ تھی میں نے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کر کے خود فیصلہ کر دیا.تعدا تعالیٰ سامان بھی پیدا فرما دے گا.ایک شریف انسان بھی دوسرے کے اعتماد کو ضائع نہیں کرتا تو پھر وہ قادر کامل اپنے پر کئے گئے اعتماد کو کیسے ضائع کرے گا اس لئے مجھے تو کامل یقین ہے کہ سب راہیں آسان ہو جائیں گی.گو اس وقت کوئی رستہ نظر نہیں آتا لیکن تلف بھی اسی میں ہے کہ کامل تاریکی سے انسان کامل روشنی میں آجائے.آب آپ اللہ کا نام لے کر بنیادیں رکھیں “ لے حضرت سید امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کے ۱۲۵ ظهور اگست ان کو ویرایش کارای ر سوئٹزرلینڈ پہلی یادگار مسجد کا سنگ بنیاد حضرت مسیح موعود دست مبارک سے موٹر کی له الفضل ٢٤ وفا / جولائی ١٣٣٢٢ ص.۲۴ وفار 11440 $ علیہ السلام کی دختر نیک اختر حضرت سید اللہ الحفیظ
۱۲۴ بیگم صاحبہ نے اپنے دست مبارک سے رکھا اور دعا فرمائی.اس مقدس تقریب کے ایمان افروز کو الف احوال مجاہد اسلام سوئٹزرلینڈ چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ کے قلم سے لکھے جاتے ہیں :.دنیا میں بے شک تقدیر اور تدبیر دونوں الہی قانون جاری ہیں لیکن مجھے اپنی زندگی میں تقدیر اس طرح تدبیر پر حاوی نظر آئی ہے گویا تدبر کا وجود ہی نہیں.سوئٹزرلینڈ میں مبلغ مقرر کئے جانے کا خیال میرے دماغ کے کسی گوشے میں بھی نہیں آسکتا تھا لیکن تقدیر یہاں پر لے آئی.اور پھر وہم میں بھی یہ بات نہ آسکتی تھی کہ سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مبشرا ولاد میں سے کسی کے ہاتھوں مسجد زیور کا سنگ بنیا د رکھا جائے گا.غیر متوقع طور پر حضرت سیدہ اللہ الحفیظ بیگم صاحبہ مظلتها العالی کے دست مبارک سے اس مسجد کا سنگ بنیاد رکھا جاتا محض تقدیر الہی کا ایک کرشمہ ہے.عاجز نے یہاں سخت نامساعد حالات میں اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے یہ کام شروع کیا اور جملہ مراحل یکے بعد دیگرے محض اس کے کرم سے سرانجام پاگئے حتی کہ مسجد کے پلاٹ پر کام شروع کرنے کا دن آگیا.میں نے صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر سے درخواست کی تھی کہ وہ خود سنگ بنیاد کے لئے تشریف لاویں لیکن انہوں نے جواب دیا کہ میرے لئے امسال یورپ آنا ممکن نہیں آپ خود ہی بنیاد رکھ لیں.میں نے پھر اپنی اس شدید خواہش کا اظہار کیا کہ مسجد کی بنیاد ایسے ہاتھوں سے رکھی جائے جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دوہرا تعلق ہو.نہ صرف یہ کہ وہ سلسلہ کا خادم ہو بلکہ جسمانی طور پر بھی حضور کے برگ بار میں سے ہو ر سنگ بنیاد رکھنے کا وقت قریب آرہا تھا کوئی انتظام نہ ہونے کے باوجود قلب کو اطمینان تھا کہ اللہ تعالی خود اپنی جناب سے سامان پیدا کر دے گا.اچانک ایک دن محترم امام صاحب مسجد لنڈن چوہدری رحمت خان صاحب کا مکتوب گرامی آیا جس میں حضرت سیدہ نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کی تشریف آوری کا ذکر تھا.یہ خبر اتنی غیر متوقع اور خوش کن تھی کہ اِس کے سچا ہونے پر یقین نہ آتا تھا.میں نے یہ خط اہلیہ ام کو دیا انہوں نے بھی پڑھ کر تعجب کا اظہار کیا.خاکسار نے حضرت بیگم صاحبہ کی خدمت میں بذریعہ تار یورپ تشریف آوری پر خوش آمدید عرض کیا اور مسجد زیورگ کا سنگ بنیاد رکھنے کی درخوات
۱۲۵ کی آپ نے کمال شفقت سے اسے منظور فرمایا اور تحریر فرمایا کہ وہ اسے بڑی سعادت سمجھتی ہیں.یکی نے سوئٹزر لینڈ کے تمام احمدی احباب سے جن میں سے اکثر ز یورک سے باہر رہتے ہیں رابطه پیدا کرنے کی کوشش کی تاکہ وہ اِس تقریب میں شامل ہونے کی سعادت حاصل کریں.آسٹریا کے احمدیوں کو بھی مدعو کیا گیا.اخبارات اور نیوز اینبیوں سے بھی رابطہ قائم کیا.پھر اپنی جماعت کے احباب کے علاوہ زیورک یا اس کے نواح میں مقیم مختلف ممالک کے مسلمانوں کو بھی اس تاریخی تقریب میں مدعو کیا.اس موقعہ پر پولیس کے لئے جرمن زبان میں ایک تفصیلی بیان تیار کیا گیا.اس دوران حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ اور محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کے پیغامات بھی موصول ہو گئے، ان کا بھی جرمن ترجمہ تیار کر وایا گیا.حضرت بیگم صاحبہ محمد وعه حسب پیر و گرام مورخہ ۳۴ را گست بروز جمعہ پونے بارہ بجے ڈنمارک سے محترمہ صاحبزادی فوزیہ بیگم صاحبہ کے ہمراہ تشریف لائیں.ہوائی اڈہ پر صاحبزادہ مرزا مجید حمد صاحب معہ بیگم صاحبہ بھی موجود تھے جو ایک دن قبل ہمبرگ پہنچ گئے تھے.ائر پورٹ پر پرتپاک خیر مقدم کیا گیا طے شدہ پروگرام کے مطابق اسی روز دو بجے ایک نیوز ایجنسی نے ایک خاتون کو ٹیپ ریکارڈر کے ساتھ حضرت بیگم صاحبہ کا انٹرویو ریکارڈ کرنے کے لئے بھیجوایا.حضرت بیگم صاحبہ سے اس خاتون نے مختلف سوالات کئے اور حضرت بیگم صاحبہ کی زبان مبارک سے جواب ریکارڈ کرنے کے بعد عزیزہ امتہ المجید بنت چوہدری عبد اللطیف صاحب امام مسجد ہمبرگ نے اس کا جرمن ترجمہ کیا.یہ ترجمہ بھی ریکارڈ کیا گیا.حضرت بیگم صاحبہ نے اپنے بیان کے آخر میں فرمایا کہ سوئیں لوگوں کے لئے میرا پیغام یہ ہے کہ وہ اسلام کا مطالعہ کریں اور ہمارے مبلغ مشتاق احمد صاحب باجوہ سے رابطہ پیدا کر کے لڑ پر حاصل کریں.اس کی اولین سعادت نیوز ایجنسی کے مینیجر کو حاصل ہوئی اس نے فوراً فون کیا کہ میں لٹریچر دیکھنا چاہتا ہوں مجھے بھیجوایا جائے.چنانچہ بذریعہ ڈاک اسے لٹریچر بھجوایا گیا.حضرت بیگم صاحبہ کا یہ انٹرویو زیورک کے ایک اخبار میں من وعن شائع ہوا.۲۵ اگست کو ساڑھے دل بے قصبہ مسجد کی بنیاد کا وقت مقرر تھا صبح اُٹھے تو مطلع ابر آلود تھا.ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی.خاکسار صبح ہی وہاں پہنچ گیا کیونکہ بعض دوست جو
باہر سے آرہے تھے ان سے مسجد کے قریبی ایک ریسٹوران میں ہی ملاقات کرنے کا اہتمام کیا گیا تھا بنا کسار بعض احباب و خواتین کے ہمراہ پلاٹ پر مہمانوں کا منتظر تھا کہ بارش میں کچھ اضافہ ہو گیا.اس اثناء میں حضرت بیگم صاحبہ کے ریسٹوران میں تشریف لے آنے کی اطلاع موصول ہوئی.آپ کافی دوست جمع ہو چکے تھے برادرم چو ہدری عبد اللطیف صاحب بھی ہمبرگ سے پہنچ گئے تھے آپ کی بڑی خواہش تھی کہ اس مبارک تقریب میں شریک ہوں.حضرت بیگم صاحبہ کی خدمت میں درخواست بھجوائی گئی کہ آب تشریف لے آویں.چند منٹ میں آپ کی کار آگئی.خاکسار نے آگے بڑھ کر کار کا دروازہ کھولا حضرت بیگم صاحبہ مدظله العالی محترمہ صاحبزادی فوزیہ بیگم صاحبہ محترمہ بیگم صاحبہ صاجزادہ مرزا امجید احمد صاحب، عزیزه امت المجید اور اہلیہ ام کی معیت میں اُتر ہے.یہ نظارہ سوئیس آنکھوں کے لئے عجیب تھا پر لیس فوٹو گرافروں کے کیمرے حرکت میں آگئے سب سے پہلے جماعت احمدیہ سوئٹزرلینڈ کی طرف سے السلام علیکم اور خوش آمدید عرض کرنے کے لئے ہماری نو مسلمہ بین مس فاطمہ ہولز شو آگے بڑھیں اور ان سے مصافحہ کے بعد پھول پیش کئے.ان کے ساتھ دوسری نومسلم بہن میں تمبیلہ سومتر رنگ تھی.حضرت بیگم صاحبہ مدظلہ العالی دونوں کے ہمراہ سیٹیج کی طرف تشریف لے گئیں چند منٹ یہاں خواتین کے ساتھ ٹھہرنے کے بعد بخاص طور پر تیار شدہ سیڑھیوں کے ذریعے نیچے بنیاد کی جگہ پر تشریف لے گئیں.خاکسار آپ کے ہمراہ تھا.ایک بالٹی میں سیمنٹ رکھا تھا میں نے آپکی خدمت میں مسجد مبارک کی وہ اینٹ جو سید نا حضرت امیر المومنین اطال الله بقاءه والطلع شموس طالعہ سے دعا کے بعد ربوہ سے بھیجوائی گئی ہوئی تھی پیش کی آپ نے اس پر کمنٹ لگایا اور دعا کے ساتھ بنیاد میں رکھ دی پھر اس کے اُوپر تھوڑا سا سیمنٹ لگایا.خاکسار نے اس کے بعد مزید پلستر لگا کر حضرت سیج پاک علیہ السلام کی لخت جگر اور مبشرہ صاجزادی کے دست مبارک کی رکھی ہوئی بنیاد کو حفوظ کر دیا.اس کے بعد حضرت بیگم صاحب پیڑھیوں پر سے ہوتی ہوئی او پر سٹیج پر تشریف لائیں خاکسار نے حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی بنیاد کعبہ کے موقع کی دعائیں تلاوت کیں.سولیس ریڈیو کا نمائندہ اس کا روائی کو ریکارڈ کرنے کے لئے آیا ہوا تھا اس نے اپنا مائیک میرے سامنے رکھ دیا.ہمارے تو سلم بھائی مسٹر
۱۲۷ رفیق پھان نے جو اس تقریب کے لئے لمبا سفر کر کے آئے تھے اُن کا جد من ترجمہ پڑھ کر سنایا.حضرت بیگم صاحبہ نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور دعا فرمائی اور پھر برادرم چوهدری عبد اللطیف صاحب نے اس کا جرمن ترجمه شنایا اور آخر میں خاکسار نے حضرت بیگم صاحبہ اور حاضرین سمیت ہاتھ اٹھا کولمبی دعا کی اس طرح یہ تاریخی تقریب انجام پذیر ہوئی.اللہ تعالیٰ کی یہ عجیب قدرت تھی کہ حضرت بیگم صاحبہ کی آمد سے قبل بارش ہو رہی تھی لیکن اس تقریب کے آغاز کے ساتھ ہی بارش بالکل رک گئی حضرت بیگم صاحبہ اپنے قافلہ سمیت مشن ہاؤس تشریف لے گئیں اور باقی احباب و خواتین جن میں سوئٹزرلینڈ اور آسٹریا کے احمدی بہن بھائیوں کے علاوہ مختلف ممالک کے مسلمان بھی موجود تھے ، ریستوران میں تشریف لے گئے.یہاں پر ریڈیو کے نمائندہ نے بعض سوالات دریافت کئے برادرم لطیف صاحب نے ان کے جوابات ریکارڈ کروائے.مسجد کے پلاٹ کے ساتھ جلد سازی کی ایک بہت بڑی فرم کا کارخانہ ہے اس کے ڈائریکٹر نے ۲۳ اگست کو جب خاکسار انجینیٹروں کے ہمراہ پلاٹ پر بنیاد کی مسکیم ملے کہ رہا تھا آکر ملاقات کی اور ہمیں خوش آمدید کہا اور اپنے گھر آنے کی دعوت دی.اس کے علاوہ اس نے ایک خوبصورت بیوی البم تیار کر وایا اس اہم کو اس تاریخی تقریب میں شریک ہونے والے احباب و خواتین کی یاد محفوظ رکھنے کے لئے دستخطوں کے واسطے استعمال کیا گیا.۲۵ کی شام کو جب ریڈیو نے ہماری اس مسجد کے افتتاح کی خبر نشر کی تو اس کے ساتھ ہی ایک پادری کا مسجد کے بارہ میں تبصرہ بھی براڈ کاسٹ کیا گیا.ایک توسلم خاتون نے اس بارہ میں اپنا تاثر دیتے ہوئے بتایا کہ اس پادری کی آواز کی لرزش سے اس کی سراسیمگی ہو ید تھی.اس نے کہا کہ میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ عین گر بھا کے سامنے کیوں مسجد بنائی جارہی ہے؟ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی خاص تقدیر ہے جس میں کسی انسانی تدبیر کا دخل نہ تھا اتفاق سے ہمیں مسجد کے لئے پلاٹ ایسی جگہ ملا ہے جو عین گر جا کے سامنے ہے مسجد خدائے واحد کا گھر ہے اور اس سے پانچوں وقت اس کی توحید کی منادی ہوتی ہے.اسکے بالمقابل سیمی گرجا تثلیث کا مرکز ہے.ان کے ایک دوسرے کے مقابل پر ہونے
۱۲۸ سے تصویری زبان میں توحید و تثلیث کے مقابلہ کا اظہار ہے اور یہی چیز ہے جس کو سوئٹر لینڈ میں فطری طور پر محسوس کیا جارہا ہے، یہاں کے لوگوں کے سوالات اُن کے اس احساس کے آئینہ دار ہیں ! سولیس پولیس نے اس واقعہ کو غیر معمولی اہمیت دی ہے.ملک کے ایک سرے سے لیکر دوسرے تک جرمن فرنچ اور اطالوی زبان کے اخبارات نے یہ خبر شائع کی بعض نے تبصرہ بھی کیا ہے اور بعض نے مضمون لکھتے ہیں.بعض اخبارات نے تقریب کی تصاویر شائع کی ہیں اس وقت تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۱۷۲ ایسے اخبارات یا اُن کے تراشے موہ دل ہو چکے ہیں جن میں یہ خبر شائع ہوئی ہے، الحمد لله پریس کے نقطہ نظر سے سولیس کے لئے اس خبر کی اہمیت کا انداز مندرجہ فریل واقعہ سے ہو سکتا ہے.اخبار سرشر ( ZURCHER WOCHE ) نے جو زیورک کا اپنی تعداد اور اثر کے لحاظ سے بہت وقیح ۲۴ صفحات کا ہفت روزہ ہے، ۲۸ اگست کو اس بناء پر میرا انٹرویو لی کہ مسجد کے باعث لوگوں میں اسلام اور جماعت کے متعلق کو ائف معلوم کرنے کی جستجو پیدا ہوگئی ہے.یہ انٹرویو اور اگست کے پرچہ میں شائع ہوا.یہ اخبار ہرہفتہ نیا پر چہ شائع ہونے پر پوسٹر شائع کرتا ہے جس میں اس ہفتہ کے پرچہ کے اہم مضامین کے عنوان دیتے ہوے ہوتے ہیں تا لوگوں میں اس کو خریدنے کے لئے کشش پیدا ہو.یہ پوسٹر تمام ٹراموں اور نیبوں میں لٹک رہا ہوتا ہے اور اس اخبار کے بیچنے والے ایجنٹ اپنی دکانوں کے باہر نمایاں جگہ پر اسے لگاتے ہیں.۱۳۱ اگست کو یہ پوسٹر زیورک میں تمام جگہوں پر ایک ہفتہ کے لئے لگا دیا گیا.اس پوسٹر کا پہلا جلی عنوان یہ تھا " زیورک میں مسجد کیوں ؟ " حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی میشرا ولا دمیں سے ایک کے اس موقعہ پر لمبا سفر کر کے سوئٹزر لینڈمیں پہنچ جانا اور اپنے دست مبارک سے یورپ کے اس امیر ترین اور حسین ترین خطہ میں جسے بعض قلب یورپ کہتے ہیں مسجد کی بنیاد رکھنا ز یورک یا سوئٹر لینڈ کے عوام کے لئے ہی نہیں بلکہ جماعت احمدیہ کے لئے بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے.ہمارا فرض ہے کہ ہم نہ
۱۲۹ عرف مسجد کی اس اینٹ و کنکریٹ کی عمارت کو شایان شان طریق پر مکمل کریں اور فرنش کریں بلکہ اس کو ہمیشہ نمازیوں سے آباد رکھیں اور اسے اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے ایک مؤثر مرکز کے طور پر قائم رکھنے کی سعی کریں جن کے لئے طویل اور مسلسل جد و جہد کی ضرورت ہے.حضرت بیگم صاحبہ ممدوحہ نے اپنے ایک نوٹ میں تحریر فرمایا.بنیاد کے تعلق کی بناء پر کچھ ایسی ذمہ داری محسوس ہو رہی ہے جیسے میرے ہی کاندھوں پر بوجھ ہے ؟ جو ذمہ داری ہمارے پیارے آقا کی صاحبزادی پر بنیاد رکھنے سے عائد ہوئی ہے ہم سب احمدی اپنے آقا سے تعلق کی نسبت سے اس میں شریک ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے با حسن عہدہ برآ ہونے کی توفیق بخشے.آمین! حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ العالی کو اللہ تعالیٰ نے بہت نکتہ سنج طبیعت بخشی ہے آپ نے اس موقعہ پر یہ دعا تحریر فرمائی ہے :- اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے عزیزہ امتہ الحفیظ بیگم کے سنگ بنیاد رکھنے کو مبارک اور مثمر نمرات حسنہ کیسے اور ہمشیرہ کے نام کی طرح اس مسجد کو یورپ کے اس علاقہ کے لئے حفاظت کا قلعہ بنا دے.آمین " حضرت بیگم صاحبہ مدظلہ العالی اپنے ایک مکتوب میں لنڈن سے تحریر فرماتی ہیں:.مجھے بے حد خوشی ہے کہ اللہ تعالٰی نے آپ کو اس مسجد کو شروع کرنے کی توفیق عطا فرمائی ورنہ مبلغ تو اس ملک میں عرصہ دراز سے تھے.یہ اللہ تعالی کا آپ پر خاص احسان ہے میری دعا ہے کہ آپ ہی کے ہاتھوں سے یہ پایہ تکمیل کو پہنچے اور اس کا افتتاح بنیاد کے موقعہ سے بھی شاندار اور خوشی کا موجب ہو ئیں تو یہ دعا کر رہی ہوں کہ اللہ تعالیٰ ستید نابھائی صاحب ہی کو کامل صحت عطا فرمائے اور رسم افتتاح اُن کے مبارک ہاتھوں سے انجام پائے.اللہ تعالیٰ قادر ہے اگر ایسا ہو جائے تو آپ کی خوش نصیبی قابل رشک ہوگی یہ
۱۳۰ حضرت بیگم صاحبہ کے قلب مطہر سے جو دعا نکلی ہے وہ ہر احمدی کے دل میں درد کی ٹیس پیدا کرتی ہے.اس کی وجہ سے میرے دل میں شدید تڑپ پیدا ہوگئی ہے کہ کاش ایسا ہی ہو اگر اللہ تعالیٰ یہ دن لے آئے تو میری خوش نصیبی میں کیا شبہ ! یہ مبارک دن ساری دنیا کے احمدیوں کے لئے ایک، مسرت کا دن ہو گا.کیا عجب ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے مسیح پاک علیہ اسلام کے جگر گوشہ کی یہ پر سوز دعا، ایک درد مند ین کی بارگاہ الہی میں ٹپکار، ایک مخلصہ کے قلب کی صدا حس سے ہر احمدی کے قلب کی صدا ہم آہنگ ہے ، سُن لے! حضور اطال الله بقارہ کی ولادت با سعادت سے قبل سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے مسجد کی دیوار پر محمود لکھا دیکھا تھا.بیشک یہ جماعت کی امامت کی پیش گوئی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے اس رنگ میں بھی اس کو پورا کیا کہ سید نا حضرت محمود ایڈا اللہ الودو کو مشرق و مغرب میں جابجا مساجد تعمیر کر وانے کی توفیق بخشی.گویا اس لحاظ سے ان مساجد کی دیوار پر محمود کا نام ہی تحریر ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنی پیش گوئیوں کے ماتحت اس پیسر موعود اس اولو العزم امام کو مراکز تثلیث میں خدائے واحد کے نام کی منادی کے لئے مساجد بنانے اور روحانی لحاظ سے ایک وسیع عالمی نظام قائم کرنے کی توفیق بخشی ہے اب وہ خدائے قدیر اپنی قدرت کا ملہ سے اسے حضور کی آنکھوں کے سامنے پر وان چڑھنا بھی دکھائے.کامل صحت بخشے اور صحت و عافیت کے ساتھ نبی کا میاب با مراد عمرد سے تا نہ صرف یورک کی مسجد میں آپ کی تلاوت قرآن پاک گونج پیدا کرے بلکہ یورپ اور دنیا بھر میں ان مقدس ہونٹوں سے نکلی ہوئی تلاوت دیر تک گونج پیدا کرتی رہے، آمین " سے حث کی مسجد سوئٹزرلینڈ کی تعمیر میں دنیا بھر کے احمدیوں چند مسجد کیلئے حضرت مرزا بشیر احمدرضا کی نے اپنی گذشتہ روایات کے مطابق سرگرم حصہ پر زور اور موثر تحریک یا حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے ایک مکتوب ه گرامی میں جو آپ نے ۱۶ تبوک /ستمبر کو وکیل المال کے نام رقم فرمایا چندہ مسجد میں حصہ لینے کے لئے ایک پُر زور اور موثر تحریک فرمائی چنانچہ آپ نے لکھا :- اما ه الفضل ٢٨ تبوك /ستمبر ۶۱۹۶۴
الحمدللہ کہ جماعت احمدیہ کے دوست اس مبارک تحریک میں دل کھول کر حصہ لے رہے ہیں در اصل یہ سجد لندن کی مسجد کے بعد یورپ کی مسجدوں میں ایک خاص امتیاز دستی ہے کیونکہ ایک تو یہ سجد یورپ کے وسطی ملک میں واقع ہے جس کا چاروں طرف اثر پڑتا ہے اور دوسرے یہ سجد ایک ایسے ملک میں بنائی جارہی ہے جو عرصہ راز سے امن کا گہوارہ رہا ہے پس در حقیقت یہ مسجد نہ صرف ہماری بڑی دعاؤں کی مستحق ہے بلکہ اس بات کی مستحق ہے کہ اس کی امداد کے لئے دل کھول کر چندہ دیا جائے سے موٹر ر لینڈ کے پادری جو مبلغ اسلام کی تبلیغی سرگرمیوں سوئٹزر لینڈ کے عیسائی چر جج کار و تمل خصوصا جزئی ترجم قرآن کے باعث سخت پریشان ہو رہے تھے مسجد کے سنگ بنیاد پر اور بھی مشوش ہو گئے.عیسائی چرچ کا خانہ خدا کی تاسیس پر کیار وشمل تھا اُس کا اندازہ سوئٹزرلینڈ کے مشہور عیسائی اخبار SCHWEI ZER EUANGELIST ( اکتوبر (4) EUANGELISTAILS, ) کے درج ذیل نوٹ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے :- ہمیں ایک اعلان کے ذریعہ پتہ چلا ہے کہ حال ہی میں مختلف یورپی ممالک میں ۳۷ مقامی باشندوں نے اسلام قبول کیا ہے.ان میں سے اکثر و سلم سے اڈے نیوین ممالک سے تعلق رکھتے ہیں.اگر ہم ان تمام مساجد کو مد نظر رکھ کر جو گزشتہ سالوں میں یورپ کے ان عیسائی ممالک میں تعمیر ہوئی ہیں دیکھیں تو نومسلموں کی یہ تعداد بہت تھوڑی ہے جرمنی میں تعمیر شدہ اور زیرتعمیر ساجد کی مجموعی تعداد سات ہے، لندن، دوی بیگ اور یہ سنکی میں بھی مساجد تعمیر ہو چکی ہیں اور ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا سوئٹزرلینڈ کے شہر زیورک میں بھی ایک مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے.ران مساجد میں اکثر مساجد گزشتہ تین سال کے عرصہ میں ہی تعمیر ہوئی ہیں یا انہیں تعمیر کرنے کی تجویز منصہ شہود پر آئی ہے.یہ مساجد اس امر کی آئینہ دار ہیں کہ یورپ میں اسلامی مشنوں کا ایک جال پھیلایا جا رہا ہے.ان مشنوں کے قائم کرنے والے مسلمانوں کے صف اول کے دو بڑے گروہوں یعنی شیعہ اور سنی فرقوں سے تعلق نہیں رکھتے، ان کا تعلق مسلمانوں الفضل ٢٠ تبوك / ستمبر ها مرا ۶۱۹۶۳
کی ایک ایسی جماعت سے ہے جنہیں بالعموم بدعتی سمجھا جاتا ہے.اس جماعت کا نام جماعت احمدیہ ہے.یورپ کی اکثر مساعد اس جماعت نے ہی تعمیر کی ہیں.یہ جماعت آج سے ستر سال قبل بر صغیر پاک و ہند میں معرض وجود میں آئی تھی.اس جماعت کے افراد کی تعداد دس لاکھ کے قریب ہے.اس کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ حقیقی اسلام کی علمبردار ہے.اپنے اس دعوئی کی رو سے یہ نوع انسان کی فلاح اور دنیا میں امن کے قیام کے لئے کوشاں ہے.احمدیہ تحریک اول و آخر ایک مشنری تحریک ہے.بیان کیا جاتا ہے کہ یہ لوگ ہر خاندان سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے میں سے کم از کم ایک فرد ایسا پیش کرے جو تبلیغ اسلام کے لئے اپنی زندگی وقف رکھے یہ عقل کو اپیل کرنے کی بنیاد پر اپنے مشن بالعموم اسلامی ممالک میں نہیں بلکہ افریقی ممالک میں اور ان میں سے بھی زیادہ تر مغربی افریقہ میں اور پھر یورپ اور امریکہ میں قائم کر رہے ہیں.ان کے یورپی مراکز زیورک، لندن اور کوپن ہیگن میں قائم ہیں ان میں سے زیورک کا مرکز وسطی یورپ اور اٹلی کے علاقہ کو کنٹرول کرتا ہے.لندن کے مرکز کا رابطہ سارے مغربی یورپ سے ہے اور کوپن ہیگن کے مرکز کے دائرہ عمل میں شمالی یورپ کا تمام علاقہ شامل ہے.ان اسلامی مشغوں کو اب تک جو کامیابی ہوئی ہے اسے کوئی عظیم یا نمایاں کامیابی قرار نہیں دیا جا سکتا ڈنمارک کا نو مسلم گروپ ۲۲۰ ڈومنیش مسلمانوں پر تمل ہے.کوپن ہیگن میں جو دوسرے مسلمان رہتے ہیں وہ زیادہ تر غرب باشندے ہیں بنائر کے دوران زیورک میں عیسائیوں کے علاوہ دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے صرف ۱۵۷ باشندے شمار کئے گئے تھے اُن کا ایک قلیل حصہ اسلام سے تعلق رکھتا ہے.یورپ کی مساجد صرف اس غرض کے لئے ہیں قائم نہیں کی گئی ہیں کہ مسلمان ان میں عبادت کریں بلکہ تبلیغ اسلام کی ساری مہم ان مساجد کے ساتھ ہی وابستہ ہے.مساجد سے ملحق کلب کے کمرے اور لائبریریاں وغیرہ بھی ہوتی ہیں تا کہ ان میں جماعت کے افراد باہم مل کر اپنی مسائل اور سرگرمیاں جاری رکھ سکیں.یورپ کے عیسائی ممالک میں اسلام کے یہ نمائندہ سے بدھ مت والوں کے بر خلاف عیسائیت کا مقابلہ کرنے میں بہت پیش پیش ہیں.ان لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ مسیح کی اصل تعلیم عہد نامہ جدید کے واسطہ سے تحریف کا شکار ہونے کے بعد بدلی ہوئی شکل میں آگے پھیلی ہے.یہ سیع کی صلیبی موت کے
۱۳۳ و نظریہ کو تسلیم نہیں کرتے.اس طرح سے یہ لوگ بائبل کے مندرجات اور عیسائی معتقدات کے بارہ میں نئی تو جیہات پیش کر کے ناقص علم رکھنے والے سامعین اور قارئین کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں.جرمن زبان میں ان کی جو مطبوعات شائع ہوئی ہیں اُن میں یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اسلام میں زمانہ حال کے بعد ید مسائل کا پورا اصل موجود ہے اور اسلام ہی انسانی ضرورتوں کے مناسب حال وہ اکیلا مذہب ہے جو وسعت فکر، تعمیر و ترقی اور آزاد خیالی کا علمبردار ہے.اپنے اس دعوئی کے ثبوت میں انہیں اسلامی روایات کی نئی تشریح کرنی پڑتی ہے.جرمنی میں سلم طلبہ کو یہ بجھایا جاتا ہے کہ کسی کا مسلمان ہونا ہر لحاظ سے بہتر اور اعلیٰ و افضل ہے.اسی طرح اُن پر واضح کیا جاتا ہے کہ تقدیر کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مستقبل میں جو کچھ پیش آنے والا ہے وہ پہلے سے طے شدہ ہے اور یہ کہ مستقبل کے بارہ میں نہیں چنداں فکر پالنے کی ضرورت نہیں.تقدیر کا یہ مفہوم ہرگز درست نہیں ہے.تقدیر کا عقیدہ نہ صرف یہ کہ سرگرمی اور جد وجہد سے منع نہیں کرتا بلکہ یہ بذات خود نسبتا زیادہ سرگرمی اور جد و جہد کا متحمل ہے.جماعت احمدیہ نے قرآن مجید کا جو جر من ترجمہ شائع کیا ہے اس کے شروع میں ایک دینا ہے بھی درج کیا گیا ہے یہ دیبا پھر اپنے مندرجات کی رو سے بائیل اور عیسائیت کے خلاف ایک بھر پور حملہ کی حیثیت رکھتا ہے.قرآن مجید کے ترجمہ میں الفاظ کے انتخاب کا خاص خیال رکھ کر یورپی دماغوں کو متاثر کرنے کی کوشش کی گئی ہے.اس لئے اس میں لفظی ترجمہ پر اکتفا نہیں کیا گیا.اس کے باوجود اس میں اس بات پر بہت زور دیا گیا ہے کہ عربی زبان ہی ایک ایسی زبان ہے جو گوناگوں اور باریک در بار یک معانی و مطالب کے اظہار پر پوری قدرت رکھتی ہے.اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ہم اسلام قبول کریں تو ساتھ ہی ہمیں عرب ثقافت کو بھی قبول کرنا ہوگا.اس لحاظ سے ایک ایسا مسلمان جو عربی نہ جانتا ہو صحیح معنوں میں پورا مسلمان نہیں ہوں سکتا.اندریں حالات یورپ میں ان اسلامی مشنوں کا مقصد مشتبہ اور ناقابل یقین نظر آنے لگتا ہے.تاہم اگر یہ لوگ افریقہ میں ہی اپنے پاؤں جمانے کی کوشش کریں تو یہ بات قرین قیاس ہوتے ہوئے سمجھ میں آسکتی ہے " سے ے ترجمہ بحوالہ رسالہ انصار الله" ربوہ نبوت / نومبر ها صفحه ۲۲ تا ۲۴ + ۶۱۹۹۷
۱۳۴ یه مسجد قریبا نوماہ میں مکمل ہوئی ، ابھی اس کے مینار بھی مسجد کی تکمیل اور اخبارات میں جو پہلے پوری طرح نہیں بنے تھے کہ ولی اخبارات کی دلچسپی کا چرچا سوئیس خصوصی مرکز بن گئی چنانچہ زیورک کے وقیع روزنامہ MEA ZURCHER - ZEITING نے جو نہ صرف سوئٹزرلینڈ میں بلکہ جرمنی اور آسٹریا میں بھی بکثرت پڑھا جاتا ہے ، ار اپریل 1973ء کے پرچہ میں گر جا کے خاکستری لیکن بہت اونچے مینار کے ساتھ مسجد کے مینار کی تصویر شائع کی اور اس کے ساتھ حسب ذیل ٹوٹے بھی سپر و قلم کیا :- جب کوئی شخص مختلف دیار و امصار میں سیاحت کے بعد اپنے وطن واپس آتا ہے تو وہ ان چیزوں کو خصوصاً دیکھتا ہے جن سے ہمارے اس شہر کو عظمت حاصل ہوتی ہے اور دیکھنے والے کے سامنے ایک نیا منظر آتا ہے.عام خاکستری پتھروں کی عمارتوں کے درمیان.عین بالگریسٹ (BALGRIST) کے گھر جا کے بالمقابل سوئٹزرلینڈ کی اولین مسجد کا چھوٹا سا مینار جو تقریباً مکمل ہو چکا ہے سفید چمکتا نظر آتا ہے.ایک اجنبی ہمارے گھروں کے اندر گھونسلا بناتا ہے اور ہمیں اس کا احساس ہوتا ہے.(ترجمہ) زیورک کے اس اخبار کے علاوہ بازل ، برکی، باؤن ، ارآڈر وغیرہ کے جرمن زبان کے اخبارات میں سفید مینار کی تصویر کے ساتھ نوٹ شائع ہوئے.ایک تراشہ سے جو آسٹریا کے اخبار کا ہے معلوم ہوتا ہے قریبی ملکوں میں بھی یہ امر بچسپی کا موجب ہوا.فرانسیسی زبان کے جینیوا کے مشہور اخبارٹریوں نے بھی مینار کی تصویر اپنے نوٹ کے ساتھ شائع کی.بازل کے اخبار" NATIONAL - ZEITUNG مورخہ 19 اپریل ۱۹۶۳ کے نوٹ کا ترجمہ درج ذیل کیا جاتا ہے :- را سوئٹزرلینڈ میں مذہبی آزادی مختلف مذہبی جماعتوں کو پنپنے کا موقع دیتی ہے.سوئٹزرلینڈ کی پہلی مسجد زیورک میں پائیہ تکمیل کو پہنچ رہی ہے.احمدیہ شن جس کا مرکز مغربی پاکستان میں ہے اس مسجد سے اپنے خطبات شنایا کرے گا.ہماری تصویر میں مسجد کا نفیس مینارہ جس کے اوپر تر کی اندانہ کا ہلال ہے تو رخ میٹرک زیورک پر نظر آرہا ہے.تے مورخہ 3 مئی ۱۹۶۳ء کو جب مینار کے علاوہ مسجد کی عمارت پر بھی پینٹ ہو چکا تھا یورک کے مشہور مسجد سوئٹزرلینڈ کا مینار قریباً 4 فٹ بلند ہے؟ کے الفصل ۱ ہجرت رمئی ۲۲ ۲۳۰
۱۳۵ روزنامه DI ETAT نے بڑے سائز کی تصویر اخبار کے آخری سرورق پر نمایاں طور پر شائع کی اور نیچے لکھا کہ زیورک کی چھتوں کے اوپر ہلال - زیورک میں با نگریسٹ کے محلہ میں مسجد کی تعمیر مکمل ہوگئی ہے مسجد محمود سوئٹزرلینڈ کا کیا سيدنا المصلح الموعود کے عہد مبارک کی اس اہم مسجد کا نام مسجد محمود تجویز کیا گیا اور اس کی شاندار انتتاحی تقریب چوہدری محمد ظفراللہ خان مضار صدر جنرل اسمبلی ) ۱۲ احسان جون ما کو چوہدری محمد ظفر اللہ خاں 5144 کے ہاتھوں پر شوکت افتتاح صاحب کے ہاتھوں عمل میں آئی جس کی متصل روداد چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ انچارج سوئٹزرلینڈ مشن کے الفاظ میں دی جاتی ہے.آپ تحریر فرماتے ہیں :- ماہ جون کے شروع میں پولیس کے نام ایک چار ورقہ چھٹی تیار کر کے بھجوائی گئی جس میں احمدیت کی مختصر تاریخ اس کی عالمگیر علمی وتبلیغی و ترمیتی سرگرمیوں کا خا کہ دیا گیا.افتتاح کے سلسلہ میں منعقد ہونیوالی تقاریب کے پروگرام میں نمائندگان پریس کو شمولیت کی دعوت دی گئی، الحمد للہ اس طریق سے پریس ، ریڈیو ٹیلیویژن سب ہماری فعال جماعت سے متعارف ہو گئے نہ صرف زیورک بلکہ باہر کے بعض اخبارات نے بھی اپنے نوٹوں میں اس سے استفادہ کیا.محترمہ حافظ قدرت اللہ صاحب کے تعاون سے جرمنی اور ہالینڈ کے پریس کو بھی یہ میٹھی پہنچادی گئی.سوئیں ٹیلیویژن نے یہ خواہش کی کہ اس تقریب سے قبل مسجد محمود کے بارہ میں انہیں فلم تیار کرنے کی اجازت دی جائے.چنانچہ ۸ ارجون کو دن کے وقت اور پھر رات کو فلش لائٹ کی روشنی میں کئی گھنٹے لگا کر انہوں نے یہ فلم تیار کی جیسے 19 جون کی شب کو دکھایا گیا.احمدیت کی مختصر تاریخ سے تو وہ پہلے ہی واقف ہوگئے تھے لیکن انہیں نوٹو بھی مطلوب تھے.اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے محترم امیر صاحب جماعت احمدیہ کراچی اور خدام الاحمدیہ کراچی کوکو گذشتہ سال انہوں نے اپنا اہم خاکسار کو بھجوا دیا تھا وہ اس موقعہ پر کام آیا.اس میں سے ٹیلیویژن نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام، حضرت خلیفة المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ اور حضرت مصلح الموعود اطال اللہ بقارہ کے فوٹو لئے.افتتاح کی خبر کے لحاظ سے محترم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے فوٹو کی ضرورت تھی جو اُن کی اسلام کے بارہ میں تازہ شہرہ آفاق تصنیف کے له الفضل ١ هجرت می ۶۱۹۶۳
۱۳۹ گرد پوش سے لیا گیا.مسجد کی دیوار پر مسجد محمود کے نیچے کلر طلقیہ کی عبارت اسی طرح سبز دھات کے حروف میں نصب کی گئی ہے.یہ کتبہ محترم شیخ رحمت اللہ صاحب امیر جماعت احمدیہ کراچی نے بڑی محنت سے سے کم سے کم وقت میں تیار کر کے بھجوا دیا تھا.14 اگست کو آرٹسٹ اسے چوبی چبوترہ پر کھڑا نصب کر رہا تھا اس مرحلہ پر بعض حروف کی درستی کے لئے میں خود چبوترہ پر گیا خو د درستی کی.مجھے معلوم نہ تھا کہ کس کیمرہ کا اس طرف رخ ہے لیکن معلوم ہوا کہ یہ نظر بھی فلمایا گیا تھا.پس اخبارات اور ٹیلیویژن کے چرچا کے باعث سوئٹزر لینڈ کے لوگوں میں اس مسجد کے دیکھنے کا اشتیاق اور بڑھ گیا.مورخه ۲۱ جون کو ریڈیو نے خواہش کی کہ میں ان کے سٹوڈیو میں احمدیت اور مسجد کی تاریخ کے بارہ میں مختصر پیغام ریکارڈ کروادوں تا ۲۲ کو وہ افتتاح کی تقریب کے بارہ میں خبر دیتے ہوئے اسے بھی شامل کر سکیں.میں نے اس کی تعمیل میں پیغام ریکارڈ کروا دی.محترم چوہدری محمد ظفر الدخان صاحب پراگ سے تشریف لا رہے تھے ائیر پورٹ پر خاکسار، محترم حافظ قدرت اللہ صاحب اور محترم چوہدری عبد اللطیف صاحب (مبلغین کے نمائندگان کے طور پر ) اور جماعت کے کچھ احباب موجود تھے پر ایس کے نمائندے اور فوٹو گرافر بھی پہنچ گئے تھے حکومت سوئٹزرلینڈ کی طرف سے چیف پر اٹو کول موجود تھے.اقوام متحدہ میں وٹر اینڈ کے مبصر آج کل یہاں رخصت پر ہیں وہ بھی استقبال کے لئے تشریف لائے ہوئے تھے.محترم چو ہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا جہاز تقریباً پونے ایک بجے اُترا.آپ روس اور مشرقی یورپ کے ایک لمبے سفر سے واپس آرہے تھے مگر آپ کے چہرہ پر تکان کے اثرات نہ تھے حسب معمول مشاش بشاش تھے.آپ جب مشن ہاؤس پہنچے تو احباب باہر استقبال کے لئے منتظر تھے.محترم چوہدری صاحب اڑھائی بجے پولیس کا نفرنس میں تشریف لائے جوشن کے دفتر کے کمرہ میں منعقد ہو رہی تھی.کمرہ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا.بین الاقوامی پریس ایجنسیوں ، سولیس پریس اینبیوں، زیورک سوئٹزرلینڈ کے دیگر مقامات کے بعض اہم اخبارات کے نمائندے بھی موجود تھے.ہم نے مسیحی اخبارات کو بھی دعوت بھیجوائی تھی.بعض ان کے نمائندے بھی شریک تھے چنانچہ ایک ایسے ہی صاحب نے اپنے ان تاثرات کا اظہار کیا کہ مسجد میں پریس کانفرنس بلائی گئی تو اتنے لوگ آگئے کہ کھڑے ہونے کے لئے بھی جگہ نہیں لیکن جب چیچ کی طرف سے کا نفرنس بلائی جاتی ہے اس وقت یہ لوگ توجہ ہی نہیں دیتے محترم چوہدری صاحب نے پریس کے سوالات کے جوابات دیئے مسٹر عبدالسلام میڈلین اور خاکسار بھی ساتھ موجود
تھے بعض سوالات جوشن سے تعلق رکھتے تھے اُن کے جوابات خاکسار نے دیئے.ریڈیو کے نمائندہ اور ہمارے امام مسجد فرینکفورٹ میاں مسعود احمد صاحب جہلمی نے یہ پریس کانفرنس ٹیپ ریکارڈ کی.افتتاح کی تقریب کے لئے تین بجے کا وقت مقرر تھا.مختلف ملکوں کے مسلمان کثیر تعداد میں جمع تھے.اپنے احمدی احباب دُور دُور سے آئے ہوئے تھے مبلغین یورپ میں سے تین کا ذکر اوپر کر چکا ہوں ان کے علاوہ محرم چوہدری رحمت خاں صاحب امام مسجد لندن ، محترم کرم الہی صاحب ظفر مبلغ سپین ، محترم میر مسعود احمد صاحب رئیس التبلیغ سکنڈے نیویا، محترم عبد السلام میڈسن صاحب مبلغ ڈنمارک، محترم محمود سیف الاسلام ارکسن صاحب مبلغ سویڈن بھی شریک تقریب متھے محترم چوہدری عبد الرحمان صاحب واقف زندگی بھی تشریف لائے تھے جرمنی سے احمدی مصنف اور جرنلسٹ محمد ایس عبد اللہ اپنی بیگم صاحبہ اور بعض جرنلسٹ احباب اور ساربروکن ریڈیو کے نمائندہ کے ہمراہ تشریف لائے تھے.اسی طرح ایک اور جرمن خاتون محترمہ وینڈلٹ بھی تشریف لائی تھیں.زیورک اور اس کے نواح بلکہ دور دور کے شہروں سے جو معززین شریک ہوئے ان کی فہرست طویل ہے.ان میں اس شہر کے پریزیڈیٹ، اس کا نٹول کے صدر و سابق صدر، اراکین پارلیمنٹ ، شہر کی کونسل کے اراکین، ڈاکٹر صاحبان ، سفارت طونس اور سفارت پاکستان کے فرسٹ سیکرٹری ، ڈچ قنصل برطانوی قنصلیٹ کے نمائندہ ، ڈومینکین قفصل وغیرہ ایک کثیر تعداد میں معززین موجود تھے.یونیورسٹی اور فیڈرل درس گاہ کے طلبہ کے علاوہ مختلف کارخانوں وغیرہ میں کام کرنے والے مختلف ملکوں کے احباب بھی موجود تھے مسلمان احباب نے میزبانی کے جذبہ کا مظاہرہ کیا اور لیکچر روم کی اکثر نشستیں غیرمسلموں کے لئے خالی کر دی گئیں.باہر کے دروازہ سے لے کر اوپر کی منزل کو آنے والی سیڑھیاں مسجد کے آگے خالی جگہ ہر طرف لوگ موجود تھے.لاؤڈ سپیکر کا اہتمام تھا.اس مبارک تقریب کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو خاکسار کے قدیمی رفیق کار محترم حافظ قدرت اللہ صاحب نے مخصوص پر اثر انداز میں فرمائی ، اس کے بعد یفا کسار نے اپنے افتتاحی خطاب میں منجملہ دیگر امور کے احمدیت کی مختصر تاریخ اور صلح موعود کی پیش گوئی بیان کی جو انگریزی اور جرمن و نوں زبانوں میں سائیکلو سٹائل کر کے شائع کر دی گئی تھی.اس کے بعد محترم چو ہدری محمد ظفراللہ خاں صاحب نے اپنی تقریر پڑھ کر سنائی.اس کا جرمن ترجمہ پولیس اور پبلک کے پاس تھا اس لئے غیر زبان میں ہونے
É کے باوجود حاضرین کی ڈسپی قائم رہی.پھرمحترم ڈاکٹر ایمیل لا نڈالٹ (DR.EMILLANDOLT ) پریزیڈنٹ زیورک مائیکرو فون پر تشریف لائے اور ایک دلچسپ تقریر فرمائی جس میں مذہبی آزادی اور جماعت احمدیہ کو مسجد کے لئے پلاٹ دیئے جانے کا ذکر فرمایا.آخر میں محترم عبد الرشید فوگل (VOGEL) نے سید نا حضرت امیر المومنین اطال الله بقاءه حضرت صاجزادہ میرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ العالی ، حضرت سید ہ محترمہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ اور محترم صاجزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر کے پیغامات مختصراً پڑھ کر سنائے.اسکے بعد مستشرقین انگلستان، ہالینڈ، جرمنی کے پیغامات میں سے اقتباسات پیش کئے.تمام پیغامات اپنے اپنے رنگ میں اچھے تھے اور ان سے ظاہر ہوتا تھا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان ممالک میں احمدیت کے ذریعے موثر رنگ میں اسلام کی تبلیغ ہو رہی ہے.ڈاکٹر منٹگمری واٹ DR.MONTGAMERY) (WALT کا پیغام جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اپنی تصنیف کی وجہ سے (دو جلدوں میں سیرت کی تصنیف ہے ) عالم اسلام میں غیر معمولی شہرت حاصل کر چکے ہیں، بہت ہی اچھا تھا...آخر میں بعض عمائدین حکومت کی طرف سے موصولہ پیغامات پیش کئے گئے مملکت لائبیریا کے صد نیویورک تشریف لائے ہوئے تھے خاکسار انہیں ملا اور انہوں نے افسوس ظاہر کیا کہ ۲۲ کو انکی روانگی کا پروگرام بن چکا ہے جس کے باعث افتتاح کی تقریب میں شرکت ممکن نہیں ورنہ وہ ضرور شامل ہوتے تاہم وہ اپنا پیغام روانگی سے قبل ضرور بھجوا دیں گے چنانچہ ان کی طرف سے طویل پیغام موصول ہوا جس میں ہمارے مبلغ د محترم مبارک احمد صا حب ساقی کے کام کا بھی ذکر ہے.سیرالیون کے رئیس التبلیغ مولوی بشارت احمد صاحب بشیر نے سیرالیون کے نائب وزیر اعظم اور وزیر تجارت اور فری ٹاؤن کے میٹر کے اس تقریب کے لئے پیغامات بھیجوائے.نائیجیریا کے وزیر داخلہ نے بھی اپنا پیغام بھیج دیا.پیغامات سوائے دو تین کے جو آخر میں موصول ہوئے جرمن زبان میں شائع کر دئے گئے تھے.اس تقریب پر مندرجہ ذیل ملکوں کے مبلغین کرام کی طرف سے بھی پیغامات موصول ہوئے :- سیرالیون، نائیجیریا، برما، ملایا، سنگاپور، لائبیریا، ٹوگو ، ٹانگا نیکا، یورنیو ، غانا.کانو نائیجیریا سے محترم ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب اور ساؤتھ افریقہ کے ڈاکٹر کٹر سلیمان صاحب نے لندن سے اپنے محبت بھرے پیغامات سے نوازا ( اس تقریب کے بعد بھی سے بھی پیغام موصول ہوا.اللہ تعالے
۱۳۹ سب کو اپنے فضل سے جزائے خیر بخشے.آمین) مسٹر عبدالرشید فوگل کے پیغامات پیش کرنے کے ساتھ تقاریر کا پروگرام ختم ہوا یا کسار نے میٹنگ کے سٹیج پر ہی مسجد محمود کی چابی زیورک کے پریذیڈنٹ محترم ڈاکٹر ایمیل لائڈ الٹ کو دی کہ وہ ایسی قصبہ کے میزبان کے جذبہ کے اظہار کے طور پر محترم موہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کو پیش کریں.انہوں نے مائیکرو فون پر آکر چند کلمات کے ساتھ چاندی کی طشتری میں یہ چابی ختم چو ہدری صاحب کو پیش کی.چوہدری صاحب یہ بھابی لیتے ہوئے انبوہ کثیر کے ساتھ مسجد کے دروازہ کی طرف بڑھے اور اللہ کے نام کے ساتھ اس خدا کے گھر کا دروازہ کھولا.محترم کریم الہی صاحب ظفر مبلغ سپین نے مائیکرو فون پر جو بالکونی میں رکھا ہوا تھا پہلی اذان دی.محترم چوہدری صاحب نے نماز ظہر و عصر جمع کر کے پڑھائیں اور اس طرح مسجد محمود کی تقریب افتتاح تکمیل پذیر ہوئی، الحمد للہ.اُوپر کی منزل میں مسجد ہے اور نیچے کی منزل میں رہائشی کمرے ہیں.افتتاحی تقریب کے بعد مہمانوں کے لئے اکل و شرب کا انتظام تھا.برادران و خواتین کی کمروں میں ڈیوٹیاں تقسیم تھیں میتلقین کرام بھی اس خدمت میں حصہ لے رہے تھے جگہ کی تنگی اور مہمانوں کی کثرت کے باعث انتظامات میں خاصی وقت تھی اور پھر بعض چیزیں اپنے طور پر بھی تیار کرنی تھیں.تین خواتین نے دن رات کام کیا.ان میں سے ایک جس نے حال ہی میں بیعت کی ہے خاکسار کی امداد کے لئے پندرہ دن کی اپنے دفتر سے خصیت حاصل کر لی ہوئی تھی اور ٹائپ، سائیکلوسٹائل ، خطوط، پریس سے رابطہ و غیرہ سیکرٹری کا جملہ کام شب و روز محنت سے کیا.تمام امور کو نہایت خوش اسلوبی سے سرانجام دیا.اس موقعہ پر میاں مسعود احمد صاحب جہلمی امام مسجد فرینکفورٹ نے مسلسل بہت ہمت سے کام کیا، جزاکم اللہ محرم چوہدری عبد اللطیف صاحب مبلغ جرمنی آغاز کار میں خاکسار کی اعداد فرماتے رہتے ہیں اور اب افتتاح کے ضمن میں انہوں نے بہت امداد کی اللہ تعالیٰ سب کو اپنی جناب سے جزائے خیر بخشے ، آمین.۲۲ جون کو شام چوہدری صاحب اور مبلغین کرام کے اعزاز میں ڈنر کا اہتمام تھا جس میں احباب جماعت اور بعض دیگر دوست شریک ہوئے.۲۳ جون بروز اتوار صبح نو بجے.یورپین مشتر کا نفرنس شروع ہوئی.محترم چوہدری صاحب نے دعا اور تقریر سے اس کا افتتاح فرمایا.
۱۴۰ اسی روز ہم ۲ بجے مجلس تقاریر منعقد ہوئی جس میں محترم چوہدری صاحب کی صدارت میں مندرجہ ذیل یورپین احمدی احباب نے تقاریر فرمائیں :.(1) مسٹر محمد ایس عبد اللہ جو منی (۲) مسٹر عبد السلام میڈیسن ڈنمارک (۳) مسٹر رفیق چانن سوئٹزرلینڈ (۴) مسٹر عبدالرشید فوگل سوئٹزرلینڈ پہلے تین مقررین نے یورپ میں اسلام کا کردارہ کے موضوع پر تقاریر فرمائیں اور علی الترتیب ماضی، حال اور مستقبل کے بارہ میں بیان کیا چوتھے مقرر نے افریقہ میں اسلام کے موضوع پر تقریر فرمائی محرم چو ہدری صاحب کے ریمارکس کے بعد جن کا ترجمہ ساتھ ساتھ محرم چوہد ری عبد الطیف صاحب فرماتے رہے اس علمی مجلس کا اجلاس ختم ہوا.محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا جہاز ساڑھے پانچ بجے ائر پورٹ سے روانہ ہونا تھا آپ احباب سے رخصت ہوئے.محترم رفیق چانی صاحب لندن اپنی شادی کے لئے جارہے تھے اور چوہدری عبدالرحمن صاحب آپ کے اس سفر میں ہم رکاب تھے خاکسار نے ائر پورٹ پر دلی شکریہ سکے ساتھ الوداع کہا.بھی اور ہی منتر کی کانفرس کا کام باقی تھا.کانفرنس نے متعدد اہم امور پر غور کیا اور محترم بالسلام میڈسن صاحب کارروائی کا ریکارڈ رکھتے رہے اور اس کے اختتام پر رپورٹ تیار کی..مورخہ ۲۵ جون اڑھائی بجے دو پر پریس کانفرنس منعقد ہوئی جس میں شریک ہونے والوں کو تیار کردہ بلیٹن دے دیا گیا اور ساتھ ہی ان کے سوالات کے جوابات بھی دیئے گئے بیسٹر محمود ارکسن نے بڑی توجہ سے ٹائپ کا کام کیا.اسی طرح محترمہ ناصرہ رینڈلٹ نے بھی اس کام میں امداد فرمائی.فجزاہم اللہ احسن الجزاء ٹیلی ویری ، ریڈیو اور اخبارات میں چرچا کے باعث مسجد محمود کی شہرت دور و نزدیک پہنچ چکی ہے زائرین کا تانتا بندھ رہا ہے.ایک طبقہ میں واقعی حق کی جستجو کا بعذ بہ نظر آتا ہے وہ عیسائیت سے مطمئن نہیں، اُن کے قلوب میں صراط مستقیم کے لئے تڑپ ہے یا ملے * له الفضل ۱۸ روفا جولائی ۲۵ ص
۱۴۱ مسجد محمود کی تعمیر سے ملک میں اسلام اور احمدیت کی شہرت دور دور مسجد محمود کے ملک گیر تک پھیل چکی ہے اور اس کے ملک گیر اثرات و برکات روز بروز اثرات و برکات نمایاں ہوتے جارہے ہیں.اس سلسلہ میں بعض ممتاز شخصیتوں کے تاثرات ملاحظہ ہوں.(1) ڈاکٹر محمد عزالدین حسن البانوی نشہ ہو نے ایک تقریب سعید پر جو صا حبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر کے اعزاز میں منعقد کی گئی مندرجہ ذیل خیالات کا اظہار فرمایا :- ساری دنیا میں احمدیت اسلام کی علمبردار ہے اور اس نے آپ تک بہت کچھ حاصل کر لیا ہے.قبل ازیں عثمانی سلطنت کے دور میں اسلامی دنیا میں ترکی ایک نمایاں حیثیت رکھتا تھا اور ترکی کی ہر چھوٹی بڑی سفارت کے ساتھ ایک مسلمان عالم ہوتا تھا جو اس ملک میں مسلمانوں کی ضروریات کا خیال رکھتا تھا.بدقسمتی سے پہلی جنگ عظیم کے بعد یہ دستور عموما مسلمان حکومتوں نے ترک کر دیا.اب یہ جماعت احمدیہ کی بڑی خوبی ہے کہ اس نے پیش قدمی کی اور وہ ہر جگہ اسلام کے مراکز قائم کر رہی ہے.بہت سے ممالک میں مسلمان اقلیتوں کے لئے یہ مساعی بہت خوش گئی ہے.زیورک میں اس مسجد کی تعمیر احمدیت کی مساعی کی ایک روشن مثال ہے اس کی اہمیت کا اظہار مسلمانوں کی بڑی تعداد سے ہوتا ہے جو عیدین پر یہاں جمع ہوتے ہیں یہاں پر تیم مسلمانوں کے بچوں کی تعلیم کا بھی جماعت نے بیڑا اٹھایا ہوا ہے.جماعت کا ایک اور بڑا کام قرآن کریم کے بہت سی زبانوں میں تراجم ہے اور حال ہی میں قرآن کریم کے یہ قرا تم ان ممالک میں جہاں کی زبان عربی نہیں ہے مذہبی تعلیم کے حصول کے لئے بڑی قیمت رکھتے ہیں.امید کی جاتی ہے کہ باقی مسلمان بھی احمدیوں کا اپنے معتقدات پر عمل اور سلمان بھائیوں کی امداد کی مثال کی تقلید کریں گے " سے اے ڈاکٹر صاحب ایک مسلم انجنیر ہیں جن کا خاندان پہلی جنگ عظیم میں سقوط ترکی کے بعد یورپ اور تقریبیں آباد ہو گیا.ڈاکٹر صاحب خود سولیس شہری ہیں.پانچے زبانیں بول سکتے ہیں اور ملک کے مختلف طبقوں میں نہایت احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں ؟ له الفضل ۲۵ ، وفار جولائی ۳ مت.
۱۴۲ (۲) ایک ترک دوست قهرمان تو نا بلو نے کہا :- مجھے سوئٹزر لینڈ میں رہتے پانچ سال ہو گئے ہیں.میرے لئے اپنے والدین اور وطن عزیز سے دور رہنا بڑا مشکل تھا.اپنے والدین اور وطن سے دوری کو والدین، عزیزوں اور دوستوں سے خط و کتابت کم کر دیتی لیکن ایک مسجد کی آرزو جہاں تمام مسلمان جمع ہوسکیں کی تکمیل کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی.اللہ کا شکر ہے کہ ۲۲ جون ۱۹۶۳ء کو جماعت احمدیہ کی اس مسجد کی تعمیر مکمل ہوگئی، آب تمام ترک اور دوسرے مسلمان یہاں جمع ہو سکتے اور نمازیں ادا کر سکتے ہیں.ہمارے امام کے پر اثر خطبات اور تشریحات نہ صرف میرے نئے بلکہ بہت سے ترک احباب کے لئے بہت محمد ثابت ہوتے ہیں.مجھے یہ بھی ذکر کرنا ہے کہ قرآن مجید کے تراجم اور ایسا ہی اور بہت سی کتب کے تراجم مثلاً دنیا چہ تفسیر القرآن کا ترکی زبان میں ترجمہ ہمارے لئے بہت ہی قابل قدر ہے.یہاں ہماری یہ سجد ہمیں قلبی سکون اور مسترت بخشتی ہے اور پھر ہم خوش ہیں کہ اسلام کا نور دور دراز علاقوں میں پھیلتا اور روشن سے روشن تر ہوتا جا رہا ہے نہ (۳) سوئٹزرلینڈ کے ایک کیتھولک دوست مسٹر فرودن فرمولا نے مسجد کی اہمیت و عظمت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا :- ہم اسے خوش قسمتی تصور کرتے ہیں کہ اس مسجد کی تعمیر سے ایک ایسا مرکز قائم ہو گیا جو نہ صرف وسطی یورپ کے مسلمانوں کے لئے مقام اجتماع ہے بلکہ غیر مسلوں کے لئے بھی مذہبی تبادلۂ خیالات کے لئے ایک ادارہ کا کام دیتا ہے.اس سے باہمی مفاہمت کو فروغ حاصل ہوتا ہے مسجد محمود کی شہرت نے ہر جگہ بڑی کشش پیدا کی ہے.در حقیقت یہاں پر نہ صرف زیورک بلکہ سوئٹزر لینڈ کے مختلف حصوں اور ہمسایہ ممالک جرمنی اور آسٹریا سے لوگ آتے ہیں.کچھ چھوٹے چھوٹے گروپ تعلیم عربی کے حصول اور قرآن و بائبل کے موازنہ اور تاریخ وادب سے بہتر واقفیت زیورک کی فیڈرل یونیورسٹی کے ایم ایس سی ! بعد ان دنوں ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے لئے سوئٹزر لینڈ میں مقیم تھے سے سے ایک ممتاز الیکٹریکل انجینیئر بے ترجمه الفضل ۲۵ و فار جولائی F1940
حاصل کرنے کے لئے بن گئے ہیں خود ایک ایسے گروپ سے تعلق رکھتا ہوں جو ہر ہفتہ عربی تعلیم کے حصول کے لئے جمع ہوتا ہے..ہم نے عربی کی تعلیم کی بنیاد کے طور پر قاعدہ لیترنا القرآن کو استعمال کیا ہے جو پاکستان میں طلبہ مدارس کے لئے ابتدائی کتاب کے طور پر استعمال ہوتا ہے بڑی مشکل کے بعد اپنے استاد باجوہ صاحب کی راہ نمائی میں جو ہم سے ناقابل یقین محبت اور شفقت سے پیش آتے ہیں اس قاعدہ کو ختم کر دیا ہے ہم اب قرآن کو گرام اور گفت اور محاورات کے ساتھ پڑھ رہے ہیں.اس حاصل کئے ہوئے علیم کو استعمال کرنے اور ان ممالک اور ان کے لوگوں کو دیکھنے کے لئے ہم میں سے تین اب تک مشرق وسطی کی سیاحت کر چکے ہیں انہوں نے ان ممالک کو اپنی توقعات سے بڑھ کر پایا.میں خود بھی ارادہ رکھتا ہوں کرکیسی مناسب موقع پر مسلم ممالک دیکھوں نے (۴) ہز ایکسی لنفیسی سید توفیق عبد الفتاح سفیر جمہوریہ متحدہ عربیہ نے ایک الوداعی دعوت میں (جو ان کے اعزاز میں جماعت احمدیہ زیورج کی طرف سے دی گئی، تقریر کرتے ہوئے کہا :- " سوئٹزرلینڈ میں میرے پہلے سال کے قیام کے دوران مجھے زیورک میں مسجد کا علم نہ تھا اسکے بعد مجھے ایک لبنانی ڈاکٹر سے مسجد کا علم ہوا اور اُن کی تحریک پر ہم عید الاضحی کی تقریب میں شریک ہوئے اس کے بعد لیکن آتا رہا اور امام مسجد نے ہمیشہ مجھے خوش آمدید کہا.یہاں ہمیں بہت سے سوئیں مسلمانوں اور دوسرے مسلمانوں سے تعارف کا موقعہ ملائین کے ساتھ ہمارے بہت اچھے تعلقات ہیں اور صحیح رابطہ قائم ہو چکا ہے جب بھی امام نے مجھے بلایا میں نے کبھی آنے میں قاتل نہیں کیا.میں امام کی سرگرمی عمل کو شدت سے محسوس کرتارہا ہوں اور اس مجلس میں اس تاثر کے اظہار سے مجھے خوشی ہے.امام ایک پھر آپ کے اس پر تپاک خوش آمدید کے لئے شکریہ ادا کرتا ہوں اور یں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ کبھی مجھے بھولے نہیں جب بھی مجھے قاہرہ بجانے کا موقعہ ملا یکن آپ کا ذکر کرتا رہا.الازہر کے امام سے کئی دفعہ آپ کے متعلق بات ہوئی اور میں نے انہیں آپ کے مشن کی کارگزاری سے آگاہ کیا.ابھی گزشتہ رمضان میں میں قاہرہ میں ا ترجمه المفضل ۲۸ وفار جولائی ۱۳۳۲۲۵ ص۳* طر + 51970
۱۴۴۴ تھا وہ آپ کا اور آپ کے مشن کا ذکر بڑی دلچسپی سے سنتے رہے.میں نے انہیں بتایا کہ آپ یہاں کس قدر کامیاب ہیں.آپ اور آپ کے سوئٹزرلینڈ میں کا رہائے نمایاں کے لئے اپنے ممنونیت کے جذبات کا اظہار ایک حقیر خدمت ہے جو یکیں بجالاتا ہوں یا لے ری کا ایک قابل ذکر واقعہ صاحبزاده صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وكيل التبشير سوئٹزرلینڈ میں ۶۱۹۶۵ مرزا مبارک احمد صاحب کی سوئٹزرلینڈ میں آمد ہے.صاحبزادہ صاحب مغربی افریقہ کے تبلیغی دورہ پر تشریف لے جاتے ہوئے ۲۳ ماہ شہادت کو زیورک پہنچے اور ۲۷ ریاہ شہادت تک ٹھہرے آپ کے اس مختصر سے قیام سے نہ صرف سوئٹزرلینڈ کی احمدیہ جماعت کو بہت فائدہ پہنچا بلکہ آپ کی مؤثر گفت گو نے زیر تبلیغ اصحاب اور جماعت سے اخلاص و احترام رکھنے والے دوسرے دوستوں کو بھی بہت متاثر کیا.صاحبزادہ صاحب دوره مغربی افریقہ سے واپسی پر لندن سے استنبول جاتے ہوئے دوبارہ سوئٹزرلینڈ سے گزرے اور ایک اثر انگیز خطاب فرمایا.شہ له الفضل ۲۴ شهادت / اپریل م * سے چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ نے اپنی مفصل رپورٹ میں لکھا:.۲۲ اپریل کو محترم میاں صاحب کی آمد متوقع تھی چنانچہ استقبال کی ہم تیاری میں مصروف تھے.۲۳ اپریل کو محترم میاں صاحب کے سیکرٹری مکرم میر مسعود احمد صاحب پہنچے گئے.ان کے استقبال کے بعد وہ آپ آئے ہی تھے کہ اچانک محترم میاں صاحب بھی غیر متوقع طور پر پروگرام سے ایک دن قبل تشریف لے آئے.اس اچانک آمد سے بہت خوشی ہوئی معلوم ہوا کہ بعض وجوہ کے باعث پر وگرام میں کچھ تبدیلی کرنی پڑی اور اس لئے ایک دن پہلے پہنچ گئے.آپ زیورک میں ۲۷ اپریل کی دوپہر تک ٹھہرے.۲۵ کو آپ کے اعزاز میں عصرانہ دیا گیا.احباب نجمات کے علاوہ زیر تبلیغ اصحاب اور جماعت سے اخلاص و احترام کا تعلق رکھنے والے دیگر دوست مدعو کئے گئے تھے.اس موقع پر محترم میاں صاحب کی از حد موثر گفت گو سے حاضرین کے قلوب پر گہرا اثر ہوا.اس تقریب کے علاوہ ہمارے بعض احباب خصوصاً نو احمدی جلیب احمد سیزش اور پرانے مخلص احمدی عبد الرشید فوگل کو ان کی محبت سے بہت مستفید ہونے کا موقع ملا.حبیب احمد سینزش نے ۲۹.دسمبر کو بیعت کی اور میں نے نام حبیب احمد رکھا.ان کی والدہ نے مخالفت شروع کی میں نے ان کو مدعو کیا اور وہ کافی نرم پڑ گئیں مگر ان کے پادری نے انہیں اُکسایا اور کہا کہ مذہب کی تبدیلی کا سوال (بقیہ حاشہ یہ اگلے صفحہ پر،
۱۴۵ حضرت خلیفة المسیح الثالث الا الہ الا اس ٹرین کی سرزمین کو ایک ہی میں گرستن تا سوئٹزرلینڈ کی ه من الله تعالى حضرت مصلح موعود کے مبارک قدموں نے برکت کا مبارک سفر سوئٹزر لینڈ روم ہوں بخش تو میں اسے حضرت امیر المومنین 71946 خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کے خدا نما اور مقدس وجود سے براہِ راست انوار و فیوض حاصل بقیہ حات صفحہ گزشتہ : نہیں لیکن اسلام بھی کوئی مذہب ہے.یہ تو یورپ کے لوگوں کے لئے قطعاً موزوں نہیں.یہ قرون وسطی کا مذہب ہے.ان پادری صاحب نے اس قسم کے مالک سے بھی بات کی جہاں وہ ملازم تھے.وہ پہلے ہی ایک متعصب کیتھولک تھا اس نے ان کو پندرہ یوم کا نوٹس دے دیا انہوں نے کہا کہ پندرہ یوم کا سوال نہیں لیکن مستقل طور پر ہی فارغ ہوتا ہوں.اس پر والدین نے اور مخالفت شروع کر دی میں فون کرتا تو حبیب کو بات نہ کرنے دیتے اور خط لکھتا تو اس تک پہنچنے نہ دیتے آخر تنگ آکر ایک دن میں ان کے ہاں گیا.وہ زیورک سے دور رہتے ہیں.ان کے گھر پہنچا.اہلیہ اور یزیم کمیٹی بھی ہمراہ تھے.یہ ان کی والدہ کے پاس بیٹھے اور مجھے حبیب اپنے کمرہ میں لے گیا.دیکھا کر سامنے بسم الله الرحمن الرحیم کا کتبہ لگایا ہوا ہے مسجد کی تصویر دیوار پر آویزاں ہے اور عید کا دعوتی کارڈ بھی رینیت کے طور پر لگا ہوا ہے.اس نے بتایا کہ کسی طرح اس کی مخالفت ہو رہی ہے اور یہ کہ وہ اللہ کے فضل سے اسلام پر قائم ہے.لیکں نے آئندہ کے لئے ایک ترک دوست کی معرفت ڈاک بھیجوانے کا انتظام کیا ہو اس کو ہدایت کی کہ وہ خود مجھے گاہے بگاہ ہے فون کر لیا کرے.یہ نوجوان کئی گھنٹے محترم میاں صاحب کے ساتھ رہے.ہمارے ایک دوست جو پشاور یونیورسٹی میں لیکچرار تھے اور اب یہاں ڈاکٹریٹ کر رہے میں استقبالیہ تقریب سے اس قدر متاثر ہوئے کہ محترم میاں صاحب کے اعزاز میں اپنے ہاں عشائیہ کا اہتمام فرمایا.محترم میاں صاحب انہیں اور باقی حاضرین کو لطیف انداز میں جماعت کی اسلامی خدمات بتاتے رہے.محترم میاں صاحب نے یہ ارادہ ظاہر فرمایا کہ واپسی پر ہفتہ عشرہ قیام کرسکیں گے چنانچہ اس امید پر کہ جلد ہی پھر ملاقات ہوگی ۲۷ اپریل کو انہیں الوداع کہا.واپسی کے لئے مختلف تقاریب کا پروگرام زیر غور تھا کہ فون پر لندن سے معلوم ہوا کہ وہ تو ار جون کی شب کو پہنچیں گے اور ے جون کو پونے دو بجے کے جہاز پر استنبول کو روانہ ہو جائیں گے یہاں نے اپنے خاص دوستوں کو فون پر اطلاع دی سائیر پورٹ پر محترم میاں صاحب کے استقبال کے لئے خاکسار بعض احباب کے ساتھ موجود تھا.ہمارے نو احمدی بھائی ضیاء اللہ مایر (MEIER ) نے جماعت کی مان سے گلدستہ پیش کیا.ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا جو اپنے رنگ میں فروعی تھا.میں نے اپنے مختلف طبقات کے احباب کو تھوڑا تھوڑا وقت دیا کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار کریں اور بعد میں محترم میاں صاحب نے تقریر فرمائی کی الفضل (۲۴-۲۵ ) و فار جولائی ) 71940
۱۴۹ 444 کرنے کا سنہری موقعہ میسر آیا.حضور پر نور اپنے دورہ یورپ کے دوران او فار جولائی کو پیر کے روز صبح گیارہ بجے کے قریب زیورک میں رونق افروز ہوئے.ہوائی مستقر پر سوئٹزرلینڈ کے معززین اور سر بر آوردہ مسلمانوں نے حضور با استقبال کیا.اسی روز شام کو حضور کے اعزاز میں ایک استقبالیہ تقریب منعقد ہوئی جس میں معترزین بکثرت شامل ہوئے اور اس موقعہ پر مختلف ملکوں کے مسلمانوں نے حضور ایدہ اللہ تعالے کی خدمت اقدس میں اپنے جذبات محبت و عقیدت پیش کئے ویلے اگلے روز (مورخہ 11 جولائی بروز منگل سید نا حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اعزاز میں وسیع پیمانہ پر ایک ظہرانہ کا اہتمام کیا گیا جس میں سات ملکوں کے سفیروں، متعدد دیگر سفارتی نمائندوں اور سوئٹزرلینڈ کے سر بر آوردہ حضرات نے شرکت کی سولیس ریڈیو نے حضور کا ایک خصوصی انٹرویو نشر کیا ٹیلیویژن نے حضور کے انٹرویو اور استقبالیہ تقریب کی فلم تیار کی.انٹرویو کے مناظر اسی شام ٹیلیویژن پر دکھائے گئے لیے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ زیورک میں چار روز قیام کے بعد ۴ ماہ و فار جولائی کو ہیگ (ہالینڈ) تشریف لے گئے ہے مسجد حمود میں اس کی تقرب بعد الانیه اسید مودی ، ار تبلیغ فروری یا کیا تم کو / دانیم و م تقریب عید الاضحیہ منائی گئی.اس عید کو یہاں پہلی بار یہ صومیت حاصل تھی کہ زیور ک ریڈیو نے کافی وقت پہلے لے کئے ہوئے پر وگرام کے مطابق نصف گھنٹہ سے بھی زیادہ وقت اس تقریب کے لئے مخصوص کیا.ریڈیو پروگرام میں (جو آسٹریا جرمنی اور سوئٹزر لینڈ کا اکٹھا چھپتا ہے، اس کا ذکر بھی شائع شدہ تھا.اس میں انچارج مبلغ سوئٹر لمیٹڈ چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ کا مکمل خطبہ ریکارڈ کیا گیا اورمختصر تبصرہ و تعارف کے ساتھ نشر کیا گیا.اس پروگرام میں دلچسپی رکھنے والے کروڑوں لوگوں نے اسے شفار اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا شہرہ آفاق خطبہ الہامیہ اور کتاب برکات الدعا کے اقتباسات اور اپنے محبوب امام له الفضل ۱۳ روفار جولائی ۲ صدا سے الفصل ۱۸ر وفار جولائی ۶۱۹۶۷ الفضل ارونا/ جولائی ۱۳۲۶ صدا : Fig
۱۴۷ حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے ہوتی پیغام کا ترجمہ بھی سنایا گیا ہے عید کے روز سخت سردی تھی اور برفباری ہو رہی تھی اور پھر کام کا دن تھا تا ہم حاضری اچھی ہوگئی حتی کہ اس موسم میں بر آن سے الجزائر کے سفیر ہز ایکسی لینسی محمد یوسفی اور انڈونیشین سفارت کے سیکنڈ سیکرٹری نے بھی شرکت کی.مقامی ترکی فصل کے نمائندے بھی اس وقت موجود تھے.اس یادگار تقریب کی رپورٹ جرمن اور طریخ دونوں حصوں کے پریس میں شائع ہوئی.اخبار ٹا کر اپنا کر TAGES MANZEIGER" نے اپنی ۲ در فروری کلمہ کی اشاعت میں لکھا :- " اس تقریب میں بکثرت شرکت سے ان کے مختلف رنگوں، نسلوں اور مذہبوں کے باتے اپنی اپنی الگ زبانوں اور انوکھے آداب سے ایسا عجیب اور رنگین امتزاج پیدا ہو گیا تھا کہ زیورک کے ایک عام باشندے کو گو وہ اس حلقہ میں دلی مسرت کے ساتھ قبول کر لیا گیا ہو ضرور قدرے اجنبیت کا احساس ہوگا " ہے ۱۳۲۵ المختصر وہ سر زمین جو میں کبھی مجاہدین احمدیت کے لئے بالکل اجنبی تھی آپ اس میں اسلام ایک موثر اور طاقتور تحریک کی صورت میں اُبھرتا دکھائی دیتا ہے.قرآن مجید اور دوسرا اسلامی لٹریچر رسولیں مفکروں، دانشوروں، صحافیوں ، سیاستدانوں اور صاحب علم طبقوں کی توجہ کا مرکز بنتا جارہا ہے، شاندار مسجد مسجد محمود تعمیر ہوچکی ہے ، دل اسلام کے لئے جیتے جا رہے ہیں اور سعید رو میں آہستہ آہستہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں آ رہی ہیں اور یہ تثلیث کدہ بھی اذانوں سے گونجنے لگا ہے.فالحمد لله على ذالك ؟ + له الفضل ۲۳ شہادت / اپریل ها مت ۶۱۹۷۰ نے (ترجمہ) الفضل ۲۳ شهادت را پریل ۱۳۳۹ ص۳
۱۴۸ احمدیہ فصل پنجم سلام مشن ہالینڈ کا قیام تبلیغی نقطہ نگاہ سے ہالینڈ نہایت درجہ اہمیت رکھتا ہے یہی وہ ملک ہے جس نے تین سو چا پس اے له تک جزائر شرق الہند کے دس کروڑ باشندوں پر حکمرانی کی ہے.ان باشندوں کی بھاری اکثریت مسلمان ہے اور ان کا ایک حصہ ہالینڈ میں ہی مستقل بود و باش اختیار کر چکا ہے.اس ملک کا تعلق جنوبی امریکہ کی بعض تو آبادیات سے بھی ہے جہاں مسلمان خاصی تعداد میں آباد ہیں.یہی وجہ ہے کہ ہالینڈ کی لائیڈن یونیورسٹی (LEIDEN UNIVERSITY) مشرقی علوم کے " مغربی مرکز کی حیثیت سے نہ صرف پورے یورپ بلکہ دنیا بھر میں بہت مشہور ہے اور علمی دنیا میں ایک نمایاں اور متاز مقام رکھتی اور بڑے احترام کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے.لہذا یہاں کے مستشرقین کو حقیقی اسلام سے روشناس کرانے سے یورپ کے اونچے علمی طبقوں میں زبر دست انقلاب آسکتا ہے اور اسلام کی روحانی فتح سے دروازے کھل سکتے ہیں.اگر چہ ہالینڈ سے انڈونیشی مسلمانوں کے ایک عرصہ سے تعلقات چلے آرہے تھے اور ایک بڑی تعداد اس میں مقیم ہوگئی تھی لیکن اتنے لمبے زمانہ میں یہاں اشاعت اسلام کی کوئی قابل ذکر کوشش نہیں کی گئی حتی کہ کسی مسلمان کو یہ خیال تک نہیں آیا کہ اپنی مرکزیت کو برقرار رکھنے اور خدائے واحد کا انڈونیشیا شرق الہند کے اس مجمع الجزائر کا دوسرا نام ہے جو سترھویں صدی عیسوی کے آغاز سے لیکرٹ تک ہالینڈ کے مقبوضات میں شامل رہا ہے.دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپانی فوجوں نے ولندیزی فوجوں کو زیر کر کے ان جزائر پر قبضہ جمالیا شاہ میں جاپان نے ہتھیار ڈال دیئے تو ملک میں تحریک آزادی اٹھ کھڑی ہوئی اور آخر بڑی کشمکش کے بعد حکومت ہالینڈ نے ریاست ہائے متحدہ انڈونیشیا کی آزادی تسلیم کر لی اور آزاد انڈونیشیا کے ساتھ اتحادہ اشتراک عمل کا ایک پختہ معاہدہ طے کر لیا تیں کی رو سے ہالینڈ اور انڈو نیش یا تابع ولندیزی کے دو مساوی رتبہ ملک قرار پائے.ان ملکوں نے ملکے کیا کہ خارجہ امور دفاع اور اہم اقتصادی معاملات میں دونوں ملک باہمی مشورہ سے پالیسی طے کیا کریں گے ( تاریخ اقوام عالم از جناب مرتضی احمد خان میکش صفحه ۷۹۴-۷۹۵) :
۱۴۹ نام بلند کرنے کے لئے اس سرزمین میں کوئی خانہ خدا ہی تعمیر کر دیں.ہالینڈ میں اسلام و احمدیت کی پہلی آواز مسجد فضل لنڈن کے افتتاح کے بعد مولانا عبد الرحیم صاحب، درد ایم.اسے مبلغ انگلستان کے ذریعہ سے پہنچی جنہوں نے شہ میں نجیم اور اس ملک کا دورہ کیا اور وہاں کی متعد د سوسائیٹیوں میں لیکچر دیئے.۱۹۳۳۳۴ مر میں آپ نے ہالینڈ کے پروفیسر و ننک سے خط و کتابت کی ۳۵-۹۳۴) میں بعض ڈرح سفراء سے ملاقات کی اور انہیں بتایا کہ و.جاوا میں ہمار اکشن قائم رہے ہیں پر انہوں نے احمدیت سے متعلق واقفیت حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی.اور جب آپ دوسری مرتبہ ملنے کے لئے تشریف لے گئے تو ان کے پاس احمدیت کا لٹریچر موجود قاتی مولانا کی سالانہ رپورٹ ۳۶-۹۳۵ سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈوچ سفیر سے انہوں نے مسلسل رابطہ قائم رکھا ہے لنڈن شی کی سالانہ رپورٹ ۳-۱۹۲۷ میں ہالینڈ کے دو پادریوں کے مسجد فضل لنڈن میں آنے کا ذکر تا ہے ہے مولانا و رو انگلستان ہی میں تھے کہ دار اپریل کشائر کو مسٹر انڈریا ساڈی فصل قادیان گئے.یہ پہلے ولندیزی باشندے تھے جنہیں مرکز احمدیت میں جانے کی سعادت نصیب ہوئی.مسٹر انڈریا سا سماٹرا میں وچ آفیسر مقرر تھے اور انہیں مولوی رحمت علی صاحب مبلغ جاوا و سماٹرا کے کے ذریعہ سلسلہ احمدیہ کے حالات کا علم ہوا تھا مسٹر انڈریا ما مرکز احمدیت کے پرانوار را حول اور اہل قادیان کی اسلامی اخوت و رواداری سے بے حد متاثر ہوئے چنانچہ انہوں نے واپسی پر حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے نام ڈچ زبان میں حسب ذیل خط لکھا :- "ہم نے قادیان میں نیکی کے سوا اور کچھ نہیں پایا سو ہندوستان سے جو بہت سے اثرات میرے دل پر ہوئے ہیں ان میں سے خاص اثرات قادیان کے ہیں جنہوں نے میرے دل میں خاص جگہ حاصل کی ہے.یہ سب سے اولی آپ لوگوں کی مہمان نوازی ہے جس سے لیکن مسرور ہوا اور نئیں آپ کا ممنون ہوں گا اگر آپ میرا شکریہ اپنے سب احباب کو پہنچا دیں.خاص بات 1454 سالہ "جماعت احمدیہ کی اسلامی شهد مات" ! ( از حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم.اے ناظر دعوت و تبلیغ قادیان ماه دسمبر ۱۹۲۶ میلوا اسلامیہ ٹیم پریس دہلی دروازہ لاہور سے رپورٹ سالانہ رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیه ۳۵ - ۱۹۳۴ از ۲ صدر انجمن احمدیه ۱۹۳۳۳۳ء ۱۹ ب ☑ + ک رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ قادیان ۳۰-۱۹۳۵د در ۳ شه رپورٹ سالانہ بعد ر انجمن احمدیہ قادیان ۱۹۳۷۳ ء ما 2 الفضل در اپریل او صدا کالم کا ہے
۱۵۰ جو مجھ پر اثر کر نے والی ہوئی وہ ایک طبعی ایمان اور سچی با داری ہے جو یہی محبت سے پیدا ہو کر قادیان کو رسولوں کی سی ایک فضا بخش رہی ہے جو عیسائی حلقوں میں شاذ و نادر ہے.آپ کے فاضل ذوالفقار علی خاں صاحب (ناظر اعلیٰ ) نے (جن کے ساتھ مجھے خاص محبت حاصل ہوگئی ہے ، جو کتب مجھے عطا فرمائی ہیں ان کے پڑھنے کے بعد پھر آپکو اطلاع دوں گا یہ ہے مولانا عبد الرحیم صاحب ورد کی انگلستان سے مراجعت کے بعد مولانا جلال الدین صاحب شمس کے قیام لنڈن کا زمانہ آتا ہے جو ہالینڈ میں احمدیت کی داغ بیل کے اعتبار سے ایک شہری کار ہے جس میں دوسری یوروپین زبانوں کے تراجم کے علاوہ ڈرح ترجمہ قرآن بھی آپ کے زیر نگرانی مکمل ہوا.اس ترجمہ کی سعادت ایک ولندیزی خاتون مستر زمرمان کے حصہ میں آئی جوڈچ کے علاوہ انگریزی اور جرمن زبان کی بھی ماہر ہیں اور ایلی پر بھی ایک حد تک عبور رکھتی ہیں.اس خاتون نے اس مقدس فریضہ کی بجا آوری کے دوران صداقت اسلام کے بعض قهری نشان دیکھے اور بالآخر اللہ کے فضل اور احمدی مبلغوں کی مساعی جمیلہ کے نتیجہ میں داخل اسلام ہوگئیں اور آج تک نہایت خلوص سے ہالینڈ میں متبعین اسلام کے دوش بدوش شاندار اسلامی خدمات بجالا رہی ہیں مسر ناصرہ زمرمان ( N ZIMMER MAN ) نے اپنے قبول اسلام کی ایمان افروز سرگزشت اپنے قلم سے لکھی ہے جس کا ترجمہ درج ذیل کیا جاتا ہے :.ہ کا سال میرے لئے تاریخی حیثیت رکھتا ہے.اس سال کے شروع میں میں بمباری سے مسمار شدہ لنڈن میں پہنچی ہی تھی کہ مجھے ایک ترجمہ کرنے والے محکمہ TRANSLATION) BUREAU کی طرف سے ملاقات کے لئے پیغام ملا مجھے بتایا گیا کہ یہ ملاقات قرآن کریم کے ڈچ ترجمہ کے سلسلہ میں ہے.مجھے آخری تین سو صفحات کا ترجمہ کرنے کے لئے کہا گیا اس پر مجھے خواہش پیدا ہوئی کہ کہیں یہ دیکھوں کہ پہلے حصہ کا ترجمہ کیسا ہوا ہے ؟ میں پہلے + ه الفضل و مٹی سے مٹ کالم ۳ سے لنڈن میشن کی رپورٹوں سے پتہ چاہتا ہے کہ مولا خموش کی نے لندن پہنچنے کے بعد ڈچ باشندوں میں تبلیغ اسلام کا سلسلہ جاری کر دیا تھا.چنانچہ آپنے اپنے قیام انگستان کے پہلے سال ہالینڈ، جرمنی اور سویڈن کے سکولوں کی ہائی کلاسز کے قریبا ستر طلباء کو ایک تقریب پر مدعوکیا در پورٹ سالانه صدر انجمن احمدیه قادیان ۳۱- ۱۹۳۸ ۵۵ ) :
101 حصہ کے چند صفحات کو لے کر گھر لوٹی اور ان کا بنظر غائر مطالعہ کیا.اس ترجمہ کا میری طبیعت پر بہت برا اثر ہوا.مترجم نے قدیم ڈچ زبان میں جس کو آج کل سمجھنا بھی مشکل ہے ترجمہ کیا ہوا تھا.اور پھر اس کا انداز بھی کوئی اچھا نہ تھا اس لئے میکس نے ترجمہ کرنے سے انکار کر دیا میرے لئے یہ کام اس وجہ سے بھی مشکل تھا کہ میری پیدائش اور تربیت عیسائی ماحول میں ہوئی تھی جس میں میرے سے گناہ کا تصور ہی بالکل اور ہے.یہ عقیدہ رکھتے ہوئے کہ حضرت سیورع ہمارے گناہوں کی خاطر مصلوب ہو گئے قرآن کریم کی تعلیمات میرے لئے صدمہ کا موجب ہوئیں کیونکہ قرآن کریم میں اعمال پر بہت زور دیا گیا ہے اور گناہوں کی پاداش میں سرا کا بھی ذکر ہے اس لحاظ سے بھی قرآن کریم کا ترجمہ کر نا میرے لئے محال تھا.آخر یہی سوچ اور گہرے غور کے بعد میں نے اس مبارک کام کو سر انجام دینے کا فیصلہ کیا اور میں نے دفتر کے ڈائر یکٹر سے تمام قرآن کا ترجمہ اپنے طرز اور موجودہ ڈچ زبان میں کرنے کی اجاز لے لی.میں نے اس کام کو سرانجام دینے کے لئے دن رات ایک کر دیا اور ابتدائی ۳۰) یم صفحات کا ترجمہ کر کے میں ڈائریکٹر کے پاس لے کر گئی.اس موقعہ پر اس امر کا ذکر کئے بغیر نہیں رہ سکتی کہ جب میں ڈائریکٹر کو ملنے گئی تو ہماری قرآن کریم کے متعلق طویل گفت گو ہوئی.ڈائریکٹر نے اس مقدس کتاب کے متعلق نہایت ہی توہین آمیز کلمات استعمال کئے، بعد میں بھی اس کا رویہ یہی رہا اور اس نے وہاں کئی بار متواتر اور سلاسل قرآن کریم کی تو ہین جاری رکھی جن کا میری طبیعت پر بہت ناگوار اثر ہوا لیکن جلد ہی جب میں دوبارہ اسے ملنے گئی تو میں نے اسے نہایت ہی المناک کیفیت میں پایا.اسے LAMBA GO کا شدید حملہ ہوائیں نے اسے فوری طور پر گھر پہنچانے کا انتظام کیا جہاں اگلے ہی روز وہ پل لیسا چند روز بعد دوسری ڈائریکٹریس بھی جس نے اس گفت گو میں حصہ لیا تھا بیمار ہوئی اور اس مقدس کتاب کی توہین کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی گرفت سے نہ بچ سکی اور ہسپتال میں اِس جہان سے رخصت ہو گئی.ان واقعات نے میری طبیعت پر گہرا اثر کیا لیکن ابھی خدا تعالیٰ نے اِس مقدس کتاب کی صداقت کو میرے قلب پر اور منقوش کرنا تھا.خدا تعالی کا کرنا ایسا ہوا کہ ان واقعات
۱۵۲ کے بعد اس وفتر کا ٹائپسٹ جس نے اس توہین آمیز اور مضحکہ خیز گفت گو میں حصہ لیا تھا جنوبی امریکہ گیا.تین ہفتہ کے اندر اندر ہی مجھے معلوم ہوا کہ وہ بھی خدائی عذاب کا شکار ہو گیا اس دنیا سے کوچ کر گیا ہے.ایک اور سیکرٹری جس نے اس تو ہین میں کبھی حصہ نہ لیا تھا نیچ و سلامت رہی.ان واقعات نے میری دنیا یکسر بدل ڈالی میری طبیعت پر قرآن کریم کی صداقت اور حقانیت کا سکہ بیٹھنا شروع ہوا اور اس کتاب کی عظمت کا میرے دل پر گہرا اثر ہوا انہی واقعات نے میری توجہ اسلام کی طرف مبذول کی بیکں نے ان واقعات کا اسلئے بھی ذکر کر دیا ہے تاکہ یہ مخالفین کے لئے محبت کا باعث ہو کہیں.میں اپنے مولا کریم کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ اس نے مجھے اس کام کے کرنے کی سعادت عطا فرمائی.میں نے ترجمہ کے دوران میں اس مقدس کتاب سے جو روحانی شیرینی اور پرکیف روحانی اثرات حاصل گئے وہ الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتے.خدا تعالیٰ نے مجھے اپنی رحمت سے نوازا.جو روشنی ئیں نے قرآن کریم سے حاصل کی وہ خدا تعالیٰ کی صفت رحمانیت اور ریت کا نتیجہ ہے اند اتعالیٰ نے میرے ساتھ بالخصوص اپنی رحمت کا سلوک فرمایا.میں ترجمہ کے دوران قرآن کریم کی صداقت کی دل سے قائل ہو چکی تھی چنانچہ میں نے قرآن شریف سے لگاؤ اور تعلق کو بڑھانے کے لئے لنڈن مسجد میں گاہے گا ہے بجاتا اور احمدیت کا مطالعہ کرنا شروع کیا.میرے ساتھ ہر دفعہ برادرانہ اخوت اور محبت کا سلوک کیا گیا اور میری روحانی تشنگی دور کرنے کے سامان مہیا کئے جاتے رہے.اس محبت اور انغوت بھرے سلوک نے مجھے احمدیت کے بہت ہی قریب کر دیا.ہالینڈ آنے پر تھوڑے عرصہ میں ہی یہاں مشن قائم ہو گیا.یہاں تینوں مبلغین نے میری تربیت کے لئے اخلاص اور محنت سے کام کیا، مجھے کتب مطالعہ کے لئے انہوں نے دیں لمبی لمبی دیر تک اپنا قیمتی وقت مجھ پر صرف کرتے رہے.ان کی مخلصانہ کوشش شوی کی وجہ سے تجھے احمدیت جیسی نعمت ملی.لیکن ہمیشہ اپنے ان تینوں بھائیوں کی ممنون ہونگی جن کے ہاتھوں میری نجات کے سامان ہوئے " سے اه الفضل ۱۶ تبوک، استمبر ل ص 4 !
۱۵۳ مستر زمربان کے علاوہ جن کا لنڈن مشن سے تعلق بالآخر قبول اسلام پر منتج ہوا حضرت مولانا شمس صاحب کے ذریعہ ایک ڈچ طالب علم مسٹر کاخ بھی حلقہ بگوش اسلام ہوئے.یہ پہلے ولندیزی نوسلم تھے جو بونی آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی غلامی کا فخر حاصل کیا اور ان کا نام ظفر اللہ رکھا گیا.مسٹر کاخ کا شمار آج یورپ کے اُن پر جوش نو مسلموں میں ہوتا ہے نہیں اسلام اور سلسلہ احمدیہ سے انتہائی اخلاص اور اُنس ہے.ہالینڈ میں مستقل احمدی مسلم میشن کی بنیاد حافظ قدرت اللہ صاحب منتقل مشن کا قیام کے ہاتھوں پڑی جو دوسرے مجاہد میں تحریک جدید کے ساتھ چای و روم عرصہ انگلستان میں تبلیغ اسلام کا فریضہ ادا کرنے کے بعد ۲ ماه و فار جولائی ۱۳۳۶ کو ہالینڈ میں پہنچے.آپ نے ہیگ کی کولیس سٹریٹ (COLAMBUS STR) میں ایک کمرہ کرایہ پر لے کر اشاعت اسلام کی جدوجہد کا آغاز کر دیا.ایک مبلغ اسلام کے آنے کا واقعہ اِس ملک کی تاریخ میں چونکہ ایک انوکھا اور نوالا واقعہ تھا اس لئے ڈچ پر میں نے اس میں خاصی دلچسپی لیتے ہالینڈ میں جب پہلی بار اسلامی مشن کے قیام کی خبر منظر عام پر آئی تو ان عوام نے اگر چہ اس خبر کو ڈی سی کے ساتھ پڑھا مگر اس پوسی میں تعجب اور تعصب کے لئے مجلے جذبات تھے.چنانچہ ہینگ کے ایک با اثر ہفت روزه (HAAGSCHE POST) نے ایشیا کی بیداری کے زیر عنوان یہ لکھا :- یورپ کے لئے ایشیاء کی یہ بیداری بالکل غیر متوقع ہے.آج مروجہ پہلے طریق کے بالکل الٹ مشرقی سے اسلام کے مبلغ مغرب کو بھیجے جا رہے ہیں اور جماعت احمدیہ اس کوشش میں پیش پیش ہے " یہاں تک کیتھولک پینک کا تعلق ہے اس نے اسلامی کشن کا استقبال دوسروں سے بھی بڑھ کر انقباض کے ساتھ کیا.چنانچہ وہاں کا ایک کیتھولک ہفتہ وار اخبار (جولائی ) نے اپنے ایک نوٹ پر سرخی دی کہ :."کیا ہالینڈ کے آسمان پر ہلال اسلامی کا طلوع گوارا کیا جا سکتا ہے ؟" له الفضل ۲۸ فتح اوسمبر ا حت کالم عرب سے ایضاً : 31942 TIMOTHEUs
۱۵۴ نیز لکھا:.ہمیں ذاتی طور پر ان تبلیغ اسلام صاحب سے تعرض کرنے کی چنداں ضرورت نہیں مگر ہم ان کو یہ ضرور بتا دینا چاہتے ہیں کہ انہیں اپنے تبلیغی ارادوں کے ضمن میں ڈوح لوگوں سے کوئی خاص امید نہیں وابستہ کرنی چاہیئے.اور اگر وہ کوئی ایسی امید لے کر آئے ہیں تو ہمیں ڈر ہے کہ انہیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا.اس لئے بہتر ہے کہ وہ اپنا بستر بوریا ابھی سے باندھ لیں اور واپسی کی ٹھان لین لے پریس کے علاوہ سرکاری حلقوں نے بھی انتہائی تعصب کا مظاہرہ کیا بلکہ ڈچ وزیر اعظم نے شروع میں ایک بار حافظ قدرت اللہ صاحب سے دوران ملاقات یہاں تک کہہ ڈالا کہ ہالینڈ میں آپ کو وقت ضائع کرنے کا کیا فائدہ ہو گا آپ اپنے لئے کوئی اور ملک انتخاب کر لیں یہ اسلام ی را ماما نے اینڈی سرزمین مبلغ اسلام کی ابتدائی بیغی سرگرمیاں میں انوار قرانی پلانے کے لئے او میں اور بیگ اولین توجہ کے مختلف وچ خاندانوں اور شخصیتوں سے خوش گوار تعلقات پیدا کر کے انہیں دعوتِ اسلام دینے کی طرف دی.ازاں بعد آہستہ آہستہ ہالینڈ کے دوسرے شہروں اور علاقوں کی طرف بھی تلبیغی سفر کئے اور پیغام حق پہنچایا.حافظ صاحب کی این مساعی کا نتیجہ یہ نکلا کہ چند ماہ کے اندر اندر مشرقی ہالینڈ کی ایک مخلص خاتون اسلام میں داخل ہوگئیں جس نے قبول حق کرتے ہی مالی قربانی کا ایسا بہترین نمونہ پیش کیا کہ قرن اول کی مسلم خواتین کی مالی قربانیوں کی یاد تازہ ہوگئی.مذکورہ بالا ابتدائی سرگرمیوں کا ذکر حافظ صاحب کی ایک رپورٹ میں ملتا ہے جو اخبار افضل کی ۲۲۹۲۴ فتح رودسمبر کی اشاعتوں میں موجود ہے.اس اہم رپورٹ کے ضروری تھے ہدیہ قارئین کئے جاتے ہیں.آپ نے لکھا کہ :- اس عرصہ میں خاص ملاقاتوں اور بعض مشہور احباب سے تعلقات پیدا کرنے کے علاوہ المختلف خاندانوں سے تعلقات پیدا کئے.ان افراد میں سے ایک صاحب مسٹر کو ننگ ہیں مضمون محافظ قدرت اللہ صاب مطبوع ربه الد خالد ربوہ ارمان ر باره مثلا : له الفضل ۲۸ و فار جولائی 41974
۱۵۵ جو میری آمد کی خبر پڑھتے ہی مجھے ملنے کے لئے آگئے اور کہا کہ میں ایک عرصہ تک انڈونیشیا میں آزاد خیال پادری کے فرائض انجام دے چکا ہوں اور کہ میں ہر مذہب و ملت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں اور ہر ایک شخص کو خواہ وہ کسی مذہب سے متعلق ہو اپنا بھائی خیال کرتا ہوں چنانچہ اُس نے اپنی مدد کا ہاتھ میرے لئے بڑھا دیا.اسی طرح اسی سٹریٹ میں اور ایک خاندان سے واقفیت پیدا ہو گئی جس سے زبان کے حصول میں کافی مد و علی.ایک دفعہ روٹرڈم بجانے کا موقعہ ملا تو وہاں اتفاقاً ایک دوست سے بات چل نکلی.چنانچہ اس مختصر سے تعارف کے بعد انہوں نے چائے پر مجھے بلایا اور پھر تعلقات وسیع ہوتے گئے.آخر اپنے اس دوست کی تقریب نکاح اور بعض دیگر خاندانی اجتماعوں میں شرکت کا موقعہ ملا جس سے بہت سے لوگوں سے تعارف کا موقعہ پیدا ہوگیا.اسی طرح ایک انٹر نوشین فیمیلی سے تعلقات قائم کرنے کا موقعہ ملا انہیں مسلمانوں کے ساتھ خاص اُلفت ہے طبیعت بہت ہی مہمان نواز چنانچہ دونوں عیدوں کا انتظام اس فیملی نے بخوشی اپنے ہاں کیا اور مہمانوں کی تواضع کی.ایک اور خاندان جس کا جماعت احمدیہ کی تاریخ کے ساتھ بھی ایک گونہ تعلق قائم ہوچکا ہے اور ڈپر مشن کے ساتھ مزید قریب کا تعلق ہے یہ وہ فیمیلی ہے جس نے ہما را قرآن کریم پورح زبان میں ترجمہ کیا ہے.پہلے ان کی رہائش لندن میں تھی مگر تھوڑا عرصہ ہوا (میرے آنے کے بعد) وہ اس ملک میں مقیم ہو گئے مسز زمرمان جنہوں نے یہ مقدس کام سرانجام دیا وچ ہیں جو انگریزی، جرمن اور فرنچ زبانوں کے متعلق خوب مہارت رکھتی ہیں اور اٹیلین سے ایک گونہ واقفیت ہے.آپکے خاوند مسٹر ز مرمان انگریز ہیں جنہوں نے وقتاً فوقتاً اس مقدس کام میں اپنی بیگم کو امداد دی.ان کے ساتھ تعلقات کچھ برادرانہ سا رنگ اختیار کر گئے ہیں.دونوں احباب بڑے احترام اور محبت سے پیش آتے ہیں.اسی طرح بعض اور خاندان ہیں جن کا وجود کسی نہ کسی رنگ میں مفید ضرور ہے.اس سلسلہ میں سب سے قبل مسٹر کو پکے کا ذکر کہنا چاہتا ہوں جن سے غائبانہ تعارف لندن میں ہی ہو چکا تھا.آپ کی والدہ جرمن ہیں اور والد ڈچ - ایک عرصہ آپ نے جو منی میں بسر کیا پھر ایک
۱۵۶ خاصہ عرصہ اسلامی ممالک میں گزارا.ایسی ماحول کا اثر تھا کہ آپ نے اسلام قبول کر لیا اور تب سے آپ اسلام کی محبت کا دم بھرتے ہیں اور ارکان اسلام کو ادا کرنے کے پابند رہیں.آپ نے میرے ساتھ برادرانہ ہمدردی کا پورا ثبوت دیا اور ابتدائی ایام میں ہفتہ وار اور کبھی پندرہ روزہ ایمسٹر ڈم سے صرف ملنے کی خاطر آتے رہے.آپ کو احمدیت کی تعلیمات اور عقائد سے پوری واقعیت ہے اور قریباً ہر مسئلہ میں احمدیہ نقطہ نگاہ کے ساتھ متفق ہیں.تمام اختلافات اور تفصیلات کو سمجھنے کے باوجود نماز میرے پیچھے ادا کرتے ہیں مگر ابھی آخری قدم اُٹھا نے میں کچھ ہچکچاہٹ سی محسوس کرتے ہیں خدا کرے کہ انہیں علی الاعلان احمدیت کا اعلان کرنے کی جلدی ہی توفیق ملے.آمین لیے دوسرے دوست مسٹر العطاس ہیں جن کی مدد اور دوستانہ اور برادرانہ ہمدردی شروع سے میرے شامل حال رہی.آپ لائیڈن یونیورسٹی میں تعلیم پاتے ہیں.رہائش بھی لائیڈن میں ہے.آپ کا اصل وطن حضر موت ہے مگر آپ کے والد انڈونیشیا میں تاجر ہیں.مسٹر العطاس کی وجہ سے لائیڈن میں بہت سے تعلقات قائم کرنے کا موقعہ ملا.مسٹر العطاس نے کچھ عرصہ ہوا اپنے ہاں بعض مسلم طلبہ کو اس قرض کے لئے جمع کرنا شروع کیا ( دو ہفتہ یا تین ہفتہ کے وقفہ کے بعد ، تا ئیکیں انہیں اسلام کے متعلق بعض مسائل سمجھا سکوں.چنانچہ چار پانچ دفعہ ایسی مجلس میں شامل ہونے کا موقع ملا جو اپنے مقاصد کے لحاظ سے بہت مفید رہا.مسٹر کو پے بھی بعض دفعہ ایمسٹرڈم سے اس درس ہیں شریک ہونے کے لئے آجاتے رہے اور رات وہیں قیام رہا.اس ملک میں صوفی موومنٹ کا بھی کافی اثر ہے.گوان کا اصلی ہیڈ کوارٹر تو سوئٹزر لینڈ میں ہے مگر ماحول اچھا پیدا ہو جانے کی وجہ سے ان کی مساعی کا عملی دائرہ عمل زیادہ تر اسی ملک میں ہے.ان کا ایک رسالہ بھی ایمسٹرڈم سے نکلتا ہے اس کے ایڈیٹر خان بک نے جب میری خبر اخبار میں پڑھی تو مجھے ملاقات کے لئے انہوں نے اپنے مکان واقع واسے نامہ (مضان ہیگ میں دعوت دی.چنانچہ مسٹر کوپے کی معیت میں ان سے ملاقات کی.ے مسٹر کوچی نے جنوری ۱۹۴۷ء میں اسلام قبول کر لیا (الفضل در امان ۳۲۷ ث ) :
۱۵۷ THE UNKNOWN QURAN اس موونٹ کے ایک اور خاص مہرسٹر ہو یک بیگ میں مقیم ہیں جنہوں نے کافی کتب تصنیف کی ہیں کچھ عرصہ ہوا انہوں نے ایک کتاب لکھ کر اہل یورپ کو قرآن کریم کے بعض مضامین سے متعارف کرایا ہے.ان سے کئی بار میری طلاقات ہو چکی ہے.ان کو اپنے صوفیانہ رنگ کے خالہ نہ پر ناز ہے مگر تبادلۂ خیالات نے جب کبھی گہرا رنگ اختیار کیا تو جواب سے عاجز ضرور آگئے تصنیف کے علاوہ آپ کا کام بسا اوقات پبلک میں ٹیچر سے اپنے خیالات کی اشاعت کرنا بھی ہے.ان ملاقاتوں کے علاوہ مسٹر گو بے سابق قو فصل جدہ، لائیڈن یونیورسٹی کے بعض پر فیٹر خصوصاً مشہور پروفیسر کر امر جو علوم شرقیہ کے ہیڈ کے طور پر یونیورسٹی میں متعین ہیں نیز ریورنڈ ڈاکٹر تراؤ.نیز ایک بشپ اور بعض پادریوں سے ملاقاتیں بھی ہوئیں.روٹرڈم کے نزدیک سمیڈم جگہ میں بعض ہندوستانی جہازیوں کی خواہش پر بجانے کا موقعہ ملا.یہ جہازی ایک ڈرا جہاز میں ملازم ہیں.عرصہ تین ماہ سے ان کا قیام یہاں ہے اور شائد ایک ماہ مزید وہ یہاں رہیں.ان جہازوں کی تعداد وین کے قریب ہے سوائے ایک کے سب کے سب مسلمان ہیں.اکثر میر یو شمیر سے اور کچھ میٹی کے علاقہ سے.انہوں نے تحفہ کے طور پر کچھ رقم بھی میرے لئے جمع کر کے مجھے دی مگر میں نے ایسا ذاتی تحفہ لینے سے انکا کر دیا کیونکہ میں نے انہیں کہا کہ میں اپنی کسی ذاتی ضرورت کے پیش نظر یہاں نہیں آیا بلکہ تبلیغ اسلام کے فریقیہ کو لے کر یہاں آیا ہوں.چنانچہ انہوں نے اس تحقہ کی صورت کو تبدیل کرتے ہوئے تبلیغ اسلام کے لئے یہ رقم میں کی چنانچہ پھر میں نے اسے قبول کر لیا جس سے وہ بہت خوش ہوئے.انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ اگر میکس عید پڑھانے کے لئے اُن کے ہاں پھر آسکوں مگر میں نے یہ کہتے ہوئے معذرت کی کہ عید کا انتظام میں نے بینگ میں اپنے بعض دوستوں کی معیت میں کیا ہے اس لئے میرے لئے یہاں آنا مشکل ہے ہاں اگر آپ میں سے کسی کو فرصت ہو تو ہیگ میں اُس دن آسکتے ہیں.ان ملاقاتوں کے علاوہ لائیڈن کے بعض طلبہ نیز ہارلم اور ڈیلفٹ کے بعض اشخاص سے بھی واقعیت پیدا ہوئی.پچھلے دنوں ایک نہایت ہی قابل عورت مسنر WOLTURE
۱۵۸ کا پتہ چلا اور نیز معلوم ہوا کہ وہ مسلمان نہیں مگر انہیں مسلمانوں کے ساتھ گہری ہمدردی ہے چنانچہ ان سے وقت مقرر کر کے ملاقات کی.واقعہ میں انہیں اسلامی کلچر اور اسلامی مسائل سے دلچسپی ہے اور وہ اپنی تقریر و تحریر میں اپنے تاثرات کو پھیلانے کی کوشش کرتی رہتی ہیں.عرصہ قریبا تین سال کا ہوا جبکہ محترم مولانا شمش صاحب بلندن میں فریضہ تبلیغ اسلام انجام دینے میں مصروف تھے ایک ڈرح طالب علم مسٹر کاخ آپ کے ذریعہ احمدیت میں اضل ہوئے خدا کے فضل سے بہت نیک اور مخلص نوجوان ہیں.ابھی آپ کی تعلیم بھاری ہی تھی کہ مجھے ہالینڈ آنے کا ارشاد ہوا.اتفاقاً مسٹر کاخ بھی ان دنوں اپنی رخصتیں گزارنے کے لئے ہالینڈ میں تھے گو آپ کی رہائش ہیگ سے کافی دور فاصلہ پر تھی مگر پھر بھی بہت حد تک مفید رہی.برادرم مسٹر کاخ کا قیام کچھ عارضی ساقیام نظر آتا تھا اس لئے طبعاً ایک گہری خواہش تھی کہ خدا جلدی ہی کوئی اور مخلص احمدی عطا کر دے تو بڑے مکلف کا باعث ہو اپنے اعمال تو اس قابل نہ تھے کہ کسی ایسی نعمت سے نوازا جاتا مگر خدا کی رحمت نے جلدی ہی ایسا سامان کر دیا میری آمد کی خبر پڑھ کر مشرقی ہالینڈ سے ایک خاتون کا خط ملا جو عرصہ سے اس ملک میں کسی اچھے مسلم بھائی کی تلاش میں سرگرداں تھی.اس خط میں اسنے ملنے کی خواہش کی گو فاصلہ کافی دور کا تھا مگر قلیل عرصہ میں چار پانچ دفعہ ملنے آئی قرآنی اریم کا انگریزی ترجمہ شیما از آن اسلام احمدیت یعنی تحقیقی اسلام انگریزی ریویو کے بعض پرچھے اور احمدیت کا بعض دوسرا لٹریچر بہایت شوق سے چند ہی ایام میں مطالعہ کر لیا اور پھر ایک دن خود ہی اپنے احمدی ہونے کی خواہش کا اظہار کر دیا.یہ خاتون اپنے نذہبی رجحان کے باعث اپنے خاوند سے بھی الگ ہو چکی ہیں اور ایک حد تک کمپرسی میں دن گزار رہی ہیں.ان کے پاس اپنی ضروریات کے لئے کچھ سرمایہ تھا مگر خدمت اسلام کا جذبہ کچھ عجیب ہی رنگ میں موجزن ہوا اپنے اعلان احمدیت کے ساتھ ہی ایک ہزار گلڑر (یکصد پونڈ) کا مختصر سرمایہ بطور چندہ پیش کر دیا ئیں نے اُن کی تنگ حالی کے پیش نظر اسے لینے سے جب کچھ گریز کیا تو نہایت رقت آمیز لہجہ میں اس کے
۱۵۹ قبول کرنے پر اصرار کرتے ہوئے یہ کہا کہ میری گزشتہ عمر گنہگاری میں گزری ہے اور خدا بجانے مین نے اپنے پروردگار کو ناراض کرنے کا کس قدر سامان کیا آج مجھے سکون قلب عطا ہوا ہے اس کے مقابلہ میں تبلیغ اسلام کے لئے میری یہ پونجی بالکل بے حقیقت ہے آپ اس کو قبول کر لیں.پھر سختی سے انہوں نے یہ کہا کہ قربانی کے راستہ میں آپ کا میرے لئے روک بننا کیسی طرح بھی جائز نہیں، یہ آپ کی ذات کے لئے نہیں بلکہ اسلام کی خاطر پیش کر رہی ہوں.آپ اگر اسلام کے لئے اپنی تمام مصروفیات کو قربان کر سکتے ہیں تو کیا میں یہ چھوٹی سی رقم اس کے لئے پیش نہیں کر سکتی ؟ آخرمیں نے وہ رقم لے لی اور حضور انور کی خدمت میں اس کا بیعت نامہ اور اس کا چندہ پیش کر دیا.خدا تعالیٰ اس کے ایمان اور اخلاص کو ترقیات عطا فرما دے.آمین خدا کے فضل سے یہ خاتون شریعت اسلامی کی پورے طور پر پابند ہیں.پنجوقتہ نمازیں نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرتی ہیں.ماہ رمضان میں با وجود مشکلات کے آپنے سارے روزے رکھے اور راتوں کو عبادت میں صرف کیا.الحمدللہ کہ خدا نے بعض نہایت عمدہ خوابوں اور شہارات کے ذریعہ سے اس کے ایمان کو تقویت دی.عرصہ زیر رپورٹ میں بعض دیگر تقاریب میں بھی وقتاً فوقتاً شامل ہونے کا موقعہ ملا مگر اپنے طور پر جو تقاریب منعقد کیں وہ عیدین کی تقاریب تھیں.ان دونوں موقعوں کے انتظام میں برادرم مسٹر العطاس نے نہایت اخلاص سے حصہ لیا.پہلی عید پر تو چھ سات افراد ہی تھے مگر دوسری عید میں چودہ پندرہ احباب شامل ہو گئے.برادرم مسٹر کارخ بارن سے ، نواحدی ناتون رضیہ سلطانہ خواسل سے مسٹر کو بے ایمسٹرڈم سے بعض طلبہ لائیڈن سے اور بعض ہیگ سے.خدا کے فضل سے یہ اجتماع اچھا کامیاب رہا.عید کے بعد کھانے کا انتظام بھی کیا گیا تھا چنانچہ دو گھنٹہ کی دلچسپ گفت گو کے بعد سب نے اکٹھے ظہر و عصر کی نماز پڑھی پھر کھانا کھایا پھر اس اجتماع کا فوٹو لیا گیا.اس عید کے موقعہ پر سوئٹزرلینڈ سے دو واقفین بر اور ان کی آمد کی خبر بھی مل گئی تھی چنانچہ خطبہ میں ہی میں نے یہ خبر احباب کو بتا دی جس سے احباب بہت خوش ہوئے.
14 تبلیغی اغراض کے ماتحت عرصہ زیرہ رپورٹ میں بعض علاقوں کا سفر بھی مجھے اختیار کرنا پڑارگو حتی الوسع ایسے سفروں سے معجزب ہی رہامگر پھر بھی بارن ، اون هم نیستم ، لترسم ، وارتمن روٹرڈم، نمیڈم، فولن ڈم نیز بعض دفعہ ہیگ کے مضافات اور اکثر و فعہ لائیڈن جانا پڑا.ملکی لوگوں سے تعلقات کے نتیجہ میں خط و کتابت نے بھی کافی وقت لیا.ایک دفعہ کلیفورنیا سے ایک خط آیا جس میں خط بھیجنے والے نے اپنا تعارف یوں کرایا کہ میں چونکہ ڈور مسلم ہوں اس لئے ایک امریکن رسالہ میں آپ کی آمد کی خبر پڑھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی خدا تعالیٰ آپ کو آپ کے کام میں کامیابی عطا کرے یا چنانچہ ان کے ساتھ بعد میں خط و کتابت جاری رہی.اس کے علاوہ ایک خط ڈیھ گی آنا (جنوبی امریکہ) سے ایک مسلم لیڈر کا موصول ہوا جس میں اس نے مجھ سے تعلقات پیدا کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا.اسی طرح اس ملک سے بعض اور خطوط اسی رنگ کے موصول ہوئے یہ ہے دو مجاہدین تحریک جدید کی آمد حافظ قدرت اللہ صاحب کو ہالینڈ میں تشریف لائے ابھی صرف چار ماہ ہی ہوئے تھے کہ حضرت مصلح موعود کے ارشاد پر اور حلقہ تبلیغ میں وسعت چوہدری عبد اللطیف صاحب اور مولوی غلام احمد صاحب بشیر هم ریاہ نبوت / نومبر کو بیگ پہنچ گئے اور تبلیغ اسلام کی مہم میں اضافہ اور حلقہ تبلیغ میں ۴۱۹۴۷ 198 وسعت پیدا ہونے لگی.چوہدری عبد اللطیف صاح ال اللطیف صاحب دسمبر ۱۹۹ تک ہالینڈ میں رہے اور ۲۰ جنوری ۱۹۲ء کو ہمبرگ پہنچ کر یورپ کے نئے اسلامی مشن کی بنیاد رکھی مگر مولوی غلام احمد صاحب بشیر حضرت مصلح موعود کے طفیل ماه صلح / جنوری ۱۳۵۸ تک تبلیغی خدمات بجالاتے رہے یہ ۶۱۹۵۶ ۱۹۴۷ مر کے آخر میں مجاہدین اسلام نے لائیڈن لائیڈن یونیورسٹی کے مسل طلبہ کے اجلاس یونیورسٹی سے سامان بابا کی میمی استان تربیت کرتے اور ان کو احمدیت یعنی حقیقی اسلام سے متعارف کرانے کے لئے اجلاسوں کا ایک سلسلہ جاری کیا طلباء ان اجلاسوں میں اسلامی تعلیمات سے متعلق سوالات دریافت کرتے جن کا تسلی بخش جواب دیا جاتا یہ ه ملخصا از افتل ۲۸-۳۱ فتح / دسمبر سے یادر ہے تحریک جدید نے انہیں ہم ما تبلیغ فروری ما / کو وقف سے فارغ کر دیا جس کے بعد وہ نظام خلافت سے برگشتہ ہو کہ غیر مبائعین میں جا شامل ہوئے : سے ۱۹۴۸ء الفضل ۱۶- امان / مارچ ه م کالم ع و.
141 الینڈمیں بی ٹریوں کی اشاعت امیر میں نیندیں حدیت کی طرف سے علیہ مبلغین انگلینڈ ٹی کیا میں تبلیغی ٹریکٹ دو ہزار کی تعداد میں چھپوایا گیا.اور اُن کا اثر جنوری ۹۳ء میں اس کی مزید پانچ ہزار کاپیاں طبع کرائی گئیں لیے اس ٹریکٹ کے بعد، طرح لوگوں کے نام ایک پیغام " کے عنوان سے ایک اور انگریزی ٹریکٹ شائع کیا گیا جو پہلے زیادہ تر ہینگ کے اندر بعد ازاں ایمسٹرڈیم میں تقسیم کیا گیا.اس ٹریکٹ کا پبلک پر ایسا اثر ہوا کہ بہت سے خطوط موصول ہوئے، بلکہ ایک اخبار نے سمندر کے کنارے تبلیغ اسلام" کے عنوان سے ایک طویل اداریہ بھی لکھا ہیے ماہ تبوک استمر میں اس ٹریکٹ کا ایک اور ایڈیشن حضرت شیخ کی صلیبی موت کے مسئلہ پر اضافہ کے بعد سات ہزار کی تعداد میں شائع کیا گیا اور ملک کے مختلف حصوں میں اسے باقاعدہ پروگرام کے ساتھ تقسیم کیا گیا مبلغین احمدیت کی یہ ابتدائی تحریری مہم تھی نہیں کے بعد آہستہ آہستہ اسلام کی آواز بلند سے بلند تر ہوتی چلی گئی.یورپ کے دوسرے اسلامی مشنوں کے دوش بدوش ہالینڈ تبلیغی اجلاسوں کا آغاز میں بھی رویہ سے تبلیغی اجلاس منعقد کئے جانے لگے.اس ۶۱۹۴۸ غرض کے لئے ابتداء میں دعوت نامے سائیکلوسٹائل کئے جاتے اور روزناموں میں اعلان کرایا جاتا تھا کہ یہ تجربہ اس ملک میں بھی بہت مفید ثابت ہوا ہے.ا شروع شروع میں جن ولندیزی باشندوں کو مبلغین اسلام ابتدائی ولندیزی احمدی کی مساعی کے نتیجہ میں شناخت حق کی توفیق علی ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں :.(1) مستر زمرمان ( آپ کے قبول اسلام کی تفصیل آچکی ہے ) الفضل ۱۶ - امان هه م کالم ہے ع کالم عل ، ۲۸ وفاه حت.له الفضل ۲۸ اخاء ۱۳۲۷ ص : له الفضل ١٧- وفاهم مٹ سے الفصل ۲۸ احواء ٣٣٢٥ هنا :
۱۶۲ (۲) مسٹر پی سیجے ، ایف، کے المہدی عبد الرحمن بن کو لیے لیے سه جناب حافظ قدرت اللہ صاحب نے اپنے ایک مضمون میں مسٹر کو پلے کے حالات زندگی پر مفصل روشنی ڈالی تھی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ :.آپ کا پورا نام مسٹر پی.ہے.ایف کے اطہری عبدالرحمن ابن کو پلے ہے.آپ جرمنی میں پیدا ہوئے.والدہ آپ کی جرمن ہیں اور باپ ڈیا - اسلام کے ساتھ پی پی کچھ بچپن سے ہی پیدا ہو چکی تھی.ء میں کچھ مینی سیلرزہ اس ملک میں آنکلے.عربی یہ دلچسپی کی وجہ سے ان کے ساتھ میل ملاقات ہونے لگی اور آخر ان کے اثر سے متاثر ہو کر ان میں برلن میں مسلمان ہو گئے اس کے بعد فرانس میں بعض عربوں اور الجیرین سے وقتاً فوقتاً ملاقات کے مواقع میسر آتے رہے.آپ کے نینی دوست علوی طریقہ کے پابند تھے چنانچہ آپ پر بھی وہی رنگ، غالب تھا اور آپ کے تعلقات الجی میں علوی میشن کے ساتھ مضبوط تر ہوتے گئے.عرصہ قریباً ہے کہ سال کا ہوا مسٹر کو پے نے ایک خلا انہیں احمدیہ کے لکھا اور وہ خدا نحترم مولانا شمس صاحب کو لندن بھیج دیا گیا.چنانچہ محترم موصوف نے پھر مسٹر کو پے سے خط و کتابت جاری دیکھی.انہیں اسلامی لٹریچر بھجواتے رہے اور احمدیت کی تسلیم سے آگاہی دیتے رہے.محترم مولانا نی صاحب کا ارادہ بھی تھا کہ وہ ایک دفعہ معو و یا اینڈ آکر مسٹر کو پلے سے کاقات کریں مگر اس کے لئے حالات سازگار نہ ہو سکے بحضور (مصلح موعود) ایدہ اللہ تبصرہ العزیز نے جب مجھے ہالینڈ جانے کا ارشاد فرمایا تو اس موقع پر مسٹر کو پے کی خدمات حاصل کی گئیں چنانچہ انہوں نے بہت ہی بے دردی اور اخلاص کا ثبوت دیا اور میرے لئے کمرہ رہائش کا انتظام بیگ میں کر دیا.ابتدائی ایام میں مسٹر کو پلے بہت کثرت کے ساتھ ایمسٹرڈم سے مجھے ملنے کے لئے آتے رہے.اسلامی امور کے متعلق تو انہیں ایک حد تک کافی معلومات تھیں اگر احمدیت کے متعلق بہت سے حقائق ان سے پوشیدہ تھے.آہستہ آہستہ ان کے مشکوک کا ازالہ ہوتا رہا اور حقیقت کھلتی گئی.اڑھائی ماہ کا حصہ ہوا انجیر بن علوی ہیڈ کوارٹر کی طرف سے مٹر کو پنے کو ایک ہدایت، موصول ہوئی اور ان سے خواہش کی گئی کہ وہ ہالینڈ میں اس کی طرف سے علوی طریقہ کا ایک مشن کھول کر تبلیغ کا کام شروع کر دیں.مسٹر کو پلے ابھی اس معاملہ پر غور ہی کر رہے تھے کہ انہیں کیا جواب دیا جائے کہ دوسری طرف ہماری نوجوان محمدی نیا توں رضیہ نے ایک دن پوچھا کہ مسٹر کو پلے اب احمدیت میں داخل کیوں نہیں ہو جاتے ؟ میں نے اس سے کہا کہ وہ اپنے علومی دوستوں میں پھنسے ہوئے ہیں اور انہیں چھوڑنے پر آمادہ نہیں.اس پر انہیں جوش سا آیا اور کہا کہ انہیں اپنی ایمانی جرات سے کام لینا چاہئیے اور دوستوں کی پروا نہیں کرنی چاہئیے.چنانچہ انہوں نے اخلاص بھرے دبیه ماشیہ اگلے صفحوه ییه
۱۶۳ (۳) مسٹر ولی اللہ جانس (۴) مسٹر لا خان پر توان بین لومیں گے مت) پر بقیه حاشیه صفحه گزشتہ : دو تین خطوط مسٹر کو پلے کو لکھے فطرت نیک تھی.خود بھٹی سائیں کہیں بزرگوں کی دعائیں بھی شامل حال تھیں.ایک روز ایسٹر ڈم سے آئے اور آکر اپنے احمدی ہونے کا اعلان کر دیات و ملخصاً از الفصل ۲۳ شهادت / اپریله عاشیہ متعلقہ صفحہ ہذا : سه مجلس خدام الاحمدیہ کراچی کے با تصویر مجله بابت ما آپ کے خود نوشت حالات شائع شدہ ہیں، سے مشرافان پر تون مون کو پین ایک اعلیٰ فوجی افسر کی بیوی ہیں.ان کے والدین، آسٹریلین ہیں اور ان کے دادا مصری اور دادی آئرلینڈ کی رہنے والی تھیں.ہے دونوں شادی کے بعد آسٹرینیا پہلے گئے اور انہوں نے آپس میں بہار کر لیا کہ بچوں کو اسلام یا عیسائیت قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا سن بلوغت پر پہنچے پر وہ خود فیصلہ کریں گے کہ انہیں کونسا مذہب پسند ہے ؟ چنانچہ خاتون موصوفہ کے والد جوان ہوئے تو انہیں موقعہ دیا گیا کہ دونوں میں سے جو پسند آئے اسے قبول کر لیں.انہوں نے کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح نہ دی اور کہا کہ ان کے نزدیک دونوں ہی اچھے ہیں بند وہ نہ مسلمان ہوئے اور نہ ہی عیسائیت پر عمل پیرا.انہوں نے بھی اپنے خاندان کی اس روایت کو زندہ رکھتے ہوئے اپنے بچوں کو آزادانہ مذہب اختیار کرنے کی اجازت دی.اس کے تین بچوں میں سے ڈونے عیسائیت کو قبول کر لیا اور ایک خاتون موصوفہ نے اسلام کو ترجیح دیا..ایک طویچ فوجی افسر سے شادی کرنے کے بعد ہالینڈ تشریف لائیں جہاں انہیں آئے تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا کہ مارمن چرچ کے ڈومشنری ان کے مکان پر انہیں بھی تبلیغ کرنے لگے.محترمہ موصوفہ نے انہیں بتایا کہ وہ مسلمان ہیں اس لئے انہیں تبلیغ کرنے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا.یہ مشعری ایک دفعہ مبلغ ہالینڈ سے مل چکے تھے اس پر انہوں نے کہا کہ یہاں مسلمان مشنری بھی ہیں وہ سن کر حیران رہ گئیں کہ یہ لیے ہو سکتا ہے ؟ اسلام اور مشنری ؟ انہوں نے یقین دلایا کہ بیگ میں موجود ہیں اور انہیں مشن کا ایڈریس وغیرہ دیا.کچھ دنوں کے بعد فون کے ذریعہ وقت مقرر کر کے تشریف لائیں.دو تین گھنٹے تک گفت گو کرتی رہیں.انہیں اپنے سلسلہ کے حالات بنا گئے.قبر مسیح کے متعلق گفت گو ہوئی.انہیں بعض کتب مطالعہ کے لئے دی گئیں جو انہوں نے غور سے مطالعہ کیں اس کے بعد دو تین دفعہ حافظ قدرت اللہ بات سے ملاقات کیا اور ہر دفعہ اور کتب مطالعہ کے لئے لئے گئیں.آخر خود کر کے فارم بیعت پر کر دیا ہے المحصا الفضل ۳۰ و خار جولائی مت
۱۶۴ ماه تبوک ر ستمبر میں تخت ہالینڈ سے دستبردار ملکہ ہالینڈاور اس کے نام ہونے والی ملکہ WILHELMINA QUEEN تبلیغی خطوط کے بچائیں مسالہ عہد حکومت کے اختتام پر جوابی کی تقریب اور اسی طرح نئی ملکہ QUEEN SULIANA کی تاجپوشی کی رسم نہایت تزک و احتشام سے منائی گئی.مبلغین اسلام نے اس موقعہ سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے دونوں کی خدمت میں تہنیت نامے ارسال گئے اور پیغام حق پہنچایا.ملکہ WILHELMINA نے جواباً جماعت احمدیہ ہالینڈ کا شکریہ ادا کیا اور حق جماعت احمدیہ کی مساعی کے متعلق خراج تحسین ادا کرتے ہوئے اپنے دلی جذبات کا اظہار کیا ہے احمد نڈیشن کو قائم ہوئے ابھی تین ہی سال کا عرصہ گزرا پریس کے رویہ میں خوشگوار تبدیلی نا کر پریس کے دور میں بھی ایک نمایاں تبدیلی پیدا ہونے تھا کہ رویہ لگی چنا نچہ ہالینڈ کے ایک موقر روزنامہ DEAMSTERDAMSE COURANT نے اپنی ایک اشاعت میں چار کالمی شرقی دے کو لکھا :- آشتی اور تحمل جماعت احمدیہ کا طرہ امتیاز ہے.جماعت احمدیہ جہاد کے غلط تصور کی اصلاح کرتی ہے.اس کے میشن نہ صرف ہندوستان اور ایشیا میں بلکہ افریقہ ، یورپ اور امریکہ میں بھی موجود ہیں.اس جماعت سے وابستہ ہونے والے زیادہ تر پڑھے لکھے مسلمان ہیں جو اس کے لئے مالی قربانی بھی کرتے ہیں کہیے (ترجمہ) ماه ظهور اگست موسم میں ہالینڈ مشن کے زیر اہتمام مبلغین اسلام کی ہالینڈ میں یورپ کے مبلغین اسلام کی سہ روزہ کانفرنس منعقد ہوئی رسہ روزہ کانفرنس اس کا نفرنس میں جرمنی ، سوئٹزرلینڈ، ہالینڈ، اسپین، فرانس اٹلی اور انگلستان کے مجاہدین اسلام نے شرکت فرمائی.یورپ میں تبلیغ اسلام کی مہم کو تیز کرنے کے سلسلہ میں تحقیق نہایت اہم تجاویز زیر غور آئیں اور آئندہ کے لئے ایک جامع پروگرام تجویز کیا گیا.کانفرنس کے آخر میں ایک استقبالیہ دعوت کا بھی اہتمام کیا گیا جس میں ہالینڈ کی نامور شخصیتوں اور اعلی اسراری له الفضل ٢٨ اخاء / اکتوبر /١٣٠٣ کے بحوالہ خالد ربوه بابت ماه امان / مارچ مٹا
140 افسروں کے علاوہ متعد د پاکستانیوں نے شمولیت کی بیہ حافظ قدرت اللہ صاحب نے کانفرنس کے کوائف پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا:." اس کا نفرنس میں یورپ میں کام کرنے والے ہمارے صارت مشنوں نے حصہ لیا.نمائندہ حضرات کے اسماء درج ذیل ہیں :.برادرم چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ (لنڈن برادرم بشیر احمد صاحب آرچرڈ اسکاٹ لینڈ) ، برادرم ملک عطاء الرحمن صاحب (فرانس) برادرم عبد اللطیف صاحب (جرمنی) برادرم شیخ ناصر احمد صاحب (سوئٹزر لینڈ ، برادرم چو مهدی کرم اللہ صاحب ظفر د سپین ، اور خاکسار ہالینڈ سے.علاوہ ازیں اس موقعہ پوچھ ہندی عبد الرحمن صاحب (لنڈن) اکاؤنٹنٹ کی ملاقات بھی مسترت کا باعث ہوئی.ہماری کانفرنس یہاں کے ہوٹل ہو تو نا میں تین روز تک منعقد رہی.محل کا رروائی رسب کمیٹیوں کے وقت کے علاوہ) کوئی 4 گھنٹے تھی جو ا اجلاس پر مشتمل تھی حضرت امیر المومنین ایده اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کے مطابق برادرم چوہدری ظہور احمد باجوہ سیکرٹری کے فرائض انجام دیتے رہے اور کانفرنس کے اجلاس، انتخاب کے مطابق مختلف احباب کی صدارت میں منعقد ہوئے.کانفرنس میں تمام شتوں کے تبلیغی حالات اور مساعی کا ایک جائزہ لیا گیا.گزشتہ سال کے فیصلہ حیات پر نظر ثانی کی گئی اور اس سلسلہ میں جو امور خاص طور پر قابل توجہ نظر آئے یا جن نئے امور کی طرف توجہ دینے کی ضرورت محسوس کی گئی انہیں سامنے لایا گیا.مثال کے طور پر یورپ میں یوم پیشوایان مذاہب کا انعقاد یا ایک ما ہوا ر ا علیٰ انگریزی اخبار کا اجراء و غیر.ہماری کانفرنس بفضلہ تعالیٰ ہر رنگ کامیاب رہی اور شامل ہونے والے نمائندگان نے مختلف وجوہ سے اِس اجتماع کا فائدہ اُٹھایا خصوصاً تبادلہ خیال راس پہلو کی رُو سے کہ آئندہ یورپ میں تبلیغ کو کس کس رنگ میں کا میاب طریق سے کیا جاسکت ہے ؟ بہت ہی مفید ثابت ہوئی...حاضری کوئی ۱۳۰ ا حباب پر مشتمل تھی جو اچھے تعلیم یافتہ طبقہ سے متعلق تھی.پاکستانی اور ایرانی منسٹرز کے علاوہ ڈچ الیسٹرن فارن ڈیپارٹمنٹ کے چیف، مڈل ایسٹ براڈ کاسٹ محکمہ کے افسر اعلیٰ، جاوا کی ایک ریاست کے حکمران اور کئی له الفضل ۲۹ ظهور اگست ۲۹ ماه
سوسائیٹوں کے ہیڈز امیر سرکاری محکمہ جات سے مختلف افسران اس میں شامل ہوئے.ان تمام احباب کی چائے وغیرہ سے تو ضلع کی گئی پر میں نمائندگانی کی ایک تعداد بھی تھی جنہوں نے اپنے فرائض اچھی طرح سر انجام دیئے.ایک حصہ حاضرین میں سے مستشرقین کا بھی تھا جنہوں نے خاصی دلچسپی کا اظہار کیا.اس تقریب میں خاکسار نے پہلے مختصر طور پر انعاب کرام کو خوش آمدید کہا جس کے بعد حملہ مبلغیی کرام نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار فرمایا.صدارت کے فرائض محترم جناب سید لال شاہ صاحب بخاری نے انجام دیئے مسجد کے قیام کے سلسلے میں ایک پولیس کا نفرنس کا انعقاد دیر سے زیر غور تھا جسے مبلغین یورپ کی کا نفرنس کے موقعہ پر پورا کرنے کی توفیق ملی.پولیس کا نفرنس کے لئے جگہ وہی مقدر کی گھٹی میں میں تعین مبلغین کی رہائش کا انتظام تھا اور اسی ہوٹل میں متبعین کی تین روزے کا نفرتیں بھی منعقد ہو رہی تھی.اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے میں نے اس کا نفرنس کو کامیاب دیکھنے کی توفیق دی.اٹھارہ نمائند گانی پریس نے شمولیت کی جو قریباً تمام ہی کے تمام ایسے تھے جو مختلف ایجنسیوں کے اعلیٰ نمائندہ تھے.محکمہ براڈ کاسٹ کے دکھ نمائندگان دور تھ براڈ کات اور محکمہ براڈ کاسٹ پاکستان و انڈیا ) موجود تھے.نیز یہاں کی بڑی ڈچ نیوز ایسی جو.رائٹر، فرنچ اور بلجیم نیوز ایمنیر کے نمائندگان کے علاوہ بعض سرکہ وہ اخبارات کے پونڈز بھی موجود تھے جس کے نتیجہ میں ہماری کا نفرنس کی خبر رو رو نزدیک پھیل گئی.کا نفرنس کے شروع میں خاکسار نے مختصر الفاظ میں اپنے آنے والے مبلغین کا تعارف کرایا جس کے بعد برادرم شیخ ناصر محمد صاحب نے ہماری تبلیغی مساعی کی غرض و غایت بیات کرتے ہوئے بتایا کہ ہمارا کام اسلام کو صحیح رنگ میں یورپ کے سامنے پیش کرتا ہے تیز یہ کہ دنیا کی موجودہ جد امنی کا علاج اسلامی تعلیم میں مضمر ہے.اس کے علاوہ اور کوئی چارہ کا نظر نہیں آتا.اس مختصر سے تعارف کے بعد نمائندگان پر یس کو موقعہ دیا گیا کہ وہ اس سلسلہ میں جوجو استفسارات کرنا چاہیں کریں چنا نہ جملہ مبلغین نے اس تبادلۂ خیالات اور گفتگو میں حصہ نیا اور یہ کا نفرنس کوئی پونے دو گھنٹے تک جاری رہی یہ لے ! به الفضل ٣٨ انحاء / اکتوبر ۱۳۲۹ ۴۰
196 اس کا نفرنس کے بعد مشن کی تبلیغی سرگرمیاں پہلے سے تیز تر ہوگئیں اور بیگ کے علاوہ دوسرے متعدد اہم شہروں میں بھی اسلام پھیلیے انگا.دو ترجمہ قرآن کی اونوت ا و ر ی سے ان کے اسلامی شو کی ترقی امینی / نومبر ہالینڈ کامیابی اور شہرت کے نئے دور کا آغازہ ہوتا ہے جبکہ قرآن مجید کا طرح توجہ نظر طباعت و اشاعت ثانی اور طباعت کے مختلف مراحل طے کرنے کے بعد اشاعت پذیر بٹوار سید نا انصلح الموعود نے ماہ صلح جنوری یہ میں ارشا د فرمایا کہ قرآن مجید کے ڈریچ ترجمہ کی طباعت سے متعلق نوراً معلومات حاصل کی جائیں چنانچہ حافظ قدرت اللہ صاحب لائیڈن کی ایک ممتاز و مشہور فرم BRILL کے ڈائریکٹر صاحب اور بعض ممتاز مستشرقین سے ملے اور چو ہدری عبد الطیف صاحب نے بیگ کی مختلف فزوں سے رابطہ قائم کیا.ماہ تبوک استمبر تک درج ترجمہ کی تینی ڈرح کا پہیاں ٹائپ کر لی گئیں جس کے بعد ترجمہ کے بعض حصوں پر ادبی نقطہ سے ناقدانہ نظر ڈالی گئیں لیے مسودہ پر تسلی بخش صورت میں نظر ثانی کا کام مکمل ہو چکا تو اسے پولیس میں دے دیا گیا اور راہ نبوت میں یہ چھپ کر تیار ہو گیا.یہ ترجمہ جو ہالینڈ ہی میں طبع ہوا چونکہ سابقہ تمام ڈیرے تراجم قرآن سے ظاہری اور معنوی دونوں اعتبار سے فوقیت رکھتا تھا اس لئے اسے بہت جلد قبولِ عام کی سند حاصل ہوگئی اور آج یہ ملک بھر میں نظر استحسان دیکھا جاتا ہے.ترجمہ ڈرچ کا دوسرا ایڈیشن ربوہ سے شائع کیا گیا ہے.اس ترجمہ کی اشاعت نے ہالینڈ کے عوام و خواص کی آنکھیں کھول دیں اور ان کو نہ صرف پیسوس کرا دیا کہ اسلام آج بھی ایک زندہ اور ناقابل شکست طاقت ہے بلکہ انہیں جماعت احمدیہ کی اس ٹھوس اور شاندار اسلامی خدمت کا بھلے بندوں اقرار کرنا پڑا.اس حقیقت کے ثبوت میں بطور مثال ڈوح اخبارات کے چند نوٹ ، تبصرے اور خبریں ملاحظہ ہوں :.- یہ له الفضل ۱۲ را مان کر ماریچ من الفضل ١٤- وقار جولائی من له الفضل ۲۸ را خاد/ اکتوبر منہ سے یادر ہے ڈچ زبان میں سب سے پہلا ترجمہ و عریش القرآن" کے نام سے شوگر کے ترجمہ کی بناء پر 17 میں ہمبرگ سے شائع کیا گیا.ایک اور ترجمہ دور ائر کے ترجمہ سے مجھے اپنے گلیں سیکھ نے بیڈن میں شاء میں چھاپا.ڈیانٹ (ہالینڈ) کے پروفیسر شرح محمدی ڈاکٹر کیر ز نے بھی ایک ترجمہ سنتہ میں ہا رلم سے شائع کیا.بعد ازاں ڈاکٹر ڈی کیہ نے سیل کے انگریزی ترجمہ کو ڈچ زبان کا لباس پہنا کر چھاپا.۱۹۳ میں ایک اور ترجمہ ڈچ زبان میں بیٹنگ کے ایک ڈچ مسلمان فاضل نے شائع کیا.(پیام امین از محمد عبداللہ منہاس ) 4
۱۶۸ (1) روٹرڈم (ہالینڈ) کے اخبار NIEUWE ROTTERDAMSE COURANT اپنے ہار جنوری شاہ کے الیشوع میں لکھا:." قرآن مجید کا نیا ترجمہ جس کے چھپنے کی خبر ہم اپنے اخبار کی ۲۴ اکتوبر کی اشاعت میں دے چکے ہیں اب چھپ کو منظر عام پر آ گیا ہے.ایسی شکل و صورت میں کہ ہم اسے نایسی کتاب کے لئے بطور نمونہ قرار دے سکتے ہیں.اس کی ظاہری خوبصورتی جو گہرے سبز رنگ کے چھڑے پر شہری عربی حروف اور دلکش کتابت کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے.اسی طرح اس کا مناسب سائز.یہ سب امور اس پر دال ہیں کہ اس کی طرف خاص توجہ مبذول کی گئی ہے.ہم پریلیس اور سپلیشر کو جنہوں نے دی اور نٹیل اینڈرلیمیں پبلشنگ کارپوریشن ربوہ اور احمدیہ مسلم مشق ہالینڈ کے کہنے پر اسے شائع کیا ہے اس کا میابی پر مبارکباد پیش کرتے جب ہم اس کتاب کو کھولتے ہیں تو اس کے صفحات کے دائیں طرف عربی متن اور بائیں طرف طرح ترجمہ پاتے ہیں.ہر سورت کی ابتداء میں نہایت خوبصورت بلاکس میں صورت کا عربی نام درج کیا گیا ہے.قرآن مجید سے پہلے جو نعتہ چھ سو سنتیں صفحات پر مشتمل ہے ۱۸۰ صفحات کا دیباچہ ہے جو حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے لکھا ہے.آپ حضرت احمد کے دوسرے جانشین ہیں جو شائر میں پیدا ہوئے.چونکہ یہ موقع اسلام اور عید مائیت پر بحث کرنے کا نہیں ہے اس لئے ہم اس عالمانہ لکھے ہوئے دیباچہ پر تنقید کئے بغیر آگے چلتے ہیں.ہم یہ بیان کرنا مناسب خیال کرتے ہیں کہ اس میں اسلامی اصولوں کو بیان کیا گیا ہے اور مشتری تحریک کے رنگ میں بعض سوالات کے جوابات دیئے گئے ہیں.احمدیت اپنے اندر ایک عالمگیر رنگ رکھتی ہے.وہ مذاہب کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ قرآن کریم کو خدا تعالیٰ کا اعلیٰ الہام اور گزشتہ مذاہب کا جزو قرار دیتی ہے جہاں باقی بڑے بڑے مذاہب اپنی انتہاء پاتے اور اپنے وجود کو کھو دیتے ہیں.یہ خلاصہ ہے اس دیباچہ میں بیان کئے ہوئے نظریات کا.نے
144 اس ترجمہ کی نظر انداز نہ ہونے والی خصوصیت یہ ہے کہ اسے پیار ڈھ زبان دانوں کی مدد سے تیار کیا گیا ہے جنہوں نے انتخاب الفاظ میں نہایت ہی اعلیٰ معیار پیش نظر رکھا ہے.اس کی زبان واضح اور سادہ ہے مگر قابل قدر اور اعلیٰ.اس ترجمہ کے لئے جماعت احمدیہ مرکزیہ کی طرف سے ۱۹۴۶ء میں شائع ہونے والے انگریزی ترجمہ کو بطور بنیاد رکھا گیا ہے اور ترجمہ کے دوران میں مسلمان عربی دانوں کے ساتھ خاص طور پر مشورہ کیا جاتا رہا ہے جس کی وجہ سے اصل متن کو قابل اعتبار طور پر ترجمہ میں پیش کیا گیا ہے.ہمیں بتلایا گیا ہے کہ جہاں تک ایک مشرقی زبان کے متن میں اتحاد ہو سکتا ہے.اس ترجمہ کا دوسرے تراجم سے کوئی اُصولی فرق نہیں ہے اس لئے اس کا پرانے تراجم کے ساتھ ملانا اور بھی دلچسپی کا باعث ہوگا.جو ترجمہ ۱۹۳۷ء میں قرآن فنڈ جماعت احمدیہ انڈونیشیا کے کہنے پر بیٹا و یہ دعا کرتا، میں VISSER کی طرف سے شائع ہوا تھا وہ ایک کمیشن نے کیا تھا جس میں مسٹر سو دیوو بھی شامل تھے.اس کے ساتھ ایک دیباچہ اور مولانا محمد علی صاحب کے نوٹس بھی شامل ہیں.اس ترجمہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ترجمہ کرنے والے پورے طور پر ڈچ زبان نہیں جانتے تھے اس وجہ سے نیا ترجمہ بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے.اس میں الفاظ مختصر ، زیادہ قابلِ فہم اور صحیح تر ہیں شورتوں کے فقرات میں جو تعلق اور بندش تھی اسے بھی قائم رکھا گیا ہے جس کی وجہ سے مختلف آیات ایک مجموعہ کی حیثیت اختیار کر لیتی ہیں.اسی طرح الفاظ کا انتخاب بھی نمایاں طور پر بہتر ہے.آیتوں میں یہ نسبت بٹا ویہ میں چھپنے والے ترجمہ کے زیادہ سلامت ہے.یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ پہلی بار اس ترجمہ میں ہی خدا کا نام 600 کی بجائے اللہ پیش GOD کیا گیا ہے.گزشتہ تراجم میں لفظ 600 ہی استعمال ہوتا رہا ہے.مسٹر سودیو کے ترجمہ میں عیسائیت کے اثر کی وجہ سے پرانے عہد نامہ کی طرز پر کلام کو اختیار کیا گیا ہے جس کی وجہ سے بہت سے مقامات ہماری توجہ کو زبور کی طرف کھینچ کر لے جاتے ہیں یا بائبل کے دوسرے ترجمہ کے مطابق گزشتہ انبیاء کی طرف جیتی که شار
14.میں جو ترجمہ پر و فیسر کیزر (KEYZER ) کی زیر نگرانی چھپا تھا اس میں بھی لفظ 600 ہی استعمال ہوا ہے.اس وجہ سے نئے تو جہ نے کامل طور پر ایک الگ حیثیت اختیار کر لی ہے جو کہ پڑھنے والے کو اسلام کے اثر و نفوذ کے دائرہ میں لا کھڑا کرتی ہے.یہ ترجمہ پر و فیسر کیزر ( KEYZER) کے ترجمہ کے مقابلہ میں بہت بڑی حیثیت رکھتا ہے انھوں نے اپنے کام کے لئے بہت سے غیر زبان والوں کو ساتھ ملایا تھا جس کی وجہ سے ریع زبان مبہم سی ہو کر رہ گئی ہے.علاوہ ازیں اس کی چھپوائی بہت روتی تھی اور پیشر آخری ایڈیشن میں بھی اصلاح نہ کر سکا.یہ کوئی قابل تعجب امر نہیں ہے کہ عربی الفاظ کے بہت سے معانی میں سے اس ترجمہ میں ان معانی کو ترجیح دی گئی ہے جو ایک ترقی کرنے والی جماعت (جیسا کہ جماعت احمدیہ ہے) کے خیالات سے اتفاق کرتے ہیں.ہم اس کے متعلق صرف چند ایک باتیں ہی بیان کرنا مناسب خیال کرتے ہیں.مثلاً عورتوں کے معاشرتی حقوق میں انصاف و مساوات کو دوسرے تراجم کی نسبت واضح طور پر پیش کیا گیا ہے.اسی طرح معنوی امور کو ظاہر پر ترجیح دی گئی ہے.اخلاقیات کے معاملہ میں بھی معنویات کی طرف زیادہ میلا نہ نظر آتا ہے.افسوس ہے کہ مفصل فقرات کا درج کرنا بہت زیادہ بنگہ کا متقاضی ہے لہذا ہم ایسا نہیں کر سکتے ) اور قارئین کرام کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اس ترجمہ کا دوسرے تراجم کے ساتھ ضرور مقابلہ کریں.خواہ صرفت الی مقامات کا ہی کیا جائے جو پہلے واضح نہ تھے اور اب واضح اور عام فہم ہو گئے ہیں.اس ترجمہ کا کچھ عرصہ کے بعد ڈاکٹر کرام مس کے ترجمہ کے ساتھ مقابلہ کرنا بہت بڑی نیسی کا باعث ہو گا جو کہ ELSYIER شائع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے.جماعت احمدیہ جو اپنے اندر ایک زبر دست مشتری روح رکھتی ہے اس نے نہایت ہی اچھا کام کیا ہے کہ قدامت پسند مسلمانوں کے اعتراضات کی پروا نہ کرتے ہوئے قرآن مجید کا وہ سری یورین زبانوں اور ڈیع زبان میں ترجمہ کر دیا ہے ہم اس معاملہ میں ہر حیثیت --
141 اسے کامیاب یقین کرتے ہیں یاں (ترجمہ) (۲) ریفار ڈپرت کے ہفت روزہ KERK RODE, ABBLASSER ,NOARD" نے اپنی ۲۰ جنوری سام کی اشاعت میں لکھا:.اس وقت مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن ہمارے زیر نظر ہے جو عربی اور ڈچ زبان میں چھپی ہے تو جمہ نہایت سلیس ہے.یہ ایڈیشن نہایت ہی اچھا نتیار کیا گیا ہے.کا غذ محمدہ جلد پر شہری حروف کا ٹھپتہ لگا ہوا ہے.اگر چہ قرآن میں بہت کچھ بائیل سے لیا گیا ہے تاہم دیباچہ میںیہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ دحضرت محمد مصطفے کی تعلیم بائیل سے اچھی ہے.اس کا اندازہ کرنے کے لئے صرف ورق اُٹھانے کی ضرورت ہے.جو شخص مسلمانوں کے مذہب سے دلچسپی رکھتا ہو یا دوسرے لوگوں کے مذاہب سے اس کے لئے یہ بہترین ذریعہ ہے یہ (ترجمہ) (۳) ہالینڈ کے مشہور اور با اثر روزنامہ HET VRIJE VOLK در مارچ مانے ریح ترجمہ قرآن پر درج ذیل الفاظ میں تبصرہ شائع کیا :- قرآن مجید ریح ترجمہ کے ساتھ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب امام جماعت احمدیہ کی زیر ہدایت دی اور منٹیل اینڈرٹیمیں پبلشنگ ربوہ پنجاب نے شائع کیا ہے ، اور (ZULD HOLLAND ) کی پیشنگ کمپنی نے ہالینڈ میں اس کی اشاعت اپنے ذمہ لی ہے یہ ایڈیشن ایک د بیا چہ، عربی متن اور ڈچ ترجمہ پرشتمل ہے.دنیا چہ ہمیں اس امر مفصل بحث کی گئی ہے کہ یہود و نصاری کے مذاہب کے بعد اسلام کی کیا ضرورت تھی ؟ اس میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ مسیح صرف یہود کے لئے تھے نہ کہ ساری دنیا کیلئے جیسا کہ محمدؐ.اس دعوی کے ثبوت میں مستی ہو اور بچے کو پیش کیا گیا ہے: (ترجمہ) (۴) ایک ہفت روزہ IN DE WEEDSCHAAL نے اپنی در تاریخ شائر کی الشاحت میں لکھا :.۱۰ حمدیہ کلم میشی نے قران مجید کا ڈیچ ترجمہ تیار کیا ہے اس میں عربی حروف کو خاص قاعد سه بحواله المصلح کراچی ۱۲ تبلیغ / فروری * ۲۰۳
۱۷۲ کے مطابق لکھا گیا ہے جس کی وجہ سے قرآن کو 2 سے لکھا گیا ہے دعام طور پر K سے لکھا جاتا ہے ، اس ایڈیشن میں اصل عربی متن اور اس کا ڈیچ ترجمہ اکٹھا دیا گیا ہے.اس کے دیباچہ میں جو حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کا لکھا ہوا ہے قرآن کی عالمگیری کو بائیبل اور ویدوں کی قومی تعلیم سے بالا قرار دیا گیا ہے.اس دیباچہ کے مطابق عہد قدیم کی بہت سی پیش گوئیاں میرے تعلق نہیں رکھتیں بلکہ ان کا تعلق اسلام کے نبی پاک سے بتلایا جاتا ہے جو مسلمانوں کی اس پاک کتاب سے واقفیت حاصل کرنا چاہے اب ڈچ زبان میں کر سکتا ہے.(ترجمہ) احمد نیشن ہالینڈ کی طرف سے ملکہ ہالینڈ کے علاوہ محرم وزیر اعظم ملکہ ہالینڈ اور رسائی مملکت کو وزیر تعلیم ، میٹر آف روٹرڈم دی ہیگ اور ایمسٹرڈم کی خدمت قرآن مجید کا تحفہ اور پریس میں ہی توجہ کی ایک ایک کاپی بھی پیش کی گی جس کا ذکر ہالینڈ کے پانچ چھے چوٹی کے اخباروں نے کیا.چنانچہ ALGEMEEN HANDELSBLAD“ نے اپنی ۱۵.اپریل 19ء کی اشاعت میں قرآن نئے ڈچ ترجمہ کے ساتھ "کے عنوان کے ماتحت لکھا :.و کل دوپہر کے بعد احمد مسلم مشن نے نئے ڈیچ ترجمہ کی ایک کاپی وزیر تعلیم کی خدمت میں پیش کی ہے.اس سے قبل ملکہ بولیانا ، وزیر اعظم ڈاکٹر والیس میٹر آن روٹرڈم اور میٹر آف دی ہیگ کی خدمت میں بھی اس کی ایک ایک کاپی پیشیش کی جا چکی ہے.وزیر تعلیم کے نام ایک خط میں احمدیہ سلیم مشن کے انچارج غلام احمد صاحب بشیر نے ان کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کروائی ہے کہ ہالینڈ میں بھی دوسرے مغربی ممالک کی طرح سکولوں میں بچوں کو اسلام کے متعلق غلط تعلیم دی جاتی ہے.مسٹر بشیر کے خیال کے مطابق تاریخ کی کتب میں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اسلام اپنے متبعین کو اس تعلیم کے جبری پیالی کی تلقین کرتا ہے یہ بالکل صحیح نہیں.اس لئے وزیر تعلیم کی خدمت میں یہ درخواست کی گئی ہے کہ ان درسی کتابوں پر نظر ثانی کی بجائے یہ اخبار HAAGSCHE COURANT نے (ا.اپریل سٹہ کی اشاعت میں یہ خبر بایں الفاظ شائع کی :..
16M وزیر تعلیم مسٹر کالیس کی خدمت میں قرآنی پیش کیا گیا.اسلام کے متعلق بہتر معلومات ہم پہنچانے کی درخواست یا کل دوپر کے بعد احمد یسلم مشن ہالینڈ کی طرف سے وزیر تعلیم کی خدمت میں نئے ڈرح ترجمہ کی کاپی پیش کی گئی.اس کے ساتھ وزیر تعلیم کی خدمت میں ایک تحریری درخواست بھی پیش کی گئی ہے جس میں یہ عرض کیا گیا ہے کہ ڈچ درسی کتب میں اسلام کے متعلق بہتر اور زیادہ صحیح معلومات ہم پہنچائی جائیں.علاوہ ازیں ملکہ ہالینڈ ، وزیر تعلیم، میٹر آف دی ہیگ اور روٹرڈم کی خدمت میں بھی اس ترجمہ کی ایک ایک کاپی پیش کی گئی ہے." محولہ بالاخیر کو ہارٹم کے روزانہ اخبار نے بھی دوہرایا.اسی طرح نیو ہا گے کہ انت“ بیت خاور لینڈ نیوے روٹرو مس کر انیت میں بھی نقل کیا.مندرجہ ذیل خبر نگار ڈچ اختبارات میں چھپی :- ۲۴ اپریل کو قرآن مجید کی ایک کا پی ایمسٹرڈم کے میٹر کی خدمت میں پیش کی گئی جنوں نے اسے بہت ہی پسند کیا اور کافی دیر تک اس کے متعلق گفت گو کرتے رہے یہ اخبار ALSEMEEN HANDELSBLAD نے لکھا :- آج مسٹر بشیر انچارج احمدیہ سلم مشن ہالینڈ نے قرآن کے نئے ڈع ترجمہ کی ایک کاپی جو کہ نہایت ہی خوبصورت تھی ایمیسٹر ڈم کے میٹر کی خدمت میں پیشیش کی ہے.اس کتاب میں جس میں ایک دیباچہ اور تمہیدی مضمون بھی ہے وچ ترجمہ کے ساتھ اصل عربی متن بھی طبع کیا گیا 16 ہے.(۲۴ اپریل ۹۵ائد ایمسٹرڈم ) " ایک کیتھولک اخبار MAASRODE ROTTERDAM میں اس کی ۲۶ را پریل 190 کی اشاعت میں یہ خبر چھپی :- " قرآن کا نیا ایڈیشن گزشتہ ہفتہ کے روز احمدیہ مسلم مشن ہالینڈ کے انچارج مسٹر بشیر نے ایمسٹرڈم کے میٹر کی خدمت میں ڈور ترجمہ کا نیا ایڈیشن پیش کیا.یہ کتاب ایک تمہیدی مضمون اور دیہا نچہ کے علاوہ عربی متقن (جس کے مقابل پر ڈوری ترجمہ دیا گیا ہے، اشتمل ہے؟
اختبار DEKDRSKARANT AMSTERDAM نے اپنے ۲۶ اپریل سٹہ کے نمبر میں یہ خبر شائع کی: گزشتہ ہفتہ کے روز احمدیہ سلم مشن ہالینڈ کے انچارج مسٹر بشیر نے ایمسٹرڈم کے میر کنی خدمت میں قرآن کے نئے ڈوح ترجمہ کی ایک کاپی پیشیں کی تھی جو کہ نہایت ہی خوبصورت ہے اس کتاب میں عربی متن کے مقابل پر طرح ترجمہ دیا گیا ہے " یہ خبر TELEGRAAF AMSTERDAM میں بھی انہی الفاظ میں شائع ہوئی.لے المعرض طرح ترجمہ قرآن کا ولندیزی حکومت کے عمائدین کے ہاتھوں پہنچنے کی دیر تھی کہ پریس کے ذریعہ اس واقعہ کی خبر آناً فانا ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچ گئی.یہ خدائی نصرت کا گویا ایک نیا سامان تھا جس نے ملک بھر میں قرآن مجید اور اسلام کی عظمت کا میکہ دلوں میں بٹھا دیا اور کیتھولک پر پتے پر جماعت احمدیہ کار علمی رشعب طاری ہو گیا.کا سید نا حضرت مسیح موعود کو شاہ میں کشفی مسجد ہائینڈ کے لئے قطعہ زمین کا حصول طور پر دیدار مسجد مصلح موعود کا مبارک نام شود دکھایا گیا تھا جس میں یہ اشارہ بھی کیا گیا تھا کہ دو مصلح موعود کو تعمیر مساعید کے ساتھ گہرا تعلق ہو گا چنانچہ عملاً ایسا ہی ہوا اور حضرت مصلح موعود نے اپنے عہد مبارک میں یورپ ، امریکہ ، افریقہ، ایشیاء خوفنکہ جمله بر اعظموں میں متحد و مسجدیں بنوائیں اور ہمیشہ ہی جماعت کو نہ صیحت فرماتے رہے کہ ہمیں ہر اہم جگہ پر ہی نہیں ہر جگہ پر مسجدیں بنانی ہوں گی یہ سے جہاں تک ہالینڈ کا تعلق ہے حضرت مصلح موعود کی ہدایت پر اس سر زمین پر اس میں ایک شاندار اور عالی شاہی مسجد کی تعمیر کی گئی مسجد فضل لنڈن کی طرح یہ مسجد بھی خواتین احمدیت کے چندوں سے تیار ہوئی.مسجد ہالینڈ کے لئے زمین کا حصول ایک بڑا معرکہ تھا.ہالینڈ کے کیتھولک چرچ نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا کہ بیگ بلکہ ملک کے کسی گوشہ میں مسجد تعمیر نہ ہونے پائے مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت و م الفضل سوار احسان یون ه م و له تریاق القلوب منا طبع اول.ارجون له و ما الفضل ۱۲ صلح / جنوری
طاقت کا ایسا غیبی ہاتھ دکھایا کہ چرچ کی تمام کوششیں بے نتیجہ ثابت ہوئیں اور سے ماہ و خار وبائی ام بروز جمعہ بیگ میں ایک موزوں قطعہ کی باضابطہ منظوری ہوگئی ہے چنانچہ حافظ قدرت اللہ صاحب اپنی ایک رپورٹ میں تحریر فرماتے ہیں کہ شاہ میں جب مسجد کے لئے زمین خریدنے کا معاملہ زیر غور تھا تو اس وقت بھی بعض لئے تھا تو بھی حالات ایسے رنگ میں ظاہر ہوئے جو ہمارے لئے ازدیاد ایمان کا موجب ہیں بیگ میں مسجد کے لئے مناسب جگہ کی تلاش کے لئے کافی تگ و دو کرنی پڑی تھی.آخر مین اتفاق ایسا ہوا کہ ہماری توقعات سے بڑھ کر ایک نہایت عمدہ جگہ اس مرض کے لئے ہمیں بل گئی.یہ جگہ ایک چرچ اور ایک اہم کیتھولک انسٹی ٹیوٹ کے نہ صرف قریب ملتی بلکہ انکے الناقة راستہ پر پڑتی تھی جس کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ مذہبی حلقوں کی طرف سے اس کی مخالفت ہو چنانچہ ایسا ہی ہوا مگر بیگ کی میونسپل کمیٹی کا جو ذمہ دار شخص تھا اس نے اس تمام مخات کا ایسا ذ مہ دارانہ مقابلہ کیا کہ آج بھی اس کے لئے دل سے دعا نکلتی ہے تکلف کی بات یہ ہے کہ ہمیں ان مشکلات کا علم اس وقت ہوا جب فیصلہ ہو کر پریس کے ذریعہ یہ خبر منصہ شہود پر آگئی کہ کمیٹی کے ایک ہنگامی اجلاس میں یہ امر بالآخر طے پا گیا ہے کہ مجوزہ جگہ پر سجد تعمیر کر لی جائے کمیٹی کے اس تاریخی اجلاس میں کیتھولک مخالفت کے باوجود ڈاکٹریا کے سخت جو کمیٹی کے چیف ٹاؤن پلیز تھے ان کی پارٹی کو فتح حاصل ہوئی (BAKKE SCHUT) فالحمد لله على ذالك له مسجد بیگ کی ابتدائی خبر مسجد کے لئے زمین کا حصول ایک ایسا ہم واقعہ تھاکہ ولندیزی پریس نے اس کا خاص طور پر چر چا گیا چنانچہ یہ شیر ہالینڈ کے طرح اخبارات میں قریب سالہ اخباروں نے شائع کی جویہ میں ہالینڈ کے چوٹی کے اخباروں سے لے کر صوبہ جاتی انبالہ تک شامل تھے.مثلاً ایک اخبار نے لکھا:.له الفضل ۲۸ ا خاء / اکتوبر + ه رساله خالد بود اما می مارچ همتا اس مسجد کا رقبہ آٹھ سو مربع میٹر کے قریب ہے.حضرت مصلوب عود کا منشاء مبارک تو اس سے زیادہ رقبہ لینے تھا مگر حالات نے اس کی اجازت نہ دی.زمین یا موقع اور اچھے علاقہ میں ہے اور اوست ڈاؤن لان 10887 DEKLARN نامی سڑک پر واقع ہے ہے
144 براؤن ہاؤت محلہ میں مسلم میشن کی طرف سے مسجد کی تعمیر چند سالوں کے اندر اندر ہالینڈ میں دو مسجدیں ہو جائیں گی پہلی مسجد ہیگ میں GOSTDUINLAAN سٹرک پر).P.3 بلڈنگ کے مدمقابل تعمیر ہوگی (یہ ایک کمپنی کی بلڈنگ کے مد مقابل تعمیر ہوگی ، یہ جگہ اب تک فارغ پڑی رہی تھی اور اس جگہ کے اردگرد بہت دیر سے مکان تعمیر ہو چکے ہیں، شاید خدا تعالیٰ نے اس جگہ کو اس لئے غالی رہنے دیا ہوگا کہ اس جگہ مسجد تعمیر ہو گی.دوسری مسجد ایمسٹرڈم میں TALRPLEIN چوک کے پاس تعمیر کی جائے گی.اس طرح مسلم مشن ہمارے ملک میں اپنی دو بار توں کا مالک ہو جائے گا جو نبی اکرم کی تعلیم کو پھیلانے کے لئے نقطہ مرکزی کی حیثیت اختیار کریں گی " اس قسم کی خبریں احمدیہ سلم مشن ہالینڈ کے انچارج مکرم حافظ قدرت اللہ صاحب کے ذریعہ سے نشر ہوتی ہیں مسجد بیگ کی تعمیر میں اب امام جماعت احمدیہ کی اجازت کا انتظار ہے.ان کی خدمت میں مسٹر الیون سے ایک نقشہ تیار کروا کے بھیجوایا جا چکا ہوا ہے.اس نقشہ کی منظوری پر کام شروع ہو جائے گا مسجد کے لئے زمین کسی پرائیویٹ مالک سے ۲۰ ہزار گلور زمیں خریدی گئی ہے جس کا رقبہ ۸۰۰ مربع میٹر ہے تعمیر پر قریباً ایک لاکھ گل رز خروج ہو گا تب جا کر ایک مفید مسجد بلند ہو سکے گی جس میں دو سو کے قریب مومنین اپنی عبارت کر سکیں گے.اسی طرح ایک وسیع ہال بھی تعمیر ہو گا جس میں دو سو افراد بیٹھ سکیں.اسکی تعمیر کے ایک سال بعد اُمید کی بھاتی ہے کہ ایمسٹرڈم میں بھی مسجد کی تعمیر شروع ہو جائے گی.جماعت احمدیہ اس وقت حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی زیر قیادت کام کر رہی ہے.آپ جماعت احمدیہ کے بانی حضرت احمد (علیہ اسلام) کے سب سے بڑے فرزند ہیں حضرت احمد نے اللہ میں بمقام قادیان مسیح موعود ہونے کا دعوی کیا ہے.آپ کی حین حیات میں جماعت نے کافی ترقی کی اور اب آپ کے فرزند ارجمند کی قیادت میں اور بھی بڑھ چڑھ کر ترقی کی بیہندوستان اور پاکستان کے علاوہ افریقہ، ایشیا اور ے یہ ایک کمپنی کی بلڈنگ ہے اور ہالینڈ میں بہت مشہور ہے سے اصل شاہ کا قتل ہو
122 انڈونیشیا میں اس جماعت کے بہت سے افراد پائے بجاتے ہیں.علاوہ ازیں جماعت احمدیہ کے مشن اٹلی - ارجنٹائن.لنڈن - واشنگٹی.پیرس.زیورچ میڈرڈ ہیمبرگ میں بھی پائے جاتے ہیں.حافظ صاحب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہالینڈ جیسے ملک میں ان کا کام کوئی آسان نہیں ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ چونکہ وہ پیغام جو ہم لے کر آئے ہیں محبت صلح و آشتی کا نام ہے.کیونکہ اسلام کا مطلب ہی یہ ہے کہ خدا اور انسانوں کے ساتھ صلح.اس لئے اہم کامیابی کی امید کرتے ہیں.جماعت کی تعداد ہمارے ملک میں ابھی تک بہت ہی تھوڑی ہے لیکن یہاں ایک آؤ تحریک بھی ہے جس میں بہت سے انڈونیشین شامل ہیں.اس سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر محمد روم صاحب ہائی کمشنر برائے انڈونیشیا کی رہائش گاہ واقع واستنار میں اپنے اجتماعات کرتے ہیں اور اسی جگہ انہوں نے عید کی نماز بھی ادا کی تھی.ہیگ ، ایسٹر ڈم، او ترخت وغیرہ میں لوگوں نے بہت پچسپی کا اظہار کیا ہے اور بہت سے لوگ ان کے جلسوں میں شریک ہوتے ہیں مگر ابھی تک ڈیڑھ درجن کے قریب لوگوں نے سبعیت کی ہے.ہالینڈ سے ایک ماہانہ دو ورقہ پرچہ بھی نکالا جاتا ہے جو ممبران جماعت احمدیہ کے ساتھ تعلقات قائم رکھنے میں مدد دیتا ہے.جماعت احمدیہ کی مستورات ہیگ کی مسجد کے لئے اور مرد امریکہ کی مسجد کے لئے چندہ جمع کر رہے ہیں یہ (ترجمہ) حضرت مصلح موعود کی رات چندہ کی تحریک فرائی کہ اینٹ کی سیداحمدی عورتوں کے چنده ہالینڈ اور احمدی مستورات کا شاندار مالی جہاد سے تعمیر کی جائے.احمدی خواتین نے اپنی گذشتہ مثالی روایات کے عین مطابق اس مالی تحریک کا ایسا والہانہ اور پیر جوش خیر مقدم کیا کہ اس پر حضرت مصلح موعود نے تقریروں اور خطبوں میں اپنی زبان مبارک سے متعد د بار اظہار خوشنودی کیا.مثلاً ایک خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا :- الفضل ۳۰ ظهور / اگست است.F1900
16A ہالینڈ کی مسجد کے متعلق عورتوں میں تحریک کی گئی تھی انہوں نے مردوں سے زیادہ قربانی کا ثبوت دیا ہے.گو ان کی تحریک بھی چھوٹی تھی.عورت کی آمدن ہمارے ملک میں تو کوئی ہوتی ہی نہیں.اگر اسلامی قانون کو دیکھا جائے تو بعورت کی آمد مرد سے آدھی ہونی چاہئیے کیونکہ شریعت نے عورت کے لئے آدھا حصہ مقرر کیا ہے اور مرد کے لئے پورا حصہ نہیں اگر مردوں نے چالیس ہزار روپیہ دیا تو چاہئیے کہ عورتیں نہیں ہزار روپیہ دوستیں مگر واقعہ یہ ہے کہ مردوں نے اگر ایک روپیہ چندہ دیا ہے تو عورتوں نے سوار وپے کے قریب دیا ہے.انہوں نے زمین کی قیمت ادا کر دی ہے اور ابھی چھ سات ہزار روپیہ ان کا جمع ہے جسس میں اور روپیہ ڈال کر ہالینڈ کی مسجد بنے گی.پھر یہ چندہ انہوں نے ایسے وقت میں دیا ہے جبکہ لجنہ کا دفتر بنانے کے لئے بھی انہوں نے چودہ پندرہ ہزار روپیہ جمع کیا تھا لے سالانہ جلسہ مس کے موقعہ پر بتایا :- 11901 " مسجد ہالینڈ کا چندہ عورتوں نے مردوں سے زیادہ دیا ہے.مردوں کے ذمہ واشنگٹن کی مسجد لگائی گئی ہے اور اس کا خرچ مسجد بنا کر قریباً اڑھائی پونے تین لاکھ ہوتا ہے اور جو عورتوں کے ذمہ کام لگایا تھا مسجد ہالینڈ کا اس کی ساری رقم زمین وغیرہ ملا کر کوئی استی ہزار یا لاکھ کے قریب بنتی ہے انہوں نے اپنے اتنی ہزار میں سے چھیالیس ہزار روپیہ ادا کر دیا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ عورتوں کو توجہ دلانے کی اتنی ضرورت نہیں مجھے یقین ہے کہ وہ میری اس مختصر تحریک سے ہی اپنے فرض کو سمجھنے لگ جائیں گی اور اس نیک کام کو تکمیل تک پہنچا دیں گی.میں عورتوں سے کہتا ہوں تمہاری قربانی مردوں سے اس وقت بڑھی ہوئی ہے.اپنی اس شان کو قائم رکھتے ہوئے اپنے دفتر کے قرضہ کو بھی ادا کرو اور اس کے ساتھ مسجد ہالینڈ کو بھی نہ بھولنا.اس کے لئے ابھی کوئی پچاس ہزار روپیہ کے قریب ضرورت ہے ہمارا پہلا اندازہ مکان اور مسجد کی تعمیر کا نتیس ہزار کے قریب تھا لیکن اب وہ کہتے میں کہ ساٹھ ہزار سے کم میں وہ جگہ نہیں بن سکتی کیونکہ اس جگہ پر گورنمنٹ کی طرف سے کچھ به اخبار الفضل ۲۰ فتح روسمبر 71481 م
129 قیود ہیں اور وہ ایک خاص قسم کی اور خاص شان کی عمارت بنانے کی وہاں اجازت دیتے ہیں اس سے کم نہیں دیتے پس زمین کی قیمت مل کر توے ہزار سے ایک لاکھ تک کا خرچ ہو گا جس میں سے وہ بفضلہ چھیالیس ہزار تک اس وقت تک ادا کر چکی ہیں یا اے احمدی عورتوں نے اپنے آقا کے اس ارشاد پر مسجد ہالینڈ کے لئے عطیات کی مہم تیز تر کر دی.تعمیر مسجد کے لئے چندہ کی ایک معقول رقم احمدی مستورات کی طرف سے کھدوائی کا مرحلہ راہم ہو چکی تھی اس لئے حضرت مصلح موعود کی ہدایت پر ۱۳ با تبلیغ فروری ۶۱۹۵۵ کو چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب حج عالمی عدالت انصاف (حال چیف جسٹس) نے دعا کے ساتھ مسجد کی بنیادیں اُٹھانے کے لئے کھدوائی کا کام شروع کرا دیا.اس موقع پر مقامی جماعت احمدیہ کے اکثر احباب کے علاوہ مختلف اخبارات کے نمائندے اور پریس فوٹوگرافر بھی موجود تھے.سب سے پہلے حضرت چوہدری صاحب نے تمام احباب سمیت اجتماعی دعا کرائی پھر آپ نے کوال چلائی بعد ازاں مبلغ ہالینڈ جناب مولوی ابوبکر ایوب صاحب نے کچھ زمین کھودی پھر عمیق در سرے ہے احمدیوں نے بھی اس میں حصہ لیا.سنگ بنیاد کو کھدائی کا ابتدائی مرحلہ بخیر و خوبی طے ہو چکا تو ۲۰ ماہ ہجرت سئو حضرت چوہدری صاحب ہی کے مبارک ہاتھوں سے سر زمین ہالینڈ کی اس پہلی مسجد کا سنگ بنیادر کھا گیا.اس موقعہ پر بہت سے مسلم ممالک کے نمائندوں اور ممتاز صحافیوں نے شرکت کی ہے مبلغ انچارج ہالینڈ میشن کی طرف سے حضرت مصلح موعود کی خدمت حضرت مصلح موعود کا پیغام میں مسجد کے سنگ بنیاد کی خوشخبری نہیں تو حضور کو از حد مسرت ہوئی اور مصور نے ایک خصوصی پیغام بھجوایا جس میں فرمایا کہ :- له جزاک اللہ مبارک ہو آپ کو بھی اور سب احمدی نو مسلموں کو بھی.اللہ تعالیٰ چوہدری صاحب کے لئے یہ خدمت تعلیم بہت بہت مبارک کرے اور ثواب کا موجب بنائے ۲۷ ۱۳۳۲ صدا : الفضل ۳۱ فتح / دسمبر ۱۳۳۱۵ ۳ ، له الفضل ٢٧ تبلیغ / فروری ها سے الفضل ۲۴ ہجرت رمئی ۶۱۹۵۲ ۶۱۹۵۵
بیچ وہی ہے جو سر عبد القادر نے مسجد لنڈن کا افتتاح کرتے ہوئے کہا تھا ہے این سعادت بزور بازو نیست تا نه بخشد خدائے بخشنده اللہ تعالیٰ نے چوہدری صاحب کو مجھے آرام سے یہاں پہنچانے کی سعادت بخشی اور اس کے بدلہ میں ان کو مسجد ہالینڈ کا سنگ بنیاد رکھنے کی عزت بخشی.یہ وہ عزت ہے جو بہت بڑے بڑے لوگوں کو بھی نصیب نہ ہوئی ہوگی.ہم نئے میرے سے اسلام کا سنگ بنیادرکھ رہے ہیں محمد رسول اللہ صلعم کا نائب ہونا کوئی معمولی عہدہ نہیں.آج دنیا اس کی قدر کو نہیں جانتی ایک وقت آئے گا جب ساری دنیا کے بادشاہ رشک کی نظر سے ان خدمات کو دیکھیں گے.اللہ تعالیٰ جلد ہالینڈ کے اکثر لوگوں کو احمدیت میں داخل ہونے کی توفیق بخشے سے / اسید نا حضرت مصلح موعود کی خاص توجہ اور نگرانی کے تحت مسجد افتتاح کی بابرکت تقریب ان کی تعمیر ای میل تک پہنچ چکی تو چوہدری محمد راشد خان صاحب نے ار فتح ر سمبر کو اس کا افتتاح فرمایا.افتتاحی تقریب میں متعدد ممالک کے سر بر آوردہ حضرات کثیر تعداد میں شامل ہوئے.مدعوین میں پاکستان، مصر، شام اور انڈونیشیا کے سفارتی نمائندے، یونیورسٹی کے پروفیسر صاحبان، مشہور فرموں کے ڈائریکٹرز، میونسپل افسران اور جرمنی، سوئٹزرلینڈ اور انگلستان کے مبلغین احمدیت خاص طور پر قابل ذکر ہیں.علاوہ ازیں زیکست اور بعض دوسرے مقامات کے احمدی اور پر ایں اور ریڈیو کے نمائندگان بھی اس تقریب میں موجود تھے کے ہالینڈ میں مسجد کی تعمیر کو غلبہ اسلام کی شاہراہ میں ہمیشہ سنگ میل کی حیثیت حاصل رہے گی.اس سرزمین میں خانہ خدا کی اہمیت کو ہالینڈ کے اُونچے طبقے نے خاص طور پر مسوس کیا ہے چنانچہ سیاست کا ایک کثیر الاشاعت روزنامه " EUWE HEAGSE COURANT " نے مسجد ہیگ میں نمازہ کی حالت کا ایک بڑا سا فوٹو دیتے ہوئے لکھا کہ : یہ فوٹو کراچی ، قاہرہ یا بغداد کی نہیں بلکہ ی مسجد خود ہیگ میں ہے جس میں لوگ له الفضل ۲۳- احسان /جون هم کالم او له الفضل ۱۳ رفت تر و سمه ها : کر دسمبر 119 06
نمازادا کر رہے ہیں.اور پھر اس مضمون کو بھاری رکھتے ہوئے اخبار مذکور رکھتا ہے کہ :.مسلمان دو دفعہ اس سے پہلے بھی یورپ میں آئے.ایک دفعہ آٹھویں صدی میں اؤ دوسری دفعہ پندرھویں صدی میں مگر دونوں دفعہ ان کا آنا سیاسی نوعیت کا تھا مگر اس دفعہ ہمارے زمانہ میں اُن کی آمد یورپ میں عقبی دروازہ سے ہوئی ہے اور اس طرف سے انہیں کسی لشکر یا فوج کا سامنا نہیں کرنا پڑا بلکہ اس کے برعکس انہیں وہ خالی دل ملے ہیں جن سے عیسائیت عرصہ ہوا نکل چکی ہے." بعد ہالینڈ پر چونکہ اندازہ سے زیادہ خرچ ہو چکا تھا اس لئے تکمیل مسجد کیلئے مزید چند کی تحریک حضرت مصلح موعود نے احمدی خواتین کو چندہ کی تحریک برابر جاری رکھی اور اس پر بہت زور دیا.چنانچہ فرمایا." اس سال ہالینڈ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے صرف احمدی مستورات کے چندہ سے ہی ایک نہایت عظیم الشان مسجد تعمیر ہوئی ہے لیکن اس پر جو خرچ ہوا ہے وہ ابتدائی رازے سے بہت بڑھ گیا ہے.اس وقت تک مستورات نے جو چندہ دیا ہے 41 ہزار روپیہ انداز اس سے زائد خرچ ہو گیا ہے مستورات کو چاہیئے کہ جلد یہ رقم جمع کر دیں یا سے ایک اور موقعہ پر فرمایا :- عورتوں نے ہالینڈ کی مسجد کا چندہ اپنے ذمہ لیا تھا مگر اس پر بجائے ایک لاکھ کے جو میرا اندازہ تھا ایک لاکھ چوہتر ہزار روپیہ خرچ ہوا ۷۸ ہزارہ ان کی طرف سے چندہ آیا تھا گویا ابھی 97 ہزار باقی ہے.پس عورتوں کو بھی نہیں کہتا ہوں کہ وہ ۹۶ ہزار روپیہ جلد جمع کریں تا کہ مسجد ہالینڈ اُن کی ہو جائے " سے بعد ازاں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ :.یکن نے مسجد ہالینڈ کی تعمیر کے لئے عورتوں میں ایک لاکھ پندرہ ہزار روپیہ کی تحریک کی تھی جس میں سے 99 ہزار عور تیں اس وقت تک دے چکی ہیں لیکن جو اندازہ وہاں سے له افضل سه میل جنوری ها ما له الفضل و رامان / مارچ هم من :
TAY آیا تھا وہ ایک لاکھ چونتیس ہزار روپے کا تھا اور عملاً اب تک ایک لاکھ پچھتر ہزار روپیہ خرچ ہو چکا ہے.تحریک جدید کا ریکارڈ کہتا ہے عورتیں ننانوے ہزار روپیہ دے چکی ہیں.میں نے وکالت مال کے شعبہ بیرون کے انچارج چوہدری شبیر احمد صاحب کو بلایا اور اُن سے دریافت کیا کہ کیا آپ کے پاس کوئی ریکارڈ ہے جس سے معلوم ہو کہ جب ہیگ سے ایک لاکھ چونتیس ہزار روپے کا تخمینہ آیا تھا تو میں نے عورتوں سے اس قدر چندہ کرنے کی اجازت دی ہو کیونکہ خورتوں کا حق تھا کہ چندہ لینے سے پہلے اُن سے پوچھ لیا جاتا کہ کیا وہ یہ چندہ دے بھی سکتی ہیں یا نہیں.انہوں نے کہا افسوس ہے کہ اُس وقت ہم سے غلطی ہوئی اور ہم نے حضور سے دریافت نہ کیا کہ آیا مزید رقم بھی عورتوں سے جمع کی جائے ہمارے پاس ایسا کوئی ریکارڈ نہیں جس کی رو سے زیادہ رقم اکٹھی کرنے کی منظور ی کی گئی ہو.میں نے کہا ئیں یہ مان لیتا ہوں کہ آپ نے ایک لاکھ چونتیس ہزار روپیہ کے جمع کرنے کی منظوری مجھ سے نہ لی لیکن جب وہ رقم ایک لاکھ پچھتر ہزار بن گئی تو پھر تو آپ نے مجھ سے منظوری لینی تھی کیا آپ نے مجھ سے منظوری لی.انہوں نے پھر یہی جواب دیا کہ ہم نے اس کے متعلق بھی حضور سے کوئی منظوری نہیں لی اور ہمارے پاس کوئی ایسی ایسا کا غذ نہیں جس میں یہ لکھا ہو کہ عورتوں سے ایک لاکھ چونتیس ہزار یا ایک لاکھ پچھتر ہزار روپیہ جمع کرنا منظور ہے.اس لئے میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ لجنہ اماء اللہ اس سال صرف چھتیس ہزار روپیہ چندہ کر کے تحریک جدید کو دے دے اور باقی روپیہ تحریک جدید خود ادا کرے.لجنہ اء اللہ چھتیس ہزار روپے سے زیادہ نہیں دے گی اور مسجد ہالینڈ ہمیشہ کے لئے عورتوں کے نام پر ہی رہے گی ؟ لے حضرت مصلح موعودؓ نے تعمیر مسجد بیگ کے لئے ایک لاکھ پندرہ ہزار روپیہ کی تحریک خاص فرمائی تھی مگر خواتین احمدیت نے اپنے آقا کے حضور ایک لاکھ تینتالیس ہزار چھ سو چونسٹھ روپے کی رقم پیش کر دی بلکہ بعض مستورات تو اس مد کے ختم ہونے کے بعد بھی چندہ بھجواتی رہیں لیے له الفضل ۲۳ تبلیغ / فروری مت سے یہ اعداد و شمار حضرت سیده مریم صدیقہ مصاحبه ۲۱۹۵۸ الله مدظلہ العالی کے مکتوب مورخہ ۲۰- احاد/ اکتوبر من سے ماخوذ ہیں ؟
۱۸۳ مسجد بیگ ابھی زیر تعمیر تھی کہ ہالینڈ مشن کو اپنی تاریخی کا ایک لینڈ میں حضرت مصلح موعود کی ایسا عظیم ۶۱ از نصیب ہو ا جس پر ہالینڈ کے احمدی خصوصاً اور تشریف آوری دوسرے ولندیزی باشندے عموماً جتنا بھی فخر کریں کم ہے.یہ اع از حضرت مصلح موعود کا ورود ہالینڈ ہے.حضرت اقدس دوسرے سفر یورپ کے دوران سوئٹزرلینڈ کو اپنے مبارک نزول سے برکت دینے کے بعد ۸ار احسان جون کو ہیگ میں بھی رونق افروز ہوئے لیے حضور یہاں ایک ہفتہ / قیام فرما رہنے کے بعد ۲۵- احسان / جون کو ہمبرگ تشریف لے گئے.دوران قیام سجد کی زیر تعمیر عمارت کے انٹرنس ہال میں ایک لمبی اور پر سوز دعا فرمائی ہے مرکز احمدیت سے دوسرے حافظ قدرت اله صاحب قریب ساڑھے تین سال تک تیلی راض مرکز احمدیت سے دوسرے انجام دینے کے بعد افتح دسمبر کو ہالینڈ سے مجاہدین اسلام کی آمد پاکستان روانہ ہوگئے اور آپ کے بعد مولوی غلام احمد شاپ صاب بشیر اور مولوی ابوبکہ ایوب صاحب سماٹری نے مشن کی تبلیغی ذمہ داریاں سنبھال لیں میںقدم الذکر مشن کے انچارج مقرر ہوئے.یہ دونوں مبلغین ایک ہفتہ پیشتر افتح / دسمبر کو لنڈن سے ہالینڈ میں پہنچے تھے تیمولوی ابوبکر ایوب صاحب سماڑی قریباً ساڑھے چھ برس تک نہایت خلوص اور محبت سے تبلیغ اسلام کی خدمت بجالاتے رہے اور ۱۲ ماہ و فار جولائی حد کو ہالینڈ سے تشریف لے آئے مجھے مولوی ابو بکر صاحب ابھی ہالینڈ میں تھے کہ حافظ قدرت اللہ صاحب ۲۹ ماه صلح نوری ها کو دوبارہ اس ملک میں اشاعت اسلام کی غرض سے بھیجوا دیئے گئے.اب چونکہ تعمد مسجد کے بعد ہالینڈ $1904 میشن کا کام پہلے سے بہت بڑھ چکا تھا اور روز بروز بڑھ رہا تھا اس لئے مرکز سے تبوک ستمبر کو مولوی عبد الحکیم صاحب اکمل ہالینڈ بھجوائے گئے اور قریباً ساڑھے تین برس تک حافظ صاحب کا ہاتھ بٹانے اور اہم تبلیغی خدمات بجالانے کے بعد ۲۳- امان / مارچ ان کو واپس تشریف لائے اور آپ کی 14 ا الفضل ۲۱ احسان - ۲۲ر جنسان - ۲۸ احسان / جون سے الفضل یکم تبوک /ستمبر 1194.* مت کالم له سه الفضل ۲۸ صلاح / جنوری هه مو له الفضل ۱۳ نبوت ع 51901 + نومبر.11906.
IAM جگہ پر صلاح الدین خان صاحب بنگالی مورخه هم ظهور/ اگست ہالینڈ روانہ کئے گئے جنہوں نے وہاں تین سال تک فریضہ تبلیغ ادا کیا اور ار افادر اکتوبر سر کو وارد دادہ ہوئے.آپ کے بعد دوباره مولوی عبد الحکیم صاحب النمل در ماه اخا در اکتوبر کو عازم ہالینڈ ہوئے.تین سال بند $1445 صلاح الدین خان صاحب بھی ، ریاہ فتح / دسمبر کو ہالینڈ تشریف لے گئے اور ۲۰ تبوک / ستمبر ، 71941 $1996.کو واپس آئے.لنڈن مشن کی طرح اس مشن کو بھی چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی بلند پای علمی و دینی شخصیت سے بہت فائدہ اُٹھانے کا موقعہ ملا اور مل رہا ہے اور یقیناً اس مشن کی شہرت و ترقی میں اُن کے مبارک وجود کا بھی تفضیلہ تعالی نمایاں دخل ہے.علاوہ ازیں خود مجاہدین ہالینڈ تبلیغ اسلام کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے نتیجہ یہ ہوا کہ خدا کے فضل و کرم سے ہالینڈ کے طول و عرض میں اسلام کے چرچے عام ہونے لگے اور اسلام کا اثر و نفوذ یہاں تک بڑھا کہ عام ملکی پریس کے علاوہ عیسائی رسالونی میں بھی مبلغین احمدیت کے قلم سے اسلام کی نسبت بکثرت مضامین شائع ہونے لگے.حافظ قدرت اللہ صاحب نہیں ہالینڈ مشن کی بنیاد رکھنے کے علاوہ مجموعی اعتبار سے قریباً ام البرس تک خدمت کرنے کا فخر بھی نصیب ہوا میشن کا چارج مولوی عبدالحکیم صاحب اکمل کو سونپ کر ۲۱ ماه فتیر سے مثلاً مشہور کیتھولک ماہنامہ دا ہیراؤت (DE HERAUT) نے فروری شائر کے شمارہ میں مولوی عبد الحکیم صاحب اکمل انچار ج مشتن ہالینڈ کا پُر مغز مقالہ اسلام اور حضرت مسیح ناصری علیہ السلام " سپر د اشاعت کیا.اسی طرح ایک، اور عیسائی رسالہ " ۳۱۴۸ " دیابت دسمبر شاہ، میں بھی آپ کا ایک نوٹے شائع ہوا جس کا عنوان تھا " اسلامی تعلیم کی روشنی میں مسیح ناصری علیہ السلام اور کرسمس " (JEZUS EN HET CHRISTUS IN KERST FEEST LIGHT ISLAM) VAN DE HET ہالینڈ کی وزارت دفاع کا ترجمان AKSENT چھپتا ہے اس کے مارچ شکار کے پرچہ بیر بہ آپ الملوکی صاحب کے دو مضامین کی اشاعت ہوئی.ایک مضمون کا عنوان تھا" اسلام کا اثر و نفوذ ہالینڈ میں دوسرے مضمون میں آپ نے مدلل طور پہ ثابت کیا کہ اسلام تلوار سے ہر گز نہیں پھیلا.اسی طرح ناتمی من (NIS NEGEN ) کے ایک ماہنامہ کیتھولک آپسٹورا، , KATHOLIC APOSTORAAL نے اپنے ایک خاص شمارہ میں مشن کے سابق امام حافظ قدرت اللہ صاحب کا ایک مضمون اسلامی طریق تدفین انگریزی ، جرمنی ، فرانسیسی اور ہسپانوی زبانوں میں شائع کیا ؟
۱۸۵ ۱۳۴۹۵ دسمبر کو مرکز میں تشریف لے آئے.آپ کے بعد جناب اکمل صاحب تین سال تک تبلیغی فرائض بجا لاتے رہے اور پھر کشن کا چارج جناب صلاح الدین خادر صاحب کو دے کہ ۲۰ ماه نبوت / نومبر کو مرکز میں پہنچ کر یہ آپ کی آمد کے چند ماہ بعد مولوی ابوبکر ایوب صاحب سماٹری ۳ ارماہ و فار جولائی کو ایک بار پھر ہالینڈ تشریف لے گئے اور اب تک اس ملک کو نور اسلام سے منور کرتے ہیں 61 سر گرم عمل ہیں.حافظ قدرت اللہ صاحب مبلغ انچارج کی کوشش سے اوائل ۶۱۹۵۹ ڈوپٹ رسالہ الاسلام" کا اجراء میر میں مشن کی طرف سے الاسلام کے نام سے ایک ڈ ماہنامہ جاری کیا گیا.یہ رسالہ اب تک سائیکلوسٹائل ہو کر آرٹ پیپر کے سادہ مگر دیدہ زیب شرق کے ساتھ شائع ہورہا ہے.اس رسالہ کے اجراء کی غرض و غایت یہ تھی کہ ہالینڈ کے مسلمان حلقوں کو با قاعدگی سے بعض ضروری اور علمی مضامین پر مختصر نوٹ مہیا کئے جائیں تا وہ ان سے عند الضرورت فائدہ اُٹھا سکیں اور خدا کے فضل و کرم سے یہ رسالہ اپنے اس مقصد کو نجوبی پورا کر رہا ہے.یہ واحد رسالہ ہے جو ہالینڈ میں سلام کی ترجمانی کے فرائض انجام دیتا ہے.اس کی مقبولیت کا اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ملک کی مشہور ائیر کروں یونیورسٹیوں اور گرجا گھروں میں منگوایا جاتا ہے اور مستشرقین اپنے اضافہ معلومات کی خاطر اسے خرید کر اور پڑھتے ہیں.ہالینڈ کے علاوہ سورینام (ڈیچ گی آنا، اور انڈونیشیا میں بھی اس کے خریدار موجود ہیں.مبلغین احمدیت نے ہالینڈ میں آج تک عیسائی پادریوں سے متعدد ایک مشہور عیسائی پادری سے کا میاب تا ظرے کئے ہیں.اسی سلسل میں میر کی پہلی ششماہی کامیاب مناظرے میں پبلک مناظرہ میں بھی ایک کامیاب پیلک مناظرہ ہوا.مناظرہ میں جماعت احمدیہ ۱۹۵۹ء کے قیام ہالینڈ کے دوران جناب اکمل مصاحب کی اہمی سعودہ الکل صاحبہ ڈرے احمدی خواتین کی تعلیم و تربیت میں دلچسپی لیتی رہیں چنانچہ ان کی کوشش سے نہ صرف منہ میں لجنہ اماءاللہ ہالینڈ کا قیام عمل میں آیا بلکہ احمدی بچوں کو اسلام و احمدیت کے مسائل سکھانے کے لئے ایک (سنڈے، تعلیمی کلاس بھی کھولی گئی جو اب تک جارہا ہے.لجنہ اماءاللہ پا لینڈ بیرونی ممالک کی فقال لبنات میں سے ہے.سال میں جبکہ مسعودہ اکمل صاحبه لجنہ ہالینڈ کی صدرا اور مس رامتہ الحفیظ ( DERMEABAKS ) ماجہ نے سیکرٹری کے فرائض انجام دئے اس لجنہ نے مرکزی 7.1949-4 چندہ ، خاص تحریکات ، نصرت جہاں ریزرو فنڈ: وقف جدید اور چندہ ! طفال احمدیہ کی مدات میں ۷۱۸ گلڈرز (LDERSانا ، جمع کئے ہے P:69) 4 1969-70 (ANNUAL REPORT OF THE CENTRAL LAJNA, IMAILLAH ۱۳۳ له الفضل و شهادت/ اپریل :
IAN کی نمائندگی مبتلیغ اسلام حافظ قدرت اللہ صاحب نے کی اور عیسائیوں کی طرف سے مشہور پادری ڈاکٹر ایڈن برج (DR.IDEN BURG) پیش ہوئے جو چرچ سوسائٹی میں بائبل کے پروفیسر اور جاوا سماٹرا کے ایک سابق گورنرجنرل کے بیٹے اور مذہبی حلقوں میں اچھی شہرت کے مالک ہیں.جناب عبد الحکیم صاحب المال مجاہد ہالینڈ اس دلچسپ مناظرہ کی روداد پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :.اس دفعہ مشن ہاؤس میں ایک کامیاب مناظرہ ہوا عیسائیوں کی طرف سے جناب ڈاکٹر این برج (DR.LDEN BURG پیش ہوئے.ڈاکٹر موصوف انڈونیشیا کے ایک سابق گورنر جنرل کے لڑکے ہیں اور یہاں مذہبی حلقہ میں اچھی شہرت کے مالک ہیں.ہماری طرف سے مکرم جناب حافظ قدرت اللہ صاحب انچارج مبلغ ہالینڈ مشن نے حصہ لیا.مباحثہ سے چند دن قبل ہم نے ڈاکٹر صاحب موصوف کو مشن ہاؤس بلا کر مناظرہ کے لئے جملہ شرائط طے کیں.کافی بحث و تحیض کے بعد حضرت مسیح علیہ السلام کا مقام - موضوع بحث قرار دیا.جلسہ کا اعلان اخبارات میں دیا گیا.لوگ اس کثرت کے ساتھ آئے کہ بعض لوگوں کو سیڑھیوں میں بیٹھ کر اور انٹرنس ہال میں کھڑے ہو کر کارروائی سننا پڑی.پہلے وقت میں ڈاکٹر صاحب موصوف کو اس موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا موقعہ دیا گیا او بعد میں مکرم برادرم حافظ صاحب نے اسلامی نقطہ نگاہ پیش فرمایا.اس کے بعد لوگوں کو سوالات کی کھلی اجازت تھی جس کا اعلان اخبار میں خاص طور پر کیا گیا تھا.چنانچہ اکثر سوال کا رخ ڈاکٹر صاحب موصوف کی طرف رہا کیونکہ انہوں نے عیسائیت کے اصل معتقدات پیش کرنے کی بجائے اپنے پاس سے دلائل پیش کر کے اس مسئلہ کو کسی قدر قابل فہم بنانے کی کوشش کی تھی جس سے ایک حد تک وہ اسلامی نظریہ کے ہی قریب ہو گئے تھے.حاضرین میں عیسائی پادری اور ڈاکٹر صاحبان بھی موجود تھے.لہذا ڈاکٹر موصوف کے لئے سوالات کا یہ مرحلہ کافی کٹھن ثابت ہوا.ہمارے بعض دوستوں کی طرف سے بھی پوچھے گئے سوالات کے جواب میں ڈاکٹر صاحب موصوف صرف اس قدر کہ سکے کہ میں ان سوالات کا جواب نہیں دے سکتا.غرض خدا تعالیٰ کے فضل سے اسلامی نظریات کا لوگوں پر اچھا اثر
رہا یہ تہ لیتھولک اور پرائٹسٹنٹ عیسائیوں کی اسلام کے نام مولوی عبدالحکیم صاحب اکمل کا بیان اسلام کے خالی ہے کہ "ایمسٹرڈم میں عیسائی مناروں کی گٹھ گے جوڑا اور حضرت مصلح موعود کا پر حکمت ارشاد ایک بڑے پیمانہ کی کانفرنس ہوئی جس میں افریقہ ، یورپ اور بعض دیگر ممالک کے پادری صاحبان شامل ہوئے کیتھولک اور پر انسٹنٹ دونوں فرقوں کے لوگ شامل تھے.موضوع یہ تھا کہ افریقہ میں اسلام بڑی سرعت سے ترقی کر رہا ہے اور یورپ میں بھی اب پاؤں جانے لگا ہے اس لئے ان نئے حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک نئی کوشش کی ضرورت ہے.تجویز یہ ہے کہ کیتھولک اور پرائٹسٹنٹ فرقے مل کر اور متحدہ محاذ بن کر مقابلہ کی کوئی صورت بنائیں تا احسن رنگ میں کوششیں بار آور ہو سکیں لیبی کارروائی کے بعد کیتھولک فرقہ کے پادریوں نے کہا کہ در اصل مذہب تو کیتھولک ازم ہی ہے دوسرے لوگ تو احتجاجاً الگ ہوئے ہیں اگر وہ واپس آجائیں تو ہم ہر طرح مقابلہ کے لئے تیار ہیں.یہ بات دوسرے فرقوں کو ناگوار گزری اور وہ اتحاد احسن صورت میں نہ ہو سکا البتہ پھر بھی مالی امور کے بارہ میں کچھ سمجھوتہ ہو گیا.یہ خرخاکسار نے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں بھجوائی تو اس پر حضور نے اپنے خط میں تحریر فرمایا : ہالینڈ میں پرانسٹنٹ زیادہ ہیں مگر باقی یورپ میں رومن کیتھولک مذہب والوں کا زور ہے ان کی طرف تو سید دیں.رومن کیتھولک کا روم میں پوپ ہے وہ بھی ایک قسم کا خلیفہ ہے.اسلامی خلافت اور عیسائی خلافت کی ٹکر میں اسلام کی فتح ہو گی اس لئے رومن کیتھولک کی طرف زیادہ توجہ دیں.یہ لوگ دیر سے مذہب بدلتے ہیں مگر جب بدلتے ہیں تو بڑے بچے ہوتے ہیں.بگرہ مذہب ان میں بہت پھیل رہا ہے " کے 1-Y-09 کی پہلی ششماہی میں حافظ قدرت اللہ صاحب مبلغ انچارج اور مولوی تبلیغی دورے عبد الحکیم صاحب الکمل نے ملک کے مندرجہ ذیل تو شہروں کا تبلیغی دورہ کیا :- پا بند ریست که، خلار دنگی ، روٹرڈ، ڈیفت ، باریم ، ایمسٹر م اوت ریخت ہے، ، له الفضل در و نار جولائی صحت کالم دل سے غیر مطبوعہ 4 سے FLAARDINGEN L * + ROTTERDAM a PAPENDRECHT DELET ته HAARLEM شه UTRECHT 2 + AMSTERDAM +
الفرسوم، واختنگناه اس دورہ میں مبلغین اسلام کو نمبر ان جماعت سے ملاقات تبلیغی مجالس میں شمولیت اور مختلف سوسائٹیوں میں تقاریر کے مواقع میں سر آئے کہ ۲۰ صلح / جنوری ار کو ہالینڈ کے مرکزی شہر اوت ریخت مذاہب عالم کا نفرنسوں میں ( UTRECHT ) کے آزاد خیال لوگوں کی طرف سے ایک مذاہب اسلام کی موثر نمائندگی کا نفرنس منعقد کی گئی جس میں اسلام، ہند و حرم، یک دامت اور بہو دیت سے متعلق تقاریر کا وسیع پیمانہ پر انتظام تھا.اس موقعہ پر اسلام کی طرف سے حافظ قدری شد صاحب نے موثر رنگ میں نمائندگی فرمائی شیشے ازاں بعد اضاء / اکتوبر میں ایمسٹرڈم کے قریب $144 ہیم سفیدے (WEEHSTEDY) کے سب سے قدیم اور بڑے گرجے کی عمارت میں بھی ایک مذا ہب عالم کا نفرنس منعقد ہوئی جس میں ۲۷ انحاء کو اسلام کے نمائندہ کی حیثیت سے حافظ قدرت اللہ صاحب نے نماز کے موضوع پر لیکچر دیا.اس کا نفرنس کی یہ خصوصیت تھی کہ ہر ایکوار کو جبل معلومات اپنی مقدس کتاب ہی سے پیش کرنا ضروری تھیں پیشے اس کے علاوہ ہالینڈ کے ایک اور اہم شہر آرینیم (ARMHEM ) کے اندریاه انها را اکتوبر کے آخری ہفتہ میں ایک اور بین المذاہب کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں اسلام ، عیسائیت ، بدھ ازم ہندومت، صوفی موومنٹ ، ویجیٹرین گروپ اور ہونسٹ خیالات کے نمائندوں نے حصہ لیا.اس کا نفرنس میں بھی حافظ قدرت اللہ صاحب نے اسلام کی ترجمانی کے فرائض ادا کئے.حافظ صاحب کی پوری تقریر گہری دلچسپی اور انہماک سے سنی گئی.تقریر کے اختتام پر وقفہ سوالات تھا.صدر مجلس نے حاضرین کو سوالات کے لئے کہا مگر لوگ تھے کہ مبہوت ہوئے بیٹھے تھے کسی کو کچھ کہنے کی ہمت نہ ہوتی تھی ہے شه :HILVERSUM سے الفصل ۱۴ و فار جولائی ۳۰۳۸۵ WAGENINGEN L + ه الفضل در شهادت اليا 4194 ه الفضل ۱۰ صلح / جنوری هن۱۳۳۲ ص۳ ته الفضل ۱۳ صلح / جنوری ۶۱۹۶۱
۱۸۹ ۶۱۹۵۵ میں حضرت مصلح موعود اس سر زمین میں تشریف حضرت خلیفہ ایسیح الثالث کا سرزمین لائے تھے بارہ سال بعد بروز جمعہ ۱۴ ماہ وفا / جولائی الیت میں دو بار ورود مسعود م کو حضرت خلیفہ المسیح الثالث ایده الله ه تعالیٰ بھی اپنے مبارک سفر یورپ کے دوران زیورک سے ہالینڈ تشریف لائے حضور نے بیگ کی مسجد میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا.بعد ازاں حضورتے ایک پریس کا نفرنس سے خطاب فرمایا جس میں ڈچ ریڈیو کے نمائندہ کے علاوہ اخباری نمائندے بکثرت شامل ہوئے.ڈوچ پریس نے حضور کے بیان کو غیر معمولی اہمیت دی اور بڑی سنجیدگی سے اُسے پبلک کے سامنے پیش کیا.اگلے روز حضور اقدس کے اعزاز میں نماز ظہر کے بعد ایک استقبالیہ تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں احباب جماعت کے علاوہ بہت سے دیگر غیر از حجامت مسلمان دوستوں اور معززین شہر نے شرکت کی جن میں ہالینڈ کے مشہور مستشرق پروفیسر ڈاکٹر پیر.PRO) اور مشہور انجنیئر پروفیسر ام ، ہالینڈ کے صوفی گروپ (PRO.DR.PIPER) PRO.THIJSSEN بدھسٹ گروپ اور پروٹسٹنٹ گروپ کے لیڈر خاص طور پر قابل ذکر ہیں.اسی روز حضور کا ریڈیو سے خصوصی انٹرویو بھی نشر ہوا اور ۶ ماہ و فار جولائی کو حضور ہالینڈ کا نہایت موثر، مبارک 71946 اور کامیاب دورہ مکمل کرنے کے بعد ہمبرگ تشریف لے گئے.لے ڈھائی تین سال بعد جب حضرت خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے مشہور عالم دورہ افریقہ فرمایا تو واپسی پر حضور جن یورپین ممالک میں بھی تشریف لے گئے ان میں سب سے پہلا ملک ہالینڈ تھا جہاں حضور ہجرت مئی کو بذریعہ ہوائی جہاز سوا نو بجے پہنچے.ڈوچ نومسلم دُور دُور کے شہروں سے آکر 81920 میشن ہاؤس میں جمع تھے اور حضور سے شرف ملاقات حاصل کر کے پھولے نہ سماتے تھے.اس موقعہ پر ایک پورا خاندان ( FAM, SUFFNER ) اور ایمسٹرڈم کے ایک صحافی حضور کے دست مبارک پر بیعت کہ کے حلقہ بگوش احمدیت ہوئے.علاوہ ازیں ایک آزاد خیال عیسائی فرقہ سونگ لی (SWING LI ) کے لیڈر ڈاکٹر ہاؤٹ کیمپ DR - BUITY MP ) اپنے فرقہ کے چیدہ چیدہ نمبروں کا ایک گروپ لے کے حضور سے ملاقات کے لئے حاضر ہوئے حضور نے انہیں نصف گھنٹہ تک نہایت ایمان افروز رنگ میں تبلیغ اسلام کی.ڈاکٹر صاحب حضور کی گفت گو سے بہت متاثر ہوئے.اس عرصہ قیام میں ایک اسلامی ا ملخصاً الفضل مار وفا - ۱۹- وفا- ۱۳ ظهور ه۱۳۰۴۶ صدا ۲۰۳۰ ہیں.+
19- ملک کے سفیر نے حضور اور افراد قافلہ کو کھانے پر مدعو کیا اور جماعت احمدیہ ہالینڈ کی طرف سے بھی ایک ڈنر دیا گیا نیز صدر عالمی عدالت انصاف چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے حضور کے اعزاز میں دعوت چائے دی جس میں مستعد و ممالک کے معزز جج صاحبان موجود تھے حضور دو روزہ مختصر قیام کے بعد (جو ہالینڈ میشن کے لئے بہت بابرکت ثابت ہوا ) 14 ماہ ہجرت مئی کو انگلستان تشریف لے گئے.لے کا واقعہ ہے کہ ہالینڈ مشن کی طرف سے مسیح خدائے ذوالجلال کی قدرت کے کشمیر میں کے نام سے ڈچ زبان میں ایک مختصر سا پمفلٹ ایک نشان کا ظہور شائع کیا گیا.یہ کتا بچہ جب ایک کیتھولک اخبار کے چیف ایڈیٹر کو بلا تو اسے سخت غصہ آیا اور اس نے اپنے اخبار میں اس کے خلاف ایک مضمون لکھا کہ یہ کون لوگ ہیں.یہاں کیا کرنے آئے ہیں اور انہیں یہاں آنے کی کس نے اجازت دی ہے ؟ جب یہ مضمون اخبار میں چھپا تو ہالینڈ کے ایک مستشرق ڈاکٹر فان لیون (DR.A.TN.VAN LEEUWEN) نے اس پر ایک مضمون لکھا جس میں انہوں نے جماعت احمدیہ کی مختصر تاریخ اور اس کی تبلیغی و اشاعتی سرگرمیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے اس اخبار کے ایڈیٹر کے بارہ میں لکھا :.ہمارے ملک کے چرچ اخبارات میں سے ایک بڑے اخبار کے چیف ایڈیٹر نے احمدیہ مسلم میشن کے ایک پمفلٹ پر جو ان کے گھر کے لیٹریکس میں ڈالا گیا تھا بڑے غیظ و غضب کا اظہار کیا ہے اور وہ اس پر بڑے چھین نہیں ہوئے ہیں.اس مضمون سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایڈیٹر صاحب اب تک یہی سمجھے بیٹھے ہیں کہ اسلام کا نام بحر روم کے اُس پارہ افریقہ مشرق بعید یعنی انڈونیشیا میں جو کبھی ڈچ مقبوضات میں شامل تھا، لیا جاتا ہے.اور یہ امر ان کی حیرت اور اچنبھے کا موجب ہے کہ اسلام اب یورپ میں بھی اپنی تبلیغی سرگرمیوں کا آغاز کر چکا ہے بلکہ اب ان کے گھر تک آن پہنچا ہے.194 ( ORIENTATIE REEK I PAGE I ) له الفضل ۱۷-۲۱ ہجرت امئی همه ملت حضرت مصلح موعود اور حضرت خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کے دوروں کی تفصیل اپنے اپنے مقامات پر آئے گی.وبالله التوفیق قیام ہالینڈ کے محولہ بالا کو الف مولوی عبد الحکیم صاحب الکمل سابق انچار ج مشن ہالینڈ کی ایک غیر مطبوعہ تحریر سے ماخوذ ہیں ؟
191 اسی طرح ایک، اور اخبار HET PAROOL نے مسلمان پادری صاحبان سے مناظرہ چاہتے ہیں کے عنوان سے لکھا:.احمدی مسلمان پادریوں کو للکارتے ہیں.اور یہ سب کچھ ہالینڈ کے اندر ہو رہا ہے چنانچہ احمدیہ مسلم مشن ہیگ کے مبلغین کی طرف سے پادری صاحبان کو ایک خط موصول ہوا ہے جس میں اُن کے اعتقادات کے بارہ میں ونٹی سوالات کئے گئے ہیں.1947ء میں ہالینڈ کے رہنے والے ایک متعصب مستشرق ڈاکٹر HOUSEN نے اسلام کے خلاف ایک مضمون لکھا جس میں انہوں نے اسلام کے خلاف یہ اعتراضات اٹھائے تھے کہ ا جماعت احمدیہ اور مسجد بیگ کو ہالینڈ میں اسلام کا نمائندہ تصور کر نا غلط ہے.اس لئے کہ اسلام کی جو تشریح و توضیح ان کی طرف سے کی جاتی ہے اُسے ہم کسی صورت بھی اسلام کہنے کو تیار نہیں.۲ دوسرا اعتراض انہوں نے یہ کیا کہ اسلام کا خدا جابر اور قاہر خدا ہے اور یہ کہ مسجد بیگ سے حضر مسیح علیہ السلام کے بارہ میں جو پروپگینڈا کیا جاتا ہے کہ وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں یہ درست نہیں کیونکہ ان کا مسیح پر وہ ایمان نہیں جو ہم عیسائیوں کا ہے.اللہ تعالیٰ کی قدرت اِدھر مخالفت سے بھرا ہوا یہ مضمون نکلا اُدھر اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب کے لئے بھی بعض مخالفین کو ہی تیار کر دیا.چنانچہ ہالینڈ کے ایک کیتھولک اخبار" 66 - 1 ا نے مارچ ۹۶ائر کی اشاعت میں "جماعت احمدیہ عیسائی علماء کے لئے خوف و ہراس کا باعث ہے" کا عنوان دیتے ہوئے اس مضمون کا مفصل جواب دیا.چنانچہ اس نے لکھا :.پر وفیسر ڈاکٹر ہیو بن (HOUSEN ) نے ہمیں اپنا مضمون جو انہوں نے جماعت احمدیہ کے متعلق لکھا ہے غور سے پڑھنے کے لئے کہا ہے اور ان کے اس ارشاد کی تعمیل میں ہم نے اس مضمون کو غور سے پڑھا.اس کے مطالعہ سے مندرجہ ذیل دو اہم اعتراضات کا پتہ چلتا ہے جو انہوں نے اسلام اور احدیت پر کئے ہیں.اول یہ کہ اسلام ایک جابر اور قہار خدا کا تصور پیش کرتا ہے اور یہ کہ جماعت 15-15") نے ترجمہ بحوالہ " بیرونی ممالک میں تبلیغ اسلام اور اس کے نتائج " ص ۱۵ : "
197 احمدیہ اور مسجد بیگ کو ہالینڈ میں اسلام کا نمائید و تصور نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس جماعت کے پانی پر دوسرے مسلمان کفر کا فتوی لگاتے ہیں.اس طرح ان کی طرف سے اسلام کی جو تشریح اور توضیح کی جاتی ہے وہ اسلام نہیں کہلا سکتا ہے دوم یہ کہ مسجد بیگ سے مسیح ناصری کے بارہ میں جھوٹا پروپیگینڈا کیا جاتا ہے.کیونکہ ظاہری طور پر تو یہ کہا جاتا ہے کہ ہم مسلمان بسیج ناصری پر ایمان رکھتے ہیں لیکن در حقیقت ان کا ایمان اس ایمان سے بہت مختلف ہوتا ہے جو عیسائی رکھتے ہیں.“ اخبار مذکوران اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے لکھتا ہے :.پروفیسر ڈاکٹر سہیوبن کا اسلام کے متعلق یہ لکھنا کہ وہ ایک ماہر اور قہار خدا کا تصور پیش کرتا ہے سراسر مغالطہ انگیز ہے.اور یہ کہنا کہ اسلام میں تجدید و احیاء کی قوت کا فقدان ہے ڈور از حقیقت ہے کیونکہ خود جماعت احمدیہ تجدید و احیای اسلام کا ایک زندہ ثبوت ہے اور شاید اسی لئے وہ عیسائی علماء کے لئے خوف و ہراس کا باعث بنی ہوئی ہے.کچھ عرصہ ہوا پروفیسر ڈاکٹر کمپیس (CAMPS ) نے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا تھا اور اس جماعت کی طرف سے ہوشیار رہنے کی طرف توجہ دلائی تھی؟" آگے چل کر اخبار مذکور نے لکھا ہے کہ :." جماعت احمدیہ کی طرف سے اسلام کی تجدید و احیاء کی کوشش اس کی بنیادی تعلیمات یعنی قرآن کریم کے عین مطابق ہے.اس میں خدا تعالیٰ کا تصور یہ ہے کہ وہ اپنی مخلوق سے محبت کرنے والا ہے.یہ جماعت اس تعلیم کے نتیجہ میں بین الاقوامی انتوت کی دعویدار ہے.یہی وجہ ہے کہ اس جماعت نے ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھے رہنے والے مسلمانوں میں سے پانچ لاکھ کے قریب لوگوں کے قلوب میں تبلیغ و اشاعت اسلام کی روح پھونک کر تبلیغی مساعی کی حقیقی تڑپ پیدا کر دی ہے اور اس جماعت نے عیسائیت یا مارکسزم سے یہ نظریات سے اب الیہ مائیوں کی طرف سے دلائل سے عاجز آکر یہ کوشش کی جارہی ہے کہ کسی طرح مسلمانوں کے مختلف فرقوں میں اختلافات کو ہوا دے کر توجہ ہٹائی جائے خصوصاً جماعت احمدیہ کے متعلق یہ پروپیگینڈا کیا جا رہا ہے کہ یہ تو مسلمان ہی نہیں یہ اسلام کی نمائندگی کیسے کر سکتے ہیں.گویا یہ عیسائی اسلام کو زیادہ سمجھتے ہیں
۱۹۳ مستعار نہیں لئے بلکہ خالص اسلام کے پیغام کو لے کو ایک طرف پرانے خیالات کے مسلمانوں کی اصلاح کا کام شروع کیا ہے تو دوسری طرف اس پیغام کے ذریعہ عیسائی دنیا اور ہر یوں پر اتمام محبت کر دی ہے.یہ درست ہے کہ جماعت احمد یہ ساڑھے سینتیس کروڑ مسلمانوں میں ایک چھوٹی سی جماعت ہے.اسلام میں ان معنوں میں ORTHODOX اور متحدہ اکثریت موجود ہی نہیں جن معنوں میں کیتھولک عیسائی یہ لفظ استعمال کرتے ہیں.بلکہ ہم تو یہ کہیں گے کہ اسلام میں تو کیتھولک مذہب کی طرح DOG MAS اندھے عقائد ) موجود ہی نہیں اور نہ ہی اسلام اپنی تعلیمات پر کسی اور کو حکم تسلیم کرتا ہے.اس کی تعلیم کا ایک ہی مرچشمہ ہے اور وہ ہے قرآن.جس طرح اصلاح یافتہ عیسائیوں کے نزدیک اُن کی مذہبی کتاب بائیبل ہے اور جس طرح بائیبل کی آیات کی مختلف تشریحات و توضیحات سے متعد و فرقے پیدا ہوئے ہیں جو سب کے سب عیسائی ہی ہیں بعینہ اسی طرح قرآن کی تشریح اور تفسیر سے بھی مختلف و متعدد مکاتیب فکر معرض وجود میں آئے.لہذا کسی فرقہ کو اسلام سے مخارج قرار نہیں دیا جا سکتا.در اصل تجدید و احیاء کی بنیاد پر چرچ اور فرقہ میں فرق اور امتیاز کرنا ہمیشہ سے ہی ایک نہایت مشکل اور نازک مسئلہ رہا ہے مسلمانوں نے کبھی بھی علماء کو حکم نہیں مانا (جس طرح چرچ اور پوپ مذہبی عقائد میں اجارہ داری رکھتے ہیں نہ کہ کتاب، اور پھر دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قرآن جو ایک ہی وجود محمد صلے اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی کتاب ہے بائیبل کی نسبت زیادہ واضح زبان میں بات کرتی ہے.اور بائیبل کا یہ حال ہے کہ اس میں مختلف لوگوں کی باتوں کو بعد میں جمع کیا گیا ہے.احمدیت اسلام کی مختلف شکلوں میں سے ایک شکل ہے مگر یہ اسلام کی ایک ایسی ہی صورت ہے جو اسلام کی نمائندگی کرنے کا پورا پورا حق رکھتی ہے.اس تحریک کو یقیناًا مخالف خیالات رکھنے والے مسلمانوں کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہے مگریہ مخالفت کرنے والے علمی رنگ میں بات کرنے سے تہی اور کیتھولک ذہنیت ہی کے منظر نظر آتے
۱۹۴ ہیں جو اپنے خیالات سے اختلاف رکھنے والوں کو کافر اور دائرہ مذہب سے خارج قرار دیتے ہیں.پروفیسر ڈاکٹر ہیوبن نے اپنے مضمون میں گیارہ نکات ایسے بیان کئے ہیں جو اُن کے خیال میں احمدیوں اور دیگر مسلمانوں کے درمیان مابہ النزات ہیں لیکن اُن کی یہ بات بھی ایسی ہی ہے جیسے کیتھولک مکتب فکر کی موجودہ مغالطہ انگیز شکل ہے.احمدیہ جماعت کو اسلام سے منحرف دن اُس وقت قرار دیا جا سکتا ہے جبکہ وہ قرآنی تعلیمات سے روگردانی کرے مگر جماعت احمدیہ کا تو یہ عقیدہ ہے کہ قرآن کریم کی کوئی آیت بھی منسوخ نہیں نہ آئندہ ہو سکتی ہے.نیز یہ کہ اگر کہیں یہ محسوس ہو کہ ایک آیت کسی دوسری آیت کی مخالف ہے تو وہاں پر وہ تضاد کسی غلط تشریح کی وجہ سے پیدا ہوا ہو گا یے (ترجمہ) یورپین پادریوں نے اسلام اور بانی اسلام صلی اللہ علیہ کوم کیتھولک سنٹر کو دعوت مقابلہ کے نورانی چرہ کو بگاڑ کر پیش کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی مشہور ڈچ مستشرق سی.ایں.ہر خون سے (CS - HUR GROWN TE ) محمد ازم" میں کا لکھتے ہیں " ہر وہ بات جو اسلام کو نقصان پہنچانے کے لئے اختیار کی جاتی یا گھڑی جاتی تھی یورپ ایک لانچی اور حریص آدمی کی طرح اسے اچک لیتا تھا حتی کہ ازمنہ وسطیٰ میں ہمارے آباد و اعداد کے ذہنوں میں حمد کا جو تصور قائم تھا وہ آج ہمیں ایک انتہائی طور پر مکروہ اور گھناؤنی شکل کے مترادف نظر آتا ہے: (ترجمہ) اس سلسلہ میں صدیوں سے خاص طور پر یہ اعتراض وسیع پیمانہ پر پھیلایا اور مہرنسل میں اچھی طرح راسخ کیا گیا کہ اسلام تلوار کا مذ ہب ہے.ہالینڈ رشن نے ٹیلی ویژن ، ریڈیو، اخبارات کے انٹرویو اور اپنی تقریروں اور تحریروں کے ذریعہ اس جھوٹ کی خوب قلعی کھولی ہے کے مگر متعصب پادری ہیں کہ آج تک یہ منہ الطہ دیئے جا رہے ہیں سے بحوالہ جماعت احمدیہ کے ذریعہ اسلام کی تبلیغ و اشاعت ملا دینا - لیکچر صاجزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل الاعلى ووكيل التبشير بر موقعه جاسہ سالانہ ر ہ سے ڈاکٹر دیونگ (بیگ نے حافظ قدرت الله صاحب کی کتاب (WHAT IS ISLAM ) کے دیباچہ میں لکھا :- اسلام کے بارے میں یہاں لوگوں کو بہت ہی کم صیحیح معلومات مہیا ہوئی ہیں.مثال کے طور پر ہم باریا پڑھتے ہیں کہ مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اپنا مذہب تلوار کے ذریعہ پھیلائیں لیکن اس کے برعکس قرآن کریم (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر)
*1948 دور ہ کا ذکر ہے کہ ہالینڈ کے کیتھولک سنٹر APASTORAL نائمین (NIMEGEN) کے ایک ماہوار پمفلٹ میں ایک مستشرق صاحب نے اسلام کے خلاف اسی خیال کی بنا ء پر ایک مضمون لکھا جس کا احمدیہ شن کے انچارج جناب عبدالحکیم صاحب اکمل نے فوری نوٹس لیا اور انہیں ایک مکتوب مفتوح کے ذریعہ سے للکارا کہ اگر اُن کے موقف میں ذرا برابر صداقت موجود ہے تو وہ اپنے و خوبی کے ثبوت میں کوئی ایک آیت قرآنی ہی اس کے سیاق و سباق کی روشنی میں پیش کر دکھائیں.مگر مستشرق صاحب مذکور اس چیلنج کا جواب تک نہ دے سکے اور کا سر صلیب کے شاگردوں کے مقابل بالکل چپ سادھ لی مینه جماعت احمدیہ کے علا وہ ہالینڈ میں بہت سے اجتماعی یکی کند و ترک اور مراکش کے مسلمانوں کی خدمت ترکی اور مر کسی مسلما بھی آباد میں جا نے مشکل مراکشی اپنے مسائل و معاملات میں احمدیہ مشن ہاؤس کی طرف رجوع کرتے ہیں اور احمدی مبلغ اُن کی خدمت کے لئے ہر وقت مستعد اور کمر کیسے تہ رہتے اور اس میں بہت خوشی محسوس کرتے ہیں.مدت سے یہاں ایک مشکل مسئلہ درپیش تھا مسلمان ہالینڈ میں گوشت کا استعمال اپنے انتظام کے تحت باقاعدہ اسلامی ذبہیجہ کی شکل میں کرنا چاہتے تھے مگر حکومت کا قانون اس کی اجازت نہ دیتا تھا.اس پر مبلغ ہالینڈ صلاح الدین خان صاحب نے حکومت کے متعلقہ محکمہ کو اس طرحت بذریعہ خطوط توجہ ولائی اور حکومت نے اس کی اجازت دے دی سیکھ ی شام میں ہالینڈ میشن کو فروری نابیناؤں کیلئے پر ترجمہ قرآن کیلئے خصوصی تعاون ایک خوشخبری یہ ملی کہ نابیناؤں کے بقیه حاشیه صفحه گذشته : میں واضح طور پر قربان ہے کہ " لا اکراہ فی الدین اسلام کے جملہ مکاتیب منکر میں سے صرف جماعت احمد یہ ہی ایک ایسا اسلامی فرقہ ہے جس نے اسلام کی مکمل اور واضح تصویر پیش کی ہے." دیباچه 2 JULY 1958" WHAT IS Islam” حاشیہ متعلقہ صفحہ ہذا :- الفضل ۳۰ طور اگست هرم ۳۳ ص ل الفصل ٣١- اخفاء / اكتوبر ١٣٢٩ ۳۱ جنگ - 7194.DR.K.H.E, DE JONG
۱۹۶ رسم الخط میں ڈوری ترجمہ قرآن تیار کیا جائے گا.اسلام اور احمدیت سے بڑھتی ہوئی دلچسپی کے پیش نظر ہالینڈ کے نابیناؤں کی انجمن کے ڈائریکٹر کے دل میں یہ خیال آیا.چنانچہ انہوں نے اس سلسلے میں مشن کو اپنے خیال سے آگاہ کیا.ایک ڈچ قرآن کا مطالبہ کیا.مبلغ ہالینڈ صلاح الدین خاں صاحب نے ان سے خط و کتابت کی اور ایک ڈچ قرآن کا نسخہ بھیجوا دیا نیز لکھا کہ اگر زیادہ مہنگا نہ پڑے تو ایک نسخہ ہالینڈ میں جماعت احمدیہ کے مشن کی لائبریری کے لئے بھی تیار کیا جاوے جس پر اُن کا جواب آیا ہمیں ایک نسخہ بناتے ہیں ایک سال کا عرصہ درکار ہو گا لہذا یہ کام بہت مہنگا ہے مبلغ ہالینڈ نے اُن کو لکھا اگر اِس قدر مہنگا ہے تو مش متحمل نہیں ہو سکے گا لہذا میشن کے لئے نہ بنوایا جائے.مگر اُن کا جواب ملا کہ چونکہ آپ نے ہمارے ساتھ تعاون کیا ہے لہذا ہم اب ایک کی بجائے دو نسخے تیار کریں گے ایک اپنی انجمن کے لئے اور دوسرا آپ کے مشن کی لائبر میری کے لئے.اُمید ہے کہ نابیناؤں کے رسم الخط میں ڈچ قرآن کے یہ نسخے ایک سال یا اس سے کچھ زیادہ عرصہ میں تیار ہو جائیں گے.عیسائی حلقوں کی طرف سے ہالینڈ میں ہالینڈ میں اسلامی مشورہ کے قیام کا ایک نمایان لہ و عمل یہ ہوا کہ عیسائیت (جسے قبل ازیں ملک چرچ کے زوال کا واضح اعتراف میں اجارہ داری حاصل تھی کھلے طور پر زوال پذیر ہے اور خود عیسائی حلقوں کی طرف سے اس کا واضح لفظوں میں اعتراف کیا جا رہا ہے.اس ضمن میں ہیگ شہر کے اعلیٰ طبقہ میں مقبول روزنامہ " HET VADER LAND " اپنی اشاعت مورخہ ۲۳- جون ۹۶ہ میں لکھتا ہے :- ہالینڈ کی پرائٹسٹنٹ انجمن کی ہیگ شاخ نے بڑے غور کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے کہ موسیم گرما میں چرچ میں عبادت کرنا بند رکھا جائے.لہذا آئندہ سال سے جہینہ کے پہلے اتوار کی صبح کوئی عبادت نہیں ہوا کرے گی.یہ اہم فیصلہ بیگ شہر کی پرائٹسٹسٹ انجین کی مرکزی کمیٹی کو لوگوں کی چرچے میں آنے میں غیر معمولی کمی کے باعث کرنا پڑا ہے.عبادت کے اجتماعات حسب اوقات فری مین سوسائٹی کے ہال میں منعقد کئے جاتے ہیں.آخری عبادت کے اجتماع میں جبکہ ایک مہمان پادری نے امامت کے فرائض سر انجام دیئے صرف انکیش آدمی حاضر تھے.
194 ام شاخ کے چرچ پادری یعقوب (DS - JACOB) نے استعفیٰ دے دیا ہے.یہی اخبار اپنی ایک دوسری اشاعت مورخہ ۲۳ ستمبر ہ میں رقم طراز ہے:- بیگ شہر کے دیار نڈر چوٹ کی انہوں نے اپنی حالیہ سالانہ رپورٹ سائے میں لکھا ہے کہ اس سال کے دوران ان کے ممبران میں سے سات ہزار آدمی چلے گئے ہیں ؟ اخبار نے مزید لکھا کہ : ول 194 میں جبکہ 19ء سے لے کر شاہ تک کے عرصہ کی رپورٹ مرتب کرتے وقت اس عرصہ میں چرچ چھوڑ کر جانے والوں کا جائزہ تیار کیا جائے گا تو یہ واضح ہو جائے گا کہ اس عرصہ میں چوٹ سے علیحدہ ہونیوالوں کی تعداد پچاس ہزار ہو چکی ہے.ایک دوسرے آزاد خیال عیسائی حلقہ کا اخبار سونگلی (SWINGLI) اپنی اشاعت مورخہ ۲۶ ستمبر ۱۹۶۷ء میں لکھتا ہے :.(DR.کیا پچانش سال بعد ایک بھی چرچ باقی رہ جائے گا ؟“ نیز ایک پرائٹسٹنٹ مناد ڈا کٹر فان دورون ( DR ، VAA WDERDEN ) کے ایک مضمون کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ پادری صاحب نے لکھا ہے کہ :." ان حالات کو دیکھتے ہوئے جو روزانہ میرے اردگرد ہو رہے ہیں لیکن علی وجہ البصیرت یہ کر سکتا ہوں کہ جہاں جہاں عیسائی منا د اور انجمنیں پرانی ڈگر پر گا مزن ہیں چرچ ڈگمگاتا ہوا نظر آرہا ہے اور ڈگمگانے کا یہ سلسلہ تیز رفتاری سے بڑھتا جا رہا ہے یا ترجمہ ہالینڈ میں عیسائیت جس تیزی کے ساتھ انحطاط ہالینڈ میں اسلام کی واضح پیش قدمی از زوال کے گڑھے کی طرف جارہی ہے اس اور ابتدائی فتوحات عیسائی چری کی نظرمیں سے زیادہ برق رفتاری کے ساتھ اسلام خدا کے فضل و کرم ، نظام خلافت کی برکت اور مبلغین احمدیت کی شبانہ روز مسائی کے نتیجہ میں آگے ہی آگے بڑھتا جا رہا ہے اور نہایت قلیل عرصہ میں اس نے ملک کے علمی میدان میں واضح پیش قدمی کی ہے.عبیات احمدیہ کو اس بارے میں اب تک جو فتوحات حاصل ہوئی ہیں وہ اگر چہ بظاہر بہت معمولی اور ایک خوشکی ه الفضيل ۱۲ نبوت/ نومبر /١٣ هما الله...
ابتداء سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتیں مگر اپنی نوعیت کے اعتبار سے یقینا غیر معمولی ہیں.اس حقیقت کا کسی قدر اندازه ولندیزی پولیس خصوصا چرچ کے اخبارات و جرائد سے کیا جا سکتا ہے.اس ضمن میں بطور مثال صرف چند تحریرات ملاحظہ ہوں.(1) ایک روز نا ملائیے سے گرنت (EDESCHE COURANT) اپنی 11 اکتوبر شاہ کی اشاعت میں ہالینڈ کے لوگوں کو بڑے واضح رنگ میں متنبہ کر تا ہوا انکھتا ہے کہ اسلام کے بڑھتے ہوئے نفوذ کو اور احمد ڈیشن کی سرگرمیوں کو معمولی خیال نہ کریں.اس سنکے بعد لکھتا ہے کہ جماعت احمدیہ محمد صلے اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے لئے بہت روشن مستقبل کے خواب دیکھ رہی ہے اور خاص طور پر یورپ یلی یہ پھر لکھا ہے آرہ جب تک یورپ پھر سے ایک دفعہ پورے طور پر متحد ہو کر مسلمانوں کے متحدہ محاذ کا جس میں جماعت احمد یہ سب سے زیادہ قویتہ والی مشینری ہے ڈٹ کر مقابلہ نہ کرے اس وقت تک یہ سیلاب رکھنے والا نہیں ہے (۲) ہینگ کے ایک کثیر الانشاء سے اخبار نیو ہا گئے کرنت (N.H.COURANT ) اپنی ۲۰.ستمبر شہد کی اشاعت میں زیر عنوان مغربی یورپ میں اسلامی مہم کا آغاز لکھا :- گزشتہ ۱۱ ، ۱۲ سال کے عرصہ میں یورپ نے کسی بڑی تعداد میں اسلام کو عملاً قبول نہیں کیا مگر یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ اس عرصہ میں جماعت احمدیہ کی کوششوں سے ایک بھاری تعداد اسلام سے ہمدردی رکھنے والوں کی ضرور پیدا ہوگئی ہے.کا اسی طرح ہالینڈ مشن کے مختلف اخبارات نے ایک دفعہ اسلامی ہلال یورپ کے اُفق پر کے موضوع پر اس خیال کا اظہار کیا کہ.یورپ کا نوجوان طبقہ عیسائیت سے کچھ بیزار ہو رہا ہے اور اس کے نتیجہ میں وہ کسی بھی دوسری چیز کو قبول کرنے کے لئے آمادہ ہو جاتا ہے.دوسری طرف اسلام یوری میں اتحاد کا علم لئے ہوئے ہے اور یہ نوجوان طبقہ اور بائل ہو رہا ہے.اس بہاؤ کو رکنے کے لئے بس کا سب سے طاقت ور انجن جماعت احمدیہ ہے ان کی راہ میں ایک ستون گاڑنا ہو گا " سے له الفضل، از شهادت / اپریل ان کالم را به سه بخواله رساله خالد ربود ایمان کرماریچه ها تارا 7149⑈ 41494
144 (۳) اخبار نیو ہا گئے کرنت (NIEUWE HAAGSCHE COURANT ) ( ہیگ) نے اپنی ۲۰ ستمبر شملہ کی اشاعت میں غربی یورپ میں اسلامی مہم کا آغاز کے زیر عنوان لکھا:.اسلام کسی خاص قوم یا علاقہ کا مذہب نہیں ہے بلکہ یہ ایک عالمگیر مذہب ہے اور موجودہ عالمی مشکلات کا حل اس میں مضمر ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ گیارہ بارہ سال کے عرصہ میں یورپ کی کسی قابل ذکر تعداد نے اسلام کو عملاً قبول نہیں کیا نگر ی حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ اس عرصہ میں اس جماعت کی کوششوں سے ایک بھاری تعداد اسلام سے ہمدردی رکھنے والی ضرور پیدا ہو گئی ہے.لے (۴) مشنری سکول کے طلباء کی کانفرنس کے موقعہ پر ایک مشہور مستشرق ڈاکٹر فان لیون.DR) (A.TH - YAN LEELWEN نے بیان کیا کہ :- گزشتہ صدیوں میں عیسائیت صرف مغربی ممالک تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ مسلم ممالک میں بھی تھیلی.مگر اب تصویر کا دوسرا رخ یہ نظر آرہا ہے کہ ایک عرصہ سے اسلام بھی احمد یہ تحریک کے ذریعہ عیسائی ممالک میں چھیل رہا ہے بلکہ خاص مغربی ممالک میں بھی یہ مشنری سکول کے اخبار میں بھی اسی پر وفیسر کا ایک بیان شائع ہوا کہ احمد یہ تحریک کے نام لیوا بڑی جانفشانی سے اسلام کو دنیا میں پھیلانے میں کوشاں ہیں.خاص طور پر افریقہ میں پھر مغربی ممالک میں جن میں ہمارا ملک ہالینڈ بھی شامل ہے انہیں خاصی کامیابی حاصل ہوئی ہے.ڈاکٹر فان لیون (DR.VAN LEEUWEN ) نے دینا ریٹ پورٹ کے سالانہ اجلاس میں المطابق اختبار تراؤس TROIS ۲۷ اپریل 19) علی الاعلان اس حقیقت اور ضرورت کا بھی اظہار کیا کہ احمدیہ کشن جو ہمارے ملک میں اسلام کی تبلیغ کے لئے کوشاں ہے اور جس کی ہیگ میں مسجد بھی ہے ) اس سے رینا ریڈ چہرہ تعلق قائم کرے اور بات کر کے کسی نتیجہ پر پہنچے تو ہتر ہے.(۵) ہالینڈ ریفارنڈ چوت کا نمائندہ اخبار" ہر فارٹڈ نیدرلینڈ (NEDERLAND نے اپنی ۲۳ جولائی شائد کی اشاعت میں زیر عنوان مسلم مشن زندہ چرچ رساله خالد ربوده امان / مارچ ( HERVORMD ۱۳۲۵ ۲۲-۲۵۰ : له الفضل ، ارشادت / اپریل اٹ کام 194
۲۰۰ کے لئے ایک صحت مند چیلنج ہے" لکھا :- آج سے دس سال قبل اسی اخبار میں یہ سوال زیر بحث تھا کہ یہ لوگ (احمدیہ مشن والے) کیسی لئے یہاں آئے ہیں.ہمارے ملک میں ان کا کیا کام ہے اور یہ کہ کس نے نہیں یہاں آنے دیا.وغیرہ وغیرہ مگر اب حقیقت کھلی ہے کہ یہ لوگ بڑے پیتے ارادے سے آئے تھے اور پورے طور پر سنجیدہ تھے اور اس کا ثبوت اس وقت ملا جب شار میں انہوں نے ہیگ میں ایک مسجد تعمیر کر کے رکھ دیا ( ترجمہ ) (4) مندرجہ ذیل مبسوط مضمون ہالینڈ کے پانچ روزناموں میں تصاویر اور جلی عنوانات کے ساتھ شانہ میں شائع ہوا :- "یورپ کے عیسائی مشنری تو کئی صدیوں سے تمام دنیا میں عیسائیت پھیلانے میں کوشاں ہیں لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد سے خصوصاً مشرق کے مسلمان مشتری بھی یورپ میں قدم جما رہے ہیں.وہ اسلام کی اشاعت کرتے ہیں اور اپنی تبلیغی مساعی میں سرگرم عمل ہیں.پورپ کے متعدد ممالک میں انہوں نے مساجد تعمیر کی ہیں.ایک مسجد انہوں نے ہالینڈ میں بھی تعمیر کی ہے.یہ واحد ڈچ مسجد سیگ میں ہے.یہ ہمارے ملک کے مسلمانوں کا روحانی مرکز ہے جہاں سے وہ اپنے عقائد کی تبلیغ کرتے ہیں.یہاں سے سارے ملک میں چھوٹی اور بڑی مختلف کتا بیں تقسیم کی جاتی ہیں.تقاریر کی جاتی ہیں اور قرآن پر بہت توجہ دی جاتی ہے مسلمانوں کی اس مقدس کتاب کے ڈچ ترجمہ کی چھے ہزار جلدیں ہالینڈ کے لوگوں کے ہاتھوں میں بھا چکی ہیں.علاوہ ازیں انگریزی اور جرمن تراجم بھی تقسیم کئے گئے ہیں تبلیغ اسلام کا یہ سارا کام جماعت احمدیہ کے ذریعہ سر انجام دیا جاتا ہے جس کی بنیاد میں رکھی گئی مسلمانوں میں ہیں ایک جماعت ہے جو تبلیغ اسلام کے فرض کو نبھا رہی ہے اور مسلمانوں میں تجدید دین اور اسلامی شریعت کو قائم کرنے کے لئے کوشاں ہے.جماعت احمدیہ کا مرکز ربوہ، پاکستان میں ہے جہاں سے ایشیا کے مختلف ممالک، ه الفضل ارشہادت / اپریل ملا کالم : 1 ۶۱۹۲۳ کی
یورپ، افریقہ اور امریکہ میں مبلغین بھیجے جاتے ہیں.یہ میلین عملی میدان میں قدم رکھنے سے پہلے چار پانچ سال کی ٹریننگ حاصل کرتے ہیں.ہمارے ملک میں چودہ سال سے اسلامی مشتری کام کر رہے ہیں.ان کے مشن نے یہاں ۲ جولائی شاہ سے کام شروع کیا تھا اور دسمبر 2 ماہ میں ہیگ میں مسجد کا افتتان ہوا.ہالینڈ میں احمدیہ جماعت کے لیڈر اور مسجد کے امام مسٹر کیو یو حافظ ہیں جو یہاں شاہ سے (سوائے چار سال کے وقفہ کے) کام کر رہے ہیں.ہمارے ملک میں لمبے قیام کی بدولت مسٹر حافظ ڈچ بہت اچھی طرح جانتے ہیں.حافظ ان کا اصل نام نہیں ہے ان کا اصل نام ڈچ لوگوں کے لئے ادا کرنا کچھ مشکل ساہے حافظ ایک لقب ہے جو قرآن کو زبانی یاد کرنے والے افراد کو ان کی عزت افزائی کے لئے دیا جاتا ہے.یہ مسجد خالصتاً احمدی جماعت کی مستورات کے چندوں سے بنی ہے.یہاں ہر جمعہ کے دن دو پر ڈھلنے پر نماز جمعہ ادا کی جاتی ہے اور اس کے قریب ہی ایک کمرہ میں بیٹھ کر باہم تبادلہ خیالات کیا جاتا ہے.جب کوئی جسمان ملاقات کے لئے آتا ہے تو اسے نہایت خندہ پیشانی اور خوش اخلاقی سے خوش آمدید کہا جاتا ہے.پھر امام صاحب اسے اپنے مشن کے اغراض و مقاصد سے آگاہ کرتے ہیں.ان کے نائب مسٹر صلاح الدین مشنری کام میں مدد کے لئے حال ہی میں پاکستان سے آئے ہیں.جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے اسلام میں احمدیت ہی وہ واحد تحریک ہے جو مشنری کے فرائض سر انجام دے رہی ہے.اسی طرح حضرت احمد کی قائم کی ہوئی یہ تحریک قرآن کی خالص تعلیم کو عملی جامہ میں دیکھنا چاہتی ہے.یہ مسلمان اپنے عقیدہ کی تبلیغ تلوار کے ذریعہ نہیں کرتے بلکہ وہ اپنی مقدس کتاب کے اس حکم پر بڑی مضبوطی سے کاربند ہیں کہ مذاہب میں کوئی خیر نہیں ہونا چاہیئے.مسٹر حافظ اس امر کو یوں بیان کرتے ہیں کہ ہماری تحریک کی کوشش یہ ہے کہ دنیا میں اتحاد و اتفاق پیدا ہو.عیسائیوں سے بھی ہمارے تعلقات برادرانہ ہیں.ہم دنیا میں امن اور رواداری کی فضا پیدا کرنا چاہتے ہیں.اسلام اپنے پیروؤں کو دوسرے مذاہب کی تضحیک سے روکتا ہے اور مسلمانوں کو غیر مذاہب کی
۲۰۲ خوبیوں کا احترام کرنا سکھاتا ہے.ان مبلغین کا اولین مقصد لوگوں کو مسلمان بنانا ہی نہیں بلکہ اسلام کے متعلق پیدا کہ وہ غلط فہمیوں کا ازالہ کرنا بھی ہے.ہم چاہتے ہیں کہ اسلام کو بہرطور پہ تھا جائے کیونکہ درسی کتابیں خصوصاً اسلام کی صحیح تصویر کو پیش نہیں کرتیں.ہمارے دلوں میں عیسائیت کا پورا احترام ہے ہم حضرت عیسی کو خدا کا ایک برگزیدہ نبی تسلیم کرتے ہیں.قرآن میں قریباً تمام اسرائیلی نبیوں کا تذکرہ موجود ہے.احمدید تحریک خالصتنا ایک مذہبی تحریک ہے اور وہ سیاسیات میں نہیں اُلجھتی.لفظ " اسلام" کے معنی پر زور دیتی ہے جس کے معنے ہیں امن و آشتی قائم کرنا مسلمان و شخص ہے جو غذا سے اور بنی نوع انسان سے امن کے تعلقات قائم کرتا ہے.خدا کے ساتھ امن رکھنے کے معنی ہیں اس کی مرضی کے آگے کامل طور پر مجھک جانا جو کہ ہر قسم کی پاکیزگی اور نیکی کا منبع ہے.بنی نوع انسان سے امن قائم کرنے کے معنی یہ ہیں کہ دوسروں سے نیکی اور بھلائی کی جائے.اس تحریک کے پیرو اس خیال کو غلط سمجھتے ہیں کہ (حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی پیروی صرف مشرقی لوگوں ہی کا حتی ہے ان کے نزدیک اسلامی تعلیم ایک عالمگیر تعلیم ہے اور مغرب کے لوگوں کے لئے بھی یکساں اہمیت رکھتی ہے.یہ مشنری یورپ اور امریکہ ملی سرگرم عمل ہیں.اس تحریک میں شامل ہونے والوں کو اپنے مشاغل کی سر انجام دہی کی راہ میں ہرقسم کی تکلیف گوارا ہے.بہت سے ممالک میں انہوں نے مساجد تعمیر کی ہیں.یورپ میں ان کے مندرجہ ذیل مراکز ہیں.ہمبرگ ، فرینکفورٹ، لندن ، زیورپ میں بھی ایک مسجد تعمیر کرنے کی تیاری کی جارہی ہے.اسی طرح کوپن ہیگن میں بھی ایک مسجد بنانے کی تجویز ہے.امریکہ میں بارہ مراکز ہیں.افریقہ کے مغربی اور مشرقی ساحلوں پر مشنری کام نہایت زوروں پر ہے جہاں بہت سے افراقی اسلام قبول کر رہے ہیں.اسلامی مبلغین کی کاوشوں کا رد عمل یہاں مختلف ہے.چودہ سال قبل جب مسٹر حافظ ہالینڈ پہنچے تھے تو کل و ٹیسٹ (CALVINIST) ایک کٹر عیسائی فرقہ کے اخبار نے پوچھا " کیا سرزمین -
۲۰۳ نیدر لینڈ پر اب ہلال طلوع ہو گا یا ہم مسٹر حافظ منا کو بتا دینا چاہتے ہیں کہ ان کی آمد سے ہم با نکل خوش نہیں یہ سرد مہری سے استقبال کئے جانے والے مسلمان نے بڑی محبت کے ساتھ جواب دیا "ہم تو یا ہم رواداری اور اخوت کی تبلیغ کرتے ہیں.یہ اخبار کل و ٹیسٹ (CALVINIST ) کے لب ولہجہ سے بظاہر سٹر حافظ نے ہمت نہ ہاری مسٹر حافظ نے کہا " لیکن یہاں کام کرنا پسند کرتا ہوں اور یکن یہاں اپنے ملک سے بھی زیادہ مانوسیت محسوس کرتا ہوں “ انہوں نے عیسائی مشنریوں سے جن میں کچھ پادری بھی ہیں خوشگوار تعلقات قائم کر رکھتے ہیں.وہ رومن کیتھولکس سے بہت ہمدردی رکھتے ہیں کیونکہ وہ مذہب کی رسی کو مضبوطی سے تھامنا بجانتے ہیں.یہ حبیب بات ہے کہ اسلام کے متعلق پیر ٹسٹنٹ عیسائیوں کے مقابلہ میں کیتھولک عیسائیوں میں زیادہ دلچسپی پائی جاتی ہے.ڈچ نو مسلموں میں سے زیادہ تر پہلے رومن کیتھولک فرقہ سے تعلق رکھتے تھے.ان کے علاوہ نیدرلینڈ میں تقریباً ایک ہزار مسلمان ہیں جن میں طلباء بھی ہیں.انڈونیشیا اور ڈچ گی آنا کے مسلمان بھی ہیں اور مسلمان ممالک کے سفارت خانوں کے کارکنان بھی شامل ہیں بہت سے ڈچ نو مسلموں کا پہلے افریقہ سے یا مشرق سے کوئی نہ کوئی تعلق رہا ہے.ایک وچ نو مسلم کو جو پہلے رومن کیتھولک تھا اپنے تجربات کے متعلق کچھ بتانے کے لئے کہا گیا تو وہ کہنے لگے " ایک نوجوان کی حیثیت سے یکی زیادہ دیر رومن کیتھولک عقیدہ پر ایمان نہ رکھ سکا.اسلام سے متعلق ایک کتاب میرے ہاتھ لگی اور یکن نے مسٹر حافظ سے راہ و رسم پیدا کی.بیگفت گو آسان نہ تھی کیونکہ جو کچھ آپ کو گھر سے ملا ہے اس سے آپ آسانی سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتے مسلمان ہو کر آپ کو میرا گندہ حالات میں سے گزرنا پڑتا ہے اور خاندان میں آپ کی حیثیت کالی بھیڑ کی سی ہو جاتی ہے.میرے والد مجھے ایک پادری کے پاس لے گئے کہ میں اس سے گفتگو کروں میں نے ایسا ہی کیا مگر یہ امر میری نظر انتخاب کو نہ بدل سکا ماہنامہ الاسلام ڈچ زبان میں جو احمدی سلام میشن بیگ سے شائع ہوتا ہے اس میں
۲۰۴ ایک سابق رومن کیتھولک نوجوان کا مضمون (اسلامی تعلیم کے اس پہلو پر نمایاں طور پر روشنی ڈالتا ہے کہ ہم مسلمان ہیں.لفظ مسلم کے حقیقی معنوں میں.ہم نے اس چیز کو حاصل کر لیا ہے جیسے قرآن پاک ہماری زندگی کا مقصد قرار دیتا ہے." مسٹر حافظ اور ان کے اسسٹنٹ ہمارے ملک میں اتنا کام نہ کر سکتے اگر ان کو دوسر نے سلمانوں کا تعاون حاصل نہ ہوتا لیکن یہ امر واضح ہے کہ یہاں کے مسلمان (حضرت محمد (صل اللہ علیہ ولیم کی تعلیم کے پر جوش اور سرگرم پر وہیں مسٹر حافظ کہتے ہیں ہرمسلمان کو چاہیے کہ اپنے تئیں ایک مشنری سمجھے اور وہ چیز جو ان کے اور عیسائیت کے درمیان ایک بندھن کا رنگ رکھتی ہے یہ ہے کہ دونوں مذاہب لا تذہب کمیونزم کو نا پسند کرتے ہیں.مسٹر حافظ کہتے ہیں مشتری سرگرمیوں کے طفیل ہماری جماعت میں شامل ہونے والوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے" قدیم اسلامی اخوت جو حضرت محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم) کے زمانے میں پائی جاتی تھی اب دوبارہ زندہ ہو رہی ہے." اس مہینے میں ہم سب مسلمان پھر رسول خدا حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی یاد کو تازہ کریں گے یا آپ کے یوم پیدائش کی تقریب ۲۳ اگست کو اسی مسجد میں منائی جا رہی ہے.اس مسجد کی چھتوں پر ٹر حافظ چند مینا رے بنوانا چاہتے ہیں.یہ کام غالباً مستقبل قریب میں ہی ہو جائے گا تب یہ اسلامی عبادت گاہ بڑی آسانی سے پہچانی جائے گی یہ ماہ (ترجمہ) (۷) ایمسٹرڈم کا ایک مشہور کثیر الاشاعت روزنامه همیت پارول HET PAROOL اپنی ۳.مارچ 199 ء کی اشاعت میں لکھتا ہے عیسائیت کو چیلنج " " مشرقی مذاہب کی پیش قدمی.اس " تین کالم کی موٹی سرخی کے بعد ایک لیے مضمون کے تسلسل میں یہ اخبار لکھتا ہے کہ یوروپ میں احمد پیشن پوری طاقت کے ساتھ تبلیغ میں مصروف ہے.یہ تحریک گزشتہ صدی کے آخر میں اُٹھی تھی.اب ہمارے ملک میں ہیگ شہر میں اس مشن کی ایک مسجد ہے.اس کے علاوہ بعض اور یورپین ممالک مثلاً جر منی میں ان کی تین مساجد ہیں.اس طریق سے پیشن اپنی تبلیغ کے لئے راستے ہموار کر رہا ہے یا سے (ترجمہ) (۸) ایمسٹرڈم کا ایک اور مشہور روزنامہ بہیت فرائے فولک (HET VRISE VOLK) اپنی له الفضل ۱۹ را خاد/ اکتوبر هنا ه ۲ الفضل ، ار شهادت / اپریل همه جنگ کاظم علیہ
جوان ائر کی اشاعت میں لکھتا ہے کہ :- احمد پیشن جو ایک اسلامی تحریک ہے چند سالوں سے ہمارے ملک ہالینڈ میں پورے زور سے اسلام کی تبلیغ میں سرگرم عمل ہے اور یہی کیفیت بعض دیگر یورپین ممالک میں ہے لیے (۹) لائڈن (LEIDEN ) یونیورسٹی مشرقی علوم کی درس گاہ کے طور پر تمام دنیا میں مشہور ہے شہور پر وفیسر کیا مرز جنہوں نے حال ہی میں انسائیکلو پیڈیا آف اسلام جیسے اہم کام میں اہم کردارادا کیا اسی درس گاہ سے تعلق رکھتے تھے.اسی شہر لائڈن میں عیسائیوں کا ایک اہم مشتری سکول بھی ہے جہان کے تربیت یافتہ مشنری دور و نزدیک بھجوائے جاتے ہیں.اس مشنری سکول کی ایک اہم کا نفرنس میں ہوئی جس میں یہاں کے ایک مشہور مستشرق ڈاکٹر فان لیون (DR.VAN LEEUWEN) نے بیان کیا کہ گذشتہ دور میں عیسائیت صرف مغربی ممالک تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ مسلم ممالک میں بھی پھیلی میگر آب تصویر کا ایک دوسرا رخ یہ نظر آرہا ہے کہ ایک عرصہ سے اسلام بھی احمدیہ تحریک کے ذریعہ عیسائی ممالک میں نفوذ کر رہا ہے بلکہ خود مغربی ممالک میں بھی : پھر آگے جا کر یہی پر وفیسر سکول کے جاری کردہ بولیٹین ( BULLETIN ) کی جون شائر کی اشاعت میں لکھتا ہے کہ احمدیہ تحریک کے نام لیوا بڑی جانفشانی سے اسلام کو دنیا میں پھیلانے میں کوشاں ہیں خاص طور پہ افریقہ میں بلکہ مغربی ممالک میں بھی جن میں ہمارا ملک ہالینڈ بھی شامل ہے یہاں انہیں خاص کامیابی حاصل ہوئی ہے " کے (10) لائیڈن یونیورسٹی کے طلباء کا ایک اخبار نہیں آؤ بچے (HET UILTSE) اپنی فروری 197ء کی اشاعت میں امام مسجد ہالینڈ کے ایک لیکچر کے ضمن میں لکھتا ہے کہ :- اس لیکچر سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام ایسا نا قابل مذ ہب نہیں ہے جیسا کہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے بلکہ اس کے برعکس یہاں ایک نہایت فقال (ACTIVE ) احمدیہ جماعت کا مشن اسلام کی تبلیغ میں سرگرم عمل ہے.۱۳۴۳ 16 ه الفضل در شهادت را پریل DNA منہ کالم : سے ایضاً : ۶۱۹۹۳
(11) اسی طرح ایک اور روزنامہ نیو وار در گرفت ( LEEUWARDER COURANT،اپنی ۲۱ جولائی 19 کی اشاعت میں رقمطراز ہے کہ : احمدیہ تحریک کو ہم اس دقیانوسی اسلام پر قیاس نہ کریں جوں کا تصور عام طور پر عربی ممالک کے متعلق ہمارے ذہنوں میں ہے بلکہ یہ تحریک ایک نئی جماعت ہے جس کی بنیاد اسلام پر ہے.تمام اسلامی دنیا میں یہی ایک خاص تنظیم ہے جو ACTIVE طور پر اسلام کی تبلیغ کا کام کو رہی ہے یہ سے (۱۲) اس ضمن میں لائڈن کے ایک اخبار فورم اکاڈیسے" (FORUM ACADEMISE ) کا اظہار خاص طور پر قابل ذکر ہے وہ اپنی ۲۹ جون 9ائد کی اشاعت میں لکھتا ہے :.ایک عام یو رو پین کے ذہن میں مسلمان کا جو تصور ہے وہ کچھ اس طرح کا ہے کہ وہ گویا جنگ جو انسان ہوتا ہے.سور کے گوشت سے اجتناب کرتا ہے.ریت سے ہاتھ صاف کرتا ہے.بھر پر پگڑی سی ہوتی ہے اور عورت کو بہت چاہتا ہے مگر یہ تصور یکدم بدل جاتا ہے اگر ایک شخص ہالینڈ میں کام کرنے والے احمد پیشن سے تعلق قائم کرے.بیشن تلوار ، اسلام پھیلا نے کا قائل نہیں ہے " سے (۱۳) اندرون ملک کا ایک روز نامہ پاس ایکی بور بود (MARS EN BOERIODE) اپنی ۷ ار اگست 9 مہ کی اشاعت میں لکھتا ہے کہ :- سے صدیوں سے یہ طریق چلا آ رہا تھا کہ یورپ کے عیسائی مبلغ دنیا کے ملکوں میں جاتے اور عیسائیت پھیلاتے تھے مگر اب دوسری جنگ کے بعد مشرق سے اسلام پھیلانے کے لئے مبلغ یورپ آنے مشروع ہو گئے ہیں اور انہوں نے یہاں متعدد مساجد بنادی ہیں.چنانچہ بیگ میں بھی ایک مسجد ہے تبلیغ کا یہ تمام کام احمدیہ جماعت کے ذریعہ سے ہے جو شمار میں پاکستان میں قائم کی گئی.یہ واحد اسلامی منظم جماعت ہے جو تبلیغ اور احیاء اسلام کا کام کر رہی اور اس کا مرکز ربوہ پاکستان میں ہے " کے ه الفصل از شهادت را پریل ها مث کالم را به ایضاً : ه الفضل ١٠ شہادت / اپریل منہ کالم : کا را 71997
۲۰۷ (۱۴) اخبار دی نور دستر" (DIE NIORDESTER ) نے لکھا کہ :- یہ پاکستانی مشنری یعنی امام مسجد ہالینڈ ان بہت سے پاکستانی مشنریوں میں سے ایک ہیں جو جماعت احمدیہ کی طرف سے دنیا کے مختلف ممالک میں اسلام کی تبلیغ اور اسلام کے متعلق صحیح نظریہ لوگوں تک پہنچانے کے لئے بھیجے جاتے ہیں مسلمانوں میں میں ایک منظم جماعت ہے میں نے ایک نظام کے ماتحت تبلیغ اسلام کا بیڑا اٹھایا ہے مسجد کے ہال میں جو دنیا کا نقشہ لٹکا ہوا ہے اس پر ایک نگاہ ڈالنے سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ کس طرح دنیا کے تمام اطراف میں جماعت احمدیہ کے مبلغ سرگرم عمل ہیں " سے 1 (۱۵) پاکستان کا روز نامہ مغربی پاکستان ۱۲ مارچ ۱۹ کی اشاعت میں لکھتا ہے." ہالینڈ سے شائع ہونے والا ایک کثیر الاشاعت روزنامہ ڈیلی روٹرڈم مراپنی قریبی اشاعت میں رقمطراز ہے کہ یورپ، ایشیا اور دنیا بھر میں عیسائی مشنری اداروں کو جماعت احمدیہ کے مبلغین کی اعلیٰ تعلیم اور بھر پور نشر و اشاعت کے سامنے کا فی حقیقت اُٹھانی پڑ رہی ہے.اخبار لکھتا ہے کہ جب سے جماعت احمدیہ کے مبلغین نے ہند و پاکستان سے نکل کر یورپ کا رخ کیا ہے اُس وقت سے عیسائی مشنری لوگ ان کا کہیں بھی ڈٹ کر مقابلہ نہیں کر سکے.اور یہ کتنے دکھ کا مقام ہے کہ بڑے بڑے پادری تک ان کی دعوت مناظرہ قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے.اخبارہ آگے چلا کر لکھتا ہے کہ جہاں اسلام یا احمدیت کا نام تک رگوں نے نہیں سنا تھا اور جہاں عیسائی مشنری اپنی مرضی کے عین مطابق کام کرتے تھے وہاں اب عیسائیت سے ان کی نفرت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ آب وہی لوگ اس کا نام تک سننا گوارا نہیں کرتے ہیں ڈیلی روٹر ڈم پرانے لکھا ہے کہ احمدیہ جماعت کے لوگ لاکھوں میل دور سے آکر عیسائیت کا مقابلہ کر رہے ہیں اور وہ لوگ اپنے وطن سے دور اپنے دوست احباب اور اہل و عیال سے دور رہ کر نہایت ہی کٹھن مراحل سے دوچار ہوتے ہوئے بھی اپنے مذہب کا سے بحوالہ جماعت احمدیہ کا تبلیغی نظام اور اس کے نتائج " صدام تا حمام لیکچر صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب بر موقع جلسہ سالانہ ۱۹۶۳
۲۰۸ پراپیگنڈا کرتے ہیں لیکن ہمارے پادری اور مشتری ادارے جنہیں حکومتوں کی سرپرستی تک حاصل ہے وہ اپنے فرائض سے کوتاہی برت رہے ہیں." اخبار مغربی پاکستان کے ایک شہر ربوہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ مسلمانوں کے ترقی یافتہ گر وہ جماعت احمدیہ کے لئے جنوری کا مہینہ خاص اہمیت کا حامل ہے جبکہ یہ جماعت اپنے نئے امام مرزا ناصر احمد صاحب کی قیادت میں جمع ہوئی ہے تاکہ ساری دنیا میں ایک نئے عزم کے ساتھ اپنی تبلیغ جاری رکھ سکے اس کے سالانہ اجتماع پر لاکھوں مسلمان اپنے امام کے خطاب کو سننے کے لئے جمع ہوتے ہیں جن کا کہنا ہے کہ خدا ان سے کلام کرتا ہے...اس جماعت کی بنیا د موجودہ امام کے دادا نے رکھی تھی جن کا دعویٰ تھا کہ خدا نے خود اُن سے کلام کیا.وہ اپنے اس دعوی کے بعد پوری طرح اپنے کام میں سرگرم عمل ہو گئے مگر اس کی وجہ سے دوسرے مسلمانوں سے ان کے اختلاف بڑھ گئے.عوام نے ان کے دعوئی کو ماننے سے انکار کر دیا کیونکہ ان کے نزدیک محمدؐ ( رسول اللہ آخری نبی ہیں مگر عوام کی مخالفت انہیں اپنے مشن کی تبلیغ سے باز نہ رکھ سکی.چنانچہ یہ جماعت آب بہت سے ممالک میں اپنے قدم مضبوطی سے جما چکی ہے.اخبار لکھتا ہے کہ موجودہ خلیفہ کی عمر ۵ سال ہے اور وہ آکسفورڈ یونیورسٹی آف لندن کے فارغ التحصیل ہیں.اگر چہ وہ بظاہر کوئی صوفی منش نظر نہیں آتے لیکن ان کا اکثر وقت دینی امور کی انجام دہی اور عوام کی خدمت اور عبادت گزاری ہی میں صرف ہوتا ہے اور بہت ہی سادہ غذا پر بسر اوقات کرتے ہیں.قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق وہ چار بیویاں رکھ سکتے ہیں مگہ اس کے باوجود وہ اپنی پہلی بیوی سے ہی وفاداری کا اظہار کئے ہوئے ہیں.نہیں الہام ہوا ہے کہ ان کی جماعت ساری دنیا کو اسلام کی روشنی سے منور کر دے گی.خاتا کے ملک میں اس جماعت کو بہت کامیابی حاصل ہوئی ہے خصوصاً اُن لوگوں میں جو مشرک ہیں اور سیرالیون میں اس جماعت کی کوششوں کا ہی اثر ہے کہ وہ لوگ جو عیسائیت سے وابستہ ہوتے تھے اب اپنے مذہب سے برگشتہ ہو رہے ہیں.انڈونیشیا اور نائیجیریا میں ان کی جماعت میں شامل ہونے والے اکثر لوگ پہلے عیسائی تھے.
٢٠٩ اخبار آگے چل کر لکھتا ہے کہ اس جماعت کے امام نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ انکے میشن کو زیادہ کامیابی پروٹسٹنٹ لوگوں کے علاقوں میں حاصل ہوئی ہے....اخبار لکھتا ہے کہ ایسا کبھی نہیں دیکھا یا سنا گیا ہو گا کہ کوئی اس جماعت کا فرد کبھی عیسائی ہوا ہو حالانکہ ہزاروں لاکھوں عیسائی اس جماعت میں داخل ہو چکے ہیں.اس جماعت نے یورپ کے ممالک میں درجنوں شاندار مسجدیں اور مدرسے اور ہسپتال قائم کر دئیے ہوئے ہیں.اخبار آخر میں رقمطراز ہے کہ اس جماعت کا خیال ہے کہ حضرت شیخ نہ صلیب پر مرے اور نہ ہی بعد میں زندہ اُٹھائے گئے بلکہ انہیں فلسطین سے ہجرت کرنی پڑی اور بعد میں وہ پھر کشمیر میں دفن ہوئے.موجودہ امام صاحب کے دادا نے دعوی کیا تھا کہ وہ مسیح موعود ہیں ہے ہالینڈ میں جماعت احمدیہ کی اسلامی خدا عیسائی پریس کی اندرونی شہادت کے علاوہ آب بطور نمونہ بعض ان مسلم زعماء کے تاثرات کا معلوم مسلم زعماء کی نظر میں کو نا بھی ضروری ہے جنہیں مغربی ممالک بالخصوں ہالینڈ میں جانے کا اتفاق ہوا اور انہوں نے اپنی آنکھوں سے جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات کا مشاہدہ کیا اور پھر اُن کا واضح اور کھلے لفظوں میں اظہار کیا.سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کے لارڈ میئر شہزادہ فہد الفیصل دسمبر شام میں دورہ ہالینڈ کے دوران ہیگ بھی تشریف لے گئے مکرم جناب حافظ قدرت اللہ صاحب نے عربی زبان میں ایڈریس پڑھا جس میں شہزادہ موصوف کا خیر مقدم کرتے ہوئے جماعت کی مختصر تاریخ بیان کی اور بتلایا کہ یہ چھوٹی سی غریب جماعت کین مشکل حالات میں بھی خدمت اسلام کے مقدس فریضہ کو سر انجام دے رہی ہے نیز جماعت کی طرف سے غیر زبانوں میں شائع کردہ اسلامی لٹریچر اور تراجم قرآن کریم کا ذکر کرتے ہوئے ان کی خدمت میں قرآن مجید انگریزی اور سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی" کا عربی ترجمہ تحفہ پیش کیا.پرنس موصوف معلومات حاصل کر کے جماعت کے کام سے بہت متاثر ہوئے اور فرمایا کہ مشن کی لائبریری کے لئے اگر کچھ کتب کی ضرورت ہو تو کئیں وطن واپس بحواله الفضل ۳ ہجرت رمئی ۳۲ : مت
۲۱۰ چا کر ارسال کر سکتا ہوں چنانچہ آپ نے سعودی عرب پہنچ کر قریباً ایک سو جلدیں بذریعہ ہوائی جہاز بھجوائیں جو تفسیر طبری ، جامع الاصول فی احادیث الرسول، صحیح ابن حیان، اور دیگر چھوٹی چھوٹی مختلف کتابوں پرمشتمل ہیں.اس موقع پر محترم و مکرم جناب چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب بالقابہ بھی با وجود انتہائی مصروفیات کے تشریف لائے ہوئے تھے شہزادہ فہد الفیصل آپ سے مل کر بہت خوش ہوئے اور آپ کی اُن خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے جو آپ نے مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لئے سر انجام دیں.اپنے پر خلوص اور تشکر انہ جذبات کا اظہار کیا.پرنس موصوف کی معیت میں ان کے سیکرٹری اور مشیر خاص کے علاوہ جرمن سعودی عرب ایمبیسی کے نمائندہ ، ڈچ براڈ کاسٹ برائے عرب ممالک کے انچارج اور جمہوریہ عرب کی ایمبیسی کا نمائندہ بھی موجود تھے.اے حافظ قدرت اللہ صاحب کا بیان ہے کہ ایک عید ہی کا واقعہ ہے کہ سعودی عرب کے ایک دوست عید کہ نماز کے لئے تشریف لائے تو ان کی آنکھیں یہ دیکھ کر خوش کن تعجب سے کھلی کی کھلی رہ گئیں که یورپین لوگ نمازیں پڑھتے ہیں، قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں اور اسلام کی اشاعت کے لئے ہردم کمر بستہ ہیں چنانچہ انہوں نے جب یہ نظارہ دیکھا تو بھری مجلس میں پکار اٹھے کہ آج ایک دفعہ پھر میں اسلام کا سورج مغرب کی وادیوں سے طلوع ہوتے دیکھ رہا ہوں " سے ماه اگست شائر میں نائیجیریا کے ایک مسلمان وزیر الحاج آڈگ بنرو (D.S.ADES BENRO) ۱۹۵۹ کو احمدیہ کا مشن ہالینڈ کی سرگرمیاں بخشم خود دیکھنے کا اتفاق ہوا، چنانچہ آپ نے مشن کی طرف سے دی گئی ایک استقبالیہ دعوت میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا :- اس سفر کے دوران جو مواقع مجھے ملے ان سب میں سے آج کے واقعہ کو ئیں سب سے بڑا اور اہم تصور کرتا ہوں بلکہ اس واقعہ نے میرے یہاں کے پروگرام کے اختتام کو چار چاند لگا دیئے ہیں.مجھے مسرت ہے کہ میں جب واپس جاؤں گا تو آج کی بہترین یاد کو بھی اپنے ساتھ لے جاؤں گا.جن ممتاز شخصیتوں سے ملنے کا موقع مجھے آج ملا ہے لیکن اس کے لئے اپنے 14-12 له الفضل در شهادت را اپریل ه م سه رساله خالد ربوه امان مارچ مات ۱۹ به ده میری 11909 71474
۲۱۱ ول میں بڑے قدر کے جذبات پاتا ہوں (آپ کا اشارہ خصوصیت کے ساتھ مکرم جناب چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب بالقابہ کی طرف تھا ، : اس کے بعد آپ نے ایڈریس کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے فرمایا کہ آج جماعت احمدیہ جس رنگ میں تبلیغ اسلام کا فریضہ ادا کر رہی ہے وہ اپنی نظیر آپ ہے.میں نے افریقہ میں ان کا کام دیکھا ہے اور آج یورپ میں بھی دیکھ رہا ہوں اور اسن سے بہت متاثر ہوں.جس رنگ میں قرآن کریم کی اشاعت اور اس کی تعلیم پھیلانے میں آپکی جماعت کوشاں ہے اور جس طرح نوجوانوں کو اسلام کی تعلیم سے آشنا کیا جارہا ہے یہ عرف جماعت احمدیہ کا ہی حصہ ہے اور وہ اس ضمن میں منفرد ہے.دراصل یہ اسلامی تعلیم ہی ہے جس سے دنیا میں صحیح معنوں میں امن قائم کیا جا سکتا ہے اور یہی ایک گر ہے جسکے ذریعہ ترقی ہوگی.نائیجیریا میں آپ نے جس رنگت میں اسلام کی عظیم الشان عمارت کی بنیادوں کو پھر سے کھڑا کیا ہے اور سکول اور کالج کھول کر اور مساجد تعمیر کر کے جس طرح اسلامی تعلیم کو رواج دیا ہے آنے والی عمارت میں اسے ستونوں کے طور پر استعمال کیا جائیگا" آپ نے تقریر جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ آپ کا یہ کام رائیگاں نہیں جائے گا بلکہ ان قربانیوں کا بدلہ خدا تعالیٰ آپ کو دے گا.آج اسلام مظلوم ہے اور اس کو اس مدد کی بہت ضرورت ہے.پھر خود مجھے اپنے بچپن کا تجربہ ہے کہ ایک وقت میں کسی طرح عیسائیت کے اثر میں گھر گیا تھا مگر ندا تعالیٰ نے میری دستگیری فرمائی اور میکن نے پھر صحیح رستہ پالیا " آپ نے کہا کہ " یورپ کے ممالک میں آپ لوگوں نے جو کام شروع کر رکھا ہے اس میں مشکلات آپ کیو پیش آرہی ہوں گی مجھے ان کا خوب احساس ہے مگر آپ یقین رکھیں کہ خدا آپ کے رتھے ہو گا اور وہ خود آپ کی مدد فرمائے گا.ہیں اس یقین پر قائم ہوں کہ آخر کار اسلام ہی کی تعلیمات دُنیا میں امن قائم کریں گی اور اس جہاں کے خون اور تفکرات اور جنگ و بدال کے خاتمہ کا سامان اسلام ہی میں مضمر ہے.اسلام مساوات کا حامی ہے اور یہی
۲۱۲ اسلامی اخوت کی تعلیم یقینی طور پر امن کی فضا قائم کر سکتی ہے یہ لے ملایا کے وزیر اعظم تنکو عبد الرحمن ۲۶ مئی نہ کی شام کو اپنے ایک سرکاری دورہ کے سلسلہ میں لنڈ کی ہوتے ہوئے ہالینڈ پہنچے.یہاں آپ کا قیام صرف سہ روزہ تھا مگر آپ انتہائی مصروفیت کے باوجود مسجد ہیگ میں بھی تشریف لائے اور جماعت احمدیہ کی مسائی کو سراہتے ہوئے بہت خوشی اور مسرت کا اظہار کیا ہے ہالینڈ مشن کی طرف سے ڈھ ترجمہ قرآن کے علاوہ حسب فیل اینڈ مین کا پیدا کردہ لٹریچر ڈی لٹریچر شائع ہو چکا ہے :- 1 - ڈچ قوم کے نام پیغام (مصنفہ حافظ قدرت اللہ صاحب) اسلام (مصنفہ مولانا جلال الدین صاحب شمس کرنا) ۳- اصول اسلام و ارکان اسلام (مصنفہ مولانا عبد الرحیم صاحب درد) ۴.آنحضرت کی سوانح اور تعلیم (مصنفہ حافظ قدرت اللہ صاحب) کیا شیخ انسان تھے یا خدا ( مصنفہ مولوی غلام احمد صاحب بشیر) واقعه صلیب شیح ے.قرآن مجید کی اخلاقی تعلیم (مصنفہ مولوی غلام احمد صاحب بشیر) - A WHERE DID JESUS DIE (مصنفہ مولانا جلال الدین صاحب شمس ) 9 ارکان اسلام (مصنفہ حافظ قدرت اللہ صاحب) ۱۰.امن کا پیغام اور ایک حریت اختیار (EEN BOODSCHAP VAK EEN WOORD VREDEEN VAN WARSCHUWEN) 11- سیرت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (مصنفہ مولوی عبد الحکیم صاحب المثل ) (HET LEVEN VAN MOHAMMAD ) الفضل درظور اگست ۱۳۳۸ ۳۰-۲ ۶۱۹۵۹ ۶۱۹۶۰ ه الفضل ها رو فار جولائی مٹ کالم
۲۱۳ ۱۲ - مسیح صلیب پر فوت نہیں ہوئے.۱۳ - مسیح ناصری علیہ السلام کا پیغام ۱۴ - اسلام کا پیغام (JESUS NIET GESTORVEN AAN HET (DE BOODSCHAP VAN JEZUS) (DE BOODSCHAP VAN DE ISLAM ) KRUIS ) (DE AHMADIYYA BEWEGING IN DE ISLAM ) THET MYSTERIE VAN GOLGOTHA -10 ۱۵.تحریک احمدیت -14 1- نماز مترجم ۱۸ - پندرہ سالہ تاریخ ہالینڈ مشن (ڈچ ) ہالینڈ میں احمدیہ جماعت کی بنیاد کو قریباً ربع صدی ہالینڈ کے بعض مخلص احمدیوں کا تذکرہ اور وہ ہورہا ہے.اس میں ان کے فضل وکرم کا عرصہ اللہ سے ہالینڈ میں ایک مخلص، متدین اور ایش رہمیشہ جماعت قائم ہو چکی ہے جو بیگ (DEN NAAG) ایمسٹرڈم (AMSTERDAM ) ، روٹرڈم (ROTTERDAM ) ، آمرس فورٹ (AMERS FOORT) ڈیلفٹ (DELET ) ، پارلم (HAARLEM ) ، أدت ریخت ( UT RECHT ) پاپند ریخت (PAPANDRECHT ) ، لائیڈن (LEIDEN )، فیلیپ ( VELP) ، مڈل برخ (MIDD ELBURG ) وغیرہ ملک کے تمام مشہور شہروں میں پھیلی ہوئی ہے.حافظ قدرت اللہ صاحب سابق انچارج ہالینڈ مشن تحریر فرماتے ہیں:."جہاں تک اپنے احباب کے اخلاص اور قربانیوں کا تعلق ہے وہ بھی کسی صورت میں کم ایمان افروز نہیں.ہماری ایک خاتون عربیزہ والٹر ( MRS.WALTER ) تھیں جو....کوئی 20 سال کی عمر پا کر فوت ہوئی ہیں.خدا تعالی کے فضل سے بہت ہی مخلص خاتون تھیں 41497 مله مستر ویزہ والٹر ( MRS.AZIZAH WALTER ) کا انتقال ہ میں ہوا.آپ ہالینڈ کی نہایت مخلص نومسلمہ اور بچے بچے ولیہ تھیں جو ش اڑ سے احمدیہ مشن کے ساتھ وابستہ ہوئیں.اس خاتون کو مسجد سے ایک المانہ تعلق عقار مسجد ہیگ کے محراب کی تزئین اور دیواروں پر آیات قرآنی کے قطعات انہیں کے لکھے ہوئے ہیں.یہ ان بہت تقای کے جواب اور یہ ہی دعا گو اور ستجاب الدعوات تھیں.بسا اوقات جب کوئی مشکل درپیش ہوتی تو انہیں دعا کی تحریک کی جاتی.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب بھی بسا اوقات انہیں دعا کے لئے کہتے اور جناب الہی سے اُن کی قبولیت کی بشارت البقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پرہی
۲۱۴ روحانی رنگ غالب تھا مستجاب الدعوات اور صاحبہ رویا و کشوف تھیں.نمازوں کا التزام بہت باقاعدگی کے ساتھ تھا.قرآن کریم سے ایسی محبت تھی جو عشق کا رنگ رکھتی تھی مسجد کے ساتھ انہیں ایسا لگاؤ تھا کہ کہا کرتی تھیں مجھے مسجد آکر سکون قلب حاصل ہو جاتا ہے.یہ خاتون کوئی بینی برس مشن کے ساتھ وابستہ رہیں اور مالی قربانیوں میں برابر حصہ لیتی رہیں.اسی طرح ہمارے نوجوانوں میں بھی بعض بنایت اخلاص کا رنگ اپنے اندر رکھتے ہیں.جماعتی کاموں میں نہایت شوق سے حصہ لیتے ہیں اور اپنا بہت سا وقت اس کے لئے قربان کرتے ہیں بعض دوستوں کے گھر بیگ سے خاصے فاصلہ پر ہیں مگر اس کے باوجود مسجد التزام سے آتے ہیں بعض نوجوانوں کو ان کے والدین نے بیعت کرنے پر تکالیف بھی دیں اور بہت تنگ کیا مگر وہ تمام مراحل میں ثابت قدم رہے اور اپنے دین کو ہر چیز پر مقدم رکھا بعض نوجوانوں کو سالہا سال تک اسلام سے وابستگی کو لوگوں سے مخفی رکھنا پڑا اور اس غرض کے لئے انہیں بہت وقعہ قربانیاں دینی پڑیں مگر ان کے ایمان میں تخریش نہ آئی.ہالینڈ کے ایک مخلص نوجوان عمر نام ہیں جن کی آمد کوئی بہت زیادہ نہیں مگر چندوں میں وہ اس قدر باقاعدہ ہیں کہ اکثر وہ اپنے چندے پیشگی ادا کر دیتے ہیں.ایک دفعہ ایسا ہوا کہ انہیں اپنی ملازمت سے نوٹس مل گیا.اب ایک غریب آدمی کے لئے ایسا وقت ہر حال مشکل ہی کا ہوتا ہے مگر ان کا اخلاص اس قسم کا تھا کہ انہوں نے اپنی تھوڑی سی جمع شدہ رقم میں سے چار ماہ کا چند پیشگی ادا کر دیا تا ایسا نہ ہو کہ کام جبل نہ مل سکنے کے نتیجہ میں ان کے تنگ دستی کے حالات ان کے چندہ پر اثر انداز ہوں.یہ حالات ایسے نہیں کہ انہیں آسانی سے نظر انداز کیا جاسکے.اسی طرح ایک اور ممبر تھے جو سلسلہ کے لئے مالی قربانی کا خاص جذبہ اپنے اندر رکھتے بقیہ حاشیہ صفحہ گذشتہ :.بھی پائیں.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے اُن کی وفات پر خطبہ جمعہ میں انکی خوبیوں کا ذکر فرمایا اور اس نیک خاتون کو ایک بنایت صالحہ عابدہ، زاہدہ صاحبہ رؤیا و کشوف اور ستجاب الدعوات " کے الفاظ سے یاد فرمایا (الفضل ١١- اضاء / اکتوبر هر مضمون حافظ قدرت اللہ صاحب) الفضل ۱۲ ( بار راه نبوت / نومبر رصد دمشق رپورٹ از جناب عبدالحکیم صاحب اکمل )
۲۱۵ تھے انہیں ایک دفعہ جب علم ہوا کہ ہالینڈ کی مسجد کے میناروں کے لئے ایک بڑی دنیوی شخصیت کے پاس جو امداد کی درخواست کی گئی تھی اسکے متعلق ہمیں ایک مایوس کن جواب ملا ہے تو اس مخیر اور مخلص دوست کی غیرت نے گوارا نہ کیا کہ مشن کو اس مایوسی کا سامنا کرنا پڑے چنانچہ انہوں نے بڑے جذبہ کے ساتھ کہا کہ گو میں ایک غریب آدمی ہوں اور وہ شان نہیں رکھتا جو فلاں شخص کی ہے اور نہ مالی لحاظ سے میرا اس کا مقابلہ ہے تاہم میں کوشش کروں گا کہ اس ضرورت کو پورا کر سکوں.چنانچہ انہوں نے محدود آمد کے باوجود دو صد پونڈ کی رقم اس غرض کے لئے پیش فرما دی “ سے ہالینڈ کے بعض مخلص احمدیوں کے نام درج ذیل کئے جاتے ہیں :- ا.امیر جے سی.باؤنس ۲ - حمید خان فیلدن عمر با درخت.فیملی ایم ایس ه صادق خان داینه - عبد العزیز قرباخن.ڈاکٹر فنڈ یسی فیملی ریوی شوفنر - A ۹ - ارتے.ویبر ۱۰.فیملی اے.اے جمن بخش ۱۱.عبد اللطیف کے تھے ۰۱۲ عبد اللطيف لويس ۱۳ - الیاس خیر و ۱۴- فاطمه وارنڈرف اه رساله خالد امان کر مارچ ۱۹۶۹ء 41979 14-10 (AMIR J.C.BDUWENS ) CHAMID VAN VELDEN ) COMAR HUYBRECHT3) (M.BAS) (SADIQ VAN DE LINDE) (ABDUL AZIZ VERHAGEN) DR.L.FOLDESY) (FAM.u.u.SOFFNERY (MR.R.TH.WEBER) (A.A.JOEMANBAKS) (ABDUL LATIF, LEYTE) ( ABDUL LATIF Louis ) (ILYAS GIRRAD > MRS.FATIMA WARENDORFF)
(MRS.SNIJDER ) (ABDUL QADIR ۲۱۶ EL-MAGNRABI ) (ABDURRAHMAN STEEN HOUWER) ۱۵ میز ستاندر ۱۷- عبد القادر المغربي 1- عبد الرحمن سٹین ہاؤکہ ۱۸.عبدالرشید ہے.ایم - فونتر ۱۹.رکو فان فلیت (ABDURRASHID J.M.FUNDTER) (RITSKO VAN VLIET) احمدیہ مسجد بیگ، ہالینڈ میں مسلمانوں کا مشہور مرکز بن چکی ہے جہاں احمدیہ ارا لتبلیغ ہالینڈ میں ملک اور بیرون ملک کے ہر طبقہ کے زائرین مثلاً سفراء ، حج ، نامور شخصیتوں کی انگر مستشرقین اور غیر کی ٹیموں کے کھلاڑی نہایت ذوق و شوق سے جاتے ہیں اور تبلیغین احمدیت کی طرف سے اُن کی خدمت میں اسلامی لٹریچر پیش کیا جاتا ہے اس طرح اشاعت اسلام کا حلقہ وسیع سے وسیع تر ہوتا رہتا ہے.اس وقت تک جن مشہور و نامور شخصیتوں کو اس اسلامی مرکز میں آنے کا موقع مل سکا ہے اُن میں سے بعض کے نام یہ ہیں :- ۱.مسٹر گنس (Luxs) وزیر خارجہ ہالینڈ کو شہزادہ فہد الفیصل میٹر ریاض سعودی عرب تحكو عبد الرحمن وزیر اعظم میں یہ مسٹراڈگ بنرو (ENRO مسٹراڈگ بنرو ( ADEGBENRO) ۵ شیخ سلیمان طاہر خلیج فارس کے علاقہ راس انجیم کے شیخ ) 4- صلاح الدین سابق وزیر خارجه مصر ، تفاولی البوا لثيا لے زائرین کی آمد کی کثرت دیکھ کر چون شاہ میں مسجد کو ظاہری طور پر مزید دلکش بنانے کی کوشش کی گئی مسجد اور مشن ہاؤس ایک ہی عمارت پرمشتمل ہے.مسجد کو دوسرے حصہ عمارت سے نمایاں کرنے کے لئے ایک مختلف رنگ یعنی ہلکا سبز رنگ سے روغن کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے اب یہ مسجد پہلے سے زیادہ دیدہ زیب اور نمایاں ہو گئی ہے اور زائرین کے لئے اس کی ظاہری صورت میں پہلے سے زیادہ کشش پیدا ہو گئی ہے.یہ کام مبلغ ہالینڈ صلاح الدین خاں صاحب نے اپنی نگرانی میں ہیگ کی ٹاؤن کمیٹی کے ایک ممتازہ انجیر.MR VERHOEEKS کے رضا کارانہ تعاون سے کرایا.یہ انجینیر احمدی تو نہیں ہیں مگر پھر بھی ہماری مسجد کے ساتھ گھرا تعلق رکھتے اور تعمیری نوعیت کے کاموں میں بلامعاوضہ تعاون کرتے ہیں : که آمد و سمبر ۹۵ ( تفصیلی کوائف کے لئے ملاحظہ ہو ا فضل ، شهادت / اپریل ۳ ۳۳ : 51909 کے آمدہ اور مٹی نه وتفصيل الفضل ۱۵ و فار جولائی ها حث پر شائع شدہ ہے : - 8144+ 149 که آید اگست ۹۵۹ه وتفصيل الفضل در اگست ه ) ه الفضل ۱.وفار جولائی ہر منہ پر آپ کی آمد کا مفصل ذکر ہے ؟ ۱۹۶۴ صد
۲۱۷ روزیر اعظم نائیجیریا) مسٹر مین ( پریذیڈنٹ لائبیریا) ۹.ورلڈ فیتے آن کانگریس نیدرلینڈ کے صدر ڈاکٹر ٹو کے ( DR.BOEKE) * (DR.BOEKE فصل ششم ان فیلم مشن اور زیو کا قیام بور نیو دنیا کا ایک بہت بڑا جزیرہ ہے جس کے تین چوتھائی حصہ پر ماضی قریب میں ولندیزی قاضی تھے اور باقی حصہ انگریزوں کے تسلط میں تھا.متقدم الذکر حصہ اب انڈو نیشین حکومت کے ماتحت ہے اور کالی منتن (KALIMANTAN ) کہلاتا ہے.مؤخر الذکر حصہ عرصہ تک برٹش بورنیو سے یاد کیا جاتا رہا اور مندرجہ ذیل دو کو آبادیوں اور ایک ریاست پر مشتمل تھا :- ا پسر اوک کالونی ۲ برٹش کراؤں نارتھے ہور نیو کالونی ۳.ریاست برونائی.برٹش کراؤن نارتھ بورنیو کا لونی کو اسر اگست سلام سے ایک آزاد مملکت کی حیثیت حاصل ہو چکی ہے اور اب اسے باہ (SABAH ) کے نام سے موسوم کیا جانے لگا ہے جو ار ستمبر رائے سے ملیشیا فیڈریشن کا حصہ ہے لیے ریاست برونائی ایک مسلمان ریاست ہے.تاریخ اشاعتِ اسلام سے معلوم ہوتا ہے کہ اس جزیرہ میں مولوں کا قدم تیرھویں صدی عیسوی سے قبل پڑا.ابتداء میں اسلام ہ ملیشیا فیڈریشن کے محرک تنکو عبدالرحمن صاحب (سابق وزیر اعظم بلایا) تھے جنہوں نے یہ تحریک اہ میں پیش کی فیڈریشن میں ملایا کی گیارہ ریاستوں کے علاوہ اس اوک اور سہا بھی شامل ہیں جو جزیرہ بو زیر کا دمہ میں سالہ کی موجودہ واحد سیاسی اور برسر اقتدار پارٹی...ما ہے یہ جا کے مشہور شہروں کے نام یہ میں کوتا کینابالو بیلیٹی سنڈا کن تواؤ.لامحدود تو سمپورنا.ایوان گینگاؤ بیفرٹ.راناؤ تواری.قریب تازہ اعداد و شمار کے مطابق نیاء کی آبادی ۶۱۴۴۸ نفوس پر مشتمل ہے.کد ازن قوم (KADA ZAH ) کل آبادی کا ایک تازہ تہائی حصہ ہے اور اس کی اکثریت شرکی ہے.اس کے علاوہ ملائی چینی، باجاؤ، مورت ، یورپین، پاکستانی اور انڈین لوگ بھی آباد ہیں.پاکستانی، طلائی اور باجاؤ سب کے سب اور کوازن اور انڈین لوگوں میں سے بھی بعض مسلمان ہیں.عیسائی بھی بھاری تعداد میں پائے جاتے ہیں.بہندو، سکھ اور بدھ بھی موجود ہیں ؟
۲۱۸ (SUKADANA) کی دعوت اس کے ساحلی علاقوں تک پہنچی اور سب سے اول بنجر ماسین کی سلطنت میں ریاست و الک کے باشندوں نے اسلام پھیلایا.راہ میں جب اُندلس رسپین) کے لوگ اس کے شمال مغربی ساحل پر واقع شہر برونائی ( BRUNEI ) میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ اس کا بادشاہ مسلمان ہے اور رعایا میں سے بھی بہت سے لوگ اسلام قبول کر چکے ہیں.عربوں نے نشہ میں بور نیو کے مغربی ساحل پر سکدانا کے شہر میں تبلیغ اسلام کی اور اکثر باشندوں کو مسلمان بنایا.اُن کی تبلیغی کوششیں نشانہ تک بھاری رہیں جس کے نتیجہ میں سکرانا کے بیشتر حصے نے اسلام قبول کر لیا یہاں تک کہ شاید میں یہاں کا راجہ بھی مسلمان ہو گیا اور یہ اسلامی ریاست بن گئی.ریاست سکدا نا میں جب اسلام کو فروغ ہوا تو شریف مکہ نے ایک عرب شیخ شمس الدین کو ایک شاہی خط دے کر بھجوایا جس میں والی ریاست کو سلطان محمد صفی الدین کا خطاب دیا.اس بادشاہ نے نہ میں انتقال کیا.یہ اس خاندان کا دوسرا بادشاہ تھا جو اسلام لایات بور نیومیں احمدیت کا بینچ کنانور (مالا بارم کے ایک مخلص تاجر جناب کے عبد القاد احمدیت کا نفوذ صاحب کے ذریعہ اسلام میں بویا گیا.آپ اپنے ہمشیر زادہ کے محمد بھی (M.KUNHI) کے ساتھ اس ملک میں کاروبار کے لئے تشریف لائے اور لابوان جزیرہ میں آکر آباد ہو گئے لیے شروع میں سلمانوں کی طرف سے آپ کی بہت مخالفت ہوئی حتی کہ ایک روز آپ کو دکان سمیت جلا دینے یا قتل کر دینے کی دھمکی دی گئی جس پر آپ نے حضرت امیر المومنین مصلح موعود کی خدمت میں دعا کے لئے تار دیا اور خود دکان کے اندر بیٹھ کر دعائیں کرنے لگے.آپ کے ایک زیر تبلیغ دوست سلیم شاہ صاحب ضلع جون پور (یوپی) نے جو وہاں آپ بھی دودھ کا کاروبار کرتے ہیں اور ہر روز آپ کو دودھ سپلائی کرتے تھے دکان بند پا کر دستک دی اور دکان بند کرنے کی وجہ دریافت کی.عبد القادر صاحب نے سارا حال بیان کیا تسلیم شاہ صاحب نے یہ سنتے ہی اپنے دودھ کے برتن دکان کے سامنے رکھ دیئے اور بازار میں اعلان کر دیا کہ میں بھی احمدی ہوتا ہوں جسے جرات ہو مجھ پر اور تو کئے عبد القادر پر حملہ کر کے دیکھ لے.پھر عبد القادر صاحب سے بزور دکان کھلوائی اور جزیرہ لا ابو ان کے ہر تاریخ اشاعت اسلام صفحه ۵۴۰ - ۵۴۱ (مولفه مولا ناشیخ محمد اسمعیل صاحب پانی پتی، ناشر شیخ غلام علی اینڈ منتز پبلشرز لاہور له الفضل ۳۰ ظهور / اگست ه ۳۰ مت سے $1491 ١٩٦٢ 1401 سے وفات - صلح / جنوری جماعت احمدیہ لابو ان کے پریذیڈنٹ اور موصی تھے.آپ کی تبلیغ سے بہت سے لوگ شامل احمدیک ہوئے.بجامات کی ہر تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے (الفضل سور تبلیغ ضروری من میلا مٹ گئے اور نیویں دکاندار کو تو کے (سیٹھ) 71991 کے نام سے پکارتے ہیں ؟
۲۱۹ چھوٹے بڑے عالم اور ملا کے پاس گئے اور اپنے احمدی ہونے کا اعلان کرتے گئے کہ جس نے آج کے بعد دودھ بند کرنا ہو بند کر دے میں احمدی ہو گیا ہوں.اس واقعہ کے بعد تبلیغ کا رستہ گھل گیا اور آہستہ آہستہ ایک مختصر سی مخلص جماعت قائم ہو گئی.دوسری عالمگیر جنگ کے آخری سال میں سلسلہ احمدیہ کے ایک مخلص اور پر جوش فرد حافظ ڈاکٹر بدرالدین احمد صاحب برٹش نارت بوریو میں سلسلہ ملازمین مقیم تھے.اپنے عرصہ قیام میں انہوں نے دیکھا کہ یہ علاقہ تبلیغ کے لئے خالی پڑا ہے اور ان کے دل میں یہ شدید خواہش پیدا ہوئی کہ کسی طرح اس ملک میں احمدیہ شن قائم ہو جائے چنانچہ انہوں نے اپنی اس خواہش کا اظہار وہاں کے احمدی دوستوں سے بھی کیا جنہوں نے اُن کی رائے سے مکمل اتفاق کیا.ازاں بعد جب ڈاکٹر صاحب موصوف ہندوستان میں اگر فوجی ملازمت سے سبکدوش ہو گئے تو انہوں نے خود بور نیومیں پریکٹس کر کے تبلیغ احمدیت کرنے کا دم کر لیا.نیز حضرت مصلح موعود کی خدمت مبارک میں شمالی اور نیو کے لئے مبلغ بھجوائے جانے کی درخوات کی اور پھر ماہ شہادت / اپریل سے / اپریل کے پہلے ہفتہ میں معہ اہل و عیال اور نیو تشریف لے گئے اور تبلیٹن میں تقسیم ہو کر (مختصر وقفہ کے ساتھ ، قریباً تیرہ سال تک آنریر کی تبلیغ اسلام کی حیثیت سے قابل قدر خدمات انجام دیتے رہے اور دار ماہ صلح / جنوری ها و بیماری کی حالت میں پاکستان میں تشریف لائے اور دو ہفتہ بعد انتقال کر گئے.ہے ۶۱۹۶۴ + ا الفضل ۳ رامان کر مار ۱۳۳ سے ولادت ۳ مینوری نشده - وفات کے جنوری ۱ - حضرت خاں فضا مولوی فرزند علی صاحب کے فرزند اکبر تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی بذریعہ خط بیعت کر کے داخیل احمدیت ہوئے بار میں تعلیم اسلام ہائی سکول قادیان سے میٹرک کا اور شاہ میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے ایم بی بی.ایس کا امتحان پاس کیا.اور کالج کے زمانہ میں آپ احمدیہ ہوسٹل میں رہے.امتحان پاس کرنے کے بعد حضرت مصلح موعود کے ارشاد مبارک کی تعمیل میں آپ مشرقی افریقہ تشریف لے گئے اور کچھ عرصہ نیروبی ، کمپانہ اور میںگاڑی میں رہنے کے بعد شاہ میں واپس آئے اور کراچی میں پریکٹس شروع کر دی.کراچی میں تین سال گزارنے کے بعد پھر مشرقی افریقہ چلے گئے اور میگا ڈی وغیرہ میں پانچ سال تک رہے.یہ زمانہ دوسری جنگ عظیم کا تھا حکومت کو ڈاکٹروں کی خدمات کی ضرورت تھی چنانچہ ڈاکٹر صاحب کیپٹن کے عہدہ پر فوج یہ متعین ہو گئے.اِس دوران میں انہوں نے زیادہ تر وقت مشرق بعید کے مختلف مالک میں گزا را بشائر میں فوج سے سبکدوش ہو کر قادیان واپس آگئے.(الفرقان در بوه) شہادت کا اپریل : من له الفضل ۱ صلح / جنوری ، ۲ تبلیغ فروری : ۱۹۴۹ ه الفضل به شهادت را اپریل همه مره ۶۱۹۴
٢٢٠ شمالی بور نیومین منتقل شدن کا قیام مولوی محمد زیدی صاحب فضل مولا فاضل مستقل میشن کا قیام آن ملایا کے ہاتھوں ہوا.آپ تو نبوت / نومبر کو قادیان سے بغرض تبلیغ روانہ ہوئے اور احسان جون ماہ میں شمالی یورنیو پہنچے اور سوا تین سال تک پیغام ۶۱۹۵۰ حق پہنچانے کے بعد ۱۲ ماہ اتحاد / اکتوبر ۱۳۳۹ کو سورابایا (انڈونیشیا) تشریف لے گئے.مولوی محمد زہری صاحب نے جب اس جزیرہ پر قدم رکھا تو ڈاکٹر حافظ بدرالدین احمد صاحب کے سوا جو جیلٹن میں قیام فرما تھے یہاں کوئی بھی احمدی نہیں تھا البتہ اس کے قریب جزیرہ لابوان میں کے محمد کفی صاحب ، سلیم شاہ صاحب ، سو کار من صاحب (جاوی)، محمد شریف صاحب تیورد چینی توسلم) جیسے احمدیت کے خدائی ضرور تھے سیکھے جناب زہدی صاحب نے کناروت کو اپنی تبلیغی سرگرمیوں کا مرکز بنا کر ڈوسون قوم میں تبلیغ شروع کر دی.قبل ازیں اس علاقہ کے لوگ احمدیت سے دشمنی تو رکھتے تھے مگر احمدی مبلغ نہ ہونے کی وجہ سے عداوت کی آگ صرف ایک حد تک تھی اور وہ بھی زیادہ تر دبی ہوئی لیکن آپ کے پہنچتے ہی مخالفت کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا ہے حتی کہ اس برٹش نارتھ یو نیو کے سب سے بڑے امام موحیلی (انے SUNAI) نے اشتہار دیدیا که اگر مبلغ احمدیت جس کا نام محمد نہ ہودی فضلی ہے کسی مسجد میں آئے تو اُس کو پکڑ کر باہر نکال دیا جائے اور جہاں وہ بیٹھے اسے پانی سے دھو دیا جائے.امام سوحیلی کے اس فتویٰ کا یہاں تک اثر تھا کہ ایک نے جوان سے کوالالمپور (ملایا) میں ۱۳ ستمبر مسلہ کو پیدا ہوئے.۱۹۳۷ء میں حضرت مولانا غلام حسین صاحب ایاز مبلغ سنگاپور کے ذریعہ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی.۲۴ جنوری 19 کو دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے قادیان آئے اور نہ میں مولوی فاضل کا امتحان پاس کرنے کے بعد اپنی زندگی حضرت مصلح موعود کی تحریک پر وقف کردی.ازاں بعد پہلے شمالی بورنی پھر سورابایا ، بالڈون ، کالی منتق اور علیشیا میں یہ ایک تحریک جدید کے زیر انتظام تبلیغی جہاد میں مصروف عمل رہے : له الفضل ۱۲۹ نبوت / نومبر ما سے آپ غلام چینی اور پیدائشی اعتبار سے ساباہ کے باشندہ ہیں.ابتداء میں بدھ مذہب کے پیروکار تھے.لاہوان میں مقیم احمدی بزرگوں تو کے عبد القادر صاحب ، سو کار من صاحب اور سلیم شاہ صاحب کے ذریعہ دولت احمدی نصیب ہوئی.مہ میں آپ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی زیارت کے لئے پہلے ربوہ میں اور پھر دیار حبیب کی برکات سے مستفید ہونے کے لئے قادیاں تشریف لے گئے.سا باہ کشن کے نہایت مفید اور مخلص وجود دون میں ممتاز شخصیت ہیں مبلغین امریت کا خاص احترام کرتے ہیں.دینی معلومات میں اضافہ کرنے اور دوسروں تک پیغام حق پہنچانے کا بہت شوق ہے ؟ کے یہ علاقہ آج تک احمدیت کے خلاف تعصب میں حد سے بڑھا ہوا ہے.یہاں کے عوام احمدیوں سے بات تک کو نا گوارا 5190A نہیں کرتے
۲۲۱ مانڈور یعقوب آپ کے قتل کا منصوبہ باندھ کے خنجر چھپائے ہوئے آپ کا تعاقب کرنے لگے مگر زہری صاحب ہمیشہ اُن سے محبت سے ملتے اور انہیں اپنے گھر آنے کی دعوت دیا کرتے تھے.جوں جوں تبلیغی مساعی تیز تر ہوتی گئیں توں توں اسی شدت سے مخالفت بھی زور پکڑتی گئی مگر مبلغ احمدیت نے ان صبر آزما حالات کے باوجود اپنا کام بھی جاری رکھا اور نہایت باقاعدگی کے ساتھ حضرت مصلح موعود کی خدمت میں دعا کے لئے بھی لکھتے رہے.اللہ تعالیٰ نے حضور کی دعاؤں کو غیر معمولی رنگ میں شرف قبولیت بخشا اور آخر کئی ماہ کی زیر دست مخالفت کے بعد مانڈور یعقوب کو خود بخود احمدیت سے پچسپی پیدا ہوگئی اور پھر تحقیق حق کے بعد وہ شہر میں داخل احمدیت ہو گئے اور اب تک سلسلہ احمدیہ سے بہایت مخلصانہ تعلق رکھتے ہوئے ہیں.انڈور یعقوب کا بیان ہے کہ میں حیران ہو جاتا تھا کہ میں تو نہ ہدی صاحب کے قتل کی تدبیریں سوچتا ہوں اور موقعہ کی تاک میں رہتا ہوں اور یہ سادہ مزاج مولوی مجھے خود ہی اپنے گھر آنے کی دعوت دیتا ہے.ان کے اس فراخ دلانہ سلوک نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا اور بالآخر مجھے پر صداقت کھل گئی اور پھر میں نے ان کے ہاتھ پر تو بہ کر کے قبول حق کرنے میں دیر نہیں کی.مانڈور یعقوب صاحب کے علاوہ تہیں اس علاقہ میں اول نمبر پر صداقت احمدیت پر ایمان لانے کی توفیق ملی اُن کے ذریعہ دو اور دوست بھی سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے لیے ان سعید الفطرت روحوں کے آسمانی آواز پر لبیک کہنے کی دیر تھی کہ برطرف مخالفت کا ایک اور سیلاب امڈ آیا لیکن اس سیلاب نے احمدیت کی اشاعت کے حق میں کھاد کا کام یا اور جلد ہی دین اور افراد اسی گاؤں کنا روت میں احمدی ہو گئے.لے اس عرصہ میں خدا کا یہ عجیب نشان بھی ظاہر ہوا کہ امام سوحیلی کو جس نے زہدی صاحب کی نسبت مخالفانہ اشتہار اور فتوی دیا تھا کسی جرم کی بناء پر ۲۴ گھنٹے کے اندر اندر برٹش نارتھے ہور نیو کی حد سے نکل جانے کا حکم دے دیا گیا.زہدی صاحب اُس کو جہاز پر الوداع کہنے کے لئے گئے تو وہ آپ سے مصافحہ کرتے وقت بے اختیار رویا اور معافی مانگی.سے زیدی صاحب نے مشن کے اس ابتدائی دور میں اجتماعی اور انفرادی تبلیغ کے ساتھ ساتھ تحریری رنگ میں بھی پیغام حق پہنچانے کی طرف توجہ دینی شروع کردی چنانچه مستعد و تبلیغی خطوط ط لکھے.ایک 4 له الفضل ۲۳ نبوت / نومبر ۲۷ ص ن و سے الفضل در صلح جنوری هم مث به سے محترم زیدی صاحب کے خود نوشت غیر مطبوعہ حالات سے ماخوذ به
۲۲۲ ریکیٹ شائع کیا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کی خبر دی اور اس سلسلے میں مخالفین کو چیلنچ دیا کہ اگر حضور اِس صدی کے مجدد نہیں تو پھر کوئی اور مجد و حدیث نبوئی کے مطابق پیش کریں اور مین ہزار روپیہ لیں سیه ان تبلیغی سرگرمیوں کے علاوہ جن کا سلسلہ روز بروز وسیع ہوتا جا رہا تھا آپ نے احباب جماعت کی تعلیم و تربیت کے لئے ہفتہ وار اجلاس جاری کئے اور حضرت مصلح موعود کے ارشاد کے مطابق "الوصیت کا ملائی زبان میں ترجمہ کیا اور احباب جماعت کو نظام الوصیت سے وابستہ کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے ماه نبوت / نومبر ر بورنیوشن کے لئے ایک مبارک مہینہ تھا جس میں نہ صرف کنا روت سے قریباً ستر میل جانب جنوب کیش کو غن (LINGKUNGAN) میں چودہ اشخاص نے قبول احمدیت کر کے ایک نئی جماعت کی بنیاد ڈالی بلکہ مشن کے دار التبلیغ کے لئے ایک عمارت خریدی گئی.دراصل جناب زہدی صاحب ابتداء ہی سے اس کوشش میں تھے کہ مشن کے دفتر اور مہمان نمانہ کے لئے کوئی جائک او پیدا کی جائے تا زیاد مستقل مزاجی اور دلجمعی سے تبلیغی فرائض ادا کئے جاسکیں لیکن نیا مکان بنوانے یا خرید نے کی استدل عت نہ تھی.اللہ تعالیٰ نے ایک احمدی دوست کے دل میں یہ تحریک کر دی کہ وہ اپنا مکان نہایت معمولی قیمت پر دے دیں.اس طرز کا نیا مکان ایک ہزار ڈالر لاگت سے کم پر نہیں بن سکتا تھا مگر اس دوست نے جماعتی ضرورت کا احساس کرتے ہوئے یہ مکان صرف ۳۵۶ ڈالر پر فروخت کر دیا.ان دو وانا تعمیری اور بنیادی کاموں کے علاوہ اس مہینہ میں زہدی صاحب نے ایک نیا نیلی ٹویٹ چھپوا اور بور نیومیں اس کی وسیع پیمانہ پر اشاعت کی بیگے اب اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے شمالی یورنیو میں بیک وقت تین مقامات سے احمدیت کی نورانی شعاعیں جزیرہ پر پھیلنے لگیں.(۱) کناروت جو مبلغ احمدیت کا ہیڈ کوارٹر تھا اور جزیرہ کی تمام تبلیغی سرگرمیاں اس کے زیر اہتمام ہو رہی تھیں.زہدی صاحب کی تعلیم و تربیت نے کنا روت کے احمدیوں میں تبلیغ کا ذوق و شوق پیدا کر دیا تھا اور اُن میں سے بعض تو آنریری مبلغ کی حیثیت سے دوسرے مقامات پر بھی بھیجوائے سہانے لگے له الفضل ۲۳ نبوت / نومبر ۱۰ار فتح / دسمبر سے الفضل ۱۶ صلح جنوری هم به ، 51909 FINA الفضل ۲۳ نبوت / نومبره من
۲۲۳ تھے چنانچہ ماہ فتح را دسمبر میں احمد بو جنگ بن رؤون صاحب ٹیلینم ( TENOM) نامی مقام کی طرف بغرض تبلیغ روانہ کئے گئے.لے (۲) بیشکونن (LING KUNGAN) - یہ اگر چہ ایک نئی جماعت تھی مگر بہت مخلص اور پُر جوش ثابت ہوئی.اس کی قربانیوں کے باعث احمدیہ مشن کو اس زمانہ میں بہت تقویت پہنچی پیش کرخی کے احمدی نوجوان فدائیت کی روح سے سرشار ہو کر گردو نواح میں پھیل جاتے اور گھر گھر احمدیت کا پیغام پہنچاتے تھے.خدام الاحمدیہ" اور "الجنہ اماء اللہ کی شاخیں بھی یہاں ابتداء ہی میں قائم ہوگئیں اور انکے باقاعدہ اجلاس ہونے لگے یہ علاوہ ازیں اس جماعت نے بہت جلد اپنی مسجد بھی تعمیر کو لی جس کا افتتاح زہدی صاحب نے ماہ امان / مارچ بروز جمعہ کیا یہ (۳) لابوان - لابو ان کی اولین جماعت بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنی قربانی اور ایشیا میں جلد جلد ترقی کرنے لگی.چنانچہ ماہ فتح / دسمبر تک اس کے اسی فیصد دوست و حیرت کر چکے تھے.اکثر ۶۱۹۴۸ احباب نے اپنی جائدادیں اور اولادیں خدمت دین کے لئے وقف کر دیں اور احمدیہ مسجد اور احمدیہ قبرستان کے لئے زمین کا انتظام کر لیات ازاں بعد احمدیہ مسجد کی تعمیر ہوگئی.ابتداء میں یہ مسجد دو دیواروں پر کھڑی تھی اور دروازہ کوئی نہیں تھا مگر ماہ شہادت / اپریل ۳۱ میں مولوی محمد سعید انصاری صاحب ۶۱۹۵۰ کے قیام لابو ان کے دوران اس کی مرمت اور توسیع کا کام ہوا جس سے مسجد میں ستر نمازیوں کے لئے گنجائش نکل آئی تعمیر مسجد میں سب سے نمایاں حصہ سلیم شاہ صاحب نے کیا اور دوسرے نمبر پر انصاری صاحب نے.قریباً دس روز تک ان ہر دو اصحاب نے مزدوروں کی طرح کام کیا اور ایک دن تمام جماعت نے تین گھنٹے تک اجتماعی و قار عمل منایاشه ۶۱۹۴۹ ران تین نسبتاً بڑی جماعتوں کے علاوہ ماہ امان / مارچ منی میں روکوڈنگ میں بھی احمدیت کا بیج بویا گیا جہاں ایک ذی اثر شخص داخل احمدیت ہوئے لیے علاوہ ازیں ایسا نم (INANAM) میں بھی لوگوں نے احمدیت قبول کی.اس طرح جزیرہ میں آہستہ آہستہ حق و صداقت کی آواز بلند سے بلند تر ہوتی له الفضل اور تبلیغ فروری هم به ایضاً من الفضل ۳ احسان جون ے : هم 71909 من له الفضل در تبلیغ فروری هم مث : شه رپورٹ مولوی محمد محمد صاحب انصاری ۶۱۹۴۹ محرده ۵ در شهادت / اپریل ھے آپ کی تشریف آوری کا تذکرہ آگے آرہا ہے : من الفضل و احسان جون ر ۱۹۵۰ء 1977
۲۲۴ چلی گئی.بور یو میں دوسرے مجاہدین احمدیت کی مد مقبل اس کے کورش کے بقیہ ضروری کو انف و کے نیومیں امام حالات پر روشنی ڈالی جائے یہاں ہم ای مجاہدین احمدیت کا یکجائی طور پر ذکر کر ناضروری سمجھتے ہیں جنوں بور نیوشن کے مؤسس مولوی محمد زہدی صفات کے بعد جماعت احمدیہ بوریوں کی تعلیم وتربیت کرنے اور اس کو ترقی دینے میں نمایاں حصہ لیا.راس سلسلہ میں ہم سب سے پہلے محترم مولوی محمد سعید صاحب انصاری کا ذکر کرتے ہیں جو قریباً تو برس تک مشرق بعید کے اِس دور افتادہ جزیرہ میں کلمہ حق بلند کرتے رہے.جناب انصاری صاحب چار سال تک پیغام حق پہنچانے کے بعد ۳ ماه فتح دسمبر کو صرف چھ ماہ کی رخصت پر پاکستان ۱۱۹۵۳ 51904 آکر واپس تشریف لے گئے اور پانچ سال تک فریہ تبلیغ بجالانے کے بعد، از ظهور/ اگست هر کو مرکز احمدیت ربوہ کے لئے روانہ ہوئے.آپ کے زمانہ قیام کے دوران ہی مرزا محمد ادریس صاحب فاضل شاہد اور حضرت مولوی غلام حسین صاحب ایا ز سابق مبلغ سنگا پور بھی خدمات دینیہ انجام دیتے رہے مولوی غلام حسین صاحب ایاز کا ورود اِس سرزمین پر یکم احسان ارجون حملہ کو ہوا لیکن عمر نے وفا نہ کی اور آپ نے ساڑھے چار ماہ بعدہ ۱ ماه اخاذ / اکتوبر سر کو لا تو ان میں وفات پائی اور یہیں سپرو خاک کئے گئے.مرزا محمد اور میں صاحب مورخہ ۱۴ صلح / جنوری کو اس مشن میں تشریف لے گئے ه ۳ ء 4484 ۱۹۵۳ء اور متواتروس سال تک اسلام و احمدیت کا جھنڈا بلند رکھنے اور مشن کا چارج مولوی بشارت احمد مفتا ۱۳۴۲ نستیم امروہوی کے سپرد کرنے کے بعد 14 احسان جون کو عازم پاکستان ہو گئے.اب تک یہ (ساباہ، مشن جناب سیم صاحب ہی کے زیرا امارت کام کر رہا ہے.بورنیو میں اب تک مسلسلہ احمدیہ کی تائید میں صرف بورتی میں ٹھوس علی لٹریچر کی اشاعت اور ریٹ شائع ہوئے تھے اپنی افادیت کے با وجود بڑھتی ہوئی تبلیغی ضروریات کے لحاظ سے مرا سرنا کافی تھے.ڈاکٹر حافظ بدرالدین احمد هنا مرحوم نے اس طرف خصوصی توجہ دی اور دن رات ایک کر کے ٹھوس علمی لٹریچر پیدا کیا.چنانچہ اس سلسلہ میں آپ نے سب سے پہلے میر میں احمدیہ موومنٹ ان اسلام تالیف کی جو ان میں شائع کی گئی.اس کتاب کے بعد آپ کے قلم سے انگریزی میں اکنا مک مسٹم آف اسلام ، آنحضرت صلے اللہ ۱۹۴۹
۲۲۵ علیہ وسلم کی مقدس زندگی کا مختصر خاکہ اور دی ہوئی پرافٹ کے نام سے کتابیں نکلیں.اس کے علاوہ احمدی میشن بور نیو کی طرف سے آج تک کوئی کتاب تصنیف کرکے شائع نہیں کی گئی.انشائ کی ابتداء تک جاعت جماعت کی سرگرمیوں سے عیسائی حلقوں میں اضطراب کی تبلیغی سرگرمیوں کا رخ اور احمدیت کے خلاف عیسائی حکومت کی مخالفت آغاز زیادہ تر وہاں کی سلامی کیاری آبادی کی جانب تھا اس لئے حکومت بھی خاموش تھی مگر اس سال ڈاکٹر حافظ بدرالدین احمد صاحب کی کتاب احمدیہ موومنٹ ان اسلام شائع ہوئی جس میں محاسن اسلام کو بیان کر کے اسلام کے خلاف عیسائی اعتراضات کا رد کیا گیا تھا.یورنیو کی گزشتہ تاریخ میں غالباً یہ سب سے پہلی کتاب تھی جو وہاں کے ایک پبلک پریس میں چھپی.اس کتاب کی اشاعت سے عیسائی حلقوں میں ایک اضطراب اور غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی.انگریزوں کے نو آبادیاتی نظام حکومت میں چونکہ مذہب اور حکومت ایک ہی چیز کے دو نام نہیں لہذا پادریوں کی غضب ناکی کا مطلب یہ تھا کہ عیسائی حکومت احمد یہ مشن کے خلاف سیخ پا ہو.چنانچہ حکومت نے جماعت کی تبلیغی سرگرمیوں کو ختم کرنے کے لئے اپنی مہم کا آغاز کر دیا.گویا حکومت کی پالیسی تھی کہ عیسائی پادری خواہ جس قدر اور جس طرح چاہیں اسلام کے خلاف زہر پھیلائیں لیکن اسلام کے نمائندوں کو یہ ستی نہیں کہ وہ اپنے دین کی پرامن صورت میں مدافعت بھی کر سکیں.ایسی فضا میں تبلیغی جد و جہد کو جاری رکھنے کے لئے نہایت حزم واحتیاط کی ضرورت تھی یعنی ایسے رنگ میں کام کرنے کی ضرورت تھی کہ تبلیغ احمدیت بھی جاری رہے اور حکومت کے ساتھ براہ راست تصادم اور کراؤ کی نوبت بھی نہ آئے.محتاط رویہ اختیار کرنے کی ضرورت اس وجہ سے اور بھی زیادہ بڑھ گئی کہ مرکز کی ہدایت پر ایک اور مجاہد یعنی مولوی محمد سعید صاحب انصاری سرو بابا سے دار نومبر ۱۹۴۹ء کو بور نیویشن میں تشریف لاچکے تھے اور مولوی محمد زہدی صاحب کے ساتھ بورنیو کے مختلف مقامات کا دورہ بھی کر چکے تھے.عیسائی حکومت جو عیسائیت کے خلاف کوئی معمولی آواز اُٹھنا بھی گوارا نہ کرتی تھی جزیرہ میں بیک وقت اسلام کے دو مبلغوں کا وجود کیسے برداشت کر لیتی؟ انگریزی حکومت نے اس مرحلہ پر جو سلوک روا رکھا وہ حد درجہ افسوسناک تھا.چنانچہ مولوی محمد سعید صاحب انصاری نے لابوان (LABLAN ) سے ایک رپورٹ میں لکھا :-
۲۲۶ " ابتداء میں...یہاں کی پولیس ہمارا دہرا اور مولوی محمد زیدی صاحب فضلی اور خاکسار کا تعاقب کرتی رہتی تھی.خود ملک کے دارالحکومت بھیسٹن میں متعدد بار راہ چلتے ہمارے پاسپورٹوں کو چیک کیا جاتا تھا اور کوئی نہ کوئی ایسی راہ پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی تھی جس سے جماعت کی پرامن مذہبی سرگرمیوں کو ختم کیا جاسکے.چنانچہ شاہ کا ایک رقعہ ہے جس میں یہاں کے ڈسٹرکٹ آفیسر نے جماعت کے مبلغ سے نہایت توہین آمیزر غیر شریفانہ سلوک کیا تھا اور جب سراسر انسانیت سوز سلوک پر حکومت سے احتجاج کیا گیا تو اُس وقت کے گورنرنے جو نہایت متعصب اور عدو اسلام عیسائی تھا با وجود اس وعدہ کے کہ وہ اس واقعہ کی تحقیقات کر کے بہت جلد جواب دے گا اس نے اس احتجاج کا جماعت کو آخری وقت تک کوئی جواب نہ دیا.حکومت کے اس سربراہ اور بعض دوسرے افسروں کے اس معاندانہ رویہ کی وجہ سے ہمارے لئے ناگزیر ہو گیا کہ ہم بہت ہی حزم واحتیاط سے اپنا کام کریں تاکہ دشمن کو کسی ایسے فتنہ کے پیدا کرنے کا موقع نہ ملے جس سے جماعت کے وقار کو صدمہ پہنچنے کا اندیشہ ہو یا جس سے جماعت کی مذہبی سرگرو میاں کلیئہ ختم ہو جائیں.اس وقت کے حالات میں کسی ایسے نئے علاقہ میں جانا جس کی فضا سے سرا سرنا آہی ہوا اور جہاں نہ قیام کی جگہ او نہ کوئی واقف کا ہو بالاتفاق...نامناسب سمجھا گیا.اُس کے بعد بفضلہ تعالی حالات آہستہ آہستہ بہتر ہونے لگے مولوی محمد زیدی صاحب تو ۱۲- اعضاء / اکتوبر کو انڈونیشیا کی طرف منتقل ہو گئے اور میشن کا چارج مولوی محمد سعید صاحب انصاری نے لیا.۶۱۹۵۰ ر امان از مارچ کو مولوی محمد سعید صاحب انصاری ینگ کونگن اسٹیٹ میں دو سے اب ان سے انگ انگلی سیٹ کے دورہ پر تشریف لے گئے لایوان لینگ کو چونکہ اسٹیٹ کے مینجر نے آپ کو اسٹیٹ میں داخل ہونے کی اجازت نہ دی اس لئے آپ نے اس کی حدود سے باہر ایک ہفتہ تک ایک احمدی دوست کے گھر قیام رکھا اور گردو نواح کے را کے وکے احمدیوں کی تربیت و اصلاح کی.اس دورہ کے بعد اسٹیٹ میں احمدیوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا.چنانچہ جب آپ ماہ له مکتوب مولوی محمد سعید صاحب انصاری کرده در صلح جنوری هم از لایوان /
۲۲۷ ۱۹۵ فتح رودسمبر میں دوبارہ اسٹیسٹ میں گئے تو اسٹیٹ کے اندر احمدیوں کی تعداد دوسروں کے برابر ہوگئی ہنڈا سٹیٹ مینیجر کو یہ پابندی لگانے کی جرات نہ ہو سکی.سے آب تک جزیرہ میں جماعت احمدیہ کی طرف سے جسیکٹن میں پہلا جلسہ پیشوایان مذاہب کسی جلسہ کا باقاعدہ انتظام نہیں کیا جا سکاتھا ڈاکٹر حافظ بدرالدین احمد صاحب کی کوشش سے ۲۸ ہجرت مئی کو مبیلٹن میں پہلا جلسه پیشوایان / مذاہب منعقد ہوا.ڈاکٹر صاحب نے جلسہ سے قریب میں روز قبل تمام عیسائی مشنوں کو بذریعہ خطوط دعوت دی کہ وہ جلسہ میں شرکت کریں اور جس میشیوا کی سیرت پر چاہیں لیکچر دیں لیکن کسی نے جواب تک نہ دیا.عیسائیوں کی اِس بے رخی کے بعد بہت کم امید تھی کہ دوسرے مذاہب کے لوگ جو ہر طرح سے عیسائیوں کے زیر اثر اور اُن سے مرعوب اور دبے ہوئے تھے اِس تقریب میں حصہ لینے کی جرات کریں گے.چنانچہ یہی وجہ ہے کہ جیلٹن کی ریکری ایشن کلب ( JESSELTON RECREATION CLUB ) نے جہاں تمام پبلک تقریبات کا انعقاد ہوتا تھا کلب میں جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دی.اس پر ڈاکٹر صاحب کو اپنی قیام گاہ پر ہی اس کا انتظا کرنا پڑا تین آدمی مشریک جلسہ ہوئے.جلسہ کی کارروائی تلاوت قرآن سے شروع ہوئی جس کے بعد حضرت بُدھ کی سیرت پر ایک سند و مدراسی نے ، آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ پر ایک مدراسی مسٹر نیر (MR.NAIR ) نے ، حضرت شیخ کے بارے میں ڈاکٹر حافظ بدر الدین احمد صاحب نے اور کرشن علیہ السلام پر انچارج مبلغ بورنیو مولوی محمد زاهدی صاحب نے تقریریں کیں.یہ جلسہ اگر چہ پرائیویٹ احاطہ اور نہایت محدود تعداد کے ساتھ ہوا گر بحوالہ توقع سے زیادہ کامیاب رہا.سے جیلٹن میں پہلا پبلک جلسہ اس پرائیویٹ جلسہ کے چھ ماہ بعد ادیشن نے ایک اور قدم آگے بڑھایا اور 9 ماہ نبوت / نومبر کو بیٹن میں ہیں ۱۳۹ سیرت النبی کے سلسلہ میں ایک اور جلسہ میں کامیابی ہوئی.یہ جلسہ بور نیوشن کی تاریخ میں پہلا پلک جلسہ تھا.یہ جلسہ ایک چینی کلب کے ہاں JUNIOR CIVIL SERVICE UNION HALLS) سے رپورٹ ہائے مولوی محمد سعید صاحب انصاری 71900 کے رپورٹ مولوی محمد سعید صاحبه انصاری محرره حیکم احسان /جون همه اثر الالوان ۶۱۹۵۰
۲۲۸ میں منعقد ہوا اور اس میں مسٹر آر پرائس (MR.R.PRICE) مسٹر اے.کے.کے.نیہ ( MR.A...NAAR ) ڈاکٹر بدرالدین احمد صاحب اور مولوی محمد سعید صاحب انصاری نے بالترتیب سیرت النبی ، سوانح رسول صحابہ کی آنحضرت سے والہانہ عقیدت اور آنحضرت شہزادہ امن کی حیثیت سے کے عنوان پر خطاب کیا.مولوی محمد سعید صاحب انصاری کے سوا جنہوں نے ملائی زبان میں تقریر کی باقی سب مقررین نے انگریزی میں لیکچر دیا.اس جلسہ کے لئے چنگ نام پرنٹنگ کمپنی میسلٹن (CHUNG NAM PRINTING COMPANY JESSELTON) سے چار سو انگریزی اشتہارات چھپوا کر تعلیم یافتہ طبقہ میں تقسیم کئے گئے کے علاوہ ازیں ایک مقامی چینی اخبار میں بھی اعلان کیا گیا.مولوی محمد سعید صاحب انصاری نے یکم دسمبر شاہ کی رپورٹ میں اس جلسہ کی تفصیلی اطلاع مرکز کو دیتے ہوئے لکھا نارتھ ہو نیو کا ملک ایک پسماندہ ملک ہے اور اس ملک کی روایت میں غالی کبھی کوئی الیسا موقع نہیں آیا جب کسی مذہبی تقریب کو ایسی پبلک صورت دی گئی ہو.اس لیئے اس ملک کی حالت کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ توقع رکھنا کہ سامعین کی کثیر یا معقول تعدا د کیسی ایسی تقریب کو مل جاؤ گی قالباً ہے جا توقع سے کم نہیں لیکن پھر بھی سیرت النبی کے اس جلسہ میں باوجود اس دن شدید بارش کے ۴۲ دوست حاضر تھے.جلسہ کا اثر پبلک پر من حیث المجموع اچھا پڑا اور ایک ایسے ملک میں جو نذہبی تقریبات کو قائم کرنے کے لحاظ سے بے جان سا ملک ہے کیسی حد تک کچھ انفاس حیات بھر نے کا موقعہ مل گیا.رسالہ PEACE کا اجراء جامت محمدی بونی کی طرف سے مقامی احمدی جماعتوں کو نظم کرنے ان کی معلومات میں اضافہ کرنے اور غیر مسلموں تک پیغام حق پہنچانے کے لئے ماہ فتح / دسمبر میں ایک سہ ماہی رسالہ PEACE مولوی محمد سعید صاحب انصاری کی لئے ماہ کر اوراست نہیں جاری کیا گیا.یہ رسالہ انگریزی اور ملائی زبانوں میں شائع ہوتا تھا.اس کے انگریزی حصہ کی ادارت ڈاکٹر بدرالدین احمد صاحب کرتے اور ملائی حصہ مولوی محمد سعید صاحب انصاری ترتیب دیتے تھے.یہ رسالہ عموماً پانچ سو کی تعداد میں چھپتا تھا اور بور نہیں کے علاوہ سنگا پور اور فلپائن وغیرہ میں بھی سے ر اس اشتہار کی ایک کاپی مولوی صاحب موصوف کے فائل بابت هر ۳ ۱۳۲۹ میں (جو وکالت تبشیر تحریک جدید ربوہ کی تحویل میں ہے آج تک محفوظ ہے ؟ ۲۶۱۹۱
۲۲۹ بھجوایا جاتا تھا.یہ رسالہ جماعت احمدیہ اور نیو کے واحد ترجمان کی حیثیت سے بہت عمدہ اثرات پیدا کرنے کا موجب ہوا اور اس کے ذریعہ بعض سعید روحوں کو قبولِ حق کی بھی توفیق علی.افسوس مولوی محمد سعید صاحب انصاری کی مراجعت پاکستان ) کے بعد اس مفید رسالہ کا صرف ایک الیشوع مشکل سکا اور پھر سے بند کر دینا پڑا.71409 /1900 -۲ ہجرت امنی کا ذکر ہے کہ مبلغ بورنیو مرزا محمد ادریس را ناؤ میں احمد می مبلغ اور | جماعت احمدیہ کے خلاف فتنہ علاقہ میں تشریف لے گئے.عیسائی حکومت نے جو پہلے ہی اس تاک صاحب ایک نئے تبلیغی میدان کی تلاش میں راناؤ کے دور افتادہ میں تھی کہ کسی طرح احمدی مبلغین کی سرگرمیوں پر پابندی لگانے کا اسے بہانہ ہاتھ آئے بغیر کسی قانون کے محض ایک روایتی قاعدہ کی آڑ لے کر انہیں بھی اور جناب مولوی محمد سعید صاحب انصاری کو بھی جو بعد میں وہاں تشریف لے گئے اس علاقہ سے نیکل بجانے کا نوٹس دے دیا.چونکہ اس ظالمانہ کاروائی سے حکومت کی غرض محض یہ تھی کہ اس علاقہ میں تبلیغ اسلام کی سرگرمیاں روک دی جائیں اس لئے اسلام کی عزت و حرمت اور احمدیت کے وقار کے لئے یہ ضروری سمجھا گیا کہ ملک میں مذہبی آزادی کے حقوق کا تحفظ کرنے کے لئے آئینی جد وجہد کی جائے چنانچہ جماعت احمدیہ اور نیو اور حکومت کے درمیان اس مسئلہ پر عرصہ تک خط و کتابت اور ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا.آخر حکومت کو احمدی مبلغین سے یہ پابندی اُٹھانا پڑی اور جہاں تک تبلیغ کا تعلق ہے تمام برٹش بور نیو میں احمدیوں کو قانوناً تبلیغ کی آزادی حاصل ہوگئی اگر چہ حکومت اندر ہی اندر عوام کو احمدیوں کے خلاف برابر اکساتی رہی.مرزا محمداد ہیں صاحب کا بیان ہے کہ :." بورنیو کے ایک علاقہ را ناؤ ہیں...صرف ایک قوم ڈوسون نامی آباد ہے.یہ قوم پہلے لا مذہب تھی.یہاں عیسائیوں کے دو مشن ایک لمبے عرصہ سے کام کر رہے ہیں.حکومت کی یہی پالیسی تھی کہ یہ علاقہ عیسائیت کی آغوش میں چلا جائے اس لئے حکومت کی طرف سے ہمیشہ مسلمانوں پر جو اس علاقہ میں داخل ہونا چاہیں پابندیاں لگائی جاتی تھیں.جب یکی اس علاقہ میں گیا تو وہاں کے مقامی مسلمانوں نے میری آمد پر بڑی خوشی کا اظہار کیا.بہت سے لوگوں نے قرآن مجید اور نماز سیکھنی شروع کردی.راناؤ میں داخل ہونے
۲۳۰ کے معا بعد عیسائیوں سے ایک پبلک جگہ میں مباحثہ ہوا جس کا مخارا کے فضل سے غیر مسلموں اور غیر احمدیوں پر اچھا اثر پڑا.ایک غیر سلم چینی دوست نے بعد میں ایک غیر مسلم کو بتایا کہ وہ خود مباحثہ میں موجود تھے ان پر یہی اثر ہے کہ عیسائیت اسلام کا مقابلہ نہیں کر سکتی.حکومت نے دیکھا کہ راناؤ کے مقامی مسلمانوں میں بیداری پیدا ہو رہی ہے اور انہوں نے احمدی مبلغ سے دینی تعلیم حاصل کرنا شروع کر دی ہے اور نیز یہ کہ احمدیت عیسائیت کا بر ملا مقابلہ کر رہی ہے.یا ناؤ میں ہر ماہ کی تی ییں تاریخ کو منڈی لگتی ہے جس میں علاقہ کے دور دراز کے لوگ کثرت سے اکٹھے ہو جاتے ہیں.اس موقع پر اس علاقہ کا انگریز ڈسٹرکٹ آفیسر بھی دورہ پر ہمیشہ آتا ہے.جب منڈی کے موقع پر انگریز ڈسٹرکٹ آفیسر آیا تو اس نے مجھے اپنے آفس میں ملا کر پوچھا کہ کیا تمہارے پاس ریذیڈنٹ کی طرف سے اس علاقہ میں داخل ہونے کا اجازت نامہ ہے؟ میں نے کہا یہ علاقہ بھی بورنیو کا حصہ ہے کوئی نئی دوسری حکومت نہیں.ریذیڈنٹ سے اجازت نامہ حاصل کرنے کی ضرورت کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا.کیا حکومت کا یہ قانون ہے کہ رانا ڈیں داخل ہونے سے قبل ریذیڈنٹ کی اجاز سیاصل کی جائے؟ کہنے لگا کہ قانون تو نہیں مگر چونکہ یہاں کے لوگ جاہل ہیں اِس لئے حفاظت کی خاطر ضروری ہے کہ ریذیڈنٹ سے اجازت حاصل کی جائے.میں نے کہا کہ یہاں کے لوگ مجھ سے بڑی محبت سے پیش آتے ہیں.بہت سے لوگ بڑے شوق سے دینی تعلیم حاصل کو رہے ہیں مجھے ان سے کوئی خطرہ نہیں.بعد میں ڈسٹرکٹ آفیسر نے وہاں کے امام اور نیٹو چیف کو آفس میں بلا کر میرے متعلق پوچھا کہ ادریس بیاں کیا کام کرتا ہے اور کہاں کہاں جاتا ہے ؟ امام اور چیف دونوں نے میری تعریف کی اور کہا کہ ادریس اچھا آدمی ہے یہاں مفت دینی تعلیم دیتا ہے.ڈسٹرکٹ آفیسر نے جب دیکھا کہ اس طریق سے مبلغ کو رانا ؤ سے نکالنے کی کوئی صورت نہیں بنی تو جیسلٹن ریذیڈنٹ کو میرے متعلق تمام حالات سے اطلاع دی.ریذیڈنٹ نے خود اور پولیس کے ذریعہ ڈاکٹر بدر الدین احمد صاحب پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی کہ اور یس کو راناؤ کے علاقہ سے واپس بلا لو.ڈاکٹر صاحب نے بھی حکومت کو جواب دیا کہ اور میں مبلغ ہے تبلیغ کی ہر شخص کو آزادی ہے
۲۳۱ اس لئے ہم اور لیس کو واپس نہیں بلا سکتے.راناؤ میں میرا قیام ایک ہیڈ ماسٹرابیر نامی کے گھر میں تھا ہیڈ ماسٹر صاحب کو ہر روز تبلیغ کا موقع ملتا تھا.میرے کچھ عرصہ قیام کے بعد ہیڈ ماسٹر صاحب اور ایک اور سابق سکول ماسٹر صاحب نے بیعت کر لی.یہ دونوں احمدی دوست رانا ؤمیں صاحب اثر و رسوخ تھے.ہیڈ ماسٹر صاحب وہاں میرے قیام کے دوران جبکہ ابھی وہ احمدی نہ ہوئے تھے وہاں کی مسلم ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری تھے.عید کے دن مسلم ایسوسی ایشن کی جنرل میٹنگ تھی انہوں نے اپنی مجلس عاملہ سے پوچھا کہ اجلاس کہاں کیا بجائے مجلس عاملہ نے فیصلہ کیا کہ عید کی نماز کے بعد مسجد میں اجلاس ہو گا.ہمارے احمدی دوست نے بتایا کہ میں چونکہ احمدی ہو گیا ہوں یاں عید کی نماز احمدی مبلغ کے ساتھ اپنے گھر میں پڑھوں گا عید کی نماز پڑھنے کے بعد ہی میں مسجد میں میٹنگ کے لئے حاضر ہو سکونگا ہمارے احمدی دوست عید کی نماز ہمارے ساتھ پڑھنے کے بعد جب مسجدیں میٹنگ کے لئے گئے اور وہاں اجلاس شروع ہوا تو امام نے وہاں پر میٹنگ میں گڑ بڑ کی کہ تم قادیانی کیوں ہو گئے ہو ؟ اسی گڑ بڑ میں ایسوسی ایشن کی میٹنگ کی کاروائی بھی مکمل نہ ہو سکی.میں چونکہ رانا ؤمیں مسلسل تین ماہ سے قیام پذیر تھا.راناؤ میں خوراک مناسب حال نہ ہونے کی وجہ سے نیز دوسری جماعتوں کا دورہ کرنے کے لئے رانا ؤ میں عید پڑھا کر یں مبیلٹن آگیا.اس دوران جبکہ میں ابھی جیلٹن میں تھا بعد میں حکومت نے امام کی طرف سے ہمارے احمدیوں پر مقدمہ دائر کر وا دیا کہ احمدیوں نے مسجد میں آکر فتنہ و فساد اور گڑ بڑ کی ہے.دو دن تک مقدمہ کی سماعت ، دتی رہی جس میں ہمارے احمدی دوستوں سے سوالات کئے گئے کہ تم احمدی کیوں ہوگئے ہو ہا تم مسجد میں آکر غیر احمدی امام کے پیچھے نماز کیوں نہیں پڑھتے؟ تم نے ایک غیر ملکی احمدی مبلغ کو اپنے گھر میں کیوں رکھا ہوا ہے؟ وغیرہ.تمام سوالات کے جواب خدا کے فضل سے ہمارے احمدی دوستوں نے نہایت عمدگی سے دئیے.حکومت کا چونکہ مقصد یہ تھا کہ احمدیوں کو ڈرا دھمکا کہ احمدیت سے انکار کر وایا جائے دوسرے یہ کہ وہاں کی بجاہل پبلک کو احمدیت سے متنفر کیا جائے اور انکے دل میں یہ ڈالا جائے کہ جب حکومت ان سے نفرت کرتی ہے تو ضرور کوئی مخفی بڑائی ان
۲۳۲ میں ہو گی جس کی وجہ سے حکومت بھی ان کو پسند نہیں کرتی.ہمارے احمدی دوستوں نے کہا کہ ہم احمدیت کو حقیقی اسلام سمجھتے ہیں احمدیت سے انکار نہیں کر سکتے.ہمارے احمدیوں کو پچیس پچیس ڈالر جرمانہ کی سزا دی گئی.جب را ناؤ میں ہمارے احمدی دوستوں پر مقدمہ ہوا اُس وقت یک لینکونگن کی جماعت سے چندہ وصول کرنے کے لئے وہاں دورہ پر گیا ہوا تھا.جب وہاں سے جیلٹن پہنچا تو مجھے حکومت کی طرف سے تحریری نوٹس دیا گیا کہ حکومت کی فلاں دفعہ کے تحت تم راناؤ کے علاقہ میں داخل نہیں ہو سکتے.اس پر جماعت کی طرف سے احتجاج کیا گیا اور سنگا پور اور انڈونیشیا کی جماعتوں نے بھی احتجاجی تاریں بورنیو کی حکومت کو بھجوائیں تو خود گورنر راناؤ کے علاقہ میں تحقیق کے لئے گیا را ناؤ سے مبیلٹن واپسی پر اُس نے ہمیں بلایا اور وعدہ کیا کہ ہم اپنا نوٹس واپس لے لیں گے چنانچہ گورنر کے وعدہ کے مطابق جلد ہی حکومت کی طرف سے تحریری اطلاع آگئی کہ جماعت احمدیہ کا مبلغ جب چاہئے اناؤ جا سکتا ہے.حکومت کے فتنہ اور احمدیوں کو جرمانہ کی سزا دینے کی وجہ سے راناؤ کے عوام ایک لمبا عرصہ تک ہم سے ڈرتے رہے مگر پھر وہاں خدا کے فضل سے حالات اچھے ہو گئے.اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہوئی کہ وہاں کے علاقہ کا چیف امام جو ہمارا شدید مخالف تھا اور ہمارے راستہ میں ایک بڑی روک تھا فوت ہو گیا اور اس کے فوت ہو جانے کی وجہ سے یہ روک دُور ہو گئی ہے.اب اس کا قائم مقام امام اس کا لڑکا ہے.اپنے امام منتخب ہونے کے بعد اس نے جو پہلی تقریر کی اس میں اس نے واضح الفاظ میں کہا کہ آئندہ سے وہ احمدیت کے خلاف کوئی بات نہیں کہے گا یاہے مندرجہ بالا بیان میں جس مباحثہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ مولوی محمد سعید مباحثہ را ناؤ صاحب انصاری نے ہر احسان جوان عمل کو کیا جس کی تفصیل مرزا ۲ ۶۱۹۵۵ 51900 محمد ادریس صاحب کی ایک دوسری رپورٹ (مورخہ ۱۲۰ جون ۹۵ ائمہ ) میں بایں الفاظ ملتی ہے :.} 100.مئی کو مکرم مولوی محمد سعید صاحب انصاری جیسیلٹی سے رانا ؤ تشریف لائے شاه غیر مطبوعہ رپورٹ دو کاانت تبشیر تم یک جدید ربوہ کے ریکارڈمیں محفوظ ہے )
۲۳۳ ان کی آمد کے ساتھ راناؤ میں کافی رونق پیدا ہوگئی.انصاری صاحب کی آمد سے تین چار دن قبل ہی عیسائی مسلمانوں کو مقابلہ کے لئے بلا رہے تھے.ایک عیسائی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ وہ اکیلا ہزار مسلمانوں کا مقابلہ کر سکتا ہے.مقامی مسلمانوں نے اور عیسائیوں نے آپس میں فیصلہ کر کے دو جون کا دن تباد از خیالات کے لئے مقرر کیا مسلمان خود تو عیسائیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے ان کی ہم سے ہی امیدیں وابستہ تھیں مقامی مسلمانوں نے عیسائیوں کی طرف سے وہ خط ہمیں دیا جس میں مسلمانوں کو دعوت دی گئی تھی کہ وہ ۲ - جون شاہ کو فلاں مقام پر تبادلہ خیالات کے لئے حاضر ہو جائیں.چنانچہ مسلمانوں کی خواہش پر مکرم مولوی محمد سعید صاحب انصاری اور خاکسار میدان مقابلہ میں پہنچے گئے ہم نے مقامی مسلمانوں کے ذریعہ نیٹو چیف اور پولیس کی طرف سے انتظام کر لیا تا کسی قسم کا کوئی فتنہ اور شرارت پیدا نہ ہو ہم نے نیٹو چیف اور پولیس کے افسر کو وہ خط دکھا دیا کہ عیسائیوں کی دعوت پر اور مقامی مسلمانوں کی خواہش پر ہم تبادلہ خیالات کرنے کے لئے آئے ہیں.کافی انتظار کے بعد پادری تو بوجہ عدیم الفرصتی کے تشریف نہ لائے البتہ ان کے نمائندے پہنچے گئے.عیسائیوں کے نمائندوں کے ساتھ مکرم مولوی محمد سعید صاحب انصاری نے قریباً دو گھنٹہ تبادلہ خیالات کیا.موضوع گفتگو تشکیرت تھا.اس مباحثہ کے ذریعہ مقامی مسلمانوں پر یہ بات واضح ہوگئی کہ عیسائیت کا مقابه صرف جماعت احمدیہ ہی کر سکتی ہے." خلاف نارتھ برٹش بوز نیو کی عیسائی حکومت نے راناؤ حکومت کی مسلم کش پالیسی کے خلا کے سامان کو اپنے زرار رکھنے اوران کے کے مسلمانوں کو موثر آواز مذہبی ماحول کو اپنے رنگ میں ڈھالنے اور ان پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لئے یہ طریق جاری کر رکھا تھا کہ وہ رانا ؤ کا چیٹ قاضی اور امام خود مقر ر کر تی تھی اور ارد گرد کے دیبات میں اس کے منظور شدہ امام کے بغیر کوئی دوسرا شخص نہ امام بن سکتا تھا اور نہ مسلمانوں کو دینی تعلیم دینے کا مجازہ تھا جس کا نتیجہ یہ تھا کہ مسلمان ذہنی طور پر مفلوج ہو گئے تھے اور اس علاقہ کا امام محض حکومت کا آلہ کاربن کے رہ گیا تھا حکومت جو چاہتی
۲۳۴ اس سے کہلواتی اور پبلک اس پر اندھا دھند آمنا و صدقنا کہ دیتی.مولوی محمد سعید صاحب انصاری نے حکومت کی اس مسلم کش پالیسی کے خلاف بود نیو کے واحد روزنامه SABAN TIMES میں مفصل مضمون شائع کرایا جس میں مسلمانوں کو حکومت کے مقرود کرد امام اور چیف قاضی کے نقصانات بتائے اور نہایت وضاحت سے بیان کیا کہ اس سے حکومت کا مقصد در پروہ مسلمانوں کی وحدت کو کمزور کرنا اور ان میں فتنہ پیدا کرنا ہے.راناؤ کے نئے احمدی نیٹو چیف امان ان دنوں سنڈا کن کی سرکاری کا نفرنس میں مدعو تھے.مرزا محمد اور میں صاحب نے ان کو بھی خاص طور پر اس معاملہ کی اہمیت بتلائی اورمسلمانوں کے موقف کے بارے میں تعیض دلائل دیئے تا اگر یہ مسئلہ حکومت کی طرف سے پیش ہو تو اس کے خلاف موثر آواز بلند کی جاسکے لیے نتیجہ یہ ہوا کہ انگریزی حکومت اپنے اس ارادہ میں کامیاب نہ ہو سکی.۱۹۵۵ مشرقی ساحل میں احمدیت کی آواز اور ان میں مودی مدیر صاحب نصاری نے بوریو کے مشرقی ساحل تک پیغام احدیت پہنچانے کے لئے - ایک کامیاب دورہ کیا.اس علاقہ سے سب سے پہلے سنڈا کن کے ڈنٹل مورا یوسف نے قبول احمدیت کا اعلان کیا.یہ نوجوان نسلاً فلپینی ہیں.انہوں نے ایک لمبے عرصہ تک ہر طرح کے شدائد کا نہایت پامردی اور جرات سے مقابلہ کیا اور مبلغ کے ساتھ مل کر دن رات تبلیغ کرتے رہے جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل ما را ناؤ کے علاقہ میں پانچ نیٹو چیف تھے ان میں مسلمان نہیں ایک تھے جو مرزا محمد ادریس صاحب کے قیام رانا ؤ کے دوران ۱۸ ماه نبوت / نومبر کو بیعت کر کے داخل سلسلہ احمدیہ ہو گئے.مرزا محمد ادریس صاحب کی ۱۹۵۵ء طرف سے بھی ان کا بیعت قادم حضرت مصلح موعود کی خدمت ہیں موصول ہوا تو حضور نے ارشاد فرمایا :- ان کو کہیں کہ ہمیں تو آپ لوگ آگے نہیں آنے دیتے اب آپ کا کام ہے کہ اپنے قبیلے کو احمدی بنائیں اللہ تعالیٰ آپ کو پائیتر ( POINEER ) بنائے اور دینی بر کانت عطا فرمائے.ٹیٹو چیف امان پر بعد میں بڑی سختی کی گئی اور انگریز ڈسٹرکٹ آفیسر اور مسلمان نائب افسر دونوں نے الگ الگ د همکی دی کہ احمدی ہو جانے سے تم چیف نہ رہو گے مگر وہ نہا یت پامردی سے حق پہ قائم رہے : ے تبلیغی رپورٹ مرزا محمد اور میں صاحب ہے لم میشه لہ تعالی نے انہیں دنیا وی لحاظ سے بھی غیر معمولی توتی دی.احمدیت کو قبول کرتے وقت وہ محکمہ جنگلات میں معمولی کلرک تھے لیکن اب وہ اسی محکمہ میں اعلیٰ افسر ہیں.ابھی حال ہی میں گورنمنٹ کے خرچ پر وہ ہالینڈ میں مزید ٹرینینگ حاصل کرنے کے بعد وطن واپس آئے ہیں اور مزید ترقی حاصل کی ہے ؟
۲۳۵ سے یہ ہوا کہ اب سنڈا کن کی جماعت بود نیو کی سب سے بڑی جماعت ہے اور ڈنٹل مورا یوسف صاب اس کے پریذیڈنٹ ہیں.۱۳۳۴۰-۳۵۰ ۳۵ ۱۳۳۳ میں جبکہ راناؤ میں انگریزی حکومت جبکہ را 71900-09 حضرت مصلح موعود کی لعین خصوصی ہدایات کی مشینری جماعت احمدیہ اور اس کے مبلغین کے خلاف پورے زور سے حرکت میں آچکی تھی حضرت مصلح موعودؓ نے ڈاکٹر بدر الدین احمد صاحب کو وقتاً فوقتاً درج ذیل ہدایات دین :- ا.ڈاکٹر صاحب کے مراسلہ یکم تبوک ستمبر یا پر ارشاد فرمایا :- ر احتجاج کا کیا سوال تھا کہہ دیتے ہم نہیں نکلتے ہمیں بھی وہی حق حاصل ہے جو اور لوگوں کو ہے.اصل طریق یہ ہے کہ بور نیو کے لوگوں میں پراپیگنڈا کریں کہ ہم آزاد ہونا چاہتے ہیں تبھی یہ لوگ سیدھے ہوں گے.".انہوں نے اپنے مکتوب ۲۰ تبوک رستمبر ۱۳۲۵ میں تبلیغی صورت حال کی اطلاع دی تو حضور نے اس پر لکھا :.، صحابہ کی طرح تبلیغ کریں جس طرح جونک چمٹ جاتی ہے منتیں کریں ، غیرت دلائیں ، جوش دلائیں، اور ایک ایک کو نہیں ہزاروں کو یا ۳.ڈاکٹر صاحب کے مکتوب ۲۲-۲۳ تبوک /ستمبر های پر فرمایا :- ۶۱۹۵۵ " اصل اہم بات یہ ہے کہ آپ کو نہ نکالیں.آپ کہ دیتے کہ بے شک اور میں کو قید کہ لو میرا کوئی تعلق نہیں.اگر اور میں قید ہو جاتا اور کہہ دیتا کہ ڈاکٹر بدرالدین کو مجھے پر کیا اختیار ہے ؟ تو مسلموں سے کہنا کہ میں تمہارے ایمان کی خاطر قید ہونے لگا ہوں تو ساری دنیا میں تہلکہ بچ جاتا.ہم سارے افریقہ اور امریکہ میں شور نچوا دیتے.ڈچ بور نیو میں بھی شور مچو ائیں اور کہیں کہ انگریز نکل جائیں ہم اور نیو انگریزوں کے ماتحت نہیں چاہتے.جب انگریز نے تبلیغ کو پولیٹیکل معاملہ قرار دیا ہے تو آپ کیوں نہیں پولیٹیکل معاملہ قرار دیتے ، سارے افریقہ میں لوگ بطور قوم آباد ہیں انہوں نے گورنمنٹ سے ٹکر لی ہے اور ان کو شکست دی.جب میں نے لیگوس کے چیف سے ذکر کیا کہ میرا ایک رسالہ جو عیسائیت کے خلاف
۲۳۹ ہے گورنمنٹ کہیں اسے ضبط نہ کر لے تو اس نے مٹی بھینچ لی اور اس کو ہلا کر کہا ہم مسلمانی کثریت میں ہیں ہم گورنر کی گردن پھینے دیں گے اس کو طاقت کیا ہے...چاہئیے تھا کہ عقل سے کام کر تے مگر ساتھ ہی پلک کو ایسے حاکموں کے خلاف کھڑا کر دیتے جو ظلم اور تعدی سے کام لیں م.ان کے ۲۶ ستمبر شاہ کے ایک مکتوب پر تحریر فرمایا: آپ بار بار گورنر کو ملتے رہیں اس سے اثر پیدا ہوتا ہے.اب آپ اس علاقہ کو ہرگز نہ چھوڑیں اور اس موقعہ سے پورا فائدہ اٹھائیں اور اس میں تبلیغ پر زور دیں.اس وقت ایسا موقعہ ہے کہ لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہو جائیں : ۵.ڈاکٹر صاحب موصوف کا ایک خط مورخه اار اغاز / اکتوبر کو حضور کی خدمت میں موصول ۱۹۵۵ء ہوا جس پر حضور نے جو ہدایات فرمائیں وہ صاجزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر کے الفاظ میں درج ذیل ہیں :- (الف) " گورنر کے نام جو چٹھی لکھی گئی ہے بے شک بھیجوا دی جائے مگر اس میں یہ امر ومضات سے تحریر کر دیا جائے کہ نئی بلڈنگز وغیرہ کے متعلق جو قوانین عیسائی مشنوں کے متعلق ہیں وہ جب تک ان پر عائد ہوں گے ہم بھی ان کی پابندی کریں گے.اس بارہ میں حضور نے یہ تاکید فرمائی ہے کہ اس کے نتیجہ میں تبلیغ پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہئے تبلیغ ہم جہاں چاہیں کریں گے.(ب) مقدمہ کی اپیل کے متعلق کل ہی لکھا جا چکا ہے.اگر تو گورنمنٹ نے اس مقدمہ کو آئندہ ہمارے خلاف استعمال نہیں کرنا تو پھر بے شک اپیل نہ کریں ورنہ اپیل کی جائے.(ج) اگر کسی علاقہ سے مبلغ کو تبلیغ سے روکنے کے لئے نکلنے کا حکم دیا جائے تو مبلغ ہر گنہ اپنی جگہ نہ چھوڑیں خواہ قید کر لئے جائیں.اس صورت میں یہ طریق اختیار کیا جائے کہ پبلک سے ایجی ٹیشن کروایا جائے کہ مذہب میں حکومت دخل دے رہی ہے.ان حالات میں ضروری ہے کہ جلد سے جلد لوکل مبلغ تیار کئے جائیں کیونکہ اگر حکومت غیر ملکیوں کو نکال ہی دے تو لوکل مبلغین کو تو نہیں نکال سکتی اس طرح تبلیغ کا راستہ بند نہ ہو گا بلکہ کھلا
رہے گا.۲۳۷ 4.ایک اور مکتوب پر ارشاد فرمایا :- ان کو سمجھائیں کہ جس علاقہ میں جائیں پہلے ان سے دوستیاں کریں، تعلقات بڑھائیں، ہلکی ہلکی تعلیم میں پھر تبلیغ آسان ہو جائے گی ، یا درکھیں ذوالقرنین پہلے مغرب میں گیا پھر مشرق میں سو پہلے تبلیغ مغرب سے شروع ہوئی اب مشرق کی طرف شروع ہو رہی ہے.یہ جو ہے کہ سورج مغرب سے چڑھے گا اگر امریکہ سے رو شروع ہوئی تو راستہ میں آپ کا ملک آتا ہے یا (۲۱) صلح جنوری تبلیغی ادریس ( ۶۱۹۵۶ مرزا محمد اور ایسی صاحب نے هر کی پہلی سہ ماہی میں راناؤ کے علاوہ مندرجہ وسیع بیغی دورہ ذیل دیہات کا تبلیغی دورہ کیا.لیبانگ، تگوؤں ، کنتینتل، کینی در اسن، پروٹ رینڈ اکنگ ، موکاب، پرنگ، سنگیٹن ، تو پنگ، پر پچانگن ، لنگست ، کنڈ اسٹنگ، ہنڈو تو ہین.ان دیہات کی مجموعی آبادی مسلمان، عیسائی اور لامذہب لوگوں پر شتمل ہے.مرزا صاحب موصوف نے ان مختلف الخیال لوگوں کو محبت و پیار سے حقیقی اسلام کی طرف دعوت دی تعلیم یافتہ غیر مسلموں کو اسلامی اصول کی فلاسفی" کا تحفہ دیا اور مسلمانوں کو امام مہدی کی بشارت سنانے کے علاوہ نمازہ اور قرآن مجید پڑھنے کی طرف توجہ دلائی.تہ جماعت احمدیہ اور نیو کے ذریعہ ایک عرصہ سے فلپائن کے ڈاکٹر بدرالدین احمد صاحب کا مسلمانوں تک پیغام کی پہنچ رہاتھا اور کئی سعید دو میں حق سفر فلپائن حق کو قبول کرنے کے لئے تیار ہو چکی تھیں.مرکز احمدیت نے فلپائن میں مبتلغ بھجوانے کی مسلسل کوششیں کیں مگر فلپائن کی حکومت کسی مسلمان مشنری کو اپنے ملک میں داخل نہیں ہونے دیتی تھی.یہ صورت حال دیکھ کر ڈاکٹر بدرالدین احمد صاحب نے اپنی خدمات حضرت مصلح موعودو کی خدمت میں پیش کیں چنانچہ حضور کے ارشاد کی تعمیل میں آپ آگاہ احسان رتوں سے فلپائن تشریف لے گئے جہاں تھوڑے ہی عرصہ میں دو سو سے زائد اشخاص ان کی تبلیغ سے داخل سلسلہ ہو گئے جس پر حضور نے سالانہ جلسہ کی تقریر کے دوران خوش نودی کا اظہار ل مبتغی بو نیو کی طرف اشارہ ہے (مولف) له الفضل در احسان جون له
۲۳۸ شهید بابایش مایه و خار جولائی مرے میں برونائی میں جو شمالی بود نیو سے ملحق برونائی اسٹیٹ میں احمدیت مسلم ریاست سے ہمکرم مولوی محمد سعید صاحب انصاری کے ذریعہ احمدیت کی داغ بیل پڑی اور سب سے پہلے یوسف بن بولت کو قبول حق کی سعادت نصیب ہوئی.بورکیو میں پاکستانیوں کی بھی خاصی تعداد موجود ہے پاکستانی باشندوں میں تنظیم کی جدوجہد ڈاکٹر بدرالدین اورصاحب کی سالہاسال کی کوشش ٤١٩٩٠ سے میں ان کو متحد و منظم کرنے کے لئے پاکستانی ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں لایا گیا اور اتفاقی رائے سے اس کی صدارت ڈاکٹر صاحب ہی کو سونپی گئی.آپ کی وفات کے بعد ایک مقامی پاکستانی حاجی کالا خان صاحب صدر منتخب کئے گئے اور مبلغ بورنیو مرزا محمد اور لین صاحب سیکرٹری تجویز ہوئے ۴ ار اگست 1ء کو بو نیومیں پہلی بار پاکستانیوں نے اپنا یوم آزادی اہتمام سے منایا جس کے جملہ انتظامات مرزا صاحب موصوف نے کئے.اس تقریب کی رپورٹ مقامی اخبار "SAZAN TIMES میں شائع ہوئی.سے ماه احسان جون میں سر اوک سے سات 51941 سراو کے خیرسگالی در دو پایم را در شما یک ایران اور سرکاری طور پر آیا افراد پر جو چینی اور سر اوک کے مسلمان نمبروں پر شتمل تھا مرزا محمد اور لہسن صاحب نے ان ممبروں کو سلسلہ کا لٹریچر پیش کیا.وفد کے لیڈر نے سراد ک سے شکریہ کا خط لکھا جس کا مضمون یہ تھا کہ آجکل کی دہریت کی فضا میں مذہب کی تبلیغ قیام امن کا بہت بڑا ذریعہ ہے.مجھے بہت خوشی ہوئی کہ آپ یہ کام انجام دیکر انسانیت کی تعظیم خدمت بجالا رہے ہیں.یہ کی پہلی سہ ماہی کے دوران مولوی بشارت احمد صاحب مبلغین کا تعارفی دوره نسیم امروہوی من کا چارج سنبھالنے کےلئے بونی تشریف لے گئے.مرزا محمد ادریس صاحب نے اُن کے ساتھ لنکونگن ، نوم اور ساپونگ کا دورہ کر کے احمدی دوستوں لے ریکارڈ وکالت تبشیر ، الفرقان (ربوه) شهادت / اپریل ۳۲ ر فتح دسمبر ۲۵ ص : سه ایضاً : *1941 71941 له الفضل
من ۲۳۹ سے متعارف کرایا.اس سلسلہ میں یہ دونوں مبلغ سا باہ کے دو بڑے انگریزی روزناموں کے ایڈیٹروں سے بھی کئے بیان انہیں ایام میں جیلٹن افریقی ایشیائی برنامسٹوں افریقی ایشیائی جرنلسٹوں سے ملاقات کا ایک وفد حکومت کی دعوت پر ساآباد آیا جنہیں مرزا صاحب موصوف نے عربی اور انگریزی اسلامی لٹریچر پیش کیا.وفد کے ایک مسلمان مبر نے بڑی خوشی کا اظہار کیا کہ ایک مسلمان مشتری ملنے کے لئے آیا ہے نیز کہا کہ آپ پہلے مسلمان ہیں جو مجھے یہاں ایک مسلمان بھائی کی حیثیت سے خاص طور پر ملنے آئے ہیں.سے ناہ یہ نئی مشکلات با ظهور اگست میں وزیر انگریزی تسلط و اقتدار سے آزاد ہوگیا تو خیال کیا جاتا تھا کہ تبلیغ اسلام کی راہ میں حائل رکاوٹیں آہستہ آہستہ دور ہو جائیں گئی مگر اس کے برعکس جماعت احمدیہ کو پہلے سے بھی زیادہ مشکلات سے دو چار ہونا پڑا حتیٰ کہ مختلف مقامات میں احمدیوں کو ورغلانے ، لالچ دے کر اپنے ساتھ شامل کرنے اور دھمکیاں دے کر مرغوب کرنے کا سلسلہ اب تک بھاری ہے.ساباد کی آزادی پیہ ابھی چند ماہ گزرے تھے کہ بعض ریڈیو پر احمدیت کے خلاف پراپیگینڈا متعقیب لوگوں نے ساباور یڈیو سے حریت کے اور اس پر احتجاج خلاف پراپیگنڈا شروع کر دیا.مولوی بشارت احمد صاحب نسیم نے 9 جنوری 19 کو ڈائریکٹر صاحب براڈ کاسٹنگ اینڈ انفارمیشن حکومت ساباہ اور سرواک کو احتجاجی خطوط لکھے جن کی نقول فیڈرٹی سیکرٹری اور حکومتوں کے چیف سیکرٹری صاحبات کو بھی ارسال کیں جس پر ان کی طرف سے معذرت کا خط آیا.سے هر ۴۴ اور دیر کو اس بات کی تاریخ میں ہمیشہ حمدیہ سلم سالانہ کانفرنس کی بنیاد یاد رکھا جائے گا اس نے کہ اس روز ا ا میں سالی واحدی لئے سالانہ ( DONALD الله ایک روزنامہ اخبار ساباہ ٹائمز اینڈ نارتھ بورنیو کے ایڈیٹرو الک مسٹر ڈونلڈ سٹیفنز STEPHANS تھے جو ملک کی آزادی کے بعد ملیشیا بن جانے پر سابات کے پہلے وزیر اعلیٰ چنے گئے اور اب آسٹریلیا میں ملیشیا کے ہائی کمشر ہیں : الفضل ۲۷ تبلیغ / فروری ۱۳۳
۲۴۰ مسلم کانفرنس کی بنیاد پڑھیں.اس پہلی کا نفرنس کے انعقاد کے لئے ملکی حالات کے پیش نظر یک روزہ پروگرام بنایا گیا.احمد یہ کلم میشن ہاؤس جبیلٹی کی عمارت ہی میں جلسہ ہوا اور اسی میں مہمانوں کے قیام و طعام کا انتظام کیا گیا.احمدی احباب ۸ رفتم دسمبر کی صبح سے ہی آنے شروع ہو گئے.قریبی جماعتوں کے احمدیوں نے دُور سے تشریف لانے والے دوستوں کی رہائش اور طعام کا خاطر خواہ بندوبست کیا.احمدی بہنوں نے کھانا تیار کر کے اور احمدی بھائیوں نے کھانا پیش کر کے اور حسب ضرورت خوردنی اشیاء شہر سے مہیا کر کے اخلاص کی عمدہ مثال قائم کی.اس کا نفرنس میں پوناتن ، لوکاوی ، رامایہ، ساپونگ، تم لنگ تیلی پوک ، رینانم ، ساساگا سا، کوالا بلائیت ، برونائی اسٹیٹ اور سنڈا گن کے احمدیوں نے شرکت فرمائی.پروگرام کے مطابق تین اجلاس ہوئے جن میں مولوی بشارت احمد صاحب تیم مبلغ ساباہ کے علاوہ بو جنگ بن رؤوف صاحب ، محمد شریف تیوسو چنگ صاحب آن برونائی ، ڈنشل مورا یوسف آف سنڈ اگن نے بھی خطاب فرمایا.رات کو شور ٹی کا اجلاس منعقد ہوا جس میں شادی بیاہ ، چندوں کی ادائیگی اور بچوں کی دینی تعلیم کیلئے درس گاہ وغیرہ اہم امور زیر بحث آئے یہ 1990 کی سالانہ کا نفرنس میں مسلح انچارج ملیشیا مولوی محمد سعید صاحب انصاری اور مولوی محمد عثمان صاحب چلینی مبلغ سنگاپور بھی شریک ہوئے.خدا کے فضل و کرم سے یہ کا نفرنس باقاعدگی سے ہر سال منعقد ہوتی ہے اور اس میں مختلف دینی و تربیتی موضوعات پر تقاریر کے علاوہ مجلس شوری کا بھی انعقاد ہوتا ہے جس میں تبلیغ و تربیت کے سلسلہ میں فیصلے کئے جاتے ہیں.یہ کانفرنس اس علاقہ کے احمدیوں میں بیداری پیدا کرنے کا عمدہ ذریعہ ثابت ہو رہی ہے.سیاہ کی احمدی جماعتیں اس وقت اس ملک میں سے اب بابا کہا جاتا ہے حسب ذیل مفات ا کو کا کینا بالوں جیسائٹیوں، ۲ - رامایه (پیمپنگ ضلع ) ه الفضل ۳۰ صلح بر جنوری پر خدا کے فضل سے احمدی جماعتیں پائی جاتی ہیں :- KOTA KINABALU, (JESSELTON) KG.RAMAYAN (PENAMPANS >
۲۴۱ ۳ - تما لانگ ( توارن ضلع ) ۴.راناؤ A KG.TAMALANG TELIPOK (TUARAN) (1) لنکونگن (۲) کے ہیڈوپ آن انومان ریو نوٹ ضلع النکونگن اسٹیٹ KG.LINGKUNGAN, KEHIDUPAN, INUMAN (LINGKUNGAN ESTATE ) 4 - ساسا گا ساپونگ اسٹیٹ اٹینم ضلع ، لاجان.سنڈا کن.تواؤ KG.SASAGA (SAPONS ESTATE ) LABUAN برونائی اسٹیٹ الگ سا باہ سے متصل علیحدہ ملک ہے ؟ SANDAKAN TAWAU BRUNEI ESTATE ساباہ کے احمدیوں کی تعدا د اگر چہ بہت تھوڑی ہے مگر ان میں ایثار بعض مخلصین کا تذکرہ اور خلوص و فداکاری کی روح کارفرما ہے.چنانچہ مولوی بشارت احمد صاحب نسیم امروہوی مبلغ سا باہ تحریر فرماتے ہیں :- " تما لانگ جماعت کے پریزیڈنٹ مکرم عبد الہادی صاحب مخلص احمدی ہیں سلسلہ کے کاموں میں خاص دلچسپی لیتے ہیں اور اپنی جماعت کی تربیتی تعلیمی نگرانی اپنی دینی قابلیت کے مطابق پورے جوش اور شوق سے کرتے ہیں.لنکونگن میں مکرم مانڈور محمد یعقوب صاحب بین بین گیران احمد صاحب جماعت احمدیہ کے ہیڈ وپ آن اور سنکونگی کے پریذیڈنٹ بھی ہیں اور بہت پرانے اور مخلص احمدی ہیں.ابتدائی زمانہ میں احمدیت کی بدولت مشکلات کے دور سے گزرے ہیں اور ثابت قدم رہے ہیں.اب ماشاء اللہ ان کے خاندان کے سارے ہی لوگ احمدیت کی آغوش میں ہیں.سنڈ اکن میں مکرم ڈینٹل مورا یوسف صاحب جو حال ہی میں حج بھی کر کے آئے ہیں جماعت احمدیہ سنڈاکی کے پریذیڈنٹ اور لوکل مرکزی نظام کے وائس پریذیڈنٹ ہیں.محکمہ جنگلات میں اچھے محمدہ پر فائز ہیں.پرانے اور نہایت مخلص نوجوان ہیں میتواند یکی
سلسلہ کے ہاتھوں خامنے شکل دور سے گزرچکے ہیں.اپنی اہلیہ اور قریبی رشتہ داروں سے ہی ایک لمبازمانہ انہوں نے پریشان کن حالات میں گزارا لیکن صبر سے کام لیا.ثابت قدم رہے آسیب انکی اہلیہ ملبہ بھی حلقہ بگوش احمدیت ہیں اور بچے بھی سارے ہی.اس جماعت کے دوسرے دوست مکرم حسین.ائے آئل صاحب اگرچہ نئے احمدی میں لیکن مخلص اور دیندار نوجوان ہیں.آپ کی اہلیہ اور بجگان بھی نظام سلسلہ اور نظام خلافت سے وابستہ ہیں.آپ کی اہلیہ پہلے عیسائی تھیں اور ایک لمبا عرصہ عیسائی رہیں.آپ کے احمدیت قبول کرنے کے ایک سال بعد اسلام کی سچائی کی قائل ہو کر احمدیت کی آغوش میں آگئیں.آب مخلص احمد بی خاتون ہیں.اسی جماعت کے ایک اور نوجوان مکرم منصور بن سلیم شاہ صاحب میرین پولیس (Y MARINE POLICE میں سب انسپیکٹر ہیں.اپنے والد مرحوم مکرم سلیم شاہ صاحب آت لا ابو ان کی طرح نہایت مخلص اور دیندار نوجوان ہیں.سلسلہ کے کاموں میں خاص نویسپی لیتے ہیں.ہندوں میں باقاعدہ ہیں.آپ کے خاندان کے سب افراد خدا کے فضل و کرم سے نظام سلسلہ عالیہ احمدیہ سے وابستہ ہیں.جماعت احمدیہ لابو ان کے پریذیڈنٹ مکرم کرمان صاحب اس ملک کے سب سے پہلے احمدی ہیں مخلص ہیں.آپ جاوا انڈونیشیا کے باشندہ ہیں لیکن ایک لمبے زمانہ سے اس ملک میں آباد ہیں.خاموش طبع ہیں.اس سے قبل آپ کمیونسٹ تھے.جماعت احمد یہ تو اؤ کے پریذیڈنٹ مکرم محمد بینی ابراہیم صاحب اور اسمعیل سلیم قراب ہر دو نوجوان اگر چہ نو مبائع ہیں لیکن بہت مخلص ہیں.یوں 1977 مہ کی ان کی بیعتیں ہیں.اخلاص میں ترقی کر رہے ہیں.ان کی بیویاں بھی ان کے بعد بیعت کر چکی ہیں تبلیغ کا مشغل بھاری رہتا ہے.اپنی مخلصانہ جد و جہد سے سفید روحوں کی کشش کا سامان بنے رہتے ہیں.برونائی اسٹیسٹ میں جماعت احدید کے پریزیڈنٹ مکرم محمد شریف صاحب تیوسو پر پیانگ پرانے اور مخلص دوست ہیں.آپ چینی النسل ہیں.آپ کی اہلیہ صاحبہ بی بینی انس ہیں اور آپ کی طرح مخلص اور دین دار خاتون ہیں.اس سے قبل آپ بدھسٹ تھے میکرم
کے عبد القادر صاحب مرحوم اور مکرم سکرمان صاحب آن لا بو آن، مکرم تعلیم شاه هناب مرحوم لابوان ان کے پرانے ہم جلیس تھے.اور اسی نیک محبت کی بدولت انہیں اسلام اور احمدیت ایسی دولت پالینے کی توفیق میسر آئی.آپ قادیان اور ربوہ کی زیارت بھی کر چکے ہیں یا نہ فصل فیتیم عدن شن کا قیام بیر عرب کے جنوب مغربی ساحل اور اس کے بالائی عدن کا محل وقوع اور تبلیغی اہمیت حصوں میں ایک مشهور مملکت عدن وحضرموت واقع ہے جو مختلف چھوٹے چھوٹے بائیں ٹکڑوں سے مل کر بنتی ہے اور جو کسی وقت بالواسطہ طور پر برطانوی اقتدار کے زیر انتظام تھی مگر آب آزاد ہو چکی ہے اور اس پر مقامی شیورخ حکمران ہیں.عدن خاص اور اس کے قرب و جوار کی آبادی میں عرب مسلمانوں کی کثرت ہے گو عیسائی ، پارسی، ہودی اور بہندو بھی خاصی تعداد میں آباد ہیں.عدن عرب کا دروازہ اور جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی بندرگاہ اور ہوائی مرکز ہے جہاں سے دنیا کے چاروں طرف ہوائی اور بحری راستے نکلتے ہیں لہذا یہ اسلام کی تبلیغ و اشاعت کا بہترین مرکز بننے کی صلاحیت رکھتا ہے.جماعت احمد یہ عدن اگر چہ ۱۹۳۶ء سے قائم ہے مگر اس کے اکثر مبر بیرونی تھے.باقاعدہ طور پر اس مشن کا قیام ماہ طور / اگست سر میں ہوا.71974 اه مکتوب مورخہ یکم نبوت و نوبران بنام مولف تاریخ احمدیت به
۲۴۴ اس کشن کے قیام کا پس منظر یہ ہے کہ یہاں کچھ عرصہ سے پانچ عدن شن کے قیام کا پس منظر نہایت مختص بعدی ڈاکٹر قومی اور کی خدمات بجا کار ہے یتی کہتے جن کے نام یہ ہیں.ڈاکٹر فیروز الدین صاحب.ڈاکٹر محمد احمد صاحب.ڈاکٹر محمد خاں صاحب.ڈاکٹر صاجزادہ محمد ہاشم خاں صاحب اور ڈاکٹر عزیز بشیری صاحب.ڈاکٹر فیروز الدین صاحب جو اُس زمانے میں جماعت عدن کے پریذیڈنٹ تھے عدن سے قادیان آئے تو انہیں ڈاکٹر محمد احمد صاحب ۱۱۹۴۶ نے اپنے خط مورخه ۲۳ صلح جنوری اور تار مورخہ ۲۳ صلح / جنوری میں عدن بشن ه ۳۲۵ کھلوانے کی تحریک کی نیز لکھا کہ یکی مبلغ کے لئے اپنا مکان کچھ ماہ تک دینے کے لئے تیار ہوں اس عرصہ میں دار التبلیغ کے لئے کیسی اور مکان کا انتظام ہو سکے گا.ڈاکٹر محمد احمد صاحب نے اس کے ساتھ ہی پانچ سو روپیہ اخراجات سفر کے لئے بھی بھیجوا دئیے اور ڈاکٹر عزیز بشیری صاحب نے اتنی ہی رقم کا وعدہ اخراجات قیام کے طور پر کیا.چنانچہ ڈاکٹر فیروز الدین صاحب جماعت عدن کی نمائندگی میں حضرت مصلح موعود کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ڈاکٹر محمد احمد صاحب کا خط اور تاریشیش کیا اور درخواست کی کہ کوئی موزوں مبلغ عدن کیلئے تجویز فرمایا جائے ہم پانچوں ڈاکٹر دار التبلیغ کا بار اُٹھانے میں مدد کریں گے.اس پر حضرت امیر المومنین المصلح الموعود نے جامعہ احمدیہ کے فارغ التحصیل نوجوان مولوی غلام احمد صاحب مبشر کو اس خدمت کے لئے نامزد فرمایا.مولوی غلام احمد صاحب مبشر ۴ ماه ظهور/ اگست مبشیر اسلامی کا عدن میں ورود ۳۵ کو قادیان سے روانہ ہو کر تیسرے دن ۶ - ظهور / اگست کو بیٹی پہنچے جہاں حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب نیتریہ اور دوسرے احباب جماعت نے اُن کا استقبال کیا.بعد ازاں و ظہور اگست کو جہاز میں سوار ہوئے اور 19 ظہور / اگست بروز سوموار عدن پہنچے.بندرگاہ پر ڈاکٹر فیروز الدین صاحب اور ڈاکٹر محمد احمد صاحب آپ کو لینے کے لئے پہلے سے موجود تھے.مولوی غلام احمد صاحب بر حسب فیصلہ ڈاکٹر محمد احمد صاحب کے ابتدائی تبلیغی سرگرمیاں یتیم ہوئے اور ایسی ڈاکٹر امام صاحب اور اکثر فیروزالدین صاحب اور ڈاکٹر عبد اللطیف صاحب کے ساتھ وفد کی صورت میں عدن سے دس میل کے فاصلہ پر
۲۴۵ واقع شیخ عثمان تشریف لے گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض عربی تصانیف مثلاً الاستفتاء ، الخطاب الجليل ، التبليغ اور سِيرة الابدال وغيره مختلف اشخاص کو پڑھنے کے لئے دیں اور زبانی بھی پیغام حق پہنچایا.علاوہ ازیں عدن میں مولوں ، عیسائیوں اور یہودیوں میں التبليغ ، سيرة الابدال، نظام کو (انگریزی) ، اسلام اور دیگر مذاہب ، میں کیوں اسلام کو مانت ہوں وغیرہ کتب اور ٹریکٹ تقسیم کئے.احمدی ڈاکٹروں نے ابتداء ہی سے یہ خاص اہتمام کیا کہ وہ اولین فرصت میں اپنے حلقہ اثر کے دوستوں کو مبشیر اسلامی سے متعارف کرائیں.اس غرض کے لئے اُنہوں نے بعض خاص تقریبات بھی منعقد کیں جن میں عدکن کے باشندوں خصوصاً نوجوانوں کو بد عو کیا.خود مولوی صاحب بھی اشاعت حق کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے اللہ تعالیٰ نے بھی مولوی صاحب کی پر جوش تبلیغ میں ایسی برکت ڈالی کہ پہلے مہینہ میں ہی ایک دوست احمد علی صاحب نامی جو ہندوؤں سے مسلمان ہوئے تھے اور شیخ عثمان کے نواحی علاقہ کے باشندے اور عد ن کے رہنے والے تھے حلقہ بگوش احمدیت ہو گئے حضرت مصلح موعود نے ان کی بعیت قبول فرمائی اور مولوی غلام احمد صاحب کو ارشاد فرمایا " تبلیغ پر خاص زور دیں اس پر مولوی صاحب نے عدن شیخ عثمان اور تو اہیں اسٹیمر پوائنٹ میں باقاعدہ پروگرام کے مطابق انفرادی ملاقاتوں اور تقسیم لٹریچر کے ذریعہ سے زور شور سے تبلیغ شروع کر دی اور گرجوں اور معززین کے گھروں اور بازاروں میں عربی ، اُردو اور انگریزی لٹریچر تقسیم کرنے لگے.چنانچہ آپ نے عربی کتب میں سے سيرة الابدال + اعجاز اسیح ، التبليغ الاستفتاء اُردو میں احمدی اور غیر احمدی میں فرق ، پیغام صلح اور انگریزی میں احمدیہ موومنٹ، پیغام صلح ، اور تحفہ شہزادہ ویلیز.بعض معربوں ، ہندوستانیوں اور انگریزوں کو پڑھنے کے لئے دیں جس سے خصوصاً انگریز وں اور عیسائیوں میں اشتعال پھیل گیا اور انہوں نے حکام بالا تک رپورٹ کر دی.ہ ان مقامات کا انتخاب اس لئے کیا گیا تھا کہ ان میں احمدی، ڈاکٹر قیام پذیر تھے.چنانچہ عدت میں ڈاکٹر فیروز الدین صاحب اور ڈاکٹر محمد احمد صاحب ،شیخ عثمان میں ڈاکٹر محمد خاں صاحب اور تو انہی میں ڈاکٹر کیپٹن عزیز بشیری صاحب رہتے تھے.مولوی صاحب موصوف ہفتے ہیں دو دو دن شیخ عثمان اور تو اسی میں اور تین دن عدن میں تبلیغی فرائض سرانجام دیتے تھے اور جمعہ بھی یہیں پڑھاتے تھے ،
۲۴۶ سرکاری مخالفت انسپکٹر سی.آئی.ڈی نے مولوی غلام احمد صاحب کو بلایا اور وہ لڑ پر علماء کی مخالفت جو آپ نے تقسیم کیا تھا اس کی ایک ایک کاپی ان سے طلب کی نیز محکم دیا کہ آپ اپنا لٹریچر بازاروں میں تقسیم نہ کریں صرف اپنے گھر میں لوگوں کو ملا کر اور دعوت دے کر نیچر یا ٹریچر دے سکتے ہیں.یہ واقعہ ما و از اکتوبر میں پیش آیا جس کے ڈیڑھ مہینہ بعد تھولک چرچ کے ایک پادری نے شکایت کر دی کہ مولوی صاحب پبلک لیکچر دیتے اور کیتھولک چرچ میں تقسیم کرتے ہیں.ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس عدن نے مولوی صاحب موصوف کو تنبیہ کی کہ وہ آئندہ نہ کیتھولک چرچ میں کوئی لڑ پر تقسیم کریں نہ پبلک لیکچر دیں ورنہ انہیں گرفتار کریب جائے گا.مولوی صاحب نے بتایا کہ پبلک لیکچر دینے کا الزام غلط ہے البتہ لٹریچر یکیں ضرور دیتا ہوں مگر صرف اسی طبقہ کو جو علمی دلچسپی رکھتا ہے.مولوی صاحب نے اُن سے کہا کہ عیسائی مشنری تو کھلے بندوں دندناتے پھر رہے ہیں کیا انہیں چھٹی ہے اور صرف مجھ پر یہ پابندی ہے ؟ ڈپٹی سپرنٹنڈے پولیس نے جواب دیا کہ یہ پابندی آپ پر ہی عائد کی جا رہی ہے عیسائیوں پر اس کا اطلاق نہ ہو گا.عیسائیوں کی انگیخت اور شرارت کے بعد ماہ ہجرت مئی میں بعض مقامی علماء نے بھی مخالفت کا کھلم کھلا آغاز کر دیا.بات صرف یہ ہوئی کہ ایک مجلس مولود میں مولوی غلام احمد صاحب نے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ پر روشنی ڈالی اور ضمناً آپ کے فرزند جلیل سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بھی ذکر کیا جس پر دو علماء اور ان کے دو ساتھیوں نے آپ کو سٹیج سے اُتارنے کے لئے ہنگامہ برپا کہ دیا جلیس میں اٹھانوے فیصد شرفاء موجو دتھے جو خاموش رہے اور انہی کے ایماء پر مولانا نے اپنی تنقر رفتیم کر دی.بعد ازاں شیخ عثمان کے ائمہ مساجد نے روزانہ نمازوں خصوصاً عشاء کے بعد لوگوں کو بھڑ کا نا شروع کیا کہ وہ احمدی مبلغ کی نہ کتابیں پڑھیں اور نہ باتیں سنیں کیونکہ وہ کا فروملتون ہے یہی نہیں انہوں نے پوشیدہ طور پر گورنمنٹ کو بھی احمد می مبلغ کے خلاف اکسانا شروع کر دیا.ایک مرتبہ رستے میں مسجد کے ایک فقیہہ نے آپ کو بلند آواز سے پکارا اور آپ سے ایک کتاب یعنی استفتاء عربی مانگی جو آپ نے اسے دے دی.کتاب لینے کے بعد اس نے پہلے سوالات شروع کر دیئے اور پھر اونچی آواز سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان مبارک میں سخت بد زبانی کی
۲۴۷ مولوی غلام احمد صاحب نے پورے وقار اور نرم اور دھیمی آواز سے ان کی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا.جب آپ وہاں سے واپس آنے لگے تو اس فقیہ نے آپ کے پیچھے لڑکے لگا دیئے جنہوں نے آپ کو پتھر مارے مگر مولوی صاحب ان کی طرف التفات کئے بغیر سید ھے چلتے گئے.قبل ازیں بھی ایس مسجد والوں نے آپ سے یہی سلوک کیا تھا مخالفت کے اس ماحول میں آہستہ آہستہ ایک ایسا طبقہ بھی پیدا ہونے لگا جو مولوی صاحب کی باتوں کو غور سے سُنتا تھا.خصوصاً عرب نوجوانوں میں حق کی جستجو کے لئے ڈسپی اور شوق بڑھنے لگا مگر چونکہ عرب کا یہ حصہ حریت مزاج آزاد منش اور اکثر بدوی لوگوں پر شتمل ہے اس لئے عام طور پر فضا بہت مخالفانہ رہی.عمار اب تک مولوی غلام احمد صاحب مبشر ڈاکٹرمحمد احمد شیخ عثمان میں اور تبلیغ کا قیام صاحب کے یہاں مقیم تھے لیکن ماہ اضاء / اکتوبر اور اس کے عمدہ اثرات میں جماعت احمدیہ نے ۶۵ روپے ماہوار ۶۱۹۴۷ کرایہ پر ایک موزوں مکان حاصل کر لیا.مولوی صاحب موصوف نے یہاں دار التبانی قائم کر کے اپنی تبلیغی سرگرمیوں کو پہلے سے زیادہ تیز کر دیا اور خصوصا نوجوانوں میں پیغام حق پھیلانے کی طرف خاص توجہ شروع کر دی کیونکہ زیادہ دلچسپی کا اظہار بھی انہی کی طرف سے ہونے لگا تھا.عدن شیخ عثمان اور تو انہی کے علماء کو تبلیغی خطوط لکھے اور ان تک امام مہدی کے ظہور کی خوشخبری پنچائی علاوہ ازیں ایک عیسائی ڈاکٹر کو جو پہلے مسلمان تھا اور پھر مرتد ہو گیا ایک تبلیغی مکتوب کے ذریعہ دعوت اسلام دی.مستقل دار التبلیغ کا ایک بھاری فائدہ یہ بھی ہوا کہ عوام سے براہ راست رابطہ اور تعلق پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گیا اور سعید الفطرت لوگ روزانہ بڑی کثرت سے دار التبلیغ میں جمع ہونے اور پیغام حق سنے لگے.ا با و انها در اکتوبر بروز جمعہ المبارک عدن عبدالله محد شبوطی کی قبول احمدیت میں کی تاریخ میں بہت مبارک دن تھا جب ایک مینی عرب عبد الله محمد شبو علی جو ان دنوں شیخ عثمان میں بود و باش رکھتے تھے ساڑھے گیارہ بجے شب بیعت کا
۲۴۸ خط لکھ کر داخل احمدیت ہو گئے اور اپنے علم اور خلوص میں جلد جلد ترقی کر کے تبلیغ احمدیت میں مولوی صاحب کے دست راست بن گئے.اس کامیابی نے شیخ عثمان کے علماء اور فقہاء کو اور بھی مشتعل کر دیا اور وہ پہلے سے زیادہ مخالفت کی آگ بھڑکانے لگے مگر مولوی غلام احمد صاحب اور عبدالله حمد شبوطی نے اس کی کوئی پروانہ کی اور نہایت بے جگری ، جوش اور فداکاری کی روح کے ساتھ پر ملیں میں اور ہر جگہ دن اور رات زبانی اور تحریری طور پر پیغام احمدیت پہنچاتے چلے گئے اور امراء ، غرباء ، علماء اور فقہاء غرض کہ ہر طبقہ کے لوگوں کو ان کے گھروں میں جا کہ نہایت خاکساری اور عاجزی سے دعوت حق دینے لگے.نتیجہ یہ ہوا کہ بعض وہ لوگ جو پہلے ان کا سننا گوارا نہ کرتے تھے اب حضرت سیح موعود علیہ السلام کی بیان فرمودہ تفسیر کوشن کر عش عش کرنے لگے حتی کہ بعض نے یہ اقرار کیا کہ حضرت مرزا صاحب کی بیان فرمودہ تفسیر واقعی الہامی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی جناب سے آپ کو علم لدنی سے نوازا ہے.ماه نبوت / نومبر میں علماء نے عدن اشیخ عثمان اور تو انہی نے مادر علماء کی طرف بے کمشنر کو عرضی کے مختلف لوگوں سے ایک عرضی پستخط کر واکر مشتر کو دی اور اس کا رد عمل کہ ہم اس مشیر قادیان کا یہاں رہنا پسند نہیں کرتے یہ ہمار ایمانوں کو خراب کر رہا ہے.شیخ عثمان کے بعض نوجوانوں کو اس شکایت کا پتہ چلا تو انہوں نے علماء کے اس رویہ کی جو انہوں نے اپنی کم علمی و بے بضاعتی کو چھپانے اور اپنی شکست خوردہ ذہنیت پر پر وہ ڈالنے کیلئے اختیار کیا تھا دل کھول کر نذمت کی اور ان کے خلاف زہر دست پر اسپیگینڈا کیا.بلکہ قریباً پچاس آدمیوں نے یہ لکھا کہ ہم اس مبشر اسلامی کو دیگر سب علماء سے زیادہ پسند کرتے ہیں، اور واقعی یہ حقیقی مسلمان ہے اور حضرت مسیح علیہ السلام کے وقت کے فقیہوں اور فریسیوں نے حضرت مشیح کی مخالفت کی تھی یہ لوگ بھی مخالفت کر رہے ہیں کیونکہ انہیں خطرہ ہے کہ اگر اس شخص کا نفوذ وسیع ہوگیا تو ہماری کوئی وقعت نہ رہے گی.غرض کہ اس مخالفت کا خدا کے فضل سے اچھا نتیجہ نکلا.ان دنوں عدن میں بہود اور عرب کی کشمکش بھی یکا یک ڈاکٹر فیروز الدین صاحب انتقال زور پکڑ گئی جس کا اشرتی سرگرمیوں پر ھی پر ناگزیر تھا.علاوہ ازیں عدکن کی جماعت کے پریذیڈنٹ جناب ڈاکٹر فیروز الدین صاحب عین فسادات
۲۴۹ کے دوران میں داغ مفارقت دے گئے جس سے مشن کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا.مرحوم بہایت مخلص، نہایت پرجوش اور بہت سی صفات حمیدہ کے مالک تھے تبلیغ کا جوش اور شغف ان میں بے نظیر تھا.اگر کوئی مریض ان کے گھر پر آتا تو وہ اس تک ضرور محبت ، اخلاص اور ہمدردی سے احمدیت کا پیغام پہنچاتے.احدیت کے مالی جہاد میں بھی آمدنی میں کمی کے باوجود بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے مولوی ۱۳۲۶ غلام احمد صاحب مبشر نے اپنے ۲۷ ماه فتح / دسمبر کی رپورٹ میں ان کے انتقال کی اطلاع ہ دیتے ہوئے لکھا :- احمدیت کی مالی خدمت کا جو جوش اللہ تعالیٰ نے ان کے اندر رکھا ہوا تھا اس کی نظیر بھی کم ہی پائی جاتی ہے.ہمارا اندازہ ہے کہ وہ ہر سال اپنی آمد کام ساٹھ فیصدی اشاعت اسلام کے لئے خرچ کر رہے تھے.مساکین اغرباء سے ہمدردی اور خدمتِ خلق کا جذبہ تو کوٹ کوٹ کر ان کے دل میں بھرا ہوا تھا.اگر کوئی مسکین بھی ان کے دروازے پر آجاتا اور وہ سوال کرتا تو آپ ضرور اس کی حاجت کو پورا کر دیتے.بعض اوقات اپنی نئی پہنی ہوئی تمیں وہیں اُتار کر دے دیتے اور یہی باتیں بعض اوقات ان کے گھر میں کشمکش کا باعث ہو جاتیں.غرضکہ آپ کی زندگی حقیقت میں یہاں کی جماعت کے لئے ایک محمدہ نمونہ تھی !" اوائل هر ۱۳۲۷ ۶۱۹۲۸ میں مولوی غلام احمد صاحب نے ایک اور عالم آغوش احمدیت میں مرکز میں لکھا کہ اس علاقہ کے لوگ بالکل بھی اسلام سے بے بہرہ اور بد و یا نہ زندگی بسر کر رہے ہیں حتی کہ انہیں نماز تک نہیں آتی قرآن شریف الگ رہا اگر آپ اجازت دیں تو خاکسار درویشانہ فقیرانہ صورت میں اندرونی حصہ عرب میں پھیلا جائے اور ان لوگوں تک اسلام و احمدیت کا حقیقی پیغام بذریعہ تربیت ہی پہنچائے تو عد آن کی نسبت زیادہ کامیابی کی امید ہے لیکن مرکز نے اس کی اجازت نہ دی.اس تجویز کے ایک ماہ بعد محمد سعید احمد نامی ایک اور مغرب عالم سلسلہ احمدیہ میں شامل ہو گئے جس کے بعد جماعت عدن کے بالغ افراد کی تعداد تک پہنچ گئی.محمد سعید تجھ کے رہنے والے تھے جو کہ میات عدن میں سے ہے.لے عرب ۲ - ہندی گجراتی 1 پنجابی ۶ :
۲۵۰ ها ماه شهادت اپریل میں مولوی غلام احمد صاحب شیخ عثمان (عدن) کے نواح میں ایک گاؤں محلا" نامی میں تبلیغ کے لئے گئے جو کہ شیخ عثمان سے چھ میل کے فاصلہ پر ہے وہاں ایک فقیہہ عالم سے گفت گو کا موقع ملا مولوی صاحب نے انہیں امام مہدی علیہ السلام کی خوشخبری دی اور احادیث صحیحہ اور قرآن کریم سے آپ کی آمد کی علامات بتا کر صداقت ثابت کی اور آخرمیں مسئلہ وفات شیخ پر دلائل دیئے.قریباً ایک گھنٹہ گفت گو ہوتی رہی.آخر انہوں نے تمام لوگوں کے سامنے اقرار کیا کہ حضرت سیج نامرئی قوت ہو چکے ہیں اور باقی مسائل پر گفت گو کرنے سے بالکل انکار کر دیا.۲۱۹۴۸ ماہ نبوت / نومبر کا واقعہ ہے کہ ایک عرب نوجوان جو عیسائی مشنری کا تعاقب عیسائی مشنریوں کے زیر اثر اور ان کے پاس آتا جاتا تھا آپ کو گفتگو کے لئے ایک پادری کے مکان پر لے گیا.کیا دیکھتے ہیں کہ چار نوجوان عرب بیٹھے ان جیل پڑھ رہے ہیں گفتگو شروع ہوئی تو مولوی صاحب نے اناجیل ہی کے حوالوں سے ثابت کیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام میں کوئی خدائی صفات نہ پائی جاتی تھیں.پادری صاحب لاجواب ہو کہ کہنے لگے کہ آپ ہماری کتابوں سے کیوں حوالے دیتے ہیں ؟ مولوی صاحب نے جواب دیا ایک اس لئے کہ آپ کو وہ مسلم ہیں دوسرے آپ ہمیں انجیلوں کی طرف دعوت دیتے ہیں لہندا تنقید کرنا ہمار احتقی ہے.آخر پادری صاحب ناراض ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے اور مزید گفت گو سے انکار کر کے الگ کمرے میں چل دیئے اس پر سب عرب نوجوانوں نے آپ کا ولی شکریہ ادا کیا کہ آج آپ نے ان کا جھوٹ بالکل واضح کردیا ہے.کے وسط آخر میں مولوی صاحب کے عد آن کے مباحثے اور انفرادی ملاقاتیں علماء سے وفات مسیح مسئله ناسخ ومنسوخ مسئله نبوت اور یا جوج ماجوج کے مضامین پر متعدد کامیاب مباحثے ہوئے.علاوہ ازیں آپ نے عدان کی بعض شخصیتوں مثلاً سید حسن صافی ، محمد علی اسودی تک پیغام حق پہنچا یا.ماہ تبوک استمبر میں آپ نے جعارا اور منج کا تبلیغی دورہ کیا جہار میں حاکم علاقہ علی محمد کو تبلیغ کی اور لیج میں بعض امراء مثلاً لے عدن سے میل کے فاصلہ پر ہ سے شیخ عثمان سے 14 میل دور ایک چھوٹی سی آزاد ریاست ! جس کا مرکز سقوط ، ہے؟
۲۵۱ وزیر معارف سلطان فضل عبد القوی، وزیر تموین سلطان فضل بن علی وغیرہ سے ملے اور اُن سے نیز مقامی علماء سے تعارف پیدا کیا.عدن ایک اہم تجارتی شاہراہ پر واقع ہے جہاں مختلف بیرونی شخصیتوں تک پیغام حق اطراف سے لوگ بھڑت آتے ہیں جن میں گردو نواح کے علاقوں کے شیوخ و حکام بھی ہوتے ہیں مولوی غلام احمد صاحب مبشرا ور عبد الله محمد شبوطی ہمیشہ بیرونی شخصیتوں تک پیغام حق پہنچاتے رہتے تھے.ماہ فتح رودسمبر میں مولوی غلام احمد صاب نے عدن کے مشہور سادات میں سے ایک عالم شمس العلماء سید زین العد روس سے اُن کے مکان میں ملاقات کی اور اُن کے سامنے بڑی تفصیل سے حضرت مسیح موعود کے دعوئی اور اس کے دلائل و براہین بیان کئے.مولوی غلام احمد صاحب ایک ان تھک اور پر جوش ملیشیر اسلامی کی مبلغ عدان کی واپسی حیثیت سے منہ کے آخر تک مملکت بعد ان میں اسلام و احدیت - و کا نور پھیلاتے رہے اور عدن میں کئی سعید روحوں کو حق و صداقت سے وابستہ کرنے کا موجب بنے مگر آپ کی دیوانہ وار مساعی اور حید و جہد نے صحت پر سخت ناگوار اثر ڈالا اور آپ کو اس تبلیغی جہاد کے دوران مر میں دماغی عارضہ بھی لاحق ہو گیا.احمدی ڈاکٹروں نے علاج معالجہ ہیں دین رات ایک کر دیا.جب طبیعت ذرا سنبھل گئی اور آپ سفر کے قابل ہوئے تو آپ عدن سے ۲۴ ماه فتح / دسمبر کو بذریعہ بحری جہاز روانہ ہو گئے ۲۸ فتح / دسمبر کو بیٹی پہنچے اور ۱۲ ماہ صلح کر جنوری ہ کو ربوہ میں تشریف لے آئے.آپ کے بعد عدن کے مخلص احمدیوں خصو صاً عبدالله محمد مشبوطی اور میجر ڈاکٹر محمد خان شیخ عثمان عدن نے اشاعت اسلام و احمدیت کا کام برا بھر جاری رکھا اور آہستہ آہستہ جماعت میں نئی سعید رو میں داخل ہونے لگیں.مثلاً هنر میں محمد سعید صوفی ، ہاشم احمد ، رائل حائل نے بعیت کی میں علی سالم با دربن سالم عدنی داخل احمدیت ہو.اب یار ۶۱۹۵۰ ۶۱۹۵۱ وسط اس میں چار نئے احمدی ہوئے.۳۹ ) ۲۱۹۵۲ ایک عربی مکتوب کی اشاعت کہ میں جدال محمد الشبولی نے ایک وسط الله عالم الشیخ الفاضل عبد اللہ یوسف ہروی کے نام
۲۵۲ "مطبعة الكمال عدن" سے ایک عربی مکتوب چھپوا کے شائع کیا جس میں حضرت مسیح موعود کی بعثت اور اختلافی مسائل پر نہایت مختصر مگر عمدہ پیرایہ میں روشنی ڈالی گئی تھی._ چونکہ عدن میں کسی نئے مبشر و مبلغ کی اجازت کا ملنا ایک محمود عبد اللہ شبوطی کا عزم ربوہ مشکل ہلادین کے رہ گیا تھا اس لئے جماعت عدن کے مشورہ سے عبد الله محمد مشبوطی نے اپنے ایک فرزند محمود عبد اللہ شبوطی کو بتاریخ 19 ماہ ہجرت امئی ها مرکز میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے عدن سے روانہ کیا محمود عبدالله شبوطی ۲۵.ہجرت امئی کو ربوہ پہنچے اور جامعہ احمدیہ میں داخلہ لے لیا.- ۱۳۳۲ ۲۰ ماه نبوت / نومبر کو جماعت احمدیہ عدن کا پہلا پبلک طلبہ سیرۃ النبی کده پہلا پبلک جلسہ منعقد ہوا جلسہ کا پنڈالی دارہ التبلیغ کے سامنے تھا اور اس میں مائیکروفون کا بھی انتظام کیا گیا.قبل ازیں احمدیوں کے جلسے محدود اور چار دیواری کے اندر ہوتے تھے مگر اس سال یہ جلسہ عام منانے کا فیصلہ کیا گیا اور علاوہ اخباروں میں اشتہار دینے کے قریباً ۵۰۰ دعوتی کارڈ جاری کئے گئے.ایک روز قبل مخالف علماء نے جمعہ کے خطبوں میں نہایت زہر آلود تقریریں کر کے لوگوں کو جلسہ میں آنے سے منع کیا لیکن ان مخالفانہ کوششوں کے باوجود جلسہ بہت کامیاب رہا.حاضرین کے لئے تین سو کر سیاں بچھائی گئی تھیں جو مقررہ پروگرام سے بھی بیس منٹ پہلے پر ہوگئیں اس لئے جس کی کارروائی بھی پہلے ہی شروع کر دی گئی.صدر جلسہ عہدہ سعید صوفی تھے جن کے صدارتی خطاب کے بعد بالترتیب میر محمد خاں ( این بسیج ڈاکٹر محمد خاں) اور عبد اللہ محمد مشہوطی نے موثر تقریریں کیں.کرسیوں پربیٹھنے والوں کے علاوہ جلسہ گاہ کے اردگر وقریباً ایک ہزار نفوس نے پوری خاموشی اور دلچسپی سے تقریریں سنیں اور نہایت عمدہ اثر لے کر گئے اور بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوائیں اس کا میاب تجربہ سے عرفی احمدیوں کے حوصلے بلند ہو گئے اور انہوں نے ہر سال جلسہ سیرت النبی منعقد کرنے کا فیصلہ کر لیا.محمود عبداللہ شبوطی نے جو سالہا سال محمود عبدالله شبوطی کی مراجعت مطن او تبلیغ حق سے مرکز سلسلہ میں دینی تعلیم حاصل کر میجر ڈاکٹر محمد خان عبد الله محمد مشبوطی، سلطان محمدمه عبده سعید صوفی محمد سعید صوفی ، احمد محمد مشبوطی سیف محمد شیوطی نے اس جلسہ کی کامیابی میں نمایاں حصہ لیا ہے
۲۵۳ رہتے تھے مولوی فاضل کا امتحان پاس کرنے کے بعد ہم راہ تبلیغ ضروری اس کو اپنی زندگی خدمت F144.اسلام کے لئے وقف کر دی اور حضرت امیر المومنین المصلح الموعود نے ان کا وقف قبول فرمالیا اور ساتھ ہی عدکن میں مبلغ لگائے جانے کی منظوری بھی دے دی.چنانچہ آپ حضور کے حکم پر ۱۴ ظهور است هری کو کراچی سے روانہ ہو کہ ۱۵ر ظہور اگست کو عدن پہنچے گئے.آپ نے اگلے سال عدن سے پہلا احد کی مسالہ 199 الاسلام" جاری کیا اور علمی حلقوں میں اسلام و احمدیت کی آواز بلند کرنے کے علاوہ جماعتی تربیت تنظیم کے فرائض بھی بجالانے لگے.آپ اب تک اعلائے کلمہ حق میں مصروف ہیں لیے فصل ششتم کوائف قادیان (از ۱۹ ماده نبوت / نومبر تا ۳۱ فتح دسمبر ) ( تاریخ احمدیت کی گیارھویں جلد میں ماحول قادیان کے فسادات میں فصل روشنی ڈالنے کے بعد بتایا چاچکا ہے کہ کسی طرح ۱۶ ماه نبوت/ نومبر کو عید درویشی کا آغاز ہوا.اب اس فصل میں سال کے بقیہ کو الف قادیان کا ذکر کرنا مقصود ہے.۶۱۹۴۷ ان اولین ایام میں درویشان قادیان کے لیل و نهار خاص درویشان قادیان کے لیل و نہار طور پر باجماعت تجد پنج وقتہ نمازوں کی ادائیگی، درس میں شمولیت ، مسجد اقصی ، بیت الدعا اور بہشتی مقبره نیز دوسرے مقامات مقدسہ میں دعاؤں اور ذکر الہی کے انوار و برکات سے معمور تھے.اور ہر درویش حفاظت مرکز سے متعلق ہر چھوٹی اور بڑی مفوضہ که عدن مشن کے مرکزی ریکارڈ سے ماخوذ
۲۵۴ وقتہ واری کو ادا کرنے کے لئے محبتم اطاعت و ایثار بنا ہوا تھا.محصوریت کے یہ ایام انتہا درجہ گھٹن اور بے بسی کے روح فرسا ماحول میں گھرے ہوئے تھے مگر یہ قدوسی پوری بشاشت ایمان اور جذ بها خلاص کے ساتھ اپنے فرائض بجالاتے اور اس سلسلے میں کسی کام کو خواہ وہ بظا ہر کتنا ہی معمولی یا حقیر کیوں نہ ہو خادمانہ شان کے ساتھ انجام تک پہنچانے کو اپنے لئے بہت بڑی سعادت سمجھتے تھے چنانچہ جیسا کہ مرزا محمد حیات صاحب سابق نگران درویشاں کی غیر مطبوعہ ڈائری سے معلوم ہوتا ہے درویشوں نے ان ابتدائی ایام میں دن رات کام کیا.مثلاً درویش لنگر خانہ میں سامان پہنچاتے، مہاجر احمدیوں کے گھر سے اسباب بحفاظت جمع کرتے بہشتی مقبرہ میں معماری کا کام کرتے، بیرونی محلوں سے جمع شدہ کتابوں کو مرتب اور مجلد کرتے اور اپنے حلقہ درویشی کے ہر اہم مقام پر نہایت با قاعدگی اور ذمہ داری کے ساتھ پر دیتے تھے.درویشوں کی روزانہ ایک معین وقت پر اجتماعی حاضری بھی لی جاتی تھی.چونکہ احمدی معلقہ کے چاروں طرف غیر مسلم آباد ہو چکے تھے اور حکومت اور عوام دونوں طرف سے خطرات ہی خطرات نظر آتے تھے اس لئے ۲۲ ماہِ نبوت / نومبر کو حفاظتی نقطہ نگاہ سے دار الشیوخ والی گلی کا دروازہ اور بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی کے مکا نیچے سامنے والی گلی کا دروازہ اینٹوں سے اور احمدیہ چوک سے مسجد مبارک جانے کا راستہ تو ہے کا گیٹ لگا کر بند کر دیا گیا اور تمام آمد و رفت دفتر تحریک جدید مرزا محمد اسمعیل صاحب کے مکان اور میاں عبد الرحیم صاحب دیانت، سوڈا واٹر کی دکان سے ہونے نگی ۲۳۰ ماہ ثبوت / نومبر کو تو درویش ہند دوں اور سکھوں کی آبادی میں سے ہوتے ہوئے اسٹیشن تک گئے اور لنگر کے لئے ایک سو میں من کوئلہ لاد کر لائے ۲۷ ماہ نبوت / نومبر کو سکھوں کا پروگرام جلوس نکالنے کا تھا اس لئے تمام درویشوں کو ان کے مکانات میں ہی متعین کر دیا گیا.اسی انتشار میں ایک درویش با با جلال الدین صاحب اپنے مکان سے باہر نکلے تو ملٹری کے ایک سپاہی نے انہیں دو تین تھپڑ رسید کئے اور کہا کہ باہر کیوں نکلے ہو ؟ شام چار بجے کے قریب یہ جلوس چوک میں پہنچا.اس موقعہ پر انتہائی اشتعال انگیز نظمیں پڑھی گئیں.ایک سکھ نے ہاتھ میں برہنہ تلوار لے کر کہا کہ یہ اسی تلوار کا اللہ ہے کہ یہاں پاکستان نہیں بن سکا یکم ماہ فتح رودسمبر کو بیمار اور معذور درویشوں کے سو اس نے حضرت مصلح موعود کے ارشاد کی تعمیل میں روزہ رکھا.ہر ماہ فتح / دسمبر کو مولوی عبد الرحمن صاحب ے حال سیالکوٹ *
۲۵۵ فاضل امیر مقامی نے نماز فجر کے بعد بہشتی مقبرہ کی چار دیواری کے شمال مشرقی کو نہ پر ایک کمرے کی بنیاد رکھی جو درویشوں کے تعاون سے جلد پایہ تکمیل تک پہنچ گیا.9 ماہ فتح / دسمبر کو درویشوں نے دفتر امور عامہ کے جنوبی جانب اجتماعی و قاری عمل کیا.اس جگہ دو تین ہزار مسلمان پناہ گزین ہو گئے تھے جن کے فتے سے بہت سڑاند پھیل گئی تھی.درویشوں نے اپنے ہاتھ سے اس جگہ کی صفائی کی اور گڑھوں کو میٹی سے پر کر دیا ۲۳ ، ماہ فتح / دسمبر کو مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل امیر مقامی نے مولوی بر تا احمد صاحب در اجیکی ناظر امور عامہ ، ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے ، فضل الہی خان صاحب اور و دیگر ور ویشوں کو دار العلوم اور دار الفضل میں بھیجوایا تا قرآن مجید کے جو مقدس اوراق مسجد نور یا دار الفضل کے کھیتوں میں غیر مسلموں نے نہایت بے دردی سے بکھیر رکھے تھے وہ سپرد آتش کر کے دفن کر دیئے جائیں.چنانچہ ان اصحاب نے نہایت محنت سے اس مختوضہ خدمت کو انجام دیا.ان لوگوں نے نور جہسپتال کے سامنے بیت البرکات کی دیوار پر مندرجہ ذیل فقرات لکھے ہوئے دیکھیے مسلمانوں سے بچا کر رہو".قادیان کے ہندوو !ا قادیان سے خبردار رہو اور مسلمان کا ناس کرو یا ۱۳ فتح / دسمبر کو کیپٹن شیر ولی صاحب نگران حفاظت قادیان کی تحریک پر بہشتی مقبرہ کے اردگرد دیوار کی تعمیر کا پہلا مرحلہ شروع کیا گیا.درویشوں نے اس کچی دیوار کو عمل کرنے میں از معد جوش و خروش کا مظاہرہ کیا.یہ دیوار کئی برس تک قائم رہی.بعد ازاں اس جگہ پختہ ودیوار تعمیر کو لی گئی.اس طرح بہشتی مقبرہ اور اس سے متصل بڑا باغ بھی (جو سلسلہ کی عظیم تاریخی روایات کا حامل ہے، غیروں کی دست برد سے محفوظ ہو گیا.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احم صاحب نے انہی دنوں اپنے قلم سے مولوی عبد الرحمن صاحب امیر مقامی قادیا اہم خطوط اور جناسب ملک صلاح الدین صاحب کو جو مستعد و خطوط تحریر فرمائے وہ مکتوبات اصحاب احمد جلد دوم میں محفوظ ہو چکے ہیں ان مکتوبات سے اس دور کے احوال و کوائف پر خوب روشنی پڑتی ہے اور بآسانی اندازہ لگ سکتا ہے کہ ان ہوش ربا ایام میں دیار حبیب کے ان عشاق اور فدائیوں کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا ؟ بدلے ہوئے حالات میں انہیں کون سے نئے مسائل پیشی تھے اور وہ کس طرح اپنی جان ہتھیلی میں لئے ہوئے حفاظت
۲۵۶ مرکزہ کا فریضہ بجالانے کے علاوہ دیگر اہم اسلامی خدمات انجام دے رہے تھے.ذیل میں حضرت میاں صاحب کے بعض خطوط کے چند اقتباسات بطور نمونہ درج کئے جاتے ہیں :.۱- دینام مکرو می مولوی عبد الرحمن صاحب جٹ امیر جماعت قادیان) و آپ نے اپنے متفرق خطوط میں چار اغوا شدہ (مسلمان عورتوں کا ذکر کیا ہے جو واپس ہو کہ آپ کے پاس پہنچ چکی ہیں مگر اعلان اور تلاش ورثاء کے لئے آپ نے پورے کوائف درج نہیں کئے.مہربانی کر کے ایک نقشہ کی صورت میں اطلاع دیں کہ ان عورتوں کے نام اور ولدیت یا زوجیت اور عمر اور اصل سکونت وغیرہ کیا ہے تا کہ ورثاء کی تلاش ۶۱۹۴۷ میں مددیل سکے.یہ رپورٹ ایک نقشہ کی صورت میں بنا کر بھیجوا دیں (۱۶ دسمبر 9) بنام ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے ) " آپ نے لکھا ہے کہ بہشتی مقبرہ کی دیواروں اور کمرے کی تعمیر کا کام کرایا جارہا ہے اور یہ کہ اس غرض کے لئے وہ انٹیں لی گئی ہیں جو ڈاکٹر حاجی خان صاحب کے مکان کے پاس ہمارے مشترکہ حساب کی لکھی ہوئی تھیں.الحمد للہ اس سے بہتر مصرف اِن اینٹوں کا کیا ہو سکتا ہے مگر آپ مجھے جو اپنی مطلع فرمائیں کہ بہشتی مقبرہ (میں) کو نسا تعمیری کام ہو رہا ہے.اور بہتر ہوگا کہ دیوار اور کمرے کا جائے وقوع ایک سرسری نقشہ کی صورت میں تیار کر کے بھیجوائیں.اس تعمیر کی وجہ سے آپ کا وقار عمل تو خوب ہو رہا ہو گا یا " قادیانی کی ایک رپورٹ میں یہ ذکر تھا کہ بڑا باغ بھی سیکھوں کے قبضہ میں ہے.اس سے منکر ہوا کیونکہ بڑا باغ حضرت اماں جان والا پرانا باغ کہلاتا ہے اور وہ اس رقبہ میں شامل ہے جس پر ہم اپنا قبضہ سمجھتے رہے ہیں اور قادیان میں حکام کو جو نقشہ دیا گیا دیا تھا اس میں بھی بڑا باغ ہمارے قبضہ میں دکھا یا گیا تھا.علاوہ ازیں یہ باغ حلقہ مسجد مبارک اور بہشتی مقبرہ کے درمیان واقع ہے اور اگر اس پر دوسروں کا قبضہ ہو تو بہشتی مقبرہ اور ہمارے آدمیوں کی آمدورفت دونوں خطرہ میں پڑ سکتے ہیں آپ اس کے متعلق ہواپسی جواب دیں.اور اگر وہ نود انخواستہ قبضہ سے نکل چکا ہو تو اس کے متعلق i 1
پروٹسٹ کر کے دوبارہ قبضہ حاصل کرنے کی کوشش کریں " سے آپ نے کاشت کے واسطے ٹیلوں کی جوڑی وغیرہ کے لئے لکھا ہے.آپ زمین کا انتظام کریں پھر یہ انتظام بھی انشاء اللہ ہو جائے گا.مگر زمین ایسی حاصل کرنی چاہیئے جو ہماری مقبوضہ آبادی سے ملتی ہوتا کہ آنے جانے اور نگرانی میں آسانی رہے اور امن شکنی کا خطرہ بھی نہ ہو.دارالا نوار میں میرا کنواں اور ساتھ والی میاں رشید احمد کی زمین اور دوسرے ملحقہ قطعات اس غرض کے لئے اچھے ہیں.بچاہ چھلار والا بھی اچھا ہے مگر اس میں اتنا نقص ہے کہ اس کے کھیت ہندوؤں اور سکھوں کے ساتھ مخلوط ہیں.اراضی تکیہ مرزا کمال الدین مناسب نہیں کیونکہ وہ بالکل ایک طرف نظروں سے اوجھل ہے اور ایسی جگہ میں فساد کا زیادہ خطرہ ہو سکتا ہے.آپ زمین کے زیادہ اچھا ہونے کا خیال نہ کریں بلکہ آنے جانے کی سہولت اور انتظامی سہولت کے پہلو کو مقدم رکھیں " سے * مولوی عبد الرحمن صاحب نے لکھا کہ قادیان میں کوئی ایندھن کا ٹال نہیں ہے.یہ کام آپ آسانی سے قادیان میں کہ اسکتے ہیں کسی احمدی کو کہہ دیا جائے کہ وہ محمد دین مه مكرم ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے کا بیان ہے کہ یہ باغ ایک سکھ نے الاٹ کروالیا تھا لیکن ہماری طرف سے اس کو قبضہ نہیں لینے دیا گیا.پھر سردار ا مولک سنگھ صاحب مجسٹریٹ درجہ اول ( متعین قادیان) نے اس بارہ میں مقدمہ کی سماعت کی اور بطور تبرک بہشتی مقبرہ کا حقہ تسلیم ہو کر ہمیں مل گیا لیکن گزشتہ سال (ستار، ناقل ہو احد یہ محلہ کے نکاس مکانات کی قریباً سواد دلا کھ رو پیر قیمت طلب کی گئی اور عدم ادائیگی کی صورت میں مرکزی وزارت آبادی نے نیلام کرنے کی دھمکی دی تھی یہ رقم صدر انہیں ادا کر رہی ہے جن میں اس سکھ کی نیش زنی سے بڑے باغ کی قیمت چوالیس ہزار و پیر بھی شامل کر دی گئی ہے.د مکتوبات اصحاب احمد جلد دوم ) نه مکرم ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے نے مکتوبات اصحاب احمد جلد دوم میں لکھا ہے :- اس وقت تو اراضی کا انتظام نہ ہو سکا چند سال بعد بعض درویشوں نے ارد گرد کے فیر سلم مہاجرین سے ٹھیکہ پہ اراضی لے کر کاشت کرنا شروع کی اور اب تک کر پاتے ہیں.صدر انجمن احمدیہ نیز اس کے صیغہ پراویڈنٹ فنڈ اور بعض درویشوں نے بہشتی مقبرہ کے قریب اراضی خریدیں مگر اب دُور دُور بھی خرید لی گئی ہیں یہ
۲۵۸ حجام والی زین نے متصل مکان بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی میں ٹال کھول دے یا احمد یہ چوک کے کسی حصہ میں کھول دیا جائے.میں نے آپ کے حسب منشار قادیان میں احمدی دوستوں کی خیریت کا اعلان الفضل میں کرا دیا تھا.آئندہ بھی گاہے گاہے کر وا دیا جائے گا.میں نے آپ کی تجویز کے مطابق ڈاک خانہ اور ٹیلی فون گھر کے کرایہ کے متعلق گورداسپور چٹھی لکھ دی ہے مگر پوسٹ ماسٹر کی بجائے سپرنٹنڈنٹ کو لکھی ہے معلوم نہیں آپ نے پوسٹ ماسٹر کا نام کیوں تجویز کیا تھا.ہے مولوی عبد الرحمن صاحب نے اغواء شدہ عورتوں میں سے جو قادیان واپس آگئی ہیں ان کے متعلق اعلان کرنے کے بارہ میں لکھا تھا مگر ابھی تک ایسی عورتوں کی مکمل فہرست مجھے نہیں ملی جس میں نام و پتہ و زوجیت و عمر وغیرہ کے کوائف درج ہوں.آپ ایسا نقشہ بنا کر بھیج دیں تو انشاء اللہ اعلان وغیرہ کے ذریعہ ہر ممکن کوشش کی جائے گی ؟ ( موصوله قادیان ۲۰ دسمبر ۱۹مه) ابنام مولوی عبد الرحمن صاحب امیر قادیان) 19/ و آپ نے لکھا ہے یا شاید ملک صاحب نے لکھا تھا کہ حکومت نے چھینی ہوئی موٹروں کا ٹیکس مانگا ہے، آپ کو اس کا یہ جواب دینا چاہیے کہ موٹریں ہمیں واپس دے دی جائیں ہم بڑی خوشی سے ان کا ٹیکس ادا کر دیں گے.یا کم ازکم نہیں تسلی کر دی جائے کہ وہ عنقریب واپس کر دی جائیں گی تو پھر بھی ہم ان کا ٹیکس ادا کر دیں گے ا سکے اس کے علاوہ جو موٹریں قادیان میں حکومت کے افسروں نے ہم سے لے لی ہوئی ہیں ے یہاں اب ملک محمد بشیر صاحب کا ٹال ہے.علاوہ ازیں پرائیویٹ رنگ میں بھی متعدد درویش فروخت ایندھن کا کام کر رہے ہیں.(مکتوبات اصحاب احمد جلد دوم) سے اس سلسلہ میں طویل خط و کتابت ہوئی لیکن بعد کو کسٹوڈین کے قوانین بھاری ہونے کے باعث کرایہ نہیں ملا اور یہ عمارتیں نکاس قرار پائیں.(مکتوبات اصحاب احمد عباید دوم ) سے یہ سب موٹریں جو آیا می فسادات میں عارضی طور پہ احمدیوں سے حاصل کی گئی تھیں مستقل طور پر ضبط کر لی گئیں ؟
۲۵۹ ان کے متعلق درخواست دینی چاہیے کہ اب جبکہ ہنگامی حالات بدل چکے ہیں تو مہربانی کر کے ہمیں یہ موٹریں واپس دلائی جائیں جتنی موٹریں یا ٹرک چھینے گئے ہوں خواہ وہ انجمن کے ہوں یا احمدی افراد کے ان کے متعلق مطالبہ ہونا چاہیئے مگر فہرست احتیاط سے بنائی جائے تاکہ مانگوں کے نام اور موٹروں کی قسم اور نمبر میں غلطی نہ لگے.یہ خیال رہے کہ جو کمانڈ کار فیض اللہ چک کے پاس پکڑی گئی تھی وہ کیپٹن عبد اللہ باجوہ کی تھی اور انہی کے نام پر مطالبہ ہونا چاہئیے.اسی طرح ایک یا دو موٹر سائیکل بھی نمط شدہ ہیں انہیں بھی اپنے مطالبہ میں شامل کر لیا جائے.10 دسمبر ، م - دستنام مولوی عبد الرحمن صاحب امیر مقامی قادیان؟ " اس سوال کا جواب کہ صدر انجین احمدیہ قادیان کے نمبروں کے متعلق مشرقی پنجاب کے ر جڑانہ کو اطلاع دینے کی ضرورت ہے یا نہیں ؟ ناظر اعلیٰ لاہور سے پوچھ کر بھجواؤں گا.عموماً ایسی اطلاع ہر سال کے شروع میں دی جاتی ہے پس وسط جنوری کے قریب ایسی اطلاع دینی کافی ہوگی اور قاضی عبد الرحمن صاحب سے کہہ دوں گا کہ وہ عبارتہ بنا کہ آپکو بھیجوا دیں.آپ نے خط نہ پہنچنے کی شکایت کی ہے مگر جب سے مجھے علم ہوا ہے کہ ڈاک گھل گئی ہے میں بالعموم روزانہ خط لکھتا ہوں مگر ان کا یہ خط پانچ پانچ چھ چھ دن میں پہنچتے ہیں.امید ہے اب تک آپ کو خط مل چکے ہوں گے.لاری یا ٹرک بھیجوانے کی ہمیں خود شکر ہے اور اس کے متعلق مسلسل کوشش کی بینا رہی ہے.لیکن بعض روکیں ہیں.آپ بالکل یہ خیالی نہ کریں کہ ہم اس کی طرف سے غافل ہیں.در اصل اس کے لئے تین چیزیں ضرورت نہیں.اقول موٹروں کا ملنا جو اس وقت گورنمنٹ کے ہاتھ میں ہیں.دوسرے گورنمنٹ کی اجازت کا اتنا اور تیسرے فوبی اسکورٹ کا ملنا.سے جو واپس شدہ مسلمان عورتیں آپ کے پاس پہنچی ہوئی ہیں آپ اُن کو حفاظت - رکھیں اور ان کی خدمت کا ثہ اب کمائیں.انشاء اللہ جلدی کانوائے بھیجوایا جائے گا اس و
۲۶۰ وقت ان کو لاہور بھیجوا دیں.مختاراں بی بی سے کہہ دیں کہ اس کے رشتہ داروں کا لا ہور میں پتہ لگ گیا ہے اور میں نے اُن کو اطلاع دے دی ہے اور وہ اس کا انتظار کر رہے ہیں.زہرہ کے متعلق لاہو ریڈیو پر اعلان کروایا ہے اور الفضل میں بھی کرا رہا ہوں جب بھی اس کے رشتہ داروں کا پتہ لگا آپ کو اطلاع دی جائے گی مگر یکیس نے آپ کو لکھا تھا کہ واپس شدہ عورتوں کی ایک یکجائی فہرست پورے کوائف کے ساتھ تیار کر کے بھیجوا دیں.مسماة سرداراں جو سو جان پور سے زخمی ہو کر آئی ہے اس کے متعلق حضر میں حب فرماتے ہیں کہ خاوند کا پتہ لئے بغیر نکاح کیس طرح ہو سکتا ہے اس کا اعلان بھی اچھی طرح ہونا چاہیے.سو آپ مجھے مسماۃ سرداراں کے جملہ کوائف نوٹ کر کے بھیجوا دیں تا کہ میں اعلان کر واسکوں یعنی خاوند کا نام، باپ کا نام ، ماں باپ کے گاؤں کا نام پسران کے گاؤں کا نام وغیرہ وغیرہ.آپ کی طرف سے کو الف آنے پر انشاء اللہ اخبار میں بھی اور ریڈیو پر بھی اعلان کرا دیا بھائے گا.لے آپ نے پوچھا ہے کہ جن احمدیوں کے مکانوں سے کچھ سامان بر آمار ہو رہا ہے اس سامان کو کیا کیا جائے.حضرت صاحب فرماتے ہیں کہ یہ سامان علیحدہ علیحدہ فہرستیں بنا کر مالک مکان کے نام پر بطور امانت محفوظ رہنا چاہئیے کیونکہ مالک کی اجازت کے بغیر کیسی جگہ خرچ نہیں کیا جا سکتا.اگر آپ ایسی فہرست مجھے بھجوا دیں تو میں مالکوں کو پوچھے کہ اُن کا منشار بتا سکوں گا.اسی طرح پارچات کے متعلق بھی.ہمارے بیرونی محلوں میں جو دروازوں ، کھڑکیوں اور چھتوں کو نقصان پہنچایا جارہا ہے آپ اس کے متعلق افسروں کو زبانی اور تحریری توجہ دلاتے رہیں.مکانوں کی حتی الوسع حفاظت ہونی چاہیے ورنہ بعد میں جماعت کو بھاری خرچ کرنا ہوگا ئیے یہ مستورات بحفاظت قادیان سے پاکستان بھجوا دی گئی تھیں دمکتوبات اصحاب احمد جلد دوم) کے بہت سے مکان بطور طبہ فروخت ہو گئے تھے مکرم مولوی برکات احمد صاحب را جیکی مرحوم نے بہت محنت کر کے تمام ایسے مکانات کی محلہ وار فہرست حکومت کو مع اس تفصیل کے بھجوائی کہ ان کا کونسا حصہ منہدم ہے ؟ بفضلہ تعالٰی اس کے بعد مکانات کی نا جائزہ فروخت اور منہدم کرنے کا سلسلہ ختم ہو گیا (مکتوبات اصحاب احمد جلد دوم) |
۲۹۱ حنط (گندم کے متعلق میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ ضرورت سے کچھ زائد رکھ کر باقی فروخت کر دی جائے مگر ایسی احتیاط کے ساتھ فروخت کی جائے کہ کسی قسم کا خطرہ یا نقصان کا اندیشہ نہ پیدا ہو.یہ صورت آپ مقامی طور پر خود سوچ سکتے ہیں.نشگل باغبانان (متصل قادیان- مرتب) کی احمدیہ مسجد کے جو مینارے گرائے گئے ہیں اور اس میں سکھ پناہ گزین رہتے ہیں اور اس کے اوپر کانگریس کا جھنڈا لگا دیا گیا ہے.آپ اس کے متعلق مقامی پولیس اور علاقہ مجسٹریٹ اور ڈی سی کو لکھ کر توجہ دلائیں.اس بات کا بھی پتہ لے کر رپورٹ کریں کہ ہماری قادیان والی مسجدیں اور عید گاہ کیس حال میں ہیں.نمبر وار رپورٹ کریں موجودہ حالات میں انہیں پولیس کی موجودگی میں مقفل کر دینا چاہیئے اور گنجیاں اپنے پاس محفوظ رکھی جائیں " " ضیاء الاسلام پولیس کے متعلق انشاء اللہ یہاں ضروری کارروائی کی بجائے گی آپ بھی اس کے متعلق احتجاج کر میں لیے عبد اللطیف کے بھٹہ کی اینٹیں آپ بے شک وہاں سے اُٹھوا کو کچھ بہشتی مقبرہ میں اور کچھ مدرسہ احمدیہ کے صحن میں جمع کروالیں.اس کا خرچ امانت سے برآمد کر لیں.مقبرہ بہشتی کے ارد گرد جو چار دیواری بنائی جا رہی ہے اس میں صرف قبروں والا حقہ ہی شامل نہ کریں بلکہ قبروں کے ساتھ جو مقبرہ کی خرید کر دہ زمین ہے وہ بھی شامل کرلیں.(۲۲ دسمبر ۱۹۳۷ مترم ۵- ابنام مولوی عبد الرحمن صاحب امیر مقامی قاریان ) " آج ملک صلاح الدین صاحب کا فون ملا جس میں یہ ذکر تھا کہ حضرت صاحب کا جلسہ سالانہ والا پیغام ابھی تک نہیں پہنچانے میں یہ پیغام تین نقلیں کروا کے ۲۳ دسمبر کو ہوائی ڈاک کے ذریعہ تین مختلف دوستوں کے نام بھیجوا چکا ہوں.ایک آپ کے نام جو اصل ہے ے صدر انجمن احمدیہ نے بعد میں مکمل محکمانہ ثبوت نہ ہونے کے باعث دعونی ترک کر کے یہ پریس خرید لیا تھا کوتا اصحاب احمد عبداد دوم سه تاریخ احمدیت جلد علا علم و ص ۲۳ میں اس پیغام کا نتن سالانہ جلسہ قادیان کے کوائف کے تحت درج ہو چکا ہے :
۲۶۲ دوسرے عزیز ظفر احمد کے نام اور تیسرے ملک صلاح الدین صاحب کے نام.امید ہے آپکو ان میں سے کوئی نہ کوئی خط ۲۶-۲۷ تاریخ تک ہل جائے گا.جلسہ کا پروگرام فون پر معلوم ہوا میں پہلے لکھ چکا ہوں اور آج اس کے متعلق تار بھی دے رہا ہوں کہ ایک تقریر جماعت احمدیہ کی پچاس سالہ تعلیم پر ہونی چاہیئے کہ احمدی میں حکومت کے ماتحت بھی ہوں اس کے وفادار بن کر رہیں اور اب جبکہ قادیان انڈین یونین میں آگیا ہے.قادیان میں رہنے والے احمدی اپنے مقررہ اصول کے مطابق انڈین یونین کے وفادار ہیں اور رہیں گے اسی طرح جس طرح پاکستان کی حکومت کے اندر رہنے والے احمدی پاکستان کے وفادار ہوں گے اور لنڈن میں رہنے والے احمدی برطانیہ کے وفادار ہوں گے اور امریکہ میں رہنے والے احمدی امریکہ کی حکومت کے وفادار ہوں گے و علیٰ ہذا القیاسی " منشی محمد صادق صاحب کی رپورٹ سے معلوم ہوا ہے کہ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کے ساتھ جو نیا دو منزلہ کرہ تعمیر ہوا تھا وہ پھٹ کر ایک طرف کو جھک گیا ہے.اس کی ضروری مرقت ہونی چاہیے ورنہ گر کر مزید نقصان کا اندیشہ ہے.یہ - ( بنام ملک صلاح الدین صاحب، ایم.اسے قادیان) عزیز مرزہ امظفر احمد سیالکوٹ سے آئے ہوئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے ڈی جیسی گورداسپور کو فون کیا تھا اور ہمارے مکان کی جو سیکھوں نے گرا کر مکان گوردوارے میں شامل کر لیا ہوا ہے اس کے متعلق فون پر بات کی تھی.ڈی سی صاحب گورداسپور نے کہا کہ میں نے حکم دے دیا ہوا ہے کہ اگر احمدی اپنی دیوار تعمیر کہ ائیں اور کوئی سیکھے مزاحم ہو تو اسے گرفتار کیا جائے.مظفر نے کہا کہ موجودہ حالات اور موجودہ فضا میں بہتر یہ ہے کہ حکومت خود اپنے انتظام میں دیوار تعمیر کرا دے اور ہم سے خرچ لے لے.ڈی سی فضا نے اتفاق کیا کہ ایسی ہے.ایات جاری...کر دیں گئے.(۲۷ - دسمبر ) له ملک صلاح الدین صاحب تحریر فرماتے ہیں کچھ عرصہ بعد سردار املاک سنگھ مجسٹریٹ نے سکھوں کو بلا کرنا جائز قبضہ والا قصہ خالی کرلے اور ہمیں قبضہ کرنے کو کہا او سی روز کی مہلت ہمیں دی گئی غیر مسلم اس قصہ سے طلبہ اٹھانے میں تاخیر کرنا چاہتے تھے.عبداللہ خاکسار کی تجویز کا میاب ہوئی کہ ہم خود مل کر طلبہ اس کی طرف ڈال کر درمیانی دیوار شام تک کھڑی کر دیں چنانچہ ایسا ہی ہوا یہ
۲۶۳ ه بنام ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے ) " جو دوست اپنی خوشی سے اگلی ٹرم میں قادیان ٹھہرنا چاہیں انہیں انجازت دی بھائے.جزاهم الله خيرا وكان معهم لیکن احتیاطاً حضرت صاحب سے بھی پوچھ لوں گا او پھر اطلاع دوں گا.آپ نے لکھا ہے کہ مسجد نور میں تین من کے قریب قرآن شریف کے اوراق منتشر پائے گئے.اِنَّا لِلَّهِ وَاِنَّا اِلَيْهِ رَاجِعُونَ.آپ اس کے متعلق ڈی سی گورداسپور اور کشتر جالندھر اور وزیر اعظم مشرقی پنجاب اور پنڈت نہرو صاحب نئی دہلی اور گاندھی جی نئی دہلی کو لکھیں کہ مسلمانوں کے نز دیک سب سے زیادہ دکھ دینے والی بات انکے مذہبی احساسات کو صدمہ پہنچاتا ہے.یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسمی ارشاد کی عملی توجیہ ہو کہ دشمن کے ملک میں قرآن شریف نہ لے جاؤ.ڈاکٹر صاحب اور کمپوڈران کی تبدیلی کا انتظام کیا جا رہا ہے.اغواء شدہ مسلمان عورتوں کے متعلق جو قادیان کے ماحول میں ہیں پاکستان کے متعلقہ محکمہ کو تو جہ دلائی جارہی ہے کہ وہ اپنا نمائندہ ہندوستان بھیجوائیں.(۲۸ دسمبر ۱۹) بنام ملک صلاح الدین صاحب ایم.اسے ) مسجد نور میں جو قرآن کریم کے تین مین اوراق پھٹے ہوئے پائے گئے ان کا فوٹو مجھے احتیاط کے ساتھ بھیجوا دیا جائے " (۲۹ دسمبر - ربنام ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے) " آپ نے فون پر کہا تھا کہ عزیز مرزا ظفراحمد کے مضمون نے لوگوں کو بہت رلایا میں نے اس کے جواب میں کہا تھا کہ یہاں تو حضرت صاحب نے رونے سے منع کر دیا ہے.اس سے یہ غلط فہمی نہ ہو کہ دعا میں رقت کا پیدا ہونا منع ہے.حضرت صاحب کا منشاء تھا کہ قادیان سے باہر آنے والے احمدی قادیان کی یاد میں رونے کی بجائے اپنے درد اور جوش ے تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو " تاریخ احمدیت جلد "
۲۶۴ کو قوت عملیہ میں منتقل کرنے کی کوشش کریں ؟ ۶۱۹۴۷ فصل نهم کے بعض متفرق مگر اہم واقعات الحمد شده کے وہ حالات جو تاریخ احمدیت جلد وہم کے آخر سے شروع ہوئے تھے اختتام تک آپہنچے ہیں اب صرف بعض متفرقی اور مختصر مگر اہم واقعات کا ذکر باقی ہے.چوہدری عید ظفر الدخان صاحب کی اقوام متحدہ میں رانی بقیہ واقعات میں سے ایک ہم اور قابل ذکر واقعہ احمدیت کے ار فلسطین سے تعلق پر شوکت تقریری ایران از این ورودی مد ظفراله محمد خاں صاحب کی اقوام متحدہ میں مسئلہ فلسطین سے متعلق وہ پر شوکت تقریرہ ہے جو آپ نے پاکستانی وفد کے لیڈر کی حیثیت سے و ا ضاء / اکتوبر کو فرمائی ہے چو ہد ری صاحب نے فلسطینی مسلمانوں ے مسٹر الفرڈ این متصل اپنی کتاب "WHAT PRICE ISRAEL" میں (جو ہنری دیگری کمپنی شکاگو نے شائع کی) لکھتا ہے کہ پاکستان کے مندوب نے تقسیم کی تجویز کے خلاف عربوں کی طرف سے زبر دست جنگ لڑی، انہوں نے کہا فلسطین کے بارہ لاکھ عربوں کو اپنی مرضی کی حکومت بنانے کا حق چارٹر میں دیا گیا ہے.ادارہ اقوام متحدہ صرف ایسی موثر شرائط پیش کر سکتا ہے جن سے فلسطین کی آزاد مملکت میں یہودیوں کو مکمل مذہبی، لسانی تعلیمی اور معاشرتی آزادی حاصل ہو اس کے لئے عربوں پر کوئی اور فیصلہ مسلط نہیں ہو سکتا ( مشا) نیز لکھا " جزل اسمبلی میں پاکستانی نمائندے کی خطابت جاری رہی مغربی طاقتوں کو یا درکھنا چاہئیے کہ کل انہیں مشرق وسطی میں دوستوں کی ضرورت بھی پڑ سکتی ہے لیکن ان سے درخواست کروں گا کہ وہ ان ملکوں میں اپنی عزت اور وقار تباہ نہ کریں جو لوگ انسانی دوستی کے زبانی دعوے کرتے ہیں اُن کا حال یہ ہے کہ اپنے دروازے بے گھر یہودیوں پر بند کئے ہوئے ہیں اور انہیں اصرار ہے کہ عرب فلسطین میں یہودیوں کو نہ صرف پناہ دیں بلکہ ان کی ایک ایسی ریاست بھی بننے دیں جو مل لوں پر حکومت کرے !! (بقیہ حاشیہ انگلے صفحہ ہیں) رم 19-14.
۲۶۵ کا مسئلہ کسی مؤثر رنگ میں پیش کیا؟ اس کا اندازہ لگانے کے لئے اخبار نوائے وقت میں شائع شدہ دو خبروں کا مطالعہ کافی ہو گا :.) (پہلی خبر ، سر ظفر اللہ کی تقریر سے اقوام متحدہ کی کمیٹی میں سکتے کا عالم طاری ہو گیا امریکہ، روس اور برطانیہ کی زبانیں گنگ ہو گئیں ایک سیکس ۱ اکتوبر.رائٹر کا خاص نامہ نگار اطلاع دیتا ہے کہ اقوام متحدہ کی کمیٹی میں جو فلسطینی مسئلہ کو حل کرنے کے لئے بیٹھی تھی کل پاکستانی مندوب سر ظفر اللہ کی تقریر کے بعد ایک پریشان کن تعطل پیدا ہو چکا ہے اور جب تک امریکہ اپنی روش کا اعلان نہ کر دے دیگر مند و بین اپنی زبان کھولنے کے لئے تیار نہیں.امریکن نمائندہ جو اس دوران میں ایک مرتبہ بھی بحث میں شریک نہیں ہوا اس وقت تک بولنے کے لئے آمادہ نہیں جب تک کہ صدر ٹرومین وزیر خارجہ سٹر معارج مارشل اور خود وفد ایک مشترکہ اور متفقہ صل تلاش نہ کر لیں.کمیٹی میں کل کی بحث میں کمیٹی کے صدر ڈاکٹر پر برٹ ایوات (آسٹریلیا ) نے بہت پریشانی اور خفت کا اظہار کیا جب بحث مقررہ وقت سے پہلے ہی آخری دموں پر پہنچ گئی اور امریکن مندوب اس طرح خاموش بیٹھا رہا گویا کسی نے زبان سی دی ہو.اقوام متحدہ کے تمام اجلاس میں یہ واقعہ اپنی نظیر آپ ہے.پاکستانی مندوب نے ایک لفظ میں دوسرے مندوبین کے واردات قلب کا اظہار کر دیا جب اس نے اکتا کہ یہ مشورہ دیا کہ چونکہ بعض سرکردہ مند و بدین تقریر کرنے سے واضح طور پر ہچکچا رہے ہیں.اس لئے فلسطین پر عام بحث فوراً بند کر دی جائے.امریکی وفد دو دن سے اس بحث میں مبتلا ہے کہ اسے کیا طرز عمل اختیار کرنا چاہیئے لیکن ابھی تک وہ کیسی فیصلے پر نہیں پہنچ سکا ہے.وفد کے ایک رکن نے دریافت کرنے پر یہ بتانے سے گریز کیا کہ بقیه حاشیه صفحه گزشتہ :- حمید نظامی کے شکار کے خطوط (مطبوعہ نشان منزل " م میں یہ ذکر ملتا ہے کہ جب وہ ہی آنا عالمی صحافی کا نفرنس میں شرکت کے لئے گئے تو اُن کے جہاز میں ایک یہودی عالم اور ایک یہودی ایڈیٹر بھی سوار تھے جو چو ہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی سخت مذمت کرتے اور آپ کو بڑا بھلا کہ رہے تھے.یہودی حلقے آپ کی شخصیت سے اتنا بغض و عناد کیوں رکھتے ہیں ؟ مندرجہ بالا پس منظر کی روشنی میں اس کا سبب بآسانی سمجھ میں آجاتا ہے.۴۹
مریکی صدر مقام میں کیا کچھ ہو رہا ہے.مند و بین جس طرح اس مسئلہ پر اب تک اظہار خیال کرتے رہے ہیں اس سے یہ نتیجہ نکالنے کی کافی وجوہات ہیں کہ مندوبین میں نہ صرف عرب اور یہودی مطالبات اور دلائل کی صحت اور حقانیت کے بارہ میں ہی عارضی اختلافات ہیں بلکہ بعض مندوبین کو اس امر کا بھی احساس ہے کہ روس سے متعلق امریکہ کی موجودہ حکمت عملی کے لئے عربوں کی حمایت اور ہمدردی انتہائی اور فیصلہ کن اہمیت رکھتی ہے.روس نے بھی ابھی تک اس مسئلہ پر اپنی روش کا اظہار نہیں کیا ہے.امریکہ کی خاموشی کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ وہ روس کو اپنی خاموشی سے تھکا کر بولنے پر مجبور کرنا چاہتا ہے اور خود سب سے آخر میں تقریر کر نا چاہتا ہے تاہم معلوم ہوتا ہے کہ فلسطینی مسئلہ آب بری طرح روس اور امریکہ کی باہمی کشمکش میں الجھے بجائے گا.(رائٹر نے سطین کے متعلق سرظفر اللہ کی تقریر سے دھوم مچ گئی عرب لیڈروں کی طرف سر ظفر اللہ خان کو خراج تحسین نیویارک ۱۰ اکتوبر مجلس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں سر محمد ظفر اللہ خان رئیس الوند پاکستان نے جو تقریر کی وہ ہر لحاظ افضل و اعلیٰ تھی.آپ تقریباً ۱۵ منٹ بولتے رہے.اس تقریر کا اثر یہ ہوا کہ جب آپ تقریر ختم کر کے بیٹھے تو ایک عرب ترجمان نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین پر عربوں کے معاملہ کے متعلق یہ ایک بہترین تقریر تھی.آج تک میں نے ایسی شاندار تقریر نہیں سنی.سر محمد ظفر اللہ خاں نے اپنی تقریر میں زیادہ زور تقسیم فلسطین کے خلاف دلائل دینے میں صرف کیا.جب آپ تقریر کر رہے تھے تو مسرت و ابتہاج سے عرب نمائندوں کے چہرے تمتما اُٹھے.تقریر کے خاتمے پر عرب ممالک کے مندوبین نے آپ سے مصافحہ کیا اور ایسی شاندار تقریر کرنے پر مبارکباد پیش کی.ایک انگریز مندوب نے سر ظفر اللہ کو پیغام بھیجا کہ آپ کی تقریر نہایت شاندار تھی مجھے اس کی نقل بھیجے میں انہماک سے اس کا مطالعہ کرنا ے نواسه وقت ۱۲ اکتوبر ستائر صاج
سچاہتا ہوں.تقریر کے بعد سر ظفر اللہ خان بہت تھکے ماندے نظر آتے تھے : اے چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کے اس تاریخی خطاب نے اقوام عالم کے سامنے فلسطینی مسلمانوں کا مسئلہ حقیقی خد و خال کے ساتھ نمایاں کر دیا اور متعود وممالک نے تقسیم فلسطین کے خلاف رائے دینے کا فیصلہ کر لیا لیکن بعد میں انہوں نے دنیا کی بعض بڑی طاقتوں کی طرف سے دباؤ میں آکر اپنی رائے بدل لی اور ۳۰ نومبر ۱۹۴۷ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو عرب اور یہودی دو علاقوں میں تقسیم کرنے کی امریکی روسی قرار داد پاس کر دی شیه ہ نوائے وقت ۱۲.اکتو بر اصل کالم نہ : ے چوہدری محمد ظفراللہ خاں صاحب نے 9 دسمبر ۹ہ کو گورنمنٹ کالج لاہور میں ایک فاضلانہ خطاب فرمایا جس میں مشورہ تقسیم فلسطین کی سازش پر مفصل روشنی ڈالی.اس تقریر کا ملخص اخبار " نوائے وقت نے درج ذیل الفاظ میں شائع کیا :- لاہور اور دسمبر.ادارہ اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کے قائد چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں نے آج مسئلہ فلسطین کے تمام پہلوؤں پر مفصل روشنی ڈالی.انہوں نے ادارہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبل تقسیم فلسطینی کے فیصلہ کو سخت نا منصفانہ قرار دیا.گورنمنٹ کالج لاہور میں تقریر کرتے ہوئے سر ظفر اللہ نے سخت افسوس ظاہر کیا کہ امریکی حکومت نے چھوٹی چھوٹی طاقتوں کے نمائندگان پر نا جائنہ دباؤ ڈال کر تقسیم فلسطین کے حق میں فیصلہ کر لیا.سر ظفر اللہ نے کہا کہ امریکہ کی انتخابی سیاسیات نے فلسطین کو ایک مہرہ بنایا.آپ نے فرما یا کہ سرقہ میں فلسطین کی مجوزہ یہودی ریاست میں نہ صرف ایک مضبوط عرب اقلیت ہمیشہ کے لئے ہو دیوں کی غلام بن جائے گی بلکہ ملک کی اقتصادیات پر بین الاقوامی کنٹرول قائم ہو جائے گا جو قطعاً غیر قانونی حرکت ہوگئے.ھاری سرمحمد ظفر اللہ نے بتایا کہ کس طرح امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے یہودی اثر کے ماتحت چھوٹی چھوٹی اقوام پر ناجائز دباؤ ڈالا اور دو تین فیصلہ کن ووٹ حاصل کرلئے جس کے مطابق ادارہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطین کی تقسیم کا نا منصفانہ فیصلہ ہوا.سر ظفر اللہ نے بتایا کہ ۲۶ نومبر کو ہمیں یقین ہو گیا تھا کہ ہم کامیاب ہو گئے ہیں اور مخالفت فریق کو اپنی شکست کا یقین ہو گیا تھا لیکن علی آخری وقت رائے شماری بلا وجه ۲۸ نومبر بر ملتوی کر دی گئی تا کہ دوسرے ممالک پر دباؤ ڈال کر فلسطین کے متعلق ان کا رویہ تبدیل کیا جا سکے.چنانچہ جب ہیٹی کے مندوب نے رائے شماری کے بعد مجھ سے ملاقات کی تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور اس نے افسوس ظاہر کیا کہ اسے آزادی کے ساتھ ووٹ دینے کی اجازت نہیں دی گئی.اکثر ایسے مندوبین نے جنہوں نے تقسیم فلسطین کے حق میں ووٹ ڈالے یہ اعتراف کیا کہ انہوں نے نہایت مجبوری کے عالم یہ تقسیم فلسطینی بقیه حاشیه ایگلے صفحہ پر)
۲۶۸ حضرت صاجزادہ مرزا شریف احمد صاحث کا اس سال کے آخر کا ایک واقعہ حضرت صاجزادہ مرزا شریف احمد صاحب کا سفیر انگلستان ہے سفر انگلستان حضرت صاحبزادہ صاحب ماہ نبوت / نومبر میں اپنے بعض رفقاء سمیت انگلستان تشریف لے گئے اور شروع و فار جولائی مرے میں واپس ۱۹۴۸ ضرت مصلح موعود نے آپ کو ہدایت فرمائی تھی کہ انگلستان میں لیبارٹری کا سامان حاصل کرنے کی بھی کوشش کریں.چنانچہ آپ نے اس کی تعمیل کی.کہتے ہیں کہ سفیر انگلستان کے دوران آپ کے ایک انگریز سیکرٹری نے بتلایا کہ فنڈ ختم ہو رہا ہے اور سفر جاری رکھنا مشکل ہے.آپ نے اللہ سے دعاکی اور فرمایا فکر نہ کر وانشاء اللہ انتظام ہو جائے گا چنانچہ اگلے ہی روز جب آپ ایک بازارمیں سے گزر رہے تھے ایک شخص آپ کو دیکھتے ہی بے ساختہ سینٹ (SAINT) یعنی ولی خدار سیدہ کہہ کر پکارنے لگا اور ایک بڑی رقم کا چیک آپ کی خدمت میں پیشیش کر کے دعا کی درخواست کی.انگریز سیکرٹری اس واقعہ سے بہت حیران ہوا اور کہنے لگا واقعی آپ لوگوں کا خدا نرالا ہے کیے بقیہ حاشیہ صفحہ گزشتہ :.کے حق میں ووٹ ڈالے اور اسی سپرٹ میں تقسیم فلسطین کا فیصلہ ہوا یہ میر ظفر اللہ نے بتایا کہ جنرل اسمبلی میں کیس طرح شروع میں عربوں کو تقسیم فلسطین کی سکیم کے استرداد کا یقین تھا لیکن بعد ازاں توبہ دست سازشیں کی گئیں کہ عربوں کی حامی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر دیا گیا.صدر اسمبلی نے رائے شماری کو ۲۶.نومبر سے ۲۸.نومبر پر ملتوی کر دیا.دریں اثناء امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے بعض مندوبین پر اُن کی حکومتوں کی مدد سے دباؤ ڈالا اور عربوں کے حاجی 14 مند و بین میں سے ہ مندوب دوسرے فریق سے جاملے.لائبیریا کے نمائندے نے اعتراف کیا کہ واشنگٹن میں ان کے سفیر نے انہیں تقسیم فلسطین کی حمایت پر آمادہ کرنے کی کوشش کی ہے بیٹی کے نمائندے نے ہمیں نہایت افسوس کے ساتھ بتایا کہ وہ اپنی حکومت کی تازہ ہدایات کے ماتحت اتقسیم فلسطین کے حق میں ووٹ دینے پر مجبور ہو گیا ہے.اس طرح بالاآخر تقسیم فلسطین کے حق میں امریکی اور یہودی ۶۶۱۹۴۷ سازش کامیاب ہوگئی ا تقسیم فلسطین کا فیصلہ کر دیا گیا ہے (نوائے وقت اور دسمبر مت) حاشیہ متعلقہ صفحہ ہذا : سله الفضل اور وفا ٣٠ روناه حضرت میاں صاحب ۲۰ نومبر ۱۳۹۳ بروفا - ١٣٣٧ کو وارد انگلستان ہوئے.چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ اور لندن کے دوسرے احمدیوں نے آپ کا استقبال کیا.سے سیرت حضرت مرزا شریف احمد صفحه ۸۵-۸۶ مؤلفہ چوہدری عبد العزیز صاحب واقف زندگی.ناشر مجلس خدام الاحمد به ریوه ) ؟
۲۶۹ انتی کاشی : جماعت احمدیہ اور مخالفین کے درمیان بیرونی مشنوں کے حالات عرصہ سے ایک مقدمہ چل رہا تھا جس کا فیصلہ اسی سال جماعت احمدیہ کے حق میں ہو گیا.شاہ شام مشن :.اس سال جماعت احمدیہ و مشتق کو اپنے ناظم تبلیغ استاد محمد علی یک الارناؤط جیسے مخلص اور مقتدر احمدی کی وفات کا صدمہ اُٹھانا پڑا.السید محمد علی پر صداقت احمدیت کا انکشاف بذریعہ خواب ہوا تھا چنانچہ انہوں نے عالم رویا میں دیکھا کہ ایک شخص آپ سے کہہ رہا ہے " احمد القادیانی صادق یعنی احمد قادیانی کہتے ہیں.اس کے بعد الاستاذ منیر الحصنی صدر جماعت احمدیہ مشق کی تحریک و تبلیغ پر آپ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو گئے.ماہ شہادت / اپریل اللہ کے شروع میں آپ کا انتقالی ہوا.دمشقی پریس نے مرحوم کی صفات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ اہل شام کا پرانا او حقیقی دوست اُن سے بھرا ہو گیا ہے." الفباء" " الأيام "القبس الكفاح " النصر ، المنار النضال وغیرہ شامی اخبارات نے اپنے کالموں میں آپ کے دینی و ملی کارناموں کو خراج تحسین پیش کیا ہے سیرالیون شن :- اس سال جماعت احمدیہ سیرالیون کا قدم ایسی تیزی سے آگے بڑھا کہ عیسائیوں کو مجبوراً اپنے بعض مشری بند کر دینے پڑے.چنانچہ ایک عیسائی مبقر اور سیرالیون امریکی مشن کے پادری ویورڈ گار نے اعتراف کیا :- پورٹ لوکوں میں انگریزی چرچ کے پیر بہت کم ہیں حالانکہ یہ چمچ اس علاقہ میں بیسیوں سال سے کام کر رہا ہے.اور امریکن کمشن نے بھی لوگوں کو عیسائی بنانے کی بے حد کوشش کی ہے مگر جب ہم اس مشن کا معائنہ کرنے کے لئے گئے تو ہم نے دیکھا کہ یہ مشن اپنا کاروبار بند کر رہا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے کام کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا.اسے.ایم.ای مشن کی ایک چھوٹی سی شاخ بھی وہاں موجود ہے.اسی طرح انگریز می کشن اور اس کا ایک متحدہ سکول بھی ہے لیکن عملاً پورٹ لوکوہ کے تمام طالب علم نیٹو ایڈ منسٹریشن سکول واقعہ اولڈ پورٹ لوکوہ میں اِس کثرت سے پہلے گئے ہیں کہ ان کا وہاں سمانا مشکل ہو گیا ہے.چونکہ لوگوں کا رجحان اسلام کی طرف ہے اس لئے لوگ ایسے سکولوں سے نفرت له الفضل ٢٢ تبوک ه١٣٢٢ ص ٣ له الفضل ١٢ هجرت ٢ ص ٣.:
کرتے ہیں جن کے ناموں میں عیسائیت کا نشان پایا جاتا ہو.اور نیٹو ایڈ منسٹریشن سکول کو پسند کرتے ہیں جہاں ان کو عربی پڑھائی جاتی ہے.جنگل، دلدل اور دریا گویا سب نے سازش کی ہوئی ہے کہ لوگوں کو تو ہمات میں مصروف رکھیں کیونکہ ان کا پس منظر ہی قدامت پسندانہ ہے جس کا انحصار بے شمار دیوتاؤں کی پوجا پر ہے.جب تک جنگل اور جھاڑیاں صاف نہ ہو جائیں اور دلدلوں میں کھیتی باڑی نہ ہونے لگے اور تعلیم اور تمدن اور اقتصادی حالت ترقی نہ کر جائے اس وقت تک صرف تو ہمات کو برا بھلا کہنے سے عیسائیت کا میاب نہیں ہو سکتی.ان حالات میں یہ بہتر ہے کہ لوگوں کو اسلام کی آغوش میں جانے کے لئے چھوڑ دیا جائے جس کی طرف انہیں پہلے ہی دلی رغبت ہے.اسلام کی شراحیت بہت اعلیٰ اخلاقی اصول پر مبنی ہے اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ مسیحیت اس کے مقابلہ پر میدان میں شکست پر شکست کھانے کے باوجود لڑتی رہے.لڑائی ابھی تک جاری ہے.اصول کا تصادم دونوں طرف سے سختی سے جاری ہے لیکن حال میں احمدیہ تحریک کی طرف سے جو کمک اسلام کو پہنچی ہے اور جو رو کو پر کے علاقے میں کافی مضبوطی سے قائم ہو چکی ہے وہ اسلام کے لئے بہت مفید ثابت ہوئی ہے شہر کا ملبہ میں امریکن مشن کا بند ہو جانا بھی اسی کشمکش کا نتیجہ ہے بالے ا (ترجمہ) مجاہدین احمدیت کیپرونی ممالک کا ا ا ال ای دی و ال ایدی امیت تبلیغ اسلام کو اس سال مندرجہ ذیل مجاہدین کے لئے قادیان سے مشرقی افریقہ روانہ ہوئے :.روانگی اور واپسی ا میر ضیاء اللہ صاحب (روانگی و صلح) - مولوی فضل النبی صاحب بشیر دروانگی و صلح ۳ مولوی جلال الدین صاحب قمر دردانگی و تبلیغ) ۴ - سید ولی اللہ صاحب ) و تبلیغ ۵ - وادی عنایت اللہ صاحب قلیل ) ۶ - مولوی محمد ابراہیم صاحب ( " > اه ها ه بحوالہ الفضل ، ہجرت /مئی ۱۳۳۶ ص ۲ سے افضل صلح صلح ، تبلیغ ۱۳۳۶ ص ۱۰ ١٠ A له
مندرجہ ذیل مجاہدین احمدیت نہایت کامیابی کے ساتھ فریضہ تبلیغ بجالانے کے بعد ۲۶ میں اپس تشریف لائے :- ا - مولوی نذیر احمد صاحب مبشر ر واپسی از گولڈ کوسٹ کے ماہ صلح) نے - الحاج حکیم مولوی فضل الرحمن صاحب ) " نائیجیریا ۳ ماه فتح له چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا تقر بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے مورخہ تقرر ۱۹۴۷ ۲۵ دسمبر کو چوہدری محمد ظفر اللہ خان وزیر خارجہ پاکستان کی حیثیت سے صاحب کو پاکستان کا وزیر خارجه تر فرمایا.اس تقرر سے قبل چوہدری صاحب نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ اگر آپ کو میری لیاقت اور دیانت پر پورا اعتماد ہے تو میں وزارت کے علاوہ کسی بھی اور حیثیت میں پاکستان کی خدمت کرنے کے لئے تیار ہوں.قائد اعظم کا جواب صرف یہ تھا کہ تم پہلے شخص ہو جس نے ان خیالات کا اظہار کیا ہے یکی جانتا ہوں کہ تم عہد نے کے طلبگار نہیں ہو.سے پاکستان کے صحافتی حلقوں میں چو ہدری صاحب کے اس تقریر کا نہایت گرم جوشی سے خیر مقدم کیا گیا.چنانچہ :.ا - کراچی کے وقیع انگریزی اخبار ڈان (DAWN ) نے لکھا :.یہ انتخاب نہایت ہی پسندیدہ ہے اسے عالمگیر تائید حاصل ہوگئی اور اس سے وزارت کی ذہانت اور حکومت کرنے کی اہلیت میں بیش بہا اضافہ ہوا ہے پایہ (ترجمہ) ۲ - روزنامہ احسان لاہور نے ۳۰ دسمبر ۱۹۴۶ امر کی اشاعت میں لکھا :- چوہدری صاحب کو معاملات خارجہ اور ریاستی تعلقات کا محکمہ سونپا گیا ہے...بین الاقوامی مسائل کو سمجھنے کی صلاحیت کے لحاظ سے چوہدری ظفر اللہ کا انتخاب تیر انہیں.پچھلے دنوں یور این.اور کے رئیس وفد کی حیثیت سے انہوں نے جو کام کیا ہے وہ اس بات کی بہت بڑی ضمانت ہے کہ معاملات خارجہ کی اہم اور نازک ذمہ داری کو سنبھا لینے کی له الفضل در صلح ۲۶ له الفضل ۴ فتح ٣٢ 1986 سه افتتاحیه سول اینڈ ملٹری گزٹ ۱۲ اگست شاه (ترجمه) + کے ڈان ۳ دسمبر ۱۹ سے
۲۷۲ صلاحیت ان میں پوری طرح موجود ہے یہ سل اخبار " طاقت" (لاہور) نے لکھا :- اتحادی قوموں کی اسمبلی کے اجلاس میں پچھلے دنوں چوہدری ظفر اللہ خاں نے پاکستانی وفد کے قائد کی حیثیت سے اپنی آئینی قابلیت اور سیاسی تدبیر کا جو اعلیٰ نمونہ پیش کیا تھا اس کو دیکھتے ہوئے موصوف کو پاکستان کا وزیر خارجہ بنائے جانا چنداں باعث تعجب نہیں.واقعہ یہ ہے کہ چوہدری ظفر اللہ نے فلسطین کے مسئلے پر اتحادی قوموں کے اجلاس میں جو معرکہ آراء تقریریں کیں ان کی گونج ساری دنیا میں پھیلی اور خاص طور پر عربی دنیا نے چوہدری ظفر اللہ خاں کی ان تقریروں پر اتنی داد دی اور وہاں کے اخبارات نے ان پر اتنا لکھا کہ آج موصوف کا نام ہر عربی بولنے والے کی زبان پر ہے اور یوں بھی چوہدری ظفر اللہ خان کی قانون دانی کا ان کا سخت سے سخت دشمن بھی معترف ہے اور سفارتی کاموں کا ان کو کافی تجربہ ہے.چنانچہ انگریزی راج کے زمانہ میں وہ بعض اہم سیاسی مہموں پر بھیجے گئے اور ہمارا خیال ہے کہ ان کو بین الاقوامی سیاسیات کے نشیب و فراز سے کافی واقفیت ہے.روزنامہ سفینہ دلاہوری نے حکومت پاکستان کو اس صحیح انتخاب پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے لکھا:.毒 چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان کو پاکستان وزارت میں لے لیا گیا ہے اور ان کے سپرد امور خارجہ اور دولت مشترکہ کے تعلقات کے محکمے کو دیئے گئے ہیں.ہم چوہدری صاحب موصوف کی وزارت پاکستان میں شمولیت کا دلی خیر مقدم کرتے ہیں.ان کی سیاسی فراست اور معاملہ فہمی اِس عہدے کے لئے ہر لحاظ سے مناسب ہے اور ہمیں یقین ہے کہ وہ ادائے فرض میں ہماری توقعات سے کہیں بڑھ کر ثابت ہوں گے چوہدری صاحب بیرونی سیاست کے فہم میں ناقابل تردید مرتبہ رکھتے ہیں.آپکی قانونی قابلیت ملک کے داخلہ اور خارجہ امور میں ہمیشہ قابل اعتماد رہی ہے.ہم حکومت پاکستان 1 " طاقت " ۳۰ - دسمبر ۱۹۴۷ء
۲۷۳ کو اس صحیح انتخاب پر مبارکباد پیش کرتے ہیں اور ہمیں توقع ہے کہ وہ مجوزہ نئے وزراء کے انتخاب میں بھی اسی طرح مردم شناسی کا ثبوت دے گی یا لے.لاہور کے روزنامہ انقلاب نے چودھری ظفر اللہ خاں کا نیا عہدہ" کے عنوان سے مندرجہ ذیل شذرہ سپر و قلم کیا :- حکومت پاکستان نے چوہدری ظفر اللہ خان کو وزارت خارجہ پر مامور کر کے حقیقت میں اپنی مردم شناسی کا ثبوت دیا ہے اور تمام حلقوں میں اس تقرر کی تعریف و تحسین کی گئی ہے.آج پاکستان کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ اس کو بیرونی خطرات اور فساد علائق سے محفوظ کر دیا جائے تاکہ ہمارا ملک امن و اطمینان کے ساتھ ترقی و خوشحالی کی منزلیں طے کر سکے.چوہدری ظفر اللہ خان کی قابلیت ، ان کا تجربہ اور ان کے وسیع تعلقات ہمارے امور خارجہ کے لئے نہایت قیمتی اثاثہ ثابت ہوں گے...ہمیں یقین رکھنا چاہیئے کہ چوہدری صاحب بہت جلد صحیح اصول پر کام شروع کر دیں گے اور انکا عہد وزارت پاکستان کے لئے بہت بابرکت ثابت ہو گا " کے اس سال قادیان سے تفسیر القرآن انگریزی کی پہلی بیلد اور کی نئی مطبوعات حیدر آباد دکن سے اسماء القرآن في القرآن چھپی موخر الذکر " کتاب حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفا فی البیر کی تصنیف تھی.علاوہ ازیں حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب نے ۸۵۰ صفحات کی ایک انگریزی کتاب شائع کی.سہ (نام 2500PREC 100S GEirs) میں حضرت مصلح موعود کی ہجرت کے بعد ۱۹۴۷ بعض جلیل القدر صحابہ کا انتقال | مندرجہ ذیل جلیل القدر صحابہ نے انتقال له "سفينة" ۳۰ دسمبر ۶۱۹۴۷ ۶۱۹۴ کے روزنامہ انقلاب " لاہور یکم جنوری صدا کالم عمل : ہے س الفضل فتح مبر ۱۹۴۶
ا - حضرت مولوی محمد رحیم الدین صاحب متوطن حبیب والا ضلع بجنور ( وفات تبوک ستبر ۲ بعمر ۷ ۸ سال بمقام قادیان ، سه تو - حضرت میاں امام دین صاحب کپور تھلوی (وفات ، تبوک استمبر بمقام لاہور) نے - حضرت صوفی غلام محمد صاحب سابق مبلغ ماریشیس (وفات اخاور اکتوبر بمقام نا ہوں سے ۶۱۹۴۷ الفضل دار تبوک (۳۲۶ ص ۳۱۳ اصحاب کبار میں آپ کا نمبر ۳۰۲ نمبر پر درج ہے رضمیمہ انجام آتھم م میں قبول احمدیت کا شرف حاصل کیا.پہلی مرتبہ اگست شائر میں قادیان کی زیارت کی اور ۳۲) ان ایک ہفتہ مقیم رہے.دوسری بار ضروری شاہ میں آنے اور پورا مہینہ رمضان المبارک کا مرکز احمدیت میں گزارا اور حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی بابرکت مجلس سے مستفید ہوئے.شملہ سے مرکز سلسلہ کے تمام اخبارات و کتب و رسائل با قاعده منگوانے شروع کئے.حضرت خلیفہ اول کی وفات پر اگرچہ منکرین خلافت کے ٹریکٹ قبیل از وقت پہنچے مگر اپنے رویا و مکاشفات کی بناء پر بلا تامل بیعت خلافت کر لی.حضرت منشی صاحب فرمایا کرتے تھے کہ حضرت اقدس کے اکثر خطوں کا ذخیرہ میرے پاس محفوظ تھا جن کو میں نہایت محبت اور احتیاط سے رکھا کرتا لیکن افسوس ایک وفعہ سیلاب آنے کے باعث جبکہ میں اپنی جائے رہائش پر موجود نہ تھا تمام اسباب کو لٹھے سمیت دریائرود ہو گیا.انا للہ و انا الیہ راجعون " ( الفصل ۲۷ و نا هم عن مضمون میاں محمد یا بین صاحب تاجر کتب قادیان) له الفضل ٢٨ تبوك ، صدا : سے المضل 14 اغار منہ کالم ۲.آپ مچھر الہ تحصیل ننکانہ میں منہ میں پیدا ہوئے.ہوش ٣٢ سبھائی تو باپ کا سایہ سرسے اٹھ گیا اور آپ حضرت پیر 4 (5) رستم علی صاحب مدار ضلع جالنہ مصر کی کفالت میں آ گئے جو اُن دنوں ہنٹگمری میں کورٹ انسپکٹر تھے.جلسہ سالانہ ۱۹۹۳ء میں پہلی بار قادیان تشریف لے گئے اور حضرت ۲۱۹۱۷ AA ۱۱۹۰۵ مسیح موعود کی زیارت کا شہرہ نے حاصل کیا.بیٹی شہ میں بیعت کی اور تعلیم الاسلام ہائی سکول میں داخلہ لے لیا ار میں تعلیم الاسلام کا نجح قادیان سے ایف اے کا امتحان پاس کیا اور اکتو بر شنا میں ایم او کالج علی گڑھ میں داخل ہو گئے نشہ میں تعلیم کے دوران حضرت مسیح موعود کی پہلی تحریک وقت زندگی پر تیک کمی بیشتر میں آپ نے حضرت خلیفہ اتوار کی ہدایت پر چھ ماہ کے اندر قرآن مجید حفظ کہ لیا ۲۰۰ فروری شائر کو جزیره ماشین میں بغرض تبلیغ بھجوائے گئے اور ۱۶ مارچ کو قادیان میں واپس تشریف لائے.بعد ازاں پینتیس سال تک پہلے مدرستہ البنات میں پھر ہائی سکول میں بعد ازاں عمومی رنگ میں جماعت کی تعلیمی و تربیتی خدمات انجام دیتے رہے : روایات صحی به غیر مطبوع جلدی ص۲۶۹ } الفضل ۳ فتح ۲ - ۱ ہجرت |
۲۷۵ سلام.چوہدری حکم دین صاحب دیا لگڑ بھی روفات -۱۹- اضاء / اکتوبر بعمر ه ۸ سال مقام لاہور سے ۵ - مرزا غلام نبی صاحب میں گر امرتسری (وفات 11 ماه نبوت / نومبر ا ہتمام لاہور - - در م الاول 4 - حضرت مولانا شیر علی صاحب (وفات ۱۳ نبوت / نومبر بمقام لاہور ) سے رہا ۶۱۹۴۷.حضرت مرزا محمد اشرف صاحب بلا نوی دوفات ۱۲ماه نبوت / نومبر امه بعمر ۸۰ سال بمقام جہلم) شه 19.1 ا الفضل ۱۳۳ با ید ه ۳۳۷) مد (والد ماجد مولانا محمد اسمعیل صاحب و یا لگرد هی مرتی سلسلہ احمدیہ حال انچارج شعبہ رشتہ ناطر اصلاح و ارشاد ربوہ ) منتشله میں مولوی حکیم نورالدین صاحب مرحوم اماکن سمجکہ ضلع شاہ پور کی تبلیغ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریری بیعت کا شرف حاصل کیا اور آپ کے ذریعہ دونیال گڑھ ضلع گورداسپور کی جماعت کی بنیاد پڑی.میں مقدمہ گورداسپور کے دوران گورداس پور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چھر مبارک کی زیارت اور حضور کی روحانی مجلس سے فیضیاب ہونے کی سعادت حاصل کی.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے آپ کو ارشاد فرمایا کہ آپ تبلیغ میں لگے رہیں مومن کبھی اکیلا نہیں رہتا چنانچہ خدا کے فضل سے دیال گیا میں آہستہ آہستہ : ۲۶-۲۵ نفوس پر مشتمل ایک مخلص اور نعال جماعت پیدا ہو گئی.چوہدری صاحب نہایت راست گو ، پاکباز ہے نفس اور منکسر المزاج بزرگ تھے.آپ تحریک جدید دفتر اول کے مجاہد اور مومی تھے اور وصیت کا حصہ اپنی زندگی میں ہی ادا کر دیا تھا.۱۱- ۱۲ اخاذر اکتوبر کے سب سے بڑے کا نوائے میں قادیان سے ہجرت کر کے لاہور آرہے تھے کہ لاہور کے قریب چلتی بس سے نیچے گر پڑے.سر اور پاؤں میں نہایت سخت چوٹیں آئیں جو جان لیوا ثابت ہوئیں.(الفضل ۳-۴- امان / مارت ) : ه الفضل ۱۲ ماه نبوت ۱۳۳۶ صدا : الفضل ۱۴ نبوت هم صدا - سلسلہ احمدیہ کے نہایت قیمتی وجود اسید نا حضرت مسیح موعود کے مخلص ترین صحابہ میں سے ایک نمایاں شخصیت اور مترجم قرآن مجید انگریزی بشر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غلامی میں آئے اور آخر دم تک سلسلہ احمدیہ کی خدمات بجا لاتے رہے.تاریخ احمدیت جلد دوم اور اس کے بعد کی بہادروں میں آپ کا ذکر متعدد بار آچکا ہے (تفصیلی حالات کے لئے ملاحظہ ہو.سیرت حضرت مولانا شیر علی از ڈاکٹر نذیر احمد صاحب ریاض ) : " كد الفضل ٣ شهادت ه٣٢ ص - حضرت مسیح موعود کے قدیم جسمانی حضرت مرزا جلال الدین صاحب بلا نوی (اصحاب کبار ۳۱۳ میں نمبر اول کے منجھلے بیٹے تھے.میں مستقبل ہجرت کر کے قادیان میں دھونی زیادی اور افسر بجائداد اور محاسب کی حیثیت سے گرانقدر خدمات انجام دینے کے بعد جب ء میں ریٹائر ہوئے تو حضرت (بقیہ حاشیہ اگلے صفیہ پیر )
بقیه حاشیه صفحه گذشته در مصلح موعود نے آپ کے اعزاز میں دی گئی اور اٹھی پارٹی میں نہایت شاندار الفاظ میں آپ کی تعریف فرمائی.آپ صاحب کشف و الہام تھے.آپ کو بتایا گیا کہ آپ کی وفات ، برس کی عمریں دو صحابیوں کے انتقال کے بعد مقدر ہے.چنانچہ ایسا ہی عمل میں آیا ( افضل اور شہادت ها صدام حضرت مصلح موعود نے ۲۱ ماه نبوت / نومبر کو لاہور میں نماز جمعہ کے بعد آپ کا جنازہ غائب پڑھا اور خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا :- " مرزا محمد اشرف صاحب پنشند جو قادیان کے رہنے والے تھے جہلم میں وفات پاگئے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے سابقون الاولو ان صحابہ میں سے ایک مرزا جلال الدین صاحب بلانی ضلع گجرات کے ہوتے تھے یہ اُن کے لڑکے تھے اور بڑی دیر تک قادیان میں محاسب رہے.نہایت مخلص اور نیک انسان تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے صحابی تھے.ان کے والد کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن کریم کی کلید لکھنے پر نامور فرمایا تھا اور انہوں نے ایک مکمل کا بیر لکھی بھی جو افسوس ہے کہ اب تک شائع نہیں ہوسکی یا ر الفضل و فتح ٣٢ من
۲۷۷ دوسرا باب حضر مفصل موناکی سے کام پاکستان سےتعلق مغربی پاکستان مشہور شہروں میں پیلاک تقاریر عليكم جماعت احمدیہ کے نئے مرکز ربوہ کی نیاتک خلافت ثانیہ کا چونتیسواں سال هم ) کا سال اپنی گوناگوں تعمیری خصوصیات کے باعث ایک نہایت با برکت اور غیر معمولی ۶۱۹۴۸ اہمیت کا حامل سال ہے جس کی بشارت ریت رحیم نے اپنے خلیفہ بر حق ستید تا المصلح الموعود کو برسوں قبل دے رکھی تھی چنانچہ حضور نے ہر صلح / جنوری هم کو رتن باغ میں اس سال کا پہلا خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے یہ خوشخبری سنائی کہ :- " جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ۱۹۴۴ء میں مجھے ایک رویا میں بتایا تھا یہ سال اپنے اندر نئی نئی اُمیدیں رکھتا ہے" حضرت امیر المومنین نے اس اجمال کی تفصیل پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا :- مارچ ۱۹ میں میں نے ایک رؤیا دیکھا جبکہ بعض لوگ میرے متعلق ایسی خبریں شائع کر رہے تھے اور کچھ احمدی دوست بھی نہ معلوم کہیں اثرات کے ماتحت یہ خواہیں
۲۷۸ دیکھ رہے تھے کہ میری زندگی کے دن ختم ہو رہے ہیں.ان حالات کی وجہ سے جب میں نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی تو مجھے ایک نظارہ دکھایا گیا کہ ایک مہمند رہے اور اس میں کچھ بائے (Buoy ) ہیں.بوائے انگریزی کا لفظ ہے اور چونکہ مینعتی شے ہے، اس لئے اردو زبان میں اس کا کوئی ترجمہ نہیں (یہ بوائے ڈھول سے ہوتے ہیں جنہیں آہنی زنجیروں سے سمند رہیں چٹانوں کے ساتھ باندھا ہوتا ہے اور وہ سمندرمیں تیرتے پھرتے ہیں اور جو جہاز وہاں سے گزرتے ہیں ان کو دیکھ کر جہازران یہ معلوم کر لیتے ہیں کہ اس ہوائے سے چٹان قریب ہے اور اس سے بچ کر چلنا چاہیئے.اور اگر سمندر کے اندر چٹانوں کا نشان بتانے کے لئے ہوائے نہ لگے ہوئے ہوں اور جہاز آجائے تو جہاز کے چٹان سے ٹکرا کر ڈوب جانے کا خطرہ ہوتا ہے...تو میں نے دیکھا کہ سمندر میں اسی قسم کے بوائے لگے ہوئے ہیں اور ان کی زنجیریں بہت لمبی ہیں اور دور تک چلی جاتی ہیں.خواب میں میں خیال کرتا ہوں کہ اس ہوائے کا تعلق میری ذات سے ہے اور تمثیلی رنگ میں وہ بوائے یکی ہی ہوں، اور مجھے بتایا گیا کہ یہ نظارہ پانچ سال کے عرصہ سے تعلق رکھتا ہے تب میں نے سمجھا کہ آئندہ پانچ سال کے اندر کوئی اہم واقعہ اسلام کے متعلق پیش آنے والا ہے اور گویا مسلمانوں کو اس آفت سے بچانے کے لئے میں بطور بائے ہوں.اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ بھی بتایا کہ جب تک وہ واقعہ پیش نہ آئے مجھے زندہ رکھا جائے گا.اس رڈیا کے پورا ہونے کا ایک پہلو تو یہ بھی نظر آتا ہے کہ ہمارا ملک اس عرصہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے آزاد ہو چکا ہے اور ایسے حالات میں آزاد ہوا ہے جن کی موجودگی میں آزادی مل جانا خلاف توقع تھا اور کس کو یہ وہم بھی نہیں گزار سکتا تھا کہ اتنی جلدی ہمارا ملک آزاد ہو جائے گا.پھر آزادی ملنے کے ساتھ ہی ایسے واقعات بھی رونما ہوئے جو آج سے تھوڑا عرصہ پہلے کسی کے خیال میں بھی نہ تھے مسلمانوں پر ایک بہت بڑی تباہی آئی اور بہت بڑی آفت کا انہیں سامنا کرنا پڑژار گو یہ تباہی ہندوؤں پر بھی آئی مگر اس زمانہ میں جب مجھے یہ رویا دکھایا گیا تھا کس شخص کے وہم و گمان میں بھی نہ آسکتا تھا کہ ہمارے ملک میں اتنا بڑا اور عدیم المثال تغییر آئے گا اور ہمارا I ! i
۲۷۹ ملک چند سالوں کے اندر اندر یہ آزادی حاصل کرلے گا اور وہ آزادی ایسی ہو گی جو اپنے ساتھ بہت سی تاریکیاں اور ظلمتیں بھی رکھتی ہو گی.اس رؤیا کے ساتھ ایک آؤ رویا بھی تھی.اس رویا میں ایک مضمون بار بار مجھ پر نازل ہوا وہ پورا مضمون تو مجھے یاد نہیں مگر اتنا یاد ہے کہ اس میں بار بار بیالیس اور اڑتالیس کا لفظ آتا تھا...بہر حال اور تائین کا لفظ پنج سالہ زمانہ کی طرف توجہ دلاتا تھا.یہ رویا ئیں نے مارچ ۱۹۲ء میں دیکھی تھی اور یہ پہنچ سالہ زمانہ مارچ 19 میں ختم ہوتا ہے اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی کئی بار بتایا ہے رویا کی تعبیر میں اگر پورا سال ہو تو اس کی کسر بھی ساتھ ہی شامل ہوتی ہے اس لئے ممکن ہے کہ پانچ سال کی کسر بھی یعنی چھ ماہ اور ملا کہ یہ نیہالہ زمانہ اکتوبر شاہ تک ہو ہر حال زیادہ سے زیادہ مدت شاہ کے آخر تک ہے.اور اگر پورے پانچ سال ہوں تو یہ زمانہ مارچ ۱۹۴۹ء میں ختم ہوتا ہے گویا ۲۵ مارچ 1957 F ۱۹۴ء کے بعد پانچواں سال شروع ہو جائے گا.پس یہ سال اپنے اندر بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے " سے سید نا حضرت مصلح موعود کی بیان فرموده تعبیر بالکل درست ثابہت ہوئی اور میں رونما ہونے والے متعدد واقعات خصوصاً ر بوہ جیسے عالمی اور بین الا قوامی شان رکھنے والے اسلامی مرکز کی بنیا د نے اس پر ہمیشہ کے لئے مہر تصدیق ثبت کر دی اور ساتھ ہی بتا دیا کہ سلسلہ احمدیہ کی تاریخ ایک ایسے آسمانی قافلہ کی تاریخ ہے جس کی ہر کی منزل کے فیصلے آسمانوں پر خدا کے شاہی دفتر میں تیار ہوتے ہیں اور پھر اُن کے مطابق زمین پر تنفیذ ہوتی ہے.- ه الفضل ۲ تبلیغ فروری ۱۲۵ ۱۳ ۴ /
فصل اوّل استحکام پاکستان کیلئے کراچی پشاور راولپنڈی او کوئٹہ میں نہایت لولہ انگیز پبلک تقریریں بیش قیمت ارشادات نیز دوسری جماعتی و دینی مصروفیا ۶۱۹۴۷ پچھلے سال.لہ میں سید نا حضرت مصلح موعود نے پنجاب کے دارالسلطنت لاھور میں پاکستان کا مستقبل کے عنوان پر متعدد کامیاب اور معرکۃ الآراء لیکچر دیئے جن کو چوٹی کے اہل علم طبقوں نے نہایت ذوق و شوق سے سنا اور زیر دست خراج تحسین اور کیا.اس سال حضور مغربی پاکستان کے دوسرے متعد دو مرکزی مقامات یہ تشریف لے گئے اور پاکستان کے ہزاروں باشندوں کو براہ راست اپنے بصیرت افروز خیالات اور تعمیری افکار سے روشناس کرایا.چنانچہ حضور نے پہلے سیالکوٹ اور تقسیم میں بعد ازاں ۱۴ رامان / مارچ کو کراچی این ها شهادت را پریل کو پشا وری ۱۲ار ہے اس سلسلہ کی پہلی کامیاب تقریر سیالکوٹ میں ہوئی ہے نے لیکچر جسم کا ذکر حضور کے ایک خطبہ کراچی میں ملتا ہے.فرمایا :- میں نے گزشتہ ایام میں جہلم میں ایک تقریر کی جس میں مسلمانوں کو نصیحت کی کہ انہوں نے جو پاکستان مانگا تھا تو اس لئے مانگا تھا کہ وہ اسلامی تہذیب اور اسلامی تمدن کو آزادانہ طور پر قائم کر سکیں.اب جبکہ پاکستان قائم ہو چکا ہے کم از کم پانچے وقت کی نماز ہی مسلمان مسجد میں آکر ادا کرنا شروع کر دیں.اگر وہ پانچوں وقت نماز بھی نہیں پڑھتے تو پاکستان مانگ کو انہوں نے کیا لیا.اس پر ایک شخص نے پریذیڈنٹ کو رقعہ لکھا کہ میں والٹرز کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں بعد میں مجھے موقعہ دیا جائے.چنانچہ بعد میں اسے بولنے کا موقعہ دیا گیا.اتفاق سے پریذیڈنٹ ایک ایسے دوست تھے جو احمدیت کے مخالف رہے ہیں.وہ شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا.مرزا صاحب نے باتیں تو بڑی اچھی کہی ہیں لیکن ہاتھی کے دانت کھانے کے، اور ا بخیه ها شاید اگلے صفحہ پر
شہادت / اپریل کو راولپنڈی میں اور ۱۲ احسان جون کو کوئٹہ میں نہایت معلومات افزاء اور روح پر ور پبلک تقاریر فرمائیں جن میں پاکستان کے پیش آمدہ اہم ملکی مسائل میں پاکستانیوں کی راہنمائی کرتے ہوئے نہایت شرح وبسط سے انہیں اپنی قومی ویکی ذمہ داریوں کی بجا آوری کی طرف تو جیبہ بقیہ حاشیہ صفحہ گزشتہ : اور دکھانے کے اور ہوتے ہیں.اگر نمازہ کا انہیں اتنا ہی احساس ہے تو اب ہماری نماز ہونے والی ہے مرزا صاحب پھیلیں اور ہمارے پیچھے نماز پڑھ کر دکھا دیں غرض ایک لمبی تقریر اُس نے صرف اسی بات پر کی.اس وقت میرے دل میں بدظنی پیدا ہوئی کہ شاید پریذیڈنٹ کی مرضی اور ایماء سے یہ تقریر ہو رہی ہے.بعد میں پریذیڈنٹ صاحب کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مجھے تو رقعہ میں یہ دکھا یا گیا تھا کہ میں والٹیروں کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں گر تقریر کسی اور بات پر شروع کر دی گئی ہے.میری سمجھ میں نہیں آیا کہ تقریر کرنے والے صاحب کا منشاء کیا ہے.امام جماعت احمدیہ نے اپنی تقریر میں یہ کہا ہے کہ مسلمانوں کو نماز پڑھنی چاہئیے.نماز محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے اور مسجدیں بھی ہماری اپنی ہیں.انہوں نے صرف توجہ دلائی ہے کہ تم اپنے رسوا کی بات مانو اور مسجدوں میں نمازیں پڑھا کرو.مگر یہ کہتے ہیں کہ مرزا صاحب ان کے پیچھے نماز پڑھیں.اگر تو انہوں نے یہ کہا ہوتا کہ مسلمانوں کو میرے پیچھے نمازیں پڑھنی چاہئیں تب بھی کوئی بات تھی وہ کہہ سکتے تھے کہ آپ ہمارے پیچھے پڑھیں یا اگر کہتے کہ مسلمانوں کو احمدیوں کے پیچھے نمازیں پڑھنی چاہئیں تب بھی یہ بات ان کے منہ چھ سچ سکتی تھی کہ اگر ہمیں احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھنے کے لئے کہا جاتا ہے تو وہ بھی ہمارے پیچھے پڑھیں لیکن انہوں نے تو ہمارے آقا کی ایک بات ہمیں یاد دلائی ہے.کیا ہمارا یہ کام ہے کہ ہم اپنے آقا کی بات پر عمل کریں یا یہ کام ہے کہ ہم کہیں جب تک تم ہمارے پیچھے نماز نہ پڑھو ہم اپنے آقا کے حکم پر بھی عمل کرنے کے لئے تیار نہیں.غرض انہوں نے اسے خوب رگیرا اور لتاڑا ܀ د الفضل در استریل شده
دلائی اور اپنے پر جوش اور مثبت بھرے الفاظ ، بے پناہ قوت ایمان اور ناقابل تسخیر عزم و ولولہ سے لاکھوں پر مردہ اور غمزدہ دلوں میں زندگی اور بشاشت کی ایک زبر دست روح پھونک دی.حضرت امیر المومنین سید نا المصلح الموعود نے استحکام پاکستان اور سفر سنده و کراچی تعلیم وتربیت اہم اعراض استاد یں جماعتی تنظیم و تربیت کے اہم اغراض و مقاصد کی تکمیل کیلئے پہلا طویل سفر سندھ کی طرف اختیار فرمایا.یہ انوار و فیوض سے معمور سفر مار ماہ تبلیغ / فروری سے شروع ہوا اور ۲۰ رامان / مارچ کو بخیر و خوبی اختتام تک پہنچا.حضرت امیر المومنین ۱۴ ماه تبلیغ زوری بروز ہفتہ معہ اہلبیت لاہور سے ناصر آباد تک و خسته ام لا ہور سے روانہ ہوئے پورا قاتل ہم نفوشش پر مشتمل تھا حضور پونے آٹھ بجے صبح بذریعہ کار رتن باغ سے روانہ ہو کر لاہور سٹیشن پر تشریف لائے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ، حضرت نواب میاں عبداللہ خان صاحب ، حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب، جناب شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور، جناب چوہدری اسد اللہ خاں صاحب اور جماعت احمدیہ کے دیگر بہت سے افراد حضور ینہ کی مشایعت کے لئے سٹیشن پر موجود تھے حضور نے دوستوں کو شرف مصافحہ بخشا اور آٹھ بجے کراچی میں روانہ ہو گئی سفر کی اطلات چونکہ پرائیویٹ سیکرٹری کی طرف سے ان تمام جماعتوں کو دے دی گئی تھی جو اس لائن پر واقع تھیں اس لئے جب بھی گاڑی کسی سٹیشن پر پہنچتی عموماً جماعت کے کثیر دوست مرد، عورتیں اور بچے وہاں استقبال اور حضور کی زیارت کے لئے موجود ہوتے.لاہور کے بعد اول رائے ونڈ کے سٹیشن پر جماعت کے دوست حضور کے استقبال کے لئے تشریف لائے.اس کے بعد تو کی ، اوکاڑہ منٹگمری چیچہ وطنی میاں چنوں ، خانیوال، ملتان چھاؤنی ، لودھراں، سماسہ ، خانپور، رحیم یار خاں ، روہڑی اور لے اس سفر میں حضرت ام المومنین کے علاوہ حضرت سیدہ ام ناصر حرم اول ، حضرت سیدہ بشری بیگم صاحبہ حرم رابع سیده امتہ العزیز صاحبہ سیده امتد النصیر صاحبه استیده امته الرشید صاحبه رسیده امر الحکیم صاحبه رسیده امتد الباسط صاحبه سید ه انته الجمیل صاحه استیده اند المجید بیگم صاحبہ اور صاجزادہ مرزا رفیق احمد صاحب اہلبیت میں سے حضور کے ہمرکاب تھے.اسی طرح حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب (طبی مشیر ، خانصاحب میاں محمد یوسف مصلحب د پرائیویٹ سیکرٹری مولانا محمد یعقوب صاحب ہر انار شیر رو نویسی اورین نواحی صاحب انچارج ایم ای میوانی بھی شریک سفر ہونے کی عادت نصیب ہوئی.
۲۸۳ حیدر آباد سندھ کے سٹیشنوں پر مختلف جماعتیں موجود تھیں.اوکاڑہ ہنٹ گری اور خانیوال کے سٹیشنوں پر تو حضور نے گاڑی سے نیچے اتر کر جماعت کے دوستوں سے صافحہ فرمایا مگر باقی سٹیشنوں پر گاڑی میں میٹھے بیٹھے ہی حضور مصافحہ فرماتے رہے.بعض مقامات پر جماعت کی درخواست پر حضور نے ہاتھ اُٹھا کر دعا بھی فرمائی.گاڑی جب اوکاڑہ سٹیشن پر پہنچی تو جماعت کے بعض دوستوں نے خوشی میں بندوق سے ہوا میں فائر کئے حضور دوستوں کا اثر و عام دیکھ کر مصافحہ کرنے کے لئے گاڑی سے اتر کر پلیٹ فارم پر تشریف لے آئے اور مصافحہ کرنے کے بعد دعا شروع کی.ابھی حضور دعا کر ہی رہے تھے کہ گاڑی حرکت میں آگئی اور دو ایک ڈتوں کے سوا باقی تمام گاڑی پلیٹ فارم سے آگے نکل گئی اس اثناء میں حضور پر تو مصروف دعار ہے.آخر زنجیر کھینچ کر گاڑی رکوائی گئی اور حضور اپنے ڈبے میں سوار ہوئے منیسٹ گری سٹیشن پر چوہدری نورالدین صاحب ذیلدار نے عرض کیا کہ حضور راستہ میں چک علی کی جماعت آتی ہے اس جماعت کے دوست لائن کے ساتھ حضور کی زیارت کے لئے صف بستہ کھڑے ہوں گے.اس پر حضور نے دفتر کو ہدایت فرمائی کہ جب وہ مقام قریب آجائے جہاں جماعت کے دوست کھڑے ہوئی تو مجھے اطلاع دی جائے.چنانچہ ملتی گاڑی میں حضور کی خدمت میں اطلاع عرض کی گئی اور حضور نے کھڑکی کے قریب تشریف لاکر زائرین کو اپنے دیدار سے مشترف فرمایا.دفتر کی طرف سے جماعتوں کو یہ اطلاع دی گئی تھی کہ چونکہ سفر لمبا ہے اس لئے رات کے دو بجے تک جو جماعتیں اسٹیشن پر آسکتی ہیں وہ آجائیں ملاقات صرف دو بجے تک ہو سکتی ہے اس کے بعد نہیں مگر جب گاڑی روہڑی سٹیشن پر پہنچی تو باوجود اس کے کہ اس وقت بھا ر یا پونے چار بجے شب کا وقت تھا پھر بھی دوست اپنے اخلاص اور عقیدت کی وجہ سے اسٹیشن پر موجود تھے.چونکہ حضور اس وقت آرام فرما رہے تھے.اِس لئے وہ بھی صرف حضور کے ڈبے کے سامنے کھڑے رہے انہیں ملاقات کا موقع نہ مل سکا.اس سفر میں ۱۴ فروری کو دوپہر کا کھانا منٹگمری کی جماعت نے اور شام کا کھانا متان کی حیات نے پیش کیا جو حضور اور منور کے تمام ہمراہیوں کے لئے تھا حضور دار فروری کو انکے صبح حیدر آباد سندھ رونق افروز ہوئے اور پھر معہ اہل بیت اینجے بذریعہ کار عازم میر پور خاص ہوئے اور دو بجے کے قریب حضور میر پور خاص پہنچ گئے.
۲۸۳ میر اوپر خاص ہیں، خان بہادر غلام حسین صاحب کی کوٹھی پر حضور نے قیام فرمایا.پانچ سنجے خان بهادر غلام حسین صاحب نے حضور کے اعزاز میں اپنے رہائشی مکان پر دعوت چائے دی جس میں حضور شریک ہوئے.اور بھی بہت سے مقامی معززین اس دعوت میں شریک تھے.4 بجے شام کے قریب حضرت امیر المومنین المصلح الموعود میر اوپر خاص کے بعض محبوس احمدیوں کو دیکھنے کے لئے تشریف لے گئے.یہ احمدی دوست جن میں سے اکثر واقف زندگی تھے عرصہ چھ سات ناہ سے محمد آباد اسٹیٹ کی زمین میں ایک فساد کے سلسلہ میں زیرا اعزام تھے حضور کے تشریف لے جانے پر جیل کے افسر صاحب کے حکم کے مطابق اس بے ماخوذین کو برآمدہ میں لائے بجانے کی اجازت دی گئی.اس جگہ سب دوستوں نے یکے بعد دیگرے حضور سے مصافحہ کا شرف حاصل کیا.حضور نے دو نیست فرمایا کہ آپ لوگوں کو نماز پڑھنے میں سہولت ہے یعنی وضوء وغیرہ کے لئے پانی مل جاتا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ نماز کی سہولت ہے ہم نماز ادا کر لیتے ہیں.وضوء کے لئے قریب کی جگہ سے پانی لے آتے ہیں.پھر حضور نے فرمایا ماہ رمضان میں بھی آپ اس جگہ تھے روزے رکھ سکتے تھے یا نہیں ؟ انہوں نے بتا یا کہ ہم نے رمضان کے روزے رکھے تھے.ہم شام کو ہی دو نوا، وقت کا کھانا پکا لیا کرتے تھے کیونکہ سحری کے وقت آگ وغیرہ جلانے کی اجازت نہ تھی.پھر کچھ سکوت کے بعد حضور نے انہیں مطلب کرتے ہوئے ایک مختصر تقریر فرمائی جس کا ملخص یہ تھا کہ آپ لوگوں کو استغفارا اور دعا کرتے رہنا چاہیئے اور یہ بھی خیال نہیں آنا چاہیئے کہ ہم بے قصور ہیں خواہ موجودہ الزام غلط ہی ہو کیونکہ کہا اوقات اللہ تعالٰی مومن کی بعض غلطیوں کی سزا دہی میں پردہ پوشی سے کام لیتا ہے اور بظاہر ایسے الزام کے ذریعہ تکلیف میں ڈال دیتا ہے جس الزام کے متعلق مومن جانتا ہے کہ یہ الزام غلط ہے.اس طرح اس کو تکلیف تو اس غلطی کی وجہ سے جو پہلے اس سے ہوئی ہے پہنچ جاتی ہے مگر منرا یا تکلیف ایسے رنگ میں اسے پہنچتی ہے جس کی وجہ سے اول تو وہ خود کہتا ہے کہ میں بے قصور ہوں پھر دنیا بھی اس الزام کو درست نہیں سمجھتی اس لئے اس کی کہ سوائی اس طرح نہیں ہوتی جس طرح اُس پہلی غلطی کے الزام میں پھنس جانے اور الزام کے صحیح ثابت ہونے سے ہوتی.آپ اس وقت، جس حالت میں ہیں وہ بیشک تکلیف دہ ہے کیونکہ قید میں ہونے کے باعث ہر قسم کی آزادی سے محروم ہیں لیکن آپ لوگوں کو ر اتنی بر منا رہنا چاہیئے اور اس حالت کو خوشی سے برداشت کرنا چاہیئے !
۲۸۵ دنیا میں کئی لوگ ایسے بھی ہیں جو بہرے، گونگے اور اندھے ہیں.وہ نہ سن سکتے ہیں اور نہ بول سکتے ہیں اور نہ دیکھ سکتے ہیں اور ہر قسم کی قید ان پر وارد ہے.وہ آپ لوگوں کی نسبت بدرجہا سخت قید میں ہیں مگر پھر بھی وہ اپنی زندگی کو بسر کر رہے ہیں اور نہیں چاہتے کہ ان کی زندگی ختم کر دی بھائے.آپ لوگوں پر جو یہ حالت آئی ہے یہ خدا تعالیٰ کی بھیجی ہوئی آئی ہے آپ کو اس کا فائدہ اُٹھانا چاہیئے تا کہ جب اس حالت سے آپ لوگ باہر آئیں تو آپ کی حالت وہ نہ ہو جو داخل ہونے کے وقت تھی بلکہ اپنے نفس کی اصلاح کی اعلیٰ درجہ کی حالت میں آپ لوگ باہر آئیں اور ایسے پاک اور صاف ہو کر نکلیں کہ جس سے دنیا کو روحانی نفع پہنچے.اس ارشاد کے بعد حضور واپس قیام گاہ پر تشریف لائے اور مغرب و عشاء کی نمازیں ادا فرمائیں نماز سے فارغ ہونے کے بعد نارنول ریاست پٹیالہ کے ایک غیر احمدی دوست نے جو مسلم لیگ کے سرگرم کارکن رہے تھے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ چونکہ اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں پر بہت سی باتیں ایسی گھڑتی رہتی ہیں جن سے لوگوں کو اطمینانِ قلب حاصل ہوتا ہے اس لئے میں بھی حضور کی ملاقات کے لئے حاضر ہوا ہوں میری گزارش یہ ہے کہ اس زمانہ میں مسلمانوں پر جو بیمثال تباہی آئی ہے اس کو دیکھتے ہوئے اب اسلام اور مسلمانوں کا کیا بنے گا اور وہ کس طرح ترقی کر سکیں گے.حضرت امیر المومنین نے فرمایا یہ کہنا درست نہیں کہ مسلمانوں پر جو تنہا ہی آئی ہے یہ اپنی ذات میں بے مثال ہے بلکہ اس سے پہلے بھی مسلمانوں پر بڑی بڑی تباہیاں آچکی ہیں چنانچہ اس ضمن میں سپیکین اور بغداد کی تباہی کا ذکر کیا اور فرمایا کہ سپین میں جو تبا ہی آئی تھی وہ اس قسم کی تھی کہ کوئی ایک فرد بھی مسلمانوں میں سے نہیں بچا حالانکہ سپین میں مسلمانوں کا وہ عروج تھا کہ تمام یورپ پر انکا رعب اور دبدبہ چھایا ہوا تھا.پھر پنجاب کو کوئی مرکزی حیثیت حاصل نہیں تھی مگر بغداد جب تباہ ہوا تو وہ مرکزی حیثیت رکھتا تھا.پس اس تباہی اور اُس تباہی میں بڑا فرق ہے.اس وقت گو لا کھوں مسلمان مارے گئے ہیں مگر لاکھوں بچے کو بھی نکل آئے ہیں حالانکہ سپین میں سے کوئی بھی بیچ کر نہیں نکل سکا تھا.رہا یہ سوال کہ مسلمانوں کا اب کیا بنے گا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جب ہم اسلام اور محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی صداقت پر یقین رکھتے ہیں تو ہمارے لئے یہ سوال کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتا
۲۸۶ قرآن کریم کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں مسلمانوں کے تنزل کی بھی پیش گوئیاں ہیں اور مسلمانوں کی ترقی کی بھی پیش گوئیاں ہیں جب ہم نے اپنی آنکھوں سے قرآن کریم کی وہ پیش گوئیاں پوری ہوتی دیکھ لی ہیں جو مسلمانوں کی تباہی اور ادبار کے متعلق تھیں تو ہمیں یقین رکھنا چا ہئیے کہ الشر تعالی کی پیشنگوئیاں بھی ضرور پوری ہو کر رہیں گی جو مسلمانوں کے دوبارہ خروج اور ترقی کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں.باقی رہا یہ امر کہ مسلمان غلبہ حاصل کر سکیں گے ؟ سو یا د رکھنا چاہئیے کہ یہ غلبہ اسی وقت حاص ہو سکتا ہے جب اسلام کی صحیح تصویر ان میں نظر آنے لگے گی.افسوس ہے کہ ابھی تک مسلمانوں نے اپنی اصلاح کی طرف توجہ نہیں کی مثلاً اگر اس وقت حکومت پاکستان یہ چاہیے کہ تمام سینماؤں کو بند کرا دے تو مسلمان اس کے لئے تیار نہیں ہوں گے.یہی حال پر وہ اور سود وغیرہ مسائل کا ہے.اگر مسلمان اسلامی احکام پر عمل کرنا اپنے لئے فرض قرار دے لیں تو ان کی ترقی بالکل قطعی اور یقینی ہے مگر مسلمانوں میں یہ زندگی اُسی وقت پیدا ہو سکتی ہے جب وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قبول کر لیں اور اس سلسلہ میں شامل ہو جائیں جو اللہ تعالیٰ نے اسلام اور مسلمانوں کی ترقی کے لئے قائم فرمایا ہے.اس موقع پر غیر احمدی دوست نے عرض کیا کہ آب تو جماعت احمدیہ اور عام مسلمانوں میں کوئی زیادہ اختلاف نہیں رہا.اس پر حضرت امیر المومنین نے مسلمانوں کے ان عقائد کا ذکر فرمایا کہ وہ قرآن کریم میں ناسخ و منسوخ کے قائل ہیں اور وحی کو منقطع سمجھتے ہیں حضور نے فرمایا کہ ناسخ ومنسوخ کا مسئلہ ایسا ہے کہ اگر اس کو درست تسلیم کر لیا جائے تو امان اُٹھ جاتا ہے اور قرآن کریم پر پھیل کرنا مسخت مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ جب یہ اعتقاد پیدا کر لیا جائے کہ قرآن کریم کی بہت سی آیت میں منسوخ ہیں تو نہیں کہا جا سکتا کہ یہ منسوخ ہے یا وہ منسوخ ہے.اسی طرح مسلمان وحی کو منقطع سمجھتے تھے حالانکہ یہی ایک ایسی چیز ہے جس سے اسلام کا روشن چہرہ لوگوں کو نظر آتا ہے.اگر آسمان سے تازہ وحی کے نزول کا سلسلہ جاری نہ ہو تو اسلام کا مصفی چہرہ غبار آلود ہو جائے.رات کا کھانا شیخ بشیر احمد صاحب ایگزیکٹو انجنیٹر کے ہاں تھا اور حضور ان کی کوٹھی پر کھانے کے لئے تشریف لے گئے.۱۶ تبلیغ ضروری دستی بجے صبح حضور معہ قافلہ میر پور خاص سے کنجیجی بذریعہ ٹرین روانہ ہوئے
راستہ میں تمہیں آباد- ڈگری جھڈو.نوکوٹ فضل بھمبر و ٹالہی نبی سر روڈ اور کزی اسٹیشن پر جماعت کے دوست حضور کے استقبال اور زیارت کے لئے موجود تھے.ہر جگہ دوستوں کو حضور نے مصافحہ کا شرف بخشا.ڈگری کی جماعت نے کھانا پیش کیا.اسی روز ۳ بجے بعد دو پر حضور معہ اہل بیت کیجیجی اسٹیشن پر وارد ہوئے.جماعت کے دوست کثیر تعداد میں یہاں موجود تھے نعرہ ہائے تکبیر سے حضور کا استقبال کیا گیا.حضور معہ اہل بیت کار میں سوار ہوئے اور نا صر آباد اسٹیٹ تشریف ٹے آئے ہے اصر آبادی اور این حضرت امیر المومنین المصلح الموعود اس علاقہ میں قریباً تین ہفتہ تک ٹھرے اور ناصر آباد ، حیدر آباد، میر اور خاص کنی، احمد آباد محمود آباد کا دورہ کرنے اور اہم جماعتی معاملات کو اپنی زیر نگرانی ھے کرنے اور ضروری ہدایات دینے کے بعد اا رامان کر مارچ کو ۱۰ بجے کے قریب بذریعہ ٹرین ناظر باد سے کراچی روانہ ہوئے.اسٹیشن پر بہت سے مقامی احباب الوداع کہنے کے لئے موجود تھے.راستہ ہیں کنری، نبی سر روڈ، ٹالہی اور فضل بھمبرو کے اسٹیشنوں پر بکثرت احمدی مرد ، عورتیں اور بچے حضور کی زیارت کے لئے موجود تھے.میر پور خاص اور حیدرآباد میں بھی بہت سے احباب حضور کا خیر مقدم کرنے کے لئے حاضر تھے.کٹری کی جماعت نے حضور کے لئے اور حضور کے ہمراہیوں کے لئے دوپہر کا کھانا پیش کیا.میر پور خاص کے سٹیشن پر مکرمہ ڈاکٹڑھا جی خان صاحب نے شام کے کھانے اور چائے کا اچھا انتظام کر رکھا تھا.حیدر آباد کے دوستوں نے بچائے پیش کی.حیدر آباد سٹیشن پر حضور کچھ وقت وینگ ادم میں تشریف فرما رہے جہاں بعض احباب نے حضور سے ملاقات اور گفت گو کا شرف حاصل کیا.صبح چار بجے ٹرین حیدر آباد سے کراچی روانہ ہوئی اور بارہ بجے کے قریب حضور کراچی میں آملہ معہ قافلہ بخیریت کو اچی پہنچ گئے.اسٹیشن پر حضور کا خیر مقدم کرنے کے لئے آنیوالے دوستوں کو حضور نے مصافحہ کا شرف عطا فرمایا.حیدرآباد اور کراچی میں بعض دوستوں نے حضور کو ہار پہنانے چاہے لیکن حضور نے انہیں منع کر دیا.جماعت کراچی نے حضور کی رہائش کے لئے ایک ہندو کی کو بھٹی کا انتظام کیا تھا جو مخصوص طور پر مذہبی امور کی انجام دہی کے لئے بنائی گئی تھی حضور نے وہاں له الفضا ۲۰ بلیغ / فروری ۱۳
۲۸۸ رہائش کو پسند نہ فرمایا اور اس کی بجائے چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب بالقابہ کی کوٹھی پروین ولا واقع ہوشنگ روڈ میں فروکش ہوئے.لے خدا یا بجے کے قریب حضور باوجود در دفتر س کی خطبہ جمعہ میں خداتعالی کی خوشنودی اور رضا تکلیف کے ناز جمعہ کے لئے تشریف لے گئے اختیار کرنے کی تحریک نماز جمعہ کا انتظام بندر روڈ پر ایک وسیع میدان میں کیا گیا تھا حضور نے خطبہ جمعہ کے شروع میں یہ بتایا کہ :- جماعت کے دوستوں نے ہماری رہائش کے لئے یہاں ایک جگہ تجویز کی تھی جس کا نام مندر ہے.لوگ کہتے ہیں وہ مندر نہیں تھا بلکہ مذہبی امور کے لئے وہ جگہ بنائی گئی تھی لیکن بہر حال میکن نے اس مکان میں رہنے سے انکار کر دیا ہے..جب میں لاہور آیا تو چونکہ ہمیں کالج اور دوسری ضروریات کے لئے جگہ کی تلاش تھی حکومت پنجاب کے بعض افسروں نے یہ تجویز کیا اور بعض لوگ متواتر اس غرض کے لئے مجھے ملے کہ ہم ننکانہ لے لیں اور اس پر قبضہ کر لیں.جب بھی ہم اپنی ضروریات اُن کے سامنے رکھتے وہ زور دیتے کہ ہم مکانہ آپکو دے دیتے ہیں لیکن میں نے ہمیشہ اس سے انکار کیا اور کہا کہ جو قانون ہم اپنے جذبات کے متعلق ضروری سمجھتے ہیں اس قانون کے ماتحت ہم دوسروں کے جذبات کا احترام کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں.چونکہ ننکانہ سکھوں کی ایک مذہبی جگہ ہے اس لئے ہم اس پر قبضہ کر کے دوسروں پر یہ اثر ڈالنا نہیں چاہتے کہ ہم بھی ضرورت کے موقع پر دوسروں کے مذہبی مقامات پر قبضہ کر لینا جائز سمجھتے ہیں.ہمیں کہا گیا کہ یہ مکانات عالی ہیں او بہر حال کسی نے لیتے ہیں آپ ہی لے لیں.ہم نے کہا کوئی لے لے سوال تو ہمارے جذبات کا ہے کسی دوسرے شخص کے اگر وہ جذبات نہیں جو ہمارے ہیں یا ایسے مقامات پر قبضہ کر لینا کوئی شخص جائز سمجھتا ہے تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ چونکہ فلاں شخص کے جذبات کے لحاظ سے یہ کوئی بری بات نہیں یا چونکہ ایسے مقامات پر قبضہ کر لینا اور لوگ جائز سمجھتے ہیں اس لئے آپ بھی قبضہ کر لیں.ان کا معاملہ ان کی ذات سے تعلق رکھتا ہے ہم سے ه الفضل ۱۸رامان / مارچ
۲۸۹ یہ مطالبہ نہیں کیا جا سکتا کہ ہم بھی اس معاملہ میں وہی کچھ کر یں جو اور لوگ کرتے ہیں.دوسرے ہم یہ ضروری نہیں سمجھتے کہ عبادت گاہ ہی ہو تو اس پر قبضہ کر لینے سے جذبات کو ٹھیس لگتی ہے بلکہ عبادت گاہ کے بغیر بھی ایسی چیزیں ہیں جن کے چھینے جانے یا جن پر دوسرے مذاہب کے قبضہ کر لینے سے جذبات کو ٹھیس لگتی ہے.اس نقطۂ نگاہ کے ماتحت قطع نظر اس سے کہ اس کا نام صرت مند ر تھا چونکہ وہ ایک ہندو کی عمارت ہے اور یہ عمارت نہ ہی مطلبون اور مذہبی انجمنوں کے انعقاد کے لئے استعمال کی جاتی تھی اس لئے اپنے اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے لیکں نے یہ پسند نہیں کیا کہ ہم اس عمارت میں ٹھہریں تا کہ ہماری وہ دلیل جو ہم قادیان کے متعلق دے رہے ہیں کمزور نہ ہو جائے اور ہمارا وہ اصول نہ ٹوٹے جو مذہبی مقامات کی تقدیس اور ان کے احترام کے متعلق ہم دنیا کے سامنے پیش کو رہنے ہیں بعض دوستوں نے کہا ہے کہ وہ اس عمارت کو خریدنے کا انتظام کہ رہے ہیں.بلکہ مجھے کہا گیا ہے کہ خود مالک مکان اسے فروخت کرنا چاہتا ہے.چونکہ یہ ایک اہم امر ہے اس لئے اس معامر میں اگر کوئی قدم مقامی جماعت کی طرف سے اُٹھایا جائے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے پوری طرح تمام حالات کو میرے سامنے رکھے اگر میری تسلی ہو گئی اور مجھے اس میں شبہ کی کوئی گنجائش نظر نہ آئی تب بھی میرے نزدیک مناسب یہی ہوگا کہ ہم یہ عمارت نہ لیں کیونکہ اپنے اصول کی پابندی ہمارے لئے نہایت ضروری ہے" سے امس وضاحت کے بعد حضور نے جماعت کراچی کو مسجد، مہمان خانہ اور لائبریری کے لئے ایک موزوں قطعہ تلاش کرنے کی طرف توجہ دلائی.بعد ازاں ارشاد فرمایا :- دوسری چیز جس کی طرف یکی توجہ دلانا چاہتا ہوں یہ ہے کہ میں نے آج سٹیشن پر دوستوں کو منع کر دیا تھا کہ وہ میرے گلے میں ہار نہ ڈالیں.یوں بھی ہار پہنے ہیں مجھے حیاسی محسوس ہوتی ہے لیکن اِس امر کو اگر نظر انداز کر دیا جائے تب بھی میں سمجھتا ہوں کہ حقیقی ضرورتوں کو سمجھنے والے افراد کو اپنے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے زمانہ اه الفضل ۳۰ شهادت اپریل ها
۲۹۰ کے مطابق قدم اُٹھانا چاہیئے ہمارے لئے اس وقت ایک ایسا زمانہ آیا ہوا ہے جس میں ہم اپنے مقدس مقام سے محروم ہیں اور دشمن اس پر قبضہ کئے ہوئے ہے.ہار پہنچنے کے معنے خوشی کی حالت کے ہوتے ہیں.کہیں جہاں جماعت کو یہ صیحت کیا کرتا ہوں کہ ان کے دیوں میں پژمردگی پیدا نہیں ہونی چاہئیے ، ان کے اندرکم ہمتی نہیں ہونی چاہئیے ، ان کے اندر پست ہمتی نہیں ہونی چاہئیے وہاں میں اس بات کو بھی پسند نہیں کرتا کہ جماعت اس صدمہ کو بھول جائے اور ایسی غیر طبعی خوشیاں منانے میں محو ہو جائے جن کی وجہ سے وہ ذمہ داری اس کی آنکھ سے اوجھل ہو جائے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر عائد کی گئی ہے.نمائشی باتیں تو یوں بھی ناپسندیدہ ہوتی ہیں مگر کم سے کم اس وقت تک کے لئے ہمارے نوجوانوں میں یہ احساس زندہ رہنا چاہیئے جب تک ہمارا مرکز ہمیں اپس نہیں مل جاتا.آخر کوئی نہ کوئی چیز ہو گی جس کے ساتھ نوجوانوں کو یہ بات یاد دلائی جا سکے گی.اگر ایسے مظاہروں سے نوجوانوں کو روکا جائے تو چونکہ پہلے ہم روکا نہیں کرتے تھے اس لئے قدرتی طور پر ہر احمدی کے دل میں یہ بات تازہ رہے گی کہ میں نے اپنے مرکز کو واپس لینا ہے.مجھے غیر طبیعی خوشیوں کی طرف مائل نہیں ہونا چاہئیے.اگر خدانخواستہ ہم بھی غیر طبعی خوشیوں میں محو ہو گئے اور نوجوانوں کو ہم نے یہ محسوس نہ کرایا کہ کتاب صدمہ ہمیں پہنچا ہے تو ان کے اندر اپنے مقصد کے حصول کے لئے جد و جہد اور کوشش کی سچی تڑپ زندہ نہیں رہ سکے گی اس لئے میں سمجھتا ہوں میرے لئے یا کسی اور کے لئے ایسے مظاہروں میں کوئی دلچسپی نہیں ہو سکتی " سے خطبہ جمعہ کے آخر میں حضور نے ارشاد فرمایا :- ہماری جماعت صلح کی بنیادوں پر قائم ہے اور جہاں تک ہو سکے گا ہم صلح سے ہی اپنے مرکز کو واپس لینے کی کوشش کریں گے.دوسرے ہمارے ہاتھ میں حکومت نہیں اور جنگ کا اعلان حکومت ہی کر سکتی ہے افراد نہیں کر سکتے.گویا اس وقت اگر جنگ کا اعلان ہو تو دو ہی حکومتیں کر سکتی ہیں یا انڈین یونین کر سکتی ہے یا پاکستان کر سکتا ہے ہم پاکستان + به الفضل ۳۰ شهاوت را اپریل ها
٢٩١ گورنمنٹ نہیں کہ انڈین یونین سے اعلانِ جنگ کر سکیں مہم آزا د علاقہ کے بھی نہیں کہ ہم ایسا اعلان کرنے کے مجاز ہوں.اس لئے اگر جنگ کے ذریعہ ہی ہمارے مرکز کا ملنا ہمارے لئے مقدر ہے تب بھی جنگ کے...سامان خدا ہی پیدا کر سکتا ہے ہمارے اندر یہ طاقت نہیں کہ ہم ایسا کر سکیں اور نہ شریعت ہمیں جنگ کی اجازت دیتی ہے شریعیت جنگ کا اختیار صرف حکومت کو دیتی ہے اور حکومت ہمارے پاس نہیں ہیں جنگ سے بھی اسی صورت میں فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے جب خدا ایسے سامان پیدا فرمائے اور انڈ میں یونین سے کسی اور حکومت کی لڑائی شروع ہو جائے.بہر حال خواہ مصلح سے ہمارا مرکز نہیں واپس ملے یا جنگ سے دونوں معاملات میں ظاہری تدابیر کام نہیں دے سکتیں صرف خدا ہی ہے جو ہماری مدد کر سکتا اور ہمارے لئے غیب سے نصرت اور کامیابی کے سامان پیدا فرما سکتا ہے.اگر دلائل کو لو تو دلائل کا اثر بھی خدا تعالیٰ ہی پیدا کر سکتا ہے ورنہ جو نشہ حکومت میں سرشار ہوا اور جیسے اپنی طاقت کا گھمنڈ ہو اس کے سامنے کتنے بھی دلائل پیش کئے جائیں وہ سب کو ٹھکرا دیتا ہے اور کہتا ہے ہم ان باتوں کو نہیں مانتے اور اگر طاقت کو لو تو اول تو بادی طاقت ہمارے پاس ہے ہی نہیں اور اگر ہو بھی اور فرض کرو ہماری جماعت موجودہ تعداد سے پچاس یا سو گئے بھی بڑھ جاتی ہے اور پانچ دس کروڑ تک پہنچ جاتی ہے تب بھی گورنمنٹ ہمارے قبضہ میں نہیں اور ہم شرعی نقطۂ نگاہ سے جنگ نہیں کر سکتے.گویا ہماری حالت صلح کی صورت میں بھی اور جنگ کی صورت میں بھی کھلی طور پر بعد اتعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور خدا تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کی رضا کو اختیار کرنا ہمارا سب سے پہلا اور اہم فرض ہے.اگر ہم اپنے اس فرض کو ادا کر لیں تو یقیناً وہ کام جو ہم نہیں کر سکتے تندا اُسے خود پورا فرمائیگا اور یہ تو ظاہر ہی ہے کہ خدائی طاقت اور قوت کی کوئی حد بندی نہیں بندے کی بڑی سے بڑی جد و جہد اور کوشش بھی خدا تعالیٰ کے فضل کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی.جب خدا کرنے پر آتا ہے تو باوجود اس کے کہ دنیا ایک کام کو ناممکن سمجھ رہی ہوتی ہے وہ ممکن ہو جاتا ہے.شام کو وہ اس حالت میں سوتی ہے جب وہ اُسے نا ممکن سمجھ رہی ہو تی
۲۹۲ ہے مگر جب صبح اٹھتی ہے تو اُسے وہ نا ممکن امرممکن نظر آرہا ہوتا ہے اور بعض دفعہ صبح وہ ایک کام کو ممکن سمجھتی ہے مگر جب شام ہوتی ہے تو وہی ممکن امرا سے نا ممکن نظر آنے لگتا ہے ہمیں اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے ہمارے سب کام کرتے ہیں اور اُسی پر بھروسہ کرتا ہمارا اولین کام ہونا چاہئیے.ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے کاموں اور اپنی خوشیوں اور اپنی ہر قسم کی مصروفیتوں میں اللہ تعالیٰ کو زیادہ سے زیادہ راضی کرنے کی کوشش کریں یا لے حضرت مصلح موعود نے قیام کراچی کے تیسرے روز اق دینا ہال میں عظیم الشان پبلک پیکچر سامان رایت می کو ساڑھے پانچ بجے ال خالق شام خالق دینا ہال میں پاکستانیوں سے چند صاف صاف باتیں" کے عنوان سے ایک بصیرت افروز تقریر فرمائی.صدارت کے فرائض آنر سیل حاتم ہی طبیب جی چیف جسٹس سندھ چیف کورٹ نے انجام دیئے ہال سامعین سے بھرا ہوا تھابلکہ سینکڑوں احباب کو باہر کھڑے ہو کو لیکچر سٹنا پڑا.سامعین کا اکثر حصہ کالجوں کے طلباء ، پر وفیسروں، ڈاکٹروں اور وکلاء وغیرہ پر مشتمل تھا مسٹر ایم.انکے گزدر ایم.ایل.اسے ایڈوائز رحکومت سندھ مسٹریدنی ڈپٹی سیکرٹری حکومت پاکستان.خان بہادر نذیر احمد ریٹائرڈ چیف جسٹس کشمیر مسٹر حاتم علوی، مسٹر واسطی وائس پرنسپل سندھ کالج اور مرکزی و صوبائی حکومت کے متعدد دیگر اعلیٰ حکام بھی موجود تھے.حضور کی تقریر ڈیڑھ گھنٹہ تک کامل انہماک و سکون اور گہری ڈپ ہی سے سنی گئی.تقریرہ کے آغاز میں حضور نے مقررہ موضوع کی وسعت کا ذکر کیا اور فرمایا کہ یہ موضوع در اصل ایک طویل داستان کی حیثیت رکھتا ہے تاہم چونکہ یہ کراچی میں میرا پہلا ٹیچر ہے اور مجھے معلوم نہیں کہ کراچی کے باشندے کیسی حد تک میری باتیں سننے کے لئے تیار ہو سکتے ہیں اس لئے لکی مضمون کے بہت سے حصوں کو چھوڑ کر چند ضروری امور بیان کرنے پر اکتفاء کروں گا.سب سے پہلے حضور نے اس بات پر زور دیا کہ چونکہ پاکستان ایک نئی حکومت ہی نہیں بلکہ ایک نیا ملک بھی ہے اس لئے پاکستانیوں کو وطنیت کا وہ جذبہ اپنے اندر پیدا کرنا چاہیئے جو پہلے له الفضل بر شهادت / اپریل ها مث :
۲۹۳ موجود نہ تھا.وطنیت کا جذبہ ایک ایسی چیز ہے جو قوم کو اکٹھار کھنے ، اسے اُبھارنے اور ملک کے دفاع کے لئے اسے ہر ممکن قربانی کرنے پر آمادہ کر دیتا ہے.اگر خدانخواستہ یہ جذبہ پیدا کرنے میں ہم کامیاب نہ ہوئے تو ذرا سا اختلاف ہمارے اتحاد کو توڑنے کا موجب بن جائے گا.وطنیت کے جذبہ کے بغیر کبھی ملک میں سے فراری کیا کہ وج نہیں جھکی جا سکتی.حضور انے اصل موضوع پر تقریر شروع کرتے ہوئے فرمایا سب سے پہلے ہمیں یہ سوچنا چا ہئیے کہ پاکستان کا مطالبہ کیوں کیا گیا تھا ؟ یہ مطالبہ اِس لئے نہیں کیا گیا تھا کہ ہندوستان میں نسلی طور پر دو قومیں آباد تھیں.کیونکہ یہ ایک واضح بات ہے کہ ہندوستان میں بہت سی ایسی قومیں موجود ہیں جن کا ایک حصہ ہندو ہے اور ایک مسلمان.پھر زبان کے اختلاف کی بناء پر بھی یہ مطالبہ نہ کیا گیا تھا کیونکہ ہر صوبے میں رہنے والے ہندو اور مسلمان ایک ہی زبان بولتے تھے.پھر آخر کیا چیز تھی جس کی بناء پر پاکستان کا مطالبہ کیا گیا ؟ ظاہر ہے کہ صرف اسلام ہی اس مطالبہ کی بنیاد تھا اور اسلامی کلچر کی حفاظت کرنے کے لئے ہی مسلمان علیحدہ حکومت کے طالب تھے.پس مطالبہ پاکستان کے پس پردہ جو چیز کام کر رہی تھی وہ صرف اسلام تھا.یعنی مسلمان یہ چاہتے تھے کہ جس جگہ ان کی اکثریت ہو وہاں انہیں ایک ایسی آزاد حکومت قائم کرنے کا موقعہ دیا جائے جس میں وہ اسلامی تعلیم اور اسلامی تہذیب کے مطابق ترقی کر سکیں اور آزادی کے ساتھ دیگر اسلامی ممالک کی مدد کر سکیں.حضور نے فرمایا اسلامی حکومت کے الفاظ سے بہت سے غیر مسلموں کو دھو کہ لگتا ہے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید غیر مسلموں کو بھی اسلامی احکام پر عمل کرنے پر مجبور کیا جائے گا.حالانکہ یہ درست نہیں.دنیا کے سب مذاہب میں سے صرف اور صرف اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس نے قولاً اور عملا صاف الفاظ میں یہ اعلان کیا ہے کہ اسلامی احکام پر عمل کرنے کی پابندی صرف مسلمانوں کے لئے ہے.دیگھ مذاہب کے پیروؤں کو نہ صرف یہ کہ اسلام کے احکام پر چلنے کے لئے مجبور نہیں کیا جائے گا بلکہ اسلام کہتا ہے کہ ان کا اخلاقی فرض ہے کہ وہ اپنی اپنی مذہبی کتابوں کے مطابق عمل کریں کیونکہ اگر وہ اپنے مذہب کو سچا سمجھتے ہیں اور پھر اس پر عمل نہیں کرتے تو وہ منافق ہیں اور منافق کبھی بھی اچھے شہری نہیں بن سکتے ہیں مسلمانوں کو غیر مسلموں کی غلط فہمی کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے اور انہیں بتانا چاہئیے کہ اسلامی حکومت کا مطلب صرف یہ ہے کہ مسلموں کے لئے قرآن مجید کے قوانین ہوں گے نہ کہ غیر مسلموں
کے لئے بھی.۲۹۴ کیا پاکستانی اسلامی حکومت کے قیام کا مطالبہ کرنے میں سنجیدہ ہیں ؟ حضور نے اس اہم سوال پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا جب ایک فرد کہتا ہے کہ اسلامی حکومت قائم ہونی چاہئیے تو بالحافظ دیگر وہ یہ کہ رہا ہوتا ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ میرے اعمال اسلامی ہوں.آپ اگر اسلام پر غور کیا جائے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ اسلام کے نزدیک فرد کے اعمال کے تین حصے ہوتے ہیں.اول خود اس کی ذات سے تعلق رکھنے والے احکام، دوسرے اس کے ہمسایوں اور دوستوں سے تعلق رکھنے والے احکام تیر کے ایسے احکام جن کا تعلق حکومت کے نمائندوں کے ساتھ ہے.حکومت سے تعلق رکھنے والے احکام تو فرد کے بس میں نہیں ہیں.ہمسایوں سے تعلق رکھنے والے احکام پوری طرح نہیں لیکن کسی قدر اس کے بس میں ہیں.البتہ اس کی ذات سے تعلق رکھنے والے احکام پوری طرح اس کے اختیار میں ہیں.اب جو مسلمان اسلامی حکومت کا مطالبہ کرتا ہے اس کے مطالبہ کی سنجیدگی کا ثبوت یہی ہو سکتا ہے کہ جو احکام پوری طرح اس کے بس میں ہیں کم از کم ان پر وہ پوری طرح عمل کر کے دکھا دے.اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو اس کا صاف مطلب یہ ہوگا کہ وہ اسلامی حکومت کا مطالبہ کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے بلکہ وہ صرف سیاسی اغرامن کے ماتحت کسی کو گرانے یا کسی کو بد نام کرنے کے لئے یہ مطالبہ کرتا ہے.حضور نے فرمایا.قرآن مجید، احادیث اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل واضح الفاظ میں ہمیں بتاتا ہے کہ اسلام نے نماز کا حکم دیا ہے پردے کا حکم دیا ہے.روزہ کا حکم دیا ہے سود کی مخالفت کی ہے اور مرد عورت کے آزادانہ اختلاط کو روکا ہے.یہ الگ بات ہے کہ مسلمانوں کے مختلف گروہ سود کی ممانعت اور پر دے کے احکام کی کیا حدود سمجھتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ مسلمان اپنی اپنی جگہ ان احکام کا جو بھی مفہوم سمجھتے ہیں کیا اس پر وہ عمل کرتے ہیں ؟ اگر وہ ان احکام پر اپنی اپنی سمجھ کے مطابق عمل کرتے ہیں تو پھر تو بے شک وہ اسلامی حکومت کے قیام کے مطالبہ میں سنجیدہ سمجھے جا سکتے ہیں کیونکہ جن احکام کو پورا کرنا ان کے اختیار میں تھا ان پر انہوں نے عمل کر کے دکھاو یا لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو پھر یقینا وہ اسلامی حکومت کا مطالبہ کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتے.حضور نے فرمایا مسلمان ہندو کے مقابلہ پر کہا کرتے تھے کہ اسلامی کلچر خطرہ میں ہے.سوال یہ ہے کہ کیا آج بھی وہ اپنے اپنے بیٹے، اپنے اپنے بھائی اور اپنی اپنی بیوی کو یہ کہنے کے لئے تیار ہیں
۲۹۵ کہ اگر تم نے اسلامی احکام پر عمل نہ کیا تو اسلامی کلچر خطرہ میں پڑ جائے گا ؟ اگر آپ لوگ یہاں سے اُٹھنے سے پہلے یہ فیصلہ کرلیں کہ اسلام کے جن احکام پر عمل کرنا آپ کے اپنے بس میں ہے اور جن پر عمل کرنے کے لئے کیسی حکومت کسی قانون اور کسی طاقت کی ضرورت نہیں ان پر فور اعمل کرنا شروع کر دیں گے تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ شام سے پہلے پہلے اسلامی حکومت قائم ہو جائے گی لیکن اگر لوگ منہ سے اسلامی حکومت کا مطالبہ کریں اور عملاً اسلامی احکام کی خلاف ورزی کرنے میں کوئی حرج نہ بجھیں تو جس طرح کچی اینٹوں کے ایک محل کو پتا نہیں کہا جا سکتا اسی طرح غیر اسلامی اعمال کرنے والے افراد کے مجموعہ کا نام ہر گز اسلامی حکومت نہیں رکھا جا سکتا.زبان کے مسئلہ پر پاکستان میں جو اختلافات نمودار ہو رہے ہیں ان پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے حضور نے فرمایا یہ مسئلہ بالکل سادہ اور صاف تھا لیکن افسوس ہے کہ خواہ مخواہ اسے بچی پیدہ بنایا جارہا ہے اصل مسئلہ صرف یہ ہے کہ جب پاکستان کے سب صوبوں نے اپنی مرضی سے مل کر اور اکٹھے ہو کر کام کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو لازمی بات ہے کہ اس صورت میں کسی ایک صوبے کی زبان سے کام نہیں چل سکتا.مل کر کام کرنے کے لئے ضروری ہے کہ کوئی ایسی زبان ہو جو سب پاکستانی صوبوں کے باشندے جانتے ہوں.انگریزوں کے عہد میں اس قسم کی مشترکہ زبان کا کام انگریزی سے لیا جاتا تھا اب ان کے جانے کے بعد ہمارے سامنے یہ سوال آتا ہے کہ انگریزی کی قائم مقام کونسی زبان ہو.ظاہر ہے کہ چونکہ انگریزی کی نسبت اُردو قرآن مجید کو سمجھنے اور اسلامی ممالک سے اتحاد پیدا کرنے کی زیادہ صلاحیت اپنے اندر رکھتی ہے اس لئے ہمیں اس زبان کو ہی مشترکہ طور پر کام کرنے کے لئے استعمال کرنا چاہئیے.حضور نے اس امر پر زور دیا کہ یہ سراسر غلط بحث ہے کہ بنگالی کی جگہ اردو کو دی جائے گی یا سندھی کی جگہ اُردو لے لے گی.کیا انگریزی نے بنگالی یا سندھی کی جگہ لے لی تھی ؟ اصل سوال تو صرف یہ ہے کہ جس طرح پہلے مل کر کام کرنے کے لئے انگریزی سے کام لیا جاتا تھا آپ کونسی زبان سے کام لیا جائے.حضور نے پاکستان کے دفاع کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں ریلوے لائنیں ایسے موقع پر واقع ہیں جو دفاع کے لحاظ سے خطرناک ہیں حضور نے اس سلسلے میں یہ تجویز پیش فرمائی کہ سندھ کے اس پار راولپنڈی سے کراچی تک ایک نئی ریلوے لائن بنائی بھائے جس کے ذریعے خطرہ کے اوقات میں سندھ
کا پنجاب کے ساتھ تعلق قائم رہ سکے.کشمیر کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا پاکستان کے دفاع کے نقطہ نگاہ سے یہ ایک اہم سوال ہے.اگر کشمیر انڈین یونین میں چلا گیا تو انڈین یونین کی روس کے ساتھ سر عدیل بجانے کی وجہ سے اسے ایک بین الاقوامی حیثیت حاصل ہو جائے گی اور مغربی پنجاب کا فوجی خطہ محصور ہو جائے گا.حضور نے بحری طاقت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا پاکستان کے نوجوانوں کو بحری سفر کرنے اور بیرونی ممالک کی سیر کرنے کا شوق اپنے دلوں میں پیدا کرنا چاہیئے.حضور نے زرعی طاقت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا زراعت کو پاکستان کی سب سے بڑی دولت سمجھا جا رہا ہے لیکن ہمیں ایک بہت بڑے خطرے کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیئے اور وہ یہ کہ پاکستان کے زرعی علاقوں کے متعلق ماہرین کا یہ اندازہ ہے کہ پچاس سال میں یہ علاقے بالکل بے کار ہو جائیں گے اور اس کے آثار بھی ظاہر ہورہے ہیں.اس خطرہ کی وجہ یہ ہے کہ ان علاقوں میں ضرر رساں نمک بڑی کثرت سے پایا جاتا ہے.نہروں کی وجہ سے پانی کی سطح اونچی ہو رہی ہے اور زمین شور اور سیم والی ہوتی بھاتی ہے لیے حضور کی یہ ایمان افروز تقریر سات بجے شام ختم ہوئی.ر امان مارچ کو حضرت امیر المومنین نے مقامی تھیو سافیکل ہال میں خواتین اسلام سے مجنہ اماءاللہ کی درخواست پر تھیں افیکل پان انقلاب انگیز خطاب بندر روڈ کراچی میں مستورات کو خطاب فرمایا ر اس جلسہ میں تقریباً ساڑھے چھ سو احمدی و غیر احمدی خواتین شریک ہوئیں جنہوں نے ہمہ تن گوش ہو کر تقریر ینی اور بہت متاثر ہوئیں کیا حضور کی اثر انگیز تقریر کابنیادی مقصد خواتین اسلام کو دعا اور قربانی اور ایثار کے لئے سرگرم عمل کر نا تھا.چنانچہ حضور نے اپنی اس تقریر میں سورہ کوثر کی نہایت ایمان افروز تفسیر کرتے ہوئے نہایت لطیف پیرایہ میں استنباط فرمایا کہ پاکستان کا استحکام دعا اور قربانی سے وابستہ ہے حضور نے تقریر کے اختتامی حصہ میں نہایت پر جلال اور پر شوکت الفاظ میں فرمایا :- یکی جب قادیان سے لاہور آیا تو بعض بڑے بڑے آدمی مجھ سے ملنے کے لئے آئے اور ا الفضل و در امان مورچه ها ۱۳۲۷ ۴-۳۰ : ٥ همه الفضل بیکم شهادت / اپریل امن کا لم
۲۹۷ انہوں نے کہا آپ تو لاہور بھی خطرہ میں ہے.بتائیے کیا کیا جائے ؟ میں نے کہا لاہور کو ہی خطرہ نہیں سارا پاکستان خطرہ میں ہے.جب تم نے پاکستان مانگا تھا تو یہ سمجھے کہ مانگا تھا کہ صرف اتنا ٹکڑہ ہمیں ملے گا اس سے زیادہ نہیں.اور یہ سمجھ کر مانگا تھا کہ روپیہ ہمارے پاس کم ہوگا ، سامان ہمارے پاس کم ہو گا اور ہمیں اپنی حفاظت کے لئے بہت بڑی جد و جہد سے کام لینا پڑے گا یہ نہیں کہ آپ نے مانگا زیادہ تھا اور ملا کم.یا آپ نے تو ہندوستان کا اکثر حصہ مانگا تھا اور آپ کو اس کا ایک قلیل حصہ دے دیا گیا ہے بلکہ جو کچھ آپ لوگوں نے مانگا تھا وہ قریب قریب آپ کو مل گیا ہے.اور یہ خطرات جو آج آپ کو نظر آرہے ہیں اُس وقت بھی آپ کے سامنے تھے اس لئے یہ کوئی نئے خطرات نہیں.پاکستان کے لئے یہ خطرات ضروری تھے.اور اب جبکہ پاکستان قائم ہو چکا ہے پاکستان کے لئے دو باتوں میں سے ایک بات ضرور ہے یا تو وہ فتح پائے گا یا مارا جائے گا.اگر تم فتح حاصل کرنا چاہتے ہو تو تمہیں بھاگنے کی کوئی ضرورت نہیں.اور اگر تم شکست کھانا چاہتے ہو تو یا درکھو دُنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں جو مغربی پاکستان کے تین کروڑ مسلمانوں کو پناہ دے سکے یا مغربی اور مشرقی پاکستان کے سات کروڑ مسلمانوں کو پناہ دے سکے مشرقی پنجاب میں سے صرف ساٹھ لاکھ مسلمان اِدھر منتقل ہوئے تھے مگر ابھی تک لاکھوں لا لکھ آدمی اِدھر اُدھر پھر رہا ہے اور اُسے رہنے کے لئے کوئی ٹھکانا نہیں ملا.حالانکہ وہ لاکھوں آدمی اپنی مرضی سے نہیں آیا تھا خو د پاکستان کی حکومت نے ان کو بلوایا تھا یہ کہ کو بلوایا تھا کہ ہم مشرقی پنجاب کی حکومت سے معاہدہ کر چکے ہیں کہ اُس طرف کے مسلمان اِدھر آجائیں اور اِس طرت کے ہندو اُدھر چلے جائیں.انہیں یقین دلایا گیا تھا کہ ہم تمہاری مدد کریں گے ، تمہارے لئے زمینوں اور مکانوں کا انتظام کریں گے تم اپنے گھروں کو چھوڑو اور مغربی پنجاب میں آجاؤ.اِسی اُمید پر انہوں نے اپنے وطن چھوڑ اور اسی امید پر وہ مغربی پنجاب میں آئے بہم جو قادیان کے رہنے والے ہیں صرف ہماری ایک مثالی ہے کہ ہم نہیں چاہتے تھے کہ قادیان کو چھوڑیں ہم ایک چھوٹی سی بستی میں رہتے تھے اور ہمارا ارادہ تھا کہ اگر اردگرد کے دیہات اور شہروں میں
۲۹۸ رہنے والے مسلمان اتحاد کر لیں تو اس علاقہ کو نہ چھوڑا جائے مگر چند دنوں کے اندر اندر سارا مشرقی پنجاب خالی ہوگیا مگر با وجود اس کے کہ وہ وہاں سے بھاگے اور اس خیال سے بھاگے کہ پاکستان میں ہمارے لئے جگہ موجود ہے پھر بھی وہ آج چاروں طرف خانہ بدوش قوموں کی طرح پھر رہے ہیں اور انہیں کوئی ٹھکانا نظر نہیں آتا.ان کا یہ خیال کہ ہمیں پاکستان میں جگہ مل جائے گی غلط تھا یا صحیح پسوال یہ ہے کہ اگر مشرقی پنجاب کے ساٹھ لاکھ مسلمانوں کو پاکستان پنا ہ نہیں دے سکا تو پاکستان کے تین کروڑ مسلمانوں کو کیا بلوچستان پناہ دے گا نہیں کی اپنی آبادی چاہئیں لاکھ کے قریب ہے.کیا ایران پناہ دے گا؟ جس کی آبادی ایک کروڑ کے قریب ہے.کیا عرب پناہ دے گا ؟ جس کی آبادی ۷۰ ۸۰ لاکھ ہے.کیا افغانستان پناہ دے گا، چین کی آبادی ایک کروڑ سے زیادہ نہیں.آخر کونسا اسلامی ملک ہے جس میں تین کروڑ مسلما نو کے سمانے کی گنجائش موجود ہے.اگر پاکستان نے شکست کھائی تو یقیناً اس کے لئے موت ہے.پاکستان میں بھی موت ہے اور پاکستان سے باہر بھی موت ہے.اور جب موت ایک لازمی چیز ہے تو اب سوال یہ نہیں رہ جاتا کہ مسلمان جائیں کہاں؟ بلکہ مسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ لاہور کے آگے لڑتے ہوئے مارے جائیں یا کراچی کے سمت دریں غرق ہو کر مریں.میں نے کہا یہ دونوں موتیں آپ لوگوں کے سامنے ہیں آپ آپ خود ہی فصیلہ کر لیں کہ آپ کو نسی موت قبول کرنا چاہتے ہیں ؟ کیا آپ لاہور کے سامنے دشمن سے لڑتے ہوئے مرنا زیادہ پسند کرتے ہیں یا یہ پسند کرتے ہیں کہ بھاگتے ہوئے کہ اچھی کے سمندر میں غرق ہو جائیں اور بارے جائیں ؟ بہر حال پاکستان کے لئے آپ سوائے اس کے اور کوئی چیز نہیں کہ یا فتح یا موت.دوسرے ملکوں کے لئے تو یہ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی جگہ تبدیل کرئیں کیونکہ ان کی آبادی تھوڑی ہے لیکن پاکستان کی آبادی اتنی زیادہ ہے کہ کوئی اسلامی ملک ایک انہیں جو پاکستان کے لوگوں کو پناہ دے سکے کسی ملک سے پاکستان کی آبادی دو گنتی ہے اور کسی ملک سے تین گھنی.اس لئے کوئی ملک ایسا نہیں نہیں میں پاکستان کے لوگ سما سکیں بلکہ ان ممالک میں پاکستان کی نہیں فیصدی آبادی کا لیسانا بھی نا ممکن ہے
۲۹۹ نجا یہ کہ کسی ملک سے دوگنی یا تگنی آبادی کو وہاں بسایا جا سکے میں پاکستان کے ہر مسلمان مرد اور عورت کو سمجھ لینا چاہیے کہ اس نے یا تو عزت اور فتح کی زندگی بسر کرنی ہے یا عورت اور فخر کی موت اس نے مرنا ہے یہی ایک راستہ ہے جس پر ہر شریف انسان کو چلنا چاہئیے کہ یا وہ دشمن پر فتح پائے یا عزت کی موت مرے.حید ر الدین میسور کا ایک مسلمان بادشاہ تھا جسے انگریزوں نے بہت بدنام کیا اور اس کے نام پر انہوں نے اپنے کتوں کا ٹیپو نام رکھا.یہ آخری سلمان بادشاہ تھا جس میں اسلامی غیرت پائی جاتی تھی.حیدر آباد جو آج کئی قسم کی مشکلات میں پھنسا ہوا ہے اسنے ہر دفعہ میسور کی اس حکومت کو تباہ کرنے کے لئے انگریزوں کا ساتھ دیا تھا.جب بنگلور پر انگریزوں نے آخری حملہ کیا تو سلطان حید الدین قلعہ کی ایک جانب فصیل کے پاس اپنی فوجوں کو لڑائی کے لئے ترتیب دے رہا تھا کہ ایک جو نیل اس کے پاس بھاگا بھاگا آیا اور اس نے کہا بادشاہ سلامت ! اس وقت کہیں بھاگ جائیے کسی غدار نے قلعہ کا دروازہ کھول دیا ہے اور انگریزی فوج قلعہ کے اندر داخل ہو کر مارچ کرتی ہوئی آگے بڑھتی چلی آرہی ہے، ابھی کچھ دستے خالی ہیں آپ آسانی سے ان دستوں کے ذریعہ بھاگ سکتے ہیں حید رالدین نے نہایت حقارت کے ساتھ اُس کی طرف دیکھا اور کہا تم کہتے ہو میں بھاگ جاؤں.یاد رکھو شیر کی دو گھنٹہ کی زندگی گیدڑ کی دو سو سال کی زندگی سے بہتر ہوتی ہے.یہ کہا اور تلوارا اپنے ہاتھ میں لی اور سپاہیوں کے ساتھ مل کر انگریزوں سے لڑتا ہوا مارا گیا اور اس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے.تو جرأت اور بہادری ایسی چیز ہے جو دنیا میں انسان کا نام عزت کے ساتھ قائم رکھتی ہے.تاریخوں میں کبھی تم نے بزدلوں کے قصے بھی پڑھتے ہیں کہ فلاں نے جنگ کے موقع پھر اس اس طرح بز دلی دکھائی کی بھی تم نے بھگوڑوں کے قصے بھی پڑھتے ہیں جن کو تاریخ نے یاد رکھا ہو.کبھی تم نے کام چوروں کے قتے بھی پڑھتے ہیں.تاریخ میں بھی لوگوں کو یاد رکھا جاتا ہے وہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو قوم کے لئے قربانیاں کرتے اور اپنی جانوں اور بالوں کی ذرا بھی پروا نہیں کرتے.یہ قربانیاں کرنے والے مرد بھی ہوتے ہیں ، عورتیں بھی ہوتی ہیں
۳۰۰ اور بچے بھی ہوتے ہیں.اسلامی تاریخ میں بھی ان قربانیوں کی مثالیں پائی جاتی ہیں اور یورپین تاریخ میں بھی ان قربانیوں کی مثالیں پائی جاتی ہیں.اور تو اور بعض نابالغ بچوں نے ایسی قربانیاں کی ہیں جن کی مثال بڑے بڑے بہادروں میں بھی نہیں ملتی.پس انا اعطينكَ الْكَوْثَرَهُ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَالْحَرُهُ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الا بلدہ کے الفاظ گو ایک رنگ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر چسپاں ہوتے ہیں مگر ایک رنگ میں آج پاکستان کے ہر فرد کے سامنے یہ الفاظ رہنے چاہئیں اِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْشَرَ خدا نے آپ لوگوں کو ایک آزا و حکومت دے دی ہے جس میں اسلامی طریقوں پر عمل کرنے کا آپ لوگوں کے لئے موقع ہے.آپ اس دوسرے حصہ کو پورا کرنا مسلمانوں کا کام ہے کهہ فَصَلِّ لِرَبِّكَ واحد وہ اللہ تعالٰی سے دعائیں کریں، عبادتیں بجالائیں اور اپنی زندگی کو اسلامی زندگی بنائیں.اس کے ساتھ ہی وہ اپنے ملک اور اپنی قوم اور اپنے مذہب کی عزت بچانے کے لئے ہر قربانی کرنے کے لئے تیار ہو جائیں.یہ دو چیزیں ایسی ہیں کہ اگر مسلمان ان پر عمل کر لیں تو اللہ تعالیٰ ان سے وعدہ کرتا ہے کہ اِن شَانِئَكَ هُوَ الابتر وہ دشمن جو آج انہیں کچلنا چاہتا ہے خود کچلا جائے گا.وہ دشمن جو انہیں تباہ کرنا چاہتا ہے خود تباہ ہو جائے گا.صرف اُس احسان کے بدلے جو اللہ تعالیٰ نے اُن پر کیا ہے کہ اُس نے اُنہیں کو ثر بخشا.اللہ تعالیٰ ان سے دو باتیں چاہتا ہے ایک یہ کہ وہ اپنا دین درست کر لیں اور عبادت اور دعاؤں اور ذکر الہی میں مشغول ہو جائیں اور دوسرے یہ کہ وہ اپنے دین اور مذہب کے لئے ہر قسم کی قربانیاں پیش کریں.جب وہ ایسا کر لیں گے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَب تو یہ مت خیال کرو کہ تم تھوڑے ہو.یہ مت خیال کرو کہ تم کمزور ہو.اگر اس جذبہ اور نظریہ اور ایمان سے تم کھڑے ہو گے تو سدا بے غیرت نہیں ، خدا ہے وفا نہیں وہ چھوڑے گا نہیں جب تک وہ اس زیر دست دشمن کو جو تم پر حملہ کر رہا ہے تباہ اور برباد نہ کر دے.یہ ایک چھوٹی سی سورۃ ہے مگر قومی فرائض اور ذمہ داریوں کی وہ تفصیل جو اس
۳۰۱ سورۃ میں بیان کی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ سے امداد حاصل کرنے کے وہ ذرائع جو اس سورۃ میں بیان کئے گئے ہیں اُن کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ سورۃ آج ہر پاکستانی کے سامنے پہنچی چاہیے.خصوصاً ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ اس سورۃ کے مضامین پر غور کرے اور اس کے مطابق اپنی عملی زندگی بنائے کیونکہ جماعت احمدیہ نے ایک نیا عہد ضد اتعالیٰ سے باندھا ہے اور نئے عہد پرانے عہدوں سے زیادہ راسخ ہوتے ہیں.انہوں نے دُنیا کے سامنے اعلان کیا ہے کہ ہم اسلام کی خدمت کریں گے اور ہم اپنی جانوں اور اپنے مالوں کو قربان کر کے اسلام کا جھنڈا دنیا کے کونے کونے میں گاڑ دیں گے.جب تک اپنے عمل سے وہ یہ ثابت نہیں کر دیتے کہ اُن میں سے ہر مرد اور ہر عورت اس عہد کے مطابق اپنی زندگی کیر کر رہا ہے.جب تک وہ یہ ثابت نہیں کر دیتے کہ اسلام کے لئے فدائیت اور جان شاری کا جذبہ اُن کا ایک امتیازی نشان ہے اور وہ اپنی ایک ایک حرکت اسی بندہ کے ماتحت رکھیں گے اس وقت تک اُن کا یہ دعوئی کہ ہم اسلام کی خدمت کے لئے کھڑے ہوئے ہیں ایک باطل دعوئی ہو گا اور ہر دوست اور دشمن کی نگاہ میں انہیں ذلیل کرنے والا ہوگا.یکی اللہ تعالی سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہر احمدی مرد اور عورت کو اور دوسرے مسلمانوں کو بھی اپنی ذمہ داری سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور انہیں سچے طور پر اپنی اور اپنے رشتہ داروں کی قربانی کرنے کی طاقت بخشے تا کہ وہ اپنے منہ سے ہی یہ کہنے والے نہ ہوں کہ ہم قربانی کر رہے ہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے فرشتے بھی آسمان پر اُن کی قربانیوں کو دیکھ کر تعریف کریں اور ان کی ترقی اور درجات کی بلندی کے لئے دعائیں کریں اور اللہ تعالٰی موجودہ مصائب سے بچا کر مسلمانوں کو عزبت ، آزادی اور ترقی کی زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اٹھے حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں:.کراچی میں پریس کانفرنس میں جب کراچی میں تھاوہ ایک پریس کانفرنس کے دوران میں مجھ سے پولیس کے بعض نمائندوں نے پوچھا کہ آپ کا کیا خیال ہے کہ سیکیورٹی کونسل ے قیام پاکستان اور ہماری ذمہ داریاں ص۲۹ تا ده والناشر متم نشر و اشاعت لاہور)
٣٠٢ کشمیر کے مسئلہ کے متعلق کیا فیصلہ کرے گی ؟ میں نے انہیں جواب دیا کہ میرے خیال میں سیکیورٹی کونسل کا فیصلہ عقل اور انصاف پر مبنی نہیں ہو گا بلکہ جو فریق ان کی جھولی میں زیادہ خیرات ڈالے گا وہ اس کے حق میں ووٹ دیں گے.میں نے ان سے کہا کہ میرے خیال میں انڈین یونین نے ان کی جھولیوں میں کچھ ڈال دیا ہے اس لئے مجھے اچھے آثار نظر نہیں آتے.پولیس کے ایک نمائندہ نے کہا کہ پھر آپ سمر ظفر اللہ کو تارکیوں نہیں دیتے ہیں نے جوابا کہا کہ سر ظفر اللہ میرے ملازم نہیں بلکہ پاکستان حکومت کے ملازم ہیں ان کی ملازمت کی ذمہ داریوں میں دخل دینا میرے لئے ہر گز جائز نہیں یہ پاکستان حکومت کا کام ہے کہ وہ اُن کو مشورہ دے کہ اس موقع پر ان کو کیا طریقہ اختیار کرنا چاہیئے یہ لئے ۱۹ امان ر ما رچ کو حضور کو کراچی سے روانہ ہونا تھا.جماعت احمدیہ کو تین بنیادی انصائح اس روز حضور نے اپنے خلیہ بعد میں جمعیت حمدیہ کو خطبہ جمعہ تین بنیادی نصائح فرمائیں جن کی تفصیل حضور ہی کے مبارک الفاظ میں درج ذیل کی جاتی ہے.فرمایا :- ہ جس طرح انسان پر چینی کا زمانہ آتا ہے اسی طرح قوموں پر بھی ایک بچپن کا زمانہ آتا ہے.جب خدا کسی جماعت کو دنیا میں قائم کرتا ہے تو کچھ عرصہ اسے سیکھنے کا موقعہ دیتا ہے مگر پھر اس پر ایک دوسرا زمانہ آتا ہے جب وہ قوم بالغ ہو جاتی ہے اور اس پر ویسی ہی ذمہ داریاں عائد ہو جاتی ہیں جیسے بالغوں پر عائد ہوتی ہیں تب بہت سی باتیں جو طفولیت میں معاف ہوتی ہیں اور غلطی ہونے پر چشم پوشی سے کام لیا جاتا ہے بلوغت کے زمانہ میں نہ وہ باتیں اسے معاف ہوتی ہیں اور نہ غلطی واقعہ ہونے پر اس سے چشم پوشی کا سلوک کیا جاتا ہے.ہماری جماعت پر بھی بلوغت کا زمانہ آرہا ہے اور خدا تعالٰی کے فعل نے بتا دیا ہے کہ ہماری جماعت اب ان راستوں پر نہیں چل سکتی جین پیر وہ پہلے چلا کرتی تھی بلکہ اب اسے وہ راستہ اختیار کرنا پڑے گا جو قربانی اور ایثار کا راستہ ہے اور جس پر چلے بغیر آج تک کوئی قوم بھی کامیاب نہیں ہوئی.ہندوستان میں احمدیوں کی آبادی کا زیادہ تر حصہ بلکہ یوں کہنا چاہئیے کہ ستر فیصدی حصہ پنجاب میں ب الفضل ۲۲ - امان / مار
٣٠٣ تھا.آپ چونکہ مشرقی پنجاب کے مسلمان بھی اِدھر آپکے ہیں اس لئے اب اتنی فیصدی بلکہ اس سے بھی زیادہ حصہ ہماری جماعت کے افراد کا پاکستان میں آچکا ہے اور بوجہ آزاد گورنمنٹ کا ایک حصہ ہونے کے ان پر بھی ویسی ہی ذمہ داریاں عائد ہیں جیسی آزاد قوموں پر عائد ہوتی ہیں.یہ امرظاہر ہے کہ آزاد قوموں کو جنگ بھی کرنی پڑتی ہے یہ تو نہیں کہ جنگ کے اعلان پر وزیر جا کر لڑا کرتے ہیں یا سیکوٹری جا کہ لڑا کرتے ہیں.بہر حال افراد ہی لڑا کرتے ہیں اور اگر کسی ملک کے افراد اپنی ذمہ داری کو نہ سمجھیں تو جنگ میں وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے.جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے سب سے زیادہ ضروری امر یہ ہوتا ہے کہ افراد میں قومیت کا احساس ہو.اگر لڑنے والے افراد میں قومیت کا احساس نہیں ہوگا تو لازماً ان میں کمزوری پیدا ہوگی اور یہ کمزوری ان کی کامیابی میں حائل ہو جائے گی.پس بوجہ اس کے کہ اسی بلکہ پچاسی فیصدی احمدی آزاد اسلامی حکومت میں آگئے ہیں ان کا فرض ہے کہ اب وہ پورے طور پر اپنے اندر تغیر پیدا کریں تا کہ اگر ملک اور قوم کے لئے کوئی خطرہ درپیش ہو تو وہ اس وقت قربانی اور ایشیار کا نمونہ دکھا سکیں اور اس طرح ملک کی کامیابی کی صورت پیدا کر دیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ملکی دفاع کے لئے ہر فرد پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ بعض بعض انسانوں اور جماعتوں کو لیڈ رہنے کی توفیق عطا کی جاتی ہے.اگر لیڈر آگے آجاتے ہیں تو ساری قوم ان کے پیچھے چل پڑتی ہے.اور اگر لیڈر آگے نہیں آتے تو قوم میں سستی پیدا ہو جاتی ہے.یہ لیڈر بعض دفعہ افراد ہوتے ہیں اور بعض دفعہ قومیں ہوتی ہیں.وہ قومیں ایسی حیثیت اختیار کر لیتی ہیں کہ لوگ ہر اہم موقع پر ان کی طرف دیکھتے ہیں اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ کیا کر رہی ہیں.ہماری جماعت کی بھی خواہ لوگ کتنی مخالفت کریں اسے ایسی پوزیشن ضرور حاصل ہو گئی ہے کہ لوگ ہماری جماعت کی طرف دیکھتے ہیں اور وہ اس جستجو میں رہتے ہیں کہ یہ لوگ کیا کر رہے ہیں.اگر آئندہ آنیوالے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے ہماری جماعت ہر وقت آمادہ رہے گی اور
۳۰۴ پاکستان کو جب کوئی خطرہ پیش آیا وہ سب سے بڑھ کر اس کے لئے قربانی کرے گی تو لازمی طور پر دوسرے مسلمان بھی ہماری جماعت کی نقل کرنے کی کوشش کریں گے.بلکہ ہو سکتا ہے کہ بعض لوگ آگے بڑھنے کی کوشش کریں اور اس طرح لوگوں کو بتائیں کہ ملک اور قوم کی خدمت کے معاملہ میں ہم جماعت احمدیہ کے افراد سے پیچھے نہیں بلکہ آگے ہیں.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ملک کو فائدہ پہنچ جائے گا چاہے وہ ایسا طریق ہمارے بغض کی وجہ سے اختیار کریں یار شک کی وجہ سے کریں یا مقابلہ کی خواہش کی وجہ سے کریں.بہر حال جتنے لوگ آگے آئیں گے اتنا ہی یہ امر ملک کے لئے مفید اور بابرکت ہوگا پس جماعت کو اپنی ذمہ داریاں سمجھنی چاہئیں مگر ذمہ داریوں کا احساس آپ ہی آپ پیدا نہیں ہو جاتا.اس کے لئے پہلے اپنی ذہنیت میں تغیر پیدا کرنا ضروری ہوتا ہے.جب تک وہ ذہنیت پیدا نہ ہو اس وقت تک لوگوں کا وجود نفع رساں نہیں ہو سکتا اس ذہنیت کو پیدا کرنے کے لئے سب سے پہلی چیز جس کو مد نظر رکھنا ہر شخص کے لئے ضروری ہے.وقت کی قیمت کا احساس ہے.ہمارے ملک میں لوگوں کو وقت ضائع کرنے کی عام عادت ہے.بازارمیں جاتے ہوئے کوئی شخص مل جائے تو السلام علیکم کہ کر اس سے گفت گو شروع کر دیں گے اور پھر وہ دو دو گھنٹے تک باتیں کرتے چلے جائیں گے لیے.لیکن اس کے لئے آپ لوگوں کو ایک موٹا طریق بتاتا ہوں.اگر آپ لوگ اسے اختیار کر لیں تو یقیناً آپ سمجھ سکیں گے کہ آپ اپنے وقت کا بہت بڑا حصہ غیر ضروری بلکہ لغو باتوں میں ضائع کر دیتے ہیں.وہ طریق یہ ہے کہ چند دن آپ اپنے روزمرہ کے کام کی ڈائری لکھیں جس میں یہ ذکر ہو کہ میں فلاں وقت اُٹھا.پہلے میں نے خلاں کام کیا پھر فلان کام کیا.دن کو تین حصوں میں تقسیم کر لیں اور ہر حصہ کے ختم ہونے پر ھ.1 منٹ تک نوٹ کریں کہ آپ اس عرصہ میں کیا کرتے رہے ہیں.اس طرح آٹھ دس دن مسلسل ڈائری لکھنے کے بعد دوبارہ اپنی ڈائری پر نظر ڈالیں اور نوٹ کریں کہ ان میں سے کون کون سے کام غیر ضروری تھے.اس کے بعد آپ اندازہ لگائیں کہ روزانہ ۲۴ گھنٹوں میں سے کتنا وقت ہ یہاں حضور نے بطور مثال دو چشم دید واقعات سنائے ہو منالی اور کلو میں پیشیں آئے تھے مار مولف )
۳۰۵ آپ نے ضروری کاموں میں صرف کیا اور کتنا غیرضروری کاموں میں صرف کیا.اگر آپ ایسا کریں گے تو آپ بہت جلد یہ اندازہ لگا سکیں گے کہ آپ کی بہت سی زندگی رائیگاں چلی جا رہی ہے.زیادہ عرصہ نہیں صرف آٹھ دس دن ایسا کرنے سے آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ جن کاموں کو آپ بوجھ محسوس کرتے ہیں یہاں تک کہ بعض دفعہ گھنٹہ گھنٹہ بھر یہی کہتے چلے جاتے ہیں کہ مر گئے بہت بڑا بوجھ آپڑا ہے ذرا بھی فرصت نہیں ملتی.ان کاموں میں آپ بہت تھوڑا وقت صرف کرتے ہیں اور اکثر حصہ لغو کاموں میں صنائع کر دیتے ہیں.پس ایک تو یہ تبدیلی اپنے اندر پیدا کرو کہ وقت ضائع کرنے سے بچو اور اسے زیادہ سے زیادہ قیمتی کا موں میں صرف کرنے کی کوشش کرو.دوسری چیز جس کی میں حجابات کو نصیحت کر نی چا ہتا ہوں بلکہ اصل میں تو یہ پہلی نصیحت ہونی چاہیے تھی، وہ یہ ہے کہ ہماری جماعت کے ہر فرد کو قرآن کریم پڑھنے کی کوشش کرنی چاہئیے.ہماری ساری ضرورتیں قرآن کریم سے پوری ہو سکتی ہیں.اور یہ ایک ایسی قطعی اور یقینی حقیقت ہے جس میں شبہ کی کوئی بھی گنجائش نہیں.آپ لوگ میرے مرید ہیں اور مرید کی نگاہ میں اپنے پیر کی ہر بات درست ہوتی ہے بعض وقعہ اس کی کوئی بات اسے بڑی بھی لگتی ہے تو وہ کہتا ہے سبحان اللہ کیا اچھی بات کہی گئی ہے.پس آپ لوگوں کا سوال نہیں کہ آپ میرے متعلق کیا کہتے ہیں؟ میں کہتا ہوں غیروں کا میرے متعلق کیا تجربہ ہے.غیر احمدیوں کی کوئی مجلس ہو.خواہ پر وفیسروں کی ہو خواہ سائنس کے ماہرین کی ہو خواہ علم الاقتصاد کے ماہرین کی ہو میرے ساتھ مختلف دنیوی علوم سے تعلق رکھنے والے افراد نے جب بھی بات کی ہے انہوں نے محسوس کیا ہے کہ میر نے ساتھ گفتگو کر کے انہوں نے اپنا وقت ضائع نہیں کیا بلکہ فائدہ ہی اُٹھایا ہے.کثرت کے ساتھ ہر طبقہ کے لوگ مجھ سے ملتے رہتے ہیں مگر ایک دفعہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ انہوں نے میری علمی برتری اور فوقیت کو تسلیم نہ کیا ہو.یہاں تک کہ بڑے بڑے ماہر فوجیوں کو بھی لیکں نے دیکھا ہے مجھ سے گفتگو کر کے وہ یہی محسوس کرتے ہیں کہ انہوں نے مجھ سے فائدہ اُٹھایا ہے.یوں میری تعلیم کے متعلق جب وہ مجھ سے سوال کرتے ہیں مجھے تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ
میں نے پرائمری بھی پاس نہیں کی لیکن جب علمی رنگ میں گفتگو شروع ہو تو انہیں میری علمی فوقیت کو تسلیم کرنا پڑتا ہے.آخر کیا وجہ ہے کہ ایک ایم.اے.ایل ایل بی یا ایک پر وفیسر یا ایک ڈاکٹر یا ایک فوج کا ماہر بعض دفعہ وہ کچھ بیان نہیں کر سکتا جو خدا تعالیٰ میری زبان سے بیان کروا دیتا ہے.اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ ان کے علم کا منبع زید اور بکر کی کتابیں ہیں لیکن میرے سارے علم کا منبع خدا تعالٰی کی کتاب ہے.یہ لوگوں کی غلطی ہے کہ وہ قرآن کریم کو دوسرے لوگوں کی عینک لگا کر پڑھتے ہیں.اور چونکہ وہ اس منتر یا اُس مختر کی عینک لگا کر قرآن کریم پڑھتے ہیں اس لئے ان کی نظر قرآنی معارف کی تہہ تک نہیں پہنچتی.وہ وہیں تک دیکھتے ہیں جہاں تک اس مفسر نے دیکھا ہوتا ہے لیکن مجھے خدا تعالیٰ نے شروع سے یہ توفیق عطا فرمائی ہے کہ میں نے خدا تعالیٰ کے کلام کو کبھی انسان کی عینک سے نہیں دیکھا جس دن سے میں نے قرآن کریم پڑھا ہے میں نے یہ سمجھ کر نہیں پڑھا کہ مجھے یہ قرآن رازی کی معرفت ملا ہے یا علامہ ابو حیان کی معرفت ملا ہے یا ابن جریر کی معرفت ملا ہے بلکہ یکس نے یہ سمجھ کر اسے پڑھا ہے کہ مجھے یہ قرآن براہِ راست اللہ تعالٰی کی طرف سے ملا ہے محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے بے شک واسطہ بنایا ہے لیکن مجھے اس نے خود مخاطب کیا ہے اور جب اس نے مجھے خود مخاطب کیا ہے تو معلوم ہوا کہ میرے سمجھنے کے لئے تمام سامان اس میں رکھ دیا ہے.اگر سامان نہ ہوتا تو مجھے مخاطب ہی نہ کرتا.اس رنگ میں قرآن کریم کو پڑھنے کی وجہ سے جو فائدہ میں نے اُٹھایا ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد اور کیسی نے نہیں اٹھایا کیونکہ میں نے اپنے تصور میں خدا تعالیٰ کو اپنے سامنے بٹھا کر اس سے قرآن کریم پڑھا ہے اور دوسرے لوگوں نے انسانوں سے قرآن کریم کو پڑھا ہے اسی لئے مجھے قرآن کریم سے وہ علوم عطا ہوئے ہیں جو دوسروں کو عطا نہیں ہوئے اور اسی وجہ سے ہر علم والے پر اللہ تعالیٰ مجھے کامیابی دیتا چلا آیا ہے.اکثر دفعہ ایسا ہوا ہے کہ فریق میخانی نے مجھ سے گفت نوکر سے تسلیم کیا ہے کہ وہی بات درست ہے جو نیکی پیش کر رہا ہوں اور اگر کوئی منڈی بھی تھا تو بھی وہ میری بر ترشی کلام کا انکار نہیں کر سکا.غرض قرآن کریم میں ایسے
علوم موجود ہیں جود وسری کتب میں نہیں.پھر یہ کیسی بدقسمتی ہوگی کہ ہمارے گھر میں تو خزانہ پڑا ہو اور ہم دوسروں سے پیسہ پیسہ مانگ رہے ہوں ہمارے گھر میں سونے کی کان پڑی ہو اور ہم دوسروں کے سامنے دست سوال دراز کر رہے ہوں.قرآن کریم کی موجودگی میں دوسروں سے علم حاصل کرنے کی مثال ایسی ہی ہے جیسے خزانہ رکھنے والا دوسروں سے ایک پیسہ مانگنے لگ جائے.پس قرآن کریم پڑھنے اور اسے سمجھنے کی کوشش کرو.اس کے لئے کیسی لمبے غور اور شکر کی ضرورت نہیں.اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل سے ایسے علوم عطا فرمائے ہیں جس سے بہت آسانی کے ساتھ لوگ فائدہ اُٹھا سکتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ میری کتابیں پڑھیں ان سے بہت جلد وہ قرآنی علوم سے آگاہ ہو جائیں گئے ہیں تیسری بات جس کی میکں جماعت کو نصیحت کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہماری جماعت کے افراد اپنے عمل میں درستی پیدا کریں.چھوٹی چھوٹی باتیں جن کے چھوڑنے میں کوئی بھی وقت نہیں میں دیکھتا ہوں کہ ابھی تک اپنی باتوں کو ہماری جماعت کے افراد نہیں چھوڑ سکے.مثلاً ڈاڑھی رکھنا ہے کیں دیکھتا ہوں ہماری جماعت میں ایسے کئی لوگ موجود ہیں جو ڈاڑھی نہیں رکھتے حالانکہ اس میں کونسی وقت ہے.آخر ان کے باپ دادا ڈاڑھی رکھتے تھے یا نہیں ؟ اگر رکھتے تھے توپھر اگر وہ بھی ڈاڑھی رکھ لیں تو اس میں کیا حرج ہے پھر باپ دادا کو جانے دو سوال یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم ڈاڑھی رکھتے تھے یا نہیں.اگر رکھتے تھے تو آپ کی طرف منسوب ہونے والے افراد کیوں ڈاڑھی نہیں رکھ سکتے مجھ سے ایک دفعہ ایک نوجوان نے بحث شروع کر دی کہ ڈاڑھی رکھنے میں فائدہ کیا ہے.وہ میرا بیز تھا اور ہم کھانا کھا کر اس وقت بیٹھے ہوئے تھے.اور چونکہ فراغت تھی اس لئے بڑی دیر تک باتیں ہوتی رہیں.جب میں نے دیکھا کہ وہ کج بحثی کر رہا ہے تو میں نے اسے کہا میں مان لیتا ہوں کہ ڈاڑھی رکھتے ہیں کوئی فائدہ نہیں.آخر تم مجھ سے یہی منوانا چاہتے ہو سو یکیں مان لیتا ہوں کہ ڈاڑھی رکھنے میں کوئی فائدہ نہیں.اس پر وہ خوش ہوا کہ آخر اس کی بات تسلیم کر لی گئی ہے.میں نے کہا میں تسلیم کر لیتا ہوں کہ اس میں کوئی له الفضل وار اپریل ۹۲ائر
بھی خوبی نہیں مگر تم بھی ایک بات مان لو اور وہ یہ کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مان لینے میں ساری خوبی ہے.بے شک ڈاڑھی رکھنے میں کوئی بھی خوبی نہ ہو مگر محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی بات مان لینے میں ساری خوبی ہے.جب محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں کہ ڈاڑھی رکھو تم بے شک سمجھو کہ یہ چیز ہر رنگ میں مضر اور نقصان دہ ہے مگر گیا بیسیوں مضر چیزیں ہم اپنے دوستوں کی خاطر اختیار نہیں کر لیا کرتے.اول تو مجھے ڈاڑھی رکھتے ہیں کوئی ضرر نظر نہیں آتا لیکن سمجھ لو کہ یہ مضر چیز ہے پھر بھی جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کہتے ہیں کہ ڈاڑھی رکھو تو ہماری خوبی آیا اس میں ہے کہ ہم ڈاڑھی نہ رکھیں یا اس میں ہے کہ ڈاڑھی رکھیں.آخر ایک شخص کو ہم نے اپنا آقا اور سرار تسلیم کیا ہوا ہے جب ہمارا آقا اور سردار کہتا ہے کہ ایسا کرو تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اسکے حکم کے پیچھے چلیں خواہ اس کے علم کی ہمیں کوئی حکمت نظر نہ آئے صحابہ کو دیکھو ان کے دلوں میں رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم کا کتنا عشق تھا.ڈاڑھی کے متعلق تو ہم دلیلیں دے سکتے ہیں اور ڈاڑھی رکھنے کی معقولیت بھی ثابت کر سکتے ہیں لیکن صحارض بعض دفعہ ایس تے.طرح رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی بات شنکر اس پر عمل کرنے کے لئے بے تاب ہو جاتے کہ بظاہر اس کی معقولیت کی کوئی دلیل ان کے پاس نہیں ہوتی تھی.ایک دفعہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم تقریر فرما رہے تھے کہ آپ نے کناروں پر کھڑے ہوئے لوگوں کی طرف دیکھ کر فرمایا بیٹھ بھاؤ حضرت عبداللہ بن مسعود اُس وقت گلی میں سے آرہے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یہ الفاظ ان کے کانوں میں بھی پڑگئے اور وہ وہیں گلی میں میٹھ گئے اور بچوں کی طرح گھسٹ گھسٹ کر انہوں نے مسجد کی طرف بڑھنا شروع کیا.ایک دوست ان کے پاس سے گزرے تو انہیں کہنے لگے عبداللہ بن مسعود تم اتنے معقول آدمی ہو کہ یہ کیا کر رہے ہو؟ انہوں نے کہا ابھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز میرے کان میں آئی تھی کہ بیٹھ جاؤ اس پر میں بیٹھ گیا.انہوں نے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خطاب آپ سے تو نہیں تھا انہوں نے تو یہ بات ان لوگوں سے کہی تھی جو مسجد میں آپ کے سامنے کھڑے تھے.عبد اللہ بن مسعود نے کہا تم ٹھیک کہتے ہو بے شک
٣٠٩ آپ کا یہی مطلب ہو گا لیکن مجھے یہ خیال آیا کہ اگر میں مسجد پہنچنے سے پہلے پہلے مر گیا تو ایک بات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بغیر عمل کے رہ جائے گی اس لئے میں گلی میں ہی بیٹھے گیا تا کہ آپ کے حکم پر عمل کرنے کا ثواب حاصل کر سکوں.یہ ایمان ہے جو صحابہ کے اندر پایا جاتا تھا اور یہی ایمان ہے جو انسان کی نجات کا باعث بنتا ہے...، پر تعمیری بات جس کی طرف میں جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ تم پر سیم کے اسلامی احکام کو قائم کرو اور ایسا نمونہ پیش کرو جو لوگوں کو خود بخود عمل کی تحریک کرنے والا ہو یشیعہ ہو شہتی ہو، کوئی ہو ہر ایک کے پاس جاؤ اور اسے منت سے، سماجت سے ادب سے محبت سے کہو اور بار بار کہو کہ یہ اسلامی حکم ہے میرا انہیں آپ کو اگر حضرت مرزا صاحب سے مخالفت ہے تو کیجئے مخالفت.اگر احمدیت کو آپ جھوٹا سمجھے ہیں تو کئے جھوٹا مگر یہ حکم شد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے میرا یا کسی او کا نہیں اس لئے اس حکم پر عمل خود آپ کے لئے بھی ویسا ہی ضروری ہے جیسا کہ کیسی اور کے لئے یہی طریقہ ہے جو اسلامی احکام کو قائم کرنے کے لئے تمہیں اختیار کرنا چاہئیے.تم مسلمانوں سے کہو کہ ہمیں بے شک گالیاں دیجئے ہمیں برا بھلا کہئے مگر یہ حکم ہمار انہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے اس لئے ہماری خاطر نہیں بلکہ اپنے آقا اور مطاح کی خاطر اس حکم پر عمل کریں " اے کراچی کا شہر اگر بحری شاہراہ پر واقع ہونے کے باعث پاکستان بھر میں ایک سفریش اور خاص امتیاز رکھتا ہے تو پشاور کو درہ خیبر کا دروازہ ہونے کی قدیم تاریخی حیثیت حاصل ہے جہاں سے اُٹھائی ہوئی تحریک کے اثرات پاکستان کے پورے شمال مغربی سرحدی علاقے پر ہی نہیں پاکستان کے ہمسایہ ممالک چینی، افغانستان، ایران اور روس پر بھی ہو سکتے ہیں اور ہوتے ہیں.حضرت مصلح موعودؓ نے اسی اہمیت کے پیش نظر کہ اچھی کے بعد پشاور کی سر زمین کو اپنے وجود سے برکت بخشی اور قریباً ایک ہفتہ تک قیام فرما رہے.له الفضل بار شهادت/ ایریل ۱۳۲۶۵ ۶۷۵۰
۳۱۰ حضرت امیر المومنین ۳ ماہ شہادت / اپریل کو نماز عشاء کے بعد لاہور کے اسٹیشن پر تشریف لائے لاہور کے احمدی حضور کو الوداع کہنے کے لئے وہاں موجود تھے.حضور احباب کی خاطر گاڑی کی روانگی تک ٹرین کے دروازہ میں ہی کھڑے رہے.گاڑی پا و بجے رات روانہ ہو کر گوجرانوالہ پہنچی تو متعد د احمدی دوست اپنے محبوب آقا کی زیارت و استقبال کے لئے پلیٹ فارم پر موجود تھے اسی طرح وزیر آباد، لالہ موسیٰ جہلم اور راولپنڈی کی جماعتوں کے دوست بھاری تعدا دمیں سٹیشنوں پر حضور کے استقبال کے لئے آتے رہے.کیمبل پور اسٹیشن پر نہ صرف احمدی موجود تھے بلکہ غیر احمدی دوست بھی حضور ینہ کی زیارت کے لئے آئے ہوئے تھے.یہ سب قطاروں میں کھڑے تھے حضور نے ٹرین سے نیچے اُتر کر ہر ایک سے مصافحہ کیا اور مصافحہ کے دوران میں چوہدری اعظم علی صاحب سب بیج درجہ اول ہر آدمی کا تعارف کو اتے جاتے تھے.ایک دوست کا نام چوہدری اعظم علی صاحب نے محمد جہاں بتا یا اس دوست کے پاس حضور کھڑے ہو گئے اور پوچھا آپ کا نام حمد جعفر نہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ حضور میرا نام محمد جعفر ہی ہے.اس پر چوہدری صاحب نے کہا کہ حضور میں نام اور نہیں کر سکا.لاکھوں کی جلاتے کے امام کو اپنے خدام کے اس طرح نام یاد ہونا حیرت انگیز چیز تھی.نوشہرہ چھاؤنی پر چالیس احمدی اور تمیں غیر احمدی دوست حضور کی زیارت کے لئے موجود تھے حضور نے ان سب کو مصافحہ کا شرف بخشا اور مصافحہ کے دوران میں مرزا اللہ دتہ صاحب میکوری مال دوستوں کا تعارف کراتے بجاتے تھے.اس کے بعد جماعت کی طرف سے حضور کی خدمت ہیں اور آپ کے ساتھ والے قافلہ کو ناشتہ پیش کیا گیا.مرزا غلام حیدر صاحب امیر جماعت مقامی نے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور غیر احمدی دوست اس بات کے خواہشمند ہیں کہ حضور ان کو کچھ نصائح فرمائیں.اِس پر حضور نے ٹرین سے اتر کر مختصر خطاب فرمایا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ زندوں کی خرابیاں اگر دُور ہو جائیں گی تو خدا تعالیٰ ان کے مرے ہوئے بزرگوں کی قبروں کی دوستی اور حفاظت کے سامان بھی کر دے گا اور مسلمانوں کے استحکام کے سامان پیدا ہو جائیں گے.اللہ تعالی اسلام کے ساتھ محبت کرتا ہے اور وہ اسلام کے ساتھ محبت کرنے والوں کو کبھی ذلیل نہیں کرے گا.وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کی محبت اپنے دلوں میں پیدا کریں گے اور اپنے ظاہر کو
درست کر لیں گے اور نمازوں کو قائم کریں گے تو خدا تعالیٰ ان کے باطن کو بھی درست کر دے گا.اس مختصر مگر درد انگیز اور پر اثر خطاب کے بعد حضور ٹرین کے ڈبہ میں بیٹھ گئے سیکرٹری مال حراب نے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ جولوگ فوج سے ریلیز ہو رہے ہیں ان کے متعلق حضور کی کیا ہدایت ہے، حضور نے فرمایا اس کو پیلیز نہیں ہونا چاہیے.اس کے بعد تکبیر کے نعروں میں ٹرین پیشاور کے لئے روانہ ہو گئی.جب گاڑی پشاور شہر کے اسٹیشن پرر کی تو پشاور کی جماعت پر ایا گاڑی پشاور شہر کے اسٹیشن ہوا کے پالیس کے قریب دوست استقبال کے لئے وہاں موجود تھے انہوں نے قطار میں کھڑے ہو کر حضور سے مصافحہ کیا ازاں بور گاڑی پیشاہ چھاؤنی است تان صوبہ سرحد کی مختلف جماعتوں، مثلاً کوہاٹ ، چارسدہ، مردان، پشاور اور ارد گرد کے دیہات کے احمدی احباب قریباً ۵۰ کی تعداد میں موجود تھے پچاس کے قریب غیر احمدی دوست بھی زیارت کے لئے تشریف لائے ہوئے تھے.یہ سب کے سب صف بستہ کھڑے تھے.جس ڈبہ میں حضور سوار تھے چونکہ وہ جماعت کے متوقع مقام سے پر سے ٹھرا اس لئے صفوں کو وہاں سے بلا کر پیچھے لانا پڑا اوراز میکو ترتیب کی ضرورت محسوس ہوئی اس میں پانچ سات منٹ کے قریب وقت صرف ہوا اس دوران میں حضور جماعت کے مشورہ کے مطابق گاڑی کے ڈبہ کے دروازہ میں ہی کھڑے رہے اور میجر جنرل نذیر احمد صاب سے گفت گو فرماتے رہے.حضور نے گاڑی کے دونوں طرف آبادی کو دیکھ کر فرمایا آج یہ نظارہ دیکھ کر مجھے اپنا ایک پرانا خواب یاد آ گیا ہے.میں نے خواب میں دیکھا کہ لیکن پشاور ٹرین میں بیٹھ کر آیا ہوں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ گاڑی ایک شہر کی گلی میں سے گزر رہی ہے چنانچہ اس وقت گاڑی کے دونوں طرف آبادی دیکھ کر مجھے اپنا رویا یاد آ گیا ہے اور میرے آنے سے، آج پورا آ گیا ہے.اتنے میں صفوں کو دوبارہ ترتیب دے دی گئی اور شیخ مظفر الدین صاحب امیر جماعت مقامی نے حضور کی خدمت میں گاڑی سے اُترنے کے لئے عرض کیا حضور گاڑی سے اُترے اور دوستوں سے مصافحہ کرنا شروع کیا.مصافحہ کے دوران میں قاضی محمد یوسف صاحب آف ہوتی امیر جماعت خان شمس الدین صاحب نائب امیر مقامی اور محمد کرم خلال صاحب تعارف کہ اتنے جاتے تھے مصافحہ ختم ہونے پر حضور معہ قافلہ ہم اپریل کو پونے دس بجے صبح شیخ مظفر الدین صاحب کے بنگلہ پر
۳۱۲ رہائش کے لئے تشریف لے گئے.اے هر ماه شهادت / اپریل کو حضرت مصلح موعود کا پیش خون شمال ل کور پشاور میں پہلا پبلک پیچھے بیرون پری دروازہ اپنا وشر میں پاکستانیوں سے کھل کھلی باتیں" کے عنوان سے ایک شاندار لیکچر ہوا.ہاں اور بیرونی احاطہ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا.لائوڈ سپیکر کا بھی انتظام تھا اہل پشاور نے نہایت خاموشی سے حضور کی تقریر سنی اور حضور کے خطاب کے دورانی حاضرین پر سناٹا چھا گیا.اس لیکچر کا لوگوں پر نہایت خوش گوار رو عمل ہوا اور انہوں نے بر ملا ایک دوسرت سے کہا کہ جس شخص کو کافر کہا جاتا تھا اس نے تو آنحضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ارشادات پیش کئے.لے سوار را یا اونو تو تی تری لے گئے جوپاکستان اور تورخم میں ورود مسعود افغانستان کی سرحد پر ایک مشہور جگہ ہے.مولانا عبد الرحیم صاحب مورد و کے ایک غیر مطبوعہ مکتوب سے اس سفر کے حالات پر مختصر روشنی پڑتی ہے.چنانچہ لکھا ہے کہ حضور نے اس سفر کے دوران فرمایا چار سو سال ہوئے جب ہمارے باپ دادا اس راستہ سے بر صغیر میں آئے تھے.تورخم میں جماعت کی طرف سے ایک فوٹو گرافر کا پہلے سے خصوصی انتظام تھا.حضور نے پیشاؤ کالج سے لے کر لنڈی کو تل کیمپ تک کی مساجد، قلعے اور سٹیشن موٹر سے دیکھے اور اس درد کا اظہار فرمایا کہ حکومت کی امداد کے سوا اس علاقہ کے باشندوں کا کوئی ذریعہ معاش نہیں ہے.حضور نے تجویز فرمائی کہ ان علاقوں میں انڈسٹری جاری کرنی چاہئیے.تو رخم سے واپسی پر حضور لنڈی کوتل پہنچے جہاں حضور کے اعزاز میں ایک وسیع اور پر تکلف ضیافت کا اہتمام تھا اور بہت سے سر بر آورد لوگ جن میں پاسپورٹ آفیسر، خیبر کے ایک لیفٹینٹ کرنل اور سوات کے شہزادہ بھی شامل تھے بکثرت مدعو تھے.لنڈی کوتل سے حضور نمبرور آئے اور مختصر سے قیام کے بعد واپس پشاور میں رونق افروز ہو گئے.ه الفضل ۸ شهادت / اپریل ۲ ص ۶۱۹۴۸ سے ریکارڈ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری ها
اگلے روزے شہادت پر اپریل کو لنڈی کوتل کے شنواری لنڈی کوتل کے شنواری اور آفریدی اور آفریدی سرداروں کے ایک وفد کو دوبارہ سرداروں کے ایک وفد کی ملاقات معزور ہی مشتمل تھا، حضرت مصلح موعود کی ملاقات کا شرف حاصل ہوا.اور نیٹ پر لیس کے نامہ نگار نے اس وفد کی آمد پر حسب ذیل لفظوں میں خبر دی :- جماعت احمدیہ کی بے مثال شجاعت کا اعتراف پشاور و ر ا پریل - اور نیٹ پر یس کا نامہ نگار رقمطراز ہے کہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ سے لنڈی کوتل کے شنواری اور آفریدی سرداروں کے ایک وفد نے ملاقات کی.آپ نے ان پٹھان سرداروں سے پوچھا کہ وہ ملاقات کرنے کی کیوں تو ہش رکھتے تھے ، انہوں نے جواب میں کہا قادیان کے احمدیوں نے نہایت جانبازی سے اپنے شہر کی حفاظت کی ہم مسلمانوں کے اس بہادر فرقے کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی عقیدت کا اظہار کرنا چاہتے تھے.حضرت امام جماعت احمدیہ نے پٹھان سرداروں کا شکریہ ادا کیا اور فرمایا مسلمان بہادر ہی ہوتے ہیں وہ کبھی بہ دلی نہیں دکھاتے.پاکستان کی اقتصادی عدالت کے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے آپ نے فرمایا میرے خیال میں ہندوستان کے مقابلہ میں پاکستان کی اقتصادی حالت بہت بہتر ہے کیونکہ ہمارے وسائل اور ذرائع بہت وسیع ہیں کہ شیر کے متعلق سوالات کا جواب دیتے ہوئے آپ نے فرمایا وہ دن دور نہیں ہیں کہ جب کشمیر پاکستان کا ایک حصہ بن جائے گا.ابتداء میں انڈین یو میں کشمیر کے معاملہ کو ایک ، آسان کام سمجھتی تھی لیکن اس سلسلہ میں اسے نہایت تلخ تجربہ ہوا ہے مسلمان عوام بالعموم اور قبائلی پٹھان بالخصوص کشمیر کو پاکستان میں شامل کرانے کا نبیر کو پچکے ہیں کیونکہ وہ پاکستان حکومت کو اپنی حکومت سمجھتے ہیں اور اپنے آپ کو اس سے علیحدہ تصور نہیں کرتے.در حقیقت پاکستان کا دارو مدار کشمیر پر ہی ہے.(او اپی ، آئی) کے الفضل 1- اپریل -
۳۱۴ اس وفد کے بعد ہفت روزہ اخبار الجمعیتہ (پشاور) کے اخبار الجمعیتہ پشاور میں دیرستہ تم جس گیلانی حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے محمد حضرت مصلح موعود کا اہم بیان دوران ملاقات حضور نے جو بیان دیا وہ الجمعیتہ ( اپریل ۱۹۴۷) میں شائع ہوا جس کا متن حسب ذیل ہے :- "امیر جماعت احمدیہ پشاور میں جناب مرزا البشیر الدین محمود احمد صاحب قادیانی ان دنوں پشاور میں تشریف فرما ہیں آپ نے بڑی عنائت فرماکر مجھے ملاقات کا شرف بخشا اور ایک بیان دیتے ہوئے فرمایا آج آفریدی قبائل کے ایک نمائندہ وفد نے ملاقات کی جس میں خان بہادر ملک مراد خان نواب زادہ محمد علی خان ، ملک لطیف خان ، ملک، ولی خان ، ملک امیر خان ، اکبر سین ملک سبان ، ملک نیا ز محمد نتان، ملک ہوات خان و حاجی عامل خان ، شهزاده نواب دین شامل تھے.اور میں نے لوگوں سے سوال کیا کہ آپ لوگ مجھے ملنے کی کیوں خواہش کرتے ہیں.اس پر انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے قادیان کے بھائیوں نے جس استقلال بہادری اور جوانمردی کا گزشتہ چند ماہ میں ثبوت دیا ہے اُس کی مثال ملنی اگر محال نہیں تو مشکل ضرور ہے اور ہم پورے وثوق کے ساتھ یہ کہ سکتے ہیں کہ جس فرقہ یا قوم میں اس قسم کی بہادری پائی جائے یقیناً اُس کا لیڈر (امیریا پیر ضرور بہادر ہوگا اور ہمیں بہادر ہونے کا دعویٰ ہے.اِس لئے اِس کو اپنا فرض جانتے ہیں کہ بہادروں کی قدر کریں اور اُن کے رہبر کے سامنے اپنی عقیدت پیش کریں.اس پر میں نے جواب میں کہا کہ مسلمان ہمیشہ سے بہادر ہیں اور اُس وقت تک وہ بہ اور رہیں گے اور بزدلی اُن کے نزدیک نہ بھٹکے گی جس وقت تک وہ اپنے عقیدے سے منحرف نہ ہو جائیں.(۲) اس کے بعد میں نے پاکستان کی اقتصادی حالت کے متعلق آپ کی رائے دریافت کی، جواباً فرمایا کہ یقیناً پاکستان کی اقتصادی اور مالی حالت ہندوستان سے پدر جہا بہتر ہے اور پاکستان کے باشندے ہندوستان کے رہنے والوں کی بہ نسبت
۳۱۵ آپ بھی بہترین زندگی بسر کر رہے ہیں اور آئندہ اور بھی اچھا ہو جانے کی اُمید ہے.اسکے ثبوت میں آپ نے تفصیلی بیان فرمایا کہ پاکستان کے وسائل ہزار درجہ چند دوستان سے بہترین ہیں.آخر میں میں نے کشمیر کے متعلق پوچھا تو فرمایا انشاء اللہ وہ دن دور نہیں جبکہ کشمیر پاکستان کا ایک بہترین حصہ ہو گا ہندوستان کی گورنمنٹ اس کو ابتداء میں تر نوالوم سمجھتی تھی لیکن آپ تلخ تجربہ کے بعد اُن کو چھٹی کا دودھ یاد آگیا.اور یہ بات واضح ہے کہ مسلمان عموماً اور سرحدی قبائل کے بیٹھان خصوصاً عمد کر چکے ہیں کہ کشمیر کو فتح کر کے پاکستان کا حصہ بنائیں گے کیونکہ ان قبائلی لوگوں نے پاکستان کو اسلامی حکومت مان کو اپنی حکومت تسلیم کر لیا ہے اور اپنے آپکو اس کا ضروری حقہ تسلیم کرتے ہیں یا لے پاکستان خبر رساں اینیسی اور سی تقریر اس کی یا تیری اور کا ایک ایک برا نہیں نے میڈیا ہ پشاور در اپریل حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ نے ایک پبلک جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ مشرقی پنجاب میں سے مسلمانوں کو ختم کر دینے کے لئے ان پر حملہ ایک سوچی سمجھی ہوئی سکیم کے ماتحت تھاتا کہ ایک خالص بفر ک کھ ریاست قائم کر دی جائے.اس غرض کے لئے مشرقی پنجاب کے غیر مسلموں نے جنگ کا ایک خاکہ تیار کیا جس کے ماتحت قادیانی کے ستر نواحی دیہات پر حملہ کر کے چند دنوں کے اندراندر وہاں سے تمام مسلمانوں کا صفایا کر دیا گیا.جب پنڈت جواہر لال نہرو سے مدد کے لئے کہا گیا تو انہوں نے حالات میں دخل دینے سے صاف انکار کر دیا جس پر مجبوراً مسلمانوں کو پاکستان میں پناہ لینی پڑی.آپ نے فرمایا کہ اس سازش کا دوسرا حصہ یہ تھا کہ پاکستان میں رہنے والے تمام غیر مسلموں کو ہندوستان بلالیا جائے تا کہ تجارت میں خلاء پیدا ہو کر اقتصادی توازن درہم برہم ہو جائے مگر پاکستان کے دشمن اپنے منصوبوں میں نا مراد رہے.انہوں نے پاکستان کے مسلمانوں کی پیدائشی جرات و بہادری کو غلط قیاس کیا.پاکستان کے لئے اسلامی آئین کے مطالبہ کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے لوگوں سے کہا کہ ل " الجمعیت سرحد پشاور 4 اپریل شار +
۳۱۶ پہلے اپنے آپ کو شریعت اسلامی کے مطابق بناؤ اور پھر قانون شریعت کا مطالبہ کرو.آپ نے فرمایا لوگ خود تو اسلامی شریعت پر پلتے نہیں مگرت انوں شریعیت کو جاری کرنے پر زور دے رہے ہیں.اپنے لوگ دنیا کو دھوکہ دے رہے ہیں یا اے در ما و شهادت / اپریل کو حضرت امیرالمومنین نے مشی کا لج پشاور میں دوسرا پبلک سٹیچر پشاور میں سے ہے شام تک دوسری پبلک تقریر فرائی ۵ ۷ بجے جس میں حضور نے نہایت پرجوش انداز میں پاکستان کے طلبہ اور عوام کو نہایت زید میں ہرایات دیں بصر جلسہ غلام صمدانی صاحب ( پولیٹیکل ایجنٹ کے والد) تھے.حاضرین میں ڈپٹی کمشنر کے علاوہ عمران امیلی پروفیسرز اور سرکاری افسران بکثرت شامل ہوئے.سے حضرت امیر المومنین کے ارشادات ان پبلک تقریروں کے علاوہ پشاور کے مخلص احمدیوں نے اپنے محبوب آقا کے اعزاز میں تقریباً خصوصی تقاریب میں...بهروزانہ ہی پرائیویٹ تقاریب کا انتظام کئے رکھا جس کے نتیجہ میں بہت سے معززین اور سر بر آوردہ شخصیتوں کو حضور سے تبادلہ خیالات کرنے اور حضور کے مقدس ملفوظات سے بہرہ ور ہونے کے سنہری مواقع میسر آئے اور وہ حضور کے تیر علمی، تعداد لو ذہانت اور غیر معمولی فراست و بصیرت کو دیکھ کر بہت متاثر ہوئے.ہر ماہ شہادت/ اپریل کی شام کو خان بہادر دلاور خان صاحب کے ہاں دعوت تھی جس میں وزیر اعظم سرور خان عبد القیوم خان کے سوا سرحد کے چوٹی کے سرکاری افسر مدعو تھے.علاوہ ازیں پیشاور کے مسٹر عباس خان صاحب چیف جسٹس ، ایڈووکیٹ جنرل ملک خدا بخش صاحب ، جنرل نذیر احمد صاحب، کرنل احمد صاحب اور انسپکٹر جنرل ہاسپٹل بھی موجود تھے.کھانے سے پہلے اور بعد میں بہت دیر تک سلسلہ سوال وجواب جاری رہا.خصوصیت سے اسلامی آئین کے مختلف گوشے زیر بحث آئے اور بہت وسیسپی کا مرکز لے الفصل ، اپریل شاه ملت - یہ خبر اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ کی اور اپریل مر مٹر کی اشاعت میں بھی شائع ہوئی ہے دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کے ریکارڈ سے ماخوذ * ے کانگریس کے دور وزارت میں اسمبلی کے سپیکر :
۳۱۷ بنے رہے.رات کے سوا گیارہ بجے کے قریب واپسی ہوئی.لہ انگلی شام کو حضور میجر جنرل نذیر احمد صاحب کے ہاں دعوت پر تشریف لے گئے جہاں دوسرے فوجی اور سول افسروں کے علاوہ خان عبد القیوم خان صاحب وزیر اعظم سرحد اور خان محمد عباس صاحب وزیر مال مصوبہ سرحد بھی تشریف لائے ہوئے تھے.کھانے کے بعد یہاں بھی علمی گفتگو کے دوران مختلف سوالات کئے گئے تھے حضرت امیر المومنین المصلح الموعود پبلک جلسوں اور پرائیویٹ پشاور میں ملیں علم و عرفان تقاریب میں شمولیت کے علاوہ قیام پشاور کے دوران مختلف ماندن کے بعد جلیس علم و عرفان میں بھی رونق افروز ہوتے اور ملک کے پیش آمدہ اہم علمی مسائل میں رہنمائی فرماتے رہے.ان مبارک ایام میں بہت سی حق و صداقت سے بریہ باتیں حضور کی زبان مبارک سے حاضرین نے سنیں اور اپنے ایمانوں کو زندہ اور روحوں کو تازہ کیا.ان روح پرور مجالس کی مختصر رپور میں جناب عبد الحمید صاحب آصف نے مرتب کی تھیں جو انہیں دونوں الفضل میں محفوظ ہوگئیں یہ ہیں مجلس علم و عرفان کے دو ایک اہم ارشاد بطور نمونہ ذیل میں ملاحظہ ہوں :- تبلیغ اسلام کی اہمیت.تمام انبیاء اور ان کی جماعتیں ایک سے حالات میں سے گزرتی ہیں.دُنیا اُئی کو پاگل کہتی ہے کام کے لحاظ سے بھی اور ہاتوں کے لحاظ سے بھی.مومن پاگل نہیں ہوتا لیکن دنیا ہمیشہ اُسے پاگل کہتی آئی ہے.انبیاء کی جماعتوں کے اندر ایک جنون ہوتا ہے اور اس جنون کے طفیل وہ دنیا پہ چھا جاتی ہیں.دنیا کہتی ہے ہم تمہاری باتیں نہیں سنتے مگر وہ پیچھے پڑے رہتے ہیں.اور یہ ایک حقیقت ہے کہ صداقت کو قبول کروانا اور دیوں میں ایمان پیدا کرنا ایک بہت بڑی قربانی چاہتا ہے جو بغیر جنون کے نہیں ہو سکتی.اس لئے تم اپنے اندر ایک مجنونانہ کیفیت پیدا کرو اور یہ یادر کھو کہ بغیر تبلیغ کے اسلام کا میاب نہیں ہو سکتا.تم اس حربہ کو استعمال کر کے کامیاب ۶۱۹۴۸ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کے ریکارڈ سے ملخصاً ء سے اس گفت گو کا خلاصہ الفصل ۱۴ ماه ڈھٹا ۲ شهادت / اپریل میں چھپ چکا ہے ، ٣ الفصل 10 شہادت / اپریل تبلیغ اور پردہ کے بارے ہیں) ۱۷.هیر ܀ شهادت برا اپریل ۲۲۰ شهادن، اپریل ۵ ہجرت رسمی اسلامی قانون کے متعلق اہم سوالات کے جواب ) ۲۳ ہجرت ارمنی اسلامی حکومت کے پاکستان میں قیام سے متعلق) +
۳۱۸ ہو سکتے ہو جو اس زمانے کے مامور کو خدا کی طرف سے دیا گیا ہے اور وہ تبلیغ ہے.اس وقت دنیا کے فلاسفروں کی باتیں اسلام کو ترقی نہیں دلا سکتیں.زمین اور آسمان اپنی جگہ سے ٹل سکتے ہیں مگر یہ بات نہیں مل سکتی کہ اس زمانہ کے مامور کے بغیر مسلمان دنیا میں ترقی کر سکیں، اور جو شخص اس بات پر ایمانی کو اس کے مطابق عمل نہیں کرتا وہ اپنا بھی دشمن ہے اور اپنے بال بچوں کا بھی دشمن ہے یا مسلم خواتین اور فنونِ حرب " عورتوں کو فنون حرب سے واقف کرنا نہایت ضروری ہے مگر عورت اُسی وقت جنگ میں آ سکتی ہے جب مرد لڑتے ہوئے ختم ہو جائیں اس وقت عورت کو میدان میں نکل کر بہادری کے جوہر دکھانے چاہئیں.اور پھر مصیبت پڑنے پر عصمت کی حفاظت بھی وہ عورت اچھی طرح کر سکتی ہے جو فنون حرب سے واقف ہو گیا ہے قیام پشاور کے آخری دن کی حضور کے قیام پشاور کاآخری دن دور شہادت کا اپریل کا دن غیر معمولی مصروفیات میں گذرا.جماعت سرحد کے عمد و اراد غیر معمولی مصروفیات کی حضور کے ارشاد کے مطابق ایک اہم میٹنگ منعقد ہوئی جس میں حضور نے عمومی رپورٹ لینے کے بعد ارشاد فرمایا کہ میں کئی سال سے جماعت کو اس طرف توجہ دلاتا رہا ہوں کہ عہدہ دارانی اپنے نائب پیدا کریں اور ان پر کام کی ذمہ داری ڈالیں.میں نے ناظروں کے نائب مقرر کئے اور ان پر کام کی ذمہ داری ڈالی.نیز کہا کہ وہ میرے سامنے اپنے کام کی رپورٹ پیش کیا کریں چنانچہ اس طریق سے کام پہلے سے بہت اچھا ہو رہا ہے حضور نے مثال کے طور پر نائب ناظر بیت المال کے کام کو پیش کیا.حضور نے فرمایا کہ جتنا کام قادیان کے فسادات میں ڈکا پڑا تھا.وہ انہوں نے دو ماہ لگا تار محنت کر کے مکمل کر دیا.بجٹ تیار کیا اور آمدنی پر کنٹرول کیا.نو جوانوں میں کام کا زیادہ جوش ہوتا ہے انہیں آگے آنے دینا چاہئیے اور ان پر ذمہ داری ڈالنی چاہیئے.حضور نے فرمایا کہ تبلیغ کے لئے الگ الگ حلقے مقرر کئے جائیں مثلاً ایک ایسی انجمن ہو جو له الفضل ۵ در شهادت / اپریل ۱۳۲۷ ص : مت ܀
۳۱۹ علماء کے طبقہ کو تبلیغ کرے.ایک ایسی انجمن ہو جو کالج کے طلباء کو تبلیغ کرے.ایک ایسی انجمن ہو جو وکلاء اور بیرسٹروں کو تبلیغ کرے.اس طرح ہر طبقہ کے لوگوں کو تبلیغ ہو سکتی ہے.اس کے بعد دیہاتوں میں تبلیغ کرنے کے متعلق حضور نے فرمایا کہ دیہاتوں کے جو احمدی نوجوان لکھ پڑھ سکتے ہیں وہ اپنی زندگیاں وقف کر یں ہم ان کو تعلیم دیں گے اور وہ اپنے علاقہ میں تبلیغ کریں گے حضور کی یہ مجلس ایک بجے ختم ہوئی.بعد ازاں حضور نے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا کہ مجھے خوشی ہے کہ یہاں کی جماعت نے ایسے مواقع بہم پہنچائے کہ مجھے اپنے خیالات کے اظہار کرنے کا موقعہ ملا.دو ٹیچر ہوئے جن میں علمی طبقہ کو اور عوام کو یکی مخاطب کر سکا.اسی طرح یہاں کے دوستوں نے دعوتیں کیں اور ان دعوتوں میں فوجی اور سویلین آفیسر، بیرسٹر اور وکلاء تھے اور انہوں نے مجھ سے سوالات کئے میں نے ان کے جوابات دیئے.اسی طرح یہاں نمازوں میں احمدی دوست آتے رہے اور ان کو مجھ سے ملنے کا موقعہ ملتا رہا.اسی طرح پشاور کے علمی طبقہ اور عوام اور احمدیوں کے سامنے یکی اچھی طرح اپنے خیالات پیش کر سکا.اسی طرح غیر احمدی دوست مجھے ملنے آتے رہے.آپس میں ملتے رہنے سے ایک دوسرے کے متعلق صحیح واقفیت ہو جاتی ہے اور نا واجب اختلاف مٹ جاتا ہے.حضور نے اس طرف بھی جماعت صوبہ سرحد کو متوجہ کیا کہ آئندہ صوبہ سرحد کو اہمیت حاصل ہونے والی ہے اس لئے پشاور میں اگر کوئی بنا بنایا مکان مل جائے تو وہ خرید لیا جائے یا زمین خرید کو پشاور کے مرکز کو مضبوط کیا جائے اور تبلیغ کر کے اس علاقہ میں جماعت کو بڑھایا جائے مگر کئی سالوں سے اس جماعت میں کوئی ترقی نہیں ہوئی مسلمان کو دنیوی اسباب سے ترقی نہیں مل سکتی اس کو صرف اور صرف قرآن کریم کے طفیل ترقی ملے گی اس لئے قرآن پڑھو دوسروں کو پڑھاؤ خدا تعالیٰ پر تو قتل کرو وہ تمہیں خود علم سکھائے گا.اس کے بعد حضور نے اپنی زندگی کے بعض واقعات بیان فرمائے کہ کس طرح حضور بچپن سے بیمار چلے آرہے ہیں اور کس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کو قرآنی علوم عطا کئے.پھر حضور نے فرمایا کہ یکن بڑی مدت سے یہ دعا مانگا کرتا تھا کہ اسے اللہ تعالٰی کوئی ایسا علاقہ دے جہاں ہم قرآنی تعلیم کے مطابق عمل کر سکیں اور جہاں اسلامی تہذیب کو رائج کر سکیں.خدا تعالیٰ نے میری ان دعاؤں کے نتیجہ میں پاکستان کا علاقہ ہمیں عطا کر دیا.اب ہر احمدی کا
٣٢٠ فرض ہے کہ وہ یہ عزم وہ یہ عہد وہ یہ ارادہ کرے کہ وہ خود مر جائے گا لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو ، آپ کی تعلیم کو زندہ کر کے چھوڑے گا.اب ہماری زندگیاں ہمارے لئے نہ ہوں صرف اور صرف اسلام کے قیام اور اس کی اشاعت کے لئے ہوں.جمعہ کی نماز کے بعد حضور نے عورتوں میں تقریر فرمائی.عصر کی نماز کے بعد حضور خان عبد الحمید خان صاحب آفت زیدہ کی دعوت پر پروین ہوٹل میں تشریف لے گئے.بعد نماز مغرب ہوائی جہازوں کے محکمہ میں ملازم ڈوبنگالی احمدی نوجوانوں کو نیز دیگر مختلف دوستوں کو شرف ملاقات بخشا.احمدی دوستوں نے حضور کی خدمت میں نوٹ نیکیں پیش کیں کہ حضور کوئی نصیحت لکھ دیں اس پر حضور نے ایک نوٹ بُک پر لکھا " اتَّقُوا الله " پر لکھا اللہ تعالیٰ پر توکل کرو ایک پر لکھا " سنجیدگی اختیار کرو ایک پر کلمہ طیبہ لکھا اور دستخط کر دئیے.لے لے حضور در باره شهادت / اپریل کو بذریعہ موٹر پشاور سے چارسدہ ر سے چارسدہ تک تشریف لے آئے.دانشمند خاں صاحب آن موضع باندا الحب پشاور تحصیل نوشہرہ (والد ماجد جناب بشیر اسد خان صاحب رفیق امام مسجد لنڈن ) تحریر فرماتے ہیں کہ.حضور خاں صاحب محمد اکرم خان درانی کی درخواست پر چارسدہ کے لئے روانہ ہوئے راستہ میں وہ آشرم حضور کو دکھایا گیا جو نہاں عبد الشغار خاں نے دریائے ناکھاں سے کنارے پر بنوایا تھا.چارسدہ میں خان صاحب مرحوم کے مکان پر حضور فروکش ہوئے.مجھ کو یاد ہے کہ حضور کی ملاقات کے لئے ملک عادل شاہ صاحب با وجود سخت بیماری کے پھاوسندہ تشریف لے آئے تھے.ظہر کی نماز حضور نے اس مسجد میں ادا فرمائی جس میں له الفضل 14 شهادت / اپریل مکه مکرم جناب دانشمند خان صاحب در آن موضوع بانٹا محب تحصیل نوشہرہ ضلع پشاور) کا بیان ہے کہ حضور پیشاور صدر میں شیخ مظفر الدین احمد صاحب کی کوٹھی میں مقیم تھے.حضور نے حکم دیاتھا کہ جن کے پاس اسلحہ کا لائسنس ہو وہ اپنے اسلحہ کے ساتھ آئیں چنانچہ میں بھی اپنی شاٹ گھی کے ساتھ حضور کی خدمت میں حاضر ہوا اور علاقہ خلیل اور مہمند ضلع پشاور اور چار سدہ کے دوست بھی اپنے اپنے اسلحہ کے ساتھ پہنچے گئے ہے سے سفر چار سدہ سے متعلق جناب ماسٹر نور الحق صاحب امیر جماعت چارسدہ کا بیان ضمیمہ میں درج ہے ؟
۳۲۱ بقول خان صاحب حضرت بسید امیر صاحب رحمتہ اللہ علیہ مجد دوقت ساکن کو ٹھہ نے نماز پڑھائی مفتی یہ چارسدہ سے اوتمان زئی اور دوسرے دن حضور خان صاحب محمد اکرم صاحب دورانی اور حضرت قاضی محمد یوسف صاحب کے ہمراہ خان برادران خان برادران سے ملاقات سے ملاقات کے لئے اوتمان زئی تشریف لے گئے حضرت مصلح موعود نے اس سفر کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے ارشاد فرمایا :- 19 میں جب میں پشاور گیا تو...ڈاکٹر خان صاحب اور عبد الغفار خان صاحب سے بھی ملنے گیا.جہاں تک ظاہری اخلاق کا سوال ہے انہوں نے بڑا اچھا نمونہ دکھایا مثلاً دونوں بھائیوں میں ان دنوں کسی وجہ سے شکر رنجی تھی اس لئے وہ آپس میں ملتے نہیں تھے.ہماری ملاقات کی یہ تجویز ہوئی کہ وہ ڈاکٹریناں صاحب کے گھر پر ہو.در و صاحب میرے ساتھ تھے لیکں نے انہیں کہا کہ وہ خان عبد الغفار خاں صاحب سے معذرت کریں اور کہیں کہ لیکن ڈاکٹر خاں صاحب کے ہاں جاؤں گا شاید آپ ان کے مکان پر نہ آسکیں.انہوں نے کہلا بھیجا آپ ہمارے مہمان ہیں اور مہمان کی خاطر میں وہیں آجاؤں گا.چنانچہ وہ وہیں آگئے اور ایک گھنٹہ تک ہماری آپس میں گفت گو ہوتی رہی.یکس نے خان عبد الغفار خان صاحب سے سوال کیا کہ اگر پاکستان میں کوئی گریٹر ہوئی اور اس سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہندوستان کی فوجیں پاکستان میں آگئیں تو کیا یہاں کے مسلمانوں کی حالت ویسی ہی نہیں ہو جائے گی جیسی مشرقی پنجاب کے مسلمانوں کی ہوئی تھی ؟ اس پر انہوں نے بے ساختہ جواب دیا کہ اگر ایسا ہوا تو پاکستان کے مسلمانوں کی حالت مشرقی پنجاب کے مسلمانوں جیسی نہیں بلکہ ان سے بھی بدتر ہوگی.حقیقت یہ ہے کہ پاکستان بننے سے پہلے اس کا وجود ضروری تھا یا نہیں لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان بننے کے بعد اگر کچھ ہوا تو اس کا اثر لاز ما مسلمانوں پر پڑے گا.اگر پاکستان خطرے میں پڑ جائے تو یہ یقینی بات ہے کہ پاکستان میں اسلام محفوظ نہیں رہ سکتا.ہندوؤں میں پہلے بھی بڑا تعصب تھا اور ہم نے اس اختلاف
۳۲۲ کی وجہ سے یہ برداشت نہ کیا کہ ان کے ساتھ مل کر رہیں اور ہم سب نے مل کر کوشش کی کہ ہمیں ایک علیحدہ ملک ملے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ہماری خواہش کو پورا کر دیا اور تمہیں پاکستان کی شکل میں ایک علیحدہ ملک عطا کیا مسلمانوں کی اس جد وجہد کو دیکھ کر مہندوؤں کے دلوں میں خیال پیدا ہو گیا کہ مسلمانوں نے ہمیں سارے ہندوستان پر حکومت کرنے سے محروم کر دیا ہے اور انہوں نے سارے ملک میں مسلمانوں کی سیاست اور خود مسلمانوں کے خلاف شدید پروپیگینڈا کیا.پہلے ان کی ذہنیت اتنی زیادہ مسموم نہیں تھی اور ان میں سے بعض کے دل میں مسلمانوں کے لئے رواداری کا جذبہ ایک حد تک پایا جاتا تھا لیکن مسلمانوں کے خلاف پروپیگینڈا کی وجہ سے ان کی ذہنیت آب بالکل بدل گئی ہے اور سلمان انہیں سانپ اور کچھو کی طرح نظر آنے لگ گئے.اگر بعد انخواستہ پاکستان میں گڑ بڑ واقع ہوئی اور اس کے نتیجہ میں ہندوستان کی فوجیں ملک میں داخل ہوئیں تو وہ اس ذہنیت سے نہیں آئیں گی جو اُن کی تقسیم ملک سے پہلے تھی.اُس وقت تعصب اتنا زیادہ نہیں تھا جتنا آب ہے.ہم تو سمجھتے ہیں کہ پاکستان حاصل کر کے مسلمانوں نے اپنا ایک جائز حق لیا ہے کوئی جرم نہیں کیا لیکن سوال یہ نہیں کہ ہم کیا سمجھتے ہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ جس سے ہمارا معاملہ ہے وہ کیا سمجھتا ہے والے حضرت مصلح موعود چارسدہ اور اوتمان زئی سے ہوتے اوتمان زئی سے راولپنڈی تک ہوئے مرد ان تشریف لائے جہاں ایک رات قیام فرمانے مرد کے بعد اگلے روز اور ماہ شہادت / اپریل کو رسالپور سے ہوتے ہوئے تو شہرہ پہنچے اور نوشہرہ سے پانچ بچے کی گاڑی کے ذریعہ راولپنڈی میں رونق افروز ہو گئے.راولپنڈی کے جلسہ عام میں حضرت مصلح موعود کا ۳ ماه شهادت راپریل کوحضرت میرانی مصل المصلح الموعود نے نشاط سینما ہال راو و سی دی اثر انگیز خطاب اور اس کا پریس میں چھر چا میں ایک نہایت اثر انگین نیچر دیا اخبار ام ۱۳۳۳ الفضل ۲۲ اضاء/ اکتوبر ها کالم ۲ : له افسوس پشاور سے راولپنڈی تک کے حالات ے ۱۱۹۵۴ سفر سلسلہ کے مطبوعہ لٹریچر میں محفوظ نہیں البتہ ماسٹر نور الحق صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ چارسدہ اور مکرم آدم بناں صاحب امیر جماعت احمدیہ مردان کے چشمدید بیانات شامل نیمہ ہیں :
۳۲۳ >> کی حمایت کی تھی کہ امریکہ تقیم فلسطین کا فیصلہ کر کے عالم اسلام کی ہمدردیاں کھو چکا تھا اور کسی نہ حاصل کرنا چاہتا تھا چنانچہ کشمیر انقلاب (لاہور) نے اس کامیاب لیکچر کی حسب ذیل رپورٹ شائع کی :- سیکیورٹی کونسل کا فیصلہ پاکستان کے خلاف ہو گا.راولپنڈی (نامہ نگار خصوصی کے قلم سے ) ۵ار اپریل.جماعت احمدیہ قادیان کے امام جناب مرزا بشیر الدین محمود احمد نے آج یہاں نشاط سینما کے لئے بنائی ہوئی بلڈنگ میں تعلیم یافہ طبقہ کے ایک بڑے اجتماع کے سامنے تقریر کرتے ہوئے بتایا کہ سیکیورٹی کو نسل کا فیصلہ پاکستان کے خلاف ہوگا.اُن کی تقریر کا موضوع " موجودہ نازک وقت میں مسلمانوں کا فرض تھا.انہوں نے موجودہ حالات پر فصل روشنی ڈالتے ہوئے مسلمانوں کو بتایا کہ وہ اس وقت جنگ کی سی حالت میں ہیں لہذا انہیں زمانہ امن کی تحریکات مزدور تحریک و غیرہ کھڑی کر کے یا ان میں حصہ لے کہ اپنی نوزائیدہ مملکت کے مستقبل کو کمزور نہیں کرنا چاہئیے انہوں نے حکومت کے ذمہ دار ارکان کو بھی نصیحت کی کہ وہ بدلے ہوئے حالات کے ساتھ اپنے.طور طریقوں کو بدلیں اور ایسا رویہ اختیار کریں جو عوام کے لئے مثال ہو اور جس سے عوام یہ سمجھنے لگیں کہ ان سے قربانیوں کا مطالبہ کرنے والوں کی زندگیوں پر بھی اپنی حکومت بن جانے کا اثر ہوا ہے اور وہ اُن کے افسر نہیں بلکہ بہی خواہ اور بھائی ہیں.کشمیر کے مسئلے کا تذکرہ کرتے ہوئے مرزا بشیر الدین صاحب نے بتایا کہ سیکیورٹی توسل ؟ کا فیصلہ پاکستان کے خلاف ہو گا.اپنے اس خیال کی تشریح کرتے ہوئے انہوں نے کہا سیکیورٹی کونسل میں کشمیر پر بحث کے پہلے دور میں امریکہ نے اس خیال سے پاکستان ہے کی ہمدردی کر کے اُس نے اپنا مقصد حاصل کر لیا لیکن اس کے بعد بین الاقوامی سیاست کا رُخ بدل گیا.عرب مجاہدین نے تقسیم فلسطین کو نا قابل عمل بنا دیا اور روس اور امریکہ کی آویزش کا خدشہ روز بروز زیادہ ہوتا چلا گیا.اس وقت امریکہ اور برطانیہ نے مسٹر آئینگر کی معرفت ہندوستان سے کچھ ساز باز کی اور یہ حقیقت ہے کہ مسٹر آئینگر پاکستان کے متعلق بات چیت کرنے کے بعد امریکہ سے واپس نہیں آئے تھے بلکہ وہ امریکہ اور برطانیہ کی پیش کردہ شرائط پر گفت گو کرنے آئے تھے.یہ شرائط اس مطلب کی تھیں کہ اگر روس اور امریکہ میں جنگ چھڑ جائے تو ہندوستان اینگلو امریکن بلاک کو اُن کی مطلوبہ
۳۲۴ رعایت دینے پر رضا مند ہوگا.ہندوستان کی طرف سے اس بات چیت کا جواب امریکہ اور برطانیہ کی خواہشات کے مطابق دیا گیا.چنانچہ مسٹر آئینگر کے امریکہ واپس پہنچتے ہی سیکیورٹی کونسل کی قضا پاکستان کے خلاف اور ہندوستان کے حق میں ہو گئی.افغانستان کی سیاست : مرزا بشیر الدین محمود صاحب نے سیکیورٹی کونسل میں پاکستان کے وزیر خارجہ کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا " سر ظفر اللہ خان میرے عزیز بھی ہیں اور مرید بھی ہیں.وہ ایک قابل آدمی ہیں لیکن اگر وسن اظفر اللہ خاں ہوں تو بھی کچھ فائدہ نہ ہوگا اور سیکیورٹی کونسل کا فیصلہ بین الاقوامی حالات کے مطابق ہو گا جو بظا ہر پاکستان کے خلاف معلوم ہوتے ہیں مرزا صاحب نے انکشاف کیا کہ میں ابھی ابھی صوبہ سرحد کے دورہ سے واپس آیا ہوں مجھے اِس دورہ میں نہایت ہی معتبر ذریعہ سے معلوم ہوا ہے کہ امریکہ اور روس اپنی اپنی طرف سے افغانستان کو ساتھ ملانے کی انتہائی کوشش کر رہے ہیں.افغانستان کو پٹرول کی ضرورت ہے اور وہ اُون باہر بھیجتا ہے.روس نے افغانستان کی ضرورت کا پٹرول مہیا کرنے اور تمام اون خرید نے کا یقین دلایا ہے لیکن اس کے مقابلہ پر امریکہ نے روس کی نسبت چالیس فیصدی کم قیمت پر پٹرول نہیں کرنے اور ۲۰ فیصدی زیادہ قیمت پر اُون خریدنے کی پیشکش کی ہے.اب پھر روس کی باری ہے لیکن افغانستان نے محض اِس خیال کی بناء پر کہ امریکہ اور برطانیہ ہندوستان کے حامی ہیں کشمیر کے بارے میں پاکستان کے خلاف روش اختیار کر رکھی ہے.چنانچہ جو افغانی جہاد کشمیر میں حصہ لینے آئے تھے ان کو حکومت افغانستان نے معتوب گردانا ہے بہر حال اگر افغانستان اینگلو امریکن بلاک میں شامل ہو جائے اور ہندوستان بھی اسی بلاک میں ہو تو پاکستان کے لئے ایک عظیم الشان اُلجھن پیدا ہو جائے گی.مسلمانوں کا فرض - مرزا بشیر الدین صاحب نے اپنے موضوع کی طرف رجوع کرتے ہوئے کہا محالات کچھ بھی ہوں پاکستان کے مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ ہر قسم کے حالات کا مردانہ وار مقابلہ کریں بالکل اسی طرح جس طرح زندہ قوموں کے افراد کرتے ہیں ہمیں
۳۲۵ نہ تو معمولی یا بڑی کامیابیوں پر خوش ہو کر بے فکر ہو جانا چاہئیے اور نہ ہی چھوٹی بڑی ناکامیوں پر دل چھوڑ دینا چاہئیے.جو خطرات ہمارے سامنے ہیں، ان میں بانی اسلام صلے اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے مالی باقی مسلمانوں کے لئے صرف دو ہی مقام ہیں.فتح یا شہادت اور مسلمانوں کو انہی دونوں میں سے ایک کے لئے تیار رہنا چاہیئے." مرزا صاحب نے اختر تمام تقریر پر مسلمانوں کو آزاد کشمیر اور قبائلی پٹھانوں کی عملی امداد کی طرف بھی توجہ دلائی جو اس وقت بالواسطہ پاکستان کی عظیم الشان خدمت انجام دے رہے ہیں.جلسے کی صدارت ڈاکٹر تا ثیر صاحب نے کی جلسہ کے اختتام پر جلسہ گاہ کے باہر کچھ لوگوں نے قادیانیوں کے خلاف نعرے لگائے اور بار امنی پیدا کرنی چاہی.پولیس نے معمولی سالاٹھی چارج کر کے لوگوں کو منتشر کر دیا.نہ ہے انقلاب ۱۷ ایریل ۱۹۹۰ مت : ہ میاں محمد یوسف صاحب پرائیویٹ سیکرٹری نے همیار ۱۳ ماہ شہادت / اپریل هم سب کو ایک مکتوب میں حسب ذیل اطلاع لاہور بھیجی : :.و لیکچر راولپنڈی.کل شام ہے بجے حضور انور کا لیکچر نشاط سینما ہال میں ہوا.ہال سامعین سے بھرا ہوا تھا اور لوگ آس پاس کی دیواروں کے ساتھ بڑی تعداد میں کھڑے تھے گیلری بھی مستورات سے پر تھی.اندر لوگوں کی تعداد ۱۵۰۰ کے لگ بھگ تھی.تقر یہ پونے آٹھ بجے سے سوا نو بجے تک جاری رہی.حاضرین ہمہ تن گوش ہو کر بیٹھے رہے.معززین شہر کافی تعداد میں موجود تھے.شن جج صاحب نے کہا کہ کوئی لمحہ بھی ایسا تقریر کے دوران میں نہیں آیا جس میں توجہ کسی اور طرف گئی ہو.ہال کے باہر سڑک پر چند شریروں نے شور و غوغا شروع کر دیا.بیان کیا جاتا ہے کہ کسی پٹھان کو کسی نے گمراہ کر کے اس بات پر آمادہ کیا کہ ڈگولی چلائے.اس کی اطلاع ہمارے ایک انسپکٹر پولیس باجوہ صاحب کو ملی وہ اس وقت ہال کے باہر آئے اور انہوں نے موقعہ پر پہنچ کو پٹھان سے بات چیت کی لیکن اس کے ساتھ تین مولوی بھی تھے یا جو صاحب ان تینوں مولویوں کو الگ لے گئے مگر ابقیه حاشیه میرم
۳۲۶ اخبار انقلاب (لاہور) کی اسی مفصل خبر کے مقابل لاہور کے دوسرے بعض اخبارات نے اصل تقریر کی رپورٹنگ کرنے کی بجائے جلسہ میں گڑا بڑا اور پولیس کی لائٹی چارج کے واقعہ پر اکتفاء کیا.چنانچہ مشہور اخبار نوائے وقت“ (لاہور) نے " راولپنڈی میں احمدیوں کے جلسہ میں گڑ بڑ" پولیس کو لاٹھی چارج کرنا پڑی" کے دوہرے عنوان سے لکھا:." راولپنڈی ۱۴.اپریل.کل مقامی پولیس نے نشاط سینما تھیٹر کے نزدیک ایک ہجوم کو منتشر کرنے کے لئے معمولی لاٹھی چارج کیا کیونکہ یہ ہجوم ایک ایسے جلسے کو ناکام بنانا چاہتا تھا جس میں احمدیوں کے قائد مرزا بشیر الدین محمود نے تقریر کرنا تھا.لاٹھی چارج سے قبل ہجوم کے لیڈروں نے احمدیوں کے خلاف تقریریں کر کے یہ مطالبہ کیا کہ احمدیوں کو پیلک جلسے کرنے کی اجازت نہ دی جائے.پولیس کے لاٹھی چارج سے چند اشخاص کو معمولی بقیه : حاشیہ صفحہ گزشتہ : وہ بیٹھان بھی ساتھ ہی آگیا ، وہ مولوی.باجوہ صاحب کی بات سننے کو بھی تیار نہ تھے اور لوگوں کو اُکسا رہے تھے یہ تقریر کیوں کرائی جا رہی ہے.کوئی اس تقریر کو نہ گئے.باجوہ صاحب نے سٹی انسپکٹر صاحب کو اطلاع دی اور اس دوران میں پولیس بھی اور منگوائی گئی.ان شوریدہ سر لوگوں کی تعداد ۲۵ ، ۳۰ ہوگئی.سفید وردی والی پولیس کے لوگ بھی کافی تعداد میں ان کے ہجوم میں شامل تھے تا ان کو شرارت سے باز رکھیں.جو لوگ باہر تقریریشن رہے تھے وہ انہیں کو سنتے تھے کہ ایسی اعلیٰ تقریر سننے نہیں دیتے.راولپنڈی کے ایک مشہور ایڈووکیٹ نے کہا سمجھ نہیں آتا ایسی اصلی تقریر پر بھی کسی کو کوئی اعتراض ہو سکتا ہے...ہال کے اندر سکون ہی سکون تھا.آج حضور کا لنچ کرنل عطاء اللہ خان صاحب کے ہاں تھا.آزادکشمیر کے وزراء بھی مدعو تھے.کل مردار ابراہیم بھی ملنے کو تشریف لائیں گے.اس وقت قریباً پونے سات بجے شام ہے بریگیڈیر شیر خان صاحب ملاقات فرما رہے ہیں.انشاء اللہ پرسوں لاہور کے لئے روانگی ہوگی ہے دریکارڈ وفتر پرائیویٹ سیکرٹری رہوہ،
ضربات آئیں اسی طرح لاہور کے ایک دوسرے روزنامہ غازی نے "احمدیوں کی وجہ سے لاٹھی بازی راولپنڈی کے مسلمانوں پر جبر کے عنوان سے حسب ذیل اشتعال انگیز خبر شائع کی :- راولپنڈی ۱۵ر اپریل - کل نشاط تھیٹر زمیں (مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ) تقریر کر رہے تھے کہ با ہر خا لفین کے ایک ہجوم نے طوفان بر پا کر دیا.پولیس کو ہجوم پر لاٹھی چارج کرنا پڑی میں میں چند افراد زخمی ہوئے.مخالف لیڈروں نے مطالبہ کیا کہ احمدیوں کو عام جلسے منعقد کرنے کی ہرگز اجازت نہیں ہونی چاہیے مسلمانوں کی قیادت مولانا مولا نیش صاحب امام جامعہ پنڈی نے کی ا سکے یہاں طبیعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک ایسی الفضل کے نامہ نگار خصوصی کی رپورٹ ایمان اور تری میں جوپاکستان اور سلمان علم کی ترقی و بید و پر مبنی مسائل سے متعلق تھی کسی قسم کی شورش انگیزی کا جواز ہی کیا ہو سکتا تھا ؟ اس اہم سوال کا جواب الفضل کے نامہ نگار خصوصی کی درج ذیل رپورٹ سے بخوبی مل سکتا ہے.لکھا ہے :.راولپنڈی میں حضرت امیر المومنین المصلح الموعود کا لیکچرنت و سینما میں ہوا تو اس موقع پر جن لوگوں نے شور کیا تھا اور نعرے لگائے تھے ان کے متعلق میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ معلوم کرنا چاہیئے کہ آخر یہ کسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں.یہاں مری روڈ پر جماعت اسلامی...کا دفتر ہے ان کے متعلق بھی یہ کہا جاتا ہے کہ اس پارٹی کے ارکان بھی اس مظاہرہ میں شامل تھے.یہ معلوم کرنے کے لئے کہ یہ بات کہاں تک ٹھیک ہے خاکسار ان کے دفتر گیا مگر دفتر بند تھا.اس دفتر کے پاس ایک دکاندار ہے لیکن اور ایک اور ہر رہی وہاں بیٹھ گئے.باتوں باتوں میں دکاندار سے کہا کہ سُنا ہے کل مرزائیوں کا جلسہ ہوا ہے وہ کہنے لگا اجی جلسہ تو ہوا ہے مگر ہم نے بھی خوب خبر لی.اُس نے بیان کیا کہ کل پانچ بجے نے نوائے وقت ۱۶ اپریل ۶۱۹۴۸ * ه اخبار" غازی ۱۸ اپریل ۶۱۹۴۸
۳۲۸ مجھے اطلاع ہوئی کہ جلسہ ہو رہا ہے.لیکن دکان بند کر کے اپنے والد صاحب (جو مدرس ہیں ) کے پاس پہنچا اور ان سے جا کر کہا کہ اس طرح جلسہ ہو رہا ہے اس کے خلاف ہمیں بھی سینما کے سامنے جلسہ کرنا چاہیے.وہ تیار ہو گئے مجلس احرار والے بھی اس جلسہ کے خلاف کارروائی کرنے کی تیاریوں میں تھے ان کا سیکرٹری بھی ہمارے ساتھ ہو لیا اور ہم تینوں جامع مسجد میں خطیب صاحب کے پاس پہنچے.ان کو بھی اپنے ساتھ متفق کر کر لیا اور شام کی نماز کے بعد بجامع مسجد میں دو تقریریں ہوئیں جن میں مرزائیوں کے خلاف لوگوں کو بھڑ کا یا گیا بہت سے لوگ ہمارے ساتھ شامل ہو گئے ہم ایک جلوس کی شکل میں نعرے لگاتے ہوئے سینما کی طرف چلے.راستہ میں کچھ پٹھان ملے انکو بھی ہم نے اپنے ساتھ شامل کر لیا.اس طرح لوگوں کو ساتھ ملاتے ہوئے ہم سینما کے سامنے پہنچ گئے سیکیم یہ تھی کہ سڑک پر مرزائیوں کے خلاف تقریریں کی جائیں اور یہ شور مچایا جائے کہ پبلک مرزا صاحب کے ساتھ نہیں ہے علماء جو ساتھ تھے وہ سڑک سے ڈرا دور ہو کر کھڑے ہو گئے تاکہ ان کا علم نہ ہو سکے.کالج کے لڑکوں کو آگے کر کے اُن سے خوب نعرے لگوائے گئے اور گندی سے گندی گالیاں جس قدر ہم دے سکتے تھے دیں.مرزا صاحب تقریر کر کے دوسری طرف سے کاریں بیٹھ کر چلے گئے اُن کے مُرید کا رپر لیٹے ہوئے تھے کہ اگر حملہ ہو تو ہم پر ہو.یہ بہت بڑا قربانی کا جذبہ ہے جو مرزا صاحب کے مریدوں میں پیدا ہو چکا ہے.یں نے سینما کے سامنے جو دکاندار ہیں اُن سے دریافت کیا اور بہت سے لوگوں سے بھی دریافت کیا کہ یہ جو مسلمانوں نے سینما کے سامنے مظاہرہ کیا ہے اور نعرے لگائے ہیں ان کے متعلق ان کی کیا رائے ہے.سب نے یہی کہا کہ انہوں نے بڑا کام کیا ہے یہ وقت ایسی باتوں کا نہیں.مرزا صاحب ہی تو آج کل کام کر رہے ہیں اور پھر یہی ہیں جو قادیان میں ڈٹے ہوئے ہیں.لے 4 ه الفضل ۷ار شہادت / اپریل ها
سیدنا حضرت مصلح موعود گجرات میں (۱۳۲۷انش اپریل ۱۹۴۸ء ) ( اوپر) حضور جناب عبدالرحمن صاحب خادم امیر جماعت احمد یہ گجرات سے مصروف گفتگو ہیں ( نیچے ) نماز پڑھ رہے ہیں.
۳۲۹ ا جلسہ راولپنڈی میں شرکت کے بعد حضرت مصلح موعود واپس لاہور راولپنڈی سے واپسی تشریف لے آئے.لے حضرت امیر المؤمنين المصلح الموعود استحکام پاکستان اور اشاعت حق کے سلسلہ میں سفیر کوئٹہ لاہور سے کراچی اور کراچی سے پشاور تک جن دینی ویلی سرگرمیوں کا آغاز فرما چکے تھے ان کو حضور کے سفر کوئٹڈ نے صوبہ بلوچستان تک پھیلا دیا.یہ سفر اس سلسلہ کا آخری اور طویل سفر تھا.چنانچہ حضور آگاہ احسان جون کو لاہور سے روانہ ہوئے اور قریباً تین ماہ کے بعد کے ماہ تبوک ستمبر کو واپس تشریف لائے سے حضرت مصلح موٹونوں کے لئے رہائش گاہ کا انتظام حضور نے سال کے آغاز ۱۳۲۷ ۶۱۹۴۸ میں ہی یہ ارشاد فرما دیا تھا کہ کوئٹر اور مخلصین کوئٹہ کے اخلاص ایمان کا روح پرور نظارہ میں ہماری رہائش کے لئے کوئی موزوں کو بھی تلاش کی جائے.جماعت احمدیہ کوئٹڈنے کو بھٹی کی تلاش کی بہت کوشش کی مگر کامیابی نہ ہوئی آخر ایک ایسی کو بھی ملی جو مکانیت کے اعتبار سے ناکافی اور چار دیواری کے بغیر تھی.کوٹھی کا اندرونی حصہ بھی نا گفتہ بہ حالت میں تھا.فرش جگہ جگہ سے ٹوٹا ہوا اور بجلی کا انتظام سخت ناقص !! جگہ جگہ غلاظت کے ڈھیر پڑے تھے لیکن جماعت احمدیہ کوئٹہ کے مخلصین نے فیصلہ کیا کہ ہم دن رات کام کر کے اس کو سٹی کو ہر لحاظ سے درست کر کے چھوڑیں گے اور اسے حضور کی رہائش کے قابل بنا دیں گے چنانچہ انہوں نے نہایت مستعدی سے کوٹھی کے گودبھی قریباً چھ فٹ اور سات فٹ اونچی دیوار بنوائی اور و بھٹی کے اندر بھی قریباً دو سوفٹ لمی کچی دیوار تعمیر کرائی کوٹھی کی صفائی کر کے پانی اور بجلی کا انتظام بالکل -> ے حضرت مصلح موعود نے شروع میہ میں گجرات میں بھی قیام فرمایا تھا.سفر پشاور کی واپسی پر یا قبل از میں سفر جہلم کے دوران؟ یہ بات زیر تحقیق ہے.منه الفضلی ۲۵- احسان /جون سے الفضل تبوک استمبر هه ما : ٨ ۶۱۹۴۸
f درست کر دیا تین نئے کشادہ کمرے تعمیر کئے.اس تمام کام میں جماعت کے دوستوں نے خود حصہ لیا اور انہوں نے اپنے ہاتھ سے غلاظت کے ڈھیر صاف کئے.اپنے ہاتھوں سے گارا بنایا اور گارے کی ٹوکریاں اُٹھا اٹھا کر دیواروں کی لپائی کی.علاوہ ازیں تمام نئے تعمیر شدہ کمروں، دفتر کے خیموں اور نماز کے شامیانے میں پھیلی کے ماہر دوستوں نے اپنے ہاتھ سے بجلی کی فٹنگ کی.جماعت احمدیہ کوئٹہ کے تمام افراد نے امیر جماعت سے لے کہ ایک چھوٹے سے چھوٹے فرد تک اس کام میں نہایت سرگرمی ، جوش اور اخلاص کے ساتھ حصہ لیا اور مہینوں اپنے ہاتھوں سے خاکہ ویلو مزدوروں اور معماروں کا کام کر کے اس کو ٹھٹی کو جولٹن روڈ پر واقع تھی اس قابل بنا دیا کہ حضور اپنے اہل بیت اور خدام کے ساتھ اس میں فروکش ہو سکیں اسی جماعت احمدیہ کوئٹہ کی طرف سے اخلاص و محبت کا یہ ایک ایسا شاندار مظاہرہ تھا کہ اس پر خود حضرت مصلح موعود نے اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا :- اس دفعہ یکی نے یہاں کے دوستوں کو لکھا کہ آیا کوئٹہ میں رہائش کا بندوبست ہو جائے گا تو انہوں نے مجھے اطلاع دی کہ انتظام ہو جائے گا پہلے انتظام ناقص تھا دوست کچھ اور سمجھتے تھے مگر جب وہ سمجھ گئے تو انہوں نے جگہ کا بندوبست کر دیا اور نہایت قربانی کے ساتھ اس عمارت کی چار دیواری بھی بنا دی گویا ایک نئی بلڈنگ تیار کر کے رکھ دی.اس میں انہوں نے ایک نہایت محمدہ قربانی کا اظہار کیا ہے " سے له الفضل ۲۵- احسان / جون ۱۳۳۶ ص۳ ے اس خدمت میں میاں بشیر احمد صاحب ٹیکسٹائل آفیسر امیر جماعت احمدیہ کوئٹہ کے علاوہ حضرت شیخ کریم بخش صاحب تاجر، مرزا محمد صادق صاحب قربان حسین شاہ صاحب انسپکٹر پولیس ، غلام دین صاحب، ڈاکٹر عبد الحمید صاحب ڈی ایم او ، قاضی شریف الدین صاحب (ہوشیار پوری) اور ناظر حسین صاحب نے خاص طور پر حصہ لیا.دا زرجون د الفضل ۲۵ - احسان / جون مره مت الفضل ۲۳- اخار / اکتوبره منه A ۶۱۹۴۸
۳۳۱ حضور و احسان ارجون بروزید حالاہور سے پاکستان میل میں عازم کو ئٹہ ہوئے لیا اسٹیشن پر حضور کو الوداع کہنے کے لئے جماعت احمدیہ لاہور کے بہت سے معززین موجود تھے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور خاندان حضرت مسیح موعود کے دیگر افراد کے علاوہ حضرت نواب محمد دین صاحب، پینوہدری اسد اللہ خان صاحب، حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب درد ایم.اسے اور شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور بھی موجود تھے.میاں غلام محمد صاحب اختر ڈویژنل پرسنل آفیسر ریلوے لاہور ہمرکاب ہوئے اور ملتان چھاؤنی تک حضور کے ساتھ رہے اور سٹیشن پر حضور اور حضور کے اہل بیت کی سہولت اور آرام کا خیال رکھتے رہے.حضور معہ اہل بہت ساڑھے نو بجے صبح بذریعہ کار رتن باغ سے لاہور ریلوے اسٹیشن پر تشریف لائے اور ان تمام دوستوں کو حضور نے شرف مصافحہ عطافرمایا جو حضور کی مشایعت کے لئے ریلوے اسٹیشن پر موجود تھے.گاڑی دس بجے صبح لاہور سے روانہ ہوئی راستہ میں لاہور سے روہڑی تک مندرجہ ذیل احمدی جماعتوں نے اپنی سابقہ روایات کے مطابق نہایت جوش و خروش سے اپنے مقدس آقا کا استقبال کیا.رائے ونڈا پتو کی، اوکاڑہ منٹگمری ، میاں چنوں، خانیوال، ملتان چھاؤنی ، لودھراں بہاولپور.بہاولپور سٹیشن سے رات کا سفر شروع ہو گیا جو روٹری تک جاری رہا.روٹری صبح چار بجے کے قریب گاڑی پہنچی.یہاں سے کوئٹہ کے لئے گاڑی تبدیل کرنا پڑتی تھی مگر حضور اور اہل بیت کے لئے چونکہ سیکنڈ کلاس کے کمپارٹمنٹ ریزرو تھے اس لئے وہ کمپارٹمنٹ پاکستان میں سے کاٹ کر کوئٹہ پہیل کے ساتھ لگا دیئے گئے.روہڑی سے گاڑی چھے بجکر بیس منٹ پر روانہ ہوئی اور بارہ بجکر پندرہ منٹ پر سیتی اسٹیشن پر پہنچی میکرم ڈاکٹر عبدالحمید صاحب ڈی.ایم.اومعہ اپنے بچوں کے حضور کے ے اس سفر میں حضرت ام المومنین ، حضور کے چاروں حرم ، حضرت نواب مبار که بیگم صاحبه اسیده آصفه ستوده صاحبہ بنت حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ، بیگم صاحبہ حضرت میر محمد اسمعیل صاحب، اور حضور کے بچوں میں سے سیده امتد النصیر صاحبه استیده امته الجمیل صاحبه، سیده امتہ المتین صاحبہ اور صاجزادہ مرزا رفیق احمد نصاب حضور کے ساتھ تھے خدام کا قافلہ اس کے علاوہ تھا.اہل بیت ، خدام اور خادمات سب کو شامل کر کے یہ قافلہ سینتالیس افراد تک جا پہنچا * +
۳۳۲ استقبال اور صبح کے ناشتہ کے انتظام کے لئے کوئٹہ سے سیتی تشریف لے گئے تھے تاہم جناب ڈاکٹر صاحب نے حضور اور حضور کے اہل بیت اور خدام کے لئے ناشتہ پیش کیا میبتی اسٹیشن کے بعد ساڑھے تین بجے میچ اسٹیشن پر گاڑی بنچی.اس اسٹیشن پر مہتہ عبد القادر صاحب قادیانی ، مہتہ عبد الخالق صاحب (چیف جیا و شیکل انجنیر گورنمنٹ قلات)، ملک کرم الہی صاحب ایڈووکیٹ جماعت کوئٹہ کی طرف سے اور میر آزاد نماں صاحب اپنے بھائی سردار گوہر خان صاحب ساتک زئی سردار علاقہ کی طرف سے استقبال کے لئے سماضر تھے.ان کے ہمراہ ساتک زئی قبیلہ کے بعض اور افراد بھی تھے.ملک کرم الہی صاحب کھانے کے انتظام اور دیگر امور کی انجام دہی کے لئے ایک رات پہلے ہی کوئٹہ سے پچ پہنچ گئے تھے حضور، حضور کے اہل بیت اور خدام کو مہتہ عبد القادر صاحب ، مہتہ عبد الخالق صاحب اور ملک کرم الہی صاحب ایڈووکیٹ کی طرف سے کھانا پیش کیا گیا.حضرت امیرالمومنین اور دیگر اقدام کو ڈرائنگ روم میں اور حضور کے اہل بیت اور خادمات کو ان کے کمپارٹمنٹ میں کھانا پہنچایا گیا.اسی طرح پھلوں سے تواضع کی گئی.کھانے کا انتظام نہایت اعلی تھا.میر آزاد خاں صاحب نے بھی حضور کے ساتھ بیٹھ کر کھانا تناول کیا اور کافی دیر تک مختلف امور پر حضور سے گفت گو کرتے رہے.اس موقع پرستار نیوز ایجنسی کا نمائندہ بھی انٹرویو کے لئے مچ سٹیشن پر موجود تھا.کھانے سے فارغ ہونے کے بعد حضرت امیر المومنین الصلح الموعود نے نمائندہ سٹار نیوز ایجنسی سے فرمایا کہ آپ مجھ سے ملنا چاہتے ہوں گے یکی نما ز پڑھ کر اگلے سٹیشن پر دوسرے کمرہ میں آجاؤں گا وہاں آپ مجھ سے جو چاہیں دریافت کر سکتے ہیں.چنانچہ حضور کو پور اسٹیشن پر اپنے ڈبہ سے اُتر کر دوسرے ڈبہ میں آگئے اور سٹار نیوز ایجنسی کے نمائندہ سے سپیز نڈ ریلوے اسٹیشن تک مختلف امور پر گفت گو فرماتے رہے.پیر نڈ ریلوے اسٹیشن پر کوئٹہ کے چند احمدی بچے حضور کے استقبال کے لئے پہنچے ہوئے تھے.اسی طرح بعض اور دوست بھی موجود تھے منصور نے بچوں کو بھی ملاقات کا موقع دیا اور ان مشتاقان زیارت کو بھی جو سپینز نڈ ریلوے اسٹیشن پر موجود تھے مصافحہ کا شرف عطا فرمایا.کوئٹہ میں آمد سات بجے شام قریباً تینتیس گھنٹہ کے سفر کے بعد حضرت امیر المومنین کوئٹہ وارد ہوئے سٹیشن پر مقامی جماعت اور معززین شہر کا ایک جم غفیر حضور کے
٣٣٣ استقبال کے لئے موجود تھا.بہت سے غیر احمدی معززین بھی تشریف لائے ہوئے تھے اور با وجود اس کے کہ گاڑی چار گھنٹہ لیٹ پہنچی وہ اسٹیشن پر ہی حضور کی تشریف آوری کا انتظار کرتے رہے.جماعت احمدیہ کوئٹہ کے تمام افراد اپنے امیر کے حکم کے ماتحت مختلف صفوں میں کھڑے تھے.سب سے پہلے میاں بشیر احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ کوئٹہ حضور سے ملے اور پھر شہر کے معززین سے انہوں نے حضور کا تعارف کرایا.اس کے بعد حضور نے سب دوستوں سے مصافحہ فرما یا ٹیشن نہ ائرمین سے بھرا ہوا تھا اور پولیس کے آفیسر بھی خاص طور پر مصروف انتظام تھے.مکرم شیر علی صاحب پری زیندانی پولیس ریلوے اس تمام انتظام کے انچارج تھے جنہوں نے نہایت سرگرمی کے ساتھ اپنے فرائض کو ادا کیا.مقامی جماعت نے اسٹیشن پر چھور اور حضور کے اہل بیت کے لئے کافی تعداد میں کاروں کا انتظام کیا ہوا تھا نے حضور مصافحہ کے بعد کا ر میں سوار ہو کر اپنی قیام گاہ بنام پارک ہاؤس" کی طرف تشریف لے گئے.اس موقع پر حضرت ام المومنین اور اپنے اہل بیت کو کو ٹھی تک پہنچانے کا کام حضور نے جہتہ عبد القادر صاحب قادیانی کے سپرد فرمایا جنہوں نے والہانہ جوش کے ساتھ یہ فرض ادا کیا.راسی طرح دیگر افراد جماعت نے بھی کمال و سپی، خلوص اور تنظیم و اطاعت کی روح سے سرشار ہو کر مختلف انتظامات پائیہ تکمیل تک پہنچا دئیے.لے یہاں پہنچنے کے بعد جماعت احمدیہ کوئٹہ کے جماعت احمدیہ کوئٹہ کی طرف سے مہمان نوازی افراد نے تین دن حضور اور حضور کے اہل بیت اور اقدام کی مہمان نوازی کے فرائض سر انجام دیئے.اس بارہ میں جماعت کا حسین انتظام ہر لحاظ سے قابل تعریف تھا.کھانے کا انتظام کوئٹہ کی جماعت نے مہتہ عبد القادر صاحب قادیانی کے سپرد کیا ہوا تھا جنہوں نے اپنے ساتھ مختلف سرگرم و النٹیرز شامل کر کے اس خدمت کو احسن طریق سے سر انجام دیا.کھانے کے علاوہ پھلوں اور مٹھائی سے بھی مختلف اوقات میں جماعت احمدیہ کوئٹہ کی طرف سے تواضع کی گئی.اگر کوئی دوست بیمار ہوتا تو اس کے لئے خاص طور پر الگ پر ہیزی کھانا تیار کیا جاتا عرض تین دن جماعت احمدیہ کوئٹہ کے ہر فرد نے حضرت امیر المومنین ، خاندان بسیح موعود مه یا انتظام ملک کرم الہی صاحب ایڈووکیٹ کے سپرد تھا : له الفضل ۲۵- احسان ۱۳۲۷ ص۲۰۳
۳۳۴ کی خواتین مبارکہ اور خدام و خادمات کی جو خدمت کی وہ اس روح عمل کا ایک زندہ ثبوت ہے جو جماعت احمدیہ کوئٹہ کے افراد میں پائی جاتی ہے لیے لجنہ اماء اللہ کوئٹہ کی مبرات نے بھی اسی سرگرمی اور اخلاص کے ساتھ خاندان مسیح موعود کی خواتین مبارکہ کی خدمت میں حصہ لیں جس جوش اور اخلاص کے ساتھ خدام اور انصار با ہر حصہ لیتے رہے ان تین دنوں میں اندرون خانہ کے تمام انتظامات لجنہ اماء اللہ کے سپرد تھے اور مختلف انتظامات کے لئے مختلف خواتین کی ڈیوٹیاں مقرر تھیں چنانچہ ممبرات بڑی سرگرمی سے اپنے فرائض کو ادا کرتی اور صبح چار بجے سے لے کر رات کے ایک ایک بجے تک مہمان نوازی کے فرائض سرانجام دیتی رہیں.سے جماعت کوئٹہ کے عشاق احمدیت میں سے ڈاکٹر غفور الحق خان صاحت ہے ایک نہایت ممتاز فرد له الفضل ۲۵ احسان / جون ا م : له ايضاً 4 سے صحابی حضرت مسیح موعو د حضرت حاجی نور محمد اه - صاحب شهید فیض اللہ چک کے فرزند !! آپ نے میٹرک کا امتحان تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان سے پاس کیا اور ایم.بی بی.ایس کی ڈگری لاہور میڈیکل کالج سے حاصل کی.بعد ازاں پہلے منٹگمری (ساہیوال) میں پریکٹس شروع کی پھر اپنے بڑے بھائی ڈاکٹر میجر سراج الحق خاں صاحب دلڑی ہسپتال کو ٹرم کی تحریک پر شاہ میں کوئٹہ تشریف نے گئے اور بہت بہار بلوچستان کے چوٹی کے ڈاکٹروں میں شمار ہونے لگے.حضرت امیر المومنین المصلح الموعود کی خدمت میں کوئٹہ آنے کی استدعا اول آپ ہی کی طرف سے کی گئی تھی اور آپ اس امر کے لئے بھی کھینہ تیار تھے کہ اگر کوئٹہ میں حضور کے لئے کوئی موزوں کو ٹھٹی دستیاب نہ ہوئی تو وہ اور اُن کے بھائی اپنے مکانات حضور کی رہائش کے لئے خالی کر دینگے اسی دوران میں انہوں نے حضور کے لئے دو کو ٹھیوں کا انتظام بھی کر لیا مگر جماعت کوئٹہ نے دوسری کو ٹھٹی کا انتخاب کیا جو بہت ہی مبارک ثابت ہوا مگر اس کو ٹھٹی کو زیر استعمال لانے کے لئے اس کے اردگرد ایک احاطہ کی تعمیر ضروری تھی علاوہ ازیں حضور کی تشریف آوری کے نتیجہ میں مقامی جماعت پر بعض غیر معمولی اور ہنگامی اخراجات کا بار پڑنا ایک لازمی امر تھا.اسی طرح مہمان نوازی اور دیگر کئی قسم کی ضروریات تین ہزار روپیہ کا فوری تقاضا کرتے تھے جو ڈاکٹر صاحب نے ہینڈ لوم فیکٹری کی طرف سے (جس کے آپ پریزیڈنٹ تھے، فوراً پیش کو دیے (الفضل ۲۲ طور مدام هم ڈاکٹر صاحب موصوف اور ماہ تبلیغ ضروری اس کو قریباً ۳۵ سال کی عمر میں اپنے آسمانی آقا کے پاس حاضر ہو گئے.حضرت مصلح موعود نے آپ کی نماز جنازہ بھی پڑھائی اور تدفین میں بھی شرکت فرمائی.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے آپ کی البقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر
تھے جنہوں نے ۲۸۵ ۱۳۲۷ ۱۱۹۴۸ - ۴۹ میں جبکہ حضور کوئٹہ میں فروکش تھے نہ صرف حضور ، حضور کے اہل بیت اور دیگر خدام کی مہمان نوازی کا تین روز تک اہتمام کیا بلکہ ایک رقم خطیر حضور کی خدمت میں اخراجات کوئٹہ کے سلسلہ میں بھجوائی جسے حضور نے از راہ شفقت قبول فرما گیا.ڈاکٹر صاحب نے ان دنوں حضور کا ۶۱۹۴۹ اور حضور کے اہل بیت کا طبی معائنہ بھی کیا.علاوہ ازیں دواؤں کے علاوہ بکثرت پھیل بھی حقیر نذرانہ عقیدت کے طور پر پیش کئے جن کا ذکر حضرت مصلح موعود نے خطبہ جمعہ 9 فتح / دسمبر ے میں مثالی رنگ میں کرتے ہوئے فرمایا :.یکن نے دیکھا ہے کہ ہم جب باہر جاتے ہیں تو کئی اپنی محبت کی وجہ سے بعض اخراجات ہم پر کرتے ہیں مثلاً یکی دو سال سے کوئٹہ جاتا رہا ہوں وہاں ہمارے ہی ضلع کے ایک دوست ڈاکٹر غفور الحق تھاں صاحب ہیں بیکن نے دونوں سال تجربہ کیا ہے کہ وہ جب کوئی چیز گھر لے بہاتے تھے تو اس کی ایک ٹوکری ہمیں بھی بھیج دیتے تھے مثلاً انگور نکلنے شروع ہوئے اور انہوں نے بازار سے گھر کے لئے کچھ انگور خریدے تو ایک ٹوکری زائد خرید کر وہ ہمارے لئے بھی بھیج دیں گے.یا خربوزے نکلے اور انہوں نے اپنے استعمال کے لئے کچھ خربوزے یہ خرید رہے ہیں تو کچھ خربوزے وہ ہمیں بھی بھیج دیں گے.وہ چیزیں اس طرح متواتر آتی تھیں کہ ہم سمجھتے تھے کہ وہ اپنے گھر لے جا رہے تھے کہ ہماری محبت کی وجہ سے انہوں نے ہمیں بھی اس میں سے ایک حصہ بھیج دیا اللہ تعالیٰ کی عجیب قدرت ہے یہ خطبہ میں نے دسمبر کے شروع میں دیا لیکن چھپنے سے رہ گیا.آج میں اس پر نظر ثانی کرنے لگا ہوں جبکہ ابھی ابھی عزیزم ڈاکٹر غفور الحق خاں کو دفنا کر کوٹا ہوں میں اسے اتفاق نہیں کر سکتا یہ نمد اتعالیٰ کی قدرت ہے جس نے آج مجھے اسی خطبہ پر نظر ثانی کا موقعہ دیا.عزیز زنده بقیہ حاشیہ صفحہ گزشتہ :.وفات پر اپنے قلم سے ایک نوٹ میں آپ کے اخلاص و فدائیت کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرمایا بہت ملنسار، مهمان نواز، خدمت گزار اور دوستوں کے لئے دلی خوشی سے قربانی کرنے والے نوجوان تھے یہ الفضل التبلیغ / فروری له م ) آپ کے برادر اکبر ضیاء الحق خاں صاحب سابق آرڈینینس آفیسر نے المفضل صلح ر جنوری میر کے صفحہ 4 پر آپ کی مختصر سوانح شائع کر دی تھی : حاشیہ متعلقہ صفحہ ہذا ہے، اس تعلق میں حضرت مصلح موعود کے دست مبارک کے خطوط کے چر بے ضمیمہ میں ملاحظہ ہوں جن سے ایک بچے خادم کے عاشقانہ رنگ اور ایک محبوب آقا کے مشفقانہ تعلق پر خوب روشنی پڑتی ہے ؟ سے افضل ۲۲ ظهور اگست های من ا ۱۹۲۸ هنما
ہوتا تو اسے پڑھ کر کتنا خوش ہوتا مگر اب اس کے عزیز اسے پڑھ کر خوش ہوں گے کہ ان کے عزیز کو خدا تعالیٰ نے یہ مرتبہ بخشا کہ اس کا ذکر اس محبت کے ساتھ ایک قائم رہنے والے نشان میں شامل کر دیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ عزیزیہ اپنے بہت فضل نازل فرمائے.لیکن جب عزیز کا جنازہ پڑھنے لگا تو اس میں بھی میں نے یہ دعا کی کہ اے اللہ یہ کوئی اچھی چیز خود نہ کھاتا تھا جب تک کہ کہیں نہ کھلا لیتا تھا اب تو بھی اسے اپنی جنت کی اچھی اچھی چیزیں ہماری طرف سے کھلاتا کہ ہماری خدمت کا بدلہ اسے ملے.عجیب تر بات یہ ہے کہ عزیز کوئٹہ سے آتے ہوئے دو سکس پھلوں کے میرے لئے اب بھی لایا تھا وہ اس کی لاش کے ساتھ لاہور سے لائے گئے اور آج صبیح اس کے بھائی نے اندر بھیجوائے.رحم الله الْمُحِبَّ الْمُخْلِصَ وَجَعَلَ مَثْوَالَا فِي الْمُخْلِصِينَ مِنْ عِبَادِ “ حضرت امیر المومنین خلیفة اشسیح الثانی المصلح الموعود کا ا بماء احسان ارجوان ها كا کو ساڑھے پانچ بجے شام جماعت مسلمانان بلوچستان سے پہلا بصیرت افروز خطاب احمدیہ کوئٹہ نے حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود کے اعزاز میں پارک ہاؤس" کے وسیع احاطہ میں ایک پر تکلف دعوت چھائے دی جس میں ایرانی قونصل ریاست قلات کے وزیر اور بعض دیگر افسران، قبائلی لیڈر، حکومت کے ذمہ دار افسران جن میں سول اور ملٹری دونوں کے آفیسر ز شامل تھے مسلم لیگ کے عہدیدار، روسا وکلاء، ڈاکٹر اور نمائندگان پریس ڈیڑھ سو کی تعداد میں شامل ہوئے.عبدالرشید خان صاحب ریونیو و جوڈیشل کمشنر بلوچستان ہر فلپ ایڈورڈ پولیٹیکل ایجنٹ کوئٹہ مسٹر مائل سیشن جج ، خان صاب مرزا بشیر احمد صاحب سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس کوئٹہ، مسٹر بلانگ سپر نٹنڈنٹ پولیس، مسٹر بیک ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس ، خان بہا در ملک بشیر احمد صاحب انڈر سیکرٹری ، اسے جی بھی ، خالی بہا در مولوی منیر احمد صاحب وزیر قلات ، سر اسد اللہ خان صاحب ، نواب را کسانی، رابعه زور بخت خان صاحب ڈائریکٹر آف ایگریکلچر بلوچستان ، سخان صاحب آغا سرور شاہ صاحب کمشنر نو آبادی، راجعه احمد خان له الفضل ۲۶ تبلیغ / فروری ۱۳:۲۹ مرگ ۶۱۹۵۰ &
پارک ہاؤس میں سید نا حضرت مصلح موعودؓ کے اعزاز میں پارٹی اور حضور کا خطاب ۱۴/ احسان ۱۳۲۷اهش.جون ۱۹۴۸ء ) حضور کے قدموں میں مولانا محمد یعقوب صاحب طاہر تقریر قلمبند کر رہے ہیں کرسیوں پر مسٹر بشیر احمد ایس پی کوئٹہ ، نواب دودا خان صاحب اور مسٹر عبدالرشید خاں ر یو نیو کمشنر کوئٹہ ہیں
تو رخم ، لنڈی کوتل اور جمرود کے بعض اہم مناظر
صاحب ڈوپلیمنٹ آفیسر، نواب کرم خاں صاحب کانسی، نواب محمد خاں صاحب جو گے زئی ، خان بہادر ارباب محمد عمر خان صاحب، سردار بہادر میرد و داخان فضا تمندارمری ، خانصاحب سردار گوہر خا نصنا سا تک نئی خان بہادر سردار سندی ان ایا روٹی، مالک جان محمد صاحب، میر قادر بخش صاحب وائس پریذیڈنٹ پراونشل مسلم لیگ، سیٹھ فدا علی صاحب پریزیڈنٹ کو ئٹہ میونسپل کمیٹی میجر ڈاکٹر نواب علی صاحب قریشی سی ایم اور شیخ محمد عارف صاحب ایڈووکیٹ اور مرزا محمد احمد صاحب بی.اے.ایل ایل بی خاص طور پر قابل ذکر تھے.حضرت امیر المومنین المصلح الموعود کی تشریف آوری پر سب سے پہلے چائے نوشی ہوئی بچائے سے فارغ ہونے کے بعد بعض غیر احمدی معززین نے حضور سے استدعا کی کہ حضور اپنے قیمتی خیالات سے ہمیں مستفیض فرمائیں.اس پر حضور نے تشہد و تعوذ کے بعد فرمایا.بعض احباب نے یہ خواہش ظاہر فرمائی ہے کہ میں اس موقع پر کچھ باتیں بیان کروں گو انہوں نے بتایا نہیں کہ کیا باتیں ہوں.انہوں نے مجھ پر چھوڑ دیا ہے کہ جو باتیں میرے ننه دیک مسلمانوں کے لئے مفید ہوں لیکن انہیں بیان کر دوں.میں سمجھتا ہوں سب سے پہلی چیز جو مسلمانوں کے لئے یہاں بھی اور دنیا کے ہر گوشہ اور ہر ملک میں نہایت ضروری ہے اور جس کے بغیر ہماری ساری کوششیں اور دعوے اور ادعا باطل ہوتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہمارا مذ ہب اس حقیقت کو پیش کرتا ہے کہ وہ ایک زندہ مذہب ہے جو قیامت تک قائم رہے گا.دنیا کے باقی مذاہب بھی بے شک اپنے سچے ہونے کے مدعی ہیں لیکن اسلام اور قرآن ایک ایسے مذہب کو پیش کرتا ہے جس کی تائید میں ہمیشہ خدا تعالیٰ اپنے نشانات اور قدرتوں کا اظہار کیا کرتا ہے.پس ایک زندہ مذہب کا پیرو ہونے کے لحاظ سے ہمارے اپنے اندر بھی زندگی ہونی چاہیئے.آخر خدا تعالیٰ اپنی قدر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ اور پھر آپ کے تابعین کے ذریعہ سے دنیا کو دکھاتا رہا ہے یا نہیں ہے وہ ہمیشہ اپنی تائیدات ایسے رنگ میں دکھاتا رہا ہے کہ لوگوں کو حیرت ہوتی تھی کہ کیا کوئی ایسا سلسلہ بھی اس دنیا میں موجود ہے جس کی تائید کے سامان صرف مادی اسباب سے وابستہ نہیں بلکہ مادیات سے بالا ایک اور راستی
۳۳۸ ان کی تائید کے لئے غیر معمولی سامان پیدا کر دیا کرتی ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالے واضح الفاظ میں فرماتا ہے کہ ہمارا حزب ہمیشہ غالب رہے گا.حزب الہی کے غلبہ کے اگر یہی معنے ہوں کہ ان کے پاس تو ہیں زیادہ ہوں گی تو وہ جیت جائیں گے یا آدمی زیادہ ہوں گے تو وہ جیت جائیں گے تو یہ کوئی عجیب بات نہیں رہتی ساری دنیا میں یہی ہوتا ہے حقیقت یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ ہمارا حزب ہمیشہ غالب رہے گا تو اس کے معنے یہ ہیں کہ خواہ ان کے پاس سامان کم ہوں گے تب بھی وہ ہماری تائید سے جیت جائیں گے.جیسے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بدر اور احمد کی جنگ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ملائکہ مسلمانوں کی تائید کے لئے نازل کئے ، کفار کے دلوں میں رعب ڈال دیا اور مسلمانوں کے ہاتھ ایسے مضبوط کر دیئے کہ وہ زبر دست طاقت اور زیادہ تعدا د رکھنے والے دشمن پر غالب آگئے لیکن خدا تعالیٰ کے نشانات کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم بھی اس قابل ہوں کہ خدا ہماری تائید میں نشانات ظاہر کرے.پس سب سے پہلی چیز جس کے متعلق یکں سمجھتا ہوں کہ وہ ہر مسلمان کے اندر پائی جانی چاہئیے یہ ہے کہ اگر ہم سچے مسلمان ہیں تو ہمیں اپنی نگاہ آج سے تیرہ سو سال پیچھے لے جانی چاہئیے.اگر ہم اپنے گردوپیش کو دیکھ کہ اور یہ اندازہ لگا کر کہ دنیا کی باقی تو میں کس طرح ترقی کر رہی ہیں خود بھی انہی کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کریں تو ہمیں اپنے مقصد میں ہر گزنہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی کیونکہ خدا تعالیٰ نے مسلمانوں سے وہ وعدے کئے ہیں جو دوسری قوموں سے نہیں کئے.اور جب مسلمانوں سے اللہ تعالیٰ کے ایسے وعدے ہیں جو دوسری قوموں سے نہیں تو لازماً ہمیں ایسے حالات پیدا کرنے پڑیں گے جن میں دوسری قومیں ہم سے مشترک نہ رہیں.اور اس کی یہی صورت ہے کہ ہمارے آقا اور سردار حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو تعلیم لائے تھے اس پر سہم عمل کرنے کی کوشش کریں.جس رنگ میں وہ ہمیں رنگین کرنا چاہتے تھے وہ رنگ ہم اپنے اندر پیدا کریں اور جو باتیں اسلام کے خلاف ہیں ان سے بچنے کی کوشش کر یں.اگر ہم ایسا نہیں کرتے اور اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ مغرب کا اچھا
۳۳۹ شاگرد بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں یا درکھنا چاہئیے کہ قرآن کریم کا یہ وعدہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ مغرب کے اچھے شاگردوں کی مدد کرے گا قرآن کریم تو یہ کہتا ہے کہ اِن كُنتُم تحبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحبكُمُ اللهُ اگر تم چاہتے ہو کہ خدا تم سے محبت کرے تو تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلو جب چلو گے تو محبكُمُ اللهُ خدا بھی تم سے محبت کرنے لگے گا.پس اپنی تائید اور نصرت اسی صورت میں آسکتی ہے جب مسلمان محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کریں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلام کی بعض چیزیں ایسی ہیں جو موجودہ زمانہ کے لوگوں کو پسند نہیں لیکن ہم نے دیکھنا یہ ہے کہ ایک طرف لوگوں کے خوش یا نا خوش ہونے کا سوال ہے اور دوسری طرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خوش یا نا خوش ہونے کا سوال ہے.لازماً اگر ہم سچے مسلمان ہیں تو خواہ لوگ ہم سے ناراض ہوں خواہ وہ ہمیں اپنے نقطۂ نگاہ سے بد تہذیب قرار دیں ہمارا فرض یہی ہوگا کہ ہم محمد رسول اللہ صلے للہ علیہ وسلم کی تعلیم پر عمل کریں اور اپنے آپ کو اسلامی تسلیم کا صحیح نمونہ بنائیں.سلسلہ تقریر جاری رکھتے ہوئے حضور نے فرمایا :- آج کل عام طور پر لوگوں میں یہ چر چاپایا جاتا ہے کہ پاکستان میں اسلامی آئین نافذ ہونا چاہئیے مگر میری سمجھ میں یہ مسئلہ کبھی نہیں آیا.سوال یہ ہے کہ اسلامی آئین میرے لئے ہے یا نہیں ، جب اسلامی آئین ہر سلمان فرد کے لئے ہے تو مسلمان افراد اسلامی آئین پر خود عمل کیوں نہیں کرتے ؟ کیا پاکستان میں کوئی ایسا قانون ہے کہ نماز نہ پڑھو یا کیا پاکستان میں کوئی ایسا قانون ہے کہ اور اسلامی احکام پر عمل نہ کرو جب نہیں تو مسلمان اگر بچے دل سے اسلامی آئین کے نفاذ کے خواہش مند ہیں تو وہ نماز میں کیوں نہیں پڑھتے ، وہ اسلامی احکام پر عمل کیوں نہیں کرتے ہے یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان نے ایسے قانون نہیں بنائے جن کی وجہ سے شہرشخص کو نماز پڑھنے پر مجبور کیا جاسکے مگر سوال یہ ہے کہ اگر ایسا قانون پاکستان نے نہیں بنایا تو کیا پاکستان کا کوئی قانون شراب پینے پر مجبور کرتا ہے یا نا چنے گانے پر مجبور کرتا ہے.یا کوئی قانون یہ کہتا ہے کہ تم نماز نہ پڑھو اگر
۳۴۰ پڑھو گے تو چھ ماہ قید کی سزا دے دی جائے گی.جب پاکستان میں اس قسم کا بھی کوئی قانون نہیں تو اگر ہم واقعہ میں مسلمان ہیں تو ہمیں محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کے بنائے ہوئے قانون پر خود بخود عمل شروع کر دینا چاہیے.کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقر کہ وہ قانون سے پاکستان کا قانون زیادہ موثر ہوگا.اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قانون پر عمل کرتے ہوئے آج سارے مسلمان نمازیں پڑھنے لگ جائیں، ساری ویران مساجد آباد ہو جائیں تو کونسی گورنمنٹ انہیں اس سے روک سکتی ہے ؟ پس بجائے اس کے کہ لوگ یہ مطالبہ کریں کہ پاکستان میں اسلامی آئین نافذ ہونا چاہیئے ان کو اسلامی آئین خود اپنے نفوس میں جاری کرنے کی کوشش کرنی چاہئیے.میرا یقین ہے کہ بر سر اقتدار لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جب مسلمان آئین اسلام کا مطالبہ کرتے ہیں تو آئین اسلام کے نفاذ کا مطالبہ محق وزارتوں کی تبدیلی کے لئے ہوتا ہے کیونکہ بعض اور لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وزارتوں کے ہم حقدار ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ سب سے بہتر طریق لوگوں میں کسی وزارت کے خلاف جوش پھیلانے کا یہی ہے کہ شور مچا دیا جائے کہ وزراء آئین اسلام جباری نہیں کرتے ورنہ وہ خود بھی وہی کچھ کریں جو آج کل کیا جا رہا ہے.لیکن مانتا ہوں کہ بعض چیزیں ایسی بھی ہیں جو حکومت کے اختیار میں ہیں ہمارے اختیار میں نہیں مگر اس بارہ میں بھی حکومت کی طرف سے کوئی قدم اس لئے نہیں اٹھایا جاتا کہ وزراء اور لیڈر یہ سمجھتے ہیں کہ اس قسم کا مطالبہ کرنے والے خود سنجیدہ نہیں.اگر سنجیدہ ہوتے تو اپنے گھروں میں اسلامی آئین پر کیوں عمل نہ کرتے با غرض ہمارے لئے سب سے زیادہ ضروری امر یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو سچا مسلمان بنانے کی کوشش کریں اور قرآن کریم کے ہر حکم پر عمل کریں.رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے مرد و عورت کے اختلاط کو منع کیا ہے مگر سینما سارے کے سارے مرد و عورت کے اختلاط کا نتیجہ ہوتے ہیں سینما کی فلم بن ہی نہیں سکتی جب تک مرد اور عورت اکٹھے نہ ہوں لیکن اگر سینما کے خلاف ہی آواز اٹھائی جائے تو آئین اسلام کے نفاذ کا شور مچانے والے سب سے پہلے اس کی مخالفت پر اتر آئیں.پس ضروری ہے کہ ہم پہلے افراد کو سچا مسلمان بنانے کی کوشش کریں کچھی اینٹوں سے جو عمارت تعمیر کی جائے وہ کبھی بھی نہیں ہو !
۳۱ سکتی.وہ عمارت ٹکڑے ٹکڑے ہو گی تب بھی کچی ہوگئی مکمل ہو گی تب بھی کچی ہوگی اسی طرح جب تک افراد سچے مسلمان نہیں بن جاتے کبھی اسلامی حکومت قائم نہیں ہو سکتی کیونکہ کچی اینٹوں کی عمارت پکی عمارت نہیں کہلا سکتی جیسی نیٹ ہو گی ویسی ہی عمارت ہوگی.اس کے بعد حضور نے مسئلہ کشمیر کی اہمیت بیان فرمائی اور بتایا کہ ہر مسلمان کو اس بارہ میں اپنے فرائض سمجھنے چاہئیں اور میں حد تک ہو سکے مجاہدین کشمیر کی مدد کرنی چاہیئے.آخر میں حضور نے فرمایا : " آج مسلمانوں پر جو نازک دور آیا ہوا ہے اس میں ان کا اولین فرض یہ ہے کہ وہ آپس کے اختلافات کو بھول کر متحد ہو جائیں.اس وقت پاکستان ایسے حالات میں سے گزر رہا ہے کہ ہم کو اپنے تمام اختلافات کو بھلا کر دشمن پر یہ واضح کر دینا چاہئیے کہ اگر پاکستان کی طرف اُس نے نظر اٹھائی تو ہمارا ہر مرد ہر عورت، ہر بچہ اور ہر بوڑھا اپنے آپ کو قربان کر دے گا مگر وہ اس آزادی کو کھونے کے لئے کبھی تیار نہیں ہوگا.اگر دنیا پر ہم اپنے اس عزم کو ثابت کر دیں تو میرے نزدیک نوے فیصدی اِس بات کا امکان ہے کہ دشمن پاکستان پر حملہ کرنے کی اگر خواہش بھی رکھتا ہے تو نہیں کرے گا مسلمانوں میں اور کئی کمزوریاں ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کا یہ فضل ہے کہ مسلمان ابھی بیان دینے سے اتنا نہیں ڈرتا جتنا بعض دوسری قومیں ڈرتی ہیں.اور یہ سیدھی بات ہے کہ اگر لاکھوں کروڑوں کی قوم مرنے کے لئے تیار ہو جائے تو اس قوم کو کوئی مار نہیں سکتا.اگر مسلمان حیثیت قوم یہ فیصلہ کر لیں کہ ہم مر جائیں گے تو یقینا انہیں مارنے کی کوئی قوم طاقت نہیں لیکن اگر ساری قوم مرنے کے لئے تیار نہیں ہو گی تو وہ ضرور مریں گے.جب سی تی شرقی پنجاب میں مسلمانوں کو ماررہے تھے تو نئیں مسلمانوں سے بار بار کہتا تھا کہ یہاں سے مکت بھا گور تاریخ اس امر پر شاہد ہے کہ ظالم سے ظالم قوم بھی کبھی اپنے مظالم میں انتہاء تک نہیں پہنچتی ضرور اس کا قدم رک جاتا ہے مگر میری بات کیسی نے نہ سنی.آپ بھی میں کہتا ہوں کہ اگر چار پانچ کروڑ مسلمان مرنے کے لئے تیار ہو جائے تو دشمن ہتھیار پھینک دیگا کھتی "
۳۴۲ اور اُسے اپنے بدا را دوں کو ترک کرنا پڑے گا.اگر ہم واقعہ میں آزادی کی قدرو قیمیت کو سمجھتے ہیں تو آزادی کی چھوٹی سے چھوٹی قیمت جان کی قربانی ہوتی ہے.یہ لوگوں کی غلطی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں جان دینا سب سے بڑی قربانی ہے جان دینا سب سے بڑی نہیں بلکہ سب سے چھوٹی قربانی ہے.اگر مسلمان جان دینے کے لئے تیار ہو جائیں تو لیکن یقین رکھتا ہوں.اور میرا یقین ایک طرف تاریخ پر مبنی ہے جس کا میں نے کافی مطالعہ کیا ہوا ہے اور دوسری طرف قرآن پر مبنی ہے جو میرا خاص مضمون ہے اور اس لحاظ سے اس میں یہ غلطی کا بھی امکان نہیں کہ اگر مسلمان واقعہ میں مرنے کے لئے تیار ہو جائیں تو میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ پاکستان ایک دائمی حکومت بن جائے گا مگر میں یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان کے افراد اپنی اولادوں کے لئے ایک لمبا اور شاندار مستقبل قائم کر سکتے ہیں.لیکن اگر وہ بھاگے تو انہیں یا د رکھنا چاہیئے کہ اب ان کے لئے کوئی بجائے پناہ نہیں.اب ان کے لئے دو ہی صورتیں ہیں یا تو دشمن سے لڑ کو عزت کی موت مریں یا کراچی کے سمندر میں غرق ہو کر ذلت اور لعنت کی موت مریں.دنیا میں کون انسان ہمیشہ زندہ رہ سکتا ہے کسی کو پتہ ہے کہ اس کی کتنی زندگی ہے.جب شام کو ایک شخص مہینہ سے مرسکتا ہے جب ہمارے باپ دادا مرتے پہلے آئے اور جب ہم نے بھی ایک دن مرنا ہے تو اگر ہم عزت کی موت مرنا چاہتے ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ ہم بہادری سے اپنی جان دینے کے لئے تیار رہیں.اگر ہم ایسا کریں گے اور اگر اس ارادہ اور نیت سے ہم اپنی جہان دینے کے لئے تیار ہو جائیں گے کہ ہندوستان میں یہ آخری جگہ جہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا قائم ہے اسے ہم سرنگوں نہیں ہونے دیں گے تو میں نہیں سمجھ سکتا کہ ہمارا خدا یہ بے غیرتی دکھائے کہ وہ ہمیں تباہ کر دے اور مسلمانوں کو دشمن کے ہاتھوں بالکل مٹنے دے ہیں حضور کی یہ ایمان افروز تقریہ قریباً ایک گھنٹہ تک مہاری رہی.یہ تمام تقریر جو نہایت اہم نکات اور بیش قیمت نصائح پر مشتمل تھی تمام معززین نے انتہائی دلچسپی، پوری توجہ اور انہماک کے ساتھ شستی اور وہ حضور کے قیمتی خیالات سے بہت متاثر ہوئے اور تقریر کے بعد سب معزز مہمانوں ه الفضل ۲۶ احسان جون هم ۴۳۰ - ۶۱۹۲۸
۳۲۳ نے حضور سے شرف مصافحہ حاصل کیا اور حضور یعنی اُن سے از راہ شفقت دیر تا گفتگو فرماتے رہے.بلوچستان پولیس نے حضور انور کے اس پر اثر خطاب میں بہت کچپی بلوچستان پولیس میں ذکر کرایا لی اور نمایاں صورت میں اس کی خبر شائع کی.چنانچہ کوئٹہ کے اخبار میزان نے ہم ارجون 90 کی اشاعت میں لکھا :- کوئٹہ ہم ارجون - آج شام کے 7 بجے احمدیہ جماعت کے امام مرزا بشیر الدین محمود اتھ صاحب نے کوئٹہ کی جماعت احمدیہ کے پریذیڈنٹ کی طرف سے دعوت عصرانہ کی تقریب پر تقریر کرتے ہوئے تین اہم نکات بیان کئے.آپ نے فرمایا کہ اسلام کو دل میں جگہ دو اور دل سے مسلمان بنو اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کیجئے.آپ نے قل إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونی کی آیت شریفہ پیش کی.آپ نے کہا جو لوگ محکومتِ پاکستان سے آئین اسلامی کا مطالبہ کر رہے ہیں وہ دراصل وزارت میں تبدیلی چاہتے ہیں.حکومت پاکستان نے نماز ، روزہ ، حج ، زکواۃ سے کیا منع کیا ہے اور کب شراب خوری ، چوری اور بدکاری کی تعلیم دی ہے ؟ آپ نے دوسرا اہم نکتہ محاذ کشمیر کومضبوط تر بنانے سے متعلق پیش کیا.آپ نے کہا کہ اگر کشمیر نہیں تو پاکستان نہیں.یہاں سے دلی خلوص اور اخوت کے جذبہ سے کشمیر کی آزاد فوجوں کی امداد کرنا بہت ضروری ہے اس کام کو بہت وسیع پیمانہ پر کیا جائے.ہر سلمان ممکن طریق سے زیادہ امداد دے.تیسرا نکتہ آپ نے یہ بیان کیا کہ جو قوم مرنے سے نہیں ڈرتی وہ کبھی مرا نہیں کرتی ذلیل زندگی سے عزت کی موت ہزار درجہ بہتر ہے.آج پاکستان کے ہر مسلمان کو یہ تہیہ کم لینا چاہئیے کہ شاندار عزت سے آزاد زندگی بسر کریں.آپ نے باہمی اختلافات کو ہر مرحلہ پرختم کرنے کی نصیحت کی اور بہت چیدہ مثالیں دے کر واضح کیا.دعوت بچائے میں سول حکام، اعلیٰ ، بلوچستان بھر کے چوٹی کے نواب اسردار، ملک، معتبرین اور اخبار نویس شامل تھے.ے اس اخبار کا تماشہ مخلافت لائبریری کے کٹنگ رجسٹر میں موجود ہے :
۳۴۴ پنجاب کے اخبارات میں سے انقلاب نے حسب ذیل الفاظ میں اس پنجاب پولیس میں خبر تقریر کا مخص دیا.نفاذ شریعت پر زور نہ دو اچھے مسلمان بنو مرزا محمود کی تقریر کوئٹہ سٹار ۱۷ جون - کوئٹہ میں ایک جلسہ میں جس میں ایرانی قونصل ایم کاظمی، نواب محمد علی خان جو گازئی ممبر پاکستان دستور ساز اسمبلی اور بلوچستان کے ریونیو کمشنر مسٹر ہے.آر.خان بھی موجود تھے احمدیہ فرقہ کے لیڈر مرزا بشیر الدین محمود احمد نے پاکستان کے مسلمانوں کو پاکستان میں فوری طور پر شریعت کے نفاذ کے لئے تحریک نہ کرنے کی ہدایت کی.مرزا بشیر الدین نے کہا کہ اگر وہ اس کے بجائے اچھے مسلمان بننے کی کوشش کریں تو بہتر ہوگا اور ہمارے مذہب کا مقصد پورا ہوگا کشمیر کا ذکر کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ اگر کشمیر غیر دوستانہ ہاتھوں میں پڑ گیا تو پاکستان کے خود مختار آزادانہ وجود کا خیال بھی نہیں کیا جا سکتا.آخر میں اُنہوں نے بلوچستان کے باشندوں سے اپیل کی کہ وہ اپنے مصیبت نے دو کشمیری بھائیوں کے سلسلہ میں اپنا فرض ادا کریں کشمیر کی مدد کرنے کا مطلب خود اپنی مدد کرنا ہے اور وہ ایسا کر کے آنے والی نسلوں کو غلامانہ زندگی کی لعنت سے بچائیں گے ہے ا حضرت سید نا المصلح الموعود نے یہاں دوسرا پبلک پاکستان کا مستقبل کے موضوع پر اور لیکچرم رو نار جولائی کو شہر کے ٹاؤن ہال میں دیا ایمان افروز تقه جس کے پہلے حصہ میں حضور نے نہایت وضاحت سے بتایا کہ پاکستان ایک اینٹ ہے اُس اسلامی عمارت کی جیسے ہم نے دنیا میں قائم کرنا ہے.اور آخری حصہ میں مسلمانوں کو تلقین فرمائی کہ اُن کا فرض ہے کہ وہ اپنی قومی اور انفرادی زندگی میں صرف اسلام کو اپنا دستور العمل بنائیں چنانچہ حضور نے سلسلہ تقریر شروع کرتے ہوئے فرمایا سب سے پہلے ے انقلاب (لاہور) ۱۹ جون شاه جنگ
۳۴۵ تو یکیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کسی چیز کا حصول ایک علیحدہ امر ہے اور اس چیز کے حاصل ہو جانے کے بعد ایسے قائم رکھنا بالکل علیحدہ بات ہے.ایسے واقعات تو دنیا میں کثرت کے ساتھ ہل جائیں گے کہ کسی شخص کو کوئی چیز آپ ہی آپ مل گئی ہو مگر اس امرکی کوئی ایک مثال بھی نہیں مل سکتی کہ کوئی چیز آپ ہی آپ قائم رہی ہو.یہ تو ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص کسی پر مہربان ہو کہ اسے مکان دیدے.یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسے کہیں سے روپوؤں کی تحصیلی مل جائے یا اسے نوٹوں کا بینڈل کسی جگہ سے ہل جائے مگر یہ مثال دنیا میں کہیں نظر نہیں آئے گی کہ کوئی شخص اپنے مکان کی مرمت کا خیال تک نہ کرے اور اس کی صفائی کی طرف توجہ نہ کرے اور اتفاقی طور پر وہ مکان آپ ہی آپ صحیح اور درست حالت میں چلتا چلا جائے.یہ تو ممکن ہے کہ کسی کو اتفاقی طور پر روپوؤں کی کوئی تھیلی مل جائے مگر یہ ممکن نہیں کہ اتفاقی طور پر وہ آپ ہی آپ خرچ ہوتی رہے.اسی طرح زمین آپ ہی آپ مل سکتی ہے.جائیداد آپ ہی آپ مل سکتی ہے مگر یہ ممکن نہیں کہ زمین اور جائیداد بغیر ہماری توجہ کے آپ ہی آپ قائم رہے.یہی حال پاکستان کا ہے.پاکستان کا حصول اور پاکستان کے قیام کا سوال دونوں علیحدہ علیحدہ امر ہیں.میں سمجھتا ہوں وہ لوگ جنہوں نے پاکستان کے حصول کے لئے قربانیاں کی تھیں وہ بھی یہ نہیں سمجھ سکتے تھے کہ پاکستان اتنی جلدی اور ایسی صورت میں مل جائے گا ہم اس امر سے انکار نہیں کر سکتے کہ ایک گروہ نے اس غرض کے لئے بڑی بھاری قربانیاں کی ہیں اور بہت بڑی مشکلات کا اسے سامنا کرنا پڑا ہے مگر ہم اس امر سے بھی انکار نہیں کر سکتے کہ جس رنگ میں پاکستان ملا ہے اس میں صرف انسانی کوششوں کا دخل نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل کا بھی بہت بڑا حصہ ہے جس نے ان کوششوں کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیا.اب ہمارے سامنے یہ سوال ہے کہ پاکستان کا مستقبل کیسا ہو؟ اگر کسی کو کوئی اچھی عمارت پہل جائے اور وہ اسے اپنی عدم توجہ سے بگاڑ دے تو دنیا اسے عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھ سکتی بلکہ اگر اس عمارت کو وہ اسی حالت میں رہنے دے جس حالت میں وہ عمارت، اسے ملی تھی تب بھی وہ تعریف کے قابل نہیں سمجھا جاتا.تعریف کے قابل وہ تب سمجھا جاتا ہے جب وہ اسے پہلے سے بہت اچھی حالت میں چھو ڑ جائے.پس ہمیں اس سوال پر غور کرتے ہوئے کہ پاکستان کا مستقبل کیس طرح اچھا بنایا جا سکتا ہے یہ امر یا درکھنا چاہئیے کہ اصل مقابلہ اسی وقت شروع ہوتا ہے
MMY جب کوئی چیز حاصل ہو جاتی ہے.اگر کوئی شخص اپنے ذہن میں یہ سکیم بنائے کہ میں اس اس طرح تجارت کروں گا اور میرے پاس لاکھوں روپیہ جمع ہو جائے گا تو محض شیخ چھٹی جیسے خیالات پیدا ہونے کی وجہ سے ڈاکو اس کے گھر پر حملہ نہیں کر دیں گے لیکن اگر وہ اپنی سکیموں میں کا میاب ہو جائے تو اس کے بعد بے شک اسے خطرہ پیدا ہو گا کہ کہیں ڈاکو میرے گھر کو نہ ٹوٹ لیں.پاکستان کا بھی جب تک قیام نہیں ہوا تھا اس کی مخالفت کا صحیح طور پر جذبہ پاکستان کے مخالفوں کے دلوں میں پیدا نہیں ہوا تھا جیس طرح کسی شخص کے گھر پر ڈاکہ ڈالنے کا خیال لوگوں کو نہیں آسکہ آجس نے ابھی تک اپنی کسی کنیم کو چلایا ہی نہ ہو.جب تک پاکستان قائم نہیں ہوا تھا دشمن سمجھتا تھا کہ پاکستان کا خیال مجنونوں کی ایک بڑ ہے.اور گو ایک حصہ مخالفت بھی کرتا تھا مگر بعض لوگ اِس وجہ سے مخالفت نہیں کرتے تھے که جو چیز ابھی بنی ہی نہیں اس کی ہم مخالفت کیوں کریں یا کم سے کم وہ شدید مخالفت نہیں کرتے تھے لیکن جب پاکستان وجود میں آگیا تو جو اس کے مخالف تھے وہ پاکستان کے قیام میں اپنی سکیموں کی تباہی دیکھ رہے تھے ان کی مخالفت کا جذبہ بھڑک اُٹھا اور انہوں نے سمجھا کہ اب ہمیں اس کو ٹانے کی پوری کوشش کرنی چاہئیے.لیکن جہاں ایک طرف ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کسی چیز کے حصول کے بعد میں لغت بڑھ جاتی ہے وہاں دوسری طرف ہمیں یہ بھی نظر آتا ہے کہ جب کوئی چیز مل جاتی ہے تو بسا اوقات اس چیز کو حاصل کرنے والے کے دل سے اس کی عظمت مٹ جاتی ہے اور وہ اس چیز کو کھو بیٹھتا ہے.چنانچہ دنیا میں کثرت کے ساتھ ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ بعض لوگوں نے بڑے بڑے کام کئے اور اپنے مقصد کے حصول کے لئے انہوں نے سرتوڑ کوششیں کیں مگر جب مقصد حاصل ہو گیا تو مطمئن ہو کر بیٹھ گئے اور اس طرح وہ چیز جس کے حصول کے لئے انہوں نے سالہا سال قربانیاں کی تھیں اسے اپنی غفلت سے ضائع کر بیٹھے.آج سے تین سال پہلے جب بلقان کی ریاستوں اور ٹرکی کی آپس میں جنگ ہوئی تو نیقانی ریاستیں جیت گئیں اور ٹرکی شکست کھا گیا مگر جب اسے شکست ہو گئی تو بلقانی ریاستوں میں بال بانٹے پر آپس میں لڑائی شروع ہو گئی اور وہی لوگ جو پہلے متحد ہو کر ٹرکی کے مقابلہ میں صف آراء تھے آپس میں لڑنے لگ گئے نتیجہ یہ ہوا کہ انہیں کئی علاقے لڑکی کو واپس کرنے پڑے.غرض دنیا میں ایسی بیسیوں مثالیں ملتی ہیں کہ جب تک جنگ جاری رہی لوگ قربانی کرتے رہے مگر جب کامیابی ہوگئی |
۳۴۷ تو انہوں نے آپس میں لڑنا شروع کر دیا اور وہ اتحاد و یک جہتی سے رہنے کی بجائے متفرق ہو گئے نتیجہ یہ ہوا کہ جو چیز آچکی تھی وہ بھی ان کے ہاتھوں سے جاتی رہی.اصل بات یہ ہے کہ جب تک خطرہ سامنے ہوتا ہے لوگوں کے دلوں میں بہت خوش ہوتا ہے لیکن جب خطرہ آنکھوں سے اوجھل ہو جاتا ہے تو وہ مطمئن ہو جاتے ہیں حالانکہ خطرہ بدستور موجود ہوتا ہے.بیمار کی حالت جب تک خراب ہوتی ہے تیمار دار بھی اور ڈاکٹر بھی بڑی توجہ سے علاج کرتے رہتے ہیں لیکن لبسا اوقات جب بیمار کی طبیعت سنبھال لیتی ہے تو ڈاکٹر بھی سمجھ لیتے ہیں کہ اسے آرام آرہا ہے اور تیمار دار بھی اِس خیال سے کہ اب تو اسے افاقہ ہے اِدھر اُدھر چلے جاتے ہیں.یا تھکے ہوئے ہوں تو لیٹ جاتے ہیں مگر اس دوران میں مریض کی موت واقع ہو جاتی ہے.یہی حال قوموں کا ہے جب وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو خطرات ان کی نگاہ سے اوجھل ہو جاتے ہیں اور وہ شستی سلسله یاد اور غفلت کا شکار ہو جاتی ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دشمن ہوشیار ہو کر فائدہ اُٹھا لیتا ہے.پاکستان کی حالت بھی اس وقت ایسی ہی ہے.پاکستان نام ہے اس ملک کے ایک ٹکڑے کا جیسے پہلے ہندوستان کہا جاتا تھا..جس ملک کا یہ ٹکڑا ہے وہ ملک زندہ ہے.اگر سارے ملک کا نام پاکستان ہوتا تو خطرہ کی کوئی صورت نہیں تھی مگر اب تین چوتھائی سے زیادہ حقہ زندہ موجود ہے اور پا کو کاٹ کر الگ کر دیا گیا ہے پس پاکستان کے قیام سے خطرات دور نہیں ہوئے بلکہ پہلے سے بڑھ گئے ہیں کیونکہ ہمارا ہمسایہ سمجھتا ہے کہ اسے پاکستان کے قیام سے سخت نقصان پہنچا ہے.اس میں بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ مشرقی پنجاب میں مسلمانوں پر جو مظالم ہوئے تھے انہوں نے مسلمانوں میں جذبہ انتقام اتنا شدید طور پر پیدا کر دیا ہے کہ آپ مسلمانوں کی طاقت پہلے سے کئی گنا بڑھ گئی ہے.در حقیقت دنیا میں دو ہی چیزیں طاقت اور قوت کو بڑھاتی ہیں.جذبہ محبت یا جذبہ انتقام.مائیکل جذبہ محبت کی وجہ سے بعض دفعہ ایسے ایسے کام کر جاتی ہیں جو عام حالات میں بالکل ناممکن نظر آتے ہیں.اِس طرح جب کسی کو شدید صدمہ پہنچتا ہے تب بھی اس کے انتقام کا جذبہ تیز ہو جاتا ہے اسی وجہ سے محبت اور انتقام کے جذبہ کو جنون کہتے ہیں، کیونکہ جنون کی حالت میں مجنوں کی طاقتیں بہت بڑھ جاتی ہیں.رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جب بدر کی جنگ ہوئی تو مسلمانوں کی طرف سے صرف تین سو تیرہ آدمی اس جنگ میں شریک تھے اور وہ بھی بالکل
۳۴۸ بے سروسامان اور ناتجربہ کار لیکن دشمن کا ایک ہزار سپاہی تھا اور وہ سارے کا سارا تجربہ کار آدمیوں پر مشتمل تھا.ابھی جنگ شروع نہیں ہوئی تھی کہ ابو جہل نے ایک عرب سردار کو بھجوایا اور اسے کہا کہ تم یہ اندازہ کر کے آؤ کہ مسلمانوں کی تعداد کتنی ہے؟ وہ واپس گیا تو اس نے کہا میرا اندازہ یہ ہے کہ مسلمان تین سو اور تین سو تیس کے قریب ہے.ابو جہل اس پر بہت خوش ہوا اور کہنے لگا ہم نے تو میدان مارلیا اس نے کہا اے میری قوم بے شک مسلمان تھوڑے ہیں لیکن میرا مشورہ یہی ہے کہ مسلمانوں سے لڑائی نہ کرو کیونکہ اسے میری قوم میں نے اونٹوں پر آدمی نہیں بلکہ موتیں سوار دیکھتی ہیں یعنی یکی نے جس شخص کو بھی دیکھا اس کا چہرہ بنتا رہا تھا کہ آج میں نے مر جانا ہے یا مار دیتا ہے.اس کے سوا اور کوئی جذبہ ان کے دلوں میں نہیں پایا جاتا گویا اس جذبہ انتقام نے مسلمانوں کو ایسی طاقت دے دی کہ ایک شدید ترین دشمن اسلام نے بھی ان کے چہروں سے پڑھ لیا کہ آب وہ اس میدان سے واپس نہیں لوٹیں گے سوائے اس کے کہ وہ کامیابی حاصل کر لیں یا اسی جگہ لڑتے ہوئے جان دے دیں.جب یہ جذبات کیسی قوم میں پیدا ہو جاتے ہیں تو وہ اسے عام مسلح سے بہت اونچا کر دیتے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ کچھ اور باتیں بھی ہیں جن کو ہمیں نظر انداز نہیں کرنا چاہیئے اور وہ یہ کہ انتقام کا جذبہ صرف نقصان پر مینی نہیں ہوتا بلکہ احساس نقصان پر مبنی ہوتا ہے.ایک شخص کے اگر دس روپے کوئی شخص چرا کر لے جائے اور اسے محسوس بھی نہ ہو تو اس کے اندر کوئی جذبہ انتقام پیدا نہیں ہو گا لیکن دوسرے شخص کا اگر صرف ایک روپیہ کوئی شخص چرا لیتا ہے اور اسے اس کی چوری کا احساس ہوتا ہے تو اس کے اندر یقیناً جذبہ انتقام پیدا ہو جائے گا پس مہذبات حقیقت پر مبنی نہیں ہوتے بلکہ احساس حقیقت پر مبنی ہوتے ہیں.اگر ہم کو شدید سے شدید نقصان بھی پہنچا ہے لیکن ہمیں اس نقصان کا احساس نہیں تو محض نقصان اس بات کی دلیل نہیں ہوگا کہ ہمارے اندر جذبہ انتقام پیدا ہو گیا ہے.یہی حال محبت کا ہے وہ بھی احساس پر مبنی ہوتی ہے.ایک عیشی کو اپنا کالا کلوٹا بچہ ہی خوبصورت نظر آتا ہے حالانکہ دوسرے کی نگاہ میں وہ بدصورت ہوتا ہے.فرض انتظام کا جذبہ یا محبت کا جذبہ دو نواں احساس پر مبنی ہوتے ہیں.جتنے احساسات تیز ہوں اتنا ہی بعد یہ پڑھا ہوا ہوتا ہے اور جتنے احساسات کم ہوں اتناہی اس بند بہ کا فقدان ہوتا ہے.پس ہمیں صرف اپنے نقصان کا ہی نہیں بلکہ احساس نقصان کا بھی جائزہ لینا پڑے گا.اسی طرح ہمیں دوسرے فریق کے نقصان اور اس کے احساس نقصان کا
۳۴۹ بھی جائزہ لینا پڑے گا.اگر اس کے بغیر ہم کوئی فیصلہ کر لیتے ہیں تو درحقیقت وہ صحیح فیصلہ نہیں کہلا سکتا دوسری چیز جو پاکستان کے مستقبل کے متعلق ہمیں ہمیشہ مد نظر رکھنی چاہیئے وہ یہ ہے کہ پاکستان کا مستقبل محض اسلام کو اپنی عملی زندگی میں داخل کرنے کے ساتھ وابستہ ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے پاکستان کا مطالبہ اس بناء پر کیا تھا کہ ہماری تہذیب الگ ہے اور ہندو تہذیب الگ.جب مسلمانوں نے یہ مطالبہ کیا اُس وقت پنڈت جواہر لال صاحب نہرو نے ایک مضمون لکھا تھا کہ بتاؤ تمہاری کو نسی تو ذیب، ہے جو ہندو متنانی تہذیب سے الگ ہے ؟ ہم اس وقت کہہ سکتے تھے کہ یہ چیز عمل سے تعلق رکھتی ہے عمل کا موقع آئے گا تو ہم تمہیں بتائیں گے کہ ہماری تہذیب کونسی ہے مگر اب جبکہ ہمیں اس تہذیب کو قائم کرنے کا موقع مل گیا ہے پنڈت نہرو اور ان کے ساتھی اگر ہم سے یہ سوال کہ میں کہ وہ کونسی تہذیب ہے جس کے لئے تم نے پاکستان مانگا تھا تو یقیناً وہ اپنے اس مطالبہ میں حق بجانب ہونگے یہ ظاہر ہے کہ جس تہذیب کے بچانے کا ہم دعوی کر رہے تھے وہ ایرانی نہیں تھی نہ وہ پٹھانی، بلوچی، سندھی، پنجابی یا بنگالی تہذیب تھی کیونکہ نہ ہم سارے ایرانی تھے نہ ہم سارے پٹھان تھے نہ ہم سارے بلوچی تھے نہ ہم سارے سندھی تھے نہ ہم سارے پنجابی تھے اور نہ ہم سارے بنگالی تھے پھر وہ کیا چیز تھی جس کے لئے ہم سب لڑ رہے تھے یقیناً اسلام ہی ایک ایسی چیز ہے جو ہم سب میں شترکہ طور پر پائی جاتی ہے اور اسلامی تہذیب ہی ایک ایسی چیز ہے جس کے قیام کا ہم میں سے ہر شخص خواہش مند تھا.اسی تہذیب کے قیام کے لئے ہم نے پاکستان کا مطالبہ کیا تھا اب جبکہ علیحدگی ہو چکی ہے سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے وہ غرض پوری کر لی ہے جس کے لئے ہم نے علیحد گی طلب کی تھی ؟ اگر ہم نے اس غرض کو پورا نہیں کیا تو دنیا ہمیں کہے گی کہ تم نے غلط دعویٰ کیا تھا درحقیقت تم الگ ذاتی حکومت چاہتے تھے مگر نا واقف لوگوں میں جوش پیدا کرنے کے لئے تم نے اسلامی تہذیب کے نام سے شور مچا دیا مختصر لفظوں میں میں یوں سمجھتا ہوں کہ ہماری لڑائی اس لئے نہیں تھی کہ ہم اپنے لئے گھر مانگتے تھے بلکہ ہماری لڑائی اِس لئے تھی کہ اس ملک میں ہمارے آقا اور سردار حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر نہیں تھا ہم ایک زمین چاہتے تھے جسے محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی زمین کہا جاسکے.ہم ایک ملک چاہتے تھے جسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وستم کا ملک کیا جا سکے ہم ایک حکومت چاہتے تھے جسے محمد رسول اللہ کی حکومت کہا جاسکے اور
۳۵۰ یہی اصل محرک پاکستان کے مطالبہ کا تھا.پس انفرادی اور قومی زندگی میں اسلام کو داخل کرنا ہمارا سب سے پہلا اور اہم فرض ہے.اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو یقیناً ہم اپنے دعوئی میں سچے نہیں سمجھے جاسکتے مگر اس کے ساتھ ہی ہمیں یہ بات بھی کبھی نظر انداز نہیں کرنی چاہیئے کہ ہم نے ساری دنیا میں اسلام کو قائم کرنا ہے اور ساری دُنیا میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا بلند کرنا ہے.پس پاکستان اس منزل کے حصول کے لئے یقیناً ایک قدم تو ہے مگر بہر حال وہ ایک اینٹ ہے اس عمارت کی جو ہم نے ساری دنیا میں قائم کرتی ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اس عظیم الشان مقصد کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں اور اس کو پائیہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے جس قدر بھی قربانیاں کر سکیں ان سے کبھی دریغ نہ کریں " سے ڈاکٹر غفور الحق خاں صاحب نے ماہ و فار جولائی کے ابتداء میں حضرت اورک کا تفریحی سفر امیر المومنين الصلح الموعود کی خدمت میں اورک تشریف لے جانے کی استدعا کی.اورک کوئٹہ سے چودہ میل کے فاصلہ پر ایک خوش گوار پہاڑی مقام ہے جہاں ایک چشمہ واقع ہے.چشمہ کے نیچے واٹر ورکس ہے اور اسی واٹر ور کسی سے کوئٹہ کو پانی سپلائی کیا جاتا ہے.چنانچہ حضور نے ان کی درخواست منظور فرمالی اور 4.تولائی کو اپنے اہل بیت اور خدام کے ہمراہ وہاں تشریف لے گئے.ڈاکٹر صاحب موصوف نے اس موقع پر پانچ کاروں اور دو بیرونی کا انتظام کیا ہوا تھا.حضور انجے صبح روانہ ہو کر پہلے منا لیک دیکھنے کے لئے تشریف لے گئے یہ کوئٹہ سے قریباً آٹھ میل کے فاصلہ پر واقع ہے.حضور اس مقام کے نظارہ سے بہت محظوظ ہوئے.ہتا لیک پر قریباً نصف گھنٹہ قیام فرمانے کے بعد حضور معہ قافلہ اوڑک پہنچے.اوڑک میں ڈاکٹر صاحب کے بڑے بھائی خان ضیاء الحق صاحب اور ان کے خاندان کے دیگر افراد انتظامی امور میں حصہ لینے اور حضور کی پیشوائی کے لئے پہلے سے پہنچے ہوئے تھے.حضور کے اہل بیت کے لئے نزدیک ہی سر کاری بنگلہ میں خاطر خواہ انتظام تھا.کھانا تیار ہونے تک حضور مختلف امور گرفت گو فرماتے رہے.نماز ظہر پڑھانے کے بعد حضور نے خدام کے ہمراہ کھانا تناول فرما یا.بعد میں حیض احمدی ه (ملخص الفضل ۲۳ - امان / مارچ هه له ما - ۶۱۹۵۶
۳۵۱ نو جوانوں نے نشانہ بازی کی مشق کی اور حضور کے علاوہ ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب اور مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم.اے نے بھی اس میں حصہ لیا.ازاں بعد حضور نے عصر کی نماز پڑھائی اور پھر معہ اہل بیت و نقدام واٹر ورکس دیکھنے تشریف لے گئے اور قریباً ساڑھے چھ بجے شام واپس کوئٹہ تشریف لے آئے لیے حضرت امیر المومنین کے پر شوکت خطبات جمعہ وعید حضرت امیر المومنین خلیفه این و الثانی المصلح الموعود کی کوٹرین حقیقت افروز تر بیتی تقریریں و مجالس علم و عرفان کو تشریف آوری سے بلوچستان روح پرور درس القرآن ا کی دینی و مذہبی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوا جس سے صوبہ بلوچستان کے لئے عموماً اور کوئٹہ کی جماعت کے لئے خصوصاً اللہ تعالیٰ کی طرف سے انوار و برکات کا ایک عظیم الشان دروازہ کھل گیا اور سنگلاخ اور پتھریلی زمین میں علوم ظاہری و باطنی کے شاہسوار کی بدولت حق و حکمت کے رُوحانی چشمے جاری ہو گئے.حضرت مصلح موعود نے مقامی جماعت کو اپنے کلمات طیبات سے مستفید فرمانے کے لئے نہ صرف احمدی دوستوں کو بکثرت انفرادی ملاقاتوں کے مواقع عطا فرمائے اور مشرف بار یا بی بخش بلکہ اجتماعی طور پر مندرجہ ذیل چار ذرائع بھی اختیار کئے : ۱.خطبات جمعہ اور عید ۲ تربیتی اجلاسوری میں تقاریر.مجالس علم و عرفانی کا انعقاد ۴ - درس القرآن - خطبات جمعہ :.سید نا حضرت مصلح موعود نے کوئٹہ میں منتقد و خطبات ارشاد فرمائے.ان خطبات میں جو اپنے اندر روح القدس کی تائید کا ایک خاص رنگ لئے ہوئے تھے حضور پُر نور نے متعدد تربیتی تنظیمی مسائل بیان فرمائے اور بے شمار نکات معرفت پر روشنی ڈالی بطور نمونہ اس دور کے بعض خطبات کے چند اقتباسات درج کرنے پر اکتفاء کیا جاتا ہے :- ۱ - " ہماری جماعت کا سب سے پہلا فرض اپنے نفس کی اصلاح ہے اور نفس کی اصلاح کے بعد خدمت خلق ہے جس میں سے مقدم چیز تبلیغ ہے.بھلا یہ کوئی عقل کی بات ہے کہ ایک طرف الفضل ۲۲ ظهور اگست ھرا ہوا صا.اس تفریحی سفر کے جملہ انتظامات ڈاکٹر محفور الحق خاں صاحب ۶۱۹۴۸ اور ان کے خاندان کی طرف سے کئے گئے تھے :
۳۵۲ تو ہم یہ دعوی کریں کہ دنیا ہمارے ہاتھ پر فتح ہو گی اور دوسری طرف دنیا کو فتح کرنے کا جو ایک ہی ذریعہ ہے یعنی اسلام اور احمدیت کی تبلیغ اس کی طرف توجہ نہ کریں.دنیا کی فتح کے یہ معنے تو نہیں کہ دنٹس نہیں آدمی ڈنڈے لے کر کھڑے ہو جائیں گے اور دو ارب کی دنیا پر حکومت شہر ہے کر دیں گے دُنیا کی فتح کے معنے ہیں کہ دنیا کی دو ارب آبادی میں سے کم از کم سوا ارب احمدی ہو جائیں اور یا پھر ان لوگوں کو اگر ہم تبلیغ نہیں کرتے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ احمدیوں کو اتنی قلات حاصل ہو جائے گی اور ساتھ ہی وہ اتنے ظالم بن جائیں گے کہ وہ دوسرے لوگوں کے حقوق کو تلف کر کے ان پر جابرانہ اور ظالمانہ حکومت کرنی شروع کر دیں گے.یا ہم یہ امید رکھتے ہیں کہ اللہ تعالی ساری دنیا کو مار ڈالے اور صرف احمدی ہی دُنیا میں باقی رہ جائیں.آخر ہم اگر تبلیغ سے کام نہیں لیتے اور ساتھ ہی یہ امید رکھتے ہیں کہ دنیا پر غالب آجائیں گے تو سوائے ان دو باتوں کے ہم دنیا پر غالب ہی کیس طرح آسکتے ہیں.دنیا پر غالب یا تم تبلیغ کے ذریعے آ سکتے ہو اور یا پھر دنیا پر غالب آنے کے یہ معنے ہوں گے کہ ہم ایٹم بم کی ایجاد کرلیں اور لوگوں کو ایسا ڈرائیں کہ ہمارے چند لاکھ آدمیوں کے سامنے سب لوگ ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہو جائیں اور جو حکم ہم انہیں دیں وہ مان لیں.گویا دوسرے لوگ وحشی اور جانور بن جائیں گے اور انکی انسانی حیثیت باقی نہیں رہے گی اور ہم ان پر ایسے چھا جائیں گے جیسے ٹڈی دل کھیتوں پر چھا جاتا ہے.کیا یہ وہی دُنیا ہے جس کا قرآن مجید اپنے مومن بندوں سے وعدہ کرتا ہے.اور کیا یہی وہ دُنیا ہے جس میں خدا کی بادشاہت ہو گی.غرض جب ہم کہتے ہیں کہ احمدیت دُنیا پر غالب آجائے گی تو یقیناً اس کے یہ معنی نہیں ہو سکتے کہ ہمیں ایسی طاقت حاصل ہو جائیگی کہ سب لوگ چوہڑوں اور چاروں کی طرح ہمارے ڈنڈے کے ڈر سے ہمارے سامنے ہاتھ جو رہے پھریں گے.اگر ہم ایسا کریں گے تو ہم یقیناً ظالمانہ حکومت کو قائم کرنے والے ہوں گے ہم یقیناً جابرانہ حکومت کو قائم کرنے والے ہوں گے.ایسی حکومت نمرود اور شداد کی حکومت کو بھی بات کرنے والی ہو گی مگر خدا تعالیٰ اپنے رسولوی کو اس غرض کے لئے دنیا میں نہیں بھیجا کرتا.دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ کوئی ایسی بیماری پڑ جائے جس سے سارے غیر احمدی
۳۵۳ مرحب ائیں اور اسی طرح سارے ہندو سکھ اور غیر مذاہب والے مر جائیں.اگر ایسا ہو توہم تو بلوچستان کو بھی آزاد نہیں کر سکتے جس کی آبادی بہت ہی کم ہے.ہمارہ: احمدی دو تین لاکھ ہیں مگر بلوچستان کی آبادی دس بارہ لاکھ کے قریب ہے.اگر ساری قوید، مر جائیں اور احمدی ہی زندہ رہ جائیں تو یہ ہلو پستان بھی ویران نظر آنے لگ جائے گا.اگر ہم کہیں کہ چلو باقی بلوچستان چھوڑ دو ہم صرف پاکستانی بلوچستان کو آباد کر لیں گے تو پاکستانی بلوچستان کی آبادی بھی چار لاکھ ہے.اس میں بھی صرف دو تین لاکھ احمدی آباد ہوں گے باقی سارا بلوچستان خالی پڑا ہو گا.اسی طرح سب کا سب چین، جاپان، انڈونیشیا ، انگلستان، فرانس، امریکہ اور دوسرے ممالک بالکل ویران اور اجاڑ ہوں گے.شیر اور چیتے ہر جگہ پھر رہے ہوں گے اور ہم دنیا کے ایک گوشہ میں بیٹھے اِس بات پر خوش ہوں گے کہ ہم نے ساری دنیا فتح کرلی ہے مگر کیا یہ مقصد کوئی اعلیٰ درجہ کا مقصد ہے ، پھر کیا چیز رہ جاتی ہے جس سے ہم دنیا کو فتح کر سکتے ہیں ، وہ یہی چیز ہے کہ تم لوگوں کو احمدی بناؤ اور احمدیت کی تبلیغ اپنے پورے زور کے ساتھ کرو یہی ایک معقول چیز ہے جو روحانی بھی ہے اور جسمانی فائدہ بھی اس سے حاصل ہوتا ہے اور جس سے دنیا کو حقیقی معنوں میں سکھ اور آرام میسر آسکتا ہے.یہ لے (خطبہ جمعہ فرموده ۸ و فار جولائی) (۲) ہمارے ایک نئے احمدی دوست ہیں بلوچستان میں ملازم ہیں ویسے یوپی کے رہنے والے ہیں وہ میرے پاس آئے اور انہوں نے مجھ سے دریافت کیا کہ وہ کونسے طریقے ہیں جن کو اختیار کرنے سے بلوچستان میں تبلیغ کامیاب ہو سکتی ہے، ایکس نے سمجھ لیا کہ ان میں اس چیز کا احساس پایا جاتا ہے اور کس نے اُن کو کئی ایک طریقے بتائے جن کو اختیار کرنے سے بلوچستان میں تبلیغ کامیاب ہو سکتی ہے.قادیان کے ارد گرد کی جماعتوں کو میں نے اس طرف توجہ دلائی تھی اور پھر تھوڑے ہی عرصہ میں جماعت کی تعداد دس بارہ ہزار سے ترقی کر کے ساٹھ ستر ہزار ہو گئی تھی.پس اگر اس طرف ذرا بھی توجہ کی جاتی تو بیشکل کام نہ تھا.جو طریقہ یہاں کی جماعت کے دوستوں نے اختیار کیا ہوا ہے یا عام طور پر احمدی جماعتیں اختیار کرتی ہیں وہ غلط ہے.دوستوں کو اس کی اصلاح کی طرف توجہ کرنی چاہئیے صیح طریقہ یہی ہے کہ تم اپنے دوستوں سے صاف معان له الفضل ، و فار جولائی ۱۲۵ ۵۰۲
۳۵۴ کہ دو کہ یا تو تم غلطی پر ہو یا میں غلطی پر ہوں.اگر تم مجھے غلطی پر سمجھتے ہو تو دوستی کا حق یہ ہے کہ تم مجھے سمجھاوتا ہیں صحیح راستہ پر آ جاؤں.اور اگر میں حق پر ہوں تو تمہیں بھی میرے ساتھ ہو جانا چاہیئے.اور اگر صحیح طور پر کام کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں ہو سکتی کہ انہیں اس طرف توجہ نہ دلائی جا سکے.خطبه فزوده ۱۶ و فار جولائی هر پارک ہاؤس کو ٹرم ہے ۶۱۹۴۸ (۳) " اس وقت خواہ ہم کتنے ہی کمزور ہوں ہم نے وقت آنے پر قادیان ضرور واپس لینا ہے.یا تو حکومت محبت اور پیار سے ہمارا قادیان ہمارے حوالے کر دے گی جیسے ہم نے بار بارہ اس سے کہا ہے کہ اس علاقہ میں رہنے والے احمدی تمہاری حکومت کے مطیع اور فرمانبردار بن کر رہیں گے لیکن اگر اس نے ایسا نہ کیا تو ہماری جماعت پر فرض ہے خواہ وہ امریکہ میں بستی ہو یا انگلستان میں، جرمنی میں یا سوئٹزرلینڈ میں ، افریقہ میں یا انڈونیشیا ہیں ، پاکستان میں یا عرب میں (سوائے اُن لوگوں کے جو ہندوستان یونین کے باشندے ہیں کہ اُن پر ہندوستان یونین کی فرمانبرداری فرض ہے کہ وہ ہر جائز اور ممکن ذریعہ سے قادیان واپس لینے کی کوشش کرے.اگر وہ صلح سے نہ ملے تو جب اُسے طاقت ملے طاقت کے زور سے اس مقام کو حاصل کرے.جو شخص صلح کے ہا تھ کورڈ کرتا ہے وہ خود تلوار کا راستہ کھولتا ہے اور سب الزام اس پر ہے " ر خطبه فرموده ۳۰ و فار جولائی هر مسجد احمدیہ کو مٹر نے 1197A (۴) اس وقت دنیا میں ہزاروں قصبات اور شہر ایسے ہیں جن میں مسلمانوں کی بنائی ہوئی مسجدیں ویران پڑی ہیں اور ان میں خدا تعالیٰ کے آگے سجدہ کرنے والا کوئی نظر نہیں آتا.بنانے والوں، نے تو انہیں اس لئے بنایا تھا کہ ان میں خدا تعالیٰ کا ذکر کیا بجائے لیکن آپ وہ ویران اور غیر آباد پڑی ہیں.اب جب تک یہ تمام مسجدیں پھر اسلام کی عظمت کا ایک زندہ نشان نہ بن جائیں ، جب تک قرآن کی حکومت پھر دنیا میں قائم نہ ہو جائے اس وقت تک اگر کوئی شخص صرف ظاہری عید پر ہی خوش ہو جاتا ہے اور نئے کپڑے پین کو سمجھ لیتا ہے کہ اُس نے عید منالی ہے تو وہ بے غیرت ہے راسی طرح وہ انسان جو ہمت ہار کر بیٹھ جاتا ہے وہ بھی نہایت ہی ذلیل اور بزدل انسان ہے.بے شک ہمارے خدا نے ہمیں ظاہری طور پر خوشی منانے کا حکم دیا ہے اور اس لئے ہم خوشی مناتے ل ه الفضل به طور / اگست ۲۶ م : له الفضل ۲۵ تبوک استمبر ی من ۶۱۹۴۸
۳۵۵ ہیں لیکن ہمیں حقیقی خوشی اسی وقت حاصل ہو گی جب دنیا میں ہر جگہ اسلام پھیل جائے گا یہ ساجد ذکر الہی کرنے والوں سے بھر جائیں گی اور جب محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم اور قرآن کی حکومت دنیا کے چنہ جیہ پر قائم ہو جائے گی.پس ہماری جماعت کے ہر فرد کو یا د رکھنا چاہیے کہ اسلام اور مسلمانوں کی موجودہ حالت کو دیکھتے ہوئے ہمارے اندرونی زخم کبھی مندمل نہیں ہونے چاہئیں جبکہ اگر ہمارے زخم کبھی مندمل ہونے نکلیں تو چا ہیئے کہ ہم اپنی انگلیوں سے ان زخموں کو پھر ہرا کر لیں کیونکہ ہماری سب سے بڑی عید اسی وقت ہوگی جب اسلام دنیا کے کناروں تک پھیل جائے گا اور دنیا کے کونہ کونہ سے اللہ کر کی آوازیں اُٹھنا شروع ہو جائیں گی." (خطبہ عید الفطر فرموده ، ظور / اگست ، پارک ہاؤس کے ۶۱۹۴۸ ✓ (۵) یا درکھنا چاہیے کہ ہم مال کے ذریعہ دنیا کے مقابلہ میں جیت نہیں سکتے.امریکہ کا ایک مالدار ہماری جماعت کی تمام جائدادیں خرید سکتا ہے اور پھر بھی اس کے خزانے میں روپیہ رہتا ہے.امریکہ کے بعض مالداروں کے پاس ہماری ساری جماعت سے زیادہ روپیہ ہے.بعض کے پاس تو بین امینی ارب روپیہ ہے اور اتنا روپیہ ہماری ساری جماعت کے پاس بھی نہیں.ان میں ایسے لوگ سینکڑوں کی تعداد میں پائے جاتے ہیں جن کے پاس اربوں روپیہ ہے.وہ لوگ ڈالروں ہیں اس کا ذکر کرتے ہیں کہ فلاں کے پاس ہزار ملین ہیں فلاں کے پاس دو ہزار فلاں کے پاس تین چار یا پانچ ہزار ملین ڈالر ہے اور یہ تین ارب روپیہ سے لے کو پندرہ ارب روپیہ تک ہو جاتا ہے ایسی قوم کا مقابلہ تم دولت سے کسی طرح کو سکتے ہو ؟ پھر ہمارے پاس دنیا وی طاقت بھی نہیں.پیشیوں کو لے لو، تجارت کو لے لو، تعلیم کو لے لو ، اور کوئے صنعت و حرفت کو لے لو، کسی چیز میں بھی تو ہم غالب نہیں آسکتے ہیں اگر ہم دنیوی لحاظ سے دیکھیں تو سیدھی بات ہے کہ ہم دوسری قوموں پر غالب نہیں آسکتے.پس اگر ہم غالب آسکتے ہیں تو محض اس طرح سے کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم کر کے اپنے آپ کو پاگل بنا دیں.اگر ہم اپنے آپکو پاگل بنا دیں تو ایک سال میں ہم وہ کام کو لیں جس سے دنیا کی کایا ہی پلٹ جائے لیکن نے جماعت کو کوئی بار تو جہ دلائی ہے کہ ہر احمدی سال میں کم از کم ایک احمدی بنائے اور کس نے حساب لگا له الفضل ۱۵- امان / مارچ ه ص ۲۳ 51941
۳۵۶ کر بھی بتایا تھا کہ اس طرح ہم دس پندرہ سال میں کہیں کے کہیں پہنچ جائیں گے.اگر ہر احمدی سالی میں ایک ایک احمدی بنائے تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ ہم اس وقت ہندوستان میں تین لاکھ ہیں ایک سال کے بعد ہم چھ لاکھ ہو جائیں گے ، دو سال کے بعد ۱۲ لاکھ ہو جائیں گے، تین سال کے بعد ہم ۲ لاکھ ہو جائیں گے ، چار سال کے بعد ۴۸ لاکھ ہو جائیں گے، ۵ سال کے بعد 94 لاکھ ہو بھائیں گے ، ہا سال کے بعد ایک کروڑہ بانو سے لاکھ ہو جائیں گے، سے سال کے بعد تین کروڑ چوراسی لاکھ ہو جائیں گے، ۸ سال کے بعد سات کروڑ اڑسٹھ لاکھ ہو جائیں گے ، 9 سال کے بعد ہاکروڑ ۳۶ لاکھ ہو جائیں گے ، ۱۰ سال کے بعد ۳۰ کروڑ ہے لاکھ ہو جائیں گے.تو دیکھو اگر ہر ایک احمدی سال میں ایک ایک احمدی بنائے تو دس سال میں کتنا بڑا تغیر پیدا ہو جاتا ہے.د خطبه جمعه فرموده ٢٤ ظهور / اگست ۱۳۳۲۷۵ ) تربیتی اجلاسوں کو خطاب : حضرت امیر المومنین نے قیام کوئٹہ کے دوران جماعتی تنظیموں کے بعض تربیتی اجلاسوں میں بھی شرکت فرمائی اور نہایت قیمتی ہدایات سے نوازا.مثلاً ، ظہور اگست کو حضور نے مجلس خدام الاحمدیہ کی ایک فروٹ پارٹی میں ایک نہایت بصیرت افروز تقریہ کی.حضور نے اپنے اس پر اثر خطاب کے آخر میں فرمایا :- جب اسلام پھیر غالب آئے گا تو ہر انسان اس میں فخر محسوس کرے گا کہ وہ اسلام کی تعلیم پر معمل کرے لیکن جب تک اسلام غالب نہیں آتا ہمیں بڑی بڑی قربانیاں کر نی پڑیں گی، ہمیں اپنے نفسوں کو مارنا ہوگا جب تک ہم اپنے نفسوں کو مار کر موجودہ رسم و رواج کے خلاف اپنے آپ کو نہیں اُبھاریں گے ، جب تک دریا کی دھار کے خلاف تیرنے کی کوشش نہ کریں گے ، جب تک ہم سلامت کی تلوار کے نیچے اور ہنسی اور مذاق کی تلوار کے نیچے اپنے سردھرنے کے لئے اپنے آپ کو تیار نہیں پاتے ، جب تک ہم سیاسی لوگوں کے اعتراضات کی تلوار کے نیچے اپنے سر دھرنے کے لئے اپنے آپ کو تیار نہیں پاتے ، جب تک ہم مذہبی اور فی لوگوں کے اعتراضات کی تلوار کے نیچے سر دھرنے کے لئے اپنے آپ کو تیار نہیں پاتے اس وقت تک ہمیں اس عظیم الشان مقصد کے پورا ہونے کی اُمید نہیں رکھنی چاہئیے.له الفضل ۱۸ر تبوک استمبر هست : i
۳۵۷ دنیا میں ایسی کوئی قوم نہیں گزری جس نے میٹھی میٹھی باتوں سے دنیا کو فتح کر لیا ہو.تومیں ہمیشہ تلواری کے سایہ تلے پڑھتی اور ترقی کرتی ہیں.انہیں دوسرے لوگوں کے اعتراضات برداشت کرنے ہی پڑتے ہیں.پس اپنے آپ کو اس کا اہل بناؤ جب تک آپ خدا اور اس کے رسول کے دیوانے نہیں بن جاتے جب تک موجودہ فیشن اور علوم کی روکو اور رسم و رواج کو کچلنے کے لئے تیار نہیں ہو جاتے جب تک تم اسلامی تعلیم کو بھاری کرنے کے لئے تیار نہیں ہو جاتے اس وقت تک اسلامی احکام کو ایک غیرمسلم کبھی بھی قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوگا ہی ہے مجالس علم و عرفان : حضور کی مجالس علم و عرفان کے انعقاد کا سلسلہ کو ئٹیں بھی برابر جاری رہا ان مجالس میں حضور نے علاوہ دوسرے اہم امور کے بعض فقہی مسائل (مثلاً ترتیب نماز وغیرہ) کے معاملہ میں بھی راہ نمائی فرمائی.سے درس القرآن : جماعت کوئٹہ کو ان با برکت اور فیوض آسمانی سے معمور ایام میں حضرت مصلح موعود کے درس قرآن کی بیش بہا نعمت بھی میسر آئی.چنانچہ اختیار افضل کے نامہ نگار کی ایک مطبوعہ رپورٹ بالا نقظہ ہو:.حضور نے از راہ نوازش اور احباب کے فائدہ کے لئے قرآن کریم کا درس جاری رکھا ہے اور عید کے بعد بھی ہر روز عصر کے بعد ایک گھنٹہ درس ہوتا ہے.حضور اقدس آجکل سورۃ کوثر کی تفسیر بیان فرما رہتے ہیں جس میں حضور آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ہر پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے بیان فرماتے ہیں کہ ہر شعبہ میں خدا تعالیٰ نے آنحضرت مسلم کو انتہائی درجہ کی ترقی عطا فرمائی یعنی کو شریط فرمایا.درس کے دوران میں بھی مسلمانوں کے ہر طبقہ کے لوگ آتے ہیں اور حضور کے واریس کوشن کر ان غلط افواہوں کی تردید کرتے ہوئے چلے بھاتے ہیں جو مولویوں نے اُن کے کانوں میں ڈالی ہوتی ہیں.یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے جو جماعت احمدیہ کوئٹہ پر اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے" سے ایک اور رپورٹ میں لکھا ہے :.کوئٹہ پیش ہے.آج دریں القرآن شروع ہونے سے قبل ایک عیسائی دوست نے بہت کی.اسکی بند حضور نے سورۃ کوثر کا ۱۳۲۶ ه الفضل ۲۵ طور اگست من له الفضل ۲۷ احسان رمون هم صدا مش 11900 الفضل ۲۱ ظهور/ اگست ۱۳۲ من 114
۳۵۸ وری یا اور آمین نہایت ہی لطیف انداز میں اسلامی عبادت نماز کو دیگر مذاہب کی عبادتوں، پر افضل او برتر ثابت کیا.فرمایا.مذہب اسلام تمام اقوام عالم کے لئے ہے اسی طرح اس کی عبادت نماز بھی.اس لئے نماز میں تمام حرکات ایسی رکھی گئی ہیں جو کسی نہ کسی قوم میں تعظیم کی علامت ہیں.مثلاً بعض اقوام میں مجھکنا بعض میں سیدھے کھڑے ہونا، بعض میں ہاتھ باندھنا، لبعض میں سجدہ کو تعظیم کی علامت سمجھا جاتا ہے.اس لئے ہر قوم کے جذبات کو مد نظر رکھتے ہوئے نماز میں تمام تعظیمی حرکات کو اکٹھا کر دیا گیا تا کہ ہر قوم کے افراد کو یہ عبادت بجالانے میں آسانی رہے؟ سے الفضل کے نامہ نگار خصوصی کا بیان ہے علمائے کوئٹہ کی مخالفت اور سعید الغطرت ا جون ۱۹۴۷ء کو حضور کوئٹہ میں لوگوں کا احمدیت کی طرف رجوع دارد ہوئے.دن گزرتے گئے لیکن کوئٹہ کی ) پبلک میں احمدیت کے متعلق کوئی حرکت نہ تھی حضور نے یہاں دو تقاریر پاکستان کے مستقبل کے متعلق کیں.گو پبلک نے انہیں بے حد پسند کیا لیکن بعض اخباروں نے اس اچھے اثر کو جو پلک نے قبول کیا تھا زائل کرنے کی کوشش کی لیکن ان کا اثر اتنا نہ ہوا تھا کہ پبلک میں ایک تہلکہ مچ جاتا حضور نے ایک خطبہ جمعہ میں اس کا اظہار فرمایا کہ خدا تعالیٰ کسی حکمت کے ماتحت مجھے یہاں لے آیا ہے.شاید اس لئے کہ بلوچستان کا چھوٹا صوبہ ہے اور اس میں احمدیت جلدی پھیل جائے.اور دوستوں کو فریضہ تبلیغ کی طرف متوجہ فرمایا.ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے مقدس مصلح موعود خلیفہ ایسی الشافع کی بات کو پورا کرنے کے آثار ظاہر کرنے شروع فرما دئیے.مولویوں نے ایک اشتہار لکھا فتنہ قادیان سے بچو " اس کا عنوان تھا.اس میں انہوں نے کفر کا فتویٰ لگایا اور شہر کے مختلف مقامات پر انہیں چسپاں کیا.پبلک جگہوں پر مولویوں نے تقاریر کیں اور پبلک کو غلط پراپیگنڈا کر کے جماعت احمدیہ کے خلاف بھڑ کا یا.وہ سمجھتے تھے کہ پبلک کو مشتعل کر کے جماعت احمدیہ کو کوئٹہ سے ختم کر دیں گے لیکن انہیں یہ امر بھول گیا کہ انبیاء کی جماعتیں ترقی ہی ایسی مخالف فضا میں پاتی ہیں.مخالفتیں اعلیٰ کھاد کا کام کرتی ہیں اور جماعت کی مضبوطی کا باعث بنتی ہیں.مولویوں نے خطبہ جمعہ بھی احمدیت کی مخالفت کرنے کے لئے وقف کر دیا اور گالیاں له الفضل ۱۳ ظهور/ اگست ۱۳۲ حت کالم !؟ ۶۱۹۴۸
۳۵۹ دینا اپنا شیوہ بنا لیا.اس اشتعال کو دیکھ کر سعید روحوں میں تحقیق اور جستجو کی خواہش پیدا ہوئی انہوں نے تحقیق حق کرنے کے لئے ضروری سمجھا کہ وہ ہمارے پاس آئیں اور خدا کے مصلح موعود کے چہرہ مقدس کو دیکھیں اور اصل حقیقت سے آگاہی حاصل کریں.مخالف طبقہ نے اس خیال سے آنا شروع کیا کہ وہ اس سلسلہ کو نیست و نابود کرنے کا طریقہ تلاش کریں.چنانچہ عید کے بعد لوگوں کے گروہ در گروہ آنے شروع ہوئے.بوڑھے، بچے اور جوان اور ہر قسم کے طبقہ کے لوگوں نے حضور کی قیام گاہ پر آنا شروع کر دیا.اس وقت سے عجیب ایمان افروزہ ماحول پیدا ہو گیا ہے.ٹولیاں آتی ہیں جاتی ہیں، آکر تبادلۂ خیالات کرتی ہیں اور اصل حقیقت کو معلوم کر کے اس سے استفادہ کرتی ہیں بعضور پُر نور سے ملاقات کر کے ان کے مشتعل جذبات نہ صرف ائل ہو جاتے بلکہ ان کے دل اس بارے پر مجبور ہو جاتے کہ وہ شہدا کے پاک مصلح موعود کو خدا رسیدہ ہستی یقین کریں چنانچہ حق کے پیاسوں کے لئے یہ ایک نادر موقع تھا اور اکثر اس سے فائدہ اُٹھاتے بھی تھے جس روز سے شورش پیدا ہوئی اُسی دن سے سعید الفطرت لوگوں کا حق کی طرف رجوع ہونا شروع ہوا.چنانچہ مورخہ ۱۴ کو پیار اشخاص بیعت میں داخل ہوئے.ایک شخص صبح آیا ملاقات کی اور بعیت بھی ساتھ ہی کر لی.ایک شخص نے ظہر کی نماز کے بعد اور دو افراد نے درس قرآن کریم کے بعد دستی بیعت کی "ا ڈاکٹر میجرمحمود احمد صاحب کی منظور پر اگت کا واقع ہے کہ ہار ہے شب حضرت ۱۹ بجے مصلح موعود کی قیام گاہ واقع لٹن روڈ کے قریب بعض المناک شہادت شورش پسندوں نے احمدیت کی مخالفت میں ایک جلسہ منعقد کیا جس میں انتہائی اشتعال انگیز تقریریں کی گئیں.جلسہ کے دوران ایک مخلص اور ہونہار احمدی نوجوان ڈاکٹر میجر محمد احمد صاحب کا وہاں سے اچانک گزر ہوا.کیا دیکھتے ہیں کہ مشتعل ہجوم ایک احمدی کو خواہ مخواہ پیٹ رہا ہے میجر صاحب نے اپنی موٹر روک لی اور اس شور وشر کی وجہ دریافت فرمائی.اس پر بعض غنڈوں نے آپ پر پتھر برسانے شروع کر دیئے اور موٹر پر بھی نشست باری کی اور له الفضل ۲۱ ظهور/ اگست هام : ۶۱۹۴۸
تعاقب کرتے ہوئے قریب کی جگہ میں ہی آپ کو چھرا گھونپ کر شہید کر دیا ہے ڈاکٹر میجر محمود احمد صاحب کی اس المناک شہادت نے ایک نوجوان کے اندر ایمانی حرارت پیدا کر کے اسے مجبور کیا کہ وہ احمدیت میں داخل ہو جائے چنا نچہ وہ شہادت کے معاً بعد حضور کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضور کے دست مبارک پر بیعت کر لی.نمازہ ظہر کے بعد ایک اور دوست نے بھی حضور کے ہاتھ پر بیعت کی.اس طرح دو افرا د سلسلہ میں شامل ہوئے.ڈاکٹر صاحب شہید کی نعش مبارک غسل دینے کے بعد چھ بجے کے قریب ان کے مکان سے پارک ہاؤس لائی گئی.تقریباً تمام احمدی دوست اس جنازہ کے ساتھ شامل تھے اور ان کے پیچھے پولیس کی لاری تھی بعضور نے نماز عصر کے بعد شہید کا چہرہ دیکھا اور نماز جنازہ پڑہائی بجے کے قریب دوستوں نے نعش مبارک کو اٹھایا اور قبرستان کی طرف روانہ ہوئے.حضور پر نور بھی ساتھ تشریف لے گئے.تمام احمدی دوست اپنے بھائی کی جدائی پر افسردہ اور آخری خدمت کرنے کیلئے بیتاب تھے.ہر ایک کی خواہش تھی کہ وہ اپنے بھائی کی نعش کو کندھار ہے.اور وہ اس خواہش کو پورا کرتے ہوئے دیکھائی دے رہا تھا.قبرستان پارک ہاؤس سے کوئی اڑھائی تین میل کے فاصلہ پر تھا اور وہاں پہنچنے تک کوئی ایک گھنٹہ صرف ہوا نعش کو جب صندوق میں جو قبر میں رکھا جا چکا تھا اُتارا جا رہا تھا تو حضور نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ اگر کسی نعش کو معین عرصہ کے لئے دفن کیا جائے تو اس عرصہ کے اندر ہی نکالی جا سکتی ہے.فرمایا یہ ایک وہم ہے زمین کے سپرد ایک امانت کی جا سکتی ہے جس وقت چاہیے واپس لی جاسکتی ہے.اس طرح میت کو بغیر کسی عرصہ کے تعین کے امانتا و فن کر دیا گیا.دفن کرنے کے بعد تمام دوست کھڑے تھے اور گور کن قبر کی مٹی کو ٹھیک کو رہا تھا تو اس وقت حضور نے فرمایا کہ دفنانے کے بعد جو دعا پڑھی جاتی ہے اس سے عام لوگ *" لے ڈاکٹر میجر محمود شہید امرتسر کی مشہور احمدی قاضی فیملی کے چشم و چراغ ، قاضی محمد شریف صاحب ریٹائرڈ انجنیر لائل پور کے مما جزا دے اور قاضی محمد اسلم صاحب ایم.اے (کینٹ ) سابق پرنسپل تعلیم الاسلام کا لج کے بھتیجے تھے.بہت متدین نوجوان تھے زمانہ درویشی کے ابتدائی ایام نایت و فان ماری سے قادیان میں گزار ہے اور گورا نتنا طبی خدمات بجا لاتے رہیے ہے
۳۶۱ نا واقف ہوتے ہیں ان کی واقفیت کے لئے بتانا چاہتا ہوں کہ وہ مختصر دعا یہ ہوتی ہے کہ اسے خدا ہم جو آخری خدمت اس بھائی کی کر سکتے تھے وہ ہم نے کر دی ہے.سیب اس کے پاس فرشتے سوال و جواب کرنے کے لئے آئیں تو ان کے سوال وجواب کو اپنے فضل سے آسان کر دیں.جب قبر ٹھیک ہوگئی تو حضور نے دعا فرمائی.سو میجر محمود کے دردناک سانحہ شہادت پر بلوچستان اور بلوچستان اور پنجاب کے مشہور پنجاب کے فرض شناس اخبارات نے خصوصی شد اخبارات کی طرف سے پر زور مذمت لکھے جی میں اس فعل کی سخت موقت کی اور مسلمان این جن پاکستان سے اپیل کی کہ وہ اسلامی رواداری کا ثبوت دیں اور قانون کو ہاتھ میں لے کر تشدہ کا طریق اختیار کرنے کو ہمیشہ کے لئے ترک کر دیں نیز حکومت سے پر زور مطالبہ کیا کہ وہ قاتل کو کیفر کر دار تک پہنچائے.چنانچہ جدید نظام انے واقعہ شہادت سے متاثر ہو کر مندرجہ ذیل اداریہ سپر و قلم کیا.مملکت خداداد پاکستان مسلمان کو کن دشواریوں کے بعد حاصل ہوئی.گزشتہ آٹھ سالہ دوربین مسلمانوں کو اپنے اس مطالبہ کو پائیہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے کن کن دشوار گزار مراحل سے گزرنا پڑا یغیروں کے علاوہ اپنوں کی بیجا مخالفت کا اس طرح مقابلہ کرنا پڑا کہ انگریز اور ہندو کی ملی بھگت کا بھانڈا کیس طرح چوراہے میں پھوڑ دیا ؟ کن کن مصائب کو برداشت کر کے مخالفین کا منہ بند کیا گیا ؟ کیا سرمائی سلمانوں کے ماؤف دماغوں پر مستقل کرنے کے لئے صرف سختیاں سیٹیں.ہوا مسلمانوں کو حکمرانی کے تخیل سے دوبارہ روشناس کرانے کے لئے کتنی محنت کرنی پڑی یا یہ تمام حقائق ایسے ہیں کہ سیاسی دنیا کا بچہ بچہ ان سمالات سے واقف ہے اور اب ان واقعات ، ان مصائب، ان تکالیف ، اپنوں کی دانشمندی بیگانوں کی پر زور مخالفت وغیرہ وغیرہ کی تفصیلات کو دہرانا تضیع اوقات سے زیادہ کچھ اہمیت نہیں رکھتا مختصر یہ کہ خدا نے ان تمام تکالیف ، صبر آزما انتظار، ان تھک مساعی کا نتیجہ اس شکل میں ظاہر کیا کہ آج ہم فرکے ساتھ آزاد سلطنت کے آزاد شہری کہلا سکتے ہیں.بخدائے غزہ میل کا یہ انعام مسلمانوں کے لئے ایک رحمت کا پیغام ہے.سالہا سال تک خواب غفلت میں رہنے کے بعد مسلمانوں نے تھوڑی سی ہمت اور محنت سے کام لیا تقلیل الفضل ۲۸ ظهور اگست حریم کالم عابد له ٢٨ جدیہ ہے.ہے
وصہ کے لئے ضبط و نظم کے بھولے ہوئے سبق کو اپنا یا مختصر سے عرصہ کے لئے بنیان مرصوص بنے.چند سانوں کے لئے امیر اور اطاعت امیر کو پورے طور پر نہ سہی ادھورے طور پر تو سمجھا تو خدا نے اپنے وعدے کے مطابق اس کی محنتوں کو ضائع نہ ہونے دیا اور اس کے اس عمل کا صلہ اس صورت میں دیا کہ اُسے ایک بار پھر حکمرانی کا موقع عطا فرمایا ہم سمجھتے ہیں کہ مسلمان کی سابقہ کا وشوں، اس کے گزشتہ ضبط و نظم کا میلہ اس سے زیادہ مل بھی نہ سکتا تھا لیکن اب اس کے سامنے ایک منزل ہے.خدا نے اسے ایک بار موقع عطا فرمایا ہے کہ وہ جہاں گیری و جہاں بانی کی روایات کو زندہ کرے اپنے پیم عمل سے وقت کے قیصر و کسریٰ کی اکٹڑی ہوئی گردنیں خم کر سکے لیکن یہ سب کچھ اُس وقت ہو سکتا ہے جبکہ مسلمانان پاکستان زیادہ سے زیادہ ضبط و نظم، زیادہ سے زیادہ اخترت و مساوات سے کام لیں مسلمانوں کو ان تمام امور کا اب عملی تجربہ ہو چکا ہے.سالہا سال کی غلامی کے بعد ان کی زنگ آلود ذہنیت میں جو چمک پیدا ہوئی ہے وہ اس عمل کا نتیجہ ہے جس کا مظاہرہ گزشتہ آٹھ سال میں کیا گیا اور اب ضرورت ہے کہ ہم اس چمک میں اتنی تیزی پیدا کریں کہ غیروں کی نگا ہیں چکا چوند ہو کر رہ جائیں اس لئے پھر یہی کہنا پڑتا ہے کہ مسلمانوں کو پہلے سے زیادہ ہمت پہلے سے زیادہ بلند حوصلگی اور ایثار و قربانی کا حامل بنا پڑے گا.دیو بندی اور بریلوی کے قصے ختم کرنے ہوں گے.احمدی اور غیر احمدی کا امتیاز مٹانا ہو گا منفی اور شافعی کے جھگڑوں کو خیر باد کہنا ہوگا، احرار اور خاکسار کی بیں ختم کر تی ہوگی یہی ایک صورت ہے جیسے اپنا کہ ہم خاک و طارق کی روایات کو زندہ کر سکتے ہیں.ہمیں افسوس ہے کہ ابھی تک ہم اس مقام پر نہیں پہنچ سکے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ کوئٹہ میں ایک نوجوان ڈاکٹر کو چند جنونیوں نے قتل کر دیا.اس کا جرم یہ تھا کہ وہ دو پارٹیوں کو جھگڑے سے منع کرنے کے لئے چلتا چلتا رک گیا یا یہ کہ وہ احمدی خیالات رکھتا تھا ہمیں احمدیوں کی وکالت منظور نہیں لیکن غیرمسلموں کے مظالم احمدی، غیر احمدی، شافعی منبلی، خاکسار میں تمیز روا نہیں رکھتے.بہار کے قتل عام میں ایسے صدہا مسلمانوں کو شہید کیا گیا جو سالہا سال تک کانگرس کو وفادار رہنے کے سرٹیفیکیٹ دکھاتے رہے.حال ہی میں حکومت مشرقی پنجاب نے مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی پشیخ حسام الدین اور سکندر مرزا جیسے ملت فروش اور کٹر کا نگریسی مسلمانوں کی جان کی حفاظت کا ذمہ لینے سے انکار کر دیا تھا.مشرقی پنجاب میں کسی مسلمان کا خاکساریا کا نگریسی یا احمدی ہونا اس کی جہان کو نہ بچا سکا.غنڈوں کا خنجر
۳۶۳ سب کے گلے پر یکساں روانی دکھاتا رہا.بھانڈا دیں گئیں توسب کی عصمتیں لٹیں توسب کی تو پھر کیا یہ سانحہ عظیمہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی نہیں ؟ عبرت حاصل کرنے کا اس سے بڑھ کر موقع کو نا آسکتا ہے؟ اس لئے ہم مسلمانان پاکستان سے دردمندانہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ باہمی اختلافات کو فی الفور ختم کر کے ایک ایسا متحدہ محاذ قائم کریں جس کے ساتھ ٹکر انے والی طاغوتی طاقت پاش پاش ہو جائے گی یا اے اخبارہ احسان (لاہور) نے حسب ذیل ادارتی نوٹ شائع کیا :.قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لیجئے :.مرزائی فرقے کے متعلق ہمارے ہو خیالات ہیں وہ قارئین کرام پر واضح ہیں لیکن ہمیں یہ جان کو بہت دکھ ہوا کہ پچھلے دنوں کوئٹہ میں مرزائیوں کے ایک جلسے کے خلاف مظاہرے کرتے ہوئے بعض لوگوں نے حد سے بڑھے ہوئے اشتعال کا ثبوت دیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک معزز مرزائی ڈاکٹر میجر محمود کو نہایت بے دردی سے قتل کر دیا گیا.اگر اختلاف رائے کا مطلب یہی لیا جانے لگے کہ ہر شخص قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر جو چاہئے کہ گزرے تو اس کے نتائج مرزائیوں کے لئے نہیں عام مسلمانوں کے لئے (بھی) نہایت بھیانک ہوں گے اس لئے ہم میں سے ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ اس قسم کی ذہنیت کے خلاف شدید احتجاج کرے اور اس فتنے کو پھیلنے سے روکے.مرزائی مسلمان ہوں یا نہ ہوں ہر حال وہ پاکستان کے شہری ہیں اور ایک شہری کی حیثیت سے ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت ہم سب پر لازم ہے یا ہے.اخبار" انقلاب (لاہور) نے ڈاکٹر میجر محمود کا قتل کے عنوان سے مندرجہ ذیل ادارتی نوٹ لکھا:.۲۰ اگست کا ذکر ہے کوئٹہ میں لٹن روڈ کے قریب عوام نے احمدیت کی مخالفت میں ایک جلسہ منعقد کیا اور جوش و خروش کے عالم میں چند احمدیوں کو زد و کوب کرنے لگے.اس وقت ایک احمدی ڈاکٹر میجر محمود احمد وہاں سے گزرے تو یہ منظر دیکھ کر انہوں نے اپنی موٹر کار روک لی اور اس شور وشر کی وجہ دریافت کی.اس پر حاضرین جلسہ نے اُن کی موٹر پر پتھر برسائے اور میجر صاحب کا تعاقب کر کے ان کے چھرا گھونپ دیا جس سے اُن کا انتقال ہو گیا.یہ واقعہ صرف افسوسناک ہی نہیں بلکہ له الفضل سور تبوک استمبر هم له اخبار احسان" بحواله الفضل هم تبوك رستمبر ه : ۱۳۲۷ ۶۱۹۴۸
۳۶۴ شرمناک ہے.تحریک پاکستان کے دوران میں قائد اعظم کی حقیقت بینی اور روشن خیالی کی وجہ سے فرقہ پرستانہ رحجانات کا قلع قمع ہو گیا تھا چنانچہ حکومت پاکستان میں شیعہ اشتی ، احمدی ہر فرقے کے بزرگ شامل ہیں اور کبھی عامتہ المسلمین کی طرف سے ان کے عقائد کا سوال نہیں اُٹھایا گیا پھر خدا جانے بعض لوگ فرقہ پرستی کے جنون میں کیوں اس قدر سرشار ہو گئے کہ انہوں نے کوئٹہ میں فنڈ اپن اختیار کر کے پاکستان کے ایک قابل اور نیک ڈاکٹر کو محض اس لئے ہلاک کر دیا کہ وہ احمدی تھا.ہماری حکومتیں اپنے سیاسی مخالفوں کی دار و گیر میں بے حد مصروف ہیں اور انہیں پاکستان کا دشمن قرار دے رہی ہیں حالانکہ پاکستان کے حقیقی دشمن وہ ہیں جو مذہبی فرقہ بندی کی بناء پر قتل و غارت کا ہنگامہ برپا کرنے میں مصروف ہیں.اس قسم کے خطرناک رجحانات کو نہایت سختی سے دبانے کی ضرورت ہے.حکومت پاکستان کو چاہیے کہ میر محمود احمد کے قاتلوں کو جلد سے جلد کیفر کردار تک پہنچانے کی کوشش کر ہے.میجر صاحب مرحوم خان بہادر ڈاکٹر محمد بشیر اور پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب کے بھتیجے تھے ہمیں تمام افراد خاندان سے اس حادثہ میں دلی ہمدردی ہے.اے اسی اخبار نے کئی ہفتہ بعد دوبارہ اس موضوع پر قلم اٹھاتے ہوئے لکھا:.آج سے کئی ہفتے پیشتر کوئٹہ میں ایک نہایت قابل ، ہر دلعزیزیہ اور جوان ڈاکٹر محمود احمد کو بعض غنڈوں نے فرقہ پرستی کے ایک ہنگامہ میں قتل کر دیا.حالانکہ اس کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ لوگوں کو لڑنے بھڑنے سے روک رہا تھا.کوئٹہ میں اور پنجاب کے اکثر مقامات پر بھی ڈاکٹر محمود کے اس خونِ ناحق پر بے حد رنج و تاسف کا اظہار کیا گیا.لیکن بے انتہار تعجب کا مقام ہے کہ آپ تک کوئٹہ پولیس نے اس سلسلہ میں کوئی گرفتاری تک نہیں کی حالانکہ یہ علوم کرنا کچھ بھی مشکل نہیں تھا کہ کون کون لوگ مرحوم پر قاتلانہ حملہ میں شریک تھے اور تھوڑی سی تفتیش قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے کافی تھی محکام بلوچستان کو اس معاملہ میں خاص تو قبہ سے کام لینا چاہیئے ورنہ ایسے قاتلوں کی حوصلہ افزائی ہوگی اور قانون و انتظام کا وقار خاک میں مل جائے گا.کیا ہم امید رکھیں کہ پولیس جلد از جلد اپنا قرض ادا کرنے گئی.کہے انقلاب ۲۹ اگست ۹۶۱۹۴۸ سه انقلاب ۲۰ اکتوبر ۱۹۴۸ء تجواله الفضل ۱۲۰ اکتوبر ۶۱۹۴۸
۳۶۵ فادات پنجاب کی تحقیقاتی عدالت کی فسادات پنجاب سود کی تحقیقاتی عدالت کے فاضل کی لکھتے ہیں :..رپورٹ میں تذکرہ ججان جسٹس محمد منیر اور ایم آر کیانی نے اپنی رپورٹ میں اس حاوثہ دل گدازہ کا ذکر خاص طور پر کیا.چنانچہ میجرمحمود کا قتل مرزا بشیرالدین محمد احمد شاہ کے موسم گرما میں بمقام کوٹہ مقیم تھے.ان کی موجودگی میں، ایک نوجوان فوجی افسر میجر محمد د جو احمدی مقا نهایت وحشیانہ طریقے سے قتل کر دیا گیا.ریلوے کے مسلم ملازمین کی ایسوسی ایشن نے ایک جلسہ عام کا اعلان کیا تھا جوا اور اگست ۱۹۲ء کو منعقد ہوا.اس جلسے میں بعض مولویوں نے تقریریں کیں اور ہر شخص نے اپنی تقریر کے لئے ایک اپنی موضوع یعنی " ختم نبوت اختیار کیا.ان تقریروں کے دوران میں قادیانیوں کے کفر اور اس کے نتائج کی طرف بار بار اشارے کئے گئے.ابھی یہ جلسہ منعقد ہو رہا تھا کہ میجر محمود ایک مریض کو دیکھنے کے بعد واپس آتے ہوئے جلسہ گاہ کے پاس سے گزرے.اتفاق سے ان کی موٹر کار جلسہ گاہ کے قریب ٹھہر گئی اور اس کو دوبارہ چلانے کی ہر کوشش ناکام ہوگئی.عین اس موقع پر ایک ہجوم موٹر کار کی طرف بڑھا اور اس نے میجر محمود کو گھسیٹ کر نیچے اُتار لیا میجر محمود نے بھاگنے کی کوشش کی لیکن ان کا تعاقب کیا گیا اور آخر پتھر اور چھرے مار مار کر ان کو ہلاک کر دیا گیا.اُن کی پوری انٹریاں پیٹ سے باہر نکل آئی تھیں.ان کی نعش کے پوسٹ مارٹم معائنہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے جسم پر گند اور تیز دھار والے ہتھیاروں سے لگائے ہوئے چھتیس زخم تھے.اور موت ایک تو جھوٹے سے اور دوسر داخل جریان خون سے واقع ہوئی جو بائیں پھیپڑے بائیں گردے اور ٹیگور کے دائیں کنارے کے زخموں سے بھاری ہوا تھا.کوئی شخص بھی اسلامی شجاعت کے اس کارنامے کی نیک نامی لینے پہ آمادہ نہ ہوا اور بے شمار معینی شاہدوں میں ایک بھی ایسا نہ نکلا جو ان غازیوں کی نشان دہی کر سکتا یا کرنے کا خواہش مند ہوتا جن سے یہ بہادرانہ فعل صادر ہوا تھا.لہذا اصل مجرم شناخت نہ کئے جاسکے اور مقدمہ بے سراغ ہی داخل دفتر کر دیا گیا ہے لے اصل واقعہ ار کی بجائے 19 اگست کا ہے.(مولعنه) ، سے ترجمہ رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۱۹۵۳ ص و ص ہے کے ''
ضرت مصلح موعود پر اس واقعہ کا جو فوری رد عمل ہوا وہ حضور حضرت مصلح موعود کا رد عمل نے اور ظہور/ اگست کے خطبہ جمعہ میں بایں الفاظ بیان رمایا :- ۶۱۹۴۸ میجر محمود صاحب کی شہادت کے واقعہ کا رد عمل لوگوں کے اپنے اپنے نظریہ کے مطابق ہوا ہو گا.بعض کا برا اور غیر اسلامی رد عمل ہوگا اور بعض کے نزدیک اس کا رو عمل اچھا ہوا ہوگا.یہ حملہ جو میر محمود پر کیا گیا ہے تو اتفاقی حادثہ ، در حقیقت یہ حملہ احمدیت پر کیا گیا ہے میجر محمود تو وہاں " اتفاقاً پہلے گئے اگر کوئی اور احمدی ہوتا تو اس کے ساتھ بھی یہی واقعہ پیش آتا کیونکہ میر محمود پر کسی ذاتی عناد کی وجہ سے حملہ نہیں کیا گیا بلکہ ان کے احمدی ہونے کی وجہ سے ہوا ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ جماعت کے دوستوں نے تبلیغ کی طرف توجہ نہیں دی.انہوں نے اپنے عقائد کو لوگوں پر واضح نہیں کیا اگر انہوں نے بتایا ہوتا کہ جماعت احمدیہ کے یہ عقائد ہیں تو ان سے یہ حرکت سرزد نہ ہوتی.انہوں نے اگر شہید کیا ہے تو اس عقیدہ کے ماتحت کیا ہے کہ ان کا یہ فعل انہیں خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والا ہو گا.اس واقعہ سے ہمارے اندر جو ردعمل ہونا چاہیے وہ یہ ہے کہ ہم پہلے سے بھی زیادہ انہماک اور تندہی سے تبلیغ کی طرف متوجہ ہوں.مامورین کی جماعتوں پر ظلم ہوتے ہیں اور وہ ظلموں کے نیچے ہی بڑھتی اور پھولتی ہیں.دشمنوں میں بھی مشریف الطبع انسان ہوتے ہیں ان کے اندر ظلموں کو دیکھ کر دلیری پیدا ہو جاتی ہے اور سلسلہ میں داخل ہو جاتے ہیں چنانچہ میجر محمود کی شہادت کے بعد ایک دوست آئے اُن کے دل میں احمدیت کی پنچائی گھر کر گئی ہوئی تھی لیکن ایمانی جرأت پیدا نہ ہوئی تھی اِس واقعہ نے ان کے اندر جرات پیدا کر دی اور وہ یہ کہتے ہوئے کہ میجر محمود احمد صاحب شہید کی خالی جگہ اور اس کمی کو پورا کرنے کے لئے یکن احمدیت میں داخل ہوتا ہوں، احمدیت میں داخل ہو گئے.آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی حضرت حمزہ اور حضرت عمرہ کے واقعات اس کی تصدیق کرتے ہیں.وہ ظلموں سے متاثر ہو کر ایمان کی روشنی سے منور ہوئے تھے.تو اس قسم کے ظلم و تشدد کے واقعات جماعت کی ترقی کا باعث ہوتے ہیں.اِس لئے ہمیں زیادہ سے زیادہ وقت تبلیغ پر صرف کرنا چاہئیے تا صحیح عقائد ان پر واضح ہو جائیں اور احمدیت کی سچائی کھل جائے یا اے له الفضل ۲۸ ظهور/ اگست صدا کالم لا : ۶۱۹۴۸
حضرت مصلح موعود کے قلبی تاثرات حضرت مصلح موعود نے سفر کوئٹہ کے آخری خطبہ جمعہ میں جو حضور نے ۳.ماہ تبوک استمبر کو پارک ہاؤس اور پر جلال پیشگوئی میں ارشاد فرمایا، میجر محمود کے واقعہ شہادت پر دوبارہ اپنے قلبی تاثرات کا اظہار فرمایا اور اس کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ پیر جلال پیش گوئی فرمائی کہ خدا کی بادشاہت کے دن قریب ہیں اور وہ زمانہ جلد آ رہا ہے جبکہ دنیا کے سب ملکوں پر اسلام و احمدیت کا جھنڈا پوری شان و شوکت کے ساتھ بہرائے گا.چنانچہ حضور نے فرمایا :- " میرے یہاں آنے پر مخالفت شروع ہو گئی.ہمارے خلاف باتیں کی جانے لگیں.جماعت احمدیہ پر اتہام لگانے شروع کر دیئے گئے اور مخالفین نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ہم قرآن کو منسوخ سمجھتے ہیں.گویا جتنے منہ تھے اتنی باتیں شروع ہو گئیں.وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ وہ ایسی باتیں کر کے ہمارا ہی شکار ہو رہے ہیں.در حقیقت مخالفت کے ذریعہ ہی لوگوں میں خدائی سلسلہ کی طرف تو یقہ پیدا ہوتی ہے اگر ہم یہاں آتے اور ہماری مخالفت نہ ہوتی تو کوئی ہماری طرف توجہ نہ کرتا بلکہ کسی کو ہمارے یہاں آنے کا پتہ بھی نہ لگ سکتا.اگر ہمارے آدمی دوسروں کے پاس جاتے تو وہ کہہ دیتے.اپنے منہ میاں میٹھو.لوگ کہتے کوئی ہوگا جو یہاں آگیا ہے لیکن مولویوں نے ہمارے خلاف تقریریں شروع کر دیں اور لوگوں نے سمجھ لیا کہ یہ کوئی بڑی چیز ہے معمولی چیز نہیں تبھی تو یہ لوگ اس کی مخالفت کر رہے ہیں.پتی کے آنے پر تو شور نہیں مچایا جاتا شیر کے آنے پر شور مچایا جاتا ہے، اس طرح یہ لوگ خود ہی ہمارے شکار ہونے لگے.جب میں نے دیکھا کہ احمدیت کے لئے یہاں رستہ کھل گیا ہے تو میں نے درس دینا شروع کر دیا تا احمدیت اور اسلام کی عظمت ظاہر ہو میرے اندر ایک بے کلی سی تھی جس کی وجہ سے میں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ جو تفسیر میکں نے لکھواتی ہے اس کا درس یہاں دے دوں لکھنے والے لکھتے جائیں گے اور سننے والے اس سے فائدہ اُٹھا سکیں گے.چونکہ لوگوں میں پہلے ہی رغبت پیدا ہو چکی تھی اس لئے لوگوں نے یہاں آنا شروع کر دیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ مہینہ کے آخر تک پانچ چھے سو آدمیوں نے ہمارے خیالات سنے اور پھر اپنے خیالات کا اظہار کیا کسی نے ہماری تائید میں اپنے خیالات کا اظہار کیا اور کسی نے ہماری مخالفت ہیں.اور پھر خدا تعالیٰ نے ایک اور ذریعہ بنا دیا کہ لوگوں نے جوش میں آکر ایک احمدی نوجوان کو شہید کر دیا.میں نے یہ مجھ لیا کہ اب ہم ہی کامیاب ہوں گے اور فتح ہماری ہی ہوگی.
۳۶۸ زمین میں جب کوئی بیچ ڈالا جاتا ہے تو اس سے وہی چیز اگتی ہے جس کا وہ بیچ ہوتا ہے.جب زمین میں ہم گندم کا بیچ ڈالتے ہیں تو اس سے گندم پیدا ہوتی ہے اور جب انسان کا بیج ڈالتے ہیں تو اس سے انسان پیدا ہوتے ہیں.پس یہاں کے لوگوں نے ایک احمدی کو شہید کر کے بلوچستان میں احمدیت کا بیج بو دیا ہے اب اس کا مٹانا ان کے اختیار میں نہیں رہا دُنیا کی کوئی طاقت اسے مٹا نہیں سکتی.یہ پیچ پڑھے گا اور ترقی کرے گا اور ایک وقت ایسا آئے گا کہ وہ ایک تن آور درخت بن جائے گا...خدا کی طاقتوں کا مقابلہ کرنا کس کے اختیار میں ہے خدا تعالیٰ کی تدبیریں بعد اگا نہ ہوتی ہیں وہ اپنے کاموں میں نرالا ہے، وہ اپنی حکمتوں میں عجیب ہے اس کے کنہہ کو پہنچنا انسانی عقل کے اختیار میں نہیں.پس خدا تعالیٰ نے میرے اس سفر کو جس کی غرض یہاں رمضان کا گزارنا تھا اگر چہ یہاں کوئی زیادہ سردی نہیں اگر ہم مرکی چلے جاتے تو شاید اس سے بہتر رہتا، ایک دینی سفر بنا دیا اور اس کو ایک خاص اہمیت بخش دی.میں سمجھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی بادشاہت کے دن آب قریب ہیں میں خدا تعالیٰ کی انگلی کو اُٹھا ہوا دیکھتا ہوں، لیکن اس کے اشارے کو نمایاں ہوتا ہوا پاتا ہوں، لیکن خدا تعالیٰ کے منشاء کو اس کے فضل سے پڑھ رہا ہوں اور سُن رہا ہوں..ہمیں سارے ملک ہی ملنے والے ہیں.دُنیا ہمیں حقارت کی نظروں سے دیکھتی ہے مگر دنیا نے خدا تعالیٰ کے ماموروں اور ان کی جماعتوں کو کب عرات کی نگاہ سے دیکھا ہے وہ ہمیشہ ہی انہیں حقیر اور ذلیل سمجھتی ہے مگر وہ جسے حقیر سمجھ کر معماروی نے پھینک دیا تھا خدا کا منشاء یہ ہے کہ وہی کونے کا پتھر ہو اور اس عمارت کے لئے سہارے اور روشنی کا موجب ہو.ہمیشہ یہی ہوتا آیا ہے اور اب بھی یہی ہوگایا ہے کوئٹہ سے مراجعت حضرت مصلح موعود کوئٹہ میں قریبا تین ماہ تک رونق افروز رہنے اور صوبہ بلوچستان کو اپنے فیض روحانی سے متمتع کرنے کے بعد عار تبوک استمبر کو صبح ساڑھے سات بجے بذریعہ کراچی میں واپس لاہور تشریف لے آئے ؟ ۱۹۴۸ له الفضل ۲۳ امضاء / اکتوبر ۲۷ مٹ ۶۱۹۴۸
۳۶۹ فصل دوم سیدنا حضرت مصلح موعود کا ایک اہم مکتوب م ہندو پریس کا گمراہ کن پروپیگنڈا مہ قادیان کے بارے میں جماعتی عہد محضرت مصلح موعود کا ضروری پیغام پنجاب یونیورسٹی کی اردو کا نفرنس نام م نصاب کمیٹی حکومت پنجاب کو مخلصانہ مشوره سید نا حضرت امیر المومنین المصلح الموعودہ کے ملک گیر اور مبارک سفروں کا یکجائی تذکرہ کرتے ہوئے رستمبر یہ تک جاپہنچے تھے، اب ہم دوبارہ اس سال کے ابتدائی دور کی طرف پیٹتے هم ماه تبوک راستمبر ہیں.ماہ جنوری ۹ہ کے تیسرے ہفتہ میں اقوام سید نا حضرت مصلح موعود کا اہم مکتوب متحد ہ کا اجلاس سند کشمیر پر بحث کے لئے نا چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحبجے نام منعقد ہونے والا تھا اور چوہدری خد ظفر اللہ کے خان صاحب ( وزیر خارجہ پاکستانی وفد کے لیڈر کی حیثیت سے بحث میں حصہ لینے کے لئے نیو یارک تشریف لے جا رہے تھے.اس موقعہ پر حضرت امیر المومنین المصلح الموعود نے اس دیر نیز تعلق اُلفت و محبت اور گہری دلچسپی و وابستگی کے باعث جو آپ کو ہمیشہ تحریک آزادی کشمیر کے ساتھ رہی چوہدری صاحب موصوف کو نہایت قیمتی نکات پر مشتمل ایک اہم مکتوب بذریعہ ہوائی ڈاک بھیجوایا جس کا متن یہ تھا :.تولا ه میزم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب سلمکم اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمه الله وبركاته
٣٧٠ ایک سوال بالکل فیصلہ کن ہے.اگر ریاست کے مسلمان جو اسی فیصدی ہیں ہندوستان یونین سے ملنا چاہتے ہیں اور آزادی کی جد و جہد میں حصہ لینے والوں کو ظالم اور ڈاکو سمجھتے ہیں تو پھر چاہیئے تھا کہ آزاد کردہ علاقہ سے بھاگ کر وہ جموں کی طرف جاتے لیکن وہ لوگ بھاگ کو پاکستان آئے ہیں اور ایک لاکھ سے زائدہ آدمی پاکستان میں ہے اور دس بارہ لاکھ آدمی آزاد گورنٹ کے ماتحت نہیں رہا ہے اس کے بر خلاف ہندو بھاگ کر جھول گیا ہے جس کے صاف معنے یہ ہیں کہ اکثریت حملہ آوروں کو ریڈرز نہیں بلکہ بریر یہ سمجھتی ہے.اگر یہ درست نہیں تو یونین گورمنٹ بتائے کہ صوبہ جموں اور میر پور کا بھاگا ہوا کتنا مسلمان جموں میں پناہ گزین ہے.اس کے مقابل پر پاکستان حکومت ثابت کرے گی کہ جموں اور اس کے علاقہ کے مسلمان بھاگ کر پاکستان میں پناہ گزین ہیں.کیا کوئی بھاگ کر ڈاکوؤں کے پاس بھی جاتا ہے ؟ ۲.جموں راجہ کا صدر مقام ہے اور ابھی تک راجہ کے قبضہ میں ہے.یونین بتائے کہ جموں کے مسلمان اب کہاں ہیں ؟ اگر وہ پاکستان میں آچکے ہیں تو اس کے یہ معنے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو ریاست میں محفوظ نہیں سمجھتے تھے.ہیموں کے شہر کی مسلمان آبادی ، بز یا ماری جا چکی ہے یا بھاگ کو پاکستان آ چکی ہے.وہ کئی ریڈرز سے ڈر کر جموں سے نکلی ہے اور کیوں ہندوستان یونین میں نہیں گئی بلکہ پاکستان آگئی ہے ؟ اگر ان دو صاف اور واضح اصول پر ہی مجلس اقوام متحقیق کروائے تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ ریاست میں ریڈرز نہیں بلکہ بریٹرز لڑ رہے ہیں اور ریاست کے مسلمان باشندے آزادی چاہتے ہیں ہندوستان سے الحاق نہیں چاہتے.۳.ریاست میں قانون ہے کہ جو ہندو مسلمان ہو جائے وہ جائداد سے محروم کر دیا جائے اور اسے لاوارث قرار دیا جائے.کیا کوئی عقل مند سمجھ سکتا ہے کہ مسلمان اس ظالمانہ اور یک طرفہ قانون کے بعد بھی ہندوستان یونین سے ملنا چاہے گا ؟ ریاست کا قانون ہے کہ ڈوگرے اور سکھ اور دوسرے ہند و قانون اسلحہ سے آزاد ہیں اور مسلمان اس قانون کے پابند ہیں اور پھر انہیں لائسنس دیا بھی نہیں جاتا.یہ قانون چند سال سے * LIBERATORS + RAIDERS &
بنایا گیا ہے اور اسی کی مدد سے مسلمانوں کا خون بہایا گیا ہے.کیا کوئی کہ سکتا ہے کہ اس قانون کی موجودگی میں سوائے چند وظیفہ خواروں کے کوئی مسلمان ہندوستان یونین میں شمولیت کا خواہش مند ہو گا.یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ قانون ریاست کا ہے کیونکہ ہندوؤں نے اس پر خوشی کا اظہار کیا ہے اور مسلمانوں کے ایجی ٹیشن میں ان کا ساتھ نہیں دیا.دوسرے یہی قانون آب عملاً ہندوستان میں برتا جا رہا ہے اور مسلمانوں سے ہتھیار چھینے جا رہے ہیں.خود مسٹر گاندھی نے تقریر میں کہا کہ مسلمانوں کو چاقو تک حکومت کے سپرد کر دینے چاہئیں تا کہ اکثریت کے دل میں ان کے متعلق اطمینان پیدا ہو اور اس کا خوف دور ہو.یہ مضحکہ خیز فقرہ اس شخص کا ہے جو عدل وانصاف کا مدعی ہے اور یہ بہادری کا سرٹیفیکیٹ ہے جو وہ ہندو قوم کو دے رہا ہے جو مسلمانوں سے تعداد میں اس وقت پنی گئی ہوچکی ہے.ہ مسلمان گوشت خور ہے اور گائے بھی کھاتا ہے لیکن کشمیر میں گائے کی قربانی پر دمین سال قید کی سزا مقر ہے اور جب ۳۱ ۳۲ میں کشمیر میں ایجی ٹیشن ہوا اور مسلمانوں نے اس قانون کے منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا اور حکومت ہند نے بھی اِس قانون کی منسوخی یا اس کے نرم کرنے کا مشورہ دیا تو مہاراجہ کشمیر نے ABDICATE ہو جانے کی دھمکی دی اور یہ قانون آب تک موجود ہے اور اب انڈین یونین کے صوبے بھی گائے کشی کے خلاف قانون بناتے جا رہے ہیں.یہ امور اگر اچھی طرح بیان کئے جائیں تو یقینا اس سوال کو حل کرنے کا موجب ہو سکتے ہیں لیکن مجھے ڈرہے کہ جوناگڑھ ا ھو کی طرح اس سارے سوال کو خراب کر دے گا اور باؤنڈری کمشن کی طرح اس ساری کوشش کو بے نتیجہ بنا دے گا.اللہ تعالیٰ رحم فرمائے.یاد رکھیں کہ کشمیر گیا تو پاکستان گیا.اس مسئلہ کو ہر حال محمد گی سے طے کرانا چاہئیے اور کشمیر کے چھوڑنے پر کسی طرح رضامندی ظاہر نہیں کرنی چاہئیے.اللہ تعالیٰ آپ کو کامیاب کرے.* AGITATION a والسلام خاکسور (دستخط) مرزا محمود احمد از لاہور ۱۱ جنوری ۹ د الله ۶۱۹۴۸ سے اصل خط دفتر خدمت درویشان ربوہ میں محفوظ ہے.اس دفتر کے ریکارڈ سے ہے بھی منکشف ہوتا ہے کہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب یہ کے ابتدائی ایام میں جبکہ مسئلہ کشمیر جنرل اسمبلی میں البقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر
۳۷۲ ہندو پریس کا جماعت احمدیہ کے خلاف متعصب ہندو پریس جو جماعت احمدیہ کے خلاف ہمیشہ ہی مسلم مفادات کے تحفظ کی پاداش میں گمراہ کن اور زہریلا پروپیگنڈا برسیت کا ر رہا.قادیان کے بیرونی مملوں سے احمدی آبادی کے مستقل انخلاء اور مرکزی محمد میں حلقہ درویشاں کے قیام پر ایک سوچی بھی سکیم کے مطابق دو بارو زہر اگلنے لگا.چنانچہ اخبار پر تاپ (نئی دہلی) نے دور جنوری مٹہ کو اپنے اندرونی بغض و عناد کا اظہار کرتے ہوئے بعنوان یہ پاکستان ہے" لکھا :.ه قادیان ضلع گورداسپور میں ایک چھوٹا سا قصبہ تھا جسے مرزا غلام احمد بانی جماعت احمدیہ کی بدولت خاص اہمیت مل گئی ہے.یہ احمدیوں کا گڑھ ہے...احمدی بھاری تعداد میں وہاں آباد ہوتے گئے اس لئے اس کی آبادی بھی بہت بڑھ گئی ہے.۵ار اگست سے پہلے احمدیوں نے پوری کوشش کنی که گورداس پور کا ضلع پاکستان میں آجائے.یہ جانتے ہوئے بھی کہ مسلمان انہیں کا فر سمجھتے ہیں انہوں نے پاکستان کے حق میں آواز اُٹھائی لیکن ۵ا.اگست سے پہلے ہی اس جماعت کے موجودہ خلیفہ مرزا بشیر الدین محمود احمد لاہور چلے گئے اور ان دنوں دیوان بہا در کوش کشور کی کو بھٹی اور رتن باغ پر قابض ہیں.اپنی جائداد کی حفاظت کے لئے وہ تین سو پچاس کے قریب احمدی قادیان چھوڑ آئے ہیں.انہوں نے مشرقی پنجاب کی گورنمنٹ سے مطالبہ کیا کہ اتنے احمدیوں کو قادیان رہنے کی اجازت دی جائے اور اس کے ساتھ ہی.اس بات کی بھی کہ ہر تمیرے مہینے یہ ساڑھے تین سو والنٹیر زبدل دیے ہمایا کریں.اس نے ان کی یہ بات نہ مانی لیکن ان ساڑھے تین سو احمدیوں کو جو قادیان میں رہ کر پاکستان کے پانچویں کالم کا کام دیتے ہیں وہاں سے نکالا بھی نہیں.بقیه حاشیه صفحه گزشتہ :- زیر بحث تھا چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کے بذریعہ ڈاکہ نیو یارک نهایت با قاعدگی سے ضروری مواد بھجوایا کرتے تھے چنانچہ آپ نے ۱۷ مار صلح / جنوری یہ کے ایک مکتوب میں حضرت مصلح موعود کی خدمت میں لکھا ، یکی مسکرم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو قریباً روزانہ ایک دو خط حوالہ جات وغیرہ کے متعلق لکھتا رہتا ہوئی.دھ کھتا ہیں بھی بھیجوائی ہیں اور دو عدد فوٹو سیٹ بھی.کل مرا می بینیر جی کا اصل حوالہ بھیجوایا تھا اور آج مزید جو وہ عدد حوالے ہوائی ڈاک کے ذریعہ بھجوا رہا ہوں ، یہ حوالے عزیز میاں ناصر احمد صاحب کے سٹاف نے نکالے ہیں...ان میں سے بعض حوالے بہت مفید ہیں" (خط کے آخر میں مندرجہ حوالہ جات کے ماخذ بھی درج کئے گئے ہیں ) ہے
قادیان سے ایک سجن لکھتے ہیں یہاں لگ بھگ تین سو پچاس قادیانی رہتے ہیں جن میں ورتمان خلیفہ مرزا البشیر الدین محمود کے دو متر ظفر احمد بیرسٹر اور خلیل احمد بھی ہیں.انہوں نے ۱۲۶ ۱۲۷ ۲۸ دسمبر کو اپنا وار شک انسو منایا جس میں وہ تمان خلیفہ کا ایک پتر بھی سنایا گیا خلیفہ نے اپنے پتر میں اپنے پیروؤں کوی تسلی دی تھی کہ وہ اپنے دوسرے پیروؤں سمیت جلد قادیان واپس آئیں گے.یہاں موجود قادیانیوں نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ جنوری کے پہلے ہفتہ میں ہمارا گنوائے آنے والا ہے جس میں کچھ قادیانی آئیں گے اور وہ یہاں سے قادیانیوں کو لے بھی جائیں گے.جو ساڑھے تین سو کے قریب قادیانی یہاں ہیں انہوں نے اتنی جگہ گھیر رکھی ہے کہ اس میں ساڑھے تین ہزار منش آسانی سے سما سکتے ہیں.ان کے کالج وغیرہ کی عمارتیں بھی اس وقت تک خالی پڑی ہیں.اگر انہیں اپنے خلیفہ کے پاس پاکستان بھیج دیا جائے تو دس ہزار اشخاص کے لئے جگہ نکل سکتی ہے.کیا آپ مشرقی پنجاب گورنمنٹ کو خبردار کر دیں گے.سوتے کو تو جگایا جا سکتا ہے جاگتے کو کون جگائے.ہماری سرکار مسلمانوں کو پکڑ پکڑ کہ یہاں لارہی ہے، انہیں پاکستان کو کیا بھیجے گی خلیفہ قادیان نے مسلمانوں سے کہا ہے کہ وہ ہزاروں کی تعداد میں مشرقی پنجاب جائیں اور وہاں آباد ہو جائیں.اس سلسلہ میں یہ خبر بھی پڑھ لیجئے.۳.دسمبر کو قادیان میں پانچ دونالی بندوقیں ۳۴۰ بم ، تین امریکن ہم اور بہت سا بارود بر آمد ہوا ہے (کرشن) " پر تآپ نے اس اشتعال انگیز مضمون کے چند ماہ بعد اعلین اس وقت جبکہ اقوام متحدہ میں مسکر کشمیر پر بحث غیر معین عرصہ کے لئے ملتوی ہو چکی تھی اور ہندوستان نواز حلقے پاکستان کے خلاف ایک نئی اور سراسر مضر اور نا قابل قبول قرار داد پیش کر نے والے تھے ، اپنی 19 مارچ شکار کی اشاعت میں یہ منتر یا نہ خبر شائع کی کہ امام جماعت احمدیہ قادیان اور سکھ لیڈروں کے درمیان قادیان اور ننکانہ صاب کے متعلق ایک سمجھوتہ کی بات چیت ہو رہی ہے جس کی رو سے قادیان کا علاقہ احمدیوں سے دوبارہ آباد کر دیا جائے گا اور نکانہ صاحب کا علاقہ سکھوں سے دوبارہ آبا د کیا جائے گا اور یہ کہ قادیان او ننکانہ صاحب تک کے لئے ہر دو دریت کا راستہ معین کر کے حکومت پاکستان اور حکومت ہند کے مشتر کہ انتظام میں رکھا جائے گا.وغیرہ وغیرہ.
۳۷۴ چیف سیکرٹری جماعت احمدیہ نے اس بے بنیاد خبر کی تردید میں فوراً یہ بیان جاری کیا کہ :- یہ خبر بالکل بے بنیاد اور گمراہ کن ہے.جماعت احمدیہ اور سکھ لیڈروں کے درمیان اس قسم کی کوئی بات چیت نہیں ہوئی اور نہ اس قسم کے باہمی سمجھوتہ کی کوئی تجویز کی گئی ہے.قادیان کے تحفظ کے متعلق جماعت احمدیہ نے جو کچھ کہنا تھا وہ ایک میمورنڈم کی صورت میں مرتب کر کے مرکزی حکومت پاکستان شعبہ پناہ گزیناں کے سامنے پیش کر دیا گیا ہے اس میمورنڈم میں ننکانہ صاحب کا کوئی ذکر نہیں اور نہ جماعت احمدیہ نے اس بارہ میں سیکھ لیڈروں کے ساتھ براہ راست کوئی بات کی ہے افسوس ہے کہ اخبار پر تاآپ نے اس من گھڑت خبر کے شائع کرنے میں صداقت سے کام نہیں لیا اور ایک فتنہ کا بیج بونے کی کوشش کی ہے.یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حضرت امام جماعت احمدیہ نے اپنی بعض پبلک تقریروں میں بھی کئی دفعہ حکومت کو اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ مسلمانوں کے مقدس مذہبی مقامات مثلاً سرہند اور اجمیر اور قادیان وغیرہ کے بارہ میں ہر دو حکومتوں کے درمیان کوئی باعزت سمجھوتہ ہونا ضروری ہے یا لے _ پرتاپ جیسے اسلام دشمن اخبار کا مقصد اس سراسر غلط اور جھوٹی خبر کے ذریعہ سے مسلمانان پاکستان میں قلبی انتشار پیدا کر کے اُن کی ایک جہتی اور اتحاد کو پارہ پارہ کرنا اور مسئلہ کشمیر کی سرد جنگ کو جیتنا تھا.جماعت احمدیہ کے مرکز نے اس خطرناک سیال کو بر وقت بھانپ کر اصل حقیقت سے پردہ اُٹھا دیا مگر اس کے باوجو د لبعض پاکستانی اخبارات نے پاکستان اور احمدیوں کو زک پہنچانے کے لئے ہند و پریس کی خبر اُچھالنا شروع کر دی.اس افسوسناک حرکت پر اخبار سفینہ، لاہور نے حسب ذیل اداریہ سپر د قلم کیا :- کشمیر کے متعلق ہو.این.اومیں جونئی صورت حال پیدا ہو گئی ہے اس پر ہر سلمان کو تشویش ہے اور ہماری رائے میں یہ سب کچھ اس لئے نہیں ہوا کہ اس بارے میں پاکستان یا پاکستان کے نمائندوں کا موقف بدل گیا ہے بلکہ یہ سب کچھ ہندوستان کے سیاسی چال بازوں نے صورتِ سال کو بھانپ کر اور مختلف ذرائع سے کام لے کر کیا ہے لیکن مسلمانان پاکستان کی بد قیمتی ملاحظہ ہو اه ۲۳ اپنے له الفضل ۲۳ اما این / مارچ ها ۶۱۹۴۸
۳۷۵ کہ سلامتی کونسل میں کشمیر کے قبضہ کو یہاں ننکانہ اور قادیان کے تبادلے کے قضیہ سے ملا دیا گیا ہے اور محض اس لئے ملا دیا گیا ہے کہ ایک چالاک ہندو اخبار تو لیس نے موقع کی نزاکت کو دیکھ کہ ایک ایسی بات کہہ دی ہے جس کے متعلق وہ جانتا ہے کہ مسلمانوں میں ضرور انتشار خیال پیدا ہو جائے گا او یہاں وہی ہوا.چوہدری محمد ظفر اللہ کے متعلق یہ کہنا کہ وہ پاکستان کے کسی معاملے کو قادیان کے کسی معاملے سے ملا سکتے ہیں ہماری ناقص رائے میں ایک بہت بڑی جسارت ہے اس لئے کہ جب باؤنڈری کمیشن کے سامنے قادیان والوں نے اپنا نقطۂ نگاہ پیش کیا اور کمیشن کے ایک ممبر نے چوہدری محمد ظفر اللہ سے پوچھا کہ آپ ان کی تائید کرتے ہیں تو انہوں نے جھٹ جواب دیا کہ صاحب یکی تو پاکستان کا کیس پیش کر رہا ہوں مجھ سے پاکستان کی نسبت پوچھیے.صرف یہی نہیں بلکہ بیٹی کی مد ظفرال اس وقت یہاں موجود نہیں ہیں یہ پرتاپ نے قادیان اور شکانہ کا ذکر اس انداز سے کیا ہے کہ چو ہدری صاحب واپس آکر اس فیصلے کی تصدیق کریں گے.اور اس شرارت سے اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ مسلمانوں میں ذہنی طور پر انتشار پیدا کیا جائے اور اندرونی طور پر جو کچھ یک جہتی اور ہم آہنگی کشمیر کے معاملے میں مسلمانوں میں پائی جاتی ہے اسے ان پرانے مباحث کی نذر کرا دیا جائے جس کے متعلق مسلم لیگ نے انسانی اجتماعیات کی تاریخ میں بے مثال فتح محاصل کی تھی اور جو حیات مسلمانوں کی خوش قسمتی سے کچھ دن ہوئے بالکل ختم ہوئے تھے.یاد رکھئے کہ یہ وقت ہم آہنگی ہم قدمی اور ہم دوستی کا ہے، کسی بیرونی اطلاع کی بنا پرجس کی تصدیق نہ ہو سکے یا کسی ایسے افواہ آمیز بیان پر جو شہر رنگا دیا گیا ہو آپس میں الجھ پڑنا مناسب نہیں.دشمن کی چال یہی ہے آپ اس چال میں آئے تو نقصان آپ کا ہو گا ننکانہ اور قادیان کا تبادلہ کوئی طاقت بھی اس وقت تک نہیں کر سکتی جب تک آپ نہ چاہیں.یہ دونوں مقامات کیسی ایسے شخص کے باپ کی جاگیر نہیں ہیں جو آپ کی مرضی کے خلاف دوسروں کے حوالے کر دے، یہ توقوموں اور ملکوں کی زندگی کی عزت و آبرو کا مسئلہ ہے اسے کوئی فرد واحد خواہ کتنا ہی بڑا ہوکے نہیں کو سکتا اسے قومیں ہی طے کر سکتی ہیں.تنکانہ ایک قوم کا مذہبی مقام ہے اور مذہبی مقامات کے احترام کو مسلمان قوم اچھی طرح جانتی ہے اِس کے لئے سیکھوں کو قادیان والوں سے انہیں پاکستان
والوں سے بات کرنی ہے.اور آج کوئی قادیانی ایسا نہیں ہے جو ننکانہ کی قیمت پر قادیان اس لئے حاصل کرنا چاہے کہ ان کا ایک بھائی پاکستان کی وزارت خارجہ کے عہدہ پر ہے مسلمانوں کو اس وقت تک خاموش رہنے کی ضرورت ہے جب تک اس امر کی تصدیق نہ ہوئے." پرتاپ الیسا را دی نہیں ہے جس کی بات صحیح ہویا اے ۲۶ ۲۷ امان / مارچ کی مجلس مشاورت سور در مات قادیان سے تعلق ایک نہایت اہم کے دوران حضرت مصلح موجود نئے نائٹ گان جماعت سے حسب ذیل عہد لیا.جماعتی عهد نامه یکی خدا تعالیٰ کو حاضر ناظر بیان کہ اِس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے قادیان کو احمدیہ جماعت کا مرکز مقرر فرمایا ہے لیکن اس کے اس حکم کو پورا کرنے کے لئے ہر قسم کی کوشش اور جد و جہد کرتا رہوں گا اور اس مقصد کو کبھی بھی اپنی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دوں گا.اور یکی اپنے نفس کو اور اپنے بیوی بچوں کو اور اگر خدا کی مشقت میں ہو تو اولاد کی اولاد کو ہمیشہ اس بات کے لئے تیار کرتا رہوں گا کہ وہ قادیان کے حصول کے لئے ہر چھوٹی اور بڑی قربانی کرنے کے لئے تیار ہیں.اے خدا مجھے اس عہد پر قائم رہنے اور اس کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرما.اللهم آمین ی" سے حضرت مصلح موعود کا پیغام پنجاب یونیورسٹی کی ۲۶ ارپت م پنجاب یونیورسٹی کی ۲۶ مار مار کو پنجاب یونیورسٹی اُردو کا نفرنس کے افتتاحیہ اجلاس میں اُردو کانفرنس کے نام حضرت امام جماعت احمدیہ مرزا بشیر الدین محمود احمد ( المصلح الموقود) کا مندرجہ ذیل پیغام پڑھ کر سنایا گیا :- میرے نزدیک اُردو کی صحیح خدمت یہی ہے کہ جس طرح وہ طبعی طور پر پہلے بڑھی تھی اسے طبعی طور پر آپ بھی بڑھنے دیا جائے.میرا یہ خیال ہے اور مجھے خوشی ہو گی.اگر میرا یہ خیال غلط ہو کہ اُردو میں 19 ه سفینه ۲۳ مارچ ۱۹ ۶ : سے مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ نے انہیں دنوں یہ عہد نامہ موٹے حروف اور بڑے سائز کے پوسٹر کی صورت میں چھپوا دیا تھا جس کو احمدی جماعتیں ایک عرصہ تک نہایت جوش و خروش سے مسجدوں پبلک جگہوں اور گھروں میں خاص الترام سے دیواروں پر آویزاں رکھتی رہیں وله الفضل ۲۵ مئی اجرت است کالم
عربی اور فارسی کے الفاظ زیادہ سے زیادہ داخل کرنے کی کوشش مسلمانوں کی طرف سے پہلے شروع ہوئی ہے اور ہندوؤں میں بعد میں رو عمل پیدا ہوا نیستیم لکھنوی تک کی مسلمانی اور ہند وانی اردو ایک نظر آتی ہے.اسی طرح سرشار کی نثر مسلمانوں کی نثر سے مختلف نہیں.اگر ہم نے اپنے پیار کر و مسلمانوں نے حلق رکھنا ہے جو ہندوستان میں لیتے ہیں تو ہمیں پاکستان میں اُردو کی رو کو اسی طبعی رنگ پر چلنے دینا چاہئیے جس رنگ پر آج سے سو پچاس سال پہلے وہ پھل رہی تھی.دوسرے میں سمجھتا ہوں کہ اگر اُردو کا نفرنس دہلی اور اس کے نواحی علاقوں کے اُجڑے ہوئے لوگوں کے لئے یہ تحریک بھی جاری کرے کہ انہیں ایک خاص علاقے میں لیسا دیا جائے تا کہ اردو زبان کے ساتھ پرانی ہندوستانی اصلی تہذیب بھی اپنا علیحدہ جلوہ دکھاتی رہے تو اس سے اُردو کی بھی خدمت ہوگی اور ہماری ایک پرانی یادگار بھی تازہ رہ سکے گی.تھل پر اجیکٹ میں اس کے لئے کافی گنجائش ہے.تیرے میرے نزدیک اُردو کی یہ بہترین خدمت ہو گی کہ اگر ہم اس کے لئے پاکستان کی زبان بنائے جانے کا مطالبہ کریں.پاکستان کی زبان بننے کے بعد صوبوں کی زبان وہ آپ ہی آپ بین بیا گی ہمیں ابھی صوبجات کے متعلق کوئی بحث نہیں چھیڑنی چاہئیے وہ خود اپنی ضرورتوں کے مطابق اپنے لئے سیکیمیں بنا لیں گے.اور جب پاکستانی ذہنیت، قائم ہو جائے گی اور جب پاکستانی وطنیت ایک جسم اختیار کرلے گی تو صوبیات خود بدلے ہوئے حالات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لیں گے.اُرد یقینا پاکستان ہی کی نہیں ہندوستان کی زبان بھی بننے والی ہے مگر ہمیں جلدی نہیں کرنی چاہئیے اور اِس خالص تہذیبی اور علمی سوال کو سیاسی سوال نہیں بنا دینا چاہئیے یا اے جماعت احمدیہ کی طرف سے نصاب کمیٹی حکومت مغربی پنجاب نے مڈل تک کے نظام تعلیم کی اصلاح کے لئے ایک کمیٹی مقرر کی اور حکومت مغربی پنجاب کو مخلصانہ مشورہ اس معاملہ میں جماعت احمدیہ سے بھی مشورہ طلب کیا جس پر صدر انجین احمدیہ نے مندرجہ ذیل آٹھ مہروں پر مشتمل ایک تعلیمی کمیٹی بنائی.له الفضل ۲۷- امان / مارچ ACI
قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب (صدر)، ابو الفتح مولوی محمد عبد القادر صاحب ایم.اسے ریٹائرڈ پروفیسر کلکتہ یونیورسٹی (سیکرٹری)، حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب، پیرو فیر قاضی محمد اسلم صاحب ، ناظر صاحب تعلیم و تربیت مولوی عبد الرحیم صاحب درد ، مولوی ابو العطاء صاحب اور سید محمود اللہ شاہ صاحب.اس کمیٹی نے حکومت مغربی پنجاب کو جو مشورہ دیا وہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے الفاظ میں درج ذیل کیا جاتا ہے :- تمہیدی نوٹ) اصل مشورہ پیش کرنے سے قبل میں یہ امر واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ہماری کمیٹی اپنے مشورہ کو صرف اصولی حد تک محدود رکھے گی اور نصاب کی تفصیلات میں جانے یا کتب تجویز کرنے کے متعلق کوئی مشورہ پیش نہیں کیا جائے گا.اور دراصل اس معاملہ میں زیادہ اہم سوال اُصول ہی کا ہے اور تفصیلات کو بغیر کسی خطرہ کے زیادہ عملی تجربہ رکھنے والے واقف کاروں پر چھوڑا جا سکتا ہے.بہر حال جو اصولی مشورہ ہماری کمیٹی امور ستفسرہ کے متعلق دینا چاہتی ہے وہ ذیل کے چند مختصر فقرات میں درج کیا جاتا ہے.جہاں تک تعلیم کی غرض و غایت کا سوال ہے وہ محض تعلیم کے لفظ سے پوری طرح ظاہر نہیں کی جا سکتی کیونکہ تعلیم کے لغوی معنے صرف علم دینے کے ہیں مگر اصطلاحی طور پر تعلیم کا مفہوم اس لغوی مفہوم کی نسبت بہت زیادہ وسیع اور بہت زیادہ گہرا ہے.در اصل اگر تعلیم کے صحیح مفہوم کو مختصر لفظوں میں ہی ادا کر نا ہو تو صرف لفظ تعلیم کی بجائے تین الفاظ کا مجموعہ زیادہ مناسب ہو گا اور یہ تین الفاظ تعلیم و تویر و تربیت ہیں تعلیم کی غرض وغایت ہرگز پوری نہیں ہو سکتی جب تک یہ معین علم سکھانے کے ساتھ ساتھ بچوں کے دماغوں میں روشنی پیدا کرنے اور پھر اس کے معلومات کے مطابق عملی مشق کرانے کا انتظام نہ ہو.بچوں کے دماغوں میں محض خشک معلومات کا ذخیرہ ٹھونس دینا چنداں نفع مند نہیں ہوتا جبتک کہ ان کے دماغوں کی کھڑکیاں کھول کر علم کے میدان کے ساتھ بنیادی لگاؤن پیدا کیا جائے.اور پھر تکلی مشق کے ذریعہ بچوں کی قوت عملیہ کو ایک خاص ڈھانچے میں نہ ڈال دیا جائے.اب ظاہر ہے کہ تعلیم کا جو وسیع مفہوم اوپر بیان کیا گیا ہے وہ کبھی حاصل نہیں ہو سکتا جب تک کہ ہر قوم اپنی قومی اور ملکی ضروریات کے پیش نظر اپنے بچوں کی تعلیم کا پروگرام مرتب نہ کرے.انگریز نے اپنے زمانہ میں جو غرض و غایت تعلیم
٣٧٩ کی سمجھی اور جو مقاصد اپنے مصالح کے ماتحت ضروری خیال کئے ان کے پیش نظر نصاب بنایا اور درسگاہیں جاری کیں مگر انگریز کے چلے جانے اور آزادی کے حصول اور پاکستان کے قیام کے بعد انگریز کی طے کی وٹی پالیسی اور انگریز کا جاری کیا ہوا نصاب ہماری ضرورتوں کو ہر گز پورا نہیں کر سکتا بلکہ یقینا وہ چین پہنوؤں سے ہمارے مقاصد کے خلاف اور متعنا و واقع ہوا ہے مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ وہ گلی تلور پر بدل دینے کے قابل ہے.لاریب اس میں کئی باتیں مفید بھی ہیں جو بڑے لمبے تجربے کے بعد حاصل کی گئی ہیں.پس دانش مندانہ پالیسی یہ ہوگی کہ تدریج اور آہستگی کے ساتھ قدم اٹھایا جائے اور سابقہ نصاب کے غیر مفید حصہ کو ترک کر کے ایسے مفید اضافوں کے ساتھ جو ہمارے موجودہ قومی مصالح کے لئے ضروری ہیں نیا نصاب مرتب کیا جائے.ہماری کمیٹی نمبر اول پر یہ تجویز پیش کرنا چاہتی ہے کہ جدید نصاب میں دینیات اور اخلاقیات کے مضمون لازماً شامل ہونا چاہئیں کیونکہ یہ بات نہایت ضروری ہے کہ بچپن میں ہی ایمانی و اخلاق کا بیج بو دیا جائے تاکہ قوم کے نونہال بڑے ہو کر اپنے اخلاق اور دین کی بیبیا و اسلام کی دی ہوئی تعلیم پر قائم کر سکیں لیکن ہماری کمیٹی اس مشکل کی طرف سے آنکھیں بند نہیں کر سکتی کہ پاکستان میں مختلف اسلامی فرقوں کے لوگ پائے جاتے ہیں اور صحیح طور پر یا غلط ور پر ہر فرقہ کی طرف سے مطالبہ ہو گا کہ اس فرقہ کی مخصوص تشریح کے مطابق اسلامی تعلیم دی جائے اور اس طرح ممکن ہوسکتا ہے کہ دینیات کا نصاب خود ایک جھگڑے کی بنیاد بن جائے ہیں جہاں ہم دقیات کی تعلیم کو ضروری خیال کرتے ہیں وہاں ہمارا یہ بھی مشورہ ہے کہ اس قسم کے اختلاف کے سدباب کے لئے جس کی طرف او پر اشارہ کیا گیا ہے فی الحال پرائمری اور مڈل میں دینی تعلیم ایک ایسی اقبل اصولی تعلیم تک محدود ہونی چاہئیے جس میں اختلافات کا کم سے کم امکان ہو.اور کمیٹی ہذا تجویز کرتی ہے کہ اقل نصاب پرائمری اور مڈل میں بصورت ذیل ہونا چاہیئے.الف.قرآن شریف ناظرہ بغیر تو جمہ کے.ب.قرآن شریف کی بعض چھوٹی سورتوں اور بعض قرآنی دعاؤں کا حفظ کرنا.ج - پنج ارکان اسلام یعنی کلمہ طیبہ نماز - روزه - حج - زکوۃ کے ایسے بنیادی مسائل جن میں کیسی اختلافی مسائل کا دخل نہ ہو.آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے مختصر سوانح - اسلامی اخلاق پر ایک مختصر رسالہ جو تصنیف کر دیا
جا سکتا ہے جس میں راست گفتاری، دیانت ، لین دین کی صفائی ، عہد کی پابندی، فرض منصبی کی ادائیگی، محنت، قربانی، عدل و انصاف، خالق کی محبت ، مخلوق کی ہمدردی وغیرہ بنیادی اخلاق کے متعلق سہل اور موثر طریق میں تعلیم دی گئی ہو.(نوٹ) نصاب دین کے تعلق میں ہماری کمیٹی یہ تجویز بھی پیش کرتی ہے کہ کسی سرکاری سکول میں کسی اقلیت کے طلبہ کی تعداد معقول ہو اور اس طرح اقلیت کی طرف سے یہ مطالبہ ہو کہ اس کے لئے اس کے مذہب کی تعلیم کا نصاب مقرر کیا جائے تو اس کا انتظام بھی ہونا چاہیئے مگر یہ تصاب مینیہ تعلیم کا منظور شدہ ہونا چاہیے جو عمومی رنگ کا ہو جس میں اس پہلو کو مد نظر رکھا جائے کہ دوسرے مذہب پر حملے یا مناظرانہ مسائل نصاب میں داخل نہ ہو جائیں.ہماری کمیٹی بڑی سختی کے ساتھ اس بات کو محسوس کرتی ہے کہ گزشتہ زمانے میں سب سے بڑا فتنہ تاریخ کے نصاب نے پیدا کیا ہے جس میں جھوٹی باتوں کو داخل کر کے اور بعض سچی باتوں کو غلط رنگ دے کر اور بہت سی سچی باتوں کو حذف کر کے بھاری فتنہ پیدا کیا گیا ہے.کمیٹی ہذا سفارش کرتی ہے کہ تاریخ کے نصاب کو فوری طور پر بدلنے کی ضرورت ہے حسب ضرورت نئی کتب لکھائی جائیں جن میں اس قسم کے شر انگیز عنصر کو بالکل خارج کر دیا جائے اور صحیح اور مستند واقعات اچھے رنگ میں درج کئے بہائیں اور تاریخ کے کورس میں ذیل کے حصے شامل کئے بھائیں یعنی تاریخ ہندوستان میں میں اسلامی زمانہ بچہ زیادہ زور ہو.تاریخ اسلام میں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوانح حیات مسلسل اور مربوط صورت میں درج ہوں اور دیگر اسلامی تاریخ کے صرف خاص خاص واقعات ہوں اور اس کے علاوہ تاریخ عالم پر ایک سرسری نظر ہو.کمیٹی ہذا یہ بھی سفارش کرتی ہے کہ تاریخ، جغرافیہ کے مضمون کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا کہ ایک مضمون کی صورت میں رکھنے کی کوئی خاص وجہ نہیں اور نہ ان میں کوئی ایسا غیر منفک واسطہ ہے کہ اس کی وجہ سے ان ڈومستقل مضمونوں کو لانہ گا اس لڑی میں پرو کر رکھنا ضروری ہو انہیں علیحدہ علیحدہ کر دیا ہماری کمیٹی کی رائے میں زیادہ مفید ہوگا.ہماری کمیٹی اس بات کی پر زور مؤید ہے کہ ذریعہ تعلیم بلا توقف اُردو قرار دینا چاہئیے.اُردو کا نصاب بھی کافی اصلاح سچا ہتا ہے.اس میں دیگر مفید مواد کے علاوہ اسلامی تاریخ کے خاص خاص واقعات اور مشاہیر اسلام کے خاص خاص
PAT حالات کا عنصر کافی شامل ہونا چاہیئے مگر ضروری ہے کہ اُردو میں تکلف کے طریق پر اور غیر طبیعی رنگ میں عربی اور فارسی کے الفاظ نہ ٹھونسے بجائیں بلکہ اسے ایک زندہ چیز کی طرح طبعی رنگ میں ترقی کرنے کا موقع دیا جائے اور ابتدائی جماعتوں میں تو لازماً زبان بہت سادہ اور سلیس ہونی چاہیے.اس کے علاوہ اُردو کو ریس میں سادہ اور موثر قومی اور اخلاقی تنظمیں بھی شامل کی جائیں.ہماری کمیٹی یہ بھی سفارش کرتی ہے چونکہ عربی مسلمانوں کی مذہبی زبان ہے، قرآن شریف اور حدیث کو سمجھنے کے لئے عربی کا علم ضروری ہے اور اردو کی تکمیل کے لئے بھی عربی کافی اثر رکھتی ہے اس لئے مڈل کی پہلی جماعت سے عربی کی تعلیم لازمی قرار دی جائے.ہماری کمیٹی پرائمری یا مڈل کی جماعتوں میں فارسی کے نصاب کے داخل کرنے کی تائید میں نہیں ہے کیونکہ اول تو فارسی کو ہمارے ملک یا ہمارے مذہب کے ساتھ اتنا گہرا تعلق نہیں ہے جتنا کہ اُردو یا عربی کو ہے، دوسرے بچوں کے دماغوں پر زیادہ زبانوں کا بوجھ ڈالتا کیسی طرح مفید نتائج پیدا کرنے والا نہیں سمجھا جا سکتا..ہماری کمیٹی اِس بات کی سفارش کرتی ہے کہ انگریزی زبان کی تعلیم کو پرائمری اور مڈل کے نصاب سے گلی طور پر نمارج کر دیا جائے.انگریز کے چلے جانے سے ہمارے لئے اس زبان کی وہ اہمیت نہیں رہی جو پہلے تھی اور کوئی وجہ نہیں کہ ایک غیرملکی زبان کے بوجھ سے اپنے بچوں کی ابتدائی تعلیم کو مشوش کیا جائے.ا جغرافیہ ایک ضروری علم ہے اور لازمی ہونا چاہئیے.اس کا پولیٹیکل اور طبیعی حصہ ہر دو نہایت ضروری اور مفید ہے.۱- ریاضی ایک نہایت ضروری علم ہے اور خود قرآن شریف نے اِس کی اہمیت کی طرف اشارہ کیا ہے پس اس پر زیادہ زور ہونا چاہیے.یہ علم نہ صرف اپنی ذات میں مفید ہے بلکہ بچوں میں محنت اور استغراق اور صحیح الخیالی کا ملکہ پیدا کرنے میں بھاری اثر رکھتا ہے.۱۳.سائنس کے ساتھ بچپن سے ہی قومی بچوں کا لگاؤ پیدا کرنا ضروری ہے اور ہماری کمیٹی اس یات کی پر زور تائید کرتی ہے کہ شروع سے ہی اسباق الاشیاء وغیرہ کی صورت میں سائنس کی تعلیم کو داخل نصاب کرنا چاہیے.علم طبیعات اور علم کیمیا کے ضروری مسائل سادہ اور دلچسپ رنگ میں اسباق الاشیاء کی صورت میں نصاب کا حصہ بنائے جا سکتے ہیں.اسی طرح ایسی نئی ایجادات جن کے ساتھ
۳۸۴ آج کل کے زمانہ میں ہر شہری کا روزانہ واسطہ پڑتا ہے مثلاً تار ٹیلیفون، وائرلیس، ہوائی جہاز اور پھر موٹر، ریل، وخانی جہاز اور جنگی اسلحہ کے متعلق سادہ ابتدائی معلومات داخل نصاب کئے جاسکتے ہیں.کم ایکمیٹی ہنڈا اس بات کی موید ہے کہ بچوں میں ملک کی بنیادی صنعتوں کے ساتھ ابتداء سے ہی لگاؤ پیدا کرانے کی ضرورت ہے اور ہمارے خیال میں شروع میں اس کے لئے تین شعبوں کا انتخاب ضروری ہوگا یعنی (1) زراعت (۲) تجارت اور (۳) دستکاری.ان تینوں کے متعلق ابتدائی عملی اور علمی معلومات کا مہیا کرنا ضروری ہے.زراعت کی تعلیم کے لئے سکولوں میں ترقی یافتہ اصولوں اور عملی کام کی ٹریننگ کا انتظام ہونا چاہئیے تجارت میں در آمد و برآمد کے موٹے اُصول اور چیزوں کے خرید نے اور فروخت کرنے کے طریق بتائے جائیں اور دست کاری میں بعض عام مصنعتوں کی ابتدائی تعلیم شامل کی جا سکتی ہے.۱۵.ورزش کا سوال بھی نہایت اہم ہے اور قوم کی جسمانی ترقی اور محمتوں کی درستی پر بھاری اثر رکھتا ہے.پس سکولوں میں اس کی طرف بھی واپسی توجیہ ہونی چاہیے کھیلیں ایسی رکھی جائیں جو چار افراض کو پورا کرنے والی ہوں راہ جسم اور اعصاب کی طاقت کو بڑھانے والی ہوں (۲) جسم میں پھرتی پیدا کرنے والی ہوں (۳) عقل کو تیز کرنے والی ہوں (۴) اور باہم تعاون کی روح کو ترقی دینے والی ہوں.نیز کمیٹی ہزا کی رائے میں بچوں کو تین فنون کا سکھانا ضروری ہے جس کا سکول کی طرف سے انتظام ہونا چاہئیے.الف - تیرنا - ب - سواری سائیکل کی یا گھوڑے کی یا اگر ممکن ہو تو موٹر کی بھی.ج.بندوق چلانا جس کے لئے ابتداء ہوائی بندوق اور بعد میں ۲۲ بور کی رائفل کلبیں جاری کی جاسکتی ہیں تاکہ ابتداء سے ہی بچوں میں فنون سپہ گری کا ملکہ اور شوق پیدا ہو.۱۶.بالآخر یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ ہم نے نصاب کے متعلق جو سفارشات کی ہیں ان میں اپنی تجاویز کو صرف پرائمری اور مڈل کی تعلیم تک محدود رکھا ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر ہم نے کسی مضمون کے مڈل میں رکھے جانے کی سفارش کی ہے تو وہ ہائی کلاسز میں بھی نہیں رکھا جائے گا.ہائی کلاستر کے نصاب کا معاملہ ہمارے مشورہ کے دائرہ سے خارج ہے اس لئے اس کے متعلق ہماری موجودہ تجاویز سے کوئی مثبت یا منفی استدلال کرنا درست نہیں ہوگا کیونکہ وہ حقیہ اپنی ذات
٣٨٣ میں علیحدہ طور پر زیر غور آکر طے ہونا چاہیے.خدا کرنے کہ اس اہم سوال کے متعلق حکومت کا متعلقہ شعبہ ایسے فیصلہ کی طرف راہنمائی حاصل کرنے جو ملک اور قوم کے لئے بہترین نتائج پیدا کرنے والا ہو.آمین.خاکسار مرزا بشیر احمد رتن باغ لاہور ۱۹۴۸ صدر کمیٹی برائے مشورہ نصاب مڈل ۲ مئی سے ۲ راد فصل سوم ہفتہ صیہونیت کے خلاف زبر دست اسلامی تحریک اور استعماری طاقتوں کی سازش.قائد اعظم محمد علی جنات کی وفات پر حضرت میرالمومنین کا بیان پر معارف مضمون احمدیت کا پیغام اس کی مقبولیت اور غیر ملکی زبانوں میں تراجم مینار ڈ ہال میں حضرت امیر المومنین کا اہم کیر فتنہ صیہونیت کے خلاف دنیا کی تمام بڑی بڑی اسلام دشمن طاقتیں ایک لمبے عرصہ سے فلسطین میں یہودیوں کو وسیع پیمانے پر آباد کرتی آرہی تھیں.زبر دست اسلامی تحریک اس خوفناک سازش کا نتیجہ بالآخر 14 مئی شائر کو ظاہر ہو گیا جبکہ برطانیہ کی عمل داری اور انتداب کے خاتمہ پر امریکہ، برطانیہ اور روس کی پشت پناہی میں ایک له الفضل دار نبوت / نومبر من ۱۱۹۴۸
۳۸۴ نام نہاد صیہونی حکومت قائم ہوگئی اور دنیائے اسلام کے سینہ میں گویا ایک زہر آلود خنجر پیوست کر دیا گیا.اس نہایت نازک وقت میں جبکہ ملت اسلامیہ زندگی اور موت کی کشمکش سے دوچار تھی.حضرت امیر المومنین المصلح الموعود نے عالم اسلام کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لئے ایک بار پھر پوری قوت سے بھنجھوڑا.انہیں مغربی طاقتوں اور صیہونی حکومت کے در پردہ تباہ کن عزائم سے قبل از وقت آگاہ فرمایا اور اس فتنہ عظمیٰ کے منظم مقابلہ کے لئے نہایت مفید تجاویز پیش تمل ایک قابل عمل دفاعی منصوبہ پیش کیا.چنانچہ حضور نے خاص اس مقصد کے لئے " انكفرُ مِلَةٌ وَاحِدَةً “ کے نام سے ایک حقیقت افروز مضمون سپر د قلم فرمایا جس میں دنیا بھر کے مسلمانوں کو اس فتنہ کی سرکوبی کے لئے فوراً ایک پلید ظلام پر جمع ہونے اور اس کے خلاف سر دھڑ کی بازی لگا دینے کی زبر دست تحریک فرمائی.ذیل میں الكُفْرُ مِلَة وَاحِدَةً کا مکمل متن بجنسہ نقل کیا جاتا ہے :- أعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنَصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّ سامير الكُفْرُمَلَةُ وَاحِدَةٌ وہ دن جس کی خبر قرآن کریم اور احادیث یہ سینکڑوں سال پہلے سے دی گئی تھی.وہ دن جس کی خبر تورات اور انجیل میں بھی دی گئی تھی.وہ دن جو مسلمانوں کے لئے نہایت ہی تکلیف وہ اور اندیش ناک بتایا جاتا تھا معلوم ہوتا ہے کہ آن پہنچا ہے فلسطین میں ہو دیوں کو پھر بسایا جا رہا ہے.امریکہ اور روس جو ایک دوسری کا گلا کاٹنے پر آمادہ ہو رہے ہیں.اس مسئلہ میں ایک بستر کے دو ساتھی نظر آتے ہیں.اور عجیب بات یہ ہے کہ کشمیر کے معاملہ میں بھی یہ دونوں متحد تھے.دونوں ہی انڈین یونین کی تائید میں تھے اور اب دونوں ہی فلسطین کے مسئلہ میں یہودیوں کی تائید میں ہیں.آخر یہ اتحاد کیوں ہے ؟ یہ دونوں دشمن مسلمانوں کے خلاف اکٹھے کیوں ہو جاتے ہیں ؟ اس کے کئی جواب ہو سکتے ہیں مگر شاید ایک جواب جو ہمارے لئے
۳۸۵ خوشکو بھی ہے زیادہ صحیح ہو یعنی دونوں ہی اسلام کی ترقی میں اپنے ارادوں کی پامالی دیکھتے ہوں جس طرح شیر کی آمد کی بو پا کر سکتے اکٹھے ہو جاتے ہیں شائد اسی طرح یہ اکٹھے ہو جاتے ہیں.شاید یہ دونوں ہی اپنی دوربین نگاہوں سے اسلام کی ترقی کے آثار دیکھ رہے ہیں.شاید اسلام کا شیر جو ابھی ہمیں بھی ہوتا نظر آتا ہے بیداری کی طرف مائل ہے.شاید اس کے جسم پر ایک خفیف سی کیپسی وارد ہو رہی ہے جو ابھی دستوں کو تو نظر نہیں آتی مگر دشمن اس کو دیکھ چکا ہے.اگر یہ ہے تو حالی کا خطرہ مستقبل کی ترقی پر دلالت کر رہا ہے مگر ساتھ ہی مسلمانوں کی عظیم الشان ذمہ داریاں بھی ان کے سامنے پیش کر رہا ہے.یہ عجیب بات ہے کہ ایک ہی وقت میں فلسطین اور کشمیر کے جھگڑے شروع ہیں.یہ عجیب بات ہے کہ کشمیر اور فلسطین ایک ہی قوم سے آباد ہیں اور یہ عجیب تو بات ہے کہ اس قوم کا ایک حقہ مسلمان ہو کر آن کشمیر میں مسلمانوں کی ہمدردی کھینچ رہا ہے اور دوسرا حصہ فلسطین میں مسلمانوں کے ساتھ زندگی اور موت کی جنگ یلو ٹکر لے رہا ہے.آدھی قوم اسلام کے لئے قربانیاں پیش کر رہی ہے اور آدھی قوم اسلام کو مٹانے کے لئے قربانیاں پیش کر رہی ہے کشمیر کی جنگ میں بھی کا شریعنی کشمیری کا نام سننے میں آتا ہے اور فلسطین کی جنگ میں بھی کا شر ہر کا ذکر بار بار آرہا ہے.اس کا شر کے نام پر شیر کا نام اثر رکھا گیا تھا جو آب بگڑ کر کشمیر ہو گیا ہے یا یہ کہ یہ کاشر ہے یعنی سیریا کی طرح.حال ہی میں کشمیر میں ایک آزادی کا دن منایا گیا ہے جن میں یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ کشمیری دل سے ہندوستان کے ساتھ ہیں.اس مظاہرہ میں روس کے نمائندہ نے خصوصیت کے ساتھ حصہ لیا اور دنیا پر یہ ثابت کر دیا کہ کشمیر کے معاملہ میں روس ہندوستان کے ساتھ ہے.کیوں ہے ؟ یہ تو مستقبل ثابت کرے گا.ہے ! اسے دوست کے نمائندے نے ثابت کر دیا ہے کشمیر کا معاملہ پاکستان کے لئے نہایت اہم ہے لیکن فلسطین کا معاملہ سارے مسلمانوں کے لئے نہایت اہم ہے کشمیر کی چوٹ بالواسطہ پڑتی ہے.فلسطین ہمارے آقا اور مولی کی آخری آرام گاہ کے قریب ہے جن کی زندگی میں بھی یہودی ہرقسم کے نیک سلوک کے باوجود بڑی بے شرمی اور بے حیائی سے ان کی ہرقسم کی مخالفت میں کرتے رہے تھے.اکثر جنگیں یہود کے اُکسانے پر ہوئی تھیں.کسرنی کو رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے قتل کروانے پر انہوں نے ہی اُکسایا تھا.خدا نے ان کا مونہہ کالا کیا مگر انہوں نے اپنے خبث باطن کا اظہار کر دیا.غزوہ احزاب کی لیڈری ہو رہی کے ہاتھ میں تھی.سارا عرب، اس سے پہلے کبھی اکٹھانہ
۳۸۶ ہوا تھا بگرہ والوں میں ایسی قوت انتظام تھی ہی نہیں یہ مدنیہ سے جلا وطن شدہ یہودی قبائل ہی کا کا رنامہ تھا کہ انہوں نے سارے عرب کو اکٹھا کر کے مدینہ کے سامنے لاڈالا.خدا نے ان کا بھی منہ کالا کیا مگر یہود نے اپنی طرف سے کوئی کسر باقی نہ رکھی.رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم کے اصل دشمن ہیکہ والے تھے مگر مکہ والوں نے کبھی دھوکہ سے آپ کی جان لینے کی کوشش نہیں کی.آپ جب طائف گئے اور ملک کے قانون کے مطابق مکہ کے شہری حقوق سے آپ دستبردار ہو گئے مگر پھر آپ کو کوٹ کر مکہ میں آنا پڑا تو اس وقت مکہ کا ایک شدید ترین دشمن آپ کی امداد کے لئے آگے آیا اور مکہ میں اس نے اعلان کر دیا کہ لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شہریت کے حقوق دیتا ہوں اپنے پانچوں بیٹوں سمیت آپ کے ساتھ ساتھ مکہ میں داخل ہوا اور اپنے بیٹوں سے کہا کہ محمد ہمارا دشمن ہی کہی پر آج عرب کی شرافت کا تقاضہ ہے کہ جب وہ ہماری امداد سے شہر میں داخل ہونا چاہتا ہے تو ہم اس کے اس مطالبہ کو پورا کریں ورنہ ہماری عزت باقی نہیں رہے گی.اور اس نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ اگر کوئی دشمن آپ پر حملہ کرنا چاہے تو تم میں سے ہر ایک کو اس سے پہلے مرجانا چاہیئے کہ وہ آپ تک پہنچ سکے.یہ تقارب کا شریف دشمن.اس کے مقابلہ میں بد ثبت یہودی جس کو قرآن کریم مسلمان کا سب سے بڑا دشمن قرار دیتا ہے اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنے گھر پر بلایا اور مسلح کے دھو کہ میں چنگی کا پاٹ کو ٹھے پر سے پھینک کر آپ کو مارنا چاہا خدا تعالیٰ نے آپ کو اس کے منصوبہ کی خبر دی اور آپ سلامت وہاں سے نکل آئے.یہودی قوم کی ایک عورت نے آپ کی دعوت کی اور زہر ملا ہوا کھانا آپ کو کھلایا آپ کو خدا تعالیٰ نے اس موقع پر بھی بچا لیا مگر یہودی قوم نے اپنا اندرونہ ظاہر کر دیا.یہی دشمن ایک مقتدر حکومت کی صورت میں دینہ کے پاس سر اٹھانا چاہتا ہے شاید اس نیت سے کہ اپنے قدم مضبوط کر لینے کے بعد وہ مدینہ کی طرف بڑھے.جو مسلمان یہ خیال کرتا ہے کہ اس بات کے امکانات بہت کمزور ہیں اس کا دماغ خود کمزور ہے.اب اس حقیقت کو سمجھتا ہے عرب جانتا ہے کہ اب یہودی عرب میں سے وریوں کو نکالنے کی منسکہ میں ہیں اس لئے وہ اپنے جھگڑے اور اختلاف کو بھول کو متحدہ طور پر ہو یوں کے مقابلہ کے لئے کھڑا ہو گیا ہے مگر کیا ریوں میں یہ طاقت ہے؟ کیا یہ معاملہ صرف عرب سے تعلق رکھتا ہے.ظاہر ہے کہ نہ عربوں میں اس مقابلہ کی طاقت ہے اور نہ یہ معاملہ صرف عربوں سے تعلق رکھتا ہے.سوال فلسطین کا نہیں سوال مدینہ کا ہے.سوال یروشلم کا نہیں سوال خود مکہ مکرمہ کا ہے سوال
PAL زید اور بکر کا نہیں سوال محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عزت کا ہے.دشمن با وجود اپنی مخالفتوں کے اسلام کے مقابل پر اکٹھا ہو گیا ہے.کیا مسلمان با وجود ہزاروں اتحاد کی وجوہات کے اس موقع پر اکٹھا نہیں ہو گا.امریکہ کا روپیہ اور روس کے منصوبے اور مہتھکنڈے دونوں ہی غریب عربوں کے مقابل پر جمع ہیں.جن طاقتوں کا مقابلہ یہ متی نہیں کر سکا عرب قبائل کیا کر سکتے ہیں.ہمارے لئے یہ سوچنے کا موقع آگیا ہے کہ کیا ہم کو الگ الگ اور باری باری مرنا چاہئیے یا اکٹھے ہو کہ فتح کے لئے کافی بہد و جہد کرنی چاہیے.میں سمجھتا ہوں وہ وقت آگیا ہے جب مسلمانوں کو یہ فیصلہ کر لینا چاہئیے کہ یا تو وہ ایک آخری جد و جہد میں فنا ہو جائیں گے یا گلی طور پر اسلام کے خلاف ریشہ دوانیوں کا خاتمہ کر دیں گے، مصر، شام اور عراق کا ہوائی بیڑا سو ہوائی جہازوں سے زیادہ نہیں لیکن یہودی اس سے دس گنا بیڑہ نہایت آسانی سے جمع کر سکتے ہیں اور شاید روس تو ان کو اپنا بیڑہ نذر کے طو پر پیش بھی کر دے.یں نے متواتر اور بار بار مسلمانوں کو تو تجہ دلائی ہے کہ رومن مسلمانوں کا شدید و شمن ہے لیکن مسلمانوں نے سمجھا نہیں جو بھی اُٹھتا ہے وہ نہایت محبت بھری نگاہوں سے روس کی طرف دیکھنے لگ جاتا ہے اور روس کو اپنی امیدوں کی آماجگاہ بنا لیتا ہے حالانکہ حق نہیں ہے کہ سب سے بڑا دشمن مسلمانوں کا روسی ہے.امریکہ یہودیوں کے ووٹ کی بناء پر یہودیوں کی مدد کر رہا ہے اور روسی عرب ملکوں میں اپنا اڈھ جانے کے لئے یہودیوں کی مدد کر رہا ہے.رویہ ایک ہے مگر بواعث مختلف ہیں اور یقیناً روس کے عمل کا محرک امریکہ کے عمل کے محرک سے زیادہ خطر ناک ہے لیکن چونکہ عمل دوادی کا ایک ہے اس لئے ہر سال عالیم اسلامی کو روسی اور امریکہ دونوں کا مقابلہ کرنا ہو گا مگر منتقل اور تدبیر سے، اتحاد اور یک جہتی سے.میں سمجھتا ہوں مسلمان آپ بھی دنیا میں اتنی تعداد میں موجود ہیں کہ اگر وہ مرنے پر آئین تو انہیں کوئی مار نہیں سکے گا لیکن میری یہ اُمیدیں کہاں تک پوری ہو سکتی ہیں اللہ ہی اس کو بہتر جانتا ہے.کشمیر کی لڑائی کو آٹھ مہینے ہو چکے ہیں لیکن اب تک مسلمانوں نے اس پہلو کے کانٹے کے متعلق بھی عقل مندی اور ہوشیاری کا ثبوت نہیں دیا.فلسطین کا خطرہ تو دور کا خطرہ ہے خواہ زیادہ اہم ہے وہ انہیں بیدار کرتے ہیں کہاں کامیاب ہو گا.آج ریز و لیوشنوں سے کام نہیں ہو سکتا، آج قربانیوں سے کام ہو گا.اگر پاکستان کے مسلمان واقعہ میں کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اپنی حکومت کو تو تجہ دلائیں کہ
MAA ہماری جائیدادوں کا کم سے کم ایک فیصدی حقہ اس وقت لے لے.ایک فیصدی حفصہ سے بھی پاکستان کم سے کم ایک ارب روپیہ اس غرض کے لئے جمع کر سکتا ہے اور ایک ارب روپیہ سے اسلام کی موجودہ مشکلات کا بہت کچھ حل ہو سکتا ہے.پاکستان کی قربانی کو دیکھ کر باقی اسلامی ممالک بھی قربانی کریں گے اور یقیناً پانچ چھ ارب روپیہ جمع ہو سکے گا جس سے فلسطین کے لئے باوجود یورپین ممالک کی مخالفت کے آلات جمع کئے جاسکتے ہیں.ایک روپیہ کی جگہ پر دو.دو روپیہ کی جگہ پر تین تین روپیہ کی جگہ پر چار اور بہار روپیہ کی جگہ پر پانچ خرچ کرنے سے کہیں نہ کہیں سے چیزیں مل جائیں گی.یوروپین لوگوں کی دیانتداری کی قیمت ضرور ہے خواہ وہ قیمت گراں ہی کیوں نہ ہو انہیں خریدا ضرور جا سکتا ہے خواہ بڑھیا بولی پر نگر بولی دینے کے لئے جیب بھی بھری ہوئی ہونی چاہیئے.پس یکی مسلمانوں کو توقیہ دلاتا ہوں کہ اس نازک، وقت کو سمجھیں اور یاد رکھیں کہ آج رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانی که الْكُفْرُ مِلَةٌ وَاحِدَةً لفظ بلفظ پورا ہو رہا ہے.یہودی اور عیسائی اور دہریہیل کہ اسلام کی شوکت کو مٹانے کے لئے کھڑے ہو گئے ہیں.پہلے فرد آخر در ایورو میں اقوام مسلمانوں پر حملہ کرتی تھیں مگر آب مجموعی صورت میں ساری طاقتیں مل کر حملہ آور ہوئی ہیں آؤ ہم بھی سب مل کر ان کا مقابلہ کریں کیونکہ اس معاملہ میں ہم میں کوئی اختلاف نہیں.دوسرے اختلافوں کو ان اُمور میں سامنے لانا جن میں کہ اختلاف نہیں نہایت ہی بیوقوفی اور جہالت کی بات ہے.قرآن کریم تو یہود سے فرماتا ہے :.قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَانَوا إلى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الأَنعَبدُ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَ لَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَدْبَابا من دُونِ الله ( آل عمران بچے ) اتنے اختلافات کے ہوتے ہوئے بھی قرآن کریم یہود کو دعوت اتحاد دیتا ہے.کیا اس موقع پر جبکہ..اسلام کی جڑوں پر تیر رکھ دیا گیا ہے.جب مسلمانوں کے مقامات مقدم حقیقی طور پر خطرے میں ہیں وقت نہیں آیا کہ آج پاکستانی افغانی، ایرانی ، ملائی ، انڈونیشین، افریقین ، بریر اور ترکی یہ سب کے سب اکٹھے ہو جائیں اور عربوں کے ساتھ مل کہ اس حملہ کا مقابلہ کریں جو مسلمانوں کی قوت کو توڑنے اور اسلام کو ذلیل کرنے کے لئے دشمن نے کیا ہے ؟ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قرآن کریم اور حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودی ایک دفعہ پھر
۳۸۹ فلسطین میں آباد ہوں گے لیکن یہ نہیں کہا گیا کہ وہ ہمیشہ کے لئے آباد ہوں گے فلسطین پر ہمیشہ کی حکومت تو عِبَادُ اللهِ الصَّالِحُونَ کے لئے مقرر کی گئی ہے.پس اگر ہم تقولی سے کام لیں تو الہ تعالیٰ کی پہلی پیش گوئی اس رنگ میں پوری ہوسکتی ہے کہ یہود نے آزاد حکومت کا وہاں اعلان کر دیا ہے لیکن اگر ہم نے تقولٰی سے کام نہ لیا توپھر و پیش گوئی لیے وقت تک پوری ہوتی چلی جائے گی اور اسلام کے لئے ایک نہایت خطرناک دھکا ثابت ہو گی ہیں ہمیں چاہیئے اپنے عمل سے، اپنی قربانیوں سے اپنے اتحاد سے، اپنی دعاؤں سے، اپنی گریہ وزاری سے اس پیش گوئی کا عرصہ تنگ سے تنگ کر دیں اور فلسطین پر دوبارہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت کے زمانہ کو قریب سے قریب تر کر دیں اور میں کبھتا ہوں اگر ہم ایسا کہ دیں تو اسلام کے خلاف جو کہو پھیل رہی ہے وہ اُلٹ پڑے گی.عیسائیت کمزوری و انحطاط کی طرف مائل ہو جائے گی اور مسلمان پھر ایک دفعہ بلندی اور رفعت کی طرف قدم اُٹھا نے لگ جائیں گے.شاید یہ قربانی مسلمانوں کے دل کو بھی صاف کر دے اور ان کے دل بھی دین کی طرف مائل ہو جائیں.پھر دنیا کی محبت ان کے دلوں سے سرد ہو جائے.پھر خدا اور اس کے رسول اور ان کے دین کی عزت اور احترام پر وہ آمادہ ہو جائیں اور ان کی بے دینی دین سے اور ان کی بے ایمانی ایمان سے اور ان کی شستی پشتی سے اور ان کی بد عملی سعی پیہم سے بدل جائے.خاکسار مرزا محمود احمد امام جماعت احمدیہ لے حضرت امیر المومنین المصلح الموعود کے اس انقلاب انگیز مضمون نے شام ، لبنان، اردن اور دوسرے عرب ممالک میں زیر دست تہلکہ مچا و یا شیخ نوراحمد صاحب میر مجاہد بلاد عربیہ نے اس مضمونی کی نہایت وسیع پیمانے پر اشاعت کی اور شام و لبنان کی تین سو مشہور اور ممتاز شخصیتوں کو چین میں بیشتر وزراء، پارلیمنٹ کے ممبر، کالجوں کے پروفیسر، مختلف وکلاء، بیرسٹر اور سیاسی اور مذہبی لیڈر تھے، خاص طور پر بذریعہ ڈاک بھجوایا اور مجموعی طور پر ہر جگہ اس مضمون کا نہایت ہی اچھا اثر ہوا یہ میں نہیں شام ریڈیو نے خاص اہتمام سے اس کا خلاصہ نشر کر کے اسے دنیائے عرب کے کونہ کونہ تک پہنچا دیا.اخبار اليوم " الفباء الكفاح " " الفيحاء" - "الاخبار" "القبس"." النصر" " اليقظة " صوت الاحرار " النهضة" اور الاردن“ وغیرہ چوٹی کے عربی اخبارات " الفضل ۲۱ ہجرت رمئی ۱۳۲۷ ص ۲۳ ب له الفضل ، او تبوک استمبر ا صبا کالم کا ه $14
٣٩٠ نے جعلی قسم سے اس کے اقتباسات شائع کئے اور متفقہ طور پر حضور کی پیش فرمودہ تجویز کو نہایت درجہ مستحق قرار دیا اور اعتراف کیا کہ مسئلہ فلسطین کے حق میں یہ نہایت کارگر پروپیگنڈا اور پھر اثر آواز ہے جو پاکستان سے امام جماعت احمدیہ کی زبان سے بلند ہوئی ہے.چنانچہ اخبار النہضہ نے (مورخہ ۱۲ جولائی شاہ زیر عنوان مطبوعات" لکھا :- اهد انا السَّيْدُ مِعْزَا مَحْمُودُ أَحْمَد كَرا سَةٌ صَغِيرَةً تَحْتَوى عَلَى الْخِطَابِ درَاسَةٌ الذى الْقَاء في الأهود) باكستان يَدْعُوا فِيهَا الْمُسْلِمِينَ إِلَى الإِةِ الوَالْعَمل الحليم لانْقَادَ فَلَسْطِينَ مِنَ الْصَمَدِينَةِ الْمُجْرِمِينَ كَمَا إِنَّهُ يُهِيبُ بِأَبْنَاءِ الباكِسْنَانِ الْبَرَرَةِ أَنْ تُبَادِرُوا إِلَى مُسَاعَدَةِ عَرَبِ فَلَسْطِينَ بِالْمَالِ وَيُذَكِّرُهُمْ بالرّسولِ الكَرِيمِ (ص) مُسْتَشْهِدًا بِآيَاتِ شَرِيفَةٍ يَحُضُّ فِيهَا الْمُسْلِمِينَ أَنْ يَقِفُوا صَفًّاةَ احدًا أَمَاءَ سَيْلِ الصّهُيُونِيَّةِ الْمُجْرِمَةِ الَّتِي تُويَّدُهَا كُلُّ مِنْ أَمْرِيكَا وَرُ وسَيَا الشَّيُوعِيَّةُ لِمَصَالِمَ وَغَايَاتٍ فِى نَفْسِهِ هِمَا وَيَدْعُوهُمْ أَنْ لا يَتُوا نَوْا وَ أَنْ يَضَعُوا نُصْبَ أَعْيُنِهِمْ مَا يُمَلِيْهِ عَلَيْهِم الْوَاءِ يَوَانَوْا الواجب من الجهَادِ فِي سَبِيلِ الْإِسْلَامِ وَالْمُسْلِمِينَ وَهِيَ خُطْبَةٌ جَيْدَةُ وَدِعَايَةً حَسَنَةٌ لِفَلَسْطِينَ وَالْمُسْلِمِينَ نَدْعُو اللَّهَ أَنْ تُحَقِّقَ آمَا لَنَا دَ آمَانِيهُ الْعَذَبَ فِي سَبِيلِ دِينِنَا الْقَدِيمِ وَاللَّهُ مِنْ اور وَرَاءِ الْقَصْدِ (ترجمہ) ہمیں ایک ٹریکٹ موصول ہوا ہے جو السید مرزا محمود احمد صاحب کے ایک خطبہ پر مشتمل ہے جو انہوں نے لاہور (پاکستان) میں دیا ہے.اس خطبہ میں خطیب نے تمام مسلمانوں کو دعوت اتحاد دی ہے اور صیہونی مجرموں کے چنگل سے فلسطین کو نجات دلانے کے لئے ٹھوس اور موثر اقدام کی طرف توجہ دلائی ہے نیز اہل پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فلسطینی عربوں کی فوری اعانت کریں اور مسلمانوں کو سول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی یاد دلاتے اور آیات قرآنی سے استشہاد کرتے ہوئے ترغیب دی ہے کہ وہ مجرم صیہونیوں کے سیلاب کا مقابلہ کرنے کے لئے صف بستہ ہو جائیں جن کی پشت پنا ہی امریکہ اور اشتراکی روس اپنی مصالح اور خاص اغراض کے ماتحت کر رہے ہیں اور مسلمانوں کو تو یہ دلائی ہے کہ
۳۹۱ وہ ضعف و اضمحلال کا اظہار نہ کریں بلکہ اسلام اور مسلمانوں کی ترقی کے لئے جہاد کے سلسلہ میں عائد شد ذمہ داری اپنے سامنے رکھیں.یہ ایک نہایت عمدہ خطبہ اور فلسطین اور مسلمانوں کے حق میں نہایت اچھا پروپیگینڈا ہے ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ ہماری ان نیک آرزوؤں اور عمدہ خواہشات کو جو ہمارے دین قویم کے لئے ہمارے دلوں میں موجزن ہیں تحقیق فرمائے.آمین.اخبار الف باء (دمشق) نے حسب ذیل نوٹ سپر د اشاعت کیا.فَلَسْطِينَ وَكَشْمِيرَ يَقْطَهُمَا بَنُوا إِسْرَائِيلَ " وَصَلَتْ إِلَيْنَا نُسْخَةٌ مِنْ خُطْبَةٍ الْقَاهَا فِي لَا هُوَر بَاكِسْتَانَ السَّيِّدُ مِرْزا محمود احمَدٌ اِمَامُ الْجَمَاعَةِ الْقَادِيَانِيَّةِ بِمُنَاسَبَةِ تَشْكِيْلِ دَولَةٍ صَيبُهُدُ نِيَّةٍ مُزَيَّفَةٍ فِي فَلَسْطِينَ - قَالَ فِيهَا :- ومِنَ الْغَرِيْبِ أَنَّ قَضِيَّةَ كَشْمِيرَ وَقَضِيَّةَ فَلَسْطِينَ عُرِضَنَا لِلْبَحْثِ وَالتَّنْقِيْبِ في زَمَن وَاحِدٍ وَمِنَ الْعَجِيْبِ أَيْضًا اَنَ كَشْمِيرَ وَ فَلَسْطِينَ يَقْطُهُمَا قَوْم وَاحِدُ اغنى بَنِي إِسْرَائِيلَ وَمِنَ الْعَجَبِ الْعُجَابِ اَنَّ جُزْءًا مِنْ هَذَا الْقَوْمِ الَّذِي كان قد اسْلَمَ يَجْزِبُ الْيَوْمَ عَوَاطِفَ الْمُسْلِمِيْنَ وَمَوَاسَاتِهِمْ فِي قَضِيَةِ ؟ وَشَطْرُ آخَرُ مِنْهُ الْقَاطِنُ بِفَلَسْطِينَ يُقَاتِلُ الْمُسْلِمِينَ مُقَاتَلَةَ الْمُسْتَمِيتِ والنصفُ مِنْهُمْ يُقَدِّمُ الصَّحَايَا لِلإِحْيَاءِ الْمُسْلِمِينَ وَالنِّصْفُ الْآخَرُ يَبْدُلُ مجهوداته الإما نتهم.وَلَقَدْ نَسْمَعُ فِي الْأَنْبَاءِ الْوَارِدَةِ مِنَ الْجِهَةِ الْحَرْبِيَّةِ بِكَشْمِيرِ ذِكرَ كَاشِرٌ (اسم) يُطْلَقُ عَلَى كُلِّ كَشْمِيْرِي ، وَكَذَلِكَ يَاتِي ذِكْرُ بَلْدَةِ " كَاشِرَ فِي الْمَنْشُورَاتِ الْحَرْبِيَّةِ الفَلَسْطِينِيَّةِ غَيْرَ مَرَّةٍ وَعَلَى على هذا الاسم كَانَ سُمي كشمير كاشير ثُمَّ تَبَدَّلَ بِمُرُورِ الزَّمَانِ بِكَشْمِيْر أَوْ أَنْ نَقُولَ إِنَّ كَثِمِيرَ كَانَ فِي الْأَصَلِ کا شیر آئی مِثْلُ سِيرَ يَا ( الشَّاءُ) وَالْخَطْبَةُ مَطْبُوعَةٌ فِي مَطَبَعَةِ الفَيْضِ بِبَغْدَادَ وَقَدْ حَمَلَ فِيْهَا الْخَيْبُ "
۳۹۲ عَلَى آمريكا وروسيا وَحْدَهُمَا لِمُنَا صَرَتِهِمَا الشَّهْيُونِيَّة " فلسطین اور کشمیر میں بنو اسرائیل آباد ہیں (ترجمہ) ہمیں جناب مرزا محمود احمد امام جماعت قادیانیہ کے خطاب کا نسخہ موصول ہوا ہے جو کہ انہوں نے فلسطین میں نام نہاد صیہونی حکومت کے قیام کے سلسلہ میں دیا ہے آپ اس خطبہ میں فرماتے ہیں یہ عجیب بات ہے کہ ایک ہی وقت میں فلسطین اور کشمیر کے جھگڑے شروع ہیں.یہ عجیب بات ہے کہ کشمیر اور فلسطین ایک ہی قوم سے آباد ہیں اور یہ عجیب تر بات ہے کہ اس قوم کا ایک حقہ مسلمان ہو کہ آج کشمیر میں مسلمانوں کی ہمدردی کھینچ رہا ہے اور دوسرا حصہ فلسطین میں مسلمانوں کے ساتھ زندگی اور موت کی تنگ میں محر لے رہا ہے.آدھی قوم اسلام کے لئے قربانیاں پیش کر رہی ہے اور آدھی قوم اسلام کو مٹانے کے لئے قربانیاں پیش کر رہی ہے.کشمیر کی جنگ میں کا شر یعنی کشمیر کا نام سنتے ہیں آتا ہے اور فلسطین کی جنگ یں بھی کا شر شر کا ذکر بار بار آرہا ہے.اس کا متر کےنام پرکشمیر کا نام اشرکا گیا تھا جواب برا کر کشمیر ہوگا ہے یا یہ کہ یہ کا شیر ہے یعنی سیر یا شام کی طرح " یہ لیکچر بغداد کے مطبعہ الفیض میں طبع ہوا ہے اور اس میں (فاضل ، لیکچرار نے صیہونیت کی پشت پناہی کے باعث امریکہ اور روس دونوں کے خلاف آواز بلند کی ہے.(الف باء دمشق) اخبار صوت الاحرار نے اس انقلاب انگیز مضمون پر حسب ذیل تبصرہ شائع کیا :- الكُفْرُ مِلَّة وَاحِدَة بهَذَا الْعُنْوَانِ اَلْقَى السَّيِّدُ مِرُنَا مَحْمُودُ أَحْمَدُ اِمَامُ الْجَمَاعَةِ الْأَحْمَدِيَّةِ القاديانية في لاهور ( باكستان) خُطْبَةً مُطَوَّلَةً حَمَلَ فِيْهَا بِشِدَّةٍ وَعَنْفٍ على الهيُونِيَةِ الأَيْمَةِ الْمُجْرِمَةِ - وَلَمْ يُخْفِ اسْتِغْرَابُهُ الْعَمِيقُ مِنْ اجتماع المُتَنَا قِضَاتِ وَاتَّحَادِ الْأَعْدَاء فِي سَبِيلِ اِنْكَارِ عُرُوبَةٍ فَلَسْطِيْن وَالْإِعْتَرَانِ بِكِيَانِ الْيَهُودِ الْمَوْهُو مِ وَيُتَابِعُ حَمَلْتَهُ الشَّدِيدَةَ ضِةٌ السَّيَاسَةِ الإِسْتِعْمَارِيَّةِ الَّتِي تَنْشُرُ دَوما و ابدًا الاسْتِغْلَالَ وَالظُّلْمَ ثُمَّ يُقَارِنُ مَوْقِفَ هَؤُلَاءِ الْمُعْتِدِينَ مِنْ قَضِيَّةٍ فَلَسْطِينَ بِمَوْقِفِهِمْ مِنْ قضيَّةِ كَشْمِيْرٍ وَيَخْلُصُ إِلَى الْقَوْلِ اَنْ لَّا سَبِيلَ إِلَى الاسْتِقَلَالِ وَالْخَلاصِ
۳۹۳ من كل نيو اجنبي بِغَيْرِ الْإِلْحَادِ وَ التَّالُفِ (ترجمہ) " الكفرُ مِلةُ وَاحِدَةٌ » " مندرجہ بالا عنوان پر السید مرزا محمود احمد امام جماعت احمدیہ نے لاہور (پاکستان) میں ایک طویل لیکچر دیا ہے اس لیکچر میں آپ نے پوری قوت سے ظالم صیہونیت پر حملہ کیا ہے اور متناقضات اور دشمنوں کے اتحاد و اجتماع سے اپنے گہرے تجب کو پوشیدہ نہیں رہنے دیا مبادا فلسطینی عربوں کے مطالبہ کا انکار اور یہو دن مسعود کے موہوم حقوق کا اعتراف کیا جائے آپ اس استعماری سیاست کے خلاف نبرد آزما ہیں جو ہمیشہ ظلم اور ناجائز فائدہ اُٹھانے کا اظہار کرتی ہے پھر آپ نے ان ظالموں کے موقف کا باہمی مقابلہ مسئلہ فلسطین اور کشمیر سے کیا ہے اس لیکچر کا خلاصہ یہ ہے کہ سامراجی استعمار سے آزادی یہ اور نجات اتحاد اور تعاون کے بغیر ناممکن ہے.اخبار الشوریٰ (بغداد) نے اپنے وارجون 19ء کے پرچہ میں ایک عربی نوٹ لکھا جس کا ترجمہ درج ذیل ہے :- ม حضرت مرزا محمود احمد صاحب کا ایک خطبہ " ہمیں ایک ٹریکٹ ملا ہے جو بغداد میں چھپا ہے جس میں حضرت مرزا محمود احمد امام جماعت احمدیہ قادیان کے ایک پُر جوش خطبہ کا ذکر کیا گیا ہے جو انہوں نے نام نہاد اسرائیلی حکومت کی تشکیل کے اعلان کے بعد لاہور (پاکستان) میں پڑھا.اس خطبہ کا عنوان ہے الكفرُ مِلَةُ وَاحِدَةً ، جن اصحاب نے بیفید ٹریکٹ شائع کیا ہے ہم ان کی اسلامی غیرت اور اسلامی مساعی پرپر شکریہ ادا کرتے ہیں.استعماری طاقتوں کی سازش کوسی اور امریکہ کی استعماری طاقتوں کومسلمانوں کے اتحاد کی اور اس کا انکشاف ہو تو تیری تحریک بالا گوارا ہوسکتی تھی اس لئے جونی ان کے کانوں میں یہ آواز پہنچی انہوں نے خود مسلمانوں ہی کے ایک طبقہ کو آلہ کا رہنا کر جماعت احمدیہ کے خلاف پراپیگنڈا کرنے کی مہم شروع کرا دی.اس گہری سازش کا سنسنی خیز انکشاف بغداد کے مقتدر جویده الانباء " کے ایک فاضل اور کہنہ مشق ادیب اور نامہ نگار الاستاذ على الخياط آفندی نے کچھ سال بعد کیا.چنانچہ انہوں نے بغداد کے مشہور اخباره الأنباء " (مورخہ ۲۱ ستمبر ۹۵ ) میں مندرجہ ذیل مقالہ سپر واشاعت کیا :-
۳۹۴ اَصَابِعُ الاستعمار التي تَلْعَبُ وَرَاءَ الْقَادِيَانِيَّة فِي كُلِّ مَكَانِ قامَتْ بَعْضُ الصُّحُفِ فِي الْآوِنَةِ الْآخِيرَةِ بِتَوْجِيهِ النَّقْدِ ضِدَّ جَمَاعَةِ القَادِيَانِيَّةِ بِصُورَةٍ مُسْتَمَرَةِ وَبِشَكلٍ يُشِيرُ الْاهْتِمَا مَ فَمَا هِيَ الْقَادِيَانِيَّةُ وَ ما هُوَ الدَّافِعُ لِاِنْتِقَادِهَا بِهَذِهِ الصُّورَةِ عَلَى صَفَحَاتِ الصُّحُفِ ؟ هُنَاكَ مُشْكَلَةٌ مُعَمَّدَةُ بَيْنَ الْقَادِيَانِبِينَ وَخُصُومِهِمْ نَظرًا للتهم التي تكال اللَيْهِمْ حَقًّا أَو بَاطِلاً فَالْقَادُ يَا نيونَ يَطْلُقُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ (الْجَمَاعَةُ الاحمدِيَّة ) وَيَدَعُونَ أَنَّهُمْ مِنْ أَتْبَاعِ مِنُوزَاغُلَامُ أَحْمَدَ الَّذِي كَانَ يسكن في قَرْيَةِ قاديَان فِي الْهِنْدِ وَالَّذِي أَرْسَلَهُ اللهُ لِتَوْثِيقِ عُرَى الدِّينِ ويعتبرُونَهُ المَهْدِي الْمَوْعَودُ وَ الْمَسِيحَ الْمَعْهُودَ الَّذِي تَنْبَاتِ الكُتُبُ 11 الدِّينِيَّةُ بِمَجْلِيْهِ فِي آخِرِ الزَّمَانِ وَهُمْ مُتَمَتِكُونَ بِتَعَالِيمِ الْإِسْلَامِ وَمُتَعَصِبُونَ لِلْدِيَانَةِ الْإِسْلَامِيَّةِ وَيَعْتَنِقُونَ المَذْهَبَ الحَنْفى وا مَّا خُصُومُهُمْ فَيُطْلِقُونَ عَلَيْهِمْ لَقَبَ الْقَادِ يَا نِيَّةِ) وَيَعْتَبِرُونَهُمْ مُرتَدين ( عن الدِّيَانَةِ الْإِسْلَامِيَّةِ رَغْمَ تَظَاهِرِهِمْ بِالتَّمَسُّكِ بِالدِّينِ الْإِسْلَامِي وَرَغمَ ادائهِمُ الْفَرَائِضَ الدِّينِيَّةِ حَسْبَ الشَّرِيعَةِ الْإِسْلَامِيَّةِ والاحمدِيَّةُ أَوِ الْقَادِيَانِيَّةُ كَمَا يَسِييْهَا خُصُومُهَا لَيْسَتْ وَلِيْدَةَ الْيَوْمِ بل مضى على تَأْسِيسِهَا سَبْعُونَ سَنَةً فِي قَرْيَةِ قَادِيَان بِالْهِنْدِ وَاتَّبَعَهَا بَعْضُ الَّذِي كَانُوا يَعْتَبِرُونَهَا الطَّرِيقَةَ الْحَقَةَ حَسْبَ اِعْتِقَادِهِمْ وَسَوَاءَ أَكَانَتْ هذهِ الطَّرِيقَةُ حَقَةً أَوْ بَاطِلَةً وَسَوَاءَ أَكَانَتْ هَذِهِ الْفِئَةٌ مُسْلِمَةٌ أَوْ خَارِجَةً عَلَى الْإِسْلَامِ فَلَيْسَ هُنَاكَ مَا يُبَرِّرُ لِلصُّحُفِ اِنْتِقَادَهَا بِهَذَا الشَّكْلِ وَفِي مِثْلِ هَذَا الوَقْتِ الَّذِي يَحْتَاجُ فِيْهِ الْمُسْلِمُونَ إِلَى الْإِلْحَادِ وَجَمْعِ الْصُفُونِ لِمُوَاجِهَةِ الْأَخْطَارِ الْمُحِيطَةِ بِهِمْ مِنْ كُلِّ جَانِبِ - وَقَدْ يَسْتَغْرِبُ القُرآءُ إِذَا عَرِفُوا أَنَّ لَيْسَ فِي الْعِرَاقِ مِنْ اتَّبَاعِ هَذِهِ الجماعة سوى ثَمَانِيَ عَشَرَ عَائِلَةً فَقَط تَسْكُنُ تِسْعُ مِنْهَا فِي بَغْدَادَ وَارْبَعُ
۳۹۵ في الْبَصْرَةِ وَارْبَعُ فِي الْحَبانِيَّةِ وَعَائِلَةُ وَاحِدَةٌ فِي خَانقين وَإِنَّ جَمِيعَ هؤلاء جَاؤُا مِنَ الْهِنْدِ إِلَى الْعِرَاقِ بِقَصْدِ التَّجَارَةِ وَقَدْ تَجَنَّسَ بَعْضُهُمْ بالجنْسِيَّةِ الْعِرَاقِيَّةِ كَمَا بَقِي الْبَعْضُ الآخرُ عَلى جِنْسِيَّتِهِمُ الْهِنْدِيَّة التى اسْتَبْدَلُوهَا بِالْبَاكِسْتَانِيَّةِ بَعْدَ تَقْسِيم الهند.وَبِالْرَغْمِ مِنْ مُرُورِ عَشَرَاتِ السّنِينَ عَلَى بَقَاءِ هَؤُلَاءِ فِي الْعِرَاقِ فَإِنَّهُمْ لَمْ يُدْخِلُوا شَخصا واحدًا مِنَ الْعِرَاقِيْنَ فِي زُمْرَتِهِمْ وَلَيْسَ لَهُمْ أَيُّ مَعْبَدٍ خَاصٌ أَوْ إِجْتِمَا عَاتٍ مَذْهَبِيَّةٍ خَاصَّةٍ وَيَقْتَصِرُ نِشَالُهُمْ على توزيع بَعْضِ الصُّحُفِ وَالكَرَاسَاتِ الَّتِي تَحَثُ عَنْ رُقِي الْإِسْلَامِ أو الدفاعِ عَنْ عُرُوبَةٍ فَلِسْطِينَ أَوْلِيَانِ بَعْضِ الدُّوَلِ الْإِسْلَامِيَّةِ وَالْآن يَتسَاءَلَ الْقَارِئُ إِذَا كَانَ الْأَمْرُ كَذَلِكَ فَمَا هُوَ سَبَبُ هَذِهِ الْحَمْلَةِ وَهُذَا الْانْتِقَادُ عَلَى صَفَحَاتِ الْجَرَائِدِ؟ ليس هُنَاكَ سِوَى سَبَبٍ وَاحِدٍ وَهُ وَلا صُبعُ الاسْتِعْمَارِ الَّذِي يَلْعَبُ دورا هَا مَّا فِى هَذِهِ الْقَضِيَّةِ لِبَتِ الشَّقَاقِ وَالتَّفَرقَةِ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ الذين لازالوا بانتظارِ الْيَوْمِ الْمَوْعُودِ الَّذِي يَقُومُونَ فِيهِ بِجَولَتِهِمُ الثَّانِيَةِ لِتَطْهِيرِ الْبِلادِ الْمُقَدَّسَةِ مِنْ أَرْجَاسِ الصّهيونِيَّةِ وَإِعَادَةِ فِلسطين إلى أصْحَابِهَا الشَّرْعِيّينَ - إِنَّ الْاسْتِعْمَارِ يَخْشَى أَنْ يَتَحَقَّقَ حِلْمُ الْعَرَبِ هذا وَ تَزُولِ دَوْلَةٌ إِسْرَائِيلَ الَّتِي تَحْمِلُ الكَثِيرَ مِنَ الْمَشَاقِ فِي سَبِيلِ تكوينهَا فَيَعْمِدُ إِلى إِثَارَةِ الشَّقَاقِ بَيْنَ طَوَائِفِ الْمُسْلِمِينَ بِإِشَارَةِ رَاتِ لِتَقُومَ بَعْضُ العَنَامِيرِ بِتَكْفِيرِ فِئَةِ الْأَحْمَدِيَّةِ وَالتَّشْهِيُرِبِهِمْ حَتَّى يُؤَدِّى ذَلِكَ إِلَى الشَّقَاقِ بَيْنَ الْبَاكِسْتَانِ وَبَيْنَ بَعْضِ الدُّوَلِ الْعَرَبِيَّةِ الَّتِي تَقَوْمُ مُحْفُهَا بِتَكْفِيرِ ظَفَرُ الله جَانَ وَزِيْرِ خَارِجِيَّةٌ بَاكِسْتَانِ الَّذِي يَتَّبِعُ الطَّرِيقَةَ الْأَحْمَدِيَّةَ.وَلَعَلَّ كَثِيْرًا مِنَ الْقُرَاءِ يَذْكُرُونَ مُحَاوَلَةَ بَعْضِ الْعَنَاصِيرِ فِي بَاكِسْتَان
۳۹۶ قبل مدَّةٍ تَأْسِيسِ الإِسْلَامستان) اى جَامِعَةِ الدُّوَلِ الْإِسْلَامِيَّةِ وَذَلِكَ يجمع كَافَةِ الدُّوَلِ الْإِسْلَامِيَّةِ فِي مُنَظَمَةِ وَاحِدَةٍ لِتَسْبِيرِ سِيَاسَتِهَا الْخَارِجِعَةِ وَالْمُحَافَظَةِ عَلَى كِيَانِهَا وَ اسْتِقْلَا لِهَا إِلَّا أَنَّ هَذِهِ الْمُحَاوَلَةَ بَاءَتْ بِالْفَضْلِ بَعْدَ أَنْ وَقَفَ بَعْضُ العَنَاصِيرِ مِنْهَا مَوْقِفًا مُعَارِضًا وكَانَ مِنْ جُمْلَةِ الْأَسْبَابِ الَّتِي أَدَتْ إِلى فَضْلِ هَذَا الْمَشْرُوعِ هُوَ سلاحُ التَلْفِيرِ الَّذِي نَاوَلَهُ الْاِسْتِعْمَا رُلِيدِ بَعْضِ الْمُتَطَرِفِينَ لِيَشْهَرُوهُ فِي وُجُوهِ الَّذِينَ تَبَلُّوا الْمَشْرُوعَ الْمَذْكُورَ لَا تَهُمْ فَادِيَانِيُّونَ وَمَا رِقُونَ عن الإسلامي وقَدْ يَظُنُّ بَعْضُ الْقُرَاءِ انَّ مَا اَذْكُرُهَ مِنْ تَدَخُلِ الْاِسْتِعَارِ فِي هذِهِ الْعَصْيَةِ لَيْسَ إِلَّا وَلِيدُ الْحَدَسِ وَالطَّنِ الا اني أُوَلِيدُ لِلْقَرَاءِ بِأَنِّي مُطَّلِعُ كُلَّ الْإِطْلَاعِ عَلَى تَدخُلِ الْاِسْتِعْمَارِ فِي هَذِهِ الْقَضِيَّةِ إِذَا انَّهُ حَاوَلَ أنْ يَسْتَغْلَنِى فِيهَا بِالذَّاتِ عَامَ ۱۹۳۸ أَثْنَاءَ حَرْبِ فِلِسْطِينَ كنتُ حِينَئِذٍ أَحَدِرُ إِحْدَى العَفِ الْفُكَاهِيَّةِ وَكَانَتْ مِنَ الصُّحُفِ الانْتِقَادِيَّةِ الْمَعْرُوفَةٍ فِى عَهْدِهَا وَقَدْ أَرْسَلَ إِلَى مُوَظَفٌ مَسْئُولُ فِي إحدَى الهَياتِ الدِّيلُومَاسِيَّةِ الأَجْنَبِيَّةِ فِي بَعْدَادَ يَدْعُونِي لِمُقَابِلَتِهِ وبعد تقدِيمِ الْمَجَا مَلَةٍ وَكَيْلِ الْمَدِيحِ عَلَى الْأَسْلُوبِ الَّذِي اتبعه في النَّقْدِرَ جَانِى اَنْ اَنتَقِدَ الْجَمَاعَةَ الْقَادِيَانِيَّةَ عَلَى صَفَحَاتِ الْجَدِيدَةِ المذكُورَةِ بِالدَعِ طَرِيقَةٍ مُمْكَنَةٍ لِاِنهَا جَمَاعَةٌ مَارِقَةً عَنِ الدِّينِ فَاجَبْتَهُ فِي بَادِي الْأَمْرِ بِأَنِّي لَا أَعْلَمُ شَيْئًا عَنْ هَذِهِ الْجَمَاعَةِ وَعَنْ معتقداتِهَا وَلذَلِكَ لا يُمكنني أن أنْتَقِدَهَا فَزَوَّدَنِي بِبَعْضِ الْكُتُبِ التي تَحَتْ فِي مُعْتَقِدَاتِ الْقَادِ يَا نِيَّةِ كَمَا أَنَّهُ زَوَّدَ فِي بِبَعْضِ الْمَقَالَاتِ عَسَى أَن تَنفَعَنِى بَعْضُ عِبَارَاتِهَا فِي كِتَابَةِ مَقَالَاتِي الْمَوْعُودَةِ وَاسْتَطَعْتُ ان اطلع عَلَى بَعْضٍ عَقَائِدِ الْجَمَاعَةِ مِنْ مُطَالَعَةِ الْكُتُبِ الَّتِي زَوَّدَ فِي بِهَا
۳۹۷ المسولُ الْمَذْكُورُ وَ الَّتِي لَمْ أَجِدْ فِيهَا شَيْئًا يَدُلُّ عَلَى تَكْفِيرِهِمْ حَسْبَ اعتقادِي وَبَعْدَ عِدَّةِ مُقَابَلَاتٍ طَلَبْتُ مِنْهُ أَنْ يَعْدُ رَنِي عَنْ تِلْكَ الْمُهِمَّة نظرا لاعْتِقَادِى بِأَنَّ ذلِكَ يُسبب الشَّقَاقَ بَيْنَ الطَّوَارُفِ الْإِسْلَامِيَّةِ فِي مِثْلَ ذلِكَ الْوَقْتِ بِالذَّاتِ فَاجَابَ قَائِلاً : أَلا إِنَّ هَؤُلَاءِ لَيْسُوا بِمُسْلِمِينَ وَقَدْ كفرَهُمْ عُلَمَاءُ جَمِيعِ الطَّوَائِفِ الْإِسْلَامِيَّةِ فِي الْهِنْدِ فَقُلْتُ لَهُ إِنَّ أَقْوَالَ عُلَمَاءِ الْهِنْدِ لَيْسَتْ اَقْوَى مُجَةً مِنَ الْآيَةِ الْقُرْآنِيَّةِ الَّتِى تُصَرِحَ بِأَنْ لا تَقُولُوا لِمَنْ الْقَى إِلَيْكُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا فَمَا كَانَ مِنْهُ الا ان قَالَ غاضِبًا وَهَلْ أَثَرَتَ فِيْكَ دِعَايَةُ الْقَوْمِ فَخَرَجَتْ عَنِ الْإِسْلَامِ وَاصْبَحْتَ قاد يا نيَّا وَ أَخَذْتَ تُدَافِعُ عَنْهُمْ فَقُلْتُ متهكما كُنْ عَلَى يَقِيْنِ يَا هذا.بأني لا اسْتَطِيعُ أَنْ اَدَعِي بِإِنِّي مُسْلِمُ بِكُلِّ مَا فِي هَذِهِ الْكَلِمَةِ مِنْ مَعْنَى بالرغم من قضائي عَشَرَاتِ السّنِينَ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ فَهَلْ تَكِفِى مُطَالَعَةُ بِضْعَةِ كُتَبِ لِلْقَادِيَانِيَةِ أَنْ تَجْعَلَنِى قَادِيَانيًا ؟ وقَدْ طَلَعْتُ خِلَالَ تَرَدُّ دِى عَلَى هَذِهِ الْهَيْئَةِ بِأَنِّي لَسْتُ الْوَحِيدَ المُكَلَّفَ بِهَذِهِ الْمُهِمَّةِ بَلْ هُنَاكَ أَنَا آخَرُونَ يُشَارِكُونَنِي التَّكْلِيفَ كما انّي لَمْ أَكُنُ الشَّخصُ الْوَحِيد الَّذِي رَفَضَ بَلْ رَفَضَهُ غَيْرِي أَيْضًا كانَ ذلِكَ عَام ۱۹۲۸ فِي الْوَقْتِ الَّذِي اقْتُطِعَ فِيْهِ جُزْء مِنَ الْآرَاضِي المُقَدَّسَةِ وَقدَمَ لُقْمَةٌ سَائِنَةً لِلصَهُيُدْنِينَ وَإِنِّي أَظُنَّ أَنَّ اقْدَامَ الْهَيْئَةِ الْمَذْكُورَةِ عَلَى مِثْلِ هَذَا الْعَمَلِ كَانَ رَدُّ فِعْلِ لِلْكُرَاسَتَيْنِ التَيْنِ نَشَرَتُهُمَا الْجَمَاعَةُ الْأَحْمَدِيَّةُ فِي ذلِكَ الْعَاءِ بِمُنَاسَبَةِ تَقْسِيم فلسطين وكَانَتْ إِحْدَاهُمَا بِعُنْوَان هَيْئَةِ الْأُمَمِ الْمُتَحَدَةِ وَقِرَارِ تَقْسِيمِ فِلِسْطِينَ التى كانتْ تَبْحَثُ فِي المُؤْمَرَاتِ الَّتِي دُرَتْ فِي الْخِفَاءِ بَيْنَ الْمُسْتَعْمِرِينَ والصهيونينَ لِتَسْلِيمِ الْمَوَانِيُّ الْفَلِسْطِينِيَّةِ إِلَى الصَّهْيُونِينَ وَكَانَتِ الثَّانِيَةُ بِعُنْوَانِ الْكُفْرُ مِلَةٌ وَاحِدَةً، وَكَانَتْ تَحتُ الْمُسْلِمِينَ عَلَى تَوْحِيدِ
PQA الصفونِ وَجَمْعِ الْمَالِ لِمُحَارَبَةِ الشَّيُونِينَ وَتَطْهِيرِ الْبِلَادِ الْمُقَدَّسَةِ من أرحاميهم، هذَا مَا اطَّلَعْتُ عَلَيْهِ بِنَفْسِي فِي ذلِكَ الْحَيْنِ وَإِنِّي وَاثْقَ كُلَّ الْوُقُوقِ بِأَنَّ الأحمدينَ مَا دَامُوا يَذِلُونَ الْجُهُودَ الجَمْعَ كَلِمَةِ الْمُسْلِمِينَ وَتَوْحِيدِ صُفُوفِهِمْ وَيَبْحَثُونَ عَنْ أَسْبَابِ تُتِيْحُ لِلْمُسْلِمِينَ الْقَصَارِ عَلَى دَوْلَةِ إسرائيلَ القِيْطَةِ ضَيْعَةِ الْمُسْتَعْرِينَ فَإِن الْإِسْتِعْمَارَ لَنْ يُتَوَانَ عَنْ تَحْرِيكِ بَعْضِ الْجِهَاتِ لِلْتَشْهِيُرِ بِهِمْ بِقَصْدِ تَشْرِيْتِ الْكَلِمَةِ له (ترجمہ) غیر ملکی طاقتیں جماعت احمدیہ کی مخالفت کی آگ بھڑکا رہی نہیں گزشتہ دنوں بعض اخبارات نے قادیانی جماعت کے خلاف پے در پے ایسی صورت میں نکتہ چینی کی ہے کہ جس کی طرف انسان کو تو یہ کرنی پڑتی ہے.قادیانیت کیا ہے ؟ اور اخبارات ہیں اس کے متعلق اس طرح نکتہ چینی کرنے کی کیا وجہ ہے ؟ قادیانیوں اور ان کے مخالفین کے درمیان ایک مشکل درپیش ہے قطع نظر اس امر کے کہ وہ اتہامات جو قادیانیوں پر لگائے گئے ہیں وہ درست ہیں یا غلط ہیں قادیانی لوگ اپنے آپ کو جماعت احمدیہ کہتے ہیں اور وہ میرزا غلام احمد صاحب کے پیرو ہونے کے مدعی ہیں جو سہندوستان میں قادیان کی بستی میں رہتے تھے اور نہیں ان کے دعووں کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اس لئے بھیجا تھا کہ دین اسلام کو مستحکم کریں.قادیانی انہیں وہی مہدی موعود اور سی معبود سمجھتے ہیں جن کے آخری زمانہ میں آنے کے متعلق مختلف مذہبی کتابوں میں شگوئی پائی جاتی ہے.قادیانی اسلامی احکام پر عمل پیرا ہیں اور اسلام کے لئے بغیرت رکھتے ہیں اور وہ حنفی مذہب کی پیری کرتے ہیں.احمدیوں کے مخالف، انہیں قادیانی کے لفظ سے پکارتے ہیں اور ان کے ظاہری طور پر اسلام کی تعلیم پر عمل پیرا ہونے اور شریعت کے مطابق دینی فرائض کے ادا کرنے کے با وجود انہیں مرتدات مدار MA دیتے ہیں.مه احمدیت یا قادیانیت کوئی آج نئی پیدا نہیں ہوئی بلکہ قریباً ستر سال پہلے ہندوستان کے شہر الأنباء البغداد) مورخہ الا ستمبر 19 بحوالہ الفرقان ربوه فتح دسمبر صدای ضمیمه ۶۱۹۵۴
۳۹۹ قادیان میں اس کی بنیاد رکھی گئی اور جو لوگ اس طریقہ کو درست سمجھتے تھے انہوں نے اپنے عقیدہ کے مطابق اس کی پیروی کی بہمارے نزدیک خواہ یہ طریقہ درست ہو یا باطل ہوا خواہ یہ لوگ مسلمان ہوں یا اسلام سے خارج ہوں بہر حال اخبارات کے لئے کوئی معقول وجہ اس امر کی نہیں ہے کہ وہ اِس نازک وقت میں جبکہ مسلمانوں کو چاروں طرف سے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے اتحاد اور یک جہتی کی ضرورت ہے اس طرز پر قادیانیت کو اپنی تنقید کا ہدف بنائیں.شاید قارئین کو تب ہو گا جب انہیں یہ حلوم ہوگا کہ سارے عراق میں اس جماعت کے صرف ۱۸ خاندان لیتے ہیں.9 خاندان بغداد میں، چار بقرہ میں چار مبانیہ میں اور ایک خاندان خانقین ہیں.اور یہ سب لوگ ہندوستان سے عراق میں تجارت کی نیت سے آئے تھے بعض نے ان میں سے عراقی قومیت کے سرٹیفیکیٹ حاصل کر لئے ہیں اور بعض اپنی مہندوستانی قومیت پر قائم رہے جسے انہوں نے ہندوستان کی تقسیم کے بعد پاکستانی توقیت میں تبدیل کر لیا.عراق میں اتنے عرصہ سے رہنے کے باوجود انہوں نے کیسی عراقی شخص کو اپنی جماعت میں داخل نہیں کیا.ان کا کوئی اپنا معبد نہیں ہے اور نہ ہی ان کے کوئی خاص مذہبی اجتماعات ہیں.ان کی ساری جد و جہد بعض اخبارات اور ایسے ٹریکٹ تقسیم کرنے میں منحصر ہے جن میں اسلام کے غلبہ کے متعلق دلائل دیئے گئے ہیں یا فلسطین اور حیض اسلامی حکومتوں کے دفاع پرگفت گو کی گئی ہے.اس جگہ پر پڑھنے والے کے دین میں یہ سوال پیدا ہو گا کہ جب واقعہ یہ ہے تو اخبارات میں قادیانیوں پر اس طرح نکتہ چینی کرنے اور اس حملے کی کیا وجہ ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ اس کا صرف ایک سبب ہے اور وہ یہ کہ استعماری طاقتیں مسلمانوں میں تفرقہ اور شقاق پیدا کرنے کے لئے خاص کوشش کر رہی ہیں اور وہ انہیں اپنی انگلیوں پر نچانا چاہتی ہیں کیونکہ مسلمان ابھی تک اس انتظار میں ہیں کہ وہ یوم موجود کب آتا ہے کہ جب وہ دوبارہ بلا د مقدسہ کو یہودیت کی لعنت سے پاک کرنے کے لئے متحدہ قدم اُٹھائیں گے اور فلسطین اس کے جائز اور شرعی حقداروں کویل سکے گا.استعماری طاقتیں ڈرتی ہیں کہ ہمیں عربوں کا یہ خواب پورا نہ ہو جائے اور اسرائیل سلطنت صفحہ ہستی سے مٹ نہ جائے جس کے قائم کرنے کے لئے انہوں نے بڑی بڑی مشکلات بڑاشت کی ہیں اس لئے یہ غیر ملکی حکومتیں ہمیشہ کوشش کرتی ہیں کہ مسلمانوں میں مختلف نعرے لگوا کر منافرت پیدا
۴۰۰ کی جائے اور بعض فرقے احمدیوں کی تکفیر اور ان پر نکتہ چینی کرنے کے لئے کھڑے ہو جائیں یہاں تک کہ اس طریق سے حکومت پاکستان اور بعض ان عرب حکومتوں میں بھی اختلاف پیدا ہو جائے جن کے اخبارات پاکستان کے وزیر خارجہ ظفر اللہ خاں احمدی کو کافر قرار دیتے ہیں.غالباً بہت سے پڑھنے والوں کو یاد ہو گا کہ کچھ عرصہ قبل پاکستان کی بعض جماعتوں نے اس امر کی کوشش کی تھی کہ مسلمان حکومتوں کا ایک اسلامی بلاک قائم کیا جائے تاکہ ان کی ہستی اور ان کی آزا دہی قائم رہے اور ان کی بیرونی سیاست ایک پہنچ پر پہلے مگر یہ کوششیں بعض دوسری مسلمان جماعتوں کی مخالفت کی وجہ سے کامیاب نہ ہو سکیں.اس تجویہ کی ناکامی کے اسباب میں در حقیقت بڑا سبب وہ مسئلہ تکفیر ہے جو بعض انتہاء پسند مولویوں کے ہاتھ میں استعماری طاقتوں نے دیا تھا تا کہ وہ اس تجویز کے محرکین کو قادیانی اور اسلام سے خارج کہہ کر اس کو ناکام بنانے کی کوشش کریں.شاید کسی شخص کو یہ خیال پیدا ہو کہ میرا اس معاملے میں استعماری طاقتوں کو دخل انداز قرار دینا صرف نکن اور گمان ہے مگر میں قارئین کرام کو پورے یقین کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے اس امر کی پوری پوری اطلاع ہے کہ در حقیقت یہ سب کا رروائی استعماری طاقتیں کروا رہی ہیں کیونکہ فلسطین کی گزشتہ جنگ کے ایام میں شام میں استعماری طاقتوں نے خود مجھ کو اس معاملے میں آلہ کار بنانے کی کوشش کی تھی.ان دنوں میں ایک ظرافتی پرچے کا ایڈیٹر تھا اور اس کا انداز حکومت کے خلاف نکتہ چینی کا انداز تھا.چنانچہ انہی دنوں مجھے ایک غیر ملکی حکومت کے ذمہ دار نمائندہ مقیم بغداد نے ملاقات کے لئے بلایا اور کچھ چاپلوسی اور میرے انداز نکتہ چینی کی تعریف کرنے کے بعد مجھے کہا کہ آپ اپنے اخبار میں قادیانی جماعت کے خلاف زیادہ سے زیادہ دل آزار طریق پر نکتہ چینی جاری مہریں کیونکہ یہ جماعت دین سے خارج ہے.یکن نے جواب میں عرض کیا کہ مجھے تو اس جماعت اور اس کے عقائد کا کچھ پتہ نہیں میں ان پر کس طرح نکتہ چینی کر سکتا ہوں؟ اس نمائندہ نے مجھے بعض ایسی کتابیں دیں جن میں قادیانی عقائد پر بحث کی گئی تھی اور اپنے مجھے بعض مضامین بھی دیئے تا وہ مجھے اپنے مقالات کے لکھنے ہیں فائدہ دیں.چنانچہ ان کتابوں کے مطالعہ سے مجھے اس جماعت کے بعض عقائد کا علم ہوا لیکن میں نے ان میں کوئی ایسی بات نہ دیکھی جس سے میرے عقیدہ کے مطابق انہیں کا فر قرار دیا جا سکے.اس استعماری نمائندہ سے چند ملاقاتوں کے بعد میں نے اس کام کے کرنے سے معذرت پیش کر دی اور کہا کہ میرے عقیدہ کے مطابق یہ طریق اس وقت اسلامی فرقوں
3 ۰۱ میں اختلاف و انشقاق بڑھانے والا ہے.اس شخص نے مجھ سے کہا کہ قادیانی تو مسلمان ہی نہیں اور ہندوستان کے تمام فرقوں کے علماء انہیں کا فر قرار دے چکے ہیں.میں نے اس سے کہا کہ مہند وستانی علماء کے اقوال قرآن مجید کی اس آیت کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے لا تقولوا يمن القى إلَيْكُمُ السّلامَ لَسْتَ مؤمنا کہ جو شخص تمہیں السلام علیکم کہے اس کو کا فرمت کہو.میرا اتنا کہنا تھا کہ وہ شخص غضب ناک ہو گیا اور کہنے لگا کہ معلوم ہوتا ہے کہ قادیانی پراپیگنڈے نے تمہارے دل پر بھی اثر کر دیا ہے اور تو قادیانی بن گیا ہے اور اسلام سے خارج ہو گیا ہے اسی لئے تو ان کی طرف سے جواب دے رہا ہے.یکس نے مذاق کرتے ہوئے کہا کہ جناب یقین جانیں کہ میں اتنے لمبے عرصہ سے مسلمان کہلانے اور مسلمانوں میں رہنے کے باوجود یہ دعوی کرنے کی طاقت نہیں رکھتا کہ میں صحیح معنوں میں مسلمان ہوں تو کیا قادیانیت کے متعلق چند کتب کا مطالعہ مجھے قادیانی بنا سکتا ہے ؟ میں جن دنوں اس سفارت خانہ میں جایا کرتا تھا مجھے معلوم ہوا کہ میں اکیلا ہی اس کام کے لئے مقرر نہیں کیا جا رہا بلکہ کچھ اور لوگوں کو بھی اس میں شریک کیا جارہا ہے.پھر مجھے یہ بھی پتہ لگا کہ اس کام کے کرنے سے صرف یکی نے ہی انکار نہیں کیا بلکہ بعض دوسرے لوگوں نے بھی استعمار کا آلہ کار بننے سے انکار کر دیا تھا.یہ ان دنوں کی بات ہے جب شہر میں ارض مقدسہ کا ایک حصہ کاٹ کر صیہونی حکومت کے سپرد کر دیا گیا تھا اور اسرائیلی سلطنت قائم ہوئی تھی.اور میرا خیال ہے مذکورہ بالا سفارت خانہ کا پیر اقدام در حقیقت ان دو ٹرکیٹوں کا عملی جواب تھا جو تقسیم فلسطین کے موقع پر اسی سال جماعتِ احمدیہ نے شائع کئے تھے.ایک ٹریکٹ کا عنوان " هئية الامم المتحدة وقدار تقينيم فلسطين" تھا جس میں مغربی استعماری طاقتوں اور صیہونیوں کی ان سازشوں کا انکشاف کیا گیا تھا جن میں فلسطینی بندرگاہوں کے یہودیوں کو سپرد کر دینے کا منصوبہ بنایا گیا تھا.دوسرا ٹریکٹ الكُفْرُمِيَّةُ وَاحِدَةٌ » کے عنوان سے شائع ہوا تھا جس میں مسلمانوں کو کامل اتحاد اور اتفاق رکھنے کی ترغیب دی گئی تھی اور صیہونیوں کے مقابلہ اور ارض مقدسہ کو ان سے پاک کرنے کے لئے اموال جمع کرنے کی ترغیب دی گئی تھی.یہ وہ واقعہ ہے جس کا مجھے ان دنوں ذاتی طور پر علم ہوا تھا اور مجھے پورا یقین ہے کہ جب تک
۴۰۳ احمدی لوگ مسلمانوں کی جماعتوں میں اتفاق پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے اور جب تک وہ ان ذرائع کو اختیار کرنے کے لئے کوشاں رہیں گے جن سے استعماری طاقتوں کی پیدا کہ وہ حکومت اسرائیل کو ختم کرنے میں مدد مل سکے تب تک استعماری طاقتیں بعض لوگوں اور فرقوں کو اس بات پر آمادہ کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کریں گی کہ وہ احدیوں کے خلاف اس قسم کی نفرت انگیزی اور نکتہ چینی کرتے رہیں تاکہ مسلمانوں میں اتحاد نہ ہو سکے ہے آپ کی تلاش ہئے جناب اپنی کی طرف سے حضرت مصلح موعود کے کندھوں پر اصلاح و تربیت کی جو بھاری ذمہ داری عائد تھی حضور اس کی بجا آوری کے لئے نئے سے نئے طریق اختیار فرماتے رہتے تھے.اس ضمن میں آپ نے ماہ ہجرت رمئی ہے کے آخری ہفتہ میں آپ کی تلاش ہے“ کے پرکشش عنوان سے فرزندان احمدیت کے نام حسب ذیل پیغام شائع فرمایا جو احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی تنظیمی، اخلاقی اور روحانی تعلیمات کا نہایت لطیف خلاصہ اور نچوڑ تھا.- کیا آپ محنت کرنا جانتے ہیں ؟ اتنی محنت کہ تیرہ چودہ گھنٹے دن میں کام کر سکیں.۲ - کیا آپ پیچ بولنا جانتے ہیں؟ اتنا کہ کسی صورت میں آپ جھوٹ نہ بول سکیں ؟ آپ کے سامنے آپ کا گہرا دوست اور عزیز بھی جھوٹ نہ بول سکے ؟ آپ کے سامنے کوئی اپنے جھوٹ کا بہادرانہ قصد بنائے تو آپ اس پر اظہار نفرت کئے بغیر نہ رہ سکیں.۳.کیا آپ جھوٹی عزت کے جذبات سے پاک ہیں؟ گلیوں میں جھاڑو دے سکتے ہیں ؟ بو جھ اٹھا کر کیوں میں پھر سکتے ہیں.بلند آواز سے ہر قسم کے اعلان بازاروں میں کر سکتے ہیں.سارا سارا دن پھر سکتے ہیں اور ساری ساری رات جاگ سکتے ہیں ؟.کیا آپ اعتکاف کر سکتے ہیں ؟ جس کے معنے ہوتے ہیں (الف) ایک جگہ دنوں بیٹھے رہنا اب گھنٹوں بیٹھے وظیفہ کرتے رہنا (ج) گھنٹوں اور دونوں کیسی انسان سے بات نہ کرنا.- کیا آپ سفر کر سکتے ہیں؟ اکیلے اپنا بوجھ اُٹھا کر بغیر اس کے کہ آپ کی جیب میں کوئی پپیہ ہو.دشمنوں اور مخالفوں میں، ناواقفوں اور نا آشناؤں میں ؟ دنوں، ہفتوں اور مہینوں.کیا آپ اس بات کے قائل ہیں کہ بعض آدمی ہر شکست سے بالا ہوتا ہے ؟ وہ شکست کا نام سنا پسند نہیں کرتا وہ پہاڑوں کو کاٹنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے.وہ دریاؤں کو کھینچ لانے پر آمادہ ہو
۴۰۳ جاتا ہے.اور کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ اس قربانی کے لئے تیار ہو سکتے ہیں ؟ کیا آپ میں ہمت ہے کہ سب دنیا کہے نہیں اور آپ کہیں ہاں ؟ آپ کے چاروں طرف لوگ ہنسیں اور آپ اپنی سنجید گی قائم رکھیں.لوگ آپ کے پیچھے دوڑیں اور کہیں کہ ٹھہر تو جاہم تجھے ماریں گے اور آپ کا قدم بجائے دوڑنے کے ٹھہر جائے اور آپ اس کی طرف سر جھکا کر کہیں لو مارلو.آپ کسی کی نہ مانیں کیونکہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں مگر آپ سب سے منوا لیں کیونکہ آپ سچے ہیں.آپ یہ کہتے ہوں کہ میں نے محنت کی مگر خدا تعالیٰ نے مجھے ناکام کر دیا بلکہ ہرناکامی کو آپ اپنا تصور سمجھتے ہوں.آپ یقین رکھتے ہوں کہ جو محنت کرتا ہے کامیاب ہوتا ہے اور جو کامیاب نہیں ہوتا اُس نے محنت ہر گز نہیں کی.اگر آپ ایسے ہیں تو آپ اچھا مبلغ اور اچھا تاجر ہونے کی قابلیت رکھتے ہیں دیگر آپ ہیں کہاں خدا کے ایک بندہ کو آپ کی دیر سے تلاش ہے.اے احمدی نوجوان ڈھونڈھ اس شخص کو اپنے صوبہ میں ، اپنے شہر میں، اپنے محلہ میں، اپنے گھر میں، اپنے دل میں کہ اسلام کا درخت مرجھا رہا ہے اسی کے خون سے وہ دوبارہ سر سبز ہوگا.مرزا محمو د احمد کیا ہے ستمبر 11ء میں قائد اعظم حمد علی جناح کی فات بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات اور حیدرآباد (دکن) کی شکست کے پے درپے اور سقوط حیدر آباد کے مصائب کے حضرت مصلح موعود صدموں نے مسلمانان پاکستان میں ایک ناوط ساجر پاکر دیا اس نازک موقع پر حضرت مصلح موعود کو عالم رویا میں بتایاگیا کہ ین از مصائب پاکستان کی قوت و طاقت میں کمزوری کی بجائے اضافہ کا موجب بن جائیں گے.اللہ جل شانہ و عزاسمہ سے یہ بشارت ملنے پر حضور نے اور ظہور کے الفضل میں ایکٹ مفصل مضمون تحریر فرمایا جس میں پہلے تو اپنی خواب بیان فرمائی ازاں بعد لکھا:.یں اس رویا کی بناء پر بجھتا ہوں کہ گو یہ دونوں واقعات مسلمانوں کے لئے نہایت تکلیف دہ ہیں لیکن اللہ تعالیٰ ان صدمات کو چھوٹا کر دے گا اور سلمانوں کو ان کے بداثر سے محفوظ رکھے گا.اگر مسلمان خدا تعالیٰ پر تو کل کا اظہار کریں اور کسی لیڈر کی وفات کا جو تجار و عمل ہوتا ہے وہ اپنے اندر پیدا کریں یعنی اس کی د الفضل ۲۲ ہجرت / مئی ۱۳۳۲۲۵ ۲۰ :
۴۰۴ نیک خواہشات کو پورا کرنے کی کوشش کریں تو یقیناً مسٹر جناح کی وفات مسلمانوں کی تباہی کا موجب نہیں بلکہ مسلمانوں کی مضبوطی کا موجب ہوگی.بانی سلسلہ احمدیہ جب فوت ہوئے ہیں اُس وقت میری عمر انہیں اسال کی تھی.اُن کی وفات اسی لاہور میں ہوئی تھی اور ان کی وفات کی خبر سنتے ہی شہر کے بہت سے اوباشوں نے اُس گھر کے سامنے شور و غوغا شروع کر دیا تھا جس میں اُن کی لاش پڑی تھی اور نا قابل برداشت گالیاں دیتے تھے اور نا پسندیدہ نعرے لگاتے تھے مجھے اُس وقت کچھ احمدی بھی اُکھڑے اُکھڑے نظر آتے تھے تب یکں بانی سلسلہ احمدیہ کے سرہانہ ھا کر کھڑا ہو گیا اور میں نے خدا تعالیٰ کو مخاطب کر کے یہ عرض کی کہ اگر ساری جماعت بھی مرتد ہو جائے تو میں اس مشن کو پھیلانے کے لئے جس کے لئے خدا نے انہیں مبعوث کیا تھا کوشش کروں گا اور اس کام کو پورا کرنے کے لئے کیسی قربانی سے دریغ نہیں کروں گا خدا تعالیٰ نے میرے عہد میں ایسی برکت دی کہ احمدیت کے مخالف خواہ ہمارے عقیدوں کے متعلق کچھ کہیں یہ تو ان میں سے کوئی ایک فرد بھی نہیں کہہ سکتا کہ پائی سلسلہ احمدیہ کی وفات پر جو طاقت جماعت کو حاصل تھی اتنی طاقت آج جماعت کو حاصل نہیں شہر میں اقرار کرے گا کہ اس سے درجنوں گئے زیادہ طاقت اس وقت جماعت کو حاصل ہے.میں سمجھتا ہوں کہ مسٹر جناح کی وفات کے بعد اگر وہ مسلمان جو واقعہ میں ان سے محبت رکھتے تھے اور ان کے کام کی قدر کو پہچانتے تھے سچے دل سے یہ عہد کر لیں کہ جو منزل پاکستان کی اُنہوں نے تجویز کی تھی وہ اس سے بھی آگے اسے لیجانے کی کوشش کریں گے اور اس عہد کے ساتھ ساتھ وہ پوری تندہی سے اس کو نبھانے کی کوشش بھی کریں تو یقیناً پاکستان روز بروز ترقی کرتا چلا جائے گا اور دنیا کی مضبوط ترین طاقتوں میں سے ہو بھائے گا.حیدر آباد کے معاملہ کے متعلق بھی لیکن یہ سمجھتا ہوں کہ اگر مسلمان حوصلہ سے کام لیں تو حید ر آباد کا مسئلہ کوئی نا قابل تلافی مصیبت نہیں حق تو یہ ہے کہ حیدر آباد اپنے حالات کے لحاظ سے انڈین یونین میں ہی شامل ہونا چاہیے تھا جس طرح کہ کشمیر اپنے حالات کے لحاظ سے پاکستان میں ہی شامل ہونا چاہیئے یں تو شروع دن سے مسلمانوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا رہا ہوں.اور میرے نزدیک اگر حیدر آباد اور کشمیر کے مسئلے کو اکٹھا رکھ کر حل کیا جاتا تو شاید الجھنیں پیدا ہی نہ ہو تیں لیکن بعض دفعہ لیڈر عوام الناس کے جذبات سے اتنے مرعوب ہوتے ہیں کہ وہ وقت پر صحیح راستہ اختیار کر ہی نہیں سکتے.حیدر آباد کی پرانی تاریخ بتارہی ہے کہ حیدر آباد کے نظام کبھی بھی لڑائی میں اچھے ثابت نہیں ہوئے.
۴۵ چونکہ میرے پر دادا اور نظام الملک کو ایک ہی سال میں خطاب، اور محمدہ ملا تھا اس لئے مجھے اس خاندان کی تاریخ کے ساتھ کچھ دلچسپی رہی ہے بنگلہ میں ہی ان کو خطاب ملا اور اللہ میں ہی میرے پر دادا مرزا نبض محمد خاں صاحب کو خطاب ملا تھا.ان کو نظام الملک اور میرے پر دادا کو عضد الدولہ.اس وقت میرے پاس کا غذات نہیں ہیں جہاں تک معہدے کا سوال ہے غالباً نظام الملک کو پہلے پانچ ہزاری کا عمدہ ملا تھا لیکن مرزا فیض محمد صاحب کو ہفت ہزاری کا عہدہ ملا تھا.اس وقت نظام الملک با وجود دکن میں شورش کے دلی میں بیٹھے رہے اور تب دکن گئے تھے جب دکن کے فسادات مٹ گئے تھے سلطان حیدرالدین کی جنگوں میں بھی حیدر آباد نے کوئی اچھا نمونہ نہیں دکھایا تھا.مرہٹوں کی جنگوں میں بھی اس کا رویہ اچھا نہ تھا.انگریزوں کے ہندوستان میں قدم جتنے میں بھی حیدرآباد کی حکومت کا بہت کچھ دخل تھا مگر جہاں بہادری کے معامل میں نظام کبھی اچھے ثابت نہیں ہوئے.وہاں عام دور اندیشی و انصاف اور علم پروری میں یقیناً یہ خاندان نہایت اعلیٰ نمونہ دکھاتا رہا اور اسی وجہ سے کسی اور ریاست کے باشندوں میں اپنے رئیس سے اتنی محبت نہیں پائی جاتی جتنی کہ نظام کی رعایا میں نظام کی پائی جاتی ہے.انصاف کے معاملہ میں میرا اثر یہی رہا ہے کہ حیدر آباد کا انصاف برطانوی راج سے بھی زیادہ اچھا تھا.بہندومسلمانوں کا سوال کبھی نظاموں نے اٹھنے نہیں دیا اور ان خوبیوں کی وجہ سے وہ ہمیشہ ہی ہندوستان کے مسلمانوں میں مقبول ہے.لیکن جہاں یہ صحیح ہے کہ حیدرآباد کا نظام خاندان کبھی بھی جنگی خاندان ثابت نہیں ہوا وہاں یہ بھی درست ہے کہ حیدرآباد کی رعایا بھی جنگی رعایا نہیں.کوئی نئی روح ان کو جنگی بنا سکتی تھی مگر نواب بہادر یار جنگ کی وفات کے بعد وہ نئی روح حیدر آباد میں نہیں رہی بستید قاسم رضوی کے جانے والے جاتے ہیں کہ بہادر یار جنگ والی روح ان میں نہیں.بہادر یار جنگ علاوہ اعلیٰ درجہ کے مقرر ہونے کے عملی آدمی بھی تھے.قاسم دمنوی صاحب مقدر ضرور ہیں مگر اعلی درجہ کے عملی آدمی نہیں ہیں شہزادہ برار کے اندر بھی کوئی ایسی روح نہیں شہزادہ ہوار نے آج سے اکیس سال پہلے بعض مہا سبھائی ذہنیت کے لوگوں سے ایک خفیہ معاہدہ کیا تھا جس میں یہ اقرار کیا تھا کہ جب یکی بر سر حکومت آؤں گائیں فلاں فلاں رعائتیں ہندو قوم کو دوں گا.یہ معاہدہ ان کے ایک مخلص مصاحب کے علم میں آگیا اور اس نے ان کے کاغذات میں سے معاہدہ نکال کر مجھے پہنچا دیا اس وقت معلوم ہوا کہ شہزادہ بار کو جیب خرچ نہیں ملتا اور بعض ہندوؤں نے انہیں روپیہ دینا شروع کر دیا تھا جس کی بناء پر انہوں نے یہ ے اس موعود کے پردادا کے والد تھے.(مولف امی سیرت المہدی حصہ سوم من ا میں شائع شدہ ہے جو انار کا ہے مرزا فیض محمد میں محمد فرخ غازی شاہنشاہ ہند کے منشور ہے
۴۰۶ معاہدہ کیا تھا.میں نے اس معاہدہ کی اطلاع گورنمنٹ آف انڈیا کو دی اور اس کو توجہ دلائی کہ اتنی بڑی سلطنت کے ولی محمد کو جیب خرچ نہ ملنا نہایت خطرناک بات ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گونمنٹ آف انڈیا نے اس حقیقت کو محسوس کرتے ہوئے علمی شہزادے کا جیب خرج مقر کرا دیا جو غالباً دس ہزار یا بین ہزار روپیہ ماہوار تھا ایسے انسان سے کس طرح اُمید کی جا سکتی تھی کہ وہ اس نازک وقت میں اپنی جان کو خطرہ میں ال کو قوم کی راہنمائی کرے گا.پس حیدر آباد کا واقعہ گو مسلمانوں کے لئے نہایت ہی تکلیف دہ ہے لیکن جو کچھ اس وقت ہوا ہے تاریخی واقعات کی ایک لمسی زنجیر کی آخری کڑی ہے.بے شک آج مسلمان اس بات کا خیال کر کے بہت ہی شرم محسوس کرتے ہیں کہ تین دن پہلے مسلمانوں کے لیڈر حیدرآباد سے یہ براڈ کا کر رہے تھے کہ ہم ولی کے لال قلعہ کی طرف آرہے ہیں اور تین دن کے اندر اندر انہوں نے ہتھیار بھی ڈال دیئے اور ان ساری امیدوں کو چھوڑ دیا جو ربع صدی سے اپنے دلوں میں لئے بیٹھے تھے مگر میں سمجھتا ہوں یہ ابتداء بھی اگر پاکستان کے مسلمانوں کے عزم کو اور بلند کرنے کا موجب ہو جائے تو پلیز جمت نہیں بلکہ بلک رحمت ہوگا.خدا تعالیٰ عام دنیاوی دروازے بند کر کے مسلمانوں کو بلا رہا ہے کہ میری طرف آؤ.خدا کی رحمت کا دروازہ آپ بھی کھلا ہے کاش مسلمان اپنی آنکھیں کھولیں اور اس کی آواز پر لبیک کہیں.اسلام کا جھنڈا سرنگوں نہیں ہو سکتہ خدا کے فرشتے جو میں اس کو اُونچا رکھیں گے ہمیں تو اس بات کی فکر کرنی چاہیئے کہ خدا کے فرشتوں کے ہاتھوں کے ساتھ ہمارے ہاتھ بھی اس جھنڈے کو سہارا دے رہے ہوں.اے خدا تو مسلمانوں کی آنکھیں کھول کہ وہ اپنے فرض کو بچائیں، تیری آواز کو سنیں اور اسلام پھر سے معتز زاور موثر ہو جائے ما حضرت مصلح موعود کے قلم سے مسالہ احمدیت کا پیغام کی ۱۳۱۰۳۰ انشاء بر اکتوبر ۶۱۹۴۸ کو جماعت احمدیہ سیالکوٹ کا تصنیف اشاعت اسکی مقبولیت اور غیر کی زبانوں میں تراجم سالانہ جلسہ منور تھا.با بو قاسم الدین صاحب ان دنوں جماعت ہائے احمد یہ سیالکوٹ کے امیر تھے.آپ رتن باغ میں حضرت مصلح موعود کی خدمت میں حاضر ہوئے اور درخواست کی کہ حضور ہمارے جلسہ سہ کے موقع پر جماعت ان الفضل ۲۱ تبوک استمر ۱۳:۲۵ ص۲-۳
۴۰۷ کے نام کوئی پیغام مرحمت فرمائیں کلاس پر حضور نے ایک نہایت بصیرت افروز مضمون رقم فرمایا جو نظارت دعوت و تبلیغ نے جلسہ سے قبل چھپوا دیا جس میں سے چار ہزار کی تعداد میں تماعت سیالکوٹ نے پانچ سوروپیہ نقد قیمت ادا کر کے خرید لیا لیئے ستید نا حضرت مصلح موعود کا یہ خاص پیغام حضور کے نمائندہ خصوصی سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ناظر امور عامہ) نے جلسہ کے آخری اجلاس میں (جبکہ حاضری معمول سے زیادہ تھی ، پڑھ کر سنایا.جلسہ میں معزز غیر احمدی اصحاب خاص طور پر مدعو تھے شاہ صاحب نے یہ پیغام چار بج کو امنٹ پر پڑھنا شروع کیا اور پا نچ نچ کر چالیس منٹ پر ختم کیا.اس ڈیڑھ گھنٹہ میں جو سکون اور خاموشی جلسہ گاہ پر طاری تھی وہ اپنی نظیر آپ تھی.پیغام کے بعد اجتماعی دعا ہوئی اور اس کی چار ہزار کا پہیاں حاضرین میں تقسیم کی گئیں ہیے رسالہ احمدیت کا پیغام ایک تبلیغی شاہ کانہ کی حیثیت رکھتا ہے جس کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ ابتک اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں اور بلامبالغہ لاکھوں کی تعدا د میں تقسیم ہوچکا ہے.اردو کے علاوہ ۱۳۵۴۵ ا مکتوب با بو قاسم الدین صاحب مورخه ۲۹ اخاء / اکتوبر بنام مولف تاریخ احمدیت مکرم با او صحاب ه کا بیان ہے کہ " میری درخواست پر از راه شفقت حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے لوائے احمدیت بھی میری ذقته ماری پر جماعت احمدیہ شہر سیالکوٹ کو دیئے جانے کی منظوری عطا فرمائی چنانچہ لوائے احمدیت اس تقریب پر ہرایا گیا او له الفضل ۱۳ نبوت / نومبر امت سے یہ مکمل پیغام الفضل ۶ ماه نبوت ؟ نومبر کے ایک ہی ایشوع میں شائع کر دیا گیا تھا ہے کہ اخبار انقلاب لاہور نے جماعت احمدیہ سیالکوٹ کا سالانہ جلسہ کے زیر عنوان اس جلسہ کی حسب ذیل خبر شائع کی :- ۱۹۴۸ سیالکوٹ اپنے نامہ نگار سے، یکم نومبر سیالکوٹ شہر کی جماعت احمدیہ کا سالانہ اجلاس کل امور اکتوبر کو ساری پانچ بجے کے قریب ختم ہوا.اس کے پانچ اجلاس منعقد ہوئے جن میں سے ایک کی صدارت پاکستانی فوجوں کے کمانڈر بریگیڈیر لطیف نے کی.بریگیڈیر لطیف نے اپنی صدارتی تقریر میں پاکستانی عوام کو ہر خطرے (کے لئے حقیقہ کیا رہنے اور کمر ہمت کسی لینے کی تلقین کی، جلسے میں اور مضامین کے علاوہ اسلامی حکومت کے فرائض، پاکستان کے استحکام و توتی کے وسائل، انصار و مہاجرین کے باہمی تعلقات، فریضہ جہاد اور صحابہ کرام کے جنگی کارناموں کے موضوع پر بھی تقریر یں ہوئیں.سب سے آخری اجلاس میں امام جماعت احمدیہ کا ایک پیغام پڑھ کر سنایا گیا جو بعد میں پمفلٹ کی صورت میں چھپا ہوتا تقسیم بھی کیا گیا.اس جلسے میں سجد لنڈن کے امام سمجھ ہے.ڈی شمس نے بھی تقریریں کیں (انقلاب ۳ نومبر ۱۹) نه جماعتی اداروں انشر و اشاعت صدر انجمن احمد یہ ربوہ اور وقف جدید ربوہ وغیرہ ) کے علاوہ میاں فاروق احمد صاحب نے پام ویوٹ ڈیوس روڈ لاہور سے اس کا ایک نہایت دیدہ زیب ایڈیشن ماه فتح / دسمبر ها میں شائع کیا :
۴۰۸ سندھی، پشتو، بنگالی، فارسی، انگیزشی اور عربی تراجم بھی چھپ کو منظر عام پر آچکے ہیں.ار فتح / دسمبر کو حضرت مصلح موعود نے ساڑھے حضرت امیر المومنین کا بصیرت افروز لیکچر چھ بجے شب لاہور لاء کالج کے مینار ڈ ہال میں موجودہ مینارڈ ہال لاء کالج لاہور میں حالات میں عالم اسلام کی حیثیت اور اس کا مستقبل کے موضوع پر ایک بصیرت افروز لیکچر دیا.اس لیکچر کا اہتمام و انصرام احمدیہ انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن نے کیا اور صدارت کے فرائض آنریل جیٹس ایں.اے.رحمن صاحب نے انجام دیئے.ہاں سامعین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا جس میں ہر طبقہ کے معزز اورتعلیم یافتہ اصحاب شامل تھے حضور کی تقریر اول سے آخر تک نہایت ڈسپی، اطمینان اور سکون کے ساتھ شمنی گئی.تلاوتِ قرآن کریم کے بعد جو مکرم ماسٹر فقیر اللہ صاحب نے کی ، حضور نے تقریر شروع فرمائی تقریہ کے پہلے حصے میں حضور نے ان دو سوالوں پر روشنی ڈالی (1) دنیا میں عالم اسلام کو کیوں الگ حیثیت حاصل ہے؟ (۲) موجودہ سیاسی حالات کیا ہیں اور وہ عالم اسلام پر کس طرح اثر انداز ہو رہے ہیں ؟ اس ضمن میں حضور نے بتایا کہ اسلام کی بعض خصوصیات کی وجہ سے جب بھی یورپین ممالک کے سامنے کسی اسلامی ملک کا سوال آتا ہے تو وہ اس سوال کو علاوہ سیاسی اور مقامی رنگ دینے کے اسے مذہبی اور بین الاقوامی سوال بھی بنا لیتے ہیں اور اس طرت گویا وہ خود عالم اسلام کی ایک الگ حیثیت قرار دے لیتے ہیں.دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں اس وقت اسلامی ممالک پر تیس رنگ میں اثر انداز ہو رہی ہیں ان کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے ان وجوہ پر بھی روشنی ڈالی جن کی بناء پر یہ طاقتیں عالم اسلام کو کمزور کرنے کی خواہاں ہیں.عالیم اسلام کے مستقبل پر تبصرہ کرتے ہوئے حضور نے فرمایا میرے نزدیک عالیم اسلام کا مستقبل بالکل به لے سندھی کا پہلا ایڈیشن ڈاکٹر احمد دین صاحب امیر جماعت احمدیہ حیدر آباد ڈویژن نے اور دوسرا صا حبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ناظم ارشاد وقعت جدید ربوہ نے دسمبر ۱۹۶۳ میں چھپوایا ہے کے مترجم محمد اقبال صاحب ایم.اسے ناشر ناظم ارشاد وقف جدید دیده + سے پہلا بنگالی ایڈیشن ۱۹۲۹ء میں چھپا جس کے مترجم مولوی عبدالحفیظ صاحب (ڈھا کہ ) تھے سے شیخ عبدالواحد صاحب مبلغ ایران نے ترجمہ کیا جس کو پہلے حضرت سیٹھ عبد اللہ الہ دین صاحب سکندر آباد دکن نے پھر وکالت تبشیر تحریک جدید ربوہ نے ستمبر: 194 ء میں شائع کیاه نه (ناشرین) :- مہتمم صاحب نشرو اشاعت صدر انجین احمدیہ ربوہ.دی اور میٹل اینڈ ریلیجیں پیشنگ کارپوریشن یوه وکالت تبشیر تحریک جدید ربوده :
۴۰۹ محفوظ ہے بشرطیکہ قرآن کریم نے ہمارے لئے کامیابی کے جو ذرائع مقرر فرمائے ہیں ہم ان پر عمل کریں.حضور نے ان ذرائع کا ذکر کرتے ہوئے متعدد اہم تجاویز پیش فرمائیں جن میں سے بعض یہ ہیں (۱) جب اسلامی ممالک سے مقالہ پڑنے پر یور آپ خود ان کی ایک بعدا گانہ حیثیت قرار دے دیتا ہے تو کیوں نہ اسلامی ممالک پیچ چے آپس میں اس قسم کا اتحاد پیدا کر کے صحیح معنوں میں ایک عالم اسلام قائم کرلیں جس کا ہر ایک رکن اپنے ملک کی قومیت کے علاوہ اپنے آپ کو ایک بڑی قومیت یعنی عالیم اسلامی کا رکن قرار دے.(۳) اسلامی ممالک کو باہمی رقابتیں دُور کر کے ایک دوسرے کی خاطر قربانی کرنے کا جذبہ پیدا کرنا چاہیے.(۳) اسلامی ممالک کے باشندوں کو ایک دوسرے کے ملک میں بکثرت آنا جانا چاہئیے.اس سلسلے میں نوجوانوں کو سوسائٹیاں قائم کر کے اجتماعی طور پر کوشش کرنی چاہئیے.(۴) اسلامی ممالک کو ایک دوسرے سے بکثرت تجارتی تعلقات قائم کرنے چاہئیں.(۵) جن علاقوں کے مسلمان نسبتاً زیادہ پسماندہ ہیں مثلاً مغربی اور مشرقی افریقہ وغیرہ ہمیں امدادی انجمنیں قائم کر کے ان کی مدد کرنی چاہیئے.(4) قرآن کریم نے اسلام کی ترقی کا سب سے بڑاگر تبلیغ اسلام بیان فرمایا ہے ہمیں اس کی طرف توجہ دینی چاہیئے.آخر میں صدر محترم نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا میں احمدیہ انٹر کالیمبیٹ ایسوسی ایشن کا شکر گزار ہوں کہ جس نے اس فاضلانہ تقریر کے سنتے کا ہمیں موقع بہم پہنچایا.جناب مرزا صاحب نے تھوڑے سے وقت میں بہت وسیع مضمون بیان فرمایا اور اس کے کئی پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے.آپ نے جو تعمیر می تجاویز بیان فرمائی ہیں وہ نہایت ہی قابل قدر ہیں ہمیں ان پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے.لے له الفضل لهم افتح و دسمبر ۳۲ ص : ۶۱۹۴۸
۴۱۰ فصل چهارم حضرت مصلح موعود کے مقدس ہاتھوں اشاعت اسلام کے نئے مرکز توحید ربوہ کا روح پرور افتتاح مرکز پاکستان کی مجوزہ اراضی کا جماعت احمدیہ کی طرف سے مرکز پاکستان کے لئے تحصیل چنیوٹ کے چک ڈھگیاں کی ۳۴.ایکڑ اراضی کے حصول کا واقعہ کھیلی جلد میں تاریخی پس منتظر گزر چکا ہے حال کی ایک تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ یہ وہی سنی بھی سرزمین ہے جہاں سے اموی بادشاہ ولید بن عبدالملک کے نامور عرب جو نیل حضرت محمد بن قاسم نے سندھ اور عمانی کی فتح کے بعد اپنے لشکر جرارسمیت دریائے چناب کو عبور کیا اور کشمیر کی طرف پیش قدمی کی تھی اس موقع پر عرب فوج اور چنیوٹ کے ہندو راجہ کی خون ریز جنگ ہوئی اور چنیوٹ کو فتح کرتے ہوئے تقریباً سو مجاہدوں نے نارم شهادت نوش کیا چنانچہ آج تک اس سرزمین میں شہیدوں کا قبرستان موجود ہے.ڈاکٹر عبدالحمید خان ایم ہے پی ایچ.ڈی.رائل پاکستان نیوی اپنی کتاب محمد بن قاسم پاکستان میں" کے صفحہ ۲۱ ، ۲۲ پر لکھتے ہیں.و فوج کا کشمیر بجانے کا راستہ ملتان سے تلبیہ پھر شور کوٹ جو ضلع جھنگ میں آباد ہے پھر کوٹ کمالیہ کی طرف تھا جو ضلع لائلپور کا ایک شہور قصبہ ہے.اس کے بعد مشہور جگہ جو عرب فوج کے راستہ میں پڑی وہ چندو ہے جو ہر عرب نقشہ میں درج ہے جو میرے خیال میں چنیوٹ کا مشہور شہر ہے یہ ضلع جھنگ کی ایک تحصیل ہے اس کی وجہ یہ ہے چند رود ہر عرب نقشہ میں دریائے سندھ رود کے بائیں کنارے پر درج ہے اور سندھ رود دریائے چناب کا دوسرا نام ہے.چند رو دیا چنیوٹ دریائے چناب کے کنارے ایک بہت ہی قدیم شہر ہے اور میں وقت عرب فوج نے اس شہر پر حملہ کیا تو ایک ہندو راجہ یہاں حکمران تھا.تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ سکندری عظم
۴۱۱ نے سانگلہ پر حملہ کیا تو وہاں ایک جنگلی گروہ کی فوج سے اس کا مقابلہ ہوا اور سانگلا کا راجہ شکست کھا کر بھاگا جب جیون سانگ سانگلا پہنچا تو سانگلا بالکل تباہ ہو چکا تھا میں ہیون سانگ نے دیکھا کہ شہر کی دیوار میں خستہ حالت میں تھیں مگر ان کے نشانات باقی تھے جن سے اس نے اندازہ لگایا کہ شہر ہے سو میل کے رقیہ میں آباد تھا یے عربوں کے لئے اس واسطے سانگلا جانے کا کوئی امکان نہ تھا کیونکہ سکندر اعظم نے مدت ہوئی اسے ختم کر دیا تھا.اس شہر کی شہرت چند رود نے چھین لی تھی جسے آج کل چنیوٹ کہتے ہیں اور یہ جگہ سانگلا سے ۳۰ میل کے فاصلہ پر دریائے چناب کے کنارے آباد ہے.نوب فوج کے تقریباً سو سپاہی چنیوٹ کو فتح کرنے میں کام آئے.ان شہیدوں کا قبرستان اب تک چنیوٹ کے باہر موجود ہے.چند روزیا چنیوٹ ریاست عیفان کا دارالخ یافہ تھا جس کے متعلق بلاذری نے اپنی کتاب فتوح البلدان میں نہایت دلچسپ کہانی لکھی ہے.اس شہر چنیوٹ کے قریب سندھ سے کشمیر جانے والے مسافر دریائے چناب کو عبور کرتے تھے کیونکہ چنیوٹ سے کشمیر جانے کے لئے راستہ بالکل سیدھا تھا جو پنج جہات یا جہلم میں سے گزرتا تھا اس لئے عرب جرنیل محمد بن قاسم چنیوٹ سے تہلم اور پھر کشمیر گیا ار جون ۱۹۴۷ (مطابق دار احسان ه۳۵۲۷) کو حکومت حضرت مصلح موعود کی فوری ہدایات مغربی پنجاب نے جماعت احمدیہ کے لئے مرکز پاکستان مرکز پاکستان کی اراضی سے متعلق کے لئے منظوری دے دی جس کی اطوارع متے ہیں حضرت مصلح موعود نے کوئٹہ سے فوری طور پر حسب ذیل تفصیلی ہدایات جاری فرمائیں :- فوراً ایک کمیٹی اس لئے بنا دی جائے کہ :.۱ - جگہ کا جائزہ لے کر فیصلہ کیا جائے کہ مرکزی دفتر کہاں بنائے جائیں گے.مقبرہ کہاں ہوگا مقبرے دو ہونے چاہئیں عام اور مقبرہ بہشتی مسجد.کالج سکول - مدرسہ احمدیہ کالج احمدیہ ہسپتال.زنانہ سکول.ریسرچ انسٹی ٹیوٹ وغیرہ سر دست ایک سو سے ڈیڑھ سو ایکڑ تک قصبہ کے لئے ریزرو کی جائے مگر نقشہ اس طرح ہو کہ آئندہ وسعت سے جگہ خراب نہ ہو.- پانی کے انتظام کے لئے فور اسروے کر کے اور نیچی طرف ایک ٹیوب ویل کا کام فوراً شروع کروا دیا جائے.
۴۱۳ مٹی کے تیل کا کوٹہ فوراً منظور کروایا جائے..فلہ پانچ چھ ہزار من فوراً سال کی ضرورتوں کے لئے خرید لیا جائے اس کے لئے انجمن رقم فوراً منظور کر دے.سوا سو من ہمارے لئے خرید لیا جائے میں قیمیت دوں گا.بھینسیں دو میرے لئے خرید کر احمد نگر میں رکھ دی جائیں اور سلسلہ کے لئے بھی تا فوراً دُودھ کی کمی نہ ہو..پانی کا انتظام ہو جائے تو فوراً چاروں طرف درخت لگانے کا پروگرام بنایا جائے بطور باڑ کے..تحقیق کی جائے کہ کسی کسی قسم کے پھل دار درخت یا دوسرے درخت اس علاقہ میں لگ سکتے ہیں..سب سے پہلے مسجد کی بنیاد رکھی جائے مگر فیصلہ کیا جائے کہ کس ترتیب سے باقی مکانات بنانے چاہئیں.۹ - شہر بنانے کے لئے فوراً کچھ آبادی کی ضرورت ہے غور کیا جائے کہ فوراً یہ آبادی کس طرح کی جائے ؟ بجلی پیدا کرنے کے لئے انجن کی خط و کتابت کی بجائے.-11 نقشہ آئندہ قصبہ کا جو میاں عبدالرشید صاحب نے تیار کیا تھا میں نے میاں بشیر احمد صاحب کو بھیجوایا تھا اب اس کے ٹکڑے الگ الگ حصوں کے بڑے سکیل پر بنوا لینے چاہئیں تا تمام تفصیلات پر غور ہو سکے.۱۲ - زمین کی قیمت داخل ہونے اور قبضہ لینے کے ساتھ ہی یہ اعلان کر دیا جائے (مگر اس سے پہلے ہر گز کوئی اعلان نہ ہو) (الف) چھ ماہ کے اندر اندر جو لوگ قادیان کے سابق احمدی باشندے یا ایسے غیر احمدی باشند تھے جو ہم سے تعلق رکھتے تھے اور خواہ مخواہ ہماری مخالفت نہ کرتے تھے مکان بنانے کا ارادہ کریں گے ان کو دش مرلہ زمین مکان بنانے کے لئے مفت دی جائے گی درخواستیں فوراً آنی شروع ہو جاتی چاہئیں مگر یہ شرط ہو گی کہ آبادی کی شرائط کی پابندی کا وعدہ کریں.۲.چھ ماہ کے اندر مکان بنانا شروع کر دیں اور مکان شروع ہونے سے تین ماہ کے اندر مکان مکمل کر لیں.۳.نقشہ مقررہ کی پیروی کریں.۴.کوئی دُکان کی عمارت پرائیویٹ نہ ہوگی وکان کی عمارتیں گھلی طور پر سلسلہ کی ملکیت ہوں گی اور کرایہ پر دی جائیں گی کیسی کو گھر پر تجارت کرنے یا مکان کے کسی حصہ کو دکان کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت نہ ہوگی.
۴۱۳ (ب) اس کے علاوہ جو لوگ زمین خریدنا چاہیں ان کو ایک ماہ تک پچاس روپے کنال کے حساب سے زمین ملے گی مگر شرط یہ ہوگی کہ زمین کا قبضہ مکان بناتے ہوئے ملے گا کوئی ٹکڑا معین پہلے سے نہ کیا جائے گا اس سے آباد ٹی مسلسل نہیں رہتی جو پہلے مکان بنائے گا اسے پہلے زمین مل جائے گی اور بعد میں مکان بنانے والے کو اس جگہ زمین ملے گی جہاں زمین خالی ہوگی.(ج) ایک ماہ کے اندرجوں کی قیمت وصول نہ ہو گی ان کے لئے دوسری قیمت کا اعلان کیا جائیگا.نوٹ بر میرے لئے سو کنال زمین وقف کر دی جائے یں پانچ ہزار کا چیک بھجوا رہا ہوں.زمین کی قیمت صدر انجین احمدیہ ادا کرے اور یہ تحریک.اس نسبت سے علاقہ کی دونوں انجمنیں مالک ہوں گی سیتی حضرت امیر المومنین المصلح الموعودیوں کے فرمان مبارک دشق علم کی تعمیل میں صدر تعمیرکیٹی کی تشکیل انجین احمدیہ پاکستان نے اپنے ہنگامی اجلاس منعقد ۱۹ ماہ احسان / جون ۶۱۹۴۸ میں مندرجہ ذیل دست امیر ان پر عمل ایک کمیٹی تجویز کی ہے ا - حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب (صدر) - حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پر نسپالی تعلیم الاسلام کالج ۳ - حضرت نواب محمد الدین صاحب ناظر اعلیٰ حضرت نواب عبد اللہ خاں صاحب ) -۵- وكيل الديوان (مولوی عبد الرحمن صاحب انور) 1 - ناظر امور عامه (صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب).ڈاکٹر عبدالاحد صاحب (ڈائریکٹر فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ لاہور) - سید حمود اللہ شاہ صاحب (ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول چنیوٹ) ه جناب مولوی عبد الرحمن صاحب التور کا بیان ہے کہ حضور نے مجھے فرمایا کہ رویہ کی ۳۲ ایکر زمین کی کل قیمت کا اندازہ جیٹری کے اخراجات شامل کر کے ۱۲ ہزار بنتا ہے اگر تحریک جدید ہم ہزار روپے دیدے تو ربوہ کی ملکیت ہیں اس کا یہ حصہ ہو جائے گا جس پر تحریک جدید نے اس سلسلہ میں چار ہزار روپے ادا کر دئیے ہے کہ ریکارڈ دفتر نظارت علیا صدر انجمن حمدیہ پاکستان ے اس مکتوب پر ۱۲ جون شاہ کی مہر ثبت ہے ہے کہ ملاحظہ ہو صدر ایمین احمدیہ پاکستان کا ریزولیوشن ۱۳۲۴ مورخه ۱۹ احسان ۳۲۷ +
۴۱۴ 4 - ناظم جائداد (چوہدری صلاح الدین صاحب) ۱۰ ناظر بیت المال (چوہدری عبد الباری صاحب) انجمن نے پر بھی فیصلہ کیا کہ ریکی فوری اجلاس منعقد کر کے صدر انجمین احمدیہ میں رپورٹ پیش کرنے غلہ کے متعلق یہ فیصلہ ہوا کہ حضرت نواب محمد دین صاحب چھ ہزار من کا پرمٹ حاصل کریں.۲۶ تبوک استمبر کو صدر انجمن احمدیہ نے تعمیراتی کام کے پیش نظر حضرت مصلح موعود کی خدمات کوصدر میں سفارش کی کہ تعمیر کیٹی کے لئے درج ذیل ممبروں کا تقر منظور فرمایا جائے :- حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب (صدر ) - صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب (سیکرٹری) تو اب محمد عبد اللہ خان صاحب رسید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب شیخ بشیر احمد صاحب صاجزادہ مرزا ر یز احمد صاحب مولوی عبد الرحیم صاحب در در مولانا جلال الدین ما شمین - صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے اِس سفارش میں یہ بھی عرض کیا گیا کہ " حضرت میاں صاحب کا صدر ہوتا اس لئے ضروری ہے کہ اُن کو تعمیری کام کا ایک لمبا اور وسیع تجربہ ہے اور وہ اس کام کی ہر شق سے واقف ہیں.حضرت میاں صاحب کا صدر ہونا اس لئے بھی ضروری ہے کہ عملاً اب بھی انہی کا مشورہ اس کام میں لیا جاتا ہے.اگر وہ خود براہِ راست ہر مرحلہ پر نگرانی فرمائیں گے تو وقت بھی نیچے جائے گا اور کام بھی اچھا اور جلدی ہو جائے گا " حضور نے تحریر فرمایا " ریزولیوشن منظور ہے سوائے تعمیر کے سوال کے.اس وقت تعمیر کا کوئی سوال نہیں صرف سامان جمع کرنے کا سوال ہے اور اس کا فیصلہ میری موجودگی میں ہوتا ہے اس وقت سروے کا سوال ہے اور معلومات جمع کرنا ہے اے تعمیر کمیٹی کے ان نمبروں میں بعد کو حسب ضرورت وقتاً فوقتاً رد و بدل ہوتا رہا چنانچہ ۲۶ ماه استاد اکتوبر کو حضرت مصلح موجود ہ نے اس کمیٹی میں حضرت نواب محمد دین صاحب اور خورشید احمد صاحب (200ھ) کا بھی اضافہ فرما یا نیز حکم دیا کہ سیکوٹری بجائے مرزا مبارک احمد صاحب کے خورشید احمد صاحب اور اسسٹنٹ سیکرٹری قریشی عبدالرشید صاحب نائب وکیل المال ہوں گے چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ نے بھی نمبر کی حیثیت سے کام کیا.ان کے بعد مین احمد خان صاحب عارف (نائب وکیل التبشیر ، اور سید زمان شاه صاحب آف جہلم بھی ایک عرصہ تک اسٹنٹ سیکرٹری کیٹی کے فرالحق بجالاتے رہے.یکمیٹی براہ راست حضرت خلیفہ اسیح الثانی المصلح الموعود کی زیر نگرانی وزیر برایت کام کرتی تھی ؟
۴۱۵ اخاء چنیوٹ اور احمدنگ میں مرکزی ماحول کے امامان در راکتور میں بہت سے امین اسی وقت سے جبکہ نئے مرکز کی مجوزہ اراضی کے حصول کی جدوجہد استحکام کے لئے اہم ذیلی انتظامات کا آغاز ہوا چنیوٹ اور احمد نگر کو یکایک خاص اہمیت حاصل ہوگئی.وجہ یہ کہ مرکزی ماحول کومستحکم کرنے کے لئے ان مقامات پر حضرت مصلح موعود کی خصوصی ہدایات کے مطابق نہایت اہم ذیلی انتظامات بروئے کار لائے گئے چنانچہ یہاں نہ صرف مہاجر احمدیوں کے لیسانے کی انتہائی کوشش کی گئی بلکہ شروع میں تعلیم الاسلام ہائی سکول ، مدرسہ احمدیہ و مجامعہ اپنے عبوری دور میں یہاں قائم ہوئے ازاں بعد ۲ احسان جون و کو حضرت اقدس نے ارشاد فرمایا کہ ۶۱۹۴۸ قادیان کی لائبریری کی کتابیں فی الفور چنیوٹ میں منتقل کر دی جائیں.اس سلسلہ میں حضور نے ناظر اعلیٰ کو حسب ذیل ہدایات فرمائیں :.دو چار روز کے اندر ایسا انتظام کیا جائے کہ چنیوٹ میں چند مکانات لے کہ ہماری لائبریریابی جو یہاں ہیں وہاں بھیجوائی جائیں.فوراً ایک دو دن کے اندر کاریوں کا انتظام کر کے کتب بھجوائی جائیں.لائبر اوردین وہاں چلے جائیں تین چار معتبر آدمی مقرر کر دیئے جائیں جو اپنے سامنے ان کو ہوا لگوائیں اور فهرستیں تیار کریں.ہر فہرست پر دو آدمیوں کے دستخط ہوں گے کہ کوئی بد دیانتی نہ کر سکے.ابھی فور لائبریریوں کو چیک کروایا جائے اور جوکتب اور اخبارات کے فائل کم ہوں ان کے متعلق قاویان لکھا جائے کہ آئندہ کنوائے میں انہیں بھیجوانے کی کوشش کریں.آپ کے پاس ونس ہزار کی رقم محبت میں سامان خریدنے کے لئے منظور ہے آپ اس میں سے فوراً کتب کے لئے ٹرنک اور بیٹیاں بنوائیں اور ان کے فضل بھی.کم از کم میں بیٹیاں انجانی و طول یونین کی ہوں اور پھر کتب پر مہریں لگائی جائیں.ٹرنکوں پر چٹوں کی بجائے لائبریریوں کے نام سفیدہ وغیرہ سے لکھے جائیں.دو پرائیویٹ لاریاں خرید لی جائیں.ہمارا روپیہ لاہور میں نہیں رہنا چاہئیے جتنا زائد روپیہ ہو وہ کراچی کے بنک میں ہو اور یہاں زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ کافی ہے.اصول یہ ہو کہ اگر EMERGENCY ہو تو اس وقت شیخو پورہ تک پہلا چکر ہو بلکہ شاہد کہ بھی
۴۱۶ محفوظ ہے اور اس کے بعد وہاں سے سامان آگے جاتا رہے.اصل تو دریا سے پار کرنا ہے.کوئی آدمی دوڑایا جائے جو وہاں جا کر مسکان لے آئے.نواب محمد دین صاحب سے بھی بیٹھی لکھوائی جائے کہ ہماری لائبریریوں کی گنتب سڑ رہی ہیں اس لئے ہمیں فی الحال مکان دیئے جائیں تا کتب تو محفوظ رہ سکیں یا حضور کے اس فرمان مبارک کی تعمیل میں وسط / احسان / جون ۱۳۲۷۵ء میں کتابوں کو ٹرنکوں میں بھر کر بذریعہ ٹرک چنیوٹ پہنچایا گیا جہاں حکیم غلام حسین صاحب لائبریرین نے مخلوط اور بے ترتیب و بے ربط کتا ہیں مضمون وار کیں اور قادیان سے آمدہ رجسٹر سے مقابلہ کر کے ایک نئی فہرست مرتب کی اور اسے استفادہ کے قابل بنا دیا.لہ لائبریری کھل جانے کے چند ہفتے بعد حضور انور کی ہدایت پر ماہ ظہور / اگست ۳۲۷ کو دفتری ۱۹۴۸ ر محاسب کی ایک شاخ بھی چینیوٹ میں قائم کر دی گئی ، ماہ تبوک استمبر کوحضور نے حکم دیا کہ دفتر محاسب کو مکمل طور پر چنیوٹ میں منتقل کر دیا جائے لاہور میں اب صرف دفتر کا ایک ذمہ دار کلرک اور ایک سیف رکھنا چاہیے.چنانچہ حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب ناظر علی نے ۲۷ر ظهور / اگست کو محاسب صاحب صد انجمن احمدیہ پاکستان کے نام یہ مکتوب لکھا :- ۶۱۹۴۸ السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ، بحضور نے آج کی مجلس میں ارشاد فرمایا ہے کہ دفتر محیا سب کو فوری طور پر چنیوٹ میں منتقل کر دیا جائے وہاں ایک سکول کا کمرہ اُن کے پاس موجود ہے اُس میں فی الحال گزارہ کریں اگر وہ کفائت نہ کرے تو سید محمود اللہ شاہ صاحب سے امداد حاصل کریں مینگل ، بدھ اور جمعرات میں روزا خباً میں چو کٹھ میں موٹے الفاظ میں یہ اعلان ہونا چاہئیے کہ آئندہ تمام رقوم چنیوٹ میں بھجوائی جائیں.جمعہ سے یہاں ادائیگیاں بند کر دی جائیں.جمعہ ہفتہ، اتوار دفتر کا پیکنگ ہو اور تنخواہوں کی ادائیگی یکم اکتوبر سے پہلے کر دی جائے.فی الحال بیوی بچوں کو ساتھ نہ لے جایا جائے چنیوٹ جا کر گنجائش اور مکانات کی پڑتال کرنے کے ۶۱۹۴۷ ۲۸ + ے رپورٹ صدر انجمن احمدیہ پاکستان ه۲۶-۱۳۲۹ ۲۵۰-۲۲ سے اس تعلق میں مولانا جلال الدین صاحب شمس نے ہر طور کو محاسب صاحب صدر انجمن احمدیہ کو لکھا: آپ کل اپنے ریکارڈ اور عملہ کے ساتھ چنیوٹ روانہ ہو جائیں نائب محاسب چوہدری عزیز احمد صاحب کی حسب منشاء وہاں دفتر کے لئے تین کمروں کا انتظام کر دیاگیا ہے اور اسکے علاوہ رہائش کے واسطے یہ انتظام کیا گیا ہے کہ (۱) آپ سید محمود اللہ شاہ صاحب کے مکان میں رہیں گے (۲ شیخ فضل احمد رضا اور قریشی محمد عبد اللہ صاحب کے لئے فیملی کوارٹر مہیا کئے گئے ہیں (۳) باقی کلرک ایک جگہ رہیں گے یہ
بعد جو کارکن عیال لے جانا چاہیے لے جاسکتا ہے اخراجات انجمن دے گی.لاہور میں صرف دفتر میا سب کے ایک دتہ وار کرک اور ایک سیف رہنا چاہئیے جو کہ چندوں کی وصولی کا کام کرے اور حسب ہدایت نظارت علی پیشگی رقوم ادا کر ہے.اندراجات کی تکمیل تمام و کمال چنیوٹ میں ہوا کرے گی.سامان دفتر بھی جو خرید شده ہے آپ اپنے ساتھ لے جاسکتے ہیں بہتر ہو کہ ایک مال گاڑی کا انتظام کر لیا جائے تاکہ سب سامان بنا سکے ایکی مشورہ سے اندازہ کر لیں کہ ریل کی بجائے اگر ٹرک میں بآسانی اور بکفائت سامان جا سکے تو ٹرک ہیں لے جایا جائے.عید عبد اللہ خان ناظر اعلی ۲۷ صدر انجمن احمدیہ اور تعمی کسی حضرت امیر المومنین جماعت کو مرکز پاکستان کی سیات کی اطلاع کے ارشادات کا تیل میں سرگرم عمل ہوچکی تھی اور بعض فصیلوں کا اعلان کہ اسی اثناء میں حضور کوئٹہ سے نفس نفیس لاہو تشریف لے آئے اور قدم قدم پر اسے اپنے تعمید مشوروں سے نواز نے اور ہر ضروری مسالہ میں براہ راست راہنمائی فرمانے لگے.اس طرح تعمیر کمیٹی کی جد و بند میں اپنی توجہ سے ایک نئی حرکت پیدا کرنے کے بعد حضور نے ۱۰ - ماہ تبوک استمبر ۳۳۷۵ کے خطابہ بمعہ کے ذریعہ جماعت احمدیہ کو مرکز پاکستان کے لئے خریدا راضی کی پہلی بار فضل اطلاع دی اور اس کے ضروری مراحل پر روشنی ڈالنے کے بعد بعض گزشتہ تلخ تجربوں کے مد نظر اس نئی اراضی پر مکانات بنانے کے متعلق مندرجہ ذیل فیصلوں کا اعلان فرمایا :- ا.مکانوں کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں رہنے دیا جائے گا.قادیان میں لوگوں نے زمین خرید کر اُسے خالی ہی پڑا رہنے دیا اور مکانات وغیرہ نہیں بنائے تھے جس کی وجہ سے ہم پوری طرح حفاظت کا بندوبست نہ کر سکے ہمیں جو نقصان پہنچا اس کی تمام ذمہ داری انہیں لوگوں پر تھی یہ نقصان ان جگہوں کے پر ہو جانے کی صورت میں نہیں ہو سکتا تھا ہم نے آبادی کے اردگر و دیواریں بنانے کی کوشش کی مگر گورنمنٹ نے ہمیں ایسا کرنے سے روکا اور کہا کہ تم سٹرکوں کو روکتے ہو.چونکہ اس کی مرضی تھی کہ مسلمان یہاں سے نکل جائیں اس نے چاہا کہ کسی قسم کی کوئی حفاظتی تدبیر نہ کی جائے.اس تلخ تجر بے کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ کوئی بھی زمین خریدے اور مکان بنائے مکانوں کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں ہو گا اور جو مقررہ مدت میں مکان نہیں بنا سکے گا اس کی زمین کسی اور کو دے دی جائے گی جو جلد ہی
۴۱۸ مکان بنا سکے.اس طرح بیستی قلعہ کی صورت میں بدلتی جائے گی.ہاں جس طرح کی زمین ہوگی اسے دوسری جگہ پر زمین دے دی جائے گی.- زمین فروخت نہیں کی جائے گی بلکہ ٹھیکہ پر دی جائے گی اور اس کی اصل مالک صدر انجمن احمدیہ پاکستان ہی رہنے گی.۳.اس وقت زمین سو روپے فی کنال کے حساب سے دی جائے گی.پچانش روپے بطور ہد یہ مالکانہ اور پچاس روپے شہر کی ضروریات کے لئے.زمین نوے سال کے لئے ٹھیکہ پر دی جائے گی لیکن شرح کرایہ ہر تیس سال کے بعد بدلتی رہے گی جو کبھی پچاس فیصدی سے زیادہ نہ ہو گی.زمین پر قبضہ قائم رکھنے کے لئے ہر خریدار سے ایک چھوٹی سی رقم بطور کرایہ وصول کی جائے گی بہت تھی ایک روپیہ فی کنال سالانہ اور دس مرلہ پر آٹھ آنے سالانہ اور یہ گرا یہ تین پیسے فی مرلہ ماہوار بتا ہے.یہ گورنمنٹ کی نقل کی گئی ہے گورنمنٹ بھی پہاڑوں پر زمین ٹھیکے پر ہی دیتی ہے.میں نے بھی ڈلہوزی ٹھیکہ پر زمین ہی لے کر کوٹھیاں بنائی تھیں.4 کیسی واحد شخص کو دکان بنانے کی اسبازت نہیں دی جائے گی دکانیں کھلی طور پر سلسلہ کی ملکیت ہونگی ٹھیکہ پر لی ہوئی زمین میں صرف ہائشی مکان بنانے کی اجازت ہوگی کیونکہ بہت سی آوارگی دکانوں کے ذریعہ ہی پھیلتی ہے.قادیان میں ہم دیکھتے تھے کہ آوارہ مزاج لوگ عموماً د کانوں پر بیٹھا کرتے تھے اور جب دوکانداروں کو ان کے منع کرنے کے لئے کہا جاتا تھا تو وہ مقابلہ کرنے کے لئے اُٹھ کھڑے ہوتے تھے کیونکہ ان کی وجہ سے ان کی بکری زیادہ ہوتی تھی بہر حال اس سنتے قصبہ میں دکانیں که شخصوم ای.کی ملکیت نہیں ہوں گی.الفضل میں اعلان شائع ہونے کی تاریخ سے لے کہ ایک مہینہ تک پہد یہ مال کا نہ ایک سو روپیہ فی کنال لیا جائے گا اس کے بعد ہر سال یہ رقم بڑھتی جائے گی.یہ میعاد پندرہ اکتوبر کوختم ہو جائے گی.اس وقت تین سو تیس کنال اراضی کی درخواست آچکی ہے.روشنی، پانی، سڑکوئی اور دیگر انتظامات کے لئے پانچ لاکھ کے اخراجات کا اندازہ ہے سکولوں کا لجوں پر بھی پانچ لاکھ کا اندازہ ہے.تو دس لاکھ کے قریب مزید خرچ ہو گا اور وہاں بسنے والوں نے ہی ان سے فائدہ حاصل کرنا
۴۱۹ A ہے اس لئے یہ اخراجات زمین کی قیمت سے ہی نکالے جائیں گے.صرف چار پانچ سو ایکڑ زمین شہر میں لگ سکے گی باقی زمین ایسی نہیں کہ اس پر مکان بن سکیں.پس اس زمین میں سے یہ اخراجات نکالے جانے ضروری ہیں.- دکانوں کی عام اجازت نہ ہوگی بلکہ ضرورت کے مطابق نائیوں، دھوبیوں، موچیوں وغیرہ کی دکانیں ہوں گی اور گنجائش کے مطابق دکانیں کھولنے دی جائیں گی.بڑے کارخانے کھولنے کی کسی شخص واحمد کو اجازت نہیں دی جائے گی بلکہ جو بھی کارخانے کھولے جائیں گے ان میں سب شہریوں کا حصہ ہو گیا.یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ کچھ زمین اُن لوگوں کو دی جائے گی جو غرباء تھے اور قادیان میں ان کے مکانات تھے.یہ جگہ مفت دی جائے گی..دکانات بنانے میں ایسا کام جس میں نئی مہارت کی ضرورت نہ ہو باہمی تعاون سے کیا جائے گا اور اپنے ہاتھوں سے کیا جائے گا.۱۲ - جو قواعد اس بارہ میں حکومت یا سلسلہ کی طرف سے جاری ہوں ان کی پابندی زمین لینے والوں کے لئے ضروری ہوگی." آخر میں فرمایا :- پس ایسے دوست جو اس میں حصہ لینا چاہتے ہیں اور اس لئے مرکز میں مکانات بنانا چاہتے ہیں انہیں بچاہئیے کہ ایک مہینہ کے اندر اندر سو روپیہ فی کنال کے حساب سے ہدیہ مالکانہ پچاس روپے اور ابتدائی انتظامات کے لئے پچاس روپے قیمت خزانہ میں جمع کرا دیں تا پہلے گروپ میں وہ شامل کر لئے بجائیں.احمدیت نے بہر حال پڑھنا ہے یہاں کی زمینوں کا بھی وہی حال ہو گا جو قادیان کی زمینوں کا ہوا یہ جگہ پاکستان کا مرکز رہے گی اور قریب کے مرکزوں سے زیادہ تعلق ہوتا ہے پس جو شخص زمین لینا چا ہے انہیں جلدی کرنی چاہئیے" کے 7-0 له الفضل ٢٨ تبوك استمبر ۱۳۲۷۵ م ١٦ نے حضور انور کا متذکرۃ الصدر خطبه ۱۲۸ تبوک مر تمبر م کے افضل میں شائع ہوا مگر سیکورٹی تعمیر کیٹی کی طرف سے اس کی روشنی میں تیسرے روز ہی ایک مفضل اعطان چھپ گیا جس میں حضور کی بیان فرمودہ ستر کا شرائط کی تفصیل درج تھی (الفضل (۱۲) تبوک ه۱۳۳۲۷ ) :
۴۲۰ مرکز پاکستان میں جگہ حاصل کرنے کے لئے اس خطبہ کے بعد میں جماعت نے نے مرکز میں جگہ پانے کی سعادت حاصل کرنے کے لئے جس مخلصین جماعت کی طرف سے مثالی جوش و خروش جوش و خروش کا ثبوت دیادہ اپنی مثال آپ تھا حضرت مصلح موعود نے جب تک اراضی مرکز کے لئے یہ اعلان عام نہیں فرمایا تھا تاں سوکنال زمین فروخت ہو چکی تھی.اس کے بعد جو ہم احمدیوں تک اپنے محبوب آقا کی آواز پہنچی وہ دیوانہ وار لبیک کہتے ہوئے آگے بڑھے اور ۱۵- خضار / اکتوبہ کی آخری مقررہ تاریخ تک پانچ سو کنال کی بجائے ایک ہزار کنال کی قیمت داخل خزانه گرادی مطالبات کی اس غیر معمولی کثریت پر کی پٹی آبادی کو حضرت مصلح موعود کی منظوری ے اعلان کرنا پڑا کہ روپے کنال کے مجوزہ نرخ پر پانچ سو کنال کی بجائے آٹھ سوکنال تک زمین ہیم کی جائے گی نیز فیصلہ کیا کہ مزید تین سو کنال بھی دی جائے مگر اس کی قیمت پہلے نرخ کے مقابل ہو گئی ہوگی اور جن دوستوں کی قوم اراضی آئے سوکنال کے پورا ہو جانے کے بعد پہنچی ہیں وہ دگنی قیمت پر زمین لینے کے مجاز ہیں اور ایسے خریداروں کا حق پہنا رہ دن تک دوسرے درخواست کنندوں سے مقدم قرار دیا گیا.اس اعلان پر جو سنتے بھی گزرتے نہیں پائے تھے کہ اسسٹنٹ سیکرٹری کمیٹی آبادی دقریشی عبد الرشید صاحب نے بذریعہ الفضل اعلان کیا کہ جو گنه نرخ پر تین سو کنال فروخت کرنے کا جو اعلان کیا گیا تھا وہ تین صد کنال ختم ہو چکے ہیں اس لئے احباب مزید کوئی رقم اس مورخ پر زمین خریدنے کے لئے ارسال نہ کریں.علاوہ ازیں یہ فیصلہ کیا گیا کہ کسی صاحب کو چار کنال سے زائد زمین نہ دی بجائے سوائے اس کے کہ بچوں کی علیحدہ رہائش کے لئے درکار ہو.ہے ماه اشیاء اکتوبر کے آخر تک ۵۳۹ سابقون نے سابقون کی فہرست کی اشاعت مادی فردی زرعی میں رہائش کےلئے اپنی قوم پیش کیں جن کی وادی لئےاپنی میں فہرست الفضل کی دو اشاعتوں (۲۶) انداد و از نبوت میں بطور ضمیمہ شائع کر دی گئی.اس فہرست میں پہلا نام حضرت مصلح موعود کا اور دوسرا حضرت مولانا غلام رسول صاحبت را جیکی کا تھا اور بقیہ ناموں میں سلسلہ احمدیہ کے مزد درجہ ذیل ممتاز بزرگ صحار بھی شامل فہرست تھے :.حضرت مولوی فضل الدین صاحبہ (2) حضرت ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب ( ع ) لے الفصل 19 انماء / اکتوبر ها ما ۲۱۹۴۸ ܀ الفضل ۳۱ را خاء / اکتوبر ها ۶۱۹۴۸
حضرت مفتی محمد صادق صاحب (۲) حضرت چوہدری برکت علی خاں صاحب (۲۵) حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب (۶۵) حضرت مولوی محمد الدین صاحب (4) حضرت مولوی غلام نبی صاحب مصری ز عمنا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب (ش) حضرت مولوی محمد عبد اللہ صاحب بوتا لوی (ع) حضرت منشی عبوب عالم صاحب نیلا گنبد (۲۴) حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب درد ( ۳۷۳) حضرت ماسٹر مولانی صاحب (۳۱۲) حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب (۴۳۵) حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب (۱۴۳) حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم ام المومنین (۴۵) حضرت مولوی قدرت اللہ صاحب (۳۹) خدا کے موعود خلیفہ کی آواز پر لبیک کہنے والے ان مخلصین کا تعلق مشرقی پنجاب خصوصاً قادیان سے آنے والے مہاجرین اور پاکستان میں پہلے سے مقیم احمدیوں کے ہر طبقہ سے تھا.درویشان قادیانی اور کلکتہ کے بعض احمد یوں نے بھی قیمت ادا کر دی تھی اس لئے ان کا نام بھی فہرست میں موجود تھا.حکومت مغربی پنجاب نے چک ڈھگیاں کی اراضی کی منظوری بستی کی آبادی میں قانونی نیچیپ یدگی اور دیتے ہوئے علاوہ دوسری شرائط کے ایک خطرناک اس کے ازالہ کے لئے مخصوصی ارشاد مبارک باندی یہ نگاری حتی کہ زمین پرقبضہ کے اٹھارہ ماہ بعد بستی کے گل مکان بن جانے چاہئیں.یہ شرط چونکہ صدر انجین احمدیہ پاکستان جیسے مہاجر اور نئے قائم شدہ ادارہ کے لئے ناقابل عمل اور مالی اخراجات کے لحاظ سے ناقابل برداشت تھی اس لئے حضرت مصلح موعود نے جہاں نئے مرکز کی آبادی سے متعلق بلا تاخیر دوسرے ضروری انتظامات کی طرف تعمیر کمیٹی کو توجہ دلائی وہاں ۱۵ ماہ تبوک رستمبر کو یہ بھی ارشاد فرمایا کہ : " میرا خیال ہے کہ ایک وفد گور نر کو ملے کہ ہم ریفیوجی ہیں ہم پر گاؤں بنانے میں پابندیاں کیوں لگائی جا رہی ہیں ؟ دنیا میں آخر ا د بھی گاؤں بن رہے ہیں ہمارے پاس اتنار و پیہ کہاں کہ ہم ان پابندیوں کو پور اگر سکیں یا گورنمنٹ اپنے پاس سے ہیں تیس لاکھ روپیہ بلا شود اِس مقصد کے لئے ہمیں قرض دیدنے یا پھر جب قصبہ بنے تو پھر پلینگ کیا جائے ہمیں فی الحال پچھتر وغیرہ بنانے کی اجازت دی جائے جس میں ہم راستوں وغیرہ کی پینٹنگ کا خیال رکھیں گے بعد میں آہستہ آہستہ کھلے مکان پلینگ کے مطابق بنا لیں گے.ایک وفد رضا کے پاس جائے رضا فنانس کمشنر کے سیکرٹری ہیں.یہ وفد اس لئے بجائے کہ معاہدہ کی
۴۲۲ وقعہ (K) میں یہ شرط ہے کہ اٹھارہ ماہ کے اندر مکان بن جائے.یہ شرط تو افراد کے لئے ہے شہر تو گورنمنٹ بھی پندرہ بیس سال کے بعد بناتی ہے لہذا اس شیق کو یا تو بدل دیا جائے یا منسوخ کیا جائے.دوسری بات ان سے یہ کی جائے کہ اگر ہم وہاں رہیں گے تبھی شہر بنے گا لنا فی الحال ہمیں وہاں رہنے کے لئے عارضی جھونپڑیاں بنانے کی اجازت دی بجائے بغیر اس کے تو وہا اے رہنے کی کوئی صورت ہی نہیں ہو سکتی.تیسری بات یہ کی جائے کہ نقشہ ساتھ لے جایا جائے کہ اس سارے پر شہر نہیں بن سکے گا بلکہ بعض حصوں کو باغات ، زراعت اور کھیلوں وغیرہ کے لئے رکھا جائے گا نیز یہ کہ عمارت سے زیادہ پائیدار چیز کو تو شرط کے خلاف قرار دیا جا سکتا ہے زراعت اور باغات وغیرہ تو عمارت کے مقابلہ میں عارضی ہیں پہلے معاملہ کی درخواست کی جائے اور دوسرے کے متعلق ڈسکس (Discuss ) کیا جائے.میان اعلام محمد ناقل) اختر صاحب کی معرفت ریلوے اسٹیشن اور ڈاک خانہ کے لئے فوراً درخواست کرنی چاہیے.اس میں یہ ہو کہ ہم سارا نقصان برداشت کر لیں گے اس کی ضمانت ہم دیں گے یہ لے اگلے روز (۱۶) تبوک ستمبر کو حضور نے صدر انجمن افتتاح مرکز کے ابتدائی انتظامات امدادی اور تحریک جدید د د د دار کارکنوں کامشترکہ اور کے ذمہ مجلس میں افتتاح مرکز کے لئے بہ تبوک ستمبر کا ون مقری فرمایا اور اس کے ابتدائی انتظامات کے لئے 12 بہایت اہم ہدایات دیں جن کا خلاصہ یہ تھا کہ : ا.کراچی سے جنر ٹیر لایا جائے.- ایک شخص مینیوٹ سجائے اور وہاں دیکھے ہاس ( HUTS) بن سکتے ہیں.سرکنڈا ، بانس، چٹائیاں، انٹیں مل سکتی ہیں ؟ کیس قیمت پر ملیں گی.ڈھلوائی کتنی ہوگی اور باقی چیزیں کہاں ملیں گی ؟ ۳.عمارتی بانس کے لئے لاہور، سانگلہ اور سرگودہا سے دریافت کیا جائے.سے چنیوٹ میں مکانوں کے لئے کوشش کی جائے.۵.دھوبی ، نائی بکمہار، ترکھان کے متعلق روزانہ اشتہار ہونا چاہیے.کے جھونپڑے : ه منقول از رجیسٹر کا رروائی مجلس ناظران و وکلاء ه ۱۳۹۳ سے اس غرض کے لئے افتتاح مرکز سے قبل جمعدار فضل الدین صاحب او و سیر کو لائل پور اور سرگودہا بھجوایا گیا تا چھپر بنا کو عارضی رہائش گاہوں کا انتظام کیا جاسکے جو
متری عبد اللطیف صاحب کو ملتان سے کراچی بھجوایا جائے.کے محاسب کی آدھی برانچ (لا ہور سے چنیوٹ) عزیز احمد لے جائیں.معلوم کیا جائے سیمنٹ کی ریٹ پر مل سکتا ہے؟ بانس کتنا مہیا ہو سکتا ہے ؟ تمیں خیمے اور تی ہیں چھولداریاں کی جائیں.q ۱۰.پھوس کے کچھ مکان بنائے جائیں.- ڈاک خانہ کی فوری کوشش کی جائے.۱۲.پانچ بکرے خریدے بہائیں " مرکز پاکستان کا نارواہ کیا گیا اس میں کام کر کے ان کا سا ابھی زیر و یا حضرت کانام را..صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب، مولانا عبد الرحیم صاحب درد اور مولانا جلال الدین صاحب شمس کی طرف سے ماوی، ذکر کی، دارالہجرت مدینہ اشیخ اور ربوہ وغیرہ نام پیش ہوئے قریشی عبد الرشید صاحب اسسٹنٹ سیکرٹری تعمیر کمیٹی کی چشم دید روایت کے مطابق در بوہ نام مولانا جلال الدین صاحب شمس نے تجویز کیا جسے حضرت مصلح موعود نے بھی منظور فرمایا.بینام مولوی مادی ی معنوی اور ڈوھانی ہر اعتبار سے نہایت موزوں اور لطیف تھا.قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیت کریمہ کی مناسبت سے رکھا گیا جس میں حضرت شیخ کی اپنی والدہ سمیت ہجرت کا واقعہ (بطور پیش گوئی لکھا ہے:.وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَامَّهُ ايَةً وَأَوَيْنَهُمَا إِلَى رَبوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَ مَعِين (مومنون ہے ) نے عربی لغت میں ربوہ کے متعدد معنے مذکور ہیں مثلا میلہ، پہاڑی ، بلند زمین، عمدہ چیز.ریاضی دانوں کے پاس وسنش لاکھ کی تعداد بھی ربوہ کہلاتی ہے.رَبَا الْفَرَسُ رَبُوا کا مطلب ہے گھوڑا بھاگنے سے سانس چڑھنا.دبا اتوکد رَبُوا وَرَبُوا بچہ کا بڑھنا تعلیم پاتا، پھیلنا اور نشو و نما پانا.کیا المال کا مفہوم ہے دولت کا بڑھتا، لمبا ہوتا.رپوہ ایک بڑی جماعت کو بھی کہتے ہیں جو قریباً دس ہزار پر مشتمل ہو.یہ لفظ بے شمار تعداد کے لئے بھی مستعمل ہے.المعجم الاعظم از محمد حسن الأعظمي زير لفظ " وبوه) سے احادیث میں کئی مقامات پر ربوہ کا لفظ استعمال ہوا ہے.مثلاً ترندی جلد کتاب التفسیر میں ہے الفردوس رَبُوَةُ الْجَنَّةِ وَاوْسَطُهَا وَ أَفْضَلُها " فردوس بہشت کا اعلیٰ اور بلند مقام ہے اور عین وسط میں بھی ہے.(ترجمہ از مولوی وحید الزمان صاحب كتاب " لغات الحديث
۴۲۴ دا اور ہم نے ابن مریم اور اُس کی ماں کو ایک نشان بنایا اور ہم نے اُن دونوں کو ایک اونچی جگہ پر پناہ دی جو ٹھرنے کے قابل اور بہتے ہوئے پانیوں والی تھی ) افتتاح ربوہ کے انتظامات کے لئے حضرت امیر الونی کی ہدایات کو فی الفور مل جب سر عملی جامہ پہنانے کے لئے ممبران صدر انجمن احمدیہ اور وکلاء ذمہ دار اصحاب کا تقرر تحریک جدید کا ایک مشتر کہ ہنگامی اجلاس منعقد ہوا جس میں افتتاج رہوں کے سلسلہ میں بعض ضروری انتظامات مختلف ذمہ دار اصحاب کے سپرد کئے گئے.مثلاً خیموں اور چھو لداروں کو کرایہ پر لینے کا کام جناب چوہدری عبدالسلام صاحب اختر ایم.اسے اور موادی محمد صدیق صاحب کے ذرہ ہوا.ٹرکوں کی فراہمی کا انتظام مولوی ابو المنیر نور الحق صاحب دنا نظر آبادی اور خواجہ عبد الکریم صاحب کو سونپا گیا اور صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید کے عملہ میں سے فوری طور پر ربوہ بھجوائے جانے والے (ایک تہائی کارکنوں کی فہرست تیار کرنے پر مولوی عبد الرحمن صاحب انور (وکیل الدیوان ) اور قاضی عبد الرحمن صاحب مقرر کئے گئے اور تبلہ دن اتر انجمن و تحریک کو اطلاع دی گئی کہ کل جمعہ کی تعطیل نہ ہوگی اور دفاتر صبح 8 بجے سے دس بجے شب تک کھلے رہیں گے چنانچہ اس روز سب مرکزی دفاتر صبح سے رات تک، ان اختتامی انتظامات کی تیاری میں مصروف رہے.لاہور سے زکوہ کے لئے 1 ار ماہ تبوک استمبر کو لاہور سے ربوہ میں خیموں اور پھولنا اریوں کو خب کرانے اور دیگر ضروری انتظامات کرنے اور بعد ازاں اس وادی تغیر پہلے قافلہ کی روانگی وی زد میں مقیم رہنے کےلئے دو قافلے وا کئے گئے.ذی پہلا قافلہ جو چوہدری عبد السلام صاحب اخترایم.اسے (نائب ناظر تعلیم و تربیت ) اور مولوی محمد صدیق صاب واقف زندگی کے علاوہ ایک مددگار کارکن، ایک ڈرائیور اور دو مزدوروں پر تمل تھالا نہور سے قریباً ایک بجے روانہ ہوا اور سات بجے شام کے قریب ربوہ کی مقدس سرزمین میں پہنچاتے ے اس پہلے قافلہ کی روانگی کے معا بعد مولانا جلال الدین صاحب شمسی ناظر اعلیٰ نے حضر بمصلح موعوض اختر صاحب اور مولوی محمد صدیق صاحب ۲۲ جیسے مختلف سائز کے اور ہم چھولداریاں اور آٹھ شامیانے لڑکی پر لے کر چلے گئے ہیں حضور نے فرمایا ہے کہ بڑا سیف ربوہ لے جایا جائے وہ بغیر ٹرک کے نہیں جاسکت اسکی صورت ہی ہے کہ ٹرک کرایہ پر لیا جائے اور اس کے ساتھ سنگر خانہ کا بھی کچھ سامان بھیج دیا جائے لیے حضور نے فرمایا : " درست ہے لیکں نے اس سے کب منع کیا ہے کہ شرک نہ لے جایا جائے کہ
۴۲۵ چوری بعید السلام صاحب النترایم اسے امیر قافلہ تے جی کو پورہ کا نتظیم عملی بھی مقر کیا گیا تھا.اے جناب چوہدری عبد السلام صاحب اختر کا بیان ہے کہ :.شام کے سات بجے کے قریب ٹرک، جس میں چھولداریاں، خیمہ جات اور سائبان وغیرہ لدے ہوئے تھے اس سر زمین میں پہنچ گیا جسے اللہ تعالیٰ نے پاکستان میں اسلام کی حیات ثانیہ کا مرکز تجویز فرمایا ہے.اس ٹرک میں ڈرائیور اور دومزدوروں کے علاوہ میکں اور مکرم مولوی محمد صدیق صاحب مولوی فاضل تھے.چناب کے پل کے نگران سپاہی اور کچھ راہگیر جو شام کے بعد اس سٹرک سے خال خال ہی گزرتے ہیں حیران ہو کو ہمیں دیکھ رہے تھے کہ یہ لوگ یہاں کیا کر رہے ہیں مگر خدا تعالیٰ کے فضل سے ہم نہایت ہی اطمینان اور سکون کے ساتھ ٹرک میں سے اپنا سامانی اُتارنے میں مصروف تھے.جب تمام سامان اتارا جا چکا توڈرائیور اور مزدوروں کو رخصت کیا گیا اس وقت میلوں تک علاقہ بالکل ویران اور سنسان حالت بایں ہمارے سامنے تھا.دائیں طرف بڑی سڑک تھی جس پر شب کو ٹریفک دفعتہ بند ہو جاتا ہے اور بائیں طرف ریلوے لائن تھی جو پہاڑوں کے بیچ میں سے چکر کاٹتی ہوئی ایک طرف چنیوٹ اور دوسری طرف سرگودھا کو چلی جاتی ہے مگر رات کو یہاں سے کوئی گاڑی نہیں گزرتی دن میں ہی صرف ایک گاڑی آتی ہے اور ایک جاتی ہے رات کے تو بچ بچے تھے.میں نے سامان خاص اس جگہ اتارا تھا جو میرے آقا سید نا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے تجویز فرمائی تھی.اگلے دن حضور معہ خدام کے خود تشریف لانے والے تھے اس لئے ہم نے سائبان اور خیمے حضور کی آمد سے پہلے نصب کرنے تھے مگر اس جنگل میں پہلی رات کا تصور کچھ خون اور کچھ لذت کی سی کیفیت پیدا کر رہا تھا خوف تو اس بات کا تھا کہ یہاں کے اکثر دیہاتی لوگوں کے متعلق سنا تھا کہ وہ بہانوروں سے کم نہیں اور پھر اس علاقے میں سانپ، جھو، ریچھ اور بعض اوقات بھیڑیا بھی پایا جاتا ہے.غرض کہ عجیب قسم کے خیالات آرہے تھے مگر اس سے بہت زیادہ شیریں وہ کیفیت تھی جو اس خیال سے پیدا ہو رہی تھی کہ ہی وادی غیر ذی زرع ایک دن مہجوم خلائق کا مرکز بنے والی ہے چنانچہ ہم دونوں خدا تعالیٰ کا شکر ادا کر رہے تھے کہ اس نے محض اپنے خاص فضل سے ہمیں سب سے پہلے آباد کاروں میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی.رات بڑھتی جارہی تھی اور ہمارے دلوں کا تتوج بھی بڑھ رہا تھا ہم سپینیوٹ سے آتی دفعہ مکرم محترم لے ملاحظہ ہو سرکلر مولانا جلال الدین صاحب شمسی ناظر اعلی مورخه ۱۹ تبوک استمبر ها
۴۲۶ یا محمود اللہ شاہ صاحب ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول کو یہ پیغام دے کر آئے تھے کہ وہ تین چار لڑکے اور ایک لالٹین دے کر جلدی بھیج دیں مگر دس بجے تک اس سنسان اور بے آب و گیاہ وادی میں ہم دونوں کے سوا اور کوئی انسان نظر نہ آتا تھا.خاموشی اور ایک سنسان خاموشی سے کچھ تنگ آکر اور کچھ گھبرا کر میرے ساتھی نے فرمائش کی اختر بھائی کچھ سناؤ چنانچہ میں نے پہلے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کچھ اشعار اور پھر کچھ اپنے اشعار جو میں نے لڑک میں بیٹھ کر راستے میں لکھے تھے بآواز بلند شنائے آواز پہاڑوں سے ٹکرا کر گونج سی پیدا کر رہی تھی اور میں یہ تصور کر رہا تھا کہ جب ہمارا سالانہ جلسہ یہاں ہوگا تو اسی طرح ہمارے بزرگوں کی تقریریں اور ہمارے مؤذنوں کی تکبیریں ان پہاڑوں میں گونج پیدا کریں گی.اور پھر اسی طرح ان تقریروں اور تکبیروں سے ایک دنیا میں گونج پیدا ہوگی.یہ خیال آتے ہی دل پر ایک بے خودی کی سی کیفیت پیدا ہوگئی اور ہم دیر تک خاموش رہے.یں نے عمر کے اعتبار سے قادیان کا ابتدائی زمانہ نہیں دیکھا یعنی وہ زمانہ جب کہ قادیان میں ابھی محتے نہیں بنے تھے لیکن میں حیران ہو رہا تھا کہ اللہ تعالی تاریخ کو ایک نئے دور میں سے گزار گرگزشتہ دور کا اعادہ کر رہا ہے.چنانچہ یکس نے کہا دیکھیں مولوی صاحب قادیان کے ابتدائی دور کا ایک پہلو ہمارے سامنے رہے.چاند ہنس رہا ہے اور ستارے مسکرا کر ہمیں دیکھ رہے ہیں دفعہ دور سے ہمیں ایک ہلکی روشنی دکھائی دی.ہمارے سکول کے تین بچے ایک لالٹین ہاتھ میں لئے ہماری طرف قدم بڑھاتے چلے آرہے تھے تین بچے دو بنگال کے رہنے والے اور ایک سیکون کا رہنے والا اپنے وطن سے ہزاروں میل دور رات کے دنی بجے ایک سنسان وادی میں اپنے آقا کے خدام سے ملنے پہلے آرہے تھے.جب، روشنی آئی توہم نے فیصلہ کیا کہ اس زمین پر سب سے پہلا خیمہ بغیر مزدوروں کی مدد کے اپنے ہاتھ سے لگایا جائے پنا نچہ میں نے اور مولوی محمد صدیقی صاحب نے ایک چھولداری کو درست کیا اور غیر کیسی کی مدد کے اس میدان کے وسط میں یہ چھولداری اپنے ہاتھ سے لگائی.اس کے بعد ہم نے مغرب اور عشاء کی نمازیں ادا کیں اور کچھ دیر بیٹھے باتیں کرتے رہے.پر یہ ربوہ کی سر زمین پر پہلا خیمہ تھا جس کے نصب کئے بجانے کی سعادت قادیان کے دور رہنے والوں کو حاصل ہوئی.تقریباً نصف شب گزرنے پر احمد نگر سے مکرم مولوی ابوالعطاء صاحب پر نسپل جامعہ احمدیہ کی طرف سے کچھ چپاتیاں اور کچھ ذال آئی جس کے متعلق معلوم ہوتا تھا کہ یہ ہر حال نہایت عجلت میں تیار کی
۴۲۷ گئی ہے.اس وقت اس دال روٹی نے جو لطف دیاوہ زندگی کے قیمتی اور پر تکلف لمحات میں بھی کم محسوس ہوئی ہے.چونکہ صبح حضور کی تشریف آوری تھی اس لئے سائبانوں اور خیمہ جات کو درست کیا گیا اور انہی کے ڈھیر پر ہم دراز ہو گئے.تمام رات بلا کھٹکے اور نہایت اطمینان اور سکون کے ساتھ ہم سوئے مجھے تو کچھ ہوش نہیں رہا البتہ مکرم مولوی صاحب نے فرمایا کہ دور سے کچھ گیدڑوں اور بھیڑیوں کی آوازیں آتی نہیں میں لیکن خدا تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اس نے بہر حال ہمیں ہر قسم کی اذیت سے محفوظ رکھا ہے لاہور سے ربوہ کے لئے ۱۹ تبوک ستمبر کو انہور سے ربوہ کے لئے دوسرا قافلہ اپنے ایسر 19 چوہدری ظہور احمد صاحب کی قیادت میں ۵ بجے شام روانہ ہوا دوسرے قافلہ کی روانگی رات گیارہ بجے کے قریب چنیوٹ پینچا اور رات سڑک پرگزار لے کے بعد دوسرے دن ساڑھے آٹھ بجے وارد ہوہ ہوا.یہ قافلہ صدر انجین احمدیہ اور تحریک جدید کے مندریعہ ذیل چونتیس ۳ کارکنوں کو شتمل تھا :- پر نظارت علیا صدر انجین احمدیہ پاکستان محمد عبد الله منهاس صاحب.میاں نوراحمد صاحب تعلیم و تربیت چوہدری عبد السلام صاحب اختر ایم.اے.مولوی بابر علی صاحب.مددکار کار کو منظور احمد صاحب در امور عامه مولوی جلال الدین صاحب بہشتی مقبره منشی خلیل احمد صاحب.غلام حیدر صاحب بیت المال چوہدری ظہور احمد صاحب دامیر قافله ) منشی مبارک احمد صاحب انور.له الفضل الماء اکتوبر ۲۵ ه ؟ ۲ ۲۱۹۴۸ مولانا جلال الدین صاحب شمس ناظر اعلیٰ نے چوہدری صاحب موصوف کو لکھا کہ انجمن کے کارکن جو آج بجا رہے ہیں آپ اُن کے امیر قافلہ ہوں گے.۳۴ کارکن انجمن اپنے ساتھ لاری میں لے جائیں ان کے کرایہ کے لئے مبلغ ایک سو بیس روپے نائب وکیل المال سے لے لیں.ربوہ میں پہنچے کہ پہلے یے شامیانے وغیرہ لگوائے بھائیں.دوسرا خط اختر صاحب (مراد عبد السلام صاحب اختر ایم.اے.ناقل ) کو دے دیں انہیں ربوہ میں منتظم اعلیٰ مقرر کیا گیا ہے وہ اپنے ساتھ جو منتظمین مناسب سمجھیں رکھ لیں.16 خاکسار جلال الدین شمس ناظر اعلی ۱۹
۴۲۸ قریشی عطاء اللہ صاحب منشی داؤ د احمد صاحب.بشیر احمد صاحبہ، میاں غلام محمد صاحب (دفتری) حبیب الرحمن صاحب سیم نظامت جائیداد میاں فرزند علی صاحب دفتر آڈیٹر راجہ بشیر اح صاحب رسید انوار حسین صاحب نظامت ضیافت چوہدری حبیب اللہ صاحب سیال- مولوی بد و سلطان صاحب - اکرم شاہ قضاء صاحب سردار صاحب نانبائی.سردار صاحب مددگار قاری محمد امین صاحب انچارج ضیافت مولوی تاج دین صاحب، فاضل - نور محمد صاحب (مددگار کارکن ) تحریک جدید وکالت دیوان بشیر الدین صاحب.غلام حید ر صاحب - عبد العزیز صاحب را کھوگ صنعت صوفی محمد رفیق صاحب مال تعلیم شیخ عطاء اللہ صاحب.چوہدری عبدالرحیم صاحب (ہیڈ کلرک) مولوی خورشید احمد صاحب شاد مولوی بشیر الدین صاحب - چوہدری ظہور احمد صاحب اس سفر کی مختصر رو داد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :.دعاؤں کے بعد ہم 19 ستمبر ے کو پانچ بجے شام کو اؤن بیس کی ایک گاڑی پر روانہ ہوئے شیخوپورہ کی سٹرک برسات کی وجہ سے خراب ہو چکی تھی اِس لئے لائل پور کے راستہ سے ہم رات گیارہ بجے مینیسوٹ پہنچے.رات سڑک پر گزاری اور شبح ایک چھکڑے پر سامان لاد کر کچھ پیدل اور کچھ ایک ٹانگ میں بیٹھے کو ساڑھے آٹھ بجے اس خطہ زمین پر پہنچے جسے بہت جلد بڑا اعزاز حاصل ہونے والا تھا لے ران قافلوں کے علاوہ اگلے روز ۲۰ر تبوک برستمبر کو مولوی عبد الرحمن صاحب النور بھی دوکیل الدیوان) تحریک جدید کا ریکارڈ لے کر اس بے آب و گیاہ میدان میں پہنچ گئے.آئے ه بدر (قادیان) ۲۱ احسان جون ام کے یہاں یہ بتانا خالی از لچسپی نہ ہو گا کہ حضرت مصلح موعود نے دفتر تحریک جدید کو لاہور سے ربوہ منتقل کرنے پر تین ہزار پچاس روپے کا بجٹ بتفصیل ذیل منظو ۶۱۹۵۲ فرمایا تھا:.۳۱ عدد نلکے سیکنڈ ہینڈ مع لگوائی ۳۷۵ روپے.۲.روشنی رتیں مٹی و خرید لالٹین ۲۵ عدد) برائے عرصہ (بقیہ حاشیہ اگلے صفر پر
۲۲۹ ۲۰۱۹ تبوک ستمبر کو لاہور سے آنے والے مرکزی کارکنوں وسیع شامیانے اور میموں کی تنصیب نے لا کر اسی مقام پر ایک وسیع در این شامی اور خوب و کر دیا جو انستاج کے لئے مخصوص کیا گیا تھا اور جہاں حضور نے نماز پڑھانا تھی.علاوہ ازیں چھ رہائشی خیمے بھی لگا دیئے گئے.کے شدہ پروگرام کے مطابق حضرت مصلح موعود بذریعہ موٹر حضرت مصلح موعود کی تشریف آوری ہور سے بیع و جار میں منٹ پر روانہ ہو کہ ایک کھا کر لاہور نو کیکر کر بچ اور نماز ظهر کی ادائیگی میں منٹ پر ربوہ کی سرزمین میں رونق افروز ہوئے منصور بقیه حاشیه صفحه گذشته : چار ما۲۰۰۰ روپے ۳ پلیٹیں برائے بیت الخلاء ۵ عدد و انتظام پر ۲۵۰ روپے ہے.اخراجات ہوائے ترسیل ریکارڈ دفاتر و کارکنان مع اہل و عیال ۵۰ اکس اروپے.۵ خیمہ جات و چھولداریوں کا کیا پر ۵۰ روپئے.حضرت مصلح موعود کے فیصلہ کے مطابق چونکہ اراضی ربوہ کے تہائی حصہ کی مالک تحریک جدید قرار دی گئی تھی اس لئے اُن دنوں ربوہ کی آبادی سے متعلق جو بھی اخراجات ہوئے وہ اگر چہ صدر انجمن احمدیہ کی امانت مرکز پاکستان (ب) سے کئے گئے مگر مکمل اخراجات کا تہائی خرچ تحریک جدید نے ادا کیا و حاشیه متعلقه صفحه را به مولانا قریشی محمد ندی کی اصل (محله دارد ارحمت قادیان ) نے ان کے آخری ہفتہ میں پیر کی رات خواب دیکھا کہ میں مع چند اور احباب مدینہ منورہ کے ثبیتہ الوداع پر کھڑا ہوں اور تفہیم یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم معر وفد کے مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے تشریف لارہے ہیں.وہ جگہ ایک ہموار سائبیلہ تھا سامنے کچھ مستورات اور لڑکیاں اوڑھنیاں اوڑھے اور پردہ کئے کھڑی ہیں.برقع نہیں صرف اوڑھنیاں ہیں.اتنے میں میکدم مگہ کی جانب سے ایک خیار حسن میں گرو نہیں بلکہ روشنی اور نور کا غبار معلوم ہوتا ہے نمودار ہوا اور تیز ہوتے ہوتے اُس نے اس ٹیلہ پر ایک جسم کی شکل اختیار کر لی مگر ابھی چہرہ نہیں بنا میں نے پکارا کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور بلند آواز سے درود شریف پڑ معنا شروع کیا ساتھ ہی میرے ساتھیوں نے پڑھنا شروع کر دیا ادھر سے ان عورتوں کے گروہ نے بھی نہایت عمدگی کے ساتھ طلع البدرُ عَلَيْنَا مِنْ ثَنِيَّاتِ الوَدَاع وجب الشكر عَلَيْنَا مَا دَعَا لِلَّهِ دَاع کہنا شروع کیا.وہ نور کا مختمہ ایک شکل بن گیا جب شکل صاف ہوئی تو میں نے دیکھا کہ وہ حضرت مصلح موعود ہیں دائیں جانب چھڑی ٹھیک کر بایاں پاؤں ذرا آگے کر کے کھڑے ہیں سر پر سفید عمامہ ہے اور قدرے سفر کے آثار ہیں " (الفضل ۱۸رامان / مارچ ها کالم ، سبحان الله ! حضرت مصلح موعود کے ایک خادم کو اللہ تعالیٰ نے حضور کے سفر افتتاح ربوہ کا نظارہ چار برس قبل دکھا دیا محرم قریشی صاحب انتاج ربوہ کے بعد تیرہ سال تک زندہ رہے اور ہر ماہ صلح جنوری جی کو دراوہ کی ابتدائی ترقیات بخشیم خود دیکھنے کے بعد ) وفات پائی ہے
کے ہمراہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور بعض دوسرے بزرگان سلسلہ بھی تھے.لے حضرت مصلح موعود نے اس یادگار سفر کے لئے لائل پور کا راستہ اختیار فرمایا کیونکہ شیخوپورہ کا کچھ حصہ زیر آب تھا.حضور کی آمد سے قبل چنیوٹ، احمد نگر اور لائیاں کے علاوہ سرگودھا ، لاہور، قصور، سیالکوٹ لائل پور، گجرات، گوجرانوالہ ، جہلم اور بعض دوسرے اضلاع کے احمدی دوست بھی اس بابرکت تقریب میں شمولیت کے لئے پہنچے ہوئے تھے.نماز ظرہ قریباً ڈیڑھ بجے شروع ہوئی جس میں تقریباً اڑھائی سو احجاب شریک تھے.یہ پہلی باجماعت نماز تھی جو حضور کی اقتداء میں اس سر زمین پر پڑھی گئی.اس کے بعد موجود اصحاب کی فہرست تیار کی گئی ہیے نماز ظہر سے فراغت کے بعد ربوہ کی افتتاحی تقریب حضرت مصلح موعود کا بعیت افروز خطاب کا دوسرا ہم پروگرام حضرت مصلح موعود کے خطاب سے شروع ہوا حضور نے تشہد و تعوذ کی تلاوت کے بعد فرمایا.که حضرت صاجزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی طبع مبارک ان دنوں سخت علیل تھی اس لئے موقعہ افتتاح پر تشریف نہ لے جاسکے چنانچہ مولانا جلال الدین صاحب شمس ناظر اعلیٰ نے آپ کی خدمت میں یہ اطلاع دی کہ کل حضرت صاحب نئے مرکز بین دعا کرنے کے لئے تشریف لے جائیں گے امید ہے کہ آپ بھی جاسکیں گے آپ کی کار بھی ساتھ لے بہانے کی ضرورت ہے امید ہے کہ آپ اس کے لئے اجازت فرما دیں گے یہ اس پر آپ نے اپنے قلم سے تحریر فرمایا : السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ.میرے لئے تو غسل خانہ تک جانا مشکل ہوتا ہے افسوس ہے کہ اس تاریخی موقعہ کی برکتوں سے محروم رہوں گا نیز شرمندہ ہوں کہ کا بھی خراب ہے.(و تخط) ناصر احمد " کے حضور نے اس موقعہ پر جس جگہ ظہر وعصر کی نمازیں پڑھائی تھیں وہ موجودہ تفضل عمر مہسپتال کے قطعہ میں ہے اور آپ اس پر ایک نہایت خوبصورت مسجد تعمیر ہو چکی ہے جو یادگاری مسجد کہلاتی ہے صوفی خدا بخش صاحب عید زیر وی (سابق در پیشین قادیان) کے دل میں یہاں ایک منتقل چبوترہ بنائے بجانے کا خیال آیا.قریشی عبدالرشید صاحب اسٹنٹ سیکرٹری آبادی نے حضرت مصلح موعود کی خدمت ہیں لکھا کہ حضور اجازت دیں تو اس جگہ قبلہ رخ کر کے ایک نیوترہ بنوا دیا جائے جو ہسپتال کے عملہ کے بہ لئے بجائے نماز کا کام دے حضور نے اس درخواست پر تحریر فرمایا کہ اچھی بات ہے ، چنانچہ ۲۳ تبلیغ فروری ۳۲ کو ۱۹۵۳ء محترم صوفی صاحب کی معیت میں ملک رسول بخش صاحب اور سیر نے اس تاریخی مقام کی پیمائش کی معلوم ہوا اس کا رقیب ۳۰ ۳۰ فٹ ہے.کے مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل کی تیار شدہ یہ فہرست جو ۶۱۸ افراد پرمشتمل تھی ضمیمہ سے منسلک ہے ؟
۴۳۱ یکن اس موقعہ پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وہ دعائیں ہومکہ مکرمہ کو بساتے وقت آپ نے اللہ تعالیٰ کے حضور کی تھیں قرآن کریم سے پڑھوں گا مگر تلاوت قرآن کریم کے طور پر نہیں بلکہ دعا کے طور پر ان الفاظ کو دہراؤں گا.اور چونکہ یہ دعائیں ہم سب مل کر کریں گے اس لئے میں ان الفاظ میں کسی قدر تبدیلی کر دوں گا.مثلاً وہ دعائیں جو حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل علیہما السلام نے مانگی تھیں وہ تشفیہ کے حیفہ میں آتی ہیں کیونکہ اُس وقت صرف حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل ہی دعا کر رہے تھے مگر ہم یہاں بہت سے ہیں اس لئے یکی تشفیہ کی بجائے جمع کا صیغہ استعمال کروں گا.بہر سال وہ دعائیں میں آپ پڑھوں گا دوست میرے ساتھ ان دعاؤں کو پڑھتے جائیں.اس کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل الفاظ میں دعائیں مانگیں.یہ امر خصوصیت سے قابل ذکر ہے کہ ہر دعا حضور نے تین دفعہ دہرائی.رَبَّنَا اجْعَلْ هَذَا بَلَدًا أَمِنَّا وَارْزُقُ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ (۳ بار) اسے ہمارے رب تو اس جگہ کو ایک امن والا شہر بنا دے.اور جو اس میں رہنے والے ہوں ان کو اپنے پاس سے پاکیزہ رزق عطا فرما.رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنَّا إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمِ (۳ بار) اے ہمارے رب ہم اس جگہ پر اس لئے بنا چاہتے ہیں کہ ہم مل کر تیرے دین کی خدمت کریں - ہمارے رب تو ہماری اس قربانی اور اس ارادے کو قبول فرما.اے ہمارے رب تو بہت ہی دعائیں سنتے والا اور دلوں کے بھید جاننے والا ہے.ربَّنَا وَ جَعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةٌ مُسْلِمَةٌ لَكَ.وَارِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِيم - (۳ بار ) اسے ہمارے رب تو ہم سب کو اپنا فرمانبردار اور نیچا مسلمان بنا د ہے.اور ہماری اولادوں کو بھی نہ صرف مسلمان بنا بلکہ ایک مضبوط اور امت مسلمہ بنیاد ہے جو اس دنیا میں تیرے دین کی سلام کہلاتی رہے.اسے ہمارے رب جو ہمارے کرنے کے کام ہیں وہ ہم کو خود بہت لاتارہ.اور جو ہم سے غلطیاں ہو جائیں ان سے عضو کرتارہ.توبہت ہی فضل کرنے والا اور مہربان ہے.ربنا وابْعَثْ فِيهِمْ رِجَالًا مِّنْهُمْ يَتْلُونَ عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِمُوْنَهُم
الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكُونَهُمْ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيم - (۳ بار ) اسے ہمارے رتب تو ان میں ایسے آدمی پیدا کرتے رہو جو تیری آیتیں ان کو پڑھ پڑھ کر سناتے رہیں اور جوان کو تیری کتاب سکھائیں اور تیرے پاک کلام کے اغراض و مقاصد بتاتے رہیں اور ان کے نفوس میں پاکیزگی اور طہارت پیدا کرتے رہیں.تو ہی غالب حکمت والا خدا ہے.ران دعاؤں کو پڑھنے کے بعد حضور نے فرمایا :- یہ وہ دعائیں ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے مکہ مکرمہ کے بساتے وقت کہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کو قبول فرما کر ایک ایسی بنیاد رکھ دی ہو ہمیشہ کے لئے نیکی اور تقوی کو قائم رکھنے والی ثابت ہوئی.مگر مگر یہ مکہ مکرمہ ہی ہے اور ابراہیم ابراہیم ہی ہے مگر وہ شخص بے وقوف ہے جو اس بات کا خیال کر کے کہ مجھے وہ درجہ حاصل نہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو حاصل تھا یا میری جگہ کو وہ درجہ حاصل نہیں جو مکہ مکرمہ کو حاصل تھا اس لئے وہ خدا تعالیٰ سے بھیک مانگنے سے دریغ کرے.جب خدا کیسی عظیم الشان نعمت کا دروازہ کھولتا ہے تو اس کی رحمت اور ریشش جوش میں آ رہی ہوتی ہے اور دانا انسان وہی ہوتا ہے جو اپنا یہ تین بھی آگے کردے کیونکہ پھر اس کا برتن خالی نہیں رہتا.فقیروں کو دیکھ لو جب لوگ شادی کر رہے ہوتے ہیں تو اس وقت ان پر اخراجات کا بوجھ اور دنوں سے زیادہ ہوتا ہے مگر اس کے باوجود وہ نہیں کہتے کہ ہم کیوں سوال کریں اس وقت تو خود ان پر شادی کے اخراجات کا بوجھ پڑا ہوا ہے بلکہ جب کسی گھر میں شادی ہو رہی ہوتی ہے وہ بھی اپنا برتن لے کو پہنچ جاتے ہیں اور گھر والا اور دنوں کی نسبت ان کے برتن میں زیادہ ڈالتا ہے کیونکہ اس وقت اس کی اپنی طبیعت خرچ کرنے پر آئی ہوتی ہے.اسی طرح جب کوئی شخص کیسی بزرگ کی نقل کرتا ہے تو چاہے وہ اس کے درجہ تک نہ پہنچا ہوا ہو جب بھی وہ اس کی نقل کرنے کی کوشش کرتا ہے خدا تعالیٰ اس کی کمزوری کو دیکھ کر اس سے زیادہ بخشش کا سلوک کرتا ہے.ماں باپ اپنے بچہ سے اس وقت زیادہ پیار کرتے ہیں جب وہ چھوٹا ہوتا ہے.اور جب وہ کھڑے ہونے کی کوشش کرتا ہے تو گر جاتا ہے لیکن ایک بالغ بچہ جب چل پھر رہا ہوتا ہے تو ماں باپ کے دل میں محبت کا وہ جوش پیدا نہیں ہوتا جو ایک چھوٹے بچے کے متعلق پیدا ہوتا ہے.پس کسی کو یہ نہیں سمجھنا چاہیئے کہ خانہ کعبہ کے ذریعہ تو خدا تعالیٰ کی طرف سے دین کی ایک آخری بنیا و قائم کی گئی تھی اس سے ہمارے گھروں کو کیا واسطہ ہے ؟ اُسی کا واسطہ دے کر مانگنا ہی تو خدا تعالیٰ کی رحمت کو بڑھاتا ہے اور انہی کی نقل کرنا ہی تو اصل چیز ہے
قیام پاکستان کے بعد سید نا حضرت مصلح موعود ایک سفر کے دوران
سرزمین ربوہ کی ایک ابتدائی تصویر
ر کیا جو شخص کمزور ہے اور کمزور ہو کر چاہتا ہے کہ میں حمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح چپلوں اللہ تعالیٰ اسی کی اس بات کو دیکھ کو ناراض نہیں ہوتا بلکہ وہ اور زیادہ خوش ہوتا ہے اور کہتا ہے دیکھو میرا یہ کمزور بندہ کتنا اچھا ہے اس میں بہت اور طاقت نہیں مگر پھر بھی یہ میری طرف سے بھیجے ہوئے ایک نمونہ اور مثال کی نقل کرنے کی کوشش کرتا ہے سو ہمیں بھی اس کام کی یاد کے طور پر اور اُس نیستی کی یاد کے طور پر نہیں جگہ خدا کے ایک نبی محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی آمد کے انتظار میں دعائیں کی گئیں اپنے نئے مرکز کو بساتے وقت جوہ اسی طرح ایک وادی غیر ذی زرع میں بسایا جا رہا ہے اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کرنی چاہئیں کہ شاید ابن لوگوں کے طفیل جو مکہ مکرمہ کے قائم کرنے والے اور مکہ مکرمہ کی پیش گوئیوں کے حامل تھے اللہ تعالے ہم پر بھی اپنا فضل نازل کرے اور نہیں بھی ان نعمتوں سے حصہ دے جو اس نے پہلوں کو دیں.آخر نتیت تو ہماری بھی وہی ہے جو اُن کی تھی ہمارے ہاتھ میں وہ طاقت نہیں جو محمد رسوبی اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے ہاتہ میں تھی اور ہمارے دل میں وہ قوت نہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں تھی.اگر ہم با وجود اس کمزوری کے وہی ارادہ کر لیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تو خدا تعالیٰ ہم سے ناراض نہیں ہوگا.وہ یہ نہیں کہے گا کہ کون ہیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نقل کرنا چاہتے ہیں بلکہ وہ یہ کہے گا دیکھو میرے یہ کمزور بندے اس بوجھ کو اُٹھانے کے لئے آگے آگئے ہیں جس بوجھ کے اٹھانے کی ان میں طاقت نہیں.دنیا اس وقت محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کوبھول گئی ہے بلکہ اور لوگوں کا تو کیا ذکر ہے خود سلمان آپ کی تعلیم کو بھول چکے ہیں.آج دنیا میں سب سے زیادہ مظلوم انسان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے جو بھی اُٹھتا ہے مصنف کیا اور فلسفی کیا اور مورخ کیا وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرحملہ کرنے کی کوشش کرتا ہے.دُنیا کا سب سے بڑا محسن انسان آج دنیا میں سب سے زیادہ مظلوم انسان ہے ، اور دنیا کا سب سے زیادہ معزز انسان آج دنیا میں سب سے زیادہ ذلیل سمجھا جاتا ہے.اگر ہمارے لوں میں اسلام کی کوئی بھی غیرت باقی ہے ، اگر ہمارے دلوں میں محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی کوئی بھی محبت باقی ہے تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے آقا کی کھوئی ہوئی عزت کو پھر دوبارہ قائم کریں.اس میں ہماری جانیں ، ہماری بیویوں کی جانیں، ہمارے بچوں کی جانیں بلکہ ہماری ہزار یہ نہیں بھی اگر قربان ہو میائیں تو یہ ہمارے لئے غربت کا موجب ہوگا.ہم نے یہ کام قادیان میں شروع کیا تھا مگر خدائی خبروں اور اس کی بتائی ہوئی پیشن گوئیوں کے مطابق
۴۳۴ ہمیں قادیان کو چھوڑنا پڑا آپ اپنی خبروں اور پیش گوئیوں کے ماتحت ہم ایک نئی بستی اللہ تعالے کے نام کو بلند کرنے کے لئے اس وادئی غیر ذی زرع میں بسا رہے ہیں ہم چیونٹی کی طرح کمزور اور ناطاقت ہی سہی مگر چیونٹی بھی جب وانہ اُٹھا کر دیوار پر چڑھتے ہوئے گھرتی ہے تو وہ اس دانے کو چھوڑتی نہیں بلکہ دوبارہ اُسے اُٹھا کر منزل مقصود پر لے جھاتی ہے اسی طرح گو ہمارا وہ مرکز جو حقیقی اور دائمی مرکز ہے دشمن نے ہم سے چھینا ہوا ہے لیکن ہمارے ارادہ اور عر م میں کوئی تزلزل واقعہ نہیں ہٹوا دنیا ہم کو ہزاری گہ پھینکتی چلی جائے، وہ فٹ بال کی طرح ہمیں لڑھکاتی چلی جائے ہم کوئی نہ کوئی جگہ ایسی ضرور نکال لی گئے جہاں کھڑے ہو کر ہم پھر دوبارہ محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا میں قائم کر دیں اور بغیر ہمارے یہ حکومت دنیا میں قائم ہی نہیں ہو سکتی کیونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی محبت سے لوگوں کے دل خالی ہو چکے ہیں اور قرآن کریم کی حقیقی تفسیر سے وہ نا واقف ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بظا ہر لوگوں کے دلوں میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پائی جاتی ہے.لاکھوں غیر احمدی ایسے ہیں جو محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم سے محبت کا اظہار کرتے ہیں لیکن اگر غور سے دیکھا سجائے تو معلوم ہوگا وہ محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم سے نہیں بلکہ آپ کی ایک نئی بنائی ہوئی مشکل سے محبت کرتے ہیں.میں نے دیکھا ہے بعض احمدی بھی غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ جب یہ لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے ہیں تو ہمارا یہ کہنا کسی طرح بیج ہوسکتا ہے کہ ان کے دلوں میں محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی حقیقی محبت نہیں حالانکہ ہم جوکچھ کہتے ہیں وہ یہ ہے کہ وہ محبت تو کرتے ہیں حر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک غلط تصویر سے.اسی طرح ہم مانتے ہیں کہ وہ قرآن کریم کی فرمانبرداری کی خواہش رکھتے ہیں مگر وہ اس غلط تاویل کی فرمانبرداری کی خواہش رکھتے ہیں جو اُن کے دلوں ہیں راسخ ہو چکی ہے.اس لئے جب تک احمدیت دنیا میں غالب نہیں آجاتی اسلام غلبہ نہیں پاسکتا.اور یہ اتنی موٹی بات ہے کہ میں حیران ہوں مسلمان اسے کیوں نہیں سمجھتے اور کیوں وہ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ با وجود الفتِ رسول کے وہ دنیا میں کیوں ذلیل ہو رہے ہیں.سیدھی بات ہے مسلمان اس وقت پچاس کروڑ ہیں اور احمدی پانچ لاکھ مگر چار پانچ لاکھ احمدی حقیقی اسلام کی خدمت کر رہا ہے، جس قدر اسلام کی تبلیغ کر رہا ہے اور جس قدر اشاعت اسلام کے لئے قربانیاں پیش کر رہا ہے اتنی پچاس کروڑ مسلمان نہیں کر رہا.اس وقت دنیا
۴۳۵ کے گوشہ گوشہ میں احمدی مبلغ پھیلے ہوئے ہیں اور وہ عیسائیت کا مقابلہ کر رہے ہیں اور مقابلہ بھی معمولی نہیں بلکہ بڑی بڑی عیسائی طاقتوں نے تسلیم کر لیا ہے کہ ان کا مقابلہ موثر ہے.پندرہ بیس سال ہوئے لکھنو میں عیسائیوں کی ایک بہت بڑی کا نفرنس ہوئی جس میں اور آپ سے بھی عیسائی پادری شامل ہوئے اس میں یہ سوال اٹھایا گیا کہ شمالی ہند وستان میں آپ کوئی اچھا شریف اور تعلیم یافتہ آدمی عیسائی نہیں ہوتا.اس کی کیا وجہ ہے.تمام پادری جو اس فن کے ماہر تھے انہوں نے اس کا یہ جواب دیا کہ جب سے مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے دعویٰ کیا ہے اُس وقت سے عیسائیت کی ترقی رُک گئی ہے.انہوں نے عیسائیت کی اس قدر مخالفت کی ہے کہ جہاں جہاں ان کا لٹریچر پھیل جاتا ہے عیسائیت ترقی نہیں کر سکتی پھر افریقہ کے متعلق ایک بڑی بھاری کمیٹی مقر کی گئی تھی جسے چرچ آف انگلینڈ نے مقرر کیا تھا جس کی سالہ آمد ہمارے بہت سے صوبوں سے بھی زیادہ ہے.وہ چالیس پچاس کروڑ روپیہ سالانہ عیسائیت کی اشاعت کے لئے خرچ کرتے ہیں.اس کمیٹی کی طرف سے جو رپورٹ تیار کی گئی اس میں جیتی جنگ ہی ذکر آتا تھا کہ افریقہ میں عیسائیت کی ترقی محض احمدیت کی وجہ سے مرکی ہے.ابھی بارگاہ مہینے ہوئے ایک پادری جیسے افریقہ کے دورہ کے لئے بھیجا گیا تھا اُس نے افریقہ کے دورہ کے بعد یہ رپورٹ کی کہ افریقہ میں عیسائیت کیوں ہرکا تو جہد کہ رہی ہے.اس نے کئی جگہوں کے نام لئے اور کہا کہ وہاں عیسائیت کے راستہ میں احمدیوں نے روئیں ڈال دی ہیں اور ساتھ ہی اس نے اپنے اس خیال کا اظہار کیا کہ عیسائیت کی تبلیغ اب افریقین لوگوں میں اچھا اثر نہیں کر سکتی ہاں اسلام کی تبلیغ ران میں اچھا اثر پیدا کر رہی ہے.اس نے کہا جب سے افریقیہ میں احمدی آ گئے ہیں عیسائیت ان کے مقابلہ میں شکست کھائی جا رہی ہے.چنانچہ عیسائیوں کا فلاں سکول جو بڑا بھاری سکول تھا اب ٹوٹنے لگا ہے اور لوگ، اس میں اپنے لڑکوں کو تعلیم کے لئے نہیں بھجواتے.پھر اس نے کہا ان حالات کو دیکھتے ہوئے کیا یہ اچھا نہ ہو گا کہ ہم اپنے روپیہ اور اپنی طاقتوں کا اس ملک میں ضیاع کرنے کی بجائے اس میدان کو احمدیوں کے لئے چھوڑ دیں کہ وہ ان لوگوں کو مسلمان بنا لیں.یہ دشمنوں کا اقرار ہے جو انہوں نے ہماری تبلیغی جد و جہد کے متعلق کیا...یہ طاقت ہم میں کہاں سے آئی ہے اور یہ جوش ہم میں کیوں پیدا ہو ؟ اسی لئے کہ بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے ہم میں ایک آگ پیدا کر دی ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ پھر دوبارہ اسلام کو دنیا میں غالب کر دیں.ایسی مسلمان احمدیت کا حقنا بھی مقابلہ کرتے ہیں وہ اسلام کے غلبہ میں اتنی ہی روکیں پیدا کرتے ہیں اور مفتی جلدی وہ احمدیت میں
۴۳۶ شامل ہو جائیں گے اتنی جایدی ہی اسلام دنیا میں غالب آجائے گا.حقیقت یہ ہے کہ اس وقت جس قدر تحریکیں دُنیا میں جاری ہیں وہ ساری کی ساری دنیوی ہیں صرف ایک تحریک مسلمانوں کی نامہبی تحریک ہے اور وہ احمدیت ہے.پاکستان خواہ کتنا بھی مضبوط ہو جائے کیا عراقی کہیں گے کہ ہم پاکستانی ہیں.کیا شامی کہیں گے کہ ہم پاکستانی ہیں.کیا لبنانی کہیں گے کہ ہم پاکستانی ہیں.کیا مجازی کہیں گے کہ ہم پاکستانی ہیں.شامی تو اس بات کے لئے بھی تیار نہیں کہ وہ لبنانی یا تجازی کالا آیا حالانکہ وہ ان کے ہم قوم ہیں.پھر لبنانی اور حجازی اور عراقی اور شامی پاکستانی کہلا نا کب برداشت کر سکتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ تمام مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ قولا تو اتحاد کر سکتے ہیں مگر وہ ایک پارٹی اور ایک جماعت نہیں کہلا سکتے.صرف ایک تحریک احمدیت ہی ایسی ہے جس میں سارے کے سارے شامل ہو سکتے ہیں عراقی بھی اس میں شامل ہو کر کہہ سکتا ہے کہ میں احمدی ہوں.عربی بھی اس میں شامل ہو کہ کہہ سکتا ہے کہ یکی احمدی ہوں.مجازی بھی اس میں شامل ہو کہ کہ سکتا ہے کہ ہیں احمدی ہوں اور عملاً ایسا ہو رہا ہے.و ۶ فی ہونے کے باوجود اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ہم احمدیت میں شامل ہیں جس کا مرکز پاکستان میں ہے اور اس طرح وہ ایک رنگ میں پاکستان کی مانتی قبول کرتے ہیں مگر یہ ماتحتی احمد بیت میں شامل ہو کر ہی کی جا سکتی ہے اس کے بغیر نہیں چنانچہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ وہ عربی جو اس غرور میں رہتا ہے کہ میں اس ملک کا رہنے والا ہوں جس میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے میرا مقا بار کوئی آؤ شخص کہاں کر سکتا ہے وہ احمدیت میں شامل ہوکر یہ عظیم ہندو پاکستان کا بھی ادب و احترام کرتاہے اور یہاں مقدس مقامات کی زیارتوں کے لئے بھی آتا ہے.غرض ایک ہی چیز ہے جس کے ذریعہ دنیائے اسلام میر متحد ہو سکتی ہے اور جس کے ذریعہ دوسری دنیا پر کامیابی اور فتح حاصل ہو سکتی ہے اور وہ احمدیت ہے.آنا وعہ ہے کہ مسلمامی دنیا میں ہر جگہ ذلیل ہو رہے ہیں اور ہر جگہ تباہی اور بربادی کا شکار ہو رہے ہیں.اس سے زیادہ تباہی اور کیا ہوگی کہ مشرقی پنجاب کے مسلمانوں کی پچاس ہزا عورتیں اب تک سکھوں اور ہندوؤں کے قبضہ میں ہیں کیا یہ معمولی ذقت ہے کہ مسلمانوں کی پچاس ہزار عورتوں کو وہ پکڑ کر لے گئے اور ان سے بدکاریاں کر رہے ہیں.کیا یہ معمولی عذاب ہے کہ پانچ چھ لاکھ مسلمان دنوں میں مارا گیا.اور پھر فلسطین میں جوکچھ ہورہا ہے کیا و مسلمانوں کو نظر نہیں آرہا.ابھی حیدر آباد میں جو کچھ ہوا ہے اس سے کس طرح مسلمانوں کو صدمہ ہوا ہے اور وہ اپنے دلوں میں کیسی ذلت اور شرمندگی محسوس کر رہے ہیں مگر یہ ساری مصیبتیں اور بلائیں ایک لمبی زنجیر
** کی مختلف کڑیوں کے سوا اور میں کیا ؟ آخرمحمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ کو جو محبت ہے اس کے ظاہر ہونے کا وقت کب آئے گا اور کونساوہ دن ہو گا جب خدا تعالیٰ کی غیرت بھڑ کے گی اور مسلمانوں کو اس تنزلی اور ادبار سے نجات دلائے گی.خدا تعالیٰ کی غیرت کبھی دنیا میں بھڑکتی ہے یا نہیں، اور اگر بھڑکتی ہے تو مسلمانوں کو سوچنا چاہیئے کہ اس کی غیرت کے بھڑکنے کا کونسا ذریعہ ہوا کرتا ہے.اگر وہ سوچتے تو انہیں معلوم ہو جا تا کہ ہمیشہ ندا تعالی پہلے اپنا نا مور دنیا میں بھیجتا ہے اور پھر اس نامور کے ذریعہ ہی اس کی غیرت بھڑ کا کرتی ہے.اس کے داخدا تعالیٰ نے کبھی کوئی طریقی اختیار نہیں کیا اور یہی ایک طریق ہے جس پر چل کر وہ اب بھی خدا تعالیٰ کی غیرت کا نمونہ دیکھ سکتے ہیں.یہ بات مسلمانوں کے سامنے پیش کرو اور انہیں سمجھاؤ کہ تمہارا فائدہ ، اسلام کا فائدہ اور پھر ساری دنیا کا فائدہ اسی میں ہے کہ تم جلد سے جلد احمدیت میں شامل ہو جاؤ.آخر وہ کیا چیز ہے جس کی وجہ سے وہ ہم سے رکتے ہیں.ہماری تو ساری تاریخ بتاتی ہے کہ ہم نے ہر موقع پر سلمانوں کی خدمت کی ہے گو اس کے بعد ہمیشہ ان کی طرف سے مخالفت ہی ہوئی ہے مگر پھر بھی ہمارا کیا نقصان ہوا.ابھی کوئٹہ میں خیر احمدیوں کی طرف سے ایک جلسہ کیا گیا جس میں لوگوں کو ہمارے خلاف اکسایا گیا.ایک، احمدی ڈاکٹر میجر محمد احمد رات کے وقت کسی مریض کو دیکھ کر کار میں واپس آرہے تھے کہ وہ تقریر کی آواز شن کر وہاں ٹھہر گئے.انہوں نے اپنی موٹر باہر کھڑی کی اور خود تھوڑی دیر کے لئے اندر چلے گئے نیجو غیر احمدیوں نے انہیں دیکھ کر دوسروں کو اکسا دیا اور انہوں نے ان پر پتھراؤ شروع کر دیا وہ پتھراؤ کی بوچھاڑ سے بچنے کے لئے ایک طرف اندھیرے میں چلے گئے اس پر کسی شخص نے وہیں اندھیرے میں خنجر مار کر انہیں شہید کر دیا دانی اس واقعہ کے تیسرے چوتھے دن بعد میرے پاس ایک وفد آیا جس میں بلوچستان مسلم لیگ کے وائس پر یڈ یا رفت بھی شامل تھے اور پٹھانوں کی قوم کے ایک سردار بھی شامل تھے اُگی سب نے آکر کہا کہ ڈاکٹر میر محمد کے قتل کا جو واقعہ ہوا ہے اس میں صرف پنجابیوں کا قصور ہے ہمارا کوئی قصور نہیں آپ ہم پر گلا نہ کریں.پنجابی مولویوں نے یہاں آکر مخالفانہ تقریریں کیں جس سے لوگ مشتعل ہو گئے.پھر اس سردار نے جو اپنی قوم کے ریلیس اور میونسپل کمیٹی کے مبر بھی تھے کہا کہ میں نے پنجابیوں کو بلوایا اور ان سے کہا کہ تم تو احمدیت کے خلاف شہرش کر رہے ہو تم یہ بتاؤ کہ قادیان پنجاب میں ہے یا بلوچستان میں.انہوں نے کہا پنجاب ہیں.میں نے کھا جب قا و بیان پنجاب میں تھا اور تم کو ایک لمبا عرصہ احمدیوں کی مخالفت کے لئے مل چکا ہے تو جب تم وہاں ان لوگوں کو تباہ نہیں کر سکے تو یہاں کیا مقابلہ کرو گے.اگر تم میں ہمت اور طاقت تھی تو تم نے ان لوگوں کو یہاں
آتے ہی کیوں دیا وہ ہیں کیوں نہ مار ڈالا.پھر میں نے پوچھا کہ پنجاب کی آبادی کتنی ہے ؟ انہوں نے کہا کہ آب وو کروڑ ہے پہلے تین کروڑ ہوا کرتی تھی.میں نے کہا بلوچستان کی کتنی آبادی ہے.انہوں نے کہا ۱۲ لاکھ میں نے کہاتم دو تین کروڑ ہو کر ان لوگوں کو مار نہیں سکے تو ہم بارہ لاکھ کو کیوں ذلیل کرتے ہو اور کیوں ہمیں ان کی مخالفت کے لئے اُکساتے ہو حقیقت یہ ہے کہ دنیا نے اپنا سارا زور ہماری مخالفت میں لگا لیا اور ابھی اور لگائے گی لیکن یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ احمدیت دنیا میں غالب آکر رہے گی کیونکہ احمدیت کے بغیر محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم غالب نہیں آسکتے.اس کے ساتھ ہی میں اپنی ذات کے متعلق بھی یہ بات جانتا ہوں کہ میری زندگی کے ساتھ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی زندگی وابستہ ہے.اِس لئے میرا بھی دشمن کے ہاتھوں سے نہیں مرنے دے گا اور وہ میرے بچاؤ کا کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکال لے گا بہرحال اللہ تعالیٰ نے احمدیت کے ساتھ اسلام کی ترقی کو وابستہ کر دیا ہے جو شخص احمدیت پر ہاتھ اُٹھاتا ہے وہ اسلام پر ہاتھ اٹھاتا ہے، جو شخص احمدیت کو بر پا کرنا چاہتا ہے وہ اسلام کو بربیاد کرنا چاہتا ہے لیکن ہمارا بھی فرض ہے کہ جب خدا نے ہم پر اتنا بڑا احسان کیا ہے اور ہم کمزوروں) اور نا توانوں کے ساتھ اسلام کی آئندہ ترقی کو وابستہ کر دیا ہے تو ہم اس کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرو دیں.اسی لئے باوجود اس کے کہ شہروں میں ہمیں مکان مل سکتے تھے مگر ہم نے نہیں لئے کیونکہ ہمارے لئے ضروری ہے کہ لوگوں میں بیداری پیدا کرتے رہیں.ہمارے لئے ضروری ہے کہ ان میں تعلیم پیدا کریں ہمارے لئے ضروری ہے کہ ان کی تعلیم اور تربیت کا خیال رکھیں اور یہ چیز بڑے شہرونی میں حاصل نہیں ہو سکتی کیونکہ وہاں جماعت بھری ہوئی ہوتی ہے پس با وجود اس کے کہ ہمیں شہروں میں جگہیں مل سکتی تھیں ہم نے ان کی پروا نہیں کی اور اس وادی غیر ذی زرع کو اس ارادہ اور نیت کے ساتھ چنا ہے کہ جب تک یہ عارضی مقام ہمارے پاس رہے گا ہم اسلام کا جھنڈا اس مقام پر پبلند رکھیں گے اور محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا میں قائم کرنے کی کوشش کریں گے اور جب خدا ہما را قادیان ہمیں واپس دے دے گا یہ مرکز صرف اس علاقہ کے لوگوں کے لئے رہ جائے گا یہ مقام اُجڑے گا نہیں کیونکہ جہاں خدا کا نام ایک دفعہ لے لیا جائے وہ مقام برباد نہیں ہوا کرتا.پھر یہ صرف اس علاقہ کے لوگوں کا مرکز بن جائیگا اور ساری دنیا کا مرکز پھر قادیان بن جائے گا جو حقیقی اور دائمی مرکز ہے پس ہم یہاں آئے ہیں اس لئے کہ خدا کا نام اونچا کریں ہم اس لئے نہیں آئے کہ اپنے نام کو بلند کریں ہمارا نام شہروں میں زیادہ اونچا ہو i
۴۳۹ سکتا تھا.اور ہم اگر اپنے نام کو بلند کرنے کی خواہش رکھتے تو اس کے لئے بڑے شہر زیادہ موزوں تھے بلکہ خود ان شہروں کے رہنے والوں نے بھی خواہش کی تھی کہ وہیں جماعت کے لئے زمینیں خرید لی جائیں چنانچہ لا ہوں کوئٹہ اور کراچی میں چوٹی کے آدمی مجھ سے ملنے کے لئے آتے اور نواہش کرتے تھے کہ انہی کے شہر میں ہم رہائش اختیار کریں.کراچی میں بھی لوگوں نے یہی خواہش کی اور کوئٹہ میں بھی لوگوں نے یہی خواہش کی.غرض اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمیں ظاہری عربت شہروں میں زیادہ ملتی تھی مگر ہمارا کام اپنے لئے ظاہری عزت حاصل کہ تا نہیں بلکہ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم اس جگہ کی تلاش کریں جہاں اسلام کی عورت کا یہ بیج بوسکیں اور ہم نے اسی نیت اور ارادہ سے اس وادی غیر ذی زرع کو چنا ہے.چنانچہ دیکھ لو یہاں کوئی فصلیں نہیں ، کہیں مہب بھی کا نشان نہیں گویا چن کر ہم نے وہ مقام لیا ہے جو قطعی طور پہ آبادی اور زراعت کے ناقابل سمجھا جاتا تھا تا کہ کوئی شخص یہ نہ کہ دنے کہ پاکستان نے احمدیوں پر احسان کیا ہے مگر کہنے والوں نے پھر بھی کر دیا کہ کروڑوں کروڑ کی جائداد پاکستان نے احمدیوں کو دے دی ہے.یہ زمین ہم نے دینی رو پیدا ایکڑ پر خریدی ہے اور یہ زمین ایسی ہے جو بالکل نجر اور غیر آباد ہے اور صدیوں سے نجرا اور غیر آباد دچلی آتی ہے.یہاں کوئی کھیلتی نہیں ہو سکتی، کوئی سبزہ دکھائی نہیں دیتا، کوئی نہر اس زمین کو نہیں لگتی.اس کے مقابلہ میں میں نے خود مظفر گڑھ میں نہر والی زمین آٹھ روپیہ ایکٹ پر خریدی تھی بلکہ اسی مظفر گڑھے میں ایک لاکھ ایکڑ زمین میاں شاہ نواز صاحب نے آٹھ آنے ایکٹر پر خریدی تھی جس سے بعد میں انہوں نے بہت نفع کمایا.یہ زمین ہونے پہاڑی ٹیلوں کے درمیان اس لئے خریدی ہے کہ میری رؤیا اس زمین کے متعلق تھی.یہ رویاد سمبر استار میں میں نے دیکھی تھی اور اور دسمبر اللہ کے الفضل میں شائع ہوچکی ہے.اب تک دمن ہزار آدمی یہ ۲۱ رویا پڑھ چکے ہیں اور گورنمنٹ کے ریکار ڈیں بھی یہ رویا موجود ہے.میں نے اس رویا میں دیکھا کہ قادیان پر حملہ ہوا ہے اور ہر قسم کے مہتھیار استعمال کئے جارہے ہیں مگر مقابلہ کے بعد دشمن غالب آگیا اور ہمیں وہ مقام چھوڑنا پڑار با ہر نکل کر ہم حیران ہیں کہ کس جگہ جائیں اور کہاں جا کہ اپنی حفاظت کا سامان کریں.اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے کہا لیکن ایک جگہ بتاتا ہوں ، آپ پہاڑوں پر چلیں وہاں اٹلی کے ایکٹ پادری نے گرجا بنایا ہوا ہے اور ساتھ اس نے ابن عمارتیں بھی بنائی ہوئی ہیں جنہیں وہ کرا نہ پڑے.افروں کو دیتا ہے وہ مقام سب سے بہتر رہے گا.لیکن ابھی متردد ہی تھا کہ اس جگہ رہائش اختیار کی بجائے یا نہ کی جائے کہ ایک شخص نے کہا آپ کو یہاں کوئی تکلیف نہیں ہوگی کیونکہ یہاں مسجد بھی ہے.اس نے سمجھا کہ
۴۴۰ کہیں میں رہائش سے اس لئے انکار نہ کر دوں کہ یہاں مسجد نہیں.چنانچہ میں نے کہا اچھا مجھے مسجد دکھاؤ اُسنے مجھے مسجد دکھائی جو نہایت خوبصورت بنی ہوئی تھی، چٹائیاں اور دریاں وغیرہ بھی کچھی ہوئی تھیں اور امام کی جگہ ایک صاف قالینی مصلی بچھا ہوا تھا.اس پر میں خوش ہوا اور میں نے کہا تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں مسجد بھی دے دی ہے میں اس وقت سمجھتا ہوں کہ ہم تنظیم کے لئے آئے ہیں اور تنظیم کے بعد دشمن کو پھر شکست دے دیں گے لے ) اب ہم اسی جگہ رہیں گے.اس کے بعد میں نے دیکھا کہ کچھ لوگ باہر سے آئے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ بڑی تباہی ہے بڑی تباہی ہے اور جالنہ بھر کا خاص طور پر نام لیا کہ وہاں بھی بڑی تباہی ہوئی ہے.پھر انہوں نے کہا ہم نیلے گنبد میں داخل ہونے لگے تھے مگر ہمیں وہاں بھی داخل نہیں ہونے دیا.اس وقت تک تو ہم صرف لاہورکا ہی نیا گنبد سمجھے تھے مگر ان میں غور کرنے پر معلوم ہوا کہ نیلے گنبد سے مراد آسمان تھا اور طلب یہ تھا کہ کھلے آسمان کے نیچے بھی مسلمانوں کو اس نہیں ملے گا.چنانچہ لوگ جب اپنے مکانوں اور شہروں سے نکل کر ریفیوجی کیمپوں میں جمع ہوتے تھے تو وہاں بھی سکھے ان پر حملہ کر دیتے تھے اور ان میں سے یہ پیسے لوگوں کو مار ڈالتے تھے.اس رؤیا کے مطابق یہ جگہ مرکز کے لئے تجویز کی گئی ہے.جب یکی قادیان سے آیا تو اس وقت یہاں اتفاقاً چوہدری عزیز احمد صاحب احمدی سب حج لگے ہوئے تھے میں شیخوپورہ کے متعلق مشورہ کر رہا تھا کہ چوہدری عزیز احمد صاحب میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ میں نے اخبار میں آپ کی ایک اس رنگ کی خواب پڑھی ہے کی سمجھتا ہوں کہ چنیوٹ ضلع جھنگ کے قریب دریائے چناب کے پار ایک ایسا ٹکڑا زمین ہے جو اس خواب کے مطابق معلوم ہوتا ہے، چنانچہ لیکن یہاں آیا اور میں نے کہا ٹھیک ہے خواب میں جوئیں نے متمام دیکھا تھا اس کے ارد گرد بھی اسی قسم کے پہاڑی ٹیلے تھے صرف ایک فرق ہے اور وہ یہ کہ میں نے اُس میدان میں گھاس دیکھا تھا مگر یہ چٹیل میدان ہے.اب بارشوں کے بعد کچھ کچھ سبزہ نکلا ہے ممکن ہے ہمارے آنے کے بعد اللہ تعالیٰ یہاں گھاس بھی پیدا کر دے اور اس رقبہ کو سترہ دار بنا دے.ہر حال اس رؤیا کے مطابق ہم نے اس جگہ کو چنا ہے اور یہ رویا وہ ہے جس کے ذریعہ چھ سال پہلے اللہ تعالیٰ نے ہمیں آئندہ آنے والے واقعات سے خبر دے دی تھی.دنیا میں کون ایسا انسان ہے جس کی طاقت میں یہ بات ہو کہ وہ چھ سال پہلے آئندہ سے یہ فقرہ ہو نئے مرکز کی غرض و غایت واضح کرتا ہے حضرت مصلح موعور نہ کی اصل خواب مطبوعہ الفضل ۲۱ دسمبر ۱۹۲۳ء میں جو درج ہے ( ناقل) سے آپ آپ سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایڈووکیٹ ہیں ؟
۴۴۱ آنے والے واقعات بیان کر دے.انگریزوں کی حکومت کے زمانہ میں بھلا قا دیا یہ پر حملہ کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا تھا.پھر قادیان کو چھوڑنا کیس کے خیال میں آسکتا تھا.کون خیال کر سکتا تھا کہ مسلمانوں پر ایک بہت بڑی تباہی آنے والی ہے اتنی بڑی کہ وہ اپنے شہروں اور گھروں سے نکل کر آسمان کے نیچے ڈیرے ڈالیں گے تو وہاں بھی وہ دشمن کے حملہ سے محفوظ نہیں ہوں گے مگر یہ تمام واقعات رونما ہوئے اور پھراللہ تعالیٰ نے اس رؤیا کے مطابق ہمیں ایک نیا مرکز بھی دے دیا.یہاں جس قسم کی مخالفت تھی اُس کے لحاظ سے اس مرکز کا ملنا بھی اللہ تعالیٰ کی تائید اور اس کی نصرت کا ایک گھلا ثبوت ہے.اللہ تعالیٰ نے ایسا تعترف کیا کہ مخالفین کے اخباروں نے پیچھے شور مچایا اور ہمارا سودا پہلے لکھے ہو چکا تھا.پھر اس قدر ٹھوٹ سے کام یا گیا کہ اس زمین کے متعلق انہوں نے لکھا کہ حکومت کو پندرہ سور و پیہ فی ایکڑ ائیل رہا تھا اور کئی مسلمان انجمنیں اُسے یہ روپیہ پیش کر رہی تھیں مگر حکومت نے پیڑ کڑہ برائے نام قیمت پر احمدیوں کو دے دیا.گویا ان کے حساب سے پندرہ لاکھ روپیہ اس ٹکڑے کا حکومت کو ہل رہا تھا مگر حکومت نے اس کی پروانہ کی جب مجھے اس کا علم ہوا تو میں نے فوراً اعلان کر دیا کہ پاکستان کا اتنا نقصان ہم برداشت نہیں کر سکتے اگر اتنا روپیہ دے کر کوئی شخص یہ زمین خرید سکتا ہے تو وہ اب بھی ہم سے یہ زمین اتنی قیمت پر لے لے تو یہ سارے کا سارا روپیہ حکومت پاکستان کو دے دیں گے مگر حقیقت یہ ہے کہ پندرہ سو روپیہ فی ایکٹر تو کجا پندرہ روپیہ فی ایکڑ بھی کوئی شخص دینے کے لئے تیار نہیں تھا.گورنمنٹ نے خود اپنے گزٹ ہیں اس کے متعلق متواتر اعلان کرایا مگر اُسے پانچ روپے فی ایکٹر کی بھی کسی نے پیشکش نہ کی.غرض اللہ تعالیٰ کے منشاء کے ماتحت ہم قادیان سے باہر آئے ہیں اور اسی کے منشاء کے ماتحت ہم یہاں ایک نیا مرکز بسانا چاہتے ہیں.ہر چیز میں روکیں حائل ہو سکتی ہیں اس لحاظ سے ممکن ہے ہمارے اس ارادہ میں بھی کوئی روک حائل ہو جائے لیکن ہمارا ارادہ اور ہماری نیت یہی ہے کہ ہم پھر ایک مرکز بنا کر اسلام کے غلبہ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی اشاعت کی کوشش کریں اور اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس کام میں ہمارا حامی ومددگار ہو ہم لئے اس وادی غیر ذی زرع کو جس میں فیصل اور سبزیاں نہیں ہوتیں اس لئے چنا ہے کہ ہم یہاں بسیں اور اللہ تعالیٰ کے نام کو بلند کریں مگر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ساری فصلیں اور سبزیاں اور ثمرات خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہیں.پس اول تو ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری نیتوں کو صاف کرے اور ہمارے اراوں کو پاک کرے اور پھر ہم اسی سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ مکہ مکہ کے خلیل کے طور پر اور مکہ مکرمہ کے
موعود کے طفیل ہم کو بھی اس وادی میں ہرقسم کے ثمرات پہنچا دے گا ہماری روزیاں کسی بندے کے سپرد نہیں اللہ تعالیٰ کا ہاتھ اپنے پاس سے ہم کو کھلائے گا اور ہم اس سے دعا کرتے ہیں کہ وہ یہاں کے رہنے والوں میں دین کا اتنا جوش پیدا کر دے دین کی اتنی محبت پیدا کر دے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اتنا عشق پیدا کر دے کہ وہ پاگلوں کی طرح دنیا میں نکل جائیں اور اس وقت تک گھر نہ لوٹیں جب تک دنیا کے کونے کونے میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت قائم نہ کر دیں.بے شک ڈونا کہے گی کہ یہ لوگ پاگل میں مگر ایک دن آئے گا اور یقیناً آئے گا.یہ آسمان ٹل سکتا ہے یہ زمین مل سکتی ہے.مگر یہ وعدہ نہیں مل سکتا کہ شعر ہمارے ہاتھ سے محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا میں قائم کر دے گا اور وہ لوگ جو آج ہمیں پاگل کہتے ہیں شرمندہ ہو کر کہیں گے کہ اس چیز نے تو ہو کر ہی رہنا تھا آثا رہی ایسے نظر آرہے تھے جن سے ثابت ہوتا تھا کہ یہ چیز ضرور وقوع میں آکر رہے گی جیسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب لوگ پاگل کہتے تھے مگر اب عیسائی یہ کہتے ہیں کہ اس وقت دنیا کے حالات ہی اس قسم کے تھے کہ محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کو فتح ہوتی اور باقی مذاہب شکست کھا جاتے جس طرح پہلے عقل مند کہلانے والے لوگ پاگل ثابت ہوئے اسی طرح اب بھی عقل مند کہلانے والے لوگ ہی پاگل ثابت ہوں گے اور دنیا پر اسلام غالب آکر رہے گا.آؤ اب ہم ہاتھ اٹھا کر آہستگی سے بھی اپنے دلوں میں اللہ تعالیٰ سے دُعا مانگیں کہ وہ ہمارے ارادوں میں برکت ڈالے اور ہمیں اس مقدس کام کو دیانتداری کے ساتھ سرانجام دینے کی توفیق بخشے یہ لے رض اجتماعی دعا را نهایت در به موثر اور دو سے بھری ہوئی تقریر کے بعد سیدناحضرت الصلح الموحد نے حاضرین کے ساتھ مل کر لمبی دعا کی.چونکہ درویشان قادیان کو فون اور تار کے ذریعہ نماز اور دعا کے وقت کی قبل از وقت اطلاع کر دی گئی تھی اس لئے وہ بھی اپنی جگہ انتظام کر کے دعا میں شریک ہو گئے کہ یہ موقعہ (جیسا کہ حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمد صاحبان خوشی اور غم سے مخلوط جذبات کا ہجوم نے مرکز پاکستان کا اختصایت کے زیر عنوان اپنے ایک له الفضل جلسہ سالانہ نمبر فتح و سیر ۲۳۵ مه به سه ر قیمتی مضمون جو اس موقعہ کی تفصیلات کا بنیادی ماخذہ ہے الفضل (۲۲) تبوک /ستمبر ۱۳۲۵ ) میں شائع شدہ ہے ؟ ۴۱۹۴۸
مضمون میں بھی لکھا، سلسلہ کی تاریخ میں ایک خاص یادگاری موقعہ تھا جس میں دو قسم کے بظاہر متضاد یکن حقیقتاً ایک ہی منبع سے تعلق رکھنے والے جذبات کا ہجوم تھا.ایک طرف نئے مرکز کے قیام کی خوشی تھی کہ خدا ہمیں اس کے ذریعہ سے پھر مرکز تیت کا ماحول عطا کرے گا اور ہم ایک جگہ اکٹھے ہو کر اپنی تنظیم کے با حول میں زندگی گزارسکیں گے اور دوسری طرف اس وقت قادیان کی یاد بھی اپنے تلخ ترین احساسات کے ساتھ دلوں میں جوش مار رہی تھی اور نئے مرکز کی خوشی کے ساتھ ساتھ ہر زبان اس ذکر کے ساتھ تازہ او ہر آنکھ اس دعا کے ساتھ پر نم تھی کہ خدا ہمیں جلد تر اپنے دائمی اور عالمگیر مرکز میں واپس لے جائے پالے ادعا کے بعد حضور نے فرمایا کہ اب اس رقبہ کے چاروں کونوں میں قربانیاں کی جائیں رقیہ کی پانچ بکروں کی قربانی گی اور ایک قربانی اس رقیہ کے وسط میں کی جائے گی.یہ قربانیاں اس علامت کے طور پر ہوں گی کہ جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اپنے بیٹے کی قربانی کے لئے تیار ہو گئے تھے اور خدا تعالیٰ نے اُن کی قربانی کو قبول فرما کر بکرے کی قربانی کا حکم دیا تھا اسی طرح ہم بھی اسی زمین کے چاروں گوشوں پر اور ایک اس زمین کے سنٹر میں اس نیت اور ارادہ کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور قربانیاں پیش کرتے ہیں کہ خدا تعالٰی ہمیں اور ہماری اولادوں کو ہمیشہ اس راہ میں قربان ہونے کی توفیق عطا فرمائے.آمین کے اس کے بعد حضرت مصلح موعود اس رقبہ کے وسط میں تشریف لے گئے اور مسنون دعاؤں کے ساتھ ایک بکرا اپنے دست مبارک سے ذبح کیا.بعدہ چاروں کونوں پر قربانیاں کی گئیں جو مندرجہ ذیل اصحاب نے کیں :- ۱- حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب دارد.۲- حضرت مولوی محمد عبد الله صاحب بد تا نوی چوہدری برکت علی خان صاحب وکیل المعمال تحریک جدید ۴- مولوی محمد صدیق صاحب مولوی فاضل - قربانیوں کے بعد ایک ترک نوجوان محمد افضل صاحب نے حضرت امیر الونی نی نئے مرکز کا پہلا پھیل کے مبارک ہاتھ پر بیعت کی اور یہ خوش قسمت نوجوان نے مرکز کا پہلا اپل مرکز ے نماز عصر سے قبل تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ اس موقعہ پر ایک موٹر لاری پانچ کاریں اور جو ہیں تانگے اور یہیں سائیکل موجود تھے (الفضل ۲۲ تبوک استمبر هم من له الفضل جلسہ سالانہ نمبر دسمبر ۱۹۶۴ء حث : به
قرار دیا گیا.ربوہ اور اس کی وجہ تسمیہ کی نسبت حضرت امیر امین اصلی امور نے اس موقع پر یہ بھی المومنین الموعود اعلان فرمایا کہ نئے مرکز کا نام ربوہ (RABWAA ) تجویز حضرت مصلح موعود کا اعلان کیا گیا ہے میں کے معنے بلند مقام یا پہاڑی مقام کے امین یہ نام اس نیک فال کے طور پر تجویز کیا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ اس مرکز کو حق و صداقت اور روحانیت کی بلندیوں تک پہنچنے کا ذریعہ بنائے اور وہ خدائی گور کا ایک ایسا بلند مینار ثابت ہو جسے دیکھ کر لوگ اپنے خدا کی طرف راہ پائیں.اس کے علاوہ ظاہری لحاظ سے بھی یہ جگہ ایک ربوہ کا حکم رکھتی ہے کیونکہ وہ اردگرد کے علاقہ سے اونچی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بعض چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں بھی ہیں.گویا ایک پہلومیں جانا کیا دریا ہے جو پانی یعنی ذریعہ حیات کا منظر پیش کرتا ہے اور دوسرے پہلو میں بعض پہاڑ یار ہیں جو بلندی کی علامت کی علمبردار ہیں.اے قربانی اور بیعت کے بعد حضور نے تھوڑے سے وقفہ سے اسی مقام پر جہاں شامیانے نماز عصر کے نیچے نماز ظہرادا کی گئی تھی عصر کی نماز بھی پڑھائی جس میں علاوہ چھ سو مردوں کے بعض مستورات بھی پردہ کے پیچھے نماز میں شریک ہوئیں.تنازع کے بد اور مسلمو نے یوں احمدیوں کے زیرانتظام حضرت مصلح موعود کی واپسی دعوت طعام میں شرکت فرمائی اور پھر چار بچ کر چالیس منٹ پر واپس لاہور کی طرف روانہ ہو گئے یہ اس طرح نئے مرکز احمد سمیت کی افتتاحی تقریب جو خدا کی رحمتوں اور برکتوں کا ایک عظیم نشان تھی بخیرو خوبی اختتام کو پہنچی فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى اِحْسَانِهِ ؟ الفضل ٢٢ تبوك استمبر ٢٣ من به له ايضاً.
۱۲ ضمیمہ تاریخ احمدیت جلد (1) مصلح موعود کا اجیت افروز کتو مبلغ اسلام ستین کی یکم صاحب کے نام ضرت مورخه ۲- امان / مارچ ۶۱۹۵۴ انفوز بالله من الشيطان المريح بسم اللہ الرحمن الرحیم شهد و در اقصیلی علی ارت موقع ایگیری قدار کے فصیل اور روح کے ساتھہ هور ناصر تم اسی ملک جارہی ہو جبروت کانوں کے پہلی صدی اس ہیں.قبضہ کیا اور سات کو سال تک ایمانی قابض رے اس ملک کا مسلمانوں کا ہا تھ سے نکل جانا ایک بڑے دکھہ کی بات ہے مگر تنگ تو نکلتے ہیں رہتے ہی دلان سے اسلام کا نکل جانا اصل صدام ہے اور ایسا صوبہ جسے کسی سامان کو سیدنا
بندی چاہئے شتہ ا نام حسین رئہ کی یاد میں پریستالی تاز کے نکا ہتے ہیں یہ ایک نہ جیت نے بر ا گر گئی صورت ت سی میں نہائیں یہ جائز ہوتا تو مسلمانوں کو سین کا ماتم ہر سال کرنا چاہتے کیا کہا تاک کہ پیر کے لیہ پر یو پڑھنے کے ولی پر زخم کا تنا گہر ایشان پڑ جاتا کہ کوئی مراجع اسے شد مل نہ کر سکتی.کا خوش وقتی سے وہاں چارہی ہو ا ہے فرض کو یاد رکھو کہ اپنے خاوند کو پار رند کی رہو تارا جاناتا رہے خاوند یک تلع راست نہ کو برے اگر آگے سے ہی جیت بینا کے فلما بیات جب جنگوں می با تم میں تو رہنے کا دندون رو شورت اسلامی نہیں
کھیتی تمھیں بلکہ چکھوں سے یا پر انکا تی تھیں قیوں یا نکالتی اکی وجہ سے انکا کا اترے سے یاد کیا جاتا ہے سر قیامت تک یاد کیا جائیگا.مالی سمجھتے کا وقت مری کے بعد بہت کیا تھے والا ہے اسکی بار میں انا کام کے دنوں کوئی بار ہے زیاده میشد به نام آمین (2.3.54.) کو نا امید و تظهر لله أعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرّحمن الرّحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر تم اس ملک جارہی ہو جس پر مسلمانوں نے پہلی صدی میں قبضہ کیا اور سات سو سال تک وہاں قابض رہے.اس ملک کا مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل جانا ایک بڑے دُکھ کی بات ہے مگر ملک تو نکلتے ہی رہتے ہیں وہاں سے اسلام کا نکل جانا اصل صدمہ ہے اور ایسا صدمہ جسے کسی مسلمان کو بھلانا نہیں چاہئے شیعہ امام سین کی یاد میں ہر سال تازے نکالتے ہیں یہ ایک بدعت ہے مگر اگر کسی صورت میں بھی یہ جائز ہوتا توسلمانوں کو نیکی کا ماتم ہرسال کرنا چاہیئے تھا یہاں تک کہ
ہر بچے اور ہر بوڑھے کے دل پر زخم کا اتنا گہر افشان پڑ جاتا کہ کوئی مرہم اسے مندمل نہ کر سکتی.تم خوش قسمتی سے وہاں جا رہی ہو اپنے فرض کو یاد رکھو اور اپنے خاوند کو یاد دلاتی رہو تمہارا جانا تمہارے خاوند کو تبلیغ میں شکست نہ کر دے گر آگے سے بھی چست بنائے صحابیات جب جنگوں میں جاتی تھیں تو اپنے خاوندوں کو جموں میں نہیں گھسٹتی تھیں بلکہ یوں سے باہر نکالتی تھیں اسی وجہ سے ان کا نام عزت سے یاد کیا جاتا ہے اور قیامت تک یاد کیا جائے گا.مل بیٹھنے کا وقت مرنے کے بعد بہت لمبا ملنے والا ہے اس کی یاد میں ان کام کے دنوں کو زیادہ سے زیادہ مفید بنا نا چاہئیے.آمین.مرزا محمود احمد حضرت قمرالانبیا صا حبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب گرامی نام مبلغ اسلام ستین مورخه ۲- امان / مارچ ۶۱۹۵۴ و عیما طبق ایسا ا فولاد عزیزه خدمه بیگم کام الی ان خوف سے میرا ان الله ابواله را آپ کی شادی کا بری حالات کے لحاظ کے دین اوین اور رات کے ساتھ مروی ہے مگر ابھی تک یہ صرف ایک جسم ہے اور ان کے اندر حقیقت کی روح ڈالنا باتو با نا خدا کے لاتم میں بہا جو نام نفلوں اور رحمتوں کا سر شیشہ ہے اور یا نہ رات کا نہیں کہ رہنے عمل کے نامی تصورت درخت کی جانب نہیں.میری دوا ہے کئے
۴۴۹ ستائے آپ کی زندگی کو نفلوں اور راحتوں کا مورد پیناستے اور حقات دبا دیں سے نوازے.اتھے.پین کا ملک جہاں آپ اپنے تو پر معینی کرم الی لاریونونه سانو جارہی ہیں السلام کا کھویا ہوا ورثہ ہے جہاں السلام کے پوتے نے ساہے آٹھ سو سال رہنے برگ وبار کی شاندار بیار رکهای است مگر اب الی پرخوان کا دور دورہ ہے.اپنے رکے نہی درد مندانه گوشش و ای اور دن دون در ماتم پھر کھولوں اور بیلوں سے شادی اور ادارت کریں اور ثابت کر دی کہ چاہتا ه ای را دیده ایم کا اشت الان اعلام ایراد به گیر بیاری پنا نا مه لیک آتی ہے.سین کا دوباب السلام کے شرف رہا ریکلام کا دو روحانی انتقام ہو گیا جائے انڈسی بند گراں کر کی ہے تالے ا ہے اور روجی بیکار رہی میر ربع در سرتاج در ماتم ہو اور دین و دنیا میں کوئی عملی دینار تیز - تھا فاها را نمیداره 2 3 مراوح 57 لگا
بسم الله الرحمن الرحیم نحمده ونصلى على رسوله الكريم * وعلى عبده المسيح الموعود یزه مکرمه بگیم کریم الی صاحب ظفر السلام علیکم ورحمه الله وبركاته آپ کی شادی ظاہری حالات کے لحاظ سے وفاؤں اور برکات کے ساتھ ہوئی ہے مگر ابھی تک یہ صرف ایک جسم ہے اور اس کے اندر حقیقت کی روح ڈالنا یا تو ہمارے خدا کے ہاتھ میں ہے جو تمام فضلوں اور رحمتوں کا ستر شیعہ ہے اور یا وہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ اپنے عمل سے خدائی نصرت و رحمت کی جاذب نہیں.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپکی زندگی کو فضلوں اور رحمتوں کا مورد بنائے اور حسنات دارین سے نوازے.آمین.سپین کا ملک جہاں آپ اپنے شوہر عزیز کرم الہی صاحب ظفر کے ساتھ جا رہی ہیں اسلام کا کھویا ہوا ورث ہے جہاں اسلام کے پودے نے سات آٹھ سو سال اپنے برگ و بار کی شاندار بہار دکھائی ہے مگر آپ اس پر خزاں کا دور دورہ ہے آپ اسے اپنی دردمندانہ کوششوں اور دعاؤں کے ساتھ پھر پھولوں اور پھلوں سے شاداب اور آراستہ کرین اور ثابت کر دیں کہ ہمارے آقا صلے اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانی عالمگیر اور ہمہ گیر بہار کا پیغام لے کو آئی ہے.سپین کا دوبارہ اسلام سے مشرف ہونا اسلام کا وہ روحانی انتقام ہوگا جس کے لئے اندلسی بزرگوں کی رہیں پیکار رہی ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کے اور آپ کے سرتاج کے ساتھ ہو اور دین و دنیا میں ترقی عطا فرمائے.آمین.فقط نما کسار مرزا بشیر احمد ربوه ۲۵۳ بیان متعلقہ سفر سیالکوٹ حضرت مسیح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا لیکچرا استحکام پاکستان کے سلسلہ میں موتی محل سینما میں بصدارت خان بہادر خواجہ برکت علی صاحب ریٹائر ڈ پوسٹ ماسٹر منزل سیالکوٹ رات ۸ بجے کے قریب شروع ہوا.یہ سینما سرائے مہا راجہ جموں و کشمیر کے ساتھ ہی واقع ہے جس میں ہر نومبر کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لیکچر سیالکوٹ ا بصدارت حضرت مولوی نور دین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ) حضرت مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پڑھ کر سنایا تھا.لیکچر کے سننے کے لئے شہر سیالکوٹ میں ایک عام منادی کرائی گئی تھی.ہماری بیرونی جماعتوں کے لوگ بھی کثرت سے تشریف لائے ہوئے تھے.تقریر کے وقت ہال سامعین سے بھرا ہوا تھا اور حاضری ہمارے اندازہ سے کئی گنا زیاد تھی.جلسہ نہایت پر امن ماحول میں ہوا اور نہایت کامیاب رہا.
۴۵۱ خاکسار حلیہ کے دوسرے دن مکرم چوہدری محمد اکرم صاحب سول سپلائی افسر سیالکوٹ کے ہاں گیا وہاں خان بہاؤ چوہدری قاسم علی صاحب، ذیلدار، سب رجسٹرار، پراونشل درباری ساکن بدر کے چیری تحصیل ڈسکہ ضلع سیالکوٹ تشریف رکھتے تھے ہیں ان کو ملا.آپ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جلسہ کی تقریر کی بہت تعریف کی اور فرمایا کہ خلیفہ صاس کا سیاسی، جغرافیائی اور مذہبی لحاظ سے بہت وسیع علم اور مطالعہ ہے.ہال میں ایک نقشہ ضلع سیالکوٹ کا لٹکایا ہوا تھا جس کے ذریعہ سے پاکستان اور جموں و کشمیر کی جغرافیائی حیثیت کی نشان دہی کر کے دوران تقریر میں بتاتے جاتے تھے مکرم چوہدری صاحب نے مجھ کو فرمایا کہ رات کا لیکچر سن کر میری طبیعت پر یہ اثر ہوا ہے کہ اب ہم کو خلیفہ صاحب کی بیعت کر لینی چاہئیے.دوران قیام سیالکوٹ حضور نے سیالکوٹ.جموں کا بارڈر بھی جا کر دیکھا حضور وہاں جیپ پر تشریف لے گئے (قاسم الدین محمد حکیم حسام الدین سیالکوٹ) اسماء گروپ فوٹو مقام تو رخم (لنڈی خانہ) ) مورخه 4 شهادت اپریل ) کرسیوں پر دائیں سے بائیں :- 1- میاں محمد یوسف خان صاحب (پرائیویٹ سیکرٹری) ۲ حضرت -: ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب ۳.حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب درد ہم حضرت قاضی محمد یوسف صاحبان صوبائی امیر - سید نا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ شیخ مظفر الدین صاحب امیر جماعت پشاور صاحبزادہ محمد طیب صاحب ( ابن حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب شہید) در صاحبزادہ مرزا مبارک حمد صاحب ۹.خاصے داروں کے ایک صوبہ دار پہلی قطار کھڑے دائیں سے بائیں:.پہلے پانچ مخاصے دار ( نام معلوم نہیں.میاں رشید احمد صاحب انجنئیر ، تحصیل دار صاحب تو رخم ( نام معلوم نہیں) در خان شمس الدین خان صاحب ۹ صاحبزاده عبد الحمید صاحب ابن صاحبزادہ عبداللطیف صاحب آف ٹوپی -- نام معلوم نہیں 11 خادم ( نام معلوم نہیں) ا جزادہ عبدالحمید صاحب آف ٹوپی ۱۳ دیجر) عبد الاکبر خان صاحب ابن ارباب محمد عجیب خان صاحب ۱۴- صاجزادہ عبد السلام صاحب (برادر اکبر صاحبزادہ محمد طیب صاحب) ۱۵ - خاصے دار (نام معلوم نہیں).دوسری قطار کھڑے دائیں سے بائیں : پہلے دو خاصے دار (نام معلوم نہیں.جمعدار فقیر محمد صاحب (باڈی گارڈ حضرت مصلح موعود ۴-۵- دو خاصی دار (نام معلوم نہیں) 4 صو بے دار شیر خان
۱۳۵۲ (باڈی گارڈ حضرت مصلح موعودی) 2.حوالدار عبداللہ صاحب (باڈی گارڈ حضرت مصلح موعودی) ۸ تا ۱۱- چار خاصے وار (نام معلوم نہیں).نیچے بیٹھنے والے دائیں سے بائیں : اسید گل صاحب (صاحبزادہ محمد طیب صاحب کے کار مختار) ار مولوی عبید اللہ اعجاز صاحب ( اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری.میر ابوالحسن صاحب سپرنٹنڈنٹ پولیس این شیخ مظفر الدین صاحب نے میر محمد اسلم خان صاحب - ارباب محمود جان صاحب ابن شیخ مظفر الدین صاحب بیان متعلقه سفر چارسده ۲۱۹۴۸ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ 1970ء میں پشاور کی طرف سے (اندازاً) بوقت دست بیچے چارسدہ تشریف لائے تھے اور فقیر معد خان صاحب ایگزیکٹو انجینیئر کے مکان میں چند گھنٹے قیام فرمایا تھا.اس دوران حضور خان برا در ز سے ملنے کے لئے اتمان زئی تشریف لے گئے تھے حضور تقریباً دو گھنٹے کے بعد واپس اتمان زئی سے تشریف لائے اور بچارسدہ میں غیر احمدیوں کی مسجد میں ظہر اور عصہ کی نمازیں جمع کر کے پڑھائیں.اردگرد کے معززین کے حضور سے ملاقات کا شرف حاصل کیا.ایک دوست کی زبانی روایت ہے کہ حضور سے کسی نے پوچھا کہ خان برا دور ز نے حضور کو کیا کہا تو حضور نے فرمایا کہ خان برادور رتباہ ہو گئے.اس کے بعد صور بذریعہ موٹر مروان تشریف لے گئے.دما سٹر نور الحق پریزیڈنٹ جماعت احمد یہ چار سدہ) الخصا) بیان متعلقه سفر مردان حضرت مصلح موعود بمعہ قافلہ اور اقدام از پیشاور ضلع مردان از طرف پیشا و براسته چارسده مرد آن تشریف لائے.جلسہ تقریباً عصر کے بعد شروع ہوا.(صاحبزادہ عبد الحمید صاحب کی یادداشت کے مطابق مضمون کا عنوان "پاکستان اور اس کا دفاع " تھا.جہاں تک مجھے ذاتی طور پر یاد ہے حضور نے پاکستان کے بارڈر کی پوزیشن ہاتھ اور چھڑی کے دور اور جفر بعد اپنی طور پر واضح فرمائی میکرم نصر اللہ بیان صاحب پر سٹرایٹ لاء نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ ہمارا خیال تنها که موناهی استند صرف ایک نذیری آدمی ہیں لیکن آپ معلوم ہوا ہے کہ آن مکرم ایک جرنیل بھی نہیں دیا اسی قسم کے تعریفی الفاظ استعمال
For کئے ، ان ریمارکس سے سامعین اور سنجیدہ طبقہ پر اثر کا اندازہ ہو سکتا ہے.جلسہ میں مرد ان کے معزز وکلاء صاحبان بھی موجود تھے مگل سامعین کی تعداد تین چائیسو کے لگ بھگ تھی.جلسہ کے بعد حضور نے نماز مغرب پڑھائی تھی.دوسرے دن صبح حضور مجد احمد یہ بکٹ گنج تشریف لائے اور دو رکعت نماز ادا فرمائی.اس کے بعد حضور بمعہ اپنے قافلہ تخت بھائی شوگر ملنہ دیکھنے کے لئے تشریف لے گئے.بعد ازاں براستہ رسالپور نوشہرہ تشریف لائے.رسالپور میں چوہدری ظفر صاحب (جو اُس وقت ایر فورس میں شاید پائلٹ آفیسر تھے) کے ہاں کھانا تناول فرمایا اور ایک مختصر تقریر بھی فرمائی.رسالپور کے ساتھ پیر مبارک نامی جگہ کو دیکھا حضور دیکھنا یہ چاہتے تھے کہ نئے مرکز کے لئے خواب میں دیکھایا جانے والا مقام تو نہیں لیکن اس کا نقشه خواب سے مختلف پا کر اسے چھوڑ دیا گیا.نوشہرہ میں ایک غریب لیکن نہایت مخلص دوست نے چائے پیش کرنے کی درخواست کی جو منظور کی گئی.یہاں پر بھی حضور نے تقریر فرمائی جو انا اعطَيْنَاكَ الگو شر کی قرآنی آیت پرتھی.یہ تقریر مرحوم مرزا غلام حیدد صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ نوشہرہ کی زیر صدارت ہوئی تھی.حضور کی ہمرکابی میں قاضی محمد یوسف صاحب پراونشل امیر صوبہ سرحد اور صاحبزادہ عبد اللطیف صار لویی) بھی تھے.(ملخصاً) د آدم شمال امیر جماعت احمدیہ مردان) حضر مصلح موعودہ کے مبارک کلمات ڈاکٹر غفور الحق صاحب کویسٹ کی عروضنا کے جواب میں ار احسان / جون تا اخاء / اکتوبر ه/۱۳۸۲ بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم سیدنا و مطاعنا اید کم اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز السلام عليكم ورحمة الله و برکانه گزارش ہے کہ اس عاجز کی ہمیشہ خواہش رہی ہے کہ حضور کوئٹہ تشریف لائیں اور خدا تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس عاجز کو سخدمت کی توفیق دے جس کے واسطے درخواست دعا ہے.نیز عرض ہے کہ ہمارے خاندان کی بڑی خواہش ہے کہ حضور از راہ عنایت ہماری طرف سے کوئٹہ میں قیام کے تمام عرصہ کے لئے مہمان نوازی قبول فرمائیں اور حضور اور حضور کے تمام خاندان کے لیے اس عاجز کو اشیاء خوردنی سپلائی کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی جائے.والسلام حضور کا ادنی ترین غلام
۴۵۴ عاجز غفور الحق خان عفی عنہ ایم ہی رہی.ایس کوئٹہ میریزم د ر ر ر ر ا ا ا ا ا اس کی یاد شده السلام علیکم در مد اسد و پر راته جوانی که در من الجراد تھمہ قبول کرنے کو رول کا استہ اپنا کر اور ان سے گریز حسین یو چی د درنا لینک نہتی ہوں آپ کی جنسی یہ طو ر شتہ یہی رہیں تو کے لیے یہ نہیں ہے عمرر ہے یگر غیر معینی عرصه ه ر نه مانی یا که میو جیسی مجرای کرسی درس می شمند کی شکل سوال کا بول جاتی ہے اسی طرح ہارے دیر یوجنه و شیا که جدیدی ملید ر کو ایک سے ہو رہی سب سے ہے اور تھے تو جیب لصہ میں تب یا اس کو کا میشن یا اجناس تمند امور پر خوشی سے بیچور کے ہیں اس کے رسولی است تمامی در تونگا شاشت قائم رئیسی سر زمونی پیشی گرده صورت به شماره دیر لید میہ رنگ گھور ہے.ہو.محمد بن رجے میں در رسم کا کام کریوں کے کہ
(جواب) عزیزم ڈاکٹر غفور الحق خان صاحب الحکم اللہ تعالیٰ السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.جزاکم اللہ احسن الجزاء - تحفہ قبول کرنے کو رسول کریم نے سفتہ انبیاء قرالہ دیا ہے مگر غیرمعین بوجھ ڈالنا ٹھیک نہیں.یوں آپ کوئی جنس یہ طور تحفہ بھجوائیں تو اسے لینے میں ہمیں عذر نہ ہوگا مگر میتی عرصہ کے لئے یہ مان لینا کہ آپ جنس بھیجوایا کریں اس میں تحفہ کی شکل سوالی کی بدل جاتی ہے.اس طرح ہمارے دل پر بوجھ رہے گا کہ جلدی چلو ان کو تکلیف ہو رہی ہو گی.پس آپ جب اور میں قدر چاہیں کوئی جنس یا اجناس تحفہ کے طور پر خوشی سے بھیجوا سکتے ہیں اس سے آپ کی اور ہماری دونوں کی بشاشت قائم رہے گی مگر آپ کی پیشیش کر وہ صورت میں ہمارے دل پر بوجھ رہے گا کہ ہم بوجھ بن رہے ہیں.والسلام خاکسار مرزامحمود احمد بسم الله الرّحمن الرّحيمي : محمدُهُ وَنَصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الكريم سیدنا و مطاعنا اید یکم اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز السلام عليكم ورحمة الله وبركاته حضور کا ارشاد بابت میری درخواست مهمان نوازی موصول ہونے پر از حد شرمسار ہوں کہ حضور کو اس سے سوالی کا رنگ پیدا ہونے کا احتمال ہو ا جس کے واسطے معافی کا خواستگار ہوں.چونکہ حضور نے اس عاجزہ کی مہمان نوازی کو غیر معین عرصہ کے لئے قبول فرمانا پسند نہیں فرمایا اس لئے عاجزہ کی درخواست ہے کہ دوباہ کے لئے حضور اس عاجز کی مہمان نوازی قبول فرمائیں اور اس عاجز کو کل صبح سے اشیاء خوردنی سپلائی کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی جائے.والسلام حضور کا ادنی ترین غلام عاجز غفور الحق خان عفی عنه ۱۳ فریش تک ریسم يس عليكم درجة الله وبرة مربی تیہ میں اپنی یا بے شمار آیا کہ یہ سنگا کاری است شماطه سوم سردست بھی آسوشین وہ ہی طرح کرکسی مری کی یہ بھی
۴۵۶ آچاه سر و سوی توریستی ہماری تو رازی کا کی پوری بوده (جواب) عزیز مکرم السلام عليكم ورحمته الله وبركاته میری سمجھ میں ابھی بات نہیں آئی کہ یہ کس طرح ہو گا میر دوست آپ تین دن اسی طرح کرلیں میری سمجھ میں بھی آجائے اور آپ کی خواہش مہمان نوازی کی بھی پوری ہو جائے.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد سم الله الرّحمن الرّحيمي + عملة وَنَصَلَّى عَلَى رَسُول الكري سیدنا و مطاعنا اید کم اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز السلام عليكم ورحمة الله و بركاته حضور نے از راہ نوازش اور شفقت اِس عاجز کی دلداری کی خاطر تین دن کی مہمان نوازی قبولی سند مالی جزاكم الله احسن الجزاء فى الدنيا والأخره.چونکہ حضور نے فرمایا تھا کہ سر دست تین دن کے لئے اس عامہ کی خواہش مہمان نوازی پوری ہو جائے.آب جس طرح حضور پسند فرمائیں یعنی اگر حضور اس انتظام کو جاری رکھنے کی اجازت مرحمت فرمائیں تو عین نوازش ہوگی ورنہ جو صورت حضور نے پہلے مناسب خیال فرمائی تھی اس پر عمل پیرا ہو جاؤں.والسلام حضور کا ادنی ترین غلام عاجز غفور الحق خان عفی عند ۱۵ مرتاج ر سوہا علیکم ورود که سعی در الله میری مرضی تومی تھی کہ بیوی میں تو سوپر
۴۵۷ ر توجہ سے وجودیہ سے کہا ہے مہمان ہیں براہ گرمی اس کام میں تو کار کنی جوری کرتے کی کہ ترکی تک خرچ نہ ہو یہاں تو اسد های در پیر اور زیاده خرج کو لانے کی اور رویہ کا کا موجب ہوتے کیا گا اگر آمد کو دو جوره صورت در امور به دو توپیر بیر جان که کار من نوع ترشی است که چیزی منشوری وہ گال شرم ہم کو معلوم ہے کہ میر و چی کرکے سر Авел مری کو تا دیر نہ مل کر اطاعت پر مارنے پر چھ اسلام وردنه و ردا (جواب) عزیزم السلام علیکم ورحمه الله وبرکاته روسی ها داد میداره میری غرض تو یہ تھی کہ یوں ہی آپ پر اس وجہ سے بوجھ نہ ہو کہ ہم مہمان ہیں.گھر میں انتظام ہو تو کارکن خود ڈرتے ہیں کہ زائد خرچ نہ ہو.جمہمان نوازی میں اوپر اوپر زیادہ خرچ کروا دیتے ہیں اور روپیہ کے ضیاع کا موجب
۴۵۰ ہوتے ہیں.اگر آپ کو موجودہ صورت پر اصرار ہوتو پھر یہ چاہیئے کہ کارکن سے منش محمود احمد جو چیزیں منگوائیں وہ کاپی پڑھیں تاہم کو معلوم ہو سکے کہ بلا وجہ خرچ تو نہیں کرتے ورنہ طبیعت پر ہمارے بوجھ رہے گا.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد بسم الله الرّحمن الرّحيم : محمد ونصلى على ت سُول الكرعي سیدنا و مطاعنا اید کم اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز السلام عليكم ورحمة الله وبركاته اس عاجز کی درخواست مہمان نوازی پر حضور نے جس قدر تالیف قلب کی خاطر اپنی طبیعت پر بوجھ ڈالا ہے اس کے واسطے ازحد ممنون ہوں.آئندہ کے لئے یک اصرار نہیں کرنا چاہتا کیونکہ اس طرح حضور کی طبیعت پر بوجھ رہے گا.اب جو اجناسی بقایا ہیں وہ بطور تحفہ قبول فرمانے کے لئے عرض ہے اور ساتھ کی ناچیز رقم ۸۰۰ روپے بھی.والسلام عزیت ام سلیم که شده میکا استها علیکم و رحمة اسد در نامه حضور کا ادنی ترین غلام عاجز غفور الحق خان عفی عنہ رہے اور اجناسی کا شکریہ جزا لگا اور حسنی ریجیز دو یہ پوچہ کا احاس کی صف قد دنا ده ورنہ آپوچھ میرے محبت کا طرہ اہم ہیں ائمہ ثقافت نے دن صوب مورسی حکمی دکھ کم ہیں.حصہ رسول کسی صلی اللہ علیہ وسیم کا اسوه امیری پیاری کی داستان بعد درس های امر سوم
۴۵۹ تنہ سے اور و واحدی کانامه ستاد موسسه (جواب) عزیزم علیکم اللہ تعالی السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ رقم اور اجناس کا شکریہ.جزاکم اللہ احسن الجزاء.یہ بوجھے کا احساس بھی صرف خدا تعالیٰ کے لئے ہے ورنہ آپ میرے بچوں کی طرح ہی ہیں.اللہ تعالیٰ نے ان سب امور میں حکمتیں رکھی ہیں اور رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم کا اسوہ بڑی بھاری حکمتیں رکھتا ہے اور اسی میں ہم سب کا نفع ہے.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد بخدمت حضرت اقدس خلیفہ ایسیح الثانی ایدہ اللہ نصر السلام علیکم ورحمہ اللہ حضور کی خدمت میں یہ تحقیر و تم ۲۰۰۱ روپیہ پیش کرتا ہوں حضور قبول فرما دیں اور میرے لئے اور میرے خاندان کے لئے دعا فرما ہیں.رمضان شریف کا مبارک مہینہ ہے.والسلام حضور کا اولی خادم حضور الحق خاں عزیز نے ڈائر النسور المقاسات اسلام علیکم ورحمة ارصد و برات آنها سه رویت ملی کے چاروں کے الہ احسنی روایت بر دارد تا را در سو خاندان پیروی زبان اور رانا فضل سے اپنی ماد گار دونوں پر سريع لا توفيق 2 و اسلم حمامه مرتا کریں کہ (جواب) عزیزم ڈاکٹر غفور الحق صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته آٹھ سو روپئے مل گئے جزاکم اللہ احس الجزاء اللہ تعالیٰ آپ کے سب خاندان پر رحم فرمائے اور اپنے فضل.اپنی رضاء کی راہوں پر چلنے کی توفیق بخشے.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد
افتتاح ربوہ کی تقریب میں شامل اصحاب مندرجہ ذیل فهرست جو صدر انجمن احمد یہ ربوہ کے قدیم ریکارڈ سے حاصل کی گئی ہے مولانا ابو العطاء صاحب فاضل کی نگرانی میں تیار ہوئی تھی اور مولانا صاحب موصوف نے 4 ماہ نبوت/ نومبر کو اسے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی خدمت میں ارسال کیا اور اس کے شروع میں لکھا کہ حضرت میاں صاحب سلمکم اللہ تعالیٰ ! السلام علیکم ورحمة الله و پر کانتر جهان تک نام دستیاب ہو سکے ہیں ان کی فہرست مرتب کر کے بھجوا رہا ہوں مختلف اصحاب نے نام جلدی میں لکھے تھے اس لئے چند نام ایسے رہ گئے ہیں جن کا پتہ نہیں لگ سکا بہر حال فہرست ارسال ہے.گل نام 119 ہیں.خاکسار خادم ابو العطاء I E - حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ۱۶ - مولوی عبد الرحمن صاحب انور عبد الحمید صاحب احمد نگر بنصره العزيز حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے - جناب سید ولی اللہ شاہ صاحب IA ا چوہدری غلام رسول صاحب بی ٹی ہائی سکول ۱۹ - عبد الرشید طالب علم ہائی سکول م جناب مولوی عبد الرحیم صاحب درد ایم.اسے ۲۰ - طیب احمد ہائی سکول شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ لاہو ۲۱ - مطیع اللہ صاحب احمد نگر A جناب مرزا عزیز احمد صاحب ایم.اے چوہدری برکت علی خاں صاحب وکیل المال ه جناب عبد السلام صاحب اخترایم اے و.سیٹھ اسماعیل موسیٰ صاحب کراچی میاں عبدالمنان صاحب تمر چوہدری محمد عظیم صاحب با جوه ۱۲ - ملک عبد الرحمن صاحب قصور ۱۳ - ماسٹر نورالهی صاحب ۱۴ - مبارک احمد طالب علم ۱۵ - مولوی محمد تقی صاحب سنوری ۲۲ - واو و احمد ہائی سکول ۲۳ - حکیم محمد عبد الله صاحب احمد نگر ۲۴ مستری ناظر دین صاحب، احمد نگر ۳۵ - مستری عبد الرحیم صاحب چوہدری علی شیر صاحب ۲۷ - سمیع اللہ صاحب ۲۸ " ۱ - اکرم شاہ صاحب ولد علی شاہ صاحب ۲۹ - غلام محمد صاحب چک ما ۳۰.میاں رحیم بخش صاحب احمد نگر ا حمید اللہ ولد حکیم محمد عبد اللہ صاحب
۳۲ - بشیر احمد ولد علی شیر صاحب احمد نگر ۵۷ - انوار احمد ہائی سکول ۳۳ - عبد الستار صاحب وكاندار ۳۴- علی محمد صاحب ۳۵- عبدا عبد العلیم و محمد حسین بچگان ۳۶- محمد اسمعیل صاحب باورچی ۳۷ - غلام حید ر صاحب ۳۸ - چوہدری محمد شریف صاحب "1 چنیوٹ " ۵۸ - محمود احمد ۵۹ - عبد الشكور ۶۰ - مصلح الدین ۶۱ - عطاء الرحمن صاحب بنگالی چنیوٹ ۲۲ - حبیب الرحمن صاحب دختر بیت المال ۶۳ - محمد زاہد بنگالی ہائی سکولی ٣٩ عبد الرحمن صاحب شاکر کلرک، ہائی سکول ۶۴- محمد منیر خلیل احمد هنا ولد ناظر دین صاحب احمد نگر ۶۵ - ریاض احمد ۴۱ - سلیم احمد صاحب، شاکر ۴۲ سعید احمد ولد امیرالدین صاحب ۶۶- مجید اللہ ۶- پرشید احمد " 4 " 31 ۴۳- اقبال احمد ولی رسیٹھ محمد صدیق صاحب چنیوٹ ۶۸ - داؤد احمد مام بالو فضل الدین صاحب اوور سیر ۶۹ - بشیر احمد ۴۵ - مستری دین محمد صاحب احمد نگر ۰ - حمید الدین اختر ۴۶ - عبد العزیز صاحب ۲۷ محمد عبد الله (بچہ) م ۴۸ - بشیر احمد صاحب ۴۹ - عبد المجید طالب علم " " ۵۰ مولوی ابو العطاء صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ ۵۱ر منیر احمد صاحب ہائی سکول ۵۲ - بشیر احمد صاحب ا شہباز احمد محمد انور احمد شریف احمد " " کوئی " ۷۴ مولوی محمد شهزاده شمال صاحب احمد نگر ៩ - فضل الہی صاحب اشرف ہائی سکول ۷۶ - محمد الدین صاحب حجام چنیوٹ 2 - حکیم کریم اللہ صاحب ۵۳ - شیر محمد صاحب چک ۳۱۷ چنیوٹ احمد نگر چوہدری محمد علی صاحب چک ۳ ۵۴ - ناظر علی صاحب شیپور گجرات 9 - چوہدری جلال الدین صاحب چو ہارری ابراہیم صاحب آن نیکی استاد نگر ۵۶ - محمد ابراہیم صاحب دفتر محاسب " میاں احمد بین صاحب چوکیدار احمد نگر ماسٹر سعد اللہ خان صاحب ہائی سکول
۴۶۲ ۸۲ - ماسٹر عبد الکریم صاحب ٹیلر 1.4 با با کرم الدین صاحب صحابی یک ۳۳۲ منظور احمد صاحب ہائی سکول ۱۰۸ - مولا دا و صاحب ۰۴ - جمیل الرحمن صاحب ۱۰۹ - نبی بخش صاحب ۸۵.میاں امیر الدین صاحب نگیری ضلع جالندھر ۱۱۰ - نصیر احمد صاحب + ۶- بشارت احمد صاحب ہائی سکول AL چوہدری حسن محمد صاحب عارف وکیل التجارة لطیف احمد صاحب ہائی سکول ۸۹.میاں محمد صادق صاحب ۹۰ - غلام فرید صاحب چنیوٹ ١١٢ صاحبزادہ مرزا حمید احمد صاحب متری عبد الحکیم صاحب ۱۱۳ - چوہدری عبد الحمید خ ایگزیکٹو انجنیر سیدخان صاحب کم ۱۱۴ مجیب الرحمن صاحب بنگالی لا ہوں ہوگے چنیوٹ ۹۱ - چوہدری شیر محمد صاحب احمد نگر ۱۱۵ - مشتاق احمد صاحب ہائی سکول " 114 1- عبد الكريم المعيل ۹۲.میاں علم الدین صاحب ۹۳ - اسر محمد ابراہیم صاحب ہائی سکول ۱۱۷ مولوی عبد المنان قادر آبادی ۹۴ - مستری نور الہی صاحب احمد نگر ۱۱۸ - گلزار احمد صاحب ۹۵ - مستری محمد صدیق صاحب لالیاں 19 - محمد اکبر رضان ۹۶.میاں محمد رمضان صاحب چنیوٹ احمد نگر ہائی سکول " ۹۷ - شیر محمد صاحب چک لوسٹ احمد نگر ۹۸ - نمبر دار محمد ابراہیم صاحب ۱۰ - ڈاکٹر راجہ بشارت احمد صاحب ؟ مع ہمشیرہ ، بیوی ، بچه احمد نگر ۱۲۱ - ڈاکٹر فضل حق صاحب معہ بیوی کچھ لالیاں " محمد ظفر محمود پر صوفی محمد ابراہیم صاحب ہائی سکول ۱۲۲- محمود احمد پسر محمد حسین صاحب ٹیچر مینیسوٹ ۱۰۰ - مبارک مصلح الدین پر صوفی غلام محمد صاحب " ۱۰۱.میاں عبد الکریم صاحب چنیوٹ ۱۲۳ - عبد القادر ގ ۱۲۴ به مستری سلطان محمد صاحب لالیاں ۱۰۲ متری علم الدین صاحب " ۱۲۵ - آفتاب احمد صاحب -۱۰۳ سردار مصباح الدین صاحب مع اہلیہ صاحبہ در ۱۲۶ - غلام احمد مع بیدی ۱۰۴- شیخ محمد یوسف صاحب ۱۰۵- محمد سلیم صاحب ۱۰۶ - نثار احمد صاحب " " ۱۲۷ - شیخ محمد یار صاحب سیکرٹری سال ۱۲۸ - شیخ سراج دین صاحب ۱۲۹ - شیخ غلام محمد صاحب " " کی گر
۴۹۳ ۱۳۰ - شیخ اللہ بخش صاحب ۱۳۱- حکیم غلام حسین صاحب ۱۳۴ - ممتاز احمد صاحب ۱۳۳ - والد و سیف الحق صاحب ۱۳۴ - والده محمد سلطان صاحب ۱۳۵- والدہ ڈاکٹر بشارت احمد صاحب ۱۳۹ - ہمشیرہ مستری سلطان محمد صاحب لالیاں „ " موٹر " ۱۳۷ - عبد العزيز صاحب ۱۳۸ - سلطان علی صاحب چنیوٹ ۱۳۹ - خادم حسین صاحب خوش ۱۴۰ - عبد الغني صاحب ۱۴۱.عبد السلام ۱۴۲ - سرداران بی بی صاحبہ ۱۴۳ - بشیر احمد صاحب ۱۴۴- کریم بخش صاحب ۱۴۵ - محمد اسمعیل صاحب ۱۴۶.عبد الستار صاحب ۱۲۷- غلام محمد صاحب ۱۳۸ منشی نیاز اللہ صاحب شاہجہانپوری ۱۴۹ - نثار احمد واقف بنگری ۱۵۰ - عبد الوہاب 2 احمد نگر " را ر" " " ۱۵۴- چوہدری بشیر احمد صاحب ولد چوہدری نور محمد صاحب.پچک د جنوبی ۱۵۵ چوہدری محمد اسحق بنا چک ۳۰ جنوبی سرگودھا ر محمد ابراهیم صاحب "-182 را ولا مبارک احمد صاحب ۱۵۸ - شیر محمد صاحب ۱۵۹ - عبد الحق صاحب ۱۶۰ - محمد صدیق صاحب ۱۹۱ - محمد حسین صاحب ۱۶۲ - عبد القدیر صاحب ۱۶۲- محمد گلشیر صاحب ۱۶۴ - رحمت اللہ صاحب ۱۶۵ - عنایت اللہ صاحب ۱۶۶ - ولی محمد صاحب -144 ۱۶۷ - عبد المغفور صاحب -١٢- عبد اللطيف ولد نور احمد هنا.١٩٩ - عبد الغفور - محمد حسین صاحب ۱۷۱ - نیک محمد صاحب ۱۷۲ - ملک احمد خان صاحب احمد نگر ۱۷۳- محمد شفیع صاحب ۱۵۱ حکیم محمد الدین ولد سلطان احمد صاحب ۱۷۴ نور محمد صاحب ولد شیر محمد رضا " مرمر گوجر انواله حال چنیوٹ ۱۷۵ - محمد عمر سہگل ۱۵۲ - نورالدین ۱۵۳ - ارشاد احمد ولد نورالدین " " " " 4 4 " " " را 4 دیمی ول کر گیا رہے کرکے کو جو " گوشی لوگر " " 4 کو گوا $1 " " + " ار کو 渤 " ۱۷ - محمد شفیق ولد حمد عمر صاحب سه گل 124 ۱۷- محمد سلیم برگر " چنیٹ "
۴۶۴ ۱۷۸ محمد شفیق والد میاں محمد بشیر صاحب سہگل · ۱ محمد عالم صاحب ولد شاہ محمد صاحب پاک سرگودہا ۱۸۰- محمد شفیع صاحب ۱۸۱ - راجہ محمد عبد اللہ صاحب ۱۸۲ - راجہ لطف اللہ صاحب ۱۸۳ - چوہدری بشیر اصغر صاحب " ۲- چوہدری غلام احمد صاحب ضلع گجرات حال سلانوالی سرگر وہا ۲۰۳ - محمد عالم صاحب سرگودہا ۲۰۴ به غلام احمد صاحب ولد مولوی رحمت علی شفاه ۲۰۵ - رشید احمد ۲۰۶ محمد و احمد ۱۴.ڈاکٹر بھائی محمود احمد صاحب سرگودہا ۱۸۵ - ڈاکٹر مسعد و احمد صاحب ۱۸۶ چو ہد رہی تمامام احمد ولد غلام حید ر صاحب نمبر وار چک ۲۳۰ جنوبی و وو د احمد صاحب ولد بھائی محمود احمد رضا ر ۲۰۸.ڈاکٹر حاجی خود اللہ صاحب ترکستانی سرگودہا ۱۸۷- شیخ محمد اقبال احمد صاحب پر اچه ۱۸ - شیخ عبد الرزاق صاحب پر ایچه A -1A4 ۱۸ - شیخ عبد الرشید صاحب پراچہ ۱۹۰ - چوہدری مبارک احمد صاحب ۱۹۱ - شیخ فضل کریم صاحب ۱۹۲- شیخ محمد رفیع صاحب ۱۹۳ - مولوی عبدالغفور صاحب مبلغ ۱۹۴ - بشارت احمد ولد میری " " " وال & " 4 " ✓ ۱۹۵ سعادت احمد ولد ۱۹۶ - بشیر احمد صاحب کا ٹھگڑا بھی ۱۹۷ - ملک غلام نبی صاحب چک ۹۸۰ ۱۹۸ - چوہدری فتح مخاں صاحب تمبر دار " " ۲۰۹ - محمد عبد اللہ صاحب بوتالوی ۲۱۰ - مرزا عبد الحق صاحب کی امیر جماعت احمدید ۲۱۲ " ۲۱۱ - مرزا منو را حمد فضا و لد مرزا عبدالحق منا وکیل - ۲۱ علی گوہر صاحب لاہور پہر یکے ٹرانسپورٹ لاہور ۲۱۳ - عبد الكريم والا نظام الدین صاحب ۲۱۴ - خدا بخش صاحب کوٹ محمد بار ۲۱۵ - رشید ولد عبد العزیز صاحب ۲۱ - شمس الدین ۲۱۷ - قرنتی عبدالرشید صاحب نائب کیبل المال " احمد نگر ۲۱ - عبد الرحمن ولد نور محمد صاحب چک ملتان ۲۱۹ - محمد عبد الله ولد احمد دین صاحب چک شم ۲۱ - عزیز الدین ولد محمد بخش صاحب احمد نگر چک دے جنوبی سرگودہا ۲۲۱ - فیض محمد ولد شهزاده ۱۹۹ - میاں رشید محمد صاحب کوٹ مومن ۲۲۲ - بشیر اصغر ۲۰۰ - محمد اکرام صاحب ۲۰۱ - محمد عامل صاحب سر گرد وہا کر کے چک ۲۳۱۳۶۰ ۲۲۳ - عبد الرحمن ولد محمد اسمعیل صاحب احمد نگر نم ۲۲ - چوہدری عزیز احمد صاحب نائب محاسب
۴۶۵ ۲۲۵ - عبد الغفور و ار سبحان احمد نگر ۲۴۹ محمودہ نیت عبد الرحمن صاحب شاکر چنیوٹ ۲۲۶ - محمد لطف اللہ خان چک ۳۷ ۲۵۰.زبیدہ اہلیہ محمد حنیف صاحب احمد نگر ۲۲۷ - محمد داؤد ولد محمد العقوب چنیوٹ ۲۵۱- سائره بی بی - ناصردین ގ ۲۲۸ عبد الرؤوف.۲۲۹ - مستری فضل حق صاحب ۲۳۰ - عبد الغنی صاحب " ۲۵۲ - ناصره بی بی بست چراغ دین قادیان ۲۵۳ - صالحه بی بی بنت ناصر دین " ۲۵۲- عزیزه هایی بی بسنت چراغ دین ۲۳۱ - برکت علی ولد فتح دین " ۲۵۵ - صادقه بی بی - ناصر دین ۲۳۲- عطاء محمد ولد عبد الكريم احمد نگر ۲۵۶ میاد که بیگیم ۲۳۳- غلام دین ولد وزیرا ۲۳۴- محمد ابراہیم ولد عطاء محمد ۲۳۵ - رفیق احمد ولد نور محمد ۲۳۶ - مبارک احمد ولد عنایت اللہ ۲۵۷ " " " "" ۲۱ مشیت خاتون اہلیہ مولوی غلام احمد صاحب ہر و مہوری ۲۵۸- زینت بنت رحمت الله } ر" " ۲۵۹ فصل بی بی المیہ شیخ الله بخش صاحب لالیاں ۲۳۷- عبدالحمید صاحب اختر ول عبدالعزیز ضا سیالکوٹ ۲۶۰ زوجہ ڈاکٹر بشارت احمد صاحب ۱۳۸- محمد ابراہیم ولد ماسٹر حمید الدین ضامرحوم چنیوٹ ۲۶۱ - والده ۲۳۹- عبد الغفار ولد سردار علی ۲۴۰- حامد نور و لد گل نور شیهان ۲۴۱- نور احمد ولد نبی بخش صاحب 4 " احمد نگر سکینہ بیگم زوجہ ڈاکٹر فضل حق صاحب " لا ہوں ۲۹۳ - شریفہ بی بی زومیه سراج دین صاحب و ۲۶۴ مشیت خاتون ۲۴۲۲ ثناء اللہ خان ولد ماسٹر سعد اللہ خان تین جھنگ ۲۶۵- معراج بی بی زوجہ غلام محمد چنیوٹ ۲۶ - احمد الشریعت نه و جه بدر الدین ۲۲۲ - لطیف احمد ولد محمد مغسل کوٹ محمد یار چنیوٹ ۲۶۷ - رحمت بی بی اہلیہ ماسٹر نورالہی صاحب ۲۴۳ محمد علی ولد راحیه ولد ۲۴۵ - نذیر احمد ولد سعد الله ۲۴۶ - شریف اسحمد ولد حمید اللہ " " قادیان ۲۶۸ - میر منوره بنت " " " " ہائی سکول چنیوٹ 4 " ts ۲۷۹ - مریم صدیقہ " ۲۲۵ - چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم.ایل.اسے ۲۲۸- چوہدری عبد الرحمن صاحب ہائی سکول ۲۷۰ - والده شیر احمد درویش قادیان لاہور بمعه اللیه و بجنگان ۲۷ - سلطان بی بی اہلیہ خیر دمین احمد نگر
۲۷۲ - حاکم بی بی اہلیہ رحمت علی ۲۷۳ منه بی بی اهلیه مولوی صد روین فنا مبلغ ۲۷۴ - حمیده بی بی اہلیہ مولوی فیروز دین ۲۷۵ - رشیدہ بی بی اہلیہ نور الہی ۲۷۹ - حسین بی بی اہلیہ محمد حسین حمد نگر ۲۹۷ - راشدہ بیگم بنت ملک سلطان محمد کوٹ فتح خان " ۲۷۷ - ناصر بی بی المیہ عبدالسبحان پچنیوٹ ۲۷ اہلیہ سردار مصباح الدین صاحب ۲۷۹ - صالحه میاد که بیت ۲۸۰ - بی بی خاوند سارو 4 ۲۸۱ - فاطمه بی بی بنت سار و ۲۸۲ - دوایاں اہلیہ محمود گوندل ۲۸۳ - سهردار بی بی بیست شیر محمد ۲۸۴- صغری بی بی بہت غلام دین ۲۹۸ رقیه بیگم اہلیہ محمد منیر صاحب چنیوٹ ۲۹۹- رحیم بی بی امیر شیخ فضل حسین ۳۰۰ور دولت بی بی زوجه طلبیب احمد خان ۲۰۱ - خورشید بیگم امیر حبیب احمد خان ۳۰۲ - رضیه بیگم زوجہ محمد دین واقعیت زندگی ۳۰۳.زینب اہلیہ عبدالرحمن 4 ۳۰۴ بخت بھری زوجہ چوہدری سلطان احمد لالیای احمد نگر ۱۳۵ فاطمه بیگی بنت " " " " ۲۰۶ - مخدوم عثمان علی صاحب ۳۰۷ - خورشید احمد واقف زندگی سرگووا مرگو وہا ۳۰۸.چوہد ری محفوظ الرحمن صاحب واقف زندگی ہوگا ۳۰۹ - منیر احمد صاحب چنیوٹ ۲۸۵ خدیجہ میگم امیر سیٹھ اللہ جو یا صاحب چنیوٹ ۳۱۰.دین محمد ۲۸۹- صغری بی بی بیت را " ۳۱۱ ابراهیم ڈاور ۲۸۷ رصفیه بی بی ۳۱۲.محمد اسلم احمد تنکیر ۲۸۸ صادقه میگم منبت مولوی صدرالدین حنا احمد نگر ۳۱۳ خلیل احمد ۲۸۹ - حمیدہ بشارت بنت محمد حنیف صاحب چنیوٹ ۰۳۱۴ ظہر احمد ۲۹۰ - امتہ اشکور بیست سیٹھ اللہ جوا یا صاحب ، ۳۱۵- غلام محمد صاحب ۲۹۱ - عبد المالک ولد ۲۹۲ - محمد الدین ولد شار و 4 " ۳۱۶ حمید احمد صاحب احمد نگر ۳۱۷ - نور محمد ولد گلاب ۲۹۳ - رشیده بی بی بنت مستری غلام محمد چنیوٹ ۳۱۸- ظفر احمد ولد محمد ابراہیم سیالکوٹ ۳۱۹- چراغ الدین ۲۹۴ - عزیز البرٹھیکیدار محمد یعقوب صاحب ۲۹۵ - آمنہ بیگم امیده چو ہدری عبد الله خان مناسب بر ۳۲۰ - قاری محمد امین صاحب دختر ضیافت ۲۹۶ میره بیگم بنست چوہدری فتح محمدرضا سیال ۳۲۱- محمد شفیع صاحب احمد نگر احمد نگر
۳۲۲- مرزا عبد السلام ۳۲۳- محمد علی ۳۲۴- فیروز الدین احمد نگر " ۳۲۵- خان محمد ولد علی محمد ڈاور ۳۲۶- محمد اس نام ۳۷۷- محمد اسمعیل ۳۲۸ محمد احمد " " ۳۴۷- عبدالحمید ولد ٹھیکیدار عبدالرحمن هنا چنیوٹ ۱۳۲۸- محمد کریم نشار و لد محمد یا من هنا تا به کتب ۳۴۹- عبد الرشید ولد سردار نذر حسین ۳۵۰ - مرزا عبد الشكور ولد مرزا عبد الحميد ببيت المال ۳۵۱ - ناصر احمد ولد ناظر دین احمد نگر ۳۵۲.میاں محمد یوسف صاحب پرائیویٹ سیکرٹری ہائی سکول چنیوٹ ۳۵۳ محمد اسلم ولد محمد الدین بورڈنگ تحریک ۱۳۲۹ محمد احمد صاحب حیدر آبادی کالج به ۳۵- بشیر احمد ولد ڈاکٹر احمد دین صاحب احمد نگر ۳۳۰ - محمود احمد صاحب ہائی سکول ۳۵۵.علم الدین ولد اللہ بخش ۳۳۱ - مصلح الدین بنگالی کالج ۳۵۶ حفیظ الدین احمد ولد عزیز الدین احمد چنیوٹ ۳۳۲ - نثار احمد سیلونی احمد نگر ہائی سکول ۳۵۷.وزیر علی ولد صوبے بھاں ۱۳۳۳ - خواجه عبد الكريم صاحب وكيل التجارت ۳۵۸- حاجی تاج محمد ولد میاں عبد الرحیم صاحب ۳۳۴.ماسٹر عبد الرحمن خان صاحب بنگالی احمد نگر ۳۵۹.خادم حسین ولد بڈھا ناں ۳۳۵ علم الدین ۳۳۶ - محمد صادق چنیوٹ ۳۶۰ ولی محمد ولد کرم دین بورڈنگ چنیوٹ ۳۶۱ ولایت حسین ولد سردار خان ۱۳۳۷ خلیل احمد صاحب اختر دفتر بہشتی مقبره ۳۶۲- شریف احمد ولد بشیر احمد ۳۳۸- عبد الغفور ۳۳۹.رحمت الله چنیوٹ سامان احمد نگر ۳۶۳- رشید احمد ولد نظام دین چنیوٹ ہائی سکول " ۳۶۴- مولوی ظل الرحمن صاحب مبلغ چنیوٹ ۳۴۰- محمد حسین صاحب چک ۳۰ جنوبی سرگود یا ۳۹۵- منیر احمد ونیس ولد مولوی غلام رسول صاحب چنیوٹ ۳۹۶- شیخ محمد حسین صاحب پیشتر ۳۴۱- حنیف احمد ولد برکت علی ۳۴۲ - افضل احمد ولد قادر علی تعلیم الاسلام ہائی سکول ۱۳۹۷- محمد اسمعیل صاحب معتبر ولد " ۳۴۳ - محمد شریف ولد دلاور علی ۳۴۴ - عنایت محمد ولد فتح محمد احمد نگر ۳۲۵- اسمعیل ولد رحیم بخش ۳۶.مبارک احمد ولد فضل حق مبلغ دیہاتی ۳۹۸ - شیخ نذر حسین منگو ۳۶۹- محمد حیات صاحب تاثیر چنیوٹ ۳۷۰ - شیخ مقبول احمد (غیر احمدی) چنیوٹ ۳۷۱- محمد افضل ترکی ( ر ) خوگر (
۳۷۲ - فیروز محی الدین صاحب جامعہ احمدیہ احمد نگر ۳۹۶ - عبد القادر ولد سردار مصباح الدین چنیوٹ ۳۷۳ - امیر خال صاحب ۳۹۷- بشیر الدین.۳۷۴- مولوی محمد یعقوب صاحب فاصل انچارت کار و دوی ۳۹۸ - ظفر اقبال " مرگ " سرگوده ها ۳۷۵ - مولوی سیف الرحمن صاحب مفتی سلسلہ احمدیہ ۳۹۹.منظور التي ولد حکیم فضل اللی ۳۷۶ مولوی محمد صدیق صاحب فاضل واقف زندگی ۴۰۰ عثمان علی ولد بشیر احمد ۳۷۷.چوہدری ظہور احمد صاحب معاوان ناظر بیت المال ۲۰۱ - چوہدری غلام رسول ولد شاه محمد چک جنوبی ۳۷۸- چوہدری سلطان احمد صاحب بیسرا واقف زندگی ۲۰۲ عنایت اللہ ولد نور احمد احمد نگر ۳۷۹- چوہدری محمد یوسف صاحب احمد نگر ۴۰۳ - عبد الرحمن ولد محمد شهزاده ۳۸۰ - عبد المنان و لد جناب مولوی عبد المغنی صاحب ۴۰۴ - محمد سلیمان ولد شادی ناظر تبلیغ - ۳۸ - شیخ عزیز احمد ابن شیخ فضل احمد صاحب ۴۰۶ - نور احمد ولد روشناک ۴۰۵ - نصر اللہ خان ولد ثناء اللہ چاک سے ۳۸ - صوفی غلام محمد صاحب تعلیم ان اسلام ہائی سکول ۴۰۷ - عمر دین ولد کوڑا ۳۸۳ حافظ عبد السميع امروہی ولد الهی بخش صاحب ۴۰۸ - محمد علم دین ولد محمد یار ۳۸۴ - محمد ابراہیم نار ولد مولوی فخرالدین صاحب ۴۲۰۹ - برکت اللہ ولد علی احمد - ۳۸۵- منظر احمد ولد شیخ محمد حسین صاحب چنیوٹ ۴۱۰ محمد شفيع ولد عبد الغفور ۳۸۶ - مبارک احمد والد شیخ فضل احمد صاحب ۴۱۱ - مبارک احمد ولد نور احمد ۳۸۷ مسعود احمدہ لنڈ ڈاکٹر محمد اسمعیل چنیوٹ ۳۸۸ محمد حسین وار محمد عیسی ۳۸۹ - عبد الحفيظ ولد عبد الحي احمد نگر چنیوٹ ۳۹۰ - بشیر احمد زاہد ولد محمد ابراہیم احمد نگر احمد نگر لوا پیک در آیدا احمد نگر " کپتان عبد الرحمان مغل ولد میاں عبد العزيز مغل مرحوم محمد عبد المنان ولد یا محمد عبد الرحمن صاحب الظهر ۲۱۴ پروفیسر رانا محمود شاہ ولد سید سردار احمد شاه ۴۱۵ حوالدار میجر عبدالغنی ولد محمد ہاشم آن گجرات ۳۹۱ - محمد بریان و لد حمد عثمان بورڈنگ تحریک ۴۱۶ - ناصر دین ولد چراغ دین ۳۹۲ - ضیاء الحق ولد شبیر احمد ۳۹۳.نور محمد ولد عبد الكريم احمد نگر احمد نگر ام - مالی لوہار ولد رحیم بخش تشکل باغباناں ۴۱۰ - حشمت اللہ ولد قدرت الله اتم نگر دام " ۳۹۴ منشی عبد الخالق صاحب ۴۱۹ - حبیب اللہ حمد لله ۳۹۵ عبد السمان ولد سردار مصباح الدین مینیسوٹ ۴۲۰ - شریف احمد ولد تھا !
۴۶۹ ۲۲۱ - حمیداللہ ولد حمد عبد الله تعلیم الاسلام سکول ۴۴۶ - خادم حسین صاحب ۴۲۲ - حسین بخش ولد فضل دین چک ۲۳۰ ۴ - غلام احمد نمبر دار و لد چوهدری غلام حیدر ۴۲۴ - چوہدری فیض احمد ولد نظام الدین ترکیه ۲۴۷ - عبد اللطیف صاحب ۴۴۸- جلال دین صاحب دفتر امور عامه ۴۴۹ - خیر الدین صاحب ۴۲۵ - صوفی محمد رفیق صاحب واقف زندگی ۴۵۰ - عبد الشکور صاحب ۴۲۶ - عبد الحق صاحب ۴۲۷ - عبد الحق صاحب پلاک ۳ ۲۵۱ - شیر محمد صاحب چک را ۴۵۲- محمد صدیق صاحب ۴۵۳ - عبد الرحیم سیلونی طالب علم ۴۵۲- طالب حسین صاحب " ۴۲۸ - گل شیر احمد صاحب ۲۲۹ - محمد دین صاحب ۴۳ سعید الدین صاحب ۴۳۱- محمد رمضان صاحب ۴۵۵ - عبد الغفور صاحب ۴۵۶ - عبد اللطیف صاحب ۴۳۲ - فضل دین صاحب ۴۳۳.ممتاز احمد صاحب کے اہم - محمد ابراہیم صاحب ولا ۲۵۸- محمد شفیع صاحب - چوہدری بها والحق صاحب واقف زندگی ۲۵۹- محمد صدیق صاحب ۴۳۵- حنیاء الحق صاحب ۴۶۰.مسعود احمد صاحب ول ۴۳۶- نور الدین امجد صاحب طالب علم ۲۶۱ - غلام حسین صاحب ۴۳۷- عبد الرحیم صاحب ۲۶۲ - بشیر الدین احمد صاحب ۳۸.ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب انچارج نور مہسپتال ۴۶۳- رشید احمد صاحب ۴۳۹.مبارک احمد صاحب ۴۶۴- مولوی غلام احمد صاحب بد و سهوی جامعہ احمدیہ ۴۴۰- محمد شفیع صاحب ۴۶۵- حافظ شفیق احمد صاحب ۴۴۱ - برکت اللہ صاحب احمد نگر ۲۶۶ - مرزا محمد اشرف صاحب ۴۴۳ - عبد العزیز صاحب معمار چنیوٹ ۴۶۷ - لئیق احمد صاحب ۴۲۳ - محمد یعقوب صاحب ۴۴۴- حبیب دین صاحب ۴۴۵ - عبد الکریم صاحب ۴۶۸- بدر سلطان اختر واقف زندگی ۴۶۹- بشیر احمد صاحب ۴۷۰ - محمود احمد صاحب
۴۷۰ امام محمود انور صاحب ۴۷۲ - ناصر احمد صاحب واقف زندگی ۴۷۳- محمد اختر صاحب ۴۷۴ - محمد شریف صاحب خالد ۴۷۵ - بشارت احمد صاحب ۲۹۶ - فتح محمد ولد رحمت اللہ صاحب احمد نگر ۴۹۷- مولوی محمد عبد الله صاحب اعجاز ۲۹۸- محمود احمد ولد حافظ محمد الدین صاحب مرحوم ۴۹۹ - رمضان احمد ولد محمد صادق ۲۷۶ ۵۰۰ عبدالعزیز خان صاحب کا ٹھگ گاهی والد و بعد زنان ۴۷۶ - عنایت اللہ صاحب ۵۰۱ - فضل کریم ولد شیخ فتح محمد ۴۷۷ - عنایت اللہ صاحب ۴۷۸ - مقصود احمد صاحب ۰۲ ۵- غلام محمد ولد فتح دین وكيل المال چنیوٹ ۲۷۹.مبشر احمد صاحب ۴۸۰ - محمد رشید صاحب ا ۴۸ سعید احمد صاحب ۴۸۲ - غلام احمد صاحب ۲۸۳.نیک احمد صاحب ۴۸۴ - صوفی محمد ابراہیم صاحب ۲۸۵ رسید محمود اللہ شاہ صاحب ۴۸۶.ماسٹر محمد ابراہیم صاحب ۴۸۷ - مرزا عنایت اللہ صاحب ۴۸۸- محمد اسمعیل صاحب ۵۰ محمد بوٹا ولد نور الدین صاحب چنیوٹ ۵۰۴- ۵۰۵ - غلام احمد ولد فتح دین ۵۰۶ - عبد الوہاب ولد عبد الرحمن ۵۰۷- صلاح الدین ولد محمد ابراهیم ۵۰۸ برکات الهی ولد نور الهی صاحب 20 - عبد اللطیف ولد ڈاکٹر غلام علی صاحب ۵۱۰ - فضل اللي صاحب ولد عطاء اللي صاحب ۵۱۱- قطبه و هیوا احمد نگر ۵۱۲ - حمید احمد ولد بشیر احمد احمد نگر ۵۱۳ - عبد الخالق ولد محمد حسین احمد نگر ۲۸۹ - محمد شفیع ولد سينا ۴۹۰.مبارک احمد ولد عطاء الہی چیک ۳۵ سرگودہا ۵۱۴ر عبدالرشید ولد عبد الرحمن چنیوٹ م ۴۹۱ - عطاء الكريم ولد مولوی ابوالعطاء هنا احمد نگر ۵۱۵- رشید احمد ولد رحیم بخش احمد نگر ۴۹۲- اصغر علی ولد میاں خاں ۷۹۳- عبد الکریم والد شیخ ناصر احمد ۴۹۴ مقبول احمد ولد الف وين صاحب ۴۹۵- ظهور احمد ولد رحمت اللہ صاحب مرسیان ۵۱۶ - بدر الدین ولد عمر دین ۵۱۷ - مولوی تاج الدین صاحب ولد علی گوہر قاضی مسلسله ۵۱۸- ملک عبد الرحمن ولد ملک غلام محمد قصور شنگ ۵۱۹- امیر خان ولد فیروز خان
- برکت علی ولد فتح دین ۵۴۲۴- محمد ظہور ۵۲۱- خیر الدین ولد بوٹا احمد نگری ۵۲۵ - عبد اللطيف ناصر " ۵۴۶ منور احمد ۵۲۲ - عبد اللطيف ولد محمد یوسف ۵۲۳ - غلام صفدر ولد محمد خان چک ۹۸۷ ۵۴۷ کیپٹن عبد المجید فرقان فورس ۲۴ ۵ - سخان میر صاحب ولد علی گل صاحب ۵۲۸ - محمود احمد احمد نگر کلر کہار جیب سلم چک را م جنوبی ۵۲۹- منیر احمد ولد لور احمد کھوا لائل پور ۵۲۵ - محمد امیر ولد محمد علی ۵۲۶ - عه نیز دین ولد نور محمد احمد نگر ۵۵۰ - محمد نذیر سرگودہا ۵۲۷ - شریف احمد و محقه اده - مبارک احمد ہائی سکول ۵۲۸ - بشارت احمد ولد مولوی فضل دین ۵۵۲- عبد الغفور 4 ۵۲۹ - سلطان احمد ولد نور احمد صاحب " ۵۵۳ - خلیق الرحمن ۵۳۰ - مولوی عطاء الرحمن طاہر مولوی فاضل م ۵۵۴ - لطیف احمد ولد مولوی ابو العطاء صاحب احمد نگر ۵۳۱ - الف دین ولد رحیم بخش ۵۳۲ - عبد الرحمن ولد نور محمد صاحب ۵۵۵- عبد الغنی ۵۵۶ - نعیم احمد ۵۵۷ - عبد اللطیف خان ۵۳۳.نذیر احمد بالا کوئی ہائی سکول ۵۵۸ - عبد الرشيد " k ۵۳۴ - شیخ سراج دین لالیان ۵۵۹ حمید الدین احمد ۵۳۵ - عبد اللطیف مولوی فاضل ۵۶۰ - آفتاب احمد " ۵۳۶ - میر محمد ابراہیم ظفر واقف زندگی ۵۳۷- عبد المنان شاد ۳۸ هه ستیار عبد الجلیل ۵۳۹- محمد غوث انیس ۵۶۱ حمید الدین " ہائی سکولی ۵۹۲.عبد السلام چنیوٹ ۵۶۳ - فقیر محمد ۵۶۴ - لطف الرحمن احمد نگر ہائی سکول ۵۴۰- نعیم احمد شاہ نہم ہائی سکول ۵۶۵ - محمد شفیق سہگل * ۵۴۱- اقبال احمد ។ ۵۴۲- سید شیر عمر صاحب چنیوٹ ۵۲۷- محمد امین ۵۶۶ عبد الحمید صاحب احمد نگر ۵۴۳ مبشر احمد ۵۰ محمد ابراہیم ہائی سکول
۵۶۹ - محمد شفیق ہائی سکول ۵۹۴ - محمد لطیف ۷۰ عبد العزيز ولد چوہدری عبد الرحمن صاحب ۵۹۵ محمد جمیل 201 - انعام الحق ولد ڈاکٹر فضل حق ہائی سکول ۵۹۶ - محمد شفیق ۵۷۲ - رفیق احمد ولد محمد عبد الله چنیوٹ " ۵۹۷.عبد الحمید اختر ہائی سکول ۱۵۷۳- عبدالمجید ولد مولوی غلام رسول ٹھیکیدار A ۵۹۸ - عبد الشکور ابن مومن جی چنیوٹ ۵۷۴ - مبارک احمد ولد محمد شریف ۵۷۵ حافظ عزیز احمد ولد شیخ محمد حسین چنیوٹ ۶۰۰- ناصر مبارک ۵۷۶ - دلدار احمد ولد ماسٹر محمد حیات صاحب سر گویا ۵۷۷ - فاروق احمد ولد غلام محمد ۵۹۹ - محمد سلیم مهگل احمدیہ سکول ۶۰۱- حمید احمد ۶۰۲ - احمد علی خان پٹواری دہم ہائی سکول چنیوٹ ۵۷۸ - ریاض احمد ولد ڈاکٹر محمد طفیل ۶۰۳ ۲-۳- محمد العظم ولد محمد رمضان ۵۷۹ محمد رشید ولد مستری محمد یعقوب ۶۰۴- غلام مرتضی ہائی سکول ۵۸۰ - عبد الغفار ولد شادی خان ۶۰۵.ماسٹر عبد الکریم والد میان خیر الدین ۵۸ - مبارک احمد ولد مولوی صالح محمد خان ۲۰۶ ر مشتاق احمد شیخو پوره ۵۸۲- محمد شفیع و لد چوہدری وزیر خان 4.6 ۶۰۰ مقبول احمد ولد رحیم بخش ۵۸۳ - اللہ بخش زراعت ماسٹر ۵۸۴ عبد الحکیم ۵۸۵ - منصور احمد ابن بی ٹی صاحب ۶۰۸- عبد اللطیف ولد نیک محمد خان مدرسہ احمدید ۶۰۹ - مرتل احمد ولد ڈاکٹر فضل غفور جالندھر ۶۱۰ - عبد العزیز ولد چوہدری احمد دین چک 99 ۵۸۶ - منیر احمد ولد ڈاکٹر شاہنواز ہائی سکول ۶۱ محمود احمد ولد عبد الستار دوالمیال ۶۱۲ - منور احمد ولد عبد اللطيف سمر سدة ۵۸۷ - عبد الرحمن ۵۸۸ - ماسٹر عبدالقدیر صاحب ۵۸۹ - عبد اللطیف فر ۵۹۰ - غلام احمد ۵۹۱ نجم الدین ۶۱۳ - نثار احمد ولد محمد سعید چنیوٹ ۶۱۴ - رب نواز ہائی سکول ۰۶۱۵ چنیوٹ مدرسہ احمدیہ ۶۱ - نواب دین ولد عبد الله چوہدری برکت علی صاحب وکیل المال ۶۱۷ محمود احمد صاحب بی.اسے قائد ملت قدام الاحمد یا ہو ۱ شیخ محمدام منابر اور شیخ بشیر احمد نا امیر جماعت لاہور ۶۱۹ - مولوی خورشید احمد صاحب شاه واقف زندگی ہائی سکول ۵۹۲ - سکندر علی ۵۹۳ - محمد علی دیہاتی مبلغ