Language: UR
سیدنا المصلح الموعود ؓ کی ہجرت پاکستان سے لیکر مارچ 1948ء کے یادگار اور عظیم الشان جلسہء لاہور تک کے ایمان افروز واقعات۔(پرانے ایڈیشن کے مطابق جلد 11)
تاریخ احمدیت جلد یازدهم سیدنا صلح الموعود کی ہجرت پاکستان سے لیکر امان رماتی پینے کے یادگار اور عظیم الشان جلسہ لاہور تک کے ایمان افروز واقعات.دوست محمد شاہد ناشر ادارة المصفين.ربوة
تاریخ احمد بیت جلد دہم مولا نا دوست محمد شاہد 2007 : 2000 : نام کتاب مرتبہ طباعت موجودہ ایڈیشن تعداد TAAREEKHE-AHMADIYYAT (History of Ahmadiyyat Vol-10 (Urdu) By: Dost Mohammad Shahid Present Edition : 2007 © Islam International Publication Ltd.Published By: Islam International Publications Ltd.Islamabad, Sheephatch Lane Tilford, Surrey GU10 2AQ United Kingdom Printed at: Raqeem Press, Islamabad, Tilford (U.K)
بسم اللہ الرحمن الرحیم پیش لفظ اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں داخل فرماتے ہوئے اس زمانہ کے مصلح امام مہدی و مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے کی توفیق عطا کی.قرونِ اولیٰ میں مسلمانوں نے کس طرح دُنیا کی کایا پلٹ دی اس کا تذکرہ تاریخ اسلام میں جا بجا پڑھنے کو ملتا ہے.تاریخ اسلام پر بہت سے مؤرخین نے قلم اٹھایا ہے.کسی بھی قوم کے زندہ رہنے کیلئے اُن کی آنے والی نسلوں کو گذشتہ لوگوں کی قربانیوں کو یا درکھنا ضروری ہوا کرتا ہے تا وہ یہ دیکھیں کہ اُن کے بزرگوں نے کس کس موقعہ پر کیسی کیسی دین کی خاطر قربانیاں کی ہیں.احمدیت کی تاریخ بہت پرانی تو نہیں ہے لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے الہی ثمرات سے لدی ہوئی ہے.آنے والی نسلیں اپنے بزرگوں کی قربانیوں کو ہمیشہ یادرکھ سکیں اور اُن کے نقش قدم پر چل کر وہ بھی قربانیوں میں آگے بڑھ سکیں اس غرض کے مد نظر ترقی کرنے والی قو میں ہمیشہ اپنی تاریخ کو مرتب کرتی ہیں.احمدیت کی بنیاد آج سے ایک سو اٹھارہ سال قبل پڑی.احمدیت کی تاریخ مرتب کرنے کی تحریک اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دل میں پیدا فرمائی.اس غرض کیلئے حضور انور رضی اللہ عنہ نے محترم مولا نا دوست محمد صاحب شاہد کو اس اہم فریضہ کی ذمہ داری سونپی جب اس پر کچھ کام ہو گیا تو حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی اشاعت کی ذمہ داری ادارۃ المصنفین پر ڈالی جس کے نگران محترم مولانا ابوالمنیر نور الحق صاحب تھے.بہت سی جلد میں اس ادارہ کے تحت شائع ہوئی ہیں بعد میں دفتر اشاعت ربوہ نے تاریخ احمدیت کی اشاعت کی ذمہ داری سنبھال لی.جس کی اب تک 19 جلدیں شائع ہو چکی ہیں.ابتدائی جلدوں پر پھر سے کام شروع ہوا اس کو کمپوز کر کے اور غلطیوں کی درستی کے بعد دفتر اشاعت ربوہ نے
اس کی دوبارہ اشاعت شروع کی ہے.نئے ایڈیشن میں جلد نمبر 1 کوجلد نمبر ۱۰ بنایا گیا ہے.حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے قادیان سفر کے دوران تاریخ احمدیت کی تمام جلدوں کو ہندوستان سے بھی شائع کرنے کا ارشاد فرمایا چنانچہ حضور انور ایدہ اللہ کے ارشاد پر نظارت نشر و اشاعت قادیان بھی تاریخ احمدیت سے مکمل سینیٹ کو شائع کر رہی ہے ایڈیشن اول کی تمام جندوں میں جو غلطیاں سامنے آئی تھیں ان کی بھی تصحیح کر دی گئی ہے.موجودہ جلد پہلے سے شائع شدہ جلد کا عکس لیکر شائع کی گئی ہے چونکہ پہلی اشاعت میں بعض جگہوں پر طباعت کے لحاظ سے عبارتیں بہت خستہ تھیں اُن کو حتی الوسع ہاتھ سے درست کرنے کی کوشش کی گئی ہے.تاہم اگر کوئی خستہ عبارت درست ہونے سے رہ گئی ہو تو ادارہ معذرت خواہ ہے.اس وقت جو جلد آپ کے ہاتھ میں ہے یہ جلد دہم کے طور پر پیش ہے.دُعا کریں کہ خدا تعالیٰ اس اشاعت کو جماعت احمد یہ عالمگیر کیلئے ہر لحاظ سے مبارک اور بابرکت کرے.آمین.پبلشر
1 بي الله الرحمن الرحيم وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيمِ محمده ونصلى عَلَى رَسُولِيه الكرني تاریخ احمدیت کی گیارھویں جلد ارقه فرمول ها مکرتر و میتر و چوهدری محمد ظفر اللہ خانصاحب) امسال ادارۃ المصنفین کی طرف سے تاریخ احمدیت کی گیارھویں جلد شائع ہو رہی ہے.یہ جلد جماعتِ احمدیہ کے پاکستانی دور سے شروع ہوتی ہے جس میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ کن حالات میں احمدیت کا قافلہ اپنے مرکز سے ہجرت کر کے پاکستان میں داخل ہوا اور کس طرح حضرت مصلح موجود خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اکھڑے ہوئے باغ کے درختوں کو اس طور پر پھر لگا دیا کہ وہ سب درخت اپنا پھل دینے لگ گئے اور بہار کا سماں پیدا ہو گیا جیسا کہ ہم میں سے ہر ایک مشاہدہ کر رہا ہے.حضرت مصلح موعود ہجرت کے بعد جونی لاہور وارد ہوئے حضور نے جماعت کی تنظیم کو قائم کرنے کے لئے صدر انجمہ احمدیہ پاکستان اور کرنا ہے امین احمدیہ پاکستان کی بنیا د قائم کی اور اس طرح سے سامنے ادارت قائم ہو کر اپنے اپنے طور پر کام کرنے لگ گئے اور تباعت کی تنظیم بحال ہو گئی.قادیان سے احمدی آبادی کا انخلاء اور پھر پاکستان میں وارد ہونے کے بعد ان کے ٹھہرانے اور ان کی آبادکاری کا عظیم کام تصور کی توجیہ اور الفیل سے ایسے طور پر ہوا کہ چین تکالیف کا دوسر سے لوگوں کو سامنا کرنا پڑا اُن سے بہت حد تک جامعت محفوظ رہیں.اور پھر حضور کی جد و جہد ت شناخت کے عظیم مرکز ربوہ کی بنیاد پڑی اور تبلیغ اسلام کا کام پہلے سے بڑھ کر جوش سے ہونے لگ گیا اور اب اس نئے مرکز سے شب و روز اسلام کے مبلغ اور اس کے متاری بیرون پاک کا ان جا رہے ہیں اور کامیابی و کامرانی کے ساتھ واپس لوٹتے ہیں.اور بیرونجات کی احمدی جماعتوں کے افراد مرکز میں پہن کر تانہ گیا ایمانی سے نشانات دیکھتے ہیں.سیار نا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ جب پاکستان پہنچے تو حضور نے ہجرت کے وقت کی مشکلات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جب حضر تشبیح موعود علیہ السلام لاہور میں فوت ہوئے اُس وقت میری شادی تو ہو چکی تھی
لیکن بچہ کوئی نہ تھا.ایک بچہ ہوا تھا جو چھوٹی عمر میں ہی فوت ہو گیا.اُس وقت میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے سرہانے کھڑے ہو کر یہ عزم کیا تھا اور خدا تعالیٰ کے سامنے قسم کھائی تھی کہ اگر جماعت اس انتہائی کی وجہ سے فتنہ میں پڑھائے اور ساری ہی جماعت مرتد ہو جائے تب بھی میں اس صداقت کو نہیں چھوڑوں گا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لائے، اور اُس وقت تک تبلیغ جاری رکھوں گا جب تک وہ صدر رہتے دنیا میں قائم نہیں ہو جاتی.شاید اللہ تعالیٰ مجھ سے اب ایک اور عہد لینا چاہتا تھا.وہ وقت میری جوانی کا تھا اور یہ وقت میرے بڑھا پہلے کا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے کام کرنے کے لئے جوانی اور بڑھا پے میں کوئی فرق نہیں ہوتا، جس عمر میں بھی انسان اللہ تعالیٰ کے کام کے لئے کھڑا ہو جائے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کو برکت مل جائے اسی عمر میں وہ کامیابی اور کامرانی حاصل کر سکتا ہے.لاہو رہی تھا جس میں میں نے وہ عہد کیا تھا اور یہاں پاس ہی کیلیا نوالی سڑک پر وہ جگہ ہے.شاید یہاں سے ایک لکیر کھینچی جائے تو وہ جگہ اسی کے محاذ میں واقع ہو گی.بہر حال اسی لاہور اور ویسے ہی تاریک حالات میں میں اللہ تعالیٰ سے توفیق چاہتے ہوئے یہ اقرار کرتا ہوں کہ خواہ جماعت کو کوئی بھی دھکا لگے ہیں اس کے فضل اور اس کے انسان سے کسی اپنے صدمہ یا اپنے دکھ کو اس کام میں حائل نہیں ہونے دونگا بفضلہ تعالی و توفیقہ و تبصرہ) بی خدا تعالیٰ نے اسلام اور احمدیت کے قائم کرنے کا میرے سپرد کیا ہے.اللہ تعالیٰ مجھے اس عہد کے پورا کرنے کی توفیق دے اور اللہ تعالے اپنے فضل و کرم سے میری تائید فرمائے.یا وجود اس کے کہ میں اب عمر کے لحاظ سے ساٹھ سال کے قریب ہوں اور ابتلاؤں اور مشکلات نے میری ہڈیوں کو کھوکھلا کر دیا ہے پھر بھی میرے حتی وقیوم خدا سے بعید را نہیں.امید کرتا ہوں کہ وہ اپنے فضل و کرم سے میرے مرنے سے پہلے مجھے اسلام کی فتح کا دن دکھا ر ہے ہی.یہ وہ عہد ہے جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ابتدائے ہجرت میں کیا.اور پھر اس عہد کو میں طرح نہا ہا یہ جلد اور آئندہ جلادیں اس کی تفصیل ہیں.جماعت کے نوجوانوں کو خاص طور پر اس جلد کو اور انگلی جلدوں کو زیر مطالعہ لانا چاہیے تاکہ ان کے اندر احمدیت کی تبلیغ کا وہی جوش پیدا ہو اور قائم رہے جس کی حضرت مصلح موعود خواہش رکھتے تھے.وبالله التوفيق ؟ والسلام لی ظفر اللہ خان پیاده خاکسار
سم الرحيم.حمده ونصلى على رسوله الكريم وعَلَى عبدة المسيح الموعود پیش لفظ محض اللہ کے فضل اور اس کی توفیق سے ادارۃ المصنفین کی طرف سے امسالی احباب کی خدمت میں تاریخ اصریت کی گیارہویں جلد پیش کی جارہی ہے.اور میں تقسیم ملک کے بعد بود اقعات مرکز احمدیت میں رونما ہوئے.اس جلد میں ان کا تفصیل سے ذکر ہے.اسی طرح سے ہجرت کے بعد حضرت الصلح الموعود خلیفہ البیع الثانی رضی الله عنه نے جس عزم اور بہادری کے ساتھ جماعت کے نظام کو قائم فرمایا اور استحکام پاکستان کے لئے بے نظیر جہاد کیا اس کا بھی شرح وبسط سے ذکر کیا گیا ہے.خدا کے فضل سے ربوہ مرکز احدیت اس وقت ایک بڑا شہر بن چکا ہے اور اس میں وہ تمام سہولتیں ہیں میستر ہیں جو ایک شہری کو میسر آنی چاہئیں.یہ سب حضرت الصلح الموعود کے عزم اور ہمت کا کرشمہ ہے.جن حالات میں ربوہ کی زمین خریدی گئی اور پھر اس کے حصولی کے لئے جو جدو جہدکی گئی وہ سب مفصل طور پر اس تاریخ میں بیان ہے.احباب جماعت سے التماس ہے کہ وہ اس جلد کا خود بھی مطالعہ فرما دیں اور اپنے عزیزوں اور دوستوں کو بھی مطالعہ کی تحریک فرمائیں.مکرم مودا تا دوست محمد صاحب قابل شکریہ ہیں کہ انہوں نے دن رات ایک کر کے اس جلد کے مضمون کو تیار کیا.اللہ تعالی انہیں جزائے خیر دے.اور ان کو اپنی برکات سے نواز ہے.اسی طرح نہیں اپنے ان تمام دوستوں کا شکریہ ادا کر تا ہوں جنہوں نے کسی نہ کسی رنگ میں کتاب کی طباعت میں مدد فرمائی.نجز اہم اللہ احن الجزاء اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہماری سعی کو قبول فرمائے اور اپنی جنا ہے ابر عظیم عطا فرمائے.آمین ؟ خاکسار والسلام نکار البو المنير ثور الحق مینجنگ ڈائریکٹر دار المصنفین رابوه 161/
فہرست مضامین تاریخ احمدیت جلد یازدهم " عند ا برود عنوان دیانه تحریه و محمد چوہدری محمد ظفرالله خالص احمد امامت فنڈ کی برکت سے ہزاروں احمدیوں کا عالی انتخام بہ پہلا باب سید نا حضرت مصلح موعود کی ہجرت پاکستان لوائے احمدیت کا پاکستان میں منتقل کیا جانا حضرت مصلح موعود کا پاکستان میں پیں خطبہ جمعہ اور تنقیل احمدیت سے متعلق پر تولت پیشگوئی ۳۹ صدر انجین احمدیہ پاکستان اور تحریک تجدید انجمن مدیر ستمیر کی اہم مشاورت میں اہم جماعتی فیصلے م م پاکستان کی بنیاد.قادیان سے احمدی آبادی کے ریڈیو پاکستان سے قادیان کی خبروں کا منتشر کیا جانا تجلی و اور مہاجرین کے ٹھہرانے اور آباد کرنیکا انتظام صدر انجمن حمدیہ پاکستان کا پہلا باضایط دفتر الیاس مرکز احدیت قادیان کے المناک واقعات اور اس کی جلیٹن کی اشاعت اور لنڈن سیشن کو روزانہ اطلاعات حفاظت کے لئے بیرونی جد و جہد.تا ریخ احمدیت کا نانزک ترین موڑ بھجوانے کا انتظام فصل دوم حضرت مصلح موعود کا عہد ہجرت قادیان کے وقت پاکستان سے روز نامہ المفضل کا انجمرا عد ہجرت کے وقت ناخوشگوار ماحول سید نا الصلح الموعود کا عہد مسجد احمدیہ لاہور میں فصل اول سید نا اصلح المولود کے بلند پایہ مضامیں بعض کے اداریہ میں قادیان کی احمدی آبادی کے انخلاء کی جد و جہد احمدی خواتین کی حفاظت کا نہایت شاندار کارنامہ ۵۱ 4 ۵۴ ۶۸ A 24 جود تھال بلڈنگ میں اجلاس در صدر انجمن اور یہ پاکستان کی بنیاد قادیان کی جماعت کا بحفاظت پاکستان میں آنا جود عالی بلڈنگ میں دو خانہ کا قیام رتن با ریخ کی مرکزی حیثیت - رتی باغ میں مشاورتی مجلس کا با قا عدہ سلسلہ 10 خدا تعالی کی طرف سے ایام کہ سب دہلا میں احمدیوں کے ساتھ مقیانہ ہی سلوک دہلی اور سٹروعہ کے احمدی شہداء انجمن احمدیہ پاکستان کی بے پناہ مشکلات اور انکا اصل ۲۹ سلم مہاجرین کی آبادکاری کیسے قیمتی اور ابہ تھا دیز صدراین ہ کا بحیث اور پاکستان میں ابتدائی ایام کی آمدنی ۳۵ لاہور میں امین انصار اسلمین کا قیام اور مشرقی پنجا سکے
عنوان مسلمانوں کی صورت حال سے متعلق اشتہار مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کی کامل بربادی کے سامان صفحہ عنوان Ab فصل بینم حضرت صلح موعود کی ہجرت پاکستان کے بعد قادیان اور مسلمانان پاکستان میں اتحاد تنظیم اور قربانی کی رودر اس کی ماحول کے دردناک حالات.پیدا کرنے کی تحریک فصل سوم منظم طریق مہاجر احمدیوں کو ملک میں باد تا را از منظم طریق سے قا بسانے کی ملک گیر کو شیشی آبادی در حفاظت مرکز کے انتظام اس کے مختلف پہلو ^4 40 احمدی مہاجرین کے لئے کمیلوں لحافوں اور تو شکوں 99 کی خاص تحریک حضرت مرزا البشیر احمد احد کے دو اہم مکتوب روز نا مهر قادیان از یکم تیر را در رو به راننده قادیان پر حلہ اور خونریز جنگ کی واضح تفصیلات سید نا المصلح الموعود کا پہلا اہم مضمون دوسرا اہم مضمون.تیسرا اہم مضمون سید نا صلح الموعود کے خطبہ جمعہ مں شہدائے قادیان کا احمدی مہاجرین کے معاشی و تنظیمی مسائل حل کرنے کیلئے وفود ۱۴ درد انگیز ذکر - قادریان کی امانتوں کالا ہورمیں لانے کا انتظام کو الف قادیان سے متعلق سید نا اصلح الموعود کی قسیم ہند کے بعد بھارت اور پاکستان میں مبلغین پریس کانفرنس.احمدیت کے نظام عمل پر ایک نظر.قادیان سے دفاتہ کا عملہ.ریکارڈ اور دستاویزات ۱۰۹ منگوانے کا پہلا مرحلہ.فصل چهارم مرکز احمدیت کی حفاظت کے لئے مخلصین جماعت کا ۱۱۴ قابل رشک مظا ہرہ.صفحہ قادیان پر جبر و تشدد کے متفرق خونی واقعا کے جامع نقشہ فصل ششم 16.106 141 Al 140.١٩٣ 140 قادیان کے امنا و الفت اور جماعت صمدیہ کی ۲۱۹ مظلومیت در ملی خدمات کا پر چاعالمی پریس میں.پاکستانی اخبارات و کتب بھارت کے اختیارات ا ا ا ا ا ا ا ا ابا عاما در بیان خاصا جزبات برما کے اخبارات بیژن قادیان کے احمدیوں کی مرکز احمدیت سے بے پناہ عقیدت.سلم ایمان کے اختبارات ارجنٹائن کے اخبارات ۲۱۹ ۲۵۹ ۲۲۰ ۲۶۱ ۲۶۴ سیدنا الصلح الموعود کا ایک پر جوش اور ولولہ انگیز ۱۳۷ بر طانوی اخبارات مضمون اور اس کا اثمہ.۲۲۵
صفحه عنوان فصل هفتم پاکستان میں قیام امن کے لئے لے لوث خدمات حضرت عنوان سفارتی تعلقات قائم کرنے کی تحریک.۲۰ پاکستانی فوج میں اضافہ اور پاکستانی جنین مقریری ۳۰۳ مصلح موعود کی مخلصانہ اہل گاندھی جی سے ۲۷۹ کر نے کا مشورہ تحریک جدید صدرانجمن احمدیہ پاکستان کا قیام اور دفاع پاکستان کے لئے ڈیو ریل فورس اور رجسٹریشن فصل هشتم فوجی کلبوں کے اجراء کی مفید تجویز.ملکی پریس کو صحیح خبر میں شائع کرنے کی تلقین مرکز پاکستان کی مخاطر زمین خریدنے کے لئے کارخانے جلد جاری کروانے کا مشورہ کامیاب کوشش - موزوں جگہ کی تلاش سید نا حضرت مصلح موعود کا سفر نے مرکز کی مجوزہ زمین ملاحظہ فرمانے کے لئے.YAY ڈپٹی کمتر صاحب ضلع جھنگ کے نام خرید اراضی ۲۸۹ کے لئے درخواست.سپریم کمانڈ کے توڑنے کی مخالفت اسلامی جمہوریت کے تقاضوں کے مطابق بعض فوری آئینی تبدیلیاں کرنے کا مطالبہ پاکستان کا نظام حکومت اسلامی ہونا چاہیئے.فصل دوم کشمیرو فلسطین کے مسائل میں گہری دیپی اور شید اراضی کے لئے دفتری کاربر دائی کی تفصیلات ۲۹۲ مدیرانہ مشور ہے.قیمت اراضی کا ادخال اختبارات میں گمراہ کن پروپیگنڈا نا ظر امور خارجہ کا تر دیدی بیان حکومت مغربی پنجاب کا اعلان اراحتی بچه با ضابطه قبضه دوسرا باب فصل اول.۳۱۳ ۳۱۶ ۲۹۳ کثیر کو ہر قیت پر پاکستان میں شامل کیا جائے.۳۲۴ ۲۹۲ ( حضرت مصلح موعود کا بیان.۲۹۵ مسئلہ کشمیر کے فوری حل کیلئے انفصل می معیت معنون ۲۲۲۴ میں مونٹ بیٹن کی الماری کشمیر سے متعلق دیہ مینہ سازش ۲۹۵۰ کا انکشاف - مجاہدین کشمیر کے لئے اپیل ۳۳۰ مسئلہ کشمیر سے متعلق شرائط صلح کے خلاف احتجاج ۳۳۲ انه ام مسئلہ فلسطین کے متعلق سیدنا حضرت مصلح موعود ۱۳۳۳ حضرت مصلح موعود کی راہنمائی پاکستان کے داخلی مسائل میں ۲۹۹ کے دو معرکۃ الآرا مضامین.انڈونیشیا.اپنے سینیا اور سعودی حکومت سے جماعت احمدیہ کے لئے بعض خاص ہدایات لم
عنوان مقحم عنوان احمدیوں کو ملی دفاع کیلئے فوجی فنون سیکھنے کی تلقین ۳۳۴ درویشان نمبر کی تنظیم کا ایک خاکہ - ذکر الہی کی تحریک مہا جرین کو تو گلا نہ نہ ندگی بسر کر نے کا ارشاد ورسم اسرا صد را نجمین احمدیہ قادیان کے اولین ممبران عم انہ کے اولین خوش نصیب درویشوں کی فہرست اشاعت اسلام کیلئے فقیرانہ زنگ پیدا کرنے کی ہدایت ۳۲۶ صدر انجمن احمدیہ و تحریک جدید قادیان کے قرآن کریم سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کا فرمان.۳۳ ممبر یا کارکن.محبت قادیان کے جذبہ کو اپنے مقصد میں روک نہ ۲۲۸ قادیان کے دوسرے مقامی احمدی ویراتی مبلغین بننے دیں.مخلصین احمدیت کی طرف سے اخلاص و قربانی کی شرح ۳۳۹ مستقل مزام کا مظاہرہ.فصل سوم.قادیان کو احمدیوں سے خالی کرانے کے لئے سول اور فوجی افسروں کی الزام تراشیاں بیرونی خدام در ویشان قادیان کی قابل رشک نہ زندگی.الم صاحبزادہ مرنز اظفر احد منا کا ایک قابل قدر نوٹ صفحہ ۳۹۹ ۳۳ ۳۸۰ حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی کی چشم دید شہادت ۳۹۰ قادیان میں مخصوص صدی آبادی سے متعلق ایک اہم ۳۲۷ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا ایک (۳۹۳ میٹنگ جامع نوٹ.حضرت سیدنا المصلح الموعود کا فیصلہ م مراسم سارا در دلیٹوں کے انتخا کیا اولین مرحلہ ۳۴۹ در دلشان قادیان کوغیر ی کا زبردست خراج تحسین.فصل چهارم قادیان میں احمدی آبادی کی حدود کیلئے گفتگوار سمجھوتہ الله سلام ر صفر من جماعت احدید کی تقبیل از تقسیم انگاری صغیر ۳۹۳ احمدی محلہ کی حد بندی سے لیکر ۱۶ نومبر کے آخری ۳۵۳ قادیان کی مرکزی درسگاہوں کا پاکستان میں احیاء ۴۰۳ کنواٹے تک کے بعض کو اٹھت.- مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ کے عارضی دفتر کا قیام در و ایشان قادیان کے لئے زہر میں ہدایات اور اہم فیصلے ۳۵۶ فصل پنجم حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا مفصل مکتوب قادیان ۳۶۲ حضرت مصلح موعود کے کچھ نہایت بصیرت افروز اور معلومات افترا لیکچر پاکستان اور اسکا مستقبل کے آئندہ نظام عمل سے متعلق.ر نومبر کے آخری کنوائے کی روانگی کا رقت انگیر منظر شہر درویشی کا آغا نہ r44 کے اہم کو مضوع پر ۳۶۸ نیچروں کے موضوعات ۴۰۵ وم
عنوان صدارت کرنے والی شخصیتیں عنوان صفحہ ۲۰۰ لاہور کے جلسہ میںحضرت مصلح موعود کا پر مین انتخاب ۴۳۷ علمی طبقہ کی طرف سے نہ بر دست خراج تحسین ۲۰۰ و دسرے بزرگوں اور فاضل مقرروں کی اہم تقریریں ۴۳۸ دور سینچر تیسرا لیکچر چوتھا لیکچر پانچوالی لیکچر الم دوسرے دن کا پہلا ایلاسس ۱۵م دوسرے اجلاس میں حضرت مصلح مو جو د کی ۳۲۱ معرکة الآراد تقریر - سم الم ۳۵۳ ۴۲۲ پاکستان کو اسلامستان کی سیڑھی بنانے کے ۴۵۵ ۳۳۳ عزم کا پر شوکت اعلان.پھٹا لیکچر دستور اسلامی یا اسلامی آئین اسامی ۴۲۵ محصور کی تقریر کا پریس میں ذکر ۴۵۷ اسلامی نظام اقتصادی تمر مرام علی جلسہ کے پروگرام کا تمر مجلس مشاورت مساوات رکھنے کا اسلامی نظام ۳۴ ان کے موقع پر ہ ۴۵۸ اسلامی احکام کی خصوصیات ۳۱۳۳ حضرت سید نا المصلح الموعود کی اختصاصی تقریب ۳۵۸ فصل ششم مزدوروں کے متعلق احکام اسلامی ۴۳۶ حضرت مصلح موعود کی دوسری در درج پر در نظریه - ۴۶۰ شہد درویشی کا پہلا کیس ہر سال تو اہور میں مجلس مشاورت اور علی جلسہ سالانہ کے انعقاد کا فیصل مجلس مشاورت در تن بارغ ) ۳۳۷ حضرت مصلح موعود کے چار اہم.غیر مطبوعہ ه ام ام ۴۴ مکتوب - نایاب تصاویر ا المصلح الموعود کی الوداعی دعا قادیان کے لئے قافلہ پاکستان کی روانگی پر معانات قادیان کے مسلمانوں پر مظالم کے دردناک مناظر ۲۰۰۳ ستمبر امر کو مویشیوں کی لوٹ - حضرت مصلح موعود کی رین باری سے خطبہ جمعہ کے لئے روانگی ه - حضرت مصلح خطبہ جمعہ ارشاد فرما رہے ہیں.مجلس مشاورت یا اللہ ہی کے دو بنا نظر.یہ - جلسه امان از مارچ اللہ ہی کے چار روح پر در مناظر ا محدد صفحه 1 م عدد مسلم برگر ا کیلئے " کتابت : محمد ارشد کاتب ربود
حضرت امیر المؤمنین خلیفة المسح الثاني المصلح الموعود جلسہ سالانہ قادیان کے لئے قافلہ پاکستان کی روانگی پر جودھامل بلڈنگ کے سامنے پرسوز دعا کرا رہے ہیں.۲۵ فتح ۱۳۲۸اهش بمطابق ۲۵ دسمبر ۱۹۴۹ء)
جماعت احمدیہ کے پاکستانی دور کا آغاز
سم الله الزمن الرحية، نحمده ونصلى عَلَى رَسُول الكريم الرَّحْمَنِ الرَّحِيمُ، ويَ عَبْد المسيح الموعود پہلا باب سید ناصہ مصیل مواد کی بہتے پاکستان اور مقدس عبہت را صد اتمی احمدیہ پاکستان اور ایک بیان من لم یہ پاکستان کی نیا قلیان احمدی آبادی کے انخلاء اور مہاجرین کے ٹھہرانے او آبادکرنے کا انتظام مرکز احمد نیت قادیان کے المناک اور خونچکاں واقعات اور اس کی خلیات کے لئے بیرونی جدوجہد - تاریخ احمدیت کا ناک ترین موا اور اس کا سلسلہ جومی کے پاکتانی اگست دن احمدیہ دور کا نقطہ آغاز اور اس کی ابتدائی اٹھاون سالہ قومی تاریخ کا اپنی نوعیت کے اعتبار سے نازک ترین موڑ ہے کیونکہ (جیسا کہ پچھلی جلد میں ذکر آچکا ہے) یہی وہ دن ہے جس میں قافلہ احمدیت کے موعود اور آسمانی قائد سید نا حضرت اقدس امیر المومنین
خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ نے قادیان دار الامان سے پاکستان کی نوزائیدہ مسلم مملکت کی طرف ہجرت فرمائی.حضور سوا بجے دوپہر حجتہ اللہ حضرت نواب محمد علیخاں صاحب کی کوٹھی دار السلام" سے روانہ ہوئے اور ساڑھے چار بجے شام بخیریت شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت لاہور کی کوٹھی ( واقع ۳ ٹمپل روڈ) میں پہنچے.اور اس طرح تحریک احمدیت کا دور جدید مشروع ہوا.جیسا کہ حضور نے خود ارشاد فرمایا :- آج ہر احمدی سمجھ لے کہ اب حدیث پر ایک نیا دورہ آیا ہے مذاہب عالم کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ انبیاء کی جماعتوں کے ساتھ ہجرت --- ایک لازمی چیز رہی ہے لیکن جماعت احمدیہ کو اس بارے میں دو خصوصیتیں حاصل ہیں.(1) اس ہجرت سے قریباً ترین برس قبل ۸ ۱ ستمبر ۱۹۹۴ کو حضرت مسیح موعود و مہدی مسعود پر داغ ہجرت “ کا الہام نازل ہوا جس میں ہجرت کی واضح خبر دی گئی تھی.(۲) اس خبر میں ہجرت کے لئے "داغ" کا پر حکمت لفظ اختیار کیا گیا تھا جو اُردو زبان میں زخم ، گھاؤ ، جراحت اور رنج اور صدمہ کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے.جس میں یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ جماعت احمدیہ کو اپنے دائمی مرکز - قادیان - سے جن حالات میں ہجرت کرنا پڑے گی وہ نہایت ہی خوفناک، پُر آشوب اور تکلیف دہ ہوں گے.چنانچہ سچ مچ ایسا ہی وقوع میں آیا ۴ار اگست ۹۴۷ کو پاکستان کا قیام ہوا اور ساتھ ہی پورا ہندوستان خصوصاً مشرقی پنجاب ہندو مسلم فسادات کی آماجگاہ بن گیا اور رفتہ رفتہ قادیان اور اس کے گرد و نواح میں بھی فسادات کے شعلے اٹھ کھڑے ہوئے اور مظلوم اور نہتے مسلمانوں کا قتل عام ہونے لگا.حضرت خلیفتہ المسیح الثاني المصلح الموعود نے اللہ تعالے کی عطا کر وہ حیرت انگیز فراست و ذہانت سے ان تشویشناک حالات کے ہولناک نتائج کا جائزہ لیا اور سب سے پہلے جماعت کا مرکزی خزانہ بذریعہ ہوائی جہانہ پاکستان منتقل کر دیا.اور بعد ازاں حضرت ام المومنین اور خواتین مبارکہ کو بسوں کے ذریعہ لاہور بھجوا دیا کوالا له الفضل " دار امضاء / اکتوبر ۱۳۳۶ ش صفحه ۲ کالم ۳-۴ به لے " تشمی الا زبان “ جون جولائی منشاء صفحہ ۱۴ ، " بولو آف ریلیجنز اردو جون ۱۹۱۳ صفحه ۲۲۳." فرہنگ آصفیہ" زیر لفظ " داغ " اور
بالاآخر جب خطرہ براہ راست قادیان کی آبادی پر منڈلانے لگا اور حالات لحظہ لحظہ زیادہ بگڑتے نظر آنے لگے تو حضور رضی اللہ عنہ جماعت احمدیہ کے سر بر آوردہ اور ذمہ وار اصحاب کے مشورہ.پاکستان تشریف لے آئے.حضرت محمود کا عہد قادیان سے ہجرت کے وقت حضرت علی موعود نے کادیان سے پاکستان کی طرف روانہ ہوتے وقت ایک نہایت اہم عہد کیا ہو حضور کے مبارک الفاظ میں درج ذیل کیا جاتا ہے.فرماتے ہیں :- قادیان کے چھوٹ جانے کا صدمہ لازماً طبیعتوں پر ہوا ہے.میری طبیعت پر بھی اس صدقہ کا اثر ہے لیکن میں نے جب قادیان چھوڑا یہ عہد کر لیا تھا کہ میں اس کا غم نہیں کرونگا میری ایک لڑکی کے ابھی بچہ پیدا ہوا تھا.اس کی تھوڑا ہی عرصہ ہوا شادی ہوئی تھی اور ایک سال کے اندر ہی اس کے بچہ پیدا ہوا تھا.ان کی ماں وفات پا چکی تھی وہ میر پاس رخصت ہونے کے لئے آئی اور اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے.میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا خاموش رہو یہ وقت رونے کا نہیں بلکہ یہ وقت کام کا ہے.چنانچہ میں نے اس عہد کو سختی سے نبھایا ہے.بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ یوں معلوم ہوتا تھا میرا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا.مگر میں سمجھتا ہوں کہ جب میں ایک عزم کو چکا ہوں تو میں اس عزم کو آنسوؤں کے ساتھ کیوں مشتبہ کو دوں.ہم اپنے آنسوؤں کو روکیں گے یہاں تک کہ ہم قادیان کو واپس لے لیں“ سے انحضور نے جب سر زمین پاک میں قدم رکھاتو ملکی اقول ہجرت کے وقت ناخوشگوار ماحول بالقادسے باہر ہو چکا تھا سیاسی صورت حال نہایت تیزی کے ساتھ نازک سے نازک تر ہوتی جا رہی تھی اور پورا بر صغیر فتنہ و فساد کے شعلوں کی پیسٹ میں آچکا تھا.خصوصاً مشرقی پنجاب کا علاقہ ایک وسیع قتل گاہ کی صورت اختیار کر گیا تھا جہاں دشمنان اسلام مسلمانوں کے لئے دوسرا پین بنانے کا خونی منصوبہ باندھ چکے تھے اور مسلمانوں کو ہمیشہ کے لئے صفحہ ہستی سے مٹانے پر تلے ہوئے تھے.روزانہ سینکڑوں ہی نہیں ہزاروں نہتے مسلمان له الفضل در احسان جون مش صفحه ۴ - ۵ کالم ۴-۱ +1409 +
نہایت درجہ سفا کی بے ہمی بلکہ درندگی سے تہ تیغ کئے جارہے تھے مسلمان عورتوں کی عصمت دری اور ان کے ساتھ شرمناک سلوک کے صبح شام بے شمار واقعات پیش آرہے تھے اور ان کے سامنے ان کے معصوم اور شیر خوار بچوں کو تلواروں، نیزوں اور کرپانوں سے ذبح کیا جا رہا تھا.غرض اسلام کے نام لیواؤں پر ہر سو ایک قیامت برپا تھی ، ایک حشر ٹوٹ رہا تھد ظالموں کی چیرہ دستیوں سے بیچ نکلنے والے مظلوم مسلمان یا کیمپوں میں جمع ہو چکے تھے یا لٹے پٹے قافلوں کی صورت میں پاکستان کا رخ کئے ہوئے تھے.اگتے دیکتے مسلمانوں کا تو کوئی ٹھکانہ ہی نہ تھا !! جہانتک تحصیل بٹالہ بالخصوص قادیان کا تعلق ہے.اس کے قرب و نواح میں بسنے والی بہت سی مسلمان ہستیاں اُجڑ چکی تھیں اور ہزاروں نہتے اور مفلوک الحال مسلمان اپنا گھر بار اور ساز و سامان چھوڑ کر نہایت درجہ کس مپرسی اور پریشان حالی کے عالم میں قادیان میں پناہ گزین ہو چکے تھے.اور سکھوں کے شوریدہ سر مجھے جن کو خون مسلم کی چاٹ لگ چکی تھی فوج اور پولیس کی پشت پناھی میں ایک سوچی کبھی سکیم کے مطابق قادیان کا محاصرہ کئے ہوئے تھے اور اس پر حملہ کرنے کی در پر وہ نہایت خوفناک تیاریاں کر رہے تھے اور ماحول قادیان میں مسلم آبادی کا مکمل خاتمہ کرنے کے بعد وہ جلد از جلد اپنی اس ناپاک سازش کو پایہ تکمیل تک پہنچا دینا چاہتے تھے اور اپنے بے پناہ مادی سامانوں اور ظاہری تدبیروں کے بل بوتے پر یقین کئے ہوئے تھے کہ وہ مشرقی پنجاب میں ملت اسلامیہ کی اس آخری پناہ گاہ کی (معاذ اللہ) اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے اور اس صوبہ کے ایک کمرے سے لے کر دوسرے سرے تک اسلام کا جھنڈا ہمیشہ کے لئے سرنگوں ہو جائے گا.قتل و غارت اور آتشزنی کے اس وسیع اور خونی بھکر میں جماعت احمدیہ جیسی محدود وسائل رکھنے والی پر امن اور قلیل جماعت کا بے شمار مسائل سے دو چار ہونا لازمی امر تھا سب سے اہم مسئلہ تو قادیان کی حفاظت اور اس کے باشندوں کو صحیح و سالم پاکستان لانے کا تھا.ے جناب محمد صدیق صاحب ثاقب زیروی کے ایک تحریری بیان (مورخہ ہم نبوت نو بر ش سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں اختیار آزاد کا ہور کے چیف ایڈیٹر نے دفتر " آزاد میں بتایا کہ مشرقی پنجاب کے بعض ایم.ایل.اسے قادیان کے ندیوں کو واپس دیئے بھانے کی سخت مخالفت کر رہے ہیں بلکہ چوہدری کرشن گوپال دت اور چوہدری کرتار سنگھ ایم.ایل.نے اپنے خطوں میں یہانتک لکھا ہے کہ قادیان کی واپسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.قادیان والوں کو نکالنے کے لئے ہی تو ہم نے سارا ضلع گورداسپور لیا ہے ؟ اے
دو سر نے جماعت احمدیہ کو اس خطرناک اور تباہ کن مالی بحران سے نجات دلانا ضروری تھا جس کی طرف حالات تیزی سے بہائے لئے بجا رہے تھے.اخراجات بے تحاشا اُٹھ رہے تھے مگر ذرائع آمد قطعی طور پر بند تھے.وقت کا تیسرا اور اہم ترین تقاضا یہ تھا کہ پہلے ایک عبوری اور پھر جلدی ہی ایک مستقل مرکز قائم کر کے پوری جماعت کو از سر تو منظم و مستحکم کرنے کی ہر مسکن تدابیر بروئے کار لائی جائیں مختصر لفظوں میں یہ کہ ایک ساکت و جامد جسم تھا جس کی رگوں میں زندگی کا تازہ خون ڈالنے اور قوت و طاقت کی ایک نئی روح پھونکنے کی ضرورت تھی جو بظاہر انتہائی کٹھن ، صبر آزما بلکہ ناممکن دکھائی دیتا تھا.خود سید نا المصلح الموعود کا بیان ہے کہ یہاں پہنچ کر میں نے پورے طور پر محسوس کیا کہ میرے سامنے ایک درخت کو اکھیڑ کو دوسری جگہ لگانا نہیں بلکہ ایک باغ کو اکھیڑ کر دوسری جگہ لگانا ہے لہ مصائب و آلام کی ان سیاہ اور تاریک گھڑیوں میں جبکہ کچھ سجھائی نہ دیتا تھا اور کسی کو اندازہ تک نہ ہو سکتا تھا کہ مستقبل میں کیا ہوگا اور حالات کیا رخ اختیار کریں گے با خدائے عزوجل کے اس اولوالعزم اور برحق موعود خلیفہ نے (جسے آسمانی نوشتہ میں مسیحی نفس" "جلال الہی کے ظہور کا موجب، تور" اور "جلد جلد بڑھنے والا “ قرار دیا گیا تھا) اپنے رب کے حضور عہد کرتے ہوئے اعلان فرمایا :- 16 سید نا انصلح الموعود کا عہد " قادیان اس وقت بیرونی اسدی دنیا سے بالکل کٹ گیا ہے یکیں سمجھتا ہوں کہ ایسے وقت میں....انسان کو اپنا دل مسجد احمدیہ لاہور میں ٹول کو ایک ایسا عزم کر لینا چاہئیے جس پر وہ مرتے دم تک قائم رہے.جب حضرت مسیح موعود علیہ السّلام لاہور میں فوت ہوئے اس وقت میری شادی تو ہو چکی تھی لیکن بچہ کوئی نہیں تھا.ایک بچہ ہوا تھا جو چھوٹی عمر میں ہی فوت ہو گیا.اس وقت میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سرہانے کھڑے ہو کہ یہ عزم کیا تھا اور خدا تعالیٰ کے سامنے قسم کھائی تھی کہ اگر جماعت اس ابتلاء کی وجہ سے فتنہ میں پڑ لے" الفضل ۳ و فار جولائی ارش صفحہ ۶ کالم ۱-۲
جائے اور ساری ہی جماعت مرتد ہو جائے تب بھی میں اس صداقت کو نہیں چھوڑوں گا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لائے اور اس وقت تک تبلیغ بھاری رکھوں گا جب تک وہ صداقت دنیا میں قائم نہیں ہو جاتی.شاید اللہ تعالیٰ مجھ سے اب ایک اور عہد لینا چاہتا ہے.وہ وقت میری جوانی کا تھا اور یہ وقت میرے بڑھاپے کا ہے لیکن اللہ تعالی کے کام کرنے کے لئے ہوائی اور بڑھاپے میں کوئی فرق نہیں ہوتا.جس عمر میں بھی انسان اللہ تعالیٰ کے کام کے لئے کھڑا ہو جائے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کو برکت بل بجائے اسی عمر میں وہ کامیابی اور کامرانی حاصل کر سکتا ہے.لاہو رہی تھا جس میں میں نے وہ عہد کیا تھا اور یہاں پاس ہی کیلیاں والی سڑک پر وہ جگہ ہے.شاید یہاں سے ایک لکیر کھینچی جائے تو وہ جگہ اسی کے محاذ میں واقع ہوگی.بہر حال اسی لاہور اور ویسے ہی تا یک حالات میں میں اللہ تعالیٰ سے تو فیق چاہتے ہوئے یہ اقرار کرتا ہوں کہ خواہ جماعت کو کوئی بھی دھکا لگے میں اس کے فضل اور اس کے احسان سے کسی اپنے صدمہ یا اپنے دکھ کو اس کام میں حائل نہیں ہوتے دوں گا.بفضلہ تعالیٰ و توفیقہ و بنصرہ جو خدا تعالیٰ نے اسلام اور احمدیت کے قائم کرنے کا میرے سپرد کیا ہے اللہ تعالیٰ مجھے اس عہد کے پورا کرنے کی توفیق دے اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے میری تائید فرمائے.باوجود اس کے کہ میں اب عمر کے لحاظ سے ساٹھ سال کے قریب ہوں اور ابتلاؤں اور مشکلات نے میری ہڈیوں کو کھوکھلا کر دیا ہے.پھر بھی میرے کتی و قیوم خدا سے بعید نہیں.امید کرتا ہوں کہ وہ اپنے فضل کرم سے میرے مرنے سے پہلے مجھے اسلام کی فتح کا دن دکھا دے" حضرت سید نامحمود نے اپنے زمانہ شباب کے عزم کو کس شان سے پورا کر دکھایا ، اس کا مفصل تذکرہ تاریخ احمدیت کی گذشتہ سات جلدوں میں آچکا ہے.اب موجودہ جلد سے ان واقعات پر روشنی ڈالی جائے گی جو حضور کے اُس مقدس اور ولولہ انگیز عہد سے وابستہ ہیں.جو حضور نے بڑھاپے کے وقت ایک نئی امنگ ، نئے شوق اور نئے جوش کے ساتھ کیا اور " الفضل " ۲۱ تبوک / ستمبر ۱۳۳۶ به بیش صفحه ۱-۱۲ 1902
جس کو اپنی زندگی کے آخری سانس تک بے مثال جرات و شجاعت اور عدیم النظیر جوانمردی، توصلہ مندی بلکہ جانثاری ، سرفروشی اور فداکاری سے نباہا.خلافت ثانیہ کے پاکستانی دو میں مستعد و ابتلاء پیدا ہوئے، مصائب کے زلزلے آئے ، حوادث کی آندھیاں چلیں ، مگر کارروانِ احمدیت غدا کے فضل اور رحم کے ساتھ اپنے آسمانی راہ نما کی سرکردگی میں آگے ہی آگے بڑھتا چلا گیا اور قرآنی وعدہ وَلَيْمَنَ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِ ارْتَضَى لَهُمْ کا ایمان افروز نظارہ بار بار آنکھوں کے سامنے پھر گیا جیسا کہ آئندہ تفصیلات سے واضح ہو جائیگا.
فصل اول جود عامل بلڈنگ میں اجلاس اور حضرت سید تا الصلح الموعود ابھی قادیان میں میں ہی رونق افروز تھے کہ جماعت احمدیہ لاہور کی کوشش صدر انجین احمدیہ پاکستان کی بنیاد سے حضور اور احباب جماعت کے قیام کے لئے میوہسپتال کی وسیع و عریض عمارت کے پاس چار ایسی کو ٹھیوں کا انتظام کیا بھا رہا تھا جن کے غیر مسلم مالک پاکستان بننے پر بھارت جاپچکے تھے اور وہ خالی پڑی تھیں.ان کو ٹھیوں کے نام یہ تھے :- -۱- رتن باغ - جودھا مل بلڈنگ ۳ جسونت بلڈنگ.سیمنٹ بلڈنگ حضرت امیر المومنین اور خاندان مسیح موعود کی رہائش کے لئے رتن باغ تجویز کیا گیا.دفاتر کا کام جاری کرنے اور کارکنوں کے ٹھہرانے کے لئے جو دھامل بلڈنگ اور دیگر افراد کی سکونت کے لئے موخر الذکر کو ٹھیوں کو موزون سمجھا گیا.حضرت امیر المومنین نے لاہور پہنچتے ہی متروکہ رہائش گاہوں کے اس حلقہ کا بنفس نفیس جائزہ لیا اور یکم تبوک استمبر میں کو یعنی ہجرت کے دوسرے ہی روز جود عامل بلڈنگ کے صحن میں ایک فوری میٹنگ منعقد فرمائی جس میں صدر انجمین احمدیہ پاکستان کی بنیاد رکھی.اس موقعہ پر حسب ذیل پانچ اصحاب موجود تھے.ان میں سے پہلے پچار حضور کی خصوصی ہدایت پر ۲۵ ظہور / اگست میش کو خواتین مبارکہ کے مقدس قافلہ کے ساتھ بسوں کے ذریعہ پہنچے تھے اور گویا سلسلہ کی تنظیم تو میں ہر اول دستہ کی حیثیت رکھتے تھے) :- - حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب - ابوالمنیر مولوی نور الحق صاحب واقف زندگی مولوی محمد صدیق صاحب واقف زندگی ملک سیف الرحمن صاحب واقعت زندگی
۵- چوہدری عبدالباری صاحب بی.اے.حضور نے صدر انجمین احمدیہ پاکستان کی بنیاد رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل عہدیداران و نمیران مقررہ فرمائے :- حضرت نواب محمد عبد اللہ خاں صاحب - حضرت خانصاحب منشی برکت علی صاحب شملوی ر ان کی عدم موجودگی میں) چوہدری عبدالباری صاحب ۳- حضرت نواب محمد دین صاحب ناظر اعلی ناظر بیت المال ناظر دعوة وتبليغ ار تبوک استمبر کو حضور نے مولوی عبد المغنی صاحب کو جائنٹ ناظر دعوة و تبلیغ مقرر فرمایا ) حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب مدد ایم.اے ناظر اموره و خارجه و ناظر تعلیم تربیت - ابوالمنیر مولوی نور الحق صاحب فاضل افسر محکمہ انخلاء آبادی.مولوی محمد صدیق صاحب فاضل ملک سیف الرحمن صاحب فاضل چودھری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب ۹- بچودھری اسد اللہ خاں صاحب ایڈووکیٹ شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ لاہور " 11 صوفی عبد القدیر صاحب نیاز سابق مبلغ انگلستان ڈائریکٹر انفارمیشن کے اس تاریخی اجلاس میں حضور انور نے کیا ہدایات دیں.افسوس ! ان کی تفصیل ہمیں سلسلہ احمدیہ کے مطبوعہ یا غیر مطبوعہ ریکارڈ میں سے نہیں ملتی.البتہ نظارات علیا (صدر انجمن احمدیہ پاکستان) کی اولین فائلوں میں حضرت کے قلم کی لکھی ہوئی ایک ایسی قیمتی یادداشت ضرور محفوظ ہے ، جو اندرونی قرائن کے مطابق قطعی طور پر اس موقعہ کی یادگار قرار پاسکتی ہے.اس یادداشت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور نے اس اجلاس میں متعدد ارشادات فرمائے.مثلاً نے ریکارڈ صدر انجمین احمدیہ پاکستان ۳۳اه پیش.
۱۲ ایجو دھامل بلڈنگ کے ماحول میں واقع مزید کو ٹھیاں حاصل کی بھائیں.- صدر انجمن احمدیہ اور حضور کی ان زمینوں کو جو پاکستان میں واقع تھیں اور رہن تھیں ان کو آزاد کرایا جائے.مہاجہ احمدی افراد اور جماعتوں کی نسبت معلوم کیا جائے کہ وہ کہاں ہیں اور ان کو خاص نظام کے ساتھ بسایا جائے.ختمانہ صدر انجمن احمدیہ کے رجسٹر قادیان سے لاہور منگوائے جائیں.۵.قادیان سے آنے اور بجھانے والوں کی فہرست مرتب کی جائے.بابو عبد الحمید صاحب ریلوے آڈیٹر کو انجمن کے حسابات کے لئے عارضی طور پہ آڈیٹر مقرر کیا جائے.۷.روزانہ دس سے بارہ بجے تک رتن باغ میں میٹنگ ہو جس میں کام کی رپورٹ پیش کی جائے اور آئندہ کے لئے ہدایات کی جائیں.صدر انجمن کے اجلاس کے لئے جو حضور نے اپنے قلم مبارک سے اپنے لئے مختصر یاد داشت لکھی بھی اس کو ہم تیر کا درج ذیل کرتے ہیں :.زمینیں جو میری ہیں ان کو FREE کروا لیا جائے.اس کے لئے حسن احمد صاحب کو مقرر کیا جائے.شام میں متواتر رویا، دیکھیں کہ مبارک احمد کو جبکہ ایک سال کا تھا سکھ نے پکڑا ہوا ہے اور ارد گرد کی عورتیں بھی پکڑی ہیں.آدمی پکڑ لئے ہیں.سکھ مارے گئے طوفان سارا قادیان کے گرد دیکھا کہ کراچی میں قدم لگ گئے ہیں.نظام کے متعلق روزانہ لٹیں موجود ہونی چاہئیں.(1) اس وقت جو کو بھی ملی ہے اس کے ارد گرد کو ٹھیاں لے لینی چاہئیں.(۲) زیادہ مستقل رہنے کے لئے شیخ بشیر احمد صاحب کے ارد گرد کو ٹھیوں پر قبضہ کر لیا جاے (۳) زمین جو انجین نے خریدی ہے اس کو آزاد کر لیا جائے اور عمارتیں کچی بنوانی چاہئیں اور حسن احمد صاحب (کو) مقرر کیا جائے.ایک دو دن میں وہ رپورٹ کریں.(۴) عارضی طور پر محاسب اس کے مقابل ناظر بیت المال - ناظر اعلی میاں عبد الله فان
صاحب - تعلیم و امور عامه درد صاحب مال علیا برکت علی صاحب - عبد الباری تبلیغ نواب محمد دین صاحب معاون ہوں.امور عامہ میں محمد شریف صاحب چھٹی پر آئیں اور کام کریں.افسر ایووکیشن نورالحق جو جو احمدی آئے ہیں وہ اطلاع دیں تاکہ ان کے متعلق فیصلہ کیا جائے.جماعتیں یہاں جہاں ہوں وہ اطلاع دیں کہ وہ کہاں ہیں.نمائندہ بھیجیں.اگر جماعت نہ ہو تو پھر خود آکر گفتگو کریں.اکٹھے ان کو بھجوائے جائیں.ایک قسم کی آبادی ایک جگہ ہو.(0) خزانے کے رجسٹری ہور میں آنے ضروری ہیں.(1) ایک لسٹ ہو کہ اتنے آدمی قادیان سے آئیں گے اور اتنے جائیں گے.ہر جماعت سے پوچھا جائے کہ کتنی امداد دو گے.(2) جہاں جو رہتے ہیں ان کے متعلق الاؤنس دیا جائے اس طرح خرچ بڑھ جاتا ہے تو پھر کسی کے گھر انتظام کر دیا جائے تو کم از کم خرچ کیا جائے.) آڈیٹر مقرر کیا جائے کہ کہاں خرچ کیا ہے.بابو عبد الحمید صاحب آڈٹ کریں عارضی (۹) دس سے بارہ بجے تک میٹنگ صدر انجین احمدیہ پاکستان معرض وجود میں آچیکی تو جود حامل بلڈنگ میں دفاتر کا قیام حضور کے ارشاد پر جود حامل بلڈنگ کی نچلی منزل میں مختلف نظارتوں کے دفاتر بھاری کر دیئے گئے.شروع میں اگر بچہ فوری طور پر صدر انجین احمدیہ پاکستان کا قیام عمل میں آیا.مگر اس عمارت میں تحریک جدید قادیان کے دفاتحہ اور اس کے کارکنوں کے کے لئے گنجائش پہلے روز ہی سے رکھ لی گئی.چنانچہ جوں جوں تحریک جدید کے ذمہ دار منتظم اور نمائند پاکستان میں پہنچے باقاعدہ تحریک جدید کے دفتروں کا افتتاح ہوتا چلا گیا.بہر حال ابتدائی عرصہ میں وفاتحہ کی ترتیب حسب ذیل نقشہ کے مطابق تھی ر نقشہ اگلے صفحہ پر ملاحظہ ہو )
شمال سڑک بطرف میو ہسپتال دفتر محاسب و المرمش امال اس بیگہ یکم بیوک رستمبر ہے کا پہلا تاریخی اجلاس منعقد ہوا دیگر دفاتر گیٹر دفاتر کو بھی ان باغ كريم دفتر استخلاد آبادی جنوب صدر انجیمین احمدیہ پاکستان کے قیام پر حضرت ریڈیو پاکستان اورپاکستانی پریس میں اعلان مصلح موعود کی اجازت سے ریڈیو اور پریس میں مندرجہ ذیل اعلان بھجوایا گیا :- 戆 امام جماعت احمدیہ قادیان نے صدر انجمن احمدیہ قادیان کی ایک شاخ لاہور میں قائم فرما دی ہے.فی الحال یہ شاخ پاکستان اور ماسوائے ہندوستان باقی دنیا کی احمدی جماعتوں کا سارا کام سنبھالے گی.لیکن ملک میں امن قائم ہو جانے کے بعد یہ شاخ صردن پاکستان
۱۵ کے لئے وقف رہے گی.اس لئے تمام جماعت ہائے احمدیہ اندرون و بیرون ہند کو اطلاع دی جاتی ہے کہ وہ ہر قسم کی خط و کتابت اب شاخ لاہور سے کریں اور چندوں اور امانتوں کی تمام رقوم بجائے قادیان کے لاہور بھیجیں.محاسب صاحب قادیان سے لاہور آپکے ہیں.شاخ لاہور کے لئے خان محمد عبد اللہ خالصا آن مالیر کوٹلہ کو ناظر اعلیٰ مقرر کیا گیا ہے شاخ لاہور کا پتہ ہوا ٹمپل روڈ لاہور ہے جو احمدی احباب یہ اعلان سُنیں دوسروں تک پہنچا دیں “ اس اعلان کے علاوہ صدر انجمین احمدیہ شاخ لاہور کی طرف سے بیرونی جماعتوں کو بھی بذریعہ تار اطلاعات دی گئیں.جود عامل بلڈنگ کے ساتھ رتن باغ کا وسیع احاطہ تھا جہاں تقصیر رتن باغ کی مرکزی حیثیت سيدنا المصلح الموعود (معہ خواتین مبارکہ کے) فروکش ہو گئے.بعد ازاں جب حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ، حضرت مرزا شریف احمد صاحب ، حضرت صاحبزاده مرزا ناصر احمد صاحب اور خاندان حضرت مسیح موعود کے دوسرے چشم و چراغ بھی پاکستان میں ہجرت کر کے آگئے تو انہیں بھی اپنی پناہ گزینی کے ابتدائی تکلیف دہ ایام یہیں گزارنے پڑے.ہے.دیوان رتن چند صاحب مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب کے ایک قابل منشی اور معزز درباری تھے جو حضور نویسی کے عہدہ پر ممتاز تھے.دیوان صاحب کو تعمیرات کا بہت شوق تھا.منہ میں جب لاہور کے محلہ مائی لاڈو کے عالیشان مکانات اور عظیم الشان باغات کی بنیادوں اور کھنڈروں پر عمارات کا آغاز ہوا تو دیوان صاحب نے اس زمین کو صاف اور ہموار کرایا اور یہاں ایک عالیشان مکان اور باغ بنا کر اپنی یاد گار قائم کی جو رتن باغ" کے نام سے مشہور ہوئی.بر صغیر کے مشہور مؤرخ و صحافی منشی محمد الدین صاحب فوق مدیر اخبار کشمیری نے اپنی آخری تصنیعت آخر لاہور میں یہ حالات بیان کرنے کے بعد سر میں اس یادگار کا نقشہ بایں الفاظ کھینچا.باغ کے چاروں کونوں پر چار پختہ مکانات بنتے ہوئے ہیں جن میں دیوان رتن چند کے جانشینوں نے بہت کچھ ترمیم اور ایزادی کر دی ہے.درمیانی بارہ دری دو منزلہ ہے اور اس میں بڑا وسیع سرد تھانہ ہے.بارہ دری کی دیواروں میں فوارے ہیں اور صحن میں ایک بڑا کشتی نما حوض بنا ہوا ہے جس کے گرد فواروں کی موج بہار عجب لطف دیتی ہے.باغ کے دروازہ کی ڈیوڑھی چار منزلہ
14 ماہ ظہور اگست سن سالہ مہیش میں اس احاطہ کے مکینوں کی تعداد ۱۳۹۵ تک جا پہنچی چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے اُن دنوں رتن باغ اور اس کے ملحقہ مکانوں کی مردم شماری کرائی جس کی تفصیل میں آپ نے تحریر فرمایا کہ اس وقت صدر انجمن احمدیہ کی وساطت سے چار مکانات جماعت کے نام الا سٹہ شدہ ہیں یعنی (۱) رتن باغ (۲) جودھامل بلڈنگ (۳) جسونت بلڈنگ اور (نمی سیمینٹ بلڈنگ.ان عمارتوں میں حضرت خلیفہ ایسیح امام جماعت احمدیہ اور آپ کے خاندان کے علاوہ صدر انجین احمدیہ کے کارکن اور بہت سے دوسرے احمدی پناہ گزین آباد ہیں اور صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر بھی انہیں عمارتوں میں ہیں.بہر حال مردم شماری کی تفصیل حسب ذیل ہے :- نمبر شمار نام عمارت تعداد خاندان تعداد افراد کیفیت (1) (۳) (۳) رتن باغ جود عامل بلڈنگ جسونت بلڈنگ (۴) سیمنٹ بلڈنگ میزان At ۱۴۱۰ ۲۲ ۲۴ ۲۴ ۱۵۲ ۹۵ تمر بقیہ حاشیہ :.ہے.اور اپنی گولائی کی وجہ سے بہت خوبصورت معلوم ہوتی ہے.اندر نگاہ پڑتے ہی دور تک سرووں کی دو رویہ قطار دکھائی دیتی ہے.باغ کا رقبہ سات ایکڑ کے قریب ہے.ایک بلند اور طویل دیوار نے جس کا ارتفاع بارہ تیرہ فٹ سے کم نہیں باغ کے احاطہ کو اپنی آغوش میں لیا ہوا ہے....تمام پرانے باغات میں یہ باغ سب سے بہتر ہے.اس کے اندر ایک مردانہ ہائی سکول اور ایک زنانہ کالج بھی ہے.اس باغ کے ایک طرف ٹریبیٹیوں کا دفتر اور مسجد مائی لاڈو واقع ہے" جناب محمد عبد اللہ صاحب قریشی جنہوں نے ” ماثو لاہور کے اوراق کو مفید حواشی اور محمدہ معلومات کے اضافہ کے ساتھ جمع کر کے بڑی محنت اور دیدہ ریزی سے مرتب کیا " رتن باغ " کے مندرجہ بالا حالات
14 اوپر کے نقشہ سے ظاہر ہے کہ اس وقت سے جو چار عمارتیں بشمول رتن باغ ہمارے قبضہ میں ہیں اُن میں ۱۵۲ (ایک سو باون) خاندان آباد ہیں اور کل تعداد ۸۰۱ (آٹھ سو ایک) ہے.اور یہ خاندان فرضی نہیں بلکہ ایسے خاندان ہیں جو قادیان میں اپنے علیحدہ علیحدہ مکانات اور مستقل انتظام رہائش رکھتے تھے.اور ابھی ان اعداد و شمارہ میں وہ احمدی مہمان شامل نہیں ہیں جو جماعت احمدیہ کے مرکز میں کثرت کے ساتھ آتے رہتے ہیں اور موجودہ حالات میں ان میں سے اکثر کو ٹھہرانے اور جگہ دینے کے لئے ہمارے پاس کوئی انتظام موجود نہیں ہے اور وہ ادھر اُدھر پرائیویٹ گھروں میں ٹھہر کر نہایت تنگی کے ساتھ گزارہ کرتے ہیں.یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ تو خاندان ان عمارتوں میں آباد ہیں، ان میں سے کئی ایسے ہیں جو قا دیانا میں پانچ پانچ یا دس دس یا بعض صورتوں میں پندرہ پندرہ یا اس سے بھی زیادہ کمروں کے مکانوں میں رہائش رکھتے تھے مگر اب انہیں رتن باغ یا اس کی ملحقہ عمارتوں میں ایک یا دو دو کمروں میں بڑی تنگی کے ساتھ گذارا کرنا پڑتا ہے" بقیہ حاشیہ :- دریچ کرنے کے بعد لکھتے ہیں :.۱ اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان عالم وجود میں آیا اور حالات ایسے پیدا ہوئے کہ آبادیوں کا تبادلہ شروع ہو گیا.بہندو اور سکھ یہاں سے ہندوستان پہلے گئے اور وہاں کے مسلمان یہاں آنے پر جمہور ہو گئے.اس وقت قادیان سے مرزا بشیر الدین محمود احمد اور ان کی جماعت کے اکثر افراد نے لاہور پہنچ کر اس علاقے کی اکثر عمارتوں پر قبضہ کیا.رتن باغ اور اس کی ملحقہ کو بھی مرزا بشیر الدین محمود کے حصہ میں آئی تو باغ کی دیکھ بھال میں کوئی خاص توجہ نہ دی گئی جب شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی اور ضروریات کے پیش نظر میں مب پتال کی توسیع لازمی ہو گئی اور مغربی پاکستان کے قیام کے بعد سرکاری ملازمین اور بیرونی مریضوں کے لیئے یونٹ ہسپتال قائم کرنے کی تجویز عمل میں لائی گئی تو رتن باغ سب سے پہلے اس منصوبہ کی زد میں آیا.چنانچہ اسے منان کر کے اس کی جگہ ون یونٹ ہسپتال بنا دیا گیا.اب باغ اور اس کی چار دیواری کا کوئی وجود باقی نہیں.انستہ کو بھی شکست وریخت سے بچ گئی ہے اور اسے ڈاکٹروں کے استعمال کے لئے مخصوص کو دیا گیا.اختبار ٹریبیون کا دفتر بھی اور میں یہاں ہے انبالہ منتقل ہوگیا تھا اور اب وہاں پاکستان ٹائمز ریس قائم ہے جہاں ہے له الفضل" الأرشهور اگست ۱۳۲۷ بیش صفحه ۲- کالم ۱-۲ : ما ا رسالہ "نقوش" لاہور نمبر صفحه ۱۳۸۹ اور سپور تامر وشیر
$19774- سيدنا المصلح الموعود نے رتن باغ میں قیام فرما ہوتے ہی اس کو بھی کا سامان حفاظت کے ساتھ اپنی نگرانی میں محفوظ کر دیا یہانتک کہ ۲۴ فتح دسمبر مہیش کو اس کو بھٹی کے مالک اور دیوان بها در دیوان صاحب کے پوتے گوبند سہائے دیوان خود لاہور میں آئے اور حضور نے انہیں ان کا سارا سامان دیئے بھانے کا ارشاد فرمایا.اگر چہ بعض لوگ اس بات کے حق میں نہیں تھے کہ اُن کو سامان واپس کیا جائے کیونکہ مشرقی پنجاب سے جو مسلمان بیکیسی کی حالت میں پاکستان پہنچے تھے ان کو آباد ہوتے وقت ہر قسم کے سامان کی ضرورت تھی اور یہ ضرورت اسی صورت میں پوری ہو سکتی تھی کہ غیر مسلم باشندوں کا مترو کہ سامان مہاجرین کو دیا جائے.ان سب حالات کے باوجود مسیدنا حضرت تہ اسیح الثانی المصلح الموعود نے یہی فیصلہ فرمایا کہ دیوان صاحب کا سارا سامان ان کو واپس کر دیا جائے.اللہ تعالیٰ احمدیوں کی ضروریات کا خود کفیل ہو گا.چنا نچہ دیوان صاحب اس بات سے نہایت ہی متاثر ہوئے اور اُن کے دل پر حضور کے ان اخلاق نے بہت ہی گہرا اثر کیا جس کا اظہار انہوں نے درج ذیل تحریر کی صورت میں کیا :- Gobind Sahai grandson of Bahadr Diwan have fonnd the true pirit of honesty int be Qadian Comman nity.The head of his Community is at present staying at our banglow Rattan Bagh Lahore.He has given me all the household things specialy left by some ornaments which were our family members.Some of the money which was lying in our almirə was also given to me by Mirza Bashir the Ahmadiyya of head ud Din Community Personally.I am really very much pleased by the treatment which this community has shown të me.Dated Se: Gobind Saha wan
19 (ترجمہ) میں گوبند سہائے دیوان بہادر دیوان کے پوتے نے جماعت قادیان میں دیانت داری کی صحیح روح دیکھی ہے.اس جماعت کے امام آجکل ہماری کو بھی رتن باغ میں قیام پذیر ہیں.انہوں تجھے ہمارے گھر کی وہ تمام اشیاء یہاں تک کہ زیورات بھی جو ہمارے خاندان کے افراد پیچھے چھوڑ گئے تھے واپس دے دیئے ہیں.کچھ نقد روپیہ جو الماری میں پڑا تھا وہ (حضرت) مرزا بشیر الدین امام جماعت احمدیہ نے خود مجھے واپس کیا ہے.میں حقیقہ اس سلوک سے جو اس جماعت نے ہم سے روا رکھا ہے بہت ہی خوش ہوں.(دستخط) گویند سہائے دیوان مورخ ۲۴/۱۲/۲۷ کو بھی رتن باغ کا ایک بیرونی اور وسیع کمرہ قبلہ رُخ تھا جسے پہلے روز سے پنجوقتہ نمازوں اور و حفظ و تلقین کے لئے مخصوص کر دیا گیا.اسی میں حضرت مصلح موعود کی خدمت میں حاضر ہونے والے ملاقات کی سعادت حاصل کرتے اور اپنے مقدس اور بجان سے پیارے آقا کے زندگی بخش کلمات سے مستفید ہوتے تھے اور اسی جگہ تمام اہم مرکزی اجلاسوں کی کارروائی ہوتی تھی حضور نے دور پاکستان کے ابتدائی سات خطبات جمعہ دہلی دروازہ کی احمدیہ مسجد میں ارشاد فرمائے.مگر جب احمدی جہا بوین کا بے پناہ سیلاب امڈ آیا تو حضور نے کار اخلاء / اکتوبر ۲۶ امیش کے 19ء خطبہ ثانیہ میں فرمایا :- چونکہ مسجد میں جگہ تنگ ہے اور لوگ زیادہ تعداد میں آئے ہیں اس لئے منتظمین کو چاہیے کہ وہ آئندہ خطبہ کا کسی اور جگہ انتظام کریں جو موجودہ جگہ سے زیادہ فراخ اور وسیع ہو.مردوں کے علاوہ عورتوں کو بھی شکایت ہے کہ وہ جگہ کی تنگی کی وجہ سے خطبہ سننے کے لئے نہیں آ سکتیں.یہ یقینی بات ہے کہ جب تک عورتوں کی اصلاح نہ ہو آئیندہ نسل کی اصلاح نہیں ہو سکتی.اس لئے کسی وسیع جگہ کا جمعہ کے لئے انتظام کرنا چاہیئے تا کہ تمام عورتیں بھی شامل ہوسکین اور مرد بھی.اس مسجد میں عورتوں کے لئے جو جگہ ہے اس سے پندرہ نہیں گنا زیاد جگہ صرف عورتوں کے لئے چاہیئے اور مردوں کے لئے بھی موجودہ جگہ سے کم از کم دو گنی جگہ ہونی چاہیئے.پس آئندہ خطبہ جمعہ کا کسی کھلی جگہ انتظام کیا جائے کیونکہ بہت سے لوگ
۲۰ جمعہ سننے سے محروم رہتے ہیں اور یہ مناسب نہیں ہے" حضور کے اس فرمان مبارک کی تعمیل میں، نظارت تعلیم و تربیت نے رین باغ کے احاطہ میں بار احاد) اکتوبرش سے نماز جمعہ کا انتظام کیا جو یکم اخاذ اکتوبریار بیش تک باقاعدگی سے بھاری رہا.کچھ عرصہ بعد حضور نے قیام لاہور کے دوران مسجد احمدیہ دہلی دروازہ میں ہی جمعہ کی نماز پڑھانا شروع فرما دی شروع شروع میں اخبار" الفضل" کا دفتر بھی رتن باغ میں رہا.۲ انتفاء / اکتوبر ر ش سے حضرت مصلح موعود کے ارشاد پر کارکنان صدر انجمن احمدیہ کی روزانہ بوقت صبح ورزش جسمانی کا انتظام کیا گیا جس کے نگران صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب مقرر ہوئے یہ ورزشی پروگرام بھی رتن باغ کے احاطہ میں ہوتا تھا.قادیان جانے والے مخلصین کا کیمپ بھی یہیں کھا.اسی طرح بہاد آزادی کشمیر میں حسن مشہور عالم " فرقان فورس نے سرگرم اور نمایاں تستہ لیا اور شاندار کارنامے انجام دیئے اس کے " الفضل" را نادر اکتوبر ۳۶ مش صفحه ۴ کالم ۲* ه صدر انجمن آمدید پاکستان کی رپورٹ سال اول اش سے معلوم ہوتا ہے کہ نظارت تعلیم و تربیت نے تین ہزار کی لاگت سے ۱۸ و ۳۶ سائز کے آٹھ شامیانے تیار کرائے تھے.لاوڈ سپیکر کی تمام مشینری اگرچہ قادیان میں رہ گئی تھی مگر ایمپلی فائر اور مائیکرو فون بحفاظت لاہور پہنچ گیا تھا جہاں فاپ ریڈیو کے مالک، بابو ذکاء اللہ صاحب نے برقی رو کو بآسانی تبدیل کرنے کے لئے اپنا کنورٹر عاریتاً پیش کر دیا جس سے رتن باغ میں آلہ مکبر الصوت کا انتظام ہو گیا.ضمنا یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود کے دور پاکستان کے اولین خطبہ کے سوا جو مولوی عبد العزیز صاحب فاضل نے قلمبند کیا.پر رش کی آخری سہ ماہی کے سب خطبے مولوی لم ۶۱۹ محمد یعقوب صاحب طاہر انچارج شعبہ زود نویسی کی ہمت و محنت کی بدولت محفوظ ہوئے ہے ہ اس روز حضور نے خطبہ جمعہ کے آغاز میں اعلان فرمایا کہ ای کیونکہ ہمارے دفاتہ آہستہ آہستہ ربوہ کی طرف منتقل ہو رہے ہیں اور کوشش کی جا رہی ہے کہ ایک دو ہفتہ میں دفاتر کا بہت ساحقہ ربوہ میں منتقل کر دیا بجائے اس لئے مجبوری کی وجہ سے جمعہ کی نماز جو ہم نے یہاں پڑھنی شروع کر دی تھی انشاء اللہ اگلے جمعہ سے پھر مسجد احمدیہ میں پڑھنی شروع کر دینگے تا ہمارے ربوہ جانے سے پہلے پہلے لوگ مسجد کی طرف جانے کے عادی ہو جائیں" الفضل مفتح رود سمبر همین صفحه ۲ کالم )
۲۱ مجاہد رفضنا کار سرائے عالمگیر کی طرف روانہ ہونے سے قبل رتن با غ میں ہی قیام فرمارہ ہے، اور عرصہ تک ان کی اور حفاظت مرکز کے مستقل خدام کی تربیت یہاں ہی ہوتی رہی.العرض " رتن باغ کو حضرت مصلح موعود کے رہائش پذیر ہونے کے بعد جماعت احمدیہ میں ایک مرکزی حیثیت حاصل ہو گئی تھی جو 19 تبوک استمبر رش تک برقرار رہی.حضرت امیر المؤمنين المصلح الموعود یونکہ جماعت احمدیہ رین باغ میں مشاورتی میل کا باقاعدہ سلسلہ کی اور تنظیم کے بارے میں تنہائی محکمہ وشوش تھے اس لئے حضور نے صدر انجمن احمدیہ پاکستان کی تاسیس کے ساتھ ہی یہ حکم دے دیا کہ ناظر صاحبان اور بعد ازاں صدر انجمن یا تحریک جدید کے بعض مخصوص شعبوں کے انچارج) روزانہ رتن باغ میں جمع ہوں اور اپنی رپورٹیں سنا کہ ہدایات حاصل کریں.چنانچہ ابتدائی اور ہنگامی ایام میں روزانہ اور پھر حسب ضرورت ہفتہ میں تین ، دو یا ایک بار یہ اہم مشاورتی میٹنگ ہوتی تھی.اس سلسلہ کی آخری مجلس جس کی کارروائی محفوظ ہے، ہم شہادت اپریل ش کو منعقد ہوئی.اس مجلس میں وقتاً فوقتاً جن اصحاب کو شامل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی اُن کے نام یہ ہیں :- حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب ناظر اعلی خانصاحب منشی برکت علی صاحب ناظر بیت المال - چودھری عبد الباری صاحب نائب ناظر بیت المال حضرت نواب محمد الدین صاحب.حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب درد ناظر امور خارجہ - مولوی ابوالمنیر نور الحق صاحب ناظر الخلاب و آبادی - مولوی محمد صدیق صاحب ملک سیف الرحمن صاحب قمران انبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب - حضرت صاحبزاده همرزا عزیز احمد صاحب جنتر براده رزا ناصر احمد صاحب حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب ناظر ضیافت.ملک غلام فرید صاحب ایم.اسے ایڈیٹر تفسیر القرآن - مولانا جلال الدین صاحب خمس را به علی محمد صاحب ناظر بیت المال چودھری بہار الحق صاحب مولوی عبد الرحمن صاحب انور انچارج تحریک جدید چودھری محمد شریف صاحب خالد - چودھری برکت علی صاحب فنانشل سکرٹری.قریشی عبد الرشید صاحب حضرت مولوی عبد المغنی صاحب حکیم فضل الرحمن صاحب - مولوی نور الدین صاحب منیر مرزا بشیر احمد بیگ صاحب - مولوی عبداللہ صاحب انجاز - ڈاکٹر عبدالواحمد صاحب
۲۲ ڈائریکٹر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ.مکرم روشن دین صاحب تنویر ایڈیٹر الفضل" چودھری عبدالسلام صاحب اختر ایم.اے.چودھری اعجاز نصر اللہ صاحب حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیال محمد صدیق صاحب ثاقب زیر وی حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب حسن محمد خان صاحب عادت چودھری حبیب اللہ صاحب سیال چودھری صلاح الدین احمد صاحب - ملک محمد خورشید صاحب.صوفی محمد رفیق صاحب شریک متلی ہونے والے اصحاب کے نام درج ہوتے اور غیر حاضر ہونے والوں سے جواب طلبی کی بھائی حضور ایک ایک سے رپورٹ لیتے ، ہدایات دیتے اور اس طرح سے ہر کام کی جزئیات تک کی نگرانی فرماتے تھے.ان دنوں ہر اہم معاملہ خواہ اس کا تعلق صدر انجین احمدیہ سے ہو یا تحریک جدید سے اس مجلس میں ضرور زیر غور آتا تھا.اس میٹنگ کی سکرٹری مجلس کی طرف سے باقاعدگی کے ساتھ کارگزاری لکھی جاتی اور رپورٹ سنائی جاتی تھی.اوراگر کوئی امر قابل تصحیح ہوتا تو حضرت اقدس اس کی اصلاح فرما دیتے.اس مجلس میں مولوی محمد صدیق صاحب، ابو المنیر مولوی نورالحق صاحب احسن محمد خاں صاحب عادت ، مولوی نورالدین صاحب منیر اور مولانا جلال الدین صاحب شمس نے وقتاً فوقتاً سکرٹری شپ کے فرائض انجام دیئے.ان اصحاب کی قلمبند کی ہوئی متعدد رپورٹیں دور رجسٹروں کی صورت میں اب تک محفوظ ہیں.حضرت سیدنا الصلح الموعود نے ان روح فرسا اور لرزا دینے والے حالات میں میں تعداد او فراست اور اولوالعرمی سے اہنمائی فرمائی اس کا ایک واضح ثبوت یہ مشاورتی مجلس بھی ہے جس کے دوران حضور نے وقتی اور ہنگامی مسائل کے لئے متعدد ایسے امور پر بھی روشنی ڈالی جو تاریخ سلسلہ میں ہمیشہ مشعل راہ کی حیثیت سے یادگار رہیں گے.اس تعلق میں حضور کے بعض فرمودات بطور نمونہ درج ذیل کئے بھاتے ہیں :- (۲۵ تبوک تمبر همش فرمایا :- کام پر بھانا ہو تو پر وگرام بنا کر جانا چاہیے.ہ یاد رہے.آپ ماہ شہارت / اپریل ہی میں جیل سے رہا ہوئے جس کے بعد آپ کو اس مجلس میں آنے کا موقعہ میسر آیا ہے پر اس رہا ہیں میں کا ے سے رجسٹر مولوی محمد صدیق صاحب فاضل اور مولوی ابو المنیر نور الحق صاحب کی تحویل میں ہیں : MANA
۱۳۲۷ تبلیغ فروری سایر پیش فرمایا یہ دیکھا جائے کہ یورپ میں ہمارے لئے کون کون سی چیز ضروری ہے.مثلاً عیسائیت کے وہ سوال چین کا علم ہونا چاہیئے.پھر مولوی محمد دین صاحب اور ملک غلام فرید صاحب سے پتہ کیا جائے کہ ان کے ساتھ وہ کیا سوالات کرتے تھے.پھر ایک قسم کے متعلقہ سوالات کی ایک کتاب لکھی بجائے.یہ دیکھا جائے کہ اس سے ہم نفع کیسے حاصل کر سکتے ہیں یا کم از کم بغیر نقصان کے چلا سکتے ہیں.اصول یہ ہونا چاہیئے کہ کتاب چھپوا کر مبلغین کو لکھا بھائے کہ جتنی کتاب مانگو گے ہم بھیجیں گے اور تم اتنی ہی مانگو گے جتنی چھ ماہ میں فروخت ہو سکے.اس کی قیمت چھ ماہ میں قسط وار وضع کریں گے.واقفین میں سے پانچ ایسے تیار کئے بھائیں جو زود نویس بنائے جائیں.الفضل کے لئے بھی اسی طرح واقفین میں سے تیار کئے جائیں جن کا ادبی مذاق ہو.ہر مبلغ ہو اخبار لیتا ہے اس کا فرض ہے کہ اہم مضامین کے کٹنگ وہ بھیجے.۴۸ ۲۶ شہادت / اپریل بیش فرمایا :- د تحریک جدید میں ایک پبلک سروس کمیشن مقرر کیا جائے جو کام کرنے والوں کی نگرانی کرے.باہر کے مبلغین کو وہاں ہی آزاد نہ کیا جائے بلکہ ایسے آدمیوں کو یہاں لا کو تین پھار ماہ رکھا جائے.اگر کام کے لائق ہوں تو کام لیا جائے ورنہ فارغ کر دیا جائے.ایک چیز ہے جس پر اگر زور ہو تو میرا خیال ہے کہ جماعت تباہی سے بچ جائے گی وہ نماز کی باجماعت ادائیگی ہے.اس سے وقت کی پابندی لازم ہوگی اور پھر اس سے ہر کام ہر وقت ہو گا ر بحت رمئی ۱۳۲ پیش فرمایا : لوگوں کے ذہن میں اس وقت یہ ہے کہ مقبرہ بہشتی ہاتھ سے نکل گیا ہے لہذا وصیت کی ضرورت نہیں.لہذا چاہئیے کہ انہیں سمجھائیں کہ اس کے معنی یہ نہیں کہ وصیت ختم ہو گئی حضور علیہ السلام نے تو خود فرمایا ہے کہ باہر دفن ہو سکتا ہے وہاں اس کا نام لکھ دیا جائیگا ویسے بھی سب کا وہاں دفن ہونا ہی محال ہے کیونکہ اتنی جگہ ہی نہیں کیں سمجھتا ہوں کہ آیندہ ہمیں قرعہ اندازی کرنی پڑے گی.مثلاً ایک مقام پر جب تو آدمی فوت ہو جائیں تو ان میں سے
۲۴ قرعہ اندازی کے ساتھ ایک کو وہاں لے جائیں اور باقیوں کی وہاں فہرست لگا دی بجائے یا اصول مقرر کر دیا جائے کہ فلاں قسم کے آدمی یہاں آ سکیں گے.ار محبت امئی ۱۳۳ ش) فرمایا :- شو دفعہ کہہ چکا ہوں کہ مبلغوں میں یہ ذہنیت پیدا کی جائے کہ تم خلافت اور رسالت کے قائم مقام ہو.تم ہر کام خود کرو.وقار تو خدا تعالے دیتا ہے.جب تک اپنے اندر نیکی پیدا نہیں کرتے وقار نہیں ہو سکتا.وقار تو اپنے اندر سے پیدا ہوتا ہے.خدمت خلق ہو اور قربانی کا مادہ ہو تو وقار خود بخود ہی ہو جاتا ہے.جب تک یہ لوگ انتظار کرتے ہیں کہ لوگ ہماری آخر خدمت کریں اس وقت تک ان کا ادب نہیں ہو سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات میں گر موجود ہے کہ ہم لوگوں کے دلوں میں وہی کریں گے.پس جب تم لوگ اپنے در اندر تبدیلی کرو گے تو لوگ خود بخود آئیں گے.۱۳۲۷ است امی ہمیش) فرمایا :- شام والوں کو لکھا جائے کہ کسی نہ کسی طرح کیا پیر والوں کو اطلاع دیں کہ تنگی کے دن ہیں صبر سے گزار لیں اور کسی قیمت پر بھی کہا بیر کی زمین یہود کے پاس فروخت نہ کریں.۶۱۹۴۸ ر احسان جون ۱۳۳۷ پیش فرمایا : دفتر پرائیویٹ سکرٹری کے متعلق میرا آرڈر ہے کہ جب میری ڈاک بھائے تو دو افسر پرائیویٹ سکوڈی اور اسسٹنٹ پرائیویٹ سکرٹری بیٹھیں.ایک کا کام ہے کہ اُسے گن کر دوسرے کے حوالے کر دے اور دوسرا اس پر مہر لگا دے.انجنیروں سے یہ بھی مشورہ کر کے انتظام کیا جائے کہ ایک ایک قبر میں ایک کے بجائے تین قبریں ہوں نہ بخانہ کی صورت میں اس کے حصے بنے ہوئے ہوں اور ایک LATE کہ پر سب نام لکھ دیئے بھائیں.یہ چیز بعد باتی لحاظ سے بھی لوگوں پر زیادہ اثر کرے گی کہ ہم حضرت مسیح موعود کی دی ہوئی جگہ میں آگئے ہیں.دوسرا طریق یہ کرنا پڑیگا کہ مختلف اضلاع میں مقبرہ بہشتی کا حصہ مقرر کر دیا جائے وہاں دفن ہوں اور قادیان میں ان کا نام ہو.حضور نے خود بھی اس کے متعلق لکھا ہے.
۲۵ ده احسان جون ۱۳۳ ش) فرمایا :- ۶۱۹۴۸ سرحد والے اگر تبلیغ کے لئے مبلغ مانگتے ہیں تو انہیں لڑکے دینے پڑیں گے ورنہ یہ سمجھا بجا دے گا کہ تبلیغ سے ان کو دلچسپی نہیں (۲۲) تبوک ستمبر یه مش فرمایا :- یہ قانون بنایا جائے کہ جب کوئی افسر باہر جائے تو اپنے پروگرام کی ایک کاپی دفتر میں دے کر جائے اور اگر بعد میں اس کی تبدیلی کی ضرورت پیش آئے تو بذریعہ تار دفتر میں اطلاع دے.(۳) را خادر اکتوبر اش) فرمایا : مش ۶۱۹۴۸ شہروں اور قوموں کی آبادی بغیر تکلیف کے نہیں ہوتی.دیکم صلح / جنوری پیش فرمایا :- ۱۹۴۹ رپورٹرز کو بیان دینے میں بہت احتیاط سے کام لیں.اگر فوری طور پر بیان دینا مشکل ہو.یا ایسا سوال ہو کہ نہیں پر رپورٹ غلط فہمی پیدا کر سکتا ہو تو کہ دینا چاہیئے کہ ابھی اس معاملہ میں غور نہیں کیا گیا.(۱۵) / ره ۵ در صلح جنوری له ش فر مایا : کارکنان کو رخصت رعایتی جبرا دی بجایا کرے تا دماغ تازہ ہو بجایا کریں.حضور نے اپنی دعوتوں کے متعلق فرمایا کہ ان کی اصل غرض تبادلہ خیالات کا موقعہ بہم پہنچانا ہوتی ہے اس لئے میزوں اور کرسیوں کی ترتیب اس رنگ میں ہونی چاہئیے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بات چیت کرنے کا موقعہ مل سکے.صلح جنوری ۱۳۳ ش) فرمایا :- پریس تاروں کی عبارت ایسی ہونی چاہیئے جسے خبر تسلیم کیا جا سکے.فرمایا.اونچے طبقہ کے سنجیدہ اور اثر لینے والے لوگوں کو تبلیغی نکتہ نظر سے بار بار ملنا چاہیے اور انہیں لٹریچر دینا چاہیے.بیرونی مشنوں میں INSPECTING مبلغ بھیجوانے چاہئیں جن کے دورہ کے وقت مقامی حکام و معزز افراد کی دعوت کے انتظام کے ذریعہ تبادلہ خیالات کا موقعہ بہم پہنچایا جائے.
۲۶ اس طرح ایک دو دوروں میں ہی ہر جگہ کے مبلغین کا STATUS بڑھ جائے گا.دفاتر صدر انجمین احمدیہ پاکستان کے ساتھ ہی رتن باغ کے ایک حصہ میں لنگر خانہ کا جاری ہونا نگریس نہ کھول دیا گیا اور ملک سیف الرحمن صاحب فاضل ناظر ضیافت مقرر ہوئے اور ان کی امداد کے لئے شیخ محبوب الہی صاحب کا تقر ناظم سپلائی کی حیثیت سے ہوا پچونکہ کوئی خاص انتظام لنگر اور کارکنوں کا نہیں ہو سکتا تھا اس لئے پہلے آٹھ ماہ میں بازار سے قریباً سات ہزار کے نان خرید نے پڑھے.سامان کی کمی کا یہ عالم تھا کہ قادیان سے صرف آٹھ دیگیں اور کچھ سامان بمشکل منگوایا جا سکا ہیے خوردنی اشیاء مثلاً آٹا، گندم، چاول ، چینی کے لئے پر مٹ حاصل کرنا پڑتا تھا اور باقی ضروریات یعنی لکڑی ،گھی، دالوں وغیرہ کا انتظام بیرو نجات اور مقامی منڈی سے کیا جاتا تھا.شروع شروع میں لنگر لاہور میں مہمانوں کی ایک وقت میں روزانہ اوسط قریباً چار سو نفوس تک ہوتی تھی.وجہ یہ کہ ان دنوں بہت سے احباب ہو مشرقی اضلاع سے ہجرت کر کے لاہورمیں پناہ گزین ہوئے لاہور میں عارضی رہائیش کے دوران سلسلہ احمدیہ کے مہمان ہوتے تھے.لیکن آخر تبوک استمبر ہی میں یہ اوسط گر کر تین سو تک آگئی.چنانچہ ۳۹ تبوک استمبر یہ مشن کی صبح کو لنگر سے کھانا حاصل کرنے والوں کی تعداد ۲۹۷ تھی کہ عام حالات میں رتن باغ اور اس کی متصل کو ٹھیوں میں مقیم یا دیگر پناہ گزین اصحاب کو ضروری اجناس کے حصول میں بہت سی مشکلات پیش آسکتی تھیں اور آرہی تھیں مگر لنگر خانہ نے معاوضہ پر خشک راشن را جناس اور دیگر ضروریات خور و نوش جاری کر کے ان مشکلات پر بہت حد تک قابو پا لیا.علاوہ ازیں غیر مہمان احباب کو بوقت ضرورت قیمتاً بھی کھانا مہیا کئے بجانے کا کے سالانہ رپورٹ صدر تخمین احمدیہ پاکستان ۱۹۴۷/۴۸ء صفحه ۳۵ * تو " ام ۶۱۹۵۳۱۵ صفحه ۲۶ و سے تفصیل : مستورات بذریعہ پرچی سکرٹری صاحبہ لجنہ اماء الله (۱۰۱) مستقل خدام و انصار مقیم - رتن باغ (۱۲) مهمانان بذریعہ پرچی افسر خوراک و ناظر ضیافت (۹۵) عارضی اصحاب معاوضہ پر (۳۰) مستقل اصحاب معاوضہ پر (۴۱) عمله لنگر خدام ، باورچی نانبائی وغیره (۱۸) میزان ۲۹۷ $
۲۷ نه بھی انتظام کر دیا گیا جس سے احباب کو بھاری سہولت رہی ہے.۱۹۴۸ ۱۳ نبوت / نومبر اس سے نظارت ضیافت کی نگرانی حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب کو سونپ دی گئی اور ملک سیف الرحمن صاحب جائنٹ ناظر ضیافت کے فرائض انجام دینے لگے.ماہ احسان جون پر مہش کو آپ علمی مشاغل اور درس و تدریس کے لئے فارغ کر دیئے گئے اور آپ کی جگہ چوہدری جبیب اللہ خاں صاحب سیال بی.اسے واقف زندگی نے کام سنبھالا جو ماه امان مارچ پیش تک انچارج ضیافت لاہور رہے جس کے بعد بالآخر مولوی ابوالمنیر نور الحق صاحب قائم مقام ناظر ضیافت مقرر ہوئے.اس طرح لاہور میں لنگر خانہ کا انتظام جہا نوازی یکم تبوک استمبر ہمیش سے لے کر آخر ماہ ہوتے امتی مش تک قائم رہا سکے ۱۹۴۷ء للہ تعالے کی طرت سید نا الصلح الموعود کے طفیل ان ایام میں جبکہ ہر طرت یاس وحسرت کی گھنی ہیں سیدنا چھائی ہوئی تھیں.غم و اندوہ اور درد و اضطراب خاندان مسیح موعود کے خورد و نوش کا انتظام کی لہریں دوڑ رہی تھیں اور مصائب و آلام کے پہاڑ ٹوٹ رہے تھے اور کوئی کسی کا پرسان حال نظر نہ آتا تھا.اللہ تعالیٰ نے سیدنا المصلح الموعود کی برکت سے کس طرح خاندان مسیح موعود کے خور و نوش کا انتظام کرا دیا کہ اس کی تفصیل خود حضور ہی کے الفاظ میں لکھی جاتی ہے.فرماتے ہیں :- و ہم جب قادیان سے آئے اس وقت ہمارے خاندان کی تمام جائیدادیں پیچھے رہ گئی تھیں اور ہمارے پاس کوئی روپیہ نہیں تھا.بعض دوستوں کی امانتوں کا صرف نو سو روپیہ میرے پاس تھا.ادھر ہمارے سارے خاندان کے دو سو کے قریب افراد تھے اور ان میں سے کسی کے پاس روپیہ نہیں تھا.اس حالت میں بھی میں نے یہ نہیں کیا کہ لنگر سے کھانا منگوانا شروع کر دوں بلکہ میں نے سمجھا کہ وہ خدا جو پہلے دیتا رہا ہے اب کبھی دے گا چنانچہ میں نے اپنے خاندان کے سب افراد سے کہا کہ تم فکر مت کرو سب کا کھانا اکٹھا تیار ہوا کریگا نے سالانہ احمد رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمد استان ۱۹۴۹ و صفحه ۵۳ - ۲۵۵ " ۱۳۲۲-۲۷ مش صفحه ۳۶ * ۳۲-۳۰ مش صفحه ۵۳ :
۲۸ اور ایسا ہی ہوا.اپنے خاندان کے تمام افراد کے کھانے کا انتظام میں نے کیا اور برابر کئی ماہ تک اس بوجھ کو اُٹھایا.آخر کسی نے چھ ماہ کے بعد اور کسی نے نو ماہ کے بعد اپنے اپنے کھانے کا الگ انتظام کیا.اس عرصہ میں وہ لوگ جن کا روپیہ میرے پاس امانتاً بیٹا ہوا تھا وہ بھی اپنا روپیہ لے گئے اور ہمیں بھی خدا نے اس طرح دیا کہ ہمیں کبھی محسوس نہیں ہوا کہ ہم کوئی اور تدبیر ایسی اختیار کریں جس سے ہماری روٹی کا انتظام ہو.میں جب تک لاہور نہیں پہنچا.ہمارے خاندان کے لئے لنگر سے کھانا آتا رہا تھا مگر یہانتک مجھے علم ہے اس کی بھی لنگہ کو قیمت ادا کر دی گئی تھی اور اس کے بعد اپنے خاندان کے دو شور افراد کا بوجھ اُٹھایا.حالانکہ اس وقت ماہوار خوچ کھانے کا کئی ہزار روپیہ تھا.غرض خدا دیتا پھلا گیا اور میں خرچ کرتا چلا گیا.اگر میں خدا تعالٰی سے ٹھیکہ کونے بیٹھ جاتا اور اس سے کہتا کہ پہلے میری تنخواہ مقرر کی جائے پھر میں کام کروں گا اور خدا تعالیٰ خواب یا الہام کے ذریعہ پوچھتا کہ بتا تجھے کتنا روپیہ چاہیے تو اُس زمانہ کے لحاظ سے، جب میری ایک بیوی اور دو بچے تھے میں زیادہ سے زیادہ یہی کہ سکتا تھا کہ سو روپیہ بہت ہوگا مجھے ایک سو روپیہ ماہوار دیا جائے لیکن اگر میں ایسا کرتا تو آج کیا کرتا جبکہ میری چار بیویاں اور بائیں بچے ہیں اور بہت سے رشتہ دارد ایسے ہیں جو اس بات کے محتاج ہیں کہ میں اُن کی مدد کروں میرے وہ رشتہ دار جن کا اب بھی میرے سر پر بوجھ ہے ساتھ ستر کے قریب ہیں.اگر سو روپیہ میں اپنے لئے مانگتا تو ان کو ڈیڑھ ڈیڑھ روپیہ بھی نہیں آسکتا تھا.پھر میں روٹی کہاں سے کھاتا ، کپڑے کہاں سے بنواتا.اپنے بچوں کو تعلیم کس طرح دلاتا اور اپنے خاندان کے افراد کی پرورش کیس طرح کرتا.بہر حال میں نے خدا تعالیٰ سے یہ کبھی سوال نہیں کیا کہ تو مجھے کیا دے گا اور خدا تعالیٰ نے بھی میرے ساتھ کبھی سودا نہیں کیا.میں نے خدا تعالیٰ سے یہی کہا کہ مجھے ملے نہ ملے ، میں تیرا بندہ ہوں اور میرا کام یہی ہے کہ میں تیرے دین کی خدمت کروں.اور اس کے بعد خدا تعالٰی نے بھی یہی کیا کہ یہ سوال نہیں کہ تیری لیاقت کیا ہے.یہ سوال نہیں کہ تیری قابلیت کیا ہے.ہم بادشاہ ہیں اور ہم اپنے بادشاہ ہونے کے لحاظ
۲۹ سے تجھے اپنی نعمتوں سے ہمیشہ متمتع کرتے رہیں گے غرض خدا سے سچا تعلق رکھنے والا انسان ہمیشہ آرام میں رہتا ہے.لیکن فرض کرو وہ کہیں فیصلہ کر دیتا ہے کہ ہم بھوکے مر بھائیں تو کم از کم مجھے تو وہ موت نہایت شاندار معلوم ہوتی ہے جو خدا تعالے کی راہ میں بھوکے رہ کر حاصل ہو بجائے اس کے ہم پیٹ بھر کر خدا تعالیٰ کے راستہ سے الگ ہو بھائیں.اگر ہم اس کی راہ میں بھو کے مر بھائیں تو خدا تعالیٰ کے سامنے ہم کتنی شان سے پیش ہوں گے.کتنے دعوئی کے ساتھ پیش ہوں گے کہ ہم نے تیرے لئے بھوکے رہ کر اپنی جان دے دی.مگر یکیں دیکھتا ہوں کہ زندگی وقف کرنے والے نو جوانوں کے بعد ید حصہ میں اب وہ تو کل نہیں جو ایک سچے مومن کے اندر ہونا چاہیے.حالانکہ اگر سلسلہ ان کو ایک پیسہ بھی نہ دے اور وہ تو کل سے کام لیں تو یقیناً زمین اُن کے لئے اگلے گی اور آسمان ان کے لئے اپنی نعمتیں برسائے گا “ لے صلا امین احمدیہ پاکستان کی بے پناہ مشکلات ہرنے کام کی ابتداء میں کچھ نہ کچھ مشکلات ضرور پیش آتی ہیں مگر صدر انجین احمدیہ پاکستان اور ان کا حل کی تشکیل د تاسیس ہی مشکلات کے ناقابل عبور طوفانوں اور تند و تیز آندھیوں کے دوران ہوئی.قادیان کے بیرونی دنیا سے کٹ جانے کے باعث برصغیر کی احمدی جماعتوں کا شیرازہ بکھر چکا تھا اور سینکڑوں احمدی مرد، عورتیں اور بچے نہایت قابل رحم حالت اور بے سرو سامانی کے عالم میں مشرقی پنجاب سے پاکستان آرہے تھے اور یہ سلسلہ روز بروز بڑھتا ہی بھا رہا تھا.اس ملک گیر سانحہ میں صدر انجمین احمدیہ پاکستان کو اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کے جین بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا آج اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا.تاہم تین مشکلات تو بالکل واضح تھیں :- ا ریکارڈ کی مشکلات صدر انجمن احمدیہ قادیان کے دفاتر کی دستاویزات اور ریکارڈ کا معتدبہ حصہ قادیان کے فسادات میں اس خدشہ کے پیش نظر نذر آتش کر دیا گیا تھا کہ شمن اس سے فائدہ نہ اُٹھا سکے اور جو بچ رہا تھا ( محاسب وغیرہ کے بعض رجب رات کے سوا) وہ شروع میں له " الفضل و الضاور اکتوبر سرش صفحه ۹۲ +
i لایا نہ جا سکا تھا.عملہ کی مشکلات دفتروں کا قریباً سب تجربہ کار عملہ ابھی قادیان میں محصور تھا اور بدہ ہے ہوئے حالات میں بظاہر کوئی صورت دفاتر کے قائم ہونے کی نہیں تھی.۳- مالی مشکلات.سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ جماعت کا مالی نظام درہم برہم ہو چکا تھا.مشرقی پنجاب کی جماعتیں تمہیدست اور بے خانماں ہو کر پہنچ رہی تھیں اور پاکستان کی جماعتوں سے بھی چندہ کا آنا بند ہو چکا تھا اور امانتوں سے روپیہ لے کر کام چلایا جا رہا تھا جیسا کہ حضور نے ۱۲ تبوک ستمبر میش کو خطبہ جمعہ کے دوران بتایا کہ امانتوں کا سلسلہ جاری نہ ہوتا تو جہانتک دنیاوی تدابیر کا تعلق ہے اب تک قادیان کی اینٹ سے اینٹ بج چکی ہوتی (خدانخواستہ دفع الله بنيانه واعز شانه بله جہانتک ریکارڈ کا تعلق ہے اسے بعد میں آہستہ آہستہ منگوانے کا انتظام کیا گیا.اور فوری اور ہنگامی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ضروری سٹیشنری لاہو رہی سے خرید لی گئی.عملہ کی کمی صد رامین احمدیہ پاکستان کے لئے ایک نہایت پریشان کن مسئلہ تھا جس کا مل حضرت مصلح موعود نے یہ فرمایا کہ ارتیک ستمبر کی صبح روزانہ منعقد ہو نے والی میٹنگ کے دوران یہ حکم دیا کہ صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر میں کام کرنے کے لئے خدام الاحمدیہ میں تحریک کی بجائے کہ نوجوان آگے آئیں اور اپنے آپ کو والنٹیر کریں کہ وہ دفاتر میں کام کریں گے اور ایسے خدام کی فہرست نظارت علیا رکھے کہ کون سے خدام کب اور کتنے عرصہ کے لئے دفاتر کے کام میں مدد دے سکتے ہیں.حضرت نواب محمد عبد الله تعال صاحب نے اسی روز قائد مجلس خدام الاحمدیہ لاہور قریشی محمود احمد صاحب ایڈووکیٹ کو حضور کا یہ فرمان پہنچاتے ہوئے لکھا کہ اہور کے اقدام میں آپ تحریک کریں اور جو خدام کم از کم ایک ماہ دے سکیں ان کی فہرستیں جس میں ان کی تعلیمی قابلیت ، عمر اور عام صحت کا ذکر ہو " حضرت اصلح الموعود نے میٹنگ کے دوران ہدایت جاری فرمانے کے علاوہ اگلے روز خطبہ جمعہ کے رپورٹ صدرا همین احمدیہ پاکستان ۱۳۲۳۳ مش ؟ ۱۹۴۴ء الفضل» / تبوك / ستمبر ۳۲ به مش صفحه ۲ کالم ۹۳ +
۳۱ میں بھی عام تحریک کرتے ہوئے اظہار افسوس فرمایا کہ روزانہ جالندھر، ہوشیار پور اور دوسرے علاقوں کے لوگ ہمارے پاس آتے ہیں اور ہمیں ان کے لئے مختلف کارکنوں کی ضرورت ہوتی ہے مگر یہ نظر نہیں آتا کہ کسی سے کام میں حضور نے اس خطبہ میں جماعت لاہور کی ذمہ داریوں کی طرف نہایت پر حلال طریق سے توجہ دلائی جس پر متعدد احمدیوں نے سلسلہ کی رضا کارانہ خدمات کے لئے اپنے نٹیں پیش کر دیا.ان تخدام دین میں سے بعض وہ اصحاب بھی تھے جوں ہور یا بیرونی شہروں سے اپنا کاروبار بند کر کے یا رخصت لے کر آگئے.مثلاً چوہدری فضل احمد صاحب کراچی ، چوہدری لطیف احمد صاحب کراچی ، قریشی محم طفیل صاحب اختر، با بو عبدالحمید صاحب آڈیٹر، شیخ محبوب الہی صاحب لم تے لاہور، عبدالحمید صاحب عارف، چوہدری عبدالرحمن صاحب (خلف الصدق حضرت چوہدری غلام محمد صاحب مینجر نصرت گریز ہائی سکول قادیان ، چوہدری عبد اللہ خال صاحب.لاہور کے ان اقدام میں سے جنہیں ان دنوں سلسلہ احمدیہ کے اعزازی کارکن کی حیثیت سے کام کرنے کا موقعہ ملا شیخ نور احمد صاحب (ایڈووکیٹ بھی تھے.ذیل میں ہم شیخ صاحب کا ایک بیان درج کرتے ہیں جس سے ۳۲ مہیش کے ہنگامی حالات کا صحیح اندازہ لگانے میں آسانی ہوگی.آپ تحریر فرماتے ہیں :- ہ میں ان دنوں لا کالج میں متعلم تھا مگر تعطیلات گرما کے باعث صرف ۱۸ روز پیشتر ایک فوجی افسر کی نوازش سے آرڈننس ڈپو لاہور چھاؤنی میں بطور سینٹر کلرک دو ماہ کے لئے ملازم ہوا تھا.حضور پر نور کی مقدس زبان سے یہ الفاظ سُنتے ہی دل میں ارادہ کر لیا کہ جمعہ کی نماز کے فوراً بعد اپنی خدمات رضا کارانہ طور پر پیش کر دوں گا.چنانچہ نماز سے فارغ ہوتے ہی متعلقہ دفتر میں استعفی لکھ کر بھیج دیا اور جودھا مل بلڈنگ پہنچے کہ دفتر میں آپ (یعنی حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب ناقل) کی خدمت میں حاضر ہوا جو اُن دنوں ناظر اعلیٰ تھے.آپ کے مشفقانہ استفسار پر بنا کسار نے اپنے کوائف اور ارادہ کا اظہار کیا تو بہت خوش ہوئے اور مسکراتے ہوئے فرمایا کہ ابھی ( ابو المنیر) مولوی نور الحق صاحب ناظر استخلاء کی طرف سے ایک ه برادر مصر جو پوری تفلیس احمد صاحب ناصر بی.اسے مبلغ امریکہ جو ہوائی جہاز کے ایک حادثہ میں جاں بحق ہو گئے ، کے اصحاب احمد جلد سوم طبع دوم صفحه ۲۰۹ حاشیه ( مؤلفه جناب ملک صلاح الدین صاحب ایم.اسے قادیان ہو
۳۲ کارکن کے لئے شدید مطالبہ ہو رہا تھا.آپ نے مجھے ان کے پاس بھیج دیا.ناظر صاحب انخلاء نے مجھے فرمایا کہ دو تین چوہڑے لے کر سیمنٹ بلڈنگ کو صاف کراؤ اور جو مٹروں کے لئے مغالباً دو تین روپے بھی دیئے.وہاں جا کر دیکھا تو ہر منزل ، ہر کمرہ سیڑھیاں غرض ہر جگہ کو مہاجرین نے واقعی بیت الخلاء بنا رکھا تھا اور خوفناک تعفن پیدا ہو چکا تھا خاکسار اور دونوں خاکروبوں نے مل کر دو اڑھائی گھنٹے میں صفائی کی اور پھر دفتر آکر پورے پیش کی.بعد ازاں ناظر صاحب انخلاء مولوی ابوالمنیر نور الحق صاحب نے مجھے ناظر صاحب اعلیٰ کے پاس بھیجوا دیا.حضرت نوان ان صاحب کو میں نے سارا واقعہ عرض کیا تو آپ نے فرمایا.مجھے سخت فکر اور غم لگا ہوا تھا کہ سیمنٹ بلڈنگ میں خلافت کے باعث بچے اور عورتیں کسی بیماری کا شکار نہ ہو جائیں.اب مجھے اطمینان ہو گیا ہے.اس وقت آپ کا دلر با بستم اور جذبات اتقاء کا اختلاط عجیب قسم کا تھا اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ آپ کے دل و دماغ پر جہاں درج ہجرت کا جانگدازہ احساس مستولی ہے وہاں خدا کے مامور رسول کی تخت گاہ اور راحت بھرے نشمین سے دست قدرت کے اُڑائے ہوئے طیور کی آسائش و آرام اور بہبودی کا جذبہ بھی موجزن ہے.آپ ان دنوں انضباط اوقات کو دفتر میں بالکل ملحوظ نہ رکھتے تھے بلکہ ایک لحاظت جو ہیں گھنٹے کی ڈیوٹی سر انجام دیتے تھے کیونکہ سارا دن مختلف دفتروں میں مختلف امور کے متعلق سرکاری حکام یا دیگر لوگوں سے ملاقاتیں کرنا پڑتی تھیں اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ ابھی آکر بیٹھے ہیں کہ ایک فون آگیا جس کو سُنتے ہی پھر چلے گئے یا حضرت اقدس ایڈا اللہ بنصرہ العزیز نے کسی ہنگامی کام کے لئے بلوا بھیجا.اس طرح عشاء کے وقت تک تو میں نے عموماً آپ کو کام کرتے دیکھا.آپ کی طبیعت میں عجیب قسم کا سکون ، تحمل ، بردباری، کیفیت اتقاء حسن صورت و سیرت ، جذبه اخوت و ہمدردی اور مفوضہ فرائض کی سرانجام دہی میں انتھک سعی اور استغراق پا یا بھاتا تھا.غالباً دو تین دن اپنے دفتر میں رکھنے کے بعد حضرت نواب صاحب نے مجھے حضرت نواب محمد دین صاحب کی خدمت میں بھیج دیا جو اُن دنوں ناظر دعوت و تبلیغ تھے.اس سے پہلے
اُن سے تعارف نہ تھا.حسنِ اتفاق سے دونوں نصاب صاحبان کا حسن انتخاب عمل میں آیا تھا.عمر کے لحاظ سے ایک جوان اور دوسرے ضعیف العمر مگر جنون مومنانہ، فعالیت، جذبہ ایثار اور انتھک معملی زندگی کے اعتبار سے دونوں میں فرق قائم کرنا مشکل تھا حضرت نواب محمد دین صاحب سارا سارا دن اپنی رفاقت شعار شیور نے کار میں مختلف النوع جاتی امور کی تکمیل کے سلسلہ میں متعلقہ دفاتر اور محکمہ جات میں افسران مجاز سے ملاقاتیں کرتے تھے اور خاکسار کو ہر وقت ساتھ رکھتے اور ساتھ ساتھ مختلف امور نوٹ کراتے بھاتے.آپ نہیت اور حسن اخلاق اور عشق احمدیت کا نمونہ تھے.تعطیلات کے اختتام پر اور فسادات کی حالت اچھی ہونے پر لاء کالج میں پڑھائی شروع ہو گئی تو اس خیال سے کہ کام کی شدت اور وسعت بھی کم ہو چکی تھی میں نے حضرت نواب صاحب سے مناسب الفاظ میں ذکر کیا تو آپ نے محبت بھر سے دعائیہ الفاظ میں رخصت کیا ہے اگرچہ حضرت امیر المومنین کی آواز پر متعدد احمدیوں نے لبیک کہی مگر جب تک قادیانی سے ار نبوت / نومبر میش کا آخری کا نوائے نہیں آگیا عملہ کی قلت بدستور قائم رہی.یہی وجہ ہے کہ رتن باغ میں جہاں ناظر اعلے کی طرف سے ضروری اطلاعات کے لئے ایک بورڈ لگا دیا گیا تھا.اکتوبر کو چاک سے حسب ذیل اعلان لکھوایا گیا ہے.۶۱۹۴۷ " احباب موجودہ حالات کی نزاکت سے بخوبی واقف ہیں کہ کس طرح سلسلہ عالیہ اور اس کے افراد پر ایک ناگہانی ابتلاء پیش آیا ہے.اس وقت ہو مجھے لاہور میں کام کر رہے ہیں وہ کارکنوں کی قلت کی وجہ سے اپنے فرائض بخوبی انجام نہیں دے سکتے اور احباب کی پوری مدد نہیں کر سکتے.لہذا ایسے احباب جو کسی نہ کسی صورت میں تو خدمت انجام دے سکتے ہوں مثلاً کلرک ، ٹائیپسٹ ، حساب دان ، ڈاکٹر، کمپونڈر وغیرہ وغیرہ بہت جلد ناظر صاحب اعلیٰ کے دفتر میں اپنا نام و پتہ مع دیگر تفصیلات متعلق صلاحیت خدمت درج کرائیں اور اس طرح اجر عظیم کے مستحق ہوں.امید ہے کہ احباب بہت جلد توجہ فرمائیں گے“ بی اعلان اس دور کی دفتری مشکلات کی منہ بولتی تصویر ہے.چنانچہ مولانا جلال الدین صاحب ے " اصحاب احمد " جلد ۱۲ سیرت حضرت نواب محمد عبد الله بغال صاحب صفحه ۱۳۹ - ۱۴۱ :
۳۴ شمس قائم مقام ناظر اعلیٰ نے صدر امین احمدیہ پاکستان کی سال اول کی رپورٹ میں تحریر فرمایا.پرانے اور کہنہ مشق کارکنوں کی جگہ نئے اور اعزازی کارکنوں نے لے لی اور وہ رات اور دن نہایت اخلاص اور محنت کے ساتھ سلسلہ کے کاموں میں مصروف ہو گئے.اللہ تعالیٰ ان سب کو دین و دنیا میں بہتر سے بہتر جزا دے لیکن یہ امر ظاہر ہے کہ یہ نئے اور اعزازی کا رکن جن کو پہلے صدر انجین احمدیہ کے کاموں کا تجربہ نہیں تھا اس کی اور خلا کو پورا نہیں کر سکتے تھے ، جو تجربہ کار پرانے کارکنوں کی عدم موجودگی میں پیدا ہو چکا تھا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ..کوئی موثق ریکارڈ تمہیں رکھا جا سکا " پھر لکھا :- اور شملہ کے جو افراد قادیان میں تھے وہ یکے بعد دیگرے جنوری کے ہتک لاہور آگئے d اور مفوضہ کام ان کے سپرد کر کے اعزازی کارکنوں کو شکریہ کے ساتھ فارغ کر دیا گیا." مالی مشکلات جماعت کا پورا نظام چندوں پر ھیل رہا تھا لیکن چندوں کی آمد ملکی ذرائع و وسائل کے محدود و مخدوش ہونے کے باعث یکسر معطل ہو چکی تھی جو نہایت درجہ تشونیش انگیز امر تھا.اس تعلق میں حضور نے کیا اقدام فرمایا.اس بارہ میں جناب مولوی ابوالمنیر نورالحق صاحب کا بیان ہے کہ:." حضور رضی اللہ عنہ نے صدر انجین کے قیام کے ساتھ ہی ہدایت فرمائی کہ چونکہ چندے نہیں آرہے اس لئے ہر محکمہ کو کوشش کرنی چاہئیے کہ وہ خود کفیل بنے اور اپنے اخراجات کو چھلانے کی تجویز کرے.ان حالات کا تھوڑا سا اندازہ دو واقعات سے ہو سکتا ہے.صدر انجمن کے قیام کے بعد حضور نے مکرم مولوی محمد صدیق صاحب کو سجود عامل بلڈنگ میں ایک دوکان کھلوا دی تاکہ اس کی تجارت کے ساتھ کوئی آمد کا ذریعہ پیدا ہو سکے چنانچہ کافی عرصہ تک ان کو یہ کام کرنا پڑا.اسی طرح سے خاکسار کو ارشاد فرمایا کہ اپنے محکمہ کے کام کو پھلانے کے لئے تم مالٹے بیچا کرو چنانچہ خاکسار مالٹوں کا ٹرک بھر کر روز واہگہ بارڈر پر بھاتا اور اس سے جو آمد ہوتی اس کی رپورٹ حضور کو دیتا تھا.ان حالات میں صدر انجین احمدیہ کے ناظران اور عملہ نے کام شروع کیا.ناظر صاحب بیت المال کو حضور کا یہ ارشاد تھا کہ جتنی جلدی ہو سکے وہ چندوں کی فراہمی شه رپورٹ صدر امین احمدیہ پاکستان ۲۲۳ بیش صفحه ۰۵۱ د FANANA
۳۵ کے لئے کوشش کریں تاکہ ان اخراجات کو جن کا کونا ضروری تھا کیا جا سکے.اسی طرح سیه دیگر محکمہ جات کو بھی ہدایات دیں لے YANZ-NA ش کو بجٹ اور پاکستان میں متحدہ ہندوستان میں صدر انجمین احمدیہ کے میں صدر احمدیہ آخری مطبوعہ بجٹ (بابت ۲۶-۳۲۶ مہش) کے ابتدائی چار ایام کی آمد کے اعداد و شمارہ مطابق آمد و خرج کا تعینہ یہ تھا.نمبر شمار مرات آمد چنده عام حصه آمده چنده مستورات ۳۴۰۰۰ آمد دیگر مدات صدر انجمن احمدیه جلسہ سالانہ آمد برائے اخراجات مشروط به آمد آمد تعلیم الاسلام کا لج و فضل عمر ہوسٹل.رقم ۲۹۶۴۸ • 14220I 1079766 لام سلام " ۲۰۹۳۶۲۰ چنده خاص میزان آمد صیغه سمات امانتی ام زكرة آمد خاص جو خاص اخراجات کے لئے مخصوص تھی کل میزان q مه غیر مطبوعہ
۳۶ تمرات خرچ رقم ۱۲۷۷۲۷۲ ۲۹۶۴۸ ۲۰۲۳۵۷ ۱۵۶۹۲۷۷ ۲۶۳۸۴ • ۲۳۴۵۰۳ اخراجات معمولی جلسه سالانه مشروط به آمد تعلیم الاسلام کا لج و فضل عمر کا لج کمیٹی صیحہ بجات امانتی صدرا تخمین احمدیه زكوة میزان خاص اخراجات 1- کل میزان ۲۰۹۳۶۲۰ اس بجٹ کے مطابق اگر کم از کم پونے دو لاکھ روپے ماہوار آمد جاری رہتی تو پھر اخراجات مجوزه پورے ہو سکتے تھے مگر صورت یہ تھی کہ ایک عرصہ سے آمد قطعی بند تھی اور روپیہ بے شمار خرچ ہو رہا تھا بلکہ اب جو صدر انجمن احمدیہ پاکستان قائم ہوئی تو اس کا آغاز مالی اعتبار سے نہایت پوشکن اور تکلیف دہ صورت حال کے ساتھ ہوا جس کے ثبوت میں ہم اس انجمن کے پہلے پچار دنوں کے اعداد شمار درج ذیل کرتے ہیں جو نظارت علیا کے مستند ریکارڈ سے اخذ کئے گئے ہیں :- تاریخ آمد کی تفصیل یکم تبوک استمبر حفاظت مرکز تحریک جدید میزان 4A.۳/ واحباب لاہور سے یہ رقم آئی ) 10/-
میزان ۳۷ تاریخ آمد کی تفصیل ۲ تبوک استمر ه ۱۳۳۶ حفاظت مرکز تحریک جدید حصہ آمد 140/9/9 KAJA|- ١٠-١ ٣٨٨ 71976 چند عام چنده جلسه سالانہ کشمیر فنڈ پائی آنے ١٣٤١٠١٠ ١-١ ٢٣- ٢/٨/٠ برائے اشاعت کشتی نوح مساکین فطرانہ ۹۳۹ - ۹ ۲۲۹ 1-1-1- غلہ فنڈ غلہ فنڈ الفضل 1/14/- +14 14|-|- ۱۳ تبوک استمبر هر ۱۳۲۲ه حفاظت مرکز حصه آمد 114-1-11-1-1 - الفضل 91-1- م تبوک ستمبر اس حفاظت مرکز حصہ اندر چنده عام سولیت 19-1-1- 4·1-1· مساکین تحریک جدید 1--|-|- 1--|-/+.01-1-.امانت فنڈ کی برکت سے ایش کے مکہ مسلم فسادات میں مشرقی پنجاب کے سکھ اکھوں مسلمان اپنے گھروں سے زبر دستی نکال کو پاکستان ہزاروں احمدیوں کا مالی استحکام کی طرف دھکیلے جارہے تھے.پاکستان پہنچنے والے ان مظلوم، بے بس اور بیکس پناہ گزینوں کی حالت ناقابل بیان حد تک درد ناک تھی.وہ بمشکل اپنی بھائیں بچا کر پہنچے اور کوڑی کوڑی کے محتاج ہو گئے جنتی کہ اکثر وہ مسلمان رؤساء جو شاہانہ ٹھاٹھ سے رہتے تھے اور معقول جائیدڑوں کے مالک تھے اور بھاری رقوم اپنے یہاں نقد رکھتے تھے جب اپنے گھروں نکالے گئے ، تو بالکل خالی ہاتھ تھے.یہی کیفیت مشرقی پنجاب سے آنے والے اکثر و بیشتر احمدیوں کی تھی.لیکن جن احمدیوں نے اپنے مقدس آف کی آواز پر قبل از وقت لبیک کہتے ہوئے اپنی رقوم صدر انجمن احمدیہ قادیان یا تحریک جدید کی امانت فنڈ میں جمع کرار کنی سے نکلے เ
۳۸ تھیں.ان کا جمع شدہ تمام سرمایہ چونکہ حضرت مصلح موعود کی بر وقت توجہ اور ذہانت و بصیرت کے طفیل بذریعہ ہوائی جہاز بالکل محفظ صورت میں پہلے ہی پاکستان پہنچ چکا تھا.اس لئے جونہی وہ پاکستان پہنچے انہیں ان کے طلب کرنے پر پورے کا پورا روپیہ مل گیا اور ان کی مالی حالت میں یکا یک استحکام پیدا ہو گیا اور جہاں دوسرے لاکھوں پناہ گزین در بدر ٹھوکریں کھاتے پھر رہے تھے یا کمیوں میں گل سنٹر رہے تھے وہاں ان کی مختلف تجارتیں اور دیگر کاروبار کامیابی سے پھل نکلے.سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود نے یکم فتح دسمبر ۳۲ میش کو امانت فنڈ کی +190 اس حیرت انگیز برکت اور بخدا تعالیٰ کے مالی نشان پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے بیان فرمایا :- جس وقت ہم قادیان سے نکلے ہیں اس وقت وہی لوگ محفوظ رہے ہیں جن کی امانتیں تحریک تجدید یا صدر انجمن احمدیہ میں تھیں.یہاں پہنچے کو انہوں نے روپیہ واپس لے لیا اور کاروبار شروع کئے.اب ان میں سے بعض بڑی بڑی تجارتوں کے مالک ہیں.دوسرے لوگ لٹ گئے لیکن یہ لوگ بچ گئے.بخدا تعالیٰ نے فضل کر دیا کہ جن بنکوں میں جماعت کا روپیہ تھا انہوں نے دیانت داری سے کام لیا اور ہمارا روپیہ واپس کر دیا.ہمارے عملہ نے تو سستی کی لیکن جب ہم لاہور پہنچے تو میں نے کہا روپیہ فوراً نکلوا لو.مجھے کہا گیا کہ روپیہ سکلا نے کی کیا ضرورت ہے ؟ نگوں میں تحفظ پڑا ہے ، پڑا رہے.لیکن میں نے کہا حالات ایسے ہیں کہ اگر اب رویہ نہ نکلوایا گیا تو بعد میں بہت سی وقتیں پیدا ہو جائیں گی بچنا نچہ سمیر ان کے مہینہ میں ہی دفتر نے روپیہ پاکستان تبدیل کروالیا اور سلسلہ ایک بڑے صدمے سے نکہ گیا.اب یہ حالت ہوگئی ہے کہ نہ کوئی روپیہ واپس لا سکتا ہے اور نہ ہندوستان بھیج سکتا ہے.چونکہ سوائے اتنے روپے کے جس کی قادیان والوں کو ضرورت تھی باقی سارا روپیہ واپس آگیا تھا اس لئے لاکھوں لاکھ روپیہ انجمن بلا تکلف واپس دیتی چلی گئی اور اب کیوں نہیں سینکڑوں ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اس روپیہ سے تجارتیں جاری کیں.اگر ان کا روپیہ یہاں نہ ہوتا تو سکھوں نے لوٹ لینا تھا لیکن اب ان میں بعض لکھ پتی ہیں.غرض یہ فائدہ بخش چیز بھی ہے اور خدمت دین بھی ہے.اس میں برکت ہی تھی کہ امانت رکھنے والوں نے یہ خیال کیا کہ روپیہ بے فائدہ گھر پڑا ہے اُسے دفتر میں رکھ دیں تاکہ وقتی
٣٩ طور پر اس سے سلسلہ فائدہ اُٹھا لے اور نیک نیتی کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے انہیں بڑی ٹھوکر سے بچالیا.یہاں پہنچ کر میں سمجھتا ہوں کہ پندرہ سولہ لاکھ کے قریب روپیہ لوگ واپس لے چکے ہیں" سے امامت فنڈ کے ان شاندار اور شیریں ثمرات کا اقرارہ احمدیت کے بدترین مخالفوں کو بھی کرنا پڑا ہے.چنانچہ لائل پور کے ہفت روزہ " المنبر" نے اپنی ہر مارچ نہ کی اشاعت میں لکھا:.تقسیم ملک کے وقت مشرقی پنجاب کی یہ واحد جماعت ہے جس کے سرکاری خودانہ میں معتقدین کے لاکھوں روپے جمع تھے اور جب یہاں مہاجرین کی اکثریت بے سہارا ہو کر آئی تو قادیانیوں کا سرمایہ جوں کا توں محفوظ پہنچ چکا تھا.اس سے ہزاروں قادیانی بغیر کسی کاوش کے از سر نو بھال ہو گئے" ر अवतर توائے احمدیت کا پاکستان میں منتقل کیا جاتا ہو تو ستمبر اپریل کا دن سلسلہ احمدیہ میں خاص اہمیت کا حامل ہے اس لئے کہ اس دن حضرت مرنا عزیز ا دینا نائب ناظر اعلیٰ قادریان نے حضرت قمرالانبیاء کی خصوصی ہدایت پر لوائے احمدیت " کا بکس پاکستان بھیجوا دیا.یہ یادگار بکس مرزا عبد الغنی صاحب محم صدر انجمن احمدیہ لائے تھے.حضرت سیدنا اصلح الموعود کا پاکستان میں حضرت سیتا المصلح الموعود نے پاکستان پہلا خطبہ جمعہ میں پہلا خطبہ جمعہ ہر تبوک استمبر سرش کو ارشاد فرمایا.اور مستقبل احمدیت سے متعلق پر شوکت یونی خندا که برگزیده خلفاء معرفت و بصیرت کتنے بلند و بالا اور ارفع و اعلیٰ مقام پر کھڑے ہوتے ہیں اور انہیں اپنے پیارے رب کے پاک وعدوں پر کتنا ز بر دست یقین ہوتا ہے؟ اس کا اندازہ حضور کے اس پہلے تخطیہ ہی سے بخوبی لگ سکتا ہے جس میں حضور نے ازحد نا مساعد اور نا موافق حالات میں واضح پیشگوئی فرمائی کہ اللہ تعالے ان انبتلاؤں میں تحریک احمدیت کو یقینی طور پر کامیابی بخشے گا.له " الفضل" 19 فتح دسمبر ۱۳۳۹ صفحه ۵ کالم ۳ - ۰۴ +19
چنانچہ حضور نے سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.آج جبکہ لاکھوں انسان موت کے گھاٹ اتارا بھا رہا ہے یا موت کے مقام سے بھا گئے کی کوشش کر رہا ہے لمبی باتیں اور لمبی کہانیاں کچھ فائدہ نہیں دے سکتیں.ایسے خطرناک وقت میں سوچھنے اور کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ وقت قربانی اور ایشار کا ہوتا ہے نہ کہ باتیں کرنے کا.آجکل ہماری جماعت جن مشکلات میں سے گزر رہی ہے ، شاید باقی جماعتیں ان مشکلات میں سے نہیں گزر رہیں بلکہ شاید کیا یقیناً دوسری جماعتوں کو اس قسم کی مشکلات در پیش نہیں ہیں جو ہماری جماعت کو در پیش ہیں کیونکہ ہمارا مرکز ہاں وہ مرکز ہو ہماری امیدوں کی آماجگاہ ہے اور جس کا نام سن کر ہمارے دل دھڑکنے لگتے ہیں وہ ایسے حالات سے دوچار ہو رہا ہے کہ دنیوی اسباب کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کے بچنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی.پس سب سے زیادہ مشکلات ہمارے لئے ہیں.میں یہ نہیں کہتا کہ جو مشکلات ہمیں پیش آئی ہیں وہ انسانی تدبیر سے بالا تھیں.میرے نزدیک یہ مشکلات ایسی ہیں کہ اگر صحیح تدابیر اختیار کی بجائیں تو یہ حالات پیدا ہی نہ ہوتے اور عام مسلمانوں کو بھی اور احمدیوں کو بھی یہ مشکلات پیش نہ آئیں.لیکن اب وقت ہاتھ سے نکل چکا ہے اور نکتہ چینی کا کوئی فائدہ نہیں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے ایسے اوقات قربانی اور کام کرنے کے ہوتے ہیں.مگر بہرحال ایک دفعہ دنیوی لحاظ سے ہماری جماعت کی بنیادیں بظاہر ہل گئی ہیں اور اب اللہ تعالیٰ امتحان لینا چاہتا ہے اور وہ بچاہتا ہے کہ از سر نو ان بنیادوں کو مضبوط کیا جائے اور اللہ تعالیٰ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ کتنے ہیں جو ایمان اور اخلاص کے میدان میں پیسے اُترتے ہیں اور کتنے ہیں جو قربانی اور ایثار سے کام لے کر اپنے ایمانوں پر مہر ثبت کرتے ہیں.انہی مسائل پر روشنی ڈالنے کے لئے لیکن قادیان سے آیا ہوں کہ جماعت کے سامنے ابت مور کو پیش کروں جن کے متعلق میں مشورے کی ضرورت سمجھتا ہوں.میں آج محبت سے صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ یہ اس کے امتحان کا وقت ہے ایسے موقع پر ہر شخص کو مرد میدان ثابت ہونا چاہیے.اور جو شخص ایسے وقت میں مردِ
میدان ثابت نہیں ہوتا اُسے پکڑ کر کھڑا رکھنا بھی جائز نہیں ہوتا.ایسے شخص کو اب جلدی ہی جماعت سے علیحدہ ہونا پڑیگا.اب جماعت کو ایسے امتحانات پیش آنے والے ہیں کہ جن کے بعد وہی لوگ اس جماعت میں شامل رہ سکیں گے جو قربانیوں میں شامل ہونگے باقی لوگوں کو ان کی ذمہ داریوں سے سبکدوش کر دیا جائے گا.وہ زمانہ چلا گیا کہ جب ہم یہ کہتے تھے کہ یہ کچھ ہماری طرف سے عقد کے لئے پیش ہے.اب وہ زمانہ آ گیا ہے جبکہ ہم یہ نہ کہیں گے کہ یہ چیز ہماری طرف سے پیش ہے بلکہ اب اللہ تعالیٰ کے مقدر کو منتظم ہم سے کہیں گے کہ اللہ تعالٰی کے مال میں سے اتنا ہم تم کو دیتے ہیں.ہر وہ شخص جو ایسی قربانی سے بچنے کی کوشش کرے گا جماعت میں شامل نہیں رہ سکے گا.اگر نوے فیصدی لوگ بھی اس ابتدار میں گر جائیں تو بھی میں یقین رکھتا ہوں کہ بقیہ جماعت سینکڑوں گنا زیادہ کام کر سکے گی.پس تم میں سے ہر شخص کو دعاؤں میں لگ جانا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ اسے احمدیت میں ثابت قدم رکھے اور سچی قربانی کرنے کی توفیق عطا فرمائے ایک دن ولات میں ہم امن میں رہنے والے جنگ و بعدال میں مبتلا کر دیئے گئے اور پُر امن ہندوستان میں رہنے والے یاغستان میں پھینک دیئے گئے.لیکن اگر یہ صحیح ہے کہ اس دُنیا کا پیدا کرنے والا کوئی خدا ہے.اور اگر یہ صحیح ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دین سچا ہے اور اللہ تعالے کا قائم کردہ دین ہے اور اگر یہ درست ہے کہ جب رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے دین میں کمزوری پیدا ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا تا کہ آپ دوبارہ اس دین کو قائم کریں تو پھر یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ شوری ڈوبے اور پھر نہ چڑھے اور ہم اس کے پڑھنے کا انتظار کرتے رہیں یا سورج پڑھے اور وہ نہ ڈوبے اور ہم اس کے ڈوبنے کا انتظار کرتے رہیں مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ بڑی سے بڑی آفت بھی اسلام کو کوئی نقصان پہنچا سکے.رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے متعلق پرانی کتابوں میں آتا ہے کہ وہ کونے کا پتھر ہے جس پر وہ گرے گا اسے چکنا پور کر دے گا اور جو اس پر گرے گا وہ بھی چکنا چور ہوگا.سو یقیناً ہم آئندہ ابتلاؤں میں کامیاب ہوں گے لیکن یہ خوشی انہی کے لئے ہو گی ہو اس وقت ہلاکت کے سمندر میں
اپنے آپ کو یہ کہتے ہوئے ڈال دیں گے کہ ہے هر چه بادا باد ما کشتی در آب انداختیم ساله ما اس پہلے خطبہ جمعہ کے بعد حضور نے بار بار مختلف پیرایوں اور کھلے لفظوں میں یہ بھی پیشگوئی فرمائی کہ جماعت احمدیہ موجودہ خونی انقلاب سے صحیح سلامت گذرنے کے بعد عنقریب پہلے سے زیادہ قوت و شوکت حاصل کرے گی.مثلاً ۱۲ر تبوک استمبر مہیش کے دوسرے خطبہ جمعہ میں حضور نے یہ بشارت دی کہ اس زمانہ میں محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کی خدمت کے لئے خدا تعالی نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو مبعوث فرمایا ہے اور خدا نے اپنے ہاتھ سے سیاری جماعت کو قائم کیا ہے.خدا اپنے لگائے ہوئے پودے کو دشمن کے (ہاتھ) سے کبھی تباہ نہیں ہونے دے گا.خدا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا اس ملک میں کبھی نیچا نہیں ہونے دے گا.خدا قرآن کو اس ملک.میں کبھی ذلیل نہیں ہونے دے گا.وہ ضرور ان کو پھر عزت بخشے گا اور ان کو فتح و کامرانی عطا کرے گا.ہاں اگر ہماری کوتاہیوں کی وجہ سے یہ ابتلاء لمبا ہو جائے تو اور بات ہے ورنہ خدا تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے کہ اسلام کی فتح ہو، محمد رسول اللہ کی فتح ہو اور پھر اسلام کا جھنڈا دنیا کے تمام جھنڈوں سے اونچا لہرائے لے اسی طرح ۲۵ تبوک استمرر بش کو رتن باغ میں ایک رویاء کی تعبیر میں فرمایا کہ " اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حالات کے بظاہر کیسے ہی خطرناک ہوں ہمیں خدا تعالیٰ موجودہ مینار سے زیادہ شاندار مینار عطا فرمائے گا اور ہماری طاقت اور قوت میں اضافہ فرمائے گا “.مله " الفضل" ار تبوك استمبر ۱۳۲۵ صفحه ۲۰۱ ۰ له " الفضل" ۳۰ تبوك / ستمبر ۳۲ ده مش صفحه به کالم ۲-۳ * 1974 " الفضل " حكم الخاد/ اکتوبر ہ نہیں صفحہ ۲۰۱ ہے "
حضور نے ۳/ احادر اکتوبر میش یعنی عین اس روز جبکہ قادیان پر براہ راست حملہ کیا گیا تھا خطبہ جمعہ میں یہانتک فرما دیا کہ ر موجودہ ابتداء تو کوئی چیز نہیں ہم سمجھتے ہیں اگر سارے احمدی مارے جائیں اور صرف ایک پودا اللہ تعالیٰ رکھ لے تو اس سے احمدیت پھر دوبارہ تر و تازہ ہو جائے گی اور خدا کی باتیں کبھی پوری ہونے سے رہ نہیں سکیں گی " لے ازال بعد ۲۴ / اتحاد / اکتوبرش کے خطبہ جمعہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کے ایک لطیف کشف کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا :- در اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہماری جماعت پر اس وقت ایک مصیبت آئی ہے لیکن یہ صیبت ایسی نہیں جس کی اللہ تعالے کی طرف سے ہمیں پہلے سے خبر نہ مل چکی ہو.بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک رویا، اس طرف صریح طور پر اشارہ کر رہا تھا اور گو اس روبار کے اور معنی ہماری جماعت پہلے کرتی رہی ہے اور وہ معنی بھی اپنی جگہ پر درست تھے مگر اس کے دوستر معنی بھی ہو سکتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں.میں نے رویا رئیں دیکھا کہ ہم ایک نیا آسمان اور نئی زمین بنا رہے ہیں.ہو سکتا ہے اس رویاء میں اسی زمانے سے متعلق پیشگوئی کی گئی ہو.جب قادیان کے آسمان اور زمین کو دشمن نے بدل دینا تھا.اللہ بتایا گیا ہو کہ تم اپنے لئے ایک آسمان اور زمین بناؤ گے مگر دشمن اسے تباہ کر دے گا.اس کے بعد اللہ تعالیٰ ہمیں پھر توفیق دے گا کہ تم ایک نیا آسمان اور نئی زمین بتاؤ.چنانچہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اب وہی وقت آگیا ہے جب میں ایک نئے آسمان اور نئی زمین کی ضرورت ہے " ہے حضرت اقدس نے اسی خطبہ کے دوران مزید فرمایا : اس وقت سارے مسلمانوں پر ایک مصیبت کا دور آیا ہوا ہے اور ہم بھی اس دور میں سے گزار رہے ہیں.مگر یہ کوئی عجیب بات نہیں.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے درخت اپنی له " الفضل، در اتحاد النویر به بیش صفحه ، کالم ۱-۲ ۰ ۶۱۹۴۷ f الفضل" ۳۱ امضاء / اکتوبر ۱۳۲۰ ش صفحه ۳ کالم ۳
جگہ سے اکھیڑے جاتے اور پھر دوسری جگہ اس لئے لگائے بجاتے ہیں کہ ان کا پھل پہلے سے زیادہ لذیذ اور میٹھا ہو.اس وقت دنیا نے دیکھتا ہے کہ ہماری پہلی ترقی آیا اتفاقی تھی یا محنت اور قربانی کا نتیجہ تھی.اگر تو وہ اتفاقی ترقی تھی اور ہماری محنت اور قربانی کا اس میں کوئی دخل نہیں تھا تو یہ یقینی بات ہے کہ ہم دوبارہ اپنی بریں زمین میں قائم نہیں کر سکیں گے.اور اگر پہلی ترقی اتفاقی نہیں تھی بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل اور جاری کوشتوں ہو مفتوں اور قربانیوں کا نتیجہ تھی تو پھر یہ یقینی بات ہے کہ موجودہ مصیبت ہمارے قدم کو متزلزل نہیں کر سکتی بلکہ اس کے ذریعہ سے ہماری جڑیں اور بھی پاتال میں چلی جائیں گی اور سہماری شاخیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں گی " ہے " تھوک ستمبر کی ہم مشاورت سید نا اصلح الموعود نے صدر امین احمدیہ پاکستان کی تشکیل کرنے کے ساتھ ہی ریکم تبوک استمبر کو یہ فیصلہ بھی میں اہم جماعتی فیصلےفرمایا کہ جماعت احمدیہ کی تنظیم نو سے متعلق حضور کے موتیز جو پروگرام ہے اس کی تفصیلات طے کرنے کے لئے مر تبوک استمبر کو نمائندگان جماعت کی فوری مشاور منعقد کی جائے جس کا مقام رتن باغ اور وقت صبح نو بجے مقرر فرمایا.اس سلسلہ میں نہ صرف مکرم شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور کی طرف سے پاکستانی جماعتوں کو سائیکلو سٹائل کئے ہوئے سرکہ سے اطلاع دی گئی بلکہ اس کا اعلان ریڈیو پاکستان سے بھی نشر کیا گیا.ل " الفضل " اس اعتقاد اکتوبر ۱۳۳۶ متر بیش صفحه ۳ کالم ۱-۲ : ل و نقل مطابق اصل، بسم الله ارحمن الرحيم بنحمده ونصلى على رسول الكريم وعلى عبده مسیح الموعود هو الناصر بخدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.لاہور یکم ستمبر کہ مکرمی ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکان - حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ نصرہ العزیز آج یہاہا تشریف فرما ہیں حضور نے فرمایا ہے کہ مغربی پنجاب - سرود - سندھ مملکت پاکستان میں رہائش پذیر نمائندگان مشاورت کو حالات حاضرہ کے بارے میں غور کرنے کے لئے لاہور بلایا جائے.براہ مہربانی سب نمائندگان مجلس مشاورت کو حضور کا یہ ارشاد پہنچا دیں اور تاکید فرما دیں کہ تمام نمائندگان در ستمبر کہ کو ضرور لاہور پہنچ جائیں.مجلس شوری کا اجلاس ، ستمبر کو منعقد ہوگا.نمائندگان مسجد احمدیه بیرون دہلی دروازہ پہنچ جائیں خاکسار بشیر احمد امیر جماعت احمدیہ لاہور والسلام ٹمپل روڈ لاہور
۴۵ جہانتک ہندوستانی جماعتوں کا تعلق ہے حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم اے نے ہر تیریک اسمیر کو کراچی سے جماعت احمدیہ دہلی کو بذریعہ تار اس کی اطلاع دی جس پر رشید احمد صاحب ملک سکرٹری مجلس خدام الاحمدیہ دہلی نے رجو اُن دنوں نہایت با قاعدگی کے ساتھ اندرون ہند مرکزی اطلاعات بھیجوانے کا اہتمام کر رہے تھے، ہندوستانی جماعتوں کے نام حسب ذیل سرکہ بھیجا :- بسم الله الرحمن الرحیم نحمده ونص على رسوله الكريم و على بعبده السيح الموعود هر مورخه ۳ ستمبر 1ANG 1 بجے شب احباب گرام : السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاته احباب کو آج سرکلر بھیجا جا چکا تھا کہ شام کو مولانا عبد الرحیم صاحب درد کی طرف سے کراچی سے تار موصول ہوا کہ امیر المومنین تخلیفہ المسیح الثانی اور تاریخ کو ہو پہنچ چکے ہیں اور خیریت سے ہیں.الحمد لله دیگر یہ کہ حضور نے جماعت کی ایک فوری اور نہایت اہم مجلس مشاورت لاہور میں مورخہ ستمبر ۹۴ مر بروز اتوار بلائی ہے جس کے لئے جس قدر جماعتوں کو اطلاع پہنچ سکے وہ فوراً اپنے اپنے نمائندگان کو وہاں بھیج دیں بچنانچہ مندرجہ ذیل تار آج یہاں سے ہم نے مختلف جماعتوں کو بھجوا دیا ہے.امید ہے اس وقت تک آپ کو یہ تاری پہنچ چکا ہوگا اور آپ نے اپنے نمائندگان کو بھیجوانے کا انتظام کر دیا ہو گا اور اپنے گرد و نواح کی سماعتوں کو بھی اطلاع دے دی ہوگی.
My جماعتوں پر اس مجلس مشاورت کی اہمیت واضح کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے.اور امید ہے کہ آپ اپنے پیارے امام کے اس ارشاد پر لبیک کہتے ہوئے مجلہ سے جلد پینینگے اور جیسا کہ ہدایت کی گئی ہے اگر بعض دوستوں کو کراچی یا بیٹی کی طرف سے بھی ہو کر یا زیادہ اخراجات برداشت کر کے بھی آنا پڑے تو وہ پروانہ کریں.اور وقت سے پہلے لاہور پہنچیں.اس دوران اگر مرکز کے متعلق کوئی خبر یا حضور ایدہ اللہ کی طرف سے مزید ہدایات ملیں تو وہ ہم بذریعہ سرکلہ فوراً جماعتوں کو روانہ کر دیں گے.انشاء الله والسلام خاکسار رشید احمد ملک سکری مجلس خدام الاحمدیہ دہلی یہ مشاورت حسب پر وگرام رتن باغ کے کمرہ نماز میں منعقد ہوئی.کوئی ڈیڑھ صد کے قریب نمائندگان جماعت نے شمولیت کی بحیدر آباد سے مصر سبیل الدین ما و یا امام الا ایا اور دیا ہے اور محمد سلیم صاحب مبلغ سلسلہ احمدیہ بذریعہ ہوائی جہانہ شامل ہوئے.حضرت امیر المومنین المصلح الموعود نے نمائندگان سے قریباً پانچ گھنٹے تک خطاب فرمایا.اور نهایت شرح وبسط سے حالات حاضرہ پر روشنی ڈالی.اس مجلس میں چھے نہایت اہم اور بنیاد کی فیصلے ہوئے جن کی تفصیل درج ذیل کی جاتی ہے.اول.مشرقی پنجاب کے تمام احمدی (خصوصاً جماعت قادیان) اپنی اپنی جگہ رہیں.البتہ عورتوں اور بچوں کو مغربی پنجاب میں پہنچا دیا جائے پہنا نچہ ۱ - ۱ ارتبوک استمبر کی درمیانی شب کو پاکستان ریڈیو پر یہ خبر نشر ہوئی.حضرت امام جماعت احمدیہ قادیان نے اپنی جماعت کے نمائندوں سے مشورہ کر کے فیصلہ کیا ہے کہ مشرقی پنجاب کے تمام احمدی خصوصاً قادیان کی جماعت کے لوگ اپنی اپنی جگہ رہیں اور حالات خواہ کچھ ہوں اپنی جگہ کو نہ چھوڑیں بعورتوں اور بچوں کو مغربی پنجاب میں پہنچا
م دیا جائے.حالات کے اچھے ہونے پر انہیں واپس بلایا جا سکتا.اخبار " انقلاب“ نے نوٹ لکھا : - مشرقی پنجاب کے احمدی امام جماعت کا مشورہ ہے لاہور - - ستمبر احمدیہ جماعت کے مقتدر ارکان کی ایک کا نفرنس زیر صدارت امام جماعت احمدیہ مرزا بشیر الدین محمود احمد منعقد ہوئی جس میں مشرقی پنجاب کے احمدیوں خاص کر علاقہ قادیان میں رہنے والے احمدیوں کو مشورہ دیا گیا کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں واپس جا که از سر نو آباد ہو جائیں اور فی الحال عورتوں اور بچوں کو مغربی پنجاب میں چھوڑ بھائیں اور وہ احمدی جو بہت جلد اپنے گھروں کو لوٹ نہیں سکتے انہیں اجتماعی صورت میں کسی ایک جگہ سکونت پذیر ہو جانا چاہیے جہاں سے ان کی عورتیں اور بچے بالکل قریب ہوں تاکہ جب بھی وقت آئے وہ بہت جلد اپنے گھروں میں جا کر آباد ہو سکیں“ کے اخبار ” نوائے وقت “ نے لکھا :- لاہور - استنمبر - آج مرزا بشیر الدین محمود صاحب رکھیں جماعت احمدیہ کی صدارت میں ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں مشرقی پنجاب کے قادیانیوں کو بالعموم اور قادیان کے احمدیوں کو بالخصوص یہ ہدایت کی گئی کہ جونہی ممکن ہو وہ واپس مشرقی پنجاب جائیں اور اپنے دیہات میں بڑے بڑے بلاکوں کی صورت میں پھر آباد ہو جائیں.ہاں اپنی عورتوں اور بچوں کو مغربی پنجاب میں چھوڑ جائیں مرزا بشیر الدین صاحب نے کہا ہے کہ جو لوگ فوراً واپس جانے سے قاصر ہیں وہ اپنے گھروں سے قریبی مقامات پر آباد ہوں تاکہ جب بھی ممکن ہو وہ (انفرادی طور پر نہیں اجتماعی طور پر اپنے گھروں کو کوٹ سکیں " الفضل ۱۲ تبوک / ستمبر ۱۳۳۷ ش صفحه ۳ کالم ۳ 31474 اه شمیم انقلاب " (لاہور) ۱۳ ستمبر ۱۹۴۷ صفحه ۲ کالم ۴۲ : صفـ سے نوائے وقت " (لاہور) در ستمبر ۱۹۴۷ محمد ۵ :
دوم - چندوں کی نسبت یہ طے پایا کہ فی الحال ہندوستان اور مشرقی پاکستان کے سوا ہر قسم کے چندے صدر امین احمدیہ قادیان کی شارخ لاہور کو ارسال کئے بجھائیں حضور نے اس موقعہ پر خصوصی تحر یک فرمائی کہ فوراً چندے بھیجوائیں.چنانچہ اختبار انقلاب " لاہور ۱۲ ستمبر ۱۹۴۷ء صفحہ ا کالم 4 پر اس بارے میں حسب ذیل اعلان شائع کیا گیا :- 動 ضروری اعلان حالات حاضرہ کے پیش نظر مجلس مشاورت جماعت احمدیہ منعقدہ ، ستمبر بمقام لاہور کے غیر معمولی اجلاس میں یہ فیصلہ ہوا ہے کہ تا اطلاع ثانی تمام جماعت ہائے احمدیہ ماسونی ہندوستان و مشرقی پاکستان ہر قسم کے چندے اور امانتیں نیز چندہ ہائے تحریک تجدید نجمین احمدیہ قادیان کی شاخ لاہور کے پتہ پر ارسال فرمائیں.پتہ حسب ذیل ہے.محاسب صدر انجمن احمدیہ جو دھامل بلڈنگ جودھا مل روڈ لاہور سوم.اس اجلاس میں حضور نے مرکز پاکستان کی سکیم بھی پیش فرمائی اور قرار پایا کہ اس ضمن میں احمدی جماعتیں پانچ لاکھ روپیہ فراہم کریں لیے نیا مرکز کہاں قائم کیا جائے ؟ یہ سوال بھی زیر غور آیا.حضور کی تجویز تھی کہ اس کے لئے ضلع شیخو پورہ میں کوئی مناسب جگہ انتخاب کی جائے کہ چہارم.قادیان کی حفاظت کے تعلق میں جو فیصلہ کیا گیا وہ حضرت مصلح موعود کے الفاظ میں یہ تھا کہ فیصلہ کیا گیا کہ قادیان کی حفاظت اور اس کے آباد رکھنے کی پوری کوشیش کی جائے.لیکن چونکہ بعض جگہ دیکھا گیا ہے کہ پولیس وغیرہ سرکاری محکمے بھی فسادیوں کی پشت پناہی کرتے ہیں.اس خطرہ کو دیکھتے ہوئے قادیان سے سردست عورتوں بچوں کو نکال لینا چاہیے اسی طرح ایسے افراد کو جن کو انتظام کی خاطر باہر آنا ضروری ہو.نیز قادیان میں ایک معقول تعداد احمدی محافظین کی موجود رہنی چاہیئے جو قادیان کی حرمت اور ارد گرد کے اسلامی علاقہ کی حفاظت رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ پاکستان ۲۴ ۱۹۴۷ء صفحه ۱۲۹ ۵ , ه و سه حضور کی ایک غیر مطبوعہ تحریر سے ماخوذ +
مزید فیصلہ ہوا کہ ۴۹ و تمام جماعتیں اپنے ۱۸ سال سے ۵۵ سال کی عمر کے مردوں کی فہرست بنا کہ ان کو آٹھ حصوں میں تقسیم کر دیں اور یا حصہ آدمی قرعہ ڈال کر فوراً قادیان کی حفاظت کے لئے بھیجوا دیں“ حضرت سیدنا الصلح الموعود نے الفصل “ لاہور کے پہلے شمارہ (صفحہ ۲) میں احباب جماعت کو اس ضروری فیصلہ کی طرف خاص توجہ دلاتے ہوئے تحریمہ فرمایا :- ر" قادیان سے دفاتر اور کارکنوں کا ایک بڑا حصہ فوراً نکلوانا ضروری ہے.گذشتہ تین ماہ سے انہوں نے دن رات کام کیا ہے اور سب کام سلسلہ کے بند ہیں.اس لئے فوراً نئے فیصلہ کے ماتحت باہر سے آدمی جانے چاہئیں.قادیان کی مرد آبادی کا یا ہر وقت قادیا رہے گا.اس طرح قادیان پر پھر بھی دوسروں سے زیادہ بوجھ رہے گا.یہ وقت دیمہ کا نہیں فوراً اس انتظام کے ماتحت آدمی بھیجوائیے.اس میں مرضی کا سوال نہیں.جبرا ہر شخص کو یہ خدمت دینی ہوگی اور تین ماہ تک یہ خدمت کرنی ہوگی.ہر تین ماہ کے بعد یہ ڈیوٹی بدلتی ہیگی ہے اہل قادیان کو مجلس شوری کے فیصلہ سے باخبر کرنا اور ایک خاص نظام کے تحت ان کے انخلاء اور پاکستان میں منتقل کئے بجانے کی تدابیر کا انتیار کرنا ایک کٹھن مرحلہ تھا جس کو طے کرنے کے لئے حضرت مصلح موعود کی ہدایت پر حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب ناظر اصلی پاکستان نے ر تبوک ستمبر برش کو مولانا جلال الدین صاحب شمس اور مولانا ابو العطاء صاحب کو حساب ذیل مکتوب لکھا : " آپ کو علم ہو گیا ہوگا کہ مخلص مشاورت کے خاص اجلاس نے جو کہ ستمبر کو ہوا تھا یہ فیصلہ کیا تھا کہ قادیان کی حفاظت کے لئے صرف ایک ہزار یا اس سے کچھ کم و بیش نوجوان افراد کو رکھنا چاہئیے.باقی آبادی کو قادیان سے نکال لیا جائے.یہ فیصلہ اس بناء پر کیا گیا تھا کہ وہ علماء و اکا بر سلسلہ جو کہ ہماری تیس چالیس سالہ مساعی کا پھل ہیں اگر خدانخواستہ تباہ یا ضائع ہو جائیں تو ان کی جگہ دوسروں کو لینے کے لئے ایک عمر چاہئیے اور اگر یہ پیشبند کا بھی فوری طور پر نہ کی گئی تو سلسلہ کی ترقی ایک لمبا عرصہ کے لئے پیچھے بجا پڑے گی.اس فیصلہ کو مد نظر له " الفضل" ۱۵ تبوک ستمبر مش صفحه ۲ :
رکھتے ہوئے حضور نے ارشاد فرمایا ہے کہ حضرت میاں بشیر احمد صاحب اور دیگر علما اسلسلہ کو اور وہ لوگ جن کے ہاتھ میں کلیدی کام ہیں ان کو جلد سے جلد قادیان سے نکالنے کی کوشش کی جائے حضور کے خاندان کے متعلق مجلس مشاورت نے اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ ان سب کو نکال لیا جائے لیکن حضور کا اپنا خیال یہ ہے کہ خاندان کے افراد میں سے بھی مقررہ حصہ ضرور قادیان میں رہنا چاہئیے اور ان کے علاوہ ایک جوان بھی باری باری سے.جو انتظام کا ذمہ دار ہو.دوسروں میں سے بھی بجتنے افراد جماعت رکھنا چاہیے رکھ سکتی ہے.لیکن خاندان کے افراد اسی نسبت سے آئیں گے تیس نسبت سے باقی جماعت کے افراد.وہاں رہنے والے افراد کے متعلق یہ صورت اختیار کی جائے کہ اول تمام جوان یعنی ۱۸ سال سے ۵۵ سال کی عمر کے لوگوں میں سے یہ قرعہ کے ذریعے منتخب ہوں اور پہلی دفعہ یہ وہاں ٹھہریں ان کے علاوہ اگر کوئی شخص اپنی مرضی سے اور اپنے کام کے لئے رہتا چاہے وہ بھی رہ سکتا ہے ایک وقت میں نہلا سے بارہ سوتک ہوئی قادیان میں رہنے چاہئیں.اس وقت باہر سے ہ سو آدمی گیا ہوا ہے.قادیان سے کچھ سات سو آدمی صرف لینا پڑے گا.مجلس شوری کا ہو فیصلہ ہے اس کی بناء پر تہم نے صرف قادیان کی آبادی سے بندیعہ قرعہ والنٹیرز لیتے ہیں اور ہے باہر سے قادیان میں بھیجوانے ہیں.اس لئے مجب مزید کمک قادیان پہنچ جائے گی تو قادیان کی آباد کیا کے ۳۰۰ - ۲۰۰ کے قریب آدمی رو بھائیں گے پس آپ حضور کے حکم اور مجلس شوری کے اجلاس منعقدہ نے ستمبر کی روشنی میں فوری کاروائی کرائیں ، آپ جو تم اس بارہ میں اُٹھا ئیں اُس سے مطلع فرمائیں.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو.آپ کا حافظ و ناصر ہو.آپ کو اس لیے لکھا جاتا ہے تا جماعت سے آپ اچھی طرح مشورہ کر لیں.حضرت میاں بشیر احمد صاحب خود امیر ہونے کی وجہ سے شاید حجاب کریں.مکم عرض ہے کہ لوگوں کے قلوب میں یہ بات زمن نشین کر دینی چاہیئے کہ کیوں ان افراد کا نکال لینا ضروری ہے مخلص احباب تو سلسلہ کے ہر فیصلہ کے آگے سر جھکا دیتے ہیں لیکن کمزور لوگوں کو بھی ساتھ لینا ہمارا فرض ہے.اور یہ واضح کر دیا بھائے کہ جس قربانی کا ان سے مطالبہ ہے وہی حضرت مسیح موعود کا خاندان اور دوسرے کارکن پیش کریں گے.یعنی افراد کی تعداد کے مطابق اُن میں سے
بھی قادیان میں رہیں گے.والسلام محمد عبد الله تعال ناظر اعلیٰ لاہور اد وہ کم.مہاجرین کی آبادی کے لئے مختلف احمدی جماعتوں کے ذختہ ایک مخصوص تعداد لگا دی گئی کہ و ان کے بسانے کا انتظام کریں.اس ضمن میں حضرت الصلح الموعود کی ایک غیر مطبوعہ تحریہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مشاورت میں مندرجہ ذیل جماعتوں کو خاص طور سے یہ فرض سونپا گیا.لاہور.بھیرہ - گجرات - کھا ریا اے.شادیوال - بهلول پور - چک سکندر گوجرانوالہ چہور - چک ۴/۱۷ منتشگیری.لودھراں.شاہ مسکین - سیالکوٹ ڈسکہ.ششم مشاورت میں ہی فیصل بھی کیا گیا کہ ہر بالغ احمدی کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ سال میں پندرہ ✓ دن ضرور تبلیغ کے لئے وقعت کرے سوائے اس کے جو معذور ہو اور انجازت لے سکے ریڈیو پاکستان سے قادیان کی قادیان کی صورت حال سے جماعتوں کو باخبر رکھنے کے لئے شروع میں یہ انتظام کیا گیا کہ شیخ بشیر احمد صاحب امیر خبروں کا نشر کیا جانا قادیان کی خبریں نشر کرتے تھے.جماعت احمدیہ لاہور روزانہ شام کے سوا آٹھ بجے ہیڈیوسے صدر انجین احمدیہ پاکستان کا مجلس مشاورت کے تین روز بعد صدر انجین احمدیہ پاکستان کے مبروں کا پہلا باضابطہ دفتری اجلاس ۱ تبوک استمبر میش کو پہلا باضابطہ دفتری اجلاس منعقد ہوا جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ چونکہ صدر انجمن احمدیہ رو حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے اور اخراجات میں اضافہ ناگزیر ہے اس لئے ضروری ہے کہ قواعد وضوابط میں سادگی اور اقتصادہ ہوتا کہ کم سے کم عملہ سے کام لیا جا سکے اور فیصلوں میں نا واجب تاخیر نہ ہو.ے ریکارڈ نظارت علیا صدر انجمین احمدیہ پاکستان : ے حضور کی ایک غیر مطبوعہ تحریر سے ماخوذ.
۵۲ بایں غرض صدر انجمن احمدیہ پاکستان نے یہ طے کیا کہ سردست صدر انجمن احمدیہ قادیان ہی کے قومند ضوابط اس نئی انجمن کے متصور ہوں.نیز ناظر صاحب دعوة و تبلیغ و ناظر صاحب امور عامه و خارجه و تعلیم و تربیت و نائب ناظر بیت المال پر مشتمل ایک سب کمیٹی مقرر کی گئی جو دو ہفتوں کے اندر اندر تمام قواعد و ضوابط کو ترتیب دے اور ۲۸ تبوک ستمبر تک اس کی رپورٹ مجلس میں پیش کرے.کام کو جلد نپٹانے کے لئے یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ فی الحال ایک ہفتہ تک روزانہ پانچ بجے شام ممبروں کا اجلاس ہوا کہ ہے.کورم چار کا تجویز کیا گیا اور دفاتر صدا امین احمدیہ پاکستان کے کھلنے اور بند ہونے کے حسب ذیل اوقات مقرر ہوئے :- و بجے صبح سے ۵ بجے شام تک وقفہ یا انجے سے ۳ بجے دوپہر تک) ہے حضرت امیر المومنین نے ارشاد فرمایا تھا کہ صدر امین احمدیہ لاہور کے لئے ایک آڈیٹر مقرر کیا بھائے تو جماعت لاہور کے مہمان نوازی اور اُن دیگر اخراجات کی بھی پڑتال کرے جوق دیان کے RVACUEE کے سلسلہ میں کئے گئے ہیں.بچنا نچہ اس کی تعمیل میں صدر انجین احمدیہ لاہور نے اپنے پہلے اجلاس میں بابو عبد الحمید صاحب آڈیٹر کو مقرر کیا.حضرت خلیفتہ البیع الثانی الصلح الموعود نے یہ بھی فیصلہ فرمایا تھا کہ صدر امین احمدیہ لاہور کوبھی تحریک تجدید کی طرح رجسٹر کروالیا جائے اور یہ کام جلد ہو.چنانچہ یہ کام اس اجلاس میں شیخ بشیر احمد صاحب اور چوہدری اسد اللہ خاں صاحب کے سپرد ہوا.محکمہ جات نے چونکہ ابھی بجٹ نہیں بنایا تھا اور مہنگا می کاموں پر پے در پے اخراجات ہو رہے کھتے جس کی مقدار چار ہزار تک پہنچ چکی تھی اس لئے صدر انجمن احمدیہ نے اپنے ۱۳ تبوک / ستمبر کے اجلاس میں نظارت علیا کو مدامانت سے مبلغ دس ہزار روپیہ بطور قرض لینے کی اجازت دی بیله بلیٹین کی اشاعت اور لنڈن مشن کو "الفضل“ جو جماعتی خبروں کا ترجمان اور بیرونی جماعتوں سے رابطہ کا اہم ترین ذریعہ تھا پاکستان روزانہ اطلاعات بھیجوانے کا انتظام یسے ابھی جاری نہیں ہو ا تھا اور قادیان میں اس کی صورت مخدوش حالات کے باعث محض ایک مقامی ایڈیشن کی رہ گئی تھی.ے ویسے ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ پاکستان د میشه ار تبوک استمبر ۱۳۲۷ میش کو " الفضل قادیان کا آخری پرچہ شائع ہوا.
۵۳ حضرت امام ہمام کیونکہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ جماعتوں کو منظم کرنے اور مرکز سے وابستہ کرنا چاہتے تھے اس لئے حضور نے اس کی متبادل صورت یہ اختیار فرمائی کہ صدر انجین احمدید پاکستان کی طرف سے جماعتوں کے نام روزانہ مختصر بلیٹین شائع کرانے کا بندوبست فرمایا جس میں چندوں کی ادائیگی کی طرف خاص توجہ دلائی جاتی تھی.نیز ہدایت فرمائی کہ "ہمارے دفاتر کے لوگوں کو چاہیے کہ وہ شائع ہونے والی باتوں کو جلد از جلد ہر طرف پھیلا دیا کریں.اس سلسلہ میں حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب ناظر اعلیٰ نے ۱۳ر تبوک استمبر تر میش کو حسب ذیل اعلان فرمایا :- بہ لاہور - حکوم محترم ناظر صاحبان السلام علیکم.حضور نے فرمایا ہے کہ آجکل جماعت نہایت نازک دور سے گذر رہی ہے.تمام ناظر صاحبان کو چاہیے کہ وہ اہل قلم بن جائیں اور جن جن وقتوں سے عبرت گذر رہی ہے اس سے پوری طرح تمام جماعت کو آگاہ کیا جائے اور مختلف رنگوں میں ان کو احساس کرایا جائے کہ کس کس قسم کی ضروریات اس وقت سلسلہ کو لاحق ہو رہی ہیں.نیز حضور نے فرمایا ہے کہ روزانہ بلیٹین شائع ہوں.اس لئے ناظر صاحبان ضرور کچھ نہ کچھ نوٹ اس میں دیں.مہربانی فرما کر حضور کے اس ارشاد کو ملحوظ رکھیں اور ضروری کاروائی قریریں دوستخط محمد عبد اللہ خاں ناظر اعلیٰ حضور کے ارشاد کی تعمیل میں بلیٹین کا یہ مفید سلسلہ شروع کر دیا گیا.حضور نے پاکستان سے باہر احمدی جماعتوں کو سلسلہ احمدیہ کے حالات سے باخبر رکھنے کے لئے تبوک استمبر سالی میش کو یہ قطعی ہدایت بھاری فرمائی کہ روزانہ انگلستان مشن کو بذریعہ ہوائی ڈاک اطلاعات پہنچائی جائیں اور لکھا جائے کہ تمام ممالک کے سفیروں اور ذمہ دار لوگوں کو یہاں کے حالات سے مطلع کیا جائے اور جہانتک وہ پراپیگنڈا کر سکتے ہوں کرنا چاہیئے میلہ • ہ ریکارڈ نظارت علیا صدر انجمن احمدیہ پاکستان ۳۳۶ میش
۵۴ ان ایام میں بیرونی دنیا تک مسلسلہ احمدیہ کی خبریں پہنچانے کا یہ ذریعہ بہت مفید اور بہت موثر ثابت ہوا.اور جماعت احمدیہ کے عبوری مرکز سے اُٹھنے والی آواز کی بازگشت ہر جگہ سُنائی دینے لگی." فصل دوم اسينا المصلح الموعود کی ہدایت پر شروع ہی سے پاکستان سے روز نامہ الفضل " کا اجراء پاکستان میں اخبار الفضل" کی اشاعت کے لئے دوڑ دھوپ کی بھا رہی تھی جو دو ہفتوں کے اندر اندر نتیجہ خیز ثابت ہوئی حکومت نے روزنامہ الفضل کی منظوری دے دی اور اسے ۵ار تبوک استمبر ہش سے جناب روشن دین صاحب تنو یہ ہی کی ادارت میں باقاعدہ بھاری کر دیا گیا.قبل ازیں مرکزی اطلاعات خصوصاً حضرت امام ہمام کے حالات سے بے خبری کا جو عارضی وقفہ پڑ گیا تھا وہ اب اللہ کے فضل اور اس کی عنایت سے ختم ہو گیا اور دنیا بھر کی احمدی جماعتیں جو اپنے پیارے آقا کے تازہ کلمات پڑھنے کے لئے پیاسی تڑپ رہی تھیں کوثر و تسنیم کی اس روھانی نہر سے دوبارہ سیراب ہونے لگیں.پاکستان میں الفضل " کے اغراض و مقاصد کیا قرار پائے: اس کی تفصیل اس کے پہلے شمارہ میں بایں الفاظ درج تھی.# روز نامہ الفضل کا کیا مقصد ہے اور وہ کن عزائم کا علمبردار ہے، اس کا جواب الفضل کی پینتیس سالہ تاریخ کا ایک ایک ورق دے رہا ہے.اسلام کے خوبصورت اور حسین چہرہ پر بیگانوں کی عداوت اور اپنوں کی غفلت کی وسیہ سے شکوک و شبہات کے جو تاریک پردے پڑچھکے تھے انہیں دور کر کے دنیا کو حقیقی اسلام سے روشناس کرانا اور اسلام کو اس کی عملی شکل میں قائم کرتا یہ وہ عظیم الشان مقدس فریضہ
۵۵ ہے جیسے حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ الصلواۃ والسلام نے جماعت احر و کا مقصد وحید قرار دیا ہے اور اسی مقصد کی تکمیل میں اپنی بساط کے مطابق حصہ لینا" الفضل کا پہلا اور آخری فرض ہے.اس فرض کو حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات اور ہدایات کی روشنی میں سر انجام دینے کی کوشش کی بجائے گی.انشاء اللہ " الفضل لاہور اسلام کی حقیقی تعلیمات کو دنیا پہ ظاہر کرنے اور اُسے اپنی عملی صورت میں دنیا ئیراق تم کرنے کی کوشش کرے گا.” الفضل " لاہور سماعت احمدیہ اور اس کے اندرونی نظام کو حضرت امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ تعالے کی ہدایات کی روشنی میں مضبوط سے مضبوط اتم بنانے کی کوشش کرے گا اور احباب جماعت کو سلسلہ کی اہم ضروریات سے آگاہ کریگا.کیونکہ یہی نظام دنیا میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی بنیاد بننے والا ہے." اس وقت مسلمان جبس نازک دور میں سے گزر رہے ہیں اور سہندوستان اور پاکستان " میں مسلمانوں کے لئے ہو اہم اور پیچیدہ مسائل پیدا ہو چکے ہیں اُن کے سلسلے میں ” الفضل" حضرت امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ تعالٰی کے اہم اور گرانقدر ارشادات اور ہدایات کو جلد سے جلد اپنے قارئین تک پہنچانے کا فردینہ ادا کرے گا.اس وقت ملک میں جو ہولناک فسالت شروع ہیں الفضل انہیں دور کرنے اور امن و امان کی فضا پیدا کرنے کی پوری کوشش کرے گا جماعت احمدیہ کے مسلمہ انہوں کے مطابق "الفضل قیام امن کے لئے اور دیگر اہم امور کے سلسلہ میں حکومت کے ساتھ پورا پورا تعاون کرے گا اور اس سلسلہ میں حکومت کی ہر ممکن مدد کرنے کی کوشش کرے گا.احتساب سے درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ " الفضل" ملک و قوم کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکے اور اپنے اعراض و مقاصد میں کامیاب کہے جائیں" حضور کی ہدایت پر مولانا تنویر صاحب ابناب شیخ خورشید احمد صاحب اور مکرم احمد مین صاحب کا تب و تبوک ستمبر یہ بہش کو قادیان سے لاہور پہنچے.اُن دنوں لفضل کے مینجر جناب چوہدری عبد الواحد صاحب (سابق مدیم اصلاح سرینگہ تھے اور طابع و ناشر قاضی عبدالحمید صاحب بی اے ایل ایل بی مقرر ہوئے طباعت گیلانی الیکٹرک پریس ہسپتال روڈ میں ہوتی تھی.اخبار کا ابتدائی کام مسجد اڈو کے سامنے ایک کے بھی میں نہایت بے سرسامانی میں شروع کیا گیا.بعدازاں دفتر پہلے رتن باغ میں پھر خار پیش کو پنجاب نیشنل بنک (فیٹ نمبر ۳) میں منتقل ہو گیا.۱۸ار امان ماریچ
۵۶ میں سے جناب مسعود احمد خاں صاحب دہلوی ہی.اسے ( نائب مدیر الفضل، اختیار کے طابع وناشر بنا دیئے گئے ہو آجنگ یہ فریضہ انجام دے رہے ہیں.سید نا صلح الوجود کے بلند پای مضامین اخبار افضل کے بتدائی پاکستانی دور کی یک بھاری خصوصیت یہ تھی کہ اس زمانہ میں خود حضرت امیر المومنین الفضل کے اداریہ کی صورت میں المصلح الموجود اپنی گونا گوں اور بے شمار مصروفیات کے با وجود الفضل کے لئے پورے التزام کے ساتھ نہایت درجہ معلومات افزا مضامین تقریر فرماتے.ہو ر حضور کا نام لکھے بغیر) ادارہ کی طرف سے شائع کئے جاتے تھے حضور کی اس خصوصی توجہ اور غیر معمولی رہنمائی کی بدولت یہ نیا جاری شدہ اخبار بجلد ہی پاکستان کے معیار کی روزناموں میں اپنا خاص مقام پیدا کرنے کے قابل ہو گیا.ذیل میں حضور کے لکھے ہوئے ان بلند پایہ رشحات قلم کی فہرست دی جاتی ہے جو بطور اداریہ سپرد اشاعت کئے گئے اور جن میں اسلامی دنیا خصوصاً پاکستان کے اہم مسائل پر سیر حاصل روشنی ڈالی گئی تھی.بے نمبر شمار عناوین پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات برطانیہ اور مسلمان گوالیار کے مسلمان خطرے میں تو میں اخلاق سے بنتی ہیں مشرقی اور مغربی پنجاب کا تبادلہ آبادی پاکستان کی سیاست خارجہ تاریخ اشاعت تبوک استعمیرامش +19 " مفاد / اکتوبر بر مش کچھ تو ہمارے پاس رہنے دو قادیان " نوٹ: یہ فہرست مولانا محمد یعقوب صاحب طاہر انچارج شعبہ زود نویسی تاریخ احمدیت کیلئے مرتب فرمائی تھی و
۵۷ میر مسمار و سیاست پاکستان پاکستان کا دفاع ۱۲ عنادین (۲) پاکستانی فوج اور فوجی مخزن ۱۳ کشمیر اور حیدر آباد کشمیر کی جنگ آزادی ۱۴ ۱۵ 18 IA 14 ۲۱ پاکستان کی اقتصادی حالت کشمیر اور پاکستان سپریم کمانڈر کا خاتمہ مسٹرائیکی کا بیان صوبجاتی مسلم لیگ کے عہدیداروں میں تبدیلی کانگریس رینه ولیوشن کانگریس ریزولیوشن تاریخ اشاعت در افتاده اکتوبر ه ش ار دار ور ۱۶ نبوت انو میبرم " ۲۰ ۱۲۱ " ۲۳ ۲۳ تقسیم فلسطین کے متعلق روس اور یونائیٹڈ سٹیٹس کے استحاد کا راز ۲۸ ۲۴ مسلم لیگ پنجاب کا نیا پروگرام ۲۵ ۲۶ کشمیر کے متعلق صلح کی کوشش آخر ہم کیا چاہتے ہیں : ؎۲۹.ار هجرت ای ما ۱۳ مش ۲ خطرہ کی سرخ جھنڈی ہش ۲۸ صلح / جنوری ۲ حضرت خلیفہ اسیح الثانی المصلح الموعود نے " کیا آپ پاکستانی احمدیوں کے لئے دستور العمل سے احمدی نہیں" کے عنوان سے ایک اہم مضمون رقم
فرمایا جو " الفضل (پاکستان) کے پہلے شمارہ میں شائع ہوا.یہ مضمون جو بدلے ہوئے حالات میں پاکستانی احمدیوں کے لئے دستور العمل کی حیثیت رکھتا تھا اور نہایت واضح اور قیمتی ہدایات پشتل تھا بجنسہ درج ذیل کیا جاتا ہے :- -- اگر آپ سچے احمدی ہیں تو آج ہی سے اپنے اندر تبدیلی پیدا کریں.دعاؤں پر زور دیں.نمازوں پر زور دیں.اگر آپ کی بیوی نماز میں کمزور ہے اُسے سمجھائیں باز نہ آئے.طلاق دے دیں.اگر آپ کا مخادند نماز میں کمزور ہے اُسے سمجھائیں اگر اصلاح نہ کرے.تو اس سے ضلع کرا لیں.اگر آپ کے بچے نماز میں کمزور ہیں تو ان کا اس وقت تک کے لئے مقاطعہ کر دیں کہ وہ اپنی اصلاح کریں.(۲) حجب موقع ملے نفلی روزے رکھیں اور گذشتہ رمضانوں کے روزوں میں سے کوئی کمی رہ گئی ہو تو جلد سے جلد وہ قرضہ اُتاریں.(۳) ان دنوں مسلمانوں پر بڑی مصیبت آئی ہوئی ہے.آپ اس مصیبت میں حکومت اور افراد کی پوری امداد کریں.(۴) آج ہی اپنے دل میں عہد کر لیں کہ قادیان کی حفاظت کرتے پہلے جانا ہے اور اس بارہ میں جو سکیم بنی ہے اس پر فوراً عمل شروع کردیں.....اور اگر ہندوستانی حکومت کے دباؤ سے ہمیں قادیان خدانخواستہ خالی کرنا پڑے تو ہر ایک احمدی قسم کھائے کہ وہ اسے واپس لے کو چھوڑے گا اور اگر اس میں دیر ہو تو ہر بچہ جب جوان ہو اس سے قسم لی جایا کرے اور یا د رکھو قادیان خدا تعالی کا مقرر کردہ مرکز ہے اور ضرور تمہارے پاس رہنا چاہیے رہے گا انشاء اللہ.اگر عارضی طور پر کوئی روک پیدا ہو گئی تو ہمارا فرض ہے کہ ہم ہر وقت اسے اپنی آنکھوں کے سامنے رکھیں.(۵) اس مصیبت کے وقت میں زیادہ کماؤ کم خرچ کرو.زیادہ سے زیادہ چندہ دو.اب کم سے کم چندہ پچاس فی صدی آمدنی چاہئیے.اس سے زیادہ جتنی خدا تعالیٰ توفیق دے.(4) ہر ایک احمدی کو اُجڑے ہوئے احمدیوں کو بسانے کے لئے پورا زور لگانا چاہیے.مگر تمہاری ہمدردی صرف احمدیوں سے نہیں ہونی چاہئیے.ہر مسلمان کی ہمدردی تمہارا نصب العین
۵۹ ہونا چاہیے.اس وقت اختلافات پر زور دینا یا احمدی غیر احمدی میں فرق کرنا ایک قومی غداری ہے جن مسلمانوں پر ظلم ہوا ہے اُن کے عقیدے یا فرقے کی وجہ سے نہیں ہوا.اس لئے ہوا ہے کہ وہ اپنے آپ کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انت کہتے تھے ہیں ظالموں نے ان آدمیوں پر ظلم نہیں کیا، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ظلم کیا ہے اور جس پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کی وجہ سے ظلم ہوا ہماری عقیدت اور ہمارے ایمان کا تقاضا ہے کہ ہم اس کی مدد کریں تارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کسی کا انسان نہ رہے.(1) تم کبھی غریب اور بیکس پر ظلم نہ کرو.ہر ہندو اور سکھ بھی خدا تعالے کا بندہ ہے.اس کے بھائیوں نے اگر غلطی کی ہے تو ہم کو سوچنا چاہیئے کہ کیا بھائی کی غلطی یاد رکھے بجانے کے قابل ہے یا آسمانی باپ کا رشتہ.ہم سب اپنے آسمانی باپ کے ذریعہ سے بھائی بھائی ہیں، نہیں ان تمام اختلافات کے با وجود ایک ہندو بھی ہمارا بھائی ہے اور ایک سکھ بھی ہمارا بھائی ہے ہم اس کو ظلم نہیں کرنے دیں گے مگر ہم اس پر ظلم ہونے بھی نہیں دیں گے.پھر یہ بھی سوچو کہ کسی دن یہی لوگ اسلام میں داخل ہو کہ اسلام کی ترقی کا موجب ہوں گے.کل جس باغ کے پھل ہمیں ملنے والے ہیں ہم اُسے کیوں اُبھاریں.والسلام مرزا محمود احمد ۱۴ ستمبر شده یہ $6 قادیان کی احمدی آبادی خصوصا مستورات اور تھوک ستمبر تار میش کی مشاورت میں طے پایا تھا کہ قادیان سے احمدی عورتوں اور احمدی بچوں کے انخلاء کی مجنونانہ جد و بے ہودی بچوں کو پاکستان میں پہنچانے کافوری بندوبست کیا جائے.یہ معاملہ بتا سنگین، اہم اور فوری توجہ کا متفق تھا اتنا ہی مشکل اور کٹھن بھی تھا مگر حضرت مصلح موعود نے اس مقصد کے پیش نظر مجنونانہ جد و جہد شروع فرما دی پہلے تو انفرادی طور پر پاکستان کے احمدیوں کو قادیان بجانے اور عورتوں بچوں کو وہاں سے لانے کی تلقین کی.ازان صد تبوک استمبر میش کے خطبہ جمعہ میں جماعت کے سامنے تحریک عام فرمائی کہ ہمیں قادیان کی "الفضل ۵ار تبوك استمر الا الله مش صفحه ۱-۲ ۳۲ ۱-۰۲ ا
4.عورتوں اور بچوں کو نکالنے کے لئے کم از کم دو سوٹرکوں کی فوری ضرورت ہے جو دوست بھی لڑک لے جا سکتے ہوں وہ اطلاع دیں تا اُن کو ایک انتظام کے ماتحت قادیان بھیجوایا جا سکے.چنانچہ فرمایا :- ہماری جماعت کے وہ دوست ہو فوج میں ملازم ہیں اور جنہیں ٹرک مل سکتے ہیں ان کو چاہیے کہ جس طرح بھی ہو سکے ٹرکوں کا انتظام کر کے قادیان پہنچیں اور وہاں سے عورتوں اور بچوں کو نکالنے کی کوشش کریں.فوجیوں کو اپنے اپنے رشتہ دار لانے کے لئے عام طور پر ٹرک مل بھایا کرتے ہیں.۲۰ - ۲۵ دوست اس وقت اپنے اپنے رشتہ داروں کو قادیان سے لاپھکے ہیں.وہاں آٹھ تو ہزار عورتیں اور بچے ہیں جو نکالنے کے قابل ہیں.ورنہ غذا کی حالت حفاظت کے انتظامات میں سخت وقتیں پیدا ہو جائیں گی یہو فوجی دوست ہوں یہاں لاہور میں یا باہر کسی اور مقام پر اور اُن کو ٹرک بھی سکتا ہو ان سب کو چاہئیے کہ وہ فوراً ٹرکوں کا انتظام کر کے ہمیں اطلاع دیں.فوجیوں کو ٹرک ملتے میں عام طور پر آسانی ہوتی ہے.اور چونکہ اکثر لوگوں کے کوئی نہ کوئی رشتہ دار قادیان میں موجود ہیں.اس لئے ہم ٹرکوں کے ذریعہ ایک نظام کے ماتحت عورتوں اور بچوں کو لا سکتے ہیں.پس جن دوستوں کو کوئی ٹرک مل سکتا ہو وہ فوراً انتظام کر کے ٹرک قادیان کے بھائیں اور وہاں سے عورتوں اور بچوں کو نکال لائیں.اور اگر کوئی شخص خود ٹرک کا انتظام نہ کر سکتا ہو لیکن اس کے علم میں کوئی ایسے دوست ہوں جو یہ انتظام کر سکتے ہوں تو وہ اطلاع دے دیں.ہمیں کم از کم اس وقت دو سو ٹرکوں کی ضرورت ہے تب کہیں قادیان سے عورتوں اور بچوں کو نکالا جا سکتا ہے.چونکہ کچھ عورتیں اور بچے وہاں سے آگئے ہیں اس لئے باقی عورتوں میں بے چینی پائی جاتی ہے.کچھ عورتیں تو ایسی دلیر ہیں کہ وہ نکلنے سے انکار کر دیتی ہیں.لیکن اکثر عورتیں اور بچے اُن عورتوں اور بچوں کو دیکھ کر جو وہاں سے نکل آتے ہیں گھبرا رہے ہیں.اور یوں بھی وہاں کی غذائی بحالت خراب ہے.نمک مرچ سب ختم ہو چکا ہے.گوئیں نے یہاں سے انتظام کر کے یہ چیزیں وہاں کچھ بھجوائی ہیں مگر پھر بھی وہاں کی غذائی حالت تشویشناک ہے.آٹے کا انتظام نہیں ہو سکتا.گھی ختم ہے.اسکای ختم ہے اس لئے عورتوں اور بچوں کو قادیان سے نکالنا قادیان کی حفاظت کے لئے ضروری ہے.پس جس جس دوست کی طاقت میں ہو اور وہ ٹرک کا انتظام کر سکتے ہوں انہیں
چاہیے کہ وہ ٹرکوں کا انتظام کو کے میاں بشیر احمد صاحب کو ملیں تا کہ ایک نظام کے ماتخت عورتوں اور بچوں کو وہاں سے نکالا جاسکے.جو دوست یہاں موجود ہیں ان کا اگر کوئی فوجی دوست واقف ہو تو اسے فوراً یہ اعلان پہنچا دیں اور اگر وہ خود انتظام کر سکتے ہوں تو خود ٹرکوں کا انتظام کر کے ہمیں اطلاع دیں.پنجاب اور سندھ میں جہاں جہاں فوجی افسر یا کشنڈ افسر ہیں جن کو ٹڑکیں مل سکتی ہیں.ان سب کو چاہیے کہ وہ ٹکوں کے متعلق پور کا کوشش کریں اور جلد سے جلد ہمیں اس بارہ میں اطلاع دیں تاکہ ہم ٹرک قادیان بھجواسکیں اور عورتوں اور بچوں کو وہاں سے نکالا جائے“ لے اللہ تعالیٰ نے حضور کی اس تحریک میں زیرہ دست برکت ڈالی اور لاہور سے قاریان جانے والے فوجی لڑکوں کا ایک تانتابندھ گیا اور ان ایام کے سوا کہ جس میں خود حکومت مشرقی پنجاب نے بعض بہانوں کا سہارا لے کر مگر در پر وہ قادیان پر حملہ کرنے کی نیت سے ٹرکوں کو قادیان جانے سے روک دیا تھا لکھوائے کا یہ سلسلہ قریباً دو ماہ تک بھاری رہا سب سے بڑا کنوائے میں کے ذریعہ سے قادیان کی تمام احمدی مستورات اور بچے بحفاظت پاکستان پہنچ گئے ، ۱ - ۱۲ ماہ انار اکتوبر کا تھا جس میں پہلے روز انتظار پیک اور دوسرے روز بہتر ڈک تھے جو پاکستان فوج کے میجر آرسن کی سرکردگی میں قادیان گیا تھا.آخری کنوائے ۱۷ ماه نبوت / نومبر مہش کو واپس آیا.یہ سب کنوائے جو دھامل بلڈنگ اور رتن باغ کے سامنے آکر کھڑے ہوتے تھے.اور ان کے ذریعہ نہ صرف قادیان کی سب احمدی عورتیں اور سب احمدی " الفضل" ٣٠ تبوك استمبر له مش صفحه ۸ کالم ۳ - ۹۴ A + ے میجر ارنست قادیان کے احمدی جوانوں کا بلند حوصلہ، مضبوط کیریکٹر اور ان کی غیر معمولی بہادری دیکھ کر بید متاثر ہوئے.اور انہوں نے سیدنا امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے سامنے یہ اعتراف کیا کہ ئیں نے قادیان میں جو نوجوان دیکھے ہیں وہ ان یہودی نوجوانوں سے بھی زیادہ بہادر ہیں جنہیں فوجی طور پر ٹرینڈ کیا گیا ہے اور جو ہر قسم کے ہتھیاروں سے مسلح ہیں" نیز عرض کیا : د آپ کے نوجوانوں نے اگر اپنی جانیں دے دیں تو بیشک ان کی موت شاندار موت ہوگئی لیکن میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ انہیں مرنے نہ دیں کیونکہ اگر وہ زندہ رہے تو ان کی زندگی ان کی موت سے بھی زیادہ شاندار ہوگی" (الفضل دار احاد/ اکتوبر ۳۲ به بیش صفحه ۳ کالم ۱)
۶۲ عورتیں اور سب احمدی بچے دشمنوں کے تمام معاندانہ اور اخلاق سوز منصوبوں کو مخاک میں ملاتے ہوئے ہر طرح صحیح و سالم پاکستان میں پہنچے بلکہ قادیان کی بقیہ احمدی آبادی بھی پوری حفاظت کے ساتھ سرزمین پاکستان میں منتقل ہوئی.انخلاء آبادی کا یہ عظیم معرکہ سر کرنے کے لئے کتنی زبر دست اور فقید المثال جد و جہد سے کام لینا پڑا.اس کا نقشہ حضرت قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب سے بڑھ کر بھلا کون کھینچی سکے گا ؟ آپ تحریر فرماتے ہیں :.نے اس سلسلہ میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب امیر مقامی قادیان کا وہ سرکلہ درج کیا جانا ضروری ہے جو آپ نے اس ظہور اگست پر مہش کو صدر صاحبان قادیان کے نام تحریر فرمایا.اور جس کے بعد قادیان کی آبادی کا باقاعدہ ان پر شروع ہوا.آپ نے تحریر فرمایا :- " بخدمت صدر صاحبان ! السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبر کات حضرت صاحب نے ارشاد فرمایا ہے کہ موجودہ خطرے کے ایام میں احمدی عورتیں اور چھوٹی عمر کے بچے قادیان سے باہر پاکستان کے علاقہ میں جانا چاہیں انہیں اس کی اجازت ہے بشرطیکہ اہور میں ان کی رہائش کا انتظام ہو سکے یا لاہور سے آگے جانے کا انتظام موجود ہو.نیز یہ بھی ضروری ہے کہ قادیان سے باہر پاکستان کے علاقہ تک پہنچنے کے لئے مسلم ملٹری گارد کا انتظام موجود ہو.مگر قادیان کا کوئی احمدی مرد سیکل بغیر اجازت باہر نہیں جا سکتا.جس شخص کو کوئی مجبوری پیش ہو وہ اپنی مجبوری بیان کر کے اجازت حاصل کرے.یہ بات بھی قابل وضاحت ہے کہ سلسلہ کی طرف سے مسلم کنوائے کا انتظام کیا جا رہا ہے جو کبھی کبھی قادیان آیا کرے گا اور اس میں حسب گنجائش مستورات اور بچوں اور اجازت والے مردوں کو موقع دیا جائے گا.مگر یہ بات یاد رکھنی چاہئیے کہ چونکہ گنجائش محدود ہوتی ہے اس لئے باری باری ہی موقع مل سکتا ہے جو غیر احمدی اصحاب باہر جانا چاہیں وہ بھی اس انتظام میں شامل ہو سکتے ہیں.اگر گورنمنٹ کا ا نو اسٹے آئے تو وہ بلا کرایہ لے جائے گا لیکن اگر اپنے کانوائے کا استعمال کیا جائے تو اس کے لئے مناسب کرایہ لگے گا مگر غرباء کو سہولت دی جائے گی.
۶۳ ”ہماری آنکھیں دیکھ رہی تھیں کہ قادیان اور اس کے ماحول میں فتنہ دن بدن بڑھ رہا ہے.اور ضلع گورداسپور کے ایک ایک مسلمان گاؤں کو خالی یا تباہ کر کے قادیان کے ارد گرد خطرہ کا دائرہ روز بجو زنگ کیا جا رہا ہے اور دوسری طرف قریباً پچاس ہزار بیرونی پناہ گزینوں نے قادیان میں جمع ہو کو ہماری مشکلات میں اور بھی اضافہ کر دیا تھا اور ہم دیکھتے تھے کہ مفسده پردازوں کی سکیم صرف قتل و غارت یا لوٹ مار یا مسلمان آبادی سے ضلع کو خالی کرانے تک ہی محدود نہیں بلکہ اس میں مسلمان عورتوں کے ننگ و ناموس کو بہ باد کرنا بھی شامل ہے چنانچہ میری موجودگی میں ہی ماحول قادیان کی اغوا شدہ عورتوں کی تعداد سات سو تک پہنچ چکی تھی.بہت سی معصوم عورتوں کی عصمت دری کے نظارے گویا ہماری آنکھوں کے سامنے تھے) اور اس لئے ہم نے دوستوں کے مشورہ اور حضرت صاحب کی اصولی ہدایت کے ماتحت یہ فیصلہ کیا تھا کہ جہانتک ممکن ہو عورتوں اور بچوں کو جلد از جلد قادیان سے باہر بھجوادیا جائے بقیہ حاشیہ صفحہ گذشتہ.صدر صاحبان اپنے اپنے محلہ میں یہ بھی بتا دیں کہ ایسے بچوں عورتوں مردوں کی فہرست شیخ عبدالحمید صاحب عاجز بی.اے (حال ناظر بیت المال قادیان.ناقل ) کی نگرانی میں تیار ہوتی ہے.پس تمام درخواستیں ان کے پاس جانی چاہئیں جو بعد منظوری نظارت باری باری لوگوں کو موقعہ دیں گے.صدر صاحبان کو یہ بھی چاہیے کہ اس کام میں گھبراہٹ کا رنگ پیدا نہ ہونے دیں بلکہ وقار اور انتظام کے ماتحت سمارا کام سرانجام پائے " حاشیہ متعلقہ صفحہ ہذا :- حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ نے اس سکیم کو عملی جامہ پہنانے کے لئے مندرجہ ذیل حضرات پرمشتمل ایک مرکزی کمیٹی مقرب فرما دی تھی.حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب - مولانا جلال الدین صاحب شمس مولوی ابو العطاء صاحب - مرزا عبدالحق صاحب - یہ کمیٹی دار تبجوک استمبر کو قائم ہوئی اور اسی روز اس کا مشورہ سیدنا حضرت امیر المومنین کے حضور بھیجوا دیا گیا
۲۴ اور اس کے لئے ہم قریباً مجنونانہ جد وجہد کے ساتھ دن رات لگے ہوئے تھے یعنی کہ ایک دن میں نے انتہائی بے بسی کی حالت میں حضرت صاحب کو خط لکھا کہ ہمارے ارد گرد خطرہ کا دائرہ بڑی سرعت کے ساتھ تنگ ہوتا جا رہا ہے اور آپ کی ہدایت یہ ہے کہ کسی صورت میں بھی حکومت کا مقابلہ نہ کیا جائے ( اور حکومت کا مقابلہ ہماری تعلیم کے بھی خلاف ہے اور ہماری طاقت سے بھی یا ہر گر حق یہ ہے کہ اس وقت سیکھ سمجھتے اور حکومت گویا ایک بھون مرکب بنے ہوئے ہیں.اور ایک کو دوسرے سے جدا رکھنا مشکل ہے، اور آپ کا یہ بھی فرمان ہے کہ مومن کی جان کو حتی الوسع بچاؤ کیونکہ ضائع شدہ جائدادیں اور سامان تو پھر بھی مل جائیں گے مگر مومنوں کی ضائع شدہ جائیں جو گویا حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے ہاتھ کے لگائے ہوئے پودے ہیں پھر نہیں ملیں گے.تو اب مجھے بتائیں کہ میں ان ہزاروں ننگ و ناموس رکھنے والی عورتوں کے متعلق جو قادیان میں موجود ہیں ، کروں تو کیا کروں.مال کے مقابل پر بیشک قیمتی جان بچائی جا سکتی ہے اور مومن کی بھان واقعی بہت بڑی چیز ہے.مگر کیا میں اپنی آنکھوں کے سامنے احمدی عورتوں کے ننگ وناموس کو خطرہ میں ڈال دوں اور سامنے سے ہاتھ نہ اُٹھاؤں حضر صاحب نے مجھے تسلی کا خط لکھا اور بعض ہدایتیں بھی دیں اور فرمایا کہ ہمیں ان مشکلات کو سمجھتا ہوں.مگر ادھر ہم زیادہ سے زیادہ ٹک بھیجوانے کی کوشش کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے.دگو پاکستان حکومت کے پاس ٹرک محدود ہیں اور اس نے سارے مشرقی پنجاب میں سے مسلمانوں لے حضرت میاں صاحب نے مفوضہ ذمہ داریوں کی بجا آوری کے لئے ایک نہایت عمدہ نظام قائم کر رکھا تھا اور مختلف سر بر آوردہ اصحاب کو اپنے نائب کی حیثیت سے مختلف کام سپرد کر دیئے تھے.اس تعلق میں آپ نے ہار نبوت نومبر کو حضور کی خدمت میں لکھا کہ " میرے ساتھ نائب کے طور پر ملک غلام فرید صاحب اور مرزا عبد الحق صاحب اور عبد الحمید صاحب دراجہ اور دوسرے بھی دوست لگے ہوئے ہیں اور بچے بھی ہاتھ بٹاتے رہتے ہیں.اکثر اوقات رات کے دو تین بجے تک اور کبھی کبھی اس سے بھی زیادہ کام ہوتا ہے.اسی طرح حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب کو اطلاعدی کہ ” قادیان میں ٹاک کی وصولی اور روانگی کے متعلق میں نے عزیز مرزا وسیم احمد صاحب کو مقرر کیا ہے......موقع پر شیخ مبارک احمد صاحب یا میاں ناصر احمد صاحب یا چوہدری محمد علی صاحب یا چوہدری ظہور احمد صاحب وصول کرتے ہیں اور پھر آگے میرے پاس بھجوا دیتے ہیں اور پھر میری نگرانی میں عزیز وسیم احمد صاحب کھول کر تقسیم کروا دیتے ہیں" (مکتوب و تبوک اش)
۶۵ کو نکالتا ہے) اور اُدھر تم جس طرح بھی ہو ، ہر ٹوک میں زیادہ سے زیادہ عورتیں اور بچتے لدوا کہ انہیں بعد سے بعد باہر بھجوا دو.اور جب عورتیں محفوظ ہو جائیں تو پھر باقی معاملہ جو ہماری وقت سے باہر ہے خدا پر چھوڑ دو.وَالْبَيْتِ رَبُّ يَمْنَعُهُ اب ٹرکوں کا حال میں تھا کہ قادیان میں دو قسم کے ٹرک پہنچتے تھے.ایک وہ پرائیویٹ ٹرک بو لبعض احمدی فوجی افسر اپنے اہل و عیال اور اپنے ذاتی سامان کر لے جانے کے لئے اپنے فوجی سق کی بناء پر حاصل کر کے قادیان کے جاتے تھے اور دوسرے وہ جماعتی ٹرک جو جو کتی کوشش سے جماعتی انتظام کے تحت حکومت کے حکم سے قادیان بھجوائے جاتے تھے.یہاں تک پہلی قسم کے لڑکوں کا سوال ہے.ظاہر ہے کہ یہ پرائیویٹ چیز تھی اور مجھے یا کسی اور کو دخل دینے کا حق نہیں تھا.ان کے متعلق صدر صاحبان محلہ جات، قادیان کو میری ہدایت صرف اس قدر تھی کہ اس بات کی نگرانی رکھیں کہ ان پرائیویٹ ٹرکوں کے اندر بیٹھ کر کوئی احمدی مرد بلا اجازت باہر نہ چلا جائے.نیز یہ کہ پرائیویٹ ٹرک والے فوجی افسر سے پوچھ لیا کریں کہ کیا اس ٹرک میں کسی زائد سواری کی گنجائش ہے، اور اگر گنجائش ہوا کرے تو مجھے بتا دیا کریں تا میں ایسے ڑکوں میں زائد احمدی عورتیں بھیجو اسکوں.اور اس طرح ہماری سکیم کی جلد تر تکمیل میں مدد ملے.چنانچہ ایسا ہوتا رہا اور جہانتک ممکن تھا میں حکمت عملی اور سمجھوتہ کے طریق پر پرائیویٹ ٹرکوں میں بھی زائد عورتیں بھجواتا رہا مگر ظاہر ہے کہ یہ ٹرک میرے کنٹرول میں نہیں تھے اور جہانتک سامان کا تعلق ہے ان ڑیوں کے مالک بقتنا سامان چاہتے تھے اپنے ساتھ لے جاتے تھے اور میں اس میں دخل نہیں دے سکتا تھا.اور میں جانتا ہوں کہ بعض ایسے پرائیویٹ لڑکوں والوں نے اپنا سارے کا سارا سامان با ہر نکال لیا.مگر یہ ان کا قانونی حق تھا جس میں میں دخل نہ دے سکتا تھا.البتہ دو ستر ڑک جو جماعتی انتظام کے ماتحت بہاتے تھے.وہ بیشک کلیستہ ہمارے انتظام میں تھے رسوائے اس دخل اندازی کے جو ملٹری کی طرف سے ہوتی رہتی تھی اور دن بدن بڑھتی بھائی تھی، اور میں نے ایسے جماعتی لڑکوں کے لئے ایک مستعد حملہ اور کچھ اصولی ہدایتیں مقرر کر رکھی تھیں اور ہر یا ہر بھانے والی پارٹی کو باقاعدہ ٹکٹ ملتا تھا.جس میں باہر جانے والی عورتوں اور بچوں کی تعداد اور سامان کی مقدار درج ہوتی تھی میں
۶۶ کے مطابق مقررہ حملہ چیک کر کے سواریاں بٹھاتا تھا.سامان کا اصول سب پر یکساں چسپاں ہوتا تھا اور اس میں ضروریات زندگی کی چیزوں کو مقدم رکھا گیا تھا.مثلاً بستر اور پہننے کے کپڑے یا بعض صورتوں میں اقل تعداد میں کھانے کے برتن وغیرہ اور پارٹی کی تعداد کے مطابق سامان میں کمی بیشی کا اصول بھی مقرر تھا.البتہ دو چیزوں کے متعلق استثناء رکھی تھی.ایک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تبرکات اور دوسرے نایاب تبلیغی یا علمی کتابیں اور بعد میں اس میں ایک تیسری چیز کا بھی اضافہ کر دیا گیا یعنی ایسی اشیاء ہو کسی شخص کی روزی کا ذریعہ ہوں مثلاً درزی کے لئے سینے کی مشین یا بڑھئی کے لئے اوزار وغیرہ.یہ اصول امیر و غریب سب پر یکساں چسپاں ہوتا تھا.گو ظاہر ہے کہ نسبتی لحاظ سے اس اصول سے غربا کو ہی زیادہ ندہ پہنچتا تھا بلکہ غرباء کے متعلق تو میری یہانتک ہدایت تھی کہ صرف صدر صاحبان کی سفارش پر یہی معاملہ نہ چھوڑا بھائے بلکہ میرے دفتر کے مرکزی کارکن خود جستجو کر کے بتائی اور بیوگان اور ایسے مساکین کو تلاش کر کے میرے نوٹس میں لائیں جن کا حق ان کی غربت اور بے بسی کے سوا اور کوئی نہ ہو چنانچہ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ میری اس ہدایت کی وجہ سے مجھے ملک غلام فرید صاحب نے رات کے دو بجے دار الفضل سے فون کیا کہ میں نے محلہ دار البرکات میں ایک ایسی بیکس اور بے بس عورت تلاش کی ہے جس کے ٹکٹ کے لئے ابھی تک کسی نے سفارش نہیں کی میں نے فوراً ہدایت دی کہ اسے اس کے ضروری سامان کے ساتھ دوسرے دن کے کنوائے میں بھیجوا دیا جائے.الغرض جب تک میں قادیان میں رہا ئیں نے بلا امتیاز غریب و امیر سب کے واسطے ایک جیسا اصول رکھا اور گھوما صدر صاحبان کی تصدیق پر فیصلہ ہوتا تھا اور سامان کے متعلق بھی سب کے لئے ایک جیسا اصول تھا گو یہ علیحدہ بات ہے کہ بعض بے اصول لوگ چوری یا سینہ زوری کے ذریعہ زیادہ فائدہ اٹھا لیتے ہوں مگر یہ ناگوار رخنے جن کی تعداد بہر حال کم ہوتی ہے، ہر انتظام میں ہو جاتے ہیں اور ہنگامی حالات میں تو لازمی ہوتے ہیں مگر ان زیر پستی کی استثناؤں کی وجہ سے سارے نظام پر اعتراض کرنا درست نہیں.حقیقت یہی ہے کہ پیش آمدہ حالات کے ماتحت جو کچھ بھی کیا گیا دہ حالات اور موقعہ کی نزاکت
کو دیکھتے ہوئے بالکل درست بلکہ ضروری تھا اور یہ سب کچھ نیک نیتی کے ساتھ اپنے آپ کو دن رات کی انتہائی کوفت میں مبتلا کر کے خالصہ وجیہ اللہ کیا گیا.مجھے یاد ہے کہ جب لاہور سے کنوائے پہنچتا تھا تو اس کی تیاری کے لئے میں اور میرا حملہ کیسا اوقات رات کے تین تین بجے تک مسلسل کام میں لگے رہتے تھے اور بعض راتیں تو ہم ایک سیکنڈ کے لئے بھی نہیں سوئے گر یہ ہمارا کسی پر احسان نہیں ہے بلکہ بعدا کا ہم پر احسان ہے کہ اس نے ان خطرہ کے ایام میں خدمت کا موقعہ دیا.ان ایام میں بعض دوست میرے پاس آتے تھے کہ ہمیں زیادہ سامان بھیجوانے کی اجازت دی جائے.میں انہیں سمجھاتا تھا کہ دیکھو اس وقت حال یہ ہے کہ خطرہ بالکل قریب آگیا ہے اور ٹرکوں کی تعداد تھوڑی ہے.اب چھا ہو تو احمدی عورتوں اور بچوں کی جان بچالو اور چاہو تو اپنا سامان محفوظ کر لو.اکثر دوست میرے اس اشارہ کو سمجھ جاتے تھے مگر بعض کوتاہ بین لوگ دل برداشتہ بھی نظر آتے تھے.لیکن میں مجبور تھا کہ بہر حال مومنوں کی جانوں اور خصو صا عید توں کی جانوں کو (جن کی بھانوں کے ساتھ ان کے ناموس کا سوال بھی وابستہ تھا) سامان پر مقدم کروں.آخر ہر ٹرک کی گنجائش اور بوجھ اُٹھانے کی طاقت محدود ہوتی ہے.اگر ہم ایک ٹرک پر سامان زیادہ لاد دیں گے تو لازماً سواریاں کم بیٹھ سکینگی اور اگر سامان کم ہوگا تو لاز ما سواریوں کے لئے زیادہ گنجائش نکل آئے گی.ہماری اس تدبیر کا نتیجے عملی صورت میں بھی ظاہر ہے کہ مشرقی پنجاب کی تمام دوسری جگہوں کی نسبت قادیان میں بھائی نقصان نسبتی طور پر بہت کم ہوا ہے اور اغوا کے کیس تو خدا کے فضل سے بہت ہی کم ہوئے ہیں بلکہ جہاں تک میر اعلم ہے قادیان کے احمدی مہاجرین میں سے کوئی ایک عورت بھی اغوا شدہ نہیں ہے جو ظاہری لحاظ سے (کیونکہ اصل حفاظت تو خدا کی ہے، اسی تدبیر کا نتیجہ تھا کہ پہلے کہ که اکثر عورتوں کو خطرہ سے پہلے نکال لیا گیا اور جو تعداد حملہ کے وقت قادیان میں موجود تھی وہ نہ اتنی محدود تھی کہ خطرہ پیدا ہوتے ہی ہمارے آدمی انہیں فوراً سمیٹ کر محفوظ جگہوں میں لے آئے ورنہ اگر زیادہ تعداد ہوتی تو انہیں اتنے قلیل نوٹس پر سمیٹنا ناممکن ہوتا اور ان کا اتنی محمد ود جگہ میں سمانا بھی ناممکن تھا سنه ل " الفضل ار نبوت / نومبر له مش صفحه ۳ - ۴ +
YA احمدی احمدی خواتین کی حفاظت نہایت اندار کار اما بلاشبہ میری خواتین کو قربان سے حفاظت کی کارنامه پاکستان پہنچا دینا سید نا الصلح الموعود کا ایک اور اس کے بعض حیرت انگیز پہلو ایسا شاندار کارنامہ ہے جو ہمیشہ آب زر سے لکھا جائے گا.ہم اس عظیم انسان اور بے مثال کارنامہ کا ایک جامع تھا کہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے قلم سے سطور بالا میں لکھ چکے ہیں.اب جناب خواجہ غلام نبی صاحب سابق ایڈیٹر الفضل" کے لفظوں میں اس کے بعض تیرت انگیز پہلوؤں پر روشنی ڈالی جاتی ہے.محترم خواجہ صاحب اپنی ذاتی واقفیت اور چشمدید حالات کی بناء پر تحریر فرماتے ہیں :- قادیان کے ارد گرد کے مسلمان دیہات میں سکھوں کے مظالم جب روز بروز بڑھنے لگے.ٹوٹ مادر، قتل و غارت اور آتشزنی کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہونے لگا.ملٹری اور پولیس ٹیروں اور غنڈوں کی زیادہ سے زیادہ امداد کرنے اور مسلمانوں کی تباہی کو انتہا تک پہنچانے میں منہمک ہو گئی اور خطرات کا سیلاب زیادہ سے زیادہ شدت کے ساتھ قادیان کے قریب سے قریب پہنچنے لگا تو حفاظتی اور دفاعی انتظامات کے سلسلہ میں خواتین اور بچوں کی حفاظت کی طرف حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے خاص توجہ مبذول فرمائی.اور حضور کے ارشاد کے ماتحت لجنہ اماءاللہ کی کارکن خواتین نے ایسی مستورات کی فہرست تیار کی جنہیں ضعف قلب کی تکلیفت یا کوئی اور عارضہ لاحق تھا تا کہ سب سے پہلے ان کو قا دیان سے باہر محفوظ مقام پر پہنچانے کی کوشش کی جائے.مجھے ذاتی طور پر معلوم ہے کہ پہلے پہیں اس قسم کی فہرست میں نام درج کرانے سے بہت سی ایسی خواتین نے انکار کر دیا جنہیں کوئی نہ کوئی عارضہ تو لاحق تھا لیکن دل مضبوط تھے.ان کی خواہش تھی جس کا انہوں نے باصرار اظہار بھی کیا کہ موت کے خطرہ سے انہیں قادیان سے باہر نہ بھیجا جائے.اگر اب موت ہی مقدر ہے ، تو قادیان سے بہتر جگہ اور کونسی ہو سکتی ہے یا پھر ان کا یہ بھی مطالبہ تھا کہ خطرہ کے وقت ممکن خدمات سر انجام دینے کے موقع سے انہیں کیوں محروم کیا جاتا ہے.لیکن جب بتایا گیا کہ ان کی موجودگی مردوں کی سرگرمیوں میں مشکلات اور روکاوٹیں پیدا کرنے کا موجب ہوگی اور دشمن کا مقابلہ اس اطمینان اور انہماک سے نہ ہو سکے گا جو ان کے پہلے بہانے کے بعد کیا جا سکتا
44 ہے تو وہ بادل ناخواستہ قادیان سے باہر بجانے پر آمادہ ہو سکیں.چونکہ خواتین اور بچوں کو محفوظ طریق سے باہر بھیجنے میں سخت مشکلات درپیش تھیں.ذرائع آمد و رفت بالکل مفقود تھے اور راستہ کے خطرات بے شمار ، سرکاری حفاظت میں لاریوں اور ٹرکوں کا ملتا نہایت دشوار تھا.ان حالات میں تجویز یہ کی گئی کہ جوں جوں لڑک میتر آتے جائیں.پہلے بیمار، کمزور اور گود میں بچہ رکھنے والی عورتوں کو ، لڑکیوں اور چھوٹے بچوں کو بھیجا جائے.اس کے لئے محلوں کے پریڈیڈ نٹوں سے فہرستیں طلب کی جائیں اور آمدہ لڑکوں میں گنجائش کے مطابق نہایت چھان بین اور غور و خوض کے بعد حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اپنے دستخطوں سے ٹکٹ جاری فرماتے اور ساری ساری رات اپنے عملہ سمیت اس کام میں مصروف رہتے.اس کا اندازہ مجھے اس سے ہوا کہ پہلی دفعہ میرے گھر کی مستورات کا ٹکٹ رات کے قریباً دو بجے پہنچا مگر بارش کی وجہ سے سوار نہ کر دیا جا سکا.دوسری دفعہ بھی ٹکٹ رات کے بارہ بجے کے بعد پہنچا.جب چند ڈک پہنچتے تو ان کی واپسی کے انتظامات شروع کر دیئے جاتے اور روزہ بروز نازک سے نازک تر ہوتے جانے والے حالات کے پیش نظر اس بات کی انتہائی کوشش کی جاتی کہ زیادہ سے زیادہ عورتوں اور بچوں کو بھیجا جا سکے.اس وجہ سے کم از کم اور نہایت ضروری سامان عام طور پر پہننے کے کچھ کپڑے اور ایک آدھ بستر لے جانے کی تاکید کی جاتی چونکہ ارد گرد کے دیہات کے بے شمار پناہ گزین بھی جمع تھے اور وہ ٹرکوں میں سوار ہونے کے لئے بے تحاشہ یورش کر دیتے تھے.اس لئے جن کو ٹکٹ دیئے جاتے ان کا سوار ہونا بہت مشکل ہو جاتا اور انتظامات میں بہت گڑ بڑ پیدا ہو جاتی.اس کے علاوہ مسلح ملٹری کی دخل اندازی مشکلات کو انتہا تک پہنچا دیتی.مگر باوجود اس کے حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایڈ اللہ تعالیٰ اور حضرت صاحبزادہ مرزا شریعت اسحمد صاحب کے صاحبزادگان ہر قسم کی مشکلات پر غالب آنے اور خواتین کو سوار کرانے کے لئے بذات خود نہایت تندہی سے مصروف ہوتے.اس طرح یہ نہایت مشکل کام سر انجام پا سکتا تھا.لیکن جہاں دوسرے پہلوؤں سے لڑی اور پولیس کا ظلم و تشدد بڑھتا گیا.وہاں خواتین کی روانگی میں بھی مری نے انتہائی مشکلات پیدا
کرنی شروع کر دیں اور بات بات میں مداخلت کرنے اور خبر دوستم کا مظاہرہ کرنے پر تل گئی.ایک دن جبکہ انتظام کے ماتحت ہمارے اپنے دس بارہ ٹرک احمدی عورتوں کو لے جانے کے لئے آئے ہوئے تھے.بعورتیں اور بیچتے ان میں سوار ہو چکے تھے کہ ملٹری نے محکم دے دیا کہ آدھے ٹک فوراً خالی کر دیئے بھائیں.ان میں ہم اپنی مرضی سے لوگوں کو سوار کرائیں گے.اس پر جب صدائے احتجاج بلند کی گئی تو ہندو مری نے سب لڑکوں پر قبضہ کر کے نہایت بیدردی اور سفاکی سے پردہ دار عورتوں اور چھوٹے چھوٹے بچوں کو گھسیٹ گھسیٹ کر پھینک دیا.اور اس طرح ٹرک خالی کر کے لے گئی.ملڑی کے اس طریق عمل سے نہ صرف سلسلہ کے انتظام کے ماتحت اور احمدی ملٹری افسروں کی حفاظت میں آئے ہوئے ٹرکوں میں سوار ہونے سے احمدی خواتین اور احمدی بچے رہ گئے بلکہ کئی ایک کو چوٹیں بھی آئیں اور تھوڑا بہت سامان جو اُن کے ساتھ تھا وہ برباد ہو گیا.پھر حکومت کی طرف سے تو اس قسم کے اعلانات کئے جا رہے تھے کہ پناہ گزینوں کی نہ تو تلاشی لی جاتی ہے سوائے اسلحہ کی تلاشی کے اور نہ ان سے کوئی اسباب چھینا جاتا ہے لیکن قادیان میں اس تشدد اور سختی سے ایک ایک بہتر اور ایک ایک تھنک کھول کر دیکھا بہاتا اور چھان بین کی جاتی کہ کوئی کام کی چیز باقی نہ رہ جاتی اور اس میں اتنی سرگرمی اور انہماک کا اظہار کیا جاتا کہ کئی بار تھوڑے تھوڑے لڑکوں کو محض اس لئے رات بھر وہیں رکھنا پڑا کہ ان کی تلاشی ختم نہ ہو سکی.اس طرح عورتوں اور بچوں کو نہ صرف ساری رات کھلے میدان میں خوف و خطر کے اندر پڑے رہنا پڑا بلکہ کھانے پینے اور حوائج ضرور یہ پورا کرنے میں بھی انتہائی تکلیف اُٹھانی پڑتی.عورتیں اور بچے صبح کے ۴ - ۵ بجے لڑکوں پر سوار ہونے کے لئے گھروں سے نکل کو مقررہ جگہوں پر جمع ہونے شروع ہو جاتے اور پناہ گزینوں کے بے پناہ ہجوم کی وجہ سے بڑی مشکلوں سے منتظمین جن میں زیادہ تر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے صاحبزادگان ہوتے سوار کرا سکتے.ابتدائی ایام میں دھوپ میں کافی حدت تھی.جب عورتیں بچے لڑکوں میں کھچا کھچے پھر جاتے تو پھر ٹرک ملڑی کے احکام کی انتظار میں دھوپ میں کھڑے رہتے.آخر خدا خدا
کر کے چلتے تو تلاشی کی خاطر ریلوے لائن کے قریب کھلے میدان میں ان کو روک دیا جاتا.پھر اس بری طرح ایک ایک چیز کو کھولا اور بکھیرا جاتا کہ باقی بچی کچھی اشیاء کا سمیٹنا بھی سخت مشکل ہو جاتا.خاص کو اس لئے کہ عام طور پر صرف مستورات اور بیچے جا رہے ہوتے مردان کے ساتھ نہ ہوتے.اس طرح اس قدر دیر ہو جاتی کہ قافلہ روانہ نہ ہو سکتا اور اسی جگہ عورتوں اور بچوں کو ایسی حالت میں رات گزارتی پڑتی جبکہ ایک طرف غنڈے سکھوں اور ملٹری و پولیس سے شدید خطرہ میں گھرے ہوتے اور دوسر کا طرف بھوک پیاس اور دن بھر کی کوفت سے نڈھال ہو رہے ہوتے اس قسم کے دو قافلے مجھے اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا موقع ملا.ہمارے نو جوانوں نے ان گرفتاران مصیبت کو کھانا اور پانی پہنچانے کی پوری کوشش کی اور خدا تعالیٰ نے خاص فضل یہ گیا کہ ان دونوں قافلوں کے ساتھ مسلمان ملٹری جن میں ہمارے احمدی نوجوان بھی شامل تھے کافی تعداد میں کافی اسلحہ کے ساتھ موجود تھی اور اس نے حفاظت کا پورا پورا حق ادا کیا.آخری قافلہ جس میں ہزاروں عورتیں اور بچے شامل تھے بہت بڑا قافلہ تھا اور انچارج ایک نہایت فرض شناس انگریز افسر تھا.اس کے قافلہ کے دس ٹرک غیر سلم پناہ گزینوں کو گورداسپور نے کر گئے تھے اور ان کو حکم تھا کہ گورداسپور سے تعالی ٹرک لے کو بڑے کنوائے کے ساتھ قادیان آملیں تاکہ ان پر بھی قادیان سے عورتوں اور بچوں کو سوار کرایا جائے.لیکن جب ٹرک وقت مقررہ کے بعد بھی قادیان نہ پہنچے تو مذکورہ بالا فرض شناس انگریز خود جیپ کار پر سوار ہو کر گورداسپور گیا اور وہاں سے خالی ٹرک ساتھ لے کر قادیان پہنچا.معلوم ہوا کہ گورداسپور کے افسر خالی ٹرک واپس نہیں آنے دیتے تھے بلکہ وہاں سے ہی لوگوں کو سوار کر کے بھیجنا چاہتے تھے.مگر اس انگریز افسر کی کوشش کامیاب ہوئی اور وہ اپنے ساتھ خالی ٹرک لے کرق دیان پہنچا اور ان پر عورتوں اور بچوں کو دوسرے دن سوار کرایا.تقادیان کے حالات پونکہ اُسے بھی بیحد خطرناک نظر آرہے تھے.ہر طرف تب ہی و بربادی پھیلی ہوئی تھی.سکھوں کے مسلح جتھے ادھر اُدھر منڈلا رہے تھے بلڑی اور پولیس بھی قابل اعتماد نظر نہ آتی تھی.اس لئے اس نے ضروری سمجھا.کہ ہزاروں عورتیں اور بچے جن کی حفاظت کا قرض اس پر عائد ہو چکا ہے.ان کی حفاظت اور سلامتی کے لئے ہر مکن
۷۲ کوشش اور انتظام کرے اور کہنا پڑتا ہے کہ جہانتک ظاہری کوشش اور سامان کا تعلق ہے.اس نے نہایت ہوشیاری اور عقلمندی سے یہ فرض ادا کیا.سو کے قریب ملٹری ٹرک تھے جن کو دائرہ کی شکل میں کھڑا کر دیا اور اندر کی طرف ہر ایک کی سواریوں کو اتار کر آرام کرنے کے لئے کہ دیا.باہر کی طرف کڑا پہرہ قائم کر دیا.اس کے علاوہ قریب قریب کے مکانوں پر مضبوط پکٹیں قائم کر دیں.افسروں کو نگرانی پر کھڑا کر دیا.خود بھی مسلح کار پر چکر لگاتا رہا.ملڑی ہو قریباً ساری کی ساری احمدی نوجوانوں پر مشتمل تھی، بڑے سے بڑے خطرہ کا مقابلہ کرنے کے لئے ساری رات بالکل تیارہ رہیں.اس طرح رات امن اور خیریت سے گزر گئی اور صبح کو قافلہ روانہ ہو گیا.یہ اس قافلہ کا ذکر ہے جس میں قادیان کی تمام عورتیں اور بیچتے آخری بار روانہ ہو گئے.اس سے قبل پرائیویٹ لاریوں کا ایک اور کنوائے ملٹری کی حفاظت میں اس وقت پہنچا تھا جبکہ ابھی قادیان میں رہنے والوں کو ان کے گھروں سے نہ نکالا گیا تھا اس پر سوار ہونے والوں پر بھی انتہائی تشدد کیا گیا.ابھی وہ کنوائے کے کا ہی ہوا تھا کہ اگلے دن صاحبزادہ مرزا داؤ د احمد صاحب میجر ابن حضرت مرزا شریعت احمد صاحب کی سر کردگی میں چند ملڑی لڑکوں پر مشتمل ایک اور کنوائے پہنچ گیا.جب یہ کنوائے تیار ہو کر اس جگہ پہنچا جہاں ہندوستانی ملٹری تلاشی لیتی تھی تو پہلا کنوائے وہیں رکا پڑا تھا.اور میڈیا کی مار دمنماڑ کا شکار ہو رہا تھا.اس وقت حضرت صاحبزادہ صاحب نے عورتوں اور بچوں کی سہولت کی خاطر اپنے رتبہ اور درجہ کی کوئی پروانہ کرتے ہوئے ایک ایسا طریق اختیار کیا جو نہایت کامیاب ثابت ہوا.اور ان کے زیر حفاظت کنوائے تھوڑی دیر کے بعد ہی روانہ ہو گیا.اس وقت موقعہ پر تلاشی لینے والا بڑا افسر موجود نہ تھا.وہ گورداسپور گیا ہوا تھا اور انچارج صاحبزادہ صاحب کے مقابلہ میں کوئی بہت چھوٹے درج کا انسر تھا.میں نے دیکھا.صاحبزادہ صاحب نے بے تکلفانہ گفتگو کرتے ہوئے اپنا بازو اس کی کمر میں ڈال دیا.اسے ساتھ لئے ہوئے ادھر اُدھر ٹہلنے لگے اور وہ آپ کے ساتھ ساتھ پھلنے لگا.آپ کی یہ ادا دیکھ کہ میرا دل خوشی اور مسرت سے بھر گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد ہمارے لئے کیا کیا کوشش کر رہی ہے.چند ہی منٹ بعد آپ کے
کٹوائے کو بغیر تلاشی لئے روانگی کی اجازت مل گئی اور اس طرح آپ نے حسین تدبیر سے خواتین اور بچوں کو بڑی تکلیف سے بچا لیا بھا لیکہ آپ سے پہلے آنے والا قافلہ اس دن بھی نہ جا سکا تو اگلے دن روانہ ہوا.لڑکوں میں سوار ہونے کے سلسلہ میں عورتوں کو ایک بڑی تکلیف یہ بھی درپیش تھی کہ ہند و ملٹری کا قریباً ہر سپاہی اور افسر چند ایک بیرونی پناہ گزین مردوں اور عورتوں کو اپنے ساتھ لگائے پھرتا اور ہر ٹرک میں جو پہلے ہی عورتوں اور بچوں سے لبالب بھرا ہوتا نہ صرف عورتوں کو بلکہ مردوں کو بھی زبردستی ٹھونستا چاہتا اور باوجود بار بار صدائے احتجاج بلند کرنے کے ٹھونس کو ہی رہتا.یہ کون لوگ تھے ، وہی خانماں برباد جو اپنی رہی سہی پونجی ان بھیڑیوں کی نذر کو دیتے تاکہ جان بچا کر ان کے نرغہ سے نکل سکیں.ان ہو لناک اور تباہ کن ایام میں جبکہ مشرقی پنجاب کے ایک سرے سے لیکر دوسرے سے تک لاکھوں مسلمان انتہائی مظالم کا شکار ہو رہے اور سفاکوں کے ظلم وستم سے بچنے اور اپنے تنگ و ناموس کو بچانے کی کوئی صورت نہ پاتے تھے.چنانچہ اب تک لاکھوں ہی موت کے گھاٹ اُتر چکے اور لاکھوں ابھی تک مخلصی پانے کا کوئی ذریعہ میسر نہ آنے کی وجہ سے موت کے پنجہ میں گرفتار ہیں.یہ انتظامات قادیان سے ہزاروں عورتوں اور بچوں کو صحیح سلامت نکال لانے کے انتظامات خواتین کے ننگ و ناموس اور عزت و حرمت کو محفوظ رکھنے کے یہ انتظامات.حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایک اللہ تعالیٰ کی دن رات کی ان کوششوں اور مساعی کا ہی نتیجہ ہے جنہیں خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے شرف قبول بخشا اور جن کی کامیابی کی مثال ، جانی مال ، عزت و آبرو کی تباہی کے اس غیر معمولی سیلاب میں اور کہیں نہیں مل سکتی.اور جب یہ دیکھا جائے کہ ہمارے راستہ میں جس قدر مشکلات حائل تھیں.ہمارے مقابلہ میں روکا و تو کے جس قدر پہاڑ کھڑے تھے اور ہم بے سرو سامانی کی جس بعد کو پہنچے ہوئے تھے اس کی مثال بھی کسی اور جگہ نہیں مل سکتی تو اس کامیابی اور کامرانی کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے.
4N حضرت امیر المؤمنین تعلیقہ السیح الثانی ایک اللہ تعالٰی نے بیحد و حساب مشکلات اور روکاوٹوں کے دوران میں قادیان کے ہزاروں بچوں، عورتوں اور مردوں کو قادیان سے نکالنے کا جو انتظام فرمایا وہ اتنا شاندار اور اس قدر کامیاب تھا کہ اس کی مثال سارے مشرقی پنجاب میں اور کہیں نہیں مل سکتی.اس انتظام کی کامیابی کا ثبوت اس سے بڑھ کہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ اس کی پابندی کرنے والے اور اس کے ماتحت قادیان سے آنے والے ہزارہا نفوس میں سے خطرات اور خدشات سے پر طویل راستہ میں نہ تو کوئی ایک بھی متنفس ضائع ہوا اور نہ ظالم اور جفا کار سکھوں کے ہاتھ پڑا.حالانکہ راستہ تو الگ رہا خود قادیان میں ہندو فوج سند و پولیس اور سیکھ لٹیروں اور قاتلوں کے جتھوں کی یہ حالت تھی کہ جس کو چاہتے بے دریغ اور بلا وجہ گولیوں کا نشانہ بنا دیتے.جسے چاہتے بلا خوف و خطر لُوٹ لیتے اور دن دہاڑے دیہاتی پناہ گزینوں کے مجمع میں گھس کر عورتوں کو اٹھا لے جاتے اور مزاحمت کرنے والوں کو گولیوں یا کو پانوں سے موت کے گھاٹ اتار دیتے.ان حالات میں کئی دنوں تک گھری ہوئی قادیان کی احمدیہ جماعت کی ہزاروں عورتوں، بچوں اور مردوں کو ایک بھی جان کے ضائع یا گم ہونے کے بغیر درندہ صفت دشمنوں کے پنجۂ ستم سے نکال کو صحیح سلامت منزل مقصود تک لے جانا کوئی معمولی کارنامہ نہیں ہے.میں تو قادیان میں بیٹھا ہوا ہوں جوں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے اس انتظام کو اور اس کی کامیابی کو دیکھتا اس کی مثال ڈھونڈھنے سے قاصر ہوتا جاتا.میرے دماغ میں موت اور تباہی کے نہایت وسیع طوقان سے انسانوں کو بچا کر محفوظ مقام پر پہنچانے کی بڑی سے بڑی مثال ڈنکرک کے واقعہ کی آئی جبکہ گذشتہ جنگ عظیم کے دوران میں انگریزی اور ہندوستانی بہت بڑی سپاہ اس مقام پر جرمنی کی قہرمانی نوجوں کے گھیرے میں گھر گئی تھی اور انگریزوں نے اپنی تمام مساعی اس کو نکال کر لے جانے میں صرف کر دی تھیں.آخر بہت بڑا جانی و مالی نقصان برداشت کر کے میں قدر جانوں کو بھی انگریز بیچا کر لے جانے میں کامیاب ہوئے اسے بہت بڑا کارنامہ سمجھا گیا اور فی الواقعہ یہ بڑا شاندار کارنامہ ہی تھا.لیکن میری منگلہ میں قاریان سنے بچوں عورتوں اور آخر میں مردوں کو موت کے منہ سے نکال کر لے بھانے کا واقعہ اس سے بھی بڑھ
۷۵ کر شاندار اور اہم ہے کسی خوش فہمی کی بناء پر نہیں بلکہ دلائل کی بنار پر.سفٹے (1) ڈنکرک میں وقتی طور پر بیشک دشمن کو غلبہ حاصل ہو گیا تھا.اور اس کی طاقت زیادہ تھی مگر با وجود اس کے مقابلہ میں انگریز بھی بالکل بے دست و پا نہ تھے.ان کے پاس بھی جنگ کا ہر قسم کا سامان موجود تھا.جسے حتی الامکان انہوں نے استعمال کیا اور اس سے انہیں بیچ کر نکلتے ہیں بڑی مدد ملی لیکن یہاں یہ حالت تھی کہ اُدھر تو ہندو اور سکھ ملڑی کے پاس بندوقین بشین گئیں ، برین گنیں اور ہم تک تھے.لیکن ادھر احمدیوں کے پاس لاٹھیاں بھی نہ تھیں اور الفاظ کے اصل مفہوم کے مطابق وہ بالکل خالی ہاتھ تھے.پھر وہاں تو نرغے سے نکالنے کے بیسیوں ذرائع ان کے پاس تھے.ہر قسم کے جہاز اور کشتیاں وغیرہ لیکن یہاں اس لحاظ سے بھی کچھ نہ تھا.ہماری ذاتی اور سلسلہ کی کاریں ٹرک چھین لئے گئے.گھوڑے، خچریں ، گدھے تک سیکھ ڈاکو دن دہاڑے جبراً لے گئے.باہر آئے ہوئے پہنو گرمیوں کے لڈن کے بیل مڑی اور پولیس بندوقوں کے ذریعہ ہتیا کرلے گئی.عرض قادیان میں رہنے والوں کی نقل و حرکت کے نہایت معمولی سے معمولی ذرائع کا بھی خاتمہ کر کے انہیں مکمل طور پر نرغہ میں لے لیا گیا.ڈنکرک سے انگریزی اور سہندوستانی فوجوں کو نکالنے کا بیڑا ایک عظیم الشان حکومت نے اُٹھایا تھا.اور یہ انتظام ایک وسیع سلطنت کے ہاتھ میں تھا.لیکن قادیان کی جیت احمدیہ کے بچوں ، عورتوں اور مردوں کو سیلاب بلا سے بچانے کا کام انگلیوں پر کیئے جاسکتے والے چند افراد کے کمزور اور نحیف ہاتھوں میں تھا.وہاں تریقے سے نکلنے والے جانباز جنگ جو اور بہادر سپاہی تھے جو جنگ کی صعوبتیں جھیلنے کے عادی اور خطرات میں سے گذرنے کے عادی تھے لیکن یہاں زیادہ تر کم سن حتیٰ کہ دودھ پیتے بچے، پردہ میں رہنے والی خواتین ، بیمار اور کمزور عورتیں اور مرد سکتھے جن کا اس قسم کے مصائب اور مشکلات میں سے گزرنا تو الگ رہا کبھی ان کے خیال میں بھی نہ آیا تھا.ڈنکرک سے بیچ کر جانے والوں کے لئے ان کا اپنا وطن اور اپنا ملک اُلفت اور محبت کی گود پھیلائے اور اپنے ہم وطن اور عزیز اپنے سر آنکھوں پر بٹھانے کے لئے موجود تھے.
لیکن قادیان سے سب کچھ لٹا کر آنے والوں کے لئے ایک محدود سی جگہ نہیں ہو سکی تھی.وہاں سے نکل کر آنے والوں کے لئے ہر قسم کے آرام و آسائش کے سامان یا افراط نہیں تھے لیکن یہاں بیٹھنے تک کے لئے جگہ کا میتر آنا بھی مشکل تھا اور کھانے پینے کے انتظامات میں شدید مشکلات حائل تھیں.با وجود ان تمام مشکلات کے حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام فرمایا کہ تمام کے تمام بیچتے، تمام کی تمام خواتین اور تمام کے تمام مرد بغیر کسی استثناء کے بخیر و عافیت اس سیل بلا سے نکل آئے.راستہ کے تمام خطرات کو کامیابی سے عبور کر کے نکل آئے اور کسی ایک جان کے نقصان کے بغیر ہزاروں انسان نکل آئے.حالانکہ وہ مسلسل ایک ایسے عرصہ تک گھروں پر رہتے ہوئے خوف و خطر میں گھرے رہے.پھر گھروں سے باہر نکالے بھانے کے بعد کئی دنوں تک بھان اور آبرو کے خطرہ میں مبتلا رہے شمنوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ خطرات اور مصائب سے بچ کر نکلنے کے تمام راستے مسدود کردے.پھر ہزاروں بچوں اور عورتوں کو قادیان کی آخری رات کھلے میدان میں ہندو سیکھ مڑی اور پولیس اور گرد و نواح کے ڈاکو اور لٹیرے سکھوں کے شدید نرغہ میں گزارنی پڑی پھر رستہ کا چپہ چپہ خطرات سے پُر تھا اور جابجا ظالم اور کمینہ صفت دشمنوں کے مظالم کے نشانات قبروں کی شکل میں موجود تھے لیکن خدا تعالیٰ نے حضرت امیر المومنین خلیفہ ایسی الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ذریعہ جماعت پر اتنا عظیم الشان فضل کیا کہ اس نے ان تمام خوفناک مراحل کو بغیریت عبور کر لیا." نے قادیان کی جماعت کا بحفاظت پاکستان مندجہ بالا واقعات پڑھنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کرتا میں آنا اعجازی نشان ہے چنداں شک نہیں کہ قادیان کی احمدی خواتین اور احمدی بچوں کا بحفاظت پاکستان میں آجانا سید نا الصلح الموعود کا ایک عظیم کارنامہ ہے جو دنیا میں ہمیشہ یادگار رہے گا.سید نا فرماتے ہیں :- ہمارا قادیان سے آتا ہی لے لو.میں دیکھتا ہوں کہ بعض لوگ اسی وجہ سے ٹھوکریں کھا له و الفضل ا فتح ا دسمبر مش صفره.
66 رہے ہیں حالانکہ اس حادثہ کی وجہ سے ہمارے ایمان تو پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہو گئے ہیں.اول تو جس رنگ میں ہماری قادیان کی جماعت کے افراد دشمن کے جملوں سے محفوظ رہ کہ پاکستان پہنچے ہیں اس کی نظیر مشرقی پنجاب کی کسی اور جماعت میں نہیں ملتی جس طرح ہماری عورتیں محفوظ پہنچی ہیں جس طرح ہمارے مرد محفوظ پہنچے ہیں اور جس طرح بیسیوں لوگوں کے سامان بھی ان کے ساتھ آئے ہیں.اس کی کوئی ایک مثال بھی مشرقی پنجاب میں نظر نہیں آسکتی.نہ لدھیانہ کے قافلوں میں اس کی کوئی مثال ملتی ہے ، نہ بجالندھر کے قافلوں میں اس کی کوئی مثال ملتی ہے اور نہ فیروز پور کے قافلوں میں اس کی کوئی مثال ملتی ہے لدھیانہ اور بجالندھر کے قافلوں کے ساتھ فوجیں تھیں حفاظت کا سامان تھا مگر پھر بھی ان میں سے ہزاروں لوگ مارے گئے لیکن قادیان کے لوگوں کے ساتھ کوئی فوج نہیں تھی.پھر بھی وہ سب کے سب سلامتی کے ساتھ پاکستان پہنچ گئے.اور پس اول تو یہی کتنا بڑا نشان ہے کہ ہزاروں افراد کی جماعت قادیان سے نکلی.سلامتی کے ساتھ یہاں پہنچ گئی.کوئی ایک مثال بھی تو میں نہیں کی جا سکتی جس میں مشرقانی کا یہی سلوک اور مسلمانوں کے ساتھ ہوا ہو.پھر چاہے بعض کو ٹھوکریں لگیں.مگر یہ کتنا بڑا نشان ہے کہ ہماری انجمین کا اتنا بڑا محکمہ قادیان سے اٹھ کر لاہور آگیا اور یہاں آتے ہی چالو ہو گیا.گورنمنٹ کے محکموں کے سوا کوئی ایک مثال ہی بتائی جائے کہ کسی جماعت کے وہاں اس قدر محکمے ہوں اور پھر وہ اُسی طرح آتے ہی پھل پڑے ہوں جس طرح پہلے چل رہے تھے.یہ تو بالکل اللہ دین کے چراغ والی بات ہو گئی جس طرح اس چراغ سے آناً فاناً ایک محل تیار ہو جاتا تھا.اسی طرح یہ ایک حیرت انگیز واقعہ ہوا کہ قادیان سے احمدیت اُٹھی اور لاہور میں آکر قائم ہو گئی اور قائم بھی ایسی شان سے ہوئی کہ آج دنیا میں احمدیت کا نام جس قدر بلند ہے جس قدر عظمت اُسے حاصل ہے یہ بلندی اور عظمت اس له سے بہت زیادہ ہے جو اُسے قادیان میں حاصل تھی " لے " الفضل" ۱۳ احاد / اکتوبر له مش صفحه 4
قادیان کے قافلوں کی بالآخر یہ بتانا ضروری ہے کہ حضرت مصلح موعود بیشک مادی ذرائع کو کام میں لاتے مگر آپ کا توکل اور انحصار ہمیشہ خدا تعالیٰ کی ذات پر رہا.اظت کیلئے صدقہ یہی صورت قادیان کے محصور احمدیوں کے لئے آپ نے اختیار فرمائی.یعنی آپ کنوائے بھی بھجواتے تھے اور ساتھ ہی ساتھ دعاؤں اور صدقات پر بھی زور دیتے تھے.چنانچہ خود ہی بیان فرماتے ہیں :- میں جب قادیان سے آیا ہوں تو میں نے خیال کیا کہ جو لوگ وہاں بیٹھے ہیں ان کے لئے صدقہ دیتے رہنا چاہیئے.چنانچہ جب تک آخری قافلہ نہیں آیا میں پچیس روپیہ روزانہ صدقہ دیتا تھا اور یہ ساڑھے سات سو ماہوار بنتا ہے.جب قافلے آگئے اب سو روپے ماہوار صدقہ دیتا ہوں تا بخدا تعالے وہاں کے رہنے والوں کو محفوظ رکھے" لے 41904 خدا تعالے کی طر سے دی تم کرے بلا میں ماہ ظہور اگست سے مال میں قتل دخالت کا ایام جو بازار گرم ہوا تھا وہ ماہ تبوک استمبر میں انتہاء کو پہنچے احمدیوں کے ساتھ امتیازی سلوک گیا.لاکھوں مسلمان چھوٹے یا بڑے ڈیروں میں یا تو دہشت زدہ ہو کہ سکڑے بیٹھے تھے یا سڑکوں پر پاکستان کا رخ کئے جا رہے تھے ظلم و ستم کی حد یہ تھی کہ وہ ظالم حملہ آور جنہوں نے اُن کے گاؤں جلائے.ان کی عورتوں کو بے آبرو کیا اور بچے کھچے بد نصیبوں کو بھگا دیا، اب بھی ان کا تعاقب کر کے ان کو رستے ہی میں تہ تیغ کر رہے تھے سکھ میدان کارزار میں نہایت مستند واقعات کی روشنی میں ان حملوں کا ذکر ہے جو انبالہ ، جالندھر، امرتسر ، فیروز پور اور جالندھر کے پیدل قافلوں پر کئے گئے اور جن میں بے شمار جانیں ضائع ہوئیں بہت سے مسلمان جن میں شیر خوار کم عمر بچے اور بوڑھی عورتیں اور مرد شامل تھے ، آتشین اسلحہ برچھیوں اور کم پانوں سے شدید زخمی ہوئے ہے له " الفضل " ۲۶ تبلیغ فروری میش (خطبه جمعه) صفحه ۶ کالم 1 کتاب " سکھ میدان کارزار میں “ کے اندر یہانتک لکھا ہے کہ ستمبر کے دوسرے ہفتہ میں سات ہزار مسلمان زیره (ضلع فیروز پور) سے پیدل روانہ ہوئے.رستہ میں ان پر حملہ کیا گیا.تمام جوان آدمی مار ڈالے گئے اور جوان عورتیں اُٹھالی گئیں.دو ہزار سات سو اشخاص جن میں زیادہ تر بوڑھی عورتیں اور مرد تھے قریب
49 اگرچہ مشرقی پنجاب کے دوسرے مسلمانوں کی طرح احمدیوں کو بھی اس قیامت صغریٰ سے دو بچار ہونا پڑا اور واہگہ سے لے کر دہلی تک کا علاقہ ان کے لئے میدان کرب و بلا بن گیا مگر خدا تعالے کی غیر معمولی نصرت اور حفاظت کا ہاتھ ہر جگہ ان کے لئے کار فرما رہا چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ چند منشیات کے سوا جہاں خدا کے فضل و کرم سے احمدی خواتین کا دامن عصمت و حرمت ننگ انسانیت ظاملو اور بدسگالوں کی چیرہ دستیوں سے بالکل محفوظ رہا وہاں جماعت احمدیہ کا جانی نقصا بھی نسبتا بہت ہی کم ہوا.اکثر و بیشتر جماعتیں پیدل یا فوجی ٹرکوں یا گاڑیوں میں بحفاظت پاکستان نہیں بعض جماعتوں ( مثلاً کپور تھلہ وغیرہ) کی نسبت افواہ پھیل گئی کہ ان کے اکثر افراد مار دیئے گئے ہیں مگر تحقیقات سے معلوم ہوا کہ صرف ایک احمدی شہید ہوا ہے اور قادیان اس کے مضافات ، سٹروعہ اور دلی وغیرہ کے سوا) چند ہی ایسی جماعتیں ہوں گی جس کے دو تین بعد پھار سے زیادہ احمدیوں کو سانحہ شہادت پیش آیا ہو.ولی کے احمدی شہد اور قادیان اور اسکے ناول کے شہداء کا ذکر آگے آرہا ہے.یہاں ہم دہلی اور سٹروعہ کے شہیدوں کا ذکر کرتے ہیں.دہلی میں خانہ جنگی کے دوران مندرجہ ذیل چار نہایت مخلص احمدیوں کو شہادت نصیب ہوئی :- بابو نذیر احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ دہلی.آپ ، ارتبوک استمبر کو کر نیو ہٹنے کے دوران صاحبزادہ امنیر احمد صاحب ( ابن حضرت مرزا بشیر احمد صبا) کے ہاں دریا گنج تشریف لے بھا رہے تھے کہ راستہ چند مہندو نوجوانوں کے ہاتھوں شہید کر دیئے گئے اور آپ کی نعش ایسی جگہ پہنچا دی یہاں سے باوجود بقیه حاشیه صفحه گذشته : قریب نما مہ : تقریب نئے گنڈا سنگھ والا پہنچے.انہی دنوں تین ہزار مسلمانوں کا ایک اور قافلہ ضلع فیروز پور کے جنوب سے ابو ہر جا رہا تھا.ڈپٹی کمشنر منٹگمری کو اطلاع پہنچی کہ اس قافلے پر حملہ کیا گیا ہے.اس نے پنجابی رجمینٹ کے ایک افسر کو دیکھ بھائی کے لئے روانہ کیا جس نے واپس آکر بتایا کہ اس نے ابوہر کے ارد گرد کی سڑکیں نعشوں سے پٹی ہوئی دیکھی ہیں.تحقیقات سے معلوم ہوا کہ جوڈوگر نے مسلمانوں کے پہریدار مقرہ کئے گئے تھے انہی کی امداد سے سارے کا سارا قافلہ ذبح کر ڈالا گیا ہے.قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس افسر کو کسی عورت کی نعش نظر نہیں آئی جس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ عورتیں سب کی سب اُٹھا لی گئیں.گاڑیوں کا سفر عام طور پر سیتا محفوظ کھا جاتا ہے مگر ہر مش کے آتشیں ماحول میں پیلے قافلوں کی طرح گاڑیوں میں ۶۱۹۴۷ بھی نہایت سفا کی اور درندگی سے قتل عام کیا گیا.کتاب " سکھوں کا منصوبہ" کے آخر میں ہر اگست ۹۴ار سے لے کرہ اکتوبر ۱۹۴۷ء تک کی ایسی واردات کا مفصل نقشہ دیا گیا ہے.
A.کوشش کے تلاش نہیں کی جاسکتی تھی.بابومحمد یونس صاحب آپ بابو نزیہ احمد صاحب کے ماموں تھے جو از تبوک استیر کو غالباً لی ڈی ہارڈنگ ہسپتال میں دوائی لینے کی غرض سے گئے.مگر آہ ! پھر واپس نہ آسکے.چودھری غلام محمد صاحب سب پوسٹ ماسٹر - آپ فسادات کے دوران نینتا رام مند لعل کے کی اوٹ میں ایک سکھ انسپکٹر کے ایمار سے شہید کر دیئے گئے.- محمد حسین صاحب واج میں.آپ اور تبوک ستمبر دہلی سے مع اپنی اہلیہ کے پرانا قلعہ کیمپ میں پہنچے.پاکستان جانے کے لئے ایک اسپیشل ٹرین پر سفر کر رہے تھے کہ بیاس اسٹیشن کے قریب گاڑی پر حملہ ہوا.اور اس حملہ میں مرحوم اور ان کی رفیقہ حیات دونوں شہید کر دیئے گئے لیے اء کے قریب سڑو ہر تحصیل گناہ شنکر ضلع ہوشیار پور میں اخمات سردہ کے احمدی شہدا ری آغاز ہوا.اور حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی زندگی میں ہی یہاں ایک مخلص اور جانثار جماعت قائم ہو گئی تھی.اس گاؤں میں ایک ہزار کے قریب مرد وزن اور بچے احمدی آباد تھے.۳۰ ظہور اگست ہش کو دبوقت و بجے صبح) ۲۱ ہزار مسلح سکھوں نے گاؤں پردھاوا بول دیا.اس وقت سروعہ میں صرف پانچ بندوقیں تھیں مگر در سے سات تھے یہاں سے سکھ بآسانی داخل ہو سکتے تھے.احمدی و غیر احمدی مسلمانوں نے ان سات دروں پر اپنی حفاظتی چوکیاں قائم کر لیں.اور تہیہ کرلیا کہ مر جائیں گے گر سکمتوں کو گاؤں کے اندر داخل نہیں ہونے دیں گے سکھوں نے دھمکیاں دیں کہ سروعہ کو لڑائی کے بغیر بنالی کردو ورنہ قتل وغارت کے علاوہ عورتوں کی بھی بے عزتی کی بجائے گی مگر مسلمانوں نے سکھوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے صاف انکار کر دیا جس پر دن کے دو بجے گاؤں کے باہر دست بدست لڑائی شروع ہو گئی.مشرقی درے پر پہندو گوجروں نے حملہ کیا تھا جب ایک کو ٹھٹے سے ان پر گولیاں برسنا شروع ہوئیں تو ان کے پاؤں اکھڑ گئے اور وہ بھاگ نکلے.اس موقعہ پر صوبیدار عبد المجید خان احمدی پیشنر اور پچودھری عبد الحکیم خال احمدی نے شجاعت اور بہادری کے شاندار کار ہائے نمایاں دکھائے.وہ اپنا درہ چھوڑ کر دوسرے غیر محفوظ دروں کی طرف بھی بجا کر فائر کرتے اور پھر اپنا درہ بھی سنبھال لیتے تھے.شام کے پانچ بجے ہوں گے کہ اس وقت اگر چہ صرف چودہ گولیاں باقی رہ گئی له الفضل" ۲۵ تبلیغ | فرودی ده مش صفحه ۰۴
Al تھیں مگر ابھی تک سکھوں کو گاؤں کے اندر داخل نہیں ہونے دیا تھا.اسی اثناء میں اللہ تعالیٰ نے اچانک اس طرح مدد فرمائی کہ تین فوجی مسلمان اپنا ایک فوجی ٹرک لے کر وہاں آنکلے اور انہوں نے سکھوں کو حملہ آور دیکھتے ہی گولیاں چلانی شروع کر دیں میں سے سکھوں میں سخت بھا گڑ مچ گئی اور ۲۱ ہزار سکھ بھاگ نکلا اور آگ لگانے کے لئے تیل کے پیسے بو ہمراہ لائے تھے وہ سٹروعہ والوں کے ہاتھ لگے.اس طرح عین آخری وقت پر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی تائید و نصرت فرما کہ اہل سروعہ کی خواتین کی عزت و عصمت کو محفوظ فرما دیا.بعض مستور است نے اس بنگ میں لڑنے والے مردوں کو پانی پلانے کا کام کیا.مشروعہ کے ، مسلمان بن میں چوہدری احمد خاں صاحب ولد بڑھے تقال صاحب اللہ بخش صاحب تیلی ، احمد علی خان صائب وٹرنری انسپکٹڈ نیشنز جیسے مخلص احمدی بھی تھے داد شجاعت دیتے ہوئے شہید ہوئے.دوسری طرف سکھوں کے 41 مرد کام آئے مسلمانان مروجہ اس معرکہ کے دوسرے روز اسی فوجی ٹرک کی امداد سے گڑہ شنکر میں جا پناہ گزیں ہوئے جہاں سے بالاآخر پاکستان میں ہجرت کر آئے.اگر چہ ہندوؤں اور سکھوں کی خوفناک سازشوں اور جارحانہ پرچم مشرقی پنجاب میں اسلامی پر تیم کارروائیوںکو دیکھ کر یہ تصور میں بھی نہیں آسکتا تھاکہ کوئی لہرانے کے لئے میا خدا نہ عام ایک بھی کلمہ گو اور اسلام کا نام لیوا امشرقی پنجاب کے خونیں غدر میں باقی رہ سکتا ہے مگر حضرت سیدنا المصلح الموعود کی غیرت ایک لمحہ کے لئے گوارا نہیں کرتی تھی کہ اتنا بڑا علاقہ یہاں مدتوں پوری شان و شوکت سے اسلامی پرچم لہراتا رہا یکسر خالی ہو جائے اسی لئے حضور کا منشا مبارک یہ تھا کہ اس علاقہ کے مسلمان خصوصاً احمدی اپنے بال بچوں کو پاکستان میں چھوڑ کو اپنے اپنے مقامات کی طرف واپس جانے کی کوشش کریں اور اگر یہ مکن نہ ہو تو وہ پاکستان کی سرحد کے ساتھ ایسی جگہوں پر آباد ہوں جہاں اُن کے لئے اپنی بستیوں میں پہنچنا آسان ہو چنانچہ حضور نے تبوک استمبر کے خطبہ جمعہ میں مشرقی پنجاب سے آنے والے احمدیوں کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد هو افضل " ۲۵ / ۲ خاء / اکتوبر را به مش صفحه ۳ +19
۸۲ یکیں ان لوگوں کو جو مشرقی پنجاب سے آئے ہیں کہتا ہوں کہ تم اپنے اپنے مقامات میں واپس بھانے کی کوشش کرو.اگر دُور دُور کے گاؤں میں نہیں جا سکتے تو تم لاہور ،سیالکوٹ اور قصور کے پاس پاس پہلے بھاؤ.فیروز پور کے ارد گر در ہو یا تم اجنالہ میں رہو یا بٹالہ یا گورداسپور میں رہو.یہ تفصیلیں ایسی ہیں جو پاکستان سے لگتی ہیں.دو گھنٹے میں انسان ادھر جا سکتا ہے اور دو گھنٹے میں انسان اُدھر جا سکتا ہے.اگر ۲۴ لاکھ مسلمان مشرقی پنجاب سے نکل آیا تو یاد رکھو کہ چار کروڑ مسلمان جو یو پی ہمیٹی اور مدراس میں رہتا ہے وہ سب کا سب مارا جائے گا.اور سارا گناہ اُن مسلمانوں پر ہوگا جو مشرقی پنجاب میں سے بھاگ رہتے ہیں.تم دس دس میل سے بھاگ رہے ہو اور پاکستا انے میں آرہے ہو تو اُن کے اور پاکستان کے درمیان تو تین پچار سو میل کا فاصلہ ہے وہ کس طرح آئیں گے.یقیناً وہ اسی جگہ مارے بھائیں گے.لیکن اگر اُن کو تسلی ہوئی کہ مسلمان بھگوڑے نہیں تو اُن کے اندر بھی جرات پیدا ہو بھائے.اور وہ بھی اپنے اپنے مقام پر کھڑے رہیں گے ورنہ یاد رکھو جتنا ثواب حضرت معین الدین صاحب پشتی ، حضرت نظام الدین صاحب اولیاء اور تضرت فرید الدین صاحب شکر گنج والوں کو ہندوستان کو مسلمان بنانے کا ملا.اس سے کہیں بڑھ کر عذاب تمہیں ہندوستان سے اسلام ختم کرنے کی وجہ سے ملے گا.پس مشرقی پنجاب میں تم پھر واپس جاؤ.بیشک اپنی عورتوں اور بچوں کو ادھر چھوڑ جاؤ.لیکن اگر تم نے اس ملک کو خالی کیا تو اسلام کا نام و نشان تک اس میں سے مٹ جائے گا اور پھر نہ معلوم سینکڑوں سال بعد یا کب اسلام کی دوبارہ ترقی کے کے لئے اللہ کی طرف سے نئی رو پیدا ہو.یہ پیریں بے شک ابتلاء والی نہیں مگر تمہیں یہ بھی تو سوچنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ نے پہلے سے ہمیں ان باتوں کی خبر دی ہوئی ہے.اگر اس کی مندر تجریں تمہارے دلوں کو پریشان کرتی اور مسلمانوں کا تنزل تم کو جنگیں بناتا ہے تو کیا اس کی بشارتیں تمہارے دلوں میں ایمان پیدا نہیں کرتیں اور کیا تم یقین نہیں رکھتے کہ جبس سخدا کی وہ باتیں پوری ہوگئیں جو مسلمانوں کے تنزل کے ساتھ تعلق رکھتی تھیں اس خدا کی وہ باتیں بھی ضرور پوری ہو کر رہیں گی جو اسلام کی ترقی کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں یہ لے سکے له " الفضل " ۲۰ تبوک استمبر ۲۶ مش صفحه ۳ * اشیہ اگلے صفحہ پر ملاحظہ فرمائیں :
مسلم مہاجرین کی آبادکاری استان العلم الومون مشرقی پنجاب میں اسلامی اثر و اقتدار کے قائم رکھنے کا جو مثالی اعلان فرمایا اس سے احمدیوں کے علاوہ کیلئے قیمتی اور اہم تجاویز غیر احمدی مسلمانوں کو بھی باخبر کہ ناضروری تھا تا انہیں بھی ایک عمومی تحریک ہو جائے چنانچہ حضور نے مخاص اس مرض سے از تبوک استمبر ہش کو ریعنی اپنی ہجرت کے پہلے ہی ہفتہ میں ایک پولیس کا نفرنس کو خطاب فرمایا جس میں مسلم مہاجرین کی آباد کاری کے لئے ارباب حکومت کے سامنے بعض نہایت بیش قیمت اور اہم تجاویز رکھیں.اس پریس کانفرنس کی مفصل خبر لاہور کے اخبارات میں سے نوائے وقت“ اور ” انقلاب" نے بھی شائع کی.(حاشیة تعلقه صفحه گذشته :- خود ساختہ تحریکات کے سیاسی راہ نماؤں اور بعدائی جماعتوں کے سربراہوں میں عملی قوتوں ، عزائم اور دعاوی کے اعتبار سے کتنا واضح ، بین اور روشن فرق اور امتیاز ہوتا ہے.اس کی فیصلہ کن مثال قادیان اور جمال پور آج بھی پیش کر رہے ہیں.جمال پور ضلع گورداسپور کی تحصیل پٹھانکوٹ کی بستی ہے جہاں سید ابو الاعلی صاحب مودودی اور ان کے انتقاد ۱۵ جون ار سے لے کر ۲۱ ۱ اگست ۹۴۷ٹہ تک مقیم رہے.یہ مقام تقسیم ہند سے قبل "جماعت اسلامی کا مرکز تھا.جماعت اسلامی اسے دار الاسلام" کی حیثیت دیتی تھی جب ضلع گورداسپور کے اس علاقہ میں فسادات اُٹھ کھڑے ہوئے تو جناب مودودی صاحب نے دھڑنے سے یہ اعلان کیا کہ ور اگر کسی علاقے سے مسلمانوں کے قومی خروج یا اخراج کی نوبت آجائے تو اپنی جگہ چھوڑنے والو میں ہم سب سے پہلے نہیں بلکہ سب سے آخری ہوں گے“ (ترجمان القرآن جلد ۳۱ سیر صفحه (۲۶) مگر فسادات کے شروع ہی میں جب پور سر کاری کیمپ بنا دیا گیا تو مودودی صاحب اور ان کے رفقاد اپنا دار الاسلام ہندوؤں اور سکھوں کے حوالہ کر کے ۳۰ ظہور / اگست ۳۶ یہ مہیش کو پاکستان میں آگئے.۱۹۴۷ء اس کے برعکس سیدنا المصلح الموعود نے اپنے وعدہ کو جس اولوالعرمی اور استقبال کے ساتھ پورا کر کے دکھا دیا وہ تاریخ مذاہب میں اپنی مثال آپ ہے.جماعت احمدیہ کا مرکزہ قادیان جمال پور سے بڑھ کے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا اور یا وجود عالمی مطالبہ کے اس کو سرکاری کیمپ بھی تجویز نہ کیا گیا.بایں ہمہ ستنا المصلح الموعود کے جانباز فدائی اور احمدی مجاہد فسادات کو میں بھی اسلام کا پرچم تھامے ہوئے قادیان میں ڈٹے رہے.دیقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر
AN چنانچہ اخبار نوائے وقت نے لکھا :- مشرقی پنجاب کے مسلمانوں کو حوصلہ نہیں ارنا چاہیئے مرزا بشیر الدین محمود احمد کی پریس کانفرنس لاہور استمبر.مرزا بشیر الدین محمود احمد میر جماعت احمدیہ قادریان نے آج ایک پریس کا نفرنس میں مسلمان اخبار نویسوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مشرقی پنجاب کے مسلمانوں کو ہمیشہ کے لئے اپنے وطن نہیں چھوڑ نے چاہئیں اور ان کے ذہن میں یہی بات ہونی چاہیے کہ انہیں واپس وہیں کیا کر رہتا ہے.آپ نے کہا کہ اس کے لئے مسلمانوں میں استحاد پیدا کرنا لازمی ہے.اس کی بہترین تدبیر یہ ہے کہ مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کی آبادی کے تناسب کے مطابق انہیں ملازمتوں میں نیابت دی جائے.مرزا صاحب نے یہ کہا کہ مسلمانوں میں اب بھی اتنی جان ہے کہ وہ اس صوبہ میں باعزت زندگی بسر کر سکیں.اس وقت ان کی اکثریت حوصلہ چھوڑ چکی ہے.مگر ان کے قدم البقیہ حاشیہ صفر گذشتہ اور آج بھی تبلیغ اسلام کے لئے سر یکت ہیں.اور وہ دن دور نہیں جبکہ ان مقدس و رویشوں کے دینی سرگرمیاں ملک میں ایک ایسا روحانی، اخلاقی اور علمی انقلاب برپا کر دیں گی کہ ہندوستان پھر سے خاتم الانبیاء محمد مصطلق صلی اللہ علیہ وسلم کے دستور حیات کی تجلیوں سے بقعہ نور بن جائے گا اور سہندو قوم فوج در فوج آنحضور کے غلاموں میں شامل ہونا شروع ہو جائے گی جیسا کہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے بھی اپنی کتاب التفہیمات الہ نہیہ میں پیشنگوئی فرمائی ہے کہ انِ اتَّفَقَ غَلَبَةُ الهُن مَثَلَا عَلَى إِقْلِيمٍ هِندُ وسَتَان غَلَبَةٌ مُسْتَقِيَّ لبَةٌ مُسْتَقِيَّةُ عَامَةٌ وَجَبَ فِي حكْمَةَ اللَّهِ أَنْ يُلْهِمَ رُرُ سَائِهِمْ لِلسَّرَيْنِ بِبِايْنِ الإِسْلَامِ كَمَا الهَمَ الترك وجلد اصفر ۳۳ مطبوعہ مدینه برقی پریس بجنور یو پی سعوده و اهرم یعنی اگر کسی وقت ہندوستان پر سہندوؤں کا عام غلی و اقتدار ہو گیا تو خدا کی حکمت میں یہ واجب ہوگا کہ وہ ہندو وی کے لیڈروں کو حلقہ بگوش اسلام ہونے کیلئے ویسے ہی الہام فرمائے جس طرح اس نے ترکوں کو الہام کیا تھا.حضرت شاہ ولی اللہ کے بعد خود سیدنا مسیح الموعود کو بھی ہندوؤں کے بکثر مسلمان ہونے کی خبر دی گئی چنانچہ حضور فرماتے ہیں.مجھے یہ بھی مان لفظوں میں فرمایا گیا ہے کہ پھر ایک دفعہ ہندو مذہب کا اسلام کی طرف زور کے ساتھ رجوع ہوگا.داشتهار ۲ در بار شسته تبلیغ رسالت جلد ششم صفحه ۴۱)
AA ایک جگہ بھی ہم گئے تو مسلمان پھر اپنے پاؤں پر کھڑے ہو ہمائیں گے.آپ نے بہ تجویز پیش کی کہ جن سان مہاجرین کو مغربی پنجاب میں بسایا بھا رہا ہے ان کی جمعیت کو نہ توڑا جائے بلکہ کوشش کی جائے کہ مشرقی پنجاب کے ایک علاقہ کے مسلمانوں کو ان کی جمعیت قائم رکھتے ہوئے مغربی پنجاب میں آباد کیا جائے.مرزا صاحب نے ریڈ کلف ایوارڈ کے متعلق اظہار رائے کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ بد دیانتی پر مینی تھا اور قرائن سے ثابت ہوتا ہے کہ پہلے سے ہو چکا تھا.بعدبندی کا کشن محض ایک ڈھونگ تھا لے اخبارہ انقلاب نے مندرجہ بالا خبر حسب ذیل الفاظ میں شائع کی : " امام جماعت احمدیہ کے ارشادات لاہور ۲۷ تعمیر - کل بعد نماز مغرب امام جماعت احمدیہ نے ایک غیر معمولی اجلاس میں عوام کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ مسلمانوں پر اس سے زیادہ نازک دور کبھی نہیں آیا.قادیان جو احمدیوں کا محبوب مرکز ہے وہ انتہائی خطرے میں گھر چکا ہے.اللہ تعالے کی طرف سے ابتلاؤں کی اطلاعیں بھی ہیں اور بشارتیں بھی.لیکن ہم نہیں کہ سکتے کہ آسمان پر ان میں سے کس چیز کے لئے کونسا وقت متعین ہے مسلمانوں کیلئے جو اذیتیں اور ابتلاء مقدر ہیں وہ بہر حال آکر رہیں گے.ہماری دعا صرف یہی ہونی چاہئیے کہ جس جس کے لئے قید و بند کا یا کوئی اور امتحان مقدر ہے وہ اس میں ایسا ثابت قدم نکلے اور جام شہادت بھی اس بہادری اور شجاعت سے پیٹے کہ مسلمانوں کی آئندہ نسلیں بجا طور پر اس پر فخر کر سکیں اور ہر بجوان بچے اور بوڑھے کا عمل ہمیشہ کے لئے باعث تقلید ہو سکے " سے میں لاہور میں انجمن انصار السلمین کا قیام اور حضرت امام من الصلح الموعود کی اجات سے لاہور میں ایک انجمن انصار السلمین" مشرقی پجوب کے مسلمانوں کی صورتحال سے علی اشتہا کے نام سے قائم کی گئی جس نے پاکت نیوں له ” نوائے وقت“ ۲۸ ستمبر ت ۶۱۹۴۷ صفحه ۰۴ - له " انقلاب " ۲۸ ستمبر ۱۹۹۶ (اخبار پر سہواً ۹۴ ار درج ہے )
A4 کو مشرقی پنجاب کے مسلمانوں کی تازہ صورت حال سے آگاہ کرنے کے لئے اشتہار شائع کئے.اس ضمن میں اس کے زیر انتظام تبوک استمبر یا ہش کے وسط میں شائع شدہ ایک ہینڈبل بطور نمونہ درج کیا جاتا ہے:.مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کی کامل بربادی کے سامان اگست کی گیارہ تاریخ سے سکھوں نے امر تسر اور ضلع گورداسپور میں حملہ شروع کیا.اٹھارہ سے فیروز پور، بجالندھر، ہوشیار پور اور لدھیانہ میں حملے شروع ہوئے.پہلے چند دن تک افسران نے ظاہرداری برتی.شاید یہ خیال تھا کہ کہیں یہ علاقہ پاکستان میں نہ پھیلا جائے.لیکن جونہی اعلان ہوا کہ یہ علاقے ہندوستان میں چلے گئے ہیں اندھیر نگری شروع ہو گئی ہے حالات چُھپائے جا رہے ہیں اور باہر نکلنے نہیں دیئے جاتے.جھوٹی رپورٹیں امن کی شائع ہو رہی ہیں حالانکہ فساد بڑھ رہے ہیں کم نہیں ہوئے.بٹالہ کی تحصیل میں مسلمانوں کی تعداد ۵۰ فیصدی تھی آج بمشکل ۲۵ فیصدی ہوگی.کچھ مارے گئے کچھ بھاگ گئے.حملہ کی ترتیب یوں ہوتی ہے کہ بڑے بڑے چند قصبات کو چن کر ان کے ارد گرد کے چھوٹے دیہات پر حملہ کر دیا جاتا ہے تاکہ ماحول کمزور کر کے بڑے دیہات پر حملہ کیا جائے مسلمانوں کے پاس سوائے شاذ و نادر کے سب اسلحہ لا ئینیس والا ہے اس لئے اسلحہ بھی کم اور سامان بھی کم ہوتا ہے.رات کے وقت ہر گاؤں سے مقررہ تعداد لوگوں کی ایک گاؤں میں جمع ہوتی ہے اور وہاں سے کسی گاؤں پر حملہ کے لئے چل پڑتی ہے جملہ یا شروع رات میں کیا جاتا ہے یا آخر شب میں صبح کے قریب.حملہ آوروں کے پاس ۳۳ کی فوجی انھیں مرین گن.ہم اور عام بندوقیں بکثرت ہیں.سنا گیا ہے کہ پٹیالہ ، فرید کوٹ ، کپورتھلہ وغیرہ نے اپنی فوجوں کا ایک حصہ انہیں دیا ہوا ہے اور ظاہر میں یہ اعلان کر دیا گیا ہے که اتنی اتنی فوج رائفلوں سمیت بھاگ گئی ہے.اس فوج کے کچھ نوجوان بعض دفعہ وردی میں گاؤں کے پاس جاتے ہیں اور اپنے آپ کو ملٹری ظاہر کر کے لوگوں کو تسلی دیتے ہیں.اور اس کے معا بعد غافل مسلمانوں پر سکھ حملہ کر دیتے ہیں.
شاید آپ کہیں کہ باقی علاقہ کے مسلمان کیوں مدد نہیں کرتے.اس کا جواب یہ ہے کہ کہ ہر سکھ گاؤں نے سڑکوں کے ناکے روکے ہوئے ہیں اور ادھر سے اُدھر کسی مسلمان کو نہیں جانے دیتے.جو ظاہر میں جائے اسے زبر دستی واپس کر دیتے ہیں.جو چھپ کر بجائے اسے موقع ملے تو مار دیتے ہیں.اگر کوئی بھی نکلے تو پولیس میں رپورٹ کرتے ہیں کہ فلاں فلاں ہمیں ٹوٹنے آئے تھے.اور پولیس یہ جاننے کے باوجود بھی کہ مارے مسلمان بھا رہے ہیں ان کی شکایت کا پیچھا کرتی ہے.اگر مسلمان اکٹھے ہو کر نکلیں تو سیفٹی ایکٹ کے ماتحت انہیں شوٹ کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے.ایک گاؤں کے نام معلوم ہے، لوگوں کو سکھوں نے لوٹا.وہ (زیادہ تر بچے اور عورتیں) بھاگ کر کچھ زیور اور نقدی لے کو ایک دوسرے مسلمان گاؤں (نام معلوم ہے) کی طرف روانہ ہوئے.راستے میں ایک سکھ گاؤں تھا.انہوں نے اس عورتوں بچوں کے قافلہ پر جملہ کیا اور ۲۵ ہزار کے زیورات (یہ مسافر تاجر تھے، بہت سے کپڑے اور ایک نوجوان عورت لے کر بھاگ گئے جس مسلمان گاؤں کی طرف یہ مسلمان آرہے تھے ان کے پاس صرف ایک بندوق تھی خبر ملنے پر تین آدمی وہاں سے بھاگ کو پہنچے اور ڈیڑھ سو حملہ آوروں کے سامنے ہو گئے جس پر سکھ بھاگے اور اس طرح عورتیں اور کپڑے مزید ٹوٹ سے بچ گئے.مگر ایک عورت اور نقدی زیور کو لے کر وہ فرار ہو گئے.ان تینوں نے پیچھا کیا اور عورت کو بچھڑا لائے.مگر روپیہ زیور واپس نہ لا سکے.ملٹری ایک میل پر تھی.جب وہ گاؤں پر پہنچی تو مسلمان دوڑ کر اس کے پاس شکایت کرنے کے لئے گئے.افسر نے آگے سے یہ ہمدردی کی کہ جھڑک کر کہا.تم چار افراد سے زیادہ ہو اس دفعہ تو چھوڑ دیا ہے پھر کبھی ایسا ہوا تو فورا گولی مار دی جائیگی.ایک گاؤں پر ۲۴ گھنٹے حملہ رہا.دو دفعہ تو سکھ جبھہ کو مسلمانوں نے بھگا دیا.پولیس ماشہ دیکھ رہی تھی.دو دفعہ جب جبھہ کو دبا کر مسلمان آگے بڑھے تو پولیس نے ان پر فائر گئے اور مار کر بستی میں چھکیل دیا.۲۴ گھنٹوں کے بعد مسلمانوں کا بارود ختم ہو گیا تو گاؤں چلایا گیا اور ۴۵ مرد عورت بیچتے مارے گئے.ایک درجن سے زیادہ عورتیں اغوا کی گئیں اور قصبہ ٹوٹا گیا.
ایک جگہ مسلمانوں کے پاس ہوائی جہانہ تھا.جب تار ٹیلیفون اور ریل بند کر دیئے گئے اور مسلمان دوسری دنیا سے کٹ کر رہ گئے تو بعض مسلمان دیہات نے درخواست کی کہ ایک وقعہ ہوائی جہانہ ہمارے سروں پر چکہ لگا جایا کرے تاکہ ہمیں معلوم تو رہے کہ باہر کے مسلمانوں کو ہمارا حال معلوم ہے اور ہمیں اس ہوائی جہاز سے یہ معلوم ہو جائے گا کہ ہمارے گاؤں سے پہنے بھی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی نام لیوا اب تک زندہ ہے.باوجود مشکلات کے ہوائی جہانہ نے چکر لگا کہ علاقہ کے مسلمانوں کا حال دیکھنا شروع کیا.کئی جگہ وقت پر حملہ کی اطلاع ملٹری کو کی بھو شریف ہونے کی صورت میں بعض دفعہ مدد بھی پہنچا دیتی تھی ورنہ خاموش رہتی تھی.سڑکوں پر جو مجھے جمع ہوتے تھے ہوائی جہانہ کے ذریعے اُن کا حال معلوم ہو جاتا تھا اور پتہ لگ جاتا تھا کہ حملے کا کہاں ارادہ ہے.مگر جب یہ دیکھا گیا کہ اس دفاعی تدبیر سے مسلمانوں کے قتل عام میں کمی آنے کا امکان ہے فوراً یہ الزام لگا دیا گیا کہ اس جہاز نے نیچے اُتر کر فائر کئے ہیں.مگر ستم یہ ہے کہ الزام یہ نہیں کہ پولیس پر فائدہ کئے.یہ بھی نہیں کہ پُر امن شہریوں پر کئے بلکہ یہ الزام ہے کہ اس جہاز نے اتر کہ ایک ایسے سکھ جتھے پر فائر کئے جو مسلمان گاؤں کی طرف حملہ آور تھا.گو یہ بات جھوٹ ہے اگر سیتھی بھی ہوتی تو اس کا صرف یہ مطلب ہے کہ چونکہ اس طرح مظلوم مسلمانوں کی حفاظت کی گئی اس لئے اب جہاز والے کو سزا ملنی چاہئیے.چنانچہ سیفٹی ایکٹ کے ماتحت حکم دے دیا گیا کہ گورداسپور کے ضلعے کے تمام پرائیویٹ ہوائی جہاز ضبط کر لئے جائیں اور جو اس ضلع پر اڑان کرے اُسے گولی سے اُڑا دیا جائے.اس علاقہ کے ملاپ اور تعلقات کو دوسرے علاقوں سے قطعی طور پر کاٹنے کا یہ آخری حربہ ہے.اس کے بعد اللہ جانے کہ باقی مسلمانوں کا کیا حشر ہے.آپ لوگوں کو صبر سے کام لینا چاہیے.کیونکہ اگر آپ نے خونریزی کی تو مسلمانوں پر اور بھی علم ہو گا لیکن حکومت پاکستان پر یہ زور ضرور دینا چاہیئے کہ وہ ہوائی جہاز کے ذریعے سے ان علاقوں سے تعلقات پیدا کرے اور ہر روز اس کے ہوائی جہانہ امرتسر گورداسپور ، جالندھر، ہوشیار پور، لدھیانہ اور فیروز پور میں ہر اس قصبہ میں جس کی آبادی چھ سات ہزار ہو اُتر کر وہاں کے حالات معلوم کر کے آیا کرے.صرف یہی طریقہ ان علاقوں
میں امن قائم کرنے کا ہے.تقریروں سے کچھ نہیں بنے گا جب تک مشرقی پنجاب کے غیر مسلم اور اس علاقہ کی حکومت پر محسوس نہ کریں گے کہ ان کی ایک ایک کر توت مغربی پنجاب کے لوگوں تک پہنچ رہی ہے.جب تک انہیں یہ معلوم نہ ہو کہ ضرورت کے موقع پر مسلمان ہوائی جہازوں سے بھی مسلمان بھائیوں کا حال دیکھنے کے لئے پہنچے بھائیں گے اس وقت تک نہ مظلوم مسلمانوں کا ڈر کم ہوگا اور نہ دشمن کی دلیری دوسری تدبیر یہ ہے کہ مشرقی پنجاب کے ہر ضلعے اور تحصیل میں مسلمان افسر مناسب تعداد میں بھیجوائے بھائیں.اس کے بدلہ میں اتنی ہی پولیس اور اتنے ہی افسر مغرب میں غیر مسلموں کے لئے لئے جائیں.مگر یہ کام فوری ہے.اس کے بعد سب علاج بیکارہ ہو جائیں گے.سکوٹری انجمن انصار المسلمین لاہور مُسلمانان پاکستان میں اتحا ا ا ا ا ا پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے ساتھ ہی مسلمان پاکستان ہزاروں بیرونی اور اندرونی مشکلات میں قربانی کی روح پیدا کرنے کی تحریک کر گئے تھے جن سے بیٹنے کے لئے اتحاد تنظیم اور قربانی کی رُوح کا پیدا کیا جانا ضروری تھا.اخبار الفضل نے (جس کے بنیادی اغراض و مقاصد میں پاکستان کا استحکام سر فہرست شامل تھا، اس نازک مرحلہ پر مسلمانان پاکستان کو انتباہ کرتے ہوئے صاف صاف لکھا کہ یہ عجیب مصیبت ہے جو اس وقت ہندوستان کے مسلمانوں پر نازل ہوئی ہے اور فرا جانے کب تک جاری رہے گی.سوال یہ ہے کہ ایسی صورت حال میں مسلمانوں کو کیا کہنا چاہے ہم پہلے ہی صاف صاف کہہ دیتے ہیں کہ اس مصیبت کا ہرگز یہ علاج نہیں ہے کہ مسلمان بھی پاکستان میں وہی کریں جو مہندوستان مسلمانوں کے ساتھ کر رہا ہے اور ہمیں افسوس ہے کہ مغربی پنجاب میں بھی کئی جگہوں پر اس کا رد عمل نظر آیا ہے اور پاکستان کے مسلمان بھی اس کو میں بہتے چلے جاتے ہیں.لیکن ہماری رائے میں پاکستان کے مسلمانوں کو صرف دیتی نقطہ نظر سے ہی نہیں بلکہ مصلحت وقت کے لحاظ سے بھی کوئی ایسے عقلمندانہ طریقے اختیار کرنے چاہئیں کہ جن سے ہندوستانی حکومت کو آمادہ کیا جا سکے کہ وہ ہندوستان
9.سے مسلمانوں کے مزید اخراج کو روک دے اور جو مسلمان وہاں سے برباد ہو کہ نکل آئے ہیں انہیں پھر اپنے گھروں میں آباد کرنے کے لئے کوشش کرے.یا د رکھنا چاہئیے کہ بعض فتنہ انگیز لوگوں اور مسلم لیگ کے دشمنوں نے یہ حالت دیدہ دانستہ پیدا کی ہے.یہ کوئی اتفاقی بات نہیں.وہ جانتے ہیں کہ پاکستان میں تمام ہندوستان کے مسلمانوں کو بسانے کی گنجائش نہیں ہے.یہ ایک پھال ہے جو اچھی طرح سوچ سمجھ کر پھلی گئی ہے اور اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے جو گذشتہ چند سالوں سے کانگریس مسلم لیگ کے لئے پھیلاتی پہلی آئی ہے.- مسلمانوں کے لئے اس مصیبت کا علاج صرف ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ اُن میں عام بیداری پیدا کی جائے اور آپس کے مذہبی اور سیاسی تمام تفرقات کو نسباً منسیا کر دیا جائے اور ہر اس شخص کو جو اللہ تعالے اور محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کا نام لیوا ہے اور مسلمان کہلاتا ہے ایک ہی تنظیم میں منظم کر لیا جائے ،اور اس مشترکہ مصیبت کا پوری طرح منظم ہو کہ مقابلہ کیا جائے.اس کے لئے ضروری ہے کہ مسلمانوں میں قربانی کی روح پیدا کی بجائے جب تک ہر مسلمان اپنی جان اپنی اولاد اور اپنا تمام مال قوم کے لئے وقف نہیں کہ دے گا اس وقت تک سمجھ لینا چاہیے کہ کوئی دنیا کی طاقت ہم کو برباد کرنے سے نہیں بچ سکتی تنظیم اور قربانی ہی ایک ایسی چیز ہے جو اس وقت مسلمانوں کو بچا سکتی ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے ہمارے بڑے بڑے لیڈروں کو قربانی کرنا سیکھنا چاہیئے امراء میں قربانی کا ایسا احساس پیدا ہونا چاہئیے....کہ وہ اپنی تمام دولت قوم کے حوالے کر دیں ورنہ نصف بجائداد دینے سے تو ذرا دریغ نہ کریں اور تمام مسلمان نفسا نفسی چھوڑ کر تمام تگ و دو اجتماعی مفاد کے لئے وقف کر دیں اور اپنے لئے صرف اس قدر رکھیں بھو زندگی کے سہارے کے لئے ضروری ہو.اگر مسلمانوں نے اس انتہائی مصیبت کے وقت بھی نفسا نفسی کو ترک نہ کیا تو لازماً قدرت کے عام قانون اور اللہ تعالے کی سنت کے مطابق وہ بھی ان قوموں میں شامل ہو جائیں گے جن کا ذکر اب محض عبرت کے لئے کیا جاتا ہے.قرآن کریم میں ایسی کئی قوموں کا ذکر آتا ہے اور
اللہ تعالیٰ نے نہایت پر اثر انداز سے مسلمانوں کی توجہ ان بر باد شدہ قوموں کے اعمال بد کی طرف دلائی ہے.ہم کو یہ خیال نہیں کرنا چاہئیے کہ مسلمانوں کے مخالفین کون سے ولی اللہ ہیں کہ وہ ہر بات میں کامیاب ہوتے چلے جاتے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ جس قوم کو اللہ تعالے اسلام کی امانت سپرد کرتا ہے اگر وہ اپنا کام چھوڑ دیتی ہے تو اللہ تعالے اس کو مخاص طور پر سزا دیتا ہے اور اس کی جگہ کسی اور قوم کو مقرر کرتا ہے.اس کے سزا دینے کے طریقے قانون قدرت کے مطابق ہی ہوتے ہیں اس لئے ایسی نا شکر گزار قوم کو مٹانے والے خواہ ولی اللہ نہ بھی ہوں خواہ وہ باطل پرست ہی ہوں قانون قدرت کے مطابق بعض اوقات ان سے بھی یہی کام لیتا ہے جو قدرت کی دوسری طاقتوں سے لیتا ہے.پھر انہی باطل پرستوں میں سے ایسی قوم پیدا کرتا ہے جو اس کا کام کرتی ہے فتنہ تاتار کے وقت یہی ہوا تھا.تاتاریوں نے مسلمانوں کو مٹانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا تھا.بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی اور لاکھوں مسلمانوں اخوان اسلامی شہروں کی گلیوں میں ندیوں کی طرح بہہ گیا تھا.لیکن ابھی ایک پشت بھی تاتاری عقلیہ کی نہیں گزری تھی کہ انہی باطل پرستوں میں سے اللہ تعالیٰ نے اپنے کام کرنے والے چھین لئے اور چند ہکا سالوں میں پھر وہی دنیا پر اسلام کا انعلیہ ہو گیا.آج مسلمانوں پر جو مصیبت آئی ہے وہ تاتاری فتنے سے بھی سینکڑوں گنا بڑی ہے.یاد رکھنا چاہیے کہ اگر ہم نے اللہ تعالیٰ کا کام ابھی سے شروع نہ کر دیا تو پھر وہ کسی اور قوم کو اپنے کام کے لئے چن لے گا اور ہمارا جو حشر ہوگا سو ظاہر ہے" احمدی طیارے کا کارنامہ لے صدا امین احمدیہ پاکستان کو یہ اطلاع پہنچی کہ ھنگڑے چوڑیاں کے مسلمان محصور ہیں اور قلت خوراک کے سبب زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں.اس اطلاع پر امین نے اپنا ذاتی طیاں بھجوایا جس نے بہت بڑی مقدار میں نہ صرف روٹیاں گرائیں بلکہ ان کو حوصلہ دلانے کے لئے - اشتہارات بھی پھینکے چنا نچہ اخبار انقلاب نے "پناہ گزینوں پر روٹیوں کی بارش اور احمدی طیارے کا کارنامہ کے دوہرسے عنوان سے حسب ذیل خبر شائع کی " ی علوم ہونے پر کہ فتحگڑھ چوڑیاں میں جو بنا بگرین جمع ہیں وہ قلت خوراک کی وجہ سے بھو کے مررہے ہیں صدر انجین احمدیہ لاہور (پاکستان نے کل اپنے ایک پرائیویٹ ہوائی جہاز کے ذریعے سے بہت بڑی مقدار میں وہاں روٹیاں گوائیں.اس کے علاوہ تسلی و تشفی کے لئے عزم و استقلال کی تلقین کے." الفضل".۲ تبوک استمبر مش صفحه ۲-۳ ے "انقلاب" ضمیمه ۲ ستمبر ۹۴ و صفحه ا کالم ۰۵ 51902 پیغامات کی
۹۴ فصل سوم جس طرح بر صغیر میں تبادلۂ آبادی کی کوئی مثال تاریخ جہا بھر احمدیوں کو ملک میں باوقار اور عالم میں نہیں مل سکتی اسی طرح جماعت احمدیہ کے منظم طریق سے بسانے کی ملک گیر کوشش نے یہ پہلا موقع تھا کہ اسے اتنے وسیع پیمانے پر ہجرت کرنا پڑی.متحدہ ہندوستان میں احمدی افراد کی مجموعی تعداد پانچ لاکھ اور مشرقی پنجاب میں کم و بیش ایک لاکھ ہوگی جس میں سے چودہ ہزار کے لگ بھگ مرکز احمدیت قادیان میں آباد تھے.قادیان اور اس کے ماحول میں مندرجہ ذیل محلوں اور ملحقہ دیہات میں احمدی پائے جاتے تھے:.مسجد مبارک، مسجد اقصی ، مسجد فضل دارالانوار، دار الفتوح ، ناصر آباد ، دار البرکات دار الفضل ، دار العلوم ، دار السعة ، اسلام پور ، بھینی بانگر انگل خورد ، ننگل کلاں باغباناں ، قادر آباد (ترکھانا نوالی) ، احمد آباد (نواں پنڈ) ، کھارا ، کریم پورہ.قادیان اور اس دن قریبی دیہات کے علاوہ ضلع گورداسپور میں مشہور احمدی جماعتیں حسب ذیل مقامات پر قائم تھیں :- بٹالہ ، دھر مکوٹ بگہ ، قلعہ لال سنگھ ، بھاگووال ، شاہ پور امر گڑھ ، پنجواں ، اٹھوال، خان فتح ، بودی نگل ، تیجہ کلاں ، فیض اللہ چک ، بلبل چک ، تلونڈی جھنگلاں ، سیکھواں، ہرسیاں ، دیال گڑھ ، گلانوالی ، بسراواں ، کلو سویل ، گل منج ، سارپور ، چھٹہ ، تلونڈی راماں، شکار پور ماچھیاں ، دھر مکوٹ رندھاوہ ، ڈیرہ بابا نانک تھہ غلام نبی ، بیری ، پھیرو چیچی ، گھوڑیواہ ، بگول ، بھینی میلواں ، کڑی افغاناں سٹھیالی ، کاہنووان لمین کرال ، گورداسپور ، او مجلہ ، طالب پور بھنگواں ، پٹھانکوٹ ، دولت پور ، بہلولپور، ماڑی بچیاں، بہادر حسین ، مسانیاں ، ٹھیکریوالہ ، میادی شیرا ، پیرو شاہ ، ڈیریوالہ (دارد نیاں) ، ڈلہ ، دھیڑ ، پارووال ، دھر مسالہ ، پکیواں ، بھابڑہ ،
۹۳ رحیم آباد ، کوٹلہ گوجراں، اوہ چپ ، بھائی نگی، شکوہ، کھوکھر، دیوانی وال کلاں ، کھو کھر کھجور والی، دھاریوال ، غازی کوٹ ، غزنی پور ، چوہد ریوالہ ، نادون ، لنگروال، کلو ڈلہوزی ، انڈ پنڈی ، چھچھریالہ ، چھنہ بیٹ ، چھند ریٹ والہ ، قلعہ ٹیک سنگھ دین را جوتا ، بھٹیاں ، مرزا جان ، کوئل گجراں ، مراد پور ، بہادر تواں پنڈ، گھی کے بانگر کھوکھر دھند سے ، چمن پنڈوری ، تتلہ ، بازو چک ، دارا پور ، بھینی پسوال ، ضلع گورداسپور کے علاوہ مشرقی پنجاب کے دیگر حلقوں کی معنی مشہور ومعروف احمدی جماعتیں یہ تھیں :- ن ایلیا امامی واحدی ادیان اور کرنے کیلئے تین کرکھاتھا.حلقہ امرتسر : امرتسر بھڈیار ، محلانوالہ ، دوجو وال ، گلانوالی ، ٹوٹی پھوٹیوال، رعیہ ، دیر و دال ، بابا بکالہ ، کڑیال، بھو ماں وڈالہ ، گھونیوالہ ، موتلہ ،اندر گڑھ اجنالہ - علقہ فیروز پور - فیروز پور شہر ، فیروز پور چھاؤنی ، قصور ، زیرہ ، فرید کوٹ ، سکھانند ، لدھی کے نیویں ، کھر بیراں مع جوڑہ پیڑاں مع جوڑے ، طلال والہ ، پیٹی ، سلیما نکی ہیڈ ورکس ہوگا، فاضل کا، کوٹہ کپورا.حلقہ جالندھر -: جالندھر شہر ، جالندھر چھاؤنی ، بنگہ ، کھا چوں ، کریام ، کند پور ، راہوں ، لنگڑوہ ، اوڈ ، گوڑ ، صریح ، نور محل ، بنگیری ، بہرام ، بھاگو ارائیں ، شیخ دال ، ماڈمیانوال ، پر جیال خورد ، نکودر ، اہیاں ، پھلور کپور تھلہ حلقہ ہوشیار پور : - ہوشیار پور شہر ، میاں : ، ضربدیال ، سروشت پور، اجمیر، امیرانہ ، کائنتھاں، پلنگانہ مٹھیان ، بیرم پور، گروی شنکر ، ماہل پور ، گڑھی دیوالہ ، سروعہ ، کانٹھ گڑھ ، بیگم پور کنڈی ، پنام ، عالم پور ، ٹانڈہ تھو پور ، تھینده ، کمولور ، گھسیٹا پر بہت پور بہبو والی چھنیاں ، کنگند.حلقہ لدھیانہ :- لدھیانہ شہر ، جھوٹ ، ملود ، چک لوہٹ ، رائے کوٹ ، جنگراؤں، چنگن ، ساہنے والی ، علی پور کھنہ ، طہر ، سمرالہ کھنہ شیر بود خورد - مالیر کوٹلہ.حلقہ پٹیالہ : پٹیالہ ، سامانہ ، مروڑی ، سنور ، بنوڑ ، بیراور ، سرہند ، ، ، خان پور ات - حلقہ فیروز پور کے بعض نفسیات مثلاً قصور.یا گاؤں مثلا گھر بیپر پاکستان میں شامل کئے گئے ؟
۹۴ ماچھیواڑہ ، غوث گڑھ ، رائے پور ، نابھہ ، دھوری ، برنالہ ، بیٹھنڈہ ، مانسہ منڈی ،ہنگرور ہربنس پور ، سنام - پائل.حلقہ انبالہ : انبالہ ، مکو وال ، اثر پور.حلقہ دہلی د شملہ میں حسب ذیل جماعتیں قائم تھیں :- شملہ ، دہلی ، طلب گڑھے حصار محمود پور کا نور کا نور ہے کہ نالا.مندرجہ بالا کر جماعتیں تبادلہ آبادی کے سیلاب کی زد میں آگئیں اور الا ماشاء اللہ نہایت خستہ حالی اور بے سروسامانی کی حالت میں پاکستان پہنچیں.سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی نے اگر ایک طرف دین اسلام کے ایک غیور جہر نہیں کی حیثیت سے آنے والے احمدی مہاجرین میں غیرت اسلامی کی روح زندہ رکھنے کی انتہائی کوشش کی.تو دوسری طرف ایک مشفق و محسن باپ سے بڑھ کر ان کے آرام و آسائش کا خیال رکھا اور ان کو پاکستان میں باوقار اور منظم طریق پر بسانے میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی.اس تعلق میں حضور نے آتے ہی جو دھامل بلڈنگ میں نظارت آبادی اور نظارت تجارت کے شعبے کھلوا دیئے.اول الذکر کے ذمہ بنیادی لحاظ سے ابڑے ہوئے احمدیوں کو منظم طریق پر بسانے کا کام تھا.اور ثانی الذکر کا حقیقی مقصد یہ تھا کہ آباد ہو جانے والے احمدی اقتصادی طور پر جلد سے بیلد اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں.ان شعبوں کا طریق کار کیا تھا اور وہ کن خطوط پر اپنی مفوضہ ذمہ داری بجا لا رہے تھے اس کی وضاحت کے لئے مندرجہ ذیل دو اعلانات کا مطالعہ کرنا چاہیے جو وسط ماہ تبوک استمبر مہیش میں بذریعہ افضل " اشاعت پذیر ہوئے :- نظارت آبادی کی طرف سے اعلان مشرقی پنجاب سے آنے والے احمدیوں کو اطلاع ضلع جالندھر، ہوشیار پور ، گورداسپور ، امرتسر کی شہری اور دیہاتی جماعتوں کے لئے یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ جو دھامل بلڈنگ لاہور میں اس امر کے لئے دفتر کھول دیا گیا ہے.کہ
۹۵ مذکورہ اضلاع سے آنے والوں کے مستقبل کے متعلق مناسب انتظام کیا جائے.اس لئے وہ جماعتیں ہو کسی ایک جگہ اکٹھی ہوں وہ ہمارے پاس نمائندے بھجوا دیں اور اگر کسی جگہ جائیں کھلی نہ ہوں بلکہ منتشر حالت میں ہوں تو جو دوست اس اعلان کو دیکھیں وہ ہمیں خود آکر ملیں تاکہ انہیں مناسب مشورہ دیا جا سکے.ابو المنیر نور الحق جودھا مل بلڈنگ جو دعامل روڈ لاہور لے ایسے تاجر جو مشرقی پنجاب سے آرہے ہیں یا وہ نظارت تجارت کی طرف سے اعلان تمہار اصحاب جنہوں نے اپنے نام دفتر تجارت لاہور میں لکھوائے ہوئے ہیں وہ اپنی پہلی فرصت میں مجھ سے آکر ملیں تاکہ میں یہ معلوم کہ سکوں کہ وہ کیا کام کرتے تھے اور اب کہاں ہیں اور کیا کرتے ہیں اور کس قسم کی تجارت کا انہیں خاص تجربہ ہے تاکہ ان کے حسب حال انتظام جہانتک ممکن ہو سکے کیا بھا وے مثلاً بعض ایسے اصحاب ہیں جو آڑھت کے کام سے تعلق رکھتے تھے اور انہیں اس کا تجربہ ہے اور بعض کو لوہارا ، اور اسی طرح دوسرے ضروری کاموں سے واقفیت حاصل کر وائی بھائے گی.وہ جو د تعامل بلڈنگ لاہور پاکستان میں جلد اطلاع دیں تا کہ ان کو مناسب کاموں پر لگایا جائے اور وہ قوم کے لئے مفید وجود بن سکیں.ناظم نتجارت لاہو ر پاکستان “ کے مولانا جلال الدین صاحب شمس قائم مقام ناظر اعلی نے اپنے مکتوب آبادی اور حفاظت مرکز کے مورخه ۲۹ احسان جون دش) میں قمرالانبیاء حضرت مرزا ۹۴۸ انتظامات کے مختلف پہلو بشیر احمد صاحب کی خدمت میں آبادی اور حفاظت مرکز کے انتظامات کی تفصیل حسب ذیل الفاظ میں لکھی ہے " اس وقت حسب ذیل دوست حفاظت مرکز اور قادیان سے متعلقہ کام کر رہے ہیں.له " الفضل ها تبوك / ستمبر بیش صفحه ۳ کالم کے لفضل " ۱۸ رتبوک استمبر ا پیش صفر ۲ کالم ۰۳ ۱ : +1912 سے یہ زمانہ قیام کیا ہور کا واقعہ ہے جبکہ صدر انجمن احمدیہ پاکستان کے دفاتہ جو دھا مل بلڈنگ میں جاری تھے اور حضر مصلح موعود کے ارشاد کے مطابق حفاظت مرکز کے کام کو ایک ہی شعبہ سے مخصوص کرنے کا سوال نہ پر غور تھا و
44 ابو امیر مولوی نور الحق صاحب کے سپر د اس وقت حسب ذیل کام ہیں :- آبادی.چنیوٹ، احمد نگر میں لوگوں کو آباد کرتا اور ان کی مشکلات کا حل - لاوارث مستورات کو رتن باغ میں مقیم ہیں ان کی ضروریات کی دیکھ بھال.حفاظت مرکزہ.طوعی خدام حفاظت کو بلانے کی تحریک کرنا اور ان کے لئے لاہور میں رہائش اور نگرانی ، ان کے ماہوار اخراجات کا انتظام کرنا ، بوڑھے دوستوں میں تحریک کرنا تا وہ قادیان جانے کے لئے اپنے نام پیش کریں.ابوالمنیر مولوی نورالحق صاحب کے علاوہ مولوی محمد صدیق صاحب کے سپرد بعض کام ہیں مثلاً لاوارث مستورات کے لئے روٹی کا دراصل کرنا اور کپڑا بنوانا یا قادیان جو اشیاء بھیجوانی ہوتی ہیں ان کو جہیا کرتا.مستقل خدام کا انتظام میجر شریف احمد باجوہ کے سپرد ہے.“ سیدنا الصلح الموعود کی ذاتی نگرانی خاص توجہ اور شبانہ روز دعاؤں کے نتیجہ میں کس طرح مرکزی نظام کی پوری مشینری بے خانماں احمدیوں کو آباد کرنے میں وقت رہی اور چند ماہ کے اندر اندر شرقی پنجاب کی تمام جماعتوں کے بسانے کا انتظام کامیابی کے مراحل میں داخل ہو گیا.اس کا اجمالی خاکہ ہم محترم مولوی ابو المنیر نور الحق صاحب ( ناظر انخلاء و آبادی) کے الفاظ میں ہدیہ قارئین کرتے ہیں.موصوف اپنے ایک غیر مطبوعہ بیان میں لکھتے ہیں کہ " مشرقی پنجاب اور قادیان سے آنے والے احباب کے عارضی قیام کے انتظام اور ان کی آبادی اور قادیان سے انخلاء کا انتظام حضور نے خاکسار کے سپرد کیا تھا.چونکہ کثیر تعداد میں آنے والے مہاجرین کے ٹھہرانے کے لئے کوئی گنجائش نہیں تھی اس لئے حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی نے یہ ہدایات دیں کہ بود عامل بلڈ نگ کے متصل عالی میدان میں (جواب آباد ہو چکا ہے، سائبان لگا لئے بھائیں اور قضائے حاجت کے لئے ایک طرف گہری اور لمبی خندقیں کھود دی جائیں اور ایسا انتظام کیا جائے کہ وبا پھیلنے نہ پائے.ان کے کھانے کے انتظام کے لئے لنگر خانہ سیح موعود میں انتظام کیا گیا.یہ سب اخراجات اس وقت ضروری تھے لیکن چندوں کے نہ آنے کی وجہ سے بہت دقتیں تھیں حضور نے اپنے گھر کے افراد کے لئے یہ فیصلہ کیا کہ تمام لوگ صبح و شام ایک ایک روٹی پر گزارہ کریں اور یہی قانوان
94 باہر والوں کے لئے بھی تھا.قادیان سے احباب کا نوائے کے ذریعہ سے گروہ در گروہ لاہور پہنچنا شروع ہو گئے.خاکسار کے ذمہ ان لوگوں کو ٹھہرانے اور پھر ان کو آباد کرنے کا کام تھا اور یہ کام بظاہر بڑا مشکل اور بڑا نازک تھا.اس غرض کے لئے خاکسار نے جودھامل بلڈنگ میں دفترق کم کیا اور ملک محمد احمد صاحب واقف زندگی بطور کلرک متعین کئے گئے حکومت کی طرف سے جو محکمہ بجات مہاجرین کی آبادکاری کے لئے مقرر کئے گئے تھے اُن کے ساتھ میں نے رابطہ ق تم کیا.پاکستان کی جماعت کے امراء کے ساتھ اور ذی اثر لوگوں کے ساتھ خط و کتابت کی اور ان حالات کا پوری طرح سے بغور جائزہ لیا جن کے ذریعہ سے ہمارے احمدی احباب کو سر چھپانے کے لئے جگہ اور پیٹ پالنے کے لئے کام مل سکتا تھا.چنانچہ جو احباب قاریان سے لاہور پہنچتے ان کو سائبانوں کے نیچے جگہ دی بھاتی.ان کے لئے کھانے کا بندوبست کیا جاتا اور ہر ایک سے تبادلہ خیالات کی کے ان کے مناسب حال مقامات پر پہنچانے کے لئے سفارشی پیٹھیاں دی جاتیں.میرے دفتر کی طرف سے آباد کاری کے لئے ہر جہاں جہ کو ایک سرٹیفکیٹ دیا جاتا تھا جسے دیکھ کر تمام سرکاری محکمہ جات بھی سرٹیفکیٹ کے عامل کو پوری مدد دیتے تھے اور انہیں مکان، زمین اور دیگر سامان مہیا کرتے.حضرت امیر المومنین نے مجھے یہ ہدایت فرمائی.چونکہ قادیان ہمارا دائمی مرکز ہے اور ہم اس میں جلد یا بدیر واپس بھائیں گے ہمیں اسے اپنے سامنے رکھنے کے لئے زمیندار اصحاب کو قادیان سے قریب ترین علاقہ میں بسات کی کوشش کی جائے بچونکہ قادیان سے قریب ترین علاقہ سیالکوٹ، شکر گڑھ اور نارووال کا تھا اس لئے میں نے زمیندار اصحاب کو وہاں زمینیں دلانے اور آباد کرنے کی کوشش کی.چنانچہ اب تک کئی ایک احمدی زمینداران زمینوں پر آباد ہیں.یعین مہاتمہ احمدی احباب کے پاکستان میں رشتہ دار تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ آباد کاری ہیں وہ ان کو مدد دے سکیں گے ان کی خواہش پہ ان کے رشتہ داروں کے پاس پہنچانے کا انتظام کر دیا جاتا.یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل اور حضور رضی اللہ عنہ کی دعاؤں کا نتیجہ تھا کہ لاکھوں کی
تعداد میں ہجرت کر کے آنے والے احمدیوں کو لاہور میں ٹھہرانے اور پھر ان کو پاکستان کے مختلف شہروں میں آبادی کے لئے پہنچانے کا انتظام میرے دفتر کی طرف سے کیا گیا اور اللہ کے فضل سے یہ لوگ جلد ہی اپنے پاؤں پر کھڑے ہو گئے اور اس قابل ہو گئے کہ نہ صرف یہ کہ اپنے آپ ہی کو سنبھا ئیں بلکہ جماعت کی بھی مدد کر سکیں.بے سروسامانی کے وقت میں یہ کام جس طرح سے کیا گیا یہ محض اللہ کا فضل تھا.کیونکہ اتنے لوگوں کو آباد کرنے کے لئے بہت وسائل کی ضرورت تھی جو ہمیں میسر نہ تھے.ہمارے پاس روپیہ نہیں تھا.لیکن اس بے سرو سانچی کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایسے رنگ میں کام کرنے کی توفیق دی کہ جماعت کا روپیہ بھی بہت ہی قلیل خرچ ہوا اور سب دوست آباد بھی ہو گئے.اتنے احباب کے ٹھہرانے اور ان کے لئے انتظام کرنا بڑا مشکل تھا اور ہر لحظہ یہ خطرہ ہوتا تھا کہ کوئی دبا نہ پھوٹ پڑے.یہ محض اللہ کا فضل تھا کہ ہمارے صرف دو تین احباب ہیضہ کی وجہ سے شہید ہوئے جن میں سے ایک مولوی محمود احمد صاحب خوشابی معلم مدرسہ احمدیہ تھے.ان تمام احباب کو خاکسار خود ہی سنبھالتا رہا اور اللہ سے دعا کرتا رہا کہ اللہ تعالٰی اپنے فضل سے ہمیں وہاؤں سے محفوظ رکھے بچنا نچہ اللہ تعالیٰ نے عام طور پر فرشتوں کے ذریعہ سے ہماری مدد کی اور سوائے دو تین احمدیوں کے جو اس وبا سے شہید ہوئے باقی محفوظ رہے.ہمیں آباد کرنے کے لئے دن رات چوبیس گھنٹوں میں جو جد و جہد کرنی پڑتی تھی اس کا نقشہ کھینچنا الفاظ میں ناممکن ہے کیونکہ محلہ کی کمی تھی اور ہم صرف دو کارکن تھے نہیں کئی ماہ تک دفتر پر میں گھنٹے کھلا رکھنا پڑتا رہا حضرت امیر المومنین رضی اللہ عنہ کا اپنا یہ حال تھا کہ ان بے سروسامان احمدی احباب کی تکلیف کو دیکھتے ہوئے حضور نے اپنی چارپائی پر سونا ترک کر دیا اور ایک عرصہ دراز تک جبتک احباب آباد نہیں ہو گئے چار پائی سے نیچے ہی سوتے رہے.اور دن رات آپ کو یہی فکر ہوتا تھا کہ کسی طرح کسی دوست کو کوئی پریشانی نہ ہو اور وہ آباد ہو جائے “ لے مہاجرین کی آبادی کے سلسلہ میں حضرت منشی محمد دین صاحب ملتانی مختار عام کی انتھک مساعی اور بے لوث خدمات کا تذکرہ بھی ضروری ہے.حضرت منشی صاحب ۱۳ امضا / اکتوبر رمیش کو قادیان غیر مطبوعه.سے
۹۹ لاہور تشریف لائے جہاں ۱۸ امضاء / اکتوبر تک دفتر بھائیدا دلاہور میں کام کیا.۲۰ تا ۲۲ اغاز مینیوٹ میں آپ سلسلہ کے ایک ضروری کام پر متعین رہے.بعد ازاں ۲۵ انفاد / اکتوبر سے اراضی مرکز کی خرید کے علاوہ چینیوٹ ، احمدنگر، ڈاور وغیرہ جگہوں میں احمدی مہاجرین کی آباد کاری کے لئے مقرر کئے گئے لیے چنانچہ آپ کی کوشش سے نہ صرف تعلیم الاسلام ہائی سکول ، مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ کے لئے عمارتوں کا انتظام ہوا بلکہ بہت سے احمدی مہاجرین ان جگہوں میں مکان اور اراضی الاٹ کر ا کے آباد کئے گئے.یہی نہیں ، انہوں نے مہاجرین کے لئے سامان رہائش اور خوراک وغیرہ کا بھی بندو بست کیا ہے حضرت منشی صاحب یکم ماہ وقار جولائی یہ شش تک اس خدمت پر مامور رہے ہے احمدی تنہا جرین کیلئے کمبلوں لحافوں مشرقی پنجاب سے آنے والے ایک لاکھ احمدیوں میں سے غالب اکثریت ان لوگوں کی تھی جو صرف تن کے کپڑے ہی اور توشکوں کی خاص تحریک بجا کر نکل سکے تھے.اس تشویشناک صورت حال نے بل کاری کے انتظام کے بعد جلد ہی ایک خطرناک اور سنگین مسئلہ کھڑا کر دیا.اور وہ یہ کہ جوں جوں سردی کے ایام قریب آنے لگے ہزاروں ہزار احمدی مرد بیچتے اور بوڑھے سردی سے نڈھال ہونے لگے.سيدنا المصلح الموعود سے اپنے خدام کی یہ حالت دیکھی نہ جاتی تھی.چنانچہ آپ نے مغربی پنجاب کے احمدیوں کے نام پیغام دیا کہ سردی کا موسم سر بچہ آپہنچا ہے انہیں اپنے مہا بڑہ بھائیوں کے لئے بستروں کمبلوں اور تو شکوں کا فوری انتظام کرنا چاہیے حضور کے اس پیغام کا مکمل متن حسب ذیل تھا.اس وقت ایک لاکھ سے زیادہ احمدی مشرقی پنجاب سے مغربی پنجاب کی طرف منتقل ہو رہا ہے.جس طرح کتے لاشوں پر پھٹتے ہیں اسی طرح سکھ مجھوں اور پولیس اور ملٹری نے ان علاقوں کا مال و اسباب لوٹ لیا ہے.اکثر تن کے کپڑے بچا کر ہی نکل سکے ہیں.بہتر بہت ہی کم لوگ لا سکے ہیں.ہزاروں ہزار بچہ اور عورت سردی سے نڈھال ہو رہا ہے.پانچ ہزار آدمی اس وقت صرف ہمارے پاس جودھامل بلڈنگ ، دوسری بلڈنگوں اور ان کے ملحقہ میدانوں میں پڑا ہے.ان میں سے اکثر قادیان میں سے آئے ہوئے ہیں جن میں زیادہ مکانوں اور بجائداد ہیں والے تھے مگر ان کے مکانوں پر سکھوں نے قبضہ کر لیا ہے اور ان کے گھروں کو سکھوں نے ے ریکارڈ نظارت علیہا کے رپورٹ سالانہ صد را همین احمدیہ پاکستان پیش ۱۳۶۷-۲۷ پیش صفحه ۷ کم میشه ے ریکارڈ نظارت علیا.: +
ٹوٹ لیا ہے.قادیان کے رہنے والوں میں چونکہ یہ شوق ہوتا تھا کہ وہ اپنا مکان بنائیں اس لئے عورتوں کے پاس زیور اور مردوں کے پاس روپیہ بہت ہی کم ہوتا تھا.اس لئے جب لوگوں کو قادیان چھوڑنا پڑا تو مکان اور اسباب سکھوں نے لوٹ لئے اور روپیہ اور زیوران کے پاس تھا ہی نہیں.اکثر بالکل خالی ہاتھ پہنچے ہیں.اور اگر جلد ان کے لئے کچھ کپڑے اور رضائیاں وغیر جہیا نہ کی گئیں تو ان میں سے اکثر کی موت یقینی ہے.اس لئے میں مغربی پنجاب کے تمام شہری، قصباتی اور دیہاتی احمدیوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ آج ان کے لئے ایشانہ اور قربانی کا جذبہ دکھانے کا وقت آگیا ہے اور سوائے ان بستروں کے جین میں وہ سوتے ہیں اور سوائے اتنے کپڑوں کے جو اُن کے لئے اشد ضروری ہیں باقی سب بستر اور کپڑے ان لوگوں کی امداد کے لیئے دے دیں جو باہر سے آرہے ہیں.سیالکوٹ کی جماعت کو نئیں ہدایت کرتا ہوں کہ گورداسپور اور اور کئی جگہوں کے زمیندار وہاں بٹھائے جا رہے ہیں ان میں سے بھی اکثروں کے پاس کوئی کپڑا وغیرہ نہیں ہو پہلے بھاگ آئے ان کے پاس کچھ کپڑے ہیں مگر جو بعد میں آئے ان کے پاس کوئی کپڑا نہیں.خصوصاً جو قادیان میں پناہ گزین تھے.اور وہاں سے آئے ہیں ان سب کا مال سکھوں اور ملٹری نے لوٹ لیا تھا.ان میں سے ہر شخص کے لئے بہتر اور کپڑے مہیا کر نا سیالکوٹ کی جماعت کا فرض ہے.ہمارے ملک میں یہ عام دستور ہے کہ زمیندار ایک دو لیتر زائد رکھتے ہیں تاکہ آنے والے مہمانوں کو دیئے جا سکیں.ایسے تمام مبتر ان لوگوں میں تقسیم کر دینے چاہئیں اور اپنے دوستوں اور رشتہ داروں اور عزیزوں سے بھی بھتنے بیشتر کہتا ہوسکیں جمع کر کے ان لوگوں میں بانٹنے چاہئیں.اس کے علاوہ سیالکوٹ کی تمام زمیندار جماعتوں کو اپنا یہ فرض سمجھنا چاہئیے کہ تمام ارد گرد کے تالابوں سے کسیر جمع کر کے اپنے چھکڑوں میں ان جگہوں ہے پہنچائیں جہاں پناہ گزین آباد ہوئے ہیں.اسی طرح گنوں کی کھوری اور دھان کے چھلکے جمع کر کے ان لوگوں کے گھر میں پہنچا دیں تاکہ بطور بستروں کے کام آسکے.تمام جماعتوں اور پریذیڈنٹوں کو اپنی رپورٹوں میں اس بات کا بھی ذکر کرنا چاہیے کہ انہوں نے اس ہفتہ یا اس جہینہ میں پناہ گزینوں کی کیا خدمت کی ہے اور ان کے آرام کے لئے انہوں نے کیا کوششیں کی ہیں.سیالکوٹ کے علاوہ دوسرے اضلاع میں جو آدمی نیس رہے ہیں
lot ان کی امداد کے لئے بھی وہاں کی جماعتوں کو فوراً توجہ کرنی چاہئیے.اپنے زائد لستر ان کو دے دینے چاہئیں.اسی طرح جو لوگ قادیان سے آرہے ہیں اور لاہور میں مقیم ہیں ان کے لئے کپڑے بھیجوانے چاہئیں.زیادہ کمبلوں ، لحافوں ، تو شکوں اور تکیوں کی ضرورت ہے چونکہ سردی روز بروز بڑھ رہی ہے اس کام میں دیر نہیں کرنی چاہئیے اور خواہ آدمی کے ذریعے.جلد یہ چیزیں ہمیں بھیجوا دینی چاہئیں.اس کے علاوہ میں جماعتوں کو اس بات کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں کہ ان کے ارد گرد کی منڈیوں وغیرہ میں اگر دوکانیں نکالنے کا موقعہ ہو ، ایسی دوکانیں جو غریب اور سیکس لوگ بغیر روپیہ کے بھاری کر سکیں تو ان کے متعلق بھی فوراً مجھے چپٹھیاں لکھیں تاکہ ایسے لوگوں کو جو تعلیم یافتہ ہیں اور تجارت کا کام کر سکتے ہیں ، " وہاں بھیجوا دیا جائے “ اے چیریں بھجوانی پڑیں بلو از ۳ حضرت امیر المومنین کے اس پر درد اور اثر انگیز پیغام نے پاکستان کی احمدی جماعتوں پر بجلی کا سا اشتہ کیا اور انہوں نے اپنے پناہ گزین بھائیوں کی موسمی ضروریات کو پورا کر دینے کی ایسی سر توڑ کوشش کی کہ انصار مدینہ کی یاد تازہ ہو گئی اور اس طرح حضر صلح موعود کی بر وقت توحید سے ہزاروں قیمتی اور معصوم جانیں موسم سرما کی ہلاکت آفرینیوں سے بچ گئیں.مولانا جلال الدین صاحب شمس نے صدر انجمن احمد پاکستان کی پہلی سالانہ رپورٹ میں حضور جیسے محسن آقا کے اس لطف و کرم اور شفقت و احسان کا تذکرہ مندرجہ ذیل الفاظ میں فرمایا :- جماعت کا شیرازہ بکھر چکا تھا اور ہزاروں مرد اور عورتیں اور بیچتے بے سرو سامانی کی حالت میں لاہور میں اگر استان خلافت پر پڑے تھے سینکڑوں تھے جنہیں تن پوشی کے لئے کپڑوں کی ضرورت تھی اور ہزاروں تھے جن کو خوردو نوش کی فکر تھی اور سینکڑوں تھے جو صدموں کی تاب نہ لا کر بیمار اور مضمحل ہو رہے تھے.مزید برآں موسم سرما بھی قریب آرہا تھا اور ان غریبوں کے پاس سردیوں سے بچنے کا کوئی سامان نہ تھا.پھر ان لوگوں کو مختلف مقامات پر آباد کرانے اور ان کی وجہ معاش کے لئے حسب حالات کوئی سامان کرنے کا کام بھی کچھ کم اہمیت نہ رکھتہ تھا.یہ مشکلات ایسی نہ تھیں جو غیر از جماعت لوگوں پر نہیں آئیں مگر ان کا کوئی پرسان حال نہ تھا اور ہمارا ایک مونس و "النقل" برای ۱۱ و ۱۳۳۶ ش صفحه ۳ ۱
١٠٢ غمخوار تھا.جب وہ لوگ پراگندہ بھیڑوں کی طرح مارے مارے پھر رہے تھے ہم لوگوں کو آستانہ خلافت کے ساتھ وابستہ رہنے کی وجہ سے ایک گونہ تسکین قلب حاصل تھی.حضرت امیرالمومنین ایکہ اللہ تعالے نے اپنے غلام کی تکالیف کو دیکھا اور ان کے مصائب کو سنا اور ہر ممکن ذریعہ سے نہ صرف سلسلہ کی طرف سے بلکہ ذاتی طور بھی ان کی دلجوئی کے سامان کئے.اپنے روح پرور کلام سے ان کی ہمتوں کو بڑھایا اور ان کے حوصلوں کو بلند کیا.مہاجر غبار کی تن پوشی کے لئے تحریک کو کے ڈی استطاعت اور مخیر اصحاب سے کپڑے نہیا کرائے اور سلسلہ کے اموال کو بے دریغ خروج کر کے ان کو فقر و فاقہ کی حالت سے بچایا.بیماروں کے لئے ادویات اور ڈاکٹروں کا انتظام کر لیا اور لاہور سے باہر جا کہ آباد ہونے والوں کے لئے حسب ضرورت زاد راہ کرایا جیتا گیا اور ان کے گزاروں کے لئے ہر اخلاقی اور مالی امداد فرمائی.موسم سرما میں کام آنے والے پارچات نہیا کرائے بفرض ہزاروں لاکھوں برکات اور افضال نازل ہوں اس محبوب اور مقدس آقا پر میں نے ایسے روح فرسا حالات میں اپنے خدام کی دستگیری فرمائی ہمارے دل حضور کے لئے شکر و امتنان کے جذبات سے معمور ہیں لیکن ہماری زبانیں ان جذبات کے اظہار سے عامیہ ہیں.“ اگر چه سید نا حضرت امیر المومنین احمدی مہاجرین کے معاشی تنظیمی مسائل کرنے کیلئے اور اصلی وجود کی بات ماشا ما صد را امین احمدیہ پاکستان کی پہلی سالانہ رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ یکم انار اکتوبر کہیں سے سیمنٹ بلڈنگ لاہور میں ایک مختصر سی ڈسپنسری کی صورت میں نور ہسپتال کا اخبار عمل میں آیا جو لاہور میں شہادت اپریل پیش تک متر آؤٹ ڈور ڈسپنسری کے طور پر پھلتا رہا.اگر ہے ان ڈور مریضوں کے لئے کوئی انتظام ممکن نہ تھا تا ہم رتن باغ ، جود عامل بلڈنگ، سیمنٹ بلڈنگ اور ہم میکلوڈ روڈمیں جو احمدی اور کارکنان سلسلہ مقیم تھے ان میں سے اگر کوئی زیادہ بیمار ہوتا تو ہسپتال کے فرض شناس کارکن ان کے گھر پہ جاکر باقاعدہ علاج معالجہ کیا کرتے.علاوہ ازیں لاہور کے مختلف محلوں کی کثیر تعداد بلکہ بیرون شہر کے بعض دوستوں کو بھی ہسپتال سے استفادہ کے مواقع میسر آئے.در پورٹ سالانہ صدر انجین احمدیہ پاکستان ۲۳ ۱۳۳ مش صفحه ۴۳) سالانه بیایی کے رپورٹ سالانہ صدر امین احمدیہ پاکستان ۳۳۳۳ مش صفحه ۹۵۰
کے مطابق ہر جگہ نہایت تیزی سے احمدیوں کو بسانے کا کام بھاری تھا.مگر چونکہ وقت کا تقاضا تھا کہ اس کو جلد سے جعلی پایہ تکمیل تک پہنچا دیا جائے اس لیئے حضور نے ماہ نبوت نومبر ہے بش کے آخر میں مغربی ۶۱۹۴۷ پنجاب اور صوبہ سرحد کی طرف چار ونود روانہ فرمائے.ان وفود نے قریباً ایک ماہ تک مختلف علاقوں کا وعدہ کیا اور احباب جماعت کو جو ابھی تک ایک پراگندہ اور منتشر حالت میں مختلف مقامات پر اپنے معاشی و سائل تلاش کر رہے تھے امداد بہم پہنچائی اور جماعتوں کو توجہ دلائی کہ اپنے بہے ہیں اور منظوم پناہ گزین بھائیوں کی ہر ممکن امامت کریں.در ماه نبوت / نومبر ریش کو حضرت سید نا المصلح الموعود نے ان وفود کے لئے از خود حلقے متعین اور فرمائے اور ہدایت فرمائی کہ ہر ضلع میں بڑے بڑے شہر مقرر کر دیئے جائیں.مثلاً ملتان میں لودھراں کبیر والا ، منٹگمری میں اوکاڑہ اور پاک پٹن.یہ وفد صرف شہروں میں جائیں.شہروں کے بجٹ خود تشخیص کریں اور باقی حلقہ کے مبلغین اور سکرٹریاں وغیرہ کو ہدایات بھجوائیں کہ اس شہر میں جمع ہوں.اس طرح باقی حلقوں کا کام ان کے سپرد کریں اور ساتھ ہی یہ رپورٹ بھی پیش کریں کہ مشرقی پنجاب کے احمدی کہاں کہاں جیسے ہیں اور کس جگہ سے آئے ہیں.علاوہ ازیں ارشاد فرمایا کہ وفود جانے سے پہلے حضور سے ملیں اور ہدایات لے کر جائیں اور پھر وہی ہدایات اپنے بعد والوں کو دیں.حضرت امیرالمومنین نے ان دونود کے حسب ذیل امراء و ارکان تجویز فرمائے:.وقد قاضی محمد نذیر صاحب فاضل ( امیر وفد) ، مولوی نذیر احمد صاحب مبشر ، مولوی محمد سعید صاحب انسپکٹر بیت المال ( اس وفد نے سیالکوٹ ، گوجرانوالہ اور شیخو پورہ کے اضلاع کا دورہ کیا) و قدمت صاحبزادہ میاں عبد المنان صاحب عمر ایم اے (امیر وفہ) ، چو ہدری عبد السّلام صاحب اختر ایم.اے ، مولوی غلام احمد صاحب فرح ، ماسٹر فقیر اللہ صاحب انسپکٹر بیت المال (یہ وفد لائل پور ، سرگودھا ، جھنگ کے اضلاع میں گیا) وقد - مولوی قمر الدین صاحب (امیروند ) ، مولوی محمد حسین صاحب، مولوی محمد احمد صاحب نعیم ( اس وفدہ کے حلقہ میں کیمبل پور، راولپنڈی جہلم اور گجرات کے اضلاع تھے) نے رپورٹ صدر نهمین احمدیہ پاکستان ۱۳۲۲۲۶ مش به
وقد حضرت مولانا غلام رسول صاحب را نیکی (امیر و فد) مولوی غلام باری صاحب سیف صاحبزادہ محمد طیب صاحب ، بابو شمس الدین صاحب ( اس وفد کا حلقہ صوبہ سرحد مقرر کیا گیا تھا.لے المختصر سیدنا المصلح الموعود کی ان تمام کوششوں کا مجموعی نتیجہ یہ بر آمد ہوا کہ جہاں دوسرے بہت نے مسلم مہاجرین سرکاری سرپرستی اور حکومت کے وسیع ذرائع کے باوجود ایک عرصہ تک بے خانماں ہے وہاں مشرقی پنجاب کی نوے فیصدی جماعتیں چند ماہ کے اندر اندر نہ صرف آباد ہوگئیں بلکہ مالی او تنظیمی رنگ میں پاکستان کی مقامی جماعتوں اور افراد کے دوش بدوش حصہ لینے لگیں.حضرت سید نا المصلح الموعود جب سے ہجرت قادیان کی امانتوں کا لاہورمیں لانے کا انتظام کے بعد اہور تشریف لائے تھے اس فکرمیں تھے کہ جن لوگوں نے قادیان میں مرکز کے سپرد اپنی امانتیں کر رکھی تھیں وہ جلد سے جلد پاکستان میں پہنچ جائیں حالات سخت مخدوش تھے اور راستے پر خطر، مگر محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور حضور کی خصوصی توجہ کی بدولت آخر ۲۰ تبوک استمبر رش کو حضور کی یہ دلی تمنا پوری ہوگئی جبکہ حضرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی یہ تمام امانتیں پاکستان کی طرف منتقل کرنے میں کامیاب ہو گئے.اس ایمان افروز واقعہ کی تفصیل حضرت شیخ صاحب کے قلم سے درج ذیل کی جاتی ہے :- اگست 1914ء میں تقسیم ملک ہوئی اور قادیان سے نکلنے کا سامان ہونے لگا یہ بڑی مصیبت کے دن تھے.مگر خدا تعالے نے ہمارے دلوں پر اپنی رحمت کے مرہم کا بھانا رکھا.حضرت له " الفضل " ۲۷ نبوت / نومبر ۳۳ مش صفحه ۵ کالم ۰۲ مولوی محمد سعید صاحب اور مانٹر فقیر اللہ صاحب کے علاوہ جو شریک و قد ہوئے ، اس نازک دور میں بیت المال کے مندرجہ ذیل انسپکٹروں نے جماعت کے مالی اور تنظیمی استحکام میں قابل قدر حصہ لیا اور سفر کی انتہائی مشکلات کے باوجود اپنے فرائض منصبی نہایت عمدگی سے ادا کرتے رہے :.م سعید محمد لطیف صاحب -۲ پچوہدری محمد شجاعت علی صاحب ، ۳ چوہدری ظفر اسلام صاحب سید سعید احمد صاحب بنگالی - ماسٹر محمدولین صاحب ، - - سید اصغر حسین صاحب ، ، مولوی ے عبد الرحیم صاحب ملکانه - چوہدری محمد طفیل صاحب 9 - سید اعجاز احمد صاحب در پورٹ سالانہ صدر امین احمدیہ پاکستان ۱۳۲۳۲ ش صفحه ۲۳) +1986-1
۱۰۵ امیر المومنین تخلیفہ اسیح الثانی لاہور تشریف لے گئے اور وہاں سے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو (جو قادیان میں بحیثیت امیر تمام امور کے منتظم تھے ، پیغامات بھیجے کہ قادیا میں جو لوگوں کی امانتیں ہیں لاہور بھجوائی بھائیں.اس پر حضرت محمدوح نے مجھے حکم دیا کہ میں وہ امانتیں لاہور لے بھائں.ان دنوں حضرت خلیفہ ایسی لاہور سے ٹرک بھجوایا کرتے تھے جن میں قادیان کی مستورات اور بچے لاہور جاتے تھے مگر ان ٹرکوں میں لاہور بجانا کا رے دارد والا معاملہ تھا.قادیان کے غیر احمدی لوگ بڑا بڑا کرایہ دے کہ ٹرک والوں سے جگہ لے لیتے تھے اور بہت سے احمدی بیگہ نہ پا کہ واپس آ جاتے تھے.یہی حالت میری تھی.میں صبح کو امانتوں کے ٹرنک دفتر نے حضرت مرزا شریف احمد صاحب نے کی کو ٹی پر لاتا میگہ نہ ملتی تو شام کو واپس خزانہ صدر انجمن میں لے جاتا.آخر ۲۰ ستمبر کو مجھے جگہ مل گئی اور مکیں یہ ٹینک لے کر قادیان سے روانہ ہوا.جب ہم قادیان سے ایک میل باہر آئے تو اس کچھ بسوں والے قافلہ کو روکا گیا اور سامان اور ٹرنک وغیرہ چیک ہونے کا انتظار کرنا پڑا.اتنے میں میاں روشن دین صاحب زرگر میرے پاس آئے اور منت سماجت سے کہنے لگے کہ یہ میرا پارسل لا ہورے نہیں اس میں سونے کی تین سلاخیں ہیں میں نے مان لیا اور ان کا پارسل اپنے کیش بکس میں رکھ لیا.اتنے میں ایک ڈوگرہ لیفٹیننٹ آ گیا اور سامان چیک کرنے لگا.اس نے مجھ سے پوچھا کہ اس کیش بکس میں کیا رکھا ہے.میں نے کہا کہ مجھے ایک شخص نے یہ کہد کو پارسل بطور امانت دیا ہے کہ اس میں تین سلاخیں سونے کی ہیں.اس نے پارسل کھولا اور میری طرف مخاطب ہو کر کہا.یہ دیکھ لیں میں آپ کی سونے کی سلاخیں آپ کو واپس دے رہا ہوں اور پھر بس کے اندر دوسرے سامان کو چیک کرنے لگا.اس میں فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے جیتی ٹرنک اور بڑے بڑے صندوق تھے.ان میں کتابیں ہی کتابیں تھیں.وہ جس صندوق کو کھولتا اُوپر سے نیچے تک چیک کرتا کہ کتابوں کے علاوہ کوئی اور چیز اسلحہ وغیرہ تو نہیں جب وہ دو تین ٹرنک دیکھ چکا اور اس کو اطمینان ہو گیا تو میری طرف آیا اور جہاں میرے والے امانتوں کے جیتی ٹرنک تھے ان کو دیکھ کہ از خود ہی کہنے لگا.یہ بھی ریسرچ کا ہی سامان ہے اور اس نے قافلے کو بجانے کی اجازت دے دی.بسیں روانہ ہوئیں.میں نے اللہ تعالیٰ کا
شکر ادا کیا.کیونکہ میرے ساتھ جو امانت کے ٹھونک بھا رہے تھے ان میں لاکھوں روپے کی ڈبیاں اور پارسل تھے.کسی کے زر و جواہر، کسی کے زیورات ، کسی میں پونڈ وغیرہ.واللہ اعلم کیا کچھ نہ تھا.اور اگر اس افسر کو شبہ بھی ہو جاتا کہ ان ٹرنکوں میں لاکھوں کا مال ہے تو وہ ضرور روک لیتا اور ٹرنک کھلواتا اور اندر سے ہر ایک ڈبہ کھولتا تو خدا جانے وہ لالچ میں آکر کہتا کہ ہم جانے نہیں دیں گے بھارت سرکار کو رپورٹ ہو گی.اگر سر کا رہنے اجازت دی تو یہ مال جائے گا ورنہ نہیں.یہ ایسی مصیبت تھی جس کے تصور سے ہی میری جان پر بن بھائی تھی کہ کسی کو میری بات کا یقین کیسے آئے گا کہ یہ مال فلاں نے لے لیا ہے نہ مجھے کوئی رسید دی بجائے گی نہ کوئی اور صورت اطمینان کی ہوگی.مگر میں اپنے خدا پر قربان جاؤں کہ حضرت خلیفہ اسیح کی تو جہ سے یہ شکل یوں محل ہوئی کہ فوجی افسر نے بغیر دیکھے ہی سمجھ لیا کہ یہ ریسرچ کا سامان ہے اور چونکہ وہ ریسرچ کے ٹرنک دیکھ کہ اطمینان کر چکا تھا کہ ان میں کتابیں ہیں اور کچھ نہیں اس لئے اس نے یہی گمان کیا کہ ان میں بھی کتابیں ہیں.یہ کس قسم کا زمانہ تھا اور کیسی مصیبت کا وقت تھا.جن لوگوں نے وہ مصیبت نہیں دیکھی وہ اس کا قیاس بھی نہیں کر سکتے اور میں نے چونکہ یہ نظارے دیکھے تھے اس لئے میرے دل پر یہی اثر ہے کہ یہ محض خدا کا رحم اور فضل تھا جو حضرت خلیفہ ثانی کی توجہ اور دعاؤں سے مجھ پر ہوا کیونکہ حضور چاہتے تھے کہ امانتیں لاہور پہنچ جائیں اور اس پر زور دیتے تھے.جیسا کہ میں نے سنا ہے یہ کہتے ہوئے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ہجرت فرمائی تھی تو حضرت علی کو حکم دیا تھا کہ امانتیں بعد مدینہ بھجوائی جائیں.یہ تڑپ تھی جو احمدیوں کا مال بیچا کہ لانے کا ذریعہ بن گئی ورنہ بظاہر مجھے کوئی صورت نظر نہ آتی تھی.جب ہمارا قافلہ موضع تنتقلے کی نہر کے پل پر پہنچا تو بیس کے کلینز نے شور کرنا شروع کر دیا کہ سر نیچے کر دو، سامنے سکھ بندوقیں لے کر مورچے بنائے بیٹھے ہیں.قریب ہے کہ قافلہ پر حملہ کر دیں ایک آفت سے تو مر مر کے ہوا تھا جینا پڑ گئی اور یہ کیسی میرے اللہ نئی ! بسیں جب پل سے پار ہوئیں تو قافلہ کے انچارج حوالدار نے حکم دیا کہ بسیں اسی جگہ مظہر
1.6 بھائیں.اس نے ائمہ کو اپنی برین گن سیٹ کی ، اسی طرح اس کے ایک ماتحت نے بھی سیکھوں نے جو کھیتوں کی منڈیروں کی اوٹ میں بیٹھے ہوئے تھے اور ایک قسم کا مورچہ بنائے ہوئے تھے گولیاں چلانی شروع کر دیں مگر بخدا تعالٰی نے بچا لیا.قافلہ کے کسی فرد پر نہ لگیں.(1) اور الدار اور اس کے ساتھی نے فائر کرنے شروع کئے.کہا جاتا تھا کہ نہیں بنتیں سکھ مادہ سے گئے اور باقی بھاگ گئے.واللہ اعلم.غرض قافلہ وہاں سے روانہ ہوا.اور کچھ دور ہی گیا تھا کہ سامنے سے سکھوں یا ڈوگروں کی فوج کے افسر ایک بیپ میں آرہے تھے ہمیں خیال آیا کہ جب وہ سکھوں کی لاشیں دیکھیں گے تو ہمارے قافلے کا تعاقب کر کے ہمیں روک لیں گے مگر بخدا تعالیٰ نے رحم کیا اور ہم بٹالہ پہنچ گئے.وہاں سڑک پر دیکھا کہ ایک ڈھیر لگا ہوا ہے اور اس میں سینکڑوں قرآن شریف پڑے ہوئے ہیں.ہم نے وہاں سے چند قرآن شریف اُٹھائے.بٹالہ میں قافلہ کو روکا گیا.بڑی دیر میں پچھلنے کی اجازت ملی.ہم نے خدا تعالیٰ کا شکر کیا اور روانہ ہوئے.امرتسر پہنچے تو وہاں بڑی دیر لگی.وہاں سے چلے تو راستہ میں کچھ بسوں میں سے ایک خراب ہو گئی.غرض خدا خدا کر کے لاہور بارڈر پر پہنچے تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ گویا جنت میں آگئے ہیں.رات کے دس بجے ہم جود حامل بلڈنگ پہنچے.الحمد لله ثم الحمد لله " تقسیم ہند کے بعد بھارت اور پاکستان میں جماعت مسمی بہ منیر کی ایک خاص تینی اور روحانی جماعت تھی جس کی تمام سرگرمیاں مبلغین احمدیت کے نظام عمل پر ایک منظمہ ہمیشہ پوری انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے وقت رہیں.بایں ہمہ ہ مہش کی فرقہ وارانہ شورش میں براہ راست اس کا مرکز بھی انسانیت سوز اور دلدوز مظالم کا نشانہ بن گیا جس نے اس کے تبلیغی نظم ونسق کو تہ و بالا کر دیا اور اعلائے کلمتہ اللہ کی جد و جہد میں وقتی طور پر تعطل واقع ہو گیا.تاہم یہ حالت صرف چند ماہ تک قائم رہی اور حضرت خلیفہ اسیح الثاني الصلح الموعود کی توجہ کے طفیل مبلغین کے نظام عمل میں جو بظاہر بالکل درہم برہم ہو گیا تھا، پھر سے حرکت پیدا ہو گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے از سر نو مضبوط بنیادوں پر استوار ہو گیا.ه اصحاب احمد " بجلد سوم طبع دوم دو سمبر (۱۹۹۹مه) صفحه ۱۱۸-۱۲۰ (از ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے) :
1.A شت اس جگہ اُن احمدی مبلغین کا ذکر کرنا ضروری ہے جنہوں نے ہندوستان کی آزادی اور قیام پاکستان کے پہلے سال نہایت نا مساعد اور پُر خطر ایام میں اسلام اور احمدیت کا جھنڈا بلند کئے رکھا اور ناقابل برشورات مصیبتوں کے دوران بھی نہایت استقلال کے ساتھ اشاعت حق میں سرگرم عمل رہے.بھارت کے مبلغین مولانا عبداللہ صاحب مالا باری (جنوبی ہند)، مولوی احمد رشید صاحب مالا بارا (مالابار ) مولوی محمد سلیم صاحب (کلکتہ، مولوی محمد اسمعیل صاحب دیال گڑھی دیکھنی) مولوی بیشیر احمد صاحب (کلکته مولوی سمیع اللہ صاحب دھرم پر کاش (بہار) حکیم محمد دین نما (بمبئی) مولوی عبد المالک خان صاحب (حیدر آباد دکن) مولوی فضل الدین صاحب (آگره حیدر آباد) ان مبلغین میں سے مولوی محمد اسمعیل صاحب دیا گڑھی اور مولوی عبد المالک خاں صاحب کچھ عرصہ تک بھارت میں کامیابی سے خدمت سلسلہ کا فریضہ ادا کرنے کے بعد پاکستان میں آگئے جہاں آئینک تبلیغ دین میں مصروف ہیں.پاکستان کے مبلغین حضرت مولانا غلام رسول صاحب را یکی پشاور) مولوی عبد الغفور صات ( (سرگودھا) مولوی نظل الرحمن صاحب (چنیوٹ) مولوی چراغ دین صاحب (مردان) شیخ عبد القادر صاحب (سابق سوداگر مل ) (لاہور) مولوی غلام احمد صاحب فرخ (سندھ) سید احمد علی صاحب (کراچی) سید اعجاز احمد صاحب ( بوگرا ) صاحبزادہ محمد طیب صاحب (مردان) صاحبزاده هیتر الله صاحب (اسماعیلہ) مولوی ابو الخیر محب اللہ صاحب (چٹا گانگ ڈھاکہ) مرزا حسام الدین صاحب لکھنوی (جھنگ) مولوی عبد الرحیم صاحب عارف (جھنگ) مولوی محمدحسین صاحب (جہلم گجرات) گیانی عباداللہ صاحب (گوجرانوالہ ) مباشہ محمد عمر صاحب (گوجرانوالہ) گیانی واحد حسین صاحب (را ہوالی) مولوی محمد احمد صاحب نعیم (کیمبل پور ) ان کے علاوہ مولوی احمد خاں صاحب نسیم انچارج تبلیغ مقامی قادیان جو ۹ مر تبوک ستمبر اسلام الله کو گرفتار کر لئے گئے تھے ، شہادت / اپریل ہر مہیش میں رہا کر دیئے گئے جس کے بعد اپنی گذشتہ روایات کے مطابق سلسلہ احمدیہ کی خدمات دینیہ میں مصروف ہو گئے.ملہ یہ صاحبی احمدیت قبول کرنے سے پہلے آریہ ہو گئے.بالآخر اخارا اکتو بر تار میش میں غیر مبائعین سے منسلک وگند
1.4 قادیان سے دفاتر کا عملہ ، ریکارڈ اور دفتر محاسب کے چند اچھیٹروں یا بعض دیگر ضروری کا نفقات کے سوا کوئی خاص ریکارڈ قادیان سے شروع میں نہیں دستاویزات منگوانے کا پہلا مرحلہ لایا گیا تھا لیکن اب جبکہ صدر انجین احمدیہ پاکسان کا قیم ہوگیا تو قادیان سے مزید عملہ اور ریکارڈ منگوانے کی فوری ضرورت پیش آگئی اور گوماہ تبوک استمبر ۱۳۳ پیش کے دوران مختلف اوقات میں سلسلہ کے مرکزی دفاتر کے بعض کا رکن مع ریکارڈ لاہور بلوائے گئے مگر عملہ دفاتر اور ریکارڈ کے منگوانے کا حقیقی معنوں میں پہلا مرحلہ ۲۴ تبوک استمبر میش کو شروع ہوا.حضرت 1902 سید نا الصلح الموعود کی خاص ہدایت پر حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب نے حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب امیر مقامی قادیان کے نام حسب ذیل مراسلہ بھیجا :- رنوٹ : مراسلہ میں خط کشیدہ فقرات سیدنا المصلح الموعود کے لکھے ہوئے ہیں جن کا اضافہ بعد نظر ثانی خود حضور نے اپنے قلم مبارک سے فرمایا تھا ) بسم الله الرحمن الرحيم - تحدة وتصلى على رسوله الكريم مکرمی مرزا صاحب سلمکم اللہ تعالئے.جود حامل بلڈ نگ ۲۴ ستمبر یا امید السلام عليكم حضور نے ارشاد فرمایا ہے کہ سید محمدحسین شاہ ناظم جائیداد ، بهاء الحق صاحب ناظم تجارت ، مولوی عبد المغنی خاں اور ایک ایک کلرک ریکار ڈ سمیت، برکت علی صاحب فنانشل سکوٹری تحریک بعدید معه حساب امانت و وحده جات و غیرہ اشیخ نورالحق صاحب جو سندھ کی زمینوں میں کام کرتے ہیں اور پرائیویٹ سکرٹری کے دفتر کے اوپر کے کمرہ میں بیٹھتے ہیں ، ان سب کو تاکید کی جائے کہ اپنا اپنا مکمل ریکار ڈیا بحالت مجبوری ضروری ریکارڈ لے کر آئیں شیخ نورالحق صاحب اور شاہ صاحب خرید کردہ زمینوں کے قبائے بھی لائیں.اگر سر کا ری کنوائے کا انتظام نہ ہو تو ان کو پرائیویٹ کنوائے میں ہی بھیجوانے کا انتظام کریں مگر یہ دیکھ لیں کہ ساتھ حفاظت کے لئے اسکورٹ کافی ہے کہ نہیں.دفتر پرائیویٹ سکرٹری کے آدمی رفیق احمد مصلوب کو بھجوا دیا جائے وہ پہرہ یا حفاظت کے قابل نہیں.ان کے ساتھ ایک اور تجربہ کار کارکن نقشی ہ ہوا رہ گیا ہے.
11.فتح الدین صاحب یا اور کوئی بھیں کو حفاظت والے بخوشی فارغ کر سکیں.عطاء الرحمن صاحب پر وفیسر فزکس تعلیم الاسلام کا لج کو کہا جائے کہ جس قدر سامان کا لچ کا لایا جا سکتا ہے لے کر لاہور پہنچیں.زیادہ اہم اور ضروری سامان کو مقدم کیا بجائے حسین کا دوسری جگہ ملنا مشکل ہو گا.اور حضور نے فرمایا ہے کہ فیملی شیخ محمد حسین صاحب آف کلکته والد حافظ بشیر احمد صاحب اور شیخ دوست محمد صاحب آف کلکتہ کی فیملیوں کو بھی بھیجوانے کا انتظام کیا بھائے.اسی طرح شیخ محمد صدیق صاحب کلکتہ کی فیملی کو یعنی جب کنوائے آئے یا کسی ٹرک میں جگہ خالی ہو.دیہاتی مبلغیں یا زیر تعلیم دیہاتی مبلغین ، دعوة والتبلیغ کے مبلغین ، انجمن کے محلوں میں سے جن کو عملہ حفاظت آسانی سے فارغ کر سکے ان کو بھی بھیجوایا جائے تا یہاں کام شروع کیا جا سکے.کیانی صاحب لیگل زیمبر رنس کے چپڑاسی کی فیملی فیرونہ دین پٹواری کے ہاں رہتی ہے اس کو بھی بھیجوانے کا انتظام کر یں اگر وہ ابھی تک آنہیں چکی.کلیدی کاموں پر جو لوگ مامور ہیں جن کا ابتداء نام لے کر ذکر کیا گیا ہے باقیوں کے متعلق حضور نے فرمایا ہے کہ صاحبزادہ میرزا ناصر احمد صاحب کے مشورہ سے ان کارکنوں کو بھجوایا جائے جن کی ضرورت نہ ہو تا سلسلہ کے کاموں کا تسلسل جاری رہے.لیکن بہر حال آپ کی ضروریات قادیان مقدم ہیں.پس ان کو ملحوظ رکھیں.عبد الباری نائب ناظر بیت المال قادیان میں حراست میں لے لئے گئے ہیں.ان کو ضمانت پر چھڑانے کی کوشش کی جائے.ان کے پاس لاہور کے حسابات کی رسیدات پیشگی رقوم کا حساب ہے.اگر ممکن ہو سکے حاصل کر کے فوراً بھیجوانے کا انتظام فرما ہیں.دس بارہ ہزار روپیہ کا ان کے پاس حساب اور رسیدات ہیں.اس ضمن میں پوری کوشش ہستی ہونی چاہئیے ممنون ہوں گا.خاکسار محمد عبداللہ خان مگر آنکہ سائیکو سٹائل پر لیس قادیان میں تین ہیں.ایک ریسرچ میں ، دوسرا تحریک بعدید ہیں ، تمییر محکمہ دعوۃ و التبلیغ کے صیغہ اطلاعات میں ہے.ان تینوں کو جلدی بھیجوانے کا انتظام کریں.کم از کم ایک تو فوری طور پر آجانا چاہیے.یہاں ان کی اشد ضرورت ہے.حضور نے کسی کنوائے یا پرائیویٹ کنوائے کے آنے اور حضرت پیر منظور محمد صاحب کو مانے ہوتے رہ گیا ہے
بھجوانے کا ارشاد کبھی فرمایا.اس کو بھی ملحوظ رکھا جائے.ان کو خاص نگرانی میں آرام سے بھجوایا جائے.ضرورت ہو تو کوئی شخص راستہ میں افیون کا ٹیکہ دیتا لائے تا تکلیف نہ ہو.ان سے کہہ دیا جائے کہ اس وقت بھانوں کا لے جانا اسباب سے مقدم ہے.ہاں بار بار لکھا جاچکا ہے کہ الفضل، الحکم ، بعد ، ریویو ، پیغام صلح کا ایک ایک مکمل سیٹ شروع سے ہفتہ تک کا فوراً بھجوایا جائے تا سلسلہ کی تاریخ غائب نہ ہو جائے مگر اب تک توجہ نہیں ہوئی.انور صحاب خود یہ کام کریں.....صاحب اس قابل معلوم نہیں ہوتے " دوسرا مرحلہ عملہ اور ریکارڈ کے لاہور میں منتقل کئے جانے کے دوسرے مرحلہ کا آغانہ ۲۸ تبوک میش کو ہوا جبکہ صدر انجین احمدیہ پاکستان نے اس بارے میں خاص اجلالی منعقد کیا اور منگوائے جانے والے کارکنوں کا انتخاب کر کے اس کی روداد حضرت امیرالمومنین کی عادات میں آخری منظوری کے لئے بھیجی.صدر انجین کے اس اجلاس میں مندرجہ ذیل ممبران موجود تھے :- ۱- حرم حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب صدر -۲- مکرم نواب محمد عبد الله تعال صاحب ناظر اعلی -- نواب محمد دین صاحب ناظر دعوة والتبليغ ۴ - مكرم عبد الرحيم صاحب در و ناظر تعلیم و تربیت و امور عامه و خارجه - مولوی سیف الرحمن صاحب ناظر ضیافت - ابو المنیر مولوی نور الحق صاحب ناظر انخلاء هو آبادی ، مولوی محمد صدیق صاحب واقف زندگی ممبر - خانصاحب منشی برکت علی صاحب ناظر بیت المال - مرزا عبد الغنی صاحب محاسب صدر انجمن احمد یہ لا ہوں..حضرت نواب محمد عبد اللہ خال صاحب نے حسب فیصلہ صدر انجین احمدیہ حضرت امیرالمؤمنین سے رہنمائی حاصل کرنے کے بعد ناظر اعلی صاحب قادیان کو معتین ہدایات بھیجوانے کے لئے مکتوب کا ایک مسودہ تیار کیا جسے انہوں نے آخری منظوری کے لئے دوبارہ حضور کی خدمت میں رکھا اور بعد منظوری قادیان بھجوایا.اس مسودہ کے الفاظ یہ تھے :- " بسم الله الرحمن الرحیم نحمه و فصلی جلے رسوله الكريم وصلى عبده المسيح الموعود بخدمت مکرم جناب ناظر صاحب اعلیٰ صدر امین احمدیہ قادیان
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکانه مندرجہ ذیل کارکنان صدر انجمن احمدیہ قادیان دفاتر صدر انجین احمدیہ لاہور (پاکستان ) میں کام کرنے کے لئے لاہور بھجوا دیئے جائیں.لیکن پہلے یہ فہرست میاں ناصر احمد صاحب اور آپ بغور دیکھ لیں تو ان میں سے جو لوگ حفاظت کی غرض سے یا دفاتر صدر انجین احمدیہ قادریان کی ضرورت کی غرض سے قادیان رکھے جانے ضروری ہوں ان کے نام اس فہرست سے خارج کر دیئے جائیں اور ان کی بجائے متعلقہ دفاتر کے دیگر کارکن لاہور بھیجوا دیئے جائیں.ا الى عمله نظارت دعوة و تبلیغ - پیر خلیل احمد صاحب کلرک کے علاوہ ایک اور کلرک عمل مبلغین - مولوی عبد الغفور صاحب مبلغ - مولوی نظل الرحمن صاحب بنگالی تہاشہ محمد عمر صاحب.مولوی محسین صاحب مبلغ پونچھ.گیانی واحد سبین صاحب - تہاشہ فضل حسین صاحب مبلغ - مولوی عبد العزیز صاحب مبلغ حافظ عبد السميع صاحب امروہی نیز دیہاتی مبلغین میں سے منسلکہ فہرست میں سے جو قادیان میں ڈیوٹی دے رہے ہیں یا ڈیوٹی کے قابل ہوں ان کے سوا باقی سب کو بھجوا دیا جائے.ہ حملہ الفضل.امیر محمد صاحب کلرک ، مینجر معہ ٹائپ مشین و رجسٹر امپرسٹ محمد اسلم صاحب کلرک مینجر عبد الرشید صاحب نسیم احمد صاحب - عبد الحمید صاحب امیر محمد صاحب مدگار کارکنان - دو کا تب حسب انتخاب منیر احمد صاحب و نہیں.د - گسله اطلاعات - عنایت اللہ صاحب ٹائپسٹ معہ رونیوسیٹ اور ٹائپ شین تعلیم و تربیت - ماسٹر غیر دین صاحب قاری محمد امین صاحب کلرک بسید محمد شاه صاحب کلرک.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی (اگر آنا چاہیں ).قاضی عزیز احم مصلحب معد لاوڈ سپیکر حافظ محمد رمضان صاحب حافظ فتح محمد صاحب اور حافظ کرم الہی حیات -۳- امور عامه و خارجه - مولوی فضل الدین صاحب وکیل منشی تنظیم الرحمن صاحب - سید سردار علی شاہ صاحب رشتہ ناطہ ایک مدد گار کارکن امور عامر جو سائیکل میلانا جانتے ہوں.نور ہسپتال - ایک ڈسپنسر مطابق انتخاب مرزا منور احمد صاحب یہاں بھجوادیا جائے
امور خارجہ عبد القدیر صاحب اور نسیم احمد صاحب میں سے حسب انتخاب مولوی برکات احمد صاحب - دار الافتاء - جبرات افتار - نظارت بیت المال چودھری عبد الرحیم صاحب کا ٹھگڑ ی.مرزا عبدالحمید صاحب کلرک بعطاء الرحمن صاحب کلرک مختار احمد صاحب ہاشمی - محمد اسلم صاحب کلرک ( تابع مرضی شعبہ حفاظت مولوی عبد العزیز صاحب شرقپوری اور شجاعت علی صاحب انسپکٹران - امام دین صاحب مددگار کارکن اور محمد اسمعیل صاحب دفتری.محاسب منشی سردار محمد صاحب - شیخ فیض اللہ صاحب منشی غلام نبی صاحب منشی عبد الغنی صاحب پیر مظہر الحق صاحب خزانچی منشی رشید احمد صاحب منشی سلام احمد صاحب چوہدری عبد المجید صاحب عطاء اللہ صاحب عبد الستار صاحب دختری - آڈیٹر سید محمود عالم شاہ صاحب.- نظارت علیا.قاضی عبد الرحمن صاحب یا محمد عبد اللہ صاحب پر دیم و سعید الله صاحب تابع انتخاب مرضی مرزا عزیز احمد صاحب، میاں محمد بخش صاحب مدار گاله کار آن نیز عارضی عملہ میں سے ایک دو کلرک جو حفاظت سے فارغ ہو سکیں.-4 صبیحه جائداد منشی محمد دین صاحب معہ رجبرات قبالہ جات - بہشتی مقبره - دو کلرک تابع ضروریات حفاظت زاگر ایسے ہوں جن کے اہل عیال باہر آسکے ہوں اور ان کی وہاں ضرورت نہ ہو اور کام سنبھال سکتے ہوں تو بہتر ہو گا والسلام خاکسار (دستخط) محمد عبداللہ خال ناظر اعلی صدر انجین احمدیہ لاہور YA.۴۷ مودار شد
۱۱۴ اس مسودہ میں جہاں دیہاتی مبلغین کا تذکرہ تھا وہاں حضور نے اپنے قلم سے تحریر فرمایا :- یہ کل مبلغ ۱۲۷ ہیں.ان میں سے جن کو مرزا ناصر احمد اور مرزا عزیز احمد صاحب اور مولودی شمس صاحب سہولت سے تمہیں جن کو وہ بہ خوشی فارغ کر سکیں بھیجوا دیں تاکہ ان سے تبلیغ اور چندہ کا کام لیا جائے.یہ شرط نہیں کہ وہ فارغ شدہ ہے خواہ نئے طالب علموں سے ہوں خواہ پرانے پاس شدوں میں سے.اس طرح مشورہ کر کے یہ شرح صدر اور قادیان کے فائدہ کو مدنظر رکھ کے اطلاع دیں کہ احمد کتنے ان مبلغوں میں سے بغیر ذرہ سے بھی خطرہ کے فارغ کر سکتے ہیں.ہمارے احساس کا کسی صورت میں خیال نہ رکھیں سو فیصدی مقدم قادیان کے فائدہ اور کام کا خیال رکھیں" فصل چهارم تبوک استمبر کی مشاورت کے اس فیصلہ پر کہ جماعتیں مرکز احمدیت کی حفاظت کے لئے حفاظت قادیان کے لئے بذریعہ قرعہ جوانوں کو بھجوائیں مخلصین جماعت کا قابل رشک مظاہرہ پاکستان کی احمدی جماعتوں نے میں جوش و خروش اور عشق شیفتگی اور والہانہ اخلاص کا مظاہرہ کیا وہ رہتی دنیا تک یادگار رہے گا.پاکستان میں جہاں جہاں جماعتیں پائی جاتی تھیں انہوں نے حسب فیصلہ اپنی کل تعداد کے ے ریکارڈ نظارت علیا صدر انجمن احمدیہ پاکستان ؟ سے پاکستان کے علاوہ لکھنؤ کی احمدیہ جماعت کے سولہ مخلصین نہایت دشوار گذار راستوں سے محضن حفاظت مرکز کے لئے لاہور پہنچے درپور سالانه صدر انجین احمدیہ پاکستان این منفرد) سے مولانا جلال الدین صاحب شمس نے اپنے مکتوب (۲۹ احسان جون پیش بنام حضرت تم الانبیاء میں تحریر فرمایا : دو حضرت امیر المومنین نے کوئٹہ جانے سے تین چار روز پہلے مجلس میں...فرمایا.قادیان کے متعلق دو ولی ہو رہی ہے.سارے کام کا ایک ہی انچارج ہو.میاں بشیر احمد صاحب سے مل کر دریافت کر لیا جائے اگر واقعی کام زیادہ ہو تو دو تین آدمی بطور سکرٹری ان کو دے دیئے بچائیں لیکن صبیحہ ایک ہی ہو.اس کا نام ہی تقدیانی ہو.آدمی جمع کرنا ، بھیجوانا ، قادیان والوں کو ریلیز کرنا ، خط و کتابت کرنا اس صیغہ کے ماتحت ہو "
آٹھویں حصہ کا قرعہ ڈالا اور عشاق احمدیت دیوانہ وار رتن باغ پہنچنے لگے جہاں حضرت سید نا صلح المود نے مولوی ابو المنیر نور الحق صاحب ناظر انخلاء و آبادی کی زیر نگرانی ایک مستقل کیمپ کھلوا دیا اور انہیں باقاعدہ ایک نظام کے ساتھ قادیان بھیجوایا جانے لگا (احسان جون یہ بہش سے حفاظت مرکز قادیان کا مستقل صیغہ قائم ہوا جس کے نگران و منتظم سیدنا المصلح الموعود نے قمرالانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو مقر فرمایا جو آخر دم تک اس مینہ کے فرائض نہایت کامیابی سے انجام دیتے رہے؟ اگر چه شمع حق و صداقت کے یہ سب پروانے جو اپنے سینہ میں قادیان کی الفت و محبت کا شہر بسائے ہوئے ملک کے طول و عرض سے کچھچھے پہلے جا رہے تھے یکساں طور پر بجذ بہ خلوص و ارادت سے سرشار اور اپنی مثال آپ تھے مگر جماعت احمدیہ کراچی کے بعض جوانوں کا نمونہ ایسا خوشکن اور شاندار تھا کہ خود حضرت مصلح موعود نے ان کے ہوش ایمانی شوق قربانی اور روح ایمانی پر اظہار خوشنودی فرمایا اور اسے پوری جماعت کے لئے ایک قابل تقلید مثال قرار دیتے ہوئے (۱۲ تبوک استمبر اہ مہش کے خطبہ جمعہ کے دوران) ارشاد فرمایا :-....جیسے کراچی کے دوستوں نے نمونہ دکھایا.انہوں نے فیصلہ کیا کہ ہم قادیان جائیں گے اور چونکہ وہاں سرکاری محکموں میں احمدی زیادہ ہیں دفاتر وانوں نے سمجھا کہ اگر سب احمدی پیسے لے گئے تو کام بند ہو جائے گا اس لئے انہوں نے چھٹی دینے سے انکار کر دیا.اس پر کئی احمدیوں نے اپنے استعفاء نکال کر رکھ دیئے کہ اگر یہ بات ہے تو ہم اپنی ملازمت سے مستعفی ہونے کے لئے تیار ہیں.ایک اخبار جو احمدیت کا مشہور ترین نشیمن تھا میں نے خود اس کا ایک تراشہ پڑھا ہے جس میں وہ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ یہ ہوتا ہے ایمان.یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اخلاص کا نمونہ دکھایا.یہ وہ لوگ ہیں جن کا عزت سے نام لیا جائے گا اور یہ وہ لوگ ہیں مین کا احمدیت کی تاریخ میں نام لکھا جائیگا ھے احمدی جوانوں کی جانیازی کا احمدی جوانوں کو پاکستان سے قادیان تک پہنچنے کے لئے کس طرح موت سے کھیلنا اور اپنی جانوں کو ہتھیلی پر رکھ کر جانا پڑتا تھا.ایک نا قابل فراموش واقعہ آج کی دنیا اس کا تخیل و تصور کرنے سے قاصر ہے اس سلسلہ میں ه حاشیہ متعلقہ ھذا صفحہ ۱۱۴ پر درج ہو گیا ہے.وہاں سے حاشیہ سے مطالعہ فرمائیں ہے " الفضل" ۳۰ تنبوک استمبر له مش صفحه ۲ کالم ۳ - ۴
IM ماه افتاده اکتوبر برش کا ایک واقعہ (جسے نو نہالان احمدیت کی جانبازی و فداکاری کا قابل فخر اور مثالی نمونہ سمجھنا چاہیئے الخاص طور پر قابل ذکر ہے.خان محمد عیسی جان صاحب (حال سکرٹری اصلاح و ارشاد کوئٹہ) اس سانحہ ہو شریا کا آنکھوں دیکھا حال درج ذیل الفاظ میں بیان فرماتے ہیں :- ہمارے پیارے امام حضرت خلیفہ ایسیح الثانی ایده الله بنصرہ العزیز نے حکومت پاکستان کی اجازت سے ایک مرتبہ نہیں لاریاں کرایہ پر لے کر قادیان کبھیجوائیں.ان لاریوں کے ساتھ پہچان احمدی تھے جن میں کوئٹہ کے احباب میں ڈاکٹر میجر محمود احمد صاحب شہید ، ڈاکٹر میجر منیر احمد صاحب ،خالد، جناب شیخ محمد اقبال صاحب ،چوہدری منور علی صاحب در ولیش، حوالدار محمد ایوب صاحب درویش، میاں بشیر احمد صاحب ایم.اسے ، میاں احمد دین صاحب بٹ ، میاں کریم بخش صاحب ، مرزا محمد صادق صاحب جہلمی ، تعال عبد الرحمن خان صاحب ایجنٹ اور خاکسار بھی شامل تھے.ہم میں سے اکثر حفاظت مرکز کے لئے بھا رہے تھے.بعض اپنے رشتہ داروں کو لانے کے لئے گئے تھے.۲ اکتوبر نہ کی صبح کی نماز کے بعد حضور نے اس مختصر سے قافلہ کو بعض ضروری ہدایا دینے اور صبر و استقلال کی تلقین کرنے کے بعد فرمایا کہ مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ اس قافلہ کے ساتھ کوئی خطرناک حادثہ پیش آنے والا ہے.اللہ تعالے تمہارا حافظ و ناصر ہو.اس کے بعد حضور نے لمبی اور پر سوز دعا کرائی.وہ دکھاتی یا عرش کو لرزا دینے والا زلزلہ ! ہماری ہچکیاں بند گئیں اور آہ و بکا سے آسمان گونج اُٹھا.اس طرح اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعا کے ساتھ ہمارا یہ قافلہ منزل مقصود کی طرف روانہ ہوا.کوئی دس بجے کے قریب ہم پاکستان کی سرحد کو عبور کر کے ہندوستان کی سرحد میں داخل ہو گئے.یہاں ملٹری چوکی پر ہمارا قافلہ رک گیا.کچھ دیر کے بعد پوچھ گچھ اور تفتیش ہونے لگی تستی پانے کے بعد انہوں نے ہمیں روانگی کا حکم دیا.یہ دو پہر کا وقت تھا.آسمان پر سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا.ہر طرف سکوت طاری تھا.ہماری لاریاں چالیس پینتالیس میل کی رفتار سے بھا رہی تھیں.سڑک کے دونوں اطرات حد نظر تک ویران ہی ویران دکھائی دے رہی تھیں.مستقبل کے عجیب و غریب تصورات
114 آنکھوں کے سامنے گھوم رہے تھے اور دل میں قادیان پہنچنے کی خواہش مچل رہی تھی بغرض ہیں قسم کے اور بہت سے تخیلات ہمارے ذہن کو گھیرے ہوئے تھے کہ اچانک نا قابل برشات بدبو، ایسی بدبو جس سے ناک سڑنے لگے اور دماغ پھٹنے لگے محسوس ہوئی.لاری سے باہر جو نظر پڑی تو یہ دیکھ کر روح کانپ اٹھی کہ سڑک کے دونوں اطراف کچھ فاصلہ پرکھیتوں میں انسانی لاشوں کو بڑے بڑے بد نما گدھ اور کتے نوچ رہے تھے.اُمت ! یہ نہایت بھیانک اور تکلیف دہ منظر تھا کہ دیکھتے ہی ہم پر دہشت طاری ہو گئی اور کافی دیر تک ہم بے حس و حرکت ہو کر رہ گئے.ابھی ہماری بدحواسی دور نہ ہونے پائی تھی کہ ہماری نظر مسلمان پناہ گزینوں کے ایک قافلہ پر پڑی جو پاکستان کی طرف بھارہا تھا.اس جگہ کچھ وقفہ کے لئے ہمارا قافلہ رکا تاہم اپنے مظلوم اور بد نصیب بھائیوں کی خستہ حالت پر چار آنسو بہائیں.یہ لوگ کچھ تو بیل گاڑیوں پر سوار اور کچھ پیادہ تھے.اس قافلہ میں سب سے زیادہ دلخراش اور جب گرسوز منظر جو میں نے دیکھا وہ ایک عورت کی انتہائی بے چارگی اور مظلومیت کا تھا.اس کو دیکھ کر میری آنکھوں سے بے تماشا آنسو ڈھلک رہے تھے.وہ بیچاری پیدل جا رہی تھی.اس کے پاؤں کافی متورم تھے.پیٹ پھولا ہوا تھا چہرہ بھی سوبھا ہوا تھا.پاؤں میں شدید درد کی وجہ سے لنگڑا رہی تھی.درد اور کرب سے "ہائے ہائے کرتی بھا رہی تھی چند قدم چپل کر بیٹھ بھاتی اور ماتھے پر ہاتھ مار کر کہتی ہائے رہتا ! میں مری“ اور پھوٹ پھوٹ کر روتی.اس کا رونا اس قدر دلسو نہ تھا کہ پتھر دل بھی موم ہو جاتا.اس عورت کی یہ درد ناک حالت دیکھ کر یقین کیجئے کلیجہ پھٹنے لگا.بیچاری جب دیکھتی کہ اس کے ساتھی کچھ دور نکل گئے تو پھر چل پڑتی لیکن با دلِ ناخواسته.کاش اس عورت کی ہم کوئی مدد کرنے کے لائق ہوتے ! خدا خدا کر کے شام پانچ بجے ہم بٹالہ کے محدود میں داخل ہو گئے.اس جگہ پہنچ کر قادیان دیکھنے کی آرزو پھر دل میں انگڑائیاں لینے لگی لیکن ہمیں کیا معلوم تھا کہ تقدیر ہم پر مسکرا رہی تھی اور ہماری یہ آرزو دل ہی دل میں مرجانے والی تھی.ابھی ہم بٹالہ شہر سے کوئی ایک میل باہر ہی تھے کہ انڈین پولیس اور ملٹری حکام نے ہمارے قافلہ کو رکنے کا حکم دیا.فورا تعمیل ہوئی.ہم نے بھی اس موقعہ کو غنیمت جانا اور اپنی تھکان دُور کرنے اور تازہ دم ہونے کے
HA لئے لاریوں سے اُتمہ کو ادھر اُدھر ٹہلنے لگے.دائیں بائیں عمارتیں کھنڈرات کی صورت میں نظر آرہی تھیں.فیکٹریاں اور ان کی ٹوٹی ہوئی مشینیں بھی دکھائی دے رہی تھیں.ہم سب چُپ چاپ دیر تک ان کھنڈرات میں گھوم رہے تھے.یکا یک مشرق کی طرف سے ہمارے کچھ آدمی ایک کمرہ نما عمارت کے گرد جمع ہونے شروع ہوئے یکیں بھی دیکھا دیکھی وہاں پہنچ گیا.ان کیسا مکروہ منظر مجھے دیکھنا پڑا.ایک عورت کی نصف لاش کٹی ہوئی پڑی تھی.لاش بالکل تازہ تھی ہیں تو زیادہ دیر وہاں ٹھہر نہ سکا.سر میں چکر آنے لگے اور آنکھوں میں اندھیرا.فوراً واپس اپنی لاری میں آکر بیٹھ گیا اور ان وحشیانہ تصورات سے قریب تھا کہ میں دیوانہ ہو جاتا.ہمیں وہاں رکے ہوئے کافی دیر ہو گئی تھی.سورج غروب ہونے کو تھا.دلوں میں خوف اضطراب کی لہر دوڑ نے لگی جوں جوں وقت گزرتا گیا ہمارا اضطراب بھی اسی مقدار سے بڑھتا گیا.اس وقت جب سورج کی سنہری کر نیں آنکھوں سے اوجھیل ہوئیں اور تاریکی فضاء پر چھا رہی تھی مطلع پر ستارے ہماری مظلومیت پر آنسو بہانے کے لئے بے نقاب ہو رہے اور تھے.تب عین اس وقت خبر آئی کہ رات یہیں پر گزاری جائے گی.ہم بالکل نہتے تھے.نہتے ہونے کے احساس نے ہمیں بری طرح گھائل کیا ہوا تھا." حکیم تھا کم مرگ مفاجات ناچار ہمیں رات وہیں گزارنی پڑی.لیکن اس بھیانک ماحول میں پھیلا نیند کس کو آسکتی تھی.بڑی مشکل سے اُٹھتے بیٹھتے ہم نے رات گزار دی.صبح کو آٹھ بجے خبر آئی کہ چونکہ بارش کی وجہ سے قادیان کا راستہ خراب ہو چکا ہے اس لئے تم واپس لاہور چلے جاؤ ورنہ یہاں تمہیں ہندو اور سیکھ زندہ نہیں چھوڑیں گے.یہ سنتے ہی ہمارے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے.اتنا خرچ ، اتنی تگ و دو اور اتنی صعوبتوں کے بعد بے نیل و مرام واپس بھانا ہمارے لئے ایک صدمہ تعظیم تھا.ہم نے ان ظالموں کی بڑی منت سماجت کی.لجاجت اور انکساری سے ان سے درخواست کی کہ وہ ہمیں قادیان بجانے کی اجازت دے دیں مگر ان کا پتھر دل ہماری لجاجت سے ذرا بھی متاثر نہ ہوا.در اصل راستہ کوئی خواب نہ تھا.صرف اس لئے وہ ہمارے واپس بھانے پر مصر تھے کہ اس رات وہ قادیان پر حملہ کرنے کی تیاری میں مصروف تھے.بالآخر ہم نے اپنے ساتھ بٹالہ کے
119 مسلمان پناہ گزین لے جانے کی اجازت کے لئے ان سے درخواست کی تو کچھ دیر تامل کے بعد انہوں نے تمہیں ایسا کرنے کی اجازت دے دی.ہم کوئی دس بجے ایک میدان میں سے گزر کر پناہ گزین کیمپ میں داخل ہوئے.یہاں ایک بہت بڑا جو ہر تھا جس کے کنارے یہ ستم رسیدہ پناہ گزین پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے.ان کی حالت انتہائی قابل رحم تھی.لاغر اور مفلوک الحال تھے.ایسا معلوم ہوتا تھا گویا برسوں سے بیمار ہیں.اور جیسے خوشیاں ہمیشہ کے لئے ان سے منہ موڑ چکی ہیں.چلنے پھرنے کی ان میں سکت نہ تھی.ننگی اور کھری زمین ہی ان کا بستر بچھو نا تھی.پھٹے پرانے چیتھڑے زیب تن کئے ہوئے تھے.کوئی سویا ہوا تھا کوئی لیٹا ہوا تھا کوئی جو ہڑ سے پانی پی رہا تھا.معمر عورتیں ایک دوسرے کے سامنے آلتی پالتی مارے بھی تھیں.یہ درد ناک منظر دیکھ کر یقین جانئے ہمارا کلیجہ پھٹ گیا.کیمپ میں ایک ہولناک سکوت طاری تھا.ہم حیران تھے کہ ہمیں دیکھ کر یہ خوش کیوں نہیں ہوئے.شاید اس لئے کہ ان کی یہاں سے بچ نکلنے کی امید بالکل منقطع ہو چکی تھی اور زندہ رہنے کا احساس مٹ چکا تھا.لیکن جونہی ان کو بتایا گیا کہ ہم ان کو پاکستان لے بجانے کے لئے آئے ہیں تو خدا معلوم ان میں اتنی پھرتی اور طاقت کہاں سے آ گئی کہ دیکھتے ہی دیکھتے سب کے سب لاریوں پر ٹوٹ پڑے.وہ لاریوں پر چڑھنے کی دھن میں ایک دوسرے سے بُری طرح ٹکرا رہے تھے اور ان میں وہ گہما گہمی ہوئی کہ ہم انگشت بدنداں رہ گئے.آنِ واحد میں ساری لاریاں بھر گئیں.کیمپ میں کچھ ہندو اور سکھ ادھر ادھر پھرتے ہوئے نظر آ رہے تھے جو ہمیں غیظ و غضب کی نظروں سے گھور رہے تھے جب ہماری تمام لاریاں بھر گئیں اور ہم روانہ ہونے کو تھے وفعتہ کیمپ کے ارد گر دبی لمبی گھاس اور گھنی جھاڑیوں میں سے جہاں مشین گنیں اور برین گنیں تھامے ہوئے یہ ظالم چھپے ہوئے تھے گولیوں کی بوچھاڑ شروع ہوئی.ایسی غضب کی بوچھاڑہ تھی کہ کانوں کے پیہ دے پھٹ جانے کا اندیشہ ہونے لگا.یہ دیکھ کر ہمارے دل دہل گئے اور لے لیسی کے عالم میں موت کے ہیبت ناک خون سے ہمارے جسم کپکپانے لگے.بیچارے پہ ناہ گزین جو چند لمحہ پہلے پاکستان پہنچنے کا خوشگوار خواب دیکھ رہے تھے اب ایک دوسرے کی طرحت
۱۲۰ خوفزدہ نظروں سے تکنے لگے.ان بیچاروں کو کیا معلوم تھا کہ ان کا خواب اتنی جلدی شرمندہ تعبیر ہونے والا نہ تھا.بیسیوں پناہ گزین چند لمحوں میں لقمہ اجل بن گئے.اس طرح بے بسی کی لغت میں مارے بھانے کا احساس دوسر سے انسانوں کو بھی بد حواس کر دینے کے لئے کافی تھا جس داری میں میں بیٹھا ہوا تھا وہ خاص طور پر ظالموں کا نشانہ بنی ہوئی تھی اور گولیاں بے تحاشہ اس طرف ترکیا کریا کرتی ہوئی آرہی تھیں.یہ صورت حال میرے لئے آپ بھی مایوس کن تھی چند سیکنڈ تک میں اپنی جگہ بے حس و حرکت دہشت زدہ آنکھوں سے دیکھتا رہا کہ کس طرح بعض پناہ گزین ایڑیاں رگڑ رگڑ کر دم توڑ رہے تھے.بعض کے شانوں سے خون کی دھار اہل رہی تھی اور بعض خون میں لوٹ پوٹ رہے تھے.اور یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے ساری کائنات کراہ رہی ہے.ان کے چہرے فرط خون سے سپید پڑچکے تھے.ٹانگیں تھر تھرا رہی تھیں.اگر چہ میری کیفیت یہ نہ تھی تاہم موت کو اتنے قریب پا کر اپنے جو اس بر قرار نہیں رکھ سکتا تھا.پناہ گزینوں کو اس طرح کرتے ہوئے اور زخمی ہوتے ہوئے مجھ سے دیکھا نہ گیا تھا.یہ دیکھے کو میرے دل میں لاری سے اُتر جانے کا خیال پیدا ہوا.لیکن اس وقت اُترنا بہت سخت اور جان لیوا مرحلہ تھا مگر مجبوراً دھڑکتے دل کے ساتھ میں لاری سے اُتر گیا اور نزدیک جواہر کے کنارے گولیوں کی زد سے بچنے کے لئے ایک مٹی کے ٹیلہ کی آڑ لی لیکن ابھی میں مشکل وہاں بیٹھا ہی تھا کہ دو گولیاں سنسناتی ہوئی میرے دائیں بائیں سے اتنے قریب سے گذریں که میری ذراسی جنبش مجھے موت کے آغوش میں سلانے کے لئے کافی تھی اور ایک گولی میرے سامنے آکر زمین میں دھنس گئی جس کی گرد سے آنکھیں چندھیا گئیں.میں ذرا پیچھے ہٹاتا اپنے آپ کو اور محفوظ جگہ پر پہنچاؤں لیکن آپ میرے خودت و ہر اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے جب میں نے دیکھا کہ مجھے وہاں تنہا چھوڑ کر لاریاں روانہ ہونے لگی ہیں.دل سخت دھڑکنے لگا اور چند سیکنڈ تک میں اپنی جگہ بیس و ترکت کھڑا رہا.میرا ذہن بالکل ماؤف ہو چکا تھا میری ہمت قطعاً جواب دے چکی تھی.اگر چہ مجھے موت کا کوئی خوت نہیں تھا لیکن اس طرح دشمن کے گھیرے میں کتے کی موت مرنے کو میں تیار نہیں تھا.اس وقت اگر مجھے غیبی ہاتھ تھامے ہوئے نہ ہوتا تو میں کبھی کا ان درندوں کے ہاتھوں لقمہ اجل بن چکا
۱۲۱ ہوتا.اسی وقت طرفتہ العین میں مجھ میں اپنی شکستہ ہمت اور دہشت زدہ ہو اس پر قابو پانے کی طاقت بجلی کی طرح عود کر آئی اور میں اپنی پوری طاقت سے دوڑ کر ایک لاری پر چڑھنے میں کامیاب ہو گیا.اگر چہ میں جگہ میں پڑھا تھا وہ تکلیف دہ اور غیر محفوظ تھی لیعنی ڈرائیور کے پیچھے جہاں لاری کا فالتو پہیہ رکھا جاتا ہے.میرا اوپر کا نصفت جسم باہر فضا میں تھا اور کسی وقت بھی دشمن کی بے تحاشہ گولیوں سے چھلنی ہو جاتا لیکن کیمپ میں تنہا رہ کر گتے کی موت مرنے کی نسبت یہ جگہ میرے لئے بہشت بریں سے کم نہ تھی.ابھی تک ہماری لاریاں اسی وسیع میدان میں چل رہی تھیں جہاں سے ہم گئے تھے اور گولیاں برابر ستاتی ہوئی ہمارے سروں پر سے گذر رہی تھیں.پناہ گزین بیچارے ایسے سہمے بیٹھے تھے جیسے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں.تھوڑی دیر کے بعد ہم میدان سے نکل کر بازار کی ایک گلی میں داخل ہو گئے عجیب بات تھی.یہاں لوگ تمہیں دیکھ کر بے تحاشا ادھر ادھر بھاگنے لگے جیسے ہم ان پر حملہ کرنے والے تھے.بازار میں سے نکل کر ہم ریلوے سٹیشن کے ساتھ والی سڑک پر آگئے.کافی دور تک سڑک خالی اور غیر آباد تھی.کہیں کہیں بے چارے تباہ شدہ مسلمانوں کی ٹوٹی اور ٹوٹی ہوئی دو کھائیں دیکھنے میں آتی تھیں.کچھ ڈور بھا کر ہماری لاریاں ایک دم رک گئیں.ہم حیران ہوئے کہ یہ ڑکنے کی کونسی جگہ تھی.مگر جب میری نظر سڑک کے سامنے پڑی تو یہ دیکھ کر میرا خون منجمد ہونے لگا کیونکہ ہمارا راستہ لوہے کے بڑے بڑے پہیئے رکھ کر بند کیا ہوا تھا اور سٹرک کی دونوں جانب زمین پر دو دو سیکھ اور دو دو ڈوگرے برین گن تھامے ہوئے اوندھے منہ لیٹے ہوئے تھے.انہوں نے انگلی برین گن کی لیلی پر رکھی ہوئی تھی.وہ حکم کے منتظر تھے اور نزدیک ہی جنوب کی طرف ایک دو منزلہ عمارت کی چھت پر کئی مسلح ہندو سیکھ لوہے کی ٹوپیاں پہنے ہوئے سوراخوں سے ہمیں تاک رہے تھے.نہ معلوم کتنی دیر ہم وہاں ان کے رحم و کرم پر پڑے رہے.اسی اثناء میں سفید لباس میں ملبوس بے شمار سیکھ ہندو ہمارے ارد گرد جمع ہونے شروع ہوئے.ہر ایک نے کوئی نہ کوئی ہتھیار ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا.ان کی آنکھوں سے غیظ و غضب اور وحشت کے شرارے پھوٹ رہے تھے.
..بائیں طرف ایک طویل و عریض میدان تھا جو اُن لوگوں سے اس قدر بھرا ہوا تھا کہ تل دھرنے اُ کی جگہ نہ رہی.دائیں طرف ایک لمبی چوڑی لگی میں جو ہجوم سے اٹی پڑی تھی.آس پاس سرک کے کنارے دکانیں تھیں جن کی چھتوں پر بکثرت لوگ چڑھے ہوئے تھے.ایک سکھ حوالدار جو اس خوفناک ڈرامے کا ہیرو تھا اور جو ان ہلاکت خیز سرگرمیوں میں اہم رول ادا کر رہا تھا کی زبانی معلوم ہوا کہ سات ہزار سکھ مہندو اپنے دل کی پیاس ہمارے نون سے بجھانے کی غرض سے جمع ہیں.اور وہ ہم پر ٹوٹنے اور ہمارے جسموں کو اپنے تیز اور نوکدار ہتھیاروں سے چھیدنے کے لئے بالکل تیار کھڑے ہیں.یہ خونچکاں منظر دیکھ کر ہمارے دل پر جو کیفیت گزری وہ الفاظ میں بیان نہیں کی جا سکتی.میں جس جگہ کھڑا تھا وہ چونکہ عین مورچہ کے منہ پر تھا اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ میں یہاں سے اتر کر دوسری میگہ پھلا بجاؤں.اس وقت اُترنا یقیناً موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا.دل تھام کر میں اُتر ہی گیا.مگر اس خیال سے پھر واپس اپنی جگہ پر آیا کہ اس وقت موت سے اپنی جان بچانا بزدلی ہے.تھوڑی دیر کے بعد مجھے یاد آیا کہ میں نے ابھی تک ظہر اور عصر کی نمازیں نہیں پڑھیں چنا نچہ لاری کے تم پال پر تمیم کر کے میں نے دونوں نمازیں اشاروں سے ادا کیں.ادھر میں نماز سے فارغ ہوا.اور ادھر ایک لرزہ خیز دھماکہ سے ساری فضا گونج اُٹھی پیچھے ہو مڑ کر دیکھا تو ہماری سب سے پچھلی لاری پر ایک دستی بم پھینکا گیا جس سے یہ قیامت خیز دھماکہ ہوا تھا.اس لاری کے تمام کل پرزے ہوا میں اس طرح اُڑ رہے تھے جس طرح روٹی کے گالے اس میں بیٹھے ہوئے پناہ گزینوں پر جو گذری اس کا اندازہ آپ تصور میں بھی نہیں لا سکتے.ان میں سے اکثر موت کے آغوش میں ہمیشہ کی نیند سو گئے اور جو باقی بچے تھے وہ بری طرح مجروح ہوئے.ابھی اس دردناک اور بھیگر سوز منظر کا زخم مندمل نہ ہونے پایا تھا کہ ان سفاکوں نے مورچے سے پوری فائرنگ کھول دی.الامان الحفیظ ہر وہ فائرنگ تھی یا بلائے ناگہانی.فضا گولیوں کی سنت ہٹ سے گونج اٹھی.ایسا معلوم ہوتا تھا کہ قریب سے آتش فشان پہاڑ پھٹ گیا ہے.گولیاں بارش کی طرح سن سن کرتی ہوئی گزر رہی تھیں.پتا بگرین بیچارے دانوں کی طرح بھٹتے جارہے تھے معلوم نہیں ہم میں سے کتنے زخمی ہوئے اور کتنے مارے گئے
۱۲۳ یہ فائمنگ کتنی دیر رہی.اس کا صحیح اندازہ لگانا ناممکن تھا.اور سچ پوچھئے اس وقت اندازہ لگانے کی ہوش کس کو تھی جب زندہ رہنے کی امیدیں مٹ چکی تھیں تو اندازہ لگا کر کیا کرتے.یا الہی ! تیرے محبوب کے غلاموں کے لئے یہی موت مقدر تھی ابھی یہ فقرہ زبان پر ہی تھا کہ میری ٹانگ کو اس زور کا جھٹکا لگا جیسے بجلی کی زیرہ دوست کرنٹ اس میں داخل ہوگئی جب ٹانگ پر نظر پڑی تو خون کی موٹی موٹی دھاریں فوارے کی طرح پھوٹ رہی تھیں اور شلوار خون سے لت پت ہو چکی تھی.تب مجھے یقین ہوا کہ گولی نے اپنا کام کر لیا ہے.گولی دائیں ران کے اُوپر کے حصے میں سے ایک طرف پیوست ہو کر دوسری طرف ایک بہت بڑا زخم کر کے نکل گئی.اگر انہی نصرت شامل حال نہ ہوتی تو میں ضرور سڑک کے اُوپر ڈھیر ہو جاتا اور بعد میں جو میرا حشر ہوتا وہ ظاہر تھا.ابھی زخمی ہونے کے احساس سے مکیں فارغ ہی نہ ہو ا تھا کہ ایک اور گولی میری اسی ٹانگ کے نزدیک سے گزرتی ہوئی ہماری لاری کی پٹرول ٹینکی میں پیوست ہو گئی جس سے سارا پٹرول اسی وقت زمین کی نذر ہو گیا.آپ یقین جانئے کہ مجھے اپنے زخمی ہونے کا اس قدر صدمہ نہ ہوا جس قدر پٹرول کے ضائع ہونے سے ہوا تھا.کیونکہ اس سے زندہ بچنے کی امید کی آخری کرن بھی ختم ہو گئی.آپ کے دل میں یہ خیال ضرور گذرا ہوگا کہ میری ٹانگ جبکہ لاری کی موٹی پھادر کے پیچھے محفوظ جگہ پر کھتی تو گولی وہاں کس طرح پہنچی.اس کی وجہ یہ تھی کہ فرنٹ سیٹ میں ڈاکٹر میجر منیر احمد صاحب خالد فوجی یونیفارم میں بیٹھے ہوئے تھے اور آپ کے ساتھ میاں بشیر احمد صاحب پاسپورٹ آفیسر بھی بیٹھے ہوئے تھے.ان دونوں کا انہوں نے نشانہ کیا تو گولی ان دونوں کے بازوؤں کے درمیان میں سے شکل گولاری کی چادر کو چیرتی ہوئی میری ٹانگ کو بری طرح زخمی کرنے کا موجب بن گئی.گولیاں ابھی تک بارش کی طرح برس رہی تھیں اور سات ہزار سکھ ہند و جو اس سے پیشتر کچھ فاصلے پر ہمارے گرد و پیش کھڑے تھے.اب ہمارے قریب ہونے لگے.دیکھنے میں وہ انسان تھے مگر حقیقت میں وہ خونخوار درندے تھے.ان کی آنکھوں سے آگ برس رہی تھی.کیا بتاؤں وہ منظر کس قدر خوفناک تھا ؟ بس یہی سمجھ لیجئے کہ موت اپنے ہیبت ناک جبڑے کھولے ہوئے خراماں خراماں ہماری طرف آرہی تھی موت یقینی تھی.اس
۱۲۴ وقت نہ مجھے اپنی بیوی بچوں کا خیال تھا نہ عزیزیہ رشتہ داروں کا احساس اور نہ ہزاروں روپیہ کے کاروبار کے ضائع ہونے کی فکر تھی.ہاں صرف یہ احساس سنتائے بھا رہا تھا کہ جب ہمارے پیارے امام کو ہماری اس طرح موت کی خبر پہنچے گی تو حضور کو کتنی تکلیف اور قلق ہو گا.انہی احساسات میں میں گم تھا کہ اچانک سامنے کی طرف سے تین ملٹری ٹیک اپنی طرف آتے ہوئے دیکھے اور یہ ٹرک مین اس جگہ آکر رک گئے جہاں ہمارا راستہ بڑے بڑے لوہے کے پہیے رکھ کر مسدود کیا ہوا تھا.چونکہ میں لاری پر نہیں تھا وہ دوسرے نمبر ا پر تھی اس لئے مجھے ان ٹرکوں میں میٹھے ہوئے لوگوں کی ایک ایک حرکت صاف نظر آرہی تھی.میں نے دیکھا کہ اگلے اور پچھلے ٹرک میں بیٹھے ہوئے چند مسلح فوجیوں نے رائفلیں اٹھائیں اور اُن کا رُخ درمیان والے ٹرک رجس میں ہندو سکھ مرد اور عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں، کی طرف پھیر دیا.اس پر ان ہندو سکھوں نے مورچے والوں کی اپنے ہاتھوں کے اشاروں سے منت سماجت کی کہ وہ ٹائمنگ بند کر دیں.واقعہ یوں ہوا تھا کہ لاہور سے ہندو سکھ پناہ گزینوں سے بھرا ہوا ایک ٹرک پاکستانی فوجی دستہ کی نگرانی میں بٹالہ کایا جالنہا تھا.اس فوجی دستہ نے جب ہمارا یہ حشر دیکھا تو اس نے ہند و پناہ گزینوں کا غلوں سے ڈرا دھمکا کر کہا کہ فائمنگ بند کراؤ ورنہ تم سب کو ابھی یہاں ڈھیر کر دیا جائے گا.چنانچہ ان کی یہ تجویز کار آمد ثابت ہوئی اور فائرنگ بند ہو گئی.جونہی فائرنگ بند ہوئی ایک خوبصورت جسیم نوجوان نے جو شکل و شباہت سے اس دستہ کا آفیسر دکھائی دے رہا تھا فوراً کاری سے اُتر کر سڑک پر سے دو پہیے ہٹا دیئے اور اُنگلی کے اشارے ہمارے ڈرائیوروں کو فوراً نکل جانے کو کہا.لبس پھر کیا تھا اشارہ ملتے ہی ہماری انگلی لاری ہوا سے باتیں کرنے لگی.لاری کو روانہ ہوتے دیکھ کر میرا دل بیٹھ گیا کیونکہ میرے سامنے ہماری لاری کا پٹرول گر کر ضائع ہو چکا تھا.اور بغیر پیٹرول کے لاری چل کس طرح سکتی تھی.اور پھر میرے لئے یہ اور بھی قابل افسوس امر تھا کہ ہماری وجہ سے باقی تمام پچھلی لاریاں رکی رہیں گی لیکن اللہ کی شان نرالی ہے.سچ ہے جس کو اللہ رکھے اس کو کون چکھے.آپ میری حیرت کا اندازہ نہیں لگا سکتے جب میں نے دیکھا کہ ہماری
۱۲۵ لاری بھی آنِ واحد میں ہوا میں اُڑنے لگی.مجھے اس کا قطعاً علم نہ تھا کہ بعض لاریوں میں دو پٹرول ٹینکیاں ہوا کرتی ہیں.ایک ظاہر اور دوسری پوشیدہ.اس علم کا انکشاف بعد میں ہوا جبکہ میں ہسپتال میں تھا.ابھی تک میرے زخم سے خون کی دھاریں اُبھر رہی تھیں.زیادہ خون نکلنے کی وجہ سے میں سخت نڈھال اور کمزور ہو چکا تھا.فرنٹ سیٹ کی چھت پر میں نے اپنا سر رکھا اور پھر اس کے بعد ایسی غشی طاری ہوئی کہ واگہ پہنچ کر میری آنکھ کھلی.جب آنکھ کھلی تو میں نے اپنے آپ کو مکرم مرزا محمد صادق صاحب جو اس وقت مکرم میاں بشیر احمد صاحب کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھے ہوئے تھے کی پیٹھ پر اٹھائے ہوئے دیکھا.میں نے مرزا صاحب سے پوچھا کہ آپ کیا کرنے لگے ہیں ؟ فرمانے لگے تمہارے لئے ایمبولنس کار آئی ہوئی ہے تمہیں میو ہسپتال لے جا رہا ہوں.اس جگہ تشکر کے طور پر یہ عرض کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس موقع پر مرزا صاحب نے جو میری خدمت کی ہے وہ تا قیامت بھلائی نہیں جا سکتی.جزاھم اللہ احسن الجزاء.انہوں نے نہایت احتیا اور آرام کے ساتھ مجھے ایمبولنس کار میں لٹا دیا.اس وقت زخم شدہ پاؤں میں مجھے شدید درد محسوس ہونے لگی.میں نے مرزا صاحب سے عرض کی کہ وہ میرے پاؤں سے بوٹ اُتار دیں لیکن پاؤں سوجنے کی وجہ سے ٹوٹ نہیں اتر رہا تھا.پھر میں نے جیب سے چاقو نکال کر ان کو دیا اور کہا کہ بوٹ کاٹ کر نکال دیں.انہوں نے فوراً ہی ٹوٹ کاٹ کر نکال دیئے اور اس طرح مجھے کافی حد تک تسکین ہوئی.تھوڑی دیر کے بعد ایک سکھ ڈاکٹر آئے.اُن کے ہاتھ میں کچھ مرہم پٹی تھی.میرے زخم کو جھک کر دیکھنے لگے میں نے ان سے پوچھا.آپ کیا کرنے لگتے ہیں ؟ کہنے لگے مرہم پٹی کرنے لگا ہوں میں نے کہا.اس کی کوئی ضرورت نہیں.آپ پچھلے جائیں اور میرے زخم کو ہاتھ نہ لگائیں کہنے لگے.خان صاحب خون کافی بہر رہا ہے اور اس حالت میں آپ کا ہسپتال پہنچتا ناممکن ہے.میں نے کہا.پروا نہیں.وہ کوئی رحمدل ڈاکٹر معلوم دیتے تھے اس لئے انہوں نے مرزا صاحب کو کہا.آپ اپنے ہاتھوں سے اس کی مرہم پٹی کریں کیونکہ اگر خون
۱۲۶ بند نہ ہوا تو یہ راستہ میں ہی ختم ہو جائے گا.میں نے پھر بھی انکار کیا.اس کے بعد ڈاکٹر صاحب چلے گئے اور ہماری کار میوہسپتال کی طرف روانہ ہو گئی.راستہ میں کار کے ہچکولوں کی وجہ سے مجھے کبھی کبھی نا قابل برداشت درد ہوتی تھی.معلوم نہیں رات کتنے بجے ہم میوہسپتال پہنچے.ڈاکٹر صاحب نورا زخم کو دیکھنے کے لئے آئے.زخم دیکھ کر فرمانے لگے اس میں کچھ تو گولی کے ذرات رہ گئے ہیں اور کچھ زہر کھیل چکا ہے اس لئے اس وقت پٹی نہیں کی جائے گی.البتہ کل صبح کو اس کا اپریشن ہو گا.اس کے بعد پھر مجھے معلوم نہ ہوا کہ کس طرح اور کب مجھے سرجیکل وارڈ میں لایا گیا.جب آنکھ کھلی تو میں نے مکرم ڈاکٹر غلام مصطفے صاحب کو اپنے سرہانے کھڑے دیکھا اور ان کے پاس چند رنگ آرڈر لی سٹر پھر پکڑے ہوئے کھڑے تھے.میں نے بھان لیا کہ اب مجھے اپریشن کے لئے لے بجا رہے ہیں.میں نے ڈاکٹر صاحب سے نہایت انکساری سے عرض کی کہ خدا کے لئے میری ٹانگ نہ کٹوائیں.اگر آپ سمجھتے ہیں کہ بغیر ٹانگ کٹنے کے میرا بچنا محال ہے تو بیشک مجھے مرنے دیجئے لیکن ٹانگ نہ کٹوائیں.بھلا ڈاکٹروں پر بھی کسی مریض کی لجاجت اثر انداز ہو سکتی ہے.وہ تو ڈیوٹی کے بندے ہیں خواہ کسی کی ٹانگ کٹے یا بازو ان کی بلا ہے.جب ڈاکٹر صاحب نے میری یہ دردمندانہ گذارش شنی تو مسکرا کر فرمانے لگے گھبراؤ نہیں اللہ تعالے خیر کرے گا.اس کے بعد مجھ پر ایسی غشی طاری ہوئی کہ مجھے قطعاً معلوم نہ ہو سکا کہ کب میرا اپریشن ہوا.اور کس وقت مجھے چار پائی پر واپس لایا گیا.جب مجھے قدرے ہوش آئی اور میں نے آنکھ کھولی تو اپنے ارد گرد چند ڈاکٹر ، چند نرس اور بعض اپنے عزیز رشتہ داروں کو کھڑے ہوئے دیکھا.ان میں اپنے خسر محترم مولوی عطا محمد صاحب کو بھی دیکھا.میں نے اُن سے دریافت کیا کہ کیا میرا اپریشن ہو چکا ہے.فرمانے لگے لگے جی ہاں ہو چکا ہے.پھر میں نے پوچھا کیا میری ٹانگ تو نہیں کاٹی گئی.انہوں نے فرمایا.اللہ تعالیٰ نے تمہاری خواہش اپنے خاص فضل سے پوری کر دی.ورنہ ٹانگ کاٹنے کے لئے سارے اوزار یعنی آرین دیگر ضروری سامان تیار رکھے ہوئے تھے.اس سے مجھے کافی اطمینان ہوا.اور اپنے دل میں مولا کریم کا سجدہ شکر بجا لایا.پھر انہوں نے له به مهمانی مسیح موعود برا در ماسٹر ۱۰ احمد صاحب ي جدا وناقل ) -
۱۲۷ سارا واقعہ سنایا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر میری ٹانگ کو کٹنے سے بچایا.انہوں نے بتایا کہ ران کی ہڈی کا معائنہ کرنے کے لئے تمہارے زخم کو کافی گہرائی تک چیرا دیا گیا.اگر بڑی کو گولی سے گزند پہنچا ہوتا تو پھر ٹانگ ضرور کاٹ دی بھاتی.لیکن جب اکٹروں نے دیکھا کہ بڑی بالکل محفوظ ہے اور گولی ہڈی کے آس پاس گوشت میں ہی گھوم کر نیکل گئی تو ششدر رہ گئے کیونکہ ان کے تجربہ میں کبھی ایسا مجہ یہ کہیں نہیں آیا کہ گولی بڑی کے سیدھ میں داخل ہونے کے باوجود ہڈی کو نقصان نہ پہنچائے.میں سمجھتا ہوں کہ یہ محض حضرت خلیفہ ایسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی دعاؤں کی برکت تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اس ناچیز اور حقیر بندے کو موت کے منہ سے نکال کر دوبارہ زندگی عطا فرمائی.اب قافلہ کا حال سنئے.جب ہمارا قافلہ پہلے ظالموں سے نکھ بچا کے واہگہ پہنچا تو یہاں تین ہزار غیر مسلم فوجیوں نے قافلہ کا استقبال بھری ہوئی رائفلوں سے کیا قریب تھا کہ ہمارا قافلہ ان خونخواروں کی گولیوں سے چھلنی ہو جاتا لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسا تصرف فرمایا کہ عین اس وقت جبکہ وہ فائرنگ کے حکم کے منتظر تھے اللہ تعالیٰ نے بلوچ رجمنٹ کو فرشتہ رحمت بنا کہ وہاں پہنچا دیا.لیں اس رجمنٹ کا پہنچنا تھا کہ ان لوگوں کے وحشیانہ ارادے خاک میں میں گئے اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے ہمارے قافلہ کو بال بال بچایا “ لے اہل وقتے قادیان کا مجاہدانہ عزم مسیح محدی کی خدا نما یستی اسلام اور محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ سل کے لاکھوں نشانوں کی تجلی گاہ تھی اور اسے اغیار کے حوالہ کر دینا اور بے مثال مخلص جذبات اسلام و احمدیت سے غداری اور ایمانی نخود کشی کے مترادف تھا جس کا تصور کوئی کمزور سے کمزور ایمان رکھنے والا احمدی بھی نہ کر سکتا تھا کجا یہ کہ اہلِ وفائے قادیان سے اس کی توقع کی جاسکتی.ملت کے یہ فدائی اور شیدائی تو اس بارہ میں اس درجہ حساس واقع ہوئے تھے اور ان کے جذبات اخلاص و محبت کا تو یہ عالم تھا کہ وہ اس مجاہدانہ عزم کے ساتھ مرکزہ احمدیت میں دھونی رمائے بیٹھے ہوئے تھے کہ وہ اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دیں گے مگر قادیان میں اسلام له " الفرقان" ربوہ ستمبر ۱۹۹۴مه صفحه ۲۵-۰۲۶
۱۲۸ کا جھنڈا سرنگوں نہیں ہونے دیں گے.اس حقیقت کا جائزہ لینے کے لئے ان ایمان افروز خطوط و مکاتیب کا مطالعہ کرنا کافی ہے جو اس زمانہ میں جوانان احمدیت نے سر زمین قادیان سے اپنے پیارے آقا سید نا أصلح الموعود یا اپنے دوسرے بندگوں یا عزیزوں کے نام لکھے.ان میں سے بعض کے ضروری حصے ذیل میں نقل کئے جاتے ہیں :- ا.ایک مخلص احمدی جوان نے سید نا حضرت امیرالمومنین خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود کی خدمت میں حسب ذیل مکتوب لکھا :- "قسم ہے اس خدا کی جس نے قادیان کو اشاعت اسلام کا مرکزہ بنایا ہے.ہماری وہ رات جو پہرہ پر گزرتی ہے اس دن سے زیادہ پر سکون ہوتی ہے جو گھر میں گذرتا ہے.ہمارے دل میں یہ خواہش ہوتی ہے کہ رات نبی ہو جائے اور دن کم ہو جائے.رات کو ہم پہرہ دار خدا کے وعدوں کا ذکر کر کے اور موجودہ نشانات کو یاد کر کے اپنے دلوں کو نہایت مضبوط اور طاقتور بنا لیتے ہیں...حضور ہماری استقامت کے لئے دعا فرمائیں “ لے ۲- ایک اور احمدی جوان نے اپنے والد کی تصدمت میں لکھا :- " اب تک مجھے چار مواقع پیش آچکے ہیں جن سے محض دست قدرت نے مجھے بچا لیا.مگر بفضل خدا چاروں مواقع پر خون و سر اس میرے پاس تک نہیں پھٹکے بلکہ جوں جوں خطرہ بڑھتا جاتا توں توں میرا دل اور مضبوط ہوتا جاتا.فالحمد للہ علی ذالک.الغرض جب میں اللہ تعالیٰ کے انعامات کا خیال کرتا ہوں تو میں کہہ سکتا ہوں کہ میں خوش بخرم ہوں.البتہ جب کبھی ان مقامات مقدسہ اور دیار حبیب کے فراق کا خیال کرتا ہوں تو دل سے ایک آہ نکل جاتی ہے اور کہتا ہوں کہ میں اس مقدس بستی ہی کی حفاظت کرتے ہوئے اس امانت کو جو خدا تعالیٰ نے مجھے ودیعت کر رکھی ہے اس کے حضور پیش کر دوں.تا اس منحوس گھڑی کو جو بظاہر قریب سے قریب تر ہوتی نظر آ رہی ہے نہ دیکھوں“ دعاؤں کی ضرورت ہے کہ اللہ کریم مجھے استقلال بخشے.علوم ظاہری و باطنی اور نور ایمان سے منور کر کے خاتمہ بالخیر کرے.آمین! میرا جینا اور میرا مرنا خدا ہی کے لئے ہو اور اس کی ۱۳۲۶ ش : الفضل " ۲۷ تبوک /ستمبر م :
۱۳۹ رضا بوئی میرا منتہائے مقصود میرا آقا مجھ سے راضی ہو اور میں اس سے.آمین " آپ کی طرف خط لکھنے سے پہلے حضرت صاحب کی طرفت خط لکھ کے فارغ ہوا ہوں.کہ خواہ قرعہ میرے نام نکلے بھی، میں قادیان ہی میں رہنا چاہتا ہوں.سچ تو یہ ہے کہ جان وہی ہے جو اسلام اور احمدیت کے کام آئے.یوں تو موت ہر کسی کے لئے مقدر ہے کوئی فرد بشر نہیں جو اس سے بچ سکا ہو تو اس سے ڈرنے کے کیا معینی.یہ گھڑی آج نہیں تو کل ضرور آکر رہے گی.پھر کیوں نہ اس بھان کو دین کی راہ میں نچھاور کریں.ارا کتوبه 11 بجے شب" ۳- رشید احمد صاحب سیالکوٹی نے ایک خط اپنی والدہ صاحبہ کے نام بھیجا جس میں لکھا :- " جب آپ قادیان سے روانہ ہو رہی تھیں تو آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے مگر میں نے آپ سے یہ کہا تھا کہ اگر آپ ہم کو دیکھ کر دور ہے ہیں تو میں آپ سے نہیں بولوں گا.....ہمیں اب آپ سے زیادہ محبت اسلام اور احمدیت سے ہے.آپ کا بیشک ہم پر بہت بڑا احسان ہے جو کہ زندگی بھر ہم نہیں بھلا سکتے اور ہم انشاء اللہ نہیں بھلائیں گے مگر آپ ذرہ بھر کے لئے سوچیں تو سہی کہ اگر ہم پیدا ہی نہ ہوتے تو پھر اب ہم جبکہ پیدا ہو گئے ہوئے ہیں اور اب ہم جوان ہیں اور خدا تعالٰی نے احمدیت کی خاطر صحیح معنوں میں قرانی مانگی ہے ہمیں بہت خوشی ہے" اسلام اور احمدیت کا مرکز قادیان اس وقت خطرہ میں ہے اور وہ ہم سے چاہتا ہے کہ ہم اس کی حفاظت کریں.گو حفاظت مفدا تعالیٰ نے کرنی ہے ہم نے تو لہو لگا کر شہیدوں میں داخل ہوتا ہے.میں میں آپ کو مطلع کر دینا چاہتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں فساد نامی عورت نے اپنے تینوں بیٹوں سے کہا کہ جاؤ بیٹا اسلام کی خاطر تم لڑو.یا تو تم لڑائی میں مارے جانا اور یا غازی ہو کر واپس لوٹنا.اسی طرح وہاں تو عورت نے اپنے بیٹوں سے کہا تھا.میں تیرا بیٹا ماں سے کہتا ہوں کہ میں قادیان میں ہی رہوں گا اور تم کو اس وقت تک نہیں ملوں گا جب تک یا تو قادیان کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہو جاؤں یا قادیان کو له " الفضل " ۲۴ اتحاور اکتوبر مش صفحه ۲
۱۳۰..واپس لے لوں اور یا حضور کے حکم سے مجھے بلا لیا جائے:....آپ خدا تعالیٰ سے میرے لئے ایسے ہی دعا کریں جیسا کہ ہمارا پیارا امام المصلح الموعود اس وقت اپنی اولاد کے لئے کر رہا ہے.یعنی اگر ہمارے مقدر میں ہماری زندگی ہے تو اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت کرے اور اسلام اور احمدیت پر استقامت بخشے اور اگر شہادت ہی ہے تو خدا تعالٰی ہمیں صحیح معنوں میں احمدیت اور اسلام پر شہادت دے سلہ " ایک اور مخلص نوجوان نے اپنی والدہ کے نام لکھا :- ” اس وقت قادیان میں کوئی عورت اور بچہ نہیں ہے.جو لوگ یہاں ہیں ان کی فہرستیں بنائی جارہی ہیں.یعنی جو جانا چاہتا ہے ان کی الگ فہرست اور جو آخری دم تک یہاں رہنا چاہتا ہے ان کی الگ فہرست خاکسار نے دوسری فہرست میں نام لکھوایا ہے اس لئے میری آپ سے اور تمام بہنوں اور ماں صاحبہ اور چچا اور بچی صاحبہ اور تمام رشتہ داروں سے ملیران درخواست ہے کہ آپ ہمارے لئے درد دل سے تمام نمازوں میں دعائیں کرتے رہا کریں لیکن بیہ بات ضرور یاد رکھیں کہ آپ ہمارے متعلق کسی قسم کا کوئی فکر نہ کریں اور جس طرح نبی کریم صلے نے علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں صحابیہ اور ان کی عورتوں نے نمونہ دکھایا تھا آج وہی وقت آپ کے لئے بھی آ گیا ہے اور ہمارے متعلق آپ اس طرح خیال کریں کہ گویا ہم خدا تعالے کی امانت تمہارے پاس تھے اور یہ الفاظ آپ کے منہ سے نکلنے چاہئیں کہ اسے خدا میں نے اتنا عرصہ ان کو پالا تھا اور اب تیرے دین کی خاطر ان کی ضرورت پڑی ہے میں ان کو محض تیری رضا کی خاطر تیرے سپرد کرتی ہوں.اب اسے خدا اگر تو چاہتا ہو کہیں تیرے پاس آئیں تو تو ان کو بلالے یا وں وقت تو چاہے ان کو بلا سکتا ہے میں ہر حالت تیری رضا پر راضی رہوں گی " سے ۵ ایک احمدی بیٹے نے اپنے والد بزرگوار کی خدمت میں لکھا کہ اللہ تعالے جانتا ہے کہ دشمن کی طرف سے ان مصیبتوں کا اور دشمن کے ان مظالم کا جو اس وقت وہ ہم پر کر رہے ہیں اور جو منصوبے اور تدبیریں وہ ہمارے تباہ و برباد کرنے کے لئے کر رہے ہیں ہمارے دلوں میں ذرہ بر بھی فکر یا خوف نہیں اور ہمارے ایمان خدا تعالیٰ کے فضل " الفضل " نبوت / نومبر میش صفحه ۳ : "الفضل " نبوت / نومبر پیش صفر ۳ + !
۱۳۱ سے مضبوط تر ہوتے چلے بھاتے ہیں کیونکہ ہم اللہ تعالیٰ کے لئے ہی پیدا ہوئے ہیں اور اسی کی طرف پھر کر بھانا ہے اور اسی کے لئے ہم نے اس سچے اور مقدس نور کو قبول کیا تھا جو کہ اپنے پیارے آقا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعے ہم کو عطا ہوا.اس کے علاوہ ہم نے ایسے ظاہر کیا نشان اور ایسے معجزے اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں بلکہ روز دیکھتے رہتے ہیں کہ دشمنوں کے منصوبوں اور ان کی مکارانہ چالوں اور ان کی غیر منصفانہ کاروائیوں سے اور ان کے ظلموں سے چاہے یہ ناخنوں تک زور لگا لیں.انشاء اللہ تعالے رائی کے دانہ کے برابر بھی ہمارے ایمان میں فرق نہیں آسکتا.یہانتک کہ اگر یہ لوگ ہم سب کو باری باری شہید کر دیں پھر بھی جو آخری احمدی رہ جائے گا اس کے دل میں بھی یہ خیال پیدا نہ ہو گا کہ اب میں اکیلا رہ گیا ہوں اب میں کیسے مقابلہ کر سکتا ہوں.جیسے خطرہ زیادہ ہوتا پھلا جائے گا ہمارے ایمان اللہ تعالیٰ کے فضل سے چٹان کی طرح مضبوط ہوتے چلے جائیں گے اور سب سے آخری آدمی کے دل میں بھی اتنا ہی ایمان اور جوش ہو گا کہ جتنا سب سے پہلے شہید ہونے والے کے دل میں ہوگا اور آخری دم تک لڑتے ہوئے خوشی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے راستے میں مرنا قبول کرے گا.یہ تازہ روح اور یہ تازہ ایمان اور یہ نئی زندگی ہم کو ہمارے پیارے آقا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی برکت سے ہی حاصل ہوئی ہے" آج پورے مشرقی پنجاب کے اندر بلکہ پورے ہندوستان کے اندر شاید ہی ایسی جگہ نظر آئے جہاں کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کا جھنڈا بلند ہو.اگر کوئی جگہ ایسی ہے تو صرف ایک ہی ہے اور وہ وہ بستی ہے جہاں پر خدا کے بندے ہمارے پیارے آقا حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا کا نام لے کر کھڑے ہوئے تھے.اور انہوں نے محمد رسول اللہ کے سچے دین اسلام کو اصل رنگ میں دنیا کے سامنے پیش کیا تھا اور یقیناً اس بستی کا نام قادیان دارد الامان ہے.اس میں شک نہیں کہ وہ بستی واقعی دارالامان بھی ہے کیونکہ آزمائش اور ابتلاء کے دن
۱۳۲ تو ہمیشہ ہمیش مخدا کے نیک بندوں پر آیا ہی کرتے ہیں لیکن اگر یہ بستنی دارالامان نہ ہوتی تو یقیناً آج اس زیر دست زلزلہ کے وقت ہم قادیان کے اندر موجود نہ ہوتے اس وقت قادیان کی آبادی تین مقدس جگہوں پرمشتمل ہے.اول مسجد اقصی ، دوم مسجد مبارک سوم بہشتی مقبرہ یہ وہ مقدس مقامات ہیں جن کے لئے ہر احمدی اپنا نون خوشی سے بہانے کے لئے تیار ہے." اس لئے ہمارے عزیزوں اور بزرگوں کو چاہیے کہ ہمارے متعلق بالکل کسی قسم کا فکر نہ کریں اور دعاؤں پر زور دیں.ہاں کبھی کبھی اگر ہو سکے تو خیر یت کا پیغام ارسال فرما دیا کریں تاکہ ہم کو آپ کی نسبت بھی یہ معلوم ہوتا رہے کہ آپ بھی مرکز کی حفاظت کے لئے اپنے دل میں کچھ تڑپ رکھتے ہیں اور آپ کی تحریروں سے مہارا ایمان تازہ ہو اور خدمت دین کے لئے سچا جوش پیدا ہوے بیرون قادیان کے احمدیوں کی جہاں شعائر اللہ کی حفاظت کا فریضہ بجالانے والے احمدی اپنی بھان کی بازی تک لگائے بیٹھے تھے وہاں ان کے اقرباء مرکز احمدیت سے بے پناہ مقیم کے دل میں خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بوڑھے ہوں یا جوان، مرکز احمدیت کے لئے بے پناہ عقیدت موجزن تھی اور وہ اپنی بے شمار مشکلات کے باوجود نہ صرف اپنے عزیزوں کا قادیان میں رہنا ان کے لئے باعث برکت و سعادت اور اپنے لئے موجب صد افتحی سمجھتے تھے بلکہ اس نازک موقعہ پر قادیان کی پیاری بستی سے اپنی دُوری و مہجوری کا غم انہیں کھائے جا رہا تھا.اُن کے بس میں ہوتا تو وہ اُڑ کر دیا جبیب میں پہنچتے اور اپنے جسم کا ذرہ ذرہ اس کی گلیوں پر قربان کر دیتے.مجاہدین قادیان کے اعزہ و اقارہ کے ان دلی جذبات کی عکاسی ان خطوط سے بھی ہوتی ہے جو انہوں نے قادیان لکھے اور جن میں سے بعض کے اقتباسات بطور نمونہ درج ذیل کئے بجاتے ہیں.محترم ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم رسابق امیر المجاهدین ملکانہ) کراچی نے اپنے بیٹے محروم یونس احمد ما سلیم کو حسب ذیل خط لکھا :- الفضل" ۱۶ نبوت / نومبر ۳۲ بیش صفحه ۳ :
تمہارا ایک خط مجھے ۲۴ ستمبر کو ملا تھا وہ بھی استمبر کو لکھا ہوا تھا.اب جبکہ قادیان پر حملے شروع ہیں کوئی خیریت نامہ تمہارا نہیں ملا.میں اور تمہاری والدہ اللہ تعالے کی رضا پر راضی ہیں.تمہارے لئے میرا یہی کہنا ہے بُزدلی نہ دکھانا.موت صرف ایک دفعہ آئے گی.اگر ابھی تمہارا وقت نہیں آیا تو کوئی طاقت تمہاری زندگی کو ختم نہیں کر سکتی اور اگر شہادت کی نعمت تمہاری قسمت میں ہے تو یہ اللہ تعالٰی کا تم پر بڑا فضل ہوگا اور ساتھ ہی میری گردن بھی اُونچی ہوگی.دنیا چند روزہ ہے.ایسے نازک وقت اگر یہ خط تم کو مل جائے تو ہم سب کے لئے دُعا کرنا اور میرے گناہوں کی معافی خدا تعالیٰ سے مانگنا.ہم سب تمہارے لئے دُعا کرتے ہیں.زیادہ کیا لکھوں.تمہارا حافظ و ناصر خدا تعالئے ہی ہے.اسی پہ کامل یقین رکھو اور قادیان کی حفاظت کو مدنظر فقط" ۲- کریم سلطان عالم صاحب احمدی گوٹیالہ ضلع گجرات نے اپنے لخت جگر مکرم بشارت احمد صاحب کو کھا :- ایک کارڈ دو لفافے آپ کے پہنچے جن سے ہم ایک کے حالات سے آگا ہی ہو چکی ہے.دل ہر طرح سے مطمئن ہے.ملول گیا ہے خوشی ہے کہ اگر میں بذاتہ اس خدمت کے بجالانے کے قابل نہیں ہوں تو سندا نے آپ کو توفیق دی ہے “ د مه ۲۸ توک استمبر ش) سید محمد ہاشم صاحب بخاری کا ایک خط اپنے ایک عزیز کے نام :-." آج صبح خاندان کے تمام افراد سوائے عزیز عبد الباسط کے بخیریت پہنچے.الحمد للہ عزیزہ کو نہ پا کر کوفت ہوئی مگر اس خیال سے کہ عزیز خدمت کے زرین موقعہ پر دار الامان رہا ہے دل سکون پاتا رہا ہے.اللہ تعالے اپنا فضل فرمائے اور ہر شہر کو دُور فرما دے.دشمنوں کے ہاتھوں کو روک دے جیسا کہ مسیح پاک کے الہامات سے واضح ہوتا ہے کہ خدا کا وعدہ ہے.اے کاش کا یہ وعدہ ہمارے سامنے پورا ہوتا اور ہم بھی اس خوشی کو دیکھ سکتے.تقدیر کے نوشتے ضرور پورے ہوں گے.اور یہ اس کی تقدیر ہے لے سابق مبلغ مغربی افریقہ : کے نائب معتمد خدام الاحمدیہ مرکزیہ اور سید محمد ہاشم صاحب بھکاری کے داداد :
۱۳ کہ احدیت پھیلے پھلے اور پھولے اور مرکز بھی محفوظ رہے.بہت مبارک ہو کہ مرکز میں خدا کے مقدسین کے سائے میں اور ان کی معیت میں موجود ہو.ہمارا فکر ینہ کرنا ، ہماری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں اور اب اس امر کے سوا ہمارے پاس اور کوئی ذریعہ عزیزہ کے ساتھ تعلق کا باقی نہیں ہے.شعائر اللہ کی بے حرمتی کا تصور کرتے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور ان رو دادوں کے پڑھنے سے جو اخبارا میں دارالامان کے متعلق بھلی عنوانات سے آرہی ہیں ول ہو تا ہے مگر چارہ کار کیا ؟ میری آنکھوں میں پھر تکلیف ہو گئی ہے مگر یہ محض قادیان کے فکر میں آنسو بہا کر.کیا ہماری بعد گوردوارے بن جائیں گی ، کیا قادیان کی پورانی گیرد وارہ بنی ہوئی مسجد ہی ہمارے لئے کافی نہ تھی کہ اب اور نیا ظلم ہوگا.قادیان سے مستورات کس طرح نکلیں گی اور بچے اور بوڑھے کیا کریں گے پیہ خیالات ہیں جو ہر وقت مستولی رہتے ہیں اور کوئی بات تصور میں آتی ہی نہیں.ہمیں اپنے مال و اسباب سے محروم ہونے کا غم نہیں.جان دینا بھی مشکل نہیں مگر مرکز کی اہانت ناقابل برداشت ہے.مقبرہ بہشتی کے دشمنوں کی جولانگاہ بن جانا ایک ایسا ہولناک تصویر ہے جس کے لئے الفاظ نہیں مل سکتے کہ بیان کرسکوں بہر حال ہم سب دعا کر رہے ہیں.(۱۳ خار / اکتوبر ۱۳۳۶ ش) $1402 ۴.مولوی محمد عثمان صاحب آن ڈیرہ غازیخان نے فضل علی صاحب ، عبد الغنی صاحب اور ہدایت اللہ صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا :- آپ مومنانہ شان کے ساتھ ہمت اور استقلال سے مرکز کی حفاظت کرتے رہیں.ہماری دعا ہے کہ آپ خیریت سے انہیں اور خدا تعالے آپ کو دشمن کے ہر شر سے محفوظ رکھے آمین و هم را خاهر التوبه ۳۳۶ هر میش) ۵- محترم مولوی عبدالکریم صاحب شرکا واقف زندگی نے اپنے والد ماجد جناب عبد الرحیم صاحب شرکا نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے.آخری عمر میں جماعت احمدیہ ضلع ڈیرہ غازیخاں کی امارت کے فرائض بھی بجا لاتے رہے ؟ کے سابق مبلغ مشرقی افریقہ :
اور عبدالرشید صاحب شر ما و عبدالحفیظ صاحب شر ما د قادیان میں مقیم بھائیوں) کو حسب ذیل عریضیہ لکھا.قادیان کے بارہ میں جو خبریں آرہی ہیں اُن سے دل پھٹا جا رہا ہے.وہ پیاری لیستی جو ہمیں دنیا کی سب چیزوں سے زیادہ عزیز ہے اس پر دشمن قابض ہو گیا ہے.آپ لوگ بہت ہی خوش قسمت ہیں کہ آپ کو اپنے پیارے امام کی ہدایت کے مطابق قادیان کی خدمت کا موقع ملا ہوتا ہے.قادیان کی حالت ایسی ہے کہ وہاں رہنے کا بظاہر انجام ظاہر ہے.مگر انسان کی زندگی کے چند دن ہیں.ایک نہ ایک دن مرنا ضرور ہے.وہ موت کیا ہے! مبارک موت ہے جو شہادت کی موت ہو.سنا جانتا ہے کہ میرا دل بھی چاہتا ہے کہ ایسے موقع پر آپ لوگوں کے ساتھ ہی مروی مر مجبور ہوں آ نہیں سکتا.ہم آپ لوگوں کے لئے دعا کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کا حافظ و ناصر ہو.اگر خدا تعالیٰ کو ہم سے کسی کی شہادت ہی منظور ہو تو چاہیے کہ ہم میں سے کوئی کمزوری نہ دکھائے اور اس امتحان کے موقع پر اپنے خاندان کی لاج رکھ لے" اہلیہ صاحبہ محترم حسن محمد خال عارف وکیل التجارت کا مراسلہ اپنے شوہر کے نام :- خدا کرے آپ لوگ جلد قادیان کو فتح کر لیں.خدا آپ کا اور سب کا حامی و مددگار ہو.اس کا فضل آپ سب کے شامل حال رہے.اور آپ ایسی خدمت دین بجا لائیں کہ خدا آپ سے خوش ہو جائے اور زیادہ سے زیادہ اپنی رحمتیں اور برکتیں آپ لوگوں پر نازل فرمائے “ و اخاه اکتوبر میش) محترمہ امت اللطیف بیگم صاحبہ (لاہور) نے اپنے خاوند محترم ڈاکٹر محمد احمد صاحب کو ایک خط میں لکھا.اب میری بھی یہی نصیحت ہے اور اماں جی کی بھی یہی نصیحت ہے کہ وہاں پر خدا کے بھروس پر بیٹھے رہیں.اللہ تعالئے وہاں پر ہی حفاظت کرے گا اور ایمان رکھنے والوں کو ضائع نہیں کرے گے آپ اجازت لینے کی بھی کوشش نہ کریں " " ہم سب کو سندا کے حوالے کر دیں وہی سب کا پیدا کرنے والا ہے.جب اس نے پیدا کیا ہے تو وہی حفاظت بھی کرے گا اور کھانے کو بھی دے گا.اگر اس نے زندہ رکھنا ہے تو ہر طرح سله حال نائب وکیل التقشير تحریک جدید ربوه :
١٣٩ رکھے گا اور مدد کرے گا.اور اگر موت مقدر ہے تو اس سے کہیں بھی مفر نہیں بچا ہے سات پردوں میں چھپ جائیں.میری طرف سے آپ اطمینان رکھیں.میں اتنی بزدل نہیں ہوں.میرا ایمان اللہ تعالیٰ پر مضبوط ہے.اگر اس کی طرف سے ابتلاء آنا ہے تو ہر طرح آنا ہے.بس یہی دُعا ہے کہ وہ ہر طرح ثابت قدم رکھے اور ہمارا ایمان کسی طرح متزلزل نہ ہو جائے“ " قادیان پر حملے کی خبر سن کر دل سخت پریشان ہو گیا ہے.آج الفضل میں حضرت صاحب کا ایک مضمون چھپا جس میں حملہ کی تفاصیل موجود تھیں جس سے ۲۰۰ مسلمانوں کی شہادت کا علم ہوا.نہ معلوم بیچارے کون کون سے تھے.اللہ تعالے ان کی شہادت کو قبول فرمائے.اور اُن کا خون اسلام کے پودے کو اس طرح پہنچے کہ یہ کبھی بھی نہ مرجھائے اور ابد الآباد تک ہرا بھرا اور لہلہاتا اور پھلتا پھولتا نظر آئے.آمین یا رب العالمین.یا اللہ ! تو ان شہد او کا صدقہ قادیان پر رحم کر اور اس کے رہنے والوں کو اپنی حفاظت میں لے لے اور اس کے مقدس مقامات کی حفاظت کے لئے اپنے فرشتے بھیج دے جو کافروں کو نیست و نابود کر کے رکھ دیں.آمین در انتها دار اکتوبر میش) ۶۱۹۴۷ خواجہ عبد الحمید صاحب ضیاء نے اپنے چھوٹے بھائی خواجہ عبداللطیف صاحب آف ڈیرہ دون کو لکھا: " آپ دونوں بھائیوں نے جس قربانی سے کام لیا ہے وہ سن کر ہم اپنے دل کی خوشی بیان نہیں کر سکتے ہماری گردنیں فخر سے اُونچی ہوتی ہیں اور ہم نے اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ اس نے اگر ہمیں نہیں تو ہمارے بھائیوں کو احمدیت کی تاریخی مہم میں نمایاں حصہ لینے کی توفیق عطا فرمائی.الحمد للہ میں دونوں بھائیوں کو مبارکباد کہتا ہوں.خدا تعالے تمہاری قربانیوں اور کوششوں کو ضائع نہیں فرمائے گا اور وہ نہ صرف تمہیں ہی بلکہ تمہاری قربانیوں کی خاطر جماعت کے لاکھوں انسانوں کی عزت کو قائم فرمائے گا آپ لوگوں کی قربانیاں بڑی ہیں لیکن اب آپ ہر گز تمام کئے کرائے پر پانی نہ پھیریں.اور بغیر حضور کی یا کارکنوں کی اجازت کے قادیان سے نہ آئیں.ایک ذرا سی غلطی تمام نیک اعمل
کو خراب کر دیتی ہے.اس لئے حضور کے منشاء کے خلاف خود بھی آنے کی کوشش نہ کریں اور جو آنے کی کوشش کریں اُن کو روکیں اور حضور کی ناراضگی سے بچانے کی کوشش کریں.اس میں کامیابی ہے اور حضور کے منشاء کے مطابق عمل ہی میں نجات ہے.آپ لوگ بغدا تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے حضور کے منشاء کے مطابق عمل کریں اور ڈٹے رہیں.اس طرح خدا تعالیٰ کے خلیفہ کی برکات حاصل کریں.• اماں جی بہت بہت السلام علیکم کہتی ہیں اور تاکید کرتی ہیں کہ بغیر اجازت کے نہ آئیں.خدا تعالے حافظ ہے حضور کے فرمان کے مطابق عمل ہی میں برکت ہے.(۱۲ اعضاد) اکتوبر ) 1902 محمد لطیف صاحب این مستری نور محمد صاحب گنج مغلپورہ لاہور کو ان کی والدہ صاحبہ نے لکھا:.گر آج قادیان میں رہنا بہت بڑا مجاہدہ ہے تم نہایت استقلال اور جوانمردی سے حفاظت مرکز کی ڈیوٹی دیتے رہو اور اگر اس راہ میں بھان بھی دینی پڑے تو دریغ نہ کرو.یاد رکھو تم پر ہم تبھی خوش ہوں گے جبکہ تم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسّلام کی مقدس لیستی قادیان کی حفاظت میں قربانی کا وہ اگلی درجہ کا نمونہ دکھا ڈیجو ایک احمدی نوجوان کے شایان شان ہے.گھبراؤ نہیں خدا تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا.ہم آپ کے ماں باپ تمہارے لئے دعائیں کرتے ہیں.اللہ تعالے تمہیں استقامت بخشے نے مکرم محمد ابراہیم صاحب پولیس کنسٹیبیل متشکری (ساہیوال) کے دو خطوط حکیم عمرالدین صاحب آف موگر ساکن محلہ والا لشکر غربی قادیان کے نام :- (الف) " آپ کے صبر و استقلال کو اللہ تعالے اور بھی ترقی دیو ہے.واقعی میرے عزیزہ آپ نے وہ قربانی کی ہے جس کا میری زبان سے ذکر ہونا مشکل ہے.بعد میں آکر دوڑ ایسی لگائی کہ ہمیں کو یوں د ۱۹ را خاد/ اکتوبر میش) پیچھے چھوڑ گئے." 11986 (ب) " میرے جسم کا ہر ذرہ آپ پر خوش ہے.آپ کی ہمشیرہ صاحبہ نے آپ کے کام اور ارادوں اور خدمت دین کی باتیں کیں جس سے میرا دل بھر آیا اور نفل ادا کئے اور قادیان اور آپ کے " له الفضل " و در احاد/ اکتوبر ۱۳۳۶ ش صفحه ۴ 4
۱۳۸ لیئے اور مجاہدین کے لئے خوب تضرع سے دعائیں کیں.اللہ تعالے آپ سب کو خوش رکھے اور سلسلہ کی خدمت کی بیش از پیش توفیق عطا فرما دے“.یہ مکتوب مکریم با بو غلام رسول صاحب احمدی گڈز کلرک آن شیخو پورہ نے اپنے چھوٹے بھائی مولوی غلام احمد صاحب ارشد کو تحریر فرمایا :- " حضرت امیر المومنین کے حکم کے ماتحت آپ کا وہاں رہنا بہت مبارک اور باعث خوشی ہے اللہ تبارک آپ کے ساتھ ہو اور اس جہاد میں آپ کو کامیابی عطا فرما دے.آہیں.آپ اپنی خیریت سے اطلاع دیتے رہا کریں.داؤں میں یاد رکھیں.والسلام کسی چیز کی ضرورت ہو ( ۲۳ را خاد/ اکتوبر ره ش) تو لکھیں " ۱۲- تفضلی محمد خان صاحب شملوی نے اپنے لخت جگر حسن محمد خاں عارف واقف زندگی کے نام متعدد مکتوبات میں اپنے جذبات محبت و اخلاص کا اظہار کیا.چنانچہ لکھا :- " دن رات آپ کی اور سعید کی خیر مانگنے میں گزرتا ہے.سعید بہت پہرے دیتا تھا معلوم نہیں زندہ ہے یا کام آچکا.اللہ تعالیٰ آپ دونو کو اپنی حفاظت میں رکھے.قادیان کے عمل نے دنیا میں تہلکہ مچا دیا ہے“ قادیان کی سرآمیگی نے ساری جماعت کو نیم پاگل بنا دیا ہے اور حضرت اقدس خود آسمانی مدد اور تائید پر کامل بھروسہ رکھتے ہیں.کیا ہونے والا ہے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا....حضرت کی نمازوں میں ڈھا کا شور قیامت ہوتا ہے.حضرت دن رات مصلے پر رہتے ہیں.میرا ایمان ہے کہ ضرور فتح اور غلبہ ہو گا.کاش آپ فتحیاب لوگوں میں زندہ رہیں اسباب کے نہ پہنچنے کے سبب نہایت ہی پریشان کن تکلیف میں مبتلا ہیں.کوئی دری بستر یا کسی قسم کا بھی پہننے کا کپڑا نہیں.اتنے دنوں میں تیلیوں والا حال ہو گیا ہے.معلوم نہیں کیں طرح گزارہ ہوگا.ان سب باتوں کے باوجود آپ زیادہ پریشان نہ ہوں.اپنی حفاظت اور قادریان کی حفاظت کے لئے کوشش اور دُعا بھاری رکھیں" " (۲۳ را تضاد / اکتوبر ۱۳۳۶ ش) ۱۳ محترمہ آمنہ بیگم صاحبہ رتن باغ لاہور کی طرف سے اپنے خاوند محترم عبدالرحیم صاحب کو ذیل کا
مکتوب موصول ہوا :- زار استقلال اور ہمت سے اور جوانمردی کے ساتھ ڈٹے رہو اور اس کو فتح کرنا آپ کا فرض ہے.بہر حال جب تک حضور کا حکم نہ ہو آپ قادیان کو چھوڑ کہ یہاں بالکل نہ آئیں.مجھے قادیان کی یاد بہت ستاتی ہے اور یہاں دل اُداس رہتا ہے.بالکل دل نہیں لگا حضور کافی کمزور ہو چکے ہیں.واقعی قادیان کے غم میں ان کی کمر خمیدہ ہوچکی ہے.کاش حضور کے غم کو دور کر سکتے “ (۲۴ امضاء / اکتوبر ۱۳۳۲۶ ش) ۶۱۹۴۷ ۱- چوہدری حاجی اللہ بخش صاحب چندر کے سنگولے ضلع سیالکوٹ نے اپنے بیٹوں مکرم چوہدری محمد احمق صاحب سابق مبلغ بیین و مکرم بشیر احمد صاحب کے نام حسب ذیل مکتوب تحریر فرمایا.وو میرے پیارے لخت جگر محمد اسحق و بشیر احمد اللہ تعالیٰ ہر آن تم دونوں کا حافظ و ناصر ہو.آمین السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبر کاتہ مدت سے تمہارا کوئی خط نہیں ملا.آج ہم ۲۴ کو عزیز محمد عبد اللہ صاحب کیپٹن ٹرک لے کہ یہاں اپنی بیوی کو لینے آئے.ان سے دارالا علاق کے حالات معلوم ہوئے.انہوں نے بتایا کہ پولیس نے تلاشیاں لے کر پہلے اہل قادیان کو نہتہ کیا.اور پھر سکھوں نے حملہ کیا اور پولیس اور ملٹری نے ہمارے احمدیوں کا قتل عام کیا اور دو تشو سے اوپر احمدی شہید ہو کہ جنت میں جا پہنچے.سُنا ہے کہ حملہ دار الرحمت پر ہوا.اور تم دونوں بھی دارالرحمت میں تھے.اگر تم شہید ہو گئے ہو تو اپنی مراد کو پہنچ گئے ہو.اس صورت میں میں عثمان غنی کو بھی جلدی قادیان بھیج دوں گا.اگر تم زندہ ہو تو مجھے یقین ہے کہ تم نے کسی قربانی سے دریغ نہ کیا ہو گا.تم نے احمدی باپ سے پورش پائی ہے اور احمدی ماں کا دودھ پیا ہوا ہے.دارالامان سے پیارا ہمیں اور کچھ لہ چوہدری محمد اسحاق صاحب واقف زندگی کے چھوٹے بھائی جو چندر کے منگولے سے نہایت خطرناک حالات میں دوسرے ہیں احمدیوں کے ساتھ پیدل قادیان پہنچے (مرتب) سے میجر محمد عبد اللہ صاحب نہار مراد ہیں (مرتب) چوہدری محمد اسحاق صاحب کے تیسرے بھائی کا نام ہے جنہیں ان کے والد ماجد اپنے دو بیٹوں کی شہادت کے بعد قادیان بھیجنے کا فیصلہ فرما رہے تھے ؟
۱۴۰ نہیں.شعائر اللہ ہمارے پاس ہیں اور میری تمہیں نصیحت ہے کہ تمہارے بیتے جی شعائر اللہ تک دشمن نہ آئے ہیں اللہ تعالیٰ نے بہت کچھ دے رکھا ہے اور تم قطعا پر واہ نہ کرو کہ تمہارے بعد ہمارا کیا بنے گا.جب سے دار الامان پر حملے کا سنا ہے سخت بیقراری اور بے چینی ہے اور میرا تو پیشہ ہی رونا ہو گیا ہے " ( ۲۴ اخاء / اکتوبر ۳۳ میش) ۱۵- عبدالمجید صاحب نیازہ نے اپنے والد محترم عبد الرحیم صاحب ( دیانت سوڈا واٹر فیکٹری کو اپنے ایک خط میں یقین دلایا کہ و پیارے اور محترم والد صاحب.آپ ہمارا کسی قسم کا فکر نہ فرما دیں.ہمیں کوئی تکلیف نہیں.ہاں قسم ہے مجھے ذات پاک کی کہ میرا دل چاہتا ہے کہ کسی طرح قادیان پہنچوں " ۲۴ را خاد/ اکتوبر ۳ ریش) ایک اور خط میں لکھا :- ۶۱۹۴۷ " آپ قادیان میں رہیں تو یہ ہمارے لئے باعث فخر ہے اور خوشی کا موجب ہے “ مسعود احمد خاں صاحب دہلوی بی.اے بی ٹی واقف زندگی نے اپنے ہیر اور اکثر مسعود احمد فانا ات دیوی کو نکھا.میرا پاسپورٹ دہلی میں نہیں بن سکا.اب انشاء اللہ لاہور سے بنواؤں گا.میری شامت اعمال کی وجہ سے میں اس سعادت سے محروم کر دیا گیا کہ میں بھی مرکز کی حفاظت سے نوازا جاؤں.آپ تینوں صاحبان مسعود احمد صاحب بی.اسے واقف زندگی - مولود احمد صاحب بی.اسے واقف زندگی اور مقصود احمد صاحب واقف زندگی) واقعی قابل مبارکباد ہیں کہ اس نعمت سے سرفراز کئے گئے“ (۲۵ ایجاد اکتوبر ۳۳ ره ش) لے سابق ٹیچر سیکنڈری سکول کماسی حال پر و فیسر تعلیم الاسلام کا لج ریوه ، کے مقصود احمد خان صاحب کا بیان ہے کہ " مکرم مسعود احمد صاحب دفتر وکالت تبشیر ( قادیان) کی ہدایت کے ماتحت دہلی مغربی افریقہ کے لئے پاسپورٹ حاصل کرنے کے سلسلہ میں گئے ہوئے تھے.اس دوران میں فسادات شروع ہو گئے جس کی وجہ سے وہاں ان کو تکالیف کا سامنا ہوا اور کچھ عرصہ کے بعد خدا تعالیٰ کے فضل و رحم کے ساتھ واہوں پہنچ گئے.لاہور پہنچ کر یہ خط تحریر کیا ".کے سابق نام سود خانی -
۱۴۱ ۱۷- محترمہ صادقہ بیگم صاحبہ نے موضع بانٹ اُونچے ضلع گوجرانوالہ سے اپنے شوہر محمد شریف صاحب مولوی فاضل واقف زندگی کو حسب ذیل خط لکھا :- یہ پڑھ کر کہ آپ نے اپنا نام ہمیشہ رہنے کے لئے دے دیا ہے، بہت خوشی ہوئی.اللہ تعالٰی آپ کو کامیابی عطا فرمائے اور آپ کا حافظ و ناصر ہو.بخدا کرے کہ جلد کی قادیان ہمارا ہو جائے اور ہم جلدی آکر اس کو آباد کریں.(آمین) (۲۸ امضاء / اکتوبر میش) محترمہ امتہ المجید صاحبہ رتن باغ لاہور کا خط جو انہوں نے اپنے والد چوہدری وزیر محمد صاحب پٹیالوی دار الفتوح قادیان کے نام لکھا :- در ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے خیریت سے ہیں.اماں جان سست رہتی ہیں.وجہ یہ ہے کہ ایک تو کھانے کی سخت تکلیف ہے.کوئی چیز نہیں ملتی.لانے والا کوئی ہمارے پاس نہیں اس وجہ سے کچھ بچے بیمار ہیں.ہم تاریخ میں صحابہ کے کارنامے پڑھا کرتے تھے ہم خوش قسمت ہیں اور وہ نظارہ ہماری آنکھیں دیکھ رہی ہیں.میں آپ کو ہر کنوائے میں خط لکھتی رہی ہوں.لیکن آپ کی طرف سے اتنے عرصہ میں ہمیں ایک بھی خط نہیں ملا.یہ تکلیفیں ہم مقدا شت کی رضا کے لئے برداشت کر رہے ہیں اور اگر اور بھی تکلیفیں اٹھانی پڑیں تو ہم خوشی شود است کریں گے.جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہمار سے ابا جان خدا کی رضا کے لئے سلسلہ کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں تو ہماری یہ تکلیفیں خوشی میں بدل جاتی ہیں.آپ ہمارا کوئی کسی قسم کا فیکر بنہ کریں.خوب دُعائیں کریں اور خدا کی رضا حاصل کریں.مخداوند تعالیٰ آپ کا حافظ و ناصر ہو.اور ہم بھی ہر وقت دُعاؤں میں لگی رہتی ہیں." (۲۹ اتحاد اکتوبر برا همیش) -۱۹ مکرم محمد طفیل صاحب تنگلی نے محمد یعقوب صاحب، جلال الدین صاحب ، محمد صادق صاحب اور محمد صدیق صاحب کو ذیل کا مکتوب ارسال کیا :- " آپ کا نوازش نامہ ہمارے لئے باعث صد مسرت ہوا.اور ہمارے مضموم دلوں کی آپ کے اس نو ید جانفزا نے کہ ہم زیار محبوب میں شعائر اللہ کی حفاظت کے لئے درویشانہ زندگی
۱۴۲ بسر کریں گے نوشی میں بدل دیا.بیشک ہم اس وقت نہایت کس مپرسی کی حالت میں بے یارو مددگار ہیں.بچے بیمار ہیں نہ زاد راہ ہے.متوکل علی اللہ اب لاہور سے کسی بہت کو نکل جائیں گے اور صمیم قلب سے یہ دعا کرتے رہیں گے کہ آپ جو عظیم الشان مقصد رکھتے ہیں اللہ تعالے اس کو نواند سے اور آپ کے عزم و استقلال و پایہ ثبات کو ثابت قدم رکھے اور توقع رکھتے ہیں کہ ہر وہ گھڑی جس میں زندگی اور موت کا سوال ہو آپ صف اول میں کھڑے ہوں گے“ (۳۰ر اتحاد اکتوبر پر مش) ۲۰.محترمہ امتہ اللطیف صاحبہ رتن باغ لاہور کا خط اپنے والد عبدالرحیم صاحب مالک دیانت سوڈا واٹر فیکٹری قادیان کے نام :- جب " جب کنوائے قادیان سے آئے تو نہایت مضطربانہ حالت ہو جاتی ہے.تک ہم کو قادیان نہ ملے ہمارے لئے دنیا اندھیر ہے.باوجود فراخ ہونے کے تنگ ہے.جلد اللہ تعالے کسی قربانی کو نوازے اور ہماری مشکلات حل ہوں.امیر الشکور کو اپنا گھر معلوم نہیں ہوتا.ہر وقت روتی رہتی ہے.آپ کو اتنا یاد نہیں کرتی جتنا قادیان کو " (۲ نبوت / نومبر مش) ۲۱- سید عبدالرشید صاحب (جیسے پوشش ہاؤس) کا مکتوب اپنے فرزند سید سعید احمد صاحب کے نام : " یکیں تو خود قادیان سے کہیں جانے میں خوش نہ تھا مگر آپ کے اصرار پر اور پھر آپ کی والدہ اور ہمشیرگان کی قیام گاہ کا انتظام کرنے کے لئے پھل دیا ورنہ میں بھی آپ کے ہمراہ ہی رہنے میں خوش تھا.ایک عرصہ سے حضرت مسیح موعود اور خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے ارشادات سے یہ صاف معلوم ہو رہا تھا کہ وہ وقت قریب آتا جا رہا ہے کہ جب خدا کے دین کے لئے ہر قسم کی قربانیوں کا مطالبہ شروع ہو گا مگر ہماری بدقسمتی سے ہم نے اس وقت کو ابھی دور سمجھا حالانکہ وہ دروازہ پر تھا....پس اب صرف - ایک اور ایک راستہ ہی ہے جس سے ہمارا پیارا خدا خوش ہو سکتا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے - المیه صاحبه شیخ خورشید احمد صاحب نائب مدیر العضل دیوه بنه
۱۴۳ علم کے مطابق اپنی زندگی کو اس سانچہ میں ڈھال لیں جس کا نقشہ قرآن کریم نے ان الفاظ میں کھینچا ہے.اِنَّ صَلاتِي وَنُسُکی وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ " ہر احمدی کے دروازہ پر ، مکانوں پر اور دلوں پر جب تک اس لائحہ عمل کو تحریہ نہ کر دیا جاوے اور پورا پورا عمل نہ کیا جادے کامیابی ناممکن ہے “ از ہے ) نبوت / نومبر به ش) ۶۱۹۴۷ ۲۲ محترمہ مسعوده بر لاس صاحبہ نے اپنے بھائی مرزا الطاف الرحمن صاحب آف بر لاس ہاؤس دار الرحمت قادیان کے نام لکھا :- دو تم ہمارا فکر نہ کرنا مستقل مزاجی سے قادیان میں رہ کر تکالیف کو برداشت کر کے خداوند کے فضلوں کے وارث بننا - احمدیت کا کار آمدستون بننا.ہمیں خوشی اور فخر ہے کہ ہمارا ایک ہی بھائی ہے جیسے احمدیت کی خدمت کے لئے خداوند کریم نے خاص موقع اور اس میں استقامت عطا فرمائی.ہم اس پر جتنا بھی فخر کریں کم ہے اتھی بھی تمہیں دُعا دیتی ہیں" ۲۳.محترمہ سیدہ رشیدہ بیگم صاحبہ نے اپنے بیٹے سید سعید احمد صاحب قادیانی متعلم جامعہ احمدیہ " ) و نبوت تو میر ارش) ۶۱۹۴۷ قادیان کے نام لکھا :.عزیزان قادیان میں رہو.آج آپ لوگوں کے امتحان کا وقت ہے.دُعا ہے کہ خدا تم کو امتحان میں کامیاب کرے.آپ قادیان میں ہی رہیں یہانتک کہ حضرت امیر المومنین کی طرف سے آپ کو قادیان سے جانے کی اجازت مل جاوے.دوبارہ تاکید ہے کہ بلا اجازت حضرت امیرالمومنین کے کسی صورت میں بھی قادیان سے نہ آئیں کیونکہ اب ایمان کی آزمائش کا وقت ہے.خدا سے دعا د ہے) کہ تم اپنے ایمان کا بہتر نمونہ دکھاؤ اور دین کے ستارے بن کر چکو اور دنیا کے لوگوں کے لئے رہنما بنو " ) ۲۳ نبوت / نومبر ۱۳۳۶ مه مش ) ۳۴- خط صالح بیگم صاحبہ عفیفہ لاہور بنام میناب مقصود احمد صاحب واقعیت زندگی : " آپ سوچتے ہوں گے کہ میری بیوی بھی کیسی دنیا دار ہے کہ ایک دفعہ بھی اس بات
۱۴۴ کا اظہار نہیں کیا کہ خدا کی رضا حاصل کرنے کے لئے یہ قربانی کی گئی ہے جس کا دل پر ہرگز ملال نہیں ہونا چاہیے.مگر سچ پوچھٹے اور یقین جانئے میں یہ باتیں پوشیدہ ہی رکھنا چاہتی تھی.میں سوچتی تھی کہ اپنے بعد بات ظاہر کر کے خواہ مخواہ ریاکار بنوں.مگر پھر دل نے کہا کہ خاوند سے بھی کوئی بات پوشیدہ رکھی جاسکتی ہے ، اس لئے اب میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ میں بالکل مطمئن ہوں اور اپنے آپ میں بہت خوشی محسوس کرتی ہوں کہ آپ کو اللہ تعالی نے اس شاندار قربانی کا موقع عطا فرمایا.اللہ تعالیٰ قبول فرمائے.لوگ دنیاوی جنگوں میں سمندر پار چلے جاتے تھے اور جدائی کی گھڑیاں کئی مہینے گزارتے تھے تو کیا آپ جو کہ ایک دینی جنگ میں حصہ لے رہے ہیں اس کی خاطر اگر ہم تھوڑی سی جدائی برداشت کریں تو نہ معلوم اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں ہم پر کیا افضال نازل فرمانے اے خدا تو ایسا ہی کر لو.آمین ثم آمین " ) بلا تاریخ ۲۵.محترمہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ نے اپنے بیٹے محترم ڈاکٹر محمد احمد صاحب اور ان کے چھوٹے بھائی نعیم احمد صاحب اور ان کے بہنوئی محمد رفیق صاحب اور ان کے بھتیجے عبدالرشید کے نام حسب ذیل نصیحت نامہ بھجوایا :- و جو آزمائش کا وقت تم سب پر آیا ہے اس کو دلیری اور جوانمردی سے گذار و.اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے وہ تم سب کو ثابت قدم رکھے اور دین کی خدمت کا زیادہ سے زیادہ تے موقع عطا فرمائے“ ۲۶.محترمہ امتہ الرشید شوکت صاحبہ نے اپنے بھائی مولوی نورالدین صاحب میر انچارج بیت کو ذیل کا خط تحریر کیا :- قادیان کے حالات سے مطلع فرمائیں.آپ کو خدا تعالٰی نے قادیان میں رہ کر جہاد کرنے کا موقع دیا ہے.اللہ تعالے آپ کو اس کی جہاد سے اور استقامت عطا فرمائے.والدہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ اپنے آپ آنے کی درخواست نہ دیں.جب حضور خود بلائیں گے تو بنت حضرت ماسٹر چراغ دین صاحب ( مدیرہ "مصباح ) + نے حال نائب وكيل التصنيف تحریک جدید ربوه : +
۱۴۵ شده ہیں.والدہ مکرمہ کی طرف سے ماموں شمس کو ماموں قمر الدین اور ماموں اسماعیل صحب کو اسلام علیکم دیں“ ۲۷- محترم چوہدری فضل احمد صاحب کے دوگرامی نامے اپنے بیٹوں (محمد احمد صاحب و شریف احمد صاحب) کے نام :- (الف) " یہ خط میں پرائیویٹ سکرٹری صاحب کی معرفت بھیجتا ہوں کیونکہ ویسے نہ تمہارا خط مجھے پہنچ سکتا ہے نہ میرا تمہیں...جو کام ملے خوب کرو.صحت کا تم سب خیال.رکھو تا کہ اچھی طرح سے خدمت سر انجام دے سکو جو تمہارے سپرد ہو (آمین) (ب) " آپ سب تاریخ احمدیت میں عزت سے یاد کئے بجاؤ گے.اپنی ڈیوٹی استقلال سے کرو.اللہ کی رضاحاصل کرنے کے ایسے ہی موقعے ہوتے ہیں.یہ گھنگنیاں جو آپ کھانے میں ملتی ہیں.یہ آپ جیسے خوش قسمت نوجوانوں کو ہی نصیب ہو سکتی ہیں جو قومی قربانی کا کام کریں.۲۸ محترمہ عائشہ بی بی صاحبہ لاہور نے اپنے خاوند الله د تا صاحب بت محله دارالرحمت قادیان کے نام یہ مکتوب لکھا :- و آپ نے بڑا اچھا کیا جو قادیان میں رہنے کے لئے نام دے دیا ہے اور اب آپ کو چاہیے که بغیر اجازت امیر صاحب کے ہر گنہ قادیان سے باہر نہ جائیں“ ۲۹.محترمہ نصیرہ نزہت صاحبہ رنمل ضلع گجرات سے اپنے شو ہر مکرم محافظ بشیر الدین صاحب واقف زندگی کے نام رقمطراز ہیں :- "خوش رہیں.کامیابی و کامرانی کی مرادیں دیکھیں.قادیان کے جھنڈے کو بلند کرنے والوں میں سے ہوں اور دعا بھی کریں کہ خدا کے نام کو پھیلانے والوں میں سہارا بھی نام ہے......آپ کی خیریت کی مجھے کوئی اطلاع نہیں ملی.ملتی بھی کیسے ؟ میں ایسی جگہ ہوں جہاں قادیان کی مقدس بستی کے حالات واقعات جوبعد میں رونما ہوئے نہیں پہنچتے.میں یہاں (نمل ه حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمش مراد ہیں : که حال ناظر تعلیم صدر انجمن احمدیہ پاکستان : که این حضرت مولوی عبید اللہ صاحب مبلغ شہید ماریشی به
۱۴۹ ضلع گجرات) کیوں آئی ، کسی طرح آئی ؟ بس سمجھ لیجئے خدا کی کسی حکمت کے ماتحت میرا یہاں آنا ہوا.میرے جیسی گنہگار پر خدا تعالیٰ کے اتنے بڑے احسانات !! افت اگر میرے جسم کا ذرہ ذرہ بھی اس کے شکریہ میں دن رات سر بسجود رہے تو اس کا عشر عشیر بھی ادا نہیں ہو سکتا.آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ میں جب سے یہاں آئی ہوں.کس طرح دن گزرتے ہیں اور کس طرح ستارے گنتے گنتے راتیں کٹتی ہوں گی.لیکن زبان سے اگر کوئی لفظ نکلتا ہے تو یہی کہ اسے قادیان کی لیتی تجھ پر لاکھوں سلام! اور اسے قادیان میں رہنے والے جانبازو ! تم پر لاکھوں درود - دنیوی حکومتیں تو تمہیں تباہ کرنے کے لئے تیر اور ہم تیار کرتی ہیں جو دس دس پندرہ پندرہ میل تک بجا کہ رہ جاتے ہیں.مگر ہم انشاء اللہ وہ ہم تیار کریں گے جو آسمان سے برسیں گے اور زمینی دشمنوں کو تباہ کر کے رکھ دیں گے.اے خدا تو ایسا ہی کہ.یہاں کے مفصل حالات تو پھر کبھی سہی مگر یہ تکلیف کہ قادیان کے متعلق ہمیں کوئی خبر نہیں ملتی، ایسی ہے جو ناقابل برداشت ہے.اگر کوئی ذریعہ ایسا ہو کہ قادیان سے لاہور تک خط آسکے تو ضرور مندرجہ ذیل پتہ پر لکھ کہ ڈال دیں تا کہ میری ہر وقت کی تشویش دور ہو.کاش ! خدا آسمان سے کہے کہ دنیا کے پردے پر میرے کچھ معصوم بند سے رہتے ہیں جن کا کوئی والی وارث نہیں.وہ بیکس ہیں، وہ بے بس ہیں.کوئی ان کا روزگار نہیں لیکن میں ان کا حامی ہوں.میں ان کا محافظ ہوں، ناصر ہوں، مدد گار ہوں.اسے میرے فرشتو ! تم دنیا میں جاؤ اور ان میرے بندوں کے بازو بن جاؤ ، تم ان کی تلواریں بن جاؤ جس سے دہ دشمن کی صحت کو کاٹ کر رکھ دیں.اے خدا ایسا ہی کہ.ہم آسان سے خدا کی رحمت کو کھینچنے والے نہیں“ سید تا اصلح الموعود کا ایک پُر جوش سینا الصلح الموعود ن ا ا ا اکتو بر این کے اور ولولہ انگیز مضمون اور اس کا اثر باسل ابتدائی ایا میں جبکہ قادیان پر آخری فیصلہ کن حملہ کا آغاز ہو چکا تھا مگر ابھی پاکستان میں اس کی خبر نہیں پہنچی تھی ایک ولولہ انگیز مضمون لکھا جس کا عنوان تھا جماعت احمدیہ کے امتحان کا وقت حضرت
امیر المومنین نے اپنے اس مضمون میں جنگ احزاب کے دوران آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے وجود مبارک کے ساتھ صحابہ کرام کی فدائیت و وارفتگی کا اثر انگیز نقشہ کھینچنے کے بعد احمدیوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا :." میں احمدیوں سے کہتا ہوں کہ جب وہ بیعت میں داخل ہوئے تھے تو انہوں نے اقرار کیا تھا کہ وہ دین کو دنیا پر مقدم کریں گے اور اس دنیا کے لفظ میں ان کی جانیں بھی شامل تھیں ان کے بچوں کی جانیں بھی شامل تھیں.ان کی بیویوں اور دوسری گھر کی مستورات کا مستقبل بھی شامل تھا.پس آج جبکہ با وجود ہمارے اس اعلان کے کہ ہم جس حکومت کے تحت رہیں گے اس کے وفادار رہیں گے ، ظالم دشمنوں کو ہم پر مسلط کیا جا رہا ہے حکومت ان کو سزا دینے کی بجائے ہمارے آدمیوں کو سزا دے رہی ہے.ہماری جماعت کے نوجوانوں کا فرض ہے کہ وہ قطعی طور پر بھول بجائیں کہ ان کے کوئی عزیز اور رشتہ دار بھی ہیں.وہ بھول بھائیں اس بات کو کہ ان کے سامنے کیا مصائب اور مشکلات ہیں.انہیں صرف ایک ہی بات یاد رکھنی چاہیے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ سے ایک عہد کیا ہے اور اس عہد کو پورا کرتا ان کا فرض ہے.آج خدا ہی ان کا باپ ہونا چاہئیے.خدا ہی ان کی ماں ہونی چاہئیے اور خدا ہی ان کا عزیزہ اور رشتہ دار ہونا چاہیے.میرے بیٹوں میں سے آٹھ بالغ بیٹے ہیں اور ان آٹھوں کو میں نے اس وقت قادیان میں رکھا ہوا ہے.میں سب سے پہلے انہی کو خطاب کر کے کہتا ہوں اور پھر ہر احمدی نوجوان سے خطاب کر کے کہتا ہوں کہ آج تمہارے ایمان کا امتحان ہے.آج ثابت قدمی کے ساتھ قید و بند اور قتل کی پروا نہ کرتے ہوئے قادیان میں ٹھہرنا اور اس کے مقدس مقامات کی حفاظت کرنا تمہارے فرض میں شامل ہے.تمہارا کام حکومت سے بغاوت کرنا نہیں.تمہارا کام ملک میں بدامنی پیدا کرنا نہیں.اسلام تم کو اس بات سے روکتا ہے.اگر حکومت ہم کو وہاں سے نکالنا چاہتی ہے تو حکومت کے وقیہ دانہ انسر ہم کو تحریمہ دے دیں کہ تم قادیان چھوڑ دو.پھر ہم اس سوال پر بھی غور کر لیں گے.مگر جیب تک حکومت کے ذمہ دار افسر منہ سے تو یہ کہتے ہیں کہ ہم کسی کو یہاں سے نکالتا نہیں چاہتے اور ان کے نائب ہمیں دُکھ دے دے کہ اپنے مقدس مقامات سے نکالنا چاہتے ہیں
۱۴۸ اس وقت تک اُن کی کارروائی غیر آئینی کاروائی ہے اور ہم اسے کسی صورت میں بھی تسلیم نہیں کریں گئے.مشرقی پنجاب سے اسلام کا نام مٹا دیا گیا ہے.ہزاروں ہزار مسجدیں آج بغیر نمازیوں کے ویران پڑی ہیں جن میں جھوٹے کھیلے جاتے ہیں.شہراہیں پی جاتی ہیں.بدکاریاں کی جاتی ہیں.ہمارا فرض ہے کہ کم سے کم ہم جب تک ہماری جان میں جان ہے مشرقی پنجاب میں قادیان کے ذریعہ سے محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا بلند رکھیں.اسلام کو بغیر قربانی کے ختم نہیں ہونے دینا چاہئیے.اسلام تو پھر جیتے گا ہی ، احمدیت تو پھر بھی غالب ہی آئے گی.لیکن ہماری بدقسمتی ہو گی اگر ہم اپنے ہاتھوں سے اسلام کا جھنڈا چھوڑ کر بھاگیں میں اگر قادیان سے باہر ہوں تو صرف اس لئے کہ جماعت نے کثرت رائے سے یہ فیصلہ کیا تھا کہ جماعت کی تنظیم اور اس کے کام چلانے کے لئے جب تک امن نہ ہو مجھے اور بعض ضروری دفاتر کو قادیان سے باہر رہنا چاہئیے تاکہ دنیا کی جماعتوں کے ساتھ مرکز کا تعلق رہے لیکن اگر مجھے یہ معلوم ہو کہ جماعت کے تو جوان بخدا نخواستہ اس قربانی کو پیش کرنے کے لئے تیار نہیں جس کا میں اُوپیہ ذکر کر چکا ہوں تو پھر اُن کو صاف لفظوں میں یہ کہہ دینا چاہئیے.ہم ان کو باہر بلا لیں گے اور خود ان کی جگہ بھائیں دینے کے لئے پہلے بھائیں گے.ہمارا یا ہر آنا اپنی بھانوں کو بچانے کے لئے نہیں بلکہ سلسلہ کے کام کو پھیلانے کے لئے ہے.اگر ہماریا باہر آنا بعض لوگوں کے ایمانوں کو متزلزل کرنے کا موجب ہو تو ہم سلسلہ کی شوریٰ کے فیصلہ کی بھی پر وا نہیں کریں گے اور ان لوگوں کو جن کے دلوں میں ایمان کی کمزوری ہے اس کام سے فارغ کر کے اللہ تعالیٰ کے فضل پہ بھروسہ رکھتے ہوئے خود اس کام کو شروع کر دینگے میرا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ قادیان کے اکثر نوجوانوں میں کمزوری پائی جاتی ہے.مجھے کثرت کے ساتھ نوجوانوں کی یہ چھٹیاں آرہی ہیں کہ وہ دلیری کے ساتھ اور ہمت کے ساتھ ہر قربانی پیش کرنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں.خود میرے بعض بیٹوں اور بعض دوسرے عزیزوں کی مجھے اس قسم کی پیٹھیاں آئی ہیں کہ گو ان کا نام قرعہ کے ذریعہ باہر آنے والوں میں نکلا ہے مگر ان کو اجازت دی جائے کہ وہ قادیان میں رہ کر خدمت کر یں.یہی وہ لوگ ہیں جو پختہ ایمان والے ہیں در پی دو الگ ہیں جو احدی اور اسلام کے جھنڈے کو دنیامیں بند کریں گے خواہ اسے جاہیں خواہ زندہ ہیں.
۱۴۹ چاہیے کہ صفائی کے ساتھ اور بار بار حکومت کو جتاتے رہو کہ ہم حکومت کے وفادار ہیں.اور ہم ایک اچھے شہری کے طور پر اس ملک میں رہنے کا وعدہ کرتے ہیں اور ہم یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ جو کچھ مسٹر گاندھی اور مسٹر نہرو کی طرف سے اعلان ہو رہے ہیں وہ بچے ہیں جھوٹے نہیں.اس لئے ہم ان اعلانوں پر یقین رکھتے ہوئے قادیان میں بیٹھے ہیں.اگر ان اعلانوں کا کچھ اور مطلب ہے تو ہمیں کہہ دو کہ قادیان سے پھلے بھاؤ.لیکن اگر مسٹر گاندھی اور مسٹر نہرو کے بیانات صحیح ہیں تو پھر ان کے مطابق عمل کرو اور پُر امن شہریوں کو دق نہ کرو.اس طرح بار بار اُن پر حجت تمام کرتے رہو اور قید و بند اور قتل کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنے ایکان کا ثبوت دو اور خدا تعالے پر یقین رکھو کہ اول تو فتح اور نصرت کے ساتھ وہ تمہاری مدد کرے گا.لیکن اگر تم میں سے بعض کے لئے قید و بند یا قتل مقدر ہے تو خدا تعالیٰ تمہیں ابدی زندگی بخشے گا اور اپنے خاص شہداء میں جگہ دے گا اور کون کہ سکتا ہے کہ اس کی ایسی موت اس کی زندگی سے زیادہ شاندار نہیں.اللہ تعالیٰ تم لوگوں کا حافظ و ناصر ہو اور تم کو ہر تنگی اور ترشی اور مصیبت اور ابتلا میں صبرا در توکل اور ایثار کی توفیق بخشے اور تم اپنا ایمان نہ صرف خدا تعالیٰ کے سامنے سلامت لے جاؤ بلکہ اس کو نہایت خوبصورت اور حسین بنا کر خدا تعالے کی خدمت میں پیش کر دو تا خدا تعالیٰ تم سے اور تمہاری اولادوں سے (اگر کوئی ہیں) اس سے بھی زیادہ نیک سلوک کرے جتنا تم ان کی زندگی میں ان سے کر سکتے تھے " سے حضرت امیر المومنین کے مندرجہ بالا مضمون نے ہو دیتی غیرت ، اولوالعرمی اور مردانگی و شجاعت کا شاہکار تھا، احمدیوں کے لہو کو اور بھی گرما دیا اور وہ تقدس اسلام کے لئے کٹ مرنے کو پہنے سے بھی زیادہ آمادہ وتیار ہو گئے.اس حقیقت کے ثبوت میں بطور نمونہ ایک احمدی خاتون کے قلبی تاثرات ملاحظہ ہوں.محترمہ جیبہ بیگم صاحبہ نے اپنے خاوند محترم در ولیش خواجہ محمد اسمعیل صاحب احمدی آن بیٹی کو لکھا :.کل حضرت امیر المومنین کا ایک مضمون رجماعت احمدیہ کے امتحان کا وقت “ الفضل بر اکتوبر کر نا شائع ہوا ہے وہ آپ کو بھیج رہی ہوں.گو پہلے بھی میں نے آپ کو قا دیان " الفضل" لم را خاء / اکتوبر ۳۳۶ بهش نصفحه ۳ و ۴ به
رہنے سے روکا نہیں تھا.لیکن کل تصور کا مضمون پڑھنے کے بعد میں نے سجدہ میں گر کر اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے اللہ میں اپنا سرمایہ شرح صدر سے تیرے رسول کے تخت گاہ کی حفاظت کے لئے پیش کرتی ہوں اور اسے میرے خدا تو قادر ہے تو ان کو دین کی نفرت کا موقع دیتے ہوئے بھی اپنی حفاظت میں رکھے.آمین.اس وقت میں زیادہ نہیں لکھ سکتی.اللہ تعالے قادیان کو سلامت رکھے اور سلامتی کے ساتھ ہمیں ملائے.آمین اللهم آمین فصل پنجم سیدنا امیر المومنين المصلح الموعود کی حضر میل مواد کی محبت پاکستان کے بعد قادیان مصلح اور اُس کے ماحول کے خونچکاں اور دردناک حالات ہجرت کے بعد قاریان کی مقدس بستی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند جلیل کی تخت گاہ اور اس کے ماحول پر کیا بیتی؟؟؟ اس دروناک ، زہرہ گداز اور لرزه نیز داستان (جو در اصل ہزاروں الم انگیز تو اورث کا مجموعہ ہے) کی جملہ تفصیلات کو رکھنے کا ابھی موقعہ نہیں.لحل اللہ تحدیث بعد ذالک.تاہم ان پرفتن ایام اور صبر آزما مشکلات کا کسی قدر اندازہ لگانے کے لئے اس پر آشوب دور کے واقعات پر تین پہلوؤں سے روشنی ڈالنا ضروری ہے.اول کو الفنہ قادیان کا مختصر خلاصہ دوهم - قادیان پر حملہ اور اس کی ضروری تفصیلات سوم قادیان پر جبر و تشدد کا ایک جامع نقشہ نے خواجہ محمد اسمعیل صاحب بیان ہے کہ " اس وقت میرے چار بچھے عمرہ سال ۴۷ سال ۲ سال اور کچھ ماہ میری اہلیہ کے ساتھ تھے اور چلتے وقت نقدر وجیہ کی قلت کی وجہ سے صرف ۲۰۱۰ روپیہ ساتھ دے سکا تھا اور میں نے خود پھر رکھے تھے اور نہیں میرے بچے پرائیویٹ ٹرک میں ۲۲ ستمبر کو گئے تھے.اس خط میں میری اہلیہ نے اپنی اور بچوں کی خیریت تک کا ذکر نہیں کیا اور یہ ان کے بھانے کے بعد پہلا خط مجھے ملا تھا.
اها عند دو حضرت مرا بشیر هم صاحب معنی اش همه حضرت مرزا بشیر احمد صاح کے دو ہم مکتوب نے سیدنا الصلع الوجود کی ہجرت سے لیک ۱۶ ماه نبوت / نومبر ۳ مش تک (یعنی قادیان سے آنے والے آخری کنوائے تک کے حالات و واقعات کا ایک جامع اور حقیقت افروز خلاصہ روزنامچہ کی صورت میں تحریر فرمایا تھا.قبل اس کے کہ آپ کا لکھا ہوا یہ اہم خلاصہ درج کیا جائے ہم آپ کے دو مکتوبات محالہ قرطاس کرنا ضروری سمجھتے ہیں.یہ دونوں خطوط حضرت مصلح موعود کے نام ہیں اور اس زمانہ کے ہیں جبکہ آپ حضور کے حکم سے قادیان میں امیر مقامی کے بھاری اور نازک فرائض بجالا رہے تھے.ایک خط آپ کے دور امارت کا پہلا یاد گار خط ہے اور دوسرا آخری میں کے بعد آپ پاکستان میں تشریف لے آئے.یہ شطیط جن سے اس دور کے بہت سے تلخ حقائق کی تصویر ہمارے سامنے آجاتی ہے درج ذیل ہیں:.پہلا مکتوب قادیان دار الامان بسم الله الرحمن الرحيم سيدنا : السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ.کل ساڑھے چھ بجے کے قریب حضور کی خیریت سے لاہور پہنچے بجانے کی اطلاع مل گئی تھی جس سے بھاری فکر دُور ہوا.آج وقیع الونا صاحب کے ذریعہ زبانی پیغام بھی ملا.آج قادیان کے ماحول میں پھر سکھوں کی نقل و حرکت زیادہ رہی.کیونکہ ایک تو راستے خشک ہیں اور دوسرے مسلمان ملٹری وا میں بھا رہی ہے آج دو اتحادی جو سیکھواں سے قادیانی آرہے تھے کتنے اور سیکھوں کے درمیان سکھوں کے ہاتھ سے مارے گئے اور سٹھیالی پر بھی حملے کا آغازہ ہے.کڑی متصل کا ہندوان کو سخت منظرہ لاحق تھا.ملٹری نے ہمت کر کے پناہ گزینوں کو گورداسپور پہنچا دیا.بھا میری میں کافی وسیع آغاز مینار سے دیکھی گئی.عالمے کا گاؤں جلا دیا گیا اور لوگ اٹھ کر پھیر و چیچی میں گئے مگر ملٹری کی واپسی کی وجہ سے ، وہاں بھی بہت ہراساں ہیں.آج کپٹن نمائے بٹائے گیا ہوا ہے اور ابھی تک ملٹری عمل واپس نہیں ہوئی کیونکہ اس سے چارج لینے والی ملٹری ابھی تک نہیں پہنچی.شاہ صاحب واپس قادیان آگئے ہیں.انہیں صبح گورداسپور مرزا صاحب ے نقل مطابق اصل کے مسلمان ملٹری کے انچارج " سے حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب که یعنی مرزا عبد الحق صاحب ایڈوکیٹ امیر جماعت احمدیہ گورداسپور جو حضرت شاہ صاحب کے ساتھ ہر تبوک استمبر و بقیه حاشیه انگلے صفحہ پر)
۱۵۲ کو لانے اور ضلع کے حکام سے ملاپ کرنے کے لئے بھیجا جائے گا.حضور کا خط حضور کے تشریف لے جانے کے تین گھنٹے بعد شمس صاحب اور مولوی ولو العطاء صاحب کو پڑھا دیا گیا تھا اور شام کو جملہ صدر صاحبان کو پڑھا دیا گیا اور آج دو پہر کو مساجد میں سُنا دیا گیا.اثر بہت اچھا ہے اور اس کی وجہ سے کوئی گھبراہٹ نہیں مگر تعجب کر رہے ہیں کہ کس طرح علم ہونے کے بغیر حضور تشریف لے گئے.باقی سب خیریت ہے اور ہم سب دعا کے طالب ہیں.فقط والسلام (دستخط) خاکسار مرزا بشیر احمد دوسرا مکتوب بسم الله الرحمن الرحیم سید نا حضرت امیر المومنین ایدکم اللہ تعالے السّلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاته امید ہے حضور کی طبیعت اچھی ہو گی.آج کا دن کچھ ہنگامی رنگ میں گذرا مسبح چھ بجے ہی پولیس اور ماڑی احمدیہ چوک میں پہنچ گئی اور بڑے گہرے کھلوانے کے لئے آواز دی اور جب اس میں کچھ دیر ہوئی تو ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کے مکان کی ساتھ والی دکانوں کی چھتوں پر سے کود کرہ احمدیہ چوک میں پہنچ گئے اور ہمارے مکانات کا چاروں طربیہ سے محاصرہ کر لیا.اور اس کے ساتھ ہی تحریک بدید کے دفاتر اور سید ناصر شاہ صاحب، کے مکان کا بھی اور دیقیہ حاشیہ صفحہ گذشتہ سے پیش کو قادیان پہنچ گئے.مرزا صاحب موصوت نے وہاں مسلم پناہ گزینوں کو پاکستان بھیجوانے کی قابل قدر خد ما انجام دی تھیں بلکہ عین اسی روز گورداسپور سے مسلمانوں کا آخری قافلہ جو تیرہ ہزار نفوس پر مشتمل تھا روانہ ہو چکا تھا اور آپ یہ خدمت پایہ تکمیل تک پہنچانے کے بعد قادیان تشریف لائے تھے.آپ کو گورداسپور کیمپ کے احمدی پناہ گزینوں کی امداد کے بھی متعدد مواقع ملے ؟ نے حضور کا یہ خط جو پیغام کی صورت میں تھا تاریخ احمدیت جلد دہم میں آچکا ہے ؟
۱۵۳ چاروں طرف نظر رکھنے والی فوج کی ایک مسلح پارٹی مینار پر چڑھ گئی تھوڑی دیر میں ہی سید ناصر شاہ صاحب کے مکان اور سیدہ ام طاہر احمد مرحومہ کے مکان میں ملٹری اور پولیس گھس گئی اور چابیاں منگوا کر تلاشی شروع کرادی اور اس کے بعد تھوڑی دیر میں ام طاہر مرحومہ کے اُوپر والے صحن اور خلیل والے مکان اور لجنہ کے دفاتر میں بھی پولیس اور ملٹری پہنچ گئی اور پھر میرے مکان سے ہوتے ہوئے عزیز حمید احمد کے چوبارے میں جا پہنچی اور نگرانی کے لئے میرے مکان کے صحن میں ایک فوجی متعین کر دیا گیا اور اس کے ساتھ ہی پرائیویٹ سیکرٹری کی طرف سے پولیس اور ملٹی نے داخل ہو کر مطالبہ کیا کہ حضور کا اوپر والا دفتر کھلوایا جائے کہ اس کی بھی تلاشی لی جائے گی بیچنا نچہ عزیز منور احمد کو بھیج کر دفتر کھلوا دیا گیا اور مرزا عبد الحق صاحب اور عزیزم منور احمد کی موجودگی میں حضور کے تینوں کمروں کی تلاشی ہوئی مگر کوئی چیز قابل اعتراض بر آمد نہیں ہوئی.اس طاہر مرحومہ کے مکان میں سے حضور کی بندوق تلاش کرنے والوں نے طاہر کے پاس سے اپنے قبضہ میں کرلی اور لائیسنس کا مطالبہ کیا اور چونکہ اس وقت تک لائسینس نہیں ملا تھا جو تھوڑی دیر بعد عزیہ داؤد نے لاہور سے پہنچایا ، اس لئے بندوق اپنے ساتھ رکھ لی اور کہا کہ لائسنس دیکھنے کے بعد فیصلہ کریں گے.اسی طرح عزیز حمید احمد کے چوبارے میں سے میاں محمد احمد کی ۲۲ بور بندوق تلاشی والوں نے اپنے قبضہ میں کر لی اور با وجود اس کے کہ لائین موجود تھا یہ جواب دیا کہ کپتان صاحب ناسینی دیکھ کر فیصلہ کریں گے بلا یز حمید احمد کے چوبارے سے صاحبزادہ عبدالحمید ٹوپی کے سوٹ کیس میں سے ایک ریوالور بھی برآمد ہوئی جس کا لایسنس بھی موجود تھا مگر سرسری مقابلہ میں ریوالور کا نمبر ائینس کے درج شدہ نمبر سے نہیں ملتا تھا.یہ بھی ملڑی اور پولیس نے اپنے قبضہ میں کر لیا سید ناصر شاہ صاحب موالے مکان میں انگیٹی کے اندر سے برچھیوں کے بھالے نکلے اور چند بندوق کے کارتوس، یہ بھی قبضہ میں کرلئے گئے.تحریک تجدید کے دفتر میں سے چند فوجی تھیلے یہ آمد ہوئے جو غالباً DISPOSAL سے خریدے ہوئے تھے ان پر بھی قبضہ کر لیا گیا.ان کے علاوہ کوئی چیز بر آمد نہیں ہوئی.جن مکانوں کی تلاشی ہوئی وہ یہ ہیں.(1) سیدہ ام طاہر احمد کا سارا مکان مع مکان خلیل احمد
۱۵۴ (۲) میرا مردانہ اور عزیز احمد کا بالا خانہ (۳) مکان ام وسیم احمد (۴) مکان سید ناصر شاہ صاحب (۵) حضور کا دفتر (4) پرائیویٹ سکرٹری کا دفتر (4) تحریک بعدید کا دفتر (۸) لجنہ کا دفتر (۸) مولوی عبداللہ صاحب اعجاز کا مکان (غالباً) (9) محمد امین سعال بخارائی صاحب کا مکان (۱۰) بابو نور احمد سابق ریویو مکان اور (۱۱) مہر دین آتشبازی کا مکان تلاشی میں دو برچھیاں پرائیویٹ سیکرٹری کے پہرہ دار کے کمرہ سے نکلیں ہو باہر سے متفضل تھا سیدہ ام ظاہر کے بالاخانہ عزیز ظفر احمد اور میاں شریف احمد کا اسباب آیا ہوا تھا.اس کے کھلوانے میں کچھ دیر ہوئی تو پولیس اور ملڑی نے بعض قفل توڑ دیئے.لجنہ کے دفتر میں سے نکلا اور لجنہ کے دفتر کے ساتھ والے کمرہ میں فٹ زمین کھود کر تسلی کرنی چاہی کہ یہاں کچھ دبایا ہوا تو نہیں مگر کچھ نہیں ملا.غرض یہ تلاش ایک KNIFE قریباً ابجے تک ہوتی رہی اور حضرت اماں جان اور ام ناصر احمد صاحب کے مکان کے علاوہ پولیس اور ملٹری ہر جگہ پہنچی.ہمارے آدمی مرزا عبدالحق صاحب اور مولوی عبد الرحمن جٹ صاحب اور سید محمود اللہ شاہ صاحب اور محمد عبد اللہ خان صاحب سب انسپکٹر اور ملک غلام فرید صاحب اور بعض بچے ساتھ تھے.فوجی کپتان اور سردار ہزارہ سنگھ بھی تلاشی میں ساتھ تھے گو سارا وقت ساتھ نہیں رہے.فوجی صوبیدار عموماً ہمدرد رہا اور اس قسیم کے ریمارکس کئے کہ بات کچھ نہیں یو نہی شرفاء کو تنگ کرنے والی بات ہے.تلاشی کے وقت لے نقل مطابق اصل (مرتب).
۱۵۵ پولیس نے لالہ سری رام کو ملا کہ ساتھ رکھا تھا اور اس کا رویہ بظاہر اچھا رہا بلکہ بعد میں مجھے پیغام بھیجا کہ مجھے پولیس مجبور کر کے اور مار کر ساتھ لائی.الغرض چار گھنٹے تک یہ مہنگا نہ رہا پولیس کے سپاہیوں میں سے بھی بعض کا رویہ اچھا تھا اور بعض کا خراب میں اور میں نا صراحمد اور مرزا عزیز احمد صاحب اور بعض دوسرے بچے اس وقت مصلحت حضرت اماں جان کے مکان میں رہے اور پولیس اور ملٹری ادھر ادھر جاتے ہمیں دیکھتی رہی مگر اس طرف نہیں آئی ہچونکہ بعد میں محصور کا ٹینس پہنچ گیا تھا اس لئے مرزا عبد الحق صاحب کے ہاتھ یہ لائسنس اور میاں محمد احمد صاحب والا لائسینس پولیس اسٹیشن میں بھجوا دیئے گئے تاکہ مقابلہ کر کے تسلی کر لیں.صاحبزادہ عبد الحمید والا لائسینس پہلے سے دے دیا گیا تھا مگر ابھی تک کوئی ہتھیار واپس نہیں ملا.اور آئندہ کا علم نہیں.یہ ہتھیار ملٹری کیمپ میں ہیں.کچھ عرصہ بعد ایک ذریعہ سے جو بظا ہر سختہ تھا اطلاع ملی کہ میری گرفتاری کے احکام جاری ہو چکے ہیں مگر یہ معلوم نہیں ہوا کہ الزام کیا رکھا گیا ہے.بعض لوگوں کا خیال تھا کہ شاید صاحبزاد عبد الحمید کے دیوانوں کے تعلق میں کوئی بات ہو یا SAFETY ORDINANCE کے ماتحت کوئی حکم ہو یا کوئی اور بات بنائی گئی ہو اور ساتھ ہی اطلاع ملی کہ بٹالہ کا D.S.P ایک گارو کے ساتھ قادیان پہنچ رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی مقامی پولیس نے کہلا بھیجا کہ..چار بجے قادیان پہنچ رہے ہیں.جماعت کے نمائیند سے پولیس اسٹیشن میں آکر میں.چنانچہ مرزا عبد الحق صاحب ، راجہ علی محمد صاحب ، سید محمود اللہ شاہ صاحب ، مولوی عبد الرحمن صاحب جٹ اور ملک غلام فرید صاحب پولیس اسٹیشن میں کافی عرصہ انتظار کرتے رہے اور اس عرصہ میں بٹالہ سے پولیس کی ایک موٹر بھی آئی مگر وہ سیدھی ملٹری کیمپ میں چلی گئی.معلوم نہیں اس میں کون تھا.البتہ اس میں کچھ ایڈیشنل پولیس تھی.اس کے بعد اب تک کوئی مزیدہ کا روائی نہیں ہوئی.گو میں نے مرزا عزیزیہ احمد صاحب کو امارت کا چارج سمجھا دیا تھا اور بچوں کی تسلی کے لئے بھی انہیں نصیحت کی گئی اور جو دوست موجود تھے یا یہ خبر سُن کر آگئے انہیں تسلی دی گئی اور ان کی ہمدردی کی گئی.دوستوں پر اس خبر کا بہت بھاری اثر تھا اور سب نے استقلال اور رضا بقضا کا ثبوت دیا اور تفریح کے ساتھ دعا کی.رات
۱۵۶ کے انجے میں کرفیو لگا ہوا ہے مگر بعض دوست آج میرے مکان پہ ہی ٹھیر گئے ہیں.تا اگر رات کو کوئی واقعہ ہو تو دُعا کے ساتھ رخصت کر سکیں.باقی میں خدا کے فضل سے خدا کی رضا میں راضی ہوں اور حضور سے درخواست کرتا ہوں کہ اگر یہی خدا کی مرضی ہے تو مجھے اس امتحان میں ثابت قدمی اور سرخروئی کے ساتھ گذرنے کی توفیق عطا فرمائے.آج معلوم ہوا ہے کہ گذشتہ شام کو چودھری عبدالباری صاحب نائب ناظر بیت المال کو گرفتار کر لیا گیا ہے جو اپنی موٹر لے کر کنوائے کے ساتھ باہر جانا چاہتے تھے.الزام کا یقینی طور پر علم نہیں ہو سکا.لیکن سُنا ہے کہ موٹر کا لائسینس اور PERMIT نہیں تھا.یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ان کے ساتھ ۱۵-۲۰ ہزار روپیہ کا زیور بھی تھا جس کا کچھ پتہ نہیں چلتا.مگر یہ خبر ابھی تک مصدقہ نہیں ہے.میں حضور کی خدمت میں یہ لکھنا بھول گیا کہ چار دن ہوئے سید محبوب عالم صاحب بہاری برادر اکبر سید محمود عالم صاحب صبح کی نماز کے بعد اپنے گھر سے سیر کے لئے نکلے تھے اور ابھی تک با وجود تلاش کے لاپتہ ہیں.یہ جمعہ کے دن صبح کی بات ہے.غالب گمان ہے کہ وہ سکھوں کے ہاتھ سے قتل ہو چکے ہیں.عزیز داؤد احمد در ٹرک لے کر آیا ہوا ہے اور صبح واپس جائے گا.میرا خیال ہے کہ اگر میں آج رات گرفتاری سے محفوظ رہا تو داؤد کے ساتھ میاں ناصر احمد صاحب اور بعض دوسرے بچوں کو جن کا باہر جانے کا قرعہ نکلا ہوا ہے لاہور بھجوا دیا جائے گا.دوستوں کا اب یہی مشورہ ہے اور بہر حال جب حضور کی سکیم پر عمل کرنا ہے تو پھر قرعوں کا بھی نتیجہ یہی ہے.دوسرے بچوں کے قرعہ کے نتیجہ میں میں نے عارضی طور پر کچھ تبدیلی کی ہے.قرعہ میں رہنے والے یہاں یہ نکلے تھے.عزیز ظفر احمد ، عزیز مجید احمد، عزیزہ حفیظ احمد العزیز طاہر احمد لے چودھری صاحب ۲۱ استفاد/ اکتو بر سر میش کو گورداسپور جیل سے رہا ہو کہ ۲۳ ر اخفاء کی شام کو سیالو پہنچے اور ۲۴ اخاء / اکتوبر کو لاہور آئے.آپ اپنے ساتھ گورداسپور جیل سے حضرت سید زین العابدین ولی اله شاہ صاحب اور چودھری شریف احمد صاحب باجوہ کے خطوط جو سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفہ امسیح الالي المصلح الموعود کے نام تھے اپنے ہمراہ لائے جن سے ان کے کوائف کا علم ہوا ہے
۱۵۷ عزیز انور احمد ، عزیز مسعود احمد اور عزیز محمد احمد بھاں.میں نے اس میں حضور کے ارشاد کی وجہ سے محمد احمد کی تبدیلی کے علاوہ دوستوں اور بچوں کے مشورہ سے مندرجہ ذیل تبدیلی سمجھو تو کے ساتھ کر دی ہے اور اب یہاں کم از کم عارضی طور پر ذیل کے بیچتے یہاں ٹھہریں گے.عزیز مبارک احمد ، عزیز منور احمد ، عزیز ظفر احمد عزیز مجید احمد، عزیز میر داؤ د احمد ، گوفی الحال عزیزہ اظہر احمد اور طاہر احمد کو بھجوا رہا ہوں یا حضور کے ارشاد کے ماتحت محمد احمد کو باقی انشاء اللہ آہستہ آہستہ تکمیل سکیم کے لئے روانہ کئے جائیں گے.بالآخر دعا کے لئے عرض ہے.یہ خط ساڑھے گیارہ بجے شب تحریر کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ یہاں کا اور وہاں کا حافظ و ناصر ہو.والسلام خاکسار (دستخط) مرزا بشیر احمد ۲۲ شه جناب ملک غلام فرید صاحب کی نوشتہ معلوم ہوتی ہے اور دستخط حضرت میاں صاحب کے قلم سے نہیں ؛ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے مندرجہ بالا خطوط روز نامچہ قادیان ہیں کے بعد اب آپ کا مرتبہ روز نامچہ قادیان در ج از یکم تبوک استمبر تا ۱۶ ماه نبوت رو بر این ذیل کیا جاتا ہے :.۲ ستمبر ۱۹۴۷مه - مسلمان گاؤں سٹھیائی پر جہاں خود حفاظتی کے خیال سے علاقہ کے اور کئی مسلمان دیہات بھی جمع تھے سکھوں کے حملہ کا آغاز ہوا جس میں جمعدار عمر اشرف احمدی شہید ہوئے.ہے سے جمعدار صاحب مرحوم احمدیہ کمپنی ۱۵ ۸ پنجاب رجمنٹ سے جنوری کار میں فارغ ہوئے اور قادیان تشریف لیے آئے تھے.۲۵ اگست کار کو آپ نے حفاظت سلسلہ کے لئے اپنی خدمات پیش کیں.۲۶ اگست کو جناب شیر ولی صاحب کے حکم سے صوبیدار عبد المنان صاحب دہلوی ، عبد السلام صاحب سیالکوٹی ، حوالدار میجر محمد یوسف صاحب گجراتی، محمد اقبال صاحب عبد القادر صاحب کھارے والے ، غلام رسول صاحب سیالکوٹی ، فضل احمد صاحب اور عبدالغفار صاحب کے ہمراہ سٹھیالی روانہ کئے گئے جہاں سکھوں نے رائفل ،ٹین گن ، برین گن اور گرنیڈ ۳۶ کا بے دریغ استعمال کیا جمعدار محمد اشرفت صاحب اور صوبیدار عبد المنان صاحب دہلوی اور محمود احمد صاحب عارف تینوں بڑی بہادری دلیری اور جرات سے دفاع کر رہے تھے کہ یکایک برین گن کا ایک برسٹ جمع دار محمد اشرف صاحب کے سر پر لگا اور آپ اپنے مورائے حقیقی کے حضور پہنچ گئے.اس معرکہ میں صوبیدار عبد المنان صاحب زخمی ہوئے اور آپ کے سینے اور منہ پر گولیاں لگیں.اسی طرح فضل احمد صاحب کے گھٹنے میں مشین گن کی (بقیہ بھاشیہ اگلے صفحہ پر)
۱۵۸ ستمبر ۱۹۴۷ مہ.قادیان کے مشرقی جانب مواضعات بگول اور خوشحال پور وغیرہ کے سات احمدی نہر کے پل پر کا عنوان کی پولیس نے گولی مار کر شہید کر دیئے.براہ.قادیان کے جنوبی جانب مراد پورہ گاؤں کا ایک احمدی سکھوں نے شہید کر دیا اور بعض دوستر احمدیوں کے اموال لوٹ لئے.ستمبر یہ بٹالہ میں قادیان کے تین احمدی نوجوان جو ڈپٹی کمشنر گورداسپور کو ایک چھٹی پہنچانے کے لئے بھار ہے تھے خاکی لباس پہننے کی وجہ سے گرفتار کرلئے گئے اور ان کے موٹر سائیکل چھین لئے گئے ۹۴ہ - قادیان کے گرد و نواح میں جیپ گاڑیوں کی نقل و حرکت ممنوع قرار دے دی گئی اور ۲۱۹۴۷ ر بقیه حاشیہ صفحہ گذشتہ گوئی سورت ہوگئی جو قادیان میں ٹڈاکٹر میجر شاہ نواز خانصاحب نے اپریشن کر کے نکالی یہاں ضمتا یہ بتانا بھی مناسب ہوگا کہ ان ایام میں چونکہ روز بروز گرد و نواح سے آنے والے زخمی مسلمانوں کی تعداد میں زبر دست اضافہ ہو رہا تھا، اس لئے حضرت میاں بشیر احمد صاحب کی اپیل پر تمام احمدی ڈاکٹروں نے اپنی خدمات زخمیوں کی امداد کے لئے رضا کارانہ طور پر پیش کر دی تھیں حضرت میاں صاحب نے اپنی اپیل میں فرمایا :- احمدی ڈاکٹروں کا فرض صرف اس حد تک محدود نہیں ہے کہ زخمیوں کو امداد پہنچائیں بلکہ ہر جہت سے اُن کے آرام کا خیال رکھنا اور انہیں ہر وقت خوراک و غیر مہیا کرنا اور اُن میں اپنی روح کو قائم رکھنا اور اُن کے ساتھ ہر رنگ میں ہمدردی کے ساتھ پیش آنا بھی ڈاکٹروں کے فرض میں شامل ہے" نیز انہیں یقین دلایا کہ اگر انہیں خرچ کا خیال ہو تو میں اس بات کی ذمہ داری لیتا ہوں کہ انشاء اللہ سلسلہ کی طرف سے تمام ضریب " لے حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے ان میں سے دو احمدسی جوانوں کا ذکر اپنی سالانہ رپور میں بھی کیا ہے.فرماتے ہیں کہ ر ضلع کے حکام کو باربار کھا گیا میں خود تراک حالات میں اس غرض سے دو با گورداسپور گیا اور پر موٹرسائیکل پر مستری احمد علی صاحب اور عبدالکریم صاحب پسر با با نظام الدین کو اپنی ضروری چٹھیوں کے ساتھ گورداسپور ڈی سی اور ڈسٹرکٹ بریگیڈیر کے پاس بھیجا.یہ دو نو نوجوان گرفتار کر لئے گئے اور انہیں جیل میں ٹھونسا گیا " در پورٹ صدر انجمن احمدیه ۱۳۲۶۲ مش صفحه ۴۲) تیسرے احمدی جو اُن کے ساتھ قید ہوئے محمد کی صاحب کر سادی تھے.یہ تینوں پہلے بٹالہ اور پھر گورداسپور میں قریباً ایک ماہ تک جیل میں رکھے گئے آخر ایک اچانک یہ لوگ جیل کی سختیاں جھیلنے کے بعد گورداسپور سے رہا ہو کر بٹالہ لائے گئے جہاں سے ایک مسلمان قافلہ کے ساتھ پاکستان پہنچے میتری احمد علی صاحب کا بیان ہے کہ میں گورداسپور جیل سے حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کے بعض ضروری کا غذات بھی لایا تھا جو میں نے رتن باغ پہنچتے ہی حضرت مصلح موعود کی خدمت میں بھجوا دیئے.ادھر یہ غذات پہنچے اُدھر حضور بنفس نفیس سیڑھیوں میں تشریف لے آئے اور آتے ہی فرط محبت سے بغلگیر ہو گئے اور دیر تک مجھے اپنے سینہ سے لگائے رکھا اور معالات دریافت فرمانے کے بعد متعلقہ کارکنوں کو ارشاد فرمایا کہ ان کے کھانے پینے اور علاج معالجہ کا انتظام کیا جائے.چنانچہ حضور کے اس فرمان مبارک کی پوری تعمیل کی گئی.
۱۵۹ چونکہ ہمارے پاس زیادہ تر جیپ گاڑیاں ہی تھیں اس لئے قادیان کے احمدیوں کی نقل و حرکت بالکل بند ہو گئی.۱۱ - ۱۲ ستمبر نہ.ماحول قادیان کے بہت سے دیہات خالی ہو کر قادیان پہنچ گئے جس سے بالآخر قادیا میں پناہ گزینوں کی تعداد ۵۰ ہزار تک جا پہنچی اور قادیان کا ہر مکان اور ہر باغ ہر میدان اور ہر راستہ عملاً پناہ گزینوں کا کیمپ بن گیا.ستمبر یہ قادیان میں متعینہ فوج نے باہر جانے والے پناہ گزینوں کی تلاشی شروع کر دی اور بلد عبد اس تلاشی کے دوران میں ٹینس والے اسلحہ کو بھی چھیننا شروع کر دیا ہے ستمبر یہ چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم اے، ایم ایل اسے ناظر مقامی تبلیغ کو بے بنیاد الزام پر دفعہ ۳۰۲ تعزیرات ہند کے ماتحت گرفتار کر لیا گیا ہے ار ستمبر ر - سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ناظر امور عامہ جماعت احمدیہ کو بے بنیاد الزام پر محمد اه نانا اور امام جماعت احمد بے کے دفعہ ۳۰۲ تعزیرات ہند کے ماتحت گرفتار کر لیا گیا ہے ه مندرجہ ذیل مقامات خاص طور پر مسلم پناہ گزینوں کی رہائش گاہ بنے ہوئے تھے.نصرت گرلز ہائی سکول ، تعلیم الاسلام ہائی سکول، تعلیم الاسلام پرائمری سکول، دارالا نوار کے بعض مکانات ، برآمده تعلیم الاسلام کالج حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے استمبر عاشر کو مولانا جلال الدین صاحب شمس اور مولانا ابو العطاء صاحب کے ساتھ ان جگہوں کا دورہ بھی کیا ؟ ه حضرت مرزا بشیر احمد صاحب امیر مقامی نے استمبر کو حضرت سید نا المصلح الموعود کی خدمت میں لکھا کہ قادیان کی نئی مٹی جو آج آئی ہے راجپوتوں کی ہے اور بلا استناد سب کی سب ہندو ہے یعنی کی پیٹی بھی اور قیت افسر بھی اور سپاہی بھی اور مزید یہ ہے کہ کیپٹن وہی ہے جو گورداسپور میں تھا اور سٹھیالی میں احمدیوں کے مخلاف بہت کچھ کا روائیاں کرتا رہا ہے.ملٹری کی درجہ بدرجہ تبدیلی میں مجھے ایک سوچی ہوئی تدبیر کا پہلو نظر آتا ہے.سب سے پہلی ملٹری کا افسر بھی مسلمان تھا اور سپاہی بھی.دوسری ملڑی کا افسر غیر مسلم تھا.مگر سچا ہی سب کے سب مسلمان تھے میری ملٹری کا افسر غیر مسلم اور سپاہی قریباً نصف مسلمان تھے اور نصیبت غیر مسلم.اور اب جو ملٹری آئی ہے اس کا افسر بھی غیر مسلم ہے ، درسب کے سب سپاہی بھی.غالباً پولیس نے حکام میں خلاف رپورٹیں کر کے یہ صورت حال پیدا کی ہے.ے اس تاریخ کو جمیعہ تھا کہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے حالات کی نزاکت کے مد نظر ہدایت فرمائی کہ جمعہ ہر محلہ کی مسجد میں ہوگا.مسجد اقصٰی میں مولانا شمسی صاحب نے جمعہ پڑھایا ہ چودھری صاحب کو سری گوبند پور کی پولیس نے قادیان میں آکر گرفتار کیا اور الزام یہ رکھا کہ آپ نے موضع ڈھپٹی میں سابق ملٹری کی مصیبت میں کسی سکھ کو گولی کا نشانہ بنایا ہے حالانکہ یہ محض ایک بے بنیاد بات تھی ؟ ے حضرت شاہ صاحب نے اپنی کتاب ”حیات الآخرة “ میں اپنے زمانہ اسیری کے بعض نہایت روح پرور واقعات لکھتے ہیں ؟
14.۱۶ ستمبر ۱۹۴۷ مهر محلہ اسلام آباد متصل آریہ سکول قادیان پر سکھوں نے حملہ کیا اور محمد شریف احمدی کو شہید کر دیا.ار تمبر یہ مقامی امیر نے صحابہ کی جماعت کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مزام پر جا کر اجتماعی دعا کی کہ اسے خدا تو جماعت کے مقدس مرکز کو دشمنوں کے حملہ سے محفوظ رکھ اور اگر تیرے ازلی علم میں یہ حملہ کسی وجہ سے مقدر ہے تو ہمیں صبر و رضاء کے مقام پہ قائم رکھ ہے ۱۸ ستمبر یہ - عزیزم مکرم میاں شریعت احمد صاحب کو ان کی علالت کی وجہ سے موٹر کنوائے میں لاہور بھجوا دیا گیا.19 ستمبر م - محلہ دار السعتہ قادیان پر پولیس کی اعداد سے سیکھ جتھوں نے حملہ کیا اور اسے زبر دستی دار پر نے حملہ تعالی کو الیا گیا ہے بہشتی مقبرہ کے ملحقہ گاؤں منگل باغباناں کو سکھوں نے تخالی کرا لیا.ه قمرالانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے ایک بار اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرمایا :- " میں جب ایک دن قادیان میں صحابہ اور دوسرے بزرگان کی ایک جماعت کو لے کو بہشتی مقبرہ میں دُعا کے لئے گیا تو حضرت مسیح موعود کے مزارہ کو دیکھ کر میرے منہ سے بے اختیار یہ مصرعہ نکلا کہ عمر اے سید الوری مدد سے ! وقت نصرت است اس شعر کے دوسرے مصرعہ ) در بوستان سرائے تو کسی باغباں نہ ماند ) کے پڑھنے کی مجھے ہمت نہیں ہوئی اور میں نے دل میں کہا کہ جب دشمن اپنی مادی طاقت کے مظاہرہ سے ہمیں ختم کرے گا تو پھر اس وقت قادیان سے باہر کے دوست اسے پڑھنے کا حق رکھیں گے “ ہے.الفضل در اخاها اکتوبی همایش صفحه نم کالم ۳-۴) ۱۹ مستمر عامر کو سید محبوب عالم صاحب بہاری قادیان میں شہید کئے گئے.سید صاحب جو ایک نیک اور بے نفس بزرگ تھے 19 ستمبر 29 کی صبح کی نماز کے بعد ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ سیر کے لئے گئے.لیکن ڈی.اے.دی سکول قادیان کے قریب موضع رام پور کے مقابل پر کسی نے انہیں گولی کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا.شروع میں تو ان کی شہادت مشکوک رہی اور انہیں لاپتہ تصور کیا جاتا رہا.لیکن اس واقعہ کے تین دن بعد ایک مسلمان دیہاتی نے جو پناہ گزین کے طور پر باہر سے آیا تھا سید صاحب کے داماد سید صادق حسن صاحب کو بتایا.میں نے اس اس علیہ کی ایک مسلمان نعش جس کے گلے میں نیلا کرتہ تھا ریلوے لائن کے قریب دیکھی ہے.چونکہ سید صاحب مرحوم اسی طرف سیر کو گئے تھے اور یہ گلیہ بھی اُن سے ملتا تھا.اس لئے اس رپورٹ میں شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے.انا للہ وانا الیہ راجعون الفضل ار تبلیغ فروری همایش صفحه ۳ کالم ۴ / ۳۲ ۶۱۹۴۸
۱۹۴۷ مره موضع قادر آباد مشمولہ قادیان پر سکھ جتھوں نے حملہ کیا اور پولیس کی امداد سے مغالی کرا لیا.قادیان میں متعینہ ہندو ملٹری نے ان لڑکوں کی سواریوں میں دخل اندازی شروع کر دی جو پاکستان حکومت کی طرف سے قادیان بھیجوائے جاتے تھے جس کے نتیجہ میں کئی کنوائے جزواً اور ایک کنوائے کلیتہ ہمارے ہاتھ سے چھین لیا گیا.۲۱ ستمبر ۱۹۴۷ - چوہدری عبدالباری صاحب بی.اے نائب ناظر بیت المال کو بے بنیاد الزام پر سیفٹی آرڈی نفس کے ماتحت قادیان سے لاہور آتے ہوئے گرفتار کر لیا گیا اور ان کی پرائیویٹ موٹر کار معہ قیمتی سامان کے ضبط کر لی گئی.قادیان میں بلا کسی بھائز وجہ کے کرفیو لگا دیا گیا جو شروع میں ۴ بجے شام سے لے کر چھ بجے صبح تک رہتا تھا مگر بعد میں وسیع کر دیا گیا اور پھر تو یہ حال تھا کہ پولیس جب چاہتی تھی کسی مصلحت سے دن کے اوقات میں بھی کرفیو گا دیتی تھی مگر ہندو سکھ ملا آزاد ہوتے تھے کہے ۲۲ ستمبر ۱۹۴۷ئر پولیس اور ملٹری نے حضرت امیرالمومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے مکانات اور دفتر اور خاکسار مرزا بشیر احمد کے مکان کی تلاشی کی اور یہ تلاشی صبح 4 بجے سے لے کر دن کے گیارہ بجے تک جاری رہی اور ہمارے مکانات کے تمام حصوں اور ملحقہ رستوں میں مسلح پولیس اور ملٹری کا پہرہ لگا دیا گیا.تلاشی میں ٹرنکوں ، پیٹیوں اور الماریوں وغیرہ کے قفل توڑ توڑ کر ہر چیز کو غور سے دیکھا گیا اور بعض کمروں کے فرشوں کو اُکھیڑا کھیڑ کر بھی تستی کی گئی کہ وہاں کوئی قابل اعتراض چیز تو دہائی ہوئی نہیں.پولیس اور ملٹری جیسا کہ قاعدہ ہے اپنی تلاشی دینے کے بغیر اور زنانہ مکانوں میں پردہ کرانے کے بغیر جس حصہ میں چاہتی تھی گھس بھاتی تھی.مگر کوئی قابل اعتراض چیز بر آمد نہیں کرسکی.البینہ لایسنس والا ہتھیار جو بھی نظر آیا اُسے اُٹھا کر لے گئی.چنانچہ حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ کی ایک شارٹ گن ، سخان محمد احمد خان کی ے کرفیو کا نفاذ در اصل قادیان پر براہ راست تشدد کا آغاز تھا جس کا پہلا نتیجہ یہ ہوا کہ احمدیوں اور دوسنتر مسلمانوں کو صبح اور مغرب و عشاء کی نمازیں مسجدوں میں ادا کرنے کی عملاً ماتحت کر دی گئی ، " الفضل " (لاہور) کار صلح (جنوری ۱۳۲۷ ه مش صفحه ۴ :
ایک بائیں بور رائفل اور عزیز مرزا حمید احمد کا ایک پستول لائسینس دکھانے کے باوجود ابھی تک واپس نہیں کیا گیا.۲۳ ستمبر ۱۹ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کے حکم کے ماتحت خاکسار مرزا بشیر احمد عزیز میجر داود گر کی اسکورٹ میں قادیان سے روانہ ہو کہ لاہور آگیا.میرے پیچھے حضرت صاحب کے ارشاد کے ماتحت مرزا عزیہ احمد صاحب ایم.اسے مقامی امیر مقرر ہوئے.۲۴ ستمبر یہ عزیز مرزا ناصر احمد سلمہ ایم.اے پرنسپل تعلیم الاسلام کالج قادیان اور تحقیر امیرالمونین ایندہ کے بڑے صاحبزادے کے مکان " النصرة " واقعہ دارالا نوار قادیان کی تلاشی لی گئی مگر کوئی قابل اعتراض چیز یہ آمد نہیں ہوئی.۲۷ ستمبر ۱۹۴۷ 19 - پولیس نے محلہ دار الشکر قادیان کے متعدد مکانات کی تلاشی لی اور گو کوئی قابل اعتراض چیز بر آمد نہیں ہوئی مگر ہزاروں روپے کے زیورات اور نقدمی اور دیگر اشیاء اه حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی قبل ازیں حسنہ سے مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمدرضا کو بغرض مشورہ آنے کا ارشاد فرما چکے تھے جس پر حضرت قمران انبیاء نے تصور کی خدمت میں لکھا تھا: " مجھے تو حضور نے جب سے قادیان سے بجاتے ہوئے امیر مقررہ فرمایا تھا میں نے اس وقت سے سمجھ لیا تھا اور دل میں عہد کر لیا تھا کہ اب یہ زندگی اور موت کی بازی ہے انشاء اللہ اسے خدا کی توفیق کے ساتھ نباہنے کی کوشش کروں گا اس لئے میں تو صرف اس وقت باہر بھاؤں گا جبکہ حضور کا معتین حکم ہوگا مگر میرا خیال ہے کہ میاں ناصر احمد کو بجاد باہ بھجوا دیا جائے کیونکہ ان کے متعلق قانونی پیچیدگی کا زیادہ اندیشہ ہے " سيد المصلح الموعود کی طرف سے ، تبوک استمبر کو ہدایت پہنچی کہ مسجد مبارک کا قرعہ فوراً ڈال لیا جائے اور اگر مرزا بشیر ہے صاحب کا نام اس قرصہ میں نکل آئے تو انہیں فوراً بھجوا دیا جائے.اس پر جیسا کہ آپ خود فرماتے ہیں.آپ کے دل پر بھاری بوجھ پڑ گیا کہ میں کام کی تکمیل سے قبل میدان عمل سے باہر جا رہا ہوں والفضل هر اخاها اکتوبری این صفحه ای اسی پریشانی کے عالم میں آپ نے تصور کی خدمت میں لکھا کہ تصور کا ارشاد ہر حال قابل تسلیم ہے مگر میں اس وقت مجیب ، بعد میں ہوں کیونکہ ایک طرف توحضور والی تفصیلی تسلیم صدر صاحبان کو بتالا تو دی گئی ہے اور بعض دوسرے اصحاب کے علم میں بھی آگئی ہے مگر حسب ہدایت ابھی مساجد میں اعلان نہیں ہوا.اور میں ڈرتا ہوں کہ عام اعلان کے ہونے اور لوگوں کے اس سکیم کو جذب کر لینے سے قبل میرا یہاں سے جانا گھبراہٹ کا باعث نہ ہو....مگر بہر حال حضور کا ارشاد مقدم ہے اور میں نے شمس صاحب اور مولوی ابوالعطاء صاحب اور میاں ناصر احمد صاحب کی ایک کمیٹی بنادی ہے کہ وہ اس معاملہ میں رہتے ہیں.گریہ کیٹی بھی غور و فکر کے بعد اس نتیجہ پر پہنچی کہ حضرت میاں صاحب کا پاکستان جانا سلسلہ کے مفاد و مصالح کے مطابق ضروری ہے.تب آپ میجر مزا داؤد احمد صاحب کے اسکورٹ کے ذریعہ پاکستان تشریف اللہ
مضافات قادیان کے نہتے اور ستم رسیدہ مسلمانوں پر شرمناک مظالم (ستمبر ۱۹۴۷ء)
۲۷ تبوک ستمبر ۳۲۶اهش ۱۹۴۷۱ء کو قادیان میں مویشیوں کی وسیع پیمانے لوٹ
147 اُٹھا کر لے گئی اور پناہ گزینوں کی پانچ لڑکیاں بھی پکڑ کر ساتھ لے گئی جنہیں بعد میں واپس کر دیا گیا.۲۵ ستمبر ۱۹۴۷ - بھار مسلمان پناہ گزینوں کو جو مکان آشیانہ مبارک محلہ دارالا نوار میں پناہ لے کر بیٹھے ہوئے تھے پولیس نے گولی کا نشانہ بنا کر ہلاک کر دیا اور ان کی عورتوں کو پکڑ کر لے گئی.اس کے علاوہ دو مزید آدمی لاپتہ ہو گئے اور بعض زخمی ہوئے.یہ واقعہ ۲۵ اور ۲۶ ستمبر کی درمیانی شب کو ہوا.ستمبر 9ر - قادیان میں ٹھہرے ہوئے پناہ گزینوں کے علاوہ مقامی احمدیوں کے قریباً پانچ ہزار مویشی (مالیتی قریباً ۲۰ لاکھ روپیہ) پولیس کی امداد کے ساتھ سکھوں نے لوٹ لئے اور ان کے گڑے اور چھپکڑے بھی لے گئے جس کی وجہ سے وہ آئندہ پھلنے والے پیدل قافلہ میں اپنا سامان ساتھ رکھنے کے ناقابل ہو گئے.پناہ گزینوں کے علاوہ مقامی احمدیوں کے متعدد مویشی بھی سیکھ حملہ آور کوٹ کر لے گئے.۱۹۴۷ئ- ستمبر یه تا یکم اکتوبر مه- سر محمد ظفراللہ خان صاحب کی کوٹھی بیت الظفر واقع محلہ دارالا نوار قادیان کا تمام سامان رسوائے کچھ معمولی فرنیچر کے) ملٹری نے لوٹ لیا اور یہ ٹوٹ برابر پانچ دن تک بھاری رہی.ملٹری کے ٹک رات کو آتے تھے اور کو بھٹی کا سامان سمیٹ سمیٹ کر لے بجاتے تھے.کو بھٹی کے مویشی بھی ٹوٹ لئے گئے.۲۹ ستمبر ۱۹۴۷ئه - مولوی احمد خان صاحب نسیم مولوی فاضل انچارج مقامی تبلیغ اور مولوی عبد العزیز صاحب (بھا مڑی) مولوی فاضل انچارج شعبہ خبر رسانی جماعت احمدیہ کو پولیس نے دفعہ ۳۹۶ و ۳۹۷ تعزیرات ہند کے ماتحت گرفتار کر لیا.اور معلوم ہوا ہے کہ انہیں پولیس کی حراست میں سخت تے تکلیف دی بھاتی رہی ہے.یہ وہ دن تھے جئے چودھری صاحب موصوف قائد اعظم محمد علی جناح کے ارشاد کے مطا نور یو این او میں شامل ہونے والے پہلے پاکستانی وفد کی قیادت فرمارہے تھے اور آپ کی کوٹھی (بیت الظفر میں بھامڑی کے مسلمان پناہ گزین تھے.حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صالات نظارت امور عامہ کی سالانہ رپورٹ (ہ) میں شعبہ کار خاص “ کے زیر عنوان لکھتے ہیں امہ مولوی عبد العزیز صاحب کو گذشتہ فسادات کے ایام میں پولیس نے بلاوجہ محض اس شعبہ کا انچارج ہونے کی وجہ سے گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا اور ہنگامی اور انقلابی حالات کے ماتحت مولوی احمدرضا نیستیم فاضل مبلغ (برما)....کو بھی مولوی عبد العزیز صاحب کے ساتھ اس ڈیوٹی پر کام کرنا پڑا.(بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر)
محلہ دار الانوار قادیان کے متعدد مکانوں کو لوٹا گیا.ان مکانوں میں کوئل ڈاکٹر نویاء اللہ صاحب اسٹنٹ ڈائریکٹر جنرل میڈیکل سروس پاکستان اور خان بہادر چودھری ابوالہاشم خان ایم.اسے ریٹائرڈ انس کے با آف سکولز اور مولوی عبد الرحیم صاحب درد ایم.اسے سابق امام مسجد لنڈن کے مکانات بھی شامل تھے.۳۰ ستمبر ۱۹۴۷ئہ.پولیس نے مقامی خاکروبوں کو حکم دے دیا کہ مسلمانوں کے گھروں میں صفائی کے لئے نبھائیں نہیں کی وجہ سے احمدیوں کے گھر بنجاست سے اُٹ گئے اور احمدیوں کو خود اپنے ہاتھ سے صفائی کا کام کرنا پڑا.یکم اکتوبر تا چھ اکتوبر ہر بٹالہ کی ملٹریا نے پاکستان کی حکومت کے بھجوائے ہوئے لڑکوں کو یہ بہانہ رکھ کر قادیان سجانے سے روک دیا کہ قادیان کی سڑک زیر مرمت ہے.اور جب ہمارے ٹرک بٹالہ میں رُکے تو اس پر سکھ مجھوں اور غیر مسلم ملٹری نے بل کو فائر کئے جس کے نتیجہ میں کئی آدمی زخمی ہوئے اور بعض کا پتہ ہیں اور ٹرک بھی جلا دیا گیا.اس کنوائے میں میرا لڑکا مرزا منیر احمد بھی شامل تھا جو بٹالہ میں دو دن تک قیامت کا نمونہ دیکھنے کے بعد لاہور واپس پہنچا.راستہ کے زیر تعمیر (بقیه حاشیه صفحه گذشته) مولوی عبد العزیز صاحب اور مولوی احمد خاں صاحب نیستیم دونوں گرفتار ہوئے.ان کامنہ کالا کر کے دھاریوال کے بازاروں میں پھر آیا اور لوگوں سے پٹوایا گیا.بقول مولوی احمدخاں صاحب کم از کم ایک ایک ہزار جو تا انہیں مارا گیا.ان سے پوچھا جاتا تھا کہ تلاو.....( DUMPS ) ذخائہ اسلحہ کہاں کہاں ہیں ؟ اس طرح ہوتا سے تھاکہ.تین ہفتہ تک انہیں بلائے تقریب میں مبتلا رکھا گیا اور جب انہیں جیل میں لایا گیا اور مجھے دیکھنے کا موقعہ ملا تو نہایت ہی قابل رحم حالت میں پایا گیا.ان دونوں نے میرے قتل کا قابل رشک نمونہ دکھایا.فجر ہم اللہ احسن الجزاء مہماری آنے والی نسلوں کے لئے ان کا نمونہ مسبر و تقبل بطور نیک یاد کے انشاء اللہ قائم رہے گا " ے اخبار الفضل نے سکوڑی انصارا ایسانہیں کے حوالہ سے اس کنوائے کی حسب ذیل خبر شائع کی :- جمعرات کو ایک کنوائے قاریان کے مسلم پناہ گزینوں کو نکالنے کے لئے روانہ ہوا.یہ کنو نے ۳۳ لڑکوں کے مشتمل تھا.دس فوجی ٹرک فوجیوں کے بال پور کو نکالنے کے لئے، وہ فوجی ٹرک : سول ڈڑک عام مسلم پناہ گزینوں کو نکالنے کے لئے بھی گئے تھے.یہ سب ارک مغربی پنجاب کے غیر مسلم پناہ گزینوں کولے کر گئے تھے.جب یہ کنوائے بٹالہ پہنچا تو اسے روک لیا گیا اور سول ٹرک پناہ گزینوں کے کیمپ میں بھیج دیئے گئے چند ایک ٹرکوں نے قادیان بھانے کے لئے اصرار کیا.انہیں کہا گیا کہ گورداسپور سیا کہ اجازت لے لو پہنی ہے یہ لوک گورداسپور پہنچے لیکن حکام نے یہ کہ کر قادیان جانے سے روک دیا کہ قادیان کی مشرک خواب ہے چنانچہ یہ ٹرک بٹالہ واپس آگئے اور وہاں سے مسلم پناہ گزینوں کو سوار کر لیا.ابھی یہ ٹرک کیمپ سے باہر نکلے ہی تھے کہ ان پر گولیوں کی بارش ہونی شروع ہوئی.بٹالہ پولیس اسٹیشن کے قریب پہنچنے پر (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ یہ
۱۶۵ ہونے کا عذر محض بہا نہ تھا اور غرض یہ تھی کہ ان ایام میں بیرونی دنیا سے قادیان کا تعلق بالکل کٹ کر قادیان کے احمدیوں کو ٹوٹا : درختم کیا جا سکے چنانچہ جیسا کہ بعد کے واقعات بتائیں گے قادیان پہ بڑا حملہ انہی تاریخوں میں ہوا.یکم اکتوبر بر ۱۹۴۷ - حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالے کا مکان بیت الحمد واقع محلہ دارالا نوار قادیان جس میں حضور کے بعض بچے رہائش رکھتے تھے مری نے زبر دستی تعالی کرا کے اپنے قبضہ میں کر لیا.۲ اکتوبر ۱۹۴۷ - پولیس نے احمدیوں کی آٹا پیسنے کی چکیاں محکماً بند کرا دیں جس کے نتیجہ میں قادیان کے محصور شدہ ہزاروں احمدیوں کو (جن میں بچھے ، عورتیں اور بوڑھے شامل تھے) کئی دن تک گندم کے دانے اُبال اُبال کر کھانے پڑے اور اس وجہ سے بیشمار لوگ پیچش کی مرض کا شکار ہو گئے.۱۲ اکتوبر یہ تعلیم الاسلام ڈگری کالج قادیان اور فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ قادیان کی عمارت اور سامان پر ملٹری نے جبراً قبضہ کر لیا اور احمدیوں کو زبر دستی باہر نکال دیا.سکھ میتھوں نے پولیس کی امداد سے محلہ دار الراحت (یہ محلہ دارالرحمت نہیں ہے بلکہ قادیان کی پرانی آبادی کے ساتھ مینوب مغربی بجانب دارالصحت کے قریب ایک اور محلہ ہے، پر حملہ کیا اور (بقیه حاشیه صفحه گذشتہ) معلوم ہوا کہ دشمنوں نے سڑک روک رکھی ہے اور باقاعدہ محاذ بنا رکھا ہے بچنا نچھ تھوڑی دیر کے بعد سامنے سے گولیوں کی بوچھاڑ ہونی شروع ہوئی.سات پناہ گزین جاں بحق اور متعدد مجروح ہوئے.اس جتھے سے بچ بچا کر جب یہ ٹرک واہگہ پہنچے تو مشرقی پنجاب کی متعینہ فوجی پکٹ نے انہیں کئی گھنٹے روکے رکھ).ایک اطلاع مظہر ہے کہ فوج نے اسکارٹ سے ہتھیار رکھوانے کیمپ میں گولیاں تقریباً ایک گھنٹہ تک چلتی رہیں.ایک اور اطلاع کے مطابق ان فرکوں کے بعد ۸ اسول لڑکوں نے بھی پناہ گزینوں کو سوار کر لیا تھا.لیکن ان پر گولیوں کی بے پناہ بارش کی گئی.دشمن کا حملہ اتنا شدید تھا کہ کسی پناہ گزین کے بیچ کر نکلنے کی امید نہیں.یہ امر قابل ذکر ہے کہ اترسوں محکمہ ھر کے چار ٹرکوں کے بٹالہ میں روکے جانے پر مغربی پنجاب کی حکومت نے فوجی حکام کے سامنے جب یہ سوال اُٹھایا تو میجر جنرل کمپنی نے جوابد یا تھا کہ کنوائے کے کمانڈر کو سرٹیفیکیٹ کے لئے اصرار کرنا چاہیے تھا.اس کا یہ مطالبہ جائز ہوتا اور آئندہ کسی ایسے کنوائے کو جس کے پاس سرٹیفکیٹ ہوگا نہیں روکا جائے گا.میجر جنرل چمنی نے اس بات کی بھی تردید کی تھی کہ قادیان کی سٹرک خراب ہے بیچنا نچہ جمعرات کو یہ کنوائے اسی اطمینان کی بناء پر روانہ ہوا تھا ، د روزنامه الفن" هارا غادر اکتوبر بیش صفحه ۶) ۱۳۲۷ 1902 "
حملہ آوروں کا ایک متفقہ محلہ مسجد فضل قادیان میں بھی گھس آیا اور لوٹ مچھائی.موضع بھینی بانگر متصل محله دارد البرکات و دارالا نوار قادیان پر سکھ جتھوں نے حملہ کیا ہندو مسٹری موقعہ پر موجود تھی مگر ہوا میں فائر کرنے کے سوا اس نے عملہ کے روکنے میں کوئی حصہ نہیں لیا.اور ۳-۲ اکتوبر کی درمیانی شب قریباً ساری رات گولیاں چلتی رہیں.بھینی کی کئی مسلمان عورتیں اغوا کرلی گئیں اور گاؤں خالی کرا لیا گیا ہے ۲ اکتوبر ۱۹۱۴ئد - ۲ اور ۱۳ اکتوبر کی درمیانی شب کو قادیان کی مسجد اقصیٰ (یعنی منارة المسیح والی جامع مسجد میں بم پھینکا گیا جو ایک قریب کے مہند و مکان کی طرف سے آیا تھا.اس بم سے موذن مسجد کا لڑکا بری طرح زخمی ہوا.اور دشمن نے ہمیں بتا دیا کہ ہم مسلمانوں کے جان مال اور عزت ہی کے پیاسے نہیں بلکہ ان کی مقدس جگہوں کی بیحرمتی کے واسطے بھی تیار ہیں.۳ اکتوبر ۱۹ سر.یہ دن قادیان کی تاریخ میں خصوصیت سے یاد گار رہے گا کیونکہ اس دن دشمنوں کے مظالم اپنی انتہا کو پہنچ گئے اور لوٹ مار اور قتل و غارت اور اغوا کے واقعات بھیانک ترین صورت میں ظاہر ہوئے.سب سے پہلے آٹھ اور نو بجے صبح کے درمیان قادیان کی عربی بجانب سے محلہ مسجد فضل پر ہزار ہا سکھوں نے پولیس کی معیت میں حملہ کیا اور قتل وغارت کرتے ہوئے مسجد اقصیٰ کے عقب تک پہنچ گئے اور جو عورتیں مسجد کے کچھواڑے پناہ لینے کے لئے جمع تھیں ان میں سے کئی ایک کو اغوا کر لیا گیا.اور جب احمدی نوجوان عورتوں کی آہ و پکار سن کر اُن کی طرف بڑھے تو دو نو جوانوں کو خود پولیس نے گولیاں چلا کر مسجد کی دیوار کے ساتھ شہید کر دیا.بعین اس وقت اطلاع ملی کہ قادیان کے محلہ دار الفتوح اور محلہ وار الرحمت پر بھی ہزارہا سکھوں نے حملہ کر دیا ہے اور ساتھ ہی ان کے حملہ کو کامیاب بنانے کے لئے پولیس نے کرفیو کا اعلان کر دیا چنانچہ اس حملہ میں دو سو کے قریب مسلمان ( احمدی اور غیر احمدی، مرد اور عورتیں، بچے اور بوڑھے) یا تو شہید ہو گئے اور یا لاپتہ ہو کہ ابتک مفقود الخبر ہیں.شہید ہونے والوں میں حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی ایک حرم محترم کے حقیقی ماموں مرزا احمد شفیع صابی اسے ه روزنامه الفصل ، صلح بر جنوری به بیش صفحه ۵۰۴ : +1907 سے (پروفیسر ناصر احمد صاحب ابن سرا بعدین صاحب موذن مسجد اقصٰی مراد ہیں (مرتب) *
196 بھی تھے یا جو اپنے مکان کی ڈیوڑھی میں پولیس کے ہاتھوں گولی کا نشانہ بنے مگر ظالم دشمنوں نے شہید احمدیوں کی لاشیں تک نہیں لینے دیں تاکہ ان کی شناخت اور صحیح تعداد کو مخفی رکھا جا سکے اس دن حملہ آوروں نے لاکھوں روپے کا سامان احمدیوں کے گھروں سے ٹوٹا.اس قسم کے نازک حالات میں بیرونی محلہ جات کے صدر صاحبان نے جماعت کی حفاظت ( خصوصاً عورتوں اور بچوں کی حفات) کے خیال سے یہ ضروری سمجھا کہ قادیان کی احمدی آبادی کو بعض مخصوص جگہوں میں سمیٹ کر محفوظ کر لیا جائے.چنانچہ ایک حصہ تعلیم الاسلام ہائی سکول کے بورڈنگ میں جمع ہو گیا اور دوسرا دار سیح اور مدرسہ احمدیہ اور اس کے ملحقہ مکانات میں بند ہوگیا.ہزارہا انسانوں کے تھوڑی سی جگہ میں محصور ہو جانے سے صفائی کی حالت نہایت درجہ ابتر ہو گئی اور بعض میگہ پہ ایک ایک فٹ تک بنجاست جمع ہو گئی جیسے احمدی مقدام نے خود خاکروبوں کی طرح کام کر کے گڑھوں میں بند کیا.دوسری طرف آٹے کی مشینوں کے بند ہونے کی وجہ سے جہاں اکثر حصہ آبادی کا گندم اُبال اُبال کر کھا رہا تھا وہاں بیماروں اور دودھ پلانے والی عورتوں اور چھوٹے بچوں کے واسطے آٹا مہیا کرنے کے لئے بہت ے جناب مرزا عزیز احمد صاحب (ابن مرز اعطاء اللہ صاحب ) تحریر فرماتے ہیں کہ برادرم مرزا احمد شفیع صاحب حضرت مرزا محمد شفیع صاحب (محاسب صدر انجمین احمدیہ) مرحوم و مغفور کے بڑے صاحبزادے تھے.آپ اگست سہ میں پیدا ہوئے.بچپن سے ہی نہایت متین اور کم گو واقع ہوئے تھے.طبعاً بہت ذہین تھے اور اس کے علاوہ علم کا شوق بھی بہت تھا.علم ریاضی کے خاص طور پر ماہر تھے برا نہ میں آپ نے اعلیٰ نمبروں سے میٹرک پاس کیا.چونکہ حساب کی طرف خاص رغبت تھی اس لئے ایف.اے اور بی.اسے میں ڈبل میتے لے کر اعلیٰ نمبروں سے ڈگری حاصل کی طبیعت صد درجہ سادہ تھی اس لئے بورڈنگ میں رہنے کے باوجود اور کالج کی زندگی گزارنے کے بعد بھی آپ نے وہاں کے ماحول کا کوئی اثر نہ لیا اور نہایت ہی سادگی سے یہ ایام گزارے.ڈگری حاصل کرنے کے بعد 19 میں آپ ٹریننگ کالج لاہور میں ا.A.حمد کی ٹریننگ کے لئے داخل ہو گئے.یہاں آپ نے ایک سال میں ٹریننگ مل کر لی.اس وقت سے آپ تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں بطور اُستاد کے اپنے فرائض سرانجام دیتے رہے.سلسلہ کی خدمت کو اپنا شعار بنایا.نماز با جماعت اور خدام الاحمدیہ کے کاموں میں بہت دلچسپی لیتے رہے.ہر قسم کے چندوں اور خصوصاً تھر یک بعدید میں ہر سال اضافہ کے ساتھ حصہ لیتے رہے.اپنی زندگی کے آخری لمحہ تک اپنے فرائض کو نہایت احسن طور پر نبھاتے رہے اور آخرم اکتوبر نہ کو اپنے مرکز اپنے جان سے پیارے قادیان کی حفاظت کرتے ہوئے اپنے محبوب حقیقی کی گود میں جا بیٹھے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.A." بلانے والا ہے سب سے پیارا اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر و الفضل ۱۳ فتح دسمبر پیش صفه (۴)
۱۶۸ ۱۴ سے معزف احمدی مردوں کو اپنے ہاتھ سے جھکیاں چلانی پڑیں.یہ دن وہ تھے جبکہ دار مسیح اور مدرسہ احمدیہ میں ٹھہرے ہوئے لوگ ان احمدیوں سے بالکل کٹے ہوئے تھے ہو تعلیم الاسلام ہائی سکول کے بورڈنگ میں محصور تھے کیونکہ درمیانی راستہ بالکل بند اور خطرناک طور پر مخدوش تھا.انہی ایام میں نواب محمد علی خاں صاحب مرحوم کی کونٹی دار السلام اور عزیزم مکریم میاں شریف احمد صاحب کی کو بھٹی پر تبرا قبضہ کر لیا گیا.اکتوبر ائر - قادیان میں جمع شدہ پناہ گزینوں میں سے چالیس ہزار انسانوں کا پہلا پیدل قافلہ قادیان سے علی الصبیح روانہ ہوا.ہندو ملٹری ساتھ تھی لیکن ابھی یہ قافلہ قادیان کی حد سے نکلا ہی تھا کہ سکھ جمعوں نے حملہ کر دیا اور چھ میل کے اندر اندر کئی سو مسلمان شہید کر دیئے گئے.اور بہت سی عورتیں اغوا کر لی گئیں اور جو رہا سا سامان مسلمانوں کے پاس تھا وہ لوٹ لیا گیا.دیکھنے والے کہتے ہیں کہ کئی دن بعد تک نہر کے ساتھ ساتھ میل با میل تک لاشوں کے نشان نظر آتے تھے لہ اکتوبر کو کوفیہ اٹھنے کے بعد جب بعض بیرونی محلوں میں رہنے والے احمدی اپنے مکانوں دیکھ بھال کے لئے باہر جانے لگے تو بڑے بازار کے اختتام پر جو ریتی چھلہ سے ملتا ہے ، عین دن دہاڑے بر سر بازار سات احمدیوں کو گولی کا نشانہ بنا کر شہید کر دیاگیا.ان لوگوں میں میاں سلطان عالم بی اے معاون ناظر ضیافت بھی تھے.اور جب بعض لوگ شہید ہونے والے احمد یو نے اتفاق کی بات یہ ہے کہ اس روز قادیان سے لاہور کے فون کا کنکشن بھی مل گیا جسے کئی ذریعہ قادیان اور اس الہ پر حملہ کی خبر پاکستان پہنچی اور پاکستان ریڈیو سے نشر کردی گئی جس پر ڈپٹی کمشنر گورداسپور کے حکم سے پاکستان سے فون کے رابطہ کی براہ راست لائن کاٹ دی گئی ؟ ہ مرحوم کے والد ماجد قریشی شیر عالم صاحب ہی.اسے بی.ٹی لکھتے ہیں کہ تزیز سلطان عالم ۲۶ تنومبر 19 کو پیدا ہوا.۱۹۳۷ ء میں تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان سے درجہ اول میں میٹرک کا امتحان پاس کیا.اس عرصہ میں تحریک جدید بورڈنگ میں داخل رہا اور باقاعدہ تہجد خواں ہونے کی وجہ سے انعام حاصل کرتا رہا.زمیندارہ کالج گجرات سے اعلیٰ درجہ دوم میں ایف اے پاس کیا اور ۲۰۰۸ کے مقابلہ کے امتحان میں کامیاب ہو کر ملازم ہو گیا.دوران ملازمت میں ہی منشی فاضل کا امتحان پاس کر کے بھی اہے پاس کر لیا.دو میں وصیت کی.پھر حضور کے حکم کے ماتحت اپنی جائداد وقف کر دی.جون شام میں مرحوم کہانی ۲۲ کی اپنی کے ہے میں معاون ناظر ضیافت کے فرائض کی انجام دہی کے لئے تعینات کیا گیا.اپنی 19 ستمبر کے ارد کی چٹھی میں ہم تم کو ریقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر ) !
149 کی لاشوں کو اُٹھانے کے لئے آگے بڑھے تو وہ بھی گولی کا نشانہ بنا دیئے گئے.۴ اکتوبر ۱۹۴۷ مر - سٹار ہوزری قادیان کے مال کو لوٹ لیا گیا جس میں بیش قیمت اون اور لا تعداد جرابیں اور سویٹر اور کمبل وغیرہ شامل تھے اور یہ نوٹ مالہ مقامی مجسٹریٹ کی آنکھوں کے سامنے ہوئی.هر اکتوبر ۱۹ ه.بیرونی پناہ گزینوں کا دوسرا پیدل قافلہ قادیان سے روانہ ہوا.اس قافلہ میں قریباً دس ہزار مسلمان شامل تھے اور کچھ راکت بڑے حمل میں وادی میں شہید ہو چکے تھے.یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس قافلہ بچہ راستہ میں کیا گزری.تعلیم الاسلام ہائی سکول کے بورڈنگ میں محصور شدہ احمدیوں سے ہندو ملٹری نے جبر بیگار لی اور ان کے سر پہ کھڑے ہو کہ پناہ گزینوں کے چھوڑے ہوئے سامانوں کو اکٹھا کروا کر مختلف مقامات پر پہنچانے کے لئے مجبور کیا.اس قسم کی بیگار کئی دن کی بجاتی رہی.تعلیم الاسلام ہائی سکول کی عمارت پر معہ اس کے سامان کے قبضہ کر لیا گیا.جماعت احمدیہ کا مردانہ اور زنانہ نور ہسپتال جبرا خالی کروالیا گیا اور بیماروں اور زخمیوں کو بڑی البقیہ حاشیہ صفحہ گذشتہ گولیکی پہنچی.مرحوم نے لکھا حضور کا حکم ہے کہ عورتوں اور بچوں کو بھیجدو اور خوب ڈٹ کر مقابلہ کرو ہم تو حضور کے حکم کے مطابق سخون کا آخری قطرہ بہانے کے لئے یہاں بیٹھے ہیں حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب بی.اے بی.ٹی ناظر ضیافت نے ان کی وفات پر اپنے تاثرات کا اظہار درج ذیل الفاظ میں فرمایا : " قریشی صاحب مرحوم واقعی نہایت صالح مخلص نوجوان احمدی تھا.اپنی شب و روز محنت وستی سے جو سلسلہ عالیہ کی خدمت میں اپنے فرائض ادا کرتے ہمیں اپنا گرویدہ بنا لیا.رات کے دس دس بجے تک کام کرتے رہتے اور صبح تہجد کے لئے بھی جاگتے اور نماز فجر کے بعد فوراً جملہ انتظامی امور کی طرف متوجہ ہو جاتے.دراصل ہر وقت فرائض مفوضہ کے ادا کرنے میں مستعد رہتے " افضل فتح بالای صفحه ) کالم ) صدر انجین احمدیہ پاکستان کی رپورٹ ہش میں لکھا ہے :- وہ دن رات مہمان خانہ کے اندر رہتے اور تہانوں کی ضروریات کو پورا کرنے میں بہت دلچسپی لیتے تھے مگر افسوس کہ ہر اکتوبر کی صبح کو جبکہ وہ اپنے فرائض ادا کر کے کرفیہ دو گھنٹے اُٹھ جانے کی وجہ سے باہر محلہ میں جانے کے لئے قصد کرتے ہوئے بھائی محمود احمد صاحب میڈیکل ہال کی دکان سے گزر رہے تھے کہ ایک ظالم سکھ سپاہی نے انہیں گوئی کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا " (صفحہ ۳۴) چونکہ بھارت کی حکومت یہ ظاہر کرنا چاہتی تھی کہ اس کے ہاتھوں بہت کم نقصان ہوا ہے اس لئے مرحوم کو نواب پتال کے ایک گڑھے میں دبا دیا گیا جہاں اب کتبہ بھی نصب کر دیا گیا ہے شہید نے بوڑھے والدین ، جوان بیوه سنت ڈاکٹر عمر بن هضا افریقی ساکن گجرات) دو بیٹے (خلیل احمد اور نعیم احمد ) دو بھائی (پیر محمد عالم صاحب پر حمید عالم سجاد صاحب) اور میں نہیں بطو زیاد گار چھوڑیں خلیل احم صاحب جو حادثہ شہادت کی وقت تین برس کے تھے اب گورنمنٹ مڈل سکول گولیکی میں جماعت ہشتم کے انچارج ہیں اور نعیم احمد صاحب ایک اور وو کی عمر میں یتیم رہ گئے تھے ان دنوں کھاریاں چھاؤ
K.۱۰ بے دردی کے ساتھ باہر نکال کر ہسپتال کا قبضہ ایک ہندو ڈاکٹر کو دے دیا گیا اور بعد میں ایک سیکھ ڈاکٹر کو اس کا انچارج بنا دیا گیا ہے ار اکتوبر ۱۹۴۷ئر مسجد اقصی پر پھر بمباری کی گئی بھاریوں میں سے دو نے پھٹ کر مسجد کے فرش کو نقصان پہنچایا.اور ایک بم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے والد بزرگوار کی عین قبر کے پاس گرا مگر خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ پھٹا نہیں ہے عزیزم مرزا رشید احمد کی بیوک کا ر ضبط کر لی گئی.اس سے قبل ملک عمر علی صاحب ہی.اسے کی پرائیویٹ کالہ بھی ضبط کر لی گئی تھی.اس طرح جماعت کے دو بھاری ٹرک اور دو پندرہ ہنڈرڈ ویٹ والے لڑک بھی ضبط کر لئے گئے.اسی طرح بعض اور موٹر گاڑیاں بھی حکومت کی ضرورت کا بہانہ رکھ کر ضبط کرلی گئیں.۱۴ اکتوبر ۱۹۹۴۷ در و ۱۹۴۷ له حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے مرزا عزیز احمد صاحب ایم.اسے ، کرنل ڈاکٹر عطاء اللہ صاحب کی اسکویٹ میں لاہور آگئے اور ان کی جگہ قادیان میں مولوی جلال الدین حصان شمس سابق امام مسجد لنڈن کو امیر مقامی مقرر کیا گیا ہے ے اور تا ۱۹ اکتوبر کے بعض ضروری واقعات : 4 اکتوبر.قادیان سے پانجھے بتدریعہ فون یہ اطلاع موصول ہوئی " ہم لوگ گندم ابال کر کھا رہے ہیں.پناہ گزینوں کو گندم ابال کر بوریوں میں ڈال کو پہنچا دیگی اگر ہمیں فون کرنا ہو تو گورداسپور فون کیا جائے تو ۳۷ نمبر پر گھنٹی بجتی ہے اور ہم لوگ MESSAGE من لیتے ہیں ورنہ دوسرے طریقہ سے فون نہیں ہو سکتا ہمارے گھروں میں عورتوں اور بچوں کی کثرت کی وجہ سے تعفن بہت پیدا ہو گیا ہے (یا دور ہے اس روز آٹھ دس ہز ار سلم پناہ گزینوں کا قافلہ قادریا سے روانہ ہوا تھا اور اٹی ہوئی گندم کی بوریاں جس کا ذکر فون کے ابتدا میں کیا گیا ہے اسی قافلہ کے پناہ گزینوں کو پنچائی گئی تھیں ، اکتوبر.ایک پاکستانی بہاز نے جس پر برین گن کے گولے برسائے گئے حسب ذیل رقعہ پھینکا " میاں صاحب ! السلام علیکم، کنوائے بٹالہ سے واپس کر دیا گیا ہے.اس سے قبل بھی تین دفعہ کا نوائے واپس کئے جاتے رہے ہیں کینوائے بھیجنے کی کوشش کی جارہی ہے.در اکتوبر تعلیم الالا کے یہاں سکو نیشنل کالی کے سپرد کر دیا گیا.۱۹ اکتوبر.پندرہ سولہ سکھوں نے صبح اندھیرے میں حملہ کر دیا.گولیاں چلائیں اور تین ہم ایسے مکان پر پھینے کے جہاں احمدی مستور است ناہ گزین تھیں.ے.یہ صبح کی نماز کا وقت تھا.ہم دلیسی ساخت کے تھے جین اس وقت بھبکہ مسجد اقصی پر بمباری کی جا رہی تھی محلہ دارالعلوم کے عقب سے بورڈنگ تحریک جدید پر بھی فائر ہونے شروع ہو گئے : (مرتب) سے اسی روز (۱۴ ماہ اعضاء کو جامعہ احمدیہ کی عمارت (واقع گیسٹ ہاؤس دارالانوار ) پر ملٹری نے قبضہ کر لیا.اور اس میں مقیم طلبہ کو زبر دستی باہر نکال دیا.یہ طلبہ حضرت مولوی عبد المغنی خاں صاحب کے مکان میں منتقل ہو گئے اور ان کے بعد جامعہ کی بیش قیمت لائیبریہ کی نذر آتش کر دی گئی ہے
141 ۱۵ اکتوبر ۱۹۴۷ئر - جماعت احمدیہ کا پر لی جس میں جماعت کا مرکزی انجا الفضل چھپتا تھا اور اسی طرح حضرت خلیفہ ایسی اول کی لائیبر یوری اور اس کے ساتھ شامل شده دیگر لائیبریریوں پر قبضہ کر کے ان پر مہریں لگا دی گئیں.اس مرکزی لائیبریری میں تیس ہزار کے قریب علمی کتابیں تھیں ، ہجو زیادہ تر عربی اور فارسی میں تھیں اور کئی نایاب کتب اور بیش قیمت قلمی نسخے بھی لائیبریری میں موجود تھے جن سے احمدی علما ء اپنی علمی تحقیقاتوں میں فائدہ اُٹھاتے تھے.۳۰ اکتوبر ائر.اس دن معلوم ہوا کہ حملہ کے ایام میں اور اس کے بعد قادیان کی تین مسجدوں کی بیحرمتی کی گئی ہے یعنی مسجد محلہ دارالرحمت کے مینار مسمار کر دیئے گئے تاکہ مسجد کی علامت کو مٹا دیا بجائے مسجد خوجیاں (جو قادیان کے دوسرے مسلمانوں کی مسجد تھی، پر یہ بورڈ لگا دیا کیا کہ یہ آریہ سماج کا مندر ہے اور محلہ وارالعلوم کی مسجد نور جو تعلیم الاسلام کالج کے ساتھ ملحق تھی اسے غیر مسلموں نے اپنی بجلسہ گاہ بنا لیا اور صحن مسجد کے نلکوں پر سکھوں نے کپڑے دھونے شروع کر دیئے.14 نومبر کہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالی کے حکم سے مولوی جلال الدین صاحب شمس اور عزیزم مرزا ناصر احمد صاحب قادیان سے لاہور آگئے.اور شمس صاحب کی جگہ قادیان میں مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل امیر مقامی اور عزیزم مرزا ظفر احمد صاحب ناظر اعلیٰ مقرر ہوئے" نے قادیان پر حملہ اور خونریز جنگ کی واضح تفصیلات حضرت قران انبیاء کے الفاظ میں قادیان پر ہونے والے مظالم کا اجمالی خاکہ درج کرنے کے بعد اب ہم قادیان پر حملہ اور خونریز جنگ کی واضح تفصیلات سید نا المصلح الموعود کی زبان مبارک.پیش کرتے ہیں حضور نے یہ تفصیلات انہی ایام میں تین مفصل اور معرکۃ الآراء مضامین اور ایک خطبہ جمعہ اور پریس کا نفرنس میں بیان فرمائی تھیں.له " الفضل" در صلح بجنوری ، صلح جنوری ، ۹ صلح / جنوری ماه پیش حضرت میاں بشیر احمد صاحب نے افضل کے ان گرانقدر مضامین کو اُردو میں مظالم قادیان کا خونی روز نجی کے نام سے اور انگریزی میں " QADIAN DIARY کے نام سے بکثرت شائع فرما دیا تھا ہے
۱۷۲ سید تا اصلح الموعود کا پہلا مضمون حضرت سید اصلح الموعود نے کوائف قادیان کی نسبت جو پہو اہم مضمون تحریر فرمایا وہ بجنسہ درج ذیل کیا جاتا ہے.قادیان اس وقت ہندوستان یونین کی دیانتداری کی آزمائش بعنوان "قادیان" کا محل بنا ہوا ہے.قادیان احمدیہ جماعت کا مرکز ہے جس کا یہ عقیدہ ہے کہ جس حکومت کے ماتحت رہیں اس کے پورے طور پر فرمانبردار اور مددگار رہیں.جب ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت تھی احمدیہ جماعت ہمیشہ حکومت کے ساتھ تعاون کرتی تھی گو مناسب طریق پر اس کی غلطیوں سے اسے آگاہ بھی کرتی رہتی تھی.بعض لوگ جماعت احمدیہ کے اس طریق پر اعتراض کرتے تھے اور اسے انگریزوں کا خوشامدی قرار دیتے تھے.جماعت احمدیہ اس کے جواب میں ہمیشہ یہی کہتی تھی کہ ہم صرف انگریزوں کے فرمانبردار نہیں بلکہ افغانستان میں افغانی محکومت کے اور عرب میں وبی حکومت کے ، مصر میں مصری حکومت کے اور اسی طرح دوسرے ممالک میں ان کی حکومتوں کے فرماں بردار اور مددگار ہیں.ہمارے نزدیک دنیا کا امن بغیر اس کے قائم ہی نہیں رہ سکتا کہ ہر حکومت میں بسنے والے لوگ اس کے ساتھ تعاون کریں اور اس کے مددگار ہوں پچھلے پچاس سال میں جماعت احمدیہ نے اس تعلیم پر عمل کیا ہے اور آئندہ بھی وہ اسی تعلیم پر عمل کرے گی جب ہندوستان دو حصوں میں تقسیم ہو گیا اور اس میں ہندوستان یونین اور پاکستان قائم ہوئے تو اس وقت بھی جماعت احمدیہ نے اعلان کیا کہ ہندوستان یونین میں رہنے والے احمدی ہندوستان یونین کی پوری طرح اطاعت کریں گے اور پاکستان میں رہنے والے احمدی پاکستان حکومت کے متعلق میاں نثاری اور اطاعت سے کام لیں گے.پاکستان حکومت نے تو ان کھے اس اعلان کی قدر کی اور اچھے شہریوں کی طرح اس سے برتاؤ کیا لیکن ہندوستان یونین نے ان کے اس اعلان کی ذرا بھی قدر نہیں کی اور 4 اگست کے بعد پہلے قادیان کے ارد گرد ! اور پھر قادیان میں وہ فساد مچھوایا کہ تیس کی کوئی حد نہی نہیں.ایک ایک کر کے احمدی گاؤں کو برباد کیا گیا اور جنہوں نے دفاع کی کوشش کی ان کو پولیس اور ملٹری نے گولیوں سے مارا جب قادیان کے اردگرد کے گاؤں ختم ہو گئے تو پھر قادیان پر حملہ شروع ہوا.احمدی جماعت کے معززین یکے ے یہ مضمون پمفلٹ کی صورت میں بھی شائع کیا گیا جسے بھارتی حکومت نے ضبط کر لیا تھا یہ
پور دیگر سے گرفتار ہونے شروع ہوئے قتل، ڈاکے اور خونریزی کے الزام میں گویا وہ جماعت جس نے اپنی طاقت اور قوت کے زمانہ میں قادیان کے رہنے والے کمزور اور قلیل انتعداد ہندو اور سکھوں کو کبھی تھپڑ بھی نہیں مارا تھا اس نے تمام علاقہ کے مسلمانوں سے معالی ہو جانے کے بعد اور سکھ پولیس اور ہندو مڑی کے آبھانے کے بعد ان علاقوں میں شکل کو جن میں کوئی مسلمان نہ دن کو بھا سکتا تھا نہ رات کو ، ڈاکے مارے اور قتل کئے اور یہ ڈا کے اور قتل بھی ان لوگوں نے کئے جو جماعت کے چھوٹی کے آدمی تھے جن میں سے بعض ساٹھ سال کی عمر کے تھے.مرکزی نظام کے سیکرٹری تھے اور یونیورسٹیوں کے گریجوایٹ تھے.گویا احمدید جماعت جو اپنی عقل اور دانائی میں دنیا بھر میں مشہور تھی اس وقت اس کی عقل کا دیوانہ نکل گیا اور سکھ اور ہندو ملٹری کے آنے کے بعد اس نے اپنے مرکزی کارکنوں کو زمیندار سکھوں کو مروانے کے لئے باہر بھیجنا شروع کر دیا اور اس کے گریجوایٹ مبلغ ڈاکے مارنے کے لئے نکل پڑے.شاید پاگل خانہ کے ساکن تو اس کہانی کو مان لیں مگر عقلمند لوگ ان باتوں کو قبول نہیں کر سکتے شاید ہندوستان یونین کے افسر یہ خیال کرتے ہیں کہ دنیا ان کی ہر بے وقوفی کی بات مان لیگی یا شاید وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کے سوا باقی ساری دنیا جاہل یا مجنون ہے.بہندوستان یونین کے وزراء نے بار بار یہ اعلان کیا ہے کہ وہ کسی مسلمان کو اپنے ملک سے نکل جانے پر مجبور نہیں کرتے لیکن قادیان کی مثال موجود ہے کہ ان لوگوں کو جو ہندوستان یونین میں رہنے پر راضی ہی نہیں بلکہ مصر ہیں طرح طرح کی تکلیفیں پہنچا کہ پولیس اور ملٹری کے در سے نکالنے کی کوشش کی جارہی ہے.قادیان کے متعلق ہندوستان یونین دنیا کو کیا جواب دے گی.کیا وہ یہ کہے گی کہ یہ لوگ اپنے مقدس مذہبی مقام کو چھوڑ کر جا رہے تھے ہم نے ان کو روکا نہیں.یا وہ یہ کہے گی کہ ایک کیپٹن اور ایک پوری کمپنی مڑی کی وہاں موجود تھی اور اس کے علاوہ پولیس کا تھا نہ بھی وہاں موجود تھا.۳۰۳ کی رائفلوں کے علاوہ سٹین گن اور برین گن بھی موجود تھیں مگر ان کے با وجو د ہندوستان یونین ان سکھوں کے حملوں کو نہ روک سکی جو قادیان پر جملہ کر رہے تھے اور ان احمدیوں کو اپنے مکانات مخانی کرنے پڑ سے جن کے بڑھے بھی بقول ہندوستان یونین اس فتنہ کے زمانہ میں بھی آٹھ آٹھ دس دس میل باہر جا کہ سکھوں کہ مار رہے
۱۷۴ تھے اور جن کے مبلغ اور گریجوایٹ ارد گرد کے سکھوں کے دیہات پر جھا کہ ڈاکے مار رہے تھے کیا دنیا کا کوئی شخص اس کو تسلیم کر سکے گا کہ یہ با ہر نکل نکل کر ڈا کے مارنے اور قتل کرنے والے لوگ ان سکھ جتھوں سے ڈر کر جن کے مالوں کو ٹوٹنے کے لئے وہ باہر جاتے تھے اپنے مکان چھوڑ دیں گے اور ملٹری اور پولیس بھی ان بہادر سکھوں کے مقابلہ میں بے کار ہو جائے گی.جن کے گاؤں پر دو دو احمدی بھا کہ ڈاکہ مارنے کے قابل ہو سکے اور جنہیں سلسلہ احمدیہ کے بڑھنے سیکرٹری ارد گرد کے علاقہ میں گولیوں کا نشانہ بناتے پھرتے تھے.ہر عقلمند انسان اس بات کو تسلیم کرے گا کہ دونوں کہانیوں میں سے ایک کہانی جھوٹی ہے اور یا پھر دونوں ہی جھوٹی ہیں.اور حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں کہانیاں ہی جھوٹی ہیں.کہہ آج ہندوستان کی یونین کے افسر حکومت کے نشہ میں اس قسم کے افتراء کو معقول قرار دے سکتے ہیں مگر آئندہ زمانہ میں مورخ ان کہانیوں کو دنیا کے بدترین جھوٹوں میں سے قرار دیں گے.احمدیہ جماعت قادیان میں بیٹھی ہے اور اپنے عقائد کے مطابق بار بار حکوت کو کہ چکی ہے کہ ہم یہاں رہنا چاہتے ہیں لیکن اگر تم ہمارا یہاں رہنا پسند نہیں کرتے تو ہمیں حکم دے دو.پھر ہم تمہارے اس حکم کے متعلق غور کر کے کوئی فیصلہ کریں گے.لیکن ہندوستان یونین کے افسر ایسا نہیں کرتے اور نہ وہ ایسا کر سکتے ہیں.کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس سے ان کی ناک کٹ بھائے گی اور وہ دنیا میں ذلیل ہو جائیں گے.وہ گولیوں کی بوچھاڑوں اور پولیس اور ملٹری کی مدد سے بغیر کسی آئینی وجہ کی موجودگی کے احمدیوں کو قادیان سے نکالنا چاہتے ہیں.چنانچہ تازہ اطلاعات سے معلوم ہوتا ہے کہ چند دن سے قادیان جانے والی لاریوں کو سٹرک کی خوابی کے بہانہ سے روکا بھا رہا ہے.لیکن اصل منشاء یہ ہے کہ دنیا سے قادیان کو کاٹ کر وہاں من مانی کاروائیاں کی جائیں.چنانچہ ہفتہ اور اتوارکی درمیانی رات کو جبکہ سیالکوٹ کے ڈپٹی کمشنر گورداسپور کے ڈپٹی کمشنر سے انتظامی معاملات کے متعلق فون پر بات کر رہے تھے.انہیں یکدم قادیان کے فون کی آوانہ آئی اور معلوم ہوا کہ قادیان کا کوئی شخص ڈپٹی کمشنر گورداسپور کو فون کر رہا ہے.وہ ڈپٹی کمشنر گورداسپور کو یہ اطلاع دے رہا تھا کہ دو دن سے یہاں گولی پھلائی جا رہی ہے.قادیان کے دو محلوں کو لوٹا جا چکا ہے اور
۱۷۵ ان محلوں کے احمدی سمٹ کر دوسرے محلوں میں پچلے گئے ہیں.اور یہ گولی پولیس اور ملٹری کی طرف سے چلائی جارہی ہے.اس خبر کے سننے کے بعد ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ نے ڈپٹی کمشنر گورداسپور سے پوچھا کہ آپ نے یہ بات سنی.اب آپ کا کیا ارادہ ہے.انہوں نے کہا.ہم میں یہ تو اطلاع تھی کہ بھینی پر سکھ حملہ کر رہے ہیں مگر یہ اطلاع نہیں تھی کہ قادیان پر سکھ حملہ کر رہے ہیں.گویا بھیتی میں انسان نہیں بستے اور وہ ہندوستان یونین کے شہری نہیں اور اس لئے بھینی میں مسلمانوں کا خون بالکل ارزاں ہے.اس پر ڈی سی سیالکوٹ نے کہا.اب آپ کیا کا روائی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں.تو ڈی سی گورداسپور نے جواب دیا کہ میں کل سپرنٹنڈنٹ پولیس کو وہاں بھیجھاؤں گا.ڈی سی سیالکوٹ نے ان کو کہا.یہ اس قسم کا اہم معاملہ ہے کہ اس میں آپ کو خود جانا چاہئیے...........آپ خود کیوں نہیں جاتے.انہوں نے کہا.اچھا ئیں خود ہی جاؤں گا.اس کے بعد قادیان سے فون پر حالات معلوم کرنے کی کوشش کی گئی.اور اتفاقاً فون مل گیا جو اکثر نہیں ملا کرتا.اس فون کے ذریعہ جو حالات معلوم ہوئے ہیں وہ یہ ہیں کہ کل تک ۱۵۰ آدمی مارا جا چکا ہے جن میں سے دو آدمی مسجد کے اندہ مارے گئے ہیں.احمدیہ کالج پر بھی پولیس اور ملٹری نے قبضہ کر لیا ہے اور دو احمدی محلے اُٹھوا دیئے ہیں.دارالا نوار اور دارالرحمت.دارالا نوار میں سر ظفر اللہ خان کی کوٹھی بھی اور امام مہتے احمدیہ کا بیرونی گھر بھی ٹوٹا گیا ہے.لوگ ہم سے پوچھتے ہیں کہ اب ان باتوں کا نتیجہ کیا ہوگا.جیسا کہ ہم پہلے بتا چکے ہیں، احمدیہ جماعت کا یہ مسلک نہیں کہ وہ حکومت سے محکمہ کھائے.اگر سیکھ سجھتے ایک ایک احمدی کے مقابلہ میں سو سو سکھ بھی لائیں گے تو قادیان کے احمدی ان کا مقابلہ کریں گے اور آخردم تک ان کا مقابلہ کریں گے.لیکن جہاں جہاں پولیس اور ملڑی حملہ کرے گی وہ ان سے لڑائی نہیں کریں گے.اپنی جگہ پر چھٹے رہنے کی کوشش کریں گے.مگر جس جگہ سے ملی اور پولیس ان کو زور سے نکال دے گی اس کو وہ خالی کر دیں گے اور دنیا پر یہ ثابت کر دیں گے کہ مہندران یونین کا یہ دعویٰ بالکل جھوٹا ہے کہ جو ہندوستان یونین میں رہنا چاہے خوشی سے رہ سکتا ہے.لوگ کہتے ہیں کہ اگر ایسی ہی بات ہے تو آپ لوگ اپنے آدمیوں کی جائیں کیوں خطرہ
144 میں ڈال رہے ہیں.آپ قادیان کو فوراً خالی کر دیں.اس کا جواب یہ ہے کہ ہم قادیان میں تین اصول کو مدنظر رکھ کو ٹھہرے ہوئے ہیں.اول مومن کو خدا تعالیٰ کی مدد سے آخر وقت تک مایوس نہیں ہونا چاہیے.جب تک ہم کو پکڑ کر نہیں نکالا جاتا ہمیں کیا معلوم ہو سکتا ہے کہ خدا کی مشیت اور خدا کا فیصلہ کیا ہے.اس لئے احمدی وہاں ڈٹے رہیں گے تاکہ خدا تعالیٰ کے سامنے ان پر یہ محبت نہ کی جائے کہ خدا کی نصرت تو آرہی تھی تم نے اس سے پہلے کیوں مایوسی ظاہر کی.دوسرے جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے احمدیوں نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ ہندوستان یونین کے دعووں کی آزمائیش کریں گے اور یہ حقیقت آشکار کر کے چھوڑیں گے کہ جب وہ کہتے ہیں کہ کسی کو ہندوستان یونین سے جانے پر مجبور نہیں کیا جائے گا تو وہ سچ کہتے ہیں یا گھوٹ احمر منی بچاہتے ہیں کہ انہیں بھی معلوم ہو جائے اور دنیا کو بھی معلوم ہو جائے کہ ہندوستان یونین کے وزراء بھوٹے ہیں یا پیچھے.بے شک احمدیوں کو وہاں ٹھہرے رہنے میں قربانی کرنی پڑے گی لیکن ان کے وہاں ٹھہرے رہنے سے ایک عظیم الشان حقیقت آشکار ہو جائے گی یا تو دنیا کو یہ معلوم ہو جائے گا کہ ہندوستان یونین کے افسر نیک نیتی اور دیانت داری کے ساتھ اپنے ملک میں امن قائم رکھنا چاہتے تھے اور یا دنیا پر یہ ظاہر ہو جائے گا کہ وہ منہ سے کچھ اور کہتے تھے اور ان کے دلوں میں کچھ اور تھا.کیونکہ قادیان سے احمدیوں کا نکالا جانا ایک فوری واقعہ نہیں تھا کہ جس کی اصلاح ان کے اختیار میں نہیں تھی.قادیان پر حملہ ایک مہینہ سے زیادہ عرصہ سے پھیلا آرہا ہے.اس کے علاوہ خود میں نے پنڈت جواہر لال صاحب نہرو سے باتیں کیں اور ان کو اس طرف توجہ دلائی پنڈت جواہر لال صاحب نہرو نے مجھے یقین دلایا کہ سہندوستان یونین ہرگز مسلمانوں کو اپنے علاقہ سے نکلنے پر مجبور نہیں کرتی.انہوں نے مجھے یقین دلایا کہ تین چار دنوں تک وہ فون اور تار کے راستے کھلوانے کی کوشش کرینگے اور دو ہفتہ تک قادیان کی ریل گاڑی کے بھاری کروانے کی کوشش کریں گے حمدیہ جماعت کا وفد سردار بلد یوسنگھ صاحب سے بھی ملا اور انہوں نے اصلاح کی ذمہ واری کی اور یہانتک کہا کہ وہ خود قادیان بجا کر ان معاملات کو درست کرنے کی کوشش کریں گے.احمدیہ جماعت سلے حاشیہ اگلے صفحہ پر ملاحظہ ہو
144 کے وفد نے ہندوستان کے ہائی کمشنر مسٹر سری پر کاش صاحب سے کراچی میں ملاقات کی اور ان کو یہ واقعات بتائے.انہوں نے کہا میں نے ہندوستان یونین کو اس طرف توجہ دلائی ہے اور دو تاریں اس کے متعلق دی ہیں مگر مجھے جواب نہیں ملا.احمدیہ جماعت کا وفد اس مرمر ر حاشیه متعلقہ صفحہ گذشتہ) حضرت سیدنا الصلح الموعود نے "سیر روحانی " میں اس ملاقات کا ذکر درج ذیل سید “ الفاظ میں فرمایا ہے:.چنانچہ جب پارٹیشن ہوئی تو میں جو پہلے اس طرف آیا ہوتی اس غرض سے آیا تھا کہ پنڈت نہرو صاحب یہاں آئے ہوئے تھے.میں نے سمجھا کہ اس سے جا کر بات کروں کہ یہ کیا ظلم ہو رہا ہے سٹرار شوکت بیت صاحب کے ہاں وہ کا وہ ٹھہرے تھے میں نے انہیں ملنے کے لئے لکھا تو انہوں نے وقت دے دیا.لیکں نے ان سے کہا ہم قادیان میں ہیں.گاندھی جی اور قائد اعظم کے درمیان سمجھوتہ ہوا ہے کہ تو ہندو ادھر رہے گا وہ پاکستانی ہے اور جو مسلمان ادھر رہ جائے وہ ہندوستانی ہے اور اپنی اپنی حکومت اپنے اپنے افراد کو بچائے اور وہ لوگ جو حکومت کے وفادار رہیں قائد اعظم اور گاندھی جی کے اس فیصلہ کے مطابق ہم چونکہ ہندوستان میں آرہے ہیں اس لئے ہم آپ کے ساتھ وفاداری کرنے کے لئے تیار ہیں بشرطیکہ آپ ہمیں سہندوستانی بنائیں اور رکھیں.وہ کہنے لگے ہم تو رکھ رہے ہیں.میں نے کہا.آپ کیا رکھ رہے ہیں.فسادات ہو رہے ہیں.لوگ دار رہے ہیں.قادیان کے ارد گرد جمع ہو رہے ہیں مسلمانو کو مارا بھا رہا ہے.کہنے لگے.آپ نہیں دیکھتے ادھر کیا ہو رہا ہے.میں نے کہا ادھر جو ہو رہا ہے وہ تو میں نہیں دیکھ رہا میں تو اُدھر سے آیا ہوں لیکن فرض کیجئے ادھر جو کچھ ہو رہا ہے ویسا ہی ہو رہا ہے تب بھی میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ یہاں کا جو ہندو ہے وہ تو پاکستانی ہے اور اس کی ہمدردی پاکستان گورنمنٹ کو کرنی چاہئیے.ہم ہیں ہندوستانی آپ کو ہماری ہمدردی کرنی چاہئیے.اس کا کیا مطلب کہ یہاں کے ہندوؤں پر سختی ہو رہی ہے تو آپ وہاں کے مسلمانوں پر سختی کریں گے.کہنے لگے.آپ جانتے نہیں لوگوں میں کتنا بوش پھیلا ہوا ہے.میں نے کہا.آپ کا کام ہے کہ آپ اس جوش کو دبائیں.بہر حال اگر آپ مسلمانوں کو رکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو ان کی حفاظت کرنی پڑیگی.وہ کہنے لگے ہم کیا کر سکتے ہیں لوگوں کو ہوش اس لئے آتا ہے کہ آپ کے پاس ہتھیار ہیں.آپ نہیں کہیں کہ جو ہتھیار نا جائز ہیں وہ چھوڑ دیں.میں نے کہا آپ یہ تو فرمائیے میں ان کا لیڈر ہوں اور میں انہیں کہتا رہتا ہوں کہ محروم نہ کر دو شرار نمی کرد خا نہ کرو.اگر کسی نے نا جائزہ ہتھیار رکھا ہوا ہے تو کیا وہ مجھے بتا کہ رکھے گا.میں تو انہیں کہتا ہوں شرم نہ کرو.نہیں وہ تو مجھ سے چھپائے گا اور جب اس نے اپنا ہتھیار مجھ سے چھپایا ہوا ہے تو میں اسے کیسے کہوں کہ ہتھیار نہ رکھے.کہنے لگے آپ اعلان کر دیں کہ کوئی احمدی اپنے پاس ہتھیار نہ رکھے.میں نے کہا.اگر میں ایسا کہوں تو ربقیہ حاشیہ انکے صفحہ پیا
16A میں سردار سمپورن سنگھ صاحب ڈپٹی ہائی کمشنر ہندوستان یونین سے ملا اور متعدد بار ملا.انہوں نے یقین دلایا کہ انہوں نے افسران کی توجہ کو اس طرف پھر ایا ہے اور انہوں نے ایک خط بھی دکھایا تو انہوں نے ڈاکٹر بھا گوا صاحب وزیر اعظم مشرقی پنجاب اور سردار سورن سنگھ صاحب ربقیہ حاشیہ صفحہ گذشتہ) میری جماعت تو مجھے لیڈر اس لئے مانتی ہے کہ لیکن معقول آدمی ہوں.وہ مجھے کہیں گے صاحب ! ہم نے آپ کو معقول آدمی سمجھ کے اپنا لیڈر بنایا تھا.یہ کیا بیوقوفی کہ رہے ہیں کہ چاروں طرف سے ہندو اور سکھ حملہ کر رہا ہے اور مار رہے ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ تم اپنے پاس کوئی ہتھیار نہ رکھو.آپ یہ بتائیں کہ ہم جان کیسے بچائیں گے.کہنے لگے ، کہیے ہم بچائیں گے حکومت بچائے گی.جب انہوں نے کہا حکومت بچائے گی تو میں نے کہا ، بہت اچھا.میں اس وقت اپنے ساتھ تمام علاقہ کا نقشہ نے گر گیا تھا.نہیں نے کہا.قادیان کے گرداشی گاؤں پر حملہ ہو چکا ہے جو ہندوؤں اور سکھوں نے بھلا دیئے ہیں اور لوگ مار دیتے ہیں.لیکن یہ نقشہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں.جب میں ان سے کہوں گا کہ دیکھو اپنے پاس ہتھیار نہ رکھو کیونکہ حکومت تمہیں بچائے گی تو وہ کہیں گے کہ سب سے آخری گاؤں جو حد پر تھا جس پر حملہ ہوا تو کیا گورنمنٹ نے اسے بچایا.یکن کہوں گا.ارے گورنمنٹ خدا تھوڑی ہی ہے اسے آخر آہستہ آہستہ پتہ لگتا ہے کچھ عقل کرو.دو چار دن میں گورنمنٹ آجائے گی.پھر وہ اگلے گاؤں پہ ہاتھ رکھیں گے اور کہیں گے تین دن ہوئے یہ گاؤں جلا تھا.کیا گورنمنٹ نے مسلمانوں کو کوئی امداد دی.میں کہوں گا بغیر کچھ دیر تو لگ جاتی ہے تو وہ اگلے گاؤں پہ ہاتھ رکھیں گے.اچھا ہم مان لیتے ہیں کہ کچھ دیر لگنا ضروری ہے.مگر اس گاؤں پر حملہ کے وقت حکومت نے حفاظت کا انتظام کیوں نہ کیا میں نے کہا.یہ انشتی گاؤں ہیں.اتنی گاؤں پہ پہنچی کہ وہ مجھے فاتر العقل سمجھنے لگ جائیں گے یا نہیں کہ مجھے گاؤں ہم پیش کر رہے ہیں ان میں سے کسی پر بھی حملہ ہوا تو حکومت نہیں آئی.شرمندہ ہو گئے اور کہنے لگے میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ امن قائم رکھوں گا.میں نے کہا کتنی دیر میں کہنے لگے پندرہ دن میں پندرہ دن میں رہیں بھی چلا دیں گے تاریں بھی کھل جائیں گی.ڈا کھا نے بھی کھل جائیں گے اور ٹیلیفون بھی جاری ہو جائے گا.آپ چند دن صبر کریں.میں نے کہا.بہت اچھا ہم صبر کر لیتے ہیں.لیکن جب پندرہ دن ختم ہوئے تو آخری حملہ قادیان پر ہوا جس میں سب لوگوں کو نکال دیا گیا.پھر ان حملوں میں بچے مارے گئے اور ایسے ایسے ظالمانہ طور پر قتل کئے گئے کہ بچوں کے پیٹوں میں نیزے مار مار کے انہیں قتل کیا گیا ہم نے اس وقت تصویریں لی تھیں جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ بچوں کے ناک کاٹے ہوئے ہیں.کان چھرے ہوئے ہیں.پیٹ چھا ہوا ہے.انتڑیاں باہر نکلی ہوئی ہیں اور وہ تڑپ رہے ہیں.چھوٹے چھوٹے بچے کچھ چھ مہینہ کے اور سال سال کے تھے جن پر نیٹ سلم کیا گیا ہے سیر روحانی جلد سوم صفحه ۲۵۳ تا ۲۵۵)
149 ہوم منسٹر مشرقی پنجاب کو لکھا تھا جس کا مضمون یہ تھا کہ مشرقی پنجاب مسلمانوں سے خالی ہو گیا ہے.اب صرف قادیان باقی ہے.یہ ایک چھوٹا سا شہر ہے اور احمدیہ جماعت کا مقدس مذہبی مرکز ہے.اسے تباہ کرنے میں مجھے کوئی حکمت نظر نہیں آتی.اگر اس کی حفاظت کی جائے تو یہ زیادہ معقول ہوگا.پھر ڈپٹی ہائی کمشنر کے مشورہ سے احمدیہ جماعت کا ایک وفد بجالندھر گیا اور ڈاکٹر بھار گوا صاحب اور سردار سورن سنگھ صاحب سے بلا اور چوہدری لہری سنگھ صاحب سے ملا.ان لوگوں نے یقین دلایا کہ وہ احمدیہ جماعت کے مرکز کو ہندوستان یونین میں رہنے کو ایک اچھی بات سمجھتے ہیں.اچھی بات ہی نہیں بلکہ قابل فخر بات سمجھتے ہیں اور یہ کہ فوراً اس معاملہ میں دخل دیں گے.پھر اس بارہ میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو بھی متواتر تاریں دی گئیں مسٹر گاندھی کو بھی متواتر تاریں دی گئیں.بہت سے ممالک سے ہندوستان یونین کے وزراء کو تاریں آئیں ؟ انگلستان کے نومسلموں کا وفد مسٹر ہینڈرسن سے جو ہندوستان کے معاملات کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں ملا.مسٹر وجے لکشمی پنڈت نے بھی اپنے بھائی کو تار دی.اس عرصہ میں قادیان کے بہادر ہ اس ملاقات کی خبر اخبار ” نوائے وقت لاہور نے اپنی بر ستمبر کہ ان کی اشاعت میں بھی دی تھی جو یہ تھی :- مشرقی پنجاب کے وزیر اعظم سے احمدیوں وفد کی ملاقات لاہور ستمبر آج احمدیوں کے ایک وفد نے مشرقی پنجاب کے وزیر اعظم ڈاکٹر گوپی چند بھارگو اور سردار سورن سنگھ سے ملاقات کرکے قادیان کے عوام پر حکومت کے ناجائز تشدد کا شکوہ کیا.ایسوسی ایٹڈ پریس کی اطلاع کے مطابق ڈاکٹر بھارگو اور سورن سنگھ نے اس وفد کو یہ یقین دلایا ہے کہ مشرقی پنجاب کی حکومت مسلمانوں کے مکمل اخراج کی خواہاں نہیں ہے “ (نوٹ : یہ پہلا وفد حسب ذیل ارکان پرمشتمل تھا.حضرت نواب محمد الدین صاحب چوہدری اسد اللہ خان صاحب جناب شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور، یہ و قد ۲۳ تبوک استمیز یہ پیش کو جالندھر میں مشرقی پنجاب کے وزراء اور وفد پر ہوم منسٹر سے ملا) کے اخبار انقلاب لاہور ۲۰ ستمبر ۱۹۴۷ به صفحه ۲ پر گاندھی بھی کو مرکزی انجمین احمدیہ کا تار کے عنوان سے حسب ذیل خبر شائع ہوئی :- اہور - ۸ استمبر پاکستان کی مرکزی جماعت احمدیہ نے گاندھی جی کی اس تجویز کا ولی خیر مقدم کیا ہے کہ آبادی کا بدلہ نہ کیا جائے سکرٹری صاحب نے جوتا گاندھی جی کو بھیجا ہے.اس میں کہا گیا ہے کہ اقلیتوں کے تحفظ کی ذمہ داری متعلقہ حکومت پر عائد ہوتی ہے جو حکومت اس ذمہ داری سے عہدہ یہ آنہیں ہو سکتی وہ دنیا کی نظروں میں عملوا مستور نہیں ٹھہر سکتی.اور آبادی کا تبادلہ حکومتوں کو دیوالیہ بناکر رکھ دیگا.وہ احمدی جن کے گھر مشرقی پنجاب میں ہیں وہ اپنے گھروں کو واپس پہلے جانے پہ آمادہ ہیں.گاندھی جی سے استدعا کی گئی کہ وہ اپنے اثر و رسوخ کو معرض استعمال میں لاکر ان لوگوں کی حفاظت کا انتظام کرائیں" (اوپی)
باشندے انسانوں کے ڈر کو دل سے نکال کر پولیس ، ملٹری اور سکھ چھتوں کے مشترکہ جملوں کو برداشت کرتے چلے گئے لیکن اس تمام لیے زمانہ میں حکومت کی طرف سے کوئی قدم اصلاح کا نہیں اُٹھایا گیا.ان واقعات کی موجودگی میں ہندوستان یو نین یہ نہیں کر سکتی کہ ہمیں اصلاح کا موقعہ نہیں ملا.شاہ تی ہے.اپنے مقدس مقامات کو یونہی چھوڑ دینا ایک گناہ کی بات ہے جب تک تما یمکن انسانی کوششیں اس کے بچانے کے لئے تخریج نہ کی جائیں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس کام میں احمدیہ جانت کو بہت سی قربانی کرنی پڑے گی اور بظاہر دنیا کو وہ بیکار نظر آئے گی لیکن جیسا کہ ہم نے اوپر بتایا ا جاتا امیدی کی طرف سے کس طرح ہر حد پر بھرتی کیا اوراس کے دانوں کو مطلع اور پانی رکھا اورقیام اس کے ت لئے اپیلیں کیں ، تار دیئے ، وفود بھیجے.اسکی کی تفصیل حضرت قمر الا نبیاء نے ایک کتابچہ PADIAN A TEST CASE" میں نہایت جامعیت کے ساتھ شائع فرما دی تھیں.روزنامہ " انقلاب " نے اس رسالہ پر حسب ذیل الفاظ میں تبصرہ شائع کیا تھا :- تنقید و تبصره قادیان ایک آزمائشی کھیں.A TEST CASE QADIAN مرکزی انجمن احمدیه در رتن باغ (لاہور) کے چیف سیکرٹری صاحب نے سو صفحے کے اس پمفلٹ میں یہ بتایا ہے کہ ۱۲ اگست سے لے کر اب تک قادیان میں کیا کچھ قتل ، خون ، لوٹ مار گرفتاریاں ہوئیں.ناظر امور عامہ قادیان نے ۱۲ ستمبر کو ڈپٹی کمشنر گورداسپور کو ایک مفصل چٹھی لکھی جس میں قادیان کے واقعات بیان کر کے ان کے تدارک کی طرف توجہ دلائی.مرزا بشیر احمد صاحب نے سردار سورن سنگھ کو مراسلہ بھیجا.ناظر امور عامہ نے سردار پٹیل کو چھٹی لکھی.پھر ، اکتوبر کو پنڈت جواہر لال نہرو کو خط لکھا.حضرت امام جماعت احمدیہ نے پنڈت سندر لال کی وساطت سے گاندھی جی کو ایک بیان بھیجا.پھر چیف سیکر ڈی چیمپین احمدیہ نے ڈپٹی کشترا اور علاقہ مجسٹریٹ کو خط لکھے.پھر پنڈت جواہر لال نہرو کو تار دیا.ہائی کمشنر مٹری پی ان کو چھٹی لکھی.پھر ناظر امور خارجہ نے پنڈت جواہر لال نہرو کو خط لکھا.ان تمام مراسلات میں قادیان کے حوادث کی اطلاع دی گئی اور بتایا گیا کہ ہم پر امن ہیں.پر امن رہنا چاہتے ہیں.حکومت کے لئے کسی قسم کی پریشانی کا باعث نہیں ہونا چاہیئے.لیکن ہمارے ہاں بے شمار آدمی مارے بھا چکے ہیں سینکڑوں عورتیں اغوا کی جاچکی ہیں.قتل و خون کا بازار گرم ہے.ہماری جائیدادیں کوئی جارہی ہیں.اگر آپ کہیں تو ہم قادیان چھوڑ کر چلے جائیں.اگر آپ یہ کہنے کے لئے تیار نہیں تو ہماری حفاظت کا انتظام کیجئے.لیکن ان تمام خطوط کا کسی نے جواب نہ دیا.اس پمفلٹ میں قادیان اور اس کے نواحی دیہات کی تباہی ، مساجد کے انہدام ، قتل و جوع اور ٹوٹ یار دیقیہ حاشیہ اگلے صفر پر) "
JAI ہے حقیقت میں وہ بیکار نہیں ہوگی.وہ قربانی جو قادیان کے احمدی پیش کریں گے وہ پاکستان کی جڑوں کو مضبوط کرنے میں کام آئے گی.اور اگر ہندوستان یونین نے اب بھی اپنا رویہ بدل لیا تو اس کا یہ رویہ ایک پائیدار صلح کی بنیاد رکھنے میں محمد ہوگا.جماعت احمدیہ کمزور ہے.وہ ایک علمی جماعت ہے.وہ فوجی کاموں سے ناواقف ہے.لیکن وہ اسلام کی عزت قائم رکھنے کے لئے اپنے نا چھیتر خون کو پیش کرنے میں فخر محسوس کرتی ہے.ہمارے سینکڑوں عزیزہ بھاگتے ہوئے نہیں اپنے حق کا مطالبہ کرتے ہوئے مارے گئے ہیں اور شاید اور بھی مارے بھائیں.کم سے کم لوکل حکام کی نیت یہی معلوم ہوتی ہے کہ سب کے سب مارے جائیں لیکن ہم خدا تعالیٰ سے یہ امید کرتے ہیں کہ وہ ہماری مدد کرے گا اور ہمارے دلوں کو سبر اور ایمان بخشے گا.ہمارے مارے جانے والوں کی قربانیاں ضائع نہیں جائیں گی وہ ہندو ستان میں اسلام کی بڑوں کو مضبوط کرنے میں کام آئیں گی.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو خاکسار مرزا محمود احمد !! پہلے مضمون کے بعد قادیان کے حالات جلد جلد پلٹا کھانے سینا اصلح موعود کا دوسرا مضمون تھے جس پر حضور نے قادیان " ہی کے عنوان سے سب لگے پر " " حسب بعنوان "قادیان میں سو مضمون ہو تو سلم فرمایا.(بقیہ معاشی نہ گذشتہ کی تفصیلات کے اعداد وشمار بھی فراہم کئے گئے ہیں.اور حقیقت یہ ہے کہ قادیان کے معاملے نے مشرقی پنجاب کی حکومت اور حکومت ہند کی بدنیتی اور فساد پر وری کا بھانڈا پورا ہے میں پھوڑ کر رکھ دیا ہے.بعض دوسرے واقعات کے متعلق وہ لوگ لاعلمی کا اظہار کر سکتے ہیں.لیکن قادیان کے متعلق یہ نہیں کہہ سکتے کہ انہیں واقعات کا علم نہ تھا.کیونکہ ہر مرحلے پر ہر متعلقہ حاکم اور وزیر کو اطلاع دی گئی.اخباروں میں شور مچایا گیا لیکن جالندھر اور دہلی والوں نے ایسی چپ سادھی گویا سازش کر رکھی ہے.قادیان کے معاملے میں حکومت ہندا در حکومت مشرقی پنجاب پر غفلت اور سنگدلی اور مسلم کشی کا الزام لگایا جاتا ہے.اس کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہے.قادیان والے تقسیم پنجاب کی رو سے مشرق میں رہ گئے تھے اور امن وامان سے رہنے کا عہد کو چھکے تھے لیکن انہیں بھی وہاں نہ رہنے دیا گیا اور ان کی حفاظت کا کوئی بندوبست نہ کیا گیا" و پر در روزنامہ انقلاب لاہور 4 جنوری ۱۱۷ صفحه (1) " له الفضل" در اتحاد / اكتوبر له مش صفحه ۱-۲ م ١٩
ر ہم قادیان کے متعلق پہلے کچھ حالات لکھ چکے ہیں.ہم بتا چکے ہیں کہ قادیان اور مشرقی پنجاب کے دوسرے شہروں میں فرق ہے.قادیان کے باشندے قادیان میں رہنا چاہتے ہیں.لیکن مشرقی پنجاب کے دوسرے شہروں کے باشندوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ مشرقی پنجاب میں نہ رہیں.بہندوستان یونین کی گورنمنٹ بار بار کہہ چکی ہے کہ ہم کسی کو نکالتے نہیں.لیکن قادیان کے واقعات اس کے اس دعوی کی کامل طور پر تمدید کرتے ہیں.حال ہی میں قادیان کے کچھ ذمہ دار افسر گورنمنٹ افسروں سے ملے اور باتوں باتوں میں ان سے کہا کہ آپ لوگ اپنی پالیہ ہم پر واضح کر دیں.اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہم قادیان چھوڑ دیں تو پھر صفائی کے ساتھ اس بات کا اظہار کر دیں.افسر مجاز نے جواب دیا کہ ہم ایسا ہر گز نہیں چاہتے.ہم چاہتے ہیں کہ آپ قادیان میں رہیں.جب اسے کہا گیا کہ وہ کہاں رہیں، پولیس اور ملٹری کی مدد سے سکھوں نے تو سب محلوں کے احمدیوں کو زبردستی نکال دیا ہے اور سب اسباب لوٹ لیا ہے.آپ ہمارے مکان خالی کرا دیں تو ہم رہنے کے لئے تیار ہیں تو اس پر افسر مجازہ بالکل خاموش ہو گیا اور اس نے کوئی جواب نہ دیا.درحقیقت وہ انسر خود تو دیانتدار ہی تھا لیکن وہ وہی کچھ رکٹ لگا رہا تھا جو اُسے اُوپر سے سکھایا گیا تھا.جب اس پر اپنے دعویٰ کا بودا ہونا ثابت ہو گیا تو خاموشی کے سوا اس نے کوئی چارہ نہ دیکھا.شاید دل ہی دل میں وہ ان افسروں کو گالیاں دیتا ہو گا جنہوں نے اسے یہ مضلات عقل بات سکھائی تھی.قادیان کے تازہ حالات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ لکڑی تقریباً ختم ہے.گندم بھی ختم ہو رہی ہے.گورنمنٹ کی طرف سے غذا مہیا کرنے کا کوئی انتظام نہیں.اب تک ایک چھٹانک آٹا بھی گورنمنٹ نے بہتا نہیں کیا عورتوں اور بچوں کے نکالنے کا جو انتظام تھا اس میں دیدہ دانستہ روکیں ڈالی جارہی ہیں.بارش ہوئے کو آج نو دن ہو چکے ہیں.بارش کے بعد قادیان سے دو پہنچے آپکے ہیں.اسی طرح قریباً روزانہ ہندوستانی یونین کے ٹرکیس فوج یا پولیس سے متعلق ت دیان آتے جاتے ہیں.اور اس کے ہمارے پاس ثبوت موجود ہیں.چارہ تاریخ کو پولیس ایک لڑک قادیان سے چل کر واہگہ تک آیا.تین تاریخ کو پاکستان کے ان فوجی افسروں کے سامنے جو گورداسپٹو کی فوج سے قادیان بجانے کی اجازت لینے گئے تھے ایک فوجی افسر نے آکر میجر سے پوچھا کہ وہ
۱۸۳ ٹرک ہو قادیان بھانا تھا کس وقت بھائے گا.پاکستانی افسروں کی موجودگی میں اس سوال کوشن کو میجر گھبرا گیا اور اس کو اشارہ سے کہا پھلا جا.اور پھر پاکستانی افسروں سے کہا اس شخص کو غلطی لگی ہے.قادیان کوئی ٹرک نہیں بجا سکتا.چار ہی تاریخ کو پاکستان کے بوٹک قادیان گئے تھے اور ان کو بٹالہ میں روکا گیا تھا، انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ دو ملڑی کے ٹرک قادیان سے بٹالہ آئے سب سے کھلا ثبوت اس بات کے غلط ہونے کا تو یہ ہے کہ انہی تاریخوں میں جن میں کہا جاتا ہے کہ قادیان جانے والی سٹرک خواب ہے پرانی ملٹری قادیان سے باہر آئی ہے اور نئی ملٹری قادیان گئی ہے.کیا یہ تبدیلی ہوائی جہازوں کے ذریعہ سے ہوئی ہے.پس یہ یہانہ بالکل غلط ہے اور اصل غرض صرف یہ ہے کہ قادیان کے باشندوں کو جنہوں نے استقلال کے ساتھ مشرقی پنجاب میں رہنے کا فیصلہ کر لیا ہے اس جرم میں ہلاک کر دیا جائے کہ وہ کیوں رتی پنجا ب میں سے نکلتے نہیں.مونہہ سے کہا جاتا ہے ہم کسی کو نکالتے نہیں لیکن عمل سے اس بات کی تردید کی جاتی ہے.یہ بات اخلاقی لحاظ سے نہایت ہی گندی اور نہایت نا پسندیدہ ہے جماعت احمدیہ نے مسٹر گاندھی کے پاس بھی بار بار اپیل کی ہے ، تاریں بھی دی ہیں اور بعض خطوط بھی لکھے ہیں لیکن مسٹر گاندھی کو ان چھوٹی چھوٹی باتوں کی طرف توجہ کرنے کی فرصت نہیں مسٹر نہرو کو بھی اس طرف توجہ دلائی گئی ہے مگر وہ بھی بڑے کاموں میں مشغول ہیں بچند ہزار بیگناہ مسلمانوں کا مارا جانا ایسا معاملہ نہیں ہے جس کی طرف یہ بڑے لوگ توجہ کر سکیں.ایک چھوٹی سی مذہبی جماعت کے مقدس مقامات کی ہتک ان بڑے آدمیوں کے لئے کوئی قابل استناد بات نہیں.اگر اس کا سوواں حصہ بھی انگریز قادیان میں کیس رہے ہوتے اور ان کی جان کا خطرہ ہوتا تو لارڈ مونٹ بیٹن کو حقوق انسانیت کا بعد یہ فوراً بے تاب کر دیتا.مسٹر گاندھی بیسیوں تقریریں انگریزوں کے خلاف کارروائی کرنے والوں کے تعلق پبلک کے سامنے کر دیتے.مسٹر نہرو کی آفیشل مشین فوراً متحرک ہو جاتی مگر کمزور جماعتوں کا خیال رکھنا خدا تعالیٰ کے سپرد ہے.وہی غریبوں کا والی وارث ہوتا ہے یا وہ انہیں ایسی تکالیف سے بچاتا ہے اور یا پھر وہ ایسے مظلوموں کا انتقام لیتا ہے.ہم تمام شریف دنیا کے سامنے اپیل کرتے ہیں کہ اس ظلم کے دور کرنے کی طرف توجہ کریں.ہم نہیں سمجھ سکتے کہ پاکستان گورنمنٹ اس ظلم کو دور کرنے میں کیوں بے بس ہے بیٹھے
Jap اس کے کہ ان باتوں کوشن کو پاکستان گورنمنت کے منعقد حکام کوئی موثر قدم اٹھاتے انہوں نے بھی یہ حکم دے دیا ہے کہ چونکہ قادیان کی سڑک کو مشرقی پنجاب نے ناقابل سفر قرار دیا ہے اس لئے آئندہ ہماری طرف سے بھی کوئی کا نوائے وہاں نہیں جائے گی سالانکہ انہیں بچاہیئے یہ تھا کہ جب ستر بی پنجاب کے علاقوں میں بھی بارش ہوئی ہے تو وہ ان علاقوں کو بھی نا قابل سفر قرار دے دیتے اور مشرقی پنجاب جانے والے قافلوں کو روک لیتے.قادیان کے مصائب کو کم کرنے کا ایک ذریعہ یہ تھا کہ قادیان کو ریفیوجی کیمپ قرار دے دیا جاتا.لیکن دونوں گور میں فیصلہ کر چکی ہیں کہ ریوی کیمپ وہی گورنمنٹ مقرر کرے گی جس کی حکومت میں وہ علاقہ ہو.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تجو معاہدہ ہو اس کی پابندی کی جائے لیکن سوال تو یہ ہے کہ اگر بار بار توجہ دلانے کے بعد بھی ہندوستان یونین مسلمان پناہ گزینوں کے بڑے بڑے کیمپوں کو ریفیوجی کیمپ قرار نہیں دیتی تو پاکستان کی حکومت کیوں مشرقی پنجاب کے پناہ گزینوں کے نئے مقامات کو ریفیوجی کیمپ قرار دے رہی ہے بحال ہی میں پاکستان گورنمنٹ نے پانچ نئے ریفیوجی کیمپ مقرر کئے بجانے کا اعلان کیا ہے.کیا وہ اس کے مقابلہ میں ہندوستان یونین سے یہ مطالبہ نہیں کر سکتی کہ تم بھی ہماری مرضی کے مطابق پانچ نئے کیمپ بناؤ ہمیں موثق ذرائع سے اطلاع ملی ہے کہ محال ہی میں ہندوستان یونین نے ڈیرہ اسمعیلماں میں ریفیوجی کیمپ بنانے کا مطالبہ کیا ہے جہاں صرف پانچ ہزار پناہ گزین ہیں.پاکستانی حکومت کو چاہیے کہ ہندوستان یونین سے کہیے کہ اگر تم میں نامیاتی میں کیمپ بنوانا چاہتے ہو تو قادیان میں بھی کیمپ بناؤ.اگر ایسا نہ کیا گیا تو پاکستانی حکومت کا ریک کم ہوتا جائے گا اور ہندوستان یونین کے مطالبات بڑھتے جائیں گئے اور مسلمانوں کے حقوق پامال ہوتے پھلے جائیں گے.تازہ آفیشل رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تک سولہ لاکھ چھیالیس ہزار سات سو پچاس مسلمان مشرقی پنجاب کے کیمپوں میں پڑے ہیں.اس کے مقابلہ میں صرف سات لاکھ سینتا نہیں ہزار دو سو بہتر غیرمسلم مغربی پنجاب میں ہیں بہارے حساب سے تو یہ اندازہ بھی غلط ہے مسلمان ساڑھے سولہ لاکھ نہیں.۲۵-۲۲ لاکھ کے قریب مشرقی پنجاب میں پڑتے ہیں اور خطرہ ہے کہ اپنے حقوق کو استقلال کے ساتھ نہ مانگنے کے نتیجہ میں یہ سات لاکھ غیر مسلم بھی بھلدی سے اُدھر
۱۸۵ نکل جائے گا اور ۲۵ لاکھ مسلمانوں میں سے بمشکل ایک دو لاکھ ادھر پہنچے گا یا کوئی اتفاقی بچکہ سکلا تو نکلا ور جو کچھ سکھ جتھے اور سکھ ملٹری اور پولیس ان سے کر رہی ہے اس کو مد نظر رکھتے ہوئے کوئی امیدان کے بچنے کی نظر نہیں آتی.بعض چھوٹے افسر یہ کہتے بھی سُنے گئے ہیں کہ مغربی پنجاب اتنے پناہ گزینوں کو سنبھال نہیں سکتا.پس جتنے مسلمان ادھر مرتے ہیں اس سے آبادی کا کام آسان ہو رہا ہے.یہ ایک نہایت ہی خطرناک خیال ہے ہمیں یقین ہے.مغربی پنجاب کی حکومت کے اعلیٰ حکام اور وزراء کا یہ خیال نہیں مگر اس قسم کا خیال چند آدمیوں کے دلوں میں بھی پیدا ہونا قوم کو تباہی کے گڑھے میں دھکیل دیتا ہے.مغربی پنجاب کے مسلمانوں کو جلدی منظم ہو جانا چاہیے اور جلد اپنے حقوق کی حفاظت کرنے کی سعی کرنی چاہیئے.اگر آج تمام مسلمان منتظم ہو جائیں اور اگر آج بھی حکومت اور رعایا کے درمیان مضبوط تعاون پیدا ہو جائے تو ہم سمجھتے ہیں کہ مسلمان اس الا عظیم میں گزرنے کے بعدبھی بن سکتا ہے اور ترقی کی طرف اس کا قدم بڑھ سکتا ہے سيد الصلح الموعود کا تیسرا مضمون مندرجہ بالا و مضامین کے بعد سید الصلح المولد نے میرا Lu اہم مضمون" قادیان کی خونریز جنگ "کے عنوان سے تحریر فرمایا بعنوان" قادیان کی خونریز جنگ" جس میں پہلی بار دنیا کے سامنے حملہ کی اہم تفصیلات منظر عام پر آئیں.اس مضمون کا مکمل متن یہ تھا.رو اعوذُبِ اللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيم سمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم.تحدة ونصل عَلَى رَسُول الكريم هُوَ الشَّ + خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ قادیان کی خونریز جنگ ) از حضرت امیرالمومنین ایک اللہ تعالٰی ) سامير اکتوبر کی پہلی تاریخ کو جب گورداسپور کی ملٹری نے قادیان میں کنوائے بجانے کی مانعت کر دی تو 6+ له الفضل و محاور اکتوبر ۱۳۳۶ به بیش صفحه ۲۰۱ ہے.یہ مضمون بھی جو پمفلٹ کی صورت میں شائع کیا گیا تھا بھارتی حکومت نے ضبط کر لیا تھا.
میں اسی وقت سمجھ گیا تھا کہ اب قادیان پر ظلم توڑے بھائیں گے.لاہور میں کئی دوستوں کو میں نے یہ کہ دیا تھا اور مغربی پنجاب کے بعض حکام کو بھی اپنے اس خیال کی اطلاع دے دی تھی.اس خطرہ کے مد نظر ہم نے کئی ذرائع سے مشرقی پنجاب کے حکام سے فون کر کے حالات معلوم کئے.لیکن ہمیں یہ جواب دیا گیا کہ قادیان میں بالکل خیریت ہے اور احمدی اپنے محلوں میں آرام سے نہیں رہے ہیں.صرف سڑکوں کی خرابی کی وجہ سے کنوائے کو روکا گیا لیکن جب اس بات پر غور کیا جاتا کہ لاہور ایویکویشن کمانڈر کی طرف سے مشرقی پنجاب کے ملٹری حکام کو بعض کنوانہ کی اطلاع دی گئی اور انہیں کہا کہ اگر قادیان کی طرف کنوائے جانے میں کوئی روک ہے تو آپ ہم کو بتا دیں میجر مینی سے بھی پوچھا گیا ور برگیڈیر پر نچ پائے متعینہ گورداسپور سے بھی پوچھا گیا تو ان سب نے اطلاع اور دی که قادیان جانے میں کوئی روک نہیں.باوجود اس کے جب کنوائے گئے تو اُن کو بٹالہ ! گورو اسپور سے واپس کر دیا گیا.یہ واقعات پہلے شائع ہو چکے ہیں.ان واقعات نے میرے شبہات کو اور بھی قوی کر دیا.آخر ایک دن ایک فون جو قادیان سے ڈپٹی کمشنر گورداسپور کے نام کیا گیا تھا اتفاقاً سیالکوٹ میں بھی سنا گیا.معلوم ہوا کہ قادیان پر دو دن سے حملہ ہو رہا ہے اور بے انتہا ظلم توڑے جا رہے ہیں.پولیس حملہ آوروں کے آگے آگے پھلتی ہے اور گولیاں مار مار کر احمدیوں کا صفایا کر رہی ہے.تب اصل حقیقت معلوم ہوئی.دوسرے دن ایک سب انسپکٹر پولیں تو بھٹی پر قا دیان گیا ہوا تھا کسی ذریعہ سے نہیں کا ظاہر کرنا مناسب نہیں لاہور پہنچا اور اس نے بہت سی تفاصیل بیان کیں.اس کے بعد ایک ملڑی گاڑی میں جو قادیان بعض مغربی پنجاب کے افسروں اور بعض مشرقی پنجاب کے افسروں کو قادیان کے حالات معلوم کرنے کے لئے بھیجی گئی تھی ہیں بعض اور لوگ تھے جنہوں نے اور تفصیل بیان کی ان حالات سے معلوم ہوا کہ حملہ سے پہلے کرفیو لگا دیا گیا تھا.پہلے قادیان کی پرانی آبادی پر چین میں احمدیہ جماعت کے مرکز می دفاتر واقع ہیں، حملہ کیا گیا.اس حصہ کے لوگ اس حملہ کا مقابلہ کرنے لگے.انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ باہر کے محلوں پر بھی تھوڑی دیر بعد حملہ کر دیا گیا ہے.یہ لوگ سات گھنٹہ تک لڑتے رہے اور اس خیال میں رہے کہ یہ حملہ صرف مرکزی مقام پر ہے.مه جناب راجہ محمد عبد الله خان صاحب ( ابن راحیه مرد تقال صاحب ) مراد ہیں (مرتب) : !
IAL باہر کے مقام محفوظ ہیں.چونکہ جماعت احمدیہ کا یہ فیصلہ تھا کہ ہم نے عملہ نہیں کرنا بلکہ شر دفاع کرنا ہے اس لئے تمام محلوں کی حکم دیا گیا تھا کہ جب تک ایک خاص اشارہ نہ کیا جائے کسی محلہ کو با قاعدہ لڑائی کی اجازت نہیں.جب افسر یہ تسلی کرلیں کہ حملہ اتنا لمبا ہو گیا ہے کہ اب کوئی شخص یہ الزام نہیں لگا سکتا کہ احمدیہ جماعت نے مقابلہ میں ابتدا کی ہے ، وہ مقررہ اشارہ کریں گے اس وقت جماعت منظم طور پر مقابلہ کرے گی.اس فیصلہ میں ایک کو تا ہی رہ گئی وہ یہ کہ اس بات کو نہیں سوچھا گیا کہ اگر پولیس بیرونی شہر اور اندرونی شہر کے تعلقات کو کاٹ دے تو ایک دوسرے کے حالات کا علم نہ ہو سکے گا نہیں ان حالات میں ہر محلہ کا الگ کمانڈر مقررہ ہو جانا چاہئیے بھو ضرورت کے وقت آزادانہ کارروائی کر سکے.یہ غلطی اس وجہ سے ہوئی کہ قادیان کے لوگ فوجی تجربہ نہیں رکھتے وہ تو مبلغ ، مدرس ، پروفیسر ، تاجر اور زمیندار ہیں.ہر قسم کے فوجی نقطہ نگاہ پر عادی ہونا ان کے لئے مشکل ہے.بہر حال یہ غلطی ہوئی اور باہر کے محلوں نے اس بات کا انتظار کیا کہ جب ہم کو وہ اشارہ ملے گا.تب ہم مقابلہ کریں گے.لیکن اس وقت اتفاق سے سب وقمه دار کارکن مرکزی دفاتر میں تھے اور باہر کے محلوں میں کوئی ذمہ دار افسر نہیں تھا.اور مرکز کے لوگ غلطی سے یہ سمجھ رہے تھے کہ حملہ صرف مرکزی مقام پر ہے باہر کے محلوں پر نہیں اور باہر کے حملے یہ سمجھ رہے تھے کہ ہمارے حالات کا علم مرکزی محلہ کو ہوگا کسی مصلحت کی وحید سے انہوں نے نہیں مقابلہ کرنے کا اشارہ نہیں کیا.سات گھنٹہ کی لڑائی کے بعد جب مرکزی محلہ پر زور بڑھا تو مرکزی محلہ کی حفاظت کے لئے معین اشارہ کیا گیا مگر اس وقت تک بہت سے بیرونی محلوں کو پولیس اور ایک حد تک ملڑی کے حملے صاف کروا چکے تھے.حملہ آوروں کی بہادری کا یہ حال تھا کہ سات گھنٹہ کے حملہ کے بعد جب جوابی حملہ کا بنگل بجایا گیا تو پانچ منٹ کے اندر پولیس اور حملہ آور سمجھتے بھاگ کر میدان تعالی کو گئے.ان حملوں میں دوسو سے زیادہ آدمی مارے گئے لیکن ان کی لاشیں جماعت کو اُٹھا نے نہیں دی گئیں تا اُن کی تعداد کا بھی علم نہ ہو سکے اور ان کی شناخت بھی نہ ہو سکے.بغیر جنازہ کے اور بغیر اسلامی احکام کی ادائیگی کے یہ لوگ ظالم مشرقی پولیس کے ہاتھوں مختلف گڑھوں میں دبا دیئے گئے تاکہ دنیا کو اس ظلم کا اندازہ نہ ہو سکے جو اس دن قادیان میں مشرقی پنجاب کی پولیس نے کیا تھا.مشرقی پنجاب کے
بالا حکام سے جو ہمیں اطلاع ملی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مقامی حکام نے مرکزی حکام کو صرف یہ اطلاع دی کہ سکھ جنھوں نے احمدی محلوں پر حملہ کیا.تیس آدمی سکھ جتھوں کے مارے گئے اور تئیس آدمی احمدیوں کے مارے گئے.حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ دو سو سے زیادہ قادیان میں احمدی مارے گئے جن میں کچھ غیر احمدی بھی شامل تھے جیسا کہ آگے بتایا جائے گا اور سکھ بھی تیس سے زیادہ مارے گئے کیونکہ گو اس غلطی کی وجہ سے جو اوپر بیان ہو چکی ہے منظم مقابلہ نہیں کیا.لیکن مختلف آدمی بھی حفاظتی چوکیوں پر تھے، انہوں نے اچھا مقابلہ کیا اور بہت سے حملہ آوروں کو مارا.یہ بھی معلوم ہوا کہ جب باہر سے پولیس اور سکھ حملہ کر رہے تھے اور ملڑی بھی ان کے ساتھ شامل تھی (گو کہا جاتا ہے کہ ملٹری کے اکثر سپاہیوں نے ہوا میں فائر کئے ہیں) اس وقت کچھ پولیس کے سپاہی محلوں کے اندر گھس گئے اور انہوں نے احمدیوں کو مجبور کیا کہ یہ کرفیو کا وقت ہے اپنے گھروں میں گھس بھائیں بچنا نچہ ایک احمدی گریجوائیں جو اپنے دروازے کے آگے کھڑا تھا اسے پولیس مین نے کہا کہ تم دروازے کے باہر کیوں کھڑے ہو.جب اس نے کہا کہ یہ میرا گھر ہے، ہمیں اپنے گھر کے سامنے کھڑا ہوں تو اسے شوٹ کر دیا گیا اور جب وہ تڑپ رہا تھا تو سپاہی نے سنگین سے اس پر حملہ کر دیا اور تڑپتے ہوئے جسم پر سنگین مار مار کر اسے مار دیا.اس کے بعد بہت سے محلوں کو لوٹ لیا گیا اور اب ان کے اندر کسی ٹوٹے پھوٹے سامان یا بے قیمت چیزوں کے سوا کچھ باقی نہیں.مرکزی حصہ پر جو حملہ ہوا اس میں ایک شاندار واقعہ ہوا ہے جو قرونِ اولیٰ کی قربانیوں کی یاد دلاتا ہے جب حملہ کوتے ہوئے پولیس اور سکھ شہر کے اندر گھس آئے اور شہر کے مغربی حصہ کے لوگوں کو مار پیٹ کر خالی کرانا چاہا.اور وہ لوگ مشرقی حصہ میں منتقل ہو گئے تو معلوم ہوا کہ گلی کے پار ایک گھر میں چالیس عورتیں جمع تھیں وہ وہیں رہ گئی ہیں.بعض افسران کو نکلوانے کے لئے گلی کے سرے پر جو مکان تھا وہاں پہنچے اور ان کے نکالنے کے لئے دو نوجوانوں کو بھیجا.یہ نوجوان جس وقت گلی پار کرنے لگے تو سامنے کی چھتوں سے پولیس نے ان پر بے تحاشا گولیاں چلانی شروع کیں اور وہ لوگ واپس گھر میں آنے پر مجبور ہو گئے.تب لکڑی کے تختے منگوا کر گلی کے مشرقی اور مغربی مکانوں کی دیواروں پر رکھ کر عورتوں کو وہاں سے نکالنے کی کوشش کی گئی.جو نوجوان اس مرزا احمدشفیع صاحب بی.اسے (ناقل ) :
۱۸۹ کام کے لئے گئے ان میں ایک سلام محمد فولدر مستری غلام قادر صاحب سیالکوٹ تھے اور دوسرے عبد الحق نام قادیان کے تھے جو احمدیت کی طرف مائل تو تھے مگر ابھی جماعت میں شامل نہیں ہوئے تھے.یہ دونوں نوجوان پرستی ہوئی گولیوں میں سے تختے پر سے کودتے ہوئے اس مکان میں پچھلے گئے جہاں پھالیں عورتیں محصور تھیں ، انہوں نے ایک ایک عورت کو کندھے پر اُٹھا کہ تختے پر ڈالنا شروع کیا اور مشرقی مکان والوں نے انہیں کی کین کے انی رانگانا شروع کیا.جب وہ اپنے خیال میں سب عورتوں کو نکال چکے اور خود واپس آگئے تو معلوم ہوا کہ انتالیس عور تیں آئی ہیں اور ایک بڑھیا عورت جو گولیوں سے ڈر کے مارے ایک کونے میں چھپی ہوئی تھی رہ گئی ہے.اب ارد گرد کی چھتوں پر پولیس سبھوں کا ہجوم زیادہ ہو چکا تھا گولیاں بارش کی طرح گر رہی تھیں اور بظاہر اس مکان میں واپس جانا ناممکن تھا مگر میں اعلام محمد صاحب ولد میاں غلام قادر صاحب سیالکوٹی نے کہا جیس طرح بھی ہو میں واپس بھاؤں گا اور اس عورت کو بچا کہ لاؤں گا اور وہ برستی ہوئی گولیوں میں جو نہ صرفت در میانی راستہ پر برسائی جا رہی تھیں بلکہ اس گھر پر بھی برس رہی تھیں جہاں احمدی کھڑے ہوئے بچاؤ کی کوشش کر رہے تھے کود کر اس تختے پر چڑھ گئے جو دونوں مکانوں کے درمیان پل کے طور پر رکھا گیا تھا.جب وہ دوسرے مکان میں کود رہے تھے تو رائفل کی گولی ان کے پیٹ میں لگی اور وہ مکان کے اندر گر پڑے.مگر اس حالت میں بھی اس بہادر نوجوان نے اپنی تکلیف کی پروا نہ کی اور اسس ے بعض احمدی عورتوں نے بھی اس دن شجاعت اور بہادری کا شاندار نمونہ دکھایا.چنانچہ سید نا اصبح الموجود خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : " جب قادیان میں ہندوؤں اور سکھوں نے حملہ کیا تو شہر کے باہر کے ایک محلہ میں ایک جگہ پر عورتوں کو اکٹھا کیا گیا اور ان کی سردار بھی ایک عورت ہی بنائی گئی جو بھیرہ کی رہنے والی تھی اس عورت نے مردوں سے بھی زیادہ بہادری کا نمونہ دکھایا.ان عورتوں کے متعلق یہ خبرس آئی تھیں کہ جب سکھ یا ہند و حملہ کرتے تو وہ عورتیں ان دیواروں پر چڑھ جاتیں جو حفاظت کی غرض سے بنائی گئی تھیں اور ان سکھوں اور سہندوؤں کو جو تلواروں اور بندوقوں سے ان پر حملہ آور ہوتے تھے بھگا دیتی تھیں اور سب سے آگے وہ عورت ہوتی تھی جو بھیرہ کی رہنے والی تھی.اور ان کی سردار بنائی گئی تھی" در ساده مصباح ماه صلح جنوری مش الاتحاد لذوات المخمار ما بار دوم جلد دوم)
14.اور بڑھیا کو تلاش کر کے تختے پر پڑھانے کی کوشش کی لیکن شدید زخموں کی وجہ سے وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکا اور دو تین کوششوں کے بعد نڈھال ہو کر گر گیا.اس پر میاں عبد الحق حیات نے کہا کہ میں جاکر ان دونوں کے بچانے کی کوشش کرتا ہوں اور وہ کود کر اس تختہ پر چڑھ گئے.ان کو دیکھتے ہی ایک پولیس میں دوڑا ہوا آیا اور ایک پاس کے مکان سے صرف چند فٹ کے فاصلہ پر سے ان کی کمر میں گولی ماردی اور وہ وہیں فوت ہو گئے.جب حملہ آور سیگل بجنے پر دوڑ گئے تو زخمی غلام محمد صاحب اور اس بڑھیا کو اس مکان سے نکالا گیا.چونکہ ہسپتال پر پولیس نے قبضہ کر لیا ہے اور وہاں سے مریضوں کو زیر دستی نکال دیا ہے اور تمام ڈاکٹر یا آلات دوائیاں وہاں ہی پڑی ہیں، مریضوں اور زخمیوں کا علاج نہیں کیا جا سکتا اور یوں بھی غلام محمد صاحب شدید زخمی تھے معمولی علاج سے بچ نہ سکے اور چند گھنٹوں میں فوت ہو گئے مرنے سے پہلے انہوں نے ایک دوست کو بلایا اور اسے یہ باتیں لکھوائیں کہ ” مجھے اسلام اور احمدیت پر پکا یقین ہے.میں اپنے ایمان پر قائم جان دیتا ہوں.میں اپنے گھر سے اسی لئے نکلا تھا کہ میں اسلام کے لئے بھان دوں گا.آپ لوگ گواہ رہیں کہ میں نے اپنا وعدہ پورا کر دیا اور جس مقصد کے لئے بھان دینے کے لئے آیا تھا میں نے اس مقصد کے لئے بھان دے دی.جب میں گھر سے پھلا تھا تو میری ماں نے نصیحت کی تھی کہ بیٹا دیکھنا پیٹھ نہ دکھانا.میری ماں سے کہہ دینا کہ تمہارے بیٹے نے تمہاری وصیت پوری کر دی اور پلیٹ نہیں دکھائی اور لڑتے ہوئے مارا گیا چونکہ ظالم پولیس نے سب راستوں کو روکا ہوا ہے مقتولین کو مقبروں میں دفن نہیں کیا جا سکا اس لئے جو لوگ فوت ہوتے ہیں یا قتل ہوتے ہیں انہیں گھر وں میں ہی دفن کیا جاتا ہے ان نوجوانوں کو بھی گھروں میں ہی دفن کرنا پڑا.اور میاں غلام محمد اور عبد الحق دونوں کی لاشیں میرے مکان کے ایک صحن میں پہلو بہ پہلو سپر د خاک کر دی گئیں.یہ دونوں بہادر اور سینکڑوں اور آدمی اس وقت منوں مٹی کے نیچے دفن ہیں لیکن انہوں نے اپنی قوم کی عزت کو چار چاند لگا دیئے ہیں.مرنے والے مرگئے.انہوں نے بہر حال مرنا ہی تھا.اگر اور کسی صورت میں مرتے تو ان کے نام کو یاد
191 رکھنے والا کوئی نہ ہوتا اور وہ اپنے دین کی حفاظت اور اسلام کا جھنڈا اونچا رکھنے کے لئے مرے ہیں.اس لئے حقیقتاً وہ زندہ ہیں.اور آپ ہی زندہ نہیں بلکہ اپنے بہادرانہ کاموں کی وجہ سے آئندہ اپنی قوم کو زندہ رکھتے پہلے بھائیں گے.ہر نوجوان کہے گا کہ جو قرآنی ان نوجوانوں نے کی وہ ہمارے لئے کیوں ناممکن ہے.جو نمونہ انہوں نے دکھایا وہ ہم کیوں نہیں دکھا سکتے.بخدا کی رحمتیں ان لوگوں پر نازل ہوں اور ان کا نیک نمونہ مسلمانوں کے خون کو گرماتا رہے اور اسلام کا جھنڈا ہندوستان میں سرنگوں نہ ہو.اسلام زندہ باد ! محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم زندہ باز ! خاکسار مرزائی مود احمد سیدنا الصلح الموعود کے خطبہ مجھ میں اب ہم بین الصلح المولد کے ایک خطبہ جمعہ ( فرمودہ مار راق ادیان کا درد انگیز ذکر مارا کوبری یہ ہی کا ایک اقتباس نقل کرتے میں میں الغادر سیٹ) کیا گیا تھا.حضور نے فرمایا :- میں شہدائے قادیان سے ہونے والے بہیمانہ سلوک کا تذکرہ دو آج ایک عرصہ کے بعد قادیان سے جو خطوط موصول ہوئے ہیں ان سے اور اُن آنے والوں سے جو پچھلے ایک دو دن میں یہاں آئے ہیں وہ حالات معلوم ہوئے ہیں جو گذشتہ چھ دنوں میں گورنمنٹ کے مقامی نمائندوں نے قادیان میں پیدا کر دیئے تھے اور جن کی مثال شاید میرا نے زمانہ کی وحشی اقوام میں بھی نہیں ملتی.ہمارے دو سو سے زیادہ احمدی مارے گئے ہیں اور ان کی لاشیں بھی ہمارے حوالے نہیں کی گئیں بلکہ گڑھے کھود کر ان کو خود ہی دفن کر دیا گیا ہے.جنرل تھمایا جو الیسٹ پنجاب گورنمنٹ میں بھالندھر ڈویژن کے افسر ہیں وہ بعض احمدیوں کے ساتھ ایک سکیم کے ماتحت جب قادیان گئے تو انہوں نے کہا ہماری رپورٹیں تو یہ ہیں کہ تھیں کے قریب احمدی مارے گئے ہیں اور جب انہوں نے افسروں سے پوچھا کہ کتنے احمدی مارے گئے ہیں تو انہوں نے بھی کہا ٹھیک ہے میں احمدی مارے گئے ہیں.اس وقت ہمارے لوکل نمائند " الفضل اضاء / اکتوبر مش صفحه ۱-۲ ❤ F-1
۱۹۲ نے کہا کہ آپ کہتے ہیں تمیں احمدی مارے گئے ہیں ہمیں ایک گڑھے کا علم ہے جس میں چالیس احمدیوں کی لاشیں دبائی گئی ہیں.پہلے ہم ابھی آپ کو وہ چالیس لاشیں دکھانے کے لئے تیار ہیں اور اس کے علاوہ ہم اور بھی کئی گڑھے دکھا سکتے ہیں جن میں احمدیوں کو دفن کیا گیا ہے.اس پر جنرل تھمایا خاموش ہو گئے دیگر تعصب کا بڑا ہو کہ ریڈیو کے اعلان سے معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے جا کر رپورٹ یہی دی ہے کہ قادیان پر معمولی حملہ ہوا.دونوں طرفت کے ساٹھ آدمی مارے گئے.انا للہ و انا الیہ راجعون) نہایت ذلیل ترین حرکت جو کوئی قوم کر سکتی ہے وہ مردوں کی ہتک ہے.ایک ہزار سال تک مسلمانوں کے ساتھ رہنے کے بعد کیا ہندو اور سکھ قوم یہ نہیں تے سمجھ سکتی تھی کہ مسلمانوں میں جنازہ کے متعلق کیا احکام ہیں.وہ کس طرح غسل دیتے، کفن پہنانے جنازہ پڑھتے اور پھر اپنے مُردوں کو دفن کرتے ہیں مگر ان اسلامی رسوم کے ادا کرنے سے بھی ہمیں محروم کر دیا گیا اور ہماری لاشوں کو بغیر اس کے کہ ہم ان کا جنازہ پڑھتے گڑھوں میں دیا دیا گیا.ہمارے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا طریق تو یہ تھا کہ جنگ احتساب کے موقعہ پر جب کفارہ کا ایک لیڈر خندق میں گرا اور وہیں مارا گیا تو مکہ والوں نے کئی ہزار روپیہ اس غرض کے لئے پیش کیا کہ اس شخص کی لاش ہمیں دے دی بھائے.رسول کریم صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جواب دیا کہ ہم نے تمہارا مروہ رکھ کر کیا کرتا ہے تم اس کو اُٹھا کر لے جاؤ اور اپنا روپیہ بھی اپنے پاس رکھو.لیکن یہ وہ گورنمنٹ ہے جو کہتی ہے کہ ہم ایک بڑے ملک کی گورنمنٹ ہیں جو کہتی ہے کہ رعایا ہماری فرمانبردار رہے.کیا یہی طریقے فرمانبرداری کے حصول کے ہوتے ہیں اور کیا یہ طریق حکومت کرنے کے ہوتے ہیں کہ بیگناہ شہریوں کو مارا بھائے، بے قصور شہریوں کو قتل کیا جائے اور پھر ان کی لاشوں کی تذلیل کی بجائے اور گڑھوں میں بغیر گور و کفن کے دفن کر دیا جائے.بہر حال وہ مرنے والے مرگئے اور ہر حالت میں انہوں نے مرنا ہی تھا.اب وہ ہماری یادگار اور ہماری تاریخ کی امانت ہیں اور ہماری محبت ان کا نام ہمیشہ کے لئے زندہ رکھے گی اور اگر وہ بے نام ہیں تب بھی وہ احمدیہ تاریخ میں زندہ رہیں گے اور احمدی نوجوان ان کے واقعہ کو اپنے سامنے رکھ کر ہمیشہ قربانی کی روح اپنے اندر تازہ رکھیں گے.پس وہ مرے نہیں زندہ ہیں.خدا کرے اُن کی
۱۹۳ قربانی ضائع نہ بھائے بلکہ ہماری جماعت کے افراد اُن سے سبق حاصل کریں اور اسی قسم کی قربانی کے لئے ہر احمدی تیار ہے لہ کو الفت قادیان سے تعلق سیدنا الصلح الموجود سیدنا حضرت امیرالمومنین الصلح الموعود رضی الله عنه " نے رانا در اکتوبر سات سالہ پیش کو لاہور کے پریس نمائندا کی پریس کانفرنس کو بیان دیتے ہوئے فرمایا :- "قادیان کے مقامی افسراب ہم کو قادیان سے ایسی چیزیں اور سامان بھی نہیں لانے دیتے ہیں کی ان کو تو ضرورت نہیں مگر ہمارے لئے وہ نہایت ضروری ہے مثلاً ہماری لائیبریری کو جس میں ہماری مذہبی علمی کتب کا نہایت قیمتی ذخیرہ ہے جن میں بعض عربی کے قلمی نسخے بھی ہیں بند کر کے مُہر لگا دی گئی ہے.نیز ہمارے ضیاء الاسلام پر لیس کو بھی جس سے افضل چھپتا تھا میں کر دیا گیا ہے.پھر ہماری ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا سامان ہے.ڈاکٹر بھٹناگر نے جب وہ قادریان گئے تھے تو انہوں نے بھی کہا تھا کہ ہندوستان کے بہترین انسٹی ٹیوٹوں میں اس کا شمار ہو سکتا ہے لیکن مسلمانوں کا تو یہ واحد سائنس کا ادارہ ہے وہ بھی ضبط ہو گیا ہے.فسادات کی وجہ سے ہمارا یہ کام دو سال پیچھے جا پڑا ہے.آپ نے فرمایا.اب ہمارے ٹرک جو قادیان سے عورتوں اور بچوں کے لینے کے لئے گئے تھے پہلے ان کو باہر ہی روک دیا گیا.پھر جب وہ باہر سامان اور بچوں اور عورتوں کو لے کہ نکلے تو سکھوں اور پولیس نے حملہ کر کے سامان لوٹ لیا.حالانکہ یہاں سے ہندو اور سکھ پناہ گزین بہت سا سامان ساتھ لے بھاتے ہیں مگر ادھر سے مسلمانوں کا سامان نہیں آنے دیا بھاتا.آپ نے کہا کہ قادیان کی بڑی آبادی کو نہایت چھوٹی سی بیگہ میں مقید کر دیا گیا ہے.یہانتک کہ کثرت نفوس کی وجہ سے ٹخنوں ٹخنوں تک غلاظت جمع ہو گئی تھی جس کو ہمارے لڑکوں اور دیگر احمدیوں نے خود صاف کیا ہسپتال بھی ہمارے قبضہ سے لے لیا گیا ہے اور زخمیوں اور بیماروں کو وہاں سے نکال دیا گیا ہے جن کا اب علاج کرنا بھی مشکل ہو گیا الفضل " ۱۸ را خادر اکتوبر سرمایش صفحه ۱-۲ :
۱۹۴ ہے.آپ نے کہا کہ ہمارے ۲۰ آدمی وہاں تھلوں میں مارے گئے ہیں.قادیان میں دونوں حکومتوں کے نمائندے جنرل کری آپا کے حکم سے تحقیقات کے لئے گئے تھے لیکن جنرل تھمایا نے حکومت ہندوستان کو بالکل خلافت واقعہ رپورٹ دی ہے.اتنے بڑے افسر سے اتنی امید نہ تھی.آپ کے قادیان میں اس وفد کے سامنے ہمارے لوگوں نے واضح طور پر بتا دیا تھا کہ ۲۰۰ مسلمان شہید ہوئے ہیں اور حملہ کر وا کر ہمارے محلوں کو لوٹ لیا اور خالی کرا لیا گیا اور بے شمار مال لوٹ لیا گیا اس پہ جب جنرل تھمایا نے سوال کیا کہ میری رپورٹ تو یہ ہے کہ صرف تیس آدمی مرے ہیں.تو میرے بڑے لڑکے نے بتایا کہ میں آپ کو صرف ایک گڑھا ایسا بتا سکتا ہوں نہیں میں بہم مسلمان رے پڑے ہیں اور ابھی اور بھی بہت سے گڑھے ہیں.اس پر تھا یا صاحب خاموش ہو گئے.مگر پھر بھی بیان اس کے خلاف دیا جن پناہ گزینوں کو قافلوں کی موت میں قادیان سے بالجبر بھیجا گیا تھا ان کو خوراک نہیں دی گئی.ایک بصورت کا بیان ہے کہ اس نے چھ دن شیشم کے پتے کھا کر گزار ہے.ہماری جماعت نے قادیان سے قافلے کے لئے ۲۰ بوری گندم ابال کر افسروں کی تنخواہش پر بھیجی مگر وہ بھی اُن کو نہ دی گئی اور بھانوروں کو کھلا دی گئی.پھر کئی دن کے بعد ان کو آدھی آدھی روٹی دی گئی اور ساتھ یہ کہا کہ ہم نے مسٹر جنات اور تمہارے خلیفہ کو تار دی تھی مگر انہوں نے روٹی نہیں دی مگر آج نہرو جی کی طرف سے تم کو کھلائی بھاتی ہے.ان حالات کے باوجود ہمارا پختہ ارادہ ہے کہ تب تک حکومت ہندوستان ہم کو قادیان سے نکل جانے کا حکم نہیں دے گی ہمارے آدمی قادیان کو نہیں چھوڑیں گے اگر یہ ہمیں معلوم ہے کہ ہمارے نوجوان وہاں مارے جائیں گے مگر قومیں قربانی کے بغیر ترقی نہیں کر سکتیں.اگر ہم آج قربانیاں نہ دیں گے تو ہماری آئندہ نسلوں کو بھی قربانیاں دینے کی تحریک نہ ہو گی.آپ نے فرمایا کہ میرے لڑکے نے بذریعہ فون مجھے بتایا ہے کہ ایک اکالی لیڈر نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ اگر تنکانہ صاحب کی عبادت گاہوں کی حفاظت کا ہمیں یقین دلایا جائے تو ہم قادیا کے مقدس حصہ کو آباد رہنے دیں گے.
۱۹۵ نگرید صرف قادیان کا سوال نہیں بلکہ اسلامی مقدس مقامات کا سوال ہے مثلاً سر سہند درگاه نظام الدین اولیاء ، درگاہ اجمیر شریف وغیرہ.ان کے متعلق با عزت سمجھوتہ کی کوشش ہوتی چاہیے.آپ نے فرمایا کہ میرے خیال میں ہمارے مقدس مقامات جو مشرقی پنجاب اور ہندوستان میں واقع ہیں ہمیں ان کو بغیر قربانی کے کبھی نہیں چھوڑنا چاہیے کیونکہ قومی زندگی کے لئے ایسی قربانیاں نہایت ضروری ہوتی ہیں.آپ نے کشمیر کے متعلق فرمایا کہ کشمیر اور حیدر آباد کا فیصلہ اکٹھا اور ایک ہی اصول پر ہونا چاہئیے ورنہ ڈر ہے کہ دونوں ہاتھ سے نکل جائیں.اگر حکمران کی مرضی پر فیصلہ ہو تو ہمیں حیدر آباد مل بجائے گا اور اگر رعایا کی مرضی پر ہو تو ہمیں کشمیر مل بھائے گا.اگر اکٹھا فیصلہ نہ ہوا تو اس سے مسلمانوں کو سخت نقصان ہوگا.کیونکہ ایک فیصلہ کو اپنے حق میں کرا کے انڈین یونین پھر اپنا اصول بدل کر دوسری ریاست کے بارے میں جھگڑا کر سکتی ہے.بالآخر آپ نے فرمایا کہ گو حیدر آباد اور کشمیر دونوں کا سوال اہم ہے مگر بعض لحاظ سے میرے خیال میں کشمیر کا معاملہ بہت زیادہ اہم ہے خصوصاً اس لئے کہ اس سے پاکستان کی حفاظت اور مضبوطی پر بہت زیادہ اثر پڑتا ہے کہ " ، اس پر قادیان پر جبر و تشدد کے متفرق خونی واقعات کا قادیان کے کوائف کا خلاصہ ، اس حملہ کی تفصیلات درج ہو چکیں.اب جامع نقشہ ایک مستند عینی شاہد کے قلم سے ہمیں اس دور جبر و تعلم کے متفرق خونی واقعات کا ایک جامع نقشہ قارئین کے سامنے رکھنا ہے.سیدنا المصلح الموعود اور حضرت قمرالا بیار کے علاوہ قادیان سے ہجرت کے معاً بعد متعدد اہل قلم احمدی اصحاب مثلاً خواجہ غلام نبی صاحب تے سے بلانوی سابق ایڈیٹر افضل ، حضرت ڈاکٹر مہ طفیل صاحب بٹالوی ، مولانا ابوالعطاء صاحب اور "الفضل" ٢٧ اخاها اکتوبر س ش صفحه ۳ - ۵ به سے ملاحظہ ہو " الفضل " ، نبوت / نومبر ۳۲ مش صفحه ۴۰۴ + سے آپ کے ایام محاصرہ سے متعلق دو قیمتی نوسٹ" الفضا" ۲۴ تبلیغ فروری فریم ، " الفضل " ۳۰ را مضاد اکتوبر ۳۷ میں صفحہ دل میں شائع شاہ ہیں ؟ م
194 قریشی ضیاء الدین صاحب بی.اے ، ایل ایل بی ایڈووکیٹ اور بعض دوسرے اصحاب نے بھی اپنے چشم دید اور گوش شنید واقعات شائع کرا دیئے تھے جن میں سب سے مفصل خواجہ غلام نبی صاحب بانوی کے قلم سے نکلے جنہوں نے قادیان کے المناک اور خونچکاں حادثات میں سے کچھ" کے زیر عنوان آٹھ اقط میں ایک مبسوط اور مستند مضمون لکھا تھا جو ذیل میں لفظ لفظ درج کیا جاتا ہے :- " لیکن حال ہی میں اس قافلہ کے ساتھ قادیان سے لاہور پہنچا ہوں جس میں پچاس سال سے زائد عمر کے اصحاب کو بھیجا گیا ہے.میں نے قادیان میں شروع سے لے کر ۱۲۰ اکتوبر تک اپنی آنکھوں سے جو کچھ دیکھا اور کانوں سے سنا وہ اگر چہ مقامی پولیس اور ملٹری کی عائد کردہ پابندیوں اور انتہائی خطرات کی وجہ سے جو سیلاب کی طرح اُمڈے پہلے آتے تھے ، ایک نہایت ہی محدود اور مختصر حلقہ سے تعلق رکھتا ہے.تاہم اس بات کا اندازہ لگانے کے لئے کافی ہے کہ ان ایام میں قادیان کی مقدس بستی اور اس کے امن پسند ساکنین جو اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر قادیان میں آ بیٹھے تھے اور جن کی زندگی کا مقصد اپنے خالق و مالک کی عبادت اور رضا ہوئی اور اس کی مخلوق کی خواہ وہ کسی مذہب وملت کی ہو خدمت گزاری اور خیر خواہی تھی اور جو گذشتہ نصف صدی سے زائد عرصہ سے اپنے قول اور فعل سے اس بات کا ناقابل تردید ثبوت دُنیا کے سامنے پیش کرتے چلے آرہے ہیں، ان پر کیا کچھ گزری.کیسے کیسے شرمناک اور انسانیت سوز مظالم کا انہیں نشانہ بنایا گیا اور حکومت کے ان کارندوں نے جو قیام امن کے ذمہ دار ، قانون کے محافظ اور رعایا کی جان و مال اور عزت و آبمہو کے نگہبان سمجھے جاتے ہیں.امن پسند، قانون کے پابند اور مخلوق مخدا کے حقیقی خیر خواہ اور ہمدرد انسانوں کو بلا وجہ اور بغیر قصور کس طرح انتہائی مصائب اور آلام کا نشانہ بنایا اور اس وقت تک چین نہ لیا جب تک گلستان کی طرح پھلے پھولے قادیان کو اور اسکی بے شرر ساکتین کو بے گھر نہ کر دیا اور بستے گھروں کو اٹھاڑ کر روشی لٹیروں کی تحویل میں نہ دے دیا چونکہ میرا امکان محلہ دارالرحمت میں واقع تھا اور آبادی کے مغرب میں اسی طرف تھا جدھر سے سوچی سمجھی ہوئی سکیم کے مطابق انتہائی شدت اور پورے انتظام کے ساتھ سیکھ غنڈوں نے کثیر تعداد میں جمع ہو کر پولیس اور ملٹری کی امداد کے ساتھ ۳ اکتو بہ کو مسلہ کیا اور میں اپنے مکان کی چھت پر له الفضل " صلح جنوری، همرامان / مارچ ، ۹ در امان مارجش : ۲۱۹۴۸
194 کھڑے ہو کر کسی قدر ان کی نقل و حرکت دیکھ سکا.اس لئے مناسب معلوم ہوا کہ میں چشم دید واقعات اور دوسرے حالات جو براہ راست شنید سے تعلق رکھتے ہیں اور سین کی صداقت میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں ، احباب کے سامنے پیش کروں.ا بلا وجہ کر فید قادیان میں تشدد تو اسی دن سے شروع کر دیا گیا تھا جس دن کہ مسلمان ملٹری کو واپس بلا لیا گیا تھا.گو ارد گرد کے مسلمانوں کے دیہات اس سے پہلے ہی سکھوں کے ظلم و ستم کا نشانہ بن کر اور اپنا سب کچھ لٹا کر ہزاروں کی تعداد میں روزانہ قادیان آنے لگ گئے تھے.لیکن ۲۱ ستمبر کو جب قادیان میں بلا وجہ کہ فیو لگا دیا گیا.بلا وجہ اس لئے کہ فرقہ وارانہ فساد تو رہا ایک طرف ، کوئی معمولی لڑائی جھگڑے کا واقعہ بھی تو رونما نہ ہوا تھا اور نہ اس بات کا امکان تھا.کیونکہ جماعت احمدیہ کو نہ صرف پر امن رہنے اور قانون کی پوری پوری پابندی کرنے کے متعلق حضرت امام جماعت آمدید ایدہ اللہ تعالے احکام جاری کر چکے تھے جن کی تعمیل مہر احمدی اپنے لئے باعث سعاد یقین کرتا تھا خواہ اس کے لئے اپنی جان اور حال ہی کیوں نہ قربان کر دینا پڑتا.بلکہ یہ بھی ارشاد فرما چکے تھے کہ ان مصیبت اور افراتفری کے ایام میں ہر اس شخص کو اعداد دو جو تمہار کی امداد کا محتاج ہو خواہ وہ کسی مذہب کا ہو.اور ہر وہ امداد دو جو تم دے سکتے ہو.اس ارشاد کی تعمیل بھی ہر احمد می کے فرائض میں داخل تھی.ان حالات میں یہ کس طرح ممکن تھا کہ قادیان میں کوئی احمدی کسی قانون کی خواہ وہ ہنگامی ہوتا یا مستقل خلاف ورزی کرتا اور کسی لڑائی جھگڑا ہے کی خواہ وہ کیسا ہی مجبور کن ہوتا طرح ڈالتا.ہاں اپنی عزت و آبہ و اور بجان و مال کی حفاظت کرتے ہوئے قانون شکن حملہ آوروں کا مقابلہ احمدی اپنا حق سمجھتے تھے، ایسا حق جو ہر مہذب گورنمنٹ نے اپنی رعایا کو دے لکھا ہے اور حسین کا انکار کوئی حکومت کھلم کھلا کر کے دنیا میں کمند دکھانے کے قابل نہیں رہ سکتی.قادیان میں مقیم پولیس نے اسی حق سے احمدیوں کو محروم کرنے اور قانون شکن سیکھ غنڈوں کو خلاف امن وقانون کھلا چھوڑ دینے کے لئے ۲۱ ستمبر سے کر نیو لگا دیا اور اس طرح مسلمانوں کو مغرب، عشاء اور صبح کی نمازیں مسجدوں میں ادا کرنے سے روک دیا.پھر گھنٹی اتنی تھوڑی دیر اور اتنی ہلکی بھائی جاتی کہ عام طور پر کرفیو کے شروع
۱۹۸ اور ختم ہونے کا پتہ ہی نہ لگتا.اور خاص کر اس وجہ سے لوگ سخت پیچھینی اور اضطراب میں رہتے کہ دن کو بھی جس وقت پولیس والوں کا جی چاہتا اور جب وہ تشدد کا کوئی نیا کارنامہ سر انجام دینا چاہتے گھنٹی کھڑکا دیتے.کرفیو لگ جانے پر نہ تو کوئی اسدی گھروں سے نکلتا تھا اور نہ کوئی پناہ گزین ہو گھروں کے علاوہ گلیوں اور میدانوں میں پڑے تھے اپنی جگہ سے ہلتے تھے اور پایشان پاخانہ کی ناقابل برداشت تکلیف خاص کو بچے اور عورتیں برداشت کرتے تھے یا پھر یہاں پڑے ہوتے اسی جگہ کنہ گندہ کرنے پر مجبور ہو جاتے.لیکن ارد گرد کے دیہات کے غنڈے سکھ نہ صرف ٹولیاں بنا بنا کر اور تلواریں کندھوں پر رکھ کر آبادی میں پھرتے بلکہ جہاں موت نہ پاتے حملہ کر کے مال و اسباب بھی لوٹ لیتے اور پناہ گزین مسلمان خواتین کی عصمت دری بھی کرتے اور جب اس پر بیکس و بے بس مسلمان چیختے ، چھلاتے، اور شور مچاتے تو بجائے اس کے کہ پولیس اور ملٹری انہیں ظالموں کے دست ظلم سے بچانے کے لیے ہاتھ پاؤں ہلائی نہ معلوم کہاں بیٹی دنادن گولیاں چلانا شروع کر دیتی.ادھر محلوں میں مہینہ سپاہی ہوائیں گولیاں برسانے لگے بھاتے اور اس طرح مظلوم اور ستم رسیدہ مسلمانوں کی آئیں دب کر رہ جائیں.کچھ دیر کے بہ کسی اور طرف سے آہ و زاری کا شور مچتا اور اس کا بھی یہی حشر ہوتا.دن کے وقت جب کرفیو لگایا جاتا اس وقت مسلح نکھوں پر کوئی پابندی عائد نہ نظر آتی وہ تلواراں بر کمپنیوں بھالوں کلہاڑیوں اور ڈنگروں سے سمجھے ہوئے تقوم تقسیم کر اِدھر اُدھر اس طرح پھرتے جس طرح کسی دیہاتی میلے میں شراب پی کو پھرا کرتے ہیں.یوں بھی عام طور پر بڑا بڑا ہنجوم بنا کر اور تلواریں کندھوں پر رکھ کر پھرتے اور اُن لوگوں کو ڈرا دھمکا کر جو اُن کے گاؤں سے بھاگ آئے تھے مختلف قسم کے مفادات حاصل کرنے کی کوشش کرتے.ایک موقعہ پر اتفاقاً میکن نے دیکھا چند سکھوں نے ایک مسلمان کو جو اُن کے گاؤں کا مکین معلوم ہوتا تھا.اور ایک دوکان کے کونہ میں بیوی بچوں کو لے کر بجالت خستہ پڑا تھا اشارہ سے بنایا اور وہ سٹور پر نہ کی طرح کھنچا ہوا ان کی طرف دوڑتا چلا آیا اور نہایت لجا بہت سے سلام کر کے بولا.آپ اچھے نہیں بتائیے میں کیا خدمت کر سکتا ہوں.ایک اور موقعہ پر میں نے دیکھا دو تین سکھ ایک مسلمان سے کہہ رہے تھے ہم جو گھوڑی لے گئے تھے تم اس کے فروخت کرنے کی اپنی طرف سے رسید لکھ
199 دو.انگوٹھا بیشک نہ لگاؤ وہ ہم کسی اور کا لگالیں گے اور وہ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن کی حالت میں مبتلا نظر آرہا تھا.ان حالات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے.قادیان میں قیام امن کے ذمہ داروں اور قانون کے محافظوں نے مصیبت زدہ ستم رسیدہ اور بے دست و پا مسلمانوں کو کن جکڑ بندیوں میں کس رکھا تھا اور ان کے مقابلہ میں ظالموں ، ٹیروں ، ڈاکوؤں ، قاتلوں ، قانون شکنوں کو کس طرح ظلم پر ظلم کرنے کے لئے آزادی دے رکھی تھی اور پھر کس دیدہ دلیری سے ان کی مدد کی سباتی ،اور انہیں آسانیاں اور سہولتیں بہم پہنچائی جاتی تھیں لیے -- تجمیلی بند قادیان میں ایک طرف تو کر نیو گا کہ احمدیوں کو مجبور کر دیا گیا کہ 4 بجے شام سے پانچ ساڑھے پانچ بجے صبح تک گھر وں میں بند رہیں اور ہزارہ اپناہ گزین مرد عورتیں اور بیچتے جو قادیان کے گلی کوچوں اور ارد گرد کے کھیتوں میں دور دور تک پڑے تھے اپنی اپنی جگہ پر دبک جائیں اور دوسری طرف کوچکی بند کر کے تمام آبادی کو تاریکی اور ظلمت میں گم کر دینے کی ظالمانہ کوشش کی گئی.علاوہ ازیں قریباً دو لاکھ کی مظلوم اور ستم رسیدہ آبادی کو بھوکوں مارنے کے لئے آٹا پیسنے والی مشینوں کو جو بجلی سے چلتی تھیں آٹا پینے کے ناقابل بنا دیا اور آخر کار بجلی اس وقت تک جاری نہ ہوئی جب تک کثیر التعداد مسلم سکھ لٹیروں کے ساتھ مل کر ملٹری اور پولیس نے قادیان میں بسنے والے لوگوں کو نہایت ہی بے سرو سامانی کی حالت میں انتہائی جبر وقت ہو کر کے گھروں سے نہ نکال دیا.کہیں دن یہ ظالمانہ اقدام کیا گیا اور جب کئی میلوں میں پھیلی ہوئی قادیان کی آبادی کو سمیٹ کر اندرون اور بیرون شہر کے دو نہایت ہی محندو وحلقوں میں ٹھونس دیا گیا اور مکانات عالی کرا لئے گئے تو اسی دن شام کے قریب بھلی بھی جاری کر دی گئی تاکہ رات کی تاریکی سکھ لٹیروں کی راہ میں حائل نہ ہو اور وہ اطمینان کے ساتھ ایک ایک چیز پسند کر کے اور قیمتی اشیاء پچھانٹ چھانٹ کر لے بھا سکیں چنانچہ صبح تک محلہ دار الرحمت کا کوئی مکان ایسا نہ رہا جو مکمل طور پر ٹوٹ نہ لیا گیا.دوسرے محلوں اور پرانی آبادی کے بعض مکانات بجھ گئے لیکن ایسے تمام مکانات پر جن کے مالک مکان خالی کر دینے پر مجبور کر دیئے گئے " الفضل ۲۹ مرا حیاء اکتوبر ۳۲۶ پیش رہ ہیں ۱۹۴۷ء
تھے ملٹری اور پولیس نے قبضہ کر لیا اور مالکوں کو اپنے مکانوں میں جانے اور بھر سے گھروں سے کھانے پینے اور پہننے تک کے لئے کوئی چیز لانے سے روک دیا اور اگر کوئی کچھ لاتا ہوا نظر آیا تو اس سے چھین لیا.پھر جبلی بند ہو جانے کے دوران میں سیکھ لٹیروں اور غنڈوں کے رات کے جملوں میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا.سر شام ہی مختلف اطراف سے چیخ و پکار اور آہ و فغاں کی درد ناک آوازیں آنی شروع ہو جاتیں.ملٹری بڑی فیاضی سے رات بھر بندوقوں اور برین گنوں کے منہ کھولے رکھتی لیکن نہ تو کوئی قاتل اور لٹیر اسکھ ان کی زد میں آتا اور نہ ہی ستم رسیدہ مسلمانوں کی آہ و زاری بند ہوتی.عرض مسلسل کئی دنوں تک پبلی بند کر کے اور اس وقت تک بند رکھ کر جبتک مکانات سے ان کے مکینوں کو نکال نہ دیا گیا سکھ غنڈوں نے ملٹری اور پولیس کی امداد سے وہ وہ ستم ڈھائے جو حد بیان سے باہر ہیں.۳.غلہ چھین لیا بجلی سے پھلنے والی آٹا پیسنے کی مشینوں کے بند ہو جانے کی وجہ سے گو کھانے کی سخت وقت پیش آئی کیونکہ کثیر التعداد انسانوں کو آٹے سے محروم کر کے فاقہ کشی کے لئے مجبور کر دیا گیا.تاہم ان حالات میں جو کچھ ہو سکتا تھا کیا گیا.اکثر لوگ گیہوں ابال کہ اس سے پیٹ بھرنے لگے بعض گھروں میں بستی چکیاں تھیں وہ دن رات پھلنے لگیں اور مرد عورتیں آٹا پینے لگے.ہمارے محلہ میں ایک تیل سے چلنے والی چکی تھی وہ ادھر ادھر سے تیل مہیا کر کے حرکت میں آنے کی کوشش کرتی رہی لیکن یہ جد و جہد ان لوگوں کو کب گوارا ہو سکتی تھی جو دن رات مظلومین کو زیاد سے زیادہ دُکھ دینے میں مصروف رہتے اور روز نئے ستم ایجاد کرنے میں منہمک ہوتے تھے.انہوں نے یہ منادی کرادی کہ کسی گھر میں دو بوری سے زائد گندم نہیں رہنی چاہیئے اور سب گندم پول میں چوکی میں پہنچا دی جائے اور دوسری طرف تیل کی بیکی پر قبضہ کر کے پہرہ بٹھا دیا.وہاں جس قدر آٹا اور سفلہ موجود تھا وہ چھین لیا اور اس کے ساتھ ہی جو مرد عورتیں اور بچے تھوڑا تھوڑا غلہ پسانے کے لئے بیٹھے تھے اُن سے چھین لیا.اگر کسی نے اپنی فاقہ کشی کی درد ناک کہانی سناتے
ہوئے لیت و لعل کی تو اس کی تواضع مگوں طمانچوں اور بندوق کے بٹ سے کی گئی.چونکہ پناہ گزین کثیر تعداد میں ایک لمبے عرصہ سے قادیان میں پڑے تھے اور با وجود انتہائی جد و جہد اور پناہ گزینوں کی اتنی بڑی تعداد کے حکام نے قادیان میں کیمپ بنانا منظور نہ کیا تھا.اس لئے ان لوگوں کی خوراک کا بہت بڑا بو مجھے قادیان کے رہنے والوں پر پیٹا ہوا تھا اور وہ اپنی خریدی ہوئی گندم انہیں کھلا رہے تھے کیونکہ ان لوگوں کو ملٹی اور پولیس نے نہایت بے سرو سامانی کی حالت میں گھروں سے نکال کر بلکہ راستہ میں لوٹ مار کا شکار بنا کر قادیان پہنچایا تھا.گر پولیس نے ہر ممکن کوشش کی کہ ان کو بھوکا مارے تا کہ وہ یا تو نہیں ختم ہو جائیں یا مجبور ہو کر کسی طرف اٹھ بھاگیں تو وہاں ان کا خاتمہ ہو جائے.قاتلانہ حملے قادیان کے شمال مغر کی طرف ملانو کے جو دیہات تھے وہاں کے مظلوم زیادہ تر محلہ دارا زحمت میں آئے تھے.اُن میں سے جن کو سیکھ راستہ میں قتل کرتے اور اُن میں سے جو لاشیں کسی نہ کسی طرح لائی جاسکتیں وہ ہمارے محلہ میں آئیں اور قریب کے قبرستان میں دفن کرنے کا انتظام کیا جاتا.ایک دن اتفاقا ئیں نے ایسی تین لاشیں دیکھیں اور ایک اور دن جبکہ پناہ گزینوں کا قافلہ ریلوے لائن کے قریب ٹرکوں پر سوار ہونے کے لئے بہت بڑی تعداد میں کھڑا تھا پولیس اور ملٹری اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ عورتوں اور بچوں کو ادھر سے اُدھر اور اُدھر سے ادھر دھکیل رہی تھی مردوں پر لاٹھیاں برسا رہی تھی، قریب ہی ایک پناہ گزین کو سکھوں نے کہ پانوں سے دم زدن میں قتل کر دیا اور اس کے بعد تھوڑی دور جا کر کھڑے ہو گئے مقتول کے وارث آہ و فغاں کرتے ہوئے لاش کے پاس پہنچے اور روتے دھوتے لاش کو چار پائی پر ڈال کر تمام مجمع میں سے گذرے مگر پولیس اور ملٹری ٹس سے مس نہ ہوئی.البتہ کچھ دیر بعد اتنا اس نے ضرور کیا کہ ہوائیں بند ہیں پھلانی شروع کر دیں.پھر ایک احمدی کے مکان میں گھس کر چھت پر جا پڑھی اور ہوا میں کارتوس مائع کرنے لگی.در اصل جب کوئی قافلہ روانہ ہونے والا ہوتا تو ارد گرد کے دیہات کے سکھ بہت بڑی تعداد میں مسلح ہو کر ادھر اُدھر منڈلا نا شروع کر دیتے تاکہ لوٹ مار کے لئے کوئی موقع تلاش کریں
۲۰۴ لیکن جب قافلے لڑکوں پر مسلمان ملٹری کی حفاظت میں جانے لگے تو لٹیرے اس تاک میں رہتے کہ سوار ہوتے وقت جو ہجوم ہوتا ہے اسے خوفزدہ کریں تاکہ وہ اپنا تھوڑا بہت اسباب بھی چھوڑ کر بھاگ جانے پر مجبور ہو جائے.اس کے لئے پولیس اور ملٹری کی موجودگی میں قتل تک نوبت پہنچا دی مگر کسی نے ان کو نہ روکا.البتہ ملٹری اور پولیس نے گولیاں چلا کر مظلومین پر اپنی موجودگی اور شدید سے شدید اقدام کے لئے تیاری ظاہر کر دی اور بندوق کی زبان سے اعلان کر دیا کہ بے حس و حرکت قاتلوں اور لٹیروں کے آگے پڑے رہو.ایک دن عصر کے قریب آریہ سکول کے قریب مسلمانوں کی چھوٹی سی آبادی میں رونے دھونے اور چیخ و پکار کا شور بلند ہوا.میں نے مکان کی چھت سے دیکھا تو کچھ لوگ ادھر دوڑے جاتے نظر آئے.پھر پولیس پہنچی.فائروں کی آوازیں آنے لگیں.آخر نتیجہ یہ معلوم ہوا کہ چنا سکھ آبادی میں گھس کر دو مسلمانوں کو قتل کر گئے ہیں اور پولیس نے یہ کہہ کر مسلمانوں کو گھروں سے نکل جانے پر مجبور کر دیا کہ وہ کچھ نہیں کر سکتی.اگر بھان بچانی ہے تو گھروں سے نکل بھاؤ.چنانچہ لوگ نہایت ابتر حالت میں آنے شروع ہو گئے.اس طرح جب وہ ساری آبادی خالی کرا لی گئی تو قریب کے دیہات کے سکھوں نے لوٹنا شروع کر دیا ہو پر باندھے وہاں کھڑے تھے اور صبح تک سب کچھ لے بنانے کے بعد مکانوں کی چھتیں اُکھیڑ کر لے جانے لگے.یہ سب کچھ وہ کھلم کھلا کرتے نظر آرہے تھے مگر ملٹری اور پولیس نے جس کے لئے مسلمان مظلومین کی آہ تک نا قابل برداشت تھی خالہ سکھوں کی ان حرکات کو توجہ کے قابل ہی نہ سمجھا اور کسی نے ان کو روکنے کی تکلیف گوارہ نہ کی.راتوں کو کرفیو کے باوجود جو حملے پناہ گزینوں پر کئے جاتے اور جن میں جان و مال کے علاوہ خواتین کی عصمت کو بھی ٹوٹا بھاتا اور جن کے دوران پولیس اور ملٹری حملہ آوروں کی نیشت پر نہیں بلکہ ان کے پہلو بہ پہلو ہوتی.ان کا کسی قدر ذکر کرفیو کے عنوان کے نیچے کیا جا چکا ہے.غرض یہ حملے روز برونہ زیادہ شدید اور کثیر ہوتے گئے حتی کہ انتہا کو جا پہنچے یا تباہ حال مسلمانوں کے مویشی کوٹ لئے.به دو دن اور تین رات کی مسلسل بارش کے بعد جب مطلع صاف ہوا تو سورج نکلنے کے " الفصل" ۲۹ اخاء / اکتوبر اش + 81992
۲۰۳ تھوڑی دیر بعد ہی کرفیوں گا دیا گیا.اس پر وہ لوگ جو مکانوں میں یا کھلے میدان کے کیچڑ اور پانی میں پڑے تھے ابھی سنبھلنے بھی نہ پائے تھے کہ کسی قدر سردی اور بہت زیادہ بھوک سے نڈھال گھٹ کر رہ گئے اور پھر معا بعد ہھتیار بند پولیس کی معیت میں مسلح سکھوں کی ٹولیاں محلہ وار رحمت کے جنوب سے محلہ میں داخل ہونا شروع ہو گئیں اور تمام مال مویشی جن میں اونٹ بیل بھینسیں بھینسے گائیں گھوڑیاں خچریں گدھے اور بھیڑ بکریاں شامل تھیں کیلوں سے کھول کر ہانکنے لگے.اور تمام محلہ میں سے نہ صرف تباہ حال پناہ گزینوں کے بلکہ بعض مقامی اصحاب کے مویشی بھی ہزاروں کی تعداد میں اکٹھے کر کے محلہ کے شمال کی طرف نکل گئے مویشیوں میں زیادہ تر اعلیٰ نسل اور بھاری قیمت کے بیل تھے جن کے ذریعہ پناہ گزین گڑوں میں اپنا بچا کھچا اسباب لاد کر لائے تھے اور اس امید میں پڑے تھے کہ پیدل قافلہ روانہ ہو گا تو وہ گڑوں میں سامان کے بھاسکیں گے لیکن پولیس نے نہایت شقاوت قلبی سے تمام مویشی چھین کر اُن کو بے دست و پا بنا دیا.اور جب ان لوگوں نے دیکھا کہ اب نہ صرف گڑوں کا لے بھانا ان کے لئے ممکن نہیں بلکہ گڑے بھی لٹیرے سیکھ پولیس کی مدد سے چھین لیں گے تو انہوں نے گڑے جو کئی سو کی تعداد میں تھے توڑ پھو کو بھلا نے شروع کر دیئے اور دوسرے تیسرے دن جب سیکھ گڑوں کی تلاش میں آنکھے تو اپنا سا منہ لے کر رہ گئے.-۶ ۳ اکتوبر کا المناک دن ان حالات میں آخر وہ دن آگیا جب ملٹری پولیس اور سکھوں نے مل کر قادیان میں قیامت برپا کردی اور ان لوگوں کو اپنے انتہائی ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جو نہ صرف حکومت کے قوانین کی پوری پوری پابندی کرنے اور سمجھی وفاداری کا ثبوت دینے کا اعلان کر چکے تھے بلکہ دوسروں کو بھی اس کی تلقین کر رہے تھے اور جن کے ہاتھوں پاکستان کے کسی حصہ میں نہ صرف کسی سیکھ یا ہندو کو جانی یا مالی کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں پہنچا بلکہ کثیر التعداد سکھوں کی جان و مال اور عزت و آبرو احمدیوں نے بچائی.انہی ایام میں جبکہ سکھوں نے قادیان کو نہایت بے دردی اور بے رحمی سے اپنی طرف سے اُجاڑ دیا اور نہایت شرمناک مظالم احمدیوں پر کئے.میں نے دیکھا کہ ایک نہایت معزز عمر رسیدہ سکھ جن کی شکل و شباہت سے شرافت اور عالی نسبی ظاہر تھی منہ چند
اور ساتھیوں کے خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مکانوں سے حضرت صاحبزاد مرزا ناصر احمد صاحب کا اس لئے شکریہ ادا کر کے واپس جا رہے تھے کہ ایک معزز احمدی افسر نے نهایت نازک وقت میں ان کی حفاظت کی اور ان کو بال بچوں سمیت بخیریت محفوظ مقام پر پہنچا دیا.۲- ۳ اکتوبر کی درمیانی رات بڑی کثرت سے گولیاں ملتی رہیں.برین گنیں تڑ تڑا کرتی رہیں یموں کے چلنے کی آوازیں بھی آتی رہیں مصیبت زدہ لوگوں کی چیخ و پکار بھی سنائی دیتی رہی.اور ساری رات یہ سلسلہ بھاری رہا.جب دن چڑھا تو میں نے مکان کی چھت پر سے دیکھا کہ ارد گرد کے دیہات سے سیکھ بڑی کثرت کے ساتھ آرہے ہیں اور محلہ دارالرحمت کے قریب کھیتوں میں اور ایک مندر میں جمع ہو رہے ہیں.جوں جوں دن چڑھتا گیا ان کی تعدادمیں اضافہ ہوتا گیا حتی کہ سینکڑوں سے گزر کر ان کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی.کچھ لوگ قادیان کے ہندو اور سکھوں کے محلوں سے نکل کر بھی ان میں شامل ہوتے نظر آئے اور بعض دیہاتی گھوڑے، نچریں اور گدھے وغیرہ قادیان کی پرانی آبادی سے ہانک کر اپنے گاؤں کی طرف لے جاتے دیکھے گئے سیکھوں کے اس اجتماع کے آگے جو لمحہ بہ لمحہ بڑھ رہا تھا سکھ پولیس کے سوار اور پیدل سپاہی بھی موجود تھے جو ادھر ادھر نقل و حرکت کرتے دکھائی دیتے تھے اور معلوم ایسا ہوتا تھا کہ وہ ڈاکو اور لٹیرے سکھوں کو لوٹ مار اور قتل و غارت سے روکنے اور منتشر کرنے کی بجائے خاص ہدایات دے رہے اور احمدیہ آبادی پر حملہ کے لئے تیار کر رہے ہیں.لٹیرے پولیس کے پاس سے گزرتے اور تھوڑی دیر ٹھہر کر آگے بڑھے بجاتے.عین اس وقت جب پولیس کی موجودگی میں بے میں دبے کس مسلمانوں پر ستم ڈھانے کے لئے یہ تیاریاں کی بھا رہی تھیں.کئی ہزار سکھ تلواریں چھکا چھکا کر خوف و ہراس پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور کمریں کس کر تیار یہ تیار کھڑے تھے.میں نے دیکھا کہ میں اس جگہ سے جہاں پولیس کے سپاہی کھڑے تھے کچھ سکھ تلواریں سونت کر نکلے اور حملہ کی طرف بڑھنے لگے اور جب انہوں نے دیکھا کہ سامنے ایک بوڑھا آدمی پاخانے بیٹھا ہوا ہے تو للکارتے ہوئے اس پر پل پڑے اور وہیں اسے قتل کر دیا.اس کے بعد وہ دو تین اور آدمیوں کی طرف بڑھے کہ وہ بھی پاخانہ کرنے بیٹھے تھے مگر انہوں نے حملہ آوروں کو ذرا دور سے دیکھ لیا اور بھاگ کہ
۲۰۵ آبادی میں آگئے سکھ گندی گالیاں بکتے ہوئے ان کے پیچھے دوڑے لیکن یکا یک تھوڑی دور جا کر ٹھٹکے اور پھر سر پر پاؤں رکھ کر پیچھے کو بھاگ آئے.آگے بڑھنے اور آبادی میں گھسنے کی انہوں نے جرات نہ کی.اس کے متعلق معلوم ہوا کہ ان قانوں کا شور و شهر شنکہ ہمارے چند جال نشار نوجوان اس مورچہ پر پہنچ چکے تھے جس کے پاس سے وہ سکھ قتل و خونریزی کے ارادہ سے آبادی میں داخل ہو سکتے تھے سکھوں کی نظر جب اُن پر پڑی تو آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے کو بھاگنا انہوں نے ضروری سمجھا.احمدی ندائیوں کو یہ سخت ہدایت تھی کہ وہ نہ تو آبادی سے باہر نکل کر سکھوں پر حملہ کر یں اور نہ بھاگتے ہوئے سکھوں کا تعاقب کریں بلکہ اپنے مور پھر میں رہ کر یا پھر محلہ کی گلیوں میں خود حفاظتی کا فرض ادا کریں اور اس خوبی سے ادا کریں کہ جہاں اس کی ادائیگی کی ضرورت پیش آئے وہاں سے کامیابی یا شہادت ہی ان کے قدم ہٹائے کسی صورت میں انہیں ہٹنے کا خیال تک نہ آئے.ہمارے مجاہد نوجوانوں نے بڑی خوشی اور بیحد جوش کے ساتھ یہ عہد کر رکھا تھا اور وہ اسے پورا کرنے کے لئے ہرلمحہ تیار تھے ورنہ ان کے لئے حملہ آور دشمن کا اور ایسے کمینہ اور انسانیت کش دشمن کا آبادی سے نکل کر مقابلہ کرنا کوئی مرعوب کن بات نہ تھی جو عورتوں اور بچوں اور بوڑھوں تک کو بے دریغ قتل کر دینا اپنا بڑا کارنامہ سمجھتا تھا اور جو پاخانہ بیٹھے ہوئے بیخبر بیمار اور بوڑھے انسانوں کے خون سے ہاتھ رنگنے میں ذرابھی شرم محسوس نہ کرتا تھا لیکن اپنے نفس پر قابو رکھنے، قانون کا زیادہ سے زیادہ احترام کرنے اور مسلمانوں کے خلاف بھری ہوئی ملٹری اور فوج کو ظلم وستم میں غیر معمولی اضافہ کرنے کا حتی الامکان کوئی موقع نہ دینے کی خاطر احمدی مجاہدین کی اس ہدایت پر عمل کیا کہ وہ کسی حالت میں بھی بھاگتے ہوئے حملہ آوروں کا آبادی سے باہر جا کر تعاقب نہ کریں ورنہ اس ہدایت کی پابندی نہ کرنے والے دشمن کے ہاتھوں اگر کوئی نقصان اُٹھائیں تو نہ صرف اس کی کوئی قدر نہ کی جائے گی بلکہ ایسے لوگوں کو سلسلہ کی طرف سے بھی سزا دی جائے گی.یہ تھی وہ ہدایت اور وہ ارشاد جس نے ہمارے عزیز نوجوانوں کو مقررہ جگہ سے ایک انچ بھی آگے بڑھنے نہ دیا ورنہ وہ منظر جو اس وقت پیش نظر تھا کہ سکھوں کا ایک بہت بڑا
۲۰۶ مجمع گڑھیوں کی طرح حملہ کرنے کے لئے پر تول رہا تھا اور بوڑھے بیکس مسلمان کو محض اس لئے کہ وہ مسلمان تھا اس کا اور کوئی قصور نہ تھا، ابھی ابھی قتل کر چکا تھا اور اس کے خون کے قطرے ان سکھوں کی تلواروں سے ٹھیک رہے تھے ہو دوسرے مسلمانوں کو قتل کرنے کے لئے ان کے پیچھے بھاگ کر آتے ہوئے زد میں آچکے تھے اور ان کا زندہ بیچ کر واپس چلا بجانا ممکن نہ تھا.ان کو ٹھکانے لگا دینا بالکل آسان تھا.لیکن ایسے وقت میں ہمارے نوجوانوں نے جوش کو دبایا اور تعمیل محکم کے جذبہ کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہوئے نظم اور ضبط کے احتلام کا قابل ستائش ثبوت دیا.یہ سُورمے سکھ جو ایک بوڑھے اور بیمار کو بیٹھے ہوئے قتل کر کے اور ہمارے چند چھوٹی عمر کے نوجوانوں کو دیکھ کہ سر پر پاؤں رکھ کر بھاگ نکلے تھے جب اپنے مجمع میں واپس پہنچے تو وہاں کچھ غیر معمولی حرکت نظر آنے لگی.کچھ سیکھ ادھر ادھر منتشر ہوتے بھی نظر آئے مگر پولیس نے اُن پر قابو پا لیا اور اُن کے اُکھڑتے ہوئے قدم پھر ٹھہر گئے." نے اُن پالیا اور ان ے پولیس اور ملٹری کی معیت میں سیکھوں کا حملہ اور انتہائی مظالم ۳ اکتوبر کو جب سکھوں نے محلہ دارالرحمت کے قریب کے کھیت میں ایک بوڑھے بیمار پاخانہ بیٹھے ہوئے پناہ گزین مسلمان کو قتل کر دیا اور بعض اور کو قتل کرنے کے لئے اُن کے پیچھے بھاگے تو اس سے ان کی غرض یہ تھی کہ شرارت کا آغاز کریں اور لوگوں کو خوفزدہ کر کے مکانات خالی کر دینے پر مجبور کر دیں.لیکن جب حملہ آوروں نے دیکھا کہ احمدی نوجوان آبادی کے اندر مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں تو بھاگ کر اسی مجمع میں چلے گئے جس سے نکل کر آئے تھے اور وہاں کچھ دیر پہلچل مچی رہی.اس دوران میں پولیس اور ملٹری دوسری طرفت سے محلہ میں داخل ہو گئی اور کثرت سے گولیاں پھلانے لگی.ادھر محلہ کی گلیوں میں اور پناہ گزینوں کے آس پاس ملٹری اور پولیس گولیاں پھلا رہی تھی ادھر میں نے دیکھا کہ سکھ غنڈوں کے مجمع سے قطاریں باندھ کر سکھ مختلف اطراف سے محلہ کی طرف بڑھنے لگے یہ لوگ مختلف قسم کے ہتھیاروں سے مسلح تھے جن میں سے تلواریں اور برچھیاں خاص طور پر نمایاں تھیں سوار اور پیدل پولیس ان کے پاس کھڑی یہ سب کچھ دیکھ رہی تھیں.مگر وہ بھی " الفصل " تم نبوت / نومبر.
چونکہ کلیہ سکھوں اور ہندوؤں پرمشتمل تھی اس لئے بظاہر یہی معلوم ہوتا تھا کہ وہ حملہ اور دوں کو لوٹ مار کے متعلق ضروری او گھات بتا کہ روانہ کر رہی ہے اور غنڈے پولیس و مری کے گولیاں چلانے کے اشارہ پر آگے بڑھ رہے ہیں.اس دو طرفہ حملہ کو دیکھ کہ پناہ گزین مسلمان ہو گھروں میں اور کھلی جگھوں میں پڑے تھے تھوڑا بہت اسباب سمیٹ کر بے تحاشا بھا گئے لگے مگر ان کو بتایا گیا کہ آبادی سے باہر نہ جائیں ورنہ غنڈے سکھ ان سے سب کچھ چھین لینگے اور اُن کی جان کے علاوہ عزت و آبہ و پر بھی ڈاکہ ڈالیں گے بلکہ بورڈنگ کی عمارت کی طرف بھائیں اور وہاں جا کر پناہ لیں بچونکہ محمد میں ابھی تک بہت سی احمدی عورتیں اور بچے موجود تھے اور سیکھ غنڈے ملٹری اور پولیس کی پناہ میں آبادی میں داخل ہو رہے تھے اس لئے ہوائے نوجوان ان کی حفاظت کے لئے ملٹری اور پولیس کی گولیوں اور سکھوں کی کر پانوں کی کوئی پرواہ نہ کرتے ہوئے ضروری مقامات پر آپہنچے گئے.ان نوجوانوں کو جہاں یہ ہدایت تھی کہ کسی موقع پر بھی پولیس اور ملٹری سے نہ ٹکرائیں خواہ وہ کتنا ہی ظلم و ستم کرے وہاں یہ بھی حکم تھا کہ اگر کسی عورت کی عصمت پر حملہ کیا جائے تو خواہ حملہ کرنے والا کوئی ہو اس کا ڈٹ کر مقابلہ کریں دور کسی قسم کے خطرہ کی کوئی پروانہ کریں بلکہ مردانہ والہ داد شجاعت دیں.اس فرض کی اد آنگی کے لئے ہمارے عزیز بچے برستی گولیوں اور چمکتی کر پانوں کے دوران اپنی اپنی مقررہ جگہ پر جیم کہ کھڑے ہو گئے اور اس طرح انہوں نے عورتوں اور بچوں اور نہتے مردوں کی جو ہزاروں کی تعداد میں محصور ہو چکے تھے گھروں سے نکلتے وقت قابل تعریف شجاعت کے ساتھ حفاظت کی.سارے محلہ میں ملٹری اور پولیس کی گولیوں اور وحشی سکھوں کی کرپانوں نے قیامت برپا کر رکھی تھی.انہوں نے خالی مکانوں میں گھس کر اور تالے توڑ کر لوٹ مار شروع کر دی تھی.کئی لوگوں کو زخمی کر چکے تھے اور بہت بڑی تعداد میں جنگلی درندوں کی طرح شور مچاتے ہوئے را دھر اُدھر دوڑ رہے تھے مگر احمدی عورتیں اور بچے پوری احتیاط اور حفاظت کے ساتھ گھروں سے نکال کر بورڈنگ میں پہنچائے بجا رہے تھے.اس وقت ہماری خواتین اور بچوں نے بھی بڑے حوصلے اور وقار کا اظہار کیا باوجودیکہ انتہائی خطرات ہر طرف سے انہیں گھیرے ہوئے تھے اور دیہاتی پناہ گزین عورتوں اور بچوں کی چیخ و پکار ہر چہار اطراف سے سنائی دے
۲۰۸ رہی تھی.مگر کیا مجال کہ کسی احمدی عورت اور بچے نے کسی قسم کے خوف و ہراس کا اظہار کیا ، یا اضطراب اور بیچینی کا کوئی کلمہ منہ سے نکالا.ہمارا ہر مرد ، ہر عورت بلکہ ہر بچہ رضا بالقضا کا مجسمہ نظر آرہا تھا اور چپ چاپ اس ہدایت پر عمل کرتے ہوئے کہ ملٹری اور فوج کا مقابلہ نہیں کرنا بھرے گھروں کو خالی کیا جا رہا تھا کیونکہ ملٹری اور مسلح پولیس ایک ایک مکان پر بجا کر کہہ رہی تھی کہ فوراً مکان خالی کر دو ورنہ گولی چلا دی جائے گی اور سکھ جن کو ہم نے روک رکھا ہے قتل ؟ غارت کا بازار گرم کر دیں گے.اس ظالمانہ اور وحشیانہ حکم کو بعض جگہ پولیس اور ملٹری نے عملی جامہ بھی پہنایا.چنانچہ میرے مکان کے بالکل قریب مرزا احمد شفیع صاحب بی.اے کو گولی مار کو شہید کر دیا گیا.انا للہ و انا الیہ راجعون.جب ظلم و ستم اور جبر و تشدد کی نوبت یہاں تک پہنچ گئی تو اکثر لوگ مکان خالی کر دینے پر مجبور ہو گئے اور ایسی حالت میں تعالی کرنے پر مجبور ہو گئے کہ اکثر احباب بالکل خالی ہاتھ نکلے کیونکہ اگر کوئی کچھ لے کر نکلتا تو پولیس اور ملٹری کی موجودگی میں سکھ ٹوٹ لیتے اور ملٹری والے بھی اس میں حصہ دار ہوتے.- احمدی نوجوانوں کی شجاعت اور جاں نثاری میں اپنے ایک بچے حمید احمد سمیت جو مرکزی حفاظت کا فریضہ ادا کرنے والے نوجوانوں میں شامل تھا اور محلہ کی مخدوش حالت کی اطلاع پا کر اور یہ سُن کر کہ سکھوں کے حملہ کا بہت بڑا نور ہمارے مکان کے پاس ہے میری خیر معلوم کرنے کے لئے گھر آیا تھا اور ہم یہ دیکھ کہ کہ قریب قریب کی عورتیں اور بچھے جاچکے ہیں اپنے مکان سے نکلے اور بابو اکبر علی صاحب مرحوم کی کو بھٹی میں پہنچے جہاں مرکزی حفاظت کرنے والے نوجوان مقیم تھے.میرے وہاں جانے کے تھوڑی دیر ہی بعد انچارج صاحب کو اطلاع پہنچی کہ ایک مکان میں ابھی تک بہت سی عورتیں اور بچے محصور ہیں اور خطرہ لمحہ بہ لمحہ بڑھتا جارہا ہے ان کو بحفاظت نکالنے کا انتظام کیا جائے اس پر انچارج صاحب نے نوجوانوں کو آواز دی اور وہ دوڑتے ہوئے آکر ان کے گرد جمع ہو گئے اور جب انہیں بتایا گیا کہ فلاں مکان میں عورتیں اور بچے موجود ہیں ان کو نکال لائیں تو ایک لمحمد کا توقف کئے بغیر سارے کے سارے نوجوان سین کی تعداد ۱۵-۲۰ سے زیادہ نہ تھی اور
۲۰۹ جو اس وقت وہاں پہنچے تھے.مڑی اور پولیس کی گولیوں اور سکھوں کی چار چار فٹ لمبی کر پانوں کا مقابلہ کرنے کے لئے صرف لاٹھیاں لے کر دوڑ پڑے اور تھوڑی ہی دیر میں دوسو کے قریب عورتوں اور بچوں کو بحفاظت نکال لائے.ان عورتوں اور بچوں سے بھی کسی قسم کی گھیرات اور بے صبری کا اظہار نہ ہوتا تھا.جب ہمارے مجاہد اُن کو اپنی حفاظت میں بورڈنگ کی طرف لا رہے تھے تو موضع براں سے قادیان آنے والے راستے کے قریب جو محلہ دارالرحمت اور محلہ دارالعلوم کے درمیان واقع ہے.بہت سے مسلح سکھوں نے محملہ کرنے کی کوشش کی یہ دیکھ کر ہمارے نوجوان جن کے پاس صرف لاٹھیاں تھیں اُن کے مقابلہ میں ڈٹ گئے.خدا تعالیٰ نے ان کی خاص مدد اور نصرت فرمائی.جب تک ملٹری اور پولیس وہاں پہنچی کئی ایک سیکھوں کو انہوں نے مار گرایا اور باقی دُم دبا کر بھاگ گئے اور پیچھے مڑکر بھی نہ دیکھا پہاڑ سے نوجوانوں میں سے کسی کو خراش تک نہ آئی بھا لیکہ ان کے پاس صرف لاٹھیاں تھیں اور سکھوں کے پاس کر پائیں، اور وہ سمجھتے تھے کہ پولیس اور ملٹری ان کی پشت پناہ ہے خواتین اور بچوں کو نرغہ سے نکالنے کے لئے ہو مجاہدین اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کے مردانہ وار آگے بڑھے تھے اگر چہ وہ اپنے مقصد میں خدا تعالیٰ کے فضل سے کامیاب ہوئے لیکن ان میں سے ایک مجاہد جو نہایت سجیلا جوان تھا اور رضا کارانہ قادیان کی حفاظت کا فرض ادا کرنے کے لئے کھاریاں ضلع گجرات سے آیا ہوا تھا.نیاز علی نام تھا.نہ معلوم اپنے ساتھیوں سے کس طرح علیحدہ ہو گیا اور بعد میں معلوم ہوا کہ ملٹری نے نہایت صفا کی سے اسے گولی کا نشانہ بنایا.انا للہ و انا الیہ راجعون.اور پھر ستم بالائے ستم یہ کہ اس کی لاش بھی نہ اُٹھانے دی بعدا تعالے کی بے شمار برکات اور انعامات نافظ ہوں ہمارے اس شہید پر جنہوں نے اس ظلم و ستم کے دور میں مختلف اوقات اور مختلف مقامات میں مومنانہ شجاعت اور بہادری کے جو ہر دکھاتے ہوئے جام شہادت پیدا.ہماری آئندہ نسلیں ان کی ذات پر فخر کریں گی اور ان کے کارنامے یاد کر کے اپنی محبت اور اخلاص کے پھول ان پر نچھاور کریں گی.ان کی جھدائی سے ہمارے دل غمگین اور ہماری آنکھیں نمناک ہیں مگر انہوں نے خدا تعالے کی راہ میں اپنی بھائیں قربان کر کے جو درجہ اور مرتبہ حاصل کر لیا ہے اس پر ہم ان کو مبارکباد کہتے
۲۱۰ ہیں.نہ صرف ان کو بلکہ اُن ماؤں کو بھی جنہوں نے ایسے بہادر اور خدا تعالیٰ کی خاطر فدا ہونے والے سپوت بجھنے ، اُن باپوں کو بھی جن کے ہاں ایسے جوانمرد اور دلیر بچے پیدا ہوئے، ان بہنوں اور بھائیوں کو بھی جن میں وہ کھیلے کو دے اور پروان چڑھے، اُن سہاگنوں کو بھی جن کے سہاگ ہمیشہ کی زندگی پاکہ لازوال بنا گئے، ان بچوں کو بھی جن کی قدر و منزلت کو چار چاند لگا گئے.وہ خود زندہ ہو گئے کیونکہ خدا تعالے کا ان کے متعلق یہ ارشاد ہے.و لا تقولوا لِمَنْ يَقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتُ بَل احیاء کہ جو خدا تعالیٰ کی راہ میں قتل کئے بہائیں ان کو مردہ مت کہو وہ زندہ ہیں.اور دوسروں کے لئے ایسی زندگی میں کرنے کے لئے اس زمانہ میں مثال قائم کر گئے ہیں.پس ہم ان کے درجات کی مزید بلندی کے لئے دعا کرتے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے امید رکھتے ہیں کہ وہ ہمار سے ان شہیدوں کو قصر احمدیت میں بلند مقام پر جگمگاتے ہوئے ستارے بنائے گا اور دوسرے نوجوان ان سے روشنی حاصل کریں گے.ہکار سے ان مقامی اور بیرونی مجاہد نوجوانوں نے اپنے مقامات مقدسہ اور قادیان میں لینے والے لوگوں کی حفاظت کے سلسلہ میں کئی ماہ مسلسل جو خدمات سرانجام دیں ان کا ذکر کوئی ایسا بھائی کرے جو ان کی تفصیلات سے واقف اور ان کا عینی شاہد ہو تو زیادہ موزوں ہو گا.مجھے ان کی سرگرمیوں اور مجاہدانہ بہد و جہد کا جو ایک آدھ نظارہ اتفاقی دیکھنے کا موقعہ ملا ئیں اسی کا ذکر کر سکتا ہوں.ہمارے محلہ دار الرحمت میں سکھوں سے مقابلہ کا ایک اور نہایت شاندار کارنامہ بھی عمل میں آیا.اس وقت جبکہ سکھ محلہ میں داخل ہو چکے تھے.ملٹی اور پولیس ان کی حمایت میں گولیاں چلا رہی تھی.ایک اور مکان میں کچھ عورتیں اور بیچتے محصور ہو چکے تھے اور مسلح سکھ غنڈوں نے اس مکان کے ارد گرد منڈلانا شروع کر دیا تھا حتی کہ اس مکان میں داخل ہونے کی کوشش کرنے لگے.جب نوبت یہانتک پہنچ گئی تو ہمارے نوجوانوں نے مقابلہ کرنا ضروری سمجھا اور وہ ہر قسم کے خطرات کا پورا پورا احساس رکھتے ہوئے اور یہ دیکھتے ہوئے کہ پولیس اور ملٹری نہ صرف سیکھ ڈاکوؤں اور لٹیروں کی اپنے اسلحہ سے حفاظت کر رہی ہے
۲۱۲ بلکہ ان کی حمایت میں بیگناہ اور نہتے احمدیوں کو بغیر کسی وجہ کے قتل بھی کر رہی ہے ، سہ پر کفن باندھ کر خواتین کی حفاظت کے لئے اپنے فرض کی ادائیگی میں مصروف ہو گئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آن کی آن میں نہ صرف محلہ کا وہ حصہ درندے سکھوں سے خالی ہو گیا جہاں عورتیں اور بچے رو کے پڑے تھے بلکہ ملٹری اور پولیس کے سورے بھی بھاگ گئے اور دُور دُور تک اُن کا نام و نشان نظر نہ آیا.اس موقعہ کو غنیمت سمجھے کہ اور یہ سمجھے کہ کہ ملڑی اب مزید کمک حاصل کر کے کوٹے گی عورتوں اور بچوں کو بخیریت وہاں سے نکال کر محفوظ مقام پر پہنچا دیا گیا اس مقابلہ میں بھی کئی سکھ جان سے گئے مگر ہمارے مجاہدین خدا تعالیٰ کے فضل سے بخیریت نکل آئے.یہ ہیں اس سفا کا نہ حملہ کے کچھ حالات جو مسلح سکھوں کے ایک بہت بڑے ہجوم نے پولیس اور ملٹری کی معیت میں محلہ دار الرحمت پر گیا اور جو پولیس کی عائد کردہ شدید پابندیوں کی وجہ سے میں محض اتفاقیہ طور پہ ایک نہایت محدود حلقہ میں دیکھ سکا کیونکہ اس بات کا کوئی امکان ہی نہ تھا کہ چل پھر کے سارے حالات معلوم کیئے جا سکتے.ان بیان کردہ حالات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قادیان کی بے بس اور نہتی آبادی کو اس کے گھروں سے نکالنے اور اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پچھلے جانے کے لئے ملٹری اور پولیس نے سکھوں کو امداد دے کر کیا سفاکانہ حملہ کرایا اور کیسے کیسے شرمناک مظالم کا نشانہ بنایا.۹.حیرت انگیز غلط بیانی مگر ہندوستان ریڈیو نے اپنے ایک بڑے افسر کے حوالہ سے اعلان کیا کہ قادیان پر کوئی حملہ نہیں کیا گیا بلکہ لوگ نخود بخود گھر چھوڑ کر گھروں سے نکل گئے اور لکھا گیا کہ قادیان کے کیا ارد گرد چونکہ سکھوں کے گاؤں آباد ہیں اس لئے احمدی قدرتاً خوفزدہ ہو کر اپنے گھر چھوڑ گئے.حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ احمدی نہ کبھی ارد گرد کے سکیموں سے خوفزدہ ہوئے اور نہ ہو سکتے تھے اور اس کا ناقابل تردید ثبوت یہ ہے کہ وہ سکھ جنہوں نے علاقہ میں ایک عرصہ سے ٹوٹ مار اور قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا تھا اور جب سے گورداسپور کو ہندوستان کے حوالے کر دیا گیا اس وقت سے تو سکھوں کی سفاکیاں اور ستم آرائیاں حد سے بڑھ چکی
۲۱۲ تھیں لیکن انہیں قادیان کی احمدی آبادی پر حملہ کرنے کی کبھی جرات نہ ہوئی حتی کہ ارد گرد کے مسلمانوں کے تمام دیہات ویران کر دینے کے باوجو د بھی اس وقت تک جرأت نہ ہوئی جب تک پولیس اور ملٹری کھلم کھلا ان کی حمایت میں کھڑی نہ ہو گئی اور ۳ را کتو بہ تک اس کے لئے اس نے پوری تیاری نہ کر لی.ملٹری اور پولیس بہت بڑی تعداد میں قادیان میں جمع کر لی گئیں.ٹینسوں سے بندوقیں لے لی گئیں اور متواتر کئی روز تشدد کا سلسلہ جاری کر کے خوف و ہراس پیدا کر نے کی کوشش کی گئی جب یہ سب کچھ کو لیا گیا تو سکھوں کو ہزاروں کی تعداد میں جمع کر کے قادیان پر دھکیل دیا اور ان کی امداد کے لئے ہر ممکن کوشش کی گئی.حتی کہ بہت سے بیگناہوں کو گولیوں سے موت کے گھاٹ اتار دیا.یہ نہتے اور بے بس احمدیوں پر حملہ اور نہایت شرمناک حملہ نہیں تو اور کیا ہے یا اگر پولیس اور فوج سکھوں کی پشت پناہ اور مدد گار بن کہ اس حملہ میں شریک نہ ہوتی تو سیکھوں کو قطعا برات نہ ہوتی کہ احمدیوں کی طرف منہ بھی کر سکتے اور اگر کرتے تو دنیا دیکھتی کہ کیا نتیجہ نکلتا ہے.اب فوج اور پولیس کے جبر و تشدد کے ذریعہ قادیان کو خالی کروا کر یہ کہنا کہ احمدی سکھوں کے خون سے اپنے گھروں کو خود خالی کر گئے، حقیقت پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش اور سیاہی کے ان دھبوں کو مٹانے کی ناکام سعی ہے جو ان فوجیوں اور پولیس والوں کے ہاتھوں پر لگ چکے ہیں اور جو قیامت تک مٹائے بھی نہ مٹیں گے.۱۰.غلاظت اور عفونت کی بھرمار ملٹری اور پولیس نے انتہائی تشدد اور ظلم سے کام لے کر اور گولیوں سے بہت سے بیگناہوں کی جانیں ضائع کر کے قادیان کے مختلف محلوں کے ہزاروں مردوں اور عورتوں اور بچوں کو بورڈنگ کی عمارت اور اس سے ملحقہ بجانب غرب کے گرے پڑے احاطوں میں جب بھیڑ بکریوں کی طرح ٹھونس دیا تو ساتھ ہی یہ حکم دے دیا کہ کوئی ادھر ادھر حرکت نہ کرنے پائے وریہ گولی سے اُڑا دیا جائے گا.اور رات بھر گولیاں چلا چلا کر بتا دیا کہ ملٹری اور پولیس اپنے اس علم کو عملی جامہ پہنانے کے لئے تیار کھڑی ہے.بورڈنگ کے قریب کے میدانوں عمارتوں میں ارد گرد کے دیہات کے ہزار ہا پناہ گزین بہت دنوں سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر
۲۱۳ وقت گزار رہے تھے اور کہ فیو کی پابندیوں اور پولیس و ملٹری کے مظالم کی وجہ سے وہ چونکہ آس پاس ہی رفع حاجت کے لئے مجبور تھے اس لئے بورڈنگ کے قریب قریب کا حصہ غلاظت اور عفونت کی وجہ سے پہلے ہی سنڈ اس بن چکا تھا اور ان رستوں سے گذرنا محال تھا لیکن ملٹری اور پولیس کی شکل میں ظلم وستم کی آندھی ہزاروں مقامی مردوں عورتوں اور بچوں کو جب اُن کے آباد گھروں سے اُڑا کر باہر لے آئی تو انہیں اسی سنڈ اس میں رات گزارنی پڑی اور صبح اٹھ کر دیکھا کہ بورڈنگ ہاؤس کے صحن کا وہ حصہ جو گیلا ہو جانے کی وجہ سے پناہ گزینوں کے ٹھیرنے کے قابل نہ تھا غلاظت سے اٹ گیا اور اس میں لمحہ بہ لمحہ اضافہ ہوتا جا رہا تھا.اسی دن صحیح ہی صبح ان ہزار ہا لوگوں کو جو ادھر اُدھر بکھرے پڑے تھے اور بہت دنوں سے انتظار میں تھے کہ ملٹری کی حفاظت میں قافلہ پیدل روانہ ہو تو وہ بھی کسی طرف کا رخ کریں، انہیں ملٹری اور پولیس نے زبر دستی بانک بانک کو بٹالہ کی طرف روانہ کرنا شروع کر دیا.اور وہ لوگ نہ صرف بہت کچھ اپنا اسیاب پھینک کر بلکہ اپنے بوڑھے اور بیمار رشتہ داروں کو بھی چھوڑ چھاڑ کر بھانے لگے.اس وقت ہمارے منتظمین نے اعلان کر دیا کہ کوئی احمدی اس - قافلہ میں نہ جائے کیونکہ راستہ میں لوٹ مالہ اور قتل و غارت کا سخت خطرہ ہے.آخر اس لئے ہوئے قافلہ کو جسے ملٹری اور پولیس نے یہ کہہ کہہ کر روانہ کیا تھا کہ وہ اس کی حفاظت کرے گی بٹالہ پہنچتے پہنچتے بالکل ہی کٹوا دیا اور بیسیوں آدمیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا.کیونکہ راستہ کے دونوں طرف ہزار ہا مسلح سیکھ لٹیرے کھڑے تھے جو کھلم کھلا ٹوٹتے اور قتل کرتے تھے اور کوئی ان کو روکنے والا نہ تھا.تباہ حال پناہ گزینوں کو موت کے منہ زیر دستی دھکیل کر پولیس اور ملٹری نے جو جگہ خالی کروائی تھی وہ اگرچہ غلاظت اور گندگی کی وجہ سے ہی ٹھیرنے کے ناقابل تھی لیکن جس تکلیف اور مصیبت میں گذشتہ رات جگہ کی تنگی کی وجہ سے گزاری گئی تھی.سر چھپانے کی کوشش کی بجائے لیکن ملٹری کی طرف سے حکم جاری ہو گیا کہ اس سارے علاقہ میں جہاں سے پناہ گزین اُٹھے ہیں کوئی داخل نہ ہو بلکہ ادھر سے گزرنے کی بھی جرات نہ کرے ورنہ گولی سے اڑا دیا جائے گا.اس طرح کئی ہزار مردوں عورتوں اور بچوں کو ایک چھوٹے سے احاطہ میں محصور کر کے جہاں کھانے پینے کی ضروریات سے یکسر محروم کر دیا گیا وہاں اس بات کے لئے وہ مجبور کر رہی تھی کہ قریب قریب کی عمارتوں میں ہو سکول اور اور ڈنگ سے کیا متعلق تھیں.
بھی مجبور کر دیا کہ عفونت اور گندگی کی شدید تکلیف میں پڑے رہیں جو کہ لمحہ بہ لحد بڑھتی جا رہی تھی ان حالات میں مسلسل کئی دن گزارے گئے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ بورڈنگ کے صحن میں پھلنا پھرنا یا اس کے آس پاس آنا تو الگ رہا بدبو اور تعفن کی وجہ سے کمروں کے اندر بیٹھنا تک محال ہو گیا.اس کے ساتھ ہی غلاظت کی بھر مار کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوا کہ بے انتہا کثرت کے ساتھ مکھی پیدا ہو گئی جس نے رہا سہا چھین بھی چھین لیا.اس دوران میں غلاظت سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی مگر سوائے اس کے کیا بھی کیا جا سکتا تھا کہ محدود سی جگہ میں گڑھے کھود کھود کر غلاظت کو دبانے کی کوشش کی جاتی.سب سے پہلے یہ کام کرتے ہوئے میں نے ایک نوجوان کو دیکھا جس کا نام عطاء اللہ ہے اور محلہ دار الفضل کا رہنے والا تھا اس نے دوسرے ہی دن کدال ہاتھ میں لے کر یہ کام شروع کر دیا اور روزانہ کرتا رہا.بعد میں اور بھی نوجوان اس کام میں مصروف ہوتے گئے اور انہوں نے یہ خدمت ادا کرنے میں قابل تعریف اور لائق تحسین سرگرمی دکھائی.باوجود اس کے بحالت نہایت ہی تکلیف دہ اور پریشان کن تھی.آخر ایک دن جب یہ معلوم ہوا کہ اعلیٰ فوجی افسر ہوائی جہاز کے ذریعہ حالات ملاحظہ کرنے کے لئے آرہے ہیں تو اتنی اجازت دی گئی کہ کالج کے ہوسٹل اور قریب دو چار مکانوں میں جو لوگ رہنا چاہیں بجھا سکتے ہیں اس پر کچھ لوگ وہاں چلے گئے.۱۱ - برا تبدیلی مذہب کالج کے ہوسٹل میں ایک دن صبح ہی صبح دو مرد عورتیں اور چند بچے ہانکتے کا پیتے تعلی کے ایک گاؤں ہو گی چیمہ سے پہنچے.جنہوں نے بتایا کہ گاؤں کے سکھوں نے انہیں زبر دستی سیکھ بنا کہ ایک مکان میں زیر حراست رکھا ہوا تھا.لیکن گذشتہ رات موقع پا کر وہ کھیتوں میں چھپتے چھپاتے بھاگ آئے.اس سے یہ معلوم ہوا کہ سکھوں کے دیہات میں جو مسلمان بستے تھے انہیں نہ صرف گھروں سے نہ نکلنے دیاگیا بلکہ جبرا ان کو مذہب تبدیل کرنے پچھورکردیا گیا.۱۲- کالج اور ہوسٹل پر قبضہ کالج کی عمارت سے سخت بارش کے دوران پناہ گزینوں کو نکال کر ملٹری نے پہلے ہی اس پر قبضہ کر لیا تھا اور وہاں اپنا اڈہ قائم کر رکھا تھا.اب کالج کے ہوسٹل کو بھی خالی کرا لیا گیا.
۲۱۵ اور جو لوگ یہاں رہنے لگے تھے انہیں پھر اور ڈنگ آنا پڑا.۱۳.کھانے پینے کی مشہکلات بورڈنگ کا تعلق اسی دن سے شہر میں رہنے والے احمدیوں سے منقطع کر دیا گیا جس دن کہ لوگوں کو گھروں سے نکال کر بورڈنگ میں ٹھونس دیا گیا تھا.نہ کوئی شہر میں جا سکتا تھا اور نہ آسکتا تھا.کھانے پینے کی ضروریات پوری کرنے سے بالکل روک دیا گیا لیکن با وجود اس کے ہمار من تظمین نے ہزاروں مردوں عورتوں اور بچوں کی جانیں بچانے کے لئے ہے ممکن کوشش کی.بورڈنگ اور ہوسٹل میں غلہ کا کافی ذخیرہ موجود تھا جو اس آڑے وقت کام آیا.ابتدا میں کچھ دن گندم اُبال اُبال کر کھانے کے لئے دی جاتی رہی.بعد میں تھوڑے بہت آٹے کا انتظام ہو گیا اور فی کس ایک ایک روٹی صبح وشام ملنے لگی.کچھ چاول بھی میسر آگئے.وہ بھی اُبال کر تھوڑے تھوڑے دیئے جاتے.اس قسم کی خوراک سے پیچیش کی بیماری عام طور پر پھیل گئی جس کے لئے نہ تو کھانے پینے میں پر ہر ممکن تھا.نہ علاج میسر تھا.کیونکہ ہمارے ہسپتال پر قبضہ کر لینے کے علاوہ پرائیویٹ دکانوں کو بھی ملڑکی اور پولیس نے اپنے تعریف میں لے کر کسی دوائی کا حاصل کرنا نا ممکن بنا دیا تھا.۱۴.ہوائی جہاز پر گولیوں کی بوچھاڑ بیرونی دنیا سے بالکل منقطع کر دینے کے لئے ڈاک، تار، اور ٹیلیفون وغیرہ کا سلسلہ تو پہلے ہی کاٹ دیا گیا تھا.لاہور سے ہوائی جہاز کبھی کبھی ظلم و ستم کا نظارہ کرنے کے لئے آیا کتا تھا.اس پر گولیوں کی بوچھاڑ کی جاتی تھی آمار جہاز کا آنا بھی بند ہوگیا.لیکن جب قاریان کو ملٹری اور پولیس نے غنڈے سکھوں کی آڑمیں ویرانہ بنا دیا تو ایک دن ایک زرد رنگ کا ہوائی جہناں آیا بحسب معمول پولیس اور ملٹری نے اس پر بھی گولیاں برسانی شروع کر دیں مگر وہ ان کی کوئی پروا کئے بغیر بہت نیچے اُڑتا ہوا اور ساری قادیان پر کئی چکر لگا کر تباہی و بربادی کو اچھی طرح دیکھ کر چلا گیا.۱۵- خواتین کی حفاظت کا انتظام بورڈنگ کے قریب قریب کے مکانوں میں چونکہ فوراً ہی سکھوں کو داخل کر دیا.اُدھر
۲۱۶ رات بھر ملٹری ہمارے ارد گرد چکر لگاتی اور گولیاں چلاتی رہتی.ایسی حالت میں ان سکھوں نے شرارتیں کرنی شروع کر دیں.اور ایک رات ایک مکان سے ہمار کی طرف دو بم بھی پھینکے گئے مگر وہ نہ پھٹے.اس سے ان کی غرض بورڈنگ خالی کرانا تھی.مگر ہمارے نوجوانوں کی سر فروشی اور خود حفاظتی کے جذبہ نے انہیں ناکام رکھا اور نوجوانوں کے اسی جذبہ نے اس وقت بھی بہت کام دیا جب عورتوں اور بچوں کو نکالنے کے لئے ملٹری ٹرک بہت بڑی تعداد میں قادیان پہنچے اور ان میں عورتوں اور بچوں کو سوار کر کے روانہ کیا گیا.خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کو نہ صرت پوری حفاظت کے ساتھ سوار کر لیا گیا بلکہ راستہ میں بھی پوری حفاظت کا انتظام کیا گیا اور سارا قافله امن و امان سے لاہور پہنچ گیا.جتنے دن عورتیں اور بچے قادیان میں محصور اور غیر معمولی خطرات میں گھرے رہے حضرت امیرالمومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بنباتات ہی بے چین اور بیکل رہے.اس بے چینی کا کسی قدر اظہار حضور نے ایک والانامہ کے ذریعہ بھی فرمایا جو اہل قادیان کے نام تھا اور سب کو سُنایا گیا اور اس کے سننے سے جہاں ہر مرد د عورت کے حوصلے بلند اور دل اور زیادہ مضبوط ہو گئے وہاں ہر ایک نے یہ بھی محسوس کیا کہ حضور کو اپنی جماعت کے اس ناتواں طبقہ کا جو عورتوں اور بچوں پر مشتمل ہے کس قدر فکر اور خیال ہے اور اس کی حفاظت کے لئے کس قدر بیچین ہیں.در اصل ظلم وستم کے خوفناک طوفان بیکراں میں سے مرکزہ جماعت کی تمام خواتین اور بچوں کا جن کا شمار ہزاروں میں تھا ہر طرح کی حفاظت کے ساتھ بخیر و عافیت نکال لینا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایک اللہ تعالیٰ کے کارناموں میں سے ایک عظیم الشان کارنامہ ہے جس کی اہمیت کا اندازہ لگانا ممکن نہیں.اور جوں جوں زمانہ گذرتا جائے گا اور غور و فکر کرنے کا موقعہ ملے گا اس کی اہمیت بڑھتی ہی جائے گی اور غور کرنے والوں کو محو حیرت کرتی رہے گی اور اس سلسلہ میں جین اعتباب کو حضور کے ارشادات اور تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کی سعادت حاصل ہوئی اگر اُن میں سے کوئی تفصیلی حالات قلمبند کر کے شائع کرائے تو بہت ہی اچھا ہوئے مه " الفضل " م ا نبوت / نومبر س ش صفحه ۳-۴ به ۶۱۹۴۷
۲۱۷ حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے خاص انتظامات کے ماتحت تمام عورتوں اور بچوں کے قادیان سے روانہ ہو جانے کے بعد مردوں کے کندھوں سے ان کی حفاظت کی ذمہ داری کا بہت بڑا بوجھ اُتر گیا تو ملٹری اور پولیس نے یہ کہہ کہ کہ بورڈنگ میں سے عورتوں کے پہلے بھانے کی وجہ سے کردوں کے رہنے کی گنجائش نکل آئی ہے فضل عمر ہوسٹل اور قریب قریب کے مکانات جن میں احمدی پناہ گزین تھے جبرا خالی کرانے شروع کر دیئے اور پھر سب کو بورڈنگ میں محبوس کر دیا.14 بیگار ان ایام میں فوجی پہرہ میں ہم سے کئی قسم کی بیگار بھی لی گئی منتظمین سے کہا جاتا کہ کام کرنے کے لئے فوراً اتنے آدمی بھیج دو ورنہ ملٹری جبرا کام کرائے گی.ایک دن مولوی ابو العطاء صاحب نے فضل عمر ہوسٹل میں آکر بھی اعلان کیا کہ دوست خود بخود چھلے بھائیں اور احباب چلے گئے.بیرونی دیہات کے ہزارہا مردہ عورتیں اور بچتے بہت دنوں سے بورڈنگ اور کالج کے وسیع میدانوں میں پڑے تھے جہاں انہوں نے شدید گرمی اور شدید بارشوں کی صعوبتیں جھیلی تھیں اور تھوڑا بہت سامان خاص کہ لحاف اور کپڑا وغیرہ جو گھروں سے لائے تھے وہ ضائع ہو گئے تھے.جب انہیں جبراً کم اکتوبر کو پیدل بٹالہ کی طرف دھکیلا اور درندہ صفت سیکھوں کے آگے بے دست و پا کر کے ڈال دیا گیا جنہوں نے انتہائی کمینگی کا اظہار کرتے ہوئے بیکسوں کو نہایت بیرحمی سے ٹوٹا اور قتل کیا تو وہ اپنے برتن اپنی چار پائیاں اپنے ٹرنک اپنے لحافہ اور کپڑے جو چیتھڑے ہو چکے تھے اور جو غلاظت سے لتھڑے ہوئے تھے وہیں چھوڑ گئے.مری نے یہ سب چیزیں ہمارے آدمیوں کو جن میں گریجوایٹ، اعلیٰ تعلیمیافتہ اور اعلیٰ خاندانوں کے افراد بھی شامل تھے بیگار میں پکڑ کر کبھٹی کرائیں.پھر اینٹیں جن کے فرش بنا کہ پناہ گزینوں نے بارش کے دن گزارے تھے اور کیچڑ میں لت پت ہونے کی بجائے ان پر بیٹھ کر راتیں کاٹی تھیں اُن کو جمع کرانے کے لئے بھی لے اس مقام پر خواجہ غلام نبی صاحب مرحوم نے احمدی خواتین کی حفاظت کے بارہ میں حضرت مصلح موعود کے کارنامہ پر تفصیلی روشنی ڈالی تھی جو فصل دوم کا حصہ بن چکا ہے :
۲۱۸ ہم سے بیگار لی گئی.یہ اینٹیں جو ہزاروں کی تعداد میں زمین میں گڑی ہوئی تھیں ان کو چونکہ خالی ہاتھوں سے ہمیں اکھیڑنا پڑا.اس لئے ہمارے ہاتھ اس مشقت سے چھل گئے.چار چار کوڑی کے ڈوگرہ اور سکھ سپاہی نہیں کام کرتے ہوئے ڈانٹتے ڈیتے بھی اور شاباش شاباش بھی کہتے.مگر ہمیں ان کی کسی حرکت کی کوئی پروا نہ تھی.ہم تو اپنے نظام کے ماتحت چل رہے تھے اور قضا و قدر کے کرشمے دیکھتے ہوئے اللہ تعالے کی کبریائی کے ترانے گا رہے تھے.ایسی حالت میں ان کی شاباش ان کی ڈانٹ ڈپٹ سے زیادہ ایذا رساں محسوس ہوتی تھی ۱۷ - ملٹری کی لوٹ مار پولیس والوں اور فوجیوں کی لوٹ مار کے شرمناک حادثات کی داستانیں تو روزانہ سُننے میں آتی تھیں.لیکن اس بارے میں خود مشاہدہ کرنے کا موقع اس وقت ملا جب میں بورڈنگ سے قصبہ میں آگیا اور دفتر " الفضل" کی بالائی منزل میں رہنے لگا.یہاں سے میں نے دیکھا کہ جب سابقہ مہندوستانی ملٹری کا تبادلہ ہوا.اور وہ لوگ فوجی ٹرکوں میں بیٹھ کہ روانہ ہوئے تو کئی ایک بڑے بڑے ٹڑک لبالب مختلف قسم کے اسباب سے بھرے ہوئے تھے اور اس کے اُوپر تھوڑے تھوڑے سپاہی بیٹھے تھے.قادیان سے باہر جانے والوں کو جب ٹرکوں پر چڑھنے کے لئے تھوڑا بہت اسباب لے کر قصبہ سے باہر جانا پڑتا تو ہندو لڑکی کی موجودگی میں سکھوں نے دن دہاڑے رہزنی شروع کر دی.اکیلے دو کیلے پر اچانک حملہ کر کے اسباب چھین لیتے اور بعض حالتوں میں زخمی کر کے بھاگ جاتے.البتہ چند افراد اگر اکٹھے مل کر جاتے تو حملہ کرنے کی جرات نہ کرتے.میں جب بورڈنگ سے قصبہ میں آیا تو میرے ساتھ پانچ سات نو جوان بچے بھی تھے.اس دن بھی اگرچہ کئی اصحاب پر حملے ہو چکے تھے مگر ہم بخیریت پہنچ گئے.رہزنی کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک مسلمان ملٹری نہ پہنچے گئی.اور ہر خطرہ کے مقام پر ہندو فوجی کے ساتھ مسلمان فوجی نہ کھڑا کر دیا گیا.یہ وہ مختصر حالات ہیں جو میں نے آنکھوں دیکھے بیان کئے ہیں.اگر کانوں نے بھی بیانا کئے جاتے تو یہ المناک داستان نہایت ہی طویل ہو جاتی." الفضل" در فتح ا دسمبر صفحه
۲۱۹ فصل ششم قادیان کے المناک کوائف اور جماعت احمدی کی تقاریان چونکہ ایک بین الاقوامی فقال کی اور منظم جماعت کا ایک شہرہ آفاق مظلومیت اور ملی خدمات کا چرچا عالمی پریس میں، مرکز تھا، اس لئے جہاں مشرقی پنجاب بلکہ دہلی جیسے شہر میں خون مسلم سے جو ہولی کھیلی گئی اس پر بیرونی اخبارات نے بہت کم نوٹس لیا وہاں قادیان میں فتنہ و فساد اور قتل و غارت کی تفصیلی خبریں بر صغیر پاک وہند کے مشہور اخبارات کے علاوہ دوسرے عالمی پریس نے بھی جلی عنوانوں سے شائع کیں جس سے دنیا بھر میں زبر دست تہلکہ پڑ گیا اور قادیان کے احمدی جوانوں کی جمرات و مردانگی اور استقلال و پامردی کی ہر جگہ دھوم مچ گئی پاکستان کے مسلم پریس کو ہمیشہ یہ امتیاز حاصل رہے گا کہ اس نے اس موقعہ پاکستانی اخبارات و دیگر سب ملک سے براہ کر فرض شناسی مسلم نوازی او بیدار مغزی کا ثبوت دیا.بالخصوص زمیندار ، احسان ، نوائے وقت اور انقلاب کے کالم دنیا کو قادیان اور اہل قادریان کے حالات سے باخبر رکھنے کے لئے گویا وقف رہے.سول اینڈ ملٹری گزٹ ، ڈان ، ڈیلی گزٹ آندرور میں بھی گاہے گاہے فسادات قادیان کی خبریں چھپتی رہیں.اخبار " "زمیندار" دن ہوں ، اپنے نامہ نگار خصوصی اور دوسرے ذرائع اخبار "زمیندار" لاہور سے ملنے والی خبریں نہایت اہتمام سے اپنے قارئین تک پہنچاتا رہا جو بطور نمونہ درج ذیل کی جاتی ہیں :- - اختبار "زمیندار" کے ۲ ستمبر ۹۴۷ہ کے شمارہ میں " قادیان کے نواحی دیہات پر پولیس کا حملہ ، مقتدر مسلمانوں کی گرفتاریاں خانہ تلاشیاں اور ظلم و تشدد " کے عنوان سے قادیان کے ایک پناہ گزین ( عبد الرحمن خاں) کی طرف سے ایک مضمون شائع ہوا حبس کا ایک حصہ یہ تھا ہے.پر تیم سنگھ نے ایک پروگرام قادیان پر حملہ کرنے کے واسطے تیار کر کے ایک کنٹیل کو برائے تعمیل مختلف جبتوں کے واسطے بھیجا تھا جب وہ کنٹیبل موضع سٹھیا لی پہنچا تو وہاں فرنٹیر
۲۲۰ خود ستر کی پکٹ تھی.انہوں نے اسے روک لیا.اس کی رائفل بھی لے لی اور اس کو گرفتار کر لیا.اس کی تلاشی سے قادیان پر حملہ کے پروگرام کا کا غذ یہ آمد ہوا.قادیان میں اس وقت قریباً ایک لاکھ پناہ گزین موجود نہیں جو اس طرف کے علاقہ سری گویند پور وغیرہ سے اور ضلع ہوشیار پور سے جمع ہوئے ہیں.خوراک وغیرہ کی از حد تکلیف ہے سیکھ سمجھتے کھلم کھلا کیمپ میں چکر لگاتے رہتے ہیں اور پناہ گزینوں کا قیام بالکل غیر محفوظ ہو چکا ہے اس واسطے گزارش ہے کہ اس کیمپ کے تمام پناہ گزینوں کو جلد سے جلد نکال لیا بجائے ورنہ ممکن ہے کہ کسی وقت حملہ آور تمام کے تمام پناہ گزینوں کا کسی وقت خاتمہ کر دیں...الا " - اخبار" "زمیندار نے اپنی ۲۴ ستمبر ۹۴ہ کی اشاعت میں سید غلام مصطفے شاہ خالد گیلانی آف راولپنڈی کا جہاد کشمیر کی اہمیت“ کے عنوان پر ایک مضمون شائع کیا جس میں قادیان کی مثال پیش کرتے ہوئے لکھا تھا کہ :- " صبح و شام امن امن کا وظیفہ کرنے والے عاقبت نا اندیش لوگ مجھے بتائیں کہ میں قوم کی کم و بیش بیس ہزار ہو بیٹیاں اور مائیں بہنیں اختیار کے قبضہ میں ہوں اور اغیار بھی وہ جن کا تہذیب و شرافت کی تاریخ میں نام ونشان تک نہ ہو وہ قوم ہجرت کرنے میں حق بن اب ہے! ہرگز نہیں.۴۵ لاکھ مسلمان اگر مقابلہ کا ارادہ کر لیتے تو صورت معالات بالکل مختلف ہوتی.قادیان کی مثال ہمارے سامنے ہے “ اخبار "زمیندار" نے اپنی ۲۵ ستمبر شعلہ کی اشاعت کے صفحہ اول پر حسب ذیل خبر دی :- موجودہ فسادات کی ذمہ داری سکھوں پر عائد ہوتی ہے بیاس کا تمام مغربی علاقہ پاکستان میں شامل ہونا چاہیئے لندن ۱۲۳ ستمبر ڈاکٹر او.انچ کے سپلیٹ آن لندن سکول آف اکنامکس نے لندن ماسک میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب باؤنڈری کمیشن ایوارڈ یک طرفہ اور لغو تھا.ڈاکٹر پیٹ حال ہی میں ہندوستان سے واپس آئے ہیں جہاں وہ حد بندی کمیشن میں قادیان کے نمائندہ کے طور پر پیش ہوئے تھے اور مسلم لیگ ن کے غیر سرکاری مشیر تھے.ڈاکٹر سپیٹ نے کہا، کانگریس نے سکھوں کو اپنا آلہ کار بنایا اور انہیں لڑائی پر آمادہ کیا.ہندو اور سکھوں کی انتہائی چالباز یا
۲۲۱ اور مسلمانوں کی انتہائی دیانت داری میرے لئے از حد تعجب کا باعث ہوئی.دارالعوام میں ہنڈرسن اور سٹر کے اعلانات نے بھی حالات پر بہت بڑا اللہ ڈالا اور سکھوں کو غیر ضروری طور پر دلیر بنا دیا.پنجاب کی تقسیم ہر حالت میں سکھوں پر اثر انداز ہوتی ہے.ہر شخص کو اُن کی اس حالت پر افسوس ہوتا ہے لیکن خود کرده را چاره نیست.آپ نے ہندو سکھوں اور مسلمانوں کے کیس کا ذکر کرتے ہوئے کہا.اول الذکر کا کیس سرمایہ داری اور موخر الذکر کا کیس انسانیت پر مبنی تھا.ڈاکٹر صاحب نے تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ایوارڈ میں مسلم اکثریت کے علاقوں کی تحصیلوں کو تقسیم کر کے ہندوستان میں شامل کر دیا گیا.مزید اچھوتوں، عیسائیوں اور اینگلو انڈینوں کو ان کی مرضی کے خلاف ہندوستان کے رحم و کرم پر ڈال دیا گیا.آپ نے کہا کہ سعد بندی کے مسئلہ کو دوبارہ اُٹھایا جائے.میرے خیال میں بیاس سے اس طرف کا تمام علاقہ پاکستان میں شامل ہونا چاہیے.گورداسپور مسلم اکثریت کا علاقہ ہے.سر سیرل نے سکھوں کے جذبہ جنگ کی تسکین کے لئے اسے سیکھوں اور سہندووں کے حوالے کر دیا.لیکن سکھوں نے پھر بھی فتنہ پردازی کی جو طے شدہ سکیم کے مطابق معلوم ہوتی ہے.مسٹر وکٹر نسڈ (ایڈیٹر ریلیجین نے برطانیہ کو تمام فسادات کا ذمہ وار ٹھہرایا.مسٹر بیڈ فورڈ ریٹائرڈ چیف انجنیئر کینال پنجاب نے پر جوش تقریر میں کہا.میں سکھوں کو اچھی طرح بھانتا ہوں.ان کا واحد علاج رائفل ہے.اگر حکومت پاکستان نے مزید نرمی سے کام لیا تو یقین جانئے سکھوں کا اگلا قدم مغربی پنجاب میں ہو گا.چوہدری مشتاق احمد باجوه امام لندن ماسک نے اپنے صدارتی خطبہ میں کہا تے مسلمانوں کو منظم ہونا چاہیئے وگرنہ سپین کی طرح ہندوستان میں بھی ان کا برا حال ہوگا." اخبار "زمیندار" نے اپنے نامہ نگار خصوصی کی ایک اور رپورٹ مع اپنے تعارفی نوٹ کے حسب ذیل الفاظ میں شائع کی :- اس وقت جبکہ مشرقی پنجاب کے تمام اضلاع قریباً مسلمانوں سے خالی ہو چکے ہیں لے "زمیندار" ۲۵ ستمبر ۱۹۴۷ صفحه ۱ :
۲۲۲ قادیان میں کم از کم ڈیڑھ لاکھ پناہ گزین جمع ہیں جن کو پاکستان لانے کی ضرورت ہے.قادیان اور اس کے نواحی دیہات کی مفصل رپورٹ جو ہمارے نامہ نگار خصوصی نے قادیان کے دورے کے بعد مرتزر کی ہے درج ذیل ہے.قادیان کے ساتھ اس کے ملحقہ دیہات بھی جوانمردی کے ساتھ سکھوں کے مسلح جتھوں کی روک تھام کر رہے ہیں.لیکن یہ بات پوری ذمہ داری اور یقین کے ساتھ کہی جاتی ہے کہ مشرقی پنجاب کی حکومت مسلمانوں کو مشرقی پنجاب سے نکل بھانے پر خود مجبور کر رہی ہے.قادیان اور اس کے دیہات اس لئے بیٹھے تھے کہ جب تک حکومت خود ہمیں نکل جانے کے لئے نہیں کہے گی ہم اپنے گاؤں خالی نہیں کریں گے.چنانچہ قادیان کے ذلیل حصلت اور تنہ پرداز سکھ تھانیدار نے پولیس اور ہندو ملٹری کی مدد سے مسلمانوں کے گاؤں زبر دستی ان سے مخالی کروائے اور ان دیہات کے معزز مسلمانوں کو بیحد بیغیرت کیا موضع ڈیریولی کا ذیلدار چودھری سلطان ملک اس علاقے میں بہت ہی عزت دار آدمی تھا.سکھ تھانیدا اسے قید کر کے قادیان سے آیا جہاں لا کر تھانے میں اس کی مونچھیں کھینچیں.پھر اُسے سپاہیوں کی حراست میں ڈیری والہ واپس کیا.اس کے منہ پر کالک اور گندی کیچڑ ملی.اور سارے علاقہ میں اسے پھرایا.چوہڑے اس کے منہ پر جوتے مارتے اور تھوکتے تھے اسی طرح کئی معزز مسلمانوں کو ذلیل و خوار کیا بھاتا ہے.قادیان کے چند معزز شہری جن میں چودھری فتح محمد سیال ایم ایل اے اور زین العابدین سید ولی اللہ شاہ ناظر امور عامه قاریان بھی شامل ہیں گرفتار کئے جاچکے ہیں اور گورداسپور جیل میں اُن کے ساتھ بھی بہت برا سلوک کیا جا رہا ہے.اس سے قبل قادیان کا ایک معزز شہری چودھری محمد شریف باجوہ بھی گورداسپور جیل میں ہے جس کے ساتھ نہایت بہیمانہ اور انسانیت سوز ظلم کیا جاتا ہے.کبھی اس کے بدن پر خنجر مارے جاتے ہیں کبھی اس کے منہ میں پیشاب ڈالا جاتا ہے اور کبھی یک لخت اُسے ٹھنڈے پانی میں ڈال دیا جاتا ہے اور سیکھ پولیس کے ظالم سپاہی اور افسر اس سے پوچھتے ہیں " بتاؤ قادیان میں اسلحہ وغیرہ کہاں ہے "
۲۲۳ جب جرمنی کے وحشی درندوں کے سے مظالم کے بعد چودھری محمد شریف لاعلمی کا اظہار کرتا اور کہتا ہے کہ قادیان میں کوئی اسلحہ وغیرہ نہیں وہاں صرف چند لائسینس والی بندوقیں ہیں ین کا حکومت کو علم ہے تو سکھ سپاہی بے تحاشہ طیش میں آکر وحشیانہ انداز میں اُسے زد و کوب کرنا شروع کر دیتے ہیں.چودھری محمد شریف باجوہ کے خلاف الزام یہ ہے کہ وہ قادیان کا رہنے والا اور مسلمان ہے بسکھ پولیس کے نازی ظلم وستم سے تنگ آکر اس مرد مجاہد نے کئی دفعہ مطالبہ کیا ہے کہ میں جانتا ہوں میرا قصور صرف یہ ہے کہ میں مسلمان ہوں اس لئے تم مجھے اس مجرم کی سزا میں ایک ہی دفعہ شوٹ کر دو اور میرا قصہ پاک کرد.لیکن اس کے اس صبر استقلال کو دیکھ دیکھ کر سکھ پولیس اور بھی وحشیانہ سزاؤں پر اُتر آئی ہے.اگر گورداسپور جبیل کے تمام واقعات کو منظر عام پر لایا جائے تو سنگدل سے سنگدل انسان بھی کانپ جائے.مراد پور کے مسلمان ہو قادیان آرہے تھے ڈلہ کے سکھوں نے لوٹ لئے.جب تھانیدار کے پاس رپورٹ کی گئی تو اس نے ان بیچاروں کی اور بھی بے عزتی کی مسلمانوں کا تمام سامان ڈلہ کے گوردوارہ میں منتقل کر دیا گیا.چند مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا.ایک زخمی عورت نے ہی چھپ کر اپنی جان بچائی اور کھیتوں میں چھپ چھپا کہ قادیان پہنچی.صاف شہادتوں کے باوجود قادیان کی پولیس نے کوئی ایکشن نہیں لیا.تلونڈی جھنگلاں کے مسلمان بھی جب قادیان آئے تو اُن کا بھی سب سامان اور مویشی ال سے زیرہ دستی چھین لئے گئے.استمبر کو قادیان کی ہندو ملٹری نے سکھوں کو اسلحہ دے کہ موضع کھارا میں بھیجا اور مسلمانوں کو زبر دستی وہاں سے نکلوا دیا اور کوئی چیز نہیں لانے دی.اُن کا آٹا وغیرہ بھی راستے میں چھین لیا اور ان کے مکان تباہ وبہ باد کر دیئے.۱۳ ستمبر کو چند سکھ تحصیلدار کا ایک رقعہ لے کر قادیان کے تھانیدار کے پاس آئے.جس میں یہ لکھا تھا کہ انہیں موضع ننگل میں بسایا جائے جو قادیان سے ایک میل کے فاصلے پر ہے لیکن اس میں مسلمان آباد تھے.19 ستمبر کو ہزارہ سنگر تھانیدار سکھ پولیس کو لے کر
۲۲۳۷ تنگل پہنچا اور مسلمانوں سے کہا کہ تنگ گوفر آغالی کر دو جو نہیں کرے گا اسے شوٹ کر دیا جائے گا مجبوراً مسلمان اپنا سب سامان چھوڑ کر آگئے.اسی طرح کڑی افغاناں نزد بیاس کے مسلمانوں کے ساتھ ہوا.اور ان بیچاروں کو فر پندرہ منٹ کا نوٹس دیا گیا کہ گاؤں کو خالی کر دو.جب قافلہ قادیان کی طرف روانہ ہوا تو پیچھے سے سکھوں کے ایک سیوست مجھے نے حملہ کر کے اُن کا سامان لوٹ لیا اور کئی مسلمان شہید ہوئے.سیکھ پولیس اور سہندو ملٹری نے قادیان کو زیر کرنے کے لئے اس کے تمام ملحقہ دیہات زیر دستی خالی کروائے اور اس طرح مشرقی پنجاب اور ہند وستھان کی حکومتوں کے منہ پر اپنے ہاتھوں سے سیاہی ملی جو یہ کہتی تھی کہ مشرقی پنجاب میں سے کسی کو زبر دستی نہیں نکالا جائے گا.لیکن جب ان محکومتوں کو توجہ دلائی گئی کہ دیکھو کیا ہو رہا ہے تو وہ مندر کی مورتی کی طرح ٹس سے مس نہ ہوئیں.اس وقت قادیان میں کم از کم ڈیڑھ لاکھ پناہ گزین موجود ہیں جو ہند و ملٹری اور سکھ پولیس کے رحم و کرم پر پڑا ہے.ہمارے نامہ نگار نے ان پناہ گزینوں سے مختلف قسم کے سوالات دریافت کئے اور خصوصیت کے ساتھ ایک بات کے متعلق تمام مسلمان حیران و ششدر ہیں اور وہ یہ کہ جب مسٹر لیاقت علی خان اور پنڈت جواہر لعل نہرو کے درمیان یہ بات طے پا چکی ہے کہ مغربی پنجاب کے غیر مسلموں کی حفاظت ہندو سکھ ملٹری کرے گی اور مشرقی پنجاب میں مسلمان پناہ گزینوں کی حفاظت مسلمان ملٹری کرے گی تو پھر قادیان جس میں اس وقت ڈیڑھ لاکھ مسلمان پڑے ہیں ان کے اوپر کیوں ہندو ملٹی چھوڑی گئی جو غریب مسلمانوں کو ڈراتی اور دھمکاتی ہے.قادیان کے پناہ گزین مسلمان پاکستان کے وزیر اعظم مسٹر لیاقت علی نعال سے دریافت کرتے ہیں کہ پاکستان کی مسلم فوج کہاں ہے وہ کیوں قادیان میں نہیں پہنچتی ؟ کیا ڈیڑھ لاکھ مسلمانوں کی جانیں ان کے نزدیک کوئی حقیقت نہیں رکھتیں.ایک طرف سیکھ پولیس ہے دوسری طرف ہندو ملٹری جو آنکھیں سرخ کئے تیوریاں چڑھائے عہد گذشتہ کے مصری فرعونوں کی طرح ظلم و استبداد اور غرور و نخوت
۲۲۵ کے مظاہر سے کر رہی ہے.اگر پاکستان کی مسلمان ملٹری قادیان میں مقیم مسلمانوں کی حفاظت کے لئے نہیں بھیجی جا سکتی تو کم از کم انہیں جواب ہی دے دیا جائے.قاریان بیرونی دنیا سے بالکل منقطع ہو چکا ہے.واہگہ تک تمام راستے پر خطر ہو چکے ہیں.قادیان کے مجاہدین موت سے نہیں ڈرتے بلکہ وہ اس موت کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں جو منہ کھولے ہوئے ان کی طرف بڑھ رہی ہے.وہ صرف پناہ گزینوں بوڑھوں عورتوں اور بچوں کو جلد سے جلد پاکستان بھیج دینا چاہتے ہیں تاکہ وہ آنے والی موت کے ساتھ بے فکر ہو کہ لڑ سکیں.ہمارے نامہ نگار نے محکمہ حفاظت قادیان کے ماتحت کام کرنے والے نوجوانوں سے بھی ملاقاتیں کیں.یہ نوجوان ساری ساری رات بھاگتے اور پہرہ دیتے ہیں.ان میں سے اکثر کو جو میں چوبیس گھنٹے کی ڈیوٹیاں ادا کرنی پڑتی ہیں.ان کے بدن تھکے ہوئے، آنکھیں سوجی ہوئی، اعضاء مضمحل ہیں لیکن اس کے باوجود وہ خوفزدہ نہیں بلکہ مسرور و شادماں نظر آتے ہیں جب ان سے پوچھا جاتا ہے " کیا تم لاہور جانا چاہتے ہو تو وہ جواب دیتے ہیں ہم موت سے ڈر کر بھاگنا نہیں چاہتے بلکہ موت کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں" پہرہ داروں میں سے ایک نوجوان نے جس کی عمر صرف پندرہ سال کی تھی ہمارے نامہ نگار کو کہا کہ "پہلے ہمارے ارد گرد سکھوں کا گھیرا تھا.مگر اب ہمیں پچاروں طرف مروت نظر آرہی ہے.یہ موت کیا ہے.ہندو سکھ مری جو ہمیشہ اسی تاک میں رہتی ہے کہ کب موقعہ ملے تو وہ ہمیں ہلاک کر دے لیکن ہم موت سے نہیں ڈرتے " قادیان کے اردگرد کے دیہات کو مسلمانوں سے صاف کر کے اور وہاں سکھوں کو یسا کہ اب ہندو ملٹری قادیان تک محلوں پر جمنے کروا رہی ہے.پہلے قادیان کے ایک محلے اسلام آباد کو زہر دستی خالی کروایا گیا جو آریہ ہائی سکول اور ریلوے لائن کے ساتھ ہے.پھر پولیس نے دوسرے محلے قادر آباد کے مسلمانوں کو گرفتار کیا.ان کے ہاتھ پیچھے کی طرف باندھ دیئے.فائر کئے.انہیں راکھیوں سے زدو کوب کیا اور ہزارہ سنگھ تھانیدار نے انہیں گالیاں دیں کہ بد معاشو یہاں سے نکل جاؤ، تم کیوں نہیں نکلتے.پھر ملڑی نے بھی وہاں پہنچ کر پولیس
کی حمایت کی.پنڈت جواہر لعل نہرو اور اس کی نام نہاد حکومت کہاں ہے جو کہتی تھی کہ زبر دستی کسی کو نہیں نکالا جائے گا.کیا اس نے قادیان کی طرف سے آنکھیں بند کر لی ہیں؟ پھر سیکھ محلہ دار السعہ کی طرف بڑھے اور اسے ٹوٹنا شروع کر دیا.اہلِ قادیان نے فوراً ملٹری کو توجہ دلائی کہ تم ہماری حفاظت کے لئے آئے ہو.دیکھو یہ کیا ہو رہا ہے مگر ملٹری کے سپاہی اس وقت والی بال کھیل رہے تھے.انہوں نے کہا کہ پہلے بھاؤ ہم کچھ نہیں کر سکتے پھر پانچ نہتے لڑکے دارالستہ کی طرف بڑھے اور انہوں نے سکھوں کو بھگا دیا.سکھ ہزاروں کی تعداد میں قادیان کی خالص مسلم آبادی کی گلیوں میں تلواریں پر چھپیاں اور دیسی ساخت کی بندو تیں لے کر پھرتے اور جب ملڑی اور پولیس سے کہا جاتا.ان لوگوں کا یہاں کیا کام ہے تو جواب ملتا ہے ہم شریف آدمیوں کو چلنے پھرنے سے کیونکر روک سکتے ہیں اور ادھر اگر کسی مسلمان کے پاس کوئی سونٹایا چا تو یا غلیل ہوتی ہے تو وہ بھی چھین لی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ تم ہر اس پھیلاتے ہو.گویا اس وقت ہر سکھ غنڈہ اور لٹیرا ایک شریف آدمی ہے اور ہر مسلمان شریف آدمی غنڈہ ہے.سکھ مسلم پناہ گیروں گا اور مویشی زبر دستی اُٹھا لیتے ہیں اور مسلمانوں کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی.مڑی کے ہندو کیپٹن نے سکھ تھانیدار کے ساتھ مل کہ یہ سازش کی کہ کسی طرح مسلم پناہ گیروں کو قادیان سے باہر لے بھا کہ بلاک کیا جائے.چنانچہ انہوں نے سکیم بنائی کہ ان کو قافلہ کی صورت میں بٹالہ کی طرف ہانکا جائے اور راستہ میں تہ تیغ کیا جائے کیپٹن نے اعلان کروایا کہ قادیان سے قافلہ جائے گا اور تمام پناہ گیروں کو قادیان سے نکال دیا بھائے گا.جو رہ جائے گا ہم اس کی حفاظت کے ضامن نہیں.ادھر سکھ تھانیدار جیپ کار پر سوار ہو کر تمام سکھ دیہات میں گھوم آیا اور سکھوں کو مطلع کر دیا کہ قافلہ آنے والا ہے تیار ہو جاؤ کوئی بچ کر نہ بھانے پائے.اہلِ قادیان نے اس قافلہ کی مخالفت کی اور کہا کہ ہم ہند و ملٹری کی حفاظت میں قافلہ روانہ نہیں ہونے دیں گے.۲۰ ستمبر کو ہندو کیپٹن نے ڈھنڈورا پٹوایا کہ کل قافلہ بجائے گا اور جو شخص اس کے ساتھ نہ جائے گا اُسے گرفتار کر کے
۲۲۷ شوٹ کر دیا جائے گا.لیکن مسلمانوں میں سے کوئی بھی تیار نہ ہوا.ادھر سکھ ارد گرد کے دیہات میں جمع ہوتے رہے کہ قافلہ آنے والا ہے اس کو ٹوٹیں گے انہوں نے سکھ تھانیدار کو پیغام دیا کہ قافلہ جلد بھیجو ہم تو گھروں سے نکل کر اب کھادوں میں بیٹھے ہیں.۲۰ ستمبر کو قادیان سے چار ٹرک جن میں پناہ گزین بیٹھے تھے.جب قادیان سے نکل کر نہر پر آئے تو پنجگرائیاں کے موڑ پر سکھوں کے ایک مجھے نے ان ٹرکوں پر حملہ کر دیا.ملٹری نے فائرنگ کی تو سیکھ بھاگ گئے اور قادیان میں ہندو ملٹری نے یہ بات مشہور کر دی کہ مسلمان ملٹری نے جو ٹرکوں کے ساتھ تھی یونہی بھان بوجھ کر شرارت کی ہے اور سات سکھ مار دیئے ہیں.سکھ کہتے ہیں کہ ہم قادیان کے قبرستان میں ہل چلائیں گے اور یہاں کی مسجد میں اب گوردوارے نہیں گے.سہندو ملٹری ان کے ساتھ پورا تعاون کر رہی ہے.۲۱ ستمبر کو انہوں نے قادیان میں کرفیو نافذ کر دیا ہے جس کا صاف طور پر مطلب یہ ہے کہ اب سکھ رات کو پولیس اور ملٹری کی مدد سے لوٹ مار مچائیں گے.قادیان میں بلیں مزید سپاہی بھرتی کئے گئے ہیں جو سب کے سب سکھ ہیں.مسلمانوں نے کہا کہ مسلمان سپاہی بھی رکھو بچنا نچہ بعض اتداری بھی گئے.انہوں نے کہا.ہم نے پاکستان کی مخالفت کی ہے.ہم مسلم لیگی نہیں.ہیں.بعض نمیشلسٹ مسلمان بھی تھے.مگر تھانیدار نے کہا ہم کسی " مسلے کو بھرتی نہیں کر سکتے یہاں سے دفع ہو جاؤ.اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ قادیان میں جلد سے جلد مسلمان ملٹری بھیجی ہے تاکہ ڈیڑھ لاکھ مسلمانوں کی حفاظت ہو سکے.پناہ گزین عورتوں بچوں اور بوڑھوں کو وہاں سے بحفاظت پاکستان میں لایا بھائے.ہم پاکستان کے ڈیفنس منسٹر لیاقت علی خان سے پر زور اپیل کرتے ہیں کہ وہ جلد سے جلد قادیان میں مسلم ملٹری کو بھیجے مغربی پنجاب کے ہر کم کیمپ میں گورکھا ہندو اور سیکھ ملٹری ہے وہاں کیوں پاکستان کی فوج نہیں بھیجی جاتی قادیان میں راشن کی قلت ہے.ہم مغربی پنجاب کی حکومت اور وزیر اعظم پاکستان سے درخواست کرتے ہیں کہ قادیان میں ٹرینیں بھیجی جائیں جن کے ساتھ اچھی خاصی مسلم ملٹری ہو.ہر گاڑی کے ساتھ دو انجن ہوں.ایک آگے ایک پیچھے ، ایک کرین بھی ہو اور پڑی جوڑنے کا سامان
۲۲۸ بھی ہو کیونکہ سکھوں نے کہا ہے کہ ہم قادیان سے چلنے والی گاڑیوں کو بھی روکیں گے.گاڑیوں کے ڈرائیور بھی مسلمان ہوں کیونکہ سکھ ڈرائیور کوٹلہ یا پانی ڈالنے کے بہانے انجن کو گاڑی سے علیحدہ لے بھاتے ہیں اور پھر سکھ جتھے گاڑیوں پر حملے شروع کر دیتے ہیں“ - اخبارہ زمیندار نے چند دن بعد اپنے اداریہ میں جماعت احمدیہ کی ملی خدمات کو خراج تحسین ادا کرتے ہوئے لکھا :- ضلع گورداسپور میں یوں تو متعدد مقامات پر مسلمان محصور ہیں مگر تین کیمپ بہت بڑے ہیں (1) بٹالہ کے پناہ گزینوں کی حالت بہت ہی خواب ہے.نہ سر چھپانے کے لئے کوئی پناہ گاہ ہے نہ کھانے کے لئے کوئی چیز ہے.بہندو فوجیوں نے قیامت برپا کر رکھی ہے.زیورات اور سامان پر ڈاکے ڈالے ہی جاتے تھے اب تو خواتین کی عصمت و عزت پر بھی ہاتھ ڈالا جاتا ہے.دوسرا کیمپ سری گویند پورہ میں ہے.وہاں کی صورت حال بھی بٹالہ سے کم خوفناک نہیں.تیسرا کیمپ قادیان میں ہے.اس میں شک نہیں.مرزائیوں نے مسلمانوں کی خدمت قابل شکریہ طریقے پر کی لیکن اب حالات بدل رہے ہیں جوانوں کے سوا تمام مرزائیوں کو قادیان سے نکالا جارہا ہے.لہذا وہ فوجی لاریوں میں گنجائش رہنے ہی نہیں دیتے.حکومت کا فرض ہے کہ اول تینوں کیمپ میں مسلم فوج بھجوائے.دوم راشن کا خاطر خواہ انتظام کرے.سودم مہاجرین کو لاریوں اور محفوظ قافلوں کے ذریعے سے پاکستان پہنچانے کی کوشش کرے.ورنہ دو لاکھ مسلمان عزت و دولت کے ساتھ ہی زندگی بھی گنوا بیٹھیں گئے" اخبار ”زمیندار“ نے ”قادیان کے درد ناک کو الف“ کے عنوان سے اپنے نامہ نگار خصوصی کے قلم سے ستمبر کے آخری ایام کی ایک اور مفصل رپورٹ شائع کی جو بھینسہ درج ذیل کی جاتی " ہے :- قادیان میں حالات اب نازک ترین صورت اختیار کر چکے ہیں.زمیندار کے نامہ نگار خصوصی نے جو رپورٹ بھیجی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرقی پنجاب کی حکومت کسی گہری سازش کے ماتحت قادیان کو معالی کروانے پہ تکی ہوئی ہے کیونکہ قادیان کی ہندو ملٹری اور سکھ " "زمیندار" ۲۷ ستمبر ۱۹ صفحه ۳ : نے زمیندار ۳ اکتوبر نصب ہے
۲۲۹ پولیس اب شدید ظلم و ستم پر اُتر آئی ہے اور پولیس اور ملٹری کے سپاہی ارد گرد کے دیہاتے میں جا کر سکھوں سے کہتے ہیں کہ تم قادیان پر حملہ کرو.اگر تم قادیان پر حملہ نہیں کرو گے تو ہم تم پر ہی گولی چلا دیں گے.رپولیس کی امداد سے ڈاکہ) ستمبر کو سیکتھوں نے پولیس کی مدد سے مظلوم پناہ گزینوں کو ٹوٹنا شروع کر دیا پولیس نے کوئی مداخلت نہیں کی بلکہ پناہ گزینوں کے پانچ ہزار مویشی لوٹ لئے گئے اور جب تھانہ میں کہا گیا کہ یہ اندھیر نگری کیا ہے تو جواب دیا گیا کہ چونکہ قادیان میں چارہ نہیں اس لئے ان مویشیوں کے مر جانے کا خطرہ تھا لہذا یہ آزاد کر دیئے گئے ہیں.مشرقی پنجاب کی حکومت کے کارنامے قادیان میں شدید بارش ہوئی ہے ایسی بارش کہ جس کی مثال نہیں ملتی غریب پن اگزینوں نے تعلیم الاسلام کالج ، جامعہ احمدیہ ، ہائی سکول ، بورڈنگ ہاؤس ، نصرت گرلز ہائی سکول اور محکمہ جات کے مکانوں میں پناہ لی.بعض باہر ہی بھیگ گئے اور پھر اس پر پولیس کا با بولت رویه - کسی شخص کو پکڑ لیا اور اس کی جیب خالی کروائی.کسی کے گھر میں گھس گئے اور ٹوٹ مار شروع کر دی کسی کے مویشی ہانک لئے کسی کا زیور اور روپیہ چھین لیا.گویا یوں معلوم ہوتا ہے کہ مشرقی پنجاب میں کوئی حکومت ہی نہیں اور پولیس اور ہندو ملٹری کو ہر قسم کا جبر و تشدد کرنے کی کھلی چھٹی دے دی گئی ہے.تلاشیاں کی جا رہی ہیں با وجود اس امر کے کہ پاکستان اور ہندوستان کی حکومتوں میں ایک دوسرے کے کنواے کی تلاشی نہ لینے کا معاہدہ ہو چکا ہے اور پاکستان کی حکومت اس معاہد نے پر پورا پورا عمل کر رہی ہے.مگر قادیان سے جو قافلہ روانہ ہوتا ہے اس کی وہیں زیر دست تلاشی نی جاتی ہے.اس نقاشی میں بعض لوگوں سے گھڑیاں قلمیں اور بعض اس قسم کی دوسری چیزیں بھی چھین لیں اور ادھر مغربی پنجاب میں غیر مسلموں کے پوڈر اور لپ اسٹک کے بل بن رہے ہیں.بھوکوں مارنے کی سازش
۲۳۰ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ مغربی پنجاب میں جہاں جہاں ہندو اور سکھ جمع ہیں ، پاکستان کی حکومت ان کی خوراک کا معقول بندوبست کرتی ہے حتی کہ ان کے لئے پھل، تہ کاریاں اور دودھ بھی سرکاری طور پر مہیا کیا جاتا ہے مگر قادیان میں حالت یہ ہے کہ پولیس نے ۱۲۹ ستمبر کو منادی کرا دی کہ قادیان میں ہمیں شخص کے گھر میں دو بوریوں سے زیادہ آتا یا گندم ہوگی اُسے فوراً گرفتار کر لیا جائے گا.گویا اس کا صاف طور پر مطلب یہ ہے کہ قادیان کے لوگوں کا راشن اپنے قابو میں کر کے انہیں بھوکوں مرا بھائے.اس وقت ہزاروں پناہ گزین احمدیوں کے گھروں سے روٹیاں کھا رہے ہیں.قادیان کے مسلمانوں نے حکومت سے راشن کے لئے درخواست نہیں دی.اور حکومت میں) کا نام ایک تھانیدار اور چند سکھ سپاہی ہے) قادیان سے غلہ غصب کر کے وہاں کے باشندوں اور پناہ گزینوں کو بھوکوں مارنا چاہتی ہے.کیا دنیا میں کسی قوم پر اس سے بڑھے کو بھی ظلم و ستم کیا جا سکتا ہے.مغربی پنجاب کی حکومت کیوں قادیان کی طرف توجہ نہیں دیتی.کم از کم وہاں مسلمان ملڑی ہی بھیجواد کی جائے اور مشرقی پنجاب کی حکومت سے نوٹس لیا جائے کہ وہ کیوں قادیان کے باشندوں سے گندم زبر دستی چھین رہی ہے.لیڈر توجہ کریں پاکستان کے وزیر اعظم رامیاقت علی زنان در میان افته والدین ساحب ذرا اس مسئلہ کو اپنے ہاتھ میں لیں کیونکہ قادیان میں اب حالات انتہائی نازک صورت اختیار کر سکے ہیں.اگر تم قصور نہ کرو گے رپورٹ میں ہمارے نامہ نگار نے ایک دلچسپ لطیفہ بھی سپر تسلیم کیا ہے کہ سکھا شای عید کی عجیب و غریب حکایتیں سنا کرتے تھے مگر قادیان میں عملی طور پر دیکھ لی ہیں مثلاً ایک آدمی پہلا جا رہا تھا کہ سکھ سپاہی نے اسے فوراً گرفتار کر لیا.جب اس آدمی نے پوچھا.میرا تصور کیا ہے تو یہ سن کر سکھ سپاہی نے جواب دیا کہ اگر تم قصور نہ کرو گے تو کیا ہم تمہیں پکڑیں گے ہی نہیں ؟
عام گرفتاریاں پولیس جس شخص کو چاہتی ہے گرفتار کرلیتی ہے.چنانچہ اس وقت تک قادیان کے پچاس آدمیوں کے وارنٹ نکل پچکے ہیں اور اگر دریافت کیا جائے تو کوئی جواب نہیں ملتا اور ادھرادھر جھوٹے الزام لگا کر ٹال دیا جاتا ہے.ہر طرف اندھیرا جوگندر نگر کی بجلی فیل ہو جانے سے قادیان میں تین دن سے اندھیرا رہا.وہاں تیل بھی نہیں ہے بعض ضروریات زندگی تو پہلے ہی ختم ہو چکی ہیں.آٹا اور گندم رہ گئی تھی اس پر پولیس کا جبر و تشدد نازل ہو چکا ہے.آٹے کی چکیاں نہ چلنے کی وجہ سے شدید مصائب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے.ظلم و ستم کا دور قادیان کے ارد گرد چاروں طرف سیکھ ہی سکنہ آباد ہیں.سکھ پولیس اور ہندو منڈی کے ظلم و ستم انتہار کو پہنچ چکے ہیں.وہاں جو ٹرک بھاتے ہیں.ملٹری کینسان ان کے پھلنے میں دیر کراتا ہے تاکہ اندھیرا ہو جائے اور سکھوں کے سبھوں کو ان پر حملہ آور ہونے کا موقعہ مل سکے.ملٹری کے سپاہی شرابیں پی کہ قادیان میں پھرتے ہیں اور پناہ گزینوں کی لڑکیاں اُٹھا کہ لے جاتے ہیں جن میں سے بعض کو واپس لایا گیا ہے.خاکروپوں کی دھمکی ۲۹ ستمبر کی رات کو پولیس نے خاکروبوں کو دھمکی دی کہ اگر تم نے مسلمانوں کے مکانوں کی صفائی کا کام نہ چھوڑا تو ہم تمہارے ساتھ بہت برا سلوک کریں گے.نامہ نگار نے اطلاع دی ہے کہ قادیان پچاروں طرف سے گھیرے میں آیا ہوا ہے اور اس ماحول میں رہتے ہوئے بھی آدمی کا دل گھبرانے لگ جاتا ہے اور اس پر موت کا ہیبت ناک اساس طاری ہو جاتا ہے.اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ قادیان کا مسئلہ مغربی پنجاب کی حکومت براہ راست اپنے ہاتھ میں لے.عورتوں بچوں اور بوڑھوں کا اخراج بہت ضروری ہے پہرہ دیا جا رہا ہے.
۲۳۲ نوجوان با قاعدہ پہرہ دے رہے ہیں.مگر ہم پاکستان کے وزیر دفاع سے پر زور درخواست کرتے ہیں کہ اب بالکل دیر نہ کریں اور قادیان میں تھوڑی بہت مسلمان ملٹری ضرور بھیجوا دیں.مغربی پنجاب میں تو سیکھوں کے گوردواروں اور بہندوؤں کے مندروں اور ان کے کانوں کی حفاظت کے لئے بھی گورکھے سپاہی مقرر ہیں.کیا قادیان کے ایک لاکھ سے زائد پناہ گزینوں کی جانوں کی حفاظت کے لئے پسند مسلمان فوجی بھی نہیں بھیجے جا سکتے انبار" "زمینداره دا در اکتوبر نہ ) میں یہ خبر شائع ہوئی: قادیان کے تمام حصے صحرا کا منظر پیش کر رہے ہیں دوار ہندوستانی فوج کے چانہ بڑے افسروں کا دورہ کے بعد بیان لاہور 9 اکتوبر کل صبح ہندوستانی فوج کے ایک بڑے افسر نے مع تین بریگیڈیرڈ کے قادیان کا دورہ کیا.اس پارٹی کا متفقہ بیان ہے کہ قادیان کے تمام حصے صحرا کا منظر پیش کر رہے ہیں.ہر جگہ ہو کا عالم ہے.البتہ تین علاقے ایسے ہیں جہاں ایسے مسلمان دکھائی دیئے ہو کفالہ کے مقابلہ کے لئے اپنی جانیں قربان کرنے کا عزم صمیم کر چکے ہیں.ان لوگوں کے چہروں سے بشاشت شیکتی ہے یہ بھی خبر لی ہے کہ پولیس نے مسلمان مجروھین اور بیماروں کو نور ہسپتال سے نکال دیا ہے یہ ہسپتال ایک غیر مسلم ڈاکٹر کے حوالے کر دیا گیا ہے اور علاقوں کی مسلم خواتین کے لئے نہ تو خوراک کا کوئی خاص انتظام ہے اور نہ انہیں طبی امداد دی جاتی ہے.جو کثیر التعداد مسلمان باہر سے پناہ لینے کے لئے قادیان میں جمع ہوئے تھے انہیں نکال دیا گیا ہے اور پیدل قافلوں کی کی صورت میں انہیں پاکستان چلے جانے کا حکم دیا گیا ہے.ان پناہ گزینوں کی حالت بہت ابتر ہے.مقامی ملٹری نے انہیں خوراک دینے سے انکار کر دیا ہے اور احمدیہ انجمن سے کہا ہے کہ وہ ان مصیبت زدوں کی خوراک کا انتظام کرے.چنانچہ انجمن اپنا راشن کم کر کے ان پناہ گزینوں کو خوراک دے رہی ہے.ابلی ہوئی گندم دی جا رہی ہے.(او پی ) " سے زمیندار ۱۶ اکتوبر ۱۹۴۷مه: سے زمیندار اور اکتوبر ۱۹۸۷ در صفحه ۸ کالم ۳*
" اخبار " احسان " لاہور نے لکھا :- اختبار احسان لاہور 1 - " قادیان میں اس وقت میں ہزار کے قریب پناہ گزین جمع ہیں سکھوں نے آٹھ آٹھ نو نو میل تک مسلم دیہات کو تباہ کر دیا ہے اور پھر قادیان کو گھیرے میں لے رکھا ہے.راشن کا بھی شدید خطرہ ہے.مغربی پنجاب کی حکومت وہاں فورا ریلیف کیمپ قائم کرے اور جلد از جلد وہاں پاکستان کی فوج مقرر کی جائے تا پناہ گزینوں کو جانی اطمینان ہو جائے “ سے وٹو اسی اخبار نے ۲۴ ستمبر شاہ کو مندرجہ ذیل دو خبریں شائع کیں :- (الف) لاہور ۲۲ ستمبر 19 ستمبر کو مسلح سکھوں نے قادیان کے ایک شمال مشرقی محلے پر ہلہ بول دیا لیکن کارگر نہ ہوا.اس کے بعد پولیس نے اہل محلہ کی تلاشیاں شروع کر دیں پولیس جانتی ہے کہ حملے ہو رہے ہیں پھر بھی وہ اسلحہ کے لئے تلاشیاں لے رہی ہے اور اس کی یہ حرکت معنی خیز ہے.تقاضائے وقت یہ تھا کہ پولیس مسلمانوں کو معمولی سے اسلحہ سے محروم کرنے کی بجائے مسلح جنتوں کے قلع قمع کی طرف توجہ دیتی جو فتنہ و فساد اور قتل و غارت پر تلے بیٹھے ہیں سکھوں نے موضع ننگل (قادیان سے آدھ میں دور ) پر قبضہ کر لیا ہے.پولیس نے اس وقت تک حملہ آور سکھوں پر گولی نہیں چلائی اور اگر اس کی یہی رفتار رہی تو فساد کے بڑھ بھانے میں کوئی کسر نہ رہے گی.کل قادیان سے ایک قافلہ چلا تھا.لیکن سکھوں نے قادیان اور بٹالہ کے درمیان اس پر ہلہ بول دیا.لیکن قافلہ کے فوجی محافظ ٹس سے میں نہ ہوئے " (ب) " لاہور ۲۲ ستمبر.سکوٹری انجمین احمدیہ نے اعلان کیا ہے کہ ۲۱ ستمبر سے قادیان میں شام کے اربجے سے صبح کے ہ بجے تک کرفیو لگا دیا گیا ہے.اگر یہ اقدام حقیقی طور پر قیام امن کے لئے ہو تو مسلمان اس کے لئے ممنون ہوں گے لیکن اگر اس اقدام کا مطلب صرفت یہ ہو کہ اس کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف فتنہ و فساد بر پا کرنے والی طاقتوں کو بھڑکا یا جائے اور مسلمانوں کے پاس دفاع کا جو معمولی سا سامان رہ گیا ہو.اس سے بھی انہیں محروم کر دیا جائے تو یہ بڑا افسوسناک ہوگا.غیر سرکاری اطلاعات سے معلوم ہوا ہے کہ پولیس کی طرف ه: استان در امبر ۱۴ مرده
م ۲۳ سے مسلمانوں کی تلاشیاں کی جارہی ہیں اور مسلمانوں کو لائسنس والے اسلحہ سے بھی محروم کیا جارہا ہے.امیر جماعت احمدیہ کے اقامت گاہ کی بھی تلاشی لی گئی ہے اور پولیس اس اسلحہ آتشیں اور کارتوسوں کو بھی لے گئی ہے جن کے لئے باقاعدہ طور پر لائسنس حاصل کئے گئے تھے.اس امر کا شدید خطرہ ہے کہ اب غیر متوقع واقعات پیش آئیں گے اور حکام فر یہ کہہ دیں گے کہ جھتے ہمارے کنٹرول سے باہر ہیں" ۳.اسی اخبار (احسان) نے اگلے دن (۲۵ ستمبر کو ) یہ خبر شائع کی.وں ہور ۲۲ ستمبر کل احمدیوں کے وقد نے بیا اندھر میں ڈاکٹر گوپی چند بھارگونہ اور مسٹر سورن سنگھ وزیر داخلہ مشرقی پنجاب سے ملاقات کی.دونوں وزیروں نے انہیں اطمینان دلایا کہ حکومت مشرقی پنجاب مسلمانوں کو نکالنا نہیں چاہتی.وفد کے استفسار کرنے پر وزیروں نے کہا، کہ قادیان میں کر فید آرڈر اس لئے لگایا گیا ہے کہ قادیانیوں نے موضع کھارہ متصل قادیان) میں چھار سکھوں کو گولیوں سے مجروح کیا.۲۶ ستمبر کو کابینہ مشرقی پنجاب کے اجلاس میں قاریان کی حالت پر غور ہو گا.وفد نے کہا کہ موضع کھارہ میں کسی احمدی نے کسی سکھ پر گولی نہیں چلائی بلکہ واقعہ یہ ہے کہ موضع کھارا پر مسلح سکھوں نے حملہ کیا تھا اور وہاں گولیوں کا تبادلہ ہوا تھا جس کے نتیجے پر چند سکھ ہلاک و مجروح ہوئے.کیا ایک قریبی گاؤں کے واقعات کی وئید ے قادیان میں کرفی آرڈر گانا درست ہے سکھوں اور سامانوں میں گونیوں کے مبادلے کی چہ یہ ہے کہ سکھوں نے پیدل بجانے والے قافلہ پر حملہ کر دیا تھا.سکھوں پر گولی محافظ فوج کی طرف سے پھلائی گئی تھی.فوج کے قصور پہ قادیان کو سزا دینا درست نہیں.“ ہ احسان کے اسی پر چہ میں قادیان کے باشندوں پر سکھ فوج اور پولیس کے بے پناہ مامان لوگوں نے آخری وقت تک مقابلہ کی ٹھان لی“ کے زیر عنوان حسب ذیل مضمون چھپا :- در آخر قادیان کے متعلق بھی ہندوؤں اور سکھوں کی سازشیں بروئے کار آگئیں.۲۱ ستمبر سے شہر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے.تازہ اطلاعات سے پتہ چلتا ہے کہ سکھ پولیس اور ہندو ملٹری کی مدد سے قادیان میں تباہی مچانا چاہتے ہیں.اس وقت قادیان میں کم از کم ڈیڑھ لاکھ پناہ گزین جمع ہیں.ہندو ملٹری اور سکھ پولیس کے ظلم و ستم اور آئین سوز حرکات کے باوجود
۲۳۵ قادیان کے نوجوان ہراساں نہیں ہوئے.وہ خندہ پیشانی کے ساتھ موت کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں.حکومت کو چاہیے کہ وہاں سے عورتوں اور بچوں اور بوڑھوں کو بجلد از جلد پاکستان میں لے آئے.نامہ نگار کی تازہ رپورٹ درج ذیل ہے : ار ستمبر کو چوہدری سلطان ملک ذیلدار ڈیری والہ کو جو علاقہ کے معززین میں سے ہیں.قادیان کے سکھ تھانیدار نے گرفتار کر لیا.انہیں گالیاں دیں.مونچھیں کھینچیں اور پھر منہ پر سیاہی اور کیچڑ لگا کر تمام علاقہ میں گشت کروایا اور چوہڑوں سے جوتے مروائے گئے.مراد پور کے مسلمان قادیان آرہے تھے کہ ڈلہ کے مقام پر سکھوں نے ان کا سب سامان لوٹ لیا.وہ سامان گوردوارہ میں منتقل کر دیا گیا.جب قادیان کے تھانیدار کو اطلاع دی گئی تو اس نے الٹی مسلمانوں کو گالیاں دیں اور شہادتوں کے باوجود کوئی ایکشن نہیں لیا.ار ستمبر کو تلونڈی کے مسلمانوں کو پولیس نے کما د میں بیٹھ کر شوٹ کیا.۵ار اور 14 ستمبر کو قادیان میں سکھوں کے بجھتے خالص مسلم آبادی میں پھرتے رہے.اور انہوں نے بازار میں لائن بنا کر جلوس بھی نکالا.جب جلوس نکالا گیا تو اس وقت سکھ برچھیوں ، تلواروں اور دیسی ساخت کی بندوقوں سے مسلح تھے.پولیس اور ملٹری نے انہیں منتشر کرنے کا کوئی اقدام نہیں اُٹھایا.جب پولیس کو کہا گیا کہ مسلم آبادی کی گلیوں میں سکھوں کا یوں مسلح ہو کر پھرنے کا مطلب کیا ہے تو تھانیدالہ نے جواب دیا کہ ہم شریف آدمیوں کو چلنے پھرنے سے نہیں روک سکتے.ایک ہوائی جہانہ قادیان پر دو دن پرواز کرنے آیا.ملٹری نے اس پہ فائرنگ کی مگر ہوائی جہاز بیچ کر نکل گیا.سکھ پولیس نے پچوہدری فتح محمد سیال ایم ایل اے اور سید زین العابدین کی اللہ شاہ ناظر امور عامہ قادیان کی گرفتاری کے علاوہ ان کے مکانوں کی تلاشی لی اور لائسنس والا اسلحہ بھی قابو کر لیا.پھر ملٹری نے تعلیم الاسلام کالج کا محاصرہ کر لیا اور کہا کہ ہم تلاشی لیں گے مگر محکمہ حفاظت قادیان کے پہرہ داروں نے تلاشی دینے سے انکار کر دیا.ملٹری کے سہندو کیپٹن نے نہایت مغرورانہ انداز میں کہا کہ ہم شوٹ کر دیں گے.پہرہ داروں نے جواب دیا
۲۳۶ کہ ہم گولیوں سے ڈرنے والے نہیں.کافی رد و قدح کے بعد مری واپس چلی گئی.۱۸۰ ستمبر کو نگل خورد کے چند آدمی مویشی چرا رہے تھے کہ سکھوں نے حملہ کر دیا.مویشی بھگا کر لے گئے.پولیس اور ملٹری کو رپورٹ کی گئی مگر وہ سپاہی ہنس کر چُپ ہو گئے.قادیان میں جو پناہ گزین جمع تھے ان کو قافلہ کی صورت میں روانہ کرنے کا خیال تھا.ا ستمبر کو سکھوں کا ایک وفد تھانیدار سے ملا اور اس نے کہا کہ ہم مسلمانوں کو ایک پائی تک ساتھ نہیں لے جانے دیں گے.استمبر کو ملٹری کیپٹن نے اعلان کیا جو شخص قافلے کے ساتھ نہیں بجائیں گے ان کی حفاظت کے ہم ذمہ دار نہیں تھا بیدار نے جیپ کار میں سوار ہو کر سکھوں کے گاؤں کا دورہ کیا.اور انہیں بتایا کہ قافلہ آنے والا ہے تیار ہو جاؤ ایک بھی شخص بچ کر نہ جائے سکھ گھروں سے نکل کر کھادوں میں بیٹھ گئے.ستمبر کو ملٹری نے سکھوں کو اسلحہ دے کر کھارا کے مسلمانوں پر حملہ کرایا اور جب مسلمان قادیان کی طرف پہلے تو کوئی چیز ساتھ نہیں لینے دی حتی کہ آٹا وغیرہ بھی چھین لیا.ان کے مکانوں کو تباہ کیا چھت کی کڑیاں شہتیر اور دروازہ سے اُکھاڑ کر لے گئے.اسلام آباد جو قادیان کا ایک محلہ ہے پہلے ہی تعالی ہو چکا تھا اور وہاں سکھ آباد ہو گئے تھے.14 ستمبر کو تکیہ کمال الدین پر قبضہ کیا گیا اور اس دن محلہ دار الساعی کے پر سکھوں نے حملہ کر دیا.اہل قادیان نے ملڑی کے سپاہیوں کو اطلاع دی جو والی بال کھیل رہے تھے مگر انہوں نے جواب دیا کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے.پھر چند نہتے نوجوان آگے بڑھے اور سکھوں کو بھگا دیا.۱۴ ستمبر کو تحصیلدار نے چند سکھوں کو نگل نزد قادیان میں بسانے کے لئے بھیجا جان کہ نشگل میں مسلمان آباد تھے.19 ستمبر کو تھانیدار نے پولیس کی مدد سے نگل کے مسلمانوں کو زیر تی وہاں سے نکال دیا اور اُن کا سامان لوٹ لیا.۲۰ ستمبر کو محلہ قادر آباد کے مسلمانوں کو پولیس نے گرفتار کر لیا.ان کی مشکلیں باندھیں قائم کئے.لاٹھیوں سے زد و کوب کیا اور تھانیدار ہزارہ سنگھ نے مسلمانوں کو گالیاں دیں.: مراد دار السعنه (ناقل) :
کہ " بدمعاشو ! یہاں سے نکل بھاؤ " ارستمبر کو جو کنوائے قادیان سے بٹالہ کی طرف جا رہی تھی.پنجگرایاں میں نہر کے پل پر سکھوں نے اس پر حملہ کر دیا.ملٹری نے فائرنگ کی حملہ آور بھاگ گئے.قادیان کی سندو ملٹری نے یہ غلط پراپیگنڈہ کر دیا کہ سلم ملٹری نے جان بوجھ کر شرارت کی اور جاتے جاتے سات سیکھ مار دیتے ہیں.۱۹ ۲۰ ستمبر کی درمیانی رات کو ہندو کی ان میں ڈھنڈورا پیٹا یا کہ کل یہاں سے پیدل قافلہ روانہ ہو گا اور ہم تمام پناہ گزینوں کو قادیان کی حد سے پار کر دیں گے جو قافلہ کے ساتھ نہیں جائے گا اسے شوٹ کر دیا جائے گا.مگر ۲۰ ستمبر کو قافلہ روانہ نہ ہوا.کیونکہ مسلمان سہندو ملٹری کے ساتھ روانہ ہونے پر تیار نہ تھے اولہ پھر اس قافلے کو ٹوٹنے اور تباہ کرنے کیلئے منظم سازش کے ماتحت سکھ دو دن تک نہر کی پڑی اور کھیتوں میں چھپے ہوئے تھے اور وہ سکھ تھانیدار کو پیغام بھیج رہے تھے کہ قافلہ بعد روانہ کرو.۲۱ ستمبر کو قادیان میں کرفیو نافذ کر دیا گیا.اس سے قبل پولیس نے بعض لڑکوں کے پاس سے قلمتراش اور غلیلیں پکڑ لی تھیں اور سکھ قادیان کے بازاروں میں لمبے لمبے پر چھے تلواریں اور بغیر لائسنس کی بندوقیں لے کر گھومتے تھے.اس وقت جو مسلمان کھیتوں میں پھارہ کاٹنے کے لئے جاتے ہیں اُن کو پولیس پکڑ لیتی ہے اور کہتی ہے کہ یہ ہندوستان کے کھیت ہیں تم چارہ نہیں کاٹ سکتے.شاید کل پولیس یہ کہہ کر کہ قادیان میں جو مسلمان مقیم ہیں وہ ہندوستان میں ہیں اس لئے یہ سانس بھی نہیں لے سکتے تمام مسلمانوں کو ہلاک کر دے.قادیان کے نوجوان ملٹری کے جبر و تشدد کے باوجود خوفزدہ نہیں.وہ صرف اس بات کے خواہشمند ہیں کہ عورتوں بچوں اور بوڑھوں کو یہاں سے نکال دیا جائے وہ خوب جانتے ہیں کہ اب وہ آہستہ آہستہ موت کے گھیرے میں آتے جاتے ہیں اور نہرو کی وہ حکومت جو کہتی تھی کہ کسی مسلمان کو مشرقی پنجاب سے نکلنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا وہ قادیان کے مسلمانوں کو وہاں سے زہر دستی نکلوانے اور انہیں تباہ کرنے پہ تکی ہوئی ہے " محکمہ حفاظت
۲۳۸ قادیان" کے ماتحت کام کرنے والے نو جوان بعض اوقات پو لیس چوبیس گھنٹے کی ڈیوٹی ادا کرتے اور رات دن پہرہ دیتے ہیں.گوئیندا در بے آرامی کی وجہ سے ان کی صحت کمزور ہو چکی ہے مگر وہ موت کے ڈر سے بھاگنے کی بجائے موت سے مقابلہ کرنے پر آمادہ ہیں.وہاں کوئی ملٹری مسلمان نہیں ہے.ہندو ملٹری اور سکھ پولیس انہیں ڈراتی دھمکاتی ہے.ہندو کیپٹن بھرا ہوا پستول ہاتھ میں پکڑے دہشت پھیلانے کے لئے ادھر ادھر پھرتا رہتا ہے.مغربی پنجاب کی حکومت اور پاکستان کے وزیر اعظم مسٹر لیاقت علی خان کو چاہئیے کہ وہاں فورا مسلمان ملٹری بھیجی بجائے اور ادھر سپیشل ٹرینیں چلائی جائیں.ٹرینوں کے ساتھ بھی کافی مسلمان ملٹری ہونی چاہیئے.ڈرائیور بھی مسلمان ہوں.کیونکہ سکھ ڈرائیور کو ٹلے یا پانی کا بہانہ کر کے انجن کو گاڑی سے الگ کر لیتے ہیں اور مسلح جتھے ٹرین پر حملہ کر دیتے ہیں.ایک ٹرین کے ساتھ کم از کم دو انجن ایک کرین اور پڑی جوڑنے کا سامان اور چند فر ضرو ر ساتھ ہونے چاہئیں.کیونکہ خفیہ طور پر ایسی سازش کا انکشاف ہو چکا ہے کہ قادیان سے اگر کوئی ٹرین چلی تو سکھوں نے اس کو ٹوٹنے اور تباہ کر دینے کا پورا تہیہ کیا ہوا ہے.پاکستان گورنمنٹ حالات کا مقابلہ کرنے اور پناہ گزینوں عورتوں بچوں اور بوڑھوں کو قادیان سے نکالنے کا فوری بند و بست کرے “ ۵ - اخبار" احسان" نے اسی اشاعت میں قادیان کے پچاس ہزار مسلمانوں کو بچاؤ " کے عنوان سے حسب ذیل نوٹ بھی شائع کیا :- پاکستان گورنمنٹ کی توجہ کے قابل قادیان میں اس وقت نواحی علاقہ جات سے جمع شدہ مسلمانوں کی تعداد پچاس ہزار کے قریب ہے.یہ لوگ پچاروں اطراف سے ہندو سکھ فوج کے نرغہ میں گھرے ہوتے ہیں.یہ وہ لوگ ہیں جو قادیان سے ملحقہ علاقوں سے اپنا سب کچھ لٹا کر آئے ہیں اور اب بے طبی اور خاک بسری کے عالم میں مقیم ہیں.حالات روز بروز بد سے بدتر ہو رہے ہیں.اگر گورنمنٹ کی طرف سے جلد ان کو نکالنے کا انتظام نہ کیا گیا تو ڈر ہے انہیں بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح نہ کر ڈالا جائے.خلیفہ صاحب قادیان اپنی جماعت کو یہی مشورہ دے رہے ہیں کہ قادیان کی حفاظت
۲۳۹ کے لئے آخری دم تک وہیں رہے.بخلیفہ صاحب کی یہ ہمت قابل داد ضرور ہے.لیکن حالات سے بے نیاز ہو کر کام کرنا اور ہزار ہا نہتے لوگوں کو اتنی بڑی آزمائش میں ڈالنا مناسب نہیں.قادیان میں کرفیو لگا ہوا ہے وہاں محلوں میں تمام لوگوں کی سختی سے تلاشی لی جا رہی ہے.بیرونی محلہ جات پر حملے ہو رہے ہیں.نزدیک کے دیہات پر سکھوں کا قبضہ ہو چکا ہے اور کچھ عجب نہیں قادیان میں بھی قتل عام شروع ہو جائے.اس وقت افرا تفری کے عالم میں اگر لوگ وہاں سے نکلے تو پھر اس قدر نفوس موت کے گھاٹ اُتر جائیں گے جن کا اندازہ لگانا مشکل ہوگا اور مشرقی پنجاب کی پراپیگنڈا مشینری اسے معمولی سا حادثہ قرار دے کر دنیا کی نظروں میں ڈھول ڈالنے میں کامیاب ہو جائے گی.یہ محض خام خیالی ہے کہ وہاں بہت دیر تک مقابلہ میں جسے رہنے سے اس بات کو اس قدر شہرت ملیگی کہ ہندوستانی حکومت مرعوب ہو کر قادیان کو تباہ کرنے سے اپنا ہا تھ کھینچ لے گی.اس سلسلہ میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہاں ابھی تک ہزاروں خواتین اور بچے موجود ہیں جن کو وہاں سے نکالا نہیں جا سکا.کیا ان سب کو اس لئے موت کے منہ میں چھوڑ دیا بھائے کہ خلیفہ صاحب قادیان سے ہجرت نہیں کرنا چاہتے.یہ معاملہ ایسا نہیں کہ ایک شخص کی مرضی پر اسے چھوڑ دیا جائے.پاکستان گورنمنٹ کو چاہیے کہ سپیشل ٹرینیں پھلا کر جس قدر لوگوں کو وہاں سے نکالا جا سکتا ہے نکال لے اور ہم خلیفہ صاحب قادیان سے بھی یہی گزارش کریں گے کہ نہتے لوگوں کو اس کس مپرسی کے عالم میں چھوڑ دینا ٹھیک نہیں.بلکہ وہ ان لوگوں کو یہاں لا کر ہر طرح سے مسلح اور منظم کریں تو جہاں ایک طرف یہ اقدام پاکستان حکومت کو تقویت کا موجب ہوگا وہاں ہزار ہا بے گناہ لوگوں کو موت کے پنجے سے بھی نکال لائے گا.(شیخ مح طفیل ایم.اے ) و - اس اخبار کا ایک اور نوٹ ملاحظہ ہو :- لمیں تھوڑی باتیں لکھنے کا وقت نہیں.....اس وقت ہم کم و بیش ۵۰ ہزارہ افراد قادیان میں پناہ لئے بیٹھے ہیں ہمیں احمدیوں کی طرف سے زندہ رہنے کے لئے کھانا مل رہا ہے بعض کو مکان بھی مل چکے ہیں.مگر اس قصبہ میں اتنی گنجائش کہاں ؟ ہزاروں آسمان کی لے احسان " ۲۵ ستمبر 9ء میں یہ مضمون شائع ہوا ہے +
۲۴۰ چھت کے نیچے زمینی فرش پر پڑے ہیں جنہیں دھوپ بھی کھانا پڑتی ہے اور بارش میں بھی بھیگنا پڑتا ہے.پھر بھی ہم ہوں توں کر کے زندگی کے دن گزار رہے ہیں مگر جو تنگی اب ملٹری اور پولیس کی طرف سے دی بھارہی ہے اور بوصیتیں اب نازل ہو رہی ہیں ان کا کیا علاج.پچھلے جمعہ کو ہمیں یہاں سے قافلہ کی صورت میں ملٹری نے پچھلے جانے کا حکم دیا لیکن یہاں کے بھلے لوگوں نے ہمیں اس لئے روک لیا کہ حفاظت کے بغیر رستے میں لٹ بھاؤ گے اور مارے جاؤ گے کاشت اخبار ” نوائے وقت لاہور اخبار ” نوائے وقت“ نے لکھا وو قادیان کا مورچہ :- قادیان مشرقی پنجاب میں ایک قصبہ ہے جہاں مسلمان ابھی تک ڈٹے ہوئے ہیں.خاص قادیان میں مسلمانوں کی تعداد کچھ بہت زیادہ نہ تھی کیونکہ یہ ایک چھوٹا سا قصبہ ہے مگر ارد گرد کے دیہات سے ہزاروں مسلمانوں نے اس قصبہ میں پناہ لی ہے اور اب ایک روایت کے مطابق پچاس ہزار مسلمان قادیان میں پناہ گزین ہیں.مشرقی پنجاب کی حکومت یہ اعلان کرتی ہے کہ وہ مسلمانوں کو اس صوبہ سے نکالنا نہیں چاہتی.مسٹر گاندھی بھی مسلمانوں سے یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ واپس آجائیں مگر قادیان کے متعلق جہاں مسلمان ابھی تک بیٹھے ہوئے ہیں حکومت مشرقی پنجاب اور حکومت ہند دونوں کی پالیسی یہ معلوم ہوتی ہے کہ مسلمانوں کو ڈرا دھمکا کر اور اگر ضرورت پڑے تو مار پیٹ کر قادیان سے نکال دیا جائے.قادیان سے بعض معززین کی بلا وجہ گرفتاریاں ، قصبہ کا محاصرہ ، دیل تار اور ڈاک کی بندش اور قادیان پر ہوائی جہانہ کی پرواز کی ممانعت ، یہ سب حربے اسی ایک مقصد کے پیش نظر استعمال کئے جا رہے ہیں کہ مسلمان قادیان چھوڑ کر بھاگ جائیں.ہم اس وقت اختلاف عقائد کی بحث میں نہیں پڑنا چاہتے نہ یہ وقت اس بحث کو چھیڑنے کے لئے موزوں ہے مسلمانوں سے ہماری درخواست صرف اس قدر ہے کہ اغیار کو اس وقت اس سے کوئی غرض نہیں کہ فلاں شخص کے عقائد کیا ہیں حتی کہ انہیں اب کانگرسی اور له " احسان لاہور) ۱۲ اکتوبر ۱۹۴۷ متر
۲۴۱ لیگی کا بھی کوئی امتیازہ نہیں.دو صرف یہ دیکھتے ہیں کہ نام مسلمانوں کا ہے اور رسل صورت مسلمانوں کی سی ہے ایسا شخص ان کے نزدیک واجب القتل ہے.اگر اہلِ قادیان کا ارادہ یہ ہے کہ وہ غنڈہ گردی کا مقابلہ کریں گے اور مدافعت و مزاحمت کئے بغیر یہاں سے نہیں نکلیں گے تو ہر کلمہ گوان سے حسب استطاعت عملی یا محض اخلاقی ہمدردی کا اظہار کرنا چاہیئے " ساله ۲.اسی اخبار ” نوائے وقت نے اپنی اشاعت ۱۲۳ ستمبر میں حسب ذیل خبر شائع کی :- قادیان میں حکام نے کرفیو نافذ کر دیا.خانہ تلاشیوں کی بھرمار لوگوں سے اسلحہ چھینا جا رہا ہے.سکرٹری امین احمدیہ پاکستان کا بیان لاہور ۲ ستمبر وسطی انجین احمدیہ پاکستان کے سکرٹری نے مندرجہ ذیل بیان اخبارات کے نام جاری کیا ہے کہ اہ ستمبر سے قادیان میں 4 بجے شام سے لے کر صبح پانچ بجے تک کے لئے کرفیو ں گا دیا گیا ہے.اگر تو اس اقدام سے امن قائم رہا تو مسلمان اس کا روائی پر حکومت کے معنون ہوں گے لیکن اگر اس کارروائی سے قادیان کے مسلمانوں کے خلافت کوئی بھارحانہ حملہ کیا جانا مقصود ہے تو اس بات میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہوگی کہ کر نیو اس لئے لگایا جائے کہ مسلمانوں کو جعد دفاع کے لئے تیاریاں کر رہے ہیں، انہیں نہیں نہیں کر دیا جائے.سرکاری خبروں سے معلوم ہوا ہے کہ پونیں تلاشیاں لے رہی ہے اور لائسنس یافتہ بندوقیں اور گولی بارو و ضبط کر رہی ہے.پولیس نے احمدیہ جماعت کے امام کے گھر پہ چھاپہ مارا اور ان کا تمام اسلحہ ضبط کر لیا جس کا لائسنس ان کے پاس موجود تھا.اس امر کا خدشہ ہے کہ کوئی حملہ نہ ہو جائے اور حکومت پھر یہ عذر نہ کہ ہے کہ جھتے قابو سے باہر ہو گئے اور انہوں نے فوج پر حملہ کر دیا اس لئے احمدیوں کے خلاف کارروائی کرنی پڑی.ہر ایک آدمی سمجھ سکتا ہے کہ کرفیو کے نفاذ کے بعد سکھ جیتے اور پولیس کا کوئی کارروائی کرنا سوائے اس کے اور کچھ مقصد نہیں رکھتی کہ پولیس احمدیوں کے کے خلاف ان سیمتوں کی مدد کرے “ سے شه "نوائے وقت " ۲۲ ستمبر ۱۹۳۷ در صفحه ۳ : نه " نوائے وقت" ۲۳ م ۱۹ صفحه
۳۳۷۲.پھر اگلے دن (۲۴ ستمبر کو درج ذیل خبر شائع کی : وو قادیان کے قریب ایک گاؤں پر سکھوں کا قبضہ سکھوں نے قادیان پر حملہ شروع کر دیا لاہور ۲۲ ستمبر، قادیان سے پناہ گزینوں کو لانیوالی ایک ٹرین پر بٹالہ اور قادیان کے درمیان حملہ کر دیا گیا.اس ریل گاڑی کے ساتھ فوجی دستہ بھی تھا.فوج نے گولی چلا دی جس سے حملہ آور بھاگ گئے.جو اطلاعات موصول ہو رہی ہیں اُن سے معلوم ہوا ہے کہ سکھوں نے قادیان سے آدھ میل کے فاصلہ پر واقعہ منگل پر قبضہ کر لیا ہے اور اب سکھ دستے قادیان کے بیرونی محلوں پر حملے کر رہے ہیں.اے "نوائے وقت“ (لاہور) نے ہم اکتو بہ کے پرچہ میں یہ خبر شائع کی کہ مسلمان پناہ گزینوں کو قادیان سے پاکستان آنے دیا گیا 19 چار ٹرک بٹالہ سے واپس لاہور بھیجدیئے گئے لاہور ۲۰ اکتوبر تخمین انصار المسلمین لاہور کے سکرٹری نے ایک بیان میں کہا ہے کہ "کل نیوی ڈیپارٹمنٹ کے چار ٹمک اس محکمہ کے ملازمین کے رشتہ داروں کو لانے کے لئے قادیان گئے اور لاہور سے غیر مسلم پناہ گزین) امرتسر لے گئے.یہاں سے انہوں نے دریافت کیا کہ آیا کوئی ایسے غیر مسلم پناہ گزین ہیں جو امر تسر سے بٹالہ یا قادیان جانے کے خواہاں ہوں.لیکن یہاں ٹرک والوں کو بتایا گیا کہ ایسے کوئی پناہ گزین امرتسر میں موجود نہیں.جب یہ ٹرک بٹالہ پہنچے تو انہیں قادیان نہ جانے دیا گیا اور وجہ یہ بتائی گئی کہ وہ اپنے ساتھ غیر مسلم پناہ گزیں نہیں لائے علاوہ بریں چند دن تک قادیان بجانے کی اجازت نہیں ہے.ٹرکوں کو بالآخرہ نا کام لاہور واپس آنا پڑا اور تضیع اوقات کے علاوہ پیٹرول بھی ضائع ہوا " مجھے نے اخبار " نوائے وقت " (لاہوں مورخہ ۲۴ ستمبر ده سفر ۶ * ر اکتو بر شاه شاه صفیرا "
۲۴۳ ۵.پھر اسی اخبار نے لکھا کہ :.- قامیان پریسکو یونٹوں کے حملے فوج اور پولیس عمل آورو کی امدادے رہی ہے فوج نے سر محمد ظفراللہ کا مکان خود ٹوٹا.شہر میں تباہی کے آثار لاہور ، راکتو یہ سکرٹری امین انصار السلمین نے ایک بیان میں کہا ہے کہ قادیان کی تازہ ترین صورت حال کے متعلق جو خبریں موصول ہوئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ قادیان کی حالت پہلے سے بھی ابتر ہو گئی ہے.قادیان کے ایک محلہ پر سکھ غنڈوں نے حملہ کر دیا لیکن محلہ والے تھیں فنڈوں کو موت کے گھاٹ اُتارنے میں کامیاب ہو گئے.بعد ازاں پولیس اور فوج حملہ آوروں کی امداد کے لئے پہنچ گئی اور محلے والوں کو بری طرح گولیوں کا نشانہ بنا دیا.پولیس اور فوج کی کارروائیوں میں بیشمار سلمان شہید ہو گئے مسلمانوں کو اپنے بھائیوں کی لاشوں کے پاس تک نہ بھانے دیا گیا.قادیان سے ایک فوجی مسلمان کپتان لاہور پہنچا ہے.اس کا مکان لوٹ لیا گیا ہے جو دہرا سر محمد ظفر اللہ خان کا مکان بھی لوٹا جا چکا ہے.ٹی.آئی ڈگری کالج کی عمارت پر قبضہ کر لیا گیا ہے اور کالج کی عمارت لاہور کے سکھ نیشنل کالج کے لئے وقف کر دی گئی ہے.پاکستان کا ایک ہوائی جہازہ کل قادیان پر سے ہو کہ لاہور پہنچا ہے.ہوائی جہاز والوں کی روایت کے مطابق ہر طرف تباہی دیمہ بادی کے آثا نہ پائے جاتے ہیں مقامی مسلمان مسجدوں میں ٹھیرے ہوتے ہیں" سے.پھر اسی اخبار" نوائے وقت نے حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود کی پریس کانفرنس میں بیان فرمودہ قادیان کی موجودہ صورت حال کے تعلق ذکر کرتے ہوئے لکھا :- قادیان اور حکومت ہندوستان مرزا بشیر الدین محمود احمد کی پریس کانفرنس لا ہو نہ ۶ اکتوبه - مرزا بشیر الدین محمود احمد امیر جماعت احمدیہ نے آج شام کو ایک پریس کا نفرنس میں اخباری نمائندوں کو قادیان کی موجودہ صورت حال سے آگاہ کیا.مرزا صاحب نے بتایا کہ قادیان میں استاد کا حملے ابھی تک ہو رہے ہیں.پناہ گزینوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے.سے نوائے وقت در اکتوبر کا اللہ صفحہ ۱ :
اور جماعت احمدیہ پر ہر جائز و ناجائز طریقے سے دباؤ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ قادیان کو خالی کر دیں.شہر کے بہت سے حصے خالی کر دیئے گئے ہیں اور باقیماندہ آباد کی کو مجبور کیا گیا ہے کہ وہ شہر کے صرف ایک حصے میں جس میں آبادی کی تعداد کے لحاظ سے بہت کم مکانیت ہے جا کر رہے.یہ جگہ بہت تنگ ہے.وہاں کے لوگوں کو تنگ جگہ میں ! سہنے پر مجبور کرنے کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ بالآخر وہ شہر خالی کرنے پر آمادہ ہو جائیں.راشن دینا بھی بالکل بند کر دیا گیا ہے اور قادیان کے باشندوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کی کوشش کی بسیار یہی ہے.مرزا صاحب نے بریگیڈیر تھمایا کے عالیہ بیان اور آل انٹر یا نہ بیٹریو کے اس اعلان کو کہ قادیان میں بالکل امن ہے جھٹلایا اور میرانی ظاہر کی ہے کہ اتنے بڑے اور ذمدار عہدے پر فائزہ کوئی افسر اتنا سفید جھوٹ بول سکتا ہے.مرزا صاحب نے کہا.ہم پہلے بھی بارہ اعلان کر چکے ہیں اور میں پھر دوہرانا چاہتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کا مسلک ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ یا اقتدار حکومت کا ساتھ دے اور اس کی وفادار رہے.ہم نے حکومت ہند کو بھی یقین دہا نے کی کوشش کی ہے کہ احمدیہ جماعت کے جو پیر و قادیان میں مقیم رہیں گے وہ ہندوستان کے ہر طرح سے وفادانہ رہیں گے.مگر ہمیں افسوس ہے کہ باوجود ہمارے یقین دلانے کے اور با دبور و گاندھی جی اور پنڈت نہرو کے، بار بار یہ کہنے کے کر ہندوستان سے ان مسلمانوں کو نہیں نکالا جائے گا جو انڈین ڈومینین سے اپنی وفاداری کا یقین دلائیں گے مشرقی پنجاب کی حکومت کی انتہائی کوشش یہ ہے کہ کسی طرح قادیانی، خالی ہو جائے.اور اس ارادے کا اظہار کئی طریقوں سے مشرقی پنجاب کے افسر کر چکے ہیں.ان سب تکلیفوں ، مظالم اور مشکلات کے ہوتے ہوئے مرزا صاحب نے.اس مصمم ارادے کا اظہار کیا کہ تب تک حکومت ہند صاف الفاظ میں یہ نہ کہہ دے کہ تم لوگوں کو قادیان خالی کر دینا چاہیئے ہم قادیان ہرگز ہرگز خالی نہ کریں گے اور ہم اس مقصد کے لئے ہر قربانی کرنے کے لئے تیار ہیں.مرزا صاحب نے کہا کہ ان کے سات نوجوان بیٹے ابھی تک قادیان میں ہیں اور آخری دم تک وہیں رہیں گے مرزا صاحب نے آخر میں انتہائی ناراضگی اور افسوس کا اظہار کیا کہ قادیان کے حکام
۲۴۵ -A نے جماعت کو اپنی لائیبریری اور سائنس انسٹی ٹیوٹ کو پاکستان منتقل کرنے کی اجازت نہیں دی.انہوں نے بتایا کہ یہ لائیبریری مہندوستان بھر میں سب سے بڑی چھالہ اسلامی لائیر یویو میں سے تھی اور اسی طرح ریسرچ انسٹی ٹیوٹ بھی.یہ دونوں جماعت کی اپنی ملکیت تھیں اور ان پر قبضہ کرنے کا حکومت کو کوئی حق نہیں.نیز یہ خبر شائع کی کہ (نامہ نگار) ۱۶ اکتوبر کو انبالہ سے اتنی ہزار مسلمان مہاجرین ریل گاڑیوں میں لاہور پہنچے.استی ہزار مہاجرین سہارنپور سے اور سات ہزار قادیان سے موٹروں پر پہنچے.اخبار نوائے وقت " ہی میں ذیل کی خبر بھی شائع ہوئی :- قادیان میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا گیا، دو سو مسلمان شہید ہوئے کئی عورتیں اغوا کر لی گئیں اور بیشمار محلے لوٹ لئے گئے لاہور ۲۲ اکتوبر قادیان میں مسلمان پر ظلم و تشدد اور گرفتاریوں کے حالات کے سلسلہ میں پنڈت نہرو نے وزیر اعظم پاکستان کو ایک تار بھیجا تھا جس میں ان واقعات کی تردید کرنے کی جرات کی گئی تھی.آج احمدیہ ہیڈ کوارٹرز لاہور نے وزیر اعظم ہندوستان کو یہ تار روانہ کیا " قادیان میں دو سکرٹری ، ایک اسسٹنٹ سکوڑی ، تین مشتری اور کئی دوسرے کارکنان غلط الزامات کی بناء پر گرفتار کئے جاچکے ہیں.جن مسلمانوں کے مکانات کی تلاشیاں ہوئیں ان میں موجودہ خلیفہ قادیان کا مکان بھی شامل ہے.کیٹی محتے جبرا خالی کرا کے لوٹے جا چکے ہیں.تعلیم الاسلام ہائی سکول، احمدیہ پولیس اور سنٹرل لائیبریر کی پر قبضہ کیا جا چکا ہے.کئی خواتین اغوا کی گئیں اور تقریباً دو سو مسلمان شہید کئے گئے اور ان کی لاشیں دربار کے حوالہ نہیں کی گئیں.اس کے باوجود آپ نے یہ دعوی کیا ہے کہ احمدیوں کو تنگ نہیں کیا گیا اور ان کی حفاظت کی جا رہی ہے.ے نوائے وقت" دار اکتو بر صفحه ۱ : ہ "نوائے وقت " ۱۹ اکتوبر کار صفحه 1 : ۲۴ اکتوبر ۱۹۴۷ هر صفحه ۴۰۳
اخبار انقلاب گاہور اخبار انقلاب لاہور نے لکھا : مقادیان میں مسلمان برابر ڈٹے ہوئے ہیں پاکستان کی فوج ان کی حفاظت کرے قادیان کے نواحی علاقے میں سکھوں نے متعدد دیہات میں تباہی پھیلا رکھی ہے مسلمانوں کو قتل اور ان کی جائیدادوں کو ہر بار کیا جا رہا ہے لیکن انہیں قادیان پر حملہ کرنیکی ابھی جرات نہیں ہوئی.اہل قادیان اللہ کے فضل سے طاقتور اور منظم ہیں اور حضرت امام جماعت احمدیہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ان کو ہر وقت صبر و سکون اور توکل علی اللہ کی تلقین کر رہے ہیں لیکن مسلمانان پاکستان کا مطالبہ ہے کہ خطرے کے سدباب کے لئے فی الفور پاکستانی فوج قادیان کی حفاظت کے لئے مقر ہونی چاہیے مبادا سکھ غیر مسلم فوج اور پولیس کی امداد یا اغماض سے فائدہ اٹھا کر قادیا کے خلاف کوئی سازش کریں لے مسلمانوں کے قتل عام کی ذمہاری بافنڈری کمیش کچھ دیرہ ہے قائد اعظم کو فلس خدام الاحمدیہ علی کا تار نئی دہلی پہ ستمبر مجلس خدام الاحمدیہ وہلی نے پاکستان کے گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح کو ایک برقی پیغام ارسال کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کا جو قتل عام ہوا ہے اس کی ذمہ داری صدر پنجاب باؤنڈری کمیشن کے کندھوں پر ہے مسلم اکثریت والے علاقوں کو سہندوستان میں منتقل کر کے مشرقی پنجاب کے غیر مسلموں کو صاف اشارہ کیا گیا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف جارحانہ مہم کا آغاز کر دیں.مسٹر جناح سے استدعا کی ہے کہ وہ اس معالم کو جمعیت اتحاد احم کے حوالے کر دیں" سے قادیان میں نواحی علاقہ کے پچاس ہزار پناہ گزین آخری دم تک حفاظت خود اختیاری کا تہیہ ڈسکہ ضلع سیالکوٹ اور ستمبر چوہدری شکر اللہ خاں نے مندرجہ ذیل بیان انقلاب اور دوسر له وسه "انقلاب" ۶ ستمبر ۱۹۴۷ء صفحه ۸ کالم ۲ +
۲۴۷ اخباروں کو ارسال فرمایا ہے:.اس وقت جب سارے مشرقی پنجاب میں افرا تفری زوروں پر ہے اور لاکھوں مسلمان اپنے عزیز وطن چھوڑ کر محض بہان بچا کر مغربی پنجاب میں پہنچ رہے ہیں اور بحیثیت مجموعی مسلمانو کے وقار کو ضعف پہنچ رہا ہے.قادیان ضلع گورداسپور کئے مسلمان اپنے مقام پر ڈٹے ہوئے ہیں اور وہ باعزت موت کو ذلت اور رسوائی کی زندگی پر ترجیح دینے کا تہیہ کر چکے ہیں.اہل قادیان کے علاوہ نواحی علاقہ کے پچاس ہزار اور پناہ گزین وہاں جمع ہو چکے ہیں.قادیان کے امام جماعت احمدیہ نے اعلان کر دیا ہے کہ جب تک حکومت ہمارے نام قادیان خالی کر دینے کا حکم صادر نہ کرے ہم اپنے محبوب وطن اور مرکز کو کسی قیمت پر خیر باد نہیں کہہ سکتے اور آخری دم تک اپنی اور اپنے پناہ گزینوں کی حفاظت کرتے رہیں گے.مسلمانوں پر یہ نہایت ہی خطرناک وقت ہے کہ دشمن اس کے قومی وقار کو ہمیشہ کے لئے (ختم) کر دینا چاہتا ہے.اس وقت ہر قسم کی کشیدگیوں اور اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر قادیان اور اس کے پناہ گزینوں کی سلامتی کے لئے دعائیں کرنی چاہئیں " سے احمدیوں کے طیاروں کو پرواز سے حکم روک دیا گیا ایر یا کمانڈر کا حکم ، کوئی جیب کالے باہر نہیں جاسکتی لاہور ار ستمبر صدر انجمن احمدیہ لاہور نے آج مندرجہ ذیل اعلان جاری کیا ہے.استمبر کی سہ پہر کو چار بجے ہمیں یہ پیغام ملا کہ اس علاقے کی فوج کے انچارج بریگیڈیر نے چند احمدی نمائند کو قادیان سے بٹالے بلا کر مندرجہ ذیل احکام ان کے گوش گزار کئے.ا- آئندہ کسی ہوائی جہانہ کو اس ایریا کی فضا میں پرواز کی اجازت نہیں دی بھائے گی.۲.قادیان کے احمدیوں کی کسی جیپ کار کو باہر جانے کی اجازت نہیں ہوگی.۳.اور کسی احمدی کو کسی ایسی وردی پہننے کی اجازت نہیں ہوگی جو کسی صورت میں بھی فوجیوں سے ملتی جلتی ہو." کے سے لفظ اُڑے ہوئے ہیں.غالباً ختم ' کا لفظ ہے (مرتب) ، ضمیر انقلاب لاہور م استمر ه ه ه فجر انقلاب ار ستمبر ۱۹۴۷ر صفحہ کالم ۴ :
نواج قادیان میں مسلمانوں کے ۵۴ گاؤں جلا دیئے گئے دیہات کی تباہی ، حملہ آور ، عورتیں اُٹھا کر لیگئے لاہور ارستمبر بدھ کے دن احمدیہ سہیڈ کوارٹرز لاہور سے قادیان اور اس کے نواحی دیہات کے متعلق مندرجہ ذیل بیان شائع کیا گیا ہے :- مرکز احمدیت قادیان کے گردو نواح کے 14 دیہات پر حملہ کیا گیا ہے اور لوٹ کھسوٹ کی گئی ہے ان میں سے ہمہ کو نذر آتش کر دیا گیا ہے حملہ آور ۱۴۷ عورتوں کو اٹھا کر لے گئے ہیں.قادیان میں تحریک احمدیت کے دو نہایت ہی ممتاز لیڈر گرفتار کر لئے گئے قادیان میں اعیان و اکابر کی خانمتلاشیاں ایک کو مسلمانوں کو دہشت زدہ کر کے نکال دینے کی کوشش ہور ، استمبر- اطلاع موصول ہوئی ہے کہ قادیان کے ناظر اعلیٰ چوہدری فتح محمد سیال ایم اے ( ایم ایل اے) اور سلسلہ احمدیہ کی نظارت امور عامہ کے انچارج سید زین العابدین ولی الله شاه کو سری کو بندپور تھا کے علاقے کے سکھوں کو قتل کرنے کے الزام میں زیرہ دفعہ ۳۰۲ تعزیرات ہند گرفتار کر لیا گیا ہے.گرفتاری کے وقت مسلح پولیس اور فوج کے علاوہ اس علاقے کے سکھ برچھیوں بھانوں اور گنڈا سوں سے مسلح تھے ہمراہ تھے.ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کسی مقام پردھاوا بولا جا رہا ہے.قادیان کے معزز اور مقتدر ارکان اور پناہ گزینوں کی تلاشیاں بھی لی گئیں.قادیان میں اس وقت ایک لاکھ کے قریب مسلمان جمع ہیں اور اگر اُن کی حفاظت کے لیئے مسلمان فوجی دستے متعین ہو جائیں تو وہ اپنے گھروں کو چھوڑنے کی بجائے اپنے دیتے ہی میں آباد ہونے کو ترجیح دیں گے یا سکے قادیان کے اکابر کی گرفتاری جماعت احمدیہ کے اکابہ میں سے چودھری فتح محمد سیال ایم اے ( ایم ایل اے) اور سید زین العابدین ولی اللہ شاہ کو مشرقی پنجاب کی حکومت نے زینہ واقعہ ۲ و سکھوں کے انقلاب ضمیمه ۴ ار تمبر ۱۹۴۷ صفحها : له " انقلاب" ۱۸ ستمبر ۱۹۴۷ صفحه !.
قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے.ان دونوں حضرات کی عمر ساٹھ ساٹھ سال ہوگی اور اعلیٰ درجہ کے تعلیم یافتہ اور معزز آدمی ہیں.حقیقت یہ ہے کہ قادیان کے مسلمانوں نے اب تک ثبات و استقلال کا جو ثبوت دیا ہے اور نواحی علاقے کی تباہی کے باوجود جس صبر و سکون سے ڈٹے رہے ہیں وہ مشرقی پنجاب کے حکام کے نزدیک بہت تکلیف دہ ہے یہی وجہ ہے کہ اب انہوں نے قادیان میں تلاشیاں اور گرفتاریاں شروع کر دی ہیں.ان کا منشاء یہ ہے کہ قادیان میں جو ایک لاکھ مسلمان اس وقت جمع ہیں وہ بھی پریشان ہو کہ بھاگ کھڑے ہوں اور خونخوار فنڈ سے ہر طرف سے ان پر حملہ کر کے انہیں ختم کر دیں.پاکستان کے وزیر اعظم کا فرض ہے کہ قادیان کے مسئلہ کی طرف بطور خاص حکومت ہندوستان کی توجہ مبذول کرائیں “ لے (اداری) پنڈت جواہر لعل نہرو کے نام نامہ پریذیڈنٹ انجمن احمدیہ ملتان کی طرف سے سکھوں نے آپ کی حکومت اور سکھ ریاستوں کی فوج اور پولیس کی امداد سے مشرقی پنجاب کے مسلمانوں کو تباہ کر دیا ہے.اب آپ کی حکومت کے تمام احکام سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اب قادیان کی تباہی کی باری ہے.قادیان کے ارد گرد دو دو میل تک کا علاقہ توده خاکستر بنا دیا گیا ہے حالانکہ آپ کی حکومت ان لوگوں کی حفاظت کا وعدہ کر چکی تھی تازہ احکام یہ ہیں کہ قادیان پر نہ طیارے اڑائے بھائیں نہ قادیان کے باہر چیپ کاریں چلائی جائیں نہ احمدی کوئی وردی پہنیں.اس سے صاف ظاہر ہے کہ حکومت نہ صرف اہل قادیان کو اپنی صفات کا موقع دینا نہیں چاہتی ہے بلکہ ان کی تباہی کی اطلاع کو بھی باہر پہنچنے سے روک رہی ہے میری استدعا ہے کہ آپ ظلم وستم کے نتائج پر غور کریں اور یاد رکھیں کہ احمدیوں نے قادیان کی مقدس سرزمین کے لئے اپنی جانیں قربان کر دینے کا تہیہ کر رکھا ہے.خدا آپ کی حکومت کے اعمال کو دیکھ رہا ہے.اس نے ظلم وستم کرنے والوں کو ہمیشہ بر باد کیا ہے.اگر آپ خدا سے نہ ڈریں گے تو وہ ایک دن آپ کو بطش شدید میں گرفہ شام کرے گا " سے انقلاب و ستمبر شماره صفحه ۲ ه انقلاب ۲۵ ستمبر ۱ صفحه ۲ کالم ۲۵
۲۵۰ -4 -1.قائد اعظم کے نام تار مجلس خدام الاحمدیہ گوجرانوالہ نے قائد اعظم محمد علی جناح کے نام حسب ذیل تار دیا ہے :- مشرقی پنجاب کے مسلمانوں کے قتل عام کی ذمہ داری باؤنڈری کمیشن کے صدر پر عائد ہوتی ہے جس نے مسلم اکثریت کے علاقوںکی ہندوستان میں شامل کر دیا.اس نے صریحاً غیر مسلموں کو مسلمانوں پر حملہ کرنے کی ترغیب دلائی.از راہ کرم اس مسئلہ کو مجلس اقوام متحدہ میں پیش کیجئے.اس کے علاوہ گذارش ہے کہ قادیان میں مسلم پناہ گزینوں کے جم غفیر کی حفاظت کے لئے پاکستانی فوج کے بھیجنے کا انتظام فرمائیے ، مسلے قادیان پرکھوں کا حملہ لاہور ۲۷ ستمبر - صدا امین احمدیہ پاکستان لاہور کی ایک اطلاع مظہر ہے کہ سکھوں کے تھے نے محلہ دار السعتہ پر حملہ کیا اور بہت سے مسلمانوں کو لوٹ لیا جملہ آور مسلمانوں میں داخل ہو گئے.ان مکانوں میں نواب محمد الدین باجوہ سابق وزیمہ ریاست جودھ پور کا مکان بھی شامل ہے اس سلسلے میں دوسری اطلاع مظہر ہے کہ جو نہی سکھوں کے ان مکانوں میں داخل ہونے کی خبر قادیان میں پھیلی.خدام الاحمدیہ کے صدر نے نوجوانوں کو ان سکھوں کو مکانوں سے نکالنے کے لئے بھیجا.سکھ مقابلے کی تاب نہ لا کر بھاگ گئے.محلہ دارالسعہ کے چاروں طرف پہرہ سخت کر دیا گیا اور خالی مکانوں میں پناہ گزینوں کو دوبارہ بہا دیا گیا.“ سے ۱۱- قادیان کے ایک محلہ پر کھتوں کا حملہ ، نواحی گاؤں پر قبضہ کر لیا گیا پولیس کرفیوں گا کر تلاشیاں لیتی رہی.لائسنس و اسلحہ ضبط کر لیا گیا لاہور ۲۲ ستمبر - صدر انجین احمدیہ پاکستان کے مرکزی سیکرٹری نے مندرجہ ذیل بلیٹن بھاری کیا ہے.گذشتہ شب یہ اطلاع موصول ہوئی کہ قادیان کے ایک محلہ پر ہجو شمال مشرق میں واقع ہے 19 ستمبر کو سکھ محبتوں نے حملہ کیا.پولیس موقعہ پر پہنچ گئی.مگر اس نے حملہ آوروں سے تعرض کرنے کی بجائے اس احمدی محلے میں خانہ تلاشیوں کا سلسلہ شروع کر دیا اور اسلحہ کی "انقلاب" ۲۵ ستمبر ۱۱۲ صفحه ۹۲ "انقلاب" ۲۸ ستمبر ۱۴ صفحه او (نوٹ : اس پرچہ پر سے اڑ کی بجائے غلطی سے ۱۹۴۰ہ درج ہو گیا ہے)
۲۵۱ تلاش ہوتی رہی.پولیس کا یہ طرز عمل تحیر خیز ہے.ایک طرف تو قانون شکن بھتے کھلے بندوں مصروف عمل ہیں اور دوسری طرف مسلمانوں کو اپنے بچاؤ کے لئے کوئی ہمتیار رکھنے کی بھی اجازت نہیں.غالباً پولیس یہ تسلی کر لینا چاہتی ہے کہ مسلمان نہتے ہیں اور جب ان پر حملہ ہو جائے تو اُن کے پاس بچاؤ کا کوئی ذریعہ نہیں.منگل کے گاؤں پر جو قادیان سے کوئی آدھ میل دور ہے سکھوں نے قبضہ کر لیا.ایک کانوائے پر جو قادیان سے پناہ گزین لا رہا تھا.قادیان اور بٹالہ کے درمیان حملہ ہوا.حفاظتی فوجی دستے کو گولی چلانی پڑی.ایک اور اطلاع مظہر ہے کہ پولیس نے قادیان میں کرفیو لگا کر تلاشیاں ہیں.امام جماعت احمدیہ کے مکان پر چھاپہ مار کر لائٹنس والی بندوقیں اور ان کے کارتوس چھین لئے گئے.پولیس تمام اسلحہ جس کا لائسنس لوگوں نے لے رکھا ہے چھین رہی ہے کرفیو کا وقت شام کے چھ بجے سے صبح پانچ بجے تک ہے (روپی) اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ ہور " سول اینڈ ملٹری گزٹ ہور نے لکھا:.لاہور ملٹری امتحان اس وقت قادیان دنیا کی نظروں کا مرکز بنا ہوا ہے کہ وہاں ہندوستانی گورنمنٹ اقلیتوں کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے ؛ احمدیہ جماعت کے نزدیک قادیان صرف جماعت کا مرکز ہی نہیں بلکہ ان کی نگاہوں میں اس شہر کا درجہ کچھ اور ہی ہے.احمدی ایک محنت کش، اخوت پسند ، اور نہایت ہی منظم جماعت ہے.جس حکومت کے ماتحت بھی یہ رہتے ہوں اس کے ساتھ وفاداری گویا کہ ان کے مذہب کا ایک جبہ و ہے.اگر قادیان پاکستان میں آجاتا تو کٹر مسلمانوں کی طرف سے مذہبی بنا پر ان کو زاید کوئی تکلیف پہنچتی مگر ہندوستان میں آجانے کی وجہ سے اس قسم کے تفکرات کی ان کو کوئی امید نہیں تھی اور وہ پرامن زندگی بسر کرنے کے امیدوار تھے مگر بعد کے واقعات نے ان کی ان تمام امیدوں کو غلط ثابت کر کے دکھلایا صرف اس لئے کہ یہ مسلمان تھے مغربی پنجاب سے آنے والی اقلیتوں نے اپنے نقصان کا انقلاب" ۲۴ ستمبر ۱۹۴۷ صفحه ۱ *
۲۵۲ بدلہ ان پر بے پناہ ظلم توڑنے کی صورت میں لیا.احمدیوں کی طرف سے اپنی حفاظت کے ذرائع اختیار کرنے کے فعل کو حکومت کی طرف سے بریم قرار دیا گیا اور ان کی روایات اور سابقہ عمل سے قطعی اعتراض کرتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کی گئی اور ان کو ان کے شمنوں کے ہم پر چھوڑ دیا گیا.جب اہالیان قادیان کے لئے اپنی حفاظت کرنا نا ممکن ہو گیا تو ملٹری کی حفاظت میں عورتوں بچوں اور بوڑھوں کو قادیان سے نکالنے کا فیصلہ کیا گیا.بقیہ دو ہزار کے قریب افراد جو وہاں رہے ان کو نہایت تکلیف دہ حالات میں قصبہ کے مرکزی حصہ میں نہایت تنگ جگہ میں محصور کر دیا گیا ہے.ان کے سکول اور ہسپتال پر زبر دستی قبضہ کر لیا گیا ہے اور بہت سے رہائشی مکانوں کو لوٹ لیا گیا ہے.ہندوستانی گورنمنٹ یہ تو اعلان کمہ سکتی ہے کہ وہ تمام کاروائیاں جو قادیان کے متعلق اس نے کی ہیں وہ اسے شمنی کے طوفان سے محفوظ کرنے کے لئے ہیں جو ارد گرد اُمڈ آیا تھا.اس کی صداقت صرف غیر جانب دالہ تفتیش کر ہی ثابت ہوسکتی ہے لیکن اس کا گرفتاریوں اور بدسلوکی سے صاف انکار کر دیتا ان حقائق کے خلاف ہے جو آزاد مشاہدہ کرنے والوں نے اچھی طرح ثابت کر دیئے ہیں.اب پنڈت جواہر لال نہرو کو تو کرنا چاہیے اور جنس کی ضرورت ہے وہ تر دیدیں نہیں ہیں بلکہ نہیں کوئی ایسا تعمیری اثباتی اقدام لینا چاہیے جودنیا پور ثابت کر دے کہ ہندوستانی مقرروں کے اعلامات محض کھو کھلے الفاظ نہیں ہیں اور یہ حکومت ہندوستان کا محکم تمام نو آبادیوں میں جس میں مشرقی پنجاب بھی شامل ہے نافذ ہے" (ترجمہ اے اخبار "ڈان" " ڈیلی گزٹ" اور اخبار "ڈان" - " ڈیلی گزرٹ " اور "سندھ آبیز روز" ۳۰۰ ستمبر سنہ) نے حکومت پاکستان کا حسب کا سندھ آبزرور میں پریس نوٹ ذیل پریس نوٹ شائع کیا :- "The Pakistan Government has learnt that 10,000 Muslims have taken refuge at the minisrry.م جواله " الفضل هم باز اخاء / اکتوبر ۱۳۳۶ او صفحه ۲ + 1904
۲۵۳ of Evacuation and Rehabilitation of the Government of Pakistan.They have telegraphed to the Govern- ment of India to declare Qadian a relugee camp and to provide adequate protection”.وزارت تهاجرین و آباد کاری حکومت پاکستان کا ایک اخباری بیان مظہر ہے کہ حکومت پاکستان کو یہ معلوم ہوا ہے کہ دس ہزار مسلمان قادیان ضلع گورداسپور میں پناہ گزین ہیں.وزارت کی طرت سے ایک برقی پیغام کے ذریعہ سے انڈین گورنمنٹ سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ قادیان کو بہا جو کیمپ قرار دیا جائے اور اس کی مناسب حفاظت کا انتظام کیا جائے.مظالم قادیان کا ذکر "سکھ میدان کارزار میں " کے کتابچہ میں حکومت پاکستان کی طرف من ایک کتابچه شبکه میدان کارزار میں " شائع کی گئی.اس کتابچہ میں مظالم قادیان کا ذکر حسب ذیل الفاظ میں کیا گیا." قادیان کے نواحی دیہات سے کوئی ایک لاکھ مسلمان خاص قادیان میں جمع ہو گئے تھے کیونکہ سکھوں نے ہندو فوج اور سکھ پولیس کی امداد سے ان پر حملے کر کے انہیں گھروں سے نکال دیا تھا.ان کے گھر ٹوٹ لئے تھے اور بہت سی عورتیں غائب کر دی تھیں.اس کے بعد سکھ اسٹنٹ سب انسپکٹر نے سکھوں کو قادیان میں بیلا لیا.۱۵ یا ۷ ستمبر کو قصبے پر کرفیو لگا دیا گیا.اس کے ساتھ ہی سکتے یں نے بہندو فوجیوں اور غیر مسلم پولیس کی مدد سے دارالا نوار، دار السعۃ ، دار الشکر اور اسلام آباد کے مسلم محلوں پر حملہ کر دیا اور ان پر ٹوٹ مچا دی.اسسٹنٹ سب انسپکٹر فوج کی معیت میں محلہ دارالا نوار کی کوٹھی گل رعنا “ پر حملہ کر کے اس میں گھس گیا جہاں پچار سو مسلمان جمع ہو چکے تھے.فوجی سپاہیوں نے جتنی بیش تحمیت اشتہار کا مطالبہ کیا وہ انہیں دے دی گئیں.اس کے بعد مسلمان تین ٹولیوں میں تقسیم کئے گئے جو عورتوں ، بوڑھے آدمیوں اور نوجوان مردوں پرمشتمل تھیں.نوجوان مردوں کو سامنے آنے پر مجبور کیا گیا اور ملڑی نے ان پر گولیاں چلائیں.۲۵ ستمبر کو سر ظفر اللہ خاں کی کوٹھی بیت الظفر
۲۵۴ کی باری آگئی جس میں موضع ننگل کے مسلمان پناہ گیر جمع تھے.ہندو فوجیوں نے اس کو بھی کی تلاشی لی اور پناہ گیروں سے ان کے زیورات اور نقدی چھین لی.دیہاتی رقبوں سے مسلمان لڑکیاں تعلیم الاسلام کالج کے نزدیک اور دوسرے مقامات پر کھلی جگہ جمع ہوگئی تھیں.رات کے وقت ان میں سے متعدد لڑکیوں کو ہندو نوجی اُٹھا لے گئے.بعض تو عصمت دری کے بعد والدین کو دے دی گئیں اور بعض ہمیشہ کے لئے مغائب ہو گئیں.۲۰ ستمبر کو لیفٹینٹ کرنل گور بیچن سنگھ نے قادیان کے مسلمانوں کو بتایا کہ مغربی پنجاب کے غیر مسلم پناہ گیر حکومت سے مطالب کر رہے ہیں کہ انہیں مشرقی پنجاب میں آباد کیا جائے اس لئے مقامی مسلمانوں کو عنقریب یہاں سے نکال دینا پڑے گا تا کہ غیر مسلموں کے لئے جگہ نکالی جا سکے.۲ اور ۳ اکتوبر کی درمیانی شکور ہے کوئی دو ہزار سکھوں نے موضع بھینی پر حملہ کیا مسلمان دوسرے دن صبح کو یہاں سے رخصت ہو گئے.سکھ اور ہندو فوجیوں نے ان کے گاؤں کو لوٹ لیا اور گاؤں کے مسلمان ذیلدار کی لڑکیوں کو سیکھ اٹھا کر لے گئے.در اکتوبر کو 9 بجے صبح کرفیو کے دوران میں سکھوں نے قادیان بچہ دھاوا بول دیا اور کے نت و العفو و ارا رحمت اور دار الیسر پر حملہ کیا سیکھوں نے فوجیوں کی امداد سے ایک اور حملہ بھی کیا مسلمانوں کو حیراً ان کے گھروں سے نکالا اور کوئی پچاس افراد کو ہلاک کر دیا.ایک فوجی کنوائے جس کے کمانڈر میجر داؤد تھے قادیان بھیجا گیا تا کہ مقامی مسلمانوں کو نکال لائے قادیان کے بہندو فوجیوں نے اس کا نوائے کو پریشان کیا مسلمان محافظ دستے کی گولی بارود کی پڑتال کی اور پھر ساڑھے چار گھنٹے تک کانوائے کو روکے رکھا.سکھ اپنی ہم مذہب پولیس کے اغماض سے فائدہ اُٹھا کر پناہ گیروں کی پیش قیمت چیزیں ٹوٹ رہے تھے جو لوگ اپنے مال کی تلاشی یا چھین جھپٹ پر مزاحمت کرتے تھے وہ گولی کا نشانہ بنا دیئے بھاتے تھے.یہ اطلاع کیپٹن بہاگ سنگھ (۳) پنجاب رجمنٹ) کو جواب ہے پیرا رجمنٹ میں ہے پہنچائی گئی اور اس نے اس کے تدارک کا وعدہ بھی کیا.لیکن مسلمانوں کے گھر برابر ٹوٹے بھاتے رہے.در اصل ملٹری اور پولیس خود مسلمانوں کو ٹوٹتی تھی اور سکھ لٹیروں کی مدد بھی کرتی تھی.بخان بہادر عبدالحسین ریٹائرڈ سب انسپکٹر
۲۵۵ مدارس کا مکان بالکل تاخت و تاراج کر دیا گیا.اگرچہ کیپٹن بہاگ سنگھ نے وعدہ کیا تھا کہ کا نوائے کی تلاشی نہیں کی جائے گی لیکن اس کے باوجود اس کا نوائے کو جس میں چھ لاریاں تھیں روک لیا گیا اور مردوزن سب کی تلاشی لی گئی.ہندو جمعدار نے دو سو روپے کا مطالبہ کیا جو ادا کر دیئے گئے نے کتاب کار روان سخت جان اداره رابطه قرآن ( دفاتر محاسبات دفاع پاکستان) نے جان مارد گار روان سخت جان " کے نام سے ایک کتاب شائع کی " میں فسادات قادیان کا تذکرہ جس میں فسادات کا اثر قادیان پر“ کے عنوان سے لکھا:.ضلع گورداسپور کی سب سے بڑی تحصیل بٹالہ ہے جس کی آبادی ضلع کی دوسری تمام تحصیلوں کے برابر ہے.یہاں کی مسلم آبادی کا تناسب ۵۵ فیصد کا تھا.اس تحصیل کے صدر مقام یعنی بٹالہ کو چھوڑ کر دوسرے نمبر پر قادیان ایک بڑا قصبہ ہے جہاں کی آبادی ۱ ہزار نفوس پرمشتمل تھی.یہ مقام علاوہ اپنی صنعتی اور تجارتی شہرت کے جماعت احمدیہ کا مرکز ہونے کی وجہ سے مشہور ہے.اس کے گرد و نواح میں تمام تر سکھوں کی آبادی ہے.چنانچھ فسادات کے ایام میں تمہیں بھیس میں دور کے مسلمان بھی قادیان شریف میں پناہ لینے کے لئے آگئے.یہ تعداد بڑھتے بڑھتے ، ہزار نفوس تک پہنچ گئی.چونکہ ان پناہ گزینوں کو ظالم اور سفاک سکھوں نے بالکل مفلس اور تلاش کر دیا تھا لہذا قادیان کے باشندگان نے ان بیچاروں کی کفالت کا بیڑا اُٹھایا.ظاہر ہے اتنی بڑی جمعیت کے لئے خوراک اور رہائش کا بال اُٹھانا کوئی معمولی کام نہیں ہے اور خصوصاً ایسے ایام میں جبکہ ضروریات زندگی کی اتنی گرانی ہو چنا نچہ یہ ناخواندہ مہمان قادیان کی کفالت میں اس وقت تک رہے جب تک حکومت نے عملاً ان کو ایسا کرنے سے روک نہ دیا.یہ سلسلہ تقریباً ڈیڑھ ماہ تک جاری رہا.قادیان سے واقف اصحاب اس کی صفائی اور نفاست تعمیر سے کما حقہ آگاہ ہوں گے لیکن پناہ گزینوں کی کثرت سے یوں معلوم ہوتا تھا جیسے میدان حشر ہے.جس وقت سکھ بد معاشوں نے ایک ایک کر کے تمام نواحی گاؤں مسلمانوں سے خالی کرائے تو اب انہوں نے قادیان کی طرف بھی رجوع ے کتاب سکھ میدان کارزار میں صفحہ ۳۱-۳۲ ۰
۲۵۶ کیا.فسادات سے چند ماہ پیشتر قادیان کے چاروں طرف ایک فصیل بنادی گئی تھی اور ہر طرف - مناسب جگھوں پر حفاظتی چوکیاں قائم کر دی گئی تھیں چنانچہ بعض جو کیوں پر بد معاش سکھوں سے مقابلہ ہی اجن میں انہوں نے منہ کی کھائی.چونکہ اس ہندوستان گیر سازش میں حکومت وقت بھی شامل تھی اس لئے نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ سکھ آہستہ آہستہ تمام اطراف سے بڑھتے گئے اور قادیان والے اب شہر کی چار دیواری سے باہر نہ نکل سکتے تھے.یہ دباؤ دن بدن بڑھتا ہی گیا.چنانچہ مقامی حکومت نے اپنے مقاصد میں کامیابی کے لئے یہ طریقہ اختیار کیا کہ شام پڑھ بجے سے کرفیو لگا دیا جاتا تھا اور غیر مسلموں کو کھلی چھٹی دے رکھی تھی کہ جہاں چاہیں پھر یوں اور کسی مسلمان کو دیکھ پائیں تو موت کے گھاٹ اتار دیں.کوفیہ کے اوقات میں مسلمانوں کے املاک کو ٹوٹا گیا اور شہریوں کو بلا وجیہ کرفیو کی خلاف ورزی کی پاداش میں طرح طرح کی سزائیں دی گئیں.مقامی پولیس کے ایک سکھ اسسٹنٹ سب انسپکٹر کو تمام اختیارات سونپ دیئے گئے چنانچہ اب کرفیو کا لگانا اور کسی مسلمان کو پکڑ بلا نا اس کی مرضی پر موقوف ہو گیا.یہ اعلان بذریعہ منادی کرا دیا گیا کہ مقامی لوگ اپنا اپنا لائسنس یافتہ اسلحہ پولیس اسٹیشن میں جمع کرا دیں ورستر ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے گی.علاوہ ازیں مہاجرین کو بھوکا مارنے کے لئے اعلان کر دیا کہ ہر ایک مقامی شخص صرف ایک من غلہ اپنے پاس رکھ سکتا ہے.اس مقدار سے فاضل غلہ گورنمنٹ کے پاس جمع کر دینا چاہیئے.چنانچہ اس حکم کی خلاف ورزی کے سلسلہ میں بہت سے شہریوں کو ظلم وستم کا نشانہ بنایا گیا.ان مظالم کے با وجود قادیان والے اپنی جگہ پر ڈٹے ہوئے تھے حکومت چاہتی تھی کہ یہ لوگ اپنی بستیوں کو خالی کر دیں.اس لئے مقامی پولیس اور ملٹری نے یہ چال چلی کہ بہت سے دیہاتی سکھوں کو جعلی طور پر پولیس اور ملٹری أقول کا لباس پہنا دیا گیا اور تمام شہر میں ان لوگوں نے خانہ بخانہ جا کہ مویشیوں کو کھول لیا.اس بہانہ ان کو بھگا کر لے گئے کہ قادیان میں پارہ کی کمی ہے.چنانچہ ایک دن میں لاکھوں روپے کے مویشی لوٹ لئے گئے.علاوہ ازیں الیکٹرک کو عمداً فیل کر کے اندھیرے میں لوگوں کے گھروں کو ٹوٹا گیا.لیکن
۲۵۷ اس پر بھی لوگوں نے کوئی گھبراہٹ محسوس نہ کی اور اپنے " مرکز " کو چھوڑنے پر رضامند نہ ہوئے تو مقامی پولیس نے دیہاتی سکھوں میں اسلحہ تقسیم کیا اور ان کو مجبور کیا کہ قادیان پر جا کر چاروں طرف سے حملہ کرو ورنہ تم کو مار دیا جائے گا.یہ لوگ چار و ناچار حملہ آور ہوئے ان میں بہت سے آدمی فوجی تربیت یافتہ بھی تھے جن کو سفید کپڑوں میں منیوس رکھا گیا تھا.یہ ہی اس تجھہ کی قیادت کر رہے تھے.قادیان کی جنوبی سمیت سے ان لوگوں نے حملہ کر دیا.دیہات کے لوگ چونکہ اس قسم کے حملہ سے واقف نہ تھے.اس لئے انہوں نے خوفزدہ ہو کہ ادھر اُدھر بکھرنا شروع کر دیا.جو نوجوان با قاعدہ مقابلے کے لئے نکلے انہوں نے پورے آلات حرب سے ان کا مقابلہ کیا.لیکن حکومت کا مقابلہ کوئی آسان کام نہیں اس لئے جب حکومت کے کارندے درمیان میں آگئے اور ہمارے مسلمان بھائیوں کو مجبور کر دیا کہ دو خود حفاظتی تدابیر سے دست کشی کر لیں تو مجبوراً تاب مقابلہ کے با وجو ہاتھ روکنا پڑا جب جوابی کارروائی رُک گئی تو شیطانوں کے لشکر آبادی میں گھس آئے.انہوں نے کوشش کی کہ ہماری خواتین پر دست درازی کریں.ہم نے خواتین بچوں اور ضعیفوں کو مقامی تعلیم الاسلام کالج کے بورڈنگ ہاوس میں لا کر جمع کر دیا اور باہر خود پہرہ دیتے رہے کثیر تعداد جمع ہو بھانے کے باعث بورڈنگ جو ایک وسیع جگہ تھی تنگ ہو رہی تھی سب سے بڑی مصیبت یہ تھی کہ راشن لوگوں کے پاس نہیں رہا تھا.اگر کسی کے پاس گندم تھی تو وہ کچی تو نہ چبائی جا سکتی تھی چنانچہ قہر دروایش بر جان درویش بورڈنگ ہاؤس کے فرنیچر کو جیل ملا کر گندم کو ابال اُبال کر گزارہ کیا گیا.چونکہ ابھی تک محصورین کو پاکستان بھجوانے کا انتظام نہ ہو سکا تھا.اس لئے مصیبت دس بارہ روز تک کھیلنا پڑی.اس دوران میں حکومت کا آرڈر ہوا کہ جو لوگ پاکستان بھانا چاہیں وہ تیار رہیں.اس حکم میں جو چیز در پر وہ تھی وہ سمجھدار لوگوں سے پوشیدہ نہ تھی لیکن مضافات کے پناہ گیر مسلمان اس فریب میں آگئے اور تمہیں پینتیس ہزار افراد پرمشتمل ایک قافلہ ہندوستانی ملٹری کی حفاظت میں چیل کھڑا ہوا.پانچ کچھ میل ادھر تک یہ ملٹری اس قافلہ کے ساتھ گئی لیکن بعد میں انہوں نے قافلہ سے کہہ دیا کہ اب تم خود ہی بھائی.چنانچہ قافلہ بے یار مدد گارہ آگے بڑھا لیکن آگے خونخوار بھیڑیئے گھات میں
۲۵۸ بیٹھے ہوئے تھے چنانچہ قافلہ والوں سے کہا گیا کہ جو کچھ سامان ان کے پاس ہے وہ زمین پر رکھ دیا جائے.اس کے بعد نوجوان عورتوں کو بھگا لے بھایا گیا.معمر عورتوں اور مردوں کو قتل کیا گیا.اس کے بعد جو مصیبت زدہ بچ گئے ان کو پاکستان کی طرف دھکیل دیا گیا ہے بر صغیر پاک و ہند کے مشہور و نامور ادیب خاک و خون میں حالات قادیان کا مختصر ذکر " ناول نویس جناب نسیم حجازی نے اپنی کتاب خاک و خون کے صفحہ ۵۸۲-۵۸۳ پی کو الف قادیان پر ایک سرسری نظر ڈالتے ہوئے تحریرہ کیا کہ بٹالہ ضلع گورداسپور کا سب سے بڑا شہر تھا.ضلع کے حکام اور بلوائیوں کو خطرہ تھا کہ یہ شہر کہیں آس پاس کی بستیوں کے مسلمانوں کا دفاعی مورچہ نہ بن جائے.چنانچہ باؤنڈری کمیشن کے اعلان کے ساتھ ہی پولیس نے شہر کو مسلمانوں سے خالی کروانے کی مہم شروع کر دی تھی.قرب و جوار کے دیہات کے مسلمان شہر کا رخ کر رہے تھے اور شہر کے مسلمان سنگینوں کے پہرے میں اپنا گھر بار خالی کر کے کیمپوں میں پناہ لے رہے تھے.اس کے بعد کچھ لوگوں کو مسلمان سپاہی فوجی لڑکوں اور لاریوں میں بٹھا کہ امرتسر کے راستے لاہور کی طرف لے گئے اور باقی ہزاروں کی تعداد میں ڈیرہ بابا نانک کا راستہ اختیار کرنے لگے.اس کے بعد قادیان حکومت ، فوج اور بلوائیوں کی توجہ کا مرکز بنا.احمدیہ جماعت کے لیڈروں کو ہندوستان کی حکومت یہ اطمینان دل چکی تھی کہ انہیں کوئی خطرہ نہیں.بٹالہ کی صورت حال سے پریشان ہو کہ قادیان کے اردگرد کچھ سات میں کے دائرے میں مسلم آبادی اپنے گھر بار خالی کر کے وہاں جمع ہو گئی.اس کے بعد آگ کا دائرہ قادیان کے گرد تنگ ہونے لگا اور اس اس قسم کی خبریں آنے لگیں.آج احمدیہ جماعت کا وفد ہندوستان کے فلاں لیڈر سے ملا ہے اور انہوں نے یقین دلایا ہے کہ قادیان کی حفاظت کی جائے گی " " آج قادیان کے مضافات پر حملے ہوئے ، اتنے مارے گئے ، اتنی عورتیں اغوا کر لی گئیں.مہندوستان کے فلاں وزیمہ نے بیان دیا ہے کہ قادیان کو کوئی خطرہ نہیں" آج قادیان میں کرفیو آرڈر لگا دیا گیا ہے " " قادیان کے مسلمانوں کی تلاشیاں لی به له کاروان سخت باک به نام شهر اداره رابطه قرآنی دفاتر محاسبات دفاع پاکستان راولپنڈی مارچ اردو
جا رہی ہیں." ۲۵۹ قادیان کے فلاں فلاں محلوں پر حملے ہوئے ہیں“ قادیان کی خبروں کا بلیک آؤٹ " احمد یہ بات کے دو خانگی ہوائی جہازوں کو لاہور اور قادیان کے درمیان پرواز کرنے سے منع کر دیا گیا“ " قادیان کے لوگوں کو زبردستی شہر سے نکالا جا رہا ہے.آج پھالیس ہزار آدمیوں کا قافلہ پاکستان کی طرف روانہ ہو گیا " قادیان اور بٹالہ کے درمیان قافلہ پر سکھوں کے حملے “ قادیان میں بہت تھوڑے آدمی رہ گئے ہیں“ پولیس اور ضلع کے حکام لوٹ مار میں حصہ لے رہے ہیں" "ہندوستان کے فلان لیڈر اور فلاں وزیر نے بیان دیا ہے کہ قادیان میں بالکل اسی ہے بھارت کے مسلمان اخبارات " نوجوان " (مدراس) اور "حقیقت" بھارت کے اخبارات معنوی اور یہ بھی قاریان کی نسبت اطلاعات شائع کیں." اخبار تو جوان چنانی اخبار نوجوان نے لکھا.قادیان میں قتل و غارت خلیفہ قادیان کا مکان اور ظفر اللہ خان کی کوٹھی ٹوٹ گئی افسوس ہے قادیان کے حالات دن بدن زیادہ ابتر ہوتے جارہے ہیں.تازہ اطلاعات سے یہ معلوم کرنا حد درجہ افسوسناک ہے کہ جناب میاں محمود احمد صاحب خلیفہ قادیان کا مکان بیت الحمد اور چودھری ظفر اللہ خاں صاحب کی کو بھی لوٹ لی گئی.محلہ دارا لرحمت اور داران توار میں قتل و غارت کا بازار گرم کیا گیا جس میں کہا جاتا ہے ڈیڑھ دو سو آدمی شہید ہوئے مسجد میں گرد و نواح کے ہندو مکانات سے بم پھینکے گئے جس سے ۲ آدمی شہید ہوئے.اس کے علاوہ ایک فوجی کنوائے پر جو قادیان سے پناہ گزینوں کو پاکستان لا رہا تھا.بٹالہ میں حملہ کیا له " خاک و نون" (بار هفتم صفحه ۵۸۲-۵۸۳ :
P4- گیا اور گولیوں کی بارش کی گئی جس سے کئی آدمی شہید ہو گئے.کیا یہ حالات اس قابل نہیں کہ اُن کے خلاف شدید نفرت کا اظہار کیا جائے، مسٹر لیاقت علی کا درس امن اپنی جگہ پر بے شک قابل قدر اور لائق توجہ ہے لیکن مشرقی پنجاب کے ان مظالم کے سدباب کے لئے بھی تو کوئی کا موثر تدابیر عمل میں آنی چاہئیں زب.ص “ لے اخبار حقیقت" لکھنو اخبار حقیقت دیکھنوں نے اپنی ہر نومبر ککڑ کی اشاعت میں لکھا :- " قادیان نرغہ اعداء میں جماعت احمدیہ کے مرکز قادیان سے جو مصدقہ اطلاعات آرہی ہیں.ان سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت ہند کو ان مظالم سے بے خبر رکھا گیا ہے ہو وہاں کے باشندوں پر پچھلے چند ہفتوں کے اندر کئے گئے ہیں اور آج بھی وہاں سکھ پوری طرح مسلط ہے.خاص قادیان اور گردو نواح کے مسلمان ہزارہا کی تعداد میں بھاگ گئے ہیں.احمدی جماعت ہمیشہ حکومت کی وفادار رہی ہے اور جماعت کے امام کی طرف سے آج بھی بار بارہ اس بات کا اعلان کیا جا رہا ہے کہ جس طرح وہ انگریزی حکومت کی وفادار تھی.اسی طرح وہ ہندوستانی یونین کی بھی وفادا رہے گی.لیکن ان اعلانات کے باوجود قادیان پر سکھوں کا تسلط روز بروز سخت ہوتا جاتا ہے.حکومت ہند اور مشرقی پنجاب کی حکومت کے ذمہ داروں نے بار بارہ وعدے کئے کہ وہ قادیان کے حالات کی جلد اصلاح کر دیں گے لیکن آجتک کوئی نتیجہ بر آمد نہیں ہوا.ہمارے خیال میں کسی جماعت کو زبر دستی اس کے وطن سے نکالنا کوئی انصاف کی بات نہیں.مشرقی پنجاب کی حکومت کے اس طرز عمل کو کوئی مہذب انسان پسندیدہ نہیں کہہ سکتا.حکومت ہند کے لئے یہ مناسب نہیں ہوگا کہ وہ سکھوں سے مرعوب ہو کہ ایک ایسی زمہ دستی اور نا انصافی کو روا رکھے جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی" برما کے اخبارات برما کے اخبارات میں سے ایک اخبار" پیغام" تھا جو رنگوں سے الیں.ایم علی افسر کے زیر ادارت چھپتا تھا.اس اخبار نے اپنی ۲ نومبر ہ کی احساسات میں " قادیان کے مسلمانوں کے حالات " " ہندوستان یونین کے مظالم کے خونچکاں واقعات " " سر ما - اخبار نیوان بدر اس ۳۰ اکتوبر اندر صله ؟
ظفر اللہ خان کی کوٹھی بھی ٹوٹ لی گئی “ کی تین سرخیوں کے ساتھ تین کالم کا ایک مبسوط مضمون شائع کیا جو دراصل حضرت سیدہ نا خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود کے قادیان سے متعلق مضامین کا بہترین خلاصہ تھا اور وہ بھی قریباً حضور ہی کے الفاظ میں ! ایرانی جرائد میں سے اخبار دنیائے اسلام “ اور روزنامہ " نحبات" ایران کے اخبارات طہران) نے حسب ذیل نوٹ شائع کئے :- اخبار دنیائے اسلام اظہار " دُنیائے اسلام نے لکھا :.ظلم و ستم مهند و با وسیکھا ہندو ہائے ہندوستان که بت پرست و الشد ترین دشمنان اسلام می باشند راجع بسان انا اظهار داشتند که ما با منیت و تحفظ آنها به سہندوستان خواهیم پرداخت ولے صد افسوس از دل می خواهند مسلمانان بی نوایان را از میان برداشته به هندوستان حکومت کنند ہزار ہا مسلمان را نه تیغ کردند و هنوز مشغول اغتشاشات و در صدد از بین بردن آنها هستند برائے توزیع و تقسیم پنجاب سیکھا را بر انگیختند و از ایالت های بسیاری از آن بهندوستان داخل نمودند و پس از آن در تعیین حدو د بواسطه پول و بے انصافی قسمتہائے دیگری از پنجاب بردند و بایں طور به مسلمانان بجالندھر، ہوشیار پور، فیروز پور و گورداسپور ظلم و ستم نموده و پس از آن سیکھا بحمایت ہندو ہا باستیصال مسلمانان قدم برداشتند و هزار با دولت کدها را ویران و مسلمانان را بقتل رسانیدند و در این اغتشاشات دست جواهر لال نهرو و گاندهی بیشتر تمام کار میکند زیرا ما بینیم که از یک ماه سیکها بعد از آنکه در ایالت جالندھر و ہوشیار پور و فیروز پور کارشان را تمام کردند رو به گورداسپور گذاشته هزاران نفر را از بین بردند و از یک ماه بقادیان محاصره کردند و تا هنوز ادامه دارد.ریل گاری (ترین) تلگراف پست مهمه منقطع است.بجواهر لال نہرو از طرف بی اعتہائے احمدیہ تلگرافات بے اندازہ و عرائض بیشمار از ہندوستان و نقاط دیگرے ارسال داده شد و لے بقرابه اینکه جواهر لال نهر و می خواهد مسلمانان را به باد کند مثل خواب خرگوش میخوابد وظیفه خود را با اجرائے ریل گاری (ترین) و تلگراف و پست کہ بعہدہ اوست انجام نمی دہلہ آیا برائے آشوب گران قشون و اسلحه نمی دارد که محاصره این قدر
یک ماه طول کشیده است چرا وظیفه خود را انجام نمی دهد و ریل و تلگران و پست را جاری نمی کنند.آیا برائے ہمیں منظور نیست که میخواهد مسلمان را تباه کند.ای کاش مسلمانان دیگر ہے به برادران خودشان چه به تحریم چه به تقریه و چه به کردار هر طور که باشد کمک رسانند و عند اله ما جور شوند صدر الدین هندی " (روز نامہ دنیائے اسلام “ طهران صفحہ ۳ کالم ۲ نمبر ۴۵ مطابق ۱ ذیقعده الحرام ۱۳۶۶) ر (ترجمه) مهر ماه ۱۳۴۶ مسلمانان ہند پر ہندوؤں اور سکھوں کا ظلم وستم ایرانی اخبار دنیائے اسلام " اپنے ۲۷ ستمبر کر کے پرچہ میں رقمطراز ہے :- مہندوستان کے ہندو جو کہ ثبت پرست اور اسلام کے شدید ترین دشمن ہیں مسلمانوں سے بارہا یہ وعدہ کرتے رہتے ہیں کہ وہ ہندوستان میں مسلمانوں کے تحفظ و سلامتی کے ذمہ دار ہوں گے مگر صد افسوس! کہ وہ دل سے اس بات کے متمنی ہیں کہ ہندوستان سے مسلمانوں کا صفایا کر کے خود حکومت کریں.یہ لوگ ہزار ہا مسلمانوں کو تہ تیغ کو پچکے ہیں اور ابھی تک ان کے قتل و غارت میں مشغول اور ان کی بربادی کے درپے ہیں.انہوں نے تقسیم پنجاب کے لئے سکھوں کو برانگیختہ کر کے پنجاب کے بہت سے اضلاع کو ہندوستان میں شامل کرا لیا ہے.پھر تعیین حدود کے صریح غیر منصفانہ فیصلہ کے ذریعہ کئی اور علاقے بھی حاصل کر لئے.اس ستم کے بعد سکھوں نے ہندوؤں کی زیر حمایت اضلاع جالندھر، ہوشیار پورا فروز یک اور گورداسپور میں مسلمانوں کا استیصال شروع کر دیا.ہزار ہا بستیوں کو ویران اور مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا.اس قتل و غارت کی تمام تر ذمہ داری جواہر لال نہرو اور گاندھی پر ہے کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اضلاع بجالندھر، ہوشیار پور اور امرتسر کے مسلمانوں کا خاتمہ کرنے کے بعد سکھوں نے ضلع گورداسپور میں ہزار ہا نفوس کو موت کے گھاٹ اتار دیا.اور ایک ماہ سے قادیان کا محاصرہ کئے ہوئے ہیں جو ابھی تک بدستور قائم ہے.ریل گاڑی ، تار، ڈاک اور دیگر وسائل منقطع ہو چکے ہیں.جواہر لعل نہرو کو ہندوستان اور دیگر ممالک کی جماعت ہائے احمدیہ کی طرف سے بے شمار تاریں اور درخواستیں بھیجی گئیں لیکن چونکہ جو اس سال
نہرو مسلمانوں کو برباد کرنا چاہتا ہے اس لئے خواب خرگوش میں سو رہا ہے اور ریل گاڑی ہمار اور ڈاک وغیرہ ذرائع رسل و رسائل کو جاری نہ کر کے اپنے فرض منصبی کو سرانجام دینے میں بھی کوتا ہی کو رہا ہے.کیا فسادیوں کو دبانے کے لئے اس کے پاس اسلحہ اور طاقت نہیں کہ یہ صورت حال اتنا طول پکڑ گئی ہے.اس کا باعث اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ وہ مسلمانو کی تباہی کا خواہشمند ہے.دیگر ممالک کے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ تحریر و تقریر اور عمل غرضکہ ہر ممکن طریق سے اپنے بھائیوں کو امداد پہنچا کر عنداللہ ماجور ہوں.اخبار " تخبات اختبار " نجات “ نے لکھا :- آخرین اخبار پاکستان یر حسب اطلاعیکه از لاہور پاکستان رسیده بند وہا ویکھا بشہرستان ہائے دہلی ، امرتسرا جالندھر، ہویا پد، گورداسپور ، قادیان حمله نموده - چهار هزار نفوس کشته شده و از بین برده اند و تقریباً پینچ ملیون از نفوس مسلمانان در نهایت عسرت و بد بختی به قسمت پائے غربی پاکستان مهاجرت نموده اند در منطقه قادیان قریب پنجاه هزار نفر در محاصره سیکها استند و هر روز کشتار می دهند بموجب شہر سے که از قادیان و اصل گردید با نصد نفر از جوانان زیده شهید شده اند دولت ہندوستان بوسیلہ شہر بانی با سیکھا ہم کاری نزدیک نموده و در این قتل و خونریزی پر مسلماناں اقدامات شدید می نماید " (ترجمه) روزنامه نجات طهران خاص نمبر به از آبان ماه ۱۳۲۶ صفحه ۱ کالم ۱۲ ) پاکستان کی آخری خبریں اس اطلاع کے مطابق ہوں ہور پاکستان سے پہنچی ہے.ہندوؤں اور سکھوں نے دہلی، امرتسر، جالندھر، ہوشیا پور، گورداسپور اور قادیان کے علاقوں پر حملہ کر کے چار لاکھ سلائو کو قتل و غارت کیا ہے اور تقریباً پچاس لاکھ مسلمانوں نے نہایت تنگی اور بد بختی کے ساتھ پاکستان کے مغربی حصہ کی طرف ہجرت کی ہے.
۲۶۴ قادیان کے حصے میں تقریباً پچاس ہزار آدمی سکھوں کے محاصرہ میں ہیں اور ہر روز قتل کے بازار گرم ہوتا ہے.اس خبر کے مطابق جو قادیان سے پہنچی ہے تقریباً پانچ سو جوان شہید و گئے ہیں ہندوستان کی حکومت پولیس کے ذریعہ ان کی مدد کر رہی ہے اور مسلمانوں کے قتل اور خونریزی کے لئے صحت اقدامات کر رہی ہے.ارجنٹائن کے مشہور اور کثیر الاشاعت اخبار ( ELMUNDO) نے ارجنٹائن کے اخبارات بھی قادیان کے متعلق نمایاں جگہ میں مندرجہ ذیل واضح نوٹ شائع کیا.ایک علمی اور مرکزی شہر کی حفاظت اطلاع گذشتہ رات مولوی رمضان علی صاحب ہمارے ادارہ تحریرہ میں ملاقات کے لئے آئے.آپ ہندوستان کے صوبہ پنجاب کے قادیان شہر کی جماعت احمدیہ کی طرف سے اس ملک میں ڈیلی گیٹ مبلغ ہیں اور آپ نے ہمیں یہ بتایا کہ مذکورہ شہر آخری فسادات کے سبب کس قدر مشکل اور خطرناک حالت میں ہے.قادیان کے متعلق یہ ذکر کرتے ہوئے کہ یہ شہر یک گونہ یونیورسٹی والا شہر ہے.جہاں کئی ایک کالج اور ہائی اور پرائمری سکول ہیں.مولوی صاحب موصوف نے ہمیں بتایا کہ اس شہر کے ہیں ہزار باشندے سخت خطرہ میں زندگی بسر کر رہے ہیں.یہ لوگ امن پسند اور نہتے ہیں اور انہیں مسلح جتھوں نے کامل طور پر گھیرا ہوا ہے اور یہ جھتے اس شہر کو جلا دینا چاہتے ہیں اور ان خطرات کا علم انہیں اُن تاروں سے ہوا ہے جو انہیں گذشتہ ایام میں ملے ہیں.مولوی صاحب چاہتے ہیں کہ ان بہت سے افراد کے نام پر جو اس شہر کے دوست ہیں جن میں سے کئی ایک اجنٹائن قومیت کے ہیں یا جو ارجنٹائن تو نہیں لیکن ان کے بچے یہاں پیدا شدہ ہیں ایک ہمدردانہ تحریک کی جائے اور سہندوستانی حکومت سے اس قدیم علمی شہر اور اس میں بسنے والے باشندوں کی حفاظت کی درخواست کی بجائے مولوی صاحب نے ہمیں بتایا کہ وہ مند رعد بالا حکومت کے لئے ارجنٹائن کی حکومت سے اخلاقی اور معنوی مرد حاصل کرنے کی کوشش کریں گئے" (ترجمہ) بجواله الفضل مارالفاء / اکتوبر ۱۳۳۶ هشد 14NZ
۲۶۵ ارجنٹائن (جنوبی امریکہ) کے مشہور اخبار " السلام نے اپنی ۲۲ ستمبر کلمہ کی اشاعت میں قادیان" کے عنوان سے ایک نوٹ شائع کیا جس میں لکھا کہ لنڈن کے تاروں سے معلوم ہوا ہے کہ قادیان جو ہندوستان کا ایک مشہور دار العلوم اور محجبات احمدیہ کا مرکز ہے اسے سکھوں کی ایک زبر دست جمعیت نے پولیس اور ملٹری کے بل بوتے پر چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے اور اسے تباہ و برباد کرنا چاہتے ہیں.یہ بھی کوشش ہو رہی ہے که از جنٹائن کی حکومت اس امر میں مداخلت کر کے ہندوستان کی حکومت سے قادیان کی نظافت کا مطالبہ کرے.اور اسے اہلِ قادیان کے ساتھ شریف شہریوں کا سا سلوک کرنے کی تحریک کرے اخبار مذکور نے مزید لکھا ہے کہ قادیان کے متعلق جب کہ ہمیں علم ہے وہاں کئی ایک کالج ، ہائی سکول اور ابتدائی مدارس ہیں اور سیاست احمدیہ کا مرکز ہونے کی وجہ سے قادیان تمام دنیا میں مشہور ہے (ترجمہ) برطانوی پریس میں بھی قاریان کے لرزہ خیز واقعات کی بازگشت سنائی دی برطانوی اخبارات گئی اور ملک کے چوٹی کے اخبارات مثل ” ساوتھ ویسٹرن سٹان" WESTERN STAR) SOUTH ) ، ڈیلی پریزر " DAILY PRESER) برسٹل ایوننگ پوسٹ BRISTOL EVENING POST ) ڈیلی گریفک" (DAILY GRAPHIC) (THE DAILY TELEGRAPH AND MORNINGPOST) " دی ڈیلی ٹیلیگراف اینڈمارننگ ٹوسٹ اور ڈیلی ایکسپرس ( DAILY EXPRESS ) نے قادیان سے متعلق مسٹر بشیر آرچرڈ کے بیانات نمایاں سرخیوں کے ساتھ شائع کئے.و غیره لے بحوالہ " الفضل" ، اسفاد / اکتوبر ۳۳ ام مش صفحه ۴ 4 +
۲۶۶ فصل مفتیم جیسا کہ اس باب کے آغاز میں ذکر آچکا ہے پاکستان میں قیام امن کیلئے بے لوث خدمات سر حضرت مصلح موعود نے پاکستان میں قدم رنجہ فرماتے ہیں احمدیوں کو تاکید فرما دی تھی کہ وہ ہندوؤں اور سکھوں میں سے کسی پر ظلم نہ ہونے دیں کیونکہ وہ بھی خدا کے بندے ہیں اور وہ خود یا اُن کی تسلی کسی دن اسلام میں داخل ہو کہ اس کی ترقی کا موجب نہیں گئے.صوبیدار نصر اللہ صاحب آن شیخ پور ضلع گجرات کا بیان ہے کہ یمیں شروع اگست (انہ میں اپنے گاؤں شیخ پور سے قادیان بجانے کے لئے لاہور آیا.لیکن چونکہ میری رخصت بہت تھوڑی رہ گئی تھی اس واسطے کارکنوں نے مجھے واپس کر دیا.واپسی سے پہلے ہمارے آقا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو دھا مل بلڈنگ میں چھوٹا سا لیکچر دیا.اس میں یہ بات بھی تھی کہ تم لوگ اب واپس اپنے اپنے گھروں میں جاؤ.اپنے علاقہ کے ہندو اور سکھوں کی ہر ممکن طریقے سے حفاظت اور امداد کرو.اگر تم ان کی حفاظت کرتے ہوئے مارے بھی گئے تو یہ شہادت ہوگی.اگر کوئی جنتہ ہندوؤں یا کھوں کا ہندوستان جاتا ہو ا تمہارے پاس سے گزرے تو تم ان کو اگر کھانا وغیرہ کھلا سکو تو ضرور کھلاؤ " جماعت احمدیہ نے امیرالمومنین کے اس حکم کا نہایت شاندار عملی جواب دیا.اور خدا کے فضل و کرم سے اپنی بے سروسامانی اور دہشت انگیز ماحول کے باوجود ہزاروں بندگان خدا کی جان، مال اور آبرو کی اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر حفاظت کی اور اس طرح " أَنْصُرُ أَخَاكَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُوما کے ارشاد نبوی کی تعمیل کر کے خدمت خلق کا بہترین نمونہ قائم کر دکھایا.اس ضمن میں بطور مثال بعض اہم واقعات کا بیان کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے.۲۱۹۴۷ " الفضل" در نبوت / نومبر له مش صفحه ۳ کالم ۳.لہ یعنی اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ مسلم کی خدمت میں ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ میں اپنے مظلوم بھائی کی مدد کا مطلب تو سمجھتا ہوں لیکن ظالم بھائی کی کس طرح مدد کروں.فرمایا.اسے ظلم سے روکو اور منع کرو کہ یہی اس کی مدد ہے (بخاری کتاب الاکراه مصری حیدر صفر
۲۶۷ پہلا واقعہ صوبیدار نصر اللہ صاحب ہی کا ہے.آپ لکھتے ہیں کہ پہلا واقعہ در حضور کی یہ تقریر سننے کے بعد ہم لوگ دوسرے یا تیسرے روز واپس آگئے.صاف صاف اور کھلے بندوں ہم نے غیر مسلموں کی حفاظت شروع کر دی سکھوں کے متعلق زیادہ خطرہ تھا ان کی زیادہ حفاظت کرتے.بلکہ بعض دفعہ میں خود رات کو بندوق کے ساتھے اُن کا پہرہ دیتا.پھر پولیس والوں نے غیر مسلموں سے مال کھانے کی کوشش کی.ہم نے یہ کوششیں بے کار کر دیں حتی کہ پولیس کی ہمارے ساتھ عداوت بھی ہو گئی.لیکن ہم نے صاحت طور پر ان لوگوں سے کہہ دیا کہ کچھ بھی ہو ہم نہ اُن کا مال ضائع ہونے دیں گے اور نہ ہی ان کو کسی قسم کی تکلیف ہونے دیں گے.پہلے ہم ان پر جانیں دیں گے پھر اُن کے نزدیک کوئی آئے گا.آخر ایک دن پولیس ہمارے گاؤں میں غیر مسلموں کو لینے کے لئے آئی.عورتیں بھاگ کو کوئی تمہیں کے قریب میرے مکان میں آگئیں.رات اور دن بھر میرے گھر کے اندر رہیں ہم نے نہ مردو کی امد نہ عورتوں کو کسی قسم کی تکلیف ہونے دی.ان سب کو بحفاظت کیمپ میں پہنچا دیا گیا.سکھوں کو میں رات کے وقت خود بجا کہ حفاظت سے کیمپ میں چھوڑ آیا.اسی طرح ایک اور پارٹی کو میں خود لے کر کیمپ چھوڑ آیا.وہ سب اپنا سامان اونٹوں اور خچروں پر لدوا کر ساتھ لے گئے.دوسری پارٹی میں تقریباً پچاس کے قریب مرد اور عورتیں تھیں.پہلی پارٹی کے کیمپ میں جانے کے بعد میں ان کی امانتیں ہو کہ نقدی اور زیور کی صورت میں بھی تقریباً اٹھارہ ہزار روپیہ کا مال ہوگا جو کہ میرے پاس تھا.وہاں کے کیمپ کمانڈر کے پاس گیا اور اس کو کہا کہ میرے پاس میرے گاؤں کے غیر مسلموں کی امانتیں ہیں.آپ اپنا ایک افسر میرے ساتھ بھیجیں تاکہ میں سب کے سامنے ان کو تقسیم کروں.میجر صاحب جو کہ یونٹ کا ایڈجوٹنٹ تھا.اس نے اپنے صوبیدار میجر کو میرے ساتھ بھیجا.میں نے سینکڑوں آدمیوں کے سامنے ایک ایک کو بلوا کر ان کا زیور اور روپیہ تقسیم کیا..اس کے بعد جس جس چیز کی ان کو ضرورت تھی ان کے گھروں سے ان کو بھیجوا دی گئی.ان کا ضائع شدہ سینکڑوں روپیہ کا مال اور زیور برآمد کر کے بعد میں کیمپ میں بھا کر دیا.میری رخصت ۱۸ ستمبر (۱۹۹۷) تک تھی.لیکن گجرات ایریا کمانڈر نے اس
مضمون کی تار دے کر میرے واسطے بیس روز کی مزید رخصت لی کہ اگر یہ یہاں سے چلا گیا.تو سینکڑوں جانیں تباہ ہو جا دیں گی.ایک دفعہ تقریباً پچاس کے قریب ہندو عورتیں اور مرد لا رہا تھا.سامان ساتھ نیچروں اور اونٹوں پر لدا ہوا تھا.ایک گاؤں کے کچھ آدمیوں نے ہلہ بول دیا.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ان کے دل میں ڈر پیدا کر دیا اور وہ واپس بھاگ گئے.ایک گاؤں کے بہندووں کو جو کہ مسلمان ہو چکے تھے لیکن وہ وہاں رہنا نہیں چاہتے تھے.میں نے نہایت اگلی بنڈ بہت کر کے ان کو ہر طرح سے محفوظ وہاں سے نکالا.جماعت احمدیہ نے ہر طرح کی قربانی کر کے ان غیر مسلموں کی جان ، مال، عزت اور آبرو کی حفاظت کی لیکن اس کے برعکس ہزار افسوس ہے کہ ان لوگوں نے ہمارے مقدس شہر کو تباہ اور بر باد کرنے میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی جس کے ذریعہ ہم ان پر ہر چیز قربان کر دینے کو فخر خیال کرتے ہیں“ لے مولانا عبد القادر صاحب نے (سود اگر مل مرتبی سلسلہ احمدیہ نے کر تو ضلع شیخو پورہ میں احمدیوں کی غیر مسلموں سے حسن سلوک کے بارہ میں حسب ذیل تفصیلات شائع کیں.دوسرا واقعہ " کر تو ضلع شیخو پورہ میں ایک مشہور قصبہ ہے.وہاں غیر مسلم قریباً دوصد کی تعداد میں ہیں جب مشرقی پنجاب میں قتل و غارت کا میدان گرم ہوا.اور ہزاروں کی تعد میں تباہ حال مسلمانا مغربی پنجاب میں آئے اور انہوں نے اپنے المناک واقعات سنائے تو قصبہ کے مسلمانوں کا خون اپنے بھائیوں کے لئے اس قدر جوش مارنے لگا کہ اُن میں سے ہر ایک ہندوؤں کے خون کا پیاسا نظر آتا تھا.نوبت یہانتک پہنچی کہ تمام غیر مسلموں کو کہ دیا گیا کہ کل تمہیں موت کے گھاٹ اُتار دیا بھائے گا جو تمہاری خواہشات ہیں ان کو پورا کر لو.چنانچہ دوسرے دن انہیں مقررہ جگہ پر لے جایا گیا.مگر عین وقت پہ جماعت احمدیہ کے امیر جناب چودھری رحمت علی صاحب والد ماجد چودھری اعظم علی صاحب سینیٹر سب جج اپنے لڑکے کو لے کر موقعہ پر پہنچے گئے اور انہوں نے ان تمام ہندوؤں کو بچا کہ دو دن اپنے گھر میں رکھا اور تیسرے روز تمام " الفضل در نبوت / نومبر میش کا لمر ۲-۳-۴ به
۲۶۹ قصبہ میں اعلان کر دیا کہ جو شخص ان پر ہاتھ اُٹھائے گا وہ یوں سمجھے کہ اس نے ان پر حملہ نہیں کیا بلکہ ہم پر حملہ کیا ہے.لے لاہور میں نندہ لعل صاحب چوپڑہ (پنشنز کرنل جود عامل بلڈنگ میں رہتے تھے محض میسرا واقعہ احمدیوں کی کوشش سے جموں کی سرحد تک پہنچے.چنانچہ کرنل چوپڑہ نے ۲۴ مارچ یو کو حضرت میاں بشیر احمد صاحب کی خدمت میں لکھا :- " آپ کے اس انتظام کو مفرمائی اور حفاظت کے لئے ہم سب آپ کے تہ دل سے مشکور ہیں اور آپ کے اس احسان اور محبت کے اظہار کے لئے جہانتک انسانیت کا تقاضا ہے میرا یقین واثق ہے کہ میں اور میری اولاد تا زیست آپ کے گرویدہ احسان ہیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ یہ جذبہ شکر گزاری ہمارے دل میں قائم رہے اور جیسا کہ حالات اچھے ہو رہے ہیں ہم کو پھر موقعہ ملے کہ آپ کی قدمبوسی حاصل کر سکیں اور آپ کے شیریں الفاظ دل اور محبت سے حظ اُٹھانے کا ہم سب کو موقعہ ملے.میں آپ کا احسان الفاظ سے بیان نہیں کر سکتا.میرا دل ہی اس کی شہادت دے سکتا ہے.آپ بزرگ ہیں ، خدا رسیدہ ہیں ہجرت انسانی سے بھر پور ہیں.میرے لئے دعا کریں کہ مجھے ضرور پھر کبھی محبت ، پر یم اور پیار کا نیاز حاصل ہو" چوتھا واقعہ جناب ملک عبد الرحمن صاحب خادم امیر ضلع گجرات کی ایک مفصل رپورٹ چوتھا واقعہ سے ہمیں ملتا ہے.گجرات میں چالیس افراد پرمشتمل تین بندو خاندان آباد تھے جن میں الہ دسوندھی رام زرگر، الہ دینا ناتھ صراف لالہ موتی رام دوکاندار، لاله میلا رام نقشه نویس و غیرہ لوگ شامل تھے.جماعت احمدیہ گجرات نے تقریباً دو ہفتہ تک اس خاندان کو پناہ دی.اس دوران میں ملک عبدالرحمن صاحب خادم اور دیگر احمدی نہایت فرض شناسی سے پہرہ دیتے رہے.بلوائیوں نے حملہ کرنے کی پوری کوشش کی مگر ناکام رہے اور ان کو بالآخر حفاظت کے ساتھ ہندوستان بھجوا دیا گیا.اس کے علاوہ لالہ دینا ناتھ ایڈووکیٹ گجرات کو عین اس وقت جبکہ ہندو اپنے مکانات چھوڑ کر اح" الفضل" ١٩ر الفاء / اکتوبر ة ۱۳۲۶ ه ش
۲۷۰ کیمپ میں بھاگے بھا رہے تھے اور کرفیو کا وقت بالکل قریب تھا.انہیں ان کے منشاء کے مطابق ظہور احمد صاحب وکیل کے گھر پہنچایا گیا جہاں وہ کئی روز مقیم رہنے کے بعد بھارت پہلے گئے.لالہ دینا ناتھ صالح میلی امور دیا کہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے نام ایک مکتوب میں لکھا :- دنیا میں پیارے دوست خادم صاحب ہیں وہ میری بڑی حفاظت کرتے رہے ہیں......دنیا میں آپ کی تعریف بہت ہو رہی ہے.دہلی ، انبالہ ، امرتسر میں آپ کی محبت کی اس قدر تعریف ہو رہی ہے کہ بیان سے باہر ہے جن ہندوؤں کو آپ کی جماعت نے پناہ دی ہے وہ ہر وقت آپ کو یاد کرتے رہتے ہیں.ایسی جماعت کے اصول کمال درجے کے ہیں.آپ کی جماعت کے آدمیوں نے جن سہندوؤں کا روپیہ رکھا تھا وہ واپس دیا.ان کی زندگیاں بھائی ہیں.ہر وقت دُعا دیتے ہیں.بخدا وند کریم تمہاری عمر بہت نبی کرے اور آپ کی جماعت.کو اتنی طاقت بخشے کہ دنیا میں لوگوں کی بھلائی اچھی طرح کریں“ قیام امن اور غیرمسلموں کی حفاظت کے چند مخصوص واقعات کا بطور نمونہ تذکرہ کرنے کے بعد اب ہم مختصر طور پر یہ بتاتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کی یہ خدمات صرف چند افراد یا لبعض مقامات سے مخصوص نہیں تھیں بلکہ اُن کا سلسلہ پورے مغربی پاکستان پر پھیلا ہوا تھا حتی کہ جہاں کہیں کے د کے احمدی بھی موجود تھے.انہوں نے اسلام کے اصول رواداری اور پیغام اخوت انسانی پر عمل کرتے ہوئے اپنی جان کی بازی تک لگا دی مگر غیر مسلموں پر آنچ نہیں آنے دی مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کا جو قتل عام ہوا ، اس کا سب سے زیادہ تر عمل صوبہ مغربی پنجار مغربی پنجاب ہیں ہوا.لہذا سب سے پہلے اس صوبہ کا ذکر کیا جاتا ہے.تحصیل شکر گڑھ کے علاوہ ضلع گورداسپور کی باقی تحصیلیں (جو بھارت میں شامل کر دی گئی تھیں) فتنه و فساد کا مرکز بنی ہوئی تھیں جہاں مسلمانوں بالخصوص احمدیوں کے خلاف ایک حشر بر پا تھا مگر تحصیل شکر گڑھ میں احمدی غیر مسلموں کی حفاظت کے لئے سر توڑ کوشش کر رہے تھے.مثلا فقیر محمد صاحب نہا جو عارف والا ضلع منٹگمری (ساہیوال) ان دنوں شاہ پور امر گڑھ میں امن کمیٹی کے سیکر ڈی تھے.آپ نے ایک سکھ کو جو تنہا رہ گیا تھا اپنی حفاظت میں رکھا.اسی طرح شکر گڑھ میں ڈاکٹر فضل کریم صاحب نے چاک قاضیاں کی ایک غیر مسلمہ کو کئی دنوں تک پناہ دے کر بحفاظت سرحد تک پہنچایا.
۲۷۱ ضلع سیالکوٹ (باستثناد تحصیل شکر گڑھ) اس ضلع میں احمدیوں نے غیر مسلموں کو بچانے کے لئے جو خدمات انجام دیں اُن کا خلاصہ یہ ہے :- -1 جماعت احمدیہ کلا سوالہ تحصیل پسرور ضلع سیالکوٹ نے اس قصبہ کے تقریباً ڈیڑھ ہزار غیر مسلموں کی ہر ممکن حفاظت و اعانت کی.اب یہ لوگ قادیان میں آباد ہیں.احمدیوں کی ہمدردی اور محبت رواداری پر رطب اللسان ہیں..قاضی محمد ابراہیم صاحب ہیڈ ماسٹر کھولیاں نے چار پانچ ملحقہ گاؤں کے غیر مسلموں کو بچانے کے لئے دو تین بار اپنے تئیں خطرے میں ڈالا اور ان کی ذاتی کوششوں سے یہاں سکھ مسلم تصادم ہوتے ہوتے رہ گیا..جماعت احمدیہ چونڈہ نے قریباً دو سو غیر مسلموں کو اپنے محلہ میں بحفاظت رکھا اور محفوظ صورت - میں غیر مسلم کیمپ تک پہنچایا ہے ۴- چودھری فیض عالم صاحب پریزیڈنٹ مالو کے بھگت اور محمد یوسف صاحب سکوڑی مال مالو کے بھگت کا بیان ہے کہ موضع مانگا کے غیر مسلموں کے دو قافلے جو قریباً ساڑھے تین چار ہزار نفوس پشتمل تھے مالو کے بھگت سے گزرے تو اُن پر حملہ کرنے کی کوشش کی گئی جو احمد یو کی مداخلت سے ناکام بنادی گئی اور وہ صحیح سالم گزر گئے.شہر سیالکوٹ کے ایک سابق باشندے سانجی مل پر تین حملہ آور کلہاڑے سے ٹوٹ پڑے گر فتح محمد صاحب سہگل ( اسلام پورسیالکوٹ) درمیان میں آگئے اور سانجی مل رکھے گیا.موضع را مبراہ کے نمبردار شاہ نواز صاحب کی کوشش سے سات افراد پرمشتمل ایک ہند و کنبه نیز م دیگر غیر مسلم صحیح سلامت سرحد تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے.چونڈہ کا ایک غیر مسلم بیدی شندر سنگھ فسادات سے قبل بغرض تجارت ایران چلا گیا اور گھر کی ذمہ داری ایک احمدی محمد عبداللہ صاحب ( ولد اللہ بخش صاحب ) پر تھی.چنانچہ جو نہی قتل و غارت کا بازار گرم ہوا ، اُس احمدی نے اس کے بال بچوں کو امد اس تک پہنچا دیا.علاوہ ازیں اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر چونڈہ کے شو ناتھ اور درگا ہ اس کی جان بچائی اور ان کی دکان سے سامان لاکمہ نے بروایت رحیم بخش صاحب پریزیڈنٹ جماعت احمدیہ چونڈہ :
۲۷۲ دیا اور پھر بھارتی سرحد تک چھوڑ آئے..نارووال کے نزدیک ایک ہندو عورت گھر گئی تھی.محمد یعقوب صاحب سب انسپکٹر کو اپریٹو سوسائٹیز ڈھکوٹ ضلع لائل پور نے اس کی جان بچائی اور راوی کے پل تک پہنچا دیا.ضلع لاہور ا.پنڈت تیر تھے رام کا نسٹیبل ہڈیارہ ضلع لاہور فسادات کے ایام میں سپیشل ڈیوٹی پر لاہور میں تھے اور ان کے اہل و عیال ہڈیارہ میں لیفٹیننٹ جمال الدین صاحب ( ۸ پنجاب رجمنٹ سنٹر لاہور چھاؤنی) کو اطلاع ملی کہ پنڈت صاحب مارے گئے ہیں.جس پر لیفٹینینٹ صاحب خود لاہور پہنچے اور ان کو تلاش کر کے بچوں سمیت ہندوستان کی طرف روانہ کر دیا.پنڈت با وا کرم چند صاحب شر ما دید ہڈیارہ کے مکان پر حملہ ہوا تو موصوف نے ان کی طرف سے کامیاب مدافعت کی.اسی طرح ہڈیارہ کی چھبیسویں پادشاہی کے گوردوارہ کو دیگر مسلمانوں سے مل کر خاکستر ہونے سے بچایا اور اس کی حفاظت کے لئے اسکورٹ مقرر کر دی.اس گوردوارہ میں ایک سردار جے سنگھ کے دو بوڑھے رشتہ دار تھے جن کا سامان ۲.لیفٹیننٹ صاحب نے خود اٹھایا اور ہندوستان بھانے والی جیپ گاڑی تک پہنچا دیا.تویل سنگھ آتما سنگھ آف بیٹر کلاں متصل قادیان کا روپیہ لاہور میں جمع تھا جو حضرت مرزا بشیر احمد صا کی کوشش سے برآمد ہوا.اور انہیں بھیجوایا گیا.مولوی محمد احمد صاحب فاضل نے آرڈی ننس ڈپو لاہور چھاؤنی کے حوالدار کلرک پرتاپ سنگھ کو میسور کے ایک مشتعل ہجوم سے باہر نکالا اور بحفاظت سرحد تک پہنچایا.ہم - عبدالرحیم صاحب ہیڈ ڈرا سمین اسلامیہ پارک نے متعد د مظلوموں کی مدد کی سردار کرتا سنگھ ڈویژنل ہیڈ ڈراسمین لاہور کو ان کا روپیہ اور مسٹر بھگوان چند آف لاہور کو ان کا فرنیچر اور متفرق سامان بھجوایا.سردار ہزارہ سنگھ سپرنٹنڈنٹ جالندھر جیل کے بعض رشتہ دار لاہور جھیل میں تھے جن کو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے ضروری امداد مہیا فرمائی.ضلع شیخو پوره مکرم برکت ملی صاحب انکی وی سی کینال کوارٹر لائل پور نے شیخو پورہ کے قریباً ہو ، غیر مسلموں
کو جن میں بعض اچھے اچھے عہدوں پر تھے ، پناہ دی.بعض کے زیورات ان کے مکانوں سے لاکر دیئے جس میں ان کے فرزند محمد افضل صاحب کا بھی ہاتھ تھا.وہ گولیوں کی بوچھاڑ میں پہنچے اور کئی غیر مسلموں کو بچانے میں کامیاب ہو گئے.ان کی بدولت تعین کنواری لڑکیوں نے بھی مفسدوں کے چنگل سے نجات پائی.- برکت اللہ صاحب مہاجر لودھی منگل ضلع گورداسپور کے ذریعہ سے شیخو پورہ کے متعدد غیر مسلموں کی بھانے بچ گئی اور مین اس وقت جبکہ گولی چل رہی تھی وہ ان کا دفینہ اور اندوختہ نکال لائے اور ان کے سپرد کر دیا.حکیم علی احمد صاحب دیہاتی مبلغ کرم پورہ نے ایک سکھ اور اس کی بیوی کو حفاظت سے رکھا.م سید ولایت حسین شاہ صاحب امیر جماعت احمدیه شاه مسکین کو معلوم ہوا کہ ان کے گاؤں کے نزدیک فیض پور میں کچھ ہندو محصور ہیں بچنا نچہ آپ انہیں شاہ سکین میں لے آئے اور ان کے خورد نوش کا انتظام کیا.بعد کو یہ لوگ کپور تھلہ میں آباد ہوئے.ضلع لائلپور عصمت اللہ صاحب پٹواری نہر بڑا نوالہ نے موضع وصول سر کے دس غیر مسلموں کو پناہ دی.اور نور و نوش کا انتظام کیا.ضلع سرگودھا -1 احمد خاں صاحب دیہاتی مبلغ چک پہلے نے تحریر کا طور پر اطلاع دی کہ ہم نے بعض غیر مسلموں کو د جو قبل ازیں ایک شخص کے یہاں پناہ گزیں ہوئے اور روپیہ لے کر نکال دیئے گئے تھے ایک ۵۶۵ میں ٹھہرایا اور پبلک کی عام مخالفت کی پروانہ کرتے ہوئے پندرہ دن تک ان کو پناہ دی اور پھر ننکانہ صاحب تک پہنچا دیا.چودھری شیر محمد صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ چک ۲۳ جنوبی کی تحریک پر ایک امعدی چودھری محمد عالم صاحب نے ایک سکھ کا سامان بھائی خطرہ مول لے کو بچایا.اسی طرح احمدیوں نے قریبی چھکوں کے بعض غیر مسلموں کے مال و جان کی حفاظت کی.ماسٹر ضیاء الدین صاحب ارشد احمدی ٹیچر مڈھ رانجها موضع نصیر پور کے ایک غیر مسلم ہر نام داس
۲۷۴ - A ہیں.دی ٹیچر کو سخت مخدوش ماحول میں بذریعہ سائیکل سرگودھا لائے اور فوجی امداد سے اس کے رشتہ داروں کو بر آمد کرایا.اس طرح ۹۲ میل کا سفر سائیکل پر طے کیا.نذیر احمد صاحب میانی ضلع شاہ پور نے ایک ہندو مرد اور عورت کی حفاظت کی.سکھوں نے قادیان میں خان بہادر نواب محمد دین صاحب باجوہ سابق ڈپٹی کمشنر و سابق ریونیو منسٹر جودھپور سٹیٹ کی کوٹھی ٹوٹ لی تھی جس کے ایک حصہ پر چودھری عزیز احمد صاحب باجوہ سب بیج سرگودھا کا قبضہ تھا.اس مکان کا مال و اسباب لوٹ لیا گیا تھا اور اس کی محافظہ بڑی مشکل سے اپنی جان بچا کر بھاگ سکی تھی بله.اس کے مقابل پودھری عزیز احمد صاحب کا طرز عمل یہ تھا کہ انہوں نے سرگودھا کی آمدی جماعت کے دوسرے افراد کے تعاون سے کئی سکھوں اور ہندوؤں کی باتیں بچائیں جن میں سرگودھا کے مشہور ایڈووکیٹ نالہ بھگت رام صاحب بھی تھے.ہے ضلع گوجرانوالہ موضوع کو پر یوالہ اور اس کے گرد و نواح کے سب غیر مسلم مماعت احمدیہ کے اثر و رسوخ سے جانی و عالی وغیرہ ہر نوٹ کے نقصانات سے بالکل محفوظ رہے سکے - پنڈی بھٹیاں میں صرفت دو ایک احمدی تھے مگر انہوں نے حتی الوسع ہر مظلوم کی مدد کی.ایک ہندو مسافر خانہ اور گیراج کو نذر آتش ہونے سے بچایا.دوغیر مسلم عورتوں کو پناہ دی اور ان کا قیمتی سامان کیمپ تک پہنچا یا.اسی طرح تینی غیر مسلم ساہوکاروں کا سامان بھی پوری امانت و دیانت سے اُن کے کہ حوالہ کیا..کیلیا نوالہ کے پنڈت گوگل چند مہرہ نے فسادات کے دنوں میں احمدیہ جماعت مدرسہ جیٹھہ کے ہاں پناہ لی.جماعت نے ان کی اور بعض دیگر مظلومین کی بھی امداد کی.نیز ایک اغوا شدہ لڑکی کو بر آمد کیا یاد شده " الفضل" ۲۷ تبوک استمبر ۳۳۷ه مش صفحه ۲۰۲ که بروایت چودھری عزیز اللہ خانصاحب ایڈووکیٹ لویر بیوالہ مضلع گوجرانوالہ : ه بروایت حافظ محمد عبداللہ صاحب پنڈی بھٹیاں ہے شه بروایت عازم محمد صاحب سکرٹی تبلیغ مدرسہ چٹھہ و چوہدری محمد حیات صاحب
۲۷۵ ضلع گجرات ا.جماعت احمدیہ گولیکی کی ہمت و جرات کے نتیجہ میں گولیکی کے ہندو سکھوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا جماعت نے اس قصبہ کے باسٹھ غیر مسلموں کو میں روز تک اپنے یہاں رکھا اور پھر صب سانرو سامان کے کیمپ میں پہنچایا.اسی طرح موضع سنیاروں کے ۲۱ غیرمسلموں کی سرحد تک حفاظت کی ہے - عبد الصادق صاحب کو ٹیاں ضلع گجرات نے ایک ہندو عورت کو حملہ آوروں سے نجات دلائی اور سرحد تک پہنچایا.ملک عبدالرحیم صاحب (نزیل خانپور بہاولپور) قادیان سے نہایت بے سر و سامانی کی حالت میں کنجاہ پہنچے تھے مگر انہوں نے کنجاہ کے گوراند تر مل کوجبکہ وہ کیمپ میں تین دن سے بھوکا تھا.خوراک مہیا کی اور کنجاہ کے رئیں جگن ناتھ کا امانتی مال بھی بلا تامل واپس کر دیا..جماعت احمدیہ کڑیانوالہ نے گجرات کے لالہ بوٹا مل کی بھاری مدد کی اور اسے ہندو کیمپ تک لے جانے کا انتظام کیا ہے ضلع راولپنڈی چوہدری علی احمد صاحب انسپکٹر واج اینڈ وارڈ راولپنڈی کا بیان ہے کہ فسادات کی وجہ سے ہندوؤں اور سکھوں کا ڈیوٹی پر حاضر ہونا مشکل تھا اس لئے میں نے مسلمان عملہ ڈیوٹی پر مقرر کر کے ان غیر مسلموں کو اپنی ذمہ داری پر رخصت دے دی.یہ لوگ پندرہ روز تک میرے مکان میں رہے بعد ازاں انہیں بحفاظت کیمپ تک پہنچا دیا گیا.ضلع کیملپور حوالدار سوندھا خاں صاحب پیشتر پچنند اور صوبیدار محمد خان صاحب امیر جماعت اگلا یه چند نے چکڑالہ کے ۱۸-۲۰ غیر مسلموں کے قافلہ کو مشتعل ہجوم سے بچا کہ پناہ دی.علاوہ ازین بینند کے ۸۰-۹۰ افراد کو بھی اپنے گھروں میں رکھا اور گاؤں والوں کی سخت مخالفت کے باد جو دارم کا بال تک بیکا نہ ہونے دیا.هذا منٹگمری -1 ایک غیر مسلمہ جو زندہ ہی نہر میں پھینک دی گئی تھی.دیوان صاحب پاکپٹن کے مریدوں کے نکه بروایت چودھری محمد عالم صاحب کڑیانوالہ ه بود است دارای گوئی.داری
۲۷۶ ذریعہ سے نہر سے نکالی گئی اور بابو فقیراللہ صاحب گنہار نہروان ضلع ملتان کے پاس پہنچی جبکہ وہ سر اور پاؤں سے برہنہ تھی.بابو صاحب نے اس کو کپڑے پہنائے اور تین دن پناہ میں رکھ کر اور کچھ نقدی دے کر ہندوستان کی طرف روانہ کر دیا.۲- پٹری ضلع منگمری (ساہیوال) کے امیر جماعت مکرم نورالدین صاحب مختلف دیہات کے غیر مسلموں کو بحفاظت بھارت کی سرحد تک لے گئے.غلام احمد صاحب ڈسپنسر مجرہ ضلع منٹگمری (ساہیوال) کی رپورٹ ہے کہ باوجودیکہ ہندوؤں نے ہمارے ساتھ بُرا سلوک کیا مگر ہم نے ۲۷ غیر مسلموں کو ہسپتال میں رکھا اور محفوظ طور پر کیمپ میں پہنچایا.میری اہلیہ اپنے ہاتھ سے ان لوگوں کو کھانا پکا کر دیتی رہی.چوہدری غلام قادر صاحب امیر جماعت اوکاڑہ نے اپنے ایک بھتیجے کے ساتھ بعض غیر مسلموں کی حفاظت کی جس پر بعض لوگ ان پر حملہ کرنے کے لئے تیار ہو گئے بلکہ خود ہندو ملڑی نے یہ خیال کر کے کہ وہ حملہ آوروں کی پشت پناہی کرتے ہیں آپ کے بھتیجے کو گولی سے اُڑا دینے کا فیصلہ کر لیا.آخر بڑی مشکل سے اصل حقیقت کھلی اور یہ معاملہ رفع دفع ہوا.- فتح محمد صاحب ہیڈ ماسٹر مڈل سکول 1/2.8 نے بعض ہندوؤں کو بحفاظت کیمپ میں پہنچایا.ضلع ملتان - محمد نواب خان صاحب سیال لودھراں ضلع ملتان نے بستی وریام کملانہ ضلع جھنگ کے ایک ہندو کو قریباً ایک ماہ تک اور باغ ضلع جھنگ کے ایک سکھ کو قریباً دو ماہ تک پناہ دی.راتوں کو پہرہ دیا.اور یا وجود مخالفت کے ان کی حفاظت اور کھانے پینے کا بندوبست کیا.ملک حسن خان صاحب پیشنز چھینی تا حمد ربان نے ایک سکھ رسالدار نیشنر کی دو لڑکیوں کو حملہ آوروں سے بچا کر ملتان میں ملٹری پولیس کے سپرد کیا.اس کے علاوہ کئی سکھوں کی بمان بچائی.غلام حسین خان صاحب اسسٹنٹ ریکارڈ کلرک آر ایم ایس ملتان نے ایک ہندو کو مع اس کے اہل و عیال پتا بھی دی اور مالی امداد بھی کی.ایک اور ہندو کو اس کے اکلوتے بچہ سمیت جہاز پر سوالہ کرایا.م عبد الرحمن صاحب چک ۳۲ دنیا پور ضلع ملتان نے دنیا پور کے دو ہندوؤں کو حملہ آوروں سے بچا کہ
۲۷۷ اپنے پاس رکھا.راتوں کو پہرے دیتے اور انہیں فوجی گارد کے ذریعہ ہند و کیمپ تک پہنچایا.ضلع ڈیرہ غازیخاں میاں دوست محمد صاحب حجانہ ڈیرہ غازیخاں نے متعدد ہندوؤں کو بچایا.آپ نے اغوا شدہ مستورات بھی برآمد کر کے حوالہ ورثاء کیں.ایک بی غیرمسلم ڈیپٹی انسپکٹر تعلیم کو ڈیرہ غازیخاں سے ملتان پہنچایا.اللہ بخش صاحب ہمدانی نے موضع ہمدانی کے تمام غیر مسلموں کو دو دن تک اپنے گھر میں رکھا اور کھانا کھلایا.ان لوگوں پر بلوائیوں نے حملہ کر کے دو کو شدید زخمی کر دیا تھا.ان کی مرہم پٹی کرائی گئی اور ہند ملٹری کی حفاظت میں ان کو ٹرک پر سوار کرایا گیا.نے ریاست بہاولپور ریاست بہاولپور کے احمدیوں نے بھی غیر مسلموں کی حفاظت و اعانت کا کوئی موقعہ ہاتھ سے بجانے نہیں دیا.مثلاً مشرقی پنجاب سے مہاجرین کی آمد پر ریاست میں غیر مسلموں کے خلاف زبر دست اشتعال پیدا ہو گیا تھا.ان حالات میں ان کے تحفظ کا ہر اقدام گویا اپنے تئیں موت کو دعوت دینا تھا.تاہم پیک پاپا کے ریاستی احمد یوانی اس صورت حال کے باوجود بعض غیر مسلموں کی حفاظت کی.مگر افسوس ! مشرقی پنجاب پہنچنے والے بعض ہندوؤں نے الٹا ان کے خلاف رپورٹ درج کرادی کہ ہماری عورتوں کو روکا ہوا ہے بھای نکر احمدی ان کی حفاظت کر رہے تھے.انہیں تھانہ میں بلا کہ ڈانٹ پلائی گئی.مگر جب مشرقی پنجاب پہنچتے والے غیرمسلموں کے شکریہ کے خطوط دکھائے گئے تو انہیں بری کر دیا.غیر مسلموں کی حفاظت کے دوران ایک دوست مہاجرین کے ہاتھوں شہید بھی کر دیئے گئے لیکن غیر مسلموں کو کوئی گزند نہیں پہنچنے دیات -۲- غلام نبی صاحب اہل کار چشتیاں منڈی بہاولپور سٹیٹ نے چشتیاں منڈی کے بعض ہندوؤں کا رات کے وقت پہرہ دیا اور اپنے آپ کو خطرہ میں ڈال کر مع ان کی کثیر نقدی کے سرحد پر چھوڑ آئے.اسی قصبہ کا ایک ہندو ان کے گھر میں بھی پناہ گزین ہوا جسے انہوں نے کچھ امداد دے کر ہندوستان بھجوا دیا.بابو محمد بخش صاحب سگنیلو بنگلہ قاضی والہ ریاست بہاولپور چک ۴-۹ راجیاں نے پانچ ہزار کے ایک غیر مسلم قافلہ کا رات بھر پہرہ دیا.صبح کو جب آپ اُسے سرحد تک چھوڑ نے بھارہ ہے تھے تو ایک شخص نے حملہ کرنا چاہا جو بعض لوگوں نے روک دیا اور آپ بھی گئے اور قافلہ بھی صحیح سلامت ریاست اه بروایت فضل محمد صاحب چک را
۲۷ بیکانیر کی حدود میں داخل ہو گیا.d -۴- چک 10 بہاولپور کے سب غیر کم ہری محفوظ رہے جو مقامی احمدیوں کے حس انتظام اور ادی کا نتیجہ تھا جماعت احمدیہ کی انسانیت پر ور مساعی صوبہ پنجاب کے علاوہ صوبہ سرحد میں بھی بھاری تھیں مثلاً سعد اللہ خاں صاحب ترنگ زئی ضلع پشاور نے اطلاع دی کہ ترنگ زئی میں سیٹھ فقیر چند کے سوا باقی سند و سکھ فسادات کی خبر سن کر بھاگ گئے جس پر ہم نے سیٹھ مذکور سے درخواست کی کہ وہ ہم سے کرایہ لے کمر انہیں واپس لے آئیں.ہم ان کی حفاظت کریں گے.اس نے کرایہ تو نہ لیا البتہ سب کو ان کے اہل وعیال سمیت واپس لے آیا بچنا نچہ ہم نے ایک عرصہ تک انہیں اپنے یہاں پناہ دی.موضع سر کی میں ہمارے چچا عادل شاہ نے مہر سنگھ وغیرہ صاحبان کو اپنے گھر میں رکھا.اتمان زئی میں بعض غیر مسلموں کو حفاظت کی پیشکش کی گئی جو انہوں نے قبول نہ کی بیچارسدہ میں ایک ہند و تکامل کی خطبات کی گئی.ترنگ زئی میں ایک ہندو نیوز ایجنٹ کی غفلہ سے مدد کی گئی.وغیرہ.صوبہ بلو بستان صوبہ بلوچستان میں احمدیوں نے اپنے امام کی آواز پر کس طرح لبیک کہی.اس کی ایک مثال ملاحظہ ہو ان ایام میں ایک احمدی مکرم محمد اقبال صاحب کوئٹہ کی دوکان کو آگ لگا دی گئی تھی اور ۲۰ ہزار روپیہ کا نقصان ہو گیا تھا مگر انہوں نے اس مالی نقصان کی چنداں پروانہ کی اور اپنے تئیں خطرہ میں ڈال کر بھینٹا چاریہ صاحب مینجر کلکتہ نیشنل بنک کوئٹہ کو تین یوم تک پناہ دی اور حفاظت کے ساتھ ہندوستان کی طرف روانہ کیا.ه بروایت صادق علی صاحب چک 2 بہاولپور
صوبہ سندھ ۲۷۹ کراچی میں پنڈت شنو ناتھ شاستری اور ان کا خاندان تھا جسے مکرم فتح محمد صاحب شرما نے بذریعہ ہوائی جہاز ہندستان بھجوانے کا بندوبست کیا اور ان کی نقدی اور زیورات بھی بحفاظت پہنچا دیئے حضرت مصلح موعود کی مخلصانہ اپیل یا آخر یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ فسادات کے ایام میں حضرت مصلح موعود نے مسٹر گاندھی سے اپیل کی کہ وہ قیام امن کے گاندھی جی سے اور اُن کا جواب لئے کوشش کریں.نیز پیشکش کی کہ اگر وہ مظلومین کی مدد کرنے کے لئے تیار ہوں تو جماعت ان کی پوری پوری اعانت کرنے کا وعدہ کرتی ہے.حضور کا مکتوب اور گاندھی جی کے جواب کا متن درج ذیل ہے :- " مجھے یقین ہے کہ آپ پر ان اندوہناک واقعات کا اثر ہو گا جو ہندوستان کے مختلف علاقوں میں رونما ہو رہے ہیں.میری اور آپ کی اور ہر روحانی شخص کی ڈیوٹی ہے کہ ان ننگ انسانیت واقعات کو روکا جائے.یہ کہنا کہ اگر میں نے جُرم کیا ہے تو آپ نے بھی تو ایسا کیا ہے درست نہیں اور امن پیدا نہیں کر سکتا.سچائی اور انصاف ایک مقدس کام ہے سیاسی آدمی کہ سکتے ہیں کہ اگر تم ایسا کروگے تو میں بھی ایسا ہی کروں گا لیکن اخلاقی اور مذہبی رہنماؤں کا یہ حال نہیں ہو سکتا.میری جماعت مغربی پنجاب میں اپنا فرض ادا کر رہی ہے اور ہم اس ظلم کو روکنے کی پوری کوشش کرینگے س کی ہمیں اطلاع مل بھائے.میں سینکڑوں ایسی مثالیں پیش کر سکتا ہوں جہاں کہ میرے متبعین نے ہندوؤں اور سکھوں کی بے لوث خدمت کی ہے (ضلع گجرات کے ایک آریہ سماجی کا ایک مکتوب بھی اس اپیل کے ساتھ شامل کیا گیا) میں درخواست کرتا ہوں کہ (مشرقی) پنجاب میں قتل و غارت کی روک تھام کریں.آپ دہلی میں اچھا کام کر رہے ہیں لیکن یہ سیاسی کام ہے.وہلی انڈین یونین کا مرکز ہے.اور ہر شورش کو وہاں کے غیر ملکی نمائندے دیکھتے ہیں.میری رائے میں پنجاب میں چونکہ سینکڑوں گنا زیادہ خون بہا دیا گیا ہے اس لئے توجہ کا محتاج ہے.اگر آپ مغربی پنجاب میں آئیں تو میری جماعت آپ کی امداد کرے گی.میری ذاتی رائے ہے کہ چونکہ آپ کا ہندوؤں سکھوں پر زیادہ اثر ہے اسلئے ان کا مشرقی پنجاب میں ہی شروع کریں اور مغربی
۲۸۰ پنجاب میں نہیں کام کرنے دیں لیکن اگر آپ کے خیال میں پہلے مسلمانوں کو خوش کرنا چاہیے.تب بھی آپ کی مد کریں گے اور اپنا معاملہ خدا پر چھوڑیں گے.اگر ہندوستانی ہوش میں آجائیں تو ہم اپنا کام اچھی طرح کر سکتے ہیں.میں کسی پر الزام نہیں دیتا.جو کچھ ہوا واقعات کی رو میں ہوا.اگر دریاؤں کے راہ بدل سکتے ہیں تو قدموں کا راستہ بھی بدل سکتا ہے.یہ ہمارا فرض ہے کہ اس کے لئے راستہ کھلا رہنے دیں“ ( حموده ۸ در اکتوبر ۱۹۹) گاندھی جی نے اس محبت بھرے مکتوب کا حسب ذیل جواب دیا :- از میں ہاؤس نئی دہلی 2-11-46 مرز اضاہ آپ کا خالا ، آپ کہتے ہیں وہ ٹھیک ہے کہ جو خون خرابی ملک میں چل رہی ہے ،مٹنی چاہئیے.یہ بھی آپ ٹھیک فرماتے ہیں کہ فرض ادا کرنے میں امن کی بات چھوٹ جاتی ہے.جو کام میں مغربی پنجاب میں کر سکتا ہوں وہی یہاں کو رہا ہوں.اس لئے میرا منتر ہے کرنا یا مرنا.اگر گر سکا تب ہی آگے بڑھنے کی بات اُٹھ سکتی ہے.یہ تو ہوئی آج کی بات ، کل کی خدا ہی جانتا ہے.آپ کا م گ گاندھی " اگرچه تحریک جدید کے فنانشل سکرٹری چو ہدر می برکت علیخاں تحریک جدید صدر انجمن احمدیہ پاکستان صاحب کی زیر نگرانی تحریک جدید کے چندوں کی وصولی کا کا قیام اور رجسٹریشن ابتداء ہی سے انتظام ہو چکا تھا اور تحریک تجدید انجمن احمدی کی بنیاد بھی رکھ دی تھی اور ممبران بھی مقرر ہو چکے تھے.مگر ضرورت تھی کہ پاکستان میں تحریک جدید کا اداره با قاعده صورت میں قائم کر دیا بجائے چنانچہ اس غرض کے لئے حضرت سید نا الصلح الموعود نے وسط ماه نبوت نومبر ۳۳ میش میں مولوی عبد الرحمن صاحب اور انچارج تحریک جدید کو قادیان سے بلوایا.انہوں اے جناب مولوی صاحب موصوف کا بیان ہے کہ " در نومبر کو خاکسر کو اطلاع ملی کہ خاکسار قادیان سے فوراوں ہور پہنچے تاکہ تحریک جدید کے دفاتر کو میٹ کرکے کام شروع ہو چنانچہ میں حضور کے ارشاد پران پانچ رکوں کے قافل میں لاہور پہنچا جو کوم چودھری معرظفراللہ خان صاحب کی کوٹھی واقع دارالانوار سے آپ کا سامان لانے کے لئے حکومت پاکستان نے بھجوائے تھے
TAI نے آتے ہی شبونت بلڈنگ کے ایک کمرہ میں دفتر بناکر کام شروع کر دیا.تحریک جدید کے میمورنڈم اینڈ آرٹیکلز آف ایسوسی ایشن ASSOCIATION (MEMORANDUM AND ARTICLES OF ) کے مسودہ کی تشکیل و ترتیب کی خدمت محترم جناب شیخ ( بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ نے انجام دی اور یہ ادارہ 9 ار ضروری اللہ کو رسوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ کے زیر دفعه ۲۱ بابت شاہ) رجسٹر ہو گیا.اور ابتداء میں اس کے حسب ذیل ڈائریکٹر ز مقر کئے گئے :- مولوی عبد الرحمن صاحب انور مولوی فاضل وکیل الدیوان تحریک بعدید.بہاؤ الحق صاحب ایم.اسے دکامرس اینڈ اکنامکس ، وکیل الصنعت تحریک جدید حضرت مرزا ناصر احمد صاحب ایم.اسے (آکسن، پرنسپل تعلیم الاسلام کا لج م مولوی عبد المغنی خاں صاحب بی ایس سی وکیل التبشیر تحریک جدید خان بہادر نواب چودھری محمد دین صاحب ریٹائر ڈ ڈپٹی کمشنر - شیخ بشیر احمد صاحب بی.اے (آنرز) اہل.ایل.بی ایڈووکیٹ لاہور.مولانا جلال الدین صاحب شمس مولویف انتل - چودھری برکت علی مغال صاحب وکیل المال تحریک بعدید ئے خواجہ عبد الکریم صاحب بی ایس سی کمرشل سکریڑی تحریک تجدید فصل شتم مرکز پاکستان کیلئے دین خریدنے کی کیا اب بیش است این یاد کر کے قیام کا اولین محمد یہ تھاکہ کسی مرکز پاستا کیلئے موزوں جگہ کی تلاش موزون جنگ کی لاش کی جائے یہ کام خدا کی مشیت ترال میں چودھری عزیز احمد صاحب باجوہ کے لئے مقدر تھا جو اُن دنوں سرگودھا میں سیشن جج کے عہد پر اڑیہ تھے حضرت له آپ اورچون کار کو ڈائریکٹر مقرر کئے گئے.
۲۸۲ مصلح موعود نے انہیں بذریعہ تنازلاہور بلوایا اور اس بارہ میں مشورہ طلب فرمایا.چوہدری موصوف نے ۲۵ تبوک استمبر میش ک مندرجہ ذیل یاد داشت لکھی ہو اسی روز حضرت سیدنا المصلح الموعود کی خدمت میں رتن باغ کی روزانہ مجلس کے دوران سُنائی گئی.بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم وعلى عبده السيح الموعود ا مقصد اقل - احمدیہ جماعت کے لئے ضلع شیخو پورہ میں ننکانہ صاحب کے نزدیک ہم مراجعہ کے قریب زمین حاصل کی جاوے تاکہ وہاں ایک قصبہ بسایا جاوے..تجاویزہ ابتدائی ف ضلع شیخو پورہ کا نقشہ دیہہ وار حاصل کیا جاوے (ب) احمدی احباب جن کو اس علاقہ کی واقفیت ہے ان سے معلومات حاصل کی بھاویں، اور مشورہ کیا جاوے.(ع) موقعہ کا ملاحظہ کیا جاوے (2) اخبارات کی سابقہ فائیلوں کو دیکھا جاوے اور معلوم کیا جاوے کہ اس علاقہ کے ہندو سکھوں میں کون اپنی اراضی فروخت یا تبادلہ کرنا چاہتا ہے (ڈ) اخبار میں اشتہار دیا جاوے کہ کون اپنی اراضی واقع شیخو پورہ بذریعہ تبادلہ مابین دینا چاہتا ہے.(س) افسران متعلقہ سے گفتگو کی جاوے کہ وہ اس معاملہ میں ہماری کیا مدد کر سکتے ہیں.دریافت طلب امور :- - اشتہار اخبار میں کس بستند و نام پر دیا جا وے اور کس کس اخبار میں دیا ھا دے.لاجناب قاری عبدالرشید صاحب ایڈوکیٹ لاہور سابق سیکرٹی کمیٹی آبادی کا بیان ہے کہ کئی مقامات تجویز ہوئے اور ن خود آئے ، ننکانہ صاحت کے بارے میں بھی ایک وقت کافی غور ہوا.ماڈل ٹاؤن کی دبے لفظوں میں حکومت کی طرف سے پیش کش ہوئی.مگر شہر کی موم فضا کے پیش نظر خود کو یہ یہ پسند تھی حضورنے فرمایا کہ ایک خوب کی وجہ سے میرا یہ سندھ کی طرف جاتا ہے مگر جانتی تنظیم کے لحاظ سے پنجاب کو مرکزی حیثیت حاصل ہے حضرت کی موعود الاسلام بھی پنجاب میں میں مبعوث ہوئے.اگر پنجاب کو چھوڑ دیا گیا تو پھر پنجاب کو پہلے بھی پوزیشن کبھی میں نہ ہوگی.اور بھی کئی مقامات تجویز ہوئے.بالاخر چوہدری عزیز احد مصاب بین جمع سرگودھا کی تجویز پر بیک ڈھگیاں کی اراضی یہاں اب ربوہ تعمیر ہوا ہے، امریکہ نو کے لئے منظور کی گئی" (غیر مطبوعہ) 1
YAP خط و کتابت کس کے نام سے کی بھاؤ سے با کارروائی کے متعلق رپورٹ کس افسر انجمن کو کی جاوے یا مقصد دوم کو بھی حضور واقع ڈلہوزی کا تبادلہ کسی کو بھی واقع لاہور سے کیا بھا دے -۲- سوال.کیا یہ فیصلہ شدہ تجویز ہے کہ جدید مرکز شیخو پورہ کے نواح میں بنایا جاوے.اگر فیصلہ شدہ آخری حکم نہ ہو تو مندرجہ ذیل امور پر غور کیا جاوے.ضلع شیخو پورہ کی آب و ہوا گرم مرطوب اور وسطی پنجاب کے تمام اضلاع سے ناقص اور ملیری ہے.جائے وقوع بھی خواب ہے.۲- نشکانہ صاحب کے نزدیک بلکہ اس سارے علاقہ میں احمدیوں کی تعداد بہت کم ہے اور لوگوں میں احمدیت قبول کرنے کا زیادہ مادہ نہیں ہے.سکھوں پر اس کا اچھا اثر نہیں پڑے گا بلکہ وہ اس کو غلط نظریہ سے دیکھیں گے ہ غالباً سکھ یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کو ننکانہ صاحب بہر حال خالی کرنا پڑے گا.۵- اگر کبھی غیر احمدیوں کی طرف سے ننکانہ صاحب پر حملہ ہوا تو سکھ اس کو مسلمانوں کی طرف سے تصور کو یں گے اور تجربہ نہلاتا ہے کہ وہ احمدیوں غیر احمدیوں میں تمیز نہیں کریں گے نتیجہ یہ ہوگا کہ غیر احمدیوں کے غلط رویہ کی سزا احمدیوں کو ملے گی.سکھوں کے مرکز کی حفاظت اپنے ذمہ لینا دوسرے مسلمانوں سے بیر مول لینے کے مترادف ہوگا - اگر شیخو پورہ میں مرکز قائم کرنے کا یہ مقصد ہے کہ سکھوں کو واضح رہے کہ اگر انہوں نے قادیان پر قبضہ کیا توہم ننکانہ پر قبضہ کر لیں گے تو یہ دیگر ذرائع سے بھی ظاہر کیا جاسکتا ہے.ہ سیکھوں میں کمیونزم پھیل رہا ہے اور وہ ننکانہ صاحب کو مقام مقدس خیال نہیں کرتے بلکہ محض سیاسی فائدہ کے لئے اس کو استعمال کرنا چاہتے ہیں.کیا مندرجہ ذیل مقامات مراکز کے لئے زیادہ موزوں نہ رہیں گے؟ سیالکوٹ شہر.اس جگہ یہ نقص ہے کہ غیر احمدیوں کی کثرت ہوگی اور نے الیا مگر حاصل کرنے کے لئے زیادہ قیمت لگے گی.
PAN -۲- پسرور.یہ جگہ اونچی جگہ پر واقع ہے.بہندوؤں کے گھر موزوں جگہ پر واقع ہیں.مگر بہر حال غیر احمدی بڑی تعداد میں ہوں گے.کلاسوالہ.یہ قصبہ پرور سے ہم میل کے فاصلہ پر ہے.سکھ اس کو خالی کر رہے ہیں.تجارت کا مرکز ہے.A ہ پوسٹر منڈہ.یہ ہندوؤں کا گاؤں تھا.یہاں کافی پختہ مکانات ہیں.تھوڑا خرچ کرنے پر یہ قلعہ کی صورت اختیار کر لے گا..کوئی اور موزوں جگہ سیالکوٹ ضلع میں نوٹ : پوپر منڈھ - کلا سوالہ اس علاقہ میں واقع ہیں جہاں ارد گرد کافی احمدی آباد ہیں سکھوں کے دیہات خالی پڑے ہیں.ضلع سیالکوٹ میں مرکزہ بنانے کا یہ فائدہ ہوگا کہ وہ گورداسپور کے نزدیک ہے اور وہاں کثرت سے احمدی ہیں اور زمینداروں میں احمدیت بڑی مقبول ہے.مرکز اگر اس جگہ ہو گا تو حفاظت اچھے طریقہ سے ہو سکتی ہے.- چناب کے کنارے پر جہاں سے وہ پہاڑوں سے نکلتا ہے ے.راوی کے کنار سے یہ جہاں سے وہ شکر گڑھ تحصیل میں داخل ہوتا ہے.ہ کہوٹہ ضلع راولپنڈی میں حفاظت کے لئے یہ موزوں ترین جگہ ہے.9 یعنیوٹ کے بالمقابل دریائے چناب کے پارہ.اس جگہ خیال ہے کہ کافی رقبہ گورنمنٹ سے مل سکیگا.یہ جگہ ہر طرح سے موزون ہے سوائے اس کے کہ احمدی ارد گرد کم ہیں.۱۰- ایک تجویز کہ جودیہات سکھوں اور ہندوؤں نے راوی کے کنارے اور کشمیر کی سرحد کے نزدیک خالی کئے ہیں اُن میں احمدی بسائے بھائیں بخیر احمد YO " حضرت اقدس نے مندرجہ بالا یاد داشت سننے کے بعد چوہدری عزیز احمد صاحب کو ارشاد فرمایا کہ آپ فورا علاقہ شیخو پورہ میں بجا کر اراضیات وغیرہ دیکھ آئیں.ان دنوں شیخو پورہ کی طرف ٹرین دوسرے دن جاتی تھی اور لاریاں بند تھیں.اس لئے آپ نے صدر انجمن احمدیہ پاکستان کے ذریعہ
۲۸۵ جیپ کے حصول کی کوشش کی مگر اس میں کا میابی نہ ہوسکی.اسی دوران میں ان کی اپنے چازاد بھائی کرنل عطا الہ صاحب باجوہ سے نواب محمد دین صاحب کی کو ٹھٹی پہ ملاقات ہوئی بچودھری عزیز احمد صاحب اور نواب صاحب کی تحریک پر چودھری عطاء اللہ صاحب نے بخوشی اپنی جیپ پیش کر دی.اور اُن کو لے کر پہلے تو شیخو پورہ اور بڑا نوالہ میں مختلف اراضی کا جائزہ لیا بعد ازاں چنیوٹ کی طرف سے دریائے چناب کو پار کر کے جب اُس سر زمین پر پہنچے جہاں اب ربوہ آباد ہے تو انہوں نے اس خطہ کو مرکز کے لئے سب سے زیادہ موزوں قرار دیا.کونل عطاء اللہ صاحب باجوہ نے ۲۴ مصلح اجنوری مش کو حضرت مصلح موعود کی خدمت میں اس سفر کی تفصیل میں لکھا کہ 1981 ” میرے چچازاد بھائی چودھری عزیز احمد صاحب مرکز کی تلاش میں گئے ہوئے تھے تو میں اُن کے ساتھ تھا اور وہ قصہ اس طرح سے ہے کہ میں لائل پور سے اوکاڑہ تین دن کی چھٹی جا رہا تھا اور جب میں لاہور سے گذرا تو مجھے بھائی عزیز احمد صاحب نواب صاحب مرحوم کی کوٹھی پر ملے اور انہوں نے اور نواب صاحب نے فرمایا کہ کیونکہ میرے پاس جیپ ہے اور ٹرانسپورٹ وغیرہ ملتی نہیں اس واسطے میں ان کے ساتھ جاؤں.اس کے بعد میں اوکاڑہ اور منٹگمری گیا کیونکہ وہاں کام تھا اور اگلے دن رات کو نو دس بجے کے قریب بھائی محمد شریف صاحب کو لے کر واپس ۱۲ پنجے رات کے قریب لاہور پہنچا.اور اگلے دن بھائی عزیز احمد صاحب کے ساتھ سرگودھا کی طرف چل پڑے.ایک صاحب جن کو حضور نے ہی اس کام کے واسطے چھانٹا تھا وہ بھی ساتھ تھے.ہم لوگ شیخو پورہ اور جڑانوالہ کے قریب رقبہ دیکھتے رہے اور پھر اس کے بعد سرگودھا کی طرف کو چل دیئے اور جب چنیوٹ پہنچے اور دریائے چناب نظر آیا تو میں نے بھائی صاحب کو کہا کہ ہمارا مرکز اس دریا کے پار ہونا چاہیے....پھر ہم لوگوں نے دریا کے شمالی کنارے کے ساتھ نماز پڑھی اور پھر آگے پھل دیئے اور جس جگہ سے سڑک پہاڑ کو عبور کرتی ہے اور کھلا میدان آجاتا ہے (جس جگہ پر اب ربوہ ہے ) وہاں پہنچے تو بھائی صاحب اور ہم دونوں نے فوراً یہی کہا کہ یہ جگہ ہے جہاں ہمارا مرکز بننا چاہیے.یہ قطعہ زمین دیکھنے کے بعد چودھری عزیز احمد صاحب نے حضرت امیر المومنین سیدنا الصالح الموعود کی خدمت میں اپنی رائے پیش کر دی.
۲۸۶ راجہ علی محمد صاحب کا بیان ہے کہ بعیسا کہ اس وقت مختلف احباب نے اطلاع ہم پہنچائی یا مشورہ دیا.زمین کے کئی قطعات حضور کے زیر نظر تھے.ان میں ایک سر زمین ربوہ اور دوسرا کڑانہ کی پہاڑیوں کے دامن میں یہ دونو سرگودھا کی سٹرک پر تھے.اس ریوہ والے قطعہ کے متعلق ایک موقعہ پر میں نے یہ عرض کیا کہ یہ رقبہ میرا بھی دیکھا ہوا ہے ضلع جھنگ کے گذشتہ ہندو بست میں میں تحصیل چنیوٹ کا تحصیل دار بندوبست تھا اور اس رقبہ سے کئی دفعہ میرا گزر ہوا تھا.میں نے عرض کیا کہ یہ قطعہ زمین زراعت کے ناقابل بالکل کو تصویر ہے جہاں صرف ایک بوٹی " لانی" کے جو اونٹوں کا پارہ ہے اور جو خود زمین کے ناقابل زراعت ہونے کا ثبوت ہے.اس کے علاوہ اور کسی قسم کی سبزی، درخت وغیرہ کا وہاں نشان تک نہیں بعض سرمایہ داروں نے لمبی میعاد کے پیڈ پر گورنمنٹ سے یہ زمین لے کر اس کو آباد کرنے کی کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہ ہوئے تو ہے حضرت سیدنا المصلح الموعود کا سفر اس مایوس کن رپورٹ کے با وجود خدا تعالیٰ کے مقدس نئے مرکز کی مجوزہ زمین حافظ فرمانے کیلئے کا اہم فیصلہ کر لیا.چنانچہ حضور پر نور نے خاص اس مقصد کے لئے دار انار / اکتوبر میش کو مندرجہ ذیل خدام کے لئے دار انار اسلام بو العزم تظیفہ موعود نے یہ قطعہ زمین خود ملاحظہ فرمانے نے لے مشہور روایت ہے کہ ایک کروڑ پتی بند و بہادر چند نامی نے اس زمین کو قابل زراعت بنانے کے لئے ہزار ہا روپیہ خوری کو ڈالا نگرا سے ناکامی ہوئی اور وہ اس صدمہ ہی سے چل بسا.بہا در چند کی کھدوائی ہوئی نہر کے آثار اب بھی موجود نہیں ؟ الفضل در انسان جون مش صفحه ۳ ے اس تاریخ کی تعیین مکرم جناب شیخ محمد احمد صاحب نظر امیر جماعت احمدیہ لائل پور کے مندرجہ ذیل نوٹ سے ہوتی ہے.آپ لکھتے ہیں :.کی ہجرت کے بعد نما کسار رتن باغ لاہور میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوا.جہانتک مجھے یاد یا یہ 1 اکتو ریشم کا واقعہ ہے حضور نے مجھ سے فرمایا :- کل میں وہ جگہ دیکھ کر آیا ہوں جو پہاڑیوں کے درمیان ہے اور اللہ تعالٰی نے مجھے رویاء میں دکھائی تھی اثنائے گفتگو میں حضور نے پسند فرمایا کہ خاکسار لائل پور میں اپنا کام شروع کرے اور فرمایا کہ وہ جنگہ لائل پور سے قریب ہے آپ ہم سے قریب ہوں گے.یہ تلطفن اور یہ تہر.آہ ! آه ! و الفضل در جنوری (صلح) له (۱۳۲۸ بیش ))
۲۸۷ ساتھ سفر سرگودها اختیار فرمایا:- ا قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب -۲- حضرت نواب محمد دین صاحب اتم حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب درد ۴ چوہدری اسد اللہ خان صاحب بیرسٹر ایٹ لاء ۵ - راجہ علی محمد صاحب افسر مال - شیخ محمد دین صاحب دفتر جائیداد صدر انجمن احمدیه راجہ علی محمد صاحب فرماتے ہیں کہ رتن باغ لاہور سے صبح سویر سے روانہ ہو کہ تقریباً دس بجے یہ قافلہ ربوہ میں جہاں ربوہ میں اب بسوں کا اڈہ ہے وہاں پہنچا.وہاں حضور نے اپنی کار سے نکل کر سڑک پر کھڑے کھڑے رقبہ کا بجائزہ لیا.بالخصوص سڑک پختہ ریلوے لائن کے درمیان اس رقبہ کے واقع ہونے کا اور اس طرح اس کی جائے وقوع پر غور فرمایا.پھر حضور نے سڑک کے متوازی سامنے کی پہاڑی پر پڑھ کر پہاڑی کے پیچھے زمین کی سطح کو دیکھنے کا خیال کیا اور پہاڑی پر پڑھنا شروع کیا لیکن اس کی نصف بلندی تک پہنچ کر فرمایا کہ میں کمزوری محسوس کرتا ہوں اور اُو پر نہیں جا سکتا.اور نیچے اُتر آئے مگر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور مکرم و محترم مولوی عبد الرحیم صاحب ورد رضی اللہ عنہا جو حضور کے ساتھ اوپر چڑھ رہے تھے چوٹی پر پہنچے اور آ کر پہاڑی کے پیچھے جو زمین کی صورت تھی.اس کا حضور سے ذکر کیا.بعد ازاں سڑک پر تھوڑی دور سرگودھا کی طرف سے آگے چل کر سٹرک پر پانی پینے کے ہینڈ پمپ سے خود چلو میں پانی لے کو چکھا اور فرمایا کہ پانی تو خاصا اچھا ہے.وہاں سے روانہ ہو گی احمد نگر کے بالمقابل سڑک پچہ اپنی موٹ سے نکل کر نزدیک ہی ایک کنوئیں کے قریب درخت کے نیچے کھڑے ہو گئے اور تمام مہرا ہی احباب کے علقہ میں احمد نگر کے چند غیر احمدی معززین سے جو وہاں آگئے تھے مخاطب ہوئے بالخصوص وہاں کے نمبردار چوہدری کرم علی صاحب سے (جو فوت ہو چکے ہیں) دریافت فرمایا کہ دریائے چناب میں سیلاب کے پانی کی زد کی بعد کہاں تک ہے.نمبردار نے عرض کیا کہ سیلاب کا پانی تو یہاں تک بھی پہنچ جاتا ہے.پھر دریافت فرمایا کہ آیا وہ رقبہ جہاں اب ربوہ آباد ہے سیلاب کی زد میں ہے.اس پر نمبردار مذگور نے کہا کہ وہاں تو پانی صرف ایسی صورت میں پہنچے گا کہ جب سیلاب کے پانی کی بلندی اس درخت کی جس کے نیچے حضور کھڑے
۲۸۸ تھے جھکی ہوئی شاخوں کو چھوٹے گی.ان لوگوں کی تالیف قلوب کے لئے تھوڑی دیرہ اور وہاں گفتگو فرمائی اور پھر سرگودھا کی طرف سفر شروع کیا.موٹر میں بیٹھے کرانہ پہاڑیوں کے دامن میں تو کھلا میدان ہے اس کا بھائزہ لیا.سرگودھا پہنچ کر محترم چو ہدری عزیز احمد صاحب سب حج کی کوکھی پر جو اُن دنوں وہاں تعینات تھے دوپہر کا کھانا تمام ہمرا ہی احباب سمیت تناول فرمایا.یہ کھانا حضرت نواب چوہدری محمد دین صاحب پکوا کر اپنے ہمراہ موٹر میں لے گئے تھے اس کے بعد نماز ظہر و عصر جمع کر کے پڑھائیں اور بعد نماز جلدی لاہور کو روانہ ہو کہ قریباً شام کے وقت واپس لاہور پہنچ گئے “ سے ترسية بالمصلح الموعود کی زبان مبارک حضرت ام المومنین این داسي الثاني الصلح الموعود نے ار تبوک استمبر مہش کو اپنی زبان مبارک سے سے اس تاریخی سفر کے حالات اس تاریخی سفر کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا.ہم سات آٹھ مہینے سے کوشش کر رہے تھے کہ ایک جگہ لی جائے جہاں قادیان کی اُجڑی ہوئی آبادی کو بسایا جائے.یہ تجویز ستمبر سنہ میں ہی کر لی گئی تھی اور اس خراب کی بناء پر جو میں نے ماشا ء میں دیکھی تھی کہ میں ایک جگہ کی تلاش میں ہوں جہاں جماعت کو پھر جمع کیا جائے اور منظم کیا جائے ہم نے یہاں پہنچتے ہی ضلع شیخو پورہ میں کوشش کی.پہلے مہاری یہ تجویز تھی کہ ننکانہ صاحب کے پاس کوئی جگہ لے لی جائے تا سکھوں کو یہ احساس رہے کہ اگر انہوں نے قادیان پر جو احمدیوں کا مرکز ہے حملہ کیا تو احمد می بھی ننکانہ صاحب پر حملہ کر سکتے ہیں.اس خیال کے ماتحت میں نے قادیان سے آتے ہی آٹھ نو دن کے بعد بعض دوستوں کو ہدایات دے کر ضلع شیخو پورہ بھیجوا دیا تھا.وہاں سہندوؤں کی چھوڑی ہوئی زمیندا کے متعلق ان کے ایجنٹوں سے بات چیت بھی کر لی گئی تھی اور بعض لوگ زمین دینے پر رضا مند بھی ہو گئے تھے.لیکن جب اس کا گورنمنٹ کے افسران سے ذکر کیا گیا تو انہوں نے کہا گورنمنٹ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ غیر مسلموں کی چھوڑی ہوئی جائداد فروخت نہ کی جائے.ہم نے انہیں کہا ہم بھی ریفیوجی ہیں اس لئے کسی غیر کے پاس زمین فروخت ه "الفضل راحسان /جون ۱۳۴۳ بیش صفحه ۵ :
۲۸۹ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.مگر انہوں نے جواب دیا کہ چونکہ ایسا کرنے میں غلط نہیں ہو سکتی ہے اس لئے یہ زمین قیمتا نہیں دی جا سکتی.اسی دوران میں بعضی احمدیوں نے یہ خیال ظاہر کیا کہ سکھوں میں ایک طبقہ حد سے زیادہ جوش والا ہے اس لئے بجائے اس کے کہ اس تجوینہ سے فائدہ ہو.ایسے لوگ زیادہ شرارت پر آمادہ ہو جائیں.ایک دوست نے تھ یہ بھی کہا.آپ نے خواب میں جو جگہ دیکھی تھی وہ جگہ تو پہاڑیوں کے بیچ میں تھی اور یہ جگہ پہاڑیوں کے بیچ میں نہیں ہے.میں نے ایک جگہ دکھی ہے جو آپ کے خواب کے زیادہ مطابقی ہے بچنا نچہ پارٹی تیار کی گئی اور میں بھی اس کے ساتھ موٹر میں سوار ہو کر گیا.وہ جگہ دیکھی واقعہ میں وہ جگہ ایسی ہی تھی.صرف فرق یہ تھا کہ میں نے خواب میں جو جگہ دیکھی تھی اس میں سبزہ تھا اور یہاں سبزہ کی ایک پتی بھی نہ تھی.یہ جگہ اونچی ہے اور شہر کا پانی اس تک نہیں پہنچ سکتا.میں نے ایک گاؤں کے زمیندار سے پوچھا کہ آیا کسی وقت سیلاب کا پانی اس جگہ تک پہنچ جاتا ہے.اس نے کہا، نہیں اور ایک درخت کی طرف اشارہ کرتے اء نے ہمیں کے نیچے ہم کھڑے تھے کہا کہ اگر پانی اس درخت کی چوٹی تک پہنچ جائے تب اس جگہ تک پانی پہنچ سکتا ہے.اب حال میں جو سیلاب آیا ہے اس کا پانی بھی اس میگہ سے نیچے ہی رہا ہے اور اس جگہ تک نہیں پہنچ سکا.لیکن ہم نے سمجھا کہ اگر کوشش کی جائے تو شاید یہاں بھی سبزہ ہو سکتا ہے" سے پٹی کمشنر صاحت مضلع جھنگ کے نام یہ جگہ ایک شخصیت سے فرق کے ساتھ ہو کردہ نور کی ان مسال چونکہ قبیل کی خواب سے بالکل ملتی جلتی تھی اس لئے حضور کی ہدایت خریدارانی کیلئے درخواست ناظر اعلی صدر همین امر یہ پاکستان کی طرف سے ڈیٹی شہر ے یہ رائے سید ظہور احمد شاہ صاحب اند این دلیری ریسه ی انسٹی لیو با تند و سابق مبلغ بھی کی تھی جس کا اظہار انہوں نے اپنے مکتوب (محرره ۸ اکتو بر شام میں کیا حضرت اقدس نے اس خط کے جواب میں فرمایا " ننکانہ کا خیال چھوڑ دیا ہے د اکتوبر کیا اس خیال سے تو آپ نے لکھا ہے" اس خط پر دفتر پرائیویٹ سکوٹری رتن باغ لاہور کی طرف سے روانگی کی تاریخ را کریا.۱۲ اکتوبر ۱۴ مهر درج ہے کہ حضرت الصلح الموعود نے یہ خواب فتح ادیمیر تار میش کے خطبہ جمعہ (مطبوعه الفضل فتح اردسمبر) میں بیان فرمائی تھی جس کی تفصیل "تاریخ احمدیت "مجلہ احمدیت جلد نہم (صفحہ ۲۷۳ تا ۲۷۶) میں گذر چکی ہے.الفضل ۲۸ تبوک استمبر رامش صفحه ۵ * + ،
۲۹۰ صاحب جھنگ کی خدمت میں انگریزی میں ایک درخواست دی گئی جس کا اردو ترجمہ یہ ہے :- رتن باغ.لاہور ار اکتوبر ۱۹۴۷ مرد ر صاحب ضلع جھنگ جناب عالی ! قادیان (مشرقی پنجاب) کا قصبہ جماعت احمدیہ کا مرکز ہے اور اس لحاظ سے بیحد اہمیت رکھتا ہے کہ اس کی شاخیں تقریباً تمام دنیا میں قائم ہیں.جماعت احمدیہ کی نیت یہی تھی کہ باوجود ملک کی تقسیم کے قادیان ہی جماعت کا مرکز رہے.لیکن سکھوں کے متواترہ ملے اور ان جملوں میں ہندوستانی فوج اور پولیس کی امداد کی وجہ سے قادیان کے اکثر باشند وں کو بالجبر اور بالا کراہ اپنا وطن چھوڑنا پڑا.ادھر سہندوستانی فوج کے احکامات کے تحت جماعت احمدیہ کے ڈگری کالج ، ہائی سکول اور جامعہ احمدیہ کی عمارات کو خالی کرایا گیا.ڈگری کالج کی عمارت کو سکون نیشنل کالج کی تحویل میں دے دیا گیا اور نوری ہسپتال کی عمارت و بھی یا نجیب خالی کرایا گیا.ان اقدامات کا نتیجہ یہ ہوا کہ تقریبا دس ہزار سے زائد آبادی کو اپنے آبائی گھروں سے ہاتھ دھونا پڑا.قادیان کی یہ آبادی ان ہزار ہا باشندوں کے علاوہ تھی جو مقام حکومت کے مظالم سے تنگ آکر ترک وطن پر مجبور ہوئے تھے.جناب ! قادیان کے یہ ہزاروں باشندے اپنا تمام اثاثہ اور گھر بار چھوڑ کر پاکستان میں ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے ہیں.ان میں تمام پایشوں سے تعلق رکھنے والے لوگ موجود ہیں.اہل علم بھی ہیں، انجنیر بھی اور تاجر اور مزدور طبقہ کے علاوہ اہل فن اور حرفت و صنعت کے ماہر بھی.آج جماعت کو ضرورت ہے کہ انہیں آباد کرنے کے لئے ایک ایسا خطہ حاصل کیا جاوے جہاں پہلے تو ابتدائی رہائش گا میں تعمیر ہوں اور پھر انہیں پختہ رہائش گا ہوں میں تبدیل کر کے ایک قصبہ کی شکل دے دی جائے.ه یه درخواست در اکتوبر کو یعنی ایک دن پہلے ہی ٹائپ کرائی گئی تھی ؟
٢٩١ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ دریائے چناب کے نزدیک چنیوٹ سرگودھا سڑک پر "چک ڈھگیاں" کے نام سے ایک قطعہ اراضی موجود ہے جس کا رقبہ ۱۵۰۶ ایکڑ ہے.اس میں سے ۴۷۲ ایکٹر کارقب تو غیر ممکن“ کہلاتا ہے یعنی اس میں آبادی نہیں ہو سکتی کیونکہ اس میں ریلوے لائن، بڑی سڑک اور پہاڑیوں کے علاقے شامل ہیں.بقیہ رقبہ ۱۰۳۴ ایکڑ بھی اس قسم کا ہے کہ وہ زراعت کے ناقابل ہے البتہ اس میں مکانات وغیرہ تعمیر ہو سکتے ہیں.یہ زمین اب تک کسی فرد کی زیر ملکیت نہیں.اور نہ ہی کبھی یہ زرعی علاقہ سمجھا گیا ہے.ہماری درخواست یہ ہے کہ یہ قطعہ اراضی صدر انجمن احمدیہ کو دے دیا جاوے.ہوسکتا ہے کہ اس خطے کے ملحقہ علاقے کو بھی بعد میں حاصل کر لیا جاوے مگر اس کے لئے پھر درخواست پیش کی جاوے گی.فی الحال ہمیں اپنے وسیع نظام کو مرکوز کرنے کے لئے اور اپنے دفاتر اور انجمن کی متعدد شاخوں کو یکجائی طور پر ایک مرکز سے منسلک کرنے کے لئے ایک ایسے خطے کی ضرورت ہے جسے مرکزی حیثیت حاصل ہو.( دستخط ) خاکسار آپ کا خادم محمد عبد اللہ خاں ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمد یہ پاکستان منشی محمد دین صاحب نے یہ درخواست اسی روز (۱۸ را خاء/ اکتوبر ) کو بنگلہ لالیاں میں ڈپٹی کمشنر صاحب جھنگ (چوہدری مشتاق احمد صاحب چیمہ) کی خدمت میں پیش کر دی.چنانچہ وہ تیسرے روز ایک جیپ پر سپر نٹنڈنٹ پولیس صاحب اور شیخ محمد دین صاحب کے ساتھ اراضی دیکھنے کے لئے تشریف لائے اور تحصیلدار صاحب کو موقعہ کا نقشہ شامل کر کے رپورٹ کرنے کا حکم دیا.آخر کا غذات مکمل ہو کر ڈپٹی کمشنر صاحب کی خدمت میں پہنچے جو انہوں نے سفارش کے ساتھ کمشنر صاحب کو بھجوا دئیے جہاں سے فنانشل کمشنر (جناب اختر حسین صاحب) کی خدمت میں بغرض منظوری پہنچے.ریو نیومنسٹر نے بعض اعتراضات کے ساتھ یہ سب کا غذات واپس کر دیئے.ازاں بعد جوابات کی تکمیل پر یہ کیس دوبارہ ریو نیومنسٹر کے دفتر میں پہنچا اور بالآخر ایک طویل کشمکش کے بعد ا ار ماہ احسان / جون ہش کو حکومت پنجاب سے حسب ذیل الفاظ میں زمین دیئے جانے کی منظوری ملی.
۲۹۳ "The Proposed sale against a price of Rs.10/- per acre was approved in principle.It was however direct- ed that the town planners should examire the entire building plans of the purchaser particularly with a view to see that plenty of room is left for the widening of through road." ترجمہ: دس روپیہ فی ایکڑ کے حساب سے مجوزہ فروخت اصولی طور پر منظور کی گئی.تا ہم یہ ہدایت کی جاتی ہے کہ ٹاؤن پلیز کو چاہیئے کہ خریدار کے تمام تعمیری (عمارتی) منصوبہ کا اچھی طرح ملاحظہ کریں خصوصاً اس نظریہ کے تحت کہ سڑکوں کو کشادہ رکھنے کے لئے کافی جگہ چھوڑی گئی ہے.حکومت پنجاب کے اس فیصلہ کی باقاعدہ اطلاع اے جی رضا ڈ پٹی سیکرٹری ڈویلپمنٹ کی طرف اسے بتاریخ ۲۲ جون ۱۹۳۱ء کمشنر صاحب ملتان کو بھجوائی گئی جہاں سے ڈپٹی کمشنر کو اطلاع پہنچی.سیدنا المصلح الموعود اس کام میں ایک ایک منٹ کی دیر کو خطرناک سمجھتے تھے اور دراصل یہ آپ ہی کی خصوصی توجہ اور دُعا کا نتیجہ تھا کہ یہ کوششیں بارآور ہوئیں ورنہ حالات قدم قدم پر سخت مخدوش تھے.حضور کے بعد اس مقصد کی تکمیل میں جس بزرگ نے کمال سر فروشانہ جدوجہد کی وہ حضرت نواب محمد دین صاحب تھے.جنہیں خود حضرت سیدنا اصلح الموعود نے یہ کام سونپا تھا.آپ کے علاوہ حضرت مرزا عزیز احمد صاحب، حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب درد، راجہ علی محمد صاحب سابق افسر مال، ملک عمر علی صاحب کھوکھر رئیس ملتان، شیخ محمد دین صاحب مختار عام اور عبد الغنی صاحب ہیڈ کلرک بندوبست جھنگ (سابق امیر جماعت مگھیانہ) کی مساعی جمیلہ کا بھی نمایاں عمل دخل رہا.خرید اراضی کیلئے دفتری کارروائی کی تفصیلا) اراضی مرکز کی خرید کے لئے کیا کیا دفتری کارروائی کی گئی؟ اُس کی تفصیلات حضرت سیدنا الصلح الموعود نے ، ارتبوک استمبر کاہش لمصل سید نا اصلح الموعود کے الفاظ میں المصل کو حسب ذیل الفاظ میں بیان فرمائی:-
۲۹۳ "ہم نے گورنمنٹ سے اس کے خریدنے کی درخواست کی اور اس سے کہا کہ آخر آپ نے ہمیں کوئی جگہ دینی ہی ہے اور کہیں بسانا ہی ہے.اگر یہ جگہ ہمیں مل جائے تو جتنے احمدی یہاں بس جائیں گے ان کا جو چھ گورنمنٹ پر نہیں پڑے گا.قادیان کے باشندوں کو اگر کسی اور جگہ آباد کیا جائے تو انہیں بنی بنائی جگہیں دی جائیں گی.لیکن اگر وہ یہاں بس بھائیں تو کروڑوں کی جائید بکی بجائے گی جو دوسرے تمہا جرین کو دی جا سکتی ہے.قادیان میں دو ہزار سے زائد مکانات تھے جن میں بعض پچاس پچاس ہزار کے تھے اور بعض لاکھ دو لاکھ کے تھے.لیکن اگر پانچ ہزار روپے فی مکان بھی قیمت لگائی جائے تو ایک کروڑ کے مکانات قادیان میں تھے اور یہ قیمت صرف مکانوں کی ہے، زمین کی قیمت، استی، الگ ہے.زمین کی قیمت اس وقت دس ھزار روپے فی کنال تک پہنچ گئی تھی اور پانچ سو ایکڑ کے قریب زمین مکانوں کے نیچے تھی.جس کا مطلب یہ ہوا کہ چالیس ہزار کنال زمین پر مکانات بنے ہوئے تھے.اگر پانچ ہزار روپے فی کنال بھی قیمت لگا دی جائے تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ دو کروڑ کی زمین تھی جس پر مکانات بنے ہوئے تھے گویا تین کروڑ کے قریب مالیت کے مکانات قادیان والے چھوڑ کر آئے ہیں.اگر لاہور ، لائل پور ، سرگودھا وغیرہ اضلاع میں قادیان کے لوگوں کو بسایا بجائے تو پھر وہاں زمین اور مکانات کی قیمتیں قادیان کی زمین اور مکانات سے بڑھ کر ہوں گی.اگر احمدیوں کو یہ جگہ دے دی جائے اور وہ وہاں بس جائیں تو قریباً چار کروڑ کی جائیداد کی جاتی ہے جو دوسرے لوگوں کو دی جاسکتی ہے.انہوں نے اس تجویز کو پسند کیا اور کہا کہ قاعدہ کے مطابق اسے گزٹ میں شائع کرنا ہوگا اور وعدہ کیا کہ وہ نومبر یا دسمبر میں اسے شائع کر دیں گے.مگر جب جنوری میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہ دیا کہ ہم بھول گئے ہیں ہم نے کہا یہ آپ کا قصور ہے.بہار ہے آدمی آوارہ پھر رہے ہیں.اس کے جواب میں انہوں نے کہا خواہ کچھ بھی ہو، بہر حال اسے شائع کرنا ضروری ہے تا معلوم کیا جائے کہ اس زمین کا کوئی دعویدار ہے یا نہیں.اس کے بعد کہہ دیا گیا جب تک کا غذات کشنر کی معرفت نہ آئیں کوئی کارروائی نہیں کی جاسکتی.ایک مہینہ میں کاغذ کمشنر کے پاس سے ہو کر پہنچے.اور اس طرح مارچ کا مہینہ آگیا.پھر کہا گیا کہ ان کا غذات پر قیمت کا اندازہ نہیں لکھا
۲۹۴ گیا اس لئے ہم کوئی کا روائی نہیں کر سکتے.پھر دوبارہ کاغذات مکمل کر کے بھیجے گئے.پھر افسر مقررہ نے ایک مہینہ بعد تعمیل کی.پھر اپریل میں قیمت لگائی گئی.پھر یہ سوال اُٹھایا گیا کہ کا غذات منسٹری کے پاس جائیں ہم نے کہا کہ یہ کام تو فنانشل کمشنر صاحب خود کر سکتے ہیں.مگر کہا گیا کہ یہ کام چونکہ اہم ہے اس لئے کا غذات کا منسٹری کے پاس جانا ضروری ہے.کاغذات منسٹری کے پاس بھیجے گئے.منسٹری نے کہا.ابھی ان پر غور کرنے کے لئے فرصت نہیں.آخر ایک لمبے انتظار کے بعد جون میں فیصلہ ہوا اور زیادہ سے زیادہ جو قیمت ڈالی گئی وہ وصول کی گئی.یہ واقعات میں نے اس لئے بتائے ہیں کہ گورنمنٹ کے افسرا نے ہمارے ساتھ کوئی مات نہیں بلکہ ان میں سے بعض کی غفلت کی وجہ ہم سال بھر تک اُجڑے رہے.اب جگہ ملی ہے صرف ایک کر ہاتی ہے.اگر وہ دور ہو گئی تو جلد آبادی کی کوشش کی بجائے گی ہے ار اضی کی خرید کے بارے میں تمام مراحل طے ہونے کے بعد قیمت اراضی کا ادخال اور رجبری اس کی قیمت کے ادخال اور رجسٹری کرانے کے معاملات اولین توجہ کے محتاج تھے بچنا نچہ صدر انجمن مدینے بھی اسکی طرف خصوصی توجہ دی اور ۲۲ احسان خون است کو زمین کی قیمت اور اخراجات رجسٹری وغیرہ کے لئے فوری طور پر بارہ ہزار روپے چوہدری عبدالباری صاحب مختار عام صدر انجمن احمدیہ کو ادا کر دیئے جنہوں نے ۲۷ احسان جون کو جھنگ بھا کہ زمین کی قیمت داخل خزانه سرکار کرا دی.بعد ازان سرکاری سند پر فنانشل کمشنر، اسسٹنٹ سیکرٹری اور ڈپٹی کمشنر کے دستخط بھی کرائے اور یوں سرکاری سند کی رجسٹری مکمل ہوئی.اگرچه رسبری تو عام دفتری روایات کے بر خلاف بہت جلد ہو اخبارات میں گمراہ کن پراپیگنڈا کئی گر زمین کاقبضہ دیئے جاتے میں متعلقہ حکام کی طرف سے نا واجب تاخیر ہونے لگی نتیجہ یہ ہوا کہ پیچیدگیوں اور دشواریوں کا ایک نیا دروازہ کھل گیا اور وہ اس طرح کہ پنجاب کے بعض اخبارات ) آزاد ، احسان ، مغربی پاکستان اور زمیندار نے احمدیوں کے ہاتھوں اس رقبہ اراضی کی فروخت پر سخت نکتہ چینی شروع کردی بلکہ یہانتک لکھا کہ کئی لوگ اس زمین کو پندرہ سو روپیہ فی ایکڑ کے حساب سے خریدنے پر تیار تھے مگر حکومت نے دس روپے فی ایکٹر پر اتنا بڑا رتبہ احمدیوں کے حوالہ کر دیا ہے.الفضل" ۳۸ تبوک /ستمبر ۳۳۷ سه مش صفحه ۹۵
۲۹۵ ایک جماعت احمدیہ کے ناظر امور خارجہ نے اس غلط پراپیگینڈا ات کے ناظر اور تردید کی تردید میں ۳ ظہور / اگست پر مہش کو حسب ذیل بیان جاری کیا :- "اخبار" "زمیندار" نے اپنی اشاعت یکم اگست ۱۴ میں احراری اخبار آزاد کے حوالہ سے ایک مقالہ افتتاحیہ سپرد قلم کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جو اراضی جماعت احمدیہ نے پیوٹ کے قریب دس روپیہ فی ایکڑ کے حساب سے خریدی ہے اس اراضی کو بعض لوگ پندرہ سو روپیہ فی ایکڑ کے حساب سے خریدنے کے لئے تیار تھے سو اگر یہ درست ہے تو واقعی حکومت کو سخت نقصان پہنچا ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ بصرہ العزیز گورنمنٹ کے اس نقصان کو قطعاً برداشت نہیں کر سکتے.اس لئے حضور نے مجھے ہدایت فرمائی ہے کہ میں یہ پریس کمیونک بھاری کروں کہ ہم یہ رقبہ جو ۱۰۳۴ ایکڑ ہے مندرجہ بالا پیش کردہ قیمت پر فروخت کرنے کو تیار ہیں اور علاوہ ازیں ہم وعدہ کرتے ہیں کہ اس رقم کا رجو پندرہ لاکھ اور اکاون ہزار روپیہ فیتی ہے ، وصول ہوتے ہی ایک ایک روپیہ فوراً حکومت پاکستان کے خزانے میں داخل کرا دیں گے.اخیر میں ہم پاکستان کے شہریوں کو یقین دلاتے ہیں کہ اس معاملہ کے متعلق اخبار آزاد کا لفظ لفظ کذب بیانی پر مبنی ہے.“ سے سکومت مغربی پنجاب نے بھی مندرجہ بالا بیان کی تائید میں ایک حکومت مغربی پنجاب کے اعلان سرکاری ملوان شائع کیام بنفسہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے.احمدیوں کو دس روپے فی ایکڑ کے بھائو بنجر زمین دی گئی ہے یہاں قادیان کے خانماں ویران لوگ آباد ہوں گے حکومت کا اعلان لاہور.سرکاری اطلاع - ۲۸ اگست - بعض اخبارات میں ایک خبر چھپی ہے جس میں اس بات پر نکتہ چینی کی گئی ہے کہ حکومت مغربی پنجاب نے ۱۰۳۴ ایکٹر زمین ضلع جھنگ میں چنیوٹ کے قریب جماعت احمدیہ کے ہاتھ دس روپے فی ایکڑ کے حساب سے بیچی.الزام یہ ہے کہ تقسیم الفضل بر ظہور / اگست بیش صفحه ۱ :
۲۹۶ سے پہلے بعض مسلم انجمنیں اس زمین کو پندرہ سو روپیہ فی ایکڑ کے حساب سے خریدنا چاہتی تھیں.یہ اعتراض بھی کیا گیا ہے کہ جب ضلع وار آباد کاری کی تجویز کو منظور نہیں کیا گیا تو احمدیہ جماعت کو یہ موقع کیوں دیا گیا ہے کہ وہ ایک مخصوص علاقے کو اپنی کا لونی بنالے.یہ رپورٹ گمراہ کن اور اصلیت سے دور ہے.جس زمین کے متعلق یہ اعتراض کیا گیا ہے..وہ بنجر ہے اور عرصہ دراز سے اسے زراعت کے ناقابل سمجھا گیا ہے....اسے جماعت احمدیہ کے ہاتھ فروخت کرنے سے پہلے حکومت نے اس کا اشتہارہ اخبارات میں دے دیا تھا اور پورے ایک مہینہ تک کسی شخص نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا.جہاں تک قیمت کا تعلق ہے حکومت کو آہنگ پندرہ سو روپیہ فی ایکڑ اس زمین کی قیمت کسی فرد یا کسی جماعت کی طرف سے پیش نہیں کی گئی.چونکہ ابھی تک سکونتی اغراض کے لئے زمین بیچنے کی کوئی نظیر موجود نہیں تھی اس لئے حکومت نے اس کے لئے وہی شرح مقرر کی تو حکومت کے محکموں کے لئے ہے.جماعت احمدیہ اس علاقے میں ایک نئی بستی آباد کرنا چاہتی ہے جس میں قادیان کے اُجڑے ہوئے لوگ آباد ہوں گے.ان کا خیال ہے کہ یہاں سکولی ہوں ، کالج ہوں ، مذہبی مدارس ہوں اور صنعتی ادارے ہوں.ان کی یہ تجویز کسی صورت میں بھی ان وجوہ سے نہیں مکراتی مین کی بناء پر حکومت نے مہاجرین کی ضلع وار آبادی کی تجویز کو مسترد کر دیا ہے ، جو صوبے کے ایک بڑے علاقے میں بسائے جاچکے ہیں ملے سید نا صلح الموعود کی خصوصی تو جہ سے چونکہ اراضی مرکز کا معاملہ پریس کا موضوع بن چکا تھا اس لئے سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی المصلح الموعود کو اس اراضی پر باضابطہ قبضہ معاملہ میں پہلے سے بھی زیادہ فکر و تشویش پیدا ہو گئی.چنانچہ حضور نے ۲ ظہور / اگست میش کو کوئٹہ سے ناظر اعلیٰ کے نام تار دیا کہ بذریعہ ایکسپریس نار اطلاع دی بھائے کہ قبضہ مل چکا ہے یا نہیں.جواباً عرض کیا گیا کہ تحصیلدار صاحب چنیوٹ نے چودھری عبد الباری صاحب کو بتاریخ هم را گست ۱۹۴۷ء قبضہ دینے کا وعدہ کیا ہے.اس پر حضور نے بذریعہ تار ارشاد فرمایا :- سه اخبار انقلاب لاہور اس راگست 19 اور صفحہ بہ کالم ۲-۳.+
۲۹۷ I dont believe in these promises.Anj- man neglected its duty." "} یعنی مجھے ان وعدوں پر قطعاً اعتماد نہیں.انمیں نے اپنے فرائض کی بجا آوری میں کوتاہی کی ہے چوہدری عبدالباری صاحب مختار عام جو صدر انجین احمدیہ کی طرف سے اس کام پرتعین تھے پہلے بھی تین بار چنیوٹ اور جھنگ جا کر قبضہ لینے کے لئے دوڑ دھوپ کر چکے تھے مگر کوئی عملی نتیجہ ظاہر نہ ہوا تھا لیکن اب جو حضور کا تارپہنچا تو خدا کے فضل و کرم اور حضور کی دعاؤں اور تو بعد روحانی کی بدولت ر ظهور / اگست میش کو صدر انجین احمدیہ پاکستان حکومت سے زمین کا قبضہ لینے میں کامیاب ہوگئی.فالحمد للہ علی ذالک.ال آخر را جہ علی محمد صاحب سابق ناظر بیت المال کا ایک قیمتی نوٹ جس سے حضرت مصلح موعود کی خرید اراضی کے بارے میں غیر معمولی سرگرمی اور پر جوش بعد وجہد کا پتہ چلتا ہے ہدیہ قارئین کیا جاتا ہے.لکھتے ہیں." اس رقبہ کے حصول کے لئے حضور کی سرگرمی اور گرم جوشی کا بیان کرنا میری تسلیم کی طاقت سے باہر ہے.اپنی کوتاہ بینی کی وجہ سے ہم میں سے بعض یہ خیال کرتے تھے ، کہ جس کام کا ارادہ حضور کر لیں آپ اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں.اس وقت تمام فکر و تدبیر مشغولیت و مصروفیت اور حضور کی ہمہ تن توجہ اس کام کے لئے وقف شدہ معلوم ہوتی تھی لیکن جلد کی بعد میں جب آنے والے واقعات نے ہماری آنکھیں کھولیں تو حضور کی عجلت پسندی اور فکر اور گرمجوشی ہمارے لئے دست غیب کا ایک کرشمہ تھا جو حضور کے ہاتھ پر ظاہر ہوا کیونکہ اس کے بعد بہت جلدی جماعت احمدیہ کے خلاف تعصب ، بغض وعناد اور حملہ اور نفرت کا لاوا اندر ہی اندر پکنا شروع ہو گیا.اور ہوں جوں دن گزرتے گئے جماعت احمدیہ کے ساتھ ہمدردی اور خیر سگالی کا جذبہ جو قادیان اور اس کے گرد و نواح میں مسلمانوں کی حفاظت کے لئے احمدیوں کے مثالی مومنانہ ایثار اور استقلال کی وجہ سے پیدا ہوا تھا وہ افراد و کذب بیانی اور منافرت کے لاوا میں دیتا گیا.اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ ہماری ہر بات کو نا کام کرنے کی کوشش کی بھانے لگی.ایسے حالات میں کوئی یہ خیال بھی نہیں کر سکتا تھا کہ ربوہ کی سرزمین کا حاصل کرنا
۲۹۸ ہمارے واسطے ممکن ہوگا.یوہ کی زمین کا اس طرح حاصل ہونا ایک معجزہ ہے جو اور جس طرح کی کوشش ان دنوں حضور نے کی اس میں ایک گھنٹہ کی غفلت بھی مقصد کی کامیابی میں دنوں کا التواء اور دنوں کی غفلت مہینیوں کا التواء ثابت ہوتی.اور چند نہینوں کی غفلت تو غالباً اصل مقصود اور مدعا اور اس کے لئے جو اقدام کیا گیا تھا یہ سب ایک کوشش منفی ثابت ہوتی.پس ربوہ مرکز نمانی کا وجود ایک معجزہ ہے جو حضرت موعود اولو العزم اور مصلح اور امام ربانی کے ہاتھ پر ظاہر ہوا کہ نئے له "افضل" مراحسان / جون مش صفر ه ه
دوسرا باب المصلح الوجود کی راہنمائ پاکستان کی والی مسائل میں.کشمیر و فلسطین کے معاملات میں مخلص الشوری جماعت احمدیہ کیلئے العض خاص بر آیات قادیان میں دور درویشی کا آغازہ مرکزی درسگا هونا احترام درسگاهون پاکستان مستقبل کے موضوع پر معلومات افزا اور فاضلانہ ہی کچھ نکا اور ملک کے ممتاز علمی طبقہ کے تاثرات قادیان اور لاہور کے سالانہ جلسے
٣٠١ فصل اوّل استانی کام والی مسالمی پاکستان کی نوزاد مسلمان ملک معرض وجود میں آتے ہی سینکڑوں ہزاروں داخلی و خارجی الجھنوں کی راہ نمائی اور مخلص الشورے میں مبتلا ہو گئی تھی اس نازک موقعہ پر حضت سیدنا المصلح الموعود پاکستان کی خدمت کا عظیم مقصد لے کر میدان عمل میں اتر ے اور آپ نے اس کی مضبوطی اور استحکام کے لئے اسی زور و شور اور شد و مد سے خدمات انجام دینا شروع کر دیں جس طرح حضور نے اور حضور کی قیادت میں جماعت احمدیہ نے قیام پاکستان کے بہاد میں نمایاں اور سرگرم حصہ لیا تھا.سب سے اوّل ضرورت اس امر کی تھی کہ ملک کے پیش آمدہ مسائل میں اسلامی تعلیم اور ملکی تقاضوں کی روشنی میں ارباب حل و عقد کی بر وقت رہنمائی کی بجائے اور اُن کو مخلصانہ مشورے دینے جائیں.چنانچہ اس غرض کے لئے حضور نے ہش کے الفضل میں بہت سے قیمتی اداریئے سپرد قلم فرمائے جو حضور کی فراست و بصیرت اور علمی و سیاسی ذہانت کا شاہکار ہیں.ہم ذیل میں بطور نمونہ ان تاریخی اداریوں میں سے بعض کا ذکر کرتے ہیں :- انڈونیشیا، ایسے سینیا اور سعودی حکومت اس حضرت بیت المصلح الموعود نے حکومت پاکستان کو تحریک فرمائی کہ اسے انڈونیشیا ، ایسے سیفیا اور سعودی سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کی تحریک حکومت سے فوری طور پر سفارتی تعلقات قائم کرنے چاہئیں چنانچہ تحریر فرمایا کہ " بہت سے ضروری ممالک جن سے فوراً پاکستان کا تعلق قائم ہو جانا چاہیئے تھا ان سے اب ایک تعلق قائم نہیں ہو سکا اور شاید پاکستانی حکومت کے ذمہ داروں کو یہ بھی معلوم نہیں که بعض طریقے ایسے بھی ہیں کہ بہت کم خرچ سے بیرونی ممالک سے تعلق قائم کئے جا سکتے ہیں.اس وقت ہم تین ملکوں کا ذکر کرتے ہیں جن سے پاکستان کے سیاسی تعلقات فوراً قائم ہو جانے چاہیئے تھے اور جن کی طرف حکومت پاکستان کو فوری توجہ دینی چاہیے تھی
٢-٣ مگر ایسا نہیں ہوا.یہ ملک انڈونیشیا ، ایسے سینیا اور سعودی عرب ہیں.انڈونیشیا دوسرا بڑا اسلامی ملک ہے جس میں مسلمانوں کی آبادی چھ کروڑ سے بھی زیادہ ہے.پھر اس کا مقام وقوع ایسی جگہ پر ہے کہ اس کے تعلقات آئندہ پاکستان کی ترقی اور حفاظت میں بہت کچھ محمد ہو سکتے ہیں لیکن جبکہ ہندوستان یونین اس کے ساتھ تعلق بڑھا رہی ہے پاکستان حکومت نے اب تک پوری بعد و جہد سے کام نہیں لیا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسلمان کو مسلمان سے پیار ہے اور وہ ایک دوسرے سے ہمدردی رکھتے ہیں لیکن سیاسی معاملات کچھ ایسے پیچیدہ ہوتے ہیں کہ بعض دفعہ دوست دشمن بن جاتے ہیں اور دشمن دوست بن جاتے ہیں اور صرف مذہبی اتحاد کو سیاسی اتحاد کا پورا ذریعہ نہیں بنایا جا سکتا....دوسری خبر اسی سلسلہ میں ہمیں یہ ملی ہے کہ اب تک سعودی عرب سے بھی تعلقات پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی گئی.حالانکہ سعودی عرب وہ ملک ہے میں میں ہمارا مقدس مقام مکہ مکرمہ اور ہمارا قبلہ گاہ بیت اللہ اور ہمارے آقا کا مقام محبت اور مدفن مدینہ منورہ واقعہ ہیں.ہم خواہ کسی مذہب اور فرقہ سے تعلق رکھتے ہوں ہم اُن مقامات کی طرف سے اپنی نظریں نہیں ہٹا سکتے اور جس حکومت کے ماتحت بھی یہ مقامات ہوں اس کے ساتھ تعلق پیدا کرنا ہمارا ضروری فرض ہے کیونکہ مسلمانوں کا حقیقی اتحاد مگر مگریہ اور مدینہ منورہ کے ذریعہ سے ہی ہو سکتا ہے.تیسری شکایت ہمیں یہ پہنچی ہے کہ ایسے سیفیا میں ہندوستان کی آزادی کا دن منایا گیا اور ہندوستانی جھنڈے تقسیم کئے گئے اور خوشی سے ایسے سینیا کے لوگوں نے ہندستانی جھنڈے لہرائے لیکن پاکستان کی آزادی کا دن نہ منایا گیا اور نہ پاکستان کے جھنڈے وہاں ہرائے گئے.ایسے سینیا کے شاہی خاندان کا ایک حصہ مسلمان ہے.اور بعض زیر دست فوجی قبائل بھی مسلمان ہیں.وہ اس نظارہ کو دیکھ کر بہت مایوس ہوئے اور ایسے سینیا کے ہندوستانی ڈاکٹر جو اتفاقا احمدی ہے سے پوچھا کہ یہاں پاکستانی جھنڈے کیوں نہیں آئے اور پاکستان کی طرف سے ہم لوگوں کو خوشی میں شامل ہونے کا موقع کیوں نہیں دیا گیا.وہ سوائے افسوس کے اور کیا کر سکتا تھا.اب اس نے پاکستان کو لکھا
ہے.کچھ پاکستانی جھنڈے بھجوا دیئے جائیں تاکہ وہ مسلمانوں میں تقسیم کئے جائیں اور اس نمونہ پر وہ اپنے لئے جھنڈے بنوا لیں کیونکہ ایہنے سینیا کے مسلمان چاہتے ہیں کہ وہ بھی پاکستان کی خوشی میں شامل ہوں.ایسے سینیا کو حکومت کے لحاظ سے عیسائی ہے.اس کو تین عظیم الشان میتیں حاصل ہیں.ایک یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں ایسے سینیا نے ہجرت اولیٰ کے مسلمانوں کو پناہ دی تھی اور اس وقت کا بادشاہ مسلمان بھی ہو گیا تھا اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بادشاہ اور اس کی قوم کے لئے خاص طور پر دعا فرمائی تھی.بیشک رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا خط اس ملک میں محفوظ چلا آتا ہے.دوسرے ایسے سیفیا کے شاہی خاندان کا ایک حصہ مسلمان ہے کبھی کبھی وہ غالب آکر اس ملک میں اسلامی حکومت بھی قائم کر دیتا ہے.ایسے سینیا اپنے معدنی اور دوسرے ذرائع کی وجہ سے اور اپنے ملک کی وسعت کی وجہ سے اور اپنے مقام وقوع کی وجہ سے حیثیت رکھتا ہے کہ اگر کسی وقت وہاں اسلامی حکومت قائم ہوگئی تو وہ اسلامی سیاست کی تقویت میں بہت بڑی حمد ثابت ہوگی " سے پاکستانی فوج میں اضافہ اور اس کی راہنمائی ۲- حضور نے حکومت کو فوج میں اضافہ.اور اس کی راہ نمائی کے لئے پاکستانی جرنیل کیلئے پاکستانی جرنیل مقرر کرنے کا مشورہ مقرر کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے لکھا." پاکستان کو جہاں کچھ مشینی دستوں کی ضرورت ہے وہاں اسے ایسی فوج کی بھی ضرورت ہے جو بے سڑک والے علاقوں میں گھوڑوں پر سوار ہو کہ دوسٹرکوں کے درمیانی علاقوں کو صاف کرتی چلی جائے اور شینی فوج کے عقب کی حفاظت کر سکے.مگر یہ سوال تو اس وقت پیدا ہوتا ہے جبکہ پاکستان حملہ آور کی حیثیت میں ہو.پاکستان تو کسی پر حملہ کرنے کی نیت ہی نہیں رکھتا.اگر یہ کہا جائے کہ بہترین جو نیلوں کا مقولہ ہے کہ بہترین دفاع حملہ ہے.اگر کوئی ہم پر حملہ کرے تو اس حملہ سے بچنے کا بہترین ذریعہ یہ ہے کہ ہم اس پر حملہ له الفضل مار اضار / اکتوبر بر مش صفحه ۱-۰۲ ۶۱۹۴۷
۳۰۷ کر دیں تو بھی ہم اس امر کو نظر انداز نہیں کر سکتے کہ کوئی فوج محض حملہ کرنے کی تدبیروں سے کامیاب نہیں ہو سکتی.جرمن حکومت گذشتہ دنوں لڑائیوں میں محض اس لئے شکست کھا گئی کہ اس نے صرف حملہ کی تیاریاں کی تھیں.دفاع کی کوئی تیاری اس نے نہیں کی تھی.دونو دفعہ جب اس کا حملہ ناکام رہا تو وہ دفاع کی قوت سے بھی محروم ہو گیا کیونکہ دفاع کا پہلو اس نے مد نظر نہیں رکھا تھا.یہ پرانا مقولہ اب تک بھی درست پھیلا آرہا ہے کہ جنگ دوسر دارد.جنگ میں کبھی انسان آگے بڑھتا ہے کبھی پیچھے ہٹتا ہے.جب تک پیچھے ہٹنے کے لئے بھی پوری تدبیریں نہ کی گئی ہوں کبھی کوئی فوج کامیاب نہیں ہوتی.پس صرف مشینی دستوں پر زور دینا پاکستان کے دفاع کو فائدہ نہیں پہنچائے گا.کسی دشمن کے حملہ کی صورت میں اس کے حملہ کی شدت کو روکنے کے لئے بالمقابل حملہ کرنے میں تو یہ دستے کام آجائیں گے.لیکن ان کا فائدہ دیر پا اور دور رس نہیں ہوگا کیونکہ پاکستان کے ارد گرد جتنے ممالک ہیں ان میں سڑکوں کا وسیع بھال اس طرح نہیں پھیلا ہوا جس طرح یورپ میں پھیلا ہوا ہے.پس اس معاملہ میں یورپ کی نقل کرنا خواہ اس کا فیصلہ بڑے بڑے جرنیل ہی کیوں نہ کریں خلاف عقل اور نا مناسب ہے بہمارے نزدیک پاکستان کی فوج کا بڑھانا نہایت ضروری ہے.اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ پاکستانی فوج کی پاکستانی جرنیل ہی راہنمائی کریں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس وقت ہمارے پاس تجربہ کار افسر بہت کم ہیں لیکن جہاں نا تجربہ کاری نقصان دہ ہوتی ہے، ہمدردی کی کمی اس سے بھی زیادہ نقصان دہ ہوتی ہے.اگر جاں نثار اور تجربہ کار مل جائیں تو فبہا، لیکن اگر ایسے افسر نہ ملیں تو کم تجربہ کار لیکن جاں نثار افسر تجربہ کار لیکن بے تعلق افسر سے یقیناً بہت زیادہ بہتر ہوتا ہے.پولینڈ جب روس اور جرمنی سے آزاد ہوا تو اس کے پاس تجربہ کار افسر نہیں تھے.کیونکہ نہ تو مین کی فوجوں میں پولش لوگوں کو بڑے عہدے ملتے تھے اور نہ روسی فوجوں میں پولش لوگوں کو بڑے عہدے ملتے تھے.اس وقت پولش نے اپنی فوجوں کی کمان ایک گوتیے کے سپرد کی اور اس گویے نے تھوڑے بہت فوجی اصول سے واقف پولش
۳۰۵ افسروں کی مدد سے اپنے ملک کو آزاد کرا لیا.کیا پاکستان کے مسلمان افسر اس کویتے سے بھی کم قابلیت رکھتے ہیں: اس کویتے کی کیا قابلیت تھی ، صرف حب الوطنی.وطن کی محبت کے بے انتہا جذبہ نے اس گویتے کو ایک قابل جرنیل بنا دیا.کیا ہم یہ خیال کر سکتے ہیں کہ پاکستانی فوج کے مسلمان افسروں کے دل سے وطن کی محبت کا جذبہ بالکل مفقود ہے ؟ ہم مانتے ہیں کہ پرانی روایات کا اثر اب تک افسروں کے دل پر باتی ہے ابھی ان کی حب الوطنی کی روح نے ان کی آنکھیں نہیں کھولیں.ابھی اپنی قوم کو سر لینڈ بالا کرنے کے جذبات اُن کے دل میں پوری طرح نہیں اُمڈے.مگر پھر بھی ایک پاکستانی پاکستانی ہی ہے.اپنے ملک کی خدمت کے علاوہ اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں کی جان بچانے کی خواہش بھی اسے زیادہ محنت سے کام کرنے پر مجبور کرتی ہے.اگر پاکستان پر کوئی حملہ ہو تو ایک پاکستانی جرنیل کو صرف اپنے ملک کی عزت کا ہی خیال نہیں ہوگا بلکہ اسے یہ بھی نظر آرہا ہوگا کہ اگر دشمن آگے بڑھا تو اس کے ماں باپ اس کی بیوی اس کے بھائی، اس کی بہنیں، اس کے بچے ، اس کے دوسرے عزیزوں کے بیچتے ، اس کے پڑوسی ، اس کے املاک ، اس کی جائیدادیں ، یہ سب تباہ و برباد ہو جائیں گے.پس ملکی جذبہ کے علاوہ خاندان اور قرابت کے بچانے کا جدہ یہ بھی اس کے اندر کام کرتا ہو گا.پس ہمیں اس بات کی تکر میں زیادہ نہیں پڑنا چاہیے کہ ہمارے ملک کے آدمی ابھی پوری طرح تجربہ کار نہیں.جدید ڑکی کے بانی کمال اتا ترک صرف ایک کر نیل تھے لیکن وطنی محبت کے جذبہ میں سرشار ہو کہ اس کو نیل نے بڑتہ بڑے جرنیلوں کے چھکے چھڑا دیئے.فرانس کا مشہور مارشل شہنشاہ نپولین صرت فوج کا ایک لیفٹیننٹ تھا.لیکن اس لیفٹیننٹ نے دنیا کے مشہور ترین جرنیلوں کی قیادت کی.صرف اس لئے کہ اس کا ڈل وطن کی محبت کے جذبات سے سرشار تھا.امریکہ کا پہلا پریذیڈنٹ اور پہلا کمانڈر انچین جارج واشنگٹن محض ایک سویلین تھا.لیکن وطن کی محبت کے جذبات نے اس کے اندر دہ قابلیت پیدا کر دی کہ بڑے بڑے جرنیلوں کی راہنمائی کر کے اس نے اپنے ملک کو انگریز می غلبہ سے آزاد کروا لیا.ہنر کا انجام بچا ہے کیا ہی خواب ہوا ہو لیکن اترائیں
کیا شک ہے کہ وہ فوج میں صوبیداری کا عہدہ رکھنے والا دنیا کے بہترین جو نیکیوں کے پیدا کرنے کا باعث ہوا.گوئرنگ محض ایک ہوا باز تھا اور ہوا باز بھی ایسا جو ابھی حضرت تجربہ ہی حاصل کر رہا تھا.مگر ملک کی محبت کے جذبات نے پائلٹ گوئنگ کو دنیا کے سب سے زبر دست ہوائی جہاز کے بیڑہ کا مارشل گوٹرنگ بنا دیا.ہم کیوں خیال کریں کہ پاکستان کے افسر حب الوطنی کے جذبہ سے بالکل عاری ہیں.یقیناً اُن میں بھی اپنے وطن پر جان دینے کی خواہش رکھنے والے لوگ موجود ہیں.اگر انہیں موقع دیا جائے کہ وہ اپنے ملک کی آزادانہ خدمت کریں تو یقیناً وہ ملک کے لئے بہترین تعویز اور فخر کا موجب ثابت ہوں گے " یہ پیشگوئی آئندہ چھیل کر کس شان سے پوری ہوئی اور ہو رہی ہے، اس کے متعلق کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں.دفاع پاکستان کیلئے ٹیریٹوریل فورس | ۳- دفاع پاکستان کا مسئلہ نہایت درجہ اہم اور کیلئے نازک تھا.اس بارے میں بھی حضور نے نہایت اور فوجی کلبوں کے اجراء کی مفید تجویز نیستی مشورے دیئے اور یہ تجویز پیش فرمائی کہ ملک میں ٹیریٹوریل فورس اور فوجی کلبیں جاری کر دی بجائیں.چنانچہ حضور نے فرمایا :- "پاکستان کی آباد کی صوبہ سرحد اور سندھ کو ملا کر دو کروڑ اسی ہزار ہے.اگر قبائلی علاقوں کو بھی ملا لیا ہجائے تو تقریباً تین کروڑ ہو جائے گی.اگر کشمیر بھی شامل ہو جائے تو کشمیر کی ۳۲ لاکھ مسلمان آبادی بل کہ یہ تعداد تین کروڑ ۳۰ لاکھ تک پہنچ جاتی ہے.اس آبادی میں سے صرفت ۶۰ لاکھ آبادی ایسی ہے جس میں سے اچھا سپاہی نہیں مل سکتا.باقی دو کروڑ نے لاکھ آبادی ایسی ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے نہایت ہی شاندار سپاہی پیدا کرتی رہی ہے اور کر سکتی ہے.سرحد کا پٹھان ، آزاد علاقہ کا قبائلی، پونچھ ، میر پور ، کوٹی اور منظفر آباد کا پہاڑی ، پنجاب کا پٹھان ، راجپوت ، بلوچ ، " الفضل" ه ار افادا اکتوبر ۳۳۶ پیش صفحه ۲۰۱
اور جھاٹ یہ سب کے سب نہایت اعلیٰ درجہ کے سپاہی ہیں.اور صرف مرنا ہی نہیں جانتے بلکہ دشمن کو مارنا بھی جانتے ہیں.قومی جنگوں میں 4 فیصدی سے لے کو ۱۶ فیصد یا تک کی آبادی لڑائی میں کار آمد ہوتی ہے.اوسطیٰ اگر ۱۰ فیصدی سمجھی جائے تو مشرقی پاکستان میں سے ۲۷ لاکھ سپاہی مہیا کیا بھا سکتا ہے.اس کے مقابل میں ہندوستان کی جنگی نفری بہت کم ہے.ہندوستان کا ۶۰ فیصدی آدمی ایسا ہے جو جنگ کے قابل نہیں.ریاستوں کو نکال که بهندوستان کی آبادی کوئی ۲۰ کروڑ ہے جس میں سے ۱۲ کروڈ آدمی تو کسی صورت میں بھی لڑنے کے قابل نہیں.باقی رہ گئے آٹھ کروڑ ان میں سے بھی اکثر حصہ ناقص سپاہی ہے صرف تین چار کروڈ آدمی ان کا ایسا ہے جس میں سے اچھا سپاہی لیا جا سکتا ہے مگر وہ بھی اس پانید کا نہیں ہے جس پایہ کا مسلمان سپاہی ہے.پس ہندوستان میں سے بھی پورا زور لگانے کے بعد میں بنتیں لاکھ سپاہی ہل سکتا ہے اس سے زیادہ نہیں.لیکن جب لڑائی کے سوال پر غور کیا جاتا ہے تو صرف نفری نہیں دیکھی جاتی بلکہ سرحد کی لمبائی بھی دیکھی جاتی ہے بس طرح لمبی سرحد کی حفاظت تھوڑے سپاہی نہیں کر سکتے اسی طرح چھوٹی سرحد پر ساری فوج استعمال نہیں کی جاتی.۶۰۰ میل کی لمبی سریعہ پر ایک وقت میں زیادہ سے زیادہ 4 لاکھ فوج استعمال کی جاسکتی ہے.باقی ساری فوج رینی رو میں رہے گی اور راستوں کی حفاظت کا کام کرے گی.پس اگر خدانخواستہ کبھی ہندوستان اور پاکستان میں جنگ چھڑ جائے تو جہانتک نفری کا سوال ہے ان دونوں کے درمیان کی سرحد کو مد نظر رکھتے ہوئے ہندوستان کی آبادی کی کثرت ہندوستان کو یہ نفع تو پہنچا سکتی ہے کہ وہ جنگ کو زیادہ دیر تک بھاری رکھ سکے یا زیادہ آدمیوں کی قربانی بر داشت کر سکے لیکن مہاننگ جنگ کا تعلق ہے وہ پاکستان کی فوج سے زیادہ تعداد والی فوج نہیں بھیج سکتا کیونکہ درمیان کی سرحد کی لمبائی اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ایک وقت میں اس جگہ اتنی فوج کو استعمال کیا جا سکے خصوصاً اس لئے کہ جیسے پہلے بتایا جا چکا ہے یہ دو نو ملک محمدہ سڑکوں سے محروم ہیں اور گور بعداز چھ سو میل لمبی ہے لیکن ایک ملک سے دوسرے ملک تک پہنچنے کے جو راستے ہیں وہ بہت محدود ہیں اور جنگ زیادہ تر رستوں سے ہی کی جاسکتی ہے جہاں سے تو پیخانہ اور سامان وغیرہ
موٹروں پر آگے پیچھے بھیجا جاسکتا ہے اور جہاں پر سے فوج قطاروں میں مارچ کر سکتی ہے غرض یہاں تک فوجی نفری کا سوال ہے.صرف مشرقی پاکستان ہی تمام پاکستان کی ضرور تو کو پورا کر سکتا ہے اور اس معاملہ میں کسی مایوسی کی ضرورت نہیں.ہاں سوال صرف یہ ہے که اگر خدانخواستہ دونوں ملکوں میں جنگ چھڑ جائے تو اتنی فوج نہیں کس طرح کی جائے گی سپاہیا نہ قابلیت کا آدمی موجود ہونا اور بات ہے اور سیاہی کا موجود ہونا اور بات ہے ہر جاٹ اور بلوچ سپاہی بننے کی قابلیت رکھتا ہے لیکن ہر ھارٹ اور بلوچ سپاہی تو نہیں اس لئے بغیر فوجی مشق کے جنگ کے وقت میں وہ کام نہیں آسکتا اور جنگ کے وقت فوری طور پر سپاہی کو فنون جنگ سکھائے نہیں جاسکتے اور اس سے بھی زیادہ مشکل یہ ہے که افسر فوراً تیار کئے جاسکیں.افسروں کی تعداد بالعموم ڈیڑھ فیصد کی ہوتی ہے.۲۷ لاکھ فوج کے لئے چھوٹے بڑے افسر ۴۰ ہزار کے قریب ہونے چاہئیں.ہماری تو ساری فوج ہی.۳ ہزار ہے.اگر خطر سے کا موقع آیا تو کسی صورت میں بھی اس فوج کو معقول طور پر وسیع نہیں کیا جا سکتا اور اس کا علاج ضروری ہے.یہ علاج کس طرح ہو سکتا ہے.اس کے لئے یہ مختلف سکیمیں پیش کی جا رہی ہیں اور پیش کی جاسکتی ہیں.اول مملک کے تمام افراد کو رائفیں رکھنے کی کھلی اجازات دکھا جائے.اور جہاں تک ہو سکے گورنمنٹ خود را نفلیں سستے داموں پر نہیا کرے.میں ہو دیم نیشنل گارڈز کے طریق کو رائج کیا جائے جو مسلم لیگ کے ماتحت ہو..سوم.ہوم گارڈز کے اصول پر نوجوانوں کو فوجی ٹریننگ دی بجائے جو گورنمنٹ کی نگرانی چہارم.ایک ٹیریٹوریل فورس فوجی انتظام کے ماتحت تیار کی جائے.پنجم جبری بھرتی ملک میں جاری کی جائے اور اس کا انتظام ملٹری کے ماتحت جو حضور نے ان پانچوں پہلوؤں پر ناقدانہ نظر ڈالتے ہوئے فرمایا :- ملک میں اسلحہ کو بالکل آزاد کر دینا اسلئے درجہ کے تعلیم یافتہ ملکوں میں بھی کبھی بابرکت "الفضل ۲ از اکتوبر ۱۹۴۷ صفحه ۱-۲ *
ثابت نہیں ہوا.لائسنس کی شرطیں ضرور رہنی چاہئیں.فسادی یا غیر معبر لوگوں کو لائسنس نہیں ملنے چاہئیں نیشنل گارڈز بھو ایک سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہوں ان کی اجازت ہر گز نہیں ہونی چاہیے.اگر ایک سیاسی پارٹی کو فوج بھرتی کرنے کی اجازت ہو تو ہر پارٹی کو فوجی بھرتی کرنے کی اجازت ہونی چاہیئے.یہ درست نہیں کہ جو پارٹی برسراقتدار آجائے اُسے تو فوج بھرتی کرنے کی اجازت ہو، در دوسری پارٹیوں کو نہ ہو اس طرح سیاسی آزادی خطرہ میں پڑھائیگی اور ڈکٹیٹر شپ اور فاسزم کے اصول جاری ہو جائیں گے.ہوم گارڈز کا اصول بھی غلط ہے.کیونکہ ایک تو ان کی ٹریننگ ناقص ہوتی ہے ، دوسرے ان کا انتظام سویلین لوگوں کے ماتحت ہونے کی وجہ سے ان کا فوج کے ساتھ ٹکراؤ ہوتا ہے اور فوج کو اس بات کی تحریک ہوتی ہے کہ وہ سیاسی معاملات میں دخل دینے لگ جائے اور یہ نہایت خطرناک بات ہے.بجبری بھرتی بھی نہیں ہونی چاہئیے.کیونکہ ملک ابھی اس کے لئے تیار نہیں لیکن ٹیریٹوریل فوری اور فوجی کلیوں کا اجراء فوراً شروع ہو جانا چاہیے.ان دونوں چیزوں پر ایسی صورت میں کہ دو تین لاکھ آدمی کی ٹریننگ مد نظر ہو ایک کروڑ روپیہ سالانہ سے زیادہ خرچ نہیں ہو گا.کیونکہ سوائے معلموں اور سوائے رائفل اور کارتوس کے خروج کے اور ایک حصہ کے وردی کے خرچ کے اور کوئی بوجھ ملک پر نہیں ہوگا.اس فوج کی بڑی تعداد ایسے خدمت گاروں کی ہوگی جو اپنی وردیوں کا خرچ خود اُٹھائیں گے.اور جہاں تک ٹریننگ کا سوال ہے پیش رائفلیں سو آدمیوں کو کام سکھائیں گی کیونکہ پریٹیں مختلف وقتوں میں آگے پیچھے ہوں گی اور ایک ہی رائفل چار دفعہ استعمال ہو سکے گی.اس طرح لوگوں کو حب الوطنی کے جذبات دکھانے کا بھی موقعہ مل جائے گا اور پاکستان کی آبادی میں جنگی فنون کا میلان بھی پیدا ہو جائے گا اور ہر محلے اور گلی میں ایک طوعی سپاہیوں کی موجودگی اور بیسیوں آدمیوں کے فوجی زندگی کی خواہش پیدا کر دے گی اور موت کے ڈر کو دلوں سے نکالتی پھلی بھائے گی " اسی سلسلہ میں مزید لکھا کہ :.اگر ان نوجوانوں کی صحیح تربیت کی بجائے اور ان کے اخلاق کو بلند کیا جائے اور الفضل " ۱۶ اکتوبر ۶۱۹۴۷ صفحه ۰۳
٣١٠ کی ٹیریٹوریل فورس اور فوجی کلبوں کے ذریعہ سے جن کا ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں ان کو ملک کی فوجی خدمت میں حصہ لینے کا موقع دیا جائے تو یقیناً لا ہو ر ہی سے ایک لاکھ پاکستانی سپاہی پیدا کیا جا سکتا ہے.لاہور کے ضلع کی سرحد جو ہندوستان سے ملتی ہے وہ پچاس میل کے قریب ہوگی.اگر لاہور سے اتنا سپاہی پیدا ہو جائے تو لاہور، قصور اور چونیاں کی تحصیل سے بھی یقیناً پچاس ساٹھ ہزار سپاہی مل سکتا ہے.ان سپاہیوں کے ذریعہ سے نہ صرف لاہور کی حفاظت کی جاسکتی ہے بلکہ سارا پاکستانی ملک محفوظ ہو سکتا ہے اور پاکستانی فوج کا کام بہت آسان ہو جاتا ہے.ہمارے نزدیک ٹیریٹوریل فورس اور فوجی کلیوں کے قیام میں بالکل دیر نہیں کرنی چاہئیے.فوج کے مہیا کرنے کا یہ ایک بہترین اور سہل ترین ذریعہ ہے.اس کا انتظام کلی طور پر فوج کے محکمہ کے ماتحت ہونا چاہیے اور سول محکموں کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے تاکہ در عملی پیدا نہ ہو اور فوج کو سیاسی مسائل سے بالکل الگ رکھا جا سکے لے کی پریس کو سی خبر شائع کرنے کی تلقین یکی اخبارات کی ترتی و بہبود میں ہم کردار ادا کرتے ہیں حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے اپنے ایک اداریہ میں اس پہلو پر بھی قلم اُٹھایا اور پاکستانی پر لیس کو صحیح خبریں شائع کرنے کی تلقین کرتے ہوئے تقریبہ فرمایا کہ ہم یا رب تمام مسلمانوں سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ اول اخباروں یا دوسرے اداروں کو ہرگز کوئی ایسی خبر نہ بھیجیں جو ثابت شدہ حقیقت نہ ہو اور جس میں مبالغہ سے کام لیا گیا ہو.ایسی خبروں سے قوم کے حو صلے نہیں بڑھتے بلکہ جب ان کی غلطی ثابت ہوتی ہے تو قوم کے حو صلے گر جاتے ہیں اور عارضی طور پر بڑھا ہوا سو صلہ ایک مستقل شکست خوردہ ذہنیت میں تبدیل ہو جاتا ہے اور قوم ایک ایسے گڑھے میں گر جاتی ہے تیس میں سے اس کا نکالنا مشکل ہو جاتا ہے دوم.اخبارات کو کبھی اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ہر نامہ نگار کی خیر کو تسلیم نہ کر الفضل ار اضاور اکتوبر مش صفر ۲ * ۶۱۹۴۷
۳۱۱ لیا کریں بلکہ اگر کوئی نامہ نگار غلط خبر دے تو اس سے سختی سے باز پرس کیا کریا تاکہ آئندہ کے لئے نامہ نگاروں کے کان ہو جائیں اور وہ اختیار کی بدنامی اور قوم کی تباہی کا موجب نہ نہیں.سوم ہمیں یہ عادت ترک کر دینی چاہیئے کہ چاروں طرف حقیقت حال کے معلوم کرنے کے لئے نوت شنوائی کا جال پھیلاتے پھریں.یا تو کام کرنے والوں پر ہمیں اعتبار ہے.یا ہمیں اعتبار نہیں.اگر کام کرنے والوں پر ہمیں اعتبار ہے تو ہمیں ان کو کام کرنے دینا چاہئیے اور ان کے راستہ میں مشکلات پیدا نہیں کرنی چاہئیں.اور اگر ہمیں کام کرنے والوں پر اعتبار نہیں تو تمہیں دوسرے کام کرنے والے پیدا کرنے چاہئیں.یا کوئی ایسا فیصلہ کرنا چاہئیے میں سے کام کرنے والوں کی اصلاح ہوگیا ہے -۵ پاکستان کی اقتصاد کی حالت کو سدھارنے کے کارخانے جلد بھاری کروانے کا مشورہ لئے کارخانوں کا جلد سے جلد بھاری کرنا ضروری تھا چنانچہ حضرت سیدنا المصلح الموعود نے لکھا :- "پاکستان کی اقتصادی حالت کو درست کرنا گورنمنٹ کے اہم ترین فرائض میں سے ہے اور اس کی طرف جتنی بھی توجہ دی جائے کم ہے.لیکن یہاں تو یہ حال ہے کہ اب تک فیکٹریاں کرائے پر بھی نہیں دی گئیں اور نہ لوہے کی پتیوں کا انتظام کیا گیا ہے نہ کوئلے کا انتظام کیا گیا ہے جس کی وجہ سے کارخانوں کے تقسیم ہو جانے کے بعد بھی کام فوراً نہیں چل سکے گا.اول تو کم سے کم دو ہفتے کارخانوں کی صفائی پر لگیں گے.پھر عملہ تلاش کرنے میں بھی ٹھیکیداروں کا وقت خرچ ہوگا بلکہ اگر ہماری اطلاعات ٹھیک ہیں تو بہت سی جگہوں پہ ہند و مالکان کا رخانہ ہے نے بعض اہم پر ز نے شینوں میں سے نکال کر چھپا بیٹے ہیں جس کی وجہ سے کارخانوں کے پیدا نے میں وقت ہو گیا.اور جب انجنیر مشینوں کو صاف کرنے لگیں گے تو انہیں معلوم ہوگا کہ مشینیں اس وقت تک چلنے کے قابل ہی نہیں جب تک کہ بیرونی ممالک سے بنٹے چوزے لا کر اُن میں نہ ڈالے جائیں.جس کے دوسرے معنے یہ ہوں گے کہ اس سال روٹی کے بہت سے کارخانے پھل ہی نہیں سکیں گے.خدا نخواستہ اگر ایسا ہوا تو زمیندار کی تباہی میں کوئی شبہ ہی نہیں رہتا.له الفضل ، نبوت / نومبر مش صفحه ۲۱ + Y-
٣١٢ اور پاکستان کی مالیات کو بھی سخت نقصان پہنچنے کا امکان ہے کیونکہ پاکستان کی بڑی دولتوں میں سے ایک دولت اس کی کپاس ہے.لیکن اگر یہ اطلاعات درست نہیں تب بھی بغیر کوئلہ اور بغیر لوہے کی پتیوں اور بغیر اُن کے وقت پر مہیا ہو جانے کے اور کارخانوں کے فوراً جاری ہو جانے کے زمیندار کے بچنے کی کوئی صورت نہیں.پس ہم حکومت کو اس طرف توجہ دلاتے ہیں کہ اس معاملہ میں زیادہ دیر نہ کرے اور فوراً کارخانے جاری کروا دے ورنہ زمیندار تو تباہ ہو ہی جائیں گے حکومت کی اپنی مالی حالت کو بھی سخت دھکا لگے گا اور اسے بہت سے مقامات پر معاملہ اللہ آبیانہ معاف کرنا پڑے گا کیونکہ ان حالات میں زمیندار معاملہ دے کر اگلے چھ مہینے روٹی نہیں کھا سکتا.اور اگر اگلے کچھ پھیلتے وہ روٹی کھائے گا تو گورنمنٹ کا معاملہ ادا نہیں کر سکے گا “ لے سپریم کمانڈ کے توڑے کی مخالفت کی کی یہ ہوا کہ اگر پاکستان کے منہ کا فوجی سامان ابھی تک ہندوستان میں پڑا تھا اس لئے حکومت پاکستان نے سامان کی واپسی تک دونوں ملکوں کی سپریم کمانڈ توڑنے کی مخالفت کی حضرت شيد تا اصلح الموعود نے حکومت کی اس رائے سے اتفاق کیا اور اس کے حق میں آواز بلند کرتے ہوئے فرمایا بند "پاکستان کی فوج کا بہت سا حصہ تو ادھر آچکا ہے لیکن پاکستان کا بہت سا سامان هندوستان میں پڑا ہے.بعض غیر ضروری سامان ایسا بھی ہے جو پاکستان کے پاس زیادہ ہے اور سہندوستان میں کم ہے.لیکن ضروری سامان زیادہ تر مسند دوستان یونین میں پڑا ہے.پاکستان کے گولہ بارود کا حصہ پچہتر ہزار ٹن یعنی ۲۱ لاکھ من اب تک سہندوستان یونین میں ہے اور توپ خانہ کا بہت سا سامان اور ہوائی جہازوں کا بہت سا سامان اور بھری فوج کا بہت سا سامان انڈین یونین کے پاس ہے.اس سامان کے بغیر پاکستان کی حفاظت کی کوئی کوشش نہیں کی جاسکتی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سپریم کمانڈ نے پورے انصاف سے کام نہیں لیا اور جس سرعت سے پاکستان کو سامان مہیا ہونا چاہیے ، اس ه " الفضل " و نبوت / نومبر مش صفحه ۲
رفت پاکستان کو سامان نہیں نہیں کیا.اور میں نسبت پاک کا سامان نکالنا چاہیے تھا اس نسبت سے زیادہ تیزی کے ساتھ پاکستان سے سامان نکالاگیا ہے لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ نسبت قائم رکھی گئی ہے.اگر سپریم کمانڈ ختم ہو گئی تو پاکستان کا سامان بھجوانا کی طور پر ہندوستان یونین کے ہاتھ میں ہو گا.کیا کوئی سمجھدار انسان کہہ سکتا ہے کہ جنرل آخلک پاکستان کے جین سامان کو ہندوستان یونین سے پاکستان کی طرف نہیں بھیجو اسکتا اس کو سردار بلدیو سنگھ بھیجوا دیں گے یہ اتنی غلط بات ہے جس کو ہر چھوٹی سے چھوٹی عقل والا انسان بھی سمجھ سکتا ہے.یہی وجہ ہے که پاکستان گورنمنٹ جو پہلے خود سپریم کمانڈ کے توڑنے کی تائید میں تھی اب اس وقت تک اس کمانڈ کے توڑنے کی تائید میں نہیں جب تک کہ پاکستان کا سامان پاکستان کو نہ مل جائے اور یہ فیصلہ پاکستان گورنمنٹ کا بالکل عقل کے مطابق ہے اور ہمارے نز دیک پاکستان گورنمنٹ کو اصرار کرنا چاہیے کہ جب باہمی سمجھوتہ سے ایک تاریخ مقرر ہو چکی ہے تو ہم اس وقت تک میریام کمانڈ کو توڑنے کی اجازت نہیں دے سکتے " سے اسلامی جمہوریت کے تقاضوں کے مطابق ملک سے سیدنا مصلح الموعود نے ایک اداریہ مں حکومت پاکستان سے یہ پُر زور مطالبہ فرمایا میں بعض فوری آئینی تبدیلیاں کرنے کا مطالبہ کہ اسلامی جمہوریت کے تقاضوں کی روشنی میں ملک کے آئینی ڈھانچہ میں فی الفور بعض بنیادی تبدیلیاں عمل میں لائی جائیں حضور کے اس اہم اداریہ کا ایک ضروری اقتباس نیچے درج کیا جاتا ہے :- ہمارا یہی فرض نہیں کہ ہم قوم کو ایک ایسے راستہ پر چلائیں جو ٹھیک ہو.بلکہ ہمارا یہ بھی فرض ہے کہ ہم قوم کو ایسی تربیت دیں کہ وہ خود سوچنے اور سمجھنے کی اہل ہو جائے اور پھر ہر نئے مسئلہ کو ایسے رنگ میں اس کے سامنے پیش کریں کہ وہ عمدگی اور خوبی کے ساتھ اس پر غور کر کے ایک نتیجہ پر پہنچے اور جب وہ ہمارے خیالات سے متفق ہو جائے تو ہم اس خیال کو جاری کو دیں.یہی وہ اسلامی جمہوریت ہے جو دنیا کی دوسری جمہوریتوں سے مختلف ہے.لیکن یہی وہ جمہوریت ہے جو ساری جمہوریتوں کے عیوب سے پاک ہے.اچھی سے اچھی چیز کو غفلت " الفصل ۱۵ نبوت / نومبر رمیش صفحه ۲ کالم ۲-۴ *
گھبراہٹ کے موقعہ پر قوم پر ٹھونس دینا اور یہ عمل کرنا کہ ہم قوم کی خیر خواہی کر رہے ہیں کسی وقت میں بھی قوم کے لئے مفید نہیں ہو سکتا.اگر بعض صورتوں میں قوم کو مادی فائدہ پہنچے گا تو اس کی ذہنیت پست ہو جائے گی اور دہی اچھی غذا اس کے لئے زہر بن جائے گی اور وہ خود سوچنے کی عادت سے محروم رہ جائے گی.ایک تندرست ہٹے کٹے انسان کے منہ میں لقمہ دینا کسی قدر بد تہذیبی کا فعل سمجھا جاتا ہے.لقمہ بھی وہی ہوتا ہے ، دانت بھی وہی ہوتے ہیں لیکن دوسرے ہاتھ سے جو شاید لبعض حالات میں اپنے ہاتھ سے بھی زیادہ صاف ہو ، وہ لقمہ کھانا ایک تندرست و توانا آدمی کے لئے کتنا گھناؤنامعلوم ہوتا ہے.چاول کا دانہ کھی سے زیادہ معدہ میں گڑ بڑ پیدا کر دیتا ہے.دوسری طرف وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان سے سب مقصد حاصل ہو گئے اب ہمیں فوری طور پر کسی نئے پروگرام کے اختیار کرنے کی ضرورت نہیں وہ بھی غلطی کرتے ہیں.اگر بڑی اور اصولی باتوں کے لئے ہمیں نہ صرف خود سوچنے کی ضرورت ہے بلکہ قوم کو خود سوچنے کا موقعہ دینے کی ضرورت ہے بلکہ اہم مسائل کے متعلق ملک سے رائے عامہ لینے کی ضرورت ہے.تو بعض باتیں ایسی بھی تو ہیں جن کو ملک سوچ چکا ہے اور جو دیر سے زیر بحث پہلی آتی رہی ہیں کیوں نہ ان کے متعلق فوری طور پر کوئی تدابیر اختیار کی جائیں.مثلاً یہی لے لو کہ گو پاکستان ایک جمہوری اصول پر قائم شدہ حکومت ہے ، لیکن بہر حال وہ مسلمانوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے تو کیوں نہ فوری طور پر ان امور کے متعلق کوئی قانون جاری کر دیا جائے جن میں کوئی دو رائیں ہو ہی نہیں سکتیں مثلا کیوں نہ فوری طور پر یہ قانون پاس کر دیا جائے کہ ورثہ کے متعلق اسلامی قانون مسلمانوں میں جاری ہو.اسی طرح طلاق اور ضلع کے متعلق اسلامی قانون بھاری ہو.اسی طرح شراب کا پینا یا بیچنا مسلمان کیلئے منتج ہو.یہ قانون پر حال مسلمان کے لئے ہوتے.اس پر ہند و یا عیسائی کو کیا اعتراض ہو سکتا تھا.ایک ہندو کو اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے کہ ایک مسلمان شراب نہیں پیتا یا اپنی جائیداد کا حصہ اپنی بیٹی کو کیوں دیتا ہے.یا ایک مرد کو طلاق کا اور عورت کو خلع کا خاص شرائط کے ماتحت حق حاصل ہے.اسی طرح یہ کوئی اختلافی مسئلہ نہیں تھا کہ ملک کے آزاد ہوتے ہی ملک میں اسلحہ کو قیود سے آزاد کیا جاتا.لائسنس کے بغیر تو کسی مہذب ملک میں بھی اسلحہ
۳۱۵ کی اجازت نہیں لیکن ان مہذب ممالک میں انسفسوں پر ایسی قیود نہیں لگائی گئیں جیسی کہ اس ملک میں حکومت کو فوراً ہی لائسنس پر سے قیود ہٹانی چاہیئے تھیں اور اس قسم کا قانون پاس کرنا چاہیے تھا کہ سوائے بدمعاشوں اور فسادیوں کے ہر شریف شہری ہتھیار رکھ سکے اور اسے ہتھیار چلانا آتا ہو.اسی طرح سالہا سال سے کانگریس بھی اور مسلم لیگ بھی اس بات پر لڑتی چلی آئی تھی کہ جالسہ اور تقریہ اور تحریر کی عام آزادی ملنی چاہئیے.اس بات کے متعلق بھی کسی نئے غور کی ضرورت نہیں تھی.یہ تو ایک انسانی حتی ہے جس کا مطالبہ دُنیا کی ہر قوم کرتی چلی آئی ہے.حکومت کو چاہیے تھا کہ فوراً ان امور کے متعلق احکام نافذ کر دیتی اور ملک کے اندر یہ حساس پیدا کر دیتی کہ اب وہ آزاد ہیں ، پہلے کی طرح غلام نہیں ہیں.اسی طرح ایگزیکٹو اور جوڈیشل کو بعدا کرنے کا مسلہ ہے.سالہا سال سے اس پر بخشیں ہوتی چلی آئی ہیں.کانگریس نے بھی اس کی تائید کی ہے مسلم لیگ نے بھی اس کی تائید کی ہے اسلامی قانون کے مطابق بھی یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ ایگزیکٹو کا محکمہ الگ ہونا چاہیئے اور قضا کا محکمہ الگ ہونا چاہیے.جب تک ان دونوں محکموں کو آزاد نہ کیا جائے افراد میں آزادی کی روح پیدا ہی نہیں ہو سکتی.ہر شخص کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ قضا کے ذریعہ سے اپنا حق لے سکتا ہے اور ہر افسر کو محسوس ہونا چاہیئے کہ اگر وہ کسی کا حق مارے گا تو اسے اس کی جوا بد سہی بھی کرنی پڑے گی.ان امور اور ایسے ہی کئی امور کے متعلق حکومت فوری کاروائی کر سکتی تھی.لیکن ہوا یہ کہ وہی پرانے قانون اور دہی پرانے طریق باقی رہے.اور ابھی تک ملک کے باشندوں نے پوری طرح یہ بھی محسوس نہیں کیا کہ ان کا ملک آزاد ہو چکا ہے.پس ہمارے نزدیک دونوں فریق کی غلطی تھی.اس نقص کی اصلاح کا یہ بھی ایک طریقہ تھا کہ مسلم لیگ کے عہدے ایسے لوگوں کو دیئے بھاتے جو وزارت کے نمبر نہ ہوتے.۶ار تاریخ کو یہ نیک قدم اُٹھایا گیا ہے.ہمیں اس سے تعلق نہیں کہ کون صدر ہوا ہے کون نہیں ہم یہ بھانتے ہیں کہ ملک کے فائدہ کے لئے یہ ضروری ہے کہ ملک کی سیاسی انجمن پر ملک
٣١٦ کے وزراء قابض نہ ہوں.لیکن جس طرح یہ ضروری ہے اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ ملک کی آئین ساز مجلس ، ملک کی وزارت اور اس کے افسروں کے معاملات میں دخل اندازی شنہ کمر ہے.ان تین آزاد یا نیم آزاد اداروں کے باہمی تعاونوں سے ہی ملک کی حالت درست ہوا کرتی ہے.بسیاسی انجمن کو حکومت کے افسروں کے اثر سے آزاد ہونا چاہئیے.مجلس آئین ساز کو سیاسی ادارے کے حکم سے آزاد ہونا چاہیے اور حکومت اور حکام کو سیاسی نجمین کی دخل اندازی سے آزاد ہونا چاہیے.بیشک اگر سیاسی انجمن یہ سمجھتی ہے کہ مجلس آئین ساز اس کی پالیسی کو ٹھیک طرح نہیں پھلائے گی تو آئندہ انتخاب کے موقع پر وہ اس کے ممبروں کی جگہ دوسرے ممبر کھڑے کر دے.آئین ساز اسمبلی کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ اگر وہ سمجھتی ہے کہ وزراء اس کی مرضی کے مطابق کام نہیں کر رہے تو وہ اُن کے خلافت عدم اعتماد کا ووٹ پاس کر دے.اگر حکام صحیح طور پر کام نہ کر رہے ہوں تو پلیٹ فارم پر سے اُن کے خلاف آوازہ اُٹھائی جا سکتی ہے.لیکن خفیہ دباؤ یا ستقل طور پر اُن کے کام میں دخل اندازی کسی صورت میں بھی جائزہ نہیں ہو سکتی.اگر ایسا کیا جائیگا تو نظام کی گل بالکل ڈھیلی پڑھائے گی اور دنیا کا بہترین قانون بھی پاکستان کو مضبوط بہ بنا سکے گا.اے پاکستان کا نظام حکمت اسلام ہونا چاہیئے ای اصلی انوار نے رافت اکبر سيدنا المصلح الموعود 1144 ہ میں کو پاکستان میں آئندہ حکومت کیسی ہو“ کے موضوع پر اپنے قیمتی خیالات کا اظہار فرمایا.حضور کے ارشادات کا ملخص در ریج ذیل کیا جاتا ہے.فرمایا : اس وقت پاکستان میں یہ سوال زور سے اُٹھ رہا ہے کہ پاکستان کی آئندہ حکومت کیسی ہونی چاہیئے.آیا اسلامی ہونی چاہیئے یا عام سیاسی رنگ کی ؟ میرے نز دیک یہ سوال خود ظاہر کہ رہا ہے کہ جو لوگ اس پر بحث کرتے ہیں انہوں نے صحیح رنگ میں اسلام کا مطالعہ نہیں کیا ورنہ وہ کبھی اس سوال کو بحث کا موضوع نہ بناتے مثلاً یہ پوچھا جاتا ہے وو له " الفصل ۲۰ نبوت / نومبر میش صفحه ۲-۳ *
کہ پاکستان میں رہنے والے غیر مسلم کس طرح اسلامی قانون کو تسلیم کریں گے، اب جو شخص اسلامی تعلیم سے واقف ہے وہ خوب جانتا ہے کہ یہ کوئی پیچیدہ سوال نہیں ہے اسلام نے عمل کے دو حصے کئے ہیں.ایک حصہ وہ ہے جو اپنے مذہب کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.اس حصہ کے متعلق تو صاف طور پر اسلامی احکام یہ ہیں کہ ہر قوم کو اپنے مذہب کی ہدایات پر چلنے کی اجازت ہے.قرآن مجید میں صاف طور پر آتا ہے کہ مذہب سے تعلق رکھنے والے امور کے متعلق اہلِ انجیل کو انجیل کی تعلیم کے مطابق اور اہل تورات کو تورات کی تعلیم کے مطابق فیصلے کرنے چاہئیں.یہی اصول تمام دیگر مذاہب کے متبعین پر چسپاں ہو گا.پس جہاں تک اپنے اپنے مذہب کے طریق پر پھلنے.اور اس کے مطابق فیصلہ کرنے کا سوال ہے.اسلام کسی مذہب میں بھی دخل اندازی نہیں کرتا.اس کا تو صاف حکم ہے کہ لكُمْ دِينُكُمُ وَلِی دِین کہ ہر شخص کو اپنے اپنے طریق پر چلنے کی اجازت ہے اسلام کسی کو مجبور نہیں کرتا کہ فلان چیز کھاؤ اور فلاں نہ کھاؤ یا مثلاً ورثہ کے متعلق ضرور اسلام کی تعلیم پر عمل کرو.ان امور میں اپنے اپنے مذہب کے پرسنل لاء پر عمل کرنے کی اجازت ہے.دوسرا حصہ اعمال کا ملکی اور اجتماعی سیاست کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.سو اس کے متعلق اسلام نے ایسی اعلی درجہ کی تعلیم دی ہے جو فطرت کے عین مطابق ہے اور جس کے متعلق کسی مذہب کا پیرو بھی یہ نہیں کہ سکتا کہ یہ میری مذہبی تعلیم میں مداخلتے ستون ہے، شکل اسلام نے پوری کی سزا مقرر کی ہے.اب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرے مذہب میں چوری بیانی ہے.اس لئے اس کی سزا دنیا مذہب میں مداخلت ہے.ہاں دیکھنے والی بات صرف یہ ہوگی کہ کوئی سران انسانیت کے خلافت نہ ہو.مثلا کھال کھینچنا چونکہ انسانیت کے خلاف ہے، اس لئے اس کی اسلام میں اجازت نہیں ہے.دیگر مذاہب میں اس بات کا لحاظ بالکل نہیں رکھا گیا.مثلاً ہندو مذہب کی یہ تعلیم یقیناً انسانیت کے خلاف ہے کہ شو د راگر دید منتر سُن لے توسیسہ پگھلا کر اس کے کانوں میں ڈالا جائے جو گویا اُسے جان سے مار دینے کے مترادف ہے.رہا یہ کہ چوری کی منزا کیا ہو.سو اس سلسلے میں تو ہر ملک میں الگ الگ سزا مقرر ہے.ان چیزوں کی تفصیلات کے متعلق مسلمانوں کا حق ہے کہ جہاں وہ اکثریت
۳۱۸ میں ہوں، جمہوری اصول کے مطابق اپنی مذہبی تعلیم کو نافذ کرنے کی کوشش کریں.اس میں کوئی مذہبی مداخلت کا سوال نہیں ہے.ٹیکر کے متعلق اسلام نے جو نام اصول مقرر کئے ہیں وہ ایسے ہیں کہ مذہبی دخل اندازی کا اُن میں بھی سوال پیدا نہیں ہوتا.اسلام میں دو قسم کے ٹیکس دینے کا حکم ہے.ایک زکوۃ شخصی اور ذاتی ہے.جس شخص کے پاس مال جمع ہو اُسے اس کا چالیسواں حصہ سالانہ زکوۃ میں دینا پڑتا ہے لیکن یہ زکوۃ حکومت وصول نہیں کرتی بلکہ ہر شخص کو انفرادی طور پر خود دینی ہوتی ہے.اس لئے اس میں کسی جبر کا سوال ہی نہیں ہے.دوسر ایک کو یہ جانوروں اور زمین وغیرہ کا ہوتا ہے.سو یہ ٹیکس ساری حکومتیں ہی ٹیکسوں کی صورت میں وصول کرتی ہیں.مسلمان اگر یہ کسی اسلامی ہدایات کے مطابق وصول کریں گے تو کوئی شخص اسے ذیب میں مداخلت قرار نہیں دے سکتا.کیا کوئی غیر مسلم کہہ سکتا ہے کہ اگر مثلاً اتنا ٹیکس لو گے تو یہ میرے مذہب کے مطابق ہے اور اگر اتنا لو گے تو یہ مذہب میں مداخلت ہو جائے گی.سہارا تو یہ دعوی ہے کہ موجودہ ترقی یافتہ قانون کو اسلام ہی نے جنم دیا ہے سوائے تفصیلات کے جس میں اختلاف ہوا ہی کرتا ہے.جہانتک اصول کا تعلق ہے موجودہ قانون بڑی حد تک اسلام کی تقریر کردہ لائنوں پر ہی وضع کیا گیا ہے.پس اسلام نے جو اصولی تعیم دیا ہے وہ کسی کے لئے بھی موجب اعتراض نہیں ہو سکتی اور کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ تعلیم جمہوریت کے اصولوں کے منافی ہے حضور نے بطور مثال اس سلسلہ میں پردہ کے متعلق اور مقدمات میں گواہوں کی شہادت لینے کے متعلق اسلام کی پر حکمت تعلیم کا ذکر کرتے ہوئے وضاحت سے بتایا کہ در حقیقت ایک بھی محکم اسلام کا ایسا نہیں جو انسانی فطرت اور طبعی تقاضوں کے مطابق نہ ہو اور جس کے متعلق کوئی غیر مسلم یہ کہہ سکتے کہ یہ مذہب میں مداخلت ہے.پس اس صورت میں یہ بحث ہی فضول ہے کہ پاکستان میں اسلامی حکومت ہوگی یا نہ ہو گی.اس حصہ کے متعلق پاکستان میں یقیناً اسلامی احکام نافذ ہونے چاہئیں اور چونکہ وہ قطرت کے مطابق ہیں اس لئے ان کے نفاذ میں نہ کوئی مشکل پیش آسکتی ہے اور نہ کسی کو
اعتراض ہو سکتا ہے.٣١٩ اس سلسلہ میں حضور نے اس سوال کا بھی ذکر فرمایا کہ آیا پاکستان کی حکومت کو اسلام کا نام دیا جائے یا نہ دیا جائے بحضور نے فرمایا.پرانے زمانے میں تو ہر جگہ مذہب کے نام پر حکومت چلا کرتی تھی اسلئے اسوقت اور صورت تھی.اب یہ صورت نہیں ہے.اب اگر ہم اسلام کا نام حکومت کو دیں گے تو غیر مسلموں کا تو کچھ نہیں بگڑے گا بلکہ ان کا تو فائدہ ہی ہوگا کیونکہ اسلام انہیں پرسنل لاء کے معاملہ میں پوری آزادی دے گا اور ویسے بھی اسلامی لار کے ماتحت انہیں ترقی کے پورے مواقع مل جائیں گے لیکن جہاں غیر مسلموں کی حکومت ہوگی اور مسلمان اقلیت میں ہوں گے وہاں انہیں مسلمانوں کو تنگ کرنے کا موقع ضرور مل بھائے گا کیونکہ وہ کہیں گے کہ ہم بھی اب اپنی حکومت کو مذہبی رنگ دیں گے اور چونکہ ان کا مذہب مذہبی آزادی تو کجا انسانیت کے ابتدائی حقوق بھی غیر مذہب کے متبعین کو دینے کے لئے تیار نہیں ہے اس لئے لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ ان کی مذہبی حکومت مسلمانوں کے لئے سخت تکلیف اور تباہی کا موجب ہوگی.پس میرے نزدیک مذہب کا نام دینے کی ضرورت نہیں.اصل غرض تو مذہبی احکامات نافذ کرنے سے ہے.سو جس جگہ بھی مسلمانوں کی اکثریت ہو ان کا فرض ہے کہ وہ اسلامی احکامات کو نافذ کرنے کی کوشش کریں.ہمیں بھلا غیر مسلموں کو یہ کہنے کی ضرورت ہی کیا ہے کہ ہم تم سے ضرور قرآنی تعلیم پر عمل کرائیں گے جبکہ ہمیں معلوم ہے کہ ہماری مذہبی تعلیم ہی ایسی فطرت کے مطابق ہے کہ غیر مسلم آہستہ آہستہ خود اسے تسلیم کرنے کے لئے تیار ہو جائیں گے.ہاں ضرورت اس بات کی ہے کہ آئندہ نظام حکومت مرتب کرنے کے لئے ایسے لوگ مقرر کئے جائیں جو اسلامی لاء کے ماہر ہوں.اگر ایسے لوگ مقرر کئے گئے جو خود اسلامی لاد سے نا واقف ہوں تو لازمی بات ہے کہ وہ اسلام کے نام پر غیر اسلامی قانون بنائیں گے اس کے دو خطرناک نتیجے نکلیں گے.ایک یہ کہ وہ اسلام کو بدلیں گئے دوسرا یہ کہ چونکہ وہ قانون ناقص اور غیر فطری ہوں گے اس لئے غیروں کو اسلام پر اعتراض کرنے کا موقعہ مل جائے گائے ملخصاً " الفضل" وارفتح ا دسمبر مش صفحه ۲ تا ۵ ۰
فصل دوم سید نا المصلح الموعود نے پاکستان کے داخلی مسائل ہی میں راہ نمائی نہیں فرمائی بلکہ اس کے خارجی مسائل بالخصوص کشمیر فلسطین کے معاملات میں گہری دلچسپی لی اور نہایت مخلصانہ اور مد توانہ مشورے دیئے.حضرت سید نا اصلح الموعود کے مبارک حکومت پاکستان کی طرف سے ابھی تک نہ صرف یہ کہ معامہ کشمیر کے بارے میں سرے سے کوئی عملی قدم نہیں اُٹھایا ہاتھوں سے آزاد کشمیر حکمت یا گیا تھا بلکہ کوئی واضح پالیسی بھی اختیار نہیں کی گئی تھی کہ حضرت سیدنا الصلح الموعود کے مقدس اور مبارک ہاتھوں سے آزاد کشمیر حکومت کا وجود عمل میں آیا جس کی تفصیل سردار گل احمد خاں کو تر سابق چیف پلیٹی آفیسر جمہوریہ حکومت کشمیر کے الفاظ میں درج کی جاتی ہے.یکم اکتو بر شکار کو جونا گڑھ میں عارضی متوازی حکومت کا اعلان کیا گیا اور نواب جونا گڑھ کو معزول کیا گیا.جناب مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب امام جماعت احمدیہ نے دیکھا کہ یہی وقت کشمیریوں کی آزادی کا ہے تو آپ نے کشمیری لیڈروں اور در کروں کو بلایا میٹنگ میں یہ فیصلہ ہوا کہ مفتی اعظم ضیاء الدین صاحب ضیاء کو عارضی جمہورکیٹی کا صدر بنایا جائے مگر انہوں نے انکار کیا.اس کے بعد ایک اور نوجوان قادری صاحب کو کہا گیا.اس نے بھی انکار کیا.آخر میں قرعہ خواجہ غلام نبی صاحب گل کالہ انور صاحب کے نام پڑا.دو اکتو بر امر کو گجرات میں ایک اور میٹنگ ہوئی جس میں غضنفر علی خان وغیرہ سے مشورہ ہوا.بمشورہ ملک عبدالرحمن صاحب خادم گراتی پلیڈر مسودہ تیار کیا گیا.اس کی نقل بذریعہ ماسٹر امیر عالم صاحب کو ٹی اور چوہدری رحیم داد صاحب حال سب بیج بھمبر آزاد کشمیر جناب مرزا صاحب کی خدمت میں لاہور بھیج دی گئی.سیلاب کی وجہ سے راولپنڈی اور لاہور کی ریل بند تھی.مرزا صاحب نے خواجہ غلام نبی صاحب گل کارہ انور کو اپنے ذاتی ہوائی جہاز میں لاہور سے گوجرانوالہ بھیج دیا.
۳۲۱ ر اکتوبر ائر کو بمقام پیرس ہوٹل متصل ریلوے پل راولپنڈی کا رکنوں کی کئی میٹنگیں ہوئیں.آخر مسودہ پاس ہو کہ خواجہ غلام نبی صاحب گل کار انور کے ہاتھ سے تھکر اور بانی صدر " عارضی جمہوریہ حکومت کشمیر" کے نام سے ہری سنگھ کی معزولی کا اعلان ہوا.خواجہ غلام نبی گلکارہ انور صاحب نے یہ تار راولپنڈی صدر تار گھر سے غالب چالیس روپیہ دے کر دے دیا.یہ پریس ٹیلیگرام ہندوستان اور پاکستان کے اخبارات کے علاوہ اے پی آئی کو دیا گیا.راولپنڈی میں اس وقت اسے پی پی کا کوئی نمائندہ نہیں تھا.مسٹر بشارت " پاکستان ٹائمز کے نمائندے تھے.اعلان کے بعد ھر تاریخ کو راقم الحروف خواجہ غلام نبی گل کار انور اور بشارت صاحب نے باجازت باقی نمبران کیبنٹ سردار محمد ابراہیم نخاری صاحب پرائم منسٹر عارضی جمہوریہ حکومت کشمیر کا بیان تیار کر کے شائع کر دیا گیا.ہجو اخبارات میں چھپ گیا.خواجہ غلام نبی گل کار انور صاحب پانی صدر عارضی جمہوریہ حکومت کشمیر کے بیان میں یہ واضح کر دیا گیا کہ ۴ راکتو بر اور ایک بجے رات کے بعد ہری سنگھ کی معزولی کے ساتھ " عارضی جمہوریہ حکومت کشمیر کا قیام بمقام منظفر آباد عمل میں لایا گیا اور انور اس حکومت کا صدر ہے.سم راکتو بر خالہ کو بمقام پیرس ہوٹل راولپنڈی حسب ذیل وزیر اور عہدہ دار مقرر ہوئے.چونکہ معاملہ عارضی تھا اور کسی کو کیا گمان تھا کہ یہ حقیقت بن کہ رہے گا مگر دل سے جو آواز نکلتی ہے اثر رکھتی ہے." عارضی جمہوریہ حکومت کشمیر خوابه غلام نبی صاحب گل کارہ انور صدر پرائم منسٹر سردار محمد ابراهیم خان صاحب نمیشوره مولوی غلام حیدر صاحب سینڈ انوی (مردانہ وزیمه مالیات وزیر دفاع ابراہیم خانصاحب میٹنگ میں موجود نہ تھے) سید نذیر حسین شاه مولوی غلام حیدر جنڈالوی ماه یعنی احمد گل صاحب کوثر مدیر اخبار " ہمارا کشمیر" (منظفر آباد) :
۳۲۲ چیف پیلیٹی آفیسر گل احمد خاں کو شہ (راقم الحروف) میٹنگ میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ خواجہ انور صاحب کو سرینگر فوراً روانہ کر دیا جائے.اور انہیں مکمل اختیار دے دیا گیا کہ وہ جنہیں مناسب سمجھیں انڈر گراونڈ گورنمنٹ میں وزیرہ یا عہد یدا بنائیں چنانچہ ریڈیو سے ۴- ۵ اکتوبر کو پے در پے " عارضی جمہوریہ حکومت کشمیر" ست ۱۹۱۴ تم کے قیام کا اعلان بمقام مظفر آباد ہوتا رہا.خواہ انور بانی صدرہ ار اکتوبر کو راولپنڈی سے روانہ ہوئے.اسی روز انہیں مسٹر عبدالرحیم درانی دو میل مل کے پاس ملے تو انہیں ڈیفنس سکریڑی مقرر کر کے کشمیر چھوڑنے کو کہا.خواجہ غلام دین صاحب وانی کو بھی منظفر آبا و چھوٹے نے کو کہا.اور ان دونوں صاحبان کو فوری لاہور مرزا صاحب کے پاس جانے کو کہا گیا.۴ اکتوبر 19ء میں یہ فیصلہ بھی ہوا تھا کہ وزیر مالیات سید نذیر حسین شاه هنا وزیر دفاع مولوی غلام چید صاحب جنڈالوی ، گل احمد خان کو شہ راقم الحروف) اور دیگر لیڈران تحریک جناب مرزا صاحب کی خدمت میں لاہور پہنچ جائیں گے اور مشورہ کریں گے.کیونکہ اس وقت حالت یہ تھی کہ مغربی پاکستان اور کشمیر کی آزادی دونوں خطرے میں نظر آ رہی تھیں اور عارضی حکومت کا اعلان اخبارات میں چھپ چکا تھا.مگر ان مذکورہ بالا آدمیوں کے سوا کسی کو علم نہ تھا کہ یہ اعلان کس نے کیا اور کیسے ہوا ؟ خواید غلام نہیں گلکار اور صاحب بانی صدر در اکتو بر سر کو شیخ محمد عبداللہ صاحب کے مکان واقع سورہ سرینگر پر لے - 1 گھنٹے باتیں ہوئیں.آخر میں یہ طے پایا کہ ان کے اور لے کو ۲۲ را کشوریہ قائد اعظم کے درمیان ملاقات کا بندوبست کر دیا جائے.عمر اکتوبر سا شہر ہے.۱۹ تک گویا ۱۵ یوم کے عرصہ میں پچھان بین کر کے حسب ذیل وزراء اور عہد یدار مقرر ہوئے.وزیر تعلیم مسٹر علیم دڈاکٹر نذیرال اسلام صاحب پی.ایچ.ڈی) وزیر صحت و صفائی.مسٹر لقمان ( ڈاکٹرو زیر احمد صاحب قریشی مرتوم...سابق لملحقہ آفیسر سرینگی ملہ اصل نام مصلحتاً پوشیدہ رکھے گئے اور ان کی بجائے ان کے متبادل نام رکھے گئے تھے تاکہ ان کو کام کرنے میں آسانی ہو (مؤلف) :
وزارت زراعت.مسٹرفہیم (اندرون کشمیر ہیں) وزیر عدل و انصاف مسٹر انصات (اندرون کشمیر ہیں ) وزیر صنعت و حرفت مسٹر کارخانہ (اندرون کشمیر ہیں) گورنر کشمیر مسٹر شمس النہار ) اندرون کشمیر ہیں لاتے ڈائریکٹر یتیم خانہ مسٹر ریشم الدین (اندرون کشمیر ہیں) ڈائریکٹر میڈیکل سرد سر ڈاکٹر بشیر محمود صاحب وانی مرحوم آن پونچھ چیف انجنیئر مسٹر انعام (خلیفہ عبدالمنان صاحب ) انسپکٹر جنرل پولیس.مسٹر حکیم صاحب ڈیٹی انسپکٹر جنرل پولیس.مسٹر سٹیم ( محمد اکبر کیانی صاحب) سکرٹری فار ٹرانسپورٹ.مسٹر رحمت اللہ صاحب آف چراغدین اینڈ سنز ڈپٹی سیلیسٹی آفیسر منور (خواجہ عبد الغفار صاحب ڈار) انڈر گراونڈ گورنمنٹ کی تشکیل کے بعد فوجی رضا کاروں کو منظم کرنے کے لئے مسٹر جون اندرون کشمیر ہیں) کو کمانڈر انچیف مقرر کیا گیا.اور ہری سنگھ کی گرفتاری کی سکیم کی تعمیل پر غور ہوتا رہا اور سکیم کا بہت سا حصہ بھی پایہ تکمیل کو پہنچ پا کا تھا.اس میں کپٹن بدرالدین صاحب ، کیپٹن جمال الدین صاحب ، مرزا میاں عبدالرشید ایم.ایل.اسے ، سجادہ نشین درگاہ کبینا شریف اور بہت سے دوست تھے جو اندرون کشمیر میں مقیم ہیں.اس شعبہ کے اجلاس کار و نیشن ہوٹل متصل لول چوک ایرا کرلی ہوتے رہے" سے و حیدر آباد اور کشمیر کو متوازی سطح پر اس ابتدائی زمانہ میں حضرت سیدنا الصلح الموعود نے یہ آواز بھی بلند کی کہ کشمیر کو بہر کیف پاکستان میں شامل کیا.ا بھائے اور حکومت پاکستان حیدر آباد اور کشمیر کو ایک حل کرنے کے لئے پر زور آواز متوازی سطح پر حل کرنے کے لئے فوری کاروائی کرے چنانچہ اس سلسلہ میں حضور نے 9ار ابھارا اکتوبر لے خواجہ غلام محمد خان مرحوم المعروف عدم تشدد شه روزنامه بهار کشمیر مظفر آباد مورخه ۲ اکتوبر سه (ایڈیٹر گل احمدخان گوشم )
۳۲۴ می کو ایک پریس کا نفرنس منعقد کی جس کی روداد اختبار زمیندار نے حسب ذیل الفاظ میں شائع کی :- کشمیر کو ہر قیمت پر پاکستان میں شامل کیا جائے مرزا بشیر الدین امیر جماعت احمدیہ کا بیان لاہور ۷ار اکتوبر.مرزا بشیر الدین محمود احمد نے کل ایک پریس کا نفرنس میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان یا ہندوستان میں ریاست ہائے کشمیر و حیدر آباد کی شمولیت کا فیصلہ بیک وقت ہونا چاہیئے.انہوں نے کہا کہ خواہ حکمران یا خواہ عوام کو شمولیت کے فیصلے کا مجاز قرار دیا جائے.لیکن دونوں ریاستوں کے فیصلہ کا معیار ایک ہی ہونا چاہیئے.مرزا صاحب نے اس بات پر زور دیا کہ کشمیر کا پاکستان میں شامل ہونا اشد ضروری ہے کیونکہ اگر کشمیر مہندوستان میں شامل ہو گیا تو پاکستان کی سرحد پانچ سو میل لمبی ہو جائیگی اور حملے کا خطرہ بڑھ جائے گا.انہوں نے امید ظاہر کی کہ حکومت پاکستان اس سلسلے میں مؤثر اقدام کرے گی.آپ نے ہر دو حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ انہیں مقدس مقامات کی حفاظت کے لئے آپس میں معاہدہ کرنا چاہئیے.“ سے مسئلہ کشمیر کے فوری حل کیلئے | محضور انور نے حکومت پاکستان اور عوام دونوں پر اپنا مندرجہ بالا نقطہ نگاہ نمایاں کرنے کے لئے "کشمیر اور حیدر آباد" کے الفضل میں فضل مضمون ہش کی اشاعت میں شائع ہوا.حضور نے حیدر آباد اور کشمیر کے حالات کا موازنہ کرتے ہوئے لکھا.حیدر آباد اور کشمیر کے سوال متوازی ہیں اور ایک کا فیصلہ دوسرے کے فیصلہ کے ساتھ بندھا ہوا ہے جب تک ان میں سے کوئی ایک حکومت فیصلہ نہیں کرتی.اس وقت تک پاکستان کے ہاتھ مضبوط ہیں.عقلی طور پر ان دونوں ریاستوں کے فیصلے دو اصول میں سے ایک پر مبنی ہو سکتے ہیں یا تو اس اصل پر کہ جدھر راجیہ جانا چاہے اس کو اجازت ہو.اگر یہ اصل تسلیم کر لیا جائے تو حیدر آباد پاکستان میں شامل ہو سکتا ہے یا آزادی کا اعلان کر کے لے زمیندار ۱۹ار اتحاد اکتوبر ش صفحه ۵ * " عنوان سے ایک مفصل مضمون رقم فرمایا جو الفضل ۱۹ اخارا کتوبه
۳۲۵۵ پاکستان سے معاہدہ کر سکتا ہے اور کشمیر سہندوستان یونین میں شامل ہو سکتا ہے.اس صورت میں پاکستان کی آبادی میں پونے دو کروڑ کی زیادتی ہو جائے گی اور ایک طاقت ور حکومت جس میں کثرت سے معدنیات پائی جاتی ہیں پاکستان کو مل جائے گی اور بوجہ پاکستان میں شمولیت کے ہندوستان اس کے ذرائع آمد و رفت کو بھی بند نہیں کر سکے گا.کیونکہ اس طرح وہ پاکستان سے جنگ کرنے والا قرار پائے گا.دوسرے اس اصل پہ فیصلہ ہو سکتا ہے کہ ملک کی اکثریت جس امر کا فیصلہ کر سے اسی طرف ریاست جا سکتی ہے.اگر اس اصل کو تسلیم کر لیا جائے تو کشمیر پاکستان کے ساتھ ملنے پر مجبور ہوگا اور حیدر آباد ہندوستان کے ساتھ ملنے پر مجبور ہوگا.اگر ایسا ہوا تو پاکستان کو یہ فائدہ حاصل ہوگا کہ نہیں لکھ مسلمان آبادی اس کی آبادی میں اور شامل ہو جائے گی.لکڑی کا بڑا ذخیرہ اس کو مل جائے گا.بجلی کی پیداوار کے لئے آبشاروں سے مدد حاصل ہو جائے گی اور روس کے ساتھ اس کی سرحد کے بل بھانے کی وجہ سے اسے سیاسی طور پر بڑی فوقیت حاصل ہو جائے گی.پس پاکستان کے لئے ان دونوں ریاستوں میں سے کسی ایک کا بل بھانا نہایت ہی ضروری ہے لیکن ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس معاملہ کی طرف پاکستان گورنمنٹ نے توجہ نہیں کی اور بہندوستانی گورنمنٹ بلد جلد ایسے حالات پیدا کر رہی ہے کہ شاید دونوں ریاستیں ہی ہندوستان میں شامل ہو جائیں.پاکستان گورنمنٹ کے لئے یہ ضرور دی تھا کہ وہ ان دونوں ریاستوں کے متعلق ویسی ہی بجلدی سے کام لیتی جیسا کہ ہندوستان نے رہا ہے اور ہندوستان پر یہ زور ڈالتی کہ ان دونوں ریاستوں کے متعلق ایک ہی اصل سے کام لیا جائے گا.یا دونوں ریاستوں کا فیصلہ حکمران کے فیصلہ کے مطابق ہو گا یا دونوں ریاستوں کا فیصلہ آبادی کی اکثریت کے فیصلہ کے مطابق ہوگا.مگر ایسا نہیں کیا گیا.اب یہ تشویشناک اطلاعیں آرہی ہیں کہ چار پانچ کے دن کے اندر اندر حیدر آباد اپنا آخری فیصلہ کو دے گا بلکہ شاید آج ۶ از تاریخ کو ہی اس کا آخری فیصلہ شائع ہو جائے.اگر ایسا ہو گیا او حیدر آباد ہندوستان کے ساتھ مل گیا تو دنیا دیکھ لے گی کہ ہندوستان یونین کی اکثریت کے
۳۲۶ فیصلہ کو نظر انداز کر کے اس امر پر زور دینے لگے گی کہ جو والی ریاست کہے اسی کے مطابق فیصلہ ہونا چاہیئے.اور کشمیر کا والی ریاست یقیناً ہندوستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کرے گا جب تک حیدر آباد مہندوستان یونین میں شامل نہیں ہوتا، ہندوستان یونین اس دلیل کو کبھی تسلیم نہیں کرنے گئی.کیونکہ اگر وہ کشمیر کو ملانے کے لئے اس دلیل پر زور دے تو حیدرآباد اس کے ہاتھ سے جاتا ہے.لیکن جب حیدر آباد اس کے ساتھ مل گیا تو پھر وہ اسی دلیل پر زور دے گا خصوصاً اس لئے کہ پاکستان کے بعض لیڈر یہ اعلان کر چکے ہیں کہ موجودہ قانون کے لحاظ سے فیصلہ کا حق والی ریاست کو ہے نہ کہ ملک کی اکثریت کو.اس صورت میں کشمیر کو اپنے ساتھ ملانے کے لئے ہمارے پاس کوئی دلیل باقی نہیں رہے گی.پس ہمارے نز دیک پیشتر اس کے کہ حیدر آباد کے فیصلہ کا اعلان ہو حکومت پاکستان کو اعلی سیاسی سطح پر ان دونوں ریاستوں کے متعلق ایک ہی وقت میں فیصلہ کرنے پر اصرار کرنا چاہئیے اور ہندوستانی یونین سے یہ منوا لینا چاہئیے کہ وہ دونوں طریق میں سے کیس کے مطابق فیصلہ چاہتا ہے کہ آیا والی ریاست کی مرضی کے مطابق یا آبادی کی کثرت رائے کے مطابق.اگر والی ریاست کی مرضی کے مطابق فیصلہ ہو تو حیدر آباد اور جونا گڑھ کے متعلق ان کو اصرار کرنا چاہئیے کہ یہ پاکستان میں شامل ہوں اور اگر آبادی کی کثرت رائے کے مطابق فیصلہ ہو تو پھر کشمیر کے متعلق ان کو اصرار کرنا چاہیے کہ وہ پاکستان میں شامل ہو ہم جو کچھ اوپر کھے آئے ہیں اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ پاکستان کا فائدہ اسی میں ہے کہ کشمیر اس کے ساتھ شامل ہو جیدر آباد کی حفاظت کہ فی اس کے لئے مشکل ہے.اور پھر کسی ایسی حکومت کو دیر تک قابو میں نہیں رکھا جا سکتا جس کی آبادی کی اکثریت ایسے اتحاد کے مخالف ہو.تیسرے حیدر آبا د چاروں طرف سے ہندوستان یونین میں گھرا ہوا ہے.اس کے بر خلاف کشمیر کی اکثر آبادی مسلمان ہے کشمیر کا لمبا ساحل پاکستان سے ملتا ہے کشمیر کی معدنی اور نباتاتی دولت ان اشیاء پرمشتمل ہے جن کی پاکستان کو اپنی زندگی کے لئے اشد ضرورت ہے اور کشمیر کا ایک ساحل پاکستان کو چین اور روس کی سرحدوں سے ملا دیتا ہے.یہ فوائد اتنے عظیم الشان ہیں کہ ان کو کسی صورت میں بھی چھوڑنا درست نہیں.ایک بات یہ بھی ہے
۳۲۷ که پاکستان کی سرحدیں کشمیر کے ہندوستان یونین میں مل جانے کی وجہ سے بہت غیر محفوظ ہو جاتی ہیں.پیس ملک کے ہر اخبار ، ہر انجمن ، ہر سیاسی ادارے اور ہر ذمہ دار آدمی کو پاکستان حکومت پر متواتر زور دینا چاہیے کہ حیدر آباد کے فیصلہ سے پہلے پہلے کشمیر کا فیصلہ کہ وا لیا جائے ورنہ حیدر آباد کے ہندوستان یونین سے مل جانے کے بعد کوئی دلیل ہمارے پاس کشمیر کو اپنے ساتھ شامل کرنے کے لئے باقی نہیں رہے گی سوائے اس کے کہ کشمیر کے لوگ خود بغاوت کر کے آزادی حاصل کریں لیکن یہ کام بہت لمبا اور مشکل ہے اور اگر کشمیر گورنمنٹ ہندوستان یونین میں شامل ہوگئی تو پھر یہ کام خطرناک بھی ہو جائے گا کیونکہ ہندوستان یونین اس صورت میں اپنی فوجیں کشمیر میں بھیج دے گی اور کشمیر کو فتح کرنے کا صرف یہی ذریعہ ہو گا کہ پاکستان اور ہندوستان یونین آپس میں جنگ کریں“ لے فسوس اس بروقت انتباہ پر ابھی چند روز ہی گذرے تھے کہ ۲۷ اکتو بریسٹ سر کو لارڈ مونٹ بیٹن گورنر جنرل بھارت نے کشمیر کو انڈین یونین میں شامل کرنے کا اعلان کر دیا اور ہندوستانی فوجیں کشمیر میں داخل ہو گئیں.اس پر قائد اعظم حمد علی جناح نے کشمیرمیں پاکستانی فوج روانہ کرنے کا فوری حکم صادر فرما دیا.اور یہ حکم حکومت مغربی پاکستان کے ملٹری سیکرٹری کی معرفت ایکٹنگ پاکستان کمانڈر انچیف جنرل گریسی کے پاس بھی پہنچ گیا مگر جنرل گریسی نے جواب دیا کہ سپریم کمانڈر کی منظوری کے بغیر وہ خود کوئی ہدایت فوج کو جاری نہیں کر سکتے.اور سپریم کمانڈر فیلڈ مارشل سرکلوڈ روکنالک نے قائد اعظم کے سامنے یہ موقف اختیا یہ کیا کہ اب جبکہ کشمیر ہندوستان سے الحاق کو چکا ہے انڈین یونین کو مہاراجہ کی درخواست پر کشمیر میں فوج داخل کرنے کا حق پہنچتا ہے.کیمبل بجانسن اپنی کتاب عہد لارڈ مونٹ بیٹن میں اس واقعہ کا ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ قائد اعظم نے اوکنلک کی موجودگی میں اپنا آرڈر منسوخ کر دیا ہے.مونٹ بیٹن کی الحاق کشمیر سے متعلق اہل پاکستان کے لئے کشمیر کا ہندوستان سے الحاق بظاہر ایک نیا مسئلہ تھا مگر سیدنا المصلح الموعود نے واضح فرمایا کہ لارڈ مونٹ بیٹن دیرینہ سازش کا انکشاف عرصہ سے کشمیر کو بھارت سے ملانے کی سازش کر رہے تھے اور بھی تھی ه الفضل" و در اضاء/ اکتوبر ۳۲۶ د مش صفحه ۱-۲ + +1904 سے عہد لارڈ مونٹ بیٹن مصنفہ کیمیل بان مترجمه یونس احمدایم اسے ناشر نفیس اکیڈیمی کراچی نمی شد بٹھا
۳۳۸ اور بٹالہ کی تحصیلوں کو انڈین یونین میں شامل کرنے کا منصوبہ اس سلسلہ کی بنیادی کڑی ہے چنانچہ فرمایا : یوں تو مسلمان عام طور پر یہ سمجھتےہیں کہ کشمیر کا معاملہ نہایت اہم ہے لیکن اس کی اہمیت کا پورا انکشاف انہیں حاصل نہیں.خیال کیا جاتا ہے کہ کشمیر کا مہندوستان سے الحاق شاید کوئی نیا مسئلہ ہے مگر یہ بات درست نہیں حقیقت یہ ہے کہ کشمیر کے ہندوستان سے الحاق کی داغ بیل بہت عرصہ پہلے پڑ چکی تھی.بونڈری کے فیصلہ سے عرصہ پہلے ہندوستان کی تقسیم کے سوال کا فیصلہ ہوتے ہی لارڈ مونٹ بیٹن کشمیر گئے اور ان کے سفر کا مقصد وحید یہی تھا، کہ وہ مہاراجہ کشمیر کو ہندوستان میں شامل ہونے کی تحریک کریں.بحالات نے ثابت کر دیا ہے کہ لارڈ مونٹ بیٹن کلی طور پر سہندوؤں کی تائید میں رہے ہیں اور مسلمانوں کے مفاد کی انہوں نے کبھی بھی پروا نہیں کی.اگر انہوں نے پاکستان کے بنانے کے حق میں رائے دی تو اس یقین کے ساتھ دی کہ تھوڑے ہی عرصہ میں پاکستان تباہ ہو کر پھر ہندوستان میں شامل ہو جائے گا اور ان کا سارا زور اسی بات کے لئے خرچ ہوتا رہا.جب لارڈ مونٹ بیٹن کشمیر کے راجہ کو نصیحت کرنے کے لئے وہاں گئے اور اسی طرح کانگرس کے اور لیڈر بھی جیسے مسٹر گاندھی وہاں گئے تو لازمی بات ہے کہ ان بحثوں میں گورداسپور کے ضلع کا سوال بھی پیدا ہوا ہوگا پس جب لارڈ مونٹ بیٹن مہاراجہ کشمیر سے ملنے کے لئے گئے اور کانگریس نے مہاراجہ کشمیر پر زور دینا شروع کیا کہ وہ ہندوستان یونین کے ساتھ شامل ہوں تو اس کے معنی یہ تھے کہ ان لوگوں نے گورداسپور اور بٹالہ کو ہندوستان یونین میں شامل کرنے کا پہلے سے فیصلہ کیا ہوا تھا اور جب سر ریڈ کلف نے گورداسپور اور بٹالہ کو خلات انصاف اور خلاف عقل ہندوستان یونین میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا تو اس کے یہ معنے تھے کہ کشمیر کو مہندوستان یونین میں شامل کرنے کا فیصلہ پہلے سے ہو چکا تھا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان نتائج کو صحیح تسلیم کرنے کی صورت میں انگلستان کی دو بڑی ہستیوں پر خطرناک الزام عائد ہوتا ہے.مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ مندرجہ بالا واقعات کی بناو پر اس نتیجہ کے سوا اور کوئی نتیجہ نکل ہی نہیں سکتا.اگر یہ بات ممکن تھی اور اگر عقل اور انصاف کا تقاضا نہی تھا کہ گورداسپور اور بٹالہ کی تحصیلیں پاکستان میں شامل ہوں تو سر
۳۲۹ ریڈ کلفت کے ایوارڈ سے پہلے لارڈ مونٹ بیٹن ، مسٹر گاندھی اور دوسرے کانگریسی (کا بہ کا مہاراجہ کشمیر کے پاس جانا اور انہیں ہندوستان یونین میں شامل ہو نے کی تحریک کرنا بالکل بے معنی ہو جاتا ہے.کیا کوئی عقل مند آدمی اس بات کو تسلیم کر سکتا ہے کہ لارڈ مونٹ بیٹن مسٹر گاندھی اور دوسرے کانگریسی اکا بہ ایک ایسی بات منوانے کے لئے کشمیر گئے تھے جو تحصیل گورداسپور اور تحصیل بٹالہ میں مسلم اکثریت ہونے کی وجہ سے بالکل ناممکن تھی.ان کا جانا بتاتا ہے کہ یہ بات پہلے سے طے پا چکی تھی نو اور تحصیل بٹالہ اور تحصیل گورداسپور باوجود مسلم اکثریت کے ہندوستان یونین میں شامل کی جائیں گی.اور اگر یہ بات پہلے سے طے کی جا چکی تھی تو سر ریڈ کلف کا ایوارڈ محض ایک دکھاوا تھا.ایک طے شدہ بات کے اعلان سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہ تھی.بہر حال جیسا کہ ہم ثابت کر چکے ہیں کشمیر کو ہندوستان یونین میں ملا دینے کا فیصلہ برطانوی حکومت کے بعض نمائند ہے اور کانگریس مشترکہ طور پر پہلے کر چکے تھے.اس کے بعد جو کچھ کیا گیا ہے وہ محض دکھاوا اور کھیل ہے.مگر بات نہیں ختم نہیں ہو جاتی.کشمیر کو ہندوستان یونین میں ملا دینے کا فیصلہ صرف کشمیر کی خطر نہیں کیا گیا بلکہ اس لئے کیا گیا ہے کہ صوبہ سرحد کے ساتھ ہندوستان یونین کا تعلق قائم ہو جائے صوبہ سرحد میں سرخپوش (RED SHIRTS) کے ذریعہ سے کانگرس کی تائید میں ایک جال پھیلایا گیا ہے.عبد الغفار خاں کے ذریعہ سے لاکھوں روپیہ کا نگرس سرحد میں تقسیم کر رہی ہے اب تین طاقتیں پاکستان کے خلاف صوبہ سرحد میں کام کر رہی ہیں.پاکستان کے شمال مغربی سرحدی صوبہ میں سرخپوشوں کی جماعت ، آزاد سرحد میں فقیر ایسی کے لوگ اور افغانستان میں وہ پارٹی جو افغانستان کی سرحدوں کو سندھ تک بڑھا دینے کی تائید میں آوازیں اُٹھا رہی ہے.افغانستان کی فوجی طاقت ہر گز اتنی نہیں کہ وہ پاکستان میں داخل ہو کر سندھ کو فتح کر سکے.یہ غریب اسے ہندوستان کے بعض آدمیوں نے دیا ہے اور سکیم یہ ہے کہ خدا نخواستہ اگر کشمیر کی آزادی کی تحریک کو کچل دیا جائے اور ہندوستان یونین کا اثر کشمیر کی آخری سرحدوں تک پہنچ
۳۳۰ جائے تو وہاں سے روپیہ اور اسلحہ شمال مغربی صوبہ میں پھیلایا جائے اور سر بعد پارہ کے قبائل میں پھیلایا جائے.اس اسلحہ اور روپیہ کے قبول کرنے کے لئے زمین تیار ہے، اور اس اسلحہ اور روپیہ کو پھیلانے کے لئے بھی آدمی میسر ہیں.جب یہ سکیم مکمل ہو بجائے گی تو ادھر سے سرحد میں بغاوت کرا دی بجائے گی.ادھر سے فقیر ایپی کے ساتھی سرحدی صوبہ میں داخل ہونے کی کوشش کریں گے اور تیسری طرف کشمیر کی طرف سے ڈوگر سے اور سیکھ سپاہی فوج سے پوری بھاگ کر ضلع ہزارہ اور راولپنڈی پر حملے شروع کر دیں گے.نتیجہ ظاہر ہے.پاکستان کی حالت اگر مشرقی سرحد سے سکھ بھی حملے کرنے شروع کرنے لگ جائیں تو صروف اس مصالحہ کی سی رہ جائے گی ہو شامی کباب (سینڈ وچ) کے پیٹ میں بھرا ہوا ہوتا ہے.اور ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ یہ ایسی خطرناک صورت ہوگی کہ اس سے بچنا نہا یت اور نہایت ہی مشکل ہو گا.تقسیم پنجاب سے پہلے کی سوچی ہوئی یہ سکیمیں ہیں اور شطرنج کی سی پھال کے ساتھ ہوشیاری کے ساتھ اس سکیم کو پورا کیا جا رہا ہے.ہم نے وقت پر اپنے اہل وطن کو ہوشیار کر دیا ہے.زمانہ بتا دے گا ، کہ جو بات آج عقل کی آنکھوں سے نظر آ رہی ہے.کچھ عرصہ کے بعد واقعات بھی اس کی شہادت دینے لگیں گے.ہمارے نزدیک اس کا علاج یقیناً موجود ہے اور حکومت پاکستان اب بھی اپنیا مات کو جیت میں تبدیل کر سکتی ہے.اب بھی وہ ان منصوبوں کے بداثرات سے محفوظ رہ سکتی ہے.کیا کسی کے کان ہیں کہ وہ سُنے.کیا کسی کی آنکھیں ہیں کہ وہ دیکھے.کوئی دل گردے والا انسان ہے جو ہمت کر کے اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے کھڑا ہو جائے ؟" مسلے سیتا بدنا المصلح الموعود کو تحریک آزادی کشمیر کے قائد ہونے کی حیثیت مجاہدین کشمیر کیلئے ہیں.میں برسوں سے کشمیری مسلمانوں کے ساتھ جو گہرا تعلق رہا تھا اس میں آزاد کشمیر حکومت کے قیام کے بعد اور بھی اضافہ ہوگیا تھا اور اب آپ اس کی کامیابی کی تجاویز د تدابیر له الفضل " ما نبوت / نومبر له مش صفحه ۱-۹۲
٣٣١ سوچنے کے لئے گویا وقف ہو گئے تھے.سردیاں آپہنچی تھیں.اور اگرچہ تحریک کشمیر میں کام کرنے والے لوگ جو منظفر آباد ، پونچھ ، ریاسی، میر پونے اور سرھند کے باشندے تھے، برفانی علاقوں کے تھے.مگر باوجود اس کے کہ وہ موزون لباس کے بغیر ان علاقوں میں بعد و جہد آزادی بھاری نہیں رکھ سکتے تھے اور انہیں گرم جوابوں ، گرم سویٹروں، بوٹوں ، بیٹیوں اور بھاری کمبلوں کی فوری ضرورت تھی.لہذا حضور نے ۱۲ نبوت نومبر ہی کے الفضل میں مجاہدین کشمیر کے لئے اعانت کی پرزور اپیل فرمائی.پچنا نچہ فرمایا." کشمیر کا مستقبل پاکستان کے مستقبل سے وابستہ ہے.آج اچھا کھانے اور اچھا پہننے کا سوال نہیں.پاکستان کے مسلمانوں کو خودہ فاقے رہ کر اور ننگے رہ کو بھی پاکستان کی مضبوطی کے لئے کوشش کرنی چاہیے اور جیسا کہ ہم اُوپر بتا چکے ہیں.پاکستان کی مضبوعلی کشمیر کی آزادی کے ساتھ وابستہ ہے.ہم تمام پاکستان کے رہنے والوں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ آزادی کشمیر کی جد وجہد میں حصہ لینے والوں کی کمبلوں ، گرم کوٹوں، برساتی کوٹوں ، زمین پر بچھانے والی ہر ساتیوں ، برفانی بوٹوں ، گرم جوابوں اور گرم سویٹروں سے امداد کریں.یہ چیزیں کچھ تو ان دوکانوں سے بہتا کی جاسکتی ہیں جنہوں نے گذشتہ زمانہ میں ڈسپوزل کے محکمہ سے سامنے خریدا تھا اور کچھ سامان ابھی ڈسپوزل کے سٹوروں میں پٹا ہو گا جو ملک کے پاس فروخت کرنے کے لئے ہے.وہاں سے بھی سامان خریدا جا سکتا ہے اور کچھ سامان خود سر بعد کشمیر اور پونچھ سے حاصل کیا جا سکتا ہے.اس کے لئے صحیح جگہ پر روپیہ بھجوا دینا نہایت ضروری ہے.ہم پاکستان کے تمام اخباروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنے اپنے خریداروں سے روزانہ اس کام کے لئے چندہ کی اپیل کریں یا سارے اختیار مل کر ایک کمیٹی بنالیں جو مشترکہ طور پر روپیہ جمع کرنے اور ایسے ضروری سامان خرید سے جو مغربی پاکستان میں ملی سکتے ہیں.اور جو مغربی پاکستان میں نہیں مل سکتے لیکن خود کشمیر، پونچھ اور سرحد میں مل سکتے ہیں ان کے لئے روپیہ عارضی حکومت کو بھجوائیں یا عارضی حکومت کی ان شاخوں کو بھجوائیں.جو ملک کے مختلف حصوں میں کام کر رہی ہیں “ لے ل الفضل ار نبوت نومبر د مش صفحه ۲ کالم ۴۰۳* +1912
۳۳۲ مناکشیاااااااااا پاکستانی پر میں میں یہ خبر شائع ہوئی کہ کشمیر کے بارہ میں حکومت کستان اور حکومت ہندوستان کے ساتھ مفاہمت کی کوئی گفتگو کے خلاف احتجاج جاری ہے نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ اس کی بنیاد کے لئے شرائط صلح بھی متعین ہو چکی ہیں.سید نا لمصلح الموعود نے اس صورت حال کو مسلمانان کشمیر کے لئے سخت تشویشناک قرار دیتے ہوئے تحریر فرمایا :- " آج کی خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ کشمیر کے متعلق صلح کی گفتگو ہو رہی ہے اور یہ بھی انہی خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ دہلی میں شیخ عبداللہ صاحب کو اس غرض کے لئے بلایا گیا ہے.خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ صلح اس اصول پر ہو رہی ہے کہ پاکستان زور دے کر قبائلی لوگوں کو واپس کرا ہے.ہندوستان کی فوج کی واپسی کا کوئی ذکر نہیں.مسٹر گاندھی بھی بہت خوش نظر آتے ہیں کہ صلح کے امکانات روشن ہو رہے ہیں.اور ان کا خیال ہے کہ لارڈ مونٹ بیٹن کی کوشش سے ہندوستان میں امن کے قیام کی صورت نکل آئے گی.شرار صلح جو بتائی گئی ہیں وہ کشمیر کے مسلمانوں کے لئے نہایت خطرناک ہیں کشمیر کے مسلمانوں نے جو قربانیاں کی ہیں وہ ایسی نہیں کہ ان کو یونہی نظر انداز کر دیا جائے.خصوصاً پونچھ کے مسلمانوں نے سر دھڑ کی بازی لگا دی ہے.کوئی ایسا سمجھوتہ جو اُن کے حقوق کی حفاظت نہ کرے یقیناً پونچھ کے بہادر جانبازوں کی زندگی ختم کرنے والا ہو گا.اس جنگ کے بعد اگر کشمیر پر کوئی ایسی حکومت قابض ہوئی جو ڈوگرہ راج کے تسلسل کو جاری رکھنے والی ہوئی یا جس میں آزاد مسلمانوں کا عنصر بڑی بھاری تعداد میں نہ ہوا تو پونچھ ، میر پور اور ریاسی کا بہادر مسلمان ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گا.وہ کسی صورت میں زندہ نہیں رہ سکتا.خدا کرے یہ خبر غلط ہو.لیکن چونکہ پاکستان گورنمنٹ کی طرف سے غلہ کوئی اعلان نہیں ہوا.اس لئے ہمیں شبہ ہے کہ یہ خبر اگر ساری نہیں تو کچھ حصہ اس کا ضرور سچا ہے.پاکستان گورنمنٹ نے بار بار اعلان کیا ہے کہ وہ کشمیر کی آزادی کی جد و جہد میں حصہ نہیں لے رہی.اور اگر یہ بات درست ہے تو پاکستان گورنمنٹ کو آزاد کشمیر
لعالم سلالم سلام تحریک کے راستہ میں روڑے اٹکانے کا کوئی حق نہیں پہنچتا.پبلک کی ہمدردیاں آزاد ملکوں میں ہمیشہ ایسے ممالک کے حق میں جاتی ہیں جن سے کہ ان کا کوئی تعلق ہوتا ہے انگلستان، یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ، فرانس، جرمنی اور دوسرے ممالک با وجود اس کے کہ ان کی حکومتیں بعض جگہوں میں شامل نہیں ہوئیں دو جنگ کرنے والے فریق میں سے ایک کی مدد کرتی رہی ہیں.اگر پاکستان کی آبادی بھی اسی طرح کشمیر کی تحریک آزادی میں حصہ لینے والوں کی مدد کرے تو وہ اپنے جائز حقوق سے کام لیتی ہے.اور اسے روکنے کا کسی کو حق نہیں.کشمیر کا پاکستان کے ساتھ ملنا یا گلی طور پر آزاد ہونا لیکن پاکستان کے ساتھ اس کے دوستانہ تعلقات کا ہونا پاکستان کی زندگی کے لئے نہایت ضروری ہے.اس کے بغیر پاکستان ہرگز زندہ نہیں رہ سکتا.پس کوئی ایسی تجویز جو اس کے مخلاف ہو ، وہ ہرگزہ پاکستان کے لئے قابل قبول نہیں ہونی چاہیے" اگر کشمیر پاکستان کے لئے رگ جان کی حیثیت مش فلسطین سے متعلق سید نا اصلح الموعود رکھتا ہے تو فلسطین پورے عالم اسلام کی زندگی کے دو معرکۃ الآراء مضامین اور موت کا سوال ہے.مسئله فلسطین یکم دسمبر ۴۷ امر کو ایک نئے مرحلہ میں داخل ہوا ، جبکہ امریکہ اور روس دونوں کی متفقہ کوشش سے جنرل اسمبلی نے تقسیم فلسطین کا ظالمانہ فیصلہ کر دیا.سيدنا المصلح الموعود نے تقسیم فلسطین کے پس منظر کو بے نقاب کرنے کے لئے دو معرکة الآداء مضامین لکھے جن میں سے ایک فیصلہ تقسیم سے قبل ۲۸ نومبر کو شائع ہوا.اور دوسرا دیں روز بعد امرد گھبر کو بحضور نے ان مضامین میں نہایت شرح وبسط سے بدلائل ثابت کیا کہ یہودیوں کی فلسطین میں آبادی روس، امریکہ اور برطانیہ تینوں کی پرانی سازش کا نتیجہ ہے.گو یہ طاقتیں اپنے سیاسی اغراض کے لئے ایک دوسرے کے خلاف بر سر پیکار نظر آتی ہیں مگر مسلم دشمنی کے مقصد میں سب مشترک ہیں عربوں اور مسلمانوں سے کسی کو ہمدردی نہیں ہے مسلمان صرف اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکتا له الفضل» ۳۰ نبوت / نومبر مش صفحه ۳ : "1
ہے اور اسے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرنی چاہیے یہ لے اس ضمن میں حضور نے یہ بھی فرمایا کہ " فلسطین کا معاملہ اسلامی دنیا کے لئے ایک نہایت ہی اہم معاملہ ہے.ایک ہی وقت میں پاکستان ، انڈونیشیا اور فلسطین کی مصیبتیں مسلمانوں کے لئے نہایت ہی تشویش نا صورت پیدا کر رہی ہیں.ہمیں ان سب مشکلات پر ٹھنڈے دل سے غور کر کے کوئی ایسا راہ نکالنا ہے جو آئندہ اسلام کی تقویت کا موجب ہو اور تمہیں اس وقت اپنے ذہنوں کو دوسری چھوٹی سیاسی باتوں میں پھنسا کہ مشوش نہیں کرنا چاہیے.فلسطین کا معاملہ ایک اپنی تدبیر کا نتیجہ ہے اور قرآن کریم، احادیث اور بائبل میں ان تازہ پیدا ہونے والے واقعات کی خبریں پہلے سے موجود ہیں " " سیدنا حضرت امیر المومنین المصلح الموعود کی مصلحانہ جماعت احمدیہ کیلئے بعض خاص ہدایات قیادت کی یہ حیرت انگیزشان بھی کر حضور کی ڈور بین نگاہیں بیک وقت دین کے ہر چھوٹے بڑے محاذ پر جمی رہتی تھیں اور آپ کا آسمانی دماغ وقت کے ہر نئے تقاضے کے عین مطابق صحیح راہ متعین کرنے میں ہمیشہ کامیاب ہو جاتا تھا جس سے نمکین دین کی منزل قریب سے قریب تر ہو بھاتی تھی.حضور کی اس امتیازی خصوصیت کا ہجرت پاکستان کے بعد بار بار اور نمایاں صورت میں اظہار ہوا.جبکہ آپ نے ایک طرف عالم اسلام اور خصوصاً مملکت پاکستان کے مسائل میں بصیرت افروز رہنمائی فرمائی اور دوسری طرف احمدیوں کو قدم قدم پر ان کے جماعتی اور ملی فرائض کی طرف متوجہ کیا.اس تعلق میں یہاں بعض ان ہدایات کا ذکر کیا جانا مناسب ہو گا جو حضور انور کی طرف سے ۱۳۳۶ ایش کی آخری سہ ماہی میں بھاری کی گئیں.1904 ا حضور نے ارماہ اخا / اکتوبر میش کے حمدیوں کوملکی دفاع کیلئے فوجی فنون سکھنے کی تلقین خطبہ جمعہ میں احمدیوں کو فوجی فنون سیکھنے کی تلقین " الفضل ۲۸ نبوت تو میر نمایش صفحه ۴ کالم ۳ * "افضل" فتح دسمبر له اش صفحه ۳ کالم ۴ به +1982/ 1
۳۳۵ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :- آج ہر احمدی سمجھے لے کہ اب احمد بیت پر ایک نیا دور آیا ہے اور اب اسے اللہ تعالے کے ساتھ ایک نیا عہد کرنا پڑے گا.میر نے دیک آج سے ہر مخلص احمدی کا خواہ وہ دنیا کے کسی گوشہ میں رہتا ہو یہ فرض ہے کہ وہ فوجی فنون سیکھے.اگر عارضی طور پر وہ فوجی ملات اختیار کر سکتا ہو تو عارضی طور پر اور اگر مستقل طور پر فوجی ملازمت اختیار کر سکتا ہو تو مستقل طور پر فوجی ملازمت اختیار کرے کیا پتہ کہ کس وقت پاکستان پر حملہ ہو جائے اس وقت ہمارا پہلا فرض ہوگا کہ ہم پاکستان کی پوری پوری مدد کریں.ہندوستان میں جو احمدی ہوں گے ان کے متعلق تو یہی قانون ہو گا کہ وہ ہندوستان یونین کے فرمانبردار رہیں.مگر جو پاکستان میں رہنے والے ہوں گے ان کا فرض ہوگا کہ وہ حکومت پاکستان کی مدد کریں اور دوسروں سے زیادہ جوش اور اخلاص اور ہمت سے پاکستان کی خفت کریں اور اس ملک کو دشمن کے حملوں سے پوری طرح محفوظ رکھیں تا کہ اس ملک سے اسلام کا نشان مٹ نہ بھائے اور ایک ہزار سال کے بعد اسلام کا جھنڈا سرنگوں نہ ہو جائے.اگر ایسا ہوا تو یہ بڑی بھاری شرم کی بات ہو گی.بڑی بھاری ذلت کی بات ہوگی.بڑی بھاری رُسوائی کی بات ہوگی.آج محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی امانت ہمارے ہاتھ میں ہے، اور اس امانت کی حفاظت کرنا ہمارا فرض ہے لئے ذکر الہی کی تحریک ۳- حضرت اقدس نے ارماہ اور اکتوبر میں کولیس عرفان میں ایک پر معارف تقریر کے ذریعہ احمدیوں کو ذکر الہی اور نماز باجماعت کی خاص تحریک کی.چنانچہ فرمایا." ہمیں تو ایسے رنگ میں اپنے اعمال کو ڈھالنا چاہیے جو قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد تازہ کر دے.پھر نماز سے پہلے اور پیچھے ذکر الہی کرنے میں بھی بہت غفلت سے کام لیا جاتا ہے.نماز سے پہلے جو وقت امام کے انتظار میں گزارا جاتا ہے اس کو بالعموم ادھر ادھر کی باتوں میں گنوا دیا جاتا ہے.حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے له " الفضل" دار الغاور اکتوبر ۱۳۳۶ برش صفحه ۲ کالم ۳-۴
۳۳۶ فرمایا ہے کہ وہ وقت ایسا ہی ہوتا ہے جیسے جہاد کا وقت.ذکر الہی سے دماغ صاف ہوتا ہے.فرشتوں سے تعلق مضبوط ہوتا ہے اور نفس کی کمزوریاں دور ہوتی ہیں.پس ذکر الہی کی عادت ڈالو.اپنے وقتوں کو صحابہ کے رنگ میں گزارو ، ورنہ وہ برکتیں دیر تک پیچھے پڑتی ہی جائیں گی جو مفدا تعالیٰ نے تمہارے لئے مقدر کو رکھی ہیں.ان فتنوں کا ایک ہی علاج ہے اور وہ یہ کہ خدا تعالے کا فضل ہم پہ نازل ہو.پس خدا کے فضل کے جاذب بنو اور دعائیں کرو کہ قوم کے اندر اتحاد ، قربانی اور ایشیار کا مادہ پیدا ہو.اگر پاکستان میں بھی خدا نخواستہ مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے تو پھر سوائے سمندر میں جا کہ غرق ہو جانے کے اس ملک میں مسلمانوں کے لئے کوئی ٹھکانہ نہیں ہو گا " اتحادر مہاجرین کو متوتلانہ زندگی بسر کرنے کا ارشاد حضور نے اور ماہ اد اکتوبر ہی کی بلیس ۴ ہ 41986 عرفان میں مشرقی پنجاب سے آنے والے اسباب کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا :- "اگر تم مومن اور متوکل ہو تو پھر تمہیں اپنی جائیدادوں کے تلف ہونے کی پروا نہیں کرنی چاہیے اور گھبراہٹ کا اظہار نہیں کرنا چاہیے.اسے سمجھ لینا چاہیے کہ اللہ تعالے جب دیتے پہ آتا ہے تو دے دیتا ہے اور جب لینے پہ آتا ہے تو لے لیتا ہے.ہمارا مقام یہی ہے کہ جس حالت میں اللہ تعالیٰ رکھے ہم اس پر راضی رہیں.یہی حقیقی تو کل ہے.اور جب یہ پیدا ہو جائے تو پھر انسان طوعی اور جہری دونوں طرح کی قربانیوں کے لئے تیار ہو جاتا ہے اور شرح صدر کے ساتھ قربانیوں کے میدان میں آجاتا ہے" اشاعت اسلام کیلئے فقیرانہ رنگ ہم حضور پر نور نے مار ماہ اتحادا اکتوبیری مین کو تنبیہ 2" جمعہ کے دوران فرمایا :- پیدا کرنے کی ہدایت " اگر عیسائی مذہب دنیا میں پھیل سکتا ہے، اگر بدھ مذہب دنیا میں پھیل سکتا ہے تو اسلام جو بہت سی خوبیاں اپنے له " الفضل " لم ار انحاء / اکتوبر ۳۲۶ه بیش صفحه ۴ + ہے " الفصل " وار اشاد اکتوبر سال انه مش صفحه له کالم ۲ * 41906 Y
٣٣٧ اندر رکھتا ہے اور جو تمام مذاہب سے زیادہ مکمل اور حسین ہے ، وہ کیوں پھیل نہیں سکتا.ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام کی اشاعت کے لئے صحیح ذرائع سے کام لیا جائے.اگر تم اسلام کی اشاعت صرف کالجوں اور مدرسوں کے ذریعہ کروگے.تو یہ ایک مذہب نہیں بلکہ سوسائٹی ہوگی اور سوسائٹی میں صرف چند آدمی داخل ہوا کرتے ہیں ، ساری دُنیا داخل نہیں ہوا کرتی.لیکن اگر تم اپنی تبلیغ کو مذہبی رنگ دے دو تو پھر جوق در جوق تمام دنیا کے لوگ اسلام میں داخل ہونے لگ جائیں گے.پس اپنی تبلیغ کو مذہبی رنگ دو اور اسلام کی اشاعت کے لئے فقیرانہ رنگ اختیار کرو پھر دیکھو کہ تمہاری تبلیغ کس شرعت اور تیزی کے ساتھ دنیا میں پھیلتی چلی جاتی ہے.اه اس سلسلہ میں 4 ارماہ فتح دسمبر میش کو مزید فرمایا :- " ہماری جماعت کو چاہیے کہ ہر فرد ہم میں سے اپنے نفس کو ٹوٹتا رہے اور اپنے دل میں دین کے ساتھ ایک محبت اور شغف پیدا کرنے کی کوشش کرے تاکہ دین کے کام اسے بوجھ محسوس نہ ہوں بلکہ وہ انہیں میں لذت اور خوشی محسوس کرے.لوگ تو دین کو ایک بوجھ کہتے ہیں.ہماری جماعت کے دوستوں کو اس سے بالکل الٹ دنیا کے کاموں کو ایک چٹی اور بوجھ سمجھنا چاہیے کیونکہ ہمارا اصل کام تو دین کی محبت اپنے دل میں پیدا کرتا اور دین کی اشاعت کرنا ہی ہے.باقی دنیا کے کام ہرگز ہمارا مقصد نہیں ہیں.محض زبانی باتیں نہیں کبھی فائدہ نہیں دے سکتیں.ہمارے دماغ پر تو سوتے جاگتے اٹھتے بیٹھتے بس ایک ہی مقصد عادی ہونا چاہیئے.اور وہ یہ کہ اسلام دنیا میں غالب آئے“ سے ۵.حضور نے ۲۱ ماه نبوری / نومبر ۱۳۳۶ پرش کو خاص قرآن کریم مجھنے اور اس پرعمل کرنے کا فرمان طور پر اس موضوع پر خطبہ جمعہ دیا کہ اگر ماری جات قرآن کریم کے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرے تو سارے مصائب آپ ہی آپ ختم ہو جائیں.چنانچہ فرمایا :- له " الفضل» ۳۰ اعضاء التوبه ر ش صفحه ۴ - کالم ۲-۳ : " الفشل " دار فتح / دسمبر س ش ص :
۳۳۸ سلسلہ الہیہ کو سلسلہ البہیہ سمجھنا اور اس کی تعلیم پر عمل نہ کرنا بالکل لغو اور فضول ہوتا ہے بلکہ بسا اوقات عذاب الہی کو بھڑ کانے کا موجب بن بجاتا ہے.پس ہماری جماعت کو چاہیئے کہ وہ قرآن کریم کے پڑھنے اور پڑھانے کا اتنا رواج دے کہ ہماری جماعت میں کوئی ایک شخص بھی نہ رہے جسے قرآن نہ آتا ہو..ابھی تک جماعت کے بعض لوگ اس سلسلے کو محض ایک سوسائٹی کی طرح سمجھتے ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ بیعت کرنے کے بعد اگر چندہ دے دیا تو اتنا ہی ان کے لئے کافی ہے....حالانکہ...جب تک ہم اپنے ساتھیوں اور اپنے دوستوں اور اپنے رشتہ داروں کو قرآن کریم کے پڑھانے اور اس پر عمل کرانے کی کوشش نہ کریں گے اس وقت تک ہمارا قدم اس اعلیٰ مقام تک نہیں پہنچ سکتا جس مقام تک پہنچنے کے نتیجہ میں انبیاء کی جماعتیں کامیاب ہوا کرتی ہیں" سے محبت قادیان کے بعدیہ کو اپنے قادیان کے چھین بھانے کا اثر طبعی طور پر جماعت احمدیہ کے ہر طبقہ پر نہایت گہرا ہوا.اس صدمہ عظمی سے جسم نڈھال اور دل مقصد میں روک نہ بننے دو افسردہ اور پریشان تھے اور زندگی بالکل بے کیف ہو کے رہ گئی تھی.ان اندوہناک حالات میں حضرت مصلح موعود نے اپنی جماعت کو اپنے اندر ہمت و جمرات پیدا کرنے کا وہی امید افزا پیغام دیا جو خلفاء ربانی کا ہمیشہ طغرہ امتیاز رہا ہے.چنانچہ فرمایا :- قادیان چھوٹ جانے کا احساس بیشک ضروری چیز ہے.لیکن اس احساس کے نتیجہ میں بجائے بے بہتی پیدا ہونے کے ہماری جرأت اور ہمارے حوصلہ میں زیادتی اور ترقی ہوئی پہچانے قادیان ظالمانہ طور پر ہم سے چھینا گیا ہے اور ظالم کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیں پہلے سے بہت زیادہ ہمت اور طاقت اور حوصلے کی ضرورت ہے.مُردے کبھی میدان فتح نہیں کیا کرتے.میدان ہمیشہ زندہ اور بہادر لوگ جیتا کرتے ہیں.پس آج تو ایسا وقت ہے کہ ہمارے بوڑھوں کو بھی جو ان بن جانا چاہیے کیونکہ کام جو اللہ تعالیٰ نے اب ہمارے سپرو کیا ہے وہ جوانوں والا ہے.اگر ہمارے بوڑھے بھی کمر ہمت باندھ لیں تو یقیناً اللہ تعالے انہیں بھی کام کرنے کی طاقت دے دے گا اور مومن کے لئے دین کی راہ کام کرتا ہی سب ۱۳۲۶ " الفضل وفتح ا دسمبر اره اش صفحه ۱۶۵ ۶۱۹۴۷
۳۳۹ سے زیادہ خوشی کا موجب ہوتا ہے گو ہارا یقین یہی ہے کہ جلد ہی قادیان ہمیں واپس مل بھائیگا لیکن فرض کرو جلد نہ ملے اور سو دو سو سال بھی لگ بھائیں تو پھر بھی کیا حرج ہے.بعتنا عرصہ مومن کو زیادہ قربانی کے لئے بل بجائے مومن کو تو اتنا ہی خوش ہونا چاہیے نہ کہ غمگین..پس یہ وقت رونے دھونے کا نہیں ہے بلکہ اپنی تہمتوں کو اور اپنے حوصلوں کو پہلے سے بہت زیادہ بلند کرنے کا وقت ہے.ہمارے جوانوں کو بہت زیادہ جوان بن جانا چاہیے اور ہمارے بوڑھوں کو جو ان بن جانا چاہئیے اور اپنے اصل مقصد یعنی خدا تعالے کی محبت اور اس کے دین کی اشاعت کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دینا چاہیے کہ خدا کی محبت کروڑوں کروڑ قادیان سے بھی زیادہ قیمتی اور قابل قدر چیز ہے“ لے جماعت احمدیہ کے نظام مالیات کو فسادات کے مخلصین احمدیت کی طرف سے اخلاص قربانی دوران سخت دھکا لگ چکا تھا مگر خلصین جماعت کی روح کا مظاہرہ نے ان نازک ایام میں کس ذوق و شوق سے مالی تنہاد میں حصہ لیا ، اس کی بعض شاندار مثالیں حضرت سید نا لمصلح الموعود کی زبان مبارک سے ذیل میں بیان کی جاتی ہیں.فرمایا :- - جالندھر کی ایک احمدی عورت میرے پاس آئی اور اس نے بتایا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا ہے اور یہ کہ وہ بالکل برباد ہو گئے ہیں.پھر اس نے دو زیور نکال کر بطور چندہ دے دیئے.میں نے اسے کہا تم تولٹ کر آئی ہو، یہ چندہ تو ان لوگوں پر ہے جو یہاں تھے اور جو لوٹ مار سے محفوظ رہے.وہ عورت یہ بھی کہ چکی تھی کہ اس نے حفاظت مرکز کا چندہ ادا کر دیا ہوا ہے اس نے کہا ئیں یہی دو زیور نکال کر لائی ہوں.جب میں نے دیکھا کہ جماعت نازک دور سے گزر رہی ہے تو میں نے خیال کیا کہ میرا سارا زیور اور دوسری بجائیداد تو کفار نے لوٹ لی ہے کیا اس میں خدا تعالے کا کوئی حصہ نہیں میرے پاس یہی دو زیور ہیں جو میں بطورچندہ دیتی ہوں“ نے " الفضل " ، فتح ا دسمبر مش صفحه ۷ کالم ۳-۴ * له " الفصل" ۲۶ تبلیغ / فروری مش صفحه ۵ کالم ۳ ی یه
۳۴۰.میں نے دیکھا ہے کہ قادیان سے آنے کے بعد بعض غربا ء نے اتنی اتنی رقم بطور چندہ کے دیا ہے کہ اگر اُس کا اندازہ لگایا جائے تو اس کا سینکڑواں حصہ بھی امراد نے نہیں دیا.جو کچھ بھی انہوں نے اپنی ضرورتوں کے لئے پس اندازہ کیا ہوا تھا وہ میرے سامنے لاکر رکھے دیا.پتہ نہیں کہ وہ روپیہ انہوں نے کتنے سالوں میں جمع کیا تھا.کسی امیر نے ایسا نہیں کیا بلکہ سو سے کم آمدن والوں نے ایسا کیا ہے ، ہ ، سے کم آمدن والوں نے ایسا کیا ہے بلکہ پچاس سے کم آمدن والوں نے ایسا کیا ہے." میں یہ نہیں کہتا کہ امراء اخلاص دار نہیں ہوتے.امراء میں بھی اخلاص ہوتا ہے لیکن ان کے اخلاص کو دیکھتے ہوئے ایسے مخلصوں کی تعداد کم ہے...سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب + سلسلہ کے کاموں میں اتنی فراخدلی اور فراغ حوصلہ سے حصہ رہتے ہیں کہ ان پہ رشک آتا ہے گذشتہ دنوں میں حیدر آباد میں بدامنی تھی.جونہی ڈاک کھٹی وہاں سے چندے آنے شروع ہو گئے.پس مخلص لوگ امر اوئی بھی ہوتے ہیں اور غرباء میں بھی ہوتے ہیں مگر نسبت کے لحاظ سے یہ تعداد زیادہ ہوتی ہے" سے م سید نا المصلح الموعود نے ۲۸ ماه نبوت / نومبر اہ مہیش کو تحریک جدید کے چودھویں سال کا اعلان فرمایا.اس مالی جہاد میں سب سے زیادہ جوش و خروش قادیان کے احمدی مہاجرین نے دکھایا.ہمیں پر حضور نے اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا :- دو اس وقت تک سب سے زیادہ جوش قادیان کے مہاجرین نے ہی دکھایا ہے.چنانچہ جتنی موعودہ رقم آئی ہے اس کا نوے فیصدی قادیان کے وعدوں پر ہی مشتمل ہے.و "افضل" ۲۶ تبلیغ فروری ۲ ساله اش صفحه سے " بفضل" در فتح / دسمر له مش صفحه ۳ کالم ۳ به
فصل سوم قادیان کو احمدیوں سے خالی کرانے کے لئے بول ) بھارتی حکومت اگرچہ بار بارید تو نا کر رہی تھی کردہ اقلیتوں کو اپنے وطن میں آباد رکھنا چاہتی.اور فوجی افسروں کی الزام تراشیاں اور دھمکیاں ہے اگر میں اس کے بالکل برعکس تھا.خصوشا میرا عمل قادیان کی نسبت تو اس کے خفیہ عزائم عملاً تقسیم ہند کے ساتھ ہی بے نقاب ہونے شروع ہو گئے تھے اور جماعت احمدیہ پر الزام تراشیوں کی ابتدا بھی ماہ ظہور پر اگست ہر مہیش کے آخری ہفتہ سے ہوگئی تھی مگر حکومت کے خطرناک ارادوں کا احمدیوں کے سامنے لفظ اظہا پہلی بار مر تبوک ستمبر کو ہوا جبکہ قادیان کی پولیس چوکی کے انچا رج ہزارہ سنگھ صاحب اور دوسرے سکھ سپاہیوں نے بٹالہ میں بعض ذمہ دار احمدیوں سے پوچھا کہ آپ کا قادیان خالی کرنے کے متعلق کیا ارادہ ہے ؟ کیا اسے تعالی نہیں کرنا ؟ اگلے روند دور تبوک استمبر کی صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب اور مکرم مرزا عبد الحق مناسب کی بیٹالہ میں برگیری پنو بھائی صاحب سے ملاقات ہوئی.کرم مرزا عبدالحق صاحب نے ڈپٹی کمشنر صاحب گورداسپور (سرکنی ایں اور سپر نٹنڈنٹ پولیس (سردار تو نہ ر سنگھ صاحب کی موجودگی میں جماعت احمدیہ کی تعلیم دحالات پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ ہم ہمیشہ پر اسن اور قانون کے پابند رہے ہیں اور آج سے پندرہ دن تک ہما ر سے خلاف کوئی شکایت نہ بھتی مگر اب سی کا ایک ہمیں بد نام کرنے کے لئے بے بنیاد الزامات لگائے جار ہے ہیں.برگیڈیئر صاحب نے جوابا کہا.میں سمجھتا ہوں بعض رپورٹیں غلط بھی ہوں گی مگر چند دن ہوئے استناعی حکم کے باوجود آپ لوگوں کی جیپ باہر گئی اور اس میں بعض اشخاص فوجی وردی پہنے ہوئے تھے ربات یہ تھی کہ خود مری نے جماعت سے جیپ مانگ کر لی اور ملٹری کے سپاہیوں نے ہی اسے استعمال کیا تھا) برگیڈیئر صاحب نے دوسرا الزام یہ عاید کیا کہ ایک بیرونی گاری سے منارہ مسیح کی طرف بذریعہ وائر لیس پیغام آیا کہ ہمارا گولہ بارود دختم ہے اور بھجوائیں یہ بات بھی سراسر غلط تھی.ہاں یہ مجھے تھا کہ ایک ملحقہ گوئی خطہ کی حالت
میں تھا اور اس کی اطلاع دینے کے لئے ٹارچ کے ساتھ اشارہ کیا گیا کہ مظلوم مسلمانوں کے بچاؤ کی کوئی صورت کریں چنانچہ اسی وقت مقامی ملٹری کو اس سے باخبر کر دیا گیا ).بر یگیڈیئر صاحب نے تیسرا الزام یہ دیا کہ آپ کا ہوائی جہانہ علاقہ بھر میں دہشت پھیلا تا رہا ہے.(اس الزام میں بھی ذرہ برابر صداقت نہ تھی کیونکہ ہوائی جہاز مصرف بیرونی دنیا سے رابطہ قائم کرنے کے لئے استعمال کئے جاتے تھے.البتہ ہوائی جہاز نے ایک بارہ احمدیوں کے تباہ شدہ درگاؤں دنجوال اور فیض اللہ ٹھیک کا معائنہ کیا تھا.مگر یہ پروانہ بھی سپر نٹنڈنٹ صاحب پولیس گورداسپور کی اس خواہش کی تکمیل کے لئے تھی کہ وہ یہ گاؤں اپنی آنکھ سے دیکھنا چاہتے تھے.مرزا عبد الحق صاحب نے اپنی معلومات کے مطابق ان الزامات کی تردید کی مگر یہ گلیڈیٹر صاحب نے کہا کہ بچہ ہوا سو ہوا آئندہ نوجی وردیوں سے ملتی جلتی در دیوں اور قادیان سے باہر بھیلوں کا استعمال نہ کیا جائے اور نہ جماعت کا ہوائی جہانہ اس علاقہ میں پرداز کر ہے.اور نہایت سخت لہجہ میں کہا کہ ہم دیکھیں گے دہ کیسے اڑتا ہے.مطلب یہ تھا کہ ہم اسے شوٹ کر دیں گئے.اگرچہ بریگیڈیئر صاحب نے اس موقعہ پر سماعت احمدیہ کے مرکزی نما ئندوں کو خاص طور پر بلوایا تھا.مگر ان کو اپنی معروضات کی تفصیل پیش کرنے کا کوئی موقع نہ دیا.بلکہ مرزا صاحب موصوف کو یہ کہکہ روک دیا کہ تفصیلات کی ضرورت نہیں اور ساتھ ہی یہ مطالبہ یار با ارا اور پور سے زور سے کیا کہ آپ یقین دلائیں کہ آمده احمدی جوان جارحانہ رنگ کی کوئی حرکت نہیں کہیں گے.حالانکہ احمدی منظوم اور محاصرہ کی حالت میں تھے.اور صبح وشام فوج اور پولیس کی کھلی بھار جیت کا نشانہ بنے ہوئے تھے.رمان نبوی رستمیر کو یہ رپورٹ موصول ہوئی کہ قادیان کی پولیس چوکی کے انچارج صاحب سارادن ہی کہتے ر ہے کہ احمدیوں سے یہ سخت غلطی ہوتی ہے کہ انہوں نے پاکستان کی حمایت کی اب ہماری گورنمنٹ کو کیسے اعتاب ہو سکتا ہے کہ وہ اس کے وفادار ہوں گے.یہ غلطی کوئی معمولی غلطی نہیں اور خطر ناک نتائج کا باعث بنے گی.ار ماہ تبوک ستمبر کو قادیان میں نی ملٹری آئی میں کے ایک صوبیدار نے آتے ہی ایک ہندو معاند سے کہا کہ ہم دیکھیں گے قادیان دالے قادیان خالی نہیں کریں گے.صرف ہم پڑنے کی دیر ہے کہ یہ سب بھاگ جائیں گئے.اسی روز بر یگیڈیر پنجو صاحب ، گورداسپور کے ڈپٹی کمشنر صاحب اور سپر نٹنڈنٹ پولیس صاحب کے ہمراہ ار بجے قادیان تشریف لائے اور امیر مقامی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سے آپ کے مکان پر ملاقات کی.
بریگیڈیئر صاحب نے دوران گفتگو اپنی پہلی باتوں کو دہرایا.حضرت میاں صاحب نے نہایت تحمل اور وقار سے ان کی ایک ایک شکایت کا تسلی بخش جواب دیا.البتہ جہاں تک ہوائی جہازوں کے پروانہ کرنے کا تعلق تھا آپ ے فرمایا کہ ہم باہر کے علاقہ سے بالکل قطع ہیںاور ہمارے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں کہ ہم ان تک یہ ہدایت یا خواہش پہنچا سکیں.کہنے لگے ہاں یہ درست ہے میں ایسا انتظام کر دوں گا کہ آپ کی طرف سے لاہور میں یہ اطلاع پھلی جائے کہ بہانوں کو اس علاقہ میں پردا نہ کرنے سے روک دیا جائے.اس روز پھر یہ رپورٹ موصول ہوئی کہ قادیان چوکی کے انچارج صاحب نے جماعت کے ایک ذمہ دار کارکن سے خاص طور پر یہ کہا کہ جماعت احمدیہ نے حمایت پاکستان کے کے سخت غلطی کی ہے اور اسی لئے بھاتی حکومت احمدیوں کی مخالف ہو رہی ہے.نیز کہا کہ اب یہاں ضلع میں کوئی مسلمان نہیں رہ سکتا.۱۹ ماہ تبوک ارستمبر کو پاکستان سے ایک ہوائی جہانہ قادیان کے حالات کا جائزہ لینے کے لئے آیا.مری اور پولیس نے جونہی اسے پر دانہ کرتا دیکھا.فائرنگ شروع کر دی اور چونکہ فوجی کپتان کو یہ خبر دی گئی تھی کہ جہانہ سے ایک تعقیلی تعلیم الاسلام کالج پر پھینکی گئی ہے اس لئے فوجی کپتان ذورا کالج میں پہنچا اور ہاں موجود اشخاص سے کہا کہ ہمارے حکم کے خلاف جہا نہ آیا ہے اس لئے تحصیل بھی ہمارے حوالہ کر داور یہ عمارت بھی شام تک خالی کردو.ڈیوٹی پر موجود کارکن نے کہاکہ میں نے کوئی تھیلی نہیں دیکھی اور نہ میں اس عمارت کا زمہ دار افسر ہوں.آپ پرنسپل صاحب کا لج کو جو حکم دیا ہے دیں.چنانچہ کیپٹن نے ایک احمدی جوان دخواجہ محمد امین صاحب) کو جیپ دے کر شہر کے اندر بھجوایا کہ پرنسپل صاحب کو جا کر لے آؤ.اور حکم دیا کہ ہم یہاں ایک پیکٹ رکھنا چاہتے ہیں.پرنسس صاحب چونکہ ان دنوں رخصت پر تھے اسے ان کی طرف سے سیکر ٹری کالج کمیٹی کم ملک غلام فرید صاحب اور مکرم سید محمود اللہ شاہ صاحب کیپٹن کے پاس پہنچے اور اسے بتایا کہ بہانہ ہمارہ انہیں پاکستان سے آیا ہے.ہاں ہم اپنی خواہش لکھ کر دے دیتے ہیں مجھے آپ پاکستان میں پہنچا دیں کہ آئندہ جہاز نہ آیا کر ے.چنانچہ کیپٹن اس گفتگو سے متاثمہ ہوا.نیز معذرت کی کہ میں نے کالج کی عمارت کے متعلق یو نہی پڑ کہ بات کر دی اور جماعت احمدیہ کی تعریف کی کہ بہت متحمل مزاج اور بہت منظم ہے.مگر اسی متحمل مزاج جماعت کے خلاف حکومت کی مشیری روز بروز تیز ہوتی بھارہی تھی.چنانچہ ۱۲۶ ماه تبریک رستمبر کو 1 بجے کے قریب مسٹر سونی صاحب مجسٹریٹ علاقہ قادیان آئے.مکرم مرزا عبد الحق صاحب اور مکرم سید محمود اللہ شاہ صاحب جماعت کی نمائندگی کے لئے خود ان کے بلانے پر ان کے پاس گئیہ ٹیمیٹریٹ صاحب
علق نے اپنی لمبی اور طویل گفتگو میں صاف صاف بتایا کہ حکومت کی پالیسی اس وقت ڈپٹی کمشنر صاحب کے سپرد نہیں.بلکہ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس کے سپرد ہے جو اس بات پر لکھے ہوئے ہیں کہ خواہ کچھ کرنا پڑے قادیان کے احمدیوں کو بہر حال نکال کر ہی دم لیں گے.نیز کہا کہ حکومت کا خیال ہے احمدیوں کے پاس کافی اسلحہ ہے.اور انہوں نے قادیان کے اردگرد سرنگیں بچھائی ہوئی ہیں.اور وہ اپنی عورتوں اور بچوں کو نکالنے کے بعد مقابلہ کریں گے اور آخر میں ان سرنگوں ہی سے (معاذ اللہ ) قادیان کو اڑا دیں گے.جناب مجسٹریٹ صاحب علاقہ نے اس عجیب و غریب اور ناقابل فہم انکشاف کے ثبوت میں ایک انتہائی مضحکہ خیز اور خلاف حقیقت بات کا سہارا لیا یعنی انہوں نے کہا کہ پہلے مرحلہ کے طور پیر احمدیوں نے اپنی گندم ملانی شروع کردی ہے.عالی شکر یہ بات بالکل خلاف واقعہ تھی.جناب مجسٹریٹ صاحب موران گفتگو میں یہ ہی کہا کہ مرزا صاحب یعنی حضرت خلیفتہ ایسی نشانی ، پاکستان کے معافی ہو گئے تھے.لہذا اب انہیں پاکستان ہی میں رہنا چاہیئے.آخرمیںکہا کہ ڈپٹی کمشنر صاحب اور پو لیں آپ سے مطالبہ کہتی ہے کہ آپ نا جائز اسلحہ حکومت ے حوالہ کر دیں را در گندم کے ذخیر سے تباہ نہ کریں.احمدی نمائندوں نے رجو یہ سب فرضی کہانی اور فسانہ نہایت حیرت و استعجاب اور صبر و عمل سے سُن رہے تھے، مجسٹریٹ صاحب عمل تہ کو یقین دلایا کہ ہم لوگ ایک با اصول اور امن و رواداری کو اپنا مذہبی فریضہ قرار دینے والی جماعت کے افراد ہیں.نہ تو ہمارے پاس کوئی نا جائز اکر ہے.ہم نے سرنگوں کا کوئی جال بچھا رکھا ہے اور نہ گندم کو چلانے کا کوئی واقعہ اب تک پیش آیا ہے اور نہ آئندہ کوئی ایسی صورت ہمارے بر نظر ہے.نیز صاف طور پر بتایا کہ جماعت احمر یکہ کسی حالت میں بھی حکومت وقت کے آئین کی ہرگز خلاف ورزی نہیں کرے گی اور نہ ایسا کرنا اس کے مسلمہ مذہبی اصولوں اور عقیدوں کی رو سے جاتی ہے.البتہ حکومت پر یہ اخلاقی فرض ضرور عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنی پالیسی سے ہمیں مطلع کرے اور واضح طور پر یہ بتائے کہ وہ ہمارے متعلق آئندہ کیا ارادہ رکھتی ہے ؟ ۲۸ تبوک استمبر کو ایک لیفٹینٹ کرنل ، ایک انگریز میجر اور ایک کو میجر صاحبزادہ مرزا دارد احد صاحب اور کیپٹن وقیع الزمان صاحب سے ملے اور انہوں نے نہایت تندو تیز لب ولہم میں کہا کہ تم لوگ یہاں سے کیوں نہیں جاتے؟ بلکہ ایک نے تو اپنے غلیظ و غضب کا اظہار ان الفاظ میں کیا کہ : - IN PAKISTAN YOUR PEOPLE BLOODY HAVE WIPED- >> OUT ONE OF OUR COMPANIES
۳۴۵ یعنی تم لوگوں نے پاکستان میں ہماری ایک کمپنی کا صفایا کردیا ہے.۲۹ تنبوک استمبر کو امرتسر میں سکھ لیڈروں کی ایک کا نفرنس ہوئی جس میں فیصلہ کیا گیا کہ قادیان دانوں کو نکلتے نہیں دیا جائے گا.سول اور فوجی افسروں کی یہ دھمکیاں در اتمام تر این فیلم وستم کی بے شمار کاروائیوں کے ساتھ متوازی چل رہی تھی بالآخر قادیان پرحملہ کے خونی واقعا پر منتج ہوئیں.جن کی تفصیل گزر چکی ہے، بھارتی حکام کا خیال تھا کہ سر اکتوبر کا دن احمدیوں کے انخلاء کے بارہ میں ایک فیصلہ کن دن ثابت ہوگا اور امدیوں کو بہر حال اپنا مرکز چھوڑنا پڑے گا.لیکن کئی گھنٹوں کے حملہ کے بعد جب انہوں نے دیکھا کہ اگرچہ وہ قادیان کی بیرونی آبادی کو ایک مقام میں محصور کرنے میں کامیاب ضرور ہو گئے ہیں.لیکن مرکزی حلقہ ابھی تک سکھ جنتوں اور ملٹری اور پولیس کی سفاکیوں اور چہرہ دستیوں کے باوجود اپنے مقدس مقامات کی حفاظت کے لئے پوری طرح ثابت قدم ہے تو ان میں غم و غصہ کی ایک نئی لہر دوڑ گئی اور انہوں نے اپنی انتظامی سرگرمیاں اور بھی زیادہ تیز کر دیں.چنانچہ حملہ کے تیسرے دن یعنی دوہ نادار اکتوبر کو ڈپٹی کمشنر صاحب گورداسپور کی امیر مقامی صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب سے ملاقات ہوئی کیس کی تفصیل صاحبزادہ صاحب کے الفاظ میں درج ذیل کی بھاتی ہے :- پر یوں ڈپٹی کمشنر نے پیغام بھیجا کہ میں منا چاہتا ہوں کیں ، مرزا عبدالحق صاحب اور مکرم ملک غلام فرید صاحب کو ساتھ لے کر ان کو ملنے گیا.ڈپٹی کمشنر صاحب مجسٹریٹ صاحب علاقہ کے ساتھ شیخ رحمت اللہ صاحب کے مکان محلہ دارالعلوم میں ٹھہرے ہوئے تھے.میر اول روز روز کے مظالم اور وعدہ خلا نیوں کو دیکھا پھرا ہوا تھا.باوجودیکہ حضور کی ہدایت ہے کہ افسروں سے ادب اور نرمی سے ملو.مجھ سے کچھ نہ کچھ تلخی ضرور ہوگئی.ڈپٹی کمشنر صاحب نے کہا آپ کو کیا تکلیف ہے میں نے کہا کوئی ایک تکلیف ہو تو بتائی اور اگر کسی کی نیت ہماری تکالیف کو دور کرنے کی ہو تو اس کا ذکر بھی کہ میں اس کے بعد تفصیل سے اپنی حالت بتائی ، ڈپٹی کمشنر صاحب نے پو چھا کہ اب اپنے متعلق آپ کا کیا ارادہ ہے ؟ میں نے کہا کہ آپ کا ارادہ ہمارے متعلق کیا ہے ؟ کہنے لگے ہم تو یہی چاہتے ہیں کہ آپ یہاں رہیں.میں نے کہا کہ آپ کے چاہنے کی بات نہیں.یہ فرمائیں کہ گورنمنٹ کیا چاہتی ہے.کہنے لگے کہ میں ہی گورنمنٹ ہوں.یکی اس وقت تیزی میں تھا میں نے کہا کہ آپ گو رنمنٹ نہیں.آپ کچھ بھی نہیں.کہنے لگے کہ آپ کس کو گورنمنٹ کہتے ہیں.میں نے کہا کہ مشرقی پنجاب کے ہوم منسٹر صاحب اگر ہمیں لکھ دیں کر دہ نہیں رہنے دینا چاہتے ہیں تو ہم ان پر اعتبار کریں گے.ان کے نیچے کسی افسکی
۳۴۶ کوئی حقیقت نہیں.ڈپٹی کمشنر صاحب نے جتنی باتیں کہیں ان سب میں اس بات پر زور دیا کہ جولوگ مغربی پنجاب سے لٹ کر آئے ہیں وہ اتنے DESPERATE ہیں کہ ان کو لوٹ مار سے روکنا مشکل ہے.اس بار میں کئی قصے بھی سناتے.میں نے کہا کہ ان پناہ گیروں کو ہم بھانتے ہیں ان کی حالت زار کو ہم نے دیکھیں ہے.وہ ٹوٹنے والے نہیں.ٹوٹنے والے یہاں کے سکھ یہاں کے ہندو اور ان کی پشت پناہ ہوئیں اور بعض اوقات ملٹری ہوتی ہے.دوران گفتگو میں اُس نے اصل بات یہ بتائی کہ میں آپ کو بنا تا ہوں کہ آپ کی جگہ BORDEK (مرصد) پر واقع ہے اور اگر مشرقی اور مغربی پنجاب کی BORDER پر کوئی INCIDENT (ھاشہ ہو تو آپ کی پوزیشن بہت خطرناک ہو جائے گی غالباً اس کا اشارہ اس طرف تھا کہ ایسی حالت میں یا تم ختم ہو جاؤ گے یا قیدی بنائے جاؤ گے...آخر میں سپر نٹنڈنٹ مناسب پولیس نے کہا کہ با دیور ہمارے بار بار کہنے کے غیر ائینسی شدہ اسلحہ واپس نہیں کیا جا رہا.اُن سے کہا گیا کہ ہمیں علم ہو کہ کہاں اور کس کے پاس ہے تو واپس بھی کریں.نیز کہا کہ ہمارے متعلق تو یہ بھی مشہور کیا گیا ہے کہ یہاں NESمدد کریں) بھائی ہوئی ہیں حالانکہ ہم بار بار اسے انکار کر چکے ہیں اور کہہ چکے ہیں کہ حکومت تلاشی وغیرہ سے اس کے متعلق تسلی کرلے.اسے علم ہو جا ئیگا کہ یہ بات غلط ہے.اس پر سپرنٹنڈنٹ کتاب پولیں نے کہا کہ ایسی چیزیں کہیں تلاشی سے بھی مل کرتی ہیں ؟ ہم نے کہا کہ ہمارا سے جانے کے بعد یہ آپ ان کو نکالی ہی لیں گے.اس پر انہوں نے کہا کہ آپ لوگ ساتھ سے بنائیں گے.ہم نے کہا کہ ہم اس کا کیا جواب دیں.ہمارا معمولی سامان تو لے جانے نہیں دیا بھاتا MINES کو ہم کس طرح سے بھائیں گے.دوران گفتگوی ملڑی میجر جو بعد میں آکر مجلس میں شامل ہو گیا تھا، اور مجسٹریٹ صاحب علاقہ نے پو چھا کہ کیا آپ کے پاس کوئی ٹرانسمیٹر ہے.ان سے کہا گیا کہ ہم علف کھاتے ہیں اور اس کے متعلق تحریر دینے کو تیار ہیں کہ ہمارے پاس کوئی ٹرانسمیٹر نہیں " د را خاور اکتوبر کو سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس نے جماعت کے ایک نمائندہ سے کہا کہ اگر کوئی واقعہ مراد پر ہو گیا تو قادیان کے ہر شخص کو مار دیا بھائے گا.: شکسته خاطر :
کے کام ۳ اس کے چند روز بعد پاکستان سے میجر آن نشستن ایک کنواسے نیکر قادیان آئے.انہوں نے جماع کیے ذمہ دار عہدیداروں کو صاف لفظوں میں بتایا کہ وہ آپ لوگوں کے پاس یہاں کے افسروں کا ایک پیغام ہے کہ آتے ہیں اور دہ ایک THREAT دھمکی ہے جو انہوں نے آپ لوگوں کو دی ہے.یعنی اگر آپ نے یہاں رہنے کا ارادہ کر لیا دہ آپ کو تباہ کر دیں گے.۱۲ را خار ۶ اکتوبر کوکونی اور چین سنگ ان نے جماعت احمدیہ کے ایک نمائندہ کو بتایا کہ یہاں کی حکومت آپ کو کہے گی کہ آپ یہاں رہیں.لیکن صحیح بات یہی ہے کہ گورنمنٹ آپ کو یہاں رہنے نہیں دے گی.اور آپ کو یہاں سے نکلنا پڑے گا.اگر آپ نہ نکلیں گے تو آپ پر شدید حملہ ہو گا.مادر ار انخاع / اکتوبر کو میریٹ صاحب علاقہ نے ایک احدی کارکن سے کہا کہ خدا کے لئے قادیان سے پہلے جاؤ میں سخت تنگ آگیا ہوں.کارکن نے جواب دیا کہ آپ لکھ دیں کہ یہاں سے پہلے بتاؤ مجسٹریٹ صاحب نے ہو ابدیا آپ کو بہر حال نکلنا پڑے گا.۴ ار امضاء / اکتوبر کو مجسٹریٹ صاحب نے مکرم مولوی عبدالرحمن صاحب فاضل جٹ سے کہا.آپ لوگوں کو چاہیئے کہ با ہر ریفیوجی کیمپ میں آجائیں.کیونکہ مسجد مبارک کے حلقہ میں خون خرابے کا اندیشہ ہے.اسی دن بعض باوثوق ذرائع سے یہ خبر بھی لی کہ قادیان کے انچار ج صاحب چوکی نے ایک صوبیدار سے کہا ہے کہ پہلے شہر کی پرانی آبادی کو خالی کہ انا چاہیئے تھا پھر دوسرے محلوں کو.دوسرے محلوں کو پہلے خالی کرانے میں ہم نے غلطی کی ہے.ار اضاء / اکتوبر کو مجسٹریٹ صاحب علاقہ کے جوش غضب کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے بعض احمدیوں سے کہا کہ آج رات خدا نے مجھے کہا ہے کہ ان کو قادیان سے نکال دور ان کو یہاں نہ رہنے دو.اگر وہ رہ گئے تو بہت خطرہ ہے.قادیان میں مخصوص احمدی آبادی کو الف قادیان پر تم پرانے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے.گرہ الف پرمشتمل ماہ انحاء الکتب ان کے دوسرے ہفتہ کی ابتدا میں حضرت سے متعلق ایک اہم میٹنگ امیر المومنين خليفة أسبح الثاني المصلح الموعود نے بذریجہ مکتوب تلادیان کے مرکزی عہدیدارندگی یہ مشورہ طلب فرمایا کہ حفاظت قادیان سے متعلق آئندہ کیا میورت اختیا کر جائے اور مستقبل میں احمدی آبادی کسی نہ ناک میں رہے ؟ تصور کے اس ارشاد پر چند مخصوص اور سر بر آوردہ اشخاص کی میٹنگ بلائی گئی.امیر مقامی صاحبزادہ مرنے
علیهم السلام عزیز احمر صاحب نے اور ماہ افادار اکتو بر روش کو اس سیٹنگ کی روداد حضرت امیر المومنین کی خدمت میں بھجوا دی جس میں سکھا :- اللہ احباب کا خیال ہے کہ یہ لوگ نہ تو کالج ہمیں واپس کریں گے اور نہ مکانات کو اب نمائی کریں گئے اس لئے سوائے مقامات مقدسہ یعنی بہشتی مقبرہ مسجد اقصی مسجد مبارک اور دارالمسیح کے کہیں اور اپنے آدمی نہیں رکھے جا سکتے اور ان مقامات کی حفاظت کے لئے دوصد آدمی کافی ہوں گے اور حضور کی تجویز کے مطابق یکصد آدمی عملہ حفاظت سے نکل آئیں گے اور ۵۰ قادیان کے احباب سے اور باہر سے آئیں گے.یہاں کے ہندوؤں اور سکھوں کا رویہ ہمارہ سے مقامات مقدسہ کے متعلق نہایت ہے.اگر گورنمنٹ سے اس بارہ میں کوئی سمجھوتہ ہو جائے تو شاید ان کے نظریہ اور ردیہ میں معاندانہ ہے کچھ تبدیل ہو جائے.حضرت سيد الصلح الموعود کا فیصلہ نے فرمایاکہ آئندہ قادیان میں درج ذیل تقسیم کے ساتھ ۲۵۰ احمدی تعلیم ہیں جو مقامات مقدسہ کی حفاظت کا فریضہ بجالائیں :- قادیان کے تنخواہ دار محافظین : - بیرونی من کار : HA باشندگان قادیان :- قبل از میں حضور کی منظور شدہ سکیم کے مطابق یہ فیصلہ بھی ہو چکا تھا.کہ در رب احمدی عورتوں اور اٹھارہ سال سے کم عمر کے سب بچوں اور بچپن سال سر زیادہ عمر کے سب مردوں کو قادیان سے باہر نکال لیا جائے اور جو مرد اٹھارہ اور پچپن سال کے درمیان عمر رکھتے ہیں ان میں سے قرعہ اندازی کے ساتھ ایک تہائی کو تین ماہ کے لئے قادیان کے اندر ریکھا بجائے اور دو تہائی کو قادیان سے باہر لے جایا جائے.اور یہ قرعہ اندازی محلہ دار بنیاد پر ہو.البتہ انتظامی اہمیت والوں کے علاوہ بعض اور مخصوص گروپ بھی علیحدہ کر دیئے جائیں اور ان میں علیحدہ قرعہ ڈال جائے.مثلاً ڈاکٹر، کیونڈر ، وکلاء، مقامی ملٹری اور پولیس سے رابطہ نہ ابطہ یہ لکھنے والے صدر انجمن حمدیہ اور تحریک جدید کے کارکن ، با در چی ، دھوبی، نائی ذخیرہ "
۳۴۹ اس سکیم کو عملی جامہ پہنانے کے لئے آخر ماہ تبوک استمبر سے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب - مکرم مون انا جلال الدین صاحب شمش ، مکرم مولانا ابو العطاء صاحب اور محرم مرزا عبدالحق صاحب پرمشتمل کمیٹی قائم ہوچکی تھی جسے بھی حضور کے نئے فیصلہ کے مطابق قرعہ اندازی سے ۲۰۵ افراد کے انتخاب کا کام شروع کر دیا.اسی سلسلہ میں سہ سے قبل تمام احمدیوں سے پوچھا گیا کہ ان میں سے در ولیوں کے انتخا کیا اولین مرحله کون کون رضا کارانہ طور پر رہنا چاہتے ہیں بعد ازاں مندرجہ ذیل اصول وقواعد کے پیش نظر قرعہ اندازی کی گئی.ا.حضرت مصلح موعود کی اولاد اور باقی خاندان حضرت مسیح موعود اور خاندان حضرت خلیفہ اول نہ کے افراد کے الگ الگ قرمے ڈالے گئے.صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید کے قدیم ڈھانچہ کو بنیادی طور پر قائم رکھنے کے لئے کوشش کی گئی کہ صدارتین احمدیہ کی مندرجہ ذیل نظارتوں کے نمائند سے اور محررین موجود رہیں :- نظارت علیا - نظارت امور عامه و خارجہ - نظارت ضیافت ، تحاسب - بیت المال تحریک تجدید کے سب صیغوں کی طرف سے ایک نمائندہ کافی سمجھا گیا.ناظر ضیافت یا ناظر امور عامہ میں سے کسی کو امین بنانے اور دعوت و تبلیغ اور تعلیم و تربیت کی نظارتوں کو دوسری کسی نظارت سے منسلک کرنے کی تجویز کی گئی.نیز قرار پایا کہ ایک آڈیٹر کا بھی انتخاب کیا جائے.بیرونی رضا کاروں اور قادیان کے باشندوں میں سے جو احتساب منتخب ہوئے ان میں ایک اہم اصول یہ پیش نظر رکھا گیا کہ ان میں علماء سلسلہ بھی ہوں ، ڈاکٹر اور کمپیو نڈر بھی.ر اسی طرح آبادی کی سہولت کے لئے دوکانداروں ، دھوبیوں ، حجاموں، درزیوں ، نانبائیں غرضکہ ہر طبقہ کی الگ الگ لسٹیں بنا کہ ان کا قرعہ ناواں گیا.ہم چونکہ اس وقت خیال یہی تھا کہ تین ماہ کے بعد ان کا تبادلہ ہوتا رہے گا اس لئے محافظین ، خدام بیرونی اور قادیان کے باشندوں کے انتخاب میں یہ بات بھی مد نظر رکھی گئی کہ اچھے قابل اور درمیانی قابلیت کے احباب باری باری رکھے جائیں.1 خولی نا شمس صاحب ۳ در میاء سے ۵ ارماه نبوت سالہ تک امیر مقامی کے فرائض بجالاتے رہے.اور انتخاب درویشان کا آخری مرحلہ انہیں کے عہد امارت میں طے پایا ہے
۳۵۰ ۵.قادیان کی جماعت کے امراء اور ان کے نائبوں کے ناموں کی الگ الگ فہرستیں بنائی گئیں.اسراء : مندرجہ ذیل اصحاب بطور امیر تجویز کئے گئے :- حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب حضرت مرزا ناصر احمد صاحب - سید محمود اللہ شاہ صاحب - مون نا جلال الدین صاحب شمس ، ملک غلام فرید صاحب شیخ بشیر احمد صاحب - چوہدری اسد الله تعال صاحب.مرزا عزیز احمد صاحب - مرز ا مبارک احمد صاحب - مرزا ظفر احمد صاحب - مرند امیر احمد اب مولوی عبد المنان صاحب عمر - میان مسعود احمد خان صاحب.ڈاکٹر کرنل عطاء اللہ صاحب.چوہدری بشیر احمد صاحب - مرند المنصور احمر صاحب میجر دادا حد صاحب - ملک عبد الرحمن صاحب خادم - چوہدری فقیر محمد صاحب شیخ رفیع الدین صاحب ڈی.الیں.پی ریٹائر ڈ چوہدری محمد انور حسین صاحب.میر محمد بخش صاحب شیخ اعجاز احمد صاحب.پیر صلاح الدین صاحب - ڈاکٹر غلام احمد صاحب بہ میاں غلام محمد صاحب اختر.میاں عطاء اللہ صاحب وکیل.مرزان عبد الحق صاحب وکیل.با بو قاسم دین صاحب سیالکوٹ :: نائب امراء : نائب امیر کی حیثیت سے مندرجہ ذیل افراد کا انتخاب عمل میں آیا :- چوہدری محمد علی صاحب ایم.اسے.ملک عزیز الرحمن صاحب شیخ مبارک احمد صاحب مشتاق احمد صاب ظہیر چو ہدری ظہور احمد صاحب - مرند - بشیر بیگ صاحب - چوہدری عزیز احمد صا حب - مولوی برکات احمد صاحب - راجہ بشیر احمد صاحب - ملک صلاح الدین صاحب - مولوی عبد الرحمن مهاب 1 * جھٹ.مولوی قمر الدین صاحب فاضل.صوفی محمد ابراہیم صاحب - صوفی غلام محمد صاحب : مندرجہ بالا اسماء پیش کرتے ہوئے حضرت خلیفہ اسیح الثانی المصلح اللہ خود کی خدمت میں درخواست کی گئی کہ حضو از نو ان میں سے نامزد فرما دیں.حضور نے امراء ا د یہ ان کے نائین کا عرصہ قیام ڈیڑھ ماہ مقرر فرمایا ؟..حضرت سیدنا المصلح الموعود کے نو نہایوں کا حسب ذیل ترتیب سے قرعہ نکلا : - صاحبزادہ مرزا خلیل احمد صاحب - صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب - صاحبزادہ مرزا احتیاط احمد در اب صاحبزادہ مریه امبارک احمد صاحب - صاحبزادہ مرزا انور احمد صاحب - صاحبزادہ مرزا منور احد ما اسید حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب - قریہ میں سیدنا الصلح الموعود کے صاحبزادگان کے علاوہ دوسرے خاندان مسیح موعود اور خاندان حضرت
۲۵۱ خلیفہ اول نے کے جگر گوشوں کے نام بالترتیب یہ تھے:.مرتز اظفر احمد صاحب.میاں عبد الوہاب صاحب، مرزا مجید احمد صاحب - میاں عبد المنان صاحب عمر - مرزا منصور احمد صاحب رسید مسعود احمد صاحب - مرندا مبشر احمد صاحب - مرند امیر احمد صاحب - مرند آسیم حمد صاحب.میاں مسعود احمد صاحب - سیر دارد احمد صاحب - سید سید احمد صاحب -.علماء سلسلہ میں سے مولوی ظہور حسین صاحب سابق مبلغ بخارا در مولوی شریف احمد صاحب ایمنی در چه مدرسه احمدیتی کا نام قرعہ میں نکلا.٩ - محاسب اور بیت المال کے لئے عبد الحمید صاحب عاجز - امیر عامہ کے لئے مولوی برکات احمد صا حب ہی.اسے اور ضیافت کے لئے لیٹور نمائندہ مولانا عبد الرحمن صاحب فاضل جیٹ کا نام تجویز ہوا.خاندان حضرت مسیح موعود علماء سلسلہ اور بعض دیگر افراد کو جن کا نام سب سے پہلے ٹھہر نے والوں میں نکلا.) ہفتہ عشرہ کے لئے پاکستان میں بھانے کی عام اجازت دے دی گئی.اب چونکہ مقامات مقدسہ کی حفاظت کے لئے احمدیوں کی ایک مختصر قادیان میں احمدی آبادی کی حدود کے لئے گفتگو اور سمجھوتہ - کی تعداد کی موجودگی کا قطعی فیصلہ ہو چکا تھا اس لئے جماعت کے مرکزی عہدیداروں نے مقامی فوجی افسروں پر خود ہی یہ واضح کرنا شروع کر دیا کہ ہم میں سے ہر شخص اگر بچہ یہی چاہتا ہے کہ قادیان کے سب احمدی محلے دوبارہ آباد ہوں اور کوئی احمد کا قادیان سے نہ جائے مگر چونکہ موجودہ فضائیں ہماری یہ دلی خواہش پوری نہیں ہو سکتی.اس لئے ہم قادیان کے صرف اُسی حلقہ میں کمنٹ کہ آباد رہنا چاہتے ہیں جس میں ہمارے مقدس مقامات موجود ہیں.کیونکہ ان کی حفاظت ہماری مذہبی اور دینی ذمہ داریوں میں سے نہایت اہم ذمہ داری ہے.ملٹری اور فوج کے ذمہ دار افسر پہلے تو اس کوشش میں مصروف رہے کہ کسی نہ کسی طرح احمدیوں کو مکمل طور پر قادیان سے باہر نکال دیا جائے لیکن پھر جلد ہی محسوس کر لیا کہ احمدیوں کو اپنے مذہبی مرکز سے ایسی بزدوست اور فقید امثال حیرت و عقیدت ہر کردہ اپنی جانیں ایک ایک کر کے قربان کر دیں گے.مگر جیتے جی ایسے خالی نہیں کریں گے.سوائے اسکی کہ انہیں حکومت کی طرف سے قادیان چھوڑ دینے کا تحریری حکم دیا جائے یا جبرا اس سرند من بر محروم کر دیا کھائے.یہ صورت حال دیکھ کر سرکاری افسران اس نتیجہ پر پہنچے کہ احمدیوں کی آبادی کے لئے قادیان میں کچھ نہ کچھ علاقہ
۳۵۲ بہر حال مخصوص که نا ضروری ہے.اس پر انہوں نے احمدی نمائندوں سے خود بھی پوچھنا شروع کیا کہ مستقبل سے متعلق ان کی کیا پالیسی ہے ؟ احمدی نمائندوں نے انہیں بتایا کہ اگر ہیں یہاں سے نکلنے پر مجبور کر دیا گیا تب بھی اپنے مقامات مقدسہ کی حفاظت کے لئے مناسب تعداد ہم میں سے ضرور موجود رہے گی.ابتداء میں جب جماعت کی طرف سے کہا گیا کہ یہاں رہنے والوں کی تعداد ایک ہزار کے قریب ہوگی تو ملٹری کے افسروں نے کہا کہ ہزار تو بڑی تعداد ہے.اگر اس سے کم لوگ یہاں رہیں اور وہ بھی ادھیڑ عمر کے تو غور کیا جا سکتا ہے.اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی خود بخود گفتگو کا محوربن گیا کہ احمدیوں کو اپنے مقامات مقدسہ کی حفاظت کے لئے کس قدر حلقہ درکار ہو گا ؟ آخر مدار ماه اضاور اکتوبر تار میش کو قادیان میں درویشانہ زندگی گزارنے والے احمدیوں کی حدود آبادی پر ملٹری کے ذمہ دار آفیسر لیفٹینٹ کرنل) اور احمدی نمائندوں کا اتفاق رائے ہو گیا.جب کے مطابق احمدی محلہ کا محل وقوع حسب ذیل تھا :- شمال میں مکان حضرت سید ناصر شاہ صاحب - قصر خلافت.دفاتر صدر انجمن احمدیر مرکز یه - دفتر خر یا شاید مکان مکرم مدد خان صاحب - مکان حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی - جلسہ گاہ قدیم - جنوب ہیں.محلہ ناصر آباد - بہشتی مقبرہ - بارغ حضرت مسیح موعود علیہ السلام - مشرق میں.مکرم نیک محمد خان صاحب مکرم مولوی عبد المنی خالصاحب اور مکرم امتیاز علی صاحب کے مکانات - مغرب میں مسجد فضل سٹرک ڈسٹرکٹ بورڈ بطرف میں کلاں.مکان مو نوی عبد الحق صاحب بدو ملہوی - - مسجد اقصی - مولانا جلال الدین صاحب شمسی نے (جو ان دنوں امیر مقامی کے فرائض انجام دے رہے تھے) سید نا المصلح الموعود کی خدمت میں لکھا :.آج شام در در اکتو بہ کو تین بجے لیفٹینٹ کرنل صاحب ، ڈی ایس پی صاحب مجسٹریٹہ صاحب علاقہ ، ہزارہ سنگھ صاحب مع لیفٹیننٹ کیانی تشریف لائے.صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب مرزا عبدالحق صاحب اور خاکسار نے ان سے ملاقات کی.نقشہ قادیان پر دہ علاقہ دکھایا گیا جسکی حفاظت احمدی چاہتے ہیں.مجسٹریٹ صاحب علاقہ کے سوا اور کسی نے ہماری مخالفت نہ کی.کرنل صاحت بنے ہماری تجویز سے اتفاق کیا.رستوں میں غیرمسلموں اور سکھوں کے آنے بھانے کے متعلق ذکر کیا حضرت صاحبزادہ صاحب نے کہا ہمیں کوئی اعتراض نہیں کر دہ بھی ہمار سے رستوں میں آتھے بجاتے رہیں.
۳۵۳ لیفٹیننٹ کرنل نے کہا کہ جو یہاں رہیں گے وہ آزادی سے دوسرے شہریوں کی طرح رہیں گے محصور ہو کہ نہیں رہیں گے.انہوں نے پوچھا کہ سل ملٹری کہاں ٹھہرائیں اور کیا مخلوط ملٹی پر پر رکھی جائے؟ تو صاحبزادہ صاحب نے کہا سلم ملٹری آپ کے ماتحت ہو جیسے آپ پسند کریں اپر اعتراض نہیں.قادیان میں احمدیہ محلہ کی حد بندی مدار ماہ انتفاء / اکتو یہ احمدی محلہ کی حد بندی سے ا ا ا ا ا ا ا ا به کے آخری کنوائے تک کے بعض کوائف کو جوئی اور پاکستان سے آخری کنوائے دار ماہ نبوت) سے کر دار نومبر نومبر ا ورزش کو قادیان میں پہنچا.اسی درمیانی عرصہ کے بعض کو ان کا کس قد تفصیل مکرم صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب کی ایک ڈائری سے ملتی ہے جو آپ کئی ایام میں لکھا کرتے تھے.ذیل میں اس ڈائری سے بعض واقعات ملخصا درج کئے جاتے ہیں :- داد ماه اضاء/ اکتوبیر.بورڈ نگ تحریک جدید سے احمدی احباب واپس آنے شروع ہو گئے تا سب احمدی شہر ہی میں اکٹھے ہو جائیں.وار ماہ اضاء / اکتوبر.صبح نو بجے میں سارہ بائی قادیان آئیں.احمدیوں کی طرف سے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب - مولوی جلال الدین صاحب شمس - کرم ملک غلام فرید صاحب - مرزا عبدالحق صاحب اور مکرم مروز امور احمد صاحب ان کو بنے بیت الظفر گئے.دہاں جا کر معلوم ہوا کہ میں سارہ بائی کے ساتھ مسٹر کریشنامورتی اور ڈاکٹر سونٹ صاحب بھی آتے ہیں.موخر الذکر ہسپتال کی حالت کا جائزہ لینے آئے تھے.صاحبزادہ مرزا منور احمد صدا درد نے ان کو ہسپتال کے متعلق تازہ کو الف بتائے اور پھر ان کے ساتھ موٹریں بیٹھکر ہسپتال گئے.دیکھا تو تمام تالے ٹوٹے پڑے تھے.قیمتی سامان لوٹ لیا گیا تھا.اپریشن روم سے سب کے سب اوزار لٹ چکے تھے.ڈاکٹر سوفٹ صاحب نے بے ساختہ کہا، افسوس ہسپتال برباد کر دیا گیا ہے.....بعد ازاں ڈاکٹر سوفٹ کے کہنے پر ہسپتال میں فوجی پہرہ لگا دیا گیا.تھوڑی دیر بعد مرزا منور احمد صاحب دوبارہ حضرت میاں ناصر احمد صاحب ، ملک غلام فرید صاحب ، مولوی جلال الدین شمس صاحب اور مرزا عبد الحق صاحب کے ساتھ بیت الظفر گئے.جہاں ملک غلام فرید صاحہ نے مسٹر کہ شنا مورتی صاحب کو سب واقعات بتائے اور کہا کہ جب ہم لوگ یہاں رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں کیوں نکاں جاتا ہے ؟ کہنے لگے بات یہ ہے کہ تم لوگ PAKISTAN BORDER کے بالکل قریب ہو.اسلئے یہ سب کچھ ہے.اس گفتگو کے بعد میں سارہ ہائی کو قادیان کے خونچکاں حالات بتائے گئے.ہمیں سارہ بائی نے اس موقعہ پر مقامی ہندو سکھوں کو بھی جو باہر آئے ہوئے INDO -
۳۵۴ تھے اندر بلا لیا اور کہا، غواشدہ عورتوں کی بازیابی اور غلط افواہوں کے تدارک وغیرہ کے لئے ایک امن کمیٹی قائم کی بجائے.چنانچہ ان کی تجہ نیہ پر ایک کمیٹی بن گئی جس میں دو ہندو ردو سکھ اور دو احمدی نمبر بنے.۲۳ را ضاء راکتومیں اس روز تقریباً ساڑھے دس بجے جناب حسین شہید صاحب سہروردی.میجر جنرل تھمایا صاحب کے ساتھ ہوائی جہانہ پر آئے اور جہاز سے اتر کر سید ھے شہر میں احمدیوں کے حلقہ کی طرف آئے مگر میجر جنرل تھمایا صاحب تو واپس بیت المظفر پہلے گئے.سہر وردی صاحب کے ساتھ ڈاکٹر ڈنٹ مہترہ صاحب بھی تھے جو گاندھی کے خاص نمائندے کی حیثیت سے آئے تھے.ان لوگوں کو حضرت میاں بشیر احمد صاحہ کے مکان پر بٹھایا گیا اور حضرت میاں ناصر احمد صاحب ، ملک غلام فرید صاحب ، مولوی بجلال الدین شمس صاحب اور مروہ منور احمد صاحب ملاقات کے لئے گئے اور ان کو نہایت تفصیل کے ساتھ قادیان کے گذشتہ واقعات سے مطلع کیا جن کو دونوں نے بہت دلچسپی سے سنا اور ساتھ کے ساتھ نوٹ بھی لیتے گئے.ساڑھے گیارہ بجے تک ملاقات ہوتی رہی.دونوں ہی ان واقعات سے بہت متاثر معلوم ہوتے تھے.اس موقعہ پر بنگال کے احمدیوں کا رند بھی سہروردی صاحب سے ملا.اس کے بعد سہروردی صاحب کو مسجد اقصی کی وہ جگہ دکھائی گئی جہاں بم گرائے گئے تھے.پھر جناب سہروردی صاحب نے بعض احمدیوں کے ساتھ منارہ مسیح پر سے مسجد فضل دار الفتوح - دار الرحمت وغیرہ محلے دیکھے جن پر سکھوں نے حملہ کیا تھا.جناب شهر دردی صاحب نے یہاں سے شہر کی تصویر یں ہیں.اور دور بین پکڑ کر کہا کہ لاڈ میں مسلمانوں کا رہ کا رج آخری بار دیکھ لوں بہو اب غیر مسلموں کے ہاتھوں میں جا رہا ہے.اس پر ڈاکٹر ڈنشا مہتہ نے کہا کہ مجھے یقین ہے.یہ عارضی طور پر جا رہا ہے پھر ہر جلدی ہی واپس آئے گا.اسکے بعد جناب سہروردی صاحب اور ڈاکٹر ڈنشا مہتہ وغیرہ جیپوں میں بیٹھے کہ بیت الظفر گئے.جہاں سے یہ لوگ بذریعہ ہوائی جہاز واپس چلے گئے.جناب سہر وردی صاحب اور ڈاکٹر ڈنشا نے جاتے ہوئے وعدہ کیا کہ ہم وزیر اعظم پنڈت جواہر لال صاحب نہرو کو سب واقعات بتائیں گے اور آپ کے ڈھائی تین سنہ آدمیوں کے یہاں بحفاظت رہنے کا پورا انتظام ہور بھائے گا.۲۴ راخاء / اکتوبر - صبح کوس ساره بائی صاحبہ اور مسٹر کو شنا مورتی پھر آئے اور حضرت میاں ناصر احمد صاحب به مرند عبد الحق صاحب سے حضرت میاں بشیر احمد صاحب کے مکان میں ملاقات کی.بہشتی مقبرہ بھی دیکھنے گئے.اس دن اس کمیٹی کا ایک جلسہ بھی مسجد نور مں ہوا جس میں مقامی ہندوؤں سکھوں نے احمدیوں کے خلاف
۳۵۵ بہت پر جوش تقریریں کیں.۲۶ ماه اتحاد / اکتوبر.صبح نوبجے نماز عید ہوئی جو موں نا جلال الدین صاحب اس نے مسجد اقصی میں پڑھائی.تقریباً باره نیره مواحد می نمانہ میں شامل ہوئے.اُن دنوں مسلمان فوج کے بعض سپاہی بھی قادیان میں متعین تھے جن میں سے بعض مسجد انفی کی بھت پر ڈیوٹی دیتے رہے.جماعت احمدیہ قادیان کی طرف سے مسلمان فوج کے سپاہیوں کے اعزاز میں حضرت ام طاہر مکان کے اور پر صحن میں عشائیہ دیا گیا.اس تقریب پر کچھ نہیں بھی پڑھی گئیں اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احد صاحب نے ایک مختصر تقریہ بھی فرمائی جس میں جماعت احمدیہ کے قادیان سے گہرے تعلق پر اختصار کے ساتھ روشنی ڈالی.۲۷ ماه اخاء / اکتوبر.اس دن قادیان کے ماحول سے متواتر اطلاعات موصول ہوئیں کہ سکھ وغیر ہ حملہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں.یہ بھی خبر پہنچی ہے کہ بٹالہ اور امرتسر کے غیر مسلم یہ سازش کہ رہے ہیں کہ قادیان کر آنے والے کنوائے پر حملہ کر کے اسے تباہ کر دیا جائے.۲۸ ماه اخفاء / اکتوبر - اطلاع ملی کہ سکھ کافی تعداد میں نہ یہ سکول میں اکٹھے ہور ہے ہیں.شاید حل کریں مگر کچھ دیر بعد یہ لوگ منتشر ہو گئے.۳۱ ماه احاول اکتوبر.صبح گیارہ بجے کنائے تقریبا چار سو پچاس آدمی کیلے کم رندانہ ہو گیا.جماعت کا ریکارڈ اور کتب وغیرہ کے چڑھانے میں دقت پیدا ہو گئی تھی.مجسٹریٹ صاحب علاقہ (مسٹر سوہنی) نے انکار کر دیا کہ سامان کوئی نہیں چڑھنے دوں گا.آخر مرزا عبدالحق صاحب اور کنوائے کے ساتھ آنے والے کیپٹن گلزار صاحب کی کوشش سے مجسٹریٹ صاحب مان گئے اور مشکل یہ جماعتی سامان جھا سکا.مجسٹریٹ صاحب نے بعض لوگوں کے سامان کی تلاشی بھی لی.مگر پھر کپیٹن گلزار صاحب نے کہا.آپ قاشی نہیں لے سکتے کیونکہ دونوں سکتیں کا معاہدہ ہے کہ تلاشی نہیں ہوگی اگر آپ تلاشی لینا چاہتے ہیں تو لکھ کر دے دیں.اس پر میجسٹریٹ صاحب نے تلاشی کا ارادہ ترک کر دیا.۲ ماه نبوت / تو میبر - شام پانچ بجے تین احمدی نوجوان دار الانوار کی سڑک پر سیر کرنے گئے تھے.کہ وہاں فوج کے ایک سپاہی نے ان کو مشتبہ قرار دیکر پکڑ لیا.اور جبر کی طرح لاٹھیوں سے زود کوب کیا.آخر مولوی عبد الرحمن صاحب حیث اور فضل الہی صاحب پولیس چوکی گئے...اور کچھ دیر بعد ان تینوں نوجوانوں کو لے کئے.۳ ماه نبوت / نومبر قبل ازیں میجسٹریٹ صاحب نے مولوی جلال الدین صاحب شمت کو گرفتار کرنے کی دھمکی دی تھی
۳۵۶ مگر اس روز مقامی فون کے اپر میٹر نے چوہدری ظہور احمد صاحب کو بتایا کہ گذشتہ رات ہی ڈپٹی کمشنر صاحب گورداسپور کا فون سیمیسٹریٹ صاحب قادیان کو آیا تھا کہ کس کو گر فتار وغیرہ بالکل نہیں کرنا.پیر شنکہ احمدیوں کو بہت خوشی ہوئی کہ اب میجسٹریٹ صاحب شمس صاحب پر ہاتھ نہیں ڈال سکیں گے.رماه نبوت تو میرے لاہور سے بذریعہ فون یہ اطلاع ملی کہ مرزا اسظفر احمد صاحب نے ڈپٹی کمشنر صاحب گورداسپور کو فون کیا اور مجسٹریٹ صاحب کی دھمکی کی نسبت بات ہوئی.ڈپٹی کمشنر صاحب نے کہا کہ شمس صاحب کو گرفتار نہیں کیا جائے گا.ه رماه نبوت / نومبر.ساڑھے آٹھ بجے شب کے قریب ایک کٹر ائے قادیان آیا کیس میں مرز اظفر احمد صاحب اور مرنہ اخلیل احمد صاحب بھی تھے.ار ماہ بوت نومبر تقریباً ایک بجکر میں منٹ پر قادیان کی چوکی پولیس کے انچارج صاحب اور میجسٹریٹ صاحب داموں ک سنگھ) اور بعض سپاہیوں کے ہمراہ الدار میں آئے اور حضرت میابی بشیر احمد صاحب کے اور حضرت خلیفہ ایسی الثانی المصلح الموعود کے مکان کی درمیانی پرائیویٹ گلی میں مٹی کے اُن ڈھیروں کو الٹ پلٹ کے دیکھنا شروع کر دیا جو فسادات شروع ہونے سے پہلے آگ بجھانے کے لئے رکھے ہوئے تھے.پولیس کے سپاہی پندرہ بیس منٹ تک یہ کام کرتے رہے.پتہ چلا کہ میجسٹریٹ صاحب کو ایس پی پھیکا سنگھ صاحب نے بھجوایا ہے کہ بجا کر ان ڈھیروں کے نیچے سے ناجائز اسلحہ بر آمد کریں.آخر جب کچھ نہ نکلا تو یہ لوگ واپس چلے گئے.امار ماہ نبوت / نومبر.اسی دن ایک مسلمان عورت مع اپنے دو بچوں کے موضع ظفر دال سے بھاگ کہ آئی.جس نے بتایا کہ وہاں سکھوں کے قبضہ میں تھی.کئی دن سے بھاگنے کا ارادہ کر رہی تھی آخر آدھی رات کے وقت بھاگ کے قادیان میں پناہ لینے کا موقعہ مل گیا.اور اس کو کنوائے میں پاکستان بھجوا دیا گیا.ایک دردناک سانحہ یہ دیکھنے میں آیا کہ اس روز نو دس سال کی ایک معصوم بچی قادیان کے ایک محلہ سے ملی جو قریبا دس دن سے وہاں پڑی تھی.بیچاری کی صرف ہڈیاں رہ گئی تھیں جسیم دوہرا ہو گیا تھا اور فاقوں نے اس کا دماغ مختل کر دیا تھا.اس بچی کی خوراک اور علاج معالجہ کا انتظام کیا گیا.حضرت سیدنا المصلح الموعود کا نہایت اہم مکتوب اب و کود در استان قادیان کے دورہ ہائی سب اب چونکہ احمدی جلد پاکستان میں آنے والے تھے اور درویشان قادیان کےلئے زمیں ہدایات اور اہم فیصلے - شمار اندکی حفاظت کا کام نئی در تعقیق
YAL بنیادوں پر شر وع ہونے والا تھا.اسے حضرت سید نا المصلح الم نمود نے ۱۲ رمان نبوت / نومبر امیر مقامی رمولوی جلال الدین صاحب شمی) کے نام ایک مفصل مکتوب میں مستقل طور پر قادیان رہنے والوں کے لئے زیریں ہدایات دیں اور بعض اہیم نیسے فرمائے.اس اہم اور قیمتی دستاویز کا شکل متن درج ذیل کیا جاتا ہے.+ بسم الله الرحمن الرحيم حکم می شمس صاحب ! تحده و علی علی رسولہ اگریم السلام علیکم در محمد اشد و پر کاشت با آرج معلوم ہوا ہے.کہ جو کند ائے بہانا تھا وہ کل کے کنائے کی وجہ سے منسوخ ہو گیا ہے.اب کوشش کر رہے ہیں.کہ دوبارہ اس کی اجازت مل جائے تعدا کر سے مل جائے تو پھر یہ خط آپکو مل جائیگا ورنہ جب بھدا پھلا ہے گا.آپ لوگوں کی ملاقات کا موقع میسر آجائے گا.ا مجھے افسوس یہ معلوم ہوا ہے کہ وہاں کوئی تنظیم نہیں.علماء کو غیر خود کے با ہر نکال دیا گیا ہے.وہاں صرف مولوی عبد القادر صاحب اور مولوی ابراہیم صاحب ہیں.اب ہم کوشش کریں گے.اگر ہو سکا تو محمد شریف میتی کو بھجوادیا جائیگا.حالانکہ علماء بھی آخری قافلہ میں جا سکتے تھے.قادیان میں خریج ہے تھا شا ہوا ہے اور تنخواہوں کے خروج کے علاوہ صرف اکتو یہ میں اوپر کے اخراجات کے متعلق ساڑھے چھ ہزار کی تفصیل آئی ہے.اس کیے ماہ تو سار گیند گی اور بنی جو نہ تھی.اکتوبر میں کچھ زیادتی ہوئی نونبر اسیر ہیں تا ہے کوئی خاص زیادتی تو نہیں آتی بلکہ کی کا خطرہ ہے.ان حالات میں اتنا خرچ کس طرح برداشت کیا جا سکتا ہے.میرے نزدیک قادیان میں چو نکہ فلم موجود ہے.دس روپیہ فی کس سے زیادہ کھا نے کا خرچ نہیں ہونا چاہیئے مستقل محافظوں کو تو گزارہ ملتا ہے اُن کے گزارہ میں سے اُن کا خرچ کا ٹنا چاہیئے دیہاتی مبلغین کو بھی گزارہ ملتا ہے.اُن کے گزارہ میں سے بھی کھانے کا خرچ نکالنا چاہیئے.گندم چون کہ موجود ہے اس لئے میرے خیال میں گندم کے علاوہ دس روپے سے زیادہ مہینہ کا خرچ نہیں ہوتا چاہیئے.اس طرح کل تورچ اڑھائی ہزارہ روپے ماہوار ہوگی.اس میں سے قریباً ہمزہ کور پیر ایسے لوگوں سے واپس مل بھائی کا جن کو گزار سے ملتے ہیں.اور جاتی صرف آٹھ سور دینے کا خروج رہ جائیگا گذاروں کی رقم مستقل محافظوں اور دیہاتی مبلغوں کی اگر لائی جائے تو پانچ ہزار کے قریب بنتی ہے.ها - مراد مولوی عبد القادر صاحب حسان بلوچی ہیں : سے.مودی شریف احمد صاحب امتینی سابق جرب را هدیه تا بیان
۳۵۰ آٹھ سور د پیر پہلا اور پانچ ہزار یہ مل کر پانچ ہزار آٹھ سور د پیر بنتا ہے.جو لوگ باہر سے آئے ہوئے وہاں رہیں گے ان کی تعداد ساٹھ کے قریب ہوگی اور قادیان دانوں اور باہر سے آنے والے لوگوں کی تعداد تقریبا ایک سو پچاس ہو گی سان لوگوں پر تیل اور صابن وغیرہ کے لئے پانچ پانچ روپے خرچ کئے جائیں تو ساڑھے سات سوروپے کے قریب یہ بنتا ہے.صفائی وغیرہ اور دوسرے اخراجات دفتری کے لئے قریباً پانچ سو روپیہ رکھا جائے تو سات ہزا نہ نہ و پیر بن جاتا ہے.یہ کھانے ار گزارتی اور تنخواہوں کو لا کر رقم بنتی ہے.لیکن متقل محافظہ اور دیہاتی مبلغ مالیا اپنے گزار دوں یں سے کچھ رقم اپنے رشتداروں کا باہر جانا ہی ہے میرے خیال میں وہ رقم میں ہزارسے کم نہیں ہوگی.اس کو نکال دیا جائے تو چارہ ہزار روپیہ ماہوار کا خرچ ہوتا ہے.اس طرح ہو.قادیان میں موجود درد پر ہے اس کے ساتھ آٹھ مہینے تک آسانی سے گزارہ کیا جاسکتا ہے..قادیان میں جو گندم ہے اس میں سے دو ہزار من ڈیڑھ سال کے خروج کے لئے رکھ لی جائے.گندم اچھی طرح رکھی جائے تو دو دو تین تین چار چار سال تک رکھی جا سکتی ہے.باقی چار ہزارمین اگر حکمت کے ساتھ فروخت کر دی جائے تو چالیس ہزار روپیہ کی رقم اور آ جائے گی.اس طرح قریباًا ڈیڑھ سال کا خرچ قادیان میں محفوظ رہے گا.وہاں کے لوگوں کا صرف یہی کام نہیں کہ بیٹھو رہیں.ان کا کام یہ بھی ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایک مستقل آبادی کی صورت دیں اور اسی جگہ مستقل آمدنی پیدا کرنے کی کوشش کریں مگر یہ ضرور کوشش ہونی چاہیئے کہ گندم ضبط نہ ہو جائے.فروخت ہو مگر محتاط طریق پر.پی بھی ہوسکتا ہے کہ ایک شخص کو گندم کی فروخت کا لائسنس دلایا بھجائے.ہم.جن لوگوں کے پاس لائسنس ہیں اور ان کی میعاد دسمبر میں ختم ہوتی ہے.ان کو اپنے لائسنسوں کے دوبارہ بھاری کرانے کی درخواستیں مست دینی چاہئیں، ایسا نہ ہو گو نشستی ضبط جو کہ نہاد میں ضبط ہو گائیں اور ہمارہ سے آدمی نہتے ہو جائیں.اس طرح منہ انہ کی حفاظت کی ہے نہر وقتیں ہیں ان کے لئے بھی لائسنس کے دوبارہ اجزاء کی درخواستیں دے دینی چاہئیں.میں پہلے بھی کر چکا ہوں اب پھر رکھتا ہوں.کہ اب جو لوگ وہاں رہیں.ان کو یہ سمجھ کر رہنا چاہیئے کہ انہوں نے مکی زندگی اور مسیح ناصری موالی زندگی کا نمونہ دکھلاتا ہے.اگر ہمارے کسی آدمی کی سختی کی وجہ سے یا مقابلہ کی دیر سے مقامات مقدسہ کی نہنگ ہوئی تو اسکا ذمہ دارہ ہوگا.اللہ تعالئے
٣٥٩ نے پہلے انبیاء کے ذریعہ سے ہم کو یہ نمونے دکھائے ہوئے ہیں.اب نصیحت اور تبلیغ اور ضمیر کے سامنے اپیل کرنے سے کام لینا چاہیئے اور دعا اور گریہ زاری اور انکساری سے کام لینا چاہیئے ار ظلم برداشت کر کے ظلم کو روکنے کی کوشش کرنی چاہیئے جتک یہ طریق ہماری وہاں کی آبادی نہیں کھائے گی.دوبارہ قادیان کا فتح کر مشکل ہے.ہمارے آدمیوں کو چاہیئے کہ وہ دعائیں کریں اور درد سے رکھیں یہانتک کہ خدا تعالی کی طرف سے ان کو دعاؤں کی قبولیت اور الہام کی نعمت میسر آجائے پھر وہ اس نر کے ذریعہ سے سکھ اور مہندر آبادی کے دیوں کو فتح کیری از بطرح بادا نانک صاحب بادا فریدہ کے مرید ہوئے تھے وہاں کے سکھ اور ہندو ان کے مرید بن جائیں اور جو جسمانی شوکت ہم سے چھن گئی ہے وہ روحانی طور پر ہم کو پہلے سے بھی زیادہ مل جائے.یہ طریقہ بھی اختیار کریں کوئی مصیبت زدہ سکھ یا ہند ھے تو اس کو یہ تحریک کہیں کہ تم احدیت کی نذر مانو تو تمہاری یہ تکلیف دور ہو جائیگی پھر اس کیلئے دعائیں بھی کریں.بیماروں کی شفاء مقدمہ دالوں کی فتح اور اس قسم کے اور مصیبت زدوں کے لئے بھی یہ تحریک کرتے رہیں تو تھوڑے دنوں میں ہی سینکڑوں آدمی سکھوں اور سہندوؤں میں اُن کے مرید بن بھائیں گئے اور ایک دھانی حکومت اُن کو جما عمل ہو جائے گئی.میں نے اور پر لکھا ہے کہ وہاں خود اپنی آمدن پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے.اسکے چار ذرائع ہیں.انزل - در کانوں کا افتتاح - دوم - طلب - سوم.زمینداری.ہمارے لڑکے وہاں موجود ہیں دہ کہیں کہ ہم اپنی زمینوں میں ہل بیلا نا چاہتے ہیں.سب لوگ مل کر خود ہی چلی میں زمینوں کو آباد کریں یا در آباد ہ مشرق میں واقع ہے وہ اور اس کے ساتھ ہماری سو ڈیڑھ سو ایکڑ زمین ہے اگر اس میں ملک اور تند کاری دونیر کی کاشت کریں گنا ہوئیں اور کواپریٹو فارم کے طور پر یہ کام شروع کریں تو خدا تعالیٰ کے فضل سے اسمیں سے اکثر کا گزارہ پیدا ہوسکتا ہے اور کم سے کم ایک سال کا غلہ اور ترکاری اور درد و از یکی در انها مفت مل سکتا ہے.چونکہ آدمیوں نے بدلتے رہتا ہے اسی کو اپر یو اصول پر یہ کام ہونا چاہیئے.چوتھے چھوٹی چھوٹی صنعتیں تیاری کی جائیں.جیسے بوسے بنانا.بیگ بنانا اور اسی قسم کے اور کام میں آدمی ہم باہر سے کام سکھا کر وہاں بھجوا سکتے ہیں.اس طرح بھی بہت سی آمد پیدا کی جاسکتی ہے.جب چیزیں بن بھائیں تو وہ مشرقی یا مغربی پنجاب کی منڈیوں میں بیچنے کے لئے بھیجی جا سکتی ہیں.بہر حال قادیان کی آبادی نصرت کے اصول پر ہی قائم کی جاسکتی ہے اور تصریف کا اصول یہ ہے کہ گفتی دلم خوردن دکم خفتن باتیں
تھوڑی کی جائیں.کھانا تھوڑا کھایا جائے.سویا کر جاتے اور اس کے مقابلہ میں ذکر الہی زیادہ کیا جائے.محنت زیادہ کی جائے اور خدمت خلق زیادہ کی جانتے ان چارہ اصولوں پر پھیل کر روٹی کی نکہ باقی نہیں رہتی لوگوں کی مخالفت کی شرح ٹوٹ جاتی ہے اور عزا کے نفضل زیادہ سے زیادہ نازل ہو نے لگتے ہیں.چونکہ آئندہ کنوائے بند ہو گا.فون ، تار اور ڈاک کے ذریعہ کام لیں.لیکن یہ احتیاط کریں کہ ہر چیز پر دشمن کی نگرانی ہوتی ہے کوئی بات ایسی نہ تھیں جس بچے یا جھوٹے طور پر آپ لوگوں کے خلاف کی انٹر کیا جا سکے..اور میں نے سنا ہے بھلی کا خرچ بالکل بے فائدہ اور لغو کیا جاتا ہے اور بڑا بھاری بل ادا کر نا پڑتا ہے.ان دنوں اس قسم کا خریج نہایت ہی افسوسناک امر ہے.آپ لوگوں کو سمجھ لینا چاہیئے.کو خدانخواستہ ملک میں اگر کوئی اور گڑ بڑ ہوئی تو ہم پیسہ بھی آپ لوگوں کو نہیں بھیج سکیں گے.شاید اس موجودہ تین ہزار رہ و پہلے سے ہی آپ کو سالوں گزارنے پڑیں گے.اسے فوراً اپنی آمدن پیدا کریں اور فورا اپنے اخراجات کو انتہائی در جنگ گرا دیں.ہاں صحت کا خیال ضروری رکھا جائے ہوسکتا ہے کہ با ر چی بھاگ جائیں یا با در چی نہ لیں اس سے مومنانہ قربانی سے کام لیتے ہوئے ہر شخص کوئی پکانا سیکھے جس طرح ہر سپا ہی روٹی پکا سکتا ہے.اسی طرح قادیان میں رہنے والے ہر شخص کو روٹی پلکانی آنی چاہیئے.تاکہ ضرورت کے موقعہ پر بیماری اور تکلیف کا شکار نہ ہونا پڑے.جو کام لوگ دنیا کی خاطر کر سکتے ہیں.آپ لوگ ہیں خاطر کیوں نہیں کر سکتے.فوجوں میں بھی ہوتا ہے کہ چار آدمیوں میں کر ایک آدمی باری باری روٹی پکاتا ہے.اور تین آدمی دوسرے کام کے لئے تاریخ ہوتے ہیں یہ یادہ مل کر انتظام کیا جائے.تو نائباً درس آدمیوں کے پیچھے ایک آدمی روٹی پکانے والا کھانی ہو سکتا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ اور مشق ہو جائے تو فی آدمی تین آدمی کا کھانا بھی پکا سکتا ہے.گھی مصالحہ ہم نے اتنا بھیج دیا ہے کہ اُن آدمیوں کیلئے غالبا سال سے بھی زیادہ عرصہ کے لئے کافی ہو.4.قادیان کے انتظام کے لئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ ایک کمیٹی وہاں کام کرے گی.امیر اس کا صدر ہوگا اور اسی نمبر ہمار سے خاندان کے دونوں نمائند ہے.محاسب، ناظر بیت المال تحریک جنید کا ایک نمائندہ.دونوں مبلغ.باہر سے آنے والوں کا ایک نمائندہ.قادیان کے آدمیوں کا ایک نمائندہ - ڈاکٹر اور امید عامہ کا ایک نمائندہ ہوگا.اس کیٹی کا نام دیا جو وہی ہوگا اداسی کا نام تحریک جدید
نیا کا ایک امام کا ایک ہی ہوگا.کمیٹی قادیان کی آبادی کو قائم رکھنے اخراجات کا کنٹرول کرنے، دینی روج پیدا کرنے ہر قسم کی آمد کے ذرائع پیدا کرنے، مقامات مقدسہ کی حفاظت اتبلیغ اور اس تمام علاقہ کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کی ذمہ دار ہو گی جو اس وقت احمد یہ جماعت کے ہاتھ میں ہے.اوپر کے بتائے ہوئے قاعدے کے مطابق اس کے کل مہر بارہ ہیں.لیکن ان میں ضرورت کے مطابق زیادتی بھی کی جاسکتی ہے.بہر حال ہمارے نزدیک اتنے آدمیونی سے ہر حصہ کی نمائندگی ہو جاتی ہے.اصل چیز یہی ہے.کہ اپنے رسوخ کو اتنا بڑھایا جائے کہ وہاں کے ہندو اور سکھ آپ لوگوں کے مرید بن بھائیں اور وہ ہیں سے آمد پیدا ہونی شروع ہو جائے اور یہ شکل نہیں.اپنی ذمہ داری کو آپ لوگ سمجھیں تو ایسا ہو سکتا ہے.لیل احمد اپنی نمدی تعلیم کو جاری رکھے اور خود مطالعہ کہ کے اور علماء سے مدد لے کر اپنی پڑھائی میں ہرج نہ ہونے دے اور کچھ وقت دیہاتی مبلغوں کو پڑھاتے.کیونکہ پڑھانے سے علم بڑھتا ہے.عزیز ظر احد کو بھی مذہبی معلومات بڑھانے کی کوشش کر نی چاہیئے اور یہی نصیحت میری تمام قادیان کے رہنے والوں کو ہے.چھ سات گھنے ہر شخص کچھ نہ کچھ کمائی کے لئے خرچ کرکے دو گھنٹے ہر شخص ایسے رنگ میں تبلیغ کرتے کہ کوئی جھگڑے والی بات نہ پیدا ہو اور تصوف کی طرف لوگوں کو مائل کر کے احمدیہ جماعت کی دعاؤں کی قبولیت، خدا تعالیٰ کے الہامات ، اس کی تائید، نصرت اور بیماروں کی شفاء وغیرہ کی طرف توجہ دلائیں.ایک دو گھنٹے قرآن کریم کے درس اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی کتابوں کے پڑھنے میں صرف کئے جائیں.تہجد کی ہر شخص عادت ڈالے.وہاں رہنے والے ہفتہ میں ایک دو روز سے ضرور رکھیں.تہجد کی عادت ڈالنے کے لئے یہ طریق مقر کر دیں کہ تمادی کی طرح سارا سال ہی نمانہ تہجد مسجد میں ہوا کرے یا اپنے اپنے حلقوں میں باجماعت تہجد کی عادت ڈالی جائے تمام کتب دختر خلافت میں جمع کر دی جائیں.میری لائبریری کی الماریابی اکثر خالی ہوں گی ان میں رکھ دی جائیں.تمام اخبار وں کے فائل اکھٹے کر لئے جائیں وہ بڑا قیمتی خزانہ ہے اور تاریخ سلسلہ کی بنیا نہ اس پر ہے.تمام لٹر پیر کی سیٹس ہوا کہ یہاں بھجوائی جائیں اوروہاں بھی محفوظ رکی پایانی حضرت صاحب کی کنت کے کچھ سیٹ وہاں رہیں اور کچھ یہاں آجائیں.اسی طرح میری کتابیوں کے کچھ سینیٹ وہاں رہیں اور کچھ یہاں آجائیں.تفسیر کبیر کی کچھ جلدیں بھی : ہاں رکھی جائیں.حضرت صاحب کا جو لسٹر پیجر آیا ہے مجھے نہیں معلوم کہ اس میں حضرت صاح کے اشتہارات کا مجموعہ شامل ہے یا نہیں.اگر وہ نہ آیا ہو تو له : صاحبزادہ مرزا خلیلی احمد صاحب (ناقل )
کی کچھ اپنا بیان بھجوائی جائیں اور کچھ کا یہاں وہاں رکھی جائیں، پرانی تفسیریں بھی کچھ دہاں رکھی بھائیں تاکہ وہاں رہنے والے ان سے فائدہ اُٹھاتے رہیں.باقی دعائیں بہت کرتے رہیں.قادیان سے بھی زیادہ اس طرف کو خطرہ ہے.حضرت مسیح موعود لیہ السلام کے مزار پر جا کہ اور مسجد مبارک میں بہت دعائیں کر یں.یاد رکھیں کہ دعاؤں اور برکتوں کی جگہ قادیان ہے وہاں کے رہنے والے قادیان کی حفاظت کے علاوہ جماعت کی حفاظت کا کام بھی کریں گے یونکہ بیرونی جماعتوں کی حالت میں قادیانے لوگوں کی مائیں بہت کچھ کام دے سکتی ہیں.اگر خدا نخواستہ بیرونی جماعتوں اور کوئی آفت آئے تو قادیان کی جماعت کو یہ مد نظر رکھنا چاہیئے کہ احمدیت اور اسلام کا جھنڈا قائم رکھنا ان کا فرض ہے.تمام دنیا میں حمدیہ لٹریچر کی حفاظت اور تبلیغ وہ اپنا کام سمجھے بہر حال احدیت کا بیج دنیا سے مٹ نہیں سکتا.اور ہر مومن کا فرض ہے کہ اس بیج کو بڑھائے.اور پھیل نے میں حصہ لے.یہ خط اپنے پیچھے رہنے والے امیر اور نائب امیر اور نگران محافظین کو پڑھا دیں اور وہ اپنے رفت پر اپنے بعد والوں کو پڑھا دیں تا سب کے ذہن میں رہے.مرزا محمود احمله ۱۳ حضرت مرز البشير احمد صاحب کا مفصل مكتوب حضرت سیدنا الصلع الواحد کے علاوہ حضرت صاحبزادہ مرده البشير احد صا حب نے بھی ایک مفصل مکتوب امیر مقامی قادیان کے آئندہ نظام عمل سے متعلق.کے نام لکھا جس میں آپ نے حضور کی ہدایات کے مطابق قادیان کے آئندہ نظام عمل کی تفصیلات پر نہایت شرح وبسط سے روشنی ڈالی.چنانچہ آپ نے لکھا :- دو نحمده ونصلی علی رسولہ الکریم وعلى أعيده أسيح الموعود و بسم الله الر حمن الرحيم از رتن باغ کا سود ۱۴ مکرمی دختر می نمن صاحب.اس و انبه کل مورخہ ہے ۱۵ کو انشاء اللہ قادیان کا نواسے بھا رہا ہے.یہ نما گیا آخری با قاعدہ کا نوائے ہوگا.اسی اس میں باہر آنیوالے عزیزوں اور دوستوں کو دعا اور پیچھے رہنے والے دوستوں سے ه: مکتوبات اصحاب احمد بلد اول ۲۲۰۳۰۵
با قاعدہ رخصت ہونے کے بعد ا ہو جانا چاہیئے.اللہ تعالی قادریان والوں اور با پروانوں سب کا حافظ در نا موجود چند ضروری ہدائی نوٹ فرما لیں.میں نمبر دار درج کر دوں گا.ا.امارت کے متعلق حضرت صاحب کا فیصلہ یہ ہے کہ آپکے بعد مولوی عبد الرحمن صاحب جٹ امیر ہوں گے.اور عزیز مرزا ظفر احمد نائب امیر.۲.ناظر اعلی عزیز مرز اظفر احمد ہوں گے..نگران حفاظت کیپٹن شیر ولی صاحب ہوں گے.- قادیان میں صدر امین احمدیہ اور تحریک کا نظام اس کمیٹی کے ہاتھ میں ہوگا جو حضرت صاحب نے اپنے ویں تجویز فرمائی ہے.اور اس کمیٹی کے نمبر صد را در تحریک کے مر بھی جائیں گے.- تحریک کی بھائیدا دواقع قادیان کی ذمہ داری بھی صدر انجمن پر ہوگی.مویدی عبد الرحمن صاحب جب سیر دست قادیان میں ہی ٹھہریں.دسمبر کے بعد دوسرا انتظام کیا جائیگا..قادیان میں مندرجہ ذیل طبقات ہوں گے :- (الف) قادیان کے باشندوں میں سے قرعہ کے ذریعہ قادیان ٹھہرنے والے.(ب) دیگر احمدی پبلک جو خوشی سے وہاں ٹھہرنا چا ہے یا بطریق پرائیویٹ ملازمت وہاں ٹھہر ہے.(ج) تنخواہ دار محله حفاظت - (د) خندام بیرونی اور د ، صدر انجمن یا تحر یک کے کارکن.ران میں سے نمبر العت کے آسودہ حال لوگوں کو سنگر سے قیمتا کھانا دیا جائے.یعنی اگر وہ سنگر سے لینا چا ہیں.اور جو آسودہ حال نہ ہوں انہیں شگفت دیا جائے.نمبر میں سے جن کی گذارہ کی صورت ہو انہیں لنگر سے قیمیتا کھانا دیا جائے.جن کی گزارہ کی صورت نہ ہو انہیں مفت دیا جائے نمبر کو قیمت کھانا دیا جائے یعنی اگر وہ سنگر سے لینا چاہیں.نمبر د کہ لنگر سے مفت کھانا دیا جائے.نمبر ھے کہ قیمیتا کھانا دیا جائے یعنی اگر وہ لنگر سے کھانا چاہیں.کھانے کی قیمت بورڈ نگوں کے اصول پر چھا رچ کی بجائے یعنی حساب نکال کر فی کس پر قیمیت پھیلانی جائے مگر قیمت نقد وصول کی بجائے قرض نہ دیا جائے.
تم مسلم - آئندہ قادیان کے دفتر محاسب کی امانت محفاظت (حم) میں سے مقرہ کیٹی کے فیصلہ کیساتھ ناظر اعلیٰ کو برآمد کا اختیار ہوگا.پا بندرمان خروج کے متعلق ہی ہوں گی جو حضرت صادر نے اپنے خط مورخہ ہم ۱۳ میں لکھدی ہیں.تمام خرچ نہایت کفایت کے ساتھ کیا جائے اور خرچ کے مقابل پر آمد بھی پیدا کی بھائے اور زندگی درویشی نہ رکھی جائے اور حساب کھا بجھائے اور آڈٹ بھی ہوتا رہے.-۱۰ حضرت صاحب فرماتے ہیں کہ قادیان میں ایک آڈیٹر ہونا ضروری ہے خواہ قریشی عبدالرشید صاحب.خواه را بعد بشیر احمد صاحب جو صدرا در تحریک در امانت حفاظت سب کا حساب چیک کر سے اور اسے خزانہ کو بھی چیک کرنے کا اختیار ہو.خزانہ کی چابی کے علاوہ محاسب کے علاوہ ایک امین بھی ضروری ہے.ملک صلاح الدین صاحب کو حضرت صاحب نے فی الحال دسمبر تک ٹھہرنے کی اجازت دی ہے اس کے بعد پھر غور ہو گا.۱۲- قادیان میں بہ تنخواہ دار حملہ ہو گا.خواہ صدر یا تحریک کا اور خواہ حملہ حفاظت اس کے لیئے یہ ضروری ہو گا کہ وہ ابھی ان رقوم کی تعین کیڑے سے جو وہ اپنے عزیزوں کو پاکستان میں ماہوار ادا کر دارنا چاہتے ہیں پھر اس کے مطابق انہیں قادیان میں اس قدر رقم ادا کر دی جائیگی اور باقی پاکستان میں ان کے عزیزوں کو ادا کی جاتی رہے گی.یہ حصے بجٹ کے بھی الگ الگ ہو جائیں گے اس کے مطابق فوراً تحریر یں لے کر ایک نقل قادیان میں رہے اور ایک لاہور آ بھائے.۱۳ - حضرت صاحب فرماتے ہیں کہ جو بھی امور امہ قادیان کی طرف سے میٹر سونی مجسٹریٹ قادیان کی لکھی گئی ہے دلبری ما مورخہ ہے ، اس کا لب و لہجہ بہت قابل اعتراض ہے.اور خواہ مخواہ ۱۳ چڑا نیوالا ہے.اول تو یہ کوئی جواب نہیں کہ آپ نے اتنی دفعہ یہ پاکٹ خالی کرنے کیلئے کہا ہے کہ ہم جواب میں کوئی مثال نہیں بتا سکتے.دستا لیں یاد ہوتی ہیں اور بتانی بچا نہیں.کیونکہ ان کے بغیر ہر معقول آدمی بناؤٹی اعتراض سمجھتا ہے.دوسرے تحریر کا لب و لہجہ ہر گز چڑھانے والی نہیں ہوتا چاہئیے جس میں طعن کا رنگ ہو.آخر آپ لوگوں نے اب قادیان میں انتہائی بردباری اور تحمل اور انک باندی کے ساتھ رہنا ہے بلکہ یہ دردیشانہ زندگی ہو گی.کیا درویشوں کا یہ سب لہجہ ہوتا ہے ر مورد سنگر میانی ایڈووکیٹ، گورداسپور جو تقسیم ملک کے بعد قادیان میں مجسٹریٹ مقرر ہوتے تھے.د مکتوبات اصحاب احمد جلده دم مت حاشیه )
۳۶۵ آئندہ بہت احتیاط رکھی جائے.اور حکمت عملی اور اخلاق اور انکساری سے کام لیا جائے.اور مولوی برکات احمد صاحب سونی صاحب سے مل کہ نہ بانی بات کر کے سابقہ اثر کو دھر نے کی کوشش کریں.۱۴.آپ نے یو فہرست کارکنان صدر انجمن احدیہ اور تحریک ملک میں روح الدین صاحب کے دستخط سے بھیجوائی ہے یعنی ان لوگوں کی جنہوں نے قادیان میں ٹھہرتا ہے.اس پر حضرت صاحب نے فرمایا ہے کہ یہ فہرست زیادہ ہے اور بعض صیغوں کی اب الگ صورت میں رہنے کی ضرورت نہیں مثلاً تحریک کا صیغہ تجارت اور صیغہ صنعت قادیان میں رہنا فضول ہے.تحریک کا صرف ایک نمائندہ کافی ہے ا کی جائیداد وغیرہ کا خیال رکھنے کیلئے.در اصل اس وقت قادیان میں یہ صیغے کافی ہیں.(الف) نظارت علیا.(ب) نظارت امور عامہ دھاریجہ - (ج) نظارت صیانت - (۵) محاسب اور بیت المال مرکب - (ه) ایک نمائندہ تحریک سب صیغوں کیلئے.ان سب کے لئے مناسب عملہ تحرین ہونا چاہیئے.اور وہ بھی مشترک ہو سکتے ہیں.نظارت دعوہ اور تعلیم کا کام بھی اوپر کے کسی افسر کے ذمہ لگایا جا سکتا ہے اور ناظر امور عامہ.ناظر ضیافت میں سے ہی کوئی امین ہو جائے.آڈیٹر علیحدہ ہونا چاہیئے.جو قریشی عبد الرشید صاحب یا راجہ بشیر احمد دمیں سے کسی کو مقرر کر کے رکھ لیا جائے.-10 ۱۵ - خزانہ کے پہرہ دار دور ہو نے ضروری ہیں.ایک کافی نہیں.گھر وں کے درمیان فارغ کر دیئے بھائیں اور خدام اور عملہ حفاظت سے کام لیا جائے.غلام اور عملہ حفاظت اور دوسرے اصحاب کو بلا کر نصیحت کی جائے.یہ خدائی امتحان کا وقت ہے.اس وقت نخشیت پیدا ہونی چاہیے.خزانہ سے اگر بڑا سیف قادیان آسکے تو مناسب ہوگا.تاکہ یہاں اس میں سر بمہر امانتیں رکھی جاسکیں لیکن اگر اس کی وجہ سے پیچیدگی کا ڈر ہو تو ر نہیں دیں اور بہر حال خالی بھجوائیں.تاکہ پولیس اور ملٹری کو شبہ ہو تو اسے کھول کر دیکھا دیں.۱۸- گندم کے متعلق حضرت صاحب کے خط میں تفصیلی ہدایت ہے اسی مطابق عمل کیا جائے.14 - حجب قادیان سے روانہ ہوں تو مقبرہ اور مسجد مبارک میں دعا کر کے آئیں اور سب دوستوں سے باقاعدہ مل کر اور رخصت ہو کر آئیں.اور انہیں اپنے پیچھے صبر اور قربانی اور انکساری
دور باہمی اخوت کے ساتھ رہنے اور تقویٰ کی زندگی میسر کرنے کی نصیحت کر کے آئیں.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ والے درویش ہیں.۲۰ حضرت مولوی شیر علی صاحب کی وفات کی خبر دیڈیو پر نشر کی جائیکی ہے.ہماری تو عقی ہی مگر اس وقت قادیان سے جدائی کا صدمہ اور نقصان لوگوں کے اعصاب پر سخت اثر پیدا کر رہا ہے اور اس صدمہ کی وجہ سے بیماری کے مقابلہ کی طاقت کم ہو رہی ہے.اللہ تعالیٰ حافظ و ناصر ہو.بعض دوستوں نے خواہش کی تھی جسے حضرت صاحب نے بھی پسند کیا کہ اگر ممکن ہو سکتے تو ان کا جنازہ قادیان پہنچایا جائے.لیکن اس وقت تک اس کا انتظام نہیں ہو سکا.گو ڈپٹی ہائی کمشنر نے ڈی سی گورداسپور کے نام چھٹی دیدی ہے.اور بغیر پور سے انتظام کے جنازہ کی بے حرمتی کا ڈر ہے.دیکھیں کیا فیصلہ ہوتا ہے.ورنہ بہر حال لاہور میں اما ما دفن ہوں گے.ر آخری فیصلہ ہی ہوا ہے کہ ہاہور میں امانتا دفن کیا جائے.۳۱.سیٹھ ابو بکر صاحہ ہے کے متعلق حضرت صاحب نے فرمایا ہے کہ وہ لاہور آ جائیں.اللہ تعالٰی آپ سب کے ساتھ ہو.آپ کے بھی بجو با ہر آنے والے ہیں اوران کے بھی ہو پیچھے قادیان رہیں گے.فقط والسلام خاکسار مرزا بشیر احمد الله ۱۴ یہ خط اپنے پیچھے ریکارڈ اور دوستوں کے مطالعہ کیلئے پچھوڑ آئیں.نوٹ :.جن دوستوں کو قادیان میں اسلحہ رہتا ہے جس سے متعلق علیحدہ ہدایت کی جاچکی ہے.اب دسمبر کے آخر میں تجدید کی درخواست دے دینی چاہئیے.مرنه البشير احمد حضرت صاحی خوانی برند ۱۲ سب کو پڑھا دیا جائے اور ریکارڈ رہے.مرز البشير احمد نقل بخدمت مولوی عبد الرحمن صاحب جٹ.مرضها البشیر احمد پہلے ماہ کے " له والد ماجد حضرت سیده ام وسیم صاحبہ حرم حضرت سیدنا الصلح الموعود (ناقل ) مکتوبات اصحاب احد جلد دوم ص ۱۸۰۰۲ مرتبہ مالک صلاح الله ین صاحب ایم.اے.طبع اول انا مشر احمد یہ بک ڈپو ربوہ پاکستان :
نوبر کے آخری کنائے کی وانی کاری این منظر پاکستان سے قادیان جانے والی آخری کنارے سے روانہ ہوا.یہی وہ کانوائے ہے جس کے ذریعہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمر صاحب مولانا جلال الدین صاحب شمس اور دوسرے بزرگان سلسلہ اور احباب جماعت لاہور تشریف لائے.مولی نا بھلائی الدین صاحب شمس نے رخصت ہوتے ہوئے نہایت درد بھرے الفاظ میں کہا :- " اسے قادیان کی مقدس سرزمین ! تو ہمیں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ پیاری ہے لیکن حالات کے تقاضا سے ہم یہاں سے کھلنے پر مجبور ہیں.اسی ہم تجھ پر سلامتی بھیجتے ہوئے رخصت ہوتے ہیں.لے صاحبزادہ مرز اظفر احد صاحب اس کا یہ ائے کی یہ انکی کے رقت انگیز منتظر کا نقشہ درج ذیل الفاظ میں ہیں : آخری قافلہ یہاں سے ۶ نومبر ان کو گیا.چونکہ بہت لوگوں نے جانا تھا.ہرقسم کی تیاری کرنی تھی ای اکثر لوگ قریباً بیشتر حصہ راست کا جاگتے رہے مگر صبح ہی پھر پہلی جلدی ہی شروع ہو گئی اور سامان کے ساتھ یہ لوگ محلہ دارای انوار کی سڑک پر پہنچنے شروع ہو گئے.بارہ بجے کے قریب سب ٹرک لد گئے اور اجتماعی دعاؤں کے بعد جو کہ مسجد مبارک اہمیت الدعا مسجد اقصی اور بہشتی مقبرہ میں ہوئی سب لوگ ڈیکوں کے پاس پہنچ گئے.مگر ہاں منظری اور تھا.جانے کی خوشی توکسی کو کیا ہونی تھی.ہر ایک رنج اور غم سے پیسا جا سا تھا.ہر ایک قدم جو کند ائے کی طرف اُٹھتا تھا وہ آگے سے ہوتھل ہوتا.جو ضبط کی طاقت رکھتے تھے وہ ضبطہ کی کوشش کرتے.مگر اس کے راز کو ان کی سرخ نہ تمھیں پکار پکار کے خاش کہ یہ ہی تھیں اور جن کو ضبط کی طاقت نہ تھی وہ اس طرح روتے تھے جسطرح کہ کوئی بچہ اپنی ماں سے بچھڑنے کے وقت کرتا ہے آخرده وقت بھی آگیا یعنی او د اعلی دعا کا جس کرب اور الحاج کے ساتھ یہ دعا مانگی گئی اور میں تضرع اور عاجزی سے انہوں نے اپنے پر دردا کو پکارا اس کو الفاظ بیان نہیں کر سکتے اور سنی وہ نظارہ دیکھا وہ بھی اسے بھول نہیں سکتا.وہاں بہت سے غیر مسلم آئے ہوئے تھے اس کے علاوہ علم ملٹری کے سبب سپاہی موجود تھے اور وہ سب محو حیرت تھے کہ ان لوگوں کو کیا ہوا ہے.کیا یہ ممکن ہے کہ ان لوگوں کی گذشتہ ه الفرقان فردیشان قادیان نهر اگست ستمبر اکتو بر مدار صفر ۶ به
چار ماہ موت کے منہ میں جھانکنے کے باوجود بھی اس وقت یہ حالت ہے جبکہ ان کو موت سے بچا یا جارہا ہے.دیکھا ختم ہوئی ٹرک ایک ایک کر کے منہ نہ ہوئے ، بھانے والے چلے گئے اور پیچھے رہنے والے ایک سکتہ کی حالت میں ان کو سکھتے رہے.میں بھی انہیں لوگوں میں تھا جو کہ ان کو الوداع کہ رہے تھے یہ کہ اس آخری کانوائے کے بعد قادیان کے ایک نئے دور یعنی عہدہ ردیشی کا آغاز ہو اجس میں امارت کے اہم فرائض حضرت موادی عبد الرحمن صاحب جت فاضل کے سپرد ہوئے اور قریبیبا ۲۱ کیا نثار اور کفن بر دوش احمدی اس عزم کے ساتھ قادیان میں اقامت گزیں ہو گئے کہ ہم بہر حال مقامات مقدسہ کی حفاظت کے لئے اپنی جان، مال اور عزت و آبرو قربان کر دیں گے مگر مرکز احمدیت پر آنچ نہ آنے دیں گے.ان خوش نصیبوں نے جن کواللہ تعالی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزند ہیں کی تخت گاہ کی نگہبانی کے لئے چنا اور قادیان میں رہنے کی سعادت پائی.میر محمدی کے الہام یہ دنمان ، تیرے لئے اور تیرے ساتھ کے درویشوں کے لئے ہے کے مطابق در دیش کا قابل فخر خطاب پایا.تے ر نو میری نبوت کو قادیان کے ٹھرنے والے درویشوں میں ۲۲۱ نوجوان ۷ ۵ درمیانی عمر کے اور ۳۵ بوڑھے تھے چین میں اور صحابہ مسیح موعود کا پاک اور قدوسی گروہ بھی شامل تھا یہ قادیان کے مقامی احمدی درویشوں کو ان کے انتخاب کی اطلاع قبل ازیں نیم بوت زیر باش کو بذریعہ کار دی گئی تھی.جو امیر جماعت احمدیہ قادیان مولانا جلال الدین ناب شمسی کے دستخطوں سے جاری کیا گیا اور تین پہ یہ عبارت درج تھی :- " در دنیش کے نام مبارک ہو کہ آپ کو اگلے دوماہ کے لئے قادیان میں ٹھہرنے کیلئے منتخب کیا گیا ہے امید ہے آپ امن اور صلح سے رہیں گے اور اپنے ساتھیوں سے تعاون کریں گے.خود تکلیف اٹھائیں گے مگر ساتھیوں کو تکلیف نہ ہونے دیں گئے.درویشوں سے حسب ذیل عہد لیا گیا :- و ہم احمدی....جن کے دستخط ذیل میں ثبت ہیں.خداتعالی کو حاضر ناظر جان کہ یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم تا حکم ثانی (جو انشاءاللہ تعالی موجودہ فیصلہ کے مطابق دوماہ تک ہوگا، قادیان کو نہیں چھوڑیں گے.امن اور صبح سے رہیں گئے ایک دوسرے سے تعاون کریں گے.اور ہم میں سے جو آفیسر ہیں وہ خود تکلیف اُٹھائیں گے لیکن ه : - الفضیلی ۱۰ صلح جوزی اش هست به شه: - تریاق القلوب منا : : الفرقان در ونیشان قادیان خبر صدا
دوسروں کو تکلیف نہ ہونے دیں گے “ ہے انیای ما را جلو در این نظم ونسق کے اعتبار سے تین حصوں میں تقسیم کئے گئے.ا حفاظت مرکز کے مستقل خدام جن کے پہلے نگران کیش شیر ولی صاحب تھے.درویشان نمبر کے نام سے موسوم کئے گئے.در دیشان نمبر ہ میں قادیان کے مقامی احمدی احباب شامل تھے جن کے نگرانی مرزا محمد حیات صاب مقرر کئے گئے.بیرونی خدام کو بر دیشان نمیرم قرار دیا گیا اوران کی نگرانی کی خدمت چو ہدری سعید احمد صاحب بی.اسے آنرز کہ سونی گئی.تے ایانی برای تنظیم کا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ای یو ایک یتیم کا ایک خاکہ ایرانی کا کیا کر بیان کرنا مناسب ہوگا.جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے درویشان مہر کے نگرانی سرفہ احمد حیات صاحب تھے جنہوں نے صوفی عبد القدیر صاحب و این مولوی عبد الحق صاحب پر دو ملہوی حلقه مسجد فضل قادیان کو اپنا نائب اور خواجہ عبدالکریم صاحب خالد رابین خواجہ عبدالو احمد صاحب دار الفضل قادیان) اور ضیاء الدین احمد صاحب در این میان روشن دین صاحب زرگر حلقہ مجد فضل قادیان کو معاون نگران مقر کیا.علاوہ ازیں حمدیہ حملہ کے پر حملہ کو تین ان میں تقسیم کردیا گیا جیکی بلاک لیڈر بالترتیب مجید احمد صاحب ولد غلام حسین صاحب ساکی را به لانی رقادیان ، شیخ محمود احمد صاحب ولد شیخ الله بخش صاحب ساکن تار رحمت قادیان اور سید محمد اجمل صاحب ا لد سید محمد افضل شاہ صاحب ساکن مسجد فضل تاد قادیان تجریہ کئے گئے.ہر ایک بلاک کے ماتحت تین تین حزب بنائے گئے جن کی تفصیل مع اسماء ساتھی حسب ذیل ہے :- حزب نمبر1 - سائق مرزا ظہیر الدین منیر احمد صاحب - ' ☑▾ • بشیر احمد صاحب ٹھیکیدار بھیہ.- - جلال الدین صاحب تنگلوی - - " امیرالدین صاحب - " ول همتانه احمد صاحب ہاشمی.عبد الرشید صاحب بدد موی.ه : غیر مطبوقہ ڈائری نہ ہی مرتبہ جناب مرزا محمدحیات صاحب نگرانم که ماه توی رتبہ اسلامی سے نقل یعنی ۲۲ کے نخواه دارد ولیوں کو درویشان ناظر آباد ، در دیشان بیرن کو درویشان مسجد تلی اور درویشان مقامی کو درویشان مسجد مبارک کے نام سے موسوم کیا جانے لگا بہت
تاب نمبر، سائق موادی غلام احمد صاحب ارشد A By سعید احمد صاحب ولد عبدالکریم صاحب.بھائی شیر محمد صاحب دوکاندار - ہر حزب کم سے کم 14 دور زیادہ سے زیادہ ۱۳ در دیٹوں پرمشتمل تھا اور اسے مختلف مکانات میں متعین کیا گیا اور اُن کا فرض قرار دیا گیا کہ وہ مکانات کو کسی صورت میں نہ چھوڑیں.اور کسی غیر شخص کو اپنی حدود میں داخل نہ ہونے دیں.یہ تمام مکانات جن میں درویشوں کو رکھا گیا.بیرونی حد بندی پر واقع تھے.اندر نہ نی مکانات در دیشوں کی کمی کے باعث خالی کرہ ہے.اور درویشوں کو تاکید کی گئی کہ لوگوں کا کافی مال و اسباب ضائع ہو چکا ہے.اگر کسی دوست کا سامان یہاں پر ہو تو اس کی حفاظت کریں اور نظارت امور عامہ کے مقرر کردہ سٹور کیپر صاحب کو سامان سے بھانے سے نہ روکیں.رد حزب نمیرا کے سپر د مندرجہ ذیل احتساب کے مکانات کئے گئے :- (1) حافظ فیض اللہ صاحب (۲) بابون زیر خان صاحب (۳) حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی.دم، قاری غلام حکم صاحب - (۵) لال دین صاحب ٹیلر ماسٹر.حزاب نمبر کا مندر بعد ایل دوستوں کے مکانات میں متعین کیا گیا :- ) مرند امحمد یعقوب صاحب - (۱۲) سید سردار حسین صاحب - (۲) حضرت مفتی محمد صادق صاحب.(۳) بابو عبد الحمید صاحب (۵) سید محمد اجمل صاحب کتوب نمبر کے سپرد مندرجہ ذیل اصحاب کے مکانات کئے گئے :- (1) موادی عبید لمعنی خانصاحب (۲) ممتاز علی خانصاحب.(۳) حافظ فیض اللہ صاحب.(۳) حضرت داری سید محمد سرور شاہ صاحب - (۵) نیاک محمد نما نصاحب پٹھان.خواب نمبر کے سپر د مندرجہ ذیل احباب کے مکانات کئے گئے :- دار محمد حسین صاحب ڈپو ہولڈر.(۲) عبد اللہ صاحب بوڑی.(۳) بھا جی جنود اللہ صاحب.(ہم مولوی محمد ابراہیم صاحب قادیانی.(۵) نذیر احمد صاحب ڈیری فارم.کہ سب نمبرہ کے سپر د مندرجہ ذیل احتساب کے مکانات کئے گئے :- حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی.(۲) چوہدری محمد شفیع صاحب ایس.ڈی مراد - ۲۱ موادی رحمت علی صاحب مبلغ جادا - (م)، ڈاکٹر فضل کریم صاحب (0) دفتر الفصل - دو منشی احمد مین صاحب کا تب
مرز خانصاحب مرحوم - (۸) عبداللہ صاحب حجام - توب نمبر کے سپر د مندر ہر ذیل مکانات کئے گئے :- در صوفی عبد القدیر صاحب بد لہوری - ۲۰ بیده محد این مرحوم پیمان - (۱۳) عبدالرحمن صاحب - ریم، مولوی محمد عبد اللہ صاحب انتھانہ.حزب نمبرے کے سپر د مندرجہ ذیل احتساب کے مکانات کئے گئے :- د اما ویزا محمد حیات صاحب - (۲) منشی عبد الکریم صاحب - (۳) شیخ محمد نصیب صاحب - (م ) نصل الى خان صاحب - حزب نمبر یہ محلہ ناصرہ آباد میں متعین کیا گیا.حزب نمبر 4 میں چونکہ اکثر احباب عمر رسیدہ تھے اسکی ان کے ذمہ صرف صبح کی ڈیوٹی گیٹ پر تقرر کی گئی اور رات کو ٹور میں سونے کی ڈیوٹی بھی ان کے سپرد کی گئی.نیز مریضوں کی خبر گیری کا کام بھی لیے صدر انجمن محمدیہ قادریان کے اولین عمران مان درانی کے ابتدا میں صدر بنی احمدی قادیان کے اریکی انجمن اولین تمبر حسب ذیل تھے :.ا.خدا شہزادہ مرز اظفر احد صاحب بیرسٹر ایشان او د ناظر اعلی و نماینده خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام) - صاحبزادہ مرتد الخلیل احمد صاحب دناظر تعلیم و تربیت و ناظر دعوت وتبلیغ در حضرت مولوی عبدالر من هنا فاضل دامیر جماعت حمدیه تادیان ناظر ضیافت حضرت مولوی صاحب رش سے اس نہ قت تک عہدہ امارت پر سر فرانہ ہیں ).۱۹۴۷ تم.مکرم مولوی برکات احمد صاحب راہی کی ہی.اسے واقف زندگی ناظر امور عامه و امور خارجہ ).-٥- مکرم شیخ عبدالحمید صاحب عاجز بی.اسے مناظر بیت المال و محاسب) دمیر 4 - مکرم مولوی محمد ابراہیم صاحب قادیانی.مکرم چوہدری سعید احمد صاحب بی.اسے آنرز نمانده در دایشان نمبر ۳ (تمبر) - مکرم کیپٹن شیر ولی صاحب نمائنده در دیشان نمبرا - 4 - مکرم ڈاکٹر میجر محمود احمد صاحب ے: غیر مطبوعہ ڈائری مرتبہ مرزا محمد حیات صاحب سے ماخوذ.(خمیر) رممبر)
- مکرم حسن محمد خان صاحب مارکت بی.ا سے واقف زندگی و نمائندہ تحریک جدید - دمبر) کرم مرز امحمد حیات صاحب نمائنده در دویشان نمبر ۲ - (میر) (۱۲) مکرم مولوی شریف حمد صاحب اتنی دیر) ۱۳ - محرم قریشی عبدالرشید صاحب آڈیٹر صدرانجمن احمدیہ قادیان.ان ان ابتدائی پر خطر اور پر آشوب ایام کے قریب ں کے اولین خوش تصدی بلیوں کی فہرست ۲۱۳ در مینوں کی فہرست در یک خیال کی ۱۳۱۳، جاتی ہے.یہ فہرست ۱۹۷۰ ء میں مرتب کی گئی اور اس میں ” کیفیت“ کے تحت اندراجات بھی اسی سال کی رو سے ہیں.نوٹ: (1) میری کے ان تولین درد لیٹوں کے بعد جو مقدسی صحابہ اور منہ سرسے بزرگ یا دھیا دیار حبیب میں مستقل قیام کے لئے پاکستان یا ہندوستان کے مختلف علاقوں سے قادیان تشریف نے گئے ان کا تذکرہ اگلی جلدوں میں اپنے اپنے مقام پر آئے گا.(۲) گول دائرہ ہ کا نشان بتاتا ہے کہ یہ دردیش بعد کو پاکستان چلے آئے.صدر انجین احمدیہ و تحریک جدید قادیان کے عمر با کارکن نام دلات سکونت اجزاده مناظر من بارایی و حضرت صاجزاده مزار شریف ام من ان الدار قادریان واپسی اور ناچ ۱۹ و نا خلیل احمد صاحب، سيدنا الصلح الله عمود رام حصر مولوی عبدالرحمن صاحب رحمانی ، ملک برکت علی ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ایران این صاحی وفات ۲۰۱۷۷ م مولوی برکات احمد عتاب را جیکی رند ، مولانا غلام رسول صاحب را یکی را دار الرحم قادیان تاریخ وفات ، نومبر ۱۹۹۶ و شیخ عبد الحمید صاحب عاجہ شیخ محمد حسین صاحب حال ناظر جا مداد ر وفات ۲۸۸۰۵ مولایی محمدرا به امیم صاحب قادیانی میاں مہر دین صاحب مسجد فصل قادیان حمل با ناظر دعوت در رابغ وفات ۲۷۷۸ میجر ڈاکٹر محمود احمد صاحب نے قاضی محمد شریف کا ایک کی ایجنٹوں کو کوئٹہ متقاضی دیگر مکرم حسن محمد خانصاحب عارف فضل محمد خانصاحب شملوی الفرقان در دانشیان و دیان نمبر ، اگست ستمبر اکتو بر شده است.کوسٹر میں 14 اگست ۱۹۲۸ کو جام شہادت نوش کیا.
٣٠٣ نہر شمار نام 1 ۱۲ ولدیت سکونت قادیان حمالی وکیل اعمال تحریک قادیان وفات " سابق او بر صمد امین محمد تحریم ملک صلاح الله ما اب ایم ہے ملک نیا نہ محمد صاحب ر قریشی عبد الرشید صاحب ڈاکٹر عبد العزیز صاحب فضل اپنی خانصاحب حکیم کرام اپنی صاحب حقہ مسجد فضل قادیان وفات کے ۱۱۹.۹ مولوی شریف احمد صاب اتنی سیٹھ محمد ابراہیم صاحب بنگوی بورڈ نگ سر حد یا دراین حال انتاج مبلغ مسلسل ام البنی انگار ساده وقات ۹۶۹۰ ، عطاء الرحمن ها قریشی علی دار من هنا عمران شهر فاف محمدامین صاب کی پوری ناصر آبا و نادریان حال بیت المال (خرچ) IP " چوہدری عبد الحق صاحب چوہدری الله و تا صاحب عبد القیوم صاحب کیونڈر محمد ظہور صاحب قادیان قادیان وقات ۱۷۸-۳۰ وفات ۴۶۶۸۰ {་ IA ر مولا بخش صاحب با در چی صحابی خیرات اللہ صاحب متصل لنگر خانه قادیان تاریخ و تمام در جولائی ۱۹۵۴ء سراج دین صاحب مرزن غلام قادر صاحب دار الرحمت قادیان ر مولوی عبد القادر صاحب اور آن حاجی محمد بخش صاحب بستی رندان ضلع دیر نماز یانان ۱۹ اور مرزا محمد نه مان صاحب مرزا احمد دین صاحب 0 سنگر خانه قادیان وفات ۱۹۹۲-۱۹ قادیان اور ماحول قادیان کے احمدی کرم خرید احمد حیات صاحب حکیم عطا محمد صاحب حلقہ مسجد فصل قادیان | ه واپسی ارسٹی ۴۸۰ ۱۹ در صوفی عبد القدیر صاحب مددی عبد الحق صاحب " را نو بجد عبد الکریم صاحب ماقد نواجه عبداله احد صاحب دارالفضل قادیان را نزند ۳۳ را میان ضیاء الدین احمد صاحب میائی دشن صاحب زندگی حلقہ میں فضل ۱۹۴۸ء ه وایسی اور مئی ۶۱۹۳۸ ۲۳ مجید احمد صاحب ڈرائیور غلام حسین صاحب باب الانواله تاریخ و ابر اکتو بر ۶۱۹۳۹ ۲۵ مرنه اظهیر الدین منور احمد صاحب مرند برکت علی صاحب مرند ۲۶ دار العلوم عبد الواحد صاحب بالفرش شیخ عبد اللہ صاحب مسجد مبارک رای ما یا سوڈا واٹر لیری اور ایک اصل محمد صاب پرسیان والے دار الفتوح اور یا دار " کرو " وفات ۲۴۸۲۰۰۱ کولا وفات ۷۲۶۸۰ k ما حب محمدد مضان صاحب ناصر آباد " Ya
نام ولدیت سکونت ۲۹ مکرم عبد الحمید صاحب پودر بند بخش صاحب بصینی مانگی ر سائیں عبد الرحمن صاحب مستری فضل دین صاحب با بعد الانوار قادیان وفات ۴۲۹۵-۱۲ فضل الدین صاحب ماشکی نیر محمد صاحب ۳۳ لالی دین صاحب فقیر محمد صاحب منشی نور محمد خان صاحب محمد احمد خان صاحب ۳۳ به محمد عبد اللہ صاحب نور محمد صاحب ۳۵ ۳۶ مسجد میا ملک دار البيسر را وار الافضل مسجد مبارک بشیر احمد صاحب ٹھیکیدا بھی محمد عبد الہ صاحب دار البركانت چوہدری عبد الغفور صاحب چوہدری الله و تا صاحب حلقہ مسی فعل تا 瘤 را " وفات ۱۲۱۹۸ - ۴ ° ۳۷ در مستری محمد حسین صاحب محمد قاسم صاحب راجپوت محمد مبارک کے وفات ۶ ۷۶۸ - ۲۵ محمد حسین صاحب (خورد) نور محمد صاحب " حلقه مسجد فضل در قریشی فضل حق صاحب میان کمال الدین صاحب مسجد مبارک وفات ۴۶۸۶.۲۸ " ۴۰ بشیر احمد صاحب علم دین صاحب نیا 0 ام طیب علی صاحب بنگالی عبد المبارک مناسب 37 ما رفیق احمد صاحب یونس محمد اسمعیل صاحب سر سیادی در الفتوح قادیانه ۴۳ و محمد بحجم صاحب محمد اسمعیل صاحب مهر سازی قد مسجد تفضل واپسی نارمئی، ۱۵۵ مستوفی وفات ۱۲۴۸۹ - ۲۴ لم ۲۳ محمد عبد الله صدها حسب صدر الدین صاحب ۳۵ خطاء اپنی صاحب امام الدین صاحب ۳۶ ناصر احمد صاحب محمد عبد اللہ صاحب را 4 " " خواجہ محمد شریف صاحب مسجد قصی م را خواجہ محمد احمد صاحب خواجہ محمد شریف صاحب ۳۴۸ تطبیقہ منیر الدین صاحه نیر الدین صاحب حضرت خلیفہ رشید الدین صاحب مسجد مبارک ۹ را شهر عبد الغنی صاحب فضل فضل الدین صاحب حلقہ مسجد فضل.در مرند احمد اقبال صاحب مرند اعظم بیگ صاحب مسجد مبارک." را ایسی ۵ مارچ ۶۱۹۳۸ ہ کی پاک ، بھارت جنگ میں شہر یہ جو سے بلہ ا تاریخ و ایسی ۲ مارچ ۱۹۴۸
نمبر شماره نامه وادیت ۳۷۵ سکونت المکرم جلال الدین صاحب رسیم بخش صاحب شگل با غبانان متصل قادیان ۵۲، محمد اسحاق صاحب را تکریم صاحب ۵۳ " محمد صدیق صاحب عزیز الدین صاحب ۵۲ عبد الغنی صاحب محمد بخش صاحب النوم محمد اسمعیل صاحب نقیر محمد صاحب ٥٠ " عبد الرحمن صاحب ۵۰ دین محمد صاحب ۵۰ نذیر امور صاحب 04 محمد صادت نائب ۶۰ موثر رحمت اللہ صاحب محمد عبد اللہ صا حمید الہی بخش صاحب دریا هم دین صاحب محمد شریف صاحب مهر دین صاحب و محلی محمد صاحب دین محمد صاحب 4 و گی دیگر " لوگ " " " 4 را " & پیر رام 0 อ ◉ ° وفات ۴ ۴.۲۸ محمود احمد صاحب شیخ الله بخش صاحب پیشادری دار الرحمت قادیانه سوب به امیر الدین صاحب فضل الدین صاحب حقہ مسجد فضل ۷۴ به نمیام حسین صاحب نظام الدین ما حب وارد الله کلمات ชร صاحب رو محمد اسمعیل صاحب محمد عبد اللہ صاحب محمد شفیع صاحب من لا نبش صاحب جلال الدین صاحب صدر دین صاحب ا دین محمد صدا حسب وار اليمر " وفات ۲۱۳۶۰۴ وفات ۸_۶_۲۶ 44 < " 41 عبد الستار صاحب عبد الغفور صاحب احمد دین صاحب قمر الدین صائب ابراہیم صاحب محمد سلیمان صاحب رسول بخش صاحب ادانی قادیان وفات ۱۴۶۹۴ فضل الرحمن صاحب از شن الدین صاحب " وفات ۱۷۹۶۸۵
٣٨٩٠ نمبر شمار نام ولایت سکونت مکرم محمد احمد صاحب صحابی نمودم حسین صاحب مسجد مبارک قادیان مختار احمد هفت باشی قریشی شاہ دین صاحب دارالشکر قادیان وفات ۱۲۰۶-۲۵ " ، سید محمود احمد صاحب سرزمین علی شاه من اب دھرم کوئی دار الرحمت " ،، LA چوہدری نغفور احمد صاحب چوہدری نذیر محمد صاحب دار الشكر عمر دین صاحب محمد خان صاحب محمد سلطان صاحب خوشنویس میاں جمعہ خانصاحب دار البرکات شرقی " مستری ہدایت الله ه ا ا ا ر و وینا میاں مہردین صاحب ه غربي " وفات ۳۱۷۶۸۵ ۸۰ جبل | ر میان عبدالعظیم صاحب جلد سانہ میاں رحمت اللہ صاحب دار الفضل قادیان وفات ۴۴۹۱-۱ A AP AM AD AY AL M دین در محمد شفیع صاحب پینٹر میاد لال دین صاحب زرگر مسجد میانه ک به مستری غلام قادر صاحب محمد دین صاحب محمود احمد صاحب سرگود دهنوی شیخ مواد بخش صاحب دار الرحمت ا " ° شیر محمد صاحب پونچھی فضل الدین صاحب دار الفتوح او را ۳۰ جوان که خوبی دیده م.عبد الرشید نانا اور بد علی مولوی عبدالحق صاحب حلقہ مسجد فضل یدار ا غلام احمد صاحب محمد دین مصاحب تبادل پودری دار الرحمت مولوی غلام مصطفے صاحب مولوی عبدالحق صاحب براد ولا تاریخ والی در تاریخ ۱۹۳۸ و گوجرانوالہ میں وفات پائی ما نذیر احمد صاحب ٹیلر نور احمد صاحب حلقه مسجد فضل قادیان وفات ۱۶۰۶ - ۱۹ قریشی عبد القادر صاحب اعوان محضر حافظ محمد امین صاحب اعوان ۹۰ محمد دین صاحب غلام نبی صاحب N V دارالمفتل ۹۱ عبد المطلب صاحب بنگالی منشی دائم اللہ صاحب دار المرحمت " ۹۲ در مرند ا عبد اللطیف صاحب مرزا مہتاب بیگ صاحب نے مسجد اقصیٰ ، سید محمد اجمل صاحب سید محمد افضل صاحب حلقہ مسجد فضل ۹۴ - خواجہ عبد الستار صاحب خواجہ محمد عبد الله صاحب دار الفتوح ول وقات ۲۲۴۶۸۰ 4 " " را وقات ۱۲۸۵ ۷ وفات ۱۲۶۸۴-۳۰ تاریخ و پیسی در مارچ ۴۸۰ ۱۹ در
نام ولدیت سکونت ہزاروی دار الفتوح قادیان کرم میر غلام رسول منار بزاری میر ولی خان صاحب نزا را مولوی غلام احمد هنا ارشد مولوی نور محمد صاحب دارالشکر ۹۷ خواجه محد اسمعیل صاحب صحابی خواجہ غلام رسول صاحب دارالفضل 44 101 حافظ عبد الرحمن من ای شاد یا صحابی میان احمد جان صاحب مسجد میاره ک علیکم نعمت اللہ صاحب حکیم الله : صاحب قلعی ساز دار الفتوح " لوگو ارا " دار الرحمت قاضی عبد الحمید صاحب قاضی عبد العزیز صاحب محمد عبادہ اللہ صاحب عبد الحمید صاحب دار الفتوح امیراحمد صفار سابق مون سید مبارک مہر دین صاحب I! کیفیت واپسی ، ارمئی سند وفات ۱۲۷۴ - ۱۵ وفات ۱۹۵ - ۱۲ 0 مسجده مبارک وفات ۹۶-۱-۳ ۱۰ چو ہدری بدر الدین صاحب عامل چوہدری عبد الغنی صاحب دار البرکات کر کو V وفات ۰۶.۲.۵ عبد الرشید صاحب نیاز چوہدری عبد الحکیم صاحب دارا برکات غربی " وفات ۱۳۸۸ ۱۰۵ 1-4 را سعید احمد صاحب فخر الدین صاحب نے مالا باری ماحن کئی صاحب عبد الکریم صاحب مسجد مبارک کرتے تاریخ وفات : وار العلوم وفات ۶۸۴ - ۲۳ |-A و شیخ عبد القدیر صاحب عبد الکریم صاحب دو مسلم ناصر آباد ر احمد حسین صاحب محمد حسين مصاحب ۱۰۹ محمد یوسف صاحب زیردی نظام الدین صاحب 11 زر گیا 11 " کوئی سراج الدین صاب ثالث چراغ دین صاحب وار السعت را وفات ۱۰۶۹۰-۳۰ ر محمد طفیل صاحب سابق پنواری کو بدری فیض محمد صاحب امر باله دارد و تحصیل کرد اسپری و ا ا ا ا ۳- ۲۸ ما رالی 110 محمد دین صاحب عمر دین صاحب شیر احمد خان صاحب خان میر صاحب کا بی حافظ حتی میدم ا با الله بخش صاحب صحابی محکم دین صاحب ہر چو وال ناصر آباد - قادیان " مربو وفات ۵۳۶۷۹ مسجده مبارک حضر بھائی شیر محمد صب صحابی میران بخش صاحب " ° وفات ۷۴ ۱۱ - ۲۴ حکیم عبد الرحیم صاحب میاں محمد جعفر صاحب حقہ مسجد فضل درتاریخ دستان ارجون ۱۹۶۱ ) "
نمبر شماره نام ٣٤٨ دادیت سکونت کیفیت IJA ١٣٠ ١٣ لو علي محترم صدر الدین صاحب صحافی رحیم بخش صاحب علاقه مسجد تفضل قادیان تاریخ وفات مهم دهم کرتے تھے بھاگ دین صاحب صحابی محمد بخش صاحب پا یا بھاگ صاحب امرتسری صحابی میابی جودا صاحب خدا بخش صاحب گاگر صاحب ابی محمد صاحب جمال الدین صاحب مسجد اقصی " حلقه مسجد مبارکار دار الفتوح شیخ احمد صاحب صحابی علام حکیم صاحب ان مسجد مبارک ۳ ماه سید عبد الرحیم صاحب افغان سید امیر صاحب پنهان ۱۲۴ در صوفی علی محمد صاحب میدی بخش صاحب ١٣ شمس الدین صاحب (مندر) شیرین خانصاحب میر عبدالسبحان صاحب صحابی رحمان میر صاحب ۱۳۷ ، منشی محمد صادق صاحب محمد طفیل صاحب " " " قادیان " " عبد العزیز گونگا صاحب شمس الدین صاحب خادم حقته مرزا بشیراحمد صاب محمد عبد الله ها شب حصر خان والفقار علی خانصاحب دیہاتی مبلغین قادیان N کو گھر ر ماری دار چون هنود ار فروری شاخه ر اکتوبر در ار اگست شاد در ۱۳ را سپریل برای خنده رفقتنا و عام حضرت مرقد الخير احمد صاحب و قاندان مسیح موعود مزم سید منظور احمد شاہ صاحب سید حسین شاہ صاحب ملک پور ضلع گجرات کا بشیر احمد و حسب ما لپوری علی بخش صاحب مایل پور ضلع ہوشیار پور ۱۳۲ ، نواب خان صاحب خوارج دین صاحب فتح پور ضلع گجرات ۱۳ اعطاء اللہ صاحب مولوکو شیر حمد صاحب شده را نجا ضلع سرگودها وفات ۰۶-۵-۱۷ د ۱۳۴ را محمد شریف صاحب نبی بخش صاحب ۱۳۵ ر فیض احمد صاحب حبیب اللہ صاحب رنڈی خیر پور میرسی سنده
If your ۱۳۷ ۱۳ نام ولدیت سکونت کیفیت محارم سلطان احمد صاحب اسید فضل احمد شاہ صاحب الحکم سٹریٹ قادیان 0 عبدالرحیم صاحب کشمیری عبد العزيز صاحب ان گام تخیل کو لگام تصمیم و کاریات را علی محمد صاحب کشمیری عبد الصمد صاحب کو لگام ضلع اسلام آبا دو ۱۳۹ به محمد رمضان صاحب چوغطہ غلام احمد صاحب ہموساں کشمیر ◊ " ۱۴۰ عبد الغنی صاحب چک نمبر با ۹ شمال سرگودها محمد دین صاحب ۱۴۱، محمد صادق صاحب شیخ رحیم بخش صاحب مزنگ لاہور بشیر احمد صاحب خادم میاں اللہ بخش صاحب محله دارالشکر قادیان اوفات ان ۲۶۷ ارنڈا صاحب دھرم کوٹ بگہ ضلع گورداسپور وفات ۶۸۱ ۱۲ - ۱۳ ۱۳۳ را فتح محمد صاحب اسلم ا ۱۴۴ را سید منظور احمد صاحب عامل سید فضل محمد شاہ صاحب تان اور ایک نا کیا اور وفات ۷۴۷۵ سی ا ا و و یا نگران ۱۳۵ بشیر احمد صاحب با نگردی محمد اسمعیل صاحب بدو عالمی سیالکوٹ وفات ۱۰۶۹۸ - ۲۲ بشیر احمد صاحب ڈھلو محمد حسین صاحب ڈھلوں ضلع سیالکوٹ ۱۴۷، قریشی محمد شفیع صاحب عابد میابی اللہ رکھا صاحب اکال گڑھ ضلع گوجرانوالہ اوقات ۵۰۰۶-۲۷ ۱۳۸ مولوی خورشید احمد صاحب پر بھا کر چوہدری نواب دین صاحب وی خورشید اما پ ک دانی موضع دهنی د یو ۱۳۳۲ کلپور 10.ر حکیم مراج دین صاحب حکیم محمد خبیش مصاحب شادیوال ضلع گجرات " 101 0 ر سراج الحق صاحب حضرت منشی عبد الحق صاحب کا تب تھوڑا کر نانہ ضلع گجرات وفات ۰۶-۵-۱۷ غلام نبی صاحب چوہدری فضل الدین صاحب چوہدری فضل الدین صاحب موضع مانگا ضلع سیالکوٹ وفات ۶۴-۷ ۱۵۲ محمد حمد هنا فقیر سائین صاحب میری بخش صاحب کالا قادر دیگر ۱۵۳ محمد یوسف صاحب رحیم بخشی صاحب ۱۵۴ محمد شریف صاحب محمد علی صاحب ر کے نگر کے ضلع سیالکوٹ ۱۵۵ عبد اللطیف صاحب عبد الرحمن صاحب 104 رستیال جموں ر محمد عبد الشاه اب کشمیری غلام محمد سا سمیت حافظ الله دین صاحب نواب دین صاحب 0 وفات ۱۲۶۸۳-۳۰
نمبر شمار نام ولدیت سکونت IDA 0 جند انوالہ یا افضل انو کپور مکرم مولوی عبدالحمید صاحب مومن الله و تا صاحب ۱۵۹ اسلم خان صاحب اسد اللہ خانصاحب فتح پور شہر (یوپی) 14.141 ره فیروز دین صاحب کریم اللہ صاحب ین پوره خورده ضلع گورداسپور.موسوم میر کے ضلع لائل پور جب مولوی محمد صادق صاحب ناقد اللہ رکھا صاحب احمد دین صاحب گنج ضلع سیالکوٹ ۱۶۲ عبد الحق صاحب فضل گھر کو ر ۱۶۳ اللہ بخش صاحب خدا بخش صاحب اور جمہ ضلع سرگودھا تاریخ وفات ۱۲۴ه خان محمد صاحب امام دین صاحب عالم گڑھ ضلع گجرات ۱۲۵ 144 14' " 0 خانقاه دوران ضلع شیخو پوره عبد الستار صاحب اللہ بخش صاحب رحیم بخش صاحب ور غلام محمد صاحب محمد عثمان علی صاحب بنگالی عباس علی صاحب عالم گڑھ ضلع گجرات حلق مسجد فضل o الجليد الرحمن صاحب خانی بنگالی حافظ عطاء الرحمن صاحب موضوع میرنگ لواڈاکخانه در او وفات ۲۷۲ ۳- ۱۴ را را نعمت اللہ خان صاحب عنایت الله خالصاحب مظہر علی صاحب بنگالی اکبر علی صاحب چانگا ضلع جانی گام گواہی اور نو تر اور مشرقی بنگالی 11 مولوی محمد عمر علی صاحب بنگالی بشیر الدین صاحب گھاٹور ضلع پڑا " عبد السلام مرا اب بنگالی قالو حاجی ۱۷۲ عیدا 14 140 164 144 " پر انگلی ضلع میمن سنگھ " ر عبد المطلب صاحب بنگالی منشی دائم اللہ صاحب نار گھاٹ ضلع پڑا مستقل خدام مکرم کیپٹن شیر ولی صاحب حیات خان صاحب یا نادانی کی ای میل کیوان ر صوبیدار عبد الغفور صاحب صوبیدار خو شحال خان صاحب ولی تحمیل صوابی ضلع مردان را صو بیدار پرکت علی صاحب مد اسماعیل صاحب ادا کیا اور ایل اداری مالی برای بردار را و هم به خان صاحب را جمه علا محمد صاحب ذیلدار شو ای دو تین بیداد خان ضلع جیلم } 0 مدرس مدرسه احتمادیہ ° سه : دیہاتی مبلغ بنسی ضلع مظفر نگر دیوی ایک تالاب میں تیرنے کی مشق کرتے ہوئے ڈوب کر وفات پا گئے تھے.دا لحضور در تملک اسمہ منی
نمبر شمار 14A ولدیت سکونت مکرم صو بیدا ر اللہ یار صاحب فتح محمد صاحب کانادا را درپور ضلع گردی 19 جمعدار محمد عبد الله له بحب چوہدری نور محمد صاحب نورمحمد ۱۸۰ جمعد اله عبد الحمید صاحب احمد دین صاحب یک نبرده و تحصیل و مهران مقای ناروال ضلع سیالکوٹ کیفیت JAI جمعدار مبشر احمد صاحب ماسٹر حسین خان صاحب دار الفضل قادیان ره جمعدار ملک محمد رفیق صاحب چوہدری علی بخش صاحب بھڑ تا نوالہ ضلع سیالکوٹ 0 ۱۳ مولوی عبد القادر صاب دانش حضر ڈاکٹرعبدالرحیم صاحب دیوانی دارالفضل قادیان حلال کی کوڑی بہشتی مقبره قادیا عالی ۱۳ محمود احمد صاحب عارف حکیم شیر حمد صاحب نوں کو اتنی شدیدی ای وای ای ای را در این احمدیہ قادریان ۱۸۵ را نزنید احمد صاحب منشی عبد الخالق صاحب دار البرکات شرقی قادیان 0 ۱۸۶ جلال الدین صاحب سیایی شهاب الدین صاحب یکیوان تحصیل و ضلع گورداسپور 0 ر محمد و اعصاب اور خفر اصلا چوہدری جھنڈیاں صاحب کھو والی تصیل بستر سیالکوٹ میران بخش صاحب محمد شریف صاحب شیخ پور ضلع گجرات | Ab IAA ر ا ا را غلام قادر صاحب عبد المنقار صاحب شا دیوال ۱۹۰ بشیر احمد صاحب نظام الدین صاحب ڈیر یا نوالہ ضلع سیالکوٹ ۱۹۱ محمد یوسف صاحب محمد اسمعیل صاحب نصیرہ ضلع گجرات.0 0 ۱۹۲ محمد عزیز صاحب منصب خانصاحب نورنگ گجرات وفات ۱۲۷۳ - ۱۲ 147 ر بہادر خان صاحب میاں شادیخان صاحب اور حمد مضلع سرگودها وفات ۱۰۶۸۲-۱۵ ۱۹۴ " محمد یوسف صاحب یعقوب خانصاحب د ابا الفضل قادیانی ، 140 خورشید احمد صاحب ضیاء شاء اللہ صاحب گوہد پور ضلع سیالکوٹ ۱۹۹ / احمد خان صاحب بانه خان صاحب نورنگ ضلع گجرات.۱۹۷ محمد موسوی صاحب میان محمد عبد الله صاحب سید التحصیل کا ضلع یونی ۱۹۸ ره مرز امحمد اسحاق صاحب میاں محمد دین صاحب جو چکی تھیں ضلع گوجرانوالا وقفات ۲۶۰۱-۲۱ ا فضل الہی صاحب گجراتی میاں عبداللہ صاحب کاریاں ضلع گجرات تاریخ در ابا جولائی ۱۹۹)
نمبر شمار نام ولدیت سکونت کیفیت مکرم نواب دین صاحب میاں خوارج دین صاحب وارد الرحمت قادیان ۲۰۹ در غلام احمد صاحب صوفی سردار محمد صاحب ۲۰۳ سٹھیالی ضلع گورداسپور در منظور احمد صاحب چوہدری نور محمد صاحب چیمہ دانہ زید کا ر سیالکوٹ ۲۰۳، شریف احمد صاحب ڈوگر سردار خانصاحب ۲۰۴ محمد فاضل صاحب شاہ محمد صاحب چھینکے کی کو چک سکندر گجرات ۲۰۵ چوہدری سکندر خان صاحب لال معانی صاحب کھاریاں را وا " ر عطاء اللہ صاحب میابی سلطان بخش صاحب 0 0 وفات ۱۹۹۶۹۸ ° را وفات ۶۰۰ الی ۱۰ کار کہا جہلم ۲۰۷ در مسیح الدین صاحب میران بخش صاحب کا شمیری سوک کلان بگجرات ۳۰۰ از سلطان احمد صاحب محمد بخشی صاحب کھاریاں 0 ۲۰۹، ضیاء الحق صاحب ملک بہاء الحق صاحب دو امیال ، جہلم.۳۱۰ " مسیح اللہ صاحب عبد الغفور صاحب ۲۱۱ محمد خان صاحب کالے خان صاحب Pir کھیوڑہ گرام چک سکندر را بگجرات الدار محمد اشرف صاحب رحمت خاں صاحب چاکانوالی ر مظفر احمد صاحب عبدالمجید صاحب ۲۱۴۴ " امیر علی صاحب ۲۱۵ر بشیر احمد صاحب جہار " گو کھو دال چک ۲۰۶ ۵ کی پر عبد المجید صاحب رو اور انکا چوراسیون فا ضلع جہمی حاجی خدا بخش صاحب میانی خانمانوالی ضلع سیالکوٹ ۲۱۶ / مرزا محمد دین صاحب هر بها علام محمد صاحب جو کھانوالی ضلع گجرات ۲۱۷ PIA ا فضل احمد صاحب منشی احمد دین صاحب د فتح محمد صائب قطب الدین صاحب ۲۱۹ حسن محمد صاحب ۲۲۰ Pri " N شیخ پور " نور الدین صاحب دار الرحمت قادیان عبد القیوم صاحب احمد دینی صاحب ر غلام محمد صاحب رحیم بخش صاحب اگر وال ضلع گجرات عالم گڑھ را D 0
۳۸۳ نمبر شمارہ نام - ولدیت سکونت مکرم صلاح الدین صاحب میاں فضل حق صاحب صدر گوگیرہ ضلع ساہی دل ۲۲۳ " عبد السلام صاحب " ۲۳۴ کیفیت چوہدری عبد الحکیم صاحب در گانوالی را سیالکوٹ وفات ۰۶-۹-۱۸ عبد الغفور صاحب مولوی رحمت اللہ صاحب کوٹ امر دین را ساہی داله ۲۲۵ نذیر احمد صاحب ار خدابخش صاحب محلہ دھوبی گھاٹ لائل پور واپسی ار می ۱۹۵۰ ء ۲۲۶ - محمد خان صاحب راجه عالی صاحب فتح پور ضلع گجرات ۲۲۰ - عبد الکریم صاحب موی بخش صاحب رعیہ امرت سر وفات ۹۶-۱۱-۹ خانگڑھ، گجرات ۲۲۸ ، بشیر احمد صاحب ۲۲۹ در محمد اسمعیل صاحب میابی جھنڈے نالی صاحب حسن پورہ گورداسپور واپسی ارمٹی ۱۹۵۰ء شادیوال " گجرات گردین صاحب ۲۳۰ محمد شفیع صاحب ۲۳۱ از شاه محمد صاحب صاحبداد صاحب دید تا ما جوه ۲۳۳ در ولی محمد صاحب شاہ محمد صا حب شادیوال ۲۳۳ ۱ محمد بشیر صاحب ✓ وفات ۲۶۹۴.۲۷ ملک محمد ابراہیم صاحب حله که نیم پودر لالہ مونگیر وفات ۲۶۱۴۹۴ ۲۳۴ ظہور احمد صاحب ناقر محمد مراد صاحيه بھا کا بھی میاں ضلع گوجرانوالہ ہ واپسی ار می ۶۱۹۵۰ ۲۳۵ را مرزا بشیر احمد صاحب مرزا بہادر بیگ صاحب نودالی سویل نورد گرات شیخ پور وفات ۶۰۴-۲۸ ۲۳۶ ظہور احمد صاحب فتح الدين صاحب ۲۳۷ بشیر احمد صاحب حافظ آبادی میں محمد داد می تونین پدی بیایی حافظ آباد در گوجرانواله وفات ۱۶۰۴-۱۳ میران بخش صاحب مولا زال صاحب ۳۳۹ " محمد رمضان صاحب عمر بحبس صاحب سردہ کئے 0 نسو والی سو ہی خور ضلع گجرات " ۲۳۰ عبدالحمید صاحب اپنی بخش صاحب ابوالخیر ضلع شیخو پوره ۲۴۱ // صدیق احمد صاحب D اذر که با بخان صاحب محمد صدیق صاحب جو کہ ضلع سرگودھا کہ واپسی اورسٹی ۱۹۵۰ء چراغ دین صاحب کو کھو وال ۲ ضلع کی شیپور ۲۳۳ نذیر احمد صاحب حجه چک 4 شمالی احمد دین صاحب 0 "
نمبر شمار نام دادبیت سکونت کیفیت ۲۴۴ مکرم محمود احمد صاحب علام محمد صاحب ک میره و این نوع سردرها ۲۲۵ حوالدار محد وارد فضا گور باید مہر دین صاحب فیروزوالہ ضلع گوجرانواده ۲۲۶ مرزا غالب بیگ صاحب مرزا محمد اکرم صاحب توپ خانه بازارا اور تھائی ، ۲۲۷ ، عطاء اللہ صاحب بگراتی الله تا صاحب جو ہر انوالہ.ضلع جگرات ۲۳۸ که غلام رسول صاحب چوہدری شاہ محمد صاحب دوست پور ضلع شیخو پوره ۲۴۹، چوہدری عطاء اللہ صاحب عبد الرحمن صاحب میان جا نانوالی ضلع سیالکوٹ ۲۵۰ " ملک نذیر احمد صاحب ملک مشتاق احمد صاحب بیرونی خدام.۳۵۱ چودری سعید احمد صاحب چوہدری فیض احمد صاحب پورہ مہاران ضلع سیالکوٹ حلال نائب ناظر امور عام قاریان ۲۵۲ عبد الغني صاحب ۲۵۳، محمد صادق صاحب " محمد حیات صاحب کھاریاں ضلع گجرات ابراہیم صاحب ا ا ا ا را ارایه وه ها و انونیم ۲۵ ، بشارت احمد صاحب منشی سلطان عالم صاحب گوٹریالہ ضلع گجرات ۲۵۵ میر رفیع احمد صاحب ڈاکٹر برکت اللہ صاحب نئی آبادی بیرون شاه دور گیٹ گرت ۲۵۶ مرز امحمد صادق صاحب مرزا امام الدین صاحب مرزا احمد صادق این کیتی.کوسٹ احمد ۲۵۷ ملک سلطان احمد صاحب ملک خانی محمد صاحب چکوال سب انس یونتر ضلع اٹک شیخ عبد الحق صاحب شیخ میران بخش صاحب حمله کریم پوره لار موسی ملی گرات ۲۵۹ میاں غلام رسول صاحب میاں نبی عیش صاحب کمال ڈیرہ ضلع نواب شاہ سندھ ۲۲۰ چوہدری روشن الدین صاحب چو ہدری الله د تا صاحب منگولے ، سیالکوٹ ۳۶۱ ، غلام محمد صاحب ۱۳۹۳ اولا یا عبید اللہ خان صاحب محمد شفیع صاحب فضل الدین صاحب چھلک بہاول پور چیک پایایی پیر محمد صاحب محمد اسلم صاحب " ۲۰ 0 Q 0 o 0 وقات ۱۶۹۱.۲۱
۳۸۵ نمبر شمار نام ۲۶۳ ۲۷۵ ولدیت سکونت مکرم وڈیرا عبدالرحمن صاحب ویرا رمضان صاحب کاری ی ی ی ی ی ی ی ی ی ی ی ایرانی چوہدری غلام محمد صاحب چوہدری فتح علی صاحب چک سکندر - ضلع گجرات محمد حسین صاحب ر غلام حسین صاحب کو ر ستیان ضلع شیخوپورہ میاں محمد اسمعیل صاحب میاں علم دین صاحب چک سکندر ضلع گجرات کرکی ر چوہدری محمد علی صاحب چوہدری اکبر علی صاحب " کوگو ۳۶۹ ده ماست محمد ابراہیم صاحب ٹیلر ماسٹر میں فضل کریم صاحب اریایی با ایده های یاری یا پودر کہ ماڑی ° کیفیت وفات ۲۵۹۰۳ یونس احمد صاحب استم اما سر محمد شفیع صاحب اسم سابق بالمقابل جو بی سنیما کر اچی تاریخ وفات ۱۵ جون ۱۹۲۸ء امیر المجاہدین ملکانه ۲۰۱ - چوہدری بشیر احمد صاحب چوہدری حیات محمد صاحب بیڈ یا ڈاکی چوپر منڈا سیالوی ۲۷۲ في محمد صاحب عبد الله مالا باری سم کی زین العابدین صاحب عبد القادر صاحب تائیٹ نہیں مالا یار ۲۷۴ - خان عبد الرحمن صاحب خان عبداللہ خان صاحب طوعی روڈ کوسٹر YSA بوگا در میان عظام رسولی صاحب میانی، احمد الدین صاحب کوٹ شاہ عالم ضلع گوجرانوالہ گمرکی چوہدری نبی احمد صاحب چوہدری غلام محمد صاحب میرخان های سیاست خیر اور میرین علم دین صاحب امام بخش صاحب ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا و استانداری ره غلام رسول صاحب سردار خان صاحب م چه ند مراد دریا آباد بود ۲۷۹ و نیز با سرعبدالحق صاحب ناصر ماشا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ر ادا کیا گیا ہے کو جان ای ۲۸۰ PAP عبد الرحیم صاحب الہی بخش صاحب کونڈی ریاست خیر اور رند.D ◉ 0 0 ° در میان سلطانی احمد صاحب میاں محمد دین صاحب پنڈی چیری ضلع شیخو پوره ۵ واپسی ار سی کا ۱۹ او کولا کریم محمد امین صاحب ر مبارک احمد صاحب کرشن 0 11 چوہدری شاہ محمد صاحب چوہدری فتح الدین صاحب چک عنده ریاست بہاولپور کریم منظور احمد صاحب ه غلام قادر صاحب ریاست را
¦ نمهر شماره نام ولدیت سکونت ۲۸۵ مکرم چوہدری محمد احمد صاحب چوہدری فضل احمد صاحب کرالی ضلع گجرات ۲۷ در خودای ت ر مولوی محد اور صاحب شب مولوی غلام محی الدین صاحب جہلم شہر ۲۸ ، چوہدری نذیر احمد صاحب چه داری خدا بخش صاحب گوٹو دین مہر شاہ دیر لکھا تحقین میب ضلع خیر اور ندیم ما ملک بشیر احمد صاحب ملک عبد الکریم صاحب تر گڑی ضلع گوزیریانوالہ ا که ریم بخش صاحب داند محمد عبد اللہ صاحب محلہ اسلام آبادن روڈ کوئٹ ۲۹۰ ، چوہدری منور علی صاحب چوہدری شیر علی صاحب سورج گرینی روڈ کوئنٹ ۲۹۱ امیال احمد دین صاحب میان علم الدین صاحب کو ٹلی پٹھاناں ضلع گجرات ۲۹۲ راهستری روشن الدین صاحب مستری حسن دین صاحب چانگوریاں روسیا لکوٹ ۲۹۳ ، ملک غلام محمد صاحب ملک بڑھے خان صاحب تو کڑی ضلع گوجرانوالہ ۱۲۹۴ ۲۸۳ در میابی اللد و تنها صاحب میانی اروڑ ا صاحب سیالکوٹ شہر رکھنا مستری محمد اسمعیل صاحب محلہ راجگڑھوں پور ۲۹۵ با همستری محمد احمد رمضان ۲۹۶ ، محمد خان صاحب احمد خان صاحب ° 0 0 " ۲۹۷، گینه خانصاحب علی بخش صاحب o ° در t ۲۹۸ را رائے سردار علی صاحب رائے عظام قادر صاحب شہر کا چک ۲۷ ضلع لائیپور ۲۹۹ ماسٹر عبد الحی صاحب ٹیلر ماسٹر بابو عطا محمد صاحب دنگر ضلع گجرات ا ۳۰۰ را چوہدری نبی احمد صاحب چوہدری حاکم دین صاحب لینگے ۳۰۱ را میاں نذیر محمد صاحب " میابی الله و نه صاحب پریم کوٹ ضلع گوجرانوالہ ن ۳۰ ر و مقدار محمد عبد الر صاحب میاں محمد ابراہیم صاحب فتح پور " بگجرات در تاریخ وفا نه را سیل ۱۹۶۳) کو کھو ۲۰۱۳ رو میاد جلال الدین صاحب میاں تاج الدین صاحب مونگ ۳۰۴ را مستری منظور احمد صاحب مستری نظام الدین صاحب چانگریایی در سیالکوٹ ۳۰۵ مه عبد الکریم صاحب چوڑی بنی خیش صاحب تر گڑی ضلع گوجرانوالہ °
مه شمار نام ولدیت سکونت تھر مار کرے مکرم چوہدری عطاء الته صاحب چویدری محمد بخش صاحب چیر دیا ان مصر کا دایان K PA " چوہدری نذیر احمد صاحب رستم علی صاحب محمود آبادانی این شکار تهران ضلع گورداسپوری 0 چک لاگو کھواں سکیور غلام رسول صاحب محمد الدین صاحب لبشیر احمد صاحب کلام احمد صاحب گھٹیالیانی ضلع سیالکوٹ وفات ۲۰۲ ۱۲ - ۲۳ خدا بخش صاحب محمد علی صاحب حب محمود آباد اسٹیٹ سندھہ شریف احمدرضا میانی غلام محمد صاحب کوٹ ریست من اضلع شیخو یورد را غلام حسین صاحب ملک فتح الدین صاحب شما با تحصیل تونین اضلع نا تھا ملک الدین شیمی و ہوا o 0 رو شیخ سراجدین صاحب شیخ چراغدین صاحب چک اسم ضلع شیخوپورہ واپسی ارسی - 140 و کی کی ۳۱۴ چوہدری بشیر احمد صاحب چوہدری غلام محمد صاحب محمود آباد اسٹیٹ سندھ دوفات ربوہ میں ہوئی ، ۳۱۵ ، ، محمد شریف صاحب احسن محمد صاحب کوٹ رحمت خالی ضلع شیخو پور ۳۱۷ کہ چوہدری مبارک علی صاحب ، بانے خان صاحب طالب پور نید و یا ضلع گورد الاور روی این اوران کی قابل رشکان ایران در غایت درجه درویشان استیل کا زمانہ تھا جس میں ایسے ایسے خطرناک اوقات بھی آئے جبکہ ائی سب کا موت کے گھاٹ اتار دیا جانا یقینی نظرآتا تھا مگر جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے متعدد بار فرمایا ہے.یہی ابتلا در اصل فتوحات وبرکات کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں.چنانچہ حضور فرماتے ہیں :.ایسے ایسے انبیاء بھی آجاتے ہیں جو کمرتوڑ دیتے ہیں مگر مستقل مزاج سعید الفطرت ان ابلاک اور مشکلات میں بھی اپنے رب کی عنایتوں کی خوشبو سونگھتا ہے اور فراست کی نظر سے دیکھتا ہے کہ اس کے بعد نصرت آتی ہے ان ابتلاؤں کے آنے میں ایک سر یہ بھی ہوتا ہے کہ دُعا کے لئے جوش بڑھتا ہے یہ لے مه : الفوظات حضرت مسیح موعود جلدیم ۳۳-۳۳۵ ناشهر الشركة الاسلامیه دراوه :
۳۸۸ جو سچامن ہے، ابتدامیں اسکی ایمان کی حلاوت اور لذت اور بھی بڑھ جاتی ہے.اللہ تعالے کی قدرتوں اور اس کے عجائبات پر اس کا ایمان بڑھنا ہے اور وہ پہلے سے بہت زیادہ خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کہ تا اور دعاؤں سے فتحیاب اجابت چاہتا ہے.لے انہی ابتلاؤں کے نتیجہ میں انسان میں وہ زبر دست روحانی اور ذہنی انقلاب بالا آخر یہ پا ہو جاتا ہے جو اُ سے ابدال کے اُس زمرہ میں شامل کر دیتا ہے جس کی نسبت حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں :- " ابدال وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے اندر پاک تبدیلی کرتے ہیں اور اس تبدیلی کی وجہ سے ائی کے قلب گناہ کی تاریکی اور رنگ سے صاف ہو جاتے ہیں.شیطان کی حکومت کا استیصال ہو کہ اللہ تعالٰی کا عرش اُن کے دل پر ہوتا ہے پھر وہ روح القدس سے قوت پاتے اور خدا تعالے سے فیض پاتے ہیں.تم لوگوں کو بشارت دیتا ہوں کہ تم میں سے جو اپنے اندر تبدیلی کرے گا وہ ابدال ہے.انسان اگر خدا کی طرف قدم اٹھائے تو منہ تعالی کا فضل دوڑ کر اسی دستگیری کرتا ہے.کے خدا تعالی کی ابتداؤں سے متعلق اس قدیم سنت کے مطابق درویشوں پر آنے والے مصائب دا اکلام کے یہ ایام بھی اپنے دامن میں آسمانی برکتوں اور رحمتوں کے نز دل کا موجب بن گئے چنانچہ ادھر ۱۶ رماہ نبوت / نومبر کا آخری کند ائے اُن کی آنکھوں سے اوجھیل ہوا.ادھر ان کے قلوب و اذان کی کثافی و علنی شروع ہوگئیں اور رفتہ رفتہ ان میں ایسی پاک تبدیلی کے آثار پیدا ہو گئے کہ گویا حضرت مسیح موجود کے مقدس زمانہ کی قادیان ایک بار پھرپلٹ آئی.وہی ار رحمانی جذب دو تا ثیر اور ذوق و شوق ، نہی دعا دل اور عبادتوں کا شغف ، وہی قرآن مجید کے مطالعہ کا التزام اور و ہی اخوت اسلامی کے روح پر در نظارے جن کو دیکھنے کیلئے انھیں نیں گئی تھیں دوبارہ دکھائی دینے لگے.اجزاده مناظر احمد صاحب ایک قابل قدرنوٹ اپنا نر ا ر ا مر ا ا ا ا ا ا ص نے انہیں دنوں نچہ صاحبزادہ مرزا اظفر احمد صاحب صاحبزادہ قادیان سے لکھا :.t دو جب یہ آخری مرحلہ طے ہو گی تو اللہ تعالے نے پھر ایک سکون بخشا اور سب کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ اچھا اب جو مقصد ہمارے رہنے کا ہے وہ پورا ہو.اور یہ مبالغہ نہ ہوگا اگر یہ کہا جائے رہنے والوں میں ایک معجزانہ تبدیلی پیدا ہوگئی.اور یا ایک ہر ایک اس بات میں کوشاں ہو گیا کہ ملفوظات حضرت مسیح موعود جلد ۶ ص ۲۵۲ جدا من -: i
حضرت امیر المومنین ایدہ کے سب ارشادات پر پورا عمل کیا عباد سے اور اس کے لئے نہ صرف اجتماعی طور پر کوشش کی گئی بلکہ ہر ایک شخص فرداً فرد اس کوشش میں لگ گیا تا کہ اسکی بھائی کی شستی سے احمدیت کو یا جماعت کو نقصان نہ ہو.اور وہ لوگ ہو کہ پہلے فرائض پر ہی اکتفا کرتے تھے بہت شوق سے نو افضل پر زور دینے لگے اور جو کہ پہلے ہی نو انسل کے عادی تھے انہوں نے مزید عبادات پر زور دیا.مساجد میں چھ وقت کی نمانہ پا نچ فرض نمازیں اور ایک تہجد لوگ اس شوق اور ذوق سے ادا کر تے ہیں اور اس طرح سنوار سنوار کہ اپنی عبادت کرتے ہیں کہ خیال ہوتا ہے کہ بچپن سے ہی اس کے عادی ہیں.اور ر نہ صرف مسجدوں میں بلکہ با ہر بھی لوگ زیادہ وقت خاموشی اور ذکر الہی میں گزار تے ہیں.پیرا در جمعرات کے دن تو ہر شخص روزہ رکھتا ہی ہے.الا ماشاء اللہ جو طاقت رکھتے ہیں وہ ہر روز روزہ رکھتے ہیں.اور جہاری بڑی بڑی تقریروں کے بعد کسی کو کسی وظیفہ یا خاص عبادت کے لئے آمادہ نہ کیا جاسکتا تھا یہاں اب کسی کے کان میں کسی خاص طرز کے وظیفے کی بھنک پڑ جائے تو اُسے شروع کر دیتے ہیں.بہشتی مقبرہ بلا کر لوگ باقاعدگی سے دعا کرتے ہیں.اور ہر ایک کی دعا میں درہی المخارج اور زاری ہوتی ہے.جس کی حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالے نے یہاں کے رہنے والوں سے اُمید کی تھی.حضرت مسیح موعود علی الصلاة والسلام کی کتاب کا مطالع ان کا ایک شغف ہے.زیادہ وقت مساجد میں گزارنا اور الہا اور اسکے رسول کی باتیں کرنا.لغویات سے پر ہیز ان کی ایک عادت بن گئی ہے.لڑائی جھگڑے سے اور ایسی جگہوں سے جہاں فار یا فتنہ کا امکان ہو بہت اجتناب کیا جاتا ہے.القصہ یہ خدا کا فضل ہے کہ اس نے اس چھوڈا کی جماعت کو اتنی جلدی اپنے اندرای عظیم الشان تبدیلی پیدا کرنے کی توفیق دی.صحت کا بھی خیال ہے.عصر کی نماز کے بعدوانی بابای ما کی اور بعض دوسری کھیلیں کھیلی جاتی ہیں.صبیح ورزش اور پی ڈی بھی ہوتی ہے.اسکے علاوہ جماعتی کام مثلا کمرہ یا دیواند وغیرہ بنانے کے لئے مٹی اور اینٹوں وغیرہ کے لانے کا کام بڑی خوشی سے کیا جاتا ہے.ابھی پیر دارد کے لئے ایک کمرہ بہشتی مقبرہ میں بنایا گیا ہے.اور دو اور بنائے جار ہے ہیں.اس کے علاوہ بہشتی مقبرہ کے ارد گرد دیوار بنانے کا بھی ارادہ ہے.انشاء الله....سب سے آخر یہ بیان کر دنیا ضروری ہے کہ یہاں میں قدر لوگ ٹھہرے ہیں کسی کے دل میں بھی ذرا بھی انقباضی نہیں کہ ہم کیوں میرے بلکہ دل سے خوش ہیں اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ خدا نے یہ فضل کیا کہ ہمیں یہاں ٹہرنی کا موقعہ ملا.
۳۹۰ اور اس نیکی کے کہنے کی توفیق دی.کہ معلوم نہیں پھرکسی کو منی بھی ہے کہ نہیں اور اگر ملی بھی ہے تو کیک اور سب سے زیادہ تو یہ کہ اب بعد میں جو آدیں گے.وہ پہلے ٹھہرنے والے نہ کہلا سکیں گئے.ہمارے شیر ولی خان صاحب خصوصا بار بار کہتے ہیں.کہ خدا کا کتنا فضل ہذا کردہ ٹھہر گئے.چونکہ انہوں نے کام پچھلے دنوں بہت اچھا کیا تھا اسے ان کو بھجوانے کا خیال تھا.مگر جیساکہ اوپر کھا گیا ہے.یہ جذبہ ہر ایک کیا ہے.وہ چونکہ حضرت ام المومنین کے مکان کے ایک حصہ میں رہتے ہیں.اسی یہی کہتے رہتے ہیں کہ دو شیر ولی گر تو یہاں نہ رہتا توحضر مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے گھر میں رہنے کی اور دعائیں کرنے کی کہاں توفیق ملتی تھی.وقت تو گر جا دیگا مگر یہ خدا تعالی کے انعامات اور یہ باتیں دل سے کبھی بھول نہیں سکتیں کہ الہ تھانے نے ہماری آزمائشوں کو بھی ہمارا انعام بنا دیا کہ نے ت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشہور ممتاز اور بلند یایہ مانی مربای بالای صادقادیانی کی چشم دی شہادت حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی نے جو اگلے ال ۳۱ ماه ہجرت امی یہ ہی کو مستقل طور پر قادیان تشریف لے گئے ، اس ماہ ہجرت اسمی یہ ہی کو حق مسلح بود کی خدمت میں ایک مفصل مکتوبہ تحریہ کیا جس میں درویشان قادیانی کے حالات کو الف پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے قادیان پہنچے میں روز ہوئے ہیں.پہلا ہفتہ تقریبا آٹھ ماہی جدائی کی حسرت و رمان کی توانی کی کوشش میں گہ رگیا.اور ماحول کی طرف نظر امانے کی بھی فرصت نہ ملی.دوسرے ہفتہ کچھ واس درست ہوئے تو دیکھتا اور خسووس کرتا ہوں کہ ایک نئی زمین اور سنہ آسمان کے اتارنمایاں ہیں.ایک تغیر ہے عظیم ، اور ایک تبدیلی ہے پاک ہو یہاں کے ہر درویش میں نظر آتی ہے.چہرے ان کے چمکتے.آنکھیں ان کی روشن.حوصلے اُن کے بلند پائے.نماز دی میں حاضری سوفیصدی - نمازیں نہ صرف رسمی بلکہ خشوع خضوع سے پر دیکھنے میں آئیں مرقت دسوز یک سوئی دانتہال محسوس ہوا.مسجد مبارک دیکھی تو پر مسجد اقصی دیکھی تو باند نق.مقبرہ بہشتی کی نئی مسجد میں کی چھت آسمان اور فرش زمین ہے.وہاں گیا تو ذاکرین وعابدین سے بھر پور پائی.ناصر آباد کی مسجد ہے تو ضد العائنے کے فضل سے آباد ہے اذان و اقامت برابر پنجوقته جاری....مساجد کی یہ آبادی در رواق دیکھ کر اپنی بشارت کی یاد سے دل سرور سے ه - الفضل اصلح جنوری ا م م :
۳۹۱ بھر گیا.اور امید کی روشنی دکھائی دیتی ہے....نہ صرف یہی کہ فرائض کی پابندی ہے.بلکہ نوا نسل میں اللہ تعالئے کے فضل سے یہی کثرت.ہجوم اور انہماک پایا.مقامات مقدس کے کون کونہ کے علم پانے کا موٹان نوجوانوں کو بھی دیکھا.اور پھر عامل بھی یعنی کہ حالت یہ ہے.کہ اس تین ہفتہ کے عرصہ میں میں نے بارہا کوشش کی کہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ و السلام کے بیت الدعامیں کوئی لمحہ تنہائی کا مجھے بھی مل سکے.مگر ابھی تک یہ آمد پوری نہیں ہوئی کہ جب بھی گیا نہ صرف یہ کہ دو خالی نہ تھا بلکہ تین تین چار چار نو جوانوں کو وہاں کھڑے اور رکوع و سجود میںلڑتے اور گڑگڑاتے پایا.اسی پریس نہیں بلکہ متصلہ دالان اور بیت الفکر تک کو اکثر بھر پورا در محور پایا.در تہجد کی نماز چاروں مساجد میں برابر باقاعدگی اور شرائط کے ساتھہ یا جماعت ادا ہوتی ہے.اور بعض درویش پنی جگہ پر بعض اپنی ڈیوٹی کے مقام پر اداکرتے ہیں.کھڑے کھڑے چلتے پھرتے بھی ان کی زبانیں ذکر ہی سے زیم اور تہ ہوتی دیکھی اور سنی جاتی ہیں.اور میں یہ عرض کرنے کی جرات کر سکتا ہوں.کہ نمازوں میں حاضری الہ تعالے کے فضل سے سو فیصدی ہے.درس تدریسی اور علیم وتعلم کاسلسلہ دیکھکر دل باغ باغ ہوجاتا ہے.ہر سجد میں ہر زمانہ کے بعد کوئی نہ کوئی درس ضرور ہوتا ہے.اور اس طرح قرآن، حدیث اور سلسلہ کے لٹریچر کی تردیجی کا ایک ایسا سلسلہ بھاری ہے جس کی بنیاد مسیح اور نیک نیت پر شوق اور لذت کے ساتھ اُٹھائی کھارہی ہے.نام علوم کے درس ان کے علاوہ ہیں.اور روزانہ وقار عمل تعمیر ومرمت ، صفائی واپائی مکانات ، مساجد اور مقابر راستے اور کو چھا بلکہ نالیاں تک.اس کے علاوہ خدمت تعلق بڑی بشاشت اور خندہ پیشانی سے کی جاتی ہے جس میں ادنیٰ سے ادنی کام کو کرنے میں تکلیف، ہتک یا کبیدگی کی بجائے بشانت و لذت محسوس کی جاتی ہے.گیہوں کی بوریاں آٹے کے بھاری پتیلے اور سامان کے بھاری صندوق ،ایکس اور گھٹے یہ سفید پوش بہ خوشی وضع اور شکیلے نوجوان حبس بے تکافی سے ادھر سے اُدھر گلی کوچوں میں جہاں اپنے اور پرائے مرد اور عورت اور بچے ان کو دیکھتے ہیں لئے پھرتے ہیں.قابل تحسین وصد آفرین ہے اور ان چیزوں کا میرے دل پر اتنا گہرا اثر ہے جو بیان سے بھی باہر ہے.یہ انقلاب ، تغیر اور پاک تبدیلی دیکھکر میرے آقا بے ساختہ زبان پر جا میں ہوا.پہر بلا کہیں قوم را حق داده اند زیر ان گنتی کرم نہ وہ آنکھ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.خدمت خلق کے سلسلہ میں ہمارا ہسپتال جو خدمات بجالا لہ پا ہے وہ بھی اپنی مثال آپ سے
بل تمیز و تفریق مذہب و ملت عورت مرد اور بچے بیشمار روزانہ اس کی فائدہ اٹھاتے ہیں.اور عزیز مکرم ڈاکٹر بشیر احمد صاحب جو ان دنوں انچارج اور چند نوجوان ان کی زیر قیادت ان خدمات پر مامور ہیں.نہایت توجہ ، ہمدردی اور محبوت از فی سے مفوضہ خدمات بجالا رہے ہیں.جسکے نتیجہ میں رجوع خلق میں روز افزوں تم تی داضافہ نظر آتا ہے.اور اب ڈاکٹر عطر الدین صاحب کے آجانے پر ایک ٹرنری ہسپتال بھی جاری کر دیا گیا ہے.قیر بہشتی کی ہر قبر جبکہ ہر قبر کے ایک ایک کو نہ اور گوشہ میں روشوں اور نالیوں اور پودوں اور درختوں کی جھہ خدمت اس محصور فخلق خدا نے کر دکھائی ہے....قابل رشک ہے.جس کو دیکھکر میں ششدر ہو گیا.اور مرحبا اور صد آفرین کی صدا از خود دل کی گہرائیوں سے بلند ہونے لگی.مقبرہ کے گر دچار دیواری میں محنت اور جانفشانی کے ان ہو نہاروں نے تیار کی وہ بے مثال ہے.جنوبی جانب جنوب مشرقی اور جنوب مغربی دونوں کونوں میں دو کوارٹر دو دو منزله بغرض رہائش محافظین بنا کہ نہایت ہوشیاری و عقلمندی اور محبت کا مظاہرہ کیا ہے.کو اردوں میں پانچ پانچ نوجوان دن رات رہتے ہیں.اسی طرح مزار سید نا حضرت اقدس علی الصلاة و السلام کی چار دیواری کے شمال مشرقی کو نہ پر بھی ایک دو منزلہ کوارٹر بنا یا گیا ہے.اور ایک کو ٹھڑی جو پہلے سے جنوب مغربی کون چھانہ ویواری کے باہر بھی اس کو بھی بغرض حفاظت دو منزلہ بنا دیا گیا ہے اور آج کل تیس نوجوان صرف مقبرہ بہشتی کی حفاظت پر مامور ہیں.جو وقار عمل کے وقت دوسرے در ولیوں کے ساتھ ال کہ بھی کام کرتے ہیں.الغرض.....یہ تو ہے ایک مختصر سا خاکہ - سب کچھ کھول بھی...اگر حلال جائے.اس کی رضا حاصل ہو جائے اور حضور کے زیر قیادت و ہدایت پر را این ہمارے لئے آسان ہوتی جائیں اور مبرد استقلال سے تحصیل علوم در نمیه عیادت و ذکر اپنی خدمت خلق اور روحانی تہ قیات کے سامان میسر رہیں.نیتیں نیک اور اعمال ہمارے صالح ہوں تو عجب نہیں کہ وہ مقام عالی حضور کے غلاموں کو اس محاصرہ کی حالت اور مشکلات کے دور میں میسر آجائے تو یہ سودا بہت سستا اور مفید ہے.اورمن آتا یا ہماری میں تبدیلی کے لئے تصویر ہمیشہ تحریکیں فرماتے چلے آئے ہیں.اور رات اور دن حضور کے اسی کو ئی اور منکر میں گزرتے چلے آئے ہیں.کیا عجب کہ وہ اس قیامت ہی سے وابستہ ہوں یا در قضاء و قدر کا قانی خیلی بی مقصود کے ان مقاصد کی تو فیق جماعت کو عطا فرمادے اور پاک تبدیلی اسی قانون پر منحصر ہو.خدا کرے ایسا ہی ہو.دنیا تو گئی اگر خدا مل جائے تو پھر کوئی سنسارہ ہے نہ گھاٹا.نوجوانوں کی کایا پلٹ ہوگئی ہے یا کم از کم ہورہی ہے.خدا کہ ہے کہ اس حرکت میں برکت ہو.اندر اس قدم کے
اُٹھانے میں اللہ تعالے دوڑ کر ہماری طرف آئے.دستگیری فرمائے اور اٹھا کر زمین سے آسمانی بنا دے.میرے آقا قتہ کو تاہ یہ وقت ایک خاص وقت ہے اور میں محسوس کرتا ہوں کہ مصلحت اہلی اور منشاء ایزدی نے اس انقلاب کے ساتھ جماعت میں اس پاک تبدیلی کو وابستہ کر رکھا ہے جو حضور ہم میں پیدا کرنا چاہتے ہیں اور یہ وقت ہے جس میں خدا کا قرب پانے کے مواقع میسر ہیں " اے م الانبیاء لایا حضرت مرا بیا و مرزا بشیراحمد احدی نے صاحبزادہ مرزا بشیر احمدرضا کا ایک جامع نوٹ نوٹ سپرد قلم فرمایا :- در ویشان قادیان کی نسبت حسب ذیل مومی بھائی عبد امین صاحب قادیانی اور دوسرے در دیشان قادیان کے مضامین سے دوستوں کو معلوم ہو چکا ہے کہ ا ا ا ا ا ا ا م ا ا ا ا ا ایران کی زندگی کتی درمانی منی و محور ہے گویا کہ اس میں دنیا میم رو حانی بن چکے ہیں.کیونکہ قادیان میں رہنے والے دوستوں کو دنیا کے دھندوں سے کوئی سروکار نہیں اور ان کی زندگی کا سر محمد ردحانی مشاغل کے لئے وقف ہے.قرآن وحدیث کا درس، نواستل ، نمازوں اور خصوصیا تہجد کا التزام خشوع و خضوع میں ڈوبی ہوئی دُعاؤں کا پروگرام، نفلی روزوں کی برکات اور دن رات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے یا برکت گھر اور بیت اللدعا اور مسجد مبارک اور مسجد اقصی اور بہشتی مقبر میں ذکر اہلی کے مواقع پردہ عظیم الشان نعمتیں ہیں جن سے جماعت کا بیشتر حصہ آجکل محروم ہے اور قادیان کا ماحول ان نعمتوں سے بہترین صورت میں قائدہ اُٹھانے کا موقعہ پیش کرتا ہے " کے قادیان کے درویشوں کو خواہ دہ ۱۶ نبوت از بیت ارایش درویشان ادیان کو غیر کا زبردست خراج تحسین سے مسیح محمدی کی مقدس بستی میں آباد ہوئے یا بعد کو تشریف لے گئے اور اب تک دیار حبیب میں دھونی رمائے بیٹھے ہیں، انھوں ہی نے نہیں غیروں نے بھی زیر دست خراج تھیں ادا کیا ہے.بطور نمونہ چند اقتباسات ملاحظہ ہوں :- ا احراری اختیار آزاد نے اپنی ۲۶ مئی نہ کی اشاعت میں "مشرقی پنجاب کے سجادہ نشین "کے عنوان سے حسب ذیل فوٹ شائع کیا :- مشرقی بجائے عوام توخیر عوام ہی تھے، اگرانہوں نے وہیں پر فوج اور سی انسانوں کے جرم سے گھبرا کے : - له الفضل به ماه احسان جوان انه شش ماه : : - الفرقان در زیشان قادیان نمبر ما +
۲۹۴ مہاجرت اختیار کی توظاہر ہے کہ وہ مجبور تھے لیکن میں بزدلی سے سجدوں کے اماموں.خانقاہوں کے جھاڑوں اور سر این شریف و آن شریف کے سجادہ نشینوں نے فرار اختیارہ کیا.وہ اسلام کی سپرٹ اور تعلیم کے صریحاً خلاف تھا.تمام عمر اوقات کی کمائی اپنے نفس پر صرف کر کے شعائر اللہ کو کافروں کے حوالہ کر دیا اور خود بھاگ نکلنا قبل شرم عمل ہے.خواجہ بختیار کئی دہلی کے سجادہ نشین صاحب جو اس مقدس تربت کی کمائی تمام عمر کھاتے رہے.یوں بھاگے کہ بستی کے لوگوں سے فرمایا.حضرت صاحب نے خواب میں حکم دیا ہے.کہ میں پاکستان جا رہا ہوں تم بھی چلو.اجمیر کے متعلق حالی ہی میں حیدر آباد سندھ کے متولیوں کا ایک پوسٹر آیا تھا جس مں درج تھا کہ خواجہ اجمیر کا رس دار الکفر کی بجائے دارالسلام میں منایا جارہا ہے.اور تمام اہل اسلام کو دعوت شمول ہے.امام ناصرالدین جالندھر کا دورہ آج سے پیار در دادگا نہ پڑا ہوا ہے.مجدد الف ثانی کے مزار اقدس پر آج نہ کوئی چراغ جلانے والا ہے اور نہ کوئی پھول چڑھانے والا ہے.اور لحقہ مسجد میں اذان دینے والا ہے.اسی طرح ہزاروں مساجد جن میں کئی مسجدیں یاد گا رہیں ہیں.یونی پڑتی ہیں.اور ان گنت اپنی خدمت کھو کر گوردواروں میں تبدیل ہو چکی ہیں.بعض کو گھروں کی شکل دیدی گئی ہے اور بہت سی اصطبلوں اور پاخانوں میں بدل دی گئی ہیں.کیا ان مساجدا در معاید کے ٹھیکیداروں کو علم ہے کہ ان کے اس اسلام پر خود کفر کی جبیں سے عرق ندامت کے قطرسے بھلکتے ہیں ؟ ان سطروں کے لکھنے کی ضرورت اسے لاحق ہوئی کہ انقلاب کی تازہ اشاعت میں ایک قادیانی ملک صلاح الدین ایم.اے کا ایک مکتوب چھپا ہے جسے پتہ چلتا ہے کہ آج بھی مرزا غلام احمدکے مزار کی حفاظت کے لئے وہاں جانتار مرزائی موجود ہیں.اور اب بھی یہاں کی مسجدوں میں اذان دی جاتی ہے.ایک طرف نبوت باطلہ کے پیروں کا اعتقاد دیکھئے کہ وہ اپنے مقدس مقام کی حفاظت کے لئے اب تک ڈٹے ہوئے ہیں.اور اپنی مسجدوں کی آبرود کو بچائے رکھا ہے.لیکن ذر ان سے بھی پوچھے جو درگاہ امام ناصریہزار مجددالف ثانی اور اسی طرح در سر سے سینکڑوں اہل اللہ کے مقبروں کی آمدنی کا رتے رہے.اور اب دارالکفرکی بجائے دارای سلام میں عرس منا کر ضعیف الاعتقاد مریدوں کی جیبیں ٹول رہے ہیں.ملک صلاح الدین قادیانی کے مکتوب کی عبادت کے بعض حصص حسب ذیل ہیں:." ہم قریباً سوا تین سواحمدی مسلمان قادیان ضلع گورد اسپو میں مقیم ہیں.ابتدا میں تو بری حالا کے ماتحت قریبا یقین تھا کہ ہم موت کے گھاٹ اتار دیئے جائیں گے.لیکن اب حالات روز بروز سرد ہر تے جاتے ہیں.ہمارے یہاں قیام سے بفضلہ تعالیٰ اغوا شدہ مستورات کو بہت فائدہ ہوا ہے.چونکہ کشمیر کی مرصد اس ضلع سے ملتی ہے.اسے اس ضلع کو متنوع قرار دیدیا گیا ہے.اور یہاں پاکستان کی ملٹری یا پولیس 1
۳۹۵ مستورات کو نکالنے کے لئے نہیں آسکتی.گذشتہ اکتوبر سے اس وقت تک ہمارے قریب کے دیہات سے پولیس نے صرف چار پانچ عورتیں بر آمد کی ہیں.لیکن چونکہ خدا کے فضل سے اس وقت بھی قادیان میں چار جگہ سے اذان بلند ہوتی ہے.اس لئے جب متد مسلمان عورتوں کو اذان سنگ معلوم ہوا کہ ہم ہیں ہیں تودہ موقع پا کہ ہمارے پاس پہنچے گیئں.بعض کو عیسائی ہمارے پاس پہنچا گئے.بعض کو تو بعض شریف مزاج سکھ پہنچا گئے.بعض چونکہ دیہات پر حملہ ہونے کے وقت قادیان اگر ٹھہری تھیں اسلئے انہیں علم تھا کہ یہ ھی مسلمانوں کا مرکز ہے یا انہوں نے غیر مسلموں سے قادیان کا ذکر سنا تھا تو چھپ چھپ کر موقع پا کر بھاگ آئیں.خوف کی وجہ سے مذہب تبدیل عمل تقریبا اسی کی تعداد میں ہمارے پاس آئے اور ہم نے ان کی رہائش اور خوراک کا انتظام کیا.ایسر جب ہمار سے ٹرک قادیان آتے تھے تو ہم انہیں بحفاظت پاکستان پہنچا دیتے تھے اور اب سپیشل پولیس کے ذریعے انہیں پاکستان بھجوادیا جاتا ہے ، اور ان کے اقارب کو خطوط ، تا رادر خون کے ذریعے اطلاع دی جاتی ہے.گردونواح کے قادیان کے علاوہ ان عورتوں میں کئی ہوشیار پور، امرتسر، فرد نور سیالکوٹ کے اضلاع اور ریاست جموں کی تھیں ".کیا اس خود کے بعد مشرقی پنجاب کے سجادہ نشین اپنے دل پر ہاتھ رکھ کہ کہ سکتے ہیں.کوان کے دل میں بھی اسلام ہے.ہے اس مسلمان سے کو بانہ ہے کا فرا اچھا جس مسلمان کے پیش نظر انجام نہ ہو.۲:.مسٹر ایچ آر دوہرا نے مشہور اخبار سیمیں دنئی دہلی ) مورخہ ۱۷ ۱۸ار نومبر منہ میں لکھا :- قادیان دحضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کی بجائے پیدائش ہے.جنہوں نے بشانہ میں مسیح موعود ہونے کا دعوی کیا.آپ نے اس بات کا اظہار کیا کہ آپ حضرت مسیح علیہ السلام کی صفات اور خو بو لے کر آئے ہیں.قادیان لاکھوں مسلمانوں کا جو احمد یہ جماعت سے تعلق رکھتے ہیں.مقدس مقام ہے.اس کی چپہ چپہ زمین احمدیوں کو محبوب ہے.یہ قصبہ احمدیہ جماعت کا مرکز رہا ہے.اور اس میں مسیح موعود علیہ السلام) کے خلفاء کی رہائش رہی ہے.قادیان میں مقیم ۳۱۳ مومنین باد جود سرکاری افسران کی ابتدائی مخالفت اور غیر سلم پناہ گزینوں کی عادت کے قادیان میں قائم رہے.اس کی وجہ اپنی جماعت کے اصولوںمیں ان کا غیر متزلزل ایمان حکومت وقت کے ساتھ وفاداری اور تمام حواله الفضل ۱۲۸ ہجرت کرمتی اش مث :
نامہ کے ساتھ ان کی سند داری کی تعلیم ہے.احمدیہ جماعت کے افراد کا یہ عقیدہ ہے کہ جملہ مذاہب سے یکساں سلوک کیا جائے.اسی اصول کی بناء پر وہ قادیان کے ہندو، سکھ یتیموں کی مدد کرتے رہے ہیں.اور اب بھی جبکہ جماعت کی مالی حالت بہت کمزور ہو چکی ہے ان تیمیوں کی ایک تعداد اپنے وظائف حسب معمولی احمدیہ جماعت سے حاصل کر رہی ہے کہ لہ ڈاکٹر شنکر اس مہرہ بی ایس سی ، ایم بی بی.ایس نے اختیار سٹیٹسمین دار فروری منہ میں لکھا:.قادیان کے مقدس شہر میں ایک ہندوستانی پرغیر پیدا ہوا.جس نے اپنے گردو پیش کو نیکی اور بلند اخلاق سے بھر دیا.یہ اچھی صفات اسکی لاکھوں مانے داروں کی زندگی میں بھی مشکل ہیں.حد یہ جماعت کا نفقط نظر تیری اور اس کا رویہ پابند قانون ہے.یہی ایک واحد جماعت ہے.جو عدالتی ریکارڈ کی رو سے جرم سے پاک ثابت ہوتی ہے.گذشتہ فرقہ وارانہ فسادات وفسادات ، میں بھی احدیوں نے اپنے ہا تھ قتل و غارت اور لوٹ کھسوٹ سے ) صاف کھے.یہ سب کچھ ان کے روحانی پیشوا کی حمد تعلیم کے بغیر وقوع میں نہیں آسکتا.قادیان کے موجودہ خلیفہ (حضرت ) مرزا بشیر الدین محمود ) احمد (صاحب ) محبت وحلوت کا مجسمہ ہیں.بہت کم شخصیتوں نے اہل اسلم پر ایسا اثر ڈالا ہے جیسا احمد یسا اثر ڈالا ہے جیسا (حضرت) مرند امام احمد (صاحب علیہ الصلوة والسلام ) نے.آپ کی عظمت کا اندازہ آپ کی شخصیت ، عقیدہ اور تعلیم کے خلاف پراپیگنڈہ کی شدت سے کیا جا سکتا ہے.کیونکہ پرانے عقائد کے مسلمانوں کو اس بات کا ڈر تھا کہ ان کے ہم خیال (احمدیت میں داخل ہو کہ ) کم ہوتے جائیں گے حکومت ہند کو چاہیے کہ امن اور انسانیت کے مفاد کے پیش نظر اس خالص ملکی اور ہندوستانی جماعت کو نظر اندازہ نہ کرے کیونکہ مناسب وقت میں احمدیہ جماعت ہمارے ملک کے تعلقات اسلامی دنیا کو مضبوط کرنے اور ہندوستان کو منظمت اور بڑائی حاصل کہ انے میں ایک اہم پارٹ ادا کر سے گی " کے " اختبار تنظیم پشاور (۲۰) جولائی منہ) نے لکھا :- رسول کے تین سوتیرہ ساتھیوں نے لکھنے والوں کو شکست دی اور بعد میں مکہ بھی فتح کیا.آج آپ ہی کے نقش قدم ایان داد را اعلام مری و مسکن قادیانی سیل بالا ضلع گورداسپور کے تین سوتیرہ مری در ایران میں وئے ہوئے ہیں اور ان کا یہ حتی فیصلہ ہے کہ دہ رسول کریم کے صحابہ کرام کے نقش قدم پر چل کر قادیان کی سید مبارک جامعہ احمدیہ اور بہشتی مقبرہ جہاں حضرت مرز اصاحب دفن ہیں کی حفاظت کے لئے تن من دھن سے مصرو میند بار ۲۰ ر د کمبرانه مت : ه : بحوالہ بدر ۳۰ دسمبر لانه من :
٣٩ یاد خدا وہ امداد خدا ہیں.ان میں بہت سے عالم حافظ اور صوفی ہیں کا ۵ - اخبار دی سینٹینل (THE SENTINEL) رانی نے در جولائی کشش نہ کی اشاعت میں لکھا :- قادیان کے نورد برکت کی حد بندی کرنے کی ضرورت نہیں.تمام دنیا اس کو براہ راست یا بالواسطہ جاتی ہے کچھ عرصہ پیشتر یہ مقام زاد یہ گمنامی میں پڑا ہوا تھا.لیکن اکٹھ سال پہلے ایک روحانی کیفیت اس تہذیب کے طاظ سے بیشتر نادیہ پسماندہ جگہ میں ظاہر ہوئی.اس کا ظہور (حضرت مرزا غلام احمد (صاحب علیہ الصلواۃ والسلام کے وجود میں ہوا.کاؤنٹ ٹالسٹائے در دسی مفکر بھی ان لوگوں میں سے تھے جو آپ کے افکار عالیہ سے سیراب ہوئے.انہوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ وشخص قادیان سے کلام کر رہا ہے وہ کوئی معمولی خانی انسان نہیں.فی الحقیقت دنیا کے تمام مفکرین نے جن کو آپ کی کتب تقسیم کے مطالعہ کا موقعہ ملا.آپ میں معجزہ کا ظہور اور حقیقی راحت و اطمینان پایا.اپنے دنیا پہ ظاہر کیا کہ وہ خلیج جو خالق اور مخلوق کے درمیان وسیع ہو گئی ہے.اس کو پاٹنا آپ کی زندگی اور بعثت کا مقصد ہے.یہی وجہ ہے کہ دنیا کے تمام گوشوں سے لوگ آپ کے گرد و پیش مجمع ہو گئے اور آپ کی ذات میں انہوں نے مسیح موعود کی بعثت کو پورا ہوتے دیکھا.آجکل آپ کے ماننے والے تمام ملکوں میں اور تمام حکومتوں کے ماتحت ترتی کر رہے ہیں.تقسیم ملک کے وقت قادیان میں ایک بہت بڑی تعداد علماء، سائنس دانوں اور مقدس بزرگوں کی تھی.اس پس منظر کے ساتھ ہیں چاہیئے کہ ہم موجودہ قادیان کا نظارہ کریں.تاکہ ہمیں اس میں رہنے والے حمدیوں کے مبرد استقلال - ایمان اور انجام کا علم ہو سکے ہندوستان کے احمدیوں کی پورے طور پر جانچ پڑتال کی گئی ہے.ان کی حکومت کے ساتھ وفاداری کسی طرح مستقبہ نہیں اور نہ ہی کوئی کدورت با غیر مخلصانہ رنگ ان میں پایا جاتا ہے.یہ نہیں ہو سکتا کہ ان کے دل میں کچھ ہو اور زبان پر کچھ ہو.حکومت ہند کے وہ وفا دار ہیں.دل کی گہرائیوں سے اپنی انگلیوں کے پوروں تک بلکہ بیچ تو یہ ہے کہ وہ تمام دنیا میں جس جس حکومت کے ماتحت رہتے ہیں اس کے وفا دالہ ہیں اور جملہ پیشوایان مذاہب کا احترام وعزت کو نان کے بنیادی مذہبی اصولوں میں داخل ہے " اے 4 - مشہور بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز کلکتہ مورخہ ۲۵ دسمبر اندر نے لکھا : " قادیان جو احمدی فرقہ کے مسلمانوں کا مقدس مذہبی مرکز ہے آئندہ کرسمس کے ہفتہ میں مذہبی تقاریر سے گونجنے گا.اس موقع پر تقریباً آٹھ سو زائرین جن میں ایک صد کے قریب پاکستانی ہوں گے اور بقیہ ہندوستان کے بجواله بدر ۲۰ رد کبرانه
۳۹۸ تمام حصوں سے آئیں گئے.جاب اں نہ میں شرکت کے لئے قادیان میں جمع ہوں گے.اس قسم کا جلسہ آج سے ساٹھ سال پیشتر ہوا جسکی ابتداء حضرت، مرنه اعلام احمد صاحب، بانی سلسلہ احمدیہ نے کی.مطلب کی تقسیم سے پہلے اس مقام میں دنیا کے تمام علاقوں سے زائرین جمع ہوتے تھے لیکن تقسیم کے بعدان کی تعداد چند سو رہ گئی......احمدیہ جماعت بین الاقوامی حیثیت رکھتی ہے.کیونکہ اس کی شاخیں یورپ اور ایشیا کے مختلف ممالک افریقہ اور شمالی اور جنوبی امریکہ کے متفرق حصول اور آسٹریلیا میں پھیلی ہوئی ہیں.ہر جگہ اس کے ماننے والے اپنی مخصوص تعلیم اور تبلیغی سرگرمی کے لئے مماز اور نمایاں ہیں.احمدیوں کی تعداد کا اندازہ دس لاکھ کے قریب ہے.پرانے خیالات کے مسلمانوں کے عقید سے کے خلاف مسلمانوں کی یہ جماعت ان اختلافات کو جو مختلف قوموں اور مذاہب میں پائے جاتے ہیں تسلیم کر کے یہ مناسب بجھتی ہے کہ ان اختلافات کو جبرا طاقت سے نہ مٹایا جائے بلکہ وعظ و نصیحت ادور باہمی مفاہمت سے دُور کیا جائے.احمدیہ جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ تمام مذاہب جو خدا تعالی کی طرف سے ہونے کے مدعی ہیں اور ایک لمبے عرصہ سے دنیا میں قائم ہیں.وہ یقینا سچے اور خدا کی طرف سے ہیں.گو یہ ہو سکتا ہے کہ لیا زمانہ گزرنے کی وجہ سے ان کی تعلیم میں بگاڑ پیدا ہوگیا ہو اور انکی روحانی طاقت کمزور ہوگئی ہو.احدیت کی تعلیم کی رو سے یہ نا جائز ہے کہ مذہبی معاملات میں طاقت اور جبر کا استعمال کیا جائے.عقیدہ ، ضمیرا در عمل کی آزادی احمدیوں کے نزدیک ہر مذہب کا بنیادیتی ہے.اور جہاد کا خیال جس رنگ میں پیڑا نے خیالات کے دوسرے مسلمانوں میں رائج ہے جس کی رو سے مذہب کے نام پر جبر اور طاقت کا استعمال جائز ہے احمدیت اس کو نہیں مانتی.سیاسی لحاظ سے احمدیہ جماعت کا یہ اصول اور طریق ہے کہ احمدی جس ملک یا علاقہ میں بھی رہتے ہیں یہاں کی قائم شدہ حکومت کے وفادار ہوتے ہیں.اور ہر رنگ میں ملک کے قانون اور دستور کی اطاعت کرتے ہیں.یہ بات ان کے بنیادی اصولوں اور مذہبی عقائد میں شامل ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ تعاون کریں اور کسی صورت میں بھی سٹرائیک ہڑتال) ، تحریک عدم تعاون یا کسی بادت یا غیرقانونی کاروائی میں شامل نہ ہوی عنہ کے فسادات کے دوران میں (حضرت) مرزا بشیر الدین محمود احمد (صاحب) اپنے ایک ہزار سے زائد پیروؤں کے ساتھ پاکستان ہجرت کر گئے.آپ اپنے پیچھے تین صد کے قریب اپنے مخلص پیرو مذہبی مرکز کی حفاظت کیلئے چھوڑ گئے.پاکستان میں آپ نے عارضی مرکز پہلے لاہور میں قائم کیا اور پھر ربوہ میں.اب تک بھی قادیانی اہم مرکز ہے.اور یہیں سے صدر انجمن مدیہ قادیانی اپنی ۱۳۵ شاخوں کی جو ہندوستان کے مختلف حصوں میں پھیلی ہوئی
ہیں.دیکھ بھال اور نگرانی کرتی ہے.موعود نبی کی ایک پیشگوئی کے مطابق احمدیہ جماعت اس بات پر پورا یقین رکھتی ہے کہ قادیان دوبارہ جات کا ایک زندہ ، فعال اور معمور مرکز بن جائے گا " لے - روز نامه انبیت " جالندھر (مورخہ ۲۱ رسٹی سے انہ) نے لکھا :- - ہمیں خوشی ہے.کہ اس وقت جماعت احمدیہ قادیان کے معزز افراد ان تعلقات محبت کو مضبوط کرنے کے لئے پے در پے سکھ بھائیوں کے ساتھ ہمدردی اور تعاون کا سلوک کر رہے ہیں.اس سے پہلے بھی انہوں نے کئی دفعہ اپنے معادن ار محبت کا ہاتھ بڑھایا ہے.ان کے اچھے سلک سے ہم ان تلخ باتوں کو تقسیم ملک کے وقت ہمارے سامنے آئیں بھولتے جاتے ہیں." کچھ عرصہ پیشتر پسند شرارت پسند لوگوں نے ہمیں احمدیہ جماعت کی طرف سے بدظن کرنے کی کوشش کی تھی.اور ہم حقیقتا ای دادار اور صلح کل جماعت سے بدظن رہے.لیکن اب اس تماعت کو قریب سے دیکھنے سے اس پریم بڑھانے سے معلوم ہوا.کہ اس جماعت کے لوگ بہت ہی با اخلاق اور دوا ادارہ ہیں اور بہت بلند خیالات کے مالک ہیں.امید ہے کہ ایسے لوگوں سے ہی دوبارہ محبت اور سلوک پیدا ہو گا اور آپس میں جھگڑا اور فساد مٹ جائے گا " ۲ - A سردار دیوان سنگھر صاحب مفتون ایڈیٹر ریاست دہلی نے اپنے موقر اخبارمیں متعدد بار عام احمدیوں کی عموماً در ولیوں کی پاک نہاد اور خدا نما جماعت کی خصوصا بہت تعریف کی مثلا در نومبر ان کے پرچر میں لکھا.ہم کہہ سکتے ہیں کہ جہاں تک اسلامی شعار کا تعلق ہے ایک معمولی احمدی کا دوسرے مسلمانوں کا بڑے سے بڑا ند ہی لیڈر بھی مقابلہ نہیں کر سکتا.کیونکہ احمدی ہونے کے لئے یہ لازمی ہے.کردہ نماز ، روزہ ، زکواۃ اور دوگر دو اسلامی احکام کا عملی طور پر پابند ہو.چنانچہ ایڈیٹر ریاست کو اپنی زندگی میں سینکر دی صدیوں سے ملنے کا اتفاق ہوا.اور ان سینکڑوں میں سے ایک بھی ایسا نہیں دیکھا گیا ہو کہ اسلامی شعارہ کا پانبد اور دیانتدار نہ ہو.اور ہمارا تجربہ ہے.کہ ایک احمدی کے لئے بددیانت ہونا ممکن ہی نہیں.کیونکہ یہ لوگ خدا سے ڈرتے ہی نہیں بلکہ خدا سے بدکتے ہیں.اور ان کے مبلغین کو دیکھ کر تو عیسائیوں کے بلند کیریکٹر کے وہ پادری یاد آجاتے ہیں جن کے اسوہ حسنہ کو دیکھ کر ہندوستان کے لاکھوں انسانوں نے عیسائیت کو قبول کیا " سے ه : بحواله الفرقان در دیشان قادیان نمبر ۱۳۳۰ به ه: ايضا من ايضا
۳۰۰ او 14 مارچ کانہ کے ایشوع میں لکھا:.۱۹ ہو لوگ احمدیوں کے مذہبی کیریکٹر اور ان کے بلند شعار سے واقف ہیں.وہ جانتے ہیں کہ اگر دنیا کے تمام احمدی ہلاک ہو جائیں، ان کی تمام جائیداد لوٹ لی جائے.صرف ایک احمدی زندہ بچ جائے.اور اُس احمدی سے یہ کہا جائے کہ اگر تم بھی اپنا مذہبی شعار تبدیل نہ کرو گے تو تمہارا بھی یہی حشر ہوگا.تویقینا دنیا میں زندہ رہنے والا یہ واحد احمدی بھی اپنے شعار کو نہیں چھوڑ سکتا.مرزا اور تباہ ہونا قبول کر لے گا یہ ہے ریاست ۳ دی انٹر میں یہ ریمارکس دیئے :- د یہ واقعہ انتہائی دلچسپ ہے.کہ جب مشرقی پنجاب میں وزیزی کا باندار گرم تھا مسلمانوں کا مسلمان ہونا ہی ناقابل لافی جرم تھا.مشرقی پنجاب کے کسی ضلع کے کسی مقام پر بھی کوئی سلمان باقی نہ رہا اور اور پاکستان چلے گئے.اور یا قتل کر دیئے گئے.تو قادیان میں چند درویش صفت احمدی تھے جنہوں نے اپنے مقدس مذہبی مقامات کو چھوڑنے سے انکار کر دیا.اور انہوں نے تنگ شرافت لوگوں کے ننگ انسانیت مظالم برداشت کئے.اور جینکو بلا خوف نژدید مرد مجاہد قرار دیا جاسکتا ہے.اور جن پر آئندہ کی تاریخ فخر کریگی.کیونکہ امن اور آرام کے زمانہ میں تو ساتھ دینے والی تمام دنیا ہوا کرتی تھی.ان لوگوں کو انسان نہیں فرشتہ قرار دیا جانا چاہیئے.جو اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھکہ اپنے شعار پر قائم رہیں.اور موت کی پرواہ نہ کریں.اب بھی.....قادیان کے درویشوں کے اسوہ حسنہ کا خیال آتا ہے تو عزت و احترام کے جذبات کے ساتھ گردن جھک جاتی ہے.اور ہمارا ایمان ہے کہ یہ دلیسی شخصیتی ہیں جن کو آسمان سے نازل ہونے والے فرشتے قرار دینا چاہیئے." ۹ - شہری بلدیو ستر صاحب ایڈیٹر راہی دہلی کے تاثرات یہ ہیں :.سے • دنیا جہان میں کچھ شخصیتیں ایسی اترتی ہیں جو ہمیشہ ہمیش کیئے اپنے نقش عوام کی راہنمائی کے لئے ھور ھاتی ہیں.چنانچہ قادیان بھی ایسی ہی ایک شخصیت کا نقش ہے جس سے لوگ ایسا دری حاصل کر سکتے ہیں جو انہیں اس حقیقی منزل کی طرف لے جا سکے.جہانی محبت ، اخوت اور رواداری ہے.کاش میرے ملک کے لوگ اس منارہ سے جو آسمان کی بلندیوں تک پہنچ کر ان کو بچی روشنی عطا کر ت ہے وہ روشنی حاصل کرتے جس سے ان کے دل کی کو در تیں مٹ جاتیں اور وہ باہم مل جل کر زندگی بسر کہ نا سیکھتے.خیر! میرا یقین ہے کہ قادیان میں تعمیر شدہ منارہ صلح آشتی کا پیغام دیتا رہے گا.میری یہاں آم بالکل اتفاقیہ ہے.کانی برسوں سے اس مقام کی زیارت کا شوق رہا.ه : بحواله الفرقان در دیشان قادیان نمبر ۱۳۷۱۳۲۰ ܀
ردم لیکن وقت کا انتظار لازمی ہے.مدت کے بعد یہ آرزو بر آئی.میری تمنا ہے کہ اس خزاں رسیدہ چین میں پھر پہلی کی بہار شگفتگی جلد آئے.اے ۱۰- اختبار المنیر" (لائل پور ) نے لکھا:.یہ دو واحد جماعت ہے جسکسی ۳۱۳ افراد تقسیم کے بعد سے آج تک قادیان میں موجود ہیں اور دیہاں محہ اپنے مشن کے لئے کو شاں بھی ہیں اور منظم بھی.کہ (اے رسالہ چٹان لاہور نے لکھا:.ہم عاجز ہیں اور ہمیشہ ہی اپنے عجز کا اقرار کیا ہے.لیکن تنے بیٹے بھی نہیں کہ جماعت اسلامی کے ارکان کو اولیا الہ کی صف میں جگہ دیں اور خود مرید با صفا بنے رہیں.آدمی تو ہر شخص اکٹھا کہ لیتا ہے.مرزا غلام احمد نے بھی اکٹھے کر لئے تھے.فضا کی ایک بہت بڑی جماعت اس کی جانثار ہے.پھر یہ واقعہ نہیں ؟ کہ دار السلام کے چابی برادی میں اکثر رہتے ہیں کہ بھاگ نکلے تھے.گرمرزا غلام احمد کے پیرو آج تک قادیان کی حفاظت میں سوتی ولی سبعہ بندی سے کر رہے ہیں " سے فصل چهارم ر صغیرمیں جماعت احمدی کی قبل ان فلیم درا مہند سے قبل جماعت احمدیہ کے حسب ذیل مدارس - ; لیم الاسلام الا ادا جماعت احمدیہ قادیان در احمدی قادیان تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیانی نصرت گریز ہائی سکول قادیان - نصرت گر از مڈل سکول قادیان - احدی پرائمری سکول شکار ما چھیاں ضلع گورداسپور احمد یہ پرائمری سکون اٹھوال ضلع گورداسپور احمدیہ پرائمری سکول سیکھوں ضلع گورداسپور تعلیم الاسلام ڈل سکول کا ٹھگ یہ ضلع ہوشیار پور.احمدیہ پر امرکی سکول شورت کشمیر احمدیہ پرائمری سکول ہڑی بلاکشمیر تعلیم الاسلام مول سکول چار کوٹ کشمیر احمدیہ پرائمری سکول کیرنگ اڑیسہ احمدیہ پر مر کی سکول کر ڈالی مالا بار.نصرت که از مڈل سکول گھٹیا لیاں ضلع سیالکوٹ حمدیہ پر میری - ه - الفرقان در ایشان قادیان نمبر ۳ به چٹان جلد ا ا شماره ۴ است (۹۶انه ) : ه : المنبر" در پارچ نه من کالم ہم ہے
۴۰۳ سکول شادیوال ضلع گجرات - احمدیہ پرائمری سکول کھاریاں ضلع گجرات - سه ان کی مرکزی رنگا ہوا پور فسادات کے دوران قادریان در شرقی پنجاب اردشیر کے جملہ مداری بند ہوگئے تھے.اور احمدی نونہاوں کی تمیمی تر بیت کو سخت دھک لگنے کا اندیشہ تھا اسے حضرت امیر المومنین الصلح الوعد نے حکم دیا کہ تعطیلات کے بعد قادیان کی مرکزی درسگاہوں کو جاری کرنیکا فوری انتظام کیا جائے چنانچہ عصر کی توجہ اور حضور کے خدام کی انتھک اور شبانہ روز کاوشوں سے ماہ نبوت / نومبر ش کے دوران ہی احیاء عمل آگیا.جو پیش آمدہ حالات میں یقیناً ایک حیرت انگیز کارنامہ تھا جس کی کوئی مثال مسلمانان مشرقی پنجاب کے کسی دوسرے مہا جو ادارے سے میں نہیں مل سکتی.تعلیم الاسلام کالی یم السلام کا دوبارہ قیام کی بے سرو سامانی کے عالم میں ہوں اور کس طرح اس نے حضرت صدا بزدہ تیم کا مرزا ناصر احد صاحب دایره الله کی نگرانی میں جلد جلد ارتقائی منازل طے کئے؟ اسکی تفصیل تاریخ احمدیت جلد دہم دعت تا ص میں آچکی ہے جس کے اعادہ کی یہاں ضرورت نہیں.صیت صدر انجین احمدیہ پاکستان کی پہلی سان نور پور میں جام واحد یہ اور درس و مدریت جامعہ احمدید و مدرسہ احمدیہ کے الحاق اور ان میر و قیام کی روداد حسب ذیل الفاظ میں درج ہے :.موسمی تعطیلات ہر تک جامعہ احمدیہ اور مدرسہ احمدیہ قادیان میں بخیر و خوبی جاری رہے.مگر تعطیلات کے دوران میں جو طلباء اپنے گھروں میں گئے وہ فسادات کی وجہ سے واپس نہ آسکے.اسلئے تعطیلات کے اختتام پر قادیان میں بوجہ مہنگا ھی حالات ہونے کے یہ مدارس جاری نہ کئے جاسکے.مورخه در نومبر ان کو جامعہ احمدیہ اور مدرسہ احمدیہ کے اساتذہ لاہور آئے.اور سید نا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے ارشاد کے ماتحت ۱۳ نومبر سے دونوں ادار سے لاہور میں جاری کر دیئے گئے.مگر جگہ کی تنگی کی وجہ سے نیز ہوسٹل کی سہولتیں ہونے کی وجہ سے ان دونوں اداروں کو چینوٹ منتقل ہونے کا حکم دیا گیا.پھر دو ماہ کے بعد پر نسپل مصاب مولانا ابو العطاء صاحب کی درخواست پر دونوں ادارہ سے امر کر میں منتقل کئے گئے جہاں یہ اب تک قائم ہیں.رد زیر رپورٹ میں در سه اموری کی جماعت اول ، دوم و سوم در جامعہ احمدیہ کے درجہ اولی اور ثانیہ اور ثالثہ کا نتیجہ ہ فی صدی رہا.پنجاب یونیورسٹی کے مولوی فاضل کے امتحان میں بیمار سے صرف چار طلبہ شامل ہوئے اور چاروں پاس ہوئے.نتیجہ سوفیصدی رہا.اس امتحان میں مولوی عطاء الرمین صاحب طاہر یو نیورسٹی میں دودم رہے اور مولوی عبداللطیف صلوب تک ہی سوم ہے.رپورٹ صدر انجمن حمدیہ پاکستان س ش ص ۲ تا ۱ ۱۳
نظارت تعلیم کی ہدایات کے مطابق جامعہ احمدیہ اور مدرسہ احمدیہ میں ستاد علمی مجالس قائم کی گینس من مجالس نے مضامین فقہ، حدیث، تاریخ ، ادب ، کلام اور نطق و فلسف میں حقیقی کام شروع کیا.جسے سیدنا حضرت امیر المومنین ایده الشد بصرہ العزیز نے پسند فرمایا.اور ارشاد فرمایا کہ اس کا یہ ہم ہائی سکول میں بھی قائم کیا جائے.ی یا ئی سکول کی طرح اندامی اا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ی ر ر ر ر اللہ تعال نے ہمیں توفیق دی کہ ہم مشکلات پر قابو پائیں.اس وقت طلباء کی تعداد ۱۵۵ ہے.ابتداء ۲۰ طلباء سے زائد حاضرنہ تھے.مزید پونڈا سٹان کے چار استاندہ ہجرت کے بعد سلسلے کے نظام کے ماتحت قادیان میں ہی ٹھہرے رہے مزید ٹواسٹاف کے میں ہی اور اب تک ٹھہرے ہوئے ہیں اس سے حضور کے ارشاد کے مطابق دونوں اداروں کو مشترک کر دیا گیا اور پرنسپل صاحب جامعه د مولوی ابوالعطاء صاحب کو دونوں اداروں کا چارج دیدیا گیا.احمدنگر میں طلبہ کے انہماک اور علمی ترقی کو دیکر یناب ڈپٹی کمشنر صاحب جھنگ لالیاں تشریف لائے اور اہل تقصبہ کی طرف سے ایک ایڈریس پیش کیا گیا جس میں ہمارہ سے اساتذہ اور طلبہ نے بھی شرکت کی.ڈپٹی کمشنر کی سفارش پر جامعہ حمدیہ کو مد نگر کے قریب ایک مربع زمین الاٹ ہوئی.جو اب بطور گراؤنڈ نہ استعمال کی بھارہ ہی ہے.مجالس علمی میں تو طلبہ اپنے اپنے رحمان کے مطابق مشریک ہی ہیں لیکن یہ بھی مناسب سمجھا گیا کہ جامعہ کی طرف سے ایک لی جاہ بھی شائع کیا جایا کرے.چنانچہ سہ ماہی المنشور کا اجرا ہو گیا ہے.بورڈنگ مدرسہ احمدیہ کا انتظام چوہدری غلام حیدر صاحب کے پیرور ہا اور بھا مع احمدیہ کے ہوسٹل کا مولوی ارجمند دان صاحب کے سپرد.مولوی ارجمند خان صاحب کے رخصت پر جانے سے مولوی ظفر حمد صاحب نے ہوسٹل کا کام سنبھال لیا جو دہ بھی تسلی بخش طور پر کہ ر ہے ہیں.فسادات کے دوران میں بھی اور ہجرت کے بعد کام کو شروع کرنے میں بھی مولوی ابو العلاء صاحب پر نسپل جامعہ احمدیہ مولوی ظفر محمد صاحب اور دیگر اسائندہ کی کوشش قابل شکریہ ہے کہ یعنی حضرت مولوی عبدالحمن صاحب جٹ - مولوی شریف احمد صاحب بیتی مولود حمد ابراہیم صاحب قادیانی مولوی محمد ضیا اما با ایران ۱۹۳ - رپورٹ ۲۷-۳۶ایش ۶۵ - المنشور کا پہلا شماره ۳۱ مارچ شاہ کو شائع ہوا ہو ں صفحات پرمشتمل تھا.جو اس مشارہ میں چوہدری محمد ظفر الہ خا لصاحب وزیر خارجہ پاکستان کے ایک اہم مضمون اساتذہ اور طلبہ کے لئے نہایت ضروری ہدایات" کے علاوہ کو الف جامعہ مدرسہ احمدیہ - ارجنٹائن کے احمدی میلانے کی پاکیزہ زندگی صحاح ستہ کے مصنفین کے علات - نظر یہ اشتراکیت پر تبصرہ تاریخ کی ابتداء علم کام کے متعلق قرآن مجید کا نہری اصولی با مواحمدیہ کے فارغ التحصیل چالیں علماء کے موضوعات بھی شامل اشاعت تھے :
۳۰۴ تعلیم الاسلام ہائی سکول م ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا سکول کے بتا یا اخت پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے.چنانچہ لکھا ہے کہ :.و تعلیم الاسلام ہائی سکول کاشان اور اکتوبر کوں ہورپہنچا اور رنویر کار کی حضرت ابرالمونین ایر لالہ کے ارشاد کے ہو جب چنیوٹ میں منتقل ہوا.چنیوٹ میں نہیں ملک بھگوان داس کی بلڈنگ لاٹ ہوئی.جہاں ہمارے آنے سے پہلے ہند و پناہ گزین ٹھہرے ہوئے تھے.انہوں نے جاتے وقت سکول کی تمام کھڑکیاں ، دردانہ سے الماریاں اور دیگر سامان جبل ڈالا تھا.حتی کہ روشندان تک جل گئے تھے.اور بیرونی چار دیواری بھی محفوظ نہ تھی.چنیوٹ پہنچ کر مکرم سید محمد اللہ شاہ صاحب ہیڈ ما سٹرائی سکول نے فوری طور پر تمام انتظام سنبھالا.مختلف اسانده که ضروریات زندگی کی بہم سانی پر مقر کیا گیا.بعض کوراش فراہم کرنے کے لئے اور بعض کو حصول مکانات پر مقر فرمایا راسی دوران میں سردیوں کیلئے لحاف در میان در دیگر پار چات حاصل کئے گئے اور پھر پڑھائی شروع ہوئی.پہلے دن سکول میں صرف ہم طلبہ حاضر تھے.بہی کے لئےنہ مکان کا انتظام تھا اور نہ ہی اس قیام کا مگر رفتہ رفتہ اللہ تعالے نے توفیق عطا فرمائی.اور ہمیں پانچ مکان رہائش کے لئے مل گئے.اسکے علاوہ ایک بلڈنگ بطور بور ڈنگ بھی استعمال میں لائی گئی.ہیڈماسٹر صاحہ کے احسن انتظام کے مطابق طلباء سکول اور بورڈنگ میں ہر روز وقار عمل مناتے اور فرش و دیواروں وغیرہ کی مکمل صفائی کرتے.آہستہ آہستہ طلباء کی تعداد مں اضافہ ہونا شروع ہوا.چنانچہ ایک ماہ کے بعد جب انسپکٹر صاحب محکم تعلیم کی طرف سے سکول کا معائنہ ہیں.تولیہ کی قرارداد تھی اور اس کے علاوہ علی کی منت اور پڑھائی بھی اسی ذوق شوق کے ساتھ بھاری تھی.انسپکڑھا جتنے معائنہ پر اطمینان کا اظہار کیا.جناب ڈپٹی کمشنر صاحب جھنگ نے ہمیں سکول کے لئے اینٹیں اور عمارتی لکڑی عطا فرمائی جس سے طلباء کے لئے عارضی طور پر پنے بوائے گئے.اور کچھ کرسیاں اور میری بھی بنوائی گئیں اسکے علاوہ حکیم تیلی کی طرف سے مبلغ در پیہ بطور امدادی گرانٹ بھی عطا ہوا.آخر اپریل میں طلبہ کی تعداد ۲۵ ہوگئی اور بورڈران کی تعداد بھی..اسکے لگ بھگ ہوگئی الفضل میں اور خلط کے ذریعے سے والدین کو توجہ دلائی گئی کردہ اپنے لڑکوں کوتعلیم الاسلام ہائی سکول میں تعلیم کے لئے بھیجیں.اس کا فضل خدا خاطر خواہ نتیجہ ہوا.چنانچہ آج الہ تعالی کے فضل سے تعداد طلباء ۳۰ سے زائد ہو چکی ہے اور روز پر نہ بڑھ رہی ہے پچون کے طلباء کی تعداد شروع میں نسبتا کم تھی.اور بھی میں بھی کئی مدات میں تخفیف کی گئی تھی.اسلئے تعلیم الاسلام ہائی سکول کے نصف سے زیادہ سٹاف کو تخفیف میں لایا گیا.گو ان اساتذہ کی خدمات کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ہم نے یہ وعدہ بھی کیا کہ انہیں انشاء اللہ تعالی عند الضرورت واپس بلالیا جائیگا.اب ان میں سے بعض اساتذہ کو واپس بلا یا جا رخ
۴۰۵ ہے.اس موقع پر نظارت و تعلیم وتربیت ، خصوصا سید خود اللہ شاہ صاحب ہیڈ ماسٹریائی سکول چو ہدری عبد ا ان اصحاب ہی.اسے بی ٹی سپرنٹنڈنٹ ، سید سمیع اللہ شاہ صاحب بی.اے بھائی ، ماسٹر محمد ابراہیم صاحب بی.اسے بی ٹی ، مریم صوفی محمد ابراہیم صاحب بی.ایس بی کا شکریہ اداکرتی ہے.کہ انہوں نے سکول کو کامیاب بنانے میں انتلک کوشش کی اور طلباء کو ہر قسم کی ہوتیں پہنچا تے رہے " کے نصرت گرلز ہائی سکول ویڈل سکول کے اجراء کی نسبت اسی رپورٹ میں لکھا ہے کہ:.نصرت گرلز ہائی سکول مڈل دو یہ دونوں زنانہ ادارے سے قادیان میں موسمی تعطیلات تک بخیر وخوبی جاری تھے.ہائی سکول میں طالبات کی تعداد ۹۸۵ تھی اور گرلز مڈل سکول میں ۳۹۵ طالبات تھیں.استانی استرالرحمن صاحبہ کی.اسے ی ٹی اور استانی امتہ العزیز عائشہ صاحبہ علی الترتیب ہائی سکول اور مڈل سکول میں ہیڈ مسٹرس کے ذرائض ادا کہ یہ ہی تھیں مگر فسادات کی وجہ سے ہمیں دونوں زنانہ ادارون کو موسمی تعطیلات سے بھی کچھ دن پہلے بند کر نا پڑا نہ ہجرت کے بعد جب لاہورمیں قیام ہوا.توطالبات کی تعلیم کا انتظام نہایت ہی ناستی منیش حالت میں تھا.ہمیں حکمہ کی طرف سے گریہ سکول کی کوئی بلڈ نگ الاٹ نہیں ہوئی تھی اور جو حکہ عمارتیں دے رہا تھا وہ انتظامی لحاظ سے اور بوجہ نامناسب ماحول کے ہمیں پسند نہ تھیں.اسلئے عملی طور پر زنانہ سکول رتن بارغ کے پچھلے احاطہ میں بہت ہی مجبوری کی حالت میں جاری کیا گیا.لڑکیوں کی کل تعداد صرف ۵۰ کے قریب بھی مگر بارش اور دھوپ میں مناسب انتظام نہ ہو نے کی وجہ سے بہت سی طالبات کو دوسرے سکولوں میں داخل ہونا پڑا.رتن بارغ کے پچھلے احاطہ میں ایک سکول کی عمارت موجود بھی تھی.مگر یہی لجنہ اما الہ کے زیرا ہتمام مکی سورت ٹھہری ہوئی تھیں.ان شدید تکالیف کے با وجود طالبات کسی نہ کسی حدتک استانیوں سے پڑھتی رہیں.گوا سے ہم کوئی منظم صورت نہیں کہ سکتے.البتہ جامعہ نصرت طالبات کو استانی میری بیگم صاحبہ وقت دیتی رہیں.اور ان طالبات نے پڑھائی جاری رکھی ہے ام الاحمدیہ مرکزیت کے ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ایریا میں لایا اور اپنے رہے پہلے پاکستان میں اپنا دفتر قائم کیا گیا پر پوسٹ صدر رامین احمدیہ پاکستان ۳۰-۳۳۲ رش ۳-۱۵ که :- ایضاً ص ۱۹ به ے قائمقام معتمد مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ نے الفضل دو ماہ نبوت / نومبر پر میں صلہ میں اعلان کیا کہ :- قادیان جانے اور آنے اور دیگر رسل و رسائل کے ذرائع چونکہ بند ہمیں اس لئے عارضی طور پر دفتر مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ ہم میکلوڈ روڈا پور پر کھول دیا گیا ہے.خدام اور مجالس کو چاہیئے کہ آئندہ دفتر مدام الاحمدیہ مرکز ی سے متعلق ہرقسم کی خط کتابت مندرجہ بالا پتہ پر فرمائی.البتہ چنده خدام الاحمدیہ محاسب صاحب صدر انجمن احمد به پاکستان جود عامل بینڈ نگ لاہور کے نام بھجوادیا جائے
حضرت صد محترم کا پیغام خام حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر مجلس خدام ان حموریه مرکز یه ۶ ماه نبوت رنو بر سند پیش کو قادیان سے لاہور تشریف لائے.آپ نے یہاں پہنچتے ہی ایک اہم قدم یہ اٹھایا کہ نوجوانان امریت کی تنظیم نو کی طرف توجہ فرمائی اوراسی من میں اخبار الفضل دار نبوت ہیں میں خدام الاحمدیہ کے نام مندر ہر ذیل پیغام دیا - قادیان عارضی طور پر ہمارے ہاتھوں سے جا چکا ہے.انا لله وانا اليه راجعون مومن کا بھروسہ چونکہ محض اللہ نانی پر ہوتا ہے اور جو کچھ ہورہا ہے وہ چونکہ خداتعالی کے وعدوا کے مطابق ہورہا ہے اس لیے ہیں پختہ یقین ہے کہ یہ سب دیکھ اور مصائب محض ہماری ترقیات کے لئے ہیں.اگر ہم اپنے آپ کو ان د درملوں کا اہل نہائیں اور یہی بہار سے ؟ لئے فور کا مقام ہے.کیا ہم ان وعدوں کے اہل ہیں؟ کیا ہم ان مصائب میں اپنے ایان اور انسان پر پختگی سے قائم ہیں کیا ہم نے یہ عہد کر لیا ہے کہ اب دنیا کے آرام سے ہم اس وقت عمر میں گئے جبہ، روحانی اور جذباتی آرام نہیں پھر سے حاصل ہو جا ئیگا.جب ہمارا قادیان پہلے کی ماند ہمارا ہو جائیگا ؟ اگر ایسا ہے توہم نے سب کچھ کھوک بھی کچھ نہیں کھویا.اگر ہم اپنے مولی کی رضا پر راضی ہیں.اگر ہم اپنے اوقات ، مالی بان اور آرام کو خداتعالی کے لئے قربان کر نے کو نیا نہ ہوں تو وہ دن دور نہ ہوں گے جب ہم پھر سے اپنے امداد کی طرف فتح وکامرانی کے ساتھ واپس لوٹیں گے جیساکہ بعد التعالیٰ کا ہم سے وعدہ ہے.اسے خدا جلد ایسا ہی کہ (امین) ای نانه ک دور میں خدام پر بہت ہی اہم ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.خدا تعاتے ہیں اس دور کی نزاکت کے سمجھنے اور اس کی ذمہ داریوں کے نباہنے کی توفیق عطا کرے.آمین.فصل نمیشم رسیدن اصلاح امرود کے جو نہایت بیشتر افرد اور حضرت سید اصل اور کے مال من نبات المصلح الموعود میں معلقا افرا لیکر پاکستان در اسکا مستقبل کے اہم موضوع پر تڑپ تھی کہ پاکستان کی نوزائیدہ مملکت کی اسلامی عمارت کو جلد سے جلد اوج ثریا تک پہنچتے ہوئے دیکھ لوں حضور اس یقین سے لبر یہ تھے کہ آزادی کے بعد پاکستانیوں کے سامنے ترقی کے اتنے غیر حمد ود ذرائع ہیں کہ اگر وہ
مادم ان کا اختیار کی تودنیاکی کوئی تو انکے مقابل ہی شہری نہیں سکتی.اور پاکستان کا مستقبل نہایت شاندا نہ ہو سکتا ہے.اس سے ھو کر یہ کہ حضور پاکستان کو عالمگیر اسلامستان کی بنیاد تصور فرماتے تھے اور اس بنیاد کو اپنے مقدس ہاتھوں سے مضبوط سے مضبوط تر کرتے چلے جانا اب آپ کی زندگی کا نصب العین بن چکا تھا جوکسی محہ اور لحظہ بھی آپ کی آنکھوں سے ارد ھیل نہیں ہوتا تھا.جماعت احمدیہ جیسی آپ نے رحمانی پیشوا اور مذہبی لیڈر تھے دنیا میں پھیلی ہوئی جماعت تھی جس کو نہایت قیامت خیز صورت حال سے دوچارہ ہو کہ اپنے پیارے مرکز سے محروم ہونا پڑا تھا اور اس کی مرکزی نظم ونسق اور اس کے افراد بات کی بحالی کا سخت مشکل ، پیچیدہ اور مکھی مرحلہ در پیش تھا جو کے دوران آپ کی مصروفیات جو ہمیشہ غیر معمولی رہتی تھیں انتہا تک پہنچ چکی تھیں مگراس کے باوجود استحکام پاکستان کے لئے آپ کا علی قلمی جہاد برابر جاری رہتا تھا." چنا نچہ پہلے توحضور نے پاکستان کے ضروری مسائل پر قلم اٹھایا ازاں بعد ملک کے مد بردن ، دانشوروں اور سیاسی ز قومی سوجھ بوجھ رکھنے والوں کو براہ راست اپنے خیالات سے آگاہ کر نے کے لئے لاہور میں نہایت فاضلی و پرکاری معلومات افزاء اور بہیمیت افرد ر لیکچروں کا ایک سلسلہ جاری فرمایا جو رماه فتح بر دسمبر یہ پیش سے لے کر دار 194ء د اہ صبح / جنوری بش تک نہایت کامیابی سے بھاری رہا جو آپ کی حیرت انگیز فہم وفراست کا شاہکار تھا اور جسے تاریخ پاکستان میں ہمیشہ سنگ میل کی حیثیت حاصل رہے گی.لیکچروں کی موضوعات لیکچروں کے اس سلما میں منشور نے مندرجہ ذیل سائی پر روشنی ڈالی :.(۱) پاکستان کا مستقبیل و ناع، زراعت اور صنعت کے لحاظ سے ادا رفتی دیر پیشی (۲) پاکستان کا مستقبل نباتی زرعی یوانی در معنوی دولت کے لحاظ ست ، رفت و کبر نمایش (۳) پاکستان کا مستقبل معنوی دولت کے لحاظ سے (۳) فتح دسمبر ).(۲) پاکستانی کامستقبل اس کی بہکی ، فضائی اور بحری دفاعی طاقت کے لحاظ سے ۲۰ فتح ادی بر ا - (۵) بحری طاقت اور سیاست کے لحاظ سے پاکستان کا د فارغ در ماه صبح انوری ماه پیش) (4) پاکستان کا آئین از ارماه صلح جنوری ہ ہیں.(۶) خرامه صدارت کریرانی نیاین ا ا ا ا ا ار ہال کالج میں ہوئے اور آخری لیکچر یونیورسٹی ہال میں ہوا.ان لیکچروں میں بالترتیب مدر جہ ذیل قومی شخصیتوں نے صدارت کے فرائض انجام دیتے.(۱) جسٹس محمد منیر صاحب - (۲) ملک فیر و زیان صاحب نون -
(۳) ملک عمر حیات صاحب پر نسپل اسلامیہ کالج لاہور وائس چانسلر پنجاب یونیو رسٹی.(م) میاں فضل حسین صاحب.ره) ، (ه) شیخ سر عبد القادر صاحب بالقابه علی طبقہ کی طرف سے زبر دست خراج تحسین و کیوری ہونے کی تفصیل کے ساتھ لک قوم کے جلد میں حضور جملہ اہم مسائل میں پاکستانیوں کی راہ نمائی فرمائی اوران کے سامنے پاکستان کے شانہ مستقبل کے معلق میں ایسے ایسے پہلو نے نقاب کئے کہ سننے والے دنگ رہ گئے.اور قسیم کیا کہ یہ پاکستان کی ایک بے مثال خدمت ہے اور یہ کہ ارباب حل وعقد کو چا ہیئے کہ آپ کے قیمتی مشوروں سے استفادہ کر کے پاکستان کو مضبوط ومستحکم بنائیں.چنا اور ناک بند عقیوم صاحب پر نسپل اور کالج نے یہ دیگر شکستہ کو حضر کی خدمت میں لکھا.پیارے حضرت صاحب کل میں نے پاکستان سے متعلق آپ کا لیکچر نہایت دلیپ سے سنا اور بہت فائدہ اُٹھایا.کیچ نہ صرف نئے علوم پر مشتمل تھا بلکہ امید در جرات ددلیری کی روح سے بھی معمر تھا.مجھے یقین ہے کہ میرے دوسرے مسلنے والے ساتھی بھی ہی تار لے کر لوٹے ہوں گے.یہ صرف لیکچر ہی نہیں تھا کہ درحقیقت یہ وقت کا نہایت اہم انتباہ ہے ان لوگوں کے لئے جو اشیاء کو بالکل مختلف زاویہ نگاہ سے دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں.اثناء لیکچر میں آپ نے پاکستان کی بڑی اور بحری سرحدوں کے غیر محفوظ ہونے کی خوب صضاحت فرمائی ہے اور جیساکہ آپ نے فرمایا ہے یہ بھی کلیتہ حقیقت پر مبنی ہے کہ پاکستان کا ابل انتظام زمینی رقبہ ہی ہمارے حق میں ہو سکتا ہے.میں آپ کی اس تجویز سے بھی متفق ہوں کہ مشرقی پاکستان سے سمندر کے راستہ جزائر سکایپ اور مالدیپ کے ذریعہ تعلق قائم کہ ہیں.اگر کار سے پاس زمینی راستہ نہ بھی ہو تو راستے میں ایک امدادی اسٹیشن تو ہونا چاہیے " (ترجمرا انگریزی لامہ کالج کے ایک پروفیسر شیخ عبد الکریم صاحب نے قریشی محمود احمد صاحب (ایڈوکیٹ ) سے کہا : - حضور کا لیکن اس قدر بلند تھا اورای دیگر از علومات کہ ہر ڈیفنس نمبر کو حضرت صاحب سے مشورہ کہ سکتے رہنا چاہیے.مرزا مسعود بیایک صاحب احمدیہ بلڈنگی نے حسب ہی چھٹی حضور کی خدمت میں لکھی :- بسم الله الرحمن الرحيم - حضرت مخدومی معظمی زد بودکم السلام علیکم در سمت نمود و کاتدا سے جناب کے دو
Law College, Lahore.4.12.1947 My dear Hazrat Sahib, I listened with great interest and profit to your lecture on Pakistan yesterday.It was full of new knowledge and breathed spirit of courage and hope.I am sure, my fellow-listeners must have come away from it with the same feeling.It was not merely a lecture, it was a timely warning to those who were accustomed to look at things from an entirely different angle.In the course of the lecture, you were good enough to point out the insecurity of Pakistan's land and sea boundries.It is absolutely so and it was also true, as you added that the manageable width of land-area constituting Pakistan was a point in our favour........I heartily endorse your suggestion of West Pakistan seeking a sea link with E.Pakistan through the Lacadive and the Malidive Islands.If we could not have a land-corridor let there be a calling-station enroute.....Yours in Islam, Sd/- Principal Law College.
وم لیکچر مینار ہال میں ہو چکے ہیں.اور اہالیان لاہور پر ان ٹیچروں کا گہرا اثر ہے.ارباب حل وعقد کو بھی خدا توفیق دے کہ دہ آنجناب کے قیمتی مشوروں اور بیش قیمت نصائح سے استفادہ کر کے ملک وملت کی مشکلات کا مدادا کریں.کل رات کے لیکچر کا جوحصہ باقی رہ گیا تھاوہ سب سے زیادہ اہم تھا.اس سلسلہ میں جناب سے یہ گذارش ہے کہ تیرا لیکچر صرف اسی حصہ پر ہو اور اس طرح کل لیکچر چار کی بجائے پانچ ہو جائیں.اگر کسی بڑے مال دوش حبیبی بال اسلامیہ کالج میں سکھ کا انتظام کیا جائے تو زیادہ تعداد میں لوگ استفادہ ریکیں گے.یو نیورسٹی امتحانات کی وجہ سے ممکن ہے روکاوٹ ہو تا ہم ایک دن کیلئے بال خالی کرا یا جا سکتا ہے.امید ہے منتظمین جلسہ میرے جسم میں اوڈ سپیکر کا بہترین انتظام کریں گے اور ناقص قسم کا اکہ تقریر کی رانی میں بار بارہ تخل انداز نہ ہو گا.دعا ہے کہ جناب کے وجود سے مسمانوں کو بیش از پیش فوائد حاصل ہوں.والسلام مخلص مسعود بیگ احمدیه باران گیس لاہور یہ تو سامعین کی بعض آرا م میں جہاں تک ان اجلاسوں کی صدارت کرنے والی شخصیتوں کا تعلق ہے انہوں نے اپنے سے.صدارتی ریمارکس میں ن لیکچروں کو بہت سراہا اور اسے پاکستان کی عظیم خدمت سے تعبیر کیا.اور چنانچہ فیروز خان صاحب نوکی نے کہا : - حضرت صاحب کے دماغ کے اندر علم کا ایک سمندر موجزن ہے.انہوں نے تھوڑے وقت میں ہمیں بہت کچھ بتایا ہے اور نہایت فاضلانہ طریق سے مضمون پر روشنی ڈالی ہے.یہ نہ ملک عمر حیات صاحب پر نسپل اسلامیہ کالج.وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی نے اپنی طرف سے اور سامعین کی طرف سے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا :- حضرت مرزا صاحب کی تقریراتی پر از علیات اور جامع تھی کہ ہم نے اول سے آخر تک یکساں دلی سے مئی ہے.آپ نے حضور کی تقریر کی تائید کرتے ہوئے پاکستان ایجو کیشنل کانفرنس سند کرا چی کا ذکر کر کے بتا یا کراس کانفرنس نے سلام کو پاکستان کے نظام تعلیم کی بنیاد قرار دیا ہے اور مدارس میں دینیات کی تعلیم کولازمی مضمون کے طور پر کرائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے " سے الفضل و فتح اردسمبر انه اش ما به : الفضل لم ر فتح دسمبر نه پیش من به
الم جناب شیخ سر عبد القادر صاحب نے پانچویں لیکچر کی نسبت فرمایا :- حضرت مرزا صاح کے پرمغز اور پر از علومات نیکیوں کا اصل منشاء یہی ہے کہ ہمارے تعلیم یافتہ طبق کو اس اہم موضوع پر غور و خوض کرنے کی طرف توجہ ہو اور انہیں معلوم ہو کہ گو ہمارے سامنے بہت سی مشکلات ہیں لیکن اگر ہم استقلال کے ساتھدان مشکلات پر قابو پانے کی کوشش کریں گے اور کام کرتے پہلے جائیں گے تو یقینا ہم اپنی منزل کو پالیں گے حضرت مرزا صاحب نے ان لیکچروں کے ذریعہ ہمارے تعلیم یافتہ طبقہ کی بہت بڑی خدمت کی ہے.ہم سب دل سے ان کے ممنون ہیں.لے آپ نے چھٹے لیکچر کے اختتام پر اپنی صدارتی تقریر میں کہا :- حضرات میں بجھتا ہوں کہ میں آپ سب کے دل کی بات کہ رہا ہوں.جب کہ میں آپ سب کی طرف سے حضرت مرزا صاحب کا دلی شکر یہ ادا کرتا ہوں.نہ صرفآج کے لیکچر کےلئے بلکہ گذشتہ پاپنی پیکروں کے لئے بھی جن میں بے شمار اہم معاملات اور مسائلی کے متعلق نہایت مفید اور ضروری باتیں آپ نے بیان فرمائی ہیں.لیکن فاضل مقرر سے درخواست کرتا ہوں کہ اگر ان پینچروں کو کتاب کی شکل میں شائع کر دیا جائے.تو پبلک آپ کی بہت ممنون ہوگی.ایک چیز کا میرے دل پر خاص اثر ہے باوجود اس کے کہ فاضل نر اور ان کی جماعت کو گذشتہ ہنگاموں میں خاص طور پر بہت نقصان اٹھانا پڑا لیکن آپ نے ان حوادث کی طرف اشارہ تک نہیں کیا ہیں کھتا ہوں کہ ایسا کرنے میں ایک بہت بڑی حکمت مد نظر تھی اور وہ یہ کہ حضرت مرزا صاحب کا یہ طریق ہے کہ جو کچھ ہو چکا سو ہو چکا اسے اب بدلا نہیں جا سکتا اس لیئے اس پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں.اب جو کچھ آئندہ ہوسکا ہے اور جھہ بہار سے اختیار میں ہے صرف اسی پہیہ گفتگو ہونی چاہیے کے سے ان لیکچروں کے پس منظر اور ان کے معلومی اثرات پر مختصر روشنی ڈالنے کے بعد اب ہر ایک لیکچر کا الگ الگ تذکرہ کیا جاتا ہے.اگرچہ پاکستان را تقبل کے موضوع پر نا کیا کیا کچھ برا ہوا تھا ہیں بھی ہوا نیچر علمی پیکر ہونے کی وجہ سے تعلیم یافتہ طبقہ خاص طورپر موجود تھا.اسلیچر میں حضور نے دنیاوی تحریکات کا ذکر کرتے ہوئے نہایت شرح وبسط سے بتایا کہ پاکستان ایک ارتقائی تحریک ہے.پاکستان کے دفاع کے متعلق حضور نے فرمایا کہ جس کے مہمسائے کے لیے خیرخواہ نہیں.ہندوستان میں تو ایک طبقہ ایسا موجود ہے جو پاکستان کے بن جانے کو ظلم خیال کرتا ہے اور اس کو واپس لینے کے لئے کوشاں ہے.ہمیں حالات کی وجہ سے پاکستان محفوظ نہیں.پاکستان کی سرحد ه الفضل در صلح از جوری مش من : ہے وہ افسون یاسر عبد القادر مرحوم کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی اور دنیا اس قیمتی خزانہ سے محروم رہ گئی ہے الفضل دار ماه صبح از جوری شل کلنه پیش منه
االم ایک تو بہت لمبی ہے دوسرے گنجان آبادی والے شہر اس کی سرحد پر واقع ہیں اس لئے دفاع کی طرف خاص توجہ کی ضرورت ہے کہ اہور کے اردو.انگریزی پولیس نے اس سکھر کی جب نہایت علی اعوانوں اور شرح وبسط کے ساتھ شائع کی.اخبار نوائے وقت :.(1) چنانچہ نوائے وقت نے لکھا :.مشکلات حقائق پری پیدا کر دیں گی.مرنه البشیر الدین محمود کی رائے لا ہو نہ ملارد کمبر - مرزا بشیر الدین محمود نے کل مسٹر جسٹس محمدمنیر کی صدارت میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے.یہ رائے اری کا پاکستان د پاکستانی عوام کو اس وقت جن کو ناگوی مشکلات کا ساناکرناپڑرہا ہے وہ قوم میں مقام پسندی پیدا کردیں گئی جن کی مدد سے قوم کے لئے شاہراہ تمہ تی پر گامزن ہونا آسان ہو گا.مرزا البشیر الدین نے پاکستان کی زرعی پوزیشن پر تبصرہ کرتے ہوئے بیکار زمینوں کو ذرا آباد کرنے پر زور دیا.آپ نے کہا کہ لوہا کے علاوہ پاکستان کے پاس دوسری تمام معدنیات موجود ہیں جن سے پاکستان اپنی فرزند یات بوجوہ احسن پوری کہ سکتا ہے.اگر کوشش کی جائے بلوچستان میں اتنا پر دل مل سکتا ہے کہ وہ ابادان کو بھی مات کہ دیگا.اسی طرح کو منہ کی کانوں کے لئے جستجو ادھر تلاش جاری رکھی جائے تو پاکستان اپنی جملہ ضروریات کا خود کفیل ہو جائے گا مرزا صاحب نے کہا کہ حکومت پاکستان کو جزائر لیک ریپ اور مال دیپ کا مطالبہ کر نا چاہیئے جہاں کم آبادی کی اکثریت ہے.اسی طرح پاکستان کو سالماتی قوت کے لئے ریسر یہ بھی کہنا چاہیئے تھے اختیار نظام ".(۳) اختبار نظام نے لکھا:.کشیر کی ہندوستان میں شمولیت کا مطلب پاکستان کو سرعت سے گھیرتا ہے مسلمانان پاکستان اپنے ملک کی مخالفت کے لئے مجاہدین کشمیر کی ہرقسم کی مدد کریں.حضرت مرزا بشیر الدین محمود صاحب کی تقریر.ور درد کمر کل شام ملت احمدیہ کا ایک اجلاس زیر صدارت جسٹس محمدمنیر منعقد ہوا اس اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے صدر ملت احمدیہ حضرت مرزا بشیر الدین محمد نے فرمایا کہ مسئلہ کشمیر پاکستان کی زندگی اور موت کا سوال ہے.کشمیر کا - الفصل و فتح برش ها -: نواتے وقت مرد کبر شله مه +
۴۱۲ ہندوستان میں جانے کا یہ مطلب ہے کہ پاکستان کو ہر سمت سے گھیر لیا جائے اور اس کی طاقت کو ہمیشہ زیر رکھا جائے.انہوں نے فرمایاکہ باشندگان پاکستان کو شیر کے جہاد حریت میں رقم کی ادا کرنی چاہیے ما برای این سایت با در این جنگ کر رہے ہیں اور ان کو گرم کپڑوں کی فوری اشد ضرورت ہے جو ان کو فوراً پہنچائے جائیں.پاکستان کی سرحدی حفاظت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت نے فرمایا کہ سرحد سے متعلقہ دیہات اور آبادیوں کو وسیع کردیا جائے اور انہیں فوراً ملٹری تربیت دی جائے انہوں نے عوام میں نظم و ضبط کی سخت ضرورت کا اظہار کیا.ملک کی زراعتی ترقی کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ پاکستان کی زراعی حالت تسلی بخش ہے اور اگر شاہ پور جھنگ، مظفر گڑھ سرحد کے کچھ اضلاع اور پھر سے سندھ میں زراعتی پیدا دار کی طرف دھیان دیا جائے تو ہماری زراعتی پیدادار قابل رشک ہو جائے گی.حضرت مرزا بشیر الدین محمود صاحب نے پاکستان کی صنعتی خوشحالی کا بھی ذکر کیا آپ نے فرمایا کوئلہ.پٹرول اور دیگر دھاتی کافی تعداد میں موجود ہیں لیکن ابھی تک گمشدگی کی حالت میں ہیں اس کے لئے مکمل غور و خوض کی فوری ضرورت ہے مثال کے طور پر بلوچستانی تیل کا زبردست منبع ہے لیکن ابھی تک اسی فائدہ نہیں اٹھایا گیا.حضرت مقرر دنے ، پاکستان کی توی لیبارٹی کھولنے اور پاکستانی صنعتی پیداوار کوترقی دینے کے لئے زور دیا.آپ نے یہ بتا یا کہ پاکستان کی اس قسم کی ایک بھی لیبا رٹری نہیں ہے کے لئے اختبار زمین دارد: ۳ - اخبارہ زمیندار نے یہ خبر شائع کی :- " مجاہدین کشمیر کو ہر قسم کی امداد دیجئے.باشندگان پاکستانی سے امام جماعت احمدیہ کی اہیں.اوند - ار د کمبر امام جماعت احمدیہ مرزا بشیر الدین محو واحد نے ایک میٹنگ کو خطاب کرتے ہوئے باشندگان اکستان سے ایک کی مجاہدین شیرکو جو پیمانہ عوام کی خاطر جنگ آزادی لڑ رہے ہیں.ہر قسم کی امداد دی جائے.مجاہدین کی فتح سے پاکستان کی دفاعی لائن بہت مضبوط ہو جائے گی.آپ نے پاکستان کے دفاعی نقطہ نظر سے جغرافیائی اور معدنی ذرائع کا وسیع سلسلہ بیان کرتے ہوئے کہا کمرشل انڈسٹری زراعتی اور دفاعی صنعت کی ریسرچ کے لئے پاکستان کا ایک قوی ادارہ قائم کرنا چاہیئے.مسٹر جسٹس منیر نے میٹنگ کی صدارت کی کیا ہے زمیندار نے اسی اشاعت میں یہ خبر بھی شائع کی :- ه : نظام کا چور ام رو نمبر اورد زمیندار " مرد کبر شانه ها کالم :
رم پاکستان کو جزائہ سنگلادیب اور مالاریب کا مطالبہ کرنا چاہیئے.مرزا بشیر الدین محمود کا بیان.۲ دسمبر - مرزدائی قادیانی جماعت کے امیر مرزا بشیر الدین محمود نے ایک بیان میں حکومت پاکستان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ کراچی سے چٹا گانگ جانیوالے بھی رستے پر واقع ہیں اور ان کی آبادی نو سے فیصدی مسلمان ہے.دا.پ ہے.اے اخبار سر - اختیار سفینہ نے لکھا :- کشمیر کا مسلہ پاکستان کی زندگی اور موت کا سوال ہے.تمام طبقوں میں تنظم اور ضابطہ کی ایک معصو ا روح پھونک دی جائے.دجناب مرزا بشیر الدین محمود صاحب کی تفریہ ).لاہور اور دسمبر کشمیر کامسئلہ پاکستان کے لئے زندگی اور موت کا سوال ہے کشمیر کا انڈین یونین کے قبضے میں ہونا پاکستان کا ہر طرف سے محصور ہوتا ہے اور اسے ایک اجیر کی حیثیت تک پہنچانا ہے جسے ہر وقت تباہ کیا جا سکتا ہے.حضرت مرزا بشیر الدین محمود امیر جماعت احمدیہ نے لاء کالج پال میں ایک میٹنگ میں تقریر کرتے ہوئے کہا.یہ میٹنگ دائرہ معارف اسلامیہ کے زیر اہتمام منعقد ہوئی تھی مسٹر جسٹس منیر اس کے صدر تھے.آپ نے تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے باشندوں کو شیر کی جنگ آزادی جیتنے کے لئے پوری پوری کوشش کرنی چاہیئے.اس میں پاکستان کی نوزائیدہ ریاست کے استحکام اور دفاع کا راز ہے کشمیر میں مجاہدین شکل ترین حالات کے با وجو د جنگ لڑرہے ہیں.انہیں گرم کپڑوں کی اشد ضرورت ہے.اسی کام کو آسان بنانے کے لئے گرم کپڑے انہیں بہت جلد پہنچ جانے چاہئیں.پاکستان کے سرحدی دفاع کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ سرحدات کے قریب رہنے والے لوگوں کو فورم مسلح کہ دینا چاہیئے.اس وقت سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ آبادی کے تمام طبقوں میں تنظیم اور ضابطہ کی ایک روح پھونک دیجائے.آپ نے پر زور تائید کیک ملک کی زراعت کو زیادہ سے زیادہ ترقی دی جائے.اس کے لئے پاکستان میں بہت زیادہ امکانات ہیں.شاہ پور، بھنگ ، مظفر گڑھ کے اضلاع اور شمال مغربی صوبہ سرحد کے چند اضلاع اور سندھ کا تمام صوبہ موجودہ ترقی یافتہ طریقوں پر بہت جلد پاکستان کی زراحتی دولت میں اضافے کا سبب بن سکتے ہیں.پاکستان معدنیات کے طور پر بھی لاعمال تھا.یہاں کوئلہ ، سیسہ، پٹرول وغیرہ امام تھا لیکن یہ تمام ذرائع ادھور سے پڑے ہیں ان کی مکی جانچ پڑتال وقت کی اس سے بڑی ضرورت ہے.مثالاً بلوچستان میں پٹرول عام تھا لیکن اس کی جانچ پڑتال نہیں کی گئی تھی.زمینداره اعدام در کمبر شانه من :
لم الم مروز (مقرر) نے تقریر کے دوران میں ایک پاکستان قومی لیورٹری کا قیام عمل میں لایا جائے.جہاں ملک کے صفت حرفت کی ترقی کے لئے ریسرچ کا ا م علی پیمانہ پر کیا جا سکے.ہنیز پورے پاکستان میں س قسم کی کوئی پوری نہیں.تقریر دو گھنٹے سے زیادہ دیر تک ہوتی رہی.پاکستان کے قیام کے بعد پاکستان کے مستقبل پر یہ پہلی تقریر ہے آئندہ لیکچروں کی تاریخ کا اعلان بعد میں کیا جائے گا یہ ہے اختبار الیسٹرن ٹائمز : انگریزی اخبار ایران ٹائمز نے اپنی وردی برامد کی اشاعت میں صفحہ اول پر حسب ذیل رپورٹ شائع کی." کشمیر کی جنگ آزادی کے لئے بھر پور جدوجہد کی ضرورت ہے.حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان.سرحد کے ساتھ ساتھ لینے والوں کے لئے فوجی ٹرینینگ وقت کا اہم تقاضا ہے.لاہور اور کیرانہ کشمیر کی آزادی پاکستان کے لئے زندگی موت کا مسئلہ ہے کشمیر کا علاقہ ہندوستانی ہاتھوں میں ہونے کا مطلب یہ ہے گویا پاکستان چاروں طرف سے دشمنوں میں گھر جائے اور بھارت کے لئے ایک لقمہ نہ بن جائے جیسے وہ جب چاہے ہڑپ کر جائے " بیان فرمایا ہےاپنےاپنے سیکریوں کا شہر شام ایک اجلاس میں دیا.جو کالج ال گزشتہ جوں ، " میں زیر انتظام " دائرہ اسلامیہ منعقد ہوا.اس کی صدارت مسٹر جسٹس محمد منیر فرما ر ہے تھے.پاکستان کے عوام کو چاہیئے.آپ نے تقریر کے درمیان فرمایا کہ کشمیر کی جنگ آزادی کے لئے سردھڑ کی بازی لگادیں.کیونکہ اسی میں پاکستان کی نوزائیدہ مملکت کے استحکام کا راز پنہاں ہے.مجاہدین اس وقت باطل کے خلاف شدائد و الائم کے با وجود استعمال سے نبرد آزما ہیں.ان کو اس وقت گرم ملبوسات کی اشد ضرورت ہے جو فوری طور پر پہنچانے چاہئیں تا کہ ان کو کچھ سہولت میسر ہو........پاکستان کا مرتدی فارع پاکستان کے سرحدوں کے تحفظ اور دفاع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت امام جماعت احمدیہ کی یہ رائے تھی کہ وہ لوگ جو سرحد کے ساتھ ساتھ بہتے ہیں انہیں فوری طور پر سچ کر دیا جائے اور انہیں فوجی اسلحہ کے استعمال کی تربیت دی جائے.وقت کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے آپ نے فرمایا کہ آبادی کے ہر طبقے میں تعلیم ضبط کی در بدر کی جائے.: سفینہ گاہور ام رو نمبر شانه ها ترجمہ " ایسٹرن ٹائمز کی ہو.سرد کمبر لانه صت و
a strong spirit of organization and discipline among all sections of the population.He strongly upheld the view that the agriculture of the country should be developed.There was ample scope for this in Pakistan.The districts of Shahpur, Jhang, muzaffargarh, some districts of the N.W.F.P.and the entire pro- vince of Sind could easily be developed on modern lines to increase the agricultural wealth of Fakistan.Pakistan was rich in mineral resources like coal, lead, petroleum, mica etc; but all these re- sources were in an undeveloped form.A complete survey was the supreme need of the time.For example Baluchistan was rich in petroleum but the difficulty was only lack of survey.Pakistan National Liboratory The speaker suggested the establishment of a Pakistan National Laboratory for carrying out researches industry, agriculture and defence.There was no such laboratory in the whole of Pakistan at present.The lecture continued for more than two hours and was first of the series of lectures on the future of Pakistan.Dates of other lectures will be announced later.(O.P.I.) (The Eastern Times Lahore 3.12.1917.)
Kashmir's Fight For Freedom.All-out help Urged By Qadian Amir Military Training For Border Villages.Lahore...Dec.2-"The problem of Kashmir is question of life and death to Pakistan.Kashmir in the hands of the Indian Union means an allround encirclement of Pakistan and reducing it to the position of a sandwich, likely to be devoured any time." This observation was made by Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad, head of the Ahmad- iyya Community, addressing a meeting held last even- ing in the Law College Hall, under the auspices of the Daire-e-Islamia.Mr.Justice Mohammad Munir presided.The people of Pakistan, the speaker continued should make all-out efforts to help Kashmir's fight independence.There lies the secret of stabilising the defence of the new-born state of Pakistan.The Mujahideen are fighting a grim battle against heavy odds in Kashmir.They are in dire need of warm clothes which should be immediately rushed to make their task easy." (The Eastern Times Lahore 3-12-1947.) Border Defence of Pakistan Refering to the border defence of Pakistan, the the head of the Ahmadiyya Community held the opinion that the people living near the borders should at once be equipped with arms and be provided with military training.The greatest need, he said, was of inculcating
دام اپنے اس امر پربھی بیدن در دیاکہ ملک کی زرعی ترقی کی طرف وجودی جائے.کیونکہ پاکستان میں اس میدان میں بڑے وسیع ذرائع ہیں کیونکہ اضلاع شاہ پور سرگودھا، جھنگ من ظفر گڑھ اور شمال مغربی سرحد کے بعض علاقے اور تقریبا سارے سندھ کا علاقہ بہت جلد ترقی یافتہ خطوط پر مل در آمد کرنے سے زرعی دولت پیدا کر سکتے ہیں.ایسی طرح پاکستان کا علاقہ معدنی دولت سے بھی مالا مال ہے مثلاً کوئٹہ ، سکہ پٹرولیم ، ابرک وغیرہ معدنیات سے استفادہ کا کام ابھی ابتدائی مراحل میں ہے.معدنیاتی وسائل کی مکمل مرد سے پیمائش داختر انش کا کام وقت کا اہم تقاضا ہے.مثلاً بلوچستان کے علاقے میں پٹرولیم کی بہتات تھی لیکن ابھی تک نتیجہ خیز بیماش و افزائش کی کوئی اش نہیں کی گئی.پاکستان کی قومی لیبارٹری فاضل مقر نے ایک ایسی قومی لیبارٹری کے قیام کی تجویز پیش کی ہیں میں تجارتی صنعتی زرعی اور فاری ملک کی ضروریات پر تحقیقات اور ریسرچ کا کام ہو.آجکل پاکستان میں کسی جگہ بھی ایسی لیبارٹری نہیں ہے کا یہ فاضلانہ پیکر مسلسل دو گھنٹے تک جاری رہا.جو پاکستان کے مستقبل کے موضوع کے سلسلے میں پہل تھا.آئندہ لیکچر دن کے اوقات کا اعلان بعد میں کیا جائے گا یہ ھے ویر بھارت : انس بیکو کی بازگشت ہندوستان میں بھی سنائی دی.چنانچہ امرتسر کے اخبارہ دیر بھارت نے امریکہ اور پاکستانی کے عنوان سے اس پر حسب ذیل شمندرہ لکھا :.احمدیوں کے خلیفہ مرزا بشیرالدین محمود احمد نے 4 ارب ڈالر کے اس قرضہ کے خلاف آواز اٹھائی ہے.ہجو پاکستان امریکہ سے لینا چاہتا ہے.مرزا صاحب کا خیال ہے کہ اس طرح پاکستان اقتصادی اور سیاسی این حجار لیک اسید نا اصلح الموعود نے اس دوسرے سیکو کے لئے قیمتی و الفضل در فتح ربیبر ریش) دوسرا پھر میں شائع کہ ادیتے تھے جو ذیل میں بجنسہ نقل کئے جاتے ہیں :.ے ایسٹرن ٹائمز ۳ پیمبر نه مسا (ترجمه) 511985 دیر بھارت امرت سر ۱۳ رد عمبر نه به
الم أعوذ با الله من الشيطن الرحيمي بسم الله الرحمن الرحيمة محمدية ونفسيتي على رسوله الكريمين حوال چندرا کے فضل اور رسم کے ساتھ امیر پاکستان کا مستقبل نباتی مدرکی بیوانی اور معنوی دولت کے لحاظ سے میں نے اور تاریخ کو مینار ہال میں اس مضمون پر ایک تقریر کی تھی.چونکہ وقت کم تھا اور مضمون زیادہ.اسکے کئی حصے بیان کرنے سے رہ گئے تھے اور کئی کھول کر بیان نہ ہو سکے.چونکا سنتے اور پڑھنے میں فرق ہوتا ہے.پڑھتے وقت انسان زیادہ نمد سے کام لے سکتا ہے.اور محقر اشاروں کو بھی بجھ سکتا ہے.اس لیے میں مناسب سمجھتا ہوں کہ اپنی لکھی ہوئی مختصر یاداشت کو شائع کردوں تا کہ مضمون کا ایک مکمل نقشہ بھی نہین میں آجائے.اور یادداشت کے طور پر بھی ان لوگوں کے ہاتھ میں رہے جو اس میں بیان کردہ مضامین پر مزید غور کرنا چاہتے ہیں.پاکستان کا مستقبل بحیثیت نباتی دولت کے" ملک کی حفاظت اور اس کی ترقی کے لئے سختی اور تعمیری لکڑی کا وجود نہایت ضروری ہے.سوختنی لکڑی کوٹے کا بھی کام دے سکتی ہے.پرانے زمانہ کے تمام بڑے شہروں کے اردگرد سوختنی لکڑی کے رکھ بنائے جاتے تھے.یہاں سے شہروں کو لکڑی جہیا کی جاتی تھی.اور قصبات میں زمینداروں کے ذمہ لگایا جاتاتھا کہ دہ درخت لگائیں اور انہیں چھوٹے درخت کاٹنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی.تاکہ کٹڑی ضائع نہ ہو.ہر گاڑی میں اتنے درخت ہوئے جاتے تھے کہ اس گاؤں کی سوختنی اور تعمیری ضرورتیں ان سے پوری ہوسکتی تھیں.انگریز چونکہ ایک صنعتی ملک کے رہنے والے ہیں ان کی حکومت کے زمانہ میں دیہات کی اقتصادی اور ی حالت کی طرف توجہ ہوگئی.اور شہروںکی طرف توجہ بڑھ گئی اسی پر ان نظام قائم رہ سکا اور درخت کٹتے کھنے اور سنگے ہوئے اور مسلمان بھی ہندوؤں کی نقل میں جانور کا گو ر چولہوں میں جلانے لگے.حالانکہ گوری کا بلانا صفائی کے لحاظ سے بھی اور زراعتی لحاظ سے بھی نہایت مضر ہے.بائیکل میں یہودیوں کی سزا کے متعلق آتا ہے.کہ تم انسان کے پاخانہ سے روٹی پکا کر کھاؤ گے.احد قیل بابت آیت اگریہ ہی انسانی پاخانہ کا ذکر ہے گر جانور کا پاخانہ بھی تو گندی شے ہے وہ نسبتاکم بوادر اسکی روٹی پکائی بھی یقیناً ایک سزا ہے.ی حوالہ کے سابق گو بر کا وہو میں استعمال خدائی سزا اور قوم کی خدمت کی علامت ہے.پس مسلمانوں کو اس سے بچنا
الم چاہیئے تھا.مگر دیہاتی اقتصادی حالت کے خراب ہونے کی وجہ سے وہ بھی مجبور ہو کہ ہندوؤں کے پیچھے چل پڑے جو گائے کے گو بہ کو متبرک خیال کرتے ہیں.اور اسے چوٹھے میں جلانا تو انگ رہا کھانے کی چیزوں میں لانے سے بھی دریغ نہیں کرتے پاکستانی حکومت کا فرض ہے کہ وہ ایسا انتظام کرے کہ سوختنی لکڑی کثرت سے تمام دیہات اور قصبات میں مل سکے اتنی کثرت سے کہ زمینداروں کو جلانے کے لئے اوربچوں کی ضرورت پیش نہ آئے.میرے نزدیک پاکستانی حکومت کو پانچ پانچ کچھ چھ گاؤں کا ایک یونٹ بنا کر ان کی ایک پنچائیت بنا دینی چاہیئے.جو اقتصادی اور صحت انسانی کے قیام کی ضرورتوں کے ہیا کر نے کی ذمہ دار ہو.ان گاؤں کے درمیان میں ایک حقہ درختوں کے لگانے کے لئے مخصوص کہ دیا جائے.یہ درخت تعمیری کاموں کے لئے مخصوص ہوں.اسکے علاوہ ہر گاؤں ہی چراگاہوں کی حفاظت ان کے سپرد ہو.جہاں چرا گا ہیں میں ہونی پہنچائیوں کے سپرد کی جائیں.اور جہاں نہیں ہیں حکومت خود براگا میں بناکر ان ناچاہتوں کے سپرد کرے اور ہر گاوں میں حکومت اتنے درخت سوختنی لکڑی کے سگر ائے جو اس گاؤں کی ضرورت کو پر کر سکیں اوران پہنچانوں کا قرض ہو کہ وہ دکھتی رہی کہ ہر گاؤں مقررہ تعداد درخت کی لگاتا رہتا ہے.اگر یہ انتظام بھاری کیا جائے تو یقینا سوختنی لکڑی کا سوال حل ہو جائیں گا اور گو یہ کھاد کے لئے بنچ جائیگا.جس ملک کی زراعت کو بھی فائدہ پہنچے گا.ہر ایسے قصبہ کے لئے جس کی آبادی دس ہزارہ سے زیادہ ہو قصبہ سے کچھ فاصلہ پر ڈسٹرکٹ بورڈوں کی نگرانی میں سوختنی لکڑی کی رھیں بنوانی چاہئیں.بلکہ میرے نزدیک تو جس طرح ڈسٹرکٹ بورڈ مقر ہیں اسی طرح ہر ضلع میں اس کی مونسپل کمیٹیوں کا ایک مشترکہ بورڈ ہونا چاہیئے ہمیں کے سپرد اس قسم کے رفاہ عام کے کاموں کی نگرانی ہو.اس طرح میونسپل کمیٹیوں کے کاموں میں ہم آہنگی بھی پیدا ہو جائے گی اور بارھی تعاون سے ترقی کے نئے راستے بھی نکلتے رہیں گے.پچاس ہزار سے اوپر کے جو شہر ہوں ان کے لئے سوختنی لکڑی سے رکھ بنانا صوبه داری حکومت کا فرض ہو.ان شہروں کے لئے شہر کے ایسی طرف زمین حاصل کر کے جس طرف شہر کے بڑھاؤ کا رخ نہ ہو دو تین میل فاصلہ پر سوختنی لکڑی کی رھیں بنادینی چاہئیں.جہاں شہر میں سکڑی سپلائی ہوتی رہے.پچاس ہزار آدمی کی آبادی یا اسکی زیادہ کے شہروں کے لئے جتنی سوختنی لکڑی کی ضرورت ہوتی ہے اس کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ ایک اقتصادی یونٹ ہوگا.اور حکومت کو اس انتظام میں کو ئی مالی نقصان نہیں ہوگا.بلکہ نفع ہی ہو گا.اس انتظام کے علاوہ مرکزی حکومت کے انتظام کے ماتحت بعض بڑے بڑے رکھ بنانے چاہئیں.ناضرورت کے موقع پر ملک کو سوختنی لکڑی مہیا کی جا سکے ا اگر کسی وقت کولر میں کی ہوتو کارخانے اس لکڑی کے ذریعہ سے چلائے جا سکیں.دوسرے ڈسٹرکٹو ڈسٹیلیشن (DESTRUCTIVE DISTILLATION ) کے ذریعہ بہت سارے کیمیاوی اجزا علک کے استعمال اور بیرونی دسادر کے لئے پیدا کئے جاسکتے ہیں.ڈسٹر کٹو ڈسٹیلیش زیادہ ترسخت لکڑی سے کیا جاتا ہے.جیسے کیک شیشم،
دام پھلائی وغیرہ.اس ذریعہ سے پرٹا بھی پیدا کیا جاسکتا ہے.جتنی ضرورتوں کے بھی کام آئے گا.اور کئی کیمیا دی کارخانوں میں بھی استعمال ہو گا.اسکے علاوہ ایسی ٹون - ایسٹک ایسڈ اور فارمیلڈی ہائیڈ بھی اسی بنائے جا سکتے ہیں.اول الذکر بارود کے بنانے میں کام آتا ہے یتیم اور کیکر کے درخت بہت حد تک تعمیری ضر در توں کوبھی پورا کر سکتے ہیں.جکل تعمیری ضرورتوں کے لئے زیادہ تردید مارک قسم کی کڑیاں استعمال ہوتی ہیں.جیسے.یار کی پڑتی اور چیل یہ مکڑیاں پہاڑوں پر ہوتی ہیں.پہلے کشمیر بھنبہ ، اور منڈی سے یہ بتائی جاتی میں ریلوں کی لائینی بنانے میں ہیں لڑکی کام دیتی تھی.کیونکہ ریل پر بھائی جانے والی شہتیریاں ہر وقت تنگی رہتی ہیں اور ان پر بارش کا پانی پڑ تا ہے.عام لکڑی زیادہ دیر تک گیلی رہنے سے خراب ہو جاتی ہے.دیار کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ گیلے ہونے سے خراب نہیں ہوتی.ان لکڑیوں کو بعض ادویہ سے اس قابل بنایا جاتا ہے کہ ان کو کیڑا نہ لگ سکے.اور پھر ریل کی پٹڑی پر استعمال کیا جاتا ہے اس طرح اچھی عمارتوں کی تعمیریں بھی یہ کام آتی ہے.یہ کڑی چنبہ اور منڈی کے ہندوستان میں پہلے جانے کی وجوہ سے ور کشمیر کی حالت مشتبہ ہوجانے کی وجہ سے اب پاکستان کو نہیں مل سکے گی.صرف مرکی اور ہزارہ سے کچھ لکڑی پاکستانی کو مل سکے گی.مگر وہ اس کی ضرورتوں کے لئے کافی نہیں.اس لکڑی کے مہیا کرنے کے لئے پاکستان کو کچھ اور علاقے تلاش کرتے ہوں گے.پاکستان کے ملحقہ علاقوں میں سے چترال اور بالائے سوات کے علاقہ میں یہ لکڑیاں بڑی کثرت سے پائی جاتی ہیں.اور بعض بعض حصوں میں تو ہزارہ ہزار سال کے پرانے درخت پائے جاتے ہیں.جن کی قیمت عمارتی لحاظ کر بہت ہی زیادہ ہوتی ہے.مگر مشکل یہ ہے کہ ان علاقوں سے لکڑی پاکستان میں پہنچائی نہیں جاسکتی.چترال سے صرف ایک دریائی راستہ پاکستان کی طرف آتا ہے.اور وہ حکومت کابل میں سے گذرتا ہے.اس کے سواکوئی دریائی رستہ نہیں.ختگی کے رستے ان لکڑیوں کا پہنچانا بالکل ناممکن ہے.دریائے کابل کے ذریعہ سے اس لکڑی کے دانے میں بہت کی سیاسی اور اقتصادی دقتیں ہوں گی.اگر ریاست کابل اجازت بھی دیر سے تو لکڑی کا محفوظ پہنچنا نہایت ہی سشوار ہو گا.اسی طرح بالائے سوات کی لکڑی کا پہنچنا اور بھی زیادہ مشکل ہے.مگر ہر حال فوری ضرورت کو پورا کرنے کے لئے پاکستان کو کچھ معاہدوں کے ذریعہ سے اس وقت کو دور کرنا چاہیئے.اور ساتھ ہی اس بات کی سر سے کرنی چاہیئے ک کچھ پہاڑی کو لاکر کیا کوئی ایسا نہیں نکالا جاسکتا.ہوکہ چترال اور بالائے سوات سے برائے راست پاکستان میں واقل کیا جا سکے.اگرایسا ہو سکے تو یہ ضرورت پوری ہو جائے گی.لیکن اس کے علاوہ جنگلات کے ماہر دن کو اس بات کیلئے ہدایت ملنی چاہیئے کہ وہ درختوں کی مختلف اقسام پر غور کر کے ایسی اقسام معلوم کریں جو پاکستان کی آب وہوا میں اگائے جاسکیں.اور عمارتوں کی تعمیر اور جہازوں کی ساخت دوریوں کی پٹڑیاں بنانے کے کام میں استعمال کئے جاسکیں.
والم نرم لکڑی کڑی کی ایک قسیم بہت ہی زم ہوتی ہے.ان لکڑیوں سے دیا سلائی کی تیلیاں بنائی جاتی ہیں اس وقت تک یہ لکڑیاں اندھیان اور نکو باہر سے آتی تھیں مگر دریافت سے معلوم ہوا ہے کہ بلوچستان میں بھی ایک اس قسم کا درخت پایا جاتا ہے جس کی لکڑی سے دیا سلائی کی تیلیاں بن سکتی ہیں اور یہ درخت اتنی مقدار میں پائے جاتے ہیں کہ اگر ان سے دیا سوئی کی تیلیاں بنائی جائیں تونہ صرف پاکستان بلکہ سارے ہندوستان کی ہردور میں اسکی پوری ہو سکتی ہیں.ضرورت ہے کہ ایسا کارخانہ بنایا جائے جو بلوچستان میں یہ تیلیاں بناکر دیا سلائی کے کارخانوں کے پانی فروخت کرے.اور یہ صنعت مس کی سب سے بڑی مشکل ان تیلیوں کا بہتا ہوتا ہے.پاکستان میں فرد رغ پا سکے.کھڑی کی کی کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان میں فور پلاسٹنگ کے کارخانے جاری کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے میگا چونکہ یہ سوال میری تقریر کے زراعتی حصہ کے ساتھ متعلق ہے میں اس کا ذکر آگے چل کر کروں گا.جڑی بوٹیاں نیاتی دولت کا ایک بڑا جز و جڑی بوٹیاں بھی ہوتی ہیں.شمانی جڑی بوٹیاں کشمیر، چنبہ ، چیتران ،صوبہ سرحد اور بلوچستان میں ملی ہیں کشمیر کا سوال مشتبہ ہے.اور یہ قطعی طور پر اڈین یو میں یں شامل ہو چکا ہے اسی پاکستان میں جڑی بوٹیاں چترال صوبہ سرحد اور بلوچستان میں سے جمع کی جاسکتی ہیں.اور پاکستان کی خوش قسمتی سے ان تینوں علاقوں میں کافی بڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں.بلکہ بعض جڑی بوٹیاں ایسی نادر ہیں کہ دنیا کے بعض دوسرے حصوں میں نہیں ملیں بلوچستان کی جڑی بوٹیوں کی یہ بھی خصوصیت ہے کہ ان میں الکلائیڈ جو کہ دواؤں کا فعال جزد ہوتا ہے.دوسرے علاقوں کی نسبت زیادہ پائے جاتے ہیں.اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بلوچستان میں بارشیں کم ہوتی ہیں.جڑی بوٹیوں سے بہت سی ادویہ اور کیمیاوی اجزاء تیار کئے بھجاتے ہیں.ابھی تک ہندوستان کی جڑی بوٹیاں کامل سائنٹیفک تحقیقات سے محروم ہیں اور ہزاروں ہزار مفید ادویہ اور کمپیادی اجزاء گل میں محنت پڑے ہوتے ہیں.یورپ کے لوگ قدرتی طور پر ان اور یہ کی تحقیق کرتے ہیں جو ان کے ملکوں کی بڑی بوٹیوں سے بنائی جا سکتی ہیں.یا جو آسانی سے لگام کے قبضہ میں آسکتی ہیں.تا کہ اُن کا تجارتی نقع انہیں کو ملے.اب پاکستان ایک آزاد ملک ہے اور اس کے لئے موقع ہے کہ اپنی نباتی دوست سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھائے.اگر یک محکم بنا دیا جائے جو جڑی بوٹیوں کے اسکا ئیڈن اور دوسرے کی مادی جراء دریافت کرے.تو تھوڑے ہی عرصہ میں بیلوں کئی دوائیں پاکستان میں ایجاد ہو جائیں گی جو دنیا کی ساری منڈیوں میں اچھی قیمت پر بک سکیں گی حکیم اجمل خانصاحب مرحوم کو اسکا خیال آیا تھا.اور انہوں نے طبیہ کالج دہلی کیساتھ ایک
چھوٹی سی لیبارٹری اس کام کے لئے مقرر کردی تھی مشہور ہندوستانی سائنسدان بو بدری صدیق الزمان صاحب اس کے انچار ج مقرر کئے گئے تھے اور انہوں نے بنگال کی شہور بوٹی چھوٹی چندن پر تجربات کر کے اس کا اسکائیڈ معلوم کر لیا تھا.مگر ہندوستانی روانی پھوٹ کا شکار محکمہ ہوگیا.چوہدری صدیق الزمان صاحب کو حکومت ہند میں ایک اچھی جگہ مل گئی اور ن کے جانے کے ساتھ ہی یہ کم بھی ختم ہوگیا.اب چوہدری صدیق الزمان صاحب حکومت پاکستان میں آگئے ہیں ان کے مشورہ سے یا ن کی نگرانی میں اس قسم کا حکمہ پھر کھولا جاسکتا ہے.شاید ایک لاکھ یا ڈیڑھ لاکھ روپیہ سالانہ کے خرچ سے ابتدائی لیبارٹری قائم کی جاسکتی ہے.اور پھر آہستہ آہستہ ان سے لاکھوں بلکہ کردن دی روپیہ کا نفع حاصل ہونے کی امید پیدا ہو سکتی ہے.بعض جڑی بوٹیاں طبی طور پر اتنی مفید ہیں کہ انگریزی دور میں ان کا مقابلہ نہیں کرسکتیں.مگر مشکل یہ ہے کہ ان کے استعمال کا طریق ایسا ہے کہ آج کل کے نزاکت پسند لوگ اس کی برداشت نہیں کر سکتے اگر انکل میرزا در دوسو سے فعال اجزا او نکال لئے بھائیں یا ایکٹ ٹیکیٹ بنائے جائیں تو یقینا نہ صرف طب میں ایک مفید اضافہ ہوگا.بلکہ پاکستان کی دل میں ایک عظیم اضافہ ہوگا.ادویہ کے علاوہ جڑی بوٹوں میں بعض اور کیمیا کی اجزاء بھی ہیں.جو مختلف صنعتوں میں بڑا کام آسکتے ہیں.چنانچہ بہت سی بوٹیوں کے نندوں سے کشتے بنائے جاتے ہیں.آخران کے اندر ایسے اجزاء ہیں جو کہ دھاتوں کو تحلیل کرنے کی طاقت رکھتے ہیں.اگران کو الگ کر لیا جائے تو نہ صرف گشتے بنانے آسان ہو جائیں گے.بلکہ اور کئی قسم کی صنعتیں جاری کرنے کا امکان پیدا ہو جائے گا ہ ملے اخبار زمیندار دارد کبر کا لنڈ نے اس لیکچر کا خلاصہ حسب ذیل الفاظ میں شائع کیا : - امریکہ سے قرضہ لینا پاکستان کی آزادی کو خطرے میں ڈالنا ہے.پاکستان کی زراعت کو خطرہ.فوری تدابیر کو عمل میں لانے کی اشد ضرورت.مرزا بشیر الدین امام جماعت احمدیہ کی تقریه - ا بودند در کمیر مرزا بشیر الدین محمد احد امام جماعت احمدیہ نے کل شام مینار ڈالی لاء کالج میں پاکستان اور اس کا مستقبل کے موضوع پر ایک عظیم اجتماع کے سامنے تقریر کرتے ہوئے پاکستان کی زراعت ، اقتصادیات اور معاشیات با فصیح و بلیغ لیکچر دیا.ملک فیروز خان نوں اس اجتماع کے صدر تھے.مرزا صاحب نے زراعت کے سلسلے میں ذرائع آپاشی خصوصا نہروں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ پچاس سال کے بعد نہروں کے خراب ہو جانے کے باعث پاکستان کی زراعت کو سخت خطرہ ہے اور اس خطرے کے تدارک کے لئے سائنس کے اصولوں پر کام کرنے کے لئے اتنی دوست کی ضرورت ہے اور اتنے اخراجات کا احتمال ہے.بصورت موجودہ ہماری حکومت جن کی متحمل نہیں ہوسکتی.لیکن پیرنی سلطنتوں خصوصاً الفضل اور فتح اکبر از بیش مثال :
۴۲۱ امریکہ سے قرضہ لینا ہماری آزادی کے لئے زبردست خطرے کا باعث ہوگا.لہذا اس کا علاج صرف یہ ہے کہ بیرونی کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ لگانے کی مشروط اجازت دی جائے ان فرموں کو چالیس فی صدی جیتے دیئے جائیں اور چالیسں فی صدی حکومت پاکستان دے.باقی ہیں فی صدی حصوں کے مالک پاکستان کے عوام ہوں.اس سلسلے میں فرموں سے یہ شرط بھی کی جائے کہ وہ ہمارے حصہ دار کو ساتھ ساتھ ٹر ینگ دیں گئے یہ اختبار طاقت اور دسمبر عشا ء نے لکھا :.اہور ، دیمیر جماعت احمدیہ کے امام مرزا بشیر الدین خود اصر نے آج شب ادر کالج ہال میں ایک جمع کو خطاب کرتے ہوئے اس تجویز کی سخت مخالفت کی ہے کہ حکومت پاکستان امریکہ سے ساٹھ کروڑ ڈالر کا قرضہ حاصل کر رہے.ملک فیروزخان نون نے اس جلسہ کی صدارت کی.مرز المبشیر الدین نے کہا کہ اس قرضہ کا مطلب پاکستان پر ساڑھے پانچ کروڑ سالانہ سود کا بوجھ اور ایک غیر حکومت کا معاشی غلبہ ہوگا.اسکی مقابلہ میں انہوں نے دوسری سلیم پیش کی ہے کہ حکومت پاکستان غیر مالک کی فرموں کو اپنا روپیہ پاکستان میں لگانے کی دعوت دے.ان فرموں کو سرمایہ کا کل چالیس فی صدی روپیہ لگانے کی اجازت دینی چاہیئے.اور باتی رو پر حکومت اور باشندگان پاکستان لگائیں.انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس کا بھی انتظام کرنا چاہیئے کہ باشندگان پاکستان ان فرموں کے ٹیکنیکل آدمیوں سے با قاعدہ کام سیکھ سکیں.(۱ - پ ) " س لیے حضور نے ابتدا اپنی گذشتہ تقریر کے تسلسل میں حکومت پاکستان کی طرف سے امریکہ سے قرض تیسرا ایر لینے کی ذکرکیا اور ہے کہ ینے کی تجویز کا ذکر کیا اور فرمایا.گراب مجھے معلوم ہوا ہے کہ قرضہ کی شکل وہ نہیں ہوگی.جو اختیارات میں شائع ہوئی تھی.تاہم میرے نزدیک اس تجویز پر عمل کرنے سے قبل متعدد اہم امور پر غور کرنا ضروری ہے بھنور نے ان امور کی وضاحت کرتے ہوئے اس امر یہ بھی زور دیا.کہ اس تجویز کے متعلق ملک کی اسمبلی کی منظوری حاصل کہ لینی چاہیئے.اسکی بعد حضور نے اصل موضوع پر تقریر شروع کرتے ہوئے بتایا کہ ملی ملک کی معنوی دولت ہی اسکی افضل قوت ہوا کرتی ہے باقی سب چیزیں اس کے مقابل پرتانوی حیثیت رکھتی ہیں.اگر پاکستان کا ہر نوجوان عقل سے کام سے دماغ پر درد سے اور یہ اقرار کر ے کہ میں نے اپنی تمام قوتیں ملک و ملت کے لئے وقف کر دینی ہیں تو یقینا ہماری ساری ضروریات پوری ہو سکتی ہیں.اور ہم ملک کا اتنا اچھا دفاع کر سکتے ہیںکہ وہیں اور ہوائی جہاد کی کے مقابلہ
میں کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتے.حضور نے فرمایا معنوی دولت افراد کے دماغ اور ان کے جسم مل کر پیدا کر تے ہیں اور اس لحاظ سے پاکستان کے پاس یہ دولت پیدا کرنے کے بہترین ذرائع موجود ہیں.دماغی لحاظ سے ایک سامان چار امور سے متاثر ہوتا ہے :.(۱) عقیدہ توحید (۲) عقیدہ عبودیت - (۳) دعا.(۴) تذهیب - حضور نے ان چاروں اصولوں کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ اگر مسلمان ان چاروں امور پر کامل یقین اور ان کے مطابق تبدیلی پیدا کریں اور اس کے نتیجہ میں ان کے اندر خود بخود جرأت ، دلیری ، بہادری، علوم کی ترقی کا شوق - عرض ترقی کرنے کی تمام صفات پیدا ہو جائیں گئی جسمانی قوت کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا.مغربی پاکستان کا بچہ بچہ بہادر ہے.میرا اندازہ ہے.کہ ہندوستان کے بیس کروڑ افراد میں سے جتنے سپاہی نکل سکتے ہیں.پاکستان کے دو کروڑ افراد میں سے اتنی ہی تعداد میں لیکن قابلیت کے لحاظ سے ان سے بہتر سپا ہی مہیا ہو سکتے ہیں.حضور نے معنوی دولت سے فائدہ اٹھنے کے لئے مندرجہ ذیل تجاویہ بیان فرمائیں : (۱) پاکستان میں ہر سلمان کے لئے قرآن مجید کا ترجمہ اب انا لازمی قرار دیا جائے.مادری زبان میں تعلیم دی جائے اس سلسلے میں یہ رہتی پاکستان پندار نہ دیا جات کو دو فر در گرد کو زرعی تعلیم بنائے در نہ وہ پاکستان سے علیحدہ ہو جائے گا.کیونکہ وہاں کے باشندوں کو بنگالی زبان ایک قسم کا عین ہے (س) اگر دو زبان کو لینگو افرینیکا قرار دیا جائے.اس سلسلہ میں حضور نے یہ تجویز پیش فرمائی کہ غالب اموتن اور داغ مجھے نگرانوں میں جو علی اور شیریں اُردو رائی ہے.اس کے تحفظ کے لئے دہلی کے مہاجرین کی ایک علیحدہ ہستی آباد کی بجائے.ورنہ اب یہ خاندان منتشر ہورہے ہیں اور آہستہ آہستہ ان کی زبان نا پید ہو جائے گی.حضور نے اس سلسلر می نو جوانوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ اخلاق کو درست کریں.سوچنے اور غور کرنیکی عادت ڈالیں.وقت کی قدر کریں اور اسے ملک اور قوم کے لئے زیادہ سے زیادہ مفید بنائیں.امیر اور غریب کے درمیان ارتباط پیدا کر یں.اور اقتصادی حالت کو اونچا کرنے کی کوشش کریں یہ ہے سیدنا حضرت امیر المومنین الصلح الموعود نے اپنی تقریر شروع کرتے ہوئے فرمایا کہ میری آج کی تقریہ چوتھا لیکچر پاکستان کی بڑی فضائی اور بھری دفاعی طاقت کے لحاظ سے اس کے مستقبل کے متعلق ہے.لیکن اصل موضوع کے شروع کرنے سے قبل میں ایک غلط فہمی کا نالہ کر دینا چاہتا ہوں.جو میری پھیلی تقریہ کے ایک حصہ کے متعلق ایک ه الفضل هم رفتم دسمبر هایش ۲ ۶۱۹۲۰
۳۲۳ روزانہ اختیار کو پیدا ہوئی ہے.جس میں میری طرف یہ منسوب کیا گیا ہے کہ گویا میں نے یہ کہا ہے.کہ ایک اہم عہدہ پر ایک در سیر کو مقر کیا گیا ہے اور وہ اس کا اہل نہیں ہے.یہ بالکل غلط ہے.میں سمجھتا ہوں کہ ایک شخص ترقی کر کے بہت بعد مقام تک پہنچ سکتا ہے.میرے کہنے کا مطلب صرف یہ تھا کہ ٹیکنیکل کام صرف ٹیکنیکل ماہرہی کہ سکتے ہیں.دوسرے اس کو سرانجام نہیں دے سکتے.اس کے بعد اصل موضوع شروع کرتے ہوئے حضیر نے فرمایا.موجودہ زمانہ میں جنگ ظاہری اور ن مخفی والیوں سے لڑی نہاتی ہے جو یہ ہیں.(۱) تبری.(۲) فضائی.(۳) بحری - (۴) اقتصادی دباؤ - (۵) ففتھ کا لم.سب سے پہلے میں تیری کو لیتا ہوں.اس میں پیادہ نوج- ٹیکنیکلی فوج - توپ خانہ خوراک ، لباس وغیرہ کی سپلائی اور سٹور کرنے والے ، علاج کرنے والے اور پیرا شوٹرز شامل ہیں.اسکے بعد حضور نے نہایت تفصیل کے ساتھ پاکستان کی دفاعی طاقت کا جائزہ لیا.اسکے بعض قابل توجہ پہلوؤں کی نشاندہی فرمائی اور بعض ایسے اہم اور مفید وقت بتائے جو دفاع پاکستان کے لئے اس دور میں مفید تھے.حضور نے پاکستان کی فضائی طاقت کو مضبوط بنانے پربھی بہت زور دیا اور فرمایا کہ عام میں نمانی تربیت حاص کرنے کا جان پیدا کرنا چاہئے اوریونیورٹیوں اور کالجوں میں اس کا انتظام کر نا چاہیئے.اس ضمن میں حضور نے فرمایا کہ ضرورت کے وقت ہوائی جہا ن تو ایک دن ہمیں خریدے جا سکتے ہیں لیکن آدمی ایک دن میں تیار نہیں ہو سکتے.لہذا ابھی سے اس طرف توجہ کہ نی چاہیئے.حضور کی تقریر کے بعد صاحب صدر میاں فضل حسین صاحب نے اپنی صدارتی تقریر مں حضور کی پیش کردہ تا دیز پر عمل کرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا کہ اس وقت ضرخدمت ہے کہ پاکستان کا ہر فرد فوجی تہ بیت حاصل کرے.ماہ ایک پانچویں لیکچر کے آغاز میں حضور نے بتایا کہ ملکوں کا بری طاقت مختلف اقسام کے جہازوں پر تمل ہوتی پانچواں پچر ہے.پھر حضور نے بھری طاقت کی اہمیت اور ضرورت پر زور دیتے ہوئے بتایاکہ پاکستان کے پاس اس وقت تجارتی بیڑے کی حفاظت کرنے والے بند تھیو نے جہانہ موجود ہیں.اگر اچھے افسر ہوں تو ان ہی سے لڑائی میں کسی حد تک کام لیا جا سکتا ہے.بحری جہازوں میں کام کرنے کی زمینگ کے لئے کر اچھی میں دو سکول موجود ہیں ایک چھوٹے بچوں کے لئے اور ایک نو پرانوں کے لئے لیکن تار پیٹ کا کام سکھلانے اور مکینیکل ٹریننگ کے لئے کوئی سکول تارپیڈو اور موجود نہیں ہے.پیسکو فوری طور پر قائم ہو جانے چاہئیں.پاکستان کے پاس اچھی بندرگاہ صرف کراچی کی ہے.حضور نے اس امر پر زور دیا کہ پاکستان کو SUBHARINES (آبرو کشتیاں) - MINELAYERS نے اس امر پر زور ه - الفصل الا رفتن دسمبر روش ماه ۱۳۲۶ -
۴۲۴ (سرنگ پچھانے والے) HINE SWEEPERS (سرنگیں صاف کرنے والے) ، DESTROYERS (تباہ کی جہاز، AIRCRAFT CARRIERS (ہائی بہانہ بردار جہاز ).حاصل کرنے کے لئے فوری طور پر قدم اٹھانا چاہیے.زیادہ سے زیادہ کر در دو کروڑ روپیہ ان چیزوں پر خرچ کر کے ہم فوری طور پر کراچی کی بندرگاہ کو محفوظ کر سکتے ہیں.اس سلسے میں تجارتی پیڑہ قائم کرنا بھی بہت ضروری ہے.کیونکہ اس وقت تمام بحری تجارتی کمپنیاں غیر سموں کے ہاتھ میں ہیں.اس کی وجہ سے تم جو سامان بھی باہر سے نگر اتے ہیں وہ پہلے بھی جاتا ہے اور انڈین یونین مختلف ذرائع سے سامان پر یقہ کر لیتی ہے.حضور نے یہ تحریک بھی کی کہ سلمان نوجوانوں کو بھری ملازمتیں کرنے اور سمندری سفر کرنے کا اپنے دلوں میں خاص شوق پیدا کرنا چاہیئے.پاکستان کی یونیورسٹیوں کو بحری ٹرینگ کے لئے کلیں قائم کرنی چاہئیں کیونکہ در حقیقت بغیر سمندری طاقت کے صحیح معنوں میں آزاد کال ہی نہیں سکتی مسلمانوں نے ہی سب سے پہلے دنیا میں کھلے سمندر میں سفر کر تا شروع کیا تھا.لیکن افسوس کہ اب رہے زیادہ اس سلسلے میں غفلت بھی سلمانوں پر ہی طاری ہے.سیاست کے لحاظ سے پاکستان کے دفاع پر روشنی ڈالتے ہوئے حضور نے بتایا.ملکوں کے سیاسی تعلقات دو قسم کے ہوتے ہیں.(1) جبری.یہ تعلقات بالعموم ہمسایہ مالک سے ہوتے ہیں.(۲) اختیاری.پاکستان کے جہری تعلقات را اچھے یا بیر سے ، ہندوستان ، افغانستان ، ایران ، برما کا عرب اللہ بر طانیہ کے ساتھ وابستہ ہیں.ان میں سے ایران ، عرب اور بجھا سے پاکستان کے تعلقات اچھے ہیں.افغانستان میں گوا ایک عنصر ایسا وجود ہے جس کی پاکستان کے بعض علاقوں پر نظر ہے.لیکن وہاں کی رائے عاصمہ چونکہ ہمسایہ سلمان مالک سے ہمدردی اور تعلقات بڑھانے کے حق میں ہے اسلیے یہ عنصر سردست پاکستان کی مخالفت کرنے کی جرات نہیں کر سکتا.البتہ انڈین یونین سے ضر در خطرہ ہے کیونکہ ایک تو اسے لفظ پاکستان پر ہی غصہ ہے دوسرے مغربی پاکستان سے غیر مسلم قریب نکل چکے ہیں.لیکن ہندوستان میں ابھی چار کر د سلمان با تی ہیں.جنہیں انڈین یونین بطور یہ عمال استعمال کر سکتی ہے.اس لئے بھی وہ آسانی سے پاکستان پر حملہ کرنے پر آمادہ ہو سکتی ہے.اس کے علاوہ اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں انڈین یونین کا فضحتہ کالم موجود ہے.لیکن انڈین یونین میں پاکستان کا فتہ کالم موجود نہیں.اس موقعہ پر بھور نے بتایا.کانگرس نے پنجاب میں بھی اور سرحد میں بھی بعض لوگوں کے ساتھ ساز باز کرتی ہے.یہ لوگ ایک تنظیم اور سکیم کے ماغنت آہستہ آہستہ پاکستان کو ضعف پہنچانے کی کوشیشی شروع کر چکے ہیں.پاکستان کے عوام کو اور حکومت کو ان لوگوں سے خبر دالہ یہ کہنا چاہیئے.حضور نے دیگر و اینک کے ساتھ تعلقات کے سلسلے میں روس سے حملہ کے خطرہ کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے بتایا.
۴۲۵ روس ایک سوچی بھی سکیم کے ماتحت آہستہ آہستہ ہندوستان پر حملہ کرنے کے لئے میدان تیار کر رہا ہے.روس کے خواہ کی وجہ سے ہی انگریزوں نے ہندوستان کو آنرا د کیا ہے.اس لئے ہمیں روس کی طرف سے ہو شیار رہنا چاہیئے.حضور نے دیگر ممالک کے ساتھ پاکستان کے سیاسی تعلقات کے سلسلے میں تیرہ اہم تجاویز پیش کرتے ہوئے منور جہ ذیل امور پر خاص طور پر زور دیا.(1) پاکستان کو اپنی طرف سے کوئی ایسی بات نہ کر نی چاہیئے جسکی اسکی ہندوستان سے تعلقات خراب ہوں.اسے اپنی طرف سے صلح کی ہر نمکن کوشش کر نی چاہیئے.لیکن یہ صلح با عزت ہو نہ کہ ہتھیار ڈالنے کے مترادف.(۳) برطانیہ اور امریکہ سے بھی خوشگوار تعلقات رکھنے کی کوشش کرنی چاہیئے لیکن ان کی چالوں سے ہوشیار رہنا چاہیئے.روس کے متعلق بھی امن پسندانہ رویہ رکھنا چاہیئے اور اپنی طرف سے کوئی وجہ اشتعال پیدا نہ ہونے دینی چاہیئے.عرب ممالک سے زیادہ سے زیادہ دوستانہ تعلقات قائم کرنے چاہئیں.(۳) (b) عراق اور شام کے ساتھ نیل کے ذریعے پاکستان کا اتصال قائم کرنا ضروری ہے.تاکہ مزورت پر ان ممالک کے ذریعے سامان آسکے.(4) برما اور سیلون کے مخصوص ملکی حالات اس قسم کے ہیں کہ ان کے ساتھ بہت آسانی سے گہرے سیاسی تعلقات قائم (4) کئے جا سکتے ہیں اور یہ تعلقات مشرقی پاکستان کی مدد کے لئے با لخصوص بہت اہمیت رکھتے ہیں.سپین، ارجنٹائن ، بھاپان ، آسٹریلیا ، ابی سیدنیا اور الیٹ افریقہ سے بھی دوستانہ تعلقات استوار کرنیکی کوشش کر نی چاہیئے.یہ مالک اپنے اپنے مخصوص حالات کی وجہ سے مسلمانوں کے لئے بہت سے سیاسی فوائد کا موجب بن سکتے ہیں " اے پھٹا پیچ اس آخری لیکچر کا خلاصہ خود سید نا الصلح الموعود کے الفاظ میں درج ذیل کیا جا تا ہے.محمد الحلى على الله الكريم خدا کے فضل اور گھر کے ساتھ هو الل سامير دستور اسلامی یا اسلامی آئین اساسی نیہ سوال اس وقت بندر اٹھ رہا ہے کہ پاکستان کا دستور اسلامی ہو یا قومی؟ اس بحث میں حصہ لینے والوں کی باتوں سے معلوم الفضل صلح / جنوری ۳۲ به بیش صاله
ہوتا ہے کہ وہ آئین عام الہ آئیکن اساسی میں فرق نہیں سمجھتے.آئین اساسی سے مراد وہ قانون ہوتے ہیں جن کی حد بندیوں کے اندر حکومت دوست ہیں اپنا کام چلانے کی مجاز ہوتی ہے.اور جن کو وہ خود بھی نہیں توڑ سکتی.بعض حکومتوں میں یہ آئین میں او ر کھے ہوئے ہوتے ہیں اور بعض میں صرف سابق دستور کے مطابق کام چلایا جاتا ہے.اور کوئی لکھا ہوا دستور موجود نہیں ہوتا.یونائٹیڈ سٹیٹس امریکہ مثال ہے ان حکومتوں کی بھن کا دستور رکھا ہوا ہوتا ہے.اور انگلستان مثال ہے.ان حکومتوں کی بہن کا دستور رکھا ہو انہیں اس کی بنیا د تعامل سابق پر ہے.اسلام نام ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان پر نازل ہونے والی وہی پر ایمان لانے کا.پس اسلامی آئین اساسی کے معنے ہی ہوں گے کہ کوئی ایسی بات نہ کی جائے جو قرآن کریم سنت اور رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم کیتعلیم کے خلاف خو به قرآن کریم ایک غیر مشتبہ کتاب ہے.سنگت ایک غیر مشتبہ دستور العمل ہے.قول رسول بلحاظ سند کے ایک اختلافی حیثیت رکھتا ہے بعض اقوال رسول متفقہ ہیں بعض مختلفہ جو مفقہ ہیں وہ بھی کام الشده در سنت رسول اللہ کا درجہ رکھتے ہیں.جن اقوال رسول کے متعلق مختلف فرق اسلام میں اختلاف ہے.یا ایک ہی فرقہ کے مختلف علماء میں اختلاف ہے ان کا بول کرنا یا نہ کرنا اجتہاد کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.اس لیے وہ آئین اساسی نہیں کہاں سکتے.اسی طرح قرآن کریم کی آیات میں سے وہ حصہ احکام کا جن کے معنوں میں اختلاف پیدا ہو جاتا ہے وہ آرتیں تو آئین اساسی میں داخل کبھی جائیں گی.کیونکر وہ غیر مشتبہ ہیں لیکن اس کے الف یاب معنے آئیکن اساسی کا حصہ نہیں سمجھے جائیں گے بلکہ الف کو اختیار کر لینا یاب کو اختیار کر لیا حکومت وقت کے اختیارہیں ہوگا.یہیں جہاں تک آئین اساسی کا سوال ہے اگر پاکستان اسلامی آئین نامی کو اختیار کرنا چاہتا ہے تو اسے اپنے آئین میں یہ دفعہ رکھنی ہوگی کہ پاکستان کے قوانین جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے قرآن و سنت پر بنی ہوں گے.اور جن امور میں قرآن و سنت سے واضح دوستی نہ سنی ہوگی اور اجتہاد کی اجازت ہوگی یہاں قرآن کریم سنت اور کلام رسولی کی روشنی میں قانون تجویز کئے جائیں گے اگر قانون اساسی اسلامی نہیں بلکہ حنفی یا شافعی یا جنبی یا ماکی بنانا ہوگا تو پھر اوپر کے قانون میں یہ بھی اضافہ کرنا ہوگا کہ یہ قانون ندای فلای فرقہ کے علماء کے اجتہادوں پر سنی ہوں گے مگر اس خصوصیت کی وجہ سے یہ قانون اسلامی آئین نہیں بلکہ حنفی آئین یا شافعی آمینی یا جنیلی آئین یا مالک آئین کہلانے کے مستحق ہوں گے کیونکہ اسلام کے لفظ میں تو سب ہی فرق اسلام شامل ہیں.اسلامی اصول پر مبنی گورنمنٹ کے لئے چونکہ انتخاب کی شرط ہے اس لئے اگر اسلامی آئین پرگورنمنٹ کی بنیاد رکھی جائیگی تو مندرجہ ذیل شرائط کو مد نظر رکھنا ہو گا.اقول : حکومت کا ہیڈ منتخب کیا جائیگا.انتخاب کا زمانہ مقرر کیا جاسکتا ہے.کیونکہ پاکستان کا ہیڈ خلیفہ نہیں
ہو گا.خلیفہ کو سارے مسلمانوں پر حکومت حاصل ہوتی ہے.اور وہ صرف حکومت کا ہیڈ نہیں ہوتا بلکہ مذہب کا بھی ہیڈ ہوتا ہے.پاکستان کے ہیڈ کو نہ دوسرے ملکوں کے مسلمان تسلیم کریں گے اور نہ علماء مذاہب کے مسائل میں اس کو اپنا سینڈ ماننے کے لئے تیار ہوں گے.اس لئے خلافت کے اصول پر اس کی اصول تو مقرر کئے جا سکتے ہیں.مگر نہ وہ خلیفہ ہو سکتا ہے نہ خلافت کے سارے قانون اس پر چسپاں ہو سکتے ہیں.خلافت کے اصول یہ ہیں :- دا، اس کا تقرب انتخابی ہو اس انتخا کے کئی طریق میںلیکن اس تفصیل میں جانے کی اس وقت گنجائش نہیں).(۲) وہ مملکت کے کام مشورہ سے چلائے دمشورہ کے لئے اسلام کے تین اصول ہیں.عام مسلمانوں سے مشورہ لینا.یعنی یورینیم چند تر به کارلوگوں سے مشورہ لینا یعنی اگر ٹیٹو باڈی مسلم تو موت کے منتخب نمائندوں کو مشورہ لینا جیسے آجکل کی پارلیمنٹس ہوتی ہیں یہ تین طریقے رسولالہ صلی اللہ علی وسلم کے عمل سے ثابت ہیں لیکن جہاں تیک خلافت کا سوال ہے خلیفہ موہ لینے کا پابند ہے مشورے پر حل کرنے کا پابند نہیں.پس اگر سوفی صد کی خلافت کے اصول پر پاکستان کا آئین بنایا جائے تو حکومت کا ہیڈ ایگز یکٹ کا بیڈ ہوگا.ایگزیکٹو کا انتخاب اس کی اپنے اختیار میں ہو گا وہ تمام ضروری امور میں پبلک کے نمائندوں سے مشورہ لے گا لیکن ان مشوروں پر کاربند ہونے کا پابند نہیں ہوگا لیکن می پہلے بتا چکا ہوں کہ پاکستان کا پیٹ خلیفہ نہیں ہوگا.کیونکانہ سالی اسلامی حکومتیں اس کو پید تسلیم کر یں گی نہ علماء اس کو مذہبی ہیں تسلیم کریں گے.اس لئے ہم خلافت کے پس پردہ ہو اصول کار فرما ہیں ان سے روشنی تو حاصل کر سکتے ہیں ان کی پوری نقل نہیں کر سکتے اور چونکہ خوفت اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتی جب تک دنیا کی سب مسلمان حکومتیں اور افراد اس انتخاب پر متفق نہ ہو جائیں یا اکثریت متفق نہ ہو جائے اور یہ ناممکن ہے اسے یہ کہنا کہ پاکستان کا آئین اساسی اسلام پر مبنی ہو درست نہیں ہیں طرح انگریزی حکومت کے ماتحت نہیں شریعیت کئے وہ احکام نافذ کرنے کا اختیار نہ تھاجو حکومت کے متعلق تھے اور ہم اس کی وجہ سے گنہگار نہیں تھے.اسی طرح اسلامی آئین حکومت چونکہ خلافت سے تعلق رکھتا ہے اور خلافت کا قیام مسلمان افراد اور حکومتوں کی اکثریت کے اتفاق کے بغیر ناممکن ہے اس لئے اگر ہم اس نظام کو قائم نہیں کرتے تو ہم ہرگز خدا تعالی کے سامنے مجرم نہیں کیونکہ اس نظام کے قائم کرنے کے لئے جو شر میں اسلام نے مقرر کی ہیں وہ شہر میں اس وقت پوری نہیں ہوتیں.اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کی حکومت اسلامی اثر سے بالکل آزاد ہو ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہرنہ نہیں جو چیز ہمارے اختیار می نہ ہو اس کے پھوڑنے میں تو ہم حق بجانب کہلا سکتے ہیں لیکن جو چیز مار سے اختیار میں ہو اسے
۴۳۸ چھوڑنے کا ہمیں کوئی حق حاصل نہیں.انگریزی حکومت میں اگر ہم چور کا ہاتھ نہیں کاٹتے تھے تو ہم گنہگار نہیں ہوتے تھے لیکن اگر ہم نمانہ نہیں پڑھتے تھے تب ضرور گنہگار ہوتے تھے.اگر ہم ایک زانی کو کوڑے نہیں لگاتے تھے توہم گنگا ہے نہیں ہوتے تھے.لیکن اگر ہم روزے نہیں رکھتے تھے توہم مزور گنہگار ہوتے تھے.پس جوحصہ ہمارے اختیار میں نہیں اسکی ن کرنے پر ہم پر کوئی الزام نہیں لیکن جوحصہ ہمارے اختیار میں ہے اس کے نہ کرنے پر یقینا ہم پر انام ہے.اسلامی آئین کے مطابق ہم اپی حکومت نہیں بنا سکتے کیونکہ اسکے لئے خوف کی شرط ہے اور خلافت کی شرط کو پاکستان پر انہیں کر سکتا.اسلامی خلیفہ سارے عالم اسلام کا سردار ہوتا ہے وہ مذہب اور حکومت دونوں کا سردار ہوتا ہے.وہ سیاست اور انفرادی زندگی کابھی سردار ہوتا ہے.یہ شرطیں پاکستان ہرگز بھی نہیں کر سکتا لیکن جہاں تک قانون سازی اور انفرادی زندگی پر اسامی احکام کے نفاذ کا سوال ہے اس میں کوئی چیز ہمارے رستے میں روک نہیں بن سکتی.پس اگر پاکستان کی کانسٹی ٹیوشن می سلمان جن کی بھاری اکثریت ہوگی یہ قانون پاس کر دیں کہ پاکستان کے علاقے میں مسلمانوں کے لئے قرآن اور سنت کے مطابق قانون بنائے جائیں گے ان کے خلاف قانون بنانا جائز نہیں ہوگا.توگو اساسی حکومت کی طور پر اسلامی نہیں ہوگا کیونکہ دو ہو نہیں سکتا مگر حکومت کا طریق عمل اسلامی ہو جائے گا اور مسلمانوں کے متعلق اس کا قانون بھی اسلامی ہو جائیگا اور اسی کا تقاضا اسلام کرتا ہے اسلام ہرگز یہ نہیں کہتاکہ ہند و در عیسائی اور یہودی سے بھی اسلام پر مل کر دیا جائے بلکہ وہ بالکل اس کے خلاف کہتا ہے.راسی اصولی تمہید کے بعد میں آئین کے لحاظ سے پاکستان متعلق متقبل کے کچھ تفصیلی نوٹ دیتا ہوں :.کے بعدی این آئین کے لحاظ سے پاکستان کا مستقبل بہت عظیم الشان ہے کیونکہ اس کے باشندوں کی کثرت اس منبع آئین میں یقین رکھتی ہے جس کی نسبت خالق جن و انس فرماتا ہے.الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَا تُمْتُ عَلَيْكُمْ نعمتی ( مانده پیچ یعنی میں نے تمہاری ضرورتوں کے تمام مدارج کے لئے قانون بنا دیتے ہیں اور تمہاری ساری ہی ضرورتوں کو قانون کے ذریعے سے پورا کر دیا ہے گویا قرآنی قانون ان ٹی سیو ( INTENSIVE) بھی ہے اور ایکس ٹن سود (EXTENSIVE ) بھی ہے.یہ سوال کہ ایک ہی قانون ہمیشہ کی ضرورتوں کوکسی طرح پیدا کر سکتا ہے ؟ اس کا جواب سمجھنے سے پہلے یہ بات سمجھ لینی چا ہیے کہ آئین دو قسم کے ہوتے ہیں بجھا اور فلیکسین یعنی غیر لچکدار اند لچکدار بر بلکہ اس قانون میں یہ کمزوری ہوتی ہے کہ اس کو عید جلد بدلنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے لیکن لچکدار قانون کو فوری بدلنے کی ضرورت نہیں ہوتی.ان قانونوں کی کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کپڑے کا کرتہ اور سویٹر کپڑے کا بنا ہوا گر تہ بچے کے بڑھنے کے ساتھ جلدی جلدی تبدیل
۴۲۹ کرنا پڑتا ہے.سویٹر بوجھ لچکدار ہونے کے بہت دیر تک کام آتا رہتا ہے.ایسا لچکدار قانون گو دیر تک کام دیتا ہے لیکن اس میں یہ نقص ہوتا ہے کہ وہ کبھی اپنے منبع سے بالکل دور چلا جاتا ہے.اور نئی نئی تو مہروں سے آخر اس کی شکل ہی بدل بھاتی ہے.اسلام بعض حصوں میں انتہائی غیر لچکدار ہے مگر اس کی بعض تعلیمات انتہائی لچکدار ہیں اور یہ اس کا غیر معمولی امتیاز اور غیر معمولی کماں ہے کہ اس کا غیر لچکدار قانون کبھی بھی خلاف زمانہ نہیں ہوتا اور اس کا لچکدار قانون کبھی بھی ایسی شکل نہیں بدست کہ اپنے منبع سے بالکل کٹ جائے.اس لئے اسلام ہمیشہ کے لئے قائم رہنے والا قانون ہے.اب میں اصل سوال کو لیتا ہوں کہ آخر ایسا کس طرح ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بعض باتوں کا جواب کیوں اور کسی طرح سے مل نہیں ہوتا بلکہ چیز کی حقیقت کو دکھی کم ہوتا ہے اسلام کاک کی کمی بھی ایسا نہیں جو زمانہ کی روی توں سے پیچھے رہ گیا ہو خصوصا اس زمانہ کے لحاظ سے تو اسلام کے احکام کی خوبی در بارہ ثابت ہوگئی ہے.طلاق ، نکاح بیوان قریبی رشتہ داروں سے شادی.شراب کے استعمال کو رام کرنا یہ چیزیں ہیں جن پر پچھلے سو سال میں شدت سے اعترافی ہوتا آیا ہے.لیکن اب وہی معترضی تو یں اور حکومتیں ان قانونوں کو اپنا رہی ہیں.کثرت ازدواج پر اعتراض ہوتا ہے مگر کیا اس تازہ مصیب کے بعد بھی مسلمانوں کی مجھ میں اس کی حمت نہیں آئی.جب ہندوستان میں اسلام کی تبلیغی توتی رکی تھی اس وقت کے مسلمان اگر کثرت ازدواج کے ذریعہ سے اسلامی نسل کو بڑھانا شروع کردیتے تو آج یہ تنہا ہی نہ آتی تمام قانونوں در تمام اعمال کا خاص خاص زمانہ ہوتا ہے اُسی وقت ان کی قدر جاکر معلوم ہوتی ہے.عقائد میں توحید کا مسئلہ لے لو ، توحید پر دنیا نے کتنے اعتراض کئے ہالیکن اس صدی میں کیا کوئی ملک اور کوئی قوم بھی باقی رہ گئی ہے جو توحیدکی قائل نہ ہو ؟ ان تمام باتوں کو دیکھتے ہوئے کوئی مسلمان شعبہ ہی کسی طرح کر سکتا ہے کہ اسلام کے بعض قانون پرانے ہو گئے ہیں.آج سے سو سال پہلے طلاق کا قانون بھی پرانا تھا.شراب کا قانون بھی کیا نا تھا.جوئے کا قانون بھی پیرانا تھا.نکاح بیوگان کا قانون بھی میرا نا تھا قریبی رشتہ داروں میں شادی بھی پرانی تھی.اولاد میں جائیدادی تقسیم بھی پرانی تھی لیکن اب جان پہچان کر ان باتوں کو دنیا مان رہی ہے.کیا یہ بات ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی نہیں کہ جو در چار قابل اعتراض احکام رہ گئے ہیں وہ بھی اسی طرح حل ہو جائیں کے جس طرح کہ پہلے عمل ہوئے.جہاں اسلام کے کئی قانون ایسے ہیں کہ جن پر پہلے اعتراض ہوا اور ب و بیان پر عمل کرنے لگی ہے.وہاں غیر مذاہب کا کوئی بھی حکم نہیں کے متعلق یہ کہا جاسکے کہ اسلام کو اسے پہنانے کی ضرورت پیش آئی ہے.پردہ کی مثال یہاں چسپاں نہیں ہوتی اور سود کا سوال مختلف ہے کیونکہ سود لینے پر سلمان بنکوں اور حکومتوں کے قانونی دباؤ کی وجہ سے مجبور ہوتے ہیں لیکن جن غیر لم اقوام نے طلاق وغیرہ کے مسائل اختیار کئے ہیں وہ کسی اسلامی دباؤ کی وجہ سے نہیں.ہم خدا تعالی کے فضل سے ان سوالات کو بھی بل کو سکتے ہیں.جب بھی
۴۳۰ مسلمانوں میں سود کے متعلق اسلامی احکام جاری کرنے کا احساس پیدا ہوا ہم یقینا سود کو مٹا دیں گے.ہم اسے مٹا سکتے ہیں اور اسلامی قانون کی برتری ثابت کر سکتے ہیں.حقیقت یہی ہے کہ اس زمانہ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ قرآن کریم کی یہ آیت کہ رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُ وا لَوْ كَانُوا مُسْلِمِيْن ( مجری ، یعنی کفارہ کے دل میں کئی بار خواہش پیدا ہوتی ہے کہ کاش وہ بھی مسلمان ہوتے اور اسلامی قانون کی برتری سے فائدہ اُٹھاتے.یہ آیت اپنے اندر بڑی بھاری صداقت رکھتی ہے.ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اسلام ہر معاملہ میں دخل دیگر عقل انسانی کو معطل کر دیا ہے.یہ اعتراضی اسلام پر ہرگز نہیں پڑتا.اسلام تو کہتا ہے.يَا أَيُّهَا الذین امنوا لا تَسَئَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدُ لَكُمْ تسوكو (مائدہ پے، یعنی ہر معامہ کے متعلق سوال نہ کیا کرو کیونکہ قرآن کریم میں ہر امر کا بیان ہو جانا تمہار سے لئے تکلیف کا موجب ہو گا.پس اسلام کا کمال صرف یہی نہیں کہ وہ ہرمسئلہ پر روشنی ڈالتا ہے.بلکہ یہ بھی ہے کہ وہ ایک عمادی تعلیم کے باوجود بہت سی جزئیات کو مسلمانوں کے لئے تھوڑ دیتا ہے.تاکہ وہ اُن کے لئے قانون بنائیں.} اسلام کی تقسیم اس بحالی سے مندرجہ ذیل حصوں میں تقسیم ہے یہ اقول.اصولی تعلیم.یہ غیر متبدل ہے اصولی طور پر متبدل ہے حالات مخصوصہ میں نماز میں بہار کا بیٹھ جانا یانمانہ لیٹ کر پڑھنا.وضنونہ کرنے کی صورت میں تیم کر لینا.رمضان کے مہینہ میں فر یا بیماری کی وجہ سے دوسرے دنوں میں روزہ رکھو لینا مہ یہ سب حالات مخصوصہ کی تبدیلیاں ہیں.اس طرح جن ملکوں میں چوبیس گھنٹے سے دن یا رات بڑے ہوتے ہیں.ان میں روزہ زکواۃ اور حج کے فرائض کو دوسرے ممالک کے دنوں اور مہینوں پر قیاس کر کے پورا کرنا.یہ سب غیر متبدل اصولی حکم کی تبدیلیاں ہیں جو حالات مخصوصہ میں ہو جاتی ہیں.دوسرے جزوی تعلیم.یہ کئی قسم کی ہے.الف غیر معین احکام ہیں جن کی کمیت با کیفیت افراد یا جماعتوں پر چھوڑ دی گئی ہے.جیسے نفل نماز نفلی صدقہ نفلی روزہ عمرہ.ب - مماثل حالات میں مسائل اخذ کرنے کا حق دیا ہے.اسطرح قانون سازوں کے لئے مواقع نکلتے ہیں.جم - جرائم بتائے ہیں میرا تجو یہ نہیں کی.اس طرح بھی قانون سازی کے لئے مواقع نکالے ہیں.اسلامی قانون کے اصول یہ ہیں - يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَب وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ - (البقره ).پہ حکم کسی فائدہ کے لئے ہوتا چاہیئے.ہر نبی کسی نقصان کے دور کرنے کے لئے ہونی چاہیئے.
پر کم ہی تزکیہ ذہن و قلب اور قومی ترقی کے مد نظر ہونے چاہئیں.م - لَا يَخَلَّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ( البقر ) کوئی حکم ایسانہیں ہونا چاہیے جو فرد یا قوم کی طاقت سے باہ ہو.یہ طاقت جسمانی بھی ہوسکتی ہے امکانی بھی.یعنی ظاہر میں طاقت ہو لیکن اسکانی ترقی کو نقصان پہنچاد سے اور ذہنی بھی یعنی قوم کی ذہنی قوتوں کو ضائع کر دیے.نانون محرمیت ضمیر کو مارنے والا نہ ہو.وَلْيَحْكُمْ أَهْلُ الْإِنجِيلِ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فِيهِ (مائده بی) اور یہود کی نسبت ہے وَكَيْفَ يُحَكِّمُونَكَ وَعِندَهُمُ التَّوْرَاةِ فِيْهَا حُكُمُ اللَّهِ ثُمَّ يَتَوَلَّوْن مِنْ بعد ذالك (مائده با مسلمانوں کے متعلق فرمایا.فاحْكُمُ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنزَلَ اللهُ (مائده : - کوئی حکم فرد یا پارٹی کو نقصان پہنچانے واں نہ ہو.وَإِن كَثِير مِنَ الْخُلَفَاءِ لَيَبْغِي بَعْضُهُمْ عَلَى کوئی حکم یا نفاذ حکم ایسا نہ ہو کہ مزدوروں کو ترقی سے رو کے یا ترقی کے امکانات کو خاص افراد یا اقوام میں محصور کردے.ما أفاء الله عَلَى رَسُولِهِ مِنْ اَهْلِ القُرى فللهِ وَالرَّسُولِ وَيذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسْكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَى لَا يَكُونَ دُولَة بَيْنَ الْأَغْنِيَا مِنْكُمْ (الحشرية ) - - کوئی قانون ایسا نہ ہو کہ ایک قوم بالحکومت کے ذریعہ سے دوسری اقوام پرنا جائزہ فوقیت حاصل کر نا چا ہے یا سے دبانا چا ہے.تَخذُونَ ايْمَانَكُمْ دَخَلَا بَيْنَكُمْ أَنْ تَعُوْنَ أُمَّةٌ هِيَ أَرْبَي مِنْ أُمَّةٍ دَ إِنَّمَا يَبْلُوَكُمُ اللهُ بِهِ وَلَيُبَيِّنَ لَكُمْ يَوْمَ القِيَامَةِ مَا كُنتُم فِيهِ تَختَلِفُونَ (النمل ہے ، اسکی کا تخت زمیندار اور غیر زمیندارہ میں فرق جائزہ نہیں.را سلام قانون کو فردی پاکیزگی کے ساتھ البتہ قرار دیتا ہے.کیونکہ سوسائٹی کی اصلاح فرد کی اصلاح کے ساتھ والبتہ ہے اور اچھے سے اچھا قانون فرد کے طوعی تعاون کے بغیر اچھا نتیجہ نہیں دے سکتا.اسی لئے اسلام فرماتا ہے يا أيها الذينَ آمَنُوا عَلَيْكُما أَنفُسَكُمْ لا يَرُكُمْ مَنَ ضَلَّ اَذَا اهْتَدَيْتُمُ (باندہ ہے، اس لئے أَيُّهَا کوئی اسلامی آئین جاری نہیں ہو سکتا.جب تک کہ فروزاتی احکام پر پہلے عمل نہ کرے.اگر قانون کو کا میاب کرنے والی روح نہ ہو تو قانون کیا کہ سکتا ہے ؟ ہر قانون توڑا جا سکتا ہے.ہر قانون کے مستثنیات ہیں اور ہر شخص اپنے آپ کو مستنے بنا سکتا ہے.یہ سچ ہے کہ میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا تانی لیکن یہ بھی پیسے ہے کہ وہ راضی نہ ہوں تو بھی دو قاضی غریب کو اتو بنانے کے لئے سو جتن کر لیتے ہیں.
پس اسلامی آئین بنانے جس کی منے میں اسلامی سوسائی بنانے سے پہلے اسلامی فرد بنانا ہوگا.ور نہ یہ تو ظا ہر ہے کہ جو اسلامی فرد نہ ہوگا اسے آئین اسلام سے کیا دیپی ؟.جو ذاتی احکام پر عمل کرنے کے لئے تیار نہیں وہ کیوں قومی آئین کے لئے فکرمند ہوگا اگروہ ایسا کہ ے گا تو کسی ذاتی غرض کے لئے..اس لئے وہ آئین اسلام نہ بنائے گا بلکہ آئین اسلام کے نام سے ایسا قانون بنائیگا جو اس کی ذات کے لئے مفید ہو.ایسا آئین یقیناً غیر اسلامی آئین سے بھی خطرناک ہوگا کیونکہ وہ سوسائٹی کے لئے بھی مضر ہو گا اور اسلام کو بھی بگاڑ نے اور بد نام کرنے والا ہوگا.پس جب تک فرد اپنے ذاتی اعمال کو اسلام کے مطابق کرنے کے لئے تیار نہیں اسے کوئی حتی نہیں کہ اسلامی آئین بنانے کا مطالعہ کہ سے یاد ھوائی کرے.ہرمسلمان کا فرض ہے کہ وہ دیکھے کہ اسلام کا آئین بنانے والے فردیتانیان اسلام پر خود کار بند ہیں.اب میں تفصیل کو لیتا ہوں.اسی بھی آئین کے جاری کرنے سے پہلے یہ سوچ لینا چاہئے کہ شود حرام کرنا ہوگا.موجودہ سینما بند کرنے ہوں گے.اسلامی پردہ رائج کرنا ہوگا.شراب پینے والی بند کرنی ہوگی.انشورنس حرام ہو گا.جو اس صرفت بازداری نہیں بلکہ اسکی مشابہ کھیلیں بھی جو چانسی گیمز کہلاتی ہیں منع ہوں گی.ڈاڑھیاں دیکھی جائیں گی.مردوں کے لئے سونے کا زیور یا استعمال کی چیز ، چاندی ہونے کے برتن بلکہ تالیاں بجانا بھی منع کرنا ہو گا.جاندار کی مصوری اور ان تصویروں کی نمائش بھی نا جائمہ ہوگی اگر سلمان اس کے لئے تیار ہوں تو پھر وہ شوق سے اسلامی آئین بھاری کریں.لیکن اس کے لئے اس اعلان کی ضرورت نہیں.کہ وہ اسلامی حکومت جاری کریں گے کیونکہ قرآن کریم تو صاف کہتا ہے کہ رمن لم يَحْكُمْ بِمَا نَزَلَ اللهُ نَارِ لَيْكَ هُمُ الْكَافرون (مائدہ ہے ، کیا سلمان دوسری اقوام کو مجرم بنانا چاہتے ہیں.اور خدا تعالیٰ کی اجازت کو چھین لیں گے اور قرآن حکم پرعمل ہوگا کہ ہر مذہب کے پیرو اپنے مذہب کے قانون کے مطابق عمل کریں گے تو پھر اس فتنہ کا دروازہ کھولنے کی کیا ضرورت ہے کہ دوسرے مسلمانوں کو نقصان پہنچے.یہ کیوں نہ کہا جائے کہ پاکستان میں مسلمانوں کے باہمی معاملات اسلام کے مطابق طے ہوں گئے اور دوسر سے مذا ہب اگر جائیں تو ان کے معاملات ان کے مذہب کے مطابق در نہ ان کی کثرت رائے کے مطابق قانون بنا دیا جائے گا.ان الفاظ میں وہی مطلب حاصل ہو گا جو اسلامی حکومت کے لفظوں میں ہے.لیکن کسی کو اعترض کرنے یا بدلہ لینے کاحق نہیں ہو گا.غیر مذاہب میں سے جو اعلان کر دیں کہ وہ اسلامی قانون یا اُس کے فلاں حصہ کی پیروی کریں گئے ان پر اسلامی قانون عاید کر دیا جائے گا.
۴۲۳ اب رہ جاتا ہے وہ حصہ قانون کا جو حکومت سے تعلق رکھتا ہے اس میں اسلامی زانون کی روشنی میں ملکی قانون بنایا جا سکتا ہے.بہر حال اسلامی ملک میں مسلمانوں ہی کی زیادتی ہو گی.اس طرح کوئی بھی بھنگڑا پیدا نہیں ہوتا اور اسلام کا منشاء بھی پورے طور پنیر کی کمی کے پورا ہو جاتا ہے.ورنہ دشمن کو استعمال ہو کر دوسرے مسلمانوں کو نقصان ہوتا ہے.اور قرآن کریم فرماتا ہے.وَلا تَسُبُوا الذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُوا اللهَ عَدْرًا بغَيْرِ عِلم ( العام ) اُوپر کی تمہید کے بعد میں کہ سکتا ہوں کہ اسلامی اصولوں کے مطابق بنائی ہوئی پارٹی کا نام سوشل ڈیموکرٹیک انٹر نیشیق ر کھا جا سکتا ہے.اور اس کا وہ حصہ جو صرف مسلمانوں پر مشتمل ہو اسلامک سوشل ڈیموکرٹیک انٹر نیشنل کہلا سکتا ہے.ر اسلامی نظام اقتصادی السلام کے اصول کے مطابق اصل مالک خدا تعالئے ہے اپنی سب چیزیں بنی نوع انسان کے لئے پیدا کی ہیں.اس لئے ہراک کی کمائی میں دوسروں کا حق ہے وہ حق زکوۃ اور مشر در نشس کے ذریعہ ادا کیا جاتا ہے جو رقوم کہ حکومت لیتی اور غرباء پر استعمال کرتی ہے یا پبلک کاموں پر.اس روپیہ کے استعمال میں یہ امر د نظر رکھا جاتا ہے کہ يُؤْخَذُ مِنْ أَمَرَاءِ هِمْ وَيُرَدُّ إلى نقد او هستم.مگر اس کے ساتھ یہ امر بھی کہ امیر وغریب کے کھانے کپڑے کا انتظام حکومت کرتی ہے.راشن سسٹم ہر وقت جاری رہتا ہے.خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل اس کا مؤید ہے.بحرین کا بادشاہ مسلمان ہوا تو آپ نے اس کو سکھا کہ جن کے پاس زمین نہ ہو ا کو چار درہم اور مناسب کپڑا بطور گذارہ دیا جائے.حضرت عمر نے اسلامی احکام اور اس عمل کے مطابق ہر سلمان کی نوراک دلباس کا انتظام کیا اور مفت راشن کا سسٹم بھاری کیا.مگر اس کے علاوہ احسان اور صدقہ کو بھی اسلام نہیں مٹاتا.اور انفرادی ترقی کے راستے کھلے پھوڑتا ہے زمین کی ملکیت کے بارہ میں اسلام نے ہر گزردک نہیں ڈالی.جو والے پیش کئے جاتے ہیں وہ سرکاری زمین یا عطیات سر کا ریا غصب حکام کے بارہ میں ہیں.ایک حوالہ بھی خرید کردہ یا در شر کی زمین کے متعلق نہیں ہے.انصار صحابہ نے خود نصف زمین دینی چاہی مگر مہاجرین نے نہیں کی.فتوحات کے موقعہ پر رسول کریم صلی الہ علیہ و ستم
لم سلالم نے فرمایا کہ یا یہ زمین جہا برین کے پاس رہنے ودیا اپنی نصف ان کو دیدو اور یہاں سے نصف لے لو.صاف ظاہر ہے کہ یہ معاملہ بالکل جدا گانہ ہے.یہ انفصالہ کے شک کو دور کر نے کے لئے تھا.اور اس میں کیا شک ہے کہ حکومت کا مال غربا کے پاس جانا چاہیئے.انصار نے جواب دیا کہ ہم دونوں باتوں پر راضی نہیں.ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہیں کہ نئی آگرہ زمین مہاجرین کو ہی دی جائے.اور ہماری زمین کا نصف بھی.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول نہ کیا.مساوات رکھنے کا اسلامی نظام نوان متولی صانعت - دوره بر تو شیروانی کی حالت بھاؤ بڑھانے یا گھٹانے کو نا جان قرار دیا.سادہ زندگی خویاک بہتی رہائش اور زیور میں تمام افراد کا کھانا کپڑا اور مکان حکومت کے ذمہ ہے.حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ کسی قانون کے غلط استعمال پر اس قانون میں جن دی تبدیلی عارضی طور پر کردے.چنانچہ حضرت عمران نے ایک وقت میں تین طلاق دینے والے کی تین طلاقوں کو تین ہی قرار دینے کا فیصلہ فرمایا.حالانکہ اصل میں دوہ نین نہیں بلکہ ایک ہی ہیں.آپ کی غرض شریعت کی حد بندیوں کو توڑنے والے کو سزا دینا تھی.اسلامی احکام کی خصوصیت عورت کے حقوق.اولاد کے حقوق عوام کے حقوق ملازموں کے حقوق - مجرموں کے حقوق - مسادات انسانی اور بین الاقوامی تعلقات پر روشنی ڈالی ہے.دوسری شرائع اسبارہ میں خاموش ہیں.ا سلام کے بعض اہم مسائل مین پر اعتراض کیا جاتا ہے :- ا.زنا کی سزا رجم بہت سخت ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم میں اس سزا کا ذکر نہیں.قرآن کریم الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي نَاجَلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ (نوری) زانی مرد یا ندانی عورت کو سو کوڑے لگاؤ اور جو جھوٹا الزام لگائے اُسے اسی کوڑے لگاؤ.ان دونوں حکموں کے بعد فرما تا ہے.إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابُ الِيم في الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُون رایا).پس یہ سو کوڑے بھی فحش کی سزا ہیں.ظاہر ہے کہ جو اس طرح زنا کیسے گا کہ چانہ گواہ اسکی فعل کے مل سکیں گے وہ نہ نا سے زیادہ خش کا
۳۳۵ مرتکب ہو گا.اور رخش ہی کی یہ سزا ہے.اب رہا یہ سوال کہ زنا کی کیا مزا ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ زنا کی سزا خدا تعالے کے ہاتھ میں ہے.چنانچہ زانی کے متعلق فرماتا ہے حلق آنا ما دفرقان پتے، یعنی وہ اپنے گناہ کی سزا بعد اسے پائے گا.ہاں زنا کو روکنے کے لئے شریعت اسلامیہ نے اس کی مبادی کو رد کا ہے.مثلاً غیر محرم مردو عورت کے اختلاط کو روکا ہے.۲ - چوری کی قطع ید - السَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا انيد بهما مانده را به من بات بتائی جاتی ہے.جواب.یہ سزا ہر پوری کی نہیں.بلکہ اس کے لئے شرطیں ہیں.اول.چوری اہم ہو.دوم - بلا ضرورت ہو یعنی مادہ.طعام کی چوری پر رسول کریم صلی الہ علیہ سلم نے مزان دی.اسی طرح بھاگے ہوئے غلام کے متعلق ہے کہ ہاتھ نہ کاٹے جائیں گے جس کی یہ وجہ ہے کہ وہ کما نہیں سکتا اور بھوک سے مجبور ہے.سوم - تو یہ سے پہلے گرفتار ہو تب مرزا علی گی.چہارم.ماں پوری کر چکا ہو.صرف کوشش سرقہ نہ ہو.پنجم.اس کی چوری مشتبہ نہ ہو.یعنی اشتراک مال کا ملٹی نہ ہو جن کے گھر سے پوری کرے وہ اس کے عزیز یا تعلق نہ ہوں جن پر اس کا میزد - (بیت المال کی چوری پر حضرت عرض نے سزا نہ دی شکل کسی مذہبی جنون کے ماتحت ہو.جیسے بہت پُر الینام یہ مذہبی دیوانگی کہلائے گی اور حکومت تعزیری کارروائی کرے گی ہاتھ کاٹنے کی سزا نہ دی جائیگی یا جوش انتقام میں چوری کرے جیسے جانوروں کی پوری کرتے ہیں.یا جبرا پوری کرائی جائے ششم.وہ شخص نا بالغ نہ ہو - هفتم عقلمند ہو بیوقوف یا فاتر العقل نہ ہو.ہشتم.اس پر اصطلاح پور کا اطلاق ہو سکتا ہو.چھور سے مال واپس دلوایا جائے گا..ڈاکہ.بغاوت اور ارتداد باغیانہ کی سزا قتل ہے.اِنَّمَا جَزَارُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللههَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَنْ يُقَتَلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وارْجُلُهُمْ مِنْ خِلَاتٍ يُنفَوْا مِنَ الْأَرْضِ (مائدہ ہے ، اس میں چار الگ سزائیں بتائی ہیں.یہ سزائیں جرم کی نوعیت کے لحاظ سے ہیں.اگر ایسے لوگ ساتھ قتل کرتے ہوں تو قتل کئے جائیں گے.صلیب دیتے ہوں تو صلیب دئے جائیں گے.ہاتھ پاؤں کاٹتے ہوں تو ان سے یہی کیا جائے گا.محضن دنگا فساد کرتے ہوں تو ید یا جلا وطنی کی سزادی جائے گی.اس پر کیا اعتراض ہے ؟ اگر سلمان یہی معاملہ غیر اسلامی حکومت میں کہر سے اور اس سے یہی سلوک ہو تو مسلمانوں کو کیا اعتراض ؟
م سوال یہ ہے کہ باغی کافی تھا مرتد کو کیوں شامل کیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مرتد کا ذکر اسی ضروری تھا کہ وہ جنگی سپاہیوں کے حق کا مطالبہ نہ کرے جو باد جو قتل کے قاتل نہیں بن جاتے اور قتل نہیں کئے بھاتے.مرتد کے قتل کے خلاف یہ بھی دلیل ہے کہ پھران کو بھی حق پہنچتا ہے.لَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللهَ عَدْرًا بِغَة علیم میں اس حق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.نیست ۴ - علامی - اسلام میں نہیں.جنگی قیدیوں کا ذکر ہے.اور ان کے بارہ میں حکم ہے.اما منا بعد وإما ندَاء حَتَّى تَفعَ الحزب افزارها محمد رغ) اور جس کو خدا و حاصل نہ ہوا اس کیلئے "کتابت" کا حکم ہے.پس غلامی کی کوئی صورت بھی موجود نہیں.جنگی قیدیوں کا ذکر ہے جو ہر زمانہ میں پکڑے جاتے ہیں.اور ہر حکومت پکڑتی ہے اس کے علاوہ بھی اسلام نے قیدیوں کی آزادی کے مختلف حکم دئے ہیں.قصاص قتل.اس میں معافی کی اجازت ہے.خواہ خط کی دیت ہو خواہ عمر کی سزا ہو.مگر حکومت شرارت میں دخل دے گی.قصاص اعضاء - مار پیٹ کا یا السن بالستین وغیرہ.ہاں جلانے کی اجازت نہیں.نہ تک کر نیکی.اس قسم کی سزا کا ہونا اس کے لئے ضروری ہے مگر اس میں بھی عضو یا دیت جائز ہے اور عمر کی شرط ہے.ہاں قاضی دباؤ اور ڈر کی صورت میں معافی کو بر طرف کر سکتا ہے.علوم کی تعذیب.بلکہ مجرم کی بھی جائز نہیں.اسے روکنے کیلئے اقرار جرم کے بعد انکار جرم کو جائزہ رکھا گیا ہے.جبیری جرم.جزم نہیں بلکہ جرم کر انے والا جرم ہے.حکومت عوام کی ہے.انتخاب ضروری ہے.ریفرنڈم بھی اسلام سے ثابت ہے اور مشورہ بواسطہ نمائندگان بھی.إِنَّ اللهَ يَا مُرُكُمْ أَن تُوةُ الأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَن عَدُمُوا بِالْعَدْلِ (نساء ) وَاَمْرُهُمْ شُوَرى بَيْنَهُمْ ( شوری با مشاورهم في الأمير دل مرا با اور پھر مزدوروں کے متعلق احکام اسلامی برور کی مزدوری غیر ادا ہو.اس پر سختی نہ کی جائے.اسکی وہ کام نہ لیا جائے جو انسان خود نہ کی ہے.اس کی مزدوری کا تھوڑا حکومت کے ذیلیہ چپکایا جا سکتا ہے.
بین الاقوامی جھگڑوں کے متعلق لیگ آف نیشنز کا اصول مقرر فرمایا ہے.فرماتا ہے.دان طابقين مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا فَإِنْ بَغَتْ اِحْدُ هُمَا عَلَى الأَخرَى فَقَاتِلُوا الَّتي تَبْغِي حَتَّى تَفِى وَ إِلَى أَميرِ اللهِ فَإِن نَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا إن اللهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ (الحجرات ) - (1) جب دو قومیں لڑیں تو دوسری اقوام مل کر لان میں صلح کرلیں.ہیں، اگر کوئی فریق صلح پر راضی نہ ہوتو دوسری سب اقوام اس کی مد کریں جو صلح پر آمادہ ہے اور جنگ کرنے والی قوم سے لڑیں.(۳) جب جنگ کرنے والی قوم جنگ بند کر دے تو یہ بھی جنگ بند کر دیں.(۲۳) اسکی بعد پھر اصل جھگڑے کے متعلق باہمی تصفیہ کیا جائے.(۵) بوجہ اسکی کہ ایک قوم نے پہلے صلح پیر رضامندی ظاہر نہ کی تھی اُسے سختی نہ کی بجائے.بلکہ تنازع کا فیصلہ انصاف سے کیا جائے.راس وقت مسلمانوں میں مفتی ہیں لیکن معنی اور قاضی نہیں ہیں اور ادھر حکم ہے گو نوار با نیستین آہستگی سے دین کو جاری کرد.یعنی اسلامی قانون کو جاری کرنے میں نہایت غور اور فیسکر اور سہولت کی ضرورت ہے.مگر بہت سے احکام فور ابیاری کئے جا سکتے ہیں اور کوئی وجہ نہیں کہ جاری کئے جائیں مجلس قانون ساز کے متعلق وقت یہ ہے کہ اسلام ہر شخص کا عالم دین ہونا ضروری قرار دیتا ہے.لیکن اس زمانہ میں عیسائیوںکی طرح علماء اور عوام کا الگ الگ فرقہ بن گیا ہے.اس مشکل کو کون فورا عمل کر سکتا ہے کہ معنی اقتصادی ماہر اور سیاسی ماہر دین نہیں جانتے.دین جاننے والے مقنن اقتصادی ماہر اور سیاسی ماہر نہیں ہیں.موہر سے دعوی کرنا اور بات ہے.مگر حقیقت ہی ہے.مانا کہ ہمارہ سے آقا جو نیل بھی تھے.اقتصادی ماہر بھی.سیاسی ماہر بھی.مقنن بھی تھے.مفتی بھی تھے اور قاضی بھی تھے.يَدَاكَ نَفْسِى يَا رَسُولَ اللهِ - اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى ال محمد وبَارِكَ وَسَلَّمْ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ ، فصل ششم حضرت سیدنا مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام نے اور دسمبر سا لانہ کو خواب میں دیکھا کہ : یں کسی اور جگہ ہوئی اور قادیان کی طرف آنا چا ہتا ہوں ایک دو آدمی ساتھ ہیں کسی نے کہا اسلام کا آئین اساسی ناشر مولانا عبدارحمن صاحب اور وکیل امریوان تحریک جدید بود حال بلڈ نگ نام بوده در فراری شام اند :
راستند بند ہے.ایک بحر ذخار چل رہا ہے.میں نے دیکھا کہ واقع میں کوئی دریا نہیں بلکہ ایک بڑا سمندر ہے اور پیچیدہ ہو ہو کر چل رہا ہے جیسے سانپ چلا کرتا ہے.ہم واپس پچھلے آئے کہ ابھی راستہ نہیں اور یہ راہ بڑا خوفناک ہے یہ ہے یه و داوری اور سنی خیز و یا اگر سید نا حضرت مصلح موعود کی ہجرت پاکستان سے بھی پوری ہو چکی تھی اور ہورہی ہے مگر اس کی عملی تعبیر کا ایک نہایت درجہ تلخ اور روح فرسا پہلو پہلی بار ماہ فتح و مبر نہ ہش کے آخری ہفتہ میں یہ سامنے آیا کہ امن پسندی اور حکومت وقت کی اطاعت و وفاداری میں مشہور جماعت.جماعت احمدیہ.اپنے مقدس مرکز سے باہر نا محمد میں سالانہ جلسہ کرنے پر مجبور ہوئی اور حضرت مصلح موعود جو اس مقدس تقریر کے حقیقی معنوں میں درج رواں تھے اس وجہ سے قادیان کے سالانہ جلسہ میں رونق افروز نہ ہو سکے کہ قادریا کے رستہ میں ملکی اور سیاسی مشکلات اور پیچیدگیوں کا ایک خوفناک سمند ر حائل ہو چکا تھا.قبل انہیں اس تقریب پر شمع احمدیت کے ہزاروں پر انے بر صغیر کے بھاروں افرانت سے پہنچ جاتے تھے اور اس کی برکات سے فائدہ اُٹھاتے تھے مگر نہ ہش کے سالانہ جلسہ قادیان میں پاکستان بلکہ ہندوستان کے دوسرے علاقوں سے بھی کوئی احمدی شامل طلبہ نہ ہو سکا جو سلسلہ کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا الم انگیز ساتھ تھا.عہد درویشی کا پہلا سالانہ جلسہ کہتے ہیں تاریخ اپنے اوراق الٹتی ہی نہیں.دوہراتی بھی ہے.یہ اصول یا مسلمیر سالانہ جلسہ قادیان کے بارہ میں سو فیصدی صحیح نکلا چنا نچہ جس طرح حضرت مسیح موعود کے زمانہ مبارک میں جلسہ سالانہ کے سوا جو ڈھاب کے کنار سے ہوا ) سب سالانہ جلسے مسجد اقصی میں منعقد ہوئے.اسی طرح عہد درویشی کا یہ پہلا سالانہ جلسہ بھی (۲۶ ۲۷ ۲۸ کمبر امن کو مسجد اقصیٰ ہی میں منعقد ہوا جس میں ۳۱۵ نفوس کو جن میں ۲۵۳ در دیش اور ۶۲ غیرمسلم رہندو سکھ تھے شمولیت کی سعادت نصیب ہوئی.علاوہ ازیں تین احمدی اور چار غیر احمدی خوانین اور ایک نھنی بچی نے بھی ایک پردہ کے پیچھے (جو بر آمدہ مجید کے شمالی حصر میں سیڑھیوں کے ساتھ نصب کیا گیا تھا ، جلسہ کی کار ردائی منی رجلسہ کا سیٹھ مسجد کے شمالی حصہ میں بنچوں پیہ بنایا گیا تھا میں کا رخ جنوب کی طرف تھا اور اس پر حضرت مولوی عبد الرحمن صاحب بجٹ اور صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب تشریف فرما تھے.لے البدر ۲ جنوری نگاه میک، تذکره طبع سوم مستم شگاه سراس مو قع پر سردار سر این سنگر صاحب ا ہے.ایس.آئی اپنی سوچ چکی پولیس قادیان (سج ایک کنسٹیل کے ) اور سیکیورٹی آفیر بھی مجود تھے نیز قریب ہی ایک اونچے مکان پر ملٹری کی ایک پیکٹ بھی لگی ہوئی تھی.
تجلسہ کا پروگرام صاحبزادہ مرزا خلیل احمد صاحب ناظر دعوت و تبلیغ قادیان نے مرتب فرمایا تھا.۲۲ فتح رودسمبر.جلسہ کے افتتاحی اجلاس کی کاروائی کا آغاز کلام پاک کی قدرت سے کیا گیا.جو حافظ عبد الرحمن صاحب پشاوری نے کی.پھر گوجرانوالہ کے بیشیر صاحب نے حضرت مصلح موعود کی درد انگیز نظم نو نهارای بافت سے خطاب " سنائی.ازاں بعد حضرت یہیوی عبد الرحمن صاحب جٹ نے نہایت رفت بھری آواز سے سورہ فاتحہ کی اورت کی رانی محصر تقریریں بتایا جی بی شنوا میں پہلی دفعہ قادیان میں آیا تو ڈاک ہفتہ میں صرف در باہر آتی تھی اور تار کا کوئی انتظام ہی نہیں تھا.بعد میں جب جماعت نے تد کھ کھلوانا چاہا تو محکمہ نے نے بطور ضمانت ایک معقول رقسم مجاعت سے وصول کی.لیکن آمد اتنی زیادہ ہوئی کہ ایک ماہ میں ہی ہماری رقم واپس کر دی گئی.پھر کچھ عرصہ بعد ٹیلیفون سلسلہ بھی جاری ہو گیا.حضرت مولوی صاحب نے تقریر جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ قادیان موجود ہے.اس کے مقدس شعائمہ موجود ہیں.اس کی مساجد موجود ہیں.اس کا نگر خانہ موجود ہے لیکن افسوس ہمارا پیارا اعلام یہاں موجود نہیں.انھیں اپنے آقا کو دیکھنے کے لئے ترستی ہیں مگر پاتی نہیں ، تاہم ہمیں ایک گو نہ خوشی ضرور ہے کہ حضور نے ہم خادموں کو اپنے پیغام سے نوازا ہے.یہ بشارت سنانے کے بعد حضرت مولوی صاحب نے امام تمام امیر المومنین سیدنا المصلح الموعود کا پیغام پڑھ کر سنایا جو یہ تھا :- يم الدالرحمن الرحيم و اصلی ما رو به کار و على بعبده البيع المود ا کے فضل اور رسم کے کا تھیلا خوش برادران جماعت احمدیہ مقیم قادیان ! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ نہ رہیں جب میں بچی کے لئے کیا تھانوں سے واہی ترمیم کی ہیں ہو تی تھی.جہاز دو دہی لیٹ ہو گیا.سعید میں عیلیہ میں شمولیت سے محروم رہا.اس کو پور سے پینتیس سال ہوگئے.آج پور سے ۳۵ سال کے بعد پھر اس سال کے جلسہ میں شامل ہونے سے محروم ہوں.ہم قادیان کے جلسہ کی یادگاریں با ہر بھی علیمہ کہ رہے ہیں.لیکن اصل میسہ رہی ہے جو کہ قادیان میں ہو رہا ہے اور پور سے چالیس سال کے بعد پھر یہ جلسہ مسجد اقصی میں ہو رہا ہے مسجد تقصی میں ہونے والا آخری جلسہ وہی تھا جو کہ حضرت مسیح موعود کی زندگی کے آخری سال میں ہوا.آپ کی وفات کے بعد
1411 پیل جیسی مدرسہ احمدیہ کے صحن میں ہوا اور شور سے جلسے مسجد نور میں ہونے شروع ہوئے اور گذشتہ سال) تک دارالعلوم کے علاقہ میں ہی جملے ہوتے پہلے آئے ہیں.خداتعالی کی کسی حکمت کے ماتحت آج پھر مسجد اقعلی میں ہمانا سالانہ جلسہ ہو رہا ہے اسے نہیں کہ جلسہ ساہ نہیں شامل ہونے والے مشتاقوں کی تعداد کم ہوگئی ہے.بلکہ شمع و حریت کے پروانے سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے قادیان نہیں آسکتے.یہ حالات عارضی ہیں اورخدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے ہمیں پورا یقین ہے کہ قادیان احمدیہ جماعت کا مقدس مقام اور خدائے وحدہ لا شریک کا قائم کردہ مرکز ہے.وہ ضرور پھر احمد اوین کے قبضہ میں آئے گا اور پھر اس کی گلیوں میں دنیا بھر کے احمدی خدا کی حمد کے ترانے گاتے پھریں گے.جود لوگ اس وقت ہمارے مکانوں اور ہماری جا مداد پر قابض ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کا قبضہ قبضہ منانا ہے.لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ وہ لوگ مجبور اور معذور ہیں وہ لوگ بھی اپنے گھروں سے نکالے گئے ہیں اور ان کی جائیدادوں سے انہیں بے دخل کیا گیا ہے.گو وہ ہمارے مکانوں اور ہماری جا کر اوروں پر جبرا قابض ہوتے ہیں مگر ان کے اس دخل کی ذمہ داری اُن پر نہیں بلکہ ان حالات پر ہے جن میں سے ہمارا ملک گذر رہا ہے.اس لئے ہم ان کو اپنا مہمان سمجھتے ہیں.اور آپ لوگ بھی انہیں اپنا ہمان کجھیں ان سے بھی اور تمام ان شریف لوگوں سے بھی جنہوں نے ان فلتہ کے ایام میں شرافت کا معاملہ کیا ہے.محبت اور درگزر کا سلوک کریں اور جو شریر ہیں اور انہوں نے ہمارے انسانوں کو ٹھیلا کہ ان فتنے کے ایام میں چوروں اور ڈاکوؤں کا ساتھ دیا ہے آپ لوگ ان کے افعال سے بھی چشم پوشی کریں.کیونکہ مزا دینا یا خدا تعالیٰ نے اپنے اختیار میں رکھا ہے یا حکومت کے سپرد کیا ہے اور حکومت آپ کے ہا تھ میں نہیں، بلکہ اور لوگوں کے ہاتھ میں ہے.اگر حکومت اپنا فرض ادا کرے گی تو وہ خود ان کو سزا دے گی.پر بلال یہ آپ لوگوں کا یا ہمارا کام نہیں ہے کہ ہم حکومت کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیں.خدائے واحد لاشریک کے سامنے رعایا بھی اور حاکم بھی پیش ہوں گے اور ہر ایک اس کے سامنے اپنے کاموں کا جواب دہ ہوگا.پس خدا کے حکم کے ماتحت اس حکومت کے فرمانبردار رہو.میں حکومت میں تم بہتے ہو.یہی احدیت کی تعلیم ہے جس پر گزشتہ ستادن سال سے ہم زور دیتے پہلے آئے ہیں.یہ تعلیم آج کل کے حالات سے بدل نہیں سکتی اور نہ آئندہ کے حالات کبھی بھی اسے بدل سکتے ہیں.دنیا میں بھی بھی اس قائم ہیں ہو سکتا جیت کا اس تعلیم پر عمل نہ کی جائے کہ ہر ملک میں لینے والے اپنی حکومت کے فرمانبردار ہیں اور اس کے انون کی پابندی کریں.کوئی اس عظیم کو مانے یانہ ان احمدی جماعت کا فرض ہے کہ ہمیشہ اس تعلیم پر قائم رہے.ملک کے قانون کے ماتحت اپنے حق مانگنے منع نہیں لیکن قانون توڑنا اسلام میں جائزہ نہیں.میں نے سُنا ہے کہ بعض غیر مسلموں نے میری ایک تقریر کے بعض فقرات کو بگاڑ کر قادیان میں اشتہار دیا کہ میں نے کہا ہے کہ تمام ہندوستان کے احمدیوں
کو آزاد کشمیری گورنمنٹ ی اعداد کرنا چاہیے.اور جنگ میں اُن کا ساتھ دینا چاہیئے.میری اس تقریر میں جنگ کاکوئی ذکر نہیں تھا بلکہ سردی میں ٹھٹھر نے والے لوگوں کے لئے کپڑے کی امداد کا ذکر تھا.اسی طرح ہندوستان کے احمدیوں کا کوئی امداد 1 کر نہیں تھا.بلکہ پاکستان میں رہنے والے لوگوں سے خطاب تھا اور جیسا کہیں پر بتاتا ہوں احمدیت کی یہ تعلیم ہے کہ جس حکومت میں کوئی رہے اس کی اطاعت کرے پاکستان کے احمدی پاکستان کے مفاد کاخیال رکھیں گے اور ہندوستان کے احمدی ہندوستان کے مفاد کا خیال کریں گے.اسی طرح میں طرح پاکستان کے رہنے والے ہندو پاکستان کا خیال رکھیں گئے اور ہندوستان میں رہنے والے عام مسلمان ہندوستان کے مفاد کا خیال رکھیں گے.یہی وہ بات ہے جس کی پاکستان کے لیڈر ہندوستان کے مسمانوں کو تلقین کو رہے ہیں اور یہی وہ بات ہے جس کو ہندوستان کے لیڈر پاکستان کے مندروں کو سمجھارہے ہیں.اگر ہندوستان کے بعض باشند سے اپنے چوٹی کے لیڈروں کی بات بھی نہیں سمجھ سکتے تو وہ میری بات کس طرح سمجھ سکتے ہیں.پس تم ان کی باتو پر صبر کرد در احمدیت کی اس نعمت پر ہمیشہ کاربند رہوکہ جیسی حکومت میں رہو اس کے فرمانبردار رہو.میں آسمان پر خدا تعالے کی انگلی کو احمدیت کی فتح کی خوشخبری سھتے ہوئے دیکھتا ہوں.جو فیصلہ آسمان پر ہو زمین اسے رہ نہیں کر سکتی اور خدا کے حکم کو انسان بدل نہیں سکتا ہو تسلی پاؤ اور خوش ہو جاؤ.اور د عادلی اور روزوں اور انکساری پیرز در دو اور بنی نوع انسان کی ہمدردی اپنے دلوں میں پیدا کرو کہ کوئی ملک اپنا گھوڑا بھی کسی نظام سائیں کے سپرد نہیں کرتا.اس طرح خود ابھی اپنے بندوں کی باگ ان ہی کے ہاتھ میں دیتا ہے جو بخشتے ہیں اور میشم پوشی کرتے ہیں اور خود تکلیف اٹھاتے ہیں تاکہ خدا کے بندوں کو آرام پہنچے.ہر ایک مغرور، خود پسند اور عام عارضی خوشی دیکھ سکتا ہے گو مستقل خوشی نہیں دیکھ سکتا.پس تم نرمی کرد در لغو سے کام نو اور بعدا کے بندوں کی بھلائی کی فکر میں لگے رہو.تو اللہ تعالی جس کے ہاتھ میں حاکموں کے دل بھی میں وہ ان کے دل کو بدل دستے گا اور شفقت حال ان پر کھول دیا یا ایسے حاکم بھیج دیا جو انصاف اوردم کرنا جانتے ہوں.تم لوگ جن کو اس موقعہ پر قادیان میں رہنے کا موقعہ ملا ہے اگر نیکی اور تقوی اختیانہ کر دگنے و تاریخ احمدیت میں عزت کے ساتھ یاد کئے جاؤ گے اور آنے والی نسلیں تمہارا نام ادب دا احترام سے لیں گی.اور تمہارے لئے دعائیں کریں گی اور تم وہ کچھ پاؤ گے جو دوسروں نے نہیں پا یا.اپنی آنکھیں نیچی رکھو لیکن اپنی نگاہ آسمان کی طرف بلند کرد - فَلَنُو لِيَكَ قِبْلَةً تَرْضَهَا " نه خاکسار مرزا محمود احمد خلیفه مسیح الثانی ۲۳ د نمبر شانه ای مکتوبات اصحاب احمد جلد اول مات ۲۶ ) مرتبہ جناب ملک اصل روح الدین صاحب ایم.اے ) ؟ “ =
المالي حضرت امیرالمومنین کے اس روح پر در اور درد انگیز پیغام نے جہاں درویشوں کے اندر ایک نئی روح پھونک دی وہاں حضور کے رخ انور کی زیارت اور حضور کی مجلس علم و عرفان اور پاک اور مقدس کلمات سے محرومی کا تکلیف دہ احساس کا ایک بڑھ گیا اور سیر اعلی آو دیکه، گریه دارای دور کر امام کا ایک زہرہ گداز نظر پیش کرنے گی.حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب پیغام پڑھ چکے تو آپ کی استدعا پر صاحبزادہ مرزاخرا حرصا اپنے عمر رسیدہ درویشوں کے ساتھ نہایت درد اور الحاج اور تفریع اور انتہال سے ایک لمبی اور پر سوز دعا کرائی.دعا کے بعد مولوی مرا براہیم صاحب قادیانی نے پا نچھے سے ۱۲ بجے تک ذکر حبیب کے موضوع پر تقریر کی.جو سالانہ جلسہ پر حضرت مفتی محمد صادق صاحب کا ہمیشہ محبوب موضوع ہوتا تھا.اس تقریر کے بعد اجلا س اول ختم ہوا.اجلاس دوم - صدر علیمہ حضرت موادی عبدار یمن صاحب نے دوسرے اجلاس سے قبل فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سالانہ جلسہ کو حج کے عالمگیر اجتماع سے تشبیہ دی ہے اور حج کی نسبت ارشاد ربانی ہے فَلَا وَرَفتَ وَلَا فُسُونَ ولا جدال في الحج (بقرہ ).حج کے ایام میں نہتو کوئی شہوت کی بات نہ کوئی نا فرمانی اور کسی قسم کا جھگڑا تا جا نہ ہوگا.سوان خاص ایام میں کہیں بھی ان باتوں سے پر ہیز واجب ہے.اس اصولی ہدایت کے بعد مولوی غلام احمد صاحب ارشد مولوی فاضل نے دلکش ، دلاویز اور و بعد انگیز آواز سے سورہ یوسف (رکوع ۵۰۴) میں سے فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَيْهِ الحقن بالصالحین تک کی آیات کی تلاوت فرمائی.آپ کے بعد حافظ عبد الرحمن صاحب پشاوری نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مشہور تعظم 8 راک نہ ایک دن پیش ہو گا تو خدا کے سامنے نہایت خوش الحانی سے پڑھ کر سنائی.ازاں بعد پہلے مولوی شریف احمد صاحب امتینی سابق مدرس مدرسہ احمدیہ نے یا اون منٹ تک خصوصیات اسلام کے عنوان پر اور پھر مولوی عبد القادر صاحب احسان نے پچیس منٹ تک زمانہ روحانی مصلح کا متقاضی ہے " کے عنوان پر تقریریں کیں دی جانی با یکی دو منٹ پر اختتام پذیر ہوا.۲۷ فتح دسمبر ( اجلاس اول) اسی روز پہلا اجلاس بھی حضرت مولوی عبدا تین صاحب کی صدارت میں شروع ہوا.اس سے قبل آپ نے حاضرین سمیت دعا فرمائی.پھر عبد الرحمن صاحب ذاتی بنگالی نے سورہ بقری کی ابتدائی پانچ آیات کی تلاوت کی.پھر میر وسیع احد صاحب گجراتی نے حضرت میر محمد اسمعیل صاحب کی مقبول عام نظر " عليك الصلوة عليك السلام
سنائی.پھر دس بجکر سینتالیس منٹ سے ساڑھے گیارہ بجے تک مولوی غلام مصطفی صاحب فاضل برو لہری نے نہایت عمدگی سے " حضرت مسیح موعود کے کارنامے " کے عنوان پر اپنے خیالات کا اظہار کیا.پھر مولوی نظام احمد صاحب رشد نے قرآن مجیدکی پیشگوئیاں اس زمانہ کے بار میں کے موضوع پر سو بارہ بجے تک فاضلانہ تقریر کی.آپ کے بعد بشير احمد صاحب گویز انوالہ نے متحدہ ہندوستان کے آخری سالانہ جلسہ انہ مہیش کے موقعہ کی حضرت مصلح موعود کی نظم 6 املہ کے پیاروں کوتم کیسے بڑا مجھے خوش الحانی سے سنائی.نظم کے بعد مودی مد ابراہیم " 11 صاحب قادیانی نے عہد حاضر سے متعلق حضرت مسیح موعود کی بعض پیشگوئیاں بیان کیں.اس تقریر کے بعد جواس لتوی ہوا ہے اجلاس دوم - " سے قبل مولوی غلام احمد صاحب الہ شہر نے سورہ یوسف کا پہلا رکوع قلادت کیا.پھر حافظ عبد الرحمن صاف پیشاوری نے آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم کی مدح میں ایک نظم پڑھی.انا بعد ملک صلاح الدین صاحب ایم کی فصل تقریہ حضرت مسیح موعود اور آپ کے خدام کا غیر مسلموں سے سلوک کے عنوان پر ہوئی.آپ کے بعد مکرم مولوی شریعیت احمد صاحب امینی نے ۵۸ - ۲ سے پون گھنٹہ تک تقریر فرمائی میں میں اسلام اور آنحضرت صلی ال کی تعلیم رداد اری دغیرہ کے متعلق غیرمسلموں کی آراء کا بھی تذکرہ کیا.ا عليكم اسی تقریر کے بعد جلسہ میں موجود ہو ہندو سکھ دوستوں میں ارجن سنگیر صاحب عاجز ایڈیٹر اخبار رنگین ار قم کی کتاب سمیر قادیان " کے نسخے تقسیم کئے گئے.اس کارروائی کے بعد بشیر احمد صاحب آن گوجرانوالہ امرتسر.آن نے حضرت امام امید اللہ تعالی کی نظم " تعریف کے قابل ہیں یا رب تیرے دیوا نے " سنائی.پھر قریشی عبدالرشید صاحب آڈیٹر صدرانجمن احمدیہ نے پچیس منٹ تک تحریک جدید کے قیام کی اہمیت " پر تقریر کی.اور یہ اجلاس سوا چارہ بجے اختتام پذیر ہوگا.۲۸ فتح دسمبر (اجلا اقول ) - حسب سابق یہ اجلاس بھی حضرت مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل کی صدارت میں شروع ہوا.سب سے پہلے آپنے احباب کمیت دعا کی.پھر مولوی غلام احمد صاحب ارشد نے سورہ مریم کے دوسرے رکوع کی تلاوت کی.پھر جناب حافظ عبدالرحمن صاحب پشاوری نے نظم پڑھی.آپ کے بعد چوہدری سعید احمد صاحب بی.اسے نے له الفضل در صبح اسنوری سینه اش مت در رپورٹ مرتبہ ملک صلاح الدین صاحب ایم.اسے ) و
پونے گیارہ سے بیس منٹ تک " اصلاح نفس کے ذرائع " بیان کئے.پھر مونوی شریف احد صاحب امینی نے ” حکومت در مایا کے باہمی تعلقات اسلام اور احدیت کے نقطہ نگاہ کر کے موضوع پر بچپن منٹ تک ایک میر حاصل تقریر کی.اسکے بعد یونسی احمد صاحب السلم نے اپنے والد ماسر محمد شفیع صاحب اسم د نسابق امیر الباری یا ملکانہ کی ایک منظم سنائی.بعد انہاں سو بارہ بجے سے پونے ایک بجے تک مکرم صاحبزادہ مرزا خلیل احد صار پینے " برکات دعا کے مضمون پر تقریہ کیا.اجلاس دوم - اس روز کا اجلاس دوم بشیر احمد صاحب آن گوجر انوالہ کی تقاوت سے شروع ہوا.آپ نے سورہ الفتح کا آخری رکوع قادت کیا.پھر یونس احمد صاحب اسلم نے ایک منظم سنائی.ازاں بعد مولوی غلام مصطفے صاحب بد و پلی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مصائب پر صبر اور توکل علی اللہ کے موضوع پر دو جبکہ پچیس منٹ سے بتیس ۳ منٹ تک نظریہ کی جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے مصائب پر صبر کے بہت سبق آمونز واقعات سنائے.اس کے بعد مکرم صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب بار ایٹ لاء نے " ہمارا قادیان کے عنوان پر تسکیں منٹ میں ایک بہت ہی دلچسپ اور ایمان افروز مقالہ پڑھا جس میں قادیان کے آباد ہو نے کی تاریخ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آباء کرام کے حالات انگریزوں کی حکومت سے قبل قادیان کے اجڑنے کے واقعات اور ایک سکھ ریاست میں پناہ لینے پر قادیان میں واپسی اور تمہارا اور رنجیت سنگھ صاحب سے چند دیہات واپس ملنے کا ذکر کر کے بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کیا مقصد تھا؟.ہمیں قادیان کیوں پیار بی ہے؟ اور ہمارا حکومت سے اور غیر مسلموں سے کیا سلوک ہونا چاہئیے ؟ اور کیا سلوک ہوگا ؟ آپ کی تقریب کے بعد مولوی شریف احمد صاحب ایکنی نے حضرت امیر المومنین کا پیغام دوبارہ سُنایا.آخر میں حضرت مولوی عبد از یمن صاحب جٹ صدر جلسہ نے پھر حکام اور غیر مسلم سامعین اور مقررین اور احمدی حاضرین کا شکریہ اداکیا.اور حکم کو جماعت کی وفاداری کا یقین دلاتے ہوئے بتایا کہ جب کوئی غیرمسلم نہیں کہ سکتا که قادیان میں اپنی اکثریت کے زمانہ میں ہم نے اس کی عزت، حال اور جان پر کبھی ہاتھ دار ہو تواب جبکہ ہم نہایت اقلیت میں ہیں ہم سے انہیں کیا خون ہو سکتا ہے؟ نیز دعدہ کیا کہ ہم نئے لینے والے غیر مسلموں سے بھی ہمیشہ اپنی طاقت کے مطابق حسن سلوک کریں گئے.کیونکہ وہ ہمارے مہمان ہیں.پھر آپ نے حضرت امیر المومنین ¦
الصلح الموعود اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی طرف سے احباب کو سلام پہنچایا.نیز فرمایا کہ اس وقعہ پر ہمارا پایہ امام دا کرایا کرتا تھا.اب وہ تو ہم میں موجود نہیں لیکن اس کے دو عزیز موجود ہیں.مکرم صاحبزادہ مرزا ظفر احد صاحبجے میری درخواست پر جلسہ کے افتتاح کے موقعہ پر دعا کرائی تھی.اب میں مکرم صاحبزادہ مرزا خلیل احمد صاحب کی خدمت میں آخری دُعا کہ انے کی تحریک کہتا ہوں.اس پر صاحبزادہ مرزا خلیل احمد صادر نے نہایت وقت اور آہ وزاری کے ساتھ قریبا دس منٹ تک دعا کرائی جب کسی بعد یونس احمد صاحب اسلم اور میر وسیع احمد صاحب نے نظمیں سنائیں اور عہد درویشی کایہ پہلا سالانہ جلسہ چھانہ بھی کہ اکیس منٹ پر بخیر و خوبی ختم ہوا.الحمد للہ نے N ل اصل جلسہ سالانہ تو وہی تھا جو مرکز احمدیت قادیان میں حسب دستور ہوا لاہور میں مجلس مشاورت اور منطقی مگر حضرت سید نا اصلح الموعود نے خدائی تحریک کی بناء پر ا ر فتح ادکبیر اس جات لانہ کے انعقاد کا فیصلہ نہیں کے طلبہ میں ا فصیلہ کا اعلان فرمایا علیہ قادیان کے علاوہ ۲۶ فتح اردسمبر کو نمائندگان جماعت کی مشاورت ہوگی اور ۲۷ - ۲۸ فتح او ستمبر کو لاہور میں جماعت احمد یہ کا خلی تجلسہ سالانہ ہو گا.تھے اس سلسلہ میں حضور نے یہ بھی ہدایت فرمائی کہ :- ا، اس جلسہ پر عورتوں کو آنے کی اجازت نہیں ہوگی سوائے ان کے بہن کے رشتہ داروں نے اپنے طور پر یہاں رہائش اور خوراک وغیرہ کا انتظام کیا ہوا ہو." (۲) اس جلسہ پر صرف دو ہزار مہمانوں کا رجن میں نمائندگان شوری بھی شامل ہوں گے.انتظام کیا جائیگا.بعد ایران مصور نے مختلف جماعتوں اور حلقوں کے لیئے حسب ذیل کوٹا مقرر فرمایا :- مشرقی پاکستان - ہندوستان مشمول حیدر آباد دکن ۱۰۰ ، حلقه سیالکوٹ ۱۲۰ علامه شیخوپوره ، حلقہ گوجر انوالہ ۱۰۰ ، حلقہ لائل پور ۱۸۳ ، حلقہ جھنگ ۱۰۰، حلقہ سرگودھا ۲۵۰ ، حلقه گجرات ۲۵۰ حلقہ جہلم ۲۰ ، حلقہ راولپنڈی دلیل پور ۱۰ ، حلقہ ڈیرہ غازیان ۱۳ ، حلقہ سرحد حلقہ ملتان معر بیاد لیپور ۱۳۵ ، حلقہ مشکولی ۵۰ ، حلقہ سندھ منہ کو سٹر بلوچستان ۱۰۰ 10.له الفضل به صلح جنوری سایه ی من له الفضل در فتح دکمرانی اش مشب : / الفضل بهار فتح مبرانش صاب
وہ ہزارہ کی اس مبینہ تعداد کے علاوہ جو احباب لاہور میں اپنی رہائش اور خوراک کا خود انتظام کر سکتے ہوں وہ جلسہ میں شریک ہونے کے لئے آسکتے ہیں.لے مجلس مشاورت) چنانچہ حضرت مصلح موجود کے فیصلہ کے مطابق ۲۶ رفیق اکبر ہی کو رتی باغ میں ملیں مشاورت کا انعقاد ہوا مجلس مشاورت کے اس غیر معمولی اجلاس کا ایجنڈ احسب ذیل تھا :- - f آمد کا کیا انتظام کیا جائے ہے تبلیغ کے لئے کیا ذرائع استعمال کئے جائیں ؟ پناہ گزینوں کو کس طرح منظم کیا جائے.تارہ جماعتوں سے کٹ کر بست نہ ہو جائیں ؟ قادیان کی حفاظت کے متعلق کیا تدابیر اختیار کی جائیں ؟ جماعتی تنظیم اور ترقی کے متعلق تھا درین.را اس اجلاس میں بھی سابقہ منتخب نمائندے ہی شامل ہوئے.البتہ یہ اجازت دیدی گئی کہ جو منتخب نمائندہ سے شامل ابتلاس نہ ہو سکیں ان کی جگہ دوسرے نمائندوں کا انتخاب فوری طور پر کہ لیا جائے.ہے راس مشاورت کی ردا د کا خلا صر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے الفاظ میں درج کر نا مناسب ہو گا.حضرت صاحبزادہ صاحب نے ملک صارح الدین صاحب ایم اے کو بذریعہ مکتوب اطلاع دی کہ : - کل لاہور میں مشاورت کا خاص اجلاس تھا جو رتن باغ کے ہال یعنی ہماری موجودہ نماز گاہ میں منعقد ہوا.سب لوگ فرشتوں پر بیٹھے.البتہ حضرت صاد کے لئے میزاد لگ گئی تھی اور لاڈ پیار کا انتظام بھی تھا.جماعت کے مستقبیل کے متعلق اہم امور کے بارے میں مشورہ ہوا.مثلاً جماعت کی مالی حالت کو مضبوط بنانا، مشرقی پنجا ہے آئے ہوئے احمدی پناہ گن مینوںکی تنظیم ، تبلیغ کی توسیع اور قادیان کی آبادی وغیرہ کے متعلق ضروری مشورہ کیا گیا.حضرت صاحہ نے اس اجلاس میں دوبارہ اس اصول کو تاکید کے ساتھ بیان فرمایا کہ جہاں پاکستان کے احمدیوں کا یہ فرض ہے کہ وہ حکومت پاکستان کے دفادار رہ ہیں اور اس کی مضبوطی اور ترقی کے لئے کوشش کریں.وہاں انڈین یونین میں رہنے والے احمدیوں کا یہ فرض ہے کہ وہ انڈین یونین کے دفادار رہیں " سے Irry له الفضل فتح رد بر رفع رد برش و سه : - الفضل ، رفتح دبر من ست : مکتوبات اصحاب احمد جبار دردم م.(مرتبہ ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے ) به
لاہور کے ظلی جلب میں سفر مسلح میرا شادی کے بعد یہ کام کے مان مر ما نفت را بر روبات احمدیہ کا علی جیسہ بود حال با رنگ متصل نین باغ لاہور کے ایک کا پُر معارف افتتاحی خطب) وسیع میدان میں اپنی مخصوص شان کے ساتھ شروع ہوا.اس روز دنی بجے کے قریب سید نا حضرت امیر المومنين الصلح الوعود اینج پر رونق افروز ہوئے اور سورہ فاتحہ کی تقادات کے بعد فرمایا.آج کا جلسہ غیر معمولی حالات میں منعقد ہو رہا ہے.گذشتہ سال قادیان میں جاب سالانہ کے موقعہ پر کوئی احمدی یہ قیاس بھی نہیں کر سکتاتھاکہ اگلے جلسے کے موقعے پر ہم اپنے مرکز سے محروم ہوں گے اور ہمیں کسی پانابلہ کرنا پڑے گا میگیوں کے لحاظ تو ای ی ی ی ی ی ی ی ی ی حیت رکھتی ہیں اور سول ایم علی الہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جُعِلَتْ لِي الْأَرْضُ كُلَّمَا مَسجِد یعنی میرے لئے ساری زمینیں مسجد بنادی گئی ہیں اگر ہر جگہ ہی خدا کی سجدہ گاہ بن سکتی ہے تو وہ مومن کے لئے جلسہ گاہ بھی بن سکتی ہے.لیکن بہر حال عادی تعلقات ور محبتیں ضرور قلب پراثر ڈالنے والی چیزیں ہیں اور ہر چیز انسان کو جب معلوم ہوتی ہے.اگر کرائے کا ایک مکان بھی تبدیل کیا جائے تو تکلیف ہوتی ہے اگر کوئی شخص اپنی ملکیت کا مکان بھی خود اپنی مرضی سے فروخت کرتا ہے تو اسے بھی تکلیف محسوس ہوتی ہے تو پھردہ جگہ چھوڑنے پر کیوں تکلیف محسوس نہ ہو جو ہماری نگاہ میں مقدس تھی، جو ہمارے نزدیک روحانی ترقی کا ذریعہ تھی جو ہمارے نزدیک دین کی اشاعت اور تبلیغ کا مرکز تھی اور جنسی ہمیں جبری طور پر اور ایسے طورپر مردم کر دیا گیا ہے کہ جبتک دیہاں کے حالات پھر پیٹا نہ کھائیں ہم آسانی سے وہاں نہیں جا سکتے.یہ چیز تکلیف دہ تو ضرور ہے اسکی دل مجروح تو ضرور ہوتے ہیں لیکن مومن ہاں وہ سچا مومن تو محض من شنا که خدا پر ایمان نہیں لاتا بلکہ جس کا ایمان پورے یقین اور دانوں پر مبنی ہے وہ جانتا ہے اور خوب جانتا ہے کہ یہ تغیر ایک عارضی تغیرت ہے اسے خوب معلوم ہے کہ قادیان میری چیز ہے وہ میری ہے کیونکہ میرے بندا نے وہ مجھے دی ہے.گو آج ہم قادیان نہیں جاسکتے گو آج ہم اس محروم کر دیئے گئے ہیں.لیکن ہمارا ایمان اور ہمارا یقین ہمیں بار بار کہتا ہے کہ قادیان ہمارا ہے وہ احمدیت کا مرکز ہے اور ہمیشہ احدیت کا مرکز رہے گا انشا ء اللہ حکومت خواہ بڑی ہو یا چھوٹی بلکہ حکومتوں کا کوئی مجموعہ بھی ہمیں مستقل طور پر قادیان سے محروم نہیں کرسکتا.اگر ہمیں نہیں قادیان سے کہ نہ دے گی تو ہمارے خدا کے فرشتے آسمان سے اتریں گئے اور تیسیرگاہ ۵۰۷۲۲۰ انٹ کے رقبہ میں بنایا گیا تھا.چاروں طرف بہتر گیلریاں تھیں اور دوسط میں شامیانہ کے نیچے ی تھی.اب اس وسیع میدان پر دکھ میں تعمیر ہو چکی ہیں ہے
دم ہمیں قادیان سے کہ دیں گے (نعرہ ہائے تکبیر، اور جوطاقت بھی اس راہ میں حائل ہو گی وہ پارا پار کر دی جائے گی وه نیست و نابود کر دی بھائے گی.قادیان خدا نے ہمار سے ساتھ مخصوص کر دیا ہے اسے وہ نہیں آپ قادیان سے کر دے گا انشاء اللہ ، پس ہمارے دل غمگین نہ ہوں تم پرافسردگی طاری نہ ہو کہ یہ کام کا وقت ہے اور کام کے وقت میں افسردگی اچھی نہیں ہوتی.بلکہ کام کے وقت میں ہم میں نئی زندگی اور نئی روح پیدا ہو جانی چاہیئے.ہمارے سے بوڑھے، جوان ہو جانے چاہئیں اور بہار سے جوان پہلے سے بہت زیادہ طاقتور ہو جانے چاہیں.ہم مذہبی لوگ ہیں.حکومتوں سے ہمارا کوئی تعلق نہیں.مہارا کام دلوں ک فتح کرتا ہے نہ کہ زمینوں کو.ہمارا یہ کام دو سر سے کاموں سے بہت زیادہ اہم اور ضروری ہے.پس میں دوسروں کی نسبت زیادہ ہمت اور قربانی کرنی چاہیئے.آؤ ہم اپنے رب کے حضور دعا کرتے ہوئے یہ التجا ہیں کہ اسے تمہارے سے مرتب ! ہمارے دلوں اہمار سے جسموں اور ہمارے سامانوں کی کمزوری اور قلت کو تو خوب جانتا ہے.ہم ہر طرح بے کسی ، بے لیں اور نا تواں ہیں.ہمارے پاس تیرے حضور پیش کرنے کے لئے ایک ہی چیز ہے اور وہ ہے ہمارا ٹوٹا پھوٹا کمزور ، ناقص اور کرم خوردہ ایمان - ہم تیری محبت کے اس نقطے کا واسطہ دیگر ہو اس پر موجود ہے اس ایمان کو تیرے حضور پیش کرتے ہیں.تو ہم پر رحم فرما.ہمارے مردہ انسانوں کو زندہ کہ مادر ہمیں ہمارے مقصد میں کامیاب فرما.اسے ہمارے رب تیرے سب بندی سے ہمارے بھائی ہیں.خواہ وہ پاکستان میں رہتے ہیں یا ہندوستان میں.خواہ وہ الشیا میں رہتے ہیں یا یورپ میں.خواہ وہ ہمارے لکھتے ہی دشمن ہوں تو ان کے متعلق ہمارے دلوں کے کینے اور بعض کو نکال دے اور ان کے دلوں میں دین سے بے رغبتی کی جگہ اپنی محبت پیدا فرمادے اور ہمیں ہمارے مقاصد میں کامیاب کہ تا تیری بادشاہت اسی طرح زمین میں بھی قائم ہو جائے جس طرح کہ وہ آسمان پر ہے.اس پر معارف خطاب کے بعد مصور نے دعا فرمائی اور واپس رتن باغ تشریف لے گئے.اے رورگر گول اور ان مقری کی اہم تقریریں تصور کے تشریف لے جانے کے بعد حضرت سیٹھ عبداللہ مندر جہ ذیل بزرگوں اور فاضل مقرروں کی تقریریں ہوئیں :- اله دین آن حیدر آباد دکن کی صدارت میں بالترتیب حضرت مفتی محمد صادق صاحب (ذکر حبیب - حضرت مسیح موعود کی رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم سے محبت.الحاج مولوی محمد سلیم صاحب.( انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زندہ نبی ہیں).: الفضل درد کمبر ا مات :
۴۴۹ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب - انشورنس اور نیکنگ کے متعلق اسلامی نظریہ ).قاضی محمد نذیر صاحب لائل پوری - دانا جبیلی کی حیثیت).مصف حضر ت میں خود کا دوسرا ولولہ انگیز خطاب مندی بالاترین کے بعد محمود نے ہر عمر لگاہ میں پڑھائی.اسکے بعد علی جلسہ کا دوسرا اجلاس شروع ہوا سے پہلے ماسٹر فقیر اللہ صاحب نے عداوت کی اور مکرم محو صدیق صاحب ثاقب زیردی نے حضور کی تار ظلم نہایت خوش الحانی سے پڑھ کر سنائی.اس نظم کے چند اشعار یہ تھے:.در یہ یہاں کا حال کسی کو سنائیں کیا طوفان اٹھ رہا ہے جو دل میں بتائیں کیا دامن نہی ہے ، فکر مشوش ، نگر غلط آئیں تو تیرے در پہ مگر ساتھ لائیں کیا دریہ اپنا ہی سب تصویر ہے اپنی ہے سب خطا الزام ان پہ ظلم وجت کا لگائیں کیا ر اس نظم کے بعد حضرت مصلح موعود نے حالات حاضرہ کے متعلق ایک نہایت دلولہ انگیز اور پری وش تقریر فرمائی.ابتدا میں حضور نے فرمایا این حالات کی وجہ سے لاکھوں مسلمانوں کو مشرقی پنجاب اور اس کے ملحقہ علاقوں سے پاکستان میں آنا پڑا.اور لاکھوں ہندوؤں اور سکھوں کو پاکستان سے نکل کر ہندوستان کی طرف جانا پڑا ان کی وجہ سے لازماً طبائع میں بار بار یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ کیا تھا اور کیا ہوگیا؟ اور یہ کہ ہمیں آئندہ کیا کرنا چاہیئے ؟ ہماری جماعت کے قلوب میں بھی لاز کا یہی جذبات پیدا ہوتے ہوں گے اسلیے میں انہیں کے متعلق آج کچھ کہنا چاہتا ہوں.موجودہ ملاقات مسلمانوں کو بیدار کرنے کے لئے پیدا ہوتے ہیں.اس کے بعد حضور نے فرمایا اگر بیچی ہے کہ اسلام خدا کا مذہی ہے.اور اگر یہ درست ہے کہ رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم خدا کے آخری نبی ہیں جن کے بعد کوئی نئی شریعت نہیں آسکتی اور جس کے بعد کوئی ایسا حاکم نہیں آسکتا جو آپکے کسی حکم کو بدلے.اور اگر یہ بھی ہے کہ آپ کی بادشاہت قیامت تک جاری ہے تو پھر ان کا نہیں مانا پڑے گا کہ اسلام کی ترقی اور منزل میں خدا کا تو ہے اور یہ کہ حالات خواہ کچھ بھی ہوں خواہ وہ حالات خدا کی طرف سے بطور سزا کے ہوں یا بطور تنبیہہ.بہر حال اس میں خدا کی طرف سے کوئی نہ کوئی پہلو بھلائی کا ضرور مخفی ہوگا.اگر ہم اپنا یہ نقطہ نگاہ بنائیں کہ بھلائی کا دو مخفی پہلو کیا ہے اور اسکی ہم کسی طرح فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟ تو یقینا ہمار استقبل ماضی سے زیادہ شما مدار اور روشن ہو سکتا ہے.بیٹا مسلمانوں پر بڑی بھاری تباہی آئی.پانچ چھو گھر سلمان مارے گئے اور پانچ چھ
اکھ کو برا مرد بنایا گیا.لیکن اس چیز تباہ کرنے والی بیوی ہوتی ہے.اگر وصلہ اور امید قائم ہے تو یہ تعداد کچھ حیثیت نہیں رکھتی.اگر بیچاس کروڑ میں سے دس بارہ لاکھ نکل گئے تو اسے بھلا کیا فرق پڑ سکتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی مثال دیکھو.کہ سات سوئی تعداد تک پہنچ جانے کے بعد وہ یہ کہتے تھے.کہ اب کوئی طاقت نہیں تباہ نہیں کر سکتی.اپنی مرنے یا جانداد کے نقصان کا سوال ہی نہیں ہے.اصل چیز ایمان ہے.اگر ایمان موجود ہے تو پھر اگر پچاس کروڑ نانو سے لاکھ مسلمان بھی مارے جائیں تو پھر بھی مسلمان مٹ نہیں سکتے.وہ ضرور بڑھیں گئے اور ترقی کریں گے.اور اگر یہ حالات خدا نے ہماری کسی غفلت کی بناء پر بطور سنران دارد کئے ہیں.تو پھر بھی نہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں.کیونکہ کوئی شخص بھی اپنے عزیز کو تباہ کرنے کے لئے مزا نہیں دیا کرتا.بلکہ اسے ہوشیار کرنے کیلئے سزادیا کرتا ہے.پس اگر سول کریم صلی اللّہ علیہ وسلم سچے ہیں اور سلام خدا کا نہ ہ ہے، تو پھر ہمیں یہ یقین رکھنا چاہیئے کہ یہ تکلیف ہمیں بیدار کرنے کیلئے دی گئی ہے.نہ کہ تباہ کرنے کے لئے.حضور نے جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا.پس یہ غمگین اور رنجیدہ ہونے کا وقت نہیں.تم بھول دوان چیزوں کو جودلوں کو افسردہ اور بہتوں کو پست کرنے والی ہوں.اور یاد رکھو کہ دوس کی طرف سے ار سختی بھی ہوتو وہ بھلائی کے لئے ہوتی ہے نہ کہ سختی کے لئے.اور اگر یہ نہ بھی ہو تو میں خدا سے ہم نے اب تک اتنے آرام محاصل کئے اور اتنے میٹھے تھے کھائے ہیں : ایک کڑور القمہ بھی دید سے تو کیا سورج ہے.اگر ہم اس پر عمر امنائیں تو یہ ہماری ہی بڑی بے حیائی اور بے شرعی ہوگی.کن وجوہ کی بناء پر یہ حالات پیدا ہوئے.اصلی چیز جو ہمارے لئے قابل غور ہے یہ ہے کہ ہمارہ کی کن غفلتوں کی وجہ سے یہ حالات پیدا ہوئے اور اس کا علاج کیا ہے ؟ اس سلسلہ میں حضور نے تایاکہ تنظیم کی کی اور ہر وقت احتیاطی تدابیر اختیار نہ کرنے کی وجہ سے یہ حالات پیدا ہوئے مسلمان ربود ادیب رو پیر چھوڑ کہ آئے ہیں.اگر وہ اپنی جائداد کا ایک فی صدی حصہ بھی اپنی اجتماعی حفاظت در تعلیم پر خرج کرتے تو یہ حالات کبھی پیدا نہ ہو تے حضور نے فرمایا.اب مجھے یہ خیال آتا ہے کہ اقل تومسلمانوں کو بھا گنا نہیں چاہیئے تھا.لیکن اگر وہ بھاگتے بھی تو انہیں بجائے پاکستان کی طرف آپ نے کسے دہلی کی طرف جانا چاہیئے تھا.اگر وہ ادھر رخ کرتے تو یقیناً موجودہ حالات پیدا نہ ہوتے.بلکہ دہلی کے نواح میں مسلمانوں کی طاقت مجتمع ہور بھاتی.اور چونکہ وہاں تمام بیرونی ممالک کے نمائندے موجود ہوتے ہیں.اسلیئے حکومت دہلی کے قرب میں اس قسم کے حالات پیدا کرنے سے یقینا ہچکچاتی.جیسے مشرقی پنجاب میں نمودار ہوئے.کیونکہ اس سے اسکی بیرونی ممالک میں بدنامی ہوتی.حضور نے مشرقی پنجا ہے آنیوالے احمدیوں کو بالخصوص اور عام سلمانوں کو بالعموم ی نصیحت فرمائی کہ انہیں واپس اپنے اپنے
الم مقامات پر جانکا خیال ہرزہ بھولنا نہیں چاہیئے.وہاں ہار سے اسلاف کی بنائی ہوئی سجدی در مقابر ہیں.انہیں یو نہی چھوڑ دنیا بے غیرتی ہے.کہ ہمیں اُٹھتے بیٹھتے.چلتے پھرتے ہر وقت وہاں جانے کیلئے تیار رہنا چاہیئے اور اس کیلئے ایک دوسرے کو تحریات کرتے رہنا چا ہیئے.حضور نے مسلمانوں کے حق میں پیدا ہو نیوالے حالات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا.اب سلمانوں پر ہونیو اسے درد ناک مظالم دنیا پر اتنے واضح ہو چکے ہیں کہ آئندہ انڈین یونین آسانی سے اس کا اعادہ نہیں کر سکتی.اب اگر ایسا ہوا تو دنیا کے بڑے بڑے ممالک فور حالات کا جائزہ لینے کے لئے اپنے اپنے نمائندہ سے بھیج دیں گے اس سلسلے میں بھور نے یہ تجویز پیش فرمائی کہ کسی ایک ضلع کے سلمانوں کو تنظیم کے ساتھ واپس مشرقی پنجاب میں جانے کا فیصلہ کر نا چاہیئے.پہلے انہیں دیگر ممال میں بھی اور انڈین یونین کے سامنے بھی یہ بات واضح کر دینی چاہیئے کہ دہ انڈین یونین کے وفادار رہیں گے.لیکن برابر کے شہری حقوق میں گئے.وہ صرف اپنی ذاتی جائدادوں پر جا کر قابض ہوں گے اور یہ کہ وہ بغیر ہتیار کے بجائیں گئے.اور اگر وہ یہ امور واضح کر کے کسی معین تاریخ کو مشرقی پنجاب میں داخل ہو جائیں تو یقینا دنیا کے بہت سے ممالک کے نمائندے یہ دیکھنے کیلئے آجائیں گئے کہ انڈین یو میں ان سے کیسا برتاؤ کرتی ہے اور ان نمائندوں کی موجودگی میں حکومت آسانی سے کمانوں کے ساتھ ظلم کا برتاؤ نہیں کرسکتی.حضور نے فرما یا کہ اسلام کی تعلیم کے مطابق اپنے دشمن کے متعلق بھی دلوں سے کینہ اور بغض نکال دینا چاہیئے.لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ تم حالات کو درست کرنے سے فاضل ہو جاؤ.تمہیں اس وقت اطمینان کا سانس نہیں لینا چاہیئے بھتک کہ چالیس پچاس ہزارہ اغوا شدہ عورتوں کو واپس ان کے گھروں میں نہ پہنا دو.یاد رکھو کہ مشرقی نیا کے گوشے گوشے سے مسلمان عورتیں تمہیں پکار پکار کر کہ رہی ہیں کہ اسے سلمانوں اگر تمہارے دل میں کچھ غیرت ہے تو آؤ اور ہمیں چھڑاؤ حضور نے انڈین یونین میں رہنے والے مسلمانوں کو بالعموم اور احمدیوں کو بالخصوص یہ مشورہ دیا کہ اب جبکہ پاکستان کے لیڈروں نے ہندوستان کے مسلمانوں کو اور ہندوستان کے لیڈروں نے پاکستان کے غیرمسلوں کو اپنی اپنی حکومت کا دفادار رہنے کا مشورہ دیا ہے.یہ ضروری ہے کہ ہندوستان کے مسلمان جہاں کی ایسی سی کی پارٹیوں میں شامل ہو جائیں جن میں مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کرسکیں.اس وقت انڈین یونین میں دو پارٹیاں ہیں.ایک پارٹی مہا سبھا کی طرف ٹھیک رہی ہے.اور دوسری پارٹی کا نگر کی ہے.وہ چونکہ سالہا سال سے غیر مذ ہبی اور جمہوری پارٹی ہونے کا اعلان کرتی رہی ہے اسلئے وہ مجبوراً اب بھی جمہوری اور غیر فرقہ دار نہ پارٹی ہونے کا اعلان کر رہی ہے ان دونوں پارٹیوں میں سخت رستہ کشی ہو رہی ہے.چونکہ اس وقت بظا ہر د داری پارٹی مزدور ہے.گو وہ بر سر اقتدار ہے.
۴۵۲ است وہ مجبو ر ہے اس بات پر کہ اپنی طاقت کو دیگر عناصر کی مدد سے قائم رکھے.پس میرے نزدیک مسلمانوں کو اس چلائی کا ساتھ دینا چاہیئے.اسکے موجودہ فلم تعدی رک جائے گی اور آہستہ آہستہ طاقت کا توازن مسلمانوں کے ہاتھ میں آجائے گا.پس میرا مشوره احمدیوں کو یہی ہے کہ انہیں اس پارٹی کا ساتھ دینا چاہیئے.ہاں ایک دو ماہ وہ انتظار کر سکتے ہیں.تاکہ ماسر محمد کمیل کو یہ انڈین سلم لیگ کی طلب کردہ کا نفرنس کے نتائج سامنے آجائیں.اگر انہوں نے کوئی ٹھوس تجویز پیش نہ کی تو پھر سلمانوں کو کانگریس میں شامل ہو جانا چاہیئے.اور نورا شامل ہو جانا چاہیئے.ایک اور چیز جو فتنوں کو دبانے میں محمد ہوسکتی ہے وہ یہ ہے کہ موجودہ نسادات میں انڈین یونین کی جو بدنامی ہوئی ہے اسکی وجہ سے وہاں کے بین الاقوامی شہرت رکھنے والے لیڈروں کے دار کو بھی بڑا صدمہ پہنچا ہے.خصوصا چونکہ احمدی ہر علاقہ اور ہر ملک میںموجود ہیں اسلئے قادیان کے معامہ میں نئی بڑی بد نامی ہوئی ہے اور قادیان ان کیلئے بھڑوں کا ایک ایسا بھتہ ثابت ہوا ہے جس کی وجہ سے ان کی حقیقت ساری دنیا میں گھل گئی ہے.اس بد نامی کی وجہ سے انہیں کچھ کچھ ہوش آ رہی ہے اور انہیں سلمانوں کو دوبارہ اپنی اپنی جگہ بنانے کا احساس ہو رہا ہے.حضور نے ہندوستان اور پاکستان میں بہنے والے احمدیوں کو تاکید فرمائی کردہ ہر حال اپنی اپنی حکومتوں کے وفادار رہیں.بشر طیکہ ان کے مذہبی معاملات میں دخل نہ دیا جائے.دونوں دو مینیوں کے احمدیوں کو اپنی اپنی حکومت کو مضبوط بنا نے کی پوری کوشش کرنی چاہیئے.حضور نے اس تجویز کا بھی ذکر فرمایا کہ ہرسال ہم ایک ایسا دن منایا کہ بی جبکہ برادری مرد عورت یہ اقرانه کرے کہ وہ قادیان لیکر چھوڑیں گے.اور اس کیلئے ہر مکن کوشش کریں گے.اسی سلسلے میں دو کیٹیاں بنا رہ جائیں کی ایک ہندوستان کیلئے اور دوسری پاکستان کیلئے.یہ کمیٹیاں اپنے ملکی حالات کے ماتحت پروگرام وضع کریں گی.یہ گو یا سالمیں ایک دن ہوا کرے گا جبکہ قادیانی کا معاملہ ساری دنیا کی نگاہوں کے سامنے آجایا کر لیا.اور اسٹرٹ یہ سوال اسوقت تک زندہ رکھا جائیگا جب تک کہ ہندوستان کی یونین قادیان ہمیں نہ دے دے.یا خدا کسی اور رنگ میں اپنا فیصلہ صادر نہ کرے.حضور نے دوران تقریر اس امرکی حدقت فرمائی کہ مشرقی پنجا کے بعض لوگ بجائے کام کرنے کے یونہی ادھر ادھر پھر رہے ہیں.اور حکومت کے خلاف شکایات کرتے رہتے ہیں.ایسے لوگوں کو اپنے مخفی جو ہروں کو کام میں لانا چاہیئے اور محنت کر کے خود کام کرنا چاہیئے.یہ نہایت ذلیل ذہنیت ہے کہ ہم بجائے خود کام کرنے کے حکومت سے اپنی }
سلام امیدیں وابستہ رکھیں حضور نے اس سلسلے میں فرمایا کہ سب سے زیادہ ضروری امر یہ ہے کہ بچے سلمان بنے کی کوشش کرو.کہ یہی ساری مشکلات کا علاج ہے.ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ اسلام کے پانچ ارکان توحید نمانہ روزہ حج اور زکواۃ پر عامل ہو جائے اور اپنے اندر ایک نیک تبدیلی پیدا کرے.مجھے تو شرم آتی ہے کہ میں بھی احمدیوں کو ان باتوں کی طرف توجہ دل رہا ہوں جن پر انہیں بہت پہلے عامل ہونا چاہیئے تھا.پانچ ظاہری خصوصیات کے بالمقابل پانچ باطنی خوبیاں بھی پیدا کرنی چاہئیں اور وہ یہ ہیں.پہچ.انصاف - رحم - دیانت اور محنت حضور نے ان پانچوں امور کی تشریح اور وضاحت کرنے کے بعد فرمایا وقت آگیا ہے کہ ہماری جماعت میں سے جو شست ہیں اور ان اور پر عمل نہیں کرتے انہیں جماع سے الگ کر دیا جائے اور ائندہ جماعت کے متعلق قوانین کی بنیاد ایسے امور پر رکھی جائے کہا اور میں غفلت کہ نیو الے جماعت میں نہ رہ سکیں گے.بیشک ایسا کرنے سے ہزاروں افراد کی بجائی لیکن انکا نکن باعت کیلئے ضعف ا موجب نہیں بلکہ ان کا موجب ہوگا.میں جو لوگ ان امور پر عمل نہیں کہ ہے میں انہیں تنبیہ کرتا ہوں کہ اگر وہ دین کے اصولوں کی پابندی نہیں کریں گے تو وہ اس سماعت میں شامل نہیں رہ سکتے.نے دو ستر دن کا پہلا اجلاس ۲۰ فتح کر یہ ان ہی کے پہلے اجلاس میں سب ذیل تقریریں ہوئیں.را، مولانا جلال الدین صاحب شمسش زحضرت مسیح کے سفر کشمیر کا عیسائی دنیا پراشم ) (۲) از میل چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب ( اسلامی نظام حکومت کا خاکہ) (۳) مکرم موزدنا ابو العطاء مناسب - (جماعت احمدیہ کی اسلامی مقدمات ) (۳) حضرت صاحبزادہ مرنہ انار احمد صاحب ایم.اے آکسن.نو بودنمان احمدیت سے خطاب) دوست اجلاس میں مندی ماری انا اور ان کے دوریت عصر ایران میں خلیت این المانی اصلح الموعود نے جلسہ گاہ میں ظہر و عمر کی نمازیں پڑھائیں.اور پھر دو مگر اجلاس کی کاروائی شروع فرمائی.سب سے پہلے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحبہ نے تلاوت فرمائی.آپ کے بعد الحاج موسوی محمد سلیم، ما د نے حضور کی ایک تازہ عربی نظم خوش الحانی سے سنائی اور تین بجے کے قریب حضرت امیرالمومنین نے اپنی تقریر کا خانہ فرمایا ا ا ا م م و ا ا ا ا ا ا ا ا ر ی نمایش علمی تقریر کیا کرتا ہوں اور آج بھی میرا ارادہ تقاریہ کے سلسلہ کو جو سیر وھانی سے موسوم ہے جاری کرنے کا تھا مگر چونکہ یہاں مہمانوں کو رہائش کی ہوتیں میسر نہیں اسلئے میں بھی تقریرنہیں کرتا.البتہ مختصر وقت میں بعض متفرق امور بیان کر دیتا ہوں تیری میری ه : الفضل ۲۰ رد کبریت نه م و ۹ ينظم الفضل در صلح جوری الفراش مسلہ پر شائع شرد ہے ؟
۴۵۴ جود تو اسوقت پچھپ جانی چاہیئے تھی.قادیان سے یہاں منتقل ہو جانی کی وجہ سے مرض التواء میں پڑگئی ہے.البتہ انگریزی قرآن کریم کے پہلے دس پارے چھپ گئے ہیں اورانکی جلد بندی ہو رہی ہے.اس موقعہ پر حضور نے حضرت مولوی شیر علی صاحب نے کی دفات پر اظہار افسوس کیا جنہوں نے ترجمہ وغیرہ کا کام نہایت محنت اور اخلاص سے کیا."" ی مینیون و وانان و تیمی را نیکی ضرورت پر روٹی ڈالتے ہوے فرمایا تن داد کی بہت بہت سے طلباء کالجوں کے بند ہوجانے اور دیگرمشکل کے حامل ہو جانے کی وجہ سے تعلیم چھوڑ چکے ہیں.بیشک مشکلات مرد ہیں لیکن والدین کو مشکلات برداشت کر کے بھی ان کی تعلیم کو جاری رکھنا چاہیے کیونکہ ہمارا تقبیل انہیں سے وابستہ ہے اور اگر آج ہم میں کوتاہی کریں گے تو آئندہ ہماری نسلیں.اوادی فتح کامران کا منہ ہی دیکھ سکی تعلیم ہر سال لازمی ہے اور یہ امرکہ کو تعلیم ہو ہمیں آپ لوگوں پرچھوڑتا ہوں البتہ قرآن کریم کا مجرا در معیت وغیرہ کے ضروری مسائل جان ہر - احمدی کا فرض ہے چین رہ :.موجودہ حالات کی وجہ سے ہمارے بندوں پر بہت اثر پڑا ہے.کیونکر اقل تو شرقی پنجاب کا جماعتیں نادار ہوگئی ہیں اور دو سر مربی پنجاب کے کثیر حصہ کو مہاجرین کا بوجھ اٹھا نا پڑا ہے لیکن اس کے باوجود ہم نے خدا کا کام کرتا ہے اور اس سلسلہ کے بوجھ کو اٹھانا ہے.اور اس بارہ میں مشاورت میں جو ہدایات میں نے دی ہیں ان پر عمل کیا جائے.مہاجرین کی آبادکاری کا مسئلہ :.مشرقی پنجا ہے آنیوالے مہاجرین کا ذکر کر تے ہوئے حضور نے فرمایا کہ یہ لوگ جتنی زمین مشرقی پنجاب میں چھوڑ آئے ہیں اسکی بہت زیادہ یہاں غیرمسلم بھی ڈر گئے ہیں.اگر ان کوعلاقہ دار تقسیم کیا جاتا تو کوئی مشکل نہ ہوتی اورسب کو زمین مل جاتی.اب چونکران کو ہے تماشا بھی دیا گیا ہے.اس دیر سے بہت سے نقائص واقع ہو گئے ہیں.ایک نقص تو یہ واقع ہوا ہے کہ زمینداروں نے کیوں کو بھی اپنے ساتھ مل کر زیادہ زمین حاصل کرلی.اور دوسرے ان کیوں نے کسی دوسری جگہ جا کر در زمین حاصل کرلی.تیسرے زمین کا بڑا حصہ پٹواریوں نے اپنے رشتہ داروں ذخیرہ کیلئے ریز رد کرلیا ہوا ہے.چوتھے بعض لوگوں نے پٹواریوں سے مل کر ہندوؤں کی زمین اپنے نام لکھوالی ہے کہ وہ پچھلے سال سے ہی اس کی کاشت کر رہے تھے.بہرحال موجودہ طریق تقسیم میں بہت سے نقائمی ہیں.اگر اس کو بدل دیا جائے تو سب لوگوں کو تقسیم کرنے کے بعد کچھ زمین بیچ بھی جائے گی.۱۵ - حضرت موں نا شیر علی صاحب او تقسیم ہند کے بعد ہی میں انتقال کر اور دوسرے بزرگوں کا ذکر کی جلد می نہ ہش کے بقیہ حالات کے ضمن میں آرہا ہے ؟
۴۵۵ پاکستان کی ترقی.فرمایا س بات سے نہیں گرانا چاہیئے کہ اتنے زیادہ لوگ یہاں آگئے ہیںاور یہ کھائیں گے کہاں ہے.یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیئے کہ روزی صرف زراعت میں ہی نہیں ہے.تجارت میں بھی ہے.بلکہ زراعت کو بہت نہ یادہ اسٹے لوگوں کو زمینوں کے پیچھے پڑنے کی بجائے تجارت کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیئے.اور ملک ہمیشہ تجارت سے ہی خوشحال ہوا کرتا ہے.موجودہ حالات کی وجہ سے پاکستان کی ترقی کے ایسے ذرائع پیدا ہو گئے ہیں کہ بہت جلد یہ ملک دنیا میں بلند مقام حاصل کرلے گا.کثرت آبادی ملک کی ترقی میں روک نہیں ہوا کرتی بلکہ تاریخ ہمیں بتائی ہے.کہ ملک کی تمام تر تر قی آبادی کی کثرت سے وابستہ ہے.پاکسان کو اس استان کی سیڑھی بنانے کے عزم کا پرو کا اعلان میری سمی و روان دی ماری مسائل پر روشنی ڈالنے کے بعد نہایت پیر جلال انداز میں فرمایا : - پاکستان کا مسلمانوں کومل جانا اس لحاظ سے بہت بڑی اہمیت کھتا ہے کہ اب کمانوں کو الہ تعالی کے فضل سے سائنس لینے کا موقعہ میتر آگیا ہے دردہ آزادی کیسا تھ ترقی کی دوڑ میں صولے سکتے ہیں.اب ان کے سامنے کرتی کے اتنے غیر محدود ذرائع ہیں کہ اگروہ اور اختیار کریں تودنیاکی کوئی تو انکے مقابل میں مر نہیں سکی اور پاکستان کا مستقبل نہایت ہی شاندار پوستا ہے.لگا پھر بھی پاکستان ایک چھوٹی چیز ہے ہمیں اپنا قدم اس سے آگے بڑھانا چاہیئے اور پاکستان کو اس استان کی بنیاد بنانا چاہیئے.بیشک پاکستان بھی ایک اہم چیز ہے.بیشک عرب بھی ایک اہم چیز ہے.بیشک حجاز بھی ایک اہم چیز ہے بیشک مصر بھی ایک اہم چیز ہے.بیٹک ایران بھی ایک اہم چیز ہے مگر پاکستان اور عرب اور حجاز در رودستر اسلامی ممالک کی ترقیات صرف پہلا قدم ہیں.اصل چیز دنیا می اس استان کا قیام ہے.ہم نے پھر سارے مسلمانوں کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کہنا ہے ہم نے پھر سلام کا جھنڈا دنیا کے تمام مال میں ہرانا ہے.ہم نے پھر محمد و اسلامی ملا علیہ وسلم کا نام رت اور آیرود کے ساتھ دنیا کے کونے کونے میں پہنچانا ہے.ہمیں پاکستان کے جھنڈے سے بلند ہونے پر بھی خوشی ہوتی ہے.ہمیں مصر کے جھنڈے بلند ہونے پر بھی خوشی ہوتی ہے.ہمیں عرب کے جھنڈے بلند ہونے پر بھی خوشی ہوتی ہے ہمیں ایران کے بھنڈ سے بلند ہونے پر بھی خوشی ہوتی ہے مگر ہیں حقیقی خوشی تب ہوگی جب سارے ملک آپس میں اتحاد کرتے ہوئے اس امستان کی بنیاد رکھیں.ہم نے اسلامکو اس کی پرانی شوکت پر قائم کرنا ہے.ہم نے خدا تعالی کی حکومت دنیا میں قائم کرنی ہے.ہم نے عدل اور انصاف کو دنیا میں قائم کرنا ہے اور ہم نے عدل وانصاف پر مبنی پاکستان کو اسلامک یونین کی پہلی سیڑھی بنانا ہے.یہی اسلامستان ہے جو دنیا میں حقیقی امن قائم کریگا.اور ہر ایک کو اسکا حق دلائیگا.جہاں روتی اور امریکہ فیل ہو صرف مکہ اور مدینہ ہی انشاء اللہ کامیاب ہونگے.یہ چیز یا اس وقت ایک
ی کی معلوم ہوتی یک و دنیای بی و تنظیم انسان تیر کرتے ہے میں ایک ہی کہتے ہے ہیں اگر مجھ بھی لوگ پاگل ہیں و میرے لئےاس میں شرم کی کوئی بات نہیں مگر دل میں ایک آگ سے ایک مین ہے، ایک تپش ہے جو مجھے آٹھوں پر برقرار رکھتی ہے.میں کمانوں کو انکی ذلت کے مقام سے اٹھاکر غزہ کے مقام پر پنچانا چاہتا ہوں میں پھر محمدرسول الہ صلی الہ علیہ وسلم کے نام کو دنیا کے کونےکونے میں میں نا چاہتاہوں میں پرقرآن کرم کی حکومت دنیامیں کام کرنا چاہاتوں میں نہیں جانا کہ یہ بات میری زندگی ہی ہوگی میرے بود یکی نہیں جانتا ہوں کیا اسلم کی بلند ترین عمار میں اپنے ہاتھ سے ایک اینٹ لگانا چاہتا ہوں یا اتنی اینٹیں کرانا چاہتا ہوں جتنی اینٹیں لگانے کی خدا مجھے توفیق دیتے ہیں اس عظیم الشان عمارت کو کم کرنا چاہتاہوں یا اس عمارت کو اتنا اُونچلے جانا چاہتاہیں بنا لے جانی یا مالی بھی توفیق دی اور میرے جسم کا پرندہ اور میر درد کی طاقت اس کام میں خدا تعالیٰ کے فضل سے خرچ ہوگی.اور دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی طاقت بھی میرا ئی اہ میں حائل نہیں ہوگی.میں جماعت کے دوستوں سے بھی کہتا ہوں کہ اپنے فقط نگا کو بدلیں.وہ زمانہ گیا جب ایک نی تو ان کی ان تھی اور ہم کو سمجھے جاتے تھے.میں تواس زمانہ م بھی اپنے آپ کا نام ہیں یا ایک یا ایک قوم ہم پر ایک یا ایک ہندوستان کی پوری اور کی اسلامی ملک میں جا کر رہنا شروع کردیں مگراب الدر معانی کا یہ کتنا با احسانے کی بجائے اسکے کہ ہم دور کسی اسلامی ملک ملک عرب یا مجاز میں جاتے اس نے ہمیں وہ ملک دیر یا تو عمل کرے یانہ کیسے کہو ا ا ا ا ہے کہ ا ا ا م ر و ا ل لا اله علی رام کیا ہے.کی سمجھتا ہوں یہ ہمارے لئے بہت بڑی خوشی کا مقا ہے کہ چار تھی ایک چھوٹی چی دیدی گرانی و دیدی.یہاں کوئی کمری مانے یا نہ مانے نے یا سنتے ہیں یہ کہوں کہ حد ولا الا ای ایم ایس ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ی دوم ایا ہے کی انا احاول الالم العلوم کے نام پر ایک لومت قائم ہوگئی ہے.پس اس تصور سے میری خوشی کی کوئی انتہانہیں ہی میں ناموں کو بھول جاتا ہوں.جو ہندوستان میں ہیں پیش آئے.اسلئے کہ میرا مکان کومیرے ہا تھ سے جاتا رہامگر میر آقا کو ایک مکان گیا.یہ درست ہے کہ چوالیس کو سلماوں کے مکان اُن کے ہاتھ سے جاتے ہے ، دو گھر سے لئے گھر گئے جائدادی بی ہونے کا ایک گرایی در پیدا ہوگئی ہےجسے مال دا تم ہی نہ سکتے ہیں کہ میری جگہ ہے.اور یہ خوشی ہماری اپنی جائدادوں کے کھوئے بہانے سے بہت زیادہ ہے کہ سالہ بیرونی مشین.اس اہم ارشاد کے بعد حضورنے بیرونی ممالک میں اسلام واحمدیت کے تبلیغی حالات بتاتے ہوئے درنایا کہ اس ان پڑنی مالک میں خداتعالی کے فضل سے بہت کامیابی حاصل ہوتی ہے اور ہمارے مبلغوں نے نہایت اخلاصی در جانفشانی سے کام کر کے جماعت کو بہت بلند مقام پر پہنچا دیا میں امید کرتا ہوں کہ اس سال وہ اس سے بھی زیادہ اخلاص اور جوش سے کام کریں گئے.ل : اتفضیلی ۲۳ رامان / مارچ با سینه اش هشت ؟
تجارت کے لئے چندہ : فرمایا جس طرح پر عام چندو لیا جاتا ہے اس طرح آئندہ ایک اور چندہ لیا جائیگا بستی مختلف مقامات پر کارخانے اور دکانیں کھول جائیں گی اوریہ چندہ ہرایک کے لئے لازمی ہوگا.اس وقت تجارت کا بہت تو ہر ہے.آڑ مت کی تجارت بہت فائدہ مند ہے اور اس طرف بہت کم لوگوں نے توجہ دی ہے.فوجی تربیت :.اسکی بعد صدور نے منصر اجماع کو ہی تربیت حاصل کرنے اور مختلف قسم کی فوجی تنظیم میں شمولیت کی تلقین کی.قادیان کی جدائی کا صدمہ: اپنی تقریر کے آخری حصہ مں حضور نے فرمایا کہ قادیان چھوٹ جانے پر بعض لوگوں نے نهایت بزرع فروع کیا ہے.اور آنسو بہائے ہیں لیکن میں اسے بے غیرتی سمجھتا ہوں.یہ رونے کا وقت نہیں ہے بلکہ کام کا وقت ہے.میرا آنسو قادیان کے لئے اس دن ہے گا جب میرا دوسرا آنسو ہی خوشی میں ہے گا کہمیں قادیان میں فاتحانہ داخل ہورہا ہوں.جذبات نیک کام کی تکمیل میں مدہوتے ہیں.لیکن میں اپنے جذبات اس دن کیلئے وقف رکھنے چاہئیں جب ہم قادیان لینے کے لئے نکلیں.ہجرت اور دوبارہ آمد کے متعلق پیش گوئیاں : حضرت امیرالمومنین نے سلسلہ تقریر جاری رکھتے ہوئے حضرت سیح موعود علیہ سلام کی پیشگوئیاں جو قادیان سے ہجرت کے متعلق تھیں اوراسی مضمون کے اپنے رویا و کشوف بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ جب ان پیش گوئیوں کے دہ ھے جو یہاں سے نکلنے کے متعلق تھے پورے ہو گئے تو ضروری ہے کہ دہ حصے بھی پور سے ہوں گے جو قادیان میں دوبارہ آنے اور فاتحانہ داخل ہونے کے ہیں.پانچ بجے کے قریب حضوری کی یہ معرکتہ الا راد تقریر ختم ہوئی.اور یہ تاریخی جلسہ دعا کے بعد نہایت خیر و خوبی اور نہایت درجہ کامیابی کے ساتھ برخواست ہوا.کے اختبار تجدید نظام " نے حضور کی اس تقریر کا معنی یہ درج ذیل الفاظ میں شائع کیا.صور کی تقریر کا ذکر پریس میں پاکستان اسلامی حکومت ہے.اس کا ضابطہ حیات بھی اسلامی ہی ہونا چاہیئے.مہاجرین کا مسئلہ کوئی نا قابل حل مسئلہ نہیں.امیر جماعت احمدیہ کا اعلان - لاہور ۳۱ د کبر احمدیہ کانفرنس میں مرندا بشیر الدین محمود نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ مشرقی پنجابی اور ہندوستان کے دوسرے بھوں سے پناہ گزینوں کے سیاہ کے پاکستان کے مسلمان مایوس نہ ہو نا ایک کردار ادا کر نیا کام ایسانہیں سپر قابو نہ پایا جا سکے.آپ نے سکھا اور ع : ٣٠ الفضل فتح اکبر ۳ تا ۱۵ ان علی جلسہ کے نگران اعلی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر امارات بشیراحمد افسر جلسہ سالانہ حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب اور ناظم جلات الانہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر حمد مساحت تھے.مہمانوں کے کھانی کا انتظام رین بار اور دیو کار بلڈنگ میں نظامیں قائم تھیں جیسے نگران با ترتیب وی مرا برایم صاحب بنی ہے.اور ماسٹرعلی حمد صاحب بیا مقرر کئے گئے.دوسر انتظامت کے متعین یہ تھے.میری اسد الشد اللہ جب حفاظت خاصی نظامت مکانات چودری بود هم می تواند خدام ان حدیده بود.ا انتظام نگاه میان علامه محمد بی اختر انداست استقبال انکوائری آفس، شیخ محبوب الہی صاحب بی بی نے ان است اسیلاتی : ( تحصیل کیلئے ملاحظ
۴۵۸ ہندو پناہ گزینوں کی اراضی کے اعدادو شمار پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ اگران تمام اراضی کو اچھے طریقے سے بانٹا جائے تو تمام راعت پیشہ پناہ گزین آبادہو سکتے ہیں.اسکے علاوہ ہندو وی در سکو کا کاروبار بہت ہی اثر تھا اگر مسلمان اس طرف توجہ دیں تو پندرہ بیس لاکھ پناہ گزین کار دیا میں جذب ہو سکتے ہیں.اپنے مزید کہا کہ پاکستان ایک کم ریاست ہے، اسلئے اسے اسلامی اصولوں پر چلانا چاہیئے.پاکستان کے عوام کو اس وقت جن مشکلات کا سامناکرنا پڑرہا ہے.اس کے حل کے لئے روس یا دوسر ہمسایہ مالک کی طرف دیکھنا اور اسکی نظام کو اپنانے کی ضرورت نہیں.ان کامل پیغمبر اسلام کی تعلیم سے ہی لاسکتا ہے.آنے کہا کہ دنیا کے ہرمسئلہ کامل قرآن میں ہے کیونکہ یہ خدا کا کلام ہے.آپنے مزید کہاکہ میں پاکستان اور اسلامی مالک کے تعلقات خوشگوار چاہتا ہوں اور عنقریب اس مقصد کے لئے مشرق وسطی کا دورہ کروں گا نہ لے و نخ طی جلسه پر ستورات اوربچوں کو شریک ہونے الا جا کے پرگرم کا تم میلین اور ان کے موقعہ پر کے ویر و سے ممانعت کر دی گئی تھی اس لیے حضور نے لان فرمایا که ملی شادیت کہ مین کے ساتھ ایک دن بڑھادیا جائے مادہ عورتیں اور بچے جو گذشتہ موقعہ پر نہیں آسکے اس موقعہ سے فائدہ اُٹھا سکیں یہ یاد رہے نہ مہش کی مجلس مشاورت ۲۶ - و امان کا سرچ کو رتن بارغ میں ہوئی تھی میں میں پاکستان کے علاوہ ریاست حید را با واحد انڈین یونی سے بھی نمائندے تشریف لائے حضرت مصلح موعود نے اس کی افتتاحی اجلاس میں نصیحت فرمائی مگر ہمیں اپنے اوقات کو پوری طرح خداتعالی اور اسلام کی خدمت میں لگا دینا چاہیئے.افتتاحی اجلاس میں ارشاد فرمایا.اپنے اندر تبدیلی پیدا کردے.پھر دیکھو د تعالی تمہارے ساتھ کیسا معاملہ کرتا ہے.سے اخبار انقلاب لاہور نے اپنی سر مارچ حشفہ کی اشاعت میں جماعت احمدیہ کی مجلس مشاورت کے عنوان اس مشاد شاکی حسب ذیل خبر شائع کی.لاہور اپنے نامہ نگار سے ۲۹ مارچ کی شام کو جماعت احمدیہ کی مجلس مشاورت جو کام سے منہ کے میزانے پر بحث کیئے بلائی گئی تھی تم کوئی در سال آمد کا میں لاکھ کا جب باتفاق رائے پاس ہوگیا.اس بحث میں پاکستان و ہندوستان د دیگر دور دراز کے علاقوں کے نمائندہ نے شرکت کی.یہ اس قابل ذکر ہے کہ سال آئندہ کیلئے بیس لاکھ میں سے سول کو تبلیغ اور ساڑھے تین لاکھ رپے کی رقم جماعت کی تعلیم تربیت کیلئے رکھی گئی ہے.ا المصبا نا الصلح موعود کی افتتاحی تقریر علی نام میں شاور کے اگلے روز دوم رامان رواج کو ، جود حال بلڈنگ سے ملحقہ وسیع میدان میں جماعت احمدیہ کے سالانہ جلسہ کا تمہ پروگرام شروع ہوا.اس موقعہ پر ہزاری اسباب مختلف مقامات سے تشریف لائے ہوئے تھے.حضرت مصلح موعود پورے مه جدید نظام لاہور ما صلح جنوری براش مداد : - افضل سور امان مارچ پاداش سکه مش سے :.تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو اخبار الفضل لاپور ۲۷ - ۲۸ رامان / ما روح الله مش * +
(اوپر ) حضرت مصلح موعود ۶ ۲ مارچ ۱۹۴۸ء کورتن باغ سے جلسہ گاہ میں جمعہ پڑھانے کے لئے تشریف لے جارہے ہیں.( نیچے ) حضور خطبہ جمعہ ارشاد فرمارہے ہیں.
مجلس مشاورت ۲۶ ۲۷ امان - ۳۲۷اهش / مارچ ۱۹۴۸ء
۴۵۹ دس بجے تشریف لائے اور عملہ کے بعد جلسہ کا افتتاح کیتے ہوئے فرمایا :- اجتماع وہی بابرکت ہوتے ہیں جو یک ارادی کے ساتھ شروع کئ جائیں ہمارایہ چھوڑا اجتماع یا قادیانی اجتماع میں میں، ہزار آدمی ہوتے تھے.دنیا کی دو ارب آبادی کے مقابلہ میں کونسی بڑی باس سے مگر ہمارے سامنے تو دو ارب نفوس کے قلوب کو فتح کرتا ہے اسلیے ہمیں دیکھنا ہے کہ ہم کس رفتار سے جارہے ہیں اگر ہماری رفتار معقول اور پھول زمانے میں کامیاب ہوتو الحمد للہ لیکن اگر ہماری رفتار اتنی سی ہے کہ صدیوں کا انتظار کرنا پڑے تو یہ افسوس اور رینج کی بات ہے.پیر محض جلسے جلوسوں اور اجتماعوں پراکتفانہ کرنا چاہیے.بلکہ مومنانہ جوش اور اخلاص کے ساتھ دین کی خدمت تبلیغ اور اشاعت حق کی طرف متوجہ ہونا چاہیے.اس کے بعد حضور نے اپنے چند خواب بیان کرتے ہوئے فرمایا.بینک پہ مار کے دن ہیں کو آخر کٹیں گے.چنانچہ میری یہ خواہیں بتا رہی ہیں کہ انشر تعالی کے فضل سے احمدیت کا مستقبل تاریک نہیں.خداتعالی ہمیں مشکلات پر غالب آئیکی توفیق دیگا.اور یہی نہیں بلکہ ملا کے ذریع سے ہندوستان میں روحانی حکومت امام کریگا راستی بعد یمانی حکومت تو اس کی تابع ہوا ہی کرتی ہے.جب لوگ مسلمان ہو جائیں تو بادشاہ خود بخود ہی مسلمان ہو جاتا ہے.ہمیں یہ بات خوشی نہیں کرسکتی کہ زید یا کمر دن یہ ہو بلکہ ہماری خوشی تو یہ ہے کہ لوگوں کے دلوں میں اسلام قائم ہو جائے.دنیا کا گورنر جنرل محمد و اله صل الله علیه وسلم جو در دنیا پر محمد رسول الله صلی الہ علیہ وسلم کی حکومت قائم ہو.ہمارے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے جائیں.ہمارے بچے اور بوریاں ہماری آنکھوں کے سامنے قتل کر دیئے جائیں مگر ہیں یہ خوشخبری مل جائے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں تو یہ صورت ہماری ہزاروں زندگیوں سے بہتر ہے.اپنی مستیوں کو ترک کرد اور اپنے اندر نیک تبدیلی پیدا کرو اور یہ مدت خیال کرو کہ ہم تھوڑے ہیں کیونکر کہ م من نشَةٍ قليلةٍ غَلَبَتْ فشَةً كَثِيرَةً بَا ذَنِ اللَّهِ القره ع بہت سی چھوٹی جماعتیں اللہ کے حکم سے بڑی جماعتوں پر غالب آچکی ہیں.راسی اختتامی خطا کے بعد حضور واپس تشریف لے گئے اور تلاوت د نظم کے بعد بالترتیب مندر جو فیل نال مقری نے معلومات افزاء تقریریں کیں.قاضی مراسم صاحب ایم.اسے کینٹ ہی ان دی پیپرمنٹ کا ایک او می گورنمنٹ کالج لاہور.(اسلامی نظام حکومت کا تھا کہ ) (۲) صوفی مطیع الرحمن صاحب بنگالی مجاہد امریکہ امریکا میں تبلیغ اسلام ، (۳) حکیم فضل الرحمن صاحب مجاہد مغربی افریقی - افریقہ میں تبلیغ اسلام کے ها الفضل ۳۰ ر امان مارچ سه سالانه مش هت به ۱۹۴۸
۴۶۰ اڑھائی بجے کے قریب جلسہ کا دوسرا اجلاس شروع ہوا.ماسٹر حضر مصلح موجود کی دوسری روح پرور تقریب فقیر اللہ صاحب نے تلادت کی.اسکی بعد سید نا حضرت مصلح موعود نے پہلے تو قادیان کے درویشوں اور جماعت امریکہ کا پیغام سلام دعا پہنچایا.نیز امریکہ، ہالینڈ اور جرمن نسلوں کے اخلاص پر اظہار خوشنودی فرمایا اور پھر سیر روحانی کے روح پر در سلسلہ مضامین کی چوتھی کڑی یعنی " عالم روحانی کا بلند ترین مینار یا مقام محمدیت " کے موضوع پر اس شان سے روشنی ڈالی کہ حاضرین پر وجد کی سی کیفیت طاری ہوگئی جور نے اپنی تقریر کے دوران مقام محمدیت کی عظمت بیان کرتے ہوئے فرمایا : - دو ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ہیں.اور ہم بھانتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک سچا علام بڑے سے بڑا مقام حاصل کر سکتا ہے اور عیتا بھی وہ پڑھتا چلا جائے گا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار سے ہی استفادہ کرے گا اور ہمیشہ آپ کے غلاموں اور چا کروں میں ہی اس کا شمار ہوگا.ہمیں اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ اس دعوئی کے نتیجہ میں ہم مارے جائیں یا قتل کئے جائیں یا اپنے وطنوں سے نکال دیئے جائیں ہم فخر سمجھیں گے کہ ہم نے ماریں تھا کہ درگاہیں شن کر اور وطنوں سے بے وطن ہو کہ محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کا نام بلند کیا اور آپ کی عظمت کو یاد دنیا میں روشن کیا.حضور پر نور نے اپنے اس حقائق و معارف سے لبریز لیکچر کے آخرمیں افراد جماعت کو یہ قیمتی نصیحت فرمائی کہ جس دن تم اُٹھتے بیٹھتے اور پھلتے پھر تے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر بن جاؤ گے اور جس دن تمہاری زندگی میں محمد رسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم کے اعمال کی تھلک پیدا ہو جائے گی.دنیا سمجھ لے گیا کہ محمد ول ال صل اللہ علیہ وسلم زندہ ہیںاور تمہارے اعمال اور اخلاق اور کردار کو دیکھ کہ اس کے دل میں تمہاری محبت بڑھتی چلی جائے گی.تم ایک زندہ اور مجسم نمونہ ہو گے تم پھلتی پھرتی تبلیغ ہو گئے.تم دنیا کے راہ نما اور را بھیر ہو گئے تم محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آستانہ کی طرف دنیا کو کھینچ کہلانے والے ہو گے اور دہ لوگ بھی آخر تمہارے نمونہ کو دیگر بیاب ہو جائیں گے اور کہیں گے کہ جب تک ہم رہے بڑے محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ لیں ہم صبر نہیں کہ سکتے.تب دنیا میں محمد ول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی حکومت قائم ہو جائے گی اور تمام بنی نوع انسان آپ کی غلامی میں شامل ہو جائیں گے.لے ه سیر رومانی جدید با صفحه ۱۹ ، ۱۷۶۱۷۵
تمہ سالانہ جلسه ۱۳۲۶اهش / ۱۹۴۷ء کے یک روزہ اجلاس کے روح پرور مناظر (۱) حضرت مصلح موعودؓ نماز ظہر و عصر پڑھانے سے قبل (۲) حضرت مصلح موعود خطاب فرمارہے ہیں (۳) سامعین جلسه (۴) اختتام جلسہ کے بعد
العالم حضرت مصلح موعود کی اس معرکتہ ائی را تقریر کے وقت جلسہ گاہ کے اندر اگرچہ یہ اچار ہزار کے قریب سامعین کی تعداد شمار کی گئی.اگر جلسہ گاہ سے با ہر ہر گیٹ اور محقہ سڑک پر خلقت کا بے پناہ ہجوم تھا.تقریر کے دور علی پر میں گیلری بالکل بھری ہوئی تھی.ہے راس نہایت کامیاب اجتماع سے احمدیوں میں ایک نیا دولولہ نیا جوش اور نئی قوت و طاقت پیدا کر دی اور دنیا پر بھی واضح ہو گیا کہ احمدیت کا زخم رسیدہ قافلہ اپنے مرکز سے ہجرت کے پچند ماہ بعد ہی پھر سے تازہ دم ہو گیا ہے.اور خدا کے فضل و کرم سے اپنے فتح نصیب قائد کی سیر کر دگی میں فتح دفر کے پرچم لہراتا ہوا دو بارہ شاہراہ ترقی پر گامزن ہو چکا ہے ؟ الفضل ۳۰ رامان مادربرد سینه اش مده :
( تاریخ احمدیت جلد ۱۱) يرالمومنين حضر مصلح قائد اعظم محمدعلی جناح صدر آل انڈیا مسلم لیگ کے نام اور اکتوبر تار و ۲۰ اکترو پیش بینی ور حضرت شنا زاده مرند انا راحمد صاحب ، ملک تمام فرید صاحب ، مولانا جلال الدین ما شتی مولوی عبید الرحمن صاحب انور کے نام.اکتوبر ) قادیان میں مقیم اپنے جسمانی اور روحانی بچوں کے نام.اکتوبر عالم الخر).() - پارک روڈ.نئی دہلی.راکتویر شه و السلام علیکم.دیر مسٹر جناح سٹر ! مجھے پر شک کر بے حد مسرت ہوئی کہ آخرکار موجود گفت و شنید تصفیہ کے آخری مراحل میں ہے رای دوران میں اور رائے پر پختگی سے قائم رہا ہوں کہ میں ہو گا اپنے نصب العین کو بھولنا نہیں چاہیئے اور نہ اس کے حصول کےلئے اپنی جد و جہد ہی میں کمزوری دیکھانی چاہیئے لیکن ہر وقت سمجھوتے کیلئے بھی تیار رہنا چاہیے.کیونکہ اسلام ایسے وقتوں پر مجھو تہ کرنے کی اجازت دیتا ہے.بہتر طیکہ ایسا جھوتہ با عزت ہوا دیر ہمارے آگے بڑھنے کے لئے آئینی جدوجہد کا راستہ کھلا رہے.تاکہ ہم مستقبل میں اپنے مطمع نظر کے حاصل کرنے میں فائز المرام ہو سکیں.یہی وہ امر ہے جیسے عرف عام میں یہ احتجاج ، قبول کرنا کہتے ہیں.چونکہ عبور کی حکومت کو نیک زید کرنے کے وسیع اختیارات دیدیئے گئے ہیں اس لئے قدرتی طور پر مجھے بیحد تشویش ہوئی کہ کوئی ایسا راستہ نکالا جائے.کہ زیادہ سے زیادہ مسلمان حکومت میں شامل کئے بھائیں.تاہم مجھے مسرت ہوئی کہ آپ نے موقعہ کی نزاکت کو بڑی عقلمندی اور فراست سے سنبھال لیا.اور با اثر و دستوں کے تعاون سے یہ تمکن ہو سکا.
ستم گر کوئی مزید رکاوٹ اچانک پیدا نہ ہوئی.اور تصفیہ بالخیر کے پاگیا دھیکی ہیں امید ہے اور میں دعا گوبھی ہوں تو مجھے کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کراتی ہے کہ سلم لیگ کی تنظیم توسیع کی اشد ضرورت ہے.اس کے لئے مندرجہ ذیل پانچ امور پر اساس قائم کی بجائے جمعہ مرکزی تنظیم و ترتیب میں استحکام پیدا کیا جائے بیویوں اور اضلاع کی تنظیم میں معنی اور زیادہ سے صوبوں مضبوطی زیادہ نیابت دی جائے.مستقل فنڈ قائم کرنے کی سکیم بنائی جائے اور دیر پا مد کیلے ایسی صورت پیدا کیا جائے.مرکز اور صوبائی سطح پر سلم پریس کو مضبوط کیا جائے.م لیگ کی مرکزی تنظیم کا ایسا نظام قائم کیا جائے کہ وہ مسلمانوں کو تجارت اور صنعت کے میدان میں ترقی کے مواقع بہم پہنچائے.۵ غیر ممالک سے تعلقات وسیع اور اُستوار کئے جائیں.لاریب کام کرنے کا نہایت وسیع میدان موجود ہے.تاہم اگر اب سیدھی سادی ابتداء کی داغ بیل ڈالی جائے تو مستقبل میں ترقی و خوشحالی مضبوط بنیادوں پر قائم ہو جائے گی.انشاء اللہ تعالٰی.اس تنظیم کی وسعت پذیری ایک اور رنگ میں بھی خوش آئند ہو سکتی ہے وہ یہ کہ موجودہ دور میں ایک کافی تعداد قابل اور صاحب دانش و فهم مسلمانوں کی ایسی ہے جو اسلام ار سلمانان ہند کی ذات کے لئے بطیب خاطر اور ذوق شوق سے اپنے آپ کو پیش کرسکتے ہیں اس توسیع شد تنظیم کو چاہیئے کہ ایسے آمادہ بہ کار لوگوں کو اپنے اندر جذب کرنے کے لئے دروانہ سے وا کرد ہے.دونہ رفتہ رفتہ یہ لوگ پر گشتہ ہو جائیں گئے.بلکہ ان میں سے بعض غیر مطمئن ہو کہ شر پسندی اور فساد کا موجب بن سکتے ہیں تک شاید اس سے قبل آپ کو مطلع نہیں کر سکا کہ اُسی روز میں دن میں نے آپ سے ملاقات کی تھی کی نے ہرا کیسی کیسی وائسرائے کو ایک خط بھجوا دیا تھا.جس میں انہیں لکھا تھا کہ مسلم لیگ کے تمام مطالبات کے ساتھ مجھے اور میری جماعت کو پورا پورا تعاون اور حمایت حاصل ہے.مخلص آپ کا سخت دستخط (مرزا بشیرالدین محمود احمد ) (تو حمید)
قاریان ہم لم 14 ڈیٹر مسٹر ایم.اے.جناح السلام علیکم.قلمدان وزارت کی نئی تشکیل کا اعلان ہو چکا ہے.اگرچہ ان کی تقسیم منصفانہ اور معقول نہیں ہے.تاہم میں آپ کو آپ کی کامیاب مسائلی پر دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں.بعض اہم وزارتیں شا د فاع ، امور می ریجید - امور داخلہ و غیر تمیم اب بھی کانگریس کے ہاتھوں میں ہیں.ان میں سے خصوصا ایک یعنی دفاع یا رسد کا محکمہ مسلم لیگ کو تو نہیں کرنا چاہیئے تھا.تاہم مسلم لیگ کے نمائندے آپ کی ہدایت کے تابع رہیں گئے.اور اُس وقت تک تندہی اور محنت سے کام کرتے رہیں گئے جب تک کہ مسلمانوں کے حقوق کا کلی طور پر تحفظ نہیں ہو جاتا.اللہ تعالی آپ کی عظیم مساعی میں برکت ڈالے اور صحیح راستہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین.آپ کا مخلص بیسم بعد الر حمن الرحیم دستخط (مرزا البشیر الدین محمود احمد) م م م م ه و به کا ده دتر جمبر) اب تک یہ ہو رہا ہے کہ ہم دیکھتے ہیں اور ادھر سے بتا یا آتا ہی نہیں یا ا ا ا اور اب آتا ہے اور آدھا آدھا نہیں آتا.ایسے وقت میں کہ ہر درہ خیال ہوتا ہے کہ الا خطہ آئے گا یا نہیں یہ حالت نہایت افسوسناک ہے.اس ادا کی جاتی نہ ہوا ہوں یعنی میرا ناصر احمد و با اعلام رای صاحب کو اور انور صاحب کو دربی خط آپ کے آپ میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ دیکھے کہ ایک ایک بات کا جواب آتا ہے اور جو باتیں اسی خلاصی تعمیل کے بغیر رہ جائیں آئندہ ان کا خیال رکھا جائے کہ بغیر اسکے کہ انکی نسبت یاد دہانی کرنے ائی جائے ان کی تعمیل آپ لوگ کرتے رہیں.ان تین دیہاتی مبتن جو مانگے گئے تھے ان میں سے صرف نو پونچے ہیں باقی او را کیس ، مبلغ اس دفعہ بھجوائے جائیں ان کو تاکید ہو کہ آتے ہی رپورٹ کریں.پچھلی دفعہ بہت سے نوجوان پر ڈنگ.تحریک سے آگئے وہ کہتے ہیں کہ ہم کو زبردستی بھجوایا گیا.لڑکی نے اور خدام نے.بہ سے گواہوں سے اس کی تصدیق ہوتی ہے.اس دفعہ ایسا نہیں ہونا میں ہیے.نرجو انوں کو پہلے ہی قادیان بلھا لینا چاہیئے تھا تا کہ اس قسم کی شرارت ہوتی.آخر ان کو باہر کیوں رکھا ہوا ہے.(۳) قادیان سے با ہر آدمی بھجوانے کے متعلق یہ امور مد نظر ر ہیں.مونا نا عبد از من صاحب اور انجان بی تحریک جدید مراد ہیں.(ناقل) و
The expanded organization will be beneficial in another way also.There is at present a fairly large number of capable Muslims who are ready or rather eager to serve the cause of Islam and Mus- lims in India.The expanded organization will open the door for absorbing them; otherwise they might become gradually alienated and even discontented and some of them may eventually turn out to be a source of mischief.I did not perhaps inform you that the very day I met you I sent a note to H.E.the Viceroy telling him that the Muslim League demands had the full sympathy and support of my community.Yours Sincerely, Sd/- (Mirza B.Mahmud Ahmad) Qadian Oct.27, 1946 Dear Mr.M.A.Jinnah, Assalam-o-Alaikum.The new allotment of portfolios has been an- nounced.Though their distribution is not equitable yet I must congratulate you on your successful efforts.The important protfolios like Defence, Ex- ternal Affairs, Home etc.are still with the Congress.One of them especially the Defence or the Supply ought to have been given to the Muslim League.However, the Muslim League representatives will follow your advice and work assiduously till the rights of Muslims are fully secured.May Allah help you in your great task and lead you to the right path, Amen, Sd/- Yours Sincerely, (M.B.Mahmud Ahmad)
8, York Road, New Dehli 6.10.46 Dear Mr.Jinnah, Assalam-o-Alaikum.I am very glad to hear that after all the present negotiations are nearing a settlement.I have all along been of the opinion that though we should never lose sight of our ideal or slacken our struggle for it we should at the same time be ready to accept a compromise (for Islam allows compromise on such occasions) provided it is honourable and leaves us free to continue lawful struggle for further achievement.This is what is popularly known as accepting a thing under protest.As the interim government has immense power for good and evil I was naturally very anxious that some way might be found for the Muslims to get in and I am glad that your good handling of the situation and the co-operation of influential friends have made that possible.If no further hitch crops up and a settlement is finally reached, which we call hope and pray for, I would draw your attention to the great need of strengthening and expanding the organization of the Muslim League.To begin with five things seem to be essential : (1) Organizing the Centre, the Provinces and the Districts on a firmer and more repre- sentative basis.(2) Laying out a scheme for permanent funds and ensuring permanent income.(3) Strengthening Muslim Press at the Centre and in Provinces.(4) Setting up Central League Orgnization for helping Muslims in the fields of commer- ce, industry etc.(5) Extending and consolidating foreign rela- tions.There is, of course, a very vast field of work but even if a modest beginning is made the founda- tion will be laid for future progress and prosperity.May God help you.
۴۶۵ الف : محافظین دوسو کے قریب ہیں.ان میں سے ایک تو وہاں رکھے جائیں.خواہ ولی طور پر خواہ قرنہ ڈالکر امر بھی مناسب تجہ یہ کہ لئے جائیں.باقی توسے کے قریب اور ہو گا ان کو مختلف قافلوں میں باہر بھجوا دیا جائے انکو تاریخ نہ کیا جائیگا بلکہ یہاں کام کیا جائیگا اور باری باری ان کا تبا ہ ہ مرکزی محافظین سے ہوتا رہے گا.بیاء.سو آدمی با ہر سے گئے ہوئے وانٹیٹرز سے لیا جائیگا.خواہ قرعہ کے ذریعہ سے خواہ مالی طور پر پیش کر نیوالوں میں باقیوں کو آہستہ آہستہ واپس کر دیا جائے.ان لوگوں کو گھروں کو جانے کی اجازت ہو گی.انگلی دفعہ نئے آدمی بھجوائے جائیں گے انشاءاللہ ان والنٹر ز میں سے انتخا ب کے وقت یہ خیال رکھا جائے کہ جس کی مدت زیادہ باتی پہ اپنی جو اکتوبر کے شروع میں آئے ہوں یا ستمبر کے آخر میں ان کو رکھا جائے.تا جلد نہ بدلنا پڑے.اور پرانوں کو فارغ کیا جائے کیونکر ان کی مدت ختم کے قریب ہوگی.نیا بینچ دسمبر میں آنا شروع ہوگا.تا اُن لوگوں کو فارغ کی ہے..پچاس آدمی قادیان کے باشندوں کے لئے جائیں گے ان کے انتخاب میں یہ شرط ہو گی کہ کسی باپ کی اولاد کا ایک سے زیادہ فرد انتخاب میں نہ آئے.اکلوتا بی کسی باپ کے انتخاب میں نہ آسکے.ہمارے خاندان کا قرعد الک ڈالی جائے.میری اولاد کے سوا دوسرے بھائی بہنوں اور ماموں کی اولاد اور حضرت خلیفہ اول کی اور دکا قرعہ انگ ڈالا جائے ان میں سے ایک فرد ہمیشہ قادیان میں رہے.میری ادا کا فر مانگ لی جائے ان میں سے ایک مزور ہر دفعہ قادیان میں رہے.دو یہ ہو گئے باقی قادیان سے دیدم، اڑتالیس آدمی لئے جائیں..یہ فرع فور ڈال کر وہاں رہنے والی نفری کو معین کرلیا جائے تاکہ وہاں سے باہر نکالنے والے آدمیوں کی بھی تعین ہو جائے اور یہ نہ ہو کہ آئندہ قافلوں میں وہ لوگ بھی آجائیں جو قادیان میں رہنے چاہئیں.ا.اوپر کے آدمیوں کے علاوہ ایک آدمی محاسب اور بیت المال کا اور ایک ترک ضرور وہاں رہے گا تاکہ مالی انتظام کرے.هداری عزیز احد اور بد الحمید صاحب فتربیت المال یہ دونوں نوجوان اچھے ہیں یہ باری باری وہاں رکھے جائیں گے ان کا قرعہ نکال کے فیصلہ کر لیا جائے کہ پہلے یہاں کون رہے گا.اگر عبدالمان صاحب نام نکلے تو ان کو فورا چوہدری عزیز احد صاحب کے ساتھ اہم پیشگا دیا جائے تاکہ پندرہ بیس دن میں کام سیکھ ہیں.اس کے بعد چوہدری عزیز احد کو تین ماہ کے لئے بلا لیا جائیگا اور چوہدری عبد الحمید صاحب وہاں کام کریں گے.ایک کلرک بیت المال کا اور ایک محاس لیے انکی مدد کیلئے قرعہ سے نگار کر رہائی کو لیا جائے قادیان میں سرایت خاطرات بیت المال کا عہدہ ایک ہی شخص کے پاس رہے گا.کے علاوہ ایک اور اوران کے نمائن کے طور پر رہیگا.کبھی بالائے - د علما و قرآن و حدیث کا درس دینے کیلئے نہیں گئے ان کا نام بھی قرعہ سے نکال لیا جائے کوئی دوکاندار دھوبی تائی جا ر چی نانبائی اور اسکا علم برای بی پایا اور اور شہرکی دکانیں ان کو دی جائیں.
.ایک کمپوند -1 ایک اکرایک پونڈ بھی ہنا چاہئے.اڑھائی تو آدمی کیلئے ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ر میری ایک یہاں کے بھجوایا جا رہا ہے.ی.پودہ آدمیوں کے نام پہلے سکھے جاچکے ہیں ان میںاور چند علماء جو لیڈری کے قابل ہوں ان کے نام شامل کر کے قرعہ ڈالا جائے اور دور آدمی اچن لئے جائیں.ایک لیڈر اور ایک نائب لیڈر.ک ان انتخابات کے بعد باقی لوگ باہر آنیوالوں میں سے ہونگے انو جب جب کنوائے آئے اس میں واپس کر دیا جائے.گریہ خیال ہے کہ اگر ہو نا مراد اور مردہ امداد کا نام با ہر ایوان میں ہوتو یہ آخری کنائے میں آئیں.اسیطرح مسولی جلال الدین هاشمی اور بابا نام فرید بھی کیونکہ پہلے دوسر لوگوں انکالنا ضروری ہے تاکہ بعد کا نا تجربہ کار علم زیادہ آدمیوں کے سنبھالنے سے قاصر نہ رہے.اگر اوپر کی ہدایات کوئی بھ میں ناکئے تو نوائے کی واپسی پر خون کھدیں تا جواب فورا دیا جا سکے.م ہو لوگ وہاں رہنے والے ہوں ان سے عہد لیا جائے.قسم کی ضرورت نہیں کہ وہ امن اور مصلح سے رہیں گے.اینکر دستر سے تعاون کریں گے اور افسر خود تکلیف اٹھائیں گے مگر ساتھیوں کو تکلیف نہ ہونے دیں گے.میری لائبریری اور حضرت علی ای الاول کی بریری کی خاص کتب جو ایسی کوشش اسی طرح الفضل الحلم القدر پیغام اشاعۃ السنہ کشید - ریویو کے فائل لائبریہ یوں میں سے پہلے عربی کی کتب بھجوائی جائیں.پہلے غلطی سے تازہ مطبوعہ کتب بہت آگئی ہیں اور سلسلہ کی جو کتب شائع شدہ ہیں وہ بھی رد نہ کچن کچھ بھائی بھائی ا تبلیغ میں درک نہ ہو.اب چونکہ چند کنو ائے آئیں گے اس لیے پہلے سے کتب PACK رکھ لی بھائیں.میری کتب میں سے انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا ضرور آجائے وہ ریپ کے آخری ایڈمیشن ہے اسی طرح سے بڑی آف دی ورلڈ انگریزی کتب علی کر کے نیچے رکھی جائیں ان کی طرف توجہ نہ ہو.دا روایت کی ہی پارسیاسی طرح بھجوائے جائیں کہ حفاظت سے پہنچ جائیں ، (۵) امانت کے کیس اگر چھوٹے ہوں تو ایک بدی سے لڑنگ میں بھر کر اچھا مال لگا کر احتیاط سے بھجوا دئے جائیں عبدالحمید صاحب یا چوہدری عزیز احد صاحب اپنے ساتھ لے آئیں.اگلے کنوائے میں واپس چلے جائیں.بشرطیکہ آدمی واپسی پونچ سکتا ہو.ملٹری کی طرف سے روک نہ ہو ورنہ آنے والے معتبر آدمیوں میں تین چار آدمیوں سے قسمیں لیکر اکھٹی ذمہ داری کے ماتحت بھیجوا دئے جائیں.دیہاتی مبلغوں میں سے ہشیا را در تجرب آدمیوں کے یہ کام سپرد کیا جا سکتا ہے.جو امانیتی بڑے صندوقوں میں ہوں ان کو معتبر آدمیوں کے سامنے کھول کر ایک ٹرنک میں بھر کہ بھجوا دیا جائے ہر ایک چیز پر کاغذ باندھ کر رکھ دیا جائے کہ خلامی شخص کی امانت ہے.6 هدرز المحم در اسد ے.یہاں دو لفظ میں جو پڑھے نہیں جانتے (ناقل ) و ہیں
پیارے بچو! بسم الله ارحمن الرحیم السلام علیکم و رحمة الله وبر کا نا.تم لوگوں کا پیغام محمدعبداللہ دیا.قادیان کے خطرناک حالات معلوم ہوئے تمر و روی غلطی کی ہوئی ہے کہ گویا ہم کچھ کر سکتے ہیں لیکن کرتے نہیں حقیقت یہ ہے کہ ہم بھی اورحکومت بھی بے نہیں ہیں اب سب کچھ اللہ تعالی کے اختیار میں ہے.دہی کچھ کر سے لگا تو کرے گا.ہم نے دو کروائے بھجوائے تھے ایک پر نہیں ٹرک کا اور ایک تین کا اگر وہ آجاتے تو قریبا سب صورتیں نکل آئیں پھر تمارا بوجھ ہلکا ہوجاتا مگر اکو بٹالہ سے واپس کر دیا گیا ور ایک ان پر مل بھی کیا گیا کروی و دوی مارا گیا.سپاہی بھی کچھ ہار گئے.اصل میں ہم تو اسی وقت کچھو گئے تھے کہ یہ ردک قادیان کو فنا کرنے کیلئے ہے.العیاذ باللہ.تم لوگوں کے کھانے کی تکلیف کالم بھی ہو اللہ حال ہی اسکا علاج کر سکتا ہے.ڈی سی گورداسپور نے مظفر سے وعدہ کیا تھا کہ خود جا کر قادیان کے حالات دیکھے گا.مگر معلوم نہیں کہ گیایا نہیں اور کچھ کیا یا نہیں.جنرل کریا پا نائب کمانڈر انچیف کو آج ملے استایے بہ ظاہر ہمدردی کا اظہار کیا اور اسکی رویہ سے معلوم ہوتا تھا کہ ہ خودبھی شاید قادیانی جائے.ابھی اطلاع ملی ہے کہ قادیان کو ریفیوجی کیمپ نانے کیلئے دہلی کو دونوں حکومتوں کے نمائندے وائر لیس کر رہے ہیں اگر ایسا ہوا تو شاید کلان ملٹری بھی لگ جائے اور کم سے کم حکومت کی ذمہ داری ہی بڑھ جائے اور غذا کی ذمہ داری بھی بڑھ جائے.بہرحالی استعمال سے جمے رہو.جب تم لوگ خدا کی راہ میں شہید ہونے کیلئے بیٹھے ہوتو پھروں کو دل میں آنے دینے کے معنے ہی کیا ہوئے جو شخص خداتعالی کے راستہ میں قربان ہونے کیلئے بیٹھا ہوا ہے پر کسی قسم کے انجام کا ڈر نہیں ہوتا کیو کر موت کے بعد ادر کو نسا خطرہ رہ جاتا ہے مجھے تو عورتوں کا ذکر ہے خدا کے عورتوں کی مار ہوا ہے.مجھے یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اپنے حوصلے کو بلند رکھو اگر دین کی اشاعت کا خیال نہ ہوتا اور مجھ سے اشاعت اسلام کا کام وابستہ نہ ہوتا علیہ وسلم کے سب خاندان نے بھو کے پیاسے رہ کہ ثابت قدمی سے آخر دم تک لڑائی کی اور بے جان دیدی تمہاں خطرہ ان کا نہیں آخر یہ سلسلہ خداتعالی کا ہے اور وہ ضرور اپنی قدرت دکھائیگا.حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کا الہام ہے.یرید الله لیذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ اهْلَ البَيْتِ وَيُظْهِرَكُمْ تَظمیرا.شاید یہ وہی اسکا ہے.اللہ تعالے اس ابتداء میں ڈال کر ہمارے خاندان کے گناہوں کو جو بہت بڑے ہیں معاف کر دے گا.یا شہادت دیکر انکو دھو دے گا.اور آئندہ سلسلہ کی زندگی کا اسے ایک ذریعہ بنا دے گا.ہم لوگ بھی خواہ سے باہر نہیں.پاکستان بخت خطرہ میں ہے اوراللہ تعالی بہت جاتا ہے کہ نہ کیا ہوگا اور یہ کہ میں چو عمر کیلئے احمدیت کا مرکز ہندوستان سے باہر تو نہیں لے جانا پڑیگا.مگر اس صورت میں شاید مجھے بھی شہادت کا ہی راستہ اختیار کرنا پڑیگا.اور شاید یہ کام اللہ تعالی کسی اور سے لے.ر اس وقت ساری دنیا کی نظریں تم لوگوں پر ٹیک پر دشمن تک حیرت سے تم لوگوں کے استقلال اور قربانی کو دیکھ رہا ہے اور تمہاری
۴۶۸ قرانی سلسلہ کی عزت کو چار چاند لگا رہی ہے.یہ خداتعالے کا فضل نہیں کہ لوگوں کویہ تو ا ہل رہا ہے.میری کر سلسہ کے عل میں خیرہ ہو رہی ہے اور صحت کمزور ہو رہی ہے مگ اللہ ان سے امی کہ اس مہ کو آخر سلام کی کامیابی کا وجب بنا دیگا.اگر ایسا ہو تو ہماری زندگیاں ٹھکانے میںگی اور ہماری قربانیاں قربانیاں نہیں بلکہ نام میں جائیں گی.میر سے بچو اجسمانی اور روحانی بچو! اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نا امید نہ ہو اور اپنے حوصلے پست نہ ہونے دو.کہ موت ہر حال آئیگی.چاہیئے کہ جتنا خطرہ بڑھے تنہا کے سو صلے بھی بڑھتے جائیں اور تمہارے دل میں خوشی کی لہر دوڑتی جائے کہ اس عظیم الشان قربانی کیلئے جو انھیں کی قربانی کے مشابہ ہے.خداتعالی نے تم کو چنا.اسے قادیان کے ساکن آج آسمان کے فرشتے تمہارے استقلال پر خدا تعالی کی حمد گا رہے ہیں.آج اللا علی بھی کہا ہے کام دیگر نوش ہے کہ میر اسی کامیاب آیا اور اس نے ایسی جماعت بنادی جو خدا تعالی کی راہ میں فاقہ اور پیاس اور موت کو تفخر بجھتی ہے اور دنیا کی محبت اس کے دل سے سرد ہے.آج ہمارا مسیح بھی یقیناً خوش ہوگا.وہ آپ لوگوں کے لئے دعا بھی کرتا ہوگا.اور خدا تعالیٰ کی حمد کے ترانے بھی گاتا ہوگا.کہ انی اسکی سچائی کا زندہ ثبوت بہم پہنچا دیا.اور دنیا کو بتادی کہ اس سیح نے پہلے مسیح سے زیادہ شاندار مردے زندہ کئے ہیں.تم لوگ زندہ رہے تو اسلام کی زندگی کا ایک نشان ہو گئے.اور شہید ہوئے تو اسلام کی قوت قدسیہ کا ایک ثبوت ہو گے.خداتعالی تمہارا حا فظ و ناصر ہو.اور تم کو احمدیت کی آئندہ ترقی کیلئے کام کرنیکی توفیق دے.مگر اسکی ساتھ ہر تکلیف اور پر انجام کیلئے بھیتم کو طیار رہنا چاہیئے کیونکر چوبو سے گھبراتا ہے اسکی زندگی بھی ہے کا ر ہوتی ہے.قادیان کی حفاظت کے بارہ میں یہ خیال رکھو کہ جیسا پہلے لکھا جا چکا ہے فورج اور پولیس کا مقابلہ نہ کرو.ڈاکوؤں کا خوب مقابلہ کرد، ایسا کہ ان پر رعب مجھے کا سامان کو ضائع نہ کرو.اور نہ جانوں کو ضائع کردہ اگر زبردستی تم کو فوج اور پولیس ایک جگہ سے نکال دو تو دوسری بیگہ پر جم جاؤ.اوراگر خدانخواستہ ہر جگ سے نکال دے جو پر یقین میں انشاءاللہ نہیں ہوگا.توپھر با مجبوری رینیو جیز کیم میں لے جانا ہی سال کا ریکارڈ اور افضل الحکم اور ابد کے قائل اور تحریک اور انجن کی ماوں اور نیند کے مسائل ریکارڈ ضرور ان کے کارکنوں سمیت اور شیخ اور اعلی پہلے کنوائے میں بھجوادی یہ بائیں.اس کے بغیر سلسلہ کا سخت نقصان ہے.ان چیزوں اور ان آدمیوں کے نہ بھجوانے سے سلسلہ کا سخت نقصان ہوا ہے اللہ تعالیٰ معاف کرے.اس کنوائے میں تو نہیں جو بڑا کنوائے پرسوں تک آئیگا میں ملوبہ ترک در سیل اور میں دیہاتی مبلغ بھی کھانے چاہئیں تاکہ جماعت کو فورا منظم کیا جا سکے.تک خدا کمر سے ہمارا قادیان سلامت رہے اور ہم اس کی جگہوں میں خدا کی حمد گاتے پھریں.خدا تعالی تمہار سے ساتھ ہو.و السلام خدا کا عاجز بندہ اور اسکے دین کا خادم - تمہارا دعا گو مرزا محمود احمد نوٹ :.بڑا کانوائے سوراخارا اکتو بر ہنہ میں کو تادیان پہنچا تھا اسکا علمہار سے بند کہ بیل مکتوب راکتو بر شانہ کا قرار پاتا ہے ؟ کام مطیع مینی والا سلام پہ یہیں ربود ناشت ادارة المصنفين به ربوده - با را دل در ماه تیم اکبر امر ریش **144+