Language: UR
(پرانے ایڈیشن کے مطابق جلد 10)
تاریخ احمدیت جلد دهم تعلیم الاسلام کالج قادیان کے قیام سے لے کر حضرت امیر المومنین سید نا المصلح الموعود کی ہجرت پاکستان تک دوست محمد شاہد الناشر
نام کتاب مرتبہ طباعت موجودہ ایڈیشن تعداد شائع کرده مطبع : تاریخ احمدیت جلد نہم مولا نا دوست محمد شاہد 2007 : 2000 نظارت نشر و اشاعت قادیان پرنٹ ویل امرتسر ISBN-181-7912-116-x TAAREEKHE-AHMADIYYAT (History of Ahmadiyyat Vol-9 (Urdu) By: Dost Mohammad Shahid Present Edition : 2007 Published by: Nazarat Nashro Ishaat Qadian-143516 Distt.Gurdaspur (Punjab) INDIA Printed at: Printwell Amritsar ISBN-181-7912-116-x
بسم اللہ الرحمن الرحیم پیش لفظ اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں داخل فرماتے ہوئے اس زمانہ کے مصلح امام مہدی ومسیح موعود علیہ السلام کو مانے کی توفیق عطا کی.قرونِ اولی میں مسلمانوں نے کس طرح دُنیا کی کایا پلٹ دی اس کا تذکرہ تاریخ اسلام میں جا بجا پڑھنے کو ملتا ہے.تاریخ اسلام پر بہت سے مؤرخین نے قلم اٹھایا ہے.کسی بھی قوم کے زندہ رہنے کیلئے اُن کی آنے والی نسلوں کو گذشتہ لوگوں کی قربانیوں کو یا درکھنا ضروری ہوا کرتا ہے تا وہ یہ دیکھیں کہ اُن کے بزرگوں نے کس کس موقعہ پر کیسی کیسی دین کی خاطر قربانیاں کی ہیں.احمدیت کی تاریخ بہت پرائی تو نہیں ہے لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے البی ثمرات سے لدی ہوئی ہے.آنے والی نسلیں اپنے بزرگوں کی قربانیوں کو ہمیشہ یادرکھ سکیں اور اُن کے نقش قدم پر چل کر وہ بھی قربانیوں میں آگے بڑھ سکیں اس غرض کے مدنظر ترقی کرنے والی قو میں ہمیشہ اپنی تاریخ کو مرتب کرتی ہیں.احمدیت کی بنیاد آج سے ایک سو اٹھارہ سال قبل پڑی.احمدیت کی تاریخ مرتب کرنے کی تحریک اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل میں پیدا فرمائی.اس غرض کیلئے حضور انور رضی اللہ عنہ نے محترم مولا نا دوست محمد صاحب شاہد کو اس اہم فریضہ کی ذمہ داری سونپی جب اس پر کچھ کام ہو گیا تو حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی اشاعت کی ذمہ داری ادارۃ المصنفین پر ڈالی جس کے نگران محترم مولانا ابوالمنیر نور الحق صاحب تھے.بہت سی جلد میں اس ادارہ کے تحت شائع ہوئی ہیں بعد میں دفتر اشاعت ربوہ نے تاریخ احمدیت کی اشاعت کی ذمہ داری سنبھال لی.جس کی اب تک 19 جلدیں شائع ہو چکی ہیں.ابتدائی جلدوں پر پھر سے کام شروع ہوا اس کو کمپوز کر کے اور غلطیوں کی درستی کے بعد دفتر اشاعت ربوہ نے
ا اس کی دوبارہ اشاعت شروع کی ہے.نئے ایڈیشن میں جلدنمبر ۱۰ کوجلد نمبر 9 بنایا گیا ہے.حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے قادیان سفر کے دوران تاریخ احمدیت کی تمام جلدوں کو ہندوستان سے بھی شائع کرنے کا ارشاد فرمایا چنانچہ حضور انور ایدہ اللہ کے ارشاد پر نظارت نشر و اشاعت قادیان بھی تاریخ احمدیت کے مکمل سیٹ کو شائع کر رہی ہے ایڈیشن اول کی تمام جلدوں میں جو غلطیاں سامنے آئی تھیں ان کی بھی تصحیح کر دی گئی ہے.موجودہ جلد پہلے سے شائع شدہ جلد کا عکس لیکر شائع کی گئی ہے چونکہ پہلی اشاعت میں بعض جگہوں پر طباعت کے لحاظ سے عبارتیں بہت خستہ تھیں اُن کو حتی الوسع ہاتھ سے درست کرنے کی کوشش کی گئی ہے.تاہم اگر کوئی خستہ عبارت درست ہونے سے رہ گئی ہو تو ادارہ معذرت خواہ ہے.اس وقت جو جلد آپ کے ہاتھ میں ہے یہ جلد نہم کے طور پر پیش ہے.دُعا کریں کہ خدا تعالیٰ اس اشاعت کو جماعت احمد یہ عالمگیر کیلئے ہر لحاظ سے مبارک اور با برکت کرے.آمین.خاکسار برہان احمد ظفر درانی ( ناظر نشر و اشاعت قادیان)
بسم الله الرحمن الرحيم تحدة وتصل على رسوله الكريم وعلى عبيده المنسية السجود تاریخ احمدیت کی دسویں جلد ه از رقم فرموده مکر مرد محترم چودهری محمد ظفر الله خان ها الحمد الله که تاریخ امریت کی دسویں مسلہ طبع ہو کر احباب کے ہاتھوں میں پہنچا رہی ہے پہلی نو جلدوں کی طرح اس کا بریاب بھی گوناگوں دلچسپیوں کا مخزن ہے.اس میلہ کے ابتدائی سے میں سلسلہ امردی کی علمی اقدار اور مقاصد تقسیم کی وضاحت حضرت نمیفة المسیح الثانی رضی اللہ تعا لٰے عنہ کے ارشادات سے کی گئی ہے جین کا ہر وقت پیش نظر من سلسلے کی تعلیمی ترقی اور ارتقاء کے لئے لازم ہے اور جو ہر قدم کے بارے معلمین اور مسلمین کے لئے شبح ہدایت اور مشعل راہ ہیں.بیشتر حصہ اس جلد کا جہاں سلسلہ احمدیہ کی تاریخ کا ایک اہم جزو ہے ساتھ ہی پاکستان کے مورتی وجود میں آنے کی تاریخی ودبستان کا بھی ایک نہایت و چیپ اور ناقابل فراموش بات ہے.ان واقت پر میں بائیں سال کا عرصہ گزر چکا ہے.پاکستان کی نئی پود جیسے ان در انگیز ہنگاموں کا ذاتی تجربہ اور یہ نہیں ہوا ان میں سے ان پاکستان معرض وجود میں آیا.آہستہ آہستہ ان سالی اداری نبود جید کی تفاصیل سے نا آشنا ہوتی چلی جا رہی ہے جن کا مطالعہ قیام پاکستان کی خاطر ترکینیہ کے مسلمانوں سے ہوا اور چین ہیں ، اسم جماعت احمدیہ اور جماعت احمدیہ نے اپنی بساط سے بہت پڑھ کر حصہ لیا.اس جلد میں ان مراعی کا مرقع بھی پیش کیا گیا ہے الہ تعالے اپنے کمال فضل سے اس میں کی تالیف میں حصہ لینے والوں کی محنت کو قبولیت سے تو ار ہے اور انہیں واخراج سے متمتع فرمائے آمین در سلام خاکمار ظهور الله قال ۱۳۹۶ بر ۱۹۸۹ و
بد الله الرحيل الرئيسية ومواعيد المسيح الموعود پیش لفظ اللہ تعالے کی دی ہوئی توفیق سے ہم امسال تاریخ احمدیت کی دسویں جلد ، حباب کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں.یہ جلد کی درد سے اگست شکل داد تک کے واقعات پر مشتمل ہے.۳۱ اگست کشانده کوسید نا حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ قادیان سے ہجرت فرما کر پاکستان تشریف لے آئے اور جماعت احمدیہ کا نیا دور شروع ہوا ہندوستان کی آزادی اور پاکستان کے بننے کا جونہی اعلان ہوا.قادیان کے اردگرد فسادات کا سلسلہ شروع ہوا اور نہتے مسلمانوں کو تہ تینہ کیا جانے لگا.اور امن نختم ہو گیا.اس بات کو دیکھ کر سیدنا حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے جاعت کے اکابرین کے مشورہ سے یہ فیصلہ فرمایا کہ خاندان حضرت سیح موعودیه الصلاة والسلام کی خواتین مبارکہ کو فوراً پاکستان بھجوا دیا جائے.چنانچہ ۲۵ اگست کو بسوں کا انتظام ہوا.اور یہ قافلہ مصیح و بجے روانہ ہو کر شام کو لاہور پہنچا.اس قافلہ میں سیدہ حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا اور خاندان مسیح ولا علیہ السلام کی خواتین شامل تھیں مردوں میں سے حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب اور مکرم و محترم مرز منصور احمد صاحب اس قافلہ کے ہمراہ تھے.حضور نے فسادات کے پیش نظر جہاں یہ فرمایا کہ خواتین مبارکہ کو بحفاظت پاکستان پہنچا دیا جائے.وہاں یہ بھی تفیصلہ فرمایا کہ خاکسار مصوبہ رضی اللہ عنہ کی تفسیر کے مسودات سے کہ اس قافلہ کے ساتھ لاہور چلا جائے.بعد ازاں حضور نے مکرم ملک سیف الرحمن صاحب مکرم مولوی محمد صدیق صاحب اور مکرم مولوی محمد احمد قاتا، جلیل کے متعلق بھی حکم دیا کہ دو میں اس قافلہ میں لاہور چلے جائیں A ہمارا قافل صبح دینے قادیان سے چلا اور قومی اسکوٹ کے ساتھ لاہور پہنچا.راستہ نہایت ہی پر خطر تھا.کیونکہ سکھ اجباریکے ہجوم ہر جگہ جمع تھے ہمارے قاف کے اوپر حرم میں محمد حمد صاحب ہوائی جہاز پر پرواز کرتے رہے.تا قافلہ کا حال دیکھتے رہیں.اور واپس به گر قادیان حضرت خلیفہ المسیح اش اون بخواد منہ کو قافلہ کے بخیریت پہنچنے کی اطلاع کر سکیں الحمد هند که به تاخد بخیریت تو اسی سے ۱۲۱ اگست ۱۹۴۷ کو سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ نہ بھی ہجرت کر کے لاہور تشریف آئے اور از سر نو سنکہ انھیں فورت پاکستان کا قیام فرمایا.اور جود حامل بنانگ میں دفاتر کا کام شروع ہو گیا.اور با وجود افرا تفری اور پریشان کن حالات سے پھر سے جماعت کا نظام اور شیراز، تاکہ ہو گیا اور جماعت کا شجرہ عظیم جوخون کے آدمی سے بظاہر اکھٹا ہوا نظر آتا تھا اپنی ڑھوں تنے پر پھر سے قائم ہو گیا.بعد از این مرکز بود کی بنیاد پڑی.اور احدیت کی ترقی کا نیا دور شروع ہوگیا.یہ میوہ ہیں جلدوں کی نہستہ تھیم میں زیادہ ہوگئی آئے کیو نکہ ہجرت تک کے واقعات پر اس جلد کو ختم کرتا تھا.مولف کتاب مدھم مولا با دوست محمد صاحب اور جن احباب نے اس میلہ کے مواد کے لئے ان کی امداد فرمائی ان کا اور ان انجاب کا جنہوں نے کتابیت جماعت پر دنا ریڈنگ میں گنت شانہ برداشت کی.ان کا شکر گزار ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تجائے ہماریاں بھی کو شہوں فراہئے.اور اپنی جانب سے اجر عظیم عطا زیائے آمین در اسلام خاکسار: ابو امیر نور التی نیجنگ ڈائر یمیر ادارت مصنفین و ۲۵
فهرس منیب امین تاریخ احمدیت جلد دہم عنوان صفحه عنوان اخراجات کا تخمینہ اور ابتدائی انتظامات پہلا بات اخراجات کالج کی تحریک اور مخلصین جماعت کی قربانی حضرت مسیح موعود کی دعادلی سے قائم شدہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمد صاحب کی نظر میں کالج کا تاریخی..تعلیم با رم کالج کا ستید نام اصبح الوجود کے مبارک ہاتھوں سے احیاء اور پے درپے مشکلات کے با وجود مثالی ترقی و فضل اول حضر ت میں موجود کے عہد مبارک کا تعلیم ان اسلام K نسیس منتظر تعلیم ران اسلام کا نچ کیلئے طلبہ بھجوانے کی تحریک ۲۲ الاسلام ر این امر ا نا در حد صاحب کا تقر بحیثیت پر نسپل ۲۳ پہلے پر اسپیکیش در اخلہ فارم اور پوسٹ کی اشاعت کی ۲۵ فضل معمر ہو سٹی کا قیام.کالج کا باقاعدہ افتارج سکول و کالج، مدرسہ کی چھ یان کون مالی محالت) حضرت پر نسپل صاحب کالج کی رپورٹ خور بے نفس اور اختیار پیشہ اساتذہ المصلح الموعود کا علم و معرفت کے بریز خطاب خالص دینی ماحول میں پرورش پانیوانے شاگردو خنی بر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا قیام اور اغراض و مقاصد ۲۲ ة قیام کالج کے لئے تحریک اور ابتدائی تاریخ.کالج کے افتتاح کا تقریب حضرت کاسب محمد علی خانصاحب کی طرف سے حضرت فصل سوم ci سی موٹو کی خدمت این درخواست دعا اور حضور کی ای مین رانا یا اسی ترین سورت کی تو سان میں طریف سے جواب.تعلیم الاسلام کانچ کے ابتدائی کو انت فصل دوم اورما اور میں ان کا از سر نو قیام اور دو بار التارت نا دیا ہیں ہم فرکن اور کیمسٹری کی تجربہ گاہوں کا قیام طلب ان کی دینی تعلیمی اور اخلاقی نگرانی کے لئے اقدامات ۶۰ علمی تقریروں کا مفید سلسلہ نیا میچ یو نین کی بنیاد احمدی طلباء کے لئے دینی نصاب برار ۶۳ والحج کمیٹی کا تقرر
مجلس مذہب و ساناس کا قیام علیم الاسلام ولیہ رچ سوسائٹی کی بنیاد فضل بھر پوسٹل کی نئی عمارت کا افتتاح یورٹی کمیشن کی طرف سے تعلیم اسلام کالے کا معائنہ توسیع کالج کے لئے حضرت امیرالمومنین کی اپیل ས་ il عنوان خاقان کی باید نصرت اور کالج کی مزید کامیابیاں ۱۰ ایام کرب با این برد استقامت کا قابل تعریف ما مره 1 بوہ میں فصل پنجم قادیان کے بزرگ صحابہ کی فضل مکہ موسی میں تشریف آوری که انقدر مسائل عند مصلح موعود کے اختتام تک) ہیں.ایس سی کیلئے علم طبیعات کی لیبارٹری کی بنیاد سنگ بنیاد تعمیر عمارت کیلئے سرفروشانہ جد و جہد اور اس کی تعمیر.ال ایرانی و اکانت در این اروپا روی این کالج کی مستقل عمالات کا انفتاح کار را ای ایس ایل او سی ان ان در این تیجی کوریا کے یہ ہیں طلبہ کے نام سو کی تعطیلات دوران نہایت اہم مکتوب تدریج وسعت اور جدید ڈگری کالج کی تعمیر کالج کے خوش کن نتائج کالج میں فضائی تربیت قادیان میں کالج کی تعلیمی سرگر میوں کا آخری دن A) Ar مشہور ملکی اور غیر ملکی شخصیتوں کی آمد خترها جبراده را ناراحمد صاب کی پاکستان میں ہجرت کی پاکستان باسکٹ بال ٹورنامنٹ کا آغانہ فصل چهارم اسیدنا عقد الصلح الموعوانہ کے خصوصی فصل پر پاکستانی نصیر الی کی از سر و یا دیا تو میں اسی زندگی کا صفت کو دور سید تا المصلح الموعود کا تاریخی فیصلہ لاہور ی تعلیم اسلام کراچی کی اس شات کا ڈی ہے.دلی کالج کے کھنڈرات پر مشتبہ 4 کل پاکستان اردو کا نفرنس کا انعقاد دوسری اردو کا نفرنس فصل ششم ام فرموده اما انعام تعلیم تربیت اس کی بنیادی خصوصیتی اور ہمہ گیر شات نظام تعلیم در بیت کا ایک جامع نقشه شاندار تار اور خطر ملی وجود کا ابها خوشنودی در زنم برای ۹۴ تعلیم و تربیت کے متعلق بعض اہم واقعات تعلیم الاسلام کالج کے ہر شعبہ میں روز افزوں ترقی اہور کے اداروں میںتعلیم الاسلام کالج کا اثر و نفوق 40 طلبہ پر بے مثال شفقت پر تادیب ، دلداری اور ذاتی تعلق ، تقسیم اسناد کے پہلے جلسہ میں حضرت امیر المؤمنین کا طلبہ کی حوصلہ افزائی اور روح مسابقت میں اضافہ بصیرت افروز خطاب 14 کے لئے جہدو جہد 1-6 | •A ۱۳ ۱۲۵ ۱۲۹ ١٣١ Ira ۱۳۹
عنوان صفحہ عنوان طلبہ کو یہ اسلامی اخلاق و اقدار سے بچانے کے لئے صحابہ کے با برکت بود سر فائدہ اٹھا نیکی خاص ہدایت) ایک پرات مندانہ فیصلہ - علیہ سے مساوی حیثیت میں محبت بھر اسٹوک بے تکلفی اور پاکیزہ مزاج در دیشانہ زندگی دماؤں کی تلقین ۱۴۹ 101 سپین میں اسلامی جھنڈا لہرانے کا عزم صمیم صفحه IYA مجلس مشاورت پرورش میں خلیفہ وقت کی حفاظت مشکلی ۱۷۳ ۱۵۲ ضعوار نظام کا قیام 107 مصلح قف سيدنا الصلح الموعود کا ایک ضروری خطبہ قضی زندگی کے نکا ہوں 160 کے متعلق.کالج میں مختلف علی عباس کا قیام اور انی غرض و غایت جذ بہ اطاعت کے فروغ کے لئے اہم خطبہ کھیلوں کی سرپرست صحت جسمانی کے لئے مختلف اہم شعبے طلباء کوردی نصائح تعلیم الاسلام کالج کے متعلق در سروں کے تاثرات فصل هفتم " ۱۳ برصغیر کی احمدی جماعتوں کے لئے انداز " مولوی عبد علی صاحب کو دعوت مباہلہ اور ان کا گرینیہ 100 新 IPA فصل دوم 144 144 1A.سینا اصل مولود کے میری اور کی نہایت بارات تقریب ۱۲ المصلى نادر عربی رسالہ لکھنے کے متعلق تجونیہ اج کے کمی اور شیعاؤں کی بیا سے آسمان تصوری متیارتھ پرکاش کے مکمل جواب کی سکیم کے روح پر در نظارے تبلیغ اسلام کی سرگرمیاں تیز تر کر دینے کی تلقین حضر مصلح موعود کی الوداعی نصائح ایک مبلغ کے لئے دوسرا باب مسلمانان حمید کی امداد رسبین میں پر جیم اسلام ہرانے کا رجم خلیفہ خلفاء کو اہم وصیت لانے FAL 149 ۱۹۲ 195 146 است کی مخالت داشتند و غیر کام کیا توں سر کے اور طالبعلوں کو مرکز میں ان کی صورت ۱۹ حکومت سندور کی طرف سے دستیار تھ یہ کاش کے کا کیسے اندار سید ناصح الوعود ی آخری شادی چوه تهویں باب کی فنی اور حضرت سید نا اصبح الموجود ستیارتھ پرکاش کے مکمل جواب کی تجود مصلح موعود ہے تحریک تجدید کے دفتر دوم کی بنیاد دور کا انسان ها رو همراهم اتفاق و اتان بیرونی مجاہدین کو بلوانے اور سنئے مبلغین بھیجوانے کا فیصلہ.فصل اول حضرت سینا الصلح الموعود کی طرف سے جماعت اسلامی شات را ارین تا احسان جون سی ایم بی بی امت کو سے متعلق بعض سوالات کے جوابات.144 i
عنوان فصل سوم عنوان مستلقین کی بیرونی ممالک کو روانگی بیرونی مشغول کے بعض ضروری واقعات صلح موجود کے دور جدید کا پیا سالانہ علیہ علیہ کی آمد الیہ پیش کی گئی مطبوعات سے قبل دعاؤں کی تحریک خاص حضرت الصلح موعود ۲۰۲ اندرون ملک کے مشہور مناظرے کی معرکتہ الا کہ اتقاریر دوسرے روز خواتین کی جلسہ گاہ میں تقریبہ اہم واقعات پر تبصرہ او به بچه ند گرام ۲۰۵ 1 : تیسرا باب ۲۲۹ 却 ۲۳۵ آزادی ہند اور قیام پاکستان کھلے جا تا مدتیں ۲۳۹ ظہور مصلح موعود کے موضوع پر پر شوکت تقریہ کی شاندار خدمات اور مجاہدانہ کارنامے) صدارت کرنے والے اصحاب جلسہ کے دورے ضروری کوائف " فصل اول علیہ کے دوران میں ایک نا خوشگوار واقعہ اور حضرت رسید المصلح الموعود کی طرف سے انگلستان اور امیرالمومنین کی طرف سے آنحضرت کی ایک عاپر منے کا ارشاد ہندوستان کو با ہمی صلح کا پیام.حضرت مصلح موعود کا پیغام صلح - فصل چهارم جلیل القدر صحابہ کا انتقال فصل پنجم ۶۱۹۴۴ ۲۱۳ کامن یکیتور میشنر کانفرنس میں حضرت چوہدری محمد ظفر اشد خانصاحب کا حریت پر در خطاب.پرور انقلاب، احسان، پیام، پربھات ادیر بھارت ، پر تاپ ، ریاست اور پریت لڑکی کے تبصرے دہش پیش کے بعض متفرق مگر اہم واقعات ۲۲۳ چو ہدری صاحب کی لنڈن ریڈیو سے اہم تقریر را چوہدری صاحب کا ہندوستان سٹینڈرڈ کے نمائندہ کو انٹرویو نوابزادہ میاں عباس احمد خانصاحب کا نکاح منارة السیح پر لاؤڈ سپیکر کے ذریعہ تبلیغ ۲۲۴ برطانوی مدبرین کے خیالات میں نہ منہ اور ند ائدین قادیان وائسرائے ہند کو لنڈن آنے کی دعوت حضرت میر حمدان مان اداری آخری یاد کا ملبہ ۲۳۲ وائسرائے کے دور انگستان کی نسبت میران پاریمنٹ یادگار البسه احمدی مبلغین گجرات کا ٹھیا تاڑ میں بھرت پور میں احمدی مبلغ کی تقریبہ چوہدری عبدالسلام صاحبی بی میں شاندار کامیابی کشمیر کی احمدی جماعتوں کا سالانہ علیہ " ۲۲۷ کے تاثرات.۲۳۰ ۲۴۶ ۲۵۳ " ۲۵۴ ۲۲۸ انگلستان میں آزادی ہند سے متعلق سرگرمیوں کی تفصیل حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان ۳۵۵ صاحب کے قلم سے." "
عنوان عنوان فصل دوم حضرت امام جماعت احدیہ کا ایک اور اہم بیان رویو کیم شما کانفرنس در تار مالی محمد کا بند است 504 مسلم لیگی موقف کی حمایت میں.بنگال ، یوپی، بہار ہی رہی اور میٹی کے احمدیوں کو کے سیاسی لیڈروں کے نام ولولہ انگیز پیغام) لیگ کی مدد کرنے کا فرمان.کی ری انا کا درباره فرانگلستان ۲۵۹ حضرت امام جماعت احمدیہ کی صوبہ سرحد کے ۲۶۱ احمدیوں کو خصوصی ہدایت.لارڈ ویول کا فارمولا و و و ودود کا نام ہندوستانی لیڈر کے نام مرکز ی انتخابات میں جماعت احمدیہ کا عدیم النظر ادا اخبار اہلحدیث " کا تبصرہ سیاسی لیڈروں میں خطبہ جمعہ کی اشاعت روح پر ہر لی مظاہرہ اور مسلم لیگ کی شاندار فتح - مرکز بی اسمبلی میں سلم لیگ کی سو فیصدی کامیابی شملہ کا نفرنس کی ناکامی اور ملکی انتخابات کا اعلان صوبائی انتخابات میں جماعت احمدیہ کا مسلم لیگ سے قائد اعظم محمدعلی جناح کا پیغام مسلمانان ہند کے نام فصل سوم - ۲۶۹ مخلصانه تعاون - صوبائی انتخابات کے خوشکی نتائج.TAD PAY ۲۹۱ ۲۹۲ احمدیوں کی طرف سے مسلم لیگ کی حمایت - ۲۹۳ ات ایک کی طرف سے مرکزی اور صوبائ انا تانا بانان بیایند و ماتا کی باید در رمان را بیندا میں آل انڈیا مسلم لیگ کی شیر جوش حمایت اور عدیم النظیر نیشنلسٹ اور کا نگر میں نواز علماء کی مسلم لیگ پر تنقید تادن در پراپیگنڈا بندوں کی بر نمی در سم زعماء کا شاندار خراج تحسین ).YAI ۳۹۵ " سرگرم اور نماز سلم لیگی علماء کی طرف سے مدلل جواب ۲۹۷ جماعت احمدیہ کی طرف سے یونینسٹ و زاری کے خلاف منتجاج ۲۹۹ فصل چهارم.ر امیرالمومنین کی رہ سے آئندہ الیکشن میں جماعتی پالیسی کا واضح اعلان.مسلم لیگ کے مورخ اور حضرت مصلح موعود کا اہم بیان بندتان پی پارلیمنٹ میں کی آمد من مصلح مواد کی یشن قائد اعظم محمدعلی جناح کی طرف سے حضرت مصلح موعود رہنمائی مخلصانہ مشورہ اور سر بیگ اور قائد اعظم کے کے خط کی پریس میں اشاعت.موقف کی زیردست حمایت عبوری حکومت کا قیام اور مسلم لیگی امیدوار کو روٹ دینے کیلئے جماعت احمدیہ مسلم لیگ کا احتجاج اور فیصلہ راست قدم ) بہلول پور کو حضرت امیر المیہ منین کا تاکیدی ارشاد ۲۸۴ عارضی حکومت کے قیام کا اعلان سندھ کے احمدیوں کو مسلم لیگ کی مخاطر قربانی مسلم لیگ اور کانگریس کار و عمل کرنے کی ہدایت.مورنی حکومت کا قیام اسم ۳۱۳ ۳۱۵
عنوان مسلمانان ہند کا ملک گیر احتجاج ۳۱۵ عنوان ملک خضر حیات کے استعفاء کا پس منظر چھدری ر است اقدام کا فیصلہ اور حضرت مصلح موعود کی ہدایت محمد ظفراللہ تعال صاحب کے قلم سے.استحماد PPA جماعت احمدیہ کی طرفے تقسیم نجانے خونی را انتاج ۳۳۴۳ عام مسلمانوں کو.حضر من صلح موعود کی ہدایت پر صوفی عبد القدیر صاحب پاکستان کی تائید میں سید نا اصلح الموعود کا پر شوکت بیان ۳۲۶ نیا نہ کی جناب حمید نظامی سے اہم ملاقات ۳۳۱۷ار بچون کا برطانوی اعلان ون کے قیمتی اور راست اما کمیٹی کے اراکی فصل پنجمه ۳۱۷ قائد اعظم کا بیان ت مصلح فصل هفتم اصلی و او را موردی اور کم بیک کو بی بی حکومت ملی موڈ کی طرف سے سکھ قوم کے نام دردمندانہ کا وڈ کی طرف سکھ قوم کے نام دردمندانہ یں شامل کرانے کی کامیاب کوشش اور وزیر اعظم اٹلی کی اپیل اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمد صاب کا معرکة الاردن رفت.هر فروری ته کومکمل آزادی واضح اعلان ۳۱۹ مضمون " خالصہ ہوشیار باش ۲۰۰ حضرت مصلح موعود کی نہ بانی مبارک سے سفر دہلی کی تفصیل - ۳۲۳ خالصہ ہوشیار باش مسلم لیگ نے پاکستان کی آئینی جنگ جیت لی.۳۳۱ پنجاب کی قسمت کا فیصلہ مسٹر انیل کی طرف سے ۲۰ فروری ۱۹۳۶ء کو کل آزادی فصل هشتم دینے کا اعلان ندی کمیشن کیلئے تیاری کے ابتدائی اقداما.امریکہ اور برطانی سے بذریعہ ہوائی جہاز قیمتی شیر کی درآمد دندان چودھری محمد الله ان صاحب کی طرف سے خضر نداری اسکولی آن اک کر کے متاز جغرافی دان مشر پیٹ کی کےاستعفاء کی کا باب جد جدار الم الم کا ہمارا ت کا حصول ناب پر ان کے بیان پر شدید انتاج ی تقسیم بنا کے خلاف جماعت حمدیہ کا ایوز در جماعت جو یہ کا میمورنڈم اور جناب شیخ بشیر احمد تجاج پاکستانی تیم ملی بود کا پر شوکت صاحب ایڈووکیٹ کی دکاست ، انتصاب سرحد کے لئے جماعت احمدیہ کی سنہری خدمات ).ت مصلح ان انتقال اقتدار کی پنجاب کی یونینسٹ وزارت چودھری محمد ظفر اللہ خالص احب میدان عمل میں.قائد اعظم کا بیٹی سے بیان اور شکریہ.خفیہ سرکلمه ۳۶ دربندی کمیشن کے ارکان اور صد کانتر را در دریاے W Fra چناب کو مشرقی حصد مقرر کرنے کا سکھر مطالبہ محضر نامے بھیجوانے کی آخری تاریخ ٣٩ "
عنوان متنانہ عہ فیہ اضلاع کا اعلان حد بندی کمیشن کا پروگرام FAY عنوان صفحه محمد ظفر اللہ خانصاحب کا انتخاب ) قائد اعظم سے چو ہدری محمدظفر الدخان صاحب کی اہم علاقات کمیشن کے متعلق خبر کی اشاعت پر گورنر پنجاب اور سلم لیگ کی وکالت کے لئے آپ کا تقریر.مسلم لیگ کا محضر نامہ پنجاب حد بندی کمیشن میں ۴۳۴ کی پابندی - جماعت احمدیہ کے کیسی کی تیاری میں بھاری مشکلات چو مدار محمد ظفراللہ من صاحب کی قائد اعظم کو ملاقات اور فقیت ۴۵۲ مسلم لیگ کے محضر نامہ اور حد بندی کمیشن کے معص نفقات تقصیر مصلح موعود کی زیر ہدایت تیاری کے ابتدائی اورامات - امریکہ سے بین الاقوامی باؤنڈری لٹریچر کی درآمدا دور ۳۰۵ چود ھرمحمد افراد خانصاح کی فاضلانہ بحث پر خراج تحسین کیا ہے برطانیہ کے ایکٹ ہر جغرافیہ دان کی خدمات کا حصول چوتھا باب جماعت احمدیہ کی طرف سے مرداری معلومات کی فراہمی اور نقشوں کی تیاری.حضر بمصلح موعود کی طرف سے قائد علم کو خصومی بنیام نائب وزیرہ ہند کے بیان پر قائد اعظم اور جماعت احمدیہ کا شدید احتجاج.٣٨٦ فصل اوّل ان ایلیا ایکونا کا انتقال فصل دوم مسلم لیگ کی طرف سے جماعت احمدیہ کو اپنا اور اسکی وسیع اثرات.علیحدہ محضر نامہ شامل کرنے کی تحریک جماعت احمدیہ کا محضر نامہ ۳۹ ٣٩٠ مام تام NAA لاله را چند مچندہ صاحب کی صدارتی تقریر ۴۹۵ فصل سوم حضرت مصلح موعود کی لاہور میں تشریف آوری ۳۱۴ حضرت مصلح موعود کا ایک ارشاد فرمودہ نوٹ مناور ایسے عمال کیلئے تحریک کا نام خدا کاری کاشاندانا ۵۰۲ ۴۱۵ منارة صبیح ہال کے ساتھ ایک عظیم الشان ائیر بیری کے باؤنڈری کمیشن کے متعلق جماعت احمدیہ کے موقف کی وضاحت جناب شیخ قیام کی تجویز اور اسکی لئے مفصل سکیم.بشیر احمد صاحب کی طرف سے.۴۱۷ قادیان میں میڈیکل سکول کے اجراء کی تجوید کیلے کا تعات ام دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ اور خداتعالی کے فضل و فصل نهم.لحاد رحمت کے نشان کا ظہور اشتراکیت کے خلاف اعلان جنگ.قائد اعظم کی طرف مسلمین کی ترجمانی کے لئے وہ مرا ایٹم بم کے استعمال کے خلاف احتجاج ۵۰۹ 019
عنوان صفحہ عنوان ہ تک جماعت احمدیہ کے لئے ایک نئے اور اندرون ملک کے بعض مشہور مناظر ہے.انقلابی دور آنے کی حیرت انگیز پیشگوئی.حضر صیح الموعود کی اہم ہدایت ولایت جانیوالے ۵۲۰ فصل ششم ۱۲۲ تحصیل بٹالہ کے اسمبلی الیکشن میں احمدی خواتین اور جماعت احدی میں اعلی تعلیم کی توسیع کے لئے کیم ۲۴ ۵ احمدی مردوں کے اخلاص کے شاندار کارنامے یورپ کی مدھانی فتح کے لئے نو مبلغین کا سفر انگلستان مسئلہ اور پولیس میں چھ چھا.pro صفحہ 040 فلسطین پر چودھری محمد ظفراللہ خانصاب کی تقریبا ۵۶۰ سلسلہ احمدیہ کے مخلص اور خدائی بزرگوں کی سندھ حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احد صاحب کی اہم میں یاد گاریں.تقریر جلسہ سالانہ کے موقع پر.فصل چهارم فصل پنجم ۵۳۰ احمدیت کا رہے ہیں انگریز واقف زندگی بشیر آرچرڈ صاح کے خود نوشت حالات حضرت مصلح موعود کی زبان مبارک سے بشیر آر چوڈ ہ میں انتقال کرنے والے مشہور اور جلیل القدر صحت ۵۳۲ کی پہلی ملاقات اور قبول اسلام کا ایمان افروز واقعہ ۱۹۳۵ء کے متفرق مگر اہم واقعات ضلعوانہ نظام کے اولین امراء پنجاب حج کمیٹی میں احمدی ممبر پوپ کو دعوت حق قائد اعظم حمد علی جناح سے احمدیہ وفد کی طاقات مسجد احمدیہ سری نگر کے نزدیک سنیما ہال کی اجازت کے خلاف میلسہ سالانہ پر احتجاج.بیرونی مشنوں کے اہم واقعات مبلغین احمدیت کی بیرونی ممالک کو روانگی في مطبوعات حضرت امیر المومنین کی طرف سے مالی و جانی قربانیوں اور ہجرت کے لئے تیار رہنے کا فرمان ۵۴۷ حفاظ پیدا کرنے کی تحریک 4 00.اده 001 DDA علماء میں نئے مشنوں کا قیام میں بیوی جھگڑوں کو سنجیدگی سے سمجھا نیکی اہم تحریک یورپ کا پہل احمدی شہید 04.DLI D4D DA.DAI DAY bar انڈونیشیا کی تحریک آزادی اور جماعت احمدید | ۵۸۹ پانچواں باب فصل اوّل کلکتہ کے فسادات میں احمدیوں کا شدید نقصان ۵۹۱ غیر مسلموں کے اجتماعات اور کانفرنسوں میں مسلمانان عالم کو بروقت آسمانی انتباط د متحد ہونیکی تری ۵۹۶۲ احمدی مبلغین کے لیکچر.۵۵۸ دہلی میں حضرت مصلح موعود کی دینی مصروفیات ۵۹۵
عنوان صفحہ عنوان مود تا جلال الدین صاحب شمس کی کامیابیت مراجعت حضرت مصلح موعود کی زریں ہدایات ایک اقعی زندگی کو اور ایک پیشگوئی کا ظہور.نواکھالی اور بہار میں خونریز فسادات اور جاعت احمدیہ کی خدمت تعلق.046 ۶۰۰ فادات پنجاب اور مسلمان امرت سر کے لئے جماعت احمدیہ کا ریلیف کیمپ ۱۳۴ ماه المان ماری اس کے فسادات اور قادیان ۱۳۷ حضرت مصلح موجود سے ڈاکٹر یوسف سلیمان کی سلامی است متحدہ پنجاب میں آگ کی خوفناک لڑائی کی نسبت دیا ۱۳۸ دور کر کالونی جنوبی افریقہ میں تبلیغ امریت کی داغ بیل حضرت مصلح موجود کی زبان مبارک سے ردیا کے پورا متحدہ ہندوستان کے آخری سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ ہونے کی تفصیل میں حضرت مصلح موعود کی رون پرور تقریر ۲۰ جماعت احمدیہ کے لئے ایک اہم سبق نوجوانان احمدیت کو قربانیان پیشی گرنی کی خاص تحریک ۲۰۹ حضرت مصلح موعود کی طرف سے حفاظت مرکز اور سلسلہ متحدہ ہندوستان کے آخری سالانہ علیہ کے مختصر عمومی کلام ۲۰۰ کے لئے مالی قربانیوں اور دعائوں کی خاص تحریک پراونشل ایجوکیشنل ایسوسی ایشن کا قادیان میں لانه ای حضرت مصلح موعود کی ایمان افروز تقریریں سالانہ علیہ کے دوسرے مقررین ۱۹۴۲ء میں انتقال کر نیوالے جلیل القدر صحابہ فصل دوم ۱۹۴۰ء کے بعض متفرق مگر اہم واقعات 411 اور حضرت مصلح موعود کا پیغام فصل چهارم حضرت مصلح موعود کا متحده مندوشان میرا آخرمی سفر سندھ الم ۶۴۲ ۶۴۴ خدام الاحمدیہ قادیان کے پیسے قائد 7/9 متحدہ ہندوستان کی آخری مجلس مشاورت اور مخلصین مرزا منصور احمد صاحب کا سفر انگلستان ۲۲۰ احمدیت کیا شاندار قربانی کا ایمان افروز منتظر مرزا ابو سعید کا المناک قتل میانی سیاس احمد صاحب کا سفر انگلستان ۲۲۰ ۶۲۲ نی کرادو آمد کی کامیابی اور اس کے مفید نتائج تفسیر القرآن انگریزی کمل اشاعت لنکا اور مدراس کے بعض مخلص احمدیوں کا انتقال تفسیرا تو آن انگریزی کی تاریخ پر ایک نظر بیرونی مشنوں کی سرگرمیاں مبلغین اسلام کی قادیان سے روانگی ۳۳ اشہ کی نئی مطبوعات ر مباحثه ولی فصل سوم خلافت ثانیہ کا چونتیسواں سال ارایشی ۱۲۵ مغربی مفکرین کے تاثرات ۲۲۹ شامی پرنیسیس اور اکابر دشت کا خراج تحسین مک میں جھوٹی افواہیں اور حضرت مصلح موعود کی نفر سے اس کا تجویز فرمودہ معلوم ا قادیان کے غیر احریوں اور غیر مسلموں کی حفاظت ۲۵۵ 760
۱۲ عنوان صفحہ عنوان مسلمانان ہند کو تا بیر کامل اور تین کامل سے کام اغوا اور آتشزنی کا خطر ناک کا سلسلہ لینے کی پر زور تلقین ۶۸۰ تمام احمدی بالغ مردوں اور عورتوں کو باقاعدہ نتیجہ پاکستان میں پڑھنے کی تحریک فصل ششم محاسب صدر انجمن احمدیہ کے دفتر کا قیام ۲۸۳ حضرت سیدنا المصلح الموعود کا پہلا پیغام بیرونی احمدی جماعتوں کے نام چار تمتاز اور مشہور بزرگوں کی المناک رحلت پاکستان اور بیرونی ملکوں میں حضرت مصلح موعود حضرت سیٹھ محمد غوث صاحب حیدر آبادی حضرت با لبوعبد الرحمن صاحب امیر جماعت احمدیہ انبالہ ۶۸۸ حضرت ڈاکثر میر محمد اسمعیل صاحب رضی اللہ عنہ حضرت میر صاحب کے مزار کا کتبہ کا پیغام اور دوسری مرکز بی اطلاعات پہنچانے کا انتظام شیخ بشیر احد صاحب کے نام پہلا مکتوب ۷۰۳ فیض اللہ چک پر پہلا حملہ صفحه ۷۲۰ حضرت میر محمد اسمعیل صاحب کی تالیفات ۷۰۴ جماعت احمدیہ کے ہوائی جہازوں پر پابندی ۷۲۹ فصل مفتم امرتسر کے پناہ گز بین قادیان میں اور ان کے جاعت احمدیہ کو دعاوں کئی بار بار تحریک قیام و طعام کا مرکزی انتظام بشیر احمد صاحب کی خدمت میں 2-0 حضرت ام المومنین اور خواتین میسار کہ کی پاکستان میں تشریف آوری حضرت مصلح موعود کا تیسرا اہم مکتوب ۰۰۹ شیخ بشیر احمد صاحب کے نام 6-9 قادیان کے غیر مسلم باشندوں کا وفد حضرت مرزا حضرت امیرالمومنین کی ضروری ہدایات الحجاب قادیان کے لئے گورداسپور کے مسلمانوں کا حوصلہ بلند رکھنے بیرونی جماعتوں کے لئے حضرت مصلح موعود کی جدوجہد حضرت مصلح موجود کا الہام پاکستان اور بھارت کے قیام پر حضرت سیدنا المصلح الموعود کی دعا قادیان میں یوم آزادی کی تقریب فصل هشتم قادیان کے ہندوستان میں شامل کئے جانے کا ۱۰ کا دوسرا پیغام ۷۱۲ قادیان کے تشویشناک ماحول کا ذکر اخبار ڈان کراچی میں قادیان اور اس کے ماحول کی المناک کیفیت ۱۴ اجاب قادیان کے لئے ضروری اعلان Foro ۱۷۳۷ قادیان کے مرکزی افسروں اور کارکنوں کا خلوص ۷۴۱ الوداعی پیام فیصلہ اور حضرت مصلح موعود کا پر شوکت اطلان ماء حضرت مسیح موعود کی ہجرت سے متعلق ایک حضرت مصلح موجود کا ولولہ انگیز خطہ عیدالفطر ۱۶ اہم پیش گوئی کا شاند از ظہور فصل نهم سفر ہجرت کے حالات حضرت مصلح موجود قادیان کے ماحول میں فسادات اور قتل و غارت ۱۹ کی زبان مبارک سے ام کے دم 64 مياء الاسلام پریس و بوه)
حضرت امیر المؤمنین سید نا لمصلح الموعود تعلیم الاسلام کا لج (لاہور) کے پہلے جلسہ سیدنا تقسیم اسناد میں خطبہ ارشاد فرمارہے ہیں (۲ شہادت ۱۳۳۹احش اپریل ۱۹۵۰ء) (کری پر ) حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل کالج
بسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ فَحَمَدُهُ وَلحَة لعبة المسيح الموحد الكريم پہلا باب ر اقدسی مودود مهدی مو ين ال لایا تو مایا اور سوات اور مثالی ترقی از مجت ۱۳۲۳ بش نبوت ۱۳۴۴ش ۱۳۲۳یش تا ۶۱۹۴۴ نومبر ۱۹۶۵ء ظرحمتہ مریخ احمدیت کے سلسلہ تالیف و تدوین کی دسویں آرہی ہے.اس کتاب ر آغاز کی نویں جلد کا اختتام ۱۳۲۳ ش / ۱۹۴۴ء کی پہلی سہ ماہی پر ہو اتھا.لہذا اب واقع است کی طبیعی ترتیب کے مطابق خلافت ثانیہ کے اس پر از انوار و برکات سال کے بقیہ حالات بیان کئے جاتے ہیں، جن میں سه فرست تعلیم الاسلام کا لیہ کا احیاء اور از سر نو قیام ہے اور جو حضرت امیر المؤمنین خلیفہ المسیح الثانی المعلم الموعود کے عہد خلافت کا ایک عظیم الشان اور ناقابل فراموش کارنامہ ہے جس کی قدر و منزلت اور عظمت افادیت میں خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ روز بروز اضافہ ہو ر استے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور انار اصلح المولور رضی اللہ عنہ کی دعاؤں کی بنار پر پورے وثوق سے کیا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں جب دنیا کے جدید
تقاضوں کے مد نظر اسلامی نظام تعلیم کے عالمی نقشہ کی تشکیل اور اس کے عملی نفاقہ کا مرحلہ شروع ہو گا تو مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ کی طرح اس کالج کو بھی سنگ میل کی نمایاں حیثیت حاصل ہوگی.انشاء اللہ العزیز اس مختصر سی تمہید کے بعد ذیل میں رہنے پہلے تعلیم الاسلام کالج کی ابتدائی تاریخ پر اور بعد ازاں ماہ ہجرت میشی سے لے کر ماہ ثبوت / نومبر تک کے اکیس سالہ دور پر روشنی ڈالی جاتی ہے.اس سنہری دویہ کو یہ دوہری خصوصیت حاصل ہے کہ اس میں کا بچے کو اپنی علمی زندگی کے ایک طویل عرصہ تک نہ صرف حضرت خلیقہ بیع الثانی المصلح الموجود جیسے اولو العزم قائد کی خصوصی تو جہات کا مرکز بننے کا شرف نصیب ہوا بلکہ اسے خالص خدائی تصرف کے ماتحت ایک ایسے مقدس وجود کی براہ راست نگرانی میں پھلنے پھو لئے اور جلد بجلد ترقی کی منازل طے کرنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی جس کے لئے مشیت خداوی میں آئندہ چل کر خدا کے اس پاک اور آسمانی سلسلہ کی باگ ڈور سنبھالنا اور اسے علم وعمل کی رفعتوں کے بلند مینار تک ہے جانا مقدر تھا.ہماری مراد حضرت مسیح موعود کے موعود مبارک" اور پیر تھا میں اور سیدنا المصلح الموعود کے لخت جگر حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب ایک اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ہے جن کی قبل از خلافت زندگی کے مسلسل اکیس سال اس عظیم الشان ادارہ کی ترقی و بہبود کے لئے وقف رہنے اور خدا کے فضل اور آپ کی بہترین سرپرستی گرانت در رہنمائی ، انتھک اور بے لوث بعد و جہد اور عاجزانہ ڈھاؤ سے تعلیم الاسلام کا لج نہ صرف سیدنا الصلح الموعود کے زمانہ خلافت ہی میں پختہ بنیادوں پر استوار ہو گیا بلکہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک ایسے منفرد اور امتیازی مقام تک پہنچ گیا جو اپنوں کے لئے موجب ازدیاد ایمان اور پر گانوں کے لئے ہمیشہ ہی قابل رشک رہے گاہ فصل اول حضرت ی موجود ومعدی جود کے عہد بہار کا تعلیم اسلام کوئی کالج جیسا کہ تاریخ احمدیت جلد سوم (صفحہ ۳ تا ۹) میں ذکر کیا جا چکا ہے بانٹے سلسلہ احمد پر سیدنا حضرتے مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسلامی روشنی ملک میں پھیلا نے ؟ اور یہ طوفان متالت میں اسلامی ذریت کو غیر مذاہب کے دس دس سے بچانے کے لئے ۳ جنوری ۱۸۹۸ ء کو قادیان میں مدرسہ
تعلیم الاسلام کی بنیاد رکھی اور حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب (عرفانی کبیر، مدیحہ الحکم اس کے پیڈیا سنٹر مقرر کئے گئے.ابتداء میں یہ مدرسہ صرف پرائمری تک تھا مگر ھ میٹی ۱۸۹۸ء سے مڈل کی جماعتیں بھی کھل گئیں اور فروری 1900 ء میں نویں جماعت اور مارچ 1901 ء میں دسویں جماعت کا اضافہ ہوا.۱۹۰۲ء ہیں پہلی بار اس کے چار طلبہ انٹر نینس کے امتحان میں شامل ہوئے.بعد ازاں ۱۹۰۳ء اور ۱۹۰۴ء میں سات سات طلبہ نے امتحان دیا.۱۹۰۵ء میں شریک امتحان ہونے والوں کی تعداد دس ایک پہنچی پیلے مدرسہ کی پریشان کن مالی حال مدارس تعلیم الاسلام کی اقتصادی صورتحال اس درجہ پریشان کن اور تشویش انگیز تھی کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو بنفس نفیس اس کی طرف کئی دفعہ مخلصین جماعت کو توجہ دلانا پڑی.چنانچہ حضور نے 14 اکتوبر ۱۹۰۳ء کو ایک اشتہار بعنوان ” ایک ضروری امر اپنی جماعت کی توجہ کے لئے " شائع فرمایا جس میں اپنے قلم مبارک سے حسب ذیل تحریک کی : علاوہ لنگر خانہ اور میگزین کے جو انگریزی اور اُردو میں نکلتا ہے جس کے لئے اکثر دوستوں نے سرگرمی ظاہر کی ہے ایک مدرسہ بھی قادیان میں کھولا گیا ہے.اس سے یہ فائدہ ہے کہ نو عمر بچے ایک طرف تو تعلیم پاتے ہیں اور دوسری طرف ہمارے سلسلہ کے اصولوں سے واقفیت حاصل کرتے جاتے ہیں اس طرح پر بہت آسانی سے ایک جماعت تیار ہو بھاتی ہے بلکہ بسا اوقات پنی کے ماں باپ بھی اس سلسلہ میں داخل ہو جاتے ہیں.لیکن ان دنوں میں ہمارا ہے.مدرسہ بڑی مشکلات میں پڑا ہوا ہے اور باوجودیکہ محبی عزیزی خویم نواب محمد علی ماں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ اپنے پاس سے ہستی روپیہ ماہوار اس مدرسہ کی مدد کرتے ہیں مگر پھر کبھی اُستادوں کی تنخوا ہیں ماہ ادا نہیں ہو سکتیں.صدہا روپیہ قرضہ سر بہ رہتا ہے.علاوہ اس کے بعدسہ کے متعلق کئی عمارت میں ضروری ہیں جو اب تک تیار نہیں ہو سکیں.یہ غم علاوہ در غموں کے میری جان کو لکھا ه اشتهار بعنوان در یک ضروری قرض کی تبلیغ بری امید رضی الاسلام پریس کاویان و مشموله تبلیغ رسالت " " ت " جلد ششم صفحه ۱۵ مرتبہ حضرت میر قاسم علی صاحب ایڈیٹر فاروق " قادیان ، رسالہ تعلیم الاسلام قادیان دارالامان بایت به اکتوبر شاه جلد نمبر 4 صفحه ۲۳۳ تا ۲۳۹ و صفحه ۲۷۷ و تاریخ مدرسه تعلیم الاسلام از حضرت مفتی و محمد صادق صاحب سابق ہیٹ اسٹر تعلیم الاسلام سکول قادیان و بدیر با تیم الاسلام سکول قادیان و مدیر "پدر" و " صادق ".
رہا ہے.اس کی بابت میں نے بہت سوچھا کہ کیا کروں.آخر یہ تدبیر میرے خیال میں آئی کہ میں اس وقت اپنی جماعت کے مخلصوں کو بڑے زور کے ساتھ اس کی طرف توجہ دلاؤں کہ وہ اگر اس بات پر قادر ہوں کہ پوری توجہ سے اس مدرسہ کے لئے بھی کوئی ماہانہ چندہ مقرر کریں تو چاہیے کہ ہر ایک اُن میں سے ایک مستحکم عہد کے ساتھ کچھ نہ کچھ مقرر کرے میں کے لئے وہ ہر گز تخلف نہ کرے مگر کسی چھوری سے ہو قضاء و قدر سے واقع ہو.اور جو صاحب ایسا نہ کر سکیں ان کے لئے یا نضرورت یہ تجویز سوچی گئی ہے کہ جو کچھ وہ لنگر خانہ کے لئے بھیجتے ہیں اس کا چہارم حصہ براہ راست مدرسہ کے لئے نواب صاحب موصوف کے نام بھیج دیں.فنگر بنا نہ میں شامل کر کے ہرگز نہ بھیجیں بلکہ علیحدہ منی آرڈر کیا کر بھیجیں.اگرچہ لنگر خانہ کا فکر ہر روزہ مجھے کرنا پڑتا ہے اور اس کا غم براہ راست میری طرفت آتا ہے اور میرے اوقات کو مشوش کرتا ہے لیکن یہ غم بھی مجھ سے دیکھا نہیں جاتا.اس لئے میں لکھتا ہوں کہ اس سلسلہ کے جوانمرد لوگ جین سے کہیں ہر طرح امید رکھتا ہوں کہ وہ میری اس التماس کو ردی کی طرح نہ پھینک دیں اور پوری توجہ سے اس پر کاربند ہوں میں اپنے نفس سے کچھ نہیں کہتا بلکہ وہی کہتا ہوں جو خدا تعالے میرے دل میں ڈالتا ہے.میں نے خوب سوچا ہے اور بار بار مطالعہ کیا ہے.میری دانست میں اگر یہ مدرسہ قادیان کا قائم رہ جائے تو بڑی برکات کا موجب ہوگا اور اس کے ذریعہ سے ایک فوج نئے تعلیمیافتوں کی ہماری طرف آسکتی ہے".مدرسہ کے قدیم اساتذہ انتہائی بے نفس یکرنگ ، ایثار پیشہ اور بہت بے نفس اور ایثار ہمیشہ اساتذہ مخلص بزرگ تھے جن کی ندا کاری کا یہ عالم تھا کہ وہ محض خدمت دین کی خاطر قادیان جیسی چھوٹی سی بستی میں آگئے تھے اور اپنی مسلمہ قابلیتوں اور اعلیٰ صلاحیتوں کے باوجود قلیل تنخواہ پر بخوشی بسر اوقات کرتے اور حضرت میم خود دمہدی معہود علیہات نام کے قدموں میں رہنے نور اس قومی تربیت گاہ کی خدمت کرنے کو ایک نخر و سعادت سمجھتے تھے چنانچہ حضور علیہ السلام نے ایک تذکرۃ الشہاد تین اردو جواله رساله ریویو آف ریلیجیتر دارد و صفحه ۴۹۴۰ - ۴۶۵ با است و میر و مسیر ت ار اس اشاعت الورد الفن التبليغ رسالت " جلد ۱ صفحه 4 - 46 مرتبہ حضرت میر قاسم علی صاحب ایڈیٹر اخبار فاروق " قار باسن بیست استوایی او نام تایر الدین کا دیدار سوم صفحہ ا ر ے پر درج ہیں ؟ في
مکتوب میں تحریر فر مایا :- یہ مدرسہ محض دینی اغراض کی وجہ سے ہے اور صبر سے اس میں کام کرنے والے خدا تعالے کی رحمت کے قریب ہوتے جاتے ہیں " مختص ہے کہ مدرسہ کے اساتذہ کو دیکھ کہ گذشتہ صوفیاء اور اہل اللہ کی یاد تازہ ہو جاتی تھی.یہ بزرگ بیچ بیچ آئندہ نسل کے لئے روشنی کے مینار تھے.خالص دینی ماحول میں تعلیم الاسلام سکول انیسویں صدی میں اپنی نوعیت کا واحد مدرسہ تھا.جس کے اساتذہ ہی کو نہیں شاگردوں کو بھی امام الزمان حضرت میسم موجود پرورش پانیوالے شاگرد علیہ الصلوۃ والسلام کی تاثیرات قدسیہ کے طفیل ایک بیمثال روھانی اور اور مذہبی فضا میسر آ گئی تھی اور وہ چھوٹی عمر سے ہی دین محمدی کے رنگ میں رنگین ہوتے جا رہے تھے چنا ہے حضرت مولانا عبد الکریم صاحب نے اس درسگاہ کے پس منظر، اس کی خصوصیت اور اس کے نو نہالوں کی قابل رشک دینی حالت کا نقشہ درج ذیل الفاظ میں کھینچا :- ہم صحیح اور پختہ تجربہ اور پیچھے استقراء سے اس نتیجہ پر پہنچے تھے کہ ایک بھی مدرسہ ایسا نہیں جو قوم کے بچوں کو اس مبارک اسوہ پر نشو و نما دینے کا متکفل ہو جسے خاتم النبین رحمہ للعالمين وعلیہ تصلوۃ والسلام) نے قائم کیا، اور جس کی اتباع کے بغیر خدا تعالیٰ کے رضوان اور خوشنودی کا سر ٹیفکیٹ نہیں مل سکتا.کل مدر سے اور کالج بلا استثناء مقصود بالذات دُنیا کو رکھتے اور محض دنیا پرست قوموں کے نقش قدم پر چلنے اور چلانے کو قومی ترقی سمجھتے ہیں.ان مدرسوں کے در و دیوار سے ان کے تربیت یافتوں کی زبانوں اور دلوں سے لگاتار آوازیں آتی اور راستبازوں کے دلوں کو دکھاتی ہیں کہ دنیا سب چیزوں پر مقدم ہے.کیا ہم نے بھی قادیان میں لڑکوں کو وہی چند کتابیں مذہبی پڑھا دیں یا بیگانہ والہ وعظموں کے روکھے پھینکے جملے ان کے سامنے پیش کئے.اگر ہماری قدرت کی رسائی اسی حد تک ہوتی تو ہم بھی ویسے ہی میسور کام کرنے والے ہوتے.لیکن خدا تعالے کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں خاص خصائص سے شرف امتیاز بحث ہین میں روئے زمین کے مسلمانوں میں سے کوئی طبقہ اور مشرب له "ذکر حبیب » صفحه ۱۳۷ (مؤلقہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب ) ناشر یکڈ پو تالیف و اشاعت قادیان و
ہمارا شریک نہیں سب سے بڑی اور قابل قدر تحریک ہو ہم نے معصوم قطرہ اور اثر پذیر بچوں کے آگے پیش کی وہ خدا تعالیٰ کے مقدس مسیح کا مبارک وجود ہے جو اپنے ایمان اور عمل سے ہو ہو وہی اُسوہ اور نمونہ ہے جس کے اتباع کے لئے قرآن کریم آیا.سوچنے والے سوچیں اور غیرت مند خوب فکر کریں کہ کس قدر خوش نصیب وہ والدین ہیں جن کے بچوں کی آنکھوں کو یہ شرف ملے کہ زندگی کے رنگارنگ اور پیر ابتلا نظارہ گاہ میں وا ہوتے ہی ان کے سامنے وہ مبارک اور فرخندہ چہرہ آجائے جو خدا تعالے کی سچی خلافت اور بے عیب مورت ہے.ہمارے مدرسہ کے لڑکے خدا کے میسج کو دیکھتے ہیں.آپ کی تقریروں کو سُنتے ہیں.آپ کے پاک نمونہ کو مشاہدہ کرتے ہیں.اسی ایک امر کو اگر ہم بڑی تفصیل سے بیان کرنا چاہیں تو اس جملہ سے اس کا پورا حق ادا ہو جائے گا کہ خدا کے خلیفہ کو دیکھتے ہیں تو سبھی کچھ دیکھتے ہیں.دوسری بات اور لاشریک خصوصیت یہ ہے کہ ہم ہر روز باقاعدہ عصر کے بعد لڑکوں کو حضرت مولوی نورالدین صاحب کے درس قرآن مجید میں شامل ہونے کی عزت دیتے ہیں یہ بھی ایسی نعمت ہے کہ کوئی ملک اور شہر اس میں ہمارا شریک نہیں.ان سب باتوں اور نمونہ کا یہ اثر اور نتیجہ ہے کہ مڈل اور انٹرنس کے اکثر لڑ کے دینی کی پابندی اور اس سلسلہ حقہ احمدیہ کی نسبت سمجھی غیرت اور عصبیت رکھتے اور امید و لاتے ہیں کہ وہ دنیا کے لئے نیک نمونہ ہوں.میری فطرت ایسی بنائی گئی ہے کہ میں بہت جلد کسی شخص کی طرف مائل اور کسی بات کا گرویدہ نہیں ہوتا.اگر میں صحیح تجربہ اور بصیرت سے لاکوں میں آثار باشد و سعادت محسوس نہ کرتا تو میں قوم کو دھوکہ دینے کا مجرم ہوتا نہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ بعض لڑکوں کی غیرت اور پابندی اور اُن کا عاشقانہ آنکھوں سے حضرت خلیفتہ اللہ کے چہرہ مبارک کو ساری نشست میں دیکھتے رہنا میرے لئے باعث رشک ہوتا ہے.وہ اپنے کھیلوں اور بچپنے کے دل لگی کے سامانوں سے الگ ہو کہ سب سے پہلے مسجد میں حاضر ہونے کی کوشش کرتے ہیں اس لئے کہ صف اول میں جگہ لے کر خلیفہ اللہ کے بہت قریب بیٹھ سکیں" نے اختبار الحكم " قادیان ، فروری سه صفحه ۵ کالم ۳۲ *
مدرسہ کئے بچوں میں ان پاک تاثیرات کا پیدا ہو جانا ایک غیر معمولی امکان والیاری قیام کا لج کیلئے دلی تحریک اور مسرت انگیز اور اطمینان بخش بات تھی جس نے دور کے منتظم مجمہ اللہ حضرت نواب محمد علیخاں صاحب (رئیس مالیر کوٹلہ، اس کے ہیڈ ماسٹر حضرت مولوی شیر علی صاحب اور ادارہ سے متعلق دوسرے بزرگوں کے دل میں ہائی سکول کو کالج تک ترقی دینے کا پُر زور خیال پیدا کر دیا.اور بالاتر کالج ہماری کئے جانے کا فیصلہ ہو گیا.جب یہ معاملہ حتمی طور پر طے پا گیا تو حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے رہو قبل ازیں مدرسہ کی انتظامیہ کمیٹی نہیں تعلیم الاسلام قادیان کے سکرٹری بھی رہ چکے تھے اور فروری ۱۹۰۳ ء کو ایک مفصل مضمون لکھا بحر مولوی صاحب نے اپنے اس مضمون میں رہے تعلیم الاسلام کالج کی قدیم تاریخ کا پہلا ورق قرار دیتا چاہیئے ) مدرسہ تعلیم الاسلام کے تو نہالوں کی خالص اسلامی و روحانی ماحول میں ہونے والی تربیت و اصلاح کے عمدہ نتائج و اثرات کا ذکر کیا اور پھر کالج کے پس منظر اور اس کے فوری تقاضوں پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر " فرمایا : فرض لڑکیوں کی اس خوشنما اور امید افزا حالت کو دیکھ کر جو انٹرنس کی منزل میں پاؤں رکھنے کے ساتھ ان میں پیدا ہو گئی مدرسہ کے کارکنوں کے دل میں یہ خیال یا حوصلہ پیدا ہوا.اور غور و فکر کے بعد امادہ نے عزم کی صورت پکڑ لی کہ مدرسہ کو کالج بنایا جائے اس لیئے کہ انٹرنس سے تک بھی بہت قام اور نا تمام عمر اور تجربہ ہوتا ہے اور اگر دو برس ایف.اے کی تقریب کے اور اگر تعد ا چاہے تو دو برس اور بی.اے کی تحریک سے اور ایک سال اور ایم.اے کی وقت سے ہمارے پاس رہ سکیں تو پھر خاصے عمر رسیدہ ، تجربہ کار، قوی دل اقتدار ہو کہ یہاں سے نکلیں گے.سردست تو کالج ایف اے تک ہوگا اور اس میں بھی سارا دار و مدار تو کل پر دورنہ حق تو یہ تھا کہ آغاز ہی میں پورا کالج بنایا جاتا.ممکن ہے کہ بعض لوگ اس کا رروائی کو جلد بازی پر محمول کریں اور جوش سے کہہ دیں یا رائے دیں کہ ابھی وقت قلت سرمایہ کے سبب سے اس امر کا مقتضی نہیں کہ کالج جاری کیا جائے مگر اس رائے زنی میں وہ خود جلد بازہ اور غور نہ کرنے والے ٹھہریں گے اس لئے کہ انٹرنس تک محدود ہو کر رہنے میں مدرسہ کی وہ غرض پوری نہیں نے رسالہ تعلیم الاسلام قادیان جلد نمبر ۲ صفحه ۲۳۶ به
ہوتی یا آخر کار اس کے نابود ہو جانے کا اندیشہ ہے جو ہمیں اس کارخیر کی ٹھرک ہوئی ہے.ابتدائی عمر کے جوش، فوری بوش اور ہنڈیا کے سے ابال ہوتے ہیں.عمر کی لمبی رفتار میں اور دنیا کے ہر امتحان اور پر فتنہ نظاروں اور کاموں میں بسا اوقات ان میں سرد یا آجاتی اور ہر وقت امکان رہتا ہے کہ بالعوض بد تحریک اپنا کام کرے مگر کانچ کی چنگی سے نکل کر ایک عمدہ بھنگی اور مضبوط بصیرت رفیق طریق ہو جاتی ہے اور یقین مربیوں کے دلوں میں بھر جاتا ہے کہ ان کے برسوں کے اندوختہ اور محنت پر کسی بد معاش کا ہاتھ نہیں پڑ سکے گا.فرض یہ تو بالکل عین مصلحت اور طے شدہ بات ہے کہ کالج ہو جب ہمارا مقصود پورا ہوتا ہے اور کالج کی تجویز پختہ بھی ہو گئی اور امید ہے آئندہ مٹی سے جاری بھی ہو جائے مگر خدا تعالے کی توفیق سے قوم کا یہ کام ہے کہ اس نیک کام میں دل کھول کر شریک ہوں.کالج کھولنے سے ایک سال تک تو کوئی زائد خرچ نہیں پڑے گا.مولوی محمد علی صاحب ایم.اسے ریاضی پوتین کے اور وہ ریاضی میں مسلم ہیں.ماسٹر شیر علی صاحب بی.اے ہو انگلش میں بالخصوص قابل ہیں انگریزی پڑھائیں گے.حضرت مولوی نورالدین صاحب با قاعدہ ایک گھنٹہ کالج میں دینیات کے تعلیم ہوں گے اور خاکسار را قم بھی ایک گھنٹہ با قاعدہ عربی کی تعلیم دے گا.اور یہ تینوں معلیم بالا کسی دنیوی اجرت کے کالج کو مدد دیں گے اور دوسرے سال صرف پچاس روپے کا زیادہ بار ہو گا.اگر مدرسہ کی امداد میں وہی پہلا جوش ہوتا ہو ایک عرصہ تک قائم رہا تو اتنی ہی امداد اور آمدنی ایت.اے تک کالج بنانے میں بھی کافی تھی.مگر افسوس بہت لوگوں نے بے توجہی کی اور ان کے جوشوں میں سردی پیدا ہوگئی.بہت سے شہر ہیں کہ ان سے کچھ بھی اعداد اب تک مدرسہ کو نہیں پہنچی.اور بعض ایسے ہیں کہ اُن سے نا قابل اعتداء مدد ملتی ہے.سیالکوٹ اور لاہور دو شہر ہیں جنہوں نے اس کام میں پوری فیاضی سے حصہ دیا ہے اور ایک معقول رقم ماہ یماہ ان کی طرف سے مدرسہ کو ملتی ہے.مگر اکثر شہر بعض غلط فہمیوں یا نا عاقبت اندیشی کے سبب سے اس کی طرف سے پہلو تہی کئے بیٹھے ہیں اور وہ اس طرح روا رکھتے ہیں کہ مدرسہ کو خدانخواستہ کوئی صدمہ پہنچے اور اعدائے ملت کو شماتت کا عمدہ موقعہ ملے.ہر ایک شخص کو ثوب ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ یہ مدرسہ حضرت کا مدرسہ ہے
۹ اور اُن کے حکم سے جاری کیا گیا ہے اور اس کی شکست کی زد آخر کار سوچ لینا چاہیئے کس کی ہمت اور قصد پر پڑتی ہے.....غرض سب سے اول اور بہت جلد مدرسہ کو جانگاہ فکر سے سبکدوش کریں اور کالج کے لئے عزم صمیم سے خط مستقیم پر قدم اُٹھائیں.اسے ارحم الراحمین سمیع و بصیر مولی ! تو خود ان دردمندانہ فقروں کو پہلے قبول فرما اور پھر قوم کے دلوں میں انہیں جگہ دے کہ ساری توفیقیں تجھ ہی سے اور تیرے ساتھ ہیں کالج کے افتتاح کی نہایت طے شدہ پروگرام کے مطابق کالج کا انفتاح ۵ ار مئی ۱۹۰۳ ء کو مقدر تھا مگر حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کی ساده گر پروقار دعائیہ تقریب مطبع مبارک علیل ہوگئی اور پرمبارک تقریب ۲۰ سی ۱۱۹۰۳ پر مئی ملتوی کر دی گئی.اس روز و ۲۸ مئی ۱۹۰۳ء) ساڑھے چھ بجے کے بعد مدرسہ تعلیم الاسلام کے احاطہ اور پور ڈنگ مدرسہ کے درمیانی میدان میں ایک شامیانے کے نیچے جلسہ کا انتظام کیا گیا جو حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضا پرنٹنڈنٹ مدرسہ و کالچ کی زیر نگرانی مدرسہ کے اساتذہ اور طالب علموں کی کوشش کا نتیجہ تھا.سٹیج کے لئے شمالی جانب ایک عارضی چبوترہ بنایا گیا جہاں ارکان مدرسہ اور دوسرے بزرگوں کے لئے کر میاں بچھائی گئی تھیں.جنوبی طرف ایک میز رکھی گئی جس کے اوپر دائیں جانب قرآن کہ نیم اور بائیں جانب کرہ ارض ( گلوپ LORE ہے) رکھا گیا.میر کے سامنے طالب علموں کی ورزش جسمانی کے لئے ایک ستون کھڑا تھا.اس موقعہ پر نہ کوئی دعوتی کارڈ جاری کئے گئے نہ اس میں کسی پارٹی کا اہتمام کیا گیا کیونکہ اس جلسہ کی اصل غرض تو صرف یہ تھی کہ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام قدم رنجہ فرما کر دعا فرمائیں اور اگر حضور مناسب سمجھیں تو کالج کے اساتذہ اور طلبہ اور دوسرے حاضرین کو اپنے مقدس اور بابرکت ارشادات سے قوانیں اور حضر اقدین اس جلسہ میں بڑی خوشی کے ساتھ شریک ہونے کے لئے تیار بھی تھے ہے مگر رات کے وقت حضور کی طبیعت پھر نا سانہ ہو گئی.ہر ایک پروفیسر اور مدرس اور لڑکے کی آنکھ خدا کے محبوب اور برگزیدہ حضرت مسیح موعود اخبار المحكم " قادیان سر فروری سنشاه صفحه ۲٫۵ : " که اختیار" الحكم قادیان ، ار اپریل سنده صفحه ، کالم ۳ و ۲۴ یون ۱۳ ارد صفحه ۱۰ کالم ۲+ سے اختیار الحكم قادیان ۲۴ جون ۲ صفحہ ۱۰ کالم ۹۳
۱۰ عليه الصلوة والسلام کی آمد آمد پر لگی ہوئی تھی کہ اس اثناء میں حضرت مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوئی نے آگر اطلاع دی کہ حضرت اقدس نے مجھے ایک پیغام دے کر روانہ کیا ہے اور وہ اس طرح سے ہے کہ میں نے حضرت خلیفتہ اللہ علیہ السلام کی خدمت میں تشریف آوری کے واسطے عرض کی تھی، آپ نے فرمایا.یکن اس وقت بیمار ہوں حتی کہ چلنے سے بھی معذور ہوں لیکن وہاں حاضر ہونے سے بہت بہتر کام یہاں کر سکتا ہوں کہ اُدھر جس وقت افتتاح کا جلسہ شروع ہوگا میں بہت الدعا میں جا کہ دعا کروں گا " یہ کلمہ اور وعدہ حضرت خلیفہ اللہ علیہ السلام کا بہت خوش گئی اور امید دلانے والا ہے.اگر آپ خود تشریف لاتے تو بھی باعث برکت تھا اور اگر اب نہیں لائے تو دُعا فرما دیں گے اور یہ بھی خیر و برکت کا موجب ہو گی " حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے اسی قدر کلمات فرما کہ کرسی پر بیٹھ گئے لیلے آپ کے بعد حضرت نواب محمد علیخاں صاحبت رئیں مالیر کوٹلہ ڈائریکٹر تعلیم الاسلام کا لج نے مختصر تقریر کی جس میں فرمایا :- اس کالج کی غرض کوئی عام طور پر یہ نہیں ہے کہ معمولی طور پر دنیا کی تعلیم ہو اور صرف معاش کا ذریعہ اُسے سمجھا جاوے بلکہ اصل غرض یہ ہے کہ ایک حاکم اس پاک سلسلہ کی تعلیم سے مستفیض ہو جو کہ خدا نے قائم کیا ہے.دنیوی تعلیم کا اگر کچھ حصہ اس میں ہے تو اس لئے کہ مروجہ علوم سے بھی واقفیت ہو جس سے تعدا تعالے کی معرفت میں مدد ملے ورنہ اصل غرض دین اور دین کی تعلیم ہی ہے اور ایک بڑی غرض یہ بھی ہے کہ اپنی احمدی جماعت کے کمسن بچے ابتدار سے دینی علوم سے واقف ہوں اور حضور مسیح موعود کے فیضانِ صحبت سے فائدہ اُٹھا دیں اور بڑے ہو کر اس پاک چشمہ سے ایک عالم کو سیراب کریں جس سے وہ خود سیراب ہو چکے ہیں.یہ بھی عرض کرتا ہوں کہ کالج کی موجودہ حالت سب احباب پر ظاہر ہے.اس کے کارکنوں نے جو آجتک کیا ہے وہ کسی انسانی طاقت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ سب کچھ محض خدا کے فضل سے ہی ہوا ہے امید ہے جیسے کہ مولانا مولوی عبدالکریم صاحب نے فرمایا ہے کہ حضرت اقدس نے دُعاؤں کا وعدہ کیا ہے خدا کی ذات سے بڑی امید ہے کہ یہ کالج بہت جلد ایک له اختیار" البدر" ۲۴ جون ۳ یه صفحه ۱۵۴ کالم ۳*
11 یونیورسٹی ہوگا، اور اس احمدی جماعت کے لئے ایک بڑا مفید دارالعلوم ثابت ہو گا.یہ کالج خدا کے فضل سے چلے گا اور خدا کے صادق بندے میسج موعود کی دعاؤں سے نشو و نما پائے گا " سے اس تقریر کے بعد حضرت مولوی نورالدین صاحب نے ایک نہایت ایمان افروز صدارتی خطاب کیا میں میں ارشاد فرمایا کہ تمام ترقیوں عزت اور تحقیقی خوشی کی جڑ یہ کتاب ہے اور اسی کے ذریعہ سے ہم اس (کوہ ارض پر حکمرانی کرتے ہیں اور اسی کے ذریعہ سے فضل الہی کا سایہ ہم پر پڑ سکتا ہے.بڑے بڑے لائق ، چالاک اور پھرتی سے بات کرنے والوں کے ساتھ نا چیز کی حالت میں میرا مقابلہ ہوا ہے مگر اس قرآن کے ہتیار سے جب میں نے ان سے بات کی ہے تو اُن کے چہروں پر ہوائیاں اُڑنے لگ گئیں....میں تم کو ایک بچہ کا قصہ سناتا ہوں کیونکہ تم بھی بچتے ہو.نگہ وہ عمر میں تم سب سے چھوٹا تھا.اس کا نام یوسف ہے.جس وقت بھائیوں نے اُسے باپے مانگا اور چاہا کہ اسے باپ سے الگ کر دیں اور جنگل میں بجا کہ ایک کوئیں میں اُتار دیا...نہ اس وقت کوئی یار نہ آشنا نہ ماں اور نہ باپ، اگر ہوتے بھی تو اُسے وہ بات نہ بتلا سکتے ہو خدا نے بتائی اور ان کو کیا علم تھا کہ اس کا انجام کیا ہو گا مگر بعدا کا سایہ اس پر تھا.خدا نے اسے بتلایا.لَتُنَيَّنَهُم بِاوِرِهِمْ هذَا وَهُمْ لا يَشعرون کہ اے یوسف ! دیکھ تجھے باپ سے الگ کیا، تیری زمین سے تجھے الگ کیا اور اندھیرے کو نہیں میں ڈالا مگر میں تیرے ساتھ ہوں گا اور اس علیحدگی کی تعبیر کو تو بھائیوں کے سامنے بیان کرے گا اور ان کو اس بات کا شعور نہیں ہے.دیکھ لو.یہ باتیں باپ نہیں کر سکتا نہ وعدہ دے سکتا ہے کہ یوں ہوگا یا جاہ و جلال کے وقت تک یہ تن درستی بھی ہوگی.ایک باپ بچے سے پیار تو کر سکتا ہے مگر وہ اس کے آئندہ لیات کا کیا اندازہ لگا سکتا ہے.ان باتوں کو جمع کر کے دیکھو.اگر کوئی انسان تسلی دیتا تو بچہ کو پیار کرتا گلے میں ہاتھ ڈالنا اور اُسے کہتا کہ ہم چیچی دیدیں گے.مگر خدا کی ذات کیا رحیم ہے وہ فرماتا ہے لتنبتهم بأخرهم هذا وه عروج دیویں گے کہ تو ان آسفوں کو بتلا دے گا " البدر هارجون ۳ ۱۹ارد صفحه ۱۵۴ - ۱۵۵ * •
۱۲ یہ مثال دینے کے بعد حضرت مولوی صاحب نے فرمایا :- یہ حقیقت ہے اس سایہ کی جیسے میں چاہتا ہوں تم پر ہو.علوم کی تحصیل آسان ہے مگر غند کے فضل کے نیچے اُسے تحصیل کرنا یہ مشکل ہے.کالج کی اصل فرض یہی ہے کہ دینی اور دنیوی تربیت ہو.مگر اول فصل کا سایہ ہو پھر کتاب پھر دستور العمل ہو.اس کے بعد دیکھو کہ کیا کامیابی ہوتی ہے.فضل الہی کیلئے پہلی بشارت پیارے عبد الکریم نے دی ہے.وہ کیا ہے حضرت صاحب کی دعائیں ہیں.میں ان دعاؤں کو کیا سمجھتا ہوں.یہ بہت بڑی بات ہے اور یقینا تمہارے ادراک سے بالا تمہ ہوگی مگر میں کچھ بتلاتا ہوں.مخالفوں سے انسان نا کامیاب ہوتا ہے.گھبراتا ہے.ایک لڑکا ماسٹر کی مخالفت کرے تو اُسے مدرسہ چھوڑنا پڑتا ہے.جس قدر مہتمم مدرسہ کے ہیں اگر وہ سب مخالفت میں آدیں تو زندگی بسر کرنی مشکل ہو.اگر چہ افسر بھی لڑکوں کے محتاج ہیں مگر ایک ذرہ سے نقطہ سے اُسے بورڈنگ میں رہنا مشکل ہو جاتا ہے.اب اس پر اندازہ کرو.کہ ایک کی مخالفت انسان کو کیسے مشکلات میں ڈالتی ہے لیکن ہمارے امام کی ساری برادر کی مخالف ہے.رات دن یہی تاک ہے کہ اسے دُکھ پہنچے پھر گاؤں والے مخالف....یہ حال تو گاؤں کی مخالفت کا ہے.پھر سب مولوی مخالفت ، گدی نشین مخالف ، سستی مخالف ، آریہ مخالف ، مشنری مخالف ، دہریوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا مگر وہ بھی مخالف اور نہایت خطرناک دشمن اس سلسلہ کے ہیں.ان تمام مشکلات کے مقابلہ میں دیکھو وہ (حضرت مرزا صاحب) کیسے کا میاب ہے.یہاں ہمارا رہنا تمہارا رہنا سب اُسی کے نظارہ ہیں کہ با وجود اس قدر مخالفت کے پھر پروانه وار اس پر گرتے ہیں.اس کا باعث یہی ہے کہ وہ کتاب اللہ کا سچا ھاتی ہے.اور ارات دن دعاؤں میں لگا ہوا ہے.اس لڑکے سے بڑھ کر کوئی خوش قسمت نہیں جس کے لئے یہ دعائیں ہوں.مگر ان باتوں کو وہی سمجھتا ہے جس کی آنکھ بنیا اور کان شنوا ہوں.لتننهم با فرهم هذا كى صدا یوسف کے کان میں پڑی.اس سے سوچو کہ خدا کا فضل ساتھ ہوتا ہے تو کوئی دشمن ایذا نہیں پہنچا سکتا.کس طرح کے بھاہ جلال اور بحالی یوسف کو ملی.اور سب سے عجیب بات یہ ہے کہ اُن بھائیوں کو آخر کہنا پڑا.اِنَّا حُنَا
۱۳ خاطِئِینَ.اس کا جواب یوسف نے دیا.لَا تَشْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ يَغْفِرَ اللهُ لَكُم یہ سب کچھ اللہ پر یقین کا نتیجہ تھا.تم بھی اللہ پر کامل یقین کرو اور ان دعاؤں کے ذریعے ہو کہ دنیا کی مخالفت میں سپر ہیں فضل چاہو.کتاب اللہ کو دستور العمل بناؤ تا کہ تم کو عزت حاصل ہو باتوں سے نہیں بلکہ کاموں سے اپنے آپ کو اس کتاب کے تابع ثابت کرو.ہنسی تمسخر ، ٹھٹھا اندا، گالی یہ سب اس کتاب کی تعلیم کے بر خلاف ہے ، جھوٹ سے ، لعنت سے تکلیف اور ایذا دینے سے ممانعت اور لغو سے بچنا اس کتاب کا ارشاد ہے.صوم اور صلوٰۃ اور ذکر شغل الہی کی پابندی اس کا اصول ہے " سے حضرت مولوی نورالدین صاحب رضہ اس اثر انگیز تقریر کے بعد کرسی صدارت پر تشریف فرما ہوئے اور پھر مولوی ابو یوسف مبارک علی صاحب سیالکوٹی اور مولوی عبداللہ صاحب (کشمیری) نے افتتاح کا لج کی نسبت اپنی اپنی فارسی تنظمیں پڑھیں.ازاں بعد حضرت نواب محمد علیخاں صاحبینا نے کھڑے ہو کہ فرمایا کہ خدا کے تقتل واحسان سے افتتاح کالج کی رسم ادا ہو چکی.اس کے بعد دعا کی گئی اور بجلسہ بر خاست ہوا.حضرت نواب محمد علیخاں صاحب بے کیلوں سے تقریب انتاج بخیر وخوبی ختم ہوگئی تو ویسے نواب محمد علیخان صاحب نے حضرت مسیح موعود حضرت مسیح موعود کی خدمت میں خواست تھا عملیات ام کے حضورصہ والی مریضہ لکھا.ور سیدی و مولائی طبیب روحانی سلمکم اللہ تعالیٰ السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبر کاتہ مولانا مولوی عبدالکریم صاحب کی زبانی معلوم ہوا کہ حضور کی طبیعت نصیب اعداء علیل اے سورہ یوسف رکوع ۱۰- حکم میں یہ حصہ آیت سہو ا غلط چھپ گیا تھا (مرتب) :- کے " المحکم ۴۴ میحون ۱۹۰۳ و صفحه ۱۱-۱۲+ سے یہ دونوں نظمین: الحكم " سر جون سر صفحہ پر شائع شدہ ہیں.مالیر کوٹلہ کے ممتانہ احمدی شاعر محمد نواب قلی صاحب ثاقب یعنی اللہ عنہ نے افتتاح کالج کا قطعہ تاریخ لکھا کہ سه بسال افتتاح کالج ما ندا آمده به ثاقب فیض فرقان البعد در جولائی ۱۹ صفحہ ۱۹۹ کالم ۱۲ ه الحكم ۲۲ جون سوار صفحه ۱۲ کالم ۰۳
ہے اس لئے حضور تشریف نہیں لا سکتے.گو کہ اس سے ایک گونہ افسوس ہوا مگر وہ کلمات جو مولانا موصوف نے نیا بتا فرمائے اُن سے روح تازہ ہو گئی اور خداوند تعالیٰ کے فضل اور حضور کی دعاؤں کے بھروسہ پر کارروائی شروع کی گئی.جلسہ نہایت کامیابی سے تمام ہوا.اور کالج کی رسم افتتاج ہو گئی.اطلاعاً گذارش ہے.خدا وند تعالے حضور کو صحت عطا فرمائے بحضور نے دعا فرمائی ہوگی اب بھی استدعائے دُعا ہے.راقم محمد علی تھاں " حضرت مسیح موعود کی طرب جواب حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے اس در ضخامت کے جواب میں اپنے قلم سے تحریر فرمایا کہ قسم الله الرحمن الرحیم نحمده و نصلی علی رسولہ الکریم مجبھی عزیزی اتویم نواب صاحب سلمہ اللہ تعالے السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبر کاتہ.رات سے مجھ کو دل کے مقام پر درد ہوتی تھی اس لئے حاضر نہیں ہو سکا.لیکن میں نے اسی حالت میں بیت الدعاء میں نماز میں اس کالج کے لئے بہت دُعا کی.غالباً آپ کا وہ وقت اور میرے دعاؤں کا وقت ایک ہی ہوگا.خدا تعالیٰ قبول فرما دے.آمین ثم آمین.والسلام ٹاکستان مرزا غلام کو محمد جعفی عنہ d'" الاسلام کالج کے بتدائی کوالک تعلیم الاسلام کا اجارہ داری این یار کا پہلا کالی تھا جہاں دنیوی اور رسمی علوم مروجہ کے ساتھ دینیات کی تعلیم کا معقول انتظام تھا اور اس کی خاص نگرانی کی جاتی تھی.اسی طرح کالج کے طلبہ کی اخلاقی اور مذاہبی ترقی کے لئے مقدور بھر بجد وجہد کی جاتی تھی.اس کالج کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ اس کے طلبہ امام الزمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پاک اور خدا نما مجلس سے مستفیض ہوتے.بزرگ صحابہ کی زیر تربیت اپنے اوقات گزارتے اور مرکز احمدیت کی برکتوں سے حصہ وافر لیتے تھے.تھے کالج کے ڈائریکٹر حضرت نواب محمد علیخاں صاحب ، پرنسپل حضرت مولوی شیر علی صاحب نے اور 。 ئے لکم نی ۲۴ یون نشانه صفحه ۱۰ تا ۱۳ ۰ کے رسالہ " تعلیم الاسلام قادیان جلد اول شماره ۶ صفحه ۲۳۲ به
۱۵ سپرنٹنڈنٹ حضرت مفتی محمد صادق صاحب بھیروی تھے.کالج کے اولین اساتذہ چار تھے :- حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب بھیروی رضا ( دینیات) - حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی رضا ( عربی ) - حضرت مولوی شیر علی صاحب بی.اے رض (انگریزی) ہا.جناب مولوی محمد علی صاحب بی.اے.ایل ایل بی (ریاضی) کالج کے لازمی نصاب میں دینیات ، عربی ، انگریزی اور ریاضی کے علاوہ فارسی، فلاسفی اور تاریخ کے مضمون بھی شامل تھے جو حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور بعض دوسرے بزرگ پڑھاتے تھے میلے جماعت احمدید ان دنوں بالکل ابتدائی مراحل میں سے گزر رہی تھی.اس طلبہ کالج کے اخراجات دور میں مدرسہ تعلیم الاسلام کے اساتذہ کی تنخواہیں بھی بمشکل پوری ہو سکتی پیدہ مسئلہ تھیں.اب جو مدرسہ کے ساتھ کالج کا اضافہ ہوا تو اس کے ارباب حل و عقد کا پیچیدہ کو کالج کے طلبہ کے اخراجات کی فکر بھی دامنگیر ہو گئی بچنانچہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے ہر شہر کی احمدی جماعتوں کو باہم مل جل کو مدرسہ اور کالج کے طلبہ کے لئے تین یا پانچ روپے کے " وظائف مساکین" یا مقرر کر لینے کی اپیل کی اور اس تعلق میں آپ نے تین بزرگوں کی فیاضانہ امداد کا تذکرہ خاص بھی کیا چنانچہ فرمایا.اس میگہ مجھے تین بزرگوں کا شکریہ کے ساتھ ذکر کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے.ایک تو استاذی المعظم مولانا مولوی نورالدین صاحب ہو کئی طلباء کو وقتاً فوقتاً ماہوار کی اور ایک مشت مدد دیا کرتے ہیں.دوم مخدومی نواب محمد علیخاں صاحب ہو اپنی جیب خاص سے مدرسہ کے چار طلباء کو ماہواری معقول وظیفہ دیتے ہیں اور میرے مکرم و مخدوم نواب فتح نواز جنگ مولوی مهدی حسن صاحب بیرسٹر ایٹ اور لکھنو ا نہوں نے کالج کے واسطے ایک مستقل وظیفہ مبلغ کے ماہوار کا مقرر کر دیا ہے.جب العم الله حلالا لا ة اختيار الحكم " قادیان سر فروری ستاره صفحه را کالم ۱ به 4 • ار مئی ۱۹۳ صفحه کم کالم او سے حضرت مولوی مصد و بین صاحب بی.اے (سابق مبلغ امریکہ) محال صدر صدر انجین احمدیہ فرماتے ہیں : مطالباً در توی خانه والا کره کلاس روم تھا.مگر اس کے علاوہ پڑنے صحن مدرسہ کا مشرقی کمرہ بھی استعمال ہوتا سکا.درزی شانہ کا اوپر والا کمرہ بھی بعض دفعہ لیکچروں اور بعض دفعہ کالج کے بورڈروں کی رہائش کے لئے استعمال ہوتارہی ہے، واصحاب احمد " جلد دوم صفحه ۱۸۲ مؤلفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم.اسے طبع اولا : البدر اگست الله صفحه ۲۳۱ کا کم ۲ :
14 کالج میں داخل طلبہ کی ناداری اور تنگدستی کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ جب ایف اے کے امتحان میں داخلہ بھجوانے کا موقع آیا تو چار طلبہ میں سے دو طالب علم داخلہ امتحان کی (۲۰ روپے) نہیں تک ادا کرنے سے قاصر تھے جس پر اخبار الحکم " اور " البلد دونوں کو چندہ کی تحریک کرنا پڑی.اگر چہ کالج کے لئے یہ پہلا موقعہ تھا کہ اس کے طلباء پنجاب یونیورسٹی کے الضمان کالج کے امید افزاء نتائج میں شریک ہوئے گر جناب انہی کی یہ خاص عنایت ہوئی کہ جہاں یونیورسٹی کا وہاں یریا میں فی تھا ان تعلیم اسلام ایک کے بانی کی اوسط پیتر یاری یعنی چار طلبہ میں سے تین الیف اسے میں کامیاب قرار پائے.کالج کے اس امید افزاء نتیجہ پر رسالہ ریویو آف ریلیجنتر (اردو نے حسب ذیل نوٹ شائع کیا.دو سال گزر چکے ہیں جب اس کالج کی بنیاد پہلے رکھی گئی تھی اور ابھی تک پبلک کو اس کی تعلیمی حالت کا صحیح اندازہ لگانے کا موقعہ نہ ملا تھا مگر فشار کے امتحان یونیورسٹی نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ علاوہ دینی تعلیم اور تعلیم قرآن شریف کے جو اس کالج کے خاص اخراض میں سے ہے یہاں کی معمولی تعلیم بھی اعلیٰ درجہ کی ہے اور کالج کا سٹان مخصوصاً قابل تعریف ہے.اس سال اس کالج سے چار طالب علم امتحان الیف.اے میں شامل ہوئے تھے جن میں سے تین کامیاب ہوئے جہاں عام طور پر ایف اے کے امتحان میں ۳۸ فی صدی طالب علم پاس ہوئے ہیں اور بڑے بڑے مشہور کالجوں میں بھی نصف کے قریب قریب ہی تعداد پاس شدگان کی ہے.ہمارے کالچ کا نتیجہ 20 فیصدی کامیاب بتاتا ہے.زمانہ کی زہرناک ہواؤں کے اثر سے بچنے کے لئے یہ جگہ خدا کے فضل سے نہایت عمدہ ہے کہ یونیورسٹی ایکٹ کا نفاذ تعلیم اسلام کالج کی نئی فرسٹ ایر کلاس را می ستار کو کھول دی گئ ھے میر لارڈ کرزن وائسرائے ہند کی طرف سے یونیورسٹی ایکٹ نافذ کر دیا گیا جس کی رُو اور کالج کی بندش حکومت کو یونیورسٹیوں کے معاملات میں مداخلت کے وسیع اختیارات مل گئے نیز یہ پابندی عائد کردی گئی کہ آئندہ کا لجوں کے الحاق کی منظوری کالجوں کی مستحکم مالی حیثیت ، ٹرینڈ سٹاف اور شه مورته ۲۲ دسمبر ۱۹ صفحه ۱۸ و ۰ار جنوری ماله صفحه ۱۹ سه مورخہ یکم جنوری سنت اور صفحہ ۱.اس چندہ میں حصہ لینے والے بزرگوں کے اسماء گرامی اختیار حکم اور جنوری شدہ صفحہ 11 کالم ہم میں شائع شدہ ہیں ؟ سے اختبار " بلد ۲۰ اپریل ۱۹۰۵ و صفحه امیں پاس ہونے والوں کے نام درج ہیں ، کمد ریویو آن پیجز" اردو بابت ماہ مئی سفانہ سرورق صفحه ۲ :
مستقل عمارت ہونے کی صورت میں ہی دی جا سکے گی.ان شرائط کی موجودگی میں ایک غریب جماعت کے لئے کسی کالج کا جاری رکھنا نہایت دشوار تھا لہذا اسے بند کر دینا پڑا.مگر جیسا کہ آئندہ حالات نے بتا دیا در اصل خدائے علیم و خبیر نے اپنی حکمت کا ملہ سے اس جلائتی اور قومی ضرورت کی تکمیل حسن و احسان میں حضرت مسیح موعود و مہدی معہود کے مثیل و نظیر کے ساتھ وابستہ کر دی تھی اس لئے خلافت ثانیہ کے عہد میں یہ کام نہایت شان و شوکت کے ساتھ پایہ تکمیل کو پہنچا.فصل دوم دور مصلح موعود یں کالج کا از سر نو قیام اور دوبارہ افتتاح 41917 حضرت خلیقہ آسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اپنے خلیفہ منتخب ہونے کے چند ہفتے بعد ۱۲ اپریل کو قادیان میں نمائندگان جماعت کا جو سب سے پہلا مشاورتی اجلاس ہوایا.اس میں اپنی اس دلی آرزو کا بھی اظہار فر مایا کہ: اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ہمارا اپنا ایک کالی ہو.حضرت خلیفہ امسیح اول کی بھی یہ خواہش تھی.کالج ہی کے دنوں میں کیریکٹر بنتا ہے.سکول لائف میں تو چال چلن کا ایک خاکہ کھینچا جاتا ہے.اس پر دوبارہ سیاہی کالج ذائت ہی میں ہوتی ہے.پس ضرورت ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کی زندگیوں کو مفید اور مؤثر بنانے کے لئے اپنا ایک کالج بنائیں.پس تم اس بات کو مد نظر رکھو میں بھی غور کر رہا ہوں" سے اس عزم بالجزم کے بعد ربع صدی سے زائد عرصہ گزر گیا مگر قیام کا لج کیلئے حالات سازگار نہ ہو سکے.نے ملاحظہ ہو یونیورسٹی ایکٹ ۱۹۰۴ دفعہ ۲۱ : له منصب خلافت » صفحه ۳۷ طبع اول مطبوعہ اللہ بخش مشین پولیس قادیان.
۱۸ اپریل اسی میں سیکسوئیل مجلس مشاورت کا انعقاد ہوا جس میں جماعت احمد یہ امین آباد ضلع گوجرانوالہ کے نمائندہ ملک مبارک احمد خان صاحب امین آبادی...کی خدمت میں بجٹ پر عام بحث کے دوران یہ عرض کی کہ نے سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی قادیان میں ایف اے کلاس کھول دی جائے تو بہت بہتر ہو.یہ کالج جامعہ احمدیہ کی ایک شاخ کے طور پر کھوہ چائے کیونکہ ضلع گورداسپور میں کوئی کالی نہیں اس لئے بہت مفید ثابت ہوگا نے اس مخلصانہ تحریک کو اللہ تعالیٰ نے شرف قبولیت بخشا اور حضور کے دل میں یکا یک القاء ہوا کہ وقت گیا ہے کہ قادیان میں کالج جلد سے جلد کھول دیا جائے چنانچہ حضور نے ۲۶ ماہ ہجرت / مئی پیش کو فرمایا :- ۱۹۴۴ خدا تعالیٰ کی حکمت ہے ایک لمبے عرصہ تک میری اس طرف توجہ ہی نہیں ہوئی کہ قادیان میں ہمارا اپنا کالج ہوتا چاہیے.بلکہ ایسا ہوا کہ بعض لوگوں نے کالج کے قیام کے متعلق کوشش بھی کی تو میں نے انہیں کہا کہ ابھی اس کی ضرورت نہیں کالج پر بہت روپیہ خرچ ہو گا لیکن پچھلے سال مجلس شوری کے موقع پر بجٹ کے بعد یکدم جب بعض دوسرے لوگوں نے تحریک کی تو اللہ تالے نے میرے دل میں یہ تحریک پیدا کر دی کہ واقعہ میں قادیان میں جلد سے بعد ہمیں اپنا کالج کھول دینا چاہئیے حالانکہ اس وقت تک نہ صرف اس تحریک کا میرے دل میں کوئی خیال نہیں تھا بلکہ جب بھی کسی نے ایسی تحریک کی میں نے اس کی مخالفت کی.لیکن اس وقت یکدم بعدا تعالیٰ نے میرے دل میں اس خیال کی تائید پیدا کر دی اور نہ صرف تحریک پیدا کی بلکہ بعد میں اس تحریک کے فوائد اور نتائج بھی سمجھا دیئے ہے بچنا نچہ حضرت امیر المومنین نے مجلس مشاورت کے چند دن بعد جب بجٹ کی مخصوص سب کمیٹی کے اجلاس میں قیام کالج کی تحریک فرمائی تو خدا تعالیٰ نے اپنے مقدس اور برگزیدہ خلیفہ کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے مرسری اور مختصر الفاظ کو غیر معمولی قبولیت بخشی اور اجلاس میں حاضر چند گنتی کے اصحاب ہی نے کئی ہزار روپیہ نقد میش کر دیا.ے ریت مجلس مشاورت اش صفحه ۱۲۶ ۰ ہے " الفضل " ۳۱ ہجرت امئی ۱۳۳۳ پیش صفحه ۵ کالم ۰۳ سے " الفضل" ، احسان جون ۳۳ رش صفحه ۲ کالم ۱-۲ ہے ۶۱۹۲۴ ۱۹۴۴
19 کا با کمیٹی کا تقرر حضرت خلیفہ اسی انانی نے ای وی اریک کا ادب پہلا قدم یہ اٹھایا کہ تمام کے نا کالج کے منصوبہ کو جلد سے جلد پایہ تکمیل تک پہنچانے اور اس کو جاری کرنے کے انتظامات کی انجام دہی کے لئے ایک کمیٹی مقرر فرمائی اور حسب ذیل اصحاب کو اس کا نمبر تجویز فرمایا :- -1 قمرالانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے (صدر) -۲ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایم اے (آکسن) حضرت مولوی محمد دین صاحب بی.اے ہے.قاضی محمد اسلم صاحب ایم.اے ملک غلام فرید صاحب ایم.اے (سیکرٹری نے حکومت پنجاب سے منظوری کا ہی کمیٹی کی تشکیل کے مابعد قیام کالی کے لئے حکومت سے امانی حکومت پنجاب سے منظوری لینے کا محلہ شروع ہوا.اس سلسلہ میں ملک غلام فرید صاحب ایم اے سیکرٹری کا پر کمیٹی کو ارشاد ہوا کہ وہ لاہور جھا کہ کوشش کریں کہ اگر ممکن ہو تو یونیورسٹی کے سائر ( امین) کے تعلیمی سال ( SESSION ) شروع ہوتے ہی احمدیہ کالج کے اجراء کی اجازت مل جائے لیکن وقت بہت تنگ تھا اور حکومت سے منظوری بہت سے مراحل طے کرنے کے بعد ہی حاصل ہو سکتی تھی اس لئے اس سال تو کالج کا قیام عمل میں نہ آسکا تاہم اگلے سال ۲۲ صلح / جنوری لاش کو پنجاب یونیورسٹی کا ایک یہ کمیٹی نہایت مفید اور قابل قدرہ انتظامی خدمات انجام دینے کے بعد ۲۷ افادر اکتوبر یہ سلسلہ میں کو مجلس تعلیم ا میں مدغم کر دی گئی جس کے صدر بھی قمرالا یا حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ہی تھے.نیز فیصلہ ہوا کہ : رٹی آئندہ کا لی کمیٹی کے ایسے ممبران ہو اس وقت تک مجلس تعلیم کے میر نہیں مجلس تعلیم کے ممبر ہوں گے.(ب) کالج کے عملی کام کے لئے ایک سب کمیٹی مشتمل بر حضرت میاں بشیر احمد صاحب ، صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اور ملک غلام فرید صاحب ایم اے اور مولوی ابوالعطاء صاحب ہوگئی تین کے سیکرٹری ملک غلام فرید صاحب اور اسسٹنٹ سیکرٹری مولوی ابو العطاء صاحب ہوں گے.(ج) یہ سب کمیٹی کا لج کے حمد تفصیلی کام سر انجام دے گی.البتہ بحث اور صولی قواعد اور استثنائی فیصلہ جات اور مزید کلاسز کا اجراء مجلس تعلیم میں پیش ہوں گے تبلیغ فروری ہش کو اس نئی کمیٹی کے عمران میں حضرت مرزا شریف احمد صاحب کا اضافہ کیا گیا مگر ارایش میں یہ نظام عمل بھی بدل دیا گیا اور ۲۸ رامان / مارو میش کو فیصلہ ہوا کہ آئندہ تعلیم الاسلام کالج کے متعلق مجلس تعلیم کا کام صرف اس مستک محدود ہو گا جو دینیات کا نصاب مقرر کرنے اور دینیات کا امتحان لینے سے تعلق رکھتا ہے نظم و نسق کا سارا کام صدر امین احمدیہ کی طرف منتقل کر دیا جائے ؟ میں بیاہ مجلس تعلیم کا وجود عملا قائم نہرا دینیات کے امتحان والا حصہ خود بخود نظارت تعلیم سے متعلق ہو گیا ؟ 1907
کمیشن موقعہ پر حالات کا معائنہ کرنے کے لئے قادیان پہنچا جس نے تعلیم الاسلام ہائی سکول کی عالیشان عمارت اور وسیع اراضیات دیکھ کر یونیورسٹی میں کالج کی منظوری دیئے جانے کی سفارش کر دی.یونیورسٹی نے مطالبہ کیا کہ پینتالیس ہزار روپیہ نقد مجوزہ احمدیہ کالج کے نام پر کسی بینک میں جمع کیا جائے جماعت احمدیہ نے یہ مطالبہ پورا کردیا تو پنجاب یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ ( SYNDICATE) نے ال فروری کے اجلاس میں یونیورسٹی ۱۹۴ منہ کی سینیٹ ( SENATE ) کے پاس یہ سفارش کی کہ احمدیہ کالج کی منظوری دے دی جائے سینیٹ (SENATE) نے اپنے اجلاس منعقده ۲۵ مارچ شده ۲۵۱ ر امان ۳۳۳ ریشہ میں مطلوبہ منظوری دے ۱۲۲ کو آخری منظوری کے لئے حکومت کے پاس سفارش کر دی اور ۲ جون ۱۹۴۷ء کو یونیورسٹی کی طرف سے بذریعہ تازہ اطلاع موصول ہوئی کہ حکومت نے کالج کے اجداد کی منظوری دے دی ہے یہ قیام کالج کے اخراجات کا تخمینہ کالج کمیٹی نے پنجاب یونیورسٹی کی انتظامیہ کی طرف سے احمدیہ اور ابتدائی انتظامات کالج کی منظوری کی اطلاع ملتے ہی ایک طرف " الفضل "ھر امان ۳۲) میش) میں اس کا اعلان کر دیا دوسری طرف سیدنا حضرت خليفة أسبح الثاني الصلح با یوو کے حضور کالج کے بنیادی اور ابتدائی اخراجات کے لئے ستر ہزار روپیہ کا بجٹ پیش کیا جسے حضور نے منظور فرمایا حضور نے کالج کا نام تعلیم السلام کا کیا فیصلہ فرمایا کہ یہ کالی تعلیم الاسلام ہائی سکول کی عمارت میں کھولا جائے اور اس میں نویں دسویں جماعت کے ساتھ ایف.اسے کل اسمر جاری کی بجائیں اور مڈل کی جماعتوں کے لئے الگ عمارت تعمیر کی بجائے.کالج کے ساتھ ہوسٹل کا قیام بھی ضروری تھا.اس غرض کے لئے تعلیم الاسلام سکول کے وسیع بورڈنگ ہاؤس اور مجامعہ احمدیہ کی عمارت تجویز کی گئی.کاٹلی کے شاعت کی بابت یہ اصولی فیصلہ ہوا کہ کچھ اور تعلیم الاسلام سکول سے لیا جائے اور کچھ باہر سے مہیا کیا جائے کالج کے ابتدائی انتظامات کے لئے جو رقم کا لج کمیٹی حضر مصلح موعود کی طرح سے اخراجات کالج کے کر دی گئی وہ قرض معنی جس کی جلد ادائیگی ضروری تھی کی تحریک اور ا مخلصین حمت کی قربانی اس نے حضرت اقدر اصل الموعود نے امان الربح لئے له " الفص" در احسان اجون له میش صفحه ۲ در پورت نوشته ملک غلام فرید صاحب ایم اے سکوٹری کالج کمیٹی +1900 کیسے یہ سب تفصیلات کالج کمیٹی کی رپورٹ مورخہ ۱۶ رامان / مارچ یہ پیش میں موجود ہیں : ہے.رپورٹ مجلس مشاورت ۳۲۳ به بیش صفحه ۱۵۵ + هم نام ورو
میش کو خطبہ جمعہ میں اور 9 شہادت / اپریل کو مجلس مشاورت کے دوران ڈیڑھ لاکھ روپیہ کی پر زور تحریک فرمائی ہے اور اس کالج کی افادیت و اہمیت پر نہایت موثر رنگ میں روشنی ڈالی.اس تحریک کا خدا کے فضل وکرم سے مخلصین جماعت کی طرف سے پرجوش خیر مقدم کیا گیا اور ایک خطیر رقم اس مد میں جمع ہو گئی.اس سلسلہ میں سب سے پہلی قابل تقلید مثال خود حضرت امام ہام کی تھی.آپ نے کالج کی منظوری دیتے ہی پہلے اپنی طرف سے پارکی ہو الر کا چیک عطا فرمایا اور پھر جلد ہی اپنے جملہ اہلبیت کی طرف سے چھ ہزار روپے عنایت فرما دیئے لیکن کالج کے مجوزہ ڈھانچہ کی تعلیم الاسلام کالج سے تعلق بنیادی فیصلوں پر ملی اقدام کا پہلا مرحلہ شروع ہوا.اس سلسلہ میں حضرت مرزا شریف احمد صاحب ناظر تعلیم و تربیت نے تشکیل کیلئے فوری اقف داستان ور شہادت اپریل پر ہی کو ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول کے نام مدرج ذیل حکمت مر جانے کیا فرمایا :- چونکہ عنقریب تعلیم الاسلام کا لج کھلنے والا ہے اور اس کے کھیلنے پر سکول ہذا کی ہائی کلاستر کا مالی کے ساتھ علادی جائیں گی اس لئے آج سے سکول کے مڈل کے حصہ کو ہائی کے حصہ سے جدا کیا جاتا ہے ائی گئے حصہ کے انچارج بدستور اخوند عبد القادر صاحب ایم.اسے رہیں گے اور فی الحالی حصہ مٹل کے انچارج صوفی غلام محمد صاحب B.SC B.T ہوں گے.اخوند عبد القادر صاحب سکول کے مڈل اور پرائمری کے حفصہ کا چانچ صوفی صاحب موصوف کو دے دیں.سکول کے موجودہ سامانی میں سے احمد عبد القادر صاحب کے علاوہ مندرجہ ذیل اسان وہ ہاٹی کے مصر میں ہی فی الحال کام کریں گے.ماسٹر علی محمد صاحب بی اے بی ٹی ، صوفی محمد ابراہیم صاحب 7.2- B.Sc ،.اسٹر محمد ایران تمیم صاحب S.AY.به ۵ ، ماسٹر محمد ابراہیم صاحب ناصر 8.8.7 اور بشارت الیمین صاحب ایم.اے تم مجھے BA.1 حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی صدر کا نا کمیٹی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے الفضل اور شہادت / اپریل پیش ہیں ہمارا یں کالج کا تاریخی پس منظر تعلیم الاسلام کالج کے عنوان سے ایک نہایت اہم مضمون ا الفضل" اورامان / مار صفحه 44-4 ہ رپورٹ تخلیس مشاورت ایش سفر ۱۵۵ تا ۱۹ گے" الفضل " ، ہجرت اسیا نمایش صفحه ۶ کالم ۲۳ کے اخوند مودال در صاحب ایم.اے
۲۲ سپرد قلم فرمایا جس میں اس نئے مرکزی ادارہ کے خصائص پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ سب سے پہلی خصوصیت ہو اس کالج کو حاصل ہے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے تصرف خاص کے ماتحت اس کے اجراء کو تاریخ احمدیت کے اس زمانہ کے ساتھ پیوند کر دیا ہے ہو حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایک اللہ کے دعوئے مصلح موعود کے ماتحت جماعت کے ایک نئے دور کا حکم رکھتا ہے گویا منجملہ دوسری مبارک تحریکات کے جو اس وقت جماعت کے سامنے ہیں اللہ تعالی نے ہمارے اس کالج کو بھی نئے دور کی نشانیوں میں سے ایک نشانی بنا دیا ہے اور اس طرح یہ کالی خدا کے فضل سے گویا اپنے جنم کے ساتھ ہی اپنے ساتھ خاص برکت و سعادت کا پیغام ا رہا ہے.فاطمہ اللہ علی ذلک.دوسری خصوصیت اس کالج کو خدا تعالیٰ نے یہ دے دیا ہے کہ وہ تاریخ عالم کے لحاظ سے بھی موجودہ جنگ عظیم کے آخری حصہ میں عالم وجود میں آرہا ہے اور جنگ کا یہ حصہ وہ ہے جبکہ دنیا کے بہترین سیاسی مرتبہ دنیا کے بعد الحرب نئے نظام کے متعلق بڑے غور و خوض سے تجویزیں سوچ رہے اور غیر معمولی اقدامات عمل میں لا رہے ہیں.اس لحاظ سے ہمارا یہ کالج دو عظیم الشان دینی اور دنیوی تحریکوں کے ساتھ اس طرح مربوط ہو گیا ہے کہ ایک الہی عیت جو بیامر میں خدائی تقدیر کا ہاتھ دیکھنے کی عادی ہوتی ہے اُسے محض ایک اتفاق قرار دے کو نظر انداز نہیں کر سکتی ہے لصلح الموعود کی زبان مبارک سے تعلیم اسلام کالج کا کیا بیدار ہو کہ انتظام اعتبار سے کم نہ ہجرت کالج ماہ الاسلام منی ریش سے ہو چکی تھی اس لئے سید نا حضرت کے لئے طلبہ بھجوانے کی تحریک میں احباب جماعت کو توجہ دلائی کہ 1900 الصلح الموعود نے در ہجرت ۳۳ میش کے خطبہ جمعہ کالج شروع کر دیا گیا ہے.پروفیسر بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہل گئے ہیں.اب ضرورت اس امر کی ہے کہ چندہ جمع کیا جائے اور لڑکو لا کو اس میں تعلیم کے لئے بھیجوایا جائے.بہر وہ اگدری جس کے شہر میں کالج نہیں وہ اگر اپنے لڑکے کو کسی اور شہر میں تعلیم کے لئے بھیجتا ہے تو کمزور ٹی "الفضل» بر شهادت / اپریل ۳۳ پیش صفحه ۱ - ۲۲
۲۳ ایمان کا مظاہرہ کرتا ہے.بلکہ میں کہوں گا ہر وہ احمدی جو توفیق رکھتا ہے کہ اپنے لڑکے کو تعلیم کے لئے قادیان بھیج سکے خواہ اس کے گھر میں ہی کالج ہو اگر وہ نہیں بھیجتا اور اپنے ہی شہر میں تعلیم دلواتا ہے تو وہ بھی ایمان کی کمزوری کا مظاہرہ کرتا ہے" کے ختر صاحبزادہ مرزا ناصر حمد صاحب حضرت حقیقت ایسی ثانی اصلح الموعود نے کالج کمیٹی کی خلیفہ تجویز پر مر ہجرت امنی یا اللہ میں کو حضرت صاحبزادہ کا تقرر بحیثیت پرنسپل ۱۱۹۴۴ مرزا ناصر احمد صاحب کا تقرر بطور پرنسپل منظور فرمایا.جناب پروفیسر محبوب عالم صاحب خالد رحال ناظر بیت المال آمد صدر انجمن احمد یہ ربوہ ) کا بیان ہے :- ۱۹۴۷ء کے ابتدائی ایام میں محترم حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صائب محترمہ بیگم صاحبہ کے علاج کے سلسلہ میں دہلی مقیم تھے ایک بزرگ نے مجھ سے ذکر کیا کہ ان دنوں تعلیم الاسلام کالج کے انتظامات ہو رہے ہیں اور پرنسپل کے تقریر کا سوال ہے انہیں لکھو کہ وہ اس موقعہ پر یہاں تشریف لے آئیں.میں نے ناسمجھی میں آپ کی خدمت میں ایک عریضہ تحریر کر دیا.چند دن کے بعد جواب موصول ہوا جس کا مفہوم یہ تھا کہ خالد ! تم بچپن سے میرے ساتھ رہے ہو ابھی تک تمہیں یہ معلوم نہیں ہوا کہ میں نے کبھی کسی عہدہ کی خواہش نہیں کی میں تو ادنی خادم سلسلہ ہوں“ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب (پرنسپل و یکپار اقتصادیات) کے کالج کا پہلا سٹاف علاوہ ابتداء میں حسب ذیل اساتذہ کا تقر عمل میں آیا.اخوند محمد عبد القادر صاحب ایم.اسے بی.ٹی کے لیکچرار انگریزی) -۲- قاضی محمد نذیر صاحب نشی فاضل مولوی فاضل العت اسے اوٹی کے لیکچرار فارسی و دینیات) صوفی بشارت الرحمن صاحب ایم.اے تھے (لیکچرار عربی) ۳- - - هم را نا عبد الرحمن صاحب ناصر ایم.اے ریاضی (لیکچرار ریاستی) ۶۱۹۴۰ نقش ۲۰ ہجرت رستمی ایک مقام کا کم ۳۰۳ یه ولادت: ۲۳ جنوری شاهد وفات : مش و احسان / جون سنا ہر مہیش سے صدر انجمن قادیان کی طلات سمت میں آئے : سے ولادت ۲۱ ستمبر - یکم مئی 11 سے صدر انجین احمدیہ قادیان کے کارکتوں میں Khaa شامل ہوئے : لگے ولادت ها گئے ولادت درد برساند ۱۹ فوت نومبر تم میں سے تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ٹیچر کی حیثیت سے خدمت سلسلہ کا انداز کیا ہے ولادت اگر نر 111 متر اجرت امنی سیمی کو لیکچرار مقرر ہوئے ؟
۵- عباس بن عبد القادر صاحب نے 4- چودھری محمد علی صاحب ایم.اسے ۲۷ لیکچرار تاریخ ) لیکچرار فلاسفی ) ر آپ سے قبل عبد العزیز صاحب ایم.اسے چیکوالوی فلاسفی کے لیکچرار مقرر تھے جو ہجرت امنی و پیش کو انتقال کو گئے ہیں پر ۲۶ ہجرت مٹی میں کو آپ کا انتخاب ہوا ) تجھے چوہار کی عبدالاحد صاحب ایم ایس سی پی ایکے میں لیکچرار کیمسٹری) اس سٹاف میں وقتاً فوقتاً یہ نہیں تک مندرجہ ذیل اساتذہ کا اضافہ ہوا :- نام تاریخ تقریر ۱۳۲۳ مضمون ا حکم عطاء الرحمن صاحب غنی ایم.اسے ماه احسان توان روشی فرکس ۰-۲ بھی بن عیسی صاحب بہاری ایم ایس سی ماه انحاء / اکتوبر پیش میاں عطاء الرحمن صاحب ایم ایس سی ماه نبوت / نومبر ۲۳ را بش 71900 ۱۳۲۵ ہ چوہدری محمد صفدر صاحب چوہان ماہ ہجرت امئی ۳۲ بیش - شیخ محبوب عالم صاحب خالد ایم اے بی ٹی ھے - ملک فیض الرحمن صاحب فیضی ایم اے ماہ انعاودا اکتوبر حبیب اللہ خان صاحب ایم ایس سی " کیفیت تک خدمت کرتے رہے اب تک پروفیسر ہیں ماہ ہجرت امئی ۳۲ ایرانی ۰۸ سید سلطان محمود صاحب شاہد ،ایم ایس سی ماہ وفا اچولائی ہے ی بن معینی صاحب کی لیری سے کائی نہیں قتل ہوئے.نشه ولادت : جنوری ۱۹۳ مله والات: یکم جنوری شانه ، ۱۲۸ هجرت مٹی میں کو لیکچرار مقر کئے گئے : لہ تور: احسان رجون شو سے مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کے قدیم صحابی حضرت حافظ محمد امین صاحب کے فرزند تھے.سرکاری ملازمت چھوڑ کر خدمت دین کے لئے زندگی وقف کر دی تھی.اور قادیان آگئے تھے.ماہنامہ ڈیو یو این پیجر اورد این حقانی ایم.اے کے قلمی نام سے جو معلومات افزا مضامین اس زمانہ میں شائع ہوئے وہ اپنی کے زور تسلم کا نتیجہ تھے (الفضل " ۱۳ اجرت مئی مش صفحه با کالم ) : کالی کٹی کافیصلہ یہ تھا کہ کمیٹی کے مستقل لیکچرار کے قادیان پہنچنے تک چوہدری عبد ا ر صاحب بطور لیکچرار کیٹری تعلیم الاسلام کالج میں کام کریں گے “ اس فیصلہ کے مطابق ۱۲ احسان خون ریش سے انہوں نے کیمسٹری کی کلاسیں لینا شروع کر دیں یہانتک کہ کمیسٹری کے پہلے لیکچرار پہنچ گئے.ے یکم جون سد کو صدر انجین احمدیہ قاریان میں آئے.نصرت گرلز ہائی سکول پھر جامعہ احمدیہ اور ہائی سکول میں بہترین تعلیمی فوائض بجالانے لکھے بعد کالی شان میں شامل ہوئے.ماہ ہجرت مئی کو کالج سے ریٹائر ہو کر ناظر بیت المال آمد کے عہدہ پر ہمت نہ کئے گئے : 1999
۲۵ حضر صاجزادہ مرزا ناصر احمد صات اگرچه اما جریان 41900 کے ابتدائی ایام میں ہو چکا تھا مگر انٹر میڈیٹ کالج کی صورت میں اس کا بحیثیت پر سیل چارج کا باقاعدہ قیام ۲ بار ہجرت کو ہواجبکہ حضرت صاحبزادہ مرزان اراحمد ۲۲ ماہ صاحب نے بجا معہ احمدیہ کا چارج مولانا ابہا العطار صاحب کو دے کر تعلیم الاسلام کالج کی باگ ڈور سنبھال لی.اور ساتھ ہی سکول کی نویں دسویں کی کلاسیں چند دنوں تک کالج کے ساتھ رہنے کے بعد باقاعدہ سکول کے ساتھ ملحق کردی گئیں اور کالج صرف انٹر میڈیٹ کا لج رہا.رات کو کالج کو کامیابی سے جاری کرنے کے لئے اشد ضروری پا پراسکیش داخرام اور پرکی است تھا کہ اُسے قادیان کے گرد و نواح میں خصوصاً متعاد رایا جائے اور اس کی افادیت عوام پر واضح کی جئے کالی کمیٹی نے ایامیں یہ ذمہ داری خودہی اٹھائی اورنہ صرف اخبار الفضل میں کالج نے سعی متعد اعلانات شائع کئے گئے بلکہ کالج کے پہلے پراسپکٹس اور داخلہ فارم کے علاوہ " اہالیان ضلع گورداسپور کے لئے ایک خوشخبری" کے عنوان سے ایک پوسٹر بھی شائع کیا اور اُسے ضلع بھر کے ہائی سکولوں کے ہیڈ ماسٹروں اور دیگر معززین تک پہنچانے کا معقول انتظام کیا.مقامی تبلیغ کے مبلغوں سے بھی اس کام میں مدد لی گئی.اس ابتدائی کوشش کے بعد داخلہ کالج سے متعلق اعلانات اخبار" الفضل "ڈان" نقلاب اور دوسرے ملکی اخبارات میں براہ راست پرنسپل تعلیم الاسلام کا ایچ کی طرف سے بھجوائے جانے لگے.اس سلسلہ میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی طرف سے تعلیم الاسلام طلبہار کا انٹرویوں ہی سے متعلق پہلا اعلان الفضل ۲۴ ہجرت اسی پیش کے صفحہ ، کالم پر شائع کانچ " پر ۱۳۱- ۶۱۹۴۷ A ہوا جس میں احباب جماعت کو سیدنا المصلح الموعود کے الفاظ میں کالج کے چندہ اور داخلہ کی اپیل کرنے کے بعد اطلاع دی گئی کہ :.ایف اے اور ایف ایس سی نان میڈیکل کے داخلہ کے لئے درخواستیں ۲۷ مئی تک پہنچ جائی چاہئیں.انٹرویو کے لئے ۲۹ ، ۳۰ ، ۳۱ مٹی کی تاریخیں مقرر کی جھاتی ہیں" اس اعلان کے مطابق قادیان اور بیرون جات سے آنے والے طلباء کا انٹرویو ۲۹ ہجرت امئی ۳ ریش سے شروع ہوا جو تین روز بھاری رہا.انٹرویو میں جملہ موجود الوقت لیکچرار صاحبان نے بصورت بورڈ شرکت لیے پراسپیکٹس انگریزی میں تھا جس کا اردو تر جمہ اس کتاب کے آخر میں بطور ضمیمہ منسلک ہے." والفضل میں اس کے شائع ہونے کی اطلاح ہے "
۲۶ کی کالج کی ابتدائی حالت کے پیش نظر یہ خیال رکھا گیا کہ زیادہ سے زیادہ طلبہ کو لیا جائے.داخلہ کی آخر کی تایی که در انسان اخون مقر ر کھتی.پہلے سال ۸۰ طلبہ نے داخلہ لیا.ر ہائی کلاستر کے دوبارہ سکول کی طرف منتقل ہونے کی وجہ سے کالج کے پاس سکول کی بلڈنگ کے کچھ حصہ کے سوا اور کسی قسم کا کوئی سامان سمتی کہ طلبہ کے لئے ڈیسک اور نیچ، پروفیسر صاحبان کے لئے کرسیاں میزیں، اور کلاس رومز کے لئے بلیک بورڈ تک موجود نہ تھے.فوری ضرورت کو پورا کرنے کے لئے دفتر خدام الاحمدیہ سے دو میزیں بارہ کرسیاں اور ہائی سکول سے ۱۲۰ طلبہ کے لئے نشستوں کا انتظام کیا گیا ہے فضل عمر ہوسٹل کا قیام و و و و ور رسول کا قیام دارای نوار کے گیٹ ر انی کو فضل کا ہاؤس میں ہوا.سیدنا المصلح الموعود نے چوہدری محمد علی صاحب ایم.اے کو اس کا سپر نٹنڈنٹ مقرر فرمایا.اس مرکزی دارالاقامہ کی ابتداء انتہائی مختصر صورت میں ہوئی.تین کمرے ہوسٹل کے لئے خالی کر دیئے گئے.نہ چار پائیاں تھیں نہ باورچی خانہ کا انتظام محلہ والوں سے پیار پائیاں مانگی گئیں.اور کھانے کا انتظام پہلے مدرسہ احمدیہ کے بورڈنگ ہاؤس میں کرنا پڑا.دو ہفتہ ہوں.دارالواقفین کے مطبخ کی طرف رجوع کیا گیا.اسی اثناء میں حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود نے یکمال شفقت اپنی کو بھی بیت الحمد کے کچن کو استعمال میں لانے کی اجازت دی جہاں کھانا باقاعدہ تیار ہونے لگا.جب طلبہ کی تعداد اندازہ سے بڑھ گئی تو کالج کمیٹی نے " ترجمہ القرآن والا کمرہ بھی خالی کر دیا لیکن اب بھی طالب علموں کی رہائش " کا مسئلہ حل نہ ہوا.جس پر سید نا المصلح الموعود کی خدمت یا برکت میں بیت الحمد کے تین کمروں کو زیمہ استعمال لانے کی درخواست کی گئی جو تضور نے قبول فرمالی.اس طرح گو رہائش کی مشکلات پر قابو پا لیا گیا مگر ہوش دو حصوں میں تقسیم ہو جانے سے طلبہ کی تسلی بخش نگرانی میں نمایاں خلل آنے لگا.تاہم ہوسٹل کے اکثر و بیشتر طلبہ عموماً نمازوں کی پابندی کرتے اور درس قرآن سنتے تھے.نماز مغرب مسجد مبارک میں پڑھتے اور اس کے بعد سيدنا المصلح الموعود کی مجلس علم و عرفان سے مستفیض ہوتے تھے جو روحانی اعتبار سے ان کے لئے سرمایہ اه حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل تعلیم الاسلام کا لج قادیان نے ۱۲۰ صلح / جنوری پر میش کو امیرالمومنین حضرت خلیفة المسیح الثاني المصلح الموعود کے حضور کالج کی پہلی رپورٹ ارسال کی.یہ معلومات اسی رپورٹ سے ماخوذ ہیں ؟ سلئے اسی روز ملک خودم فرید صاحب ایم اے نے پرنسپل صاحب تعلیم الاسلام کالج کی خدمت میں اطلاع دی کہ تعلیم ان اسلام کالج کمیٹی نے اپنے اجلاس مورخہ ہے اس میں یہ تجویز پاس کی تھی کہ گیسٹ ہاؤس واقع دارالا نوار کو تعلیم الاسلام کالج کے ہوسٹل کے طور پر استعمال کیا جائے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ منصرہ نے کمیٹی کی اس تجویز کو منظور فرمالیا ہے.اس لئے آپ متعلقہ افسران سے ملا کر اس عمارت کو اپنے زیر انتظام کر لیں“ (فائل کا لج کمیٹی)
۲۷ حیات کی حیثیت رکھتی تھی.حضرت امیر المومنین کے ارشادات کے پیش نظر اس امر کا التزام کیا جاتا تھا.کہ ہوسٹل میں ایسی فضا قائم ہو جائے کہ بجائے اس کے کہ سپرنٹنڈنٹ یا ٹیوٹر طلباء کو ان کی کسی غلط روش یا بے راہروی پر نوٹس لیں لڑکے خود ہی ایک دوسرے کو نصیحت کریں.اسی ابتدائی دور میں اردو اور انگریزی تقاریر کی مشق کے لئے فضل عمر پوسٹل یونین کی نیوڈالی گئی حسین کا باقاعدہ افتتاح حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے فرمایا اور اس کے ابتدائی اجلاسوں میں حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب بالقابہ ، حضرت چوہدری ابوالہاشم خان صاحب اور حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے بھی خطاب فرمایا.انہی دنوں بزم من بیان کا قیام بھی عمل میں لایا گیا.ہوسٹل یونین کی طرف سے مختلف زبانوں میں ترجمہ قرآن کے لئے وعدے بھجوائے گئے.یونین کے اجلاسوں میں زندگی وقف کرنے کی تحریک کی گئی نیز تقر امیرالمونین کے تازہ ارشادات و فرمودات اور دیگر جماعتی مطالبات طلباء کے سامنے دوہرا کر ان کو لبیک کہنے کی تلقین کی جاتی تھی.پٹیل کے سب سے پہلے ٹیوٹر پر وفیسر صوفی بشارت الرحمن صاحب ایم.اے مقرر ہوئے.چوہدری محمد علی صاحب ایم.اے سپرنٹنڈنٹ فضل عمر پوسٹل اپنے ایک غیر مطبوعہ بیان ( مورخه نبوت اومیری ہر مہیش میں ہوسٹل کے ابتدائی حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :.ہوسٹل کا قیام گیسٹ ہاؤس دارالا نوار والی عمارت میں عمل میں آیا.ایک کمرے میں دفتر تھا.وہی سٹور تھا.وہیں میں رہتا تھا.چند روز تو کھانا لنگر سے آیا پھر کھانا ہم خود پکانے لگے.ہمارے پہلے باورچی غلام محمد صاحب تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے حضرت ام المونین یعنی اللہ تعالیٰ عنہا تقریباً روزانہ حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالے کی کو بھی پیدل مع خادمات تشریف لے جایا کرتی تھیں اور برقعے کے ساتھ چھتری بھی استعمال فرمایا کرتی تھیں.دو تین دن تو ہم حجاب میں رہے.ایک دن ہمت کر کے راستے میں گیسٹ ہاؤس کے سامنے قطار باندھ کر کھڑے ہو گئے اور سلام عرض کرنے کی سعادت حاصل کی.ایک ایک کا نام اور پتہ دریافت فرمایا نیز پو چھا کہ کھانے کا کیا انتظام ہے.بعرض ة اخبار الفضل میں بھی گاہے گا ہے اس یونین کی سرگرمیوں کی خبریں شائع ہوتی رہی ہیں ، رپورٹ فضل عمر پوسٹل از ہجرت امنی به میش تا ماه مسلح جنوری به پیش و نوشته پتو پدری محمد علی صاحب ایم.اے) سے ملخصا.اصل رپورٹ تعلیم الاسلام کالج کے ریکارڈ میں موجود ہے.۲۱۹۴۵
۲۸ کی کہ ابھی تو لنگر خانے سے آتا ہے.برتن وغیرہ نہیں خریدے گئے اس لئے پکنا شروع نہیں ہوا.اسی دن حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو واقعی ہماری اماں جان تھیں اپنے ذاتی برتن ہمارے استعمال کے لئے بھیجوا دیئے جن پر نصرت جہاں بیگم کے مبارک اور تاریخی الفاظ کندہ تھے مجھے یاد ہے کہ ان برتنوں میں علاوہ دیگر استعمال کے برتنوں کے ایک پریشر گر بھی تھا جس کے اندر کئی خانے تھے.یہ برتن ہم کافی عرصہ استعمال کرتے رہے.ہوسٹل میں ترجمہ القرآن کا دفتر تھا جہاں حضرت مولوی شیر علی صاحب رضی اللہ عنہ با قاعدہ تشریف لاتے گرما کی تعطیلو کے بعد کالج کھلا تو دفتر بیت الحمد میں منتقل ہو گیا.طلباء کی آمد آمد ہوئی تو گیسٹ ہاؤس سارے کا سارا خالی ہوا پھر بھی گنجائش نہ رہی تو حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے از راہ شفقت بيت الحمد کے سامنے والے کمرے ہوسٹل کو مرحمت فرما دیئے جہاں طلبار نے ہوسٹل کے انتفاخ تک تقسیم ہے.یہ ہ ہی کی بات ہے کہ حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اجازت سے ہوسٹل کا نام فضل عمر مروسل رکھا گیا.اس پر بہت سے مبارکباد کے مخطوط آئے“ تعلیم الاسلام کالج کا باقاعدہ تعلیم الاسلام کالج قادیان کا باقاعدہ افتتاح ۴ احسان ارجون افتتاح کو بوقت ساڑھے سات بجے شام تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کی سابق عالیشان عمارت کے وسیع ہال میں ہوائی تلاوت و نظم کے بعد ملک غلام فرید صاحب ایم.اے سکرٹری کالج کمیٹی نے ایک مفصل رپورٹ سنائی جس میں کالج کی تحریک سے لیکر اس کی منظوری تک کے واقعات پر جامع نظر ڈالی اور بتایا کہ گذشتہ سال جب مجھے لاہور بھیجا گیا ہمیں مجود احمدیہ کالج کے قیام کے لئے کوشش کروں تو اس وقت پروگرام یہ تھا کہ جماعت کی موجودہ مالی حالت ایک پور نے ڈگری کالج کے عظیم مصارف کا بوجھ برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتی.اس لئے فی الحال ایک ایسے انٹر میڈیٹ کالج کے لئے درخواست کی بجائے جس میں سکول کی ہائی کلاستر بھی ساتھ ہوں تا ہائی سکول کی عمارت اور ہائی کلاسز کے عملے کے کالج میں شامل ہونے سے بہت سے اخراجات کی بچت ہو جائے مگر حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم تو اگلے سال پورا ڈگری کالج بنا رہے ہیں.یہ ہائی کلاستر والا باه " الفضل" بر احسان جون س ش صفحه ۲ کالم :
۲۹ چار سالہ انٹر میڈیٹ کالج تو ہماری ضروریات کے لئے منتفی نہیں.چنانچہ حضور کے تازہ ارشاد کے مطابق بالکل ہی آخری وقت میں کوشش کرنے پر کالج کی موجودہ شکل کی بھی منظوری حاصل ہو گئی " اس تفصیل کے بعد ملک صاحب موصوف نے کالج کے سٹاف، اس کے نام ، موجودہ شکل ، نام عمارات اور اغراض و مقاصد کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کر سکے بالآخر عرض کیا کہ و جہاں کالج کے قیام کے کام کو کامیابی کے ساتھ انجام دینے میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کی توجیہ اور دعائیں کالج کمیٹی کی مددگار رہی ہیں وہاں کا لج کمیٹی کے صدر ہمارے مخدوم و محترم حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب سلمہ الرحمن کی حکیمانہ ہدایات اور مشورے بھی اس کی راہ نمائی کرتے رہے ہیں.اللہ تعالیٰ حضرت صاحبزادہ صاحب کو جزائے خیر دے" نے ملک غلام فرید صاحب ایم.اسے مکڑی کا لج کمیٹی کے بعد نیای ایتالیا اسلام کالج کی پوسٹ حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب نے تعلیم الاسلام کالج کے پرنسپل کی حیثیت سے حسب ذیل ضروری کو الف پیش فرمائے.سينا السلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَعَاتُه ! کالج کمیٹی کی ہدایت کے ماتحت خاکسار تعلیم الاسلام کالج کے داخلہ کے متعلق ابتدائی رپورٹ اور کالج کے طریق کار کا ایک مختصر سا ڈھانچہ پیش کرتا ہے :- اس وقت اللہ تعالیٰ کے فضل سے اے طلبا کانچ میں داخل کئے جا چکے ہیں اور ، طلبہ کی باہر سے درخواستیں موصول ہوئی ہیں جن میں سے اکثر کے متعلق امید کی جاتی ہے کہ وہ وقت پر یہاں پہنچ جائیں گے.اس طرح پر امید ہے کہ انشاء اللہ العزیہ کالج میں 4 سے زائد طلباء امسال داخل ہو جائیں گے.اور ۲۷ ان اہ طلبہ میں سے جو اس وقت تک داخل ہو چکے ہیں ، ۴ ۲ نے سائنس لی ہے نے آرٹس اور آرٹس میں سے ۲۶ طلبہ نے مسٹری کی ہے ، ۱۶ نے اکنامکس ، ۱۴ نے عربی ، ، انے فارسی ، 4 نے فلاسفی ، نے میتھمیٹکی.ان اہ طلبہ میں سے ایک تہائی یعنی ۱۷ له الفضل " پر احسان احون مش صفحه ۳ کالم ۳ * 14
۳۰ تھرڈ ڈویژن کے ہیں اور قریباً نصف یعنی ۲۴ سیکنڈ ڈویژن کے اور صرف ۱۰ فرسٹ ڈویژن کے ان طلبہ میں سے ۱۵ وہ ہیں جنہوں نے امسال نی، آئی ہائی سکول سے میٹرک پاس کی ہے اور ۳۶ یا ہے.ڈویژن کے نقشہ سے معلوم ہوتا ہے کہ داخل ہونے والوں کی اکثریت نے اچھے نمبر نہیں لئے پس تربیت کے علاوہ تعلیم الاسلام کالج کو ان طلبہ کی تعلیم کی طرف بھی خاص توجہ دینی ہوگی تا ان کی پہلی کوتا ہیاں ہمارے نتیجہ پر اثر انداز نہ ہوں.انسانی کوشش میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر اینچ ہیں.اس لئے ہم حضور سے اور بزرگان سلسلہ سے دعا کی درخواست کرتے ہیں کہ خدا تعالے ہمیں صحیح طریق پر تعلیم و تربیت کی توفیق عطا فرمائے تا ہماری تحقیر کوششیں اسے نیک نام کرنے والی ثابت ہوں اور یہیں حال اور مستقبل میں لسان صدق حاصل ہو.اللہم آمین.(۴ تعلیم الاسلام کالج کے قیام کا بڑا مقصد احمدی طلبہ میں مذہبی روح کا پیدا کرنا اور اسلامی تعلیم کا پختگی کے ساتھ قائم کرتا ہے اور ہمارا ارادہ ہے کہ دینیات کے اس نصاب کے علاوہ ہو مجلس تعلیم ہمارے لئے مقرر کرے گی طلبہ میں دینی اور مذہبی کتب کے مطالعہ کا شوق پیدا کریں.اور اس کی عادت ڈالیں.باہر کے بعض کالج مثلاً مشن کا لجز وغیرہ اپنے مذہب کی تعلیم ہر مذہب والے کے لئے ضروری قرار دیتے ہیں.اس لئے ہمارے لئے بھی یہ جائزہ تو ہے کہ ہم بھی ہر مذہب والے کے لئے یہ ضروری قرار دیں کہ وہ ہماری مذہبی تعلیم کی گھنٹی میں ضرور حاضر ہو لیکن اگر غیروں کا رویہ بھی ہمارے نزدیک غیر مناسب اور قابل اعتراض ہو تو پھر ہمیں محض ان کی نقل میں اس گھنٹی ہیں حاضری لازمی قرار نہیں دینی چاہیے.اس سلسلہ میں حضور کی راہ نمائی کی ضرورت ہے.یہ بھی اندیشہ ہے کہ اس سے شروع شروع میں ہمارے خلاف مخالفوں کو نا واجب پر اپیگینڈا کا آلہ ندیل بجائے (٣ دماغی نشو و نما کے لحاظ سے کالج میں داخل ہونے والے طلبہ ایک ایسے مقام پر کھڑے ہوتے ہیں کہ جہاں انہیں انگلی پکڑ کے بھی چلایا نہیں بھا سکتا کہ انہیں اپنے سہارے چھلنا سیکھتا ہوتا ہے اور کلی طور پر بے نگرانی بھی نہیں چھوڑا جا سکتا کہ ہمیشہ کے لئے وہ اخلاقی ہلاکت کے گڑھے میں گر سکتے ہیں.اس ضمن میں ان کے لئے وہ بہترین درمیانی راہ کا انتخاب جسے صراط مستقیم
کہا جا سکتا ہے اور نگرانی اور آزادی کے اس طاپ کو پا لینا جو ان کی اخلاقی زندگی کو ہمیشہ کے لئے بنا دینے والا ہو ناممکن تو نہیں مگر بہت مشکل ضرور ہے اور ہم حضور ہی سے دھا اور رہنمائی کی درخواست کرتے ہیں.فٹ بال، ہاکی ، کرکٹ انگریزوں کی قومی کھیلیں ہیں اور چونکہ آجکل انگریز ہم پر حاکم ہیں ، اس لئے ہندوستان میں عام طور پر پر خیال پایا جاتا ہے کہ جب تک تعلیمی اداروں میں ان کھیلوں کو رائج نہ کیا جائے اس وقت تک ہمارے نوجوانوں کی ذہنی و جسمانی صحت کو قائم نہیں رکھا جا سکتا.اس کے برعکس وہ تمام تو میں جو انگریز یا انگریزی خون سے تعلق رکھنے والی ہیں ان کھیلوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتیں اور ان کی زیادہ تر توجہ 5 ATHLETIC کی طرف ہے اور اس و جبر سے ان قوموں کے طلبہ کی صحتوں پر کوئی برا اثر نظر نہیں آتا.ہمارا ارادہ بھی ATHLETICS کی طرف زیادہ توجہ دینے کا ہے.مگر چونکہ بہر حال ہم ہندوستان کے رہنے والے ہیں اور تمہارے ملک کی ساری تعلیمی درسگاہیں ہاکی ، فٹ بال وغیرہ پر زور دیتی ہیں اس لئے حضور کی ہدایت کی ضرورت ہے کہ کیا ہم ہاکی فٹ بال وغیرہ کو کلیتہ ترک کر دیں یا انہیں بھاری تو رکھیں مگر زیادہ اہمیت نہ دیں.میرے علم میں ان کھیلوں کو ترک کر دینے پر یونیورسٹی یا محکمہ تعلیم کو کوئی الہ امن نہ ہو گا.دنیا کی بہت سی درسگاہیں اساتذہ اور طلبہ کے لئے کسی خاص لباس کی تعیین کر دیتی ہیں.اور تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں میں بھی یہ رواج رہا ہے.اس سے یہ زائدہ کامل ہوتا ہے کہ طلبہ کی اخلاقی نگرانی زیادہ آسانی سے کی جا سکتی ہے اور ڈسپلن کا قیام بہتر طریق پر ہوتا ہے اگر حضور اسے پسند فرمائیں تو ہمارے لئے بھی کوئی لباس مثلاً کسی خاص قسم کی اچکن اور سنوار مقرر فرمائیں.طلبہ میں تعلیمی دلچسپی بڑھانے کے لئے مختلف سوسائیٹیز کے قیام کا ارادہ ہے.مثلاً (۱) تریک سوسائٹی (۲) پرشین سوسائٹی (۳) فلوس افیکل سوسائٹی (۴) پیجیس ریسرچ سوسائٹی
۳۲ (۵) اکنامکس سوسائٹی اور (۶) کالج بزی من بیان عام طور پر کالج یونین میں طلبہ کی قوت بیان کو بڑھانے کے لئے DEBATES کا طریقہ رائج ہے.مگر یہ طریق ہمارے ہاں پسندیدہ نہیں.اس لئے انشاء اللہ العزیزہ ہم کالج کی سید حسن بیان میں DEBATES کے طریق کو ترک کر کے تقریر کے طریق کو رائج کریں گے اور امید ہے کہ ہمارے طلبہ تقریر کے میدان میں محض اس طریق کی وجہ سے دوسروں سے پیچھے نہ رہیں گے.نئے سے نئے تعلیمی طریقے اور سکیمیں جن میں سے جدید ترین مسٹر جان سارجنٹ کی رپورٹ ہے پہلک کے سامنے آتے رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ ہمارا رائج الوقت طریقہ تعلیم تسلی بخش نہیں اور اس امر کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے کہ اس کی بجائے کوئی بہتر طریقہ تعلیم رائج کیا جائے.ایک نئی یو نیورسٹی ہی کسی نئی سکیم کو رائج کر سکتی ہے اور کوئی کالج جو ایک غیر یونیورسٹی کے ساتھ الحاق رکھتا ہو کسی نئی سکیم کو رائج نہیں کر سکتا.پس ہمارے لئے یہ تو ممکن نہیں کہ ہم پنجاب یونیورسٹی کی پالیسی کو چھوڑ کر کسی نئے طریقہ تعلیم کو اپنے کالج میں رائج کریں لیکن ایک غیر یونیورسٹی کے ساتھ الحاق رکھتے ہوئے اور اس کی پالیسی کو اختیار کرتے ہوئے بھی یہ ممکن ہے کہ بعض ایسے ذرائع اختیار کئے جائیں جو طلبہ کی ذہنی نشو و نما میں زیادہ محمد ثابت ہوں مثلاً RESIDENTIAL یونیورسٹیز کی امتیازی خصوصیت طلبہ پر انفرادی توجہ دینی ہے.ہمارا ارادہ ہے کہ ہم ان تمام ذرائع کو استعمال کر کے طلبہ کے فطری قومی کو صحیح نشو و نما دینے کی کوشش کریں گے مگر اللہ تعالیٰ کے فضل اور حضور کی دُعاؤں اور رہنمائی کے بغیر کچھ نہیں کر سکتے.ہم اساتذہ تعلیم الاسلام کالج قادیان “ تر امیر المومنین الصلح الموعود کا رپورٹیں پڑھی جا چکیں تو حضرت امیر المومنین الصلح الموعود کھڑے ہوئے اور تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد ایک علم و معرفت سے لبریز خطاب نہایت پُر از علم و معرفت تقریر فرمائی جس میں کالج کے قیام کی اغراض بیان کر کے پر وفسیروں اور طالب علموں دونوں کو نہایت اہم اور قیمتی ہدایات دیں.اس ایمان له الفضل " قادیان ، احسان رجون ۱۳۲۳ پیش صفحه ۳ و ۰۴
افروز خطاب کا مکمل متن درج ذیل کیا جاتا ہے.حضرت امیر المومنین المصلح الموعود نے تشہیر ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد ارشاد فرمایا کہ اور کی کہ یہ تقریب ہو تعلیم الاسلام کالج کے افتتاح کی ہے اپنے اندر دو گونہ مقاصد رکھتی ہے ایک مقصد تو اشاعت تعلیم ہے جس کے بغیر تمدنی اور اقتصادی حالت کسی جماعت کی درست نہیں رہ سکتی یہاں تک تعلیمی سوال ہے یہ کار پر اپنے دروازے ہر قوم اور ہر مذہب کے لئے کھلے رکھتا ہے کیونکہ تعلیم کا حصول کسی ایک قوم کے لئے نہیں ہے.ہمارا فرض ہے کہ ہم تعلیم کو بحیثیت ایک انسان ہونے کے ہر انسان کے لئے ممکن اور سہل الحصول بنا دیں.میں نے لاہور میں ایک دو ایسی انسٹی ٹیوٹ رکھیں جن کے بانی نے یہ شرط لگا دی تھی کہ ان میں کسی مسلمان کا داخلہ نا جائز ہوگا.مجھ سے سب اس بات کا ذکر ہوا تو میں نے کہا اس کا ایک ہی جواب ہو سکتا ہے کہ مسلمان بھی ایسی ہی انسٹی ٹیوٹ قائم کریں اور اس میں یہ واضح کریں کہ اس میں کسی غیر مسلم کا داخلہ نا جائز نہ ہو گا کیونکہ ایک مسلم کا اخلاقی نقطہ نگاہ دوسری قوموں سے مختلف ہوتا ہے.پس یہاں تک تعلیم کا سوال ہے ہماری پوری کوشش ہوگی کہ ہر منہ میں قمت کے لوگوں کے لئے تعلیم حاصل کرنا آسان ہو.اس کالج کے دروازے ہر مذہب و ملت کے لوگوں کے لئے کھلے ہوں اور انہیں ہر ممکن امداد اس انسٹی ٹیوٹ سے فائدہ حاصل کرنے کے لئے دیا جائے.دوسرا پہلو اس کا یہ ہے کہ آجکل کی تعلیم بہت سا اثر مذہب پر بھی ڈالتی ہے.ہم یقین رکھتے ہیں کہ وہ غلط اثر ہوتا ہے کیونکہ وہ مذہب کے خلاف ہوتا ہے.ہم یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ خدا کا فعل اس کے قولی کے خلاف ہوتا ہے نہ ہم یہ ماننے کے لئے تیار ہیں کہ خدا کا قول اس کے فعل کے خلاف ہوتا ہے.ہمیں ایک اور ایک دو کی طرح یقین ہے کہ خواہ ہمارے پاس ایسے ذرائع نہ بھی ہوں جن سے ان اعتراضات کا اسی رنگ میں دفعیہ کیا بجا سکتا ہو جیس رنگ میں وہ اسلام پر گئے بجاتے ہیں یا تین علوم کے ذریعہ وہ اعتراضات کئے بھاتے ہیں انہی علوم کے ذریعہ اُئی اعتراضات کا رد کیا جا سکتا ہو.پھر بھی یہ یقینی بات ہے که خود اهتر اعنات خدا تعالے کی ہستی پر پڑتے ہیں یا جو اعتراضات خدا تعالیٰ کے رسولوں پر
پڑتے ہیں یا جو اعتراضات اسلام کے بیان کردہ عقاید پر پڑتے ہیں وہ تمام اعتراضات غلط ہیں اور یقینا کسی غلط استنباط کا نتیجہ ہیں.چونکہ اس قسم کے اعتراضات کا مرکز کالج ہوتے ہیں اس لئے ہمارے کالج کے قیام کی ایک غرض یہ بھی ہے کہ مذہب پر جو اعتراضات مختلف علوم کے ذریعہ کئے جاتے ہیں ان کا اپنی علوم کے ذریعہ رو کیا جلست اور ہمارے کالج میں جہاں اُن علوم کے پڑھانے پر پروفیسر مقرر ہوں وہاں ان کا ایک یہ کام بھی ہو کہ وہ انہیں سلوم کے ذریعہ ان اعتراضات کو نہ کریں، اور دنیا پہ ثابت کریں کہ اسلام پر تو اعتراضات ان علوم کے نتیجہ میں کئے جاتے ہیں وہ سرتا پا غلط اور بے بنیاد ہیں.میں جہاں دوسرے پر وفیسروں کی غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ ان اعتراضات کو زیادہ سے زیادہ قوی کرتے چلے جائیں وہاں ہمارے پروفیسروں کی غرض یہ ہوگی کہ وہ ان اعتراضات کا زیادہ سے زیادہ مذ کرتے پہلے جائیں.اب تک ہمارے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں تھا جس سے یہ کام سرانجام دیا جا سکتا.انفرادی طور پر ہماری جماعت میں پروفیسر موجود تھے مگر وہ چنداں مفید نہیں ہو سکتے تھے اور نہ ان کے لئے کوئی موقعہ تھا کہ وہ اپنے مقصد اور مدھا کو معتد بہ طور بچہ حاصل کر سکیں.بس یہاں ہمارے کالج کے منتظمین کو اور عملہ کو یہ کوشش کرنی چاہیئے کہ غیر مذاہب کے طالب علم جو داخل ہونے کے لئے آئیں ان کے داخلہ میں کوئی ایسی روک نہ ہو جس کے نتیجہ میں وہ اس کالج کی تعلیم سے فائدہ حاصل نہ کر سکیں وہاں منتظمین کو یہ بھی چاہیئے کہ وہ کالج کے پروفیسروں کے ایسے ادارے بتائیں جوان مختلف قسم کے اعتراضات کو جو مختلف علوم کے ماتحت اسلام پر کئے جاتے ہیں، جمع کریں اور اپنے طور پر ان کو لے کرانے کی کوشش کریں اور ایسے رنگ میں تحقیقات گریں کہ نہ صرفت متلی اور مذہبی طور پر وہ ان اعتراضات کو رد کر سکیں بلکہ خود ان معلوم سے ہی وہ ان کی تردید کردیں.میں نے دیکھا ہے بسا اوقات بعض علوم بور را انچ ہو تے میں محض ان کی ابتدار کی وجہ سے لوگ ان سے ستاتھ ہو جاتے ہیں.خدا کوئی تصوری نکل آئے تو بغیر اس کا ماحول دیکھنے اور بغیر اس کے بالہ اور مالیہ پر کافی غور کرنے کے وہ ان سے مثاثہ ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور سے علمی تحقیق قرار دے دیتے ہیں.مشرق پچھلے سو سال سے ڈارون تھیوری نے انسانی دماغوں
۳۵ پر ایسا قبضہ کرلیا تھا کہ گو اس کا مذہب پر حملہ نہیں تھا مگر لوگوں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ اس تھیوری کی وجہ سے تمام مذاہب باطل ہو گئے ہیں کیونکہ ارتقاء کا مسئلہ ثابت ہو گیا ہے.حالانکہ میں مذہب پر اس تھیوری کا براہ راست حملہ ہو سکتا تھا وہ عیسائیت ہے اسلام پر اس کا کوئی حملہ نہیں ہو سکتا تھا.اسی طرح یہاں تک خدا تعالیٰ کے وجود کا علمی تعلق ہے ارتقاء کے مسئلہ کا مذہب کے خلاف کوئی اثر نہیں تھا.صرف انتہائی حد تک پہنچ کر اس مسئلہ کا بعض صفات الہیہ کے ساتھ ٹکراؤ نظر آتا تھا اور در حقیقت وہ بھی غلط نہی کا نتیجہ تھا.لیکن ایک زمانہ ایسا گذرا ہے جب یہ سمجھا جاتا تھا کہ ڈارون تھیوری کے خلاف کوئی بات کہنا عقل اور سائنس پر حملہ کرنا ہے.مگر اب ہم دیکھتے ہیں آہستہ آہستہ وہی پوروپ جو کسی زمانہ میں ڈارون تھیوریا کا قائل تھا اب اس میں ایک زیر دست کو اس تھیوری کے خلاف پھیل رہی ہے اور اب اس پر نیا حملہ حساب کی طرف سے ہوا ہے.چنانچہ علم حساب کے ماہرین اس طرف آرہے ہیں کہ یہ تھیوری بالکل غلط ہے.مجھے پہلے بھی اس قسم کے رسالے پڑھنے کا موقع ملا تھا مگر گذشتہ دنوں جب میں دھلی گیا تو وہاں مجھے علم حساب کے ایک بہت بڑے ماہر پروفیسر مولو ملے جنہیں پنجاب یونیورسٹی نے بھی پچھلے دنوں لیکچروں کے لئے بلایا تھا اور ان کے پانچ سات لیکچر ہوئے تھے.انہوں نے بتایا تھا کہ علم حساب کی رو سے یہ قطعی طور پر ثابت کیا جا چکا ہے کہ سورج اڑتالیس ہزار سال میں اپنے محور کے گرد چکر لگاتا ہے اور جب وہ اپنے اس چکر کو مکمل کر لیتا ہے تو اس وقت مختلف سیاروں سے مل کر اس کی گرمی اتنی تیز ہو جاتی ہے کہ اس گرمی کے اثر سے کسی وجہ سے اس کے ارد گرد چکر لگانے والے تمام سیارے پچھل کو راکھ ہو جاتے ہیں.میں نے کہا.اگر اڑتالیس ہزار سال میں تمام سیارے سورج کی گرمی سے پگھل کر راکھ ہو جاتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ دنیا کی عمر اس سے زیادہ نہیں ہوتی وہ کہنے لگے بالکل ٹھیک ہے.دنیا کی عمر اس سے زیادہ ہرگز نہیں ہو سکتی.میں نے کہا ابھی ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ یہ علم قطعی طور پر صحیح ہے لیکن اگر آپ کی رائے کو صحیح تسلیم کر لیا جائے..تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ڈارون تھیوری اور جیالوجی کی پرانی تھیوری بالکل باطل ہے وہ کہنے لگے یقیناً باطل ہیں.میں نے کہا.علوم کا اتنا بڑا کمر او آپس میں کسی طرح ہو گیا.انہوں نے کہا وہ تو معلوم ہیں ہی نہیں عقلی ڈھکو سلے ہیں.
۳۶ اور ہم جو کچھ کہتے ہیں علم حساب کی رو سے کہتے ہیں.بہر حال اب ایک ایسی رو چل پڑی ہے کہ وہ بات جس کے متعلق سو سال سے یہ سمجھا جاتا تھا کہ اس کے بغیر علم مکمل ہی نہیں ہو سکتا اب اسی کو رو کرنے والے اور علوم ظاہر ہو رہے ہیں.اسی طرح نیوٹن کی تھیوری جو کشش ثقل کے متعلق تھی ایک لمبے عرصے تک قائم رہی.مگر اب آئن سٹائن کے نظریہ نے اس کا بہت سا حصہ باطل کر دیا ہے.اس سے پتہ لگتا ہے کہ جن باتوں سے دنیا مرعوب ہو جاتی ہے وہ بسا اوقات محض باطل ہوتی ہیں.اور ان کا لوگوں کے دلوں پر اثر نئے علم کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ اپنی جہالت اور کم علمی کی وجہ سے ہوتا ہے.جب دنیا میں ہمیں یہ حالات نظر آرہے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ مسائل جنہوں نے سینکڑوں سال تک دنیا پر حکومت کی ہمارے پروفیسر دلیری سے یہ کوشش نہ کریں کہ بجائے اس کے کہ بعد میں بعض اور علوم ان کو باطل کر دیں ہماری انسٹی ٹیوٹ پہلے ہی ان کا غلط ہو تا ہر کہ دے اور ثابت کر دے کہ اسلام پر ان عادم کے ذریعہ جو حملے کئے جاتے ہیں وہ درست نہیں ہیں اگر وہ کوشش کریں تو میرے نزدیک ان کا اس کام میں کامیاب ہو جانا کوئی مشکل امر نہیں بلکہ بغدا کی مدد سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دین قائم کیا ہے اس کی مدد سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو روشنی لائے ہیں اس کی مدد سے اور احمدیت نے جو ماحول پیدا کیا ہے اس کی مدد سے وہ بہت بھلہ اس میں کامیاب ہو سکتے ہیں اور جو کام اور لوگوں سے دس گنا عرصہ میں بھی نہیں ہو سکتا وہ ہمارے پروفیسر قلیل سے قلیل مدت میں سر انجام دے سکتے ہیں.پس میری عرض کالج کے قیام سے ایک یہ بھی ہے کہ ہمیں ایک ایسا مرکز مل جائے جس میں ہم بیچ کے طور پر ان تمام باتوں کو قائم کر دیں تاکہ آہستہ آہستہ اس بیچ کے ذریعہ ایک ایسا درخت قائم ہو جائے، ایک ایسا نظام قائم ہو جائے، ایک ایسا ماحول قائم ہو جائے بھو اسلام کی مدد کرنے والا ہو جیسے یوروین نظام اسلام کے خلاف حملہ کرنے کے لئے دنیا میں قائم ہے.پس ہمارے کالج سے منتظمین کو مختلف علوم کے پروفیسروں کی ایسی سوسائٹیاں قائم کرنی چاہتیں تین کی عرض یہ ہو کہ اسلام اور احمدیت کے خلاف بڑے بڑے علوم کے ذریعہ جو اختر اعضا کئے جاتے ہیں ان کا دفعیہ انہی علوم کے ذریعہ کریں.اور اگر وہ دیکھیں کہ موجودہ علوم کی مدد سے
ان کا دفعیہ نہیں کیا جا سکتا تو پھر وہ پوائنٹ نوٹ کریں کہ کون کونسی ایسی باتیں ہیں جو موجود و علوم سے مل نہیں ہوتیں اور نہ صرف خود ان پر غور کریں بلکہ کالج کے بالمقابل چونکہ ایک سائنس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ بھی قائم کی گئی ہے اس لئے وہ پر آئنٹ، نوٹ کر کے اس انسٹی ٹیوٹ کو بھجواتے رہیں اور انہیں کہیں کہ تم بھی ان باتوں پر غور کرو اور ہماری مدد کرو کہ کس طرح اسلام کے مطابق ہم ان کی تشریح کر سکتے ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلام ان باتوں کا محتاج نہیں.اسلام وہ مذہب ہے جس کا مدار ایک زندہ خدا پہ ہے پس وہ سائنس کی تحقیقات کا محتاج نہیں.مثلاً وہی پروفیسر مولی حین کا یمیں نے ابھی ذکر کیا ہے.جب مجھے ملے تو انہوں نے بتایا کہ وہ اور نیو یارک کے بعض اور پر تو میر بھی تحقیقات کے بعد اسی نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ اس ساری یونیورس کا ایک مرکز ہے.اس مرکز کا انہوں نے نام بھی لیا تھا جو مجھے صحیح طور پر یاد نہیں رہا.انہوں نے بتایا کہ سارے نظام عالم کا فلاں مرکز ہے جس کے گرد یہ سورج اور اس کے علاوہ اور لاکھوں کروڑوں سورج چکر لگا رہے ہیں اور انہوں نے کہا.میری تھیوری یہ ہے کہ یہی مرکز خدا ہے.گویا اس تحقیق کے ذریعہ ہم خدا کے بھی قائل ہیں.یہ نہیں کہ ہم دہر میت کی طرف مائل ہو گئے ہوں.پہلے سائنس بھدا تعالیٰ کے وجود کو رد کرتی تھی مگر اب ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ اس سارے نظام کا ایک مرکز ہے جو حکومت کر رہا ہے اور دہی مرکز خدا ہے.میں نے کہا.نظام عالم کے ایک مرکز کے متعلق آپ کی ہو تحقیق ہے مجھے اس پر اعتراض نہیں.قرآن کریم سے بھی ثابت ہے کہ دنیا ایک نظام کے ماتحت ہے اور اس کا ایک مرکز ہے.مگر آپ کا یہ کہنا کہ وہی مرکنہ خدا ہے درست نہیں.میں نے ان سے کہا مجھ پر اللہ تعالے کی طرف سے الہامات نازل ہوتے ہیں اور کئی ایسی باتیں ہیں جو اپنے کلام اور الہام کے ذریعہ وہ مجھے قبل از وقت بتا دیتا ہے.آپ بتائیں کہ کیا آپ جس مرکز کو خدا کہتے ہیں وہ بھی کسی پر الہام نازل کو سکتا ہے.وہ کہنے لگے.الہام تو نازل نہیں کر سکتا میں نے کہا تو پھر میں کس طرح تسلیم کرلوں کہ وہی مرکز خدا ہے.مجھے ذاتی طور پر اس بات کا علم ہے کہ خدا مجھ سے باتیں کرتا ہے اور وہ باتیں اپنے وقت پر پوری ہو جاتی ہیں.کوئی بات کچھ مہینے کے لیے اس کا ذکر آگے آرہا ہے (مرتب)
بعد پوری ہو جاتی ہے، کوئی سال کے بعد پوری ہو جاتی ہے ، کوئی دو سال کے بعد پوری ہو جاتی ہے اور اس طرح ثابت ہو جاتا ہے کہ مجھ پر بو الہام نازل ہوتا ہے تعدا کی طرف سے ہی ہوتا ہے.پھر میں نے انہیں مثال دی اور کہا آپ مجھے بتائیں.کیا آپ کا وہ کرہ جسے آپ خدا قرار دیتے ہیں کسی کو یہ بتا سکتا ہے کہ امریکہ کی طرف سے انگلستان کی مدد کے لئے اٹھائیں سو ہوائی جہانہ بھیجوایا جائے گا.وہ کہنے لگے.اس کرہ سے تو کوئی ایسی بات کسی کو نہیں بتائی جا سکتی میں نے کہا تو پھر اتنا پڑے گا کہ اس کمرے اور اسی طرح اور گروں کا خدا کوئی اور ہے یہ خود اپنی ذات میں خدا نہیں ہیں کیونکہ آپ تسلیم کرتے ہیں کہ اس مرکز کے ذریعہ کسی کو کوئی خبر قبل از وقت نہیں پہنچ سکتی.لیکن میں اپنے تجربہ سے بجانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا کلام انبان پر نازل ہوتا ہے جو کئی قسم کی غیب کی خبروں پرمشتمل ہوتا ہے.پس آپ بیشک اس مرکز کو ہی خدا مان لیں لیکن ہم تو ایک علیم و خبیر ہستی کو خدا کہتے ہیں.اس کے اندر قدرت بھی ہوتی ہے.اس کے اندر جیلال بھی ہوتا ہے، اس کے اندر جمال بھی ہوتا ہے.اس کے اندلہ علم بھی ہوتا ہے، اس کے اندر حکمت بھی ہوتی ہے.اس کے اندر بسط کی صفت بھی ہوتی ہے.اس کے اندر بھی ہونے کی صفت بھی ہوتی ہے، اس کے اندر حمیت ہونے کی صفت بھی ہوتی ہے.اس کے اندر علیم ہونے کی صفت بھی ہوتی ہے، اس کے اندر رہین ہونے کی صفت بھی ہوتی ہے.اس کے انڈر واسع ہونے کی صفت بھی ہوتی ہے.غرض بیسیوں قسم کی صفات ہیں جو اس کے اندر پائی جاتی ہیں.اسی طرح اس کا نور ہونا ، اس کا وہاب ہونا ، اس کا شکور ہوتا ، اس کا غفور ہونا اس کا رحیم ہونا، اس کا ورود ہونا ، اس کا کریم ہونا ، اس کا استاد ہوتا اور اسی طرح اور کئی صفات کا اس کے اندر پایا جانا ہم تسلیم کرتے ہیں.کیا یہ صفات اس مرکز میں بھی پائی جاتی نہیں جس کو آپ خدا کہتے ہیں ؟ جب ایک طرف اس کے اندر یہ صفات نہیں پائی جاتیں اور دوسری طرف ہم پر ایک ایسی ہستی کی طرف سے الہام نازل ہوتا ہے جس میں یہ تمام صفات پائی جاتی ہیں جو اپنی ان صفات کو اپنے کلام کے ذریعہ دنیا پر ظاہر کرتا ہے اور با وجود اس کے که ساری دنیا مخالفت کرتی ہے پھر بھی اس کا کلام پورا ہو جاتا ہے اور جو کچھ اس نے کہا ہوتا ہے وہی کچھ دنیا کو دیکھنا پڑتا ہے تو اس ذاتی مشاہدہ کے بعد ہم آپ کی تھیوری کو کس طرح
۳۹ مان سکتے ہیں ؟ اس پر وہ کہنے لگا.اگر یہ باتیں درست ہیں تو پھر نا نا پڑے گا کہ یہ تصویری بابل ہے.اس کلام کے ہوتے ہوئے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کوئی ایسا عقدہ نہیں جس کے تابع یہ تمام مرکز ہو.تو مذہب کے لحاظ سے ہم ان چیزوں کے محتاج نہیں ہیں.ہمارے لئے یہ ضروری نہیں کہ ہم سائنس کے علوم کی مد سے خدا تعالیٰ کو حاصل کریں.بعدا بغیر سائنس کے بھی انسان کو مل جاتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی دیکھ لو.آپ نے نہ فلسفہ پڑھا نہ سائنس پڑھی نہ حساب پڑھا نہ کوئی اور علم سیکھا.مگر پھر خدا آپ سے اس طرح بولا کہ آجتک نہ کسی سائنسدان کو وہ نعمت نصیب ہوئی ہے نہ کسی حساب دان کو وہ نعمت نصیب ہوئی ہے نہ کسی فلسفی کو وہ نعمت نصیب ہوئی ہے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی نہ یہ فلسفہ پڑھا.نہ یہ سائنس پڑھی نہ یہ حساب پڑھا لیکن جس رنگ میں خدا نے آپ سے کلام کیا وہ نہ کسی فلسفہ والے کو نصیب ہوا نہ کسی سائنس والے کو نصیب ہوا نہ کسی حساب والے کو نصیب ہوگا.اسی طرح اب میرے ساتھ جس طرح خدا متواترہ کلام کرنا اور اپنے غیب کی خبریں مجھ پر ظاہر فرماتا ہے یہ نہ سائنس کا نتیجہ ہے نہ فلسفے کا نتیجہ ہے نہ حساب کا نتیجہ ہے.کیونکہ میں نے نہ سائنس پڑھی ہے نہ فلسفہ پڑھا ہے نہ حساب پڑھا ہے.تو ہمیں کسی سائنس یا فلسفہ یا حساب کی مدد کی ضرورت نہیں.بلکہ وہ لوگ جو دن رات ان علوم میں محو رہتے ہیں ان میں سے بھی ایک طبقہ ایسا ہے کہ اگر ہم اس کے سامنے اپنے الہامات پیش کریں اور وہ ان پر غور کرے تو ہمیں امید ہے کہ وہ سمجھ بھائے گا.جیسے پروفیسر مولی جب میرے پاس آیا اور میں نے اس سے سنجیدگی کے ساتھ باتیں کیں تو وہ حقیقت کو سمجھ گیا.اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ واقعہ میں مجھے قبل از وقت الہام کے ذریعہ کئی شیریں دی گئی تھیں جو اپنے وقت پر پوری ہوئیں.اس وجہ سے اس کی راہ میں مشکلات تھیں.لیکن اس نے اتنا ضرور تسلیم کر لیا کہ اگر الہام ثابت ہو جائے تو پھر یہ مان لینا پڑے گا کہ جس تھیوری کو میں پیش کرتا ہوں وہ غلط ہے.جب اس نے الہام کا اسکان تسلیم کر تے ہوئے اپنی تھیوری کو غلط مان لیا تو وہ چین کے سامنے الہام پورے ہوتے ہیں وہ ایسی تھیوری کو کب مان سکتے ہیں.وہ تو ایسے ہی خدا کو مان سکتے ہیں جو قادر ہے، کریم ہے ہمیں ہے، عزینہ ہے،
ہم R سمین ہے ، مجیب ہے ، حفیظ ہے.اسی طرح اور کئی صفات حسنہ کا مالک ہے.اپنی آنکھوں دیکھی چیز کو کون رو کر سکتا ہے.تو سائنس بھی اور فلسفہ بھی اور حساب بھی جہانتک خدا کا تعلق ہے ایک تھیوری سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے.ان کو ماننے والا کہ سکتا ہے کہ شاید یہ غلط ہوں شاید یہ صحیح ہوں.اسے قطعی اور یقینی وثوق ان علوم کی سچائی پر نہیں ہو سکتا لیکن ہمیں خدا تعالے کی ذات پر جو یقین ہے وہ ہر قسم کے شبہات سے بالا تر ہے.وہ یقین ایسا ہی ہے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اے خدا میں سورج کا انکار کر سکتا ہوں.میں اپنے وجود کا انکار کر سکتا ہوں ، مگر جیس طرح تو مجھ پر ظاہر ہوا ہے.میں اس کا کبھی انکار نہیں کر سکتا.یہ وہ یقین ہے جو خدا پر ایمان لانے والوں کو حاصل ہوتا ہے مگر کیا ایسا یقین کسی سائنسدان کو اپنے کسی سائنس کے مسئلہ کی سچائی یہ ہوسکتا ہے.یا کب ایسا یقین کسی حساب ان کو اپنے حساب کے کسی مسلم کی سچائی پر ہو سکتا ہے.پہلے سمجھا جاتا تھا کہ حساب قطعی اور یقینی چیز ہے مگر اب نئی دریافتیں ایسی ہوئی ہیں جن کی وجہ سے حساب کے متعلق بھی شباب است پیدا ہونے شروع ہو گئے ہیں.مگر حساب سے عام سودے والا حساب مراد نہیں.بلکہ وہ حساب مراد ہے جو فلسفہ کی حد تک پہنچا ہوا ہے اور فلسفہ خود مشکوک ہوتا ہے.ہر زمانہ میں جو فلاسفر ظاہر ہوتا ہے ان علوم کا انکار کرنے والا علوم جدیدہ کا منکر قرار دیا جاتا ہے.لیکن انجی پچاس ساٹھ سال نہیں گزرتے کہ ایک اور فلہ فی کھڑا ہو جاتا ہے جو اس پہلے فلاسفر کی تحقیق کو غلط قرار دے دیتا اور نئے نظریات پیش کرنا شروع کر دیتا ہے.اس وقت جو لوگ اس کے نظریات کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں لوگ ان کے متعلق یہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ وہ علوم جدیدہ کے منکر ہیں مگر پچاس ساٹھ سال نہیں گذرتے کہ ایک اور فلاسفر اس تحقیق کو قدیم تحقیق قرار دے کر ایک نئی تحقیق لوگوں کے سامنے پیش کر دیتا ہے اور پہلی تحقیق کو غلط قرار دے دیتا ہے.کیا تم نے کبھی دیکھا ہے کہ خدا کا وجود بھی غلط قرار دیا گیا ہو یا کبھی کوئی نبی ایسا کھڑا ہوا ہو جس نے کہا ہو کہ خدا کے متعلق لوگوں کے دلوں میں ہو خیال پایا جاتا تھا وہ موجودہ تحقیق نے غلط ثابت کر دیا ہے.آدم سے لے کر اب تک ہمیشہ ایسے وجود آتے رہے ہیں جنہوں نے اپنے تجربہ اور مشاہدہ سے دنیا کے سامنے یہ حقیقت پیش کی کہ اس
دنیا کا ایک خدا ہے.پھر دلائل و براہین سے اس کے وجود کو ایسا ثابت کیا کہ دنیا ان دلائلی کا انکار نہ کر سکی.انہوں نے کہا کہ ہم خدا کی طرف سے کھڑے ہوئے ہیں اور خدا کی ہستی کا ثبوت یہ ہے کہ وہ ہمیں کامیاب کرے گا چنانچہ دُنیا نے ان کی مخالفت کی مگر خدا نے ان کو کامیاب کر کے دکھا دیا اور اس طرح ثابت کر دیا کہ اس عالم کا حقیقتاً ایک قادر و مقتدر خدا ہے جو اپنے پیاروں سے کلام کرتا اور مخالف حالات میں ان کو کامیاب کرتا ہے.پس مفدا کے وجود پر انبیاء کی متفقہ گواہی ایک قطعی اور یقینی شہادت ہے جو اس کی ہستی کو ثابت کہ رہی ہے.آیتک کوئی نبی دنیا میں ایسا نہیں آیا جس نے اپنے سے پہلے آنے والے نبی کی تردید کی ہو.ہر سائنسدان پہلے سائنسدان کی تردید کرتا ہے.ہر فلاسفر پہلے فلاسفر کی تردید کرتا ہے.ہر حساب دان پہلے حساب دان کی تردید کرتا ہے.مگر انبیاء کا وجود ایسا ہے کہ ہر نبی جو دنیا میں آتا ہے وہ اپنے سے پہلے آنے والے انبیاء کی تصدیق ہی کرتا ہے.یہ نہیں ہوتا کہ وہ اُن کی تردید کور ہے.وہ ان کی لائی ہوئی صداقتوں کو باطل ثابت کرے.قرآن کریم نے اس حقیقت کو ان الفاظ میں پیش کیا تھا جسے عیسائیوں نے غلطی سے نہ سمجھا اور اعتراض کر دیا کہ مُصین اقا لما معكم یعنی دنیا میں ایک ہی سلسلہ ہے جس میں ہر آنے والا اپنے سے پہلے کی تصدیق کرتا ہے اس کی تکذیب اور تردید نہیں کرتا.آدم سے لے کر حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم تک اور محمد صلے اللہ علیہ وسلم سے لے کر مسیح موعود و تک ایک نبی بھی ایسا نہیں دکھایا جا سکتا جس نے پہلے انبیاء اور ان کی لائی ہوئی صداقتوں کا انکار کیا ہو بلکہ وہ ہمیشہ پہلوں کی تصدیق کرتا ہے لیکن دوسرے تمام علوم چونکہ ظنی ہیں ، وہمی اور خیالی ہیں اس لئے ہر نئی سائنس پہلی سائنس کی تردید کرتی ہے اور ہر نیا فلسفہ پہلے فلسفہ کی تردید کرتا ہے ، ہر نیا حساب پہلے حساب کی تردید کرتا ہے.بیشک انبیاء کی تعلیمیں منسوخ بھی ہوتی ہیں.مگر منسوخ ہونا اور چیز ہے، اور اُن تعلیمیوں کو غلط قرار دینا اور چیز ہے.فلسفہ والے کہتے ہیں کہ فلاں زمانہ میں جو فلسفی گذرا تھا اس کا فلسفہ غلط تھا کیونکہ نئی تحقیقات نے اس کو باطل ثابت کر دیا ہے.سائنسدان کہتے ہیں پہلے سائنسدانوں نے غلطی کی.انہوں نے فلاں فلاں مسائل بالکل غلط بیان کئے تھے.اسی طرح علم حساب کی تحقیق ہوتی ہے.حساب دان یہ کہتے ہیں کہ فلاں حساب دان نے یہ غلطی کی
تھی اور فلاں حساب دان نے وہ غلطی کی تھی لیکن دنیا میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی نبی مبعوث ہوا ہو اور اس نے یہ کہا ہو کہ فلاں نبی نے غلط بات کہی تھی.انبیاء سابقین کی تعلیمیں بیشک منسوخ ہوتی رہی ہیں مگر منسوخ ہونے کے یہ معنے نہیں تھے کہ وہ تعلیمیں غلط تھیں.اُن تعلیموں کے منسوخ ہونے کا صرف اتنا مفہوم ہے کہ وہ تعلیمیں اُس زمانہ کے لئے تھیں بعد کے زمانہ کے لئے نہیں تھیں.پس ہمیں ذاتی طور پر اس بات کی ضرورت نہیں کہ ہم سائنس اور فلسفہ اور حساب اور دوسرے علوم کے ذریعہ اسلام کی صداقت ثابت کریں.اسلام ان سب سے بالا ہے.لیکن چونکہ دنیا میں کچھ لوگ ان وہموں میں مبتلا ہیں اور وہ ان علوم کے رعب کی وجہ سے اسلام کی تائید میں اپنی آواز بلند نہیں کر سکتے اس لئے ان کی ہدایت اور راہنمائی کے لئے ضروری ہے کہ ہم ایسے مرکز کھولیں اور ان کی زبان میں ان سے باتیں کرنے کی کوشش کریں اور انہیں بتائیں که علوم جدیدہ کی نئی تحقیقاتیں بھی اسلام کی موید ہیں.اسلام کی تردید کرنے والی اور اس کو غلط ثابت کرنے والی نہیں ہیں.یہ کام ہے جو ہمارے سامنے ہے چونکہ یہ نیا کام ہے اس لئے ضروری ہے کہ ہمیں اس کام میں وقتیں پیش آئیں.لیکن ایک وقت آئے گا جب آہستہ آہستہ ان علوم کے ذریعہ بھی اسلام کی صداقت دنیا کے کونے کونے میں پھیل جائے گی اور لوگ محسوس کریں گے کہ علوم خواہ کس قدر بڑھ جائیں ، سائنس خواہ کس قدر ترقی کر بجائے اسلام کے کسی مسئلہ پر زد نہیں پڑ سکتی.دنیا میں ہمیشہ دشمن کے قلعہ پر پہلے گولہ باری کی جاتی ہے اور یہ گولہ باری فوج کا بہت بڑا کام ہوتا ہے.لیکن جب گولہ باری کرتے کرتے قلعہ میں سوراخ ہو جاتا ہے تو فوج اس سرعت سے بڑھتی ہے کہ دشمن کے لئے ہتھیار ڈال دینے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں رہتا.ہم نے بھی کفر کے مقابلہ میں ایک بنیاد درکھی ہے اور ہماری مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے پرانے زمانہ کی منجنیقیں اپنے ہاتھ میں لے کر کوئی شخص موجودہ زمانہ کے مضبوط ترین قلعوں کو سر کرنے کی کوشش کرے یا خلیلوں سے دشمن کو شکست دینے کا ارادہ کرے.ہم کو بھی جب دیکھنے والا دیکھتا ہے تو کہتا ہے یہ لوگ کیا کر رہے ہیں.وہ تعظیم انسان قلعے ہو کنکریٹ کے بنے ہوئے ہیں جن کی تعمیر میں بڑے بڑے قیمتی مصالحے صرف ہوئے
۴۳ ہیں جن کو ایلیون پونڈر گنز ) ELEVEN POUNDER GUNS) اور ELE) اور سیون ٹی فائیو ملی میٹر گفت ( SEVENTY FIVE M-M GUNS).بمشکل سر کر سکتی ہیں.ان قلعوں کو وہ ان پتھروں یا غلیلوں سے کس طرح توڑ سکیں گے.مگر ہو خدا کی طرف سے کام ہوتے ہیں وہ اسی طرح ہوتے ہیں.پہلے دنیا ان کو دیکھتی ہے اور کہتی ہے ایسا ہونا نا ممکن ہے.مگر پھر ایک دن ایسا آتا ہے جب وہی دنیا کہتی ہے اس کام نے تو ہونا ہی تھا کیونکہ حالات ہی ایسے پیدا ہو چکے تھے.جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آئے تو لوگوں نے اس وقت یہی کہا کہ ان دعووں کا پورا ہونا نا ممکن ہے.انہوں نے آپ کو مجنون کہا.انہوں نے آپ کے متعلق یہ کہا.اس شخص پر نعوذ باللہ ہمارے بتوں کی لعنت پڑ گئی ہے مگر آج یورپ کے مصنفوں کی کتابیں پڑھ کر دیکھ لو.وہ کہتے ہیں اگر مسلمانوں کے مقابلہ میں قیصر کی حکومت کو شکست ہو گئی.اگر مسلمانوں کے مقابلہ میں کوسری کی حکومت کو شکست ہو گئی.اگر مسلمانوں کے مقابلہ میں دنیا کی قوم نہیں ٹھہر سکی تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں وہ زمانہ ہی ایسا تھا اور اس وقت حالات ہی ایسے پیدا ہو چکے تھے جو محمد صل اللہ علیہ وسلم کی تائید میں تھے.کیا یہ عجیب بات نہیں کہ محمد صلے اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تو آپ کے دعوائے کو پاگل نہیں اور جنون سمجھا جاتا تھا.مگر آج یہ کہا جاتا ہے کہ اگر آپ کے دھوانے کو لوگوں نے تسلیم کہ لیا تو اس میں کون سی عجیب بات ہے.زمانہ کے حالات اس دعوئی کے مطابق تھے اور لوگوں کی طبائع آپ کے عقائد کو تسلیم کرنے کے لئے پہلے ہی تیار ہو چکی تھیں.یہی اسمیت کا حال ہے.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعوی کیا لوگ کہتے تھے کیا مکن ہے کہ یہ شخص دنیا پر فتح حاصل کر سکے.یہ اپنی آئی آپ مر جائے گا.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی تک نے یہ کہہ دیا کہ میں نے ہی اس شخص کو بڑھایا تھا اور اب میں ہی اس کو گراؤں گا (انشافتہ استہ جلد ۱۳ علا حشر) مگر آپ کے سلسلہ کو دن بدن ترقی ہوتی چلی گئی یہانتک کہ وہ شخص جسے قادیان میں بھی لوگ اچھی طرح نہیں جانتے تھے.اس کی سماعت پہلے پنجاب کے مختلف حلقوں میں پھیلنی شروع ہوئی.پھر پنجاب سے بڑھی اور افغانستان میں گئی ، بنگال میں گئی ، بیٹی میں گئی ، دار اس میں گئی ، یو پی میں گئی ، سندھ میں گئی ، بہار میں گئی ، اڑیسہ میں گئی ، ی پی میں گئی ، آسام میں گئی اور پھر اس سے بڑھ کر بیرونی ممالک میں پھیلنی مشروع
ہوئی چنانچہ انگلستان میں احمدیت پھیلی.جرمنی میں احمدیت پھیلی ہنگری میں احمدیت پھیلی ، امریکہ میں احمدیت پھیلی.ارجنٹائن میں احمدیت پھیلی ، یوگوسلاویہ میں احمدیت پھیلی ، البانیہ میں احمدیت پھیلی ، پولینڈ میں احمدیت کھیلی.زیکو سلو ویکیا میں احمدیت پھیلی ، سیرالیون میں احمدیت پھیلی ، گولڈ کوسٹ میں احمدیت پھیلی ، نائیجیریا میں احمدیت پھیلی ، مصر میں احمدیت پھیلی ، مشرقی افریقہ میں احمدیت پھیلی ، ماریشس میں احمدیت پھیلی ، فلسطین میں احمدیت پھیلی ، شام میں احمدیت پھیلی ، روس میں احمدیت پھیلی ، کا شعر میں احمدیت پھیلی ، ایران میں احمدیت پھیلی ، سٹریٹ سیٹلمنٹ میں احمدیت پھیلی ، جاوا میں احمدیت پھیلی ، ملایا میں احمدیت پھیلی ، پین میں احمدیت پھیلی ، جاپان میں احمدیت پھیلی.غرض دنیا کے کناروں تک احمدیت پہنچی اور پھیلی.اور لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ دنیا میں کچھ پاگل لوگ بھی ہوتے ہیں.گر چند پاگلوں نے احمدیت کو مان لیا ہے تو یہ کوئی عجب بات نہیں.مگر ابھی زیادہ زمانہ نہیں گزرے گا کہ دنیا میں احمدیت کی ایسی مضبوط بنیاد قائم ہو جائے گی کہ یہ نہیں کہا جائے گا کہ احمدیت کی فتح کی امید ایک مجنونانہ خیال ہے بلکہ کہا جائے گا کہ احمدیت کو مار دینے کا خیال ایک مجنونانہ خیال ہے.وہ دن دور نہیں کہ وہی لوگ جو آج احمدیت کی ترقی کو ایک ناممکن چیز قرار دے رہے ہیں جب اپنی آنکھوں سے دیکھینگے که احمدیت ترقی کر گئی ہے ، احمدیت ساری دنیا پر چھا گئی ہے ، احمدیت نے روحانی لحاظ سے ایک انقلاب عظیم پیدا کر دیا ہے تو وہی لوگ کہیں گے احمدیت کی کامیابی اور اس کی فتح کوئی معجزہ نہیں.اگما مدربت فتحیاب نہ ہوتی تو کیا ہوتا.اس وقت یورپ اتنا مضمحل ہو چکا تھا.اس وقت انسانی دماغ اتنا پراگندہ ہو چکا تھا.اس وقت سائنس اپنی حد بندیوں کو توڑ کر اسی طرح کا ایک فلسفہ بن چکی تھی کہ اگر احمدیت نے فتح پائی تو یہ کوئی معجزہ نہیں.اس وقت کے حالات ہی اس فتح کو پیدا کر رہے تھے.پس یہ بیج جو ہم بو رہے ہیں ہم جانتے ہیں کہ یہ دنیا میں پھیل کر رہے گا.ہمیں یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ہم امید رکھتے ہیں کہ یہ بیج پھیل جائے گا.ہمیں یہ کہتے کی بھی ضرورت نہیں کہ ہمارا خیال ہے کہ یہ بیچ کبھی ضائع نہیں ہوگا.ہم خدا کی طرف سے مانتے ہیں اور اس بات پر کامل یقین رکھتے ہیں کہ یہ بیج ایسا ہے جس میں سے ایک دن ایسا تناور درخت پیدا ہونے والا
۴۵ ہے جس کے سایہ میں بیٹھنے کے لئے لوگ مجبور ہوں گے اور اگر وہ نہیں بیٹھیں گے تو تپتی دھو میں وہ اپنے دماغوں کو بجھلائیں گے اور انہیں دنیا میں کہیں آرام کی جگہ نہیں ملے گی.پس ہم جانتے ہیں کہ میں راستہ کو ہم نے اختیار کیا ہے وہ ضرور ہمیں کامیابی تک پہنچانے والا ہے کسی خیال کے ماتحت نہیں.کسی وہم اور گمان کے ماتحت نہیں بلکہ اس علیم و خبیر بہتی کے بتانے کی وجہ سے یہ یقین ہمیں حاصل ہوا ہے جو کبھی جھوٹ نہیں بولتی جس کی بتائی ہوئی بات کبھی غلط نہیں ہو سکتی.یہ ہو سکتا ہے کہ جن لوگوں پر اختیار کر کے ہم نے انہیں اس کا لچ میں پروفیسر مقرر کیا ہے اُن میں سے بعض نا اہل ثابت ہوں.مگر اُن کے نا اہل ثابت ہونے کی وجہ سے اس کام میں کوئی نقص واقعہ نہیں ہو سکتا جس طرح دریا کے دھارے کے سامنے پتھر آ جائے تو وہ بہر جاتا ہے مگر دریا کے دھارے کو وہ روک نہیں سکتا.اسی طرح اگر کوئی شخص غلط کام کرتا ہے یا اپنے کام کے لئے کوئی غلط طریق اختیار کرتا ہے ، وہ احمدیت کے دریا کے سامنے کھڑا ہوتا ہے.وہ اپنی تباہی کے آپ سامان پیدا کرتا ہے.وہ مٹ بھائے گا ، مگر میں دریا کو خدا نے چھلایا ہے، جس کی حفاظت کے لئے اس نے اپنے فرشتوں کو آپ مقرر کیا ہے دنیا کی کوئی طاقت اس کے بہاؤ کو روک نہیں سکتی خواہ وہ یورپ کی ہو خواہ وہ امریکہ کی ہو خواہ وہ ایشیاء کی ہوا اور خواہ وہ دنیا کے کسی اور ملک کی ہو.ہمیں نظر آ رہا ہے کہ خدا تعالے کے فرشتے یورپ میں بھی اُتم ر ہے ہیں ، امریکہ میں بھی اُتر ر ہے ہیں، ایشیا میں بھی اُتر رہے ہیں اور ہر شخص جو اس مشن کا مقابلہ کرتا ہے ، ہر شخص جو خدا تعالیٰ کے بھیجے ہوئے پیغام کو رو کرتا ہے وہ اپنی ہلاکت کے آپ سامان کرتا ہے.آج اور کل اور پرسوں اور اترسوں دن گزرتے چلے جائیں گے.زمانہ بدلتا چلا جائے گا ، انقلاب پڑھتا چلا جائے گا اور تغیر وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جائے گا.روز بروزہ اس سلسلہ کی راہ سے روکیں دُور ہوتی جائیں گی روز مرہ وہ یہ دریا زیادہ سے زیادہ فراخ ہوتا چلا جائے گا.دریا کے دہانہ کے پاس ہمیشہ چھوٹے چھوٹے نالے ہوتے ہیں جن پر سے ہر شخص آسانی سے کود کر گذر سکتا ہے.میں نے خود جہلم کے دہانہ کے پاس ایسے نالے دیکھے ہیں اور میں خود بھی ان نالوں پر سے کود کر گزرا ہوں.مگر آہستہ آہستہ دریا ایسا وسیع ہوتا جاتا ہے کہ بڑے بڑے گاؤں اور بڑے بڑے شہر بہا کر لے
جاتا ہے.اسی طرح ابھی ہم دریا کے دہانہ کے قریب ہیں.ایک زمانہ ایسا گذرا ہے جب لوگ ہماری جماعت کے متعلق سمجھتے تھے کہ یہ ایک نالے کی طرح ہے جو شخص چاہے اس پر سے کود کو گزر جائے مگر اب ہم ایک نہر کی طرح بن چکے ہیں.لیکن ایک دن آئے گا جب دُنیا کے بڑے سے بڑے دریا کی وسعت بھی اس کے مقابلہ میں حقیر ہو جائے گی جب اس کا پھیلاؤ اتنا وسیع ہو جائے گا جب اس کا بہاؤ اتنی شدت کا ہوگا کہ دنیا کی کوئی عمارت اور دنیا کا کوئی قلعہ اس کے مقابلہ میں ٹھہر نہیں سکے گا.پس ہمارے پروفیسروں کے سپرو وہ کام ہیں جو خدا اور اس کے فرشتے کہ رہتے ہیں اگر وہ دیانتداری کے ساتھ کام کریں گے تو یقیناً کامیاب ہوں گے اور اگر وہ غلطی کریں گے تو ہم یہی دُعا کریں گے کہ خدا انہیں تو بہ کی توفیق دے اور انہیں محنت سے کام کرنے کی ہمت عطا فرمائے لیکن اگر وہ اپنی اصلاح نہیں کریں گے تو وہ اس سلسلہ کی ترقی میں ہرگز روک نہیں بن سکیں گے جس طرح ایک مچھر بیل کے سینگ پر بیٹھ کر اُسے تھ کا نہیں سکتا، اسی طرح ایسے کمزور انسان احمدیت کو کسی قسم کی تھکاوٹ اور ضعف نہیں پہنچا سکیں گے.جن سوالات کو اس وقت میرے سامنے پیش کیا گیا ہے ان سب کے متعلق میں ابھی فوری طور پر کچھ نہیں کہہ سکتا.لیکن جہانتک لباس کا سوال ہے میری رائے یہ ہے کہ ہمیں تعلیم کو آسان اور سہل الحصول بنانا چاہیے اور کوئی ایسا بوجھ نہیں ڈالنا چاہئیے جیسے طالب علم برداشت نہ کر سکیں تا ایسا نہ ہو کہ غریب لڑکے اس بوجھ کی وجہ سے تعلیم سے محروم رہ جائیں جہانتک کھیلوں کا تعلق ہے مجھے افسوس ہے کہ کالجوں میں بعض ایسی کھیل ہیں اختیار کر لی گئی ہیں جن پر روپیہ بھی صرف ہوتا ہے اور صحت پر بھی وہ بُرا اثر ڈالتی ہیں.میں نے یورپین رسالوں میں پڑھا ہے انگلستان میں کھیلوں کے متعلق ایک کمیٹی مقرر کی گئی تھی میں نے بہت کچھ غور کے بعد یہ رپورٹ پیش کی کہ ہاکی کے کھلاڑیوں میں سیل کا مادہ زیادہ پایا جاتا ہے.یہ تحقیق تو آج کی گئی ہے لیکن میں نے آج سے اکیس سال پہلے اس کی طرف توجہ دلا دی تھی اور میں نے کہا تھا کہ میں ہاکی سے نفرت کرتا ہوں یہ صحت کے لئے مضر ہے اس سے سینہ کمزور ہو جاتا ہے کیونکہ جھک کر کھیلنا پڑتا ہے" (الفضل جلد ا ت ا حث
مور شدہ اور سمیر سہ اسی طرح بعض اور مواقع پر بھی میں توجہ دلاتا رہا ہوں کہ ہا کی قطعی طور پر صحت پر اچھا اثر پیدا نہیں کرتی بلکہ مضر اثر کرتی ہے.ا کی میں ہاتھ جڑے رہتے ہیں اور سانس سینہ میں پھولتا نہیں.اس طرح با وجود کھیلنے کے سینہ چوڑا نہیں ہوتا ) الفضل اور اکتوبر شد) جب میں نے یہ بات کہی اس وقت کسی کے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ ہاکی سے سینہ کمزور ہو کہ سیل کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے مگر اب دوسرے لوگ بھی آہستہ آہستہ اسی طرف آرہے ہیں.عزیزم مرزا ناصر احمد کا ان الفاظ میں کہ وہ تمام تو میں جو انگریز یا انگریزی خون سے تعلق رکھنے والی ہیں ان کھیلوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتیں اور ان کی زیادہ توجہ ایتھلیٹکس ( ATHLETICS) کی طرف رہتی ہے اور اس وجہ سے ان قوموں کے طلباء کی صحتوں پہ کوئی برا اثر نظر نہیں آتا " غالباً جرمنی کی طرف اشارہ ہے جہاں ان کھیلوں پر بہت کم زور دیا جاتا ہے کیونکہ ان کھیلوں کے روپیہ اور وقت زیادہ فرق ہوتا ہے مگر صحت کو کم فائدہ پہنچتا ہے.چنانچہ ان کھیلوں کی بجائے انہوں نے جو دوسری کھیلیں اختیار کی ہیں ان کا صحت پر بھی اچھا اثر پڑتا ہے اور روپیہ بھی کم تخریج ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ دوسری کھیلوں کا رواج اب دن بدن بڑھ رہا ہے.انگریزی مالک میں شاید اسی وجہ سے کہ وہاں گہر زیادہ ہوتی ہے اس قسم کی کھیلوں کی ضرورت سمجھی جاتی ہے جو دوڑ دھوپ والی ہوں لیکن وسطی یورپ یا سینوبی یورپ میں ان کا زیادہ رواج نہیں.میں یورپین کھیلوں میں سب سے کم مصرفٹ بال سمجھتا ہوں کیونکہ اس سے سینہ پر بوجھ نہیں پڑتا بلکہ سینہ چوڑا اور فراخ رہتا ہے.ہا کی میں چونکہ دونوں ہاتھ بند ہوتے ہیں.ادھر سانس سینہ میں پھو لتا نہیں اس لئے ہاکی کے نتیجہ میں اکثر سینہ پہ ایسا بوجھ پڑتا ہے کہ وہ کمزور ہو جاتا ہے.یہی وجہ ہے کہ میں ہمیشہ ہاکی کو فر سمجھتا رہا ہوں.مگر اب چار پانچ سال ہوئے انکار ہے میں ایک کمیشن مقرر کیا گیا تھا جس نے تحقیق کے بعد یہ رپورٹ کی کہ ہاکی پلیئرز میں سیل کا مادہ نسبتا زیادہ دیکھا گیا ہے.
۴۸ بہر حال یہ ایک ابتدائی کام ہے اور جیسا کہ بتایا گیا ہے ایسے لڑکے کالج میں نہیں آئے جو اور بڑے بڑے نمبروں پر پاس ہوئے ہوں.میں سمجھتا ہوں اگر ہمارے پروفیسر کوشش کریں.وَ الثَّانِعَاتِ غرقا کے ماتحت اپنے فرض کی ادائیگی میں پوری طرح منہمک ہو جائیں اور وہ سمجھ ہیں کہ تعلیمی طور پر ( تربیت تعلیم سے باہر نہیں بلکہ تعلیم کے ساتھ ہی شامل ہے، ہم نے اپنی زندگیاں وقف کر دی ہیں اور ہمارا مقصد یہ ہے کہ جو لڑ کے ہمارے ہاں تعلیم پائیں وہ تعلیم میں دوسروں سے اعلیٰ ہوں، وہ تربیت میں دوسروں سے اعلیٰ ہوں وہ اخلاق فاضلہ میں دوسروں سے اعلی ہوں تو یقیناً وہ ان ان گھڑے جو اہرات کو قیمتی ہیروں میں تبدیل کر سکتے ہیں.ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ اخلاص اور تقویٰ اور خدا تعالیٰ کا خوف اپنے دلوں میں پیدا کریں اور لڑکوں کی تعلیمی حالت بھی بہتر بنائیں، ان کی اخلاقی حالت بھی بہتر بنائیں اور ان کی مذہبی حالت بھی بہتر بنائیں.میں اس موقعہ پر اساتذہ اور طلباء دونوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ ہمارا مقصد دوسرے کالجوں سے زیادہ بلند اور اعلیٰ ہے کئی باتیں اس قسم کی ہیں جو دوسرے کا لجوں میں جائز سمجھی جاتی ہیں لیکن ہم اپنے کالج میں ان باتوں کی اجازت نہیں دے سکتے.طلباء کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے افسروں کی کامل اطاعت اور فرماں برداری کریں اور اساتذہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے افسروں کی کامل اطاعت اور فرماں برداری کریں اور ان افسروں کا فرض ہے کہ وہ اپنے سے بڑے افسروں کی کامل اطاعت اور فرماں برداری کریں.اگر کسی شخص کو کوئی شکایت پیدا ہو تو اسلامی طریق کے رُو سے یہ جائز ہے کہ وہ بالا افسر کے پاس اس معاملہ کو پہنچائے اور حقیقت ظاہر کرے اور اگر وہ افسر توجہ سے کام نہ لے تو اس سے بھی بالا افسر کے پاس اپیل کرے.یہ دروازہ شخص کے لئے کھلا ہے اور وہ اس سے پوری طرح فائدہ اٹھا سکتا ہے.ہمارا یہ طریق نہیں کہ جب تک ایجی ٹیشن نہ ہو ہم کسی کی بات نہیں سنتے.ہم صداقت کو ایک ادنیٰ سے ادنی انسان کے منہ سے سن کر بھی قبول کرنے کے لئے تیار ہیں.بلکہ صداقت اگر ایک پو، بڑے کے منہ سے نکلے تو ہم اس کو بھی ماننے کے لئے تیار ہیں.لیکن اگر صداقت نہ ہو تو خواہ سارا کا لج بل کر زور لگائے ہم وہ بات تسلیم کرنے کے لئے کبھی تیار نہیں ہوں گے.پس جو روایت ہمارے سکول میں قائم ہے میں امید کرتا ہوں کہ کالج میں بھی اس کو قائم
۴۹ رکھا جائے گا.احمدی طالب علموں کے متعلق قومیں یقین رکھتا ہوں کہ وہ اس پر پوری طرح قائم رہینگے لیکن چونکہ اس کالج میں دوسرے طالب علم بھی داخل ہوں گے اس لئے میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے احمدی طلباء اپنے امی سے دوسروں کو بھی اس روایت پر قائم رکھنے کی کوشش کریں گے اور کوئی ایسی حرکت نہیں ہونے دیں گے تو کالج کے نظام کے خلاف ہو اور میں سے یہ شبہ پڑھتا ہو کہ زور اور طاقت سے اپنی بات منوانے کی کوشش کی جارہی ہے کیونکہ زور اور طاقت سے ماننے کے لئے یہاں کوئی شخص تیار نہیں ہے.دنیا میں لوگ زور اور طاقت سے اپنے مطالبات منواتے ہیں.مگر وہ اُس وقت منواتے ہیں جب انہیں یقین ہوتا ہے کہ دوسرا فریق زور اور طاقت سے مرعوب ہو جائے گا.اگر انہیں یہ یقین نہ ہو تو وہ زور اور طاقت استعمال کرنے کی برات بھی نہ کریں.واقعہ مشہور ہے ہ کوئی یتیم لڑکا جس کی ماں چکی ہیں ہیں کو گزارہ کیا کرتی تھی ایک درہ اپنی ماں سے کہنے لگا.مجھے و آنے چاہئیں.ماں نے اسے کہا.میرے پاس تو صرف ایک آنہ ہے وہ لیلو، مگر لڑکا مد کرنے لگا اور کہنے لگائیں تو دو آتے ہی لوں گا.وہ لڑکا اس وقت چھت کی منڈیر پر بیٹھا تھا مال کرو کہنے لگا مجھے دو آنے دو ورنہ میں ابھی چھلانگ لگا کر کر بھاؤں گا.اس بیچاری کا ایک ہی لڑکا تھا.وہ اسے ہاتھ جوڑے، منتیں کرے اور بار بار کہے کہ بیٹا ایک آند لے لیے اس سے زیادہ میرے پاس کچھ نہیں مگر وہ یہی کہتا چلا جائے کہ مجھے دو آنے دے نہیں تو میں ابھی چھلانگ لگاتا ہوں.ماں نیچے کھڑی روتی بھائے اور بچہ اوپر بیٹھ کر چھلانگ لگانے کی دھمکی دیتا پھلا جائے اس وقت اتفاقا گلی میں سے کوئی زمیندار گزر رہا تھا.وہ پہلے تو باتیں سنتا رہا.آخر اس نے وہ آلو بیس سے توڑی ہلائی جاتی ہے اور جیسے سالگھا کہتے ہیں نکال کی اس لڑکے کے سامنے کیا اور کہا تو اوپر سے آئیں نیچے سے سانگھا تیرے پیٹ میں ماروں گا.لڑکا یہ سنتے ہی کہنے لگا.نہیں نے چھلانگ تھوڑی لگاتی ہے.میں تو اپنی ماں کو ڈرا رہا تھا.تو اس قسم کی باتیں وہ میں سنی جاتی ہیں جہاں زور اور طاقت سے دوسرے لوگ مرعوب ہو جاتے ہوں لیکن ہم وہ ہیں جنہیں اسلام نے یہ تعلیم دی ہے کہ صداقت خواہ ایک کمزور سے کمز ور ان ان کے منہ سے نکلے سے قبول کر چو اور صداقت کے خلاف کوئی بات قبول میت کے وچا ہے وہ ایک طاقتور کے منہ سے نکل رہی ہو.قادیان سے باہر بیشک ایسی باتیں ہوتی رہتی ہیں.لیکن ہمارے سلسلہ کی کسی
۵۰ انسٹی ٹیوٹ میں اس قسم کی باتیں برداشت نہیں کی جاسکتیں.پس ہمارے نوجوانوں کو خود بھی احمدیت کے نقش قدم پر چلنا چاہیے اور دوسرے نوجوانوں پر بھی واضح کرنا چاہیے کہ یہاں کوئی ایسا طریق برداشت نہیں کیا جا سکتا جو دین کے نعلات ہو اور مذ ہیں روایات کے منافی ہو.ہم نے یہ کالج دین کی تائید کے لئے بتایا ہے.اگر کسی وقت محسوس ہو کہ کالج بجائے دین کی تائید کرنے کے بیدینی کا ایک ذریعہ ثابت ہو رہا ہے تو ہم ہزار گنا یہ زیادہ بہتر سمجھینگے گر اس کا رنچ کو بند کر دیا بجائے اس کے کہ بید بینی اور خلاف مذہب حرکات کو برداشت کریں.اس کالج کے پروفیسروں کو بھی یہ امر مد نظر رکھنا چاہئیے کہ بیرونی دنیا میں عام طور پر صداقت کو اس وقت سیک قبول نہیں کیا جاتا جب تک یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کتنے لوگ اس بات کو پیش کر رہے ہیں.اگر ایک مجتھہ کی طرف سے کوئی بات پیش کی جا رہی ہو تو اسے مان لیتے ہیں.لیکن اگر ایک کمزور انسان کے منہ سے صداقت کی بات نکلے تو اس کی طرفت توبہ نہیں کرتے.ہمیں اس طریق کے خلاف پر عمل کرنا چاہیئے کہ اگر صداقت صرف ایک لڑکے کے منہ سے نکلتی ہے تو ہم اس بات کا انتظار نہ کریں کہ جب تک تو ان کا اس کی تائید میں نہیں ہو گا ہم اُسے نہیں مانیں گے.بلکہ نہیں فوراً وہ بات قبول کر لینی چاہیئے.کیونکہ ملاقات کو قبول کرنے میں ہی برکت ہے اور صداقت کو قبول کرنے سے ہی قومی ترقی ہوتی ہے یہ امر بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ ہمارا طریق سارے کا سارا اسلامی ہوتا چاہیئے.بیشک ہندو، سکھ، عیسائی جو بھی آئیں ہمیں فراخدلی کے ساتھ انہیں خوش آمدید کہنا چاہیے ، مگر جہاں تک اخلاق کا تعلق ہے ہمیں کوشش کرنی چاہیئے کہ ان کے اخلاق سرتا پا مذہب کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ہوں ان کی عادات مذہب کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہوں.ان کے افکار مذہب کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ہوں.ان کے خیالات مذہب کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ہوں.پس جہاں ہمارے پرو فیسر ہو کا یہ کام ہے کہ وہ تعلیم کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دیں وہاں ان کا ایک یہ کام بھی ہے کہ وہ رات دن اسی کام میں لگے رہیں کہ لڑکوں کے اخلاق اور اُن کی عادات اور اُن کے خیالات اور اُن کے افکار ایسے اعلیٰ ہوں کہ دوسروں کے لئے مذہبی لحاظ سے وہ ایک مثال اور نمونہ ہوں.اگر بغدا تعالے کی توحید کا یقین ہم لڑکوں کے دلوں میں پیدا کرتے ہیں تو مہندوؤں اور سکھوں کو اس پر کوئی اختراش نہیں ہو سکتا.کیونکہ ہندہ کبھی بعدا کے قائل ہیں اور سکھ بھی خدا کے قائل ہیں.اگر ہم دہریت
۵۱ کو مٹاتے ہیں.اگر ہم خدا تعالے کی بستی کا یقین لڑکوں کے دلوں میں پیدا کرتے ہیں.اگر ہم بعد اتعالیٰ کی محبت کا درس ان کو دیتے ہیں تو اُن کے ماں باپ یہ شنکر برا نہیں منائیں گے تاکہ خوش ہوں گے کہ ہمارے لڑکے ایسی جگہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں جہاں دنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی مذایبی لحاظ سے بھی تربیت کی جارہی ہے.پس جہانتک توحید کے قیام کا سوال ہے ، یہانتک غریب کی عظمت کا سوال ہے، جہانتک خدا تعالے کی محبت کا سوال ہے مسلمان، ہندو، سکھ، عیسائی سب اس بات کا تو رکھتے ہیں کہ انکو یہ تعلیم دی جائے کیونکہ ان کا اپنا مذ ہب بھی یہی باتیں سکھاتا ہے میرے نزدیک ہمیں ان باتوں پر اس قدر زور دینا چاہیئے کہ ہمارے کالج کا یہ ایک امتیازی نشان بن جائے کہ یہاں سے جو طالب علم بھی پڑھ کر نکلتا ہے وہ تعدا پر پورا یقین رکھتا ہے.وہ اخلاق کی حفاظت کرتا ہے.وہ مذہب کی عظمت کا قائل ہوتا ہے.اگر ایک ہندو یہاں سے بی.اے کی ڈگری لے کر جائے تو اُسے بھی خدا تعالیٰ کی ذات پر پورا یقین ہونا چاہیے.اگر ایک سکھ یہاں سے بی.اے کی ڈگری لے کر بھائے تو اسے بھی بھلا تعالے کی ذات پر پورا یقین ہونا چاہیے.وہ دہریت کے دشمن ہوں.وہ اخلاق سوز حرکات کے دشمن ہوں.وہ مذہب کو ناقابل عمل قرار دینے والوں کے مخالف ہوں اور یورپین اثر سے پوری طرح آزاد ہوں.وہ چاہے احمدیت کو مانتے ہوں یا نہ مانتے ہوں مگر مذہب کی بنیادی باتیں ان کے دلوں میں ایسی راسخ ہوں کہ ان کو وہ کسی طرح چھوڑنے کے لئے تیار نہ ہوں.اسی طرح ہمارے کالج کا ایک امتیازی نشان یہ بھی ہونا چاہیئے کہ اگر ایک عیسائی یا یہودی اس جگہ تعلیم حاصل کرے تو وہ بھی بعد میں یہ نہ کہے کہ سائنس یا حساب یا فلسفہ کے فلان اعتراض سے مذہب باطل ثابت ہوتا ہے بلکہ جب بھی کوئی شخص ان علوم کے ذریعہ اس پر گوئی اعتراض کرے وہ فوراً اس کا جواب دے اور کہے میں ایک ایسی جگہ سے پڑھ کر آیا ہوں.جہاں دلائل و براہین سے یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ اس دنیا کا ایک خدا ہے جو سب پر حکمران ہے میں ایسے اعتراضات کا قائل نہیں ہوں.اگر ہم دہریت کی تمام شاخوں کی قطع و یمیر کر دیں.اگر ہم خدا تعالے کی ہستی کا یقین کانی میں تعلیم پانے لڑکوں کے دلوں میں اس مضبوطی سے پیدا کر دیں کہ دنیا کا کوئی فلسفہ، دنیا کی گھوٹی
۵۲ سائنس اور دُنیا کا کوئی حساب انہیں اس عقیدہ سے منحرف نہ کر سکے تو ہم سمجھیں گے کہ ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے.چونکہ اب شام ہوگئی ہے اس لئے میں اب اپنی تقریر کو ختم کرتا ہوں.لیکن میں آخر میں یہ اضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ہماری نیت یہ ہے کہ جلد سے جلد اس کالج کو نبی.اسے بلکہ ایم.اے تک کوی.پہنچا دیں.اس لئے کالج کے جو پروفیسر مقرر ہوئے ہیں انہیں اپنی تعلیمی قابلیت کو بھی بڑھانے کا فکر کرنا چاہیے اور آئندہ ضروریات کے لئے انہیں ابھی سے اپنے آپ کو تیار کرنا چاہیے تا کہ جب پڑی کلا سر کھولی جائیں تو قواعد کے لحاظ سے اور ضرورت کے لحاظ سے اور تجربہ کے لحاظ سے وہ ان کا سر کو تعلیم دینے کے لئے موزوں ہوں اور اس کام کے اہل ہوں.اور چونکہ ہمارا منشار آگئے بڑھنے کا ہے، اس لئے جہاں کالج کے پروفیسروں کو اپنا تعلیمی معیار بلند کرنا چاہیئے اور اپنے اندر موجودہ قابلیت سے بہت زیادہ قابلیت پیدا کرنی چاہئیے وہاں انہیں یہ امر بھی مد نظر رکھنا چاہئے کہ جب کالج میں وسعت ہو تو جو اچھے اور ہونہار طالب علم ہوں اور دین کا جوش اپنے اندر رکھتے ہوں ان کو اس قابل بنائیں کہ وہ اسلئے نمبروں پر پاس ہوں اور ساتھ ہی ان کے دینی ہوش میں توقی ہوتا کہ جب وہ تعلیم سے فارغ ہوں تو وہ صرف دنیا کماتے ہیں یہی نہ لگ جائیں بلکہ اس کا لچ میں چند نفیسر با لیکچرار کا کام کر کے سلسلہ کی خدمت کر سکیں.میں ایک طرف وہ اعلیٰ درجہ کے زمین اور ہوشیار لڑکوں کے متعلق یہ کوشش کریں کہ وہ اچھے نمبروں پر کامیاب ہوں اور دوسری طرف انہیں اس امر کی طرف توجہ دلائیں کہ جب وہ اپنے تعلیمی مقصد کو حاصل کر لیں تو اس کے بعد اپنی محنت اور دماغی کاوش کا بہترین بدلہ بجائے سونے چاندی کی صورت میں حاصل کرنے کے اس رنگ میں حاصل کریں کہ اپنے آپ کو ملک اور قوم کی خدمت کے لئے وقف کر دیں، اس کے بغیر کالج کا عملہ مکمل نہیں ہو سکتا.میں ایک طرف ہمارے پر وفیسر خود علم بڑھ جانے کی کوشش کریں اور دوسری طرف آئندہ یہ وفیسروں کے لئے ابھی سے سامان پیدا کرنے شروع کر ، اور نوجوانوں سے کہیں کہ وہ قوم کی خدمت کے لئے اپنی زندگیاں وقف کر دیں.پھر خواہ انہیں کالج میں رکھ لیا جائے یا سلسلہ کے کسی اور کام پر لگایا جائے.بہر حال ان کا وجود مفید ثابت ہو سکتا ہے.سکول میں میں نے
۵۳ دیکھا ہے جب افسروں کو اس طرف توجہ دلائی گئی تو اس کے بعد ہمیں سکول میں سے ہی ایسے گئی لڑکے بل گئے جنہوں نے اپنی زندگیاں سلسلہ کی قدامت کے لئے وقف کر دیں.یکیں امید کرتا ہوں کہ یہی طریق کالج میں بھی اختیار کیا جائے گا تا کہ بو طالب علم اس کالج سے تعلیم پا کر نکلیں ان کے متعلق ہمیں کامل یقین ہو کہ وہ تعلیم کے بعد دین کے میدان میں ہی آئیں گے.یہ نہیں ہوگا کہ دنیا کمانے میں مشغول ہو جائیں.اور تاکہ ہم فخر سے کہہ سکیں کہ ہمارے کالج کا ہر طالب علم اپنے آپ کو دینی خدمت کے لئے پیش کر دیتا ہے.صرف ہمارے بچے ہوئے طالب علم ہی دنیا کی طرف جاتے ہیں.کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ خواہ ہم کوئی کام کریں ہماری اصل دوڑ مذہب کی طرف ہی ہونی چاہیئے.اب میں دعا کر دیتا ہوں کہ اللہ تعالے ہماری نیک خواہشات کو پورا فرمائے.اور یہ بیج جو آج اس مقام پر ہم بو رہے ہیں اس سے ایک دن ایسا درخت پیدا ہو جس کی ایک ایک ٹہنی ایک بڑی یونیورسٹی ہو، ایک ایک پتہ کالج ہو اور ایک ایک پھول اشاعت اسلام اور تبلیغ دین کی ایک اعلی درجہ کی بنیاد ہو جس کے ذریعہ گھر اور بدعت دنیا سے مٹ جائے اور اسلام اور احمدیت کی صداقت اور خدا تعالے کی ہستی اور اس کی وحدانیت کا یقین لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو جائے - TAKEN AT ANNAT " فضل عمر سانس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ حضرت سید الصلح الموعود نے تعلیم اسلام کالی کے ساتھ سائنسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی بھی بنیاد رکھی اور اس کی نگرانی کا قیام اور اس کے اعتراض مقاصد چودھری عبدا رد صاحب ایم ایس سی کے سپرد فرمائی.عبدالاحد اس زمانہ میں اس نوعیت کے متعدد تحقیقاتی ادارے قائم تھے.بنگال میں ڈاکٹر بوس کی اسٹی ٹیوٹ تھی.اسی طرح الہ آباد یا بنارس یونیورسٹی کی طرف سے بھی کام ہو رہا تھا یہ گلور میں میسور گورنمنٹ کی طرف سے ایک اسلئے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ تھی.دہلی میں مرکزی حکومت کی انسٹی ٹیوٹ تھی.مگر یہ سب ادارے یا حکومت کی طرت سے جاری تھے یا یونیورسٹیوں کی طرف سے یا ہندوؤں کی طرف سے.کروڑوں کی تعداد میں لینے کی الفضل ۱۳-۱۲-۱۵ - ۱۹ صلح جنوری رش- یہ تقریر تعلیم کا سلام کالج کے قیام کی غرض و غایت ها ( کے عنوان سے الگ بھی چھپ چکی ہے.
۵۴ والے مسلمانوں کا کوئی ایک ادارہ بھی پورے ملک میں موجود نہ تھا جس کی وجہ سے سیدتنا الصلح الموعود کے دل میں ہمیشہ خلش رہتی تھی کہ آخر اس کے قیام کا بھی سامان ہوگیا.اس طرح یہ پہلا سلم ریسرچ انسٹی ٹیوٹ تھا جو اللہ تعالی کے فضل اور حضرت فضل عمر کی توجہ سے بر صغیر میں وجود میں آیا.ینا الصلح الموعود کے مدنظراس عظیم تحقیقاتی مرکز کی تاسیس کا اصل مقصد کیا تھا اور آپ اس کے مستقبل سے متعلق کیا کیا عزائم رکھتے تھے اور کس طرح مغربی فلسفہ کے خلاف اسے ایک مضیح دا اسلحہ تھانہ بتاتا چاہتے تھے اس کا کسی قدر اندازہ حضور کے خطبہ جمعہ کے درج ذیل اقتباس سے ہو سکتا ہے.فرمایا :- ہمارا کالج در حقیقت دنیا کی ان زہروں کے مقابلہ میں ایک تریاق کا حکم رکھتا ہے جو دنیا کے مختلف ملکوں اور مختلف قوموں میں سائنس اور فلسفہ اور دوسرے علوم کے ذریعہ پھیلائی بھیا رہتی ہیں.مگر اس زہر کے ازالہ کے لئے تعالیٰ فلسفہ اور دوسرے علوم کام نہیں آسکتے بلکہ اس فرض کے لئے عملی نتائج کی بھی ضرورت ہے کیونکہ ایک کثیر حصہ سائنس کی ایجادات سے دھوکا کھا گیا ہے اور وہ یہ سمجھنے لگ گیا ہے کہ سائنس کے مشاہدات اور قانون قدرت کی فعلی شہادات اسلام کو باطل ثابت کر رہی ہیں.اسی لئے کالج کے ساتھ ایک سانس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ بھی قائم کی گئی ہے تاکہ بیک وقت ان دونوں ہتھیاروں سے مسلح ہو کر گھر پر حملہ کیا جا سکے.اس انسٹی ٹیوٹ کے قیام پر بھی دو لاکھ روپیہ خریج ہوگا.پہلے سال کا خریچ تو اسی نوے ہزار کے قریب ہے لیکن اگلے سال جب عمارت کو مکمل کیا جائے گا اور سائنس کا سامان اکٹھا کیا جائے گا کم سے کم دو لاکھ روپیہ خرچ ہوگا.پھر سالانہ ستر اتنی ہزار کے خروج سے یہ کام پہلے گا.اس کام کو چلانے کے لئے ہمیں قریباً نہیں آدمی ایسے رکھنے پڑیں گے جنہوں نے سائنس کی اعلی درجہ کی تعلیم حاصل کی ہو.گویا کالج سے بھی زیادہ عملہ اس غرض کے لئے ہمیں رکھنا پڑے گا.کچھ عرصہ کے بعد امید ہے کہ یہ انسٹی ٹیوٹ نخود روپیہ پیدا کرنے کے قابل بھی ہو سکے گی.کیونکہ اس ادارہ میں جب علوم سائنس کی تحقیق کی جائے گی تو انیسی ایجادات بھی کی جائیں گی جو تجارتی دنیا میں کام آسکتی ہیں یا صنعت و حرفت کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اور ان ایجادات کو دنیا کے تجارتی اور صنعتی اداروں کے پاس فروخت کیا جائے گا.ہم ان اداروں سے کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے محکمہ نے یہ یہ ایجادات کی ہیں.اگر تم خریدنا چاہتے ہو تو خرید لو.اس طرح تو ارد پید آئے گا اس کے ذریعہ اس کام کو انشاء اللہ زیادہ سے زیادہ وسیع کیا جا سکے گا م رپورٹ پیلس مشاورت ۱۳۳۳ ش ۱۱۱
۵۵ اسی طرح میرا یہ بھی ارادہ ہے کہ سائنس کی جو ایجادات ایسی مفید ہوں کہ جماعت ان کو اپنے خرچ پر بمباری کر سکتی ہو وہ ایجادات ہم اپنے ہاتھ میں رکھیں گے اور جماعتی خرچ سے ان کو دنیا میں فروغ دیں گے.جیسے ہوزری کا کارخانہ ہے.اس نے ایک لمبے عرصہ تک نقصان اٹھایا مگر اب وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے قریباً سو فیصدی نفع دے سکتا ہے.تمہیں فیصدی نفع تو دے بھی چکا ہے.اسی طرح آہستہ آہستہ سائنس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی ایجادات کے ذریعہ بھی سلسلہ کے مقاصد کی تکمیل کے لئے بہت کچھ روپیہ جمع ہونا شروع ہو جائے گا دنیا میں جس قدر سائنس کی انسٹی ٹیوٹنہ میں ان کے موجد اس لئے ایجادات کرتے ہیں کہ تا اسلام تباہ ہو اور یورپ کا فلسفہ دنیا پر غالب آئے.مگر ہمارے موبعد اس لئے ایجادات کریں گے تا کہ کفر تباہ ہو اور اسلام یورپ کے فلسفہ اور یورپ کے تمدن پر غالب آجائے.یہ لڑائی ہے جو اسلام اور یورپ میں جاری ہے.یہ لڑائی ہے جو احمدیت اور یورپ کا فلسفہ آپس میں لڑنے والے ہیں مزید فرمایا : حضرت پیری موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی کتابوں کو دیکھ لو.آپ نے یہاں اسلامی مسائل کی فوقیت ثابت کرنے کے لئے قرآنی آیات پیش کی ہیں وہاں آپ نے قانون قدرت سے بھی دلائل پیش کئے ہیں اور فرمایا ہے کہ خدا کے کلام کی سچائی کا شاہر خدا کا فعل ہے اور یہ ناممکن ہے کہ بغدا کا قول اور ہو اور اس کا فعل کچھ اور ظاہر کر رہا ہو.ہمارا کام بھی یہی ہے کہ ہم خدا کی تعلی شہادت اسلام اور احمدیت کی تائید میں کالج اور سائنس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ذریعہ دنیا کے سامنے پیش کریں.یہی مقصد کالج کے قیام کا ہے اور یہی مقصد ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے قیام کا ہے جن میں اللہ تعالٰی کے احکام اور اس کی تعلیم کے ماتحت دین کی تائید کو مد نظر رکھتے ہوئے نیچر پہ غور کیا جائیگا تاکہ ہم اسلام کی سچائی کی عملی شہادت دنیا کے سامنے پیش کر سکیں اور یورپ کے لوگوں سے کہہ سکیں کہ آجنگ تم نیچر اور اس کے قدات کی گواہی قرآن کے خلاف پیش کرتے رہے ہو مگریہ بالکل جھوٹ تھا.تم دنیا کو دھوکہ دیتے رہے ہو.تم جھوٹ بول کر لوگوں کو ورغلاتے رہے ہو.آؤ ہم له الفضل ۳۱ ہجرت می مش صفحه ۱۶۰۰ ۶۱۹۴۴
۵۶ تمہیں دکھائیں کہ دنیا کا ذرہ ذرہ قرآن اور اسلام کی تائید کر رہا ہے اور نیچر اپنی عملی شہادت سے محمد صلے اللہ علیہ وسلم کی راستبازی کا اعلان کر رہا ہے.یہ کام بہت خشکل ہے.یہ کام بہت لمبا ہے اور اس کے لئے بہت بڑے سرمایہ کی ضرورت ہے.ابتدائی کام کے لتے ہیں ایم ایس سی ایسے درکار ہوئی جو رات اور دن اس کام میں لگے رہیں اور اسلام کی تائید کے لئے نئی سے نئی تحقیقا تیں کرتے رہیں.میں نے بتایا ہے کہ اس کام پہ ستر ہزار سے ایک لاکھ دو پیہ تک سالانہ خرچ ہو گا اور شروع میں کم سے کم اس غرض کے لئے دو لاکھ روپیہ کی ضرورت ہوگی.یورپ میں تو دو دو چار چار کروڑ روپیہ کے سرمایہ سے ایسے کاموں کا آغاز کیا جاتا ہے اور ممکن ہے ہمیں بھی زیادہ روپیہ خرچ کرنا پڑے" سے افضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا قیام کن مراحل میں سے گزر کر ہوا.اس کی ابتدائی تاریخ ابتدائی تاریخ کیا ہے، شروع میں کیا کیا بنیادی کام ہوئے اور مستقبل کے لئے کیا پروگرام مد نظر تھا ؟ ان سب امور پر ڈاکٹر چودھری عبدالاحمد صاحب کے ایک مفصل مضمون سے تفصیلی روشنی پڑتی ہے.جناب چودھری صاحب لکھتے ہیں :.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالے کے منشاء کے مطابق مشروع شروع میں خاکسار نے مند استان کا دورہ کر کے مختلف یونیورسٹیوں اور سائنس کے اداروں کو دیکھا اور مختلف ماہر کہیں سانس سے ملاقات کی تاکہ میری معلومات میں مزید اضافہ ہو چونکہ حضور کے منشاء کے مطابق ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے کام میں بہت سی توسیع مد نظر تھی.اس لئے یہ ضروری تھا کہ اس کی بلڈنگ اور لیبارٹری یا ہر ایک کھلی جگہ بنائی جائے جس کے لئے زمین کے ایک بڑے رقبہ کی ضرورت تھی.لیکن دوران جنگ ہونکہ پھلی کے لئے (CONNECTION ) حاصل کرتے ہیں مشکلات تھیں اس لئے تعلیم الاسلام کالج کی دوسری منزل پر چند کرکے تعمیر کرنے کی تجویہ پوٹی تا کہ کام فوری طور پر شروع کیا جاسکے.ان کمروں کے نقشے کی تفاصیل تیار کرنے کے بعد تعمیر کا کام کرمی مولوی عبد الرحمن صاحب انور انچارجی تحریک بدید کے سپرد ہوا بجنگ کی وجہ سے عمارت کے لئے ضروری سامان مثلا لوہا، اینٹیں سیمنٹ اور لکڑی وغیرہ کے ملنے میں بہت سی مد افضل ۳۰ هجرت منی له مش مفید به یہ مضمون الفضل - سرامان / ماست وپیش میں مائع تجاه 7180m
مشکلات تھیں لیکن مکرم انور صاحب کی کوششوں اور دوسرے احباب کے تعاون سے یہ کام مختلف مراحل سے گزرتا ہوں جنوری 1919ء میں پاتی کیل پر پہنچا.فرنشنگ فٹنگ اور بجلی کا سامان مہیا کرنے میں بھی بہت سی مشکلات تھیں.دوسرے قادیان میں ماہر کاریگروں کی قلت کی وجہ سے اس کام کو پورا کرنے میں اندازہ سے زیادہ وقت صرف ہوا....جنگ کی وجہ سے پونکہ سامان سائنس کی غیر مالک سے درآمد بند تھی اور ہندوستان کی مشہور فرموں سے بہت کم سامان لمتا تھا اس لئے بیرونی ممالک سے بعض آلات کے حاصل کرنے کے لئے گورنمنٹ سے لائسنس حاصل کر کے انگلستان اور امریکہ سے سامان منگوانے کی کوشش کی گئی.جماعت کی توجہ سائنس کے علوم کی طرف کم تھی اس لئے کام کرنے والوں کی قدرت بہت شدت سے محسوس کی گئی بچنانچہ ان مشکلات کے پیش نظر حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ تعالے بنصرہ العزیز نے پہلے ہی واقفین زندگی کے ایک گروہ کو سائنس کی اصلے تعلیم کے لئے منتخب فرما کو ان کی ٹریننگ کا انتظام کروا دیا تھا.ابتداء میں خاکسار نے صرف ایک کلرک کی امداد سے کام شروع کیا.کچھ عرصہ سے مکر می اقبال احمد صاحب بی ایس سی آنر نہ اور بشارت احمد صاحب بی ایس سی بھی تشریف لے آئے ہیں.ان ہر دو احباب نے ابتدائی تحقیقاتی کام شروع کہ دیا ہے جسے وہ ایم ایس سی کی ڈگری کے لئے پیش کریں گے.انشاء اللہ اکتوبر 9ہ سے عطاء الرحمن صاحب غنی ایم ایس سی امپیریل انسٹی ٹیوٹ دہلی سے تشریف لائے ہیں اور لائیبریری اور لٹریچر کی چھان بین کا کام ان کے سپرد کیا گیا ہے.پانچ مزید دوست مختلف اداروں میں بالترتیب ذیل ایم ایس سی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں.غلام احمد صاب عطا ایگریکلچرل کالج لائل پور میں ہنوں احمد صاحب بنارس یونیورسٹی میں ، سلطان محمود صاحب شاہد ، نصیر احمد خان اور ناصر احمد سیال علی گڑھ یونیورسٹی میں ، ان کے علاوہ محمد عبد اللہ صاحب بی ایس سی انجنیر رنگ اور ناصر احمد صاحب سیال کو عنقریب اعلیٰ تعلیم کے لئے امریکہ بھجوایا جارہا ہے.ان احباب کے علاوہ بہت سے اور نوجوان بھی زندگیاں وقف کر کے سانس کی ابتدائی تعلیم حاصل کر رہے ہیں....ان حالات میں ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا قادیان میں معیاری کرنا اور پھر کام کو جنگ کے ایام میں شروع کر وانا حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر العربية
۵۸ کے اولوالعزم ہونے کا زبردست ثبوت ہے.مجھے یقین ہے کہ اگر حضور ہر مشکل کے وقت ہماری راہنمائی نہ فرماتے تو جنگ کے ایام میں اس کا شروع ہونا قریباً قریباً ناممکن تھا.فصل سوم الیا میں عالم اسلام کا کی تعلیم سیاسی سرگرمیوں کے تین سال قادیان انه احسان جون سه تا احسان خون شم ١٩٢ء جماعت احمدیہ کی یہ مرکزی درسگاہ قادیان کی روح پرور فضا اور زندگی بخش ماحول یا قیم پر صغیر کے باعث صرف تین سال تک جاری رہ سکی.کالج نے اس نہایت قلیل عرصہ میں غیر معمولی ترقی کی اور اس کے ارتقاء کی رفتار حیرت انگیز رہی ورسیدنا الصلح الموعود کی توجہ سے الی نے ان کم کرتی یا صحت وہ تمام اہم خصوصیات حاصل کو نہیں جو دوسرے ترقی یافتہ کا لجوں کو سن بلوغت میں میستر آتی ہیں.اس سہ سالہ دور کے بعض اہم واقعات پڑیں.فرکس اور کیمسٹری کی تجربہ گاہوں کا قیام ۲.طلبہ کی تعلیمی دینی و اخلاقی نگرانی کے مو تر اقدامات.علمی تقریروں کا مفید سلسلہ ۴.طلبہ کالج کے لئے دینی نصاب ۵ مجلس مذهب و سائنس تعلیم الاسلام دلیر چ سوسائٹی ، فضل عمر ہوسٹل کی نئی عمارت کا افتتاح - بی.اے اور ہی.ایس سی کلاستر کا آغاز و فضل عمر و سیر چ انسٹی ٹیوٹ کا افتتاح ۱۰.فضائی تربیت واقعات کے اجمالی تعارف کے بعد اب ان کی تفصیلات پر روشنی ڈالی بھاتی ہے.فرکس اور کمیٹی کی تجربہ گاہوں کا قیام کا ایک ایک اہم زیادی اسلامی نے حضرت صاحبزادہ کالج کا مرزا بشیر احمد صاحب صدر کابل کمیٹی اور دوسرے ادیاب حل و عقد کو بہت مشوش کر رکھا تھا، شعبہ سائنس کی تیاری کا مسئلہ تھا یعنی ار سائنس بلاک دلیکچر روم اور لیبارٹریوں کو جلد از جلد قابل استعمال بنانا ۲.سائنس کے مطلوبہ سامان کی خرید
۵۹ گیس پلانٹ کا انتظام حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے اس کام کی سرانجام دہی کے لئے حضرت سیدنا المصلح الموعود سے براہ راست راہنمائی حاصل کی اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پر سیل تعلیم الاسلام کا لج کو اطلاع دی که " اول گیس پلانٹ کا کام چونکہ زیادہ نازک ہے اور اس میں ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا بھی حصہ ہے اس لئے وہ چوہدری عبد الاحد صاحب کے سپرد رہے.دوم.باقی دو نو کام یعنی (الف) سائنس کے کمروں کو استعمال کے قابل بنانا اور ان کی فٹنگ اور (ب) سائنس کے مطلوبہ سامان وغیرہ کی خرید وہ آپ کے سپرد ہو گی اور آپ مذکورہ کا موں کو اپنی نگرانی میں اپنے عملہ سے کروالیں" سے شعبہ سانس کے تینوں اہم کاموں کی تکمیل کے لئے پہلے سال جو جد وجہد کی گئی.اس کی تفصیل حضرت صاحبزادہ مرتبا ناصر احمد صاحب کی مندرجہ ذیل رپورٹ سے بخوبی مل سکتی ہے.یہ رپورٹ آپ نے مسلح جنوری میں میں حضرت سیدنا الصلح الموعود کی خدمت اقدس میں بھیجوائی تھی.آپ نے تحریر فرمایا.موسمی تعطیلات یعنی ہم کے تک مختلف فرموں کے ساتھ خط و کتابت میں وقت گزر گیا اور ایام تعطیلات میں ، گیس پلانٹ (۲) کیمسٹری اور فزکس کے کمروں کی فٹنگ (۳) لیبارٹری کی فٹنگ (۴) کالج فرنیچر (۵) سائنس کا سامان ، آلات و ادویہ کی خرید (4) دفتر کالج کے عمارتی کام میں تبدیلی کے کام مکرمی رانا عبدالرئن صاحب ناصر کے سپرد کئے گئے جنہوں نے مکرجی چوہدری ۱۹۴۵ برید.عبد الاحد صاحب کے مشورہ سے GAS PLANT کے ۲۳ تک فٹ ہو جانے کے لئے ۶۰۰۰ روپیہ پر ایجوکیشنل سٹور لاہور کے ساتھ فیصلہ کیا اور اس عرصہ میں گیس پلانٹ کے لئے کنواں اور گئیں ہاؤس اور چار دیواری کا کام چوہدری غلام حسین صاحب اوورسیئر کی نگرانی میں مکمل کرایا.مکتوب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب بنام پرنسپل صاحب تعلیم الاسلام کالا قادیان مورخہ یکم احسان بر جوان ۱۰ میش قائل تعلیم الاسلام کا لی قادریان سے منسلک اور سے تعلیم الاسلام کا لج پہلی موسمی تعطیلات کے لئے در و فار جولائی سے لے کو اور تبوک استمبر سرش تک کے لئے بند رہا ہے +
۶۰ سائنس کے مکروں کی فٹنگ کے سلسلہ میں ہو لیکچر رومز تیار کرائے گئے تھے ان میں اینگل آئمان کی ضرورت تھی جس کی خرید میں سخت وقت پیش آئی.کئی مرتبہ لاہور جانا پڑا.چونکہ لوکل کا ریگروں کے لئے یہ کام بالکل نیا تھا یا وجودیکہ ان کو نمونے دکھائے گئے مگر وہ FARMING کا کام بالکل نہ کر سکے اس لئے وہ کام بھی لاہور سے کر وایا گیا.اسی طرح لیبارٹری میں گئیں اور پانی کی نالی کی فٹنگ یہاں کے کا دیگر نہ کر سکے اس لئے لاہور کی ایک قرم کے ساتھ معاہدہ ( AGREEMENT) کر کے کام کی تکمیل کروائی گئی.لیکن گھومنے والے بلیک بورڈ قادیان میں ہی تیار کروا کر کیمسٹری اور فزکس کے کمروں کی فرنشنگ کروائی گئی" کالج کے سیکنڈ ائیر کے لئے روشنی (LGHT) بجلی (ELECTRICITY ) اور مقناطیسی ( MAGNETISM) کا سامان ماه اعضاء و نبوت / اکتوبر و نومبر رش میں پہنچا.طلباء کی دینی تعلیمی اور اخلاقی اور احسان اریون سے میں میں طلبہ کی نگرانی کے لئے بعض اہم ماه اقدامات کئے گئے.مثلاً کالج کے طلبہ کو سات گروپوں میں تقسیم نگرانی کے لئے موثر اقدامات کر کے پروفیسر صاحبان کو گروپ انچارج مقر کر دیا گیا جن کا کام طلبہ کی ہر قسم کی نگرانی اور ان کی ترقی کے معیار کو ہر رنگ اور ہر پہلو میں بند کرنا تھا.نماز ظہر کالج کے تعلیمی وقت کے درمیان آئی تھی جس میں طلباء کی حاضری کی نگرانی کی جاتی تھی.علاوہ ازیں احمدی طلبہ کے لئے جو قادیان کے کسی محلے یا ہوسٹل میں رہتے تھے حضرت خلیفہ اسیح الثانی المصلح الموعود کے درس قرآن میں شمولیت لازمی قرار دے دی گئی.اسی تعلق میں حضرت پرنسپل صاحب کا لج نے یکم نبوت او بر سایت کو یہ خصوصی ہدایت جاری فرمانی که اساتذہ کرام اس بات کا خیال رکھیں کہ آئندہ کوئی طالب علم کلاس میں ننگے سر نہ آئے.اگر کوئی طالب علم اس کی خلاف ورزی کرے تو اس کو کلاس سے باہر نکال دیں جب تک کہ وہ ٹوپی پہن کر نہ آنے سے نے رپورٹ تعلیم الاسلام کا لج " مورخہ ۲۰ را حسان جوان می دغیر مطبوعه) تھے یہ پر معارف درس صلح جنوری ہش سے مسجد مبارک میں بعد نماز عصر ہوتا تھا.۲۱۹۴۵ 静 سے فائل " OFFICE NOTICES
۶۱ کھیلوں کا اجرار اجرا، علاوہ اس امر کے کہ کھیلوں کے بارے میں پنجاب یونیورسٹی کے قواعد بہت سخت تھے اور میں سلسلہ احمدیہ کے مرکزی تعلیمی اداروں میں کھیلوں کو ہمیشہ نمایاں حیثیت حاصل رہی ہے اور یہ اس کی مسلمہ قدیم روایات ہیں.کالج میں کھیلوں کا باضابطہ اجزار دارا احسان جون پر ہی کو ہوا.ایک ہفتہ بعد طلباء کو ان کی استعداد اور شوق کے مطابق مختلف گروپوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے کالج میں پہلا ٹورنا منٹ ماہ تبلیغ فروری ۱۳۲۴ میش کے آخری ہفتہ میں منعقد ہوا ہے ۲۱۹۴۵ علی تقریریں کا یہ سلسلہ افتتاح کالج کے بعد لیہ کے اضافہ معلومات کے لئے ایک سلسلہ تقاریر علمی جاری کیا گیا.اس سلسلہ کی پہلی تقریر آنریل چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے ہر احسان جون ہ ہم کو فرمائی جس میں آپ نے نہایت قیمتی نصائح اور تجاویز سے مستفید فرمایا.۱۳۲۲ صدارت کے فرائض حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ نے انجام دیئے میکے چودھری صاحب کی اس تقریر کے بعد سال رش میں حسب ذیل مقررین نے خطاب فرمایا :- ڈاکٹر سید ریاض الحسن صاحب الخیر انچارج ہائی ایل پروڈکٹس اسسٹنٹ ڈائریکٹر گورنمنٹ ریسر انسٹی ٹیوٹ عزت نگرد بریلی ہے ، مسٹرا ہے.ایک بھٹی ، حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جی کی.مولانا ابو العطاء صاحب ، قاضی محمد نذیر صاحب ہے.نے غیر مطبوعہ رپورٹ تعلیم الاسلام کا لی " مورخہ - بار احسان جون میش و ۲۱۹۴۴ کالج تم مہیش میں تعلیم الاسلام کا لچ سومنگ کلب کے طلباء نے یونیورسٹی اور پنجاب کے تیراکی کے مقابلوں میں 71957 نمایاں کامیابی حاصل کی.ناصر محمود صاحب اور عبدالشکور صاحب نے پچاس اور سنو میٹر کی دوڑ میں یونیورسٹی میں پوزیشن لی.پنجاب چمپین شپ میں کالج کی ریلے ٹیم دوم آئی.اس کی ٹیم نے واٹر پولو میں پہلے گورنمنٹ کالج لاہور کی ٹیم کو شکست دی اور پھر فائنل میں ایچیسن کالج کی ٹیم کو تین کے مقابلہ میں پانچ گول سے ہرا دیا.اور واٹر پولو کی چمچہ ہوا شب ہو.ایچی سن کالج کے پاس تھی تعلیم الاسلام کا لج نے جیت لی الفصل ۲۵ احسان ارجون رامش ما الفضل ۲۰ احسان اچون له مش صفه ۳ کس کے " بفضل به فتح ا دسمبر میش صفحه 1 کالم 1 : شه رپورٹ از ابتداد تا صلح (جنوری ۳ رامش (غیر مطبوعہ) یہ رپورٹ کالج کے ریکارڈ میں موجود ہے؟ ش کے بعض مقررین یہ تھے.عبدالسلام صاحب اختر ایم اے ، میجر رچرڈس دیکر ڈنگ آفیسر ناردرن ایم یا ریش.میں مشہور ریاضی دان پر و فیسر مارول صاحب ایف آر ایس (کیمبرج) حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب نیترض، مسٹر ا و اینک کے سپلیٹ (لنڈن سکول آف اکنامکس میں جغرافیہ کے پروفیسر نے طلبہ سے خطاب کیا رہ تفصیل مورخہ در اصلح اسنوری پوش دا کا بیمار امان مادر پیش ماکت، ۲۵ صلح جنوری اش ۱ ۱۲۸۰ صلح / جنوری مش مت کا /
۶۲ طلبہ میں اردو اور انگریزی میں تقریر کا ملکہ پیدا کرنے کے لیئے اخوند عبد القادر صاحب کالج یونین کی بنیاد ہے.اس کی زیر نگرانی پیش کے دوران ہی کالج یونین قائم کی گئی ہے اسی طرح ایکٹنگ کلب اور بعض اور سوسائٹیوں کا قیام بھی مل میں لایا گیا ہے مجلس تعلیم نے سیدنا حضرت الصلح الموعود کی منظوری کے بعد سرو فار جولائی احمدی طلبہ کیلئے دینی نصاب سے مشن کو انٹریٹر یٹ کلاس کے احمدی طلبہ کے لئے حسب ذیل دینی نصاب مقدر کی جا قرآن شریف ناظرہ مع ایسے ترجمہ کے جو اس کے مطالب کو واضح کرنے والا ہو حفظ ربع آخر پارہ ہم ۲- حديث عمدة الاحكام ے رپورٹ تعلیم الاسلام کالی به مش (غیر مطبوعہ) * یش میں کالج کی ہائیکنگ پارٹی چودھری محمد علی صاحب ایم.اے کی قیادت میں پانگی (ریاست چمبہ کے علاقہ میں گئی.یہ پارٹی حسب پروگرام از وفار جولائی کو قادیان سے روانہ ہوئی اور و ظہور / اگست کو بخیریت واپس پہنچی.اس ہندو ریاست میں طلبہ سے نہایت تنگدلانہ اور متعصبانہ سلوک روا رکھا گیا.جس کی مفصل اطلاع چودھری صاحب نے حضرت امیر المومنین المصلح الموعود کے تصور بھی کر دی چنانچہ انہوں نے لکھی " حضور کے خدام کا لج ہائیکنگ پارٹی اس وقت کھنڈر پانگی میں چار روز سے ٹھیرے ہوئے ہیں.اس جگہ سارے پانی میں جہانتک خاکسار کے علم کا تعلق ہے میر ایک سنار مسلمان ہے.باقی سب کٹر ہندو ہیں.یہاں پر ایک بنگالی " سوامی بھی “ ہیں.انہوں نے ہمارے راشن اور قلیوں کی فراہمی میں سخت وقت پیدا کی ہے.یہاں سرکاری ڈپو ہے اور آٹا وغیرہ یہاں سے ملتا ہے.لیکن پہلے ہی دن سوامی جی نے خود اگر فریو والے کو ہمیں آٹا دینے سے روک دیا.سوامی جی کا لوگوں میں بہت رسوخ ہے.یہاں تک کہ سرکاری ملازمین اور افسروں کا راشن بھی بعض اوقات بند کر دیتے ہیں.یہاں پر کچھ آریہ سماجی بھی آئے ہوئے ہیں وہ بھی شرارت کر رہے ہیں.پارٹی کا پروگرام ٹوٹ رہا ہے اور جب تک راشن نہ ہی واپس آنا سخت مشکل ہے.پانگی کی چڑھائی اور میل با میل برف پر چلنے کی وجہ سے اور بارش میں بھیگ جانے کے باعث اور خوراک کی قلت کے سبب پارٹی کے اکثر ممبر بیمار ہو چکے ہیں.اگرچہ یہاں ہسپتال ہے اور ڈاکٹر صاحب جو نہایت شریف آدمی ہیں ہماری مدد کر رہے ہیں اور ہمارے اپنے پاس بھی کچھ دوائیاں ہیں پھر بھی پانگی کا راستہ واپس ملے کرنا مشکل ہے جبتک پورا سامان خوراک نہ ہو اور قلی نہ ہوں.قلبیوں کو بھی سوامی جی نے بہکا دیا ہے.یہاں لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ لوگ ہمارا دھرم بھرشٹ کرنے آئے ہیں" (الفضل ۱۲ ظهور اگست ) چودھری محمد علی صاحب کا بیان ہے کہ "جب ہم واپس ڈلہوزی پہنچے تو حضور رضی اللہ تعالے کی خدمت میں اطلاع بھیجی حضور بلا توقف، بے تابانہ ، ایک ہاتھ میں قلم ، ایک میں کاغذ ، پیشانی مبارک پر چشمہ تنگے سر ننگے پاؤں سیڑھیوں کے پاس تشریف لے آئے.ہم دوڑ کر حضور کی خدمت میں پہنچے.سلام عرض کرنے کی سعادت حاصل کی اور حضور اسی حالت میں حالات دریافت فرماتے رہے " ہے سے رجسٹر کا رروائی مجلس تعلیم قرار داد ۰۵۵۱۵۴ 91904
уры -۳- کلام - نزول مسیح کشتی نوح - ترجمه الباب الخیار احمدیت یعنی حقیقی اسلام - همارا خدا ۴.ایسے احمدی طلبار جو باہر سے آئے ہوئے ہونے کی وجہ سے اوپر کا نصاب نہ سمجھ سکتے ہوں یا پورا نہ کر سکتے ہوں اُن کے لئے مندرجہ ذیل نصاب ہوگا :- (العت) قرآن شریف ناظره و قرآن شریعت با ترجمه تا آخر سوره توبه و ترجمه نماز (ب) حدیث - نبراس المومنین (ج) کلام - نزول اسیج کشتی نوح - ترجمہ لباب الخیرالله احمدیت حتی حقیقی اسلام - همارا خدا ۵.باہر سے آنے والے طلباء میں سے جو اس نصاب کو نہ لیں اُن کے لئے حسب ذیل عام اسلامی تاریخ کا نصاب ہوگا :- سیرت خاتم النبیین حصہ اول ایڈیشن ثانی ، مختصر تاریخ اسلام مصنفہ شاہ معین الدین ندوی اعظم گڑھ ، اردو ترجمہ لباب الختيار ، سوانح حضرت محمد صاحب مصنفہ شروعے پر کاش صاحب کے تعلیم الاسلام کالج پنجاب ونویسی تعلیم امام مالک کو پہلے ہی سال پورے صوبہ بلکہ ملک ھر میں جو شہرت نصیب ہوئی اس کا نہایت خوشگوار اثر صوبائی ہے کی اکیڈ میک کونسل میں کیا ہو یہ کہا انٹرمیڈیٹ کا کے پرنسپل صاحبان نے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو متفقہ طور پر سال ۴۶ - ۱۹۴۵ء کے لئے یونیورسٹی کی اکیڈیمک کونسل کا ممبر منتخب کر لیا اور پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے آپ کو اور جنوری ۱۹۴۵ کالجوں پر یہ پیڑا کہ پنجاب یونیورسٹی کے تمام انٹرمیڈیٹ کا لجوں کے کو یہ اطلاع بھی مل گئی ہے " ۱۱۹۴۵ شده رساله مجلس تعلیم صفحه ۵۱-۵۲ شائع کردہ مجلس تعلیم قادیان افتح دسمبر میشه لے اس نصاب کا پہلا امتحان دیش کے شروع میں ہوا جس کا نتیجه الفضل " یکم امان / مادر لا مش مست پرین زایش متا پر شائع شده به کل ۳۳ طیارہ کامیاب ہوئے خبر سمیح صاحب تون را در همه حال ایڈووکیٹ سرگودھا) اور فضل اپنی صاحب انوری (سابق مبلغ جو منی محال مبالغ نائیجیریا، بالترتیب اول و دوم قرار پائے.امتحان پاس کرنے والے دوسرے طلبہ کے نام : محمد امین صاحب (حال لندن سعید احمد صاحب اعوان ، چوہدری فیض احمد صاحب ، عبد الكريم صاحب شیخ بہاء اللہ صاحب رحال ساہیوال قریشی ہارون الرشید صاحب ارشد، سید منیر احمد صاحب ، تخلیل احمد صابی یشاوری صلاح الدین صاحب ناصر (بنگالی)، محمد ظہیر الدین صاحب، الطاف حسین صاحب ، سید شفیق الحسن صاحب ، مسعود احمد صاحب شیخ نصیر الدین صاحب ( ابن حضرت ڈاکٹر بدرالدین صاحب به غیر احمد صاحب، غلام احمد صاحب (گجراتی)، محمود احمد صا عبد اللطیف صاحب ملتانی ، چوہدری مختار احمد صاحب (حال سرگودها، عبد الحمید صاحب سعید حیدر آبادی، سلیم الدین صادر مرحوم میتونی سے "الفضل " در صلح (جنوری ، تخانہ بحال حال وائس پرنسپل گورنمنٹ کا لی جڑانوالہ ، سردار منور احمد خالصان، چوہدری نذیر احمد صاحب، نتقل میگم امان / مارچ :
۶۴ مجلس مصیبت سائنس کا قیام سید نا حضرت تخلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود نے ماہ تبلیغ ضروری ہے کاقیام میں قیام کالج کے بعد جماعت احمدیہ میں اعلیٰ علیمی، مذہبی اور سائنٹفک.قان تحقیق کا مذاق پیدا کرنے کے لئے مجلس مذہب و سائنس کے نام سے ایک اہم مجلس کی تاسیس فرمائی.جس کا صدر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو نامزد فرمایا.حضرت میاں صاحب نے مجلس کا کام پھلانے کے لئے حسب ذیل عہدیدار مقرر فرمائے.۱- نائب صدر : حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پر نسپل تعلیم الاسلام کا لج قادیان -۲- تانگہ نائب صدر مولانا ابو العطاء صاحب پر نسپل جامعہ احمدیہ قادیان : -۳- جنرل سکرٹری : چودھری عبدالاحد صاحب ایم ایس سی.پی ایچھے ڈی.نائب سکرٹری : چودھری خلیل احمد صاحب ناصر بی اے و عبد السلام صاحب اختر ایم اے ۵ اینچاری لائیبریری : پروفیسر عطاء الرحمن صاحب غنی ایم ایس سی - ایڈیٹر حصہ انگریزی : ملک غلام فرید صاحب ایم.اے ایڈیٹر حصہ اردو : چودھری تخلیل احمد صاحب ناصر بی.اسے لے مجلس کے بنیادی مقاصد یہ تھے کہ سائنس ، فلسفہ ، اقتصادیات، عمرانیات اور دوسرے علوم جدیدہ کی طرف سے مذہب پر عموماً اور اسلام پر خصوصاً ہونے والے اعتراضات کی اعلی علمی سطح پر تحقیق کی جائے.اس غرض کے لئے چار سب کمیٹیوں کی تشکیل کی گئی.سب کمیٹی مذہب سب کمیٹی سائنس، سب کمیٹی فلسفہ اور سب کمیٹی اقتصادیات، پولیٹکل سائنس اور سوشیالوجی وغیرہ.ان سب کمیٹیوں کے سکرٹری بالترتیب مولانا ابو العطاء صاحب ، ڈاکٹر عبدالاحد صاحب ایم ایس سی.پی ایچ ڈی ، چوہدری محمود علی صاحب ایم اے اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب تجویز ہوئے.مجلس کا پہلا پبلک جلسہ ۲۹ امان / مارچ پر پیش کو مسجد اقصی میں منعقد ہوا جس میں حضرت ۲۱۹۷۵ صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے نہایت لطیف پیرایہ میں مجلس کی اہمیت و ضرورت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا :- سلسلہ احمدیہ کے کام کا دائرہ اب آہستہ آہستہ بہت وسعت اختیار کرتا جارہا ہے.جس " الفضل" تبليغ / فروری ۳ کیلو مش صفحه ۰۶ ۱۹۴۵
۶۵ " طرح سمندر میں پہلے ایک لہر اٹھتی ہے، پھر دوسری - اور پھر تیسری اور اس طرح پہروں کا مطلقہ وسیع ہوتا جاتا ہے اسی طرح خدائی سلسلہ بھی روز بروز بڑھتا ہے اور اپنے حلقہ کو وسیع کرتا جاتا ہے.شروع میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسّلام کے زمانہ میں ہماری ابتدائی بحث قریباً نوے فیصدی وفات مسیح کے مسئلہ پر ہوا کرتی تھی.پھر صداقت مسیح موعود کے مسئلہ پر زور شروع ہوا.پھر نبوت کے مسائل پر بحث کا دور آیا اور ساتھ ساتھ دوسری قوموں کے ساتھ مقابلہ بڑھتا گیا.اور اب آہستہ آہستہ اللہ تعالے وہ وقت لا رہا ہے جب کہ احمدیت کا ساری دنیا کے ساتھ ٹکراؤ ہونے والا ہے اور اس کے نتیجہ میں ہی اسے انشاء اللہ عالمگیر فتح حاصل ہوگی.اس وقت ہمارے لئے معین مذہبی تعلیمات کو چھوڑ کر تین مقابلے درپیش ہیں.ان میں سے بعض تو حقیقی ہیں اور بعض خیالی لیکن بہر حال ان تینوں کا مقابلہ کرنا اس مجلس کا کام ہے.پہلا دائی کیو اقتصادیات کا دائرہ ہے ایک عملی دائرہ ہے جس کا اسلام اور احمدیت سے بھاری مقابلہ ہے.ہمیں اس کے مقابلہ پر وہ نظام پیش کرنا ہے جو اسلام پیش کرتا ہے اور اسے غالب کر کے دکھانا ہے.دوسرا دائرہ جو فلسفہ سے تعلق رکھتا ہے ایک قولی مقابلہ ہے.یہ لوگ فلسفے کے چند نظریئے پیش کرتے ہیں جو بعض صورتوں میں اسلامی تعلیموں کے ساتھ سخت ٹکراتے ہیں.ہمیں اس کے مقابلہ میں اسلام کے نظریے پیش کرنے اور ان کی فوقیت ثابت کرنی ہے.تیسرا حلقہ سائنس کا ہے.اس حلقہ کا مذہب کے ساتھ کوئی حقیقی ٹکراؤ نہیں ہے.کیونکہ جیسا کہ حضرت میں موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے سائنس خدا کا فعل ہے اور مذہب خدا کا قول ہے مگر چونکہ بعض لوگ کو تاہ بینی کی وجہ سے غیر ثابت شدہ حقائق کو ثابت شده متقائق سمجھ کر اعتراض کر دیتے ہیں.اس لئے اس کے مقابلہ کی بھی ضرورت ہے.و یقین تارے ہی ایک ملی در ای ی ی ی ی ی ی ی ی ی ی حقیقی جن کے مقالہ کے لئے یہ مجلس مذہب و سائنس قائم ہوئی ہے اسے مجلس نے اپنے قیام کے بعد سب سے پہلے خصوصی تو یہ دو امور پر مرکوز کردی..اعجدید علوم کی طرف سے اسلام اور مذہب پر وارد ہونے والے اعتراضات کی مکمل فہرست الفضل " ۲۵ شہادت / اپریل میں صفحہ ۳ پر مکمل تقر یہ دریح ہے ؟ >1970
५५ علوم جدیدہ کے لڈیچر کی مکمل فہرست مجلس نے ابتدا ہی میں موجودہ دنیا کے اہم ترین علمی مضامین کی تحقیق کے لئے مندر در ذیل اہل علم و فہم کی خدمات حاصل کر لیں :- مقرر :- ملک غلام فرید صاحب ایم.اے - حضرت ما ظهر مادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایم.اپنے پر و تفسیر محمد علی صاحب ایم.اسے موضوع تاریخ خطاب دنیا کی موجودہ تحریکیں ۱۹ زمان امدادی کا ۳۰ ۳۲۴ ۲۱۹۴۵ مریل است اشتراکیت اور مذہب ار شاتر را پای ما علم النفس کے جدید نظریے اس پر مٹی ہے چودھری عبد الاحد صاحب ایم ایس سی، پی ایچ ڈی نظام کائنات اور سانس کی محدود بر وفق ابولانی است 4 ہے.ڈاکٹر پی.کے کھلو صاحب پروفیسر طبعیات گورنمنٹ کالج لاہور.ڈاکٹر میلا رام صاحب پروفیسر طبعیات ایف سی کا رخ نا ہوئے.زندہ اشیاء کے خواص اور زندگی کی اہمیت" یکم نیو تا نومبر ۲۳ را است ۲۷ احتسارجون له ۱۳۵ جوہری توانائی " رفتم دسمبر ۲۵ است "زمین کی عمر " رفتم اومبر ۳۲۵ و ڈاکٹر آسکر یہ فکر صاحب (ڈی.ایسی بنی) "مذہب اور سائنس" پہلی تین تقاریہ کے سوا جن میں بالترتیب حضرت مرزا بشیر احمد صاحب حضرت مولوی شیر علی صاحب اور مولوی ابوالعطاء صاحب نے صدارت کے فرائض انجام دیئے باقی سب اجلاسوں میں سیدنا المصلح الموعود بنفس نفیس رونق افروز رہے اور حضور نے اپنے بیش قیمت ارشادات سے مستفیض فرمایا.کے " الفصل" ۲۰ رامان / مارچ میشم + ✔ a ت " الفصل" در وقار جولائی ۱۳۳۵ ش ص ۳۲۳ هار فتح ا دسمبر ایه ماك + ماكة من کو ,19.فرجی نیز + ما * " شہادت اپریل ر احسان جون در وفا / جولائی هر نبوت / نومبر Po Pz Pe
42 مجلس مذہب و سائنس کے زیراہتمام پہلے آٹھ لیکچر مسجد اقصی میں دیئے گئے اور نوال لیکچر مسجد مدرک میں ہوا.یہ مجلس تقسیم ہند تک قائم رہی اور اپنے دائی عمل میں نہایت قابل قدر اور مفید علمی خدمات سر انجام دیتی رہی.ستند تا المصلح الموعود کے ارشاد پر " مجلس مذہب و سائنس" تعلیم اسلام ریسرچ سوسائٹی کی بنیاد کے علاوہ مدار صلح جنوری میش کو " تعلیم الاسلام ۱۹۴۵ ریسرچ سوسائٹی بھی قائم کی گئی جس کے بنیادی اغراض و مقاصد یہ تھے کہ طلباء اور اساتذہ دونوں میں تحقیقاتی اور علمی مذاق پیدا کیا جائے اور ان اعتراضات کے متعلق جو مذہب پر عموماً اور اسلام پر خصوصاً سائنس اور دیگر علوم کی بناء پر کئے جاتے ہیں پوری تحقیقات کر کے ان کا رد کیا بجائے سو سائٹی کی دوست نہیں تجویز کی گئیں.(الف) سائنس سیکشن (ب) آرٹس سیکشن اس علمی اور تحقیقاتی مجلس کے صدر حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب (پرنسپل اور سر ریت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب (صدر کالج کمیٹی تھے.اور اس کے قواعد میں یہ بات شامل تھی کہ یہ سوسائٹی فضل عمر سائنٹفک اینڈ ریلیجیں سوسائٹی کے لئے جس کا نام مجلس مذہب سانس" دیکھا گیا، پودوں کے ذخیرہ ( NIASERY) کے طور پر کام کرے گی.یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ کالا ہی نہیں ، ویلی فنڈ، صدر انجمین احمدیہ اور عطیہ بھات سے اس کے اخراجات پورے کرنے کی کوشش کی جائے گی فضل عمر پوسٹل کی نئی فضل عمر پوسٹل عارضی طور پر گیسٹ ہاؤس میں قائم ہوچکا تھا.گر ضرورت اس امرکی بھی کہ اسے کالج کمیٹی کے طے شدہ پروگرام کے مطابق جامعہ احمدیہ عمارت کا افتتاح کی عمارت میں منتقل کر دیا جائے.یہ جگہ تعلیم الاسلام کا بیچ سے بالکل متصل غربی جانب واقع تھی اور تلاقت اولی کے زمانہ میں مولوی محمد علی صاحب ایم.اے کی رہائش گاہ اور دفتر تفسیر القرآن کے طور پر استعمال ہوتی تھی.یہ عمارت بہت سے تعمیری اضافوں اور تبدیلیوں کے بعد ماہ اتحاد / اکتوبر میں ہوسٹل کی صورت میں تبدیل کر دی گئی اور حضرت امیر المومنین المصلح الموعود نے اس کا افتتاح اسی ماہ ۲۷ اخطار / اکتوبر کو نماند عصر کے بعد فرمایا.اس تقریب پر چوہدری محمد علی صاحب ایم.اے سپرنٹنڈنٹ فضل عمر ہوسٹل نے پہلے ایک ایڈریس
ЧА پلیش کیا جس کی ابتداء میں کہا :- " آج سے ۳۱ سال پہلے جبکہ منکرین مخلافت بعدا کے رسول کی تخت گاہ چھوڑ رہے تھے تو اُن میں سے ایک نے تعلیم الاسلام ہائی سکول کی عمارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آج سے دس سال کے بعد اس بلڈنگ پر عیسائیوں کا قبضہ ہو جائے گا لیکن اللہ تعالٰی نے اپنے وعدے کے موافق مصلح موجود کے مبارک دور میں جماعت کو ترقی پر ترقی عطا فرمائی.وہ بلڈنگ جس کے متعلق یہ بات کہی گئی تھی.اس کو بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے نوازا.اور سکول کی بجائے اسے کالج کی بلڈنگ میں تبدیل کر دیا.فالحمد للہ ملنے والک.یہ جگہ جہاں موجودہ ہوسٹل کی تعمیر ہوئی ہے، یہ وہ جگہ ہے جہاں منکرین خلافت کے امیر رہا کرتے تھے لیکن آج ان کی کوٹھی کالج کے ہوٹل میں تبدیل ہو گئی ہے.یہ سب باتیں ہمارے ہم حضور سے درخواست کرتے ہیں کہ حضور ڈھا رہا ہوں لئے نشان ہیں..کہ اللہ تعالئے ہر برے اثر کو اس میگہ سے دور کرے اور اپنی برکات کی بارش سے سیراب کرے.اس ایڈریس کے بعد حضرت امیر المومنین المصلح الموعود نے ایک نہایت مروح پرور اور وجد آفریں تقریبہ فرمائی جس کا آغاز ان الفاظ سے کیا کہ " سپرنٹنڈنٹ صاحب ہوش تعلیم الاسلام کا لج نے ایک پرانے واقعہ کی طرف اپنے ایڈریس میں اشارہ کیا ہے.آپ لوگ اس واقعہ کی طرف اشارہ کرنے والے اور تاریخی طور پر اسے یاد رکھنے والے اس کیفیت کا اندازہ نہیں کر سکتے ہو کیفیت آج سے ۳۲ سال پہلے ماریہ میں قادیان کے لوگوں پر طاری ہوئی تھی.اس وقت کی قادیان آج زالی قادیان نہ تھی جتنے محلے قصبہ سے باہر آج آباد نظر آتے ہیں ان میں سے کوئی بھی نہ تھا.قادیان کی آبادی اس وقت قریب قریباً اتنی ہی ہو گی جتنی اس وقت کالج اور اس کے متعلقین کی تعداد ہے.قصبہ کے باہر جتنے مکانات نظر آتے ہیں سوائے سکول کے اور سوائے مسجد نور اور مولوی میں میانی صاحب کی، اس کو بھٹی کے جس کی طرف سپرنٹنڈنٹ صاحب نے اشارہ کیا ہے.باقی تمام جنگل ہی جنگل تھا.اس وقت یہ سوال محبت کے سامنے آیا کہ کیا اپنے اصول پر قائم رہ گر کا برین جماعت کا مقابلہ کریں یا ان سے ڈر کہ ہتھیار رکھ له الفضل نور شورت تو میرایش صفحه ۳ کالم دا : k
49 دیں.اس وقت اس فیصلہ کا انحصار ایک ایسے شخص پر تھا جس کی عمر کا لچ کے بہت سے پروفیٹروں سے کم تھی بس کی حیثیت موجودہ کالج کے بہت سے پروفیسروں سے بہت کم تھی.جس کا علم جہاں تک دنیوی علوم کا تعلق ہے، کانچ کے ہر طالب علم سے کم تھا.صرف اس ایک انسان کے ذمہ یہ فیصلہ کرنا تھا کہ آیا ان تمام ذمہ داریوں کے ہوتے ہوئے آیا ان تمام بوجھوں کے ہوتے ہوئے اور آیا ان تمام کمزوریوں کے ہوتے ہوئے جبکہ جماعت کے تمام اکا بر خلاف کھڑے ہو گئے تھے.جبکہ بہت سی بیرونی جماعتوں میں ابتلاء آچکا تھا.جبکہ جماعت کے لوگوں میں یہ خیال پیدا کر دیا گیا تھا که قادیان کے لوگ سلسلہ کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور بہت بڑے ختنہ کی بنیاد رکھ رہے ہیں، اس وقت ان کا مقابلہ کرنا چاہیے یا ان کے سامنے ہتھیار رکھ دینے چاہئیں.وہ اکا بہ جو سلسلہ کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں رکھتے تھے اُن کا اندازہ اس وقت کی حالت کی نسبت کیا تھا اس کی طرف سپرنٹنڈنٹ صاحب نے اپنے ایڈریس میں اشارہ کیا ہے.وہ سمجھتے تھے کہ ہمارا اثر ہ رسوخ اتنا زیادہ ہے اور بہار سے مقابلہ میں کھڑے ہوئے والے تعداد میں علم میں ، ساز و سامان میں اور اثر و رسوخ میں اتنے کمزور ہیں کہ اگر ہمارے مقابلہ میں کھڑے ہوئے تو گرتے پڑتے زیادہ سے زیادہ دس سال تک ٹھہریں گے.پھر یہاں عیسائیوں کا قبضہ ہو جائے گا اور احمدیوں کا نام ونشان منٹ بنائے گا.اس وقت اس شخص کو میس کی عمرہ ۲ سال تھی، نمدا تعالیٰ کے فضل سے اس بات کا فیصلہ کرنے کی توفیق ملی کہ خواہ حالات کچھ بھی ہوں اس جھنڈا کو کھڑا رکھے گا جس کو خدا تعالٰی نے بھر مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ کھڑا کیا ہے.اہ اس کے بعد حضور نے آہ کے بعض واقعات پر روشنی ڈالنے کے بعد طلباء کو نصیحت فرمائی : آج آپ لوگ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ وہ دن کیسے خطرناک تھے اور خدا تعالیٰ نے کسی قسم کے فتنوں میں سے جماعت کو گزارا.اس حالت کا آج کی حالت سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا.اگر وہی جوش اور وہی اخلاص بجو اس وقت جماعت میں تھا آج بھی آپ لوگوں میں ہو تو یقینا تم پہاڑوں کو ہلا سکتے ہو.اس وقت جماعت کے لوگ بہت تھوڑے تھے مگر خدا تعالیٰ نے ان کو ایسا ایمان اور ایسا جور بخشا کہ کوئی بڑی سے بڑی روک بھی انہیں کچھ نہ نظر آتی تھی.آج کے نوجوان اور آج کی سماعت اگر الفضل بیگم نبوت / نومبر ۱۳۳۳ روش سفر کا لم ۳-۴ #1900
ویسا ہی ایمان پیدا کرے تو دنیا میں عظیم الشان تغیر پیدا کر سکتی ہے جو کام ایک پونڈ بارود کر سکتا ہے ایک ٹن بارود اس سے بہت زیادہ کام کر سکتا ہے.اگر اس وقت جماعت کی حیثیت پونڈ کی تھی تو آج نندا تعالیٰ کے فضل سے ٹن کی ہے.مگر سوال یہ ہے کہ اس وقت جماعت کے لوگ بارود تھے کیا آج بھی وہ بارود ہیں یا ریت کا ڈھیر لگے بارود ہیں تو یقیناً آج اس وقت کی نسبت بہت زیاد کام کر سکتے ہیں.لیکن اگر ریت ہیں تو اس وقت کے کام کا سواں حصہ بھی نہیں کر سکتے ہیں میں نوجوانوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اپنے اندر اخلاص پیدا کریں ماله حضور نے آخر میں مولوی محمد علی صاحب کی کوٹھی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :- یہ سامنے کی کو بھٹی جنہوں نے اپنے رہنے کے لئے بنوائی تھی اس میں اب ہوسٹل کے جو سپرنٹنڈنٹ رہیں گے وہ ان کے ہم نام، ہم قوم ، ہم ڈگری اور ہم علاقہ ہیں.حضرت میسج موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے.پہلا آدم آیا تو اُسے شیطان نے جنت سے نکالا مگر دوسرا آدم اس لئے آیا کہ جنت میں داخل کر ہے.اس کو بھٹی میں پہلے رہنے والے محمد علی نام کے ایم.اے ڈگری والے ، ارائیں قوم کے اور وطن کے لحاظ سے جالندھری تھے، اُن کے ساتھیوں نے خلافت کے اختلاف کے وقت کہا تھا.دیکھ لینا ! دس سال تک یہاں جیسائیوں کا قبضہ ہو گا.تعداد عالے کی نکستر توازی دیکھو.دس سال بعد نہیں تھیں سال بعد ایک دوسرا شخص اسی نام ، اسی ڈگری، اسی قوم اور اسی ضلع کا آج ہمارے سامنے یہ کہا رہا ہے کہ اب میں اس کو بھٹی میں رہوں گا اور احمدیت کی روایات کو قائم رکھنے کی کوشش کروں گا چو کچھ پہلے محمد علی ایم.اے ارائیں جالندھری نے کہا تھا بالکل غلط ہے.یہ جگہ خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے ہی بنائی اور یہاں اسلام کے خادم ہی رہیں گے اور میں محمد علی ایم.اے الہ میں بجالندھری اپنے طلبہ سمیت پوری کوشش کروں گا کہ احمدیت اپنی سب روایات سمیت قائم رہے اور دنیا پر غالب آئے " سے سیدنا حضرت امیر المومنین یا اور یونیوسٹی مین کی طرف تعلیم الاسلام کلی کا معاشت اور اظہار مسرت مصلح موعود کے ارشاد کے پیش الفضل یکم نبوت / تو میر ریش من ک ۳۲ " مک +
61 نظر کا لیکمیٹی نے پنجاب یونیورسٹی سے درخواست کی کہ کالج کو بی.اے اور بی ایس سی تک بڑھانے کی اسبازت دی جائے.اس پر یہ یورسٹی نے تمام حالات کا مطالعہ کرنے کے لئے ایک کمیشن قادیان بھجوایا.یہ کمیشن ملک عمر حیات صاحب پرنسپل اسلامیہ کالج لاہور ، سردار جود و سنگر صاحب پر نسپل خالصہ کالج امرتسر اور ڈاکٹر جی ایل دتا صاحب پر نسپل ڈی اے وی کالج مشتمل تھا.ارکان کمیشن نے صلح جنوری پیش کو تعلیم الاسلام کالج کا معائنہ کیا اور کالج کی جائے وقوع ، اس کی عمارات ، سامان ، گراؤنڈز وغیرہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور فضل عمر سائنس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یکھ کر تو یہ اثر لے کر گئے کہ کالج سے متعلق ان تیاریو سے ظاہر ہے کہ ایک یو نیورسٹی کی بنیاد رکھی جارہی ہے.ہے ته تعلیم الاسلام کالج میں توسیع کے لئے جماعت احمدیہ کے اولوالعزم روحانی سپہ سالار حضرت سیدا المصلح الموعود نے کالج کی افتتاحی تقریب پر اس دلی منشار حضرت امیر المومنین کی اسپیل کا اظہار فرما دیا تھا کہ آپ اُس دن کے آنے کے منتظر ہیں کہ اس پیج میں سے ایک دن ایسا درخت پیدا ہو جس کی ایک ایک ٹہنی ایک بڑی یونیورسٹی ہو اور ایک ایک پیتہ کا لج بن جائے اور ایک ایک پھول ؛ شاعت اسلام در تبلیغ دین کی ایک اعلی در سبہ کی بنیاد ہو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعود نے اس عظیم الشان نصب العین کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے قیام پاکستان سے قبل جو تدریجی قدم اُٹھائے ان میں تعلیم الاسلام کالج میں بی.اے اور بی ایس سی کی کلاسوں کا اضافہ بھی ہے حضور نے اس سلسلہ میں ناصر آباد سندھ سے ۵ار امان مارچ پر میش کو حسب ذیل مضمون رقم فرمایا :- اللَّهِ الرَّحْمَنِ الأَمِيرُ أَعُودُ اللَّهِ مِنَ الشَّيْطانِ الرَّحِيم - مدة اية على ان الريم 14 - خدا کے فضل اور رحم کیساتھ هو الناصر مرَ أَنْصَارِي إلى الله تعلیم الاسلام کالج قادیان میں توسیع بی.اے اور بی ایس سی کی کلاسیں کھولنے کی تجربہ انتساب کو معلوم ہے کہ دو سال سے قادیان میں کالج کی بنیاد رکھ دی گئی ہے." تفضل ۱۵ صلح جنوری له مش صفحه ۲ کالم ۹۳
۷۲ اس سال ایف اے اور ایف ایس سی کے طالب علم امتحان دیں گے اور پاس ہونے والے بی.اے اور بی ایس سی میں داخل ہوں گے.چونکہ ایف اے اور ایف ایس سی تعلیم کا انتہی نہیں ہے اس کے لئے تکمیل تعلیم کے لئے ہی.اسے اور بی ایس سی کی جماعتوں کا ہونا ضروری ہے جن کے کھولنے کے لئے صرف عمارت اور فرنیچر اور سائنس کے سامان کا اندازہ ایک لاکھ ستر ہزار کیا جاتا ہے اور کل خرچ پہلے سال کا دولاکھ پانچ ہزار بتایا جاتا ہے.یونیورسٹی کی طر سے کمیشن اگر بی.اسے اور بی ایس سی کی جماعتوں کے کھولنے کی سفارش کر چکا ہے.اب صرف ہماری طرف سے دیر ہے.اس وقت اگر ہم یہ جماعتیں نہ کھولیں گے تو جماعت کے لڑکے ایک تو اعلیٰ تعلیم کے لئے پھر دوسرے کالجوں میں بجانے پر مجبور ہوں گے.دوسرے بہت سے لڑکوں کو دوسرے کالج لیں گے ہی نہیں.کیونکہ اکثر کالج دوسرے کا لجوں کے لڑکوں سے تعصب رکھتے ہیں.اس لئے ہمارے لڑکوں کی عمریں تباہ ہوں گی.تیسرے جو غرض کالج کے اجراء کی تھی کہ لامذہبیت کے اثر کا مقابلہ کیا جائے اور خالص اسلامی ماحول میں پہلے ہوئے نوجوانوں کو باہر بھیجوایا جائے وہ فوت ہو جائے گی.پس ان حالات میں میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ پر تو کل کر کے کالج کی بی.اے اور بی ایس سی کی جماعتیں کھول دی جائیں.اور اسی سے دعائے کامیابی کرتے ہوئے میں جماعت احمدیہ کے مخلص افراد سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس کام کے لئے دل کھول کر چندہ دیں اور یہ دو لاکھ کی رقم اس سال میں پوری کر دیں تاکہ یہ دل کو اوریہ دو میں کام یہ تمام و کمال بلد مکمل ہو کر اسلام کی ایک شاندار بنیاد رکھی جائے.میں نے اپنے آپ کو ایک نمونہ بنانے کے لئے دس ہزار روپیہ کا وعدہ کیا ہے.اس سے پہلے اس سال میں دس ہزار تھر یک بعدید میں اور پانچ ہزار مدرسہ احمدیہ کے وظائف کے لئے دے چکا ہوں اور ان بندوں کے علاوہ نو دس ہزار کی مزید رقم میں نے اور کی ہے یا کرنی ہے اور گویہ میرے ارادے میری موجودہ حالت کے خلاف ہیں لیکن وہ مال جو اللہ تعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے کام نہیں آتا کس کام کا ؟ ہندی زبان میں محاورہ ہے کہ بھاٹ پڑے وہ سونا سبس سے ٹوٹیں کان پس وہی روپیہ ہمارا ہے جو دین میں خرچ ہو.جو ہم نے کھایا وہ گنوایا.اور جو خدا تعالے کی راہ میں دیا وہ لیا.اس احباب جوائت کو چاہیے کہ چندوں کی کثرت سے گھبرائیں نہیں
۷۳ بلکہ خوشی سے کر دیں اور اچھلیں کہ خدا تعالیٰ نے انہیں اپنے کام کے لئے بچن لیا ہے.مجھے یقین ہے کہ احیائی اس تحریک کو ایک بار نہ سمجھیں گے بلکہ ایک عظیم الشان انعام سمجھتے ہوئے اس کے حصول کے لئے کھلے دنوں کے ساتھ چندہ دیں گے.میں سمجھتا ہوں کہ ہماری جماعتوں میں اب ایسے لوگ شامل ہیں کہ اگر ان میں سے پانچ سو آدمی بھی اس عہد کو سامنے رکھ کر جو انہوں نے خدا تعالیٰ سے کیا ہے اس کام کے لئے آگے آگئے تو وہ دوسروں کی مدد کے بغیر اس رقم کو پورا کر سکتے ہیں.لیکن میں چاہتا ہوں کہ ہر احمدی غریب امیر اس کام میں حصہ لے جو ہزاروں دے سکتے ہیں وہ ہزاروں دیں اور جو سینکڑوں دے سکتے ہیں وہ سینکڑوں دیں اور جو بیسیوں دے سکتے ہیں وہ بیسیوں دیں اور کھر روپیہ دو روپیہ دے سکتے ہیں وہ روپیہ دو روپیہ دیں اور تو چند پیسے دے سکتے ہیں وہ چند پیسے ہی دیں تا اس اسلامی عمارت میں آپ میں سے ہر چھوٹے بڑے کا حصہ ہو اور دیعالی شکر کے مقابلہ کے لئے تیار کئے جانے والے لشکر کے سامان میں آپ کا روپیہ بھی لگا ہوا ہو.میں بِسْمِ اللهِ فَجْر بَهَا وَ مُرْسَهَا کہتے ہوئے اس کاغذی ناؤ کو تقدیم کے دریا میں پھینکتا ہوں.اللہ تعالے آسمان سے فرشتے آنا ہے جو اُسے کامیابی کی منزل پر پہنچا دیں اور اپنے الہام سے مخلصوں کے دلوں میں قربانی اور ایثار کا ماده پیدا کر رہے اور پھر ان کی قربانی کا ادھار نہ رکھے بلکہ پڑھ پڑھ کر اس کا بدلہ دے.اللهم امين والسلام خاکسار هر زاگه مو د احمد از ناصر آباد سنده ۱۵ رامان ۱۳۵۲۹ مطابق ها مارچ ۱۹۴۶ شه له الفضل و ارامان ماری را صفحہ ۲ حضرت امیرالمومنین کایہ فرمان اخبار الفضل کے علاوہ مینڈیل کی صورت میں بھی شائع ہوا ؟ سے کالج کے چندہ کی اپیل پر و شہادت را پریل پیش تک تقریباً چھیالیس ہزار کے وعد سے آئے بحضور نے ہر شہادت کا اپریل ر میش کو اس تحریک میں سبقت کرنے والے مخلصین کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا.۱۳۲۵ ہزارہ کے وعدے تو صرف چار آدمیوں کی طرف سے ہیں.دو نے دس دس ہزار کے وعدت کہتے ہیں.ایک نے پانچ ہزار کا اور ایک نے ایک ہزار کا.ایک تو دس ہزار کا وعدہ تیرا ہے.دوسرا دس ہزار دینے کا وعدہ سینیٹ محمد صدیق صاحب کلکتے والے اور ان کے بھائی سیٹھ محمد یوسف صاحب نے کیا ہے.تیرے پانچ ہزار کا وعدہ سیٹھ عبد الله بھائی کی طرف سے ہے اور پو تھے ایک ہزار کا وعدہ شیخ امام دین صاحب کا ہے جو بمبئی کی طرف تجارت کرتے ہیں.گویا اس میں با ہزارہ کے وعدے صرف چار آدمیوں کے ہیں کچھ ہزار کا وعدہ قادیان کی لونہ کا ہے“ تفصیلی فہرست کیلئے ماحفظ والفضل بار شہادت ۱۳۴۲ مش ۵.اس تاریخ تک جن جماعتوں یا احباب نے اپنا وعدہ ادا کر دیا ان کی فہرست الفضل ۲۹ شہادت اپریل ده مش صفحه پر شائع کر دی گئی رید
۷۴ قادیان کے بزرگ صحابہ کی طلبائے فضل عمر پیش کی دیرینہ خواہش تھی کہ صحابہ کام کی زیارت کرنے اور چند ھے ان کی بابرکت مجلس میں بیٹھنے کی سعادت حاصل کریں.یہ مبارک موقع فضل عمر ہوٹل میں تشریف آوری ادارامان / مارچ یا مہش کو میسر آیا.اس روز نماز عصر کے بعد طلبہ فضل عمر ہر میٹل نے مقامی صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسّلام کو دعوت چھائے پر مدعو کیا اور بطور یاد داشت ان کے دستخط لئے.بچائے کے بعد طلباء کی طرف سے نہایت جامع ایڈریس پیش کیا گیا.پھر سب صحابہ کا مجموعی طو پر نوٹ لیا گیا کتر لیس صحابہ کرام اس گروپ میں موجود تھے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی شمولیت فرمائی.آخر میں صحابہ کرام نے باری باری اپنا نام، ولدیت ، وطن اور سنہ بیعت برائے تعارت بیان فرمایا اور مغرب کے وقت دعا پر یہ تقریب ختم ہوئی ہے اس اہم تقریب کی مزید تفصیل پھر بعدی محمد علی صاحب ایم.اے کے الفاظ میں یہ ہے کہ " فضل عمر ہوٹل میں ایک مجلیس صحابہ منعقد ہوئی جس میں سوائے حضرت میر محمد اسماعیل رضی اللہ عنہ اور حضرت پیر منظور محمد صاحب رضی اللہ تعالے عنہ کے قادیان میں موجود تمام صحابہ نے شمولیت فرمائی بستید نا حضرت مصلح الموعود رضی اللہ تعالی عنہ بھی تشریف نہیں لاسکے تھے.بالاتفاق صدارت کے لئے حضرت مولانا سید سرور شاہ رضی اللہ تعالے کا اسم گرامی تجویز ہوا.تمام صحابہ نے اپنے مختصر کوائف بیان کئے ہو درج رجسٹر ہوئے اور سب نے باری باری اس بات کی شہادت دی کہ ہم سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نبی کی حیثیت سے ایمان لائے تھے اور اسی عقیدہ پر اب تک قائم ہیں" بی ایس سی کیلئے علم طبیعیات کی مدار شہادت را برای ار ای میل و حضرت سیدن المصلح المولود ہو نے علیم الاسلام کا لج کی چھت پر بجانب مغرب شعبہ سائنس کی علم طبعیات لیبارٹری کی بنیاد اور اس کی تعمیر ہر کی لیبارٹری کی بنیاد اپنے دست مبارک سے رکھی.اس موقعہ پر حسب ذیل صحابہ کرام بھی موجود تھے:.حضرت مولانا سید سرور شاہ صاحب، -۲ خانصاحب نمشی برکت علی صاحب ، ۳- آنریبل چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب ، ۴ سیٹھی خلیل الرحمن صاحب ، ۵- خان بہادر غلام محمد صاحب م - مولوی محمد دین صاحب ، ملک غلام فرید صاحب - مولوی فضل الہی صاحب له الفضل و رامان / ماس نمایش صفحه 1 زیر عنوان مدینہ سیح".طلبہ نے اس یاد گار تقریب پر جو ایڈریس پیش کیا " کو ۲۱۹۴۶ وه " الفضل " ۲۱ ر المان زمانی شہر میں صفحہ پر پر چھپا ہوا ہے ،
۷۵ حضرت نواب زادہ محمد عبد اللہ خان صاحب ، حضرت ماسٹر علی محمد صاحب بی.اے بی ٹی حضرت مولوی غلام نبی صاحب مصری ر ماسٹر ودھاوے خان صاحب.، حضرت قاضی محمد عبداللہ صاحب ان صحابہ نے بھی حضور کے ارشاد پر ایک ایک اینٹ رکھی.بعد ازاں سیدنا الصلح الموعود رض نے مجمع سمیت بھی دکھا فرمائی ہے ہی.ایس سی (فزکس اور کیمسٹری کی لیبارٹری کے آلات ( APPARATUS) کے لئے ولایت کی ایک فرم کو آرڈر دیا گیا.فرنشنگ ، فٹنگ اور پلیننگ کا کام چوہدری غلام حیدر صاحب کے سپرد تھا اور بلڈنگ کے انجنیر چوہدری عبد اللطیف صاحب واقف زندگی اور سیٹر تھے یہ مہش کے وسط تک یہ لیبارٹریاں تیار ہو چکی تھیں اور آلات ( APPARATUS) بھی خاصی تعداد میں ولایت سے پہنچ گئے تھے.فضل محمد ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا باقاعدہ افتتاح ۱۹ ماه فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا افتتاح شد شہادت / اپریل میش کو بوقت پانچ بجے شام ہوا.اس تقریب میں سیدنا حضرت المصلح الموعود بھی رونق افروز تھے.سب سے پہلے ادارہ کے ڈائریکہ عبد الاحد صاحب نے ڈاکٹر سر شانتی سروپ بھٹناگر ڈائریکٹر کونسل آف سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ کو ایڈریس پیش کیا.جس کے ابتداء میں اس ادارہ کی غرض و غایت پر روشنی ڈالی.بعد ازاں بتایا :- " اس ادارہ کے لئے مستقل عمارت کی تجویز شہر سے کچھ فاصلہ پر ہے چنانچہ گورنمنٹ کی نیلامی سے چالیس ایکڑ زمین حاصل کر لی گئی ہے....موجودہ تجربہ گاہوں کو جدید آلات سائنس سے لیس کرنے کے لئے ہرممکن کوشش کی جارہی ہے اور ایک ٹیکنیکل لائیبر بیری کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے بعض ایسے انتظامات بھی کئے گئے ہیں جن سے مختلف قسم کے تجربات کم اور زیادہ دباؤ کے ماتحت کئے جا سکتے ہیں..تجارتی تجربات کے لئے مملکت متحدہ کی بعض فرموں کو نباتاتی تیل کے صاف کرنے اور والد ماجد جناب چودھری شاه محمد صاحب خوشنویس ؟ له الفضل اور شہادت / اپریل ۲۹ مه مش صفحه ۰۲ سے چوہدری صاحب موصوف نے یکم تبلیغ فرودی رمیش سے لیکر ها احسان رجون کا مہیش تک نہایت محنت وجانفشانی سے یہ نورست بش سرانجام دی.لیبارٹریوں کی تعمیر کے بعد ان کے اندر چار گھوں پر PARTITION WALLS بھی آپ کی نگرانی میں بنائی گئیں جو بہت مشکل اور میکنیکل کام تھا.اس کا تمام ڈیزائن (651) بھی آپ ہی کا تیار شدہ تھا.
24 اس سے بناسپتی گھی بنانے نیز پلینٹ، وارنش اور چھاپنے والی سیاہی بنانے کے لئے مشینری کا آرڈر دیا جا چکا ہے اور امید ہے کہ عنقریب یہ چیزیں پہنچ جائیں گی.ان کے علاوہ مختلف چیزوں کی غذائیت پر تحقیق کرنے اور انہیں تجارتی طریق پر چلانے کے لئے ایک مشین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی زیر نگرانی بھی تیار کی بجا رہی ہے جس کو عنقریب مکمل ہونے پر تجربہ گاہ میں نصب کیا جائے گا.ادارہ کا قریباً ۲۵ ایکڑ تجرباتی فارم بھی ہے جہاں مختلف پودوں خصو صا تیل نکالنے والے بیج اور بعض دوسری جڑی بوٹیوں کی پیدا وار کو بڑھانے کے متعلق تجاویز عمل میں لائی بھاتی ہیں.ارادہ ہے کہ پودوں کے مختلف حصوں میں ان کے بڑھنے کے دوران میں جو خاص کیمیاوی تبدیلیاں آتی رہتی ہیں انہیں بھی زیر مطالعہ لایا جائے " پر و فیسر سرشانتی سروپ بھٹناگر نے اپنی افتتاحی تقریر میں حضور کو مخاطب کرتے ہوئے عرض کیا کہ جناب والا ایک طاقتور جماعت کے مذہبی رہنما کی حیثیت سے آپ نے فضل عمر سائنس تحقیقاتی ادارہ کو اپنی جماعت کی مذہبی نشو و نم کے لئے قائم فرمایا ہے.مذہب اور سانس کا یہ اتحاد اور یہ باہمی تعلق جو انتخاب کا ادارہ قائم کرے گا بے بعد قابل تعریف ہے یہ ڈاکٹر بھٹناگر صاحب ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا افتتاح کر چکے تو حضرت سیدنا المصلح الموعود نے نمائندگان جماعت سے رجو مجلس مشاورت پر قادیان میں پہنچ چکے تھے اور اس موقعہ پر موجود تھے ، خطاب کرتے ہوئے فرمایا.کہ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے لئے اب تک مالی قربانی کا کوئی مطالبہ نہیں کیا گیا.لیکن موجودہ ابتدائی پروگرام کی تکمیل کے بعد دو تین سال میں ہی وہ وقت آنے والا ہے جب جماعت کے سامنے اس کی تحریک کی جائے گی ہے یہ ادارہ متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کا واحد مثالی ادارہ تھا ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا چرچاپر میں میں جسے نصرت علی پریس ہیں نے بلکہ بینک میں ایک کے سائنسی اوارون و INSTITUTIONS) نے بھی سراہا." الفضل " ۲۳ شهادت / اپریل ۳۳۵ میش له وفات : ۱۳ جنوری ته به ہیں " الفصل " ۲۳ شهادت / ایمیل ش : ے " الفضل" ۳ ہجرت / مئی - +1957 مین صفحه ۲۴۰ کالم ۹۳
46 ا چنانچہ شمالی ہند کے مشہور مسلمان اخبار انقلاب نے لکھا :- اس وقت علمی و صنعتی دائرے میں مسلمانوں کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ سائنٹفک تحقیقات کے ادارے قائم کئے جائیں جن میں نوجوان سائنس کے جدید ترین آلات اور بہترین ٹیکنیکل کتابوں اور فاضل اور تجربہ کار معلموں کی مدد سے اسرار قدرت کا علم حاصل کریں اور صنعت و حرفت کے جدید اور وسیع دوائر میں کام کرنے کے لئے تیار ہو جائیں.یہی طریقہ ہے جس سے کام لیکر ملت میں وہ قوت و صلاحیت پیدا کی جاسکتی ہے جو آج دنیا کی بڑی بڑی قوموں کو حاصل ہو چکی ہے اور جس کے بغیر کہ ور تو میں مادی ترقی کے میدان میں ایک قدم بھی نہیں بڑھا سکتیں.قادیان نے اس سلسلہ میں سبقت کی ہے.امام جماعت احمدیہ نے ڈھائی لاکھ روپیہ کے ابتدائی سرمایہ سے فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ قائم کرنے کی اجازت دے دی ہے جس کا افتتاح گذشتہ جمعہ کے دن مشہور سائنسدان ڈاکٹر سر شانتی سروپ بھٹنا گرنے بمقام قادیان فرمایا.اس انسٹی ٹیوٹ کی لیبارٹریوں میں بہترین اور جدید آلات مہیا کرنے کا انتظام کیا جا رہا ہے.بایو کیمیکل ریسرچ کے لئے الیکٹرون ، خوردبین ، پروٹین اور کولائیڈ بجنزر کے خواص کی تحقیق کے لئے خاص آلہ تحلیل و تجزیہ کی عملیات کے لئے سیکٹو گراف اور دوسرے آلات منگائے بھا رہے ہیں.جن کی مدد سے صنعتوں کی ترقی و توسیع کا کام اعلیٰ پیمانے پر کیا جائے گا.اس وقت کچھ اسیر بچ اسسٹنٹ کام کر رہے ہیں.دو فارغ التحصیل نوجوانوں کو کیمیکل انجنیئرنگ وغیرہ کی اعلیٰ تعلیم کے لئے امریکہ بھیجا جا رہا ہے.ہندوستان کی یونیورسٹیوں کے طلبہ سائنس کے لئے بھی انسٹی ٹیوٹ میں ٹیکنیکل ٹریننگ کا بندوبست کیا بھارہا ہے.یہ ہے وہ حقیقی کام جس کی ضرورت مسلمانوں کو شدت سے محسوس ہو رہی ہے لیکن اب تک ان کے کسی تعلیمی ادارے ہیں اس کام کی طرف کما حقہ توجہ نہیں کی گئی.اگر قادیانیوں کو برا بھلا کہنے والوں کو اس جہاد لسانی کے ساتھ ساتھ قادیانیوں کے تعمیری کاموں میں مسابقت کی توفیق بھی ملتی تو کتنا اچھا ہوتا.ہمیں یقین ہے کہ مرزا محمود احمد صاحب کی توجہ اور ان کے بھانشاروں کی محنت سے یہ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ بہت جلد بے انتہا کام کرنے لگے گا.
LA کیا ہم یہ امید رکھ سکتے ہیں کہ لاہور، پشاور ، دہلی ، علیگڑھے کے اسلامی ادارے بھی وقت کی اس اہم ضرورت کی طرف توجہ کریں گے " لئے کے - ہندوستان کے انگریزی روز نامہ سٹیٹمین" نے لکھا :- قادیان میں فضل محمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا افتتاح اس کی مقامی اہمیت سے بہت زیادہ بیرو نجات پر اثر انداز ہے.جماعت احمدیہ کا یہ اقدام مذہب و سائنس کو متحد کرنے کی کوشش کا کامیاب مظاہرہ ہے.احمدی بیشک تعداد میں تھوڑے ہیں لیکن جماعتی لحاظ سے اس طرح منظم ہیں کہ بہت سے شعبہ ہائے زندگی میں وہ بڑی تیز رفتاری سے شاہراہ ترقی پر گامزن ہوا ہے ہیں.قادیان کے احمدیوں میں صنعت و حرفت کی ترغیب و ترویج کے لئے انہوں نے بہت کوشش کی ہے اور بہت سی مفید باتوں میں وہ دوسروں سے پیش پیش ہیں.اُن کا یہ تازہ شاہرکارہ اس ترقی کی روح کا آئینہ دار ہے (ترجمہ) ہے دنیا ئے سائنس کے مشہور ہفتہ وار رسالہ نیچر NATURE نے بولندن سے نکلتا ہے ، ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے افتتاح کی تفصیلی خبر دیتے ہوئے لکھا :- " مشرق و مغرب دونوں بگه از مته گذشتہ سے ہی علم کی ترقی مذہبی جماعتوں کی مرمت وت رہی ہے مستقبل میں ہندوستان میں سائنس کو جو اہمیت حاصل ہوگی اس کے احساس کی نمایاں علامت اس فیصلہ سے ظاہر ہوتی ہے جو امام جماعت احمدیہ خلیفہ اسیح (حضرت خلیفة اسم الصلح الموعوش نے اپنی جماعت کے چندوں میں سے ایک کثیر رقم سائنس کے تحقیقاتی اداروں کے قیام کے لئے منظور فرما کہ کیا ہے.یہ جماعت پہلے ہی بہت تعلیمی اداروں کو چلا رہی ہے جن میں تعلیم الاسلام کا بچے بھی شامل ہے.مگر اب (حضرت) امام (جماعت احمدیہ) کا خیال ہے کہ وہ وقت آگیا ہے جبکہ ان اداروں کو بام عروج تک پہنچایا جائے.یہ نیا تحقیقاتی ادارہ فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ قادیان اُس وقت جنم لے رہا ہے جبکہ ہندوستان میں تحر یک اخبار سائنس زوروں پر ہے اور پرائیویٹ اداروں نے بھی اس تحریک کو کامیاب بنانے کے لئے اپنا حصہ ادا کرتا ہے (ترجمہ سمجھے " ن انقلاب" لاہور ۲۰ اپریل ۹۲۶ارد مجاله " الفضل " ۲۵ اپریل ۱۹۴۶ له بحواله " الفصل ۱۵ مئی ۲۷ * * سے بحوالہ ہے ۲۶ جولائی دا
49 اہل ملک کو کھونا اور جماعت احمدیہ کو خصوصاً اس ادارہ سے بہت تو قعات ریسرچ کا دوبارہ لاہور میں قیام دوست تھیں اور وہ اسے دنیابھرمیں اپنی طرزکا منفرد اور کامیاب سائنسی لاہوری طرفہ تحقیقات کا مرکز دیکھنا چاہتی تھی.مگر جیسا کہ آئندہ آنے والے واقعات نے ثابت کیا خدا تعالے کی مشیت کے مطابق عهد مصلح موجود میں ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی محض داغ بیل ڈالنا مقصود تھا ٹھیک جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے زمانہ مبارک میں تعلیم الاسلام کالج کی بنیاد کا رکھا جانا ! یہاں تو میں کالج کی بندش حکومت کی داخلہ پالیسی کے نتیجہ میں بالواسطہ ہوئی تھی وہاں فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ۱۹۴۷ء میں فسادات ملکی کی وجہ سے بند کرنا پڑی.مگر حضرت سیدنا محمود الصلح الموعود نے قادیان میں مغربی فلسفہ کے خلاف اسلام کی تائید و بر توی کے لئے جو قدم اُٹھایا تھا اس سے وقتی طور پر بھی ہٹنا گوارانہ فرمایا.چنانچہ محض آپ کے طفیل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ دوباره معرض وجود میں آگئی.رسیرچ کا دفتر ۱۰۸ بلاک بسی ماڈل ٹاؤن لاہور میں قائم کیا گیا اور صنعتی کام کے لئے مسلم ٹاؤن کے بالمقابل نہر کے پاس ایک لیبارٹری الاٹ کرائی گئی جو ہی ہم کے نام سے مشہور تھی یکے لاہور میں اس کی ابتداء بہت مشکلات کے دوران ہوئی.کافی تگ و دو کے بعد کیمیاوی مرکبات اور سائنٹفک سامان بنانے کا کام شروع کیا گیا.دو تجر بے بڑے پیمانہ پر کئے گئے ہو گندھک کی صفائی اور گندمک کا تیزاب بنانے سے تعلق رکھتے تھے.کچھ عرصہ کے لئے صابن سازی کی صنعت بھی تجاری رہی.ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا ایک پروگرام بیرون ملک میں پنے سکالرز کو اعلی تعلیم اور ٹرینگ دلوانا بھی تھا.پانی اس سکیم کے تحت چار افراد امریکہ و انگلستان بھجوائے گئے.اور متعد طلبہ کو اندرون ملک اعلی تعلیم دلائی گئی.اواخر اد میں بیرونی ممالک کے سکالرزہ واپس آنا شروع ہوئے اور شاہ کے وسط میں انسٹی ٹیوٹ کو از سرنو تر تیب دیا جانے لگا.۱۹۵۷ء کی ابتدا و تک انسٹی ٹیوٹ پلیننگ کے مختلف مراحل سے گزرتی رہی.مالی مشکلات کے پیش نظر چھوٹے پیمانہ پر ہی کام ممکن ہو سکا.کیمیاوی مرکبات بنانے کا کام جاری رہا.وارنیش بنانے کا کام تجربہ کے رنگ میں شروع کیا گیا.چند ایک مکینیکل لائن کی مصنوعات بھی بنائی گئیں جو سائیکل انڈسٹری سے تعلق رکھتی تھیں.گندھک صاف کرنے کا ایک کامیاب تجربہ کیا گیا.کاسمیٹکس کے چند ایک عمدہ مرکبات بنائے گئے.پاکستان کی چند معد نیات کا کیمیاوی تجزیہ کیا گیا.FIELD RESEARCH STATION سے ان کا ذکر فصل دوم میں آچکا ہے ، ے اب یہ عمارت پنجاب یونیورسٹی لاہور کے نیوکمپس کا حصہ ہوں
A.علمی کام کے لحاظ سے زیادہ تر بلیو گر یک لڑ پھر پیدا کرنے کی طرف توجہ دی گئی.اس کام میں سردار عطارد الرحمن صاحب غنی نے کافی شف رکھا اور انہوں نے پاکستان ایسوسی ایشن فار ایڈوانس منٹ آف سائنس" کے ماتحت ایک کتاب اور متعدد رسائل شائع کئے.اسی موضوع سے متعلق چند نکی بینائی بھی سائنٹک نے سائل میں شائع کئے گئے بیلیو گرافک کام کو لائیبریری آف کانگرس واشنگٹن امریکہ ، ٹڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ واشنگٹن امریکہ ، ڈویژن آن بیلیو گری یونیسکو پیرس جیسے مشہور اداروں نے مفید قرار دیا.پاکستان میں انسٹی ٹیوٹ کے پاس ایک عمدہ لائیبریری میں فراہم ہو گئی بیٹے ماه احسان پر مہش میں یہ ادارہ لاہور سے ربوہ منتقل ہو گیا اور ۲۵ احسان اجون ہش کو حضرت ۶۱۹۵۳ ۶۱۹۵۳ الصلح الوعود نے ایک بصیرت افروز تقریبہ اور دعا کے ساتھ اس کی نئی عمارت کا افتتاح فرمایا ہے مگر افسوس حضرت مصلح موگوری کی خلافت کے آخری دور میں یہ تحقیقاتی مرکز بوجوہ بند کر دینا پڑا.الیف.اے اور ایف ایس سی ۲۳ شہادت / اپریل پر سب کو تعلیم الاسلام کا لیے میں انٹرمیڈیٹ کلاموں کا پہلا امتحان اور پہلا تھی اپنا امتحان شروع ہوا، سردار امریک سنگھ صاحب خالصہ کا لی کا کلاسوں کا پہلا امتحان اور پہلا تیجہ امرت سر پیٹنڈنٹ اور اخوند عبدالت در صاحب ایم اے ویٹی سپر نٹنڈنٹ تھے.یکے اس موقعہ پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے حضرت پرنسپل صاحب کے نام ایک خط میں تاکید فرمائی کہ " طلباء کو تاکید فرما دیں کہ وہ ہر پرچے کو دعا کے ساتھ شروع کیا کریں اور پورا وقت لے کہ اُٹھا کریں.اور آخر میں نظر ثانی بھی ضرور کیا کریں کئی لڑکے پرچے کو آسان سمجھ کر یا گھبرا کہ جلدی اُٹھ آتے ہیں اور نظر ثانی بھی نہیں کرتے اور اس طرح بھاری نقصان اُٹھاتے ہیں کہ آپ کی یہ ہدایت طلبہ کو ذہن نشین کرا دی گئی.کالج کی طرف سے سر کے ایف.اے اور ایف ایس سی کے امتحانوں میں ۵۹ طلبہ شریک ہوئے جن میں سے کمپارٹمنٹ والے طالب علموں کو شامل کرتے ہوئے ۳۱ کامیاب قرار پائے اور ایک طالب علم نذیر احمد صاحب ۲۹۳ نمبر ے کو پنجاب بھر کے مسلمان امیدواروں میں سوم رہے.یونیورسٹی کے اعلان کے مطابق ان به >19am رسالہ " "خالد" ماه و فار جولائی ۱۳۳۳ صفحه ۲۸ ہلے حضور کی تقریر کا خلاصہ ماہنامہ الفرقان بابت ماہ وفا جولائی یا یا اس پر میں میں شائع شدہ یہ مشن میں شائع شدہ ہے.ایضا "الفض" ۳۰ وفا جولائی ہ میں مت.ریسرچ کی یہ عمارت ایک دوست کی ذاتی کوششوں کا نتیجہ تھی ؟ ه الفضل " ۲۵ شہادت / اپریل مش مت کا لم ما بے کے فائل ریزولیوشنر کالی کمیٹی.
Al التخانوں کا نتیجہ گذشتہ پانچ سالوں میں سب سے سخت رہا تھا اور اسی لئے کالج کے اس نتیجہ نے اگر چہ جماعت کے بلند علمی حلقہ میں آئندہ بہت بہتر نتائج کی امید پیدا کردی تو مگر یہ نتیجہ حضرت سیدنا المصلح الموجود کی توقع سے کم گیا جس کی اطلاع اللہ تعالے کی طرف سے آپ کو بذریعہ رویا قبل از وقت دی جا چکی تھی بیٹے حضرت صاحبزادہ مرزا نا سر احمد صاحب ایده الله تقی) کو ہمیشہ احمدی طلباء کی روھانی اور اخلاقی تربیت ام ایرانی کا شکر دامن گیر رہتا تھا اور اس کے لئے آپ کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے.ماہ انسان / مجون میش کا واقعہ ہے کہ کالج موسمی تعطیلات میں بند تھا اور طلبہ اپنے اپنے گھروں میں چھٹیاں گزار رہے تھے.اس دوران میں آپ نے اپنے مسلم مبارک سے حسب ذیل مراسلہ تحریر فرمایا ہے.عزیزم.بسم الله الرحمن الرحيم تحدة و تصلى على ربه له الكريم دفتر تعلیم اسلام کالی قادریان السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ آپ کا تعلیم الاسلام کالج میں داخلہ آپ کے لئے ہزارہ برکات کا موجب ہے اور ہم پر تراع قسم کی ذمہ داریاں عائد کرتا ہے.اس لئے میں نے مناسب خیال کیا کہ اب جبکہ آپ اپنے گھروں میں چھٹیاں گزار رہے ہیں بعض ضروری باتوں کے متعلق آپ کو یاد دہانی کرا دوں.امید ہے کہ آپ عزیز اُن کی طرف خاص توجہ دے کر ثواب دارین حاصل کریں گے.اور احیاء اسلام " کے لئے ایک مفید وجو بن کر اپنے رب کی رضا آپ کو حاصل ہوگی.(۱) نماز با جماعت کے پابند رہیں (۲) تبلیغ (حتی المقدور ) ضرور کرتے رہیں (۳) کالج کے نئے ایک سو روپیہ چندہ اکٹھا کر سکے ضرور لائیں.(م) کالج میں داخل ہونے کے لئے پراپیگنڈا کرتے رہیں (۵) آپ کے ذتہ خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے لئے بھی پانچ سے دس روپیہ کا چندہ الفضل و اجرائی اس صفحہ ۲ کالم ہے.شامل امتحان ہونے والوں میں ۲۷۷ سائنس کے اور ۳۵ آرٹس کے ه الفضل" ۲۳ ظهور اگست ۳۲۵ ریش صفحه ۱ + طالب علم تھے : ه ای فرانسر سید عبدالباسط صاحب کارکن خدام الاحمدیہ نے دستی پریس پر بطور سر کر چھاپا اور آپ کی ہدایت کے ماتحت طلبیات کالج کو بھیجوایا گیا ہ
۸۲ گا.ا گیا تھا.یہ بالکل ہی معمولی کام ہے.ذرہ سی توجہ سے ہو سکتا ہے.خدا تعالٰی آپ کے ساتھ ہو اور آپ کو حقیقی احمدی بنائے " مکتوب کا چربہ کالم آپکا تباع الاسم کا لج میں داخلہ آپ کے لئے ہزار ہا حریکات میں مرتب ہے اور میر ہزار ہا قسم کی ذمہ داریاں عائد کرتا ہے اسلئے میں نے مناسب خیال کیا کہ اب جبکہ آپ اپنے گودی میں بھی کال گزار رہے میں عرض ضروری باتوں کے متعلق تک آپ کو بار زندانی کرا اون امورپ کو آپ عزیز این شیرینه ام آوجه عزیزان - دیکه خواب را ببین حاصل کرینگے اور اعیاد اسلام کے این الی سفید وجود نیکر اپنے رب کی رضا آپ کو حاصل ہوگی دایا نماز با جما عت کے پابند رہیاں دے نا تبلیغ
تی ان عقود ضرور کرتے ہیں سلام کا لجم کے لئے ایک من روپیه پنده آٹھا کر کے خوار لائیں (4) کالم میں را خالی ہو چکے لئے پرو پیگنڈا کرٹ ایریا ری آپکی آمد خدام الامیر مرکزیہ کے لئے بھی ڈارغم سے دس روپیہ کہ کا غیرہ لگایا گیا تھا یہ بالکل ہی معمولی کام ہے.درہ کسی توجہ سے ہو سکتا ہے کالج میں فضائی تربیت خدا قسم آپ کے ساتھ ہوانہ آپ کو حقیقی الکلی بنائے پرو فیسر چودھری محمدعلی صاحب ایم.اسے تحریر کرتے ہیں.قادیان میں ۱۰۸۰۲.۵ یعنی فضائی تربیت کی کلاسیں شروع ہوئیں.اس کے لئے مکرم سید فضل احمد صاحب اور عاجز اور بعد میں چوہدری فضل داد حصان ٹریننگ کے لئے سکندر آباد گئے اور واپس آکر یہ کلاسیں شروع کیں.ہم پنجاب یونیورسٹی کے جنگ کا حصہ تھے.سردار بیگیر سنگھ جو ہمارے استاد پروفیسر شوچون سنگھ کے لڑکے تھے ہمارے ونگ کے کمانڈر تھے لہ تعلیم الاسلام الحق قادیان کی اس رسالہ رود او پر روشنی قادیانی کالج کی علیمی مرگ یوں آخری دن مہینے کے بعداب ) ، مراحسان اون با بیش ڈالنے ہم لبرت انیش کو کالی کی پیشل ایر فورس کلاس کی پاسنگ آؤٹ پریڈ ہوئی جس کی رپورٹ افضل " ہر ماہ ہجرت امی لہ مہش میں شائع شدہ ہے.
AN کے اس یادگار دن تک آپہنچے ہیں جو قادیان میں کالج کی تعلیمی سرگرمیوں کا آخری دن تھا.اس روز حضرت صاحبزادہ برینا ناصر احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ نے آرڈر ٹنگ سٹاف میں یہ تحریر فرمایا کہ کالج یکم جولائی عنہ سے گرمی کی تعطیلات کے لئے بند ہو کہ تیرہ کو دوبار کھلے گا.یہ سرکا کالج کے دورف ادیان کا آخری فرمان ثابت ہوا.کیونکہ مومی تعطیلات کے دوران ہی یہ ظہور اگست می کو ملکی تقسیم عمل میں آئی اور ساتھ ہی ہر طرف قتل و غارت کا بازار گرم ہوگیا.ا اتارا اکتوبر پر پیش کوسات اور طلبہ کی موجودگی میں تعلیم الاسلام کالج اور فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی شاندار عمارتوں پر زبردستی قبضہ کرلیا گیا.اور بیش قیمت اور جدید ترین آلات سائنس اور ہر قسم کے علوم و فنون پر شتل لائیبریری چھین لی گئی ہے حر صاحبزاد میرزا ناصراح صاحب موسمی تعطیلات میں کالج کے اثر اساتذہ وطلبہ قادیان سے باہر چلے گئے.مگر حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اپنے اللہ تعالے، یکم وفاء سے لے کر کی پاکستان میں بہت زیست او مبرا ہی پیش تک قادیان میں تشریف فرما رہے اور قیام امن و صلح کے لئے شب و روز مصروف عمل اور سرتا پا جہاد بتے رہے.اسی دوران میں سیدتنا المصلح الموعود کی طرف سے پاکستان آجانے کا ارشاد ملا جس پر آپ ۱۶ نبوت نمیبر پارس کو قادیان کی مقدس اور پیاری بستی سے ہجرت کر کے پاکستان تشریف لے آئے اور ساتھ ہی تعلیم الاسلام کالج قادیان کے دور اول کی تاریخ کا آخری درق بھی الٹ گیا.شده "الفضل" ، صلح /جنوری ۱۳۲۷ میش صفحه ۵۰۴ "المنار" احسان / مئی جون لله مش صفحه ۲۲ ۰ الفضل مسلح جنوری اور پیشی صفحہ ۴.آپ جس کنوئے میں قادیان سے لاہور پہنچے.وہ دس ٹرکوں پرمشتمل تھا.صفحہ ۴.اس کٹواٹ کے بغیریت پہنچنے کی خیر" الفضل مدنبوت تو بر میں صفحہ ا پر چھپ گئی تھی.۱۳۳۶ " بر سلام
۸۵ فصل چهارم لاہور میں اس کی زندگی کا ہفت سالہ دور ماه استار اكتوبر الدش ماه نبوت رنو براش حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب پر سیل تعلیم الاسلام کا لج ابھی قادیان میں تھے کہ خدا کے اولوالعزم عالی ہمت اور ذہین و فہیم تعلیقہ موعود نے ہجرت پاکستان کے بعد یہ ارشاد فرمایا کہ تعلیم الاسلام کالج کو جلد سے جلد کھولنے کا انتظام کیا جائے اور چوہدری عبدالاحد صاحب ڈائریکٹر کو ریسرچ اور کالج کے لئے موزون عمارت تلاش کرنے پر مقر فرمایا.نیز قادیان لکھا کہ پروفیسر چوہدری محمد علی صاحب ایم.اسے فی الفور لاہور بھجوا دیئے جائیں مو شود یہاں پہنچے تو انہیں قائمقام پرنسپل تجویز کر دیا گیا.۲۰ خاور اکتوبر کو آپ نے کالج کے فوری اخراجات کے لئے؟ ڈیڑھ سو روپیہ بطور پیشگی دیئے بجانے کی درخواست کی جو دے دیئے گئے.۲۳ اتحاور اکتوبر کو چودھری صاحب : ڈاکٹر صاحب کے ساتھ مل کر حصول عمارت کی بعد و جہد کرنے کا ارشاد ملا چودھری صاحب اور فیضی صاحب نے پہلے دن ہی اپنی سرگرمیاں تیر یہ کر دیں اور لاہور میں خالصہ بورڈنگ ہائوس کی عمارت دیکھنے کے بعد مفصل رپورٹ اگرچہ اگلے روز ۲۴ ماه اختار اکتوبر کو صدر کا لی کمیٹی حضرت مرزا شریف احمد صاحب کو بھیجوا دی مگر ساتھ ہی حضرت امیرالمومنین کی خدمت میں تحریری طور پر یا رب عرض کیا کہ با حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی رائے یہ ہے کہ سردست کا لج نہ کھولا جائے.خاکسار کی گزارش یہ ہے کہ لاہور میں کالج کھولنے کی ضرورت نہیں.فی الحال اگر یہ فیصلہ ہو کہ طلباء صرف ایک کالج میں داخل ہوں تو ایک حد تک ان کی نگرانی ہو سکتی ہے.ورنہ خواہ اپنا کالج ہی کیوں نہ (جو فسادات کے دوران گجرات میں تھے) ناہوں کی مسموم ہوا میں طلباء کو شکنجے میں رکھنا کسی صورت میں قابل حمل نہیں ہوگا اسے ملے کالج کے باقی اکثر استند ان ایام میں قادیان یا ہندوستان کے دوسرے علاقوں میں بھرے ہوئے تھے چنانچہ پر وفیسر عبد الشستان ایک کمیٹی کا اپنی جیب تو حیدر آباد کی میں تھے کہ جنگ سے شروع ہو گئے ایل کا رستہ بہن ہو گیا، امداآپ یہ نبوت اون بر اسایش کو بد بیعہ بھری جہاز بیٹی سے کراچی کیلئے روانہ ہوئے اور کراچی سے لاہور پہنچے.پروفیسر عباس بن عبد القادر صاحب اپنے وطن بہار میں چھٹیاں گذار رہے تھے اور یصور مشکل پاکستان میں آئے ؟ ے اس خط کیلئے ملاحظہ ہو " فائل بھائی کائی".
AY چوہدری محمد علی صاحب ایم.اے کا بیان ہے کہ سیان اصلاح الوجود کا تاریخی فیصلہ میں نے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں عرض کی کہ پرنسپل اور اس نے قادیان سے ایک مشورہ بھیجا ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر حضور مناسب خیال فرمائیں تو موجود حالات میں کانچ کا بوجھ جماعت پر نہ ڈالا جائے.اس پر حضور خاموش رہے.پھر حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب درد نے عرض کیا کہ حضور میرا بھی یہی خیال ہے حضور پھر بھی تھا موش رہے.پھر کسی اور نے مشورہ دیا یعنی کہ حضرت میاں بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالے نے عرض کیا کہ حضور میرا بھی پہچانیان ہے.اس پہ اللہ تعالیٰ کے اولوالعرم خلیفہ رضی اللہ تعالے نے اتنے جوش اور بلند آواز سے کہ سب کے دل دہل گئے، فرمایا آپ کو پیسوں کی کیوں فکر پڑی ہوئی ہے.کالج ملے گا اور کبھی بند نہیں ہوگا " اور پھر اس ضاحیہ سے فرمایا کہ آسمان کے نیچے پاکستان کی سرزمین میں جہاں کہیں بھی جگہ ملتی ہے لے لو اور کالج شروع کرو اس فیصلہ کے علاوہ حضور نے ۲۴ اضفاء اکتوبر کو ارشاد فرمایا کہ میاں عطا واله مین صاحب پروفیسر تعلیم الاسلام کا لج کو فوری طور پر قادیان سے یہاں بجوانے کا انتظام کیا جائے نیز انہیں یہ ہدایات بھی بھیجی جائیں گر وہ کالج کے سامان کی مکمل فہرست بھی تیار کر کے اپنے ساتھ لے آئیں.اس فہرست میں وہ سائنس کے سلمان کو خاص طور پر مد نظر رکھیں بچو ہدری محمد علی صاحب نے حضور کا یہ فوری حکم حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کو قادیان بھیجوا دیا اور میاں عطانا الرحمن صاحب بھی لاہور پہنچ گئے.شار را کتوبر کو مصور نے مزید ہدایت فرمائی کہ صوفی بشارت الرحمن صاحب اور محمد صف یہ صاحب کو لگانے کے لئے قادیان آکھا جائے.اس حکم کی بھی تعمیل کی گئی.حضور کا منشار مبارک ہونکہ فی الفور کالج کے قیام و تاسیس کا تھا.اس لئے لاہور کے علاوہ امین آباد گوجرانوالہ کوٹ شہر میں موزوں جگہ کی تلاش میں دوڑ دھوپ کی گئی : ۲۷ امضاور اکتوری پیش کو ملک فیض الر حمن صاحب فیضی را دپر ہی بھجوائے گئے اور خود چو ہدری محمد علی صاحب لائل پور اور سانگلہ ہل پہنچے.لائل پور ه تحریری بیان پور هندی فری علی صاحب ایم است اکورن ۷ بار نبوت (نومبر سال پیش بغیر مصبوحه) 44947
میں آریہ سکول کی عمارت نہایت اعلی تھی مگر ڈیٹی کمشنر صاحب لائلپور نے کہا کہ اسے فی الحال حکومت پاکستان کے مریکہ کے تحت دیتا ہو کر کیا گیا ہے.اس لئے کوئی کامیابی نہ ہوسکی.اتحاد اکتوبر کو حضرت اقدس نے ارشاد فرمایا کہ سانگلہ ہل میں جا کر قورا تخالصہ ہائی سکول پر قبضہ لیا ہے اور قبضہ لیتے وقت ڈائر یکٹر صاحب سے یہ طے کر لیا جائے کہ ہم فوری طور پر کالچ کا اجراء وہاں نہیں کر سکتے جنوری یا اپریل میں کر سکیں گے کیونکہ ابھی تک ہمارے پاس سائنس کا سامان نہیں.ہنڈا اس اثناء میں کیسی اور کو سکول کا قبضہ نہ دیا جائے حضور کے فرمان کی تعمیل میں عارضی طور پر یہ سکول جماعتی تحویل میں لے لیا گیا.نگر سکول کی عمارت متحت ناقص تھی اور صحن بھی بہت چھوٹا تھا.لہذا اسے ترک کر دینا پڑا.ڈیرہ غازیخاں اور ملتان کے بعض دوستوں سے رابطہ قائم کر کے معلومات حاصل کی گئیں کہ کیا وہاں نیشنل کالی ہیں اور سائنس کا سامان بھی موجود ہے وغیرہ وغیرہ.مگر اس بارہ میں اس تگ و دو کا اصل محور لا ہور ہی رہا جہاں ماہ اتحاد / اکتوبر کے آخری ہفتہ میں ڈی.اے.دی کالج کے متعلق درخواست دے دی گئی اور ساتھ ہی لکھ دیا گیا کہ جب تک یہ کالج پناہ گزینوں سے تعالی نہیں ہوتا اتنی دیر ہم دوسری جگہ کالج جاری کرلیں گے چوہدری محمد علی صاحب کے بیان کے مطابق سکو نیشنل کالج پر بھی قبضہ لیا گیا لیکن یہ قبضہ بھی بوجود ختم ہو گیا بست نگر میں مخالصہ ہوسٹل اور جنج گھر بطور ہوسٹل حاصل کئے گئے مگر چھوڑ دیئے گئے.کالج کے لئے عارضی عمارت کی تلاش ابھی ابتدائی مرحلہ میں تھی کہ کالج کا دفتر بود عامل بلڈنگ کے مات مغربی جانب سیمینٹ والی عمارت میں کھول دیا گیا جہاں ایک بورڈ لکھوا کر رکھ دیا گیا اور گرم عبدالرحمن صاح نہیں یمی بورڈ کے پاس فرش پر دیگر کارکنان دفاتر کی طرح بیٹھ گئے اور - ارفتح /دسمبر سے کالج میں داخلہ کا آغاز کردیا گیا.لیٹ فیس کے بغیر دس روز تک جاری رہا.داخلہ کالج کی رپورٹ باقاعدگی سے روزانہ حضرت مصلح موعود کی خدمت اقدس میں بھیجیائی بھائی تھی.اگر چہ پاکستان آکر تعلیم جاری رکھنے والوں کی اکثریت کالج کے جھنڈے تلے جمع ہوگئی.پھر بھی ان کی تصدی ساٹھ سے بڑھ نہ سکی ہے تاہم اتنے طلبہ کا داخلہ لینا بھی ایک گونہ حوصلہ افزا بات تھی جس میں حضرت مصلح موعود مر اسلم حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب ناظر علی بنام سکرڑی صاحبین کالی کٹی محره ۳۰ مجری یکم نبوت اومبر میشه نے موجودہ انجنیر رنگ یونیورسٹی لاہور سے متصل کے فصل ۱ نبوت / تو میری سفر ۲ کالم ۵۳ کے رپورٹ تحریر فرمودہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب دیں اللہ تعالے، مرقومہ الفضل..
AA کی خاص توجہ کا عمل دخل تھا.چنانچہ انہی ایام میں اپنے قلم مبارک سے حسب ذیل تحریک شائع فرمائی : تمام احباب جماعت کو توجہ دلائی جاتی ہے کہ وہ موجودہ شورش سے اس طرح نہ گھبرائیں کہ لڑکے تعلیمی روم ہو جائی جائے.واعلم انے ارادہ کے تانے بچوں کایہ سے اور اس میں مال کر دیں یا یہ ہی کی بی بی ایس سی میں داخل کروائیں.اور چاہیے کہ ہر احمدی تعلیم الاسلام کا رنج میں اپنے لڑکے کو داخل کروائے اور اس یادہ میں لڑکے کی مخالفت کی پروانہ کر سے تا کہ دینیات کی تعلیم ساتھ کے ساتھ ملتی جائے.اکسار مرزا محمود احمد خلیفه اسمه تعلیم الاسلام کا یہ جاری کیے نے سے پہلے سائنس کا ستر کا مال حل کرنا ضروری تھا چنانچہ حضرت مصلح موعود نے ۲۷ اتحاد / اکتوبر سے مہیش کو ارشاد فرمایا کہ کہ الیت بسی کا لج والوں سے نور ابل کر پریکٹیکل میں اشتراک عمل کا فیصلہ کیا جائے اور پھر وائس چانسلر سے عارضی طور پہ لا ہور میں کو ٹھیال کرایہ پر لے کو کالج کھولنے کی اجازت کی بجائے نے ایف سی کالج (فارمین کرسچین کالج میں لیبارٹریز موجود تھیں مگر ہندوستان بھارت بھا چکا تھا.اس بناء پر یہ معاہدہ طے پایا کہ تعلیم الاسلام کالج کے پروفیسر ایف سی کالج میں پڑھائیں گے اور دونو کالجوں کے طلبہ ان کے لیکچر اور سائنس لیپار ٹریوں سے استفادہ کریں گے سائنس کی تلی تعلیم کا بندوبست ہونے کا تو آرٹس کا ستر کے اجراء اور طلبہ کالج کی رہائش کے لئے ایف سی سے کالج کے عقب میں ڈاکٹر کھیم سنگھ گریوں کی کوئی حاصل کرلی گئی جہاں در نبوت انو مر یہ ہی سے تو موت کا میں شروع کر دی گئیں بیاہ نبوت / نومبر کو حضرت مرزا شریعت احمد صاحب صدر کا لج کیٹی نے وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی کو اطلاع دی کہ تعلیم الاسلام کا لج کا شافت اور طلبہ لاہور پہنچ پکے ہیں اور سائنس کی کلاسز کے لئے ماضی طور پہ فارموں کو چین کا لی لاہور سے معاہدہ کر لیا گیا ہے لہذا کا لج کھولنے کی منظوری دی جائے.وائس چانسلر نے اس کے اجداد کی منظوری دے دی.چند دن بعد ( ۱۶ راہ نبوت کی حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب بھی قادیان سے لاہور تشریف لے آئے له الفضل لاہور ۱۵۰ نوت / نومبر ۱۳۳۷ ش صفحه ۲- کالم ۲۳ کے سر کو حضرت نواب محمد عبداللہ خان ناظر اعلی بنام سکرٹری صاحبہ کا رنج کمیٹی مور ته ۲۷ امضاء را گفته یه مش ؟ ر تاریخ چوہدری محمد علی صاحب ایم.اے کے ایک خط سے متعین ہوتی ہے جو آپ نے دو نوبت ۱۳۲۶ راستے تعین ہوتی ہے جو آپ نے ہر نبیوت ۱۳۲۲ مہیش کو حضرت پرنسپل حیات تعلیم المصر مکاری قادیان کے نام لکھا تھا اور اب تک ریکارڈ میں شامل ہے ؟ الفضل نبوت اومبر مینی صفحه ۴ کالم ۶۳
A9 اور کالج کا انتظام دوبارہ اپنے ہاتھ میں لے لیا.کالج کے لئے موزون عمارت تلاش کرنے کی جو مہم جاری تھی اس کا نتیجہ سر فتح او سمیر تار میش کو صرف یہ برآمد *$1902- ہوا کہ محکمہ بحالیات نے ۳۷ کیستال پارک لاہور کی ایک نہایت بوسیدہ عمارت (جو ڈیری فارم یا اصطبل کے طور پر استعمال ہوتی رہی تھی ، عطا کی اور اسی روز اس کا قبضہ لے لیا گیا ہے جگہ نہایت تنگ اور مختصر تھی صنفوں پر کلاسیں ہوتی تھیں.طلبہ کی تعداد ساٹھ کے قریب تھی.ان لٹے پٹے طلبہ نے علم کے حصول کی خاطر ہر قسم کی سختیاں نہیں اور مشکلات خندہ پیشانی سے برداشت کیں.وہ دن کے وقت بین صنفوں پر بیٹھ کر اساتذہ کے لیکچر سنتے رات کو انہی صفوں پر سو رہتے.نمازیں بھی اسی جگہ ادا کی جاتیں اور کھانا بھی نہیں کھایا جاتا.ان دنوں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اسے اتفاقاً اس کال کو دیکھنے تشریف لے گئے اور بے حد متاثر ہوئے احد اپنے قلم سے مندرجہ ذیل تا ثرات الفضل میں شائع کرائے ہو اس ماحول کی صحیح عکاسی کرتے ہیں.آپ نے تحریر فرمایا.آج مجھے اتفاقاً اپنے تعلیم الاسلام کا لج آف قادیان حال لاہور کو چند منٹ کے لئے دیکھنے کا موقعہ ملا.ہمارا ڈگری کالج جو موجودہ فسادات سے قبل قادیان کی ایک وسیع اور عالیشان عمارت میں اپنے بھاری سازوسامان کے ساتھ قائم تھا وہ اب لاہور شہر سے کچھ فاصلے پر نہر کے کنارے ایک نہایت ہی چھوٹی اور تنفیر سی عمارت میں مل رہا ہے.اس عمارت کا نچلا حصہ قریباً قریباً ایک اصطبل کا سارنگ رکھتا ہے اور اوپر کی منزل چند چھوٹے چھوٹے کمروں پر جو نہایت سادہ طور پر بنے ہوئے ہیں مشتمل ہے عمارت کی قلت اور کمروں کی کمی کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ ایک ہی عمارت سے کالج اور بورڈنگ کا کام لیا جا رہا ہے.بلکہ حق یہ ہے کہ اس عمارت کا صرف ایک کمرہ کالج کے استعمال میں ہے اور باقی کمروں میں بور ڈر رہائش رکھتے ہیں جن میں سے بعض چار پائیاں نہ ہونے کی وجہ سے فرش پر سوتے ہیں اور بڑی تنگی کے ساتھ گزارہ کر رہے ہیں.لیکن بایں ہمہ میں نے سب بور ڈروں) کو ہشاش بشاش پایا جو اپنے موجودہ طریق زندگی پہ ہر طرح تسلی یافتہ اور قانع تھے.اور کالج میں پڑھتے ہوئے لاہور جیسے شہر میں جھونپڑوں کی زندگی میں منوش نظر آتے تھے.یہ اس اچھی روح کا ورثہ ہے بنو خدا کے فضل سے احمدیت نے اپنی جماعت میں پیدا کی ہے اور میں اس روح پر کالج کے طلباء اور کالج کے سٹاف کو قابل مبارک باد سمجھتا ہوں.مله انسان دری پہیلی ٹیش کمتر کے دستخط سے الاٹمنٹ کی منظوری کا کاغذ " فائل بھائی کا ملح وہ ہے " سے منسلک ہے ؟
4.مگر میں چیز نے میرے دل پر سب سے زیادہ اثر پیدا کیا وہ کالج کی کلاسوں کی حالت تھی جیسا کہ میں اُوپر بتا چکا ہوں موجودہ عمارت کا صرف ایک کمرہ کالج کی ضروریات کے لئے فارغ کیا جاسکا ہے اس لئے باقی کلاسیس پر آمدوں میں یا کھلے میدان میں درختوں کے نیچے بیٹھتی ہیں لیکن خواہ وہ کمرہ میں بیٹھتی ہیں یا کہ برآمدہ میں اور خواہ کھلے میدان میں، ان سب کا یہ حال ہے کہ چونکہ کوئی ڈیسک اور کوئی میز کرسی نہیں، اس لئے پڑھانے والے اور پڑھنے والے ہر دو چٹائیاں بچھا کر بیٹھتے ہیں مجھے اس نظارہ کو دیکھ کر وہ زمانہ یاد آیا کہ جب دینی اور دنیوی ہر دو قسم کے علوم کا منبع مسجدیں ہوا کرتی تھیں جہاں اسلام کے علماء اور حکماء فرش پر بیٹھ کر اپنے ارد گرد گھیرا ڈالے ہوئے طالب علموں کو درس دیا کرتے تھے.اور اس قسم کے درسوں کے نتیجہ میں بعض ایسے شاندار عالم پیدا ہوئے کہ صدیاں گذر جانے کے باد بود آج کی دنیا بھی ان کے علوم سے روشنی حاصل کرنے میں فخر محسوس کرتی ہے.یکن نے کالج کے بعض بچوں اور پروفیسروں کو بتایا کہ انہوں نے پرانے زمانہ کی یاد کو تازہ کیا ہے اور جس خوشی کے ساتھ انہوں نے حالات کی اس تبدیلی کو قبول کیا ہے وہ ان کے لئے اور ہم سب کے لئے باعث فخر ہے.میں نے انہیں یہ بھی بتایا کہ موجودہ حالات سے انہیں یہ سبق سیکھنا چاہیے.کہ تحقیقی علم ظاہری ٹیپ ٹاپ اور ظاہری ساز و سامان سے بے نیاز ہے اور جھونپڑوں کے اندر فرشوں پر بیٹھ کر بھی انسان اسی طرح علوم کے خزانوں کا مالک بن سکتا ہے جس طرح شاندار ساز و سامان استعمال کرنے والے علم حاصل کرتے ہیں بلکہ یہ صورت دروح کی درستی کے لحاظ سے زیادہ مفید ہے.اور انسانی قلب کو علم کے مرکزی نقطہ پر زیادہ جنگی کے ساتھ قائم رکھ سکتی ہے کیونکہ جب ماحول کی زیب و زینت نہیں ہوگی تو لانا انسان کی آنکھیں اور انسان کے دل و دماغ علم کی طرف زیادہ متوجہ رہیں گے میرا یہ مطلب نہیں کہ ضروری سامان جو موجودہ علم کے حصول کے لئے ضروری ہے اسے حاصل نہ کیا جائے.جو چیز حقیقتا ضروری ہے وہ علم کا حصہ ہے اور ہم اس کی طرف سے غافل نہیں رہ سکتے اور موجودہ صدیریت میں بھی ہم اس کے لئے کوشاں ہیں.مگر ظاہری ٹیپ ٹاپ یا زیب و زینت کا سامان یا آرام و آسائش کے اسباب بہر حال زائد چیزیں ہیں جو علم کے رستہ میں محمد ہونے کی بجائے روگ بننے کا زیادہ امکان رکھتی ہیں.ہمارے آقا (فداہ نفسی صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.القمر فری یعنی فقر میرے
91 لئے فخر کا موجب ہے.اس سے بھی یہی مراد ہے کہ مجھے آسائش کے سامانوں کی ضرورت نہیں اور میری روح ان چیزوں کے تصور سے بے نیاز ہے جو محض جسم کے آرام کا پہلو رکھتی ہیں اور روح انسانی کی ترقی میں محمد نہیں ہو سکتیں.اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں - البوا العلم ولد پایین یعنی علم کی تلاش کرو خواہ اس کے لئے تمہیں چھین کے ملک تک جھانا پڑے چونکہ اس زمانہ میں چین کا ملک ایک دور افتادہ ملک تھا اور اس میں رستہ کی صعوبتوں کے علاوہ دنیوی آسائش کے بھی کوئی سامان موجود نہیں تھے اس لئے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے یہ حکیمانہ الفاظ فرماکر یہ اشارہ کیا کہ حقیقی علم دنیوی آسائشوں اور ساز و سامان کے ماحول سے آزاد ہے بہر حال میں بہت خوش ہوں کہ ہمارے بچوں نے یا کم از کم ان میں سے اکثر نے ماحول کی موجود تبدیلی میں اچھا نمونہ دکھایا ہے اور اگر وہ مخلوص نیت کے ساتھ اس روح پر قائم رہیں گے تو مجھے یقین ہے کہ وہ علم کے حصول کے علاوہ سادہ زندگی کی برکات سے بھی پوری طرح فائدہ اٹھانے والے ثابت ہوں گے اے لاہور میں تعلیم الاسلام کالج کی زندگی کے ابتدائی دو ماہ ماہ فتح ہو میر ی تعلیم الاسلام کالج کار ش ماه صلح جنوری در نهایت در بعد بے سروسامانی اور آشفتہ حالی کے تھے جن میں کالج کے گذشتہ نظام تعلیم کے اختیار کا فریضہ حضرت صاحبزادہ مرزا 1 ناصر احمد صاحب کی قیادت میں اخوند محمد عبد القادر صاحب ایم.اے) صوفی بشارت الرحمن صاحب ایم.اے) عباس بن عبد القادر صاحب ، چوہدری محمد علی صاحب ایم.اے ، میاں عطاء الرحمن صاحب ایم ایس یہی، چوہدری محمد صفدر صاحب چوہان شیخ محبوب عالم صاحب خالد ایم اے بھی.ٹی ، ملک فیض الرحمن صاحب فیقی بعجیب اللہ خان صاحب ایم ایس سی ، سید سلطان محمود صاحب شاہر اہم.ایس سی ، نے انجام دیا.ان، اساتذہ کرام کے علاوہ جو قادیان ہی سے کالج کی تعلیمی خدمات بجالار ہے تھے لاہور میں حسب ذیل اصحاب کبھی کالج کے سٹاف میں شامل کئے گئے :- محمد اسحاق صاحب الم جیلانی کامران صاحب > " الفضل اورامان / مارج مین صفحه ۴۶ تبلیغ ضروری ره ش)
۹۲ اقبال حسین صاحب (ہجرت مئی مش ) / شاء اللہ صاحب بھٹی سید محفوظ علی صاحب ایم ایس سی د تبوک استمبر * چو ہدری غلام علی صاحب صوفی عبد العزیز صاحب شوکت علی صاحب د نبوت / نومبر ، " ( ( صلح (جنیدی ۳۳ ه هش) راجہ محمد مقبول انہی صاحب ایم.اے ر احسان جون 1401 ( مولانا ارجمند خان صاحب فاضل ر تبوک استمبر را بعد محمد نصر اللہ احسان الہی صاحب ( صلح جنوری ۳۲ یه مش ) یش میاں منور حسین صاحب امان/ مارچ مولانا غلام احمد صاحب بدوملہی فاضل (ہجرت امئی l ( نصیر احمد خاں صاحب الله بش ملک محبوب الہی صاحب پروفیسر کرامت انہی صاحب احمد دین صاحب میر محمود احمد صاحب د احسان جون تبوک استمبر 春 " • ) استفاد/ اکتوبر ۱۳۳۱ ش) حسین ظہیر صاحب د نبوت / نومبر MAY 4 محمد یعقوب صاحب ایم.اے.ایل ایل بی امان مارچ فرمان اللہ خان صاحب نور محمد صاحب ناز صدیقی ر ١٣٣٢ 1964 د فتح ا دسمبر ۱۳۳۲ پیش • 11907 ڈی.اے وی کالج کے کھنڈرات پر قبضہ علی الاسلام کا لج کینال پارک کی بوسیدہ عمارت ہیں وسط ماہ شہادت / اپریل سالہ مبش تک چلتا رہا.جس کے بعد اور شہادت اپریل کو ڈی، اسے دہی کا لی اور کی ٹوٹی پھوٹی اور بسیار شدہ امارات الٹ ہوئی اور نے کالج کی فائل 22.ہے "
۹۳ وار شہادت / اپریل کو اس پر قبضہ ملا اور پھر یہاں کا لج منتقل کر دیا گیا.صوبہ کے اس نہایت مشہور اور عالیشان کاناج کا سارا سامان غیر مسلم پناہ گزینوں کے ہاتھوں بالکل غارت ہو چکا تھا یا ہندوستان پہنچ چکا تھا ستی کہ کسی میز، کرسی یا ڈیسک کا نام و نشان تک باقی نہ رہا تھا.لیبارٹریوں میں ٹوٹی شیشیاں بکھری ہوئی تھیں اور گے علیہ کے ڈھیروں سے آٹے پڑے تھے.اس خستہ سامانی کا اندازہ اس امر سے کیا جا سکتا ہے کہ محض کمروں اور لیبارٹریوں کی صفائی پر قریباً ستائیس سو روپیہ خرچ کرنا پڑائیے علاوہ ازیں لاکھوں روپے کے صرف سے کالج کو پھر سے بدید تجربہ گاہوں سے آراستہ کیا گیا.فرنیچر تیاز کیا گیا اور لائبریری کا قیام عمل میں لایا گیا.کھنڈرات پر کالج تو کس طرح آباد ہوا.اس کا نقشہ حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل تعلیم الاسلام کالج نے انہی دنوں ذیل کے الفاظ میں کھینچا :- کو ہم بے سرو سامانی کا سال کہہ سکتے ہیں اور جن نوجوانوں نے اپنے کالج کے اس نازک تریں دور کو ہمت اور بشاشت سے گزارا وہ یقیناً قابل قدر ہیں.خاصی تگ و دو و ناظم تعلیمات عامہ پنجاب کے ہمدردانہ رویہ کے نتیجہ میں....کالج کی آباد کاری کے لئے ڈی.اے وی کالج کے کھنڈرات پر ہمیں قبضہ ملا.ان عمارتوں کو غیر مسلم پناہ گزین کلی طور پر تباہ و برباد کر چکے تھے.دروازوں کے تختے اور چوکھٹے، روشندان، الماریاں وغیرہ ہر قسم کا فرنیچر غائب تھا.عمل گاہوں میں ٹوٹی ہوئی شیشیوں کے بکھرے ہوئے ٹکڑوں کے سوا کچھ موجود نہ تھا.پانی اور گیس کے نل ٹوٹے ہوئے پڑے تھے نہیں چالیس ہزار کتابوں پرمشتمل مشہور کتب خانے کی اپ ایک جلد بھی باقی نہ تھی.یہ وہ کھنڈر تھے جن میں مئی سنہ میں ہم آباد ہوئے اور ہماری فوری توجہ ان ضروری اور نا گزیر متوں کی طرف منعطف ہوئی.چنانچہ شروع میں گیس پلانٹ کو درست کروایا گیا اور شعبہ کیمیا کے لئے ضروری سامان خرید کر کیمیا کے عملی تجر بے اپنے کالج میں ہی شروع کروا دیئے گئے طبیعیات کے لئے ہمیں ایم.اے او کالج سے انتظام کرنا پڑا.جن کے ہر اور انہ سلوک کے ہم ہمیشہ ممنون رہیں گے کیونکہ ابھی اصل ہوسٹل پر قبضہ نہ ملا تھا.اس لئے کالج کے ہی ایک حصہ کو مرمت کروا کے عارضی طور پر یہ ہوسٹل بنا دیا گیا.جس میں اندازہ پچاس پچپن طلبہ کی گنجائش تھی جو وقتی طور پر کافی سمجھی گئی گو عملاً طلبہ اس سے بہت زیادہ آگئے جس کے نتیجہ میں ایک ایک کمرہ میں آٹھ آٹھ طلبہ کو رہنا پڑا ہے نه رساله المنار مئی جون ۱۹۶۰ صفحه ۰۲۴ ه ایضاً الفضل نے شہادت اپریل س ش صفحه ۳.ارش *
۹۷ شاندار نتائج اور حضرت مصلح موعود ہے کہ ان امت میں وہ کون ہنی سکون میر اس کا تھانہ پونی سہولتیں حاصل تھیں خصوصاً سانس کے طلبہ کو جنہیں طبعیات کے عملی کا اظہار خوشنودی اور اہم ہدایات تجربات کے لئے خاصہ فاصلہ طے کر کے ایم اے او کالج جانا پڑتا تھا مگر پھر بھی دوسرے سال ہی کا لج اپنے نتائج کے اعتبار سے صوبہ کے ممتاز ترین کالجوں کی صف اول میں شمار ہونے لگا.چنانچہ جہاں بی.اے میں یونیورسٹی نتائج کی اوسط ۳۹۸ تھی وہاں تعلیم الاسلام کا لج کی اوسط ۸۳۳ رہی.اسی طرح دوسرے امتحانوں میں بھی اس اسلامی درسگاہ کی اوسط یونیورسٹی کی اوسط سے بہتر رہی جس پر حضرت مصلح موعود نے حد درجہ خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ گذشته سال فسادات کی وجہ سے ہمارے کالی کے نتائج اچھے نہیں نکلے تھے مگر اس سال اللہ تعالے کے فضل سے ہمارے کالج کا نتیجہ غیر معمولی طور پر نہایت شاندار رہا ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ گذشتہ سال کے نتائج کی خوابی ان حالات کی وجہ سے بھی ہو کہ میں پیدا ہوئے.اس سال ہمارے تعلیم الاسلام کالج کی ایک جماعت کا نتیجہ توے فیصدی کے قریب رہا ہے جو ایک حیرت انگیز امر ہے حالانکہ یونیورسٹی کی اوسط ۳۹ فیصد کی ہے.یہی حال اور جماعتوں کے نتائج کا ہے.کوئی ایک جماعت بھی ایسی نہیں تیں کا نتیجہ یونیورسٹی کی اوسط سے کم ہو بلکہ ہر جماعت کا نتیجہ یونیورسٹی کی اوسط سے بڑھ کر ہے.اگر کسی کلاس کے متعلق یو نیورسٹی کی اوسط ۳۵ فیصدی ہے تو ہمارے کالج ۳۷ فیصدی ہے.یا اگر یونیورسٹی کی اوسط ۳۵ فیصدی ہے تو ہمارے کالج کی ۳۹ فیصدی ہے.اور ایک کلاس کے متعلق تو میں نے بتایا ہے کہ ہمارے کالج کا نتیجہ اس میں توے فی صدی کے قریب ہے حالانکہ یونیورسٹی کی اوسط اس سے بہت کم ہے.وہ لوگ جن کے دلوں میں یہ شبہات ہوا کرتے تھے کہ ہمارے کالج میں لڑکوں کی تعلیم کا زیادہ بہتر انتظام نہیں.اب ان نتائج کے بعد اُن کے شبہات دور ہو جانے چاہئیں کیونکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے کالج کے نتائج سوائے ایک کے باقی تمام کالجوں سے شاندار نکلے ہیں اور اب اُن کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم کے لئے فوراً تعلیم الاسلام کا لج میں داخل کرنے کی کوشش کریں.اس بارہ میں کسی قسم کی غفلت اور کوتاہی سے کام نہ لیں.اس کالج میں اپنے بچوں کو تعلیم کے لئے بھیجوانا اس قدر ضروری اور اہم چیز ہے کہ میں تو سمجھتا ہوں جو شخص اپنے بچوں کو با وجود ا " الفضل" در شہادت / اپریل - وسیله بیش صفحه ۳ کالم ۳ : 0 7146-
۹۵ مواقع میسر آنے کے اس کالج میں داخل نہیں کرتا وہ اپنے بچوں کی دشمنی کرتا اور سلسلہ پر اپنے کامل ایمان کا ثبوت بہتا نہیں کر ہی ہے حضرت مصلح موعود نے حمدنی جماعتوں کو تعلیم الاسلام کالج میں بچوں کو داخل کرنے کی تحریک فرمانے کے بعد کالج کے عملہ کو متعد د زریں ہدایات دیں جن کا خلاصہ یہ تھا کہ انہیں اپنے نتائج بہتر پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئیے دوسروں سے زیادہ وقت کالج کی ترقی اور لڑکوں کے تعلیمی معیار کو بلند کرنے کے لئے صرف کرنے کی عادت ڈالیں اور ان کو زیادہ سے زیادہ دینی احکام کا پابند اور اخلاق فاضلہ کا متصف بنائیں.لڑکوں کی خوراک کی طرف زیادہ توجہ رکھنی پہنچے اور کوشش کرنی چاہیے کہ تھوڑے روپیہ سے بہتر سے بہت کھانا ان کو مہیا کیا جائے.اسی طرح دینیات کی تعلیم کی طرف انہیں خاص طور پر توجہ کرنی چاہئیے.لڑکوں کے اندر صحیح دینی جذبہ پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ مرکز سے وابستہ ہوں.اور مرکز سے وابستگی پیدا کرنے کے جہاں اور کئی طریق ہیں وہاں ایک یہ بھی طریق ہے کہ خلیفہ وقت سے کالج میں کم سے کم دو چار لیکچر سالانہ کروائے جائیں تاکہ ن کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس پیدا ہوا اور قربانی کی روح ان کے اندر ترقی کرے.اس کے علاوہ جماعت کے دوسرے علماء اور مبلغین سے بھی وقتا فوقتا لیکچر کروانے بچائیں.ہمارے کالج کے افسروں کے اندر یہ بھی احساس ہونا چاہیے کہ انہوں نے اپنے طالب علموں کی زندگیوں کو سنوارنا اور انہیں قوم کے لئے اعلی درجہ کا وجود بتاتا ہے یہانتک کہ وہ جس محکمہ میں بھی جائیں اس میں پوٹی کے آدمی ثابت ہوں اور کوئی دوسرا شخص اُن کا مقابلہ نہ کر سکے ہیں وقت کوئی دوسرا شخص یہ سنے کہ یہ احمدی انجنیئر ہے یا احمدی ڈاکٹر ہے یا احمدی وکیل ہے یا احمدی بیرسٹر ہے یا احمدی تاجر ہے تو وہ کسی انٹرویو کی ضرورت ہی نہ سمجھے بلکہ محض ایک احمدی کا نام سنتے ہی یقین کر لے کہ اس شخص کا اپنے فن میں کوئی اور مقابلہ نہیں کر سکتا.اس ضمن میں حضور نے عملہ کالج کو آخری نصیحت یہ فرمائی کہ انہیں لڑکوں کی دماغی تربیت کا بھی خاص خیال رکھنا چاہیئے.ان کا صرف اچھے نمبروں پر پاس ہو جانا کافی نہیں بلکہ ان کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ان کی دماغی تربیت اس رنگ کی ہو کہ جب وہ نماز پڑھیں تو عقلمند انسان کی طرح نماز پڑھیں اور جب کتاب پڑھیں تو عقلمند انسان کی طرح کتاب پڑھیں ہیں تعلیم اسلام کالج کے ہرشعب میں روز افزوں ترقی تعلی اسلام کا ن نے انتہائی بے سروسامانی اور اساعد شعبہ میں میںروز حالات کے باوجود صرف امتحانوں میں نمایاں کامیابیاں الفضل" که در تبوک استمبر ایش مسعوده ، له الفضل " ما تبوک استمبر همایش صفحه 1 - :
94 حاصل نہیں کیں بلکہ اپنے ہر شعبہ میں روز افزوں ترقی کا ثبوت یا چنانچہ ہی میں طلبہ کی تعداد ساٹھ سے اسلام ر بڑھ کر ۲۶۷ تک پہنچ گئی.کتب خانہ کی از سر نو تشکیل کی گئی اور کئی ہزار کتابوں کا بیش بہا ذخیرہ جمع ہو گیا.امریکہ کے تو مسلم بھائیوں نے ۲۲۸۰ مجلدات بھیجوائیں.اس کے علاوہ انگلستان سے بھی بعض عطایا وصول ہوئے طالب ہوں کے علمی ارتقاء کے لئے مجلس عمومی (کالج یونین، مجلس عربی مجلس اقتصادیات ، سائنس سوسائٹی ، فوٹو گرافک اور ریڈیو سوسائٹی سرگرم عمل رہیں.اس عرصہ میں یونیورسٹی آفیسرز ٹریننگ کو بھی قائم کی گئی.کالج سے دستہ نے تبلیغ فروری مہیش میں سالانہ کیمپ کے موقعہ پر مضبوط اور اطاعت کا بہترین نمونہ دکھا کر اعلیٰ افسروں سے خراج تحسین وصول کیا اور دستہ کے سارجنٹ بشارت احمد کی ہز ایکسیلنسی کمانڈر انچیف پاکستان نے بھی بہت تعریف کی.اور اس فن میں مہارت پر انہیں مبارکباد دی.IPPA ہ ہی میں سالانہ کیمپ کے موقعہ پر ہو.اور ٹی سی کے ہر افسر نے کالج کے اس دستہ کے جوانوں کے ضبط ، اطاعت جوش عمل اور حسن کارکردگی پر اظہار مسرت کیا اور یہ دستہ عسکری فنون میں تمام دوستوں میں اول رہا اور یو.او.ٹی سی کے کرنل نے گورنر پنجاب سردار عبدالرب صاحب نشتر کے سامنے اس امر کا اظہار بھی کیا.تعلیم الاسلام کا ولی کا یہ دستہ ہر لحاظ سے معیاری اور بہترین شمار کیا جاتا تھا.چنانچہ مختلف گارڈز آف آن میں نسبتی اعتبار سے بھی اور محض تعداد کے اعتبار سے بھی تعلیم الاسلام کالج کی تعداد سب سے زیادہ رہی مثلاً ان دنوں شہنشاہ ایران کی آمد پر جو گارڈ آف آنر پیش کیا گیا اس میں تقریباً اسی فیصد فی جوان اسی کالج کے طالب علم تھے اسی طرح فٹ بال، والی بال ، بیڈ منٹن اور تیرا کی میں کالج کی ٹیمیں خاص اعزانہ کی حامل رہیں.کشتی رانی میں کالج کی ٹیم پنجاب روئنگ الیسوسی ایشن کے سالانہ مقابلہ میں اول آئی.جہانتک طلبہ کی اخلاقی و دینی تربیت کا تعلق ہے اس کے لئے بھی کالج کی طرف سے موثر انتظام کیا گیا اور خصوصاً اسلامی شعائر اور فرائض کی پابندی پر بہت زور دیا گیا جس میں خاطر خواہ کامیابی ہوئی بلے لاہور کے علمی اداروں میں چو ہدری محمد علی صاحب کا بیان ہے کہ " جب کالج لاہور آیا تو آہستہ آہستہ بہت سے غیر از جماعت طلباء تعلیم الاسلام کالج کا اثر ونفوق له جو صاف ستھری اخلاقی اور تعلیمی فضا میں پڑھنا چاہتے تھے تعلیم الاسلام کالج میں داخل ہونا شروع ہوئے کالج کی شہرت اور نیک نامی آہستہ آہستہ دلوں میں گھر کو رہی تلقی الفضل" هر شہادت / اپریل ارامش صفحه ۳ تاہم ملخصاً ، "المنار" بنجر احسان مٹی جون ایش صفحه ۲۶ لا سرمایش ۹۲۶ $190.194-
اور کا بچوں کی اہرام میں تسلیم الاسلام کا لج کا نام عزت اور احترام سے لیا جانے لگا تھا.لاہور کے کالجوں کا عام طالب علم جانتا تھا کہ پریسی تعلیم الاسلام کا لج کس بلند مرتے اور کیریکٹر کے انسان ہیں.دوسرے کائیوں کے پرنسپلوں کی موجودگی میں شوخی کرنے والے حضور کے سامنے ادب سے گفتگو کیا کرتے تھے بحضور بھی خود تمام طلباء کو اپنا این طالب علم جانتے تھے اور ان کے جائز حقوق کی حفاظت فرمایا کرتے تھے اور یہ اکثر فرمایا کرتے کہ ہمارا طالب علم طبعا شریف ہوتا ہے.عموماً خرابی اس کے HANDLINE میں ہوتی ہے.الا ماشاء الله.ایک دفعہ لاہور کے طلباء مجمع بنا کر تعلیم الاسلام کالج کے سامنے اکٹھے ہو گئے.یہ کالجوں کو بند کرواتے پھر رہے تھے.غالباً کسی غیر ملکی ظلم پر احتجاج ہو رہا تھا.لڑکوں کو دیکھ کر حضور خود بنفس نفیس لڑکوں میں تشریف لے گئے اور چند منٹ اپنے دل آویز نیستیم کے ساتھ اُن سے گفتگو فرمائی.لڑ کے قائل ہوئے اور پرنسپل ٹی آئی کا لج زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے چلے گئے ایک بار کشتی رانی کے فائنل پر جبکہ اسلامیہ کالج کی ٹیم آگے تھی اور ہم نمبر دو پر تھے اور دریا کے کنارے لاؤڈ سپیکر نصب تھا اور نعرے لگ رہے تھے.اصل مقابلہ اسلامیہ کالج اور ٹی آئی کالج کے درمیان تھا.ہمارا بھی سارا کالج پہنچا ہوا تھا.کیونکہ سوائے دریا کے ہمارے پاس کوئی کھیل کا میدان نہیں تھا.کشتیاں دریا میں جا چکی تھیں.آخر میں جانے والی کشتیاں اسلا ہے کالج اور ہمارے کالج کی تھیں.اسلامیہ کا ان کی کشتی بھی ایک چپور کے زور پر لہر میں داخل ہی ہوئی تھی کہ کسی بظاہر غیہ طالب علم نے جو ایسے مقابلوں میں حمایت کے لئے آجاتے ہیں تعلیم الاسلام کالج کے خلاف ایک نہایت نازیبا نعرہ لگایا جس کی آواز لاوڈ سپیدہ کے پر بھی ستائی دے گئی.اچانک اسلامیہ کالج کی کشتی وہیں سے واپس مڑی.ہم سمجھے کہ شاید فالتو چھتو بھول گئے ہیں لیکن ہوا یہ کہ کشتی کنارے لگتے ہی اسلامیہ کالج کی ٹیم کا کپتان عقاب کی طرح مجمع پر جھپٹا اور جس نے نعرہ لگایا تھا.اس کو پکڑ لیا اور اعلان کیا کہ اگر تعلیم الا سلام کالج کے خلاف اس قسم کا بیہودہ نعرہ اب لگایا گیا تو ہم دوڑ نہیں دوڑیں گے.یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے.ایسے موقعوں پر جب جزیات مسابقت بر انگیختہ ہو کر عام قیود اور آداب کی پابندیاں ڈھیلی کر سکتے ہیں اس قسم کا مظاہرہ ایک تاریخی حیثیت
۹۸ رکھتا ہے.اس میں شک نہیں کہ اس میں ان طلباء کی بھی خوبی تھی یعنی دونو کا لجوں کے طلباء کی کہ اُن کے تعلقات انتہائی طور پر خوشگوار تھے.پہلے رسالہ المنار کا اجراء حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر حمد صاحب پر سیل تعلیم اسلام کالج کی سرپرستی رسالہ المنار کا اجراء میں کے کسی سوسائٹی کے زیر اہتمام ینگ اکانومسٹ کے نام سے ایک اکنامکس زیر کتابی سلسلہ بھاری کیا گیا.ازاں بعد ماہ شہادت / اپریل یہ ہی سے کالج کا علمی مجلہ "المنار" کے نام سے شروع کیا گیا تو اب تک باقاعدگی سے شائع ہو رہا ہے اور ادبی اور علمی حلقوں میں خاص وقعت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے.اُردو کے بعض پاکستانی اور یوں اور ناقدوں نے "المنار" کی قلمی سرگرمیوں کو سراہا ہے.اور اسے اچھے ادبی ذوق کا آئینہ دار قرار دیا.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے "المنار" کے پہلے شمارہ کے لئے " نور کا نشان.روشنی اور بلندی کا شعار کے عنوان سے ایک نہایت قیمتی مضمون سپرد قلم فرمایا جس میں علاوہ دوسری اہم نصائح کے یہ نصیحت بھی فرمائی کہ " ہمارے عزیزوں کو چاہیے کہ اپنے اس رسالہ کو صحیح معنوں میں المنارہ بنائیں یعنی وہ علم کے ہر میدان میں روشنی اور بندی کا نشان ہو.ہر دوسرے کالج کی نظریں اس رسالہ کی طرف اُٹھیں اور وہ اس کے مضایی میں ہدایت اور تسلی کا سامان پائیں.لکھنے والے محض مفاتہ چھری سے کام نہ لیں بلکہ محنت اُٹھا کر اور تحقیق کر کے دنیا کے سامنے سچا علم پیش کریں اور موجودہ علوم باطلہ سے ہرگز مرعوب نہ ہوں " " حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب نے اس موقعہ پر طلباء کے نام جو پیغام دیا وہ ہمیشہ آب زر سے لکھا جائے گا.آپ نے تحریر فرمایا :- زندگی مسلسل جستجو کا نام ہے.کلاس روم میں آپ پہلوں کی جستجو کے نتائج سنتے ہیں.انہیں سمجھتے اور یا د رکھنے کی کوشش کرتے ہیں.ان نتائج پرتنقیدی نگاہ ڈالنے کا آپ کو موقعہ میسر نہیں آتا.کلاس روم تخلیق کا میدان بھی نہیں.مگر تنقید و تحقیق کے بغیر آپ کی زندگی بے معنی ہے ' پدرم سلطان بود' آپ کو زیب نہیں دیتا.دنیا کو جس حالت پر آپ نے پایا اس سے بہتر حالت پر آپ نے اُسے چھوڑنا ہے.کالج میگرین تنقید و تحقیق کا ایک وسیع میدان آپ کے سامنے کھولتا ہے.اب آپ رضی ہے کہ ہر ہے فائدہ اٹھائیں دورہ ایہا سے بنا کو رکھیں عقل سلیم سے اسے بریک ہیں.ذہن رسا سے اس کی شیر در یافت و دبیر ته المتار شہادت / ایمیل مش صفحه : ن 4190
میں داخل ہوں.اس کی چھپی ہوئی کانوں میں بجائیں اور آنے والی نسلوں کے لئے ڈربے بہا تلاش کریں.اسلام کو آج روشن دماغ بہادروں کی ضرورت ہے.اگر آپ بہادر تو ہیں مگر آپ کے زمینوں میں جلا نہیں تو آپ اسلام کے کسی کام کے نہیں.آزادانہ تنقید و تحقیق آپ کو بہادر بھی بنائے گی اور آپ کے اذھان کو منور بھی کرے گی اور یہی کالج میگزین کے اجزاء کا مقصد ہے.خدا ہمیں اس میں کامیاب کرے "اے ان بزرگوں نے اُردو کے علاوہ انگریزی حصہ کے لئے بھی پیغامات دیئے.چنانچہ حضرت قمرالانبیاء نے طلبہ کو اسلامی تعلیمات کے پہنچانے کے لئے عربی اور اُردو کے علاوہ دوسری زبانوں میں بھی عبور حاصل کرنے کی تلقین فرمائی کیه حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کے پیغام کا متن یہ تھا : :- "With trust in God and Faith in the ultimate triumph of your mission march on یعنی خدا تعالے پر یقین محکم اور ایمان کامل کے ساتھ اپنے مقصد کے حصول اور آخری فتح کے لئے بڑھے چلو گے ! تیم اسناد کے پہلے جلسہ میں شہادت پر یابی و تعلیم الاسلام کا یہ کی تاریخ میں پہلی بار تقسیم استاد و تقسیم انعامات کی انتہائی سادہ ومنین کا بصیرت افروز خطاب اور موثر تقریب منعقد ہوئی جو خالص اسلامی ماحول میں پائیر کیں کو پہنچی.اس جلسہ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ سیدنا المصلح الموعود نے اس میں بنفس نفیس شرکت کی اور نہایت ایمان افروز صدارتی خطاب ارشاد فرمایا اور قرآن و حدیث کی روشنی میں طلبہ کو ان کی اہم ذمداریوں کی طرف نہایت بلیغ اندازہ میں توجہ دلائی اور اس ضمن میں بالخصوص ان فرائض پر روشنی ڈالی جو ایک نئی مملکت کے آزاد شہری ہونے کی حیثیت سے اُن پر عائد ہوتی ہیں.چنانچہ فرمایا :- "المنار" شہادت / اپریل صفحه + 9 صفحه ۷-۸ (حصہ انگریزی : صفحه ۶ * ( " > کے حضرت امیر المومنین کا یہ صدارتی خطبیہ کالج کی طرف سے اردو اور انگریزی میں تقریب سے قبل چھپوا دیا گیا تھا.
۱۰۰ میں اُن نوجوانوں کو جو تعلیم سے فارغ ہو کہ اپنی زندگی کے دوسرے مشاغل کی طرف مائل ہونے والے ہیں، کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے قانون کے مطابق سکون کے حاصل کرنے کی بالکل کوشش نہ کرو بلکہ ایک نہ ختم ہونے والی جد و جہد کے لئے تیار ہو بھاؤ اور قرآنی منشاء کے مطابق اپنا قدم ہر وقت آگے بڑھانے کی کوشش کرتے رہو اور اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے رہو کہ وہ آپ کو صحیح کام کرنے اور صحیح وقت پر کام کرنے اور صحیح ذرائع کو استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور پھر اس کام کے صحیح اور اعلیٰ سے اعلیٰ انت لیے پیدا کرے.یاد رکھو کہ تم پر صرف تمہارے نفس کی ہی ذمہ داری نہیں.تم پر تمہارے اس ادارے کی بھی ذمہ واری ہے جس نے تمہیں تعلیم دی ہے اور اس خاندان کی بھی ذمہ داری ہے جس نے تمہاری تعلیم پر خر کیا ہے خواہ بالواسطہ یا بلا واسطہ، اور اس ملک کی بھی ذمہ داری ہے جس نے تمہارے لئے تعلیم کا انتظام کیا ہے اور پھر تمہارے مذہب کی بھی ذمہ واری ہے.تمہارے تعلیمی ادارے کی جو تم یہ ذمہ واری ہے وہ چاہتی ہے کہ تم اپنے علم کو زیادہ سے زیادہ اور اچھے سے اچھے طور پر استعمال کرد.یونیورسٹی کی تعلیم مقصود نہیں ہے وہ منزل مقصود کو طے کرنے کے لئے پہلا قدم ہے.یونیورسٹی تم کو جو ڈگریاں دیتی ہے وہ اپنی ذات میں کوئی قیمت نہیں رکھتیں بلکہ اُن ڈگریوں کو تم اپنے آئندہ عمل سے قیمت بخشتے ہو.جاگری صرف تعلیم کا ایک تخمینی وزن ہے.اور ایک تخمینی وزن ٹھیک بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی ہو سکتا ہے.محض کسی یونیورسٹی کے فرض کر لینے سے کہ تم کو علم کا ایک تخمینی همزمان حاصل ہو گیا ہے تم کو علم کا وہ فرضی درجہ نصیب نہیں ہو جاتا جس کے اظہار کی یونیورسٹی ڈگری کے ساتھ کوشش ہوتی ہے.اگر ایک یونیورسٹی سے نکلنے والے طالب علم اپنی آئندہ زندگی میں یہ ثابت کریں کہ جو تینی وزن ان کی تعلیم کا یونیورسٹی نے لگایا تھا ان کے پاس اُس سے بھی زیادہ وزرین کا ظلم موجود ہے تو دنیا میں اس یونیورسٹی کی عزت اور قدر قائم ہو جائے گی.لیکن اگر ڈگریاں حاصل کرنے والے طالب علم اپنی بعد کی زندگی میں یہ ثابت کر دیں کہ تعلیم کا جو نینی دزن ان کے دماغوں میں فرض کیا گیا تھا ان میں اس سے بہت کم درجہ کی تعلیم پائی جاتی ہے تو یقیناً لوگ یہ تیجہ نکالو گے کہ یونیورسٹی نے علم کی پیمائش کرتے میں غلطی سے کام لیا ہے.پس تمہیں یاد رکھنا چاہئیے کہ یونیورسٹیاں اتنا مطالب علم کو نہیں بنائیں جتنا کہ طالب عسلیم
H یونیورسٹیوں کو بناتے ہیں یا دوسرے لفظوں میں یہ کہہ لو کہ ڈگری سے طالب علم کی عزت نہیں ہوتی ہے.پس تمہیں اپنے پیمانہ اعلم کو درست رکھنے بلکہ اس کو بڑھانے کی کوشش کرتے رہنا چاہیئے اور اپنے کالج کے زمانہ کی تعلیم کو اپنی عمر کا پھل نہیں سمجھنا چاہئیے بلکہ اپنے علم کی کھیتی کا بیج تصور کرنا چاہیئے اور تمام ذرائع سے کام لے کر اس پیج کو زیادہ سے زیادہ بار آور کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیئے تا کہ اس کوشش کے نتیجہ میں اُن ڈگریوں کی عزت بڑھے جو آج تم حاصل کر رہے ہو اور اس یہ نیورسٹی کی عزت بڑھے جو تمہیں یہ ڈگریاں دے رہی ہے اور تمہاری قوم تم پر فخر کرنے کے قابل ہو اور تمہارا ملک تم پیا اعلیٰ سے اعلیٰ امیدیں رکھنے کے قابل ہو.اور اُن امیدوں کو پورا ہوتے ہوئے دیکھے.تم ایک نئے ملک کے شہری ہو.دنیا کی بڑی مملکتوں میں سے بظاہر ایک چھوٹی سی مملکت کے شہری ہو.تمہارا ملک مالدار ملک نہیں ہے.ایک غریب ملک ہے.دیر تک ایک غیر حکومت کی حفاظت میں امن اور سکون سے رہنے کے عادی ہو چکے ہو.سو تمہیں اپنے اخلاق اور کردار بدلتے ہوں گے تمہیں اپنے ایک کی عزت اور ساکھ دنیا میں قائم کرنی ہوگی تمہیں اپنے ملک کو دنیا ہے روشناس کرانا ہو گا.ملکوں کی عزت کو قائم رکھنا بھی ایک بڑا دشوار کام ہے.لیکن ان کی معزرت کو بنانا اس سے بھی زیادہ دشوار کام ہے اور یہی دشوار کام تمہارے ذمہ ڈالا گیا ہے.تم ایک نئے ملک کی نئی پود ہو.تمہاری ذمہ داریاں پرانے ملکوں کی نئی نسلوں سے بہت زیادہ ہیں.انہیں ایک بنی ہوئی چیز ملتی ہے.انہیں آباد و اجداد کی سنتیں یا روایتیں وراثت میں ملتی ہیں مگر تمہارا یہ حال نہیں ہے.تم نے ملک بھی بنانا ہے اور تم نے نئی روائتیں بھی قائم کرنی ہیں ایسی روائتیں جنی پر عزت اور کامیابی کے ساتھ آنے والی بہت سی نسلیں کام کرتی چلی جائیں اور ان روایتوں کی بہتا میں اپنے مستقبل کو شاندار بناتی چلی جائیں.پس دو سہ سے قدیمی ملکوں کے لوگ ایک اولاد ہیں مگر تم ان کے مقابلے پر ایک باپ کی حیثیت رکھتے ہو.وہ اپنے کاموں میں اپنے باپ دادوں کو دیکھتے ہیں.تم نے اپنے کاموں میں آئندہ نسلوں کو مد نظر رکھتا ہو گا، جو بنیاد تم قائم کرو گے آئندہ آنے والی نسلیں ایک حد تک اس بنیاد پر عمارت قائم کرنے پر مجبور ہوں.اگر تمہاری بنیاد ٹیڑھی ہو گی تو اس پر قائم کی گئی عمارت بھی ٹیڑھی ہوگی.اسلام کا مشہور فلسفی شاعر کہتا ہے کہ
١٠٢ Q..خشت اول چوں نہر معمار کچھ تا ثریا می رود دیوار کج یعنی اگر معمار پہلی اینٹ ٹیڑھی رکھتا ہے تو اس پر کھڑی کی جانے والی عمارت اگر ثریا تک بھی جاتی ہے تو ٹیڑھی ہو جائے گی.پس یوجہ اس کے کہ تم پاکستان کی خشت اول ہو تمہیں اس بات کا بڑی احتیاط سے خیال رکھنا چاہیئے کہ تمہارے طریق اور عمل میں کوئی بھی نہ ہو کیونکہ اگر تمہارے طریق اور عمل میں کوئی کبھی ہوگی تو پاکستان کی عمارت ثریا تک ٹیڑھی ملتی جائے گی.بے شک یہ کام مشکل ہے لیکن اتناہی شاندار بھی ہے.اگر تم اپنے نفسوں کو قربان کر کے پاکستان کی عمارت کو مضبوط بنیادوں پہ قائم کر دو گے تو تمہارا نام اس عزمت اور اس محبت سے لیا بجائے گا جس کی مثال آئندہ آنے والے لوگوں میں نہیں پائی جائے گی.پس میں تم سے کہتا ہوں کہ اپنی نئی منزل پر عزم ، استقلال اور علو حوصلہ سے قدم مارو.قدم مارتے چلے جاؤ اور اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے قدم بڑھاتے چلے جاؤ کہ عالی ہمت نوجوانوں کی منزل اول بھی ہوتی ہے اور منزل دوم بھی ہوتی ہے، منزل سوم بھی ہوتی ہے لیکن آخری منزل کوئی نہیں ہوا کرتی.ایک منزل کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تمیری وہ اختیار کرتے پہلے جاتے ہیں.وہ اپنے سفر کو ختم نہیں کرنا چاہتے.وہ اپنے رخت سفر کو کندھے سے اُتارنے میں اپنی ہتک محسوس کرتے ہیں.اُن کی منزل کا پہلا دور اسی وقت تختم ہوتا ہے جبکہ وہ کامیاب اور کامران ہو کہ اپنے پیدا کرنے والے کے سامنے حاضر ہوتے ہیں اور اپنی خدمت کی داد اس سے حاصل کرتے ہیں جو ایک ہی ہستی ہے جو کسی کی مقدرت کی صحیح داد دے سکتی ہے.پس اے بخدائے واحد کے منتخب کردہ نو جوا نو ! اسلام کے بہادر سپاہیو! ملک کی امید کے مرکز و قوم کے سپوتو ! آگے بڑھو کہ تمہارا خدا تمہارا دین تمہارا ملک اور تمہاری قوم محبت اور امید کے مخلوط جذبات سے تمہارے مستقبل کو دیکھ رہے ہیں بے حضرت امیرالمومنین کے خطبہ صدارت کے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل تعلیم الاسلام کالچ تے ہیں اوارہ کی دو سالہ روداد پڑھ کر ستائی جس میں کالج کی ترقی، طلبہ کی تعلیم و تربیت اور اُن کے علمی و ام سیا الفضل اور شہادت اپریل ۳ سال پیش مقر ۹۳/۰۳ - ۲ے اس کے مکمل متن کے لئے ملاحظہ ہو" الفضل ھر شہادت / سے اپریل کا مش صفحه به
١٠٣ مجلسی مشاغل پر تفصیل سے روشنی ڈالی.بعدہ سید نا حضرت امیر المومنین نے انعامات تقسیم فرمائے اور ڈھا کے بعد خلیسہ اختتام پذیر ہوا.اس تقریب میں شریک ہونے والے معزز مہمانوں میں مشتاق احمد صاحب میئر لاہور کارپوریشن ، سید جمیل حسین صاحب ڈپٹی کشتر آباد کاری ، ایس ایس جعفری ڈپٹی کمشنر لاہور ، مسٹر ظفرالحسن چیئر مین امپرومنٹ ٹرسٹ ، مسٹر تو ندی ڈپٹی ڈائر یکٹر تعلیمات عامہ پنجاب نیز صوبے کے ماہرین تعلیم اور مدیران جرائد بالخصوص قابل ذکر تھے تقسیم استاد و انعامات کی اس پہلی تقریب کے بعد ہر ہش سے لے کر ای بیش تک حسب ذیل شخصیتوں نے مہمان خصوصی کے فرائض انجام دیئے.تاریخ مہمان خصوصی در امان مادری اش ڈاکٹر قاضی محمد بشیر صاحب (برادر امیر قاضی محمد اسلم صاحب ایم.اسے کنٹ ہے.الہ مبش آنر میں جسٹس ڈاکٹر لیں.اسے رحمان وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی تھے یش آنر لیں.کلی ۳۰ 11407 146 تبلیغ فروری به بیش عزت آب چودھری محمد ظفراللہ خان صاحب بالقابه وزیر خارجہ پاکستان کے احسان جون ۳ ماه پیش میاں افضل حسین صاحب سابق وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی لاہور سے 1986 رامان / تاریخ یه اش سردار عبد الحمید صاحب دستی سابق وزیر تعلیم پنجاب نے ۱۳۳۶ مار احسان ابون الله مش قاضی محمد اسلم صاحب سابق پرنسپل گورنمنٹ کالج لاہور و صدر شعبۂ فلسفیات و نفسیات کراچی یونیورسٹی شه ه 71909 ر اجرت امنی بیت اللہ میں جناب ایم آر کیانی چیف جسٹس عدالت عالیہ مغربی پاکستان کے به اش ہے مه را حسان ایون انه مش | پروفیسر سراج الدین صاحب صوبائی سکریٹری محکمہ تعلیم 2 الفضل در شهادت / اپریل : کے المسند ، شہادت اپریل مش صفحہ ۶.آپ نے کوئی خطبہ صدارت نہیں پڑھا ؟ گئے ، / • ہجرت و احسان منی و میون سیل سایه آپ کا بلیغ اور پر اثر خطبہ کا متن شائع شدہ ہے.له الفضل و المان / ماری له ش در صفحه ۱۲ : کے "المنار" احسان ریتون سے م الفضل ۲۱ احسان تیون ۱۳۳۲ صفحها ، " 1969 شہ آپ کا خطبہ صدارت " المندر " ہجرت راحسان / مئی جون سب یش صفحہ ۳۰ تا ۳۰ میں چھپا شه " الفصل" بر احسان خون س ش صفحه ۱ ۶۱۹۹۱ + صفها تایر
۱۰۷ و تاریخ مہمان خصوصی ر احسان ایون میش بیروغیر حمید احمد نان صاحب پر نسپل اسلامیہ کالج لاہوری مه مش مولانا صلاح الدین صاحب مدیر " ادبی دنیا " لاہور ار شهادت اپریل ریش حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہ جہان پوری شاگرد خاص خشی میراحمد امیر مینائی کا رقم فرمودہ طلبہ مولانا جلال الدین صاحبت شمس سابق میل بلاد عربیہ عربیہ نے پڑھا.یہ درسگاہ جہا جو تھی.اسے اپنی آبادکاری میں سینکڑوں وقتیں پیش آئیں.ڈی اے کا لج کیلئے ایک کا خطرہ وی کالج کی جو عمارات بعد مر وقت کی وہ انتہائی خستہ حالت میں تھی.زر کثیر خرچ کر سکے اور کافی تگ و دو کے بعد اس کے بڑے مجھے کو قابل استعمال بنایا جا سکا.اس عمارت کے بعض حصوں پر بھی قبضہ بھی نہ ماتھا کہ بعض حلقوں میں یہ سوال اُٹھا دیا گیا کہ یہ عمارت اس تعلیمی ادارہ سے چھین لی جائے اور اس کی بجائے کوئی اور مخته مرسی عمارت، دے دیا عبائے ہیں خدا تعالے کی تائید و نصرت ان غیر مطمئن اور سند درجہ من و خوش حالات نے کالج کے ماحول پر خترناک و اثر ڈالا اور بہت سی تجاویز شرمندہ تکمیل نہ ہو سکیں مگران مشکلات کے اور کالج کی مزید کامیابیاں با وجود یہ درسگاہ خدا تعالی کے فضل سے شاہراہ ترقی پر گامزن رہی.کالج قریباً سات سال تک، لاہور میں جاری رہا اس عرصہ میں خصوصاً ڈی.اے.وہی کالج کی عمارت کے قبضہ کو ختم کرنے کی منظم تحریک کے بعد کالج نے کیا کیا کامیابیاں حاصل کیں ، اس کی تفصیلات اس دور کی مطبوعہ سالا رپورٹوں سے باآسانی معلوم کی بھانکتی ہمیں خلاصہ یہ کہ اپنے مخصوص دینی و علمی اصول اور اخلاقی روایات کے بر قرار رکھنے کے ساتھ ساتھ ہر امتحان میں کالج کے نتائج نہایت خوشکن اور یو نیور سٹی کی اوسط سے بہت بڑھ کر رہے.چنانچہ بارش میں اس کے ایک مطالبہ علم مرزا بشارت احمد صاحب ہیں.ایس سی میں مجموعی طور پر پنجاب بھر میں سوم رہے.۳۳۲۳۳ اہش میں اس کے ایک اور طالب علم حمید اللہ تمام بے نے بی.انہیں بہی میں صوبہ بھر میں دوسری پوزیشن حاصل کی.ان سالوں میں طلبہ کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا.اور وہ قریباً پانسو تک آنے گئی.1981.ل " الفضل در احسان ارجون من سفر مجھے یہ خطبہ جلیلہ رسالہ المنار وفا ظہور تبوک جولائی اگست ستمی پیش کی زینت ہے ؟ سے روپ کی تعلیم الاسلام کالج لاہور ( ۵۱-۱۹۵۰ ) مصنفیر ۱-۱۲
۱۰۵ له پنجاب یونیورسٹی پمپنگ رنسینز میں کالج کی ٹیم دوسرے نمبر پر شمار ہوتی تھی اہش میں اس نے انتہائی سخت مقابلہ کے باوجود پنجاب یونیورسٹی کی چمپین شپ جیت لی اور است پیش تک یہ اعزاز اسے حاصل اش میں یو.اور ٹی سی کی سالانہ فائرنگ کے موقعہ پر حسین میں رائفل ، شین گن ، برین گن اور دو انین کارٹر کے فائر شامل تھے، کالے کے طاب لم و لیلم لیس کار پرل اول اور حمید اللہ بھیر دی دوم رہے ارش میں کالج کے ایک طالب علم محمید اللہ صاحب پنجاب یونیورسٹی کی کھیلوں میں اول آئے.ما تبلیغ فروری پیش میں پہلی بار کالج کے زیر انتظام کل پاکستان بین الکلیاتی تقریری مقابلوں کا انتظام کیا گیا.اس سال کا لج یونین کے مقررین نے لاہور سے باہر کے کالجوں میں ان کے آل پاکستان انٹر کالجیٹ مباحثوں میں حصہ لینا شروع کیا اور ملک پر اس درسگاہ کے جگر گوشوں کی قوت خطابت کے جوہر گھلنا شروع ہوئے.اس دور میں جن بیرونی مقررین نے طلبہ کا لج کو خطاب کیا ان میں نامور مبلغین اسلام ، شہرہ آفاق سیاسی مفکر، چوٹی کے ادیب اور ماہرین اقتصاد بھی شامل تھے.اس ضمن میں بعض ممتاز لیکچراروں یا مقالہ نگاروں کے نام یہ ہیں :- قاضی محمد نذیر صاحب فاضل لائلپوری.ڈاکٹر محمد باقر صدر شعبہ فارسی پنجاب یونیورسٹی حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب سابق مبلغ بلا و عربیه رپرنسپل اور مینٹل کالج لاہور ) و.مولوی ابوبکر ایوب صاحب آفت انڈونیشیا ۱.ڈاکٹر ابواللیث صدیقی ایم.اے پی.7.ڈی چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب وزیر خارجہ پاکستان سیتر لیکچرار ( حال صدر شعبہ اردو پنجاب یونیورسٹی) مولوی ابو العطاء صاحب فاضل پرنسپل جامعہ احمدیه ۱۳- صوفی غلام مصطفی صاحب نیستم احمد نگر ۱۴ قاضی ظہیر الدین صاحب صدر شعبہ عربی اسلامیه مولوی جلال الدین صاحب شمسی سابق امام سید نیرانی کالج لاہور عمری عبیدی صاحب مشرقی افریقہ ۱۵ پروفیسر ڈاکٹر عنایت اللہ صاحب ایم.اے، در قال قال عبد الرحمن خان صاحب ڈائریکٹر محکمه نان پنجاب پی انکھی.ڈی صدر شعبہ عربی گورنمنٹ کالج لاہور ڈاکٹر عبدالبصیر صاحب پال شعبہ اقتصادیات پنجاب ۱۶- ڈاکٹر بی.اے قریشی صدر شعبہ عربی پنجاب ۱- فضل الہی صاحب ایم.اسے رنگیں شعبہ اقتصادیات یونیورسٹی نا ہوں ه ایم.اس سے.او کالج نامہور رو مراد تعلیم الاسلام کالج راجیش و ۱۳۴ مش ا ڈاکٹر ایس ایم اختر صدر شعبه اقتصای یا پنجاب یونیورسٹی
1.4 ۱۸ - ڈاکٹر بشیر احمد مین آف یونیورسٹی انسٹرکشنز و سینتر لیکچرار ( حال صدر شعبہ ارد و پنجاب یونیورسٹی ڈائر یکٹ یونیورسٹی انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری پنجابت نیوسٹی ۲۲- مولانا صلاح الدین احمد صاحب ایڈیٹر ادبی دنیا ۱۹.ڈاکٹر نیاز احمد صاحب ڈائریکٹر انسٹی ٹیوٹ آف ۲۳.کیمیکل ٹیکنالوجی پنجاب یونیورسٹی ۲۳.اے.ایم زنی گلزار ایم.اے، ایل ایل بی انکی یو پروفیسر و پلی یو نیو رسٹی.مسٹر اعظم اورک زئی سینٹر لیکچرار شعبه اقتصادیات ۲۴ - پروفیسر تھا پس صدر بعد اقتصاد یا ایف سی کالج لاہور پنجاب یونیورسٹی ۲۱.ڈاکٹر عبادت بریلوی ایم، اے پی این کے ڈی ام بے ۲- ڈاکٹر فرانسس ایم ڈانس پروفیسر آئیوا (۱۵۷۸) یونیورسٹی امریکہ ۱۱۹۵۳ ام کرب بلا میں بارات استانی اور اس کے شور میں پاکسان کی سیاسی فضا نہایت درجہ مکدر ہو گئی اور اسابق صوبہ پنجاب خصوصاً اس کا صدر مقام لاہور خوفناک فسادات کی پلیٹ میں آگیا.ان ایام کرب و بلا میں کالج کے اساتذہ اور طلبہ دونوں نے صبر و استقامت کا قابل تعریف نمونہ دکھایا حتی کہ اس کے ایک ہونہار طالب علم جمال احمد نے بھاٹی گیٹ میں جام شہادت نوش کر کے اپنے خون سے اسلام کے مقدس درخت کی آبیاری کی.تعلیم الاسلام کالج کی مقدس روایات کو چار چاند لگا دیئے ہے لاہور میں حالات پر قابو پانے کے لئے مارشل لاء کا نفاذ ناگزیر ہوگیا توپاکستان کی بہادر فوج نے میجر جنرل اعظم خان صاحب کی قیادت میں شہر کا نظم و نسق سنبھال لیا اور چند گھنٹوں میں امن و امان قائم کر دیا حالات تیزی سے معمول کی طرف آرہے تھے کہ تعلیم الاسلام کالج کو یکایک ایک دوسرے سانحہ ہوشربا سے دو چار ہونا پڑا لینی اس کے قابل احترام پرنسپل یکم ماہ شہادت اپریل کو گرفتار کرلئے گئے اور یوسفی شان کے ساتھ قید وبند کی میتین مہینے اور اذیتیں برداشت کرنے کے بعد بالا خم ہر ماہ ہجرت الٹی لیہ مہیش کو رہا ہوئے سکے چوہدری محمدعلی صاحب ایم اے کا بیان ہے کہ حضرت صاحبزادہ مروانا راح صاحب اپنی تعلیم الاسلام کا لیے جیل سے رہا ہوکر تین باغ میں تشریف لائے فضل عمر میٹل کے احمدی اور غیر احمد طلبا یہ نوشکی اطلاع پاتے ہی فورا والبنانگ میں بتاب ہو کر بھاگتے ہوئے رتن باغ پہنچے اور آپ کی زیارت کر کے باغ باغ ہو گئے اور بعض کی آنکھوں میں فراست سے آنسو آ گئے.اس نا در موقعہ کی ایک یاد گار تصویر اس کتاب کی زینت ہے.لے کالج کے اس مبانی از فرزند کا تذکرہ روٹ تحقیقاتی علالت برا تحقیقات فسادات پنجاب سرمه ( اردو ایڈ کش) کے صفحہ اے اپنی موجود ہے : اہ اختیار نوائے وقت" لاہور ۱۳ اپریل ۳ صفحوا سے اخبار" المصلح" کراچی : ۲۹ ہجرت /م ایش صفحه ا کالم راو
حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل تعلیم الاسلام کالج رہائی کے بعد کالج کے اساتذہ وطلبا کے درمیان (رہائی کی تاریخ ۲۸ هجرت ۱۳۳۲اهش مئی ۱۹۵۳ ء ناموں کی تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو ضمیمہ کتاب)
١٠ فصل نجم بود میں تعلیم السلام کالج کی مستقل عمر کی تعمیر فتاح اور اُس کی گرانقدر مساعی مصلح موجود کے اختتام تک ۲۶ احسان الیون سے نبوت / نومبر ) حضرت مصلح موعود کا منشار مبارک تھا کہ تعلیم الاسلام کالج کو دوسرے جماعتی اداروں کی طرح جلد سے جلد جماعت کے نئے مرکز ربوہ میں منتقل کیا جائے تا اس کے نو نہاں خالص دینی فضا میں تربیت پاسکیں اگر چہ اس وقت کی اس نقل مکانی کی افادیت کالج کے بعض پروفیسر صاحبان کی سمجھ میں نہ آسکی اور ان کا اصرار تھا کہ کالج کو لا ہو رہی میں رہنے دیا جائے مگر حضرت خلیفہ اسیح الثانی المصلح الموعود نے ارشاد فرمایا کہ قادیان سے ہجرت کے بعد تمام کاروبار اور ادانہ بات دوبارہ جاری کرنے کا حق سب سے پہلے ربوہ کا ہے اس کے بعد اگر حجاب بجامات یا دیگر اصحاب کوئی کا لج یا سکول چلانا چاہیں تو اس شہر کی جماعت کو خود کوشش کرنی چاہیئے تے ریوں میں کالج اور ہوسٹل کے لئے زمین مخصوص ہو چکی تھی اور اس پر کالج بنانے کا منصوبہ عمل میں آچکا تھا.نفسٹے اور ڈیزائن بنانے کا کام قاضی محمد رفیق صاحب دلیکچر ا نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کو دیا گیا حضرت مصلح موعود کے سامنے جب کالج کا نقشہ رکھا گیا تو حضور نے فرمایا کہ ” ہمارے پاس اتنی بڑی عمارت کے لئے رقم ن بنیادی کا نہیں بھور تم ہے اس کے مطابق عمارت کا کچھ حصہ بنا لیا جائے اور کالج شروع کیا جائے " سگے کالج کی تعمیر کی نگرانی سید سردار حسین شاہ صاحب کے سپرد ہوئی سیاہ شاہ صاحب نے حضرت پرنسپل صاحب تعلیم الاسلام کا لج حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایدہ اللہ تعالی سے ملاقات کی.آپ ان دنوں جیسا کہ پچھلی فصل میں ذکر آچکا ہے جیل خانہ میں تھے.آپ نے ان کو کالج شروع کرنے له بروایت عبد الرحمن صاحب جنید ہاشمی سابق سپرنٹنڈنٹ تعلیم الاسلام کا لج ربوہ حال نائب ناظر بیت المالی سے بروایت چوہدری غلام حیدر صاحب سینر کیمرار اسٹنٹ تعلیم الاسلام کا لج و سابق ناظم املاک و تعمیر کا لی ہے کے روئید او تعلیم الاسلام کانچ کے کی رپورٹ سالانہ مصور این احمد به پاکستان باست ۲۵۳ ۵ اسفه ۶۵ -
1-A له کی ہدایات فرمائیں اور کام شروع ہوگیا.کچھ دنوں بعد حضرت صاحبزادہ صاحب بھی باعزت بری ہو کہ ربوہ تشریف لائے جہاں حضرت مصلح موعود نے ۲۶ احسان جون میش کی شام کو اپنے دست مبارک سے کا یہ اند اس کے ہوٹل کا سنگ بنیاد رکھا اور کالج کی بنیاد میںدار مسیح قادیان کی اینٹ نصب فرمائی اور دعا کی.بعد از ان دس بکرے بطور صدقہ ذبح کئے گئے جن میں سے ایک حضرت صائبزادہ مرزا ناصر احمد صائب نے اور ایک حضرت مولوی محمد دین صاحب ناظر تعلیم و تربیت نے ذیح گیا ہے تعلیم الاسلام کالج کی وسیع وعریض عمارت کی بنیا د میں قطعہ عمیر عمارت کے لئے سر فروان جدہ میں ریکی کی ماں اس کے میوں کے سواکچھ نہ تھا عنتر ۶۱۹۵۴ صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اور اسی کے حضور دعائیں کرتے ہوئے ہے سروسامانی کے عالم میں ماہ شہادت / اپریل یہ ہیں میں عمارت کی تعمیر کا کام اپنی نگرانی میں شروع کرا دیا.برکتوں والے خدا نے آپ کی مخلصانہ کوششوں میں ایسی برکت ڈالی کہ سرمایہ کی کمی کے با وجود اس کے فضل کرم سے پانچ چھ ماہ کے قلیل عرصہ میں ہوسٹل کی عمارت اور کالج کے تین بلاک تیار کردا دیئے ہیں حضرت صاحبزادہ صاحب ایکہ اللہ تعالیٰ نے اس عظیم انسان کام کی جلد از جلد تکمیل کے لئے لاہور سے ریوہ آکر کس طرح گویا ڈیرے ڈال دیئے اور گرمیوں کی پہلچلاتی دھوپ میں گرد و غبار اور بگولوں کے تھی.یوں سے بے پروا ہو کہ چھوٹے بڑے ہر کام کی نگرانی بنفس نفیس فرمائی ؟ اس کی ایمان افروز تفصیل کالج کے سر بر آوردہ اصحاب کے قلم سے بیان کرنا مناسب ہو گا.ا پروفیسر محبوب عالم صاحب مقالہ ایم.اسے لکھتے ہیں :.۱۹۵۴ء کے شروع میں جب سیدنا حضرت خلیفہ این الثانی بیمار ہوئے تو منصور نے آپ سے ارشاد فرمایا کہ تعلیم الاسلام کا لج ربوہ میں لے آؤ.ربوہ میں کالج کے لئے کوئی عمارت نہ تھی.وقت بہت کم تھا.گرمی کے ایام تھے.ربوہ کی تمازت مشہور ہے.مگر آپ نے ان سب باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے آقا کی آواز پر لبیک کہی بنے دیہاں آگئے اور بظاہر کا لج کی تعمیر کے سامان پیدا نہ ہو سکتے کے یا وجود اللہ تعالے پر توکل کر کے کام شروع کر دیا، دھوپ میں کھڑے ہو کر آپ خود نگرانی کرتے به بروایت نبود هری علوم میبد در صاحب سینی سٹنٹ لیکوار تعلیم الاسلام کا لی.۱۳۳۲ ش سے رسالہ مقاله ظهور/ اگست صفحه ۳۳ + har سین رپورٹ سالانہ صدر ایمین احمدیہ پاکستان با بست شی مهر ۰۹۳ 01907-89
تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے سنگ بنیاد کی مقدس تقریب کے دو یادگار فوٹو سید نا حضرت مصلح موعود دعا کرا رہے ہیں
اسی تقریب کے دو اور مناظر ( حضرت مصلح موعود حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل کالج سے مصروف گفتگو ہیں )
اور اس طرح عمارت کے ایک حصہ کے بعد دوسرے حصہ کی تعمیر اپنی نگرانی میں کرواتے چلے گئے مشکلات سے کبھی آپ گھبرائے نہیں.اور آپ کو یہ یقین تھا کہ اللہ تعالے اپنے محبوب کی خواہش کی تکمیل کے لئے غیر معمولی سامان پیدا کر دے گا.ایک دن خاکسارلاہور سے یہاں آیا.خاکسار نے دیکھا کہ دوپہر کے وقت کالج کی زیر تعمیر عمارت ہی میں مقیم رہے.کھانا کھانے کے لئے شہر میں تشریف نہ لائے بلکہ ان مزدوروں سے چو اپنی روٹی پکا رہے تھے قیمت روٹی لے کر وہیں تناول فرمائی " - حکیم عبد الرحمن صاحب جنید ما نمی رسانی سپر منڈی تعلیم الاسلام کا لج تقریر کرتے ہیں :- پ نے تعمیر کالج کے دوران ارادہ فرمایا تھا کہ صرف نیگر کی دال اور روٹی کھایا کہ دل لگا.آپ نے اکثر دوپہر کا کھانا وہیں نا مکمل عمارت کے برآمدہ میں کھایا ہے اور نمازیں تک وہیں پڑھی ہیں اور کام کے وقت ایک ایک اینٹ ولنسل وغیرہ کی کھڑے ہو کہ نگرانی کی ہے." تعلیم اسلام کالج کی زمین کا رقیہ عمار یکی ۳۳ مربع گز ہے اور مسقف معتہ ایک لاکھ مربع فٹ ہے.گورنمنٹ کے دینے کے مطابق چودرہ روپے فی مربع فٹ کے حساب سے چودہ لاکھ روپیہ کی عمارت ہے، اس پر آپ کی نگرانی اور توحید کی بدولت چار پانچ لاکھ روپیہ خرچ ہوا ہے" چوہدری محمد علی صاحب ایم.اے لکھتے ہیں :- " جب کالج ربوہ میں منتقل کرنے کا فیصلہ ہوا تو آپ اپنی نگرانی میں کالج کی تعمیر کے لئے تشریف لے آئے.کچھ عرصہ یہ عاجز بھی آپ کی خدمت میں حاضر رہا.فجر کی نماز پڑھ کر کالج میں تشریف لے آتے جہاں نہ کوئی درخت تھا نہ سایہ، نمکین پانی کے دونکے تھے.کھانا لنگر خانے سے آتا تھا.مزدوروں میں کھڑے ہو کر کام کی نگرانی فرماتے.جب مزدور آرام کرتے تو آپ حسابات کا معائنہ کرتے کبھی رقم ختم ہو جاتی تو اس عاجز کو بھیجتے کہ عطایا ( DONATIONS) لی جائیں اور اللہ تم کا یہ فضل تھا اور آپ کے ساتھ یہ سلوک تھا کہ ایک لاکھ کی منظوری کے ساتھ اس سے کئی گنا قیمت کی عمارت مہینوں میں تعمیر ہو گئی.اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور احسانوں کے بھی عجیب عجیب معجزے دیکھے جب ہال کا نٹل پڑنے والا تھا اور کثیر مقدار میں سیمنٹ اور مصالحہ بھگو کر تیار کیا جا چکا تھا تو سیاہ بادل اُٹھا اور گھر کو بچھا گیا.آپ نے ہاتھ اُٹھا کر بادل کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا جس کا مفہوم یہ تھا کہ یہ غریب جماعت کی خرج کی ہوئی رقم ہے.اگر تو بر سا تو یہ رقم ضائع ہو جائے گی.بھا یہاں سے پہلا تھا.در اصل آپ کی اللہ تعالیٰ کے حضور ایک رنگ میں فریاد تھی.جو قبول ہوئی اور جس طرح ابر آیا تھا اُسی طرح چلا گیا." -۴- چوہدری غلام حیدر صاحب مینا لیکو پراسسٹنٹ و ناظم املاک کا لج لکھتے ہیں :-
اُن دنوں سریا اور پائپ ملنے میں بہت سی دشواریاں تھیں.خاکسار کو کراچی تین دفعہ بھیجا گیا اور وہاں سے کنٹرول ریٹ پر خرید کیا بھاتا را اسی طرح فرنشنگ اینڈ فٹنگ کے لئے پائپ اور فٹنگ کی وقت تھی اور یہ بھی ان کی وجہ سے کراچی سے کنٹرول پر مل گیا.حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو کئی دفعہ رقم فراہم کرنے میں دقت ہوئی مگر ہمارے شیر دل بہادر اور محبوب آقا نے ذرا بھی لیبر یا ٹھیکیداروں کو محسوس نہیں ہونے دیا.آپ یوں تو بنیاد سے لے کر چھت تک نگرانی فرماتے رہے مگر نینٹل جب پڑھتے تو خود سریا ، اس کی بندھوائی اور سیمنٹ ریت بھری کی مقدار چیک کرتے اور اس وقت تک نہ ہلتے جب تک سارا نسل ختم نہ ہو جاتا.ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ کالج ہال پر لینٹل پڑ رہا تھا جو کافی بڑا کام تھا اور لیبر کافی درکار تھی.کام شروع ہو چکا تھا.بے شمار سیمنٹ کی بوریاں کھنگی پڑی تھیں اور انہیں مسالہ کے ساتھ ملایا جا رہا تھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے کالی گھٹا اٹھی اند یقین تھا کہ ابھی بارش ہو جائے گی آپ نے بادلوں کی طرف دیکھ کر خواہش ظاہر کی کہ واپس پہلے بھائیں.اسی وقت بادل ایک طرف سے ہو کہ گزر ہو گئے اور آپ رات کا کافی حصہ گئے تک لنسل مکمل کر کے تشریف لے گئے لیے جب کبھی طبیعت خراب ہوتی تو بستر پر بھی کام کا خیال رہتا.ایک دفعہ آپ کی طبیعت بوجہ دل کی تکلیف کے خراب تھی.گھر لیٹے ہوئے تھے.پانی کی ٹینکی بنائی جا رہی تھی اور مجھے حکم تھا کہ میں نے ایک منٹ ادھر اُدھر نہیں ہونا اور رپورٹ ہر گھنٹہ بعد گھر بھجوانی ہے ایک دفعہ وزیر تعلیم سردار عبد الحمید صاحب دستی آئے تو انہوں نے پوچھا کہ آپ کا کالج اور ہوسٹل پر کتنا خرچ اُٹھا ہے.آپ نے فرمایا کہ قریباً پانچ لاکھ ، تو وہ حیران ہو گئے کہ سرگودہا کالج پر تو ۲۵ لاکھ خرچ ہوا ہے.اور آپ کی نگرانی اور محنت کی بہت تعریف کی.کالج کو پانی کی سخت تکلیف تھی.کالج کے احاطہ میں ٹیوب ویل بور کرانا شروع کیا مگر چین کی وجہ سے ٹھیکیدار پائپ درمیان میں چھوڑ گیا.آخر کار کالج سے کوئی دو ہزار فٹ دور ٹیوب ویل جوایا اور وہاں سے پائپ کے ذریعہ لیبارٹریز اور احاطہ کا لج و ہوسٹل کو پانی مہیا فرمایا.کالچ میں تک شاپ ، گیسٹ ہاؤس اور فیملی کوارٹرز بھی بنائے گئے.ہوسٹل بہت اچھا بنایا گیا.آپ کی شفقت اور ہمدردی خصوصاً فزکس ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ رہی.یہاں ربوہ آکمی NON.الفضل ۲۱ دسمبر ۱۹۶۶ صفحه ۴ B.S.C.
کی لیبار ٹرینز اور اپر یس کی فراہمی کے لئے فراخ دلی سے خرچ کیا اور فزکس ایم ایس سی کا پروگرام بن چکا تھا جس کے لئے علیحدہ نیو کیمپس بنایا جارہا ہے اور پچپن ہزار روپیہ فزکس کے اپرٹیس کے لئے دے کہ اپریٹیس منگایا جا رہا ہے" ایک اہم مکتوب کا پتہ بہ ر حضرت صاجزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایدہ اللہ تعالے کا ایک مکتوب گرامی جو آپ نے تعمیر کالچ کے ور ان کے چو ہدری غلام حید ر صاحب کو کراچی لکھا تھا ) تمع فنی چی ما دار السلام ایک چیده ران اچھے ہر روف اور دمار مل گئے.(ع) آپ کراچی سے لوہا وامن کا باداری زاہد نے شرک کردی مگر تمام معلومات لیکر آئیں ، کیا کراچی میں کہا مل سکتا ہے وہی کسی ثبت پر یہ رضی کیا شیشہ مل سکتا ہے (4) پر سیٹ تھنے میں کتنی وقت پیش آئیگی پرانی ریٹ کیا ہے..وکی پیچ و غیره کے متعلق معلومات حاصل کر لیں املتے ملک بشیر ماده کا ما ار چیک اور مزید چقدر روچه مل سکے لیکرا
۱۱۲ بایل را شیخ میں سے کہیں زناکام ماندی کے نقشے نہیں ملے.شکر : مگر اُسے نقشہ لیکر آئیں.موسل میں مجھے مجھے فلیش کے دو ڈونٹ ہونگے.اسکے مطابق.اس کے علاوده پونٹ اور این 2 ڈنٹ رنا سلام کے نقشے بھی مجھ کرامت اللہ جب سے آمین کہ کم از کم رفت تجمیع کو درمی یاد - ی است کرم چودھری شریف الوہاب سے کمین کو حکیم کا ان کے کم ارتش راست رویہ لیکر ہو گیا.کراس چیک لیکر آجائیں (6) امیر ہے آپ دو دنوں میں ان کاموں نے تاریخ مذکر بده کے روز لاہور کے لئے اوائم
ران رویا شا دی کہ آپ رہے.کہتے اور کیل و عاشورہ کے متعلق مکمل معلومات حاصل کرکے دیے فلش ودن کے نشے ایک اور رقبا چند عرضا یا مل سکیس وقتها ملی کند را بزریعہ کر اس نیک دو تین روز تک لاہور کے لئے د یا دخانه پر بائیں ، اما کم ہے پنے زیرہ مہینے کے بعد میں خود کرائی جا کر عطایا جاکر وصول کرنیکی کوشش کرونگا است و الله مگرم غلام حیدر صاحب ! (1) آپ کے ہر دو خطوط اور تار مل گئے.- گاہ پر سیل السلام عليكم و رحمة الله وبركاته (۲) آپ کراچی سے لوہا خریدنے کا ارادہ ترک کر دیں مگر تمام معلومات لے کر آئیں (1) کیا کراچی میں لوابل سکتا ہے.(۲) کسی قیمت پر (۳) کیا شیشہ مل سکتا ہے (۴) پرمٹ ملنے میں کتنی وقت پیش آئے گی.(ہ) ریٹ کیا ہے (۶) پیچ وغیرہ کے متعلق معلومات حاصل کر لیں.اس لئے ملک بشیر صاحب کا چیک اور مزید جس قدر روپیہ مل سکے لے کر آجائیں.(۳) شیخ صاحب سے کہیں SINKING PIT کے نقشے نہیں ملے.شکریہ.مگر ان سے نقشہ لے کر آئیں.ہوسٹل میں کچھ کچھ فلش کے دو یونٹ ہوں گے اس کے مطابق.اس کے علاوہ دو یونٹ اور تین یونٹ ( UNITS) کے نقشے بھی.(۴) محمد کو ادت اللہ صاحب سے کہیں کہ کم از کم نصف رقم تو دے دیں.(۵) اسی طرح چوہدری شریعت احمد صاحب سے کہیں کہ مکرم ملک صاحب سے کم از کم نصف
روپیہ لے کر دے دیں.کراس چیک لے کر آجائیں.(1) امید ہے آپ دو دنوں میں ان کاموں سے فارغ ہو کر بدھ کے روز لاہور کے لئے روانہ ہو جائیں گے.(2) دوبارہ یہ کہ آپ لوہے ، شیشے اور کیل وغیرہ کے متعلق مکمل معلومات حاصل کر کے (۲) فلش کے نقشے لے کر اور (۳) جس قدر عطا یا مل سکیں نے کو (بذریعہ کو اس چیک، دو تین روز تک لاہور کے لئے روانہ ہو جائیں.تاکید ہے.مہینے ڈیڑھ پینے کے بعد میں خود کراچی بجا کر عطایا وصول کرنے کی کوشش کروں گا.انشاء اللہ (دستخط) پرنسپل ضرت خلیفہ ایسیح الثانی المصلح الموعود نے کالج کی مستقل اور کالج کی مستقل عمارت کا افتتاح شاندار عمارت کا افتتاح و فتح اردسمبر ایش کی صبح کو فرمایا ہے اس روز صبح آٹھ بجے ہی گہما گہمی شروع ہو گئی.کالج کی عمارت کے سامنے میدان میں شامیانے نصب تھے جن کے نیچے نہایت سلیقہ اور ترتیب سے کرسیاں رکھی گئی تھیں.بیٹیج کے دائیں طرف سٹاف ، بائیں طرف بزرگان سلسلہ سامنے پولیس گیلری اور پیچھے معزز مہمانوں کی جگہ مقرر تھی اور باقی حصہ طلبہ کے لئے مخصوص تھا.دس بجے حضور کی تشریف آوری پر کالج کے سٹاف کی فوٹو کھینچنے کا پروگرام تھا.اس لئے تمام اساتذہ کرام گاؤن پہنے شاداں و فرحاں حضور کے لئے سراپا انتظار تھے.دس بجے کہ پانچ منٹ پر حضور کی کار کالچ کے اللہ میں داخل ہوئی حضور نیرہ نور نے کار سے اُترتے ہی تمام عمران اشاعت کو شرف مصافحه بخش حضرت صاحبزاده مرزا ناصر احمد صاحب ایم.اپنے پرنسپل کالج نے سب اساتذہ کا تعارف کرایا.اس کے بعد گروپ فوٹو ہوئی.ے یہاں یہ ذکر کرنا مناسب ہوگا کہ تعلیم اسلام کالج کے ربی منتقل ہونے کی خبر پر لوگوں میں بہت بے چینی پیدا ہوگئی حتی کہ بعض نے اخبار نوائے وقت " میں لکھا :- ایک اور کمی متوسط طبقہ کے طلبہ کو سختی سے محسوس کرنی پڑے گی وہ تعلیم الاسلام کا لج کا لاہور سے ریو منتقل ہو جاتا ہے میں متعلقہ حکام سے درخواست کرتا ہوں کہ اس مسئلہ کی طرف فوری توجہ کرتے ہوئے موجودہ تعطیلات گرما کے اختام کے ساتھ ہی تعلیم الاسلام کالج کی کمی کو پورا کرنے کے لئے اہور میں کسی مناسب جگہ پر ایک نیا کا لیے کھول دیا جائے“ نوائے وقت ۳۱ اگست راء )
حضرت امیر المؤمنین خلیفه امسیح الثانی تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کا افتتاح فرمارہے ہیں ( نیچے ) معزز سامعین 鴃
110 بعد ازاں محضور نے کالج کی عمارت کا معائنہ فرمایا معائنے کے بعد حضور سٹیج پر تشریف لائے اور ڈیڑھ گنٹر تک حاضرین سے پر معارف منطاب فرمایا.افتتاح کی کاروائی تلاوت قرآن مجید سے شروع کی گئی جو سردار حمید احمد صاحب سیکنڈ ایر نے کی.ان کے بعد محمد اسلم صاحب صابر متعلم فرسٹ ایم نے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی نظم " حمد و ثناء اسی کو جو ذات جاودانی " خوش الحانی سے پڑھی.بعد ازراں پر و غیر نصیر احمد خاں صاحب نے اپنی دو نظمیں پڑھیں جو انہوں نے خاص اسی تقریب کے لئے لکھی تھیں.اس کے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے سپاستا پیش کیا جس میں آپ نے ان تمام مراحل پر بلیغ انداز میں روشنی ڈالی جین سے گند کر کالج کی عظیم الشان اور پرشکوہ عمارت پایہ تکمیل تک پہنچی تھی ہے سپاسنامہ کے بعد حضرت مصلح موعود نے ایک نہایت ولولہ انگیز تقریر فرمائی جس میں حضور نے اس کالج کے قیام کی اصل غرض و غایت پر روشنی ڈالتے ہوئے طلبہ کو خاص طور پر نصائح فرمائیں کہ تمہیں جو تعلیم الاسلام کانچ میں داخل کیا گیا ہے تو اس مقصد کے ماتحت داخل کیا گیا ہے کہ تم دین کے ساتھ دنیوی علوم بھی سیکھو.میں جانتا ہوںکہ تم میں سے ۴۰/۳۰ فیصدی غیر احمدی ہیں، لیکن تم بھی اس نیت سے یہاں آئے ہو کہ دینی تعلیم حاصل کرو.بیشک کچھ تم میں سے ایسے بھی ہوں گے جو دوسر کالجوں کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے.اس کالج کا خرچ تھوڑا ہے اس لئے وہ یہاں آگئے یا ان کا گھر ریوں سے قریب ہے اس لئے وہ اس کالج میں داخل ہو گئے یا ممکن ہے ان کے بعض رشتہ دار احمدی ہوں اور وہ یہاں آباد ہوں اور انہیں ان کی وجہ سے یہاں بعض سہولتیں حاصل ہوں لیکن تم میں سے ایک تعداد ایسی بھی ہوگی جو یہ بھتی ہوگی کہ اس کالج میں داخل ہو کہ ہم اسلام سیکھ سکیں تم میں سے جو طالب علم اس نیت سے یہاں نہیں آئے کہ وہ اسلام کی تعلیم سیکھ لی میں اُن سے کہتا ہوں کہ تم اب یہ نیت کر لو کہ تم نے اسلام کی تعلیم سکھتی ہے.اور جب میں یہ کہتا ہوں کہ تم اسلام کی تعلیم سیکھو تو میرا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ تم احمدیت کی تعلیم سیکھو.ہمارے نزدیک تو اسلام اور احمدیت میں کوئی فرق نہیں.احمدیت حقیقی اسلام کا نام ہے لیکن اگر تمہیں ان دونوں میں کچھ فرق نظر آتا ہے تو تم ے دونوں نظمیں رسالہ "المنار" باست ماه ثبوت / نوم السلام ۱۳۳۳ ۱۷۱ ایش صفحه ۱۷ و ۱۷ پر شائع شدہ ہیں ، ا نے "المنار" با ست ماه نبوت / نوبه ده مش صفحه ۱۷ - ۱۸ *
وہی سیکھو جسے تم اسلام سمجھتے ہو.اگر انسان کرتا اور ہے اور کہتا اور ہے تو وہ غلطی کرتا ہے.دیوبندی ی بانویوں کے متعلق سمجھتے ہیں کہ ان کا اسلام اور ہے بستی شیعوں کے متعلق سمجھتے ہیں کہ اُن کا اسلام اور ہے.اسی طرح آغا خانیوں کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ اُن کا اسلام اور ہے جماعت اسلامی کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ اُن کا اسلام اور ہے.احمدیوں کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ اُن کا اسلام اور ہے لیکن جب یہ سب فرقے اپنے آپ کو اسلام کا پیرو کہتے ہیں تو وہ اسلام کے متعلق کچھ نہ کچھ تو ایمان رکھتے ہوں گے ورنہ وہ اپنے آپ کو مسلمان کیوں کہتے.بریلوی بھی مسلمان ہیں ، دیوبندی بھی مسلمان ہیں ، سنتی بھی مسلمان ہیں ، شیعہ بھی مسلمان ہیں ، جماعت اسلامی والے بھی مسلمان ہیں ، احمدی بھی مسلمان ہیں.تم ان میں سے کسی فرقے کے ساتھ تعلق رکھو ہمیں کوئی اعتراض نہیں.لیکن سوال یہ ہے کہ جو کچھ تم مانتے ہو اس پر عمل کر وہ قرآن کریم میں بار بار ہے کہا گیا ہے کہ اسے عیسائیو! تم میں اسوقت تک کوئی خوبی نہیں جب تک عیسائیت پر عمل نہ کرو اور یہودیو سے کہا گیا ہے کہ اسے یہو دیو ! تم میں اس وقت تک کوئی خوبی نہیں جب تک تم یہودیت پر عمل نہ کرو.اب دیکھ لو قرآن کریم ان سے یہ نہیں کہتا کہ تم اسلام پر عمل کرو بلکہ یہ کہتا ہے کہ تم اپنے مذہب پر عمل کرو کیونکہ نیکی کا پہلا قدم پہنا ہوتا ہے کہ انسان اپنے مذہب پر عمل کرے.پھر دیکھو اسلام نے اہل کتاب کا ذبیجہ بھائز رکھا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر مذہب نے کچھ اصول مقررہ کتے ہیں اور ان کے ماننے والے اُن اصول کی پیروی کرتے ہیں.تم سمجھتے ہو کہ یہودی منور نہیں کھاتے اس لئے تم تسلی سے ان کا ذبیحہ کھا لو گے.اسی طرح عیسائیوں سے تم کوئی معاملہ کرتے ہوئے نہیں گھبراؤ گے کیونکہ ان کی مذہبی کتاب میں لکھا ہے کہ تم جھوٹ نہ بولو اور کسی سے قریب نہ کرو انفرادی طور پر اگر کوئی شخص تم سے قریب کرے تو کرے لیکن اپنے مال کوڈ کے ماتحت وہ تم سے قریب نہیں کرے گا.اہل کتاب کی لڑکیوں سے شادی کی اجازت دی گئی ہے وہ بھی اسی حکمت کے ماتحت ہے کہ وہ تمہاری زوجیت میں آجانے کے بعد اپنے مال کوڈ کے ماتحت چلینگی مثلاً یہودیت اور عیسائیت کی تعلیم کے ماتحت کوئی عورت اپنے خاوند کو زہر نہیں دے گی.اس لئے تم اطمینان سے اپنی زندگی بسر کر سکو گے اور ایک دوسرے پر اعتماد کر سکو گے.گویا شریعت نے مذہب کو بہت عظمت دیا ہے اور بتایا ہے کہ اپنے مخصوص عقیدہ پر چلنے میں بڑی سیفٹی
114 ہے.پس کم از کم اتنا تو کرو کہ اپنے عقائد کے مطابق عمل کرو.اگر کوئی پر و غیر تمہیں کسی احمدی امام کے پیچھے نماز پڑھنے کے لئے مجبور کرتا ہے تو تم اس کا مقابلہ کرو اور میرے پاس بھی شکایت کرو.میں اس کے خلاف ایکشن لوں گا.لیکن اگر وہ تمہیں کہتا ہے کہ تم نماز پڑھو تو یہ تمہارے مارل کوڈ کے عضلات نہیں اور اس کا نماز پڑھنے کی تلقین کرنا پلیجس انٹر فیر فیس نہیں.تم نماز پڑھو پا ہے کسی طرح پڑھو یہیں اس پر کوئی اعتراض نہیں.تم اپنے میں سے کسی کو امام بنا لو.کالج کے بعض پر وغیر غیر احمدی ہیں.ان میں کسی کو امام بنانو لیکن نماز ضرور پڑھو.شیعہ اور بوہرہ لوگ نماز پڑھتے ہوئے ہاتھ چھوڑتے ہیں باندھتے نہیں.ہم اہلحدیث کی طرح سینہ پر ہاتھ باندھتے ہیں منفی لوگ نات کے نیچے ہاتھ باندھتے ہیں.اس کے خلاف اگر کوئی پر وغیرہ تمہیں مجبور کرتا ہے تو تم اس کی بات ماننے سے انکار کر دو.اگر وہ کہتا ہے کہ تم آمین بالجہر کہو تری اہلحدیث کا مذہب ہے حنفیوں کا نہیں.اگر تم محنفی ہو تو تم اس کی بات نہ مانو اور میرے پاس شکایت کرو نہیں اس کے خلاف ایکشن لوں گا.مذہب میں دخل اندازی کا کسی کو منی نہیں.قرآن کریم کہتا ہے کہ مذہب میں مداخلت کرنا انسان کو منافق بتاتا ہے مسلمان نہیں بناتا لیکن تم میں سے ہر ایک کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ تعلیم الاسلام کالج کا طالب علم ہونے کی وجہہ سے اسلام کی تعلیم پر چلے.اب اسلام کی تم کوئی تعریف کرو.اسلام کی جو تعریف تمہارے باپ دادا نے کی ہے تم اسی کو مانو.لیکن اگر تم اس تعلیم پر جیسے تم خود درست سمجھتے ہو عمل نہیں کرتے تو یہ منافقت ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس کالج میں اگر کوئی ہندو بھی واضل ہونا چا ہے تو ہمارے کالج کے روازہ سے اس کے لئے کھلے ہیں لیکن وہ بھی اس بات کا پابند ہو گا کہ اپنے مذہب کے مطابق زندگی بسر کرے کیونکہ اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ ہر شخص اپنے اپنے مذہب کے مطابق عمل کرے.ہندو اپنے مذہب پر عمل کرے، عیسائی عیسائیت پر عمل کرے اور یہودی یہودیت پر عمل کرے.میں اس اسلامی حکم کی وجہ سے ہم اسے مجبور کریں گے.کہ وہ اپنے مذہب پر عمل کرے.لیکن یہ کہ تم اس کالج میں تعلیم حاصل کرو لیکن کسی بادل کوڈ کے ماتحت نہ پھلو یہ درست نہیں ہوگا تمہیں اس کالج میں داخل ہونے کے بعد اپنے آپ کو کسی نہ کسی مارل کوڈ کی طرف منسوب کرنا ہوگا اور پھر تمہارا فرض ہو گا کہ تم اس کے ماتحت چلو.
HA پس اگر تم میں سے کوئی کہتا ہے کہ ہمیں مسلمان نہیں تب بھی ہم تمہیں برداشت کر لیں گے، لیکن اس شرط پر کہ تمہیں کالج میں داخل ہونے کے بعد اپنے آپ کو کسی عادل کوڈ کی طرف منسوب کرنا ہو گا چاہے تم اسے تجربہ کے طور پر تسلیم کہ وہ مثلاً تم تجربہ کے طور پر اپنے ماں باپ کے مذہب کو اختیاہ کر لو تب بھی ہم برداشت کر لیں گے.لیکن، اگر تم کسی مارل کوڈ کے ماتحہ مستقل طور پر نہیں چلتے اور نہ کسی مارال کو ڈا کو تجربہ کے طور پر اختیار کر تے ہو تو دیانت داری یہی ہے کہ تم اس کا لج میں داخلہ بڑلو.اسلام کہتا ہے کہ تم جس مذہب کی تعلیم پر بھی عمل کرنا چا ہو کر ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں کوئی ہندو اپنی تعلیم پر عمل کرتا ہے، عیسائی اپنی تعلیم پر عمل کرتا ہے، یہو دی اپنی تعلیم پر عمل کرتا ہے تو وہ اس کالج میں داخلہ لینے کا مستحق ہے.اگر کوئی حنفی المذہب ہے اور وہ منفی مذہب پر عمل کرتا ہے تو وہ اس کالج میں داخلہ لینے کا مستحق ہے.اگر کوئی شیعہ ہے اور اپنے مذہب پر عمل کرتا ہے تو اس کالج میں داخلہ لینے کا حق ہے کیونکہ یہ کالج تعلیم الاحمدیہ کالی نہیں، تعلیم الاسلام کالج ہے.اور اسلام ایک وسیع لفظ ہے.کوئی کوڈ آف مارٹی جنوں کو علماء اسلام نے کسی وقت تسلیم کیا ہو یا اب تسلیم کر لیں وہ اسلام میں شامل ہے.پس میں طلبہ کو اس طرف تزویر دلاتا ہوں کہ تم کالج کی روایات کو قائم رکھو.یہ تعلیم الاسلام کالج ہے.اور اس کے معنے یہ ہیں کہ یہ کالج نہیں ملی مسلمان بتا دے گا اور یہ ہی اس کالج کے قائم کرنے کی غرض ہے " " حضرت مصلح موعود نے اپنے اثر انگیز خطاب کے آخر میں دعا فرمائی کہ " اللہ تعالے اس کا بیچ کو اس مقصد کے پورا کرنے والا بنائے نہیں کے لئے اُسے قائم کیا گیا ہے اور اس کے طالب علم رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے شاگرد ہوں جو لوگوں کو آپ کا صحیح چہرہ دکھانے میں کامیاب ہوں " سے بلہ کے انتقام پر تضور نے تمام طلبہ کو شرفت مصافحہ بخشا.اس کے بعد منصور نے کا ملچ کی طرف سے بی گئی ایک عورت میں شرکت قربانی حضور دو بجے کے قریب دعوت سے وار تے ہوئے جس کے بعد حضور نے یکس عالمہ کا ہے یونین کے ساتھ ایک گروپ فوتو کھنچوائی اور پھر والیں تشریف لے گئے.اس طرح یہ مبارک تقریب بخیر و خوبی انجام پائی کے " الفضل" فتح اد ممبر بش مو۳ - ۴ نے " يقتصر فتح صفر نه رساله المستاد با بست ماه خوست اویه سایش صفحه ۱۸۰۱۷ ۰
114 اس تقریب پر متعدد غیر احمدی معززین بھی تشریف لائے ہوئے تھے جن میں سیدہ عابدہ احمد علی میاں پرنسپل گورنمنٹ کالج سرگودھا، منال رفیع اللہ خان صاحب ، شیخ عطاء اللہ صاحب پر نسپل اسلامیہ کالج چنیوٹ اور پرو فیسر غلام جیلانی اصغر صاحب خاص طور پر قابل ذکر ہیں.حضرت مصلح موعود نے کالج کے افتتاح کے موقعہ پر فضل عمر ہوسٹل کی VISITORS BOOK میں اپنے قلم مبارک سے مندرجہ ذیل عبارت رہتم فرمائی :.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے بے سرو سامانی میں کالج کے سامانوں کو مہیا کیا اور بے گھروں کو گھر دیا.اب دعا ہے کہ میں طرح اس دنیا کا علم دیا اگلے جہان کا علم بھی دے اور جس طرح اس جہان کا گھر دیا اگلے جہان کا اچھا گھر بھی بخشے اور اس کالج میں پڑھنے والے سب طلبہ کو اپنی رضاء پر چلنے ، اپنا فرض ادا کرنے اور ایثار و قربانی کا اسکلی نمونہ دکھانے کی توفیق بخشے.خاکسار مرزا محمود احمد مجھے تعلیم اور الاسلام کالج کے ہونہار اور جب کہ فل موم نہیں بنایا جا چکا ہے کہ حضرت مصلح موعود نے قیام کالج کے پہلے سال تے ہیں ہی یہ ارشاد فرمایا فارغ التحصیل طلبہ کالج کے سات میں سنا کہ کالج کے سیکھو ارطالب علموں میں وقت کی تحریک کریں تاکہ ان کو مستقبل میں پروفیسری کے لئے تیار کیا جائے کیونکہ آگے چل کر نہیں بہت سے ایم.اسے اور ایم ایس کی صاحبان کی ضرورت ہو گی.حضرت صاحبزادہ مرزا نا ر احمد صاحب نے بحیثیت پر اس کا لج حضرت مصلح موعود کے اس فرمان مبارک کی تعمیل کے لئے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا.چنانچہ آپ کی مخلصانہ مساعی بار آور ہوئیں جن کے شیریں اعتماد ربوہ میں آ کر ظاہر ہونا شروع ہوئے جبکہ تعلیم الاسلام کالج کے فارغ التحصیل طلبہ کالج کے سٹاف میں شامل ہو کر کالج کی علمی و عملی ترقی میں سرگرم عمل ہونے لگے.ذیل میں ہش سے لے کر نبوت ان میں یہ مہیش کے درمیان کالچ کے سٹات میں شامل ہونے ۱۹۵۲ +1940 ے سرسید مرحوم کے ویزوں میں سے ہیں.محکمہ تعلیم سے فراغت کے بعد اردو انسائیکلو پیڈیا آف اسلام سے منسلک رہے.ہیکل انجینئر نگ یو نیورسٹی میں شعبہ اسلامیات کے صدر ہیں یا نے پرنسپل سرگودھا کا لی.آپ انگلستان میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کے ہمعصر تھے اور گہرے دوست بھی !! سه المضار" بابت ماه نبوت تو به سر کار مش صفحه ۱۸ به ة ماہ سرمایش کے سالانہ رپورٹ تعلیم الاسلام کا لی کہ مبین منو ۰۸
۱۲۰ والے نئے اساتذہ کی فہرست دی جاتی ہے کہ جس میں ایک خاصی تعداد اسی مرکز علم و دانش سے اکتاب نہیں کرنے والوں کی نظر آئے گی رگول دائرہ کا نشان اس خصوصیت کی علامت کے طور پر لگایا گیا ہے) مرزا مجید احمد صاحب ایم.اے محمد ابراہیم صاحب ناصر بی.اے مسعود احمد صاحب عاطف ایم ایس سی ہ مبارک احمد صاحب انصاری ایم ایس سی ن چوہدری محمد لطیف صاحب ایم.اے ظفر احمد صاحب دینیس ایم.اے w - ید مظفر حسین صاحب زیدی ایم.اے ایس ایم حمایت اللہ صاحب ایم.اے سیار کلیم اللہ شاہ صاحب ایم ایس سی چوہدری عطاء اللہ صاحب ایم.اے زماہ تبوک استمبر و ماه احاور اکتیو پر " د ماه نبوت / نومبر " کیا کہ ) ( د ماه صلح (جنوری ۱۳۳۳ ش) گمرکی ر ماه امان تاریخ مولوی محمد دین صاحب ایم.اے سی ایل ایس سیتی اماه افتاد ر اکتوبر چوہدری حمید اللہ صاحب ایم.اے یک محمد عبد اللہ صاحب نصیر احمد صاحب تبشیر ایم ایس سی مرزا خورشید احمد صاحب ایم.اے حمید اللہ صاحب ظفر ایم.اے رفیق احمد صاحب ثاقب ایم ایس سی آنرز کثیر ادریس صاحب ماه فتح دسمبر - 11900 ( " ) ماہ ہجرت امی ۳۳ مش ) دماه تبوک استمبر دماه اتحاد نشر اکتوبر " ۱۳۳۵ +1907 ( ( د ماه تبلیغ فروری سایه ش ) مونانا ابو العطاء صاحب فاضل ر ماہ تبوک استمبر ( محمد شریعت صاحب خالد ایم اے، ایل ایل بی، بی.ٹی ) ماه دفا جولائی مسلمہ ہش ) ماہ و خار ہوں گی نہیں سے لائیبریرین کے فرائض انجام دے رہے تھے ۶۱۹۵۸
۱۲۱ سعید احمد صاحب رحمانی ایم.اے حمید احمد صاحب ایم اے ه افتاب احمد صاحب ایم.اے خواجه منظور احمد صاحب ایم ایس سی چوہدری محمد سلطان صاحب اکبر ایم.اے { ناصر احمد صاحب پروازی ایم.اے ہ منور شمیم خالد صاحبہ ، ایم.اے سیناز حبیب الرحمن صاحب ایم ایس سی سعید اللہ تعال صاحب ایم.اے ، بی ایس سی محمد اسلم قریشی صاحب ایم ایس سی سردار محمد علیم صاحب ایم.اے مرزا مسعود بدر بیگ صاحب ایم.اے سید پرویز سجاد جعفری صاحب ایم.اے سجاد امام صاحب چوہدری محمد اسلم صاحب صابر ایم.اے ، بی ایڈ صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب ایم.اے چوہدری انور حسن صاحب ایم.اے عبدالرشید فورکی صاحب ایم.اے وہدری عزیز احمد صاحب طاہر ایم اے محمد ارشد صاحب ایم ایس یسی چوہدری عبدالسمیع صاحب ایم.الیس - سی مسٹر مائیکل ای ولیمز ایم ایس سی ڈرہم سے قبل ازیں ماہ نبوت / تو میریش سے بطور ڈیما نسٹریٹر کام کر رہے تھے.ماه اسفاد / اکتوبر ماه پیش) ا اکتوبر > ماه تبوک استمبر ۳۳۷ هش) + دماه نبوت / نومبر +1909 مش ( ماه صلح اجنوری راه میش) دماه امان مارچ j دماه تبوک استمبر زماه اش در اکتوبیمه > } l ( ( ( l ( 71947 موز ( رماه نبوت / نومبر ماہ ہجرت مئی ه ش ) رماه تبوک استمبر
۱۲۲ سید مقبول احمد صاحب ایم ایس سی محمد سرور صاحب ایم.اے محمد شریف خان صاحب ایم ایس سی عبد الشکور صاحب اسلم ہی.ایس سی نے تے ه عبد الرشید صاحب فنی انبالوی - ایم ایس سی سيد محمد يحيي صاحب رشید احمد صاحب جاوید ایم.اے 0 اعجاز الحق قریشی صاحب ایم.اے ه محمد انورشاه صاحب ارشد ترمذی عبد الجليل صاحب صادق محمد اکرم صاحب ایم ایس سی دماه تبوک استبه 1 میش ( 4 1 " زیادہ اتحاد ام الکترونیه دماه نبوت / نومبر خود الله دماه تبوک استمبر میش) > میشه د ماه نبوت / نومبر { ( ( تیزی سے ترقی کی منازل طے کرنے لگی بیچنا نچہ یہ عظیم درسگاہ ربوہ میں منتقل ہونے کے بعد نہایت تعلیم السلام کالج کے تدریسی وتعلیمی نظام ا ا میں بتدریج وسعت اور جدید ڈگری کالج کی تعمیر یہاں کر کیمیاء کی تدریس اور پریکٹیکل کا انتظام (بی ایس سی کے معیار تک) پہلے سے بھی زیادہ عمدگی کے ساتھ ہونے لگا.ہش ہی میں حضرت سیدنا المصلح الموعود کی خصوصی اجازت سے آل پاکستان بین انگلیاتی مباحثوں کا آغاز کیا گیا.علاوہ ازیں کالج کے طلبہ دیگر اداروں کے کل پاکستان بین الکلیاتی سالانہ مباحثوں نے بیشتر ازیں شعبہ بیالوجی میں ڈیں نسٹریٹر کے فرائض انجام دیتے رہے ہ نے اس قبیل کی انٹریٹ کی حیثیت کالج کی خدمت بجا ر ہے تھے.سے پروفیسر ڈاکٹر نصیر احمد خان صاحب ایم ایس سی پی.ایچ.ڈی ڈرہم جنہوں نے بارش سے لیکر یہ علیہ کی ایک سٹوڈنٹس یونین کی نگرانی کے فرائض انجام دینے اپنے ایک بیان میں لکھتے ہیں : " سب سے پہلا ملا نہ لجنہ اماء اللہ کے نزل میں منعقد ہوا.کیونکہ اس وقت تک کالج کا اپنا ہال تعمیر نہیں ہوا تھا.20ء سے شاہ تک یہ دستور رہا کہ یہ سالانہ مباحتوں کے اختتام سے اگلی صبح تمام شریک مباحثہ طلباء جو کراچی، پشاور اور لاہور وغیرہ مختلف کابیوں سے ربوہ آنے ہوتے تھے، کے ناشتہ کا انتظام حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کے در دولت پر ہوتا تھا اور آپ اس میں طلباء کے ساتھ نہایت بے تکلفی اور شفقت کے ساتھ پیش آتے اور ایک ذاتی تعلق ہر شریک مجلس سے پیدا ہو جاتا.سالہا سال یومین کی خوش قسمتی سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ شریک مباختہ طبیہ کو قصہ خلافت میں ملاقات خاص می موقعہ دیقیہ حاشیہ اگلے صفر پر
۱۲۳ میں شریک ہونے اور انفرادی اور مجموعی طور پر کثرت انعام حاصل کرنے لگے جس کی تفصیل کالج کی مطبوعہ سلطانہ رپورٹوں میں موجود ہے.*147.01947 ہ ہش سے کالج میں ریاضی ( آنرز) کیمیا (آنرز) اور شماریات کی تعلیم کا اجراء ہوا ی اسلامی میں بی ایس سی باٹنی اور بی ایس سی، زوالوجی کی کلاستر بھی کھل گئیں.اسی زمانہ میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایدہ اللہ تعالٰی نے کالج میں اعلیٰ اور معیاری تعلیم کے لئے ایک عظیم انسان منصوبہ تیار فرمایا جو خدا کے فضل وکرم سید نا المصلح الموعود کی توجہ اور آپ کی ذاتی توجہ، دلچسپی اور رہنمائی کی بدولت نہایت برق رفتاری کے ساتھ کامیابی کے زینے طے کر رہا ہے.بہاری مراد 1971-91 جدید ڈگری کالج سے ہے جس کی تفصیلی حکیم است اہش میں بروئے کار آئی.چنانچہ حضرت صاحبزادہ صاحب نے اس کی سالانہ رپورٹ میں فرمایا :.اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو نظام تعلیم کے نئے دور میں تعلیم الاسلام کالج سابقون الاولون میں شمار ہوگا.انشاء اللہ العزیز کالج کی تقسیم ) BI FURACTION) کے بعد جو عنقریب ہونے والی ہے ڈگری اور پوسٹ گریجوایٹ کلاسیں جلد ہی اپنی نئی عمارت میں منتقل ہو جائیں گی.یہ سال تو کالج کے لئے زمین ، عمارت کے نقشوں اور دیگر کوائف کی تفاصیل سے متعلق فیصلوں ہی میں گذرا ہے.اس وقت کا لج کیمپس کے گرد دیوار بن رہی ہے.ٹیوب ویلوں کے لئے آزمائشی کھدائی کی جا سکی ہے.نقشے بن چکے ہیں اور انشاء اللہ العزیز تعمیر کا کام بھی جلد ہی پوری تیز رفتاری سے شروع ہونے والا مہند.یہ دورِ جدید کا لج کی زندگی میں ایک عہد آفریں اور خوشسکن انقلاب کا حامل ہوگا است مہیش میں کالج کیمپس کی اصل عمارت کی تعمیر شروع کر دی گئی.اس عظیم علمی منصوبہ پر ماہ اران بار ش تک، نو لاکھ روپیہ کے اخراجات ہوئے.سائنس بی بار ٹرینہ کی ورکشاپ تو اسی سال مکمل البته حاشیه صفحه گذشته عطا فرماتے رہے.بچو کی تعداد زیادہ ہوتی تھی اس نے کبھی نچلی منزل کے صحن میں احاطہ پرائیویٹ سکرٹری کے آگے یا تجھے اور کبھی اوپر ملاقات کے مکرے میں کرسیاں لگا دی جاتیں اور ایک کلاس روم کا ماحول پیدا ہو جاتا حضور حالات دریافت فرماتے، پھر سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہو جاتا.جو نبض رفتہ گھنٹوں جاری رہتا.طلبہ ہمیشہ ایک عظیم الشارع روحانی اور علمی رساندہ سے المنش اندوز ہو کر یاسر نکلتے اور اگلے سال پھر آنے کی آرزو لے کر واپس گھروں کو لوٹتے.طلباء میں مستنصب اور محجبات بھی ہوتے مگر کوئی ایک طالب علم بھی ایسا نہ تھا ہے حضور کے تجر علی اور شگفتہ مزاجی سے متاثر نہ ہوتا " نه سالانه رو نداد تعلیم الاسلام کا کے سات له مش صفحه ۲ به
71979 ہوگئی ہے مگر سائنس بلاک کی تعمیر خلافت ثالثہ کے چوتھے سال (ه ش) تک جاری رہی چنانچہ اختبار الفضل ۱۲۱ ہجرت مئی یہ میں صفحہ ہ میں اس زیر تعمیر کالج کی نسبت یہ خبر شائع کی گئی :- 1999 در شعبہ فزکس کی لیبارٹریز مکمل ہوچکی ہیں.عنقریب ان کی فٹنگ اور فنشنگ شروع ہو جائے گی منصو بے کے پہلے مرحلے کے طور پر فزکس میں ایم ایس سی کی تدریس شروع کی جائے گی.اس سلسلہ میں پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے مقرر کردہ مقاص کمیٹی نے آلات فزکس کی ایک فہرست تیار کی تھی اور الحاق سے قبل ان کا فراہم کرنا ضروری قرار دیا تھا" ۱۳۴۷ 71999 PRECISION INSTRUMENTS میش میں اس کمیٹی کی تیارہ کردہ فہرست کے مطابق بیرونی ممالک سے جدید ترین آلات در آمد کرنے کا انتظام کیا گیا جن کی پہلی کھیپ اور ہجرت امنی حس میش کو انگلستان، مغربی جرمنی اور یوگوسلاویہ سے ربوہ میں پہنچی جس میں اسکو سکوپ، الیکٹرک اوسی لیٹروز ، الیکٹرو سکوپ ، ریڈیو ایکٹو سورسٹر ریٹ میٹر اور الیکٹرانکس کا دیگر بیش قیمت سامان شامل تھا.مزید بر آل بعض بھی منگوائے گئے.بعض آلات کے پرزہ بھارت کو صدر شعبہ طبعیات ڈاکٹر نصیر احمد خاں صاحب کی نگرانی میں فزکس کے اساتذہ اور بعض طلبہ نے خود ASSEMBLE کیا اور دن رات ایک کر کے سامان کی چیکنگ اور ترتیب مکمل کر کے بڑے قرینہ سے شعبہ طبعیات کی بڑی لیبارٹری میں نصب کئے تاکہ ان آلات کی کار کردگی کو جانچا میا سکے.اس طرح کا لج کی طبیعیات کی لیبارٹریز بعد ید سائنٹیفک آلات سے آراستہ ہو گئیں.جن کا معائنہ اور عملی کار کردگی کا مشاہدہ حضرت تخلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالے نے ہجرت اس ام اس ام اس کو بنفس نفیس فرمایا است آلات طبعیات کی دوسری کھیپ امریکہ سے موصول ہونے والی ہے جو ماہ جولائی پیش کے آخر تک پہنچ جائے گی موجودہ ششماہی میں دس ہزار روپیہ کا کیش بونس در آمدی لائسنس منظور ہوا ہے میں پر مزید آلات کا آرڈر دیا بھا رہا ہے.فرکس کا پلاک مکمل ہو چکا ہے.بجلی کی وائرنگ اور فرنیچر کے لئے رقم کی منظوری حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی طرف سے ہو چکی ہے.امید ہے کہ اگست تک یہ کام مکمل ہو جائے گا اور فزکس کی ۲۱۹۶۳-۶۴ سے رپورٹ سالانہ صدر انجین احمدیہ پاکستان ربوده بایست اش صفحه ۱۵۸ کیمپس کانچ کی عمارت کے نگران پھر بدری ہے ۲۲-۳۳ را فضل داد صاحب تھے اور بجلی کی ٹائی ٹیشن چوہدری خلام حیدر صاحب سینٹر لیکچرر اسسٹنٹ دن نظم املاک کالج کے سپرد رہی ؟ له الفضل ۲۱ ہجرت اسی پیش صفحه ۸ " 4 A
۱۳۵ تجربہ گا ہیں یونیورسٹی کمیشن کے آنے تک سامان اور تجربات سے پوری طرح کیس ہو جائیں گی لیے ربوہ میں ماہ ثبوت تو برش سے لے کہ ماہ نبوت انو بران یونیورسٹی کے امتحانوں میں ہیں یہ کالج حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی براہ راست نگرانی اور کالج کے نوشکن نتائج قیادت میں سرگرم عمل رہا.اس زمانہ میں کالج نے اپنے عظیم المرتبت اور جلیل القدر پرنسپل کے زیر سایہ علم وعمل کے میدان میں نمایاں ترقی کی اور بالخصوص یو نیورسٹی کے امتحانات میں اس کے نتائج سال بسال نهایت در جعدہ نوشکن، مسرت انزا اور شاندار رہے اور اس کے طلبہ نے صوبہ بھر میں امتیازی پوزیشن حاصل کی ہے نے یہ سطور شروع ماه و فار بھلائی ریش میں لکھی جا رہی ہیں ؟ ر مہیش میں ایف اے کے امتحان میں منور احمد صاحب سعید صوبہ بھر میں اول اور بی نہ آپیس رہی ہیں ی تفصیل یہ ہے " بمجازا الرحمن صاحب سوم رہے.رش میں محمد سلطان صاحب اکبر نے بی.اے کے امتحان میں عربی پاس کورس اور عربی آنرز میں اول رہنے پر طلائی تمغہ حاصل کیا اور افتخار احمد صاحب شہاب یو نیورسٹی بھر کے انگریزی کے امتحان میں اول رہے.7149--91 مام مہش میں ہائر سیکنڈری امتحان کے پری میڈیکل گروپ میں حمید احمد خاں صاحب پنجاب بھر میں اول رہے HUMANITIES GROUP کے طلبہ میں قریشی اعجاز الحق صاحب نے اول پوزیشن حاصل کی.اسی طرح بھی.ایس سی کے امتمان میں سید امین احمد صاحب فرکس کے مضمون میں یونیورسٹی میں اول رہے.71941-47 ہوش میں ہیں.اسے سال اول کے امتحان میں اعجاز الحق صاحب قریشی نے یونیورسٹی میں دوم پوزیشن حاصل کی اسی طرح ہائر سیکنڈری امتحان میں عطاء المہیب صاحب راشد نے بھی کامیاب ہونے والے طلبہ میں امتیازی مقام حاصل کیا.مشن میں اعجاز الحق صاحب قریشی بی.اے کے امتحان میں یونیورسٹی بھر میں اول آئے.اہش میں ایم.اسے عربی پریوس میں چودھری محمد صدیق صاحب اول اور چودھری ناصرالدین صاحب اور بشارت الرحمن صاحب دوم رہے.عطاء المجیب صاحب راشد نے بی.اے سال دوم عربی میں اول رہ کر دو طلائی تمھتے مالیہ کوٹلہ میڈل اور خلیفہ محمد حسن جو بلی گولڈ میڈل حاصل کئے.اور اعجاز الحق قریشی (ہسٹری آنرز سال سوم میں یونیورسٹی میں اول رہے.51970-14 امش می پہلی بار کالج کے طلباء ایم.اسے عربی کے امتحان میں شامل ہوئے اور سارہ سے خلیفہ اعلیٰ غیروں سے کامیاب ہوئے اور چوہدری محمد صدیق صاحب یونیورسٹی میں اول قرار پائے، اسی طرح تین اور طلبہ نے تعمیری چو تھی اور پانچویں پوزیشن حاصل کی.یتکار مہیش میں کالج کی دوسری ایم.اے کلاس کا نتیجہ بھی سو فی صد رہا.نیز یونیورسٹی میں بحیثیت مجموعی پہلی تین پوزیشین طلبہ تعلیم الاسلام کالج کے حصہ میں آئیں یعنی قریشی مقبول احمد صاحب اول ، عطاء المجیب صاحب را شد دوم اور سید عبدالھی صاحب سوم آئے اور ایک طالب علم کے سوا جس نے سیکنڈ ڈویژن کی باقی سب نے فرسٹ ڈویژن میں امتحان پاس گیا.اسی طرح عنایت اللہ صاحب جنگلا پنجاب یونیورسٹی میں ایم.اسے اقتصادیات میں فرسٹ ڈویژن لے کر اول آئے.تعلیم الاسلام کالج کی مطبوعہ رپورٹوں )ریش تا پیش) سے ماخوذ)
کالج میں مشہور گلی اور غیرملکی شخصیتوں کی ایم ایلام اسلام کا ایک علمی تقریبات میں نامور ملکی اور غیر ملکی شخصیتوں کی آمد کا جو سلسلہ قبل ازیں جاری ہو چکا تھا وہ ربوہ میں حیرت انگیز حد تک وسعت پکڑا گیا حتی کہ امریکہ، یورپ اور روس کے بعض ممتاز شہرہ آفاق اور بین الاقوامی شہرت کے حامل سائنسدان بھی اس علمی ادارہ کی شہرت سے متاثر ہو کر کھینچے آنے لگے چنانچہ اس ضمن میں بعض نامور اشخاص کی ایک مختصر فہرست دی جاتی ہے جو حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی براہ راست قیادت کے مبارک دور میں یہاں پہنچے اور جنہوں نے بذریعہ تقریر اپنے تجربات و معلومات سے اساتذہ اور طلبہ کو متمتع ہونے کا موقعہ دیا ائیے ڈاکٹر ہیں.ایل ٹیٹس ہا ہوں.اطالوی مستشرق پروفیسر اے بوسانی، روسی سائنسدان برونون ( پروفسیر لینن گراڈ یونیورسٹی ڈائریکٹر انسٹی چیوٹ آف فزیالوجی اکیڈمی آف سائنستر 0.5.5) ، امریکی سائنسدان ای سی سٹیکمین و پر غیر مرئی میناسوٹا یونیورسٹی امریکہ وسائنٹیفک ایڈوائزر راک فیلر فاؤنڈیشن ) ، میجر عثمان بیگ آفندی آن ترکی.میجر جنرل اکبر خان ، مسٹر تھیوڈور ، ڈاکٹر " محمد عوده مدیر اجمہوریہ مصر مرغوب صدیقی صاحب صدر شعبہ جو تلزم پنجاب یونیورسٹی ، سردار دیوان سنگھ جبر ، صاحب مفتون ایڈیٹر ریاست پھلی ، ڈاکٹر ای ٹی ہے.روز منتقل کیمبرج یونیورسٹی ، ستر میری مسلول سابق پر خیر برمنگھم یونیورسی ، انور عادل صاحب سکرٹری تعلیم مغربی پاکستان ، ڈاکٹر سی ولیم گرک مشیر ثقافتی اور امریکی کونسل ، پر وفیسر سٹرن (روسی سائنس اکیڈمی کے نمبر دیا بائے بیٹنگ FATHER OF SPUTNIK فلائٹ لیفٹینٹ ایم ڈبلیو بناری مولانا ابوالہاشم بنعال رکن اسلامی مشاورتی کونسل پاکستان چوہدری محمد ظفر الله خان صاحب بھی عالمی عدالت انصاف ، مولانا صلاح الدین احمد صاحب ایڈیٹر ادبی دنیا ، ڈاکٹر وزیرہ آنا 71404 ده اخبار الفضل اسم صلح جنوری و کم تبلیغ فروری پر مہش میں ان سائنسدانوں کی آمد پر خبر شائع کی گئی بیس پچر ہفت روزہ المنیر لائلپور نے ربوہ کی سیر کے کالم میں لکھا " تقسیم کے بعد اس گروہ نے پاکستان میں نہ صرف پاؤں جمائے بلکہ جہاں ان کی تعداد میں اضافہ ہوا وہاں ان کے کام کا یہ حال ہے کہ ایک تو روس اور امریکہ سے سرکاری سطح پر آنے والے سائنسدان ربوہ آتے ہیں.اور دوسری جانب سے کے عظیم تر ہنگامہ کے باوجود قادیانی جماعت اس کوشش میں ہے کہ اس کا شہداء کا بجٹ پچیس لاکھ روپیہ کا ہو....ربوہ کے کالج ہائی سکول اور پرائمری مدارس میں سینکڑوں مسلمانوں کے بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں" (شماره بابت ۲۳ فروری ۹۵ د صفحه ۱ کالم ۳ ) : ۱۰ میں کیا جا چکا ہے.اور کالج کی آل پاکستان اردو کانفرنس میں شریک ادباء کی تفصیل مستقل عنوان کے تحت الگ دی جارہی ہے
۱۲۷ صاحب ایم اے پی ایچ ڈی ، ڈاکٹر عبادت بریلوی صاحب ایم.اے پی ایچ ڈی ، اطالوی پر وفیسر بارتلونی ، پروفیسر حمید احمد خان پرنسپل اسلامیہ کالج لاہور ، ڈاکٹر محمد صادق صاحب ایم.اسے پی ایچ ڈی وائس پرنسپل و صدر شعبہ انگریز ی دیال سنگھ کالج لاہور ، سید امجد الطاقت ایم اے سکرٹری بورڈ آف ایڈیٹرز اردو انسائیکلو پیڈیا آف اسلام پنجاب یونیورسٹی لاہور.ڈاکٹر عبدالبصیر صاحب پال صدر شعبہ طبعیات پنجاب یونیورسٹی ، سید حماد رضا سی ایس پی کمشنر سرگودھا ڈویژن ، ڈاکٹر وحید قریشی صاحب ایم اے پی ایچ ڈی شعبہ اردو پنجاب یونیورسٹی ، مسٹر جسٹس سجاد احمد جان جج عدالت عالیہ مغربی پاکستان امنتر با منظوره قادر صاحب سابق وزیر خارجہ پاکستان وچیف جسٹس عدالت عالیہ مغربی پاکستان ، ڈاکٹر ظفر احمد صاحب بہاشمی وائس چانسلر زراعتی یونیورسٹی لائل پور سہیل بخاری صاحب ایم.اے پی ایچ ڈی پاکستان: ایه فورس سکول سرگودھا ، پروفیسر سید وقار عظیم ریڈر شعبہ اردو پنجاب یونیورسٹی لاہور.ڈاکٹر عبد الحق صاحب سابق پرنسپل ڈینٹل کالج ، ڈاکٹر ہے.ایک بھینڈ ، ڈاکٹر مشتاق احمد صاحب ایم ایس سی، پی ایسکی ڈی ، ڈاکٹر کریم قریشی ایم ایس سی پی ایچ ڈی یونیورسٹی انسٹی ٹیوٹ آف کیمیکل مکین ہوگی ڈاکٹر تھیوڈر ہیلہ پنجاب یونیورسٹی ، ڈاکٹر طاہر حسین صدر شعبہ طبعیات گورنمنٹ کالج لاہور ، ڈاکٹر انہیں.اے درانی ایم ایس سی، پی ایچ ڈی ڈائر یکٹر اٹامک انرجی کمیشن لاہور ، کیپٹن علی ناصر زیدی ، پروفیسر ڈاکٹر عبد السلام صاحب امپیریل کالج لندن و مشیر سائنسی مور صدر پاکستان ، ڈاکٹر الیاس ڈو باش ڈپٹی ڈائرکٹر صنعتی تحقیقاتی تجربہ گاہ ، ڈاکٹر ہیں.اے رحمان ، کمانڈر عبد اللطیف صاحب ڈائریکٹر اعلی تعلیمات زرعی یونیورسٹی لائل پور ، پروفیسر کرامت حسین جعفری پرنسپل گورنمنٹ کالج لائل پور - پروفیسر ڈاکٹر حمید الدین صاحب وائس پرنسپل و صدر شعبه فلسفہ گورنمنٹ کالج لاہور ، علامہ علاؤ الدین صاحب صدیقی صدر شعبہ اسلامیات پنجاب یونیورسٹی ، شمس الدین صاحب ایم.اسے صدر شعبہ تاریخ اسلامیہ کالج لاہور ، پروفیسر شجاع الدین صاحب ایم.اے صدر شعبہ تاریخ دیال سنگھ کالج لاہور ، پروفیسر ڈاکٹر عبدالحمید صاحب صدر شعبہ تاریخ گورنمنٹ کالج لاہور.ڈاکٹر ایس.ایم اختر پی ایچ ڈی صدر شعبہ اقتصادیات پنجاب یونیورسٹی ، پروفیسر محمد اعظم ورک زئی شعبہ اقتصادیات پنجاب یونیورسٹی ، ڈاکٹر منیر چغتائی شعبہ سیاسیات پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر ہیل یک پروفیسر میونک یونیورسٹی ، پروفیسر مائیکل ولیم ایم ایس سی ، میر حبیب علی صاحب
۱۲۸ اسسٹنٹ ڈائریکٹر سپورٹس مشرقی بنگال.ان مقررین کے علاوہ پاکستان کے ممتاز شعراء میں سے احسان دانش ، طفیل ہوشیار پوری رسید مه جعفری مین احسن کلیم ، حبیب اشعر کلیم عثمانی ، نظر امروہی ، شرقی بن شائق مدیرہ نیا راستہ ، قتیل شفائی ، ثاقب زیر وی ، احمد ندیم قاسمی، عاطر ہاشمی ، ہوش ترندی ، ظہیر کاشمیری ، محمد علی مضطر صوفی غلام مصطفی تبسم ، شیر افضل جعفری ، لطیف انور امدیر مخابرات ریڈیو پاکستان لاہور ، ہوش ترندی و ڈائر یکٹر پریس برانچ مغربی پاکستان لاہور ) ، ضمیر فاطمی مدیر اسلوب " ، مولانا عبدالمجید سالک مدیر" انقلاب"، نازش منوی ، عبدالرشید تبسم کا بارہ میں وغیرہ نے کالج کی تقریبات میں شرکت کی اور اپنا کلام سنایا.ہ ہش اور ۳۳ یہ نہش کے سال کالج کی تاریخ +190A آل پاکستان باسکٹ بال ٹورنامنٹ کا آغاز میں ایک نئے سنگ میل کی حیثیت سے ہمیشہ یادگار رہیں گے اس لئے کہ ان میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی خصوصی ہدایات اور سر پرستی سے دو ایسے اہم اقدامات عمل میں لائے گئے ہو نہایت درجہ وسیع، شاندار اور دور رس نتائج کے حامل ثابت ہوئے جن سے کالج کی ملک گیر شہرت و مقبولیت میں نئے باب کا اضافہ ہوا.اور اس کی عظمت و اہمیت کو چار چاند لگ گئے.اس ضمن میں پہلا قابل ذکر امر کالج کے زیر انتظام آل پاکستان باسکٹ بال ٹورنمنٹ کا آغازہ ہے جس کی کامیابی کا سہرا پر و فیسر نصیر احمد خاں صاحب کے سر ہے جن کی مسلسل کوشش سے یہ مہیش میں کچھی کورٹ سے کالج میں باسکٹ بال کی ابتداء ہوئی.یہ ہش میں اس میدان کو ایک معیاری پختہ کورٹ میں تبدیل کر دیا گیا جس میں پہلا آل پاکستان تعلیم الاسلام کا لج باسکٹ بال ٹورنمنٹ کھیلا گیا.اس پہلے ٹورنامنٹ میں نس کا اہتمام ہمیش میں کیا گیا.پولیس لاہور برادرز کلب لاہور ، وائی ایم بسی.اسے لاہور کمیٹی سپورٹس کلب کراچی، نارتھ ویٹرن ریلوے لاہور ، فرینڈز کلب سرگودھا ، لائلپور کلب ٹی.آئی کلیب ، زراعتی کالج لائلپور، گورنمنٹ کالج لائلپور اور تعلیم الاسلام کالج ربوہ کی ٹیمیں شامل ہوئیں اور پاکستان بھر کے کچھ اور پنجاب کے آٹھ منتخب اور مشہور کھلاڑیوں نے حصہ لیا اور کھیل کا معیار نہایت بلند رہا.انعامات چوہدری محمد ظفر الله خان صاحب نے تقسیم فرمائے.دوسرے ٹورنمنٹ میں نہ صرف شرکت کرنے والی نامور ٹیموں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا بلکہ چھ کی
۱۲۹ بجائے پاکستان بھر کے دس منتخب کھلاڑی شامل ہوئے.علاوہ ازیں بعض ایسے کھلاڑیوں نے بھی شرکت کی جنہیں بیرونی ممالک میں پاکستان کی نمائندگی کا فخر حاصل تھا.اس ٹورنا منٹ کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ پنجاب باسکٹ بال ایسوسی ایشن راہوں کے فیصلہ کے مطابق پنجاب کی بہترین ٹیم کا انتخاب اس ٹورنا منٹ میں ہوا.قبل ازیں اس انتخاب کے لئے الگ مقابلے ہوتے تھے.تیسرا ٹورنمنٹ اپنی منفرد حیثیت کے لحاظ سے بڑی اہمیت کا حامل ثابت ہوا.ملک کے کونے کونے سے دو درجن کے قریب بہترین تمہیں اور مشہور ترین کھلاڑی شامل ہوئے تین میں سی.ٹی آئی کلب سیاللہ کے تین امریکی بھی تھے.اس موقعہ پر بہت سے کالجوں کے پروفیسر اور دیگر معززین بھی بکثرت موجود تھے.ہر سال یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ ٹورنامنٹ کا افتتاح کس سے کر وایا جائے باتیسرے ٹورنامنٹ کے موقعہ پر جب یہ معاملہ پر و فیسر نصیر احمد خاں صاحب نے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل کالج کی خدمت میں پیش کیا تو آپ نے قدرے قاتل کے بعد فرمایا ایک BRAIN WAYE یعنی خیال کی اہر آئی ہے اور مسلم مل ہو گیا ہے.انہوں نے عرض کیا.کیسے؟ فرمایا.پچھلے ٹورنامنٹ کی فاتح ٹیم کے کپتا سے افتتاح کر وا لو اور آئندہ یہی ہماری روایت ہوگی بچنا نچہ اس سال سے لے کر اب تک اسی پر عمل ہو رہا ہے.اس روایت کی ابتداء ریلوے ٹیم کے کپتان سید جاوید حسن سے شروع ہوئی جو پچھلے سال کے ٹورنا منٹ کے فاتح تھے.پوتھا آل پاکستان باسکٹ بال ٹورنامنٹ کبھی ہر لحاظ سے کامیاب رہا.اس موقع پر پہلی بار ایک یاد گاربی مجلہ (SOUVENIR) شائع کیا گیا جس میں مختلفت معترفین کے خیر سگالی کے پیغاما اور تصاویہ کے علاوہ ربوہ میں باسکٹ بال کے اجزاء اور ترقی کا جائزہ لیا گیا تھا پاکستان ٹائمز“ (لا ہوں "سول اینڈ ملٹری گزٹ (لاہور) ، "نوائے وقت" (لاہور) ، " امروز (لاہور) اور الفصل گریوه) نے نمایاں طور پر اسکی ٹورنا منٹ کی خبریں شائع کیں.1941 ه ش یعنی پانچ سال کے قلیل عرصہ میں ربوہ کے چھوٹے سے قصبہ میں گلی آٹھ باسکٹ بال کورٹس اور سات باسکٹ بال کلب چین کا مرکزی باسکٹ بال ایسوسی ایشن لاہور سے باقاعدہ الحاق تھا قائم ہو چکے تھے.ان سب کلیوں نے علاوہ بیرونی کلبوں کے چوتھے ٹورنامنٹ میں شمولیت کی.اسی سال کالج کے پیار منتخب کھلاڑیوں نے پنجاب کی طرف سے قومی مقابلوں میں حصہ لیا.
1.در امضا در اکتوبر پر رش کو وائی.ایم بسی.اسے کی مشہوبہ بھارتی ٹیم کراچی ، لاہور اور راولپنڈی کے علاوہ ربوہ میں بھی میچ کھیلنے کے لئے آئی.یہ پہلا موقعہ تھا کہ ربوہ کو بیرون ملک کھلاڑیوں سے نبرد آزما ہونا پڑا.ان پیش از پیش کامیابیوں کے نتیجہ میں ربوہ باسکٹ بال کے تین چار اہم ترین ملکی مراکز میں سے شمار ہونے لگا.اور چونکہ ملک میں باسکٹ بال کو غیر معمولی طور پر فروغ دینے میں تعلیم الاسلام کالج کے منتظمین خصوصاً حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کا بھاری عمل دخل تھا اس لئے پانچویں سالانہ ٹورنا منٹ پر امیچیور یا سکٹ بال ایسوسی ایشن کی انتظامیہ کمیٹی کی طرف سے ایک وفد جو ایکٹنگ چیئر مین چوہدری محمد علی حساسیت ایم.اے) اور سکرٹری قریشی محمد اسلم صاحب ایم.انہیں سی ) پر مشتمل تھا حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل کالج کی خدمت میں حاضر ہوا اور درخواست کی کہ باسکٹ بال کے کھیل کی مقبولیت اور ترتی کے سلسلہ میں آپ نے جو خامات جلیلہ انجام دی ہیں، ان کی وجہ سے ایسوسی ایشن سچاہتی ہے ، کہ آپ پریذیڈنٹ کا عہدہ قبول فرمائیں.اگرچہ قبل ازیں کئی بار آپ یہ درخواست قبول کرنے سے معذوری کا اظہار فرما چکے تھے مگر اس مرتبہ آپ نے از راہ شفقت پریذیڈنٹ وننا منظور فرما لیا، چنانچہ آپ ماہ نیوت او بر این اش یعنی منصب خلافت پر فائز ہونے تک ایسوسی ایشن کے صدر رہے اور ہمیشہ بلا مقابلہ منتخب ہوتے رہتے.پانچواں آل پاکستان ٹورنامنٹ پہلے سے بھی زیادہ شان و شوکت کے ساتھ منعقد ہوا.اس دفعہ کھیل پہلی بار رات کے وقت پھلی کی روشنی میں ہوا.اور کلب سیکشن میں کراچی یونیورسٹی ، زرعی یونیورسٹی اینر فورس کی ٹیمیں پہلی بار شامل ہوئیں.ایسوسی ایشن کے نمائندے، انتظامیہ کے ممبر اور پنجاب ٹیم کی انتخابی کمیٹی کے تمام ارکان کے علاوہ مدر و نزدیک سے سینکڑوں شائقین نے نہایت دلچسپی اور دلجمعی سے کھیل دیکھا ے یاد رہے پر ش سے لیکر تبوک استمبر پر پیش یک تعلیم الاسلام کا لج باسکٹ بال کی صدارت کے فرائض پر وغیر تصار احمد خاں صاحب نے انجام دیئے آپ کی انگلستان کو بری تعلیم روانگی پر پروفیہ چوہدری محمد علی صاحب نے اس کی باگ ڈور سنبھال لی اور نہایت محنت اشوق اور کامیابی کے ساتھ اُسے پہلا رہے ہیں : حضرت صاحب زادہ صاحب ایدہ الہ تعالے نے ٹورنا منٹ میں نظم وضبط اور انصاف کے قیام کے لئے ہو گیا تقدر مساعی کیں ان کی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں.بطور نمونہ صرف ایک واقعہ پر و غیر نصیر احمد تمال صاحب کے قلم سے درج کیا.جاتا ہے.آپ لکھتے ہیں کہ " ایک سالانہ ٹورنامنٹ کے موقعہ پر جبکہ ملک کی دوشہ ور ٹیمیوں کے درمیان سخت مقابلہ ہو رہا تھا اور ہار جیت کا فیصلہ ایک ایک پور آئنٹ سے بدل رہا تھا ایک ٹیم نے ریفری کے فیصلہ کے خلاف احتجاجا کھیل بند کر دیا اور ریفری کے فصیلہ کو ماننے سے انکار کر دیا.خاکسار نے صورت حال سے آگاہ کیا تو آپ نے فرمایا کہ ریفری کی عزت اور وقار کو بحال رکھنا ہمارا فرض ہے.اعلان کردو کہ پانچ منٹ کے اندر اندر ٹیم میدان میں آجائے ورنہ اُسے ٹورنا منٹ میں کھیلنے کی اجازت نہیں دی جائیگی.یہ اعلان مویہ مشہور ہوا.اور کھیل حسب سابق اطمینان کے ساتھ کھیلا جانے لگا "
۱۳۱ اور خوب داد وی حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے سنٹرل پیچپور باسکٹ بال ایسوسی ایشن کے صدر کی حیثیت سے انعامات تقسیم فرمائے.چھٹا سالانہ ٹورنا منٹ اپنی گذشتہ روایات کے مطابق کامیابی کے ساتھ انعقاد پذیر ہوا.اور انعاما کی تقسیم پر و فیسر خواجہ غلام صادق صاحب چیئر مین سنٹرل امیچیور باسکٹ بال ایسوسی ایشن نے کی.ساتواں ٹورنامنٹ جو کالج میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی سربراہی کے مبارک، زمانہ کا آخری ٹورنا منٹ تھا ، ۲۵ - ۲۶ - تبلیغ فروری میش کو منعقد ہوا.گل ٹیموں نے شرکت کی اور حضرت صاحبزادہ صاحب نے بحیثیت پرنسپل و صدر سنٹرل الیسوسی ایشن لوائے پاکستان اور کالج کا جھنڈا لہرایا.اس موقعہ پر جن اصحاب نے پیغامات ارسال کئے ان میں ملک امیر محمد خاں گورنر مغربی پاکستان، تو یہ عبد الحمید صاحب ڈائریکٹر تعلیمات راولپنڈی ریجین، ونگ کمانڈر اینچے.اسے صوفی سکرٹری سپورٹس کنندوں بورڈ گورنمنٹ آف مغربی پاکستان ، پروفیسر تواجه محمد اسلم پرنسپل اسلامیہ کالج لاہور اور سید پناہ علی شاہ انسپکٹر آف سکولز لاہور ڈویمن ، منال محمد عادل فال ڈائریکٹر آف سپورٹس پشاور یونیورسٹی بالخصوص قابل ذکر تھے.اس ٹورنا منٹ کی تصاویر رمع پیغام و تصویر ملک امیر محمد نعال گورنر مغربی پاکستان دو دفعہ ٹیلی ویژن پر دکھائی گئیں.اسی طرح لاہور ریڈیو پر مقامی اور قومی خبروں میں بھی اس کا اعلان نشر کیا گیا.م نبوت اومیش کو حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب منصب خلافت پر فائز ہوئے اور خلافت ثالثہ کے مبارک عہد کا آغاز ہوا تو حضرت امیرالمومنین خليفة السيح الثالث ایده الله تعالى بمصر العربية نے از راہ کرم اپنے اسم گرامی سے ٹورنامنٹ کو منسوب کئے جانے کی اجازت مرحمت فرمائی چنانچہ آئندہ سے یہ مقابلے پہلے سے بھی زیادہ جوش و خروش سے ناصر باسکٹ بال ٹورنامنٹ کے نام سے ہونے لگے ہے سے کل پاکستان اردو کا نفرنس کا انعقاد باسکٹ بال ٹورنامنٹ سے گولیوں کی دنیا میں کالا کاشہرو عام ہوا تو اوربے اردو کے حلقوں میں تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کی شکل پاکستان اردو کا نفر نس نے دھوم مچا دی.ربوہ میں اپنی نوعیت کی پہلی کامیاب کانفرنس ہو حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل کالج کی خداداد ذہانت ، بلند پایہ نفیس ادبی ذوق اور بہترین علمی قیادت و سیادت کی آئینہ دار اور پر دفیس تھے تعلیم الاسلام کا لی کی سالانہ رپورٹوں سے ملخصاً
۱۳۲ محبوب عالم صاحب مخالد ایم.اے صدر شعبہ اردو اور پروفیسر ناصر احمد صاحب پروازی معتمد مجلس استقبالیہ اردو کا نفرنس اور ان کے دوسرے رفقاء کی انتھک جدو جہد کا نتیجہ تھی، مارماه اخارا اکتوبر بش کو تعلیم الاسلام کالج کے وسیع ہال میں منعقد ہوئی جس میں ۲۵ کے قریب نامور ادباء اور شعراء نے شرکت کی علاوہ ازیں مختلف کالجوں کی طرف سے بھی پیش کے قریب مندوبین شامل ہونے کا نفرنس کی کارروائی تلاوت سے شروع ہوئی.بعد ازاں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر مجلس استقبالیہ نے اپنے پراثر خطبہ میں ارشاد فرمایا : اس کا نفرنس کے مقاصد مخالصہ تعمیری اور مثبت ہیں.ہم اردو کا مینار تخریب کی منفی اقدار پر استوار نہیں کرنا چاہتے.ہمارے نزدیک سلبی انداز فکر ذہنی افلاس کی علامت ہے.زندہ قوموں کی ہزار پہلو ضروریات اپنے اپنے مقام اور محل پر سب کی سب اہم اور ناقابل تردید حیثیت کی حامل ہوا کرتی ہیں.لیکن ہمارا موقف یہ ہے کہ ان جملہ قومی تقاضوں کو ضروری خیال کرتے ہوئے بھی میزان عدل کا توازن بر قمر لکھا جا سکتا ہے اور اردو کو وہ ارفع مقام دیا بھا سکتا ہے جو اس کا واجبی حق ہے.یہ ایک عظیم قومی حادثہ ہے کہ زبان کا مسئلہ جو خالصتہ قومی اور علمی سطح پر حل کیا جانا چاہیے تھا، سیاسی نعرہ بازی اور سہل جذبات کا شکار ہو کر رہ گیا اور سترہ سال کا طویل عرصہ بے کار مباحث اور مجرمانہ غفلت کے ہاتھوں مائع ہو گیا.ہم تو سُنتے آئے تھے کہ ہمارے معروف ساغر “ کا ایک دور صد سالہ دور چرخ کے ہم پلہ ہوا کرتا ہے اور بند جب میکدہ سے نکلتے ہیں تو دنیا بدلی ہوئی پاتے ہیں.لیکن یہاں سترہ سال کے بعد بھی میں ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی کچھ ہماری خبر نہیں آتی اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ سہل انگاری اور خوش فہمی کے گنبد سے نکل کر ہم حقائق کی دنیا میں قدم رکھیں.ٹھنڈے دل سے اپنی مشکلات کا جائزہ لیں اور سنجیدگی سے اپنے تعلیمی، تدریسی، علمی ، ادبی ، لسانی اور طباعتی مسائل کا حل تلاش کریں.زبان و بیان تلخیص و ترجمہ ، رسم الخط اور اسی قسم کے دیگر عقدوں کی گرہ کشائی کی کوشش کریں.ایسا لائحہ عمل بنائیں اور اس کی تشکیل ایسے ماہ کا نفرنس میں آپ کی طرف سے یہ خطبہ استقبالیہ پروفیسر محبوب عالم صاحب خالد ایم.اے صدر شعبہ اردو نے پڑھا؟
خطوط پر کریں میں سے یہ گو مگو کی کیفیت ختم ہو اور اس ذہنی دھند سے نجات ملے.اس جگہ اس امر کا اظہار بھی غیر مناسب نہ ہوگا کہ اُردو کے ساتھ جماعت احمدیہ کا ایک پائیدار اور روحانی رشتہ بھی ہے.حضرت باقی سلسلہ احمدیہ علیہ اسلام کی اکثر تصانیف اُردو ہی میں ہیں.اس لئے اردو زبان عربی کے بعد ہماری محبوب ترین زبان ہے.اسی لئے ساری دنیا میں جہاں جہاں احمد ید شن یا احمدی مسلمان موجود ہیں وہاں اردو سیکھی اور سکھلائی بھارہی ہے.زبان اردو کی یہ ٹھوس اور خاموش خدمت ہے جو جماعت احمد یہ دنیا کے گوشے گوشے میں کر رہی ہے.اردو ہماری مذاہبی زبان ہے.یہ ہماری قومی زبان ہے.یہ ہماری آئندہ نسلوں کی زبان ہے.یہ وہ قیمتی متاع ہے جو ہمیں ہمارے اسلاف سے ورثہ میں ملی ہے.اسے اس قابل تائیے کہ ہماری آئندہ نسلیں اس حادثہ کو سرمایہ افتخار تصور کریں اور اس پر بجاطور پر ناز کر سکیں اور ہماری طرح گونگی اور بے زبان ہو کہ نہ رہ جائیں.اردو ایک زندہ قوم کی زندہ زبان ہے.ادبیات کی اہمیت مسلم لیکن یہ نہ بھولئے کہ اردو زبان کا یہ بھی حق ہے کہ شعرو ادب کے روایتی اور محدود دائرے سے باہر نکلے اور زندگی کے ہر شعبے پر حاوی ہو جائے.ساری دنیا کے دلوں پر اس کی حکومت ہو.تو میں اسے لکھیں، بولیں اور اس یمہ تھر گریں اور بین الاقوامی زبانوں کی محفل میں اردو بھی عزت کے بلند پایہ مقام پر سرفراز ہو.ان دعائیہ الفاظ کے ساتھ میں ایک بار پھر اپنے دوستوں اور بزرگوں کو اھلا و سھلا مرحبا کہتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کے حضور دست بدعا ہوں کہ وہ ہم سب کو ایسا اندازہ فکر عطا فرمائے، اور اس پر کام کرنے کی توفیق دے جو نہ صرف زبان اردو کے لئے بلکہ ہمارے لئے اور بہار کی آنے والی نسلوں کے لئے خیر و برکت کا باعث ہو.اللہم آمین لے خطبہ استقبالیہ کے بعد معتمد مجلس استقبالیہ اردو کا نفرنس نے اختر حسین صاحب صدر انجمن ترقی اردو پاکستان کراچی اور اشتیاق حسین صاحب قریشی رئیس الجامعہ جامعہ کراچی کے پیغامات سُنائے جو انہوں نے خاص اس موقع کے لئے بھیجے تھے.ان پیغامات کے علاوہ سیدنا المصلح الموعود کے اس پیغام کے اقتباسات بھی سنائے جو حضور نے ۳۳۶ پر مہیش میں دانش گاہ پنجاب میں منعقد ہونے والی کا نفرنس کے " ذکر اردو " صدا قاد تاثیر تعلیم الاسلام کالج
۱۳ نام ارسال فرمایا تھا.ازاں بعد حضرت مصلح موعود کا رقم فرمودہ ادبی مقالہ اردو رسائل زبان کی کس طرح مدیریت کر سکتے ہیں ؟ " کے موضوع پر پڑھا گیا.حضور کا یہ قیمتی مقالہ بر صغیر پاک و ہند کے ادیب شہیر احسان اللہ خاں تاجور نجیب آبادی نے اپنے رسالہ ادبی دنیا " ( مارچ سنہ) میں حضور کا فوٹو دے کر شائع کیا تھا.اس زمانہ میں رسالہ ادبی دنیا " کے نگران اعلیٰ سر عبد القادر مرحوم تھے.اس یادگار مقالہ کے بعد جو گویا اس پوری کا نفرنس کی روح رواں تھا.وزیر آغا ایم.اے پی.ایچ.ڈی نے اپنا فاضلانہ خطیہ افتتاح پڑھا جس میں تعلیم الاسلام کا ن کو ادبی کانفرنس منعقد کرنے پر شاندار الفاظ میں خراج تحسین ادا کرتے ہوئے کہا :- اردو زبان کی ترویج و اشاعت کے لئے یوں تو بہت سے اقدامات ضروری ہیں لیکن اس سلسلہ میں اُردو کا نفرنسوں کا انعقاد ایک خاص اہمیت رکھتا ہے.ہمارے ملک میں بالعموم ہر تحریک نہ صرف بعض بڑے ثقافتی مراکز سے جنم لیتی ہے بلکہ پر وان چڑھنے کے بعد وہیں کی ہو کہ رہ جاتی ہے اس سے تحریک میں وہ کشادگی اور وسعت پیدا نہیں ہوتی جو اس کی پوری کامیابی کے لئے نہایت ضروری ہے.اردو زبان کی ترویج کے سلسلہ میں جو تحریکات وجود میں آئیں وہ عام طور پر لاہور اور کما چی ایسے مراکز ہی سے وابستہ ہیں تعلیم الاسلام کا لی نے اس انجماد کو توڑا ہے، اور اردو کا نفرنس کے انعقاد سے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ اب اردو کے لئے محبت اور اردو کو قومی زبان کا درجہ دینے کی آرزو بڑے بڑے مراکز تک ہی محدود نہیں رہی گویا اس خوشبو کی طرح جو دیوار چین کو پارہ کرتی ہے اُردو زبان کی ترویج و اشاعت کی تحریک بھی اونچی اونچی دیواروں کو پار کر کے افق کے پہاڑوں سے آٹکرائی ہے.مجھے یقین ہے کہ آپ نے جو مبارک قدم اُٹھایا ہے اس کی ملک کے طول و عرض میں عام طور سے تقلید ہوگی اور ہم اردو زبان کو ملک کے دُور دراز گوشوں تک پہنچا سکیں گے.آپ کی یہ اردو کا نفرنس اس لئے بھی اہم ہے کہ اس کے پس پشت اُردو زبان کے لئے بے پناہ محبت کے سوا کوئی اور جذبہ موجزن نہیں ہے اور آپ نے پنجاب کے اس دیہاتی علاقہ میں منعقد کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ اُردو زبان پنجاب کے دور دراز گوشوں میں بھی ویسی ہی مقبول ہے جیسی کہ اردو کے بڑے بڑے مراکز میں مجھے یقین ہے کہ آپ نے اُردو کا نفرنس کے منعقد کرنے کی جو روایت قائم کی ہے اسے ہمیشہ بھاری رکھیں گے اور مجھے امید ہے کہ ہمارے ملک کے دوسرے ادارے اس
۱۳۵ سلسلہ میں آپ کے نقش قدم پر چلنے کی پوری کوشش کریں گے لے اس خطبہ افتتاح کے بعد کا نفرنس کی دو نشستوں میں مندرجہ ذیل موضوت پر تحقیقی اور فکر انگیز مقالے پڑھے گئے:.۱- اُردو میں سائنسی تدریس (پروفیسر شیخ ممتاز حسین صاحب صدر شعبه در دو زراعتی یونیورسٹی لائل پور) -۲- اگر دو میں قانونی تدریس کو خضر تمیمی صاحب ایڈووکیٹ ہائیکورٹ لاہور ) - اُردو میں دخیل الفاظ کا مسئلہ ( ڈاکٹر سہیل بخاری صاحب سرگودھا) ۴ ارد وبحیثیت تدریسی زبان و پروفیسر سید وقار عظیم ساحب شعبه ارد و دانش گاه پنجاب) ۵ غیر ممالک میں احمدی اُرود کی کیا - مقدمات انجام دے رہے ہیں مولانا نسیم تیفی صاحب سابق رئیس التبلیغ مغربی افریقہ).ادب اور زندگی کا رشتہ اسید سجاد باقر صاحب منوی شعبه اردو دانش گاه پنجاب) - اُردو بحیثیت قومی زبان ( ڈاکٹر وحید قریشی صاحب ) ان ادباء کے علاوہ جامعہ احمدیہ کے تین غیر ملکی طلبہ یوسف عثمان صاحب (افریقہ) عبد القاهر صاحب ترکستان) اور عبدالرؤف صاحب (نبی) نے "ہمیں اُردو سے کیوں محبت ہے “ کے عنوان پر مضمون پڑھے.مہمانوں کے لئے یہ عجیب بات تھی کہ غیر ملکی طلبہ ایسی شستہ اُردو بول رہے ہیں.الغرض یہ پہلی تھی اردو کا نفرنس ہر لحاظ سے حد درجہ کامیاب رہی دوسری اردو کانفرنس کار خار رات کو کان میں دوسری آل پاکستان اردو کانفرنس منعقد ہوئی جس میں مغربی پاکستان کی تین یونیورسٹیوں اور مستعد تعلیمی اداروں اور ادبی تنظیموں کے ۴ خصوصی نمائندے شریک ہوئے خطبہ افتتاح ڈاکٹر اشتیاق حسین صاحب قریشی وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی نے دیا اور جب ٹس اے آر کار تسلیس چیف جسٹس پاکستان ، جناب اختر حسین صاحب صدر انجمن ترقی اُردو پاکستان ، ممتاز حسن صاحب سابق مینجنگ ڈائریکٹر نیشنل بنگ آف پاکستان اور جناب پروفیسر حمید احمد خاں صاحب نے خصوصی پیغامات ارسال کئے.ff ه ذکر اردو صد تاسیس ناشر تعلیم الاسلام کالج، " الفضل ۳۲ انتظار اکتوبر سے ہی صفحہ ، یہ کانفرنس میں پڑھے جانے والے تمام مقالے " ذکر اردو " کے نام 71445 سے تعلیم الاسلام کانچ کی طرف سے شائع شدہ ہیں ،
IPY اس دو روزہ کا نفرنس میں زبان، ادب، صحافت اور تدریس کے پچاس موضوعات پر ۲۳ مقالے پڑھے گئے اور باقی سات مقالے اشاعت کے لئے پیش کئے گئے.کانفرنس میں دو مذاکرے بھی منعقد ہوئے.ان میں سے ایک مذاکرہ اُردو میں سائنسی تدریس کی مشکلات اور ان کا حل" کے موضوع پر ہوا جس کی صداللہ ڈاکٹر ظفر علی صاحب ہاشمی در اس چانسار زرعی یونیورسٹی نائلپور نے کی.دوسرے مذاکرہ کا موضوع " جدید اُردو شاعری کے رجحانات “ تھا.اس میں صدارت کے فرائض سید وقار عظیم صاحب صدر شعبہ ارد و پنجاه یونیورسٹی نے ادا کئے.کانفرنس کا ایک اجلاس محسنین اُردو کے تذکرہ کے لئے وقف تھا جس میں حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب، حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب (المصلح المي عود)، علامہ نیاز فتحپوری اور مولانا صلاح الدین احمد کی خدمات اور کارناموں پر ٹھوس مقالے پڑھے گئے لیے تھے فصل ششم کالای ایام تعلیم تربیت اس کی بنیادی خصوصیا اور مجید اثرات سید نا حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ عنہ کے ذہن مبارک میں تعلیم الاسلام کالج کے عروج و ارتقاء اور شاندار تقبل کی نسیدرت جو نقشہ قیام کالج کے وقت موجود تھا وہ اپنی تفصیلات و مضمرات کے اعتبار سے بین الاقوامی نوعیت کا حامل ہے حضرت صائبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایدہ اللہ تعالی طة الفضل دارافتا اکتوبر مش دوسری کا انفرنس میں مقالے پڑھنے والوں کی فہرست یہ ہے:.مر قدرت نقوی ایک کو دور ظفر چوہدری ) ان کا مضمون سکو یڈرن لیڈر امداد یا قرضوی نے پڑھا.یعقوب احمد.سید عابد علی عابید که اشیخ محمد اسماعیل پانی پتی جمیل احمد قریشی.ڈاکٹر نصیر احمد خاں.ڈاکٹر سید نذیر احمد سابق پرنسپل گورنمنٹ کالج لاہور (مندوب پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر محمد عبد العظیم صدر شعبہ کیمیا گورنمنٹ کالج لاہور (مندوب پنجاب یونیورسٹی).میجر آفتاب سن ناظم اداره تالیف و ترجمہ کراچی یونیورسٹی مندوب کراچی یونیورسٹی - محمد حیات خان سیال.ڈاکٹر اسد علی اویب علام لطیف انور عاطر ہاشمی اعجاز فاروتی بھیلانی کامران غلام جیلانی اصغر.ڈاکٹر وزیر آغا.غلام حسین اظہرر عدالت لام اختر سمیع اللہ قریشی سید سجاد باقر رضوی عبدالرشید اشت.عبد الرشید هستم - ثاقب زیروی نسیم سینی آقا محمد باقر مسعود احمد خان دہلوی.ڈاکٹر فرمان فتحپوری ، +
۱۳۷ اس نقشہ کی عملی تشکیل و تعمیر کے لئے مسلسل اکیس برس م م م ا ) ه اش تک سرتا پا وقف اور مجسم جہاد بہتے رہے اور قریباً ربع صدی کی بے پناہ کاوشوں اور معرکہ آرائیوں کے بعد خدا کے فضل اور نصرت مسیح موعود کی دعاؤں اور حضرت مصلح موعود کی قومت قدسیہ کے نتیجہ میں کالچ کو ایک قابل رشک مخصوص اور امتیازی مقام تک پہنچا دیا، اور اس کی بنیادیں ایک ایسے طریق تعلیم اور نظام تربیت پر استوار کیں تو روح و جسم اور علم و عمل پر حاوی اور دین ودنیا کے حسین امتزاج کا بہترین نمونہ ہے.آپ نے اس اسلامی درس گاہ میں جو مثالی نظام تعلیم و تربیت رائج فرمایا وہ اپنے اندر متعدد خصوصیات رکھتا ہے جن میں سے پانچ صد درجہ نمایاں ہیں اور کالج کی مقدس اور ناقابل فراموش روایات بن چکی ہیں.پہلی خصوصیت آپ کے قائم کردہ نظام کی یہ تھی کہ آپ نے اپنے پاک نمونہ سے کالج کے اساتذہ میں زیر دست روح پھونکی کہ وہ طلبہ کو قوم کا عظیم سرمایہ یقین کرتے ہوئے ان کے ساتھ شفیق باپ سے بھی بڑھ کو محبت کرتے ، اُن کی بہبود اور ترقی میں ذاتی طور پر دلچسپی لیتے ، اُن کی جائز ضروریات پوری کرتے ، اُن کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے ، ہر وقت بے لوث خدمت میں لگے رہتے اور پوری توجہ اور کوشش کے ساتھ بچوں کی رہبری اور رہنمائی میں مصروف رہتے تھے.دوسری خصوصیت یہ تھی کہ آپ نے کالج کی قیادت اس رنگ میں فرمائی کہ طلبہ و اساتذہ اسلامی اقدار کے حامل نہیں اور ہمیشہ ہی غلط قسم کی سیاست سے کنارہ کش اور ہڑتالوں اور دوسری مغربی بدعات سے متنفر ہیں.چنانچہ کالج کی پوری تاریخ گواہ ہے کہ قادیان ، لاہور اور ربوہ تینوں جگہ یہ انسٹی ٹیوشن ہمیشہ ہی ذہنی تکرر اور سیاسی بے راہ روی سے ہر طرح محفوظ و مصمون رہی ہے اور یہ وہ خصوصیت اور امتیاز ہے جس میں تعظیم الاسلام کا لیے اس زمانہ میں نہ صرف برصغیر پاک و ہند بلکہ دنیا بھر کے کالجوں میں منفرد حیثیت رکھتا ہے.تیسری خصوصیت اس نظام تعلیم و تربیت کی یہ تھی کہ اس درسگاہ کا فکر و عمل ہمیشہ مذہب و ملت کی تفریق سے بالا رہا ہے.ہر طالب علم خواہ وہ کسی مذہب کسی فرقہ یا سیاسی جماعت سے ہی تعلق کیوں نہ رکھتا ہو ہر قسم کی جائے سہولتیں حاصل کرتا ہے اور اس کالج کے اساتذہ ہر طالب علم کی جسمانی اور ذہنی نشو و نما کی طرف پوری طرح متوجہ رہتے تھے.چوتھی خصوصیت اس میں یہ تھی کہ یہاں امیر و غریب میں کوئی امتیاز نہیں برتا جاتا تھا.ایک غریب کی عزت و احترام کا ویسا ہی خیال رکھا جاتا تھا جیسا کہ کسی امیر طالب علم کا ، اور اساتذہ ہر
۱۳۸ اس طالب علم کی قدر کرتے تھے جو علمی شوق رکھتا ہو اور علم کی وسیع شاہراہ پر بشاشت اور محنت کے ساتھ آگے بڑھنے والا ہو.اللہ تعالے کی حکمت کا ملہ سے آپ کو ابتداء ہی سے اسلامی نظام اقتصادیات سے غیر معمولی دلچسپی، لگاؤ اور شغف رہا ہے اور آپ نے ہر ممکن جد و جہد فرمائی کہ کالج کے نظام تعلیم تربیت سے اس نظام کو زیادہ سے زیادہ ہم آہنگ کیا جائے.اس بنا پر آپ نے ہمیشہ سادگی پر زور دیا اور طلباء کے اخراجات کو کم سے کم رکھنے کو اپنا ضروری فرض سمجھاتا کہ غریب طالب علم کو اپنی غربت کا احساس نہ رہے.اور امیر اپنی امارت جتانے میں حجاب محسوس کرے.آپ کے اسی طرز عمل کا نتیجہ تھا کہ کالج کے بعض غریب طلبہ کسی قسم کے احساس کمتری کا شکار ہوئے بغیر اپنے فارغ اوقات میں محنت اور مزدوری کر کے اپنے تعلیمی اخراجات برداشت کرتے تھے اور آپ بھی اور دوسرا سٹاف بھی ان محنتی اور ہونہار طلبہ کی ہر رنگ میں حوصلہ افزائی اور قدر دانی فرمایا کرتے تھے.پانچویں خصوصیت.آپ نے تعلیم و تربیت کی ظاہری تدابیر کو انتہا تک پہنچانے کے باوجود اُن پر کبھی انحصار نہیں کیا اور ہمیشہ خود بھی ہر مرحلے چہ دعاؤں سے کام لیا اور اپنے رفقاء کار میں بھی اس کا ذوق و شوق پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اور اُن میں یہ احساس پختگی کے ساتھ قائم کر دیا کہ محض ظاہر کر دیکھ بھال اور تربیت کافی نہیں.ہمارے بچوں کا پہلا اور آخری حق ہم پر یہ ہے کہ ہم دُعاؤں کے ساتھ اُن کی مدد کرتے رہیں.یہاں بطور نمونہ کالج کے اساتذہ اور طلبہ سے متعلق خود آپ کے بعض دعائیہ کلمات درج کئے جاتے ہیں جن سے ضمناً یہ بھی معلوم ہوگا کہ آپ اس ادارہ کو رفعتوں کے کتنے بلند ترین مقام تک لے جانے کے ہمیشہ متمنی اور آرزو مندر ہے.اللہ تعالیٰ کے حضور آپ نے ساہش میں دعا کی کہ 71900 انے قادر و توانا خدا ! اسے حقائق اشیاء کو پیدا کرنے والے اور ان حقائق و رموز کو انسانی دل پر الہام کرنے والے خدا ! تو ہماری ان ناچیز مساعی کو قبول فرما اور ہماری تفریعات کوئن اور ہم پر اور ہماری اولاد پر علم کے وسیع دروازوں کو ہر پہلو سے کھول دے.علم کی روشنی سے ہمارے دل اور دماغ کو منور کر.اور علم و معرفت کی غیر محدود طاقت سے ہمارے عمل میں ایک نئی روح اور ہماری مساعی میں ایک نئی زندگی پیدا کر کہ ہم اور ہماری نسلیں تیرے عطا کر دہ ٹائم اور تیری بخشی ہوئی معرفت سے پر ہو کر تجھ ہی سے دُعائیں کرتے ہوئے جس میدانِ عمل میں بھی داخل ہوں سب پر
۱۳۹ سبقت لے جائیں.اے خدا ! تو خود اس نو شگفتہ نسل کے دل و دماغ کو رموز قیادت و تقات سے آشنا کر.اور ان کے عمل اور مساعی میں تیزی اور جولانی پیدا کر اور انہیں دنیا کا ہمدرد بنا دنیا کا خادم بنا ، دنیا کا محسن بنا ، اور دنیا کا رہبر بنا ، قوم کا نام ان کے کام سے چمکے.انسانیت کا چہرہ اُن کی رُوحانیت سے منورہ ہو اور تیری صفات ان کے کمالات سے ظاہر ہوں" کالج کے نظام تعلیم و تربیت کی بنیادی خصوصیات کی نظام تعلیم و تربیت کا ایک جامع نقشہ نشاندہی کرنے کے بعد مناسب ہوگا کہ ہم حضرت ما ابزار ام مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل کالج کے مبارک الفاظ میں اس درسگاہ کے تعلیمی و تربیتی اعتبار سے پاکیزہ ماحول کا ایک نقشہ قارئین کے سامنے رکھ دیں.اس نقشہ سے نہایت جامعیت کے ساتھ پانچوں خصوصیات کی جھلک پوری طرح نمایاں ہو جاتی ہے.ہر مہیش میں فرمایا :- "ہمارے طلبہ اور ہمارے اساتذہ تعلیم و تربیت کو ایک مقدس فرض تصور کرتے ہیں.ہمارے پاس بڑے بھلے ہر قسم کے طلبہ آتے ہیں.ایک باپ کی حیثیت سے سرائیں بھی دینی پڑتی ہیں اور ایک باپ ہی کی محبت کا سلوک کرنا پڑتا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ ان عزیزوں کے لئے صحت افزا ذ ہنی ، اخلاقی اور جسمانی فضا مہیا کرنا، ان کی شخصیتوں کے جملہ پہلوؤں کو احباگر کرنا اور علمی اور اخلاقی نشود نما کی جملہ سہولیتیں بہم پہنچانا ہمارا فرض ہے.ہمارے نزدیک مسجد کے بعد مدرسے کا تقدس ہے اور ہماری اس درسگاہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے تعلیم و تربیت کے فرائض عبادت کے رنگ میں سر انجام دیئے بھاتے ہیں جہاں رنگ اور مذہب ، افلاس اور امارت ، اپنے اور بیگانے کی کوئی تفریق نہیں.جہاں طلباء مقدسن قومی امانت ہیں.جہاں ماحول خالص اسلامی اور اخلاقی ہے نہ کہ سیاسی.جہاں منتہائے مقصود خدمت ہے نہ کہ جلب منفعت جہاں غریبی عیب نہیں اور امارت خوبی نہیں.الحمد للہ علی ذلک.ایسے عظیم اور مثالی ادارے کی کما حقہ حوصلہ افزائی بھی ضروری ہے جس کے ذرے ذرے پر اس کے فدائی اساتذہ اور طلباء نے خونِ دل سے محنت اور اخلاص کی داستانیں لکھی ہیں.یہاں اساتذہ سستی شہرت کی خاطر اپنے فرائض کے تلخ پہلوؤں سے اغماض سالانہ رویداد تعلیم الاسلام کا لی اہش صفحہ 14 * +
۱۴۰ نہیں برتتے اور نہ ہی طلباء سٹرائیک کی قسم کے غیر اسلامی اور غیر اخلاقی ذرائع استعمال کرتے ہیں.یہاں نہ صرف ملک کے گوشے گوشے بلکہ غیر مالک سے بھی ہر مذہب و خیال کے طلباء اس پرسکون ، سادہ اور پاک ماحول سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں " سے تعلیم الاسلام کالج ایک بین الاقوامی حیثیت کا حامل ہے.کالج کے طلبہ کا حلقہ انڈونیشا، برما ، تبت ، ہندوستان ، مغربی افریقہ ، مشرقی افریقہ ، سومالی لینڈ اور بحرین وغیرہ ممالک تک پھیلا ہوا ہے.ہمارے طلبہ میں سچائی ، محنت ، خدمت خلق ، غیرت قومی ، خدمت دین ، امانت دیانت اور دیگر اخلاق فاضلہ صرف موجود ہی نہیں بلکہ ان کا معیار بھی کافی بلند ہے.ہمیں یقین ہے کہ جس معیار کی تعلیم دینے اور جس طرح کے طلبہ پیدا کرنے کی کوشش اس کالج میں ہو رہی ہے اس کے پیش نظر نہ صرف اس کالج کی بلکہ اس جیسے سینکڑوں کالجوں کی ملک و قوم کو ہر وقت ضرورت رہے گی اور ہمارے طلبہ انشاء اللہ تعالٰی آنے والے سالوں میں تعلیمی، علمی اور اخلاقی میدان میں مثالی اور قابل فخر کر دار ادا کریں گئے نے اللہ تعالے ہماری نیتوں اور کوششوں میں برکت ڈالے اور ہمیں خدمت قوم د بنی نوع انسان کی زیادہ سے زیادہ توفیق دے" سے حضرت مرزا ناصر احمد صاحب ایدہ اللہ تعالے کی طلبہ کالج سے متعلق یہ پیشگوئی خدا کے فضل و کرم سے حرف بحرف پوری ہو رہی ہے.فالحمد للہ علی ذالک یہ نظام تعلیم و تربیت جس کا خاکہ اوپر کھینچاگیا ہے تعلیم وتربیت سے تعلق لبعض اہم واقعات اپنی تفصیلات کے اعتبار سے ایک مستقل مضمون کا تقاضا کرتا ہے جس کی یہاں گنجائش نہیں.تاہم ذیل میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کے اس دور زندگی کے بعض اہم واقعات بیان کئے جاتے ہیں جن سے آپ کے انداز تربیت کے بہت سے گوشے نمایاں ہوتے ہیں اور جو دنیا ئے اصلاح و تربیت کے لئے چراغ راہ کی حیثیت رکھتے ہیں.سے "المنار" وفا.ظہور تبوک / جولائی اگست ستمبر یه میش صفحه ۱۸ : لے "المنار" ہجرت، احسان امئی جون س ش صفحه ۲۷ + سے "المنار" وفا.ظہور تبوک جولائی اگست ستمبر له مش صفحه ۳۴۳ ۱۹ ۰ +1975
۱۴۱ بلا مبالغہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزبي طلبہ پر ہمیشثال شفقت نے تعلیم الاسلام کالج کے طلباء کو اپنے خون سے پالا ہے اور ان کے ساتھ ہمیشہ اپنی اولاد سے بھی بڑھ کر محبت کی ہے.جناب پر وفیسر محبوب عالم صاحب خالد ایم.اے کا بیان ہے کہ ایک دفعہ خاکسار نے لاہور میں اڑ یا ۵ار میں آپ سے عرض کیا کہ ڈسپلن کیسے رہے ہم اساتذہ طلباء کی غفلتوں پر بعض اوقات جرمانہ کی سزا دلواتے ہیں مگر آپ اُسے معاف فرما دیتے ہیں.آپ نے جواباً تحریر فرمایا.اگر طلبہ کے لئے میرے دل میں خدا تعالیٰ نے رحم ڈالا ہے تو اس میں میرا کوئی قصور نہیں.باقی حالات ٹھیک ہو جائیں گے.انشاء الله ناصر احمد (عکس) اگر طلبہ کے لئے میرے دل میں خواتم نے نہ ڈالا ہے تو اکیس تیرا ما کوئی قصور تشیع والی حالات ٹھیک مروا رہی ہے.ان کو ان سے چوہدری محمد علی صاحب ایم.اے لکھتے ہیں :.تادیب، دلداری اور ذاتی تعلق " آپ کا لچ اور ہوسٹل کی تفصیلی نگرانی فرماتے اور ہر معاملے میں ہم خدام کو ان کی بابرکت رہنمائی حاصل ہوتی.سزا بھی دیتے لیکن کراہت کے ساتھ.لیکن جہاں سرا ضروری ہوتی اسے ضرور دیتے.مجھے یاد ہے.ایک دفعہ ایک طالب علم کو بدنی سزا
۱۴۴۴ دی سیانے لگی.ہال میں طلبہ اکٹھے ہوئے.اس عاجز سے ارشاد فرمایا کہ سزادو.جب سزا کا نفاذ ہونے لگا تو فرمانے لگے کہ سزائیں نے آپ کو نہیں اس طالب علم کو دی ہے اور خود باقی سزا اپنے ہاتھ سے نافذ کی.آجتک واقعہ کا اثر دل پر ہے.بعد میں کبھی جب سزا دی ہے حضور ایدہ اللہ تعالئے پریم کی کیفیت طاری ہوئی ہے، اور کئی بار ایسا ہوا ہے کہ اس تکلیف سے کتنا کتنا عرصہ گھر سے تشریف نہ ای طلباء آپ سے جو محبت اور عقیدت رکھتے اس کا بیان کرنا مشکل ہے.چوہدری محمد بوٹا ایک طالب علم ہوتے تھے جو اب IRRIGATION RESEARCH IRRIGATI میں آفیسر ہیں غیر از جماعت ہیں.انہوں نے حضور کی خدمت میں عرصے کے بعد جب وہ ایم ایس سی کر چکے تھے اور کالج سے جا چکے تھے خط لکھا جس کا مفہوم یہ ہے کہ میں اپنا نام تبدیل کرنا چاہتا ہوں اور میرے دل میں چونکہ آپ کی بے حد قدر اور عزت ہے اور تجھے کوئی اور آپ جیسا عظیم انسان نہیں ملا جس لئے آپ کی اجازت سے اپنا نام ناصر رکھنا چاہتا ہوں چنانچہ آج وہ اسی نام سے موستا زم ہیں.محمد اشرف ایک طالب علم تھے جن پر کالج کے دنوں میں بظاہر سختی ہوئی تھی.یورپ کے دورے ( ۱۹۶۷ء) کے وقت دیوانہ وار حضور کی خدمت میں ایڈنبرا ، گلاسگو وغیرہ حاضر رہے.طلبہ آپ کے والد و شیدا تھے اور آپ بھی بیٹوں کی طرح ان سے سلوک فرماتے تھے.مجھے یاد ہے کہ آدھی آدھی رات بیمار طلبہ کے سرہانے بیٹھ کر ہاتھ سے چمچے کے ساتھ خود دوائی پلایا کرتے اور تسلیاں ، دیا کرتے.اس شفقت اور محبت کو دیکھ کر دوسرے طلباء کہا کرتے کہ ہمارا بھی ہمہار ہونے کو جی پر اہتا ہے.غریب طلبہ کی بہت دلداری فرماتے کہ ان کی امداد اس رنگ میں ہو کہ اُن کی عزت نفس کو ٹھیس نہ لگے.جو طلباء مزدوری کر کے پڑھتے اُن کی خاص قدر فرماتے اور ان کا اس محبت سے ذکر فرماتے کہ ایسے طلباء کا فخر سے سر اونچا ہو جاتا.غریب طلباء کی غذا ، دوا ، لباس ، سویا بین اور پتہ نہیں کیا کیا اُن کے لئے نہیں فرماتے.ڈسپلن کے معاملے میں سختی فرماتے اور پھر دلداری بھی فرماتے.فرمایا کرتے کہ اُستاد کو باپ اور ماں دونوں کا کام کرنا چاہیے.سویابین کا بہت شوق تھا اور ہے اور کمزور اور کھلاڑی اور ذہین طلباء کو اس کا حلوا تیار کروا کے کھلایا کرتا ھے اور خوش ہوتے
۱۳ آپ کا تعلق طلباء سے بھی محبت اور تکریم کا ہوا کرتا تھا.اُن سے مزاح بھی فرماتے اور بے تکلف بھی ہوتے لیکن حدود قائم رہتیں.خدام الاحمدیہ کے دور میں کلائی پکڑنے کا شوق تھا میرے علم میں کوئی ایسا شخص یا طالب علم نہیں جو آپ کے مقابلے پر پورا اتر سکا ہو اگر یہ عابدہ کبھی کوشش کرتا تو دو انگلیوں سے کلائی چھڑا لیتے.طلباء کسی قسم کا بعد یا فاصلہ محسوس نہیں کرتے تھے.باپ بیٹے کا تعلق تھا جو زندہ اور جاری تھا.جب مرحوم مبشر احمد لگکھڑ جو بے بعد ہو نہار اور نیک اور ذہین طالب علم تھا قتل ہوا.اور آپ کی خدمت میں شام کو کراچی میں ضمناً ایک لڑ کے میر احمد کی اطلاع کی گئی تو رات گئے غالباً بارہ ایک بجے کا عمل ہوگا کہ آپ کا فون آیا کہ تفصیل بتائی بھائے.آپ نے فرمایا کہ مجھے نیند نہیں آرہی اور بے بعد بے چینی ہے.کیا یہ وہی میر احمد تو نہیں جو ہر وقت مسکراتا رہتا تھا.افسوس کہ یہ دہی مبشر احمد تھا جس کی وفات پر آپ اس طرح بے چین ہو گئے اور آدھی رات کو کراچی سے فون آیا.آپ طلبہ کو بلا وجہ ان کے نچلے پن پر ٹوکتے نہیں تھے اور فرمایا کرتے تھے یہ ان کی صحت کی علامت ہے.ایک مرتبہ ایک طالب علم نے جو جماعت کے ایک مخلص خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور خود ایک بڑی کار پہ ماڈل ٹاؤن سے کالج آیا کرتے تھے آپ کی " ولزلے " کا ریچہ المنار میں چھپنے کے لئے انگریزی میں ایک مضمون لکھا.میں ان دنوں انگریزی حصے کا نگران تھا.میں نے شائع کرنے سے انکار کر دیا.اس پر مصنف نے اصرار کیا کہ حضرت صاحبزادہ صاحب سے پوچھ لیں آپ نے فرمایا.یہ تو ضرور چھپنا چاہئیے.میں نے اسے ذرا تریم کر کے چھاپ دیا.جس دن المنار شائع ہوا.کوئی چند گھنٹے بعد طالب علم کا نپتا ہوا میرے پاس آیا.کہنے لگا کہ ادھر یہ مضمون شائع ہوا اور ادھر میری کار کی ٹکر درخت سے ہو گئی.میری جان بچ گئی.میں اللہ تعالیٰ کے ایک بندے کی کار پر استہزار کا مرتکب ہوا تھا.مجھے اس کی سزا مل گئی.خدا معاف کرے.آپ طلباء کے اجتماعات میں دلی نشاط اور بشاشت سے شامل ہوتے اور حفظ اُٹھاتے کشتی رانی (ROWING) کے میچوں میں تقریباً آدھ میل تک کشتی کے ساتھ ساتھ اسی رفتار سے دوڑ کر حوصلہ افزائی فرماتھے اور دوسرے کالجوں کے طلباء بارہ بارہ ہم سے کہا کرتے کہ کاش ہمارے پرنسپل بھی بہاری کھیلوں میں اتنی دلچسپی لیں.خدا تعالیٰ نے بیور رعب دیا ہوا ہے طلباء اس
۱۴۴ کی وجہ سے ڈرتے بھی.لیکن وہ یہ جان گئے تھے کہ اگر کوئی خاص سنگین قسم کی قانون شکنی کے مرتکب نہ ہوں تو اس رعب کے نیچے علم اور کیا اور محبت کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر موجزن ہے اس لئے عام جرمانہ وغیرہ ہوتا تو جا کر معاف کو را لیتے.آپ کبھی بے صبری کا اظہار نہ فرماتے سختی کے وقت سختی بھی فرماتے لیکن دل نرمی کی طرف مائل رہتا.کھلاڑیوں خصوصاً رؤنگا باسکٹ بال کے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی فرماتے اور ان کی تکریم کرتے.لیکن اگر کبھی وہ قانون شکتی کرتے تو سختی بھی اتنی ہی زیادہ فرماتے.ایک روٹنگ کے لڑکے سے غلطی ہوئی ہجو ہمارا کستان تھا کبڈی کا کپتان بھی تھا.نہایت ذہین طالب علم تھا.سکالرشپ ہولڈر تھا.اسے اور خرچ بھی دیتے تھے اور آپ کے گھر سے کھانا بھی آیا کرتا اور اس کی خوب خوب ناز برداری ہوتی.لیکن جب اس نے کالج کے ایک اُستاد کے ساتھ گستاخی کی تو اُسے دو سال کے لئے کالج سے نکال دیا.میں نے آپ کو بڑے سے بڑے حادثے پر روتے نہیں دیکھا.لیکن میں نے دیکھا کہ اس لڑکے کے اخراج از کالج کے فارم پر دستخط فرماتے وقت حضور کی آنکھیں ڈبڈبا آئی تھیں" طلبہ کے ساتھ حضرت صاحبزادہ صاحب کی محبت و شفقت اور ہمدردی کے بے شمار واقعات ہیں.حال ہی میں آپ نے خطبہ جمعہ کے دوران فرمایا :- میں ایک دفعہ اپنے کالج کے دفتر سے گھر کی طرف جا رہا تھا.راستے میں مجھے ایک طالب علم طلاحیں کے متعلق مجھے علم تھا کہ وہ بڑا محنتی اور ہوشیار طالب علم ہے.کوئی مہینے ڈیڈھنگ یونیورسٹی کے امتحان ہونے والے تھے.میں نے دیکھا کہ اس کا منہ زرد اور منہ پر دھبے پڑے ہوئے ہیں.بیمار شکل ہے.یہ دیکھ کر مجھے بڑا سخت صدمہ پہنچا کہ میں نے اس کی صحت کا خیال نہیں رکھا.ویسے وہ عام کھانا تو کھا رہا تھا.لیکن ایسے کھانے پر اسلام کا اقتصادی نظام نہیں ٹھہرتا.میں نے سوچا کہ میں نے ظلم کیا.کشتی رانی کرنے والے طلباء کو تو میں سویا بین کا معلوہ دیتا ہوں لیکن جو دن رات محنت کرنے والے طلباء میں ان کو میں سویا بین کا حلوہ نہیں دیتا.میں نے تو بڑی غلطی کی بچنا نچہ اس کو تو میں نے کہا کہ مجھ سے سویا بین نے بجا کر استعمال کرنا لیکن بعد میں میں نے تمام محنتی طلباء کو سویا بین دیتے کا انتظام کر دیا ، پہلے اسے مناسب حال غذا نہیں مل رہی تھی.اب جب اسے مناسب حال غذا ملی تو پندرہ دن کے بعد میں نے دیکھا کہ اس کے چہرے
۱۴۵ کے دیتے دُور ہو گئے.چہرے پر سُرخی آگئی.آنکھوں میں زندگی اور توانائی کی علامات نظر آنے لگیں اور وہ امتحان میں بڑی اچھی طرح سے پاس ہوا.اچھے نمبر تو وہ ویسے بھی لے لیٹا لیکن یہ بھی ہو سکتا تھا کہ ساری عمر کے لئے وہ بیمار پڑ جاتا.کئی ایسے عوارض اُسے لاحق ہو جاتے جن سے چھٹکارا پانا اس کے لئے ناممکن ہو جاتا “ حضرت صاحبزادہ صاحب ایدہ اللہ تعالے کالج کی سربراہی طلبہ کی حوصلہ افزائی اور روح کے زمانہ میں طلبہ کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کس طرح اُن میں) مسابقت میں اضافہ کیلئے جد و جہد شرو با عمل اور روح مسابقت کو بیدار کرنے بلکہ بڑھانے میں سرگرم عمل رہے اس کا اندازہ لگانے کے لئے بطور نمونہ ایک واقعہ درج کیا جاتا ہے.شروع ما تبلیغ ضروری ہمیش کا واقعہ ہے کہ وہ ہور میں کشتی رانی کے مقابلے جاری تھے جس ی احساسات تعلیم الاسلام کالج کی ٹیم بھی اپنی روایتی شان کے ساتھ حصہ لے رہی تھی.وہ تبلی فوری کو کالج کی کشتی رانی کی ٹیم کے کیپٹن ناصر احمد صاحب ظفر حضرت مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل کالج کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ مغربی پاکستان اوپن روئینگ چمپیئن شپ کے ارکان نے لاہور کے مقامی کالجوں کے لڑکے ہمارے مقابلہ جات کے لئے بطور منصف مقرر کر دیئے ہیں جس سے صورت حال بالکل ہمارے خلاف ہو گئی ہے.اس پر حضرت صاحبزادہ صاحب نے اپنے قلم مبارک سے انہیں حسب ذیل پیغام تعلیم الاسلام کالج کی ٹیم کے نام لکھ دیا اور ارشاد فرمایا کہ آپ ٹیم کے سامنے یہ پڑھنے کو سنا دیں.سے الانی کو سلامی تعلیم الایم کالج کے با غیرت زجوانو! السلام علل والله الله الفضل ۲۳ وفا / جولائی ۱۳۴۷ در بیش صفحه ۳ کالم ۱۲ 71944 + Y
مجھے بتا یا گیا ہے کہ سکول بورڈ کے ناظمین نے کل کے کتے بال ہیں کا مجہور کا مجز کے طلبہ کو الطور جته مقرر کیا تھا اور ان کا دوبارہ خلاف عقل و انصاف في پہلے ہے آپکا نقابط برادرانہ مقابلہ تھا دوسرے کا غیر کے طالبہ تمارے لئے ایک کا میں جا کر اور مٹہ آپکے بھی بھائی ہیں.انکے نعات کو کام کیا.ان ہونا چاہیئے - مقالہ میں مار بہت ہوگی کار اور دنگا ہے کہیں دکھی دیتے ہیں کہ ہم عزت کے ساتھ چیتا اور کے سلوکی اور وقار کے ساتھ چارتا الله سیکھیں.اور آپ لوگ اس سبق کو اچھی طرح جانتے پایا.مگر اب آپکا مقابلہ اپنے بھا ئیوان کے
۱۴ ساتھ این بار مجھے اب آپ کا مقابلہ ہے انصافی اور ہے الاني کے ساتھ ہے اور ایران ہے آتاپ بے اچانی خود بے انصافی کو شکست دیں.پس آپکا فرض ہے کہ آپ میں اپنی قوت اور بوشن کا آخری ماشه فریم کر کے دوسری ٹیموں کمیک کرتے مرنے کو اول آئین اور دنیا و تاب کری کے بے انصافی کبھی کا جواب نہیں تو سکتی.اسکے بغیر اپنی غیرت کا مظاہرہ نہیں ہوگا.دل چھوڑنے کا بہت حارث کا سوال کا پیدا نہیں ہوتا.اگر ہے الرضافی روز آپکو سب سے آخر میں رکھے تو آپکی غیرت کو چاھتے کہ بات روز آپکو کلی پو زیشن میں لے جائے.اور مجھے نیم تا کا آپ اچھا کر رکھا تنگے و س ک پہنچنا مان بیان میں کوشش کرو گیا اثری را دن آپ کے تو رو خانان پور ,
۱۴۸ اسکے سلجھا رہے وسے بین اینجا خوان کر رہا ہوں.شاید کسی خون آمین به ذمہ دار افسر کی انسانیت پیدار ہو سکتے.آئیں.57.بسم الله الرحمن الرحیم تعلیم الاسلام کالج کے باغیرت نو جوا نو ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مجھے بتایا گیا ہے کہ سکول بورڈ کے منتظمین نے کل کے مقابلہ میں لاہور کالجز کے طلبہ کو بطور حجز مقرر کیا تھا اور ان کا فیصلہ خلاف عقل وانصاف تھا.اگر یہ صحیح ہے تو.پہلے آپ کا مقابلہ برادرانہ مقابلہ تھا.دوسرے کا لجز کے طلبہ ہمارے لئے ایسے ہی ہیں یسا کہ اپنے طلبہ اور وہ آپ کے بھی بھائی ہیں.ان کے مخلاف کوئی غصہ نہیں ہونا چاہیئے.مقابلہ میں ہار جیت ہوتی ہی ہے اور یہ مقابلے ہمیں یہ سبق دیتے ہیں کہ ہم عزت کے ساتھ جیتنا اور وقار کے ساتھ ہارنا سیکھیں اور آپ لوگ اس سبق کو اچھی طرح بھانتے ہیں.مگر اب آپ کا مقابلہ اپنے بھائیوں کے ساتھ نہیں رہا.اب آپ کا مقابلہ ہے انصافی اور بے ایمانی کے ساتھ ہے اور غیرت کا تقاضا ہے کہ آپ بے ایمانی اور بے انصافی
۱۴۹ کو شکست دیں.اس آپ کا فرض ہے کہ آپ اپنی قوت اور جوش کا آخری ماشہ خرچ کر کے دوسری ٹیموں کو بمپ کرتے ہوئے پھر اول آئیں اور دنیا پر ثابت کریں کہ بے انصافی کبھی کا نیا نہیں ہو سکتی.اس کے بغیر آپ کی غیرت کا مظاہرہ نہیں ہو گا.دل چھوڑنے کا ، ہمت ہارنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.اگر بے انصافی روز آپ کو سب سے آخر میں رکھے تو آپ کی غیرت کو چاہیے کہ وہ روز آپ کو پہلی پوزیشن میں لے جائے اور مجھے یقین ہے کہ آپ ایسا کر دکھائیں گے.آج میرا پہنچنا ممکن نہیں.میں کوشش کروں گا کہ آخری دو دن آپ کے ساتھ رہوں.خدا تعالٰی ہمیشہ آپ کے ساتھ رہے.دیسے میں آج فون کر رہا ہوں شاید کسی ذمہ وارد افسر کی انسانیت بیدار ہو سکے.آمین فقط ۵۲۰۵۰ ناصر احمد پرنسپل ناصر احمد صاحب نظر یہ پیغام لے کر لاہور پہنچے اور جود عامل بلڈنگ میں جہاں کالج کی ٹیم مقیم تھی.رب علیہ کو اکٹھا کر کے یہ پیغام انہیں سنایا.اس ولولہ انگیز پیغام نے طلبہ کے اندر بے انصافی کے مات ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا ایک زبر دست جوش اور بے پناہ جذبہ پیدا کر دیا اور انہوں نے مصمم عہد کر لیا کہ وہ چیمپین شپ حاصل کئے بغیر نہیں رہیں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.خدا تعالیٰ کے فضل اور حضریت صاحبزادہ صاحب کی دعاؤں سے کالج کی ٹیم چیمپین شہ کا انفرا است که ربوہ پہنچی.فالحمد لہ علی ذالک طلبہ کو غیر اسلامی اخلاق و اقدار سے چوہدری محمد علی صاحب ایم.اسے اپنا ایک واقعہ بیان کرتے بچانے کے لئے ایک حرکت منا فصل ہیں کہ حالات یہ مرد کی بات ہے جب پہلا T.G.0.0 کیمپ ہوا.یہ کیمپ والٹن میں ہوا تھا اور پاکستان بننے کے بعد پہلا کیمپ تھا.کیمپ کے ت تسلی بخش نہیں تھے.ایک سینٹر آفیسر C ADETS اور اساتذہ کو جن کو فوجی بینک لے ہوئے تھے بسا اوقات فحش گالیاں نکلا کرتا تھا.جنرل رضا ان دنوں ایڈجوٹنٹ جنرل تھے ان کے آنے تک تو بات بنتی رہی.لیکن جب کیمپ کا خاتمہ قریب آیا اور کمانڈر انچیف صاحب
۱۵۰ کے آنے کا دن قریب آیا تو طلبہ بے قابو ہو گئے اور فیصلہ کر لیا کہ سٹرائیک کریں گے اور تقسیم انعامات کے وقت اور کمانڈر انچیف صاحب کی آمد کے وقت ٹیموں میں بیٹھے رہیں گے.نہ صفائی کریں گے اور نہ ہی وردیاں پہنیں گے.ظاہر ہے کہ یہ صورت حال ہمارے لئے تسلی بخش نہ تھی.یہ عاجز اپنے دستے کا کمانڈر تھا اور مکرم چوہدری فضل داد صاحب نائب کمانڈر تھے.ہم نے حضرت پرنسپل صاحب تعلیم الاسلام کا لی کی خدمت میں نفاس آدمی بھیجوایا کہ یہ صورت حال پیدا ہو گئی ہے ہماری مدد کی جائے لیکن وہ پیغام رساں کیمپ سے باہر نکلتے وقت گرفتار ہوگیا اور کوارٹر گارڈ میں بھیج دیا گیا.اس کا ہمیں اس وقت علم نہ ہوا.اور ہم آپ کی طرف سے کسی پیغام کے انتظار میں رہے.جب رات ہوگئی اور کوئی جواب نہ آیا تو پہلے ہم نے کا لیوں کے اساتذہ سے رابطہ قائم کیا عضو محترم راجہ این ڈی احمد صاحب ( سابق پرنسپل و ریزی کالی اور ڈ ریکٹر ایمیل ہینڈری، کونل اسلم (جو ہماری بٹالین کے کمانڈر تھے ، برادر مکرم رفیق عنایت مرتبار و آب پینٹر سی ایس پی آفیسر ہیں، ہے، اور اُن پر یہ بات واضح کی کہ ہم سر اٹیک میں شامل نہیں ہوں گے.اگر سٹرائیک تختم نہ ہوئی تو تعلیم الاسلام کالج کی پلاٹون آکیلی ڈیوٹی پر جائیگی کیونکہ ہم سٹرائیک کو شریعاً نا جائز سمجھتے ہیں.اور ان سے اپیل کی کہ پاکستان کا پہلا کیمپ ہے.دہ خود بھی اسٹرائیک ختم کروانے کے خواہشمند تھے.بہر حال بعض دوستوں کو ساتھ لے کر ہم رات کے وقت خیمے خیمے میں پھرے.لڑکے گانے گا رہے تھے.قوالیاں ہو رہی تھیں اور نعرے لگ رہے تھے.اللہ تعالے کا خاص فضل ہوا.بہار کی اپیل پواڑ کے آمادہ ہو گئے کہ اگلے روز سٹرائیک نہ کریں اور پاکستان کے نام پر ایسی غیرت دکھائی کہ رات کا باقی وقت جاگ کر تیاری میں گندا ، اور صفا اور تیموں کی تزئین میں لگ گئے.چنانچہ اگلی صبح کے اندر انجینہ صاحب آئے.سیدان جنگ، کا نقشہ پیش ہوا کمپنیوں میں باہمی لڑائی کی مہارت کے تمام انداز دکھائے.اس موقع پر ہارے کچھ طلباء ہو محاذ کشمیر پر فرقان بنائین میں رہ چکے تھے وہ کہ انڈر انچیف صاحب نے پہچان لئے.ان کی ٹوپی بڑھی تو پوچھا کہ سارے کیمپ میں کتنے ایسے مجاہدین ہیں.صرف ہمارے ہکا کالج کے طلباء نکلے.تقسیم انعامات کے لئے پنڈال الگ قائم ہو چکا تھا اور مہمانوں کی آمد آمد تھی.وزراء ، بیج، وائیں چانسلر صاحب ، سکوٹی ، بونیل اور بریگیڈیر پنڈال کے پاس ایک ہی جگہ کمانڈر انچیف
۱۵۱ صاحب کے استقبال کے لئے اکٹھے کھڑے تھے.طلباء پنڈال میں تھے.اساتذہ بھی تھے کہ اسی آفیسر نے پھر کوئی نازیبا الفاظ کہے جس پر پنڈال میں موجود طلباء میں پھر کھچاؤ پیدا ہو گیا.اس اثناء میں حضرت مرزا ناصر احمد صاحب ایدہ اللہ تعالے) کی کار بھی آتی دکھائی دی.یہ عاجز آگے بڑھ کر استقبال کے لئے گیا اور آپ کو وہیں روک کر سارے کو الٹ بتائے.آپ تشریف لائے تو وہ آفیسر بھی استقبال کے لئے آگے بڑھے.آپ نے سرسری انداز میں پوچھا کہ کیا ہوا تھا.فرمایا جس کا مفہوم یہ تھا کہ غیر گذری اس بچہ اس آفیسر نے اسی انداز میں کہا.کہ مجھے ان کی کیا پر وا ہے.یہ فقرہ کافی بلند آواز سے انہوں نے کہا.سول اور مڑی آفیسر سب کچھ سن رہے تھے.آپ خاموش رہے.انہوں نے دوبارہ یہی فقرہ دوہرایا.جب سہ بارہ اسی قسم کا فقرہ کہا تو آپ نے بڑے جلال سے بلند آواز میں فرمایا کہ آپ کو پروا نہیں لیکن ہمیں ان کی بڑی پروا ہے.یہ قوم کے بچے ہیں.ہم ان کو اس قسم کے اخلاق کی تربیت کے لئے یہاں نہیں بھیجتے اور مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ ابھی ساری پلٹنوں که والپیں بلوا لو اور آئندہ سے کوئی سروکار نہ رکھو.اس پر کچھ سینٹر آفیسر نے اس افسر کو ایک طرف سے گئے اور اگلے اور مجھے میں اس نے بڑی لجاجت سے معافی مانگی اور شرمندگی کا اظہار کیا.جب آپد نے یہ فقرات کہے تو مجھے یاد ہے کہ میرے ایک غیر از جماعت ساتھی نے فرط جذبات میں خوشی سے دیوا نہ ہو کہ میرا ہاتھ پکڑا اور اسے اتنا زور سے دبایا کہ کئی دن تک میرا ہاتھ درد کرتا رہا.پھر تصور میاں صاحب تقریب کے اختتام پر تشریف لے گئے اور محکمہ تعلیم کے ایک بڑے افسر نے کہا کہ میاں صاحب نے سب کی عزت رکھ لی.اس عجیب واقعہ کا آخری حصہ یہ ہے جس سے ہمارا کوئی تعلق نہ تھا لیکن ہوا اور وہ یہ کہ کیپ کے مقالہ کے بعد جب بھی کوئی اک روانہ ہوتا تو اس میں بیٹھنے والے مرزا ناصر احمد زندہ باد" اور " نہیں ٹی آئی کالی زندہ باد کے نعرے ضرور رنگاتے یہ فلک من کا نوے ہمارے و کہنے کے باوجود نہ رک سکے اور اسی انداز سے یہ کیمپ ختم ہوا" طلبہ سے سادی حیثیت میں محبت بھرا سلوک بلوری محرمعلی صاحب ایم، اسے لکھتے ہیں.کی.ایک طالب علم جو جماعت اسلامی کی
۱۵۲ انتظامیہ کا رکن تھا اور اس لئے آیا تھا کہ غیر از جماعت طلباء کو جماعت کے خلاف منظم کرنے کالج میں داخلے کے لئے آیا.آپ نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ آپ اس کام کے لئے آئے ہیں تو آپ یہ ضرور کام کریں.میں آپ کو داخل بھی کہ لیتا ہوں اور فیس کی رعایت بھی دیتا ہوں لیکن آپ کو خبر دال کرتا ہوں کہ آپ یہ کام نہیں کر سکیں گے اور میرے کالج میں پڑھنے والے غیر از جماعت طلباء آپ کے دام میں نہیں آئیں گے.یہ طالب علم کافی عرصہ تک پوشیدہ اور علانیہ کوشش کرتا رہا لیکن بیری طرح ناکام ہوا.اور آپ کی شفقت اور محبت خود اس پر اثر کئے بغیر نہ رہ سکی " جب کالج ربوہ میں منتقل ہونا شروع ہوا تو لاہوریہ کے لوگوں کو اس سے بہت بیچینی پیدا ہوئی.بعض نے اخباروں میں لکھا کہ جو لوگ شریفانہ ماحول میں تھوڑے خروج سے اچھی تعلیم دلانا چات ہیں اُن کے بچے کہاں بھائیں.زبانی بھی ہمیں کہا گیا کہ کالج نہ لے جائیں.ایک دفعہ ایک وقدرتیں میں چند ایسے لوگ بھی شامل تھے جو ہمارے خلاف نہ کی ایجی ٹیشن میں ماخوذ ہوئے تھے ) محضور کے دفتر میں ملنے کے لئے آیا.انہوں نے کہا کہ ہم نے ایجی ٹیشن میں آپ کے مغلات حصہ لیا تھا لیکن اپنے بچے آپ کے پاس رکھنا چاہتے ہیں.آپ کا لج نہ لے بھائیں.آپ نے فرمایا.اس سے زیادہ تعریف آپ کا لج کی نہیں کر سکتے لیکن ہماری اپنی مجبوریاں ایسی ہیں کہ ربوہ کا بیپال حق ہے اس لئے کالج ضرور بجائے گا.البتہ آپ کا شکریہ.الحمد للہ کہ کالج راوہ آگیا " محمد بے تکلفی اور پاکیزہ مزاح بعدی عملی صاحب قریر کرتے ہیں.> پاکیزہ مزاح بھی ہمارے کالج کا اور خصوصاً ہوسٹل کی تقریبوں کا طرہ امتیاز رہا ہے جن میں خود آپ ( ایدہ اللہ تعالے) اور آپ کی ولزلے کار پر محبت اور ادب کے ساتھ تنقید بھی ہوا کرتی تھی.ایک مرتبہ اس عاجز نے ولزلے کے متعلق کچھ کہنے سے منع کر دیا.تو ارشاد پہنچا کہ اگر ولزلے کا ذکر نہ ہوا تو میں نہیں آؤں گا.مختلف سالوں میں اس پر اتنی تنظمیں لکھی گئیں کہ فرمایا کہ تمام نظمیں جمع کرواؤ تاکہ ہمیں دیوان کار چھپوا کر حضور مصلح موعود ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں پیش کروں اور مجھے نئی کا حضور کی طرف سے بیل بجائے ملت لے وگزے " حضرت پرنسپل صاحب کی ایک پرانی اور خستہ حال موٹر کار تھی اور اکثر اساتذہ ، طلباء اور خود حضر پرنسپل صاحب کے تقتل کا سبب بنتی تھی.باوجود اس کار کی پیرانہ سالی کے آپ اسے ہی استعمال کرتے تھے.چنانچہ ہوسٹل کے سالانہ فنکشن پر طلبہ اس کار کو خوب خوب بافت منتر و مزاج بناتے تھے ،
۱۵۳ درویشانہ زندگی چوہدری محمدعلی صاحب ایم.اسے مزید لکھتے ہیں.و مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے فرزند ابر کی درویشانہ شاہی تھی اور آپ اسی میں مگن تھے.کبھی ٹیپ ٹاپ کی طرف آپ کی طبیعت نہیں گئی.ایک دفعہ چند آنے گز کی ایک آچکن سلوائی سبز رنگ تھا اور دھاریدار تھی.جب آپ نے زیب تن کی تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ نہایت قیمتی کپڑا ہے.کئی مرتبہ میں نے خود دیکھا کہ اچکن کو پیوند لگا ہوا ہے اور بڑی بڑی تقریبوں میں شامل ہوتے ہیں اور حضور کے داخل ہوتے ہی تمام حاضرین مجلس کی توجیہ آپ کی طرف ہو جاتی.وقانہ اور مسکراہٹ اور رعب یہ اللہ تعالیٰ کی دین تھی.بارہا یہ عالجہ شکار پر آپ کی خدمت میں ساتھ ہوا کرتا.کھانے کا وقت آجاتا تو دیہات کی سادہ تنور کی روٹی پیسی ہوئی مرچ اور کسی سے اتنا مزہ لے کر تناول فرماتے کہ گویا اس سے لذیذ اور کوئی کھانا نہیں ہو سکتا ؟ دُعاؤں کی تلقین ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ آپ کالج کے دفتر میں تشریف فرما تھے کہ دفتر کے ایک کارکن نے طالب علموں کے ڈیڑھ سو فارم یونیورسٹی میں بھیجوانے کے لئے رکھ دیئے.آپ ان فارموں پہ دستخط بھی کرتے رہے اور ساتھ ہی در دو شریعت بھی پڑھتے ر ہے.دو تین منٹ کے بعد آپ کو خیال آیا کہ میں ایک بھائی کو نیکی سے محروم کر رہا ہوں بچنا نچھ آپ نے فرمایا کہ تمہیں اس وقت کوئی کام نہیں.تم صرف میرے دستخطوں کے بعد فارم اُٹھا رہے ہو.تم فارم بھی اُٹھاتے رہو اور ساتھ ساتھ درود شریعت پڑھتے رہو.چنانچہ اس کا رکن نے بھی درود شریف کا ورد شروع کر دیا.اور جب آپ سب فارموں پر دستخط فرما چکے تو اس نے نہایت بشاشت سے عرض کیا کہ میں نے دو تین سو کے درمیان درود شریف پڑھ لیا ہے.کالج میں مختلف علمی مجالس کا قیام حضرت ما حبزادہ صاحب ایدہ اللہ تعالے کی تو جہ سے کالے میں میں طلبہ کی علمی نشو و نما کے لئے مندرجہ ذیل مشہور علمی مجالس اور اُن کی غرض وغایت جاری ہوئیں.مجلس عمومی مجلس ارشاد ، بزم اردو ، سائنس سوسائٹی، مجلس عربی مجلس علوم معاشرت، مجلس تاریخ، مجلس حیاتیات، مجلس فلسفه و نفسیات ریڈیو اور فوٹو گرافک سوسائٹی.الفضل ۲ تبلیغ فروری ست که بیش مشت و
۱۵۴ ان اہم مجالس کے قیام کے پیچھے کیا جذبہ کار فرما تھا؟ اس کی تفصیل خود آپ ہی کے الفاظ میں لکھی جاتی ہے.فرماتے ہیں :.تحصیل علم کے لئے مندرجہ ذیل چار باتیں ضروری ہیں.اول علمی باتوں کا غور سے سننا ، دوم علمی باتوں کے سمجھنے اور اپنانے کی کوشش کرنا ، ستوم ان میں سے جو باتیں بظاہر عقل کے خلاف نظر آئیں اُن پر تنقید کرنا اور چہارم نا قابل تسلیم نظریوں کے مقابل اپنے تحقیقی نظرئیے پیش کرنا یعنی سنے مجھے تنقید اور تحقیق کرنے کے بغیر صحیح علم حاصل نہیں کیا جا سکتا.پہلے دو کام کلاس دوم میں کئے جاتے ہیں جہاں نظم و ضبط کی پابندی از بس ضروری ہے لیکن اگر ہمارا نصب العین محمق یہ ہو کہ سنو اور قبول کرو تو ہماری آئندہ نسل اند می کند ذہن ہو گی.مذکورہ نصب العین پر ہمیں یہ اضافہ کرنا پڑے گا کہ پرکھو اور تحقیق کرد.اور تحقیق و تنقید کے لئے کلاس روم سے باہر بھی علمی مشاغل کا ہونا ضروری ہے اور اسی لئے درسگاہوں میں مختلف علمی مجالس قائم کی بجاتی ہیں جن میں سے اہم ترین مجلس کا لج کی عمومی مجلس ہے جہاں طلبہ اپنی آراء کا آزادانہ اظہار کرتے ہیں " کھیوں کی سرپرستی چوہدری محمد علی صاحب ایم.اسے تحریر کرتے ہیں :- کی کیونکہ سپورٹس کی ایسوسی ایشنیں اعلیٰ سطح پر آپ کی خدمت میں پہنچتیں کہ صدارت قبول فرمائیں تاکہ امن کی فضا قائم ہو.آپ پنجاب بیڈ منٹن ایسوسی ایشن کے صدر کٹی سال رہے.مغربی پاکستان کے بیڈ منٹن کے مقابلے کالی ہال میں ہوا کرتے.پھر آپ جیسا کہ ذکر آ ہوچکا ہے باسکٹ بال کی سنٹرل زون کے صدر بنے.دیگر کھیلوں کو بھی آپ کی سرپرستی حاصل رہی فٹ بال ، کرکٹ ٹینس ٹیبل ٹینس تو آپ خود نہایت عمدہ کھیلتے تھے اور اساتذہ اور طلباً کے میچوں میں خصوصاً ہوسٹل ٹیبل ٹینس کے میچوں میں حصہ لیتے رہے.روٹنگ اور باسکٹ بال کو آپ نے بام عروج تک پہنچا دیا.ہائیکنگ میں آپ بے حد دلچسپی لیتے رہے، پنجاب ماؤ نیرنگ کلب اور یونیورسٹی کی ماؤنٹینگ کلب جس کے صدر مرحوم ڈاکٹر بشیر وائس چانسلر تھے پارٹیشن کے بعد دونو کے دستور بنانے میں آپ کے خاص مشور سے شامل تھے اور عملاً آپ ان کے زائر نور ممبر ہیں.لیکن دونوں کلیوں سے کوئی براہ راست رابطہ قائم نہ رہ سکا.البتہ آپ ہائیکنگ مانیٹر نگ امیر ہوتے ہاسٹلنگ کی ہر آن حوصلہ افزائی فرماتے رہے.مرحوم چو ہدری لطیف کے نے رسالہ "المسار" بابت ماہ احسان جون صفحه ۱۲ - ۱۵ : اور
حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل تعلیم الاسلام کالج کی سالانہ کھیلوں کے موقعہ پر خطاب فرمارہے ہیں
۱۵۵ پاکستان کے ممتاز ہا ئیکر تھے آپ کے بے حد معتقد تھے.شعبے قومی اور ملی فرائض کی بجا آوری بلکہ پوری زندگی کو صحیح صحت جسمانی کیلئے مختلف اہم شے معرق برگزارنے کے لئےصحت جسمانی کا خیال نکن از حد ضروری ہے.حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے طلبہ کی تربیت کے دوران اس سنہری اصول کو نہ صرف مد نظر رکھا بلکہ اسے ہمیشہ ہی خاص الخاص اہمیت دی چنانچہ آپ نے ۳۰-۱۳۲۹ امیش کی ساتھ رپورٹ میں اپنا مخصوص اور بلند نقطہ نگاہ مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان فرمایا :- ایک نوزائیدہ مملکت اگر ترقی کی دوڑ میں ترقی یافتہ ممالک سے بازی لینا چاہتی ہے تو اس کے افراد پر سعی پیہم اور مستقل بعد و جہد کی بھاری ذمہ داری پڑتی ہے.اور لگاتار محنت کرتے چلے جانا جذبہ متلی اور مضبوط و توانا جسموں کے بغیر ممکن نہیں.تمام بیدار ممالک اپنی قوم کی صحت کی طرف خاص توجہ دیتے ہیں اور عام اندازہ کے مطابق ان ممالک کا جتنا روپیہ تعلیم پر خرچ ہوتا ہے اسی کے لگ بھگ رقم وہ ورزشوں وغیرہ پر خرچ کرتے ہیں.اگر ہم نے بھی دُنیا میں ترقی کرتی ہے تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے بچوں کا خاص خیال رکھیں.بوجہ غربت ہم ان کے لئے پوری خوراک مہیا نہیں کر سکتے.لیکن غربت کے باوجود بھی صحیح ورزش انہیں کروا سکتے ہیں.یہ مہاجر ادارہ طلباء کے اس شعبہ زندگی کی طرف بھی خاص توجہ دیتا رہا ہے.بہت سے غریب بچوں کو مفت دُودھ دیا جا رہا ہے اور عام طور پر یہ کوشش رہی ہے کہ تمام طلبہ ورزش کے ذریعہ سے اپنے جسموں کو مضبوط بنانے کی کوشش کرتے رہیں " سے حضرت میرزا ناصر احمد صاحب ( ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس عظیم مقصد کی تکمیل کے لئے کالج میں عسکری تربیت کا خاص اہتمام کرنے کے علاوہ مجلس سیاحت کا قیام فرمایا اور تیز والی بال ، بیڈ منٹی کبڈگا ، فٹ بال.....وغیرہ مختلف کھیلوں کو خاص طور پر رواج دیا اور کشتی رانی اور باسکٹ بال کو اوج کمال تک پہنچانے میں اپنی بہترین صلاحیتیں صرف کر دیں.طلباء کو تین نصائح حضرت صاحبزادہ مرزا ناصراحمد صاحب ( ایدہ اللہ تعالے طلباء کی اخلاقی، روحانی اور علمی رہنمائی کے لئے ہر دم کوشاں رہتے اور وعظ و نصیحت کے ہر اہم " زین ل المثال شہادت / اپریل ۱۳۳۴ ش صفحه ۱۵+
104 موقعہ سے فائدہ اُٹھاتے تھے.آپ فارغ التحصیل طلبہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ملفوظات کی روشنی میں خاص طور پر قابل قدر نصائح سے نوازتے اور یہ آپ کا نہایت مرغوب دستور اور معمول رہا.مثلاً ریش کی سالانہ تقریب اسناد پر کالج کی سالانہ رپورٹ سنانے کے بعد فرمایا :- ١٣٣٨ السلطة بالآخر میں بی.اے اور بی ایس سی کے امتحانات میں کامیاب رہنے اور انعامات حاصل کرنے والے طلباء سے کہوں گا کہ ہماری زندگی کا اصل مقصد اللہ تعالے کو حاصل کرنا ہے تمہیں تمہاری کامیابیاں مبارک ہوں مگریہ کامیابیاں محض ابتدائی نوعیت کی ہیں.ان کا میابیوں کو اصل مقصد کے حصول کا ایک وسیلہ مجھو.ان کی وجہ سے اصل مقصد کو کبھی نظروں سے اور کھیل نہ ہونے دو خدا تعالی کی توحید زمین پر پھیلانے کے لئے اپنی تمام طاقت سے کوشش کرو.اس کے بندوں پر کام کردو.اور ان پر زبان یا ہاتھ یا کسی اور تدیر سے ظلم نہ کرو اورمخلوق کی بھلائی کے لئے کوشش کرتے ہو - ۳۲۲ لیہ مہش کی تقریب استناد پر فرمایا :- تمہیں تمہاری کا میابیاں مبارک چو اگر یہ کبھی نہ بھون کر تمہاری یہ کامیا بیان ایران زندگی کی ایک منزل کی انتہار میں وہاں دوسری منزل کی ابتداء بھی ہیں جہاں تم نے اپنے عمل کے جوہر دکھانے ہیں.یہاں تم نے انسانی اقدار کو قائم کرنا اور با اخلاق انسان کی صفات کا مظاہرہ کرتا ہے اور یہاں تم نے (اگر خدا تمہیں توفیق دے ) باخدا اور خدا نما انسان کے روپ میں دُنیا میں جلوہ گر ہوتا ہے ایسے مبارک وجود آج استثناء کا حکم رکھتے ہیں.مگر حسن سیرت کے ہر خوبصورت پہلو کو عام کر کے اس استثنار کو قاعدہ کلیہ کی شکل میں کھانا تمہارا ہو تعلیم الاسلام کالج کی پیدا وار ہو ، فرض ہے اور اس فرض سے تم سبکدوش ہو نہیں سکتے جب تک کہ تم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس نصیحت کو اپنی زندگی کا لائحہ عمل نہ بناؤں آگے "کشتی نوح " کا اقتباس درج ہے ) پیش کی سالانہ تقریب اسناد پر یہ بیش قیمت نصائح فرمائیں :- آپ درسگاہ کی تعلیم سے فارغ ہو رہے ہیں مگر تعلیم سے فارغ نہیں ہو رہے.علیم ایک پھر بے کنار ہے.اس لئے ایک انسان علم میں خواہ کس قدر ترقی کر بجائے علم نفتم نہیں ہوتا.اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے.قُلْ لَوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا نے رپورٹ سالانہ صدر انجمین احمدیہ پاکستان ربوه باست تا مش صفحه ۱۹۹ سالانه را کے رویداد سالانہ تعلیم الاسلام کا رنج باست و مش صفر ۱۲۳ کالج ۱۹۶۳
106 لعلماتِ رَبِّي لَنَفِدَ البَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ كَلِمَاتُ رَبِّي وَلَوجْتُنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًا کہہ دے کہ اگر سمندر کو سیاہی بنا کر اس سے خدا تعالے کی معرفت کی باتیں، اس کے دیئے ہوئے علوم اور قدرت کے راز ضبط تحریر میں لانا چاہو تو وہ ایک سمندر کیا اس جیسا ایک اور سمندر بھی لے آؤ تو وہ بھی ختم ہو جائے گا مگر خدا کی باتیں اور اس کے دیئے ہوئے علوم نختم نہ ہوں گے.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور حضور کی اتباع میں ہر مسلمان کی زبان سے یہ کہلوایا کہ رب زدني علمًا.اے اللہ مجھے اپنی معرفت اور علم میں بڑھانا پھلا جا.پس علم کبھی نہ ختم ہونے والی چیز ہے.اس لئے آپ تادم حیات علم کی جستجو میں رہیں اور اس کے حصول کے لئے ہمیشہ کوشاں رہیں.اللہ تعالے ہمیشہ آپ کے ساتھ ہو لئے ماه امان / مارچ پیش کی سالانہ تقریب کے موقعہ پر کامیاب طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:.حقیقی علم کا ابدی سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے.سنی سنائی باتوں یا درسی کتب سے آپ نے جو کچھ بھی حا صل کیا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے گھڑے یا مشکیزے کا پانی جو اپنے عرشیہ سے دور ہو جانے کی وجہ سے مرور زمانہ کے ساتھ متعفن، بدبودار اور مضر صحت ہو جاتا ہے.اگر آپ علم سے محبت رکھتے ہوں تو ضروری ہے کہ آپ کا تعلق علم کے حقیقی سرچشمہ سے ہمیشہ مضبوط رہے.پس اپنی عقل اور علم پر تکیہ نہ کرو بلکہ ہمیشہ علام تحقیقی کے آستانہ پر عاجزی اور انکساری کے ساتھ مجھکے رہوتا اس تعلق کے طفیل تمہارے دلوں سے بھی ہمیشہ مصفی ، میٹھے اور لذیذ علم کے چشمے پھوٹتے رہیں.اگر تمہارا یہ تعلق اپنے رب سے جو خالق محل اور حالم گل ہے پختہ اور مضبوط رہا تو علم و حکمت کا ایسا خزانہ تمہیں ملے گا جو دنیا کی تمام دولتوں سے اشرف ہے.دنیا کی دولت قانی ہے لیکن علم و حکمت کا جو خزانہ تمہیں بھی گا اس پر فنا نہیں آئے گی.پس دُعا اور عاجزی کے ساتھ اپنے محسن، اپنے ریت سے بصیرت اور معرفت طلب کرتے رہو.یہ بھی نہ بھولنا کہ انسان علم اس لئے حاصل کرتا ہے کہ خود اس سے فائدہ اُٹھائے اور دوسرو کی خدمت کرے تحقیقی علم کے حصول کے بعد انسان ہزارہ برائیوں سے بچتا اور بے شمار نیکیوں کی توفیق پاتا ہے.اور بڑا ہی بد بخت ہے وہ جسے معرفت تو عطا ہوئی ، جس نے علم تو حاصل کیا مگر ل رسالة "المنار" بابت وقا ظہور تبوک / بولائی اگست ستمبر مش مسلم ۳۷- ۳۸ + /
اس کے باوجود وہ غفلت اور گمراہی میں ہی پڑا رہا.نہ خود قائدہ اُٹھایا نہ دوسروں کی خدمت کر سکا.پس ہمیشہ عالم باعمل بننے کی کوشش کرو.خدا تعالے تمہارے ساتھ ہو اور اپنے سایہ رحمت میں ہمیشہ تمہیں رکھے" نے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ( ایدہ اللہ تعالے) کی پونات تعلیم الاسلام کالج سے تعلق قیادت کے زمانہ میں کالج کا نظام تعلیم و تربیت کس درجہ کامیاب دوسروں کے تاثرات رہا اس کا کسی قدر اندازہ ان تاثرات سے بھی بخوبی لگایا جا سکتا ہے جن کا اظہاری غیر از جماعت حلقوں سے تعلق رکھنے والے مشہور اہل علم اور سر بر آوردہ اصحاب نے کیا ہے.-۱ میاں افضل حسین صاحب (وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی) میرے لئے یہ امر باعث مسرت ہے کہ تعلیم الاسلام کالج ہر اعتبار سے ترقی کی راہ پر گامزن ہے.پروفیسر سراج الدین صاحب سکرٹری محکمہ تعلیم مغربی پاکستان) خالصہ ذاتی عزم و کوشش کے نتیجہ میں ربوہ میں تعلیم الاسلام کا لج عیسی درسگاہ کو قائم کر دکھانا اور پھر اسے پروان چڑھا کر اس کے موجودہ معیار پھر لانا ایک عظیم کارنامہ ہے.تعلیم الاسلام کالج کی بید خوش قسمتی ہے کہ اسے ایک ایسے پرنسپل کی راہنمائی حاصل ہے جو ایمان دقتین ، خلوص و فدائیت اور بلند کرداری کے اعلیٰ اوصاف سے مالا مال ہے.آج ہم کو ایسے ہی باہمت ، بلند حو صلہ اور اہلی انسانوں کی ضرورت ہے.ہر چند مجھے پہلی بار تعلیم الاسلام کا لج کی حدود میں قدم رکھنے کا اتفاق ہوا ہے تاہم میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میرے دل میں اور ان تمام لوگوں کے دلوں میں جو اس صوبے میں تعلیم سے کسی نہ کسی طرح متعلق ہیں محبت کا ایک خاص مقام ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ تعلیم الاسلام کا لج دو نمایاں اور ممتاز شخصیتوں والد اور فرزند کی محنت ، محبت اور شفقت کا ثمرہ ہے.میری مراد آپ کی جماعت کے واجب الاحترام امام ہو اس کالج کے بانی ہیں اور اُن کے لائق و فائق فرزند مرزا ناصر احمد سے ہے.وہ اپنے مشہور و معروف خاندان کی قائم کردہ روایات کو وقف کی روح اور ایک ایسے بعد یہ وجوش کے ساتھ چلا رہے ہیں کو دوسرے ممالک میں بھی شاذ ہی نظر آتا ہے.جب میں اس کالج پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے انگلستان ه روند ے رویے کو سالانہ تعلیم الاسلام کالج ش صفحه ۲۱ + " الفصل ۲ احسان جون ۳۰ ساله مش صفحها : 1900
109 اور امریکہ میں علم کی ترویج اور اس کے فروغ کے متعلق انسانوں کے وہ عظیم محسن یاد آئے بغیر نہیں رہتے جنہوں نے خدمت کی نیت سے آکسفورڈ، کیمبرج اور ہار ووڈ میں کالج قائم کئے.خالصتہ ذاتی عزم و ہمت کے بل بوتے پر ربوہ میں ایک ایسی درسگاہ قائم کر دکھانا ایک عظیم کارنام ہے اور پھر اس کی آبیاری کرنا اور پروان چڑھا کر اُسے حسن و خوبی اور مضبوطی داستحکام سے مالا مال کر دکھانا اور بھی زیادہ قابل ستائش ہے.ایک ایسے پرائیویٹ ادارے کو دیکھ کر جو باہمی مخاصمت اور ایک دوسرے کے خلاف سازشوں سے پاک ہو اور جس کی تمام تر کوششیں اعلیٰ تو مقاصد کے حصول کے لئے وقف ہوں، استعیاب اور رشک کے جذبات کا اُبھرنا ایک قدرتی امر ہے آپ کے امام جماعت کو علم اور اس کی ترویج سے جو محبت ہے آپ کے پرنسپل صاحب اور ممبران اسٹاف ایسے ماہرین تعلیم بھی اس میں حصہ دار ہیں.مرزا ناصر احمد صاحب جنہیں اپنے شاگردوں میں شمار کرنا میرے لئے باعث عزت ہے برصغیر ہند و پاکستان کے نامور فاضل اور ماہر تعلیم ہیں.یہ کالج کی خوش قسمتی ہے کہ اُسے ایک ایسے پیپل کی راہ نمائی حاصل ہے جو اپنی زندگی میں آج کے دن تک بڑی مستقل مزاجی کے ساتھ مقررہ نصب العین کے حصول میں کوشاں چلے آرہے ہیں اور زمانے کے اُتار چڑھاؤ ان کے لئے کبھی سد راہ ثابت نہیں ہو سکے.ان سے کم اہلیت اور کم عزم و حوصلہ کا انسان ہوتا تو زمانے کے اُتار پڑھاؤ سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتا.ہمیں ایسے ہی آدمیوں کی ضرورت ہے جو ایمان و یقین ، فدائیت اور بلند کرداری کے اوصاف سے متصف ہوں.مرزا ناصر احمد سے تعارف اور ان کی دوستی کے شرف سے مشرف ہونا عزم وہمت کے از سر تو بحال ہونے کے علاوہ خود اپنے آپ کو اس مستقبل کے بارے میں جو زمانے کے پرایا نائی بادلوں کے پیچھے پوشیدہ ہے ایک مچھتہ اور غیر متز ازل استحاد سے بہرہ ور کرنے کے مترادف ہے" جناب حماد رضا صاحب کمشنر سرگودھا ڈویژن " میں مبارک باد دیتا ہوں اس کالج کے بانیوں کو کہ انہوں نے اس ادارہ کو قائم کیا.اور پھر اُسے ترقی دے کر اس حد تک لائے اور اب اسے اور ترقی دینے کے خواہاں ہیں.مجھے نسل "المنار" جلد ۱۲ شماره ۳/۲ صفحه ۶,۵:
14.صاحب سے پتہ چلا ہے کہ ہر سال ہی کالج کے نتائج یونیورسٹی اور بورڈ کی شرح فیصد سے زیادہ رہتے ہیں.یہ امر واقعی باعث مسرت ہے.میں پرنسپل صاحب اور اُن کے سٹاف کی خدمت میں دلی مبار کیا دو عرض کرتا ہوں کہ وہ ایک ایسے ادارہ کی سر براہی کا فرض ادا کر رہے ہیں جیس پھر وہ فخر کر سکتے ہیں اے ہم سابق سیکرٹری محکم تعلیم جناب انور عادل صاحب سی.امیں پی سیکورٹی کی صوبائی وزارت داخلہ "بلاشبہ آپ کا یہ تعلیمی ادارہ اس لحاظ سے بہت خوش قسمت ہے کہ اُسے وہ ماحول میتر ہے جسے ہم صحیح معنوں میں تعلیمی ماحول کہتے ہیں.یہاں دھیان بٹانے اور توجہ ہٹانے والی بے مقصد قسم کی غیر علمی مصروفیات نا پید ہیں.یہی وجہ ہے کہ اس خالص تعلیمی ماحول میں حصوں تعلیم اور کردار سازی کے نقطہ نگاہ سے آپ کو یہاں ایک بھر پور زندگی بسر کرنے کا زرین موقع سماں ہے اور آپ لوگ سیرت و کردار کے یکساں سانچوں میں ڈھلتے ہوئے نظر آتے ہیں“ ۲.جسٹس سجاد احمد جان جمج عدالت حالیہ مغربی پاکستان لاہور اس ادارہ میں تربیت کی کشتی کے چپو بڑے ہی پختہ کا رہا تھوں میں ہیں جو جانتے ہیں کہ ماحول کے ساتھ مناسبت پیدا کر کے بالآخر ماحول پر کس قدر غلبہ پایا جا سکتا ہے.یہ بجائے نود بہت بڑی خوبی پر دلالت کرتا ہے، سے - جسٹس انوار الحق صاحب جمع ہائیکورٹ مغربی پاکستان لاہور آج آپ کے ادارہ میں آکر میری اپنی طالب علمی کا دور میری آنکھوں کے سامنے آگیا.آکسفورڈ جیسی فضا دیکھ کر میرے دل میں پرانی یادیں تازہ ہو گئی ہیں اور میں یہ سوچ رہا ہوں کہ آپ لوگ خوش قسمت ہیں کہ آپ کو مثالی تعلیم اور تربیتی ماحول میسر ہے جہاں دوسری جگہوں کی بیشتر انگیز مصروفیات نا پید ہیں" ہے - پروفیسر حمید احمد خال صاحب وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی یہ کالج دوسری غیر سرکاری درسگاہوں کی طرح ہمارے قومی نظام تعلیم میں ایک خاص الفضل ا ا ا اد اکتوبر نمایش صفحه دو کے سالانہ رپورٹ تعلیم الاسلام کا لج - ۱۹۶۱ و صفحه ۰۴ در فتح ا دسمبر له میش ار
141 مقام رکھتا ہے.مجھے اس میں قطعا شبہ نہیں کہ قومی جماعتوں اور انجمنوں کی قائم کی ہوئی درسگا ہیں اپنی خامیوں اور کمزوریوں کے باوجود ہماری اجتماعی زندگی میں ایک بنیادی ضرورت کو پورا کر رہی ہیں اور ان کے نہ ہونے سے ہماری زندگی میں ایک خلا ہو گا " سے - مولانا صلاح الدین احمدہ ایڈیٹر " ادبی دنیا " آپ کی : خوش بختی یہ ہے کہ آپ نے جس ادارے میں تعلیم و تربیت پائی ہے وہ دنیا میں دین کے امتزاج کا ایک نہایت متوازن تصور پیش کرتا ہے نہ صرف پیش کرتا بلکہ اسے عمل مسلسل اور میں ملبوس بھی کرتا چلا جاتا ہے.مقدا وہ دن بلد لائے جب ہم اس کالج کو ایک معیاری ، مکمل متفرد کلیہ کی حیثیت و صورت میں دیکھ سکیں اور کوئی وجہ نہیں کہ یہاں کام کو کام بلکہ ایک میشن تصور کیا جاتا ہے، جہاں طلباء کو فقط پڑھایا نہیں جاتا بلکہ ان کے مزاجوں میں ایک کو شکن سنجیدگی اور کردار میں ایک شریفانہ صلاحیت پیدا کی بھاتی ہے اور جہاں اساتذہ کی قربانیاں اور جانفشان بیا اپنے پیچھے ایک کہکشان نور چھوڑتی چلی جاتی ہیں وہاں ہی خیر کی تمنائیں کیوں نہ فروغ پائیں گی اور موال تسلم کے عزائم کیوں نہ پورے ہوں گے مائے - ڈاکٹر ظفر علی ہاشمی وائس چانسلر زرعی یونیورسٹی لائل پور تعلیم الاسلام کالج ملک کا وہ ممتازہ ترین ادارہ ہے جہاں کے طلباء کا اوڑھنا بچھونا عسلم ہے اور وہ علم کے حصول کو بھی ایک عبادت تصور کرتے ہیں.آپ لوگ اپنی قومی زبان کی جو خدمت کر رہے ہیں وہ ہر لحاظ سے قابل تحسین قابل ستائش ہے" سے 10 مولاناعبدالمجید صاحب سالک مدینہ انقلاب " لاہور اور تعلیم الاسلام کالی احمدی جماعت اور پرنسپل میان ناصر احمہ کی مخلصانہ مساعی اور شبانہ روز محنت کا ایک عظیم الشان معجزہ ہے.اس کالج کے کارکن جماعت کے تعمیری و تعلیمی تصورات کی تکمیل میں ہمہ تن مصروف ہیں اور میرے نزدیک اس درسگاہ کی سب سے بڑی خصوصیت اور برکت یہ "المنار" جلد ۱۲ شماره ۴۰۳ " که " الفضل امادر اکتوبر تار میش صفحه + التقاء بس " المنار " اتحاد - نبوت - فتح / اکتوبر نومبر دسمبر ۳۳۲ رش صفحه ۶۱۶
۱۶۲ ہے کہ ربوہ کی تضاد آجکل کی شہری آلودگیوں سے قطعی طور پر محفوظ ہے اور وہ ترغیبات بالکل مفقود ہیں جو تہ بیت اخلاقی میں حائل ہو کر تعلیم کے بلند تصورات کو یہ باد کر دیتی ہیں.اللہ تعالئے اس درسگاہ کو پاکستانیوں کیلئے زیادہ سے زیادہ مفید و با برکت بنائے اور اس کے کار پردازوں کو بیش از پیش سعی و بعد یہ ہے کی توفیق عطا فرمائے.دیوه از فروری سنشه عبد المجید سالک جناب عبد الحمید صاحب دوستی وزیر تعلیم مغربی پاکستان تعلیم الاسلام کالج ربوہ کی اسلامی روایات قابل تقلید دستائش ہیں پرنسپل میاں ناصر احمد کی مساعی ادارے کی ہر نوع میں تعمیر کے متعلق مبارکباد کی مستحق ہیں.ادارہ سے سیکھے معائد سے مجھے بہت اطمینان اور راحت نصیب ہوئی ہے.اللہ تعالے اس درسگاہ کو برکتیں عطا فرمائے.عبد الحمید دوستی ار مارچ سٹے ھو تعلیم الاسلام کالج اور متعلقہ اداروں کو دیکھ کر ہمیں روحانی مسرت حاصل ہوتی ہے.چند سالوں میں یہاں جس تیز رفتاری اور خوش اسلوبی سے توتی ہوئی ہے وہ کارکنوں کے خلوص، بلند ہمتی اور استقلال کا نتیجہ ہے.توقع ہے کہ یہ جگہ تھوڑے ہی برسیمے میں ہمارے ملک کی ایک معیاری اور قابل رشک جگہ ہوگی" فصل من فتم کالج کے کئیں اردو میں ماؤں کی برک سے آسمانی فرقوں کے موج ہو تا ہے ؟ حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب مئی ہجرت ر ش سے لے کر مہر نبوت / نومبر تک کالج کے سربراہ رہے.ازاں بعد مخدائے عزوجل کی طرف سے آپ کو دُنیا بھر کی تعلیم و تربیت اور راہ نبھائی کے لئے منصب خلافت پر سرفراز فرما دیا گیا.آپ کے اکیس سالہ تعمیری و اصلاحی دور قیادت میں اس درسگاہ نے انتہائی نا موافق اور پر خطر حالات اور بے حد مشکلات کے باوجود جو فقید المثال ترقی کی وہ بلاشبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم
کے فرزند جلیل حضرت مسیح موعود و مہدی مسعود علی الت لام کی بیت الدعا والی دعاؤں کی قبولیت کا زیر دست نشان ہے جو رہتی دنیا تک قائم رہے گا.مگر ان دعاؤں کی تاثیرات کو کھینچ لانے میں سیدتنا المصلح الموعود رضی اللہ کی راہنمائی ، روحانی توجہ اور قوت قدسیہ کے ساتھ ساتھ حضرت صاحبزادہ صاحب ایدہ اللہ تعالے کی اُمی درد و سوز میں ڈوبی ہوئی دُعاؤں کا بھی یقیناً بھاری دخل ہے جو آپ ہمیشہ اس درسگاہ کے لئے کرتے رہے اور جن کے نتیجہ میں قدم قدم پر خدائی نصرتوں اور برکتوں کا ظہور ہوا.اور جن کا ایمان افروز مختصر ساتھ کہ حضرت خلیفہ المسیح الثالث ایک اللہ تعالے کی زبان مبارک سے اس آخری فصل میں کیا جاتا ہے.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۲۵ نبوت / نومبر پر میش کو اساتذہ و طلبہ تعلیم الاسلام کا رچ کو خطاب کر تے ہوئے ارشاد فرمایا :- میں اس درسگاہ سے قبل مختلف دوروں سے گزرا ہوں.طالب علمی کے زمانہ میں پہلے میں نے قرآن کریم حفظ کیا.پھر دینی اور عربی تعلیم حاصل کی اور پھر دنیوی تعلیم کے حاصل کرنے کی کوشش کی گورنمنٹ کالج میں پڑھا.پھر انگلستان گیا اور آکسفورڈ میں بھی پڑھا.جب میراتعلیمی زمانہ ختم ہوا اور میں انگلستان سے واپس آیا تو حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے جامعہ احمدیہ میں بطور استاد لگا دیا.اس وقت مجھے عربی تعلیم چھوڑے قریباً دس سال کا عرصہ گذر چکا تھا.اس لئے میرے دماغ نے کچھ عجیب سی کیفیت محسوس کی.کیونکہ وہ علوم بتو میرے دماغ میں اب تازہ نہیں رہے تھے وہی علوم مجھے پڑھانے پر اب مقرر کر دیا گیا اور میں نے دل میں کہا کہ اللہ شیر کرے اور مجھے توفیق دے کہ میں اپنی ذمہ واری کو صحیح طور پر تباہ سکوں.تھوڑے ہی عرصہ کے بعد مجھے جامعہ احمدیہ کا پرنسپل بنا دیا گیا.اس وقت مجھے اللہ تعالیٰ کے پیار اور حسن کا عجیب تجربہ ہوا اللہ تعالیٰ نے یہ فضل کیا کہ میری کلاس جب پہلی دفعہ یونیورسٹی میں گئی تو جہانتک مجھے یاد پڑتا ہے سارے کے سارے طلبہ پاس ہو گئے.اس وقت مجھے اپنے رب کی قدرتوں کا مزید یقین ہوا.اور میں نے سمجھا کہ علوم کا سیکھنا اور سکھانا بڑی حد تک اللہ تعالیٰ کے فضل پر منحصر ہے اور کمزور انسان ہونے کی حیثیت سے ہماری کوششوں میں جو کمی رہ بھاتی ہے اس کی کمی کو ہم اپنی دعاؤں سے پورا کر سکتے ہیں.یہ تجربہ ر آمنہ سے اب تک مجھے رہا ہے.آپ جانتے ہیں کہ اس کا لج میں بھی سب سے کم لیکچر دینے والا میں ہی تھا.اگر دو مگر اساتذہ
147 سو سولیکچر دیتے تو میں چالیس پچاس سے زیادہ لیکچر نہ دے سکتا تھا.شاید کچھ اپنی غفلت کی وجہ سے اور کچھ اپنی دیگر ذمہ واریوں کی وجہ سے.بہر حال یہ ایک حقیقت ہے کہ اس کے حضور دعائیں کرنے کی وجہ سے یہ اللہ تعالے کا فضل رہا ہے کہ جو پر پھر میں پڑھاتا رہا ہوں (اکنامکس اور پولٹیکل سائنس پڑھائے ہیں) اس کے بڑے اچھے نتائج نکلتے رہے ہیں.ایک کلاس میری ایسی تھی کہ جین کے متعلق ایک دفعہ مجھ پر یہ اثر ہوا کہ میں نے کچھ حصے ان کو صحیح رنگ میں نہیں پڑھائے اور اس میں طلبہ کمزور ہیں.امتحان سے پندرہ بیس دن پہلے مجھے خیال آیا کہ ایک عنوان ایسا ہے کہ اگر میں اس کے متعلق ان کو نوٹ تیار کر کے دے دوں تو خدا کے فضل سے یہ طلبہ بڑا اچھا نتیجہ نکال لیں گے چنانچہ میں نے ایک نوٹ تیار کیا اور کوشش کر کے میں نے خود طالب علموں کے پاس پہنچایا اور ان کو کہا کہ اس کو یاد کر لو بچنا نچہ جب پر چھہ آیا تو اس میں تین سوال ایسے تھے جو میرے اس نوٹ کے ساتھ تعلق رکھتے تھے اور چونکہ وہ مختصر اور کمپری ہینسیو (مکمل) تھا اور تازہ تازہ ان کے ذہن میں تھا.اس لئے میرا خیال ہے کہ اس سال نصف سے زیادہ طلبہ نے اس پر چہ میں فرسٹ ڈویژن حاصل کیا.اس طرح اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا.پس میرے اپنے سارے زمانہ میں یہ تجربہ رہا ہے کہ جب ہم اپنے رب کی طرف عاجز بھی اور انکاری کے ساتھ جھکتے ہیں تو وہ اپنے فضل اور رحم کی بارشیں ہم پہ کرتا ہے.ہمارا خدا بخیل نہیں بلکہ بڑا دیا لو ہے.اگر کبھی ہم کامیاب نہیں ہوتے تو اس کا سبب صرف یہ ہوتا ہے کہ ہم بعض دفعہ لا پروائی سے کام لیتے ہیں اور اس کی طرف جھکنے کی بجائے دوسرے دروازوں کو کھٹکھ اپنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ دروازے کھولے نہیں جاتے.تو اس زمانہ میں جب میں جامعہ میں تھا میں نے اپنا دل اور دماغ اس ادارے کو دے دیا تھا اور بڑی محنت سے اس کی نشو و نما کی طرف توجہ کی تھی.اور اس زمانہ میں جب میں نے حسب لگایا تو مجھے اس بات سے بڑی خوشی ہوئی کہ پہلے یا دوسرے سال جیتنے جامعہ احمدیہ کے واقفین زندگی تبلیغ اسلام کے میدان میں اُترے اس سے پہلے پانچ یا سات سال کے طلبہ کی مجموعی تعداد بھی اتنی نہ تھی.اور اس زمانہ کے بہت سے طالب علم ہیں جو اس وقت تبلیغی میدان میں کام کر رہے ہیں.
۱۶۵ پھر ء میں جب میں اپنی بیگم کی بیماری کی وجہ سے اُن کے علاج کے لئے دہی گیا ہوا تھا.اچانک ایک دن ڈاک میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خط مجھے ملا کہ یہاں قادیان میں ایک کالج کھولنے کا فیصلہ ہوا ہے اور حضرت صاحب نے تمہیں اس کا لچ کا پرنسپل مقرر فرمایا ہے.میں بڑا پریشان ہوا.کہ پہلے میں عربی قریب بھول چکا تھا تو مجھے جامعہ میں لگا دیا گیا.جب میرا ذہن کلی طور پر اس چیز کی طرف متوجہ ہو چکا ہے تو مجھے وہاں سے ٹرانسفر کر کے ایک انگریزی ادارے کا پرنسپل بنا دیا گیا ہے.اس وقت ابھی صرف انٹر میڈیٹ کالج تھا.خیر خدا تعالیٰ سے ڈھا کی کہ وہ اس ذمہ داری کو بھی نبھانے کی توفیق دے اور ہماری کوششوں میں برکت ڈالے.ابتدلو بالکل چھوٹے سے کام سے ہوئی.اس جماعت پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس میں جو ساتھی ملتے ہیں وہ بڑے پیار سے کام کرنے والے اور تعاون کرنے والے ہوتے ہیں.گو بہت سے میری طرح بالکل RAW (عام) تھے.میں اس وجہ سے RAW تھا کہ اس میدان سے بالکل ہٹ چکا تھا اور عربی کی طرف متوجہ ہو چکا تھا.اور اکثر ان میں سے وہ تھے جو ایم.اسے پاس کرتے ہی وہاں آگئے تھے جنہیں کوئی تجربہ نہ تھا.باقی سب RAW ہی تھے.ہم نے جو کوششیں کیں وہ تو کیں ، ہمارے جو وسائل تھے شاید آپ ان کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے.ایک چھوٹی سی مثال سے اس کو واضح کر دیتا ہوں.وہ یہ کہ ایک لیے عرصہ تک پرنسپل کے دفتر کے سامنے بچی بھی نہ تھی.دروازہ یونہی کھلا رہتا تھا.پھر ان چھتوں کے حصول کے لئے محترم قاضی محمد اسلم صاحب کو پیش سفارش کرنی پڑی.تب جا کر اس دفتر کو چھتیں نصیب ہوئیں اور ایک حد تک اطمینان اور پرائیویسی جو کام کرنے کے لئے ضروری ہوتی ہے ہمیشتر آئی.پھر مالی لحاظ سے بھی تعدا تعالے کا میرے ساتھ عجیب سلوک رہا ہے کہ میں نے کبھی نہیں سوچا وہ اور نہ دیکھا اور نہ بہتر کیا کہ ہمارے کھاتوں میں کتنی رقم ہے ہمیشہ یہ سوچا کہ جو خرچ آپڑا ہے ضروری ہے کہ نہیں اور اس شرح میں کوئی فضول خرچی تو نہیں.نا جائز حصہ تو نہیں.اگر جائز ضرورت ہوتی تو پھر یقین ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر رحم کرتے ہوئے اس بجائز ضرورت کو پورا کرنے کی ذمہ دار لی ہوئی ہے.پھر جب سال گذرتا، حساب کرتے تو ساری رقوم ایڈ جسٹ ہو جائیں اور کبھی فیکریا تردد کرتا نہیں پڑا.ورقہ یہ کالج جس میں آپ اس وقت بیٹھے ہیں کبھی نہ بنتا.
144 جب میں نے اس کالج کا نقشہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے حضور پیش کیا تو آپ مسکرائے اور فرمایا کہ اتنا بڑا کالج بنانے کے لئے میرے پاس پیسے نہیں.میں تمہیں ایک لاکھ روپیہ کالج کے لئے اور پچاس ہزار روپیہ ہوسٹل کے لئے دے سکتا ہوں.اور یہ نہیں کرنے دوں گا کہ کالج کی بنیادیں اس نقشہ کے مطابق بھر لو اور پھر میرے پاس آجاؤ کہ جی! آپ کا دیا ہوا لاکھ روپیہ خرچ ہو گیا ہے.کالج کی صرف بنیادیں بھری گئی ہیں تکمیل کے لئے اور پیسے دے دو پس انجنیر سے مشورہ کر کے اس نقشہ پر سُرخ پنسل سے نشان لگواؤ کہ ایک لاکھ سے بلڈنگ کا اتنا حصہ بن جائے گا وہ میں نے تم سے بنا ہوا لے لیتا ہے.میں نے اس وقت جرات سے کام لیتے ہوئے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ ٹھیک ہے میں حضور سے پیسے مانگنے نہیں آیا ، نقشہ منظور کرانے آیا ہوں اس کے لئے حضور دعا فرماویں.میں لکیریں لگوا کر لے آؤں گا.لیکن مجھے اجازت دی جائے کہ جماعت سے عطایا وصول کر سکوں.حضور نے فرمایا.ٹھیک ہے عطا یا وصول کرو لیکن لکیریں ڈلوا کر لاؤ.میں نے نقشہ پر مشورہ کرنے کے بعد لکیریں ڈالیں.پھر حضور کی خدمت میں پیش کیا.تب حضور نے منظوری دی کہ کام شروع کر دو لیکن اس کے بعد نہ مجھے یاد رہا کہ وہ لکیریں کسی حصہ پر ڈالی گئی تھیں نہ حضور کو یہ کہنے کی ضرورت پڑی کہ لکیریں کہیں اور ڈالی گئی تھیں اور کالج کا پی ٹی زیادہ ہو گیا ہے اور رقم کا مطالبہ کہ یہ ہے ہو.تو اللہ تعالیے ہر مرحلہ پر آگے بڑھنے کی توفیق دیتا چلا گیا.جب ہم ایک جگہ پہنچتے تو میں اپنے ساتھیوں کو جو تعمیر کر رہے تھے کہ دیتا کہ اگلا کام بھی شروع کر دو جب وہ حصہ بن جاتا تومیں کہتا کہ اب اگلا حصہ بھی بنا لو.میں شاہد ہوں اس بات کا اور پورے یقین اور وثوق کے ساتھ آپ کو یہ بات بتا رہا ہوں کہ آجتک مجھے (جو خرچ کرنے والا تھا ، پتہ نہیں کہ یہ رقم کہاں سے آئی جیسا کہ آپ بھانتے ہیں سب آمد خوانہ میں جاتی ہے اور سب خرج چیکوں کے ذریعہ ہوتا ہے لیکن کبھی ہم نے اس کو سمیٹا نہیں.یہ کالج کی عمارت ، ہوسٹل اور دوسری بلڈنگیں ہیں وہ سب ملا کر ایک لاکھ مرتع نٹ سے اوپر ہیں اور میرارت اندازہ ہے کہ ان پر چھ سات لاکھ سے پہیہ کے درمیان خرچ آیا ہے.بعض دفعہ اچھے پڑھے لکھے غیر از جماعت دوست آتے ہیں اور ان سے بات چیت ہوتی
144 ہے تو وہ یقین نہیں کرتے کہ اتنی تھوڑی رقم میں اتنی بڑی عمارت کھڑی ہو سکتی ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ شاید ہم اُن سے چھالا کی کہ رہے ہیں، صحیح رقم بتانے کے لئے تیار نہیں.تو جہاں تک ضروریات اور اسباب کا سوال ہے اللہ تعالٰی نے شہ سے ہی اس ادارے پر اپنا خاص فضل کیا ہے اور اپنی رحمتوں کے سائے میں اُسے رکھا ہے.وہ ہماری کمزوریوں کو اپنی مغفرت کی چادر سے ڈھانپ لیتا ہے اور نتائج محض اس کے فضل سے اچھے نکلتے ہیں.میرے دل میں کبھی یہ خیال پیدا نہیں ہوا.اور مجھے یقین ہے کہ میرے ساتھیوں کے دل میں بھی کبھی یہ خیان پیدا نہیں ہوا ہو گا کہ یہ سب کچھ ہماری کوششوں کا نتیجہ ہے کیونکہ ہم اپنی کوششوں کو خوب جانتے ہیں اور ہم سے زیادہ ہمارا رب بھانتا ہے.جس ادارے پر اللہ تعالیٰ نے اس کثرت کے ساتھ اپنے فضل اور احسان کئے ہوں اس ادارہ کی طرف منسوب ہونے والے خواہ وہ پر وفیسر ہوں یا طلبہ ان سب کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر وقت اپنے رب کی حمد کرتے رہیں تاکہ اس کے فضلوں کا یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے.جہاں تک میرے جذبات کا سوال ہے تو جو میرے بعد بات پہلے جامعہ احمدیہ کے متعلق تھے وہی جذبات میرے دل میں اس ادارہ کے متعلق پیدا ہوئے اور میں اپنے دل کو ، اپنے دماغ کو اور اپنے جسم کو اس ادارہ کے لئے خدا کے حضور بطور وقت پیش کر دیا اور بڑی محبت اور پیار کے ساتھ اس کو چلانے کی کوشش کی اور ان طلبہ کو جو یہاں تعلیم پاتے تھے میں نے اپنے بچوں سے زیادہ عزیز سمجھا.بیشک میں نے جہاں تک مناسب سمجھا سختی بھی کی.لیکن اس وقت سختی کی جب میں نے اُسے اصلاح کا واحد ذریعہ پایا اور بعد میں مجھے اس دُکھ کی وجہ سے راتوں جاگنا پڑا کہ کیوں میرے ایک بچہ نے مجھے اس سختی کے لئے مجبور کر دیا حتی کہ مجھے یہ قدم اٹھانا پڑا.کئی راتیں ہیں جو میں نے آپ کی خاطر جاگتے گزار دیں اور ہمیشہ ہی آپ کے لئے دکھائیں کرتا رہا اور پھر میں نے اپنے رب کا پیار بھی محسوس کیا کہ وہ اپنے فضل سے میری اکثر دعائیں قبول کرتا رہ اور کبھی کسی موقعہ پر بھی میرے دل میں ناکامی نامراد کی یا نا امیدی کا خیال تک پیدا نہیں ہویا، اور نہ ہی ان دلوں میں پیدا ہونا چاہیئے جنہوں نے اس کام کو کرنا ہے " له الفضل دار فتح / دسمبر له میش : +
۱۶۸ ین دوسرا باب مین پرچم اسلام کرنے کا عزم خلف وقت کی حفاظت کالم بر صغیر کی احمدی جماعتوں کیلئے انداز ساتن الحالمو کی آخری شادی، ستیارتھ پرکاش کے مکمل جواب توری مصلیوں کے ورجدید کاپہلا سانابل اور دور اہم متفرق واقعت اہم فصل اوّل ماہ شہادت اپریل تا ماه احسان جون ۱۳۴۳ بیش ۶۱۹۴ اسلام کالج کی مفصل تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے ،اہ امان / مارچ ہر مہیش سے ابتدا کر کے لہ کے آخر تک پہنچ گئے تھے.اب ہم ۱۳۲۳ میش کے بقیہ اہم واقعات کی طرف پلٹتے ہیں.جماعت کےصحابہ کے بابرکت وجود حضرت امیر المومنین خلیفه تأسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمیشہ ہی احباب جماعت کو یہ تلقین فرماتے رہتے تھے کہ وہ صحابیہ کے سے فائدہ اٹھانے کی خاص ہدایت مبارک زمانہ کو غنیمت سمجھیں، ان سے فیض صحبت اٹھائیں اور ان کے
149 نگ میں رنگین ہو کر زندہ ایمان اور کامل عرفان پیدا کرنے کی کوشش کریں.اسی سلسلہ میں حضور نے پیش کے آغاز میں ایک درد انگیر خطبہ ارشاد فرمایا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخلص صحابہ میں سے خصوصاً حضرت منشی رستم علی صاحب (آف مدار ضلع جالندھر) کے جذبہ ایثار و فدائیت کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ چوہدری رستم علی صاحب غالباً پہلے سب انسپکڑ تھے.پھر خدا تعالیٰ نے ان کو انسپکٹر بنا دیا.سب انسپکڑی کی تنخواہ میں سے وہ ایک معقول رقم ماہوار چندہ کے طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والت سلام کو بھجوایا کرتے تھے.اس وقت غالباً اُن کی انتی روپے تنخواہ تھی.پھر خدا تعالیٰ نے اُن کو انسپکٹر بنا دیا.اور ان کی ایک سواستی روپے تنخواہ ہو گئی جب ان کا خط آیا اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام بیمار تھے.میں نے خود اُن کا خط پڑھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة و السلام کو سنایا.انہوں نے خط میں لکھا تھا.اللہ تعالیٰ نے مجھے عہدہ میں ترقی دے کو تنخواہ میں ایک شور و پیر کی زیادتی عطا فرمائی ہے.مجھے اپنے گزارہ کے لئے زیادہ روپوں کی ضرورت نہیں.یں سمجھتا ہوں اللہ تعالیٰ نے میری تنخواہ میں یہ اضافہ محض دین کی خدمت کے لئے کیا ہے اس لئے میں آئندہ علاوہ اس چندہ کے جوئیں پہلے ماہوار بھیجا کرتا ہوں یہ سو روپیہ بھی جو مجھے ترقی کے طور پر ملا ہے ماہوار بھی مختار ہوں گا.دیکھو اس قسم کے نمونے آجکل کتنے نادر ہیں ؟ مگر اس وقت کثرت سے جماعت میں اس قسم کے نمونے پائے جاتے تھے لیکن میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد ان کو دیکھا کہ اُن کے دل اس بات پر خوش نہیں تھے کہ انہوں نے جو کچھ کیا وہ کافی تھا بلکہ بعد میں جب انہوں نے محسوس کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وجود اس سے بہت زیادہ اہم تھا جتنا انہوں نے سمجھا اور اس سے بہت زیادہ آپ کے وجود پر دنیا کی ترقی کا انحصار تھا جس قدر انہوں نے پہلے خیال کیا تو ان کے دل روتے تھے کہ کاش انہیں یہ بات پہلے معلوم ہوتی اور وہ اس سے بھی زیادہ خدمت کر سکتے.مگر پھر انہیں یہ موقعہ نصیب نہ ہوا.اور وقت ان کے ہاتھ سے پہلا گیا.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے زمانہ میں کئی لوگ ایسے تھے جنہیں قادیان میں صرف دو تین دفعہ آنے کا موقعہ ملا اور انہوں نے اپنے دل میں یہ سمجھا کہ خدا تعالیٰ نے بڑا فضل کیا کہ ہمارا قادیان سے تعلق
پیدا ہو گیا اور ہم نے زمانہ کے نبی کو دیکھ لیا.مگر آج اس چیز کی اس قدر اہمیت ہے کہ ہماری جماعت میں سے کئی لوگ ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ یاد کر کے بڑی خوشی سے یہ کہنے کے لئے تیار ہو جائیں گے کہ کاش ہماری عمر میں سے دس یا بیس سال کم ہو جاتے لیکن ہمیں زندگی میں صرف ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھنے کا موقع مل جانا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ تو گزر گیا.اب آپ کے خلفاء اور صحابیہ کا زمانہ ہے.مگر یاد رکھو کچھ عرصہ کے بعد ایک زمانہ ایسا آئے گا جب چین سے لے کر یورپ کے کناروں تک لوگ سفر کریں گے اس تلاش اس جستجو اور اس دھن میں کہ کوئی شخص انہیں ایسا مل جائے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسّلام سے بات کی ہو مگر انہیں کوئی ایسا شخص نہیں ملے گا.پھر وہ کوشش کریں گے کہ انہیں کوئی ایسا شخص مل جائے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بات نہ کی ہو.صرف مصافحہ ہی کیا ہو.مگر انہیں ایسا شخص بھی کوئی نہیں ملے گا.پھر وہ کوشش کریں گے کہ انہیں کوئی ایسا شخص مل جائے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بات نہ کی ہو، آپ سے مصافحہ نہ کیا ہو، صرف اس نے آپ کو دیکھا ہی ہو مگر انہیں ایسا بھی کوئی شخص نظر نہیں آئے گا.پھر وہ تلاش کریں گے کہ کاش انہیں کوئی ایسا شخص مل جائے جس نے گو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بات نہ کی ہو.آپ سے مصافحہ نہ کیا ہو ، آپ کو دیکھا نہ ہو ، مگر کم سے کم وہ اس وقت اتنا چھوٹا بچہ ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کو دیکھا ہو مگر انہیں ایسا بھی کوئی شخص نہیں ملے گا.لیکن آج ہماری جماعت کے لئے موقع ہے کہ وہ ان برکات کو حاصل کرے“ لے مسلم سپین کی تباہی، اور بر بادی تاریخ اسلام کا نہایت سپین میں اسلامی جھنڈا لہرانے کا عزم می اندوہناک، درد انگیز اور خونچکاں باب ہے حسین کے لفظ میں سلامی لفظ پر ہر مخلص اور حساس اور غیور مسلمان کا جگر پاش پاش ہو جانا، کلیجہ منہ کو آتا ، دل غم واندوہ میں ڈوب در آنکھیں بے اختیار خون کے آنسو روتی ہیں.نے "الفضل دار شہادت / اپریل اش صفحه ۲-۴
مسلمان سرزمین اندلس (سپین) میں سائکہ سے ۱۳۹۲ تک حکمران رہے.بعد ازاں اندلس کی اسلامی سلطنت عیسائی بادشاہ فرڈینینڈ کے قبضہ میں پہلی گئی.گو فرڈینینڈ نے از روئے معاہدہ مسلمانوں کو مذہب اور زبان کی آزادی دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن شکلہ سے ایسے انسانیت سوز اور شرمناک مظالم شروع ہو گئے ہو ایک صدی کے اندر اندر اندلسی مسلمانوں کے بالخبر امتداد ، اخراج ، قتل عام اور بالآخران کے گھلیہ خاتمہ پر منتج ہوئے.ملک سے مسلمانوں کا نام و نشان مٹ گیا اور مسلمانوں کے اس پر شکوہ اور پر عظمت دور کی بجائے آثار قدیمہ کی بعض یادگاریں عمارتوں یا کھنڈروں کی صورت میں باقی رہ گئیں مسلم سپین میں پیدا ہونے والے وہ سینکڑوں مفتر، فقیہ، فلسفی ، صوفی ، ادیب اور جرنیل اور تاجدار عجین کی خاک پانے اس ملک کو ہمدوش ثریا بنا دیا تھا اب زیر خاک آسودہ ہیں اور عظمت اسلام کا خزانہ لٹ چکا ہے ! اللہ تعالیٰ نے سیدنا الصلح الموعود کو ملت اسلامیہ کے لئے ایک مضطرب اور درد مند دل بخشا تھا.حضور ہمیشہ مسلمانوں کی گذشتہ حکومتوں کی تاریخ عروج وزوال کا خاص طور پر مطالعہ فرماتے اور آبدیدہ ہو بجاتے تھے خصوصاً اسلامی ریاست میسور اور اسلامی سپین کے صفحہ ہستی سے معدوم کئے جانے کے لرزا دینے والے واقعات سے آپ کے قلب مبارک پر سخت چوٹ لگتی.یہی وجہ ہے کہ حضور کی تقریروں اور تحریروں میں میسور کے آخری بادشاہ حضرت ابو الفتح فتح علی ٹیپو سلطان رحمتہ اللہ علیہ اور ہسپانوی جرنیل عبد العزیزہ جیسے اسلام کے فدائیوں اور شیدائیوں کی جھاں فروشی اور بھاں شادی کے تذکرے ہمیں چلتے ہیں.مگر تحریک احمدیت جس کے آپ سپہ سالار تھے چونکہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی علمبردار تحریک ہے اور ایک روشن مستقبل کا امید افزاء پیغام لے کر اٹھی تھی اس لئے جہاں اس دور کے دوسرے مسلمان زعماد مسلمان شاعر، مسلمان فلاسفر اور مسلمان خطیب عبرت نامه اندلس پر قلم اٹھاتے یا لب کشائی کرتے ہوئے محض مرثیہ خواں بن کے رہ گئے تھے وہاں سید نا الصلح الموعود نے یہ پُر شوکت نعرہ بلند کیا کہ ہم قرطبہ ، زہراء ، غرناطہ، مالقہ ، طلیطلہ اور ہسپانیہ کے دوسرے شہروں میں ہی نہیں.اس کے ذرہ ذرہ پر اے مسلم سپین کی تاریخ کے لئے ملاحظہ ہو "حضارة العرب في الاندلس" تأليف السيد عبد الرحمن البرقوقي - " نفح الطيب " تالیف مقرى - " المعجنب " تالیف علامہ عبد الواحد مراکشی - " الاحاطه في اخبار غرناطہ تالیف الوزير محمد احسان الدین ابن الخطيب " تاریخ اسپین " تالیف سید قمر الدین احمد قمر سندیلوی - تاریخ اندلس از حضرت مولانا عبد الرحیم درد - " ہسٹری آفت دی مورش ایمپائر ان یورپ " یعنی اخبار الاندلس از مکات - « مورزان سپین » از لین پول "عبرت نامه اندلس " از پروفیسر رائن ہارٹ ڈوری
۱۷۲ دوبارہ اسلام کا جھنڈا گاڑیں گے.چنانچہ حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود نے ، شہادت / اپریل پر پیش کو قادیان میں ایک ولولہ انگیز / خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : تاریخ اسلام کی ان باتوں سے جو مجھے بہت پیاری لگتی ہیں.ایک بات ایک ہسپانوی جرنیل کی ہے جن کا نام غالباً عبد العزیزہ تھا.جب سپین میں مسلمانوں کی طاقت اتنی کمز در ہو گئی کہ ان کے ہاتھ میں صرف ایک قلعہ رہ گیا جو آخری قلعہ تھا تو عیسائیوں نے ان کے سامنے بعض شرائط پیش کہیں اور کہا کہ اگر بچنا چاہتے ہو تو ان کو مان لو.وہ شرائط ایسی تھیں کہ جنہیں مان کر اسلام سپین میں عزت کے ساتھ نہ رہ سکتا تھا.بادشاہ وقت ان شرائط کو ماننے کے لئے تیار ہو گیا.دوسر جرنیل بھی تیار تھے.مگر یہ جرنیل کھڑا ہوا.اور کہا کہ اسے لوگو ! کیا کرتے ہو ؟ کیا تمہیں یقین ہے کہ عیسائی اپنے وعدوں کو پورا کریں گے.ہمارے باپ دادا نے سپین میں اسلام کا بیج بویا تھا.اب تم لوگ اپنے ہاتھوں سے اس درخت کو گرانے لگے ہو.ان لوگوں نے کہا کہ سوائے اس کے ہو کیا سکتا ہے.دشمن سے کامیاب مقابلہ کی صورت ہے ہی کیا ؟ اسی جو نہیں نے کہا.یہ سوال نہیں کہ دشمن نے کامیاب مقابلہ کی صورت کیا ہے ؟ نہ ہمیں اس کے سوچنے کی ضرورت ہے.ہمیں اپنا فرض ادا کرنا چاہئیے اور ہم میں سے ہر ایک کو چاہیے کہ مر جائے مگر ان شرائط کو تسلیم نہ کرے اس طرح یہ ذلت تو نہ اُٹھانی پڑے گی کہ اپنے ہاتھ سے حکومت دشمن کو دے دیں جو کچھ تمہارے اختیار کی بات ہے وہ کر دو اور باقی خدا تعالے پر چھوڑ دو.یہ بات سنگر وہ لوگ ہنسے اور کہا کہ اس قربانی کا کیا فائدہ ؟ اور سب نے انکار کیا.مگر اس نے کہا کہ اگر تم اس بے غیرتی کو پسند کرتے ہو تو کرو میں تو اپنے ہاتھ سے اسلامی جھنڈا دشمن کے حوالے نہ کروں گا.قریباً ایک لاکھ کا شکر تھا جو قلعہ کے باہر جمع تھا.وہ اکیلا ہی تلوار لے کر باہر نکلا.دشمن پر حملہ کر دیا اور لڑتے لڑتے شہید ہوگیا.بیشک اس کی شہادت کے باوجود سپین میں مسلمانوں کی حکومت تو قائم نہ رہ سکی مگر اس کا نام ہمیشہ کے لئے زندہ رہ گیا اور موت اُسے مٹانہ سکی.وہ بادشاہ اور جرنیل جنہوں نے اس کے مشورہ کو تسلیم نہ کیا اور اپنی جانیں بچائی چاہیں وہ مٹ گئے.ان کا ذکر پڑھ کہ اور شنگر ہم اپنے نفسوں کو بڑے زور سے ان پر لعنت کرنے سے رو کہتے ہیں.لیکن کبھی سپین کے حالات
سیدنا حضر امیر المؤمنین خلیفه است امثال اید اللہ تعلی بنصرہ العزیز کالج کے اساتذہ وطلبہ کو پہلا خطاب عام کرنے کے بعد (حضور کے پیچھے..پروفیسر محمد احمد صاحب حیدرآبادی.۲.حضور کے ساتھ دائیں سے بائیں ہا ترتیب پروفیسر نصیر احمد خان صاحب، صوبیدار عبدالمنان صاحب، قاضی محمد اسلم صاحب ایم اے پر نیل تعلیم الاسلام کالج.میجر عارف زمان صاحب اور میجر صاحب کے پیچھے پروفیسر صوفی بشارت الرحمن صاحب ایم اے کھڑے ہیں )
۱۷۳ کا ئیں مطالعہ نہیں کرتا یا کبھی ایسا نہیں ہوا کہ یہ باتیں میرے ذہن میں آئی ہوں اور اُس جو نیل کے لئے دعائیں نہ نکلتی ہوں.اُس کے خون کے قط ے آج بھی سپین کی وادیوں میں ہم کو آوازیں دیتے ہیں کہ آؤ اور میرے خون کا انتقام لو.بیشک وہ بہادر جرنیل مر گیا.مگر مرنا ہے کیا ؟ کیا یوں لوگ نہیں کرتے ؟ کیا وہ بادشاہ اور جو نہیں جو دشمن سے نہ لڑے کر نہ گئے ؟ وہ بھی ضرور کر گئے لیکن ان کے لئے ہمارے دلوں سے لعنت نکلتی ہے اور اس جرنیل کے لئے دعائیں.پیچ بھی اس کی کشش ہمیں سپین کی طرف بلا رہی ہے اور اگر مسلمانوں کی غیرت قائم رہی اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت سے ظاہر ہوتا ہے نہ صرفت قائم نہ ہیگی بلکہ ترقی کرے گی اور پہلے سے بھی بڑھ کر ظاہر ہوگی تو وہ دن دور نہیں جب اس جو نیل کے خون کے قطروں کی بیکار ، اس کی جنگوں میں چلانے والی روح اپنی کشش دکھائے گی.اور سچے مسلمان پھر سپین پہنچیں گے اور وہاں اسلام کا جھنڈا گاڑ دیں گے.اس کی روج آج بھی نہیں بنا رہی ہے.اور بہاری رو میں بھی یہ پکار رہی ہیں کہ اے شہید وفا! تم اکیلے نہیں ہو.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دین کے سچے عادم منتظر ہیں جب خدا تعالے کی طرف سے آواز آئے گی وہ پر وانوں کی طرح اس ملک میں داخل ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کے نور کو وہاں پھیلائیں گے.یہ سوال نہیں کہ ہم امن پسند جماعت ہیں.مخالف امن پسندوں پر بھی تلوار کھینچ کر اُن کو مقابلہ کی اجازت دلوا دیا کرتے ہیں.کیا محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم امن پسند نہ تھے.مگر مخالفین کے فلموں کی وجہ سے آخر اللہ تعالیٰ نے ان کو مقابلہ کی اجازت دے دی.جیسا کہ فرمایا أُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِير جن لوگوں کو خواہ مخواہ نشانہ مظالم بنایا گیا ہے اب ان کو بھی اجازت ہے کہ مقابلہ کریں.پس سپین کے لوگ اگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک یوں مقدر ہے تو ہماری تبلیغ و تعلیم سے ہی کفر و شرک کو چھوڑ دیں گے اور یا پھر ہم پر اتنا ظلم کریں گے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقابلہ کی اجازت ہو بھائے گی اور وہ جنہوں نے کان پکڑ کر مسلمانوں کو اپنے ملک سے نکالا تھا له سورة الحج آیت ۴۰ *
16 کان پکڑ کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار پر حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے کہ حضور کے غلام حاضر ہیں اور اس اکیلے لڑنے والے کی رُوستا تا کام نہیں رہے گی " لے مجلس مشاورت ۲۳ برس میں سے میش کی مجلس مشاورت ۷-۸-۹ شہادت / اپریل ۱۹۴۴ مد کو منعقد ہوئی جس میں دوسر ہے معاملات کے علاوہ خلیفہ وقت خلیفہ وقت کی حفاظت کا مسئلہ کی حفاظت کا ملہ بھی زیر بحث آیا اور حکیم خلیل امر صاحب مونگھیری ، چوہدری اعظم علی صاحب ، ملک عبد الرحمن صاحب خادم ، ماسٹر غلام محمد صاحب ، چوہدری مشتاق احمد صاحب با بوه ، موادی محمد احمد صاحب ثاقب ، شیخ نیاز احمد صاحب ، محمد عبد الله صاحب، سیدار تعفنی علی صاحب ، میاں غلام محمد صاحب اختر ، غلام حسین صاحب ، مولوی ظهور حسین صاحب ، پیر صلاح الدین صاحب ، پیراکبر علی صاحب ، مولوی ابوالعطاء صاحب ، بابو عبد الحمید صاحب، مولوی عبد الرحیم صاحب درد نے اپنے اپنے خیالات و جذبات کا اظہار کیا اور مختلف تجویزیں پیش کیں.اس ضمن میں حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب نے فرمایا :- نظام خلافت کی حفاظت کے ساتھ مخلفاء کی حفاظت کا گہرا تعلق ہے جو قوم نظام مخلافت کی حفاظت نہیں کر سکتی وہ مخلافت سے محروم ہو جاتی ہے.حضرت ابو بکر کی حفاظت مسلمانوں نے کی.اس لئے حضرت ابو کرین کے زمانہ میں خدا تعالیٰ نے انہیں پہلے سے زیادہ برکات دیں.بعد میں آنے والے خلیفوں کے وقت میں خدا تعالے کی تائید اس پالیہ کی نہ تھی جس پایہ کی حضرت عمرض کے زمانہ میں تھی جب مسلمانوں نے غفلت کی تو تین دفعہ غفلت کے بعد مسلمانوں سے خلافت چھین لی حضرت خلیفہ المسیح ایده الله منصرہ العزیز کی حفاظت کے لئے دونوں قسم کے انتظامات کی ضرورت ہے.رضا کارانہ اور با معاوضہ - رضا کارانہ حفاظت میں ہو سکتا ہے کہ کہ ہم گھنٹوں میں سے ایک گھنٹہ خالی رہ جائے.انتظام کو مکمل رکھنے کے لئے تنخواہ دار پر بیداروں کی بھی ضرورت ہے پھر نظام خلافت قائم رکھنے کے لئے یہ نہیں سمجھنا چاہیئے کہ صرف یہی کافی ہے کہ بارہ یا پندرہ آدمی رکھ دیئے جائیں.میرے نزدیک ۲۰۰ آدمیوں کا وجود بھی خلیفہ کی حفاظت کے لئے کافی نہیں ن " الفصل و ہجرت / مئی ۳۲ بیش صفحه ۴ + نے از و
۱۷۵ اور نہ معلوم ہمیں کس وقت اس کے لئے ایک ہزار آدمیوں کی ضرورت ہو.ہم میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ خلیفہ کے وجود کو قائم رکھ کر نظام خلافت کی حفاظت کریں خواہ ایک سو آدمی اس کام پر متعین ہوں.تب بھی ہم میں سے ہر شخص اس کے لئے بیقرار ہو اور وہ تہیہ کئے ہو کہ ہم نے خلیفہ کی حفاظت کر کے نظام خلافت کی حفاظت کرنی ہے " سے بال آخر کثرت رائے سے یہ قرار پایا کہ حضور کی خدمت میں سفارش کی جائے کہ حضور ما ہر اصحاب کی ایک کمیٹی مقرر فرمائیں جو حضور کی خدمت میں رپورٹ پیش کرے.اس کا مالی حصہ بجٹ کمیٹی میں پیش کر دیا جائے محضور دو نوں رپورٹوں کے بعد اس کے متعلق خود فیصلہ فرما دیں " سے اس بحث کے دوران چونکہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی المصلح الموعود اجلاس میں تشریف فرما نہ تھے اس لئے چودھری محمد ظفراللہ خاں صاحب نے (جن کی زیر صدارت یہ کارروائی ہوئی تھی، یہ سفارش سیدنا حضر المصلح الموعود کی خدمت میں پہنچا دی جو حضور نے بھی قبول فرمالی اور ساتھ ہی ناظر صاحب امور عامہ چوہدری فتح محمد صاحب سیال حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اور شیخ نیاز احمد صاحب المشتمل ایک کمیٹی بنادی.اس کمیٹی کی رپورٹ کے بعد شیخ نیاز احمد صاحب نگران حفاظت مقرر ہوئے اور پہرہ داروں میں بھی اضافہ کیا گیا جس سے حضرت سیدنا المصلح الموعود کی حفاظت کا انتظام پہلے سے نسبتاً زیادہ عمدہ صورت میں قائم ہو گیا.مرکز سلسلہ کی صوبہ پنجاب کے اضلاع کی متفرق اور کثیر جماعت میں ضلع وار نظام کا قیام جماعتوں کی براہ راست نگرانی کا مسئلہ روز بروز مشکل اور پیچیدہ ہو رہا تھا.اس لئے حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود نے مجلس مشاورت اش کی تجویز پر ضلع دار نظام کے قیام کا فیصلہ فرمایا ، ور اس نئی سکیم کے تجربہ کے لئے سب سے پہلے گورا ہو لاہور ، لائل پور ، گجرات ، گویزا تواله ، سرگودها ، فیروز پور ، سیالکوٹ ، بجالندھر اور ہوشیار پور کے اضلاع تجویز کئے گئے.ضلع و ار نظام کے حسب ذیل فرائض قرار پائے :- رپورٹ مجلس مشاورت ش صفحه ۶۲ ۱۶۳ که ایضاً صفحه ۹۶۵
144 - تبلیغ اسلام ، تربیت جماعت اور چندوں کی وصولی میں مرکز سلسلہ کی اعانت.علاقہ کے تمام احمدی بچوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام.چندوں کے متعلق افراد کے کھاتے رکھنا مرکزی ہدایات و تحریکات کا تمام حلقہ میں اجراء ، اور ان کی تعمیل اور نگرانی اور اس کے متعلق مرکز سلسلہ کو ہدایات کے ماتحت رپورٹ دیتا اور ضلع کے عام حالات سے مطلع رکھنا.-۵ آنریری مبلغ اور کارکن پیدا کرنا جو سالانہ ایک مہینہ مسلسل تبلیغ کے لئے وقت دیں.اور ایسے لوگوں کی تعداد پانچ فی صدی تک ہونی چاہیے.- ہر سال اس نظام کے مرکزی مقام یا کسی دوسرے اہم مقام پر سالانہ جلسہ کرتا.ہر ایک جماعت کا دورہ سال میں دو دفعہ لازما کرنا.پہلے دورہ میں امیر کے ساتھ کلرک متعینہ ہوگا اور دوسرے دورہ میں کلرک متعینہ کے ساتھ اس ضلع کے دوسرے با اثر اور صاحب علم دوست ہوں گے.پہلے دورہ کی غرض جماعتوں میں انتظام تبلیغ و انتظام تعلیم و تربیت کا استحکام ہوگا اور دوسرے دورہ کا مقصد تحریک چندہ اور اس سے متعلق امور.سینای مصلح المود کا ایک ضروری خطبہ ارشاد را پایش و حضرت بیا یونین अवतल المصالح الموعود نے بعد نماز عصر مسجد مبارک میں و تعیین زندگی کے نکاحوں سے متعلق مکرم مولوی نورالحق صاحبت واقف زندگی تحریک جدید کے نکاح کا اعلان فرمایا اور ساتھ ہی وضاحت بھی فرمائی کہ میں نے اعلان کیا ہوا ہے کہ میں سوائے اپنے عزیزوں کے اور کسی کا نکاح نہیں پڑھاؤں گا.سے گر چونکہ یہ واقعت زندگی ہیں اور اس وجہ سے میرے عزیزوں میں شامل ہیں اس لئے میں اس نکاح کا اعلان کر رہا ہوں" رپورٹ تخلیس مشاورت سرمایش صفحه ۳۸ سے یہ نکاح مکرم قاضی محمد رشید صاحب مرحوم وکیل المال : کہ تحریک جدید کی صاحبزادی صفیہ صدیقہ صاحبہ سے ہوا تھا حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ عنہ اپنی اس خاص محبت کے پیش نظر جو آپ کو واقفین سے تھی اس رشتہ کا انتخاب بھی خود فرمایا اور پھر فاعتی صاحب مرحوم کو تحریک بھی خود ہی فرمائی.آپ اس وقت سکندر آباد دکن میں حکومت کے سویلین گزیٹڈ آفیسر تھے حضور نے شادی کے جملہ اخراجات بھی اپنی جیب خاص سے عطا فرمائے اور دعوت ولیمہ ۲۳ فتح دسمبر مہیش کو قصر خلافت ہی میں ہوئی درالفضل ۲۵ فتح دسمبر صفحه ای یش
144 حضور پر نور نے اپنے خطبہ نکاح میں جماعت کی اصلاح اور اس کے حالات کی درستی کے لئے دو نباتات اہم اور ضروری باتوں کی طرف توجہ دلائی.ا پہلی اصلاح طلب بات حضور نے یہ بیان فرمائی کہ.جب کبھی وقعت زندگی کی تحریک کی جائے اور نوجوانوں سے کہا جائے کہ وہ اپنے آپ کو قدمت دین کے لئے وقت کریں تو اول تو کھاتے پیتے لوگوں کی اولاد وقف زندگی کی طرف آتی ہی نہیں اور پھر جو لوگ آتے ہیں مراد ان کی طرف تحقیر کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں.اور سمجھتے ہیں کہ ان سے بات کرنا یا ان کے ساتھ چھلنا پھرنا ہماری طرف سے ایک قسم کا تذلل ہے ورنہ خود یہ اس بات کے مستحق نہیں ہیں.اسی طرح ان کی شادیوں اور بیا ہوں میں بڑی وقتیں پیش آتی ہیں.اور میرے نزدیک یہ امر بہت بڑے قومی تنزل کی ایک علامت ہے.اگر واقعہ میں درست ہے کہ اِن اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللہ ان کو تو خدا تعالیٰ کے حضور میں کو عورت حاصل ہو تمہیں انھی کو عزت دینی چاہئیے.یا تو ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیئے کہ جو شخص بڑا دنیا دار ہو وہ خدا تعالیٰ کے حضور معزز ہوتا ہے.اور اگر یہ بات درست نہیں تو پھر اللہ تعالے جن کو عزت دیتا ہے یقینا ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم انہیں کو عزت دیں.اور ہمیں سمجھ لینا چاہیئے کہ خدا تعالیٰ کے دربار میں عزت پانے والے کے مقابلہ میں دنیا کا بڑے سے بڑا بادشاہ بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتا.نہ قیصر اس کے مقابلہ میں کوئی حقیقت رکھتا ہے نہ کوئی اور بادشاہ یا پریزیڈنٹ اس کے مقابل پر کوئی عزت رکھتا ہے.بے شک دنیوی بادشاہ بھی عزتیں رکھتے ہیں مگر انہیں دنیا کی عزتیں ہی حاصل ہیں ، اللہ تعالیٰ کے حضور ان کی کوئی عزت نہیں" دوسری ضروری بات جو براہ راست واقفین زندگی سے متعلق تھی وہ حضور ہی کے الفاظ میں درج ذیل کی بھاتی ہے.حضور نے فرمایا :- اس کے مقابلہ میں جو واقف ہیں ان کی یہ حالت ہے کہ جب غریب لڑکیوں کے رشتے ان کے سامنے پیش کئے جائیں تو وہ ان میں کئی کئی نقص نکالیں گے.کبھی کہیں گے تقویٰ اعلی درجہ کا نہیں.کبھی کہیں گے تعلیم زیادہ اعلیٰ نہیں کہیں کہیں گے سلسلہ سے انہیں محبت کم ہے.لیکن سورة الحجرات آیت ۱۴۷
14A جہاں کسی کھاتے پیتے آدمی کا رشتہ ان کے سامنے آجائے وہ فورا کہہ دیں گے ہاں ٹھیک ہے.یہ لڑکی ایک اور دیندار ہے.اس وقت انہیں نیکی بھی نظر آنے لگ جائے گی.اتقاد بھی نظر آنے لگ سجائے گا.تعلیم بھی نظر آنے لگ جائے گی اور وہ اس رشتہ پر رضامند ہو بھائیں گے لے حضرت امیرالمومنین الصلح الموعود نے خطبہ کے آخر میں جماعت احمدیہ کو یہ نصیحت فرمائی کہ یا درکھو دُنیا انہی لوگوں کے پیچھے پھرا کرتی ہے جو دنیا کو کلی طور پر چھوڑ دیتے ہیں.وہ خدا کے لئے دنیا چھوڑتے ہیں اور دنیا کی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ ان کے پیچھے پیچھے بھاگتی پھرتی ہے.اور انسان حیران ہوتا ہے کہ اب میں جاؤں کہاں! لیکن جب تک دنیا پر نگاہ رکھی جائے دنیا آگے آگے بھاگتی ہے اور انسان اس کے پیچھے پیچھے دوڑتا ہے مگر پھر بھی اُسے دُنیا حاصل نہیں ہوتی ہے استی نا المصلح الموعود کی خدمت میں یہ انتہائی افسوسناک اطلاعات جذبہ اطاعت کے فروغ کیلئے اہم پہنچیں کہ بعض تو جوان سلسلہ کے نظام کا احترام نہیں کرتے اور اپنے فردوں کی اطاعت کرنے کی بجائے سرکشی اختیار کرتے ہیں.یہ چیز چونکہ سلسلہ احمدیہ کے لئے ستم قاتل کی حیثیت دیکھتی تھی.اس لئے حضرت سیدنا الصلح الموعود نے ہر احسان /جون یہ بہش کو اطاعت کی اہمیت پر ایک مفصل خطبہ دیا جس میں ارشاد فرمایا :- سلسلہ مقدم ہے سب انسانوں پر سلسلہ کے مقابلہ میں کسی انسان کا کوئی لحاظ نہیں کیا جائے گا خواہ وہ کوئی ہو یعنی کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بیٹا بھی مجرم ہو تو اس کا بھی لحاظ نہیں کیا جائے گا.کوئی انسان بھی سلسلہ سے بالا نہیں ہو سکتا.اسلام اور قرآن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بھی بالا ہیں.اسی طرح احمدیت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بھی بالا ہے.اسلام اور احمدیت کے لئے اگر ہمیں اپنی اولادوں کو بھی قتل کرنا پڑے تو ہم اپنے ہاتھوں سے قتل کر دیں گے لیکن سلسلہ کو قتل نہ ہونے دیں گے.پس تم اپنے اندر سلسلہ کی صیحیح اطاعت اور فرمانبرداری کا مادہ پیدا کرو.اگر تم چاہتے ہو کہ عد اتعالیٰ کا فضل تم یہ نازل ہو.اگر تم چاہتے ہو کہ ہے دینوں کی موت نہ مرد اور ایسے مقام پر کھرے نہ ہو کہ موت سے پہلے اللہ تعالے تم کو مرتدین میں داخل کر دے تو اپنے اندر صحیح اطاعت اور فرمانبرداری له و سه " الفضل " ۲۲ احسان جون از پیش صفحون من الم به - / نہ
169 کا مادہ پیدا کرد.احمدیت یقینا خدا تعالے کی طرف سے ہے.احمدیت ایک ایسی دھار ہے کہ جو بھی اس کے سامنے آئے گا وہ مٹا دیا بھائے گا.یہ تلوار کی دھار ہے اور جو بھی اس کے سامنے کھڑا ہوگا وہ ٹکڑے ٹکڑے کر دیا بجائے گا.خدا تعالے میں سلسلہ کو قائم کرنا چا ہے اس کی راہ میں جو بھی کھڑا ہو وہ مٹا دیا جاتا ہے.اور یہ سلسلہ چونکہ خدا تعالے کی طرف سے ہے اس لئے اس کے مقابلہ میں کسی انسان کی پروا نہیں کی جائے گی خواہ وہ کوئی ہو، خواہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بیٹا کیوں ہو، خواہ وہ میرا بیٹا کیوں نہ ہو.سلسلہ مقدم اور غالب ہے ہر انسان پر " تحریک جدید کے مجاھدین کے ذریعہ سے بیرونی بر صغیر کی احمدی جماعتوں کیلئے انار کی صورت میری فریق میں حیرت کی انت ممالک احمدیت اطلاعات کے مراکز قائم ہو چکے تھے اور بعض مقامات پر جماعت کی رفتار توتی بر صغیر کی احمدی جماعتوں کی نسبت تیز تھی اور نظر آرہا تھا کہ اگر مرکزی جماعتوں نے تبلیغ اسلام کی اہمیت نہ کبھی اور اس بارے میں گیستی ، ہوشیاری اور فرض شناسی کا ثبوت نہ دیا تو دینی قیادت کی زمام بیردنی جماعتوں کے ہاتھ میں چلی جائے گی اور وہ اسلامی مسائل میں دوسروں کے رحم و کرم پر ہوں گے اور دین کا وہ نقشہ اپنے یہاں رائج کرنے پر مجبور ہوں گے جو خالص ان کے دنوں کی پیدا وار ہوگا.مستقبل کے اعتبار سے یہ ایک عظیم خطرہ تھا جسے سین المصلح الموعود کی دور بین اور معاملہ فہم آنکھ مدتوں قبل بھانپ چکی تھی اور حضور اسی لئے جماعت کو تبلیغ اسلام کی طرف بار بارہ توجہ دلاتے آرہے تھے.اس سال بھی حضور نے ۶ اراحسان جون میش کے خطبہ جمعہ میں جماعت کو زمہ دست انذار و انتباہ کیا.مرکزی جماعتوں کی تبلیغی غفلت کے بھیانک اور خوفناک نتائج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہاں تک فرمایا کہ اس صورت میں باہر کے لوگوں کی باگ سنبھالنا بھی ان کے لئے سخت مشکل ہو جائے گی.وہ لوگ کہیں گے تمہارا کیا حق ہے کہ ہماری رہنمائی کرو.ہم تعداد میں تم سے زیادہ ہیں ، ہم قربانیوں میں تم سے زیادہ ہیں.اور تم ہمارے مقابلہ میں کوئی نسبت نہیں رکھتے.اس لئے لوگوں کی رہنمائی کا حق ہمیں حاصل ہونا چاہیئے اور مرکز ہمارے ہاتھ میں ہونا چاہیئے تا کہ ہم جیس طرح چاہیں دین کی اشاعت کا کام کریں.تب احمدیت کے لئے وہی خطرہ کی صورت پیدا ہو جائے گی جو روما میں له " الفضل" ۱۵ ر احسان ابجون لا مش صفحه ۰۲ ۵ار ممور الالي
1A.عیسائیت کے لئے پیدا ہوئی.جب فلسطین میں عیسائیوں کی تعداد کم ہو گئی اور اٹلی میں عیسائیت زیادہ پھیلنی شروع ہوئی تو عیسائیت کا مرکز فلسطین نہ رہا بلکہ اٹلی بن گیا اور چونکہ وہ مرکز کفر تھا اس # لئے عیسائیت کفر کے رنگ میں رنگین ہونی شروع ہو گئی ہے اس ضمن میں حضور نے تبلیغ کا بہترین طریق یہ تجویز فرمایا کہ انسان اپنے غیر احمدی رشتہ داروں کے پاس چلا جائے اور اُن سے کہے کہ اب میں نے یہاں سے مر کر ہی اُٹھنا ہے ورنہ یا تم مجھ کو سمجھا دو کہ میں غلط راستہ پر ہوں اور یا تم سمجھ جاؤ کہ تم غلط راستے پر جارہے ہو.اس عزم اور ارادہ سے اگر ساری جماعت کھڑی ہو جائے تو میں سمجھتا ہوں ابھی ایک سال بھی ختم نہیں ہو گا کہ ہماری ہندوستان کی جماعت میں صرفت احمدیوں کے رشتہ داروں کے ذریعہ ہی ایک لاکھ احمدی بڑھ جائیں گے" تھے یہ تحریک اتنی موثمہ اور کار گر تھی کہ مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے " ناظرین المحدیث ہوشیار ہو بجائیں.مرزائیت کا ہم آتا ہے“ کے عنوان سے لکھا:."خلیفہ قادیان نے اپنے مریدوں کو سخت ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے رشتہ داروں کے گھر جائیں اور ان کو احمدیت کی تبلیغ کریں اور کہہ دیں کہ اب میں نے یہاں سے مرکہ ہی اُٹھنا ہے ورنہ یا تم مجھ کو سمجھا دوکہ میں غلط راستہ پر ہو اور یا تم خود سمجھ لو کہ تم غلط راستہ پر جا رہے ہو.ناظرین اہلحدیث " مرزائیت کی اس تعلیم کو معمولی نہ سمجھیں ایک اور پرچہ میں مزید لکھا :.قادیانی خلیفہ اور ان کی وزارت آئے دن ایسے تاکیدی محکم جاری کرتے رہتے ہیں جن سے مرزائیت ترقی کرے.ہمارے دوست ان تدبیروں کے جوڑ توڑ سے غافل ہیں.غفلت کا نتیجہ جو ہوتا ہے وہ ظاہر ہے“ کے ولوی محمالی سال کے دو بار اور انگریز مولوی محمد علی صاحب را میراحمدیه امین اشاعت اسلام لاہور) نے ۲۶ سحبت را مئی ۳۳۳ میش کو له الفضل اور وقار جولائی مش صفر و کالم سے اخبار اہلحدیث امرتسر ۱۳ نومبر ، صفحہ 1 کالم راه : " صفحہ کالم اوه که.4 لوگو در و سمبر م و متحد ہم کا بم و
اور احمدیہ بلڈ نگس کی مسجد میں منبر پر کھڑے ہو کر یہ بے بنیاد تا پاک الزام لگایا کہ خوب یاد رکھو قادیان والوں نے کلمہ طیبہ کو منسوخ کر دیا ہے.اس میں تمہارے دل میں شک نہیں ہونا چاہئیے " سے سید نا حضرت امیر المومنین المصلح الموعود نے اس ظالمانہ حملہ کا نوٹس لینا ضروری سمجھا اور اس کے جواب میں ۲۳ احسان /جون بش کے خطبہ جمعہ میں مولوی محمد علی صاحب کو دعوت مباہلہ دی، اور نہایت پر جلال الفاظ میں فرمایا :- یہ ایک ایسا اتہام ہے کہ میں سمجھ نہیں سکتا کہ اس سے بڑا جھوٹ بھی کوئی بول سکتا ہے.وہ قوم جو کلم طیبہ کی خدمت کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھتی ہو اس پر یہ الزام لگانا کہ وہ اُسے منشور قرار دیتی ہے، اتنا بڑا ظلم ہے اور اتنی بڑی دشمنی ہے کہ ہماری اولادوں کو قتل کر دینا بھی اس سے کم دشمنی ہے.ہماری اولادوں کو قتل کر دینا اتنی بڑی دشمنی نہیں جتنا یہ کہنا کہ ہم لا اله الا الله مُحَمَّدٌ رَسُولُ الله کے منکر ہیں.اور ایسا جھوٹ بولنے والے کے دل میں خدا تعالیٰ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت ہرگز نہیں ہو سکتی جیس کے دل میں خدا اور رسول کی محبت ہو وہ ایسا بھوٹ کبھی نہیں بول سکتا.یہ ہم پر اتنا بڑا الزام ہے کہ ہمارے کسی بڑے سے بڑے مگر شریعت دشمن سے بھی پوچھا بھائے تو وہ یہ کہیگا کہ یہ بھوٹ ہے.اور میں سمجھتا ہوں.اب فیصلہ کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے.اگر مولوی صاحب میں تخم دیانت باقی ہے تو وہ احد ان کی جماعت ہمارے ساتھ اس بارہ میں مباہلہ کریں کہ آیا ہم کم عطیہ کے منکر ہیں " اس دعوت مباہلہ کے ساتھ ہی حضرت سیدنا المصلح الموعود نے قبل از وقت یہ بھی بتا دیا کہ وہ کبھی اپنے آپ کو اور اپنے بہو کا بچوں کو اس مقام پر کھڑا نہ کریں گے بلکہ اس عظیم موانا جھوٹ بولنے کے بعد بزدلوں کی طرح بہانوں سے اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو جھوٹوں کی سزا سے بچانے کی کوشش کریں گئے" ہے ہو وہی ہوا جو حضرت امیر المومتین نے پہلے سے فرما دیا تھا یعنی مولوی صاحب موصوف نہ مباہلہ کیلئے آمادہ ہونگے اور نہ اپنا جھوٹا الزام وا نہیں لینے کو تیار ہوئے ، ه هفت روزه پیغام مسلح ماں ہور ۳۱ مئی ۱۹۴۷ء صفحه ۳ " الفضل" ، روفار سودائی را میش صفہ کہ کالم :
TAY فصل دوم نیاد اصلح الموعود کے آخری نکاح تاریخ سلسلہ میں معروف ایولائی سرمایش کردن ایک خصوصی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اس روز حضرت سید عبد الستار صاحب رضی الله کی نہایت مبارک تقریب کی پوتی اور حضرت سید عزیز اللہ شاہ صاحب کی صاحبزادی سیدہ بشری بیگم صاحبہ سیدنا المصلح الموعود کے عقد میں آئیں.حضرت امیر المومنین الصلح الموعود نے ایک بہت بڑے مجمع میں جومسجد مبارک اور اس کے متصل مکانات الد محمد یہ چوک میں جمع تھا ایک ہزار مہر ہے اس نکاح کا اعلان فرمایا اور نہایت درد بھرے الفاظ میں خطبہ پڑھا جس میں سب سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وہ الہامات بتائے جن کی وجہ سے آپ کو اس تقریب کی طرت تو تبہ پیدا ہوئی.چنانچہ فر مایا :- ایک دن میں تذکرہ پڑھ رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مدار فروری سنانے کے حسب ذیل الہامات پڑھے :- (1) كُل الفتُ بَعْدَة (ل) مَظهَرُ الْحَقِّ وَالْعَلَاءِ كَانَ اللَّهَ نَزِّلَ مِنَ السَّمَاءِ ، پھر اس کے بعد ۲۰ فروری کے یہ الہام درج ہیں :- إلى مَعَ الرَّسُولِ اقوم وَالُوهُ مَنْ تَلُومُ (۲) پس پاشده منجوم (۲) افسوسناک خبر آتی ہے.فرمایا.اس ابہام پیرو ہین کا انتقال بعض لاہور کے دوستی اه حضرت سیدہ موصوفہ ، ا پریل شاہ کو مقام جہلم اپنے بھیال میں پیدا ہوئیں اور سٹی میں میٹرک کے امتحان کے علاوہ قادیان کی دینیات کی دو جماعتیں بھی اس کیں.پھر جامعہ نصرت ریوہ سے ایف.اے کیا.اس کے بعد بی بیلے کے لئے داخلہ لیا مگر حضرت اقدس سیدنا المصلح الموعود کی طویل المسلسل علالت کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی بے پناہ اور ریموتی ذمہ داریوں کی بجا آودی کے نئے کالج چھوڑ دیا اور اپنے مقدس شوہر کی خدمت کے لئے آخری لمحات تک وقف ہو گئیں.آپ نے شادی کے معاً بعد ہی لجنہ اماء اللہ کے کاموں میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا.کے پیش کی ہجرت کے بعد پاکستان میں پیکر بڑی خدمت خلق، سکو ٹمان تربیت و اصلاح وغیرہ کے فرائض انجام دیتی رہیں.ان دنوں بھتہ کی اور سکرٹری خدمت خلق ہونے کے علاوہ نائب صدر بعد الحمد اللہ مرکزیہ کے عہدہ پر بھی ممتاز ہیں.ایہ حاشیہ وسا حضرت سیدہ موصوفہ کے چار بہن بھائی ہیں.از سینه تا مرہ بیگم صاحبه با سید کلیم احمد شاہ صاحب یار نعیم احمد شاه صاحب ہی سید نسیم احمد صاحب ه".فضلا و فار جوانی ش مصفاه +147A
E IAP a' کی طرف ہوا.مگر یہ انتقال زمن بعد بیداری ہوا.الہام بھی شاید اس کے متعلق ہو.(۴) بہتر ہوگا کہ اور شادی کر لیں.فرمایا.معلوم نہیں کس کی نسبت یہ الہام ہے.تذکرہ 110 ١٨ فروری کا الہام مَظْهَرُ الْحَقِّ وَالْمَلَاء وہ الہام ہے جو اس سے پہلے پر موعود کے متعلق ہو چکا تھا.جب میں نے یہ الہام پڑھا تو میرے ذہن میں یہ آیا کہ یہ پیشگوئی دوبارہ بیان کی گئی ہے اور مجیب بات یہ نظر آئی کہ پہلی پیشگوئی بھی فروری میں کی گئی تھی اور یہ الہام بھی فروری کا ہے.پس معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کا وقت قریب آیا یعنی آپ کی وفات سے قریباً سوا سال قبل اللہ تعالیٰ نے پھر اس پیشگوئی کو دہرایا.تا ایک لمبا عرصہ گذر بیانی کی وجہ سے لوگ یہ نہ سمجھیں کہ یہ منسوخ ہو گئی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ كُل الفتُم بَعْدَهُ کہ اس نشان کے بعد اصل فتوحات ہوں گی.پھر آگے اسی سلسلہ میں یہ الہام ہے کہ انى مسح الرَّسُولِ آتُومُ وَالُوهُ مَنْ يَدُومُ.اس میں بتایا گیا ہے کہ جب اس پیشگوئی کا ظہور ہوگا تو چاروں طرف سے دشمن حملہ کرے گا.چنانچہ اس طرف مجھے یہ اس پیشگوئی کا انکشاف ہوا.اور ادھر پیغامیوں نے مخالفت کی آگ پورے زور کے ساتھ بھڑکا دی اور طرح طرح کے اتہامات، سجھوٹ اور کذب بیانیوں سے کام لینا شروع کر دیا.مگر ساتھ ہی اللہ تعالٰی نے یہ بھی بتا دیا تھا کہ پس پا شدہ ہجوم “ اس کا مفہوم وہی ہے جو قرآن کریم کی آیت سَيُهُنَ مُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدبر کا ہے یعینی سب و شمن جمع ہو کر حملہ کریں گے مگر اللہ تعالے ان کو ذلیل و رسوا کرے گا اور وہ شکست کھا جائیں گے.یہ الہام اس دوسرے الہام سے جو پسر موعود سے متعلق ہے بہت لتا ہے کہ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ البَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا.یعنی جب پسر موعود ظاہر ہوگا تو حق آجائے گا اور باطل بھاگ جائے گا.باطل تو بھاگنے ہی کی اہلیت رکھتا ہے.پھر اس الہام کے بعد یہ الہام ہے کہ " افسوسناک خبر آئی " چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ اس انکشاف کے سوا ماہ بعد ام طاہر مرحومہ کی وفات ہوئی.اس الہام کی تشریح کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ زمین کا انتقال بعض لاہور کے دوستوں کی طرف ہوا.گو یہ انتقال ذ ہنی تھا.گھر واقعہ نے بتا دیا ہے کہ در حقیقت یہ الہام لاہور ہی کے بارہ میں تھا کیونکہ ام طاہر احمد لاہور طه تذکره " طبع دوم صفحه ۶۹۱ - ۶۹۲ و الله جل لا نمبر ۸ مورد ۲۰ فروری شش بر صفر و الحکم " معلمہ نمبر مورد ۴ بار فروری عنه ته
IAM میں ہی فوت ہوئیں.اللہ تعالٰی کے الہامات فضول نہیں ہوتے.خالی یہ خبر دینا کہ ایک افسوسناک خیر آئی بغیر ایسے قرینے کے جس سے معلوم ہو سکے کہ وہ خیبر کس کے متعلق ہے ؟ کس قسم کی ہے ؟ بالکل بے معنی ہو جاتا ہے.لیکن جب ہم یہ امر دیکھیں کہ یہ سلسلہ الہام ہے.پہلے پسر موعود کے ظہور کا ذکر ہے، پھر دشمنوں کے شور کا اور ان کی ناکامی کا ، پھر ایک افسوسناک خبر کا جس کا نتیجہ یہ پیدا کیا ہے کہ بہتر ہوگا کہ ایک اور شادی کرلیں تو ان الہامات سے صاف پتہ چلتا ہے کہ انسوی خیر کسی کی بیوی کی وفات کی خبر ہے.کیونکہ اگلا الہام کسی مرد کی نسبت کہتا ہے کہ بہتر ہے کہ اور شادی کرلیں.پس افسوسناک خبیر سے مراد اس شخص کی بیوی کی وفات ہی ہو سکتی ہے.اور چونکہ اس سلسلہ الہامات میں پسر موجود کے سوا کسی اور مرد کا ذکر نہیں.اس لئے یہ بھی ظاہر ہے کہ یہ فوت ہونے والی بیوی پسر موعود کی بیوی ہوگی جو پسر موجود کے دعوے کے قریب زمانہ میں لاہور میں فوت ہوگی.ان تمام الہامات کو پڑھنے کے بعد اور یہ دیکھ کر کہ ادھر مجھ پر اس پیشگوئی کے میری ذات میں پورا ہونے کا انکشاف ہوا ، ادھر پیغامیوں نے پورے جوش کے ساتھ ملے شروع کر دیئے.پھر ام طاہر کی وفات واقعہ ہوئی.میں نے سمجھا کہ شاید میرا یہ نتیجہ نکالنا کہ چوں کو کسی اور بیوی کے سپرد نہ کرنا چاہیے صحیح ہے اور اللہ تعالے کا منشاء یہ معلوم ہوتا ہے کہ اور شادی کرنا بہتر ہو گا.تب میرا ذہن اس طرف گیا کہ جو دوسری بیوی بھی آئے گی بچھے اُسے غیر سمجھیں گے اور مرحومہ کے رشتہ دار بھی اس کے پاس نہیں آسکیں گے.اور اس طرح بچوں کو دیکھ نہ سکیں گے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ان میں سے جو کمزور ہوں گے وہ اس کے ساتھ وہی سلوک کریں گے جو مریم مرحومہ کے ساتھ امتدائی مرحومہ کے بعض رشتہ داروں نے کیا تھا.اس کا جواب کچھ دن تک میں نہ دیکھ سکا.اتفاقاً ایک روز میں نے تذکرہ سے خال دیکھی میں خال کا قائل تو نہیں.مگر مصیبت کے وقت بعض دفعہ انسان ان باتوں کی طرف بھی توجہ کر لیتا ہے جن کا وہ قائل نہیں ہو تابیث طیکہ وہ نا جائز نہ ہوں.میں نے تذکرہ کھولا تو اس میں لفظ "بشرى" موٹے حروف میں لکھا ہوا نظر آیا.اس وقت مجھے معلوم نہیں کہ وہ کونسا صفحہ تھا.اُسے دیکھ کہ میرا ذہن اس طرف گیا کہ میر محمد اسحق صاحب مرحوم کی لڑکی کا نام بشر کی ہے مگر اس سے تو
۱۸۵ میری شادی کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا تھا.اس کی چھے میں نے اس کا ذکر مریم مرحومہ کے خاندان کے بعض افراد سے کیا تو انہوں نے کہا کہ ہمارا اپنا خیال یہ ہے کہ مرحومہ کے گھر میں کوئی بڑا آدمی ضرور ہونا چاہئیے اور اس وجہ سے ہم میں سے بعض کی رائے یہی ہے کہ آپ اور شادی کر لیں تو اچھا ہے اور کہ اگر ہمارے ہی خاندان میں ہو جائے تو اور بھی اچھا ہے.اس صورت میں بچوں کی نگرانی زیادہ آسان ہوگی.تب میرا ذر من اس طرف گیا کہ ان کے خاندان میں بھی ایک لڑکی بشری نام کی ہے اور اتفاق کی بات ہے کہ بعض بیماریوں کی وجہ سے اس کی شادی اس وقت تک نہیں ہو سکی اور اس کی عمر بھی بڑی ہو گئی ہے اور اس لئے وہ بچوں کی دیکھ بھال اور نگرانی کا کام زیادہ اچھی طرح کر سکے گی " سے اس سلسلہ میں حضور نے یہ بھی ذکر فرمایا کہ افراد خاندان میں سے میری زیادہ بے تکلفی اپنی ہمشیرہ مبارکہ بیگم سے ہے ان سے میں نے ذکر کیا تو انہوں نے تذکرہ کے یہی الہامات مجھے سنائے اور کہا کہ میں تو خود آپ سے کہنا چاہتی تھی " سے الہامات کا تذکرہ کرنے کے بعد مزید بتایا کہ میں نے استخارہ کیا اور اپنے خاندان کے بعض افراد سے مشورہ کیا تو انہوں نے بھی یہی رائے دی کہ سیدہ ام طاہر احمد کے بچوں کے انتظام کے لئے اور شادی ہی ناسب میگی بالای این مجھ بھی اور نواب مبار کہ بیگم صاحبہ ، پر وفیسر بشارت الرحمن صاحب ایم اے، اور ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب کو بھی واضح خواہیں اس رشتہ کی نسبت آئیں تو میں نے تحریک کے لئے سید ولی اللہ شاہ صاحب کو سیدہ بشری بیگم صاحبہ کے والد سید عزیز اللہ شاہ صاحب کی طرف بھیجوایا اور یہ بھی مشورہ دیا کہ لاہور میں اپنے برادر اصغر سید حبیب اللہ شاہ صاحب سے بھی ملتے جائیں.لاہور پہنچنے پر ه روزنامه الفضل یکم ظہور اگست مش صفر ۲-۲۴ سلم الفضل ايضاً صفر کالم ۲۲ املا سے حضرت شاہ صاحب ان دنوں سنٹرل جیل لاہور کے سپرنٹنڈنٹ تھے مگر اسی سال کے آخر میں انہیں اس عہدہ سے ترقی دے کرو ڈپٹی انسپکٹر جنرل جیل خانجات پنجاب بنا دیا گیا.مدیر و مالک اخبار پر تاپ نے ان کے اس نئے اعزاز پر یہ نوٹ لکھا:.گیا.شاہ صاحب احمدی ہیں اور میں آریہ سماجی.باوجود اس کے میں انہیں اس ترقی پر مبارکباد دیتا ہوں کیونکہ وہ ہر لحاظ سے اس کے مستحق ہیں.بہت کم سپر نٹنڈنٹ ہیں جو ہر دلعزیزی کے میدان میں ان کا مقابلہ کر سکیں.اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ خدا ترس اور فرض شناس ہیں.ان کی خدا ترسی انہیں کسی قیدی پر بیج سختی کی اجاز نہیں دیتی اور ان کی فرض شناسی اس بات پر تیار کرتی ہے کہ قواعد کی حدود میں رہ کر قیدیوں سے بہترین سلوک کیا جائے.انسپکٹر جنرل جینا نجات جلد ریٹائر ہونے والے ہیں.کیا معلوم کہ مجھے ایک بار پھر انہیں مبارکباد دینے کا موقع ہے دیر تاپ اسماء بحواله الفضل " در فتح دسمبر ر بیش صفحه و کالم ۳-۴) ۲۲۳
معلوم ہوا کہ انہیں پہلے ہی کشف بنا دیا گیا تھا کہ سبید ولی اللہ شاہ صاحب کس غرض سے آ رہے ہیں.نیز القاد ہوا " بشری بیگم حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے لئے ہے" حضرت سیدہ بشری بیگم صاحبہ سیدنا المصلح الموعود کی حریم - سابع ہیں جنہیں خواتین مبارکہ میں شمولیت کے مقدس اعزاز کے علاوہ ایک اور نمایاں خصوصیت بھی حاصل ہے اور وہ یہ کہ حضرت سیدنا المصلح الموعود کو اس رشتہ کے تعلق میں ایک اہم رویاء یہ ہوا تھا ایک فرشتہ آواز دے رہا ہے کہ مہر آیا کو بلا و جس کے معنے ہیں محبت کرنے والی آیا " اس روبار کے مطابق حضرت سیدہ بشری بیگم خاندان مسیح موعود میں مہر آیا ہی کے آسمانی خطاب سے یاد کی بھانے لگیں اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس نام میں خبر دی تھی سچ بھی آپ ہر اعتبار سے مہر آیا ہی ثابت ہوئیں.سیدنا المصلح المیہ خود نے اپنے خطبہ نکاح میں اپنے مولا سے ان کی نسبت یہ دعا بھی کی تھی کہ "غریبوں اور مسکینوں کے لئے ہمدرد اور مہمانوں کے لئے خبر گیر ہو، اسلام اور سلسلہ کی خدمت میں اپنی زندگی تخریج کرنے والی ہو ؟ حضرت سیدہ ہر آیا صاحبہ کا وجود گرامی حضرت سیدنا المصلح الموعود کی اس دعا کی قبولیت کا ایک واضح ثبوت اور آیہ رحمت ہے.اطال الله بقامها.ظہور / اگست میش کو سیده بشری بیگم صاحبہ کے رخصتانہ کی تقریب عمل میں رخصتانه آئی.اس موقعہ پر دعا میں شرکت کی دعوت حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے کئی ایک بزرگان سلسلہ کو دی جو چھ بجے شام کے قریب حضرت سید عزیز اللہ شاہ صاحب کی کو بھی واقع محلہ دار الانوار میں پہنچ گئے چھ بجے حضرت امیر المومنین المصلح الموعود بھی اپنے خاندان کے بعض افراد اور بعض قدیم صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور بعض دوسرے افراد کے ساتھ تشریف لائے جن کے اسماء درج ذیل ہیں.۱- حضرت مرزا بشیر احمد صاحب - حضرت مرزا شریف احمد صاحب ۳.صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب - صاحبزاده مرتا منور احمد صاحب ۵ تکریم خان محمد عبد اللہ خان صاحب 4 حضرت چودهری فتح محمد صاحب ناظر اعلی - مکرم مرزا رشید احمد صاحب -- حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب ۹ - حضرت پیر افتخار احمد صاحب -۱۰ حضرت ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب ۱۱- حضرت منشی عبد العزيز صاحب او جلوی سابق پٹواری ۱۲- حضرت مولوی شیر علی صاحب ۱۳ - حضرت مفتی محمد صادق صاحب -۱۴- حضرت میر محمد اسمعیل صاحب ۱۵- صاحبزادہ میاں عبد المنان صاحب قمر الفضل " یکم ظہور اگست کا مش صفر، کالم را که ایضاً : -11 میہ کالم راو
1A4 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کی خواتین مبارکہ بھی تشریف لے گئیں ، تمام مہمانوں کی چھائے اور ناشتہ سے تواضع کی گئی.آخر میں حضور نے تمام مجمع سمیت دعا فرمائی اور پھر زنان خانہ میں تشریف لے جاکر دوبارہ ڈھا فرمائی.اس کے بعد خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواتین سیده بشری بیگم صاحبہ کو موٹر میں بٹھا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مبارک الدار میں لے آئیں لیے ۱۵ ظهور اگست یہ بہش کو حضرت سیدتنا الصلح الموعود کی طرف سے مسجد مبارک میں بوقت دو بجے بعد دوپہر دعوت ولیمہ دی گئی جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیم صحابہ ، کارکنان سلسلہ اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور خاندان حضرت ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب کے افراد اور متعد د فریاد شامل تھے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نزدیک مسلمان عربی بول چال کے متعلق رسالہ ان کی جوانی من ای یو ای اور رول است عربی زبان کی ترویج و اشاعت میں کوتاہی کا نتیجہ تھی.چنانچہ حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی مشہور کتاب الهدى والتبصيره لمن يرى " میں تحریر فرمایا :- " وكان من الواجب ان ليشاع هذه اللسان في البلاد الاسلاميه فانه لسان الله و لسان رسوله و لسان الصحف المطهرة ولا نتظر بنظر التعظيم إلى قوم لا يكرمون هذا اللسان ولا يشيعونها في بلادهم ليرجموا الشيطان وهذا من اول اسباب اختلالهم یعنی واجب تھا کہ اسلامی شہروں میں عربی زبان پھیلائی جاتی اس لئے کہ وہ اللہ، اس کے رسول اور پاک نوشتوں کی زبان ہے اور ہم ان کو تعظیم کی نگاہ سے نہیں دیکھتے ہو اس زبان کی تعظیم نہیں کرتے اور نہ اسے اپنے شہروں میں پھیلاتے ہیں تا شیطان کو پتھراؤ کریں اور یہی ان کی تباہی کا بڑا ب دی ہے ن "الفضل" و ظہور / اگست یش صفحه : at ! حضرت اقدس ان دنوں ڈلہوزی میں قیام فرما تھے.اس لئے اس دعوت کا اہتمام حضور کے ارشاد کی تعمیل میں (جو بذریعه تار موصول (۱۳) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ نے کیا اور دھا حضرت مولوی شیر علی صاحب امیر مقامی نے کرائی.ڈلہوزی میں بھی ایک دعوت ہوئی جس میں حضور کے ہمراہ گئے ہوئے احباب اور دیگر احمدیوں نے شرکت کی : "الهدى والتبصرة لمن يرى " صفحه ۶۵ ۶۶ طبع اقل.
IAA حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسّلام چونکہ امت مسلمہ میں زندگی کی روح پھونکنے کے لئے مبعوث ہوئے تھے.اس لئے حضور نے اپنے عہد مقدس میں عربی زبان کی ترویج کی طرف بھی خاص توجہ فرمائی اور گھر میں ویزہ استعمال میں آنے والے فقر نے بچوں کو یاد کرائے جو حضور کی زندگی میں رسالہ " تشخیز الاذھان کی مختلف اش الحلو میں شائع ہوئے.حضرت سیدنا الصلح الموعود کی توجہ شیل مسیح موعود ہونے کی حیثیت سے اس سال عربی کی ترویج واشاعت کی طرف پیدا ہوئی اور حضور نے عربی کی اہمیت کے متعلق 19 احسان اریون کو ایک اہم خطبہ دینے کے علاوہ جات میں عربی بول چھال کا رسالہ تصنیف کرانے کا ارادہ فرمایا، چنانچہ حضور نے مجلس عرفان میں ارشاد فرمایا :- عربی زبان کا مردوں اور عورتوں میں شوق پیدا کرنے اور اس زبان میں لوگوں کے اندر گفتگو کا ملکہ پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ...ایک عربی بول چال کے متعلق رسالہ لکھیں حضرت مسیح موعود عليه الصلوۃ والسّلام نے بھی عربی کے بعض فقرے تجویز فرمائے تھے جن کو میں نے رسالہ تشجید الاذان میں شائع کر دیا تھا.ان فقروں کو بھی اپنے سامنے رکھ لیا جائے اور تبرک کے طور پر ان فقرات کو بھی رسالہ میں شامل کر لیا جائے.در حقیقت وہ ایک طریق ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمارے سامنے پیش فرمایا.اب ہمارا فرض ہے کہ ہم اس راستہ پر چلیں اور اپنی جماعت میں عربی زبان کی ترویج کی کوشش کریں.میرے خیال میں اس میں اس قسم کے فقرات ہونے چاہئیں کہ جب ایک دوست دوسرے دوست سے ملتا ہے تو کیا کہتا ہے اور کس طرح آپس میں باتیں ہوتی ہیں.وہ باتیں ترتیب کے ساتھ لکھی جائیں.پھر مثلاً انسان اپنے گھر جاتا ہے اور کھانے پینے کی اشیاء کے متعلق اپنی ماں سے یا کسی ملازم سے گفتگو کرتا ہے اور کہتا ہے میرے کھانے کے لئے کیا پکا ہے یا کونسی ہمکاری تیار ہے ؟ اس طرح کی روز مرہ کی باتیں رسالہ کی صورت میں شائع کی جائیں.بعد میں محلوں میں اس رسالہ کو رائج کیا جائے مخصوصاً لڑکیوں کے نصاب تعلیم میں اس کو شامل کیا جائے اور تحریک کی بجاے کر طلباء جب بھی ایک دوسرے سے گفتگو کریں عربی زبان میں کریں.اس طرح عربی بول چال کا عام روبج خدا تعالیٰ کے فضل سے پیدا کیا بھا سکتا ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ یہودیوں نے ایک مُردہ زبان کو اپنی کوشش سے زندہ کر دیا ہے.عبرانی زبان دنیا میں کہیں بھی رائج نہیں.لیکن لاکھوں کروڑوں یہودی عبرانی زبان بولتے ہیں.اگر یہودی ایک مردہ زبان
۱۸۹ کو زندہ کر سکتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ عربی زبان جو ایک زندہ زبان ہے اس کا چرچا نہ ہو سکے.پہلے قادیا میں اس طریق کو رائج کیا جائے.پھر بیرونی جماعتوں میں یہ طریق بھاری کرنے کی کوشش کی جائے گی چھوٹے چھوٹے آسان فقرے ہوں جو بچوں کو بھی یاد کرائے جا سکتے ہوں.اس کے بعد لوگوں سے امید کی جائیگی کہ وہ اپنے گھروں میں بھی عربی زبان کو رائج کرنے کی کوشش کریں.اس طرح قرآن کریم سے لوگوں کی پلیسی بڑھ جائے گی اور اس کی آیات کی مجھے بھی انہیں زیادہ آنے لگ جائے گی.اب تو میں نے دیکھا ہے.دعائیں کرتے ہوئے جب یہ کہا جاتا ہے.رَبَّنَا اثْنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِى لِلْإِيمَانِ آن امِنُوا بِرَتِكُمْ نَامَنَّا تو نا واقفیت کی وجہ سے بعض لوگ بلند آواز سے آمین کہ دیتے ہیں.حالانکہ یہ آمین کہنے کا کوئی موقعہ نہیں ہوتا.یہ عربی زبان سے ناواقفیت کی علامت ہے.اگر عربی بول پال کا لوگوں میں رواج ہو جائے گا تو یہ معمولی باتیں لوگ خود بخود سمجھنے لگ جائیں گے اور انہیں نصیحت کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی.یہ رسالہ جب شائع ہو جائے تو خدام الاحمدیہ کے سپرد کر دیا جائے تاکہ اس کے تھوڑے تھوڑے حصوں کا وہ اپنے نظام کے ماتحت وقتاً فوقتاً نوجوانوں سے امتحان لیتے رہیں.یہ فقرات بہت سادہ زبان میں ہونے چاہئیں.مصری زبان میں انتشار الادب نام سے کئی رسالے اس قسم کے شائع ہو چکے ہیں مگر وہ زیادہ دقیق میں معلوم نہیں ہمارے سکولوں میں انہیں کیوں جاری نہیں کیا گیا " حضرت مصلح موعود کے اس ارشاد مبارک کی تعمیل معلوم نہیں آجتک کیوں نہیں ہو سکی !!! تیارتھ پرکاش کے لاجواب کی کیا اور اسی ای او نے نیا را یا کہ آیا ان کے کم یا بانی دیانند سرسوتی کی کتاب ستیار تھے پر کاش کا مکمل جواب شائع کیا جائے.چنانچہ حضور ۱۲ ہجرت امیر میش کو مجلس عرفان میں رونق افروز ہوئے اور ملک فضل حسین کو صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :- میرے دل میں تحریک پیدا ہوئی ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ ستیارتھ پرکاش " کا مکمل جواب لکھا جائے.اس وقت تک اس کے جس قدر جواب دیئے گئے ہیں وہ سب دفاعی رنگ رکھتے ھیں الفضل بيكم صلح اجنوری بیش صفحه ۴ کالم ۲-۰۴
19.زیادہ تر لوگوں نے ستیارتھ پرکاش کے چودھویں باب کو اپنے سامنے رکھا ہے اور اسی کا جواب دیتے کی کوشش کی ہے.ضرورت ہے کہ ستیارتھ پرکاش کے پہلے باب سے شروع کر کے آخر تک مکمل جواب لکھا جائے اور اس جواب میں صرف دفاعی رنگ نہ ہو بلکہ دشمن پر حملہ بھی کیا جائے کیونکہ دشمن اس وقت تک شرارت سے باز نہیں آتا جب تک اس کے گھر پر حملہ نہ کیا جائے.اس کا ایک طریق تو یہ ہے کہ ستیارتھ پرکاش کے جتنے نسخے شروع سے لے کر اب تک پچھلے ہیں ان سب کو جمع کیا جائے اور پھر ان نسخوں میں جو جو اختلافات ہیں یا جہاں جہاں آریوں نے ستیارتھ پرکاش میں تبدیلیاں کی ہیں وہ سب اختلافات واضح کئے جائیں اور کتاب کا ایک باب اس غرض کے لئے مخصوص کر دیا جائے.گویا ایک باب ایسا ہو جس کا عنوان مثلا یہی ہو کہ ستیارتھ پرکاش میں تبدیلیاں اور پھر بحث کی بجائے کہ آریوں نے اس میں کیا کیا تبدیلیاں کی ہیں.پھر جہاں جہاں وہ بہانے بناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کاتب کی غلطی سے ایسا ہو گیا وہاں بھی بحث کر کے واضح کیا جائے کہ یہ کتابت کی غلطی ہو ہی نہیں سکتی.پھر پنڈت دیانند نے علمی طور پر سہندو مذہب کے متعلق جو باتیں لکھی ہیں ان کے متعلق ویدوں اور ہندوؤں کی پرانی کتابوں سے یہ ثابت کیا جائے کہ پنڈت جی کا پیتا غلط ہے.اسی طرح ستیارتھ پرکاش کے ہر باب میں جو کوتاہیاں یا غلطیاں پائی جاتی ہیں، الفت سے لے کر می تک ان سب کو واضح کیا جائے.اسلام پر جو حملے کئے گئے ہیں ان کا بھی ضمنی طور پر جو است آجانا چاہیے.اس طرح ستیارتھ پرکاش کے رد میں ایک مکمل کتاب لکھی جائے جو کم سے کم سات آٹھ سو صفحات کی ہو اور حسین طرح ستیارتھ پرکاش ایک معیاری کتاب کے طور پر پیش کی جاتی ہے اسی طرح یہ کتاب نہایت محنت سے معیاری رنگ میں لکھی جائے.بعد میں ہر زبان میں اس کتاب کا ترجمہ کر کے تمام ہندوستان میں پھیلائی جائے.آپ اس کے لئے ڈھانچہ تیار کریں اور مجھ سے مشورہ لیں اور پھر میرے مشورہ اور میری ہدایات کے مطابق یہ کتاب لکھی جائے.پہلا باب مثلاً اس کتاب کی تاریخ پرمشتمل ہونا چاہیئے.دوسرے باب میں ستیارتھ پرکاش کے پہلے باب کا ہجواب دیا جائے اور بتایا جائے کہ اس میں کیا کیا غلطیاں ہیں یا اگر ہم ان باتوں کو ہندو مذہب کے لحاظ سے تسلیم کر لیں تو پھر ان پر کیا کیا اعتراض پڑتے ہیں.اس طرح شروع سے لے کر آخر تک تمام کتاب کا مکمل جواب لکھا جائے “ لے له الفضل " حكم صلح جنوری ۳۲ به بیش صفر ۴ کالم ۱ تا ۹۳ /
191 اس سکیم کے مطابق حضرت سید نا الصلح الموعود نے اس کتاب کے مختلف ابواب پر وفیسر ناصرالدین عبد اللہ صاحب، تہاشہ محمد عمر صاحب اور مباشر فضل حسین صاحب میں بغرض بہو اب تقسیم فرما دیے بلے چودھویں باب کی نسبت حضور نے فیصلہ فرمایا کہ اس کا جواب نو د تحریہ فرمائیں گے بلے جماعت احمدیہ کے ان سنسکرت دان علماء نے حضرت سیدنا الصلح الموعود کی ہدایت اور نگرانی میں ماہ صلح جنوری ہی میں قریباً سات آٹھ ابواب کا جواب مکمل کر لیا.چنانچہ منصور نے وا تبلیغ / فروری سال پیش کے خطبہ جمعہ میں بتایا کہ میں نے ستیارتھ پرکاش کا جواب شائع کرنے کا اعلان کیا تھا.چنانچہ اس کا جواب قریباً سات آٹھ بابوں کا ہو پن کا ہے اور بقیہ تیار ہو رہا ہے جو نوجوان اس کام کو کر رہے ہیں مجھے خوشی ہے کہ وہ محنت کے ساتھ کر رہے ہیں.اور مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ ہماری جماعت میں ایسے نوجوان پیدا ہو رہے ہیں جو ہندو لڑ پھر کو اس کی اپنی زبان میں پڑھ کر غور کر سکتے ہیں.اس کام کے لئے میں نے مولوی ناصرالدین صاحب عبداللہ اور تہاشہ محمد عمر صاحب اور تہاشہ فضل حسین صاحب کو مقرر کیا ہوا ہے.اور یہ تینوں بہت جانفشانی سے اس کام میں لگے ہوئے ہیں اور میں سردست ایڈیٹنگ کرتا ہوں.وہ نوٹ لکھ کر مجھے دے دیتے ہیں اور میں جمع کرکے واپس بھیج دیتا ہوں.پھر وہ اصل مضمون لکھ کر بھیج دیتے ہیں اور مکین اُسے دیکھ لیتا ہوں.اس میں میرا اپنا کام صرف اتناہی ہے کہ جو دلائل کمزور ہوں ان کی طرف انہیں توجہ دلا دیتا ہوں کہ یہ یہ دلائل کمزور ہیں.یا تمہارا یہ اعتراض ان معنوں پر پڑتا ہے اور ان معنوں پر نہیں پڑتا یا یہ کہ بعض دفعہ ان کی عبارتوں میں جوش ہوتا ہے کیونکہ ستیارتھ پرکاش میں سخت سخت حملے کئے گئے ہیں اس لئے اس کا جواب دیتے وقت بجذبات کو روکنا مشکل ہوتا ہے اس لئے میں اس بات کی بھی نگرانی کرتا ہوں کہ ایسے سخت الفاظ استعمال نہ کئے بھائیں جن سے کسی کی شکنی ہو.یا اس بات کو بھی میں مد نظر رکھتا ہوں کہ یہ کتاب آریہ سماج کی ہے.لیکن ہمارے نوجوان بعض دفعه نا تجربہ کاری کی وجہ سے اس بات کو بھول کر کہ ہمارے مخاطب تمام ہندو نہیں بلکہ صرف آریہ سماجی ہیں مضمون زیر بحث میں سناتن دھرم کی بعض باتوں کی بھی تو دید شروع کر دیتے ہیں تو میں اس بات میں بھی ان کی نگرانی کرتا ہوں کہ وہ صرف آریہ سماج کو ہی مخاطب کریں.اور ایسی باتوں کا له الفضل در تبلیغ فروری ۲۴ سه مش صفحه ۱ کاظم ۳ من د + یکم ضلع جنوری صرف کالم
۱۹۲ ذکر نہ کریں جو براہ راست دیدوں یا سناتن دھرم کے لڑ پھر کے متعلق ہوں جس حد تک میرے پاس مضمون آچکا ہے اور غالباً اکثر آچکا ہے اس کو دیکھ کر میں نے اندازہ لگایا ہے کہ بہت محنت اور جانفشانی سے لکھا گیا ہے، اسے سیدنا المصلح الموعود کس با یک نظری اور محققانہ انداز میں ان مسودات پر نظر ثانی فرماتے اور ان پر تنقید کرتے تھے اس کی چند مثالیں درج کرنا خالی از فائدہ نہ ہوں گی تا معلوم ہو کہ آپ کن خطوط پر جواب لکھوانا چاہتے تھے.ستیارتھ پرکاش کے چوتھے سمول اس (متعلقہ خانہ داری کا جواب حضور نے مہاشہ محمد عمر صاحب فاضل کے سپرد فرمایا تھا.تہاشہ صاحب نے حضور کی خدمت میں جب اپنا لکھا ہوا مسودہ پیش کیا تو حضور نے ان پر علاوہ اور ریمارکس دینے کے اپنے قلم مبارک سے مندرجہ ذیل نوٹ لکھیے :- " ان الفاظ کو نرم کیا جائے اور دلیل کو واضح.اس مضمون کو زور دار بنایا جا سکتا ہے " اس پہ بار بار زور دیا جائے کہ پنڈت صاحب کھڑے تو ہندو دھرم کی تائید کیلئے ہوئے ہیں.لیکن اپنے خود ساختہ خیالات کو پیش کر کے انہوں نے اپنے مذہب کو رائج کیا ہے" ہم کو صرف دیر پر زور دینا چاہیے.آریہ سماج کا دھوئی ہے دید مکمل ہیں.پھر دوسری طرف ان کو بجانے دینے کا موقعہ دینا درست ہی نہیں" دیکھیں اگر ایک نی ہزار مثالیں بھی اس کی آریہ سماج دے تو اُسے دس ہزار روپیہ انعام دیا بچائے گا.جو تعلیم اول خود ساختہ ہے.وید میں اس کا نام و نشان نہیں.دوم اس پہ ایک فی ہزار آریہ سما جی بھی عمل کرنے کے لئے تیار نہیں.اسے عالمگیر قرار دینا اور دنیا کی مشکلات کامل قرار دینا کیسی دیدہ دلیری کی بات ہے " افسوس ! تقسیم ملک کی وجہ سے ستیارتھ پرکاش کے جواب کی یہ کوشش درمیان ہی میں رہ گئی.تیسری بار تقسیم کے شروع ہونے سے قبل دوسری جنگ عظیم بھی پورے زور شور سے جاری تھی کہ تبلیغ اسلام کی سرگرمیاں تیز تر کرنے کی لی اور بین الصلح المرور نے اور تو اترتی ہے ابھی حضرت سید تبوک تیز تر تلقی کو ایک خاص خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس میں بتایا کہ جنگ کے بعد دنیا پھر ایک فلم کا بیج بونے والی ہے ہمیں اس غلطی کو واضح کرنے اور اسلام کو پھیلانے میں دیوانہ وار ل الفصل " در تبلیغ / فروری ۳۲۳ به بش صفحه 1
۱۹۳ مصروف ہو جانا چاہیے.اس اجمال کی تفصیل سیدنا المصلح الموعود ہی کے الفاظ مبارک میں درج ذیل کی بھاتی ہے.حضور نے جماعت احمدیہ کے ہر فرد کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : بالکل ممکن ہے اگر فاتح مغربی اقوام جو منی اور جاپان سے اچھوتوں والا سلوک کریں.تو گو جر منی اور جاپان سے یہ قومیں ذلت نہ اُٹھائیں مگر اس ظلم کے نتیجہ میں اللہ تعالے بعض اور قومیں کھڑی کر دے جن کا مقابلہ ان کے لئے آسان نہ ہو.پس دنیا پھر خدانخواستہ ایک غلطی کرنے والی ہے.پھر مندا نخواستہ ایک فلم کا بیج بونے والی ہے.پھر ایک ایسی حرکت کرنے والی ہے جس کا نتیجہ کبھی اچھا پیدا نہیں ہو سکتا اور ہمارا فرض ہے کہ ہم خدا تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ اس غلطی سے حاکم اقوام کو بچائے.اور دوسری طرف ہمارا فرض ہے کہ ہم دنیا کو اس غلطی سے آگاہ کریں.اور تبلیغ اسلام کے متعلق زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھائیں.اس جنگ کے بعد کم سے کم دو ملک ایسے تیار ہو جائیں گے جو ہماری باتوں پر سنجیدگی اور متانت کے ساتھ غور کریں گے یعنی جرمنی اور جاپان.یہ دو ملک ایسے ہیں جو ہماری باتیں سننے کے لئے تیار ہو جائیں گے خصوصاً جر منی ایک ایسا ملک ہے جو اس لحاظ سے خاص طور پر اہمیت رکھتا ہے.ہم ان لوگوں کے پاس پہنچیں گے اور انہیں بتائیں گے کہ دیکھو عیسائیت کتنی ناکام رہی کہ عیسائیت کی قریباً دو ہزار سالہ غلامی کے بعد بھی تم غلام کے غلام رہے اور غلام بھی ایسے جن کی مثال سوائے پرانے زمانہ کے اور کہیں نظر نہیں آسکتی.اس وقت ان کے دل اسلام کی طرف راغب ہوں گے اور ان کے اندر یہ احساس پیدا ہوگا کہ آؤ ہم عیسائیت کو چھوڑ کر اسلام پر غور کریں اور دیکھیں کہ اس نے ہمارے دکھوں کا کیا علاج تجویز کیا ہوا ہے.پس وہ وقت آنے والا ہے جب جرمنی اور جاپان دونوں کے سامنے ہمیں عیسائیت کی ناکامی اور اسلامی اصول کی برتری کو نمایاں طور پر پیش کرنا پڑے گا.اسی طرح انگلستان اور امریکہ اور روس کے سمجھ دار طبقہ کو اور کوئی ملک ایسے کجھ دارطبقہ سے خالی نہیں ہوتا، اسلام کی تعلیم کی برتری بتا سکیں گے.مگر یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب ہماری طاقت منظم ہو ، جب ہماری جنت کے تمام افراد زیادہ سے زیادہ قربانیاں کرنے کے لئے تیار ہوں جب کثرت سے مبلغین ہمارے پاس موجود ہوں اور جب ان متقین کے لئے ہر قسم کے سامان ہمیں میسر ہوں.اس طرح یہ کام اسی وقت ہو سکتا ہے جب جماعت کے تمام نوجوان پورے طور پر منتظم ہوں اور کوئی ایک فرد بھی ایسا نہ ہو جو
۱۹۴ اس تنظیم میں شامل نہ ہو.وہ سب کے سب اس ایک مقصد کے لئے کہ ہم نے دنیا میں اسلام اور احمدیت کو قائم کرتا ہے اس طرح رات اور دن مشغول رہیں جس طرح ایک پاگل اور مجنون شخص تمام جہات سے اپنی توجہ ہٹا کہ صرف ایک کام کی طرف مشغول ہو جاتا ہے.وہ بھول جاتا ہے اپنی بیوی کو ، وہ بھول بھاتا ہے اپنے بچوں کو ، وہ بھول جاتا ہے اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو اور صرف ایک مقصد اور ایک کام اپنے سامنے رکھتا ہے.اگر ہم یہ جنون کی کیفیت اپنے اندر پیدا کر لیں اور اگر ہماری جماعت کا ہر فرد دن اور رات اس مقصد کو اپنے سامنے رکھے تو یقیناً تعدا تعالے ہماری جماعت کے کاموں میں برکت ڈالے گا اور اس کی کوششوں کے حیرت انگیز نتائج پیدا کرنا شروع کر دے گا " لئے یلم وجود کی اور امی نصایح ایک مبلغ کے لئے مرواری بالا ماشین اور چودھری الخالق نذیر احمد صاحلاف رائے ونڈ کی معیت میں ۲۳ نبوت ان بر پیش کو افریقہ میں اعلائے کلمہ اسلام کی غرض سے روانہ ہوئے.اس موقعہ پر حضرت سیدنا المصلح الموعود نے ان کو مندرجہ ذیل نصائح لکھ کر دیں.دا تعالے پر ایمان ، اس کی قضاء و قدر پر یقین ، دعاؤں پر زور اور اللہ تعالیٰ کے نبیوں سے محبت، ہمیشہ ما بعد الموت کا خیال رکھنا ایمان کے ستون ہیں.اس کے بعد نماز با قاعدہ پڑھیں ، سنوار کو پڑھیں.دین کے بارے میں اپنے نفس سے کوئی بات نہ کہیں ، سادہ زندگی بسر کریں.خدمت خلق کریں اور بنی نوع انسان کی خیر خواہی کو زندگی کا مقصد بنائیں.مرکز سے تعلق رہے.ساتھیوں سے تعاون رہے ، زبان اور ہاتھ ہمیشہ قابو میں رہیں.واستسلام خاکسار مرزا محمد و احمد ".مکرم مرزا رحیم بیگ صاحب ریاست چمبہ کے نہایت مخلص احمدی اور سلسلہ احمدیہ اور حضرت مصلح موعود کے ممتاز شیدائیوں اور خدائیوں میں سے تھے.اور ہر لحظہ مسلمانوں کی بہبودی کا خیال انہیں رہتا تھا.مرزا صاحب موصوف نے مرکز احمدیت میں اطلاع دی الفضل ار الحاد / اکتوبر ۱۳۲ به شی صفحه ، کالم ۲ - ۹۳ وار وفا سجود لائی فار صفحه ۳ کالم ۰۳ سے تقسیم ملک کے بعد آپ بھرت کر کے پاکستان آگئے
۱۹۵ که ریاست چمبہ میں صدر کونسل انتظامیہ کے بدلنے پر مسلمانوں کے لئے پہلے سے زیادہ پُر آشوب زمانہ آرہا ہے.اس اطلاع پر حضرت امیر المومنین الصلح الموعود نے چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ ہی.اسے ، ایل ایل بھی واقف زندگی کو ریاست جمیمہ میں بھیجوایا.چودھری صاحب نے مسلمانان چمبہ کے زراعت پیشہ قرار دیا جانے، ان کی مذہبی آزادی اور ٹیکسوں میں تخفیف کے اہم معاملات کے سلسلہ میں ہر مکن کوشش کی بیلہ خلفاء کو اہم وصیت سیدنا حضرت میرالمومنین الی الوان رفتار کو تحریک جدید الصلح الموعود نے کے بعض اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے آئندہ آنے والے خلفاء کو وصیت فرمائی کہ ہمارا نظام بھی محبت اور پیار کا ہے.کوئی قانون ہمارے ہاتھ میں نہیں کہ جس کے ذریعہ ہم اپنے احکام منوا سکیں.بلکہ میری ذاتی رائے تو یہی ہے کہ احمدیت میں مخلافت ہمیشہ بغیر دنیوی حکومت کے رہنی چاہیے.دنیوی نظام حکومت الگ ہونا چاہئیے اور خلافت الگ تا وہ شریعت کے احکام کی تعمیل کی نگرانی کر سکے.ابھی تو ہمارے ہاتھ میں حکومت ہے ہی نہیں.لیکن اگر آئے تو میری رائے یہی ہے ہر تخلفاء کو ہمیشہ عملی سیاسیات سے الگ رہنا چا ہیے اور کبھی بادشاہت کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش نہ کرنی چاہیے.ورنہ سیاسی پارٹیوں سے براہ راست خلافت کا مقابلہ شروع ہو جائے گا اور خلافت ایک سیاسی پارٹی بن کر رہ جائے گی اور خلفاء کی حیثیت باپ والی نہ رہے گی.اس میں شک نہیں کہ اسلام کے ابتداء میں خلافت اور حکومت جمع ہوئی ہیں مگر وہ مجبوری تھی کیونکہ شریعت کا ابھی نفاذ نہ ہوا تھا.اور چونکہ شریعت کا نفاذ ضروری تھا اس لئے خلافت اور حکومت کو اکٹھا کر دیا گیا اور ہمارے عقیدہ کی رو سے یہ جائز ہے کہ دونوں اکٹھی ہوں اور یہ بھی جائزہ ہے کہ الگ الگ ہوں.ابھی تو ہمارے ہاتھ میں حکومت ہے ہی نہیں مگر میری رائے یہ ہے کہ جب خدا تعالیٰ ہمیں حکومت دے اس وقت بھی خلفاء کو اسے ہاتھ میں لینے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے بلکہ الگ رہ کر حکومتوں کی نگرانی کرنی چاہئیے اور دیکھنا چاہیئے کہ وہ اسلامی احکام کی پیروی کریں اور ان سے مشورہ لے کر چلیں اور حکومت کا کام سیاسی لوگوں کے سپرد ہی اپنے اہ ریاست چنبہ کے فرمانی وا را بعد رام سنگھ جی دسمبر ۱۹۳۵ء میں سرگباش ہو گئے اور ان کی جگہ ان کے بیٹے راجہ مسمن بھی ادی نشین ہوئے لکشمن جی چونکہ ان دنوں ایچی سن کالج لاہور میں تعلیم حاصل کر رہے تھے اس لئے ان کی نا بالغی کے زمانہ میں ریاستی انتظام کے لئے ایک کونسل آف ایڈ منسٹریشن مقرر کر دی گئی تھی (تذکرہ روڈ سائے پنجاب جلد دوم مؤلفہ سر لیپل انکا گریفین و کرنل میسی مترجم سید نوازش علی طبع دوم سر و صفحه ۴۸۳) کے رپورٹ سالانه صد ر امین احمدیر ۲۳ ۱۳۳۳ اسمش صفحه ۱۳۰
194 دیں.پس اگر حکم کا سوال ہو تو میرا نقطہ نگاہ تو یہ ہے کہ اگر میری پہلے تو میں کہوں گا کہ حکومت ہاتھ میں آنے پر بھی خلفاء اسے اپنے ہاتھ میں نہ لیں.انہیں اخلاق اور احکام قرآنیہ کے نفاذ کی نگرانی کرنی چاہیے یہ لے بت سيدة الصلح الموعود بیرونی دنیا میں تبلیغ خصوصاً ر کے احمدی طالب بلوں کو مرکز میں لانے کی ضرورت بر صغیر کے اندر اشاعت اسلام و احمدیت کا جال بچھا دینے کے لئے خاص طور پرمتفکر رہتے تھے.اسی تعلق میں حضور نے وفتح ا دسمبر مہ ہش کو اپنی مجلس علم و عرفان میں اس رائے کا اظہار فرمایا کہ اس بات کی بہت ضرورت ہے کہ صوبہ سرحد سے طالب علم قادیان میں آئیں.ہم نے اس کے لئے بڑی کوشش کی ہے گروہاں سے ایسے طالب علم نہیں آتے جو تعلیم کے بعد مقدمت دین کریں.جو آتے ہیں وہ اس طرف لگ جاتے ہیں کہ نوکریاں کریں.صرف ایک مولوی چراغدین صاحب ہیں، باقی سارے پڑھنے کے بعد ملازمتیں کرنے لگ گئے ہیں.صوبہ سرحد میں تبلیغ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ مبلغ وہاں کا ہی باشندہ ہو جو وہاں کے رسم و رواج اور ان لوگوں کی عادات سے واقف ہو پنجابی مبلغ اس علاقہ میں اس طرح کام نہیں کر سکتا جس طرح کہ اس علاقہ کا باشندہ کر سکتا ہے اسے حکومت سندھ کی طرف سے ستیارتھ پرکاش کے سندھ گورنمنٹ نے مسلمان بن کے ملک گیر مظاہروں سے متاثر ہو کہ ھر نبوت او می شی چودھویں باب کی ضبطی اور حضرت سید اصلح الموعود را انیس آن می انداز کے وقت حکم مادری کر دیا کہ ستیارتھ پرکاش کی کوئی کاپی اس وقت تک چھاپی یا شائع نہ ہو جب تک چودھویں باب کو عزت نہ کر لیا بھائے.اس اعلامیہ پر اگلے روز آریہ سماج وچھو والی اور آریہ سماج اتار کلی نے اس ضعیفی کے خلاف جلسے کئے جن میں آریہ مقرروں نے دھمکی دی کہ یہ حکم ملک میں بدامنی کا باعث بنے گا.ایک ایک آریہ سماجی ستیارتھ پرکاش کی لکھنا کے لئے میدان میں نکلے گا.اس کے بعد آریوں نے ایک اینٹی قرآن لیگ بھی قائم کر لی اور قرآن مجید کی ضبطی کا مطالبہ کرنے لگے اور ملک میں ہر طرف ایک ہنگامہ بپا ہو گیا.سيدنا المصلح الموعود نے اور نبوت / نومبر ہ مہش کو اپنی مجلس علم و عرفان میں ستیارتھ پرکاش سے " الفضل" ۱۳ فتح او سمبر ۳۳ ده مش صفحه ۲-۳ " صفحه ۲ کالم ۲ به
196 شدید نفرت و حقارت کا اظہار کرتے ہوئے انگریزی حکومت کی مسلسل خاموشی پر سخت تنقید کی اور حکومت سندھ کی کاروائی کو غلط قرار دیتے ہوئے فرمایا :."میرے نزدیک ستیارتھ پرکاش اس وقت ہی قابل ضبطی تھی جب وہ شائع کی گئی.ہم یہ نہیں کہتے کہ اسے ضبط کیوں کیا گیا ہے بلکہ ہم کہتے ہیں کہ اس کے ضبط کرنے میں گورنمنٹ اتنی دیر کیوں خاموش رہی.پھر جس قانون یعنی ڈیفنس آف انڈیا رولز کے ماتحت ستیارتھ پرکاش کے چودھویں باب کو ضبط کیا گیا ہے یہ ایک عارضی قانون ہے.اس کا نتیجہ صرف یہی ہو گا کہ مسلمانوں اور آریوں میں لڑائی جھگڑا اور شورش تو پیدا ہو جائے گی مگر جب جنگ کے خاتمہ پر ڈیفنس کا قانون منسوخ ہو گا ساتھ ہی ستیارتھ پرکاش کے چودھویں باب کی ضب علی کا حکم بھی منسوخ ہو جائے گا.پیس ایسے قانون کے ماتحت اس کتاب کو مضبوط کرنا جو عارضی ہے صرف فساد پیدا کرئے گا اور نتیجہ کچھ بھی نہ نکلے گا پس اول تو گورنمنٹ کو چاہیے تھا کہ اس کتاب کو اس وقت ضبط کرتی جب یہ شائع کی گئی تھی.اتنی دیر کیوں کی گئی.پھر اگر اب ضبط کرنا تھا تو عام قانون کے ماتحت ضبط کرتی.اور تین طرح میں نے بتایا ہے گورنمنٹ یہ دلیل دیتی کہ ہم اس وجہ سے اس کتاب کو ضبط کرتے ہیں کہ اس میں ایسی باتیں دوسرے مذاہب کی طرف منسوب کی گئی ہیں جو ان مذاہب میں نہیں پائی جاتیں اور ایسی باتیں کہا کہ دوسرے مذاہب کا مذاق اُڑایا گیا ہے اور اشتعال دلایا گیا ہے جو خود کتاب لکھنے والے کے مذہب میں بھی پائی بھاتی ہیں.اگر سندھ گورنمنٹ اس طرح کرتی کہ عام قانون کے ماتحت اس کتاب کو ضبط کرتی اور اس میں یہ دلیل دیتی ہو میں نے بیان کی ہے تو آریوں نے جو آب اینٹی نظر آن تحریک شروع کر رکھی ہے.یہ تحریک جاری کرنے کی انہیں کبھی جرات نہ ہوتی.کیونکہ سارے آریہ تو کیا سارے ہندو، سارے جینی ، سارے عیسائی اور سارے یہودی مل کو قرآن مجید کی کوئی ایک آیت تو ایسی دکھائیں جس میں قرآن مجید نے کسی مذہب کی طرف کوئی بات منسوب کی ہو اور وہ بات اس مذہب میں نہ پائی جاتی ہو.قرآن مجید نے عیسائیوں کے متعلق کوئی ایک بات بھی ایسی نہیں کہی جو عیسائیوں میں نہ پائی جاتی ہو.قرآن مجید نے کوئی ایک بات بھی یہودیوں کے متعلق ایسی نہیں کہی جو یہودیوں میں نہ پائی بھاتی ہو.بلکہ نہایت دیانت داری سے وہی باتیں ان کی طرف منسوب کی ہیں جو اُن کے مذہب
19A میں پائی جاتی ہیں.بیشک آجکل یہودیوں اور عیسائیوں کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ ہماری موجودہ کتابوں میں وہ باتیں نہیں پائی جاتیں ہو قرآن مجید ہماری طرف منسوب کرتا ہے لیکن ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ اگر یہ باتیں آسیکل تمہاری کتب میں نہیں پائی بھائیں تو اس کا قرآن ذمہ دار نہیں کیونکہ تمہاری کتابوں میں تحریف ہو چکی ہے.یہ باتیں اُس وقت تمہاری کتابوں میں پائی جاتی تھیں جب قرآن مجید نازل ہوا تھا.پس قرآن مجید وہی باتیں دوسرے مذاہب کی طرف منسوب کرتا ہے جن کے متعلق یا تو ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ جس زمانہ میں قرآن مجید نازل ہوا اس وقت یہ باتیں ان مذاہب میں پائی جاتی تھیں اور یا ایسی باتیں دوسرے مذاہب کی طرف منسوب کرتا ہے جن کو وہ لوگ اب بھی مانتے ہیں اور وہ باتیں اسی رنگ میں ان کے اندر پائی جاتی ہیں اس رنگ میں قرآن مجید پیش کرتا ہے اسی طرح مخالف قرآن مجید کی کوئی ایک آیت بھی ایسی پیش نہیں کر سکتا جس میں کوئی ایسی بات کہ کر دوسرے مذہب پر اعتراض کیا گیا ہو جیس کو قرآن مجید خود بھی مانتا ہو بلکہ دیانت داری سے قرآن مجید دوسرے مذہب کی انہی باتوں پہ اعتراض کرتا ہے جن کو خود نہیں مانتا.پس یہ دو اصول د نظر رکھتے ہوئے اگر عام مقررہ قانون کے ماتحت گورنمنٹ مضبیلی کا حکم لگاتی تو آریہ سماج کوئی وجہ شوہر پیدا کرنے کا نہ پاسکتی اور یہ اینٹی قرآن ایجی ٹیشن کا ڈھکوسلہ چل ہی نہ سکتا.نیز یہ امر بھی قابل غور ہے کہ وہی حصہ ستیارتھ پرکاش کا ضبط نہ ہونا چاہیے تھا جو اسلام کے علاوت ہے بلکہ وہ حصہ بھی ضبط ہونا چاہیئے تھا جو عیسائیت کے خلاف ہے، جو ہندو مذہب کے خلاف ہے، جو جین مذہب کے خلاف ہے، جو سکھ مذہب کے خلاف ہے.کیونکہ ستیار تھے پر کاش میں ان مذاہب کی طرت بھی وہ باتیں منسوب کی گئی ہیں جو اُن میں نہیں پائی جاتیں یا جو خود آریہ سماج کے مسلمات میں بھی ہیں.اگر دل دُکھنا ضبطی کی دلیل ہے تو کیا سکھ کا دل نہیں دُکھتا ؟ کیا عیسائیوں کے بعد بات کو ٹھیس نہیں پہنچتی ہے جس طرح مسلمانوں کا دل دکھتا ہے اسی طرح سکھوں کا دل بھی دُکھتا ہے.اسی طرح عیسائیوں کا دل بھی دُکھتا ہے.پس گورنمنٹ کو چاہیے تھا کہ اگر ضبط کرتا تھا تو ایسے سب بابوں کو ضبط کرتی جو دوسرے مذاہب کے بارہ میں ہیں اور ان دو باتوں پر اس کی بنیاد رکھتی.محض دل دکھنے پر بنیاد نہ رکھتی.باتوں پہ اعتراض ہے.پس ہمیں چالہ
199 1.پہلی یہ کہ اس کتاب کی ضبطی میں دیر کیوں کی گئی ؟ یہ کتاب اس وقت ہی قابل ضبط تھی نہیں وقت شائع ہوئی.۲.دوسرے ہمیں اس بات پہ اعتراض ہے کہ ایک عارضی قانون کے ماتحت اس کو کیوں ضبط کیا گیا ہے ؟ اس سے ضرور فتنہ پیدا ہو گا اور جب یہ قانون منسوخ ہو گا تو ساتھ ہی ضبطی کا حکم بھی منسوخ ہو جائے گا.تیسرے یہ بات ہمارے نز دیک قابل اعتراض ہے کہ دلیل نہیں دی گئی کہ کیوں ضبط کرتے ہیں ؟ محض دل دُکھنا کوئی دلیل نہیں.م بچو تھے یہ بات بھی قابل اعتراض ہے کہ صرف مسلمانوں کی تائید میں قدم اُٹھایا گیا ہے حالانکہ گورنمنٹ کو سب مذاہب کی حفاظت کرنی چاہیئے تھی.پس یہ چار وجوہ ہیں جن کی بناء پر ہم سندھ گورنمنٹ کی ستیارتھ پرکاش کے متعلق موجودہ کارروائی کو غلط سمجھتے ہیں“ لے تیک یک دفتردوم کی بنیاد حضرت سیدنا الصلح الموعود نے خدا تعالیٰ کے القاء خاص - اسے نوکر برا گیا میں تحریک جدید جیسی عالمی تبلیغ اسلام تنظیم قائم فرمائی جس کا پہلا دوس سلو دور اس سال اللہ ہی میں نہایت کامیابی و کامرانی کے ساتھ اختتام پذیر ہو گیا.جس پر حضور نے ۲۴ نبوت نومبر ہمیش کو اس کے دفتر دوم کی بنیاد رکھی اور دعوت دی کہ پانچ ہزار دوستوں کی ایک نئی جماعت آگے آئے جو اس تحریک میں حصہ لے " نیز فرمایا :- میں اللہ تعالیٰ سے امید کرتا ہوں کہ وہ اپنے فضل وکرم سے جماعت کے دوستوں میں ہمت پیدا کرے گا اور پھر جو کوتا ہی رہ جائے گی اسے وہ اپنے فضل سے پورا کر دے گا.یہ اسی کا کام ہے اور اسی کی رضا کے لئے میں نے یہ اعلان کیا ہے.زبان گومیری ہے مگر بلاوا اسی کا ہے.پس مبارک ہے وہ جو خدا تعالے کی طرف سے بلا واسمجھے کہ ہمت اور دلیری کے ساتھ آگے بڑھتا ہے اور نعنا تعالئے رحم کرے اس پر جس کا دل بزدلی کی وجہ سے پیچھے ہٹتا ہے" " ۳۳۳ له الفضل در فتح اردسمبر پرش صفحه ۲۸ نبوت / نومبر صفحه و کالم ۱۴ **
تحریک جدید کے دور اول کی شاندار کامیابی پر خدا تعالے کا شکر ادا کرنے اور حضرت سیدتنا الصلح الموقود کے حضور ہدیہ اخلاص پیش کرنے کے لئے مسجد اقصٰی قادیان میں ۲۳ نبوت / نومبر کو ایک جلسہ منعقد کیا گیا جس کی صدارت حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب نے فرمائی ہے بیرونی مجاہدین کو بلوانے اور تحریک تجدید کے دورثانی کا اعلان کرنے کے ساتھ ہی سیدنا الصلح المود نے فیصلہ کیا کہ بیرونی مجاہدین احمدیت کو جلد سے جلد واپس بلانے کا نے مبلغین بھجوانے کا فیصلم انتظام کیا جائے چنانچہ فرمایا.ر ضروری ہے کہ جو مبلغ بیرونی ممالک میں بائیں اُن کے لئے کافی رقم سفر خرچ کے لئے مہیا کی جائے.کافی لڑر پھر مہیا کیا جائے اور پھر سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ان کی واپسی کا انتظام کیا جائے.ہر تیسرے سال مبلغ کو واپس بھی بلانا چاہیئے اور پرانے مبلغوں کو بلانے اور نئے بھیجنے کے لئے کافی روپیہ بہتا کرنا ضروری ہے.ابھی ہم نے تین نوجوانوں کو افریقہ بھیجا ہے.وہ ریل کے تھرڈ کلاس میں اور باریوں میں سفر کریں گے.مگر پھر بھی ۱۷ - ۱۸ سور و پید ان کے سفر خرچ کا اندازہ ہے.اگر ہم یہ اندازہ کریں کہ ہر سال ۳۳ فیصدی مبلغ واپس بلائے جائیں گے اور ۳۳ فیصدی ان کی بیگہ بھیجے جائیں گے اور ہر ایک کے سفر خرچ کا تخمینہ پندرہ سو روپیہ رکھیں تو میر یہی خرچ ایک لاکھ روپیہ سالانہ کا ہوگا اور یہ صرف سفر خرچ ہے.اور اگر مبلغین کو چار چار سال کے بعد بلائیں تو یہ ترویج پھر بھی ۷۵ ہزار روپیہ ہوگا.اور کم سے کم اتنے عرصہ کے بعد اُن کو بلانا نہایت ضروری ہے.تا ان کا اپنا ایمان بھی تازہ ہوتا رہے اور ان کے بیوی بچوں اور خود ان کو بھی آرام ہے.اب تو یہ حالت ہے کہ حکیم فضل الرحمن صاحب کو باہر گئے ایک لمبا عرصہ گزرچکا ہے اور انہوں نے اپنے بچوں کی شکل بھی نہیں دیکھی جب وہ گئے تو ان کی بیوی معاملہ تھیں.بعد میں لڑکا پیدا ہوا.اور ان کے بچے پوچھتے ہیں کہ اماں ہمارے ابا کی شکل کیسی ہے.اسی طرح مولوی میلال الدین صاحب شمس انگلستان کئے ہوئے ہیں اور صدر اتحمین احمدیہ اس ڈر کے مارتے اُن کو واپس نہیں بلاتی کہ ان کا قائمقام کہاں سے لائیں.اور کچھ خیال نہیں کرتی کہ ان کے بھی بیوی بچے ہیں ہو اُن کے منتظر ہیں.اُن کا بچہ کبھی کبھی میرے پاس آتا اور آنکھوں میں آنسو بھر کہ کہتا ہے کہ الفضل " يكم فتح اسم مش صفحه ۶."
٢٠١ میرے ابا کو واپس بلا دیں.پھر اتنا عرصہ خاوندوں کے باہر رہنے کا نتیجہ بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ عورتیں بانجھ ہو جاتی ہیں اور آئندہ نسل کا پھلنا بند ہو جاتا ہے.ایک اور مبلغ باہر گئے ہوئے ہیں ان کے بچہ نے جو نا صا بڑا ہے نہایت ہی دردناک بات اپنی والدہ سے کہی.اس نے کہا.اماں ! دیکھو ہارا فلاں رشتہ دار بیمار پڑا تو اس کا ابا اسے پو چھنے کے لئے آیا.تم نے ابا سے کیوں شادی کی جو کبھی ہمیں پوچھنے بھی نہیں آیا.اس نے بچپن کی وجہ سے یہ تو نہ سمجھا کہ اگر یہ شادی نہ ہوتی تو وہ پیدا کہاں سے ہوتا اور اس طرح ہنسی کی بات بن گئی.مگر حقیقت پر غور کرو یہ بات بہت ہی درد نان ہے.اس کے والد عرصہ سے باہر گئے ہوئے ہیں اور ہم ان کو واپس نہیں بلا سکے.پس یہ بہت ضروری ہے کہ مبلغین کو تین چار سال کے بعد واپس بلایا جائے نے اس فیصلہ کے بعد بیرونی مجاہدین کی واپسی کے لئے ہرممکن اقدامات کی طرف خاص توجہ دی جانے لگی.حضرت سیدنا اصلح الموعود کی طرف سے شمالی ہند میں جماعت اسلامی کے نام سے مسلمانوں جماعت اسلامی سے تعلق بعض سورت کے جو اس کی ایک سا ایک رات میں بیس بیشتر سومی دارد سیاسی تین معرض وجود میں آئی تھی.یہ جماعت سید ابوالا اسلئے صاحب مودودی سابق ایڈیٹر" الجمعیتہ وصلی ومدیر رسالہ ترجمان القرآن لاہور کی قیادت میں ۲۵ اگست کو قائم ہوئی.اس جماعت کا پہلا مرکز دفتر رساله تو جهان القرآن مبارک پارک پونچھ روڈں ہور میں تھا.ارجون سر کو جناب مودودی صاحب اپنے بعض رفقا اہمیت قادیان کے نزدیک ہی ایک قریہ جمال پور تحصیل پٹھانکوٹ ضلع گورداسپونہ میں منتقل ہو گئے اور اسے اپنا " دار الاسلام بنا کر اپنی مخصوص دعوت کی اشاعت شروع کر دی."الفصل " بیت / نومبر ۱۳۳۳ به بیش صفحه ۸ + ۳۴۹ کے ترجمان القرآن مئی ۱۹۵۰ مسلم کے پر صاف لکھا ہے اس کا دین ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک سیاست ہے" سے ولادت ۱۲۵ ستمبر ست شارع بمقام اورنگ آباد حیدرآباد دکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے شاپر میں ملک کے جن مشہور سجادہ نشینوں کو مباھلہ کا چیلنج دیا مگر وہ میدان میں آنے کی جرات نہ کر سکے ان میں آپ کے دادا سید حسین شاہ صاحب مودودی دہلی" بھی تھے.(انجام آتھم صفحہ 1 طبع اول ) ه محرم الحرام شید (مطابق مئی جون نے کا واقعہ ہے کہ ابومحمد مصلح صاحب نے ریاست حیدرآباد دکن کی سرپرستی میں ایک ادارہ " ما قرنی تحریک" کی داغ بیل ڈالی اور ایک رسالہ ترجمان القرآن " بھی جاری کیا جس کا انتظام انہوں نے ذی الحجب رانا ( مطابق مارچ اپریل ۱۹۳۳ء کے شمارہ کے بعد مودودی صاحب کے سپرد کر دیا ( قرآنی تحریک کی مختصر تاریخ مرتبہ ابو محمد متصلح مسلسله اشاعت قرآن حیدر آباد دکن جلد هم شته "ترجمان القرآن" ذی الحمد لله رو نداد جماعت اسلامی " حصاوّل صفحه به طبع اول ناشر مکتبہ جماعت اسلامی دارالاسلام جلال پور پٹھانکوٹ روداد جماعت اسلامی حصہ اول صفحه ۳۴ +
۲۰۲ ریش کے آخر میں ایک دوست نے جماعت اسلامی" کے نظریات و عقائد کی نسبت دو سوالات حضرت امیر المومنين الصلح الموعود کی خدمت میں لکھ کر بھیجے جن کا جواب حضور نے اپنے قلم سے تھر یہ فرمایا.یہ سوالات مربع جوابات درج ذیل کئے جاتے ہیں :- سوال اول.تحریک جماعت اسلامی سے حضور واقف ہوں گے.سید ابوالاعلیٰ مودودی اور ان کے ساتھی اسلام کے متعلق حسب ذیل نظریہ رکھتے ہیں.قرآن اللہ تعالے کا نازل کردہ انسان کے لئے ضابطہ حیات ہے جو اخلاقی ، تمدنی اور سیاسی توانین کا مجموعہ ہے.اسلام اس کی کابل پیروی کا نام عبادت رکھتا ہے.جو شخص اس ضابطہ حیات کی بیجھے نظام باطل کے بنائے ہوئے قوانین پر عمل کرتا ہے وہ صحیح عید نہیں ہے یا جو اعتقادی طور پر تو ضابطہ شریعیت (قرآن) پر ایمان رکھتا ہو مگر عمل دوسرے قوانین پہ کر رہا ہو وہ بھی حلقہ عبودیت سے دور ہے ولائل وما أمروا إلا لِيَعْبُدُوا اللهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّين واعبدوا اللهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ ٣- وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا کیا یہ احمدیت کی رو سے بھی درست ہے ؟ جواب یہ درست ہے کہ قرآن کریم کے ہر ایک حکم پر عمل کرنا اگر طاقت ہو ضروری ہے مگر کلمہ حکمت سے باطل مراد لینا نا درست ہے.سوال دوم قبل ان الامر كله الله سے استنباط کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی مالک الملک اور فرمانروا ہے.اس کی حکومت میں کسی کا حکم نہیں چلتا.انسان کے لئے ضابطہ حیات بنانے کا حق اُسے.ہے کیونکہ وہی اس کی ضروریات اور رازوں سے واقف ہے مخلوق کا کام صرفت اس کی پیروی میں بنی اس کی فلاح ہے.اس لئے اگر کوئی شخص خدا کے قانون کو چھوڑ کر یا جو شخص یا ادار نخود کوئی قانون بناتا
۴۰۳ ہے ( در آنحالیکہ اس کے پاس خدا تعالے کی طرف سے کوئی CHARTER نہیں ، یا کسی دوستر کے بنائے ہوئے قانون کو تسلیم کر کے اس کے مطابق فیصلہ کرتا ہے وہ طاغوت (خارج از اطاعت متی ہے اور اس سے فیصلہ چاہئے.اور اس کے فیصلہ پر عمل کرنے والا بھی مجرم ہے اور اس کی وفادار رعایا میں سے نہیں ہے.دلائل ١ وَمَنْ لَمْ يَحْكُمُ بِمَا انْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْحَافِرُونَ.-1 ا لَمْ تَرَ إِلَى الَّذِيْنَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمُ امَنُوا بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قبلك يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَنْ يَكْفُرُ وا بِهِ ٣- وَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ.- وَلاَ تُعِمُ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَنْ ذِكرِنَا.ه فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِمُوكَ فِيْمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ 1 - المُ عَاهَدُ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي ادَمَ الاَ تَعْبُدُوا الشَّيْطن.گر احمدیت ہمیں غیر الہی قوانین کا احترام سکھاتی ہے.احترام ہی نہیں بلکہ پیروی کا حکم دیتی ہے.یہ تضاد سمجھ میں نہیں آتا.وضاحت فرمائی بھائے.جواب اگر اس کے یہ معنے ہیں کہ غیر مذہبی حکومت کے قوانین پر عمل نہیں کرتا تو ابوالعلی خود بھی عمل کرتے ہیں اور ان کے ساتھی بھی ے افضل ۳۰ نبوت نومبر س ش صفحه ۰۴٫۳ سے ایک شخص اسی زمانہ میں مودودی صاحب دریافت کیا کہ کیا ایک کافر " اسی زبان کہ جنا مودودی صاحب نے ترجمان القرآن میں اس کی حسب ذیل جواب دیا : اگر آپ ایک ایسی حکومتکے اندر رہتے ہیں تو نظام ملکی کو برقرار رکھنے کے لئے جو ضابطے اس نے بنائے ہیں اور جو قوانین پر عامل ایک منظم سوسائٹی کو بحال رکھنے کے لئے ضروری ہیں انہیں خواہ مخواہ توڑنا آپ کے لئے درست نہیں.....قانون شکنی کے معنی بد نظمی ( DISORDER ) پیدا کرنے کے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے منشار کے خلاف ہے.اللہ تعالے اپنی زمین میں نظم دیکھنا چاہتا ہے نہ کہ بد نظمی.اس لئے اگر آپ خواہ مخواہ اس کی زمین کا نظم بگاڑیں گے تو اس کی تائید سے محروم رہیں گے" (ترجمان القرآن محرم صفر راه (جنوری فروری ۱۱۴ بحواله " رسائل ومسائل" صفحه ۴۲۴۰۴۶۳ طالع و ناشر مرکز می مکتبہ جماعت اسلامی اچھرہ لاہور طبع اول تمبر )
۲۰۴ فصل سوم ما حدود کے دور جدید پہلا سالا جلسہ دو به صلح موعود کا پہلا جا سالانہ قریب آرہا تھا اس لئے جلس کی آمد سے قبل وعاوں کی تیک رصاص جلس کی دستی کی حضرت امیرالمومنین نے ۲۲ فتح دسمبر سالی میش کو اپنے خطبہ جمعہ میں اہل قادیان اور بیرونی جماعتوں کو دعائیں کرنے کی خاص تحریک کی پچنانچہ ارشاد فرمایا کہ یہ موقعہ بہت دُعاؤں کا اور بہت گریہ و زاری کا ہے.قادیان کے دوست بھی بہت دعائیں کرتے ہیں اور باہر سے آنے والے بھی دکھاؤں میں لگے رہیں کہ اللہ تعالے سب کو اس اجتماع کی برکات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانے کی توفیق دے....وہ باقی ماندہ ایام اور جلسہ کے ایام کو بھی اور اس کے بعد کے چند ایام کو بھی خصوصیت کے ساتھ دکھاؤں میں گزاریں سلہ رت مصلح موعود کی متر ار تقاریر افتتاح یہ عجب حسب معمول ہائی سکول کی کھلی گراؤنڈ میں ہوا.اور اس میں حضرت امیر المومنين الصلح الموعود نے پھر معرکة الآراء تقاریر فرمائیں.حضور ۲۶ فتح دسمبر کو گیارہ بجے جلسہ کا افتتاح کرنے کے لئے سٹیج پر تشریف لائے تمام مجمع نے کھڑے ہو کہ اللہ اکبر اور حضرت امیرالمومنین زندہ باد کے نعروں سے استقبال کیا حضور نے تمام مجمع کو السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ کہا اور کرسی پر رونق افروز ہو گئے.ازاں بعد حضرت صوفی غلام محمد صاحب بی.اے نے تلاوت قرآن کریم کی.پھر حضور نے افتتاحی تقریبہ ارشاد فرمائی جس میں بتایا کہ " ہمیں وہ نظارے بھی یاد ہیں جب دو چار آدمی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ تھے.اور آج ہم یہ نظارہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ساری دنیا میں، دنیا کی ہر قوم میں ، ہر نسل میں اور ہر زبان بولنے والوں میں احمدی موجود ہیں اور ان میں ہمت اور اختلاس اور فداکاری کے جذبات اعلیٰ درجہ کے پائے جاتے ہیں اور وہ قربانی کے انتہائی مقام پر پہنچے ہوئے ہیں.آج مغدا تعالے کا ہاتھ ان کو روک رہا ہے ورنہ وہ آگے بڑھ کر اپنی جانیں قربانی " له الفضل " ۲۵ فتح / دسمبر ۳۳۳ بش صفحه ۲ کالم ۳ - ۴ *
۲۰۵ کرنے کے لئے تیار ہیں.پر دانے موجود ہیں ، شمع ہی انہیں قربان ہو جانے سے روک رہی ہے اور وہ مبل بجانے کی خواہش اور تمنا میں جل رہے ہیں.خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت تھوڑی سے بڑھ کر اب اس مقام پر پہنچ چکی ہے اور اتنا وسیع کام اس کے سامنے ہے کہ جو قومیں اس مقام پر پہنچ جاتی ہیں، وہ یا تو اوپر نکل بھائی اور سب روکاوٹوں کو توڑ ڈالتی ہیں یا پھر تنزل کے گڑھے میں گر جاتی ہیں.دراصل یہ مقام سب سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے بہت لوگ جب یہاں ہے، گر بجاتے ہیں تو پتہ بھی نہیں چلتا کہ کہاں چلے گئے.مگر بہت اس مقام سے آگے بڑھ کر اس درجہ پر پہنچ جاتے ہیں کہ انہیں خدا تعالے کا عرش نظر آنے لگتا ہے.وہ خدا تعالے کی باتیں سننے اور اس کے خاص انعامات کے مور د یتے ہیں.خدا ان کا ہو جاتا ہے وہ خدا کے ہو جاتے ہیں.پس اس نازک وقت اور نازک مقام کی وجہ سے جماعت کی ذمہ داریاں بہت اہم ہیں اور آج آپ لوگوں کو سمجھ لینا چاہیئے اور اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ وہ وقت آگیا ہے کہ یا تو ہمارا قدم نہایت بلند مقام کی طرف اُٹھے گا یا پھر نیچے گر جائے گا " سے.دوسرے دن ( ۲۳ فتح دسمبر کی ظہر سے قبل سیدنا دو روز خواتین کی جنگلہ میں تقریر اصلی ہالیجو نے خواتین کی بارگاہ میں جو حسب سابق مسجد نور سے متصل مشرقی جانب تھی، تقریبہ فرمائی جس میں بجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے متعلق ارشاد فرمایا کہ ایک مہینہ کے اندر اندر یعنی جنوری سام و ختم ہونے سے پہلے وہ اپنے دفتر کو منظم کرلیں" اس اہم ارشاد کے بعد حضور نے لجنہ کو احمدی خواتین کی تنظیم کی نسبت بیش قیمت ہدایات سے نوازتے ہوئے ارشاد فرمایا :- جنہ اماءاللہ کا پہلا قدم یہ ہونا چاہیئے کہ جب ان کی تنظیم ہو جائے تو جماعت کی تمام عورتو کو لکھنا پڑھنا سکھا دے.پھر دوسرا قدم یہ ہونا چاہئیے کہ نماز ، روزہ اور شریعیت کے دوسرے موٹے موٹے احکام کے متعلق آسان اُردو زبان میں مسائل لکھ کر تمام عورتوں کو سکھا دیئے بھائیں اور پھر تیسرا قدم یہ ہونا چاہیے کہ ہر ایک عورت کو نماز کا ترجمہ یا د ہو جائے تاکہ ان کی نماز طوطے " الفضل " - دسمبر ۱۳۲۳ مه بیش صفحه ۳-۵۴۲ ار سمیره
۲۰۶ کی طرح نہ ہو کہ وہ نماز پڑھ رہی ہوں مگر ان کو یہ علم ہی نہ ہو کہ وہ نماز میں کیا کہہ رہی ہیں اور آخری اور اصل قدم یہ ہونا چا ہئیے کہ تمام عورتوں کو با تر مرتب آن مجید آجائے اور چند سالوں کے بعد بہاری جماعت میں سے کوئی عورت ایسی نہ نکلے جو قرآن مجید کا ترجمہ نہ جانتی ہو.اس وقت شاید ہزار میں سے ایک عورت بھی نہیں ہوگی جس کو قرآن مجید کا ترجمہ آتا ہو.میری حیثیت اُستاد کی ہے اس لئے کوئی حرج نہیں اگر میں تم سے یہ پوچھ لوں کہ جو عورتیں قرآن مجید کا ترجمہ جانتی ہیں وہ کھڑی ہو بجائیں اور جن کو ترجمہ نہیں آتا وہ بیٹھی رہیں.میں یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ تم میں سے کتنی عورتیں ایسی ہیں جو قرآن مجید کا ترجمہ جانتی ہیں.اس لئے جو ترجمہ جانتی ہیں وہ کھڑی ہو جائیں (حضور کے ارشاد پر بہت سی عورتیں کھڑی ہوگئیں جن کو دیکھ کر حضور نے فرمایا ، بہت خوشکن بات ہے کہ میرے اندازہ سے بہت زیادہ عورتیں کھڑی ہیں.الحمد للہ اب بیٹھ جاؤ.میرے لئے یہ خوشی عید کی خوشی سے بھی زیادہ ہے.میرا اندازہ تھا کہ جتنی عورتیں کھڑی ہوئی ہیں اس کے دسویں حصہ سے بھی کم عورتیں ہوں گی جو قرآن مجید کا ترجمہ بھانتی ہوں.مگر خدا تعالے کا فضل ہے کہ میرے اندازہ سے بہت زیادہ عورتیں کھڑی ہوئی ہیں.مگر میرے لئے یہ تسلی کا موجب نہیں.میرے لئے تسلی کا موجب تو یہ بات ہوگی جب تم میں سے ہر ایک عورت قرآن مجید کا ترجمہ جانتی ہوگی.اور مجھے خوشی اس وقت ہوگی جب تم میں سے ہر ایک عورت صرف ترجمہ ہی نہ جانتی ہو بلکہ قر آن مجید کو سمجھتی بھی ہو اور مجھے حقیقی خوشی اس وقت ہوگی جب تم میں سے ہر ایک عورت دوسروں کو قرآن مجید سمجھا سکتی ہو اور پھر اس سے بھی زیادہ خوشی کا دن تو وہ ہوگا جس دن خدا تعالے تمہارے متعلق یہ گواہی دے گا کہ تم نے قرآن مجید کو سمجھ لیا ہے اور اس پر عمل بھی کیا ہے" سے اہم واقت پرتیب اور پروگرام ۳.اسی روز ۲۷ فتح / دسمبر کو حضور نے مردانہ جلسہ گاہ میں بھی مفصل تقریر فرمائی جس میں حسب موتور سال کے اہم واقعات پر تبصرہ فرمایا اور آیندہ کے پروگرام پر روشنی ڈالی.یہ تقریر تقریباً تین گھنٹے تک جاری رہتی.ظہور صلح موعود کے موضوع پر پر شوکت تقریر.سالانہ جا کے آخری اجلاس منعقده ۲۹ فتح دسمبری مسیح پر - ۲۹ رودسمبر) میں حضرت امیر المومنین نے ساڑھے تین بجے سے لے کر له " الامر ها لذوات الخمار مرتبہ حضرت سیده ام متین مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنه الا الله مرکز هم متحد ۴۰۹-۴۱۰ طبع دوم : الفضل " یکم صلح جنوری سرمایش صفحہ ۱و ۲ میں اس کا ملخص شائع ہو چکا ہے سے افضل " م فتح ا سمبر مش متحد و کالم ۲۶۱ +191
۲۰۷ ساڑھے سات بجے یعنی مسلسل چار گھنٹے تک خطاب فرمایا جس میں نہ صرف پیشگوئی مصلح موعود کا پورا ہونا دلال اور واقعات سے روز روشن کی طرح ثابت فرما دیا بلکہ مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء کے اعتراضات کا نہایت احسن پیرایہ میں رہ گیا.اس انقلاب آفرین تقریب کے آخری حصہ میں حضور نے جماعت احمدیہ کونئی وقت داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا :- اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے رحم سے وہ پیشگوئی جس کے پورا ہونے کا ایک لیے عرصہ سے انتظا کیا جا رہا تھا.اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق اپنے الہام اور اسلام کے ذریعہ مجھے بتا دیا ہے کہ وہ پیشگوئی میرے وجود میں پوری ہو چکی ہے اور اب دشمنان اسلام پر خدا تعالیٰ نے کامل حجت کر دی ہے اور ان پر یہ امر واضح کر دیا ہے کہ اسلام خدا تعالے کا سچا مذہب، محمد رسول اللہ صلے الہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے سچے مول اور متر مسیح موعود علیہ سلام خدا تعالیٰ کے سچے فرستادہ ہیں جھوٹے ہیں وہ لوگ جو اسلام کو جھوٹا کہتے ہیں.کاتب ہیں وہ لوگ کہ محمدرسول اللہ صل اللہ علیہ ولم کو اب کہتے ہیں خدا نے اس عظیم الشان نگوئی کے یہ اسلام اور رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا ایک زندہ ثبوت لوگوں کے سامنے پیش کر دیا ہے.بھلا کس شخص کی طاقت تھی کہ وہ شہر میں آج سے پورے اٹھاون سال قبل اپنی متر یہ شہر دے سکتا کہ اس کے ہاں نو سال کے عرصہ میں ایک لڑکا پیدا ہو گا.وہ جلد جلد بڑھے گا وہ دنیا کے کناروں تک شہرت پائے گا.وہ اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا نام کیا میں پھیلائے گا.وہ علوم ظاہری اور باطنی سے پیر کیا جائے گا.وہ جلال الہی کے ظہور کا موجب ہوگا اور خدا تعالے کی قدرت اور اس کی قربت اور اس کی رحمت کا وہ ایک زندہ نشان ہوگا.یہ خیر دنیا کا کوئی انسان اپنے پاس سے نہیں دے سکتا تھا.خدا نے یہ خبر دی اور پھر اسی بندا نے اس شہیر کو پورا کیا.اس انسان کے ذریعہ جس کے متعلق ڈاکٹر یہ امید نہیں رکھتے تھے کہ وہ زندہ رہیگا یا لمبی عمر پائے گا.میری صحت بچپن میں ایسی خراب تھی کہ ایک موقعہ پر ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صلو نے میرے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کیا کہ اسے سیل ہو گئی ہے کسی پہاڑی مقام پر اسے بھیجوا دیا جائے چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مجھے شملہ بھجوا دیا مگر وہاں جھا کر میں اداس ہو گیا اور اس وجہ سے جلدی ہی واپس آگیا.غرض ایسا انسان نیس کی صحت کبھی ایک دن بھی
۲۰۸ اچھی نہیں ہوئی اس انسان کو خدا نے زندہ رکھا اور اس لئے زندہ رکھا کہ اس کے ذریعہ اپنی پیشگوئیوں کو پورا کرے اور اسلام اور احمدیت کی صداقت کا ثبوت لوگوں کے سامنے بہتا کرے پھر میں وہ شخص تھا جسے علوم ظاہری میں سے کوئی علم حاصل نہیں تھا مگر مند نے اپنے فضل سے فرشتوں کو میری تعلیم کے لئے بھجوایا اور مجھے قرآن کے اُن مطالب سے آگاہ فرمایا جوکسی ازان کے واہمہ اور گمان میں بھی نہیں آسکتے تھے.وہ علم جو خدا نے مجھے عطا فرمایا اور وہ چشمہ روحانی جو میرے سینہ میں پھوٹا وہ خیالی یا قیاسی نہیں ہے بلکہ ایسا قطعی اور یقینی ہے کہ میں ساری دنیا کر چیلنج کرتا ہوں کہ اگر اس دنیا کے پردہ پر کوئی شخص ایسا ہے جو یہ دعوی کرتا ہو کہ خدا تعالے کی طرف سے اُسے قرآن سکھایا گیا ہے تو میں ہر وقت اس سے مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوں لیکن میں جانتا ہوں آج دنیا کے پردہ پر سوائے میرے اور کوئی شخص نہیں جسے بعدا کی طرف سے قرآن کریم کا علم عطا فرمایا گیا ہو.خدا نے مجھے علم بر آن بخشتا ہے اور اس زمانہ میں اس نے قرآن سکھانے کے لئے مجھے دنیا کا استاد مقرر کیا ہے بخدا نے مجھے اس غرض کے لئے کھڑا کیا ہے کہ میں محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں اور اسلام کے مقابلہ میں دُنیا کے تمام باطل ادیان کو ہمیشہ کی شکست دے دُوں دنیا زور لگالے ، وہ اپنی تمام طاقتوں اور جمعیتوں کو اکٹھا کر لے.عیسائی بادشاہ بھی اور اُن کی حکومتیں بھی مل بجائیں.یورپ بھی اور امریکہ بھی اکٹھا ہو جائے.دنیا کی تمام بڑی بڑی مالدار اور طاقت ور قومیں اکٹھی ہو جائیں اور وہ مجھے اس مقصد میں ناکام کرنے کے لئے متحد ہو جائیں پھر بھی میں خدا کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ وہ میرے مقابلہ میں ناکام رہیں گی.اور خدا میری دعاؤں اور تدابیر کے سامنے اُن کے تمام منصوبوں اور مکروں اور فریبوں کو ملیا میٹ کر دے گا اور خدا میرے ذریعہ سے یا میرے شاگردوں اور اتباع کے ذریعہ سے اس پیشگوئی کی صداقت ثابت کرنے کے لئے رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم کے نام کے طفیل اور صدقے اسلام کی عزت کو قائم کرے گا اور اس وقت تک دنیا کو نہیں چھوڑیگا جب تک اسلام پھر اپنی پوری شان کے ساتھ دنیا میں قائم نہ ہو بھائے اور جب تک
۲۰۹ محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کو پھر نیا کا زندہ ہی تسلیم نہ کرلیا جائے.اے میرے دوستو بائیں اپنے لئے کسی عورت کا خواہاں نہیں، نہ جب تک خدا تعالیٰ مجھے پر ظاہر کرے کسی مزید عمر کا امید وار.ہاں خدا تعالٰی کے فضل کا ئیں امیدوار ہوں اور میں کامل یقین رکھتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی عزت کے قیام میں اور دوبارہ اسلام کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے اور مسیحیت کے کھلنے میں میرے گذشتہ یا آئندہ کاموں کا انشاء اللہ بہت کچھ حصہ ہوگا اور وہ ایٹمیاں جو شیطان کا سر کھلیں گی اور مسیحیت کا خاتمہ کریں گی اُن میں سے ایک ایٹری میری بھی ہوگی.انشاء اللہ تعالے میں اس سچائی کو نہایت کھلے طور پر ساری دنیا کے سامنے پیش کرتا ہوں.یہ آواز وہ ہے جو زمین و آسمان کے خدا کی آواز ہے.یہ مشیت وہ ہے جو زمین و آسمان کے خدا کی حقیقت ہے.یہ سچائی نہیں ملے گی نہیں ملے گی اور نہیں ملے گی.اسلام دنیا پر غالب آگر رہے گا.مسیحیت دنیا میں مغلوب ہو کر رہے گی.اب کوئی سہارا نہیں جو عیسائیت کو میرے حملوں سے بچا سکے.خدا میرے ہاتھ سے اُس کو شکست دے گا اور یا تو میری زندگی میں ہی اُس کو اس طرح کچل کر رکھ دے گا کہ وہ سر اٹھانے کی بھی تاب نہیں رکھے گی اور یا پھر میں گرتے ہوئے بیج سے وہ درخت پیدا ہو گا جس کے سامنے عیسائیت ایک نخشک جھاڑی کی طرح در جھا کہ رہ جائے گی.اور دنیا میں چاروں طرف اسلام اور احمدیت کا جھنڈا انتہائی بلندیوں پر اُڑتا ہوا دکھائی دے گا.میں اس موقعہ پر جہاں آپ لوگوں کو یہ بشارت دیتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے آپ کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اُس پیشگوئی کو پورا کر دیا جو مصلح موجود کے ساتھ تعلق رکھتی تھی وہاں میں آپ لوگوں کو اُن ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں جو آپ لوگوں پر عائد ہوتی ہیں آپ لوگ جو میرے اس اعلان کے مصدق میں آپ کا اولین فرض یہ ہے کہ اپنے احمد ر تبدیلی پیدا کریں اور اپنے خون کا آخری قطرہ تک اسلام اور احمدیت کی فتح اور کامیابی کے لئے بہانے کو تیار ہو جائیں.بیشک آپ لوگ خوش ہو سکتے ہیں کہ خدا نے اس پیشگوئی کو پورا کیا بلکہ میں کہتا ہوں آپ کو یقیناً خوش ہوتا چاہیئے کیونکہ حضرت مسیح موجود علیہ الصلوۃ والسلام نے خود لکھا ہے کہ تم
۲۱۰ خوش ہوا اور خوشی سے اچھلو کہ اس کے بعد اب روشنی آئے گی.پس میں تمہیں خوش ہونے سے نہیں روکتا.میں تمہیں اُچھلتے اور گودنے سے نہیں روکتا.بیشک تم خوشیاں مناؤ اور خوشی سے اچھلو اور کورد و لیکن میں کہتا ہوں اس خوشی اور اچھل کود میں تم اپنی ذمہ داریوں کو فراموش مت کرو جس طرح بندا نے مجھے رویا ر میں دکھایا تھا کہ میں تیزی کے ساتھ بھاگتا چلا جا رہا ہوں اور زمین میرے پیروں کے نیچے سمٹتی بھارہی ہے.اسی طرح اللہ تعالٰی نے الہاماً میرے متعلق یہ خیر دی ہے کہ میں بجلد جلد بڑھوں گا.پس میرے لئے یہی مقدر ہے کہ میں سرعت اور تیزی کے ساتھ اپنا قدم ترقیات کے میدان میں بڑھاتا چلا جاؤں مگر اس کے ساتھ ہی آپ لوگوں پر بھی یہ فرض عاید ہوتا ہے کہ اپنے قدم کو تیز کریں اور اپنی شست رومی کو ترک کر دیں مبارک ہے وہ جو میرے قدم کے ساتھ اپنے قدم کو طلاقا اور سرعت کے ساتھ ترقیات کے میدان میں دوڑتا چلا بھاتا ہے اور اللہ تعالئے رحم کرے اس شخص پہ تو سستی اور غفلت سے کام لے کر اپنے قدم کو تیز نہیں کرتا اور میدان میں آگے بڑھنے کی بجائے منافقوں کی طرح اپنے قدم کو پیچھے ہٹا لیتا ہے.اگر تم ترقی کرنا چاہتے ہو ، اگرتم اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طور پر سمجھتے ہو تو قدم بقدم اور شانہ بشانہ میرے ساتھ بڑھتے چلے آؤ تا کہ ہم کفر کے قلب میں محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا گاڑ دیں اور باطل کو ہمیشہ کے لئے صفحہ عالم سے نیست و نابود کردیں.اور انشاء اللہ ایسا ہی ہو گا.زمین اور آسمان ٹل سکتے ہیں مگر خدا تعالے کی باتیں کبھی ٹل نہیں سکتیں".اہ اس جلسہ میں حضرت سید نا المصلح الموعود کی ان پر جنب و تاثیر تقاریر کے علاوہ مندرجہ دو کے مقررین زیل عنوانات پر بھی تقاریر ہوئیں.:- بھی الہی اور اللہ تعالے کی ذات پر زندہ یقین (حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم.اے جو ( حضرت مفتی محمد صادق صاحب ) ۳.ختم نبوت کی حقیقت کے متعلق بزرگان سلف کا نقطہ نظر (مولوی محمد سلیم صاحب مبلغ مسلسلہ ) ۴.غیر احمدیوں پر عقائد احمدیہ کا اثر و نفوذ د مولوی محمد یار صاحب عارفت سابق مبلغ انگلستان) لة الموعود" (تقریر حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی الله عنه فرموده ۲۸ فتح اردسمبر به همش بمقام قادریان الناشر: الشركة الاسلامیہ لیڈر یوه طبع اول صفحہ ۲۰۸ تا ۲۱۲ *
۲۱۱ ا صل للہ علیہ وآلہ سلم کی میل شان احمدی کے نقطه نظر د حضرت سید زین العابدین ولی اله شاه صاحب ) حضرت کوشن کی آمد ثانی ۷.خدا تعالیٰ کی صفت مالکیت اعتراضات کے جوابات ۹ اسلامی سیاست کے اصول ۱۰- تمدن اسلام کا اثر اقوام یورپ پر و ماشہ محمد عمر صاحب فاضل مبلغ سلسلہ ) رقاضی محمد اسلم صاحب پر وفیسر گورنمنٹ کالج لاہور) ملا عبد الرحمن حسین خادم بی اے ایل ایل بی وکیل گجراتی ) آنر میل چودھری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب) حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد من الحب ) غیر مبا لعین کی تبدیلی عقیدہ اور تبدیلی عمل قاضی محمد نزیر نا لیکر تعلیم الاسلام کالاج) ۱۲- فلسفه احکام نمازه ۱۳ - احمد کی تو جوانوں سے خطاب ۱۴- بہائی تحریک کی حقیقت ر حضرت مولانا غلام رسول صاحب را نیکی حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب) مون تا ابو الخط و صاحب فاضل) کے اس جلسہ کے مختلف اجلاسوں میں مندرجہ ذیل اصحاب نے بالترتیب ا جس کے تلے صدارت کرنے والے اصحاب صدارت کے فرائض انجام دیئے.حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب سکندر آباد (۲) نواب اکبر یار جنگ بہادر حیدر آباد دکن.تخان بهادر نواب محمد دین صاحب رہی خان بہادر چوہدری انعمت خان صاحب ریٹائر وشن بیج جا کے دور ضروری کوائف جنگ کے نام تھے اس لئے گذشتہ سال کی طرح اس سال بھی سپیشل ٹریوں کا کوئی انتظام نہ ہوسکا.نیز حضرت خلیفتہ اسیح الثانی المصلح الموحد نے عورتوں کو جلسہ میں نے کی بالعموم ماحت فرما دی تھی کہ کر اس کے باوجود اس مبارک تقریب پر دور دراز مقامات سے تیس ہزار کے قریب افراد شامل جلسہ ہوئے.افسر جلسہ سالانہ حضرت قاضی محمد عبد الله صاحب ناظر ضیافت تھے جن کی نیابت کے لئے اندرون قصبہ میں ماسٹر غلام حید ر صاحب بی.اسے بی.ٹی ، دارالعلوم میں حضرت صاحب راد مرزا ناصر احمد صاحب اور دار افضل و دار البرکات میں صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب بطور ناظم مقرر تھے.علاوہ ازیں ایک نظامت سپلائی رسٹور بھی قائم تھی جس کے انچارج حضرت مولوی عبد الرحمن صاحب جٹ ١٣٢١ ۶۱۹۴۴ ه وله الفضل ۳۰ فتح / دسمبر یه مش صفحه ۵-۶ الفضل ۳ فتح دسمبر باش خطبه جمعه فرموده در فتح اردسمبر بلال الماليه من مندرجة " الفضل " ١٧ فتح / دسمبر
۲۱۲ مولوی فاضل تھے منتظم مکانات کے دفاتر مدرسہ احمدیہ اور بورڈنگ تحریک بعدید میں تھے.پہرہ کے انچالنج شیخ نیاز محمد صاحب تھے.اور قصر خلافت اور مسجد مبارک میں ملاقات کے وقت ان کے علاوہ میاں عظام محمود است اختر بھی ڈیوٹی پر ہوتے تھے.اس سال بھی لوائے احمدیت جلسہ گاہ میں سٹیج کے شمال مشرقی جانب ایک بلند پول پر جلسہ کے ایام میں لہراتا رہا.جلسہ گاہ کے قریب خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کے کیمپ بھی موجود تھے.طبی انتظام کے لئے نور ہسپتال دن رات کھلا رہتا تھا اور ایک ڈاکٹر اور کمپاؤنڈر ہر وقت موجود رہتے تھے.انچارج حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب تھے جن کے ساتھ ڈاکٹر مہر دین صاحب، ڈاکٹر ظفر حسن صاحب، ڈاکٹر رحیم بخش صاحب ، صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب ، صاحبزادہ مرزا بشر احمد صاحب ، ڈاکٹر عبدالطبیعت صاحب، ڈاکٹر محمد احمد صاحب ( ابن حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خال صاحب) اور لیڈی ڈاکٹر غلام فاطمہ صاحبہ نے کام کیا.علاوہ ازیں دور ڈسپنسریاں بورڈنگ ستحریک جدید کے مشرقی گیٹ اور بورڈنگ مدرسہ احمدیہ میں کھولی گئیں.پہلی کے انچارج ڈاکٹر احمد دین صاحب اور ڈاکٹر عبد الرؤف صاحب اور دوسری کے ڈاکٹر محمد احمد صاحب اور ڈاکٹر بشیر احمد صاحب شاد تھے.جلسہ میں احمدیوں کے علاوہ غیر احمدی اور غیر مسلم اصحاب نے بھی شرکت کی.جن غیر مسلموں کے کھانے کا انتظام جلسہ کے انتظامات کا حصہ تھا ان کی تعداد 4۳ تھی بلے جا کے دوران ایک ناخوشگوار واقع اور حفت امیر المومنین اس جلس میں ایک ناخوشگوار واقعہ کبھی ہوا.اور وہ یہ کہ بعض مخالفین کی طرف سے آنحضرت کی ایک دُعا پڑھنے کا ارشاد احمدیت نے مین جلسہ کے ایام میں (۲۵ فتح اوسمبر) کو بعض گزرگاہوں پر لاوڈ سپیکر لگا کہ حضرت سید نا المصلح الموعود اور جماعت احمدیہ کے متعلق نہایت بد زبانی اور درشت کلامی کا مظاہرہ کیا اور غلیظ گالیاں دینے سے بھی دریغ نہ کیا مگر حضرت سيدنا الصلح الموعود نے اپنی دوسری تقریر میں دوستوں کو نہایت پیار اور محبت کے لب لہجہ میں فرمایا :- ہمارے دوستوں کو یہ بات کبھی نہیں بھولنی چاہئیے کہ خدا تعالے کی بنائی ہوئی جماعتیں ہوتی ہی گالیاں کھانے کے لئے ہیں.اگر ہمیں گالیاں نہ ملیں تو دوسروں کو حق پہنچتا ہے کہ 02 کہیں کہ اگر تم صداقت پر ہو تو تمہارے ساتھ وہ سلوک کیوں نہیں ہوتا جو ہمیشہ سے خدا تعالے کی الفضل " يكم تصليح ابجنوری ما در بین صفر ۶۰۰ * حالا ما
۲۱۳ جماعتوں کے ساتھ مخالفین کی طرف سے ہوتا رہا ہے.اس قسم کی منافقتیں ضروری ہیں.اور اُن سے گھبرانا مومن کی شان کے خلاف بات ہے.ان پر بگڑنے کی کوئی وجہ نہیں.دوستوں کو دُعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالئے اپنے فضل سے کوئی نشان دکھائے ملے صبر و تحمل کی اس حکیمانہ تبلیغ کا نتیجہ یہ ہوا کہ جلسہ کے مبارک ایام بخیر و خوبی گذر گئے اور کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آیا.اس تعلق میں سیدنا المصلح الموعود نے جلسہ کے خاتمہ کے معا بعد ۲۹ فتح اردسمبر کو تحریک فرمانی کہ یکم جنوری ۹۷ سے چالیس دن تک ہماری جماعت کے دوست متواتر اور باقاعدہ اللهُم إِنَّا تَجْعَلُكَ فِي نُحورِهِمْ وَنَعُوذُ بِكَ من شعر درہم کی دُعا عشاء کی آخری رکعت میں پڑھا کریں.اس دُعا کے معنے یہ ہیں کہ اسے خدا ! ہم پر دشمن حملہ آور ہوا ہے.بہمارے پاس تو مقابلہ کی طاقت نہیں.اس لئے ہم دشمن کے مقابلہ میں تجھے پیش کرتے ہیں.تو ہی ان کے حملہ کا جواب دے وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُورِهِہم ہمیں تباہ کرنے کے لئے دشمن جو شرارت کرتا ہے اس کے بد اثرات سے ہمیں بچا.یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا ہے " فصل چهارم جلیل القدر صحابة انتقال اس سال جن صحابہ کا انتقال ہوا، اُن میں سے حضرت میر محمد الحق صاحب رضی اللہ عنہ کے حالات فصل دوم میں گزر چکے ہیں.باقی صحابہ کے مختصر حالات ذیل میں درج کئے جاتے ہیں :- ۱- شیخ محمود احمد صاحب عرفانی ایڈیٹر حکم ) ولادت : ۲۸ اکتوبر شدید وقات ۲۰۰ تبلیغ فروری اش بوقت شب ) سلسلہ احمدیہ کے شعلہ بیاں مقرر، بلند پایہ مولف اور قابل اور پر جوش اخبار نویس تھے جنہیں بلند خیالی، اولوالعربی الفضل " یکم مسلح جنوری ۳۳ مه مش صفر اک ۳ : ۲ " الفضل" - فتح ( دسمبر ۳۳۳ پیش صفحه ۲ کالم ۳ * " الفضل" ۲۴ تبلیغ / فروری ۱۳۳۳ میش صفحه ۵ را بتدائی سوانح کیلئے ملاحظہ ہو ان کی کتاب یہ قادیان ، صفحہ ۶۴۳۰۶۲) ۱۹۴۳
۲۱۷ اپنے والد ماجد حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی اکبر سے ملی تھی.مرحوم کو ذیا بطیس کا دیرینہ عارضہ تھا جس نے گو جسمانی طور پر نڈھال کر رکھا تھا لیکن خدا تعالیٰ نے انہیں دل و دماغ اتنا مضبوط اعطا فرمایا تھاکہ آنوری دم تک تندرستوں کی طرح سلسلو کے کاہوں میں مصروف رہے.سالہا سال تک مصر میں تبلیغی جہاد کیا اور اسلامی دنیا کی ادارت سے ممالک اسلامیہ کی خدمت کرتے رہے بعد ازاں قادیان آگر سخت مالی مشکلات کے باوجود نہ صرف تحریک احمدیت کے سب سے پہلے اخبار" الحکم" کو زندہ رکھا بلکہ تقریری تحریری اور انتظامی تینوں اعتبار سے سلسلہ احمدیہ کی قابل رشک معلومات انجام دیں.آپ کی مشہور تالیفات یہ ہیں :- تاریخ مالابار - فتقه مصر، فاروق شاه مصر به مرکز احمدیت قادیان - سیرت مصر ام المومنین از هفته اول) حضرت شیخ محمد بخش صاحب میں کڑیانوالہ ضلع گجرات ولادت ، بیعت ، وفات : ۱۳ تبلیغ فروری ۳۳ پیش) $ آپ نے ایک بار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت اقدس میں اپنی مشکلات کا اظہار کیا اس پر حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے اک نہ اک دن پیش ہو گا تو فنا کے سامنے والی مشہور تعظیم لکھ کر دی جس کی برکت سے آپ کی سب مشکلات دور ہو گئیں.عشاء میں افریقہ میں نو آبادیات قائم ہوئیں.تو آپ نے وہاں ٹھیکہ داری کا کام شروع کیا جس سے آپ کو بہت فائدہ ہوتا رہا اور آپ بھی سلسلہ کی امداد دل کھول کر کرتے رہے.ایک دفعہ ایک ٹھیکہ میں جب خسارہ نظر آیا تو ایک آنہ فی رو پید حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نام کا رکھ دیا اور اس کی اطلاع حضرت اقدس کی خدمت میں بھی بھیج دی جس کے جواب میں حضور نے ناراضگی کا اظہار کیا اور فرمایا اگر میری بجائے اشاعت اسلام کے لئے حصہ رکھا جاتا تو بہتر ہوتا.بخدا کے فضل اور سیح پاک کی دُعاؤں کی برکت سے خسارہ نے نفع کی صورت اختیار کرلی اور حصہ کی رقم معہ دیگر قوم حضرت اقدس کی خدمت میں ارسال کر دی گئی.حضرت شیخ صاحب کو تبلیغ کا بہت شوق تھا.اکثر جب ذی وجاہت لوگوں کو ملتے تو باتوں باتوں میں احمدیت کا پیغام ضرور پہنچا دیتے -- حضرت شیخ قطب الدین احمد صاحب قریشی ر ولادت ۱۱۸۲۳ اندازاً) بیعت : ۱۸۹۲مه.وفات سهم رامان (مارچ ۱۳۲۳ میش بعمر ۷۱ سال) الفضل ۲۶ استاد اکتوبر ۳۳۳ صفحه ۰۶۰۵ HANN
۲۱۵ نهایت فرشته سیرت بزرگ تھے حضرت سیدنا المصلح الموعود سے خصوصاً اور خاندان حضرت مسیح موعود سے بہت محبت تھی.ان میں جب مسئلہ خلافت پر اختلاف ہوا تو مولوی صدرالدین صاحب اپنے دو تین رفقاء سمیت پٹیالہ گئے.آپ ان دنوں پٹیالہ شہر کے کو توال تھے.ابھی مولوی صاحب کچھ کہنے بھی نہ پائے تھے کہ حضرت قریشی صاحب نے فرمایا.اگر آپ نے خلافت کی مخالفت میں کچھ کہنا ہے تو اس کی اجازت میں آپ کو نہیں دے سکتا.اس پر مولوی صاحب موصوف برہم ہو کہ پھل دیئے.میں ملازمت سے ریٹائر ہوئے تو حضرت امیرالمومنین خلیفہ اسیح الثانی نے آپ پہلے سپر انسان آباد کاری جرائم پیشہ چار پائل لگایا.پھر آباد کاری جرائم پیشہ خانیوال چک (۱۹۱۸/ ۲-۱۱۰ ۱۹۱-۸/ ۱۰-۹ محمود آباد کا سپرنٹنڈنٹ مقرر فرمایا.یہاں آپ نے چک بسایا.مدرسہ بنوایا.مسجد تعمیر کرائی اور لوگوں کو احمدیت سے روشناس کرایا.چنانچہ چند سال ہی میں کئی لوگ احمدی ہو گئے.ماه تبلیغ ضروری اش میں سخت بیمار ہو گئے.اپنے بیٹے قریشی ضیاء الدین احمد صاحب بی ہے ایل ایل بی ایڈووکیٹ کو تار دے کر دہلی سے کال کا بلوا لیا.بیماری سے ذرا افاقہ ہوا تو فرمانے لگے " میں تو خواہ راستہ میں ہی مر جاؤں مگر حضرت مسیح موعود علیہ لصلوۃ والسلام کے قدموں میں بجا کر لیٹوں گا.مجھے جس طرح بھی ہو قادیان کے چلو.اس پر قریشی ضیاء الدین احمد صاحب انہیں بذریعہ گاڑی قادیان لائے بہانا چند روز بعد یک دم معالت نازک ہو گئی اور ہم ر زمان / مارچ ہمیش کو اپنے خالق حقیقی سے جامے اور بہشتی مقبرہ کے قطعہ خاص میں دفن کئے گئے بیلے -۴- حضرت مولوی عبد الرحمن صاحب المعروف مولوی عبد الرحیم کی متوطن پچک اندوره کشمیر - وفات : اا احسان جون ش ) حضرت مولوی صاحب نے عالم شباب میں احمدیت قبول کی.آپ ان دنوں قریباً و ماء سے جمع مسجد گلگت میں امام مسجد تھے.اور بہت سا وقت ماں بہا در غلام محمد صاحب کے یہاں گزارتے تھے.یہیں سلسلہ کا لٹریچر پڑھا اور قریباً دو سال کے بعد خان بہادر صاحب سے مخفی طور پر تبعیت کا شوط لکھوا دیا.بیعت کے دو سال بعد آپ گلگت چھوڑ کر راجہ عطا محمد صاحب باڑی پورہ کشمیر کے پاس پہلے گئے اور غالباً انہیں کی کوشش سے آپ کو چک اندورہ میں زمین بھی مل گئی اور آپ دہیں آباد ہو گئے ہلے له الفضل" ہے ہجرت ملی الله مش صفحه ۳ - ۰۵ يكم اتحاد اکتوبر صلاح ۴ کالم ۳-۰۲۴
۲۱۶ " آپ مشہور واعظ تھے اور آپ کی سحر بیانی مسلم تھی.آپ نے ایک بار راجوری میں وعظ کا سلسلہ شروع کیا.ہزاروں مسلمان آپ کے مواعظ حسنہ سے متاثر ہوئے.اور رسوم بد کو ترک کر کے اپنی تنظیم کی طرف متوجہ ہونے لگے.ایسے دیکھ کر راجوری کے ہندوؤں نے فرقہ دارانہ فساد کروا دیا.آپ کے علا وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے گئے اور آپ کو اشتہاری مجرم قرار دیا گیا.اس پر آپ ریاست سے نکل کھڑے ہوتے اور ہجرت کرکے پہلے حیدر آباد پھر سلسلہ میں اڑیسہ تشریف لے گئے اور کیرنگ کو اپنا مرکز بنا کر پورے جوش و خروش سے تبلیغی و تربیتی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا بلاء میں آپ کلکتہ تشریف لے گئے.کلکتہ میں کوئی مقامی احمدی دوست اس وقت موجودہ نہیں تھا.آپ کی دو تین ماہ کی مسلسل تبلیغ ہسحر البیانی اور راتوں کی دعاؤں نے یہ اثر دکھایا کہ ابو طاہر محمود احمد صاحب اور مولوی لطف الرحمن صاحب جیسے رو سائے کلکتہ داخل احمدیت ہو گئے.اور کلکتہ کی جماعت ترقی کے راستہ پر گامزن ہونے لگی.کلکتہ میں کچھ عرصہ قیام کے بعد حضرت مولوی صاحب دوبارہ کی تنگ آئے اور ریاست نگر یا میں تبلیغ کے لئے پچھلے گئے.تنگیر یا میں احمدیوں کی برادری اور رشتہ داری تھی مگرہ احمدی کوئی نہیں تھا.آپ کی قوت جاذبہ نے وہ اثر دکھایا کہ کٹر الی اور نگوریا کی تمام آبادی احمدیت میں داخل ہو گئی اور اس دن سے وہاں ایک بڑی جماعت قائم ہے.کی رنگ کی جماعت میں تنظیم نہ تھی.اکثر لوگ احمدی کہلاتے تھے مگو نہ انہوں نے بیعت کی تھی نہ چندہ دیا کرتے تھے.فقط جمعہ اور عیدین میں شامل ہو جانے سے اپنے آپ کو احمدی خیال کرتے تھے.حضرت مولوی صاحب مرحوم نے سب کا جائزہ لے کر باقاعدہ سلسلہ بیعت میں داخل کرایا ہے حضرت مولوی صاحب اڑیسہ ہی میں تھے کہ ریاست نے آپ کی بامداد کی ضبطی کا حکم دے دیا.آپ کے بعض رشتہ داروں نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی خدمت میں اطلاع دی بعضوں نے آپ کو ریاست کی عدالت میں حاضر ہونے کا ارشاد فرمایا جس کی آپ نے تعمیل کی اور حضرت امیر المومنین کی کھانی سے حضرت مولوی صاحب کو تمام الزامات سے بری قرار دے دیا گیا.آپ فرمایا کرتے تھے کہ میں حضرت صاحب کی دعا کا ایک زندہ معجزہ ہوں کہ حضور کی دعا نے میرے جیسے شخص کو جسے حکومت کشمیر نے اشتہاری مجرم قرار دیا تھا نہ صرف سزا سے بچا لیا بلکہ جملہ الزامات سے خود ہی بالکل بری قرار دے دیا سکے کام شة الفضل و راست هایش صرفه لم ۳ - الفضل ظهور است اروفا استمبر صفح۳ کالم ۳-۰۴
۲۱۷ , حضرت مولوی صاحب احمدیت کے لئے بیحد غیور ، شب بیدار ، مونس و غمخوار ، عالم با عمل اور نکتہ رس بزرگ تھے.سخت سے سخت مخالف آپ کے سامنے مبہوت ہو کے رہ جاتا تھا صورت وجیہہ اور قامت بلند و بالا تھی.آخری بیماری میں ان کے فرزند پروفیسر نظیر الاسلام صاحب نے پوری تندہی سے علاج کیا.گرہ دار احسان اجوں مہیش کی شام کو آپ ایک ایک درد گردہ میں مبتلا ہو گئے.اور اگلے روز اپنے محبوب حقیقی کو جا ملے لیے حضرت سید دلاور شاہ صاحب بخاری سابق ایڈیٹر اخبار مسلم آؤٹ لگ سکریٹری تبلیغ حیات احمدیہ لاہور ولادت : ۹۳اء بیعت : منی وفات ۱ ۱ احسان الا ) ۶۹۴۴ حضرت شاہ صاحب اپنے خلوص، قربانی اور جذبہ خدمت میں ضرب المثل تھے.مرحوم نے فارغ البالی کا زمانہ دیکھا تھا.مگر محض قومی مخدمت کی خاطر ایک اچھی ملازمت ترک کردی.راجپال کے مشہور مقدمہ میں آپ نے شمالی ہند کے مشہور اخبار مسلم آؤٹ لک ( MUSLIM OUTLOOK) کے ایڈیٹر کی حیثیت سے ۱۴ جون ان کے پرچہ میں مستعفی ہو بھاؤ " کے عنوان سے ایک پُر زور اداریہ لکھا جس میں دلیپ سنگھ بھیج ہائیکورٹ کے فیصلہ کے خلاف بڑی جرات کے ساتھ رائے زنی کی اس بناء پر آپ کو چھ ماہ قید کی سزا ہوئی جو آپ نے نہایت بشاشت کے ساتھ اور اپنے لئے سعاد سمجھتے ہوئے برداشت کی ھے صحت خراب ہونے کے زمانہ میں بھی کئی سال تک کام کرتے رہے.نہایت قانع اور راضی برضاور ہنے والے بزرگ تھے.مرحوم کو تبلیغ کا بہت شوق تھا.مذہبی مسائل پر مضامین بھی لکھتے تھے.اور لیکچرار بھی نہایت قابل تھے.غیر احمدیوں اور غیر مسلموں کے جلسوں میں احمدیت پر اعتراضات کے جواب کے لئے سینہ سپر رہتے تھے.܀ +1947 له الفضل" ۲۹ ظهور / اگست ۱۳۳۳ مش صفحه ۴ کالم -۳-۴ : شورسے لاہور تاریخ احمدیت " مؤلفہ مولانا شیخ عبد القادر صاحب صفحه ۳۳۵.طبع اول سن اشاعت ۳۳۵ مش له " الفضل " ۲۳ احسان جون ۳ صفحه ۲ کالم - ے اس واقعہ کی تفصیل " تاریخ احمدیت جلد پنجم مهر ۵۸۷-۷ آچکی ہے ۳ :
MIA 4 - حضرت شیخ محمد المعیل صاحب مرساوی دو (ولادت با کار بودندانهای بیعت : ۱۸۹۴ وفات : ۲۵ احسان جون را پیش بر بالا مدرس تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ابتدائی اور قدیم اساتذہ میں سے تھے.چنانچہ حضرت مفتی محمد صادق صاب نے رسالہ تعلیم الاسلام " دسمبر شائر میں ان کی نسبت لکھا ” اس وقت جتنے اُستاد مدرسہ میں کام کر رہے ہیں ان میں سے سب سے پرانے شیخ محمد المعیل صاحب انفنٹ ٹیچر ہیں جو کہ ابتدائی طلباء کو قرآن شریف جلد اور عمدہ پڑھانے میں ایک خاص لیاقت رکھتے ہیں اور تھوڑے عرصہ میں یعنی پہلی جماعت میں سارا قرآن شریف ایک دفعہ پڑھا دیتے ہیں.حضرت حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی سال سے رولادت: ۶۱۸۵۴ بیعت جنوری شهد الله وفات : ۲۸ احسان جون ۱۳۲۲ شهید احمدیت مولانا عبید اللہ صاحب مبلغ ماریشس کے والد ماجد تھے.بعیت اولی اشتہار سے قبل قادریان تشریف لے گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت سے مستفیض ہوئے معلیہ عظیم مذاہب لاہور میں شرکت کے معا بعد اپنے بھائی حافظ غلام محمد صاحب اور استاد مولوی نجم الدین صاحب کے ساتھ قادیان پہنچے.اور تینوں نے بیک وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کا شرف حاصل کیا بیویت کرتے وقت ان تینوں پر ایسی رقت طاری ہوئی کہ بیساختہ رونا شروع کر دیا.اور اللہ تعالے کی عظمت دل حضرت مسیح موعود علیہ السلام جن دنوں کرم دین کے مقدمہ کے لئے گورداسپور میں تشریف فرما تھے.تو حضور علیہ السلام کے ارشاد پر ایک بار خطبہ جمعہ پڑھا.حضرت حافظ صاحب اپنی روایات میں اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :- چودھری حاکم علی صاحب پنیاری....نے حضرت صاحب سے عرض کیا کہ حضور آج جمعہ ہے اور مولوی عبد الکریم صاحب آئے نہیں تو جمعہ کون پڑھائے گا حضور نے فرمایا.یہ حافظ صاحب جو ہیں یہ پڑھائیں گے.یہ لفظ سُن کر میرا بدن کانپ اُٹھا اور میں نے دل ہی دل میں کہا له " الفضل" ۲۷ احسان ایون میں صفحہ ا کالم سے افضل ۲۹ احسان جون مایش صفحه اکو ام " ۳۳۳ ۱۲ صلح جنوری ۲۲ مه بهش صفحه ۳ به ۱۱۹۴۴
۲۱۹ - کریں تو اس لائق نہیں کہ کچھ بیان کر سکوں.خیر آخر جمعہ کا وقت آگیا اور خطبے کی اذان ہو گئی تو میں مارے رعب کے سب آدمیوں کے شمال میں بیٹھ گیا....جب خطبے کی اذان ہوئی میں تو فرمایا.حافظ صاحب کہاں ہیں ؟ آخر مجھے مجبوراً لایا گیا.میں نے جھک کو عرض کی کہ حضور میں گنہگار اس لائق نہیں کہ حضور کے سامنے کچھ بیان کر سکوں یا امامت کو اسکوں محضور نے میرا ہاتھ پکڑ کر مصلے پر کر دیا اور فرمایا.آپ خطبہ پڑھیں میں آپ کے لئے دعا کرتا ہوں یا فرمایا کروں گی چنانچہ میں کھڑا ہو گیا.مجھے خوب یاد ہے کہ میں نے اس وقت سورہ فرقان کا پہلار کوع..آخر تک پڑھائیں حضرت حافظ صاحب قادیان ہجرت کر کے آگئے تھے اور عرصہ تک مسجد اقصی میں امامت کے نسرائض عمرہ انجام دیتے رہے.آخری عمر میں صاحب فراش ہو گئے مسلسلہ احمدیہ کے مشہور پنجابی واط خوش بیان تھے.جلسہ سالانہ کے موقع پر زمانہ جل گانے میں اکثر آپ کی تفت دید بجھا کرتی تھیں.انداز بیان نہایت موثر ہوتا." یا قوت خالص" ، " سفرنامه ماریشس » ، حمد باری ، سیرت رسول ہدایت مقبول وغیرہ چھوٹے چھوٹے پنجابی رسائل آپ نے لکھے.۸- حضرت سید محمد صادق صاحب بین لارون ریاست کشمیر برادراکبر حضرت مولاناسید محمد سرور شاه صاحبین وفات : ظهور اگست ش ) ۱۳۳۳ ر بیعت : ۹امه حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب نے آپ کی وفات پر لکھا :- میرے قادیان آنے کے تھوڑی مدت بعد مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کشمیر بھی تھا تو میں ان بھائی صاحب مرحوم سے ملنے گیا.چونکہ ہمارا خاندان پیروں کا خاندان ہے اس لئے میں نے اپنے خاندان میں بالواسطہ تبلیغ کی اور جلدی ہی اللہ تعالیٰ نے اس سفر میں ان کو شرح صدر عطا کیا.اور اسی وقت انہوں نے بیعت کر لی.مجھے مرحوم سے اور مرحوم بھائی صاحب کو مجھ سے خاص محبت تھی" ے رہبر روایات صحابہ نمبر ۱۱ صفحه ۲۴۵ (۲۴۶ ؛ ے "الحکم ۱۷ دسمبر ائر صفحه ۱۳ کالم ۳ سے مؤلف اصحاب احمد کی تحقیق کے مطابق حضرت مولانا سید مهد سرور شاہ صاحب نے پریل یا مئی سلسلہ میں ہجرت فرمائی اور سفرکشمیر سے ۲۰ نومبرسٹر واپس قادیان تشریف لائے ( اصحاب احمد جلد تیم حصہ دوم صفحه ۱۶ - ۱۷ حاشیه)
۲۲۰ -۹- حضرت چودھری محمد عبد اللہ صاحب دات زید کا تحصیل پسر در ضلع سیالکوٹ A و عادت شده وفریبا بیعت : بون شاه وفات ، در اخاها اکتوبر پیش هر ستر سال) حضرت چودھری نصراللہ خان صاحب کے برادر نسبتی اور دانہ زید کا کے امیر جماعت تھے.چودھری اسد اللہ خان صاحب بیرسٹر ایٹ لاء حال امیر جماعت احمدیہ لاہور ان کے حالات قبول احمدیت اور اخلاق و شمائل پور روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:.سلسلہ عالیہ حقہ سے آپ کا تعارف پسرور سکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب سے (جو احمدی تھے ، ہوا.اُن سے ہی آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کوئی تصنیف لے کر مطالعہ کی اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ حضور واقعی اللہ تعالے کی طرف سے اور حق پر ہیں.دانہ زید کا سے ایک میل کے ملالہ پر بجانب مغرب ایک قصبہ قلعہ صوبا سنگھ ہے جہاں اس وقت مولوی فضل کریم صاحب مرحوم اہل حیرت خطیب اور امام الصلوۃ تھے اور حکمت اور علم دین کی وجہ سے تمام ارد گرد کے علاقہ میں معزز تھے ہمارے ننھیال بھی کیونکہ اہل حدیث تھے اس لئے ماموں جان اور مولوی صاحب موصوف کے تعلقات دوستانہ تھے.اسی زمانہ میں مولوی صاحب موصوف بھی انہی ہیڈ ماسٹر صاحب کے ذریعہ احمدیت سے متعارف اور صداقت کے قائل ہو چکے تھے گو انہوں نے ابھی کسی سے ذکر نہیں فرمایا تھا.ماموں جان نے مولوی صاحب سے ذکر کیا کہ مسیح اور مہدی کے ظہور کی علامات تو سامنے آچکی ہیں اور یہ ہو نہیں ہو سکتا کہ مدعی کے دعوے کے بغیر ہی گواہ شہادت دینی شروع کر دیں.خاص کر ایسے گواہ جو صرف اللہ تعالیٰ ہی کے تصرف میں ہوں.اس لئے ضرور ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے مدعی بھی مبعوث کیا گیا ہو.مولوی صاحب نے جب ایک معزز اور علاقہ کے بار سوخ زمیندار سے اپنے میلانات کی تائید ہوتی دیکھی تو آپ نے بھی اتفاق کیا اور پھر اس امر پر دونوں متفق ہوئے کہ وہ مسیح اور مہدی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام ہیں چنانچہ دونوں اصحاب نے فیصلہ کیا کہ قلعہ صوبا سنگھ میں مولوی صاحب اور دانہ زیرہ کا میں ماموں جان آئندہ جمعہ کے دن علامات ظہور مہدی پر خطبہ پڑھیں اور اپنے احمدی ہونے کا بھی اعلان کر دیں.اُدھر مولوی صاحب موصوف نے قلعہ مو با سنگھ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دلوئی کی تصدیق کی اور ادھر اپنے گاؤں میں ماموں جان نے ، مولوی صاحب سے تو مقتدیوں نے یہ
۲۲۱ سلوک کیا کہ سوائے دو یا تین کے باقی سب مسجد چھوڑ کر دوسری مسجد میں پہلے گئے لیکن ماموں بجھانا قوم کی برادری کے اکثر افراد نے بعد دریافت مزید حالات اپنی بیعت کے متعلق بھی حضور کی خدمت میں لکھنے کو کہہ دیا اور وہ سب اسی وقت سے احمدی ہیں.فالحمد للہ علی ذالک.اس جمعہ سے پہلی رات خواب میں آپ نے دیکھا کہ پانچ سوار سبز رنگ کے عمامے پہنے آپ کی بیٹھک میں داخل ہوئے ہیں اور آپ کے دریافت کرنے پہ کہ یہ کون بزرگ ہیں ان میں سے ایک صاحب نے فرمایا کہ حضرت مرزا صاحب قادیان والے ہیں.اسی رات ایک اور شخص ساکن دانہ زید کا جس کو جلال مہاراں والا “ کے نام سے پکارا جاتا تھا نے بھی خواب میں پانچ سبز عمامہ پوش سوار اپنے گھر کے پاس سے گزرتے دیکھے جن میں سے ایک نے ماموں جان مرحوم کی بیٹھک کا راستہ دریافت کیا.بجلال مذکور نے صبح ماموں جان کو اپنا خواب سنایا اور ماموں جان نے اُس سے ان بزرگوں کا مکلیہ وغیرہ دریافت کرنے پر اپنے ہی دیکھے ہوئے اصحاب کا علیہ شنا.چونکہ آپ نے اپنی رڈیا کا ذکر کسی سے بھی نہیں کیا تھا اس لئے آپ کو صداقت احمدیت کا اور بھی پختہ یقین ہوا.اور آپ نے اسی دن خطبہ میں اپنے ایمان کا اعلان کر دیا.تھوڑے ہی دنوں بعد مولوی فضل کریم صاحب مرحوم موصوف ، ماموں جان اور نیو ہدای پیر محمد صاحب مرحوم ساکن قلعه صو با سنگھ قادیان حاضر ہوئے.وہاں ماموں جان نے اپنے خواب والے بزرگوں کو پہچان لیا (جن میں سے حضرت مسیح موعود ، حضرت حکیم الامت خلیفہ المسیح الاول اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کے نام مجھے یاد ہیں.باقی دو کے نام یاد نہیں رہے، اور حضور کے دست اقدس پر بیعت سے مشرف ہوئے.اس دن سے لے کر اپنی وفات تک آپ نے اپنا قدم ہمیشہ آگے ہی بڑھایا.دعا ہے کہ اللہ تعالے آپ کو جنت میں بلند مقام عطا فرمائے اور جس طرح آپ نے زندگی بھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی غلامی کو اپنے لئے سب سے بڑا فخر سمجھا اسی طرح اللہ تعالے آپ کو قیامت میں بھی حضور کی غلامی اور محبت میں اُٹھائے.سلسلہ کے لڑ پھیر کے مطالعہ کا آپ کو بہت شوق تھا اور تمام اہم تصانیف آپ نے پڑھتی ہوئی تھیں اور اختبارات اور رسائل کا با قاعدہ مطالعہ رکھتے تھے.دینی مسائل کا علم آپ کے
نہایت راسخ تھا اور میں نے بارہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسّلام کی کتب سے متعدد مسائل کے متعلق سوالہ جات کا استفادہ آپ سے کیا.فجزاہ اللہ احسن الجزاء سلسلہ عالیہ حقہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام، حضرت خلیفہ امسیح الاول حضرت مصلح موعود خلیفہ اسیح الثانی اور خاندان نبوت کے ساتھ آپ کو ایک والہانہ محبت اور عقیدت تھی.اور جب آپ ان میں سے کسی کا ذکر خیر فرمایا کرتے تھے تو ہر سننے والا بخوبی اندازہ کر سکتا تھا کہ آپ کے دل میں ان کے لئے کس قدر بے پناہ عشق اور محبت کا جذبہ مویریا تھا.نظام سلسلہ کا احترام آپ کی فطرت ثانیہ تھا اور دوسروں میں بھی اسی بعد یہ کو پیدا کرنے کی مسلسل کوشش کرتے رہتے تھے.حضرت خلیفہ اول کے وصال کے موقعہ پر جب جماعت میں اختلاف ہوا تو آپ قادیان موجود تھے اور ان اولین مبالعین میں تھے جن کے متعلق غیر مبالعین نے کہا تھا کہ چند نوجوانوں نے مولوی محمد علی صاحب کی امامت میں نماز ادا نہ کی.ماموں میان اس امر کو ہمیشہ فخر سے بیان فرمایا کرتے تھے مسائل کے لحاظ سے تو آپ کا ایمان کبھی بھی بادۂ صداقت سے نہیں ہٹتا بچنا نچہ اختلاوت کے وقت آپ نے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ یہ خدا تعالے کا کام ہے حضور دلیری سے اس کام کو جاری رکھیں وہ حضور کے ساتھ ہیں (حضرت اقدس نے اس واقعہ کا ذکر اپنے ایک خطبہ میں بھی فرمایا ہے، ماموں جان خود بھی اس معاملہ میں خوب تبلیغ فرمایا کرتے تھے اور ایک بہت بڑی حد تک آپ کی ان مجاہدانہ کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آپ کے علاقہ میں غیر مبا لعین کا قدم کبھی نہیں حجم سکا اور سوائے اس پہلی کوشش کے جو ایک مبلغ بھیج کر کی گئی اور جس میں ان کو سخت ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، غیر مبالعین نے کبھی اور کوشش اس علاقہ میں کی ہی نہیں لے حضرت منشی محمدحسین صاحب کا تب قادیان روفات ۲۵ فتح ا سمیه ش) حضرت منشی صاحب ان خوش نصیب صحابہ میں تھے جن کو اختار العلم ، بدر اور افضل کی بہت عرصہ تک کتابت کرنے نیز حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی تازہ دھی لکھنے کا شرف حاصل ہوا کے له الفضل ۲۰ صالح اجنوری کا ربوہ آپ ہی کے ساختہ ادے ہیں : كاتب الفضل
۲۲۳ فصل نجم ۱۳۲۳ پیش کےبعض متفرق اہم واقعات ۶۱۹۴۴ نوابزادہ میاں عباس او انصار وحضر میں الصلع الورد نے خطبہ جمعہ سے قبل صاحبزادہ میاں عباس احمد خان صاحب ( ابن حضرت نواب محمد عبد اللہ خاں صاحب) کا نکاح صاحبزادی امتہ الباری صاحبہ (بنت حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کے ساتھ پندرہ ہزار روپیہ مہر پر پڑھاتے اور خطبہ نکاح میں تیر مسیح موعود علیہ السلام کے الہام " تدى نسلاً بعيداً " کی نہایت لطیف تشریح فرمائی بچنا نچہ فرمایا :- جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کو یہ الہام ہوا.تَرَى نَسْلاً بَعِي ا س وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صرف دو بیٹے تھے.اس کے بعد اللہ تعالٰی فاضل آپ کے ہاں کچھ اور بیٹے اور بیٹیاں پیدا ہوئیں اور پھر خدا تعالیٰ نے ان کو وسیع کیا اور اب ان بیٹوں اور بیٹیوں کی نسلیں الہام الہی کے ماتحت شادیاں کر رہی ہیں وہ تری نسلاً بعيداً کے نئے نئے ثبوت مہیا کر رہی ہیں.دنیا میں نسلیں تو پیدا ہوتی رہتی ہیں....لیکن سوال یہ ہے کہ کتنے آدمیوں کی نسلیں ہیں جو اُن کی طرف منسوب بھی ہوتی ہوں اور منسوب ہونے میں فخر محسوس کرتی ہوں.اکثر آدمیوں کی نسلیں ایسی ہوتی ہیں کہ اگر اُن سے پو سچھا جائے کہ تمہارے پردادا کا نام کیا تھا تو ان کو پتہ نہیں ہوتا.مگر تری نسلًا بَعِید کا الہام بتا رہا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نسل آپ کی طرف منسوب ہوتی چلی جائے گی.اور لوگ انگلیاں اٹھا اُٹھا کر کہا کریں گے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ نسل آپ کی پیشگوئی کے ماتحت آپ کی صداقت کا نشان ہے.پس تری نسلاً بَعِيداً میں صرف یہی پیش گوئی نہیں کہ آپ کی نسل کثرت سے ہوگی الفضل " - فتح ا دسمبر ش صفحه ۴ :
۲۲۴ بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عظمت شان کا بھی اس رنگ میں اس پیشگوئی میں ذکر ہے کہ آپ کا مرتبہ اتنا بلند اور آپ کی شان اتنی ارفع ہے کہ آپ کی نسل ایک منٹ کے لئے آپ کی طرف منسوب نہ ہونا برداشت نہیں کرے گی اور آپ کی طرف منسوب ہونے میں ہی ان کی شان اور ان کی عظمت بڑھے گی.پس اس پیشگوئی میں تعالی اس بات کا ہی ذکر نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی اولا کثرت سے ہوگی بلکہ یہ بھی ذکر ہے کہ وہ روز بروز بڑھے گی اور وہ اولاد خواہ کتنے ہی اعلیٰ متقادم اور اعلیٰ مرتبہ تک جا پہنچے اور خواہ اُن کو بادشاہت بھی حاصل ہو جائے پھر بھی وہ اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی طرف منسوب کرنے میں فخر محسوس کریگی..صلح اجنوری کو پہلی بار لاوڈ پیکر نصب کر کے تبلیغ احمدیت کی گئی.چنانچہ اس روز نماز جمعہ سے قبل قرآن کریم اور حضرت مسیح موعود کی نظمیں نشر کی گئیں.نیز مستری محمد اسمعیل صاحب صدیقی نے مختصر سی تقریر میں بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ الہام کہ " میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا " جہاں مبلغین اور تحریروں کے ذریعہ دنیا کے کناروں تک پہنچایا جار ہا ہاں انشاء اللہ ایک دن آلہ نشر الصوت کے ذریعہ بھی دنیا کے کناروں تک پہنچایا جاسکے گا.آج اس کی ابتداء اس طرح کی بجا رہی ہے.اس آلہ کے ذریعہ قادیان کے کناروں تک حضور کی آواز پہنچ رہی ہے.چنانچہ یہ آواز صرف قادیان کے وسیع محلہ جات میں ہی نہیں بلکہ بعض ملحقہ دیہات میں بھی صفائی کے ساتھ سنی گئی.پھر نماز مغرب کے بعد اس آلہ پر جناب مولوی ابوالعطاء صاحب نے تقریہ فرمائی جس میں بتایا کہ ہر سال اور ہر دن جو پڑھتا ہے وہ قادیان میں رہنے والے غیر احمدیوں پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی صداقت ظاہر کر رہا ہے.انہیں چاہیے کہ وہ سوچیں اور غور کریں.at آخر میں نماز عشاء کی اذان مولوی بشیر الدین صاحب نے دی ال اس سال قادیان میں جو زائرین آئے ان میں سر میٹرک سپنی چیف جسٹس فیڈرل کورٹ زائرین قادیان آن انڈیا، مسٹرسی کنگ کشنزلاہور ڈویژن خاص طور پر قابل ذکر ہیں.له " " الفضل ۱۲ صلح / جنوری ۱۳۳۳ ش صفحه ۳ له الفضل" و صلح جنوری ۱۳۲۳ ش صفحه ۲ ۰
۲۴۵ سریٹر کی سپنی چیف جسٹس فیڈرل کورٹ آف انڈیا ۲۳ مصلح جنوری سے ہش کو قادیان میں آئے.اور آنریل چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی کو سٹی بیت الظفر میں فروکش ہوئے.قادیان میں انہوں نے جماعت احمدیہ کے مرکزی اداروں اور صنعتی کارخانوں کو دیکھنے کے علاوہ تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ہال میں ایک مختصر تقریر کی جس میں طلباء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں وقت دنیا میں جو بہت بڑی جنگ ہو رہی ہے اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ دنیا سے سچا مذہب مفقود ہو گیا ہے.تم لوگ ایک مذہبی فضا میں پر ورش پا رہے ہو جہاں تمہیں خدا کی محبت تنقیقی امن کی تلاش اور باہمی تکریم وہمدردی کے سبق ملتے ہیں.اگر آپ لوگ ان معتقدات پر عمل پیرا ہوں جنہیں آپ مانتے ہیں تو دنیا کی حالت بہت بہتر ہو جائے گی اور دنیا کو حقیقی امن اور خوشحالی دینے میں آپ کامیاب ہو جائیں گے لیے مسٹرسی کنگ کمشنر لاہور ڈویژن ۱۲ راه تبلیغ فروردیش کو دوپہر کی گاڑی سے قادیان پہنچے.اور مرکزی ادارے دیکھ کر شام کی گاڑی سے واپس تشریف لے گئے.آپ نے مرکزی لائیبریری میں مختلف زبانوں کی نایاب کتابوں کے متعلق دلچسپی کا اظہار کیا.نظارت دعوت و تبلیغ کی طرف سے آپ کو اسلامی لٹریچر بھی ہدیہ پیش کیا گیا ہے قادیان کی آریہ سماج نے ۲-۲۰۱۵ امان امار توری ۴، امارات کو پنڈت لیکھرام کی یاد میں ایک جلسہ منعقد کیا جس میں پنڈت تلوک چند صاحب اور بعض دوسرے آریہ مقرین نے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی پیشگوئی متعلقہ لیکرام اور دوسری واضح پیشگوئیوں پر تمسخر اڑایا اور جماعت احمدیہ پر سوقیانہ اعتراضات کئے جماعت احمدیہ کی طرفت سے جواب دینے کے لئے وقت طلب کیا گیا مگر منتظمین نے انکار کر دیا جس پر.در امان مارچ کی درمیانی شب کو حضرت میر محمد اسحق صاحب کی زیر صدارت مسجد اقصیٰ میں جوابی جلسہ منعقد کیا گیا حضرت میر صاحب نے اپنی ابتدائی تقریر میں وہ بیٹی پڑھ کر سنائی جو سکرٹری تبلیغ جماعت احمد یہ قادیان کی طرف سے آریہ سماج کو لکھی گئی اور انہیں دعوت دی گئی کہ اس جلسہ میں آئیں اور ہماری تقریروں پر تہذیب سے سوال در می محمدانی مین کی ستاد میری یاد گار اس یادگار جلسه جواب بھی کریں چونکہ منارہ اسی کے اُوپر بھی لاوڈ سپیکر نصب تھا اور آواز پورے شہر میں گونج رہی تھی اس ا at العضل " ۲۵-۱۲۶ صلح / جنوری مش صفحه ۲ ۱ + ۲۴ تبلیغ / فروری سه مش صفحه ۳ کالم ۳ ار امان / مارچ # صفرا +
۲۲۶ لئے آریوں کو یہ بلاوا بھی ان کے گھروں تک پہنچ گیا.حضرت میر صاحب کی اس دعوت کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے نشان متعلقہ لیکھرام سے متعلق مولوی شریف احمد صاحب امینی اور مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر نے مختصر تقریریں کیں.اسی اثناء میں آریوں کی طرف سے پنڈت ترلوک چند صاحب چند ساتھیوں سمیت مسجد اقصی میں آگئے حضرت میر صاحب نے انہیں اپنے پاس بلاگہ بٹھایا اور فرمایا کہ آیہ صاحبان اس مجلس میں ہمارے مہمان ہیں.ہم ان کا ہر طرح سے حافظ رکھیں گے اس وقت پہلے ہماری طرف سے مولوی ابوالعطاء صاحب تقریر کریں گے اور مناسب وقت میں پیشگوئی کی وضاحت کرتے ہوئے آریہ پنڈت صاحب کے اعتراضوں کا جواب بھی دیں گے.اس تقریر کے بعد پنڈت ترلوک چند صاحب اس تقریر پر یا پیشگوئی درباره لیکھرام پر مناسب وقت میں سوال کریں گے.پھر مولوی صاحب جواب دیں گے اور جلسہ ختم ہو گا.اس اعلان کے بعد مولانا ابوالعطاء صاحب نے لیکھرام سے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے قہری نشان پر روشنی ڈالی اور آریوں کے بعض اعتراضوں کا نہایت خوبی سے باطل ہونا ثابت کیا نیز بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۲۰ فروری ۱۸ء کو اپنی ذریت کے پھیلنے اور مصلح موعود کی ولادت کے متعلق اشتہار دیا تو پنڈت لیکھرام نے مار مارچ شہ کو بذریعہ اشتہار یہ پیشگوئی کی کہ "آپ کی ذریت بہت بلند منقطع ہو جائے گی.بغایت درجہ تمین سال تک شہرت رہے گی لے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد با برگ و بار ہو رہی ہے اور مصلح موعود اپنی پوری شان سے ہمارے در میان موجود ہے اور احمدیت کی قبولیت و شہرت دُنیا کے کناروں تک پہنچ چکی ہے مگر اس کے مقابل پندرت لیکرام حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی پیشگوئی کے مطابق سنشانہ میں قتل ہو گئے اور لا ولد رہے.ان کے پیچھے ان کا کوئی لڑکا نہیں رہا.وہ احمدیت کو مٹانا چاہتے تھے لیکن اس میں بھی سراسر نا کام و نامراد رہے بیٹے مولانا ابو الخطاء صاحب کی تقریر کے بعد حضرت میر صاحب نے پنڈت ترلوک چند صاحب کو موقعہ دیا کہ وہ مناسب وقت میں اس کا جواب دیں مگر پنڈت ترلوک چند صاحب نے ادھر اُدھر کی باتیں کر کے اپنا وقت ختم کر دیا جس پر مولانا ابو العطاء صاحب نے مختصر تقریر کی اور کہا کہ پنڈت صاحب نے موقعہ منے کے باوجود ہمارے کسی بیان یا استدلال کو نہیں توڑا جس سے ہمارے بیان کا درست ہونا ثابت ہے.آخر میں آپ ے کلیات آریہ مسافر " صفحه ۷۹۸ : " الفضل " اذر امان / مارچ به بیش صفحه ۳-۴ به
۲۲۷ نے قادیان کے آریوں اور غیر احمدیوں کو مخاطب کر کے ایک پر درد اپیل کی کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے نشانوں کے گواہ ہیں بحضور پر ایمان لے آئیں.ازاں بعد حضرت میر محمد اسحاق صاحب نے کھڑے ہو کر فرمایا.سب حاضرین نے دونوں طرف کی تقاریر سُن لی ہیں.ہمیں پنڈت ترلوک چند صاحب سے کہتا ہوں کہ آپ اپنے مذہب کے عالم ہیں.مولوی ابوالعطاء صاحب بھی موجود ہیں.پنڈت صاحب ذاتی طور پر نہ کہ جماعتی طور پر مولوی صاحب سے پنڈت لیکھرام کے متعلق پیشگوئی پر تبادلہ خیال کر لیں.ہم سب سنیں گے بوشرطیں پنڈت صاحب پیش کریں گے میں ان کے منوانے کا ذمہ دار ہوں، اس پر آپ نے پنڈت صاحب کو موقعہ دیا کہ وہ ہاں کریں لیکن پنڈت صاحب نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میں نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ نہیں کیا اس لئے معزند ہوں.اس مرحلہ پر آپ نے فرمایا کہ میں پنڈت ترلوک چند صاحب سے پوچھتا ہوں کہ آپ کافی عرصہ قادیان میں رہے ہیں کیا پنڈت لیکھرام کی یہ پیشگوئی کہ آپ (مرزا صاحب) کی ذریت بہت جلد منقطع ہو جائے گی غایت درجه تمین سال تک شہرت رہے گی“ (کلیات مشہ صحیح نکلی یا غلط ثابت ہوئی ؟ پنڈت صاحب نے بڑے لیت و لعل کے بعد کہا.آریہ سماجی کہتے ہیں کہ یہ اشتہار پنڈت لیکھرام جی کا لکھا ہوا نہیں ہے.حضرت میر صاحب نے فرمایا کہ اول تو ان اشتہارات کے شروع میں شردھانند جی نے تحریر کیا ہے کہ " ذیل کے دو اشتہارات پنڈت جی دلیکھرام ہی نے اس وقت نکالے تھے جبکہ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے الہامی چونچلوں کا ابھی صرف آغازہ ہی ہوا تھا " (کلیات صفحہ ۲۹۲) دوسرے میں پوچھتا ہوں کہ آپ یہ بتائیں کلیات صفحہ ۴۹۸ کی پیشگوئی (خواہ کسی نے لکھی ہو.جھوٹ ثابت ہوئی یا نہیں ؟ صاف جواب دیں.اس پر پنڈت صاحب کو ان کے ساتھیوں نے اشارہ کر کے بلایا اور پیل دیئے.اس ایمان افروز نظارہ پر اس جلسہ کا خاتمہ ہوا.قبل جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ یہ حضرت میر محمد الحق صاحب کی زندگی کا آخری مجلہ اور آخری تبلیغی معرکہ تھا.گذشتہ سال سر رمیش میں حمدی مبلغین نے صوبہ یو.چی کا طویل اور کامیاب دورہ کیا تھا.امسال ماہ صلح اجنوری میں ة الفصل ۹ در امان مارچ ۳۳۳ صفحه لم : "
۲۲۸ مرکز احمدیت کی طرف سے گجرات کاٹھیا واڑ کی طرف تبلیغی وفد بھیجوایا گیا.یہ وفد حسب ذیل علماء پرمشتمل تھا.مولوی عبد المالک تھاں صاحب فاضل -۲- تہاشہ محمد عمر صاحب فاضل -۳- گیانی عباد الله صالات ان علماء نے سوامی دیانند یتیم بوی سنکارا نامی گاؤں ریاست و انکانی ، کرشن نگری دوار کا ہے، امرناتھ تیر تھ ریاست جام نگر، ریاست راجکوٹ صورت و اندھیرے کمیٹی پونا آنند آشرم میں کرشن کی آمد ثانی کا پیغام انفرادی تبلیغ اور ہندی ، مرہٹی اور گجراتی رویوں سے نہایت موثر اور کامیاب طریق پر پہنچایا.یہ تبلیغی وفد اسرامان / مادر ش کو واپس مرکز احمدیت میں پہنچا ہے ۲۷ رامان / مارچ ر ش کو امین اسلامیہ بھرت پور کا بھرت پور میں حمدی مبلغ کی تقریم جلسہ تھا جس میں سردار محمد یوسف صاحب ایڈیٹر اخبار " نور " نے اسلام نے ہندوستان پر کیا اثر ڈالا " اور " اسلام اور دیگر مذاہب کے موضوع پر کامیاب تقریریں کیں جس سے حاضرین بہت مسرور و محفوظ ہوئے.بہزہائی نس والی ریاست بھی اس جلسہ میں موجود تھے ہے.ی چودھری عبدالت لام صاحب کی خدا کے فضل سے چودھری عبدالسلام صاحب ( این چودھری محمدسین صاحب ہیڈ کلرک دفتر انسپکر مدارس جھنگ) نے اس اسے میں نمایاں کامیابی سال بھی نمایاں کامیابی حاصل کی اور بی اے کے امتحان میں نہ صرف یونیورسٹی میں اول رہنے کا امتیاز حاصل کیا بلکہ یونیورسٹی کا گذشتہ ریکارڈ بھی توڑ دیا ہے کشمیر کی احمدی جماعتوں کا سالانہ میلہ کشمیر کی احمدی جماعتوں کا سالانہ میلسہ ۱۰-۱ا ظہور لاگست ش کو باڑ کی پورہ میں منعقد ہوا.اس جلسہ میں احمد ہیں کے علاوہ اہلحدیث اور اہلسنت و الجماعت نے بھی بکثرت شرکت کی.جلسہ کا افتتاح ما ای اوہ مریم منصور احمد صاحب نے فرمایا اور ملا سید محمد شاہ صاحب، مولوی غلام احمد شاہ صاحب ، مولوی عبد الواحد صاحب ہم تبلیغ جماعت ہائے کشمیر مولوی احمداللہ صاحبہ ، چوہدری عبد الواحد صاحب (امیر جماعت ہائے ه " الفضل " ١٥ تبلیغ / فروری اش صفحه ۴ + الفضل ۲۱ شہاد / اپریل یش صفحه ۲۰۶ در امان ماریچ یکم شارت کا اپریل ,14 4 صفحه ۳ و 4 ۲۷ احسان رحون صفی به 4 سفر به کشو
۲۲۹ احمد کی کشمیر مولوی عبدالرحیم صاحب ، مولوی محمد عبد اللہ صاحب اور خوابید غلام نبی صاحب گل کار نے مختلف اہم موضوعات پر تقریریں کیں اور صاحبزادہ صاحب نے اپنے افتتاحی خطاب میں تعلق باللہ کی طرف توجہ دلائی ہے مبلغین کی بیرونی ممالک کو روانگی چودھری احسان علی صاحب جنجوعه ما را جان می باشد کو مغربی افریقہ کے لئے روانہ ہوئے.اسی طرح مولوی عبد الخالق صاحب، ملک احسان اللہ صاحب ، چودھری نذیر احمد صاحب رائے ونڈ) ۲۳ نیوت اونم برایش کو مغربی افریقہ میں تبلیغ اسلام کے لئے بھجوائے گئے ہے فلسطین و مهرشن بیرونی مشنوں کے بعض ضروری واقعات اگر چہ مصر میں تبلیغ احمدیت پر سخت پابندیاں تھیں مگر مولوی محمد شریف صاحب مبلغ فلسطین اس سال کے شروع ( ماه تبلیغ فروری و امان ماری) میں تبلیغی و تربیتی اغراض کے پیش نظر مصر پہنچنے اور دو ماہ تک مقیم رہنے میں کامیاب ہو گئے.مصر میں قیام کے دوران ایک بلند پایہ ازہری اور حجازی شیخ سے مکرم مولوی صاحب کا ایک پرائیویٹ مناظرہ بھی ہوا جس میں بعض احمدی احباب کے علاوہ چند ایک غیر احمدی بھی موجود تھے.شیخ صاحب نے مولوی صاحب سے دریافت کیا کہ احمدی جماعت اور دوسرے اسلامی فرقوں میں بنیادی اختلات کس سر میں ہے.مولوی صاحب نے جواب دیا کہ مسئلہ وفات مسیح میں.مگر شیخ صاحب نے کہا کہ نہیں بنیادی اختلالا مسئلہ ختم نبوت میں ہے اور کہ آپ اس پر بحث کے لئے تیاری کر کے آئے ہیں.بہت سی رد و قدح کے بعد بگریم مولوی صاحب نے اسی مسئلہ پر ان سے تبادلہ خیالت شروع کیا اور اپنے عقیدہ کی تائید میں قرآن مجید سے دس آیات پیش کیں.شیخ صاحب نے ان میں سے صرف ایک آیت إِمَّا يَأْتِيَتَكُم رُسُلُ ینکر پر جرح کی اور کال چار گھنٹہ تک اسی پر گفتگو ہوتی رہی جس میں شیخ صاحب ایسے عاجز آ گئے کہ کھلے الفاظ میں اقرار کر لیا بلکہ لکھ دیا کہ عقلی طور پر اس آیت سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ آئندہ نبی آسکتے ہیں.للہ تعالے کی تائید کا مظاہرہ احباب جماعت کے لئے بہت ایمان پر دو تھا.اس کے بعد بھاری شیخ صحاب ایک بہانہ تلاش کر کے تشریف نے گئے ہے P1-14 ہفت روزه اصلاح سرینگر ۱۷-۲۱ ظهور اگست میش مضمون میر نام محمد صاحب کرای تبلیغ جماتا امیر کشمیری له الفضل مهار احسان چون کارش ماکت سے الفصل ۲۵ نبوت ان میر مش صفحه راکت * FANN وار فتح دسمبر ، صفحه ۹۵ /
٢٣٠ انگلستان مشن مولوی جلال الدین صاحب شمس امام مسجد لنڈن نے اس سال لندن کی مشہور سیر گاہ ہائیڈ پارک میں مسٹر گوین سے پے در پے سات شاندار اور کامیاب مباحثے کئے جن سے انگلستان مشن کی دھوم مچ گئی.پہلا مبا حثہ ۴ در شہادت / اپریل کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بائبل میں پیشگوئیاں کے موضوع پر ہوا مسٹر گرین لاجواب ہو کر اصل بحث کی بجائے مسئلہ دوزخ و بہشت کی بحث میں الجھ گئے مگر مولانا شمس صاحب نے اس موضوع پر بھی عیسائیت کے مقابل اسلام کی برتری اور فوقیت ثابت کر دکھائی.دوسرے مباحثہ کا عنوان تھا ” کیا موجودہ اناجیل الہامی ہیں.یہ میانہ ۲۱ شہادت کو ہوا.آخر میں جب رائے شماری کا مرحلہ آیا.تو انگریز سامعین کی بہت بڑی اکثریت نے احمدی مجاہد کے حق میں ووٹ ڈالے اور صرف ایک ووٹ مسٹر گرین کو ملا.۳- تیسرا مباحثه ۲۸ شہادت / اپریل کو کیا استثناء باب آیت ۱۵ کے مصداق یشوع ہیں ؟" کے موضوع پر ہوا مولانا شمس صاحب نے مسٹر گرین کے ادعا کو دلائل قطعیہ کے ساتھ باطل ثابت کر کے بتایا کہ اس کے سے مصداق ہمارے نبی اکرم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں یہ مباحثہ سنے کے بعد کئی انگریزوں کو مزید تحقیق کا شوق مسجد فضل میٹھی میں نے آیا ہے.چوتھا مباحثہ یہ ہجرت امٹی سے پیش کو ہائیڈ پارک میں ہوا.موضوع قرآن و انجیل کی تعلیم کا مقابلہ تھا.مسٹر گرین نے مسیح کی آمد ثانی کے متعلق پیشگوئیوں کا ذکر کیا اور کہا کہ جب وہ دنیا میں آئیں گے تو امن قائم ہو جائے گا.نیز کہا کہ دفاعی جنگ بھی نہیں کرنی چاہئیے مولانا شمس صاحب نے قرآن مجید سے جنگ کے متعلق اصول بیان کئے جس کا حاضرین پر اچھا اثر ہوا.ایک معمر شخص نے یہ کہتے ہوئے مصافحہ کیا کہ گومیں عینی ہوں لیکن پھر بھی میں کہتا ہوں کہ مجھے آپ کی تقریر بہت پسند آئی ہے.پانچواں مباحثہ وار میت رامنی کو جواد موضوع مباحثہ تھا " پہاڑی وعظ کا مقابلہ قرآن مجید کی تعلیم سے لیکن اصل موضوع پر بحث شروع کرنے سے پہلے مسٹر گورین نے قرآن مجید سے کفار کے قتل کے متعلق آیات ملے اس آیت میں پیشگوئی ہے خداوند تیراندا تیرے لئے تیرے ہی درحیات سے یعنی تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانستر ایک نبی پیدا کریگا سله افضل ۲۹ احسان خون پرش صفحه ۴۱ (حضرت مولانا جلال الدین بوش صفحه اسم حضرت موعد جلال الدین صاحب شمسی ان کے قلم سے مباحثت کی مفصل رپورت ے حضرت سچ کا یہ مشہور وعظ سنتی باب دانا نے میں لکھا ہے " سیم
۲۳۱ پڑھیں مولانا شمس صاحب نے انہی آیات سے ثابت کر دیا کہ ان میں قتل کا حکم ان کافروں کے متعلق ہے جو میدان جنگ میں لڑنے کے لئے آئے اور پہلے حملہ آور ہوئے مباحثہ کے بعد سوالات کے موقعہ پر جب ایک شخص نے جنگوں کے متعلق اعتراض کیا تو مولانا شمس صاحب نے کہا.یسوع مسیح نے آسمانی بادشاہت کی مثال بیان کرتے ہوئے خود ظالموں کے قتل کو جائز قرار دیا ہے.انہوں نے آسمانی بادشاہت کی ایک بادشاہ سے مثال دی ہے جس نے اپنے لڑکے کی شادی پر لوگوں کو کھانے کے لئے دعوت دی مگر انہوں نے دعوت قبول نہ کی اس نے پھر اپنے نوکر بھیجے مگر پھر انہوں نے انکار کیا اور بعض تو اپنے کاموں پر پہلے گئے اور تو باقی رہ گئے ، انہوں نے ان پیغام رسانوں کو قتل کر دیا.تب بادشاہ اپنی فوج بھیجے گا اور ان قاتلوں کو تہ تیغ کر دے گا اس مثال میں بادشاہ سے مراد خدا ہے.پس آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا ظالم حملہ آوروں سے جنگ کرنا اس مثال کی رو سے بالکل بھائز تھائیے ۶- کھٹا میباسته ۲ احسان جون کو ہوا قرار یہ پایا تھا کہ مست گرین دو گھنٹے میں قرآن مجید پر جتنے اعتراض کرنا چاہیں پیش کر دیں اور مولانا شمس صاحب ان کا جواب دیں.مگر اس روز کچھ ایسا الہی تصرف ہوا کہ وہ پہلے مباحثات میں تو اعتراض کرتے رہے وہ بھی پیش نہ کر سکے اور جو نوٹ انہوں نے لے رکھے تھے وہ بھی تلوار تھے.ساتواں میائشہ وار احسان کو ہوا.اس روز مولانا شمس صاحب نے مسٹر گرین پر انجیل کی نسبت اعتر اننا کئے جن کے جواب دینے سے وہ قاصر رہے.بعض کے متعلق کہا.میں نے پہلے کبھی نہیں سُنے.اس لئے میں جواب نہیں دے سکتا.اکثر کے متعلق کہا کہ میں تیاری کر کے جواب دوں گا جس سے حاضرین پر ان کی بے بسی اور لاچاری بالکل بے نقاب ہو گئی.اگلے جمعہ پھر مباحثہ تھا جس میں ان کی باری قرآن مجید پر اعتراضات کرنے کی تھی مگر اس روز مسٹر گرین نے بالکل راہ فرار اختیار کر لی حسن کی دلچسپ تفصیل مولانا شمس صاحب کے قلم سے لکھی جاتی ہے :- مباحثہ شروع ہوا.اور میں نے اس کے پہلے سوال کا جو جہنوں کے متعلق تھا یہ جواب دیا کہ آیت میں مینوں سے مراد الف لیلہ والے جن نہیں ہیں.جیسا کہ مسٹر گرین نے کہا ہے بلکہ اس سے مراد بیٹھے ه ی تمثیل مستی باب ۲۱ ، مرقس باب ۱۲ اور لوقا باب ۲۰ میں درج ہے.له الفضل ۲۰ وفاد/ جولائی س ش صفحه ۴ :
۲۳۲ لوگ اور لیڈر ہیں تو مسٹر گرین نے کہا جب تک آپ کسی انگریزی ترجمہ کو صحیح اور مستند نہیں مان لیتے میں مباحثہ کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں.میں نے کہا یہ تو مجھے شخصی ہیں.میں ان کو صحیح مانتا ہوں لیکن اگر کسی جگہ میں سمجھوں کہ ترجمہ صحیح نہیں کیا گیا اور عربی زبان کی رُو سے اس کی غلطی ثابت کم دوں تو مجھے ایسا کرنے کا حق حاصل ہے.انجیل کے موجودہ تراجم جو کہ سوسائٹیوں کی طرف سے شائع کئے گئے ہیں.ان کے بعض الفاظ کے ترجمے کے متعلق آپ خود کہتے رہے ہیں کہ اصل یونانی لفظ یہ ہے اور اس کا صحیح ترجمہ یوں ہے.جب آپ سوسائٹیوں کے مستند ترجمے کی غلطی نکالنے کا حق رکھتے ہیں تو مجھے یہ کیوں حق نہیں کہ کسی ایک شخص کے ترجمہ میں گر کوئی غلطی ہو تو وہ ظاہر نہ کروں.حاضرین سمجھ گئے کہ مسٹر گرین مباحثہ نہیں کر سکتے " سوسائٹی ” فار دی سٹڈی آف ریلیجینز کے سہ ماہی رسالہ "ریجنز نے ہائیڈ پارک مباحثات کا ذکر ان الفاظ میں کیا :- "The Imam of the London Mosque has come of open debates in London joste arena cently and is very energetic in presenting his faith to Cristian opponents.” یعنی تھوڑے عرصہ سے مسجد لنڈن کے امام لندن میں پبلک مباحثات کے میدان میں نکلے ہیں اور اپنے مذہب کو اپنے عیسائی مخالفوں کے سامنے پورے زور اور قوت و جوش سے پیش کرتے ہیں پھر لکھا :- " The Imam is very skilful in presenting and quotes liberally from the his Cade Bible.یعنی امام اپنی بات کو پیش کرنے میں خوب ماہر میں اور کثرت سے بائبل کے بھی حوالے پیش کرتے ہیں.ه و نگه "الفضل" در اتحاد اکتوبر میشی صفحه ۲- کالم ۰۲
۲۳۳ خود مسٹر گرین نے اپنے رسالہ ”دی کنگڈم نیونه "بابت ماہ جون ۱۹۴۷ء میں مبلغ اسلام کی نمایاں کامیابی کا اعتراف ان الفاظ میں کیا :- ایڈیٹر ان ایام میں ہر جمعہ کے روز 4 بجے شام سے ہائیڈ پارک میں امام مسجد لنڈن سے پبلک مباحثہ کرتا ہے جو اس ملک کے مسلمانوں کے ایک چھوٹے سے گروہ کا نمائندہ ہے."But who consists of the best order of the faith being the most educated and cultural " لیکن وہ اسلام کا تعلیم یافتہ اور مہذب ہونے کے لحاظ سے بہترین فرقہ ہے مختلف طبقات کے لوگ حاضر ہوتے ہیں جن کی تعداد پانچ سو کے لگ بھگ ہوتی ہے اور اڑھائی گھنٹے تک مسلسل سنتے ہیں" "An achievement rasely experienced Hyd Park." in یہ ایک ایسی بات یا ایسی کامیابی ہے جو ہائیڈ پارک میں شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آتی ہے.میباشد کے اختتام پر فریقین حاضرین کے سوالات کا جواب دیتے ہیں.لہ اٹلی میشن ٹلی میں جنگی قید کے مصائب سے رہائی پانے کے بعد ملک محمد شریف صاحب مبلغ اٹلی کا پہلا خط منظر خلیفہ اسیح الثانی المصلح الموعود کی خدمت میں ماہ استاد / اکتوبر سے ہی پیش کو پہنچائے مشرقی افریقی شن ۱۴ فتح ایمبر ہش کو بورا (مشرقی افریقہ) کی عظیم الشان مسجد الفضل" کی تقریب افتتاح منعقد ہوئی.اس موقع پر سر خلیفہ بن جار وب سلطان زنجبار - ہز ایکسیلنسی گورنر چیف سکوٹری ، دیگر اعلی سرکاری حکام، پولینڈ اور ہالینڈ کے قونصل اور مختلف مذاہب کے مشہور و معروف اصحاب نے پیغامات ارسال گئے.علاوہ ازیں لنڈن ، قاہرہ، لیگوس ، حیفا ، بغداد ، عدن بمبئی ، ماریشس اور سالٹ پانڈ کی احمدیہ جماعتوں کی طرف سے بھی پیغامات آئے.شیخ مبارک احمد صاحب انچارج مبلغ نے یہ سب پیغامات پڑھ سه " الفضل" الفاء / التويد ش صا یہ اس مکتوب کا متن چھپ گیا تھا.
۲۳۴ کو سنائے اور جملہ ہمدردوں کا شکریہ ادا کیا.نیز اعلان کیا کہ یہ مسجد اللہ تعالے کی عبادت کرنے والے ہر شخص کے لئے کھلتی ہے.آخر میں صدر جلسہ مسٹر فاسٹر پراونشل کمشنرز نے تقریر کی اور کہا کہ یہ مسجد شبورا بلکہ تمام علاقہ کے احمدیوں کے لئے باعث فخر ہے یہ گولڈ کوسٹ مشن جماعت احمدیہ گولڈ کوسٹ نے زنانہ سکول کے جاری کرنے کا فیصلہ کیا اور ایک احمدی نے پندرہ ہزار روپے کی زمین اس کے لئے وقف کر دی لجنہ اماءاللہ گولڈ کوسٹ نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود کی خدمت میں درخواست کی کہ ہندوستان کی احمدی بہنیں بھی اس کام میں ہماری مدد کریں پینا نے حضور کی تحریک پر لجنہ اماءاللہ رکز یہ چار ہزار روپے بھجوانے کا وعدہ کیا جس میں سے پندرہ سو کا وعدہ تو نہ امام شد دہلی نے چودھری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی معرفت کیا اور باقی رقم ملک کی دوسری مختلف لجنات پر ڈال دی گئی ہے ۱۳۲۳ پیش کر کی یہ پہلی کتاب کا مجموعہ " گئے 1- جورج -1 " ظهو صلح موعود (مولفه مولوی شریف احمد صاحب امینی مولدی فاضل مدرس مدرسہ احمدیہ قادیان) دکوئی مصلح موعود کے مبارک دور مقطعات قرآنی “ حضرت میر محمد المعیل صاحب کے الفضل“ میں شائع شدہ علمی مضامین "LIFE AND WORK OF HAZRAT MIRZA Bashir - Mahmud Ahmad".- UD - DIN - f و حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کی حیات طیبہ اور کارنامے) چوہدری سر محمد ظفراللہ خاں صاحب کی ایک بلند پا به انگریزی تالیف و نیو بک سوسائٹتی (پوست عکس علم لاہور نے شائع کی.اس کتاب کا اردو تر جمہ بھی اسی اشاعتی ادارے کی طرف سے " مرزا بشیر الدین محمود احمد کے نام سے چھپا تھا." الفضل " ۲۲ فتح دسمبر ۳۳ بیش صفحه ۲ کالم ۲-۱۳ لة الازهار لذوات الخمار طبع دوم صفحه ۴۲۱۱ مرتبہ حضرت سیده ام متین صاحبہ صدر لجنہ اماء الله مرکزید ؟
۳۳۵ شان معمار" ( ابوالبشارت مولانا عبد الغفور صاحب فاضل مبلغ سلسلہ کی سالانہ جلسه نمایش کی کامیاب تقریمی ) موعود اقوام عالم “ (مؤلفه مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر) اس مختصر مگر جامع کتاب میں ہندو دھرم ، عیسائی مذہب ، اسلام اور سکھ ازم کے لٹریچر کی رُو سے مسیح موعود کی بعثت کے مین زمانہ مقام ظہور حسب و نسب اور دوسر سے ارضی و سماوی علامات پر سیر حاصل روشنی ڈالی گئی تھی.گوت نامه بخدمت جمیع علماء کرام و صوفیائے عظام و دیگر همدردان اسلام" د مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر کا لکھا ہوا ایک تبلیغی کتابچه جونشر و اشاعت دعوت و تبلیغ قادیان نے شائع کیا ، -A " ادعیہ ایسیح الموعود (مرتبه و شائع کردہ میاں محمد امین صاحب تاجر کتب قادیان) ستیارتھ پرکاش ایجی ٹیشن پر تبصرہ و موافه مباشر فضل حسین صاحب) اس رسالہ میں آریہ سماج اور بانی آریہ سماج کے متعلق بہت سی مفید معلومات جمع کرنے کے علاوہ ستیارتھ پرکاش کی ضبطی کے سوال پر بھی بحث کی گئی اور بتایا گیا تھا کہ کن تجاویز کو بروئے کار لا کر اس کتاب کی اشاعت رو کی جا سکتی ہے اور مسلمان آریہ سماجی زہر کا مداوا کر سکتے ہیں." اخبار انقلاب لاہور نے اس کتاب پر یہ ریویو کیا کہ ملک فضل حسین صاحب کی اس مختصر کتاب میں ستیارتھ پرکاش کے متعلق ایسی اہم معلومات بہم پہنچائی گئی ہیں جو اس معاملے سے خاص شرفت رکھنے والوں کے سامنے بھی نہیں ہوں گی من نسبی مباحث سے ڈیسپی رکھنے والے تمام احباب اگر اسے کم از کم ایک مرتبہ پڑھ لیں تو یقیناً اُن کے علم و نظر میں بڑا قیمتی اضافہ ہوگا اے اندرون ملک کے مشہور منال کے اس سال میں بھی ہمہ گوہر چور اور ڈول میں بہت کامیاب دہلی چمبہ ، مباحثہ و علی مناظرے ہوئے.آریہ ترک شانسی سما وصلے نے ایک کھلا چیلنج شائع کر کے تمام مذاہب کو دعوت مناظرہ دی تھی جو انجمن لے "افضل" در امان مارش صفحه ۳ کالم ۰۴ /
۲۳۶ احمدیہ و علی نے منظور کرلی.چنانچہ ۳ تبلیغ افروری لہ بہش کو دیوان ہال دھلی میں " و یدک دھرم عالمگیر ہے یا نہیں کے موضوع پر مناظرہ ہوا جماعت احمدیہ کی طرف سے مکرم مولانا ابوالعطاء صاحب نے نمائندگی کی.جو دو روز قبل اسی جگہ " میرے مذہب میں عورت کا مقام " کے موضوع پر بھی کامیاب لیکچر دے چکے تھے.اس مناظرہ میں اسلام کو ایسی بین اور نمایاں فتح نصیب ہوئی کہ غیروں تک نے اس کا اقرار کیا خصوصاً مسلمانوں کو اس عظیم الشات کامیابی سے بہت خوشی ہوئی ہجوم کا یہ عالم تھا کہ تمام دیوان ہال ، اس کی گیلریاں ، درواز سے اور کھڑکیاں تک لوگوں سے پر تھیں.مباحثہ چمبه جید میں مہش سے پادری عنایت سیح نے اسلام اور احمدیت کے خلاف تقاریر کرنا اپنا شیوہ بنا رکھا تھا.آخر جماعت احمدیہ حمید نے پادری صاحب مذکور کو چیلنج کیا اور مرکز سے مولوی محمد سین صاحب ، مولوی غلام احمد صاحب باد و طہوری اور مولوی چراغ الدین صاحب چمبہ پہنچ گئے.اس اتحاد اکتوبر کو پہلا مناظرہ کھتارہ پر ہوا.مرگی پادری عنایت سیج نے انجیل اور قرآن مجید سے مسئلہ کفارہ ثابت کرنے کی سعی لاحاصل کی مگر مولوی چراغدین صاحب نے جواب میں ایسی مدل تقریر کی کہ حاضرین عش عش کر اُٹھے اور دس ایسے سوالات پیش کئے کہ پادری مطلوب ہور تک ان کے جواب نہ دے سکے اور اپنی ذلت کو چھپانے کے لئے بد زبانی پر اتر آئے جماعت نے نہایت میر وتحمل کا ثبوت دیا اور اس طرح پادری صاحب کا دعیل پاش پاش ہو گیا.حاضرین نے احمدی مناظر کی قابلیت اور کامیابی پر مبارکبادیں دیں.دوسرے روز مناظرہ کا موضوع صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھا.لوگ بہت بڑی تعداد میں جمع تھئے مولوی غلام احمد صاحب بدو لہری نے قرآن مجید سے صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ثبوت میں دست آیات اور انجیل سے انھیں حوالے پیش کئے اور پادری صاحب کو تو بر دلائی کہ وہ حسب سابق درشت کلامی سے کام نہ لیں.ورنہ یاد رکھیں کہ شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں پر پتھر پھینکنے سے اپنا ہی نقصان ہوتا ہے اس لئے بہتر ہے کہ تہذیب اور شرافت کو اتھ سے نہ چھوڑیں.پادری صاحب نے بجائے اصل موضوع پر آنے کے بے معنی غلط اور بے ربط اعتراضات شروع کر دیئے اور ہندو مسلمانوں کو احمدیوں کے خلاف بھڑکایا مولوی صاحب نے پادری صاحب کے ہر سوال کے تحقیقی اور الزامی جوابات دیئے.پادری صاحب نے پھر ہندو مسلمانوں کو بھڑکانا شروع کیا تا کہ لوگ اس گہرے اثر کو جو مولوی صاحب کے جواب سے پیدا ہوا
۲۳۷ تھا بھول جائیں لیکن نتیجہ کے طور پر اکثر مسلمان پادری صاحب کی اس پالیسی کے خلاف ہو گئے.آخر میں مولوی صاحب نے صداقت حضرت مسیح موعود پر ایسی واضح تقریر کی کہ مناظرہ ختم ہوتے ہی مسلمانوں نے بڑے زور سے نعرہ تکبیر بلند کیا.سلط میہ میں چاروں طرف احمدیوں کی کامیابی کا چرچا ہو گیا.اور احمدی مناظروں کی قابلیت کی دھاک بیٹھے گی حتی کہ اگر کوئی شخص بے سروپا بات کرتا تو لوگ ضرب المثل کے طور پر کہ دیتے تھے کہ کیوں پادری عنایت کی ہفتے ہو جاتے کیسے بنتے ہو مباحثہ کو مد پور (ضلع گورداسپور ) مورخه ۲ فتح / دسمبر ریش کو جماعت احمدیہ کھوکھر اور اہلسنت والجماعت گوہد پورہ کے درمیان موضوع گو پر پورا تھانہ دھاریو ال مضلع گورداسپور میں مسئلہ بحیات و وفات مسیح پر شاندار مناظرہ ہوا ی شرائط مناظره پہلے سے طے شدہ تھیں.جن کے مطابق اہلسنت والجماعت کوئی ایسا مناظر پیش نہ کر سکے ہیں مولوی فاضل ہوتا اور اپنی سند دکھا کر مناظرہ کرنے کو تیار ہوتا متواتر تین گھنٹے کے مطالبہ کے بعد اہلسنت کو دو صد روپیہ ہر جانہ معاف کیا گیا اور ذیلدار صاحب علاقہ کے کہنے اور سفارش کرنے پر مولوی عبداللہ صاحب امرتسری اہلحدیث کو مناظرہ کی اجازت دی گئی جماعت احمدیہ کی طرف سے مولوی ابو العطاء صاحب جالندھری مولوی فاضل پرنسپل جامعہ احمدیہ مناظر تھے جنہوں نے شرائط کے مطابق اپنی سند اور تمغہ پنجاب یونیورسٹی میں اول رہنے کا دکھایا اور مناظرہ شروع ہوا.پہلی تقریر مولوی عبد اللہ صاحب نے کی جس کے جواب میں احمدی مناظر نے اُن کی تقریر کے دلائل کو توڑ کر هباء منثورا کر دیا.مزید برآں اور دس مطالبات ایسے کئے کہ جن کا جواب المحدیث مناظر آخر وقت تک نہ دے سکے بلکہ اہلحدیث مناظر اپنی عادت کے مطابق اہلسنت و الجماعت کے بزرگان بلف صالحین حضرت امام ابن قیم ، حضرت ابن عباس ، حضرت علامہ ابن جریر و غیر هم کی شان میں نازیبا الفاظ استعمال کرتے رہے میں سے اہلسنت والجماعت کے افراد کو بہت تکلیف ہوئی اور اس کا اثر پبلک پر بہت برا ہوا.نیز ان کو قرآنی آیات غلط پڑھنے اور عربی عبادات اور الفاظ کو غلط بولنے کی وجہ سے بہت شرمندگی اُٹھانا پڑی.مناظرہ یا انکے شروع ہو کر باہم بجے ختم ہوا.اور اللہ تعالیٰ نے احمدیوں کو اخلاقی اورعلمی ہر لحاظ سے فتح عطافرمائی فاطمہ نہ علی ذالک مناظر میں قادیان ، اٹھوال ،شاہ پور ، گنجران ، ناران، دھر کوٹ بگر، پنجواں، دین فتح کھوکھر سکوہ، پیرشاه ر ظلم نہیں ہر سیاں فیض اللہ چک تلونڈی بنگال ہمراہ دیا گڑھا اور دیگر قرب نواح کی جماعتوں کے افراد شامل ہوئے ہیے و الفضل تو نبود توتير مش صفه + ٣ الفضل هر فتح رسمی اش صفه : یش ۶ " ک
۲۳۸ لمباحثہ ڈلوال (ضلع جہلم) ضلع جہلم میں ڈلوال اور دوالمیال دو قصبے ہیں یہاں تولوی لال حسین صاحب انتر نے احمدیوں کو مناظرہ کا چیلنج دیا.ہو جماعت احمدیہ نے منظور کر لیا اور اختر صاحب ہی کی شرادا پر رفتیم دسمبر کو مناظرہ کی تاریخی تجویز ہوئیں اور مناظرہ ان کی خواہش کے مطابق قصہ ڈیوال کی جامع مسجد میں قرار پایا جہاں مرد و احمدی تھے پہلا مناظرہ وفات حیات می پر زیر صدارت مولوی محمد سین صاحب ہوا مولوی لال حسین صاحب نے مدعی ہونے کی حیثیت سے جو احادیث و اقوال پیش کئے بچوہدری محمد یار صاحب عارف نے اُن کے نہ صرف تسلی بخش جواب دیئے بلکہ قرآن مجید کی متعدد آیات اور احادیث سے حضرت مینی کی وفات ثابت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے انعامی چیلنج بھی پیش کئے جن کا جواب مولوی لال حسین صاحب آخر تک نہ دے سکے اور پبلک پر یہ اثر ہوا کہ مناظرہ کے بعد بعض غیر احمدیوں نے صاف کہا کہ مولوی لال حسین صاحب احمدی مناظر کے مقابلہ میں ناکام رہے ہیں.دوسرے دن فیضان ختم نبوت کے مسئلہ میں مدعی جماعت احمدیہ تھی.سید احمد علی صاحب احمدی مناظر نے قرآن کریم کی کئی آیات اور احادیث نبویہ سے ثابت کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں نبوت حاصل ہو سکتی ہے.مولوی لال حسین صاحب نے یو آیات ، احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے اقوال پیش کئے ان کا نہایت عمدہ جواب دیا گیا اور اقوال بزرگان پیش کر کے جماعت احمدیہ کے عقیدہ کی صداقت ثابت کی گئی.مولوی لال حسین صاحب سوائے درشت کلامی کے کوئی جواب نہ دے سکے.تیرا مناظرہ اسی دن بعد دور پہر تھا.اور یہی مناظرہ سننے کے لئے موادی لال حسین اور اس کے ساتھی لوگوں کی تیار کر رہے تھے.اس مناظرہ پر پبلک کثرت سے آئی مسجد کی چھت اور ارد گرد کے مکانوں کی چھتوں پر بھی کافی ہوم تھا.جب مناظرہ شروع ہوا تو مولوی محمد یار صاحب عارف نے پہلی تقریر ہی ایسے رنگ میں کی کہ سیلک نے خاص توجہ سے سنی.آپ نے قرآن مجید کی چار آیات سے صداقت ثابت کر گئے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کا یہ شعر پڑھا کہ ہے کوئی کا ذب جہاں میں لاڈلوگو کچھ نظیر : میرے جیسی جس کی تائیدیں ہوئی ہوں بار بار اور اخترصا ہے کوئی ایک ہی ایسی مثال پیش کرنے کا پُر زور مطالبہ کیا.عارف صاحب نے علاوہ قرآنی آیات کے دنش استارت اور مین پیشگوئیاں حضرت مسیح موعود کی صداقت کے ثبوت میں پیش کیں مناظرہ کا مقررہ وقت ختم ہونے سے ایک گھنٹہ بیشتری غیر احمدی مناظر کے ساتھیوں اپنے مناظر کی کمزوری محسوس کر کے نماز کے بہت سے مناظر ختم کرنا چا او نظور کرلیا گیا مگر ہماری آخری تقریریں شور کنا شروع کردیا.غیراحمدی شرف دو رشید امین و امید کی نمایاں کامیابی کا اقرار کیا؟ ه المفضل ، فتح دسمبر ۱۳۳۳ ش صفحه ۰۶
۲۳۹ تمیسرا باب ادی ہندو قیام پاکستان کیلئے از صلح جنوری ۳ تا ظهور اگست ۳۳ پرش) ه ) / ۱ فصل اول اکارنا العالم کی رو سے اگستان اور ہندوستان کو امی شلیک پیام ، چودھری موظف اللہ خان کا نڈون کی کامن ویلتھ ریلیشنز کا نفرنس میں آزادی کا پر جوش کلم بیق اور آزادی ہند کی آئینی جد و سے آخری اور فصید کن مرحلہ کا آغاز ر کا سال ہندوستان کے سیاسی مطلع پر ایک نہایت مایوس کن ماحول میں طلوع ہوا.آزادی ہند کے تعلق میں کرپس مشن کی ناکامی کے بعد ہندوستان اور انگلستان کے درمیان زبر دست تعطل پیدا ہو چکا تھا اور باہمی سمجھوتہ کے امکانات بظا ہر ختم ہو چکے تھے اور اس کے لئے ہندوستانی اور انگریز دونوں ہی کوئی نیا قدم اٹھانے کے لئے تیار نہیں تھے بلکہ اس زمانہ کے قریب قریب عرصہ میں برطانوی پارلیمنٹ میں ہندوستان کی آزادی سے متعلق سوالات کے جو بھی جوابات دیئے گئے وہ حد درجہ مایوس کن تھے اور عام طور پر یہ سمجھا جارہا تھا کہ ہندوستان سرٹیفورڈ کر پیس ۱۹ ء میں ہندوستان آئے اور ہندوستان کی آزادی کا ایک جدید فارمولا پیش کیا جسے مسلم لیگ در کامیاری دونوں نے مسترد کر دیا.کیس کی تجاویز میں اگرچہ ہندوستان کو دیا دو سے زیادہ وفاتوں کے قیام سے اصول پاکستان کو تسلیم کر لیا گیا مگر اساسی طور پر یہ تجاویز چونکہ ناقابل ترمیم تھیں اور کسی متبادل تجویہ کے لئے بھی دعوت نہیں دی گئی تھی اس لئے مسلم لیگ نے متعدد وجوہ کی بناء پر ان کو ناقابل قبول قرار دیا.دوسری طرف کانگرس کا مطالبہ قومی حکومت کی آڑ میں یہ تھا کہ اُسے فورا ملک کا اقتدار سونپ دیا بجائے مگر جب یہ مطالبہ ٹھکرا دیا گیا تو کانگرس نے د راگست ۱ کو سول نافرمانی کی قرار داد پاس کی اور ور اگست ہ کی صبح کو تمام کا نگریسی لیڈر گرفتار کرلئے گئے.
۲۴۰ کو آزاد کرنے کا سوال ایک عملی سیاست کے طور پر انگلستان کے سیاسی مرتبوں کے سامنے نہیں آسکتا.علاوہ ازیں لارڈ ویول جو کر سپس مشن کی آمد کے وقت ہندوستان کی فوجوں کے کمانڈر انچیف تھے اور اب وائسرائے ہند کے عہدہ پر تھے بہندوستانی حقوق آزادی کے عموماً اور تحریک پاکستان کے خصوصاً بہت مخالف سمجھے جاتے تھے.چنانچہ وہ کار سمبر کو ایسوسی ایٹڈ چیمبر آف کامرس کے سپاسنامہ کا جواب دیتے ہوئے یہاں تک کہہ چکے ور اگر ہندوستان سیاسی اختلافات کے بخار میں مبتلا رہا اور اس کے سیاسی ڈاکٹروں نے فیصلہ کیا کہ اس کے جسم پر بڑا آپریشن ہونا چاہیے جیسا کہ پاکستان - توہند دستان ایک بہترین موقع کھود.دے گا اور یہ عظیم ملک خوشحالی اور فلاح کی بنگ میں ناکامیاب رہے گا مسلہ ان مخدوش اور سراسر نا موافق حالات میں جبکہ کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ ہندوستان اور انگلستان کے درمیان مفاہمت کی کوئی صورت پیدا ہونے والی ہے اللہ تعالیٰ نے اسیروں کے رستگار حضرت سیدنا المصلح الموعود کو تحریک فرمائی کہ انگلستان اور ہندوستان کو سمجھوتہ کی دعوت دیں اور انہیں توجہ دلائیں کہ نہیں آپس میں صلح کرنے کی کوشش کرنی چاہیے.اس آسمانی دعوت کو جو مختلفت الہاموں اور کشوف اور رویا کے نتیجہ میں تھی.اگر ہندوستان کی آزادی کا روحانی پس منظر قرار دیا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کیونکہ اس کے بعد نہ صرف ہندوستان بلکہ انگلستان کی ملکی سیاسیات میں میکا یک غیر معمولی تغیرات و انقلابات پیدا ہو گئے بلکہ صرف ڈھائی سال کے نہایت قلیل عرصہ میں ہندوستان غیر ملکی تسلط سے آزاد ہو گیا اور پاکستان جیسی اسلامی مملکت معرض وجود میں آگئی.چنانچہ حضرت مصلح موعود نے ۱۲ صلح جنوری ۳۳ پر میش کو مسجد اقصی حضرت مصلح موعود کا پیغام صلح قادیان کے منبر پر ایک انقلاب انگیز خطبہ ارشاد فرمایا جس میں انگلستان یا ان کی ایک تالاب به اور ہندوستان دونوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :- "وقت آگیا ہے کہ انگلستان، برٹش ایمپائر کے دوسرے ممالک بالخصوص ہندوستان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ میل جول رکھے اور اس کے ساتھ صلح کرنے کے لئے پرانے کھگڑوں کو بھلا دے " قائد اعظم اور اُن کا عہد " صفحہ ۱۳۴۴ از رئیس احمد صاحب جعفری ندوی ناشر مقبول اکیڈمی شاہ عالم گیٹ لاہو) " الفضل" ۲۳ احسان /جون سرمایش صفحه ۱ به ۲۱۹۴۵
۲۴۱ اور دونوں مل کر دنیا میں آئندہ ترقیات اور امن کی بنیا دوں کو مضبوط کریں.ات انگلستان تیرا فائدہ ہندوستان سے منع کرنے میں ہے....دوسری طرف میں ہندوستان.، کو یہی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ بھی انگلستان کے ساتھ اپنے پرانے اختلافات کو پھیلا دے“ نیز فرمایا :- میں اپنی طرف سے دنیا کو صلح کا پیغام دیتا ہوں میں انگلستان کو دعوت دیتا ہوں کہ آؤ ! اور ہندوستان سے صلح کرلو اور میں ہندوستان کو دعوت دیتا ہوں کہ بھاؤ ! اور انگلستان سے صلح کر لو اور میں ہندوستان کی ہر قوم کو دعوت دیتا ہوں اور پورے ادب و احترام کے ساتھ دیکھو دیتا ہوں بلکہ لجاجت اور خوشامد سے ہر ایک کے دعوت دیتا ہوں کہ آپس میں صلح کر لو اور میں ہر قوم کو یقین دلاتا ہوں کہ جہانتک دنیوی تعاون کا تعلق ہے ہم ان کی باہمی صلح اور محبت کے لئے تعاون کرنے کو تیار ہیں اور میں دنیا کی ہر قوم کو یہ یقین دلاتا ہوں کہ ہم کسی کے دشمن نہیں.ہم کانگرس کے بھی دشمن نہیں ، ہم ہندو مہاسبھا والوں کے بھی دشمن نہیں ، مسلم لیگ والوں کے بھی دشمن نہیں اور زمیندارہ لیگ والوں کے بھی دشمن نہیں، اور خاکساروں کے بھی دشمن نہیں اور خدا تعالے جانتا ہے کہ ہم تو احراریوں کے بھی دشمن نہیں.ہم ہر ایک کے خیر خواہ ہیں اور ہم صرف اُن کی ان باتوں کو برا مناتے ہیں جو دین میں دخل اندازی کرنے والی ہوتی ہیں.ورنہ ہم کسی کے دشمن نہیں ہیں اور ہم سب سے کہتے ہیں کہ ہمیں چھوڑ دو کہ ہم خدا تعالے کی اور اس کی مخلوق کی خدمت کریں.ساری دنیا سیاسیات میں الجھی ہوئی ہے.اگر ہم چند لوگ اس سے علیحدہ رہیں اور مذہب کی تبلیغ کا کام کریں تو دنیا کا کیا نقصان ہو جائے گا حضرت امیر المومنین نے انگلستان و ہندوستان کے نام صلح کا پیغام دینے کے ساتھ ہی یہ خبر دی کہ اگرچہ آپ کی دعوت مصالحت کا سیاسی دنیا پر بظاہر کوئی اثر نہیں ہو سکتا مگر بخدا تعالے قادر ہے کہ وہ آپ کی آواز کو بلند کرنے اور موثر بنانے کا انتظام فرما دے.چنانچہ حضور نے فرمایا :- اس میں شبہ نہیں کہ میرا ایسی نصیحت کرتا اس زمانہ میں جبکہ ہماری جماعت ایک نہایت قلیل جهت ہے بالکل ایک بے معنی سی پچیز نظر آتی ہے.میری آواز کا نہ ہندوستان پر اثر ہو سکتا ہے اور نہ انگلت ات سل "افضل" از مسلح جنوری ۱۳۳۳ ش صفحه کالم ۳ به
۲۴۲ پر اثر ہو سکتا ہے.میں انگلستان کو نصیحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں خواہ میری یہ نصیحت ہوا میں ہی اُڑ جائے.اور اب تو ہوا میں اڑنے والی آواز کو بھی پکڑنے کے سامان بھی پیدا ہو چکے ہیں.یہ ریڈیو ہوا میں سے ہی آواز کو پکڑنے کا آلہ ہے.پس مجھے اس صورت میں اپنی آواز کے ہوا میں اُڑ جانے کا بھی کیا خوف ہو سکتا ہے جبکہ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالے میری ہوا میں اُڑنے والی آواز کو بھی لوگوں کے کانوں تک پہنچا دے".کامن ولیت بیشتر کانفرنس میں اللہ تعالئے اپنے برگزیدہ بندوں کی زبان کو بسا اوقات اپنی زبان بنا لیتا ہے.یہی صورت یہاں ہوئی حضرت امیر المومنین چوہدری مختلف الشیرمال سانتریت پر در خان کے خطبہ کے معا بعد اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے سامان پیدا کر دیئے کہ حکومت ہند نے احمدیت کے مایہ ناز فرزند چوہدری محمد لف الشعر خاں صاحب کو (جو ان دنوں ہندوستان کی فیڈرل کورٹ کے جج تھے) کامن ویلتھ ریلیشنز کا نفرنس میں ہندوستانی وند کے قائد کی حیثیت سے انگلستان بھیجوایا.۷ار فروری شاد کور NOUSE CHAT CHAN میں کانفرنس کا افتتاح ہوا جس میں آپ کو بھی خطاب کرنے کا موقعہ دیا گیا.باوجودیکہ آپ اس وقت سرکاری نمائندہ تھے اللہ تعالی نے اپنے تعرت خاص سے آپ کو یہ توفیق بخشی کہ آپ نے حضرت مصلح موعود کے خطبہ کے بیان کردہ مطالب کو نہایت عمدگی اور کمال خوبی سے اپنی زبان میں انگلستان کے سامنے رکھا اور برطانیہ سے ہندوستان کے لئے مکمل در بعد نو آبادیات دیئے جانے کا مطالبہ ایسے پر زور، اثر انگیز اور پُر قوت و شوکت الفاظ میں پیش فرمایا کر پوری دنیا میں ایک تہلکہ مچ گیا.چنانچہ انگلستان کے سر بر آوردہ اخبارات میں بڑے بڑے لیڈروں نے چھ مرید کی صاحب کی تقریر کے خلاف یا اس کی تائید میں مضامین لکھے.انگلستان سے امریکہ کے نمائندوں نے ملة الفصل " اصلح بندری مش مسته ۱-۲ و موانا جلال الدین صاحب شمس امام مسجد لنڈن نے حضرت مصلح موعود کے اس خطبہ کے ضروری اقتباس پر شتمل ایک انگریزی دو ورقہ انگلستان میں شائع کیا جو میطانیہ کے وزراء اور دارالعوام اور داوالا مراد کے چھ سو عمران کے علاوہ دیگر عمائدین و اکابرکو بھی بھجوایا جس پر سکرٹری آف سٹیٹ فار انڈیا ، اول لسٹول پارلیمنٹری انڈر سری آف سٹیٹ فار انڈیا ، سرجان وارڈ لائن رکن پارلیمنٹ کے پرائیویٹ سکڑی، الفرڈ بارنز رکن پارلیمنٹ ، لارڈ نیلنگوس بق گورنہ جنرل و واکس را ہندا سر پیٹک نہین رکن پارلیمنٹ، بریگیڈیر این میڈلی کاٹ سی بی ای رکن پارلیمنٹ اور لارڈرٹیکلی اور دوسرے مورترین برطانیہ نے تحریر کی شکریہ ادا کیا اور حضرت مصلح موعود کی نصیحت کو خاص دلچسپی سے مطالعہ کیا تفصیل کیلئے ملا حظہ ہو الفضل و احسان ایتون میش صفحه ۵) انگلستان کے علاوہ گورنر مشرقی افریقہ سر فلپ چل کی تحریک پر چودھری محمد شریف صاحب بی.اے نے مشرقی افریقہ ریڈیو سے بھی حضور کے خطبہ کا خلاصہ نشر کیار" الفضل ستمبر سلامت اس طرح خدا تعالیٰ نے حضور کی آواز کو دنیا کے کنارے تک پہنچانے کا انتظام فرما دیا." ۱۳۲۴
۲۷۳ ناروں کے ذریعہ اس آواز کو امریکہ میں پھیلایا اور رائٹر کے نمائندہ نے اُسے ہندوستان میں پہنچایا.اور پھر ہندوستان کے مختلف گوشوں سے اس کی تائید میں آوازیں بلند ہونا شروع ہوئیں.اس طرح تھوڑے دنوں کے اندر اندر حضرت مصلح موعود کی آواز سے ہندوستان، انگلستان اور امریکہ گونج اُٹھے چودھری صاحب نے کامن ویتھ ریلیشنز کا نفرنس میں جو معرکۃ الآراء تقریمہ کی اس نے تاریخ آزادی ہند میں ایک نئے اور سنہری باب کا اضافہ کیا.آپ نے فرمایا :- ہندوستان کو اپنے حصول مقصد سے زیادہ دیر تک روکا نہیں جا سکتا.ہندوستان نے برطانوی قوموں کی آبادی کی حفاظت کے لئے پچیس لاکھ فوج میدان میں بھیجی ہے مگر وہ اپنی آزادی کیلئے دوسروں سے بھیک مانگ رہا ہے.ہندوستان کی حالت اب بدل چکی ہے.جنگ نے اُسے اپنی اہمیت کا پورا احساس کرا دیا ہے.اس کے صنعتی ذرائع منتظم ہو چکے ہیں.اور آج وہ اتحادیوں کے لئے آلہ کے گودام کا کام دے رہا ہے.اتحادی چین کو بڑی چار طاقتوں میں شمار کرنے لگے ہیں.مگر ہندوستان کی اہمیت بھی کچھ کم نہیں.ہندوستان کئی پہلوؤں سے چین سے آگے ہے.چین صرف آبادی اور رقبہ کے مقابلے میں آگے ہے ورنہ صنعت ، قوت ساخت ، اعلیٰ تعلیم ، آرٹ ، سائنس ، رسل و رسائل ، صحت، قیام امن و آئین اور دیگر تمام معاملات میں ہندوستان کا مورچہ بلند ہے.ہندوستان کے اندرونی اختلافات کچھ بھی ہوں مگر وہ چینیوں کے باہمی تفاوت سے زیادہ خطرناک ثابت نہیں ہو سکتے.ہندوستان پر کئی بار حملے ہوئے ہیں مگر ہندوستان نے کبھی بھی کسی پر حملہ نہیں کیا.ہندوستان کب تک انتظار کر سکتا ہے.وہ آزادی کی طرف پیش قدمی کر چکا ہے.اب اسے امداد دیں یا اس کے راستہ میں مزاحم ہوں اُسے کوئی روک نہیں سکے گا.اگر آپ چاہیں گے تو وہ کامن ولیہ کے اندر رہ کر ہی آزادی حاصل کرے گا.ہندوستان کی مہنگی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا :- جنگ سے پہلے ہندوستان مقروض تھا مگر دوران جنگ میں اس نے اتنی مالی امداد دی ہے کہ اب وہ قرض خواہ بن گیا ہے.اس نے رضا کارانہ طور پر ۳۵ لاکھ نو 5 دی ہے.آئندہ امن کے قیام میں و" " الفصل ۲۳ احسان الیون ۱۳۳۲ صفحه ۲ کالم ۲ ۱
کام کام ۳ ہندوستان کی جنگی کوششوں کو خاص اہمیت حاصل ہوگی " سے چونکہ برطانوی ہند کی تاریخ میں یہ پہلی مثال تھی کہ حکومت کے ایک سر بر آوردہ نمائندہ نے ہندوستانیوں کے سیاسی اور ملکی جذبات کی وضاحت و ترجمانی کا فرض اس شجرات اور بے باکی سے ادا کیا ہو.اس لئے ہندوستان کے سب سیاسی حلقوں نے اس نعرہ آزادی کے بلند کرنے پر چوہدری ظفر اللہ نقاب صاحب کو زبر دست خراج تحسین ادا کیا اور ملک کے مقتدر ہندو اور مسلم پریس نے بکثرت تعریفی مضامین لکھے جن میں سے بعض بطور نمونہ درج ذیل کئے جاتے ہیں :- ۱- اخبار انقلاب" اخبار" انقلاب مورخ ۲۲ فروری شاہ نے " منظف اللہ خان کی صاف گوئی “ کے عنوان سے حسب ذیل ایڈیٹوریل لکھا :.مرد چودھری سر ظفر اللہ خان نے کامن ولیہ کی کانفرنس منعقدہ لندن) میں جو تقریر فرمائی وہ ہر انگریز اور اتحادی ملکوں کے ہر فرد کے لئے دلی توجہ کی مستحق ہے.کیا اس ستم ظریفی کی کوئی مثال مل سکتی ہے کہ جس ہندوستان کے پچیس لاکھ بہادر مختلف جنگی میدانوں میں جمعیتہ اقوام برطانیہ کی آزادی کو محفوظ رکھنے کی خاطر لڑ رہے ہیں وہ خود آزادی سے محروم ہے! یہ الفاظ کسی غیر ذمہ دار مقر کی زبان سے نہیں نکلے جس نے مجمع عام میں عوام سر نعرے لگوانے کے لئے یہ طریق بیان اختیار کیا ہو بلکہ ایک ذمہ دار ہندوستانی وفد کے قائد و رہنما کے الفاظ ہیں اور کوئی شخص ان کی سچائی اور درستی میں ایک لمحہ کے لئے بھی شبہ نہیں کر سکتا.گذشتہ ساڑھے پانچ برس میں ایک موقع بھی نہیں آیا کہ ہندوستان نے بحیثیت مجموعی اور یہ اعتبار عمومی جنگ کے سلسلے میں اپنے واجبات و فرائض کی بجا آوری کا بہتر سے بہتر ثبوت نہ دیا ہو جن جماعتوں نے جنگی مساعی میں پورا اور سرگرم حصہ نہ لیا یا جن کی طرف سے ان کی مخالفت ہوئی اُن کا عذر بھی اس کے سوا کیا تھا کہ ہندوستان کو آزادی نہیں ملی اور آزادی بل جائے تو اس وسیع سر زمین کے لامتناہی وسائل کو اس پیمانے پر جنگ کے لئے حرکت میں لایا جا له الفضل برای فروری مش صفرا کالم ملت به اخبار این دور ( OBSERVER) لنڈن کے سٹاف رپورٹر نے اس تقریر پر یہ تبصرہ کیا کہ " تمام مقررین میں سے زیادہ صاحت گو انڈین ڈیلی گیشن کے قائد سر محمد ظفراللہ خان تھے آپ نے اپنی تقریر میں کہا.کیا یہ مجیب بات نہیں کہ ہندوستان کے ۲۵لا کہ فرزند کامن ویتنے کی اقوام کی آزادی کی حفاظت کے لئے لڑ رہے ہیں مگر مند ہوتی ہے خود اپنی آزادی کے لئے درخواستیں کر رہا ہے" (ترجمہ)
۲۴۵ ۴- سکتا ہے کہ دنیا حیران رہ جائے.ان جماعتوں کے طریق و تدابیر سے اور بعض حالتوں میں مقاصد سے بھی اختلاف کیا جا سکتا ہے اور خود ہم نے بھی ان کی تنقید میں کبھی قاتل نہیں کیا.لیکن کیا یہ حقیقت حد درجہ رنجیدہ نہیں کہ جن جماعتوں نے ہر سعی کو حصول آزادی پر موقوف و ملتوی رکھا ان کے طرز عمل سے اختلاف کیا گیا.لیکن جن جماعتوں اور گروہوں نے کسی مشروط یا عہد و پیمان کے بغیر ہرقسم کی قربانیوں کو آزادی جمہوریت کی حمایت کے خیال سے نیز ہندوستان کی حفاظت کے خیال سے ضروری قرار دیا.وہ بھی اس وقت تک منزل آزادی سے قریب تر نہیں ہوئے.- اخبار احسان" بلاشبہ ہندوستان میں اختلافات موجود ہیں اور ان اختلافات کا فیصلہ خود ہندوستانیوں کو کرنا چاہیے اس لئے بھی کہ وہی فیصلہ کے حقدار میں اور اس لئے بھی کہ انہی کا فیصلہ پائدار ہو گا چوہدری مر طف اللہ خاں نے اس سلسلہ میں چین کی مثال پیش کی کہ وہاں بھی کمیونسٹوں اور مارشل چیانگ کائی شیک کی قومی پارٹی (کونٹانگ میں اختلافات ہیں.ہم اس مثال کو ہر لحاظ سے اپنے حالات کے مطابق نہیں سمجھتے.تاہم کیا حکومت برطانیہ کے لئے یہ زیبا ہے کہ ہمارے اختلافات کی وجہ سے سارے سلسلہ کاروبار کو معطل کئے بیٹھی رہے اور چُپ چاپ یہ دیکھتی رہے کہ کب ہمارے اختلافات مٹتے ہیں اور کب اُسے آزادی ہند کے مسئلے پر سنجیدگی کے ساتھ توجہ کا موقع ملتا ہے" اختبار احسان “ نے ۲۲ فروری ۱۹۳۵ء کی اشاعت میں لکھا :- در سر ظفر اللہ خاں نے لندن میں ایک اور تقریر کی جس میں ایک سرکاری ممبر ہونے کے باوجود آپ نے صاف گوئی سے کام لیا ہے.آپ نے برطانوی مدیروں سے کہا ہے کہ ان نازک لمحات میں برطانیہ کو جو فتہ بات ہوئی ہیں وہ قابل تعریف ہیں.امریکہ سے برطانیہ نے معاملہ کیا تو اس میں برطانیہ کو کامیابی ہوئی.روس سے بات چیت ہوئی تو اس میں بھی برطانیہ کو فتح ہوئی آگے بڑھنے کے لئے جس طرف بھی قدم اُٹھے تو برطانیہ کو ناکامی نہ ہوئی.لیکن اس لمبی پھوڑی دُنیا میں کیا برطانیہ صرف ہندوستان کے معاملے میں ہی شکست تسلیم کرنا چاہتا ہے ؟ معلوم نہیں برطانیہ کے مدیروں نے سر ظفر اللہ کی ان باتوں کو کن جذبات کے ماتحت سُنا ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے جس کا احساس آج میر ظفر اللہ جیسے انسان کو بھی ہو رہا ہے اور کس قدر افسون الفصل ۲۴ تبلیغ / فروری مش صفحه و کالم به
1984 واقعہ ہو گا.اگر برطانوی مدتیروں کے دل میں تبدیلی واقع نہ ہوئی.آپ نے یہانتک کہہ دیا کہ ہندوستان آزاد ہونا چاہتا ہے خواہ اسے کامن ویلتھ (دول متحدہ) سے باہر ہی کیوں نہ رہنا پڑے ہندوستان دول متحدہ میں بھی شریک ہو سکتا ہے بشرطیکہ وہ اپنی قسمت کا آپ مالک ہو اور باہر سے کوئی دباؤ اس پر نہ پڑے اور دوسری شرط یہ ہے کہ درجہ نو آبادیات میں وہ نسلی امتیاز کا شکار نہ ہو اور اس کا دور بعد بالکل مساوی ہو.یہ باتیں بالکل صاف ہیں " " ۱۳ حیدر آباد دکن کے روزانہ اخبار پیام" (سوره در ربیع الاول مطابق ۲۲ فروری ۱۹۴۶) اخبان پیام " نے ایک نبی کی آواز" کے عنوان سے لکھا.ایک " :- بہت عرصہ ہوا کہ سر ظفراللہ خان قومی زندگی سے بیگانہ ہو چکے ہیں.اُن کی دنیا لال وردیوں والے جھیداروں اور شرح قالینوں والے حکومت کے ایوانوں کی دنیا ہے ، اس لئے حیرت ہوئی.ایک خوشگوار حیرت که تعلقات دولت مشترکہ کی کانفرنس میں ہندو یہ نام ہند کے بیڈر کی حیثیت سے انہوں نے اپنی تقریر میں درگیری عجیب عجیب باتیں فرما دیں.کیا وہ کوئی عصبی بہیجان کا لمحہ تھا جب وہ کہر بیٹھے کہ 1+ دولت مشترکہ کے دیردا کیا تم اس عجیب طنز کو محسوس نہیں کرتے کہ ہندوستان کے ۳۰ لاکھ سپاہی میدان جنگ میں دولت مشترکہ کی اقوام کی آزادیوں کو محفوظ کرنے کی جد و جہد کر رہے ہوں اور پھر خود اپنی آزادی کی بھیک مانگتے رہیں ؟ اور پھر یہ کہ کب تک تمہارے خیال میں ہندوستان انتظار کرتا رہے گا ؟ ہندوستان کا قافلہ اب جادہ پیمیا ہے خواہ تم اس کی مدد کر دیا اس کا راستہ دو کو اس کو اب کوئی بھی روک نہیں سکتا ہندوستان آزاد ہو کر رہے گا مگر وہ دولت مشترکہ کے اندر رہے گا اگر تم اس کو اندر رہنے دو گے اور اس کو وہ مرتبہ دو گے جو اس کا حق ہے مگر وہ اس مطلقہ سے باہر بھی چلا جائے گا اگر تم اس کے لئے کوئی دوسرا چارہ کا ر باقی نہ رکھو گے“ اور پھر اپنی سیاسی آزادی کے لئے برطانیہ کی دست نگرمی کرنے سے اب ہندوستان اکتا گیا ہے بریاری کھاله الفضل ۲۴ تبلیغ فروری یہ پیش صفر سالم ما +
وہ کسی میدان میں اپنی مایوسی اور نا کامی کا احساس اب اس اندیشہ سے بڑھتا جاتا ہے کہ کہیں ان مابعد جنگ انتظامات میں.جن میں سے بعض پر اس کا نفرنس میں بحث ہوگی ذلیل بے چارگی کی حالت میں نہ جھکیل دیا جائے“ سر ظفر اللہ کی شخصیت ہمارے ملک کی ایک بہت شاندار شخصیت رہی ہے.جب تک وہ دہلی اور شملہ کے سرکاری خلوت خانوں کی آسائشوں سے مانوس نہ ہوئی تھی موصوف کی ذہنی اور دماغی قابلیت کا لوہا سب مانتے ہیں.اس قابلیت کے نقوش آج بھی ہماری قومی زندگی میں موجود ہیں.مگر یہ آواز جو ہم نے آج لندن کے ایک ایوان میں سنی اب تو ایک اجنبی کی آواز معلوم ہوتی ہے.تاہم حقائق کی قوت اس سے ظاہر ہے.یعنی یہ حقیقت ظاہر ہے کہ وطن کی اولاد اگر اُس سے بعد کسی دوسری دنیا میں بھی آباد ہو.تب بھی اس کی زندگی میں ایسے لمحے آتے ہیں کہ وہ اسی ایوان کے فرش پر جس کے اندر اس کی قدرتی صلاحیتیں محفوظ کر لی گئی ہیں ایک کلمہ حق کہ سکتی ہے.سر ظفر اللہ کی اس آواز میں ایک گرج ہے ، ایک دھما کا ہے جس کو ہم نظر اندازہ نہیں کر سکتے.لیکن کیا وہ بھی نظر انداز نہ کر سکیں گے.دولت مشترکہ کے مدبرین ! جن کو سر ظفر اللہ نے مخاطب کیا ؟ انہوں نے فرمایا کہ کیا ہندوستان کی حالت بچین سے بھی بدتر ہے.کیا ہندوستان کے اندرونی اختلافات چینی کو ٹانگ اور معینی اشتراکیوں کے اختلافات سے بھی زیادہ ہیں ؟ پھر یہ کیا بات ہے کہ آج چین کو چار بڑے اکابر میں شمار کیا جاتا ہے مگر ہند دوستان کا مقام کہیں بھی نہیں ؟ بہت مشکل ہے اس بات کا سمجھنا اور بتانا کہ سرظفر اللہ کی زبان سے یہ سب کچھ کن حالات میں کہا گیا اور آیا یہ کہ ان کا کہا ہوا بنا ڈاؤننگ اسٹریٹ تک بھی پہنچ سکے گا یا نہیں.لیکن یہ تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے ہندوستان کے اس نام نہاد و قد کی قیادت کا فرض انجام دیا.اس سے آگے ہم نہیں کہ سکتے کہ پھر بھی وہ کچھ کہیں گے یا نہیں اور ان کے شر کار کار بھی کچھ کہیں گے یا نہیں.یا یہ ایک آواز یورپ کی بین الاقوامی سیاست کے صحرائے لق و دق میں حضرت ایک ہی دفعہ بلند ہو کر گم ہو جائے گی " سے ن بجواله الفضل " در امان از مارچ ۳۲۲ به بیش صفحه و کالم ۱ تا ۳
۲۴۸ م - روز نامہ " پربھات ۲۰ فروری شالہ نے یہ نوٹ شائع کیا :- اخبار پربھات" "ہندوستان کی طرف سے سر ظفر اللہ بطور نمائندہ اس کا نفرنس میں تشریف لے گئے ہیں.ان کی پہلی تقریرہ بہت زور دار ہے اور دل خوشکن بھی.کیونکہ انہوں نے کامن وظیفے کے دوسرے ممبروں کو صاف الفاظ میں بتایا کہ میں پچیس لاکھ سپا ہی مہیا کرنے والا ملک اگر آزادی سے محروم رہا تو جنگ کے بعد بھی دنیا میں امن نہیں ہو سکتا.ایک ایک ہندوستانی کو نظر اللہ کا منون ہونا چاہیئے کہ انہوں نے انگریزوں کے گھر جا کر میق کی بات کہہ دی نشست ۵- اخبار ویر بھارت " ۲۰۱ فروری یہ اپنے ایک طویل مضمون میں یہ تبصبر لکھا.اخبار ویر بھارت سر ظفر اللہ نے کامن ویلتھ کا نفرنس میں بجا طور پر یہ سوال کیا کہ تمہیں ہندوستان کے چھپیں لاکھ سپاہی دنیا کو آزاد کرانے کے لئے لڑرہے ہیں کیا اس کا باستور غلام پہنا باعث شرم نہیں ہے کہ اخبار پرتاپ مورخہ ۲۲ فروری ۱۲۵) نے چودھری صاحب کی حرکتہ النار اخبار پرتاپ تقریرکا ذکر درج ذیل الفاظ میں کیا - ہندوستان کے فیڈرل کورٹ کے بیچ سرمہ ظفراللہ ہی گل لندن گئے ہوئے ہیں.آپ کامن ویلتھ ریشنز کا نفرنس میں ہندوستانی ڈیلی گیشن کے لیڈر ہیں.لندن میں آپ نے جو تقریریں کی ہیں اُن سے بہندوستان تو کیا ، سادی کامن ویتہ میں تہلکہ مچ گیا ہے.کوئی امید نہ کر سکتا تھا کہ شہر ظفر اللہ جیسا شخص بھی برطانیہ کی ذدمت میں ایسے الفاظ استعمال کر سکتا ہے.پسند دن ہوئے آپنے ایک تقریر کی جسے سن کر یو پی کے سابق گورنر سر سیلکم ہیلی جو اس وقت لارڈ میلی آن سرگودھا میں آگ بگولہ ہو گئے اور میٹنگ سے اُٹھ کر چلے گئے.آپ نے برطانوی حکمرانوں کو دوہ کھری کھری سنائیں کہ سننے والے دنگ رہ گئے.برطانوی حکومت کے درجنوں تنخوا پر رکیٹوں کے کئے کرائے پر آپ کی ایک تقریر نے پانی پھیر دیا.عام سوال یہ کیا جارہا ہے کہ یہ کیسے ہوا کہ ایسے ایسے لوگ بھی جو برطانیہ کی بدولت ان مستانہ عہدوں پر پہنچے ہیں آج اس کے غلات ہو رہے ہیں.جواب صاحت ہے.برطانوی حکومت ہر ایک شه دسته "الفصل ۲۴ تبلیغ فروری میش صفحه ۶ کالم ۵۳۰۲
۲۴۹ " کو چکہ دینا چاہتی ہے اور جن لوگوں میں ابھی تک ضمیر باقی ہے وہ ان حالات کو برداشت نہیں کرسکتے ہے اخبار "ریاست - اخبار "ریاست " ( ۲۶ فروری ۱۹۳۵) نے "برطانیہ کے مخلص دوستوں کی آواز" کے عنوان سے حسب ذیل توٹ شائع کیا.چوہدری سر محمد ظفار خان بھی فیڈرل کورٹ ایک بلند کر سکیٹر شخصیت ہیں اور آپ کیلئے یہ کن نہیں کہ آپ کے دل اور زبان میں فرق ہو چنانچہ چودھری صاحب چونکہ برطانیہ کے مخلص دوست ہیں.آپ نے اپنے ان اصلی جذبات کو کبھی چھپانے کی کوشش نہ گی.اور جب کبھی آپ کو برطانوی پالیسی اور برطانوی مدبروں سے اختلاف ہوا تو آپ نے اس اختلات کو بھی کھلے طور پر بیان کر دیا.چودھری سر ظفر اللہ نے برطانیہ کے مخلص دوست ہوتے ہوئے بحال میں جو بیان دیا ہے وہ برطانوی مرتبوں کی آنکھیں کھولنے کا باعث ہونا چاہئیے.آپ نے برطانیہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا.”ہندوستان کی آزادی کی خواہش کو اب نہیں دبایا جاسکتا.کارروانِ آزادی اب تیزی سے منزل کی طرف رواں ہے.تم اس کی مدد کر دیا نہ کرو.آزادی کی منزل میں اس کے قدم اب تقریریں نہیں ہو سکتے.۲۵ لاکھ ہندوستانی میدان جنگ میں اقوام دولت مشترکہ کی آزادی قائم رکھنے کے لئے جنگ کر رہے ہیں لیکن وہ خود اپنی آزادی سے محروم ہیں “ گاندھی اور کانگریسی لیڈروں کو تو شیر برطانیہ اپنا دشمن سمجھتا ہے اور ان کی تحریکوں اور مطالب کو دبانے کی کوشش کی بھاتی ہے مگر سر ظفر اللہ تو برطانیہ کے دشمن نہیں اور برطانیہ کے نامزد ہو کر کا من دیتھ ریلیشنز کا نفرنس میں شامل ہوئے.برطانوی قوم اگر اپنے ان مخلص دوستوں کی رائے پر بھی توجہ نہ کرے تو اس قوم کی بدنصیبی پر کیا شک ہے.اے کاش! برطانیہ کے مدبر سر ظفر اللہ کے اس بیان کو آنکھیں کھول کر پڑھیں.ہندوستان کو آزادی دی جائے" سے اور سکھوں کے مشہور گھر لکھی رسالہ " پر بیت ، لڑی نے اپنے مارچ اور رسالہ پریت لڑکی کے پرچہ میں سرظفر اللہ کے زیر عنوان لکھا.لنڈن میں ڈومینز کی کانفرنس ہو رہی ہے.سر ظفر اللہ ہندوستان کے نمائندے ہیں.اور مجھے بحوالہ " الفصل" در امان ماره صفحه ۶ کالم " ۶ ۳
چوزور دار ، بے خون اور بے لاگ تقریریں انہوں نے کی ہیں انگریز سوچ میں پڑ گئے ہیں.سند ظفر اللہ نے تنبیہ کی ہے کہ اگر ہندوستان سے انصاف نہ کیا گیا اور مکمل آزادی کی تاریخ مقرر نہ کی گئی تو انگریز ہندوستان کی دوستی ہمیشہ کے لئے گنوا لیں گے.ان کی تقریروں کا تمام دنیا میں چرچا ہو رہا ہے.ہم اپنے بھائی کے شکر گذار ہیں.مات سے ہم نے یہ امید کرنا چھوڑ دیا ہے کہ سرکاری طور پر بھیجا ہوا ہمارا نمائندہ کبھی ہماری بھی ترجمانی کرے گا ہم نے کبھی دلچسپی سے پڑھا ہی نہیں کہ یہ نمائندے وہاں جا کر کیا کہتے ہیں کیے نظف الشعر کی دلیری کا ہم فخر کرتے ہیں.لے اللہ تربیت لڑی کے تبصرہ کا گورمکھی متن " ********** “ਲੰਡਨ ਵਿਚ ਡੁਮੀਨੀਅਨਜ਼ ਦੀ ਕਾਨਫ਼ੈਸ ਹੋ ਰਹੀ ਹੈ । ਸਰ ਜ਼ਫ਼ਰੌਲਾ ਹਿੰਦੁਸਤਾਨ ਦੇ ਨੁਮਾਇੰਦੇ ਹਨ ਤੇ ਜੇਹੜੀਆਂ ਜ਼ੋਰਦਾਰ, ਨਿਡਰ ਤੇ ਬੈਸੰਕੋਚ ਤਕਰੀਰਾਂ ਉਹਨਾਂ ਨੇ ਉੱਥੇ ਕੀਤੀਆਂ ਹਨ, ਅੰਗਰੇਜ਼ ਸੋਚਣ ਲਗ ਪਏ ਹਨ । ਸਰ ਜ਼ਫ਼ਰੁੱਲਾ ਨੇ ਤਾੜਨਾ ਕੀਤੀ ਹੈ ਕਿ ਜੋ ਹਿੰਦੁਸਤਾਨ ਨਾਲ ਇਨਸਾਫ਼ ਨਾ ਕੀਤਾ ਗਿਆ, ਪੂਰੀ ਆਜ਼ਾਦੀ ਦੀ ਕ ਨੀਅਤ ਨਾ ਕੀਤੀ ਗਈ, ਤਾਂ ਹਿੰਦੁਸਤਾਨ ਦੀ ਦੋਸਤੀ ਅੰਗਰੇਜ਼ ਇਹਨਾਂ ਦੀਆਂ ਤਕਰੀਰਾਂ ਹਮੇਸ਼ਾ ਲਈ ਗੁਆ ਦੀ ਸਾਰੀ ਦੁਨੀਆ ਵਿਚ " ਲੈਣਗੇ । , ਚਰਚਾ ਹੋ ਰਹੀ ਹੈ । ਅਸੀਂ ਆਪਣੇ ਵੀਰ ਦੇ ਸ਼ੁਕਰ ਗੁਜ਼ਾਰ ਹਾਂ । ਮੁੱਦਤਾਂ ਤੋਂ ਅਸਾਂ ਇਹ ਉਮੈਦ ਕਰਨੀ ਕੁੱਝ ਦਿੱਤੀ ਹੈ ਕਿ ਸਰਕਾਰੀ ਤੌਰ ਤੇ ਭੇਜਿਆ ਹੋਇਆ ਸਾਡਾ ਨੁਮਾਇੰਦਾ ਕਦੇ ਸਾਡੇ ਵਲ ਦੀ ਗਲ ਕਰੇਗਾ । ਅਸਾਂ ਕਦੇ ਦਿਲਚਸਪੀ, ਨਾਲ ਪੜ੍ਹਿਆ ਹੀ ਨਹੀਂ, ਇਹ ਨੁਮਾਇੰਦੇ ਉਥੇ ਜਾ ਕੇ ਆਖਦੇ ਹਨ, ਪਰ ਸਰ ਜ਼ਫ਼ਰੁੱਲਾ ਦੀ ਦਲੇਰੀ ਦਾ ਕਰਦੇ ਹਾਂ। ਮਾਣ ادہ ترجمہ پریت لڑی شاری ۱۹۷۵
۲۵۱ چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے ، افرودی سے تقریر چودھری صاحب کی لنڈن ریڈیو سے اہم تقریر ر کو رن کان دلیہ کا فرض کے افتتاحی اجلاس میں ہی نعرہ آزادی بلند نہیں کیا بلکہ اس روز عشائیہ کی ایک خصوصی سرکاری تقریب میں بھی اپنے موقف کی تائید میں موثر تقریر فرمائی.ازاں بعد اپنے قیام انگلستان کے دوران ایک تقریہ لنڈن ریڈیو سے براڈ کاسٹ کی جس میں ہندوستان کی سیاسی مشکلات کامل بیش فرمایا اور بتایا کہ میں نے حکومت برطانیہ کے سامنے تجویز رکھی ہے کہ اس کی طرف سے اعلان کیا جائے کہ تنگ عظیم کے خاتمہ کے ایک سال بعد تک اگر ہندوستانی جماعتوں میں کوئی سمجھوتہ ہو گیا تو برطانیہ اسے تسلیم کرے گا.اگر سمجھوتہ نہ ہو سکا تو ہندوستان میں ایک عبوری آئین کا نفاذ کر کے ملک کو درجہ نو آبادیات دے دیگا چنانچہ آپ نے فرمایا :- میں نے جب سے انگلستان میں قدم رکھا ہے مجھ سے ہندوستان کی آئینی اُلجھنوں کے بارے میں بہت سے سوالات پوچھے جا رہے ہیں.مثلاً ہندوستان کا سیاسی قضیہ کیوں حل نہیں ہوتا ؟ ہندو اور سلمان کیوں مفاہمت نہیں کرتے ؟ ہندوستان کو کب آزادی ملے گی ؟ ہندوستان آزاد ہو کہ کا من وظیتھ میں شامل رہے گا یا نہیں ؟ ان سوالات کا جواب دینا آسان کام نہیں کیونکہ جہانتک برطانیہ کا تعلق ہے وہ کہہ چکا ہے کہ ہندوستانی آپس میں کوئی سمجھوتہ کر کے، کوئی آئین بنائیں برطانیہ اُسے منظور کرے گا.دوسری طرف ہندوستانی آپس میں سمجھوتہ نہیں کرتے.اور یہ مسئلہ ایک الجھن سی بن کے رہ گیا ہے.تین سال پیشتر سر سٹیفورڈ کریپس ہندوستان گئے تھے.اس وقت سے آجتک ہندوستان میں اٹھن سلجھانے کی بڑی کوششیں ہوئیں مگر نا کام کر ہیں.....اس وقت محاذ جنگ پر ۲۵ لاکھ ہندوستانی سپاہی دُنیا کی آزادی کے لئے اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں.بہندوستان کی طرف سے اس قدر سامان جنگ فراہم کیا گیا ہے کہ آج ہندوستان جیسا مقروض ملک قرض خواہ بن گیا ہے.صنعت و حرفت بہت زیادہ ترقی کر گئی ہے مگر اس کے سیاسی مستقبل کا کوئی حل پیدا نہیں ہوا.اور اس کے بغیر سب ترقیاں فضول ہیں.میں نے برطانوی مرد بوری کے سامنے یہ تجویز رکھی ہے کہ ان کی طرف سے یہ اعلان ہونا چاہیئے کہ اگر ہندوستان کے لوگ جنگ جاپان کے اختتام کے ایک سال بعد نگ کوئی سمجھوتہ پیش کریں تو برطانیہ اسے تسلیم کریگا.اگر سمجھوتہ نہ کر سکیں تو برطانیہ اپنی طرف سے آئین تیار کر کے پارلیمنٹ میں پیش کر دے گا.اس
۲۵۲ کی شکل یہی ہوگی کہ مہندوستان کو آسٹریلیا ، نیوزی لینڈ، کینیڈا اور جنوبی افریقہ کا سا درجہ دیا جائے گا.ہندوستان کی اسمبلی کو پارلیمنٹ کے منظور کردہ آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار حاصل ہوگا.تاکہ بعد میں ہندوستانی آپس میں اتحاد کر کے آئین کو اپنے ڈھب کے مطابق لاسکیں.بہرحال حکومت کو ایسا اعلان کر دینا چاہئیے جس سے دسمبر تک ہندوستان کی آئین سازی کی ذمہ داری برطانیہ پر عائد ہو.میں نے حکومت برطانیہ سے یہ درخواست کی ہے کہ اگر ہندوستان کی کوئی سیاسی جماعت اس آئین سے علیحدہ رہنے کی خواہش رکھتی ہو تو اس کے لئے ایسا کرنے کی گنجائش دیکھی جائے.دوسری گنجائشیں بھی رکھی جائیں...اس وقت ہندوستان میں ایک مسی است ایسی بھی ہے جو مرکز کی آئین سے اپنے آپ کو الگ رکھنے کی کوشش کر رہی ہے لہذا برطانوی پیمنٹ کی طرف سے جو آئین منظور ہو اس میں اس امر کی گنجائش ضرور رکھنی چاہیئے بعض برطانوی مدیر کہتے ہیں کہ ہندوستان کے آئین کی ذمہ داری برطانیہ پر عائد نہیں ہوتا ہچاہیے.لیکن اُن کا یہ بہانہ بالکل عذر لنگ کی حیثیت رکھتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کی سیاسی الجھین کامل برطانیہ کو دنیا بھر میں سر خرد کر دیگا.اگر وہ اس کام میں عہدہ برآ ہو گیا تو دنیا میں اس کی عزت میں چار چاند لگ جائیں گے.ناکام رہا تو اس کے وقار کو بٹہ لگ جائے گا....اس نے یونان، یوگوسلاویہ اور پولینڈ جیسے ملکوں کے ناقابل حمل سوالات کو حل کر دکھایا ہے.کیا ہندوست کا حق برطانیہ پر اس قدر بھی نہیں بقتنا یوگوسلاویہ ، پولینڈ اور یونان کا ہے.اگر برطانیہ ہندوستان کا مسئلہ بھل کر دے تو اس سے بہت سی الجھنیں حل ہو جائیں گی.خود انگلستان کی بہبود کا تقاضا بھی یہی ہے " سے چودھری صاحب نے اپنی یہی تجویز اختبار پیکٹیٹر " SPECTATOR "کے ایک مضمون میں بھی نہایت وضاحت سے بیان فرمائی اور آخر میں لکھا کہ برطانوی حکومت کو یاد رکھنا چاہیئے کہ ہندوستان کے مسئلہ کے حل پر دنیا کے امن اور تہذیب کے مستقبل کا دارو مدار ہے اور اس کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ بعض حلقوں کو اس کا احساس نہیں لیتے ینی مسلم لیگ (مرتب) و کے پرپر میں شائع کر دیا تھا.مندرجہ بالا اقتباسی اسی پرچہ سے ماخوذ ہے.اس مضمون کا خلاصہ اخبارات میں بھی شائع ہو گیا تھا جس کا ترجمہ الفصل " ١٣ در المان اماری " ۱۳۲۴ میش میں بھی چھپ گیا تھا یہ تہ اس تقریر کے ملخص کا ترجمہ انہی دنوں اخبار الفضل نے اپنے سر امان ہماری سیتی اء
۲۵۳ چودھری صاحب کا ہندوستان سٹینڈرڈ چودھری صاحب نے ۱۲ فروری سہ کو مہندوستان سٹینڈرڈ کے نمائندہ سے ایک انٹرویو میں کہا کہ میری سرکونی کے نمائندہ سے انٹرویو میں جو وفد یہاں آیا ہے وہ دو سوالات کا قطعی فیصلہ کرانے کے بعد سہندوستان واپس جائے گا.پہلا سوال یہ ہے کہ ہم جنوبی افریقہ کے ڈیلیگیشن کا اس وقت تک پیچھا نہیں چھوڑیں گے جب تک وہ ہندوستانیوں کو شہریت کے مساوی حقوق دینے کے لئے تیار نہ ہو گا.اگر اس نے ہارا یہ مطالبہ منظور نہ کیا تو اسے سہندوستان کی طرف سے پوری پوری انتقامی کارروائی کے لئے تیار ہو جانا چاہیئے دوسرا سوال ہندوستان کی آزادی ہے خواہ ہندوستان بر طانی کامن ویلتھ کے اندر رہنا منظور کرے یا باہر ہوتا ہے آزادی ہند سے متعلق چودھری ظفر اللہ خان صاحب کی تجویری نے برطانوی مدبرین کے خیالات میں زلزلہ برطانوی مدترین کے خیالات میں ایک زبر دست زلزلہ مجد پا کر دیا.لنڈن کے با اثر اور مشہور روزنامہ لنڈن ٹائمز (LONDON TIMES) کے کالموں میں متعد د انگریزوں کے اس تجویز کی نسبت مراسلات شائع ہوئے اور لنڈن ٹائمز ۲۰ مارچ ۹۷۵نہ) نے اپنے اداریہ میں ان خطوط کا خلاصہ شائع کر کے ان کی بناء پر ڈونکتے پیش کئے.ایک یہ کہ برطانیہ کو خود اس کارروائی کے اختیار کرنے کا ذمہ دار ہونا چاہیئے جو ہندوستان کے متعلق اس کی اعلان کی ہوئی پالیسی کو موثر طور پر نافذ کرنے کا یقین حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے.دوسرا یہ کہ موجودہ حالت میں محض کریس مشن کی پیشکش پر یہ کہ کہ انحصار کرتا کہ اسے قبول کر لایا تو کر دو اب کافی نہیں رہا.نیز لکھا :- اولر ر حقیقت میں جنگ کے دوران اور جنگ کے بعد بھی ہندوستانی برطانوی تعاون کے لئے خطرناک ہے لنڈن ٹائمز کی اسی اشاعت میں چودھری ظفر اللہ تعال صاحب کا ایک مضمون بھی چھپا جس پر اختیار نے اپنے لینڈنگ آرٹیکل میں یہ تبصرہ کیا کہ } آنریبل سر محمد ظفر اللہ خان صاحب کی وہ سکیم جو انہوں نے اپنے اس آرٹیکل میں بیان کی ہے جو دوسری جگہ اسی صفحہ پر درج ہے گو مسلم نقطہ نگاہ سے لکھی گئی ہے لیکن بلا شبیہ مر ترانہ نقطہ نگاہ کی مظہر ہے اور سر موصوف کے وسیع تجربہ پہ (جو انہیں اپنے ملک کی خدمت کے سلسلہ میں انتظامی الفصل ۳۴ تبلیغ فروری ۳۳۳ ریش صفحه ۸ کالم ۲ : 4 ۲۲ امان ماریچ صفحه
۲۵۷ ڈپلومیٹک اور جوڈیشل امور میں حاصل ہے، دال ہے.اس سے دوسرے نقطہ ہائے نگاہ کے کما حقہ بیان و تفہیم کے لئے یکساں رستہ کھل جاتا ہے.اس طرح یہ آرٹیکل ہندوستان کے مسئلہ پر فرقہ دارا نہ جھگڑوں اور کشمکش کی بجائے محققانہ اور پراز معلومات مفید بحث کا موقعہ پیدا کرتا ہے" اخیار گلاسگو ہیرلڈ نے ۵ار مارچ ۹۷۵ اید کی اشاعت میں چودھری صاحب کی سکیم پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ اس قسم کے ہر اقدام کا خیر مقدم کرنا چاہیئے.گوممکن ہے ابتداء میں مسٹر گاندھی اور ( قائد اعظم محمد علی جناح اس سے متفق نہ ہوں.چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی حریت پیر در اور انقاد ائے ہند کو لندن آنے کی ہدایت کی تقریروں کا اثر برطانیہ کے عوامی اور صحافتی حلقوں سے بڑھ کر خود برطانوی حکومت پر ہوا.اور اس نے چودھری صاحب کی نئی سکیم کے پیش نظر لارڈ ویول و اسرار ہند کو انتقال اقتدار کا نیا فارمولہ تجویز کرنے اور سہندوستان کو مصالحت کی پیشکش کرنے کیلئے لندن طلب کیا.وائسرائے کے دورہ انگلستان کی نسبت برطانوی پارلیمنٹ کے عمران نے لارڈ ویول کے انگلستان میں آنے کی تجویز کا پُر جوش خیر مقدم کیا.چنانچہ مسٹر ممبران پارلیمنٹ کے تاثرات انتھک لارنس بیرہ مصر نے ایک بیان میں کہا کہ یوروپ کی جنگ کا خاتمہ نزدیک نظر آرہا ہے اور اس موقعہ پر لارڈ ویول کا لنڈان آنا ہندوستانی مسئلہ کے حل کی طرف اہم پیش قدمی کا باعث ہوسکتا ہے.بلاشبہ سر محمد ظفراللہ خان کی تازہ تجویز زیر غور آئے گی.علاوہ ازیں سپرو مصالحتی کمیٹی کی تجاویز کا بھی بیتابی سے انتظار کیا جارہا ہے.ان کو بھی بھاری اہمیت حاصل ہے مسٹر لیونل شنویل نے کہا.ڈیڈ لاک ختم کرنے اور مسئلہ کے حل کے لئے یہ نہایت موزوں موقعہ ہے.اور لارڈ ویول اس وقت ہندوستانی صورت حالات کے متعلق تازه ترین واقعیت اور اپنے سیاسی تاثرات سے آگاہ کرسکیں گے بحواله الفضل ۲۶ رامان / مارچ ۱۳۳۳ به پش صفحه ۸ + سی ابہادر سپرو کا شمار اعتدال پسند ہندوؤں میں سے ہوتا تھا.انہوں نے پاکستان کے نعرہ سے سہم کر اپنی صدار میں ایک مصالحتی کمیٹی تشکیل کی بھٹی میں میں سروزی چین، اسر رادھا کشن ، مسٹر جیکرنا ، مسٹر این آر سر کار و فیه لوگو شامل کئے کمیٹی کا مقصد یہ تھا کہ کوئی ایسا حل دریافت کیا جائے جو مسلم لیگ اور کانگریس دونوں کے لئے وجہ اشتراک بن سکے اور ہندوستان کے آئندہ دستور کی بنیاد قرار دیا جا سکے.سپر کمیٹی کی رپورٹ ۲۷ دسمبر 2 کو شائع ہوئی جس میں کانگرسی نقطہ نگاہ کی ترجمانی کی گئی تھی.
۲۵۵ میں سمجھتا ہوں کہ گذشتہ دنوں مسٹر ایمری نے ہندوستان کے متعلق جن خیالات کا اظہار کیا وہ بھی پیرامید ہیں.ان سب چیزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سمجھوتہ کا کافی امکان ہے برطانیہ اس کا خیر مقدم کریگا.روس اور امریکہ کا ایں سے کوئی تعلق نہیں لیکن میرا خیال ہے کہ وہ اسے بیحد پسند کریں گے مسٹر آر تھر گرین وڈلیڈر آف نیل پورشن نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ لارڈ ویول کا دورہ ضرور کامیاب رہے گا.پارلیمنٹ میں بھی اور پارلیمنٹ کے باہر بھی گذشتہ ہفتوں سے ایسے آثار نمایاں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستانی مسئلہ کے متعلق فضاء سازگار ہو رہی ہے.برطانیہ میں بیشمار لوگ اس کے حل کا بیتابی سے انتظار کر رہے ہیں.لارڈ ویول نہ صرف مشرق بعید کی جنگ کے سلسلے میں صلاح ومشورہ کریں گے بلکہ ہندوستان کا سیاسی مسئلہ بھی زیر غور آئے گا.پر و فیسر جارج کاٹن نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ موجودہ بات چیت سے تعقل ختم ہو کر کوئی تعمیری پروگرام سامنے آئے گا.لا انگلستان میں آزادی ہند سے متعلق سرگرمیوں کی محمد ری محمد ظفر الد خان صاحب اپنی خود نوشت سوانح میں کامن ویلتھ ریلیشنز کا نفرنس کی تقریب تفصیل چودھری محمد ظفراللہ خاصاحب کے قلم سے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:.پر اپنی تقاریر اور ان کے رد عمل پر روشنی ڈالتے ۱۹۴۵ کی فروری میں CHATCHAN - HOUSE لندن میں Royal INSTITUTE OF INTERNATIONAL AFFAIRS کی سر پرستی ہیں COMMON - WEALTH کے نمائندگان کی ایک کا نفرنس کا اہتمام کیا گیا.بہندوستان کی INSTITUTE کی طرف سے بھی ایک وفد نے اس کانفرنس میں شرکت کی.وفد کے اراکین میں جناب کنتور سر مہا راج سنگھ ، جناب میر مقبول محمود ، جناب C.L MEHTA جناب خواجه سرور حسن اور خاکسار شامل تھے.افتتاحی اجلاس میں ہر وفد کے قائد سے پانچ پانچ منٹ کی تقریر میں اختصاراً اپنے اپنے ملک کی جنگی سرگرمیوں کا خلاصہ بیان کرنے کی استدعا کی گئی.ہندوستان کی باری آنے پر میں نے تین منٹ تو ہندوستان کی جنگی سرگرمیوں کا خلاصہ بیان کرنے میں صرف کئے اور بتایا کہ پچھپیں لاکھ ہندوستانی کسی نہ کسی حیثیت میں بینگ کے مختلف محاذوں پر برطانوی اور استحادی آزادی اور سالمیت کی حفاظت اور دفاع میں مختلف الفضل ۲۲ بار به شه وانه صفحه و کالم سم
۲۵۶ انواع کی خدمات سر انجام دیتے رہے ہیں اور جسم و جان کی قربانی پیش کرنے میں ان کی طرف سے دریغ نہیں ہوا.علاوہ فوجی اور براہ راست جنگی امداد کے ، سامان حرب اور ذخائر خوراک مہیا کرنے میں بھی ہندوستان نے نمایاں خدمت کی ہے اور قابل قدر نمونہ قائم کیا ہے.اس سلسلے میں پچیدہ تفاصیل کا فکر کرنے کے بعد میں نے کہا :- سیاست دانایان مملکت کیا یہ امر آپ کے لئے باعث حیرت نہیں کہ ہندوستان کے پچیس لاکھ فرزند میدان جنگ مملکت کی آزادی کی حفاظت کے لئے ہتھیار بند اور کمر بستہ ہوں اور ہندوستان ابھی تک اپنی آزادی کا منتظر اور اس کے لئے ملتجی ہو ؟ شاید ایک مثال اس کیفیت کو واضح کرنے میں محمد ہو سکے.چین کی آبادی اور رقبہ ہندوستان کی آبادی اور رقبے سے بے شک فزوں تر ہیں.لیکن وسعت اور آبادی کے علاوہ میں باقی ہر لحاظ سے آج ہندوستان سے کوسوں پیچھے ہے تعلیم ، صنعت ، حرفت، وسائل آمد و رفت ، غرض خوشحالی کے تمام عناصر کے ٹھی سے ہندوستان چین کی نسبت کہیں آگے نظر آتا ہے.پھر کیا وجہ ہے کہ مین تو آج دنیا کی بڑی طاقتوں میں شمار ہوتا ہے اور ہندوستان کسی گنتی میں نہیں ؟ کیا اس کی صرف یہی وجہ نہیں کہ چین آزاد ہے اور ہندوستان غیر آزاد ؟ لیکن یہ حالت اب دیر تک قائم نہیں رہ سکتی.ہندوستان بیدار ہو چکا ہے اور آزاد ہو کر رہے گا.مملکت کے اندر رہ کر اگر آپ سب کو یہ منظور ہو- مملکت کو ترک کر کے اگر آپ اس کے لئے اور کوئی رستہ نہ چھوڑیں ! اور یہ اجلاس سہ پہر کو ہوا تھا.اجلاس کے ختم ہونے پر جب ہم - CHATHAM - HOUSE سے نکلے تو شام کے اخبار STAR میں میری تقریر کا یہ حصہ لفظ بلفظ موٹے موت میں چھپا ہوا تھا اور لوگ اس پرچے کو بڑے شوق سے خرید رہے تھے.کچھ عرصہ بعد جناب آصف علی صاحب نے مجھ سے ذکر کیا.جب لندن میں تم نے یہ تقریر کی.پنڈت جواہر لال نہرو اور کانگریس کے چند سر کردہ اراکین جن میں میں بھی شامل تھا اورنگ آباد دکن کے قلعے میں نظر بند تھے اور کانفرنس کے اس اجلاس کی کارروائی کو ریڈیو پر سن رہے تھے.جب تم نے سیاست دانایان مملکت کہہ کر آواز بلند کی تو ہم سب توجہ سے تمہاری تقریر سننے لگے.پنڈت نہرو نے تو اپنا کان ریڈیو کے بہت قریب کر دیا.جب تم نے تقریر ختم کی تو انہوں نے !
۲۵۷ کیا یہ شخص تو ہم سے بھی بڑھ کر صفائی سے انہیں متنبہ کرتا ہے.اسما نیام حکومت کی عادت سے کا نفرنفیس کے اعزاز میں CLARIDGES - HOTEL میں شام کے کھانے کی دعوت مقیم حکومت کی طرف سے CRANBOURNE 'Marquiss oF SALISBURY LORD ہو اس وقت LORD PRIYY SEAL تھے اور بعد میں اپنے والد کی وفات پر MAPau iss ہوئے، رمیز پانی کے فرائض سر انجام دے رہے رمیز تھے لیکن وزیر اعظم مسٹر چہ پھیل کے سوائے حکومت کے تمام اراکین بشمول نائب وزیر اعظم مسٹر انیلی اور لارڈ چانسلر لارڈ سائمن دعوت میں موجود تھے اور کھانے میں شامل تھے.لارڈ کر کیبور نے مہمانوں کا جام صحت تجویز کرتے ہوئے COMMON WEALTH کی اہمیت کے بعض پہلوؤں کی وضاحت کی.مہمانوں کی طرف سے میزبان کی تقریمہ کا نیم مزاحیہ جواب تو ایک کینیڈین مندوب مریا سٹینفورڈ نے دیا.اور وہ ایک اخبار کے ایڈیٹر ہونے کے لحاظ ہے اس کے اہل بھی تھے اور سنجیدہ جواب دینے کی ذمہ داری مجھ پہ ڈالی گئی.میری سہ پہر کی تقریر کا بہت پر چھا ہو چکا تھا اور توقع کی جاتی تھی کہ میں ہندوستان کی آزادی کے موضوع پر مزید کچھ کہوں.دعوت میں جانے سے پہلے میں یہ بھی مشن چو کا تھا کہ ہندوستان کی آزادی میں تاخیر کی ذمہ داری تمامتر حکومت برطانیہ پر نہیں ڈالی جاسکتی.کیونکہ ہندو مسلمان اختلامت کے پیش نظر حکومت برطانیہ بہت حد تک معذور گردانی جا سکتی ہے.میں نے اپنی تقریر کے دوران میں آزادی کے موضوع پر کہا کہ محکومیت، برطانیہ ہند و مسلمان اختلافات کا عذر رکھ کر اپنی ذمہ داری سے گریز نہیں کر سکتی.جنگ کے دوران میں برطانیہ بہت سی مشکلات کا حل دریافت کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے.کیا ہندوستان کی آزادی ہی ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا حل در فرضیات کرنے سے برطانیہ عاجز ہے؟ بے شک یہ مسئلہ مشکل ہے لیکن برطانیہ کی تدبیر اس کا حل تجویز کرنے سے عابر نہیں آنی چاہئیے.اگر ہندو مسلمان اختلافت ہی اس مسئلے کا حل تجویز کرنے کے رستے میں سب سے بڑی روک ہے تو برطانیہ اپنی نیک نیتی کا ثبوت اس طور پر پیش کر سکتا ہے کہ اس کی طرف سے یہ واضح اعلان کر دیا بجھائے کہ اگر فلاں تاریخ تک بند و سلمان اختلافات کا حل متنفقہ طور پر تجویز نہ ہوا تو برطانیہ اپنی طرف سے ایک قرین انصاف مل تجویز کر کے اس کی بناء پر سند دوستان
۲۵۸ کے لئے ایک ایسا آئین وضع کر دے گا جس کی رُو سے ہندوستان کو دیگر نو آبادیات کا درجہ حاصل ہو جائے اور اس آئین کو بھاری کر دیا جائے گا لیکن یہ آئین عارضی ہوگا.جونہی مستقل آئین پر فرق دارم اختلاف رفع ہو کر اتفاق ہو جائے گا، پارلیمنٹ متفقہ آئین دونوں کے مطابق وضع کر دے گی اور اُسے رانج کر دیا جائے گا.اس اعلان کے نتیجے میں ہندوستان بلکہ تمام دنیا برطانیہ کے حسن نیت کو تسلیم کرنے پر کیوں ہوگی.دگوت کے اختتام پر بہت سے وزرا د نے میری تجویز کے متعلق گہری دلچسپی کا اظہار کیا.لارڈ سائمن نے کہا.تم جلد کسی دن OF LORDS HOUSE میں لارڈ چانسلر کے فلیٹ میں دوپہر کا کھانا میرے ساتھ کھاؤ میں تمہاری تجویز کے متعلق تم سے بات چیت کرنا چاہتا ہوں تین چار دن کے اندر میں ان کی خدمت میں حاضر ہو گیا.لیکن اس سے قبل میری ان تقریروں کے دو دن بعد ہی سہ پہر کے کے لیڈر CLEMENT DAVIES اکیلا اس کے لئے اپنے ہوٹل سے CHATHAM HOUSE جارہا تھا.رستے میں لبرل پارٹی مل گئے.وہ بھی کا نفرنس کے اجلاس کے لئے جا رہے تھے.مجھے دیکھتے ہی کہا.مبارک ہو.ابھی یہ خبر بصیغہ راز ہے کسی سے ذکر نہ کرنا تمہاری تقریروں کے نتیجے میں کینٹ کے زور دینے پر وائسرائے ہند لارڈ ویول کو مشورے کے لئے توان بلایا گیا ہے.میں نے اللہ تعالے کی حمد کی کہ اس نے اس عاجزہ کی تقصیر کوشش کو نوازا.اور اُسے پر ائمہ بنایا.چنانچہ لارڈ ویول لندن تشریف لائے اور ہندوستان کی آئینی جد و جہد کا آخری مرحلہ شروع ہو گیا ہے شه خود نوشت سوانح حضرت چو مهدی مختظفر اللہ خاں صاحب (غیر مطبوعہ)
۲۵۹ فصل دوم دو ویول سکیم ،شملہ کانفرنس اور حضرت مصلح موجود کا ہندوستان کے سیاسی لیڈروں کے نام ولولہ انگیز پیغام لارڈ ویول وائسرائے ہند ، برطانیہ کے وزیر اعظم مسٹر پھر چل اور کا بلیتہ کے دوسرے ارکان سے مشورہ کے لیے قریباً دس ہفتہ تک انگلستان میں رہے اور ھر خون ۱۹۴۵ ( هر احسان ۱۳۲۴ میش) کو واپس سہندوستان میں پہنچے.لارڈ ویول بھی کابینہ سے صلاح ومشورہ میں مصروف چودھری محمظفر الله ال محبک دوباره سفر انگلستان سے کر چودھری محمد ظفر الدخان صاحب پھر انگلستان تشریف لے گئے.آپ کا یہ سفر اگرچہ محض نجی حیثیت رکھتا تھا مگر آپ کی لندن میں اچھا تک آمد سے مسئلہ ہندوستان کے مباحث میں خاص طور پر سرگرمی پیدا ہوگئی.چنانچہ ولی کے با اثر اختیار ہندوستان ٹائمز " وام مٹی سے نے لکھا :- ۱۹۴۵ دیول مشن کے نتائج کے متعلق جو قیاسات کئے جا رہے تھے ان میں سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی لندن میں اچانک آمد سے سرگرمی پیدا ہو گئی ہے.خیال کیا جاتا ہے کہ سر محمد ظفراللہ خاں صاحب کا سفر مہندوستان کے متعلق موجودہ مباحث میں بہت کچھ ممد و معاون ہو گا.کہا جاتا ہے کہ دو ماہ قبل سر محمد ظفراللہ خان صاحب نے مسٹرا بیری وزیر ہند سے ایک لمبی ذاتی ملاقات کی جس میں وزیر ہند چوہدری صاحب کی لیڈروں کی رہائی اور سہندوستان کے سیاسی ڈیڈ لاک کو ختم کرنے کے لئے پر زور تحریک سے متاثر ہوئے.میر ظفر اللہ خان صاحب نے کامن ویلتھ ریلیشنز کا نفرنس کے نمائندوں کے لیڈر ہونے کی حیثیت سے اپنھا اس تجویز کی وجہ سے برطانوی اخبارات میں ایک ہیجان پیدا کر دیا تھا کہ جاپان کے
خلاف جنگ کے خاتمہ کے بارہ ماہ تک اگر ہندوستانی کوئی متحدہ مطالبہ کریں تو اس کے مان لینے کا حکومت برطانیہ ابھی اعلان کر دے.لیکن اگر ہندوستانی اس قسم کا کوئی سمجھوتہ نہ کر سکیں تو " برطانیہ ہندوستان میں درجہ تو آبادیات پر منتج ہونے والے آئین معیار کا کر دے جو اس وقت تک جاری رہیں جب تک کہ ہندوستانی مختر بند کر خود اس میں ترمیم نہ کریں اس امر کے متعلق روشن خیال قدامت پسندوں کے رویے کا ذکر کرتے ہوئے ٹائمز لنڈن " لکھتا ہے اگر مناسب باہمی سمجھوتہ کو برطانیہ کے غلات پھیلنے والے جذبات کی جگہ نہ دی گئی تو یہ جذبات اس حد تک پہنچ سکتے ہیں کہ جنگ کے بعد برطانیہ اور ہندوستان کے ان تعلقات کو تباہ کر دے جو حالیم بعد از جنگ میں دونوں ملکوں میں قائم ہونے چاہئیں اور حین پر دونوں ملکوں کے مستقبل اور عام تحفظ کا اس قدر مدار ہے.برطانیہ کے مختلف مفکرین اور سیاست دانوں نے " ٹائمز " اور دیگر اخباروں کے کالموں میں اس مسئلہ کے متعلق سیر کن بحث کی اور فی الحقیقت سر ظفر اللہ خان صاحب کی تجاویز پہ ہندوستان کی نسبت برطانیہ میں زیادہ سنجیدگی سے غور کیا گیا.ان لوگوں میں سے اکثر نے بنہوں نے اس بحث میں حصہ لیا اس یقین کا اظہار کیا کہ کرپس کی تجاویز کے متعلق برطانیہ کی موجودہ پالیسی یعنی سب لے لو یا سب چھوڑ دو" میں جنگ کے دوران میں اور جنگ کے پور مہندر ستان کے مطالبے تعلقات خراب کرنے کے خطرات سے پُر ہے برطانوی نامہ نگاروں نے دو بجا دیتے ہیں کی ہیں.اول مکمل طور پر ہند دستان کو اختیارات دے دینے کے سلسلے میں برطانیہ کو ہندوستان کا طرز حکومت میں بتدریج تبدیلی شروع کر دینی چاہئیے.دوم حکومت برطانیہ کی فرقہ وارانہ سوالات کے حل پر دوسرے زاویہ نگاہ سے اس احساس کے ماتحت غور کرنا چاہیئے کہ یہ اختلافات کہنا.استانی سیاست دانوں کے علاوہ برطانوی سیاستدانوں کے لئے بھی موجب ہمت ہیں گزشتہ دو ماہ سے برطانیہ کے لوگوں میں اس قسم کے شدید جذبات پیدا ہو رہے ہیں کہ سینہ.مشرقی ایشیا میں امن قائم رکھنے کے لئے ہندوستان کا استحصاد یکر تمہاری پتھر کا کام دے نیز یہ کہ صرف متحد ہندوستان ہی آئندہ کی حفاظتی سکیم میں موثر ہوتا ہے.
PHI برطانیہ کے سیاستدان کوئی حل تلاش کرنے کے لئے سر ظفر اللہ خاں صائب ایسے لوگوں سے مشورہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں جو کسی خاص سیاسی پارٹی سے گہرا تعلق نہیں رکھتے.بہر کیفت سر ظفر اللہ خان صاحب کے سفر ولایت پر ان کی تجاویز کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ برطانیہ کے ہندوستان کو خود مختاری کے وعدے کے لئے وقت کی تعیین ہو بھانی چاہیئے.نیز یہ کہ بجاپانیوں سے جنگ ختم ہونے پر ایک سال تک کا وقت ایک مستقول مدت ہے.دہلی میں عام طور پر خیال ظاہر کیا جا رہتا ہے کہ طرز حکومت میں تبدیلی یقینی ہے.نیز یہ کہ ہمطانیہ کو اپنے مفاد کے پیش نظر مسلہ کوئی قدم اُٹھانا چاہیے لے ہندوستان ٹائمز کے اس بیان سے یہ امر با لکل عیاں ہے کہ برطانوی حکومت اپنے نمائندہ لارڈ ویول ) سے مشورہ کے ساتھ سہندوستان کی جلد آزادی کو جو فارمولا بھی تیار کر رہی تھی وہ چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی اٹھائی ہوئی تحریک کے زیر اثر تھا جس نے ہندوستان سے زیادہ برطانیہ کو فوری توبہ دینے پر مجبور کر دیا تھا.المختصر لارڈ ویول آزادی کا نیا فارمولا لئے وارد ہند ہوئے اور آپ نے ۱۴ جون لارڈ ویول کا فارمولا کے کو آٹھ بج شام آل ال بایڈیپوٹیشن سے تقریر کی جس میں وہ تجاویز پیش کیں جو ہندوستان کے سیاسی تعطل کو دور کرنے کیلئے وہ برطانوی حکومت کی طرف سے لائے تھے.الارڈ ویول نے اپنی تقریر میں کہا :- مجھے ملک معظم کی حکومت نے اختیار دیا ہے کہ میں وہ تجاویز جن کا مقصد ہندوستانی کی موجودہ پولیٹیکل صورت حالات کو بہتر بناتا ہے اور مکمل سیلف گورنمنٹ کی منزل کی طرف ہندوستان کوئے جاتا ہے، ہندوستان کے پولیٹیکل لیڈروں کے سامنے دیکھوں....ملک منتظم کی حکومت کو امید تھی کہ فرقہ وارانہ مسئلہ کے متعلق ہندوستان کی سیاسی پارٹیوں میں کوئی نہ کوئی مجھوتہ ہو جائے گا لیکن ہے امید پوری نہیں ہوئی.اس لئے میں، ملک معظم کی حکومت کی طرت سے پورے اختیارات کے ساتھ یہ تجویز پیش کرتا ہوں کہ ہندوستان کی منظم پولیٹیکل پارٹیوں کے نمائندوں پرمشتمل نئی ایگرز کٹو کونسل مرتب کرنے کے لئے میں مرکزی اور صوبائی پولٹیکل پارٹیوں کے لیڈروں کو دعوت دوں گا کہ وہ اپنے مشوروں سے مجھے مستفید کریں.مجوزہ ایک کٹو کونسل میں تمام بڑے بڑے فرقوں کو نمائندگی دی جائے گی.اس میں اعلیٰ ذات کے ہندوؤں اور مسلمانوں کو " الفضل" بد امنی ۲۲ ب صفحہ یہ کالم
۲۶۲ مساوی نمائندگی دی جائے گی.اگر یہ عالم وجود میں آگئی تو یہ موجودہ آئین کے ماتحت کام کرے گی.سوائے وائسرائے اور کمانڈر انچیف کے جو ایک کٹو کونسل کے جنگی ممبران کے طور پر کام کریں گے.ساری ایگرز کٹو کونسل ہندوستانی ہوگی یہ تجویز بھی منظور کر لی گئی ہے کہ جہاں تک برٹش انڈیا کا تعلق ہے امور خاریہ کا محکمہ جو اس دن تک وائسرائے کے ہاتھ میں رہتا آیا ہے ایگزیکٹو کونسل کے ہندوستانی ممبر کے سپرد کر دیا جائے گا.ملک معظم کی حکومت نے ایک اور قدم اُٹھانے کا بھی فیصلہ کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ دیگر نو آبادیات کی طرح ہندوستان میں بھی ایک برٹش ہائی کمشنر مقرر کیا جائے گا ہو ہندوستان میں برطانوی تجارتی اور دیگر مفاد کی حفاظت کرے گا.اگر کو کونسل تقریباً مکمل طور پر ہندوستانی ہوئی.کیونکہ پہلی بار ہندوستان کا ہوم نمبر اور فنانس مبر دونوں ہندوستانی ہوں گے.میر اور ہندوستان کے خارجہ امور کے انتظامات کا انچارج بھی ایک ہندوستانی تعمیر ہی ہو گا علاوہ بریں دیگر کٹو کونسل کے ممبران کا انتخاب وائسرائے ہند آئندہ ہندوستان کے پولیٹیکل لیڈروں کے مشورہ سے کریں گے.ایگزیکٹو کونسل کے ممبران کی مشرائط کی منظوری ملک معظم سے لی جایا کریگی.اس عارضی گورنمنٹ کے قیام کا ہندوستان کے قطعی آئینی تصفیہ پر کسی طرح بھی اللہ نہ پڑے گا.نئی ایگزیکٹو کونسل کا بڑا کام یہ ہوگا (1) جاپان کے خلاف پوری طاقت سے جنگ لڑ کی بجائے حتی کہ اسے کمل شکست ہو جائے (۲) ہندوستان کے مستقل آئین کے فیصلہ ہونے تک برطانوی ہند کی حکومت کے کام کو ان تمام ذمہ داریوں کو سامنے رکھا و جلد از جلد جنگ کے بعد کی تعمیر کے سلسلہ میں ہندو انا کے سامنے پڑے ہیں چلایا جائے (۳) جب ممکن ہو اس بات پر غور کریں کہ کن رسائل کو اختیار کرنے سے ہندوستانی پارٹیاں باہمی سمجھوتہ کر سکتی ہیں.میری رائے میں یہ کام بہت اہم ہے.میں اس بات کو چھپانا نہیں چاہتا کہ ان تجاویز سے ملک منظم کی حکومت کا مقصد ہندوستانی لیڈروں میں بانچی سمجھوتہ کو آسان بنانا ہے" وائسرائے ہند لارڈ ویول نے اپنی تقریر کے آخر میں کہا.ہمارے راستہ میں کئی نشیب و فراز ہیں.ہر طرف ہمیں معات کرو اور بھول بھاؤ کے سنہری اصول پر عمل کرنا پڑے گائے الفضل احسان جون مش صفحه ۸ کالم ۱-۰۲ +1970
۲۶۳ مصلح موعود کا پیغام استین حضرت مصلح موعود نے جو ہندوستان کی آزادی کے دن کو قریے دیکھنے کے دلی طور پر آرزو مند تھے، دیول تجاویز کو ازحد اہمیت دی کے ہندوستانی لیڈروں نام اور ۲۲ احسان جون پر میش کے خطبہ جمعہ میں نہایت درد دل کے ساتھ ہند داستان کے سیاسی لیڈروں کو پیغام دیا کہ انگلستان ہندوستان کی طرف اپنا صلح کا ہاتھ بڑھا رہا ہے اس بطانوی پیشکش کو قبول کرنا اپنے پر اور اپنی آئندہ نسلوں پر احسان عظیم کرتا ہے.پچنا نچہ حضور نے ارشاد فرمایا :- ہیں تو سمجھ ہی نہیں سکتا کہ ہندوستانی لیڈر با وجود اس کے کہ ان میں بعض بڑے بڑے سمجھدار اور بڑے بڑے عقلمند ہیں کس طرح اس بات کو نظر انداز کر رہے ہیں کہ انگریزوں کے ہاتھ میں سو فیصدی اختیارات کے ہوتے ہوئے اگر وہ آزادی کی امینہ رکھتے ہیں تو توے فیصدی اختیارات بگردان کے اپنے ہاتھ میں آجائیں تو کیوں وہ آزادی کی امید نہیں رکھ سکتے.اگر انگریزوں کو دشمن سمجھ لیا جائے تو بھی یہ غور کرنا چا ہیئے کہ اگر کسی دشمن کے پاس سو بندوقیں ہوں لیکن دوسرے شخص کے پاس کوئی ایک بندوق بھی نہ ہو اور اس حالت میں بھی وہ سمجھتا ہو کہ میں اپنے نشیمن کا مقابلہ کر کے جیت جھاؤں گا تو اگر فرض کرو اس کا دشمن اسے کہے کہ تو سے بندوقیں تم مجھ سے لے لو اور دلی میرے پاس رہنے دو تو الہ بحالت میں اگر وہ کہے کہ میں تقسے نہیں لوں گا جب دو گے سو ہی لوں گا تو کیا ایسے شخص کو کوئی بھی عقل مند کہہ سکتا ہے.یقیناً ہر شخص اُسے نادان اور نا سمجھ ہی قرار دے گا.اسی طرح خواہ کچھ کہہ لو اس میں کچھ مشیر نہیں کہ ہندوستان کو بو بھی اختیارات میں زیادہ ملیں تب بھی اور کم میں تب بھی وہ اختیارات بہر حال ہندوستان کے لئے مفید اور بابرکت ہوں گے اور وہ ہندوستان کو پہلے کی نسبت آزادی کے زیادہ قریب کر دیں گے.پس میرے نزدیک ہندوستان کا اس پیشکش کو قبول کرنا انگریزوں سے صلح کرنا نہیں بلکہ اپنے آپ پہ اور اپنی آئندہ آنے والی نسلوں پر احسان عظیم کرتا ہے.دو سو سال سے ہندوستان غلامی کی زندگی بسر کرتا چلا آیا ہے.اور یہ ایک ایسی خطرناک بات ہے جو انسانی جسم کو کی کیا دیتی ہے.بیشک بعض لوگ ایسے اعلیٰ اخلاق کے مالک ہوتے ہیں کہ خواہ انہیں قید خانوں
کے انڈر رکھا بھائے تب بھی وہ آزاد ہوتے ہیں.غلامی ان کے قریب بھی نہیں آتی.مگر بیشتر حصہ بنی نوع انسان کا ایسا ہی ہوتا ہے ہو ظا ہری غلامی کے ساتھ دلی نظام بھی بن بجاتا ہے.ہم ہندوستان میں روزانہ اس قسم کے نظارے دیکھتے ہیں جو اس غلامی کا ثبوت ہوتے ہیں، جو ہندوستانیوں کے قلوب میں پائی جاتی ہے.ان واقعات کو دیکھنے کے بعد کون شخص ہندوستانیوں کی غلامی سے انکار کر سکتا ہے.یہاں اگر انگریز کسی کو مارتا بھی چلا جائے تو اس میں جماعت نہیں ہوتی کہ وہ اس کے مقابلہ میں اپنی زبان ہلا سکے.اب تو پھر بھی لوگوں میں کچھ آزادی کی رُوح پیدا ہو گئی ہے لیکن آج سے چند سال پہلے یہ حال تھا کہ کسی انگریز کے ساتھ لوگ ریل کے ایک کمرہ میں بھی سوار نہیں ہو سکتے تھے.اگر کسی ڈبہ میں انگریز بیٹھا ہوتا تھا تو بڑے بڑے ہندوستانی افسر وہاں سے مل جاتے تھے کہ صاحب بہادر اندر بیٹھتے ہیں.خواہ صاحب بہادر اُن کے نوکروں سے بھی اونی ہوں.ہندوستان کے لوگوں کی یہ حالت جو بیان کی گئی ہے اس میں اعلیٰ اخلاق کے لوگ شامل نہیں.ان لوگوں کی تو یہ حالت ہوتی ہے کہ خواہ وہ صلیب پر لٹک رہ ہے ہوں یا جھیل مانوں میں بند ہوں تب بھی وہ آزاد ہوتے ہیں کیونکہ اصل آزادی عقیم کی آزادی نہیں، بلکہ دل کی آزادی ہے.آزاد قوموں کے جرنیل جب لڑائی میں پکڑے جاتے ہیں تو کیا تم سمجھتے ہو وہ غلام بن جاتے ہیں وہ غلام نہیں بلکہ آزاد ہوتے ہیں بیشک انہیں بند جگھوں میں رکھا جاتا ہے.لیکن بند جگہوں میں رہنے کے باوجود وہ آزاد ہوتے ہیں.مگر ہندوستان وہ ملک ہے جس کا بیشتر رفتہ بلکہ نانوے فیصد کی حصہ یقیناً فلام ہو چکا ہے.اس قسم کی حالت کو اگر میا کیا جائے تو اس سے زیاد ہ اپنی قوم کے ساتھ اور کوئی شمنی نہیں ہو سکتی.میں تو کہتا ہوں ایک دیو کیا اگر وائسرائے کو دس دیو بھی دے دیئے جائیں تب بھی، اس تغیر کی وجہ سے ہندوستان میں جو آزادی کی اردح پیدا ہوگی وہ اس قابل ہے کہ اس کو نوشی سے قبول کیا بھائے جب تک ہندوستانیوں کے ذہن سے یہ نہیں نکل جائے گا ( اور سہندوستانیوں سے مراد جیسا کہ میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں عوام الناس ہیں ند که اعلیٰ طبقہ کے لوگ) کہ وہ انگریزوں کے غلام ہیں اس وقت تک ہندوستان سے کسی بہتری یا کسی بڑے کام کی امید رکھنا بالکل فضول اور عبث ہے.لینڈ ہونا اور بات ہے
۲۶۵ لیکن کام عوام الناس کیا کرتے ہیں.پہلہ نے انگلستان سے لڑائی کی اور بیشک بڑی جرات اور بہادری دکھلائی.مگر لڑا ہٹلر نہیں بلکہ جرمن قوم بڑی سٹائن نے بیشک ایک اعلیٰ مہارت جرنیل کی دکھائی اور لوگ سٹائن کی تعریف کرتے ہیں.لیکن سٹائن سٹائن نہیں بن سکتا تھا جب تک روس کا ہر آدمی بہادر اور دلیر نہ ہوتا.انگلستان میں مسٹر پر پھیل نے بیشک بڑا کام کیا ہے لیکن سر پر چلا کیا کام کر سکتے تھے اگر ہر انگریز اپنے اندر وہ اخلاق نہ رکھتا ہجو عام طور پر انگریزوں میں پائے جاتے ہیں.اسی طرح مسٹر روزویلٹ کو بھی بڑی عزت اور شہرت حاصل ہوئی مگر ان کو عزت اور شہرت اسی وجہ سے حاصل ہوئی کہ امریکین لوگوں نے قربانی کی ایک بے نظیر روح دکھائی.ہندوستان (میں) بھی بے شک گاندھی جی کو اُونچا کرنے کے لئے لوگ کتابیں لکھتے اور تقریریں کرتے ہیں لیکن کوئی اکیلا گاندھی یا دو در تین گاندھی یا بیس در این گاندھی یا ہزار گاندھی بھی ہندوستان کو آزاد نہیں کرا سکتا جب تک عوام الناس میں آزادی کی روح پیدا نہ ہو.پس صرف گاندھی اور نہرو کو دیکھ کہ یہ خیال کر لینا کہ ہندوستان ترقی کر رہا ہے محض حماقت ہے چند بڑے بڑے لیڈروں کی وجہ سے یہ سمجھ لینا کہ ہندوستانی میں آزادی کی روح پیدا ہو گئی ہے ویسی ہی جہالت کی بات ہے جیسے بھی کبوتر پر حملہ کرتی ہے تو وہ اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ میں امن میں آگیا ہوں جب تک ہندوستان کے عوام الناس کو ہم آزادی کی روح سے آشنا نہیں کر لیتے جب تک ہند وستلانا کے مزدوروں کو ہم آزادی کی روح سے آشنا نہیں کر لیتے ، جب تک ہند دستان کے زمینداروں کو ہم آزادی کی رُوح سے آشنا نہیں کر لیتے اور جب تک ہم ان میں بیداری اور شرکت پیدا نہیں کر لیتے اس وقت تک نہ ہندوستان آزاد ہو سکتا ہے نہ سہندوستان حقیقی معنوں میں کوئی کام کر سکتا ہے.اور یہ آزادی پیدا نہیں ہو سکتی جب تک موجودہ دور بدل نہ جائے.جب تک ہندوستانیوں کے ذہن سے یہ انکل نہ بھائے کہ ہم غلام ہیں.جبس دن ہندوستانیوں کے ذہن سے غلامی کا احساس نکل بھائے گا اس دن ان میں تعلیم بھی آ بجائے گی ، ان میں ہجرت اور دلیری بھی پیدا ہو جائے گی اور ان میں قربانی اور ایثار کی روح بھی رونما ہو جائے گی.جب انسان یہ سمجھتا ہے کہ میں کسی کا غلام ہوں تو وہ کہتا
P74 ہے مجھے کیا زمین اُلٹی ہو یا سیدھی ، آسمان گرے یا قائم رہے ، فائدہ تو مالک کو ہے.میں کیوں تکلیف اُٹھاؤں.میں سمجھتا ہوں وہ لیڈر لیڈر نہیں ہوں گے بلکہ اپنی قوم کے دشمن ہوں گے جو ان حالات کے بدلنے کے امکان پیدا ہونے پر بھی چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے بند کر کے بیٹھ جائیں اور ان معمولی معمولی باتوں میں اس اہم ترین موقع کو ضائع کر دیں.کہ فلاں کو کانفرنس میں کیوں لیا گیا اور فلاں کو کیوں نہیں لیا گیا.لوگ تو اپنے جسم کو بچانے کے لئے اپنے اور اپنے بچوں کے اعضاء تک کٹوا دیتے ہیں.لیکن یہاں یہ سوال پیدا کئے جا رہے ہیں کہ فلاں کو نمائندہ سمجھا جائے اور فلاں کو نہ سمجھا جائے.فلاں کو شامل کیا جائے اور فلاں کو شامل نہ کیا جائے.حالانکہ جس شخص کے دل میں حقیقی درد ہوتا ہے وہ ہر قسم کی قربانی کر کے اپنی قیمتی چیز کو بچانے کی کوشش کیا کرتا ہے.یہاں پھائیں کروڑ انسان غلامی میں مبتلا ہے.پچالیس کروڑ انسان کی ذہنیت نہایت خطرناک حالت میں بدل چکی ہے.نسلاً بعد نسل وہ ذلت اور رسوائی کے گڑھے میں گرتے پہلے جاتے ہیں وہ انگریز میں نے ہندوستان پر قبضہ کیا ہوا ہے وہ ہندوستان کو آزادی دینے کا اعلان کر رہا ہے.لیکن سیاسی لیڈر آپس میں لڑ رہے ہیں کہ تمہارے اتنے نمبر ہونے چاہئیں اور ہم ایک قلیل جماعت ہیں اور ہم ان حالات کو دیکھنے کے ہمارے اتنے با وجود کچھ کر نہیں سکتے.لیکن ہماری جماعت یہ دعانہ در کر سکتی ہے کہ اے خدا خواہ مسلمان لیڈر ہوں یا ہندو تو ان کی آنکھیں کھول اور انہیں اس بات کی توفیق عطا فرما کہ وہ ہندوستان کے چالیس کروڑ غلاموں کی زنجیریں کاٹنے کے لئے تیار ہو جائیں.کیونکہ یہ نہ صرف ہمارے لئے مفید ہے بلکہ آئندہ دنیا کے امن کے لئے بھی مفید ہے.اگر اس موقع پر لڑنا جائتہ ہوتا تو انگریز کو لڑنا چاہیئے تھا.مگر خدا تعالے کی قدرت ہے وہ وائسرائے جو انگلستان کی طرحت سے ہندوستان پر حکومت کرنے کے لئے آیا ہوا ہے وہ کہتا ہے کہ میں ہندوستان کو آزاد کرتا ہوں.انگلستان کا صناع جو ہندوستان کو ٹوٹ کر اپنی صنعت کو فروغ دے رہا ہے وہ کہتا ہے کہ میں ہندوستان کو آزاد کرنے کے لئے تیار ہوں.انگلستان کی وہ ٹوری گورنمنٹ ہو ہندوستان پر ہمیشہ جبری حکومت کے لئے کوشش کرتی پھلی آئی ہے وہ کہتی ہے کہ میں ہندو سے
۲۷ کو آزادی دینے کے لئے تیار ہوں.انگلستان کی لیبر پارٹی جو نئی پارٹی ہے اور جیسے برسرِ اقتدار آنے کا پہلا موقع ملنے والا ہے یا ممکن ہے کچھ دیر کے بعد ملنے والا ہو ، وہ بھی اعلان کر رہی ہے کہ ہم ہندوستان کو آزادی دینے کے لئے تیار ہیں.انگلستان کے پریس کا بیشتر حصہ خواہ ٹوری ہو یا لیبر ہو یا لبرل ہو ، شور مچا رہا ہے کہ ہندوستان کو آزادی دے دی جائے.امریکہ اور فرانس اور دوسرے ممالک مین کا براہ راست ہندوستان سے کوئی واسطہ نہیں وہ بھی شور مچا ر ہے ہیں کہ ہندوستان کو آزادی دے دی جائے.لیکن اگر انگلستان ہندوستان کو آزادی دینے کے لئے تیار ہے تو ہندوستان کے اپنے بعض سپوت آزادی لینے کے لئے تیار نہیں ہیں پس ان دنوں میں اللہ تعالیٰ سے خاص طور پر دعائیں کرو کہ جن لوگوں کے ہا تھ میں یہ معاملات ہیں اللہ تعالے انہیں اس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ وہ راہ راست پر آجائیں اور ہندوستانی غلاموں کی زینجیروں کو کاٹ کر وہ ہندوستان کو اعلیٰ مقام پر پہنچانے والے ثابت ہوں..اخبار اہلحدیث کے ایڈیٹر مولوی ثناء اللہ صاحب امرت سری نے اس اخبار المحدیث کا تبصرہ خطبہ جمعہ پاس خیال کا برا انبار یا که ما مجالات احمرین بند استان خیال کہ امام کی آزادی کے لئے جس جمات، دلیری اور حق گوئی کے ساتھ مطالبہ کیا ہے اور جس زور اور ولولہ کے ساتھ حکومت کو اہل ہند کا حق آزادی دینے کی طرف توجہ دلائی ہے.اس کی مثال ہندوستان کے کسی بڑے سے بڑے آزادی پسند کی تقریروں میں بھی نہیں مل سکتی.چنانچہ انہوں نے لکھا :- اب خلیفہ قادیان کا مسلک بھی سننے کے قابل ہے.یہ وہی مسلک ہے جو عام کانگریسیوں اور دیگر سیاسی لوگوں کا ہے.یعنی سیاسی لوگ ہندوستانیوں کو حالت موجودہ میں غلامی کی زلت میں مبتلا سمجھتے ہیں اس لئے آزادی کی کوشش کرتے ہیں.اس کوشش میں بعض دفعہ وہ اپنی جان پر بھی کھیل بھاتے ہیں.قید وبند کے مصائب بھی برداشت کرتے ہیں تا کہ غلامی کی زنجیریں کٹ بھائیں اور ہندوستانی آزادی کی ہوا میں خوش و خرم رہیں.خلیفہ قادیان (نے) حکومت کی جدید حکیم کے متعلق اظہار خیالات کرتے ہوئے خطبہ جمعہ میں ہندوستانیوں کی ذلت غلامی کا ذکر مله " الفضل " ۲۳ احسان یون همایش صفحه ۴ تا ۷ * يو
PHA | کرتے ہوئے جو کچھ کہا ہے وہ پڑھنے اور سننے کے قابل ہے.آپ نے لیڈروں کو اتفاق کر کے کام کرنے کا مشورہ دیا اور کہا ( آگے حضرت مصلح موعود کے نظیہ جمعہ سے اقتباس دے کر لکھا نا تھی یہ الفاظ کسی جرات اور حیرت کا ثبوت دے رہے ہیں.کانگرسی تقریروں میں اس سے زیادہ نہیں ملتے.پچالیس کروڑ ہندوستانیوں کو غلامی سے آزاد کرانے کا ولولہ میں قدر خلیفہ جی کی اس تقریر میں پایا جاتا ہے وہ گاندھی جی کی تقریر میں بھی نہیں ملے گا حضرت مصلح موعود کا یہ خطبہ جمعہ اگلے ہی روز الفضل سیاسی لیڈروں میں خطبہ جمعہ کی اشاعت ۲۳ احسان استون یہ ہش میں شائع کر دیا گیا اور ساتھ ہی اس کا الگ انگریزی ترجمہ بھی شیخ رحمت اللہ صاحب شاکر نمائندہ الفضل نے شملہ پہنچ کر دیا لارڈ ویول کی دعوت پر سیاسی لیڈروں کی کانفرنس ہونے والی تھی، راشٹرپتی مولانا ابو الکلام آزاد صدر آل انڈیا نیشنل کانگرس ، قائد اعظم محمد علی جناح صدر آل انڈیا مسلم لیگ ، مسٹر گاندھی ، ڈاکٹر ناں صاحب ، مسٹر حسین امام ، میاں افتخار الدین ، پنڈت گویند و لبجه پنت ، سری کرشن سنہا اور دوسرے بہت سے سیاسی لیڈروں تک پہنچا دیا.سیاسی لیڈروں کی کانفرنس ۲۵ جون سے شملہ کا نفرنس کی ناکامی اور مکی انتخابات کا اعلان ایک یہ ہوائی یا یک جاری رہی.مذاکرات کے دوران قائد اعظم محمد علی جناح نے انتہائی کوشش کی کہ کسی طرح کانگریسی لیڈر مسلم لیگ کو مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت تسلیم کر کے کوئی آیر دندانہ سمجھوتہ کر لیں اور قومی حکومت قائم ہو جائے.پچنانچہ انہوں نے ایک پر یس کا نفرنس میں واضح بیان بھی دیا کہ اگر بچہ مسلم لیگ کو دیول تجاویز منظور نہیں.پھر بھی ہم عارضی طور پر قومی حکومت کی تشکیل میں حصہ لینے کو تیار ہیں لیکن اس شرط کے ساتھ کہ مسلم نمائندوں کا حق انتخاب مریت مسلم لیگ کو حاصل ہوتیں مگر کانگریس نہ صرف یہ کہ اچھی پر آمادہ نہ ہوئی بلکہ اس نے مسلم لیگ گے اس موقف کو سبوتاژ کرنے اور ان کی نمائندہ حیثیت کو چیلنج کرنے کے لئے دہلی میں نیشلسٹ مسلمانوں کی ایک کا نفرنس کا انتظام کیا جس میں جمعیتہ العلماء ، مسلم مجلس ، مومن کا نفرنس ، آزاد پارٹی اور انجمن وطن بلوچستان کے " تر نه اخبار المحدیث " امرتسر از جولائی ۱۹۷۵ ۲ صفورم کے " الفضل" ۲۷- ۲۸ احسان رجون ے قائد اعظم اور دستور ساز اسمبلی ، صفحہ ۱۵۳ مصنفہ محمد اشرف خان عطاء مدیر معادن "زمیندار" اشاعت منزل بل روڈ لاہور + - ۲۸ احسان جون ده مش صفحه ۱۲ 19A
نمائندوں سے ایک قرارداد منظور کرائی کہ مسلم لیگ تمام مسلمانوں کی نمائندہ نہیں.بنا بریں کانگرس نے نیشلسٹ مسلمانوں کے عبوری حکومت میں لئے بھانے پر بہت زور دینا شروع کر دیا.اور اپنا نقطہ نظر یہ پیش کئے رکھا که اگر پانچ مسلمان ممبران کو نسل ہوں تو اس میں سے دو غیر لیگی قوم پرست (کانگریسی یا کانگریس نواز ) مسلمان ضرور ہونے چاہئیں.کانگرس کے علاوہ خود لارڈ ویول نے کبھی اصرار کیا کہ مسلم لیگ کو پنجاب کے مسلمانوں کے نمائندہ کے طور پر ملک خضر حیات خان کا ایک آدمی ضرور لینا پڑے گا مگر یہ امر چونکہ مسلم لیگ کی جڑ پر کلہاڑا اچلانے بلکہ اس کو اپنے ہاتھوں قبر میں اتارنے کے مترادف تھا.اس لئے قائد اعظم نے ایگزیکٹو کونسل کے لئے اپنے امیدوار ہے کی فہرست وائسرائے کو دینے سے صاف انکار کر دیا اور مطالبہ کیا کہ یا تو مسلم لیگ کو مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت تسلیم کیا جائے یا ملک میں انتخابات کرا کے مسلم لیگ کی نمائندہ حیثیت کا فیصلہ کر لیا جائے جس کا جواب وائسرائے نے کانفرنس کے دوران تو یہ دیا کہ عام انتخابات کرنے کا اختیار لیڈروں کی کانفرنس کو دے دیا گیا ہے.نئی گورنمنٹ چاہے تو ایسا کر سکے گی.اس کے کام میں رکاوٹ نہیں ڈالی بھائے گی ہے مگر بعد ازاں لارڈ ویول نے 19 ستم پر ہ کو نئی برطانوی مزدور حکومت سے لندن بھا کر صلاح مشورہ کرنے کے بعد اعلان کر دیا کہ مرکزی اور صوبائی مجالس آئین ساز کے انتخابات بعد عمل میں لائے جائیں گے ان انتخابات کے بعد ہندوستان کا مستقل استور تیار کرنے کے لئے دستور ساز اسمبلی کے ارکان کا انتخاب ہو گا.قائد اعظم محمد علی جناح کا پینا مسلمانان ہند کے نام اس جوان پر مسلم لیگ کے صدر قائد اعظم محمدعلی ہند کے نام محمد علی جناح نے کوئٹہ میں مسلمانان ہند کو مخاطب کرتے ہوئے کہا :-..ہم " ہمارے پیش نظر اہم مسئلہ آئندہ انتخابات کا ہے.موجودہ حالات میں انتخابات کو خاص اہمیت حاصل ہے.انتخابات ہمارے لئے ایک آزمائش کی صورت رکھتے ہیں.رائے دہندگان کی اس امر کے بارے میں رائے دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ کیا وہ پاکستان چاہتے ہیں یا ہندو راج کے ماتحت رہنا چاہتے ہیں...مجھے معلوم ہے کہ سه قائد اعظم اور دستور ساز امیلی مصنفہ محمد اشرت خار علیه مدیر معاون "زمیندار" اشاعت متریال میل روڈ لاہور صفحہ ۱۱۵۲ " التفضل دار و فادا جولائی مین صفحه A." رگا x
۲۷۰ ہمارے خلاف بعض طاقتیں کام کر رہی ہیں اور کانگرس ارادہ کئے بیٹی ہے کہ ہماری صفوں کو ان مسلمانوں کی امداد سے پریشان کر دیا جائے جو ہار ساتھ نہیں ہیں.مجھے افسوس ہے کہ وہ مسلمان ہمارے یں یہی کہا نوں ساتھ میں سیلان الانسانانو گمراہ کرنے کے کا میں بطور کانہ سے استمالی جا رہے ہیں.یہ مسلمان سدھائے ہوئے پرندے ہیں.یہ صرف شکل وصورت کے اعتبار سے ہی مسلمان ہیں.اس میں کوئی شک نہیں کہ کانگرس کے پاس دولت کے وسیع خزانے ہیں.اُن کے پاس مضبوط تنظیم اور پریس ہے مگر حق ہمارے ساتھ ہے.اگر تھدائے عز وجل نے بہاری اعانت کی تو ہم انشاء اللہ تعالے کامیاب ہوں گے“ لاہ انشاء فصل سوم جماعت حمید کی جان مرکزی و صوبائی انتابت میں آل تقی مسلم لیگ کی پر جوش حمایت اور عدیم النظیر تعاون اور پراپگینڈا ہت روؤں کی برہمی اور مسلم زعماء کا شاندار خراج تحسین ۲۱۹۴۵ - ۴۶ لہ پیش کا معرکہ انتخاب تحریک پاکستان کا اہم ترین سنگ میل تھا جس میں جماعت احمدیہ نے اپنے مقدس امام سید نا حضرت خلیفہ ایسیح الثانی الصلح الموعود کی زیر قیادت مسلم لیگ کی زبر دست تائید و حمایت کر کے قیام پاکستان کی منزل کو قریب تر لانے میں نمایاں اور تاریخی رول ادا کیا.ستر کیطرف الیکشن ر امیر المومنین کوان سے آئندہ الک میں قائداعظم محمد علی جناح نے مسلمان ہند سے انتخابات میں مسلم لیگ کو کامیاب بنانے کی جو تحریک کوئٹہ میں فرمائی اس کی جماعتی پالیسی کا واضح اعلان سنی میں سب سے پہلی اور پر زور اور مل گیر آواز قادیان سے اخبار انقلاب" لاہور ۱۲۰ کتوبر ۱۹۴۵ به صفحه ۰۸
بلند ہوئی بیچنانچہ حضرت مصلح موعود نے ۲۱ اکتوبر ۱۹۴۶ء کو آئندہ الیکشنوں کے متعلق جماعت احمدیہ کی پالیسی" کے عنوان پر ایک مفصل مضمون لکھا جو " الفضل" کی ۲۲ اکتوبر ۱۹۳۵ء کی اشاعت میں شائع کر دیا گیا.اس حقیقت افروز مضمون میں حضور نے نہایت واشگاف الفاظ میں مسلم لیگ کے موقف کا مدلل اور محکم ہونا ثابت کرنے کے بعد ہندوستان میں پھیلے ہوئے ہزاروں احمدیوں کو قطعی ارشاد فرمایا کہ وہ آئندہ آنے والے انتخابات میں مسلم لیگ کی پالیسی کی ایسی پر زور حمایت کریں کہ مسلم لیگ الیکشن کے بعد ڈٹ کر یہ اعلان کر سکے کہ مسلم لیگ ہی مسلمانوں کی واحد سیاسی نمائندہ جماعت ہے.چنانچہ آپ نے تحریر فرمایا :- " جیسا کہ احباب کو معلوم ہے تھوڑے ہی دنوں میں تمام ہندوستان میں اول تو ہندوستان کی دونو کونسلوں کے ممبروں کے انتخاب کی مہم شروع ہونے والی ہے اور اس کے بعد صوبجاتی انتخابات طہ یہاں ضمنا یہ بتانا بھی مناسب ہوگا کہ اگر چہ جماعت احمدیہ کانگرس کے مقابل آل انڈیا سوال پر ہمیشہ مسلم لیگ ہی کی موید رہی تھی اور اسی کا پراپیگنڈا کرتی تھی.مگر اُن دنوں پنجاب مسلم لیگ پر بعض ایسے ارکان کا قبضہ ہو گیا تھ جو احمدیوں کو من حیث الجماعت مسلم لیگ میں شامل ہونے کی اجازت تک دینے کے لئے تیار نہ تھے اور جن کا رویہ جماعت احمدیہ کی نسبت حد درجہ اشتعال انگیز تھا.حتی کہ لاہور مسلم لیگ کے بعض پبلک جلسوں میں جماعت احمدیہ کے خلاف سخت زہر اگلا جا رہا تھا.مگر یہ بات صرف صوبہ پنجاب کی حد تک محدود تھی.جہانتک مسلم لیگ کی مرکزی قیادت کا تعلق ہے وہ احمدیوں سے ہم آہنگ تھی.چنانچہ یہ مشہور واقعہ ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ لاہور ۳۰ جولائی ؟ نہ میں مولوی عبد الحامد صاحب بدایونی نے ایک قرار داد پیش کرنا چاہی حسین کا مقصد یہ تھا کہ قادیانیوں کو مسلم لیگ کی رکنیت سے خارج کر دیا جائے کیونکہ یہ لوگ با تفاق علماء دائرہ اسلام سے خارج ہیں.لیکن قائد اعظم محمد علی جناح نے یہ قرارداد پیش کرنے کی قطعاً اجازت نہ دی زمیندار ر شعبان شده مطابق یکم اگست و بحوالہ پمفلٹ مسلم لیگ کے شاندار اسلامی کارنا ہے مرتبہ جمعیتہ علما و صوبہ ۴۳۴ او او ” و علی شائع کننده سید انظار الدین قاسمی ) 19 قائد اعظم کے اس جرات مندانہ اقتدام پر سہندو پریس نے بہت فوغا مچایا.چنانچہ پرتاپ ( ۱۲ اگست ۱۹۴۷) نے لکھا ” گویا بطور مصلحت کم از کم کچھ عرصہ کے لیے غیر مسلم بھی مسلم لیگ میں رہ سکتے ہیں.اسلام کو پولیٹیکل مصلحتوں کے ماتحت کر دیا گیا ہے اور لطف یہ ہے کہ اسلام کے بڑے بڑے مولاناؤں کو بھی اس کے خلاف آواز اٹھانے کی جمات نہیں" اسی طرح اخبار و یہ بھارت " (۴) اگست (۲۵) نے طنز کی کہ " قائد اعظم ٹھہرے نئی روشنی کے آدمی ان کی سمجھ میں نہیں آتا ہ حضرت محمد صاحب کے سوائے کسی دوسرے شخص کو پیغمبر ماننے والے مسلمان کیوں نہیں رہتے.مسلمان تو تب نہر میں جب وہ مسٹر جناح کو اپنا قائد اعظم اور مسلم لیگ کو اپنی نمائندہ جماعت نہ مانیں.مرنے کے بعد کوئی پیغمبر اسلام کے پاس جائے یا خلیفہ قادیان کے پاس مسٹر جناح اس سے خواہ مخواہ جھگڑا کیوں کریں.قادیانی مسلم لیگ میں شامل رہے تو فائدہ ہی ہے.مسٹر جناح کو قیامت کے روزہ رسول خدا کی سفارش کے علاوہ بہشت میں داخل ہونے کے لئے قادیانی نبی کا پاسپورٹ بھی مل جائے گا " اس تمسخر و استہزاء کے علاوہ جس کا مقصد تحریک پاکستان کو نقصان پہنچانے کے سوا کچھ نہ تھا.ایک ہندو اخبار " آریہ گزٹ " ( ۲۷ اگست ۱۹۳۴) نے اس کا پس منظر بیان کرتے ہوئے یہ فسانہ بھی تراشتا کہ کشمیر کے بعض احمدی کارکنوں نے مسٹر جناح کو مسلم لیگ اور پاکستان
۲۷۲ شروع ہونے والے ہیں میری اور جماعت احمدیہ کی پالیسی شروع سے یہ رہی ہے کہ مساہنوں ہندہ ہوں اور سکھوں اور دوسری اقوام میں کوئی باعزت سمجھوتہ ہو جائے اور ملکہ میں محبت اور پیار اور تعاون کی روت کام کرنے لگے.مگر افسوس کہ اس وقت تک ہم اس غرض میں کامیاب نہیں ہو سکے.شملہ کا نفرنس ایک نادر موقعہ تھا مگر اسے بھی کھو دیا گیا اور بعض لوگوں نے ذاتی رنجشوں اور اغراض کو مقدم کرتے ہوئے ایسے سوال پیدا کر دیئے کہ ملک کی آزادی کئی سال پیچھے جاپڑی اور چالیس کروڑ ہندوستانی آزادی کے دروازہ پر پہنچ کر پھر غلامی کے گڑھے کی طرف جکیل دیئے گئے.انا للہ وانا اليه راجعون.جہانتک میں نے خیال کیا ہے اصل سوال ہندوؤں اور مسلمانوں کے اختلافات کا ہے میرا مطلب یہ نہیں کہ دوسری اقوام کے مفاد نظر انداز کئے جا سکتے ہیں.بلکہ میرا یہ مطلب ہے کہ دوسری اقوام کے مفاد اس جھگڑنے کے طے ہو جانے پر نسبتا سہولت سے ملے ہو سکتے ہیں.سب سے مشکل سوال ہند مسلم سمجھوتے کا ہی ہے اور یہ سوال پاکستان اور اکھنڈ ہندوستان کے مسائل سے بہت پہلے کا ہے.اصل مسائل وہی ہیں جنہوں نے مسلمانوں کا ذہن پاکستان کی طرف پھیرا ہے اور اکھنڈ ہندوستان کے خیالات کے محرک بھی وہی مسائل ہیں جو اس سے پہلے مسلمانوں کے مطالبات کو رڈ کرانے کا موجب رہے ہیں.کسی شاعر نے جو کچھ اس شعر میں کہا ہے کہ بہر رنگے کہ خواہی حجامہ مے پوسشس من انداز قدت را می شناسم وہی حال اس وقت پاکستان اور اکھنڈ مہندوستان کے دھووں کا ہے.پس اگر کسی طرت ہندو اور مسلمان قریب لائے بھاسکیں تو پاکستان اور اکھنڈ مہندوستان کا آپس میں قریب لانا ابقیه حاشیه هم صفحہ گذشتہ کی حمایت کا یقین دلایا ہے بشرطیکہ وہ پاکستان میں احمدیوں کے کعبہ کو ایک خود مخت صورت سلیم کرلیں.اور اس صوبہ کی اسلامی پنجاب میں وہی حیثیت ہو جو اٹلی میں پوپ کے دار الحافر ویگین کی ہے.انہوں نے ت دیان میں مطبوعہ مجوزہ قادیان سٹیسٹ کا ایک نقشہ بھی مسٹر جناح کے سامنے پیش کیا جس میں دریائے بیاس سے لے کر پوری بٹالہ تحصیل اور گورا پور تحصیل کا بڑا حصہ دکھایا گیا.مسٹر جناح سے کہا گیا کہ قادیان سٹیسٹ کا سرکاری مذہب احمدی ہوگی اور خلیفہ قادیان اس کے مذہبی پیشوا اور بھی شیت عہدہ گورنہ ہوں گے"
۲۷۳ بھی مشکل نہ ہوگا.ورنہ پاکستان یا اکھنڈ ہندوستان ہوں یا نہ ہوں ، پاکھنڈ ہندوستان بننے میں تو کوئی شبہ ہی نہیں.اس ہندو مسلمان سمجھوتے کی ممکن صورت یہی ہو سکتی تھی کہ ایک جماعت مسلمانوں کی اکثریت کی نمائندہ ہو اور ایک جماعت ہندوؤں کی اکثریت کی نمائندہ ہو یا ہندوؤں کی اکثریت کی نمائندہ تو نہ ہو یا ایسا کہلانا پسند نہ کرتی ہو مگر اکثر ہندوؤں کی طرف سے سمجھوتہ کرنے کی قابلیت رکھتی ہو اور یہ دونوں جماعتیں مل کر آپس میں فیصلہ کر لیں.شملہ میں ایسا موقعہ پیدا ہو گیا تھا.مسلمانوں کی طرف سے مسلم لیگ اور ہندوؤں کے جذبات کی نمائندگی کے لئے کانگریس ، یہ دونوں پاڑیاں ایک مجلس میں جمع ہو گئی تھیں.کانگریس کا دعوی ہے کہ وہ سب اقوام کے حقوق کی محافظ ہے اور ہم اس دعوئی کو رد کرنیکی کوئی ضرورت نہیں منسویں کرتے مگر باوجود اس کے کانگرس اس امر کا انکار نہیں کر سکتی کہ جو مسلمان یا سکھ یا عیسائی کانگرس میں شامل ہیں، وہ مسلمانوں یا سکھوں یا عیسائیوں کی اکثریت کے نمائندے نہیں ہیں.پس کانگرس اگر یہ دعونی کرے کہ ہم جو کچھ سوچتے ہیں سارے ملک کی بہتری کے لئے سوچتے ہیں یا ہم جو سکیم بناتے ہیں اس میں اسی طرح سکھوں عیسائیوں اور مسلمانوں کا خیال رکھتے ہیں جس طرح ہندوؤں کا خیال رکھتے ہیں تو ہم اس دعوی کو بحث ختم کرنے کے لئے سچا تسلیم کر لینے کے لئے تیار ہیں.لیکن کسی شخص کا کسی دوسرے شخص کے مفاد کو دیانتداری سے ادا کر دینا یا ایسا کرنے کا دعویدار ہونا اسے اس کی نیابت کا حق نہیں دے دیتا.کیا کوئی وکیل کسی عدالت میں اس دعوئی کے ساتھ پیش ہو سکتا ہے کہ مدعی یا ماعلی علیہ کے مقرر کردہ وکیل سے زیادہ سمجھ اور دیانت داری سے میں اس کے حقوق پیش کر سکوں گا.کیا کوئی عدالت اس وکیل کے ایسے دعوی کو با وجود ستیا سمجھنے کے قبول کر سکے گی اور کیا اس قسم کی اجازت کی موجودگی مین ڈیمو کریسی ڈیمو کریسی کہلا سکتی ہے ؟ ڈیمو کریسی یا جمہوریت کے اصول کے لحاظ سے یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کسی جماعت کی نمائندگی کرنے کا کون اہل ہے.بلکہ یہ دیکھا بھاتا ہے کہ اس جماعت کی اکثریت کس کو اپنا نمائندہ قرار دیتی ہے.
۲۷۴ ان حالات میں کانگریس کو ہندوئوں کے سوا تمام دوسری اقوام کا نمائندہ اسی صورت میں قرار دیا جا سکتا ہے اگر ان اقوام کے اکثر افراد کانگرس میں شامل ہوں یہانتک ہمارا علم ہے کانگرس میں ہندو قوم کی اکثریت کے نمائندے تو ہیں لیکن مسلمانوں سکھوں یا عیسائیوں کی اکثریت کے نمائند نہیں ہیں.اس لئے خواہ کانگریس مسلمانوں سکھوں اور عیسائیوں کے حقوق کی سکیم مسلمانوں، سکھوں یا عیسائیوں کے نمائندوں سے بہتر تجویز کر سکے ،جمہوری اصول کے مطابق مسلمانوں سکھوں اور عیسائیوں کی نمائندہ نہیں بن سکتی.لیکن باوجود غیر جانبدار اور ملکی تحریک ہونے کے ہندوؤں کی نمائندگی کر سکتی ہے کیونکہ ہندوؤں کی اکثریت اسے تسلیم کر چکی ہے.جب حالات یہ ہیں تو عقلاً اور جمہوری اصول کے مطابق قطع نظر اس کے کہ کانگریس کی سکیم مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے متعلق بہتر ہے یا مسلم لیگ کی مسلم لیگ کی سکیم ہی کو مسلمانوں کی پیش کردہ سکیم سمجھا جائے گا اور کانگرس کو میدان چھوڑ کر بہند ومسلم سمجھوتے کے لئے ہندو مہا سبھا اور مسلم لیگ کو باہمی سمجھوتے کی دعوت دینی ہوگی یا پھر خود ہندو اکثریت کی نیابت میں مسلم لیگ سے سمجھوتہ کرنا ہو گا.اس کے سوا اور کوئی معقول صورت نہیں ہے.کہا جا سکتا ہے کہ اگر کانگریس مسلمانوں کی اکثریت کی نمائندہ نہیں ہے تو مسلم لیگ کے نمائندہ ہونے کا کیا ثبوت ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مسلم لیگ کو نمائندہ قرار دینے کے لئے یہی دلیل کافی ہے کہ گاندھی جی ایک طرف اور وائسرائے ہند دوسری طرف اُسے مسلمانوں کی نمائندہ جماعت سمجھ کر اس سے اسلامی حقوق کے بارہ میں گفت وشنید کے لئے تیار ہوگئے تھے مسلم لیگ نمائندہ ہے یا نہیں ہے مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ اب کانگرس اور گورنمنٹ اس کے سوا کوئی دوسرا نظریہ اختیار نہیں کر سکتی.اگر مسلم لیگ مسلمانوں کی نمائندہ نہیں ہے تو کیا وہ مسلمانوں کے حقوق کا ایک غیر نمائندہ جماعت کے ساتھ تصفیہ کر کے مسلمانوں کو تباہ کرنے کی فکر میں تھے.لیکن فرض کرد مسلم لیگ مسلمانوں کی نمائندہ نہیں تو پھر کون مسلمانوں کا نمائندہ ہے ؟ کیا آزاد مسلمان کا نفرنس، کیا احرار ، کیا کوئی اور جماعت ہو صرف اسلامی نام کا لیبل اپنے اوپر چسپاں کئے ہوئے ہے ؟ اگر ان میں سے کوئی ایک یا سب کی سب مل کر مسلمانوں کی نمائندہ ہیں تو گیا کو نسلوں میں ان لوگوں کی کثرت ہے ؟ مرکزی کو نسلوں میں مسلم لیگ کے مقابل پیمان کی کی تعداد ہے اور صوبہ جھاتی کو نسلوں میں
۲۰۵ اُن کی تعداد کیا ہے ؟ جہانتک مجھے علم ہے صوبہ بھائی کو نسلوں میں بھی اور مرکزی کو نسلوں میں بھی غیر لیگی ممبروں کی تعداد لیگی ممبروں سے بہت کم ہے.اور پھر مجیب بات یہ ہے کہ مرکزی کو نسلوں میں غیر لیگی ممبروں کی نسبت صوبہ جیائی انسیت سے بھی کم ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ صوبہ بھائی کو نسلوں میں غیر لیگی ممبروں کی نسبتی زیادتی مقامی مناقشات اور رقابتوں کی وجہ سے ہے.ورنہ کیا وجہ ہے کہ انہی دوسروں نے صوبہ جات میں ایک پالیسی کے حق میں ووٹ دیئے اور مرکز کے لئے نمائندے بھیجواتے ہوئے دوسری پالیسی کے حق میں ووٹ دیئے.پھر مثلاً پنجاب ہے.اس میں یونینسٹ نمبر اصولاً اپنے آپ کو مسلم لیگ کے حق میں قرار دیتے ہیں اور پاکستان کی علی الاعلان تائید کرتے ہیں.نہیں ہر یونینسٹ ہند و سلم سمجھوتے کے سوال کے لحاظ سے در حقیقت مسلم لیگی ہے بلکہ وہ تو اس امر کا مدعی ہے کہ مجھے ذاتی رنجشوں کی وجہ سے ایک طبقہ نے باہر کر دیا ہے ورنہ میں تو پہلے بھی مسلم لیگی تھا اور اب بھی مسلم لیگی ہوں.ان حالات میں مصوبہ بجھاتی غیر لیگی نمبروں کی تعداد مسلم لیگی ممبروں کے مقابل پر اور بھی کم ہو جاتی ہے.غرض جس نقطہ نگاہ سے بھی دیکھیں اس وقت مسلمانان ہند کی اکثریت مسلم لیگ کے حق میں ہے.کانگرس ، گورنمنٹ اور پبلک ووٹ سب کی شہادت اس بارہ میں موجو ہے.اور ان حالات میں اگر ہندوستان میں صلح کی پائدار بنیاد رکھی جاسکتی ہے.تو مسلم لیگ اور کانگریس کے سمجھوتے سے ہی رکھی جاسکتی ہے، مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ باوجود اس کے شملہ کا نفرنس کی ناکامی سے بددل ہو کر کانگریس نے یہ اعلان کر دیا ہے کہ اب وہ مسلم لیگ سے گفتگو نہیں کرے گی بلکہ براہ راست مسلمانوں کی اکثریت سے خطاب کرے گی.عام حالات میں تو یہ کوئی معیوب بات نہیں.اگر کانگرس شروع سے ہی اس نظریہ پر کاربند ہوتی تو کم سے کم میں اسے بالکل حق بجانب سمجھتا.لیکن اب جبکہ مسلمان ایک متحدہ محاذ قائم کر چکے ہیں کانگریس کا یہ فیصلہ ان لوگوں کے لئے بھی تکلیف دہ ثابت ہوا ہے جو اس وقت بھی کانگرس سے ہمدردی رکھتے تھے.مجھے کانگرس سے اختلا ہے اور بہت سخت اختلاف ہے.مگر میں اس امر کا ہمیشہ قائل رہا ہوں کہ ہندو مسلم اتحاد کی بنیاد ہندوؤں کی طرف سے کانگریس کے ذریعہ سے ہی پڑسکے گی اور اس اتحاد کی آرزو میں شملہ کانفرنس کے ایام میں مجھے شکوہ مسلمان نمائندوں سے ہی پیدا ہوتا رہا ہے اور بار بار میرے بول
میں یہ خیالات پیدا ہوتے تھے کہ چالیس کروڑ انسانوں کی آزادی کے لئے اگر مسلمان اپنے کچھ اور حق چھوڑ دیں تو کیا ہرج ہے.لیکن کانگریس کے اس اعلان نے کہ اب وہ مسلم لیگ سے بات نہیں کرے گی بلکہ مسلم افراد سے خطاب کرے گی میرے بعد بات کو بالکل بدل دیا اور میں نے محسوس کیا کہ جو لوگ دروازہ سے داخل ہونے میں ناکام رہے ہیں اب وہ سرنگ لگا کہ داخل ہونا چاہتے ہیں اور اس کے مینے مسلم لیگ کی تباہی نہیں بلکہ مسلم کیر کی اور مسلم قوم کی تباہی ہے.پس اسی وقت سے میں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ جب تک یہ صورت حالات نہ بدلے ہمیں مسلم لیگ یامسلم لیگ کی پالیسی کی تائید کرنی چاہیئے.گو ہم دل سے پہلے بھی ایسے اکھنڈ ہندوستان ہی کے قائل تھے کیس میں مسلمان کا پاکستان اور ہندو کا ہندوستان برضاء ورغبت شامل ہوں اور اب بھی ہمارا یہی عقیدہ ہے بلکہ سہارا تو یہ عقیدہ ہے کہ ساری دنیا کی ایک حکومت قائم ہوتا باہمی فسادات دور ہوں اور انسانیت بھی اپنے جوہر دکھانے کے قابل ہو.مگر ہم اس کو آزاد قوموں کی آزاد رائے کے مطابق دیکھنا چاہتے ہیں جبر اور زور سے کمزور کو اپنے ساتھ ملانے سے یہ مقصد نہ دنیا کے بارہ میں کھڑا ہو سکتا ہے اور نہ ہندوستان اس طرح اکھنڈ ہندوستان بن سکتا ہے.میں نے یہ امور اس لئے بیان کہتے ہیں تا ہماری جماعت اور ہندوستان کی دوسری جماعتیں میری اس رائے کو بخوبی سمجھ سکیں جو میں آئندہ انتخابات کے متعلق دینے والا ہوں بو صورت حالات میں نے اوپر بیان کی ہے اس کو مد نظر رکھتے ہوئے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ آئندہ الیکشنوں میں ہر احمدی کو مسلم لیگ کی پالیسی کی تائید کرنی چاہیے تا انتخابات کے بعد مسلم لیگ بلا خوف تردید کانگریس سے یہ کہ سکے کہ وہ مسلمانوں کی نمائندہ ہے.اگر ہم اور دوسری مسلمان جماعتیں ایسانہ کریں گی تومسلمانوں کی سیاسی حیثیت کمزور ہو جائے گی اور سہندوستان کے آئندہ نظام میں ان کی آواز بے اثر ثابت ہوگی اور ایسا سیاسی اور اقتصادی دھکا مسلمانوں کو لگے گا کہ اور چالیس پچاس سال تک ان کا سنبھلتا شکل ہو جائے گا.اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ کوئی عقل مند آدمی اس حالت کی ذمہ داری اپنے f پر لینے کو تیار ہو ماہ له الفضل ۲۲ اتحاد کر اکتوبر له مش صفحه : "
۲۷۷ حضرت مصلح موعود نے جماعت احمدیہ کو انتخابات کے میدان میں مسلم لیگ کی پرزور حمایت کرنے کا ارشاد فرمانے کے بعد مزید لکھا کہ " میں اس اعلان کے ذریعہ..تمام صوبہ جات کے احمدیوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اپنی.اپنی جگہ پر پورے زور اور قوت کے ساتھ آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ کی مدد کریں اس طرح کہ (1) جس قدر احمدیوں کے ووٹ ہیں وہ اپنے حلقہ کے مسلم لیگی امیدوار کو دیں.(۲) میرا تجربہ ہے کہ احمدیوں کی نیکی اور تقویٰ اور سچائی کی وجہ سے بہت سے غیر احمدی بھی ان کے.کہنے پر دوٹ دیتے ہیں.پس میری خواہش یہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ تمام احمد ہی اپنے ووٹ مسلم لیگ کو دیں بلکہ جو لوگ ان کے زیر اثر ہیں ان کے ووٹ بھی مسلم لیگ کے امیدواروں کو دلائیں.(۳) ہماری جماعت چونکہ اعلی درجہ کی منظم ہے اور قربانی اور ایثار کا مادہ ان میں پایا بھاتا ہے اور جب وہ عزم سے کام کرتے ہیں تو حیرت انگیز طور پر دلوں کو ہلا دیتے ہیں ، ہر احمد کی سے یہ بھی خواہش کر یا ہوں کہ وہ اپنے حلقہ اثر سے باہر جا کر اپنے علاقہ کے ہر مسلمان کو اس وقت مسلم لیگ کے سبق میں ووٹ دینے کی تلقین کرے اور اس قدر زور لگائے کہ اس کے حلقہ اثر میں مسلم لیگ امیدوار کی کامیابی یقینی ہو جائے.میں امید کرتا ہوں کہ احمدی جماعت کے تمام افراد کیا مرد اور کیا عورتیں ، مرد مردوں تک پہنچ کر اور عورتیں عورتوں کے پاس جا کر اُن کے خیالات درست کرنے کی کوشش کریں گے.اور اس امر کو اس قدر ہم سمجھیں گے کہ تمام جگہوں پرمسلم لیگ کے کارکنوں کو یہ محسوس ہو جائے کہ حضور نے پنجاب کے متعلق (جہاں بعض احمدی بھی بطور امیدوار کھڑے ہو رہے تھے، یہ فیصلہ فرمایا کہ یہاں اگر کوئی آدی کھڑا ہونا چاہے تو اُسے چاہیے کہ وہ مسلم لیگ کا ٹکٹ حاصل کرنے کی کوشش کرے اگر وہ ٹکٹ حاصل نہ کرسکے.اور وہ سمجھے کہ احمدی دورٹ یا اس کی قوم کا ووٹ زیادہ ہے اور اس کا جائز تو دینے سے انکار کیا جا رہا ہے تو اسے اجازت ہے کہ وہ یہ اعلان کر کے مہبری کے لئے کھڑا ہو جائے کہ ہمیں پالیسی کے لحاظ مسلم لیگ سے متفق ہوں مگر مجبوراً آزاد امیدوار کی حیثیت سے کھڑا ہو رہا ہوں ("الفضل " ۲۲ اخاه / اکتوبر ۱۳۲۴ به بیش صفیر به اس موقعہ پر حضرت سیدنا المصلح الموعود نے پنجاب میں مسلم لیگ کو بہانہ ک پیشکش کر دی تھی کہ اگر وه به فیصل قلعی طور پر کر دے کہ مسلم لیگ نہیں احمدی شامل ہو سکتے ہیں اور اسی طرح ان کے حقوق ہوں گے جس طرح دوسرے لوگوں کے ہیں تو آپ سب احمدی امیدواروں کو بٹھا دیں گے.مگر افسوس انہوں نے نیشنلسٹ مسلمانوں سے ڈر کر اس فیصلہ کی جرات نہ کی گو فرداً فرداً دو درجن سے زیادہ مسلم لیگی نمائندوں نے اور بعض مضلع لیگوں نے جماعت احمدیہ سے مر طلب کی اور جماعت نے ان سے بھر پور تعاون کیا اور وہ خدا کے فضل سے دوٹوں کی بھاری تعداد سے کامیاب ہو گئے "الفضل یکم تبلیغ فروری میش صفوا )
گویا احمدی یہ سمجھ رہے ہیں کہ مسلم لیگ کا امیدوار کھڑا نہیں ہوا کوئی احمدی امیدوار کھڑا ہوا ہے.اور اس کام میں مقامی مسلم لیگ کے ساتھ پوری طرح تعاون کریں گے اور بھائتہ ہو گا کہ وہ اس کے ممبر ہو بھائیں اگر ان کے نزدیک اور مسلم لیگ کے کارکنوں کے نزدیک ان کا شامل ہونا وہاں کے معالات کے لحاظ سے باہر رہنے سے زیادہ مفید ہو.جماعت کی تعداد اور اس کے رسوخ کے لحاظ سے سندھ، صوبہ سرعد، یوپی، بنگال اور بہار میں احمدی جماعتیں خوب اچھا کام کر سکتی ہیں.اور میں امید کرتا ہوں کہ وہ اس موقعہ پر بھی اپنے روایتی ایشار اور قربانی کا نمایاں ثبوت مہیا کریں گی " ہے مسلم لیگ کے مورخ اور صدر محمود کا ہم میان مسلمانی در تری پاکستان کے صحت اول کے مورخین نے حضرت مصلح موعود کے اس اہم بیان کو خاص اہمیت دی ہے چنانچہ خالد اختر افغانی نے 1914ء میں حالات قائد اعظم محمد علی جناح کے نام سے ایک اہم کتاب لکھی جو علمیہ بکڈپو بھنڈی بازار بیٹی سے نے شائع کی.اس کتاب کے صفحہ ۳۱۴ و ۲۱۵ پر اس بیان کا ذکر ملتا ہے.اسی طرح بر صغیر کے نامور ادیب اور مسلم لیگ کے مستند اور شہرہ آفاق مورخ جناب رئیس احمد جعفری نے اپنی معرکۃ الآراء کتاب " حیات محمد علی جناح " جو بعد کو " قائد اعظم اور اُن کا عہد کے نام سے بھی شائع ہوئی، میں اصحاب قادیان اور پاکستان کے زیر عنوان لکھا :- اب ایک اور دوسرے بہت بڑے فرقہ ، اصحاب قادیان کا مسلک اور رویہ پاکستان کے بارے میں پیش کیا جاتا ہے.حقائق ذیل سے اندازہ ہو جائے گا کہ اصحاب قادیان کی دونوں جماعتیں یعنی اور یہ اور قادیانی مسلم لیگ کی مرکزیت ، پاکستان کی افادیت اور مسٹر جناح کی سیاسی قیادت کی معترف اور مدارج ہیں.جماعت احمدیہ (لاہور) کے امیر جناب مولانا محمد علی صاحب رحمن کا مشہور انگریزی ترجمہ قر آن هاملنگی شہرت کا حامل ہے) نے 4 اکتوبر شاہ کو متعد د ارد و روز ناموں کو حسب ذیل تار ارسال فرمایا : آئندہ انتخابات میں جماعت احمدیہ سے تعلق رکھنے والے تمام اصحاب مسلم لیگ کے امید واروں کو ووٹ دیں اور ان کی ہر ممکن مدد کریں کیونکہ موجودہ وقت بہت نازک ہے اور اگر مسلم لیگ کو له الفضل و استاد را اکتوبر مش صفحه ۳ کالم ۲
۲۷۹ شکست ہو گئی تو مدتوں کے لئے مسلمانوں کی قسمت تاریک ہو جائے گی" مرزا محمود احمد صاحب کا بیان قادیانی گروہ کے امام جماعت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے اور اکتوبر ن شا ہ کو ایک طویل بیان اس سلسلہ میں شائع فرمایا جس کے جستہ جستہ حصے ذیل میں درج کئے جاتے ہیں :- " کسی شخص کا کسی دوسرے شخص کے مفاد کا دیانت داری سے خیال رکھنا یا ایسا کرنے کا وونی دار ہونا اسے اس کی نیابت کا حق نہیں دے دیتا، کیا کوئی وکیل کسی عدالت میں اس دعوے کے ساتھ پیش ہو سکتا ہے کہ میں ہوگی یا مدعا علیہ کے وکیل سے زیادہ سمجھ دار ہوں اور دیانت داری سے اس کے حقوق کو پیش کر سکوں گا.کیا کوئی عدالت اس وکیل کے ایسے دھوسے کو باوجو دستچا سمجھنے کے قبول کر سکے گی ؟ اور کیا اس قسم کی اجازت کی موجودگی میں ڈیمو کریسی ڈیمو کریسی کہلا سکتی ہے ؟ آگے پھل کہ موصوف فرماتے ہیں :- کانگریس کے اس اعلان نے کہ اب وہ مسلم لیگ سے بات نہیں کرے گی بلکہ مسلمان افراد سے خطاب کرے گی کہ میرے بعد بات کو بالکل بدل دیا اور میں نے محسوس کیا کہ جولوگ دروازہ سے داخل ہونے میں ناکام رہے ہیں اب وہ سرنگ لگا کر داخل ہونا چاہتے ہیں اور اس کے معنی مسلم لیگ کی تباہی کے نہیں بلکہ مسلم کیر کیر اور مسلم قوم کی تہا ہی ہے.میں اسی وقت سے میں نے یہ فیصلہ کو لیا کہ جب تک یہ صورت حالات نہ بدلے ہیں مسلم لیگ کی پالیسی کی تائید کرنی چاہئیے " جناب موصورت اپنی جماعت کے اصحاب کو ہدایت دیتے ہوئے فرماتے ہیں :- آئندہ انتخابات میں ہر احمدی کو مسلم لیگ کی پالیسی کی تائید کرنی چاہیے.تاکہ انتخابات کے بعد مسلم لیگ بلا خوف تردید کانگرس سے یہ کہہ سکے کہ وہ مسلمانوں کی نمائندہ ہے.اگر ہم اور دوسری جماعتیں، ایسانہ کریں گی تو مسلمانوں کی سیاسی حیثیت کمزور ہو جائے گی اور ہندوستان کے آئندہ نظام میں ان کی آواز بے اثر ثابت ہوگی اور ایسا سیاسی اور اقتصادی دھن کا مسلمانوں کو لگے گا کہ اور چالیس پچاس سال تک ان کا سنبھلنا مشکل ہو جائے گا اور میں نہیں کہہ سکتا کہ کوئی عقلمند آدمی اس حالت کی ذمہ داری اپنے اوپر لیٹے کو تیار ہو.پس تھیں اس اعلان کے ذریعہ تمام صوبہ جات کے احمدیوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اپنی اپنی جگہ پر پورے زور اور قوت کے ساتھ آئندہ انتخابات میں
مسلم لیگ کی مدد کریں“ YA.یونینسٹوں کے بارہ میں جناب مرزا صاحب نے فرمایا :- "جب تک یونینسٹ پارٹی اپنی پالیسی کی ایسی وضاحت نہیں دیتی جس سے اس کا مسلم لیگ کی مرکزی پالیسی سے پورا تعاون اور تائید ثابت ہو اور جس کے بعد شملہ کا نفرنس والے حالات کا اعلاد نا ممکن ہو جائے.میں سمجھتا ہوں کہ کسی احمدی کو یونینسٹ ٹکٹ پر کھڑا نہیں ہونا چاہئیے" مسلم قوم کی مرکزیت ، پاکستان، یعنی ایک آزاد اسلامی حکومت کے قیام کی تائیدا مسلمانوں کے پاس انگیز مستقبل پر تشویش ، عامتہ السلمین کی صلاح و فلاح نجاح و مرام کی کامیابی ، تفریق بین المسلمین کے عضلات برہمی اور تحصہ کا اظہار کون کر رہا ہے ؟ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور جماعت حزب اللہ کا داعی اور امام الہند ؟ نہیں! پھر کیا جانشین شیخ الہند اور دیوبند کا شیخ الحدیث ؟ وہ بھی نہیں! پھر کون؟ وہ لوگ جن کے خلاف "کفر" کے فتووں کا پشتارہ موجود ہے.جن کی نامسلمانی کا چرچاگھر گھر ہے.جن کا ایمان ، جن کا عقیدہ مشکوک مشتبہ اور محل نظر ہے.کیا خوب کہا ہے ایک شاعر نے کامل اس فرقہ ان ہار سے اُٹھا نہ کوئی کچھ ہوئے تو یہی رندان قدح توار ہوئے ہے چونکہ تحریک پاکستان کے اعتبار سے اس الیکشن کو ایک فیصلہ کن حیثیت حاصل ہونے والی تھی اس لئے تصوری اس مفصل اصلان کے علاوہ نجی ملاقاتوں، پرائیویٹ مخلوط کے علاوہ بعض دوسرے بیانات میں بھی احمدیوں کو بار بار مسلم لیگ کی تائید و حمایت کرنے کا ارشاد فرمایا اور مسلمانوں کی قومی زندگی کے لئے انفرادی طور پر قربانی کرنے کی تاکید فرمائی.اس تعلق میں بطور مثال بعض واقعات کا تذکرہ ضروری ہے.قائد اعظم محمد علی جناح کی طرف سے ام می برد صاحب دانی انگار پردا ضلع رائے پور) عت کا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی الصلح الموعود کی ندمت میں ربیع الثانی کی حضر مصلح موعود کے ایک خط کی پریس میں الفات شروع اکتوبر ۱۹۴۷ء میں ایک مکتوب پہنچا جس میں انہوں نے الیکشن کے بارہ میں رہنمائی کے لئے درخواست کی تھی حضرت مصلح موعود نے ان کو تحریر فرمایا کہ مسلم لیگ کی ہر قائد اعظم اور ان کا عہد" مصنعت سید رکھیں احمد جعفری ندوی) صفحه ۴۲۰ تا ۰۴۲۲
WET تعلیم الاسلام کالج قادیان کی پرشکوہ اور عالی شان عمارت فضل عمر ہوٹل.قادیان
516 ای اے وی کالج لاہور کے کھنڈرات ( جو1 شہادت ۳۲۷ اهش اپریل ۱۹۴۸ کو تعلیم الاسلام کالج کے لئے الاٹ کئے گئے )
اخبار ڈان‘۱۸ اکتوبر ۱۹۴۳ء کا عکس ( قائد اعظم محمد علی جناح کی طرف سے جماعت احمد یہ قادیان کی مرکزی مراسلت پریس میں ) DELHI, MONDAY, OCTOBER 8, 1945: AHMADIYA COMMUNITY TO SUPPORT MUSLIM LEAGUE QADIAN LEADER'S GUIDANCE QUETTA, Oct.7.-Mr.M.A.Jinnah has released the following Corres nondence to the Press: Letter from the Nazir-ul-Moarifa of the Ahmadiya, movement Qadian addressed to Mr.Jinnah:- Dear Sir I beg to enclose herewith copy of the letter from Mohd Sar- war Dan of village Malguzar Purda.bistrict Raipur.addressed to Hazrat Amirul Momineen Khalifatul Masih.second head of the Ahmadiya com- munity and the reply thereto fo: your kind perusal.Yours faithfulty." The text of the letter from Mohd Sarwar Dant referred to above: "We have the honour to make a reques: and a querry.We are a few Ahma- diyas here in this town and in the present electioneering campaign.We have been approached both by the League and the Congress for contri- butions and assistance to the respect- ive parties and candidates Kindly guide us whom we should support." Reply from the head of the Ahma- diya Community "You ought to support Muslim League in the pre- sent elections and affer them what- ever means of co-operation and assistance you can possibly afford.Muslims do require a united front in the present crisis.Their differen- ces if allowed to exist will affect them adversely for hundreds of years to come "A P.I
٢٨١ مسکن طریق سے بھر پور مدد کریں مسلمانوں کو موجودہ سیاسی بھر ان میں بلیک متحدہ محاذ کی شدید ضرورت ہے.ناظر اور عامہ قادیان نے اس جوابی خط کو جو حضرت مصلح موعود کی طرت سے مسلم لیگ کے الیکشن کے سلسلہ میں اپنے مفصل مضمون کی اشاعت سے بھی قبل لکھا تھا مسلم لیگ کے صدر قائد اعظم محمدعلی جناح کی خدمت میں بھیجوا دیا.قائد اعظم نے اس جوابی خط کو اس درجہ اہمیت دی کہ اسے اپنی طرف سے پولیس میں اشاعت کے لئے دے دیا چنانچہ دہلی کے مسلم لیگی اخبار ڈان نے اپنی ۸ اکتوبر 1990 مہ کی اشاعت میں ایسوسی ایٹڈ پریس آف انڈیا کے حوالہ سے جو خبر شائع کی اس کا ترجمہ درج ذیل کیا جاتا ہے:.جماعت احمدیہ مسلم لیگ کی حمایت کرے گی امام جماعت احمدیہ قادیان کی ھدایت کوئٹہ عمرہ کتو ہے.قائد اعظم محمد علی جناح نے درج ذیل خط و کتابت پر لیس کو بھجوائی ہے.ناظر امور عامہ جماعت احمدیہ قادیان کا خط جناح (قائد اعظم کے نام جناب عالی! محمد سرور دانیمار MOHAMMAD SARWAR DANI MOHAMMAD) ساکن مالگزار پر دہ (MALEUEAR PURDA) ضلع رائے پور کا حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الثانی امام جماعت احمدیہ کی خدمت میں ایک خط اور (حضور کی طرف سے اس کا جواب آں محترم کے ملاحظہ کے لئے معقوت ہے.آپ کا مخلص محمد سرور وانی کے متذکرہ بالا خط کا متن و ہمیں ایک معاملہ میں حضور کی رہنمائی کی ضرورت ہے.اس قصبہ میں ہم چند ایک احمدی رہتے ہیں.موجودہ انتخابی مہم میں مسلم لیگ اور کانگرس دونوں نے ہم سے رابطہ قائم کیا ہے کہ ہم چندی کے ذریعہ اور ددیگر ذرائع سے ان کی پارٹی اور ان کے امیدواروں کی اعداد و حمایت کریں.از راہ نوازش ہماری رہنمائی فرمائیں کہ تمہیں کسی پارٹی کی حمایت کرنی چاہیئے " امام جماعت احمدیہ کی طرف سے جواب " آپ کو موجودہ انتخابات میں مسلم لیگ کی حمایت کرنی چاہیے جس طرح بھی ممکن ہو مسلم لیگ
۲۸۲ سے تعاون کریں اور مسلم لیگ کی ہر ممکن مدد کریں.مسلمانوں کو موجودہ بحران میں ایک متحدہ محاذ کی شدید ضرورت ہے.اگر ان کے اختلافات موجود رہے تو صدیوں تک ان کے برے اثرات کا خمیازہ بھگتنا پڑ گیا ان دنوں تحصیل صوابی ضلع مردان (صوبہ سرحد) میں مسلم لیگ تحصیل صوابی میں مسلم لیگ کی تنظیم نو جسد ہے بھان کی طرح ہو چکی تھی حضرت مصلح موعود نے ڈلہوزی میں ٹوپی تحصیل صوابی کے ایک نہایت سر بر آوردہ اور با اثر احمدی صاحبزادہ عبدالحمید خان کو ملاقات کے دوران ارشاد فرمایا کہ مسلم لیگ کی تنظیم مضبوط کریں.اس ارشاد کی تعمیل میں انہوں نے پورے علاقہ کا دورہ کیا اور مسلم لیگ میں زندگی کی ایک نئی روح پھونک ڈالی.اس بعد و جہد کی تفصیل ایک خط میں ملتی ہے جو انہوں نے حضرت امیر المومنین کی خدمت میں در اخارا اکتوبر سیر میش کو لکھا.اس خط کے جستہ جستہ مقامات درج ذیل ہیں :.پسیارے امام ! ڈلہوزی سے واپسی کے بعد میں نے مقامی لوگوں کی تنظیم مسلم لیگ کے ما تحت شروع کر دی ہے تحصیل صوابی میں مسلم لیگ کا وجود ایک عرصہ سے تھا مگر کوئی باقاعدہ کام نہ تھا.میں نے اپنے وارڈ میں ایک مجلس عامہ بنائی اور اُن کی ڈیوٹی یہ مقرر کی کہ وہ تمام علاقہ میں پھر کر مسلم لیگ کی کمیٹیاں بنائے.چنانچہ میں نے خود اُن کے ساتھ ہو کہ تمام علاقہ کا دورہ کیا “ صاحبزادہ عبدالحمید خال صاحب نے ہم نبوت / نومبر مہیش کو حضرت امیر المومنین کی خدمت میں صوبہ سرحد کے حالات و کو الفت سے متعلق دوبارہ یہ فصل اطلاع دی کہ در حضور کا ارشاد الفضل کے ذریعہ پڑھا تھا.اس کے علاوہ میں نے حضور سے بالمشافہ ڈاہوری میں گفتگو کی تھی.میں حضور کے ارشاد سے یہی سمجھا تھا کہ جیسے بھی ہو مسلم لیگ کے ماتحت لیگ کی پالیسی کو کامیاب کرنے کے لئے کام کیا جاوے.چنانچہ جیسا کہ میں نے.پہلے حضور کی خدمت اقدس میں عرض کیا تھا ڈلہوزی سے واپسی پر میں نے مسلم لیگ کے ماتحت کام شروع کیا اور مقامی مسلم لیگ کو منظم کیا اور علاقہ کا دورہ کیا.چنانچہ فضا بہت اچھی بن گئی اور لوگ لیگ کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے.دوست خوش تھے کہ عبد الحمید کا میاب ہو جائے گا اور دشمنوں کو فکر پیدا ہوئی.چنانچہ انہوں نے ہر طرح مخالفت پراپیگنڈا کیا اور جب کوئی صورت
کامیابی کی نظر نہ آئی تو انہوں نے احمدیت کی آڑ لے کر لوگوں کو مشتعل کرنے کی کوشش کی اور اس کے لئے انہوں نے ہمارے علاقہ کے ایک گوشہ نشین کو آلہ کار بنایا.چنانچہ تمام مخالفین اس کے پاس گئے کہ ایک قادیانی میدان میں نکلا ہے.اور یہ دین اسلام کی پتک ہے آپ میدان میں کلین پیر صاحب خود میدان میں نکلنے کے لئے تیار نہ تھے.کو ہم نے اپنے علاقہ کی میٹنگ بلائی جس میں تقریباً ۳۰ آدمی تھے جو تمام یا اثر لوگ تھے سیلیکشن بورڈ کا ایک ممبر بھی موجود تھا.پیر صاحب بھی تشریف لائے تھے.اور اس سے پہلے لوگوں نے پوری کوشش کی تھی کہ جس طرح بھی ہو پیر صاحب خود کھڑے ہونے کے لئے تیار ہو جائیں.ایک دوست نے میرا نام پیش کیا.دوسرے نے پیر صاحب کا نام پیش کیا.ہمارے ایک دوست نے اعتراض کیا کہ پیر صاحب گوشہ نشین آدمی ہیں یہ ایسے لوگوں کا کام نہیں.مگر اس کے جواب میں ایک ہے ، دو عصر نے مخالف نے کہا کہ انبیاء اور اولیا ء نے ہمیشہ اسلام کے لئے جہاد کیا ہے.پیر صاحب ان سے بڑے نہیں ہیں ان کو ضرور کھڑا ہونا چاہیے.میں نے بحث کو ختم کرنے کے لئے نیز اس خیال سے کہ پیر صاحب خود کھڑے نہیں ہوتے ، اس لئے میں نے کھڑے ہو کر کہا کہ بحث کی ضرورت نہیں ، میری ضرور کچھ نہ کچھ مخالفت ہوگی اور پیر صاحب اگر خود کھڑے ہوں تو میں وال خود دست بردار ہوتا ہوں اور کوئی اور بھی مقابلہ نہ کرے گا اور لیگ کے ٹکٹ پر صرف پیر صاحب جائیں گے اور اگر پیر صاحب خود کھڑے نہیں ہوتے تو پھر اُن کا نام پیش کرنا یا اس پر بحث کرنا وقت ضائع کرنا ہے.چنانچہ میرے یہ کہنے کی دیر تھی کہ ہمارے مخالف ان کے پیچھے پڑ گئے اور..ان سے اعلان کر وا دیا کہ میں خود کھڑا ہوتا ہوں...اور پیر صاحب بلا مقابلہ لینگ کے ٹکٹ پر منتخب ہو گئے...انتخاب سے پہلے پیر صاحب یا تو سخت مخالفت تھے یا انتخاب کی شام کو میرے پاس اندھیرے میں آئے اور کہا.یہ کس مصیبت میں پھنس گیا ہوں.اب اس کے لئے تم ہی کوئی صورت تکالو چنانچہ میں نے ان سے وعدہ کیا کہ آپ گھبرائیں نہیں.اب جو کچھ ہو گیا وہ ہو گیا.اب آپ کو کامیاب کرنا ضروری ہے، بچنا نچہ اس کے لئے کام شروع کر دیا ہے" حضرت سید نا المصلح الموعود نے اس مکتوب پر اپنے قلم سے لکھا ہے.اس وقت سرحد میں لیگ منسٹری کو مضبوط کرنا ضروری ہے.سرحد سے کسی طرح
کانگریس کو ضرور نکالنا چاہیے" چوہدری عبد المالک صاحب پیشتر تحصیلدار پریزیڈنٹ مسایگی امیدوار کو ووٹ دینے کے لئے اولپور کو امیرالمومنین تاکیدی ارشد جماعت احمدیہ بہلول پور پک علیا ضلع لائل پور نے حضور کی خدمت میں لکھا کہ مرکزی اسمبلی میں مسلم لیگ کے ٹکٹ پر حافظ عبداللہ صاحب کھڑے ہو رہے ہیں حضور نے ان کے خط کا یہ جواب لکھوایا کہ بہر حال جو شخص مسلم لیگ کے ٹکٹ پر کھڑا ہے اس کو ووٹ دیں اور نہ صرف دوٹ رو دیں حالانکہ عبد اللہ ہمارا سخت مخالفت ہے لیکن پھر بھی پوری کوشش کریں کہ وہی جیتے " سندھ کے احمدیوں کو مسلم لیگ احباب جماعت کوٹ احمرین را کنانہ کوٹ عبداله تحصیل ماتلی ضلع حیدر آباد سندھ) نے ۲۳ نبوت (نومبر کی خاطر قربانی کرنے کی ہدایت لہ مہش کو حضرت امیر المومنین کے حضور لکھا کہ گزارش ہے کہ حضور کے ارشاد کے مطابق الیکشن کے سلسلہ میں ہمیں مسلم لیگ کی حمایت کرنا واجب قرار دیا گیا ہے.صوبہ سندھ کی اندرونی حالت عرض ہے کہ اس علاقہ میں مسلم لیگ نے ٹکٹ بانٹتے وقت کام کرنے والے افراد کو اور رائے عامہ کے میلان کو مد نظر نہیں رکھا...اب حضور اپنے ارشاد سے ممنون فرمائیں“ حضرت مصلح موعود نے ارشاد فرمایا :- بہر حال مسلم لیگ کو ووٹ دینے ہیں بلکہ آغا صاحب کی شرافت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اگر ان کو ٹکٹ نہیں ملا تو بیٹھ جائیں اور اچھا نمونہ پیش کریں تاکہ تمام مسلمانوں کی طاقت بڑھے فرد کو ہمیشہ قوم کے لئے قربانی کرنی چاہیئے" حضرت امام جماعت احمدیہ کا ایک اور حضرت مصلح موعود نے مہر نبوت اومبر سے پیش کو حسب ذیل الفاظ میں بیان دیا :- بیان کی اہم بیان مسلم لیگی موقف کی حمایت میں اہم کانگرس کے تعلق تو یقین رکھتے " ہیں کہ اگر اس کی حکومت قائم ہوئی تو وہ تبدیلی مذہب کے متعلق ہر گز آزادی نہیں دے گی.کیونکہ اس بارہ میں اس سے ہم نے جتنی دفعہ سوال کیا ہے اس نے صاف جواب نہیں دیا بلکہ بہانے نے اصل تحط امرقومہ اور اکتوبر اور محفوظ ہے
بناتی رہی ہے.مسلم لیگ کے متعلق ہماری یہ رائے ہے کہ غیر مسلم جماعتیں مسلمانوں کو اس وقت تک ان کے حقوق نہیں دیں گی جب تک کہ پاکستان کے مطالبہ پر زور نہ دیا جائے.اور مسلمان اپنے حقوق کا آزادانہ طور پر فیصلہ کرنے کے قابل نہ ہو سکیں مسلمانوں کا سو سالہ تلخ تجربہ اس بات پر شاہد ہے کہ گو ملک کا ایسا تجزیہ ایک نہایت ہی افسوسناک امر ہے لیکن اس کے سوا چارہ ہی نہیں کیونکہ غالب قوموں نے مسلمانوں کو اس بات پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ ایسا مطالبہ پیش کرین.اصل میں کانگریس اور مسلم لیگ کے دعووں میں صرف یہ فرق ہے کہ کانگرس کہتی ہے کہ مسلمان پہلے اس حکومت میں شامل ہو جائیں جس میں ہندو اکثریت ہو پھر اپنا مطالبہ پیش کریں.اور مسلم لیگ کہتی ہے کہ پہلے نہیں آزادی دور پھر برابر بیٹھ کر کھوتہ کرہ اور شنا ظا ہر ہے کہ اکثریت میں شامل ہو کہ الگ ہونے کی کوئی صورت ہی نہیں رہتی اور الگ ہو کر شامل ہونا عقل کے مین مطابق ہے " ہے بنگال یوپی بہار اسی پی اور بمبئی کے موضوع پاؤ فی ضلع بجنور کے ایک احمدی دوست نے حضرت سیدنا احمدیوں کو لیگ کی مددکرنے کا فرمان المصلح الموعود کی خدمت میں بذریعہ مکتوب استفسار کیا کہ یہاں پر کانگریس کا بہت زور ہے، اکثر حصہ مسلمانوں کا کانگریس کو ووٹ دے گا کیونکہ کمینہ علماء کی طرف سے کانگریس کے واسطے بہت کوشش ہے.لہذا ارشاد عالی سے مطلع فرمایا جائے کہ اس وقت ہمارا رویہ کیا ہونا چاہیئے ؟ حضرت امیر المومنین نے اپنے دست مبارک سے رقم فرمایا کہ لیگ کی ہر طرح امداد کریں.اپنے ووٹ بھی دیں اور جن جن پر اثر پڑ سکتا ہو ان سے بھی دلوائیں.بنگال، یوپی ، بہار ، سی پی اور بمبئی وغیرہ میں دوٹ مسلم لیگ کو دیئے جائیں " سے صوبہ سرحد میں کانگریسی وزارت مسلط تھی اور خدشہ تھا کہ مسلم اکثریت حضرت امام جماعت احمدیہ کی باید صوبہ جو گویا ہندوستان کی چھاؤنی قرار دیئے جانے کا مستحق ہے ، کرایہ صوبہ سر کے احمدیوں کی خصوصی ہدایت مسلم لیگ کے اتھ سے نہیں نکل نہ جائے حضت امر الومنین نے اس تشویشناک صورت حال کا جائزہ لے کر صوبہ سرحد کے احمدیوں کے نام مندرجہ ذیل ہدائیت بھاری فرمائی:.صوبہ سردار کے احمدیوں کو ئیں اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ مسلمانوں کے فوائد کو مد نظر رکھتے ہوئے اس سلم " النش" ۱۵ نبوت / نومبر به بیش صفحه 1 ۱۱۹۴۵ + له الفضل " ۲۷ تبلیغ فروری ۱۳۲۵ میش سفره ۱۲ 1974
۲۸۶ واقعہ اس صوبہ میں کوئی اختلاف نہیں ہونا چاہیئے اور سب لوگوں کو مرکزی مسلم لیگ کی شاخ کے نمائندوں کو ووٹ دینے چاہئیں اور انہی کی مدد کرنی چاہیئے.ان کے مخلاف جو لوگ آزاد مسلم لیگی ٹکٹ پر کھڑے ہوئے ہیں وہ ذاتی رنجشوں کی بہار پر کھڑے ہوئے ہیں.کوئی سیاسی قومی سوال ان کے سامنے نہیں اس وقت ان ذاتی رنجشوں کو بھول جانا چاہیے..پس صوبہ سرحد بو گو یا ہندوستان کی چھاؤنی ہے اس میں مسلمانوں میں اختلات کو ئیں بالکل نامناسب سمجھتا ہوں.اور پر احمدی سے امید کرتا ہوں کہ جہاں بھی ہو صوبہ سرحد کی مرکزی لیگ کی شاخ کے مقرر کردہ امیدوار کی حمایت کرے.اس کے حق میں ووٹ دے اور اپنے زیرہ اثر لوگوں سے اسے ووٹ دلوائے اور اس کے حق میں اپنے علاقہ میں پورے زور سے کارروائی کرنے سے مرکزی انتخابات میں جماعت احمدیہ کا عدیم النظیر سرکاری پروگرام کے مطابق نوبر کے عت آخر میں مرکزی اسمبلی کے انتخابات ہوئے.محجبات اور روح پر ور ملی مظاہرہ اور مسلم لیگ کی شاندار فتح محمدیہ نے این انتخابات میں با استانی مسلم لیگی امیدواروں کی حمایت کی حتی کہ سلسلہ احمدیہ کے بزرگ (جن میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب ، حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ، حضرت عمان اب مربوی فرزند علی خاں صاحب اور دوسری مرکزی شخصیتیں بھی شامل تھیں ) ۲۴ نومبر کو بٹالہ پولنگ اسٹیشن پر تشریف لے گئے جہاں اگرچہ مسلم لیگیوں نے اپنے کیمپ کی دریوں پر سے احمدیوں کو اٹھا دیا.مگر احمدی بزرگوں نے بنوادی ظفر علی خان صاحب ایڈیٹر زمیندالہ جیسے معاند احمدیت کو محض اس لئے ووٹ دیا کہ وہ مسلم لیگ کے ٹکٹ پر کھڑے ہوئے تھے.مرکزی اسمبلی میں جماعت احمدیہ کے اس بے نظیر تعاون کا کسی قدر اندازه مجلس اگر از اسلام قادیان کے ایک کتابچہ مسلم لیگ اور مرزائیوں کی آنکھ مچولی پر مختصر تبصرہ سے بآسانی لگ سکتا ہے.یہ کتابچہ اکتوبر 19 میں شائع کیا گیا.اور اس میں مسلم لیگ اور جماعت احمدیہ کے قدیمی روابط و مراسم کا ذکر کرتے ہوئے لکھاتا ہے : ا " الفضل يكم تبلیغ و فروری مش صفحها " الفصل " ۲۳ نیوت / نومبر ۹۳۵ مدل به گے حضرت مصلح موعود کے ایک مکتوبیب بینام پیرا کبر علی صاحب مرقومه ۲۵ نبوت انو مبر سال اسلام میں سے ماخوذ.
۲۸۷ " صرف مسلم لیگ پارٹی ہی ایسی پارٹی تھی میں کے ساتھ مرزائیوں کو کچھ توقعات تھیں.کیونکہ ستر ظفر اللہ خاں مرزائی راس نہ میں آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر رہ چکے تھے.مسلم لیگ سے مرزائیوں کے کچھ تعلقات تھے.وہ بھی خفیہ خفیہ ملاحظہ ہو.شملہ میں حرم حضرت صاحب خلیفہ المسیح الثانی نے خفیہ پارٹی دی جس میں لاہور کے ڈپٹی کمشنر مسٹر ملٹرھنگ کی خاتون ، مسٹر جناح ، سروجنی نیڈو ، کپور تھلہ کی شاہی خواتین نہیں ماکولات ومشروبات کا بندو بست تھا....اس پارٹی میں نواب میار کہ بیگم نے بڑا کام.پارٹی کیا.یہ واقعات تخم ریزی ہیں مسلسلہ کی آئندہ شاندار تر قیات کی الفضل ٣ ستمبر ١٩٣٧ء سر ظفر اللہ خان کی صدارت اور خفیہ پارٹیوں کے اثرات مسلم لیگ میں باقی تھے مگر مرزا ہوں کو علانیہ مسلم لیگ سے بینگ بڑھانے کا موقع نہ تھا.کانگرس اور مسلم لیگ میں تلخیاں بڑھیں اور پاکستان کا مطالبہ شروع ہوا.پہلے پہلے پنجاب لیگ نے مرزائیوں کو منہ نہ لگایا.لاہور پاکستان کا نفرنس میں بھی ختم نبوت کے متعلق کچھ ذکر آید مرزائی سیخ پا ہو گیا.مسٹر جناح سے شکایت کی.انہوں نے کہہ دیا کہ پنجاب کی زمین نرالی ہے.فی الحال میری مداخلت جلتی پر تیل کا کام دے گی.لہذا پنجاب مسلم لیگ کی طرف ہی رجوع کرو.پاکستان کے مطالبہ کو تقویت کی ضرورت تھی.پنجاب میں مرزائیوں کے پاس پولیس موجود تھا لا ہور میں پریس مرزائی نواز بھی موجود تھا.لہذا اس سے بھی پروپیگنڈہ کی ضرورت محسوس ہوئی.پہلے پہل پنجاب مسلم لیگ کے صدر نواب ممدوٹ کے علاقہ فیروز پور میں پیر اکبر علی مرزائی کو پاکستان کا نفرنس کمیٹی کا صدر بنایا گیا.....ادھر مرزائی در پژه کوشش کرتے رہے کہ مسلم لیگ میں اپنا سکہ جائیں اور مسلم لیگ سے اپنے اسلام کا سرٹیفکیٹ حاصل کر لیں...مرزا محمود اور اس کی پراپیگنڈہ ایجنسی نے مسٹر جناح سے خط و کتابت کی.مسٹر جناح نے یہ نہ سوچا کہ یہ پولیٹیکل پالیسی اسلام کو کیا نقصان پہنچائے گی.آخر مسٹر جناح نے مرزائیوں کو مسلم لیگ میں شامل کر لیا.اناللہ وانا الیہ راجعون مسلم رائے عامہ کو گند چھری لے اس مقام پر رسالہ کی عبارت مرھم ہے.صحیح تاریخ پڑھی نہیں جاتی (مرتب) +
۲۸۸ سے ذبح کیا گیا.اور لیگی اخباروں میں بڑے طمطراق سے اعلان کیا گیا.اور کیو کھٹے میں اس خبر کو نمایاں شائع کیا گیا.مرزائی بھی لیگ میں شامل ہو سکتے ہیں لاہور سمیٹی.جماعت احمدیہ قادیان کے ناظر اور سامہ لکھتے ہیں کہ میں اعت، کے صدر مقام میں پچھلے ونوں اس مسئلے پر غور ہوتا رہا ہے کہ جماعت احمدیہ کے نمبروں کو مسلم لیگ میں اجازت دی جائے یا نہ محال ہی میں مسلم لیگ کے صدر نے پیرا کبر علی (مرزائی ناقل) ایم ایل اے کو ایک انٹرویو لیتے ہوئے یقین دلایا ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے تازہ ترین آئین کی رو سے لیگ میں شرکت کے لئے احمدیوں پر کوئی پابندی نہیں ہے.وہ بھی دوسرے فرقے کے مسلمانوں کی طرح تمام حقیق سے مستفید ہو سکتے ہیں.احسان " لیگی اخبار همینی ۴ اس اعلان کا شائع ہونا تھا کہ مرزائی اور لیگی بر سر عام ہم آغوش ہوئے.لیگ میں مرزائیوں کو شامل کی لیا گیا اور مسلم رائے عامہ سرپیٹ کر رہ گئی.چنانچہ بعض نخلس لیگی مسلمانوں کو بھی مسٹر جناح کی اس غیر اسلامی حرکت پر غصہ آیا.۳۰ جولائی ۱۹۴۷ء کو لاہور میں مسلم لیگ کی آل انڈیا کونسل کا اجلاس ہوا.مولانا عبد الحامد بدایونی جن کے دل میں تھوڑی بہت اسلامی تڑپ اور غیرت موجود تھی.انہوں نے اس کونسل کے اجلاس میں ایک قرار داد پیش کرنے کا نوٹس دیا کہ مرزائی چونکہ مسلمان نہیں ہیں اس لئے ان کو لیگ سے نکال دیا جائے.قرار داد کے الفاظ کو زمیندار لاہور نے مبلی الفاظ سے لکھا جو حسب ذیل ہیں :.قادیانیوں کے اخراج کے متعلق قرار داد مولانا عبد الحامد بدایونی نے لکھا ہے کہ دنیائے اسلام اور ہر طبقہ و خیال کے مقتدر علماء نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا ہے کہ مرزا غلام احمدقادیانی اور ان کے پیرو دائرہ اسلام سے خارج ہیں.لہذا انہیں مسلم لیگ کے دائرے میں ہرگز شرکت کی اجازت نہیں ہونی چاہیئے.اب قادیانیوں کی مسلم لیگ میں شمولیت یا عدم شمولیت کے متعلق بعض حلقوں میں بڑا چرچا ہے.اس لئے آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ اجلاس قرار دیتا ہے کہ علمائے اسلام کے متفقہ فیصلہ کے احترام میں کوئی قادیانی مسلم لیگ میں
شریک نہیں ہو سکتا.۲۸۹ جب یہ قرار داد پیش ہوئی تو مسٹر جناح نے اس پر بھوٹ کی اجازت نہ دی بھائیگی نقار اینچ میں مذہبی باتیں کسی طرح کامیاب ہو سکتی ہیں.وہاں تو ہر بات میں مسٹر جناح یا جناح نما لیگی امراء کے رحم پر لیگ میں رہنا پڑتا ہے.چنانچہ سال ۱۹۳۵ء میں جب ولیوں کا نفرنس کے بعد انتخابات کا زمانہ شروع ہوا.تو مرزائیوں اور لیگیوں میں تخفیہ ساز باز شروع ہوئی.من ترا حاجی بگویم تو ماحاجی بگو کے مصداق مرزایوں کو عام مسلمانوں پر مسلط کرنے کی امداد کا یقین دلایا گیا.اور ہر ممکن طریق پر ان ذرائع سے کام لئے جانے کے پروگرام بنائے گئے جن سے مرزائی مسلمان ثابت ہوں.مرزا محمود خلیفہ قادیان نے اکتوبر کے مہینہ میں ایک اہم اعلان کیا جو اس کے اخبار میں چھپا جس کا عنوان تھا: آئندہ ایکشنوں میں جماعت احمدیہ کی پالیسی رقم فرمود حضرت امیرالوسین مرزا محمد قادیانی پنجاب کے سوا تمام صوبہ جات کے احمدیوں کو مسلم لیگ کی انتخابات میں مدد کرنی چاہیئے.جس قدر ☑ ووٹ احمدیوں کے ہیں وہ اپنے حلقہ کے مسلم لیگی امیدواروں کو دیں.میں امید کرتا ہوں کہ احمدی بیابان کے تمام افراد ، کیا مرد اور کیا عورتیں ، مرد مردوں تک پہنچ کر اور عورتیں عورتوں کے پاس جا کر اُن کے خیالات درست کرنے کی کوشش کریں گے اور اس امر کو اس قدر ہم تمھیں کہ تمام جگہوں پر مسلم لیگ کے کارکنوں کو یہ محسوس ہو جائے کہ گویا احمدی یہ سمجھ رہے ہیں کہ مسلم لیگ کا امیدوار کھڑا نہیں وا کوئی احمدی امیدوار کھڑا ہوا ہے.اور اس کام میں مقامی مسلم لیگ کے ساتھ پوری طرح تعاون کریں اور جائزہ ہوگا کہ وہ اس کے میر بن جائیں.خاکسار مرزا محمود احمد اور اکتوبر ۱۹۳۵ و الفضل ۱۲ اکتوبر ابر یہ مقالہ کسی تشریح کا محتاج نہیں.اس کے بعد مسٹر جناح نے کوئٹہ میں تقریر کی.اور مرزا محمود کی پالیسی متعلق انتخابات کو ناقل کو سراہا.اس کے بعد جب سنٹرل اسمبلی کے ایکشن شروع ہوئے تو تمام مرزائیوں نے مسلم لیگ کو ووٹ دیئے یہاں تک کہ جب مولانا ظفر علیخاں ایڈیٹر میندانا جو کسی زمانے میں مرزائیوں کے شدید ترین دشمن تھے اُن
۲۹۰ کا مسٹر گاہا کا مقابلہ ہوا تو دفتر ضلع لیگ گورداسپور نے مرزا محمود احمد قادیانی کو ایک چھٹی لکھی جس کی نقل مطابق اصل درج کی بھاتی ہے جس میں مرزائیوں کو صاف طور پر مسلمان قوم تسلیم کیا گیا.وھوھذا دفتر ضلع مسلم لیگ گورداسپور بخدمت جناب حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب محترمی و حکومی ! السلام علیکم مسلم لیگ اور مسلمانان ہند کا مطالبہ یہ ہے کہ ہندوستان کو دو حصوں میں بانٹ دیا جائے جہاں مسلمان زیادہ ہیں وہ خود مختار حکومت پاکستان قائم کریں اور اپنے علاقہ میں آزاد ہو جائیں یہ تجویز انگریز اور ہندو کو پسند نہیں ) ہے.مگر چونکہ اس صورت میں ہندو اور.مسلمان اپنی جگہ مضبوط ہو جائیں گے ان میں باہمی تنازعہ نہ ہونے کے باعث انگلی شہنات کے مذہبی اصول پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو" پر عمل کرنے سے قاصر ہوگا.ہندو اس لئے مخالفت ہیں کہ وہ مسلمانوں کو دائمی طور پر مغلوب اور محکوم بنانے کے مرغوب نصب العین کے حصول سے ناکام رہے گا.گویا قیام پاکستان میں انگریزی حکومت اور ہند و اپنی پنی تمنا کا خون دیکھتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ جواہر لال نہرو نے کھلا چیلنج دے دیا ہے کہ مسلم لیگ کو کچل کر رکھ دیں گے.اس خطرناک اعلان جنگ میں اتوار بناکار یونینسٹ اور نام نہاد مسلمانوں نے ہندوؤں کی ظاہرہ امداد کا عزم کر لیا ہے.یہ سب جماعتیں پاکستان اور ترقی اسلام کی راہ میں کانٹے ہیں.مسلمانوں کو ان سب سے دامن بچا کہ آگے بڑھنا ہے.موجودہ انتخابات میں مسلم لیگی نمائندے اگر کامیاب ہو گئے تو قیام پاکستان اور آزادی اسلام کو نہ انگریز اور نہ ہند و روک سکیں گے.اور اگر ہم اپنی غفلت سے بعد انخواستہ ناکام رہے تو ہماری سیاسی موت وازمی ہے گویا موجودہ انتخابات ے یہاں بریکیٹ کے اندر مندرجہ ذیل عبارت لکھی ہے.یہ تجویز مرز محمود کو بھی پسند نہیں تھی.دیکھو " الفضل ۱۲ اکتوبر های دو مصرون مرزا محمود گو ہم پہلے بھی لیے اکھنڈ ہندوستان کے قائل تھے جن میں مسلمان کا پاکستان اور مہندو کا ہندوستان برمنا، و رغبت شامل ہوں اور اب بھی ہمارا عقیدہ یہی ہے بلکہ ہمارا تو یہ عقیدہ ہے کہ ساری دنیا کی حکومت ایک ہو.مگر چونکہ مسلم لیگ اس کو مسلمان کا سرٹیفکیٹ دینے والی تھی.اس لئے ناپسندیدگی کی صورت میں بھی ووٹ مسلم لیگ کو دیئے " صفحہ ۲۴ +
10 محمودی پالیسی کو سراہا.اس کے بعد جب سنٹرل سمبلی کے ایکشن شروع ہوئے انگریز شہنشاہیت کے فیری اصول پھوٹ ڈالو اور حکومت کے دو پر عمل کرئیے وتا مرزائیوں نے مسلم لیگ کو ووٹ دیتے.یہاں تک کہ جب مولانا ظفر علی خاں قاصر ہوگا.مہند و اسلئے مخالف ہیں.کہ وہ مسلمانوں کو دائمی طور پر غلو ہے محکوم یڈیٹر و دیندار لاہور.جو کسی زمانے میں مرزائیوں کے شدید ترین دشمن تھے اُن کا بنانے کے مرغوب نصب العین کے حصول سے ناکام رہیگا.گو یا تمام پاکستان مند گابا کامقابل ہوا تو فر ضائع سلم لیگ گورو اسپور سے مرزا محمود قادیانی میں انگریزی حکومت اور شہد اپنی اپنی تمنا کا خون دیکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ دفتر کو ایک چھٹی لکھی جس کی نقل مطابق اصل درج کی جاتی ہے.جس میں مرزائیوں جواہر لال نہرو نے کھلا چیلنج دیکھا ہے کہ سلم لیگ کو کچل کر رکھ دیں گے.اس کو صاف طور پر مسلمان قوم تسلیم کیا گیا ، وهو هذا ا:- خطرناک اعلان جنگ میں حرابہ ، خاکسار، یونینسٹ اور نام نہاد مسلمانوں ہندووں دفتر ضلع مسلم لیگ گورداسپور کی ظاہرہ امداد کا عزم کر لیا ہے.یہ سب جماعتیں پاکستان اور ترکی اسلام کی راہ میں کانٹے ہیں.مسلمانوں کو ان سب کو امن کا گر آگے بڑھنا ہے.موجودہ انتخابات توں کلم لیگ نمائیندے اگر کامیاب ہو گئے تو قیام پاکستان اور ازادی اسلام کو السياسيا بخدمت جناب حضرت مرز البشير الله من محمود احمد صاحب محتوی و مکرمی است سلام و علیکم مسلم لیگ اور مسلمانان ہند کامطالبہ ہی ہے کہ ہندوستان کو دو حصوں میں بات نہ انگریز اور نہ ہندو روک سکتے اور اگر ہم اپنی غفلت سے خدا نخواستہ ناکام ودیاک جہاں سلمان زیادہ ہیں وہ خود مختار حکومت پاکستان قائم کریں وہ اپنے علاقہ رہے.تو ہماری سیاسی موت لازمی ہے، گو یا موجودہ انتخابات مسلمانوں کی میں آزاد ہوجائیں یہ تجویز انگریز رو رند کو نیند نہیں دی تجویز ز ر محمود و می بیند آکنده باد گار زندگی یا ذلیل موت کا سوال ہے.ہر سلمان کو ذاتی منفعت اور نہیں کافی وینکس انتقال ۲۱ بر اکتوبر ۱۹۹۵ از مضمون مرز امحمود برادری کی کش مکش سے بند ہو گر ملت کی بہتری کے لئے سب کچھ قربان کر نا گا.گو ہم پہلے بھی ایسے اکھنڈ ہندوستان کے قائل تھے جن میں مسلمان پاکستان دینا چاہئیے.مرکزی ہمیں دہلی کے لئے حضرت مولانا ظفر علی خالی مالک انتبال و کا ہندوستان برده ها پر محبت شامل ہوں.اور اسب بھی ہمارا عقید زمیندار لاہور پرانے خادم السلام یہ علم لیگ کے امیدوار ہوگیا.ا در سند کاندر ہی ہے بلکہ ہمارا تو یہ عقیدہ یہ ہے کہ ساری تو نیا کی حکومت ایکس ہو.آپ ووٹر ہیں آپ کی روٹ قوم کی امانت ہے مگر چونکہ مسلم لیگ اس کو مسلمان کا سیر تفکیٹ دینے والی تھی.اس لئے تی یہ مہفتہ ا پراگی کی صورت میں ہی وہ مسلم لیگ کودنے کو چونکہ اس سورتیں ہندو قوم آپ سے دور کی بھیگ مانگتی ہے.دروازہ بہ تاریخ کا ہوں امقام انار کو ٹکٹ اور ڈیٹا لہ ووٹ پڑیں گے.سائے کی اور نہر میں کہا مجھے اور
۱۳ اسلام زنده باد آنکھ مچولی چنانچہ سال اور میں جب دیول کا نفرنس کے بعد انتخابات کا ز شروع ہوا.تو مرزا میکوں اور لیگیوں خفیہ ساز باز شروع ہوئی من تراها گیا بگوئم تو مرا حاجی بگو.کے مصداق مرزائیوں کو عام مسلمانوں پر مسلط کر نیکی امداد کا یقین دلایا گیا.اور ہر ممکن طریق پران ذرائع سے کام نئے جانے تھے پروگرام بنائے گئے.جن سے مرزائی مسلمان ثابت ہوں.مرنا محمود خلیفہ قادیان نے اکتوبر کے مہینہ میں ایک اہم اعلان کرنا جو ائش کے اخبار میں تھی.حسین کا عنوان تھا.آئندہ الیکشنوں میں جماعت احمدیہ کی پالیسی رقم فرمودہ حضرا با (مرزا محمود قادیانی) پنجاب کے سوا تمام صوبہ جات کے احمدیوں کو مسلم لیگ کی انتخابات میں.مد کرنی چاہئے.جسقدر ووٹ احمدیوں کے ہیں.وہ اپنے حلقہ کے مسلم کی امید لیلا پر مختصر تبصرہ سالانه چنده کو دیں میں امید کرتا ہوں کہ احمدی جماعت کے تمام افرادہ کیا مرد وہ کیا عوتیں مروجہ مردوں تک پنچاکر ان کے ہیں جور توں کے پاس جاکرین کے خیالات صورت کرنے شائع کرده کی کوشش کریں گئے.اقداس امرکو استاد را تم مجھی کہ تمام جگہوں پر سلم لیگ مجلس احرار اسلام قادیانی د کنیران کے کارکنوں کو یہ محسوس ہو جائے کہ گویا احمدی یہ سمجھہ رہے ہیں کہ سلامی کے امیدوار کھڑا نہیں ہوا.کوئی احمدی امیدوار کھڑا ہوا ہے.اور اس کام میں مقامی سالیاک کے ساتھ پوری طر یوم تعاون کریں.اور جائز ہو گا کہ وہ اس کے ممبر بن جائیں.خاکسار مرنا محمد و احمها در اکتوبی ۱۹ را الفضل ۲۲ اکتوبر ) یہ ممالک اور بیچ کا محتاج نہیں.اس کے بعد شر فتاح نے کو ئٹہ میں تقریر کی اور مرزا
۲۹۱ مسلمانوں کی آئنڈ باوقار زندگی یا فنیل موت کا سوال ہے.ہر مسلمان کو ذاتی منفعت اور برادری کی کشمکش سے بند ہو کر ملت کی بہتری کے لئے سب کچھ قربان کر دینا چاہئیے.مرکزی اسمبلی وسلی کے لئے حضرت مولانا ظفر علی خان ملک اخبار زمیندار لاہور پرانے خادم اسلام مسلم لیگ کے امیدوار ہیں.آپ ووٹر ہیں.آپ کی ووٹ قوم کی امانت ہے.قوم آپ سے وسوٹ کی بھیک مانگتی ہے.بروز ہفتہ بتاریخ ۱۲۰۴۵ ۲۳۰ بمقام بنگلہ ڈسٹرکٹ بورڈ بٹالہ ووٹ پڑیں گے.برائے نوازش آپ مع دیگر دوران تشریف لاکر مولانا کے حق میں ووٹ دیں اور عند اللہ ماجور ہوں.عبد العزیز ملک ایڈووکیٹ جنرل سکرٹری ڈسٹرکٹ مسلم لیگ ضلع گورداسپور شائع شدہ اخبار سیرت باغبانپورہ لاہور.۲ جنوری تکیه اس چھٹی پر تمام مرزائی بٹالہ گئے.بٹلہ کے مسل لیگی کارکنوں نے ان سے معانقے گئے ووٹ مولانا ظفر علیخاں کے حق میں گزارے گئے دیگر بعض مسلم لیگ کے لینڈ لاہور سے بذریعہ کار تشریف لا کر اپنی آنکھوں سے یہ نظارہ دیکھتے رہے " ہے مرکزی سمبلی میں مسلم نشستیں تھیں مسلم لیگ نے مرکزی املی میںمسلم لیگ کی سو فیصد کامیابی پر نشست کے لئے پیدوار کھڑے کئے تھے اور سب نشستوں پر قبضہ کر لیا.اور اس طرح اس نے ایسی فقید المثال کامیابی حاصل کی جس کی نظیر دنیا کے کسی ملک کی دستوری تاریخ میں نہیں ملتی.ذیل میں ان تمام مسلم لیگی نمائندوں کی فہرست دی جاتی ہے جو مسلم لیگ کے ٹکٹ پر کھڑے ہوئے اور جن کی تائید جماعت احمدیہ نے کی ج یو پیا.نواب محمد اسمعیل خال - راجہ امیر احمد خال آفت محمود آباد.نواب زادہ لیاقت علی خاں.ڈاکٹر ضیاء الدین احمد صاحب خان بہادر غضنفر علی تقال صاحب.سر محمد یامین خان صاحب پنجاب.میر غلام بھیک نیرنگ - نواب سر محمد مہر شاہ - حاجی شیر شاہ صاحب کیپٹن عابد حسین صاحب.مولوی ظفر علی شاں صاحب آن زمیندار حافظ محمد عبد اللہ صاحب ے مسلم لیگ اور مرزائیوں کی آنکھ مچولی پر مختصر تبصرہ " شائع کردہ مجلس احرار اسلام قادیان دسته صفحه یہ رسالہ خلافت لائیبریری ربوہ میں موجود ہے.- -19-14
۲۹۲ بنگال - عبدالرحمن صاحب صدیقی - سرحسن سهروردی شیخ رفیع الدین صاحب صدیقی - چودھری محمد اسمعیل خان صاحب مولوی تمیز الدین صاحب - عبد الحمید شاہ صاحب یمیائی و سندھ محمد موسی قلعہ والہ ( بلا مقابلہ.قائد اعظم محمدعلی جناح - احمد ای.اسکی جعفر - یوسف ہارون - مدراس.ایم جے جمیل محی الدین ( بلا مقابلہ - حاجی عبدالستار الحق بہار و اڑیسہ - محمد نعمان (بلامقابله) چودھری عابد حسین ( بلا مقابلہ - سفان بہادر حبیب الرحمن قائد اعظم محمد علی جناح کی تحریک پر ار جنوری سالانہ کو ہندوستان بھر میں نہایت تزک و احتشام کے ساتھ یوم فتح منایا گیا اور صوبائی انتخابات میں کامیابی کے لئے دعائیں کی گئیں.صوبائی انتخابات میں جماعت احمدیہ مسلم لیگ کانگرس کی ریشہ دوانیوں اورمسلمانوں کو درپے کے بل بوتے پر خید نے کی تمام سازشوں کےباوجود تمام مسلم نشستوں پر قابض ہوگئی کا مسلم لیگ سے مخلصانہ تعاوات تھی.اس فتح مبین نے کانگرسی بیشت کو اتش زیرپا کر دیا اور انہوں نے اعلان کیا کہ وہ صوبائی نشستوں میں مسلم لیگ کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے اور پاکستان کے مطالبہ کو پیوندخاک کر کے وم میں گئے.چنانچہ سٹرپٹیل نے ۱۴ جنوری شے کو احمد آباد میں تقریر کرتے ہوئے کہا :- مرکز میں مسلم لیگ نے تمام نشستوں پر قبضہ کر لیا ہے.اب بے شک مسلم لیگ " یوم فتح مناتی رہے لیکن یہ سمجھ لے کہ اس طرح پاکستان حاصل نہیں ہو گا.پاکستان برطانیہ کے ہاتھوں میں نہیں.پاکستان کے حصول کے لئے ہندوؤں اور مسلمانوں کو میدان جنگ میں ایک دوسرے کے برخلاف نبرد آزما ہوتا پڑے گا اور اس صورت میں خانہ جنگی ہو کہ رہے گی.پٹیل نے تقریر بھاری رکھتے ہوئے کہا کہ کانگریس نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ صوبائی محماس آئین ساز کے انتخابات میں ہر مسلم نشست کے لئے اپنے امیدوا کھڑے کرے گی اور انتخابات کے نتائج ظاہر کر دیں گے کہ آخری فتح کانگرس کی ہوگی.ہم دیکھیں گے کہ پاکستان کیسے قائم ہوتا ہے اور مسلم لیگ کس طرح یوم فتح مناتی ہے ؟ ہے خوشکن کانگرسی لیڈر دھمکیاں دے رہے تھے کہ فروری سنٹر میں صوبائی انتخابات کے خوش کن نتائج سوالی سہلیوں کے انتخابات شروع ہوگئے بروگریس نے ہر صوبائی سے قائد اعظم اور ان کا عہد" صفحہ ۶۵۸ تا ۶۶۲ ( از سید رئیس احمد جعفری) له قائد اعظم اور دستور ساز اسمبلی ، صفحہ ۱۷۸-۱۷۹ مصنفہ محمد اشرف قال عطاء مدیر معاون زمیندار ہور ) ( خان انشاه "
۴۹۳ صوبہ میں مسلم لیگ کا مقابلہ کیا.مگر اس کے باوجود صوبائی مجالس آئین ساز میں مسلم لیگ کو زبر دست فتح ہوئی جس کی تفصیل یہ ہے:.آسام مجلس آئین ساز میں وہ مسلم نشستیں تھیں ان میں سے اس نشستوں پر مسلم لیگ نے قبضہ کر لیا.سندھ ۲۲ مسلم نشستیں تھیں جن میں سے ۲۹ پر مسلم لیگ کامیاب ہوئی.کر تھا.یہاں ۶ مسلم نشستوں میں سے ، مسلم لیگ نے جیت لیں.یو پی و مسلم نشستیں تھیں.۵۲ پر مسلم لیگ نے قبضہ کر لیا.بہار ہم مسلم نشستیں تھیں.۳۶ پر مسلم لیگ نے قبضہ کر لیا.مدراس - ۲۹ مسلم نشستیں تھیں.تمام پر مسلم لیگ نے قبضہ کر لیا.اڈیہ.ہم مسلم نشستیں تھیں.تمام پر مسلم لیگ نے قبضہ کر لیا.بمبئی.مسلم نشستیں تھیں.تمام پر مسلم لیگ نے قبضہ کر لیا.پنجاب گل و مسلم نشستیں تھیں.مین میں سے 14 نشستوں پر مسلم لیگ کا میاب ہو گئی.احمدیوں نے حضرت مصلح موعود کے ارشاد کی تعمیل میں آسام، حمدیوں کی رو سے مسلم لیگ کی حمایت رو سے حمایت سندھ ، یوپی، بہار، مدراس، اٹریسہ اور بمبئی میں سب مسلم لیگی امید داروں کی حمایت کی اور پنجاب کے ۳۳ حلقوں میں مسلم لیگ کے حق میں ووٹ ڈالا اور ان معنوں کی ۳۲ نشستوں پر مسلم لیگ کامیاب ہوئی میں مسلم لیگی ممبرانکو جماعت احمدیہ نے پنجاب میں ووٹ دیئے اُن میں سے بعض کے نام (مع علقہ کے ) یہ ہیں :- وا اور غلام محمد صاحب (جنوبی شہری حلقہ جات سردار شوکت حیات خانصاحب (جنوبی مشرقی حلقہ جات) ملک برکت علی صاحب (شرقی شہری حلقہ بجات خان بہادر شیخ کرامت علی صاحب د شمال مشرقی حلقہ جات سر فیروز خان نون (قسمت راولپنڈی ملکت وزیر محمد صاحب ( اندرون لاہور مردان) بيكم تصدق حسین صاحب (اندرون لاہور حلقہ نسواں محمد رفیق صاحب ( بیرون لاہور معلقه مردان ) بیگم شاہ نواز صاحبہ (بیرون لاہور معلقه نسواں شیخ صادق حسن صاحب (امرتسر شهر و چھاؤنی، چودھری علی اکبر صاحب پلیڈر (کانگرگاه و مشرقی ہوشیار پور) محمد عبدات دام صاحب (شمالی بجالندھر) نواب افتخارسین صاحب ممدوٹ ( وسطی فیروز پور) میاں افتخار الدین صاحب ( تحصیل تصویر) چوہدری الفضل" تبليغ / فروری اش صفحه ۲۸ ۰
۲۹۴ غلام فرید صاحب پلیڈی (مشرقی گورداسپور) چوہدری محمد حسین صاحب ایڈووکیٹ (تحصیل شیخوپورہ ) خان بهادر روشن دین صاحب تحصیل مشاهده) چوہدری فضل الہی صاحب وکیل (شمالی گجرات چوہدری بهادل بخش صاحب (جنوب مشرقی گجرات چوہدری جہان خان صاحب (شمال مغربی گجرات ، چو ہدری غلام رسول صاحب تارڈ (جنوب مغربی گجرات) رانا عبدالحمید صاحب د تحصیل پاک چین استرداریها در خان دریشک وڈیرہ غازی خان جنوبی، غلام جیلانی صاحب گورمانی تحصیل لیته، سید بدهن شاه (خانیوال) خان بہادر شیخ فضل حق صاحب پراچہ (تحصیل بھلوال میاں عبد الحق صاحب ( تحصیل اوکاڑہ ) سے احمدیوں نے ان لیگیوں کے علاوہ صوبہ پنجاب میں بعض ایسے موزون اور قابل امیدواروں کو بھی کامیاب بنانے میں پوری طاقت صرف کر دی جن کو اگرچہ پنجاب مسلم لیگ نے ٹکٹ دینے سے انکار کر دیا تھا.مگر چونکہ وہ اصولی مسلم لیگ کے حق میں تھے اور انہیں اپنے حق سے محروم رکھا گیا تھا اس لئے جماعت کو یقین کامل تھا کہ وہ انتخابی مہم جیتنے کے بعد یقیناً مسلم لیگ میں شامل ہو جائیں گے.مشہ حلقہ مسلم تحصیل بٹالہ سے حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم.اسے ناظر اعلئے قادیان) کو جب مسلم لیگی ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیابی نہ ہوئی تو انہیں مجبوراً و آزاد امیدوار کی حیثیت سے کھڑا ہونا پڑا.اس حلقہ میں برسر اقتدار یونینسٹ پارٹی نے اپنے نمائندہ کے حق میں صوبہ بھر میں سب سے زیادہ زور لگایا.سرکاری افسروں نے قدم قدم پر مداخلت کی اور احمدیوں کے خلاف ہر شکن ہتھکنڈے استعمال کئے اور دھن، دھونس اور دھاندلی کی حد کر دی مگر اس کے باوجود چودھری صاحب دوٹوں کی بھاری اکثریت سے کامیاب ہو گئے.پنجاب سمبلی کی یہ سیٹ اگر چہ احمدی مردوں اور عورتوں نے نہایت اعلیٰ درجہ کے اخلاص اور بے مثال قربانی پیش کر کے خالص احمدیت کے ٹکٹ پر حاصل کی تھی.مگر حضرت امیرالمومنین خلیفة السيح الثاني الصلح الموعود کے ارشاد پر چودھری صاحب آمبلی کا حمد منتخب ہوتے ہی مسلم لیگ میں شامل ہو گئے.اور اس سلسلہ میں آپ نے صدر پنجاب مسلم لیگ کے نام حسب ذیل تار ارسال کیا :- مله ملاحظہ ہو " الفصل" ۲۸ مصلح : ٢٩ صلح - تبلیغ - ガ " مسلم لیگ اور مرزائیوں کی آنکھ مچولی پر مختصر تبصرہ “ میں لکھا ہے کہ ” تحصیل بٹالہ میں فتح محمد سیال مرزائی نے مرزا محمود کے کہنے کے مطابق پنجاب مسلم لیگ سے لیگ کے ٹکٹ مانگا اور تحصیل شکر گڑھ میں عبد الغفور قمر مرزائی نے لیگ کا ٹکٹ مانگا نگران میں سے صرف عبد الغفور قمر ایم.اے مرزائی کو ہی تحصیل شکر گڑھ کا ٹکٹ ملا صفحہ 19 ؟ الفضل ، تبلیغ فروری مش صفحه ۱۶ ۱۲۳ تبلیغ ضروری به بیش صفحه مات یکم امان / مارچ یش صفحه ۴ + کے تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو سیدنا المصلح الموعود کا خطبہ جمعہ مطبوعہ " الفضل " یکم امان / مارچ و کش و
۲۹۵ at گو الیکشن سے پہلے لیگ نے مجھے اپنا ٹکٹ نہیں دیا تھا لیکن اب جبکہ میں خدا کے فضل سے آزاد امیدوار کے طور پر کامیاب ہو گیا ہوں میں اپنی جماعت کی ہدایت کے ماتحت پھر دوبارہ اپنے آپ کو مسلم لیگ کی ممبری کے لئے پیش کرتا ہوں“ نے اس ضمن میں دوسری مثال شیخ فیض محمد صاحب پلیڈر کی ہے جو یونینسٹ ٹکٹ پر اسلقہ ڈیرہ غازیخان وسطی سے) کامیاب ہوئے اور مسلم لیگ میں شامل ہو گئے.جماعت احمدیہ نے شیخ صاحب سے بھی تعاون کیا.پنجاب کی ہندو صحافت کی بریہی جماعت حمدیہ کی طرف سے لمبی عمروں سے تعاون پر کانگری حلقے سخت بوکھلا گئے اور ہند و صحافت کھلم کھلا دشنام طرازی اور شرمناک پراپیگینڈا اور افتراء پردازی پر اُتر آئی.اس حقیقت کا اندازہ لگانے کے لئے ایک واقعہ ملاحظہ ہو.سردار شوکت حیات خان مسلم لیگی امیدوار تھے.احمدی مردوں اور عورتوں نے انہیں مسلمانوں کا بہترین سیاسی نمائندہ سمجھتے ہوئے ووٹ دیئے.بات صرف اس قدر تھی.مگر ہند و اخبار پرتاپ اک واری کی اشاعت میں اسراقہ کو اخلاق سوز اور شرمناک رنگ سے جگہ دی بیچنا نچہ اس نے لکھا کہ یہ در میانه ۱۴ فروری - آج ٹانگوں اور لاریوں میں پولنگ اسٹیشنوں پر مسلمان عورتوں کو لایا گیا.سروان شوکت حیات کے حق میں دو ٹیں ڈلوانے کے لئے قادیان سے احمدیہ لڑکیوں اور ہیرا منڈی سے بازاری عورتوں کو لایا گیا تھا.انہوں نے اپنے سروں پر سبز رنگ کے دوپٹے لئے ہوئے تھے " انتخابات میں میںماعت احمدیہ اور مسلم لیگ کے نیشنلسٹ اور کانگرس نواز علماء کی مسلم لیگ پر تنقید باہمی تعاون پر نیشنلسٹ اور کانگرس نواز علماء کی طرات سے مسلم لیگ اور قائد اعظم پر بہت تنقید کی گئی چنانچہ ناظم علی مرکزی جمعیتہ علما ہند نے تحریک پاکستان سلة الفضل " ۲۵ تبلیغ فروری مش صفحه ۲ سے قائد اعظم اور دستور ساز آئینی مهر ۳ه له الفضل ما تبلیغ فروری ده مش صفحه ۲ خيار الفضل وار تبلیغ فروری ) نے اس شرمناک پراپیگنڈا کے جواب میں آریہ سماجی اخلاق کا جنازہ کے عنوان سے ایک شدہ پر تقسیم کیا جس میں لکھا " اس خبر سے سوائے اس کے کہ نامہ نگار کے ناپاک اخلاق اور ایڈیٹر کی گندی ذہنیت آشکارا ہو جائے ہمیں تو اور کوئی فائدہ نظر نہیں آتا.لیکن اتنا ہم ضرور پوچھیں گے کہ اگر یہی خبر نامہ نگار کی ہو بیٹیوں یا ایڈیٹر پر آپ کی ماں بہتوں کے متعلق شائع ہو تو کیا وہ ان کو ناگوار نہیں گزرے گی اور ان کے دلوں کو صدمہ نہیں پہنچے گا اور خصوصا اس وقت جبکہ اس خبر میں صداقت کا ایک ذرہ بھی نہو اگر تمہارے اخلاق اس قدر گندے ہو چکے ہیں کہ ان میں شرافت اور انسانیت کا ایک شہرہ بھی باقی نہیں رہا تو بیشک ایک دوسرے کو گالیاں دو اور درندگی کا مظاہرہ جیسے چاہو کر دیگر خدا کے لئے شریف پر دہ نشین لڑکیوں کو تو درمیان میں نہ لاڑ
پر ایک نظر “ نامی رسالہ میں لکھا :- " آج مسٹر جنا تا بیرسٹر کی بجائے مفتی کی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں.اور سر ظفر اللہ قادیانی.راجہ محمود آیا و شیعہ کو جو پاکستان کے حامی ہیں، مسلمان دیانتدار قرار دیتے ہیں.اور مولانا حسین احمد حباب مفتی کفایت اللہ صاحب جیسے گائدین ملت کو بد دیانت بے ایمان کہہ دیتے ہیں اور لیگی اختیارات ان میمنوں کو نہایت آب و تاب سے شائع کرتے ہیں.اور لیگی نوجوان مسٹر جناح کے فتوے پر اعتقاد رکھتے ہیں جناب مولوی طفیل احمد صاحب مولوی فاضل دیوبند نے روز نامہ شہباز کیا ہور (مورخہ ۲۰ نومبر ۱۷) میں لکھا: ا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ حضرت حکیم الامت (مولوی اشرف علی صاحب تھانوی ناقل مسلم لیگ جیسی جماعت کی حمایت کریں.اب تو وہ قادیانیوں ، دہریوں اور تبرائیوں کی مجتم جماعت ہے.لہذا تمام متوسلین کے ذریہ ضروری ہے کہ حضرت والا کا اتباع کرتے ہوئے لیگ سے علیحدگی اختیار کریں“ اسی طرح جمعیتہ علماء ہند نے مسلم لیگ کے خلاف انتخابی مہم کے دوران ایک دو ورقہ مسلم لیگ کے شاندار اسلامی کارنامے کے نام سے تقسیم کیا جس میں قائد اعظم محمد علی جناح کو محض اس وجہ سے انانیت پسند اور آمر قرار دیا کہ انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ لاہور سائے میں احمدیوں کو مسلم لیگ کی رکنیت سے خارج کئے جانے سے متعلق ایک قرار داد کو پیش تک نہیں ہونے دیا.متاز مسلم کیگی عالم جناب مولوی شبیر احمد صاحب عثمانی نے روزنامہ نوائے وقت " میں ایک اعلان شائع کیا تھا کہ مسلم لیگ مسلمانوں کے لئے سفینہ نجات ہے مسلمانوں کو چاہیے کہ مسلم لیگ کو ووٹ دیں.اپرا متشکر ایک نیشنلسٹ عالم دمولوی یہا، الحق صاحب قاسمی نے جناب مولوی شبیر احمد صاحب کی خدمت میں لکھا کہ و آپ کو معلوم ہوگا.لیگ کے ممبر ہیں اور ان کی دونو پارٹیاں رقادیانی اور لاہوری) الیکشن میں لیگ کو کامیاب بنانے کے لئے سر توڑ کوشش اور انتہائی جدو جہد کر رہی ہیں.بلکہ مرزا محمود قادیانی نے اعلان کر دیا ہے کہ مسلم لیگ کی کامیابی احمدیت" کی کامیابی ہے.ان کے علاوہ آج لیگ کی سیاست پر وہ شیعہ لیڈر چھائے ہوئے ہیں جنہوں نے تیرا ایجی ٹیشن میں برائیوں کو ہر طرح امداد دی جیں جماعت کی تشکیل اس قسم کے بے دینوں اور مرتدوں سے عمل میں لائی گئی ہو.اور جو جماعت کمیونسٹوں اور مرزائیوں کو "مسلمان" ہونے سه صفر به ناظم جمعیتہ علمام بند ی مطبوعہ ولی پرنٹنگ ورکس دہلی.
۲۹۷ کا ساڈیفکیٹ دیتی ہو.اس جماعت کو سفینہ تجارت قرار دینا آپ کی ذات گرامی سے بعید معلوم ہوتا ہے“ ا اسلامی یا اس جان برای بی ام اب عمان نے اس گرام اور تاز مسلم کی عمر کی طر سے میل جواب کا جواب کا مفصل کتاب میں دیا چنانچہ ایک انہوں نے لکھا :.اللہ تعالے کی ہزار ان ہزار رحمت امام محمد بن الحسن شہانی پر کہ انہوں نے یہ شکل میں ڈالنے والا مسئلہ پہلے سے صاف کر دیا اور تصریح کردی کہ اہل حق مسلمان خوارج کے ساتھ ہو کہ مشرکین سے ریں تو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ جنگ دفع فتنہ کفر اور اظہار اسلام کے لئے ہوگی اور اس میں السلام کلمتہ اللہ اور اثبات اصل طریق ہے“ اب رہ گیا کلمہ گو مرتدین کا معاملہ، ان کی تعداد لیگ میں لا یحبابہ ہے جن کے عقلیہ کی کوئی صورت نہیں اور خدا نہ کردہ آئندہ ایسا ہو تو اس وقت جو حکم ہوگا اس پر عمل کیا جائے گا.اب الیکشن کے موقعہ پار کرنا محمود وغیرہ نے بدوں لیگ میں شرکت کے لیگ کی تائید کا اعلان کم دیا یہ ان کا فعل ہے تو ہمارے لئے مفتر نہیں" ایک پیز اور بھی ملحوظ خاطر ر ہے کہ یہ مرتدین و ملحدین اس طرح کے نہیں جو نفس کلمہ اسلام ہی سے اعلانیہ بیزار ہوں وہ بھی بزعم خود مشرکین سے اسی نام پر لڑتے ہیں کہ مشرکین کے غلبہ و تسلط سے مسلم قوم کو بچایا جائے اور کلمہ اسلام کو اُن کے مقابلہ میں پست نہ ہونے دیا جائے اور سلمانوں کے قومی وملی استقلال کی حفاظت ہو ا شبیر احمد عثمانی از دیوبند و ارذی الحجه سه ۲۵ نومبر به است جناب مولوی شبیر احمد صاحب عثمانی نے اپنے ایک خطہ میں جو انہوں نے مراد آباد کے ایک صاحب حکیم رشید علی کے نام بھیجا، چودھری محمد ظفراللہ خاں صاحب کو اکا بر مسلم لیگ میں شمار کرتے ہوئے لکھا:.جن کو آج گورنمنٹ پرست کہا جاتا ہے اور وہ ہی اکا بر لیگ سمجھے بھاتے ہیں.ان ہی کی قیادت و سعادت اس وقت (سٹ ۱۹۳ ایڈ میں ناقل) تھی.مسٹر جناح ، نواب اسماعیل خاں صاب، ه ر کے انوار عثمانی » صفحه ۱۴۲ مکتوبات شیخ الاسلام شبیر رحمانی مرتبہ پر وفی محمد انوارالحسن صاحب انور شیر کوٹی ۱۸۹- اسے پھیلنے کا لونی لانکلہور.ناشر مکتبہ اسلامیہ مولوی مسافرخانه بندر روڈ کراچی ما.
۲۹۸ راج محمود آباد، چودھری خلیق الزمان اور سر ظفر اللہ خاں قادیانی سب اس میں شریک تھے.انہیں سے اکثر آج اس کے قائد ہیں “ لے اُن دنوں سیالکوٹ کے ایک عالم نے بھی احمدیوں کی مسلم لیگ میں شرکت و تعاون پر اعتراض کیا جس پر مشہور اہلحدیث عالم جناب مولوی محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی نے جو جواب دیا وہ ہمیشہ آب زر سے لکھا جائیگا.آپ نے کہا :- احمدیوں کا اس اسلامی جھنڈے کے نیچے آجانا اس بات کی دلیل ہے کہ واقعی مسلم لیگ ہی مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعورت ہے.وجہ یہ کہ احمدی لوگ کانگرس میں تو شامل ہو نہیں سکتے کیونکہ وہ خالص مسلمانوں کی جماعت نہیں ہے اور نہ احرار میں شامل ہو سکتے ہیں کیونکہ وہ سب مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ صرف اپنی احراری جماعت کے لئے لڑتے ہیں جن کی امداد پر کانگریسی جماعت ہے اور حدیث الدین النصیحۃ کی تفصیل میں خود رسول مقبول نے عامر مسلمین کی خیر خواہی کو شمار کیا ہے (میمن مسلم) ہاں اس وقت مسلم لیگ ہی ایک ایسی جماعت ہے جو خالص مسلمانوں کی ہے.اس میں مسلمانوں کے سب فرقے شامل ہیں.پس احمدی صاحبان بھی اپنے آپ کو ایک اسلامی فرقہ جانتے ہوئے اس میں شامل ہو گئے جس طرح کہ اہلحدیث اور صنفی اور شیعہ وغیر ہم شامل ہوئے اور اس امر کا اقرار کہ احمدی لوگ اسلامی فرقوں میں سے ایک فرقہ ہیں مولنا ابو الکلام صاحب کو بھی ہے.اُن سے پوچھئے.اگر وہ انکار کریں گے تو ہم ان کی تحریروں میں دکھا دیں گے لے گوجرانوالہ کے ایک مشہور اہلحدیث عالم مولوی محمد اسماعیل صاحب نے ایک دو ورقہ میں مسلم لیگ پر طعن کیا کہ اس میں قادیانی ، رافضی ، اسماعیلی اور بریلوی شامل ہیں اور انہی فرقوں کی جماعت بندی کا دوسرا نام مسلم لیگ ہے.جناب مولی میر محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی نے اس اعتراض کا بھی مسکت جواب دیا.جو یہ تھا.انوار عثمانی صفحه ۱۸۶ (مکتوبات شیخ الاسلام شبیر احمدعثمانی مرتبہ پر وفیسر محمد انوارالحسن صاحب انور شیر کوئی ؟ ه پیغام هدایت در تائید پاکستان مسلم لیگ صفحه ۱۱۲ - ۱۳ ، مرتبه مولوی محمد ابراہیم صاحب میر سیالکوٹی (جنوری ۹۴۶) مطبوعہ شنائی پریس امرتسر : کے ناشر مولوی عطاء اللہ صاحب بھوجیانی خطیب جامع اہلحدیث شهر فیروز پور.
۲۹۹ امت مرحومہ کے ان سب فرقوں نے اصل اسلام جو سب میں مشترک اور متفق علیہ ہے یعنی کلمہ السلام لا اله الا الله محمد رسول اللہ پر اجتماع کیا ہے اور اس کلمہ طیبہ کے قائلین کو مشرکین و کفار کے تقلب سے خواہ وہ مصنم پرست ہوں یا صلیب پرست ہوں بچانے پر متفق ہوئے ہیں.خواہ وہ تغلب اس وقت موجود ہے، خواہ اس کا آئندہ اندیشہ ہے.اور پاکستان کے نظام کی بنا، اسی بات پر ہے....اور آپ سے پوشیدہ نہیں کہ سوائے اس کے مسلمانوں کی.تنظیم کی کوئی صورت نہیں جو خوبی تھی آپ نے اسے طعن بنا دیا جو سراسر بے جا ہے " لے علام ازیں صوبائی انتخاب کے دوران مشہور المحدیث عالم مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے ایک بیان میں کہا :- پاکستان کے مفہوم پر جو اعتراضات مجھے پہنچے ہیں میں اُن کو صحیح نہیں سمجھتا.مثلاً یہ کہا گیا ہے کہ اس کے بانی رافضی ہیں، بدعتی ہیں اور مرزائی بھی شریک ہیں وغیرہ وغیرہ.میرے خیال میں یہ اعتراضات سیاسی اصول سے بالا تر ہیں.سیاسیات میں قوم کو بحیثیت نوع کے دیکھا جاتا ہے اصناف کا لحاظ نہیں ہوتا " کئے جماعت احمدیہ کی طرف سے اللہ ار کے انتخابات سے اگر چہ مسلم لیگ کی نمائندہ حیثیت بالکل واضح ہوگئی مگر کانگریس نے پنجاب میں سرگلانسی گورنر پنجاب یونینسٹ وزارت کے علا احتجاج کی شہ اور اشارہ پاکر یونینسٹ پارٹی کے لیڈر سر خضرحیات خان ے تعاون کرلیا.سرگانسی نے مسلم اکثریت کو نظرانداز کر دیا اور ملک خضر حیات کی قیادت میں کانگریس، اکالی اور یونینسٹوں کے سات مسلمان ممبر ملا کہ ایک کولیشن بنادی گئی.بہندوستانی عیسائیوں کا تعاون حاصل کرنے کیلئے انہیں سپیکر شپ کی پیش کش کی گئی.اس طرح پنجاب میں مسلم لیگ 4 مبر رکھنے کے باوجود مسلم لیگی وزارت نہ بن سکی اور عوام کی مرضی کے خلاف دوبارہ وہ حکومت ٹھونس دی گئی جو وہ انتخابات میں مسترد کر چکے تھے.اس غیر نمائیندہ اور غیر آئینی وزارت کے خلاف ار مارچ نہ کو قادیان میں حضرت چوہدری فتح محمد اور صاحب سیال ایم.اے کی صدارت میں ایک احتجاجی جلسہ کیا گیا جس میں مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری پرنسپل جامعہ احمدیہ نے حسب ذیل قرار داد پیش کی جو بالاتفاق پاس کی گئی." ” مسلمانان قادیان کا بہ عظیم الشان اجتماع گورنر پنجاب کے اس طریق کو ہجو اس وقت وزارت ه پیغام هدایت در تائید پاکستان مسلم لیگ " صفحه ۱۹۲ * + 14.**
۳۰۰ قائم کرنے کے لئے اختیار کیا جارہا ہے، صوبہ پنجاب کے مسلمانوں کی حق تلفی یقین کرتا ہے اس وزارت میں صوبہ کی مسلم اکثریت کی کوئی نمائندگی نہیں حکومت کا فرض تھا کہ مسلم لیگ ہمبلی پارٹی کرو تشکیل وزارت کے لئے دعوت دے کیونکہ اسی پارٹی کو اکثریت حاصل ہے.لیکن گورنر صاحب نے اس مسلم اکثریت والے صوبہ کے حقوق کو نظر انداز کرتے ہوئے ایسی پارٹی کی وزارت مرتب کرانے کی کوشش کی ہے جو مسلمانان پنجاب کی بالکل نمائندہ نہیں ہوگی.ہم اس طریق کو غیر آئینی اور غیر رسمی اور خلافت عرف تصور کرتے ہیں اور اس کے خلاف پر زور صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں کیونکہ اس میں صوبہ کی اکثریت کی حق تلفی ہے" سے فصل چهارم ہندوستان میں پارلیمن می شن کی آمد صعود کی بہائی مخلص مشورہ اور مسلم لیگ اور قائد اعظم کے موقف کی زبردست تھا عبوری حکومت کاقیام در سلم لیگ کا احتجاج اور فصیل است اقدام مرکزی و صوبائی انتخابات ختم ہوئے تو برطانیہ کی لیبر حکومت نے جس کے وزیر اعظم مسٹر انیلی تھے ہندوستان کے سیاسی تعطل کو دور کرنے کے لئے ایک سکیم دے کہ لارڈ پیتھک لارنس (وزیر ہند ، سرٹیفورڈ کوپس لارڈ پر نیوی سیل) اور الیگزینڈر (وزیر بھر) پشتمل ایک وزارتی رشن بہندوستان بھیجا.یہ وفد ۲۵ مارچ مہ کو دہلی پہنچا.اور آتے ہی مسلم لیگ اور کانگریس کے زعمار سے بات چیت میں مصروف ہو گیا.وزارتی کمیشن کے منصوبے کا مختصر نا کہ یہ تھا کہ ملک کو تین علاقوں میں ترتیب دی بجائے (1) صوبہ جات ماس کمیٹی ، یوپی، بہار ، سی پی اور اڑیسہ (ب) پنجاب، سندھ، صوبہ سرحد (جو) بنگال اور آسام ہے " الفضل " ارامان / ماریه مش صفحه ۲ کالم ۴۴۰۳
٣٠١ ان تین علاقوں کی اپنی اپنی علاقائی حکومت ہوا اور تمام ملک کی وفاقی حکومت ہو جس میں یہ تین علاقے منسلک ہوں مرکزی حکومت کے اختیارات امور خارجہ امور متعلقہ دفاع صیغہ مواصلات اور ان محکمہ جات کے متعلقہ مالیات مشتمل ہوں اور ان تک محدود ہوں.بقیہ تمام امور اور صیفہ جات علاقائی حکومتوں کے سپرد ہوں.یہ نظام دوست سال تک جاری رہے.دس سال کی میعاد پوری ہونے پر علاقہ ب رجم کو اختیار ہو کہ اگران میں سے ایک یا دونوں چاہیں تو وفاقی نظام سے علیحدہ ہو کر اپنی اپنی مستقل آزاد حکومت قائم کر لیں.اس امر کا فیصلہ علاقے کی مبیں قوانین ساز کے اختیار میں ہو.علاقہ جج کے متعلق یہ شرط بھی رکھی گئی کہ اگر علاقائی مجلس علیحدگی کا فیصلہ کرے تو آسام کے نمائندگان کو اختیار ہوگا کہ وہ اپنی کثرت رائے سے یہ فیصلہ کریں کہ وہ علاقے میں نہیں اور کہنا چاہتے اور علاقہ سے علیحدگی پر وہ علاقہ کو میں شامل ہو جائیں گے.پارلیمنٹری میشن کی ہندوستان میں آمد پر حضرت مصلح موعود نے ایک دینی اور روحانی پیشوا کی حیثیت سے برطانوی ارکان مسلم لیگ اور کانگرس سب کو اُن کی نازک ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی اور مہندوستان کی گشتی کو عدل و انصاف اور اخلاق کے تقاضوں کے مطابق سلجھانے کا مخلصانہ مشورہ دیا.نیز مسلم لیگ کے موقف کی زبر دست حمایت کی اور کانگرس کے بے بنیاد پراپگینڈا کی حقیقت واقعات کی روشنی میں واضح فرمائی اور اُسے مشورہ دیا کہ وہ تبدیلی مذہب کے متعلق اپنا زاویہ نگاہ بدل نے حضرت امیر المومنین الصلح الموعود نے میں مون میں یہ سب امور بیان فرمائے اس کا مکمل متن درج ذیل کیا جاتا ہے ہے أعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ " بسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ حَمدُهُ وَنَصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ سامير پارلیمنٹری مشن اور ہندوستانیوں کی فرض پارلیمنٹری وفد ہندوستان کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لئے ہندوستان میں وارد ہو چکا ہے.مجھ سے کئی احمدیوں نے پوچھا ہے کہ احمدیوں کو اُن کے خیالات کے اظہار کا موقعہ کیوں نہیں دیا گیا.میں نے اس کا جواب اُن ے اس اہم مضمون کا ایک حصہ اخبار انقلاب لاہور نے اپنی 9 اپریل سیاہ و سفر سوم کی اشاعت میں بھی دیا تھانہ
احمدیوں کو یہ دیا کہ اول تو ہماری جماعت ایک مذہبی جماعت ہے رگو مسیحیوں کی انجمن کو کمیشن نے اپنے خیالات کے اظہار کی دعوت دی ہے) دوسرے جہانتک سیاسیات کا تعلق ہے جو حال دوسرے مسلمانوں کا ہوگا وہی ہارا ہو گا.تیسرے ہم ایک چھوٹی اقلیت ہیں اور پارلیمنٹری وفد اس وقت اُن سے بات کر رہا ہے جو سہندوستان کے مستقبل کو بنایا بگاڑ سکتے ہیں.دنیوی نقطہ نگاہ سے ہم ان جماعتوں میں سے نہیں ہیں.اس لئے باوجود اس امر کے کہ جنگی سرگرمیوں کے لحاظ سے اپنی نسبت آبادی کے مد نظر نیم تمام دوسری جماعتوں سے زیادہ قربانی کرتے والے تھے کمیشن کے نقطہ نگاہ سے ہمیں کوئی اہمیت حاصل نہیں چوتھے یہ کہ خواہ کمیشن کے سامنے ہمارے آدمی پیش ہوں یا نہ ہوں ہم اپنے خیالات تحریر کے ذریعہ سے ہر وقت پیش کر سکتے ہیں.سو جواب کے آخری حصہ کے مطابق میں چند باتیں پہلی قسط کے طور پر پارلیمنٹری وفد اور سہندوستان کے نمائندوں سے کہنا چاہتا ہوں.وفد کے ممبران کو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ دُنیا کا فساد سب سے زیادہ اس امر سے ترقی کر رہا ہے کہ حکومتیں اخلاقی اصول کی پیروی سیاسیات میں ضروری نہیں بھتیں.حالانکہ سیاست افراد کو تسلی دینے کے لئے ہرتی جاتی ہے اور افراد جو اخلاق کی بناء پر سوچنے اور غور کرنے کے عادی ہیں جب ایک فیصلہ ایسا دیکھتے ہیں کہ جس کی بنیاد عام جانے بوجھے ہوئے اخلاقی نظریات کے خلاف ہوتی ہے تو وہ اس سے تسلی نہیں پاتے اور اُن کے دل کی خلش انہیں شورش اور فساد پر آمادہ کر دیتی ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ قومی امیدوں اور امنگوں کے پورا نہ ہونے پر بھی شورش ہوتی ہے لیکن وہ شورش دیہ پا نہیں ہوتی اور اس کا ازالہ کرنا ممکن ہوتا ہے لیکن اخلاقی اصول کے خلاف کیا گیا فیصلہ سینکڑوں اور ہزاروں سال تک فساد اور بے چینی کو لمبا کئے جاتا ہے.پس انہیں چاہیئے کہ ہندوستان کی الجھنوں کا حل صرف سیاست کی مدد سے کرنے کی کوشش نہ کریں بلکہ اخلاق کے اصول کے مطابق اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کریں تا اگر اس محل سے کوئی فساد پیدا ہو تو وہ دیر پا نہ ہو.دوسرے اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاسی وعدے حالات کے بدلنے سے بدل سکتے ہیں.مثلاً ایک گورنمنٹ سے کسی دوسری گورنمنٹ کا کوئی معاہدہ ہو، لیکن بعد میں اس ملک کی اکثریت اپنی گورنمنٹ کے خلاف ہو جائے تو معاہد حکومت یقینا پابند نہیں کہ اول الذکر حکومت کا ان حالات میں بھی ساتھ دے کیونکہ معاہدہ اس امر کی فرضیت پر مبنی تھا کہ وہ حکومت اپنے ملک کی نمائندہ ہے جب وہ نمائندہ نو ر ہے تو معاہد حکومت
۳۰۳ کا حق ہے کہ اپنے سابق معاہدہ کو تبدیل کر دے جیسا کہ پولینڈ کی حکومت کے بارہ میں انگلستان نے کیا راس امر کو یکی نظر انداز کرتا ہوں کہ انگلستان نے پوری تحقیق اس امر کی کر لی تھی کہ نہیں کہ پولینڈ کی اکثریت سابق حکومت کے ساتھ ہے یا خاص حالات پیدا کر کے اس سے خلاف رائے لے لی گئی ہے، لیکن اگر حالات وہی ہوں جیسے کہ پہلے تھے تو پر یہ کہ کہ سابق وعدہ کو نظر انداز کر دیا کہ حالات بدلنے پر وعدے بھی بدل سکتے ہیں اخلاق کے خلاف ہو گا حکومت انگریزی کو اپنے سابق وعدوں میں کسی تبدیلی سے پہلے یہ ثابت کرنا چاہیے کہ وہ کون سے حالات تھے جن میں کوئی وعدہ انہوں نے کیا تھا اور اب کون سے نئے حالات پیدا ہو گئے ہیں جن کا طبعی نتیجہ وعدہ کی تبدیلی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے جب تک وہ ایسا نہ کریں ان کا یہ کہہ دیتا کہ اب حالات بدل گئے ہیں صرف متعلقہ جماعت کے دنوں میں شکوک اور جائزہ شکوک پیدا کرنے کا موجب ہوگا.اخلاق کی طاقت یقیناً انگلستان اور ہندوستان بلکہ تمام دنیا کی مجموعی طاقت سے بھی زیادہ ہے.پس اگر حقیقت حالات نہ بدلے ہوں تو گول مول الفاظ استعمال کرنے کی بجائے پارلیمنٹری وفد کو اعلان کرنا چاہئیے کہ ہم سے پہلی حکومت بد دیانتی سے ہندوستانیوں کو لڑوانے کے لئے بعض اقوام سے کچھ وعدے کہ چکی ہے جو ہم برسر اقتدار ہونے کے بعد پورا کرنے کے لئے تیار نہیں لیکن یہ درست نہیں کہ وہ ایک ہی سانس میں پہلی حکومت کی دیانت کا بھی اظہار کرے اور اس کے وعدوں کو یہ کہو کہ توڑ بھی دے کہ بدلے ہوئے حالات میں وحدسے بھی بدل جاتے ہیں.دان فکر مین حالات میں وہ وعدے کئے گئے تھے وہ بالکل نہ بدلے ہوں ، عوام الناس فقروں میں آجاتے ہیں.لیکن عقلمند لوگ صرف فقروں سے دھوکا نہیں کھاتے.تعمیری بات میں مشن کے ممبروں سے یہ کہتی چاہتا ہوں کہ کوئی ایسی حالت پیدا کر دینا جس کے نتیجہیں ایک اقلیت اپنے حقوق لینے سے محروم رہ بجائے خود انگلستان کو ہی مجرم بنائے گا.انگلستان یہ کہ کر بچ نہیں سکتا کہ اس نے یہ نتیجہ پیدا نہیں کیا.نتائج کی ذمہ داری ذرائع کے پیدا کرنے والے پر ہی ہوا کرتی ہے.چوتھی بات کمشن کے ممبروں سے میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ اگر وہ انصاف کو قائم رکھیں گے تو یقینا ہند وسلم سمجھوتہ کرانے میں کامیاب ہو سکیں گے.ہمیں اس امر کا قائل نہیں کہ انگلستان کا بنایا ہوا ہندوستان اصل سہندوستان ہے لیکن میں اس امر کا بھی انکار نہیں کر سکتا کہ ہندوستان میں جس قدر استحاد بھی باہمی سمجھوتہ سے ہو سکے ، وہ یقیناً ہندوستان اور دوسری دنیا کے لئے مفید ہوگا.میں برٹش ایمپائی کے اصول کا دیر سینہ مداح ہوں.میرے نزدیک برطانوی اسپائمہ کا اصول اس وقت تک کی قائم کردہ انٹرنیشنل لیگ یا یو.این اے سے بدرجہا بہتر
۳۰ ہے.اس کی اصلاح کی تو ضرورت ہے لیکن اس کے حصہ دار بننے کا نام غلامی رکھنا ایک بند باقی مظاہرہ تو کہلا سکتا ہے، حقیقت نہیں کہلا سکتا.مگر بہر حال ہندوستان کے مختلف حصوں کا باہمی تعاون اور سہندوستان کا برطانوی امپائر سے تعاون باہمی سمجھوتے پر مبنی ہونا چاہیے.پانچویں ہر سیاسی اصل ضروری نہیں کہ ہر جگہ اپنی تمام شقوں کے ساتھ چسپاں ہو سکے.میرا تجربہ ہے کہ انگلستان کے اکثر مرتبہ اپنے ملک کے تجربہ کو ہندوستان پر بھونناچاہتے ہیں.بہندوستان کے حالات یقیناً انگلستان سے مختلف ہیں.یہاں آزادی کا بھی اور مفہوم ہے اور انصاف کا بھی اور مفہوم ہے.مجھے ایک صاح نے بتایا کہ جب انہوں نے مسٹر گاندھی سے سوال کیا کہ کیا آزاد ہندوستان میں مذہب کی تبدیلی کی اجازت ہوگی.تو انہوں نے جواب دیا کہ مذہب کی آزادی ضرور ہوگی مگر مذہب کی تبدیلی ایک سیاسی مسئلہ ہے.اس بارہ میں حکومت مناسب رویہ اختیار کر سکتی ہے.میرے نزدیک یہ نظریہ آزادی کے صریح خلات ہے.میں نے اس امر کی تحقیق کے لئے جماعت احمدیہ کے مرکزی عہدہ داروں سے کہا کہ وہ کانگریس سے اس کا نقطہ نگاہ دریافت کریں.مجھے بتایا گیا ہے کہ جماعت کے سکوڈی نے اس بارہ میں جو چھٹی لکھی اس کا جواب کا نگریس کے سیکٹری نے نہیں دیا.پھر رجسٹری خط گیا.اس کا بھی جواب نہیں دیا.اس پر تعمیر اخطار جبڑی کر کے ارسال کیا گیا مگر اس کا جواب بھی نہ دیا گیا.تب تار دی گئی کہ اگر اب بھی جواب نہ دیا گیا تو معاملہ مسٹر گاندھی کے سامنے رکھا جاتا اس پر کانگریس کے سیکرٹری نے جواب دیا کہ مسٹر بوس کو افسوس ہے کہ اب تک جواب نہیں دیا گیا ( اس وقت سبھاش چندر بوس کانگرس کے پریزیڈنٹ تھے ) اب جواب بھیجوایا جا رہا ہے.یہ جواب جب موصول ہوا تو اس میں یہ لکھا تھا کہ آپ کو کانگرس کے کراچی ریز لیوشن نمبر فلاں کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے جب لکھا گیا کہ اس ریزولیوشن کی تعبیر کے متعلق تو ہمارا سوال ہے.تو اس کا یہ جواب دیا گیا کہ کانگریس ہی اپنے ریزولیوشن کی تعبیر کر سکتی ہے جب اس پر کہا گیا کہ کانگرس سے تو اس کے عہدہ دارہی پوچھ سکتے ہیں.ہمارے پاس کو نسا ذریعہ ہے.تو اس پر جواب دیا گیا کہ ہم نہیں پوچھ سکتے ، آپ ہی دریافت کریں.اس واقعہ نے ثابت کر دیا کہ کانگروس کے نزدیک آزادی کا مفہوم یورپ کے زمانہ وسطیٰ والا ہے جیسے مسلمان کسی صورت میں تسلیم نہیں کر سکتے.چنانچہ گھلا اس کا یہ نمونہ موجود ہے کہ ہندو ریاستوں میں ایک ہندو اگر مسلمان ہو جائے، تو اول بغیر مجسٹریٹ کی اجازت کے وہ ایسا نہیں کر سکتا.دوم اُسے اپنے وراثہ سے محروم کر دیا جاتا ہے.کانگریس سے جو ہماری گفت و شنید ہوئی ہے اس نے ریاستوں کے اس رویہ پر مہر تصدیق 18 دی ہے.غرض صرف ڈیمو کریسی کے لفظ پر نہیں جاتا
۳۰۵ چاہیئے.یہ بھی دیکھنا چاہیئے کہ ڈیمو کریسی کا مفہوم کسی قوم میں کیا ہے.اس وقت روس مغربی حکومتوں کے حالات بار بار یہ اعلان کر رہا ہے کہ مغربی ممالک کے ری ایکشنری لوگ ہمارے مغلات یونان اور ایران اور چین کی تائید کے نام سے غلط فضا پیدا کر رہے ہیں لیکن کیا صرف ری ایکشتری کے لفظ کے استعمال کی وجہ سے انکاری اور امریکہ کے لوگ اپنی منصفانہ پالیسی چھوڑ دیں گے.اگر نہیں تو صرف ڈیمو کریسی کے لفظ کے استعمال سے بھی اُن کی تسلی نہیں ہو جانی چاہیئے.میں مسلمانوں کے نمائندوں کو یہ مشورہ دیتا ہوں کہ ہندوستان ہمارا بھی اسی طرح ہے جس طرح ہندو دیں کا ہمیں بعض زیادتی کرنے والوں کی وجہ سے اپنے ملک کو کمزور کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیئے.اس ملک کی عظمت کے قیام میں ہمارا بہت کچھ حصہ ہے.ہندوستان کی خدمت ہندوؤں نے تو انگریزی زمانہ میں انگریزوں کی مدد سے کی ہے.لیکن ہم نے اس ملک کی ترقی کے لئے آٹھ سو سال تک کوشش کی ہے.پشاور سے لے کر منی پور تک اور ہمالیہ سے لے کو مدد اس تک ان محبانِ وطن کی لاشیں ملتی ہیں جنہوں نے اس ملک کی ترقی کے لئے اپنی عمریں خراج کر دی تھیں.ہر علاقہ میں اسلامی آثار پائے جاتے ہیں.کیا ہم ان سب کو خیر باد کہہ دیں گے کیا ان کے باوجود ہم ہندوستان کو سہندوؤں کا کہہ سکتے ہیں.یقیناً ہندوستان ہندوؤں سے ہمارا زیادہ ہے قدیم آریہ ورت کے نشانوں سے بہت زیادہ اسلامی آثار اس ملک میں ملتے ہیں.اس ملک کے مالیہ کا نظام، اس ملک کا پنچائتی نظام ، اس ملک کے ذرائع آمد و رفت سب ہی تو اسلامی حکومتوں کے آثار میں سے ہیں.پھر ہم اُسے غیر کیونکر کہ سکتے ہیں.کیا سپین میں سے نکل جانے کی وجہ سے ہم اُسے بھول گئے ہیں ہم یقیناً اُسے نہیں بھوٹے ہم یقیناً ایک دفعہ پھر سپین کو لیں گے.اسی طرح ہم ہندوستان کو نہیں چھوڑ سکتے.یہ ملک ہمارا مہندوؤں سے زیادہ ہے.ہماری شستی اور غفلت سے عارضی طور پر یہ ملک ہمارے ہاتھ سے گیا ہے.ہماری تلواریں جس مقام پر جا کر کند ہوگئیں.وہاں سے ہماری زبانوں کا حملہ شروع ہوگا.اور اسلام کے خوبصورت اصول کو پیش کر کے ہم اپنے ہندو بھائیوں کو خود اپنا جز د بنا ئیں گے.مگر اس کے لئے ہمیں راستہ کو بھگا لکھنا چاہئے.ہمیں ہرگز وہ باتیں قبول نہیں کرنی چاہئیں جن میں اسلام اور مسلمانوں کی موت ہو.مگر ہمیں وہ طریق بھی اختیار نہیں کرنا چاہیئے جس سے ہندوستان میں اسلام کی حیات کا دروازہ بند ہو جائے.میرا یقین ہے کہ ہم ایک ایسا منصفانہ طریق اختیار کر سکتے ہیں.صرف ہمیں اپنے جذبات کو قابو میں رکھنا چاہئیے.اسلام نے انصاف اور اخلاق پر سیاسیات کی بنیاد رکھ کر سیاست کی سطح کو بہت
اُونچا کر دیا ہے.کیا ہم اس سطح پر کھڑے ہو کر مسلح اور محبت کی ایک دائمی بنیاد نہیں قائم کر سکتے.کیا ہم کچھ دیہ کے لئے جذباتی نعروں کی دُنیا سے الگ ہو کر حقیقت کی دُنیا میں قدم نہیں رکھ سکتے تا ہماری دنیا بھی درست ہو جائے اور دوسروں کی دنیا بھی درست ہو جائے.یکن مسلمانوں سے یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ یہ وقت اتحاد کا ہے.جس طرح بھی ہو اپنے اختلافات کو میٹا کر مسلمانوں کی اکثریت کی تائید کریں اور اکثریت اپنے لیڈر کا ساتھ دے اس وقت تک کہ یہ معلوم ہو کہ اب کوئی صورت سمجھوتہ کی باقی نہیں رہی اور اب آزادانہ رائے دینے کا وقت آگیا ہے.مگر اس معاملہ میں جلدی نہ کی بجائے تا کامیابی کے قریب پہنچ کرناکامی کی صورت نہ پیدا ہو جائے.میں ہندو بھائیوں سے اور خصوصاً کانگریس والوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ اگر کانگریس کے لئے مسٹر گاندھی نے اور کچھ بھی نہ کیا ہو تو بھی انہوں نے اس پر یہ احسان ضرور کیا ہے کہ اُسے اس اصل کی طرف ضرور توجہ دلائی ہے کہ ہمارے فصیلوں کی بنیاد اخلاق پر ہونی چاہیئے تفصیل میں مجھے خواہ اُن سے اختلاف ہو مگر اصول میں مجھے ان سے اختلاف نہیں.کیونکہ میرے آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اصل کو جاری کیا ہے.آپ لوگوں کو غور کرنا چاہئیے کہ ایک طرف تو آپ لوگ عدم تشدد کے قائل ہیں.دوسری طرف مسلمانوں کے مقابل پر اپنے مطالبات پورے نہ ہونے کی صورت میں بعض لیڈر دھمکیاں بھی دے رہے ہیں.میں نے آج ہی ایک کانگریسی لیڈر کا اعلان پڑھا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ کوئی اسے اچھا سمجھے یا ئیا ، اس کے نتیجہ میں ملک میں شدید فساد پیدا ہو گا “ گر ہو کوئی بھی ملک کے موجودہ بعذ بات کو بھانتا ہے اس بات کو معلوم کر سکتا ہے کہ کوئی طاقت اس (فساد) کو روک نہیں سکتی اور ممکن ہے کہ یہ (فساد ) ایک ایسی شکل اختیار کرلے جیسے ہم میں سے کوئی بھی روک نہ سکے" اس لیڈر نے اس کا بھی ذکر کیا ہے کہ مسٹر جناح نے بھی خون خرابہ کی دھمکی دی ہے.یہ درست ہے.مگر مسٹر جناح نے غلطی کی یا درست کام کیا ، وہ عدم تشدد کے قائل نہیں.ان پر یہ الزام نہیں لگ سکتا کہ وہ کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں.مگر کانگرس جو عدم تشدد کی قائل ہے اگر اس کا ایک لیڈر ایسی بات کرتا ہے تو وہ یقینا دو باتوں میں سے ایک کو ثابت کرتا ہے.یا تو اس امرکو کہ کانگریس کی عدم تشدد کی پالیسی صرفت
اس لئے تھی کہ جب وہ بھاری کی گئی کانگریس کمزور تھی.اس لئے اس پالیسی کے اعلان کے ذریعہ دنیا پر یہ اثر ڈالنا مقصود تھا کہ ہم تو عدم تشدد کرنے والے ہیں.ہماری گرفتاریاں کر کے برطانیہ ظلم کر رہا ہے یا ہندوستانی گورنمنٹ کی آنکھوں میں سخاک ڈالنا مقصود تھا کہ ہم تو عدم تشدد کے بڑے حامی ہیں.ہمیں اپنا کام کرتے دیں.ہم آپ کی حکومت کے لئے مشکلات پیدا نہیں کرتے یا پھر اس اعلان کے یہ معنے ہیں کہ پبلک پر اشمر کا دعوی کرنے میں کانگریس حقیقت کے خلاف جاتی ہے کیونکہ ہر قوم میں سے کچھ لوگ اپنے لیڈروں کے خلاف ضرور بھا سکتے ہیں لیکن قوم کا اتنا حصہ لیڈروں کے خلاف نہیں جا سکتا جو ملک کے حالات کو قابو سے باہر گردے.یہ اسی وقت ہوتا ہے جبکہ لیڈر لیڈ ر ہی نہ ہو اور اپنے اثر اور قبضہ کا جھوٹا دعوی کرتا ہو کانگریس کے لیڈروں کو اس موقعہ پر بہت ہوشیاری سے کام کرنا چاہیے ورنہ انہیں یا د رہے کہ سیاسی حالات یکساں نہیں رہتے.اس قسم کے بیج کبھی نہایت تلخ پھل بھی پیدا کر دیا کرتے ہیں.کیونکہ خواہ وہ مانیں یا نہ مانیں اس دنیا کا پیدا کرنے والا ایک خدا ہے اور وہ تعداد میں زیادہ ، مال میں زیادہ حکومت میں طاقتور قوم کو تھوڑی ہے اور کمزور لوگوں پر فلم نہیں کرنے دے گا.اسلام ہر حالت میں زندہ رہے گا خواہ مسلمانوں کی غلطیوں کی وجہ سے عارضی طور پر تکلیف اٹھا لے.ایک اور بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے جیسا کہ اوپر لکھ چکا ہوں.میں اس بات کے حق میں ہوں کہ ہو سکے تو ا ہی سمجھوتے سے ہم لوگ اسی طرح اکٹھے رہیں جس طرح کئی سو سال سے اکٹھے چلے آتے ہیں لیکن فرض کر و مسلمان کلی طور پر باقی ہندوستان سے انقطاع کا فیصلہ کریں اور برطانیہ انہیں مجبور کر کے باقی ہندوستان سے ملا دے اور جیسا کہ مسٹر جناح نے کہا ہے مسلمان بزور اس فیصلہ کا مقابلہ کریں تو یقیناً وہ قانونا باقی نہیں کہلا سکتے.کیونکہ یہ ایک نیا انتظام ہوگا اورنئی گورنمنٹ سابق گورنمنٹ کو کوئی حق نہیں کہ وہ سلمانو کو جو اس ملک کے اصل حاکم تھے.دوسروں کے ماتحت ان کی مرضی کے خلاف کو دے.اس حکومتی رد و بدل کے وقت ہر حصہ ملک کو نیا فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے اور اپنے حق کو بزور لینے کا فیصلہ کرتے وقت انٹر نیشنل قانون کے مطابق ہرگز باغی نہیں کہلا سکتے.مگر کیا ہندوؤں کو بھی قانون کا تحفظ حاصل ہے.وہ کب اس مشکل میں مسلم صوبوں کے حاکم ہوئے تھے کہ انہیں دستور قدیمیہ کو قائم رکھنے کا قانونی حق حاصل ہو حکومتوں کے بدلنے پر ٹیٹ کا کوئی سوال ہی نہیں رہتا.پس مسلمان خدا نخواستہ اگر ایسا کرنے پر مجبور ہوں تو قانونی لحاظ سے وہ بائنہ کام کریں گے.ہندو اگر چھیڑا ان کو اپنے ماتحت لانا چاہیں تو قانونی لحاظ سے وہ ظالم ہوں گے.اگر
۳۰۸ انگریز مسلمانوں کو ان کی مرضی کے خلاف بقیہ ہندوستان سے ملا دیں تو وہ بھی ظالم ہوں گے.کیونکہ مسلمان بھیڑ بکریاں نہیں کہ انگریز جس طرح چاہیں اُن سے سلوک کریں.پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ اس مشکل کو محبت سے سلجھانے کی کوشش کی جائے.زور اور خود ساختہ قانون سے نہیں.لیکن ہندوؤں کو یقین دلاتا ہوں کہ میرا دل ان کے ساتھ ہے ان معنوں میں کہ میں چاہتا ہوں کہ ستند و مسلمانوں میں آزادانہ سمجھوتہ ہو جائے اور یہ سوتیلے بھائی اس ملک میں سگے بن کر رہیں..ئیں اور پر لکھ چکا ہوں کہ میں اس امر کے حق میں ہوں کہ جس طرح ہو ہندوستان کے متحد رکھنے کی کوشش کی بجائے خواہ ہماری جدائی اصلی جدائی نہ ہو بلکہ بھائی اتحاد کا پیش خیمہ ہو.مگر میں اپنے مہندو بھائیوں سے یہ بھی ضرور کہوں گا کہ غلط دلائل کی حقیقت کو ثابت نہیں کر سکتے بلکہ بہت دفعہ حقیقت کو اور بھی مشتبہ کر دیتے ہیں.بھلا یہ بھی کوئی دلیل ہے کہ پنجاب سندھ وغیرہ صوبوں کے الگ ہو جانے سے ہندوستان کا ڈیفینس کمزور ہو جائے گا.کینیڈا کے الگ ہو جانے سے کیا یونائیٹڈ سٹیٹس کا ڈیفنس کمزور ہو گیا ہے ، میکسیکو کی آزادی سے کیا یونائیٹڈ سٹیٹس کا ڈیفنس کمزور ہو گیا ہے ؟ ارجنٹائن کے الگ ہونے سے کیا برازیل کا ڈیفنس کمزور ہو گیا ہے ؟ اگر مسلم منصوبے الگ بھی ہو جائیں تو باقی ہندوستان کا کیا بگڑا سنگتا ہے.اس وقت بھی ہندوستان کی آبادی روس سے قریباً دوگنی ، یونائیٹڈ سٹیٹس سے قریباً اڑھائی گئی ، سابق جرمنی سے قریباً چار گنی ہوگی اور ملک کی وسعت بھی کافی ہوگی.ایک طرف تو یہ کہا جاتا ہے کہ مسلم مو بے الگ ہو کو ترقی نہیں کر سکیں گے.دوسری طرف یہ کہا جاتا ہے کہ ان کے الگ ہو جانے سے ہندوستان اپنی عظمت کھو بیٹھے گا.اگر ہندوستان کی عظمت اسلامی صوبوں سے ہے تو اُن کے الگ ہونے پر اسلامی صوبوں کو نقصان کیو نکر پہنچے گا.یہ تو وہی دلیل ہے جو روس اس وقت پولینڈ ، رومانیہ ، بلغاریہ ، ترکی اور ایران کے بعض صوبوں پر قبضہ کرنے کی تائید میں دیتا ہے.روس اپنی تمام طاقت کے ساتھ تو جرمنی اور اٹلی کے حملہ سے جو تباہ شدہ ملک ہیں نہیں بچا سکتا.نہ افغانستان اور جنوبی ایران جیسے زبردست ملکوں کے حملوں سے بچ سکتا ہے.اس کے بچنے کی صرف یہی صورت ہے کہ پولینڈ اور رومانیہ اور بلغاریہ اس کے زیر تصرف ہو بھائیں یا ترکی کے بعض صوبے اور ایران کا شمالی حصہ اُسے مل جائے.کیا یہ دلیل ہے ؟ کیا ایسی ہی دلیلوں سے ہند وسلمانوں کے دلوں میں اعتبار پیدا کر سکتے ہیں.میں پھر کہتا ہوں کہ اس نازک موقعہ پر اخلاق پر اپنے دعووں کی بنیاد رکھیں بھلا اس قسم کے دعووں سے کہ مسلم لیگ مسلم رائے کی نمائندہ نہیں کیونکہ اس کے منتخب ممبر جو کو نسلوں
میں آئے اکثر بڑے زمیندار ہیں.کیا بنتا ہے.کیا عوام الناس کو یہ اختیار نہیں کہ وہ بڑے زمیندار کو اپنا نمائندہ مقرر کریں.اس دلیل سے تو صرف یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ پنڈت نہرو صاحب کے نزدیک جنہوں نے یہ امر پیش کیا ہے مسلمان اپنا نمائندہ چھپنے کے اہل نہیں.اگر اُن کا یہ خیال ہے تو دیانت داری کا تقاضا یہ ہے کہ وہ یوں کہیں کہ مسلمان چونکہ اپنے نمائندے چھننے کے اہل نہیں اس لئے موجودہ ملکی فیصلہ میں اُن سے رائے نہیں لینی چاہئیے.اگر وہ ایسا کہیں تو خواہ یہ بات غلط ہو یا درست مگر منطقی ضرور ہوگی.مگر یہ کہنا کہ مسلمانوں نے چونکہ اپنا نمائندہ چند بڑے زمینداروں کو چنا ہے اس لئے وہ لوگ موجودہ سوال کو حل کرنے کے لئے مسلمانوں کے نمائندے نہیں کہلا سکتے ایک ایسی غیر منطقی بات ہے کہ پنڈت نہرو جیسے آدمی سے اس کی امید نہیں کی جاسکتی.اگر اُن کا یہ مطلب نہیں تو انہوں نے اس امر کا ذکر اس موقعہ پر گیا کیوں تھا.در حقیقت ان کا یہ اعتراض ویسا ہی ہے جیسا کہ بعض مسلمان کہتے ہیں کہ مسٹر گاندھی عموماً مسٹر بولا کے مکان پر کیوں ٹھہرتے ہیں.یقینا مسٹر گاندھی کو مسٹر بہ لا کے مکان پر ٹھہرنے کا پورا حق ہے کیونکہ وہاں اُن سے ملنے والوں کے لئے سہولتیں میسر ہیں.اُن کے وہاں ٹھہرنے سے ہر گز یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ مالداران کے قبضہ میں ہیں.اسی طرح مسلم لیگ کے امیدوار اگر بڑے زمیندار ہوں اور مسلم پبلک ان کو منتخب کر لے تو اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ وہ لوگ مسلمانوں کے نمائندے نہیں ہیں.اگر کوئی شخص اپنے لئے غلط قسم کا نمائنده چنتا ہے تو وہ اپنے کئے کی سزا خود بھگتے گا، دوسرے کسی شخص کو اس کے نمائندہ کی نمائندگی میں شہید کرنے کا حق نہیں.یہ باتیں صرف لڑائی جھگڑے کو بڑھانے کا موجب ہوتی ہیں اور کوئی فائدہ ان سے حاصل نہیں ہوتا.پھر یہ بات ہے بھی تو غلط کہ مسلم لیگ کے اکثر نمائندے بڑے زمیندار ہیں.پنجاب ہی کو لے لو اس میں 4 مبر اس وقت مسلم لیگ کے نمائندے ہیں اور کچھ یونینسٹ پارٹی کے جن سے کانگرس نے سمجھوتہ کیا ہے.یونینسٹ پارٹی کے چھ ممبروں میں سے ملک سر خضر حیات ، ملک سمرالہ بخش اور نواب مظفر علی بڑے زمیندار ہیں.گویا پچاس فیصد کی ممبر بٹے زمیندار ہیں.دوسرے تین کو میں ذاتی طور پر نہیں بھانتا ممکن ہے ان میں سے بھی کوئی بڑا زمیندار ہو.اس کے مقابل پر مسلم لیگ کے 9 مبروں میں سے صرف چار بڑے زمیندار ہیں یعنی نواب صاحب ممدوٹ ، نواب صاحب لغاری ، مسٹر ممتانه دولتانہ اور مسٹر احمد یار دولتانہ.دو اور میں جو میرے علم میں بڑے زمیندار نہیں.مگر شاید انہیں بڑے زمینداروں میں شامل کیا جا سکتا ہو
٣١٠ وہ سر فیروزمنان اور میجر عاشق حسین ہیں.اگر ان کو بھی بڑے زمینداروں میں شامل کر لیا جائے تو یو شینیٹ پارٹی جو کانگریس کی حلیف ہے اس کے ممبروں میں سے پچاس فیصدی بڑے زمینداروں کے مقابلہ پر لیگ کے 19 میں سے کچھ بڑے زمیندار صرف ساڑھے سات فیصدی ہوتے ہیں.اور کیا یہ نسبت اس بات کا ثبوت کہلا سکتی ہے کہ کوئی پارٹی بڑے زمینداروں کی پارٹی ہے.بڑے زمینداروں کا طعنہ مدت سے کانگریس کی طرف سے مسلمانوں کو دیا جاتا ہے.حالانکہ بڑا خواہ زمیندار ہو یا تاجر، اگر وہ بوئے معنوں میں بڑا ہے تو ہر شکل میں کیا ہے.لیکن اگر وہ اپنے حلقہ کا نمائندہ ہے تو جب تک ملک کا قانون اس کی دولت اس کے پاس رہنے دیتا ہے اور جب تک کہ اس کا حلقہ اس کا انتخاب کرتا ہے وہ نمائندگی میں کسی دوسرے سے کم نہیں پنجاب میں گورنمنٹ رپورٹ کے مطابق صرت نیرو زمیندار ایسے ہیں جو آٹھ ہزار سے زیادہ ریونیو دیتے ہیں ریعنی جن کی آمد رائج الوقت مالگذاری کے اصول کے مطابق سولہ ہزار سالانہ سے زائد ہے.اس سے کم آمد ہرگز کسی کو بڑا زمیندار نہیں بنا سکتی.بلکہ یہ آمد بھی بڑی نہیں کہلا سکتی.اتنی آمد تو معمولی معمولی دوکانداروں کی بھی ہوتی ہے گو وہ ٹیکس سے بچنے کے لئے ظاہر کریں یا نہ کریں.زمیندار کا صرف یہی قصور ہے کہ وہ اپنی حیثیت ظاہر کرنے پر مجبور ہے، اُن میں غائب کچھ غیر مسلم بھی ہوں گے.اگر سب مسلمان ہی ہوں تو بھی یہ کوئی بڑی تعداد نہیں.اور جب یہ دیکھا جائے کہ یہ لوگ جس قدر ریونیو ادا کرتے ہیں وہ پنجاب کے گل ریونیو کے سویں حصہ سے بھی کم ہے تو صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ پنجاب کی اکثر زمین پھوٹے زمینداروں کے پاس ہے بڑے زمینداروں کے پاس نہیں ہے.بڑا زمیندار صرف یو پی اور بنگال میں ہے.لیکن وہاں کے بڑے زمینداروں میں اکثریت ہندوؤں کی ہے جن میں سے اکثر کانگرس کی تائید میں ہیں ، مگر اس کے بھی یہ معنے نہیں کہ ہندو اکثریت کانگرس کے ساتھ نہیں اور زمینداروں کے ساتھ شامل ہوتے ہوئے بھی کانگرس کی نمائندگی پر کوئی حرف نہیں آتا.ایک نصیحت میں کانگریس کو خصوصاً اور عام ہندوؤں کو عموماً یہ کرنا چاہتا ہوں کہ شیخ مذہب اور تبدیلی مذہب کے متعلق وہ اپنا رویہ ہوتی ہیں.مذہب کے معاملہ میں دست اندازی کبھی نیک نتیجہ پیدا نہیں کر سکتی.وہ مذہب کو سیاست میں بدل کر کبھی چین نہیں پاسکتے.تبلیغ مذہب اور مذہب بدلنے کی آزادی انہیں ہندوستان کے اساس میں شامل کرنی چاہئیے اور اس طرح اس تنگ ظرفی کا خاتمہ کر دینا چا ہیئے جو اُن کی سیاست پر ایک داغ ہے اور اس تنگی کو کوئی آزاد شخص بھی برداشت نہیں کر سکتا جب تک
۳۱۱ ملک کی ذہنیت غلامانہ ہے ایسی باتیں چل جائیں گی.لیکن جب حریت کی ہوا لوگوں کو لگی ایسے غلط نظریوں کے خلاف نفرت کے جذبات بھڑک اٹھیں گے تبدیلی تو ہو کر رہے گی لیکن جو لوگ اس تنگ ظرفی کے ذمہ دار ہوں گے وہ ہمیشہ کے لئے اپنی اولادوں کی نظروں میں ذلیل ہو جائیں گے.وہ فطرت کے اس تقاضا کو اس حقیقت سے سمجھ بھی سکتے ہیں کہ بادشاہ اورنگ زیب کو سب سے زیادہ بدنام کرنے والا وہ غلط الزام ہے کہ اس نے مذہب میں دست اندازی کی.ان کا یہ خیال کہ ہم دوسرے کا مذہب بدلوانے پر زور نہیں دیتے ایک غلط خیال ہوگا کیونکہ بدھ ، کرشن ، عیسی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت کے لوگ بھی دوسرے کا مذہب نہیں بدلواتے تھے.اُن کو تبلیغ سے اور اپنے ہم مذہبوں کو مذہب تبدیل کرنے سے روکتے تھے اور تبلیغ کرنے والوں ، مذہب تبدیل کرنے والوں کو سزائیں دیتے تھے.اگر ایسا ہی ارادہ آپ لوگوں نے کیا تو اسی لعنت کے آپ حصہ دار ہوں گے جس لعنت کا بوجھ ان پہلوں پر پڑ چکا ہے.خلاصہ یہ کہ یہ وقت ایسا نہیں کہ غلط اور سنی سنائی باتوں کو لے کر پبلک میں ہیجان پیدا کیا جائے یا پارلیمینٹری میشن پر اثر ڈالنے کی کوشیش کی جائے.کوئی خدا کو مانے یا نہ مانے مگر فطرت صحیحہ کی مخالفت کہ بھی اچھا نتیجہ پیدا نہیں کرتی.یہ وقت سنجیدگی سے اس امر پر غور کرنے کا ہے کہ کس طرح ہمارا ملک آزاد ہو سکتا ہے.اور کس طرح ہر قوم خوش رہ سکتی ہے.اگر ایسا نہ ہوا تو ہم صرف قید خانہ بدلنے والے ہوں گے.میں نے اس مخلصانہ مشورہ میں صرف اشارات سے کام لیا ہے.اگر مجھے مزید وضاحت کی ضرورت ہوئی تو ملامت کرنے والوں کی سلامت سے بے پروا ہو کر میں انشاء اللہ اپنا مخلصانہ مشوره میشن یا پبلک کے اس حصہ کے آگے پیش کروں گا جو سننے کے لئے کان اور سوچنے کے لئے دماغ رکھتا ہے.اللہ تعالے سے بڑھا ہے کہ وہ پارلیمینٹری وفد کو بھی اور ہندو ، مسلمان اور دوسری اقوام کے نمائندوں کو بھی صحیح راستہ پر چلنے کی توفیق بخشے.آمین.خاکسار مرزا محمود احمد امام جماعت احمدیہ قادیان ه پارلیمنٹری مشن اور مسل لیگی اور کانگریسی لیڈروں کی ہی بحث و عارضی سکون کے قیام کا الان کا تخصیص اور گفت و شنید تقریباً دو ماہ تک جاری رہی مگر اب بھی کوئی " - الفضل " در شہادت اپریل بیش صفحه اتا و
۳۱۳ مفاہمت نہ ہوسکی میں پر پارلیمنٹری میشن نے وائسرائے سے مشورہ کے بعد ۱۶ جون ۱۹۸۶ء کو ملک میں عارضی حکومت سے متعلق مندرجہ ذیل اعلان شائع کیا :- کچھ عرصہ سے ہز ایکسیلنسی وائسرائے وزارتی مشن کے ارکان کے مشورہ سے ایک انیسی حکومت مشترکہ کی تشکیل کے امکانات تلاش کر رہے تھے جوبڑی جماعتوں اور بعض اقلیتوں کے نمائندوں مشتمل ہو.ایسی حکومت کی تشکیل میں دونوں بڑی جماعتوں کے باہمی سمجھوتہ میں جو دشواریاں تھیں وہ گفت و شنید میں ظاہر ہوئیں.(۲) وائسرائے اور وزارتی مشن کو ان دشواریوں اور وقتوں کا احساس ہے اور ان کو ششوں کا بھی اندازہ ہے جو دونوں جماعتوں نے ان کو حل کرنے کے واسطے کیں.وائسرائے اور مشن کا خیال ہے کہ اس بحث اور گفت و شنید کو طوالت دینے سے کوئی مفید نتیجہ برآمد نہیں ہو سکتا.یہ نہایت ضروری ہے کہ ایک قومی اور نمائندہ عارضی حکومت بناد کی بجائے تا کہ نہایت ضروری اور اہم کام کئے جاسکیں.(۳) وائسرائے اس مقصد کے لئے حسب ذیل حضرات کے نام دعوت نامے جاری کر رہے ہیں کہ وہ عارضی حکومت کے ارکان کی حیثیت سے کام کریں اور ۶ ارمنی سہ کے بیان کے مطابق آئین سازی کا کام شروع کر دیں.(۱) سردار بلدیو سنگھ (۲) سر این پی انجنیر (۳) مسٹر جگجیون رام (۴) پنڈت نہرو (۵) مسٹر محمد علی جناح (۲) نواب زادہ لیاقت علیخاں (6) مسٹرایکا کے مہنا (۸) ڈاکٹر جان متھائی (4) نواب محمد اسمعیل خان (۱۰) خواجہ سر ناظم الدین (۱۱) سردار عبدالرب خال نشتر (۱۲) مسٹرسی را جگو پال اچاریہ (۱۳) ڈاکٹر را میندیر پرشاد (۱۴) سردار ولبھ بھائی پٹیل اگر ان لوگوں میں سے کوئی شخص ذاتی وجوہ کی بناء پر اس دعوت کو قبول نہ کر سکیں تو والے مشورہ کے بعد ان کی جگہ کسی دوسرے شخص کو الو کریں گے.(۴) وائسرائے شعبوں کی تقسیم دونوں بڑی جماعتوں کے مشورہ سے کریں گے.(۵) عارضی حکومت کی تشکیل کو کسی فرقہ وارانہ سوال کا حل نہ تصور کیا جائے.اس کا مقصد
صرف موجودہ دشواری کو فوری حل کرنا اور بہترین مشترکہ حکومت بنانا ہے.(4) وائسرائے اور وزار تقی میشن کو یقین ہے کہ ہندوستان کے تمام فرقے اس مسئلہ کو جلد از جلد طے کرنا چاہتے ہیں تاکہ یہ دستور سازی کا کام شروع ہو جائے اور درمیانی عرصہ میں ہندوستان کی حکومت کا نظام حتی الامکان بہترین طریقہ سے چلتا رہے.(4) اس لئے انہیں امید ہے کہ تمام جماعتیں خصوصاً دونوں بڑی جماعتیں موجودہ جمود کو دور کرنے کے خیال سے ان تجاویز کو قبول کر لیں گی اور عارضی حکومت کو کامیابی کے ساتھ پھلانے میں مدد کریں گی.اگر ان تجاویز کو قبول کر لیا گیا تو وائسرائے ۲۶ جون تک عارضی حکومت کا افتتاح کرنے کی کوشش کریں گے.(۸) اس صورت میں کہ دونوں بڑی جماعتیں یا ان میں سے کوئی مندرجہ بالا سطور پر مشترکہ حکومت کی تشکیل میں تعاون اور اشتراک کے لئے تیار نہ ہوں تو وائسرائے کا ارادہ ہے کہ ان لوگوں کے اشتراک سے جو 4 ارمیٹی کا بیان قبول کرنے کے لئے تیار ہوں ایک عارضی حکومت بنائی جائیگی اور حتی الامکان اس میں نمائندگی کا لحاظ ر کھا جائے گا.(4) وائسرائے صوبوں کے گورنروں کو بھی ہداہتیں جاری کر رہے ہیں کہ صوبائی مجالس آئین ساز کے خاص اجلاس بلائے جائیں تاکہ ۱۶ میٹی کے بیان کے مطابق دستور ساز جماعت کے لئے ضروری " انتخابات جاری کر دیئے جائیں لے مسلم لیگ کو کانگرس کار و وصل یا اور ا مسلم لیگ کو نسل قبل زمین و جوان شہ کو فیصلہ کر چکی تھی کہ دو مسلم لیگ معاملہ کے خطر ناک سوالات کو سامنے رکھتے ہوئے اور اگر ممکن ہو تو ہندوستانی دستوری مسئلہ کے پر امن حل کی خواہش سے متاثر ہو کر وزارتی میشن کی مجبور اسکیم سے اشتراک عمل پر تیار ہے کیونکہ مشن کے پلان میں چھ مسلم مصوبوں کے سیکشن ناب) اور (ج) میں درج لازمی جمعتہ بندی پاکستان کی بنیاد کے طور پر موجود ہے " سے مسلم لیگ کے برعکس ہم اپنوں 21 کو صدر کانگریس نے وائسرائے کے نام ایک مکتوب میں یہ لکھا کہ ملہ " قائد اعظم اور دستور ساز اسمبلی سے مصنفہ محمد اشرف خان عطار صفحه ۲۳۶ تا ۰۲۳۹ " قائد المعلم اور ان کا عہدہ صفحہ ۳۱ *
کانگریس اگرچہ کا بینہ وفد کی سفارشات کو قبول کرتی ہے لیکن وہ صرف دستور ساز اسمبلی میں شریک ہوگی.عبوری حکومت میں شریک نہیں ہوگی.کیونکہ نہ وہ مرکزی کابینہ میں ہندو مسلم مساوات تسلیم کر سکتی ہے نہ اسلام اور بنگال کے یور مینوں کا حق رائے دہی مجلس دستور ساز اسمبلی میں قبول کر سکتی ہے.نیز مطالبہ کیا کہ دستور ساز اسمبلی کو شاہی اختیارات منتقل کر دیئے جائیں اور صوبوں کی جبری زمرہ بندی بھی اُڑا دی جائے بلے اب جو وزارتی میشن کا اعلان ہوا.اور وائسرائے نے مسلم لیگ اور کانگریس کو عبوری حکومت میں شرکت کی دعوت دی تو مسلم لیگ نے اپنی قرارداد کی روشنی میں عبوری حکومت میں شمولیت منظور کر لی مگر کانگرس نے یه دعوت رد کر دی.اس صورت میں وائسرائے ہند کو اپنے اعلان اور جمہوری اصولوں کے مطابق عبوری حکومت کی زمام اقتدار مسلم لیگ کو سونپ دینی چاہیے تھی.چنانچہ اس مرحلہ پر حضرت مصلح موعود نے بھی اپنے ایک بیان میں فرمایا کہ " کانگریس نے گو ستقل انتظام کے متعلق وزارتی میشن کی سکیم منظور کرلی ہے لیکن عارضی گورنی ہے متعلق تجویز مسترد کر دی ہے.میشن نے اعلان کیا تھا کہ اگر عارضی حکومت کے متعلق کسی پارتی بیماری تجاویز منظور نہ کیں تو پھر ہم حکومت قائم کر دیں گے.اس اعلان کے مطابق اب اس کا فرض ہو کہ کانگریں کو چھوڑ کر باقی پارٹیوں کے تعاون کے ساتھ عارضی حکومت قائم کر دے" سے حضور نے کانگرسی رویہ پر تنقید کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا.مسلم لیگ نے اپنے بعض مطالبات چھوڑ دیئے ہیں اور یہ قابل تعریف بات ہے.لیکن یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ کانگرس نے سمجھوتے کی خاطر کو نسا مطالبہ چھوڑا ہے....اس نے اس - موقعہ پر جو رویہ دکھایا ہے وہ یقیناً عقل اور سیاست کے اصول کے خلاف ہے کہ الغرض کانگریس کا رویہ کسی طرح درست نہ تھا اور اس کے عارضی حکومت کی پیشکش کو رد کر دینے کے بعد وائسرائے ہند لارڈ ویول کو اپنے اعلان کے مطابق مسلم لیگ کو عارضی حکومت کی دعوت دینی چاہئے تھی مگر انہوں نے نقض عہد کر کے دعوت واپس لے لی جس پر مسلم لیگ کونسل نے اپنے اجلاس کمیٹی میں بطور احتجاج اپنی پہلی قراد اور رضامندی بھی منسوخ کر دی." قائد اعظم اور ان کا عہد" صفحہ ۷۳۵ : " ته و ۳ " الفضل » ۲۸ احسان جون یه بیش صفحه ۳ کالم ۹۴
۳۱۵ عبوری حکومت کا قیام اب جب کہ چودھری سردارمحمدخاں نے اپنی کتاب حیات قائد اعظم میں بالصراحت لکھا ہے، بساط سیاست کا نقشہ بالکل دگرگوں تھا.لیگ کے فیصلہ نے کانگریس کے لئے راستہ صاف کر دیا تھا اور عبوری حکومت کی تشکیل میں وہ شرکت کی مستحق نہ رہی تھی.ان حالات میں جہانتک آئینی نقطہ نظر کا تعلق تھا کانگرکہیں ہی ایک ایسی پارٹی تھی جو مزار تی میشن کی پیش کردہ شرائط کے قریب پہنچ کر عارضی حکومت کی تشکیل کی دعویدار بن سکتی تھی.وائسرائے ہند نے جو اسی موقعہ کی تاک میں تھے کانگرس سے گٹھ جوڑ کر کے بالاخر صدر آل انڈیا کانگریس درپنڈت جواہر لال نہروں کو عبوری حکومت کی تشکیل کی دعوت دے دی جو پنڈت جی نے فوراً قبول کرلی اور اعلان پر اعلان کرنا شروع کر دیا کہ جو ہمارے ساتھ شرکت نہ کرنا چاہے اُسے ہم مجبور نہیں کر سکتے.اس کا انتظار نہیں کر سکتے.ہم اپنا کام جاری رکھیں گے ہم برابر بڑھتے رہیں گے.ہم دستور سازی کا کام شروع کریں گے.ہم عبوری حکومت کو کامیابی سے تنہا چلالیں گے.اور پھر انہوں نے ۲ ستمبر 2014 کو عبوری حکومت کا چارج بھی لے لیا.عبوری حکومت کی تشکیل سے کانگرس کی دلی آرزو بر آئی تھی مگر مسلمانوں کے لئے اس کا وجود مسلمانوں کے قومی سم میں خنجر بھونکنے کے مترادف تھا.ان کے ساتھ بد عہدی کی گئی، قریب کیا گیا.اور انہیں بیکر نظر انداز کر کے ہندو اکثریت کو اقتدار کی باگ ڈور سپرد کر دی گئی تھی.بچنا نچہ قائد اعظم نے اپنی ایک تقریر میں کہا کہ " آج کانگریس خوش ہے کہ اس کی دلی مراد پوری ہو گئی اور مسلم لیگ کو نظر انداز کرانے میں کامینا ہو گئی.اگر برطانوی حکومت کانگریس کی نخوت و خود نمائی کو محرک کر کے خوش ہے اور اس سے سودا بازی کی متمنی ہے تو ہم بھی....مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں" سے مسلمانان ہند نے مسلم لیگ کے فیصلہ کے مطابق پورے ملک میں مسلمانان ہند کا ملک گیر احتجاج حکومت کی بدعہدی کے خلاف دو بار نظم احتجاج کیا.اورگت کو یوم راست اقدام منایا اور یکم ستمبر کو ریعنی عبوری حکومت کے قیام سے ایک روز قبل) ” یوم سیاہ منایا اور ساتھ ہی وقعتا پہلے کلکتہ میں اور پھر بھیٹی میں ہولناک فسادات پھوٹ پڑے." الے حیات قائد اعظم ، صفحہ ۶۴۸ - ۲۴۹ ( از پو د هری سردار محمد خانصاحب ہی.اسے ناشر باشد زیو نائیٹڈ انار کلی لاہور
راست اقدام کا فیصلہ اور حضرت مصلح موعود سلم لیگ نئے احتجاجی مظاہروں کے علاوہ حکومت کے ضلات ڈائر یکٹ ایکشن کا بھی فیصلہ کر لیا تھا.سیدنا کی ہدایت عام مسلمانوں کو حضرت مصلح موعود نے اس موقع پر قومی مفاد کے پیش نظر پیہ ہدایت فرمائی کہ اس بارہ میں قیاس آرائیوں سے قطعی اجتناب کیا جائے ورنہ مسلم لیگ کی سکیم کو فیل کرنے کی تدابیر سوچی بھائیں گی.چنانچہ منصور نے فرمایا :- لیگ کے ڈائریکٹ ایکشن کی کیا صورت ہوگی ؟ اس کے متعلق لیگ کے فیصلہ سے قبل قیاس آرائی کرنے سے اجتناب کرنا چاہئیے.کیونکہ اگر قبل از وقت ڈائریکٹ ایکشن پر بحث شروع کو دی جائے کہ اس طرح ہونا چاہیئے اور اس طرح نہیں ہونا چاہیئے تو اس سے فریق مخالفت فائدہ اُٹھائے گا اور سکیم کو ناکام کرنے کی تدابیر سوچ لے گا.اُسے معلوم ہو جائے گا کہ مد مقابل کے کون کون سے پہلو کمزور ہیں.اس کے برعکس اگر اس موقعہ پر خاموشی اختیار کی بجائے اور ذمہ دار لوگوں کو موقع دیا جائے کہ وہ تمام نشیب و فراز کو سمجھ کر مناسب فیصلہ کریں تو اس سے فریق مخالف ہر وقت ڈرتا رہے گا کہ نہ جانے لیگ نے کیا قدم اُٹھانا ہے.پس اس موقعہ پر ڈائریکٹ ایکشن کی تفصیل پر علی الاعلان بحث کرتا لیگ سے خیر خواہی نہیں بلکہ دشمنی ہے اور اس کے ہاتھ کو کمزور کرنے کے مترادف ہے.ہاں اگر کوئی مفید تجویز ذہن میں ہو تو ذمہ داریوں سے اپنے طور پر بیان کر دینے میں کوئی حرج نہیں.لیکن علی الاعلان بحث کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے ".نیاز لم حضرت مصلح موعود کی بایت پیشونی با انہی ایام کا واقعہ ہے کہ حضرت مصلح موعود نے صوفی عبد القدیر صاحب (سابق مبلغ سجاپان ، ایڈیٹر رسالہ کی جناب حمید نظامی سے اہم واقا در ایوان میانه و ارشاد فرمایا که وجود جاکر کرم ملاقات آف ریلیجینز کو کہ لاہور حمید نظامی صاحب ایڈیٹر ” نوائے وقت سے فوری طور پر ملاقات کریں اور اس کے بعد دہلی روانہ ہو جائیں.شت اس ملاقات کی غرض و غایت کیا تھی، اس کی تفصیل محترم مونی حوا کی اپنی ایک غیر طیبہ انگریزی یا اوات میں ملتی ہے جس کا ترجمہ درج ذیل کیا جاتا ہے.فرماتے ہیں:.لاہور میں حسین خاص امر کے متعلق میں نے جناب حمید نظامی صاحب سے ملاقات کوئی تھی.له " الفضل " ١٩ ستمبر / تبوك الله مش " 1907
۳۱۷ وہ یہ تھا کہ پشاور سے اسلحہ اور گولہ بارود خفیہ طور پر ایک ہندو سیاسی لیڈر کی کار میں لاہور اور امر تسر میں لایا جا رہا تھا..میرے ذمہ یہ فرض تفویض کیا گیا تھا کہ میں مکرم نظامی صاحب کو بعض ایسی تجاویز اور مشورے پیش کروں جن سے اس قسم کے سامان کی آمد بچہ پابندی عائد ہو سکے اور اس کی روک تھام ہو سکے.ایک غرض یہ بھی تھی کہ لاہور میں مسلم لیگ کے ذمہ دار حلقوں کو اس عظیم خطرہ کا بر وقت احساس ہو سکے جو سر پر منڈلا رہا تھا تا کہ اس سے محفوظ رہنے کے لئے جو بھی تیاری ممکن ہو وہ وقت پہ کر لی جائے بلکہ مسلم لیگ ہائی کمان کو بھی اس سے باخبر اور گاہ کر دیا جائے تاکہ وہ بھی ضروری اقدامات کر سکیں.کیونکہ یہ مہیب خطرہ اتنا قریب آچکا تھا کہ خود مسلم لیگی ہائی کمان کے بعض ممبروں کو بھی اس کی شدت کا پوری طرح احساس نہیں تھا.محترم نظامی صاحب سے یہ میری پہلی ملاقات تھی.سوال و جواب کے چند ابتدائی مرحلوں ہی میں انہوں نے بھانپ لیا کہ میں جو کچھ کہنا چاہتا ہوں وہ حقیقت اور سچائی پر مبنی ہے.بچنا نچہ گفتگو اور ملاقات کے دوران اُن کا رویہ ہمدردی اور شفقت سے بھر پور رہا.ہم نے جی کھول کر ان حالات کا تفصیلی جائزہ لیا کہ جن کے تحت انگریزی حکومت، ہندوستان کا انتظام اور اس کا اقتدار ہندوستان کی مرکزی حکومت کو سونپنے والی تھی.اس کے ساتھ ہی یہ امر بھی زیر غور آیا کہ کیا کوئی ایسی صورت بھی ممکن ہے جس سے مسلم لیگ اور ملک خضر حیات خان صاحب (یونیسٹ) کی حکومت کے درمیان کوئی مفاہمت پیدا ہو سکے.خود نظامی صاحب بھی اس قسم کی مفاہمت کو پسند کرتے تھے.مگر انہیں اس کی کوئی امید نظر نہیں آتی تھی.تاہم میرا مقصد اس بارے میں کوئی آخری سمجھوتہ کرانا نہیں تھا بلکہ اُن کے ذہن میں صرف یہ خیال پیدا کرنا تھا کہ وہ اس بارے میں مزید غور کریں اور جس حد تک ممکن ہو اس کو عملی جامہ پہنائیں.میں لاہور میں اپنے قیام کو طول دینا نہیں چاہتا تھا.چنانچہ اُن سے ملاقات کے بعد میں دہلی روانہ ہو گیا.“ حضرت مصلح موعود کے قیمتی مشورے مسلم لیگ کی راست اقدام کیٹی کا اجلاس دہی میں ہونے والا تھا.حضرت مصلح موعود کا منشار مبارک مونی عبد القدیم صاحب نیاز کو دہلی راست اقدام کمیٹی کے ارکان کو بجوانے سے کیہ بھی تھا کہ وہ اجلاس سے پہلے پہلے گیٹی کے تمام شمیران سے فرداً فرداً ملاقاتیں کر کے انہیں خاص طور پر مندرجہ ذیل امور کے متعلق آگاہ کر دیں.
ا اگر راست اقدام شروع کیا گیا اور خدانخواستہ اس کا مقصد پورا نہ ہوا یا اس کی عملی شکل میں نقائص رہ گئے تو اس کا اثر مسلم لیگ پر انتہائی بُرا ہوگا اور اس کی ساکھ اور عزت و تکریم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچیگا ابتدا است امامی پروگرام کی بہشت کو انتہائی احتیاط سے ترتیب دینا ضروری ہے.ہیں فریق مخالف کی قوت کے متعلق کوئی غلط اندازہ نہیں لگانا چاہئیے اور نہ اپنی صلاحیتوں کے متعلق کوئی مبالغہ آمیز رائے قائم کرنی چاہیئے..کوئی بھی کام ملت میں نہیں ہونا چاہیے اور ان طاقتوں کا صحیح اور مکمل اندازہ ہونا چاہیئے جو راست اقدام کے شروع ہوتے ہی مسلمانوں کے خلاف حرکت میں آجائیں گی.کم بوب راست اقدام کا فیصلہ کر لیا جائے تو پھر پوری کوشش اور انتہائی سرگرمی اور استقلال کے ساتھ اس کے پروگرام پر پورا پورا عمل ہونا چاہیئے تا کہ اس کی کامیابی یقینی ہو جائے اور ایک اندھا بھی اس کو دیکھ لے کہ جو کچھ کہا گیا تھا اس پر پوری طرح عمل کیا گیا ہے.راست اقدام کے پروگرام میں کسی قسم کے تذبذب یا شش و پنج کی کیفیت نہیں ہونی چاہیئے.امل ہو.عزم پختہ ہو اور تخت یا تختہ والا معاملہ ہو.جناب صوفی عبد القدیر صاحب کا بیان ہے کہ میں نے دہلی میں جناب نو ابنما وہ لیاقت علی خاں صاحب سے ملاقات کی.ان کے حسن تدبیر، لیاقت اور معاملہ نہی کا میرے دل پر خاص اثر ہوا.میں نے محسوس کیا کہ جو اہم امور میں اُن کی خدمت میں حاضر ہو کر گوش گذار کرنا چاہتا تھا انہیں اُن کی اہمیت کا پہلے ہی کافی احساس ہے اور مجھے یہ معلوم کر کے اور بھی مسرت ہوئی کہ محترم خواب صاحب حضرت خلیفقه السيح الثاني المصلح الموعود امام جماعت احمدیہ کی ان کوششوں کو یہ نظر استحسان دیکھتے تھے جو حضور مسلمانوں کی قومی مشکلات کو دور کرنے کے لئے شب و روز کر رہے تھے.ان تمام باتوں نے میرے دل میں یہ احساس پیدا کیا کہ محترم جناب لیاقت علیخاں ایک زیرک انتہائی سمجھ دار اور نہایت ہی متوازن دل و دماغ کے آدمی ہیں جو وقت اور معالات کے تقاضوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں.راست اقدام کے جن دوسرے ممبروں سے میری ملاقات ہوئی اُن میں محترم خواجہ ناظم الدین صاحب، سردار عبد الرب صاحب نشتر اور نواب اسماعیل خان صاحب میر بھی مجھے خوب یاد ہیں ہے.لہ یہ واقعہ جناب صوفی عبد القدیر صاحب کی اہم یادداشت سے ماخوذ ہے.اصل یادداشت انگریزی میں ہے ؟ له
۳۱۹ فصل پنجم حضر مفصل مواد کا سفر ملی اورمسلم لیگ کو بوری حکم میں شال کرانے کی کامیا کوشیش اور زیراعظم اٹلی کی رو سے بر فروری کو مکمل آزاد کا واضح اعلان ملکی قضاء روز بروز پہلے سے زیادہ مکدر ہو رہی تھی اور کلکتہ اور بیٹی کے فسادات کے اثرات ملک کے گوشہ گوشہ میں پھیلتے بھا رہے تھے اور دور رس نگاہ رکھنے والے مارتے دیکھ رہے تھے کہ یہ آگ بڑھتے بڑھتے سارے ہندوستان کو اپنی پیٹ میں لے لے گی اور اس کی زد سے کوئی شہر کوئی قریہ اور کوئی گاؤں محفوظ نہیں رہے گا.اس ماحول میں مسلمانوں کی مہنتی سب سے زیادہ خطرہ میںتھی کیونکہ اقتدار پر کانگرس کا قبضہ ہوچکا تھا مسلمانوں کی جیتی ہوئی جنگ بظاہر شکست میں بدلتی نظر آرہی تھی اور مسلم لیگ کے لئے آبرومندانہ طور پر عبوری حکوت میں داخلہ کے راستے مسدود ہو گئے تھے.سید رئیس احمد جعفری کے بقول مسلم لیگ نے اگر چہ حالات سے مجبور ہو کہ جنگ کا فیصلہ کر لیا تھا لیکن وہ صلح پر اب بھی تیار تھی.قائد اعظم نے ایک بیان میں فرمایا کہ ہم نے اگر چہ مجبور ہو کہ جنگ کا فیصلہ کر لیا ہے لیکن ہم صلح پر اب بھی تیار ہیں.کانگرس یا حکومت کی طرف سے پہل اور پیش قدمی ہونی چاہیے.اگر ہمارا جائزہ اور معقول مطالبہ مان لیا گیا تو ہم بلا تامل جنگ کے خیال سے دستبردار ہو جائیں گے اور صلح کر لیں گے.مگر صلح کی تحریک کسی طرف سے نہیں ہوئی بلکہ مسلم لیگ کے اعلان جنگ کا فراق اُڑایا گیا اور اعلان کیا گیا کہ یہ محض گیدڑ بھبکی ہے حکومت سے ٹکر لینا آسان نہیں.یہ عیش و عشرت کے خوگر لوگ جنگ نہیں لڑسکتے.اور اگر لڑیں گے تو ہار جائیں گے.اس لئے کہ حکومت بھی ان کے مقابلہ کیلئے چوکس ہے اور وہ ڈٹ کر ان نئے سرکشوں اور باغیوں کا مقابلہ کرے گی بلہ مایوسی اور نا امیدی کے اس تاریک ترین ماحول میں اللہ تعالیٰ نے سید نا الصلح الموعود کو خبر دی کہ اس له " قائد اعظم اور اُن کا عہد" صفحہ ۷۳۹-۰۷۴۰
۳۲۰ مشکل کا حل بخدا نے آپ کے ساتھ بھی وابستہ کیا ہے چنانچہ حضرت مصلح موعود ۲۲ ستمبر کی شب کے ملت اسلامیہ کی بے بسی کو دیکھتے اور خدا کے حضور دعائیں اور انتہائیں کرتے ہوئے قادیان سے دلی تشریف لے گئے.اور تین ہفتوں تک دہلی میں قیام فرمایا.اس سفر میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب درد ایم.است ، حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب ، حضرت مهمان من جنبه مولودی ذوالفقار علی خال صاحب ، حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب، چوہدری اسد اللہ خاں صاحب اور چوہدری مظفر الدین صاحب بھی حضور کے ہمراہ تھے.علاوہ ازیں صوفی عبد القدیر صاحب بی.اسے پہلے ہی دہلی میں سرگرم عمل تھے اور اس سلسلہ میں علیگڑھ جا کر نواب صاحب چھتاری سے ملاقات بھی کر چکے تھے.حضرت مصلح موعود نے دہلی پہنچتے ہی ملک کے مشہور سیاسی لیڈروں سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کر دیا.چنانچہ ۲۷ ستمبرکو قائد اعظم محمدعلی جناح سے اور ستمبرکو مسٹر گاندھی سے ملاقات کی اور ملک کی سیاسی صورت حالات کے متعلق گفتگو فرمائی ہیں اور ان مکانات کا وقت حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب درد ایم.اسے اور صوفی عبد القدیر صاحب نیاز نے طے کیا.یہ ملاقات نہایت مخلصانہ اور دوستانہ ماحول میں اور پرتپاک طریق پر تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ تک جاری رہی بلک جس کی خبر ور نیٹ پریس کی طرف سے اخبارات میں بھی شائع ہوئی.سر اکتوبر کو آپ نے مولانا ابو الکلام صاحب آزاد سے تبادلہ خیالات فرمایا.ازاں بعد حضور کی ملاقات نواب صاحب بھوپال چاند و چیمبر آن پر نسز سے ہوئی جنہوں نے قیام دہلی کے دوران مسلم لیگ اور کانگریس سے رابطہ قائم کرنے اور اس کے لیڈروں کے درمیان مفاہمت کرانے میں حضور کی بالواسطہ نمائندگی اور سفارت کا حق ادا کر دیا.انہی دنوں ایک دعوت کے موقعہ پر خواجہ ناظم الدین آف بنگال اور سردار عبدالرب صاحب نشتر آن سرحد سے بھی حضور کی گفتگو ہوئی.ان ملاقاتوں کے بعد حضور نے مولانا ابو الکلام آزاد سے دوبارہ ملاقات کرنے کے علاوہ سر فیروز نہاں نون سابق ڈیفنس ممبر گورنمنٹ آف انڈیا اور نواب سر احمد سعید خاں چھتاری سابق گورنر یونٹی سے اور ا اکتوبر کو پنڈت جواہر لال نہرو سے بھی گفت و شنید کی پریس کے نمائندوں میں سے چیت رپورٹر اختبار ڈان " ، ڈائریکٹر اور نیٹ پر لیس اور سری کرشن صاحب نمائندہ اندرا پترا بھی حضور سے ملے بعض كو " الفضل ۲۳ تبوک استمبر ۳۲۵ ببش +1979 تو ه یاد داشت صد فی عبد القدیر صاحب نیاز کے مطابق کے شه " الفضل " ه ا ضاد / اکتوبر را میش صفحه ۲ ۱ " * " الفضل ۳۰ تبوک استمبر ۱۳۳۵ پیش صفحه ۲ : صفحه ۲ ۳ اتحاد / اکتوبر جل ه الفضل" را خار / اکتوبر ۳۳۵ ش صفحه + +
٣٢١ سیاسی لیڈروں سے ملاقات کے لئے حضور نے اپنے خصوصی نمائندے بھی بھجوائے چنانچہ منصور کی طرف سے چوہدری اسد اللہ خاں صاحب اور صوفی عبد القدیمہ صاحب نیاز بی.اے نے جناب نوابزادہ لیاقت علی خان صاحب ، سر سلطان احمد صاحب، نواب کچھتاری صاحب اور سر فیروز خاں صاحب نون سے ملاقات کی.اسی طرح صوفی عبد القدیر صاحب نیاز نے امریکین اور انگریزی پریس کے نمائندوں میں سے کرنل برٹ (نمائندہ کنڈن ٹائمز ریلیف اورڈ (نمائندہ ڈیلی میل") اور کرسچن سائنس مانیٹر کی ایک نامہ نگار خاتون سے ملاقات کر کے اُن پر مسلمانان ہند کا نقطہ نظر واضح کیا.لم اس موقعہ پر حضرت سید تا الصلح الموعود کی اگرچہ وائسرائے ہند لارڈ ویول سے بالمشافہ گفتگو نہیں ہوئی مگر حضور نے بخط و کتابت کے ذریعہ سے اُن کے ساتھ مضبوط رابطہ قائم کر لیا.چنانچہ حضور نے در اکتوبر شاید کو پہلی بیٹی اُن کے نام یہ بھجوائی کہ گو جماعت احمدیہ ایک تبلیغی جماعت ہونے کی وجہ سے من حیث المجماعت لیگ میں شامل نہیں مگر موجودہ سیاسی بحران میں اس کی اصولی ہمدردی تمام تر مسلم لیگ کے ساتھ ہے.دوسری پٹی میں وائسرائے ہند پر واضح فرمایا کہ اگر خدانخواستہ موجودہ گفت و شنید نا کام ہوتی نظر آئے تو مایوس ہو کر اُسے ناکام قرار دینے کی بجائے التواء کی صورت قرار دی جائے تا اس عرصہ میں مسلم لیگی اور کانگریسی لیڈر بھی مزید غور کر سکیں اور پبلک خصوصاً آزاد پبلک کو بھی اپنا اثر ڈالنے کا موقع مل سکے مگر اس صورت میں ضروری ہوگا کہ میں نکتہ پر ناکامی ہو رہی ہو اسے پبلک کے علم کے لئے ظاہر کیا جائے.اس مضمون کی وضات کے لئے حضرت کی طرف سے سولانا عبد الرحیم صاحب درد نے وائسرائے ہند کے پرائیویٹ سیکرٹری سے بی بی طلاقات کی بلکہ حضور نے وائسرائے ہند کے نام تیسری چھٹی اس مرحلہ پر لکھی جبکہ - ار اکتوبر ۴۶ امر کی شام کو لیگ اور کانگرس کی گفت و شنیہ بہت نازک صورت اختیار کرگئی و مفاہمت کی کوشش کے ناکام ہونے کا سخت خطرہ پیدا ہو گیا.اس پر حضرت مصلح موعود نے اگلے روز ایک طرف تو جمعہ کے خطبہ میں جماعت کو ڈھائے خاص کی تحریک فرمائی اور دوسرے وائسرائے ہند کو توجہ دلائی کہ اگر ہزہائی نس نواب صاحب بھوپال کی نیک مسائی کانگوروس سے براہ راست سمجھی تہ کے متعلق کامیاب نہیں ہو سکیں تو اس پر یوس ہو کر اصلاح احوال کی کوشش ترک نہیں الفضل عمر اکتوبر منہ ہے نامہ نگاروں کے نام جناب صوفی عبد القدیر صاحب نیاز کی یادداشت سے لئے گئے ہیں ؟ ل " پورہ میں مفصل خطبہ جمعہ چھپا ہوا ہے ؟
۳۲۲ کو دینا چاہیے بلکہ انہیں چاہیے کہ وہ حسب سابق اس معاملہ کو پھر اپنے ہاتھ میں لے لیں تاکہ کوشش کا سلسلہ جاری رہے یہانتک کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے کامیابی کا دروازہ کھول دے.حضرت مصلح موعود کی یہ روحانی اور مادی تدابیر بالآخر کامیاب ہوگئیں اور وائسرائے ہند نے اس معاملہ کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اورمسلم لیگ ہائی کمان نے نہایت درجہ فہم و فراست اور حیرت انگیز معالم فہمی کا ثبوت دیتے ہوئے کانگرس سے سمجھوتہ کئے بغیر اور باقی سوالات کو کھلا رکھتے ہوئے عبوری حکومت میں شامل ہونے کا فیصلہ کر لیا اور ۳ار اکتوبر کو اس کی اطلاع وائسرائے ہند تک بھی پہنچادی.چنانچہ پنڈت نہرو نے ۳ار اکتوبر کو قائد اعظم کے نام اپنے ایک خط میں لکھا کہ " وائسرائے نے مجھے مطلع کر دیا ہے کہ مسلم لیگ نے اپنی طرف سے پانچ ارکان عارضی حکومت میں نامزد کرنا قبول کر لیا ہے مجھے یہ فیصلہ انتہائی غیر موافق اور غیر متوقع حالات میں ہوا.اور اس نے کانگرس کے معلقوں میں کھلبلی مچادی.اس حقیقت کا اندازہ لگانے کے لئے مسلم لیگ کے خصوصی ترجمان نوائے وقت" کے دو اقتباس ملاحظہ ہوں.اخبار نوائے وقت“ نے مارنے ۱۳ اکتوبر ہ کے اداریہ میں دہلی کے سیاسی مذاکرات کو بے نتیجہ قرار دیتے ہوئے لکھا:.پہلی کی کانفرنس بلکہ کا نفرنسوں کا بھی وہی حشر نظر آتا ہے جو شملہ کا نفرنس شہر اور شملہ کا نفرنس ہ کا ہوا.آج ایسوسی ایٹڈ پریس کی اطلاع تو یہ ہے کہ نواب، بھوپال کی کوششیں ناکام رہیں.بھی تک اس خبر کی تصدیق نہیں ہو سکی مگر ہمارا اپنا قیاس یہی ہے کہ یہ خبر درست ہو گئی.دونوں شملہ کا نفرنسوں میں بارہا ایسے مراحل آئے جب اچھے اچھے باخبر اور فہمیدہ لوگوں کی رائے یہ تھی کہ بیس اب سمجھوتہ کے مشترکہ اعلان پر دستخط ہونے رہ گئے ہیں اور وہ صبح تک ہو جائیں گے.باقی ساری بات پکی ہو چکی ہے.مگر صبح معلوم ہوا کہ ہنوز روز اول ہے اور ابھی مبادیات کا میلہ بھی نہیں ہوا " کہ لیکن اسی نوائے وقت میں اس کے سیاسی نامہ نگار کے حوالہ سے یہ خیر بھی شائع ہوئی کہ مسلم لیگ اور کانگرس کی گفتگوئے مصالحت کی ناکامی کے بعد سیاسی حالات نے یک لخت له الفضل در اتحاد / اکتوبر مروہ کے حالات قائد اعظم محمد علی جناح صفحه ۶۰۶ ( از خالد اختر افغانی طبع دوم 1 ٢١٩٤٦
۳۲۳ ا حیرت انگیز پلٹا کھایا ہے.اور اس گفتگو کی ناکامی کے باوجود لیگ کی مرکزی حکومت میں شرکت یقینی خیال کی جارہی ہے.باخبر حلقوں کی رائے یہ ہے کہ لیگ نئی حکومت میں اپنے پانچ نمائندے بھیج دے گی اور اندر جا کر اس حکومت کو تباہ کر دے گی.لیگ کی عارضی حکومت میں شرکت پر آمادگی کے فوراً بعد حکومت از سر نو مرتب کی جائے گی بیگ کو اب اس سے کوئی سرد کار نہیں ہوگا کہ کانگرس اپنے کوٹا میں سے کوئی مسلمان نامزد کرتی ہے یا نہیں.لیگ ہر قدم پر مزاحمت کی نیت سے حکومت میں شامل ہو رہی ہے.کانگرسی حلقوں کے لئے یہ صورت حال بالکل غیر متوقع ہے اور آج بھنگی کالونی میں کچھ سراسیمگی سی نظر آتی ہے.بعض کا نگریسی لیڈروں نے کھلم کھلا یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ اگر لیگ اس طرح کانگرس سے سمجھوتہ کئے بغیر ہی حکومت میں شامل ہوگئی تو ہمارے سب کئے دھرے پھر پانی پھر جائے گا وہ العرض اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور حضرت مصلح موعود کی مساعی جمیلہ اور دعاؤں کی برکت سے مسلم لیگ فاتحانہ شان کے ساتھ مشہوری حکومت میں شامل ہو گئی اور حضور ۱۴ اکتوبر ۹۴ نر کو دہلی سے روانہ ہو کہ اگلے روز گیارہ بجے کے قریب قادیان دار الامان واپس تشریف لے آئے سکے سفر بی کے نہایت مختصر سے کو الف پر روشنی ڈالنے کے بعد اب حضرت مصلح موعود کی زبان مبارک اس کی تفصیل حضرت مصلح موعود کی زبان مبارک سے درج کی جاتی سے سفر دہلی کی تفصیل ہے حضور نے ۱۸ امضاد / اکتوبر میش کو فرمایا :- ۱۳۲۵ 904 یں نے دہلی کا سفر کیوں کیا.اس کی وجہ در حقیقت وہ نوا ہیں تھیں جو "الفضل “ میں چھپ چکی ہیں.ان خوابوں سے مجھے معلوم ہوا کہ اس مسئلہ کے حل کو اللہ تعالٰی نے کچھ میرے ساتھ بھی وابستہ کیا ہوا ہے.تب میں نے اس خیال سے کہ جب میرے ساتھ بھی اس کا کچھ تعلق ہے تو مجھے سوچنا چاہیئے کہ میں کس رنگ میں کام کر سکتا ہوں.اس مسئلہ پر غور کیا اور میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ ممکن ہو برطانوی حکومت اس غلطی میں مبتلا ہو کہ اگر مسلم لیگ کو نظرانداز بھی کر دیا جائے تو مسلمان قوم بحیثیت مجموعی ہمارے خلاف نہیں ہوگی بلکہ ایسے مسلمان جو لیگ میں شامل نہیں اور ایسی جماعتیں اے مسٹر گاندھی کی رہائش گاہ بہ ۲ نوائے وقت " لاہور سوار اکتوبر سر اور صفحہ کالم ۰۲ سلم "الفضل و ار ا خاد/ اکتوبرش صفحه :
جو لیگ کے ساتھ تعلق نہیں رکھتیں اُن کو ملاکر وہ ایک منظم حکومت ہندوستان میں قائم کر سکے گی.اس خیال کے آنے پر میں نے مزید سوچا اور فیصلہ کیا کہ ایسے لوگ جو لیگ میں شامل نہیں یا ایسے لوگ جنہیں تعصب کی وجہ سے لیگ والے اپنے اندر شامل کرنا پسند نہیں کرتے..ان دونوں قسم کے لوگوں کو چاہیے کہ آپس میں بیل بجائیں اور مل کر گورنمنٹ پر یہ واضح کر دیں کہ خواہ ہم لیگ میں نہیں لیکن اگر لیگ کے ساتھ حکومت کا ٹکراؤ ہوا تو ہم اس کو مسلمان قوم کے تھے ٹکراؤ سمجھیں گے اور جو جنگ ہوگی اس میں ہم بھی لیگ کے ساتھ شامل ہوں گے.یہ سوچ کر میں نے چاہا کہ ایسے لوگ جو اثر رکھنے والے ہوں خواہ اپنی ذاتی حیثیت کی وجہ سے اور خواہ قومی حیثیت کی وجہ سے ان کو جمع کیا جائے.دوسرے میں نے مناسب سمجھا کہ کانگریس پر بھی اس حقیقت کو واضح کر دیا جائے کہ وہ اس غلطی میں مبتلا نہ رہ ہے کہ مسلمانوں کو پھاڑ پھاڑ کر وہ ہندوستان پر حکومت کر سکے گی.اسی طرح نیشنلسٹ خیالات رکھنے والوں پر بھی یہ واضح کر دیا جائے کہ وہ کانگریس کے ایسے حصوں کو سنبھال کر رکھیں اور ان کے خوشوں کو دبائیں جن کا یہ خیال ہو کہ وہ مسلمانوں کو دیا کہ یا ان کو آپس میں پھاڑ پھاڑ کر حکومت کو سکتے ہیں.یہ سوچ کر میں نے ایک تار نواب صاحب چھتاری کو دیا.وہ بھی لیگ میں شامل نہیں لیکن مسلمانوں میں بہت رسوخ رکھنے والے آدمی ہیں.یو پی کے گورنر رہ چکے ہیں اور اب حکومت آصفیہ کے وزیر اعظم کے عہدہ سے واپس آئے ہیں.اس تار کا جواب آنے پر میں نے انہیں لکھا کہ میرا اب ایسا ایسا ارادہ ہے، کیا آپ اس میں شریک ہو سکتے ہیں.دوسرا تار میں نے کانگرس سے میل جول کے لئے مسٹر نائیڈو کو دیا.مسز نائیڈو میری پُرانی واقف ہیں اور وہ ہمیشہ کہا کرتی ہیں کہ میرے دل میں مسلمانوں کا بہت درد ہے اور میں ہندو اور مسلمان میں کوئی فرق نہیں کرتی مگر افسوس کہ انہوں نے تار کا کوئی جواب نہ دیا.پھر دوبارہ تار دیا گیا تو اس کا بھی جواب نہ دیا جس کے معنی یہ سکھتے کہ وہ اس تحریک میں شامل ہونا پسند نہیں کرتیں جب یہ باتیں ہو چکیں تو میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے جلدی قادیان پہنچنا چاہیئے.اور اس سکیم کے متعلق مزید کارروائی کرنی چاہئیے.یہاں پہنچ کر جب میں نے غور کیا تو میرے دل میں تحریک پیدا ہوئی کہ خواب میں میں نے دیکھا ہے کہ صلح اور سمجھوتہ کرانے کے لئے میں بیچ میں ہوں.بیچ میں ہونے کے یہی معنے نہیں ہوتے کہ ضرور کوئی شخص بیچ میں ہو بلکہ یہ معنے بھی ہوتے
۳۲۵ ہیں کہ اس کا ان باتوں سے کوئی اشتراک اور تعلق ہے.اس پر میں نے سوچا کہ چونکہ دلی میں فیصلے ہو رہے ہیں.مجھے بھی دتی پھلنا چاہئیے.دوسرا فائدہ اس کا یہ بھی ہوگا کہ دلی میں ہمیں تازہ بتازہ خبریں ملتی رہیں گی اور اگر حالات بگڑتے معلوم ہوئے تو ہم فوراً دعا کر سکیں گے.قادیان میں تو ممکن ہے ہمیں ایسے وقت میں خبر ملے جب واقعات گزرچکے ہوں اور دھا کرنے کا کوئی فائدہ نہ ہو کیونکہ دعا ماضی کے لئے نہیں ہوتی مستقبل کے لئے ہوتی ہے.نیز مجھے یہ بھی خیال آیا کہ بعض اور بار روتے لوگوں کو بھی اس تحریک میں شامل کرنا چاہیے جیسے سر تغافاں میں گو سر آفات اب ہندوستان میں نہیں تھے مگر میں نے سمجھا کہ چونکہ ان کی جماعت بھی مسلمان کہلاتی ہے، اگر اُن کو بھی شریک ہونے کا موقعہ مل بھائے تو گورنمنٹ پر یہ امر واضح ہو جائے گا کہ مسلمانوں کی ایک اور جماعت بھی ایسی ہے جو اس بارہ میں مسلم لیگ کے ساتھ ہمدردی رکھتی ہے.چنانچہ لندن مشتری کی معرفت میں نے سر آغا خاں کو بھی تارہ بھجوا دیا.اس دوران میں میں نے قادیان سے اپنے بعض نمائندے اس غرض کے لئے بھیجوائے کہ وہ نواب صاحب چھتاری سے تفصیلی گفتگو کر لیں اور انہیں ہدایت کی کہ وہ لیگ کے نمائندوں سے بھی میں اور اُن پر یہ امر واضح کر دیں کہ ہم یہ نہیں چاہتے کہ لیگ کے مقاصد کے خلاف کوئی کام کریں.اگر یہ تحریک لیگ کے مخالف ہو تو ہمیں بتا دیا بجائے ہم اس کو چھوڑنے کے لئے تیار ہیں.اور اگر مخالفت نہ ہو تو ہم شروع کر دیں.اس پر لیگ کے بعض نمائندوں نے تسلیم کیا کہ یہ تحریک ہمارے لئے مفید ہوگی ، الکل با موقعہ ہوگی اور ہم یہ سمجھیں گے کہ اس ذریعہ سے ہاری مدد کی گئی ہے، ہمارے رستہ میں روڑے نہیں آسکائے گئے.چنانچہ میں دتی پہنچ گیا.وہاں جو کچھ کام ہوا.اس کی تفصیلات میں میں اس وقت نہیں جانا چاہتا.میرا خیال ہے کہ میں ایک کتاب " سفر ولی " پر لکھوں کیونکہ بہت سی باتیں ہیں جو اس سفر کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اور وہ معدا تعالیٰ کے فضل سے آئندہ کام کے رستے کھولنے والی ہیں.سر دست میں صرف اس قدر ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ جب میں دلی گیا تو سر آغا خاں کی طرف سے بھی جواب آگیا.اور وہاں بعض اور لیڈروں سے بھی ملاقاتیں ہوئیں جیسے سرسلطان احمد ہیں.مسلمانوں میں سے صرف ایک صاحب نے جواب نہیں دیا.حالانکہ ان کو دو دفعہ تار دیا گیا تھا اور وہ سر محمد عثمان ہیں.ان کے پچودھری ظفر اللہ خاں صاحب کے ساتھ تعلقات ہیں اور مجھ سے
۳۲۶ ملنے کا بھی موقعہ ہوا ہے ممکن ہے وہ اس وہم میں مبتلا رہے ہوں کہ ہمارا کام کہیں لیگ کے لئے مضر نہ ہو لیکن ہم نے لیگ کے نمائندوں سے پہلے مشورہ کر لیا تھا اور ان سے کہہ دیا تھا کہ اگر ہماری یہ کوششیں اُن کے نزدیک مضر ہوں تو ہم ان کے ترک کرنے کے لئے تیار ہیں.بہر حال جیسا کہ ظاہر ہے ہم نہ لیگ میں شامل تھے نہ کانگرس میں نہ لیگ نے ہمیں اپنا نمائندہ بنایا تھا نہ کانگریس نے.اس لئے یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ انہی کی طرح باقاعدہ ہم بھی مشورہ کی مجالس میں شامل ہوتے.ہماری جماعت کے لبعض نا واقف دوستوں نے لکھا ہے کہ وائسرائے ، پنڈت جواہر لال نہرو ، مسٹر جناح کے مشورو کا ذکر تو اخباروں میں آتا ہے ، آپ کا کیوں نہیں آتا.انہوں نے یہ نہیں سمجھا کہ وہ تو ان سیاسی جماعتوں کے نمائندے ہیں جنہوں نے باہمی فیصلہ کرنا تھا.اور ہم کسی سیاسی جماعت کے نمائندہ نہیں تھے بلکہ ہم اپنا اثر ڈال کر انہیں نیک راہ بتانے کے لئے گئے تھے بسیاسی جماعتوں کی نمائندگی نہ ہمارا کام تھا اور نہ گورنمنٹ یا کوئی اور اس رنگ میں ہمیں بلا سکتا تھا.نہ....ہو کوشش صلح کے لئے ہو سکتی تھی وہ میں نے کی.اور اسی سلسلہ میں میں مسٹر گاندھی سے بھی ملا.میرا منشار تھا کہ میں ان سے تفصیل سے بات کروں گا اور انہیں بتاؤں گا کہ آپس کا تفرقہ ٹھیک نہیں.ان کو کوشش کرنی چاہیئے کہ کچھ وہ پھوڑ دیں اور کچھ لینگ چھوڑ دے تاکہ ملک کی بدامنی خطرناک رنگ اختیار نہ کرلے میں نے اُن سے کہا کہ لڑتے آپ ہیں لیکن آپ لوگوں کی جان پر اس کا وبال نہیں بلکہ ان ہزاروں ہزار لوگوں پر ہے جو قصبوں میں رہتے ہیں یا دیہات میں رہتے ہیں اور تہذیب اور شائستگی کو نہیں سمجھتے وہ ایک دوسرے کو ماریں گے ، ایک دوسرے کو ٹوٹیں گے اور ایک دوسرے کے گھروں کو بھلا دیں گے ایسے جھگڑا لیگ اور کانگریس کا تھا لیکن مسجد اور لائیبریری ڈھا کہ میں ہماری جماعت کی میلادی گئی حالانکہ نہ ہم اڑ سے اور نہ ہم بدامنی پیدا کر نا جائز سمجھتے ہیں.مگر وہاں کے ہندوؤں نے ہماری مسجد اور بہادری لائیبریری کو جلا کر یہ سمجھے یا کہ انہوں نے بڑا تیر مارا ہے اور یہ خیال کر لیا کہ انہوں نے مسلمانوں سے بدلہ لے لیا ہے.اس سے پتہ لگتا ہے کہ سیب اس قسم کے اختلافات پیدا ہو جائیں تو انسانی عقل، ماری بھاتی ہے اور سیاہ اور سفید میں فرق کرتا اس کے لئے مشکل ہو جاتا ہے) غرض گاندھی جی پر مکین نے یہ بات واضح کی اور انہیں کہا کہ آپ کو اس بارہ میں کچھ کرنا
۳۲۷ چاہیئے اور صلح کی کوشش کرنی چاہیئے.گاندھی جی نے اس کا جو جواب دیا وہ یہ تھا کہ کام آپ ہی کر سکتے ہیں میں نہیں کر سکتا.میں تو صرف گاندھی ہوں.یعنی میں تو صرف ایک فرد ہوں اور آپ ایک جماعت کے لیڈر ہیں.میں نے کہا ئیں تو صرف پانچ سات لاکھ کا لیڈر ہوں اور سہندوستان میں پانچ سات لاکھ آدمی کیا کر سکتا ہے.مگر انہوں نے اصرار کیا اور کہا کہ جوکچھ کر سکتے ہیں آپ ہی کر سکتے ہیں میں نہیں کر سکتا جب میں نے دیکھا کہ گاندھی جی اس طرف نہیں آتے تو میں نے اس بات کو چھوڑ دیا اور پھر میں انہیں دوسری نصیحتیں کرتا رہا جن کی خدا نے مجھے اس وقت توفیق عطا فرمائی.میں اس موقعہ پر صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ بعض دفعہ ایک چھوٹی سی بات ہوتی ہے مگر وہ خدا تعالے کے ہاں قبول ہو جاتی ہے.جب رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد عرب اور ایران میں لڑائی چھڑی تو اس وقت ایران کے بادشاہ نے اپنے بعض رؤسا ر سے کہا کہ عرب ایک چھوٹا سا غیر آباد نیز یہ ہے اور وہاں کے باشندے متفرق اقوام میں بٹے ہوئے ہیں.یہ لوگ کس طرح ہمارے ملک پر حملہ کر کے پڑھ آئے ہیں.لوگوں نے کہا.اس قوم میں نئی بیداری پیدا ہوئی ہے اور اس وجہ سے اس میں جوش پایا جاتا ہے.اس نے کہا کہ ان لوگوں کو کچھ دے دلا کر واپس کر دینا چاہیے.چنانچہ اس نے اسلامی جرنیل کو لکھا کہ تم ایک وفد ہمارے پاس بھیجد و ہم اس سے گفتگو کرنا چاہتے ہیں.اس نے رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی اور بعض دوسرے آدمیوں پرمشتمل ایک وفد بنا کر شاہ ایران کے دربار میں بھیجوا دیا.بادشاہ نے ان سے کہا کہ تم نے یہ کیا شورش برپا کر رکھی ہے.بہتر یہ ہے کہ کچھ روپیہ لے لو اور واپس پہلے بھاؤ.انہوں نے کہا.یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ہم روپیہ لے کر واپس پہلے جائیں.اس کی حماقت دیکھو جو قوم اس کے ملک پر چڑھ کر آئی تھی اس قوم کے متعلق اس نے یہ فیصلہ کیا کہ دو دو اشرفیاں سپاہیوں کو اور دس دس اشرفیاں افسروں کو دے کر رخصت کر دیا جائے، گویا لالچ بھی دی تو اتنی چھوٹی اور حقیر کہ چوہڑے بھی اس کو قبول نہیں کر سکتے.انہوں نے کہا کہ یہ کیا لغو بات ہے کہ تم نے خود لڑائی چھیڑی ہے ہم نے نہیں چھیڑی.اب اس کا فیصلہ میدان میں ہی ہوگا اور ہم جانتے ہیں کہ ہم ضرار کامیاب ہوں گے کیونکہ ہمارے ساتھ خدا تعالے کا وعدہ ہے.بادشاہ کو غصہ آیا اور اس نے ایک شخص سے کہا.ایک تھیلی میں مٹی بھر کو لاؤ یجب وہ مٹی بھر کہ لایا تو اس نے اسے حکم دیا
۳۲۸ کہ یہ مٹی کا بورا اس مسلمان افسر کے سر پر رکھ دو.اس صحابی نے جب یہ دیکھا تو اس نے نہایت خاموشی سے اپنا مرجھکایا اور مٹی کا بورا اپنے سر پہ اُٹھا لیا.بادشاہ نے اُسے کہا.اب بھاؤ.اس کے سوا تمہیں اور کچھ نہیں مل سکتا.گویا جیسے پنجابی میں کہتے ہیں.کھیر کھاؤ (اردو میں یوں کہہ لو کہ تمہارے سر پر خاک) ویسا ہی اس بادشاہ نے کہا اور مٹی کا بورا مسلمان افسر کے سر پر لادتے ہوئے کہا.جاؤ اس کے سوا تمہیں اور کچھ نہیں مل سکتا.ایسے موقعہ پر اللہ تعالیٰ مومن کو بھی اپنے فضل سے ایک نور اور روشنی بخش دیتا ہے جب اس نے مٹی کا بورا مسلمان افسر کے سر پر رکھوایا تو انہوں نے فوراً اس کو نیک تفاول پر محمول کرتے ہوئے اُٹھا لیا اور اپنے ساتھیوں کو یہ کہتے ہوئے دربار سے نکل بھاگے کہ آجاؤ ، ایران کے بادشاہ نے خود اپنے ہاتھ سے ایران کی زمین ہمیں سونپ دی ہے.مشرک بزدل بھی بڑا ہوتا ہے.جب انہوں نے بلند آوانہ سے یہ فقرہ کہا تو اس نے گھبرا کر اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ یہ شخص کیا کہہ رہا ہے.انہوں نے کہا.اس نے کہا ہے کسری نے ایران کی زمین خود اپنے ہاتھ سے ہمارے سپرد کر دی ہے یہ سن کر بادشاہ گھبرا گیا اور اس نے کہا.جلدی بھاؤ اور اس شخص کو پکڑ کر حاضر کرو.مگر اتنے میں مسلمان گھوڑوں پر سوار ہو کر کہیں کے کہیں بھا چکے تھے.گاندھی جی نے بھی کہا کہ میں تو کچھ نہیں کر سکتا جو کچھ کر سکتے ہیں آپ ہی کر سکتے ہیں.اور خدا تعالیٰ نے ایسا ہی کر دیا.اور میرے وہاں ہونے کی وجہ سے ہی جھگڑے کا تصفیہ ہوا.اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ تصفیہ مکیں نے کیا.گو کوششیں ہم برابر کر رہے تھے.مگر سوال یہ ہے کہ پہلے چار پانچ دفعہ صلح کی کوشش ہو چکی تھی.گورنمنٹ نے بھی زور لگایا.مگر اس معاملہ کا کوئی تصفیہ نہ ہوا.آخر میرے وہاں ہونے اور دعائیں کرنے سے نہ معلوم کونسے دلوں کی گنجیاں کھول دی گئیں کہ میرے وہاں جانے سے وہ کام جو پہلے بار بار کی کوششوں کے باوجود نہیں ہوا تھا ، ہو گیا اور گاندھی جی کا یہ فقره درست ثابت ہوا کہ میں تو یہ کام نہیں کر سکتا آپ ہی کر سکتے ہیں.عجیب بات یہ ہے کہ جس نقطہ پر لڑائی تھی گاندھی جی نے اُسے تسلیم کر لیا تھا اور بالکل ممکن تھا کہ اگر گاندھی جی کی بات مانی جاتی تو آپس میں صلح ہو بھاتی.چنانچہ جب گاندھی جی سے نواب سے سب جو پال نے طلاقات کی اور یہ فارمولا پیش کیا کہ لیگ کو مسلمانوں کا نمائندہ سمجھا بھائے گا تو گاندھی جی
۳۲۹ نے اس کو تسلیم کر لیا اور اس پر دستخط بھی کر دیئے لیکن جب دستخط ہو چکے تو پنڈت نہرو صاحب نے کہہ دیا کہ ہم گاندھی جی کی بات ماننے کے لئے تیار نہیں.اس طرح وہ بات جو گاندھی جی نے کہی تھی پوری ہوگئی کہ ہمیں تو صرف گاندھی ہوں.میری بات کون مانتا ہے.چنانچہ پنڈت نہرو صاب نے یہی کہا کہ اس معاملہ میں گاندھی جی سے مہارا کیا تعلق.یہ گاندھی جی کا اپنا فیصلہ ہے، ہمارا فیصلہ نہیں.میرے نزدیک گاندھی جی نے محض بات کو ٹلانے کی کوشش کی تھی.اور ان کا مطلب یہ تھا کہ میں اس تحریک میں حصہ لینا ضروری نہیں سمجھتا.حالانکہ میں وہاں محض ہندوؤں اور مسلمانوں کی خیر خواہی کے لئے گیا تھا.ورنہ وزارتوں میں ہمارا کوئی حصہ نہیں.کانسٹی ٹیوٹ اسمبلی میں ہمارا کوئی حصہ نہیں.پس میں وہاں اپنے لئے نہیں گیا تھا.بلکہ اس لئے گیا تھا کہ وہ ہزاروں ہزار ہندو جو مختلف علاقوں میں مارا جا رہا ہے، ان کی بیان بھی جائے.وہ ہزاروں ہزار مسلمان جو مختلف علاقوں میں مارا جا رہا ہے ، ان کی جان بچ جائے.نہ وہ میرے رشتہ دار ہیں نہ واقف ہیں نہ دوست ہیں.کوئی بھی تو ان کا میرے ساتھ تعلق نہیں سوائے اس تعلق کے کہ میرے پیدا کرنے والے خدا نے ان کو بھی پیدا کیا ہے.اور میرا فرض ہے کہ میں اُن کی جانوں کی حفاظت کروں.صرف اس دُکھ اور درد کی وجہ سے میں نے ان کوششوں میں حصہ لیا.مگر مجھے افسوس ہے کہ گاندھی جی نے میرے اخلاص کی قدر نہ کی اور انہوں نے کہ دیا کہ میری بات کون مانتا ہے، میں تو صرف گاندھی ہوں.انہوں نے یہ فقرہ محض ٹالنے کے لئے کہا تھا.مگر خدا تعالیٰ نے واقع میں ایسا کر دکھایا اور پنڈت نہرو صاحب نے گفتگو کرنے والو سے صاف کہہ دیا کہ یہ ہمارا فیصلہ نہیں.گاندھی جی کا فیصلہ ہے اور ہم گاندھی جی کا یہ فیصلہ ماننے کو تیار نہیں.جب حالات یہ رنگ اختیار کر گئے تو مسٹر جناح نے نہایت ہوشیاری اور عقلمندی سے کام لیتے ہوئے وائسرائے کو لکھ دیا کہ کانگرس سے تو ہمارا فیصلہ نہیں ہو سکا لیکن ہم آپ کی پیشکش کو قبول کرتے ہوئے حکومت میں شامل ہوتے ہیں.اس طرح کام بھی ہو گیا اور بات بھی بن گئی اور مسٹر گاندھی اس معاملہ میں عالی گاندھی بن کے رہ گئے اور اللہ تعالیٰ نے بہادری غرض بھی پوری کر دی.خدا تعالے کی قدرت کہ ہمارا دہلی سے جمعہ کو پھلنے کا ارادہ تھا اور ہم
۳۳۰ سیٹیں بھی بُک کرا چکے تھے.مگر بدھ کے دن ہمیں معلوم ہوا کہ مصالحت کی گفتگو میں خوابی پیدا ہو رہی ہے.چونکہ ہمارے تعلقات تمام لوگوں کے ساتھ تھے.اس لئے قبل از وقت ہمیں حالات کا علم ہو جاتا تھا.جب مجھے معلوم ہوا کہ کام بگڑ رہا ہے.تو میں نے پھر دوستوں کو بلایا اور ان سے مشورہ لیا اور انہیں کہا کہ ہم اتنی مدت یہاں رہے ہیں.اب ہمیں پیر تک اور ٹھہرنا چاہئیے.پہلے تو اتوار تک ٹھہرنے کا ارادہ تھا لیکن معلوم ہوا کہ اتوار کو گاڑی ریزرو نہیں ہو سکتی.اس لئے ہم نے پیر کے دن چلنے کا فیصلہ کیا اور عین پیر کے دن صبح کے وقت فیصلہ ہو گیا اور ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے اس جھگڑے کو نپٹا کر اپنے گھر واپس آئے.اس سفر میں یہ ایک نہایت ہی خوشی کی بات مجھے معلوم ہوئی ہے کہ وہ مسلمان تو اپنے تفرقہ اور نکتے پن کی وجہ سے مشہور ہیں اُن میں بھی اب اخلاص اور بیداری پیدا ہو چکی ہے اور وہ اپنے فرائض کو سمجھنے لگ گئے ہیں بچنا نچہ نواب صاحب چھتاری ، سر آغا خاں اور سر سلطان احمد نے نہایت بے نفسی کے ساتھ اس موقعہ پر کام کیا ہے.میں سمجھتا ہوں اگر اُن کی بے نفسی اور مسلمانوں کی خیر خواہی کا حال پبلک کو معلوم ہو جائے تو وہ اُن کی قدر کئے بغیر نہ رہے پھر سب سے زیادہ کام نواب صاحب بھوپال نے کیا.یہ الگ بات ہے کہ اسلامی تعلیم کی رو سے سب انسان برابر ہیں کوئی چھوٹا بڑا نہیں.لیکن سوال یہ ہے کہ جن لوگوں کی دیجہ سے عزتیں قائم ہو چکی ہیں وہ معمولی کام کرنے سے بھی گھبراتے ہیں.لیکن نواب صاحب نے باوجود ایک مقتدر ریاست کا نواب ہونے کے جو ادنیٰ سے ادنی کام بھی ان کو کرنا پڑا انہوں نے کیا.یہانتک کہ منتیں بھی کیں.وہ گاندھی جی کے پاس گئے اور بھنگی کالونی میں اُن سے ملاقات کی پہلی ملاقات بے شک بڑودہ ہاؤس میں ہوئی تھی اور نواب صاحب کے مشیر نے کہا تھا کہ ہم یہ پسند نہیں کر سکتے کہ نواب صاحب بھنگی کا لونی میں جائیں.لیکن بعد میں انہوں نے یہ بھی پسند نہیں کیا کہ صرف بڑودہ ہاؤس میں ملاقات ہو بلکہ خود ان کے گھروں پر گئے.اور رات اور دن کوشش کی کہ کسی طرح ملح ہو جائے.یہ علامت ہے اس بات کی کہ اب مسلمانوں میں بھی قربانی اور بیداری کے آثار پیدا ہو رہے ہیں.خواہ دنیا کی نگاہ سے نواب صاحب بھوپال نواب صاحب چھتاری ، سر سلطان احمد اور سر آغا خاں کی قربانی او جھیل رہے مگر اللہ تعالیٰ
۳۳۱ جو عالم الغیب ہے اور تمام رازوں کو جاننے والا ہے اس نے یقیناً ان لوگوں کے ایثار اور ان کی قربانی کو دیکھا ہے اور خدا کی درگاہ سے یہ لوگ بدلہ لئے بغیر نہیں رہیں گے کیونکہ خدا کسی کا اجر ضائع نہیں کرتا مضمون تو اور بھی بیان کرنا تھا.مگر چونکہ وقت زیادہ ہو گیا ہے اس لئے اسی پر ختم کرتا ہوں“ اے تحریک پاکستان کے اعتبار سے مسلم لیگ کا عبوری مسلم لیگ نے پاکستان کی آئینی جنگ جیت لی صورت میں شمولیت اخیر کی سنت کے ارارات کے بعد سب سے بڑا معرکہ ہے کیونکہ مسلم لیگ نے اس کے نتیجہ میں صرف سوا چار ماہ کے اندر اندر پاکستان کی آئینی جنگ جیت لی اور کانگرس کا یہ دیرینہ خواب کہ وہ مسلم لیگ کو نظر انداز کر کے اپنی اکثریت کے بل بوتے پر تنہا ملک کے نظام حکومت کو چلائے گی ہمیشہ کے لئے دھرے کا دھرا رہ گیا اور برطانوی حکومت کو بالآخر مطالبہ پاکستان کے سامنے ہتھیار ڈال دینا پڑے.جیسا کہ اشارہ ذکر آچکا ہے جب تک مسلم لیگ عبوری حکومت سے باہر تھی کانگرسی حلقے خوشی کے شاد ینے بجا رہے تھے مگر جو نہی مسلم لیگ نے اس میں داخلہ قبول کر لیا ان سخت سرامیگی طاری ہوگئی ، اور انہیں بھی پاکستان کی منزل صاف قریب آتے دکھائی دینے لگی بچنا نچہ ملاپ نے صاف لفظوں میں رائے دی کہ یں سمجھتا ہوں یہ جواہر لال جی اور اُن کے ساتھیوں کے جوشش آزادی کو تار پیڈرو کرنے کا جتن ہے اخبار پرتاپ“ نے یہ نوٹ لکھا کہ " لیگ وائسرائے کی پیشکش کو قبول کر کے حکومت میں شامل ہو رہی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اُسے پانچ نمائندے نامزد کرنے کا ادھیکار ہوگا محکموں کی تقسیم از سر نو ہوگی اور وائسرائے اس بات کے لئے ذمہ دار ہوں گے کہ نئی حکومت کثرت کے بل بوتے پر اس کی رائے کو مسترد نہیں کرتی میسر ھینا کا کہنا یہ ہے کہ لیگ حکومت میں شامل ہو رہی ہے تو منہ کے آئین کے ماتحت جس میں وائسرائے سب کچھ ہے اس کے ممبر اس کے مشیر ہیں اور نہیں.ہر ایک نمبر اپنے اپنے محکمہ کے لئے ذمہ دار ہے اور وائسرائے کے مشورہ سے سب کچھ کر سکتا ہے.نہرو وزارت نے مشترکہ ذمہ داری کے اصول الفضل در نبوت / نومبر میش صفحه ۴ تا ۱۶ سے بحوالہ ” نوائے وقت" ۱۹ اکتوبر ۱۹۴۶ صفحه ۳ کالم ۳ :
۳۳۲ پر کام شروع کیا تھا.مسٹر جینا نے کہہ دیا ہے کہ لیگ مشترکہ ذمہ داری کے اصول کو نہیں مانتی..مسلم لیگ کی شمولیت کے تین نتیجے ہو سکتے ہیں (۱) اکثریت کے ساتھ مل کر کام کرے ۰۰ (۲) مزاحمت کرے.اس پر گورنمنٹ ٹوٹ بھائے یا کانگرس اس سے نکل جائے.(۳) گورنمنٹ ٹوٹ جائے تو لیگ کا مقصد حل ہو گیا اور اگر کانگریس کے نکل آنے پر گورنمنٹ نے حکومت لیگ کے حوالے کر دی تو پو بارہ ہو گئے " پ تاپ “ نے اپنے ایک اور ادارتی نوٹ میں لکھا کہ " عارضی حکومت میں لیگ کی شمولیت سے وہ عمارت جو پنڈت جواہر لال اور ان کے رفقاء نے اپنی تقریروں کے ذریعے قائم کی تھی خود بخود گر پڑے گی کیسی بھی مسئلہ پر ہندوستانی پالیسی کا تصور تباہ ہو جائے گا“ کے ہندو پریس کے بالمقابل برطانوی اخبارات نے مسلم لیگ کی اس تاریخی کامیابی کو خوب سراہا چنانچہ لندن کے مشہور روزنامہ ڈیلی ٹیلیگراف نے قائد اعظم کی خدمت میں مبارکباد پیش کی اور لکھا کہ اب کانگریس اور پنڈت و بھی احساس ہوگیا ہوگا کہ کےتعاون کے بغیر میں میں امن قائم نہیں نہرو کو کبھی یہ احساس ہو گیا ہو گا کہ مسلمانوں کے تعاون کے بغیر سہندوستان میں صحیح معنوں میں امن قائم نہیں ہو سکتا ہے انڈونیشین ری پبلک کے وزیر اعظم ڈاکٹر سلطان شہریار نے قائد اعظم محمد علی جناح کو ایک پیغام میں سہندوستان کی مرکزی حکومت میں شمولیت پر اظہار مسرت کیا اور لکھا کہ ہمیں امید ہے کہ مرکزی حکومت میں مسلم لیگ کی شمولیت سے ہندوستان کی مکمل آزادی کرونگا قریب تر ہو جائے گی ھے چنانچہ آئندہ پیش آمدہ واقعات نے ثابت کر دیا کہ ہندوستان کی مکمل آزادی جو قائد اعظم کی اصطلاح میں پاکستن کا دوسرا نام تھا) واقعی آن پہنچی ہے.ہوا یوں کہ قائد اعظم کے اس واضح اعلان کے باوجود کہ ہم مشترک ذمہ داری کے اصول کو تسلیم نہیں کرتے اور نہ کوئی فرد واحد اس عارضی حکومت کا لیڈر ہے جناب پنڈت جواہر لال نہرو نے بحوالہ "نوائے وقت" ۱۶ اکتوبر ۱۹۴۶ صفحه ۳ : " صفحه ۴ کالم : مستمر اسکالم و صفحه ۱ کالم ۴ " " ت قائد اعظم" وطبع دومی صفحه ۶۵۴) از چودھری سردار احمد خان) و PR
۳۳۳ نے مسلم لیگ کے حکومت میں شامل پانچ نمبروں کو یہ دعوت بھی دی کہ صبح دس بجے میری کوٹی پر کابینہ کا اجلاس ہو گا وہ اس میں شامل ہوں لیگ بلاک کے پارٹی لیڈر نوابزادہ لیاقت علیخاں نے شامل اجلاس ہونے سے انکار کر دیا جس پر سہندو پریس نے سخت احتجاج کیا کہ مسلم لیگ نے پہلے دن ہی پنڈت جی کی قائم کردہ کنونشن توڑ ڈالی.”ہندوستان ٹائمز نے تو وائسرائے تک سے فریاد کی اور مسلم لیگ پر نکتہ چینی کی کہ وہ مشترک ذمہ داری کے اصول کو پاؤں سے روند رہی ہے.اس قضیہ کے بعد مسلم لیگ اور کانگریس اور وائسرائے میں سب سے بڑا مایہ النزاع مسئلہ دستور ساز اسمبلی کا اُٹھ کھڑا ہوا.پنڈت نہرو کو اصرارہ تھا کہ سمبلی کا اجلاس و دسمبر اللہ کو ضرور بنایا جائے.وائسرائے کی دوا میں انعقاد اجلاس کا یہ مناسب وقت نہ تھا.پنڈت نہرو اور ان کے کانگریسی رفقاء نہ صرف بضد تھے کہ اسے بہر حال منعقد کیا جائے بلکہ انہوں نے دو بار منتفی ہونے کی دھمکی بھی دی اور پنڈت نہرو نے کانگریس سیشن کی سیجیکٹس کمیٹی کے اجلاس میں یہانتک کہہ دیا کہ " ہمارے صبر کا پیمانہ نہایت سرعت کے ساتھ لبریز ہوتا جا رہا ہے.اگر حالات یہی رہے تو نہایت وسیع پیمانے پر بعد و جہد ناگزیر ہو جائے گی“ انہوں نے وائسرائے پر یہ الزام بھی لگایا کہ انہوں نے جس سپرٹ میں حکومت چلانا شروع کی تھی اب وہ اُسے برقرار رکھنے میں ناکام رہے ہیں مسلم لیگ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے برطانوی تائید حاصل کر رہی ہے ہے اب وائسرائے میرا نونی حکومت نے بھی پنڈت نہرو سے متاثر ہو کہ 9 دسمبر ہ کو دستور ساز امیلی کا اجلاس بلانے کا فیصلہ کر لیا جس پر قائد اعظم نے سہیلی کا بائیکاٹ کر دیا اور اعلان کیا کہ وائسرائے کانگریس کے ہاتھوں کھیل رہے ہیں.وہ مسلم لیگ اور سہندوستان کی دوسری جماعتوں اور ملک کی قومی زندگی کے مختلف عناصر کو بالکل نظر انداز کر کے صرف کانگریس کو مطمئن کر رہے ہیں.ان حالات میں ظاہر ہے کہ مسلم لیگ کا کوئی نمائندہ ومستور ساز اسمبلی میں شامل نہ ہو گا شہ مسلم لیگ کے بائیکاٹ پر برطانوی مدبرین کی آنکھیں کھل گئیں.کہ مسلم لیگ کی عدم موجودگی میں جو دستور بنے گا وہ مسلم قوم پر نافذ نہیں ہو سکتا.چنانچہ ملک معظم کی حکومت د سمیرہ کو مندرجہ ذیل واضح اعلان کرنے پر مجبور ہو گئی کہ شه نواب زادہ لیاقت علیجان (مالیات) راجہ غضنفر علیجان ( حفظان صحت، مسٹر آئی آئی چند دیگر بیٹی (کامرس) مسٹر عبد الرب نشتر سرحد ( ڈاک اور پرواز ) اچھوت ممبر مسٹر جوگندرناتھ منڈل بنگال ( وضع قانون ) سے نوائے وقت ۳۱ اکتوبر ۱۴ صفحه ۳ : ہ "نوائے وقت " 1 نومبر سلالة " ۲۳ تومره ۲ صفحا : صفح ! +
کا ام سلم العالم در مجلس دستور ساز اسمبلی کی کامیابی کا مدار متفقہ لائحہ عمل پر ہے.اگر ایسا آئین مرتب ہو گیا جس میں ہندوستانی آبادی کے کسی کثیر حصہ کو نمائندگی نہیں دی گئی تو ملک معظم کی حکومت اس آئین کو نارضامند علاقوں پر مسلط کرنے کو تیار نہیں ہوگی" اس اعلان کا صاف مطلب یہ تھا کہ پنڈت نہرو اور اُن کی دستور ساز اسمبلی جو قوانین بھی چاہیے مرتب کرے.وہ اس آئین کو ہندو اکثریت کے علاقوں میں جہاں چاہیں نافذ کریں.لیکن جہاں تک پاکستانی علاقوں وہ کا تعلق ہے یہ آئین پر کاہ کی حیثیت نہیں رکھتا ہے وزیر بند سر سٹیفورڈ کریس نے ۱۲دسمبر ۱۹۴۷ء کو دارالعوام میں تقریر کی جس میں اپنے وعدہ کا اعادہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ اگر مسلم لیگ دستور ساز اسمبلی میں شامل ہونے پر آمادہ نہ کی جا سکے تو ان حصوں کو جہاں مسلم لیگ اکثریت میں ہے موجودہ دستور ساز اسمبلی کے مرتب کردہ آئین کا پابند نہیں سمجھا جائے گا ؟ قائد اعظم اور مسلم لیگ ہمبلی کے مقاطعہ پر ڈٹے ہوئے تھے کہ مسٹرائیلی وزیر اعظم برطانیہ نے قائد اعظم محمد علی جناح ، نوابزادہ لیاقت علیخاں ، پنڈت جواہر لال نہرو اور سردار یادیو سنگھ کو صلاح و مشورہ اور مفاہمت کے لئے لندن طلب کیا.اس موقعہ پر سید نا المصلح الموعود نے مسٹر ایلی کے نام ایک مکتوب لکھا جس میں استدعا کی کہ ہندوستانی مسلمانوں کے مفاد کو قربان کر کے کانگریس کے حلیف نہ بنیں“ یہ خط چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ امام مسجد لنڈن نے مسٹر ایٹلی کے حوالہ کیا.سے لندن میں ان لیڈروں کی ایک مختصر سی گول میز کانفرنس بھی منعقد ہوئی مگر اس کا بھی کوئی نتیجہ نہ نکلا اور بالآخر کراچی میں مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی نے حکومت برطانیہ سے مطالبہ کیا کریا تو ہندو دستور ساز اسمبلی مفشوخ کی جائے ورنہ مسلم دستور ساز اسمبلی کے قیام کا بھی اعلان کیا جائے لیتے مسٹرائیلی کی طرح ۲ فروری علئہ جب ملک میں متحدہ دستور ساز اسمبلی کے امکانات یکسر ختم ۲۰ ہو گئے تو ۲۰ فروری 19 کو سٹرائیلی وزیر اعظم نے کو مکمل آزادی دینے کا اعلان ہندوستان کی جون شیر تک مکمل آزادی کا مندرجہ ذیل اه حیات قائد اعظم صفحه ۶۵۳ و از چوہدری سردار محمد یہاں طبع دوم : سے " قائد اعظم اور دستور ساز اسمبلی صفحه ۲۵۰ (از محمد اشرف خان خطا : سه و الفضل " ۱۳ فتح دسمبر سایش صفحه ۱ : رسید رئیس احمد جعفری : " قائد اعظم اور ان کا عہد" شہ یادر ہے ۲۰ فروری وہی تاریخ ہے جبکہ حضرت مسیح موعود کو امیروں کے رستگار سیدنا الصلح الموعود کی آسمانی بشارت ملی تھی ؟
۳۳۵ اعلان کیا :- " ملک معظم کی حکومت کو یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوا ہے کہ ہندوستانی پارٹیوں میں ابھی تک اختلافات موجود ہیں جو دستور ساز اسمبلی کو اس طرح کام کرنے سے روک رہے ہیں جس طرح کہ اسے کام کرنا چاہیئے تھا.وزارتی اسکیم کی تحقیقی مغربیت یہ ہے کہ اسمبلی (مختلف جماعتوں کی ) پوری پوری نمائیندہ ہو ملکہ معظم کی حکومت کی خواہش یہ ہے کہ وزارتی وفد کی اسکیم کے مطابق ایسے با اختیار اداروں کو ذمہ داری منتقل کر دی جائے جو ہندوستان کی تمام پارٹیوں کے منظور کردہ آئین کی رو سے قائم کئے گئے ہوں.لیکن سردست باد قسمتی سے ایسی کوئی واضح امید نظر نہیں آتی کہ ایک ایسا دستورہ اور ایسے با اختیار ادارے وجود میں آجائیں گے.موجودہ غیر یقینی حالت خطروں سے مگر ہے اور اُسے غیر معین عرصہ کے لئے طول نہیں دیا جا سکتا.ملک معظم کی حکومت یہ واضح کر دینا چاہتی ہے کہ اُن کا یہ قطعی ارادہ ہے کہ در خون شہر تک ہندوستان کے ذمہ دار ہا تھوں میں اختیارات منتقل کرنے کی غرض سے ضروری تدبیریں عمل میں لائے.اس وجہ سے ضروری ہے کہ تمام جماعتیں اپنے اختلافات مٹا دیں تاکہ ان بھاری ذمہ داریوں کو جو اُن پر آئیندہ سال آنے والی ہیں اپنے کاندھوں پر اٹھانے کے لئے تیار ہو جائیں اللہ اس اعلان میں کانگرس اور مسلم لیگ دونوں سیاسی جماعتوں کی تسلی کا جواز موجود تھا.کیونکہ ایک طرحت اس میں ہندوستان کی آزادی کی فیصلہ کن تاریخ مقرر کر دی گئی تھی جو کانگرس کے لئے موجب اطمینان پیز تھی.دوسری طرف واضح کیا گیا تھا کہ اگر دستور ساز اسمبلی میں مسلم لیگ شریک نہ ہوئی تو اس کی نمائندہ حیثیت قانو نا ختم کر دی بجائے گی بالفاظ دیگر اکھنڈ بھارت کا کا نگرمی نظریہ شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا اور وہ پاکستان قائم ہو کر رہے گا.ے قائد اعظم اور دستور ساز اسمبلی صفه ۲۶۴ ۲۶۵ ج
۳۳ فصل ششم چوہدری لالانا ضروری استعفاء کی کایا ہےتوجہد اور قائد اعظم کا اظہار مستر اظهارات و شکریہ تقیم بنا کے میں جماعات است و کار را بیان انتقال اقتدار سےتعلق بوجوان شہر کی برطانی کیم اور قام معظم اگرچه بر طانوی حکومت در جون سایه تک تمام اختیارات ہندوستان پنجاب کی یونینسٹ وار را کو سپرد کر دینے کا اعلان کو چکی تھی.مگر چونکہ اٹلی حکومت کے اعلان اور وزارتی میشن کے فارمولا کے مطابق یہ اختیارات ابتدار صوبوں کو منتقل ہونے والے تھے اس لئے مسلم لیگ کے لئے پاکستان کے حصول میں ایک بہت بڑی رکاوٹ پیدا ہو گئی اور وہ یہ کہ اُن دنوں پنجاب میں یونینسٹ وزارت قائم تھی جس کی موجودگی میں صوبہ کے پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا جانا قطعی طور پر ناممکن تھا یہ صورت حال قائد اعظم اور دوسرے تما وقتہ دار مسلم لیگیوں کے لئے حد درجہ تشویش انگیز اور پریشان کن تھی اور بظاہر اصلاح احوال کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی ہے تحریک پاکستان کے اس انتہائی نازک موقعہ پر چودھری چودھری محمد ظفر اللہ خالص صلح میدان عمل میں م ظفر اللہ خاں صاحب ایک بار پھر میدان عمل میں نکل کے حق یہ ہے کہ مسلم لیگی زماہ ایک عرصہ سے اس تگ و دو میں مصروف تھے کہ سر خضر حیات خاں وزیر اعظم یونینسٹ حکومت کو مسلم لیگ میں شامل کریں.چنانچہ پنجاب لیگ کے اکا ہو نے خان افتخار حیات خان ان دنوں شملہ مسلم لیگ کی قیادت میں ستمبر کے آخری ہفتہ میں ان سے مذاکرات بھی کئے.سر خضر حیات خاں ان دنوں شملہ میں تھے.یہ مذاکرات قائد اعظم کے مشورہ پر ہوئے تھے مگر ان کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا ہے و انقلاب " ۳۰ ستمبر ۹۴اء صفحه اکالم 1 )
۳۷ آئے اور آپ نے یونینسٹ حکومت کے وزیر اعظم ملک خضر حیات خاں ٹوانہ کو گیا تھا میں انہیں مخلصانہ مشورہ دیا کہ موجودہ مرحلے پر انہیں وزارت سے استعفاء دے کر مسلم لیگ اور پاکستان کے لئے رستہ صاف کر دینا چاہیے.بعد ازاں چو ہدری صاحب موصوف ملک صاحب کی دعوت پر تنفس نفیس لاہور تشریف لائے اور اُن سے ملاقات کی نتیجہ یہ ہوا کہ وہ آپ کی تحریک پر ۲ مارچ ۱۹ شہر کو اپنے عہدہ سے مستعفی ہو گئے اور اگلے روزہ ہور کے اخبارات میں یہ اطلاع شائع بھی ہو گئی کہ گذشتہ چند روز سے آنریل سر محمد ظفر اللہ خانصاحب لاہور تشریف لائے ہوئے ہیں.آپ نے خضر حیات خاں صاحب سے متعدد ملاقاتیں فرمائیں اور ان پر برطانوی حکومت کے تازہ اعلان کی آئینی اہمیت واضح فرمائی موجودہ وزارتی تبدیلی میں آپ نے بہت نمایاں حصہ لیا ہے.اس سے واضح الفاظ میں اخبار" ٹریبیون نے اپنی ھر مارچ ۱۹۴۷ء کی اشاعت میں یہ خبر دی کہ معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ خضر حیات خان صاحب نے یہ فیصلہ سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب کے مشورہ اور ہدایت کے مطابق کیا ہے “ له at اخبار کاپ (مورخہ ۲۰ فروری انا نے لکھا :- یہ ایک واضح بات ہے کہ چودھری ظفراللہ خاں نے خضر حیات کو مجبور کر کے اس سے استعفاء دلایا.خضر حیات کا استعفار مسلم لیگ کی وزارت بننے کا پیش خیمہ تھا اگر شفہ حیات کی وزارت نہ ہوتی تو آج پنجاب کی یہ حالت نہ ہوتی " سے مسلمانوں نے خضر حیات کے استعفا پرکیشین مسترکت منایا قائد اعظم کا بئی سے بیان اور شکریہ ا قائد اعظم محمد علی جناح نے بمبئی سے بیان جاری کیا - مجھے آج صبح یہ سن کر خوشی ہوئی ہے کہ ملک خضر حیات خال نے اپنا اور اپنے کابینہ کا استعفیٰ داخل کر دیا ہے.ان کا یہ فیصلہ دانشورانہ ہے اور مجھے توقع ہے کہ ڈاکٹر خاں صاحب (وزیر اعظم سرحد ناقل) اس نیک مثال کی تقلید کریں گئے اس کے بعد جب ناظر اور خارجہ حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب درد قائد اعظم کی خدمت میں حاضر ہوئے ال " تفضل" هر امان ماریچ ش صفحه کے ریش ے حوالہ " الفصل " ۴ نیوت / نومبر + A + جواله الفضل" در امان مادرش صفر / بیش ۸ +
٣٣٨ تو آپ نے جماعت احمدیہ کی اس کوشش کا بہت شکریہ ادا کیا اور فرمایا کہ آپ نے نہایت آڑے وقت ہماری مدد کی ہے اور کہا " never forget it." cam و " یعنی میں اسے کبھی فراموش نہیں کر سکتا ہے.ملک خضر حیات کے استعفاء کا پس منظر چودھری محمد ظفراللہ خان صاحب اپنی غیر مطبوعہ خود نوشت سوانح حیات میں ملک خضر حیات کے چودھری محمد خلف الشر خاص محب کے تسلم سے استغفار کے پیس تقریر پانی ڈالتے ہوئے اپنے منظر قلم سے تحریر فرماتے ہیں کہ وزیر اعظم انٹیلی نے اپنے ۲۰ فروری ان کے بیان میں اعلان فرمایا کہ تقسیم ملک کے بغیر جاں نہیں.اور یہ کہ ملک معظم کی حکومت ہندوستان کے نظم و نسق کے اختیارات ہندوستان کو سپرد کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے.اس پر عملدرآمد کا طریق یہ ہوگا کہ حکومت کے اختیارات صوبائی حکومتوں یا کسی متوازی ادارے کے سپرد کر دیئے جائیں گے.اور اس طور پر تقسیم کی کارروائی کی تکمیل کی جائے گی.جہاں اس بیان سے مجھے یہ اطمینان تو ہوا کہ آخر حکومت برطانیہ نے قیام پاکستان کو تسلیم کر لیا وہاں مجھے اس اعلان کے اس حصے سے سخت پریشانی بھی لاحق ہوئی کہ حکومت کے اختیارات عبوری مربعلے میں صوبائی حکومتوں کو تفویض کئے جانے کا امکان ہے جب جناب قائد اعظم نے برطانوی وفد کے منصوبے کو منظور فرما لیا تھا اس وقت ان کے اس فیصلے سے میرا حوصلہ بہت بڑھ گیا تھا کہ وہ میرے انداز سے سے بھی بڑھ کر صاحب نذیر ثابت ہوئے.میری نگاہ میں برطانوی وفد کے منصوبے کا ایک قابل قدر پہلو یہ تھا کہ پہلے دسن سال میں اکثریت کو موقعہ دیا گیا تھا کہ وہ اپنے منصفانہ رویے اور حسن سلوک کے ذریعے اقلیتوں کا اعتماد اور حاصل کریں کہ آزاد ہندوستان میں اُن کے بھائی حقوق کی مناسب نگہداشت ہوگی اور ان کے بعد بات احساسات کا احترام ہوگا.ہر چند کہ سابقہ تجربہ کچھ ایسا امید افزا نہیں تھا پھر بھی جناب قائد اعظم کا اس منصوبے کو عملاً آنہ مانے پر تیار ہو جانا اس بات کا ثبوت تھا کہ اُن کا موقف کسی قسم کی چند پر مبنی نہیں تھا.ے قیلم پاکستان اور جماعت احمدیه صفحه ۵۰ ۱ از تقریر علامہ مولانا جلال الدین صاحب شمس سابق امام مسجد لندن ناشه مهم نشر و اشاعت نظارت دعوة و تبلیغ صدر انجین احمدیه ریوه به
۳۳۹ بعد کے حالات سے یہ بھی ترشح ہوتا ہے کہ ممکن ہے کانگریس کے بعض عناصر نے وفد کے منصوبے کو تسلیم کرنے کی تائید اس توقع میں کی ہو کہ مسلم لیگ اسے رو کر دے گی اور وند کی ناکامی کی ذمہ داری لینگ پر ڈالی جاگی جس کے نتیجے میں برطانوی حکومت کی نظروں میں پاکستان کا مطالبہ کمزور ہو جائے گا.جب لیگ نے وفد کا منصوبہ تسلیم کر لیا تو ان عناصر کا اندازہ غلط ثابت ہوا.اور انہوں نے منصوبے کو نا کام کرنے کی راہیں تلاش کرنا شروع کیں.بہر صورت آخر نتیجہ یہ ہوا کہ ہر صاحب فہم کی نظر میں وفد کی ناکامی کی ذمہ داری کانگریس پر عائد ہوئی اور پاکستان کا مطالبہ مضبوط تر ہو گیا.لیکن اس مقصد تک پہنچنے کا پہلا مرحلہ جب یہ قرار دیا گیا کہ حکومت کے اختیارات صوبائی حکومتوں کو تفویض کئے جائیں گے تو پنجاب کے حالات کے پیش نظر میری طبیعت نہایت کرب میں مبتلا ہوئی.جناب سر سکندر حیات خاں صاحب کی وفات کے بعد جناب ملک سر خضر حیات خان صاحب پنجاب میں وزیمہ اعظم ہوئے.یہ جناب سردار صاحب کے رفقار میں سے تھے اور ان کی جگہ یونینسٹ پارٹی کے سربراہ ہوئے.لیکن یونینسٹ پارٹی کے عناصر میں جلد جلد تبدیلی ہو رہی تھی.پارٹی کی رکنیت میں بتدریج مسلم عنصر کم ہو رہا تھا اور غیر مسلم عنصر بڑھ رہا تھا صوبے میں مسلم لیگ کی تنظیم مضبوط ہو رہی تھی.اور لیگ کا رسوخ بڑھتا جا رہا تھا.یہانتک کہ لیگ نے عدم تعاون کے ذریعے یونینسٹ پارٹی کو حکومت سے بر طرف کرنے کی کوشش کی.اس کوشش میں تو لیگ بظاہر کامیاب نہ ہوئی لیکن لیگ کی وقعت رائے عامہ میں بہت بڑھ گئی اور شہری حلقوں میں خصوصاً لیگ کا اثر ہر جگہ پھیل گیا.جناب قائد اعظم نے اس سے قبل ہی جناب ملک صاحب پر زور دینا شروع کیا تھا کہ وہ لیگ میں شامل ہو کر اور لیگ سے مل کو کام کریں لیکن وہ ایسا کرنے پر آمادہ نہ ہوئے.انہوں نے سکندر جناح پیکٹ کی آڈینے کی کوشش کی لیکن جناب قائد اعظم نے اُسے ٹھکرا دیا.جناب ملک صاحب کا موقف تھا کہ پاکستان کا مطالبہ مرکز سے متعلق ہے اور ہم سو فیصدی اس کی تائید میں ہیں.لیکن صوبے کے حالات کے پیش نظر یونینسٹ پارتی جو ایک غیر فرقہ وارانہ پارٹی ہے اور جس کی تشکیل اقتصادی مقاصد کی بناء پر رکھی گئی تھی اور انہیں ما کے حصول کے لئے وہ کوشاں رہی ہے، ایک موزوں پارٹی ہے اور مسلم حقوق کا بخوبی تحفظ کر سکتی ہے اور کرتی ہے.اسی کشمکش کے دوران میں برطانوی وزیرا عظم کا بہ فروری سائے کا اعلان ہو گیا جس کا ایک
۳۴۰ پہلو یہ تھا کہ پنجاب کے صوبے میں مرکزی اختیارات بھی صوبائی حکومت کو تفویض ہوں.اس وقت تک یونینسٹ پارٹی میں رکنیت کی کثرت غیر مسلم اراکین کو حاصل ہو چکی تھی.اگر اب بھی یہی پارٹی برسر اقتدار رہتی تو مسلم لیگ کے رستے میں اور پاکستان کے قیام کے رستے میں ایک بہت بڑی روک پیدا ہو جاتی.یکن جناب ملک سر خضر حیات خاں صاحب کو عرصے سے جانتا تھا اور میرے اُن کے درمیان دوستانہ مراسم تھے جب تک میں حکومت ہند کا رکن رہا مجھے گرمیوں کے موسم میں جناب ملک صاحب کے ساتھ شملے میں ملاقات کے مواقع میسر آتے رہتے تھے جب میں حکومت سے علیحدہ ہو کر عدالت میں پہلا گیا تو ہمارے طلاقات کے مواقع کم ہو گئے اور میں نے سیاسی سرگرمیوں میں براہ راست حصہ لینا کم کر دیا.گو قومی معاملات میں میری دلچسپی میں کوئی کمی نہ آئی.اب اس مرحلے پر بڑی شدت سے میری طبیعت اس طرف مائل ہوئی کہ مجھے جناب ملک صاحب کی خدمت میں گزارش کرنا چاہئیے کہ اب وہ صورت نہیں رہی کہ پاکستان کے مطالبے کا تعلق مرکزی حکومت کے ساتھ ہے اور صوبائی حکومتیں اس سے الگ ہیں کیونکہ وزیر اعظم اٹلی کے اعلان کے بعد صوبائی حکومتیں لان ما اس کشمکش میں کھینچ لی جائیں گی اور مسلم لیگ اور پاکستان کے لئے یہ امر بہت کمزوری کا باعث ہوگا کہ پنجاب میں اختیارات حکومت ایک ایسی پارٹی کے ہاتھ میں ہوں جس کی اکثریت غیر مسلم ہے.ساتھ ہی مجھے کچھ چھاپ بھی تھا کہ میں سیاسیات سے باہر ہوتے ہوئے اور پنجاب کے تفصیلی حالات سے واقفیت نہ رکھتے ہوئے جناب ملک صاحب کی خدمت میں کوئی ایسی گزارش کروں جیسے وہ بیجا جسارت شمار کرتے ہوئے قابل التفات شمار نہ کریں.ادھر ہر لحظہ جوں جوگی میں وزیر اعظم برطانیہ کے اعلان پر غور کرتا میری پریشانی میں اضافہ ہوتا.دو دن اور راتیں میں نے اسی کشمکش میں گزاریں.مجھے بہت کم کبھی ایسا اتفاق ہوا ہے کہ ہمیں رات آرام سے نہ سو سکوں.لیکن یہ دونوں راتیں میری بہت بے چینی کی نذر ہوئیں.آخر میں نے تمیری صبح جناب ملک صاحب کی خدمت میں عریضہ لکھا اور انہیں اُن کی ذمہ داری کی طرف توجہ دلاتے ہوئے گزارش کی کہ انہیں اس مرحلے پر وزارت سے استعفاء دے کر مسلم لیگ کا رستہ پنجاب میں صاف کر دینا چاہیے اور اپنی ذمہ داری سے سرخرو ہو جانا چاہئیے.اس عریضیہ کے ارسال کرنے کے تیسرے دن جناب ملک صاحب نے ٹیلیفون پر مجھے فرمایا تمہارا اخط مجھے مل گیا ہے.میں ٹیلیفون پر مختصر بات ہی کر سکتا ہوں.مجھے اصولاً تمہارے ساتھ اتفاق ہے.لیکن میں مزید مشورہ کرنا
۳۲۱ چاہتا ہوں.تم ایک دن کے لئے لاہور آ جاؤ.میں نے گذارش کی، میں انشاء اللہ آج رات روانہ ہو کر گل صبح حاضر خدمت ہو جاؤں گا.میرے حاضر ہونے پر جناب ملک صاحب نے فرمایا.جیسے میں نے ٹیلیفون پر تم سے کہا تھا.مجھے اصولا تمہارے ساتھ اتفاق ہے لیکن میں تمہاری یہاں موجودگی میں بھائی اللہ بخش (نواب سر اللہ بخش خاں ٹوانہ کے ساتھ مشورہ کرنا چاہتا ہوں.اور پھر مظفر ( نواب سر مظفر علی قزلباش سے بھی مشورہ کرنا چاہتا ہوں.مظفر نے ہر مرحلے پر میرا ساتھ دیا ہے.میں بغیر ان دو کے مشورہ کے کوئی پختہ فیصلہ نہیں کر سکتا.جناب نواب سر اللہ بخش خان صاحب تو جناب ملک صاحب کے بنگلے کے باغ میں خیمے میں فروکش تھے.ہم دونوں ان کی خدمت میں حاضر ہو گئے.ملک صاحب نے فرمایا.بھائی جان ! میں نے ظفر اللہ خان کی چھٹی کل آپ کو پڑھ کر سنادی تھی.اب آپ فرمائیں.آپ کی کیا رائے ہے ؟ جناب نواب صاحب نے فرمایا.میں نے کل بھی کہا تھا اور آج بھی کہتا ہوں کہ مجھے ظفر اللہ خان کے ساتھ اتفاق ہے.اس مرحلے پر صحیح طریق یہی ہے کہ تم اس ذمہ داری سے سبکدوش ہو جاؤ.چند منٹ کی گفتگو کے بعد وہیں سے جناب ملک صاحب نے جناب نواب سر مظفر علیخاں صاحب کے ہاں ٹیلیفون کیا تو معلوم ہوا نواب صاحب اسٹیٹ تشریف لے گئے ہیں.وہاں ٹیلیفون نہیں تھا.جناب ملک صاحب نے اپنے سائق کو ارشاد فرمایا فورا کار میں بجھا کہ نواب سر منظفر علیخاں صاحب کو اُن کی اسٹیٹ سے لے آؤ بجناب نواب صاحب کی تشریف آوری پر جناب ملک صاحب نے خاکسار کے خط کا ذکر جناب نواب صاحب سے کیا اور ان کی رائے دو فریت کی.اس پر انہوں نے فرمایا.ہم مسلم لیگ کی تحریک عدم تعاون کو نا کام کر چکے ہیں مجلس میں ہماری پوزیشن مضبوط ہے.بجٹ کا اجلاس چند دنوں میں شروع ہونے والا ہے.اس بات سے تو تجھے اتفاق ہے کہ ہمیں حکومت سے دست بردار ہو جانا چاہیئے لیکن میری رائے یہ ہے کہ بجٹ پاس کرنے کے بعد استعفاء دینا چاہئیے.یہ سنتے ہی جناب نواب اللہ بخش صاحب نے فرمایا.یہ بات بالکل غلط ہے مشورہ طلب امر یہ نہیں کہ استعفاء کب دیا جائے مشورہ طلب امر یہ ہے کہ اس وقت استعفار دیا جائے یا نہیں.فیصلہ یہ ہونا چاہیے استعفاء دیا جائے یا پھر یہ ہونا چاہیئے استعفاء نہ دیا جائے.یہ کوئی فیصلہ نہیں آج سے ڈیڑھ ماہ یا دو ماہ بعد استعفار دیا جائے.آپ کیا کہ سکتے ہیں اس درمیانی عرصے میں کیا واقعات ہوں اور کیا مراحل پیش آئیں اور کن حالات کا آپ کو سامنا ہو.اگر اس وقت استعفار نہیں ہونا چاہیئے تو لیس اسی پر اکتفا کرو، استفار
ام اس نہیں دینا چاہیئے.کل کیا ہو گا یا ایک نہینہ بعد کیا ہوگا ، یہ وقت آنے پر دیکھا جائے گا.پھر ایک اور امر بھی قابل غور ہے.اگر آپ آج یہ فیصلہ کریں.بجٹ پاس کرنے کے بعد استعفاء دیں گے تو یہ خلاف دیانت ہے.بجٹ آپ پارٹی کی مدد سے پاس کریں گے.اس وقت تو آپ انہیں بتائیں گے نہیں کہ آپ نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ بجٹ پاس کرتے کے بعد استعفا دے دیں گے.اگر اس وقت آپ انہیں بتائیں گے تو ابھی سے پارٹی منتشر ہو جائے گی اور خود ہی آپ کا استعفاء ہو جائے گا.اور اگر اس وقت نہیں بتائیں گے اور ان کی مدد سے بجٹ پاس کرنے کے بعد اُن کی خلاف مرضی استعفا دے دیں گے تو گویا آپ نے اُن سے قریب کیا کہ ان کی مدد سے بجٹ پاس کر لیا اور پھر ان کی خلافت مرمضی استعفاء دے دیا.اس لئے میری تو یہی رائے ہے کہ اس وقت حضر یہ طے ہونا چاہیئے کہ اس مرحلے پر آپ استعفاء دیں یا نہ دیں.میں اپنی رائے بنا چکا ہوں کہ آپ کو استعفا دینا چاہئیے.آگے جیسے آپ مناسب سمجھیں.اس کے بعد جناب نواب مظفر علی خاں صاحب چند منٹ ٹھہر کر تشریف لے گئے.جناب ملک صاحب نے اسی سہ پہر کے لئے پارٹی کا اجلاس اپنے دولتکدے پر طلب فرمایا اور خود گورنر صاحب ( ۴۱۹ EVANS JEN-KINS ) کو ملنے تشریف لے گئے.گورنر سے کہا.وزیر اعظم اٹلی کے اعلان کے پیش نظر میں سوچ بچار کے بعد اس رائے کی طرف مائل ہوں کہ مجھے اس مرحلے پر استعفاء دے دینا چاہئیے لیکن پختہ فیصلہ کرنے سے پہلے میں نے آج سہ پہر پارٹی کا اجلاس طلب کیا ہے.اگر پارٹی کے ساتھ گفتگو کے بعد میں اس رائے پر قائم رہا تو یوں آج شام پھر آپ سے ملنے کے لئے آؤں گا اور اپنے فیصلے سے آپ کو مطلع کر دوں گا.گورنر صاحب نے فرمایا.یہ امر خالصہ آپ کی مرضی پر موقوف ہے.حالات کے پیش نظر میں آپ کی رائے پر کوئی اثر ڈالنا نہیں چاہتا.لیکن کیا میں یہ پوچھ سکتا ہوں کہ آپ نے خود بخود یہ رائے قائم کی ہے یا کسی طرفت سے آپ کو کوئی تحریک ہوئی ہے.اس پر ملک صاحب نے فرمایا کہ فیصلہ تو میرا جو کچھ ہوگا اپنا ہی ہوگا لیکن وزیر اعظم اٹلی کے اعلان کے نتیجے میں توجہ مجھے ظفر اللہ خان نے دلائی ہے.پارٹی کا اجلاس تین بجے سہ پہر سے چھ سات بجے تک رہا.میں تو اس میں شامل نہیں تھا.لیکن میرے کمرے تک بعض دفعہ آواز پہنچتی تھی جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ بحث گرم ہو رہی ہے.شام کے کھانے پر مجناب طلب صاحب نے بتایا کہ پارٹی کے غیر مسلم اراکین میرے فیصلے پر بہت آزردہ تھے اور اپنے اپنے زاویہ نگاہ سے مجھے سمجھانے کی کوشش کرتے رہے کہ میرا مجوزہ اقدام درست نہیں.لیکن میرا موقف یہی
کرام ۳ رہا کہ بر طانوی وزیر اعظم کے اعلان کے بعد میرے لئے اور کوئی رستہ کھلا نہیں رہا.کھانے کے بعد جناب ملک صاحب گورنر صاحب سے ملنے کے لئے تشریف لے گئے.اور اپنا استعفی پیش کر دیا اور ساتھ ہی گورنر صاحب کو مشورہ دیا کہ جناب نواب صاحب ممدوٹ کو بحیثیت قائد مسلم لیگ پارٹی دعوت دی جائے کہ وہ نئی وزارت کی تشکیل کریں.جناب ملک صاحب کے استعفار کا اعلان ریڈیو پر ہو گیا مسلم لیگ معلقوں میں اس خبر سے نوشی کی ایک لہر دوڑ گئی اور صبح ہوتے ہی شہر بھر میں خضر حیات زندہ باد کے نعرے بلند ہونے لگے.جناب راجہ غضنفر علی صاحب اور جناب سردار شوکت حیات خان صاحب کی سرکردگی میں بہت سے مسلم لیگ کے سرکردہ اصحاب جناب ملک صاحب کے بنگلے پر تشریف لائے اور ملک صاحب کو مبارک باد دی ، گلے لگایا اور پھولوں کے ہار پہنائے گئے.اس کے برعکس غیر مسلم معلقوں میں اس خبر سے بہت بے چینی پھیل گئی اور اُن کی طرف سے مخالفانہ مظاہرے شروع ہو گئے.یہ رو صوبے بھر میں پھیل گئی اور بعض مقامات پر فرقہ دارانہ افسوسناک وارداتیں بھی ہوئیں.میں اُسی دن دتی واپس چلا گیا.صوبائی مسلم لیگ قیادت کی طرف سے جناب ملک صاحب پر زور دیا گیا.کہ وہ مسلم لیگ پارٹی میں شامل ہو جائیں.انہوں نے وضاحت سے فرما دیا کہ وہ سیاسیات سے الگ رہتا چاہتے ہیں جس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ کسی ذہن میں بھی یہ غلط اندازہ کیا جائے کہ انہیں وزارت یا کسی سیاسی اعزاز یا منصب کی خواہش ہے مسلم لیگ پارٹی کے متعلق انہوں نے اپنی نیک خواہی کا ثبوت کیوں دے دیا کہ انہوں نے جناب منواب مظفر علی خاں صاحب قزلباش کو مشورہ دیا کہ وہ مسلم لیگ پارٹی میں شامل ہو جایں چنانچہ وہ شامل ہو گئے.جناب ملک سر خضر حیات خان صاحب کا پہلا موقف درست تھا یا غلط ، اس میں کسی شک کی گی داری نہیں کہ اس مرحلے پر ان کا استعفاء دینا ایک نہایت قابل ستائش فعل تھا.جس کے نتیجے میں صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ کا رستہ صاف ہو گیا اور پاکستان کے استحکام کی صورت پیدا ہوگئی.اگر وہ ایسانہ کرتے تو بہت سی مشکلات کا امکان تھا.اس کے مقابل پر پاکستان کے قیام کے بعد جناب ملک صاحب کے تھے وہ انصاف اور حسن سلوک روا نہ رکھا گیا جس کا ہر شہری بلا امتیاز حقدار ہے".مله خود نوشت سوانح حیات چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب صفحه ۳۸۳ تا ۳۹۰ :
سلام سلام سلام جماعت احمدیہ کی طرف سے خضر وزارت کے استعفا پر صرف چند دن ہی گذرے تھے ، کہ کانگرس ورکنگ کمیٹی نے اپنے اجلاس دہلی (منعقدہ ہم تا به ماریچ تقسیم پنجاب کے نام پر زور احتاج ا مہ) میں یہ قرار داد پاس کی کہ پنجاب کو مسلم اور غیر مسلم پنجا میں تقسیم کر دیا جائے.ازاں بعد م ا ا پریل کو آل انڈیا ریڈیو سے سرکاری طور پر بھی اعلان ہوگیا کہ ایسی تجویز حکومت کے زیر غور ہے.حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی المصلح الموعود نے یہ اعلان سنتے ہی وائسرائے ہند کے نام حسب ذیل ایکسپرس تار ارسال کیا :- آل انڈیا ریڈیو میں آج رات (یعنی مورخہ ۱۵ اراپریل سے قبل کی رات) اعلان ہوا ہے کہ پنجاب کو تین حصوں میں تقسیم کر دینے کی تجویز زیر غور ہے.میں اور میری جماعت تقسیم پنجاب کی تجویز کے خلاف پر زور احتجاج کرتے ہیں اور خصوصاً اس تجویز کے مضلات کہ وسطی پنجاب کو مغربی پنجاب سے علیحدہ کر دیا جائے.ہم مسلمان پنجاب کے وسطی حصوں میں کامل اکثریت رکھتے ہیں اور ہمیں ایسے ہی انسانی حقوق حاصل ہیں جو دنیا کے کسی حصے میں کسی قوم کو حاصل ہو سکتے ہیں.یقیناً ہمارے ساتھ تجارتی اموال کا سا سلوک نہیں ہونا چاہیئے " " لیکن افسوس جلد ہی ہندوؤں اور سکھوں کی طرف سے تقسیم پنجاب کا مطالبہ اس درجہ زور پکڑ گیا کہ اسے قریباً نا گزیر خیال کیا جانے لگا.جس پر شروع مئی کہ میں ناظر علی قادیان کی طرف سے قائد اعظم جناب محمد علی جناح صدر آل انڈیا مسلم لیگ کے نام مندرجہ ذیل تار بھجوایا گیا.جماعت احمدیہ پنجاب کی تقسیم کے خلاف ہے لیکن اگر یہ تقسیم ناگزیر ہو تو ہماری رائے میں اُسے تین اصولی شرطوں کے ساتھ مشروط کرنا ضروری ہے.اقول تمام اُن علاقوں کو اسلامی علاقہ میں شامل کیا جاوے جہاں آبادی کے تناسب کے لحاظ له الفضل ، ارامان ماری کہ میں صفحہ ہ کالم او یا د ر ہے قبل ازیں پنڈت جواہر لال نہرو بھیٹی میں اور نومبر شوید کو ایک تقریر کے دوران کہہ چکے تھے کہ " سوال یہ ہے کہ اگر غیرمسلم پاکستان میں رہنے سے انکار کریں تو مسٹر جناح کیا کریں گے.ان لوگوں کو پاکستان میں رکھنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہو سکتا ہے اور وہ ہے دباؤ کا یا پاکستانی صوبوں کے حصے بخرے کرنے سے ہی ہو سکتا ہے.کیا مسٹر جناح بنگال اور پنجاب کے حصے بخرے کرنے کے لئے تیار ہیں.انہوں نے چیلنج کیا کہ بنگال اور پنجاب منقسم نہیں ہو سکتے کیونکہ دونوں ہیں ایک تمدنی ایکتا ہے (پستاپ ۱۳ نومبر و صفحه ۳ ) له الفضل کے ار شہادت اپریل همین صفحه ۲ :
۳۴۵ سے مسلمانوں کی اکثریت ہے خواہ اس کے لئے اضلاع کی حدود توڑنی پڑیں یا تسلسل کو ترک کر کے معقول جدا گانہ جزیرے بنانے پڑیں.دوم تمام علاقوں کو اسلامی علاقے قرار دیا جائے جہاں مسلمان انفرادی طور پر سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ جہاں مسلمانوں ، ہندوؤں اور سکھوں کی رائے معلوم ہے اچھوت اقوام اور عیسائیوں کی رائے ریفرینڈم یعنی حصول رائے عامہ کے طریق پر کی جائے.سوم.نہروں کے ہیڈ اور بجلی کے پاورسٹیشن اور پہاڑی صحت افزا مقامات کو اُن علاقوں کے ساتھ کم از کم پندرہ سال کے عرصہ کے لئے محق رکھا جائے جنہیں وہ اس وقت زیادہ تمہ فائدہ پہنچا رہے ہیں خواہ مقامی آبادی کا تناسب اس کے خلاف ہو لے ناظر اعلی قادیان نے جہاں قائد اعظم کو یہ تار دیا وہاں مسٹر ایٹلے وزیر اعظم برطانیہ اور مسٹر چرچل لیڈر خوب اختلاف کے نام بھی تار ارسال کیا جس کی نقل قائد اعظم محمد علی جناح دہلی ، اورینٹ پر لیس اور ایسوسی ایٹڈ پریس لاہور کو بھی بھجوائیں.تار کے الفاظ یہ تھے :- حمدیہ جماعت پنجاب کی تقسیم کے سخت خلاف ہے کیونکہ وہ جغرافیائی اور اقتصادی لحاظ سے ایک قدرتی یونٹ ہے اور اُسے ہندوستان کی تقسیم پر قیاس کرنا اور اس کا طبیعی نتیجہ قرار د یا بالکل خلافت انصاف اور خلافت عقل ہے.اگر صوبوں یعنی قدرتی بیوی کا اس لئے تقسیم کیا جارہا ہے کہ اقلیتوں کے لئے حفاظت کا سامان مہیا کیا جائے تو اس صورت میں یو پی کے ہم لاکھ اور بہار کے ہم کچھ اور مدراس کے ۳۹ لاکھ مسلمان زیادہ حفاظت کے مستحق ہیں.یہ دلیل کہ ان صوبوں کی مسلمان آبادیاں کسی حصہ میں بھی اکثریت نہیں رکھتیں ایک بالکل غیر متعلق اور غیر موثر دلیل ہے کیونکہ اگر تقسیم کو قدرتی یونٹوں کے اصول کی بجائے اقلیتوں کی حفاظت کے اصول پر مبنی قرار دینا ہے ، تو پھر اس وقت ان مسلمان آبادیوں کا منتشر صورت میں پایا جانا ہرگز انصاف کے رستہ میں روک نہیں ہونا چاہیئے.بلکہ اس وجہ سے ان کی حفاظت کا حق اور بھی زیادہ مضبوط ہو جاتا ہے سکھوں کو بجھا جیسا کہ اُن کا اہل الرائے اور سنجیدہ طبقہ خیال کرتا ہے پنجاب کی تقسیم سے قطعا کوئی فائدہ نہیں پہنچتا بلکہ وہ اپنی آبادی کو دو حصوں میں بانٹ کر اور دونوں حصوں میں اقلیت رہتے ہوئے اپنی " الفضل" سے مٹی سلام میں صفحہ ۵ کالم 1.
۳۴۷۶ طاقت کو اور بھی کمزور کر لیتے ہیں.یہ ادعا کہ پنجاب کی تقسیم آبادی کی بجائے جائداد کی بناء پر ہونی چاہیے نہ صرف جمہوریت کے تمام مسلمہ اصولوں کے خلاف ہے بلکہ اس سے مادی اموال کو انسانی جانوں پر فوقیت بھی حاصل ہوتی ہے جو ایک بالکل ظالمانہ نظریہ ہے" لے پاکستان کی تائید میں سیدنا المصلح الموعود دلی کے اخبار ریاست نے اپنے ایک ادارتی نوٹ میں احمدیوں کی پاکستان نواز پالیسی پر تنقید کی جس کا کا پر شوکت بیان ملخص یہ تھا کہ احمدی پاکستان کی تائید کر رہے ہیں مگر جب پاکستان قائم ہو گیا تو اُن کے ساتھ دوسرے مسلمان وہی سلوک روا رکھیں گے جو کابل میں افغان حکومت کی طرف سے کیا گیا تھا.حضرت مصلح موعود کی خدمت میں جب اخبار " ریاست کے اس شذرہ کی اطلاع پہنچی تو حضور نے ہجرت امی یہ ہیش کو نماز مغرب کے بعد مسجد مبارک قادیان میں ایک پر شوکت تقریبہ فرمائی جس میں مطالبہ پاکستان کی معقولیت و ضرورت کو مختلف نقطہ ہائے نگاہ سے بڑی شرح وبسط سے واضح کیا.اور اعلان فرمایا کہ مسلمان مظلوم ہیں اور ہم تو بہر حال مظلوموں کا ساتھ دیں گے خواہ ہیں تختہ دار پر یہی لٹکا دیا جائے حضور کی یہ یاد گار تقریہ تحفہ ذیل میں دی جاتی ہے.فرمایا :- " آج مجھے ایک عزیز نے بتایا کہ دلی کے ایک اخبار نے لکھا ہے کہ احمدی اس وقت تو پاکستان کی حمایت کرتے ہیں مگر ان کو وہ وقت بھول گیا ہے جبکہ ان کے ساتھ دوسرے مسلمانوں نے مجھے سلوک کئے تھے.جب پاکستان بن بھائے گا تو اُن کے ساتھ مسلمان پھر وہی سلوک کریں گے جو کابل میں اُن کے ساتھ ہوا تھا اور اس وقت احمدی کہیں گے کہ ہمیں ہندوستان میں شامل کر لو.کہنے والے کی اس بات کو کئی پہلوؤں سے دیکھا جا سکتا ہے.اس کا ایک پہلو تو یہی ہے کہ جب پاکستان بن جائے گا تو ہمارے ساتھ مسلمانوں کی طرف سے وہی سلوک ہو گا جو آج سے کچھ عرصہ پیشتر افغانستان میں ہوا تھا اور فرض کرو ایسا ہی ہو جائے، پاکستان بھی بن جائے اور ہمارے ساتھ وہی سلوک روا بھی رکھا جائے.لیکن سوال تو یہ ہے کہ ایک دیندار جماعت جس کی بنیاد ہی مذہب اخلاق اور انصاف پر ہے.کیا وہ اس کے متعلق اس نقطہ نگاہ سے فیصلہ کر رہے گی کہ میرا له الفضل " ۲۴ ہجرت املی اش صفحه ۳ :
۳۴۷ اس میں فائدہ ہے یا وہ اس نقطہ نگاہ سے فیصلہ کرے گی کہ اس امر میں دوسرے کا حق کیا ہے.یقینا وہ ایسے معاملہ میں موخر الذکر نقطہ نگاہ سے ہی فیصلہ کرے گی.مثلاً ایک مجسٹریٹ ایسے علاقہ میں عدالت کی کرسی پر بیٹھا ہے جس میں اس کے بعض قریبی رشتہ دار بھی رہتے ہیں اور اس کے ان رشتہ داروں کے دوسرے لوگوں کے ساتھ تنازعات بھی ہیں.اس کے سامنے ایک ایسا مقدمہ پیش ہوتا ہے جس میں اس کے رشتہ داروں کا ایک دشمن مدعی ہے.اگر اس کے پاس روپیہ ہو تو وہ اس کے رشتہ داروں کو نقصان پہنچا سکتا ہے.اگر یہ مجسٹریٹ اسی مدعی کے حق میں فیصلہ کر دے تو اس مدعی کے پاس روپیہ آجاتا ہے اور پھر وہ اس مجسٹریٹ کے رشتہ داروں کو رق کر سکتا ہے تو کیا ایک دیانت دار مجسٹریٹ اس ڈر سے کہ کل کو یہ روپیہ ہمارے خلاف استعمال کرے گا، اس حقدار مدعی کے خلاف فیصلہ کر دے گا ؟ اگر وہ ایسا کرے گا تو یہ اس کی صریح نا انصافی ہوگی اور اگر وہ حق پر قائم رہتے ہوئے شہادات کو دیکھتے ہوئے اور مواد نسل کی روشنی میں قادری کے حق میں فیصلہ دیتا ہے تو کیا کوئی دیانتدار دنیا میں ایسا بھی ہو سکتا ہے جو اس کے فیصلہ پر یہ کہے کہ اس نے فیصلہ ٹھیک نہیں کیا اور اپنے اور اپنے رشتہ داروں پر ظلم کیا ہے.کوئی شریعت اور دیانتدار مجسٹریٹ یہ نہیں کر سکتا کہ وہ کسی مقدمہ کا حصر اپنے آئندہ نوائد پر رکھے اور کوئی دیانتدار مجسٹریٹ ایسا نہیں ہو سکتا جو مواد مسل کو نظر انداز کرتے ہوئے آنکھیں بند کر کے فیصلہ دے دے بلکہ ایمانداری اور دیانتداری متقاضی ہے اس بات کی کہ وہ حق اور انصاف اور غیر مفید داری سے کام لے کہ مقدمہ کا فیصلہ سُنائے.وہ یہ نہ دیکھے کہ جس شخص کے حق میں میں ڈگری دے رہا ہوں.یہ طاقت پکڑ کر گل کو میرے ہی خاندان کے خلاف اپنی طاقت استعمال کرے گا.پس انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ وہ عدالت کی کرسی پر بیٹھ کر نظر انداز کر دے اس بات کو کہ میں کس کے خلاف اور کس کے حق میں فیصلہ دے رہا ہوں.وہ نظر انداز کر دے اس بات کو کہ جس روپیہ کے متعلق میں ڈگری دے رہا ہوں وہ روپیہ کل کو کہاں خرچ ہو گا اور وہ بھول جائے اس بات کو کہ فریقین مقدمہ کون ہیں کیونکہ انصاف اور ایمانداری اسی کا نام ہے.پس قطع نظر اس کے کہ مسلم لیگ والے پاکستان بننے کے بعد ہمارے ساتھ کیا سلوک کریں گے.وہ ہمارہ سے ساتھ وہی کابل والا سلوک کریں گے یا اس سے بھی بد تر معاملہ کریں گے.
۳۷۸ اس وقت سوال یہ ہے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے جھگڑے میں حق پر کون ہے اور ناحق پر کون.آخر یہ بات آج کی تو ہے نہیں.یہ تو ایک لمبا اور پرانا جھگڑا ہے جو بیسیوں سال سے اُن کے درمیان چلا آتا ہے.ہم نے بار بار ہندوؤں کو توجہ دلائی کہ وہ مسلمانوں کے حقوق کو تلف کر رہے ہیں.یہ امر ٹھیک نہیں ہے.ہم نے بار بار سہندوؤں کو متنبہ کیا کہ مسلمانوں کے حقوق کو اس طرح نظر انداز کر دینا بعید از انصاف ہے اور ہم نے بار بار ہندو لیڈروں کو آگاہ کیا کہ یہ حق تلفی اور یہ نا انصافی آخر رنگ لائے گی.مگر افسوس کہ ہمارے توجہ دلانے ہمارے انتباہ اور ہمارے ان کو آگاہ کرنے کا نتیجہ کبھی کچھ نہ نکلا.ہند و سختی سے اپنے اس عمل پہ قائم رہے.انہوں نے اکثریت کے گھمنڈ میں مسلمانوں کے حقوق کا گلا گھونٹا.انہوں نے حکومت کے غرور میں اقلیت کی گردنوں پر چھری چلائی اور انہوں نے تعصب اور بند دوام ذہنیت سے کام لیتے ہوئے ہمیشہ مسلمانوں کے جذبات کا خون کیا اور مہند دلیڈروں کو بار بار توجہ دلانے کے باوجود نتیجہ ہمیشہ صفر ہی رہا.ایک مسلمان جب کسی ملازمت کے لئے در خواست دیتا تو چاہے وہ کتنا ہی لائق کیوں نہ ہوتا اس کی درخواست پر اس لئے غور نہ کیا جاتا کہ دو سان ہے اور اس کے مقابلہ میں ہندو چاہے کتنا ہی نالائق ہوتا اس کو ملانہ مت میں لے لیا بھاتا.اسی طرح گورنمنٹ کے تمام ٹھیکے مسلمانوں کی لیاقت ، قابلیت اور اہلیت کو نظر انداز کرتے ہوئے ہندوؤں کو دے دیئے بھاتے.تجارتی کاموں میں جہاں حکومت کا دخل ہوتا ہندوؤں کو ترجیح دی جاتی سوائے قادیان کے کہ یہاں بھی ہم نے کافی کوشش کر کے اپنا یہ حق حاصل کیا ہے باقی تمام جگہوں میں مسلمانوں کے حقوق کو ملحوظ نہیں رکھا گیا.یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں کے دلوں میں ہندوؤں کے خلاف ان کی فرقہ دارانہ ذہنیت کی وجہ سے نفرت پیدا ہوتی رہی اور آخر یہ حالت پہنچ گئی جو آج سب کی آنکھوں کے سامنے ہے.یہ صورت حالات کس نے پیدا کی جس نے یہ صورت حالات پیدا کی رہی موجودہ حالات کا ذمہ دار بھی ہے.یہ سب کچھ ہندوؤں کے اپنے ہی ہاتھوں کا کیا ہوا ہے اور یہ فسادات کا تناور درخت وہی ہے جس کا بیچ ہندوؤں نے بویا تھا اور اسے آج تک پانی دیتے رہے اور آج جبکہ اس درخت کی شاخیں سارے ہندوستان میں پھیل چکی ہیں.ہندوؤں نے شور مچانا شروع کر دیا ہے مگر میں کہتا
۳۴۹ ہوں کہ مہندوؤں کو اس وقت اس بات کا کیوں خیال نہ آیا کہ ہم مسلمانوں کے حقوق کو تلف کہ رہے ہیں اور ہر محکمہ میں اور ہر شعبہ میں ان کے ساتھ بے انصافی کر رہے ہیں.مجھے پچیس سال شور مچاتے اور مہندوؤں کو توجہ دلاتے ہو گئے ہیں کہ تمہارا یہ طریق آخر رنگ لائے بغیر نہ رہے گا لیکن افسوس کہ میری آواز پر کسی نے کان نہ دھرا اور اپنی من مانی کرتے رہے یہاں تک کہ عیب ہمارا احرار سے جھگڑا تھا تو ہندوؤں نے احرار کی پیٹھ ٹھونکی اور حتی الوسع ان کی امداد کرتے رہے.ان سے کوئی پوچھے کہ جھگڑا تو ہمارے اور احرار کے درمیان مذہبی مسائل کے متعلق تھا.تمہیں اس معاملہ میں کسی فریق کی طرفداری کی کیا ضرورت تھی.اور تمہیں ختم نبوت یا وفات مسیح کے مسائل کے ساتھ کیا تعلق مقا کیا تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد نبوت کو بند مانتے تھے کہ ہمارے اجرائے نبوت کے عقیدہ پر تم پر ہم ہوئے تھے ؟ کیا تم حیات میسج کے قائل تھے کہ ہماری طرف سے وفات مسیح کا مسئلہ پیش ہونے پر تم چراغ پا ہو گئے تھے ؟ ہندوؤں کا ان مسائل کے ساتھ دُور کا بھی تعلق نہ تھا.احرار کی طرف سے ہندو و کلار مفت پیش ہوتے رہے ہیں نے اس بارہ میں پنڈت نہرو کے پاس اپنا آدمی بھیجا کہ آپ لوگوں کی احرار کے ساتھ ہمدردی کس بتار پہ ہے اور یہ طرفداری کیوں کی جارہی ہے.انہوں نے ہنس کر کہا.سیاسیات میں ایسا کرنا ہی پڑتا ہے.اب جن لوگوں کی ذہنیت اس قسم کی ہو ان سے بھلا کیا امید کی جاسکتی ہے.یہ جو کچھ آج کل ہو رہا ہے یہ سب گاندھی جی ، پنڈت نہرو اور مسٹر پٹیل کے ہاتھوں سے رکھی ہوئی بنیادوں پر ہو رہا ہے.اس کے ساتھ ہی انگریزوں کا بھی اس میں ہاتھ تھا.ان کو بھی بار بار اس امر کے متعلق تو جہ دلائی گئی کہ ہندوستان کے کروڑوں کروڑ مسلمانوں کے حقوق کو تلف کیا جا رہا ہے جو ٹھیک نہیں ہے لیکن انہوں نے بھی اس طرف توجہ نہیں کی.یہ سب کچھ ہوتا رہا اور باد بود یہ جاننے کے ہوتارہا کہ مسلمانوں کے حقوق تلف ہو رہے ہیں اور باوجود اس علم کے کہ مسلمانو سے نا انصافی ہو رہی ہے مسلمان ایک مدت تک ان باتوں کو برداشت کرتے رہے.مگر جب یہ پانی سر سے گزرنے لگا تو وہ اُٹھے اور انہوں نے اپنے لیے اور تلخ تجربہ کے بعد جب یہ سمجھ لیا کہ ہندوؤں کے ساتھ رہتے ہوئے اُن کے حقوق خطرے میں ہیں تو انہوں نے اپنے حقوق کی حفاظت اور آرام اور چین کے ساتھ زندگی میسر کرنے کے لئے الگ علاقہ کا مطالبہ پیش کر دیا
۳۵۰ کیا وہ یہ مطالبہ نہ کرتے اور ہندوؤں کی ابدی غلامی میں رہنے کے لئے تیار ہو جاتے.کیا وہ اتنی ٹھوکروں کے باوجود بھی نہ جاگتے.پھر میں پوچھتا ہوں کہ کیا مسلمان اتنے طویل اور تلخ تجربات کے بعد ہندوؤں پر اعتبار کہ سکتے تھے.ایک دو باتیں ہوتیں تو نظر انداز کی جا سکتی تھیں.ایک دو واقعات ہوتے تو پھیلائے جاسکتے تھے.ایک دو چوٹیں ہوتیں تو اُن کو نظراندازہ کیا جا سکتا تھا.ایک آدھ صوبہ میں مسلمانوں کو کوئی نقصان پہنچا ہوتا تو اس کو بھی بھلایا جا سکتا تھا.لیکن متواتر سو سال سے ہر گاؤں میں ہر شہر میں، ہر ضلع میں اور ہر صوبہ میں ، ہر محکمہ میں ، ہر شعبہ میں مسلمانوں کو دُکھ دیا گیا.اُن کے حقوق کو تلف کیا گیا اور ان کے جذبات کو مجروح کیا گیا اور ان کے ساتھ وہ سلوک روا رکھا گیا یو رخی ظلم کے ساتھ بھی کوئی انصاف پسند آ قا نہیں رکھ سکا کیا اب بھی وہ اپنے اس مطالبہ یں کی جانب تھے کیا اب بھی وہ اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے تگ و دوز کرتے.کیا اب بھی وہ اپنی عزت کی رکھوالی د کرتے ؟ اور کیا اب بھی وہ ہندوؤں کی بدترین غلامی میں اپنے آپ کو پیش کر سکتے تھے ؟ مسلمانوں کو همیشه با وجود لائق ہونے کے نالائق قرار دیا جاتا رہا.ان کو با وجود اہل ہونے کے نا اہل کہا جاتا رہا اور اُن کو با وجود قابل ہونے کے ناقابل سمجھا جاتا رہا.ہزاروں اور لاکھوں دفعہ ان کے جذبات کو مجروح کیا گیا.لاکھوں مرتبہ ان کے احساسات کو کچلا گیا اور متعدد مرتبہ ان کی امیدوں امنگوں کا خون کیا گیا.انہوں نے اپنی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھا اور وہ چُپ رہے.یہ سب کچھ اُن پر بیتا اور وہ خاموش رہے.انہوں نے خاموشی کے ساتھ ظلم سہے اور صبر کیا.کیا اب بھی اُن کے خاموش رہنے کا موقعہ تھا ؟ یہ تھے وہ حالات جن کی وجہ سے وہ اپنا الگ اور بلا شرکت غیرے حق مانگنے کے لئے مجبور نہیں ہوئے بلکہ مجبور کئے گئے.یہ حق انہوں نے خودنہ مانگا بلکہ ان سے منگوایا گیا.یہ علیحدگی انہوں نے خود نہ چاہتی بلکہ ان کو الیسا چاہنے کے لئے مجبور کیا گیا اور اس معاملہ میں وہ بالکل معذور تھے.جب انہوں نے دیکھا کہ با وجود اقلیت رکھنے کے، باوجود اہمیت کے اور با وجود قابلیت کے انہیں نالائق اور نا قابل کہا جا رہا ہے تو انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ اس نا انصافی کے انسداد کا سوائے اس کے اور کوئی طریق نہیں کہ وہ ان سے بالکل علیحدہ ہو بھائیں.اور
۳۵۱ میں ہندوؤں سے پوچھتا ہوں کہ کیا مسلمان فی الواقع نالائق ، ناقابل اور نا اہل تھے ؟ اُن کو جب کسی کام کا موقعہ ملا انہوں نے اُسے باحسن سرانجام دیا.مثلاً سندھ اور بنگال میں اُن کو حکومت کا موقعہ ملا ہے انہوں نے اس کو اچھی طرح سنبھال لیا ہے اور جہانتک حکومت کا سوال ہے ہندوؤں نے ان سے بڑھ کر گونا تیر مار لیا ہے جو انہوں نے نہیں مارا.مدراس، بمبئی ، یوپی اور بہار وغیرہ میں ہندوؤں کی حکومت ہے جس قسم کی گورنمنٹ ان کی ان علاقوں میں ہے اسی قسم کی گورنمنٹ سندھ اور بنگال میں بھی ہے اگر لڑائی جھگڑے اور فساد وغیرہ کی وجہ سے کسی گورنمنٹ کو نا اہل قرار دینا جائزہ ہے تو لڑائی تو بمبئی میں بھی ہو رہی ہے.یوپی میں بھی ہو رہی ہے اور بہار میں بھی ہو رہی ہے.اگرنا اٹھتی اور نا اہلی کی یہی دلیل ہو تو بمبئی ، یوپی اور بہار وغیرہ کی گورنمنٹوں کو کس طرح لائق اور اہل کہا جا سکتا ہے.اور اگر کسی جگہ قتل و غارت کا ہوتا ہی وہاں کی گورنمنٹ کو نا اہل قرار دینے کا موجب ہو سکتا ہے تو کیوں نہ سب سے پہلے بمبئی اور بہار کی گورنمنٹوں کو نا اہل کہا جائے ایک ہی دلیل کو ایک جگہ استعمال کرنا اور دوسری جگہ نہ کرنا سخت نا انصافی اور بددیانتی ہے.اگر یہی قاعدہ کلیہ ہو تو سب جگہ یکساں چسپاں کیا جانا چاہئیے نہ کہ جب اپنے گھر کی باری آئے تو اس کو نظر انداز کر دیا جائے کسی علاقہ میں قتل وغارت اور فسادات کا ہونا ضروری نہیں کہ حاکم کی غلطی ہی سے ہو.میں پچھلے سال اکتوبر نومبر میں اس نیت سے دہلی گیا تھا کہ کوشش کر کے کا نگر میں اور مسلم لیگ کی صلح کرا دوں.میں ہر لیڈر کے دروازہ پر خود پہنچا اور اس میں میں نے اپنی ذرا بھی بہتک محسوس نہ کی اور کسی کے پاس جانے کو عالہ نہ سمجھا صرف اس لئے کہ کا نگر کہیں اند مسلم لیگ میں مفاہمت کی کوئی صورت پیدا ہو جائے.ان کے درمیان انشقاق اور افتراق رہنے کی وجہ سے ملک کے اندر کسی قسم کا فتنہ و فساد ہونے نہ پائے.میں مسٹر گاندھی کے پاس گیا اور کہا کہ اس جھگڑے کو ختم کراؤ لیکن انہوں نے سہنس کر ٹال دیا اور کہا میں تو صرف ایک گاندھی ہوں آپ لیڈر ہیں آپ کچھ کریں.مگر میں کہتا ہوں کہ کیا واقعہ میں گاندھی ایک آدمی ہے اور اس کا اپنی قوم یا ملک کے اندر کچھ رعب نہیں.اگر وہ صرف ایک
۳۵۳ گاندھی ہے تو سیاسیات کے معاملات میں دخل ہی کیوں دیتا ہے.وہ صرف اسی لئے دخل دیتا ہے کہ ملک کا اکثر حصہ اس کی بات کو مانتا ہے.مگر میری بات کو ہنس کر ٹلا دیا گیا اور کہو دیا گیا میں تو صرف گاندھی ہوں اور ایک آدمی ہوں بھالانکہ ہر شخص جانتا ہے کہ وہ نہیں کروڑ کے لیڈر ہیں اور میں ہند وستا کے صرف پانچ لاکھ کا لیڈر ہوں.کیا میرے کوئی بات کہنے اور تیس کروڑ کے لیڈر کے کوئی بات کہتے میں کوئی فرق نہیں.بیشک میں پانچ لاکھ کا لیڈر ہوں اور میری جماعت میں مخلصین بھی ہیں جو میری بات تھے.پرعمل کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں اور مجھے واجب الاطاعت تسلیم کرتے ہیں.لیکن بہر حال وہ پانچ لاکھ میں اور پانچ لاکھ کے لیڈر اور میں کروڑ کے لیڈر کی آواز ایک سی نہیں ہو سکتی.تین کروڑ کے لیڈر کی آوان ضرور اثر رکھتی ہے اور فلک کے ایک معتد بہ حصہ پر رکھتی ہے لیکن افسوس کہ وہی گاندھی جو ہمیشہ بسیاسیات میں حصہ لیتے رہتے ہیں میری بات سننے پر تیار نہ ہوئے.اسی طرح میں پنڈت نہرو کے دروازہ پر گیا اور کہا کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان صلح ہونی نہایت ضروری ہے.لیکن انہوں نے بھی صرف یہ کہ دیا کہ یہ ٹھیک تو ہے..ہاں آپ ٹھیک کہتے ہیں مگر اب کیا ہو سکتا ہے ، کیا بن سکتا ہے.اسی طرح میں نے تمام لیڈروں سے ملاقاتیں کر کر کے سارا زور لگایا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان صلح ہو جائے مگر افسوس کہ کسی نے میری بات نہ سنتی اور صرف اس لئے نہ سنی کہ میں پانچ لاکھ کا لیڈر تھا اور وہ کروڑوں کے لیڈر تھے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب ملک کے اندر جگہ جگہ فسادات ہو رہے ہیں اور قتل وغارت کا بازار گرم ہے.اگر یہ لوگ اُس وقت میری بات کو مان جاتے اور صلح صفائی کی کوشش کرتے تو آج یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا.مگر میری بات کو نہ مانا گیا اور صلح سے پہلو تہی اختیار کی.اس کے تھوڑے عرصہ بعد بہار اور گڑھ مکتیسر کا واقعہ ہوا.اور اب پنجاب میں ہو رہا ہے.اگر اب بھی ان لوگوں کی ذہنی تہیں نہ بدلیں تو یہ فسادات اور بھی بڑھ جائیں گے اور ایسی صورت اختیار کر لیں گے کہ باوجود ہزار کوششوں کے بھی نہ رک سکیں گے.اس وقت ضرورت صرف ذہنیتیں تبدیل کرنے کی ہے.اگر آج بھی ہندو ارادہ کر لیں کہ ہم سے غلطی ہوئی تھی.آؤ مسلمانو! ہم سے زیادہ سے زیادہ حقوق سے یہ تو آج ہی صلح ہو سکتی ہے اور یہ تمام جھگڑے رفع دفع ہو سکتے ہیں.مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ لوگ بغض پر بغض کی بنیادیں رکھتے پہلے بھاتے ہیں اور انجام سے بالکل غافل بیٹھے ہیں.اگر وہ صلح
کرنا چاہیں.اگر وہ پہنچنا چاہیں اور اگر وہ گلے ملنا چاہیں تو یہ سب کچھ آج ہی ہو سکتا ہے مگر اس کا صرف اور صرف ایک ہی علاج ہے اور وہ ہے ذہنیتوں میں تبدیلی.پس آج یہ سوال نہیں رہا کہ ہمارے ساتھ پاکستان بن جانے کی صورت میں کیا ہوگا، سوال تو یہ ہے کہ اتنے لیے تجربہ کے بعد جبکہ ہند و حاکم تھے ، گو ہند و خود تو حا کم نہ تھے بلکہ انگریز حاکم تھے لیکن ہندو حکومت پر چھائے ہوئے تھے.جب ہندو ایک ہندو کو اس لئے ملازمت دے دیتے تھے کہ وہ ہن نہرو ہے.جب ہندو اس لئے ایک ہندو کو ٹھیکہ دے دیتے تھے کہ وہ ہندو ہے اور جب وہ مسلمانوں کے مقابلہ میں ہندوؤں کو صرف اس لئے قابل اور اہل قرار دیتے تھے کہ وہ ہندو ہیں.اور جب ہنہ انگریز کی نہیں بلکہ اپنی حکومت سمجھتے ہوئے ہندوؤں سے امتیازی سلوک کرتے تھے اور جب وہ نوکری میں ہندو کو ایک مسلمان پر صرف یہ دیکھتے ہوئے کہ وہ ہندو ہے فوقیت دیتے تھے اس وقت کے ستائے ہوئے دکھائے ہوئے اور تنگ آئے ہوئے مسلمان اگر اپنے الگ حقوق کا مطالبہ کریں تو کیا ان کا یہ مطالبہ ناجائز ہے ؟ کیا یہ ایک روشن حقیقت نہیں کہ ان کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا رہا جو نہایت تا واجب نہایت ناروا اور نہایت نا منصه تھا.حال کا ایک واقعہ ہے.ہمارا ایک احمدی دوست نویج میں ملازم ہے.باوجودیکہ اس کے خلاف ایک بھی ریمارک نہ تھا اور دوسری طرف ایک سکھ کے خلاف چار ریمارکس تھے اس سیکھ کو اوپر کر دیا گیا اور احمدی کو گرا دیا گیا جب وہ احمدی انگریز کمانڈر کے پاس پہنچا اور اپنا واقعہ بیان کیا تو اس نے کہا.واقعی آپ کے ساتھ ظلم ہوا ہے.تم درخواست لکھ کر میرے پاس لاؤ لیکن جب وہ احمدی درخواست لے کے انگریز افسر کے پاس پہنچا تو اس نے درخواست اپنے پاس رکھ لی اور اسے اوپر نہ بھیجوایا.کئی دن کے بعد جب دفتر سے پتہ لیا گیا کہ آخر وجہ کیا ہے کہ درخواست کو اوپر بھجوایا نہیں گیا تو دختر والوں نے بتایا کہ اصل بات یہ ہے کہ شملہ سے آرڈر آگیا ہے کہ کوئی اپیل اس حکم کے خلاف اُوپر نہ بھیجوائی جائے.جس قوم کے ساتھ اتنا لمبا عرصہ یہ انصاحت برتا گیا ہو گیا وہ اس امر کا مطالبہ نہ کرے گی کہ اسے الگ حکومت دی بھائے.ان حالات کے پیش نظر ان کا حق ہے کہ وہ یہ مطالبہ کریں اور ہر دیانتدار کا فرض ہے کہ خواہ اس میں اس کا نقصان ہو ا مسلمانوں کے اس مطالبہ کی تائید کرے.
۳۵۴ پس ایک نقطہ نگاہ تو یہ ہے جس سے ہم اس اخبار کے متعلقہ مضمون پر غور کر سکتے ہیں.دوسرا نقطہ نگاہ یہ ہے کہ بیشک ہمیں مسلمانوں کی طرف سے بھی بعض اوقات تکالیف پہنچ جاتی ہیں اور ہم تسلیم کر لیتے ہیں کہ شاید وہ ہمیں پھانسی پر چڑھا دیں گے لیکن میں بہت دوؤں سے یہ پوچھتا ہوں کہ تم لوگوں نے نہیں کب سکھ دیا تھا.تم لوگوں نے ہمیں کب آرام پہنچایا اور تم لوگوں نے کب ہمارے ساتھ ہمدردی کی تھی.کیا بہار میں بے گناہ احمدی مارے گئے یا نہیں ؟ کیا ان لوگوں کی بجائدادیں تم لوگوں نے تباہ کیں یا نہیں ؟ کیا اُن کو بے جا کھ پہنچایا یا نہیں؟ کیا گڑھ مکتیسر میں شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر نور کا لڑکا تمہارے مظالم کا شکار ہوا یا نہیں ؟ حالانکہ وہ پہیلتھ آفیسر تھا اور وہ تمہارے میلے میں اس لئے گیا تھا کہ اگر کوئی تم میں سے بیمار ہو جائے تو اس کا علاج کرے.اگر تم میں سے کسی کو زخم لگ جائے تو اس پر مرہم پٹی کرے اور اگر تم میں سے کوئی بخار سے مر رہا ہو تو اُسے کو تین کھلائے.وہ ایک ڈاکٹر تھا اور ڈاکٹری ایک ایسا پیشہ ہے جس کو فرقہ دارانہ حیثیت نہیں دی جا سکتی.وہ بیچارا تمہارے علاج معالجہ کے لئے گیا تھا اس کو تم نے کیوں قتل کر دیا ؟ کیا اس سے بڑھ کر بھی شقاوت قلبی کی کوئی اور مثال ہو سکتی ہے ؟ کیا اسے آگے بھی فلم کی کوئی حد ہوں پھر اس کی بیوی نے خود مجھے اپنے دردناک مصلحت سائے اس نے بتایا کہ غنڈوں نے اس کے منہ میں مٹی ڈالی.اس بار مار کرادھ موا کردیا.اس کے کپڑے اتار لیے اور اسے دریا میں پھینک دیا اور پھر اسی پر لیں نہ کی بلکہ دریا میں پھینک کر سوٹیوں کے ساتھ دیاتے رہے تاکہ اس کے مرنے میں کوئی کسر نہ رہ جائے.یہ اس کی خوش قسمتی تھی کہ وہ تیزا جانتی تھی اور وہ ہمت کر کے ہاتھ پاؤں مارکر دریا سے نکل آئی اور پھر کسی کی مد سے ہسپتال پہنچی مه مورخ پاکستان سید رئیس احمد جعفری نے اپنی کتاب قائد اعظم اوران کا عہد میں اس درد انگیز واقعہ کا ذکر مندرجہ ذیل الفاظ میں کیا ہے.ڈاکٹر ہارون الرشید جومی جو محکمہ صحت کے انچارج تھے بے دردی سے قتل کر دیئے گئے.ان کی اہلیہ محترمہ کے کپڑے اتار دیئے گئے اور مجمع میں سے کسی ایک شخص کو بہ حیثیت شوہ منتخب کر لینے کا حکم دیا گیا.انہوں نے انکار کیا تو انہیں مارتے مارتے ادھ موا کر دیا گیا.یہ واقعہ دریا کے کنارے پیش آیا تھا.ان کی سمجھ میں کچھ اور تو نہ آیا.وہ دریا میں کود پڑیں اور نیم بے ہوش حالت میں بہت دور بھا نکلیں ایک آدمی نے انہیں دیکھ لیا.وہ ان کی بہتی ہوئی لاش کو گھسیٹتا ہوا کنارے لایا.کچھ رمق زندگی کی باقی تھی.علاج معالجہ سے اچھی ہو گئیں.اب اپنے وطن لاہور میں میں گڑھے مکتیسر کے شہیدوں کی لیے گور و کفن لاشیں کئی دن تک شارع عام میں پڑی سڑتی رہیں.کوئی ان کی نماز پڑھنے والا، انہیں دفن کرنے والا بھی نہ تھا.آہ بنا گردنده خوش اسے بخاک و خون غلطیدان خدا رحمت کند این عاشقان پاک طینت را " صفحه ۷۵-۷۵۵)
۳۵۵ کیا اس سے بڑھ کر بے دردی کی کوئی مثال ہو سکتی ہے کہ ایک ناکردہ گناہ شخص اور پھر عورت پر اس قسم کے مظالم توڑے جائیں ؟ کیا اس قسم کی حرکات سفا کا نہ نہیں ہیں ؟ ان حالات کی موجودگی میں اگر ہمارے لئے دونوں طرف ہی موت ہے تو ہم ان لوگوں کے حق میں کیوں رائے نہ دیں بعین کا دعوی حق پر ہے.پھر تیر انقطہ نگاہ یہ ہے کہ اگر ہم ان تمام حالات کی موجودگی میں جو امر پر ذکر ہو چکے ہیں انصاف کی طرفداری کریں گے تو کیا خدا تعالے ہمارے اس فعل کو نہ جانتا ہو گا کہ ہم نے انصاف سے کام لیا ہے.جب وہ جانتا ہو گا تو وہ خود انصاف پر قائم ہونے والوں کی پشت پناہ ہو گا.لکھنے والوں نے تو لکھ دیا کہ احمدیوں کے ساتھ وہی سلوک ہوگا جو کابل میں اُن کے ساتھ ہوا تھا مگر میں اُن سے پوچھتا ہوں کہاں ہے امان اللہ بہ اگر اس نے احمدیوں پر ظلم کیا تھا تو کیا خدا تعالے نے اس کے اسی جُرم کی پاداش میں اس کی دھجیاں نہ اُڑا دیں ؟ کیا خدا تعالیٰ نے اس کی حکومت کو تباہ نہ کر دیا ؟ کیا اللہ تعالیٰ نے اس کی حکومت کے تار و پود کو بکھیر کر نہ رکھ دیا؟ کیا اللہ تعالی نے اس کو اس کی ذریت ہمیت ذلیل اور رسوائے عالم نہ کر دیا ؟ کیا خدا تعالیٰ نے مظلوموں پر بے جا ظلم ہوتے دیکھ کر ظالموں کو کیفر کردار تک نہ پہنچایا ؟ اور کیا اللہ تعالیٰ نے امان اللہ کے اس فلم کا اس سے کا انقہ بدلہ نہ لیا ؟ ہاں کیا اللہ تعالیٰ نے اس کی شان و شوکت رُعب اور دبدیہ کو خاک میں نہ ملا دیا ؟ پھر میں ان سے پوچھتا ہوں کہ کیا ہمارا وہ خدا جس نے اس سے بیشتر ہر موقعہ پر ہم پچر ظلم کرنے والوں کو سنہ ائیں دیں کیا تعوذ باللہ اب وہ مر چکا ہے ؟ وہ ہمارا خدا اب بھی زندہ ہے اور اپنی ساری طاقتوں کے ساتھ اب بھی موجود ہے اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ اگر ہم انصاف کا پہلو اختیار کریں گے اور اس کے باوجود ہم پر سلم کیا جائے گا تو وہ ظالموں کا وہی حشر کرے گا جو امان اللہ کا ہوا تھا.اگر ہم پہلے خدا پر یقین رکھتے تھے تو کیا اب چھوڑ دیں گئے ؟ ہمیں اللہ تالے کی ذات پر کامل یقین ہے.وہ انصاف کرنے والوں کا ساتھ دیتا ہے اور ظالموں کو سزا دیتا ہے.وہ اب بھی اسی طرح کرے گا جس طرح اس سے پیشتر وہ ہر موقعہ پر ہماری نصرت اور افات فرماتا رہا.اس کی پکڑ اس کی گرفت اور اس کی بطش اب بھی شدید ہے جس طرح کہ پہلے شدید
۳۵۶ تھی.کیا اب ہم نعوذ باللہ یہ سمجھ لیں گے کہ ہمارے انصاف پر قائم ہو جانے سے وہ ہمار ا ساتھ چھوڑ دے گا.ہرگز نہیں.یہ احمدیت کا پودا کوئی معمولی پودا نہیں.یہ اس نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے اور وہ خود اس کی حفاظت کرے گا اور مخالف حالات کے باوجود کرے گا.دشمن پہلے بھی ای کی چوٹی کا زور لگاتے رہے مگر یہ پورا اُن کی حسرت بھری نگاہوں کے سامنے بڑھتا رہا.تاریکی کے فرزندوں نے پہلے بھی حق کو دبانے کی کوشش کی مگر حق ہمیشہ ہی بھرتا رہا اور اب بھی اللہ تعالے کے فضل سے اس طرح ہوگا یہ ہاری وہ نہیں جسے دشمن کی پھونکیں بچھا سکیں درخت وہ نہیں جیسے عوام کی آمد بھی ان کی لیکن سات ہوائیں چلیں گی ، طوفان آئیں گے ، مخالفت کا سمندر ٹھاٹھیں مارے گا اور لہریں اُچھالئے گا مگر یہ جہاز جس کا ناخدا خود تعدا ہے پار لگ کر ہی رہے گا.امان اللہ کا واقعہ یاد دلانے سے کیا فائدہ کیا تہیں صرف امان اللہ کا ظلم ہی یاد رہ گیا اور تم نے اس کے انجام کی طرف سے آنکھیں بند کر لیں تمہیں وہ واقعہ یاد رہ گیا.مگر اس واقعہ کا نتیجہ تم بھول گئے.کیا امان اللہ کی ذلت اور رسوائی کی کوئی مثال تمہارے پاس موجود ہے.تم نے وہ واقعہ یاد دلایا تھا تو تم اس کا انجام کبھی دیکھتے جب وہ یورپ روانہ ہوا تو خود اس کے ایک درباری نے خط لکھا کہ ہماری مجالس میں بار بار یہ ذکر آیا ہے کہ یہ جو کچھ ہماری ذلت ہوئی وہ اسی فلم کی وجہ سے ہوئی ہے جو ہم نے احمدیوں کے ساتھ کیا تھا.امید ہے کہ اب جبکہ نہیں سزا مل چکی ہے آپ ہمارے لئے بد دھانہ کریں گے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خود اس کے درباریوں کو پر یقین تھا کہ اس کی ذلت کا سبب اُس کا ظلم ہے.آج وہی امان اللہ جو ایک بڑی شان و شوکت ، رعب و جلال اور دہریہ کا مالک تھا پنے ظلم کی وجہ سے اس حال کو پہنچ چکا ہے کہ وہ اٹی میں بیٹھا اپنی وقت کے دن گزار رہا ہے وہ کتنا چالاک اور ہوشیارہ بادشاہ تھا کہ اس نے اپنی باجگذار ریاست کو آزاد بنا دیا.مگر جب اُس نے غریب احمدیوں پر ظلم کیا تو اس کی ساری طاقت اور قوت مٹادی گئی اور اس نے اپنے تلسکم کا نتیجہ پالیا اور ایسا پایا کہ آجتک اس کی سزا بھگت رہا ہے.ایک طالب حق اور انصاف پسند آدمی کے لئے یہی ایک نشان کافی ہے کاش ! لوگ اس پر غور کرتے.شاید یہاں کوئی شخص یہ اعتراض کر دے کہ امان اللہ کے باپ نے بھی تو احمدی مروائے تھے.تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس نے نا واقعی سے ایسا کیا تھا اور امان اللہ نے بالی پوچھے کہ
۳۵۷ کیونکہ ہمارے استفسار کیر اس کی حکومت کی طرف سے لکھا گیا تھا کہ بیشک احمدی مبلغ بھیجوا دیئے جائیں اب وہ وحشت کا زمانہ نہیں رہا ، ہر ایک کو مذہبی آزادی حاصل ہوگی لیکن جب ہمارے مبلغ وہاں پہنچے تو اس نے انہیں قتل کر دیا.پھر یہ بھی نہیں کہ جلیب اللہ کو سزا نہیں ملی.وہ بھی اس سزا سے باہر نہیں رہا کیونکہ اس کی ساری نسل تباہ ہو گئی.یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ اللہ تعالے نے صرف امان اللہ کا بدلہ نہیں لیا بلکہ اس بدلہ میں جلیب اللہ اور عبد الرحمن بھی شامل ہیں.پس یہ ہے ہمارا تیرا نقطہ نگاہ.ان تینوں نقطہ ہائے نگاہ سے دیکھتے ہوئے ہمارے لئے گھبراہٹ کی کوئی وجہ نہیں ہوسکتی.ہم نے تو اس معاملہ کو انصاف کی نظروں سے دیکھتا ہے اور انصاف کے ترازو پر تولتا ہے.ہندوؤں کے ہاں انصاحت کا یہ حال ہے کہ برابر سو مسال سے ہندو مسلمانوں کو تباہ کرتے پہلے آرہے تھے اور صرف ہندو کا نام دیکھ کر ملازمت میں رکھ لیتے رہے اور مسلمان کا نام آنے پر اس کی درخواست کو مسترد کر دیتے رہے جب درخواست پر دلارام کا نام لکھا ہوتا تو درخواست کو منظور کر لیا جاتا رہا.اور جب درخواست پر عبد الرحمن کا نام آبھاتا تو اُسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جاتا.اس بات کا خیال نہ رکھا جاتا رہا کہ دلارام اور عبد الرحمن میں سے کون اہل ہے اور کون نا اہل.اس بات کو ملحوظ نہ رکھا جاتا رہا کہ نگا رام اور عبید الرحمن میں سے کون قابل ہے اور کون ناقابل، اور اس امر کو پیش نظر نہ رکھا جاتا رہا کہ دلا رام اور عبدالرحمن میں سے کون لائی ہے اور کون نالائق.صرف ہندوانہ نام کی وجہ سے اُسے رکھ لیا جاتا اور صرف اسلامی نام کی وجہ سے اُسے رد کر دیا جاتا.ہم نے ان حالات کی وجہ سے بار بار شور مچایا.ہندو لیڈروں سے اس فلم کے انسداد کی کوشش کے لئے کہا مگر کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور رنگتی بھی کیسے، وہ اپنی اکثریت کے نشے میں چور تھے ، وہ اپنی حکومت کے رعب میں مدہوش تھے اور وہ اپنی طاقت کی وجہ سے بدست تھے.انہوں نے مسلمانوں کو ہر جہت سے نقصان پہنچانے کی کوششیں کیں.انہوں نے مسلمانوں کی ہر ترقی کی راہ میں روکاوٹیں ڈالیں اور انہوں نے مسلمانوں کے خلاف ہر مسکن سازشیں کیں.اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم مظلوم قوم کی مدد کریں.چاہے وہ ہمیں ماریں یا دکھ پہنچائیں.ہمیں تو ہر قوم نے ستایا اور دُکھ دیا ہے لیکن ہم نے انصاف نہیں چھوڑا.جب
۳۵ ہندوؤں پر مسلمانوں نے ظلم کیا ہم نے ہندوؤں کا ساتھ دیا.یجب مسلمانوں پر سہندوؤں نے ظلم کیا ہم نے مسلمانوں کا ساتھ دیا.جب لوگوں نے بغاوت کی ہم نے حکومت کا ساتھ دیا.اور جب حکومت نے نا واجب سختی کی ہم نے رعایا کی تائید میں آوانہ اُٹھائی اور ہم اسی طرح کرتے جائیں گے خواہ اس انصاف کی تائید میں ہمیں کتنی ہی تکلیف کیوں نہ اُٹھانی پڑے.ہمیں سب قوموں کے سلوک یاد ہیں.کیا ہمیں وہ دن بھول گئے ہیں جب پسر دارد کھڑک سنگھ صاحب نے تقریر کی تھی کہ ہم قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے اور قادیان کے طلبہ کو ر زیاد کر دیں گے.پھر کیا لیکھرام ہند و ستایا نہیں ؟ وہ لوگ جنہوں نے احراریوں کا ساتھ دیا تھا وہ ہندو تھے یا نہیں ؟ گر ہم بتا دینا چاہتے ہیںکہ جو شخص یا جماعت ندا تعالے کا پیغام لے کر کھڑی ہو ائس کی ساری دنیا دشمن ہوتی ہے.اس لئے لوگوں کی ہمارے حق کے ساتھ دشمنی ایک طبعی امر ہے ہم نے ملکانہ میں جہاں لاکھوں مسلمانوں کو آریوں نے مرند کر دیا تھا اور شدھ بنا لیا تھا جا کر تبلیغ کی اور انہیں پھر حلقہ بگوش اسلام کیا اور جب وہاں اسلام کو غلبہ نصیب ہو گیا اور آریہ مغلوب ہو گئے تو وہی لوگ ہو ملکانوں کے ارتداد کے وقت شور مچاتے تھے کہ احمدی کہاں گئے اور کہتے تھے وہ اب کیوں تبلیغ نہیں کرتے ، دہی شور مچانے والے ملکانوں کے دوبارہ اسلام لانے پر ان کے گھر گھر گئے اور کہتے پھرے تم آریہ ہو جاؤ مگر مرزائی نہ بنو.ادھر ہندو ریاستوں نے فلم پر فلم کئے.الور والوں نے بھی تعلیم کیا اور بھرت پور میں بھی یہی حال ہوا.جب ہمارے آدمی وہاں جاتے تدراجہ کا حکم پہنچ جاتا کہ تمہاری وجہ سے امن شسکنی ہو رہی ہے جلد از جلد اس علاقے سے نکل جاؤ.ملکانہ کے ایک گاؤں میں ایک بڑھیا مائی میں شدھ ہونے سے بچی تھی باقی اس کے تین چار بیٹے آریوں نے مرتد کر لئے تھے اور بیٹوں نے اس بڑھیا ماں سے کہا تھا کہ ماں اہم دیکھیں گے کہ اب مولوی ہی آکر تمہار ا فصل کاٹیں گے کسی نے مجھے لکھا کہ ایک بڑھیا کو اس قسم کا طعنہ دیا گیا ہے اور اب اس کی فصل پک کر تیار کھڑی ہے.میں نے کہا.اسلام اور احمدیت کی غیرت چاہتی ہے کہ اب مولوی اور تعلیمیافتہ لوگ ہی بجا کر اس بڑھیا کا کھیت کائیں.چنانچہ میں نے اس کے لئے تحریک کی تو بڑے بڑے تعلیمیافتہ لوگ جن میں بھیج بھی
۳۵۹ کھتے اور بیرسٹر بھی، وکلا بھی تھے اور ڈاکٹر بھی ، مولوی بھی تھے اور مدرس بھی.اور انہیں میں چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کے والد مرحوم بھی گئے اور خان بہادر شیخ محمد حسین صاحب سیشن بھی بھی گئے ان سب تعلیم یافتہ لوگوں نے جا کہ اس بڑھیا کا کھیت کاٹا.اُن کے ہاتھوں پر چھالے پڑ گئے مگر اس بات کا اتنار عجب ہوا کہ اس سارے علاقہ میں احمدیوں کی دھاک بیٹھ گئی مگر وہاں کے راجہ نے اتنا ظلم کیا کہ یہ لوگ چار پانچ میل گرمی میں جاتے تھے تو رات کو واپس سٹیشن پر آکر سوتے تھے.چودھری نصر الله تعال صاحب با وجودیکہ بڑھے آدمی ستھے ان کو بھی مجبوراً روزانہ گرمی میں چار میں جانا اور چار میل آنا پڑتا تھا.آخر میں نے اپنا ایک آدمی گورنمنٹ ہند کے پولیٹیکل سکڑی کی طرف بھیجوایا کہ اتنا ظلم نہیں کرنا چاہیے.اس ریاست میں جو پھار پانچ لاکھ مہندہ ہے وہ فساد نہیں کرتا اور ہمارے چند آدمیوں کے داخلہ سے فساد کا اندیشہ ہے.اس وقت پولیٹیکل سکرٹری سر تھا محسن تھے.انہوں نے جواب دیا میں اس میں کیا کر سکتا ہوں.میں راجہ سے کہوں گا.اگر وہ مان جائے تو بہتر ہے.سر تھامسن نے ہمدردی کی مگر ساتھ معذوری کا اظہار بھی کیا لیکن ابھی اس پر پندرہ دن بھی نہ گذرنے پائے تھے کہ راجہ پاگل ہو گیا اور اس کو ریاست سے باہر نکال دیا گیا اور پاگل ہونے کی حالت میں ہی وہ مرا.اسی طرح اس وقت کے الور والے راجہ کو بھی بعد میں سیکی بجرائم کی وجہ سے نکال دیا گیا.پس ہمارا خدا بو علیم اور خبیر ہے وہ اب بھی موجود ہے.اگر ہم انصاف سے کام لیں گے اور پھر بھی ہم پیٹ کم ہوگا تو وہ ضرور ظالموں کو گرفت کئے بغیر نہ چھوڑے گا ظلم تو ہمیشہ سے نبیوں کی جماعتوں پر ہوتا آیا ہے.مگر یہ نہایت ذلیل احساسات ہیں جو اس اخبار نے پیش کئے ہیں حال کہ واقعہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے بھی ہم پر ہمیشہ ظلم کیا.شروع شروع میں جب احمدی تالاب سے مٹی لینے جاتے تھے تو یہاں کے سیکھ وغیو ڈنڈے لے کر آجاتے تھے.آخر ہمارے ساتھ کس نے کمی کی.مگر ہر موقعہ پر تعدا ہماری مدد کرتا رہا.مہارا دشمن اگر ہمارے ساتھ ظلم اور بے انصافی بھی کرے تو ہم انصاف سے کام لیں گے اور جب تک یہ روح ہمارے اندر پیدا نہ ہو جائے خدا ہمارا ساتھ نہیں دے گا.پس ہم دیکھیں گے کہ حق کس کا ہے.ہندو کا ہوگا تو اس کی مدد کریں گے سکھ کا ہو گا تو اس کی مدد کریں گے.مسلمان کا ہوگا تو اس کی مدد کریں گے ہم کسی
۳۶۰ کی دوستی اور دشمنی کو نہیں دیکھیں گے بلکہ اس معاملہ کو انصاف کی نگاہوں سے دیکھیں گے.اور جب انصاف پر قائم ہونے کے باوجود ہم پر کم ہوگا تو خدا کہے گا انہوں نے دشمنوں کے ساتھ انفا کیا تھا کیا تئیں ان کا دوست ہو کر ان سے انصاف نہ کروں گا اور اس کی غیرت ہمارے حق میں بھڑ کے گی جو ہمیشہ ہمارے کام آئے گی.(انشاء اللہ) ہے س جون کا برطانوی اصلان ملک کے حالات روز بروز ابتر ہورہے تھے اور مفاہمت کا کوئی امکان سو جون کا برطانوی اصلان نہیں تھا.اسی لئے انگریزی حکومت نے انتقال اقتدار کی مہم کو جلد از جلد ستر کرنے کے لئے آخری قدم یہ اٹھایا کہ لارڈ ویول کو لندن واپس بلا لیا اور ان کی جگہ لارڈ مونٹ بیٹن کو والسرار بنا کر بھیج دیا جنہوں نے سر خون کار کو وہ سکیم نشر کی جو کابینہ کی مکمل تائید کے ساتھ اپنے ہمراہ لائے تھے.اس سکیم میں اختیارات کے تفوین کرنے کا یہ ڈھانچہ تجویز کیا گیا کہ مسلم اکثریت کے صوبوں میں سے یستاد، سرحد اور بلوچستان کی صوبائی اسمبلیوں سے استصواب کیا جائے کہ وہ موجودہ دستور ساز اسمبلی میں رہنا چاہتی ہیں یا ایک بدید اور جداگانہ دستور ساز اسمبلی میں جانا چاہتی ہیں.جہانتک بنگال اور پنجاب کا تعلق ہے ان کی مجالس قانون ساز داور بین نمبروں کے علاوہ) دو حصوں میں تقسیم ہو کر مجمع ہوں.ایک حصے میں مسلم اکثریت والے اضلاع کے نمائندے ہوں اور دوسرے حصے میں باقی اصلاح کے.اور اگران دو حصوں میں سے کسی حصہ کی معمولی اکثریت نے بھی تقسیم کی موافقت بھی رائے دی تو اس صوبہ کو تقسیم کر دیا جائے گا اور ان کی حد بندی کے لئے گورنر جنرل ایک حد بندی کمیشن مقرر کریں گے جو حد بندی اس بنیاد پر کرے گا.کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کی اکثریت والے رہتے باہمی یکسانیت رکھتے ہوں.فرقہ وارانہ یکسانیت و اختلاط کے علاوہ دوسرے امور ( OTHER FACTORS) بھی ملحوظ رکھنے ہوں گے.کیم میں یہ بھی تصریح کردی گئی کہ اصلاح کی آبادی معلوم کرنے کے لئے ماہانہ کی مردم شماری کے اعداد و شمار قطعی سمجھے جائیں گے سکیم میں پنجاب و بنگال کے مندرجہ ذیل اضلاع مسلم اکثریت والے اضلاع تسلیم کئے گئے : پنجاب (قسمت لاہور) اضلاع گوجرانوالہ گورداسپور - لاہور شیخوپورہ ر قسمت راولپنڈی) اضلاع ایک گجرات جہلم میانوالی.راولپنڈی.شاہ پور ه " الفصل " الا اثرات منی س ش صفحه ۱ تا ۶ به
ر قسمت ملتان اضلاع ڈیرہ غازیخاں بھنگ.لائل پور منٹگمری.ملتا بنگال رقسمت چاٹگام) اضلاع چھانگام نواکھلی.پڑا رقسمت ڈھاکہ، اضلاع باقر گنج.ڈھاکہ.میمن سنگھ ر قسمت پریسیڈنسی اضلاع میسور.مرشد آباد لم (قسمت راجشاہی) اضلاع بوگرا - دیناج پور - پینہ.راجشاہی قائد اعظم نے اس سکیم کے نشر ہونے کے بعد مسلمانوں کو مخاطب کر کے فرمایا.قائد اعظم کابیان میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ وائسرائے نے اسی سلسلے میں مختلف قوتوں کے ساتھ نہایت بہادری سے جنگ کی ہے اور ان کی جد و جہد نے میرے خیالات پر جو اثر کیا ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے ہر ایک کام نہایت منصفانہ اور غیر جانب دارانہ طور پر انجام دیا ہے اور اب اس کا دارو مدار ہم پر ہے کہ وائسرائے کی مہم کو قدرے آسان کریں اور جہاں تک ہمارے اختیار میں ہو ہندوستان کو اقتدار منتقل کرنے کے لئے انہوں نے جس مقصد کا ذمہ لیا ہے اس میں پوری پوری مدد کریں تاکہ کامل امن اور سکون کے ساتھ یہ اقتدار ہند دستانوں کے سپرد کر دیا جائے " سے فصل ہفتم حضر مصلح موعود کی رو سے سکھ قوم کے نام دردمندانہ اپیل اور حضرت صاحبزادہ مرزابش احمد صاحبك محرکة الآرا مضمون مخالصة وشيار باش مورچون کی برطانوی سکیم کے بعد مطالبہ تقسیم پنجاب کو آئینی حیثیت حاصل ہو گئی اور حکومت نے اس کے فیصلہ کے لئے ۲۳ جون سالانہ کا دن مقرر کیا.یہ فارمولا چونکہ بظاہر سکھوں کے ایمار اور اُن کے فائدہ کے لئے ے مخصاً از " قائد اعظم اور ان کا عہد صفحه ۷۸۵ تا ۰۷۹۳ سے
۳۶۲ تسلیم کیا گیا تھا اس لئے حضرت مصلح موعود نے سکھ قوم کے نام دردمندانہ اپیل " کے عنوان سے ایک ٹیکیٹ لکھا ہو دس دس ہزار کی تعداد میں بزبان اردو و گورمکھی شائع کیا گیا ہے حضور نے اس ٹریکٹ میں سکھوں سے نہاتے درجه دردمند دل کے ساتھ اہیل فرمائی کہ وہ سنجیدگی اور متانت اور حقیقت پسندی سے اپنے موقف پر نظریاتی کریں اور پنجاب کو تقسیم کرانے کی بجائے قائد اعظم اور سلم لیگ سے سمجھوتہ کر لیں.نیز قبل از وقت انتباہ بھی کر دیا کہ تقسیم پنجاب کے فیصلہ سے انہیں قومی اعتبار سے قطعا کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا اور اُن کا مستقبل مخدوش ہو جائے گا.حضور کا یہ ٹریکٹ آپ کے سیاسی فہم و تد تیر اور بصیرت و فراست کا زندہ شاہکار ہے جس کی تاریخی اہمیت میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے.ذیل میں حضرت مصلح موعود کا یہ مضمون مجنسبہ درج کیا جاتا ہے:.اعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ هو الله سمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ خدا کے فضل اللہ رحم کے سائے سامي سکھ قوم کے نام دردمندانہ اپیل پنجاب کے بٹوارے کا برطانوی فیصلہ ہو چکا ہے.اب خود اہل پنجاب نے اس کے متعلق اپنی آخری منظوری دیتی ہے یا اس سے انکار کرنا ہے.بیشتر اس کے کہ اس کے متعلق کوئی قدم اُٹھا یا جائے مناسب ہے کہ ہم اس کے متعلق پوری طرح سوچ لیں.ایک دفعہ نہیں دس دفعہ کیونکر تقسیم کا معاملہ معمولی نہیں بہت اہم ہے.اس وقت تک جو تقسیم کا اعلان ہوا ہے اس کا حسب ذیل نتیجہ نکلا ہے :.مندو ( انگریزی علاقہ کے ۲۱ کروڑ میں سے ساڑھے انہیں کروڑ ایک مرکز میں جمع ہو گئے ہیں اور صرف ڈیڑھ کروڑ مشرقی اور مغربی اسلامی علاقوں میں گئے ہیں.گویا اپنی قوم سے جدا ہونے والے ہندوؤں کی تعداد صرف سات فی صدی ہے.باقی ترانوے فیصدی ہندو ایک جھنڈے تلے جمع ہو گئے ہیں.مسلمان (انگریزی علاقہ کے آٹھ کروڑ میں سے پانچ کروڑ دو اسلامی مرکزوں میں جمع ہو گئے ہیں اور تین کروڑ ہندو اکثریت کے علاقوں میں چلے گئے ہیں.گویا اپنی قوم سے جدا ہونے والے مسلمان سینتین کی صدی ہیں.سیکھ ( انگریزی علاقہ رپورٹ سالانہ صدر انجین احمدیہ پاکستان بابت سال مش صفحه ، *
میں رہنے والے) ۲۱ لاکھ مشرقی پنجاب میں پچھلے گئے ہیں اور سترہ لاکھ مغربی پنجاب میں رہ گئے ہیں.گویا ۴۵ فی صدی سکھ مغربی پنجاب میں پہلے گئے ہیں اور 20 فی صدی مشرقی پنجاب میں.اور تینوں قوموں کی موجودہ سیاست یہ ہو گئی ہے.ہندو ننانوے فی صدی اپنے مرکز میں جمع ہو گئے ہیں مسلمان ہونٹو ایدی اپنے دور کان میں جے ہوتے ہیں سکے پیچھے نصوری ایسے دو مرکزوں میں جمع ہو گئے ہیں جہاں انہیں اکثریت کا حاصل ہوتا تو الگ رہا پچیس فیصدی تعداد بھی انہیں حاصل نہیں.کیا اس صورت حالات پر سکھ خوش ہو سکتے ہیں ؟ بات یہ ہے کہ اس بٹوارہ سے ہندوؤں کو بے اشتہار فائدہ پہنچا ہے مسلمانوں کو اخلاقی طور پر فتح حاصل ہے لیکن مادی طور پر نقصان سکھوں کو مادی طور پر بھی اور اخلاقی طور پر بھی نقصان پہنچا ہے.گویا سب سے زیادہ گھاٹا سکھوں کو ہوا ہے اور اس سے کم مسلمانوں کو.بہندوؤں کو کسی قسم کا بھی کوئی نقصان نہیں ہوا.صرف اس عقیمت میں کمی آئی ہے جو وہ حاصل کرنا چاہتے تھے.لیکن ابھی وقت ہے کہ ہم اس صورت حالات میں تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کریں.۲۳ تاریخ کے بعد پھر یہ سوال آسانی سے مل نہ ہو سکے گا.سکھ صاحبان جانتے ہیں کہ احمدیہ جماعت کو کوئی سیاسی اور مادی فائدہ اس یا اس سکیم سے حاصل نہیں ہوتا.احمدی جماعت کو ہر طرف سے خطرات نظر آرہے ہیں.ایک پہلو سے ایک خطرہ ہے تو دوسرے پہلو سے دوسرا.پس میں جو کچھ کہہ رہا ہوں عام سیاسی نظریہ اور سکھوں کی خیر خواہی کے لئے کہہ رہا ہوں.میں جس علاقہ میں رہتا ہوں گو اس میں مسلمانوں کی اکثریت ہے لیکن سیکھ اس علاقے میں کافی ہیں اور ہمارے ہمسائے ہیں اور ان کی نسبت آبادی کوئی ۳۳ فیصدی تک ہے.اس لئے سکھوں سے ہمارے تعلقات بہت ہیں.بعض سکھ رو سار سے سہارا خاندانی طور پر مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانہ سے بھائی چارہ اب تک چلا آتا ہے.اس لئے میری رائے محض خیر خواہی کی بناء پر ہے.میرا دل نہیں چاہتا کہ سیکھ صاحبان اس طرح کٹ کر رہ جائیں.اگر تو کوئی خاص فائدہ سکھوں کو پہنچتا تو میں اس تجویز کو تریدی معقول سمجھتا.مگر اب تو صرف اس قدر فرق پڑا ہے کہ سارے پنجاب میں مسلمان اول تھے ، ہند و ردم ، اور سکھ سیدم.اور اب مشرقی پنجاب میں ہندو اول مسلمان دوم اور سکھ سوم ہیں سکھ اگر اس بٹوارے ہے سے دوم ہو جاتے تو کچھ معقول بات بھی تھی.مگر صرفت مسلمان اول سے دوم ہو گئے ہیں اور سہندو دوم سے اوّل سکھوں کوئی فائدہ نہیں پہنچا.پرانے پنجاب میں مسلمانوں نے اپنے حق سے ساڑھے پانچ فیصدی سکھوں کو دے دیا تھا.اب تک ہندوؤں کی طرف سے کوئی اعلان نہیں ہوا کہ وہ کتنا حصہ اپنے حصہ میں سکھوں کو دینے کو تیار
ہیں.پرانے پنجاب میں چودہ فیصدی سکھوں کو اکیس فیصدی حصہ ملا ہوا تھا.اب اٹھارہ فیصدی سکھر مشرقی پنجاب میں ہو گئے ہیں.اگر ہند و جو تعداد میں اول نمبر پر ہیں مسلمانوں کی طرح اپنے حق سے سکھوں کو دیں تو سکھوں کو نئے صوبہ میں چھبیس فیصدی حق ملنا چاہیئے.گو سکھ پرانے انتظام پر خوش نہ تھے.اسی وجہ سے انہوں نے صوبه تقسیم کر وایا ہے.اس لئے انہیں ہندوؤں سے تیس فیصدی ملے تو وہ تب دُنیا کو کہہ سکتے ہیں کہ دیکھو پرانے پنجاب سے ہم زیادہ فائدہ میں رہے ہیں.مسلمانوں نے ہمیں ڈیوڑھا حق دیا تھا.اب ہندوؤں نے اپنے حق سے کاٹ کر ہمیں پونے دو گنا دے دیا ہے.اس لئے ہمارا بٹوارہ پر زور دینا درست تھا لیکن اگر ایسا نہ ہو اور ہندوؤں نے اپنے حصہ سے اس نسبت سے بھی سکھوں کو نہ دیا جس نسبت سے پرانے پنجاب میں مسلمانوں نے سیکھوں کو دیا تھا تو سکھ قوم لازم گھر بیٹھے میں رہے گی.نئے صوبہ میں اٹھارہ فیصدی سیکھ ہوں گے بتیس فیصدی مسلمان اور پچاس فیصدی ہندو.اگر ہندو اسی نسبت سے اپنا حق سکھوں کو دیں جس طرح مسلمانوں نے پنجاب میں دیا تھا تو سکھوں کو چھیلیں فیصدی حق مل جائے گا اور نمائندگی کی یہ شکل ہوگی کہ بیتیس فیصدی مسلمان چھبیس فیصدی سکھ اور بیالیس فیصدی ہندو لیکن اول تو ایسا کوئی وعدہ ہندوؤں نے سکھوں سے اب تک نہیں کیا.وہ غالباً یہ کوشش کریں گے کہ مسلمانوں کے حق سے سکھوں کو دینا چاہیں.لیکن سکھوں کو یاد رکھنا چاہئیے کہ اس سے فتنہ کا دروازہ کھلے گا جب مسلمان زیاد تھے انہوں نے اپنے حصہ سے سکھوں کو دیا.اب ہندو زیادہ ہیں انہیں اپنے حصہ سے سکھوں کو دیتا پہنچے ورنہ تعلقات ناخوشگوار ہو جائیں گے.فرض کرد که مند و سکھوں کو اپنی نیابت کے حق سے دے بھی دیں یقینا انہیں مسلمانوں نے اپنے حق سے دیا ہوا تھا تو پھر بھی سکھ صاحبان کو ان امور پر غور کرنا چاہیے.(1) تمام سیکھ امراء منٹگمری ، لائل پور اور لاہور میں بستے ہیں.اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ لائل پور متشکری اور لاہور کے سیکھ زمین ندارہ کو ملا کہ فی سیکھ آٹھ ایکڑ کی ملکیت بنتی ہے.لیکن لدھیانہ ، ہوشیار پور فیروز پور ، امرتسر کی سکھ ملکیت کے لحاظ سے ایک ایکڑ فی سکھ ملکیت ہوتی ہے.کیونکہ لدھیانہ اور بھالندھر میں سکھوں کی ملکیت بہت کم ہے اور اسی وجہ سے وہ زیادہ تر مزدوری پیشہ اور فوجی ملازم ہیں یا ملک سے باہر جا کہ غیر ممالک میں کمائی کرتے ہیں.اس وجہ سے اگر یہ تقسیم قائم رہی تو اس کا ایک نتیجہ یہ نکلے گا کہ مالدار سکھ مغربی پنجاب سے جا
میں گئے.اور اگر مسلمانوں کا رویہ اُن سے اچھا رہا اور خدا کرے اچھا ر ہے تو ان کی ہمدردی مشرقی سکھ سے بالکل جاتی رہے گی اور کوئی مالی امداد وہ اُسے نہ دیں گے.اور مشرقی علاقہ کا سیکھ جو پہلے ہی بہت غریب ہے اپنی تعلیمی اور تہذیبی انجمنوں کو چلو نہ سکے گا.دوسرے اُسے یہ نقصان ہوگا کہ سکھ قوم مشرقی حصہ میں اقتصادی طور پر اپنا سر اونچا نہ رکھ سکے گی.تیرے اس سے یہ نقص پیدا ہو گا کہ ہوشیار پور ، فیروزپور جالندھر اور لدھیانہ کے سکھ پہلے سے بھی زیادہ غیر ملکوں کی طرف جانے کے لئے مجبور ہوں گے.اور مشرقی پنجاب کے سکھوں کی آبادی روز بروز گرتی چلی جائے گی اور شاید چند سال میں ہی مشرقی پنجاب میں بھی سیکھ چودہ فیصدی پر ہی آجائیں.پانچویں اس امر کا بھی خطرہ ہے کہ اس بٹوارے کی وجہ سے مغربی پنجاب کی حکومت یہ فیصلہ کرے کہ وہ زمین جو مشرقی پنجاب کے لوگوں کو مغربی پنجاب میں جنگی خدمت کی وجہ سے دی گئی ہے وہ اس بنیاد پر مضبوط کر لی جائے کہ اب ان مقدمات کا صلہ دینا نٹے ہندو مرکز کے ذمہ ہے.کوئی وجہ نہیں کہ جب وہ لوگ الگ ہو گئے ہیں تو اس خدمت کا صلہ جو در حقیقت مرکزی مقدمت تھی وہ صوبہ دے جس کا وہ شخص سیاسی باشندہ بھی نہیں ہے.زمیندارہ نقصان کے علاوہ کہ سکھوں کی دو تہائی جائیداد مغربی پنجاب میں رہ جائے گی ایک اور بہت بڑا خطرہ بھی ہے.اور وہ یہ کہ جو سکھ تجارت کرتے ہیں ان میں سے اکثر حصہ کی تجارت مغربی پنجاب سے وابستہ ہے سوائے سردارہ بلدیو سنگھ صاحب کے جن کی تجارت ہندو علاقہ سے وابستہ ہے ، باقی سب سکھ تجارت مسلمان علاقہ سے وابستہ ہے.سکھوں کی تجارت بجیسا کہ سب لوگ جانتے ہیں پنجاب میں راولپنڈی، کوئٹہ ، جہلم اور بلوچستان سے وابستہ ہے.اور تجارت کی ترقی کے لئے آبادی کی مدد بھی ضروری ہوتی ہے جب سکھوں کی دلچسپی مغربی پنجاب اور اسلامی علاقوں سے کہ ہوگی تو از ما می تجارت کو بھی نقصان پہنچے گا سوائے سردار بلدیو سنگھ صاحب کے جن کی تجارت بہار سے وابستہ ہے اور کونسا بڑا اسکھ تاجر ہے جو مشرقی پنجاب یا ہندوستان میں وسیع تجارت رکھتا ہو.ساری کشمیر کی تجارت جو راولپنڈی کے راستہ سے ہوتی ہے یا جہلم کے ذریعہ سے ہوتی ہے سکھوں کے پاس ہے.ایران سے آنے والا مال اکثر سکھوں کے ہاتھ سے ہندوستان کی طرف آتا ہے اور اس تجارت کی قیمت کروڑوں تک پہنچتی ہے.اگر یہ تاجر موجودہ افرا تفری میں اپنی تجارتوں کو بند کریں گے تو نئی جگہ کا پیدا کرنا ان کے لئے آسان نہ ہوگا اور اگر وہ اپنی جگہ پر رہیں گے تو اسلامی حصہ ملک میں اُن
کی آبادی کے کم ہو جانے کی وجہ سے وہ اس سیاسی اثر سے محروم ہو جائیں گے جو اب ان کی تائید میں ہے اور پھر اگر انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنے پہلے علاقہ میں ہی رہیں تو آہستہ آہستہ ان کی ہمدردی اپنے مشرقی بھائیوں سے کم ہو جائے گی اور سکھ انجمنیں ان کی امداد سے محروم رہ جائیں گی.یہ امر بھی نظر انداز کرنے کے قابل نہیں ہے کہ مشرقی صوبہ کا دارالحکومت لازماً دہلی کے پاس بنایا جائے گا اور اس طرح امرتسر اپنی موجودہ حیثیت کو کھو بیٹھے گا.اس وقت تو لاہور کے قریب ہونے کی وجہ سے جہاں کافی سکھ آبادی ہے امرتسر تجارتی طور پر ترقی کر رہا ہے لیکن اگر دارالحکومت مثلاً انبالہ چلا گیا تو انبالہ بوجہ امرتسر سے دور ہونے کے قدرتی طور پر اپنی تجارتی ضرورتوں کے لیے امرتسر کی جگہ دہلی کی طرف دیکھیے گا اور لاہور حکومت کے اختلاف کی وجہ سے امرتسر سے پہلے ہی بعدا ہو چکا ہو گا.پھر امرت سر کی تجارت کا یہ حصہ اس مال کی وجہ سے ہے جو افغانستان بخارا اور کشمیر سے آتا ہے یہ مال بھی اپنے لئے نئے راستے تلاش کرے گا.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ امرتسر کی تجارتی حیثیت بہت گر جائے گی.اور یہ شاندار شہر جلد ہی ایک تیسرے درجہ کا شہر بن جائے گا اگر مغربی پنجاب نے مشرقی پنجاب کی ڈگریوں کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تو وہ اٹھارہ لاکھ سکھ جو مغربی پنجاب میں بستے ہیں، ایک بڑا کالج مغربی پنجاب میں بنانے پر مجبور ہوں گے اور چونکہ بڑے زمیندار اور بڑے تاجو سیکھ مغربی پنجاب میں ہیں ، ان کے لئے ایک بہت بڑا کالج بنانا مشکل نہ ہوگا.اس طرح خالصہ کالج امرت سر بھی اپنی شان کھو بیٹھے گا.اور سکھوں کے اندر دو متوازی سکول اقتصادی اور سیاسی اور تمدنی فلسفوں کے پیدا ہو جائیں گے.بے شک ساری قوموں کو ہی اس بٹوارہ سے نقصان ہو گا.لیکن چونکہ ہندوؤں کی اکثریت ایک جگہ اور مسلمانوں کی اکثریت ایک جگہ جمع ہو جائے گی انہیں یہ نقصان نہ پہنچے گا.یہ نقصان صرف سکھوں کو پہنچے گا جو قریباً برابر تعداد میں دونوں علاقوں میں بٹ بھائیں گے اور دونوں میں سے کوئی حصہ اپنی بڑائی کو دو سیر حصہ پر قربان کرنے کے لئے تیار نہ ہوگا.کہا جاتا ہے کہ آبادی کے تبادلہ سے یہ مشکل عمل کی جا سکے گی لیکن یہ درست نہیں.لائل پور ، لاہور، منٹگمری ، شیخو پورہ، گوجرانوالہ اور سرگودھا کے سکھ اپنی نہری زمینوں کو چھوڑ کر بارانی زمینوں کو لینے کے لئے کب تیار ہوں گے.اور اگر وہ اس پر راضی ہو گئے تو مالی لحاظ سے یہ ان کے لئے بڑا اقتصادی دھکا ہوگا جس کی وجہ سے قومی الخطاط شروع ہو جائے گا.
ک وسلم پس پیشتر اس کے کہ سیکھ صاحبان پنجاب کے بٹوارے کے متعلق کوئی فیصلہ کریں انہیں ان سب امور پر غور کر لینا چاہیے تا ایسا نہ ہو کہ بعد میں اس مشکل کا حل نہ نکل سکے اور پچھتانا پڑے.بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ اگر مشکلات پیدا ہوائیں اور ان کا کوئی علاج نہ نکلا تو اس وقت پھر سیکھ صاحبان مغربی پنجاب میں آسکتے ہیں لیکن یہ خیال درست نہیں.اس لئے کہ اگر اب سکھ صاحبان پنجاب کے بٹوارے کے خلاف رائے دیں تو اُن کے ووٹ مسلمانوں کے ووٹوں سے مل کر بٹوارے کو روک سکتے ہیں لیکن اگر بعد میں انہوں نے ایسا فیصلہ کیا تو یہ صاف بات ہے کہ انبالہ ڈویژن ان کے ساتھ شامل نہ ہوگا.اور اگر مغربی پنجاب سے ملا تو صرف بجالندھر ڈویژن ملے گا اور اس وقت پنجاب کی یہ حالت ہوگی کہ اس میں پندرہ فیصدی سکھ ہوں گے.اور پندرہ فیصدی ہندو اور ستر فیصدی مسلمان جان کر متحدہ پنجاب کی صورت میں بیالیس فیصدی ہندو اور سیکھ ہوں گے اور چھپن فیصدی مسلمان اور دو فیصدی دوسرے لوگ نظاہر ہے کہ چونتالیس فیصدی کو حکومت میں جو آواز اور اثر رکھتے ہیں وہ تیس فیصدی لوگ کسی صورت میں نہیں رکھ سکتے.پس بعد کی تبدیلی کسی صورت میں سکھوں کو وہ فائدہ نہیں پہنچا سکتی جو اس وقت کی تبدیلی پہنچا سکتی ہے کیونکہ ایک دفعہ پنجا بانٹا گیا تو پھر انبالہ ڈویژن کو واپس لانا سکھوں کے اختیار سے باہر ہو جائے گا.سکھ صاحبان کو یہ امر بھی نہیں بھولنا چاہئیے کہ ابھی سے ہندوؤں کی طرف سے یہ آواز اٹھائی جا رہی ہے کہ یوپی کے چند اضلاع ملا کہ مشرقی پنجاب کا ایک بڑا صوبہ بتا دیا جائے.اگر ایسا ہو گیا تو اس نئے صوبہ میں ہندو ساٹھ فی صدی مسلمان میں فی صدی اور سیکھ صرف دس فی صدی رہ جائیں گے.بعض سیکھ صاحبان یہ کہتے سنے بجاتے ہیں کہ جالندھر ڈویژن کی ایک سیکھ ریاست بنادی جائے گی.بیشک اس صورت میں سکھوں کی آبادی کی نسبت اس علاقہ میں بڑھ جائے گی.مگر اس صورت میں بھی مختلف قوموں کی نسبت آبادی یوں ہوگی ۱۶۰ ۲۵ سکھ ، ۳۴٫۵۰ مسلمان اور تقریباً چالیس فیصدی ہندو.اس صورت حالات میں بھی سکھوں کو زیادہ فائدہ نہیں پہنچ سکتا.پرانے پنجاب میں بھی تو سکھوں کو بہا میں فیصدی نمائندگی ملی ہوئی تھی.پس اگر جالندھر ڈویژن کا الگ صوبہ بھی بنا دیا گیا.تو اس سے ہندوؤں اور مسلمانوں کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچے گا کیونکہ انبالہ ڈویژن کے الگ ہو جانے کی وجہ سے انبالہ صوبہ پر تھی طور پر سہندوؤں کا قبضہ ہو جائے گا اور جالندھر ڈویژن میں بوجہ بھائیس فیصدی رہ جانے کے سیکھ ان سے اپنے لئے زیادہ نمائندگی کا مطالبہ نہیں کر سکیں گے اور توازن بہت مضبوطی سے بہندوؤں
PyA کے ہاتھ میں پھلا سجائے گا اور وہ انبالہ کے صوبہ میں بغیر کسی سے سمجھوتہ کرنے کے حکومت کر سکیں گے اور جالندھر میں کچھ سکھوں یا مسلمانوں کو ملاکر حکومت کر سکیں گے.ایک اور سخت نقصان سکھوں کو اس صورت میں یہ پہنچے گا کہ جالندھر ڈویژن کے سیکھوں میں کمیونزم بہت زیادہ زور پکڑ رہی ہے.فیروز پور ، لدھیانہ اور ہوشیار پور اس کے گڑھ ہیں.اس علیحدگی کی وجہ سے ان لوگوں کی آواز بہت طاقت پکڑ جائے گی.اور اکالی پارٹی چند سالوں میں ہی اس خطر ناک بلا کا مقابلہ کرنے سے اپنے آپ کو بے میں پائے گی مخصو صا حب کہ سیاسی چالوں کی وجہ سے بعض خود غرض پارٹیاں کمیونسٹوں کی مد کرنے پر آمادہ ہو جائیں گی جیسا کہ گذشتہ لیکشن پر سکھ صاحبان کو تلخ تجربہ ہو چکا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ میں نے کافی روشنی ان خطرات پر ڈالی دی ہے جو سکھوں کو پیش آنے والے ہیں.اور میں امید کرتا ہوں کہ ۲۳ جون کو ہونے والی سمبلی کی میٹنگ میں وہ ان امور کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کریں گے.اس طرح میں سمجھتا ہوں کہ چونکہ سب سے زیادہ اثر عوام سکھوں پر پڑنے والا ہے.وہ بھی اپنے لیڈروں پر زور دینگے کہ اس خود کشی کی پالیسی سے اُن کو بچایا جائے.میں لکھ چکا ہوں کہ میں بوجہ ایک چھوٹی سی جماعت کا امام ہونے کے کوئی سیاسی غرض اس مشورہ میں نہیں رکھتا.اس لئے سیکھ صاحبان کو سمجھ لینا چاہیئے کہ میرا مشورہ بالکل مخلصانہ اور محض ان کی ہمدردی کی وجہ سے ہے.اگر سیاست میرے اختیار میں ہوتی تو میں انہیں ایسے حقوق دے کر بھی جن سے اُن کی تسلی ہو جاتی ، انہیں اس نقصان سے بچاتا.مگر سیاست کی طاقت میرے ہاتھ میں نہیں اس لئے میں صرف نیک مشورہ ہی دے سکتا ہوں.ہاں مجھے امید ہے کہ اگر سکھ صاحبان مسٹر جناح سے بات کریں تو یقینا انہیں سکھوں کا خیر خواہ پائیں گے مگر انہیں بات کرتے وقت یہ ضرور مد نظر رکھ لینا چاہیے کہ ہند و صاحبان انہیں کیا کچھ دینے کو تیار ہیں.کیونکہ خود کچھ نہ دینا اور دوسروں سے پینے کے مشورے دینا کوئی بڑی بات نہیں.اس میں مشورہ دینے واے کا کچھ حرج نہیں ہوتا پس اچھی طرح اور پیچ پیچ کو دیکھ کر وہ اگر مسلم لیگ کے لیڈروں سے میں تو مجھے امید ہے کہ مسلم لیگ کے لیڈر نہیں نا امید نہیں کریں گے.اگر مجھ سے بھی اس بارہ میں کوئی خدمت ہو سکے تو مجھے اس سے بے انتہا ر خوشی ہوگی.ود آخر میں میں سیکھ صاحبان کو مشورہ دیتا ہوں کہ سب کا موں کی گنجی بخدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.گورو نانک دیو جی اور دوسرے گوروؤں کے طریق کو دیکھیں.وہ ہر مشکل کے وقت اللہ تعالیٰ سے دعائیں کیا کرتے تھے.اس وقت ان کو بھی اپنی عقل پر سارا انحصار رکھنے کی بجائے خدا تعالیٰ سے دعائیں کرنی چاہئیں
۳۶۹ تا اللہ تعالے انہیں وہ راستہ دکھا دے جس میں اُن کی قوم کی بھی بھلائی ہو اور دوسری قوموں کی بھی بھلائی ہو یہ دن گذر جائیں گے.یہ باتیں بھول جائیں گی.لیکن محبت اور پریم کے کئے ہوئے کام کبھی نہیں بھولیں گے اگر ٹوارہ بھی ہوتا ہے تو وہ بھی اس طرح ہونا چاہیئے کہ ایک قوم کا گاؤں دوسری قوم کے گاؤں میں اس طرح نہ گھسا ہوا ہوں کہ جس طرح دود کنگھیوں کے دندانے ملا دیئے جاتے ہیں.اگر ایسا ہوا تو سرحد میں چھاؤنیاں بن جائیں گی اور سینکڑوں میل کے بسنے والے لوگ قیدیوں کی طرح ہو جائیں گے اور علاقے اُجڑ جائیں گے.یہ میری نصیحت سکھوں ہی کو نہیں مسلمانوں کو بھی ہے.میرے نزدیک تحصیلوں کو تقسیم کا یونٹ تسلیم کر لینے سے اس فتنہ کا ازالہ ہو سکتا ہے.اگر اس کھوٹا یونٹ بنایا گیا.تو جتنا جتنا چھوٹا وہ ہوتا جائے گا اتنا اتنا نقصان زیادہ ہو گا.ایک عرب شاعر اپنی معشوقہ کو محلی کر کے کہتا ہے.عمر فإن كُنتِ قَدْ أَزْ مَعَتِ صَرْفًا فَاجْلِ یعنی اسے میری محبوبہ ! اگر تو نے جُدا ہونیکا فیصلہ ہی کر لیا تو کسی پسندیدہ طریق سے بعدا ہو.یمیں بھی ہندو مسلمان سکھ سے کہتا ہوں کہ اگر بھدا ہونا ہی ہے تو اس طرح سب لا ہو کہ سرحدوں کے لاکھوں غریب باشندے ایک لمبی مصیبت میں مبتلا نہ ہو جائیں.شاید کسی کے دل میں یہ خیال گزرے کہ میں نے ہندوؤں کو کیوں مخاطب نہیں کیا.اس کا جواب یہ ہے کہ جہانتک ہ روی کا سوال ہے ہندو بھی ہمارے بھائی ہیں اور میں ان کا کم ہمدرد نہیں.مگر ہند و چونکہ اپنے مرکز کی طر گئے ہیں.اُن کا فوری نقصان تو ہوگا مگر بوجہ اس کے کہ وہ اکثر تا حجر پیشہ ہیں وہ جلد اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں گے اس لئے انہیں یہ کہنا کہ اس تقسیم سے آپ کا دائی نقصان ہوگا جھوٹ بن جاتا ہے.اس لئے میں نے انہیں مخاطب نہیں کیا ورنہ اُن سے مجھے کم ہمدردی نہیں.آخر میں لیکن دعا کرتا ہوں کہ اے میرے رب ! میرے اہل ملک کو سمجھ دے اور اول تو یہ ملک بیٹے نہیں.اور اگر بیٹے تو اس طرح ہے کہ پھر مل جانے کے راستے کھلے رہیں.اللہم آمین.خاکسار مرزا محمود احمد امام جماعت احمدیہ قادیان ) ارجون ۱۹۴۷) لے پر ضمون الفضل و ار احسان جون این صفحہ اتا ہم میں بھی چھپ گیا تھا : " نه
۳۷۰ حضرت مصلح موعود کے علاوہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی خاصہ ہوشیار باش ما موقع پر پے در سے نانی کے من میں ان دلائل کی روشی میں آپ نے تقسیم پنجاب کے مطالبہ کے عوامل ونتائج کا مفکرانہ طریق سے تجزیہ فرمایا اور سکھ بھائیوں کو نہایت مخلصان مشورے دیئے حضرت صاحبزادہ صاحب کے قلم سے نکلے ہوئے یہ سب حقیقت افروز مضامین بسلہ کے لڑ پھر میں محفوظ ہیں اور پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ یادگار رہیں گے.یوں تو یہ سب معرکتہ الآراء مضامین اپنے اپنے رنگ میں نہایت درجہ معلومات افزا اور ماتل اور منفرد علمی شان کے حامل تھے مگر میں مضمون نے سکھوں میں ایک زبر دست جنبش پیدا کر دی وہ مسلم لیگ کے ترجمان پاکستان ٹائمز“ میں چھپا.اس مضمون کا عنوان تھا " POSITION OF SIKNS IN DIVIDED PUNJAB منقسم پنجاب میں سکھوں کی حیثیت" نواب مظفر خان آن راہ نے ہر مٹی شاہ کو اس مضمون کی نسبت بذریعہ خط مندرجہ ذیل تاثرات کا اظہار کیا :- آپ کا مضمون بڑی دلچسپی سے پڑھا.یہ نہایت بہترین مضمون ہے جو سکھوں اور مسلمانوں دونوں کو اپیل کرتا ہے.میں نے عزت مآب خان لیاقت علی خاں اور دوسرے مسلم لیگی قائدین کی توجہ اس طرف مبذول کرائی ہے.مجھے خدشہ صرف یہ ہے کہ مسلمان اخبار کے اس مضمون کو بہت کم سکھ مطالعہ کریں گے.حیرت ہے کہ با وجود فیاضانہ سلوک کے سکھ بہت کم توجہ دے رہے ہیں“ اس انگریزی مضمون کا ترجمہ اخبار الفضل قادیان ( و ہجرت امنی لا مش اور اختبار خادم پٹیالہ (۱۲) خون کے انٹہ) میں بھی " خالصہ ہوشیار باش “ کے عنوان سے شائع ہوا.اور بذریعہ پمفلٹ اردو 11954 انگریزی اور گور مکھی زبانوں میں بھی پنجاب کے طول و عرض میں وسیع طور پر پھیلایا گیا ہے سکے ط ملاحظہ ہو الفضل ۱۰ - ۱۹-۲۲ مهرت رسمی و ۱۴-۲۰ احسان اخون امش : -6.ے اس مضمون پر اخبار " شیر پنجاب ۱۵ر خون کا ہر صفحہ ) نے اپنے اداریہ العنوان " مرزا بشیر احمد صاحب کے پیغام کا جواب سے میں سخت جرح اور تنقید کی جس کے جواب میں آپ نے ایک نہایت مدلل و مفصل مضمون "الفضل (۲۰ مون ٹ میں لکھا جو قابل مطالعہ ہے ؟ " ه الفضل ۲۰۰ احسان جون له مش صفحه ۱ : کے مشہور سکھ اخبار " شیر پنجاب " نے ۲۵ فروری شہ کو اسی مضمون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اور احمدیوں کی البقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر ملاحظہ ہو)
و مرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اپنے محققانہ مضمون میں تحریر فرمایا :- سیاسی حالات بھی عجیب طرح رنگ بدلتے رہتے ہیں.ابھی ۱۹۴۷ء کے اوائل کی بات ہے جبکہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات ہو رہے تھے کہ سکھ قوم اس بات پر سہندوؤں سے سخت بگڑی ہوئی تھی کہ وہ کانگریس کے نظام کے ماتحت ان کی پیتھک حیثیت اور پنتھک و قار کو تباہ کرنا چاہتے ہیں اور ان کی مستقل قومی حیثیت کو مٹاکر اپنے اندر بجذب کر لینے کے درپے ہیں چنانچ اسی زمانہ کے بعد کا واقعہ ہے کہ سکھوں کے مشہور لیڈر ماسٹر تارا سنگھ صاحب نے اپنے تنفت سپاہی" نامی گور یکھی رسالہ کے اگست ۶ہ کے نمبر میں ہندو مسلماناں نال ساڈے سمیدھ" کے مضمون کی ذیل میں لکھا تھا کہ ذہبی اصولوں کے لحاظ سے سیکھ مسلمانوں سے زیادہ قریب ہیں مگر تہذیب اور برادری کے تعلقات ہندوؤں سے زیادہ ہیں....ہندوؤں میں ایک حصہ ایسا ہے جو ہمیں جنگل جانا چاہتا ہے.مسلمانوں سے ہمارے تعلقات بھی کم ہیں اور خطرہ بھی کم ہے.بقیه حاشیه صفحه گذشته تائید پاکسان سے متعلق بقر جد وجہد پرنٹ کرتے ہوئے زیر عنوان پاکستان کے احمدیوں پریشان تائید سے ابدیدہ ایوان لکھا کہ احمدیوں کی پاکستان میں اس غیر محفوظ و خطرناک پوزیشن اور مصائب کا کون ذمہ دار ہے.اس کا جواب سوئے اس کے اور کیا ہو سکتا ہے سے اسے باد صبا ایں ہمہ آوردہ تست اس کے ذمہ دار خود احمدی لیڈر ہیں جنہوں نے پاکستان کے قیام کی سرگرم حمایت کی اور اپنے ساتھ ڈوبنے کی سکھوں کو بھی ترغیب دینے کی جسارت کی.اس سلسلہ میں جون سنہ میں سول ملٹری گزٹ لاہور میں قادیان کے صاحبزادہ میرزا بشیر احمد صاحب ایم اے نے ایک مضمون تقسیم شدہ پنجاب میں سکھوں کی پوزیشن کے عنوان سے چھپوایا.اس مضمون کا ترجمہ احمدیوں کے سرکاری اخبار الفضل میں اور بعد میں ایک پمفلٹ مخالصہ ہوشیار باش میں بھی چھپوا کر تقسیم کیا گیا جس میں سکھوں کو یہ دوستانہ مشورہ دیا گیا کہ وہ پنجاب کی تقسیم کو روکیں کیونکہ اس طرح سکھ پنتھ بھی تقسیم ہو جائے گا اور وہ کہیں کے نہ رہیں گے نیز سکھوں اور مسلمانوں کے عقائد میں یکسانیت ہے.اس لئے انہیں مسلمانوں کے ساتھ مل کر رہنا چاہیئے.اگر سکھ اس وقت اس مشورہ کو قبول کرکے کوئی معلو قدم اُٹھا لیتے تو اب احمدی حضرات ہی ہیں کہ اس کا انجام کتنا خطرناک ہوتا اگر پاکستانی مسلمان احمد یوں پاکستان کیلئے قربانیوں ان کی مسلمانوں کی سی شکل و صورت، ان کے مسلمانوں کے سے نام، ان کا مسلمانوں کی کتاب اور ستمبر پر ایمان اور شریعیت اسلامیہ پران کے عمل کے باوجود بھی نہیں مرند کا تربیتی درتقال مکار فریبی ہی سمجھتے ہیں اور ان کے ساتھ اقتصادی سیاسی معاشرتی شادی و غمی کے تعلقات رکھنے کو تیار نہیں تو وہ سکھوں سے کیونکر انصاف کر سکتے " " شیر پنجاب " ۲۵ فروری شاه بحواله الفضل ۲۱ رامان امار امش
۳۷۲ میں مسلمانوں سے بجھونہ اور بہتر تعلقات پیدا کرنے کے حق میں ہوں..بہندووں میں ایسے لوگ ہیں جو ڈھنگ یا اُستادی سے سیکھوں کو نگل جانا چاہتے ہیں.•.ہندوؤں کا پچھلا وطیرہ اور تاریخ ہمیں پورا بھروسہ نہیں ہونے دیتی اور ہمیں خبر دار ہی رہنا چاہئیے....یقین رکھو کہ کانگریس اور ہندوؤں نے ہماری علیحدہ پولیٹیکل سہتی کو مٹانے کی کوشش کرنی ہے.پچھلے انتخابات میں یہ کوشش بہت زور سے کی گئی تھی لیکن ہم بچ گئے.اگر آج پنجاب اسمبلی کے سارے سکھ میر کا نکاس ٹکٹ پر ہوتے تو ہم ختم تھے “ یہ الفاظ جن کے لکھے بجانے پر ابھی بمشکل نو ماہ کا عرصہ گذرا ہے ایک ایسے سکھ لیڈر کے قلم سے نکلے ہیں جو ہندو سے سیکھ بنا ہے اور ہم ان الفاظ پر قیاس کر کے سمجھ سکتے ہیں کہ اس وقت قدیم سکھوں اور خصوصاً جاٹ سکھوں میں ہندوؤں کے متعلق کیا خیالات موجزن ہوں گے.مگر آج یہی پنجاب کا نامور خالصہ ہندوؤں کی آفیش میں راحت محسوس کر رہا ہے.مجھے تسلیم کرنا چاہیئے کہ اس غیر معمولی تبدیلی کی ذمہ داری کسی حد تک مسلمانوں پر بھی عائد ہوتی ہے جنہوں نے سکھوں کو اپنے ساتھ ملانے میں پوری توجہ اور جد و جہد سے کام نہیں لیا.مگر اس انقلاب کا اصل سہرا ہند و سیاست کے سر ہے جس نے اتنے قلیل عرصہ میں اپنی گہری دیر کے ذریعہ سکھ کو گویا بالکل اپنا بنا لیا ہے.لیکن جس اتحاد کی بنیاد محض دوسروں کی نفرت و عداوت کے جذبہ پر ہو وہ زیادہ دیہ پا نہیں ہوا کرتا اور سمجھ دار سکھوں کی آنکھیں آہستہ آہستہ اس تلخ حقیقت کے دیکھنے کے لئے کھل رہی ہیں کہ ان کے لئے پنجاب میں ہندوؤں کی سانجھ سو فیصدی خسارہ کا سودا ہے پنجاب کی تقسیم" یا "پنجاب کا بٹواں " ایک ایسا نعرہ ہے جس کے وقتی طلسم میں ہند و سیاست نے سیکھ کو مخمور کر رکھا ہے.مگر کیا کبھی کسی دانشمند سیکھ نے ٹھنڈے دل سے اس حقیقت پر غور کیا ہے کہ پنجاب کی مزعومہ تقسیم کے نتیجہ میں سیکھ کیا لے رہا ہے اور کیا دے رہا ہے.یہ دو ٹھوس حقیقتیں بچے بچے کے علم میں نہیں کہ (1) پنجاب میں سکھ تیرہ فیصدی ہے اور (۲) پنجاب کے ۲۹ ضلعوں میں سے کوئی ایک ضلع بھی ایسا نہیں ہے جس میں سکھوں کی اکثریت ہو.کیا اس روشن صداقت کے ہوتے ہوئے پنجاب کی کوئی تقسیم سیکھ مفاد کو فائدہ پہنچا سکتی ہے ؟ جو قوم ہر لحاظ سے اور ملک کے ہر حصہ میں اقلیت ہے.وہ ملک کے بٹنے سے بہر حال مزید کمزوری کی
طرف بہائے گی اور ملک کی یہ تقسیم خواہ وہ کیسی اصول پر ہو اس کی طاقت کو کم کرنے والی ہوگی نہ کہ بڑھنے والی.یہ کہنا کہ فلاں سمہ کے الگ ہو جانے سے اس حصہ میں سکھوں کی آبادی کا تناسب بڑھ جائیگا ایک خطرناک سیاسی دھوکا ہے کیونکہ بہر صورت پنجاب کے دونوں حصوں میں سکھ ایک کمزور اقلیت رہتے ہیں اور ظاہر ہے کہ اس صورت میں ایک حصہ کے اندر تناسب آبادی میں تخفیف سی زیادتی کی وجہ سے اپنی مجموعی طاقت کو بانٹ لینا خود کشی سے کم نہیں.برطانوی پنجاب میں سکھوں کی موجودہ آبادی ساڑھے تینتیس لاکھ ہے اور اُن کی آبادی کا تناسب تیرہ فی مہدی ہے.اب موجودہ تجویز کے.مطابق پنجاب اس طرح بانٹا جا رہا ہے کہ ایک حصہ میں پونے سترہ لاکھ سکھ چلا جاتا ہے اور دوسرے میں پونے اکیس لاکھ.اور جس حصہ میں پوآنے اکیس لاکھ جاتا ہے وہاں اُن کی آبادی قریباً اٹھارہ فی صدی ہو جاتی ہے اور دوسرے حصہ میں قریباً دس فی صدی رہ بھاتی ہے تو کیا اس صورت میں دنیا کا کوئی سیاستدان یہ خیال کر سکتا ہے کہ ایسی تقسیم سکھوں کے لئے مفید ہوگی جہاں وہ تیرہ فی صدی سے قریباً اٹھارہ فی صدی ہو جائیں گے وہاں بھی بہر حال وہ ایک کمزور اقلیت رہیں گے اور ان کے لئے تناسب آبادی کا خفیف شرق عمل بالکل بے نتیجہ اور بے مورد ہوگا.مگر دوسری طرف تیر نسیم ان کی مجموعی طاقت کو دو حصوں میں بانٹ کر دیعنی ہم کی بجائے ۱۶ اور ۲۱ کے دو حصے کر کے ان کی قومی طاقت کو سخت کمزور کر دے گی.یہ ایک ٹھوس اور بین حقیقت ہے جسے دنیا کا کوئی مسلمہ سیاسی اصول تو نہیں کر سکتا.اگر پنجاب ایک رہے تو سکھ قوم ساڑھے سینتیس لاکھ کی ایک زبر دست متحد جماعت ہے جس کا سارا زور ایک ہی نقطہ پر جمع رہتا ہے لیکن اگر پنجاب بٹ جائے تو خواہ وہ کسی اصول پر بٹے سکھوں کی ملاقات بہر حال دو حصوں میں بٹ جائے گی اور دوسری طرف ان کے آبادی کے تناسب میں بھی کوئی مہندیہ فرق نہیں آئے گا اور وہ بہر صورت دونوں حصوں میں ایک کمزور اقلیت ہی رہیں گے.کیا یہ حقائق اس قابل نہیں کہ سمجھ دار سکھ لیڈر ان پر ٹھنڈے دل سے غور کریں ؟ یہ کہنا کہ پنجاب کے مختلف ضلعے یا زیادہ صحیح طور پر یوں کہنا چاہئیے کہ مختلف حصے آبادی کی نسبت سے نہیں بٹنے چاہئیں بلکہ مختلف قوموں کی جائداد اور مفاد کی بنیاد پر پہنے چاہئیں ایک فلن تستی سے زیادہ نہیں کیونکہ
اول تو یہ مطالبہ دنیا بھر کے مسلمہ سیاسی اصولوں کے خلاف ہے اور جمہوریت کا بنیادی نظریہ اس خیال کو دور سے ہی دھکے دیتا ہے.دوسرے جاندا دیں ایک آنی جانی چیز ہیں اور ان پر اس قسم کے مستقل قومی حقوق کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی جو انسانی بھانوں اور ان جانوں کے تحفظ اور ترقی سے تعلق رکھتے ہیں.تمیرے اس سوال کو اُٹھانے کا یہ مطلب ہے کہ ملک کے نئے دور کی سیاست کی بنیاد مساوات انسانی پہ رکھنے کی بجائے روز اول سے ہی انفرادی برتری اور جماعتی تفوق اور جبر و استبداد پر رکھی جائے جس کے خلاف غریب مہندوستان صدیوں سے لڑتے ہوئے آج منا ا خدا کر کے آزادی کا منہ دیکھنے لگا ہے.چوتھے سکھوں کی یہ جائدادیں بڑی حد تک اُن کی حکومت کے زمانہ کی یادگار ہیں جبکہ اُن میں سے کئی اک نے اولار اپنی طوائف الملوکی کے زمانہ میں اور بعدہ اپنی استبدادی حکومت کے دوران میں دوسرے حقداروں سے چھین کر ان جائیدادوں کو حاصل کیا.تو کیا یہ انصاحت و دیانتداری کا مطالبہ ہے کہ اس رنگ میں حاصل کئے ہوئے اموال پر آئندہ سیاست کی بنیاد رکھی جائے ہم ان کی یہ جائیدادیں اُن سے واپس نہیں مانگتے.جو مال ان کا بن چکا ہے وہ انہیں مبارک ہو مگر ایسے اموال پر سیاسی حقوق کی بنیاد رکھنا جو آج سے چند سال قبل کسی اور کی ملکیت تھے، دیانتداری کا طریق نہیں ہے.پانچویں.دنیا کا بہترین مال انسان کی جان ہے جو نہ نظروں نے مالوں سے افضل اور یہ تو ہے بلکہ ہر قسم کے دوسرے اموال کے پیدا کرنے کا حقیقی ذریعہ ہے.پس جان اور نفوس کی تعداد کے مقابلہ پر پیسے کو پیش کرنا ایک ادنی ذہنیت کے مظاہرہ کے سوا کچھ نہیں.چھٹے.کون کہہ سکتا ہے کہ سکھوں کی جائیداد کی مالیت واقعی زیادہ ہے کیونکہ بجائیداد کی قیمت عمارتوں کی اینٹوں یا زمین کے ایکڑوں پر مبنی نہیں ہوتی بلکہ بہت سی باتوں کا مجموعی نتیجہ ہوا کرتی ہے.اور جب تک ان ساری باتوں کا غیر جانبدارانہ جائزہ نہ لیا بجائے سیکھوں کا یہ دعوی کہ بہاری جائیدادیں زیادہ ہیں.ایک عالی دعوئی سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا خصوصاً جبکہ ابھی تک ایکر کروں کا صحیح قوم وانہ تناسب بھی گفتی میں نہیں لایا جا سکا.
۳۷۵ سیکھ صاحبان کا یہ خیال کہ ہندو اور ہم ایک ہیں اور اس لئے ان کے ساتھ مل کر مشرقی پنجاب میں ہماری اکثریت ہو جائے گی پہلے دھوکے سے بھی زیادہ خطرناک دھوکا ہے کیونکہ اس میں ایک ایسے پیچدار اصول کا واسطہ پڑتا ہے جس کا حل نہ ہندو کے پاس ہے اور نہ سیکھ کے پاس سوال یہ ہے کہ کیا ہندو اور سکھ ایک قوم ہیں ؟ اس سوال کے امکانا دوہی جواب ہو سکتے ہیں.ایک یہ کہ ہاں وہ ایک قوم ہیں اور دوسرے یہ کہ نہیں بلکہ دو مختلف تو میں ہیں جن کا مذہب اور تہذیب و تمدن بعدا گانہ ہے مگران کا آپس میں سیاسی سمجھوتہ ہے.اب ان دونوں جوابوں کو علیحدہ علیحدہ لے کر دیکھو کہ نتیجہ کیا نکلتا ہے.اگر سیکھ اور مہندو ایک قوم ہیں تو ان کا اس غرض سے پنجاب کو دو حصوں میں بانٹنے کا مطالبہ کہ انہیں اس ذریعہ سے ایک علیحدہ گھر اور وطن میسر آجاتا ہے.بالبداہت باطل ہو جائے گا کیونکہ مجیب سیکھ اور ہندو ایک ہیں تو ظاہر ہے کہ مستقبل کے ہندوستان میں جتنے بھی صوبے ہوں گے وہ جبس طرح ہندوؤں کا گھرا اور وطن ہوں گے اسی طرح سیکھوں کا بھی گھر اور وطن ہوں گے.اور اگر یہ کہو که پنجابی سکھوں کا وطن کونسا ہو گا تو اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو جب ہندو اور سکھ ایک قوم تسلیم کئے گئے تو پنجابی سیکھ کے علیحدہ وطن کا سوال ہی نہیں اٹھ سکتا.جب سیکھ بھی ہندوستان کی وسیع ہندوبھاتی کا حصہ ہے تو ظاہر ہے کہ جب ہندو بھاتی کو وطن بل گیا تو از ماسکھ کو بھی مل گیا.اور اس کا علیحدہ مطالبہ سراسر باطل ہے.دوسرے اگر ہندو قوم کے ساتھ ایک ہوتے ہوئے پنجابی سکھ کو علیحدہ وطن کی ضرورت ہے تو یو پی اور بہار اور مدراس وغیرہ کے مسلمانوں کو کیوں علیحدہ وطن کی ضرورت نہیں.حالانکہ پنجاب کے ۲۷ لاکھ سکھ کے مقابل پر یوپی کا مسلمان ۸۴ کچھ اور بہار کا مسلمان ہم لاکھ ہے.اگر مسلمان اپنے سو کروڑ کمزور بھائیوں کو یو پی اور بہاریں ہندوؤں کے رحم پر چھوڑ سکتے ہیں تو پنجاب کے ۲۷ لاکھ سیکھ جو لقول خود بہادر بھی ہیں اور صاحب مال و زر بھی ، پنجاب کے مسلمانوں کے ساتھ مل کر کیوں نہیں رہ سکتے.دوسرا امکانی پہلو یہ ہے کہ سکھ ہندوؤں سے ایک الگ اور مستقل قوم ہیں اور علیحدہ مذہب اور علیحدہ تمدن رکھتے ہیں جس کی علیحدہ حفاظت کی ضرورت ہے تو اس صورت میں سوال یہ ہے کہ پنجاب کی تقسیم ان کے لئے کو نسا حفاظت کا رستہ کھولتی ہے ؟ وہ بہر حال پنجاب کے
مشرقی حصہ میں بھی ایک اقلیت ہوں گے جو وسیع ہندو اکثریت کے رحم پر ہوگی اور اکثریت بھی وہ جو صرف انہی کے علاقہ میں اکثریت نہیں ہوگی بلکہ ہندوستانی صوبوں کی بھاری اکثریت اس کی پشت پر ہوگی.یہ ماحول کسی زندہ اور مستقل قوم کو چین کی نیند سونے دے سکتا ہے؟ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ جب قومیں دو ہیں تو پھر ان کا موجودہ سیاسی سمجھوتہ بھی کسی اعتبار کے قابل نہیں.کیونکہ اُسے کل کے حالات بدل کر کچھ کی کچھ صورت دے سکتے ہیں بچنا نچہ اوپر والے مضمون میں ہی ماسٹر تارا سنگھ صاحب لکھتے ہیں کہ لڑائی جھگڑے تو زمانہ کے حالات کے ماتحت ہوتے اور مٹتے رہتے ہیں.نہ کبھی کسی قوم سے دائمی لڑائی ہو سکتی ہے اور نہ دائمی مصلح.اب بھی ہمارا مسلمانوں کے تھے کبھی جھگڑا ہوگا اور کبھی مسلح ہوگی یہی صورت ہندوؤں کے ساتھ ہوتی ضروری ہے.د سنت سپاہی اگست شد) اور ماسٹر تارا سنگھ صاحب کے خیال پر ہی بس نہیں ، دنیا کی تاریخ شاہد ہے کہ دوستقل قوموں میں اس قسم کے عارضی سیاسی سمجھوتے ہرگز اس قابل نہیں ہوا کرتے کہ ان کے بھروسہ پر ایک قوم اپنی طاقت کو کمزور کر کے ہمیشہ کے لئے اپنے آپ کو دوسری قوم کے رحم پر ڈال دے.اور سکھ صاحبان تو اپنی گذشتہ ایک سالہ تاریخ میں ہی ایک تلخ مثال دیکھ چکے ہیں.مگر افسوس ہے کہ وہ پھر بھی حقائق سے آنکھیں بند رکھنا چاہتے ہیں.کہا جا سکتا ہے کہ گذشتہ فسادات میں سکھوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں نقصان پہنچا ہے.اس لئے انہیں مسلمانوں پر اعتبار نہیں رہا.میں گذشتہ ڈھائی ماہ کی تلخ تاریخ میں نہیں جانا چاہتا مگر اس حقیقت سے بھی آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں کہ سب جگہ مسلمانوں کی طرف سے پہل نہیں ہوئی اور زیادہ ذمہ واری پہل کرنے والے پر ہوا کرتی ہے اور فسادات تو جنگل کی آگ کا رنگ رکھتے ہیں جو ایک جگہ سے شروع ہو کہ سب حصوں میں پھیل بھاتی ہے اور خواہ اس آگ کا لگانے والا کوئی ہو.بعد کے شعلے بلا امتیاز سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا کرتے ہیں.میں اس دعوی کی ذمہ داری نہیں لے سکتا کہ مسلمانوں نے کسی جگہ بھی زیادتی نہیں کی.لیکن کیا سکھ صاحبان پر یقین رکھتے ہیں کہ سیکھوں نے بھی کسی جگہ زیادتی نہیں کی ؟ آخر امرتسر میں چوک
پراگ واس وغیرہ کے واقعات لوگوں کے سامنے ہیں اور پھر کئی جگہ بعض بے اصول ہندوؤں نے تیلی لگا کر سیکھوں اور مسلمانوں کو آگے کر دیا ہے اور بالآخر کیا سکھوں کے موجودہ حلیفوں نے بہار میں ہزار کمزور اور بالکل بے بس مسلمانوں پر وہ قیامت برپا نہیں کی تھی جس کی تباہی اور قتل و غارت کو نہ پنجا پہنچ سکتا ہے اور نہ نو اکھلی یا کوئی اور علاقہ.پس اگر گلے شکوے کرنے لگو تو دونوں قوموں کی زبانیں کھل سکتی ہیں لیکن اگر ملک کی بہتری کی خاطر ” معاف کر دو اور بھول جاؤ کی پالیسی اختیار کرنا چاہو تو اس کے لئے بھی دونوں قوموں کے لئے اچھے اخلاق کے مظاہرہ کا رستہ کھلا ہے.میں تو شروع سے ہی اپنے دوستوں سے کہتا آیا ہوں کہ موجودہ فسادات کا سلسلہ ایک دور سور VICIOUS CIRCLE کا رنگ رکھتا ہے.احمد آباد کے بعد کلکتہ اور کلکتہ کے بعد نو اٹھاتی اور نو کھلی کے بعد بہار اور گڑھ کتیر اور بہار اور گڑھ مکتیسر کے بعد پنجاب وسر بعد اور اس کے بعد بعدا بجانے کیس کیس کی باری آنے والی ہے اور جتنا کوئی قوم جرات کے ساتھ اس زنجیر کی کسی کڑی کو درمیان سے توڑ نہیں دے گی اس آگ کا ایک شعلہ دوسرے شعلہ کو روشن کرتا جائے گا جبکہ یا تو یہ دونوں تو میں آپس میں لڑ لڑ کر تباہ ہو جائیں گی اور یا قتل وغارت سے تھک کر انسان بننا سیکھ لیں گی.انتظام کی کڑی ہمیشہ صرف جرأت کے ساتھ اور عفو اور درگزر کے عزم کے نتیجہ میں ہی توڑی جا سکتی ہے ورنہ یہ ایک دلدل ہے جس میں سے اگر ایک پاؤں پر زور دے کر اُسے باہر نکالا جائے تو دوسرا پاؤں اور بھی گہرا جنس جاتا ہے.پس اگر ملک کی بہتری چاہتے ہو تو مسلمان کو بہار اور گڑ کشمیر کو بھاتا ہو گا اور ہندو اور سکھ کو نو کھلی اور پنجاب کو.ہاں ان واقعات سے بہت سے سبق بھی سیکھنے والے ہیں جو دونوں قومیں انتقام کے جذبہ کو قابو میں رکھ کر ہی سیکھ سکتی ہیں.میں سیکھ صاحبان سے یہ بات بھی کہنا چاہتا ہوں کہ وہ موجودہ جوش و خروش کی حالت میں اس بات کو ہر گز نہ بھولیں کہ عموما دو قوموں کے درمیان تین بنیادوں پر ہی سمجھوتے ہوا کرتے ہیں.اول یا تو ان کے درمیان مذہبی اصولوں کا اتحاد ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ اکٹھا رہنا چاہتی ہیں.اور یا دوم ان کا تہذیب و تمدن ایک ہوتا ہے اور یا سوم ان کے اقتصادی نظریئے ایک دوسرے سے.سے ملتے ہیں.اب اگر ان تینوں لحاظ سے دیکھا جائے تو سکھ کا سمجھوتہ مسلمان سے ہونا چاہیے نہ کہ مہندو کے ساتھ.کیونکہ
اول تو سکھوں اور مسلمانوں کے مذہبی اصول ایک دوسرے سے بہت مشابہ ہیں کیونکہ دونوں تو میں توحید کی قائل ہیں اور ان کے مقابل پر سہندو لوگ مشرک اور بت پرست ہیں جن کے ساتھ سیکھوں کا مذہبی لحاظ سے کوئی بھی اشتراک نہیں اور اسی لئے ماسٹر تارا سنگھ صاحب نے صاف طور پر مایات ہے کہ " مذہبی اصولوں کے لحاظ سے سیکھ مسلمانوں سے زیادہ قریب ہیں " دوسرے تہذیب و تمدن بھی مسلمانوں اور سکھوں کا بہت ملتا جلتا ہے کیونکہ دونوں سادہ زندگی رکھنے والے اور فیاض بجذبات کے مالک اور قدیم رہتا نوازی کے اصولوں پر قائم ہیں اور اس کے مقابل پر ہند و تمدن اس سے بالکل مختلف ہے.تیسرے اقتصادی نقطہ نگاہ کے لحاظ سے بھی مسلمان اور سیکھ ایک دوسرے کے بہت زیادہ قریب ہیں کیونکہ دونو کی اقتصادیات کا انٹی فیصدی حصہ محاصل اراضی اور فوجی پیشے اور ہاتھ کی مزدوری سے تعلق رکھتا ہے.میں نے اکثر دیکھا ہے کہ ایک سیکھ اور مسلمان زمیندار آپس میں اس طرح گھل مل جاتے ہیں کہ گویا وہ ایک ہی ہیں.مگر یہ ذہنی اور قلبی اتحاد ایک ہنڈو اور سکھ کو نصیب نہیں ہوتا.پس میں اپنے سیکھ ہموطنوں سے دردمندانہ اپیل کرتا ہوں کہ وہ گذشتہ واقعات کو بھلا کر اپنے مستقبل اور قطری مفاد کی طرف توجہ دیں.دیکھو ہر زخم کے لئے خدا نے ایک مرہم پیدا کی ہے اور قومی زخم بھی بھلانے سے بھلائے جاسکتے ہیں.مگر غیر فطری جوڑ کبھی بھی پائدار ثابت نہیں ہوا کرتے.اگر ایک آم کے درخت کی شاخ نے دوسرے آم کی شاخ کے ساتھ ٹکرا کمہ اُسے توڑا ہے تو بیشک یہ ایک زخم ہے جسے مرہم کی ضرورت ہے.مگر یہ حقیقت پھر بھی قائم رہینگی کہ جہاں پیوند کا سوال ہو گا آم کا پیوند آم کے ساتھ ہی قائم ہوگا دو اڑانے والے بھائی لڑائی کے باوجو بھی بھائی رہتے ہیں.مگرد و غیر آدمی عارضی دوستی کے باوجود بھی ایک نہیں سمجھے جاسکتے ہم ہندوؤ کے بھی خلاف نہیں.وہ بھی آخر اسی مادر وطن کے فرزند ہیں اور بہت سی باتوں میں ان سے بھی ہمارا اشتراک ہے اور ہماری دلی خواہش تھی کہ کاش سہندوستان بھی ایک رہ سکتا.لیکن اگر ہندوستان کو مجبوراً بھنا پڑا ہے تو کم از کم پنجاب تو تقسیم ہونے سے بھی بجائے تا اسے مسلمان بھی اپنا کہہ سکیں.
۳۷۹ اور سکھ بھی اور اس کے اندر بسنے والے ہندو بھی اور شاید پنجاب کا خمیر آیندہ چل کر ہندوستان کو بھی باہم ملا کر ایک کر دے لیکن جب تک یہ بات میسر نہیں آئی.اس وقت تک کم از کم مسلمان اور سکھ تو ایک ہو کر رہیں یہ جذبہ خود سمجھدار سکھ لیڈروں میں بھی پیدا ہوتا رہا ہے.چنانچہ گیانی شیرسنگھ فڑاتے ہیں :- شمالی ہند داستان کے امن کی ضمانت سیکھ مسلم اتحاد ہے...اگر کوئی شخص سکھ مسلم فساد کے زہر کا بیج ہوتا ہے تو وہ ملک کا اور خدا کا اور نسل انسانی کا نشیمن ہو اخبار پنجاب امرتسر اور جنوری ) اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہندو کو سہندوستان کے باقی صوبوں میں وطن مل رہا ہے اور مسلمان کو پنجاب وغیرہ میں کیا اچھا ہوتا کہ سکھ بھی اتنی تعداد میں ہوتا اور اس صورت میں آباد ہوتا کہ اُسے بھی ایک وطن مل جاتا.لیکن افسوس ہے کہ موجودہ حالات میں اس کمی کا ازالہ کسی کے اختیار میں نہیں ہے کیونکہ پنجاب کو خواہ کسی صورت میں بانٹا جائے سکھ بہر حال اقلیت میں رہتا ہے.بلکہ دو حصوں میں بٹنے سے اپنی طاقت کو اور بھی کم کر دیتا ہے.تو پھر کیوں نہ وہ اس قوم کے ساتھ جوڑ ملائے جس کے ساتھ اس کا پیوند ایک طبعی رنگ رکھتا ہے اور پھر اس کے بعد محبت اور تعاون کے طریق پر اور ترقی کے پر امن ذرائع کو عمل میں لاکر اپنی قوم کو بڑھائے اور اپنے لئے جتنا بڑا چاہے وطن پیدا کرے.آج سے پچاس سال قبل سکھ پنجاب میں صرف بین بائیں لاکھ تھے مگر اب اس سے فریبا ڈیو دو گئے ہیں.اسی طرح آج سے پچائیس سال قبل مسلمان پنجاب میں اقلیت کی حیثیت رکھتے تھے مگر اب وہ ایک قطعی اکثریت میں ہیں اور اس کے مقابل پر ہندو برابر کم ہوتا گیا ہے.یہیں اس قدرتی پھیلاؤ اور سکیٹر کو کون روک سکتا ہے؟ پس سیکھوں کو چاہیئے کہ غصہ میں آکر اور وقتی رنجشوں کی رو میں بہہ کر اپنے مستقل مفاد کو نہ بھلائیں.انہیں کیا خبر ہے کہ آج جس قوم کے ساتھ وہ سمجھوتہ کر کے پنجاب کو دو حصوں میں بانٹنا چاہتے ہیں.وہ کل کو اپنی وفاداری کا عہد نہ نبھا سکے اور پھر سیکھ نہ ادھر کے رہیں اور نہ اُدھر کے اُن کے لئے بہر حال حفاظت اور ترقی کا ل ہو کتابت سے تیرے لکھا گیا (ناقل)
بهترین رستہ یہی ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ایک باعزت سمجھوتہ کر لیں اور مسلمانوں کا فرض ہے کہ اُن کے جائز اور معقول مطالبات کو فراخدلی کے ساتھ قبول کریں.بالآخر سیکھ صاحبان کو یہ بات بھی ضرور یاد رکھنی چاہیئے کہ خواہ کچھ ہوسکھوں کے لاتعداد مفاد وسطی اور شمالی اور مغربی پنجاب کے ساتھ وابستہ ہیں.ان کے بہت سے مذہبی مقامات اُن علاقوں میں واقعہ ہیں.ان کی بہترین جائدادیں ان علاقوں میں پائی جاتی ہیں.ان کے بہت سے قومی لیڈر انہیں علاقوں میں پیدا ہوئے اور انہیں میں جوان ہوئے اور انہیں میں کیس رہے ہیں اور پھر ان کی قوم کا بہترین اور غالباً مضبوط تھی، حصہ جسے سکھ قوم کی گویا جان کہنا چاہیے نہیں علاقوں میں آباد ہے.تو کیا وہ ہندو قوم کے عارضی ایسی سمجھوتہ کی وجہ سے جس کا حشر خدا کو معلوم ہے اپنے ان وسیع مفاد کو چھوڑ کر مشرقی پنجاب میں سمٹ بھائیں گے ؟ خالصہ! ہوشیار باش خالصہ! ہوشیار باش ان لاجواب مضامین سے رجو اُس دور کی تحریک پاکستان کا انتہائی قیمتی پنجاب کی قسمت کا فیصلہ ا اور موجب صد افتخار علی سرمایہ ہیں یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ جماعت احمدیہ نے آخری مرحلہ تک تقسیم پنجاب کو رکوانے کی سرفروشانہ کوششیں برابر جاری رکھیں لیکن چونکہ فرقه دارانہ کشیدگی انتہاء کو پہنچ چکی تھی اور کانگرس نے سکھوں کے دل و دماغ میں پاکستان کے خلاف نفرت و حقارت کی بے پناہ آگ بھر دی تھی اس لئے ۲۳ جون سر کوغیر مسلم مبران اسمبلی کی اکثریت نے پنجاب کی تقسیم کے حق میں ووٹ ڈالے اور پانچ دریاؤں کی سرزمین اپنی وصدرت کھو بیٹی اور پھر مسلمانوں کی آزمائش کا ایسا خونین باب کھل گیا جس کے سامنے مسلم پی کی تباہی کے المناک ترین مناظر بھی ان نظر آنے لگے.له الفضل" و هجرت ارمنی سایش صفحه ۳ تا ۰۵
حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب جناب مکرم شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور
فصل شتم حد بندی کمیشن کیلئے تیاری کے ابتدائی اقامات امریکہ اور ہانیہ سے یہ ہوئی جہاں قیمتی لٹریچر کی درآمد لندن سکول آف اکنامکس کے ممتاز جغرافیدان مسٹر پیٹ کی خستنا کا حصول نائب وزیر یہ بیان پر شدید احتجاج جماعت احمدی کا میمورنڈم اور جناب شخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کی وکالت استصواب سرحد کیلئے مجات احمدیہ کی شهری خدمات..۲۴ چون عمر کو یعنی تقسیم پنجاب کے دوسرے ہی روز اخبار ریلوں نے اپنے نامہ نگار خصوصی کے تسلم سے یہ خبر شائع کی کہ ایک خفیہ سرکہ کے ذریعہ سکھ تنظیموں کی تمام صوبائی شاخوں کو مطلع کیا گیا ہے کہ ہندو اور سکھ وکلا احد بندی کمیشن کے روبرو مندرجہ ذیل خطوط پر اپنا کیس پیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں :- ا پاکستانی محدود کم سے کم کر دی بجائیں تا زیادہ سے زیادہ علاقہ مشرقی پنجاب میں شامل ہو سکے.- آبادی اور جائدادوں کے تبادلہ کا سوال بہت اہم ہے.- رہتک ، گڑ گاؤں ، کرنال اور حصار کے وہ حصے جہاں ہندی بولی جاتی ہے صوبہ میرٹھ اور دلی کے ساتھ ملحق کئے جائیں اور باقیماندہ مشرقی پنجاب کو جس میں پنجابی بولنے والے سکھوں اور سہندوؤں کی اکثریت ہے سکھوں کا قومی گھر بنا دیا جائے.سیکھوں کی دفاعی خدمات اور قربانیوں کے پیش نظر مشرقی پنجاب اور ہندوستان میں ان کی سیاسی پوزیشن کو مضبوط کیا جائے اور انہیں خاص وزن دیا جائے.اُن کے مقدس مقامات کی زیارت کا حق اور ان کی جائدادوں کا انتظام انہی کے کنٹرول میں ہو اور قومی معاہدات کے ذریعہ ان کی حفاظت کی ضمانت دی جائے.
PAY اس بات کی انتہائی جد وجہد کی بجائے کہ شہیدی بار الیشمول ننکانہ صاحب تحصیل شیخو پوره تحصیل گوجرانوالہ اور ضلع لائل پور) کا الحاق مشرقی پنجاب سے کیا جائے.- گذشتہ ساٹھ ستر برس میں سکھوں نے لائل پور ، سرگودھا، شیخوپورہ ، ملتان اور منٹگمری کی ترقی میں نمایاں حصہ لیا ہے.تنہا لائل پور کا ضلع جالندھر اور انبالہ کی ڈویژنوں سے زیادہ مالیہ ادا کرتا ہے سیکھوں نے یہاں نہریں کھدوائیں اور تمام سرمایہ ان علاقوں میں لگا دیا.لہذا وہ ان اضلاع کے آدھے رقبہ کے یقیناً حق دار ہیں.وہ علاقے جو مشرقی پنجاب میں شامل نہ کئے جائیں ان میں فسادات کی روک تھام کے لئے تبادلہ آبادی کی سہولت ضرور نہیں کی جانی چاہیئے.(الملخصاً) حد بندی کمیشن کے ارکان اور صدر کا تقر اور بوریوں کو پنجاب اور بنگال کے سرحدی کشنوں دریائے چناب کو مشرقی حصد مقدر کرنے کا سکھ والی کے معموں کا اعلان کردیا گیا پنجاب کے کمیشن کے ممبر سبسٹس دین محمد، جسٹس محمد منیر ، جسٹس مہر چند کہا جن اور جسٹس تیجا سنگھ مقرر کئے گئے.ازاں بعد 5 جولائی کو پنجاب اور بنگال کشنوں کا صدر سرسیل ریڈ کلف کو مرد کیا گیا.اور در جوانی کو سکھوں نے یہ مطالبہ کیا کہ حد بندی کمیشن کو چاہیے کہ وہ مشرقی پنجاب کی حد دریائے چناب کو مقرر کرے ورنہ سکھ سر خون کی برطانوی سکیم کو ہرگز تسلیم نہیں کریں ہے کیونکہ اس تجویز نے پنتھ کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے.بعد بندی کمیشن کا پہلا اجلاس ۱۴ جولائی ۹۴۷اٹر کو لاہور میں کوئی میمورنڈم کمیشن کے سامنے پیش کرنا چاہیں وہ زیادہ سے زیادہ ۱۸ جولائی کو چار بجے بعد دو پہر تک پیش کر دیں.ہر میمورنڈم کے ساتھ چار زائد نقول اور ایسے نقشے بھی پیش کئے جائیں جن سے یہ معلوم ہو سکے کہ صوبے کی حد کس جگہ مقررکرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے.تمام میمورنڈم کیشن کے سیکٹری کے وفتر واقع پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی میں پیش کئے جائیں.کسی پرائیویٹ شخص کا میمورنڈم وصول نہیں کیا جائے گا ہے ا " الفصل " ، روفا / جولائی سایش صفحه ، A " of الفضل ، رو فار جولائی سہ میں صفحہ ۸ صفرار
کمیشن نے اس روز صوبہ کے ۲۹ اضلاع میں سے پہندوارہ اضلات کو کیوں متنازعہ فیہ اضلاع کا اعلان متنازعہ فیہ اضلاع قرار دیا.جن میں گورداسپور اور لاہور کے ضلعے بھی شامل تھے حالانکہ سو جون کی برطانوی سکیم میں ان کو قطعی طور پر مسلم اکثریت کا ضلع تسلیم کیا گیا تھا.ان متنازعہ فیہ اضلاع میں فوج متعین کر دی گئی تا اُن کی نسبت فیصلہ نشر ہونے پر امن و امان برقرار رکھا جاسکے.حد بندی کمیشن نے ہار جولائی کے دوسرے اجلاس میں یہ پروگرام طے کیا کہ وہ حد بندی کمیش کا پروگرام ہو جائی سے مختلف پاریوں کے عادی کی سماعت لاہور ہائیکورٹ میں شریع کر دے گا.پہلے پچار دن ہندوؤں اور سکھوں کے وکلاء اور اس کے بعد چار دن مسلمانوں کے وکلاء اپنے دلائل دیں گے.پھر ایک دن ہندوؤں اور سکھوں کو مسلم لیگ کے دلائل کا جواب دینے کے لئے دیا جائے گا.اسی ضمن میں پریس نے یہ اطلاع بھی دی کہ مسلم لیگ کی طرف سے چودھری نہر محمد ظفر اللہ خاں صاحب ، ہندوؤں کی طرف سے بیٹی کے مشہور پیر سٹرک سی تلوار اور سکھوں کی طرف سے سردار ہرنام سنگھ ایڈوکیٹ پیش ہوں گے.کمیشن کے متعلق خبر کی اشاعت اور جوانی کوگورنرپنجاب نے ایک حکم جاری کیا جس میں سرکاری اعلان کے سواحد بندی کمیشن سے متعلق کوئی اطلاع یا تبصرہ سفر پر گورنرپنجاب کی پابندی کے بغیر شائع کرنے کی مانعت کر دی گئی ہے جہاں ہندوؤوں اور سکھوں کو اپنا کیس تیار جماعت احمدیہ کے کیس کی تیاری میں بھاری مشکلات کرنے میں بہت آسانیاں میرتیں ہاں مسلم لیگ اور جماعت احمدیہ کے لئے یہ انتہائی سنگین اور از حد کٹھن مرحلہ تھا.اول تو حد بندی کے اصول قواعد جاننے والے ماہروں کا فی الفور دستیاب ہونا مشکل تھا.دوسرے پنجاب کی مردم شماری رسالہ) کا ریکارڈ مہیا کر کے ایسے اعداد و شمار مرتب کرنا جن سے زیادہ سے زیادہ علاقہ مغربی پنجاب میں شامل ہو سکے، اور مختلف پاور اسٹیشنوں، نہروں اور دریاؤں پر مغربی پنجاب کے حقوق اور کنٹرول ثابت کرنا یہ سب کام ایک زبر دست مہم کی حیثیت رکھتے تھے.تیسرے بین الاقوامی قوانین کی کتابیں اور مشہور باؤنڈری کمیشنوں کی ضروری اور تازہ رپورٹیں جو اس مقصد کی تکمیل کے لئے درکار تھیں وہ ملک میں ناپید تھیں اور ان کا نہایت تنگ وقت میں بیرونی ممالک سے منگوایا جانا بہت دشوار تھا اور اخراجات کا مسئلہ مزید ہر آں تھا.الفضل ۲۷ و فار جولائی صفحہ ۸ الفضل ، اروفا جولائی اش صفحه 4 " W
۳۸۴ حضرت مصلح موعود کی زیرہ ہدایت حضرت مصلح موعود نے اس معاملہ میں حسیں حیرت انگیز ذہانت اور غیر معمولی فہم و تدبر کا ثبوت دیا وہ اپنی مثال آپ تھا.ابھی پنجا تیاری کے ابتدائی اقدامات کی تقسیم کا فیصلہ بھی نہیں ہوا تھا کہ حضور نے صوبہ پنجاب کی مردم شماری کے تفصیلی اعداد و شمار جمع کرنے اور متعلقہ ضروری تیاری کرنے کا ابتدائی کام نہایت با قاعدگی سے شروع کرا دیا اور اس کی نگرانی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ناظر اعلی کے سپرد فرمائی.اس سلسلہ میں قیام امن و صلح کے نام سے ایک خاص دفتر کا قیام بھی عمل میں لایا گیا اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ، حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب درد، حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ، حضرت چودھری فتح محمد صاحب ہے اور سلسلہ کے بعض دوسرے بزرگ اور مخلص خدام اس قومی اور ملی خدمت کے لئے اور جولائی شاہ یعنی حد بندی کمیشن کی سماعت کے آخری اجلاس تک برابر مصروف عمل رہے.قادیان مہندی مسلمانوں کی واحد لیتی تھی جہاں پاکستانی حدود کے آئینی تحفظ کے لئے جانفروشوں کی ایک جماعت (جن میں احمدی پر وفیسر، ڈرانسمین اور نقشہ نویس خاص طور پر شامل تھے، دن رات ایک کئے ہوئے تھی اور دل سے متمنی تھی کہ ان کا مقدس مرکز بہر حال پاکستان میں شامل رہے.اس دور کا اکثر ریکا ر ڈ اگرچہ شاہ کے فسادات میں غارت ہو گیا ہے مگر اس کے بعض کا غذات اب بھی تعلیم الاسلام کالج کی پرانی فائلوں میں محفوظ ہیں.ان کا غذات میں حلقہ پٹواری پٹھانکوٹ و شکر گڑھ کے ہر گاؤں کی تفصیلی مردم شماری مندرجہ ذیل نقشہ کی صورت میں درج ہے :- تحصيل.ضلع حلقه گرد اور حلقہ پٹواری.بہندو کل آبادی شیڈول یا دیگر مندو مسلم سکھ عیسائی دیگه میران مرد عورت مرد عورت میزان مرد صورت میزان صورت میزان مرد صورت میزان مرد صورت میزان ریست نمبر گاؤں
۳۸۵ ۱۹۳ مردم شماری کی ان تفصیلات کے علاوہ ترکی عراق حد بندی کے متعلق لیگ آن بیشتر کمیشن ) کی پیش کردہ سفارشات کا مکمل متن بھی موجود ہے جو فل سکیپ سائز کے ۳۱ صفحات پر مشتمل ہے اور اس کے سرورق پہ یہ الفاظ دریج ہیں :- Frontier BETWEEN SETTLEMENT TURKEY AND IRAQ COMMISSION RECOMMENDED BY LEAGUE OF NATIONS TURKO IRAQ ON BOUNDRY 1924-26.سفارشات حدبندی مابین ترکی د عراق پیش کرده لیگ آف نیشنز کمیشن ۲۶-۱۹۴۴) اس ریکارڈ میں اس معاہدہ کا متن بھی شامل ہے جو ۱۹۳۶ میں کردوں کے متعلق برطانیہ اور عراق کے مابین قرار پایا.امریکہ سے بین الاقوامی باؤنڈری لٹریچر کی درآمد حضرت مصلح موعود نے مرکز میں کام شروع کرنے کے ساتھ ہی امریکہ اور یورپ کے مبلغین کو فوری اور برطانیہ کے ایک ماہر جغرافیا کی خدا کا اول برای جوانی کرد بین الاقوامی قانون د بدن سے متعلق مشتمل لٹر پھر بھجوانے کے علاوہ کوئی ماہر خصوصی تلاش کریں اور اس سے ہندوستان آنے جانے کے اخراجات اور قیدی کا تصفیہ کر کے اطلاع دیں.بین الاقوامی باؤنڈری لٹریچر مہیا کرنے اور اس کے ماہر کی تلاش میں جماعت احمدیہ کو کس قدر وقت کا سانا کرنا پڑا.اس کا کسی قدر اندازه چودھری مشتاق احمد صاحب باجوہ بی.اے.ایل ایل بی امام مسجد لندن کے ایک خط مورخہ ۷ ارجون عنہ سے بآسانی لگایا جا سکتا ہے.انہوں نے حضرت سیدنا المصلح الموعود کی قدرت میں لکھا " باؤنڈری کے ماہر کی تلاش جاری ہے.کل ہماری سائیٹرز کی فرم نے مسٹر کیپویل کے بسی کا نام تجویز کیا جن کو انگلستان کی باؤنڈریز کے معاملات میں ماہر سمجھا جاتا ہے.سالیسٹر ز نے کل کیپویل کے کلرک کو اور مجھے بلا یا تفصیلی گفتگو کی جا سکے.ان کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی حدود کا ماہر یہاں سے کوئی نہیں ہل سکتا لیکن دیگر ذرائع سے تلاش جاری ہے.لارڈ ہیلی نے خط لکھا ہے کہ وہ فارن آفس انفارمیشن سے پتہ کر سکتے ہیں.ان کو لکھا گیا ہے کہ وہ پتہ کرا دیں.یونائیٹڈ نیشنز انفارمیشنز سنٹر والوں نے جنیوا میں لیگ آن نیشنر کے دفتر کو باؤنڈری کمیشن کی رپورٹوں کے بارہ میں لکھنے کو کہا." ٹائمز اور نیوز کرانیکل نے تلاش میں مدد دینے
۳۸۶ کا وعدہ کیا ہے.بہ بیجسٹی سٹیشنری آفس سے جو رپورٹ ملی تھی وہ حضور کی خدمت میں بھیج دی گئی تھی.مزید جہیا کرنے سے اس نے لاہمی کے باعث معذوری ظاہر کی.یہ رپورمیں باؤنڈری کمیشن کے نام کے ماتحت شائع نہیں ہوئیں اور نہ ہی باؤنڈری انڈکس میں موجود ہیں.اس لئے جب تک دیگر عناوین جن کے ماتحت یہ شائع ہوئیں یا جن دیگر مطبوعات میں یہ شامل ہیں علم نہ ہو ان کو حاصل نہیں کیا جا سکتا.بندہ نے حضور کی خشت میں ایمبری کی تجویز تحریر کی تھی کہ سر والٹر میکنائن مشیر قانونی حیدر آباد کی خدمات حاصل کرنے کی کوشش کی جائے.امام مسجد لنڈن نے ایک دوسرے مکتوب میں اطلاع دی کہ " T.M PENNEY جو کہ مہند وست میں سروے کے محکمہ میں ایک لمبا عرصہ رہا ہے اور آجکل کیبنٹ آفس میں بینگ کی تاریخ کے نقشوں کی تیاری متعین ہے پانچ ہزار روپیہ تنخواہ پر اور آمد ورفت کے خریج اور رہائش کے انتظام پر آنے کے لئے تیار ہے" آخر انتہائی جد وجہد اور بہت تلاش کے بعد امریکہ اور برطانیہ سے باؤنڈری لڑ پھر دستیاب ہو گیا جو بند یعہ ہوائی جہاز ہندوستان پہنچا جس کے ڈاک خرچ پر ہزار روپیہ سے زائد رقم ادا کرنا پڑی.جہاں تک کسی باؤنڈری ایکسپرٹ کا تعلق تھا جماعت احمدیہ لنڈن سکول آف اکنامکس کے ایک ممتانہ جغرافیہ دان ڈاکٹراد سکرائچ کے پیٹ ) D.H.K.SPATE ) کی خدمات حاصل کرنے میں کا مینا ( ہو گئی.مسٹر سپیٹ جلد ہی لنڈن سے ہندوستان پہنچ گئے اور یہ وضاحت کرنے کی چنداں ضرورت نہیں کہ ان کے تمام اثرات جانتہا جماعت احمدیہ نے برداشت کئے.مسٹر سیٹ نے اپنی مشہور کتاب : INDIA) ( AND PAKISTAN ( انڈیا اور پاکستان) کے متعدد مقامات پرچہ قادیان کے حالات لکھے ہیں، اور حاشیہ میں اپنے اس سفر کا بھی تذکرہ کیا ہے بلہ جماعت احمدیہ کی طرف سے ضروری معلومات جماعت احمدیہ کے مرکز کی طرف سے مسٹر سیٹ کو تو ضروری معلومات بہم پہنچائی گئیں.ان کا مختصر کی فراہمی اور نقشوں کی تیاری ناکہ یہ تھا - :- مسلم لیگ اور مسلمانوں کی نگاہ میں ہند دوستان اور پاکستان انڈیا اور مسلم انڈیا کا قیقی تصور کیا ہے به صفحه ۱ - ۱۸۰ تا ۱۹۶ - ۴۷۸ - یہ کتاب پہلی بار ۱۵ء میں شائع ہوئی اور اس کے ناشرین مندر جہ ذیل ہیں.- London: Methuen & Co.Ltd: New York : Es.Po Dutton & Co.Inc.
مسلم اکثریت کے سترہ اضلاع کونسے ہیں اور بارہ غیر مسلم اکثریت کے اضلاع کون سے؟ - مردم شماری ۹۷ ائر کے تفصیلی اعداد و شمار -4 پنجاب باؤنڈری کمیشن کی تحقیقات کے لئے دائرہ کالر (TERMS OF REFERENCE) کیا ہے.اس ضمن میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے ایک اہم انگریزی نوٹ بھی سپرد قلم فرمایا جس کا ترجمہ الفضل" ( وار جولائی الہ میں بھی شائع ہوا.گورداسپور واضح مسلم اکثریت کا ضلع ہے اور قادیان میں جو اس کی تحصیل بٹالہ میں واقع ہے مسلمانوں کا تناسب نوے فیصد سے بھی زیادہ ہے.مگر ان حقائق کے باوجود پاکستان کے مخالفوں کی نگا ہیں ضلع گورداسپور اور خصومنا تحصیل بشانہ پر لگی ہوئی ہیں تا جماعت احمدیہ کے مرکز کو پاکستان سے الگ کر کے اس کی طاقت کو کمزور کر دیا جائے.حد بندی کمیشن کے آئینی اختیارات کیا ہیں ؟ یہ اور اس نوعیت کی دوسری وسیع معلومات کے فراہم ہونے پر مسٹر سپلیٹ حیران رہ گئے.چنانچہ جب وہ مدینہ کی کمیشن کا کام ختم کر کے انگلستان واپس گئے تو انہوں نے ایسٹ انڈیا ایسوسی ایشن اور اوورسیز لیگ کے ایک مشترکہ اجلاس میں جماعت احمدیہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا :- اس جماعت کی دعوت پر میں ایک ماہر جغرافیہ دان کی حیثیت سے ہندوستان گیا تھا.جہانتک میرے فن کا تعلق ہے میرا وہاں جانا ازدیاد علم کا باعث ہوا اور میر گئے بہت مفید ثابت ہوا.اس کے علاوہ نہ صرف یہ کہ احمدیہ جماعت کی طرف سے مہمان نوازی میں کوئی کردند اُٹھا رکھی گئی بلکہ فنی امداد میں بھی کمال حسن کارکردگی کا جو معیار پیش کیا گیا وہ حیرت میں ڈالنے والا تھا.میں کہ سکتا ہوں کہ سلسلہ احمدیہ کی تعلیم اور وہ جزیرہ ہیں پر پوری نظیم کی بنیاد ہے یقیناً از حد قابل تعریف ہے" جماعت احمدیہ نے مسٹر سیٹ کی مدد سے بعد بندی کے لئے تمام ضروری مواد کو آخری شکل دی.اور تحصیل بٹالہ اور ضلع گورداسپور کے الگ الگ ایسے نقشے تیار کرائے جن میں گاؤں ، ذیل ، قانونگو کے حلقہ اور تھانوں کو یونٹ قرار دیا گیا تھا.الفضل" ۱۸ نبوت تو میر لاش پدرش
۳۸۸ حضرت مصلح موعود کی طر بے باؤنڈری کمیشن کے لئے تیاری کے دوران دو ہم واقعات پیش آئے.جن کا ذکر کرنا از لیس ضروری ہے.قائد اعظم کو خصوصی پیغام پہلاواقعہ یہ ہے کہ حضرت خلیفہ ایسی اشانی الصلح الموعود نے پنی طرف سے مولوی عبدالرحیم صاحب درد کو یہ پیغام دے کو قائد اعظم محمد علی جناح کے پاس بھیجا کہ بھیشک آپ مستلج پر اصرار کریں لیکن یہ ساتھ ہی کہہ دیں کہ اگر ہمیں بیاس سے ورے دھکیلا گیا تو ہم نہ مانیں گے اور واقعہ میں نہ مانیں تب کامیاب ہوں گے ورنہ وہ بیاس سے در ور سے بھی دھکیں دیں گے ہم تو چاہتے ہیں کہ سارا پنجاب ہی تقسیم نہ ہو.تاہم تقسیم کو تسلیم کر لیں تو محفوظ موقف ہمارا پیاس ہے مستلج نہیں " نائب وزیر نیند کے بیان پر قائد اعظم | دوسرا اہم واقعہ یہ ہے کہ مسٹر آرتھر مینڈ سین نائب وزیر بند نے کم ار جولائی کو برطانوی پارلیمنٹ میں ہندوستان کی آزادی اور جماعت احمدیہ کا شدید احتجاج کے بل پر بحث کرتے ہوئے یہ بیان دیا کہ باؤنڈری کمیشن کا بڑا صول یہ ہو گا مسلم و غیر مسلم اکثریت کے تصل علاقوں کو پاکستان یا ہندوستان میں شامل کر دیا بھائے.لیکن خاص حالتوں میں دیگر امور " مثلا سکھوں کی پوزیشن کا خاص خیال رکھا جائے گا.اس فتنہ انگیز بیان نے مسلمانوں میں تشویش و اضطراب کی ایک لہر دوڑا دی اور قائداعظم نے وائسرائے ہند کے پاس اس پر احتجاج کیا جو اسی دن برطانوی کا بینہ تک پہنچا دیا گیا اور قائد اعظم کو یقین دلایا گیا کہ مسٹر بہنڈرسن کے فقرے حد بندی کمیشن کے لئے ہدایت کا درجہ نہیں رکھتے تھے اس سلسلہ میں جماعت احمدیہ کی طرف سے 19 جولائی شاہ کو سٹرائیلی وزیر اعظم برطانیہ کے نام مندرجہ ذیل انتخابی تار بھیجا گیا.مسٹر مہینڈرسن نے پارلیمنٹ میں جو یہ بیان دیا ہے کہ باؤنڈری کمیشن کی ٹرمز آف ریفرنس میں جو دوسرے حالات " کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں وہ سیکھوں کے مقدس مقامات کا خیال رکھنے نہ یادر ہے سکھوں کے مقابل بعض مسلم لیگی ذعمار نے ان دنوں مطالبہ کیا تھا کہ دریائے ستلج کے پار تک کا علاقہ پاکستان میں شامل کیا جائے کیونکہ پاکستان کی یہی قدرتی صد بنتی ہے (الفضل بهار و فار جولائی ده مش صفحه ۸) ه اقتباس از مکتوب حضرت مصلح موعود مرقومه اار اگست عه : الفضل و روشا جولائی انا الیہ ش صفحه ۵۸ +
کی غرض سے استعمال کئے گئے ہیں.یہ بیان نہایت بے موقع سراسر نا مناسب اور بالکل بے بنیاد ہے.اس بیان سے کمیشن کے کام پور نا جائزہ اثر پڑنے کے علاوہ مسلمانوں کے ساتھ بھی انتہائی بے انصافی کا دروازہ کھلتا ہے جن کے مقدس مقامات سکھوں کے مقدس مقامات سے تعداد اور اہمیت دونوں میں بہت زیادہ ہیں.یہ بات بالکل خیال میں نہیں آسکتی کہ جب وائسرائے نے ٹریز آف ریفرنس کا اعلان ہندوستانی پارٹیوں کے اتفاق رائے سے کیا تھا اور ان ٹرمز آف ریفرنس کے مطابق کمیشن اپنا کام بھی شروع کر چکا ہے تو مسٹر ہینڈرسن کو اس بیان کی کیا ضرورت تھی.ہینڈرسن صاحب اس بات کو بھی بھولے ہوئے ہیں کہ دوسرے حالات " کے الفاظ مرت پنجاب کے باؤنڈری کمیشن کے لئے ہی استعمال نہیں کئے گئے بلکہ بنگال کے کمیشن کے لئے بھی استعمال کئے گئے ہیں حالانکہ بنگال میں کوئی سکھ نہیں ہیں.لہذا مسٹر ہینڈرسن کے اس بیان کی فوری تردید ہونی چاہیئے" سے مسلم لیگ کی طرف سے جماعت احمدی کو باندی کی تشکیل پر تین کی ایک مہینے زیادہ محضر نامے مسلمانوں کی طرف سے پیش کئے بھائیں بہتر اپنا علیحدہ محضر نامہ شامل کرنے کی تحریک ہیں.اس خیال کے ماتحت جماعت احمدیہ سے بھی کہا گیا کہ وہ علیحدہ میمورنڈم پیش کرے چنانچہ جماعت احمدیہ اور اس کے علاوہ مسلم لیگ گورداسپور نے بھی علیحدہ محضر نامہ تیار کیا جو غلام فرید صاحب ایم ایل اے شیخ کبیر الدین صاحب سابق نمائندہ مسلم لیگ شیخ شروه جنین صاحب وکیل شیخ محبوب عالم صاحب اور مرزا عبد الحق صاحب کی مشترکہ کوشش سے مرتب کیا گیا تھا لیکن اس کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ اصل فریق مسلم لیگ اور کانگرس ہیں اس لئے اپنا کیس پیش کرنے کا وقت صرف انہیں کو دیا جائے گا جب یہ فیصلہ حضرت مصلح موعود کی خدمت میں پہنچا تو آپ نے بھی عالیہ محضر نت پیش کرنے کا ارادہ چھوڑ دیا.لیکن بعد میں جب کانگرس نے اپنے وقت میں سے کچھ وقت سکھوں اور اچھوتوں کو بھی دے دیا تو مسلم لیگ نے اس خیال سے کہ شاید اس کا تقسیم ملک پر کچھ اثر ہو.......دوبارہ تجویز گیا کہ وہ بھی چند محضر نامے پیش کرا دے.چنانچہ اس نے اپنے وقت میں احمدیوں اور عیسائیوئی تعلیم دہ کیمون یادم پیش کرنے کی اجازت دے دی جس کا پس منظر یہ تھا کہ کانگرس نواز علما را خاص طور پر ۹۴۵ار کے الیکشن سے لے " الفضل ۲۲ و 16 جدائی ۳۲۶ پیش صفحه ۲ سے حضرت خلیفہ اسیح الثانی اصلح الموعود نے ۲۰ یہ سیاہ کی تقریر میں اخوجه و عبد الرحیم صدای این کشته -❤)
۳۹۰ یہ پراپیگنڈا کر رہے تھے کہ احمدی مسلمان نہیں اور یقینی خدشہ تھا کہ ہندو یا سکھ باؤنڈری کمیشن کے سامنے اپنی بحث کے دوران یہ سوال اُٹھا دیں گے کہ احمدی چونکہ مسلمان نہیں اس لئے ضلع گورداسپور کی مردم شماری میں ان کو مسلمانوں میں سے تخارج کر دیا جائے تو یہ ضلع از ما غیر مسلم اکثریت کا ضلع قرار پاتا ہے اور مسلمان اقلیت میں رہ جاتے ہیں.اس تشویشناک صورت حال کے پیش نظر مسلم لیگ چاہتی تھی کہ جماعت احمدیہ بھی مسلم لیگ کے وقت میں ایک علیحدہ محضر نامہ ضرور پیش کر دے تا حد بندی کھیشن پر یہ ثابت ہو جائے کہ احمدی اگر مسلمان قرار نہ بھی دیئے جائیں تب بھی یہ لوگ پاکستان میں آنا چاہتے ہیں.یہ محضر نامہ چونکہ مسلم لیگ کے کیس کو مضبوط بنانے اور اس کے موقف کو تقویت دینے کے لئے تیا کیا گیا تھا اس لئے حضرت سیدنا المصلح المہ عود بنفس نفیس قادیان سے لاہور تشریف لائے اور اپنے ساتھ شیخ بشیر احمد صاحب اور مولوی عبدالرحیم صاحب درد کو لے کر جسٹس محمد منیر صاحب کی کو ٹی پر پہنچے.جہاں جسٹس دین محمد صاحب بھی آگئے.پنجاب کے ان ممتاز مسلم قانون دانوں کو جو ریڈ کلف ایوارڈ میں بطور رکن بھی شامل کئے گئے تیار شد محضر نامہ کی ٹائپ شدہ کاپیاں دی گئیں اور سب نے شروع سے لے کر آخر تک اس پر قانونی طور پر بحث تمحیص کی اور اس بات کا پورا پورا اطمینان کرلیا گیا کہ میمورنڈم کا کوئی فقرہ بلکہ لفظ ایسا نہ ہوئیں سے مسلمانوں کے مقاصد کو ذرہ برابر بھی نقصان پہنچنے کا احتمال ہو.غرض کہ جب ہر طریق سے تسلی و تشفی ہو گئی.تب اسم کو ریڈ کلف ایوارڈ کے سکریٹری تک پہنچا دیا گیا.جماعت احمدیہ کا محضر نامہ | ذیل میں اس تاریخی دستاویز کا ترجمہ درج کیا جاتا ہے.بسم الله الرحمن الرحيم...نحمده ونصلى على رسوله الكريم سلسلہ احمدیہ جو مسلمانوں کا ایک اہم مذہبی فرقہ ہے اور جس کی شاخیں تمام دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں، اس کا مرکز گورداسپور کے ضلع میں واقع ہے.مغربی اور مشرقی پنجاب کی جو عارضی تقسیم ہوئی ہے اس میں یہ ضلع پنجاب کے دونوں حصوں کی سرحد پر واقع ہے.اس لئے سرحدی نزاع میں فریقین اس ضلع کے دعویدار ہیں.پس اپنے قانونی حقوق کے تحفظ کے لئے یہ ضروری ہے کہ جماعت احمدیہ بھی اپنا نقطہ نگاہ مله " الفضل" ا صلح جنوری لاش ملخصاً از خطاب سيدنا المصلح الموعود) :
۳۹۱ باؤنڈری کمیشن کے سامنے پیش کرے.پیشتر اس کے کہ ہم ان خاص امور پر روشنی ڈالیں میں سے ہماری جماعت کی اس کے مرکز کے ضلع گورداسپور میں واقع ہونے کی وجہ سے واسطہ پڑا ہے ہم چاہتے ہیں کہ کمیشن کے سامنے بعض بہت یادی امور رکھیں جن کا تعلق ان مطالبات سے ہے جو ہم پیش کرنا چاہتے ہیں.ہمارا یقین ہے کہ کمشن کا یہ فرض ہے کہ وہ علاقہ جات کو پنجاب کی مذہبی آبادی پر تقسیم کرے.اس کا یہ کام نہیں کہ وہ صوبے کو سیاسی یا اقتصادی اعتبار سے تقسیم کرنے کی کوشش کرے.اگر ایسا ہوتا تو کشن کی ہدایات میں قدرتی حدود اور اقتصادی وسائل پر خاص زور دیا جانا چاہیے تھا یا پھر انتظامی لحاظ سے جو ملک کے حصے ہو سکتے ہیں ان کو مد نظر رکھا جاتا.لیکن نہ ہی اس عارضی تقسیم میں جو ہو چکی ہے اور نہ ہی کمشن کے فرائض میں سوائے آبادی کے کسی اور بنیادی امرکا ذکر ہے.عارضی تقسیم میں تقسیم کی حد بندی ضلع کو قرار دیا گیا ہے بعین اصلاح میں مسلمانوں کی اکثریت ہے ان کو مغربی پنجاب میں اور جن میں غیر مسلموں کی اکثریت ہے.ان کو مشرقی پنجاب میں شامل کر دیا گیا ہے.اگر انتظامی امور کا لحاظ رکھا جاتا تو امرتسر کا ضلع مغربی پنجاب میں شامل ہونا چاہئے تھا.لیکن اس عارضی تقسیم میں بیاس کے بائیں جانب صرف امرت سر کا ضلع ہی ایسا ہے جو مشرقی پنجاب میں شامل کیا گیا ہے حالانکہ انتظا می لحاظ سے اگر تقسیم ہوتا تو قدرتی معدود مثلاً دریاؤں اور پہاڑوں کو مخاص اہمیت دی جاتی.اسی طرح اگر اقتصادی امور کو تقسیم میں مدنظر رکھا جاتا تو پھر کانگڑہ کا ضلع مغربی پنجاب میں شامل ہونا چاہیے کیونکہ ذرائع نقل و حمل کے لحاظ سے کانگڑہ ریلوے لائن کے ذریعہ مغربی پنجاب سے ملحق ہے.اور تجارتی لحاظ سے بھی، اس کا تعلق مغربی پنجاب سے ہے.مگر اس حقیقت کے پیش نظر کہ امر تسر اور کانگڑھ کے اضلاع امرتسر مشرقی پنجاب میں شامل کئے گئے ہیں یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ پنجاب کی تقسیم کا بنیادی اصول صرف آبادی ہی کو قرار دیا گیا ہے.اس میں شک نہیں کہ کمیشن کے دائرہ عمل میں دیگر امور" کے الفاظ آتے ہیں.لیکن ہم دیگر امور" ظاہر ہے کہ آبادی سے کم مرتبہ پر اور اس کے تحت میں یہ کوئی متوازی یا دوسرا بنیادی اصول نہیں ہے.بلکہ پہلے اصول کے ضمنیات میں ہی شامل ہے.یہ " دیگر امور اسی وقت متعلقہ امور اور دیئے جا سکتے ہیں جبکہ مسلم اور غیر مسلم آبادی بالکل برا بر ہو یا جبکہ ایک فریق کی آبادی کا تننسل دوسرے فریق کی آبادی کے تھوڑے سے رتھے کے بیچ میں آنے کی وجہ سے ٹوٹ جائے اور جبکہ یہ روکاوٹ ایک آبادی کے تسلسل میں دوسری آبادی کی
۳۹۲ موجودگی کے سبب اتنی کم ہو کہ اُسے کوئی اہمیت نہ دی بھا سکتی ہو.اگران دیگر امور " کو وہی اہمیت حاصل تھی جو آبادی کو ہے تو پھر عارضی تقسیم میں بھی ان کا لحاظ رکھا جاتا.بجائے اس کے صرف کشن کے دائرہ عمل میں شامل کیا گیا ہے اور وہ بھی اس طرح کہ آبادی کے ضمن کے طور زیر غور لائے جائیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف دیگر امور" سے مراد وہ کچھوٹی چھوٹی چیزیں تھیں جنہیں حد بندی کے وقت مد نظر رکھا جانا مقصود تھا.اور یہ بات طے شدہ تھی کہ آبادی کے سوالی کو ہمیشہ فوقیت حاصل رہے گی کمیشن کا تعلق بنیادی طور پر آبادی کے سوال اور اس کے تسلسل سے ہے.اس امر کو نظر انداز کرنا یا کسی اور امرکو اتنی اہمیت دینا کشن کے اختیارات اور دائرہ اعمل سے باہر ہے.پولیس کا نفرنس کے موقعہ پر وائسرائے نے صاف طور پر بیان دیا تھا کہ " ملک معظم کی حکومت سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ زرگی جائیداد کی بناء پر تقسیم ملک کی تھا کرے گی.موجودہ انگریزی حکومت کسی صورت میں بھی ایسا نہیں کر سکتی" اسی پریس کانفرنس میں وائسرائے سے یہ سوال کیا گیا.ر ٹریبیون" هر جون "ڈان" در جون ۱۹۹) آپ نے اپنی کل کی نشری تقریر میں یہ فرمایا تھا کہ تقسیم شدہ صوبوں کی آخری حد بندی یقینی طور پر اس کے عین مطابق نہیں ہوگی جو عارضی طور پر اختیار کی گئی ہے.آپ نے ایسا کیوں کہا؟" اس کے جواب میں وائسرائے نے فرمایا :- محض اس وجہ سے کہ گورداسپور کے ضلع میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کی آبادی میں تناسب ۶۴ ۵۰ اور ۶ و ۴۹ ہے اور فرق صرف ۱۸ فیصد کا ہے.پس یہ ایک عام فہم بات ہے آپ خود سمجھ لیں گے کہ اس کا امکان نہیں کہ کمشن تمام ضلع کو مسلمانوں کی اکثریت والے علاقوں میں شامل کر دے.اسی طرح سے بنگال کے ایک ضلع میں معاملہ اس کے برعکس ہے.میں نہیں چاہتا کہ ان اضلاع کے اقلیتی باشند سے یہ فرض کرلیں کہ یہ ملے شدہ امر ہے کہ ان کو ایسے علاقوں میں شامل کیا جارہا ہے جن میں ان کے فرقے کی اکثریت نہیں ہے" رسول اینڈ ملٹری گزٹ مار جون شاعر ) اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہوئے کہ وائسرائے نے جن اعداد و شمار کا حوالہ دیا ہے یہ درست نہیں
۳۹۳ ہیں دیکھو پنجاب مردم شماری رپورٹ ۱۹۴۱ء) مندرجہ بالا سوال اور جواب سے یہ واضح ہے کہ کشن کسی اکثریت والے علاقے کو ملحقہ علاقے سے بُعدا کر کے کسی دوسرے علاقے سے نہیں ملائے گا اور یہ کہ اگر عارضی تقسیم سے کوئی انحراف ہوا تو اس کا فیصلہ ملحقہ اکثریت والے علاقوں کی بناء پر ہو گا اس لئے کہ وائر کے اعلان میں دیگر امور" مثلاً جائداد کی قسم کی تصریحات ہر گز شامل نہیں.نیز اعلان میں یہ بھی فیصلہ شدہ بات ہے کہ کمیشن کسی ایسے علاقے کو جس میں ایک فرقہ کی اکثریت ہے کسی ایسے علاقے سے نہیں ملائے گا جس میں اس فرقہ کی اکثریت نہیں.نیز ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اگر ہندوستان کے مسئلہ کے حل کے لئے اور فرقوں کے باہمی تنازعات کے فیصلہ کے لئے دیگر امور میں بجائداد اور اس قسم کی اور باتیں شامل تھیں تو کیوں اس وقت پنجاب اور بنگال کی اسمبلیوں کے یورپین ممبروں کو اپنے رسمی ووٹنگ کے حق سے محروم کیا گیا جبکہ پنجاب اور بنگال کی اسمبلیاں دستور ساز اسمبلی کے لئے اپنے نمائندے منتخب کرنے کے لئے منعقد ہوتی تھیں.نیز اس بات کا فیصلہ کرنے کے لئے کہ آیا وہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں شامل ہونا چا ہتے ہیں یا سہندوستان کی دستور ساز اسمبلی ہیں.کیا اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ یورپین ممبروں کی اسمبلی میں نمائندگی کی بڑی وجہ اُن کی جائداد اور اُن کے تجارتی اور صنعتی مفادات ہیں ؟ یہی وجہ تھی کہ جب بنیادی سیاسی حقوق کے فیصلے کا وقت آیا تو ان یورپین ممبروں کو جنہیں ان کی بجائداد اور ان کے اقتصادی مفادات کی بناء پر نمائندگی دی گئی مفتی اس فیصلہ کے وقت ووٹ دینے کے حق سے محروم کر دیا گیا کہ وہ کیس دستور ساز اسمبلی میں شامل ہونا چاہتے ہیں.اسی طرح اگر کسی ملک کی تقسیم جائیداد کی بناء پر جائز ہے تو پھر میں سندھ کے صوبے کو بھی تقسیم کرنا پڑے گا.اس صوبے میں بڑے بڑے زمینداروں میں ہندوؤں کی اکثریت ہے.مزید برآں تقسیم کے لئے اگر جائیداد جائز بنیاد ہو سکتی ہے تو پھر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ پنجاب کو تقسیم کرنے کی زحمت نہیں کرنی چاہیے تھی اسے ہندوؤں اور سکھوں کے حوالے کر دینا چاہیے تھا کیونکہ پنجاب میں تجارت صنعت اور تعلیم وغیرہ تقریباً تمام اُن کے قبضے میں ہیں.اس صورت میں مسلمان کسی ایک ضلع کے لئے بھی مطالبہ نہیں کر سکتے تھے حقیقت تو یہ ہے کہ ہندوستان یا اس کے کسی حصے کی تقسیم کا سوال محض اس لئے اُٹھایا گیا ہے کہ مسلمانوں کو یہ جائزہ شکایت تھی کہ غیر مسلموں کے ہاتھ میں اُن کے سیاسی حقوق محفوظ نہیں.اس صوبے
۳۹۴ میں بھی جس میں مسلمانوں کی اکثریت ہے زمینیں، ٹھیکے اور تعلیم کے لئے حکومت کی طرف سے مالی عطیات غیر مسلموں کو ہی ملتے ہیں.مسلمانوں کے پاس ترقی کے کوئی راستے باقی نہیں رہے.اس لئے مسلمانوں کے مفاد کے لئے یہ ضروری تھا کہ ان کے اکثریت والے علاقوں کو ملک کے باقیماندہ حصے سے بعدا کیا جائے تاکہ وہ اس قابل ہوں کہ اپنی ترقی کے منصوبے بنائیں اور اپنی قسمت کا آپ فیصلہ کریں.سالہا سال کے تصادم اور کشمکش کے بعد انگریزی حکومت اور ہندو کانگریس نے مسلمانوں کے اس مطالبہ کو قبول کیا ہے.اب وہی دلیل جس کی بناء پر مسلمانوں کو اکثریت والے علاقوں میں علیحدہ رہنے کا حق دیا گیا ہے.اس بات کے لئے استعمال نہیں کی جانی چاہیے کہ ان کے علاقوں میں سے کچھ حصے چھینے جاسکیں گے.اگر پاکستان کا تصور یہ تھا کہ مسلمانوں کو موقع دیا جائے کہ وہ اپنی سیاسی اور اقتصادی زندگی کے نقصانات کی تلافی کر سکیں اور اگر تقسیم کا خیال جیسے انگریزی حکومت اور کانگرس دونو نے تسلیم کیا ہے درست ہے تو پھر جائداد اور اقتصادی حالت کی فوقیت کی بناء پر مسلمانوں کے علاقوں کی تقسیم کی کوشش پاکستان کے نظریہ کو کالعدم قرار دینے کے مترادف ہے اس لئے ایسی تقسیم بنیادی طور پر غلط ہونے کی بناء پر رد کر دینے کے قابل ہے.کانگریس متنازعہ فیہ مسئلے میں سب سے اہم فریق مخالف ہے لیکن کانگرس نے پہلے ہی یہ نظر یہ تسلیم کو لیا ہے کہ سیاسی حقوق کے تعین میں جائیداد کی کوئی وقعت نہیں ہے.ان تمام صوبوں میں جن پر کانگریس حکمران ہے زمینداری مسلم منسوخ کیا جارہا ہے.یوپی ، مدراس اور بہار میں اس قسم کے قوانین پاس کرائے بھار ہے ہیں جو بڑے زمینداروں کے اراضیاتی مفاد کو ضبط کرنے کے مترادف ہیں.اگر زمینداروں کے مفادا سیاسی حقوق کے لئے پیمانہ قرار دیئے جا سکتے ہیں تو چاہئیے تھا کہ یوپی ، مدراس اور بہار میں کانگریس بڑے زمینداروں کو اسی نسبت سے زیادہ سیاسی حقوق دیتی لیکن اس کی بجائے کانگریسی حکومتیں زمینداری سسٹم کو ختم کرنے کے لئے قانون بنا رہی ہیں.بنگال میں زمین کا بیشتر حصہ ہندوؤں کی ملکیت ہے اور اس لحاظ سے یہ صوبہ ہندوؤں کے حوالے کیا جاسکتا تھا.مگر ایسا نہیں کیا گیا اور عرضی تقسیم میں بنگال کا بیشتر حصہ مسلمانوں کے حوالہ کر دیا گیا ہے.بفرض محال (جو بہر حال امر محال ہی ہے اگر دیگر امور " میں ایسی باتیں شامل کر لی جائیں جیسے جائیداد تجارتی مفادات ، انکم ٹیکس ، تعلیمی ترقی وغیرہ امور شامل کر لئے جائیں تو ہمیں یہ دریافت کرنا پڑے گا کہ کن حالات اور کن ذرائع سے غیر مسلموں نے زمین ، تعلیم اور تجارت میں یہ تفوق حاصل کیا ہے ؟
۳۹۵ جیسا کہ ہم نے کہا ہے یہ غیر مسلموں کا تفوّق صرف اس وجہ سے ہے کہ انگریزوں کے ہندوستان میں وارد ہونے کے وقت غیر مسلموں نے حصول دولت اور اقتصادی برتری کے تمام سرکاری وسائل اور اداروں پر قبضہ کر لیا.انگریزوں سے پہلے مسلمان ہندوستان کے حکمران تھے.انگریزوں نے ملک مسلمانوں سے لیا.لارڈ کرزن کے زمانہ تک انگریزوں کی یہ پالیسی رہی کہ مسلمانوں کو کمزور رکھا جائے.لارڈ کرزن نے پہلی مرتبہ یہ سوال اٹھایا کہ کیا ایسا کرنا جائز اور درست ہے ؟ اس میں شک نہیں کہ لارڈ کرزن کو الی آواز کے اُٹھانے کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی لیکن اس نے یہ ثابت کر دیا کہ ایسے اور انگریز بھی موجود تھے جو حق اور انصاف کی حمایت میں اپنی ذاتی شہرت اور ترقی کو خطرے میں ڈال کر بھی اپنی ہی حکومت کی پرانی انتظامی روایات اور حکمت عملی کی مخالفت کرنے کی اہلیت رکھتے تھے.پس اقتصادی اور تعلیمی میدان میں مسلمانوں کی پسماندگی گورنمنٹ کی پالیسی اور سیاسی اغراض کا نتیجہ تھی.اب یہ وقت آیا ہے کہ نہیں ان محرومیوں اور دشواریوں سے نجات دلائی جائے.لیکن اس کی بجائے تجویز یہ ہو رہی ہے کہ جو کچھ ان کے قبضہ میں باقی رہ گیا ہے وہ بھی کسی نہ کسی بہانے ان سے چھین لیا جائے.سیکھوں کا مطالبہ ہے کہ انہیں پنجاب کی نہری نو آبادیات میں ( ان کی ملکیت میں یہ ترسی کی بنار پیا زائد رقبہ دیا جائے.اس کی تردید بھی ہمارے مندرجہ بالا جواب سے ہو جاتی ہے.شہری آبادیاں سرگودھا، لائل پو متشکری، شیخو پورہ ملتان کے اضلاع میں ہیں.نہروں کی کھدائی سے پہلے ان لوگوں میں ہو یہاں آکر آباد ہوئے تھے بمشکل در فیصدی غیر مسلم تھے.اس لئے یہ علاقے مسلمانوں کے تھے قلیل آبادی کی وجہ سے یہاں کے مقامی باشندے زمینوں کے کثیر حصے کو اپنے مویشیوں کی چھرا گاہ کے طور پر استعمال کرتے تھے کیونکہ پانی کی قلت کی وجہ سے تمام زمین زیر کاشت نہیں نائی جا سکتی تھی.نہروں کی تعمیر کے موقعہ پر گورنمنٹ نے یہ اعلان کرتے ہوئے کہ چونکہ زمینیں ویران ہو گئی تھیں اس لئے اب وہ حکومت کی ملکیت ہو گئی ہیں.اپنی مقبور زمینوں میں سے کچھ زمین سکھوں کو ان کی خدمات کے عوض گورنمنٹ نے مفت عطا کر دی اور کچھ علاقے بدایوین خریداروں کے پاس بیچ دیئے گئے.اس طرح سے زمین کا ایک معتد بہ حصہ سکھوں کی ملکیت میں چلا گیا.اس سے زیادہ نا انصافی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ وہ زمین جو مسلمانوں کی تھی وہ تو غیر مسلموں کے حوالہ کر دی گئی اور اب مسلمانوں کو اس بناء پر اُن کے آبائی علاقوں سے محروم کیا جاتا ہے کہ غیر مسلموں کے پاس اُن سے زیادہ زمین ہے.ہم یہ بھی واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ یہ عطیہ جات مرکز کی حکومت
کی خدمت کے صلہ میں دیئے گئے تھے کیونکہ یہ فوجی مقدمات کا معاوضہ تھا.اب جبکہ ہندوستان کی تقسیم ہو چکی ہے مغربی پنجاب یہ حق رکھتا ہے کہ وہ ہندوستان سے ان زمینی عطیہ جات کے نقد معاوضے کا مطالبہ کرے.ہندوؤں کے قبضے میں آج زمینیں ہیں.یہ ہندو ساہوکاروں کے سودی کاروبار اور ان کی موسے بڑھی ہوئی شرح سود کا نتیجہ ہیں جو وہ زمینداروں کو قرض دے کر وصول کرتے تھے.ہمارے اس دعوے کی تصدیق پنجاب کی عدالتوں کے ریکارڈ سے ہو سکتی ہے.کئی مثالیں ایسی ہیں کہ چالیس یا پچاس روپیہ اصل زر کا معمولی قرضہ آخر کار بیچارے زمیندار کی ہزاروں روپے کی زمین سے محرومی کا بات ہو گیا.زمینداروں کی اس زبوں حالی کو دور کرنے کے لئے حکومت پنجاب نے اور اس کے بعد دوسری صوبائی حکومتوں نے قانون انتقال اراضی پاس کئے لیکن ان قوانین کا اطلاق ماضی پر نہ ہوا.اس لئے جو زمینیں ہندو ساہوکاروں کے قبضے میں چلی گئی تھیں وہ اصل مالکوں کو واپس نہ مل سکیں.اب پرانی بے انصافی کی بناء پر نئی بے انصافی کی جا رہی ہے.کیونکہ یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ زمین جو ہندوؤں کے ہاتھوں میں ان کے قابل اعتراض سودی کاروبار کے نتیجہ میں چلی گئی تھی انہیں یہ حق دلاتی ہے کہ وہ مسلمانوں سے مزید ان کے علاقے حاصل کر لیں.مختصر یہ ہے کہ کوئی مطالبہ جو مشرقی پنجاب والے مغربی پنجاب سے زمین کے حقوق یا تعلیمی برتری کی بنا پر کریں وہ اس اصول ہی کے خلاف ہے جس کی وجہ سے مہندوستان کو بھارت اور پاکستان میں تقسیم کیا گیا ہے.بونڈری کشن کا کام یہ نہیں کہ اس اصول کو بدلنے کی سعی کرے بلکہ اس کی غرض ہیں اصول کو منصفانہ طور پر عملی جامہ پہناتا ہے.ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر دیگر امور " سے مراد بجائداد اور اس قسم کی اور چیزیں نہیں تو پھر ان سے کیا مراد ہو سکتی ہے اور ان کے کیا معنی ہیں ؟ ہمارے خیال میں اس فقرے کا مطلب معلوم کرنے کے لئے ہمیں کمشن پر عائد کردہ فرائض کی طرف رجوع کرنا پڑے گا.چنانچہ اس کے فرائض میں واضح طور پر درج ہے کہ بونڈری کمشن کو یہ ہدایت ہے کہ وہ دونوں پنجابوں کے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے ملحقہ اکثریت والے علاقوں کی تحقیق کی بناء پر حد بندی کرے.ایسا کرنے کے لئے وہ دیگر
۳۹۷ امور کو بھی مدنظر رکھیں گے“ مندرجہ بالا الفاظ سے ظاہر ہے کہ دیگر امور سے مراد وہ امور ہیں جو اس وقت ظاہر ہوں گے جبکہ کمشن بعد بندی کرے گا اور فرقہ وار اکثریت والے علاقوں کی تعیین کرے گا.اس لئے دیگر امور سے مراد بھانڈا دیا اسی قسم کی اور چیزیں نہیں ہو سکتیں نہ ہی وہ اکثریت کے حقوق کی نفی کر سکتا ہے.ان سے مراد صرف وہ مطالبات یا قابل غور باتیں ہیں جن کا مدیندی کی معمولی تفاصیل طے کرتے وقت خیال رکھا جا سکتا ہے.ہمارے ذہن میں اس کی چند مثالیں بھی ہیں.مثلاً اگر کسی ایک فرقے کا اکثریت والا بڑا علاقہ اقلیت کے دیہات کے تنگ بھلتے میں ہے تو ایسی حالت میں کمشن کے لئے یہ بھائز ہوگا کہ یہ فیصلہ دے کہ اگر چہ ایک مخصوص آبادی نے دوسرے فرقہ کی بڑی آبادی کے گرد حلقہ ڈال رکھا ہے یہ تنگ حلقہ دوسرے فرقہ کے اکثریت والے وسیع رقبہ کو اس کی زیادہ آبادی والے علاقے سے ملحق کر دیا جائے.یا ایک اور مثال لیجئے : ایک وسیع علاقہ جس میں کسی ایک فرقہ کی اکثریت آباد ہے اپنے فرقے کی اکثریت والے علاقے سے ایک ایسے چھوٹے سے علاقے سے جدا ہوتا ہے جس میں دوسرے فرقے کے لوگ آباد ہیں تو اس صورت میں ایک بڑی آبادی کی وحدت کے راستے میں چھوٹا علاقہ روک نہ بن سکے گا.ایک تیسری مثال بھی ہے.یعنی فرض کریں کہ سرحد پر ایک ایسا قصبہ آ جاتا ہے جس کے متعلق جھگڑا ہے تو اس صورت میں ہماری رائے یہ ہے کہ اس قصبہ کی آبادی کی اکثریت پر فیصلہ ہونا چاہیئے.باونڈری کمیشن نے عام طور پر یہ تسلیم کیا ہے کہ قصبہ تعلیمی اور سماجی ترقی کا ایک ذریعہ ہے.برب کسی کے مفاد اور ملحقہ دیہاتی علاقے کے مفاد میں تصادم ہو تو اس صورت میں قصبے کے مطالبات کو تہ بیج ہوگی.دیگر امور کی آخری اور چوتھی مثال جیسے کمشن کو آبادی کے علاوہ مد نظر رکھنا ہوگا یہ ہے کہ اگر ایک فرقہ کی آبادی کا تسلسل اس وجہ سے ٹوٹ جائے کہ بیچ میں دوسرے فرقے کا علاقہ آجاتا ہے ہو بہت بڑا نہ ہو اس علاقہ کے پہرے نزدیک ہی اکثریت والے فرقے کا کوئی مذہبی مرکز واقع ہو تو اس صورت میں یہ درست نہ ہوگا کہ اس مذہبی مرکز کو اس فرقہ سے صرف اس وجہ سے بعدا کر دیا جائے کہ درمیان میں ایک چھوٹا سارقیہ دوسرے فرقے کا آجاتا ہے.اس سلسلہ میں یہ بات بھی قابل غور ہے
۳۹۸ کہ اکثریت کے ساتھ انصاف کا تقاضا ہے کہ اس قسم کے بیانوں کی آڑ لے کہ اکثریت کو وسیع علاقوں سے محروم نہ کیا جائے.اس قسم کا تطابق اقدام کے لئے صرف نہایت ہی قبیل رقبوں کے لئے ہونا چاہیئے.پس دیگر امور سے صرف اسی قسم کے امور مراد لئے جا سکتے ہیں جن کی او پر مثالیں دی گئی ہیں.ان سے یہ مراد ہر گز نہیں کی جاسکتی کہ بعض سرحدی اضلاع مثل گورداسپور اور لاہور کے بعض حصوں کو صرف نہ اس ویتر سے مشرقی پنجاب سے ملا دیا جائے کہ مغربی پنجاب کے بعض اور حصوں میں ہندوؤں کا تجارت میں زیادہ حصہ ہے یا سکھوں کے قبضے میں مسلمانوں سے زیادہ زمین ہے.اس بارے میں وائسرائے کا اعلان بالکل واضح ہے.وائسرائے کا یہ اطمینان دلانا ہندوؤں مسلمانوں اور سکھوں سب کے لئے یکساں ہے." ہم یہاں ایک اور سوال اُٹھانا چاہتے ہیں.ہم یہ فرض کر لیتے ہیں کہ دیگر امور " سے مراد وہی ہے جو غیر مسلم لے اور ہے ہیں.اس صورت میں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم آبادی کے علاوہ دوسرے مطالبوں کی اصل قیمت کس طرح لگائیں ؟ ہمیں ان مطالبات کا اندازہ لگانے کی کوئی راہ تلاش کرنا ہوگی.اگر مغربی پنجاب کا ایک حصہ مشرقی پنجاب سے اس لئے ملایا جا سکتا ہے کہ مغربی پنجاب میں ہندوؤں اور سکھوں کے پاس مسلمانوں سے زیادہ زمین ، زیادہ تجارتی ادارے اور زیادہ کالج ہیں یا یہ کہ وہ مسلمانوں سے زیادہ ٹیکس ادا کرتے ہیں تو پھر یہ سوال پیدا ہو گا کہ کتنے مسلمان کسی قدر زمین ، تجارتی اداروں ، ٹیکس یا کالجوں کے برابر شمار ہوں گے ؟ بہر حال ہمیں بتانا چاہیے کہ مغربی پنجاب کے کتنے مسلمانوں کی آزادی لائل پور میں ہندوؤں کی زمینوں یا راولپنڈی میں غیر مسلم کا لجوں یا سیالکوٹ میں غیرمسلم کارخانوں کے عوض سلب ہو گئی جب تک آزادی کی قیمت طے نہ ہو ہم پنجاب کو جائیداد کی بناء پرتقسیم نہیں کر سکتے.ہم آزادی کے دور میں زندگی بسر کر رہے ہیں.ہم یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ کوئی شخص بھی اتنی جرات کر سکے اور کہے کہ وہ کا فرقے کے اتنے افراد کو ان کی مرضی کے خلاف ب فرقے کے علاقے میں دھکیل دے گا صرف اس لئے کہ جب فرقہ کے قبضے میں لا فرقہ سے زیادہ زمین یا زیادہ کالج ہیں یا وہ زیادہ انکم ٹیکس ادا کرتا ہے.ایسا اقدام غلاموں کی تجارت کے مترادف ہوگا بلکہ غلاموں کی تجارت میں ایک بعد ترین قسم کی مثال ہو گی.مختصرطور پر حقیقت یہ ہے کہ (1) بونڈری کمیشن کا کام پنجاب کو تقسیم کرتا نہیں ہے بلکہ پہلے سے تقسیم شدہ پنجاب کی حد بندی میں
٣٩٩ معمولی تفصیلات کو طے کرنا ہے اور اس میں ایسی چھوٹی چھوٹی ترمیمیں کرنا ہے جو ضروری اور انصاف پر مبنی ہوں.(۲) ان ترمیموں کے بارے میں کمشن کو یہ ہدایت ہے کہ وہ ان دیگر امور کو مد نظر رکھے جو آبادی کی بناء پر حد بندی کے لئے ضروری ہوں.(۳) دیگر امور کے الفاظ کا تعلق مغربی اور مشرقی پنجاب کی درمیانی حدود سے ہے نہ کہ صوبہ کے باقیماندہ حصوں سے (۴) وائسرائے نے پولیس کا نفرنس میں جو اعلان کیا ہے وہ اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ کمشن کا صرف یہ کام ہے کہ وہ یہ دیکھے کہ اگر کوئی سرحدی ضلع آبادی کے لحاظ سے مجموعی طور پر کسی ایک فرقے کا ہے تو اس صورت میں اس ضلع کے وہ حصے جن کا رقبہ کافی ہو اور جن میں دوسرے فرقے کے لوگوں کی اکثریت ہو اس ضلع سے جدا کئے جائیں اور ان کا الحاق ان کے اپنے فرقے کے ساتھ والے علاقے سے کیا جائے.اس اعلان سے یہ ہرگز معلوم نہیں ہوتا کہ ایک فرقہ کی اکثریت والا حصہ دوسرے فرقے کی اکثریت والے حصہ سے ملا دیا بھائے.(۱۵) غیر مسلموں کا یہ دعوی کہ دیگر امور " سے مراد دولت جائداد وغیرہ ہیں، وائسرائے کے اعلان کے علاوہ انسانی عقل اور ضمیر کے بھی خلاف ہے.ان عام خیالات کے اظہار کے بعد اب ہم اس سوال کو لیتے ہیں جس میں کہ سلسلہ احمدیہ کو خاص دلچسپی ہے یعنی وہ سوال جس کا تعلق ان مخصوص حالات سے ہے جو قادیان اور اس کے گرد و نواح سے متعلق ہیں اور جین کو مشرقی اور مغربی پنجاب کے درمیان حد فاصل قائم کرتے وقت ضرور مد نظر رکھنا چاہیے.اس بارے میں ہم مندرجہ ذیل معروضات پیش کرتے ہیں :- ا قادیان تھانہ بٹالہ تحصیل بٹالہ اور ضلع گورداسپور میں واقع ہے.ہماری گزارش ہے کہ یہ دعوئے کہ گورداسپور کا ضلع مغربی پنجاب میں شامل ہونا چاہیئے.اس قدر واضح اور مضبوط بنیادوں پر قائم ہے کہ اس کے متعلق بحث بونڈری کمشن کے دائرہ عمل سے باہر ہے.بیشک پر میس کا نفرنس کے موقع پر وائسرائے نے یہ کہا تھا کہ اس ضلع میں مسلمانوں کو ۶۸ خیرا کثریت حاصل ہے اور اس لئے یقینی طور پر اس کے بعض حصوں میں غیر مسلموں کی اکثریت ہوگی مگر ہم یہ عرض کرتے ھیں کہ
۴۰۰ وانسر کے اسبارہ میں صحیح حالات سے آگاہ نہیں.شاہ کی مردم شماری کی رپورٹ میں ضلع گورداسپور میں مسلمانوں کی آبادی کل آبادی کا ۱۴ ۵۱۶ فی صد ہے اور اس طرح سے مسلمانوں کو دوسروں پر ۲٬۲۸ نبر کی اکثریت حاصل ہے نہ کہ ۶۸، فی صد ا اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ ہندوستانی عیسائی اور اچھوت ہندوؤں اور سکھوں کے ساتھ سیاسی اتحاد میں شامل ہیں تو بھی مسلمان غیر مسلموں سے ۲۱۲۸ میر اکثریت میں ہیں لیکن ہمیں یہ بات یاد رکھنا چاہئیے کہ عیسائی لیڈر مسٹر ایس پی سنگھا نے جو بٹالہ ضلع گورداسپور کے رہنے والے ہیں.غیر مبہم طور پر یہ اعلان کر دیا ہے کہ ان کا فرقہ پاکستان میں رہنے کو ترجیح دے گا.سنٹرل کو سچین ایسوسی ایشن نے سنگھا صاحب کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا ہے ، گورداسپور کے ضلع میں عیسائیوں کی آبادی ۴۴ پر ہے.اگر ہم عیسائی آبادی کو مسلمان آبادی میں شامل کر دیں تو اس صورت میں ضلع گورداسپو کے وہ لوگ جو پاکستان میں شمولیت چاہتے ہیں ان کی تعداد ۵۵۰۶۰ فی صد ہو جاتی ہے.یہ فرق در حقیقت نمایاں فرق ہے.برٹش گورنمنٹ کی تجویز میں جالندھر کا ضلع مشرقی پنجاب میں شامل کیا گیا ہے.بجالندھر میں غیر مسلم صرف ۵۴۱۷۴ ز ہیں.کیا یہ عجیب بات نہیں کہ گورداسپور کا ضلع جس میں آبادی کا ۵۵۱۶۰ بز پاکستان کی حمایت میں ہے ایک متنازعہ فیہ علاقہ قرار دیا جائے.یہ کہا جاتا ہے کہ عیسائیوں کو مہندوؤں اور سکھوں کے ساتھ شامل کرنے کے فیصلہ پر عیسائیوں کی رائے اثر انداز نہیں ہو سکتی تو پھر میں کہنا پڑے گا کہ حقائق کو بدلا نہیں جاسکتا.اگر عیسائی کہتے ہیں کہ تم پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ عیسائی پاکستان جانا نہیں چاہتے.بیشک گورنمنٹ یہ تو کہہ سکتی ہے کہ ہمیں اس بات کی پروا نہیں کہ عیسائی کہاں جانا چاہتے ہیں اور یہ کہ دو نو ملکوں کے در میان حد بندی کے لئے میں ائیوں کی رائے کو وقعت نہیں دی جائے گی لیکن یہ بات معقول نظر نہیں آتی کہ گورنمنٹ عیسائیوں کے پاکستان کی طرف رجحان کو خلاف پاکستان قرار دے.اگر ہم عیسائیوں کو شامل نہ بھی کریں پھر بھی مسلمان ۲۱۲۸ بر کی اکثریت میں ہیں.مسلمانوں کی اس نمایاں اکثریت کو یقیناً وہ اہمیت دینی چاہیئے جس کی وہ مستحق ہے.نہیں یہ بھی یادرکھنا چاہیئے کہ اگر مسلمانوں کی اکثریت ضلع گورداسپور میں کم ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ پٹھانکوٹ کی تحصیل میں مسلمان ۳۸۶۸۸ بز ہیں.لیکن جب ہم باقی تین تحصیلوں کو دیکھتے ہیں
تو بٹالہ میں ۵۵۲۰۷ بر مسلمان ہیں ، گورداسپور میں ۱۵ ۱۵۲اور شکر گڑھ میں ۵۱۰۳۲ د رپورٹ مردم شماری ہ.ان اعداد و شمار کی رو سے یہ واضح ہے کہ اگر ہم تحصیل بٹالہ کے عیسائیوں کو ہندوؤں اور سکھوں میں شامل کر بھی دیں تو پھر بھی تحصیل بٹالہ میں مسلمان ۰۰۱۴ شیر کی اکثریت میں ہیں.تحصیل گورداسپور میں ۴۶۳۰ بز اور تحصیل شکر گڑھ میں ۱۲۸ ۶ بر کی.اگر عیسائیوں کو مسلمانوں کے ساتھ ملا دیا بھائے تو تب بٹالے کی تحصیل میں سے جو لوگ پاکستان میں شارق ہوتا چاہتے ہیں ان کی تعداد ۲۰۱۵۳ ج ہو جاتی ہے، اور جو ہندوستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں ان کی تعداد گھٹ کر ۳۹۴۷ رہ بھاتی ہے.گورداسپور کی تحصیل میں مسلم اور عیسائی آبادی بیل کر ۱۲۴ ۵۹ بر اور باقی لوگ ۰۶۷۶ هم نیز میں مل کر ۵۹۱ نبر کی اقلیت نہیں ہو جاتے ہیں.شکر گڑھ کی تحصیل میں مسلم اور عیسائی آبادی ۵۴۱۸۴ بر ہو جاتی ہے، اور غیر مسلم ۱۶ ۲۵۱ نبر ہو جاتے ہیں.ان استعداد و شمار کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر ہم فی الحال پٹھانکوٹ کو زیر غور نہ لائیں تو یہ ظاہر ہے کہ گورداسپور کے باقی کسی حصے کے مشرقی پنجاب کے ساتھ الحاق کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے.تینوں تحصیلوں میں مسلم عیسائی آبادی ۱۵۸ بیر ہے.اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وائسرائے کے اعلان کو مد نظر رکھتے ہوئے گورداسپور بٹالہ اور شکر گڑھ کی تحصیلوں میں سے کوئی بھی مغربی پنجاب سے جدا کر کے مشرقی پنجاب میں شامل نہیں کی جا سکتی.ایسا اقدام سراسر بے انصافی پریدنی ہوگا اور غیر آئینی بھی.تحصیل پٹھانکوٹ کے متعلق ہماری رائے ہے کہ یہ بیا د بود مسلم اقلیت کا علاقہ ہونے کے مغربی پنجاب میں شامل ہونی چاہیئے.پٹھانکوٹ کی پوزیشن نرالی ہے." دیگر امور" والا اصول یہاں بالکل اطلاق پاتا ہے.دریائے راوی اس تحصیل سے ہوتا ہوا مغربی پنجاب میں داخل ہوتا ہے اور اس دریا میں سے نہیں نکالی گئی ہیں جن کے ہیڈ ورکس مادھو پور میں ہیں.یہ نہریں زیادہ تر مغربی پنجاب کو سیراب کرتی ہیں.اگر ہے تحصیل حبس میں غیر مسلم ۳۵۰۰۰ کی اکثریت میں نہیں مغربی پنجاب سے بعدا کر دی جائے تو اس کا اثر مغربی پنجاب کی تیس لاکھ آبادی پر جس میں ہندو اور سیکھ بھی شامل ہیں بہت تباہ کن ہو گا.اس مسلئے یہ بالکل مناسب ہوگا کہ تیس لاکھ کے مفاد کو ۲۵۰۰۰ کے مفاد پہ قربان نہ کیا جائے.اس لئے پٹھانکوٹ کا معاملہ بالکل استثنائی بصورت کا ہے اور اس کی پنجاب کے دوسرے حصوں میں نظیر نہیں ملی.اس لئے یہ تحصیل خاص غور کی مستحق ہے اور دیگر امور کے تحت میں شمار کیا جانے والا مناسب کہیں ہے.
۴۷۰۲ تمنا یہ بات بھی قابل تذکرہ ہے کہ اس تحصیل کے کچھ حصے ریاست کیبہ کی ملکیت ہیں اور ان میں ہندو ری کی غالب اکثریت ہے.اگر ان علاقوں کو بیدا کر دیا بہائے تو دوسرے حصوں کی اکثریت میں معتند یہ کمی آ جائے گی.اگر کمشن کے آخری فیصلہ میں مسلمانوں کی عظیم اکثریت والی تحصیلیں جو عارضی تقسیم میں مشرقی پنجاب میں شامل کردی گئی ہیں پاکستان کو واپس نہ ملیں تو پٹھانکوٹ ہندوستان کو دیئے جانے کا سوال ہی پیدا نہ ہو گا.کوم.اگلا سوال یہ ہے کہ اگر تقسیم کی اکائی ایک تحصیل سے کم علاقہ قرار دیا جائے تو اس کا قادیان اور اس کے ملحقہ علاقہ پر کیا اثر ہو گا؟ اس کے متعلق ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ تقسیم کی اکائی یا تو ضلع ہویا تحصیل تحصیل سے کم اکائی سے مطلب حاصل نہ ہو گا.کیونکہ (1) اگر تقسیم کی اکائی تحصیل سے کم ہو تو ملک کی حفاظت اور اندرونی تجارت پر کنٹرول زیادہ مشکل ہو جائے گا.(ب) وائسرائے کے اعلان میں ۱۹۴۱ کی مردم شماری کے اعداد و شمارہ کو تسلیم کیا گیا ہے اور مردم شماری کی رپورٹ میں تحصیلوں سے کم علاقوں کے اعداد نہیں ہیں.اس لئے یہ ظاہر ہے کہ جب مردم شماری کی رپورٹ کو آبادی کی بنیاد قرار دیتا ہے تو پھر تقسیم کی اکائی یا ضلع چاہیے یا تحصیل جس کے اعداد مردم شماری کی مطبوعہ رپورٹ میں درج ہیں.(ج) اگر ہم بغرض بحث یہ فرض کر لیں کہ بونڈری کمیشن تقسیم کی خاطر تحصیل سے کم علاقہ کو اکائی کے طور پر استعمال کرے تو ایسی اکائی صرف تھانہ ہو سکتا ہے یا گرد اور کا حلقہ یا ذیل یا گاؤں.پس اگر گاؤں کو کائی قرار دیا جائے تو مسلم علاقے امرتسر، فیروز پور ، جالندھر، ہوشیار پور ، لدھیانہ اور انبالہ کے اضلاع میں کیکڑنے کے بہت سے پنجوں کی طرح پھیل جائیں گے.اسی طرح غیر مسلم علاقے ٹکڑوں میں لاہور اور گورداسپور کے اضلاع میں مل جائیں گے.اس قسم کی تقسیم قیام امن کے لئے مفید نہیں.اس سے سر بعد پر رہائش کی تکالیف میں اضافہ ہوگا.اس سے ذرا بڑی اکائی ذیل ہے.ذیل میں پچاس ساتھ گاؤں شامل ہو تے ہیں.ذیل کا فائدہ صرف یہ ہے کہ دیہات کو اطلاع اور گورنمنٹ کے اعلانات پہنچانے میں آسانی ہوتی ہے.بیلدار کوئی گورنٹ کا ملازم نہیں ہوتا بلکہ عرف ایک زمیندار ہوتا ہے جو اعزازی طور پر ذیلدار کی حیثیت میں کام کرتا ہے اُسی
رام کا کام یہ ہوتا ہے کہ پولیس اور محکمہ مال کے افسروں کی عام طور پر مدد کرے.ذیل بھی ایک غیر مناسب اکائی ہے.لیکن اگر بونڈری کمشن ذیل کو ہی ایک یونٹ کے طور پر ماننے کے لئے تیار ہو توپھر گر ذیل میں جس میں قادیان شامل ہے مسلمانوں کی اکثریت ۶۱۶۱۰ نر ہے.در حقیقت قادیان کے مشرق میں دریاے بیاس تک اور مغرب میں بٹالہ تک تمام ذمیں ایسی ہیں جن میں مسلمانوں کو اکثریت حاصل ہے.الفرض کریں کو بھی تقسیم کے لئے یونٹ تسلیم کر لیا جائے تو پھر بھی قادیان ضرورہ مغربی پنجاب میں شامل ہونا چاہیئے.ذیل سے بڑی یونٹ (اکائی) قانونگو کا علاقہ ہوتا ہے.اس یونٹ میں ستر سے اسی گاؤں شامل ہوتے ہیں اگر اس یونٹ کو تقسیم کے لئے اکائی مانا جائے تو پھر بھی قادیان لازمی طور پر مغربی پنجاب میں شامل رہتا چاہیئے کیونکہ قادیان کے قانونگو کے حلقہ میں مسلمانوں کو ۲۴ ۵۴ خبر کی اکثریت حاصل ہے.دراصل قادیان سے بیاس تک ایسے حلقوں میں مسلمانوں کی واضح اکثریت ہے.قانونگو کے حلقے سے بڑا حلقہ تھانے کا حلقہ ہے.سو اس کی حیثیت انتظامی ہوتی ہے..عام لوگوں کے لئے اس حلقہ کو یونٹ تسلیم کرنے سے لامتناہی مشکلات کا سامنا ہو گا لیکن اگر تھانے کو ہی یونٹ تسلیم کرنا ہے تو پھر بھی قادیان مغربی پنجاب میں شامل ہونا چاہیے کیونکہ بٹالہ کے تھانے میں جس میں قادیان واقع ہے مسلمانوں کی تعداد ۵۵۶۹۸ بر ہے.بٹالہ کے شمال مشرق میں جو تھانہ ہے اس میں بھی مسلمانوں کی اکثریت ہے.صرف تھا نہ سری گوبند پور میں جو قادیان سے جنوب مشرق میں ہے غیر مسلم اکثریت میں ہیں.لہذا قادیان لازمی طور پر مغربی پنجاب میں شامل ہونا چاہیئے خواہ تقسیم کا یونٹ ضلع ہو یا تحصیل ، تھانہ ہو یا حلقہ قانونگو یا ذیل.اسے مغربی پنجاب سے بعدا کرتا حد درجے کی نا انصافی اور غیر دانشمندانہ اقدام ہوگا.لیکن اگر گاؤں کو تقسیم کا یونٹ قرار دیا جائے تو قادیان کی پوزیشن ذرا مختلف ہو جاتی ہے.بٹالہ سے شروع کر کے ہم گاؤں یہ گاؤں جائزہ لیں تو لگاتار مسلمانوں کے اکثریت والے گاؤں آتے ہیں صرف قادیان کے شمال میں ایک گاؤں میں غیر مسلموں کی تعداد مسلمانوں سے بقدر ۲۴ زیادہ ہے.وہاں قادیان کی جانب ایک سالم گاؤں مسلمانوں کا ہے.اس کے بعد قادیان آتا ہے جس میں یہ کی مردم شماری کی رُو سے دس ہزار سے زیادہ آبادی ہے.لیکن اس وقت اس کی آبادی پندرہ ہزار سے زائد ہے اور اس میں مسلمان اکثریت ۹۰ بر سے زیادہ ہے.اس لئے یہ معقول دلیل ہے کہ ایسا گاؤں.
جس میں صرف غیر مسلم ۲۴ کی اکثریت میں ہوں ارد گرد کے مسلمان اکثریت کے علاقے اور قادیان کے درمیان جس میں قریباً چودہ ہزار مسلمان ہیں، روک نہیں سمجھا سکتا.اس کے علاوہ ہم نے پہلے ہی اس بات پر زور دیا ہے کہ گاؤں مناسب اکائی نہیں لیکن اگر گاؤں کو یونٹ قرار دیتا ہے تو پھر یہ یونٹ بطور قاعدہ سارے پنجاب میں استعمال ہونا چاہیئے.لیکن گاؤں کو یونٹ تسلیم کرنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ صو بے کو نہایت ہی بجھے طور پر نامناسب، اور تانکم ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا جائے گا.نقشوں کے پانچ سیٹ ہو تحصیل ، تھانے ، قانوں کو سرکل اور ذیل کی بناء پر تیار کئے گئے ہیں ضمیر ما کے طور پر ساتھ شامل کئے بجاتے ہیں تاکہ بآسانی بطور حوالہ استعمال کئے جاسکیں.ہم پہلے ہی بالو ضاحت بتا چکے ہیں کہ " دیگر امور صرف اس وقت زیر غور لانے چاہئیں جب مقدر فاصل کی تعیین میں معمولی تفصیلات کا فیصلہ کیا جا رہا ہو.اس لئے اگر گاؤں کو یونٹ قرار دیا جائے تو دیگر امور کے اس اصول کو جائز طور پر استعمال کر کے اس صورت میں قادیان کا تسلسل دوسری مسلم اکثریت کے علاقوں کے ساتھ معمولی طور پر ٹوٹتا ہے.اُسے دیگر امور کے اصول کو جائز طور پر استعمال کر کے دور کیا جاسکتا ہے.ہماری رائے میں اور بھی بہت سے دیگر امور " ہمارے اس دعوے کی حمایت میں پیش کئے جا سکتے ہیں که قادیان مغربی پنجاب کا حصہ ہونا چاہیئے.ان قادیان سلسلہ احمدیہ کا مرکز اور صدر مقام ہے اور اسے معمولی مذہبی مقامات سے بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے سیکھوں اور بہندوؤں کے مقدس مقامات کو جو تقدیں حاصل ہے وہ فرقہ وارانہ روایات کی بناء پر ہے لیکن قادیان کی تقدیں اور عظمت کی بنیاد خدا تعالیٰ کے الہام اور گذشتہ انبیاء کی بہت سی پیشگوئیوں پر ہے.جماعت احمدیہ کے افراد کی نگاہ میں قادیان کی تقدیس مکہ اور مدینہ کی تقدیس سے دوسرے درجہ بچہ ہے حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے مقدس مقامات کے سوا اور کوئی ایسا مقام نہیں جس کی تقدیس مذہبی کتب یا خدا تعالیٰ کے الہام پر مبنی ہو جیسا کہ مکہ اور مدینہ کو سب نبیوں کے سردار حضرت محمد صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وجہ سے غیر فانی تقدیں حاصل ہوئی ہے.قادیان نے بھی یہ تقدیس آنحضرت کے روحانی شاگرد اور جانشین تحریک احمدیت کے بانی حضرت احمد کے طفیل اسلام کی خدمت کے لئے حاصل کی ہے.بانی سلسلہ احمدیہ جنہوں نے قادیان کو اس تحریک کا مرکز قرار دیا ہے اچھریوں کے نزدیک آخری زمانے کہ وہ عظیم الشان مصلح ہیں جن کے وجود میں حضرت مسیح
۴۰۵ علیہ السلام کی بعثت ثانیہ کی پیشگوئی پوری ہوتی ہے نیز وہ حضرت رسول کریم کے رُوحانی شاگرد اور ان کے خدا تعالے کی طرف سے مقرد کر دہ خلیفہ ہیں اور ان کے وجود میں وہ تمام پیشگوئیاں پوری ہوتی ہیں جو گذشتہ انبیاء نے آخری زمانہ کے متعلق کی ہیں.اس لئے ہمارے نزدیک ہندوستان کے کسی اور مذھبی مقام کا تقدین کے لحاظ سے قادیان مقابل نہیں کیا جا سکتا.دوسرے فرقے بے شک اس وقت تعداد میں زیادہ ہیں لیکن میں اصول پر ان کے مذہبی مقامات کو تقدیس حاصل ہے وہ اس سے بالکل مختلف ہے جس کی بنار چہ احمدیوں کے مرکز کی تقدیس کا انحصار ہے.یہی وجہ ہے کہ کسی دوسرے فرقے کو اپنے مرکز سے وہ لگاؤ نہیں جو احمدیوں کو قادیان سے ہے.اس وقت ہندوستان میں احمدیوں کی تعداد قریباً ہ لاکھ ہے.مگر اُن احمدیوں کی تعداد جو جلسہ ساتھ کے موقعہ پہ قادیان میں جمع ہوتے ہیں دوسرے مذاہب کے اسی قسم کے اجتماعوں کے مقابلہ میں نسبتاً بہت زیادہ ہے یہاں تک کہ محکمہ ریلوے کو زائرین کی آمد و رفت کے لئے پچار دن تک سپیشل گاڑیاں چلانی پڑتی ہیں.دُور دراز کے علاقوں سے لوگ ہجرت کر کے قادیان آباد ہوتے رہتے ہیں.یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ جبکہ اسی صدی کے شروع میں قادیان کی آبادی صرف چند نفوس پر مشتمل تھی اس وقت یه آبادی ۱۴۰۰۰ سے کم نہیں اور یہ صرف ہندوستان کے مختلف علاقوں کے لوگوں پر ہی مشتمل نہیں بلکہ غیر مالک کے لوگ بھی یہاں آکر آباد ہوئے ہیں اور سوسائٹی کے ہر طبقہ کے لوگوں کی یہ شدید خواہش ہوتی ہے کہ وہ اسلام کی خدمت کے لئے زندگی وقف کر کے قادیان آکر آباد ہوں.دنیا کے تمام علاقوں سے لوگ یہاں مذہبی اور روحانی تربیت کے لئے آتے ہیں.اس میں شک نہیں کہ ہندو و کی تعداد میں کروڑ اور سکھوں کی پچاس لاکھ کے قریب ہے لیکن ہندوستان سے باہر تبدیلی مذہب کر کے مزید اقوام کے لوگ ان میں شامل نہیں ہوتے.لیکن سلسلہ احمدیہ کی شاخیں امریکہ ، کینیڈا، اروجن ٹائنا ، انگلستان ، فرانس ، سپین، اٹلی ، شام، فلسطین، ایران ، افغانستان ، چین، لنکا، ماریشس ، برما ، ملایا ، انڈونیشیا ، کینیا ، ٹانگانیکا ، یوگنڈا ، ابی سینیا ، سوڈان، نائیجیریا ، گولڈ کوسٹ اور سیرالیون میں پائی جاتی ہیں.بعض غیر ممالک میں مقامی جماعتوں کی شاخیں سینکڑوں کی تعداد میں ہیں.ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ہزاروں کی تعداد میں امریکین شہری احمدیت کے معتقد ہیں.اس وقت بھی قادیان میں ایک انگریز سابق لیفٹیننٹ اور ایک
5-y شامی بیرسٹر دینی تعلیم کے لئے موجود ہیں.ایک جرمن سابق فوجی افسر عنقریب قادیان میں بطور مسلم مشنری ٹریننگ حاصل کرنے کے لئے آرہے ہیں.اسی طرح امریکہ ، سوڈان اور ایران سے بھی نیم بائع دینی تعلیم کے لئے قادیان آنے کا ارادہ رکھتے ہیں.اس سے پہلے بھی انڈونیشیا، افغانستان ، چین اور افریقہ سے طالب علم ہمارے مرکز میں آئے ہیں.اس لئے قادیان کو سبو مقام مذہبی مرکز ہونے کی حیثیت سے حاصل ہے وہ بہت بلند ہے.اگر مذہبی مقامات" دیگر امور میں شامل ہیں تو بلاشک شتبہ قادریان کا نمبر اول ہے.۲.تحریک احمدیت کے سہندوستان میں ۷۴۵ مقامی مراکز ہیں حسین میں تے ۵۴ یعنی ۴ ، فجر کے قریب پاکستان میں واقع ہیں (ملاحظہ ہو ضمیمہ نمبر ۲) اس لئے قادیان کو مغربی پنجاب سے جدا کرنا تحریک کے مستقبل کے لئے نقصان دہ ہوگا.تحریک احمدیت کے مقدس بانی قادیان میں پیدا ہوئے اور اکثر کتابیں جو انہوں نے اپنی تعلیم کی اشاعت کے لئے لکھیں ، اردو زبان میں ہیں.آپ کی بعض کتابیں عربی اور فارسی میں ہیں بہندوست کی حکومت نے پہلے سے ہی اُردو کو ختم کر دینے کا ارادہ ظاہر کر دیا ہے.سہندوستان ریڈیو جو زبان استعمال کر رہا ہے وہ ابھی سے ایسی ہے کہ ایک عام مسلمان کی سمجھ سے بالا ہے.کچھ عرصہ کے بعد یہ زبان اردو بولنے والوں کے لئے بالکل اجنبی ہو جائے گی.اگر قادیان کا الحاق مشرقی پنجاب سے کر دیا گیا تو اس کا مطلب ان دو میں سے ایک ہوگا.یا تو قادیان احمدیوں میں اردو زبان کی ترقی اور فروغ کے لئے بعد دو جہد کو جاری رکھے اور اس طرح اپنے نوجوانوں کو گورنمنٹ کی مان نہیں حاصل کرنے سے محروم کر دے اور اپنے افراد کو صنعت اور تجارت میں ترقی کرنے سے روک دے یا قاریان اُردو کو خیر باد کہہ دے جس میں سلسلہ کا مذہبی لٹر پھر ہے اور اس طرح اپنے مذہبی مستقبل کے لحاظ سے خود کشی کر لے سلسلہ احمدیہ کے لئے ان دو باتوں میں سے کوئی ایک بھی قابل قبول اور ممکن نہیں نہ کوئی معقول انسان ان کو قبول کرنے کا مشورہ دے سکتا ہے.علاوہ ازیں سلسلہ احمدیہ کی ہندوستان سے باہر بیسیوں شاخیں ایسی ہیں جو قدرتی طور پر پاکستان سے زیادہ گہرے تعلقات کی خواہاں ہوں گی.پیشتر اس کے کہ ہم اگلا امر پیش کریں یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ جہاں سکھ قوم کا مطالبہ کہ اُن
کردم کی کھیتی کو تحفظ دیا جائے.اکثریتی علاقے کے طے شدہ اصول کے خلاف ہے بہار یکجہتی کے تحفظ کا معام اس اصول کی تائید میں ہے.احمدیوں کا صرف ایک ہی کالج ہے اور وہ قادیان میں واقع ہے.اگر قادیان کو مشرقی پنجاب سے ملا دیا جائے تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ ایک مملکت کے ایک فرقے کے طلباء کی اکثریت کو دوسری مملکت میں واقع کالج میں تعلیم حاصل کرنا پڑے گی.یہ امر نہایت ہی نقصان دہ ہوگا اور مثبت طور پر طلبا اور ادارہ سے کے معیار کو تباہ کرنے کا موجب ہوگا.- تحریک احمدیت کے مقدس بانی کا یہ ارشاد ہے کہ احمدیہ فرقے کا مرکز ہمیشہ قادیان ہوگا.اس لئے نہ تو جماعت کے لئے اور نہ ہی موجودہ امام کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ جماعت کے مرکز کو قادیان سے کسی اور جگہ منتقل کریں.- اس تحریک کے مقدس بانی قادیان کی سرزمین میں مدفون ہیں.بعض انتظامات کے ماتحت جن کا بیان کرنا یہاں غیر ضروری ہے سلسلہ کے سر کہ وہ افراد کی نعشیں ہندوستان کے مختلف علاقوں سے یہاں دفن کرنے کے لئے لائی جاتی ہیں.اس لئے احمدیوں کے لئے اپنے مرکز کو قادیان سے کسی اور جگہ لے جانا ممکن نہیں ہے.-A متعدد مقدس عمارتیں اور یادگاریں قادیان میں موجود ہیں اس لئے بھی احمدی اپنا مرکز تبدیل نہیں کر سکتے.اس فرقے کی جائیداد کا قریباً 9 بر مغربی پنجاب اور پاکستان میں واقع ہے اور اگر قادیان کو • ساخن مشرقی پنجاب سے ملا دیا جائے تو اس جماعت کے مرکز کو مالی وسائل کے اعتبار بیحد نقصان پہنچے گا.9 ہندوستان کے مسلمانوں کی والدہ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ قادیان میں ہے.پس اگر قادیان کو شرقی پنجاب سے ملا دیا گیا تو یہ دیگر مسلمانوں کے لئے گھوٹا اور احمدیوں کے لئے مخصوص تباہ کن اقدام ہوگا.- بعض وقته ودار انگریز حکام کے بیانات سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ " دیگر امور کے الفاظ خاص طور پر سیکھوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے استعمال کئے گئے ہیں جنہوں نے حکومت انگریزی کی بڑی خدمات سرانجام دی ہیں.لیکن اگر دونوں جماعتوں کی تعداد کو مد نظر ر کھا جائے تو اگرچہ احمدیوں کی تعداد سیکھوں سے بہت تھوڑی ہے.لیکن انہوں نے جو بے لوث خدمت دونوں عالمگیر جنگوں میں -|
مهر انجام دی ہیں وہ کسی طرح بھی سکھوں کی خدمت سے کم نہیں.قادیان نے نہیں کی آبادی ۱۴۰۰۰ ہے دوسری عالمگیر جنگ کے موقع پر فوج کے لئے ۱۴۰۰ رنگروٹ نہیں کئے.جماعت احمدیہ اگرچہ ایک چھوٹی سی جماعت ہے لیکن ۲۰۰ سے زائد احمدیوں نے شاہی کمیشن حاصل کیا ( ملاحظہ ہو ضمیمہ نمبر ۳ ) اس لحاظ سے اگر تعداد کی نسبت کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تو احمدیہ جماعت ہندوستان کی تمام جماعتوں سے اول نمبر یہ آتی ہے.بنیسیوں احمد کی والدین نے اپنے تمام بالغ باٹوں کو اپنے واتسب الاحترام امام کے فرمان پر لبیک کہتے ہوئے جنگی خدمات کے لئے پیش کر دیا.ذیل کے دو اقتباسات النا خدمات پر سبو احمد کا احباب نے جنگ کے موقع پر سر انجام دی ہیں بطور بلیغ شہادت کے پیش کئے جا سکتے ہیں.میں آپ کے نوٹس میں وہ عظیم الشان کام لانا چاہتا ہوں جو ہر ہائی نس مہاراجہ صاحب پٹیالہ اور ان کے افسران ، نیز کنیر حس جیت سنگھ اور سید زین العابدین ولی اللہ شاہ ناظر اور عامہ و خارجہ جماعت احمدیہ قادیان اور سردار کرتار سنگھ دیوانہ نے ٹیکنیکل بھرتی کے سلسلے میں کیا ہے.میں چاہتا تھا کہ پُر زور سفارش کرتا کہ ان کی خدمت میں سنہری گھڑیاں بطور انعام پیش کی جائیں.لیکن یہ چونکہ بزرگ ہستیاں ہیں میں صرف اسی پر اکتفاء کرتا ہوں کہ ڈائریکٹر آف ریکروٹنگ ان کی قابل قدر خدمات اور امداد کے اقرار کا اعلان فرما دیں.اقتباس از خط بصیغه را از مورخه ۲۶ از اسے کی.آر او جالندھر بنام ڈی ٹی.آر.او سب امیر یا نمبر ۲ لاہور ) تیز کیپٹن سجان سنگھ صاحب اسسٹنٹ ٹیکنیکل ریکوڈنگ آفیسر بجالندھر چھاؤنی سیکرٹری امور عام و مخارجہ جماعت احمدیہ قادیان کو نکھتے ہیں :.میں شکریے کے ساتھ آپ کی ان بے بہا خدمات کا اعتراف کرتا ہوں جو آپ نے مکینیکل آدمیوں کی بھرتی کے سلسلے میں سرانجام دی ہیں.آپ نے جنگی کوششوں میں گہری دلچسپی لی ہے اور ایک بڑی تعداد کا ریگروں ، کارکوں ! در جنگی کاموں کی تربیت لینے والے نوجوا لوں کی مہیا کی ہے اور آپ نے پبلک میں اپنے ذاتی اثر و رسوخ سے بھی کام لیا ہے اور محکمہ بھرتی کے سٹاعت سے فراخدلی کے ساتھ تعاون کیا ہے.مجھے اس امداد کا بھی اعتراف
ہے کہ جو آپ کے مقامی سکرٹریوں اور معاونین کی طرف سے میرے حلقہ میں ہر جگہ مجھے علی ہے.آپ کی کوششوں کے نتیجے میں قریباً سات ہزار رنگروٹ فوجی خدمات کے لئے بھرتی ہوئے ہیں.مجھے بڑی خوشی ہوگی.اگر آپ اپنے ماتحتوں کو ہدایت جاری کر دیں کہ وہ اپنی کوششوں کو دو چند کر دیں تاکہ ہم اتنی ہی مدت میں پہلے سے دُگنے رنگروٹ حاصل کرنے میں کا میاب ہو جائیں.میں یقیناً امید رکھتا ہوں کہ آپ آئندہ بھی اسی طرح جاری رکھیں گے" رڈی او نمبر جے ایم / ۲۹۳۶۱۱۷ دفتر ٹیکنیکل بھرتی جالندھر مورخه ۱۲ پریل سخن ) اس خط میں صرف ان احمدی رنگروٹوں کا ذکر ہے جو کہ اپریل ۱۹۳۳ مر تک پنجاب کے صرف ایک ڈویژن میں بھرتی ہوئے تھے.اگر دوسرے ڈویژنوں اور بعد میں بھرتی ہونے والے رنگروٹوں کو شامل کیا جائے تو تعداد ۱۵۰۰ سے بہت زیادہ ہو جائے.پس ہمارے نزدیک اگر سکھوں کی خدمات ان کو پنجاب کی تقسیم میں کسی قسم کے خاص لحاظ کا حقدار بنا دیتی ہیں تو جماعت احمدیہ بھی اپنی خدمات کے عوض اسی طرح کے لحاظ کی حقدار ہے.یہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ سکھوں کی مقدمات کا اور طرح سے بھی بدلہ دیا جاتا رہا ہے لیکن جماعت احمدیہ نے کبھی اپنی خدمات کے عوض کسی بدلے کی خواہش نہیں کی ہے.قادیان ایک شہر ہے.اس لئے شہر کے مطالبات کو ارد گرد کے کسی ایک دہ یا کئی دیہات کے مطالبات پر ترجیح ملنی چاہئیے.الغرض آبادی کے تسلسل کے علاوہ دیگر اس قدر امور قادیان کے اس مطابعے کے حق میں ہیں کہ اسے مغربی پنجاب میں شامل کیا جائے کہ کسی صورت میں بھی اس کے خلافت کوئی اور مطالبہ قابل غور قرار نہیں دیا جا سکتا.اس جگہ ہم ایک اور امر کی بھی تردید کر دینا ضروری خیال کرتے ہیں جن کی بناء پر کہا جاتا ہے کہ گورداسپو کو مغربی پنجاب میں شامل کرنا ممکن نہیں.بعض سرکاری حلقوں میں یہ کہا سجا رہا ہے کہ اقتصادی زندگی اور ذرائع رسل و رسائل کے پیش نظر اس ضلع کا الحاق مشرقی پنجاب سے ہونا چاہئیے مگر یہ خیال درست نہیں کیونکہ آبادی کی اکثریت کے بنیادی اصول کو نظرانداز کرنا بونڈری کمیشن کے اختیارات اور مفوضہ فرائض سے باہر ہے.یہ
۴۱۰ کمیشن اس لئے مقرر نہیں کیا گیا ہے کہ پسماندہ آبادیوں کے مفاد کی حفاظت کرے اور یہ فیصلہ کرے کہ ان کی صحیح ضروریات کیا ہیں.اس کے ذمہ یہ کام ہے کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے مسلسل اکثریت والے علاقوں کی تعین کر کے ان کے درمیان حد فاصل قائم کرے.اور اگر اس سے اس ضلع کے باشندوں کو کوئی تکلیف ہو تو یہ صرف گورداسپور کے ضلع کی اکثریت کا کام ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ آیا وہ اس تکلیف کو بروشورات کرنے کے لئے تیار ہے کہ اس کے راستے غیر ملک میں سے گزریں.اور اگر وہ اسے برداشت کرنے کے لئے تیار ہوں تو کسی اور کو اعتراض کرنے کا حق نہیں پہنچتا اور نہ اُن کے اس حق سے انکار کیا جا سکتا ہے کہ وہ جس طرح چاہیں اُسے استعمال کریں.علاوہ ازیں یہ کوئی نا قابل بحل مشکل بھی نہیں ہے جیسا کہ اُن ممالک کے عمل سے ظاہر ہے جہاں کامیابی سے اس وقت کو حل کیا گیا ہے.اس قسم کا ایک مسئلہ اس بونڈری کمیشن کو بھی درپیش تھا جسے لیگ آف نیشنز نے شام اور عراق کی حد بندی کے لئے مقرر کیا تھا کیونکہ عراق کی مجوزہ ریلوے لائن کا ایک حصہ مجبوراً شام کے بعض حصوں میں سے ہو کر گزرتا تھا.عراق اس وقت انگریزوں کے زیر حکومت تھا اور شام فرانسیسیوں کے یکمیشن نے اس کا جو حل تجویز کیا وہ یہ تھا :.اگر انگریزی ریلوے لائن کے کسی حصے کا بعض ٹیکنیکل وجوہات کی بناء پر فرانسیسی علاقے میں سے گزرنا ناگزیر ہو تو اس صورت میں فرانسیسی حکومت کیسے حصے کو جو ان کے علاقے میں واقع ہوگا.پورے طور پر اس مقصد کے لئے غیر جانبدار علاقہ قرار دے دے گی.کہ انگریزی حکومت اور اس کے ٹیکنیکل ماہرین کو ریلوے ضروریات کے لئے وہاں تک پہنچتے میں پوری پوری سہولتیں بہم پہنچائے " اس حوالے کو درج کرنے کے بعد مسٹر سٹیفن بی جو نہ اپنی کتاب موسومه MAKING میں لکھتے ہیں :- BOUNDRY یہ عبارت بتاتی ہے کہ آمد و رفت کے ذرائع کی دعدت حدود میں تبدیلی کئے بغیر بھی قائم رکھی جاسکتی ہے.مختلف قسم کی غیر علاقوں میں آمد و رفت کے حقوق کا جن میں گلوں کی موسمی نقل و حرکت بھی شامل ہے عہد و پیمان کے ذریعے تصفیہ کر لیا جاتا ہے" پس اگر لاہور سے نگروٹہ تک ریلوے لائن مغربی پنجاب کے حصے آئے یا مشرقی پنجاب کے حصے
میں، اس لائن کا امرتسر سے نگروٹہ تک کا ٹکڑا آئے یا ہر ایک اس حصے پر ہی قابض ہو جو اس کے علاقے میں سے گزرتی ہے بہر صورت اس مشکل کو آپس میں تصفیے کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے.پس صرف اس مشکل کی بناء پر اکثریت کی خواہشات کو ٹھکرانے اور اس علاقے کو پنجاب کے دوسرے حصہ میں شامل کرنے کی چنداں ضرورت نہیں.اگر ایسا سمجھو تہ ممکن نہ ہو تو گورداسپور کے ضلع کو براہ راست پاکستان سے اس طرح ملایا جا سکتا ہے کہ بٹالے سے چھوٹی سی ریلوے لائن ڈیرہ بابا نانک تک بنا دی بھائے جو پہلے ہی نارووال کے راستے پاکستان سے ملا ہوا ہے.اب ہم اس سوال پر غور کرنا چاہتے ہیں کہ آبادی کی اکثریت کی بنا پر گورداسپور کو مغربی پنجاب سے الحاق کا جو حق پہنچتا ہے اس کے علاوہ بھی اور دیگر امور ایسے ہیں جن سے اس حق کی تائید ہوتی ہے.- اول امر تسر کو مشرقی پنجاب میں شامل کر کے قدرتی بعد وذ کے اصول کو نظر انداز کر دیا گیا ہے.صرف ایک ہی وجہ ہو سکتی ہے جس کی بناء پر ایسا کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ کمال کے باشندوں کی اکثریت کی خواہشات کا خیال رکھا گیا ہے.لیکن اس طرح سے مشرقی پنجاب کو یہ موقع دیا گیا ہے کہ وہ اپنے فوجی انتظامات کو دریائے بیاس سے پرے تک اس علاقے میں لے جائیں جو بھائز طور پر مغربی پنجاب کا ہے.اب اگر با وجود اس امر کے کہ وہاں اکثریت مسلمانوں کی ہے اگر گورداسپور کا ضلع یا اس کا کوئی حصہ بھی مشرقی پنجاب میں شامل کر دیا جائے تو یہ نہ صرف اکثریت کی خواہشات کی قربانی ہو گی بلکہ اس کی مدد سے مشرقی پنجاب امرتسر کو آسانی سے مغربی پنجاب پر حملہ آور ہونے کے لئے بطور مرکز استعمال کر سکتا ہے.اس کے تو یہ معنی ہوں گے کہ مغربی پنجاب کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اسے مشرقی پنجاب کے حوالے کر دیا جائے.بیشک اس وقت ہندوستان اور پاکستان دونوں اعلان کر رہے ہیں کہ ان کا ارادہ پُر امن ہمسائیوں کی طرح رہنے کا ہے.لیکن اس بات کی گارنٹی نہیں دی جاسکتی کہ آئندہ دونوں ملکوں کے درمیان الجھنیں پیدا نہ ہوں گی.اس لئے دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کے امکان کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیئے.پس اگر ضلع گورداسپوریا اس کا کوئی حصہ مشرقی پنجاب میں شامل کر دیا گیا تو جنگ کی صورت میں امرتسر جنگی کارروائیوں کا بڑا مرکز بن بھائے گا اور چونکہ وہاں سے مغربی پنجاب کا دارالحکومت مدرن
۴۱۲ ۱۸ میل کے فاصلے پر واقع ہے اس لئے یہ مغربی پنجاب کے خلات فوجی دباؤ کے لئے بہترین مقام بن جائے گا.اس لئے اس نکتہ نگاہ سے لاہور کے تحفظ اور مغربی پنجاب کے تحفظ کے لئے جس کا لاہور صدر مقام ہے یہ نہایت ضروری ہے کہ گورداسپور کا ضلع مغربی پنجاب میں شامل ہو تاکہ دریائے بیاس کے اس طرف ہو مشرقی پنجاب کے علاقے ہیں ان کو پاکستان پر جب اور جس وقت چاہیں حملہ کرنے کی کھلی چھٹی نہ مل جائے لیکن اگر امرتسر کے علاوہ گورداسپور کا ضلع بھی مشرقی پنجاب میں شامل کر دیا گیا تو فوجی نقطہ نگاہ سے پوزیشن بالکل بدل جائے گی اور اس صورت میں مشرقی پنجاب نہ صرت ناہوں کی شہ رگ کے قریب اور اس لئے تمام مغربی پنجاب کی شہ رگ کے قریب اپنی مضبوط فوجی چوکیاں قائم کرنے کے قابل ہو جائے گا بلکہ ضلع گورداسپور کے ملحقہ علاقے میں نقل و حرکت کے لئے جگہ مل جائے گی.اور یہ امر مغربی پنجاب کے تحفظ کے لئے ایسا خطرہ ہوگا جو اس کے سارے دفاعی نظام کو مفلوج کرنے کا موجب ہو سکے گا.اس لئے مغربی پنجاب کا حق ہے کہ وہ گورداسپور کے ضلع کو جو مسلم اکثریت کا ضلع ہے (اور یہ اکثریت مغربی پنجاب میں شامل ہونا چاہتی ہے) اپنے میں شامل کرنے پر مصر ہو کیونکہ یہ اس کے مشرق سے حملہ کے خلاف دفاعی نظام کے لئے نہایت ضروری ہے.نیز حدود کی تعیین میں جھگڑوں کو طے کرنے کے لئے یہ منصفانہ اصول تسلیم شدہ ہے کہ جہاں کوئی متنازعہ فیہ علاقہ ایسی جنگی پوزیشن کا حامل ہو کہ ایک دعوی دار ملک کے لئے اس کا حصول مدافعہ حیثیت سے ضروری ہو اور دوسرے کے لئے جارحانہ حیثیت سے اور باقی امور د ونواں کے لئے یکساں ہوں تو اس فریق کے دعوئی کو ترجیح دی جائے گی جس کے لئے اس کی اہمیت مدافعانہ پہلو سے ہے.- گورداسپور کے مسلمانوں کی اکثریت بھاٹ قوم سے تعلق رکھتی ہے جس کا بیشتر حصہ مغربی پنجاب کے اضلاع سیالکوٹ شیخو پورہ ، لائلپور اور لاہور میں بستا ہے.اس لئے گورداسپور کے مسلمانوں کو ایسے علاقے سے جدا نہیں کرنا چاہیئے جس میں ان کی ذات کی اکثریت آباد ہے.بیشک انبالے کی کمشنری میں بھی بھاٹ آباد ہیں لیکن وہ اکثر ہندو ہیں اور گورداسپور کے جانوں سے ان کا کوئی تعلق نہیں.پس گورداسپور کے ضلع کو مغربی پنجاب سے بھدا کرنے سے گورداسپور کے مسلمانوں کی سماجی زندگی کے راستے میں نا قابل حل مشکلات حائل ہو جائیں گی.
۴۱۳ گورداسپور میں جو زبان بولی جاتی ہے جہاں وہ لاہور ، سیالکوٹ اور دیگر ملحقہ علاقوں مثلا شیخو پوره اور گجرانوالہ کی زبان سے بہت ملتی ہے وہاں یہ اس زبان کے مشابہ نہیں ہے جو مشرقی اضلاع میں بولی جاتی ہے.اس زبان کے بولنے والے لوگوں کی اکثریت چونکہ مغربی پنجاب میں رہے گی اس لئے گورداسپور کے مسلمان بھی اسی طرف سجانے بھا ئیں آخر میں ہم قدرتی حدود کی خوبیوں اور نقائص کے متعلق کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں.جہاں وہ قدرتی روک کا کام دیتی ہیں اور ان کا تحفظ آسانی سے ہو سکتا ہے.تجربہ یہ بھی بتاتا ہے کہ وہ اکثر کئی قسم کے تکلیف دہ تنازعات کا دائمی موجب بھی بن جاتی ہیں.مثال کے طور پر جہاں کہیں دریا دو ملکوں کے درمیان حد فاصل ہوتا ہے تو جب بھی اس میں طغیانی دیہاتی علاقہ کو متاثر کرتی ہے یا یه اپنا راستہ بدل لیتا ہے.متاثرہ علاقے کی ملکیت کے متعلق جھگڑا شروع ہو جاتا ہے.اسی طرح جب مقامی بیند تعمیر کرنے کا سوال در پیش ہو تو پھر بھی بڑی دقت کا سامنا ہوتا ہے.علاوہ ازیں ماہی گیری اور جہاز رانی سے متعلقہ حقوق کے جھگڑوں کا ایک سلسلہ لامتناہی پیدا کرنے کا باعث ہوتے ہیں.اس لئے ہم یہ سفارش کرتے ہیں کہ اگر کہیں دریا کو حد فاصل بنانے کا فیصلہ ہو تو لمبائی کی بجائے اس کی تقسیم چوڑائی کے اعتبار سے ہونی چاہیے اس طرح سے اس قسم کے جھگڑوں کے مواقع میں بہت حد تک کمی ہو جائے گی.آخر میں ہم خدا تعالیٰ سے دست بدعائیں کہ وہ کمیشن کے ممبروں کی رہنمائی فرمائے اور انہیں ایسے فیصلے کی توفیق دے جس سے تمام متعلقہ علاقوں کی آبادی کے تمام عناصر مطمئن ہوسکیں اور ساتھ ہی ہماری یہ بھی دُعا ہے کہ خدا وند کریم ہمارے سمیت ان تمام لوگوں کی بھی رہنمائی فرمائے جو اپنے خیالات کو کمیشن کے سامنے رکھ کر اس کی مدد کی کوشش کر رہے ہیں.خدا کرے کہ اس بحران میں ہمارا مقصد قیام امن ، خدمت خلق اور اللہ تعالے کی خوشنودی ہو.-۱- مرزا بشیر احمد ایم.اسے ناظر اعلی جماعت احمدیہ قادیان - عبدالرحیم درد ایم اے سابق امام مسجد لنڈن ناظر تعلیم و تربیت جماعت احمدیہ قادیان -۳- مرزا عزیز احمد ایم.اسے ناظر دعوت و تبلیغ جماعت احمدیہ قادیان ن ۴- سید زین العابدین ولی الله شاه سابق پر تیرا یار نامور ادارات الحمید قارتا
۵- عبد الباری بی.اے آنرز ناظر بیت المال جماعت احمدیہ قادیان 4.قاضی محمد عبد اللہ بی.اے ناظر ضیافت جماعت احمدیہ قادیان شیر علی بی.اسے ناظر تالیف و تصنیف جماعت احمدیہ قادیان فتح محمد سیال ایم.اے ، ایم ایل اے نائب ناظر دعوت و تبلیغ جماعت احمدیہ قادیان ممبران صدر انجمین احمدیہ قادیان میمورنڈم کے آخر میں تین ضخیمے بھی شامل کئے گئے.پہلا ضمیمہ مندرجہ ذیل کچھ اہم نقشوں پر مشتمل تھا جنہیں باونڈری ایکسپرٹ مسٹر پیٹ کی رہنمائی میں نہایت محنت و کاوش سے تیار کیا گیا تھا.- نقشہ پنجاب ( تحصیل کو تقسیم کا یونٹ قرار دینے کی صورت میں) -۲- نقشہ ضلع گورداسپور و تحصیل کو تقسیم کا یونٹ قرار دینے کی صورت میں) ر تھانہ ر حلقه قانونگو.ا ذیل l " نقشه اضلاع گورداسپور ، امرتسر اور سیالکوٹ کے بعض حصوں کا (بعد میں شامل کیا گیا) دوسرے نیجے میں پاکستان (بشمول حلقہ قادیان ، گورداسپور ، جموں کشمیر میں موجود ۱۵۴۷ احمدی جماعتوں کی فہرست دی گئی تھی.اور تیرے ضمیمہ میں اُن ۱۹۹ احمدی افسروں کی فہرست درج تھی جنہیں جنگ عظیم ثانی میں شاہی کمشن دیا گیا تھا.ار جولائی سے ہار کو مختلف جماعتوں کے محضر تا ہے حضرت مصلح موعود کی لاہور میں تشریف آوری حد بندی کمیشن کو پہنچ گئے جس کے دو روز بعد ان کے وکلار کی بحث کا آغاز ہو گیا.یہ موقعہ مسلمانان ہند کے لئے عموماً اور جماعت احمدیہ کے لئے خصوصا زندگی اور موت کے سوال کی حیثیت رکھتا تھا.اس لئے حضرت سیدنا المصلح الموعود مع خدام کمشن کی کارروائی دیکھنے اور سننے کے لئے ۲۲ جولائی شئے کو صبح کی گاڑی سے لاہور تشریف لے گئے اور پانچ دن کے قیام کے بعد له الفضل " ۲۳ ، وفا / جولائی میں صفحہ 11.ه
۴۱۵ جولائی کا کو تو بے صبح کی گاڑی سے وارد قادیان ہوئے.مگر اگلے روز (۲۸ جولائی کو دوبارہ معد قدام ک بجے صبح بذریعہ کارلاہور تشریف لائے اور لیگ کے کیس کی بحث مکمل ہونے کے بعد اس جوانائی کو بدر عید الله کار کے بجے شام قادیان کہنچ گئے.الغرض حضور نے ایوارڈ کی کارروائی بچشم خود ملاحظہ فرمائی.حضرت صلی وجود کا ایک اشان فرمودہ جماعت امیہ کے پرانے ریکارڈ ے معلوم ہوتاہے کہ سیانا صرت خليفة السيح الثاني المصلح الموعود نے د راگست مکاء کو باؤنڈری نوٹ باؤنڈری کین سے حلق کمیشن ایوارڈ کے تعلق میں مولانا عبد الرحیم صاحب درد ایم.اسے کے لئے جو حضور انور کے خصوصی نمائندہ کی حیثیت میں ان دنوں قائد اعظم محمد علی جناح سے ملاقاتیں کر رہے تھے حسب ذیل نوٹ لکھوایا :- اگر ا پر باری چناب نہر کا نظام علاقہ کو آبادی کی بناء پر تقسیم کرنے پر روک ہے اور اس کی وسبر سے مسلمانوں کی کثرت آبادی کو قربان کرنے کا خیال پیدا ہو رہا ہے تو بیشک مسلمانوں کی اکثریت والے رقبہ کے حصہ نہر کو بند کر دیا جائے.وہ اس نقصان کے باوجود اپنی آبادی کی اکثریت والے علاقہ کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں اور نہر کے لئے اپنی آزادی کو قربان نہیں کرنا چاہتے.ضلع گورداسپور کو نہر کا حصہ اتنا قلیل لگتا ہے یعنی وہ کل رقبہ زیرہ کاشت قریباً ساڑھے نوں کو ایکیا کے مقابلہ پر صرف ایک لاکھ پندرہ ہزار کے قریب ہے) اور پھر اس نہری حقہ میں بھی مسلمانوں کا بہت معقول حصہ ہے.پس غیر مسلموں کے اتنے قلیل نہری حصہ کی وجہ سے جو ضلع کے رقبہ کا ایک بالکل مفید جز ہے.تحصیل بٹالہ و گورداسپور کو جیس میں مسلمانوں کی مجموعی اکثریت قریباً ہو ہے قربان نہیں کیا جا سکتا مسلمانوں کی یہ اکثریت عیسائی آبادی کو ملا کر جو مسلمانوں کے ساتھ ہے قریباً ، 4 عمر ہو جاتی ہے.ضلع لاہور اور مضلع گورداسپور جو مسلم اکثریت کے ضلع ہیں.ان میں شہری علاقہ قریباً ساڑھے والا کھ ایکڑ ہے.اس کے مقابل پر امرتسر کے ضلع میں صرف چار لاکھ ایکڑ نہری رقبہ ہے پس ڈبل رقبہ کو نصحت رقبہ کے تابع نہیں کیا جاسکتا جبکہ ضلع امرتسر کی تحصیل اجنالہ بھی مسلم اکثریت کا علاقہ ۲۸ 1 الفضل وفا جولائی ۳ سایت صفحہ : سے " الفضل " ۲۹ و قام جولائی مش صفحه ۸ + ۳۲ +1912 که " یکم ظہور / اگست
ہے اور ضلع امرت سر کے ساڑھے چار لاکھ نہری ایکڑوں میں اجنالہ کا بھی معقول حصہ شامل ہے اگر پھر بھی امرت سر کے ضلع کو اہمیت دینی ضروری سمبھی بھائے تو گورداسپور کے نہری پانی کو بقیہ نہری پانی سے الگ کر دیا جائے اور اس تبدیلی پر سجو خرچ ہو وہ مغربی پنجاب سے لے لیا جائے.اسی طرح لاہور کی نہر بھی اجتنالہ کے واسطے سے الگ ہوسکتی ہے جو پانی قصور کی طرف امرت سر کی طرف سے جاتا ہے وہ اجنالہ کے نہری پانی کی مقدار بڑھا کر لاہور کی طرف سے تصور کی طرف منتقل کیا جا سکتا ہے بغیر اس کے کہ امرت سر کے پانی کو کوئی نقصان پہنچے.یہ خیال رہے کہ ضلع امرت سر کی تحصیل اجنالہ میں مسلم اکثریت ہے اور تصور میں تقسیم کئے جانے والے پانی کو اس تحصیل کے ذریعہ سے تحصیل ہہور میں سے گزارا بجائے تحصیل لاہور کا پانی پہلے سے ہی اس نہر کے ذریعہ سے ہی بھاتا ہے.اگر کسی وجہ سے یہ صورت بھی تسلی بخش نہ سمجھی بھائے تو جہاں تک نہر کے انتظام کا تعلق ہے یہ انتظام مشرقی اور مغربی پنجاب کی حکومتوں کا مشترکہ رکھا جا سکتا ہے.اسی طرح آبادی کی اکثریت کو قربان کرنے کے اخیرا یک صورت پیدا کی جاسکتی ہے اور اس قسم کے انتظام یورپ کے کئی ممالک میں دریاؤں کے متعلق کئے بھا چکے ہیں..اسی طرح جہاں ریلوے لائن کے بارہ میں اس قسم کی دقت ہو اور ریل کا راستہ بدلا نہ جاسکے تو متعلقہ حصہ میں ریل کا انتظام بھی دونوں حکومتوں کو مشترکہ طور پر دیا جا سکتا ہے مگر کثرت آبادی کو دوسری قوم کے ماتحت کر کے تباہ نہیں کرنا چاہیئے.4.اوپچہ کے اصولوں میں سے جو اصول بھی اختیار کیا جائے وہ مسلمانوں اور غیر مسلمانوں پر کیاں طور پر چپ یاں ہونا چاہیے.یہ نہیں کہ ایک جگہ غیر مسلموں کو اس سے فائدہ پہنچتا ہو تو اس کو استعمال کر لیا جائے مسلمانوں کو فائدہ پہنچتا ہو تو چھوڑ دیا جائے.- اگر بہر حال سیکھوں کو خوش کرتا ہے تو بٹالہ تحصیل کا وہ حصہ جو دریائے بیاس پر واقع ہے.کوئی چار پانچ میں چوڑا اور اتنا لمبا کہ سری گوبند پور اس میں آجائے ضلع امرتسر میں ملا دیا جائے اسی طرح بٹالہ تحصیل کے بقیہ حصہ میں مسلمانوں کی آبادی کی نسبت اور بھی بڑھ جائیگی جو ویسے بھی یہ آبادی سالم تحصیل میں ۵۵ بر ہے.اسی طرح پٹھانکوٹ کی تحصیل کا وہ حصہ جو
۴۱۷ اپر باری دوآب کی نہر سے اُوپر کی طرف واقع ہے مسلم لیگ کی تجویز کے مطابق کاٹ کو مشرقی پنجاب کے ساتھ ملایا جا سکتا ہے.اسی طرح ضلع گورداسپور کے بقیہ حصہ میں مسلم اکثریت جو پہلے ہی منقول ہے اور بھی زیادہ ہو جائے گی.و جو اعداد و شمار صدر صاحب کے سامنے بغیر ہمارے علم میں آئے پیش کئے بھائیں وہ ہمیں بھی دکھائے جائیں کیونکہ کمیشن کے سامنے یہ امر ثابت ہو چکا ہے کہ جو اعداد و شمار اس وقت افسران نے تیار کئے ہیں وہ تحقیق پر غلط ثابت ہوئے ہیں چنانچہ لاہور کے غیر مسلم زمینداروں کی تعداد غلط ثابت ہوئی.اسی طرح گورداسپور کے غیر مسلم زمینداروں کے اعداد و شمار تلفظ امان ہو چکے ہیں.اسی طرح شیخو پورہ کی دو قبیلوں کی غیر مسلم آبادی زیادہ بتائی گئی تھی یہ بھی تحقیق پر غلط ثابت ہوئی.یہ سب اعداد و شمار سہندو افسروں نے تیار کئے تھے.پس ہو سکتا ہے کہ کوئی پرائیویٹ نقشہ یا اعداد و شمار ہو پریذیڈنٹ تیار کر وائے اس کے سامنے غلط نقشہ یا اعداد و شمار پیش کر دیئے بھائیں.پس ایسا نقشہ یا اعداد و شمار ہمیں دکھا لینے چاہئیں تاکہ ہم اپنا اعتراض پیش کر سکیں.جماعت احمدیہ کے موقف کی وضاحت حد بندی کمیشن کے سامنے اور جولائی سے لے کر جناب شیخ بشیر احمد صاحب ایڈوکیٹ کی طر سے سرجانی تک پہلے سٹریس سواد ربمبئی کے مشہور بیرسٹر) نے ہندوؤں کے نقطہ نگاہ کی ۲۴ وضاحت کی.پھر سردار ہرنام سنگھ صاحب نے سکھوں کا کیس پیش کیا.۲۵ جولائی سے لے کر ہر جولائی تک کے اجلاس مسلم لیگ کے لئے مخصوص رہے مسلم لیگ کی ہائی کمان نے اپنے وقت میں سب سے پہلے جناب شیخ بشیر احمد صاحب بی.اے ایل ایل بی ایڈووکیٹ ہائی کورٹی لاہور کو جماعت احمدیہ کا خوف پیش کرنے کا موقعہ دیا.جناب شیخ صاحب موصوف نے ۲۵ اور ۲۰۱۶ جولائی کے اعلاسوں میں نہایت عمدگی اور قابلیت سے جماعت احمدیہ کی نمائندگی کی جس کی تفصیل باؤنڈری کمیشن کے انگریزی ریکارڈ میں محفوظ ہے.آپ کی اس یادگار، اور نا قابل فراموش بحث کا مکمل اردو ترجمہ درج ذیل کیا جاتا ہے.۲۵ جولائی ۱۹۴۷ مد اس کے بعد مکرم شیخ بشیراحمد صاحب ایڈووکیٹ جماعت احمدیہ کی طرف سے پیش ہوئے.آپ نے فرمایا.
NIA میں اپنے بیان اور دلائل کو صرف اس معین معاملہ تک محدود رکھنا چاہتا ہوں کہ قادیان کو درجو جماعت احمدیہ کا مرکز ہے، مغربی پنجاب میں شامل کیا جائے.جناب سر محمد ظفر اللہ خال صاحب جو مسلم لیگ کی طرف سے سینٹر وکیل اور مختار اعلیٰ ہیں آپ کے سامنے ان امور پر بحث فرمائیں گے جو جغرافیائی ، اقتصادی اور بعض دوسری بنیادوں پر غیر مسلموں کی طرف سے پیش کئے گئے ہیں.اس میں کوئی شک نہیں کہ ضلع گورداسپور کا معاملہ بھی ان اضلاع میں سے ہے جن کے متعلق اس کمشن کے سامنے بڑی سرگرمی سے بحث ہوتی رہی ہے.لیکن جماعت احمدیہ اور مسلم لیگ کے مابین بعض پہلو مشترک ہیں اور جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا ہے اُن کا ذکر ہیں اس لئے چھوڑ رہا ہوں کہ جب سر محمد ظفراللہ صاحب مسلم لیگ کا موقف آپ کے سامنے پیش کریں گے تو اس بحث میں وہ امور اور مشترک پہلو لازماً آجائیں گے.اب جیسا کہ میں نے کمشن کا دائرہ کار اور اس کے مقاصد آپ کے سامنے پڑھ کر سُنائے میں کمشن کا کام یہ ہے کہ وہ مغربی اور مشرقی پنجاب کے درمیان ان حدود کی تعیین کرے جو مسلمانوں اور غیر مسلموں کے اکثریت والے علاقوں کی بنیاد پر حد فاصل کے طور پر کام دے سکیں..ایسا کرتے ہوئے نہیں لاز ما فیض دوسرے عناصر کو بھی ملحوظ رکھتا پڑے گا.چنانچہ حدود کی تعیین کے نہایت اہم مقصد کے پیش نظر میں پڑے ادب کے ساتھ یہ بنیادی اور مرکزی اصول آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں کہ " آبادی کی اکثریت ہی دراصل وہ بنیاد ہے جس پر حدوں کی تعیین منحصر ہے.باقی تمام امور کسی نہ کسی رنگ میں اسی ایک بنیادی اصول کے ماتحت آجاتے ہیں.اور اسی بنیادی اصول کو میں اپنے اس دعوی کی بنیاد قرار دیتا ہوں کہ قادیان کو مغربی پنجاب میں شامل کیا جائے.سب سے پہلی بات جس سے اس دعویٰ کی تصدیق ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ قادیان اس علاقے میں شامل ہے جو مسلم آبادی کی اکثریت والا علاقہ ہے اور جس کی سرحدیں مغربی پنجاب کے اصل علاقے سے ملتی ہیں.اس غرض کے لئے میں آپ کی خدمت میں وہ نقشہ پیش کرنا چاہتا ہوں جو جماعت احمدیہ کی طرف سے پیش کردہ میمورنڈم کے ساتھ شامل کیا گیا ہے.آپ اس میں ملاحظہ فرمائیں گے کہ تحصیل بٹالہ جسے سبز رنگ دے کر مسلمانوں کی اکثریت والا علاقہ دکھایا گیا ہے اس میں قادیان شامل ہے.پھر جو عام مسلم اکثریت والا علاقہ ہے اس کے ساتھ ہی تحصیل بٹالہ کی حدود ملتی ہیں.آپ خواہ تقسیم کے کسی اصول کی
۴۱۹ بنیاد پر اس کو ملاحظہ فرمائیں.یعنی خواہ تحصیل یا ذیل کے علاقے کے طور پر یا تھانے اور قانونگو کے حلقہ کے طور پر.آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ علاقہ بہر حال مسلم اکثریت والے علاقے میں شامل ہے اور قادیان جغرافیائی طور پر یہ صورت اسی مسلم اکثریت والے علاقے میں ہی واقع ہے ہیں تو کہوں گا کہ اور سب باتوں کو بجانے دیجئے، صرف یہی دلیل کہ قادیان اُس علاقے میں شامل ہے جو مسلم آبادی کی اکثریت والا علاقہ ہے اور جبیں کی سرحدیں اس علاقے کے ساتھ بالکل متصل ہیں جو مغربی پنجاب کا اصل علاقہ ہے، یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ قادیان کو مغربی پنجاب کے ساتھ شامل ہونا چاہئیے.مگر اس کے علاوہ بعض اور پہلو بھی قابل غور ہیں چین سے مندرجہ بالا دعویٰ کی تصدیق ہوتی ہے تحصیل اجنالہ اور تحصیل نارووال کے علاقے تحصیل بٹالہ کے ساتھ بالکل ملے ہوئے ہیں اور ضلع گورداسپور کی تمام تحصیلوں میں صرف تحصیل بٹالہ ہی ایسی تحصیل ہے جہاں مسلمانوں کی اکثریت نہایت نمایاں اور واضح ہے.یہاں مسلمانوں کی آبادی ۵۵۱۶ فیصدی ہے تحصیل نارووال میں مسلم آبادی ۵۴۱۹۳ فیصد می ہے اور تحصیل اجنالہ میں ۴۶ ۵۰۱ فیصدی ہے.یہ تمام اعداد و شمار سرکاری ہیں اور آپ خود ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ تحصیل بٹالہ کے ساتھ ملنے والی دونوں تحصیلوں میں مسلم اکثریت ہے.پس اگر اکثریت والی تحصیلوں کی باہمی سرحدات کو ہی بنیاد قرار دیا جائے تب بھی یہ ماننا پڑے گا کہ قادیان جو تحصیل بٹالہ میں واقع ہے اور جس میں واضح طور پر مسلمانوں کی اکثریت ہے مغربی پنجاب کے ساتھ شامل ہونے کا پورا حق رکھتا ہے.میں نہایت ادب سے عرض کروں گا کہ فریق مخالف کے وکلا رنے آپ کا خاصا وقت صرف میں بحوث میں صرفت کیا کہ بعض دوسرے عناصر ہیں جن پر غور کیا جانا ضروری ہے مگرمیں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ تقسیم اور مدد کی تعیین کا معاملہ صرف اور صرت آبادی کی اکثریت پر منحصر ہے.مخالف و کلار "اکثریت والے علاقوں کی متصل سرحدات " پر تو بحث کرتے رہے لیکن جسٹس محمد منیر: کیا آپ نے اس نقطہ نظر بھی غور کیا ہے جس کی بناء پر آپ کے مخالف وکلا ر نے اُس علاقے کو مسلم اکثریت والا علاقہ " قرار نہیں دیا جسے آپ مسلم علاقہ " کہہ رہے ہیں.اس کے تعلق آپ کیا کہنا چاہتے ہیں ؟ شیخ بشیر احمد جناب والا! مجھے علم ہے کہ اس علاقہ میں کچھ تھوڑا سا حصہ غیر مسلموں سے بھی آباد ہے
۲۰ اور بعض دوسری قوموں کے لوگ بھی کچھ رتبے پر سکونت رکھتے ہیں لیکن جب ایک واضح اکثریت ہمارے سامنے ہو تو ایک معمولی سے حصّے پر قابض اثلیت اس کے مقابلے پر کوئی حقیقت نہیں رکھتی اور پھر ایک اور طریق سے بھی اگر اس صورت حال کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ علاقہ مسلم اکثریت والا علاقہ جسٹس محمد منیر: میرا خیال ہے کہ جس انداز سے فریق مخالف نے یہ معاملہ پیش کیا ہے آپ نے اس پر غور نہیں کیا.شیخ بشیر احمد میں اس وقت یہاں موجود نہیں تھا.جسٹس محمد منیر: وہ یہ کہتے ہیں کہ اگر اس تحصیل سے صرف تین ایسے قصبات الگ کر لئے جائیں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے یعنی قادیان - بٹالہ اور فتح گڑھ چوڑیاں.تو باقی تمام تحصیل تغیر مسلم اکثریت والا علاقہ “ بن جاتی ہے.شیخ بشیر احمد جناب میری عرض یہ ہے کہ اس قسم کے قصبات کو الگ کرنے کے لئے کوئی اصول یا معیار بھی تو ہو.آخریہ کیسے معلوم کیا جائے کہ فلاں علاقہ " مسلم اکثریت والا ہے یا غیر مسلم اکثریت والا ہے میری گذارش یہ ہے کہ خواہ آپ تھانہ بطور یونرہ تسلیم کریں یا قانونگو رقبہ " بطور یونٹ تسلیم کریں خواہ آپ ذیل" کو معیار مائیں یا تحصیل کو.آپ کو بہر حال کوئی نہ کوئی اصول بطور " بنیاد" کے ماننا پڑیگا یہ ہمارے لئے ممکن نہیں کہ ہم.جسٹس دین محمد : کل آپ ہمارے سامنے منفضل نقشہ پیش فرمائیں.شیخ بشیر احمد جہانتک دوسرے امور" کا تعلق ہے میں آپ کے سامنے سکھوں کے دعوئی کے متعلق کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں.گل شکانہ صاحب اور امرتسر میں سکھوں کے مقدس مقامات کے متعلق اچھی خاصی بحث ہوئی ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ نکانہ صاحب حضرت بابا گورو نانک کی جنم بھومی ہے.نیز امرتسر اور سری گوبند پور میں سکھوں کے مقدس تاریخی مقامات ہیں.ان تاریخی مقامات کا ذکر سکو میمورنڈم کے صفحه ۵۲ اور پیرا گراف اھ میں یوں کیا گیا ہے :- دیکھوں کے لئے نہرا پر باری دوآب کا متصل علاقہ نہایت درجہ اہمیت رکھتا ہے.امرت سر جہاں سیکھوں کا مشہور شہری گوردوارہ (دربار صاحب) واقع ہے سیکھ مذہب کی روایات اور
۴۲۱ تاریخ کا مرکز ہے.یہاں سب سے پہلے گورو را مد اس کے شمارہ میں تالاب کے کنارے آباد ہوئے جہاں مغل بادشاہ اکبر کی طرف سے انہیں شاہ میں پانچ صد بیگھہ زمین عطا فرمائی گئی.تالاب کا نام " امرت سر" یا "آب حیات کا چشمہ " رکھا گیا.گو بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس نام کی وجہ ایک گرد امرد اس تھے جو گورو را مد اس سے پہلے گزر چکے تھے.گورو ارجن نے یہ سنہری گوردوارہ دو بار صاحب) تعمیر کیا اور پھر رفتہ رفتہ اس کی مذہبی اور سیاسی اہمیت میں اضافہ ہوتا گیا.سلائے او میں احمد شاہ ابدالی کی واپسی کے وقت جبکہ اس کے در و دیوار تقریباً کھنڈرات کی شکل اختیار کر چکے تھے اس نے پھر ترقی کرنی شروع کی اور جلد ہی یہ ایک آزاد سیکھ جماعت کا مستقل اور معروف مرکز بن گیا." اکال بنگہ" کا مقام اور اس کی عمارت حسن کا رخ دربار صاحب کی طرف ہے سیکھوں کے لئے ایک ردھانی مرکز کی حیثیت رکھتی ہے اور " بابا اٹل " کی سات منزلہ عمارت جس کو بنے ہوئے اب تقریباً ایک صدی ہو گئی ہے گو رو ہرگوبند صاحب کے ایک لڑکے کی یادگارہ کے طور پر قائم ہے.امرت سر سے ایک پختہ سٹرک جس کی لمبائی کہ امیل ہے اس شہر کو ترن تارن سے ملاتی ہے اور ترن تارن کا قصبہ امرتسر کے ماجھا علاقہ کا مشہور ترین مقام ہے مگر اس کی تمامتر اہمیت مذہبی رنگ رکھتی ہے.اس تقدس کا مرکز وہ تالاب ہے جو تقریباً تین سو مربع گز ہے اور جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُسے گورو ارجن صاحب نے تعمیر کروادیا.تالاب کے پیاروں طرف چلنے پھرنے کے لئے پختہ روشیں قائم ہیں.مہاراجہ رنجیت سنگھ کو ترن تارن کے گوردوارہ سے بیحد عقیدت تھی.یہ گوردوارہ شاید میں تعمیر ہوا.اور مہاراجہ کے حکم سے اس پر تانبے کی چمکدار پتریاں چڑھائی گئیں.جہانتک گورداسپور کا تعلق ہے " امپیریل گز انسانی پنجابی کی جلد دوم صفحہ 29 میں لکھا ہے کہ اس مضلع کی تمام تاریخی اہمیت زیادہ تمہ اس وجہ سے ہے کہ اس ضلع کا تعلق سکھوں کے عروج کے ساتھ وابستہ ہے.دریائے راوی کے کنارے ڈیرہ بابا تانک کے مقام پر سکھوں کے مقدس مقامات (عدالت برخاست ہو گئی)
۲۲ اگلے روز مورخہ ۲۶ جولائی کا لنڈ یا ونڈری کمیشن کا اجلاس لاہور کی ہائیکورٹ کی عمارت میں صبح.ابجے شروع ہوا :- شیخ بشیر احمد کل عدالت کے برخاست ہونے سے پہلے میں آپ کی خدمت میں یہ عرض کر رہا تھا ، کہ جہاں تک کمیشن کے دائرہ کار اور اس کے مقاصد کا تعلق ہے.حدود کی تعیین کے بارے میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ تعیین صرف " اکثریت والے علاقے " کے اصول کی بناء پر ہی عمل میں لائی جا سکتی ہے.حدود کی تعیین کے لئے خواہ آپ ” تحصیل " کو معیار بنائیں یا " ذیل کو ، تھانے کے حلقے " کو معیار مقرر کریں یا قانونگو کے حلقے کو ، ہر صورت میں قادیان " مسلم اکثریت والے علاقے " میں آتا ہے.جہانتک " دوسرے عناصر " کا تعلق ہے، میں نے عرض کیا تھا کہ سکھوں کی طرف سے بعض تجاویز پیش کی گئی ہیں جن کی بنیاد اُن کے مقدس مذہبی مقامات کی تاریخی اہمیت پر ہے.یہ مقامات ننکانہ صاحب، امرتسر اور سری ہرگوبند پور میں واقع ہیں.میں یہاں اس امر کا بھی ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ مذہبی مقامات کی اہمیت ، خود انگلستان کے ایوان جمہور" یا " ہاؤس آن کا منتر" میں بھی تسلیم کی گئی ہے اور اب یہ فاضل سمجھوں پر منحصر ہے کہ وہ ان مذہبی مقامات کی اہمیت کو کتنی وقعت دیتے ہیں.پور کیف اگر مذہبی مقامات کے تقدس اور ان کی اہمیت کو پیش نظر رکھا جائے تو میں یہ عرض کروں گا کہ قادیان جیسے عظیم الشان مذہبی مرکز کو بعض ایسی خصوصیات حاصل ہیں جن کی بناء پر است اولین استحقاق کا حامل قرار دیا جا سکتا ہے اور اس کی شمولیت " کے سوال پر نہایت سنجیدگی سے غور کرنا ضروری ہے.قادیان حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا مولد اور مرکز ہے جناب بائی سلسلہ احمدیہ نے دعوی کیا کہ وہ اس آخری زمانے میں مسیح اور مہدی کے مقام پر فائز ہیں.بیشک آپ کے اس دعوئے کی سخت مخالفت ہوئی مگر اس مخالفت کے باوجو د تھوڑے ہی عرصہ میں آپ کے ارد گرد دور و نزدیک سے بہت سے لوگ آپ کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے.یہ کہنا بالکل سچ ہے کہ آپ کو یہ ملین ترین روستانی مرتبہ حضرت محمد عربی صلے اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے نتیجہ میں ملا اور آپ انہی کے خادم ہونے کا دعوی کرتے ہیں.
۴۴۳۳ حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی عالمگیر تحریک کا مرکز قادیان ہے.آپ کی تحریک کے آغاز سے ہی اس مقدس مقام سے روشنی اور ہدایت کی کرنیں چار دانگ عالم میں بکھرنا شروع ہوگئیں.چنانچہ دُنیا کے تمام حصوں سے بے شمار لوگ اپنی روحانی پیاس بُجھانے اور اپنے علم و معرفت میں اضافہ کے لئے اس مقام پر آنا شروع ہو گئے.آج اسی مقام پر آپ کا جسم اطہر دفن ہے اور حضور کے ساتھ ہی سینکڑوں کی تعداد میں جماعت کے چیدہ اور سریہ آوردہ افراد کہ جنہوں نے اپنی زندگیاں اسلام کی اشاعت کے لئے صرف کر دیں اور اسلام کی خاطر مسلسل قربانی اور ایثار کا مظاہرہ کیا یہاں دفن ہیں جماعت کے علماء یہاں مسلسل تعلیم و تربیت کے کام میں مشغول ہیں اور سماعت کی مرکزی انجمن کا بتو صدر انجمن احمدیہ کہلاتی ہے یہاں مستقل مرکز موجود ہے.اسی طرح جماعت کا خزانہ جہاں لاکھوں روپے چندے کے طور پہ وصول ہوتے ہیں اسی مقام پر ہے.یہاں مبلغین کا ایک کالج بھی موجود ہے جہاں جماعتی ضروریات کے مطابق مختلف بریتیان اور معلمین تیار کئے جاتے ہیں اور پھر ان سب سے بڑھ کر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے خلیفہ ثانی کر چین کے وعظ و نصیحت کو سننے کے لئے دور دراز سے لوگ آتے ہیں یہاں قادیان میں موجود ہیں.غرضکہ قادیان جماعت احمدیہ کا ایک زندہ اور فعال مرکز ہے اور یہ جماعت کی دینی اور ملی سرگرمیوں کی آماجگاہ ہے کیونکہ جماعت کے افراد یہاں متعدد مرتبہ اپنی روھانی اور علمی پیاس کو بجھانے اور اپنی مذہبی، تہذیبی اور تمدنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے سلسلے میں کثرت کے ساتھ آتے رہتے ہیں.جسٹس محمد منیر: جماعت کی تعداد کتنی ہے ؟ شیخ بشیر احمد : پانچ لاکھ جسٹس تیجا سنگھ کیا گذشتہ مردم شماری میں انہیں علیہ طور پر شمار کیا گیا تھا ؟ شیخ بشیر احمد گذشته مردم شماری میں احمدی اور غیر احمدی میں کوئی امتیاز نہیں کیا گیا.ہاں البتہ اگر کسی نے اصرار کیا کہ میرے نام کے ساتھ شیعہ" لکھا جائے تو اس کے نام کے ساتھ شیعہ لکھ لیا گیا.اور اگر کسی نے کہا کہ اس کے نام کے ساتھ حنفی لکھا جائے تو حنفی لکھ لیا گیا.جلسہ سالانہ کے موقعہ پر عموماً پچاس ہزار سے زیادہ افراد قادیان آتے ہیں اور اس حقیقت کا ثبوت خود ریلوے کئے ٹکٹوں کی فروخت سے بھی حاصل کیا جا سکتا ہے.جلسے میں عملاً شرکت کرنے والے پچاس ہزار سے بھی زائد ہوتے ہیں.
جسٹس تیجا سنگھ : پچاس ہزار تو برطانوی پنجاب میں ہوئے.اس کے علاوہ دیگر مقامات پر کتنے ہیں ؟ شیخ بشیر احمد کل تعداد غالب دس لاکھ ہوگی اور یہ بڑا محدود اندازہ ہے جیسا کہ میں ابھی آپ کے سامنے اعداد و شمار پیش کروں گا.بہت سے غیر ممالک میں رہنے والے افراد اپنے آپ کو احمدی " کہلانا پسند کرتے ہیں.جسٹس دین محمد: آپ کے پیش کردہ اعداد و شمار کی ترتیب میں کسی قدر غلط فہمی معلوم ہوتی ہے.آپ نے کہا تھا کہ وہ لاکھ احمدی پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں اور ھ لاکھ دوسرے علاقوں سے پھر آپ نے یہ بھی کہا تھا کہ پچاس ہزار احمدی جلسہ سالانہ میں شریک ہوتے ہیں.شیخ بشیر احمد جناب! یہ حقیقت ہے اور اس کی تصدیق ریلوے کے حکام سے کی جاسکتی ہے.جسٹس تیجا سنگھ ، آپ کو یہ اعداد و شمار کیسے معلوم ہوئے جب کہ مردم شماری سے اتنی تعداد ثایت نہیں ہوتی.شیخ بشیر احمد، جب پچاس ہزارہ افراد جلسہ سالانہ میں شرکت کرتے ہیں تو اس سے بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ جماعت کی اصل تعداد کیا ہوگی.واقعہ یہ ہے کہ یہ جماعت ایک عالمگیر پیغام کی حامل ہے اور دائرہ اسلام میں اس کی حیثیت ایک بہت بڑی بین الا قوامی تحریک کی سی ہے....میں آپ کے سامنے بعض الاقوامی مقتدر اصحاب کی وہ آراء پیش کرنا چاہتا ہوں جو انہوں نے جماعت احمدیہ کے متعلق ظاہر کی ہیں.سب سے پہلے تو میں انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا کے چودھویں ایڈیشن کا حوالہ پیش کرتا ہوں جس کی جلد کے صفحات ۱۱ ۷ - ۷۱۲ پر لکھا ہے:.جماعت احمدیہ : اشاعت اسلام کے سلسلے میں اس جماعت کی سرگرمیاں صرف ہندوستان مغربی افریقہ ، ماری اور جاو اتک ہی محدو نہیں بلے بانوی زیکو سٹور کیا اور لنڈن تک پھیلی ہوئی ہیں اور انہوں نے بہت سے نور در بین اصحاب کو دائرہ اسلام میں داخل کرنے میں معاصی کامیابی حاصل کی ہے.اس کے بعد ایک مصنف میں نام کریون ہے.رسالہ مسلم ورلڈ مجلد ۲۱ نمبر ۲ کے صفحہ ۵۱ پر لکھتا ہے.اب ہم احمدی اصحاب کا ذکر کرتے ہیں جو کٹر ہندوؤں کے بالمقابل مسلمانوں میں بھی ویسے ہی پختہ عقیدے کے مالک ہیں.ان کا جوش ، اخلاص اور بعد یہ قربانی نہایت قابل تعریف ہے" ڈاکٹر مر سے (۲۵۷ (( اپنی کتاب " انڈین اسلام" کے صفحہ ۲۲۳ پر رقمطراز ہے :- احمدی صاحبان اس وقت دنیا میں اسلام کے سب سے بڑے قدیمی اولہ اس کی سب سے زیادہ i
۲۴۲۵ اشاعت کرنے والے ہیں.ڈاکٹریسی بیری ( LACEY BEERY ) اپنی کتاب ISLAM AT THE CROSS ) ROADS کے صفحہ 99 پر لکھتے ہیں :- " احمدی مبلغ نہ صرف ہندوستان کے مختلف حصوں میں بھیجے جاتے ہیں بلکہ انہیں شام، مصر اور انگلستان میں بھی بھیجا جاتا ہے اور پھر اُن کا کام صرف یہی نہیں کہ وہ لوگوں کو اسلام میں واحل کریں بلکہ وہ بر طانوی عوام کے نقطۂ نظر کو اسلام کے بارے میں نہایت بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں.اس کے علاوہ وہ اُن کے دلوں میں اسلام کے متعلق ہمدردی خلوص اور یگانگت کے جذبات پیدا کر کے وہ تمام غلط فہمیاں اور کدورت دُور کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو دلوں میں پیدا ہو گئی ہوں اُن کی کوشش ہر لحاظ سے قابل تعریف ہے " پھر جناب سرٹامس آرنلڈ اپنی کتاب " ISLAMIC FAITH " کے صفحہ ۱۷۰ " کے صفحہ ۷۰-۷۱ پر لکھتے ہیں :." حضرت احمد (علیہ السلام) کی جماعت کا اکثر حصہ تو پنجاب میں ہے.لیکن اُن کے مبلغین نہایت سرگرمی سے اشاعت اسلام کا کام انگلستان، جرمنی ، برطانوی مقبوضات کے علاقوں میں اور اُن کے علاوہ دنیا کے دوسرے علاقوں میں بھی سر انجام دے رہے ہیں.انہوں نے نہ صرف عام مسلمانوں کو نئے سرے سے اسلام میں داخل کیا ہے بلکہ وہ بہت سے عیسائیوں کو بھی حلقہ بگوش اسلام کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں“ پھر پروفیسر ایچ.اے.گب ) ( PROF.H.A GIBB ) اپنی کتاب " WHETHER ISLAM کے صفحہ ۲۱۴ پر تحریر فرماتے ہیں :.تحریک احمدیت نے اپنی فعالیت اور کشش کے باعث تمام دنیا میں اپنے پیرو کار پیدا کر لئے ہیں.اس تحریک کے بانی حضرت مرزا غلام احمد صاحب تھے جو قادیان (پنجاب) کے رہنے والے تھے.جادا اور سماٹرا کے ممالک میں اس تحریک نے دوسری اسلامی تنظیموں کے بالمقابل اپنے آپ کو بہت زیادہ موثر بنا لیا ہے.احمدیت کے عقائد ایک خاص اخلاقی رنگ رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اہل دانش کے لئے یہ تحریک بہت زیادہ کشش کا باعث ہے "
۳۲۶ پھر اس کے بعد ولیم کیش ( WILLIAM CASH) اپنی کتاب " EXPANSION OF ISLAM * کے صفحہ ۲۲۲ پر تحریر فرماتے ہیں:.یہ فرقہ (جماعت احمدیہ مسلمانوں کے تمام فرقوں میں سب سے زیادہ اشاعت اسلام کی تڑپ رکھنے والا ہے" جناب باسل میتیوز ( BASIL MATHEWS ) اپنی کتاب "YONE ISLAM INTREK کے صفحہ ۱۳۶ پر لکھتے ہیں:..با وجود اس کے کہ اس جماعت (جماعت احمدیہ کی تعداد تھوڑی ہے مگر اس کا اثر و نفوذ اس کے مقابل پر بہت زیادہ ہے " ان تمام حوالہ جات کو پیش کرنے سے میرا مقصد یہ ہے کہ میں آپ کی خدمت میں یہ واضح کروں کہ دوسر مقتد را اصحاب جماعت احمدیہ کے متعلق کیا رائے رکھتے ہیں.اور یہ بالکل سچ ہے کہ جماعت احمدیہ اپنا ایک خاص اور منفرد مقام رکھتی ہے اور اس جماعت کا مرکز قادیان تمام دنیا کے احمدیوں کی سرگرمیوں اور ان کی تبلیغی مساعی کا مرکز ہے کیونکہ اسی مقام سے انہیں ایک روحانی کشش حاصل ہوتی ہے اور یہی جماعت کی تبلیغی تڑپ کی بیان ہے.میں آپ کے سامنے بالکل سادہ حقائق پیش کر رہا ہوں بچنا نچہ اسی سلسلے میں جب میں آپ کے سامنے سکھ صاحبان کے تین مقدس مذہبی مقامات کا ذکر کروں گا تو آپ پر قادیان اور ان مذہبی مقامات کا فرق واضح ہو جائے گا.جماعت احمدیہ کے افراد کو جو بے پناہ عقیدت اور محبت اپنے امام یعنی بانی سلسلہ احمدیہ سے ہے اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ نتشار میں قادیان کی آبادی مشکل چالیس پچاس احمدی گھرانوں پشتمل منفی به لیستی فقط ایک معمولی سا گاؤں تھا جس کی کوئی بھی خصوصیت قابل ذکر نہ تھی.نہ یہاں ذرائع آمد و رفت تھے اور نہ ہی کوئی سلسلہ رسل و رسائل.غرض کہ اس وقت کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ بستی کسی وقت ایک عظیم الشان اور ترقی یافتہ قصبہ کی شکل اختیار کرلے گی.جسٹس تیجا سنگھ : اس فرقے کی بنیاد کب پڑی ؟ شیخ بشیر احمد : یہ فرقہ شر میں قائم ہوا.میں عرض کر رہا تھا کہ منشائر میں اس کی آبادی چند گھروں سے زائد نہیں تھی.مگر اس کے بعد رفتہ رفتہ لوگوں نے دُور و نزدیک سے اپنے اپنے گھروں کو چھوڑ کر یہاں
۴۲۷ آباد ہونا شروع کیا تاکہ وہ اپنے مقدس امام کے قدموں میں بیٹھ کر روحانی فیض حاصل کریں اور اپنے علم اور معرفت کی تشنگی کو بجھائیں.آج قادیان کی آبادی پندرہ ہزار نفوس سے زائد ہے جس میں تقریباً و فیصدی احمد می ہیں.میں یہ وضاحت اس لئے کر رہا ہوں تا کہ آپ کو علم ہو سکے کہ جماعت کے لوگوں کو اپنے مرکز سے کس قدر محبت اور عقیدت ہے.آج قادیان میں بنگال ، آسام، بہار، اڑیسہ، یوپی سی پی ، حید باریکی، مدراس ہمبئی سندھ ، لنکا، افغانستان، ماریشس، انڈونیشیا، ترکی ، شام، چین اور انگلستان تک سے آنے والے لوگ آباد ہیں.یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے اپنے وطن سے پہلے تو اس نیت کے ساتھ آئے کہ یہاں عارضی رہائش رکھ کر دین سیکھیں مگر پھر اُن میں سے بڑی اکثریت نہیں مستقلاً آباد ہو گئی اور انہوں نے قادیان کو اپنا وطن بنالیا.مرکز احمدیت کی عالمگیر کشش اور تحریک احمدیت کی ہمہ گیری کا اندازہ آپ اس امر سے بھی کر سکتے ہیں کہ ماعت احمدیہ کی شاخیں امریکہ ، کینیڈا، ارجنٹائن ، انگلستان ، فرانس ، سپین، اٹلی، شام فلسطین، ایران، افغانستان ، چین ، لنکا ، ماریشس، برما، ملایا ، انڈونیشیا ، کینیا ، ٹانگانیکا، یوگنڈا، ابی سینیا ، سوڈان ، نائیجیریا ، گولڈ کوسٹ اور سیرالیون میں قائم ہیں.ان میں سے بعض مقامات پر سینکڑوں کی تعداد میں مقامی احمدی احباب موجود ہیں جس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ یہ جماعت نہ صرف گنتی کے لحاظ سے مضبوط ہے بلکہ اس کو ایک بین الا قوامی حیثیت حاصل ہو گئی ہے.جناب والا ! اب میں آپ کے سامنے سکھوں کے ان دعا دی کے متعلق کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں جن کی بنیاد ان کے مقدس مذہبی مقامات پر ہے.ان کے نزدیک ننکانہ صاحب کا مقام اس لئے مقدس ہے کہ وہاں حضرت با با گورو نانک کی پیدائش ہوئی.سری گوبند پور اس لئے مقدس ہے کہ وہ سیکھوں کے تمیرے گورو کے ساتھ ایک خاص تعلق رکھتا ہے اور امرتسر کے مقام کو اس لئے تقدیس حاصل ہے کہ اس کا تعلق سیکھوں کے چوتھے گورو صاحب کے ساتھ ہے.ہمیں ان دعاوی کے متعلق سکھ صاحبان کے مذہبی جذبات کے پیش نظر کوئی بحث نہیں کرنا چاہتا.مگر میں یہ ضرور عرض کروں گا کہ اگر آپ ان مقامات کی آبادی کا نقشہ اور ان کے اعداد و شمار ملاحظہ فرمائیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ امرتسر میں سکھوں کی آبادی کا تناسب ۱۵/۰۳ فیصدی ہے.ننکانہ صاحب میں جہاں کہ حضرت بابا گورو نانک صاحب کی پیدائش ہوئی سکھوں کی تعداد تیرہ ہزار کی آبادی میں سے صرف ۵۴۳۷ ہے اور سری گویند پور تو
۴۲۸ ایک معمولی گاؤں ہے اور کسی بہت سے کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا.بیشک یہ مقامات مقدس ہیں مگر سکھ صاحبان ان سے کوئی روحانی فیض حاصل نہیں کر رہے.سردار دربار سنگھ میں شریخ بشیر احمد صاحب کے ان الفاظ کے خلاف پر زور احتجاج کرتا ہوں.انہوں نے یہ کہہ کر کہ سیکھ ان مقامات سے کوئی فیض حاصل نہیں کر رہے ، سکھوں کے جذبات کو مجروح کیا ہے.میں بڑی تحتدمی کے ساتھ یہ کہوں گا کہ یہ مقامات سکھوں کے مقدس مقامات ہیں اور وہ اُن سے روحانی فیض حاصل کرتے ہیں.جسٹس دین محمد.وہ کسی فرقے کے جذبات کو مجروح نہیں کر رہے.وہ صرف یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ ان مقامات پر سکھ نہایت مختصر تعداد میں ہیں.سردار در باراسنگھ، اپنے ہوش کے عالم میں انہوں نے یقینا سکھوں کے بعد بات کو مجروح کیا ہے.جسٹس تیجا سنگھ ، یہ کشن کا کام ہے کہ وہ دیکھے کہ اُن کے دلائل میں کس قدر وزن ہے.سردار دربار اسنگھ جو کچھ شیخ بشیر احمد صاحب نے کہا ہے میں اس کے علات پر زور احتجاج کرتا ہوں.جسٹس دین محمد : آپ کا احتجاج نوٹ کر لیا گیا ہے.میں شیخ بشیر احمد صاحب سے کہوں گا کہ وہ اپنی طرف سے نتائج نکالنے پر زور نہ دیں.صرف اصل اعداد و شمار پیش کریں.شیخ بشیر احمد: جماعت احمدیہ کی ۷۴۵ شاخیں ہیں اور ان میں سے ۴۷ ھ پاکستان میں واقع ہیں گویا تقریباً ۷۴ فیصدی شاخیں اس علاقے میں آتی میں جہاں پاکستان قائم ہو گا.پھر آپ یہ بھی اپناتے ہیں کہ جماعت کا مالی نظام چندوں کی اُن رقوم پر قائم ہے جو جماعت کے افراد اپنی خوشی اور رضاه رغبت سے اپنی مرکزی انجمن کو بھیجتے ہیں.پس اقتصادی لحاظ سے بھی یہ نہایت ضروری ہے کہ قادیان کو پاکستان کے علاقے میں شامل کیا جائے.پھر اس کے علاوہ یہ بھی واقعہ ہے کہ مرکزی انجمین احمدیہ کا تقریباً ہزارہ ایکڑ رقبہ آراضی جو اس کا اپنا خرید کردہ ہے پاکستان کی حدود میں واقع ہے اور اس اراضی سے کئی گنا زیادہ قیمت کی جائدادیں جو جماعت احمدیہ کے افراد کی ملکیت ہیں پاکستان کی حدود میں واقع ہیں.ان حقائق کی رو سے بھی قادیان پاکستان میں شامل ہونے کا حق رکھتا ہے.اب میں جماعت احمدیہ کے لٹریچر کے متعلق بھی کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں.اس حقیقت پر چنداں زور دینے کی ضرورت نہیں کہ جماعت احمدیہ کے لٹریچر کا کثیر حصہ اردو زبان میں ہے اور جماعت کے ادبی
۲۹ اور ثقافتی سرمائے کی بقاء کے لئے ضروری ہے کہ اس زبان کا یہ تعلق قائم رکھا جائے.جہانتک نہیں معلوم ہوا ہے بھارت میں جس زبان کو ترقی دی جا رہی ہے اس کا اردو زبان سے کوئی واسطہ نہیں اور اگر جماعت کے افراد کو مجبور کیا گیا کہ وہ ہندی زبان سیکھیں جو انڈین یونین کی ملکی زبان ہوگی تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ جماعت اپنا تمام ادبی اور ثقافتی اثاثہ تباہ کر دے یا اس کی اہمیت کو بالکل ختم کردے.اس کے برعکس اگر وہ اُردو زبان کے ساتھ بدستور اپنا تعلق برقرار رکھنے کی کوشش کریں تو وہ اقتصادی طور پر سخت نقصان اُٹھا رہے ہوں گے.اس لئے ضروری ہے کہ لسانی اعتبار سے بھی محبت احمدیہ کا مرکز پاکستان کے علاقے میں ہو.جسٹس تیجا سنگھ ، جماعت احمدیہ کا اسلام کے ساتھ کیا تعلق ہے ؟ شیخ بشیر احمد، تمام احمدی اول سے آخر تک مسلمان ہیں اور وہ اپنے آپ کو مسلمانوں کا ایک حصہ سمجھتے ہیں اور یہ حقیقت بھی ایک دنیا جانتی ہے کہ جماعت احمدیہ کا مقصد اسلام کی اشاعت ہے اور وہ اسلام کے پیغام کو دنیا کے ہر کنارے تک پہنچانا اپنا فرض اور سعادت سمجھتے ہیں.پس اس مقصد کے لئے ضروری ہے کہ ان کے لئے ایسے حالات نہ پیدا کئے جائیں جو انہیں خواہ مخواہ مشکلات میں وکیل دیں یہ جیسا کہ آپ صاحبان جانتے ہیں بھارت کے ہندوؤں میں ایک فرقہ سناتن دھرمی کہلاتا ہے اور یہ لوگ تبدیلی مذہب کے شدید مخالف ہیں.پس اگر جماعت احمدیہ کے مرکز کو بھارت کے ماتحت رکھا گیا تو قدرتاً جماعت احمدیہ کے مقصد کو سخت ضعف پہنچے گا.اور میں یہ واضح کر دوں کہ شاید جماعت اسے برداشت نہ کر سکے.اس کے علاوہ ایک اور ضروری امر ہے جس کی طرف میں آپ کی توجہ مبذول کرانا مناسب سمجھتا ہوں اور وہ یہ کہ کمشن کی طرف سے بعض الفاظ کی حدود اور اُن کی تعیین کے سلسلے میں مسلم اور غیر مسلم کی اصطلاحات کی تعریف کی گئی ہے.مسلم " ایک منفی قسم کی اصطلاح ہے اور اس میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو اپنے آپ کو اسلام" کے دائرے سے باہر سمجھتے ہیں.لہذا خورد کمشن کے نقطہ نظر کے پیش نظر بھی یہ ضروری ہے کہ تمام مسلمان کہلانے والوں کو ایک جماعت کے طور پر الگ حیثیت دی بجائے.اس کا ایک فائدہ یہ ہو گا کہ 'مسلمان' اور غیر مسلمان کا اطلاق جن لوگوں پر ہو سکتا ہے ان میں قدرتنا ایک امتیات
اور تفریق پیدا ہو جائے گی اور ان کے نقطہ نظر کو بجھنے میں آسانی پیدا ہوگی.میں یہ بھی عرض کروں گا.کہ غیر مسلم کا لفظ "مسلم" کے لفظ کی طرح کسی ایک جماعت پر دلالت نہیں کرتا بلکہ غیر مسلموں میں پارسی عیسائی اور ہندو وغیرہ سبھی لوگ آجاتے ہیں (اور یہ سب قومیں ہندوستان میں آباد ہیں.چونکہ کمشن کا کام یہ ہے کہ وہ مسلم اکثریت والے علاقے “ اور مغیر مسلم اکثریت والے علاقوں کی واضح طور پر نشان دہی کرے اس لئے تمام مسلمانوں کو بہر حال ایک ہی وحدت کے طور پر شمار کرنا زیادہ مفید ہو گا.اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ صرف ” مسلمان ہی وہ جماعت ہیں جو خود علیحدہ طور پر شمار کئے جانے کا حق رکھتے ہیں اسکھ صاحبان غیر مسلموں " کے زمرے میں آتے ہیں) اور کشن کے فرائض و مقاصد کی رُو سے صرف مسلمان ہی ہیں جن کی اکثریت والے علاقے کی تعیین اس وقت ہمارا کام ہے یاد رہے کہ ملک کی تقسیم" مذہب " کے اصول کی بناء پر ہو رہی ہے اور قادیان کی حیثیت اس وقت بین الاقوامی یونٹ کی سی ہے جو دنیائے اسلام کے ساتھ ایک مضبوط اور گہرا تعلق رکھتا ہے اور میں یہاں یہ بھی عرض کر دوں کہ جب پاکستان بنے گا تو بہر حال اسلامی ملکوں سے اس کے گہرے روابط قائم ہوں گے اور جہانتک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے اُسے بہر حال ان ممالک کے ساتھ تعلقات رکھنے میں زیادہ سہولت حاصل ہوگی اور یہی وجہ ہے کہ میری درخواست ہے کہ جماعت احمدیہ کے اس مطالبے پر نہایت ہمدردانہ غور فرمایا جائے.میں آخری گذارش کے طور پر یہ بھی عرض کروں گا کہ سکھوں کو بوجہ اس حسن خدمت کے جو انہوں نے انگریزی حکومت کے لئے سر انجام دی ایک وسیع و عریض نہری رقبہ بطور عطیہ کے عطا فرمایا گیا.اسی طرح جماعت احمدیہ بھی یہ کہنے کا تق رکھتی ہے کہ وہ بھی اپنی خدمات میں ہرگز پیچھے نہیں ضمیمہ پوتے کے مطالعہ سے معلوم ہوگا کہ جماعت احمدیہ کے ۱۹۹ حمتاز افراد نے فوج میں کشن حاصل کیا اور انہوں نے حکومت کے لئے نہایت قابل تعریف خدمات سر انجام دیں.پس اس بناء پر جماعت احمدیہ کا مطالہ اولین اہمیت کا حامل ہے اور اس قابل ہے کہ اسے انصاف کے تقاضوں کے مطابق پورا پورا حق دیا جائے.میں یہ بھی عرض کروں گا کہ جماعت احمدیہ نے اپنی خدمات کے عوض کبھی انعام یا عطیہ بات کی خواہش یا مطالبہ نہیں کیا.ہمارا ایمان یہ ہے کہ ہم حکومت وقت کے ساتھ پورا پورا تعاون کرتے ہیں ہم آئندہ
بھی قانون کا پورا احترام کریں گے اور حکومت وقت کے ساتھ دلی تعاون اور اطاعت کے جذبے سے کام لیں گے.ہمارے سیکھ دوستوں نے اس امر پر زور دیا ہے کہ اُن کی اقتصادی بہبود پر کسی صورت میں بھی آنچ نہیں آنی چاہیئے اور انہوں نے اس سلسلے میں انکم ٹیکس وغیرہ کے اعداد و شمار بھی پیش کئے ہیں.میں فقط یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ انکم ٹیکس کے پیش کردہ اعداد و شمار ان کی اقتصادی برتری یا بہبود کی دلیل نہیں.یہ عطیہ جات تو اُن کی خدمات کے عوض بطور انعام کے ہیں جو انہیں دیئے گئے.اب وہ اگر ان اعداد و شما کو مزید رقیہ حاصل کرنے کے لئے بطور دلیل کے استعمال کرنا چاہتے ہیں تو یہ صریح زیادتی ہوگی کیونکہ ان کی خدمات کا حق انہیں پہلے ہی مل چکا ہے.پس انہی الفاظ کے ساتھ میں جماعت احمدیہ کا کیس آپ کی پوری توجہ کے لئے پیش کرتا ہوں.1 اسے ختم کرتا ہوں.اور صوبہ سرحد کا استصواب اور آرجون لہ کی برطانوی سکیم میں صوبہ سرحد کے عوام کو یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ پاکستان یا ہندوستان دستور ساز اسمبلی جماعت احمدیہ کے وقد شمیر کا تعاون میں شرکت کرنے کے لئے رائے دیں.قائد اعظم نے صوبہ سرحد کے معرکہ استصواب کی خصوصی اہمیت کے مد نظر صوبہ سرحد مسلم لیگ کے مسلمانوں اور تمام لیگی لیڈروں کو ہدایت فرمائی کہ وہ سرحد کے مسلمانوں کو اس طرح منظم کریں کہ سرحد اس رائے شماری میں متفقہ طور پر پاکستانی دستور ساز اسمبلی میں شمولیت کا فیصلہ کر لے.قائد اعظم کی اپیل کامیابی سے ہم کنار ہوئی.، ارجولائی ۱۹۴۷ 2 کو تمام سرحد کے تمام حلقہ بجات انتخاب میں پولنگ ختم ہوا.اور قریباً دولاکھ انانو سے ہزار ووٹروں نے پاکستان کے حق میں اور قریباً دو ہزار ووٹوں نے اس کے خلاف ووٹ دیئے اور صوبہ سرحد پاکستان میں شامل ہو گیا.اس استصواب عامہ میں جماعت احمدیہ نے سرحد مسلم لیگ کا ہاتھ بٹانے اور سربندی مسلمانوںکی پاکستان میں شریک کرنے کی بعد و جہد میں سرگرم حصہ لیا.چنانچہ جناب خواجہ غلام نبی صاحب گل کانزایم ایل اے کشمیر اسمبلی کی سرکردگی میں جماعت احمدیہ کشمیر کا ایک خصوصی و ند ان دنوں سرحد میں پہنچا اور اس نے اپنی خدمات " الفضل ۲۱ و قا / جولائی پیش صفحه ۸ کالم ۲ 7192
سرحد مسلم لیگ کے سپرد کیں اور سنہری خدمات انجام دیں جس کا اقرار مسلم لیگ ریفرنڈم کمیٹی کے پریزیڈنٹ نے حسب ذیل الفاظ میں کیا :- وفد نے ہمارا بہت ہاتھ بٹایا اور صحیح اسلامی روح کا مظاہرہ کیا ہے.اُن کا یہ جذبہ اعانت و اخوت کشمیر اور سرحد کے تعلقات کے لئے بہت مفید ثابت ہو گا.اُن کی یہ مساعی بہت ہی قابل شکریہ ہیں فصل نهم قائداعظم کی طر ے مسلم لیگ کی ترجمانی کیلئے چودھری مخالف اش خالی انتخاب آپ کا حقیقت افروز محضر نامہ اور مدلل اور فاصلا بحث قائد اعظم کی خوشنودی اور اخبار نوائے وقت بیٹس محمدمنیر او جیٹس کیانی کا زبر دست خراج تحسین سیکھ اور بہت دو پریس کا واضح اعترات قائد اعظم سے چودھری محمد ظفر اللہ خان کی اہم ملاقا جماعت احمدیہ کی طرف سے امریکہ اور برطانیہ یں باؤنڈری لٹریچر اور اس کے ماہر کی تلاش کا کام ابھی اف مسلم لیگ کی وکالت کیلئے آپکے تقریر ابتدائی مراحل ہی میں تھاکہ پنجاب سلم لیگ نے تجویز کیا کہ پنجاب باؤنڈری کمیشن کے سامنے چودھری محمد ظفراللہ خاں صاحب وکیل کے فرائض انجام دیں.پنجاب مسلم لیگ نے دہلی میں قائد اعظم کی خدمت میں اپنی رائے کی اطلاع دی جس پر قائد اعظم کی خصوصی ہدایت پر نواب زادہ لیاقت علی خاں نے چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کو تار دیا کہ قوم کو آپ کی له " الفضل " ظہور / اگست مش صفحه ۲ کالم ۲ ۱ ۱۲ مله :
۲۳۳ خدمات کی ضرورت ہے.آپ فوراً قائد اعظم سے ملیں چودھری صاحب موصوف اُن دنوں حضرت مصلح موعود کی اجازت خاص سے نواب سر حمید اللہ خاں صاحب والی بھوپال کے آئینی مشیر کی حیثیت سے بھوپال میں مقیم تھے اور عنقریب ریاستوں کے امینی مستقبل کی وضاحت کے لئے انگلستان روانہ ہو رہے تھے.چنانچہ ملت اسلامیہ کا نڈر، جانباز اور قابل فخر سپاری میں مسلم آؤٹ لک کے مشہور مقریہ ناموس رسول کی شاندار وکالت کرنے کے بعد سے اب تک قوم و ملک کی انتہائی بے لوث اور بیحد مخلصانہ خدمت میں برابر مصروف تھا اور آزادی ہند کے معرکہ میں ایک انقلابی اور فیصلہ کن کردار ادا کر چکا تھا ) ، مسلمانان ہند کے مقبول محبوب سیاسی رہنما کی دعوت پر لبیک کہتا ہوا ، ارجون شاہ کو بھوپال سے برلی پہنچ گیا.قائد اعظم نے دوران ملاقات آپ کو حد بندی کمیشن کے سامنے پنجاب مسلم لیگ کی وکالت کا اہم اور نازک فریضہ سونپا اور بتایا کہ اگر کمیشن میں باہمی کوئی سمجھوتہ نہ ہو سکا تو پھر یہ معاملہ ایک آزاد ثالث کے ذریعہ سے ملے کو ایا جائے گا.قائد اعظم نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ وہ پاکستان دستور ساز اسمبلی کے لئے انگلستان سے ایک ماہر دستور اور ایک عمدہ ڈرا نمین بھی ساتھ لائیں جو اس سلسلہ میں مفید کام کر سکے.چودھری محمد ظفراللہ خاں صاحب نے قائد اعظم سے ملاقات کے بعد پہلا کام یہ کیا کہ مسلم لیگی کارکنوں کو باؤنڈری کمیشن کے سلسلہ میں بعض ضروری ہدایات دیں اور پھر پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق جون کے آخری ہفتہ میں انگلستان تشریف لے گئے جہاں آپ مہندوستانی ریاستوں کے حکمرانوں کے اہم اجلاس میں شرکت اور مسٹرائیلی وزیر اعظم برطانیہ اور دوسرے بمطانوی افسروں سے مذاکرات کے بعد اور جولائی کو مله تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحه ۵۷۰ -۵۹۶) میں بر صغیر کے اس مشہور مقدمہ کی روداد آچکی ہے.لاہور کے مسلمان وکلاء کے ALL متفقہ فیصلہ پر آپ اس مقدمہ کی وکالت کے لئے پیش ہوئے تھے آپ نے اپنی عدالتی تقریران تاریخی الفاظ پر ختم در حالی کہ.حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جن کے احکام کے سامنے دنیا کی چالیس کروڑ آبادی کی گردو میں ٹھیکی ہوئی ہیں جن کی غلامی پر دنیا کے جلیل القدر شہنشاہ عظیم الشان و زوار ، مشہور عالم جرنیل اور کرسٹی عدالت پر رونق افروز ہونے والے حج (جن کی قابلیت پر زمانہ کو ناز ہے فخر کرتے ہیں.ایسے انسان کامل کے متعلق راجپال کی ذلیل تحریر کو کسی بیج کا یہ قرار دیتا کہ اس سے نبی کریم کی کوئی ہتک نہیں ہوئی تو پھر مسلم آؤٹ لک کے مضمون سے بھی یہ فیصلہ قرار دینے والے کو کہ اس سے کسی کی کوئی تحقیر نہیں ہوئی ہم صائب الرائے ٹھہراتے ہیں" اس موقعہ پر مولوی ظفر علی خاں صاحب فرط جوش سے آبدیدہ ہو گئے اور صفوں کو چیرتے ہوئے آگے بڑھے اور چودھری صاحب کا ہاتھ چوم کر آپ کو گلے سے لگا لیا ( " دور جدید " لاہور.۱۶ اکتوبر ۱۹۳۳ صفحه ۴۰۳) - + نے بعض کا نفرات سے آپ کی روانگی کی تاریخ ۲۴ جون متعین ہوتی ہے.یہ کی الفضل کار و فار جولائی پیش صفحه و
۴۳ انگلستان سے روانہ ہو کہ سا جو لائی ہے کو لاہور پہنچے اور اگلے روز بعد بندی کمیشن کے پہلے اجلاس میں شریک ہوئے جس میں فیصلہ ہوا کہ تمام جماعتیں اپنے اپنے میمورنڈم ۱۸ جولائی شاہ کو چار بجے دوپہر تک پیش کر دیں.1914 لیگ محضرنامہ کیش میں جو مری میری فروش خان صاحب نے تین چودھری محمد سلم لیگ کا مصر مسلم لیگ کا محضر نامہ پنجاب حد بندی کمیشن میں ہارون کے مختصروقت میں مسلم لیگ کا محصور احمد کن مشکلات کے ہجوم میں لکھا، کمیشن کے صدر ریڈ کلف نے کیا طرز عمل اختیار کیا اور پھر کیس طرح حق و انصاف کا خون کیا اس کی تفصیل اگلے اوراق میں چودھری صاحب کے الفاظ میں آرہی ہے.اس مقام پر آپ کے لکھے ہوئے حقیقت افروز محضر نامے کا ترجمہ دینا چاہتے ہیں جو حد بندی کمیشن میں مسلم لیگ کی طرف سے پیش کیا گیا تھا :- بسم الله الرحمن الرحیم نحمده ونصلى على رسوله الكريم ی میمورنڈم مسلم لیگ کی طرف سے پنجاب بونڈری کمیشن کو پیش کیا گیا ان اختیارات کی رُو سے جو ملک معظم کی حکومت کی طرف سے اُن کے اعلان مجریہ سر جون ۹۴ یہ کی رُو سے باؤنڈری کمشن کو تفویض کئے گئے ہیں، اس کمشن نے اُن اہم ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا ہے جو ملک کی موجودہ نازک صورت حالات میں اس کے سامنے ہیں.ان ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے لئے کمشن کے لئے لازمی ہے کہ وہ اس پس منظر کو بھی سامنے رکھے جس کی بناء پر اس ملک کی تقسیم لازمی قرار دی گئی ہے اور جس کے نتیجہ میں اس وقت پنجاب کی تقسیم بھی پیش نظر ہے.۲.وہ بڑے بڑے علاقے جو اس وقت صوبہ پنجاب میں شامل ہیں انتظامی لحاظ سے بھی اور تمدنی اور اسانی اعتبار سے بھی ایک وحدت کی حیثیت رکھتے ہیں.بلکہ واقعہ یہ ہے کہ تمام صوبہ ایک اقتصادی یونٹ کا درجہ رکھتا ہے کیونکہ اس کے مختلف حصے اپنی اقتصادی اور ثقافتی ترقی و بہبود کے لئے ایک دوسرے پر مکمل انحصار رکھتے ہیں.گذشتہ نصف صدی سے لوگوں کی طرز رہائش اور ان کا معیار زندگی آپس میں ایک دوسرے سے مسلسل میل جول اور تعلقات کی وحیہ سے بہت حد تک یکساں ہو گیا ہے اور اس کی وجہ سے پنجاب کی " وعدت " ایک ٹھوس حقیقت بن گئی ہے.
۴۳۵.اس بنا پر پنجاب کی تقسیم اصولاً خطرناک نتائج کا سبب بن سکتی ہے.خطرناک' اس لئے کہ اگر اس صوبے کو تقسیم کر دیا جائے تو لوگوں کی ترقی و خوشحالی اور مجموعی طور پر اس صوبہ کی بہبودی اور اس کے مستقبل پر اس کا نہایت ہی ناخوشگوار اثر پڑے گا.ہم ملک معظم کی حکومت نے پنجاب کی تقسیم کا جو فیصلہ کیا ہے وہ اپنی خوشی اور رغبت سے نہیں کیا.اور پھر یہ بھی نہیں کہ وہ اس کے نتائج سے بے خبر تھی بلکہ یہ فیصلہ مجبوراً ملک میں سیاسی پارٹیوں کی آویزش اور اس کے باہمی سمجھوتے کی راہ میں پیدا ہونے والے تعطل کی وجہ سے کیا گیا ہے.ملک معظم کی حکومت یہ محسوس کرتی ہے کہ اس تعطل کو دور کرنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ پنجاب اور بنگال کو تقسیم کر دیا جائے چنانچہ اس مقصد کے پیش نظر یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ سیاسی حالات سے قطع نظر کمشن موجودہ حالات کے اُن خاص پہلوؤں کو سامنے رکھے جن میں سے بعض کی نشاندہی جناب والسر کی طرف سے نشر کردہ اعلان مورخہ ۳ بعون نہ میں کی گئی ہے.یہ نشری اعلان در حقیقت مکہ معظم کی حکومت کے اسی تاریخ کے اعلان کے لئے بطور تمہید کے ہے.جناب وائسرائے صاحب نے فرمایا ہے." مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہندوستان میں نہ تو کیبنٹ مشن کی تجاویز پر اور نہ ہی کسی اور تجویز پر کوئی ایسا سمجھوتہ ممکن ہو سکا ہے جس سے ہندوستان کی وحدت اور سالمیت بر قرار ر ہے ہم ایسے علاقوں میں جہاں ایک فرقہ کی اکثریت آباد ہے انہیں مجبور نہیں کر سکتے کہ وہ اپنی مرضی کے خلاف کسی دوسرے فرقے کی اکثریت کی حکومت کے تحت زندگی بسر کریں.اس کا لازمی نتیجہ ملک کی تقسیم ہے.چنانچہ جب مسلم لیگ نے ملک کی تقسیم کا مطالبہ کیا تو کانگرس نے انہی دلائل اور انہی وجوہات کی بناء پر بعض صوبوں کی تقسیم کا مطالبہ بھی پیش کر دیا.میرے نزدیک یہ دلائل بالکل معقول ہیں.کسی بھی فریق نے اپنے اکثریت والے علاقے کو دوسرے کی حکومت میں تحویل کرنے پر آمادگی ظاہر نہیں کی..چنانچہ پنجاب ، بنگال اور آسام کے ایک حصے میں رہنے والے لوگوں کی رضا مندی کی خاطر یہ ضروری ہو گیا ہے کہ ان صوبوں میں مسلم " اور "غیر مسلم اکثریت والے علاقوں کی حدود کی تعیین کر دی جائے.گو یہ وضاحت بھی میں کر دینا چاہتا ہوں کہ معین طور پر
م ان محدود کو مقرر کرنا باؤنڈری کمشن کا کام ہو گا اور یہ ضروری نہیں ہو گا کہ کمشن انہی صدور کو تسلیم کرنے ہو آج عارضی طور پر طے کر لی گئی ہیں.ہم نے سیکھوں کی پوزیشن پر بھی کما حقہ غور کیا ہے.یہ بہا در فرقہ اس وقت پنجاب کی آبادی کا بڑا ہے مگر ان کی رہائش اور آبادی اتنی بکھری ہوئی ہے کہ پنجاب کو خواہ کسی طریق تقسیم کر دیا جائے سکھ بہر حال تقسیم ہو کر رہ جائیں گے.مجھے افسوس ہے کہ یہ تقسیم حیس کا خود سیکھ بھی مطالبہ کرتے ہیں انہیں ٹکڑوں میں بانٹ دے گی.مگر یہ فیصلہ کہ معین طور پر تقسیم کیس طرح عمل میں لائی جائے گی باؤنڈری کمشن کا کام ہو گا اور اس کمشن میں سکھوں کو نمائندگی دی جائے گی" جناب الرائے کے اعلان کے مندرجہ بالا اقتباسات سے ثابت ہے کہ صوبہ پنجاب کی تقسیم غیر مسلم اصحاب کے اس اصرار اور ان کی عدم رضامندی کا نتیجہ ہے کہ وہ کسی طرح بھی اپنے اکثریت والے علاقوں کو صوبے کی اس حکومت کے سپرد نہیں کرنا چاہتے جس میں کہ مسلمانوں کو مجموعی لحاظ سے اکثریت حاصل ہے.وہ یہ چاہتے ہیں کہ ایسے علاقے جہاں انہیں اکثریت حاصل ہے اور جن کی سرحدیں آپس میں ملتی ہیں پنجاب سے بالکل الگ کر دیئے بھا ئیں بجناب وائسرائے صاحب نے فرمایا تھا کہ جیون دلائل کی بناء پر مسلم لیگ نے ہندوستان کی تقسیم کا مطالبہ کیا تھا انہی دلائل کی بناء پر کانگریس بھی بعض صوبوں کی تقسیم عمل میں لانا چاہتی ہے.مسلم لیگ کی طرف سے تقسیم کا مطالبہ اس اصول پہ تھا کہ جن صوبوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے ان میں مسلمانوں کی الگ اور آزاد حکومت قائم کی جائے علیحدگی کا یہ مطالبہ نہ تو اُن علاقوں کے مذہبی تقدی کی بناء پہ تھا اور نہ ہی تاریخی روابط پر تھا، نہ ہی اس میں کوئی جذباتیت تھی، نہ ہی جائدادوں کا کوئی سوال تھا اور نہ ہی اس مطالبے کا محرک کوئی تہذیبی یا تمدنی امیر تھے کہ جن کی بناء پر یہ علیحدگی ضروری ہوتی.ملک کی تقسیم کا یہ مطالبہ فقط اس اصول پر تھا کہ جن صوبوں میں ایک فرقہ کو اکثریت حاصل ہے اس فرقے کو انسانی اور جمہوری حقوق کی بنا پر یہ حق بھی دیا جائے کہ وہ اپنے قائم کردہ نظام کے مطابق اس میں زندگی بسر کر سکے مسلم لیگ کو علم تھا کہ علیحدگی کے اس اصول کے مطابق اسے اپنے بہت سے عظیم الشان اور نہایت ہی اہم تاریخی اور تمدنی ورثہ سے بھی محروم ہونا پڑے گا جو اس کی تہذیب و
ثقافت کا طغرائے امتیازہ ہے.مثال کے طور پر دہلی کی جامع مسجد، لال قلعه ، قطب مینار ، تغلق آباد ، حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء اور دیگر از ایاء اللہ کے عظیم الشان مقابہ اور ان کی یادگاریں، شاہ ہمایوں اور دوسرے مسلمان بادشاہوں کے عالیشان مقبرے اور پھر تاج محل جیسی حسین تخلیق جو صرت فن تعمیر کے اعتبار سے ہی بیگانہ روزگار نہیں بلکہ اپنے جمالیاتی ذوق کی بناء پر بھی مرجع خلائق ہے اور اہل نظر و بینش کے لئے ایک عجیب روحانی کیف کا سامان رکھتی ہے.شہنشاہ اکبر جیسے بلند ترین انصاف پسند بادشاہ کا عالیشان مقبرہ جو اسکندریہ کے مقام پر دریائے جمنا کے کنارے واقع ہے، حضرت اعتماد الدولہ کا مقبرہ فتح پور سیکری کا شاہی مقام اور آگرے کے گردو نواح میں قلعے ، محلات، مساجد اور دیگر یادگاری عمارتوں اور مظاہرہ کا عظیم المرتبیت سلسلہ.اس کے علاوہ لکھنو کے گرد و نواح میں عظیم الشان یادگاری مقامات ، اجمیر شریعت میں حضرت خواجہ معین الدین اجمیری کا مقدس اور عالیشان مقبرہ جس کے ارد گرد کئی اولیاء اللہ کے مقابمہ اور ان کی مقدس یادگاریں قائم ہیں.بنارس میں حضرت شہنشاہ اورنگ زیب کی دیدہ زیب مسجد ، پٹنہ اور بہار شریف میں کئی تاریخی مقدس یادگاریں ، مقابہ اور عمارات کو تاریخ کے ابواب میں شہری آب و تاب کا حکم رکھتی ہیں اور مسلمانوں کے زریں دور حکومت کے لئے ایک مشعل راہ کا کام دیتی ہیں اور جن کے ساتھ عام مسلمانوں کو ایک خاص جذباتی اور روحانی وابستگی ہے ، ان تمام یادگاروں کے متعلق مسلم لیگ کو علم تھا کہ ہندوستان کی تقسیم کے وقت انہیں ان سب سے دست بروالہ ہونا پڑے گا.پھر اس کے علاؤ وہ لاکھوں اور کروڑوں روپے کی جائدادیں، بالخصوص اور ھو میں وہ وسیع و عریض تعلقے جن پر رئیسان اودھ برسوں سے قابض ہیں اور ہزاروں مسلمانوں کی بے اندازہ جائداد اور وسیع تر اراضیات جو اس صوبے میں اور مختلف علاقوں میں مسلمانوں کا سرمایہ ہیں اور جو اس امر کا ثبوت ہیں کہ کس طرح صدیوں سے مسلمانوں کی برتری کا پرچم اور ان کی حکمرانی کا جھنڈا یہاں کی سرزمین پر لہراتا رہا.یہ تمام عظیم الشان ورثہ انہیں چھوڑنا پڑے گا.ان تمام امور کے باوجود مسلم لیگ نے اور عامتہ السلمین کے ذہن نے کبھی اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا کہ انسانی اقدار دولت اور مادی وسائل سے زیادہ اہم ہیں اور انسانی روح کی عظمت ان تمام مادی اور جسمانی ذخائر پر عادی ہے مسلم لیگ کا ان متذکرہ امور کے بارے میں طرز عمل یا نقطہ نگاہ کچھ بھی ہو.یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ان کی طرف سے تقسیم کے مطالبے
۲۳۸ کی فقط ایک ہی بنیاد تھی اور وہ آبادی کی اکثریت کا اصول تھا.خود ہز ایکسیلینسی وائسرائے صاحب بہادر نے بھی یہ فرمایا ہے کہ جو دلائل مسلم لیگ کی طرف سے ہندوستان کی تقسیم کے لئے پیش کئے گئے ہیں انہی دلائل کی بناء پر کانگرس نے بھی بعض صوبوں کی تقسیم کا مطالبہ پیش کیا ہے اور لیگ کے مطالبے کی بنیاد جیسا کہ اُوپر عرض کیا جا چکا ہے آبادی کی اکثریت کا اصول ہے.لہذا صاف ثابت ہے کہ یہی اصول غیر مسلموں کے مطالبے میں بھی کار فرما ہے اور اسی اصول کے متعلق ملک معظم کی حکومت کے اعلان مجریہ سرحون کہ میں اشارہ بھی کیا گیا ہے.اس اعلان کا پیراگراف 4 حسب ذیل ہے :- تقسیم کے جملہ امور کے تصفیہ کے لئے بنگال اور پنجاب کی لیجسلیٹو (قانون ساز اسمبلیوں کے ممبران دو گروپوں میں منقسم ہو جائیں گے.ایک گروپ ان ضلعوں سے متعلق ہو گا.(جیسا کہ ضمیمہ سے ظاہر ہے، جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور دوسرا گروپ ان ضلعوں سے تعلق رکھنے والا ہوگا جہاں غیر مسلموں کی اکثریت ہے فی الحال یہ اقدام ایک اپنی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ صوبوں کی حدود کی تعین کا سوال جو بعض امور کی تحقیق کے بعد کیا جائیگا اس باؤنڈری کمیشن کے فیصلے پر منحصر ہو گا.جسے گورنر جنرل مقرر فرمائیں گے.گورنر جنرل ہی اس کمشن کے ممبران کو مقرر کریں گے اور وہی اس کا دائرہ کار تجوید فرمائیں گے جب یکشن مقرر ہو جائے گا تو وہ پنجاب کے دونوں حصوں کی حدود کی تعیین کرے گا جس کی بنیاد مسلم اکثریت والے علاقے " اور "غیر مسلم اکثریت والے علاقے ہوں گے یعنی ایسے علاقے جہاں دونوں قوموں کی الگ الگ اکثریت ہو اور وہ پنجاب کے دونوں حصوں کی سرحدات سے ملتے ہوں یکمشن کو یہ بھی ہدایت ہوگی کہ وہ بعض دوسرے امور کو بھی پیش نظر رکھے.یہی ہدایات بنگال باؤنڈری کمشن کے لئے بھی واجب العمل ہوں گی اور جب تک دونوں کمشن پنجاب اور بنگال کی اندرونی حدود کی تعیین مکمل نہیں کر لیتے اس وقت تک وہ عارضی حدود (جن کا ضمیمہ میں ذکر موجود ہے قابل عمل سمجھی جائیں گی." 4.جیسا کہ مندرجہ بالا اعلان سے واضح ہے باؤنڈری کمشن کا مقصد یہ ہے کہ "مسلم" اور "غیر مسلم اکثریت والے علاقوں کی حدود کی تعیین کی بجائے اور اس مقصد کے پیش نظر بعض
۴۳۹ دوسرے امور کو بھی ملحوظ رکھا جائے.اس سلسلہ میں اگر سرحدات کی تعیین کے بارے میں کوئی عمولی ردوبدل کی ضرورت ہو تو اس پر عمل کیا جاسکتا ہے بشرطیکہ ایسا نہ ہو کہ کسی علاقے کی آبادی کا کثیر حصہ جو اکثریت والے علاقے سے تعلق رکھتا ہے، تبدیل کر کے ایسے علاقے میں ڈال دیا جائے.جہاں وہ اقلیت میں رہ جائیں بچنا نچہ کشن کے دائرہ کار کی وضاحت کرتے ہوئے اس امر پر خاص زور دیا گیا ہے:.کمشن کا کام یہ ہو گا کہ وہ پنجاب کے دونوں حصوں کی سرحدات کو معین کرے.حدود کی تعیین کی بنیاد اس اصول پر ہو کہ مسلم " اور غیر مسلم اکثریت والے علاقوں کی حدود ان دونوں حصوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ملتی ہوں.اس غرض کے لئے بعض دوسرے امور کو بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے" باؤنڈری کشن کے دائرہ کار اور اس کے قیام کے مقصد سے یہ بات واضح ہے کہ کمشن اس امر کی تعیین کرے گا کہ وہ کون سے علاقے ہیں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور وہ کونسے علاقے ہیں جہاں غیر مسلموں کی اکثریت ہے اور پھر یہ بھی کہ ان علاقوں کی سرحدات پنجاب کے دونوں حصوں سے کہاں کہاں ملتی ہیں ہا جب ایک مرتبہ ان سرحدات کی تعیین ہو جائے تو پھر تقسیم کا خط کھینچنا آسان ہوگا.مگر اس خط کھینچنے سے پہلے ضروری ہے کہ بعض دوسرے امور کو بھی ملحوظ رکھا جائے کیونکہ ان امور کے پیش نظر ہو سکتا ہے کہ کہیں کہیں کچھ معمولی ردوبدل کی ضرورت پڑے اور اعلان میں اس امر کی پوری گنجائش رکھی گئی ہے کہ اگر عدل و انصاف کے تقاضوں کے ماتحت سرحدات میں کہیں معمولی ردوبدل کی ضرورت ہو تو اس پر عمل کر لیا جائے.اب یہ بات بالکل واضح ہے کہ معین طور پر علاقوں کی تقسیم کا سوال صرفت تبھی پیدا ہوتا ہے ، جب "اکثریت والے علاقوں" کی تعیین مکمل ہو جائے اور اس امر کی صراحت ہو جائے کہ ان علاقوں کے قرب سے کیا مراد ہے.یعنی وہ کونسا اصول ہے.جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ خلال اکثریت والا علاقہ " فلاں وجہ سے قُرب " کی حیثیت رکھتا ہے لہذا اُسے پنجاب کے فلاں حصے کے ساتھ شامل کر دیا جائے.ظاہر ہے کہ باؤنڈری کمشن کو اس لفظ کی مکمل تعریف اور توضیح کرنی پڑے گی.کیونکہ صرف اسی تعریف کی بناء پر ہی کش متذکرہ علاقوں کی شمولیت کا فیصلہ
۴۴۰ کر سکتا ہے.البتہ جب ایک دفعہ ہمارے سامنے معین طور پر اس لفظ کی تشریح، آجائے تو پھر ایڈی آسانی سے ہم ۹ہ کی مردم شماری کی بناء پر ان اکثریت والے علاقوں کے متعلق فیصلہ کر سکتے ہیں.اس مقام پر یعنی جہانتک الفاظ کی تشریح اور توضیح کا سوال ہے دوسرے امور کو بیچ میں لانا ہرگزنہ مناسب اور ضروری نہیں ہوگا.دوسرے امور پر غور کرنے کا معاملہ صرفت اس صورت میں پیدا ہوتا ہے جب عملاً سرحدوں کی تعیین کا کام شروع ہو جائے اور ابتدائی امور کلی طے ہو جائیں..اب کمشن نے یہ دیکھنا ہے کہ اکثریت والے علاقوں کے " قرب " سے کیا مراد ہے ؟ اگر صوبائی وحد کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو تمام پنجاب کا علاقہ اور تمام بنگال کا علاقہ مسلم اکثریت والے علاقے" ہیں کیونکہ واضح طور پر ان میں مسلمانوں کی اکثریت ہے.مگر چونکہ ان دونوں صوبوں کی اندرونی تقسیم کے متعلق فیصلہ ہو چکا ہے اس لئے ہمیں چھوٹے پیمانے پر ایک اور معیار مقرر کر نا پڑے گا تقسیم کے فیصلہ کے وقت ایک خیال یہ بھی تھا کہ ہم ضلع " کو معیار مقرر کر لیں اور اسی بناء پر اکثریت والے علاقے طے کرلیں.اگر یہ خیال قطعی اور آخری ہوتا تو باؤنڈری کمیشن کی چنداں ضرورت نہ تھی کیونکہ تمام ضلعوں کی حدود شخص کو معلوم ہیں اور اس بناء پر اکثریت والے علاقے طے کئے جاسکتے تھے.لیکن کشن کے ذمہ کام یہ ہے کہ وہ نہ صرف اکثریت والے علاقوں کو معین کرے بلکہ پنجاب کے دونوں حصوں کے ساتھ اُن اکثریت والے علاقوں کی ملحق سرحدات کا مسئلہ بھی طے کرے یعنی یہ واضح کرے کہ فلاں علاقے کے "قرب" کی وجہ سے وہ علاقہ یا خطہ اس قابل ہے کہ اُسے پنجاب کے فلاں حصے کے ساتھ شامل کیا جائے.ظاہر ہے کہ کمشن کو اس مقصد کے حصول کے لئے تقسیم کا ایسا معیارہ قائم کرنا پڑے گا جس سے پنجاب کے دونوں حصے جو دو علیحدہ علیحدہ صوبوں کی حیثیت سے کام کریں گے آزادانہ طور پر اپنے اپنے فرائض سر انجام دے سکیں.اس مقصد کے لئے یہ بھی ضروری ہوگا کہ حدود کی تعیین اور سرحدی لائن کا قیام اتنا مکمل ہو اور ایسا قابل عمل ہو کہ دونوں صوبے عمدہ پڑوسیوں کی طرح اپنی اپنی انتظامی ذمہ داریوں کو نبھا سکیں اور خوش اسلوبی کے ساتھ رہتے ہوئے ایک دوسرے سے تعاون کر سکیں.ایسا نہ ہو کہ یہ سرحدی لائن محض ایک تخیل کا کرشمہ ہو یا ایک نقاش کے موٹے قلم کی طرح آڑھی ترچھی ہوتی ہوئی کسی ایک گاؤں کے پیٹ میں سنے تو گزر جائے اور دوسرے کو بالکل ہی ادھ موا چھوڑ دے کمشن کو ہر حالت میں ایک انتظامی یونٹ“ بنانا پڑے گا جس
-A ام کی بنا پر تمام سرحدی امور کو طے کیا جا سکے.چونکہ ضلع کو انتظامی یونٹ تسلیم نہیں کیا گیا اس لئے اب ایک ہی صورت باقی ہے اور وہ یہ کہ تحصیل " کو " انتظامی یونٹ " مان لیا جائے.تحصیل کو انتظامی یونٹ تسلیم کر لینے اور اسے تقسیم کا معیار بنا لینے کے بعد کشن کا کام یہ ہوگا کہ وہ صوبے کا ایک ایسا نقشہ تیار کرے جس میں تحصیل وار مسلمانوں اور غیر مسلموں کی آبادی کے اعداد شمار بتائے گئے ہوں اور پھر اس آبادی کے تناسب سے تقسیم کا خط اس طرح کھینچا جائے کہ جس تفصیل میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور اس کی سرحدیں مسلمانوں کی اکثریت والے علاقے سے ملتی ہیں اُسے مسلمانوں کے علاقے کے ساتھ ، اور جس تحصیل میں غیر مسلموں کی اکثریت ہے اور اس کی سرحدیں غیر مسلموں کے اکثریت والے علاقے سے ملتی ہیں اُسے غیر مسلموں کی اکثریت والے علاقے کے ساتھ ملا دیا جائے.اس اصول کے مطابق معمولی کمی بیشی بھی ہو سکتی ہے یعنی تحصیل کے رقبہ جات میں ایسے ٹکڑے یہاں مسلمانوں یا غیر مسلموں کی اکثریت باؤنڈری لائن کے بالکل قریب ہو وہاں انہیں اپنے اپنے اکثریت والے علاقے کے ساتھ ملایا جا سکتا ہے.جب یہ ابتدائی مراحل طے پا چکیں تب باؤنڈری کمیشن اس امر کا مجاز ہو گا کہ وہ دوسرے امور پر غور کرنے کے نتیجہ میں اگر مقامی طور پر سرحدات کی تعیین کے سلسلہ میں کوئی رد و بدل کرنا چاہے تو کر دے.مگریہ رد و بدل بہر حال مقامی ہوگالی مقامی ضروریات کے پیش نظر کیا جائے گا.اس کی وجہ سے تقسیم کے اصل معیار پر ہر گئے کوئی حرف نہیں آئے گا.مثال کے طور پر اگر علاقوں کی تقسیم کے وقت یہ معلوم ہو کہ آبپاشی کے نظام کا منبع کسی دوسرے ملک میں ہے اور جن زمینوں کو اس منبع سے نکلنے ولی نہریں سیراب کرتی ہیں وہ کسی اور ملک میں آجاتی ہیں تو نہروں کے منبع اور نہری زمینوں کو ایک ہی ملک میں یکجا کر دیا جائے گا اور ایسا کرنا بالکل جائز اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق بالکل درست ہوگا.- اگر تقسیم کے لئے یہ اصول تسلیم کر لئے جائیں تو معلوم ہوگا کہ (یہ استثنار ان حالات کے جو دوسرے -1.امور پر غور کرنے کے نتیجہ میں پیدا ہوں) ضلع گورداسپور کی تحصیل پٹھانکوٹ مغربی پنجاب کے علاقے سے نکال کر مشرقی پنجاب کی تحویل میں دے دی بجائے گی.مگر ضلع گورداسپور کی باقی تمام تحصیلیں اور اسی طرح بقیہ سولہ اضلاع کی تمام تحصیلوں میں مسلمان مجموعی لحاظ سے اکثریت میں ہوں گے تحصیل اجنالہ ہو ضلع امرتسر کی تحصیل ہے اور جس میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور حسین کی
مم سرحدیں لاہور ،سیالکوٹ اور ضلع گورداسپور کی محدود سے ملتی ہیں، مغربی پنجاب میں شامل ہوگی.ا.اسی اصول کے مطابق یہ بھی ثابت ہو جائے گا کہ ضلع جالندھر کی دو تحصیلوں یعنی تحصیل نکو در اور تحصیل جالند جن کی سرحدات آپس میں بھی ملتی ہیں اور ضلع فیروز پور کی دو تحصیلوں یعنی تحصیل زیرہ اور تحصیل فیروز پور سے بھی ملتی ہیں.ان دونوں میں آبادی کے لحاظ سے مسلمانوں کی اکثریت ہے.۱۲.اس کے علاوہ یہ بھی ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ دریائے ستلج کے بائیں کنارے کے ساتھ کا علاقہ ہو تھیل فیروز پور کے ساتھ ملا ہوا ہے اور مکھر اور فاضل کا تحصیلوں میں سے گزرتا ہوا ریاست بہاولپورہ تک پچھلا گیا ہے مسلمانوں کی اکثریت سے آباد ہے.اسی علاقہ میں وادئی مستلج کا مشہور سلیمان کی بیٹڈ ورکس قائم ہے جہاں سے نہروں کا جال نہ صرف منٹگمری اور ملتان کے اضلاع کو سیراب کرتا ہے.بلکہ مغربی پنجاب اور ریاست بہاولپور کے نظام آبپاشی کے لئے بھی روح رواں کی حیثیت رکھتا ہے.یہ علاقہ ضلع منٹگمری کے ساتھ ملحق ہے اور واقعہ یہ ہے کہ دریا کے دونوں طرف مسلمانوں کے مشہور قبیلہ وٹو کے لوگ کثرت سے آباد ہیں.۱۳ اسی طرح اگر ہم ضلع جالندھر کی تحصیل نکو در اور مضلع فیروز پور کی تحصیل زیرہ کے درمیان سے دریائے نتایج کے دونوں کناروں کے علاقے پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہو گا کہ پنجاب اور ریاست نالا گڑھ کی حد تک کا تمام علاقہ جس میں روپڑ کا شہر بھی آباد ہے ایک ہی قسم کے مسلمان قبائل سے آباد ہے.۱۴.تحصیل جالندھر کی مخالف جانب کی سرحد کے ساتھ کا علاقہ جو ضلع ہوشیار پور کی دو تحصیلوں تحصیل دسویہ اور تحصیل ہوشیار پور کے ساتھ ملحق ہے ، کثرت سے مسلمانوں سے آباد ہے.اس علاقے کا کچھ حصہ دریائے بیاس کے ساتھ ساتھ تحصیل بٹالہ اور تحصیل گورداسپور کے ساتھ بھی ملا ہوا ہے اور تحصیل مجالند تحصیل بٹالہ اور تحصیل گورداسپور کے ساتھ بھی ملحق ہے.-۱۵ میں اُن دیگر امور سے قطع نظر کہ جن کی بابت میں ابھی کچھ بیان کروں گا.مغربی پنجاب اور مشرقی پنجاب کے درمیان تقسیم کا خط اس طرح کھینچا جانا چاہیئے جیسا کہ اس میمورنڈم کے ساتھ والے نقشہ میں اُسے ظاہر کیا گیا ہے یعنی مقام " A " سے لے کر " " " " کے ساتھ ساتھ اور اسی طرح "ھ" - " "ی" - "العت" - "جی" "ایک" "آئی" "جے " " کے " سے لے کر ایل کے مقام تک جیسا کہ اس گران پر سبز لائن سے ظاہر ہے جو اس میمورنڈم کے ساتھ منسلک ہے.
م اور - اگر مندرجہ بالا طریق پر سرحدات کی تعیین کی جائے تو ضلع امرتسر کی دو تحصیلیں تحصیل امرتسر تحصیل ترنتارن جن میں غیر مسلموں کی اکثریت ہے مسلم اکثریت والے علاقوں میں گھر کر رہ جائینگی اور وہ مشرقی پنجاب کے ساتھ ملحق نہیں رہیں گی.یہی حالت ضلع گوڑ گاؤں کی دو تحصیلوں فیروز پور بھڑ اور نوع تحصیلوں کی ہوگی جن میں مسلمانوں کی اکثریت ہے.یہ دونوں تحصیلیں بھی غیر مسلموں کی اکثریت والے علاقے میں گھر کر رہ جائیں گی اور وہ مغربی پنجاب کے ساتھ ملحق نہیں رہیں گی.پس ان کا حل یہی ہے کہ ضلع امرتسر کی دونوں تحصیلیں مغربی پنجاب کے ساتھ اور ضلع گوڑ گاؤں کی دونوں تحصیلیں مشرقی پنجاب کے ساتھ شامل کر دی جائیں اور مسلم اور غیر مسلم دونوں اس تصفیہ پر رضامند ہو جائیں.1 دیگر امور کے سلسلے میں ایک اہم امر جو قابل غور ہے اور جس کا حل بڑی سنجیدگی اور دانشمندی سے ہونا چاہیئے وہ یہ ہے کہ مندرجہ بالا طریق پر علاقے کی تقسیم کے نتیجہ میں اپر باری دو آپ کی نہروں کا ہینڈ ورکس جو ضلع گورداسپور کی تحصیل پٹھانکوٹ میں مادھوپور کے مقام پر واقع ہے مشرقی پنجاب میں آجاتا ہے اور تمام وہ علاقہ جس کو مادھو پور سے نکلنے والی نہریں سیراب کرتی ہیں (سوائے چند میل کے علاقے کے مغربی پنجاب میں آجاتا ہے.یہ صورت حال ایسی نازک ہوگی کہ اس سے دو نو حکومتوں کے درمیان مستقل جھگڑے اور مخاصمت کی بنیاد قائم ہو جائے گی.اس کی وجہ یہ ہے کہ اپر باری دوا ہے کے علاقہ میں بسنے والی تمام مسلم اور غیر مسلم آبادی کی معیشت اور ان کی روزی کا انحصار نہری ہیٹر ورکس کی مکمل غور و پرداخت پر منحصر ہوگا.اگر مہیڈ ورکس کا نظام خوش اسلوبی کے ساتھ چلتا رہے تب تو نہری علاقوں کی آبادی کی معیشت بر قرار رہے گی وگرنہ اقتصادی لحاظ سے انہیں شدید دھکا لگے گا.اس مشکل کو حل کرنے کے لئے یہ تجویز نہایت ضروری ہے کہ مادھوپور کے ہیڈ ورکس کا نظام اس جگہ سے دو میل اوپر کے مقام سے لے کر نہرا پر باری دو آب کے ساتھ ساتھ اس مقام تک جہاں تحصیل پٹھانکوٹ کی سند تحصیل گورداسپور سے بل بھاتی ہے مغربی پنجاب میں شامل کر دیا جائے.زیه خط مقام ایل " سے لے کر مقام " ایم " تک سبز رنگ کے ساتھ نقشہ میں دکھایا گیا ہے ) اس طریق سے ۰۷۷۴ ارا نفوس مغربی پنجاب میں شامل ہو جائیں گے اور ان میں سے ۵۰۲۸۴ مسلمان ہوں گے گویا تقریباً ۴ ، ۴۵ فیصدی آبادی مسلمان ہوگی.۱۸.سکھ اصحاب کی طرف سے اس امر پہ زور دیا گیا ہے کہ مغربی پنجاب میں مختلف جگہوں پر ان کی مقدس
۴۴ مذہبی یادگاریں اور مقدس مقامات موجود ہیں.مگر ہمیں یہ علم نہیں ہو سکا کہ اُن کی یہ دلیل کس اصول پر قائم ہے.کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ مغربی پنجاب میں جہاں جہاں سکھوں کے مقدس مقامات موجود ہیں وہ تمام علاقے مشرقی پنجاب میں شامل کر دیئے جائیں.ہرگز نہیں.اگر یہی اصول کار فرما ہو توضلع کمپلیور میں ور میں حسن ابدال کا مقام جہاں پنجہ صاحب واقع ہے مشرقی پنجاب میں شامل کرنا پڑے گا پس " دیگر امور پر غور کرنے کے ہر گز یہ معنی نہیں کہ ہم اس قسم کی بنیادوں پر تقسیم کا کام شروع کر دیں.آپ نے ملاحظہ فرمایا ہو گا کہ سکھوں کے مذہبی مقامات میں پٹنہ کا مقام بھی شامل ہے.(جہاں گورو گوبند سنگھ صاحب کی ولادت ہوئی) اور نندھیر کا مقام بھی شامل ہے (جہاں اُن کی آخری آرامگاہ اور کچھ تبرکات موجود ہیں ، اسی طرح مغربی پنجاب کی حدود سے باہر کئی ایسے مقامات ہیں جو سکھوں کے نزدیک مقدس ہیں.نندھیر کو ہی لے لیجئے جو حضور نظام دکن کی ریاست کی حدود کے اندر واقع ہے.ان میں سے کبھی بھی کسی کے متعلق یہ نہیں کہا گیا کہ اُسے سیکھوں کے مذہبی مقدس مقام ہونے کی وجہ سے پنجاب کے ساتھ ملحق کر دیا جائے.بالخصوص نندھیر کا مقام اس لئے قابل ذکر ہے کہ وہ ایک مسلمان حکمران کی راجدھانی میں واقع ہے مگر آجتک سیکھوں کی طرف سے کبھی ایسی شکایت نہیں آئی کہ اس مقام کے بارے میں مسلمانوں کی طرف سے انہیں کبھی کوئی تکلیف پہنچی ہو یا وہاں کی حکومت نے اُن کے ساتھ کوئی متعصبانہ برتاؤ کیا ہو.-19.پھر اگر کسی فرقے کے مقدس مقامات یا ان کی مذہبی عبادت گاہیں یا یادگاریں تقسیم کے اصول کی بنیاد بن سکتی ہیں تو پھر یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ مشرقی پنجاب کے اضلاع میں وہ تمام مقامات جہاں مسلمان بزرگوں اور بادشاہوں کے مزالہ ، اُن کی بنائی ہوئی مسجدیں اور ان کے مقدس مقامات موجود ہیں مغربی پنجاب میں شامل کر دیئے جائیں.آپ کو علم ہے کہ مشرقی پنجاب میں بیسیوں مقامات پر جہاں مسلمان بزرگوں اور ان کے مشائخ اور اُن کے اولیاء کے مزار اور اُن کی مقدس یادگاریں موجود ہیں.ہر سال بڑی تعداد میں میسلے اور عرس منعقد ہوتے ہیں اور ان میں سے بعض اتنے اہم ہوتے ہیں کہ گورنمنٹ کے مقامی دفاتر میں ان دنوں میں تعطیلات کر دی جاتی ہیں تاکہ عوام ان میں شامل ہوسکیں.پس مسلمانوں میں بھی عقیدت کے بعد بات کی ہرگز کمی نہیں.اور اگر یہی اصول کار فرما ہو تو میں بہر حال ان کی عقیدت اور ان کے مذہبی جذبات کا ویسے ہی احترام کرنا
پڑے گا جیسے کہ سکھ صاحبان کے جذبات کا.۵ کم کم ۲۰.ان دنوں اخبارات میں اس امر کا بھی خاصا پر چھا ہے اور اسے باقاعدہ ایک مہم کی صورت میں چلایا جا رہا ہے کہ پنجاب کی تقسیم جائداد کے اصول کی بناء پر عمل میں لائی جائے.یعنی "مسلموں" اور "غیر مسلموں کے مابین پنجاب کو ہر دو قوموں کے درمیان ملکیتی جائیداد کے معیار کے مطابق تقسیم کو دیا جائے، یہ دلیل بھی کسی طے شدہ بنیاد کے نہ ہونے کے سبب بالکل بے بنیاد ہے کیونکہ جناب وائسرائے صاحب اپنی پریس کانفرنس منعقدہ ہر چون سال میں صاف اور واضح الفاظ میں اعلان فرما چکے ہیں :- ملک منظم کی حکومت تقسیم کے اصول کو ملکیتی جائداد کی بنا پر طے کیا جانا ہرگز پسند نہیں کرتی “ ۲۱.اس ضمن میں باؤنڈری کشن کے دائرہ کار اور ان کے مقاصد کا ذکر کہ دینا بھی مناسب ہوگا.جناب وائسرائے صاحب نے مندرجہ بالا کا نفرنس سے صرف ایک روز بیشتر مورخہ ۳ جون ۱۹۴۷ء کو ریڈیو پر ملک معظم کی حکومت کی پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے کمشن کی مفوضہ ذمہ داریوں کا بھی ذکر فرمایا تھا چنانچہ وائسرائے کے بیان کے پیرا گراف میں کمشن کی ان ذمہ داریوں کا ذکر موجود ہے.اس پیراگران میں جو الفاظ اور مضمون بیان کیا گیا ہے اس پر لیگ اور کانگرس دونوں کا اتفاق رائے موجود ہے.چنا نچہ وائسرائے صاحب نے جو وضاحت اور تشریح فرمائی ان میں یہ صراحت موجود ہے کہ دیگر امور کا جائداد یا ملکیتی زمین سے قطعا کوئی تعلق نہیں ہو گا یہی وجہ ہے کہ اس تشریح کے پیش نظر مسلم لیگ نے باؤنڈری کشن کے دائرہ کار اور اس کے مقاصد کی توثیق کردی.اب جبکہ مسلم لیگ اور کانگرس دونوں کمشن کے معتین دائرہ کار کے متعلق متفق ہو چکے ہیں کشن کے لئے ہر گز مناسب نہیں کہ وہ اپنے دائرہ کار کی حدود سے تجاوز کرے.۲۲.اس کے علاوہ یہ امر یاد رکھنے کے قابل ہے کہ مسلم لیگ کے مطالبات میں جو اس میمورنڈم میں پیش کئے گئے ہیں تقسیم کا بنیادی اصول ” آبادی کو قرار دیا گیا ہے اور یہی اصول غیر مسلم اصحاب نے بھی تسلیم کیا ہے اور وائسرائے صاحب کا سر شجون والا اعلان بھی اسی بنیاد کی توثیق کرتا ہے بچنا نچہ وائسرائے صاحب نے فرمایا کہ غیر مسلم اصحاب کی طرف سے بعض صوبوں کی تقسیم کا جو مطالبہ کیا گیا ہے اس کی بنیا
بھی اسی اصول پر قائم ہے کہ جن علاقوں میں غیر مسلم اصحاب کی اکثریت ہے انہیں ان کی مرضی کے حالات ہرگز ان علاقوں میں مدغم نہ کیا بجائے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے.لہذا حقیقت یہی ہے کہ آبادی کی اکثریت والا اصول ہی تمام تقسیم کی جان ہے اور ملک یا صوبہ بات کی اندرونی تقسیم تقاضا کرتی ہے کہ اسی اصول کو حقیقی بنیاد تصور کیا جائے کسی اور معیار کو تقسیم کی بنیاد قرار دینا بالکل غیر متعلق ہوگا اور طے شدہ امور کے قطعی منافی ہوگا.ہز ایکسیلینسی وائسرائے صاحب نے صاف فرمایا ہے کہ کسی بھی بڑے علاقہ کو جہاں ایک فرقہ کی اکثریت ہے وہاں کے رہنے والوں کی مرضی کے خلاف کسی دوسرے بڑے علاقے میں جہاں وہ اقلیت میں ہو جاتے ہوں مدغم کرنا ہر گز درست نہیں ہوگا“ ۲۳.چنانچہ اس اصول کے پیش نظر اگر جائداد کی بناء پر کسی بڑے علاقے کو جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے اکثریت کی مرضی کے خلاف مشرقی پنجاب میں شامل کیا گیا اور انہیں مجبور کیا گیا کہ وہ غیر مسلموں کی حکومت میں زندگی بسر کریں تو یہ تقسیم ملک اور تقسیم صوبہ جات کے بنیادی اصول کی خلاف ورزی ہوگی.۲۴.یہاں یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنی نہایت مناسب ہوگی کہ جس حد تک زرعی زمینوں کی ملکیت کا سوال ہے اگو اس کا تقسیم ملک سے ہرگز کوئی تعلق نہیں اور نہ ہونا چاہیئے، غیر مسلموں کا یہ دعوئی کہ وہ مسلمانوں پہ بہ تری رکھتے ہیں درست نہیں صوبہ کے ان حصوں میں جہاں نئی آباد کاری ہوئی ہے.اور جین میں ترقیاتی سکیمیں نافذ کی جارہی ہیں مسلمانوں کا حصہ دوسروں پر غالب ہے اور یقیناً اُن کی تعداد کے لحاظ سے اُن کی ملکیت اور آباد کاری کا تناسب بہت زیادہ ہے.۲۵.یہاں یہ امربھی یاد رکھنا چاہیئے کہ جب مسلمانوں نے تقسیم ملک کا مطالبہ کیا تو مجملہ دیگر وجوہات کے تقسیم کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ غیر مسلموں نے مسلمانوں کی دولت، ان کی ملکیت اور ان کے وسائل کو انتہائی نا جائز طریقے سے ہتھیا نا شروع کر دیا تھا جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کی دولت اور ان کی ملکیت آہستہ آہستہ کم ہوتی گئی اور غیرمسلموں کی دولت اور ملکیت میں اضافہ ہوتا گیا.اب اگر تقسیم کا اصول آبادی کی اکثریت مان لیا جائے تو یہ انتہائی ستم ظریفی ہوگی کہ مسمانوں کو ان علاقوں سے بھی محروم کر دیا جائے یہاں ان کی اکثریت پائی بھاتی ہے.باؤنڈری کمیشن کے لئے اس حقیقت پر غور کرنا بھی نہایت ضروری ہے کہ اصلاح شاہ پور، لائلپور ،شیخو پورہ ہنگری اور ملتان کے نو آبادیاتی رقبے در حقیقت مسلمانوں کی
ملکیت تھے اور ان مسلمان قبائل کا گزارہ ان کے مویشیوں پر اور ان کی زرعی زمینوں پر موقوف تھا.لیکن جنب ان علاقوں میں نہری آبپاشی کا طریق رائج ہوا تو یہ تمام علاقہ حکومت کی ملکیت قرار دے دیا گیا اور اسے دوسرے اضلاع کے لوگوں کو ہاتھ یا تو فروخت کر دیا گیا یا بطور عطیہ جات دے دیا گیا.یہ حقیقت اتنی درد انگیز ہے کہ ان علاقوں کے مسلمان مالکان اراضی اس پر انتہائی احتجاج کرتے آئے ہیں.بہت سے غیر مسلم اصحاب جنہوں نے مذکورہ بالا اضلاع میں اراضی خرید کی اور پھر اس نچہ مالکانہ حقوق حاصل کئے.انہوں نے اس زمین کی قیمت اس روپیہ میں سے دی جو وہ سودی کاروبارہ کے ذریعے مصل کر چکے تھے.اس کاروبار کی تفصیل خود حکومت کے کاغذات ہی سے حاصل کی جاسکتی ہے اور یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ غریب کسان جو ان زمینوں پر آباد تھے بنیوں کے سودی ہتھکنڈوں میں پھنس کو غربت، افلاس اور محرومی کی کسی خطرناک حد تک پہنچ گئے تھے.واقعہ یہ ہے کہ ان لوگوں کی حالت زار اس قدر نازک اور اتنی نا گفتہ بہ ہو چکی تھی کہ حکومت کو بھی غلات کرنا پڑی اور سنتشار میں ایک قانون پنجاب اراضی ایکٹ نشانہ بنایا گیا جس کی رو سے سودی بنیاد پر زمین کا حصول ناجائز قرار دیا گیا.اس کے باوجود صورت حال کچھ زیادہ بہتر نہیں ہوئی مسٹر کیلورٹ اور سر سیکیم ڈارلنگ کی تحقیقاتی رپورٹوں سے ثابت ہوتا ہے کہ ان علاقوں میں کسانوں کی حالت بدستور ابتر رہی بحثی که صرف چند برس پیشتر پنجاب کی قانون ساز اسمبلی کو ایسے اقدامات اختیار کرنے پڑے جن سے ان عام زمینداروں اور مزار مین کو اشک شوئی کے طور پر کچھ امداد عن التصو تھی اور ان کی تکالیف کا کسی قدر ازالہ ہوتا تھا.لہذا ایسے حالات میں ان تمام حقائق کے باوجود اگر تقسیم کی بنیاد پھر بھی جائداد ہی تصور کی بجائے تو یہ زخموں پر نمک چھڑکنے والی بات ہوگی.۲۶ - جہانتک مغربی پنجاب کا تعلق ہے میں واضح طور پر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مغربی پنجاب میں کسی فرقے کے ساتھ اس کی حملو کہ بجائداد کی بنیاد پر سلوک نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی وہاں کی حکومت کسی کی جائداد میں مداخلت کرنے کا ارادہ رکھتی ہے.لہذا جائداد کو پنجاب کے دو حصوں کی تقسیم کی بنیاد قرار دینا بالکل بعید از قیاس ہے.۲۷.اس ضمن میں اس امر کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ غیر مسلم اصحاب یا سکھ صاحبان پر پنجاب کی تقسیم ٹھونسی نہیں جا رہی بلکہ اس تقسیم کا مطالبہ وہ خود کر رہے ہیں اور جیسا کہ وائسرائے صاحب نے اعلان
فرمایا ہے صوبہ میں اس تقسیم کی بنیاد غیر مسلموں کی اکثریت والے علاقے ہیں.پس غیر مسلم اصحاب کا اس بنیاد کو چھوڑ کر دوسرے معیار اختیار کرنا اور اس طرح مسلمانوں کے ساتھ کشمکش اور تعصب کی فضا پیدا کرنا ہرگز درست نہیں.۲۸- پھر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئیے کہ مشرقی پنجاب نے بھارت کی حکومت کا ایک حصہ بننا منظور کیا ہے اور اس لحاظ سے وہ اپنی آبادی ، وسائل اور سرحدات کے اعتبار سے بھارت کی حکومت کا ایک نہایت موثر اور دور رس جزو بن جائے گا.یہ پوزیشن پاکستان کے دونوں حصوں میں سے کسی ایک صوبے کو بھی اتنی مستحکم طور پر حاصل نہیں ہوگی کیونکہ پاکستان کے وسائل ہندوستان کے مقابلہ میں نسبتاً بہت تھوڑے ہوں گے.پس " آبادی کی اکثریت والے معیالہ کو چھوڑ کر دوسری بنیادوں کو وقوع میں لانا فقط اس لئے کہ مشرقی پنجاب کی سرحدات اور زیادہ آگے بڑھ بھائیں یا یہ علاقہ مغربی پنجاب کے تھوڑے سے علاقے میں سے بھی کچھ اور ہتھیا ہے، ہرگز قرین انصاف نہیں.بھارت کی حکومت کے پاس تو پہلے ہی اتنا علاقہ ہے اور اتنے وسائل ہیں کہ وہ پاکستان کے علاقے سے وائیلی اور اس کے رقبے سے کہیں زیادہ ہے.۲۹.یہاں ایک اور بات بھی خصوصیت سے نوٹ کرنے کے قابل ہے اور وہ یہ ہے کہ سیکھ صاحبان نے اپنے آپ کو بحیثیت قوم ہندو قوم میں مدغم ہونا قبول کر لیا ہے جس کے یہ معنی ہیں کہ ان کے نزدیک ان کے قومی مفادات وہی ہیں جو ہندو قوم کے ہیں.پس جب وہ اپنے قومی مفادات کو ہندو مفادات میں مدغم کر دینا پسند کرتے ہیں تو پھر علی طور پر اپنے مخصوص مطالبات کیوں پیش کرتے ہیں ؟ آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟ اگر تقسیم خود ان پر ٹھونسی بھاتی اور اس لحاظ سے وہ محسوس کرتے کہ وہ ایک کمزور اقلیت کی شکل میں تبدیل ہو گئے ہیں تب تو علیحدہ طور پر ان کے مطالبات کا پیش کیا جانا معقول بھی تھا.اور مناسب بھی لیکن سیکھوں نے تقسیم کا مطالبہ خود کیا ہے اور انہوں نے پنجاب کی تقسیم کے معاملہ میں بھی ہندوؤں کی مکمل ہمنوائی کی ہے.لہذا تقسیم کے مقاصد کے پیش نظر ہم سکھوں کو کوئی علیحدہ حیثیت ہر گز نہیں دے سکتے.وہ اصولی طور پر غیر مسلم بلاک میں ہی شامل ہیں کیونکہ انہوں نے خود اس میں شامل ہونا پسند کیا ہے.۳۰.اس میمورنڈم کے آغاز میں تقسیم کی جو بنیاد اتجویز کی گئی ہے وہ دونوں صوبوں میں تحصیل دار مسلمانون "
۴۴۹ اور غیر مسلموں کی آبادی کے تناسب کے لحاظ سے تھی یعنی تجویز یہ تھی کہ جس تحصیل میں مسلمانوں کی اکثریت ہو اُسے مغربی پنجاب کے ساتھ اور جس تحصیل میں غیر مسلموں کی اکثریت ہو اُسے شرقی پنجاب کے ساتھ شامل کر دیا جائے لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ عیسائی صاحبان کی یہ خواہش ہے کہ پنجاب کی تحصیلوں میں عیسائی آبادی کے لحاظ سے اُن کی تعداد کا زیادہ سے زیادہ حصہ (جس حد تک ممکن ہو سکے، مغربی پنجاب میں شامل کر دیا جائے.اس نقطہ نظر سے تحصیلوں میں آبادی کے لحاظ سے مسلمانوں اور عیسائیوں کا تناسب حسب ذیل ہو گا :- +1 تحصیل مسلم عیسائی میزان اجنالہ ۶۴۷ فیصدی جالندھر نکودر زیره فیروز پور +4 ۶۶۵۱۶ ۵۵۰۲ " 4.>.% 1+9 " ۳۱ - اس نقطہ نظر سے اگر ہم صورت حال کا جائزہ لیں تو ہمیں سرمدات میں کچھ تھوڑی سی ترمیم کرنی پڑیگی ضلع ہوشیار پور کی تحصیل دوسوسہہ میں کل آبادی ۲۷۳۲۴۶ ہے جس میں سے مسلمان ۱۳۲۱۰۵ ہیں.گویا کہ مسلمانوں کی آبادی ۱۴ ۴۸ فیصدی ہے.عیسائیوں کی تعداد ۴۷۲۹ ہے.اب اگر مسلمانوں کی تعداد میں عیسائیوں کی تعداد بھی شامل کر دی جائے تو یہ تعداد ۱۳۶۸۳۴ بن جاتی ہے گویا کہ کل آبادی کے نصف سے کچھ زیادہ ہو جاتی ہے اس بناء پر تحصیل دو سو سہہ ماحق ہے کہ اُسے مغربی پنجاب میں شامل کیا جائے.۳۲.خلاصہ کلام یہ ہے کہ باؤنڈری کمشن کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے پنجاب کے دونوں حصوں کی تقسیم ایسے طریق پر کرے کہ اس کے عمل پر کسی بہت سے بھی وہ امور یا مصالح اثر انداز نہ ہوں جن کا تقسیم کی بنیاد سے کوئی تعلق نہیں.اور تقسیم کی اصل بنیاد یہ ہے کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کی اکثریت والے علاقے جو مغربی یا مشرقی پنجاب کی سرحدات سے ملتے ہوں اپنی اپنی نوعیت کے لحاظ سے پنجاب کے ان دونوں حصوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ملحق
۴۵۰ کر دیئے جائیں.ایسا نہ ہو کہ دیگر امور پر غور کرتے ہوئے یہ خطرناک فروگذاشت سرزد ہو جائے کہ الیسا علاقہ جو مسلمانوں یا غیر مسلموں کی اکثریت والا علاقہ ہے کسی ایسی حکومت کے ساتھ شامل کر دیا جائے مشین کے ماتحت رہنا اس علاقے کی اکثریت پسند نہ کرتی ہو.اسی طرح ان " دیگر امور" کے پیش نظر ایسا بھی نہ ہو کہ علاقوں کی کتر و بیونت ایسے انداز سے کی جائے کہ جو اکثریت والا علاقہ ہے وہ تبدیل ہو کہ اقلیت میں رہ جائے.یہ ہر دو صورتیں انصاف کے صریح خلاف ہوں گی.۳۳.پر وہ خطوط ہیں جن کی بناء پر ہم باؤنڈری کمشن سے درخواست کرتے ہیں کہ ان کی بناء پر پنجاب کو مغربی اور مشرقی حصوں میں تقسیم کر دیا جائے ہمیں اپنی نیک نیتی پر پورا یقین ہے، اور اس کے ساتھ اپنے مقصد کی سچائی پر پورا بھروسہ ہے.پھر اس کے ساتھ ہی ہمیں اللہ تعالیٰ کی ذات پر جو ارحم الراحمین ہے اور جو مشرق و مغرب کا مالک ہے، کامل یقین ہے اسی خدا کے حضور ہم عاجزی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ کشن کے ممبران کی خود رہنمائی فرمائے اور اُن لوگوں کو بھی صحیح اور سچا راستہ دکھائے جو اس تمام کارروائی میں حصہ لے رہے ہیں.اللہ تعالے آپ اپنے فضل اور رحم کے ساتھ ہم سب کو یہ توفیق عطا فرمائے کہ ہم اس کے بندوں کی صحیح خدمت کرسکیں.اور امن و امان کے ساتھ آپس میں مل جل کر زندگی بسر کر سکیں تاکہ حقیقت میں خدا تعالے کا نام بلند ہو اور اس کی عزت اور شان و شوکت تمام قلوب میں راسخ ہو جائے کیونکہ وہی ہستی ہے جو تمام چیزوں سے بالا ہے اور ہر لحاظ سے واجب عزت اور لائق صد احترام ہے.اسے خدا تو ایسا ہی کر.آمین * گوشواره نمبرا مغربی پنجابے اضلاع میں فرقہ واں نقشہ آبادی عیسائی اور اونچی ذات کے اچھوت اقوام سیکھ دوسرے لوگ ہندو مسلمان کل آبادی کل رقبه مربع میل میں x ۱۶۸۳۰۶۵۴ ۱۳۳۲۳۵۸۵ ۱۶۸۳۸۵۳ ۳۳۶۹۴۳۲۰۳۶۱۷۶۴۵۰۰۹۷ ۱۲۱
گوشوارہ نمبر ۲ نقشه آبادی بلحاظ ان تجاویز کے جو میمورنڈم میں پیش کی گئی ہیں اونچی ذات کے اچھوت اقوام سیکھ عیسائی اور اونچی ذات کے دوسرے لوگ ہندو مسلمان مشکل آبادی کل رقبہ د سریع میں میں 1.۲۰۴۲۷۹۴۶۱۷۲۷۱۹۷۶ ۲۶۰۴۷۱۲ ۵۴۸۳۶۰۱۲۴۹۸۴۷۳۵۰۴۷۲۵ Z ۲۱۹۸ ۱۲۶۷ بر ۱۲۶۲۴ ۲۶۴۷ گوشواره نمبر ۳ تحصیل ہائے اجنالہ، فیروز پور ، نکودر ، زمین ، جالندھر اور ملحقہ مسلم اکثریت والے علاقوں میں نقشہ آبادی ۱۲۴۶۲۸۲۵ ۱۴۰۵۹۹ ۴۷۹۷۰ 194107 ۳۹۹۰۲ Z ۱۰۵۸۱۴۹ ۱۹۶۴۸
۴۵۲ چوہدری محمد فالله خانصاح کی قائداعظم ملاقات جدیدی مخالف رشدخان صاحب نے اپنی ت غیر مطبوعہ خود نوشت سوانح حیات میں حد بندی اور مسلم لیگ کے محرم اور حد بندی مشن کے عمل اقعا کسی کے سلسہ میں قائداعظم سے طاقت مسلم ملاقات لیگ کے محضر نامہ اور ریڈ کلف ایوارڈ سے متعلق اپنے پیش آمدہ اور چشم دید واقعات پر نہایت شرح وبسط سے تسلیم اُٹھایا ہے اور اس سلسلہ میں بعض نہایت پرامہ از گوشوں کو پہلی بار بے نقاب کیا ہے.جناب چودھری صاحب موصوف کے بیان مورہ واقعات تحریک پاکستان کا ایک اہم باب ہیں اور ان کے بغیر بہادری کوئی قومی و ملی تاریخ مکمل نہیں قرار دی جا سکتی.لہذا ان کا موجودہ اور آئندہ نسلوں کے لئے محفوظ کیا جانا ضروری ہے.چودھری صاحب تحریہ فرماتے ہیں کہ کارڈ مونٹ بیٹن وائسرائے بن کر آئے تو آزادی کے متعلق ضروری انصرامات اور درمیانی مراحل جلد جلد طے ہونا شروع ہوئے بانڈ کے دوران میں کیا کیا اُتار چڑھاؤ ہوئے.کیا کیا چالیں چلی گئیں.کونسے منصوبے کامیاب ہوئے اور کونسے ناکام ، بنی نوع انسان کا کین بلند گھاٹیوں اور کین پست وادیوں سے گذر ہوا.اور یہ سال اپنے پیچھے کتنی نیک یادیں اور منحوس ورثے چھوڑ گیا.ان کا شمار کرنا اور ان کی صحیح تصویر پیش کرنا ایک دیانت دار ، راست ہو ، محنتی اور خدا ترس مورخ کو چاہتا ہے جو کسی وقت ضرور پیدا ہوگا لیکن ابھی ظاہر نہیں ہوا.برطانوی وزیر اعظم نے اپنے ۳ جون شاہ کے بیان میں تقسیم ملک کے منصوبے کا اعلان کر دیا.اس اعلان کے ہوتے ہی میں نے فیصلہ کر لیا کہ مجھے فیڈرل کورٹ سے علیحدہ ہو جانا چاہئیے چنانچہ میں نے اپنا استعفا بھیج دیا کہ - ارجون سے میں عدالت سے علیحدہ ہو جاؤنگا اس وقت میرا ارادہ تھا کہ تقسیم کے بعد میں لاہور میں دوسات کی پریکٹس شروع کروں گا لیکن اتفاق ایسا ہوا کہ ان دنوں عالی جناب نواب سر حمید اللہ خان صاحب ٹوٹے القاب والی بھوپال دتی میں فروکش تھے.جب انہیں میرے ارادے سے اطلاع ہوئی تو انہوں نے کمال شفقت سے فرمایا کہ تم کچھ عرصے کے لئے بھوپال میرے پاس آجاؤ تا کہ میں اس مشکل مرحلے میں جو والیان ریاست کو در پیش ہے تم سے مشورہ کر سکوں بجناب نواب صائب کی طرف سے یکن پہلے بھی بہت کریمانہ الطاف کا نور رہا تھا.ان کا ارشاد میرے لئے واجب التعمیل تھا.چنانچہ میں عدالت سے علیحدہ ہوتے ہی بھوپال چلا گیا چونکہ ابھی کوئی صحیح اندازہ نہیں تھا کہ بھوپال میں کتنا عرصہ قیام ہوگا اور اس کے بعد کیا حالات ہوں گے.اس لئے ہم
۴۵۳ نے اپنا ذاتی سامان سترہ بڑے بڑے کھوکھوں میں احتیاط کے ساتھ محفوظ کر کے ایک دوست کے ہاں پرانی دتی میں رکھوا دیا.چند دن بعد ہی دلی میں بے چینی اور بدامنی کے آثارہ شروع ہو گئے اور جیسے تقسیم کی تاریخ قریب آتی گئی حالت بد سے بد تر ہوتی گئی.اس کے بعد معلوم نہ ہو سکا ہمارے سامان کا کیا حشر ہوا.جہاں انسانی جان ، عزت ، آبرو کی کوئی قدر باقی نہیں رہ گئی تھی اور لاکھوں انسان ہر نوع کی وحشت اور بہیمیت کا شکار ہو رہے تھے وہاں محض سامان کے متعلق دریافت بھی کرنا سنگدلی کے مترادف ہوتا.نہ ہم نے پوچھا نہ کچھ معلوم ہوا.بھوپال میں ہمارے لئے مکان ، سامان ہر سہولت عالیجناب نواب صاحب کے فرمان سے بہتا کردی گئی اور جتنا عرصہ ہم بھوپال میں ٹھہرے ہم نے بفضل اللہ بہت آرام پایا.فجزاہ اللہ احسن الجزار - جب آزادی ہند کے ایکٹ کا مسودہ پارلیمنٹ میں پیش ہونے کا وقت قریب آیا تو عالیجناب نواب صاحب نے خاکسار کو ارشاد فرمایا، تم دو ہفتے کے لئے لندن چلے جاؤ تمہاری وہاں بہت سے اراکین پارلیمنٹ سے شنائی ہے.تم وہاں یہ بھائزہ لینا کہ مسودے پر بحث کے دوران میں کیا کسی ایسی وضاحت کا امکان ہے جس سے نئے آئین میں والیان ریاست ہائے ہند کے حقوق کی حفاظت کر سکے.اگر ایسا کوئی موقعہ ہو تو اس سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرنا.میں جناب نواب صاحب کے ارشاد کی تعمیل میں سفر انگلستان کے لئے تیار ہوا.تو دتی سے پیغام آیا کہ جناب قائد اعظم نے خاکسار کو طلب فرمایا ہے.چنانچہ میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے فرمایا.پنجاب میں جو کیشن حد بندی کے لئے قائم کیا جانے والا ہے اس کے درو بر مسلم لیگ کی طرف سے وکالت کی ذمہ داری ہم تمہارے سپرد کرنا چاہتے ہیں.میں نے گذارش کی، ہمیں حاضر ہوں لیکن جناب نواب صاحب کے ارشاد کے ماتحت میں عازم انگلستان ہونے والا ہوں.مجھے معلوم نہیں کمیشن کی کارروائی کب شروع ہو گی اور مجھے تیاری کے لئے کتنا وقت ملی گا.قائد اعظم : تم انگلستان کتنا عرصہ ٹھہر دو گے ؟ ظفر اللہ خال : میرا اندازہ تو پندرہ دن کا ہے.قائد اعظم پھر تمہیں کوئی فکر نہیں ہونا چاہیے.کمشن کی کارروائی کے شروع ہونے میں بھی مبی دیہ ہے.ابھی تو کوئی امپائر بھی مقرر نہیں ہوا.ظفر اللہ خال: امپائر کے متعلق میں ایک گزارش کرنا چاہتا ہوں.ہمیں کسی ایسے شخص کے تقریر پر شعر بہتا
For چاہئیے جس کی دیانت پر پورا اعتماد ہو سکے.آپ لندن کی رہائش کے زمانے میں پریوی کونسل کے روبرو پریکٹس کرتے رہے ہیں.آپ کو اتفاق ہو گا کہ برطانوی LORDS OF APPEAL اپنے ماحول اور اپنے فرائض کے لحاظ سے نہایت دیانتدار اور غیر جانبدار ہوتے ہیں.آپ زور دیں کہ ان میں سے کسی کو امپائر مقر کیا جائے.ہر انسان غلطی کر سکتا ہے لیکن ہمیں یہ یقین ہونا چاہئیے کہ جو صاحب مقرر ہوں وہ کسی کے اثر رسوخ کے ماتحت یا کسی کے کہنے کہلانے کے نتیجہ میں کوئی کے اور سوچ فیصلہ نہ کریں.قائد اعظم، میں تمہارے مشورے کو ذہن میں رکھوں گا ظفر اللہ خال: آپ کو کوئی اندازہ بتایا گیا ہے کہ مجھے تیاری کے لئے کتنا عرصہ درکار ہوگا ؟ قائد اعظم جیسے میں نے کہا ہے تمہیں کافی وقت میسر ہوگا.لاہور کے وکلا نے پر اکیس تیار کر لیا ہوگا تمہیں صرف اپنے دلائل کو ترتیب دینا ہو گا اور اسلوب بحث طئے کرنا ہوگا.ظفر اللہ شمال میں لندن سے واپسی پر کراچی سے سیدھا لاہور چلا جاؤں گا یہاں میں کس کو اطلاع دوں؟ قائد اعظم : نواب ممدوٹ سب انتظام کریں گے.جناب قائد اعظم سے رخصت ہو کہ میں لندن چلا گیا.جب وزیر اعظم اٹلی نے ایکٹ آزادی ہند کا مسود ایوان عام میں پیش کیا تو میں ایوان کی گیلری میں موجود تھا.وزیر اعظم کی تقریہ بہت صاف اور واضح تھی لیکن ایک امر سے مجھے حیرانی بھی ہوئی اور پریشانی بھی.انہوں نے اپنی تقریر میں بیان کیا ہم تو چاہتے تھے کہ لارڈ مونٹ بیٹن ہندوستان اور پاکستان دونوں کے آزادی کے بعد پہلے گورنر جنرل ہوں لیکن افسوس ہے که هر جناح رضامند نہ ہوئے.قائد اعظم کے متعلق افسوس کا اظہار مجھے پسند نہ ہوا.اس تفصیل کا ذکر اقل تو ضروری نہیں تھا اور اگر وزیر اعظم کی رائے میں یہ ذکر ضروری اور مناسب تھا تو ساتھ ہی یہ بھی مناسب تھا کہ وہ کہتے کہ اس تجویز پر اتفاق نہ ہوا.قائد اعظم کا نام لے کر اظہار افسوس سے ترشیح ہوتا تھا کہ وزیر اعظم کو اس تجویز کے ناکام رہنے پر قائد اعظم سے ذاتی رنج تھا اور انہوں نے ایوان کے سامنے اس رنج کوئیوں تشہیر کیا.بعد میں متعدد مواقع پر اُن سے ایسی حرکات سرزد ہوئیں جن سے میرے اس قیاس کو تقویت پہنچی یوی بھی مسٹر ایٹی حسن خلق کا نمونہ شمار نہیں ہوتے رہے.سر سیموئیل ہوں جو گول میز کانفرنس کے دوران میں وزیر ہند ہوئے تھے بعد میں وزیر بھر اور پھر وزیر
۴۵۵ خارجہ ہوئے اور HOAR - LAUAL PACT کے رد عمل کے نتیجے میں مستعفی ہوئے.اپنی ہسپانوی سفارت کا عرصہ میڈرڈ میں گزار کر واپس آچکے تھے.میڈرڈ میں حسن کارکردگی کے صلے میں وہ VISCOUNT بنا دیئے گئے تھے اور اب LORD TEMPLE WOOD LORD کے نام سے ایوان الامراء کے رکن تھے.میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے لندن آنے کی غرض بیان کی.انہوں نے فرمایا.میں اس معاملے میں ایوان الامراء میں کچھ وضاحت حاصل کرنے کی سعی کروں گا.جب مسودہ ایوان عام ہے منظور ہو گر ایوان الامراء میں زیر بحث آیا تو دوران بحث میں لارڈ ٹیمپل وڈنے سوال کیا کہ والیان ریاستہا ئے سے متعلق شق سے کیا یہ مراد ہے کہ آزادی کے بعد ایک والی ریاست کو اختیار ہو گا کہ ہندوستان کے ساتھ ریاست کی طرف سے الحاق کرے یا پاکستان کے ساتھ الحاق کرے یا اگر پسند کرے تو دونوں میں سے کسی کے ساتھ الحاق نہ کرے.آزاد رہے ؟ ایوان الامراء میں مسودے کی نگہداشت نائب وزیر ہند LORD LISTOWEL کے سپر دھی.انہیں اس سوال کی توقع بھی نہیں تھی اور یہ سوال ان کے لئے پریشان کن بھی تھا.وزیر اعظم بہت محتاط تھے کہ پارلیمنٹ میں مسودے کے زیر بحث آنے پر والیان ریاست کے متعلق کسی ایسی بات پر زور نہ دیا جائے جس پر کانگریس بگڑ بیٹھے شیق متعلقہ کے الفاظ واضح تھے اور اُن کی صحیح تعبیر وہی تھی جو لارڈ ٹیمپل وڈ نے اپنے سوال میں پیش کی لیکن لارڈ لسٹوئیل کھلے الفاظ میں اسے تسلیم کرنے سے جی چراتے تھے.چنانچہ انہوں نے جواباً صرف اپنے سر کو اثباتی جنبش دے دی جس پہ لارڈ ٹیمپل وڈ نے فورا یہ کہہ کر ان کی جنیش سر کو ریکارڈ پر ثبت کر دیا.I TAKE IT THAT THE NOBLE LORDS سر NOD CONFIRMS MY ASSUMPTION جناب نواب صاحب نے بعض نجی امور کے متعلق مجھے ہدایت فرمائی تھی کہ میں ان کی طرف سے ہزبانی نہیں بجناب آغا خاں کی رائے دریافت کروں.لندن پہنچنے پہ مجھے معلوم ہوا کہ ہز ہائی نہیں پیرس میں ہیں.میں نے وہاں ان کی خدمت میں گزارش ارسال کی کہ خاکسار شریہ ملاقات کا متمنی ہے.ان کا تار آیار کل شام مجھے 12 میں لو اور تیرے ساتھ کھانا کھ اور دو برگردون جب میں نے تم پہنچا اور CONCIERCE سے اطلاع کرنے کو کہ تو GEORGE نے مجھ سےکہا نہ بانی ابھی بھی پہنچے میں معلوم ہوتا ہے ان کے دل میں تمہاری بہت قدر ہے کیونکہ آج پیرس کے گھوڑ دوڑ کے میدان LONGENA NPS میں پرنس علی تھاں کا گھوڑا RAND PRIZE ہے میں اول آیا ہے اور اس وقت ہوڈ نہ پرنس علی خاں کے
۴۵۶ اعزازہ میں دیا جا رہا ہے اس میں ہز ہائی نہیں کی شمولیت دونوں باپ بیٹوں کے لئے بہت خوشی اور فخر کا محبوب ہوتی لیکن ہز ہائی نیں تمہیں ملنے کے لئے یہاں پہلے آئے ہیں مگر میں بہت خوش.تم او پر جاتے ہی سب سے پہلے اس جیت پر مبارک باد دینا ( جارج سترہ سال سے مجھے جانتا تھا اور اسے معلوم تھا کہ ہز ہائی نہیں میرے ساتھ بہت شفقت سے پیش آتے ہیں.جارج اور RITZ ایک قسم کے توام تھے.بڑا لمبا عرصہ ان کا جوڑ رہا.بھارج کی سرگذشت جو ایک لحاظ سے RITZ اور ITZج میں ٹھہرنے والوں کی سرگذشت ہے EORE E OF THE RITZ نا کے نام سے چھپ چکی ہے) ہربانی نہیں تھا کسار کے ساتھ اسی شفقت سے پیش آئے.جو آپ کا خاصہ تھی.امور مشورہ طلب کے متعلق اپنی رائے کا اظہار فرماتے رہے.لیکن یہ گفتگو ایک مجلس میں ختم نہ ہو سکی.فرمایا کل دو پر مجھے واپس پیرکس جانا ہے.یہاں سے روانہ ہو کہ BANK COUTES BANK میں بھاؤں گا.اگر تم دس بجے صبح مجھے وہاں مل بھاؤ تو میں بقیہ امور کے متعلق وہاں تمہیں نوٹ لکھوا دوں گا ( CoUTTS BANK پرائیویٹ بینک ہے.بڑی مدت سے قائم ہے اور نہایت قابل اعتماد ہے.شاہی خاندان کے حسابات بھی اسی بینک کے ساتھ ہیں، میں وقت مقررہ پر STRAND میں بینک کے دفتر میں حاضر ہو گیا.الگ بیٹھ کر بہز ہائی نہیں نے بغیر امور کے متعلق بھی اپنا مشورہ نوٹ کر وا دیا اور وہیں سے واپس پیرس روانہ ہو گئے.Sie کے بعد بند می کشن کے امپائر ہونے ·SIR میں ابھی لندن میں ہی تھا ک CYRIL RADELIFEE کہ کا اعلان ہو گیا.مجھے PALL MALL کا وہ مقام خوب یاد ہے جہاں میں نے یہ اعلان اخبار میں دیکھا اور یہ بھی خوب یاد ہے کہ میری طبیعت اس خیال سے بہت پریشان ہوئی کہ جناب قائد اعظم نے ایک پریکٹس کرتے ہوئے بیرسٹر کو تو پارلیمنٹ کے عمبر بھی ہیں کیسے امپائر تسلیم کر لیا.ان پر تو کئی قسم کا اثر ڈالا تھانے کا امکان ہو سکتا ہے.پھر خیال آیا کہ محض قیاس کی بناء پر پریشان ہوتا ہے کا رہے.کیوں نہ ان سے مل کر ان کے متعلق رائے قائم کی جائے میں نے حاضر خدمت ہونے کی اجازت چاہی.انہوں نے اپنے مکان واقع HIGH GATE پر ملنے کا وقت عطا فرمایا.اس سے مجھے کچھ اطمینان ہوا کہ سفر کی تیاری میں مصروف ہونے کے باوجود عدم فرصت کی بناء پر عذر نہیں کیا.پھر اپنے دفتر یا ایوانِ عام میں طلب نہیں فرمایا جس سے توشیح ہوتا کہ رسمی علیک سلیک کے سوائے اور کچھ حاصل نہ ہوگا.یہ تو نہ میری نیت تھی نہ مناسب تھا کہ ہیں اُن سے ان کے فرائض سے متعلق کوئی ایسی بات چیت کرتا جو اُن کی رائے یا فیصلے پر اثر انداز
۴۵۷ ہو سکتی لیکن وہ مجھے جانتے نہیں تھے اس لئے میری نیت یا ارادے کے متعلق کوئی قیاس نہیں کر سکتے تھے.پھر بھی ان کا مجھے ملاقات کے لئے وقت دینا کم سے کم یہ ظاہر کرتا تھا کہ انہیں اپنے پر ضرور اعتماد ہے جو میرے لئے باعث اطمینان تھا.چنانچہ میں حاضر خدمت ہوا گفتگو با لکل سرسری تھی.اپنے پروگرام کے متعلق اتنا فرمایا کہ میں بجلد روانہ ہونے والا ہوں.لیکن جہانتک میں اندازہ کر سکا اُن کی طبیعت پر اُن کے فرائض کی اہمیت اور ان کے سرانجام دینے کے متعلق کسی قسم کے شوق یا جوش کا تاثر نہیں تھا ئیں اُن کی ملاقات کے لئے پریشان لیکن کچھ اطمینان حاصل کرنے کی توقع میں گیا اور پریشان تر واپس آیا.لندن میں کم سے کم عرصہ ٹھہرنے کے بعد میں واپس روانہ ہو گیا اور کراچی سے سیدھا لاہور گیا میں اپنے اندازے سے ایک دن قبل لاہور پہنچا سٹیشن پر اصحاب کرام کا بہت ہجوم تھا.جناب نواب صاحب ممدوٹ سے بے سُن کر کہ SIR CYRIL RADCLIFFE لاہور پہنچ چکے ہیں اور دوسری صبح گیارہ بجے فریقین کے پیشن گوکہ وکلاء کو طلب فرمایا ہے.بحیرت اور پریشانی ہوئی ساتھ ہی جناب نواب صاحب نے فرمایا.کل ۲ بجے بعد دو پہر میرے مکان پہ تمہاری ملاقات وکلاء کے ساتھ ہوگی.اس سے مجھے کچھ ڈھارس ہوئی کہ گو وقت تھوڑا ہے.مجھے اور تو کوئی کام ہے نہیں.وکلاء کے ساتھ متواتر مشورے کا پروگرام طے کر کے اللہ تعالیٰ کے فضل اور صبح شام تیاری میں صرف کر کے اور اس کی عطا کردہ توفیق سے بحث کے شروع ہونے تک کیس کا ڈھانچہ تیار ہو جائے گا.نواب صاحب نے ارشاد فرمایا.تمہارا قیام تو میرے ان ہی ہوگا ؟ میں نے گذارش کی میں اپنے دیرینہ کو مفرما جناب سرسید مراتب علی صاحب کے ہاں ٹھہرنے کا انتظام کر چکا ہوں.ان کا مکان آپ کے دولتکدے سے بہت قریب ہی ہے ( اس گفتگو کے دوران میں ہم سٹیشن سے باہر نکل رہے تھے جناب نواب صاحب میری بائیں جانب کھتے اور جناب ملک سر فیروز خان نون صاحب میرے دائیں ہاتھ پر تھے جناب ملک صاحب نے جناب نواب صاحب کا آخری جملہ سنتے ہی جھک کر میرے کان میں کہا ان کے ہاں نہ ٹھہرتا.ان کا مکان تو ریلوے جنکشن کی طرح ہر وقت کچھ مہجوم رہتا ہے.تمہیں کام کی نظر توجہ کرنا دشوار ہو گا اور بالکل یکسوئی حاصل نہیں ہوگی.میں نے جو گزارش نواب صاحب کی خدمت میں کی تھی جناب ملک صاحب سے دوہرا دی.ان کا اطمینان ہو گیا) پھر نواب صاحب نے فرمایا میرے پاس دو کاریں ہیں.بڑی کار میں تمہارے استعمال کے لئے تمہاری جائے قیام پر بھیج دوں گا.میں نے گذارش کی نواب صاحب میں یہاں کام کرنے کے لئے آیا ہوں سیر کرنے نہیں آیا.اپنے کام کے متعلق جو آنا جانا
۴۵۸ ہوگا.اس کیلئے سواری کی ضرورت بے شک ہوگی، اس کا جو بھی مناسب انتظام ہو آپ فرما دیں.اس کے علاوہ مجھے کسی سواری کی ضرورت نہیں.جہانتک مجھے یاد پڑتا ہے یہ سوموار کی شام تھی.منگل کی صبح اور بجے ہم سر سیرل ریڈ کلف کی خدمت میں حاضر ہو گئے کشن کے اراکین جناب خانیہا در شیخ دین محمد صاحب، جناب مسٹر محمد منیر صاحب، جناب لالہ مہمند چند مہاجن صاحب اور جناب سردار تیجا سنگھ صاحب بھی موجود تھے.سر سیرل نے کمشن کا پروگرام یہ بتایا کہ سب فریق آئندہ جمعہ کی دو پہر تک اپنے تحریری بیان داخل کر دیں.آئندہ سوموار کو کشن زبانی بحث کی سماعت شروع کرے گا میں خود شماست میں شریک نہیں ہوں گا کیونکہ اگر کشن بالاتفاق یا کثرت رائے سے بعد بندی کر دے تو میری طرف سے کسی دخل اندازی کی ضرورت نہیں ہوگی.میرا کام صرف اس صورت میں فیصلہ دیتا ہے کہ کشن کے اراکین کسی فیصلے پر نہ پہنچ سکیں نہ بالاتفاق نہ کثرت رائے سے.لیکن کمشن کے روبرو جو کچھ بیان کیا جائیگا.اس کی تفصیلی رپورٹ ہر روز مجھے بھیج دی جایا کرے گی.یہ پروگرام بھی میرے لئے پریشانی کا باعث تھا مینگل کی دو پہر ہو چکی تھی اور تحریر کی بیانات جمعہ کی دو پہر تک داخل کئے جاتے تھے.مجھے اتنا بھی معلوم نہیں تھا.کہ میرے ساتھ کون وکلا صاحبان کام کریں گے.آیا انہوں نے تحریری بیان تیار کر لیا ہے یا کس حد تک تیار کیا ہے.مجھے بحث کی تیاری کے لئے کیا کرنا ہو گا ؟ اس تیاری کے لئے میرے رفقاء کہاں تک میری مدد کر سکیں گے ؟ مجھے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ ہماری طرف سے کشن کے روبہ و کیا ادعا پیش ہونا چاہیے.میں اب بہت بیتابی سے ۲ بجے سہ پہر کا منتظر تھا کہ اپنے رفقاء اور مشیران سے مل کر ان سب امور کے متعلق تفاصیل معلوم کروں.اور ہم سب مستعدی سے اپنے اپنے کام کے پیچھے لگ بھائیں.اول تو جو کچھ بقیہ کام تحریری بیان کی تکمیل کے لئے ضروری ہو اُسے سرانجام دیا جائے اور پھر بحث کی تیاری کی جائے.میں وقت مقررہ پر ممدوٹ والا میں حاضر ہو گیا.وکلاء اصحاب کی تو کوئی کمی نہیں تھی.اکثر اصحاب کے ساتھ میں اپنی پریکٹس کے زمانے میں کام کر چکا تھا اور انہیں اچھی طرح سے جانتا تھا.بعض ان میں سے برسوں میرے سینئر تھے.ان کے علاوہ بھی بعض کے ساتھ میری جان پہچان تھی.یہ اجتماع محمد روی ولا کے گول کمرے میں تھا اور مجھے کسی قدر حیرت ہوئی کہ اتنی تعداد میں قانون دان اصحاب کو کیوں جمع کیا گیا ہے.میں نے سب صاحبان کے ساتھ مصافحہ کرنے کے بعد کہا.صاحبان آپ میں سے کون کون صاحب اس کیس میں میرے رفیق کار ہیں ؟ اس پر جناب ڈاکٹر خلیفہ شجاع الدین صاحب نے فرما یا کس کیس میں
۴۵۹ ظفر اللہ خال یہی تقسیم کے کیس میں جس کے لئے میں حاضر ہوا ہوں ! خلیفہ شجاع الدین ہمیں کسی کیس کا کوئی علم نہیں.نہر سے تو میر یہ کہا گیا کہ تم تقسیم کے کیس کے لئے آئے ہو.اور مسلم لیگ کا کیس کمشن کے روبرو تم پیش کرو گے اور تمہیں ملنے کے لئے ہمیں اس وقت پہنانی آنے کی دعوت دی گئی.میں نے جناب نواب صاحب کی طرف استفساراً دیکھا.آپ مسکرا دیئے ! میں نہایت سر آئیگی میں اُٹھ کھڑا ہوا.اور گذارش کی.آپ صاحبان سے معذرت چاہتا ہوں.وقت بہت کم ہے اور مجھے کیس کی تیاری شروع کرتا ہے.آپ کی تکلیف فرمائی کا ممنون ہوں لیکن اب رخصت چاہتا ہوں جناب نواب صاحب کمرے سے میرے ساتھ ہی باہر آئے اور میں نے اُن کی مقدمت میں گزارش کی.اس وقت تو مجھے کچھ سوچھ نہیں رہا.لیکن بہر صورت آئندہ دو دنوں میں تحریری بیان تیارہ کرتا ہے اور پھر اس کی تائید میں بحث کی تیاری کرتا ہے.کل صبح سے مجھے کچھ نہ کچھ لکھوانا ہوگا.آپ یہ انتظام فرما دیں کہ کل صبح دو اچھے ہشیار تیز رفتار ٹینوگرافر میرے پاس پہنچ جائیں اور کاغذ پنسل قلم دوات ٹائپ کی مشینیں وغیرہ تمام دفتری سامان ساتھ لیتے ہیں.میں انہیں باری باری لکھوانا شروع کروں گا.نواب صاحب نے فرمایا.تم فکر نہ کرو.زود نویں اور تمام دفتری سامان صبح سات بجے تمہاری قیامگاہ پر موجود ہو گا.میں نے شکریہ ادا کیا اور اپنی سیکسی اور بے سر و سامانی کے بوجھ سے لدا ہوا قیامگاہ پر پھالیس ہوا کہ نماز میں درگاہ رب العزت میں فریادی اور لمتبھی ہوا.انہی میں تن تنہا عاجز اور بیکس اور ذمہ داری اس قدر بھاری ، اس امانت کی کما حقہا ادائیگی کی کیا صورت ہوگی ؟ تو جانتا ہے میں تو بالکل معالی اور صفر ہوں لیکن تجھے ہر قدرت ہے تو اپنے فضل و رحم سے مجھے فہم اور توفیق عطا فرما اور خود میرا ہادی و ناصر ہو.مجھے اپنی پریکٹس کے زمانے میں کئی بار مبہت تھوڑے عرصے میں پیچیدہ مقدمات کی بحث کی تیاری کرنا پڑی تھی.لیکن یہ کوئی پریشان کن تجربہ نہیں تھا.ضروری کا غذات مہیا کر دیئے جاتے تھے.اہم مقدمات میں کوئی رفیق کار ساتھ شامل ہوتا تھا.موافق مخالف مواد اور عناصر پیش نظر ہوتے تھے.صرف یکسوئی اور توجہ درکار ہوا کرتے تھے.یہاں ذمہ داری تو اس قدر اہم اور گراں اور باقی صفر ! اگر جناب قائد اعظم لاہورمیں تشریف فرما ہوتے تو میں ان کی خدمت میں حاضر ہو کر ہدایات طلب کرتا لیکن وہ دلی تشریف فرما تھے.ٹیلیفون پر بات ہو سکتی تھی.لیکن ٹیلیفون پر ہدایات حاصل کنا مشکل تھا اور ساتھ ہی مجھے یہ بھی احساس تھا کہ جو تیاری
کیس کے متعلق ہونا تھی وہ تو مسلم لیگ کی لاہور کی قیادت کے ذقتے تھی.میں اگر قائد اعظم کی خدمت میں کچھ گزارش بھی کروں تو وہ ایک رنگ کا شکوہ ہوگئی جو اُن کی پریشانی کا موجب ہو گی.مجھے تو اس سے کچھ مدد مل نہیں سکے گی.میں نماز سے فارغ ہوا تو معلوم ہوا جناب خواجہ عبد الرحیم صاحب تشریف لائے ہیں.جناب خواجہ صاح ان دنوں کمشنر راولپنڈی تھے لیکن لاہور میں پناہ گزینوں کے استقبال اور ان کی خبر گیری کا انصرام ان کے سپرد تھا.ان کا دفتر میری قیام گاہ کے مقابل کے بنگلے کے سامنے دو خیموں میں تھا.جناب خواجہ صاحب نے فرمایا.تمہارا وقت بہت قیمتی ہے.میں زیادہ وقت نہیں لینا چاہتا.ایک تو میں یہ کاغذات لایا ہوں.میں کچھ عرصے سے اپنے طور پچہ سرکاری ریکارڈ میں سے دیہات ، تھانہ جات ، تحصیلوں اور اضلاع کے فرقہ وارانہ آبادی کے اعداد و شمار جمع کرنے کی طرف متوجہ تھا.یہ تمام صوبے کی آبادی کے نقشہ جات ہیں ممکن ہے تمہیں کیس کی تیاری میں ان سے کچھ مدد مل سکے.دوسرے اگر تمہیں کسی قسم کی مدد کی ضرورت ہو تو میرے اختیار اور میں میں جو کچھ ہوگا میں حاضر ہوں میرا دفتر سامنے ہی ہے اور یہ میرا ٹیلیفون نمبر ہے میں نے خواجہ صاحب کا تہ دل سے شکریہ ادا کیا اور وہ تشریف لے گئے میرا دل اللہ تعالیٰ کے شکر سے لبریچہ ہو گیا اور میں نے یوں محسوس کیا کہ احسن بنادر و رحیم نے میری بیکسی پر رحم کی نظر ڈالی اور اپنی طرف سے ایک بے بہا خزانہ مجھے عطا فرمایا.میرے دل کی ڈھارس بندھی کہ جس قادر ہستی نے چند لمحوں کے اندر غیب سے اس قدر قیمتی مواد مجھے عطا فرمایا ہے جس کے بغیر میں ایک قدم بھی اُٹھا نہیں سکتا تھا وہ ضرور بقیہ در اصل میں بھی میری دستگیری فرمائے گا اور اپنی رحمت سے مجھے فہم اور توفیق عطا فرمائے گا.ساتھ ہی چار وکلاء صاحبان تشریف لے آئے.جناب صاحبزادہ نصرت علی صاحب اور جناب شیخ نثار احمد صاحب مشگیری سے.جناب سید محمد شاہ صاحب پاک پٹن سے اور جناب چوہدری علی اکبر صاحب ہوشیار پور سے اور فرمایا ہم تمہارے ساتھ شریک کار ہوں گے.جو خدمت بچا ہو ہم سے لو.یہ مزید فضل اللہ تعالے کا ہوا کہ اس نے بھار یا اخلاص مستعد کام کرنے والوں کے دل میں تحریک کی کہ وہ میرے ساتھ آکر شامل ہوں.اور میرے مشیر اور معاون ہوں.لاہور کے وکلاء میں سے جناب احمد سعید صاحب کرمانی وقتاً فوقتاً تشریف لاتے رہے اور جس کام کے لئے ان کی خدمت میں گزارش کی جاتی اس کی طرف توجہ فرماتے.اللہ تعالیٰ ان سب کو دنیا اور آخرت میں اپنی رحمت سے وافر حصہ عطا فرمائے.آمین.
میرے چاروں رفقائے کار تے نہایت محنت ، مستعدی اور جانفشانی کے ساتھ دن رات میرے کام میں تعاون کیا.ہر قسم کی تکلیف برداشت کی لیکن نہ صرف یہ کہ حرف شکایت زبان پر نہ آیا بلکہ ماتھے پر کبھی تیور بھی نہ آیا اور تمام وقت پوری بشاشت کے ساتھ مصروف کار رہے.ہر مرحلے پر ان کا مشورہ میرے لئے حوصلہ بڑھانے کا موجب ہوا.اور ان کا مشفقانہ تعاون میرے لئے قلبی اطمینان کا موجب ہوا.فجزاهم الله احسن الجزاء جناب چوہدری علی اکبر صاحب کے سپرد آبادی کے اعداد وشمار کی تصدیق اور ضروری معلومات کا بہم پہنچانا تھا.انہوں نے اپنے فرائض کو بڑی مستعدی سے نباہا.اگرچہ انہیں ان کی سرانجام دہی میں بہت دوڑ دھوپ کرنا پڑی جولائی کے مہینے میں لاہور کا موسم بہت ناسازگار رہتا ہے.لیکن جناب چوہدری صات کے رستے میں موسم کی شدت کسی قسم کی روک پیدا نہ کر سکی.چور ہو کر آتے اور اپنے کام کی رپورٹ شنا کر فرش پر یہی دراز ہو جاتے اور کوفت سے آرام حاصل کرتے کمشن کے روبرو بحث کے دوران میں جب کبھی آبادی کے اعداد و شمار کے متعلق فریقین کے درمیان اختلاف پیدا ہوتا تو ایک صاحب فریق مخالف کی طرف سے اور جناب چوہدری صاحب ہماری طرف سے نامزد کئے بھاتے کہ دفتر آبادی میں جا کر متنازعہ اعداد شمار کی تصدیق کریں اور فضل اللہ ہر بار ہمارے پیش کردہ اعداد و شمار کی تصدیق ہوتی ہیں سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جناب خواجہ عبد الرحیم صاحب نے جو نقشہ جات ہمیں عنایت فرمائے تھے وہ بہت محنت اور توجہ سے تیار کئے گئے تھے.جناب خواجہ صاحب کے تشریف لے جانے اور وکلاء صاحبان کی تشریف آوری کے بعد ہم نے طبعا پہلا کام یہ کیا کہ طریقہ تقسیم کے متعلق سرکاری بیان کا مطالعہ کیا اور اس کا تجزیہ کیا اور ہم اس نتیجہ پر پہنچے کہ ملحقہ اکثریت کے علاقوں کی تشخیص کے لئے معیار کا تجویز کرنا لازم ہے.گاؤں تو عملاً ایسا معیار بن نہیں سکتا تھا کیونکہ بعض علاقوں میں ایک گاؤں میں اگر مسلم اکثریت تھی تو ساتھ کے گاؤں میں غیرمسلم اکثریت تھی.اس بناء پر کوئی معقول بعد بندی تجویز نہیں ہو سکتی تھی.بتھانہ کو اگر معیار تجویز کیا جاتا تو اس صورت میں بھی یہی مشکل بہت جگہ در پیش تھی.در اصل انتخاب تحصیل اور ضلع کے درمیان تھا گو ہم نے یہ بھی طے کیا کہ بحث کے دوران میں ہماری طرف سے کمشنری اور دو آبوں کو معیالہ اختیار کرنے کی طرف بھی اشارہ کر دیا جائے.صوبے بھر کے اخبارات میں محقہ اکثریت کے علاقوں پر بحث بازی ہو رہی
۴۶۲ تھی.مسلمانوں کی طرف ہے لدھیانہ تک کا علاقہ مسلم اکثریت کا علاقہ بیان کیا جاتا تھا اور غیر مسلموں کی طرف سے جمہ پر کام تک کا علاقہ غیر مسلم اکثریت کا علاقہ بیان کیا جاتا تھا.عارضی انتظامی تقسیم میں راولپنڈی اور ملتان ڈویژن اور لاہور ڈویژن کے جملہ اضلاع سوائے ضلع کانگڑہ کے مغربی پنجاب میں شامل کئے گئے تھے.اگر ہماری طرف سے ضلع کو معیار قرار دیا جاتا تو ان اضلاع میں سے امر تسر کو ترک کرنا پڑتا.ایک خدشے کا اظہا کیا گیا کہ گرم ہم نے ضلع کو معیار قرار دیا تو اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جائے گا کہ ہم انتظامی تقسیم سے کم علاقہ لینے پہ رضا مند ہیں اور اس کے نتیجہ میں ممکن ہے ہمارے علاقے کو اور بھی کم کر دیا جائے.تحصیل کو معیار قرار دینے سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا تھا کہ ضلع فیروز پور کی دو تحصیلیں فیروز پور اور زیرہ مضلع جالندھر کی دو تفصیلیں نواں شہر اور جالندھر مسلم اکثریت کے علاقے میں شمار ہوتی تھیں.ان کے ساتھ آگے مشرق کی طرف ملحقہ تحصیل دسوہہ مضلع ہوشیار پور تھی.اس تحصیل میں نہ مسلمانوں کی کثرت تھی نہ ہندو و اور سکھوں کی کثرت تھی.عیسائی آبادی جس طرف شامل کی بھاتی اس فریق کی کثرت بن جاتی.اس تحصیل کے عیسائیوں کی طرف سے سرسیری ریڈ کلف کی خدمت میں محضر نامہ ارسال کیا گیا تھا کہ ہمیں مسلمانوں کے ساتھ شمار کیا جائے.اگر تحصیل کو معیار قرار دیا جاتا تو فیروز پور ، زیرہ ، نواں شہر، جالندھر اور عیسائیوں کے شامل ہونے کے ساتھ دسوہہ، پانچوں تحصیلیں مسلم اکثریت کے علاقے میں شمار ہوتیں.ریاست کپورتھلہ میں بھی مسلمانوں کی کثرت تھی وہ بھی ان تحصیلوں سے محق علاقہ تھا.ضلع امرتسر میں اجنالہ تحصیل میں مسلمانوں کی کثرت تھی اور امرتسر اور تو نتارن میں غیر مسلموں کی کثرت تھی لیکن اگر فیروز پور ، زیرہ ، نواں شہر جالند در اور کپور تھلہ پاکستان میں شامل کئے جاتے تو امر تسر اور ترنتارن غیر مسلم اکثریت کے محق علاقے نہ رہتے کیونکہ وہ پچاروں طرف سے مسلم اکثریت کے علاقوں سے گھرے ہوئے تھے.ضلع گورداسپور میں بٹالہ گوردا پور اور شکر گڑھ کی تھیلوں میں اکثریت مسلمانوں کی تھی تحصیل پٹھانکوٹ میں اکثریت غیر مسلموں کی تھی.اور یہ تحصیل ضلع کانگڑہ اور ضلع ہوشیار پور سے ملحق بھی تھی جو غیر مسلم اکثریت کے اضلاع تھے.ہم سب کا میلان اسی طرف ہوا کہ تحصیل کو معیاد قرار دیئے جانے پر زور دیا جائے لیکن ہمارا میلان فیصلہ کن عنصر نہیں تھا.ہم مسلم لیگ کی طرف سے کیس تیار کر رہے تھے.ہماری طرف سے کیا کیس پیش کیا جائے اس کا فیصلہ کرنا مسلم لیگ کے اختیار میں تھا.ہمارے اختیار میں نہیں تھا.پنجاب میں مسلم لیگ کے صدر جناب نواب صاحب ممدوٹ تھے.ان سے استصواب لا حاصل تھا.وہ شدت تواضع احمد
۴۶۳ انکسار کی وجہ سے خود کوئی فیصلہ فرماتے ہی نہیں تھے اور چونکہ ہر امر میں اپنے قریبی مشیران کی رائے کو قبول فرماتے تھے.اس لئے تفاصیل پر غور کرنے بلکہ تفاصیل کا علم حاصل کرنے سے بھی پی سیز کرتے تھے.ان ایام میں ان کے قریب ترین مشیران جناب میاں ممتاز محمد بخال صاحب دولتانہ اور جناب سردار شرکت حیات خان صاحب تھے.جناب سردار صاحب کی طبیعت علیل تھی.جناب میاں صاحب کی خدمت میں خاکسار نے گذارش کی کہ میرے تحریری بیان تیار کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس امر کا فیصلہ کیا جائے کہ ملحقہ اکثریت کے علاقوں کی تشخیص کے لائے ہماری طرف سے کیا معیار پیش کیا جائے.انہوں نے فرمایا تم سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے.جو تم تجویز کرو وہی بہتر ہوگا.میں نے کہا یہ امر لیگ کی طرف سے طے ہونا چاہئیے ہیں تو ایک فرد واحد ہوں اور میری حیثیت وکیل کی ہے.مجھے جو ہدایات لیگ کی طرف سے دی جائیں مجھے ان کی پابندی کرنا ہو گی.جناب میاں صاحب نے میری رائے دریافت کی میں نے مختصر طور پر اپنا اور اپنے رفقائے کار کا رحجان بیان کر دیا.جناب میاں صاحب نے فرمایا تو بس یہی ٹھیک ہے.اس سے بہتر اور کیا ہو سکتا ہے.بعد میں قسم قسم کی قیاس آرائیاں کی گئی ہیں جن کی بنیاد کسی حقیقت پر نہیں.کہا گیا ہے کہ چونکہ جناب نواب صاحب ممدوٹ کی خاندانی جاگیر کا بیشتر حصہ تحصیلواً بٹوارے میں پاکستان میں شامل کئے بجانے کی امید کی جا سکتی تھی اس لئے انہوں نے تحصیل وار بٹوارے پر زور دیا.یہ محض انتہام ہے اور بالکل بے بنیاد اتہام ہے.خاکسار کی دانست میں جناب نواب مصلحب ان تفاصیل سے بالکل ناواقف تھے اور اگر واقف تھے بھی تو یہ واقعہ ہے کہ ان کی طرف سے خاکسار کو ایک لفظ بھی اس بارے میں نہیں کہا گیا.نہ خاکسار نے ان سے دریافت کیا نہ انہوں نے خود کچھ فرمایا نہ کسی قسم کا اشارہ کیا حقیقت یہ ہے کہ یہ سب واقعات اس سرعت سے پیش آتے گئے اور صوبے کے حالات میں اس تیزی کے ساتھ ابتری پیدا ہونا شروع ہو گئی کہ طبائع میں انتشار اور سر آمیگی سرائت پذیر ہوتے گئے اور کسی امر پر سنجیدگی سے غور کرنا مشکل ہوتا چلا گیا.ان امور کے متعلق پہلے سے کوئی شیاری نہیں کی گئی تھی نہ اُن پر سنجیدہ غور ہوا تھا اس لئے فیصلہ مشکل تھا.بعد کے پیدا ہونے والے حالات ابھی پردہ غیب میں تھے.اس وقت ان کے متعلق صحیح اندازہ ممکن نہیں تھا.آرزوؤں اور بعد شات ، قیاست اور تخیلات کی فراوانی تھی صحائف اور جرائد انہی سے پُر تھے.آج ہو ابوالحکم ہونے کے مدعی ہیں اس وقت نیا موش اور دم بخود تھے.
میں اپنے رفقائے کار کے ساتھ تادیر مشورے اور تیاری میں مصروف رہا.ان کے تشریف لے جانے کے بعد بھی کھانے اور نماز سے فارغ ہو کر اعداد و شمار کی پڑتال اور سرکاری اعلان کے مختلف پہلوؤں پر غور کرنے اور تحریری بیان کے لئے نوٹ تیار کرنے میں بہت سا وقت صرف ہوا.غرض منگل کا دن بہت پریشانیوں میں صرف ہوا لیکن سوتے وقت تک میری طبیعت میں کسی قدر سکون پیدا ہو گیا تھا کہ اللہ تعالٰی نے محض اپنے فضل و کرم سے بنیادی مواد بھی میتر فرما دیا اور مخلص رفقائے کار بھی عطا فرمائے اور میری بے علمی اور جہالت کی تاریکی میں کچھ اُبھال بھی کر دیا.بدھ کی صبح کو میں بجلد تیار ہو کر ناشتے سے فارغ ہو گیا.سات بج چکے تھے لیکن جناب نواب صاحب کے ارسال کر دہ زود نولیں ابھی تشریف نہیں لائے تھے.ان کی انتظار میں میں مزید دیکھ بھال اور تیاری میں مصروف رہا ہے، بج گئے ، پونے آٹھ بجے ، آٹھ بج گئے.اب پھر میں پریشان ہوا جناب خواجہ عبد الرحیم صاحب کی خدمت میں ٹیلیفون پر گزارش کی.انہوں نے فرمایا.میں ابھی انتظام کرتا ہوں چند منٹ کے بعد انہوں نے اطلاع دی.میرے دونوں سٹینو گرافر مع ضروری سامان نو بجے تک تمہارے پاس پہنچ جائیں گے چنانچہ یہ دونوں صاحبان نو بجے سے قبل ہی تشریف لے آئے اور میں نے تحریری بیان کا مسودہ اطار کروانا شروع کر دیا.اتنے میں میرے رفقائے کار بھی تشریف لے آئے اور میرے ساتھ شامل ہو گئے.میں املا کرواتا اور وہ چوکس نگرانی رکھتے اور جہاں ضرورت ہوتی مشورہ دیتے یا اصلاح کرتے.دونوں زود نویں اپنے فن میں ماہر تھے اور بہت تو بہ ، محنت اور اخلاص کے ساتھ کام کرتے رہے جس سے ہمارے لئے بہت سہولت ہو گئی.فجزا ہما اللہ احسن الجزاء.جناب نواب صاحب کے تجویز کردہ زود نویس بحث کے آخر تک ہمیں میسر نہ آئے اور نہ ہی نواب صاحب کی طرف سے کوئی اطلاع ملی کہ وہ کیا ہوئے.حضرت خلیفہ اسیح ثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اُن دنوں لاہور ہی میں تشریف فرما تھے.بدھ کی سہ پہر کو جناب مولانا عبد الرحیم در و صاحب خاکسارہ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا حضرت صاحب نے مجھے بھیجا ہے کہ تم سے دریافت کروں کہ حضرت صاحب کس وقت تشریف لا کہ تمہیں تقسیم کے بعض پہلوؤں کے متعلق معلومات بہم پہنچا دیں.خاکسار نے گذارش کی ، خاکسار میں وقت ارشاد ہو حضور کی خدمت میں حاضر ہو جائے گا.جناب درد صاحب نے فرمایا حضور کا ارشاد ہے.تم نہایت اہم فرض کی
۴۶۵ سرانجام دہی میں مصروف ہو.تمہارا وقت بہت قیمتی ہے، تم اپنے کام میں لگے رہو ہم وہیں آجائیں گے.یہی مناسب ہے.چنانچہ حضور تشریف لائے اور بٹوارے کے اصولوں کے متعلق بعض نہایت مفید حوالوں کی نقول خاکسار کو عطا کیں اور فرمایا.اصل کتب کے منگوانے کے لئے ہم نے انگلستان فرمائش بھیجی ہوئی ہے.اگر بر وقت پہنچ گئیں تو وہ بھی نہیں بھیج دی جائیں گی.نیز ارشاد فرمایا ہم نے اپنے خروج پر یہ بندھی کے ایک ماہر پر فقیر کی خدمات انگلستان سے حاصل کی ہیں.وہ لاہور پہنچ چکے ہیں اور نقشہ جات وغیرہ تیار کرنے میں مصروف ہیں.تم تحریر کی بیان تیار کر لینے کے بعد ان کے ساتھ مشورے کے لئے وقت نکال لینا وہ یہاں آکر تمہیں یہ پہلو سمجھا دیں گے.چنانچہ متعلقہ کتب انگلستان سے قادیان پہنچیں اور وہاں سے ایک موٹر سائیکل سوار SIDE CAR میں رکھ کر انہیں لاہور لائے اور دوران بحث میں وہ ہمیں میسر آگئیں اور اُن سے نہیں بہت مدد لی.پروفیسر S PATEہ نے دفاعی پہلو خاکسار کے ذہن نشین کر دیا.ہندو فریق کی طرف سے ہندوستان کے دفاع کی ضروریات کی بناء پر مسٹر ایم ایل سیلواڈ نے بڑے زور سے دریائے جہلم تک کے علاقے کا مطالبہ کیا لیکن میری طرف سے پروفیسر SPATE کے تیار کردہ نقشہ جات کے پیش کرنے اور ان کی اہمیت واضح کرنے کے بعد فریق مخالف کی طرف سے ایک لفظ بھی جواباً اس موضوع پر نہ کہا گیا.بحث کے دوران میں حضرت خلیفہ ایسے ہم خود بھی اجلاس میں تشریف فرمار ہے اور اپنی دعاؤں سے مدد فرماتے رہے.فجزاہ اللہ احسن الجزاء بدھ کی شام کو جناب خان بہادر شیخ دین محمد صاحب تشریف لائے نہایت پریشان تھے.فرمایا تم اپنی تیاری کرو اور جیسے بن پڑے بحث بھی کرنا اور منیر اور میں جو کچھ ہم سے ہو سکے گا ہم کریں گے لیکن میں نہیں یہ بتانے آیا ہوں کہ یہ سب کچھ محض کھیل ہے.حد بندی کا فیصلہ ہو چکا ہوا ہے اور اسی کے معلم ہوں بند کی ہوگی نہ تم کچھ کرسکتے ہو نہ ہم کچھ کرسکتے ہیں.ظفر اللہ خاں : آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا ؟ جناب شیخ دین محمد صاحب: کل جب تم لوگ پہلے آئے تو سر سیرل ریڈ کلفت کے ساتھ جو ہماری گفتگو ہوئی ، اس کے دوران میں اس نے ذکر کیا.کل صبح میں ہوائی جہاز میں ارد گرد کا علاقہ دیکھنے کے لئے بھا رہا ہوں.اس پر میں نے کہا اگر آپ حد بندی کے سلسلے میں علاقہ دیکھتے جارہے ہیں تو آپ ضرور کچھ تاثر اس معائنے سے اخذ کریں گے ادھر بطور امپائر آپ کا فرض ہے کہ آپ اپنا فیصلہ اسی مواد کی
بنا پر کریں جوکشن کے روبہ دو پیش کیا جائے اور جو کشن آپ کی خدمت میں ارسال کرے.اس پرواز سے جو تاثر آپ حاصل کریں گے اس کا علم کش کو کیسے ہو گا ؟ اس پر سر سیرل نے کہا.مجھے اس غرض کے لئے ہو ہوائی جہاز نہیا کیا گیا ہے وہ فوجی نوع کا ہے اور اس میں زیادہ گنجائش نہیں.لیکن اگر آپ پسند کریں تو آپ میں سے دو اراکین میرے ساتھ مل سکتے ہیں چنانچہ طے ہوا کہ منیر اور تیجا سنگھ آج صبح ریڈ کلف کے ساتھ جائیں.ان کی روانگی آج صبح سات بجے والٹن کے ہوائی میدان سے تھی.جب یہ سب وہاں جمع ہوئے تو پائیلٹ نے کہا.صاحبان آپ دیکھتے ہیں کہ آسمان گرد آلود ہو رہا ہے.میں آپ کو لے تو چلتا ہوں لیکن گرد کی وجہ سے اوپر سے آپ کو کچھ نظر تو آئے گا نہیں محض آپ کا وقت ضائع ہوگا.اس پر ریڈ کلف نے پرواز منسوخ کر دی.وہاں سے چلتے وقت منیر نے پائلٹ سے کہا.اگر مطلع صاف ہوتا تو تم نہیں کہاں لے جانے والے تھے ؟ اس نے اپنے جیب میں ہاتھ ڈالا.اور ایک پرند کاغذ نکال کر منیر کے حوالے کیا اور کہا یہ تھیں میری ہدایات ، ان سے تم خود اندازہ کر لو.میردہ پر زہ لے آیا اور مجھے دکھایا.اس میں درج تھا، مشرق کی طرف بنا کہ دریائے راوی کے اس مقام کے اوپر پہنچو جہاں دریا پہاڑی علاقے سے نکل کر میدان میں بہنا شروع کرتا ہے.وہاں سے دریائے راوی کے اوپر پرواز کرتے ہوئے فلاں مقام تک آؤ جو ضلع لاہور میں ہے.وہاں سے دریا کو چھوڑ کر بائیں جانب ہو جاؤ اور فلاں سمت میں دریائے ستلج کے پار تک پرواز کر کے فلاں مقام کے اُوپر سے کوٹ کمانے ہور واپس آجاؤ.میں اس کا نہ کو دیکھنے کے وقت سے نہایت پریشان ہوں.مجھے یقین ہے کہ جو لائن اس کا غذ میں درج ہے وہی حد بندی کی لائن ہے اور یہ طے شدہ بات ہے.اب تم تو اپنا تحریری بیان داخل کرو گے اور اجلاس عام میں بحث کرو گے تمہارا موقف واضح ہوگا اور ہر شخص اس کا اندازہ کر لینگا ہارا کام میں پردہ ہو گا.جب حد بندی کا اعلان ہوگا تو مسلمانوں کو بہت صدمہ ہوگا اور وہ منیر کو اور مجھے ذمہ دار ٹھہرائیں گے اور مورد الزام کریں گے.چنانچہ ہم دونوں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں آج رات دتی جاؤں، اور کل صبح قائد اعظم سے مل کر یہ سارا ماجرا انہیں سُناؤں اور ان سے اجازت طلب کروں کہ منیر اور میں کشن سے مستعفی ہو جائیں.اس کے بعد قائد اعظم جیسے بن پڑے اس گھی کو سلجھائیں.ظفر اللہ خان.اس بات پر تو مجھے آپ کے ساتھ اتفاق ہے کہ اس واقعہ سے یہ ظاہر ہے کہ صد بندی کی تعیین پہلے سے ہو چکی ہے اور یہ باقی تمام کاروائی محض غریب رہی ہے اور میں آپ کی پریشانی میں بھی شریک
۴۷ ہوں.آپ ضرور دتی تشریف لے جائیں لیکن قائد اعظم کی خدمت میں گزارش کرتے ہوئے یہ بات ضرور ذہن میں رکھیں کہ وہ بہت قانونی طبیعت کے مالک ہیں.اس لئے آپ اپنے استعفاء کی بنیاد کسی قانونی بندر پر رکھیں ورنہ اندیشہ ہے کہ وہ رضامند نہیں ہوں گے.جناب شیخ دین محمد صاحب : تمہارے ذہن میں کوئی قانونی عذر آتا ہے.ظفر اللہ خاں : آپ اجازت دیں تو میں اپنے خیال کا اظہار کر دیتا ہوں.جناب شیخ دین محمد صاحب کہو.ظفر اللہ خان : آپ قائد اعظم صاحب کی خدمت میں یہ گذارش کریں ہم نے سر سیرل ریڈ کلف کو امپائر تسلیم کیا ہے اور ہم ان کے فیصلے کی پابندی کریں گے لیکن امپائر کا فرض ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر پہنچنے میں کسی دوسرے شخص کی رائے یا مشورے سے متاثر نہ ہو.یہ کا نفذ ظاہر کرتا ہے کہ کسی جانب سے امپائر کو یہ مشورہ دیا گیا ہے کہ صوبہ پنجاب کی حد بندی کی یہ لائن ہو.اب آپ کا یہ حق ہے کہ آپ مطالبہ کریں کہ آپ کا یہ اطمینان کیا جائے کہ امپائر کی اس مجوزہ پرواز سے کیا غرض تھی اور اس پرواز کی لائن کی کیا اہمیت ہے.اگر آپ کا اطمینان ہو جائے کہ یہ حض امپائمہ کی طبیعت کا لطیفہ ہے تو فبہا ورنہ آپ مطالبہ کریں کہ اس پرواز کا مشورہ اُسے کس نے دیا اور اس میں کیا راز پنہاں ہے؟ اگر کسی دوسرے شخص کا تداخل ثابت ہو تو آپ حق بجانب ہوں گے کہ آپ کہہ دیں ہمیں امپائر کی غیر جانبداری پر اطمینان نہیں.اس پر ہم دونوں اپنا استعفی پیش کر دیں گے.جناب شیخ دین محمد صاحب : میں اپنی طرف سے تو ہر کوشش کروں گا.پرسوں صبح دلی سے واپسی پر میں تمہیں اپنی ملاقات کا نتیجہ بتا دوں گا.جمعرات کی سہ پہر کو جناب کرنیل محمد ایوب خاں صاحب (موجودہ صدر پاکستان تشریف لائے اور حالات محاضرہ پر اپنے تبصرے سے خاکسار کو مستفید فرمایا.جمعرات کی شام تک تحریری بیان کا مسودہ تیار ہو گیا.میں نے جناب سردار شوکت حیات خاں صاحب کے دولت خانے پر ٹیلیفون کیا تو معلوم ہوا جناب سردار صاحب کی طبیعت علمی چلی جارہی ہے اور درجہ حوارت ۱۲ ہے.پلنگ پر ہیں اور طبعاً تشریف آوری سے معذور ہیں بپھراس نے جب میاں ممتاز محمد نعال دو الله صاحب کے دولتکہ سے پر ٹیلیفون کیا کہ میں چاہتا تھا آپ دونوں صاحب تشریف لا کر مسودے کا ملا حظہ انے حضرت چو ہدری صاحب نے جب وقت یہ تحریر لکھی اس دوخته اند ایب خان کی صدر پاکستان تھے مگر اب محمد علی خان صدر ہیں.(مرتب)
۶۸ فرمائیں لیکن جناب سردار صاحب تو نا سازی طبیع کی وجہ سے معذور ہیں.آپ بہر حال ضرور تشریف لے آئیں.چنانچہ وہ تشریف لے آئے میں نے تحریری بیان کا مسودہ ان کی خدمت میں پیش کر دیا اور گذارش کی آپ اسے پڑھ لیں جو ترمیم یا تبدیلی آپ اس میں پسند فرمائیں وہ خاکسار کو بتادیں تاکہ آپ کے ارشاد کے مطابق اصلا کر دی بھائے.انہوں نے ازراہ نوازش فرمایا جیسے تم نے لکھا ہے ٹھیک ہو گا مجھے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہیں نے اصرار کیا آپ ضرور توجہ سے اسے پڑھیں اور آزادی سے تنقید کریں میں مسلم لیگ کی طرف سے بحث کرنے کی نوار اطمینان کرنا چاہتا ہوں کہ لیگ کی طرف سے مجھے کیا ہدایت ہے.جس مسودے کی آپ تصدیق فرا دینگے رہی میرا ہدایت نہ ہوگا اور اسی کے مطابق میں بحث کروں گا میرے اصرار پر جناب میاں صاحب نے مسودہ توجہ اور غور سے پڑھنا پڑھنے کے دوران میں بھی پسندیدگی کا اظہار فرماتے رہے اور آخر میں فرمایا اس سے بہتر نہیں ہو سکتا.جمعہ کی صبح کوؤں نے مسودے کی آخری نظر ثانی کی اور صاف ٹائپ ہونے کے لئے دے دیا.جناب شیخ دین محمد صاحب دلی سے واپسی پرٹیشن سے ہی تشریف لائے اور بتایا کہ قائد اعظم استعفاء کی تجویز پر رہ نامند نہیں ہوئے.فرمایا ہے تم سب لوگ اپنی طرف سے پوری کوشش کرو اور فکر نہ کر د سب کچھ ٹھیک ہوگا.صاف ٹائپ ہو چکا تو میں نے آخری بار پڑھ کر جناب شیخ نثار احمد صاحب کے سپرد کیا اور وہ جا کر اسے کشن کے دفتر میں بارہ بجے سے قبل داخل کر آئے.مجمعہ کے خطبے میں میں نے اپنی پریشانی کا اظہار کیا کہ پنجاب میں مسلمانوں پر وہی وقت آ رہا ہے جو سپین میں آیا تھا.اس لئے آستانہ الہی پر گرے رہو اور بہت خشوع سے دعائیں کرتے رہو کہ اللہ تعالیٰ رحیم فرمائے اور اس مصیبت کو ٹال دے.بقیہ حصہ دن اور ہفتہ اور اتوار کے دونوں دن بحث کی تیاری میں صرف ہوئے سوموار کو کشن کے رو بر و بحث شروع ہوگئی تحریری بیان اور تقریری بحث کشن کے ریکارڈ میں موجود ہیں جو صاحب اقصی حقیقت ہونا چاہیں انہیں ملاحظہ فرما سکتے ہیں.ہندو فریق کی طرف سے بحث مسٹر سیتسکواڈ نے کی.ان کے مشیروں اور معاونوں میں ہندو قانون دانوں کے چیدہ دماغ شامل تھے جن میں جناب بخشی ٹیک چند صاحب پیش پیش تھے.بحث کے خاتمے پر مجھ سے ایک معزز مسلم قانون دان دوست نے ذکر کیا کہ جناب بخشی صاحب نے ان سے فرمایا اگر حد بندی کا فیصلہ دلائل اور بحث ہی کی بنا پر ہو تو تم لوگ بازی لے گئے.
۴۶۹ میرے قیام لاہور کے عرصے میں معزز اور محترم میزبان جناب سرسید مراتب علی صاحب نے میرے اور میرے رفتار کی خدمت اور تواضع میں کوئی دقیقہ اُٹھا نہ رکھا ہم سب کے دل ان کے بیشمار احسانات اور عنایات کے احساس سے پر تھے.فجراء اللہ احسن الجزاء چونکہ انکا دو لشکرہ ان ایام میں کمشن کے روبرو مسلم لیگ کی نمائندگی کا مرکز بن گیا تھا اس لئے خوردو نوش کے سینے میں خاص طور پر اُن کی مہمان نوازی بہت وسیع ہوتی چلی گئی.لیکن یہ امران کی دلی راحت ہی کا موجب ہوا.اور انہوں نے نہایت فراخدلی اور خندہ پیشانی سے اُسے سرانجام دیا.بحث کے دوران ہم سب کے عدالت جانے اور عدالت سے لوٹنے کا انتظام بھی جناب سید صاحب ہی فرماتے رہے فرض تواضح کا کوئی پہلو کسی وقت ان کی باریک بین نگاہ سے اوکھیل نہ ہوا.امن اور سکون کے حالات میں ان کی پیم نوازش کا سلسلہ نہایت ممتاز حیثیت کھتا ہے لیکن انہوں نے یہ تمام خدمت اور تواضع اس اعلیٰ پیمانے پر ایسے حالات میں سرانجام دی جب ہر طرف نفسانفسی کا عالم تھا اور یہ سب فرائض انہوں نے خالصہ رضا کارانہ طور پر اپنے وقتے لے لئے تھے.یکی بحث کے سلسلے میں ابھی لاہو رہی میں تھا کہ مجھے جناب قائد اعظم کا پیغام پہنچا کہ فارغ ہونے پر بھوپال جاتے ہوئے ہیں دکی ان کی خدمت میں حاضر ہو کر بھوپال جاؤں.انہوں نے کمال شفقت سے خاکسار کو شام کے کھانے کی دعوت دی.حاضر ہونے پر نا کسار کو معانقے کا شرف بخشا اور فرمایا میں تم سے بہت خوش ہوں اور تمہارا نہایت ممنون ہوں کہ جو کام تمہارے سپرد کیا گیا تھا تم نے اسے اعلیٰ قابلیت سے اور نہایت احسن طریق سے سرانجام دیا.کھانے کے دوران میں طریقہ تقسیم اور کاروائی تقسیم کے موضوع پر گفتگو رہی.آپ سے رخصت ہو کہ میں بھوپال پھلا گیا.حد بندی کے فیصلے میں تعویق ہوتی گئی موجب فیصلے کا اعلان ہوا میں بھو پال ہی میں تھا.فیصلے کا اعلان میں نے ریڈیو پریشٹنا اور سنتے ہی مجھ پر سکتے کا عالم طاری ہوگیا.آہستہ آہستہ یہ خیال میرے دل میں پختہ ہوتا گیا کہ اس واضح ظلم اور بے انصافی کی مصیبت کی شہر میں اللہ تعالے کی کوئی حکمت مخفی ہے جیسے وہی جانتا ہے اور جو اپنے وقت پر ظاہر ہو جائے گی.حد بندی کی آخر وہی لائن قائم ہوئی جس کا اندازہ جناب شیخ دین محمد صاحب نے فریقین کے تحریری بیانات داخل ہونے سے بھی دو دن پہلے کر لیا تھا سوائے اس کے کہ اُس اندازے میں فیروز پور اور زیرہ کی تھیلیں پاکستان میں شامل تھیں اور آخری فیصلے میں انہیں پاکستان ہے الگ کر کے ہندوستان میں شامل کر دیا گیا تھا.اس کی زبر دست تائید اس واقعہ سے بھی ہوتی ہے کہ فیصلے
کے اعلان سے اندازاً دس دن پہلے گورنر جنرل کے پرائیویٹ سیکرٹری MR.GEORGE AREL نے مغربی SIR EVANS JENKINS پنجاب کے گورنر SIR کو ٹیلیفون پر اطلاع دی کہ پنجاب کی حدبندی کی لائن ہوں ہوگی.گورنر صاحب ان کے کہنے کے مطابق لائن نوٹ کرتے گئے.پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے کہا.یہ امپائر کا فیصلہ ہے.اڑتالیس گھنٹوں کے اندر اس کا اعلان ہو جائے گا.آپ اپنے حاکم ہو نھیں کے ساتھ مشورہ کر کے اس کے عملی نفاذ کا انتظام کر لیں.اس لائن کے مطابق بھی فیروز پور اور زیرہ کی تھیلین اکریت میں شامل تھیں.فیصلے کا اعلان اڑتالیس گھنٹے بعد نہیں بلکہ دس دن بعد ہوا.اور آخری فیصلے میں ان تحصیلوں کو پاکستان سے علیحدہ کر کے ہندوستان میں شامل کر دیا گیا.پس پردہ اس عرصے میں کیا کارروائی ہوئی اور کونسی چال کارکی ہوئی یہ غیب کی بات ہے جس کی حقیقت ابھی ظاہر نہیں ہوئی لیکن بعض امور غور طلب اور نتیجہ تیز ہیں جو اطلاع پرائیویٹ سیکرٹری نے مغربی پنجاب کے گورنر کو دی رہی اطلاع انہوں نے مشرقی پنجاب کے گورنر مسٹر تر یو ڈی کو بھی دی ہوگی جناب پنڈت جواہرال نہرو اس وقت سربراہ حکومت تھے.یہ قرین قیاس ہے کہ مسٹرتر یویڈ کی نے وہ اطلاع جناب پنڈت صاحب کو پہنچائی.اب صورت یہ تھی کہ دریائے ستلج سے بھاری ہونے والی نہروں کے HEAD WORKS تحصیل فیروز پور میں تھے.ان نہروں کے پانی کا ۸۳ فیصدی پانی پاکستان میں بجاتا تھا.فقط ، فیصدی ہر بیکانیر کے ذریعے ریاست بیکانیر میں بھاتا تھا.ریاست بیکانیر میں صرف یہی ایک نہر تھی اور ریاست کی خوشحالی میں اس شہر کا بہت بڑا حصہ تھا.ریاست بیکانیر اگر ایک طرف ہندوستان سے بحق بھی تو دوسری طرف پاکستان سے ملحق تھی.مہاراجہ بیکانی کانگریس کے استبداد سے پریشان تھے.اگر ان کی نہر کا دہانہ پاکستان میں پھلا جاتا تو عین ممکن تھا کہ اس وقت کے حالات میں وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کے امکان پر غور کرنا شروع کر دیتے.بیکانیر سے آگے ریاست جیسلمیر تھی جس کی آبادی کی کثرت مسلمان تھی اور مہاراجہ جیسلمیر کے تعلقات اپنی روایات کئے مسلمانوں کے ساتھ بہت خوشگوار تھے.وہ بھی مہاراجہ بیکانیر کی طرح کانگریس سے مخالف تھے.اگر مہاراجہ بیکانیر پاکستان کے ساتھ الحاق کے امکان پر غور کر سکتے تھے تو مہاراجہ جیسلمیر کے ذہن میں بھی یہ امکان پیدا ہو سکتا تھا.یہ امکان جناب پنڈت صاحب اور ان کے رفقاء کے لئے بہت پریشانی کا موجب ہوتا.اُدھر اگر HEAD WORKS ہندوستان کے تسلط میں آجاتے تو گویا ہندوستان کے ہاتھ میں پاکستان کی ایک رگ جان آجاتی اور یوں بھی فیروز پور اور زیرہ کی تحصیلوں کے پاکستان میں شامل ہو جانے سے پاکستان
کا قدم اس مقام پر ستلج اور بیاس کے پار پہنچ جاتا.یہ جملہ امکانات لازما جناب پنڈت صاحب کے لئے پریشانی اور اذیت کا موجب تھے جناب پنڈت صاحب کے ذاتی تعلقات لارڈ مونٹ بیٹن کے ساتھ نہایت گہرے دوستانے کے تھے اور اب یہ حقیقت مسلم ہو چکی ہے کہ لارڈ مونٹ بیٹن جناب قائد اعظم کے ہاتھوں بہت آزردہ تھے کیونکہ جناب قائد اعظم نے یہ تجویز رد کر دی تھی کہ آزادی حاصل ہونے پر وہ پاکستان اور بہندوستان دونوں کے گورنر جنرل ہوں.اگر جناب پنڈت صاحب نے امپائمہ کی تجویز کردہ لائن کی اطلاع پا کر فیروز پور اور زیرہ کی تحصیلوں کے پاکستان میں شامل کئے جانے پر لارڈ مونٹ بیٹن کے پاس پر زور احتجاج کیا ہو اور کہر دیا ہو کہ اس صورت میں ہم تقسیم کے تمام منصوبے ہی کو سرے سے رو کر دیں گے تو کوئی تعجب کی بات نہیں.لارڈ مونٹ بیٹن کو اس صورت میں اپنی تمام کوششوں کی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا اور آزاد ہندوستان کا گورنر جنرل بنتا بھی ایک خواب ثابت ہوتا جو شر مندہ تعبیر نہ ہوا.امپائر کے فیصلے کی اطلاع تو انہیں پہلے سے ہی تھی.جناب شیخ دین محمد صاحب کو جو کاغذ جناب شیخ محمد منیر صاحب نے دیا یا دکھایا تھا وہ اس امر کی شہادت ہے کہ بعد بندی کی لائن امپائر کے ہندوستان پہنچنے سے پہلے طے پا چکی تھی اور یقیناً لارڈ مونٹ بیٹن کے ایما اسے طے پائی ہوگی جناب پنڈت صاحب کے احتجاج کے نتیجے میں امپائر کو اس ترمیم پر رضامند کر لیتا کوئی مشکل امر نہ تھا.لارڈ مونٹ بیٹن کی طرف سے یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ حد بندی کے فیصلہ کے اعلان سے قبل انہیں فیصلے کا کوئی علم نہیں تھا اس بیان کے قبول کرنے کے رستے میں بعض مشکلات ہیں :.۱- امپائمہ کی لاہور میں حوزہ پروانہ توطوفان گرد کی وجہ سے ترک ہوئی کس نے تجویز کی تھی اور اس کی کیا غرض تھی ؟.اس پروانہ کی سمت اور حدود وہی تجویز کی گئی تھیں جو حد بندی کی اس لائن کی تھیں جو گورنر جنرل کے پرائیویٹ سکوڈی نے مغربی پاکستان کے گورنر کو بتائیں اور جین کے متعلق کہا گیا یہ حد بندی کا فیصلہ ہے جن کا اعلان اڑتالیس گھنٹے کے اندر ہو جائے گا.آپ اپنے حاکم پولیس کے مشورے کے ساتھ اس کے عملی نفاذ کی تجویز تیار کرلیں.یہ توارد کیسے ہوا ؟ پرواز کی سمت اور حدود کس نے تجویز کی تھیں اور کس غرض کے لئے تجویزہ کی تھیں؟ ۳.امپائر کے فیصلے کا اعلان اپنے وقت پر کیوں نہ ہوا ؟ آٹھ دن کی تاخیر کی کیا وجہ تھی ؟
.بقول پرائیویٹ سیکرٹری گورنر جنرل جن حدود کی اطلاع انہوں نے گورنر مغربی پنجاب کو دی.ان کی تعیین پرائیویٹ سیکرٹری نے ان دستاویزات سے کی جو امپائر کے سیکوٹری MR.BEANMONT نے تیار کی تھیں.یہ اطلاع اور یہ دستاویزات مسٹر بو ماؤنٹ نے مسٹرائیل کو ان کے منصب اور حیثیت کی وجہ سے دیں جس کی غرض صرف یہ ہو سکتی تھی کہ گورنر جنرل کو امپائر کے فیصلے کی اطلاع کر دی جائے.مسٹر بیل نے جو اطلاع گورنر مغربی پنجاب کو دی وہ گورنر جنرل کے حکم سے ہی دی جا سکتی تھی.ایسے اہم معاملے میں پرائیویٹ سیکرٹری اپنی مرضی سے بغیر ایشاد گورنر جنرل کے یہ اقدام نہیں کر سکتا تھا.یہاں ایک اور اہم سوال پیدا ہوتا ہے.جب مسٹر ایل نے گورنر مغربی پنجاب کو حد بندی کی لائن کی اطلاع دی اور فرمایا یہ امپائر کا فیصلہ ہے اس وقت یا تو امپائر اپنا فیصلہ کر چکا تھا اور اس کے سیکوری نے فیصلہ گورنر جنرل کی اطلاع کے لئے مسٹرائیل کو بھیج دیا.یا معاملہ ابھی امپائر کے زیر غور تھا.پہلی صورت میں جب امپائر نے فیصلہ مکمل کر لیا اور اس کی اطلاع گورنر جنرل کو بذریعہ اس کے پرائیویٹ سیکورٹی کے کر دی تو امپائر کے اختیارات ختم ہو گئے.اس کے بعد امپائر کو فیصلے میں ترمیم اور تبدیلی کا کوئی اختیارنہ رہا دوسری صورت میں اگر معاملہ ابھی اس کے زیر غور تھا تو امپائر نے یہ اطلاع گورنر جنرل کے سیکرٹری کو کس غرض کے لئے دی ؟ اس کی ایک ہی غرض ہو سکتی تھی کہ وہ گورنر جنرل کی رضا مندی حاصل کرنا چاہتا تھا.اس صورت میں وہ ایک ناجائز بات کا مرتکب ہوا ہو اس کے منصب اور اس کی غیر جانبدارانہ حیثیت کے متناقص تھی اور حسین سے اس کا مزعومہ فیصلہ باطل ہوتا ہے اور قابل نفاذ نہیں رہتا " سے حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کے مذکورہ بالا خود نوشته حالات و واقعات ایک اہم واقعہ سے تقسیم برصغیر کے دوران لار مونٹ بین سریر ریڈ کلف اور ہندوؤں کی باہی سازش بے نقاب ہو جاتی تنگی اس امر پر کانی روشنی پڑتی ہے کہ کس طرح پاکستان کو مسلم اکثریت کے علاقوں سے محروم کر کے عدل و انصاف کا خون کیا گیا ہے.اسی ضمن میں ذیل میں ایک اہم واقعہ درج کیا جاتا ہے.سیدنا حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :.2015ء میں جب باؤنڈری کمیشن بیٹھا تو اس کمشن کے سامنے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے دجل کیا گیا بہندوؤں نے یہ دمبل کیا کہ انہوں نے باؤنڈری کمشن کے سامنے یہ بات پیش کر دی کہ گو ضلع گورداسپور کی مجموعی آبادی میں مسلمان زیادہ ہیں لیکن ضلع کی بالغ آبادی میں اکثریت ہندوؤں که خود نوشت سوانحمری حضرت چودھری محمد کا حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خانصاحب صفحه ۳۹۰ تا ۴۰۰ (غیر مطبوعه)
۴۷۳ کی ہے اور چونکہ ووٹ بالغ آبادی نے دینا ہے اس لئے یہ ضلع بھارت میں شامل ہونا چاہیے.ہم جب وہاں سے واپس آئے تو ہم سب بہت پریشان تھے.اس وقت اللہ تعالیٰ نے میرے ذہن میں یہ ڈالا کہ اگر ہمیں ۱۹۳۵ کی سنسنز پر پورٹ CENSUS REPORT مل جائے کہ اس وقت تک سب سے آخر میں ۱۹۳۵ء میں ہی سنستر CENSUS ہوئی تھی اور ایک کلکولیٹنگ مشین CALCULATING MACHINE مل جائے تو بلد بلد ضرب اور تقسیم کرتی ہے تو میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے راتوں رات ایک ایسا نقشہ تیار کر سکتا ہوں کہ اس سے ضلع گورداسپور کی بالغ آبادی کی صحیح تعداد سنستر CENSUS پر اصول کے مطابق معلوم ہو جائے گی.سنسر CENSUS کے متعلق انہوں نے بعض اصول مقرر کئے ہوئے ہیں اور انہوں نے عمر کے لحاظ سے گروپ بنائے ہوئے ہیں اور ہر گروپ کی وفات کی فی صد انہوں نے مقرر کی ہوئی ہے.وہ تو ایک سال کی عمر سے شروع کرتے ہیں.لیکن ہم نے ایسی عمر سے یہ کام شروع کرتا تھا کہ انہیں ۱۹۴۷ میں بلوغت تک پہنچا دیں.مثلاً انہوں نے یہ اصول بنایا ہوا ہے کہ تین سال کی عمر کے بچے پیارسال کی عمر کے ہونے تک سو میں سے بچانوے رہ جائیں گے.پھر چار سال سے پانچ سال کی عمر ہے کہ وہ تمہیں سے اٹھانوے وہ بھائیں گے.پھر انہوں نے بعض اسی قسم کے اصول وضع کئے ہوئے ہیں اور ہمیں ہر گروپ کو نر ہیں اور تقسمیں دے کر ہندوؤں اور مسلمانوں کی علیحدہ علیحدہ تعداد نکالنی تھی اور وہ تعداد معلوم کرنی تھی ہو ۱۹۴۷ میں بالغ ہو چکی تھی اور جو پہلے بالغ تھے ان کی تعداد تو پہلے ہی دہی بوٹی تھی میں نے حضرت فضل عمر رضی اللہ تعالے عنہ کی خدمت میں عرض کیا تو حضور نے فوراً مناسب انتظام کر دیا.راتوں رات مجھے شایدہ پچاس ہزار یا ایک لاکھ ضرمیں دینی پڑیں اور قسمیں کرنی پڑیں.لیکن بہرحال ایک نقشہ تیار ہو گیا اور اس نقشہ کے مطابق ضلع گورداسپور کی مسلم بالغ آبادی کی فیصد مجموعی لحاظ سے کچھ زائد تھی کم نہیں تھی.اگلے دن صبح جب مکرم چوہدری ظفر اللہ خانصاحب نے یہ حساب پیش کیا تو ہندو بہت گھبرائے کیونکہ وہ تو اپنے آپ کو حساب کا ماہر سمجھتے تھے.اور انہیں خیال تھا کہ مسلمانوں کو حساب نہیں آتا.“ سے جوهری محافظ الله انا کی انا اور دال بت پرخرا حسین کی خودنوشت سوانی کلایک " الفضل" در نبوت / نومبر صفحه
طویل مگر نہایت اہم معلومات افزا اور ضروری اقتباس او پر درج کرنے کے بعد اب ہم بتاتے ہیں کہ حضرت چودھری صاحب موصوف نے سد بندی کمیشن کے سامنے ۲۶ جولائی سے لے کر ۳۰ جولائی ماہ تک مسلم لیگ کا نقطه نگاه غیر معمولی قابلیت و لیاقت سے واضح فرمایا.آپ کی فاضلانہ اور مدتل بحث بھی ریڈ کلف ایوارڈ کے ریکارڈ سے منسلک ہے اور اگر کتاب کی تنگ دامانی مانع نہ ہوتی تو یہاں اس بے مثال آئینی وسیاسی دستاویہ کا ترجمہ ضرور دے دیا جاتا.مگر افسوس ہمیں بالآخر مختصر صرف اس بات پر اکتفاء کہ نا پڑ ے گا کہ دنیائے اسلام کے اس بطل جلیل اور پاکستان کے مایہ ناز فرزند نے مسلمانان ہند کے اس انتہائی نازک موڑ میں ان کی ترجمانی کا حق اس شان سے ادا کیا کہ مسلمانوں کے پرسنجیدہ مخلص اور درد مند طبقے نے یک زبان ہو کر آپ کی تعریف کی.چنانچہ آپ کے اس ملی اور قومی کار نامہ پر جو خراج تحسین ادا کیا گیا اس کے چند نمونے یہ ہیں :.اخبار نوائے وقت کا ادارتی نوٹ باؤنڈری کمیشن کے اجلاس کے خاتمہ پر اجارت نوائے وقت" کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا.یکم اگست شاہ نے ایک ادارتی نوٹ میں چودھری صاحب شهد بندی کمیشن کا اجلاس ختم ہوا.سنسر کی پابندیوں کی وجہ سے ہم نہ اس اجلاس کی کارروائی چھاپ سکے نہ اب اس پر تبصرہ ہی ممکن ہے کمیشن کا اجلاس دن دن جاری رہا.ساڑھے چار دن مسلمانوں کی طرف سے بحث کے لئے مخصوص رہ ہے مسلمانوں کے وقت میں سے ہی ان کے دوسرے حامیوں کو بھی وقت دیا گیا.اس حساب سے کوئی چار دن سر محمد ظفر اللہ خانصاحب نے مسلمانوں کی حریر سے نہایت مدلل ، نہایت فاضلانہ اور نہایت معقولی بحث کی کامیابی بخشنا خدا کے ہاتھ میں ہے گر جس خوبی اور قابلیت کے ساتھ سرمحمد ظفراللہ خاں صاحب نے مسلمانوں کا کیس پیش کیا.اس سے مسلمانوں کو اتنا اطمینان ضرور ہو گیا کہ ان کی طرف سے حق و انصاف کی بات نہایت مناسب اور احسن طریقہ سے ارباب اختیار تک پہنچا دی گئی ہے.سر ظفر اللہ خاں صاحب کو کیس کی م اس روز آپ نے مسلم لیگ کی ہدایت پر بہاولپور کی طرف سے بھی کیس پیش فرمایا " الفضل " یکم اگست صفحه ۸) کے بحث کی تیاری کے سلسلہ میں ایک واقعہ کا ذکر کرناضروری ہے.چوہدری صاحب نے میمورنڈم داخل کمشن کرانے کے اگلے دن ۱۹ جلائی علاقہ کو قادیان فون کیا کہ گیانی واحد سین صاحب اور گیانی عباد اللہ صاحب مسلمانوں نے اپنے عہد حکومت میں سکھوں کے ساتھ جو نیک سلوک کیا اور جاگیریں دیں ان کے حوالے اور اصل کتب لے کر لاہور آ جائیں چنانچہ اسکی تعمیل میں سکھ اور پر گئے یہ دونوں ممتاز فاضل ضروری کتابیں لے کر راہوں پہنچ گئے اور مسلم لیگ کے کیس کی تائید میں مطلوبہ مواد فراہم کر دیاہ
۴۷۵ تیاری کے لئے بہت کم وقت ملا مگر اپنے خلوص اور قابلیت کے باعث انہوں نے اپنا فرض بڑی خوبی کے ساتھ ادا کیا.ہمیں یقین ہے کہ پنجاب کے سارے مسلمان بلالحاظ عقیدہ ان کے اس کام کے معترف اور شکر گزار ہوں گے" قائد اعظم کی خوشنودی مسلم می ترجمان اخبار نوائے وقت لاہورنے اور اگست استاد کی اشاعت لیگی ان میں.میں رجبکہ قائد اعظم زندہ تھے ) حسب ذیل نوٹ لکھا "جب قائد اعظم نے یہ چاہا کہ آپ پنجاب باؤنڈری کمیشن کے سامنے مسلمانوں کے وکیل کی حیثیت سے پیش ہوں تو ظفر اللہ خان نے فوراً یہ خدمت سر انجام دینے کی حامی بھری بجو افراد کمشن کے ارکان کی حیثیت سے بیج بنا کر بٹھائے گئے تھے وہ باعتبار تجربہ و صلاحیت آپ کے مقابلہ میں طفلان مکتب سے زیادہ حیثیت نہ رکھتے تھے لیکن قائد اعظم کی خواہش تھی کہ ظفر اللہ کمیشن کے سامنے ملت کے وکیل کی حیثیت سے پیش ہوں اس لئے آپ نے بلا تامل یہ کام اپنے ذمہ لیا اور اُسے ایسی قابلیت سے سرانجام دیا کہ قائد اعظم نے خوش ہو کر آپ کو یو این او میں پاکستانی دند کا قائد مقرر کر دیا جس طرح آپ نے ملت کی وکالت کا حق ادا کیا تھا اس سے آپ کا نام پاکستان کے قابل احترام خادموں میں شامل ہو چکا تھا.آپ نے ملک ملت کی جو شاندار خدمات سرانجام دیں تو قائد اعظم انہیں حکومت پاکستان کے اس تہدے پر فائز کرنے پر تیار ہو گئے جو باعتبار منصب وزیر اعظم کے بعد سب سے اہم اور وقیع عہدہ شہر ہوتاہے قائد اعظم نے چوہدری صاحب کو بلاتامل پاکستان کا وزیر خارجہ بنا دیا لیکن ظفر اللہ کے ہاتھوں وہ زبردست کارنامه انجام دینا باقی تھا جس سے اس کا نام تاریخ پاکستان میں ہمیشہ زندہ رہے گا (یعنی یو.این.او میں مسئلہ کشمیر کی وکالت ناقل) کے جسٹس محمد منیر کا اعلان حق جس محو میر نے جو ریڈ کلف ایوارڈ کے مسمانوں کی طرف سے ممتاز رکن اور پنجاب کی تحقیقاتی عدالت" کے صدر تھے، اپنی عدالتی رپورٹ میں لکھا :- عدالت ہذا کا صدر جو اس باؤنڈری کمیشن کا مبر تھا اس بہادرانہ جد وجہد پر تشکر و امتنان کا اظہار کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے جو چودھری ظفراللہ خان صاحب نے گورداسپور کے معاملہ میں کی تھی.یہ حقیقت باؤنڈری کمیشن کے کاغذات میں ظاہر وباہر ہے اور جس شخص کو اس مسئلہ سے دلچسپی ہو وہ شوق سے اس ریکارڈ کا معائنہ کر سکتا ہے چو دھری ظفر اللہ خاں نے مسلمانوں کی نہایت بے غرضانہ خدمات انجام دیں.اُن ۱۹۴۷ شده روزنامہ نوائے وقت" یکم اگست دو کے روز نامہ "نوائے وقت" ۲۴ اگست حوله
کے باوجود بعض جماعتوں نے عدالت تحقیقات میں ان کا ذکر میں انداز میں کیا ہے وہ جس کیا ہے وہ قابل شرم ناشکرے پن کا ثبوت ہے سکھ اور ہند و پریس کاواضح اعترا ای که دربند و پای کی زبانی در دریا راشد خان صاحب کی اب سیکھ مہند ظفر اللہ ۲ فقید المثال جد و جہد کا اعتراف پڑھیے والفضل ما شما تا به الاعداء سکھوں کے ہفت روزہ گورمکھی اخبار " گرج نے آزادی ایڈیشن میں لکھا :- سمجھے خوب یاد ہے کہ سردار ہرنام سنگھے سکھوں کا کیس کمیشن کے سامنے پیش کر رہے تھے تو وہ جائیدادوں باروں اور باٹنگوں کو ہی گناتے رہے لیکن جب سرظفراللہ کی باری آئی تو انہوں نے ایک فقرے میں بات ختم کردی کہ میرا قابل دوست سروں کے بدلہ میں اینٹوں کی گنتی کرتا رہا ہے.AGAINST HEADS " " 'COUNTING BRICKS اور یہاں آج سروں سے فیصلے ہوں گے، ان کی بات درست تھی.قوم پتھروں کے ساتھ ہی ٹکرا رہی تھی سکھ لیڈر قوم کی کشتی میں اتنے پتھر ڈال چکے تھے کہ اس کا ہند و پاک سمندر سے تیر آنا مشکل سی بات تھی ملے ١٥ اخبار مهند و جالندھر نے اپنی ۲۷ ستمبر ک شاہ کی اشاعت میں لکھا : " اب 0 اگست کے بعد کی سنتے سر محمد ظفر اللہ خان اور جماعت احمدیہ کے سرکاری ادھیکاری اس بات پر بضد تھے اور ہر ممکن کوشش کر رہے تھے کہ گورداسپور بھی پاکستان میں آئے.وہ تو قادیان کو پاکستان میں لانا چاہتے تھے نہیں تو اپنا سنٹر ادیان چھوڑنا پڑتا تھا چنانچہ اعلان آزادی سے تین دن پہلے تو عارضی طور پر ضلع گورداسپور بھی پاکستان میں آپکا تھا.ان تین دنوں میں قادیان کو خوب سجایا گیا تو نے پورٹ تحقیقاتی عدالت " صفر ۲۰۹ به بقت روزه گریچ دبی آزادی اندیشین متعلقہ اقتباس کا چربہ ملاحظہ ہو: "ਨੂੰ ਯਾਦ ਹੈ ਕਿ ਜਦ ਸਰਦਾਰ ਹਰਿਨਾਮ ਸਿੰਘ ਸਿੰਘ ਦਾ ਕੇਸ ਕਮਿਸ਼ਨ ਅੱਗੇ ਪੇਸ਼ ਕਰ ਰਹੇ ਸਨ, ਤਾਂ ਉਹ ਜਾਇਦਾਦਾਂ, ਬਾਰਾਂ ਤੇ ਬਿਲਡਿੰਗਾਂ ਹੀ ਗਿਣਦੇ ਰਹੇ ਪਰ ਸਵ ਸਮੇਂ ਛਬਰਉੱਲ ਦੀ ਵਾਰੀ ਆਈ, ਤਾਂ ਉਸ ਨੇ ਇਕ ਫਿਕਰੇ ਵਿਚ ਹੀ ਗੱਲ ਮੁਕਾ ਦਿੱਤੀ ਕਿ ਮੇਰਾ ਲਾਇਕ ਦੋਸਤ ਸਿਰਾਂ ਦੇ ਬਦਲੇ ਇੱਦਾਂ ਨੂੰ ਗਿਣਦਾ ਰਿਹਾ ਹੈ Counting bricks against heads ਤੇ ਦਬੋ ਅੱਜ ਸਿਖਾਂ ਨਾਲ ਵੇਸਲੇ ਹੋਣੇ ਹਨ। ਉਸ ਦੀ ਤਾਲ ਠੀਕ ਸੀ, ਸਿੱਖ ਆਗੂ ਕੌਮ ਦੀ ਬੇੜੀ ਵਿਚ ਦਾ ਹਿੰਦ-ਪਾਕ ਦੇ ਸਾਗਰ ਵਿਚੋਂ ਰੈਮ ਪੱਥਰਾਂ ਨਾਲ ਟਕਰਾ ਰਹੀ ਸੀ। ਇਹ ਪੰਥਦ ਪਾ ਚੁੱਕੇ ਸਨ ਕਿ ਇਸ 32 : 0 falea, بجواله" الفصل ۲ ۱ر احاد / اکتوبر مش صفحه ۲ : ۲۱۹۵۲
کام " پچوتھا باب حجتہ اللہ حضرت نواب محمد علی خانصاء کے انتقال اور سیدنا حضرت یچ ملوں کے لکچر اسم کا اقتصادی نظام سے لیکر یورپ میں نئے حمدیہ نوں قیام اور تحریک نے دی انڈونیشیا کی پوش حمایت تک.صفرت سلامه مطابق ماہ ضلع / جنوری کو تا ۱۳۲۴ ش شوال شده مطابق ظهور اگست ۱۳۳۵ بیش بر خلافت ثانیہ کا بیسواں سال فصل اول حمة الله حضرت نواب محمدعلی خان نارنگی در انتقال راس سال کا نہایت اندوہناک افعہ حجۃ اللہ حضرت نواب محمد علی خانصاحب کا انتقال پر ملال ہے جو ماہ تبلیغ / فروری میں ہوا.حن نوا محمد علی خانصاح کے خاندانی حالات | حضرت نواب محمد علی خان صاحب ریاست مالیہ کوٹہ کے
فرمانروا خاندان سے تعلق رکھتے تھے جو نسل شیروانی افغان ہے اور جس کی جدا مجد ایک باخدا بزرگ حضرت شیخ صدر جہاں شہر میں جلال آباد سے ہندوستان تشریف لائے اور سلطان بہلول لودھی کی بیٹی سے بیا ہے گئے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں :- " سبھی فی اللہ نواب محمد علی خانصاحب رئیس خاندان بیاست مالیر کوٹلہ یہ نواب صاحب ایک معزز خاندان کے نامی رتیں ہیں.مورث اعلیٰ نواب صاحب موصوف کے شیخ صدر جمہان ایک ا غدا بزرگ تھے جو اصل باشنده جلال آباد سروانی قوم کے پٹھان تھے.لاء میں عہد سلطنت بہلون لو بھی میں نے دین سے اس ملک میں آئے.شاہ وقت کا ان پر استدر اعتقاد ہو گیا کہ اپنی بیٹی کا نکاح شیخ موصوف سے کر دیا.اور نیند کا نہ جاگیر میں دئے دیئے چنانچہ ایک گانڈ کی جگہ میں یہ قصبہ شیخ صاحب نے آباد کیا جس کا نام ائیر ہے.شیخ صاحب کے پوتے بایزید خان نامی شمالیر کے متصل قصبہ کوٹلہ کو تقریبا ساء میں آباد کیا جب کسی نام سے اب یہ ریاست مشہور ہے.با یزید خان کے پانچ بیٹوں میں سے ایک کا نام فیروز نہاں تھا اور غیرو نہ خان کے بیٹے کا نام شیر محمد خاں، اور شیر محمد خان کے بیٹے کا نام جمال خالی تھا.جمال خان کے پانچ بیٹے تھے مگر ان میں سے صرف دو بیٹے تھے جن کی نسل باقی رہی یعنی بہادر خاں اور عطاء اللہ خاں.بہادر خان کی نسل میں سے یہ جوان صالح خلف رشید نواب غلام محمد خان صاحب مرحوم ہے جس کا عنوان میں ہم نے نام لکھا ہے خدا تعالیٰ اس کو ایمانی امور میں بہا دور کیے اور اپنے بعد شیخ بزرگوار صدر جہاں کے رنگ میں لاد سے سردار محمد علی صاحہ نے گورنمنٹ برطانیہ کی توجہ اور مہربانی سے ایک شائستگی بخش تعلیم پائی جس کا اثرمن کے دماغی اور ولی قومی پر نمایاں ے سریں اپنی گرفت اور کرنل میسی نے پنجاب حیض میں ریاست مالیہ کوٹلہ کے خاندان کا شجرہ نسب کار مفصل تذکرہ کیا ہے.اسی طرح مولانا ضیاء الدین صاحب علوی وکیل امرد ہو یا ان کے مر الانساب میں لکھتے ہیں کہ: شیخ صدرالدین را صد ر جہاں نشر ہو میں تمام ڈرا جن سے جو ملیح قتال نے آبا د کیا تھا، بطور سیات ہندوستان آئے اند جہاں است امیر آباد ہے یہ ایک چھوٹا سا گانوں تھا یہاں ایک پونس کا گھر بنا کر مشغول عبادت ہوئے اتفاق سلطان ہوں لودی ان کی نہ یارت کو آیا اور دعاکی استدعا کی اور دل میں خیال کیا کہ اپنی لڑکی کا نکاح ان سے کر دونگا.چنانچہ بعد میں اس نے ایسا ہی کیا اور شیخ صدر الدین کو نذر میں ۶۸ دیہات دیتے.شیخ صدر الدین نے بعد نکاح اس گاؤں کو آباد کیا اور مالی نام رکھا پھر اے سال شاھند میں ان کا انتقال ہو گیا.یہ بڑے کامل بزرگ تھے اب بھی مالیزیں انکی قرین با کار درة ان نساب صفحه ۳۰ ما شیعه طبع اور ۳۰ را پریل شاه له و مطبع ریمی) عام ہے.
ہے.ان کی خداد اور فطرت بہت سلیمہ اور معتدل ہے اور باوجود نہیں شہاب کے کسی قسم کی حدت اور تیزی اور جذبات نفسانی اُن کے نزدیک آئے معلوم نہیں ہوتے کا ہے ولادت اور قبل از بیعت خدمات حضرت نواب محمد علی خان کی ولادت یکم جنوری شداد کو ہوئی ابتدائی تعلیم چفیس کالج دانبالہ دلاہور ) میں حاصل کی.ساڑھے سات برس کے تھے کہ والد بزرگوار کا سایہ اُٹھ گیا اور چھوٹے بہن بھائیوں کی ساری ذمہ داری اُن پر آپڑی شروع ہی سے دینی شغف رکھتے تھے اسلام اور مسلمانوں کے لئے فیاض تھے.مالی قربانی کرنے میں ہمیشہ فخر محسوس کرتے تھے.علماء سے شرو تک محمدن ایجو کیشنل کانفرنس سے وابستہ رہے اور عبدیا کہ اس کی سالی نہ جلسوں کی روئدادوں سے ظاہر ہے ہمیشہ چندہ دیتے رہے.علیگڑھ کے مشہور سٹریچی ہال کی تعمیر یں جن اصحاب نے پانچ سو روپیہ دیا ان میں آپ بھی تھے.چنانچہ ہال میں تیسرے نمبر یہ آپ کی یادگار مندرجہ ذیل الفاظ میں موجود ہے :- پانصد روپیہ عصبہ خا لصاحب محمد علی خاں رکیں مالیہ کو مل بشکریہ ولادت برخوردار محمد عبد الرحمن خان ۱۹ سر اکتوبر ۸۹ به ریال حضرت مسیح موعود اسے خط و کتابت حضرت مسیح موعود علی الصلوۃ اسلام سے آپ کے سلور خود کتاب کا آغاز شہداء کے دوران آپ کے استاد موادی عبد الله من حب عقیدت اویبویت تحریک ان تصوری کی تحریک پر مو جوخودم مینی شعر کو بیت کر چکے تھے چنانچہ نانی ہوا آپنے حضرت کے مولود کی خدمت میں اکیلئے خود کھا اور نہایت انکی در تواضع سے اپنے روحانی علاج کی درخواست کی.جر حضور نے تحریر فرما یا کہ دعا بی نقل نہیں ہوسکتی آپ بیعت کرلیں مگر انہوں نے عرض کیا کہ مں شیعہ ہو را در این تشیع ائمہ اثناعشر کے سوا کسی کو لی یا امام نہیں تسلیم کرتے اس لئے میں آپ کی بیعت کیسے کر سکتا ہوں ؟ اس کا مفصل جواب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لدھیانہ محلہ بار این مکان ازاد ی سے ، اس تحریر فرمایا یک تو بات حدیہ بند پنجم نمبر ہارم کے شروع میں درجہت حضور نے اس خط میں نواب صاحب کو اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی کہ اگر یہ سچ ہے کہ خداتعالی تمام بزرکتر را در امامتوں اور ولایتوں پر مہر لگا چکا ہے اور آئندہ کے اندامه ادعام طبع اول من ŁAM LAG
۴۸۰ لیئے وہ راہیں بند ہیں تو خدائے تعالیٰ کے سچے طالبوں کے لئے اسے بڑھ کر کوئی دل توڑ نیوالا واقعہ نہ ہو گا گویا وہ جھیلتے ہی مرگئے اور اُن کے ہاتھ میں بجز چند خشک قصوں کے اور کوئی مغز دار بات نہیں.نیز آیت اهدنا الصراط المستقيم صراط الذین انعمت عليهم کا مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھا یہ آیت صاف بتاتی ہے کہ کمالات امامت کا راہ ہمیشہ کے لئے کھلا ہے اور ایسا ہی ہونا چاہیئے تھا اس عاجز نے اسی راہ کے اظہارہ ثبوت کے لئے ہیں ہزار اشتہار مختلف دیا رو امصار میں بھیجا ہے اگر یہی کھلا نہیں تو پھر اسلام میں فضیلت کیا ہے ؟ یہ تو سچ ہے کہ بارہ امام کامل اور بزرگ اور سید القوم تھے مگر یہ ہرگز پہچے نہیں کہ کمالات میں اُن کے براہمہ ہونا ممکن نہیں.خدائے تعالیٰ کے دونوں ہا تھ رحمت اور قدرت کے ہمیشہ کے لئے کھلے ہیں اور کھلے رہیں گے اور تین دن اسلام میں یہ بر کتیں نہیں ہوں گی اس دن قیامت آجائے گی....ایک آدمی آپ لوگوں میں اس مدعا کے ثابت کرنے کے لئے کھڑا ہے کیا آپ لوگوں میں سے کسی کو خیال آتا ہے کہ اس کی آزمائش کروں ؟" سے اس خط کے بعد اگلے سال ہو لائی نشہداء میں پہلی بارہ قادیان پہنچے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے فیضیاب ہوئے.ازاں بعد اگست شہداء میں آپ حضور اقدس کی زیارت کے لئے لدھیانہ تشریف لے گئے اور بالی رجب پوری طرح اطمینان قلب نصیب ہو گیاتو ۱۹ نومبر نشده ء کو حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی بیعت کر لی اور لکھا کہ :- ابتدا میں گو میں آپ کی نسبت نیک ظن ہی تھا.لیکن صرف اسقدر کہ آپ اور علماء اور مشائخ ظاہری کی طرح مسلمانوں کے تفرقہ کے مرید نہیں ہیں بلکہ مخالفان اسلام کے مقابل پر کھڑے ہیں مگر الہامات کے بارہ میں مجھ کو نہ اقرار تھا اور نہ انکا نہ پھر جب میں معاصی سے بہت تنگ آیا اور ان پر غالب نہ ہو سکا تو میں نے سوچا کہ آپ نے بڑے بڑے دعوی سے کئے ہیں یہ سب جھوٹے نہیں ہو سکتے.تب میں نے بطور آزمائش آپ کی طرف خط و کتابت شروع کی سب سے مجھ کو تسکین ہوتی رہی اور جب قریبا اگست میں آپ سے لو وہیا نہ ملنے گیا ے مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر چہارم ملت کا مرتبہ حضرت شیخ تعقیب علی صاحب عرفانی سن اشاعت یکم فروری است تے.رجر بیت :
تو اس وقت میری تسکین خوب ہوگئی اور آپ کو ایک باخدا بزرگ پا یا اور بقیہ شکوک کا پھر بعد کی خط و کتابت میں میرے دل سے بھلی دھویا گیا اور جب مجھے یہ اطمینان دی گئی کہ ایک ایسا شیعہ جو خلفائے ثلاثہ کی کسرشان نہ کر سے سلسلہ سبعیت میں داخل ہو سکتا ہے.تب میں نے بیعت کرلی.اب میں اپنے آپ کو نسبتاً بہت اچھا پاتا ہوں اور آپ گواہ رہیں کہ میں نے تمام گناہوں سے آئندہ کے لئے تو بہ کی ہے.مجھ کو آپ کے اخلاق اور طرز معاشرت سے کافی اطمینان ہے کہ آپ ایک سچے مجدد اور دنیا کے لئے رحمت ہیں.لے حضرت نور اور با ذکر ازالہ اوہام میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلاة و السلام نے ذی الجوشت گڑھ توا کا ذکر ا ا مطابق جولائی کا عملہ میں ازالہ اوہام حصہ دوم شائع فرمانی تو اس میں اپنے دوسرے محبین کے علا وہ نمبرہ پر حضرت نواب صاحب کا ذکر خاص فرمایا اور اس میں ان کے خواندانی حالات بیان کرنے کے بعد اور مندرجہ بالا خط کا اقتباس دینے سے قبل تحریہ فرمایا :- میں قادیان میں جبکہ وہ ملنے کے لئے آئے اور کئی دن رہے پوشیدہ نظر سے دیکھتا رہا ہوں کہ التزام ادائے نمانہ میں ان کو خوب اہتمام ہے اور صلحاء کی طرح توجہ اور شوق سے نمانہ پڑھتے ہیں اور منکرات اور مرد ہارت سے بکلی مجتنب ہیں مجھے ایسے شخص کی خوش قسمتی پر رشک ہے جس کا ایسا صالح بیٹا ہو کہ باوجود بہم پہنچنے تمام اسباب اور وسائل غفلت اور عیاشی کے اپنے عنفوان جوانی میں ایسا پر ہیز گار معلوم ہو.معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے تو فیقہ تعالیٰ خود اپنی اصفار پر آپ، زور د ہے کہ رئیسوں کے بیج طریقوں اور چلنوں سے نفرت پیدا کرلی ہے اور نہ صرف اس قدر بلکہ جو کچھ نا جائز خیالات اور اوہام دور بے اصل بدعات شیعہ مذہب میں خلائی گئی ہیں اور جب قد تہذیب اور صلاحیت اور پاک باطنی کے مخالف ان کا عملدرآمد ہے ان سب باتوں سے بھی اپنے نور قلب سے فیصلہ کر کے انہوں نے علیحدگی اختیار کرتی ہے " سے حضرت نواب صاحبہ نے جماعت احمدیہ میں شمولیت کے بعد اپنے اوقات و اموال حضرت مسیح موعود اور سلسلہ منقہ کے لئے عملاً وقف کر دیتے.لے انزاله او مهام " طبع اول مشت : الخاص - ٤٩
حضرت نواب صاحب کی زمانہ مسیح موعود سے متعلق خدمات کا سلسلہ نوا صاحب کی خدمات سلسله بہت وسیع ہے.مختصہ صرف یہ بتانا کافی ہوگا کہ آپنے آئینہ کما سلام اور اسی پہلی تصانیف کی خریداری میں بھاری اعانت کی بیس پر حضرت اقدس نے اپنے اشتہانہ وار است سماء میں خوشنودی کا اظہار فرمایا یہ اسی سال دسمبر لاء میں جماعت کا دوسرا مشہور سالانہ جلسہ منعقد ہوا میں میں آپ حضرت مسیح موعود کے خصوصی ارشاد کی تعمیل میں شریک ہوئے اور حضرت مسیح موعود علیہ اسلام نے لسہ میں آنے والے ۳۲۷ صحابہ کی فہرست میں نمبر ۳۰۱ پر آپ کا نام درج فرمایا.شملہ میں آپ نے حضرت اقدس کی خدمت میں درخواست کی کہ میں حضرت حافظ مورد نانورالدین صاحب سے قرآن مجید پڑھنا چاہتا ہوں چنانچہ حضور کے ارشاد پر حکیم الامت مع اہلبیت مالیہ کوئٹہ تشریف لے گئے اور چند ماہ تک قیام فرمایا اس دوران میں حضرت نواب صاحب نے حکیم ندامت اور آپ کے شاگردوں کی خاطر تواضع کے لئے کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا.1947ء میں آپ نے "ادارہ کی توسیع کے لئے دل کھول کر چندہ دیا.حمل کے آغاز میں قادیان می تعلیم الاسلام سکول کا اجرا ہوا جس کے بہت سے اخراجات سالہا سال تک آپ اپنی گرہ سے اور فرماتے رہے.اسی سالی (شاہ میں، آپ کی تحریک پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لیفٹینٹ گورنر پنجاب کے نام میموریل بھیجا جس کے آخر پر اپنے جن ۱۶ صحابہ کے نام رقم فرمائے ان میں سر فہرست آپ کا نام لکھاتی ہم اکتو بر داء کو حضرت مسیح موعود نے اشتہار من انصاری الی اللہ میں اپنے صحابہ کے اخلاص کا تذکرہ کرتے ہوئے آپ کی نسبت یہ الفاظ لکھے کہ :.ی بھی قابل ذکر ہے کہ حتی فی اللہ سردار نواب محمدعلی خان صاحب بھی محبت اور اخلاص میں بہت ترقی کر گئے ہیں اور فراست صحیحہ شہادت دیتی ہے کہ وہ بہت جلد قابل رنگ اخلاص اور محبت کے منار تک پہنچیں گے اور وہ ہمیشہ حتی الوسع مالی امداد میں میں کام آتے رہے ہیں اور امید ہے کہ وہ اسے بھی زیادہ خدا کی راہ میں اپنے مالوں کو خدا کریں گے نہ ھے حضور کی یہ فراست بعد کے آنیوالے واقعات نے حرف بحرف صحیح ثابت کر دی چنا نچہ تو نائی شام میں سلة تبلغ رسالت مجلد دوم ملا ) - ایضا مکتوبات جلد پنجم نمبر تبارم من به ملاحظہ ہو آئینہ کمالات اسلام تعمیر وت ؟ شد - تبلیغ رسالت جلد هفتم من : جلد ده ه - تبلیغ رسالت جلد ہشتم مثل :
۸۳ام تمارة المسیح کی آسمانی تحریک پر آپ نے سو روپیہ چندہ دیا.اور حضور نے اپنے دست مبارک سے فہرست چندہ دہندگان میں پہلا نام حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب طبیب شاہی کا اور دوسرا آپ کا درج فرمایات نومبرستان میں آپ فونوگراف لیکر قادیان حضرت مسیح موعود کی خدمت میں حاضر ہوئے.حضور علیہ السلام نے اس کے لئے ایک لطیف تبلیغی نظم کہی جو حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی آواز میں حضور کی بعض دوسری منظومات کے ساتھ فونوگران میں محفوظ کی گئی اور قادیان کے غیر مسلموں کو سنائی گئی.یکم مارچ سنہء کو حضرت مسیح موعود کے سامنے کشفاً آپ کی تصویر آئی اور الہام ہوا حجۃ اللہ صبح کی سیر کے وقت حضور نے نواب صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :.کے متعلق ہوں تقسیم ہوئی کہ چونکہ آپ اپنی برادری اور قوم میں سے اور سوسائٹی میں کے الگ ہو کر آئے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے آپ کا نام حجتہ اللہ رکھا.یعنی آپ اُن پر محبت ہونگے.قیامت کے دن کو ان کو کہ اسہا دے گا کہ فنون شخص نے تم سے نکل کر اس صداقت کو پرکھا اور مانا تم نے کیوں ایسا نہ کیا یہ بھی تم میں سے ہی تھا اور تمہاری طرح کا ہی انسان تھا " کے 14 ه راکتو بر شاعر کو مجسٹریٹ لاله آنها رام صاحب نے مقدمہ کرم دین کے فیصلہ میں حضرت مسیح موعود کو پانچ سو وہ پیر اور حکیم فضل الدین صاحب کو دو سو روپیہ جرمانہ کیا.حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے اپنے ایک آدمی کے ہاتھ اس روز احتیاطا نو سو روپیہ کی رقم بھیجوا دی تھی جس میں سے سات سورد پیر کی رقم فی الفور ادا کو دی گئی.جنوری نشده یو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بہشتی مقبرہ کی آمد کے انتظام کیلئے صدر انجمن احمدیہ قادیان کا قیام فرمایا.اور اسکی مجلس معتمدین کے ۱۴ نمبروں میں آپ کو بھی نامزد فرمایا آپ صف اول کے موجیوں میں سے تھے اور ار ستمبر شاہ کو اپنی آمد کے دسویں حصہ کی وصیت کر دی تھی.۱۷ار ضروری خشنده و کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی دامادی کا شرف بخشا یعنی جہاں آپ کے مورث اعلیٰ کے گھر میں بادشاہ وقت کی بیٹی آئی وہاں آپ سے مسیح الزمان و مہندی دوران علیہ اسلام کی بقدس صاحبزادی حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا نکاح ہوا اور رخصت نہ کی تقریب سعید ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال مبارک کے بعد) م در ماه پرچ شدہ کو عمل میں آئی.اس روز حضرت نواب حماس نے اپنی ڈائری میں اپنے قلم سے لکھا:.الحمد للہ کہ آج وہ دن ہے تیس روز میرا نکاح حضرت کی بڑی صاحبزادی مالکہ بیگم نگم ماه - تبلیغ رسالت بلد نهم صفت به که - الحکم، در مادر چه سنه ص 4
۴۸۴ سے بعد نماز عصر مسجد اقصیٰ میں بالعوض ہے ۱۱ (۵۶۰۰۰ ہزار.ناقل ) روپیہ ہو گیا یہ وہ فضل اور احسان اللہ تعالیٰ کا ہے کہ اگر میں اپنی پیشانی کو شکر کے سجدے کرتے کرتے گھسا دوں تو بھی خداوند کے شکر سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتا.میرے سمیسا نا بکا رہ اور اس کے ساتھ یہ نور.یہ خدا تعالیٰ کا خاص رحم اور فضل ہے اے خدا اے میرے پیارے موں جب تو نے اپنے مرسل کا مجھ کو داماد بنایا ہے اور اسکے لخت جگر سے میرا تعلق کیا ہے تو مجھ کو بھی نور بنادے تاکہ اسکے قابل ہو سکوں لے کان حضرت نواب محمد علی لالا نے خلافت اولی کے زمانہ میں نہ صرف نظام خلافت کے استحکام میں نمایاں حصہ لیا بلکہ سلسلہ احمدیہ کی مالی ضروریات کو پورا کرنے میں ہمیشہ کوشاں رہے.چنانچہ جماعتی چندوں کے ساتھ ساتھ سلسلہ احمدیہ کے پہلے با تنخواہ مبلغ حضرت شیخ غلام احمد صاحب را حفظ کے سب اخیرا سیاست داییظہ برداشت کئے، دار لشفاء کے ۲۲ مکانوں کے لئے ایک وسیع قطعہ زمین عطا فرمایا اور وسط ساء میں الفضل کے اجرا پر مالی اعانت کی اور اسکی دفتر کے لئے اپنے مکان کی نچلی منزل مخصوص کردی.چنانچہ حضرت نظیفہ مسیح الثانی نے فرمایا :- تیسرے شخص جن کے دل میں اللہ نے تحریک کی وہ مسکر جی خان محمد علی نعمانی صاحب ہیں آپ نے ور یہ تعداد کیا.کچھ زمین اس کام کے لئے دی.پس وہ بھی کسی کو نہیں ہوا شد دعائے نے الفضل کے ذریعہ سے چلائی حصہ دار ہیں اور سابقون ارولون میں ہونے کے سبب اس امر کے اہل ہیں اللہ تعالی ان کو ہر قسم کی معمار سے محفوظ و مامون رکھکر اپنے فضل کے درو از ان کیلئے کھو گئے.حضرت تخلیفہ اول نے اپنے وصال سے چند روز قبل ہم زما پرچ شدہ کو اپنے آئندہ تخلیفہ کی نسبت جو مشہور و معیشت لکھی اس پر حضرت خلیفہ اول کے حکم سے حضرت نواب صاحب نے بھی جلوہ گواہ دستخط فرمائے.خلافت ثانیہ کے عہد مبارک میں آپ تیس سال بقید حیاتا رہے اس دوران میں بھی آپ نے خلیفہ وقت کی ہر اہم تحریک میں نمایاں حصہ لیا خصوصا ء کے نہ مانہ ارتداد ملکا نہ میں تبلیغ اسلام کیلئے ایک ہزار روپیہ کی خطیر رقم دینے کے علاوہ پیرانہ سالی کے باوجود اپنے خرچ پر حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی اور حضرت شیخ محمد حسین صاحب بٹائر ڈ سب مجھے علیگڑ ھو کو لیکر ملکا نہ قوم کے علاقوں میں له الفضل در تبلیغ فروری داشت الفضل لم جولائی ۱۳۳ء حث کالم ٢
۲۸۵ تشریف لے گئے جہاں حکام اضلاع سے ملاقاتیں بھی کیں اور شرکت گرما میں کئی کئی دن پیدل چل کر علاقہ ملکانہ کا دورہ فرمایا.واقعات کا قریب سے جائزہ لیا اور میدان جہاد میں کام کر نیوالے مبلغین کو قیمتی ہدایات دیں."" نومبر 11ء میں تحریک جدید کا آغازہ ہوا تو آپ اس کی پانچ ہزاری فوج میں شامل ہو گئے.اور اسکی پہلے سال سے دسویں سال تک (جو آپ کی زندگی کا آخری سال تھا، آپ کی طرف سے جو چندہ اس مد میں دیا گیا اس کی میزان تین ہزارہ تین سو ساٹھ روپے بنتی ہے.آپ کے اہلبیت اور صاحبزادگان کا چندہ اس کے علاوہ ہے الغرض حضرت نواب محمد علی خانصاحب نزہ ندگی بھر سلسلہ احمدیہ کی نہایت اہم خدمات بجالاتے رہے.اور ناممکن ہے کہ مسلہ احمدیہ کی کوئی تاریخ آپ کی ان سنہری خدمات کے تذکرہ کے بغیر مکمل قرار دی جا سکے.حضرت نواب صاحب کی حضرت نواب صاحب کی طبیعت اگست شاد سے علیل چلی آتی تھی پیشاب میں خون آنے کی تکلیف تھی جس کی وجہ سے نقاہت مرض الموت اور تجہیز وتکفین بہت زیادہ ہوگئی.اور بال خریبی عارضه مرض الموت بن گیا اور آپ بالآخر مسلسل جو تین سال تک اسلام و احمدیت کی مہمات میں شاندار اور نمایاں حصہ لینے کے بعد ار تبلیغ فروری ۶۱۹۳۵.سلسلہ میں کو اپنے موں کے حقیقی کے دربار میں حاضر ہو گئے.اناللہ وانا الیه راجعون.وفات کی خبر سنتے ہی قادیان کے مرد اور خواتین حضرت نواب صاحب کی کو بھٹی پر پہنچ گئے اسیطرح محضر امیر المومنین مصلح موعود بھی تشریف لے گئے اور رات کے گیارہ بجے تک وہیں رہ ہے.اگلے دن دوپہر کی گاڑی سے آپ کے بعض عزیز جن میں نوابزادہ خورشید علی خان صاحب خلف سرذو الفقار علی خالص اسیا سر موصوف کی بیگم صاحبہ اور اس خاندان کی بعض دیگر خواتیون تشریف لائیں.نوابزادہ احسان علیخانی صاحب کئی روز پیشتر سے ہی جب سے کہ حضرت نواب صاحب کی طبیعت زیادہ کمزور ہو گئی تھی.قادیان میں تشریف رکھتے تھے.حضرت نواب صاحب کے فرزند اکبر نوابزادہ عبد الرحمن خان صاحب بھی کئی روز سے یہاں تشریف فرما تھے.نواب سر ذو الفقار علی خان صاحب کی صاحبزادی بیگم اعزانہ رسول صاحب آن سندیلہ بھی کئی روز سے یہیں تھیں.ان کے علاوہ لاہور ، امرتسر، کپور تھلہ ، جالندھر و غیر سے بعض احمدی احباب اور صاحبزادگان خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ و السلام بھی نمازہ جنازہ میں
۴۸۶ شرکت کے لئے پہنچ گئے.تین بجے جنازہ یا ہر لایا گیا.اس وقت تک احمدی احباب کی کثیر تعداد جمع ہو ٹھیکی تھی.جنازہ کو بھی کی بیرونی ڈیوڑھی میں رکھا گیا.جہاں ہزاروں احباب نے ایک ترتیب کے ساتھ حضرت نواب صاحب کی آخری زیارت کی.اس کے بعد چار پانی کے ساتھ لیے بانس باندھ دیئے گئے.تاکہ کندھا دینے والوں کو سہولت ہو.حضرت امیر المومنین المصلح الموعود نے جنازہ کو کندھا دیا.اور جنازہ گاہ تک ہزاروں افراد نے کندھا دینے کا ثواب حاصل کیا.جنازہ دار الفضل اور دارالعلوم کی درمیانی سڑک پر سے شہر اور پھر وہاں سے باغ متصل مقبرہ بہشتی لے جایا گیا.جہاں جانب غرب نمازہ جنازہ پڑھنے کا انتظام کیا گیا تھا.قریبا تین ہزارہ افراد شریک ہوئے.نماز جنازہ حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ہو نے پڑھائی اور تمام مجمع نے رقت اور خشیت کے ساتھ حضرت نواب صاحب کے لئے دعائیں کیں.بعد ازاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار والے احاطہ میں حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم و مغفور کے بائیں جانب آپ کو دفن کیا گیا.لے ولی عہد ریاست مالیر کوٹلہ کی قادریان - تبلیغ فروری یا تو ان کو حضرت نواب صاحب کی تعزیت کے لئے ہز ہائینس نواب صاحب مالیر کوٹلہ میں بغرض تعریت التشریف آوری نر با نی نواب احد احد علی خالصاحب ) کی طرف سے د ہز ریاست کے دیہہ نواب زادہ افتخار علی خان صاحب بذریعہ موثر قادیان تشریف لائے آپ کے ساتھ ہزہائی نس نصاب صاحب آف مالیر کوٹلہ کے میر منشی جناب عبد الہ شاہ صا یہ بھی تھے.ان کے علاوہ سر ذو الفقار علی خان کے دوسرے فرزند نوابزادہ رشید ایمان بھی تشریف لائے.کے ر تبلیغ ضروری سم میں کو ہنر ہائی نس کے چھوٹے صاحبزادہ نوابزادہ الطاف علی خانصاحب مع اپنی ہمشیرہ کے بذریعہ کا.تشریف لائے.کے مزار کا کتبہ حضرت نواب صاحب کے مزار مبارک پرجو کتبہ نصب کیا گیا اس کی عبارت حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے تجویز فرمائی تھی جو یہ ہے :- ه - افضل ۱۲ تبلیغ / فروری پیش کے.الفضل ما تبلیغ فروری وان ست کالم او گے.الفضل دار " ص کالم ۲.!
" اور.مزار حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے آف مالیر کوٹلہ جو یکم جنوری مسئلہ کو پیدا ہوئے.نشہداء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت سے مشرف ہوئے در ۱۰ر فروری شدو کو قادیان میں وفات پا کر اپنے مولا کے حضور پہنچے گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاص صحابہ میں سے تھے جنہیں خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک الہام میں حجتہ اللہ کے نام سے یاد فرمایا اور حضور نے اپنی صاحبزادی نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے ذریعہ انہیں اپنی دامادی ے مشرف کیا اور ان کے متعلق انزالہ اوہام میں لکھا:.جوان ، صالح....ان کی خداداد فطرت بہت سلیم اور معتدل ہے.التزام ادائے نمانہ میں ان کو خوب اہتمام ہے...منکرات و مکروہات سے بلکل مجتنب ہیں مجھے ایسے شخص کی خوش قسمتی پر رشک ہے جس کا ایسا صالح علیا ہو.یہ اور اپنے خطہ میں نواب صاحب مرحوم کو مخاطب کر کے فرمایا :- میں آپ سے ایسی محبت رکھتا ہوں جیسا کہ اپنے فرزند عزیز سے محبت ہوتی ہے اور دعا کرتا ہوں کہ اس جہان کے بعد بھی خداتعالی ہمیں دار السلام میں آپ کی ملاقات کی خوشی دیکھائے " اے حضرت نواب محمد نی خاص اب کی سوانح اور فضائل در خدمات پر جناب ملک صلاح الدین حضرت نواب صاحب کی صاحب صاحب ایم.اسے نے اصحاب احمد کی جلد دوم میں نہایت شرح وبسط کے ساتھ سواغ پر مفصل تالیف روشنی ڈالی ہے دو اپنی اس قابل قدر تالیف میں حضرت نواب صاحب کا یاد گاری دین سے محبت ، دعاؤں سے شغف ، غرباء پروری ، فیاضی، انکسار ، خدام سے حسن سلوک ، عالی مجاہدات ، شوق تبلیغ ، غیبت سے نفرت ، صاف گوئی ، جرات ، احترام سلسلہ احمدیہ ، نظام خوفت سے محبت ، اپنوں اور غیروں سے شین سلوک - غرض کہ آپ کی سیرت و شمائل کے متعدد واقعات قلمبند کئے ہیں جو از صدایمان افرون ہیں اور پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں : لے.اصحاب احمد جلد دوم صفحه ۶۲۲ - ۶۲۳ (مؤلفہ جناب ملک صلاح الدین صاحب ایم.اسے ،
فصل دوم حضر ماما کا اقتصادی نام اورایک بین الات احمدیہ ہوٹل لاہور میں جلسہ اب تین فوری کاری تاریخ احمدیت کا ایک ناقابل فراموش تبلیغ اندر یادگارون ہے.کیونکہ اس روز حضرت مصلح موعود نے احمدیہ انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام (احمدیہ ہوسٹل (۳۲ ڈیوس روڈ) لاہور کے وسیع احاطہ میں اسلام کا اقتصادی نظام کے موضوع پر ایک معرکۃ الآراء اور انقلاب انگیز تقریر فرمائی جو قریبا ساڑھے چار بجے سے شروع ہو کر سو اسات بجے شام تک جاری رہی.صدارت کے فرائض مسٹر رام چند چند صاحب ایڈووکیٹ ہائی کورٹ لاہور نے ادا کئے.گر یہ جلسہ پبلک نہ تھا بلکہ اس میں صرف کالجوں کے پروفیسر، طلبا اور دیگر معززین کو دعوت نامہ کے ذریعہ مدعو کیا گیا تھا تا ہم ہر مذہب و ملت کے تعلیم یافتہ طبقہ کے لوگ کثیر تعداد میں شریک ہوئے مسیلم میسائی، ہندو اور سکھ شرفاء کے علاوہ تعلیم یافتہ خواتین کی ایک خاصی تعداد بھی تھی.اور لاہور کے بشیر نجات مثلاً قادیان، امرتسر، فیروز پور، قصور، گجرات اور شاہدرہ سے بھی دوست جلسہ میں شرکت کے لئے تشریف لائے ہوئے تھے.سامعین کی کل تعداد چار ہزار کے لگ بھگ ہوگی.حضور کی تقریر تختی انٹیلی جون کے باوجود اس قدر چاپ نوری که با بود که در گلر پینتیس منٹ تک جاری رہی سب حاضرین نے اسے نہایت دلچسپی ، متانت اور شوق کیسا تھ سنا اور پرو فیسر اور طلباء خاص طور پار سے لطف اندوز ہوئے.دوران تقریر میں بکثرت مسلم اور غیر تسلم احباب حضور کی تقریر کے نوٹ لکھتے رہے.سنہ حضرت مصلح موعود کا انقلاب انگیز خطاب حضرت مصلح موعود نے اپنے فاضل نہ خطاب کے آغاز میں سب سے پہلے نہایت لطیف پیرایہ میں اسلام کی اقتصادی تعلیم کا ماحول بیان فرمایا اور پھر اموال سے متعلق اسلامی نظریہ کی وضاحت کی اور نہایت تفصیل سے بتایا کہ اسلام نے کس طرح دولت کے غلط استعمال ہی کو نہیں روکا اس کے ناجائز طور پر حصوں کا بھی موثر است باب له الفضل ، در تبلیغ فروری ما این صفحه د کالم ۳ د ۱ رامان / مارچ ها پیش در ارش صفحه ۲
حضرت امیر المؤمنین مصلح الموعود " اسلام کا اقتصادی نظام " کے موضوع پر لیکچر دے رہے ہیں ا حضور کے بائیں طرف با ترتیب مسٹر رامچند میچند و ایڈوکیٹ اور شیخ بشیر احمد صاحب ایڈو کیٹ کرسیوں پر بیٹھے ہیں سٹیج پر بیٹھنے والے معززین کے نام ضمیمہ میں ملاحظہ ہوں )
فرمایا ہے.۴۸۹ اپنی تقریر کے دوسرے حصے میں حضور نے کمیونزم کی تحریک کا مذہبی اور اقتصادی اور سیاسی نظریاتی اور عملی ہر لحاظ سے تفصیلی جائزہ لیا اور آخر میں روس کے متعلق یا تیل (حز قیل با ۲۸-۱۳۹) کی ایک عظیم استان پیشگوئی کا اردو متن شنانے کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام اور اپنی پیشگوئی کا بھی ذکر فرمایا.حضرت مصلح موعود چونکہ اسلام کی نمائندگی فرما رہے تھے اس لئے حضور نے کمیونزم پر تنقید کرتے ہوئے کمیونزم کے ان حصوں کو خاص طور پر لیا جو مذہب پر براہ راست اثر اندا نہ ہوتے ہیں.یہ حصہ اس پوری تقریر کا نقطہ عروج تھا.جس کو بیان کرتے ہوئے آپ کی آزانہ میں جلالی اور قوت و شرکت کا ایک نمایاں رنگ پیدا ہو گیا.ذیل میں اس مقام کے بعض ضروری اقتباسات درج کئے جاتے ہیں تا اندازہ ہو سکے کہ پوری تقریر کس شان کی تھی اور کس جذبہ سے کی گئی.حضور نے ارشاد فرمایا : " سب سے پہلا اعتراض جو کمیونسٹ نظام پر مجھے اور ہر موت کے بعد کی زندگی کے ماننے والے کو ہونا چاہیئے یہ ہے کہ اس میں شخصی طوعی بعد جہد جو زندگی کے مختلف شعبوں میں ظاہر ہو کہ انسان کو اخروی زندگی میں مستحق تو اب بناتی ہے اُس کے لئے بہت ہی کم موقعہ باقی رکھا گیا ہے...مثلا اسلام ان مذاہب میں سے ہے جو اپنے پیروں کو یہ حکم دیتا ہے کہ جاؤرا در دنیا میں تبلیغ کرو.جاؤ اور لوگوں کو اپنے اندر شامل کرو کیونکہ دنیا کی نجات اسلام سے وابستہ ہے.وہ شخص جو اسلام سے باہر ر ہے گا نجات سے محروم رہے گا اور اخروی زندگی میں ایک مجرم کی حیثیت میں اللہ لہ کے سامنے پیش ہو گا.تم ایک مسلمان کو یہ عقیدہ رکھنے کی وجہ سے پاگل کہ دو.بیوقوف کہ لو.جاہل کہ ہو.بہر حال جب تک وہ اسلام کی سچائی پر یقین رکھتا ہے.جبکہ بنی نوع انسان کی نجات نشر اسلم میں داخل ہونے پر ہی تھی سمجھتا ہے اسوقت تک وہ اپنا فرض کھتا ہے کہ میں اپنے ہر اُس بھائی کو جو اسلام میں داخل نہیں اسلام کا پیغام پہنچاؤں.اُسے تبلیغ کروں اور اس پر اسلام کے محاسن اس خمدگی سے ظاہر کر دوں کہ وہ بھی اسلام میں داخل ہو جائے....لیکن کمیونسٹ نظام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں...اول تو د سیاسی طور پر تبلیغ کی اجازت نہیں دیتے.لیکن چونکہ یہ اقتصادی مضمون ہے اسلئے اسے نظر اندازند بھی کردو تو سوال یہ ہے کہ ایک اقلیت اکثریت کے مذہب کو بدلنے کے لئے کس قدر قربانی
۴۹۰ کے بعد لٹریچر وغیرہ بہتا کر سکتی ہے.مثلاً ہماری جماعت ہی کو لے لو.ہم اقلیت ہیں مگر ہم دنیا میں اسلام کو پھیلانا چاہتے ہیں.ہمارے آدمی اگر روس میں تبلیغ کرنے کے لئے جاتے ہیں تو ہر شخص یہ آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے کہ ۱۷ کروڑ رشین کو مسلمان بنانے کیلئے کتنے کثیر لٹریچر کی ضرورت ہے اور کتنامالی ہے جو اس جدو جہد پر خرچ آسکتا ہے.ہماری جماعت اس جدو جہدکو کی ور میں جاری رکھ سکتی ہے جب کسی کھانی است پوری نہ چھین لی جائے اور کھانے پینے اور پہننے کے علاوہ بھی اس کے پاس روپیہ ہوتا وہ اس سے ایسے اخراجات کو پورا کر سکے بہن کو وہ اپنی اُخروی بھلائی کے لئے ضروری سمجھتی ہے لیکن کمیونزم کا اقتصادی نظام تو کسی کے پاس زائد روپیہ رہنے ہی نہیں دیتا کیونکہ وہ اس جدو جہد کو کام ہی نہیں سمجھتا اسکے نزدیک مادی کام کام ہیں لیکن مذہبی کام کام نہیں ہیں.اگر کمیونسٹ یہ کہتے کہ ہم مذہب کے مخالف ہیں اور اُسے غیر ضروری قرار دیتے ہیں تو کو پھر بھی ہمیں اختلاف ہو گا مگر میں افسوس نہ ہوتا.ہم سمجھتے کہ جو کچھ ان کا دل میں عقیدہ ہے اسی کو اپنی نہ بان سے ظاہر کر رہے ہیں مگر ہمیں افسوس ہے تو یہ کہ کمیونسٹ یہ بات ظاہر نہیں کرتے.وہ کھلے بندوں یہ نہیں کہتے کہ ہم اپنے نظام کے ما تحت تمہارے مذہب کو اپنے ملک میں پھیلنے کی اجازت نہیں دے سکتے.بلکہ وہ گھر کے پچھلے دروازہ سے گھر میں گھسنے کی کوشش کرتے ہیں اور اکثر مذہب کے ماننے والے اُس وقت اُن کی اس چالاکی سے واقف ہوتے ہیں جبکہ وہ اپنی شخصیت کھو چکے ہوتے ہیں اور کمیونزم سے ان کی ہمدردی اور محبت اتنی بڑھ چکی ہوتی ہے کہ ان کی آنکھوں پر پٹی بند ھو جاتی ہے.کمیونزم اگر کھلے بندوں ہے کہ ہم اخر دی زندگی کو کوئی قیمت نہیں دیتے ہم اس کے پر چارک کے لئے کوئی سامان تمہارے پاس نہیں تھوڑنا چاہتے تو آنکھوں کھلے لوگ اس میں داخل ہوں.مگر دوسرے ممالک میں اس حصہ کو پوری طرح مخفی رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے اور کہا بھاتا ہے کہ کمیو نہ ہم صرف ایک اقتصادی نظام ہے.مذہب سے اس کا کوئی ٹکراؤ نہیں.حالانکہ مذہب نام ہے تبلیغ کرنے کا.مذہب نام ہے ایک دوسرے کو خدا تعالے کے احکام پہنچانے کا خواہ یہ تقریر کے ذریعہ ہو یا تحریر کے ذریعہ ہو.لٹریچر کے ذریعہ ہو یا کتابوں کے ذریعہ ہو.مگر کمیونزم تو کسی انسان کے پاس کوئی زائد روپیہ چھوڑتا
ہی نہیں.پھر ایک مذہبی آدمی ٹریکٹ کس طرح چھپوائے اور کتا بیں کس طرح ملک کے گوشہ گوشہ میں پھیلائے.اس پابندی کا لازمی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ مذہب کی اشاعت رک جائے اور ماند ہیت کا دور دورہ ہو جائے.اب اس سوال کا دوسرا پہلو لے لو.ہر سلمان یہ کہتا ہے کہ میں روپیہ نہیں مانگتا.لیکن میں اسلام کی خدمت کے لئے اپنی زندگی وقف کر دیتا ہوں.وہ کہتا ہے کہ میں سارے.دس میں پھر دونگا اور اپنے خیالات ان لوگوں پر ظاہر کرونگا.میں گاؤں یہ گاؤں اور قصبہ بہ قصبہ اور شہر بہ شہر تھاؤں گا اور لوگوں کو اسلام میں داخل کرنے کی کوشش کروں گا.سوال یہ ہے کہ کیا کمیونسٹ گورنمنٹ ایک مسلمان کو اپنی زندگی وقف کرنے اور اسلام کی اشاعت کے لئے اپنے ملک میں پھرنے کی اجازت دے گی.یا جبرا اُسے اس کام سے روکے گی اور اُسے جیل کی تنگ تاریک کوٹھڑیوں میں محبوس کر د سے گی یقینا اس کا ایک ہی جواب ہے کہ کمیونسٹ گورنمنٹ اُسے جبرا اس کام سے روکے گی اُسے دین اور مذاہب کا کام نہیں کرنے دے گی....قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ونتَكُنْ مِنْكُمْ اُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الخَيْرِ وَيَا مُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ المُنكَرِ (آل عمران ہے ، یعنی اسے مسلمانو! تم میں سے ایک جماعت پورے طور پر مذہبی نگرانی کے لئے دنیوی کاموں سے فارغ ہونی چاہئیے اور اس جماعت کے افراد کا یہ کام ہونا چاہیے کہ وہ نیک باتوں کی طرف لوگوں کو بلائیں.عمدہ باتوں کی تعلیم دیں اور شہر سے اخلاق سے لوگوں کو رد کیں.پس اسلامی تعلیم کے ماتحت ایک حصہ کلی طور پر اس غرض کے لئے وقف ہونا چاہیئے.یہ صحیح بات ہے کہ اسلام زندگی وقف کر نینہ الوں کو کوئی خاص حقوق نہیں دیتا مگر اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ایک خاص کام اُن کے سپرد کرتا ہے.اسلام پادریت (PRIESTHOOD ) کا قائل نہیں.مگروہ مذہبی نظام کا ضرور قائل ہے.عیسائیت تو جن لوگوں کے سپرد تبلیغ کا کام کرتی ہے ان کو دوسروں سے بعض نماند حقوق بھی دے دیتی ہے مگر اسلام کہتا ہے کہ ہم ان لوگوں کو کوئی نہ ائر حق نہیں دیں گے جو دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کر یں گے لیکن یہ ضرور ہے کہ زندگی وقف کر نیو الے کے سپر خاص طور پر یہ کام ہو گا کہ وہ اسلام کو پھیلائے اور تبلیغی یا تربیتی نقطہ نگاہ کر ہروقت
اسلام کی خدمت کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا مقصد سمجھے.اس قسم کے لوگوں کی نفی کر کے نظام اسلام کبھی باقی نہیں رہ سکتا.آخر ایک تفصیلی آئین بغیر اس کی ماہروں اور بغیر اس کے مبلغوں کے کس طرح چل سکتا ہے.اسلام وہ مذہب ہے جو دنیا کے تمام مذاہب میں سے سب سے زیادہ مکمل ہے اور وہ ایک وسیع اور کامل آئین اپنے اندر رکھتا ہے.وہ عبادات کے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے وہ اقتصادیات کے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے وہ سیاسیات کیے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے وہ آتا اور ملازمین کے حقوق کے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے.وہ معلم درس تعلم کے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے.وہ میاں اور بیوی کے حقوق کے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے وہ تجارت اور لین دین کے معاملات کے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے.وہ ورثہ کے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے.وہ بین الاقوامی تھگردی کے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے.وہ قضاء کے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے غرض ہزاروں قسم کی تعلیمیں اور ہزاروں قسم کے قانون ہیں جو اسلام میں پائے جاتے ہیں اور ان میں سے ایک ایک امر اور کامل معموں کو چاہتا ہے جو رات دن اسی کام میں لگے رہیں جب تک اس تفصیلی آئین کو سکھانے والے لوگ اسلام میں موجود نہیں ہوں گے.لوگ سیکھیں گے کیا اور کس سے.اور اسلام پر مسلمان معمل کس طرح کریں گے.اور اسلام دنیا میں پھیلے گا مکمل کس طرح ؟ تغیر کا علم خود ایک مکمل علم ہے.جب تک مفتر نہ ہو یہ علم زندہ نہیں رہ سکتا اوردفتر بننے کے لئے سالہا سال تک تفاسیر کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے.لغت کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے.صرف و نحر کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے.احادیث کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے.پھر پرانی تفاسیر کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے.دوسرے مذاہب کی کتب اور ان کی تاریخ خصوصها تا ریخ عرب اور تاریخ بنی اسرائیل اور بائیبل کے مطالعہ کی ضرورت ہے.بغیر ان باتوں کے بھانے کے کوئی شخص قرآن کریم کے مطالب کو صحیح طور پر نہیں سمجھ سکتا.سوائے اس کی کہ الله تعالئے براہ راست کسی کو سمجھائے.مگر ایسے آدمی دنیا میں کتنے ہوتے ہیں.صدیوں میں کوئی ایک آدھ ایسا پیدا ہوتا ہے باقی تو کسب سے ہو تقوی کے ساتھ ہو یہ مرتبہ حاصل کر سکتے ہیں.لیکن کمیونسٹ تو اس کام کو کام ہی نہیں سمجھتے.وہ کسی کو قرآن کریم اور تفسیر در عربی بارہ سال تک
۴۹۳ پڑھنے اور پھر دوسروں کو پڑھانے کا موقعہ کب دے سکتے ہیں.وہ تو ایسے شخص کو یا قید کر دیں گے یا اس کا کھانا پینا بند کر دیں گے کہ وہ نکلتا اور قوم پر بو جھ ہے.اسی طرح حدیث کا علم بھی علاوہ درجنوی حدیث کی کتب کے ، درجنوں امن کی تشریحات کی کتب کے اور اس کے ساتھ لغت اور صرف و تحہ اور اسماء الرجال کی کتب پر مشتمل ہے.بغیر حدیدیش کے علم کے مسلمانوں کو اسلام کی تفصیلات کا علم ہی نہیں ہو سکتا.اور بغیر اس علم کے ماہرین کے جو اپنی عمر اس علم کے حصول میں خرچ کریں مسلمانوں میں اس علم کی وانتیمیت پیدا ہی نہیں ہو سکتی مگر کمیونزم تو اس علم کے پڑھنے کو ہی لغو اور فضول اور بیگانہ قرار دیتی ہے.وہ اس علم کے پڑھنے اور پڑھانے والوں کو اپنی عمر اس علم کے حصول میں قطعا خرچ نہ کرنے دی گئی.یا ایسے آدمی کو قید کرے گی یا اُسے فاقوں سے مارتے گئی.کیونکہ وہ اس کے نزدیک بیکار وجود ہے اور قوم یہ با ر.ہمارے نزدیک جو شخص مشین چلا رہا ہے وہ بھی کام کر رہا ہے اور جو شخص مذہب پھیلا نہ ہی ہے وہ بھی کام کہ رہا ہے اور جو نہ ہب کی تعلیم دے رہا ہے.وہ بھی کام کر رہا ہے اور جو نہ ہمیں کی تعلیم حاصل کر رہا ہے وہ بھی کام کر رہا ہے مگر اُن کے نزدیک ہو مشخص مشین چلاتا ہے وہ تو کام کرنے والا ہے مگر جو شخص مذہب پڑھتا یا پڑھاتا یا پھیلاتا ہے وہ لکھتا اور لہے کا رہ ہے ان کے نزدیک لوگوں کو الف اور با و سکھانا نام ہے ملا اله الا احمد من سُول الله اگر لوگوں کو سکھایا جائے تو یہ کام نہیں.بلکہ نکما پن ہے.اب دیکھو ہمارے نظر تیر اور ان کے نظریہ میں کتنا بڑا فرق ہے اور مشرق و مغرب کے اس قدریہ بعد کو کس طرح دور کیا جا سکتا ہے ؟ اس تفصیل کے ماتحت کمیو نزام نظام میں وہ شخص جس کے پیروں کی ٹیل کے برابر بھی ہم دنیا کے بڑے بڑے بادشاہ کو نہیں سمجھتے جس کے لئے ہم میں سے ہر شخص اپنی جان کو قربان کرنا اپنی انتہائی خوش بختی اور سعادت سمجھتا ہے یعنی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ کو تم جو رات اور ون خدا کی باتیں سنا کہ بنی نوع انسان کی روح کو روشن کیا کرتے تھے.اسی طرح مسیح موسی ابراهیم - کرش - رام چند رده بودند - زرتشت - گورد نانگ - کنفیوشن - پیسب
کے سب نعوذ باللہ لکھے اور قوم پر بار تھے اور ایسے آدمیوں کو ان کے قانون کے ماتحت یا تو فیکٹریوں میں کام کے لئے بھجوا دنیا چاہیئے.تا کہ ان سے جوتے بنوائے جائیں.یا ان سے بوٹ اور گرگابیاں تیار کرائی جائیں یا اُن سے کپڑے سلائے بھائیں.یا اُن کو لوگوں کے بال کاٹنے پر مقر کیا جائے اور اگر یہ لوگ ا قسم کا کام کرنے کے لئے تیار نہ ہوں تو پھران کا کھانا پینا یہ کام کرنے بند کیا جانا چاہیئے.کیونکہ ان کے نزدیک یہ لوگ تھے اور قوم کو بار ہیں.کمیونسٹ نظام تصویر بنانے کو کام قرار دیا ہے.وہ سٹیچو ( STATUE ) بنانے کو کام قرار دیتا ہے مگر وہ روح کی اصلاح کو کوئی کام قرار نہیں دیتا بلکہ اسے نکما پن سمجھتا ہے.حالانکہ ہم بھانتے ہیں کہ روٹی ہی انسان کا پیٹ نہیں بھرا کرتی اور صرف غذا ہی اگرد کے اطمینان کا موجب نہیں ہوتی.بلکہ ہزاروں ہزارہ انسان دنیا میں ایسے پائے جاتے ہیں کہ اگر ان کو عبادت سے بدک دو تو وہ کبھی بھی چھین نہیں پائیں گے خواہ اُن کی غذا اور لباس کا کس قدر خیال رکھا جائے.تعجب ہے کہ کمیونسٹ نظام چھ گھنٹہ نیکٹا ہوں میں کام کر کے سینیما اور ناچ گھروں میں جانیوالے اور شراب میں مست رہنے والے کو کام کرنے والا قرار دیتا ہے.وہ فوٹو گرافی اور میوزک کو کام قرار دیتا ہے مگر وہ روح کی درستی اور اخلاق کی اصلاح کو کوئی کام قرار نہیں دیتا پچھلے دنوں مارشل مالی نووسکائی (MOLI NOVSKY ) سے کسی نے پوچھا کہ آپ کے لڑکے کسی کام میں دلچسپی لیتے ہیں تو امی نے ہفتے ہوئے کہا کہ : << Interested ARE THEY IN PHOTOGRAPHY, " RABBITS٠ KEEPING AND MUSIC گو یا میونزم نظام میں ایک پندرہ سال کا بچہ جو فوٹو گرانی میں اپنے وقت کو گذار دیتا ہے.جو میوزک میں دن رات مشغول رہتا ہے.جو خرگو شودر کو پال پال کر ان کے پیچھے بھاگا پھرتا ہے وہ تو کام کرنے والا ہے اور اس بات کا مستحق ہے کہ اُسے روٹی دی جائے.لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیه دوستم مسیح موسی - کرشن - برمن در نشت گورو نانک.یہ اگر خدا کے نام کو دنیا میں پھیلاتے ہیں تو وہ جاہل کہتے ہیں کہ یہ نعوذ بادہ میں ڈالک) پیرا سائی نس (PARASITES) ہیں.یہ سوسائٹی کو پاک کر نیوالے جوانی ہیں یہ اس قابل نہیں ہیں کہ ان کو کام کر نیواں قرار دیا جائے
۴۹۵ حالانکہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دن کو بھی کام کیا اور رات کو بھی کام کیا.انہوں نے دن کو دن نہیں سمجھا اور راتوں کو رات نہیں سمجھا.تعیش کو انہوں نے اپنے اوپر حرام کر لیا اور اٹھارہ اٹھارہ گھنتے بنی نوع انسان کی علمی اور اخلاقی اور روحانی اصلاح کے لئے کام کیا.مگر یہ لوگ اُن کے نزدیک نکتھے اور قوم پر بار تھے.وہ سنیما میں اپنے رات اور دن بسر کر نے والے تو کام کرنے والے ہیں اور یہ لوگ جو دن کو بنی نوع انسان کی اصلاح کا کام کرتے اور راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے یہ کوئی کام کرنے والے نہیں تھے.وہ لوگ جو بطور ایک دور کیا کرتے تھے یواخلاق درست کیا کرتے تھی.جوہری کی تکالیف برداشت کر کے دنیا میں نیکی کو پھیلاتے اور بدی کو شانے تھے وہ تو یکھتے تھے اور یہ سینما میں بھانے والے اور شرابیں پی پی کر نا چھنے والے اور بانسریاں منہ کو لگا کہ ہیں ہیں کرنے والے کام کرنے والے ہیں.غرض جہاں تک واقعات کا سوال ہے.یکمیونسٹ نظام میں ان لوگوں کی کوئی جگہ نہیں.میں دوسری دنیا کہ نہیں جانتا.مگر میں اپنے متعلق یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ نظام جس میں محمد رسل شد علی اشد علیہ وسلم کی جگہ نہیں خدا کی قسم اگر میں میری بھی جگہ نہیں.ہم اس ملک کو اپنا ملک اور اُس نظام کو اپنا نظام سمجھتے ہیں جس میں ان لوگوں کو پہلے جگہ ملے اور بعد میں ہمیں جگہ ہے.وہ ملک اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بند ہے تو یقیناً ہر سچے مسلمان کے لئے بھی بند ہے.وہ حقیقت پر پردہ ڈالکر مذاہب پر عقیدت رکھنے والوں کو اس نظام کی طرف لا سکتے ہیں مگر حقیقت کو نہ اصح کر کے کبھی نہیں لا سکتے " حضرت مصلح موعود کی اس پر شوکت تقریر کے بعد صدر جال البراند چندہ مانا کی صدارتی تقریر بلہ جناب کالہ رام چند چندہ صاحب نے ایک مختصر تقریر کی جس میں کہا :- و میں اپنے آپ کو بہت خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ مجھے ایسی قیمتی انتر یہ شکنے کا موقعہ ملا.مجھے اس بات سے خوشی ہے کہ تحریک احدیت ترقی کر رہی ہے اور نمایاں نہ تی کر رہی ہے.جو تقریر اس وقت آپ لوگوں نے سنی ہے.اس کی اند نہ نہایت قیمتی اور نئی نئی باتیں حضور سنتے اسلام کا اقتصادی نظام " صفحه ۶۰ تا ۰ ، طبع اول :
۴۹۶ بیان فرمائی ہیں مجھے اس تقریرہ سے بہت فائدہ ہوا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ آپ لوگوں نے بھی ان قیمتی معلومات سے بہت فائدہ اٹھایا ہو گا.مجھے اس بات سے بھی بہت خوشی ہوئی ہے.کہ اری جلسہ میں نہ صرف مسلمان بلکہ غیر مسلم بھی شامل ہوتے ہیں اور مجھے خوشی ہے کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں.جماعت احمدیہ کے بہت سے معزر دوستوں سے مجھے تبادلہ خیالات کا موقعہ مہار مہتا ہے.یہ جماعت اسلام کی وہ تفسیر کہتی ہے جو اس ملک کے لئے نہایت مفید ہے پہلے تو میں کھتا تھا اور یہ میری ملی تھی کہ اسلام صرف اپنے قوانین میں سلمان کی ہی خیال رکھتا ہے.غیر مسلموں کا کوئی لحاظ نہیں رکھتا مگر آج حضرت امام جماعت احمدیہ کی تفریہ سے معلوم ہوا کہ اسلام تمام انسانوں میں مساوات کی تعلیم دیتا ہے اور مجھے یہ شنکر بہت خوشی ہوئی ہے.میں غیر مسلم دوستوں سے کہونگا کہ اس قسم کے اسلام کی عزت و احترام کرنے میں آپ لوگوں کو کیا عذر ہے ؟ آپ لوگوں نے میں سنجیدگی اور سکوں سے اڑھائی گھنٹہ تک تصور کی تقریبہ شنی ہے.اگر کوئی یورپین اس بات کو دیکھتا تو وہ حیران ہوتا کہ ہندوستان نے اتنی ترقی کر لی ہے جہاں میں آپ لوگوں کا شکریہ ادا کر تا ہوں کہ آپ نے سکون کے ساتھ تقریہ کو شنا.وہاں میں اپنی طرف سے اور آپ سب لوگوں کی طرف سے حضرت امام جماعت احمدیہ کا بار بار اور لاکھ لاکھ شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے اپنی نہایت ہی قیمتی معلومات سے پر تقریر سے ہمیں مستفید فرمایا " اے..16 الات طبقه باقری کار ترین معلم بانتباہ کے دار سے مری ماہرین معاشیات کے بوسیدہ اور سرتا پا ناقص خیالات کے اثر کو نہ امل کر کے ایک نے بر دست روشنی پیدا کر دی کیونکہ یہ تقریر جہاں بینظیر قرآنی علوم و معارف پر مشتمل تھی وہاں اس میں اشتراکیت کے نقائص پر بھی نہایت محققانہ اور عالمانہ بحث کی گئی تھی.کمیونزم کے رد میں خود یورپین مفکر بھی ان خیالات کا اظہار کرنے سے قاصر رہے ہیں جو تصور سے اس تقریہ میں بیان فرمائے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ نے اقتصادیات کی نسبت اسلامی تعلیم کی ترجمانی ایسے ولولہ انگیز انداز می فرمائی کہ مسلم اور غیر مسلم دنوں حلقوں میں اسلام کی بہتری کی دھوم بچ گئی اور لاہور کے کالجوں میں تو ایک ہیجان پیدا ہو گیا.بہت سے اعلی سرکاری حکام پروفیسران ،وکلاء بیرسٹر اور ریڈ سانے بڑے شوق سے پورا لیکچر شنا اور اپنے اپنے حلقوں میں اسے پھیلایا.اه - روزنامه الفضل قادیان مورخه ۲۷ تبلیغ فروری ش مه ۶۱۹۲۵
چنانچہ تقریہ سننے کے بعد اکثر کی زبان پر تعریفی کلمات تھے بلکہ ایک کثیر طبقہ نے اس بات کا اقرار کیا کہ عقاید کے میدان میں گو ہم حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے ساتھ اختلافہ رکھتے ہوں.مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ آپ موجودہ زمانہ میں ہندوستان کے بہترین عالم میں اور حقیقت بھی یہی تھی کہ علم اقتصاد کے متعلق قرآنی حقائق و معارف کا انکشاف اور یورپ کے اقتصادی فلسفہ کا رد آهنگ کسی انسان کی طرف سے ایسے رنگ میں پیش نہیں ہوا کہ خود منکرین اسلام ایسے نظام کی فضیلت کا اقرار کریں.اور خود اشتراکیت کے حامی اشتراکیت کی خامیاں تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے ہوں.چنانچہ حضرت مولانا شیر علی صاحب کا بیان ہے کہ انہوں نے تقریر کے بعد بعض غیر احمدی نوجوانوں کو آپس میں یہ گفتگو کرتے ہوئے سنا کہ اگر اب بھی تم نے کمیونسٹ کی تائید کی تو تم پر لعنت ہے.اسی طرح ایک پروفیسر پر اس کا اتنا اثر پڑھا کہ وہ روپڑا.تقریر کے اختتام پر غیر احدی پر وفیسر صاحبان اور طلباء کی طرف سے اس خواہش کا اظہار کیا گیا کپور کو وقت کی قلت کی وجہ سے حضور اپنی تقریر میں مضمون کے تمام پہلوؤں پر اپنے خیالات کا اظہارہ نہیں فرما سکے اس لئے ایک تقریر فرمائی جائے جس میں مضمون کے باقی حصص کی وضاحت ہو جائے تا لوگ علوم کے اس چشمہ سے سیراب ہو سکیں جو اللہ تعالے نے حضور کو عطا فرمایا ہے.نیز یہ کہ یہ تقریر فوری طور یہ کتابی صورت میں چھپوا دیجائے.اسی طرح پنجاب یونیورسٹی شعبہ اقتصادیات کے ایم.اے کے بعض طلبہ نے اس تقریر کا انگریزی ترجمہ چھپوا کو یونیورسٹی اکنامکس ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسروں کے پاس بھیجنے کی تجویز پیش کی.نیز کہا کہ جہاں مختلف سکیمیں ہندوستان کی آئندہ فلاح اور اقتصادی ترقی کے متعلق دوسرے لوگوں کی طرف سے پیش ہو رہی ہیں وہاری یہ اسلامی نظام جو حضور نے پیش فرمایا ہے مسلمانوں کے خیالات کی نمائندگی کرے گا.اس تقریر کے پہلے حصہ کی نسبت مسلمان پروفیسروں اور طالبعلموں نے یہ رائے دی کہ اسلامی اقتصادی نظام اس طرز پر پہلے کبھی پیش نہیں کیا گیا.نہ ہندوستان کے کسی موجودہ مسلمان عالم نے اس موضوع پر اس رنگ میں قلم اُٹھایا ہے کہ اسلامی نظام کو تمام نقائص سے پاک ثابت کر کے ایسے رنگ میں پیش کرے کہ وہ قابل حمل ہونے کے علاوہ بہترین نظام معیشت بھی ہو.جہاں تک غیر مسلم طبقہ کا تعلق ہے ان کے نزدیک اسلامی نظام کی وہ شکل جو حضور نے بیان فرمائی قابل عمل ہونے کے ساتھ ساتھ عالمگیر رواداری اور اخوت اور مساوات کے اصول یہ مبنی ہے.جیسا کہ صاحب صدر طالہ را نچور مچندہ نے اپنی صدارتی تقریر میں واضح لفظوں میں
اقرار کیا.ملنے الغرض حضرت مصلح موجودہ کے اس سیکھر نے چوٹی کے علی طبقوں میں ایک تہلکہ مچا دیا اور امر تھانے کے فضل سے اسے ہر سطح پر غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی.سے - ایک غیر حدی پرفید کا مکتوب ایک غیر احمدی پر و فیسر نے (جو اس تقریر میں موجود تھے اور پھر جلد ہی مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے گورنمنٹ کے خرچ پر امریکہ چلے گئے اپنے ایک احمدی دوست کو امریکہ سے خط لکھا.کہ یہاں مذہب پر کبھی کبھی گفتگو ہو جاتی ہے.خدا کے فضل سے مذہبی بحث میں قادیانی شری کیر " جو میں نے پڑھا ہے خوب کام دیتا ہے لوگوں کو بحث کرنے کی عادت تو ہے لیکن مذہب سے بالکل ناواقف ہوتے ہیں چند منٹ کی گفتگو کے بعد خاموش ہو جاتے ہیں.....یہاں روسی نظام پیر بھی بحث ہوتی تھی.آجکل کے تعلیم یافتہ روسی نظام کے دلدادہ ہیں لیکن روسی نظام اسلامی نظام کا خاتمہ ہے.روسی نظام میں انفرادی آزادی نہیں ملتی.اس لئے مذہب کے نقطہ نگاہ سے کسی شخص کا قیامت کے دن حساب لینا بے سود ہے.اسلام ہر شخص کی آزادی چاہتا ہے تا کہ ہر شخص کو پورا اختیا نہ ہو کہ نیکی بدی میں جو راستہ چاہیے اختیار کر سکے روسی نظام ایک پیچیدہ مشین ہے جس میں ایک انسان مشین کے ایک پرزہ کی طرح کام کہتا ہے اور اپنی مرضی سے یا اپنے اختیار سے کام نہیں کر سکتا.اس لئے جو مذہب دوسری دنیا اور جزا اور سزا کا دھوئی کرتا ہے وہ روسی نظام کے خلاف ہے.ر اس مسئلہ پر لاہور میں خلیفہ صاحب نے ایک لمبی تقریر کی تھی اور بے شمار دلائل سے ثابت کیا تھا کہ ہر لحاظ سے اسلامی نظام دنیا کا بہترین نظام ہے.میں آپ کے ساتھ اس تقریر کو مٹنے کیلئے لاہور گیا تھا.اس تقریر سے میرے علم میں بہت اضافہ ہوا اور جو دلائل سنے وہ سب یاد ہیں اور جب کبھی روسی نظام پر بحث کرنے کا موقع ملتا ہے تو خلیفہ صاحب کی لمبی تقریر خوب کام دیتی ہے.جو کتا ہیں یہاں تقسیم کرنے کے لئے لایا تھا وہ تقسیم کی جار ہی ہیں.بہت سی تقسیم ہو چکی ہیں ہے.ازمانی ۱۹۴۵ درمان ۱۳۳۲ م ش ها و الفضل در امان روایح داشت و افضل من اما ا حت کالم ۲-۳ ه الفضل ، استادی ۴۱۶۴۵ ر مصلح موعود کا رادہ دوتین ماہ میں کینیم اور مذہب کے عنوان پر بھی ایک فرم را شاد کرانے کا تھا اور اس کیلئے ایک رات بیٹھاکر اسکی نوٹ بھی سکھ لئے تھے مگر افسوس لاہور میں اس کیلئے کوئی مناسب تقریب پیدانہ ہوسکی اور دنیا ایک نئے دال اور انمول علمی خزانے سے محروم به بین من افضل الامان تشریح مش مت سے - روز نهم الفضل قادیان مورخه د ارمستی معله مت با
۴۹۹ جناب سید عبد القادر صاحب ایم اے وائس پرنسپل صدر شعبہ سید عبد القادر صاحب ایم اے وائس پنیسیل اسلام کالج لاہو کے تاثرات ISLAM AND تا ریخ اسلامیہ کالج نے اسلام اور اشتراکیت AHD COMMUNIS کے عنوان پیر اخبار سین رائنہ گاہور (۲۳) امان ۱۳۳۴ لاش میں ایک نوٹ دیا میں کا ایک حصہ درج ذیل کیا جاتا ہے :- ماره ۶۱۹۴۵ اسلام کا اقتصادی نظام اور کمیونزم کے موضوع پر حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صابا امام جماعت احمدیہ کا لیکچر سُننے کا مجھے بھی فخر حاصل ہوا.یہ لیکچر بھی آپ کے دوسرے لیکچروں کی طرح جو مجھے سننے کا اتفاق ہوا ہے عالمانہ خیالات میں جلا پیدا کرنے والا اور پیپر از معلومات تھا مرزا صاحب خداداد قابلیت کے مالک ہیں.اور اس موضوع کے ہر پہلو پر آپ کو پورا پورا عبور حاصل ہے.اس وجہ سے آپ کے خیالات اس بات کے مستحق ہیں.کہ ہم ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے ان پر توجہ کریں کہ ہے کچھ کے مختلف غیرملکی زبانوں میں تراجم اور اس کے علمی انترات یہ اہم لیکچر جو مولوی محمد یعقوب صاحب فاضل طاہر کی ہمت و کاوش سے من و عن منبط تحریر میں آگیا تھا ہندوستان کے مختلف تعلیمیافتہ فیقوں کے اصرار پر ماہ ظہور / اگست کی وپیش میں دفتر تحر یک جاد ۶۱۹۲۵ کی طرف سے شائع کر دیا گیا.اس پہلے اردو ایڈیشن کے بعد اس تقریر کے انگریزی ، ہندی ، ہسپانوی، تم کی، جرمنی، اور عربی زبانوں میں بھی تراجم شائع ہو چکے ہیں اور قلوب واذہان میں ایک خوش گوار انقلاب پیدا کرنے کا موجب بن رہے ہیں.بطور نمونہ ہسپانوی ترجمہ پر میڈرڈ کے مشہور اور نیم رسالہ انسٹی ٹیوٹ آن پولیٹیکل سائنس کا ریویو ملاحظہ ہو : - دو ہمارے ملک میں جماعت احمدیہ کے نمائندہ کرم الہی ظفر نے جماعت احمدیہ کے موجودہ امام کا ایک معرکۃ الآرا و یک شائع کیا ہے میں کا پہلا عنوان " حقیقی امن کی طرف لے جانیوالا راستہ ہے اور جس میں کمیونزم کے مقابلے میں اسلامی اقتصادی نظام کو پیش کیا گیا ہے اسلام اور کمیونزم دونوں نظاموں کو ایک وسیع انٹرو ڈکشن کے ساتھ پیش کیا گیا ہے اور له ۳۰ ش : الجربا الفضل ٣٠ مرامان ۳۰ ر مارچ می ے لیکچر کا دوسرا اردو ایڈیشن با ماشین نظارت اصلاح و ارشاد ربوہ نے نہایت دیدہ زیب کہ ایجاب و طباعت اور چی و بیزی سرورق سے شائع کیا ہے.اس کے بعد تیسرا ایڈیشن دقت بعدید در بوہ کی طرف سے اسی سال چھپ چکا ہے ؟
حقیقت یہ ہے کہ یہ بین الاقوامی پیچیدہ مسائل دور حاضرہ کے نہایت اہم مسائل ہیں.جن کی طرف دنیا بھر کی تو جہ ہے.دنیا کے نہ ختم ہونے والے مصائب ، بدامنی اور گمراہی کا باعث یہ ہے کہ دنیا اپنی شکلات کام محض عقلی تدبیروں سے ڈھونڈنا چاہتی ہے اور مادی دنیا طمع اور حرص میں اندھی ہو کہ دیگر ممالک پر قبضہ کرنا چاہتی ہے.جماعت احمدیہ جو ایک پر امن جماعت ہے اس بدامنی اور ظلم و فساد کی وجہ دو باتوں کو قراردیتی ہے.اول سیاسی طور پہ بلا تمیز رنگ ، ملک ، زبان ، مذہب ، بنی نوع انسان کے اتحاد کے لئے کوشش کا فقدان - دوم اس چیز کا سوشل رنگ میں لحاظ نہ رکھنا.اسلام اپنے تمام سیاسی، اقتصادی اور تمدنی اور دیگر ہر قسم کے نظاموں کی بنیاد اس امر پر رکھتا ہے جو ایک حقیقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بادشاہت اور مالکیت صرف خدا تعالے کو ہی حاصل ہے.پس اگر کسی شخص کے سپرد حکومت کر نیکی ذمہ داری کی جائے تو ایک اقتدار ہے جو قوم نے اس کے سپرد کیا جو اللہ تعالیٰ کی ایک امانت ہے.اسلام کے یہ اصول ہسپانیہ کے موجودہ اور عام قدیمی روا بھی اصولوں سے بہت ملتے ہیں یعنی اقتدار کا حق وانصاف کے ساتھ استعمال خدا سے گہرا رابطہ اور رعایا کے حقوق کی نگہداشت.لیکن حضرت مرزا صاحب نے چار اصولی قائم کئے ہیں.(1) یہ کہ حکومت لوگوں کی عزت ، جان نہ مال کی حفاظت قوم کی ترقی کی ذمہ دار ہے.بلکہ حکومت کا مقصد ہی ہے.(۲) حکومت ملکیت نہیں بلکہ امانت ہے.(۳) انتخابی حکومت افراد اور قوم کے اندر عدل کرنے کے لئے خدا وند تعالیٰ کے سامنے جوابدہ ہے.(سم) حاکموں کو ہمیشہ غیر جانبدارانہ پالیسی اختیارہ کر تے ہوئے رعایا کے افراد کے اندر حق و انصاف سے کام لینا چاہیئے اور اقوام اور افراد میں تفریق نہ پیدا کریں.ران اصولوں کے ماتحت آپ مسلمانوں کو پر زور تاکید کرتے ہیں کہ خواہ انہوں نے مختلف قسم کے نظام اختیار کر لئے ہوں.اہل اسلام کے درمیان عدم مساوات کو دور کریں اسلام ہرگز اجازت نہیں دیتا کہ ایک فریق یا قوم کو اونچا کیا جائے.اور دوسرے کو نیچا.ایک کو دیا یا جائے اور دوسرے کو بڑھایا جائے.دہ مسادات کے لئے یہ طریق اختیار نہیں
کرتا کہ طاقت سے ایک طبقہ کی دولت چھینے اور اس کو طاقت کے بل پر ادفی تعالت گزار نے پر مجبور کرتے.اسلام افراد کی آزادی کو تسلیم کرتا ہے اور حریت شخصی کی پوری پوری حفاظت کرتا ہے تا تسابق کی روح قائم رہے لیکن ساتھ ہی دنیا بھر کی دولت سمیٹنے کی نا جائز نفسانی خواہش کو بھی روکتا ہے.تابنی نوع انسان کہ تباہی سے بچایا جائے.اسلام اس اصول کہ اس طرح قائم کرتا ہے کہ اسراف سے منع کرتا ہے.عیش و عشرت کی زندگی کی ممانعت ہے.تجارت جس میں نفع و نقصان دونوں متوقع ہوں.میں سود کی ممانعت زکواۃ.صدقہ و خیرات کے دوسرے بہت سے فرائض خمس.آخر میں دیر نہ کی تقسیم کے دیوالیہ ہو چنانچہ اس طرح اسلام کا اقتصادی نظام خود بخود دولت جمع نہیں ہونے دیتا.اگر کوئی فرد جمع کر بھی لے تو آہستہ آہستہ کم ہو جاتی ہے.حتیٰ کہ مالک کی وفات کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہتا ہے.بیان کردہ اصولوں کو بین الا قوامی زندگی میں قابل عمل بنانے کے لئے آپ نے بتایا ہے کہ دنیا کی کسی بڑی طاقت کو یہ حتی نہیں کہ اپنی قوم کی طاقت دوسروں پر ظلم کرتے ہوئے بڑھانے کی کوشش کی ہے اور نہ کوئی نظام ایسا ہونا چاہیے.خواہ تمدنی ہو یا سیاسی.اور نہ ہی ایسا فلسفہ ہونا چاہیئے جو بنی نوع انسان کو نمام بنائے اور غیر ملکیوں پر اقتدار کی ناجائنہ خواہش کرتا ہو.کمیونزم کا نظام ہو یا سرمایہ داری کا نظام ہو.(سیدنا حضرت مرندا البشیر الدین صاحب کے پیش کردہ نظام سے بالکل مختلف ہیں کیونکہ ان ہر دو نظاموں میں سلطنت کی باگ ڈور ہا تھوں میں لینے والے افراط کی طرف نکل گئے ہیں.کتاب کے آخری حصہ میں جماعت احمدیہ کے امام نے کمیونزم کے متعلق اپنی رائے کا اظہار کیا ہے اور اس تحریک کے نظام اقتصادیات کا اچھی طرح سے تجزیہ کیا ہے اور پھر اس کا قرآن مجید کے اصولوں کے ساتھ مقابلہ کر کے دکھایا ہے.آپ نے کمیونزم کی مساوات کی تھیوری اور سرمایہ دارسٹیٹ کی عملی عدم مساوات کےواقعات کو بھی اچھی طرح سے بیان فرمایا ہے.آخر میں آپ نے واضح اعلان فرمایا ہے کہ ہم احمدی کسی کے بھی دشمن نہیں ہم ہر ایک کے خیر خواہ ہیں اور کہ ہم چاہتے ہیں کہ دنیا میں جو بھی نظام جاری ہو وہ اقتصادی ہو یا سیاسی ،
۵۰۲ تمدنی ہو یا معاشرتی.بنی نوع انسان کی آزادئی ضمیر.روحانیت.اخلاق کی آزادی پر مشتمل ہو.اور انسانی خوبیوں کی قدر کی بجائے.کتاب اسلام کا اقتصادی نظام " کی قیمت اور بھی بڑھ جاتی ہے کیونکہ با قاعدہ حوالوں سے کام لیا گیا ہے اور موجودہ پاکستان کے خیالات کا آئینہ دار ہے جو سب سے بڑی اسلامی سلطنت ہے.اگر پھر جماعت احمدیہ اس سلطنت کی ایک شاخ ہے اور شمالی افریقہ کے حنفی.مالکی.شافعی.اہلسنت مسلمانوں سے ایک الگ فرقہ ہے.لیکن اس جماعت کے نہ بر دست پر اپیگنڈہ اور موجودہ روحانی طاقت ہمیں قائل کرتی ہے کہ ہم سب ان کے لٹریچر میں سے ہسپانوی زبان میں پیش کردہ اسلام کا اقتصادی نظام کا مطالعہ کریں.لے فصل سوم ناة المعامل تعمیراور مرکزی ابری کے قیام کی حیات ایمانی انتشارات کا ظہور فتہ اشتراکیت کے خلاف اعلان جنگ، ایم کے استعمال پراحتجاج ، توی تعلیم کی سیکیم ت واقفین کی تنگستانی روانگی حضرت حافظ مرزانا احمدرضا کی سالانہ جلسہ پر اہم تقریر منارة ایسے ہال کے لئے تحریک کے ایک تو جب سے حضرت علی المانی اصلی امور نے خداتعالی سے اشارت اخلاص فداکاری کا شاندار منتظر پا کر صلح موعود ہونے کا علان فرمایا جماعت احمدیہ کے اندر خدمت دین کے لئے ایک نیا جوش، نئی امنگ اور نیا ولولہ پیدا ہو گیا تھا.اور وہ خدا کے موعود اور برگزیدہ خلیفہ کی آواز پر خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنا سب کچھ قربان کر دینے کے لئے تیار ہو گئی تھی اور قربانی کے میدان میں آگے ہی آگے قدم بڑھاتی رہی مگر مجلس مشاورت پیش میں مخلصی احمدیت نے قربانی و ایثار اور اخلاص دندا کاری کا ایسا شاندار منتظر پیش کیا جو اپنی مثال آپ تھا.تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ یکم شہادت / اپریل ہش کو عملی مشاورت کا تیسرا دن تھا.اس روز نه - روز نامه افضل را مورد در مورد استمر امه من :
۵۰۳ حضرت مرزا شریف احمد صاحب ناظر دعوت و تبلیغ نے ایجنڈے کی تجویز زمرہ سے متعلق سب کمیٹی کی حسب نزیل سفارش پیش فرمائی کہ :.وقت آگیا ہے.کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منشا کے ما تحت نظارت دعوت تاریخ کے زیر اہتمام قادیان میں ایک مذہبی کا نفرنس کی جائے.تفصیلی قواعد بنانے کیلئے ایک سب کیٹی بنادی جائے.اس کا نفرنس کے اخراجات کے لئے مبلغ دو ہزار روپیہ اس بجٹ میں رکھا جائے.سب کمیٹی کی بحث کے دوران میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے یہ الفاظ مندرجہ اشتہار خطبہ الہامیہ پڑھ کر سنائے گئے وہ بان آخر میں ایک ضروری امر کی طرف اپنے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس مینارہ میں ہماری یہ بھی غرض ہے.کہ مینارہ کے اندر یا جیسا کہ مناسب ہوا ایک گول کمرہ یا کسی اور وضع کا کمرہ بنایا جائے جس میں کم از کم آدمی بیٹھ سکے.اور یہ کمرہ عطار مذہبی تقریروں کے کام آئے گا.کیونکہ ہمارا ارادہ ہے.کہ ایک یا دو دفعہ قادیان میں مذہبی تقریروں کا جلسہ ہوا کہ ہے.اور اس جلسہ پر ایک ایک شخص مسلمانوں رہندی.آریوں عیسائیوں اور سکھوں میں سے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرے.مگر شرط یہ ہوگی کہ کسی مذہب پر کس قسم کا حملہ نہ کرے.فقط اپنے مذہب کی تائید میں جد چاہے تہذیب سے کہے.حضرت مرزا شریف احمد صاحب یہ تجویزہ پڑھ ہی رہے تھے کہ حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح امیر المصلح الموعود اچانک کرسی سے اٹھے اور پاس ہی فرش پر جو تھوڑی سی جگہ تھی وہاں سجدہ میں پڑ گئے.تجویز نمره ی تھی.قادیان دارالامان میں برسانی نظارت دعوت ولی کے زیر انتظام ایک پلیس کا نفرس منعقد ہو کر کے جیساکہ تعمیر مزار مسیح کے سلس میں ترمیم موعد علی الصلوۃ والسلام کا منشاء مبارک تھا اور اس کیلئے مناسب خرابا کی بی میں گنجائش بھی ہے.مناسب تے.سب کمیٹی کے مہران - پروفیسر قاضی محمداسلم صاحب (صدر) حضرت مرزا شریف حمد صاحب ناظردعوت و تبلیغ دسیکرٹری حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ناظر تعلیم و تربیت) پر صلاح الدین صاحب (ملتان، چوہدری سعد الدین صاحب ہے.ڈی.آئی راولپنڈی.مرزا حب کند غلام حیدر صاحب نوشہرہ چھاونی ، سید محمد علی صاحب (سیالکوٹ) - مولوی برکت علی صاحب ای تی در میانه - مولی عبد الواحد اتار کشمیر اکر عبدالاحمر اب فل عمر بسر ماسٹر عطامحمد صاب امرنیس، مولوی عبد القادر صاحب صدیقی دحیدرآباد دکن - سید ارشد علی صاحب رکھنی جاوید احمد شریف صاحب دین شکری چوری ابوالہاشم صاحب ( قادیان) مولوی ابو العطاء حیات حکیم عبدالرشید صاحب گھنو کے مجد عبد الکریم صاحب کو شٹر - مرند احمد بیگ صاحب - مولوی الحاج نذیر احمد علی صاحب مبلغ سیرالیون :
۵۰۴ یہ دیکھتے ہی تمام حاضرین اپنی اپنی جگہ پر سجدہ میں گر گئے اور حضور کے اٹھنے پر جب اللہ اکبر کہا گیا تو اٹھے جس کے بعد حضرت امیر المومنین نے فرمایا :- " قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے.اکثر لوگ خدا کے نشانوں سے اعراض کرتے ہوئے گزر جاتے ہیں.آج سے دس سال پہلے وہ شخص نہیں کی جوتیوں کا غلام ہونا بھی ہم اپنے لئے باعث فخر سمجھتے ہیں اسے اس وقت کی اپنی جماعت کی حالت دیکھتے ہوئے ایک بہت بڑا مقصد اور کام یہ نظر آیا کہ ایک ایسا کرہ بنا یا جائے میں میں سو آدمی بیٹھ سکے.مگر آج ہم ایک ایسے کمرے میں بیٹھے ہیں جہ اس غرض سے نہیں بنایا گیا تھا.کہ مختلف مذاہب کے لوگ اس میں تقریریں کریں.مگر اس میں پانچ سو کے قریب آدمی بیٹھے ہیں.اور وہ بھی کہ سیلوں پر.جو زیادہ جگہ گھیرتی ہیں.گویا اس زمانہ میں جماعت کی طاقت اور دوست کی یہ حالت تھی کہ وادیوں کے بیٹھنے کا کرا بنایا ہے در و دیو کو بٹھانے کیلئے جگہ بنانے کی غرض سے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو اعلان کہ ناپڑا.اور اسے ایک بڑا کام سمجھا گیا.اور خیال کیا گیا.کہ سو آدمیوں کے بیٹھنے کے لئے کرہ بنانا بھی مشکل ہوگا.مجھے منارہ مسیح کی تعمیر کے وقت کی یہ بات یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علی الصلاة والسلام شہ نشین پر بیٹھے تھے.اور میر حامد شاہ صاحب کے والد میر حکیم حسام الدین صاحب سامنے بیٹھے تھے.سنارہ بنانے کی تجویز ہو رہی تھی.بچے ہزار جو جمع ہوا تھا.وہ بنیا دوں میں ہی صرف ہو گیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام اس منکر میں تھے کہ اب کیا ہو گا.حکیم حسام الدین صاحب زور دے رہے تھے.کہ حضور یہ بھی خرچ ہو گا اور وہ بھی ہوگا.اور کئی ہزار روپیہ خرچ کا اندازہ پیش کر رہے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلاة و السلام نے اُن کی باتیں شنکر فرمایا.حکیم صاحب کا منشاء یہ معلوم ہوتا ہے کہ منارہ کی تعمیر کہ ملتوی کر دیا جائے.چنانچہ ملتوی کر دیا گیا." ایک تو وہ وقت تھا.اور ایک آج ہے.کہ مسجد مبارک کی توسیع کے لئے عصر کی نمازہ کے وقت میں نے مقتدیوں سے ذکر کیا اور عشاء کی نماز سے پہلے پہلے ۱۸ ہزار کے وعدے اور یہ قوم جمع ہو گئیں.اور بیرونی احباب کو اس چندہ میں شریک ہونے کا موقع ہی نہ ملا.یہ نشان کسی نا بینا کو نظر نہ آئے.مگر ہر دنیا کو نظر آرہا ہے کہ کس طرح خدا تعالیٰ اپنے فضل سے
۵۰۵ جماعت کو بڑھا رہا اور سلمان پیدا کرتا جارہا ہے.کہ اُس وقت جو بات بہت بڑی معلوم ہوتی تھی.آج بہت ہی معمولی اور حقیر سی نظر آتی ہے.اور آج جو چیز بہت بڑی معلوم ہوتی ہے وہ کھل حقیر ہو جاتی ہے.خدا تعالیٰ کا یہی سلوک ہماری جماعت سے برابر چھلا چھا رہا ہے.اور اس بات کا خیالی کر کے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرح دل بھر آتا اور آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں.کہ کاش جماعت کی یہ ترقی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں ہوتی تا آپ بھی اس دنیا میں اپنے کام کے نوشکن نتائج دیکھ لیتے.دیہ فرماتے فرماتے حضور پہ در رقت طاری ہوگئی پھر تھوڑی دیر توقف کے بعد فرمایا ).اس تجویز کا اصل مقصد کا نفرنس منعقد کرنا ہے جس میں ہر مذہب کے نمائندے اپنے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کریں.سب کمیٹی نے اس کے لئے دو ہزارہ ر ویسے تجویز کئے ہیں.میں چاہتا ہوں کہ جو دوست اس کے متعلق کچھ کہنا چا ہیں نام لکھا دیں.“ ایران بعد حضرت اقدس کی اجازت سے مندرجہ ذیل اصحاب نے اپنی معروضات پیش کیں.1- شیخ عبد الحمید صاحب آڈیٹر ” تمام لبنات اس تجونیہ کی تائید کرتی ہیں ".-۲ میاں غلام محمد صاحب اختر " سیدی میں نہایت ادب سے عرض کہتا ہوں.کہ اس مقصد کے لئے بجٹ میں کوئی رقم نہ رکھی جائے.بلکہ ہم خدام سے جس قدر رقم کی ضرورت ہے.انفرادی طور پر لی جائے تا کہ بجٹ کا سوال ہی پیدا نہ ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ و السلام نے ایک سو آدمیوں کے جگہ کی خواہش ظاہر فرمائی تھی اسے سو گنا کر کے اُن کے لئے جگہ بنائی جائے.ہمیں جو کچھ ملا ہے محض حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ و السلام کے ذریعہ سے ملا ہے اور وہ آپ ہی کا ہے.آپ جتنی رقم چاہیں.ہمہ سے لیں.ہم اسے انتہائی خوشی اور مسرت کے ساتھ پیش کر یں گے.-۳- مرزا احمد بیگ صاحب آمنہ پیٹی." میں اختر صاحب کی تائید کرتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی یہ مبارک تجویز ہے.ہماری خوشی کی کوئی حد نہ ہوئی.اگر ہیں اس کی تو شفیق ہے.ہم اس کے لئے ہر قربانی
۵۰۶ کرنے کے لئے تیار ہیں.- بشیر الدین صاحب بھاگلپوری خدا تعالیٰ کا بڑا لشکر ہے.میں نے شانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کی تھی.اس وقت آپ سے سُنا تھا کہ قادیان مرجع خاص و عام ہوگا.انشعاب دیکھ لیا ہے کہ عظیم الشان جماعت بن رہی اور بنتی جارہی ہے.اس لئے بہت زیادہ آدمیوں کے بیٹھنے کے لئے ہال بننا چاہئیے.کیونکہ ساری دنیا کے مذاہب کے نمائندے آئیں گئے.ادھر بڑے بڑے لوگ آئیں گے.ہماری ساری جائیدادیں اس ہال کی تعمیر کے لئے حاضر ہیں.محمد ابراہیم صاحب نے " آج سے ٹھیک دو ماہ قبل میں نے یہ تجویز کھک بھیجی تھی.ہمارے سے لئے نہ صرف اسے عملی جامہ پہنانا بہت بڑی سعادت کا باعث ہوگا.بلکہ حضور کی کتب اور تحر یہ دن سے حضور کی سب تجاویزہ اور خواہشوں کو جمع کر لیا جائے تاکہ وہ جماعت کے سامنے رہیں اور انکو عملی جامہ پہنانے کا خیال رہے.اور اس وقت دو ہزار یا جتنے روپے کی ضرورت ہو لے لیا جائے" حضرت امیر المومنین المصلح الموعود نے فرمایا کہ : دو ہزار روپیہ تو ایک شخص نے ہی دیدیا ہے اس کا تو اب سوال ہی نہیں.اس موقعہ پر بعض اصحاب نے خود بخود رقوم پیش کرنی شروع کر دیں.جس پر حضور نے فرمایا :- دوستوں نے چندہ دینا شروع کر دیا ہے اور اس بات کا انتظارہ نہیں کیا کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں.مجھ پر جو اس وقت وہ بعد کی حالت طاری ہوئی.اور میں سجدہ میں گر گیا.اس کی وجد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے زمانہ کے حالات اور بعد کے حالات کا فرق ہے.اس وقت دو ہزار روپیہ کا جو سوال ہے وہ تو ایک دوست نے پورا کر دیا ہے.اور وہ کیا اس بہت زیادہ چندہ ہو سکتا ہے.مگر دیکھنا یہ ہے کہ اس تجویز کے پیچھے جذیہ کیا کار فرما ہے.یہی کہ باہر سے کتنے آدمی آسکیں گے.چونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اب ہیں پچیس ہزارہ ہے.اس نام کے چار دوست کوٹ کر یہ بخش اسما عیله دیگراست مسجد فضل قادیان اور منگل سے مجلس مشاورت ماشین بطور نمائندہ شامل تھے مگر پورٹ سے یہ وضاحت نہیں ملتی کہ اس کا روائی میں حصہ لینے والے کون تھے ؟ :
احمدی ہی جلسہ پر اکٹھے ہو جاتے ہیں.ان حالات میں چاہیئے.کہ ہم ایک ایسا ہال بنائیں نہیں میں ایسے جیسے ہوتے رہیں یا شیڈ کے طور پر ایسی جگہ بنائیں جس میں کم از کم ایک لاکھ آدمیوں کے بیٹھنے کی جگہ ہو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی اولاد کے لئے دعا فرمائی ہے کہ ایک سے ہزار ہو دیں اور نبی کی اولاد اس کی جماعت بھی ہوتی ہے.اسے اکو ہزار سے ضرب دیں.تو ایک لاکھ بنتا ہے.ان کے بیٹھنے کے لئے جگہ بنانی چاہیئے.گوہم جانتے ہیں کہ کچھ ہی عرصہ کے بعد آنے والے کہیں گے کہ یہ بیوقوفی کی گئی.کم از کم دس لاکھ کے لئے تو جگہ بنانی چاہیے تھی.پھر اور آئیں گے جو کہیں گے یہ کیا بنا دیا کروڑ کے لئے جگہ بنانی چاہیے تھی.اس لئے میری تجویزہ یہ ہے کہ پانچ سال میں دو لاکھ روپیہ ہم اس غرض کے لئے جمع کریں.پانچ سال کا عرصہ اس لئے میں نے رکھا ہے.کہ اس وقت تک جنگ کی وجہ سے جو گرانی ہے وہ دور ہو جائے گی.اور ہم ایسی عمارت بنا سکیں گے.اس لئے ی الحال میں یہ تجو یہ کہتا ہوں کہ آئندہ پانچ سال میں اس بات کو مدنظر رکھکر دو لاکھ روپیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ و السلام کی اس خواہش کو پورا کرنے کے لئے جمع کریں میں اس تجویز کو بھی منظور کہتا ہوں کہ بجٹ میں یہ رقم رکھنے اور مجلس شورکی میں پیش کرنے کی بجائے انفرادی طور پر جماعت سے لے لی جائے.دو ہزار روپیہ جو چو ہدری اسد اللہ خان صاحب نے دیا ہے.اسی دولاکھ کی رقم میں داخل کر تا ہوں.یہ رقم اعلان کر کے طبیعی چندہ سے پوری کہ لی جائے گی.سیٹھ استیل آدم صاحب کہتے ہیں میرا ایک خواب ہے وہ سُنانا چاہتا ہوں.وہ کھڑے ہو کہ خواب سنادیں".را کسی پر حضرت سیٹھ صاحب نے حسب ذیل خواب شما یا و اللہ تعالٰی کی شان ہے.جب وہ کسی اپنے برگزیدہ بندے کو بھیجنا ہے تو جو لوگ اسے کی وہ پہلے مانتے ہیں ان کو اس کی صداقت کے نشانات بنا دیتا ہے.تسلہ ء میں جب میں یہاں آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام نے خطبہ الہامیہ سنایا تو اسکے بعد میں پھر بیٹی چلا گیا وہاں میں نے تہجد کی نمانہ کے وقت ردیا ، دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام ایک
A.A بہت بڑے ہال میں لیکچر دے رہے ہیں.بمبئی میں بڑے سے بڑا ہال دس ہزانہ آدمیوں کے بیٹھنے کا ہے مگر وہ اتنا بڑا اعمال ہے کہ ایک لاکھ آدمی اس میں آسکتے ہیں.مجھے اس کے دروازہ پر کھڑا کیا گیا.اور کہا گیا کہ جولوگ آئیں تم انہیں ریسیو ( RECIEVE ) کورد اندر انذار بھیجتے جاؤ.خدا تعالیٰ نے قریبا پچاس سال قبل یہ خوشخبری مجھے سنائی اسے پورا ہوتا آج اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں.اس کی شہادت دیتا ہوں " اس وقت تک حضور کے آگے میز پر وعدوں کی تحریریں اور نقدر قوم بہت سی جمع ہو چکی تھیں.جن کے متعلق حضرت امیر المومنین نے فرمایا :- یہ رقعے اور روپے دفتر پرائیویٹ سیکر ٹری والے اٹھا لیں.میں اس بارہ میں بری ہوتا ہوں.خدا تعالے کے حضور دفتر دالے جواب دہ ہوں گے" یہ فرمانے پر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ حضور علیہ ختم ہی کرنے والے ہیں اور حضور نے رقوم پیش کرنے والوں کے نام سُنانے کا ارشاد فرمایا اور اپنی طرف سے دس ہزار روپیہ اس فنڈ میں دینے کا ارشاد فرمایا.ابھی چند ہی نام سُنائے گئے تھے کہ اس کثرت سے احباب نے اپنے نام پیش کرنے شروع کر دیئے کہ حضور نے فرمایا.احباب باری باری ہوئیں تا اُن کے نام لکھے جاسکیں.اور ساتھ ہی حضور نے گئی اور اصحاب کو نام رکھنے پر مقرر کر دیا.کچھ دیر بعد حضور نے فرمایا.کہ.یں اپنی طرف سے ، اپنے خاندان کی طرف سے ، نیز چو دھری ظفر اللہ خانصاحب اور ان کے دوستوں اور سیٹھ عبد اللہ بھائی صاحب کے نماندان اور جماعت احمدیہ کی طرف سے اس بات کا اعلان کر تا ہوں کہ بیرونی جماعتوں کو اس فنڈ میں شریک ہونے کا موقعہ دینے کے بعد دول لکھ میں جو کی رہے گی وہ ہم پوری کر دیں گے کے اسی اثناء میں ساری فہرست تیارہ ہونے کے بعد بجوب رقوم کی میزان کی گئی تو حضور نے اعلان فرمایا کہ: اس جلسہ میں شریک ہونے والوں نے اپنی طرف سے یا اپنے غیر حاضر د دوستوں اور رشتہ داروں کی طرف سے جو چند سے پیش کئے ہیں ان کی فہرست تیار کر لی گئی ہے.ممکن ہے
جلدی میں ان رقوم کی میزان کرنے میں کچھ غلطی ہوگئی ہو.لیکن انت بقصد چندہ ہو چکا ہے.دوہ دولاکھ بائیس ہزار سات سو چونسٹھ روپے شمار کیا گیا ہے کہ اس کے بعد حضرت مصلح موعود نے یہ فرماتے ہوئے کہ یہ سجدہ شکر ہے پھر سجدہ کیا اور تمام مجمع حضور کے ساتھ خدا تعالے کے حضور سجدہ ریز ہو گیا اور نہایت وقت سے دعائیں کیں.سجدہ سے اُٹھنے پر حضور نے فرمایا :- " بعض مواقع پر بولنے سے خاموشی زیادہ اچھی ہوتی ہے اسے میں اس جلسہ کو اللہ کے نام پر ختم کرتا ہوں اور دوستوں کو واپسی کی اجازت دیتا ہوں.مجھے جو کچھ کہنا ہو گا بعد میں خطبات میں کہوں گا " لے ا بعد مجلس مشاورت کا آخری اجل کسی برخواست ہو گیا : سليم منای این مال کے ساتھ ایک عظیم شان حضرت امیر المومنين خليفة السيح الثاني الصلح الموعود کو ایس ایل الشان شہر میری اللہ تعالیٰ نے دور میں آنکھ بخشی تھی اور آپ کا ہر نیا کے قیام کی تجویز اور اس کے لئے مفصل کی قدم بصیرت اور حال ہی کی تیسے نئی راہیں کھول معاملہ فہمی نئی دیتا تھا.منارہ اسی حال کی تحریک کسی سوچی ہوئی تجویز کا نتیجہ نہیں تھی.بلکہ المہ دعائے نے مجلس شوری کے موقع پر نخود ہی جماعت کے دلوں میں ایسا نہ یہ درست ہوش اور اخلاص پیدا کر دیا کہ اندازہ سے بھی زیادہ چندہ نقدرا در وعدوں کی صورت میں ہو گیا.اور جب یہ خبر شائع ہوئی تو باہر کے دوستوں کی طرف سے بھی تقاضا ہو نے لگا کہ ہمیں بھی ثواب میں شامل کیا جائے اور ساتھ ہی چند سے بھی آنے لگے.حضرت مصلح موعود نے ایک طرف تو خطبہ جمعہ ۲۰۱ شہادت / اپریل ایران میں اعلان فرمایا کہ جماعت ۶۱۹۴۵ کا ہر فرد اس مد میں چندہ لکھوا سکتا ہے اور پانچ سال کے عرصہ میں بالاقساط یا یکمشت ادا سکتا ہے مگر دوسری طرف جماعت کے دوستوں کو بتایا کہ مجوزہ مال کم از کم پچیس لاکھ رو پیر میں نے گا.اتنی بڑی رقم خرچ کرنے کے بعد ہمیں ایسی صورت سوچنی چاہیئے کہ جب سے ہم اس مال کو اسلام کی تبلیغ کا عظیم الشان مرکز بنا دیں اور وہ اس طرح ممکن ہے کہ مال کے ساتھ سولہ لاکھ درد ہے کے مصرف سے ایک عظیم اور مالی کا ہر میری بھی بنائیں جس میں دنیا کے تمام مذاہب کی اہم کتا ہیں اور اسلام کی قریب ساری کتابیں جمع کرنے کی کوشش کی جائے.ے.رپورٹ مجلس مشاورت اش م۱۵۵ تا صب ۶۱۹۴۵
۵۱۰ اس سلسلہ میں حضور نے مجوزہ لائبریری کی نسبت ایک تفصیلی سیکم بھی تیار کی.چنانچہ فرمایا.یوں تو لائبریری پڑھنے ہی کے لئے ہوتی ہے.لیکن ہماری عرق چونکہ یہ ہوگی کہ اسلام کی تبلیغ کو ساری دنیا میں پھیلائیں اس لئے ساری دنیا میں تبلیغ پھیلانے کے لئے ضروری ہوگا کہ ہم ایسے آدمی یادہ کہ میں جو ہر نہ بان جاننے والے ہوئی.یا اگر ہر ایک زبان نہیں تو نہایت اہم نہ بانہیں جاننے والے ہوئی.جن زبانوں میں ان مذاہب کی کتابیں پائی جاتی ہیں مثل یونانی ہے ، عمرانی ہے تاکہ عیسائیت اور یہودیت کا لٹریچر پڑھ سکیں اور عربی جانے والے بھی ہوں تا کہ اسلام کا لٹریچر پڑھ سکیں.فارسی جانے والے بھی ہوں تا کہ اسلام کا نہ پچر پڑھ سکیں سنسکرت اور تامل جانے والے بھی ہوں تاکہ ہندو اور ڈریر ڈبلیس کا لٹر پھر پڑھ سکیں.پانی زبان جاننے والے بھی ہوں تاکہ بدھوں کا ٹریچر پڑھ سکیں.چینی زبان جاننے والے ہوں تا کہ کنفیوشس کا لٹریچر پڑھ سکیں اور پہلوی زبان بھی جاننے والے ہوں تاکہ زرتشتیوں کا لٹر پھر پڑھ سکیں.اسی طرح پرانی دو تہذہ میں ایسی ہیں کہ گو اب وہ تہذیبیں مٹ چکی ہیں مگر اُن کا لٹریچر ملتا ہے ان میں سے ایک پرانی تہذیب بغداد میں تھی اور ایک مصر میں تھی ان کا لٹریچر پڑھنے کے لئے بالی زبان اور ہلیو گرانی جاننے والے بچا نہیں تا کر ان کے لٹریچر کو پڑھ کر اسلام کی تائید می جو توالے مل سکیں ان کو جمع کریں اوران کے ذریعہ اسلام پر جو حملے ہوتے ہیں ان حملوں کا جواب دے سکیں...پس ہمارے لئے ضروری ہوگا کہ ہم اس قسیم کے لٹریچر کا مطالعہ کرنے والے لوگ پیدا کہ میں اندران کو اس کام کے لئے وقف کر یں کہ وہ لائبریری میں بیٹھکر کتابیں پڑھیں اور معلومات جمع کر کے مردان صورت میں مبلغوں کو دیں تا وہ انہیں استعمال کریں.اسی طرح وہ اہم مسائل کے متعلق تصنیفات تیار کریں.اگر ان لوگوں کی رہائش اور گزارہ کے لئے دولاکھ روپیہ وقف کریں تو یہ اٹھارہ لاکھ روپیہ بنتا ہے پھر ان کی کتب کو شائع کرنے کے لئے ایک مبلغ کی ضرورت ہے جس کے لئے ادنی اندازہ دوں لکھ کا ہے اسکے علاوہ پانچ لاکھ روپیہ اندازہ اس بات کے لئے چاہیئے کہ جو تصنیفات وہ تیار کریں ان کو شائع کیا بجائے اور پھر ایسا انتظام کیا جائے کہ نفع کے ساتھ وہ سرما یہ واپس آتا جائے اور دارالمصنفین کا کنارہ اس کی آمد پر ہو.یہ وہ صحیح طریقہ ہے جس کسی ذریعہ سے ہم عملی دنیا میں ہیجان پیدا کر سکتے ہیں اور اس کام کے لئے پچیس لاکھ روپے کی ضرورت ہے " سے و ه - الفضل حکیم ہجرت مئی ۱۳۲۳ ش ص :
All حضرت مصلح موعود کا ارادہ تھا کہ قادیان میں جلد سے جلد ایک میڈیکل سکول کا قیام عمل میں لایا بھائے.چنا نچر حضور نے مشاورت ( چیش کے نمائندگان کے سامنے اپنی اس خواہش کا اظہا رہ کر تے ہوئے فرمایا :- ۱۹۴۵ دوسرا پر وگرام میرے مد نظریہ ہے کہ ہم جلد سے جلد یہاں ایک میڈیکل سکول جاری کر دیں.کیونکہ بعض ممالک میں ہم کامیاب طور پر تبلیغ نہیں کر سکتے جب تک کثرت سے ہماری جماعت میں ڈاکٹر نہ ہوں.دوسرے اس سکول کی ضرورت ہماری جماعت کو اللہ بھی ہے کہ عورتوں کیلئے ڈاکٹری تعلیم کا حصول دوسرے کالجوں میں اب بہت مشکل ہو گیا ہے.گورنمنٹ کا رجحان اب اس طرف ہو گیا ہے کہ ایم.بی بی.ایس تک سب کو تعلیم دلائی جائے اور ایم.بی بی.انیس تک تعلیم دینے کے لئے کالجوں میں مرد پرو فیسر مقرر ہوتے ہیں.اسلامی شعار چونکہ پردہ ہے.انی آئندہ ہماری عورتوں کی میڈیکل تعلیم میں سخت مشکلات ہو جائیں گی گو مجھے یقین نہیں آتا کہ ہو ہیں ہزار روپیہ سالانہ کے خروج سے ہم میڈیکل سکول قادیان میں جاری کر سکتے ہیں.اگر یہ درست ہو تو شاید میں لمبا انتظارہ بھی نہ کروں اور فوراً اس سکول کو بھانہ ہی کردوں کیونکہ ایک تو ڈاکٹر عورتیں پیدا کرنا ہمارے تبلیغی اثر کو بہت وسیع کر دے گا.دوسرے ہم اپنے مبلغین کر دینیات کے ساتھ ڈاکٹری کی تعلیم آسانی کے ساتھ دلا سکتے ہیں.مثلاً وہ لڑکے جو انٹرنس پاس ہوں اور انہیں بطور مبلغ ہم رکھنا چاہتے ہوں اُن کے متعلق یہ ہو سکتا ہے کہ میڈیکل سکول میں دا اعمل کر کے ہم ان کو ڈاکٹری تعلیم دلا دیں اور دوسری طرف علیحدہ انہیں دینی تعلیم بھی دیتے رہیں.اس ذریعہ سے اچھوت اقوام میں اپنے تبلیغی اثر کو بہت وسیع کیا جا سکتا ہے.بالخصوص جنوبی ہند اور افریقہ میں اس سکیم کے ماتحت مبلغ اپنی روزی بھی کھا سکتے ہیں اور اسلام اور احمدیت کی اشاعت بھی کر سکتے ہیں " لے دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ اور خداتعالی یورپ کی دوسری جنگ عظیم ویکیم نمبر شاه کو شروع ہوئی اور کی جنگ ء بھی اس سال ، رمئی ۱۹۳۵ (مطابق ہجرت سه داش) کے فضل ورحمت کے نشان کا ظہور کو ختم ہوگئی.الامعان نے دوران جنگ میں بہت سے واقعات رپورٹ مجلس مشاورت ۱۳۳۳ دانش صفحه ۳۷-۳۸ ے.۵
pm کی خبریں حضرت مصلح موعود کو قبل از وقت بتائیں جو لفظا لفظ پوری ہوئیں.مثلا بلجیم کے بادشاہ یو کولڈ کی معزولی ابرطانیہ کی طرف سے فرانس کو الحاق کی پیشکش، امریکہ کی طرف سے برطانیہ کو ۲۰۰۰ جہاز کی روانگی سفارتخانوں کے کاغذات کو نذر آتش کئے بجانا ، جرمن لیڈر پر یس کا انگلستان میں انترنا، ایک سالی کے اندر جنگ کا رخ یکیسر پیٹ جانا، جنگ کے یونان تک پہنچنے کے بعد روس کی شمولیت اور امریکہ کا سرگردیم عمل ہونا ، امریکن فورج کی ہندوستان میں آمد اور لیبیا کے محاذ جنگ کا حیرت انگیز نظارہ ہے غرضنگی من ۶۱۹۴۵ متعدد پیشگوئیاں تھیں جن کا پورا ہونا پوری دنیا نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا اور اسلام اور احمدیت کی صداقت پر ہر تصدیق ثبت کر دی.ان پیشگوئیوں کے علاوہ جوجنگ کے زمانہ میں حرف بحرف پوری ہوئیں.جنگ کا خاتمہ بھی خدا تعالے کے فضل اور رحمت کا ایک عظیم الشان نشان بن گیا اور وہ اس طرح کہ یہ جنگ اسی سال اسی مہینہ بلکہ اسی تاریخ کو ختم ہوئی جس کا قبل از وقت اعلان حضرت مصلح موجود نے فرما دیا تھا.چنانچہ سید نا حضرت مصلح موعود نے اپنے خطبہ جمعہ (فرموده ارماہ ہجرت مئی پریش) میں اس نشان رحمت پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا.کہ " اس ہفتے بعد اتعالیٰ نے اپنے فضل اور اپنی رحمت کا نشان اس رنگ میں دکھایا ہے.کہ یورپ کی جو ابتدائی اور اصلی جنگ تھی وہ ختم ہو چکی ہے.اس بنگ کے متعلق میں نے بارہا بیان کیا تھا کہ قرآن مجید سے اور خدا تعالیٰ کے فعل سے جہاں تک میں سمجھتا ہوں یہ جنگ شہداء کے شروع میں ختم ہو جائے گی.یعنی اپریل شده و یا بون وار تک......گی.اس استدلال کی بنیاد کیا تھی ؟ اس کی وضاحت میں حضور نے ارشاد فرمایا :- میرے اس استدلال کی بنیاد کہ جنگ اپریل دو میں ختم ہو جائے گی اس بات پر بھی کہ لہ تعالی کی طرف سے تحریک جدید کے بواعث کے نتیجہ میں یہ جنگ پیدا کی گئی.چنانچہ اس مضمون کے متعلق کثرت سے میرے خطبات موجودہ ہیں کہ گورنمنٹ کی طرف سے ہماری جماعت کو جو تکالیف دی گئی ہیں ان کے نتیجہ میں اسے یہ ابتلا پیش آیا ہے.اور تحریک جدید کے ساتھ اس کی درستگی ہے.چنانچہ میں نے جو یہ کہا تھا کہ جنگ اپریل شاہ کے آخر میں ختم ہو جائے گی یہ اس بناء پر کہا تھاکہ تحریک تجدید کا آخری سال وعدوں کے لحاظ سے تو سارہ میں ختم ہوتا ہے لیکن جہانتک ہے.تفصیل کے لئے ملاحظہ جود الفضل در ماہ ہجرت امی اش مرا تا به ايضا العشرات
سار نے ہندوستان کے لئے چندوں کی ادائیگی کا تعلق ہے اس لحاظ سے یہ مدت اپریل شاہ المہ و میں ختم ہوتی ہے.اور جون یا جولائی اس لحاظ سے کہا تھا کہ بیرو نجات کے چندوں کی ادائیگی کی آخری میعاد جون یا جولائی میں جا کر ختم ہوتی ہے.اب یہ عجیب بات ہے کہ چندوں کی ادائیگی کی آخری تاریخ جو مقرر ہے وہ سات ہوتی ہے.یعنی اگر ہندوستان کے ان علاقوں کے لئے جہاں اردو بولی اور کبھی جاتی ہے.اور جنوری مقرر ہے تو یہ میعاد سات فروری کو جا کر ختم ہوتی ہے.اور اگر ہندوستان کے ان علاقوں کے لئے جہاں اردو بولی اور کبھی نہیں جاتی ۳۰۰ را پریل مقرر ہے تو یہ میعاد سات مئی کو جا کہ ختم ہوتی ہے.کیونکہ یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ اگر وعدہ کھوانے کی تاریخ ۳۰ را پریل تک رکھی جائے تو چونکہ بعض جگہ ہفتہ میں ایک دفعہ ڈاک آتی ہے.اس وعدہ کے رندانہ ہونے کی آخری تاریخ اگلے مہینہ کی سات ہونی چاہیے.اس اصل کے مطابق ہندوستان کے ان علاقوں کے لئے جہاں اُردو بولی اور کبھی جاتی ہے آخری میعاد رسات فروری مقرر ہے اور ہندوستان کے ان علاقوں کے لئے یہاں اردو بولی اور مجھی نہیں جاتی وعدوں کی ادائیگی کی آخری معیاد سات مئی مقرر ہے.اب یہ عجیب بات ہے کہ جس دلیل پر میری بنیاد تھی کہ تحریک جدید کے آخری سال کے اختتام پر یہ جنگ ختم ہوگی.میری وہ بات اس رنگ میں پوری ہوئی کہ جنگ نہ صرف اسی سال اور اسی مہینہ میں ختم ہوئی جو میں نے بتایا تھا بلکہ عین سات مٹی کو آکر سپردگی کے کاغذات پر دستخط ہوئے.پورا کر وعدوں کی ادائیگی کے لئے ایک سال مقرر ہے.اس لئے دس سالہ دور تحریک کے چندوں کی ادائیگی کی آخری تاریخ حسب قاعدہ مٹی ہو ہوتی ہے.اور اسی تاریخ کو سپردگی کے کاغذات پر جرمنی کے نمائندہ نے دستخط کئے.گویا قانونی طور پر میں اس تاریخ پر کر جنگ ختم ہوئی جو تحریک جدید کے چندوں کی ادائیگی کے لحاظ سے سار سے ہندوستان کے لئے آخری تاریخ ہے.اور جب کے بارے میں میں بار بار متواتہ اڑھائی سال سے اعلان کر رہا تھا.خدا تعالیٰ کی قدرت کا یہ کتنا بڑا نشان ہے صوفیا دیکھتے ہیں کہ بعض وجوب سے کی زبان اور ہا تھ عند اتعالیٰ کے ہو جاتے ہیں.قرآن مجید میں بھی خدا تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے.مارميت إذ رميت ولكن الله رھی کہ اسے محمد صل اللہ علیہ و آلہ وسلم ، بدر کے موقعہ پر جیب تو نے
۵۱۲ مٹھی بھر کہ کنکر پھینکے تھے بظاہر تو وہ تو نے ہی دعائیہ لہنگ میں پھینکے تھے لیکن ہم نے تیرے ہاتھ کو اپنا ہاتھ بنالیا.اور اسے کفار کی تباہی کا موجب بنا دیا.تو اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں سے یہ سلوک رہا ہے کہ وہ ان کے ہاتھ کو اپنا ہا تھ ان کی زبان کو اپنی زبان بنالیتا ہے.میں نے متواننہ بیان کیا تھا کہ میںجہ کہتا ہوں کہ جنگ شہہ کے شروع میں ختم ہو جائے گی.میں یہ کسی الہام کی بناء پر نہیں کہتا.بلکہ میرے استدلال کی بنیا د اس بات پر ہے کہ چونکہ تحریک جدید کا آخری سال چندوں کی ادائیگی کے لحاظ سے شام لہء کے شروع میں یعنی اپریل یں جا کر ختم ہوتا ہے اس لئے میں کھتا ہوں کہ جنگ سکندر کے شروع عینی اپریل میں ختم ہو جائی خدا تعالیٰ نے میری اس بات کو لفظاً لفظ پورا کیا اور نہ صرف سال اور تہمینہ کے لحاظ سے بلکہ تاریخ اور دن کے لحاظ سے بھی یہ بات لفظ لفظ پوری ہوئی.الحمد للہ " اے اشتراکیت کے خلاف اعلان جنگ برنا حضرت مصلح موعود کے بے نظیر یکچر اسلام کا اقتصاد نظام" کی برکت سے جماعت احمدیہ میں اشتراکیت کے خلاف پہلا مضبوط محاذ قائم ہوگیا تھا.قادیان میں اس موضوع پر لیکھر ہوئے اور الفضل میں مضمون لکھے گئے.اور خاص طورپر کا پورمیں جو کمونسٹوں کا ان دنوں زبردست گڑھ تھا اس زہر کے ازالہ کی کوششیں جاری کر دیگیں اور اس کے خوشکن اثرات بھی ظاہر ہونے لگے.چنانچہ ایک شخص جو اشتراکیت کی طرف مائل تھا احمدی ہو گیا.اس ابتدائی جدوجہد کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہندوستان کے کمیونسٹوں نے اپنے ایجنٹ بھیج کر براہ راست قادیان میں فتنہ پیدا کرنے کا ارادہ کر لیا اور اس سلسلہ میں حضرت مصلح موعود کو بھی گمنام خطوط لکھے جس پر حضرت امیرالمومنین نے کمیونسٹوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا.کہ کمیونسٹ میرے مقابلہ میں جیت نہیں سکتے.کیونکہ میری آواز میری نہیں بلکہ میری زبان سے خدا اپنی آواز دنیا میں پھیل رہا ہے اور خدا کا مقابلہ کرنے کی ان کمیونسٹوں میں تو کیا ان کے سردار دی میں بھی طاقت نہیں ہے اس مرحلہ پر حضور پر نور اس نتیجے پر پہنچے کہ اب وقت آگیا ہے کہ جماعت احمدیہ اس فتنہ کی سرکوبی میں سرگرم عمل ہو جائے.چنانچہ آپ نے ۲۹ ماہ احسان جوان اس پر پیش کو ایک مفصل خطبہ جمعہ دیا.یہ خطبہ دراصل عہد حاضر - الفضل در پنجرت امن ما مش مرداد ۲ ۶۱۹۳۵۱ الفضل کار وقار جولائی راش در آتا ہے
کے اس عظیم ترین فقہ کے خلاف اعلان جنگ اتھا جو اسلامی افواج کے روحانی سپہ سالار نے مسجد اقصیٰ قادیان کے شہیر پر کیا.چنانچہ حضور نے فرمایا :- " ہمارے سامنے کمیونزم کا مسئلہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو نہ صرف عقلی لحاظ سے اسلام کے لئے خطرناک ہے بلکہ مذہبی لحاظ سے بھی وہ بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے کیو کو گذشتہ انبیاء نے ہزاروں سال سے اس فتنہ کے متعلق نمبر دی ہوئی ہے.مسیح موعود کے زمانہ کے متعلق احادیث میں بھی آتا ہے اور پہلی کتب میں بھی کہ تمام گذشتہ انبیاء نے اس زمانہ کے فتنوں کی خبر دی تھی اور جب ہم فتن کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں رہے زیادہ اس فتنہ کی خب معلوم ہوتی ہے.چنانچہ حز قیل نبی نے اپنی کتاب میں روس کے ایک فتنہ کے متعلق پیشگوئی کی ہے اور بتایا ہے کہ آخری زمانہ میں اسکی ذریعہ ی پر عمل کیا جائے گا.گویا وہ فتنے کی تمام انبیاء نے خبردی ہے ان میں اگر نام لے کر کسی فقہ کی خبر دی گئی ہے تو وہ یہی فتنہ ہے.اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالی کے نزدیک یہ فتنہ کتنا اہم ہے کہ اس نے آج سے ہزاروں سال پہلے اس کے متعلق خبر دیدی تھی تا کہ آخری زمانہ میں کمزور ایمان والے لوگ یہ نہ کہدیں کہ یہ خطرہ محض خیالی ہے.ہر نئی تبدیلی سے لوگ ڈر جاتے اور بغیر سوچے مجھے اس کی مخالفت شروع کر دیتے ہیں.چونکہ اس نظام کے ذریعے تمدن میں ایک تبدیلی واقع ہوتی ہے اس لئے اس تبدیلی سے ڈر کر سویٹ نظام کی مخالفت کی جاتی ہے.ورنہ در حقیقت اس میں خطرہ کی کوئی بات نہیں.بے شک جہاں تک سیاسیات کا تعلق ہے ہمیں اسے کوئی واسطہ نہیں.یہ حکومت سے تعلق رکھنے والی چیز ہے اور حکومت سے تعلق رکھنے والی عملی سیاست خواہ روس کی ہویا کسی اور ملک کی ہمارا اسے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا لیکن جہاں تک سیاسیات کے فلسفہ کا سوال ہے ہمارا تعلق فلسفہ سیاست سے ضرور ہے.کیونکہ فلسفہ ایسی چیز ہے جو ہر انسان سے تعلق رکھتا ہے.پس عملی سیاسیات سے بیشک ہمارا کوئی واسطہ نہیں.اسے روس جانے ، فرانس جانے ، انگلستان جانے یا امریکہ جانے.لیکن جہاں تک اسکی مضر عقائد کا سوال ہے جنکا مذ ہب پر برا اثر پڑتا ہے.ہر مذہب وال حب کے خلاف بات پڑتی ہے اس کا فرض ہے کہ وہ اس فتنہ کا مقابلہ کر نے اور اس نے ہر کا ازالہ کرنے کی پوری کوشش کرے میرا کمیونسٹوں
کی طرف سے چونکہ ظاہر یہ کیا جاتا ہے کہ ہم غرباء کی تائید اور ان کی مدد کے لئے کھڑے ہوئے ہیں اسلئے عام طور پر خواہ ہندو ہوں یا مسلمان اس عقیدہ کی طرف مائل نظر آتے ہیں.بلکہ ہندوستان میں بعض مولوی ایسے موجود ہیں جو عام طور پر کمیونزم کی تائید کرتے رہتے ہیں اسی طرح بعض مسلمان اخبارات کے ایڈیٹر ہیں جو اس کی تائید میں ن در شور سے مضامین لکھتے رہتے ہیں.حالانکہ ان اقتصادیات کا ہمارے ملک سے دور کا بھی واسطہ نہیں.وہ اقتصادیات خالص بروس کی ترقی کے لئے ہیں اور روس ہی ان سے فائدہ اٹھارہ ہے.مگربعض دفع ایک چیز ایسی خوشنما معلوم ہوتی ہے کہ انسان اسے لینے کی کوشش کرتا ہے خواہ وہ کتنی ہی مصر کیوں نہ ہو.....بعض دفعہ انسان ایک چیز کو اچھا اور خوشنما کھتا ہے اور اُسے لینے کی خواہش کرتا ہے مگر وہ ہو تی بری ہے.اللہ ہی جانتا ہے کہ کونسی چیز انسان کے لئے اچھی ہے اور کونسی بری.وہ خدا جب سی آج سے اڑھائی ہزار سال پہلے حد قبل نبی کے ذریعہ اس فتنہ کی خبر دی تھی اس خدا کا یہ فعل ظاہر کر رہا ہے کہ اس فتنہ کو معمولی سمجھنا یا اس کے خطرناک نتائج سے اپنی آنکھیں بند کر لیا نادانی اور حماقت ہے.آج کل کے لوگوں کے متعلق تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ نہیں کمیونزم سے حسد ہے بغض اور کینہ ہے جو اُن کے دلوں میں پایا جاتا ہے یا وہ پرائی لکیر کے فقیر ہیں.یا ایسے جاہل ہیں کہ اقتصادیات کے فلسفہ کو نہیں سمجھ سکتے.مگر سوال یہ ہے کہ آج سے پچیس سو سال پہلے حزقیل نبی کو کس نے اس فریب اور دعا میں شامل کر لیا تھا.آخر یہ کیا بات ہے کہ حز قیل نبی نے آج سے پچیس سو سال پہلے یہ خبر دی جو آج بھی با تکمیل میں کبھی ہوئی موجود ہے.کیا کوئی کہ سکتا ہے کہ حز قیل نبی کو آج کل کے زمانہ کے لوگوں نے اس قریب میں شامل یا تھا.کیا اینٹی کمیونزم پالیس کو اختیار کرتے وقت ہیکر نے حزقیل کے منصوبہ کیا تھا.یا کیا مسولینی نے کمیونزم کے خلاف اپنی جدو جہد جاری رکھنے کے لئے حز قیل سے منصوبہ کر لیا تھا ی کیا انگلستان کی کسی اینٹی کمیونزم پارٹی نے حزقیل سے منصوبہ کر لیا تھا یا امریکہ کے رہنے والوں میں سے کسی شخص میں یہ طاقت تھی کہ وہ آج سے پچیس سو سال پہلے کے کسی نبی سے اپنی تائید میں کوئی خبر کھو اسکتا.اور اگر کسی آدمی میں یہ طاقت ہو سکتی ہے کہ وہ پچیس سو سال پہلے اپنے متعلق کوئی خبر رکھوا دے.تو وہ آجکل کے لوگوں سے کیا ڈر سکتا ہے.جو شخص ایسا کر سکتا ہے اسکے متعلق یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ وہ دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت کو بھی سیامیٹ کر سکتا ہے.
داف پس یہ وہ فتنہ ہے جس کا تحزقیل نبی کی پیش گوئی میں ذکر آتا ہے.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.مسیح موعود کے زمانہ میں جو بہت بڑے فتن پیدا ہونے والے ہیں ان کی سب نبیوں نے خبردی ہے.گویا آپ نے بھی اس رنگ میں حز قیل نبی کی پیشگوئی کی تائید کردی.یہ امرتباتا ہے کہ جہاں تک عملی سیاست کا تعلق ہے گو ہمارا کسی حکومت سے کوئی لگاؤ نہیں.مگر جہاں تک اس فلسفہ سیاست کا تعلق ہے خدا اس نظام کا دشمن ہے اور آج سے ہزاروں سال پہلے خدا نے اپنے انبیاء کے ذریعہ اس فتنہ کی اسی لئے خبر دی ہے تاکہ مومنوں کا ایمان مضبوط رہے اور کمزور لوگ مذہب کے خلاف اس تحریک کو قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہو جائیں پس ہماری جماعت کو اس فتنہ کے مقابلہ کے لئے پوری طرح تیار ہو جانا چاہیئے.میں نے تحریک کی تھی کہ کالجوں کے پروفیسر اس طرف خصوصیت سے توجہ کریں اور وہ لڑکوں کے سامنے اس پر تقریریں کر تے رہیں.میں نے کہا تھا کہ ہمارے ماہر فن جو اقتصادیات یا مذہب میں مہارت رکھتے ہیں وہ کمیونزم کے ان اثرات پر روشنی ڈالیں جو اقتصاد اور مذہب پر پڑتے ہیں.اسیطرح میں نے کہا تھا کہ بہار نے مبلغ اپنے تبلیغ کے دائرہ کو کمیونسٹ پارٹی کی طرف وسیع کر دیں.عرض میں نے جماعت کو اس فتنہ کی اہمیت بتاتے ہوئے انہیں نصیحت کی تھی کہ وہ اس فتنہ کو مٹانے کے لئے پوری طرح تیار ہو جائیں.میں نے دیکھا ہے کہ میری اس نصیحت کا کسی قدر اثر بھی ہوا ہے.خصوصا کا نور جو کمیونزم کا گڑھو ہے وہاں ہماری جماعت کے بعض افراد نے کوشش کی چنانچہ ایک آدمی جو کمیونزم کی طرف مائل تھا احمدی ہو گیا ہے.اور مزید تبلیغ مجاندی ہے.اسی طرح اس موضوع پر قادیان میں بھی کچھ کچھ ہوتے ہیں اور باہر سے بھی الفضل میں بعض مضامین شائع ہوئے ہیں جن میں سے بعض مضمون اچھے تھے اور اس میں مفید معلومات لوگوں کے سامنے پیش کئے گئے تھے.مگر یہ کام اس قسم کا نہیں کہ یں نے خطبہ پڑھا.لوگوں نے دو چار دن توجہ کی اور پھر خاموش ہو کہ بیٹھے گئے.یہ کام تو ایسا ہے کہ اس میں ہزاروں ہزارہ آدمی مشغول ہو جانے چاہئیں تب دنیا میں کچھ حرکت پیدا ہو سکتی ہے جو تنظیم ان لوگوں میں پائی جاتی ہے وہ ایسی ہے کہ ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے اور ان کے لاکھوں مبلغ دُنیا میں پائے جاتے ہیں.گزشتہ دنوں امریکہ کے ایک اخبار میں شائع ہوا تھا.کہ
Aix ہندوستان میں کمیونسٹ خیالات کی اشاعت کے لئے بارہ ہزارہ مبلغ روس میں تیار کئے جائے ہے ہیں.اسے تم مجھ لو کہ اگر بارہ ہزارہ مبلغ ایک وقت میں روس کے ایک مدرسہ میں تیار کئے جا رہے ہیں تو پندرہ بیس سال میں وہ مختلف ممالک میں اپنے کسی قدر مبلغ پھیل چکے ہوٹھا گے میں سمجھتا ہوں ان کے مبلغ چار پانچ لاکھ سے کم نہیں ہو سکتے.اب بتاؤ وہ کام جو دنیا میں چار پانچ لاکھ باقاعدہ مبلغ ملا وہ لاکھوں دوسرے آدمیوں کے کر رہا ہے اگر اس کا مقابلہ کہنے کے لئے پانچ دس آدمی پندرہ ہیں دن کام کر کے خاموش ہو جائیں تو اس کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے.پس ضرورت ہے کہ تقریر کے ذریعہ سے تحریر کے ذریعہ سے گفتگو کے ذریعہ سے ، طلباء کے ذریعہ سے ، وکلاء کے ذریعہ سے ، ڈاکٹروں کے ذریعہ سے ، مزدوروں کے ذریعہ سے ، پیشہ وروں کے ذریعہ سے ، صناعوں کے ذریعہ سے ، سیاحوں کے ذریعے، تاجروں کے ذریعہ سے اس تحریک کے وہ تمام پہلو جو نہ رہ سے ٹکراؤ رکھتے ہیں بیان کئے جائیں اور لوگوں کو بتایا جائے کہ در حقیقت یہ اسلامی اقتصاد کی ایک بری شکل ہے.جو کمیونزم کی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کی جار ہی ہے.اسلام نے جو چاہا تھا کہ امیر اور غریب کے فرق کو مٹاکر دنیا میں مسادات قائم کی جائے ، غرباء کو آگے بڑھنے کے مواقع بہم پہنچائے جائیں.دولت کو چند محدود ہاتھوں میں نہ رہنے دیا جائے اور مراء کو نسل بعد میں اپنی دولت پر قابض نہ رہنے دیا جائے.اس نظام کی کمیونسٹ نظام نے ایک نقل اتاری ہے.مگر ایسے بھونڈ سے طریق پر کہ اسے انسانی آزادی کو کچل دیا ہے.اور وہ بلا وجہ مذہب کے خلاف کھڑا ہو گیا ہے.جب اس رنگ میں ہر مذہب اور ہر قوم اور ہر فرقہ اور ہر پیشہ اور ہر ترفہ والے کو ہم اپنے خیالات پہنچائیں گے اور متوات اور مسلسل پہنچائیں گے.اب اس کے نتیجہ میں نہیں کمیونزم سے نفرت ہوگی اور تبھی ہماری بعد و جہد صحیح نتائج کی حامل ہوگی " نے له - الفضل هر ماه و خار جولائی ا م :
۵۱۹ ایٹم بم کے استعمال کے خلاف احتجاج رات ان کی کمی کو اور بے اتحادیوں نے جاپان کے صبح نو اہم صنعتی شہر اور بند نگاہ ہیرو شیما پر پہلی بار ایٹم میں استعمان کیا جسے اس کی چھ لاکھ آبادی میں سے پونے چار لاکھ آدمی ہلاک ہو گئے.۶۰ فیصدی عمارتیں پیوند خاک ہو گئیں.اور ہم کرنے کے بعد اتنی شدید گرمی پیدا ہوئی کہ اس کی شدت کے دائرہ کے اندر کوئی ذی روح چیز زندہ نہیں رہی.کیا انسان کیا حیوان کیا چرندا دور کیا پرند سب کے سب جھلس کر خاک ہو گئے.اور جیسا کہ حضرت ی محمود کو الہانا خریدی گئی تھی کہ ان شہروں کو دیکھکر رونا آئے گائیے یہ درد ناک نظارہ چشم مالک نے پہلی دفعہ جاپان میں دیکھا.لودر انداں ، راگست کو ناگاساکی شہر میں ہم نے پیر کی یہ ہی بھی زیادہ تباہی پائی.کے حضرت خلیفہ مسیح الثانی المصلح الموعود نے ا ر اگست ۳۵ راء کو ڈلہوزی ایک خطبہ دیا جس میں ایم میم 1.ایسے مہلک ہتھیار کے استعمال کے خلاف زبردست احتجاج کیا اور بتایا.کہ ہمارا مذہبی اللہ اخلاقی فرض ہے کہ ہم دنیا کے سامنے اعلان کر دیں کہ ہم اس قسم کی توزیزی کو جائز نہیں کجھتے خواہ حکومتوں کو ہمارا یہ اعلان بر انگے یا اچھا ؟ نیز فرمایا - که ان باتوں کے نتیجہ میں مجھے نظر آرہا ہے کہ آئندہ زمانہ میں جنگیں کم نہیں ہوں گی بلکہ بڑھیں گی اور وہ لوگ جو یہ خیال کرتے ہیں کہ ایونک سے بڑی طاقتوں کے ہاتھ مضبوط ہو جائیں گئے اُن کے مقابلہ میں کوئی جنگی طاقت حاصل نہیں کر سکے گا یہ لغو اور بچوں کا سا خیال ہے یار کو خدا کی بادشاہت غیر محدود ہے اور خدا کے لشکروں کو سوائے خدا کے کوئی نہیں.جانتا اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے.لَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ الا هو یعنی تیرے رب کے لشکروں کو سوائے اس سے کوئی نہیں جانتا.اگر بعض کو اٹو مک ہم مل گیا ہے تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے کہ وہ کسی سائنسدان کو کسی اور نکتہ کی طرف توجہ دلا دے اور وہ ایسی چیز تیار کر سے جس سے تیارہ کرنے کے لئے بڑی بڑی لیبارٹیوں کی ضرورت نہ ہو بلکہ ایک شخص گھر میں بیٹھے بیٹھے اس کو تیار کر ے.اور اسکے ساتھ دنیا پر تباہی لے آئے اور اس طرح وہ - 14 ه - بدر بدرستی نشده ها و احکم که رسمی شنا مت ہے.اس سلسلہ میں لنڈن کے اخباروں میں سے ڈیلی کیپرین یلی میں.ڈیلی ٹیلیگراف کے نامہ نگاروں نے جو تفصیلات شائع کیں دو شیخ ناراحمد صاحب بن الفضل ه ار تبوک ستمبر نوش میں شائع کرا دی تھیں ؟
۵۲۰ اٹومک ہم کا بدلہ لینے لگ جائے یہ حضور نے اس ضمن میں ہی عالم کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس لطیف نکتہ کی طرف بھی توجہ دلائی کہ آگ کا عذاب دنیا اشہ تعالی کا کام ہے مسلمانوں کو نہیں چاہیئے کہ وہ اپنے دشمن کو آگ سے تعذیب تکلیف دیں.چنانچہ فرمایا :- تیرہ سو سال پہلے دنیا کو رسول کریم صل علہ علیہ وسلم نے لڑائیوں کے کم کرنے کا راستہ " بتا یا تھا.جب تک دنیا اس راستہ پر نہیں چلے گئی لڑائیاں کم نہیں ہوں گی بلکہ بڑھیں گی.امریکہ اور یورپ والے امن نہیں پائیں گے جب تک رسول کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اس تعلیم کی طرف متوجہ نہیں ہوں گے.وہ جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کے مطابق یہ نہ کہیں گے کہ ہمیں ان آگ کی چیزوں کو نا جائزہ قرار دینا چاہیئے.اس وقت تک حقیقی امن ان کو نصیب نہیں ہو گا تا ہے اٹامک بم کے خلاف بلند ہونے والی یہ پہلی آواز تھی جسکے بعد خود یورپ میں اس کی تائید شروع ہوگئی.چنانچہ ایسوسی ایٹڈ پریس امریکہ نے لندن سے یہ خبر شائع کی کہ : برطانیہ کے اس سر کردہ پادریوں ، مصنفوں اور معلموں نے ایک عرضداشت میں جاپان پر اٹامک ہم کے حملہ کے خلاف پروٹسٹ کیا.ان کے دستخطوں سے یہ پروٹسٹ لنڈن بھر میں تقسیم کیا گیا.ان لوگوں نے لکھا ہے کہ ایٹا ملک بم کا استعمال انسانیت کے ان پاک اصول پر ایک کھلا اور زور دار حملہ ہے جو مسیحی تہذیب اور جمہوری سوسائیٹی نے تمام انسانوں کے لئے مساوی طور پر تجویز کئے ہیں.ان دستخط کنندگان میں وزیرہ ہند کی بیوی لیڈی پینتھک لارنس بھی شامل ہے " سے ر تک جماعت احمدیہ کے لئے ایک نئے حضرت مع مواد کو اشتعال کی طرف سے اس زمانہ می جماعت احمدیہ کے مستقبل کی نسبت جو خبریں دی گئیں ان اور نقابی دور آنے کی حیرت انگیز پیش گوئی میں ایک عظیم الشان انکشاف یہ بھی کیا گیا کہ جماعت انداز اشت تک ایک جدید انقلابی دور میں داخل ہونے والی ہے.اور اس عرصہ میں اس کی قومی پیدائش کا ہونا مقدر افضل از ظهور بر گست اش مات به سه پربھات ۲۰ ستمبر ۹۳۵اء بجوار الفضل ، تبوک استمبر ۳۳۴ براش ملت سته م ۶۱۹ عام 19
An ہے.چنانچہ حضور نے ۲۴ ظہور را گست پیش کو خاص اسی موضوع پر ڈلہوزی میں خطبہ پڑھا.جس میں ۶۱۹۴۵ پیش گوئی فرمائی.کہ میں نے اللہ تعالٰی کے فضل سے پچھلے دس سال میں جو باتیں اپنی جماعت کی ترقی اورر دنیا کے تغیرات کے متعلق بتائی تھیں ان کا نتیجہ دنیا کے سامنے آگیا ہے اور دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ وہ کس طرح لفظ بلفظ پوری ہوئی ہیں.اور ان کی تفاصیل اسی طرح وقوع میں آئی ہیں جس طرح میں نے بیان کی تھیں.اب میرے دل میں یہ بات میخ کی طرح گڑ گئی ہے کہ آئندہ اندانہ بیس سالوں میں ہماری جماعت کی پیدائش ہوگی یہ بچوں کی تکمیل تو چند ماہ میں ہو جاتی ہے اور نو ماہ کے عرصہ میں وہ پیدا ہو جاتے ہیں.لیکن بچے کی پیدائش اور قوم کی پیدائش میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے.ایک فرد کی پیدائش بے شک نو ماہ میں ہو جاتی ہے لیکن قوموں کی پیدائش کے لئے ایک لمبے عرصہ کی ضرورت ہوتی ہے.اور میں سمجھتا ہوں آئندہ بین سال کا عرصہ ہماری جماعت کے لئے نانزک ترین زمانہ ہے.جیسے بچے کی پیدائش کا وقت نازک ترین وقت ہوتا ہے.کیونکہ بسا اوقات وقت کے پورا ہونے کے باوجود پیدائش کے وقت کسی وجہ سے بچہ کا سانس رک جاتا ہے.اور وہ مردہ وجود کے طور پر دنیا میں آتا ہے.پس جہاں تک ہماری قومی پیدائش کا تعلق ہے میں اس بات کو میچ کے طور پر گڑا ہوا اپنے دل میں پاتا ہوں کہ یہ نہیں سال کا عرصہ بہار کی جماعت کیلئے نازک تے ہیں مرحلہ ہے.اب یہ ہماری قربانی اور ایثار ہی ہوں گے جن کے نتیجہ میں تم قوی طور پر زیادہ پیدا ہوں گے یا مُردہ.اگر ہم نے قربانی کرنے سے دریغ نہ کیا اور ایثار سے کام لیا اور تقویٰ کی راہوں پر قدم مارا ، محبت اور کوشش کو اپنا شعار بنا یا تو خدا تعالے ہیں زندہ قوم کی صورت میں پیدا ہونے کی توفیق دے گا اور اگلے مراحل ہمارے لئے آسان کر دیگا ہے نیز فرمایا :- خوب یا درکھو میں دن کسی قوم میں قربانی بند ہوئی وہی دن اُس قوم کی موت کا ہے قوم کی زندگی کی علامت یہی ہوتی ہے کہ وہ قربانیوں میں ترقی کرتی پھلی بھائے اور قربانیوں سے بھی نہ چرائے.اگر ہم ساری دنیا کو بھی فتح کرلیں پھر بھی ہمیں اپنے ایمان کو سلامت رکھنے فرمایا بی دقت نہایت سنجیدگی کا وقت ہوتا ہے یہ توئی پیدائش کا وقت ہوتا ہے.در پورت مجلس مشاورت پرسش ما "
۵۲۲ اور اپنے ایمان کو ترقی دینے کے لئے قربانیاں کرتے رہنا ہو گا.پس میں جماعت کے دوستوں کو آگاہ کر دینا چاہتا ہوں کہ جماعت ایک نازک ترین دور میں سے گزرنے والی ہے.اس لیے اپنے ایمانوں کی منکر کو کسی شخص کا یہ سمجھ لینا کہ دس پندرہ سال کی قربانی نے اس کے ایمان کو محفوظ کر دیا ہے.اسکے نفس کا دھوکہ ہے.جب تک عزرائیل ایمان والی جان لے کہ نہیں جاتا.جب تک ایمان والی جان ایمان کی حالت میں ہی عزرائیل کے ہاتھ میں نہیں بھی جاتی اس وقت تک ہم کسی کو محفوظ نہیں کہ سکتے.خواہ وہ شخص کتنی بڑی قربانیاں کر چکا ہو.اگر وہ اس مرحلہ میں پیچھے رہ گیا تو اس کی ساری قربانیاں باطل ہو جائیں گی اور وہ سب سے زیادہ ذلیل انسان ہوگا کیونکہ چھت پر چڑھکہ گمہ نے والا انسان دوسروں سے زیادہ ذلت کا مستحق ہوتا ہے کہ لے رت مصلح مواد کی اہم ہدایات چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ بی.اے.ایل ایل بی اور چوہدری ولائت جانیوالے سبقین کو.تشریف لے جارہے تھے یا اس موقع پر حضرت مصلح موعود نے ہر دو.مبلغین کو اپنے قلم سے نہایت قیمتی ہدایات سکھکر دیں.چنانچه خود هری مشتاق احمد صاحب با جوره کو ارشاد فرما یا که در الله تعالے پر ایمان رکھیں اور اُس پر توکل کا ملکہ پیدا کریں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ذاتی تعلق اور کمال محبت حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ و السلام کے مشن کو نہ بھولیں.۴.امام وقت خلیفہ وقت کی اطاعت اور اسکی ذاتی تعلق روحانی ترقی کے لئے ضروری ہے.-۵- ہر واقف اور مجاہد کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو سلسلہ کا ستون سمجھے اور اپنے آپ کو سلسلہ کی روایات کے قیام کا ذمہ دار قرارہ ہے.اس کے بغیر وقف کی نہ غرض پوری ہوتی ہے اور نہ روایات میں تسلسل پیدا ہوتا ہے جو ضروری ہے.4.یاد رکھیں کہ کام اور محنت سے کام اور عقل سے کام کر نا اہم ترین فریضہ ہے.۱۳۳۳ ه الفضل و تنبو ستمبر اش ۲ تا ۲ که :- الفصل یکم اور اکتو بر مش ها کالم ؟ ۶۱۹۴۵۰ * ۶۱۹۴۵
.علم کی توسیع کرو " چو ہدری عبد اللطیف صاحب کے لئے مندرجہ ذیل ہدایات تحریر فرمائیں :- اللہ پر توکل کرتے ہوئے بھاؤ.اس پر ایمان کو مضبوط کرو اور اس کی محبت کو بڑھا تے رہو.یہانتک کہ دل کی آنکھوں.دماغ کی آنکھوں اور ماتھے کی آنکھوں سے وہ نظر آنے لگے اور دل و دماغ اور بیرونی کانوں سے اس کی آواز سنائی دینے لگے.محمدرسول اله صل للہ علیہ وسلم سب نبیوں کے سردار ہیں میں موعود علیہ الصواق و اسلام ان کے خادم ہیں.خادم کو آقا سے جدا نہ سمجھو کہ آقا کو آقا اور خادم کو مخادم کا مقام دو اور دونوں کی محبت میں سر شانہ نہ ہو.تانی نے ہمیں خلیفہ ہی نہیں بنایا بلکہ اس زمانہ میں خدمت اسلام کا کام خاص طور پر ہمارے سپرد کیا ہے اور اسلام کی ترقی ہم سے وابستہ کی ہے اس لئے ہمارا مقام عام خلافت سے بالا ہے.ہمارا کام خدا تعالٰی کے خاص ہاتھ میں ہے.ہماری ذاتی عظمت کوئی نہیں.نہ ہم اپنے لئے کوئی خاص عزت چاہتے ہیں.مگر ہم اللہ تعالی کی تلوار ہیں جو ہمارے سایہ میں لڑتا ہے وہ اپنے لئے جنت کا دروازہ کھولتا ہے جو ہم سے ایک اپنے بھی دور ہٹتا ہے وہ اسلام سے دشمنی کرتا ہے اور اس کی ترقی میں روک ڈالتا ہے.اللہ تعالی اس پر رحم کرے اور بلانت بخشتے.خدا تعالیٰ نے کہا کہ اس کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچے گا جب کے یہ معنے ہیں کہ خود اس کا وجود پیش کرنا ہی اس وقت اسلام کی ترقی کے لئے مفید ہے.نمازوں کی پابندی.دعاؤں پر زور کو اپنا شعار بناؤ.-۵- اطاعت خواہ کوئی افسر ہو ایمان کا جزو ہے.خود افسر ہو تو نیک سلوک کرو.دوسرا افسر ہو تو اس کا اس قدر عمران اور احترام کرو کہ دیکھنے والے بغیر کہنے کے ان کا ازالہ کہنے لگیں.اسلام کی روح کو ہر لک میں اور ہر رہنما ہمیں نہ نہ رکھنے اور وسیع کرنے کی کوشش کرو کا ہے ه - الفضل يكم الاول اکتوبر ۳ ۳۳ براش مت : نده
۵۲۴ جماعت احمدیہ میں اعلی تعلیم کی اسفرت مصلح موعود جاعت احمدیہ کی قیادت اوائل خلافت ہی سے اس رنگ میں فرما رہے تھے کہ احمدیوں کا علمی معیار بلند سے بلند تر ہوتا بھائے.اس سلسلہ میں آپ ایک نہایت اہم قدم ہے وہ ہوش میں تورسیع کے لئے سکیم تعلیم الاسلام کالج کے دوبارہ اجراء کی صورت میں اٹھا چکے تھے.اب اس سال محمود نے 19 ماہ اور اکتوبر لاش کو احمدیوں میں اعلیٰ تعلیم کے عام کرنے کے لئے ایک نہایت اہم کیم تیار کی میں کا بنیادی نقطہ یہ تھا کہ نجس طرح ہماری جماعت دوسرے کاموں کے لئے چندہ کرتی ہے اسی طرح ہر گاؤں میں اس کے لئے کچھ چندہ جمع کر لیا جائے جب یہی اس گاؤں کے اعلیٰ نمبروں پر پاس ہونے والے لڑکے یا لڑکوں کو وظیفہ دیا جائے.اس طرح کوشش کی جائے کہ ہر گاؤں میں دومین طالب علم علی تعلیم حاصل کرلیں کہ حضور نے اپنی اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ یہ احمدی اپنے بچوں کو پرائمری تک تعلیم دوا سکتے ہیں وہ کم از کم مڈل تک اور جو مڈل تک تعلیم دلوا سکتے ہیں وہ کم ازکم انٹر نفیس تک اور جو انٹرنس تک پڑھا سکتے ہیں وہ اپنے لڑکوں کو کم ازہ کم ہی اسے کرائیں نیز فرمایا کہ چونکہ ہم تبلیغی جماعت ہیں اسلئے ہمارے لئے لازمی ہے کہ ہم سونی صدی تعلیم یافتہ ہوں.اسی ضمن میں حضرت مصلح موعود نے صدر انجمن احمدیہ کو ہدایت فرمائی.کہ و فوری طور پر نظارت تعلیم و تربیت کو ایک دو انسپکڑ دے جو سارے پنجاب کا دورہ کریں اور جو اضلاع پنجاب کے ساتھ دوسرے صوبوں کے ملتے ہیں اور ان میں احمدی کثرت سے ہوں ان کا دورہ بھی ساتھ ہی کر تے چلے جائیں.یہ انسپکٹر ہر ایک گاؤں اور ہر ایک شہر میں جائیں اور سیٹس تیار کریں کہ ہر جماعت میں کتنے لڑکے ہیں.ان کی عمریں کیا ہیں ان میں کتنے پڑھتے ہیں اور کتنے نہیں پڑھتے.ان کے والدین کو تحریک کی جائے کہ وہ انہیں تعلیم دلوائیں اور کوشش کی جائے کہ زیادہ سے زیادہ لڑکے ہائی سکول میں تعلیم حاصل کریں اور ہائی سکولوں سے پاس ہونے والے لڑکوں میں سے جن کے والدین استطاعت رکھتے ہوں ان کو تحریک کی جائے کہ وہ اپنے بچے تعلیم الاسلام کالج میں پڑھنے کے لئے بھیجیں لے اس خطبہ کی اشاعت پر نہ صرف بیرونی جماعتوں نے توسیع تعلیم سے متعلق اعداد و شمار کے مطلوبہ نقشے ھوئے بلکہ اس سکیم کو جلدسے جلد نتیجہ خیز کر نے کے لئے حضرت علی مواد کی منظوری سے موی سلطان حمص حب له الفضل در دفاع را کتوبه اش مرده :
۵۳۵ اور سید اعجاز شاہ صاحب د انسپکٹران بیت المال ، نظامت تعلیم و تربیت میں منتقل کر دئے گئے.تعلیمی اعداد و شمارہ جب حضور کی خدمت میں پیش کئے گئے تو حضور نے ارشاد فرمایا :- ساتھ کے ساتھ ان علاقوں میں تعلیم پر زور دیا جائے.جو تعلیم حاصل نہیں کر رہے نہیں تعلیم پر مجبور کیا جائے اور جو کہ رہے ہیں، انہیں اعلی تعلیم پر : انسپکڑان کی تقرری کے موقعہ پر یہ ہدایت خاص فرمانی کہ پانچ ماہ کے لئے منظور ہے.جہاں تک میں سمجھتا ہوں اگر جماعت کو منظم کیا جائے تو باقی میمون کی طرح اس صیحہ کے سیکر ٹری یہ کام سنبھال سکیں گے کہ اے چنانچہ ان ہر دو احکام کی تعمیل کی گئی اور جب جماعت میں تعلیم کی اشاعت و فروغ کی ایک رو چل نکلی تو پانچ ماہ کے بعد یہ کام سیکر ٹر یان تعلیم و تربیت کے سپرد کر دیا گیا.حضرت مصلح موعود نے احباب جماعت کو تعلیمی میدان میں زیادہ سے زیادہ آگے بڑھانے کے علاوہ مرکز کی درسگاہوں کے احمدی اساتذہ کو بچوں کی نگرانی کا ذمہ دار ٹھراتے ہوئے فرمایا.کہ میرے نزدیک سیکی کلی طور یہ ذمہ داری سکول کے عملہ پر ہے اور کالج کے لڑکوں کی ذمہ داری کالج کے عملہ پر ہے.اگر سکول یا کالج کا نتیجہ خراب ہو اور کالج یا سکول کا عملہ اس پر عذر کرے تو یکیں یہ کہوں گا یہ منافقانہ بات ہے اگر لڑکے ہوشیار نہیں تھے اگر لڑکے محنت نہ کرتے تھے اور اگر رڑ کے پڑھائی کی طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے تو ان کا کام تھا کہ وہ ایک ایک کے پاس جاتے اور اُن کی اصلاح کرتے.اگر وہ متوجہ نہ ہوتے تو ان کے والدین کو اس طرف متوجہ کرتے اور انکور مجبور کرتے کہ وہ تعلیم کو اچھی طرح حاصل کریں.ہماری تماعت کے لئے اعلیٰ تعلیم کا حصول اب بہت ضروری ہے.اگر ہم میں اعلی تعلیم یافتہ نہ ہو گے تو ساری سکیم میں ہو جائے گی کے دار ماه فتح اردسمبر ۳۳ میش کا دن سے سلسلہ یورپ کی روحانی فتح کے لئے نو مبلغین احمدیہ کی تاریخ کے تمہارے ایک غیر عملی کا سفر انگلستان اور پریس میں چرسی دین تھا.کیونکہ اس دی خدا کے فضل وکرم سے الفضل دار بادها ار ماه احسان جون ۱۳۲۳ پیش صفحه به کالم ۳ دم + : الفضل ۳۰ صلح بجنوری ۱۳۲۳ در بهش اش صفحه
Arm پونے تین بجے کی گاڑی سے واقفین یورپ کی روحانی فتح کے لئے روانہ ہوئے.یہ پہلا موقع تھا مرکز محدودیت سے اتنی بڑی تعداد میں میترین اسلام کا قافلہ بیرونی ممالک کی طرف بھیجا گیا ہو.قافلہ میں حسب ذیل واقعین شامل تھے :- ملک عطاء الرحمن صاحب (امیر قافله - چوہدری ظہور احمد صاحب با جوه - حافظ قدرت اللہ صاحب - چوہدری اله و ته (عطاء اللہ صاحب - چوہدری کرم الہی صاحب نفر- چوہدری محمد اسحق صاحب ساتی.مولوی محمد شما صاحب ، ماسٹر محمد ابراہیم صاحب - مولوی غلام احمد صاحب بشیر مجاہدین تحریک جدید کا یه قافله هم راه صلح جنوری ہے اس کو انسان کی بندرگار اور پول پر اترای پیوستن انٹیشن پر مولانا جلال الدین تا شش امام مسجد لندن نے مو احباب جماعت اس کا پر تپاک استقبال کیا.اور انگلستان کے اخبارات مثلا ویلی لکھے.دی شمارہ " ڈیلی ایونٹنگ پیپر نے ان کی آمد کا میل عنوان سے ذکر کیا اور تصویر شائع کی سکے برطانوی پریس کے علاوہ مشہورہ امریکن خبر رساں ایجنسی گلوب نے کسی قدر تفصیلی اور رائیو نے قدرے مختصر " الفاظ میں اس رند کے سرزمین انگلستان میں آنے کی خبر دی.بچنا نچہ گلوب نے لکھا :- انگلستان میں پٹنی کی مسجد کو ہندوستان کی جماعت احمدیہ کے مرکز دعوت وتبلیغ ہونے کا شرف حاصل ہے.جنگ کی وجہ سے یورپ میں جماعت احمدیہ کی تبلیغ اسلام کا سلسلہ رکا ہوا تھا مگر اب اسے پھر شروع کر دیا گیا ہے اس میں اضافہ کیا گیا ہے، ملک عطاء الرحمن کے زیر قیادت اور مبلغوں کا دستہ قادیان سے یہاں پہنچ چکا ہے.جنہیں برطانیہ.فرانس ہسپانیہ جرمنی اور اٹلی میں بھیج دیا جائیگا.جماعت احمدیہ کا مرکز قادیان ہے جو پنجاب میں واقع ہے.توقع ہے کہ وہاں سے اور مبلغ بھی یہاں پہنچے جائیں گے اور اُنہیں ہنگری، ہالینڈ اور دوسرے مغربی ممالک میں بھیجا جائے گا.یہ مبلغین کا دستہ پیٹنی کی مسجد میں فروکش ہے.تبلیغ کے لئے باہر بھیجے جانے سے پہلے انہیں اس مسجد میں تربیت دی بجائے گی.اس تربیت میں ان ممالک کی زبان بھی شامل ہے جہاں انہیں ے انگلستان جانیوالے واقفین کے ساتھ مولوی بشارت احمد صاحب نسیم بھی تھے جن کی روانگی کا فیصلہ اسی روز ہوا اور انکو صرف چند گھنٹوں کے اندر اندر تیار ہے کہ عازم افریقہ ہوتا پڑا.علاوہ انہیں مولوی نذیر احمد علی صاحب رئيس التبليغ مغربی افریقہ دمعہ اہل وعیال ، صبح کی گاڑی سے لاہور تشریف لے گئے اور لاہور سے شریک قافلہ ہو گئے.اس طرح جماعت مسبعین کی تعداد گیارہ تک پہنچ گئی ہے ہے.الفضل وافتخر دسمبر مش بغض به د صلح ر خودی می شود ه الفضل در ماه صلح / جنوری به این صفحه ۲ کالم ۲ : م
(س) سیشن کا استقبال اموری دائیں سے بائیں.ا.حافظ قدرت اللہ صاحب.۲.چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ.۳.ملک عطاء الرحمن صاحب.۴.شیخ عبدالطیف صاحب - ۵ - مولانا جلال الدین صاحب شمس.۶.ملک کرم الہی صاحب ظفر.ے.چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ.۸.سید سفیرالدین احمد صاحب.۹.چوہدری محمد احق صاحب ساقی.۱۰.مولوی محمد عثمان صاحب
مرزا منور احمد صاحب واقف زندگی مبلغ امریکہ کی قادیان دارالامان کے اسٹیشن سے روانگی (بائیں طرف دروازہ میں سید عبدالباسط صاحب کا رکن خدام الاحمدیہ مرکز یہ کھڑے ہیں )
Ara تبلیغ کے لئے جانا ہے.اسکے علاوہ انہیں مغربی رسم ورواج اور مغربی طرز زندگی سے بھی آگاہی حاصل کرنی ہے.مسجد کے امام مولوی جلال الدین شمسی سیکھوانی نئے گلوب" کے نمائندے سے بیان کیا کہ ہمارے خیالی میں اسلام کو یہ بہت بڑا موقع ملا ہے کہ یورپ میں امن بحال کرے.جنگ نے یورپ کا کچومر نکال دیا ہے.ہمارے مستیغ پر امن طریقوں سے اسلام کے نصب العین اور نظریوں کی تبلیغ کریں گے.کتابیں تقسیم کی جائیں گی اور تقریب میں ہوں گی.مختلف انجمنوں سے وابستگی کا سلسلہ قائم کر کے تبادلہ خیال ہوتا رہے گا.مغربی مصنفوں نے ہمارے مذہب کو غلط پیش کیا ہے.ہم نے اس کے خلاف بھی مصروف بہا د ہونا ہے اہل مغرب نے اسلام کو غلط سمجھا ہے.اب ہمارا یہ کام ہے کہ ہم اسلام کی صحیح تصویر پیش کریں.جماعت احمدیہ کا صرف پودر مین شعبہ ہی اپنی سرگرمیوں کو تیز تر نہیں کر رہا بلکہ کرہ ارض کے طول و عرض میں مبلغ بھیجے جارہے ہیں.ایک احمدی تبلیغی دند سید سفیر الدین بشیر احمد کی زیر قیادت مغربی افریقہ جانے والا ہے.یٹنی کی مسجد میں تربیت کا انتظام مسٹر مشتاق احمد باجوہ کے سپرد ہے جو حال ہی میں قادیان سے یہاں پہنچے ہیں.آپ امام جلال الدین شمسی کے جانشین ہوں گے جو مراجعت فرمائے قادیان ہو رہے ہیں رائٹر نے خبر دی کہ : یورپول سے بارہ احمدی مستقین کی ایک جماعت بھی بہت رات گئے اور پولی سے ان کی پہنی اور مینی کی مسجد میں تبلیغی نقشہ تیار کہ رہی ہے.یہ حضرات ہندوستان سے " سٹی آف انگزیٹر جہاز میں اور پول پہنچے تھے مسجد مینی کے امام اس جماعت کے تیرھویں نمبر ہیں.یہ تیرہ کے نیزہ مسجد کے خوشنما محن میں چہل قدمی کرتے رہے اور تجویزیں مرتب کر تے رہے.یہ حضرات انگلستان میں چھ مہینے گزاری کے اور یورپ کی زبانیں سیکھیں گے.انہیں تین سال یورپ میں گزار نے ہوں گے اس کے بعد وہ قادیان واپس چلے جائیں گے اور ان کی جگہ اور لوگ آجائیں گئے.اس جماعت کا سب سے کم عمر رکن مسٹر چو ہدروی (۲۳ سال) اور سب سے بڑے کی عمر ہ نہ سال ہے.یہ سب کے سب احمدی ہیں اور ان کی آمد سے بریطانی جرائد نگاروں کے لئے دلچسپی کا نیا سامان پیدا ہوگیا ہے.ان کا لباس خوشنما ہے اور ان کے سروں پر سفید در سبز پگڑیاں بھلی معلوم ہوتی ہیں " سے ه حواله الفضل و صلح ۱۳۳۵ مادرش صفر و کالم ۳-۴ :
مصر کے اجات میں ذ ا ا مصر کے مشہور اور متاز محله " اخبار العام اور فروری شاہ نے ان مجاہدین اسلام کے تین فوٹو شائع کئے.اور مسلمانان ہند کا وفد لنڈن میں "کے عنوان لکھا :- گذشتہ ماہ جنوری کے آغازمیں انگلستان میں ہندوستان سے ایک اسلامی تبلیغی وفد پہنچا ہے تا کہ وہ اہل یورپ اور انگلستان کو دین اسلام کے متعلق معلم دے سکے.اس وفد کے عمران سلمانان پنجاب کی ایک جماعت سے تعلق رکھتے ہیں.اس ہندوستانی تبلیغی وفد نے مسجد لنڈن کی زیارت کی اور مولانا شمش صاحب لنڈن نے اُن کو اهلا وسهلا و مرحبا کہنا.ہم اسی صفحہ پر بعض تصاویر جو ہند کے قیام لنڈن کے دوران لی گئی ہیں شائع کر رہے ہیں.سب سے اہم اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس تبلیغی وفد میں سے ایک گروپ اٹی جائیگا اور دو سر فرانس کو.اور تلبیہ اجر منی اور چھہ تھے گردے کا قیام برطانیہ میں ہی ہوگا.یہ یقینی امر ہے کہ اس تبلیغی وفد کی قابل رشک مسائلی سے اہل یورپ اسلام کو شناخت کر سکیں گے.اسکی بعد تین نویو مختلف مناظر کے دیئے." دوسرا جریده اخبار" اليوم " المتبشير بالاسلام فی اردبا کے عنوان سے لکھتا ہے :.یورپ میں تبلیغ اسلام لنڈن دیورپ میں تیرہ مسلمانان ہند تشریف لائے ہیں.اُن کے آئیکا مقصد ال یورپ کو نہیں مادیات نے بائل تباہ و برباد کردیا ہے بلیغ اسلام کرنا ہے، یہ وفد خلص نوجوانوںپر شتمل ہے جو اپنے مذہب کے شیدائی اور عاشق ہیں اور دین اسلام کے پھیلا نے میں بڑے دلیر اس وفد کے ممبران میں سب سے بڑی عمر والی ہم ہم سالی کا ایک فرد ہے باقی سب اس چھوٹی عمر کے ہیں.رہے پہلے لندن میں ان کا درود ہو.یہاں انکا قیام چھ ماہ ہوگا.اس دوران میں وہ یوریک اہم زبانوں کی تعلیم حاصل کریں گے.بعد ازاں وہ دو دو اور تین تین افراد کی پارٹیوں میں تقسیم ہو کر یورپ کے مختلف اطراف یں تبلیغ اسلام کریں گے.رہی سے پہلے ایک پارٹی سبی میں جائیگی.وہ سپین میں کے اکثر باشندوں میں ابھی تک عربی خون باقی ہے اور جو ہمیشہ اس بات کا ذکر کرتے رہتے ہیں کہ ان کے آباء و اجداد دین اسلام پر قائم تھے.یہ وفد بطور مہمان کے اس وقت مولی ناشتن صاحب امام مسجد لنڈن کے ہاں مقیم ہے.مولانا شمش ایک ہندوستانی عالم ہیں اورعلوم اسلامیہ کے فاضل.آپ کا برطانیہ میں قیام تبلیغ اسلام کی خاطر ہے.آپ کی مساعی سے بعض انگریزوں نے مذہب اسلام قبول کیا ہے جن میں سے بعض اچھے
۵۲۹ اور مشہور ادیب ہیں.مولانا شمس نے بیان دیتے ہوئے فرما یا یو رپ کو مذہب کی سب سے زیادہ ضرورت ہے تاکہ یورپ اپنا علاج کر سکے.اور اپنے مضطرب قلب کو تسکین دے سکے.اس مقصد کی ادائیگی کے لئے اسلام اپنے اندر بہت بڑی طاقت رکھتا ہے جس کا مقصد دنیا کو امن کے راستہ پر چلانا ہے.اور ان سیلفین کا کام یہی ہو گا کہ وہ اسلامی عقائد کی تفصیل اور اغراض بیان کریں.یورپ کے مذہبی اداروں نے اس تحریک کے متعلق خاص اہتمام کا اظہار کیا ہے.جس کی مثال سابقہ زمانے میں نہیں پائی جاتی اور اس خوف یہ خدشہ کا اظہار کیا گیا ہو کہ ہو سکتا ہے کہ اہل یورپ میں کو نیک تقوی تعداد مذ ہب اسلام قبول کر لے.کیونکہ اس وقت اکثر لوگوں کا عقیدہ (عیسائیت تبدیل ہو چکا ہے.یہاں تک کہ انگلش چرچ بھی اس امر یہ مجبور ہو رہا ہے کہ وہ اہل برطانیہ میں مسیحیت کی تبلیغ قائم رکھنے کے لئے دس لاکھ پاؤنڈ خرچ کرہ ہے.ایک معرزہ انگریز پادری نے مجھے کہا کہ میں ہر اس تحریک کو خوش آمدید کہتا ہوں جو کسی دینی عقیدہ کے اختیا نہ کرنے کی طرف دعوت دیتی ہو.کیونکہ میں ہمیشہ اسلامی فیلسوف ابن مرشد کے اس نفیس قولی کو یاد رکھنا ہوں کہ:.دیندا نہ انسان کا اعتماد کی.اگر چہ دہ تمہارے عقیدہ پر نہ ہو.اور بے دین انسان کا اعتماد نہ کی.اگر چہ وہ یہ دعوی کرتا ہو کہ میں تمہارا سے مذہب پر قائم ہوں گے جامعہ ازہر میں بھی اس تبلیغی دند کی وجہ سے ہلچل پیدا ہوئی اور لکھا گیاکہ یہ کام در اصل ہمارا ہے.گو ظا ہری الفاظ میں تو جماعت احمدیہ کے متعلق اظہار نہیں کیا گیا.مگر حقیقت شناس اصحاب سے یہ امر پوشیدہ نہیں رہ سکتا.چنانچہ مصر کے مشہور ادبی مجلہ الرسالت والروائت ۲۳ مارچ ۱۹۳۶ میں) احمد الشریاضی اور بس الان پیر الشریف کا ایک مکتوب بنام " الاستاذ الاکبر شیخ الجامع الاز ہر شائع ہوا اس میں آپنے میں الازہ سر کی خدمت میں واضح طور پر کھا کہ از ہرکا ایک فرد بھی تبلیغ اسلام کی خاطر بیرون مر نہیں بھیجا گیا.حالانکہ یہ کام جامعہ ازہر سے زیادہ تعلق رکھتا ہے یہ نسبت دوسری جماعتوں کے.چنانچہ مفصل فیہ میں سے ایک اقتباس پیش کیا جاتا ہے.علامہ
موصوف نے لکھا:.AP.اما لأزهر الشريف الذي يحتاج إلى البعاث اكثر من غيرِهِ فَلَمْ نَ مِنَ ابْسَايا فرداً واحداً يُرسل إلى الخارج في بعثتهِ مِنَ الْبَعْثَاتِ " یعنی از پر شریف کو بہ نسبت دوسروں کے زیادہ ضرورت ہے کہ وہ بیرون مصر تبلیغی وفد بھیجے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ جامعہ انہر سے ایک فرد بھی باہر نہیں بھیجا جاتا : پھر لکھا:.إِنَّ الأَزهرين في امس الحاجة الى دراسته اللغات الأجنبيتا، وَإِلى الوقوفِ على شبه المستشرقينَ وَالْمُلْجِدِينَ لِيُدْفَعُوا عَنْ دِينَهُمْ وَإِلى مَجْرِمَةِ الْوانِ الحَياةِ الاجتماعية والثمانيهِ عنوَ الغَربيين.یعنی طلباء از ہر کو اجنبی زبانیں سیکھنے کی سخت ضرورت ہے.نیز مستشرقین و ملحدین کے اعتراضات معلوم کرنیکی بھی بے تا کہ جامعہ الہ ہر کے طلباء دین اسلام پر ہونیو الے اعتراضات کا جواب دے سکیں.اور اہل مغرب کی ثقافت تمدن اور سونسل زندگی کی معلومات حاصل کر سکیں.پھر حیرت بھرے الفاظ میں اس خط کو ان الفاظ پر ختم کیا.فمتى يتمكنونَ مِنْ تَحْقِيقِ هَذِهِ الْأَهْدَانِ ایل الہ ہر کب اس مقصد اور عرض کو حاصل کر سکیں گے ؟ (ترجمہ) نے ارزان اراحمد اہم خلاف قلمی حضر میل بزادہ حافظ مرزا ناصر حمد صاح کی کمی کا دو سال اشتراکیت کے خا لی لی جہاد کا سال تھا.جس میں جماعت احمدیہ کے اہل قلم اصحاب نے ۱۳۳۳ تقریر جلسہ سالانہ لاش کے موقعہ پر اپنے محبوب مام مام کی زیر ہدایت اشتراکیت کی حقیقت ۶۱۹۴۵ کو بے نقاب کر نے کی مخلصانہ جدو جہد کی.اس سلسلہ میں پہلی بارہ سالانہ جلسہ کے موقعہ پر ایک خاص تقریر اشتراکیت کے اقتصادی اصول کا اسلامی اقتصادی اصول سے موازنہ " کے اہم موضوع پر رکھی گئی.جو حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر حمد صامو نے جلسہ کے دوسرے دن ( ہر ماہ فتح رد گمبر کو ارشاد فرمائی.حضرت صاجزادہ صاحب ایدہ الہ تعالی نے اپنی تقریر کے آغاز میں بتایا کہ اشتراکی صبح کاذب ہے جوصبح صادق الفضل اور مٹی نہ مٹ : رخی از مضمون بجناب شیخ نور احمد صاحب شیر مبلغ برای هر بید
کے آنے کی خوشخبری دیتی ہے جیسکی سامنے صبح کاذب کا وجود نہیں ٹھہر سکتا.اس بنیادی نقطہ کی وضاحت کے بعد آپ نے کارل مارکس کے معاشی نظر یہ مساوات کے مندر جہ ذیل سات اعوان کا تذکرہ فرمایا : - پیداوار اور ذرائع پیداوار پر قبضہ - ۲- طاقت کے مطابق کام.۳.ضرورت کے مطابق آمد - م - نقع ممنوع اور سود جائز.دہ اور نہ نا جائز.(1) نظام زر کی تباہی - شخصی ملکیت کا خاتمہ.حضرت صاحبزادہ صاحب نے ان میں سے ایک ایک اصول کو لیا اور پھر فاقعات سے ثابت کیا کہ یہ سب اصول ابری طرح ناکام ہو چکے ہیں.مارکس نظریہ اور کسے مبادیات کا دافعاتی اور عقلی جائزہ لینے کے بعد آپ نے اسلامی اقتصادیات کے اہم اصولوں پر مفصل روشنی ڈالی اور اس ضمن میں سب سے پہلے بتایا کہ اسلام میں مساوات کی صحیح تعریف یہ ہے کہ ضروریات نہ ندگی کے حصول میں سب مساوی ہوئی اور ان کے جسمانی اور دمافی قومی کو کمال تک پہنچانے کے سامان مہیا ہوں انسان بعد آپ نے نہایت شرح وبسط سے غلامی کا انسداد ، نظام در ائت کا قیام اور سود ، احتکار قیمتیں گرانے یاکم میت ر مال خریدنے کی مصالحت وغیرہ متعدد اسلامی اصولوں پر روشنی ڈالی اور اس نقطہ پر خاص طور پر زور دیا کہ اسامی اقتصادیا میں ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ ایک بین الاقوامی تمدن کی بنیاد رکھتی ہے.دنیا میں آج تک کوئی اقتصادی تحریک بھاری نہیں ہوئی جسے صحیح معنوں میں بین الاقوامی کہا جاسکتا ہو.سرمایہ داری اور امپر ملزم کے ملکی ہونے میں تو کوئی شک نہیں ہو سکتا.اشتراکیت جسے لوگ بین الاقوامی تحریک مجھتے ہیں اور جس کا کبھی خود بھی یہی دعوی تھا بین الاقوامی تحریک نہیں کبھی جاسکتی.اسی ہے کہ آج اشتراکیت.روسی اشتراکیت کا نام ہے اور روسی اشتراکیت کے مقاصد میں سے یہ ایک مقصد نہیں کہ دنیا میں اشتراکیت کو قائم کیا جائے.مرح الہ میں جب مسٹر آکر.ہاورڈ نے سٹالن سے یہ سوال کیا.کہ کیا سویٹ یونین نے عالمگیر اشتراکی انقلاب کے اراد سے اور اس کا پروگرام اب چھوڑ دیا ہے ؟ تو سٹالن نے جواب دیا کہ دنیا میں اس قسم کا انقلاب پیدا کرنے کا ہمارا کبھی بھی ارادہ نہ تھا سویٹ یونین ستاره افتادم سلام اس کے بدن کی وجہ ایک مذہبی تحریک ہونے کے بلک ملک نسل نسل اور قوم قوم میں کوئی امتیاز نہیں کہتا.اسلام عالمگیر تبلیغ اور اشاعت کی بنیا دوں پر قائم ہے اور اسلام کا یہ دعوی ہے کہ بطرح وہ اپنے پہلے دور میں دنیا کے بہت سے ممالک میں پھیل گیا اور ایک شاندار بین الاقوامی برادری سنی قائم کی اپنے دور ثانی میں کی وہ تمام دنیا پر چھا جائیگا.حضرت صاحبزادہ صاحب کی یہ اہم تقریر مندرجہ ذیل پر شوکت الفاظ پر ختم ہوئی :
27 در اصل احمدیت کا آخری ٹکراؤ اشتراکی روس کے ساتھ مقد رہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ نامہ روس کا عصا میرے ہاتھ میں آگیا ہے.اشتراکی نظام میں یقینا یہ خوبی ہے کہ وہ سرمایہ داری کی بھیانک تصویر کے خلاف ایک بھاری رد عمل ہے مگر پنڈولم کی حرکت کی طرح وہ دوسری انتہا کی طرف نکل گیا ہے اور مشائد سرمایہ داری سے بھی نہ یادہ خطر ناک بننے والا ہے.اہ ۶۱۹۴ فصل حیام ان میں انتقال کر نیوالے شور در جلیل القدر صحابیہ اس سال جن صحابہ نے انتقال کیا ان میں رہے نمایاں شخصیت حضرت نواب محمد علی مخالصا سب کی تھی جن کے معاملات پر اس باب کے شروع میں روشنی ڈالی جا چکی ہے.اب ذیل میں دوسرے جلیل القدر صحابہ کا ذکر کیا جاتا ہے :- - حضرت مرزا محمد شفیع صاحب محاسب، صدر انجمن احمدیہ قادیان: BA رو دوست نا انداز جمعیت جوانی سلام - وفات در سطح ر جنوری میں ہے.دہلی میں پیدا ہوئے اور اپنی تقسیم اپنے ماموں حکیم فدا احمد صاحب طبیب شاہی مہا راجہ جموں و کشمیر کے زیر تربیت جموں میں حاصل کی.اور اسی زمانہ میں حضرت خلیفہ المسیح الاول مولانا نورالدین سے نیاز حاصل ہوئے بسلسلہ احمدیہ سے آپ کا تعارف حضرت حکم اندار حسین صاحب آف طلب گڑھ کے والد ماجد کے ذریعہ ہوا اور آپ نے اُن سے حضرت مسیح موعود علی الصلواۃ و اسلام کی تصانیف سے کہ مطالعہ کیں اور سلسلہ میں بیعت کرلی.آپ کا نام بیعت کنندگان کی فہرست میں اخبار العلم ارجون شاہ کے صفحہ ۶ پر درج ہے.آپ ان دنوں جگا دھری ضلع انبالہ میں پوسٹما سٹر تھے.نامہ میں آپ پہلی بار قادیان میں تشریف لائے اور سید نا حضرت مسیح موعود کی زیارت سے فیضیاب ہوئے اور پھر بالالتزام مہر سبکا نہ جلسہ پر آتے رہے.ه تقری کا کل متن افضل (۳- صلح رمجبوری پاداش میں درج ہے : : - لفضل در صلح رجوری اش ما کالم و
۵۳۳ حضرت مرزا محمد شفیع صاحب موصوف کو سلسلہ احمدیہ کے لٹریچر کا بہت شوق تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تمام کتب اور خلفاء کی کتابیں آپ نے پڑھی ہوئی تھیں.آپ کا معمول تھا کہ جو کتاب نئی شائع ہوتی فور خرید لیتے اور جب تک اُسے ختم نہ کر لیتے آپ کو چین نہ آتا تھا.کتب حضرت مسیح موعود کے علاوہ اس مبارک زمانہ میں شائع ہونے والے اختبارات اور رسائل کا بھی باقاعدگی سے مطالعہ کیا کرتے تھے اور اپنی اولاد کو ہمیشہ تاکید فرماتے رہتے تھے کہ سلسلہ کے لٹریچر کا مطالعہ کیا کرو.یہ تمہیں بہت فائدہ دے گا.سلسلہ احمدیہ، حضرت مسیح میشود ، حضرت مصلح موعود حضرت ام المومنین اور دیگر افراد خاندان حضرت مسیح موعود سے آپ کو غایت در سبد محبت و عقیدت تھی اور اُن کی خدمت اپنے لئے باعث فخر سمجھتے تھے.۶۱۹۴۰ پ پہلے دہلی میں مقیم تھے تو خاندان مسیح موعود کے اکثر افراد کی خدمت آپ ہی انجام دیتے تھے.پھر جب ء میں قادیان ہجرت کر کے تشریف لے آئے تو اپنی اس ہدایت کو پوری شان سے جاری رکھا قادیان میں آپ نے یکم جنوری او سے اپریل 2 و تک بحیثیت آڈیٹر کام کیا اور اسکے بعد دنیات تک محاسب صدر انجمن احمدیہ کے عہدہ پر فائزہ رہے اور اس کام کو قابل رشک طریق پر نہایت عمدگی سے سمجھایا ؟ ہ میں آپ پر یونیہ کا حمل ہوا.پھر گردے کی تکلیف ہوگئی.درود فر موتیا بند کا اپریشن کرانا پڑا اور ماہ صلح بخوریم ہی میں میں انہوں کی تکلیف میں بھی منتقل ہو گئے جی سے علاج کے لئے مار ماہ اضاء راکتو بر سایر رش کو ولی تشریف لے گئے اور ہسپتال میں داخل ہو گئے.ہسپتال میں داخل ہونے سے لیکر وفات تک قریبا پندرہ ہیں دفعہ اپنے فرزند مرزا منور احمد صاحب د مجاہد تحریک جدید ، کو تاکید فرمائی کہ دیکھو مرنا جینا ہر ایک کے ساتھ ہے اگر میں مرجاؤں تو مجھے ہر گز یہاں امانتا دفن نہ کرنا بلکہ قادیان سے بیانا اور اگر خدا نخود بستہ لیجانے میں کوئی روک ہو یا با وجود کوشش کے کوئی انتظام نہ ہو سکے تو پھر حضرت صاحب سے پوچھو کہ اما نشاد فن کرنا.اور پھر لگے رہنا جب تک کہ مجھے قادیان نہ پہنچا دنیا " آخر خدا کی مشیت پوری ہو کر رہی اور ، در صلح تنبوری پیش کو آپ دہلی میںہی انتقال فرما گئے اسی جنوری : آپ نے دہلی روا نہ ہونے سے دو روز قبل اپنے ہا تھر سے مندر بعد ذلیل وہ بات لکھی تھی : و بسم اللہ الرحمن الرحیم تم ان نصلی علی رسولہ الکریم اشهد ان لا اله الا الله وحده لاشريك له واشهد ان محمداً عبدہ ورسولہ چونکہ میں اپریشن کیلئے وہی جارہا ہوں اور زندگی کا انحصار نہیں دیتے یہ یاداشت تحریر کرتا ہوں میں ایمان لاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آنحضرت ی الله علیه واله وسلم خاتمان نیاء میں اور حضرت مرزا غلام احمدی میشود ، مہدی مسعود نبی اللہ ہیں.اے الہ میری وفات ان کی غلامی میں ہو اور میں مقبرہ بہت تی میں دفن ہو بھائوں.یہی دل کی حیرت یہی آرزہر ہے.مرزا محمد شفیع 1 t
۵۳۴ کو آپ کی نعش قادیان پہنچائی گئی اور حضرت مصلح موعود نے بعد نمازہ جمعہ ایک بڑے مجمع کے نما تھ مدرسہ احمدیہ کے صحن میں جنازہ پڑھایا اور کندھا دیا اور آپ قلعہ خاص بہشتی مقبرہ میں سپرد خاک کر دیئے گئے.لے رہے چو ہد ری بدرالدین صاحب آف را ہوں ضلع جالندھر محلہ دار البرکات قادیان سابق مبلغ ساندھی ضلع آگره :- دبیوت و زیارت شنشله - وفات اور انان مارچ اللہ میں سے " چوہدری صاحب نے یکم دسمبر لہو کو اپنے حالات قلمبند کئے جن میں لکھا: یہ تھا کسانہ آریہ سماج کے زہریلے اثر سے پورے طور پر متاثر ہو چکا تھا.سنہ کے قریب حضرت مسیح موعود علیہ اسلام اور لیکھرام کے مباہلہ کے ذریعہ سے زندہ ہو کر شنہ تک احمدیہ لٹریچر کا مطالعہ کر کے بعیت میں داخل ہوا.حاضر ہو کر بیعت سے مشرف ہونے کے بعد حضرت مولو نور الدین صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ کے اور حضرت اقدس علیہ السلام کے خوش ہونے کا کونسا ذریعہ ہے کہ مولوی صاحب محمدوح نے فرما یا کہمیں تو دریعہ پوچھنے سے ہی خوش ہوگیا اور حضرت صاحب کو بار بار خط لکھنا ان کی خوشنودی کا ذریعہ ہے.اسلئے میں نے حضرت کے حضور بے شمار خود سکھے بعض وعہ ہفتہ میں چار پانچ خود تحر یہ کر تا تھا.میں نے یہ کام جب تک قادیان میں نہیں پہنچا حضرت اقدس علیہ السلام اور حضرت خلیفہ اول کے حضور برابر خط لکھنے کا جاری رکھا...میں سہ سے قادیان میں ہوں اب تک صدر را نجن کے مختلف شعبوں میں کام کرتا رہا ہوں اور اس وقت تیکم دیمیر تسمہ کو ساند ھین علاقہ آگرہ کا انچارج مبلغ ہوں" سے ۳- حضرت حافظ محمد الدین صاحب ساکن چہور مغلیان (چک ، متصل سانگلہ ہل ) :- دفات : - ۱۷ رماه احسان همش شه حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود نے حضرت حافظ صاحت کے بنا نہ غائب کے موقع پر فرمایا : - سطه به مرزا منور احمد صاحب مجاہد تحریک جدید نے اپنے والد ماجد کے مفصل حالات لکھے تھے جو انقضی ۲۰۰۲ رامان برای ارایش میں شائع شدہ ہیں اس سلسلہ میں متن اور بھاشیہ میں جو کچھ لکھا گیا ہے اسے اس مضمون کا ملخص سمجھنا چاہیئے.ه - حضرت مرزا محمد شفیع صاحب کی اولاد در امتہ الطیف صاحبه رم حضرت کار و ایمیل ها و اداره اماده ی ام مین میام (۲) مرزا محمد احمد صاحبت به ۱۳ مرزا احمد شفیع صاحب رشید) (م)، رشیده میگم صاحبه زدیم مرزا عزیز احمد صاحب آمنا چور - (۵) (۳) مرزا منو را حمد صاحب مبلغ امریکو مدل امتہ المجید صاحبه علی محمد اسمعیل صاحب بقا پوری کراچی - که اعضای ارمان ما رچ دارمش که روایات صحابه جلد اصلات العنا روایات صحابه بجلد ، مشت ۱۳ نرینہ اولاد : چوہدری علیاء اللہ صاحب - چوہدری قمر الدین صاحب.چوہدری جمال الدین صاحب شه الفضل ۲۰ ر احسان رحون ۲۳ کله مش صد به
۵۳۵ حافظ محم الدین صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پرانے صحابی تھے اور مخلص احمدی تھے.آپ کے داخل احدیت ہونے کی موجب پنجابی اشعار کی ایک کتاب " بیچے بیان تھی جس میں حضرت علی علیہ السلام کی وفات کا ذکر اتنے پر اثر رنگ میں کیا گیا تھا کہ آپ نے فوراً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر لی.آپ کے ذریعہ چک چہور میں ایک مخلص جماعت قائم ہوگئی آپ کے علم و تقویٰ کا غیر اصدیوں پر بھی بہت اثر تھا اور وہ آپ کا در درجه احترام کرتے تھے.حضرت حافظ صاحت بنے ہو اپریل نشہ کو وصیت کر دی تھی.آپ کا وصیت نمبر ۸۴ تھا.جو نہی حضرت خلیفہ اولی رضی اللہ عنہ کی وفات کی خیر چیک چہور میں پہنچی.آپ نے محض اپنی فراست و بصیرت کی بناء پر اپنے خدا کے حضور سید تا محمود کی بیعت کا اقرار کیا.اور اس وقت تک چین نہ آیا جب تک دوسری اطلاع نہیں مل گئی کہ جماعت نے حضور کو ہی خلیفہ چنا ہے.حضرت حافظ صاحب شہادت را پریل پر ہی میں عارضہ خاری میں مبتلا ہوئے.اور ، اراحسان جون میش کو سرسام بھی ہو گیا اور چند گھنٹوں میں خالق حقیقی سے جاملے اگلے روزہ آپ کے فرزند قریشی محمود احمد صاحب شام کی گاڑی سے نعش لاہور سے قادیانی لائے اور دوسرے دن صبح بہشتی مقبرہ میں آپ کی تدفین عمل میں آئی.ہے - ابو المنظور حضرت مولوی حاجی محمد دلپذیر صاحب بھیروی :- بیعت : قریبا شنگله وفات ۱۸ ر احسان جهان سایش ڈاکٹر منظور احمد صاحب بھیروی اپنے والد ماجد کی سوانح پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:.ور آپ کا نام والدین نے محمدامین رکھا تھا.بچپن میں جب آپ کر لیا پڑھا کرتے اور آپنے یہ شعر پڑھا ہے زبان تاکوو دکر وہاں جائے گیر : ثنائے محمد بود ولپ پیر تو اس وقت آپ نے ارادہ کیا کہ اگر مجھے بھی شعر کہنا آجائے تو میں اپنا تخلص دلپذیر رکھونگا چنانچہ ایسا ہی ہوا.آپ نے شعر و شاعری میں وہ کہاں حاصل کیا کہ پنجابی زبان میں آپ سے پہلے شعراء حالی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ لاہور.آپ ایک عرصہ تک قائد مجلس لاہور کے کامیاب فرائض انجام دیتے رہے ہیں " ه الفضل و رو فار جولائی یہ پیش صفحه ۶ : ۶۱۹۴۵ کے سنہ بیعت کی تعیین حضرت مولوی صاحد کے مندرجہ ذیل تحریری پیغام سے کی گئی ہے :.قادیان السلام علیکم درحمت اللہ و برکاتہ.میں الہ تعالی کے فضل سے عرصہ چالیس سال سے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوا ہوں اور حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے تمام دعا دی کی تصدیق کرتا ہوں اور آپ کو سچا مانتا ہوں آپ لوگوں کو بھی چاہیئے کہ مان لیں یہ دقت غنیمت ہے.نقطر دستخط محمد دلپذیر بھیروی مصنف کتاب گلزار یوسف و غیره - د مطبوعه الفضل ۱۹ فروری ۹۳ منا له الفضل در تبلیغ اش مث : ۹۴۶
العلم الله میں اتنا سیلیس اور اتنا دلچسپ رنگ کسی نے پیدا نہیں کیا.آپ کا نام پنجاب میں اتنا مشہور اور معروف ہے کہ بچہ بچہ جانتا ہے اور پنجاب کے لوگ یہاں جہاں بھی گئے آپ کی تصانیف بھی یہاں پر پہنچیں.چنانچہ عرب میں بھی جہاں اس زبان کو کوئی بھانتا تک نہیں جب آپ پہلی مرتبہ کی میں حج کعبہ سے مشرف ہونے کے لئے گئے تو جتنے دن وہاں رہے وہ پنجابی احباب جو خاص مکر میں سکونت قائم کر چکے تھے صبح و شام برابر دعوتیں کرتے رہے.انہوں نے صرف تصانیف کے ذریعہ کتا ہوا تھا کوئی ذاتی واقفیت نہ تھی.آپ نے اس سارے سفر اور حج کے احکام کو پنجابی ۱۳۵۳ نظم میں لکھا جو رہنمائے حج کے نام سے شائع ہو چکی ہے اور دوسری دفعہ اس مد میں صرف زیارت مدینہ کے لئے گئے کیونکہ پہلی دفعہ وہاں حاضر نہ ہو سکے تھے.اس سفر اور مدینہ طیبہ کے حالات کو جنہیں آپ نے گلزار مدینہ کے نام سے ایک کتاب منتظرم میں مفصل لکھا ہے.وہ بھی چھپ چکی ہے.آپ نے ایک سو سے اور پر کتا بیں نظم میں بھی ہیں اور آج تک کسی پنجابی شاعر کی استدار تصانیف ثابت نہیں.قریباً ستر سال آپ نے قلم چلایا.آپ کی جسقدر بھی تصانیف ہیں سب کی سب نہ ہی تعلیم کی کتابیں ہیں.مسلمانوں کی دنیا دی اور دینی بہبودی کو یہ تصنیف میں آ مد نظر رکھا.شرک اور بدعت کو ہر رنگ میں قوم سے دور کرنے کی کوشش کی ہے.آپ نے قرآن کریم کی آیات کی بناء پر خطبات جمعہ اور عیدین مرتب کر کے پنجابی نظم میں پہلی بار پیش کئے.اسے پہلے کسی نے نہیں کئے اور وہ خطبات اسقدر رائج ہوئے کہ میرانی طرفہ کے خطبے اب بالکل مفقود ہیں اور آپ کے ہی معطیات غیراحمدی علماء اکثر مساجد میں پڑھ کر سنایا کرتے ہیں..سارے قرآن کریم کی تفسیر بھی آپ نے پنجابی نظم میں لکھی ہے جو پنجاب کے بچے اور بچوں کے لئے نہایت مفید ہے اور یہ حضرت سیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کی روشنی میں کھیں گی ہے.آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ و السلام کے صحابہ میں سے تھے.حضور کی زندگی میں کئی کئی دن قادیان میں آکر رہا کرہ تھے.آپ پہلی دفعہ قادیان میں اس وقت آئے جب حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ جموں سے قادیان آگئے تھے.حضرت خلیفہ اول نہ آپ کی والدہ صاحبہ کے رضائی بھائی تھی.اور آپکے والد صاحب کے شاگردوں میں سےتھے.اماں یا قادیان میں صف اول می شد تعالی عنہ کو
ملنے کے لئے آئے اور بیعت کر کے واپس گئے.بعدمیں کئی بہانہ قادیان میں حضور کی زندگی میں آئے اور کئی کئی دن حضور کی صحبت میں رہے اور جلسہ سالانہ پر بھی ضرور اہتمام کے ساتھ حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ منصرہ العزیز کی ملاقات کرنے کے سوا واپس نہ جائے.آپ نے آخری وقت میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالی کی خدمت میں آخری سلام عرض کرنے کی وصیت فرمائی تو حضور کی خدمت میں پہنچا دیا گیا.آپ کا وعظ اور آپ کی تصانیف غیر احمدیوں میں بہت ہی مقبول ہوئیں.آپ ہمیشہ تصانیف و عظوں اور ملاقاتوں میں ایسے رنگ میں احمدیت کا ذکر کرتے کہ جسے لوگ شوق سے سن لیا کرتے ہیں ابوالمنظور حضرت مولوی محمد دلپذیر صاحب کا پیدا کردہ پنجابی لٹریچر :- معجزات محمدی - کامن النساء (اول - دوم) - خوان مینیما - گلزار محمدی - گلزار یوسف - شرح ته دیوان حافظ - کشف غطا - تفسیر پارہ عم - شرح کبریت احمر - درد دارد واهی - احوال الآخرت - نماز مترجم منظوم پنجابی سیٹی مسیح دی.اقبال مہدی - وفات نامه حضرت حافظ روشن علی صاحب.در بار مهدی - اسلامی شاری مه تر دید رسومات ختنہ - شہادت نامه شهید فی سبیل اللہ حضرت مولوی نعمت الله خانمی مبلغ احمدی - چند ڈی.نیزه احمدی دا دل - دوم ) - حق آوازه - فقیر دی صدار فریاد اسلام.ڈھنڈورہ احمدی - گلزار بھیرہ.خیال دلپذیر - گلزار مکه - رفعات دلپذیر - تفسیر تیم القرآن سے د تا در پادگا.مور کو سیدھے.-۵- حضرت مولانا عبد الماجد صاحب بھاگلپوری :- د ولدت بیعت شاد - وفات سر ظہور اگست ۲۳ کاری اے حضرت مود نا عبدالماجد صاحب نے مڈل اسکول پورینی (ضلع بھاگلپور سے شملہ میں مڈل در نیکلر کا ۱۹۴۶ ه الفضل در تبلیغ / فروری یه مش - مث به ه : ان سب کتابوں کا تذکرہ حضرت مولوی صاحہ نے اپنی کتاب سلیم احوال الآخرت کا پر فرمایا ہے ، احوال الآخرت کاس تصنیف شوال کلیه مطابق فردری.مارچ شہداء ہے اور اسے سے پہلے ملک ہیرات و کتب کشمیری با داری پور نے شائع کیا تھا.اس کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مولوی صاحب اس وقت تک سلسلہ احمدیہ میں داخل نہیں ہوئے تھے.گو انہوں نے اس میں کھلے لفظوں میں لکھا کہ چاند سورج گرہن کا نشان سے یا بعد میں آنحضرت کی پیشنگوئی کے عین مطابق پورا رمضان روکا ہے.امت طبع اول : کے -: رسالہ " واذا الصحف نشرت " ص ۲۰۲۲ عرقه را با مارکت ایران الفضل در انفاء / اکتور به بیش صلا:
۵۳۸ امتحان پاس کرکے گورنمنٹ سکالرشپ حاصل کیا.درس نظامیہ میں عربی تعلیم کی کمیل حضرت ہوا نا عبد العلی صاحب لکھنوی سے کی.بعد ازاں سلسلہ میں علامہ شبلی نعمانی کے ذریعہ جو مولانا صاحب کے زمانہ طالبعلمی کے دوست تھے.علی گڑھ کالج میں بعہدہ دین ( DEAN OF FACULTY ) مقرر ہوئے.شہر میں بھاگلپور کالج کے پروفیسر مقرنہ ہوئے.اور شہء میں دریا نہ ہو کہ اپنے وطن اوت موضع پورنیا میں مستقل رہائش اختیار کر لی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ظہور کی خبر آپ کو مولوی حسن علی صاحب بھیا گلپوری محمدن مشتری سے علی تھی.داخیل احمدیت ہونے کے بعد آپ کو مولوی محمدعلی کا پوری ثم مونگیری سے سخت مقابلہ کرنا پڑا.آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کئی کتابوں کا فارسی میں ترجمہ کیا.آپ کئی کتابوں کے مصنف تھے.جن میں مرة العربية القواعد اور القائے کہ پانی خاص طور پر قابل ذکر ہیں.موخر الذکر کتاب مولوی محمد علی صاحب کی کتاب فیصلہ آسمانی کے جواب میں ہے اور ایک بیش قیمت تصنیف اور قابل قدر چیز ہے.حضرت مولوی صاحب کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ حضرت خلیفہ اسی الثانی نے آپ کی دختر نیک اختر سارہ گیم صاحبہ کو اپریل شام میں اپنی زوجیت کا شرف بخشائیہ -۶- حضرت ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب پیشم محمد العلوم قادیان - وو او مرکو روندی و ضلع گوردا مور روفات : ۲۰ ماه تبوک استمبر حضرت ڈاکٹر صاحب احمدیت یعنی تحقیقی اسلام کی جیتی جاگتی تصویر اور بہترین نمونہ تھے.اپنی شکل و شباہت.اخلاق عادات ، غریب پروری اور غیروں سے حسن سلوک کی وجہ سے آپ کی پوری زندگی مجسم تبلیغ تھی.کیپٹن کے عہدہ پر جمتانہ ہونے کے باوجود آپ کا لباس با لکل سادہ تھا ، سر پر کپڑی ، مباکوٹ ، سیدھا پاجامہ اور پاؤں میں دیسی ہوتی.ایک بار مکیریابی ضلع ہوشیار پور میں تبلیغ کے لئے گئے تو مخالفین نے آپ پر گند پھینکا اور بہت زود کوب کیا." جب آئے تو ڈاکٹرملک ممتاز احمد خانصاح نے افسوس کا اظہار کیا فرمانے لگے.ایہہ ماراں نے گالیاں کیتھوں کے یعنی یہ ماریں اور گالیاں کہاں.حالانکہ تکلیف سخت تھی اور ماتھے اور آنکھ کی چوٹیں سامنے نظر آرہی تھیں بیہ حضرت شاہ صاحب کمیل پور میں بھی کیپٹن کے اعلی عہدہ پر ماند ہے.یہاں بھی آپ کو محض احدیت کے باعث اذیتیں دی گئیں.مگر آپ نے احمدیت کا ایسا عمدہ نمونہ دکھا یا کہ لوگ آپ کے گرویدہ ہو گئے.آپ نے جا معافیہ شهر شعبہ کا سر براه : ۱۹ - افضل ۲۳۰ را خار از اکتو بر سایر مش من ( ملخصاً الله مضمون محمد احسان الحق صاحب + ۱۹۲۵ء آن پورینی ضلع بھاگلپور : : - الفضل اور تبوک استمبر همایش ها کالم ۲ ه و تفضی به تبلیغ مرفروری سایه میشن مست :
۵۳۹ ر کسی دن کسی کو دن رات جو میں گھنٹوں میں کی اجازت دے رکھی تھی کہ جس وقت بھی ضرورت پڑے آجائیں.آپ کے اخلاق کا یہ عالم تھا کہ اگر کوئی چوہڑا بھی آپ کے پاس حاضر ہوا تو اس کوبھی آپ کہاکہ نہایت پیاری اور محبت سے ریہ آواز سے مخاطب فرماتے تھے.انمیں احد یہ کیل پور ہسپتال سے تین میل کے فاصلہ پر تھی اور پھر رستہ خراب کا مگر آپ صبح ، عصرا اور شام کی نماز کے لئے پا پیادہ بلاناغہ تشریف لے جاتے.اور ہر قابل اعداد کی امداد اس کو علم دیئے بغیر لگا تار کرتے رہتے تھے.کبھی اونچی نظر اٹھا کر نہ دیکھتے.غربا ء سے اُن کا حسن سلوک انتہائی عمدہ تھا.میں یور کی احمد یہ جماعت ان کو فرشتہ شاہ صاحب کے نام سے یاد کیا کرتی تھی.آپ کی آمد سے کیل پور کی جماعت میں پھر سے زندگی کے نمایاں آثار پیدا ہو گئے.ملے حضرت میاں خدا بخش صاحب گوندل نمبردار موضع کوٹ مومن ضلع سرگودھا :- روفات یا فتح دسمبر له مش ) علاقہ کریانہ بار کے اولین صحابہ میں سے تھے اور حافظ قرآن تھے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام اور حضرت خلیفہ مسیح انسانی کی کتابوں خصوصا آپ کی تفسیر کبیر کے مطالعہ کا خاص التزام فرما تھے اور رات کا بیشتر حصہ نوافل کی ادائیگی اور تلاوت کلام الہی میں نیبر ہوتا تھا.آپ موصی بھی تھے اور احمدیت اور نظام خلافت سے والہانہ محبت رکھتے تھے.حضرت مصلح موعود نے وقف بجا ئیداد کی تحریک فرمائی تو آپ نے حضور کی خدمت میں لکھا :- " میرے مکرم و مرشد سید نا حضرت امیر ام حماد LA دیر کا نہ حضور کے غلام نے آپ کا خطبہ جمعہ مورخہ ۱۰ ربیع الاول کا کل مورد ے کو پڑھا.آپ کا اعلان خدا تعالیٰ کے دین کے لئے جائیدادیں وقف کرنے کی تحریک پڑھکر دل کو اس قدر خوشی ہوئی کہ اللہ ستائے ہی جانتا ہے.میری جائیداد قریب قریب اس وقت بوجہ جنگ کے دوں گھر کی ہے (۲۰۰۰۰ روپیہ) میں خدا کے دین کی اشاعت کے لئے بسم اللہ کرکے وقف کرتا ہوں.یہ جائیداد کیا چیز ہے میرا ائر بھی اس کام کے لئے حاضر ہے....تابعدار میاں خدا بخش نمبر دار کوٹ مومن تحصیل بھلوالی ضلع شاہ پور سرگودھا " ا صلح جنوری کو پیش کو آپ نے اپنی زندگی زمیں سے ایک کنال رقبہ صدر بھی احدیہ کے نام پیٹریا کرا دیا ۶۱۹۳۵ اور اس میں مسجد محمدیہ کی تعمیرشروع کی اگر در به سجده با تکمیل تک پہنچی ادھر ایسی کا جادا گیا.اپنی زندگی کے آخری ه الفضل ا ر خا راکتوری کالم ۳ دلم به
دن جمعہ کی نمازادا کر کے دوستوں کو تاکید کی کہ سالانہ جلسہ کے بابرکت ایام قریب آرہے ہیں.چندہ جلسہ عباد سے جلد اد کر دیا جائے نیز مجھ سے بھی جلد وصول کر لیا جائے.یہ چندہ آپ کی وفات کے بعد آپ کے صاحبزادہ میاں گل محمد صاحب بی.اسے دو اماد میاں محمد شریف صاحب ریٹائر ڈائی.اسے سی نے ادا کر دیا.اے حضرت سیٹھ شیخ حسن صاحب یا دیگر ضلع گلبرگه حیدر آباد دکن :- (ولادت ) + (بعیت قریبا شله : (وفات ، اما هفت در این بنا مدنی نور حضرت سیٹھ صاحب حضرت مولوی میرمحمد سعید صاحب حیدرآبادی کے ذریعہ داخل احمدیت ہوئے.قبول حق سے قبل پنجوقتہ نمازہ کے بھی عادی نہ تھے مگر احمدی ہونے کے بعد آپ میں ایسانہ برتو رمانی انقلاب پیدا ہو گیا کہ بقول مورخ احمدیت حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی آپ زمرہ ابدان میں شامل ہو گئے.زمانہ حضرت سیح موعود علیہ السلام میں آپ کو تین بار زیارت قادیان کی سعادت نصیب ہوئی.اور حضرت اقدس کی پاک محبت سے فیض اٹھانے کا موقعہ ملا.آپ کا معمول مہا لہک تھا کہ آپ حضرت مسیح موعود کے زمانہ سے کثرت سے غیر احمدیوں کو اپنے اخراجات پر قادیان سے جایا کرتے تھے.علاوہ ازیں آپ نے تھوڑے ہی عرصہ بعد یکے بعد دیگرے دینی تعلیم کے لئے قادیان کو طلباء کے دستے بھیجنے شروع کر دیئے اور ان کے ہرقسم کے اخراجات کی ذمہ داری خود قبول فرمائی اور اس سلسلہ میں پہلے طالعلم عبدالکریم صاحب ولد عبد الرحمن صاحب یا دگیر تھے جو حضرت مسیح موعود کے معجزہ شفایابی کے زندہ نشان بنے اسی طرح مولوی محمد اسمعیل صاحب مولوی فاضل یاد گیر بھی اسی زمرہ میں شامل تھے جو پوری عمر خدمت سلسلہ کے لئے وقت رہے.نیز سیٹھ معین الدین صاحب چیستہ کنٹر بھی ! حضرت عرفانی نے تعبیات جس میں ان ام طلبہ کی فہرست دی ہے جینکو حضرت سیٹھ صاحب نے قادیان میں تعلیم دلوائی نیز تحریر فرمایا ہے.کہ سلسلہ کی تاریخ میں یہ سنہری الفاظ میں لکھا جائیگا اور اس کی کوئی نظیر سلسلہ کی تاریخ میں نہیں ملتی.کہ ایک شخص واحد نے وقت واحدمیں قریبا پچاس طالبعلموں کے تمام اخراجات کی ذمہ داری سے کہ ان کو دینی تعلیم کے لئے بھجوایا ہو.حضرت خلیفہ السیح الثانی المصلح الموعود کو حضرت سیٹھ حسن کے جذبات ایشیا نہ وسلسلہ کے لئے قربانی اور فدائیت کا اس قدر یقین تھا کہ حضور سلسلہ کی اہم مالی ضروریات کے لئے بہ نفس نفیس آپ کو مخاطب فرماتے اور اپنے قلم ۱۳۲۵ له - الفضل در صلح را جوری باهاش مث - الفضل درماه صلح رمجبوری له میشی مثه الفضل ۲۶ ماه فتح رد سمبر ۳۳ مش هست : ۱۱۹۴۵
سے خود سکھتے تھے.جناب ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے نے اصحاب احد جلد اول میں حضور کے متعدد اہم مکتوبات کا چہرہ بہ دیا ہے.آپ کو تبلیغ سالار کا بے پناہ جوش اور شوق تھا.آپ نے 11 سے یاد گیر میں سالانہ جلسوں کی بنیاد رکھی.پہلا جلسہ آپ نے اپنے کارخانہ چاند مارک بیٹری واقعہ محلہ دستگیر پیٹھ میں کیا.جلسوں کا یہ سلسلہ اور با تک نہایت کامیابی سے جاری ہے.ان جلسوں کی ایک ہماری خصوصیت یہ ہے کہ اس میں بعض اخص صحا بہ بھی شرکت ذرا پچکے ہیں جن میں کبھی کے نام یہ ہیں:.حضرت مولانا سید عمر سر دور شاہ صاحب ، حضرت حافظ روشن علی صاحب ، حضرت ڈاکٹر مفتی به سادة صاحب - حضرت شیخ یعقوب کلام صاحب نورانی - حضرت شیخ محمد یوسف صاحب مدیر نور - حضرت مولانا عبد الرنيم اب نیر حضرت مولوی عبد افرقیم مصاحب کشتی و غیره حضرت سیٹھ صاحب ان سالانہ مجلسوں کو اپنے لئے اور اپنے خاندان.کے لئے یوم عید سمجھتے تھے.چنانچہ ارشاد فرماتے.مومن کی عید ہی ہے کہ وہ خدا کے پیغام کو پہنچائے.یہی اس کی خوشی کا دن ہے.آپ نے سلسلہ کی اشاعت اور عوام میں مذہبی اور ملی مذاق پیدا کر نے کے لئے یاد گیر کئے بازار میں ایک شاندار احدیہ ابر بہری بھی قائم کی.احمدیہ لیکچر بان اور احمدیہ مہمان خانہ تعمیر کرایا.بادگیر در چنته گاته میں مساجد بنوائیں تبلیغ سلسلہ کے لئے آپ نے ایک انتظام یہ بھی فرما یا کہ 19 مقامات پر اپنے کارخانہ کی شاخیں قائم کیں اور کا انسانوں کے انتظام اہتمام کے لئے سب ملزم احمدی مقدر کے تاکہ وہ اپنے تعلقہ اثر میں اس کی تبلیغ کریں.چنانچہ اسکی نتیجہ میں بعض دیگر نئی جماعتیں بھی قائم ہوئیں جن میں چنتہ گفتہ ضلع جو نگر کی کی جماعت بھی ہے.جو بجائے خود ایک مرکزی حیثیت رکھتی ہے.اور شکر اضلع محبوب نگر که نول ، مصوبه ما بر اس کی تمام جماعتیں آپکی تبلیغ سے قائم ہوئیں.سیٹھ مین مراتب نیت کرنا آپ برادر نسبتی با اور حضرت سیٹھ محمد عفونت صاحب ( آپ کے چھر سے بھائی ، آپ ہی کے اثر سے شاہی حدیت ہوئے.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خلفائے احمدین ).ارسال کی تالیفات نوری یا تقسیم کردیتے تھے اور مرکزی اخبارات کی امانت کے لئے ہمیشہ آمادہ رہتے.دینی کتب کے مصنفین کی حوصلہ افزائی نیا تے سینکڑوں قرآن شریف اور دوسری دینی کتابیں غریبوںاور ناداروں میں صفت تقسیم کیں.ضرت سیٹھ صاحب عمہ بپھر مسلہ احمدیہ کی ہر تحریک میں نہایت کشادہ دلی اور انشراح صدر کے ساتھ نمایاں اور سرگرم حصہ لیتے رہے.مئی بار میں اپنی جائیداد کے دسویں حصہ کی وصیت فرمائی.نیز مجاہدین تحریک تجدید میں بھی شامل ہوئے اور اس مالی جہاد میں قریبا چار ہزار ایک سو چھیاسی روپے پیش کئے.اس کے علاوہ اپنے
مند بعد ذیل مرکزی تقریبات کے لئے بھی چندہ دیا.مسجد نور، دار الصفا - تحریک تراجم قرآن و پا نیز درد پیدا کرد نور ہسپتال درپانچ سو روپیہ) مینارہ اسیح ( ایک سوروپیہ) - مزیلہ بہ گی آپ نے مقامی طور پر سلسلہ احمدیہ اور مفاد عامہ کے لئے بے دریغ اخراجات کئے.جن سب کی مجموعی رقم حضرت عرفانی صداح کے تخمینہ کے مطابق سو لا کھر تہ بیس ہزار تک جا پہنچتی ہے.حضرت سیٹھ صاحب کو ایک بہانہ تجارت میں لاکھوں روپے کا شدید نقصان ہوا.مگر آپ نے اس مالی ابتلاء میں بے نظیر صبر و استقلال کا نمونہ دکھایا.اللہتعالیٰ نے آپ کو بشارت دی کہ آپ فوت نہیں ہونگے جب تک آپ کی تجارت پہلے جیسی نہیں ہو جائے گی.چنانچہ آپ نے اپنی وفات سے پہلے یہ آسمانی مہارت پوری ہوتی دیکھ لیں.حضرت سیٹھ ص حب ورماه اما در اکتو به لام پیش کو اپنی زوجہ محترمہ رسول بی بی صاحبہ اور اپنے داماد مولوی ۴۵ محمد اسمعیل صاحب فاضل وکیل کے ہمراہ سفر حج پر تشریف لے گئے.مرکز اسلام مکہ معظمہ دوام اللہ برکا تہا، میں آپکا قیام ریاد حسین بی میں تھا.ایک مہینہ سے زائد مکہ مکرمہ میں رہے اور حج بیت اللہ سے مشرف ہوئے.قیام مکہ کے دوران اپنے داماد مولوی محمد میں صاحب فاضل وکیل سے فرمایا ” اس مقام کے آدمی تو آدمی ہیں.جانور بھی پیارے لگتے ہیں.کیونکہ یہ ہمارے رسول کی تخت گاہ میں بسنے والے جانور ہیں اگر ہو سکے تو ہمیں یہاں کے چھوٹے بڑے جانور ایک ایک ہندوستان لے جانے چاہئیں.ابھی آپ مکہ معظمہ میں ہی فروکش تھے کہ بخار میں مبتلا ہو گئے.اور نقاہت بھی بہت ہو گئی.اسی حالت میں مدینہ منورہ کا سفرکیا.اور مسجد نبوی کے قریب رتباط افضل الدولہ میں قیم ہوئے.یہاں پہنچہ آپ کی ہماری تشویشناک صورت اختیار کرگئی.بیماری کے دوران فرمایا کہ میں حضرت ر سول الله صل اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیر یا جمعہ کو جاؤں گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا آپ مدینہ النبی میں پہنچنے کے تیرھویں دن مورخه ۱۲ محرم شده و مطابق ، در دسمبر شاهداء بروز پیر انتقال فرما گئے.اور جنت البقیع ۱۹۴۵ء دارویم میں حضرات اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہ کے پیچھے اور سید نا حضرت عثمان بن کے مزار مبارک کے قریب دفن کئے گئے.اس طرح سید نا حضرت مسیح موعود کا ایک جلیل القدر صحابی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں میں پہنچ گیا.حضرت سیٹھ شیخ حسن صاحب بر صغیر کے پہلے صحابی ہیں جنہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جسمانی قریب کا یہ اعزاز نصیب ہوا.ذالك فضل الله يوتيه من يشاء والله ذو الفضل العظيم - حضرت سیٹھ صاحب مستجاب الدعوات ، شب بیدار ۲ در صاحب کشف ورد یا و بزرگ تھے ، سادگی اور ہے.حضرت میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ عنہ نے اپنے منظوم سفر نامہ مطبوعہ اور میں یا دگیر پہنچنے اور سیٹھ صاحب کے چندہ دینے کا خاص طور پر ذکر فرمایا ہے :
۵۴۲ انکساری میں یکتائے روزگا را در جرات و غیرت میں نابغہ الدھر.آپ کی زندگی غرباء پروری اور خدمت خلق کا ایک مثالی نمونہ تھی اور آپ اکثر اوقات صدقات و خیرات مخفی طور پر دینے کے عادی تھی.ہمیشہ یہی فرماتے کہ یہ میری دولت نہیں بلکہ یہ خدا کے فضلوں کی دولت ہے یہ اسی کی ہے اور اسی کے بندوں پر خرچ ہونی چاہیئے.حضرت سیٹھ صاحب کی وفات ایک عظیم قومی المیہ تھا جس کو جماعت احمدیہ کے افراد ہی نے محسوس نہیں کیا.بلکہ غیر احدی اور غیرمسلم طبقوں نے بھی اس پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا اوراس بلند پایہ شخصیت کو نه بر دست خراج تحسین ادا کیا.آن ، سے -.حضرت حاجی میاں محمد موسی صاحب نبیلہ گنہ لا ہور - دولادت شده با دبیعت ته وفات ۳۲ ۲ ماه فتح دسمبر سال پیش ) - ۲ و حضرت حاجی صاحب اپنے قبول احمدیت کے حالات میں لکھتے ہیں:.بیعت کرنے سے چھ سات ماہ پہلے میں قادیان گیا اس وقت میرے رشتہ داروں نے وہاں پر جانے کی سخت مخالفت کی تھی اور مجھ سے وعدہ لیا تھا کہ میں وہاں پر جا کہ مرزا صاحب کے گھر سے کوئی کھانا نہ کھاؤں اور نہ ہی بیعت کروں...قادیان میں جا کر میں حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سے ملا اور حضور علیہ السلام کی ملاقات بھی ہوئی اور حضور سے مصافحہ کیا اور کچھ باتیں بھی کیں جواب زیادہ زمانہ گذر جانے کی وجہ سے باد نہیں رہیں تین نمازیں بھی حضور کے ہمراہ مولی عبدالکریم صاحب کی اقتدا میں پڑھیں مجھ پر اس وقت آپ کی صداقت کا بہت اثر ہوا گو میں نے اپنے رشتہ داروں سے وعدہ کرنے کی وجہ سے بیعت نہ کی......چھ سات ماہ کے بعد میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں لکھا کہ عام لوگوں کے لئے آپ کی صداقت کا معلوم کرنا.اس سلسلہ میں سیٹھ محمد اعظم صاحب حیدر آبادی کا بیان کردہ ایک واقعہ بلک صلاح الدین صاحب ایم اے نے اصحاب احمد بجلد اول صفحه ۲۲۳ پر لکھا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے.:- حضرت سیٹھ صاحب کی نرینہ اولاد سیٹھ مد عبد الحی صاحب (مرحوم)، سیٹھ مجد الیاس صاحب امیر جماعت احمدیہ یا دگیر با را : حضرت سیٹھ صاحب کے مفصل حالات کے لئے ملاحظہ ہو (ا) حیات حسن (مولفہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ) مطبوعہ اسلامی پرایسیس با نداره نور الامرا رحیدر آباد دکن یوم النحر و مطابق ستمبر الشهداء - (۲) اصحاب احمد جلدا (مؤلفه ملک صلاح الدين نورالامرا صاحب ایم.ا سے مطبوعہ شاہ مطبع گیلانی کا ہو نہ ہے سے : " تاریخ احدیث لاہور صفحہ ۲۹۶ - مرتبہ حضرت شیخ عبد القادر صاحب - مطبوعہ ضروری تله مجھے : الفضل ۲۵ ماه فتح دسمبر لا اله اش صفحه ۲ کالم :
م ام من بہت مشکل ہے آپ کم کھا کر تحریر فرما دیں کہ آپ دہی پیج موارد یں جن کی دنیا کو انتظام ہے.اس پر بھنور نے اس لفافہ کی پشت پر تحریر فرمایا کہ میں دہی سیح میشود ہوں جن کا وعدہ آنحضرت صلعم نے فرمایا ہے.لعنت اللہ علی الکا بین انسان مرزا غلام احمد تیم خود به خواب یہاں پہنچاتو مجھے مانی مجوب ناظم مد ر نے آواز دیکر کہا کہ آپ کا خط آ گیا ہے میں وہ خط لیکر اندر گیا اور اپنے ابر و خیال کو مان سان کہدیا کہ میں اب بیعت کرنے لگا ہوں.اگر کسی کو عذر ہو تو وہ اس وقت بیان کر دیے.یا وہ علیحدہ ہو اسے چنا پیر میر کیا کہ فی اور چون نے سنجے اس وقت ہویت منظور کرنی اور میں نے سب کی طرف سے بندھا لکھ دیا.میری والدہ تھا ابہ زندہ موجود تھیں مگروہ اس وقت لاہورمیں نہاتی انہوں نے پھر چندین بعیت کی اسکی بعد میں قریبا ایک ہفتہ کے بعد قادیان گیا.اس موقعہ پر میں وہاں پر چند روز ٹھہرا اور حضور علیہ السلام کی دستی بیعت بھی کیا ہے حضرت حاجی صاحب ابتداء ہی میں نظام الویت می شام ہو گئے تھے اور جیسا کہ آپ کا بیان ہے آپ کی وصیت کا پیس نمبر تھا مگر چونکہ پل کا چندہ دیر سے بھیجا گیا تھا اسے دو نمبر پر آپ کا نام سکھا گیا.ایک بار حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کی دکان واقع نیو گنبد پر بھی تشریف لائے حضور کچھ دیر کھڑا اہنے کے بعد ایک که می پردکان سے باہر رونق افروز ہوئے اور پانی نوش فرمایا.اس موقع پر حضرت حاجی ماہر نے حضور کی خدمت میں ایک پونڈ بھی پیش کیا جیسے تصور نے دو ایک دفعہ عذر کرنے کے بعد قبول فرما لیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ پر بہت شفقت فرماتے تھے.ایک بار آپ لاہور سے قادیان گئے اور اپنے ہمراہ بستر نہ لے جا سکے.حضرت حافظ معان علی مرامیہ کے ذریعہ سے تصور کو طوری پہنچی تو صورت اپنی رونمائی انکو بھجوا دی.حضرت سیدہ نواب سادہ کہ بیگم صاحبہ کی تقریب نکاح پر حضرت مسیح موجود سے لاہور سے جن مخلصین کو بلایا ان میں آپ بھی شامل تھے.ایک بار حضرت اقدس نے اپنے ایک کمرہ کا تعمیر کی نگرانی کا فریضہ بھی آپ کے سپرد فرمایا.آپ کو کئی دفعہ حضور کے دانے کی سعادت بھی نصیب ہوئی.ہے حضرت حاجی صاحب کی زندگی کا ایک خاصی واقعہ یہ بھی ہے کہ آپ نے 19ء سے لیکر ۵ در تک کوشش کی کہ قادیان میں ریل بھاری ہو جائے.اس کوشش میں آپکے قریبا بارہ تیرہ ہزار روپیہ صرف ہوا.آپ نے اس غرض کیلئے دندوٹ کالری کی دین کی نیلامی پر بولی دی جو بارہ میل کی دائی تھی.ایسا ہی ایک دفعہ آگرہ کی طرف بھی بولی میں شامل ہوئے اور : روایات صحابہ جلد ۱ صفحه ۸۰ د غیر مطبو عمان : " روایات صحابہ " جلد اصفحہ ۱۱ تا ۱۵ (غیر مطبوعہ) حضرت حاجی صاحب کی یہ خود نوشت روایات حضرت شیخ عبد القادر صاب نے تاریخ احمدیت امور عده تا مال میں بھی شائع فرما دی ہیں ؟ i i |
۵۴۵ اسکی بعد ڈپٹی کمتر گورداسپور اور ڈسٹرکٹ بورڈ کے پاس بھی بارہ دفعہ پہنچے اور اس دکن کے لئے سوال اٹھایا.بلکہ ایک انجنیر ساتھ لے کر سری کو بند پور تک سروے بھی کیا اور باقاعدہ نقشہ تیار کروا دیا.ایک تجویز یہ بھی کی کہ ایک کمپنی بھاری ہو جب سے حصہ دار ہوں اور وہ اس ریلوے کو بھاری کر دیں آخر جب اس قسم کی درخواست ریو سے بورڈ میں دی گئی تو جواب ملا که بهہ منصوبہ خود ہمارے زیر تجویہ ہے اور اس کا نمبر ، مقرر کر دیا گیا ہے.اس پر آپ نے ذاتی جدوجہد ترکی کردی.کیونکہ آپ کا مقصد کسی منافع کا لکھانا نہیں تھا بلکہ سریل میاندی کرانا تھا.چنانچہ تین سال کے بعد قادیان میں ریل جاری ہوگئی.چنانچہ جب امرتسر سے قادیان کی جانب پہلی گاڑی چھلنے لگی تو اس وقت حضرت خلیفتہ اہسیح الثانی نے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ آج تمہاری کوشش کامیاب ہو گئی.نہ حضرت حاجی صاحب نے تحریک جدید کی مانی قربانی میں بھی حصہ لیا.چنانچہ تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین کی فہرست کے صفحہ ۲۴۲ پر آپ کے چندہ کی تفصیل درج ہے.۲ ۱۰ حضرت حافظ نور محمد صاحب آف فیض اللہ پاک : - د ولادت شاشه داندانه ) : (بیعت ۲۱ ستمبر شمله : (وفات ۲۰ ماه فتح رودسمبر میشه حضرت حافظ صاحب سلسلہ احمدیہ کے دور اول کے بہت ممتاز بزرگوں میں تھے.آپ کو شراء سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہونے اور برکت حاصل کرنے کا فخر حاصل تھا.حضرت مسیح موعود علیہ اسلام نے آپ کا نام آئینہ کمالات اسلام" کی فہرست میں 4 انمبر پہ اور ضمیمہ انجام اعظم کی فہرست میں 6 نمبر پر درج فرمایا ہے.اسی طرح حضور کے اشتہارات مورخه ۳ ۱۲ فرورتی ده ماریچ شملہ میں بھی آپ کا ذکر ملتا ہے کے ۵ ستمبر ۴ 10 ہ کو آپ ۲۷۷ نمبر پر وصیت کر کے نظام الوصیت سے وابستہ ہوئے.فیض اللہ چک اور اس کے نواحی دیہات میں اشاعت احدیت کیلئے آپ نے قابل قدر خدمات انجام دیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ پر بہت شفقت فرماتے یہاں تک کہ ایک بار آپ کے گاؤں فیض اللہ پاک میں بھی تشریف لے گئے.حضرت خلیفہ اول کی دفات پر جماعت فیض اللہ چک کے اکثر احباب کو ابال آگیا مگر حضرت حافظ صاحہ نے فورا محضرت خلیفہ المسیح الثانی کی بیعت کر لی.اور پھر دوسروں کو تبلیغ کرتے رہے.آخر خدا کے فضل سے دوسرے اکثر احباب بھی خلافت ثانیہ کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے.حضرت مصلح موعود کے مبارک وجود سے آپ کو بہت عقیدت تھی.حتی اگر مرض الموت کے ایام میں بھی : روایات صحا بہ جلد ا ا صفحه ۱۲ = :- حضرت حاجی صاحب کی نرینہ اولاد.میاں عبد المجید صابر صحابی ، میاں عبد الماجد ے.حاجی اور صاحب رحابی با میانی محمد احمد صاحب - میاں محمد کیشی صاحب نے میاں مبارک مردم احب " تاریخ احمدیت لاہور ۳ تبلیغ رسالت جلد هفتم من ۳ ۳۳ و }
سب ہوش آتا تو اپنے بیٹے جناب شیخ رحمت اله صاحب اگر سابق اسسٹنٹ ایڈیٹر افضل، سے دریافت فرماتے کہ حضور کی طبیعت کیسی ہے اور اپنی شدید تکلیف کے دوران بھی تصور کی صحت کے لئے دعائیں کر تے رہے.ایک ایسے عرصہ سے تمام دنیاوی مشاغل ترک کر کے اپنی زندگی تعلیم القرآن کے لئے وقف کر دی تھی.نمازی فجر کے بعد سے لیکر عشاء کی نماز کے بعد تک مختلف لوگوں کو قرآن مجید مع ترجمعہ و تفسیر پڑھاتے بونود نہ آسکتے خود اُن کے گھر پر تشریف لے جاتے اور اس کے لئے کسی معاوضہ کے نواہاں نہ تھے لیے مندرجہ بالا مشہور صحابہ کے علاوہ حسب ذیل صحابہ نے بھی اس سال وفات پائی : تہ (1) با بومحمد رشید صاحب دنیا کوڈ ماسٹر - وفات ۳ ماه صلح / جنوری به بیش (۲) میاں محمد وارث ۶۱۹۴۱ صاحب متوطن بھڑی شاہ رحمان ضلع گوبر اخواله ربیعیت و زیارت نہ کی ہجرت انداز را راء - وفات ۸ ماه صلح رنجوری در سال پیش میقام قادیان (۳) میاں غلام محمد صاحب خادم مسجد احمدیه باله تاریخ وفات ۱۳ راه صلح جنوری - (۴) - میان روشن دین صاحب دار ارحمت قادیان دبیعت و زیارت راه ۱۹۴ دفات ، تبلیغ فروری یه مش شاه (۵) میاں عبدالرحیم صاحب سابق با در چی سنگر خانه قا دیان وفات ام ار امان ۲۰ به مارش (۲) علیم ہدایت اللہ صاحب محلہ دارالعلوم قادریان روفات ۳۰ ماه شهادت اپریل شده ۶۱۹۴۶ ۶۱۹۴۵ (4) ملک امیر بخش صاحب لاہور (وفات یکم احسان بون ش عمر ماشال) - (۸) سید عبد العزیز شاه صاب امید آپ کا سنوردان روفات اور ظہور اگست میش (۹) چوہدری محرابراہیم صاحب ساکن گوہر پور ضلع سیالکوٹ.ریعت ساده وفات مهرماه نبوت رنو برای امام را در تعلیم الاسلام برای سلول پیشتر محله دارالفضل قادیان بعمر ۸۲ سال قریبا روفات ۲۰ فتح رد سمی له ش له له الفضل صلح جنوری اش مث - حضرت حافظ صاحب نے اپنے پیچھے دو بیٹے یاد گار چھوڑے دا شیخ عبد اللہ صاحب جوش کے فسادات میں شہید کر دیئے گئے.(۲) شیخ رحمت اللہ صاحب شا کہ آپ کی عادت نہ میں ہوئی شہر میں مستقل طور پر قادیان آئے اور ادارہ الفضل سے منسلک ہو کہ ایک لیے موجہ تک مسلسل احمدیہ کی علی اور انتظامی خدمات بجالاتے رہے اور مشکل میں ملازمت سے سبکدوش ہوئے.حضرت خلیفة المسیح الثانی اصلح الموعود کے متحد و خطبات و ملفوظات اور تقاریر آپکی کوشش سے سلسلہ کے لٹریچر میں محفوظ ہوئیں.مجلس مشاورت کی روند ادوں کے قلمبند کر نے میں بھی آپ حصہ لیتے رہے.نیشنل لیگ کا زیادہ کے سرگرم ہمہران میں سے تھے مسلم نوجوانوں کے سنہری کا رائے اور سرفروشان اسلام آپکی مشہور تالیفات ہیں.اقل الذکر کتا ہے ایسا تک تین ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں جن میں سے ایک انجمن ترقی اسلام حیدرآباد دکن نے بچھایا ہے.تفصیل کیلئے لا خطہ ہوا اصحاب احمد جلد ۳ ۳۳ تا ۲۲۵ موبقہ جناب ملک مل ارجح الدین صاحب ایم.اسے ) - افضل اور صلح جنوری اور میش مل سکے : روایات صحابہ چندہ مال که الفضل اصلیح جنوری کا درویش صدا کالم ۲ يفضل دار صلح و نوری ۳۲ بیش صدا : ۵۶:- جلد ه م م میں آپکے خود نوشت حالات درج ہیں یہ کے بعض دور تبلیغ فروش ها کالم سه : يفضل هر رامان زما سره اش را کالم : 1 - الفصل ۲ ماه بحرت ارمنی سی سایر رش صبا کالم : پیام ه به اتصال به احسان دادن ریش صلا کالم : : : : بفضل ارتیک ستمبر الالش هم کالم ۲ : له الفضل در ماه نبوت اور تومیر ساله اش صدا کالم به می ما نه
۶۱۹۲۵ فصل پنجم دیش کے متفرق مگر اہم واقعت ۱ - حضرت سیدنا المصلح الموعود نے ۳۰ رامان فر ما دریچ نماندان حضرت یح موعودہ میں خوشی کی تقاریب مایا ہے ان کو دہ جیسے میں میدان میں صاجزادہ مرزا نام ۶۱۹ خلیل احمد صاحب - صاجزادہ مرزا حفیظ احمد صاحب ، صاجزادی انتہ الحکیم صاحبہ اور صاحبزادی امتہ البانی صاحبہ کے نکاروں کا اعلان فرمایا جو بالترتیب صاحبزادی امتہ انجیر صاحبه دنبت قمران بنیاد حضرت مرزا بشیر احمد ماتب، هستیده تور آتنا مصاحبه دبیت سید عبدالسلام صاحب سیالکوٹ، سید داود مظفر صاحب را بن حضرت سید محمود اله شاہ صاحب ہیڈ ماسٹر علیم الاسلام ہائی سکول ، در سید دارد احمد صاحب این حضرت میر محمد اسحق صاحب کیساتھ ایک ایک ہزار روپیہ مہر کے عوض پڑھے گئے.اس تقریب پر حضور پر نور نے ایک نہایت لطیف خطبہ ارشاد فرمایا جس میں فرما یا :- ا نکاح انسانی زندگی کا سب سے اہم کام ہے.یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی الہ علیہ وآلہ وسلم نے نکاح کے بارے میں استخارہ کرنے.غور و فکر سے کام لینے اور جذبات کی پیروی کرنے سے روکنے کی تعلیم دی ہے.اور آپ نے فرمایا ہے کہ نکاح ایسے رنگ میں ہونے چاہیں کہ نیک اور قربانی کرنے والی اولاد پیدا ہو.خطبہ نکاح کے آخر میں فرمایا : - " میں آج جن چند نکاحوں کا اعلان کرنے لگا ہوں ان میں سے چھار میر سے اپنے بچوں کے نکاح ہیں.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس قول کو پورا کرنے کے لئے کہ غموں کا ایک دن اور چارشادی نَسُحَانَ الَّذِي خَزَى الأَعَادِي یہ چار نکاح اکٹھے رکھتے ہیں.یہ چار نکاح خلیل احمد حفیظ احمد ، امتہ الحکیم اور امتہ المباسط کے ہیں.ه الفصل ۳۱ رامان / مارچ به کش ها به
م الله ان میں سے تین کی والدہ فوت ہو چکی ہیں اللہ تعالی کے اختیار میں ہے اور اس کے قبضہ میں ہے کہ اس نے سب طرح ہمیں غموں کا ایک دن اور چار شادیاں دکھائی ہیں وہ ان کی روحوں کو بھی خوشی اور مسرور کر دے.میں نے اپنے بچوں کے نکاحوں میں کبھی بھی اس بات کو مد نظر نہیں رکھا کہ ان کے نکاح آسودہ حال اور مالدارہ لوگوں میں کئے جائیں.اور میں نے ہمیشہ جماعت کے لوگوں کو بھی یہی نصیحت کی ہے مگر جماعت کے لوگ اس بات کی طرف چلے جاتے ہیں کہ انہیں ایسے رشتے میں جو زیادہ کھاتے پیتے اور آسودہ سمال ہوں ہمیں ایسے رشتے ملے ہیں مگر ہم نے ان کو رد کر دیا.تاکہ مہارا جو معیار ہے وہ قائم رہے....میں نے اپنے بچوں کی عمروں کی ترتیب کے لحاظ سے نام لئے ہیں اسی ترتیب کے لحاظ میں نکالوں کا اعلان کرنا چاہتا ہوں " سے میجر مرزا اور احمد صاحب در این حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے ہاں ار ماہ ادا اکتوبر میش که صاحبزادی امتہ الناصر کی ولادت ہوئی.تے نوابزادہ میاں عباس احمد خان صاحب کا نکاح گذشتہ سال ۲۹ ماه فتح / دسمبر اللہ ہی کو پڑھا گیا تھا.+ اس سال ۱۵ ماه فتح دسمبر سیر میش کو آپ کی تقریب شادی عمل میں آئی جس میں صحابہ سیح موعود خصوصیت سے مدعو تھے.فریاد کی بھی ایک خاصی تعداد نے شرکت کی.مہمانوں کی تواضع کرنے میں حضرت مسیح موعود اور حضرت نواب محمد علی خالصہ سب کے خاندان کے صاحبزادگان بھی شامل تھے.کے المناک حادثہ ماد تبوک استمر ا پیش کو صاحبزادی تارسی بیگم صاحبه نیست مرزا رشید احمد صاحب ) دیا اے کنڈا اور ڈلہوزی کے درمیان ایک حادثہ میں اپنے مولا کو پیاری ہو گئیں اور اگلے روز حضرت سیح موعود کے زمانہ کی چار دیواری میں دفن کی گئیں.مرحومہ کی عمر میں سال کے قریب تھی انہایت کم گو سنجیدہ مزاج تھیں.فوت ہونے سے پہلے اسی جو آخری نمانداد کی اس میں رقت کے ساتھ دعائیں کرتی رہی ہے.حضرت مرزا بشیر احمد صباح نے ان کے حادثہ انتقال پر ایک مفصل مضمون قم فرمایا جو لفض دا ر ا ا د راکتور راہ میں میں شائع ہوا.ضلعوار نظام کے اولین امام امور نظام کے قیام کا یہ پھلے سال میں میں کیاگیاتھا اسلام حضرت فیصلہ سید نا المصلح الموعود نے آٹھ اضلاع میں حسب ذیل امراء کا تقرر فرما دیا : - خان بهادر بود هری سمت خانی صاحب ریٹائرڈ حسیشن بھی بیگم پور سٹروعہ د ضلع ہوشیار پور ، ه الفضل در اپیل داد تا کالم سوم : : الفضل دراما در اکتوبر را صدا کالم سه الفضل در ماه اش مت آن: العشق ۲۵ ، تبوک مرسته ترک استمر ه ش ها
۵۴۹.۲ پودھری فضل احمد صاحب اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ انسپکٹر آف سکولز سرگودھا.(ضلع سرگودھا)..پیر اکبر علی صاحب نیروز پور (ضلع فیروز پور ) - - چوہدری عبدالمجید صاحب آفت را ہوں.(ضلع جالندھر) - -۵- ملک عبدالرحمن صاحب خادم بی.اے.ایل ایل بی وکیل گجرات - (ضلع گجرات).خان بہادر نواب چوہدری محمدالدین صاحب ریٹائرڈ ڈپٹی کمشنر - ضلع سیالکوٹ ).میر محمد بخش صاحب وکیل گوجرانوالہ - ( ضلع گوجرانواله ) - شیخ فضل الرحمن صاحب اختر ملتان - د ضلع ملتان ہے.ضلعوار نظام کے یہ اولین امراء تھے جن سے اس نہایت مقید نظام کی ابتداء کی گئی.ان امراء نے اس تجربہ کو کا میاب بنانے کے لئے ایسی پر خلوص جد وجہد فرمائی کہ اسکے عمدہ اثرات کو دیکھ کر آہستہ آہستہ بہت سی جماعتوں نے بھی اسے اپنا لیا.اس سال پنجاب حج کمیٹی نے اپنے نمبروں میں جماعت احمدیہ قادیان کے نمائندہ نجاب حج کمیٹی میں امی میرا ایک کی شمالی پوپ کو دعوت حق د:- کی حیثیت سے خانصاحب مولوی فریز ند علی صاحب کو بھی شامل کیا ہے مولوی عبد القادر صاحب دانش دہلوی نے جو اٹلی میں سینگی خدمات کے سلسلہ میں مقیم تھے اس سال کے شروع میں پوپ سے ملاقات کی اور انہیں حضرت مسیح کی آمد ثانی کی اطلاع دی بیکا الفضل ۱۳ صلح ر جنوری مش مت کالم له الفضل و تبلیغ فروری سه مش منا کالم : " 4 الفضل ۳ تبلیغ له پیش صدا - مولوی عبد القادر صاحب دہلوی اس ملاقات کی تفصیل میں رقمطرانہ میں کہ : سید نا حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی کی تحریک پر لبیک کہتے ہوئے پچاسوں نوجوان باہر جا چکے تھے.باعزت روزگا بر میسر آنے کی وجہ سے دو مانی جہاد میں بھی حصہ لے رہے تھے.اور اسلام واحمدیت کی تبلیغ کے مواقع بھی میسر آئے تھے.میں نے اد میں مولوی فاضل پاس کیا.اور اسی نظریہ کے تحت رائل انڈین آرمی سروس کور کے محکمہ سپلائی میں بھرتی ہو گیا.اور جلد ہی مصر بولا گیا.اور قاہرہ، اسکندریہ بروق بن غاندی - ٹریپولی - سفیکس - ٹیونس - فلسطین - لبنان - شام یونان اور املی کے مالک میں جانے کا اتفاق ہوا.اور سب ملکوں میں اسلام و احدیت کا پیغام پہنچنے کی توفیق علی اٹلی پہنچ کر خیال آیا کہ پوپ کو بھی اسلام کی دعوت اور مسیح کی آمد ثانی کی خبر دینی چاہیئے.۲۲۵ ا ء میں اٹلی میں قیام رہا.اس وقت دنیائے عیسائیت کے مذہبی رہنما پاپاستے روم پیٹس دوازدہم کار ڈینیل میسلی پوپ کے عہدہ پر فائز تھے.پوپ کا شہر ویٹیکن بہت خوبصورت علاقہ ہے.اس میں بہت سے مشہور گیا ہے اور مقدس یادگاریں قائم ہیں.پوپ کا محل سات ہزارہ کروں پرمشتمل ہے اور اس میں ایک وسیع و عریض نہایت شاندار نال ہے.اس کے ساتھ ہی سینٹ بال کا عظیم استان چرچ ہے.جو اپنی زیبائش اور حضرت مسیح کی دیو قامت تصاویر اور ان کے حواریوں کے حالات و تاریخی واقعات تصویری زبان میں دیواروں پر نقش ہونے کے لحاظ
حضر مصلح موعود کا اظہار خوشنودی - پیرکوٹ حضرت مصلح موعود نے دانت دے رکھی تھی کہ ایسی جماعتوں میں جہاں بیعت کی رو پیدا ہو جائے مرکز سے مبلغ بھجوایا جائے و رنگ ٹونے میں کامیان بینی جدوجہد پر.جو جماعت کے تعاون سے وہاں تبلیغ کرے.اس ارشاد کی تعمیل میں نظارت دعوت و تبلیغ قادیان نے مولوی سید احد علی صاحب کو پیر کوٹ اور مانگٹ اونچے ضلع گوجرانوالہ) کی جماعتوں میں بھیجوایا.شاہ صاحب وہاں تقریباً چودہ روز رہے اور ان کی زیر قیادت دونوں جماعتوں نے متحدہ طور پر اپنے غیر احمدی رشتہ داروں اور اردگرد کے دیہات میں مستعدی سے تبلیغ کی جس کے نتیجہ میں بفضل اللہ 14 ائی بقیه حاشیه : سے بے مثال ہے.اس زمانہ میں پوپ سوموار کو ہال میں اگر لوگوں کو خطاب کرتے اور پھر انہیں برکت دیتے ہوئے واپس محل میں پہلے جاتے تھے.میں بھی سوموار کے دن ہال میں چلا گیا.جہاں ہزاروں لوگ پوپ کی آمد کا انتظار کرتے ہوئے پائے گئے.نہایت خاموشی کا عالم تھا.ہال میں بادشاہوں بھیسارعب اور ہیبت کا سماں تھا.سب لوگ بڑے ادب اور سلیقہ سے دیواروں کے قریب صف آراستہ تھے.اور ہال کا درمیانہ حصہ خالی چھوڑا ہوا تھا.کہ کیا دیکھتا ہوں کہ بال کے ایک کونہ سے با در دی نوجوان ایک تخت اٹھائے ہوئے آر ہے ہیں جس پر پوپ بیٹھے ہوتے ہیں.تخت کے دائیں بائیں اور آگے گارڈ آنت آنری کے نوجوان مارچ کر رہے تھے.ہاں کے عین وسط میں تخت فرش پر رکھا گیا.اور شریعت لئے ہوئے پادری دائیں بائیں اور بیچ میں پوپ پچھلنے شروع ہوئے اور آگے پہنچ کہ پوپ کرسی نشین ہو گئے.پھر انہوں نے مائیک پر امن عالم کے متعلق تقریر کی.اور پھر ہما کے بعد پادریوں کے جھرمٹ میں پوپ صف آراستہ زائرین کے ساتھ ہو کر گزرتے جارہے تھے.لوگ صرف ان کے ہاتھ کو چھو دیتے تھے اور اکثر لوگ نظریں نیچی کرے کھڑے ہوئے تھے.پوپ کے جلال و مصیبت کی وجہ سے اس کی طرف دیکھ بھی نہ سکتے تھے.جب پوپ لوگوں کے ساتھ سے گذرتے ہوئے پوپ میر سے قریب پہنچے تو میں نے اپنے دونوں ہا تھوں میں پوپ کا ہا تھ لے لیا.اور ان کا ہا تھ اپنے ہا تھوں میں رہے ہوئے ان کو مخاطب کر کے انگریزی میں جو تقریبہ کی اس کا ملخص یہ ہے.کہ السلام کچاند بہت ہے.یہی انسانیت کا نجات دہندہ ہے میں آپکو اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتا ہوں.مسیح نے اپنی دوبارہ آمد کا بود عدہ کیا تھا.میں آپ کو خوشخبری دیتا ہوں.کہ اس کے مطابق وہ قادیان پنجاب انڈیامیں مبعوث ہو چکے ہیں.انہوں نے مسیح موعود ہونے کا دعوی کیا ہے.اور ریکی ان کو ماننے والوں میں 02- سے ہوں.میں آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ اسلام قبول کریں مسیح موعود پر ایمان لائیں نجات پائیں گے.پوپ بڑے اطمینان سے کھڑے رہے اور توجہ سے میری تقریر سنتے رہے.جب میں تقریر ختم کر چکا تو پوپ نے پوچھا کہ کس ملک کے رہنے والے ہو.میں نے بتایا کہ ہندوستان کا رہنے والا ہوں.پوپ نے کہا کہ مجھے بڑی خوشی ہوئی ہے پھر میں نے ان کا ہا تھ چھوڑ دیا.اور وہ دوسر سے نہائرین کی طرف بڑھ گئے.جوب میں ہال سے با ہر آیا تو امریکہ اور برطانیہ کے بہت سے لوگ میرے گرد جمع ہو گئے اور کہنے لگے کہ اپنی جرات کہ پورپ سے باتیں کیں.ہم تو ان کے جلال کی وجہ سے آنکھ اُٹھا کہ بھی نہیں دیکھ سکتے.میں نے ان لوگوں کو بھی تبلیغ کی.ادیان سے شیری رنگ اکرامریکی اور برطانوی اور دوسرے یورین مالک کے باشندوں میں تقسیم کرتا تھا
۵۵۱ بیعتیں ہوئیں جس پر حضور نے خوشنودی کا اظہار فرمایا.ے تبوک اشمیری کا وقت ہے کہ انا علی محمدعلی جناح صدر آل انڈیا کا ایک سے کوئٹہ میں ایک احمدی وفد نے ملاقات کی.یہ وفد امیر جماعت احمدیہ کو تشد قائد اعظم محمد علی جناح سے ۳ احمدیہ وفد کی ملاقت.وفد مولوی ابو العظام صاحب ، مونانا غنام احمد صاحب فرخ ، حافظ قدرت اللہ صاحب ، مرزا محمد صادق صاحب اور عطاء الرحمن صاحب ظاہر پرمشتمل تھا.قائد اعظم مسکراہٹ اور خندہ پیشانی سے قریبا ہ منٹ تک بے تکلفانہ گفتگو فرماتے رہے.گفتگو کا زیادہ حصہ نئے انتخابات اور سلم لیگ کی مساعی سے متعلق تھا.دوران گفتگو باعت احمدیہ کا تذکرہ بھی ہوا.ہے مسجد محمدیہ سرینگر کے نزدیک سنیما ہال کی حکومت کشمیر نے مسجد احمدیہ سری نگر کے ساتھ ایک سنیما ہال اجازت کے خلاف جلسہ سالانہ پر احتجاج کی تعمیر کی منظوری دیدی تھی.سالانہ جلسہ د ہش پر ملک عبد الرحمن صاحب تقادم بی.اے.ایل ایل.بی پلیڈر نے ایک ریزولیوشن پیش کیا جس میں حکومت کے اس فیصلہ پر پر زور صدائے احتجاج کیا گیا تھا.یہ ریزولیوشن باتفاق رائے پاس ہوا الله بیرونی مشنوں کے ہم و وقتی می جات حدید وانام گولڈ کوسٹ کی جنرل کا نفرنس ایسی ام Essian مقام پر منعقد کی گئی جو بہت کامیاب رہی.کانفرنس کے دوران میں ایسی ام کی احمد یہ مسجد کا افتتاح بھی عمل میں آیا ی مسجد گولڈ کوسٹ کی پہلی تمام احمد یہ مساجد میں بلحاظ وسعت سب سے بڑی تھی.ہے فلسطین شن : جماعت احمدیہ فلسطین کو اس سال ایک نہایت افسوسناک حادثہ سے دو چار ہونا پڑا.یعنی اس کی ایک نہایت مخلص کی الشیخ سلیم الربانی در ماه تبلیغ فروری اہم پیش رو داغ مفارقت دیگئے.مرحوم حیفا کے نزدیک ایطرہ کے رہنے والے تھے.یہ گاؤں احمدیت کی مخالفت میں مشہور ترین گاؤں تھا.ہے :.نمایاں کام کرنے والے مقامی احمدیوں کے نام.حکیم محمد اسمعیل صاحب پریزیڈنٹ جماعت احمدیہ پیر کوٹ عبدالرحمن صاحب سیکر ٹری تبلیغ پر کوٹ.چوہدری جہان خان صاحب امیر تباعت احمدیہ مانگٹ اونچے.چوہدری حیات محمد صاحب نائب امیر مانگٹ اُونچے.(الفضل ۱۴ر شہادت اپریل یہ پیش ما - کالم ( ) : ه - الفضل در امضاء / اکتو به ما در این صورت کالم کے.الفضل اور فتح دسمبر شصت کالم : مش ) : ه - الفضل در هجرت رمئی ه مش عده : رش - ۱۳۲۴ 1970
۵۵۲ الشیخ ربانی نے مولانا جلال الدین صاحب شمش کے وقت میں قبولی احمدیت کی اور آخر تنگ نہایت اخلاص اور وفاداری کر عہد بعیت پر قائم رہے.بہت جفاکش اور محنتی نوجوان تھے.تقوی پر ہیز گاری اور سلسلہ کے لئے غیرت میں اپنی مثال آپ تھے.لوگ انہیں ولی اللہ سمجھتے تھے اور فی الواقعہ آپ ایک خدا رسیدہ انسان تھے.مولانا ابو العطاء صاحب ۶۱۹۴۵ سابق مبتغ فلسطین نے اُن کے انتقال پر افضل کی سورامان زمان یہ پیش کی اشاعت میں ایک مضمون لکھا جس میں بتایا.کہ مجھے فلسطین میں تقریبا با تم برس رہنے کا موقعہ ملا ہے اس عرصہ میں احدیث کی اشاعت اور تبلیغ میں حیس رنگ کا تعاون شیخ سلیم ایرانی مرحوم نے پیش کیا وہ کبھی بھلایا نہیں جا سکتا.جب یہاں پر مدرسہ احمدیہ قائم کے میں نے اُن سے کہا کہ آپ اس مدرسہ میں پڑھانے کی خدمت سرانجام دیں تو انہوں اسے بلا چون و چرا منظور کیا جان نکر مالی طور پر بھی انہیں اس میں خسارہ تھا.سیدنا حضرت امیرالمومنین خليفة لمسیح الثانی ایده ال تعالى نصره العزيز سے مرحوم کو عشق تھا اور آپ کی ہر تحریک پر لبیک کہنا سعادت سمجھتے تھے.سلسلہ کے مبلغین سے انہیں للہ تعالٰی کے لئے محبت تھی اور مقدور بھر ان کی خدمت کرتے تھے.بسا اوقات ایسا اتفاق ہوا کہ میں کسی جگہ جانے لگا ہوں تو وہ اپنا کام کاج چھوڑ کر بھی ساتھ ہو لیتے تھے اور اکثر کہتے تھے کہ مولوی صاحب آپ ان علاقوں میں اکیلے سفر نہ کریں.کیونکہ آپ یہاں کے لوگوں کو نہیں جانتے.خ سلیم الربانی مرحوم جماعت کے کاموں میں چندہ دینے میں سبقت لے جانے والے مخلصین میں سے ایک تھے.انہوں نے ہر جماعتی تحریک میں حصہ لیا اور اپنی وسعت سے بڑھکر حصہ لیا.بلکہ بعض دفعہ تو مجھے اصرار سے انہیں کم چندہ دینے کے لئے کہنا پڑتا تھا ان کی زندگی متوکل نہ زندگی تھی.الہ تائی کا سلوک بھی ان کے ساتھ ایسا ہی تھا جیسا کہ اپنے پیارے بندوں کے ساتھ ہوا کرتا ہے.سلسلے کے لئے ہاتھ سے کام کرنے میں وہ لذت محسوس کرتے تھے مسجد محمود کیا تیر کی تعمیر میں پورے شوق سے کام کر نیوالوں میں سے ایک تھے تبلیغ کا بہت جوش تھا اور عملاً وہ اپنی زندگی تبلیغ کے لئے وقف رکھتے تھے.متعدد آدمی ان کی تبلیغ سے احمدیت میں داخل ہوئے ارد گرد کے دیہات میں بھی تبلیغ کے لئے جاتے تھے اور جب لوگ گالیاں دیتے اور مارتے تو اس میں خوشی محسوس کرتے تھے.قادریان آنے کا شوق کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا.علم دین کے سیکھنے کیلئے پوری جدوجہد کرتے تھے.دن کو کام کرنے کے بعد رات کو قرآن شریف اور دوسری دینی کتا بیں پڑھتے تھے اور اردو سیکھنے کا بھی پورا اشوق تھا بلکہ میرے ذریعہ سے اردو کی پہلی کتاب منگوا کر پڑھی تھی ان کا خیال تھا کہ میں اتنی اردو زبان آنی
DOY ضروری ہے جیسے ہم خود افضل کا مطالعہ کر سکیں.مرحوم کے پانچ بچے ہیں تین لڑکیاں اور دو لڑکے.چند ماہ گزر سے انہوں نے سیدنا امیرالمونین ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں لکھا کہ میں اپنے بڑے لڑکے کی زندگی وقت کرتا ہوں اور جنگ کے خاتمہ پر یا جب بھی سہولت بہتا ہوا سے تعلیم دین کے لئے ہندوستان بھیجنا چاہتا ہوں.ان کا ارادہ تھا کہ بچے کی تعلیم کے جملہ اخراجات خود برداشت کریں میں جانتا ہوں کہ ان کی مالی حالت ایسی بھی نہ تھی مگر یہ ان کا اخلاص تھا جب کسی ما تخت وہ ہر قربانی کرنے کے لئے تیار ہوتے تھے.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نصر العزنیہ نے اس وقف کو منظور فرماتے ہوئے لکھوایا تھا.کہ بیشک بچے کو تعلیم کے لئے قادیان بھیج دیں.شیخ سلیم الربانی مخالفین میں بھی عزت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے.ان کے گاؤں کے لوگ عقائد میں احمدیت کے دشمن تھے.مگر ایشیخ سلیم الربانی کی عزت کرتے تھے.کیونکہ وہ تقوی شما را در پابند شریعت نو بتوان تھے.مرحوم ایک وجہ شکل رکھتے تھے.ان کی شکل اور داڑھی بالکل اس شکل کے مشابہ تھی جو عیسائیوں کی طرف سے حضرت سیخ ناصری علیہ السلام کی شائع کی گئی ہے.اور ہمارہ سے احمدی دوست بطور لطیفہ یہ بات ان کے سامنے ذکر کیا کہ تھے تھے.مرحوم کی عمر ۲۵ برس کے قریب ہوگی.مرحوم ذاتی طور پر بھی بہت وفادار دوست تھے.اپنے ساتھیوں کی خاطر تکلیف برداشت کرنا انہیں خوش گوار معلوم ہوتا تھا.اور فروری کو بعاد عنہ مو نیا بیمار ہوئے.اور ۱۴ار فروری کو اپنے مول حقیقی سے جاملے.مرحوم بہت کی اعلیٰ خوبیوں کے مالک تھے اور ان کا وجود فلسطین میں جماعت احمدیہ کے لئے بہت با برکت وجود تھا بے ۶۱۹۴۵ لندن شن : - ۱۱ ۱۲ شهادت را پریل د مش کو چودھری محمد ظفر اش خانصاحب اور مولانا جلال الدین صا شمتی امام مسجد لنڈن نے کنگ زارع شاہ البانیہ سے ملاقات کی مختلف امور پر ڈیڑھ گھنٹے کے قریب گفتگو ہوئی جس کے دوران احمدیت کا ذکر بھی آیا.شاہ نے بعض سوالات کئے جن کے جوابات چودھری صاحد نے دیئے.لے مولانا جلال الدین صاحب شمسی امام مسجد لنڈن نے پچھلے سال ہانڈ پارک میں بعض اہم مذہبی مسائل پر پادری گرین سے متعدد مناظرے کئے تھے جو سامعین کے لئے دلچسپی اور معلومات میں اضافہ کا موجب ہوتے اور پادری صاحب کو اپنی شکست تسلیم کر نا پڑی.مسٹر گرین سے مباحثات کا یہ اہم سلسلہ ہر مہیش میں دوبارہ جاری کیا گیا.چنا نچہ پہلا مباحثہ ۲۰ ماہ شہادت / اپریل کو کیا انا جمیل الہامی ہیں کے موضوع پر ہوا.مسٹر گرین مولانا شمس کے سوالوں کا کوئی بھی معقول جواب نہ دے سکے.ہم رماہ ہجرت رستی کو مسئلہ طلاق اور رحم پر گفتگو ہوئی میں میں ان کو الفضل ۳ رامان / مارچ ۱۹ - الفضل ، در شهادت / اپریل یه اش ست کالم ۲ چه $1980
۵۵۴ کوئی جواب نہ بن پڑا.11 ماہ ہجرت رمئی کا موضوع یہ تھا کہ کیا قرآن مجید الہامی کتاب ہے " مولانا شمس نے قرآن مجید سے اسکی الہامی ہونے کا دعوئی اور دلائل پیش کئے.اور اپنے دعوئی کے ثبوت میں اس کا بے نظیر ہونا مخالفوں کا مثل لانے میں عاجز رہنا وغیرہ بطور دلیل بیان کیا.مسٹر گرین کسی دلیل کو توڑ نہ سکے.البتہ انہوں نے قرآن مجید میں تناقض ثابت کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ قرآن نے ایک جگہ مسیح کو مصلوب کہا ہے اور دوسری جگہ اسکی انکار کیا ہے.اس پر مولانا شمس نے پھیلنج کیا مگروہ آخر وقت تک مسیح کے صلیب پر فوت ہو جانے کا کوئی قرآنی حوالہ پیش نہ کر سکے.۱۸ ماہ ہجرت اسی کو " کیا عہد نامہ جدید الہامی ہے " کے موضوع پر بحث ہوئی سونا نامی صاحہ نے پیشگوئیوں کے معیار کی رو سے ثابت کیا.کہ موجودہ انا بیل ہرگز الہامی نہیں ہیں.اس سلسلہ میں آپنے اس کی پیشگوئیوں میں تضاد کی متعدد مثالیں پیش کیں جن کا اقرار سٹرین کو بھی کرنا یا سرما جرت مٹی کو قرآن مجید کے الہامی ہونیکا مسئلہ زیر بحث آیا مولانا شمسی صاحب نے قرآن مجید کی متعدد ایسی پیش گوئیاں بائیں جو اس کی صداقت پر ناقابل تردید نشان ہیں.مسٹر گرین ان پیشگوئیوں کے خلاف تو کچھ نہ کہ سکے.البتہ کہا کہ قرآن مجید میں لکھا ہے کہ پہلے انبیاء کی کتابوں پر ایمان لاؤ جس کا مبلغ اسلام نے تفصیل سے جواب دیا.۱۵ ماہ احسان یون کو موضوع بحث بعث بعد الموت " تھا.دونوں مناظرین نے اپنے اپنے مذہب کا نقطہ نگاہ پیش کیا مگر حاضرین میں سے بعض نے یہ رائے دی کہ اسلامی زاویہ نظر معقول ہے.۲۹ ماه احسان ربون کو پھر اسی موضوع پر تبادلہ خیالات ہوا.ایک امریکن سپاہی نے مولا نا شتی صاحب کی تقریر سنکر کہا.آپ نے جو کچھ بیان کیا ہے میں بھی یہی مانتا ہوں.لیکن 19 مسٹر گرین کا نظریہ کفارہ ایک لغو خیال ہے.سامعین میں سے بعض احمدیہ مسجد فضل میں مزید تحقیق کیلئے آئے جنہیں مطالعہ کے لئے لٹریچر دیا گیا.لے ۶ مسٹر ماده دار جوں کی کو ستر گرین سے حضرت مسیح کی صلیبی موت پر مباحثہ ہوا.میں نا شتی صاحب نے ان سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے دعوی کے ثبوت میں کسی مسلمان کا حوالہ پیش کریں کہ اتنی مسیح کے صیب پر مرنے کو تسلیم کیا ہوا انہوں - نے بھارج سیل کی تفسیر پرمعنی شروع کی مگر اسکی بھی یہ قول نقل کیا تھا کہ بعض مسلمان اس کی طبعی موت کے قائل ہیں اور یہ کہ مرنے کے بعد وہ اٹھایا گیا.اس پر انہیں اتنا شرمندہ ہونا پڑا کہ پلیٹ فارم سے اتر کر نیچے بیٹھ گئے.ار و فار جولائی کو موضوع یہ تھا کہ حضرت مسیح واقعہ صلیب کے بعد کہاں گئے ؟ مولانا شمس صاحب نے اس سلسلہ میں تاریخی حقائق سے حضرت مسیح کے یروشلم سے دمشق آئے اور وہاں سے نصیبی اور ایران کے رستے سرینگر تک الفضل دار نبوک استمبر لا الله مش من :
۵۵۵ پہنچنا ثابت کیا، جن کا کوئی معقول جواب مسٹر گرین سے نہ بن پڑا.، ہ ر و فار جوں ٹی کو مسٹر گرین نے حضرت مسیح کے مردوں سے جی اٹھنے کے متعلق اپنا موقف پیش کیا میں پڑھوں نا شمسی صاحب نے انا جھیل دکھا دکھا کر ان کی غلطی پبلک پر ایسی واضح کر دی کہ آئندہ انہوں نے مباحثہ کا سلسلہ بند کر دیاہے مگر میں ناشتن صاحب بدر منور ہا ئیڈ پارک میں تشریف سے بھاتے اور اسلام کی آوانہ بلند کرتے رہے.دار نبوت اومبر میں کومولانا جلال الدین صاحب مشن کی ہائیڈ پارک میں یہودیوں سے لاجواب گفتگو ہوئی یہودی نمائندوں نے فلسطین میں داخل ہونے کے متعلق اپنا مذ ہی حقی ثابت کرنے کی کوشش کی.لیکن مجاہد اسلام نے اُن کے دلائل کو ایسی عمدگی اور خوبی کے ساتھ رد کیا.کہ یہودی اپنا سا منہ لے کر رہ گئے اور اُس مجلس میں مسبق مسلمان اور عرب موجود تھے وہ نہایت ہی خوش ہوئے.اس واقعہ کی تفصیل حضرت مولوی صاحب موصوف کے قلم سے درج ذیل کی جاتی ہے.آپ تحریر فرماتے ہیں :." اس روز یہودی بہت سے جمع ہو گئے اور انہوں نے فلسطین کے متعلق سوالات شروع کر دیئے.یں نے کہا ہر عقلمند ہی کہے گا کہ باشندگان فلسطین کاحق ہے کہ وہ وہاں حکومت کریں غیر اقوام کا یہی نہیں کہ وہ ان کی خلاف مرضی یہودیوں کو وہاں بسائیں.ایک یہودی نے کہا کہ ہمارا حق ہے کیونکہ با تکمیل میں خدا نے ابراہام سے یہ وعدہ کیا تھا کہ یں تجھ کو اور تیرے بعدتیری نسل کو ستان کا تمام ملک جس میں تو پردیسی ہے ایسا دونگا کہ وہ دائمی ملکیت ہو جائے.میں نے کہا یہ درست ہے لیکن ابراہیم علیہ السلام کی نسل تو حضرت اسمجھیں علیہ السلام بھی تھے جیسا کہ پیدائش ہی سے ظاہر ہے.جب یہود صحیح راستہ سے دور جا پڑے اور حضرت میری کو نہ ماناتو ان کے ذریعہ خداتعالی نے پیشگونی کرا دی کہ اب یہود سے آسمانی بادشاہت چھین لی جائے گی اور دوسری قوم کو دی جائے گی اور وہ بنی اسمعیل ہیں جو عرب ہیں.پس پیشگوئی کے مطابق ارض کنعان مسلمان عربوں کے قبضہ میں رہی.ایک یہودی نے کہا جب مسیح کے بعد یہود سے یہ زمین سے لی گئی تو مسلمانوں کے قبضہ میں کب آئی ؟ وہ تو رومیوں کے پاس چلی گئی.میں نے کہا حضرت ابراہیم سے کنعان کی زمین کے دینے کا جو وعدہ خدا نے کیا تھا وہ کب پورا ہوا.وہ اس وعدہ کے تقریبا پانچ چھ سو سال بعد جھا کہ پورا ہوا تھا.جب یہود کو بادشاہت ملی.اس طرح حجب اُن سے فلسطین کا ملک دوسروں کے قبضے میں چلا گیا اور حضرت ابراہیم کی دوسری نسل کو ملنے کا فیصلہ العقل ۱۲ را خا ر اکتو به ر مین صحت کالم ۳-۴ :
۵۵۶ ہوا تو وہ بھی چھ سو سال کے عرصہ کے بعد ملا.ایک نے کہا یہ ملک ہمارا تھا ہم اس میں ایک ہزار سائی تک رہے.میں نے کہا اسے یہود کا حق ثابت نہیں ہو جاتا.جو حوالہ تم نے پیش کیا ہے اسی سے ظاہر ہے کہ حضرت ابرا ہیم کستان کی زمین میں پردیسی تھے.وہ بابل کے علاقہ سے آئے تھے اور جس رنگ میں یہودیوں نے فلسطین پر قبضہ کیا تھا یا تکمیل کی رو سے انہوں نے دوسروں کی تباہی کے وہی طریق اختیار کئے تھے جو اس جنگ میں جرمنوں نے کئے.اگر اس طرح کسی ملک پر قبضہ کرنے سے وہ ملک حملہ آوروں کا ہو سکتا ہے تو پھر مسلمہ بھی حق دار بن سکتا تھا.غرضیکہ اس روز یہودی سخت ناراض دکھائی دیتے تھے جو مسلمان حاضر تھے جن میں سے بعض عرب بھی تھے وہ بہت خوش ہوئے کے لیے م.مولانا جلال الدین صاحب شمس نے سال نو کے تحفہ کے طور پر ۲۰ رفتم دسمبر پر پیش کو ہر بیجسٹی کنگ جارج ششم کی خدمت میں ایک تبلیغی خامعہ احمدیہ لٹریچر ارسال کیا جس کے جواب میں انہوں نے شکر یہ ادا کیا مگر چونکہ انگلستان میں مروجہ قانون کے مطابق بادشاہ صرف وہی کتاب قبول کرتا ہے جو موقف کی طرف سے پیش کی گئی ہو اسلئے انہوں نے صرف مولانا شمس صاحب کی تالیف "اسلام" رکھی اور دوسرے مصنفین کی کتب ۱۹ جنوری ۹۶ کو شکریہ کے خط کے ساتھ واپس بھجوا دیں لیے لیگوس مشن : لیگوس کی احد یہ مسجد کے امام سلیمان ۱۹ ماہ ہجرت اسی سیر میش کو ے ے برس کی عمر میں انتقال فرما گئے.آپ سلسلہ میں حضرت مولانا عبدالرحیم صاب نیر کی تبلیغ سے شامل سلسلہ ہوئے تھے.ساری عمر نہایت درجہ مستقل مزاجی سے مرکز احدیت اور خلیفہ وقت کے ساتھ وابستہ رہے اور دین کو دنیا پر مقدم کر نیکا عہد نہایت وفاداری سے نباہا.سے سید الیون شن: - سیرالیون کے ایک نہایت مخص احمدی مسٹر عثمان کو ک اس سال ماہ احسان جون یه میش میں وفات پا گئے.آپ سیرالیون کے زیر حمایت علاقہ کے باشندے تھے.شاہ کے لگ بھگ مولوی نذیر احد علی من اسیب کے ذریعہ داخل سلسلہ ہوئے تھے اور سیرالیون کے ان معدودے چند السابقون الاولون میں سے تھے بہو نے له : - الفضل ۹ ۱ صلح / جنوری به مش حث : ۶۱۹۴۶ Irre : : الفضل در ارامان / مار له مش هت مکمل مکتوب الفضل اور امان شش کہ ہم میں شائع شدہ ہے ؟ صد ر مودی حکیم فضل الرحمن صاحب مبلغ بیگوس نے ۲ ماه بجرت اسی کی مشک حضرت مصلح موعود کی خدمت میں بذریعہ کو ان کی وفات کی خبر لکھی تھی.یہ مکتوب بفضل ا از ظهور را گست باب فضل از ظهور اگست لو مش مت پہ چھپا ہوا ہے : 1400
سیرالیون کے باشندوں کی متفقہ مخالفت احدیت کا وجود نہایت جرات اور دلیری سے حق قبول کیا.مرحوم شہید گزارہ تھے.سلسلہ کی ہر تحریک پر گرم جوشی سے حصہ لیتے تھے.قادیان اور حضرت مصلح موعود کی زیارت از حد شوق تھا.کمشنر مہتم صاحب بہادر پر درجن کے ہاں آپ ملازم تھے ، ان کی نیکی اور دیانتداری کا خاص اثر تھا اے نائیجیریا مشن : ۶ ظہور / اگست کی ایک کلیہ میں کو الحاج حکیم فضل الر حمن صاحب می آید نائیجریا نے اور نمیگیرا وینو ریگوس) میں احمدیہ دار التبلیغ کا سنگ بنیاد رکھا اور ایڈریس پڑھا جس میں اس مشن کی تاریخ پر روشنی ڈالی گئی تھی اور آئندہ عزائم کا تذکرہ کیا گیا تھا.اس تقریب پر افریضن احمدی تیبا عتوں کے نمائندوں کے علاوہ اعملی احکام اور دوسرے معززین بھی شامل ہو گئے.اور ملکی پریس نے اپنے صفحات میں نہایت بیلی عنوانات کے ساتھ اس کا ذکر کیا.چنانچہ اخبار نائیجیرین ڈیلی ٹائمز و راگست شه) اخبار ڈیلی سرویس دورگست ه اخبار مدرن نائیجیریا ڈیفینڈر" ده را گست ۳۵ نے اسپر طویل نیٹ شائع کئے بگه بر ما میشن: ماہ ظہور اگست کہ ان میں مرکز کو یہ خوشخبری پہنچی کہ رنگون کے احمدی دوستوں نے کمایٹ میں اپنی مسجد اور انجمن قائم کر لی ہے لیے مشرقی افریقہ مشن : ۱۹ رمان بوت انو مبر سیر میش کو شیخ مبارک احمد صاحب فاضل کا کسری کے گوردوارہ میں حضرت بابا نانک دیو جی کی سیرت پر کچھ ہوگا.مسلمانوں، ہندوؤں اور سکھوں سب نے یہ لیکچر بہت پسند کیا.ایک سکھر کہنے لگا میں اس معزز دوست پہ قربان میں نے خدا او در گورد صاحب کی تعریف اور - ایسے اچھے پیرا یہ میں بیان کی ہے یے ی جدیدیت کی شیری مانگ و نگی تو سیلفین کے قافلہ کے علاوہ میں کا مفصل ذکر پچھلی فصل میں ممالک میں تشریف لے گئے :.بھیڑو چکا ہے.اس سال مندرجہ ذیل مجاہدین تحریک جدید بیرونی وا، شیخ عبد الو احمد صاحب مولادی فاضل دو دردونا بھلائی کو ایران کے لئے ہے (۳) شیخ ناصر احمد صاحب دو نار 140 تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل به د را خاما متر بر ساله این ماه : جه الان از ظهور را گسترش صدا کالم ۳ شه: الفضل اور صلحا مجبوری له مش مت کام میرا د الفضل ۲۰ روفا ابو نائی ان مش با کالم ۲ ۱۳ -
انگلستان کے لئے دس ماہ دفا جولائی کو ہے.(۳) چوہدری خلیل احمد صاحب ناقصر بی.اسے ۳۰۱ ظہور راگست کو امریکہ کے لئے ہی دم شیخ نور احمد صاحب میر (۱۳ را داخا در اکتوبر کو فلسطین کے لئے ہی دہلوی نور الحق صاحب اور دو ماه انار اکتوبر کو یوگندا مشرقی ذایقه - (۱۶) ستار سفیر الدین احمد صاحب انگلستان کیبل در ماه هم فتح او نمبر کو امید نئی مطبوعات اس سال جو لٹر پچر شائع ہوا اس میں سیرت ام المؤمنین " حصہ دوم خاص طور پر قابل ذکر ہے شیخ محمود احمد صاحب عرفانی اپنی کتاب ” میرت اہم امومنین کے دوسرے حصے کا مواد جمع کر چکے تھے کہ پیغام اصیل آ گیا.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے نہایت ہمت دشنت سے مرقوم کی یاد داشتوں اور نوٹوں کو ترتیب دیا اور ماہ وفار جولائی ہش میں اس کو شائع کر دینے میں بھی کامیاب ہوگئے یه تالیف درسی کتب کی تقطیع پر ۲۳۲ صفحات پر مشتمل تھی.سلسلہ احمدیہ کے لٹریچر میں قیمتی اضافہ ہوا.سیرت کے یہ دونوں حصے انتظامی پریس حیدر آباد دکن میں چھپے.غیر مسلموں کے اجتماعات اور اس سال احمدی مبلغی کو جن غیر مسلم اداروں اور کانفرنسوں میں بلیغ اسلام انفرنس میں حدی ملین کے ایک ا.کے و احمدیت کر نی کا موقعہ طلاق میں سے بعض کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے : میں پیچھے اور خالصہ کالج امرتسر خانم ترکی کی ستر کے پانی سرا گانا صاحب نظارت دعوت و تبلیغ قادیان کو لکھا کہ اپنے دو مبلغ مخالصہ مشتری کالج کے طلبہ میں لیکچر دینے کے لئے روانہ کریں اس پر گیا فی عباد اللہ صاحب اور (ابوالبشارت) مولوی عبد الغفور صاحب فاضل نے دار صلح اسنوری سلیم مشن کو یا ترتیب اسلام اور احدی اور غیر احمدی میں فرق " کے موضوع پر لیکچر دیئے جن سے سردار کنگا صاحب بہت متاثمہ ہوئے.چنانچہ انہوں نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا :- میں نے تمام مذاہب کے نمائندوں کو دعوتی خطوط لکھے تھے مگر سوائے جماعت احمدیہ کے کسی نے قوطی یا فعلی کوئی جواب نہیں دیا اسے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ تمباعت احمدیہ کسی منظم اور ٹھوس تبلیغی جد و جہد کرنے والی جماعت ہے...آپ نے ان کے لیکچر سنتے ہیں.کس طرح محنت اور کوشش سے تیاری کی ہوئی معلوم الفضل ، ظہور / اگست ۱۳۳۲ یہ مہیش منہ کالم سے: - الفصل ۲۳ ظهور را گرت له مش ها : 1450 : دار ماه احفاد / ۲ کشته پر من : در صلح / جنوری ۵ پیش هم کالم ۱۲ 1400 ه ۲۳ را خانه ی دکتوبه در صدا کالم کا "
ہوتی ہے.آپ نے ان کے طرز بیان کو بھی دیکھا کہ کسی ٹھوس طریقہ سے اپنی دلیل پیش کرتے ہیں.دلائل کو لسفیانہ رنگ دیگر کیسے سجایا ہے.موجودہ زمانہ میں دہریت کی تیز و تند آندھیاں کس طرح ہر مذہب پر حملہ آوار ہو کر انھو اٹھانے لئے جارہی ہیں.اور ہم پیچھے ہٹتے جا رہے ہیں.آج اگر کوئی مذہب فلسفیانہ رنگ سے اپنے مذہب کو پیش نہیں تو وہ قائم بھی نہیں رہ سکتا.ہم احمدی علماء کے بہت مسنون ہیں کہ انہوں نے اپنے خیالات سے ہمیں مستفیض کیا اور اُن کے ذریعہ جماعت احمدیہ اور نظامت متعلقہ کے ممنون ہیں کہ انہوں نے ہماری درخواست کو قبول کیا اور اپنے لیکچر نہ بھیجے.اس رنگ میں تقریریں نہایت مفید اور آپس میں خوشگوار تعلقات پیدا کرنے نیز رواداری کی فضا بنا نے میں بہت مفید ہو سکتی ہیں.ایک دوسرے کے مذہبی خیالات اور عقائد کو سنا اور ان پر غور کرنا نہایت ضروری ہے.کیا ہی اچھا ہو اگر اس قسم کے اجتماع ہر مذہب و ملت کے لوگ کریں کہ ہے دم است حرم سیلین پور : کانپورمیں ۱۲۰ صلح جنوری کی بس کو بدایوں نے است دھرم سیمیلین کے نام پر ایک جلسہ منعقد کیا جس میں مختلف مذاہب کے نمائندوں نے اپنے اپنے مذاہب کی خوبیاں بیان کیں.جماعت احمدیہ کی طرف سے مولوی غلام احمد صاحب ارشد نے اسلام ہی عالمگیر مذہب ہے" پر نصف گھنٹہ تقریر کی اور آخر میں حضرت خلیفہ مسیح الثانی کا خطبہ پیام صلح بھی تمام حاضرین میں تقسیم کیا.احمدی مبلغ کی تقریر کو پبلک نے بہت پسند کیا ہے ملين نیشنل کالج لاو در تبلیغ فروری میش کو گیانی و احد حسین صاحب مبلغ سلسلہ احمدیہ کا سکہ نیشنل کالج لاہور میں سکھ مسلم اتحاد پر نہایت دشپ لیکچر نا مجھے بہت سراہا گیا اور چیٹر ز دیئے گئے.لیکچر کے بعد صاحب صدر رتن سنگھ صاحب پروفیسر نیشنل کالج نے انگریزی میں بہت اچھے ریمارکس دیتے اور شکریہ ادا کیا ہے مہ یا ہب عالم کا نفرنس ویلی: - اسو رامان رایت دیکم شہادت اپریل میش کو دلی میں مقام دیوان پال مذاہب عالم کا نفرنس منعقد ہوئی جس کے لئے مضمون یہ رکھا گیا تھا کہ مذاہب میں اختلافات کے باوجود صلح کیونکر ہو سکتی ہے اور کس طرح امن قائم ہو سکتا ہے ؟.جماعت احمدیہ کی طرف سے ہوں ، ابو العطاء صاحب فاضلی نے ۱۹۲۵ الفضل ۱۲ صالح رجوری یه پیش منہ کالم : افضل و بی قراری اش مرا کام - : احتفضل ۱۲ تبلیغ در رده ی دا ۶۱۹۴۵ به مش مت کا تم
یکم شہادت را پریل کی شب کو اس موضوع پر نصف گھنٹہ تقریر فرمائی جس میں صلح کے دس اہم نکات پیش کئے.چونکہ دوسرے مقررین میں سے کسی نے بھی کوئی ٹھوس بات پیش نہ کی اس لئے سامعین نے جناب مولوی صاحب کی تقریر کو ہمہ تن گوش ہو کر سُنا اور اس بات کا اقرار کیا کہ یہ ایک ایسی تقریر ہے جس میں صحیح علاج بتایا گیا ہے.ہال کے باہر کئی ہندو نوجوانوں نے جناب مولوی صاحب سے ملاقات کی اور مزید معونا اہل کرنے کیلئے پتہ نوٹ کیا.اے ه آریہ کاج نئی دہلی مذهبی کانفرنس : آریہ سماج نئی ورنی نے اپنے سالانہ جلسہ پر ایک مذہبی کانفرنسی کی ملی مندر نئی دہلی میں ان عالم کے موضوع پر اظہار خیالات کے لئے منعقد کی جس میں انجمن احمد یہ دہلی کی طرف سے جناب عبدالحمید صاحب سیکریٹڈ نی تبلیغ نے ایک مدلل اور ٹھوس مقالہ پڑھا.ہے یتھیو سافیکل سوسائٹی کا پور : - ۱۸ر احسان ارجون یہ مہیش کو مولوی غلام احمد صاحب ارشد نے و کلیه تحقیر سائیکل سوسائٹی کا نچور کے ہال میں ایک لیکچر دیا جس میں اس مسئلہ پر روشنی ڈالی کہ قرآن مجید کوادر سے پیدائش انسانی میں تفاوت اور اختلاف کیوں ہے ؟ صاحب صدر نے اس لیکچر پر سب ذیل ریمارکس دیئے :." موں نا صاح نے جو جماعت احمدیہ سے تعلق کر سکتے ہیں یہ جو اصول اپنی الہامی کتاب سے احمدی نکتہ نگاہ جگر پیش کیا.کہ تمام بزرگوں کی عزت کرو.یہ نہایت شاندار ہے.اور ہم نے پہلے کسی مسلمان سے ایسا نہیں سنا.یہ آج پہلی مرتبہ جماعت احمدیہ قادیان کے نمائندہ سے بننے کا موقعہ میسر آیا ہے کہ قر آن مجید کے اندر الیسا زرین اصول بھی موجود ہے کہ تمام مذاہب کے بزرگوں اور پیشواؤں کی عزت کرد.ہم مولانا کا بہت بہت شکریہ ادا کرتے ہیں اور ہم نے اس قسم کی تقریر پہلے کسی مسلمان سے نہیں سنی.مولانا صار بنے ہو تو حید کا ملہ پیش کیا ہے کہ تمام انبیاء اسی توحید کو پیش کرتے آئے ہیں واقعی آپ کا فرمانا اپنے اندر معقولیت رکھتا ہے.باقی رہا یہ جھگڑا کہ پیغمبروں میں سے کون بڑا اور کون پھوٹا ہے.اس مسئلہ کو ہم بآسانی نہیں کچھ سکتے.کیونکہ ہر مذہب کے اندر پیغمبر آتے رہے ہیں.دوسرے مسلمان اس اصول پر ہرگز عمل نہیں کرتے.بلکہ دوسروں.کے بزرگوں کو برا کہنا تو اب خیال کرتے ہیں.اگر جماعت احمدیہ اس آیت قرآنی کے ماتحت زور دے تو بہت فائدہ ہو سکتا ہے تاکہ دوسرے مسلمانوں کے اندر اس کی اہمیت پیدا ہو جائے.اور دنیا میں امن قائم ہو.جماعت احمدیہ کے اس اصول پر ہو کہ میں نا نے پیش کیا ہے ہم مولانا کو مبارکباد دیتے ہیں " سے الفضل و شہادت / اپریل درپیش صد کالم کی تفصیل تفضل به شهادت را اپریل تفضل دور جون ۱۹۳۵ م کالم ۲ * ود ۲۳
۵۶۱ آمرید خارج مندر بیلون ڈلہوزی : آریہ سماج بیلون ڈلہوزی نے اپنے سالانہ علیہ کے موقعہ پر ۱۲۵ ظہور لاگست کو ایک دو روزہ مذہبی کانفرنسیں منعقد کی.پہلے دن کا نفرنس کا موضوع تھا " میرے مذہب میں خدائی لنے کا تصور کہ جماعت احمدیہ کی طرف سے اس مضمون پر مولکولی محمد یا ر صاحب عارف نے لیکچر دیا.صدر جلسہ پنڈت بٹھا کر دت صاحب شرما کوہ پر امرت دھارا نے احمدی مقریہ کو مقررہ وقت سے پندرہ منٹ زانک دیئے.اور کہا عارف صاحب نے عمدہ طریق پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے اور آریہ سماج پر حملہ کئے بغیر اس کے اصولی کی تردید کی ہے اسی وجہ سے میں نے انہیں زیادہ وقت دیدیا ہے.دوسر صاحبان بھی یہی طریق اختیار کریں تو مناسب ہے.آخری تقریہ آریہ سماجی کی تھی دینی عارف صاحب کی تقریر کا جواب دینے کی کوشش ہیں کی تھی کہ یکردم خاموش ہوگیا اور باوجود صدر صاحب کے بہت دلانے کے کچھ نہ بول سکا اور نصف وقت بھی نہ ہوا تھا.کہ بیٹھ گیا.دوسر سے روز کا مضمون " مذہب اور سیاست " تھا جس میں جماعت احمدیہ کی نمائندگی گیانی عباد اللہ صاحب نے کی.آپ کے بعد ایک آریہ لیکچرر نے اس کی اثر کو زائل کرنے کے لئے اعتراضات شروع کر دیئے جس پر صدر طلبہ نے یہ تقریر بند کرادی اور اقرار کیا کہ مقررین میں سے صرف گیانی صاحب کی تقریر اصل موضوع پر تھی.افسوس ہمارے لیکچرار نے اصل موضوع چھوڑ دیا ہے.آخری تقریر بھی ایک آہ یہ کی تھی تھیں نے اسلام پر اعتراضات شروع کر دیئے لیکن صدر علیہ نے اس اقرار کے با وجود کہ تقریبہ اصل موضوع کے برعکس ہے تقریر بند نہ کرائی جس پر گیانی معیاد اللہ صاحب اور دوسرے تمام مسلمان مندر سے باہر آگئے اور آگدیوں کے اعتراضات کے جوابات دیتے رہے.ہندوؤں نے بعد میں اس بات کا کھلی اظہار کیا کہ دونوں دن امری پیکچر اروں کی تقریریں سنے کے قابل قیں لے شری گورد سنگھ سبھا صدر بازار ڈلہوزی : - شهری گورد سنگھ سبھا صدر بازار لہوزی کا سالانہ جلسہ ۳۱ را گست و یکم ستمبر شہداء کو منعقد ہوا جس میں احمدی مبلغ گیانی عباد اللہ صاحب نے حضرت بابا نانک اور توحید کے موضوع پر تقریر کی اور حضرت مسیح موعود کے شعر سے بتا یا گیا اس کو الہام میں کہ پائے گا تو مجھ کو اسلام میں کی تشریح میں گورو گرنتھ صاحب کے شیروانی اور قرآن کریم کی آیات سے محضرت بابا نانک صاحب کی تعلیم پرپشتی ڈالی اور ثابت کر دکھایا کہ حضرت بابا نانک صاحب اسلامی توحید ہی کے علمبر دار تھے.یہ تقریر بہت دلچسپی.: العضل مر تبوک است بر شما : امه
سنی گئی یہاں تک کہ تقریر کے لئے مقررہ وقت سے زیادہ وقت دیا گیا.آپ کی تقریر کے بعد امرتسر کے ایک مفسد ا در شهرارت پسند نے سکھوں کو یہ کہکہ بھڑکانے کی کوشش کی کو جماعت احمدیہ بابا نانک کو مسلمان کہتی ہے اور ایک احمدی کو اس جرم کی پاداش میں قید کی سزا بھی ہوئی تھی.گیانی صاحب نے دوبارہ وقت لیکر سکتھ سٹریچر سے حوالہ جات پیش کئے کہ مسلمانوں کی طرف سے حضرت بابا صاحب کئے مسلمان ہونے کا اعلان سکھ گرد و صاحبان کی زندگی میں کیا گیا تھا.اے اندرون ملک کے بعض مشہور مناظ سے سال ہی ان کے معنی مشہور اوروں کی ترد و در آینده کے بعض مختصر 51800 سطور میں درج کی بھاتی ہے.مباحثہ قلعه گل نوالی ضلع گورداسپور : قلعه گاز ابی ضلع گورداسپور میں بعض احتساب کے حلقہ بگوش احمدیت ہونے پر علاقہ میں ایک شور پڑ گیا اور غیر ز سماعت علماء کسی کردند تاک احمدیت کے خلاف تقریریں کرتے یہ ہے اور آخر ختم نبوت اور صداقت حضری ہے موجود" کے موضوع پر ہر راہ شہادت اپریل میں کومناظرہ کے پاگیا.چنانچہ فیصلہ کے مطابق پہلا مناظرہ ختم نبوت پر ہوا جو سیداحمد علی صاحب اور مودی عتیق الرحمن صاحب میں ہوا.امیری مناظر نے آیات قرآنی احادیث اور اقوال بزرگان سے ثابت کیا کہ شریعت محمدیہ کے تابع انبیاء آسکتے ہیں.فریق ثانی بار بار مطالبہ کے باوجود کسی آیت یا حدیث سے اپنا مدعا ثابت نہ کر سکا.اس مناظرہ کا اثر حاضرین پر بہت اچھا رہا.دوسر سے مناظرے میں جماعت احمدیہ کی طرف سے چوہدری محمد یا ر صاحب طارت مناظر تھے.دوسرے فریق کی طرف سے منشی عبد اللہ صاحب معمار امرتسری.احمدی مناظر نے اپنی پہلی تقریر میں قرآن مجید کی آیات پیش کر کے صداقت حضرت مسیح موعود پر موثر رنگ میں استدلال کیا اور اپی تائید میں میانین سلسلہ کی کتب کے حوالہ جات پیش کئے اسی طرح اپنی بہور کی تقریروں میں تمام اعتراضات کے جواب دیگر اپنے دلائل دہرائے اور جھا اور تحدید کی اسلامی خدمات کو آشکار کیا.پالک نے نہیں میں مسلمان، ہندو، سکھ شامل تھے تسلیم کیا کہ دستے مولوی احمدی مناظرین کے دلائل کا جواب نہیں دے سکتے.سے -- مباحثہ بھٹیاں ضلع گورداسپور : موضع بھٹیاں کے ایک مخلص احمدی میار اخباری صاحب کے دونوں نے النقض در نوک استجد له مشورت کالم سام سه فصل در ماه شبات ر اپریل میش ها کالم : مولوی نذیر احمد صاحب شاہد ر یان مربی سلسلہ کے شہر نہایت مخلص ، پابند صوم و صلوات ایک الگ بزرگ اور اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و ستم کے عشاق میں سے تھے.ہجرت کے بعد کہ رنڈی ضلع نواب شاہ میں آباد ہو گئے یہاں اور فتح همایش خابق موبر دسمبر کو ایک شخص کو بھی محمد ماناج کے ہاتھوں نہایت بے دردی سے شہید کر دیئے اک حر کہ گئے - اسهم القرية والخلة في جنيدي القديم
04⑈ محضرت مصلح موعود کی تحریک پر جب اپنے گاؤں میں تبلیغ پر زور دیا تو گاؤں کے لوگوں نے مباحثہ کے لئے اپنے علماء بلواتے.دوسری طرت مرکز احمدیت سے قاضی محمد نذیر صاحب امپوری - مولانا ابو العطاء صاحب، گیانی داندرین صاحب.ڈاکٹر با این مامو گاد در روی دل محمد صاحب بھی پہنچ گئے.مگر انہیں بولنے کی اجازت نہ دی گئی اور کہا گیا کہ صرف میاں خیر الحق صاحب ہی سوال کر سکتے ہیں.ہاں احمدی عالم ان کو یہ بتا سکتے ہیں کہ وہ کیا کہیں.اس پر میاں عبدالحق صاحب ہی کو مناظرہ کرنا پڑا اور انہوں نے وفات مسیح کے مسئلہ پر مولوی عبد اللہ معمار صاحب سے نہایت معقول و مدل سوال کئے مگر وہ آخر تک اُن کے دلائل کو توڑ نہ سکے.اور گاؤں والوں نے اس دن صدقات احمدیت کا یہ نشان دیکھا کہ احمدیوں میں سے ایک معمولی پڑھا لکھا آدمی اُن کے پچوٹی کے مناظر کولا جواب اور ساکت کر سکتا ہے یہ یہ وارماہ شہادت کو اپریل سہ میں کا واقعہ ہے.یہ یہ ۳ مباحثه چک دهید و ضلع شیخو پوره ۱ ۲ ماه اعمالی جوان یه کوچیک وعید میں ایک ایرانی سورماه پادری سے ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب ہوگا کا الہ بیت مسیح پر دلچسپ مناظرہ ہوا تھیں میں پادری صاحب کو جواب ہونا پڑا ہے ۴ - مباحثہ موضع بھڑے (ضلع امرتسر ) :- احسان جون سیر میش کو موضع بعد سے ضلع در تمر میں احمدیوں اور عیسائیوں کے درمیان تین مناظر سے ہوتے.جماعت کی طرف سے " صداقت مسیح موعود پرسید احمد علی صاحہ نے اور الوہیت مسیح اور مسیح کی صلیبی موت اور زندگی پر ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب موگا نے بحث کی عیسائیوں کے مناظر پادری عنایت اللہ صاحب تھے جنہوں نے غیر احمدی مسلمانوں کو احمدیت کے خلاف بھڑکانے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہے.سے ده - مباحثه علی پور گھلواں ضلع مظفر گرامی : دار اور رات کو دور گلوی ما احدی بیانی خدا کے فضل سے تین نہایت کامیاب مناظر سے گئے ، سید احمد علی صاحہ نے مسئلہ وفات بیچ بچہ.مولوی محمد حیات صاحب سے مناظرہ کیا.شاہ صاحب کی تقریر نہایت برجستہ تھی.(۲) مولوی عبد الغفور صاحب نے مولوی لال حسین اختر سے صداقت مسیح موعود" پر محبت کی.آپ نے حدیث کی ایک کتاب پیش کر کے کہا کہ اگر میرا مدمقابل نیہ حدیث پڑھ دے تو اسے دس روپیہ انعام دیا جائے گا.بار بار کے مطالعہ کے باوجود انہوں نے بعدیث تو نہ پڑھی.البتہ ادھر اُدھر کی چند باتیں کر کے کہا کہ بانی احمدیت کی نسبت انہیں زیادہ عربی آتی ہے.اس پر - مناظرہ کی مفصل بردند او مولانا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل کے قلم سے ہی ہو ورنہ شہاری له ش و پر درج ہے؟ : الفضل ۲۰ احسان خون مش مست کالم ۲ که بفضل ۲۱ ر احسان رجون له مش صد کالم ۳۱۳ به پیش - سه - ۱۹۴۵
مولوی عبد الغفور صاحب نے کہا کہ یں حضرت مسیح موعود کا ادنی ترین خادم ہوں.آپ میرے ساتھ عربی میں مقابلہ کر لیتے.آپ بھی عربی میں تقریر کری میں بھی عربی میں کرونگا.اس پر اختر صاحب خاموش ہو گئے.دس اپنی روز تیرا انا راہ داری محمد ایمیل صاحب دیاں گڑھی نے مسئلہ ختم نبوت پر کیا.اتوار کی طرف سے مولوی لال حسین صاحب اختر ہی پیش ہوئے.احمدی مسلع کی پہلی تقریر نہایت معقول ، مسکت اور عدیل تھی.افرادی صدر قاضی احسان احمد صاحب شجاع آبادی نے مناظرہ بند کرانے کی انتہائی کوشش کی مگر عوام کے اصرار پر منارہ جاری رہا وہ پانچ پانچ تقریروں کی بجائے تین اور دو تقریریں پر بتانی فریقین مسافرہ کی کاروائی ختم کردی گئی.اس مناظرہ میں علی پور کے علاوہ ڈیرہ نواب ، اوچ شریف جتوئی ، ضلع مظفر گڑھ ضلع ملتان ضلع ڈیره نازنجان اور ریاست بہاولپور سے بکثرت احمد کی بغیر احمدی دوست شامل ہوئے جن کی تعداد چار ہزار کے لگ بھگ ہوگی.ہر دو فریق کی طرف سے اس کی ذمہ داری ملک شیرمحمد صاحب رکھیں گھلواں نے لی.اس مناظرہ کے بعد احدیت کی دعوت دور دور تک پہنچی سمجھدار طبقہ تحقیق کی طرف مائل ہو گیا.مناظرہ کے دو روز بعد ایک صاحب داخل سلسلہ احمدیہ بھی ہوئے اور سنجیدہ طبقہ نے یہ تاثر دیاکہ احمدی مبلغین کی تقریر یں تو خالص علی رنگ رکھتی تھیں مگران کے مقابل محض فحش کلامی اور بلند بانی میں مشاقی کا مظاہرہ کیا گیا.اے - میباشه بعد رواه اضلاع او دهم پوره : تبوک استمبر سے ہی میں بھدرواہ کے مقام پر مولوی ابوالبشارت عبد الغفور صاحب مولوی لان حسین صاحب اختر سے مسئلہ نبوت اور صداقت مسیح موعود پر مناظرہ ہواکہ تعلیم یافتہ اور سنجیدہ طبقہ نے اقرار کیا کہ احمدی مبلغ کے دلائل کو توڑا نہیں جاسکا.فریق ثانی کا ساراز در عبارات کو توڑ موٹر کو پیش کرنے اور بد زبانی کرنے میں صرف ہوا جس پر ذمہ دار افروں کو بار بار انتباہ کرنا پڑا.عباس نہ گری سندھ :- گری میں ۵-۶ ماہ نبوت / نومبر میش کو حنفیوں اور احمدیوں کے درمیان تینوں اختلافی مسائل پر نہایت شاندار اور کامیاب مناظر سے ہوئے حنفیوں کی طرف سے مولوی محمد عمر صاحب شیخو پری اور احمدیوں کی طرف سے مولوی محمد اسمعیل صاحب دیبالی گرڑھی اور مولوی سید احمد علی هما اجب مناظر تھے.سائین کی تعداد سات سو سے ہزارہ تک ہوگی.ان مناظروں کے نتیجہ میں پبلک میں نها امتل دو خود را گست تایید پیش من ملخصا از عموی فی بین صاحب ون ناب سیستم تبلیغ منظرگاه _: فطور :- افضل اور تبوک استمبر I #1 صد کالم ۳ نام :
احدیت سے متعلق خاص دلچسپی اور بیداری پیدا ہوگئی.ہے ، کہے فصل ششم تحصیل با تقریر فلسطین الله ا ام الفضل کی تحریک کنید این رو کی یادگاری بات کا پال انگریزی این نگی یورپ میں نئے مشنوں کا قیام.انڈونیشیا کی جد جہد آزادی اور جماعت احمدیہ.۱۳۲۵ خلافت ثانیہ کا تینتیسواں سال دین) تحصیل بٹالہ کے اہلیہ ی کیشن میں حدی خوانی اور اس سال کے شروع میں پنجاب میں کے ایکشن ہوئے احمدی مردوں کے اخلاص کے شاندار کارنامے جس میں بیداری فتح و صاحب سیاتی ہے.اسے خاص چوہدری محمد اور ان کے کلک کر کھڑے ہوئے اور بھاری اکریت سے کامیاب ہوئے.اس الیکشن میں احمدی خواتین اور احمدی مردوں نے قربانی ایثار اور اخلاص کا ایسا شاندار نمونہ دیکھایا.کہ شه : - افضل از نبوت سلامه مش مث :.اس مناظرہ کا ایک واقعہ خاص طور پر قابل ذکر ہے.اور وہ یہ کہ احدی مناظر نے ور نومبر کو در ان بحث حفی مناظر کو مؤکر بغداب حلف اٹھانے کی انعامی دعوت دتی.جب جماعت احمدیہ کمری نے اس حلف نامہ کو الفضل میں شائع کرنے کے لئیے لکھا تو ادارہ الفضل نے اسے بغرض استصواب حضرت امیر المومنين المصلح الموعود کی خدمت میں بھیجا جس پر حضور کے اور شادی نظر دعوت و تبلیغ کی طرف سے سلسلہ کے علماء سے مشورہ کیاگیا علم علی متفقہ رائے حضور کی خدمت میں پیش ہوئی تو حضور نے فیصلہ فرمایا کہ: ہیں تو ایسے مطالبہ کو جانہ نہیں سمجھتا.شرائط خلف تو درست ہیں لیکن یہ امر بھی تو واضح ہے کہ شرائط کا وجود صرف بہت بڑا اہل شخص ہی ثابت کر سکتا ہے.اسلیے یا امام یا جماعت مسلمہ اس کا فیصلہ کرنے کی اہل ہے نہ مبلغ.اس فیصلہ کی روشنی میں نظارت دعوت و تبلیغ نے الفضل در ماه و نا بولانی به پیش من یر مفصل الان شائع کیا کہ آئندہ کوئی جماعت یا جماعت کا فرد بغیر حضور ایدہ اثر تعالیٰ کی اجازت کے حلف یا سیاہنہ کے بارہ میں کوئی احترام نہ کمر سے کہ
044 حضرت مصلح موعود نے اظہار خوشنودی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :- مدتوں نے ایکشن میں قربانی کر کے ثابت کر دیا ہے کہ وہ اس بات کی متفق ہیں کران کے اس ذکر کو ہمیشہ تازہ رکھا جائے اور بار بار جماعت کے سامنے اس واقعہ کو لایا جائے.انہوں نے بے نظیر قربانی در نهایت، اعلی درجہ کی جان نثاری کا ثبوت دیگر ثابت کر دیا کہ وہ مردوں سے قومی کاموں میں " آگے نکل گئی ہیں.لہ عورتوں نے واقعہ میں نہایت اعلیٰ کام کیا ہے.....بعد میں مجھے ایک اور مثال کا پتہ لگا جو حیرت انگیز تھی عدمیں جے ایک مال کا پتہ نگا اور حسینی قادیان کی مثالوں کو بھی مات کر دیا.ہمار ے جو آدری الیکشن کے کام کے لئے گئے ہوئے تھے ان میں سے ایک نے سنا یا کہ ایک گاؤں میں ایک احمدی عورت دو ڑتی جس کا ہمیں علم نہیں تھا.ووٹ دینے کی مقررہ تاریخ سے ایک یا دو دن پہلے اسے استاد مل ہوگیا اور چونکہ ہمیں یہ نہیں تھا کہ وہ دور ہے اس لئے ہم نے وہاں کوئی سواری نہ بھجوائی.اس دن جب کئی گھنٹے دوٹنگ پر گزر گئے تو ایک آدمی نے آکر بتایا کہ فلاں جگہ ایک عورت بیہوش بیڑی تھی اور لوگ اس کو اٹھا کر اسکے گاؤں واپس لے گئے ہیں.اس کی باتوں سے بیتہ لگتا تھا کہ وہ ووٹ دینے آئی تھی.چنانچہ ہمارے آدمی وہاں گئے لیکن وہ وہاں نہیں تھی.اس پر انہوں نے فوراً اس کے لئے اس کے گا دیکی میں سواری بھیجی.بعد میں معلوم ہوا کہ وہ اپنی اس بیماری کی حالت میں ہی چل پڑی اور اپنے گاڑی سے دو میں دُور کہ بہوش ہو کہ گر پڑی.گاؤں والوں نے اُسے اٹھایا اور واپس لے گئے.لیکن جب اُسے ہوش آیا تودہ اٹھکر پھر دوڑنے لگی اور کہا کہ میں نے تو ووٹ دنیا ہے.اس اثناء میں سوار ی بھی پہنچے گئی اور وہ اس پر سوالہ ہو کر روٹ دینے آگئی.اس نے بتایا کہ میں نے اخبار میں پڑھا تھا کہ خلیفتہ اسی نے کہا ہے کہ جب سے ممکن بوده درت دینے کے لئے ضرور پہنچ جائے اس لئے میں اپنا ساراندور لگانا چاہتی تھی کہ کسی نہ کسی طرح ووٹ دے آؤں.اس عرصہ میں بیرو نجات سے آنے والے لوگوں میں سے بھی بعض کی مثالیں بڑی شاندار معلوم ہوئی ہیں.کل ہی مجھے ایک نے جی کا خط ملا ہے.وہ انبالہ میں تھا یہاں سے اُسے تار گیا کہ تمہار اوٹ ہے لیکن گورنمنٹ کی طرف سے ہو چھٹی جاتی ہے وہ نہیں گئی.وہ خط میں لکھتے ہیں کہ بتا دوہاں پہنچا تو دتر کا افسر ہندو تھا چونکہ یہ نہیں چاہتا تھا کہ میں روٹ کیلئے بھاؤں اپنی تار دبادی.کرنل چھٹی پر جارہا تھا جب وہ چلا گیا تو امرینی تارہ مجھے دکھائی میں نے وہ نار اپنے نچلے افسر کو دکھائی وہ کہنے لگا کہ میں تو رخصت نہیں دے سکتا بڑے افسر کے پاس جاؤ.میں اس بڑے افسر کے پاس : اتفضل دار تبلیغ ۱۳۲۵ ش صفحه کالم ۲ :
گیا تو اس نے کہا کہ کرن کی موجودگی میں بھٹیاں سکتی تھی مگر اب کیا ہو سکتا ہے.پھر اس نے کہا یہ تو ہا ئی تار ہے ہیں نے کہا میرا ووٹ ہے اور وہاں سے تار آیا ہے.بناوٹی نہیں.انہوں نے کہا کچھ بھی ہو تمہیں پھٹی نہیں مل سکتی.میں وہاں سے آکر سیدھا سٹیشن کی طرف بھاگا اور ریل میں سوار ہوا.امرتسر پہنچا تو بالہ کی ریل مردانہ ہو چکی تھی وہاں سے دور کر رہی لی.جب لاری بالر پہنچی تو قادیان کی ریل روانہ ہوچکی تھی.اس پر بٹالہ سے قادیان پیٹ روانہ ہوا لاری اور دوڑتے ہوئے قادیان پہنچ کر اپنا دوٹ دیا.انہوں نے جگہ کا نام تو نہیں بتایا.لیکن معلوم ہوتا ہے کہ وہ قادیان میں ہی آئے تھے کیونکہ وہ لکھتے ہیں کہ میں دوست دیگر خلیل احمد صاحب ناقر کے پاس جو انچارج تھے آیا اور کہا کہ ایسا واقع ہوا ہے انہوں نے کہا کوئی بات نہیں تم اپنے جاؤ.میں واپس آیا تو پہلے تو مجھے قید کر دیا گیا کہ تم بغیر بیٹی کیوں گئے تھے.پھر میرا ر نیک توڑ کر مجھے سپاری بنا دیا گیا.اب دیکھو یہ دوست فوجی تھے اور جانتے تھے کہ اگرمیں بن جاتا چلا گیا تو مجھے قید کی سزاملے گی.مگر باوجود اس کی وہ بھاگ کہ یہاں پہنچے اور ووٹ دیا.یہی اخلاص ہے جو قوموں کو کامیاب کیا کر تا ہے.لوگ تو مسلمانوں پر اعتراض کرتے ہیں کہ تم جنت کا لالچ دیگر یاد و رخ سے ڈرا کہ کام لیتے ہو حالانکہ ہم کسی کو دور رخ سے ڈرانے کے قائل ہی نہیں.نہ مذہبی طور پر اور نہ سیاسی طور پر.اگر ہم دشمن کو دوزخ سے ڈرائیں تواحد یوں کو تو روٹ عنا بالکل ہی ناممکن ہو جائے.کیونکہ احمدیوں کی تعداد دوسرے مسلمانوں سے بہت ہی کم ہے یکون جیسا کہ مں نے بتا یا ہے ہمیں یہ ضرورت ہی نہیں کہ ہم کسی کو دور رخ سے ڈرائیں یا جنت کا لالچ دل کہ کام کیا ہیں کیونکہ ہماری جماعتہ ہمیں خدا تعالے کے فضل سے قومی بیداری اس قسم کی پیدا ہو چکی ہے کہ یہ بات جانتے ہوئے بھی کہ فلای کام دنیوی ہے.اکثر لوگ اس کی طرف ہمہ تن متوجہ ہو جاتے ہیں.وہ جانتے ہیں کہ دنیوی حقوق کو محفوظ کر نا بھی ثواب کا کام ہوتا ہے.اسی طرح میرے خطبہ کے بعد قادیانی والوں نے بھی فرض شناسی سے کام لیا.اور انہوں نے چالیس کے قریب سائیکل چند گھنٹوں کے اندر اندرسیاں بشیر احد صاحب کے پاس پہنچا دیئے.اسی طرح بہت سے آدمیوں نے اپنی خدمات پیش کیں.اور فوراً پیر د نجات میں چلے گئے.آج الیکشن کے سلسلہ میں ہمارے کارکن مجھے ملنے آئے تو انہوں نے کہا کہ گاؤں کے احمدیوں نے تو کمال کر دیا.وہ سارہ سے علاقہ میں ٹڈی دل کی طرح پھیل گئے تھے.بالخصوص گاؤں کے لوگوں نے اور اسے بھی زیادہ خصوصیت کے ساتھ و بخوان کھوکھر اور لوری انگل انیان فتح منگل ، انتھوال، گلانوالی ، دھرم کوٹ قلعہ ٹیک سنگھ وغیرہ وغیرہ.تلونڈی والوں نے بھی اچھا کام کیا ہے.لیکن اتنا نہیں ملتی ان سے اسمیر کی جاتی تھی.مگر ہر حال انہوں نے بھی اچھا کام کیا ہے.نکھوں میں سے نہیں تھے....بعض اور جماعتوں نے بھی بڑا عمدہ کام کیا ہے.لیکن اس وقت مجھے ان کے نام.
۵۶۸ یاد نہیں رہے.فجزاهُمُ الله اَحْسَنُ الجزا اوران سنے اس بات کا ثبوت دے دیا ہے کہ جب مومن کام کرنے پر آتا ہے تو وہ ہر قسم کے عواقب سے نڈر ہو کہ کام کرتا ہے.دنجواں میں مخالفین کی شرارت پر پولیس نے احمدیوں کے دوٹوں کو روکنے کی کوشش کی مگر نوجوان مقابلہ کے لئے کھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ ہم نے تو اپنے آدمی سے کہ بھاتے ہیں خواہ پولیس دخل اندانہ کی ہی کیوں نہ کرے.پولیس نے ایک دو ووٹروں کو روکے رکھا اور باقیوں کو چھوڑ دیا.لیکن جب تمہارے دوسرے آدمی پہنچ گئے تو باقیوں کو بھی انہوں نے پھوڑ دیا.بہرحالی جماعت نے نہایت اعلیٰ درجہ کے اخلاص کا نمونہ دکھایا ہے.جہاں تک الیکشن کروانے کا سوال تھا تبات نے اپنی قربانی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی.اور بے مثال قربانی پیش کر کے جماعت کی ترقی کے لئے ایک راستہ کھول دیا ہے.لہ مسته فلسطین وادی.کی چوہدری محمد ظفراله خانصاب الصاحب بیج فیڈرل کورٹ آف انڈیا سئلہ فلسطین کے مضمون پر وائی ایم سی اے ہال لاہو میں ۱۲۰ صبح جبوری ہمیش کو ایک نہایت اہم اور معلومات افتر اتقریر فرمائی جلسہ کا اہتمام نوجوانان احدمیت يوم کی بین الکلیاتی تنظیم احمدیہ انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن نے کہا اور صدارت کے فرائض جناب ڈاکٹرای موکی لوکس وائس پرنسپل ایف سی کالج لاہور نے انجام دیئے.اختبار انقلاب (لاہور) نے اس تقریر کا ملخص حسب ذیل الفاظ میں شائع کیا :- برطانیہ اور امریکہ یہودی سرمایہ کے اثر کے باعث آزادانہ طور پر کوئی اقدام نہیں کر سکتے.سیاسی علی میں بھی یہودیوں کا اثر کم نہیں ہے.موجودہ پارلیمنٹ کے دارالعوام میں ۲۵ یہودی نمبر ہیں.دو یہودی وزیر اور ایک یہودی سیکرٹری آف سٹیٹ.اسی طرح امریکہ میں بھی وہ ملک کی سیاسی مشین پر اش مندانہ ہیں.آپ نے کہا کہ یہ سوال کہ کیا فلسطین ان ملکوں میں شامل تھا جن کے بارے میں گزشتہ جنگ کے آغانہ میں حکومت برطانیہ نے عربوں کو آزادی کا یقین دلایا تھا.آج تیس سال کے بعد بھی عمل نہیں ہو سکا.فلسطین میں گذشتہ ۲۱ سال کی بدامنی اور ناخوشگوار حالات کے باوجود حکومت برطانیہ اس مسئلہ کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کر سکی.پہلی عالمگیر جنگ سے موجودہ وقت تک فلسطین کی سیاسیات کا جائزہ لینے کے بعد سر محمد ظفراللہ خاں صاحب نے کہا کہ فلسطین کے موب حسب ذیل چار وعدوں کی بنا پر جو کہ حکومت برطانیہ نے ائی سے کئے تھے فلسطین میں ایک له الفضل یکم زمان / مارچ درپیش مشت :
عرب دریا سے تمام مطالبہ کرتے ہیں.اول کی پہلی عالمگیر جنگ کے شروع میں برطانیہ نے جن عرب ممالک سے آزادی کا مطالبہ کیا تھا فلسطینی بھی اُن میں شامل تھا.دوئم : حکومت برطانیہ نے اپنے پہلے وعدے کو اس اعلان سے مضبوط کیا کہ جنگ کے بعد عرب ممالک میں وہاں کے لوگوں کے مشورہ کے بغیر کوئی حکومت قائم نہیں کی جائے گی.- سوئم : بالفور ان کا یہ موم نہیں تھا جو یہودی اخذ کرتے ہیںکہ فلسطین میں ایک یہودی ریاست قائم کی جائیگی.چہارم :.عربوں کا مطالبہ ہے کہ شہداء کا قرطاس ابیض ایک قسم کا آخری فیصلہ تھا اور یہودی اس کی مخالفت میں حق بجانب نہیں ہیں.سرمحمد ظفر مد خان نے شریف مکہ اور مصر میں بھانی ہائی کمشنر کے مابین عرب ممالک کی آزادی کے بارے میں خواد کتابت کا تفصیل ذکر کرتے ہوئے کہا کہ شریف کر نے مطالبہ کیا تھا کہ بنا کے اختتام پر عرب ممالک کو آزاد کیا جائے اور کہا تھا کہ عربی کا یہ مطلبہ ان کی زندگی کا جزو اعظم بن چکا ہے.اور اس میں کس قسم کا ردو بدل نہیں ہو سکتا.حکومت برطانیہ نے ہائی کمشنر کی معرفت اس مطالبہ کو پیدا کرنے کا یقین دلایا تھا.آج عرب اسی خط و کتابت کی بنار پر فلسطین کی آزادی کا مطالبہ کرتے ہیں اور دعوی کرتے ہیں کہ فلسطین بھی ان ممالک میں شامل تھا جن کے بارے میں شریف مکہ نے حکومت برطانیہ سے ضمانت مانگی تھی.فلسطین میں یہودیوں کے قیام کے متعلق دیگر عرب ممالک کے رد عمل کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ رب یہودیوں کے نام سے متنفر ہیں.ائی کا خیال ہے کہ اگر فلسطین میں یہودیوں کی ریاست قائم ہوگئی تو پھر وہ ہمسایہ عرب مالک سے بھی علاقوں کا مطالبہ کریں گے اور نئی مشکلات پیدا ہو جائیں گی.اگر چہ یہودی اس امر کا یقین دلائیں اسنے کہ وہ عربوں کے مفاد کی حفاظت کریں گے لیکن باہمی مفاد کا جذبہ اپ اس بھر تک پہنچ چکا ہے کہ کسی مفاہمت کی کوئی امید نہیں ہے.یہودی اس بات پر نکلے ہوئے ہیں کہ اگر تمکن ہو سکے تو طاقت کے استعمال سے یہودی ریاست قائم کریں گے.سرمحمد ظفراله خان صاحب نے کہا کہ فلسطین کی سترہ لاکھ پچاس ہزار کی کل آبادی میں چھ لاکھ اور پچاس ہزا اسہ یہودی ہیں.اور وہ ملک کی اقتصادی زندگی پر چھائے ہوئے ہیں.اور اگر یہودیوں کا فلسطین میں داخلہ بند بھی کر دیا گیا تو وہ سیاسی اور اقتصادی طور پر عربوں کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ بنا رہے ہیں.عر یہ کہ اس
صورت حالات سے بخوبی آگاہ ہیں اور اس خطرہ کو مٹانے کا عزم کئے ہوئے ہیں “ لے سلسلہ احمدیہ کے مخلص اور فدائی حضرت امیرالمومنین علیه این استان الصلع الوجود ارمان ارماری یہ مہش کو قادیان سے سند ھ تشریف لے گئے اور سار ماہ بزرگوں کی سندھ میں یادگاریں.شہادت / اپریل کش کو قادیان میں رونق افروز ہوئے کہ یہ کا و اس سفر کی ایک نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ حضور نے ۲۲ رامان کو حمد آباد اسٹیٹ کی بعض اور گوٹھوں دیعنی گاؤں، کے نام نبردگان سلسلہ کے ناموں پر تجویز فرمائے ہو یہ تھے.ورنگر، کریم نگر ، لطیف نگر ، روشن نگر ، بیریان نگر الحق نگر.چنانچہ تصور نے اسی روز خطبہ جمعہ میں فرمایا :- سلمہ کے لئے قربانی کر نیوالوں کی یادگار کو تازہ رکھنے کے لئے میں نے سلسلہ کی جائیدا کو مختلف گوئی کے.کے نام، بزرگوں کے ناموں پر رکھنا تجویز کیا ہے.رسول کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم چونکہ ہمیں سب سے زیادہ عزیز ہیں اس لئے آپ کے نام پر اس گاؤں کا نام جو تحریک کی جائیداد کا مرکز سے محمد آیا درکھا گیا ہے.صدر انجمن احدید کی جائیداد کے مرکز کا نام احمد آباد حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے نام پر رکھا گیا ہے.محمد آباد آٹھ ہزار ایکڑ کا رقبہ ہے.اس لحاظ سے میرا خیال ہے اس میں کچھ سات گار کی اور آباد ہو سکتے ہیں.اس وقت جو آبادیاں یہاں قائم ہو چکی ہیں ان میں سے ایک کا نام پہلے سے حضرت خلیفہ اول کے نام پر نور نگر ہے.اب شمالی حلقہ کی ایک آبادی جو سٹیشن کے پاس ہے اس کا نام کریم نگر رکھا گیا ہے اور مغربی طرف کی زد آبادیوں میں سے ایک کا نام لطیف نگر صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب کی یاد میں اور ایک کا نام روشن نگر حافظ روشن علی صاحب کی یادگار میں رکھا گیا ہے.پہلے میں نے ان ناموں کے ساتھ آباد لگا یا تھا مگر پھر اسے نگر میں تبدیل کر دیا تاکہ محمد ابا نام کے لحاظ سے بھی اپنے علم میں مستانہ ہو جس طرح رسول کریم صلی الہ علیہ والد کا سورج ہیں اور یہ لوگ میں ستارے ہیں اسی طرح محمد آباد بطور سورج کے ہو اور اسکے اردگرد باقی گاؤں بطور ستاروں کی ہوں میرا ارادہ بعض اور نام بھی رکھنے کا ہے مثلاً بربان نظر مولوی برهان الدین صاحب کے نام پر اور اسحق نگاه میر مجد الحق صاحب مرحوم کے نام پر.اسی طرح ایک دن گاؤں احمد آباد کی زمین میں بھی آباد ہوسکتے ہیں ان کے ساتھ بھی نکھر لگایا جائیگا.اور جو گاؤں احمد آباد میں آباد ہوں گے ان کے نام بھی سلسلہ کے لئے بوادر اصل اسم صلح جو دی د مشر است ه الفضل در امان ۳۲۵ امیش مد و به رشادت ۳۲۵ اش صدا به
قربانی کرنے والوں کے نام پر رکھتے جائیں گے.ان گاؤں کے نام بھی للہ تعالی کا ایک انسان ہوں گے.کیونکہ ایک دو دن تھا کہ قادیان میں اگرتین چار سو روپیہ چندہ آ جاتا تھا تو بڑی ترقی بھی جاتی تھی اور آج یہ دن آیا ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے سلسلہ کوں کھوں لاکھ کی جائیدادیں دی ہیں اور قربانی کرنے والوں کے نام پر گاؤں آباد ہو رہے ہیں.سید نا حضرت ہی موعود علیہ سلام ہمیشہ دعا کرتے تھے اللہ تعالی اور ہیں حمیت کا رہے ہیں انگریز واقف کا زندگی لوگوں میں سے احمدیت کے لئے زندگی وقف کرنے کی توفیق عطا فرمائے چنانچہ حضور نے و راکت پر مسلہ کو اپنی اس خواہش کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا : - " ہم ہمیشہ دعا کرتے ہیں اور ہماری ہمیشہ سے یہ آرزو ہے کہ یورپین لوگوں میں سے کوئی ایسا نکلے جو اس سلسلہ کے لئے زندگی کا حصہ وقف کرے لیکن ایسے شخص کے لئے ضروری ہے کہ کچھ عرصہ محبت میں ه که رفته رفته در تمام ضروری اصول سیکھ لی سے جن سے اہل اسلام پر سے ہر ایک داغ دور ہو سکتا ہے اور وہ تمام قوت و شرکت سے بھرے ہوئے دلائل سمجھ لیو سے جن سے یہ مرحلہ طے ہو سکتا ہے.تب وہ دوسرے ممالک میں بجا کہ اس خدمت کو ادا کر سکتا ہے.اس خدمت کے برداشت کرنے کیلئے ایک پاک اور قومی رح کی ضرورت ہے جس میں یہ ہوگی وہ اعلیٰ درجہ کا مفید انسان ہو گا اور خدا کے نزدیک آسمان پر ایک عظیم الشان انسان قرار دیا جاوے گا یہ ہے (JOHUBREN حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ان دعاؤں کا یہی ثمر عہد صلح موعود میں جان برین آرچرڈ (REN ORCHARD بنے جو شہر میں دوسری جنگ عظیم کے دوران لیفٹینٹ تھے اور ہندوستان اور برما کی سرحد پر لڑنے والی ۱۴ آرمی میں متعین تھے کہ اسی دوران میں انہیں ایک احمدی حوالدار کرک عبد الرحمن صاحب دہلوی کے ذریعہ اسلام واحمدیت کا پیغام ملاجسر آپ شاد میں خفیہ طور پر ادیان پہنچے اور حضت مصلح موعود کی زیارت سے مشرف ہوئے اور پھر دوبارہ قادیان اگر حضرت مصلح موعود کے دست مبارک پر بیعت کر لی حضور نے آپ کا اسلامی نام بشیر آرچرڈ رکھا.بشیر آرچرڈ کو احمدیت کا پیغام کیسے پہنچا اور اُن کو قادیان بھانے کی تحریک کیسے ہوئی اس کی تفصیل یا پر اسیایی را ای بی :۱۰ - : العضل ۲ در شهادت / ایمیل سلام پیش صده : 31404 البدر مورخه ۲۹ اکتو بر د هر نومبر ۳۳۳
جناب عبد الرحمن صاحب دہلوی کے الفاظ میں لکھنا زیادہ مناسب ہو گا.آپ سکھتے ہیں :.جس کمپنی کے ساتھ ہم نے اشتراک کیا اس میں ایک انگریز لیفٹینٹ تھے جن کا نام - JoN DREN ORCHARD تھا.یہ پہلے ڈوگرہ رجمنٹ میں تھے.اسکی بعد آئی.اسے.اور سی میں ATTACK (مسلک ) ہو گئے تھے.یہ افسر ہر ہفتہ اپنے والد صاحب کو چھو سات صفحہ کا ایک خط لکھا کرتے تھے جس میں وہ ہندوستان کی تاریخ مرتب کیا کرتے تھے.غالباً ان کا ارادہ ہندوستان کی تاریخ پھپوانے کا تھا.جب سلالہ میں جاپانیوں نے اتحادیوں پر سخت حملہ کر دیا اور رمضال کو گھیرے میں لے لیا ان ایام کی ایک شام کا ذکر ہے کہ میں گارڈ کمانڈر تھا.لیفٹینٹ آرچرڈ اپنے نبیکر ( BUNKER) سے باہر نکلے.میں نے ان کو سلیوٹ کیا اور ان سے کہا کہ میں نے سُنا ہے آپ ہندوستان کی تاریخ کو ر ہے ہیں لیکن آپ کی تاریخ اس وقت تک نامکمل رہے گی جبتک کہ آپ تاریخ کے اس اہم واقعہ کو درج نہ کریں جو ہندوستان کی سرزمین پر واقع ہوا.انہوں نے دریافت کیا کہ دہ اہم واقع کیا ہے ؟ میں نے جواب دیا کہ مسیح نے نئے عہد نامہ میں جود عدہ کیا تھا وہ پورا ہو گیا یعنی سیح نے کہا تھا اُس وقت تک انتظار کرو کہ میں دوبارہ آوئی الہند مسیح ہندوستان کی سرزمین کے ایک گاؤں قادیان میں آگیا ہے.آپ اس واقع کو اپنی تاریخ میں ضرور بیان کریں.انہوں نے جواب دیا ” اس وقت تو میں حاضری ROLL CALLS) ر جا رہا ہوں کیونکہ آج میں آرڈرٹی آفیسر (DAY ہوں.پھر کسی وقت بات کروں گا کیونکہ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی اسکے بعد وہ شام کی گنتی حاضری سے فارغ ہو کر آئے اور انہوں نے بہت سے سوالات کئے.انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ احمد یہ ٹریکر پڑھنا چاہتے ہیں.چونکہ فوج میں مذہب کی تبلیغ اس وقت بھی منع تھی اور آج بھی منع ہے.لہذا میں نے اُن سے کہا کہ ہماری جماعت کے مبلغین میں سے ایک مبلغ ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب میں آپ مگلی سے خط و کتابت کریں وہ آپ کو ن صرف یہ کہ لٹریچر پڑھنے کے لئے دیں گے بلکہ آپ کے شکوک و شبہات بھی دور فرمائیں گے لیفٹینٹ صاحب نے کہا کہ اچھا مفتی صاحب سے میرا تعارف کروا دو.مفتی محمد صادق صاحب کی خدمت میں میں نے تحریر کیا کہ براہ مہربانی آپ ان لیفٹیننٹ صاحب کو ایک جلد اسلامی اصول کی فلاسفی اور ایک جلد احمدیت یا حقیقی اسلام روانہ کر دیں کتابوں کی قیمت اور خط و کتابت کے ابن حضرت ڈاکٹر عبدالرحیم صاحب دہلوی.ولادت ۲۸ اکتو بر نشر - ار جنوری شام شام کو فوج میں بھرتی ہوئے جہاں سے ریٹائر ہونے کے بعد مئی 1909ء میں بیت المال کوہ کے کارکن بنے اب نظارت امیر علامہ بہبود میں کام کر ر ہے ہیں ہے (OFFICER Of The
۵۷۳ سلسلہ میں جو خرچ ہو گا ہ میں آپ کی خدمت میں پیش کر دونگا.تقریبا ایک ڈیڑھہ ہفتہ کے بعد لیفٹیننٹ صاحب کو مفتی صاحب کی طرف سے ایک خط اور ایک کتابوں کا پاریسن موصول ہوا میں کا انہوں نے مجھ سے تذکرہ کیا اور اسکے بعد انہوں نے اسلامی اصول کی فلاسفی کا مطالعہ شروع کر دیا.ایک دن لیفٹینٹ صاحب کھڑے ہوئے اسلامی اصول کی فلاسفی پڑھ رہے تھے میں ادھر سے گزرا.انہوں نے مجھ سے باتیں شروع کر دیں کہ اسلام کی تعلیم تو اچھی ہے مگر ایک بری بات یہ ہے کہ اسلام عیسائیت پر حملے بہت کرتا ہے.جو ابا میں نے انہیں بتایا کہ اب آپ کا فرض یہ ہے کہ آپ اس بات کی تحقیق کریں.کہ اسلام کے یہ خلیے صحیح ہیں یا غلط.اتنے میں ایک اور لیفٹینٹ صاحب جن کا نام محد فضار علوی ہے دیہ صاحب پاکستان آرمی میں بسیجر کے عہدہ سے ریٹائر ہوئے ہیں ، ادھر آنکلے.اگر چرڈ صاحب نے اُن سے کچھ گفتگو شروع کر دی اور ان سے بھی یہی مذکورہ بالا سوال دھرایا.انہوں نے جواب دیا کہ یہ باتیں آپ عبدالرحمن سے ہی پوچھیں.یہی آپ کو بتا ئیگا.میں نے کہا کہ اگر کوئی شخص چور ہو تو اسے چور کہنا حمہ کرنا نہیں ہے بلکہ امرواقعہ کا اظہار ہے.ماں کسی ایسے شخص کو چور کہنا جو چور نہ ہو یہ الزام اور حملہ ہے اور ایسا نہیں کرنا چاہیئے.اب آپ اس کتاب کو اس نظریہ کے ساتھ مطالعہ کریں کہ کیا اسلام عیسائیت کے بارے میں جو کچھ کہتا ہے وہ حقیقت ہے یا نہیں اگر حقیقت ہے تو اسکو حملہ نہیں کہ سکتے اور اگر حقیقت نہیں تو واقعی حملہ ہے اور اسلام کو ایسا نہیں کرنا چاہیئے.ایک دن لیفٹینٹ آرچرڈ نے مجھ سے کہا کہ کیا تم مجھےارد د پڑھا دو گے.میں نے جواب دیا کہ دفتر کے وقت ت میں کچھ نہیں کر سکتا.ہاں اگرآپ صبح پی ٹی ( فزیکل ٹرینینگ) کے وقت چاہیں تو میں آپکی خدمت کر سکتا ہوں.چنانچہ میرے سیکشن آفیسر ( OFFICER COMMANDING) کیپٹن راجندر سنگھ نے مجھے اجازت دیدی اور میں نے آرچر ڈ صاحب کو اردو پڑھانی شروع کر دی.ایک دن لیفٹینٹ صاحب نے مجھ سے کہا کہ تمہاری جماعت دنیا کی فلاح و بہبود کیلئے بہت کچھ کر رہی ہے مبتلا ہیں کہ ان قیمتی لٹر پر مفت تقسیم کرتی ہے.کیا میں اس کا معمر بن سکتا ہوں ؟ میں نے کہا شوق ہے.کہنے لگے مگر میں سلمان نہیں بنوں گا.میں نے کہا کہ جب آپ اس جماعت میں داخل ہوں گے تو پہلی چیز میں کیا آپ کو اقرار کرنا ہو گا وہ ہے : اَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وحده لا شريكَ لَهُ وَاشْهَدُ أنَّ محمدا عبده ورسوله.اور جو شخص اس کلام کو پڑھ کر اقرار کرتا عَبْدُهُ ہے وہ مسلمان ہوتا ہے کہنے لگے تو پھر میں اس جماعت میں داخل نہیں ہوتا.اگر میں اس جماعت کی کچھ پڑھنے سے
۵۷۲ مدد کرنا چاہوں تو کیا میرا روپیہ قبول کیا جائے گا؟ میں نے کہا یقینا.اس پر وہ بولے کہ میں سو روپیہ دینا چاہتا ہوئی.ایک صبح جب وہ مجھ سے اُردو پڑھ رہے تھے تو باتوں باتوں میں آواگون کا ذکر چھڑ گیا کہنے لگے کہ آواگون کے مسئلہ کا میں قائل ہوں.میں نے ایک مثال پیش کی کہ اگر ایک سپا ہی کوئی غلطی کرے اور اس کی پاداش میں اس کو سزادی جائے.لیکن سزا دینے سے قبل آپ اگر اس کے دماغ کو سمرائز کر دیں کیونکہ لیفٹینٹ صاحب مهر نیم کے ماہر تھے، اور اس کی سزا بھگتنے کے بعد اگر آپ مسمریزم کا وہ اتراش کے دماغ سے دور کر دیں توکیا اس سپاہی کو سزا دنیا کوئی عقلمندی کی بات ہے یا اس کا کوئی معقول نتیجہ نکل سکتا ہے رکہنے لگے کہ نہیں ہیں نے کہا.بیس یہی حالت آراگون کی ہے.اگر کوئی شخص یہ جانتا کہ وہ پچھلے جنم میں کیا تھا اور کس گناہ یا نیکی کے بدلے میں موجودہ جو اختیار کی گئی ہے تو پر خداوند تعالی کا یہ حل درست تھا.لیکن موجودہ صورت میں جبکہ کسی ذی روح کو اپنی گذشتہ جوں کی نیکی یا بدی کاکوئی علم نہیں.خداوند تعالی کا یہ فعل عبث ٹھہرتا ہے.وہ اسی وقت بول اُٹھے کہ ٹھیک ہے.میں سمجھ گیا کہ آواگون کا مسئلہ غلط ہے.ایک دفع آرڈر آیا کہ یور چین فوجی جو ہندوستان میں چھٹی گزارنا چاہتے ہیں وہ ۲۸ دن کی چھٹی پر ہندوستان جھا سکتے ہیں.ایک دن لیفٹینٹ صاحب دفتر میں میرے پاس آئے اور کہنے لگے میں ہندوستان چھٹی جا رہا ہوں میں نے دریافت کیا کہ ہندوستان میں چھٹی کہاں گزاریں گے پاکہنے لگے کہ میرا ایک ہندو دوست ہے.وہ ڈوگرہ رجمنٹ میں لیفٹیننٹ ہے اور خریر میں رہتا ہے اسکی مکان پر.میں نے کہا یہ تو بہت اچھا موقع ہے آپ قادیان بھی دیکھتے آئیں یہ مگر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا.دوسرے دن صبح جب میں انہیں پڑھانے گیا تو اسی وقت پھر قادیان کا تذکرہ ہوا.کہنے لگے کہ مروجہ سے قادیان تک کا اگر فرسٹ کلاس کا کرایہ دلوا و تومیں چلی جاؤں میں نے کہا کہ آپ ریلوے کا پاس بجائے ترجمہ کے قادیان تک کا برا ئیں.کہنے لگے وہ تواب تیا ر ہو چکا ہے.میں نے کہا کہ میں اسے منسوخ کروا کے دوسرا نبود دونگا.بولے کہ میں کسی کویہ بتانا بھی نہیں چاہتاکہ میں قادیان جا ر ہا ہوں.یکی نے عرض کیا کہ اچھا پھر وہ سو روپیہ جو آ انجمن احمدیہ کو دے رہے تھے آپ اس میں سے ٹکٹ خرید لیں اس پر ہفتے ہوئے انہوں نے فرمایا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم رو پیر دنیا نہیں چاہتے.پھر انہوں نے دریافت کیا کہ قادیان میں میرے ٹھہرنے کا کیا بندوبست ہوگا.میں نے جواب دیا کہ اگر آپ دیسی رہائش اور دیسی کھانا پسند ریں تو مفتی محمد صادق صاحب کے مکان پر شہر نے کا بندوبست ہوجائیگا اور اگر آپ انگریزی کھانا اور رہائش ے وہی کے پاس ایک قصیدہ حضرت
چاہتے ہیں تو پھر چوہدری سرمد ظفراللہ خان صاحب کے ہاں مفتی صاحب آپ کا بندوبست کر دیں گے.بعد میں معلوم کہا کہ انہوں نے مہمان خانے کی رہائش کو ترجیح دی اور وہیں قیام کیا ، لیفٹینٹ صاحب نے مجھے پروگرام دیدیا اور وہ پروگرام میں نے مفتی صاحب کی خدمت میں ارسال کر دیا.جس میں مفتی صاحب سے درخواست کی گئی تھی کہ وقت مقرر پر کسی آدمی کو ریو سے سٹیشن پر بھیج دیں.لیفٹینٹ صاحب کے پروگرام کے مطابق انہیں ادیان صبح کی گاڑی پینا انا اگر کسی خواہی کی بناء پر پر گام کے خلاف درہ بارہ گھنٹے قبل شام کی گاڑی سے قادیان پہنچ گئے.اور اسٹیشن پر کسی لڑکے سے انہوں نے مفتی صاصب کے مکان کا پتہ دریافت کیا.اس سعادتمند لڑکے نے لیفٹینٹ صاحب کو اپنے ہمراہ لیا اور مفت محمد صادق صاب کے مکان پر پہنچا دیا." بشیرا چڑھا کے خود نوشت حالت یا ورود سامنے انگریز میں ان قبول امریت کے تقرحات لکھے ہیں.جن کا ترجمہ درج ذیل کیا جاتا ہے :.جن حالات میں مجھ کو احدیت یعنی حقیقی اسلام کو مجھنے کی توفیق کی وہ غیر معمولی تھے.ہوا یوں کہ میں جب 9 میں ہند بھا کی سرحد پہ ۱۴ آرمی میں متعین تھا.مجھ کو فوج کی طرف سے دو ہفتے کی چھٹی کا حق دیا گیا کہ کہیں بجا کر آرام کر سکوں.لیکن ہندوستان میں میری کہیں واقفیت نہ تھی کہ وہاں تھا کہ وقت گزار سکتا.اندریں حالات میری یونٹ کے ایک حوالدار کلرک نے محمد کو تحریصی دلائی کہ یں یہ چھٹیاں قادیان جھا کہ ایک شریف النفس انسان مفتی رمحمد صادق کے ساتھ گزاروں.برما کی سرحد سے قادیان کا فاصلہ اس قدر نہ یادہ تھا کہ اتنے لمبے سفر کے خیال سے میں تذبذب میں پڑ گیا.لیکن اسکی چہرہ پر سخت ناخوشگواری کے آثار دیکھو کہ آخر کار مجھ کو اس کی بات مانا ہی پڑی.منی پورہ کے جنگی محاذ کی پہاڑیوں سے پنجاب کے دیسیع و عریض میدانوں تک کا سفر آٹھ دن میں ختم کہا.قادیان کے ریو سے اسٹیشن پر گاڑی سے اتر کر اطمینان کا سانس لیا اور ایک تانگے والے سے کہا کہ مجد کو مفتی صادق صاحب کے گھر لے چلو.ان کے گھر پہنچ کر میں ایک سفید ریش بزرگ سے متعارف ہوا.اور میرے خیال میں ہم دونوں ہی پر ایک دوسرے کو دیکھ کر ایک خاص محویت طاری ہو گئی.قادیان کی ریاست نے مجھ پر ایک گہرا اثر ڈار کیونکر اسلام کو اس روشنی میں دیکھنے کا موقع ملا جو اسے پیشتر کہیں میسر نہ آئی تھی.اس نیک اثر سے جو اس جگہ نے اور وہاں کے لوگوں نے جن سے مجھ کو ملنے کا موقع ملا میرے دل میں ایک خاص رشتہ الفت پیدا کر دیا.اس وقت مجھ کو نہ اسلام کی دینیات سے پوری طرح آگاہی
064 تھی اور نہ ہی میں نے مذاہب کے بارے میں تقابلی مطالعہ کیا تھا اس کے دلائل و براہین کی بحث میرے لئے اسلام کا اثر قبول کرنے میں اس قدر محمد ثابت نہ ہوئی جتنا کہ اسکی نمرات نے مجھ کو متاثر کیا جو مجھ کو کہیں اورنہ ملے تھے.میرے اس نصر قیام کے دوران مجھ کو تقدس مآب حضرت مرزا بشیر الدین محمود احد صاحب نام جماعت احمدیہ سے بھی ملاقات کا شرف حاصل ہوا.آپ کو دیکھتے ہی مجھ کو یہ احساس ہوا کہ میں ایک روحانی شخصیت کے بعد یہ بیٹھا ہوں.یہ احساس آپ کی کسی گفتگو کے نتیجہ می نہ تھا.بلکہ اسکی در نہایت قوی موجبات تھے.ایک تو آپ کی روحانی وضع قطع تھی اور دوسرے غیر مرئی طور پر آپ کے وجود سے نہایت تیز روحانی کہ میں نکلتی محسوس ہو رہی تھیں.اگر بچہ آپ اس مادی دنیا میں رہ رہے تھے لیکن صاف ظاہر تھا کہ آپکا تعلق عالمیم روحانیت سے ہے.چونکہ مجھ کو اپنا بیان نہایت مختصر عرض کر تا ہے گویا کہ اس مبی کہانی کو کہ میں کس طرح گر جا سے مسجد کی طرفہ آیا.بیان کرنے میں دریا کو کوز میں بند کر نا مرد ہے تو پھر اس پر اکتفا کرتا ہوں کہ مجھ کو تو بس اسلام نے اپنی مقناطیسی قوت سے از خود اپنی طرف کھینچ لیا.اے حضرية مصلح موعود ان پہلی قبول حضرت مصلح موعود کی زبان مبارک سے تیار کی اور امی اور ان کی یہی حالات اور پھر یوں اسلام کے بعد ان کے اندر تغیہ عظیم کے پیدا ہونیکا 55 پہلی رات اور قبول سلام کا ایمان افروز واقعہ - ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : گذشته جنگ میں بشیر آرچرڈ ایک انگریز احدی ہوئے.پہلے پہل جب وہ قادیان مجھ سے ملنے کے لئے آئے تو اس وقت ان کے خیالات اس قسم کے تھے کہ میں ایک نیا مذ ہب نکالوں گا.انہوں نے بتا یا کہ میں نے اسلام کا بھی مطالعہ کیا ہے اور مجھے اس میں کئی اچھی باتیں نظر آتی ہیں اور میں نے ہندو مذہب کو دیکھا تو مجھے اس میں بھی کئی اچھی باتیں نظر آئی ہیں.میں چاہتا ہوں کہ ایک ایسا طریق مکانوں جس میں تمام اچھی باتوں کو تبع کر دیا جائے.میں انہیں سمجھاتا رہا مگر وہ یہی کہتے رہے کہ میری تسلی نہیں ہوئی.جب وہ یہاں سے چلے گئے تو کچھ عرصہ کے بعد مجھے ان کا خط ملا جس میں سکھا تھا کہ میں اسلام قبول کرتا ہوں.مجھے حیرت ہوئی کہ یہ کیا بات ہے.وہ تو کسی مذہب پر خوش نہ تھے.بعد میں وہ مجھ سے ملنے کے لئے آئے تو انہوں نے تمام واقعات سنائے اور بتایا کہ یہاں رہ کر تجھے احساس نہیں ہوا کہ میں کس ه باز شما ترکی جدید باتصویری مرا با والدین صاحب میر ایم.اسے " i i
فضا میں اپنے دن گزار رہا ہوں.مگر جب یہاں سے گیا اور امرتسر پہنچاتو چونکہ قادیان میں سات آٹھ دن میں نے شراب نہیں پی تھی اسکی مجھے شراب پینے کا شوق تھا.وہاں بعض اور انگریز دوستوں کے ساتھ میں کھانے کے کرہ میں گیا انہوں نے بھی شراب کا آرڈر دیا اور میں نے بھی شراب کا آرڈر دید یا مگر پھر مجھے خیال آیا کہ سات آٹھ دن میں نے شراب نہیں پیت مجھے کچھ نہیں ہوا.اگر کچھ اور دن بھی میں شراب چھوڑ کر دیکھوں تو کیا حرج ہے.چنانچہ میں نے شراب کا آرڈر منسوخ کر دیا.یہ پہلی تبدیلی تھی جو میرے اندر واقع ہوئی.اسکی بعد میں برابر شراب سے بچتا رہا.فوج میں گیا تو وہاں میرے انگریز دوستوں نے مجھ سے مسخر شروع کردیا اور کہا ہم دیکھیں گے کہ تم کب تک شراب نہیں ہوں گے.اس میں اور زیادہ پختہ ہو گیا اور آخر رفتہ رفتہ میری ایسی حالت ہو گئی کہ مجھے شراب کی بھا بہت ہی محسوس نہیں ہوتی تھی اسکے بعد مجھے محسوس ہوا کہ یہ بھی قادیان جانے کی برکت ہے کہ شراب کی عادت بھاتی رہی.پھر میں نے زیادہ سنجیدگی سے اسلام اور احمدمیت کا مطالعہ کیا حقیقت مجھ پر پھل گئی اور میں نے اسلام قبول کر لیا.وہاں سے ان کی راو پیری تبدیلی ہوگی یہاں بھی نگرانی انکو برای تنگ کرتے اور قسم قسم کی تدابیر سے انکوانی طرف مائل کرنے کی کوشش کر تے.مگر للہ تعالی کے فضل سے وہ اسلام پر زیادہ سے زیادہ نیوی کے ساتھ قائم ہوتے چلے گئے.ان میں انہوںنے با قاعدگی کے ساتھ شریرہ کر دیں اور ڈاڑھی بھی رکھ لی.اپر انگر یہ انہیں اور زیادہ تنگ کرتے کبھی نمانہ پر تمسخر شروع کر دیتے ، کبھی دائرہ بھی پر اعتراض کرتے کبھی کھانے پر جھگڑا شروع کر دیتے.آخر انہوں نے ملازمت چھوڑی اور اپنی زندگی اسلام کے لئے وقف کر دی اب وہ انگلستان میں اسلام کی تباری کر رہے ہیں اور محض روٹی کپڑا ان کو دیا بھاتا ہے.اس شخص کی حالت یہ ہے کہ یہ باقاعدہ تہجد پڑھتا ہے.نمازیں باجماعت ادا کرتا ہے.لمبی لمبی دعائیں کرتا ہے منہ پر داڑھی رکھتا ہے اور اس کی شکل دیکھ کر سوائے چہرہ کے رنگ کے کوئی شخص نہیں کہ سکتا کہ یہ انگریز ہے بلکہ ہر شخص یہی سمجھتا ہے کہ یہ بہت پر انا مسلمان ہے.اگر یورپ کا رہنے والا ایک شخص اپنے اندر اتنا تغیر پیا کر سکتا ہے کہ وہ نمازوں کا پابند ہو جاتا ہے.تہجداد ا کرتا ہے اور تمام شعائر اسلامی کو خوشی کے ساتھ اختیار کرتا ہے تو ہندوستان یا کسی اور ملک رہنے وال کیوں ان باتوں پر عمل نہیں کر سکتا ہے خاتمہ جنگ کے بعد مسٹر بشیر آرچرڈ اور ماہ شہادت پر یا تار میش کو انگلستان پہنچے اور انگلستان کی مادی فریج سے نکل کر حمد رسول للہ کی آسمانی فریج میں داخل ہوگئے.یعنی آپ نے اپنی زندگی اسلام و احمدیت کے لئے وقف کر دیتی جس پر آپ غم ہجرت مٹی ہے یہ مہیش کو حضرت مصلح موجود کے ارشاد پر مرکز احمدیت قادیان میں فرضی : "قیام پاکستان در ہماری ذمہ داریاں - صیغه نشر و اشاعت لاہور شده در ه الفضل دار ہجرت شام میں مفہیم پر وقف زندگی سے متعلق آپ کی درخواست کا ترجمہ شائع شدہ ہے ؟ : یش صفر
تعلیم تشریف لائے.لے ALA خضر مصلح موعود کی تقریر میرا ہے بادہ بات اسی ہے کہ میں کو آپکے اعزاز میں ایک دعوت دی گئی میں مولانا جلال الدین صاحب شمس نے ایڈریس پیش کیا جسکے جواب میں بشیر آرچرڈ کی دعوت کی تقریر ہے " مسٹر بشیر آرچرڈ نے حسب ذیل تقریہ کی : پہلی دفعہ میں جب قادیان آیا تو میرا قیام صرف دو روزہ تھا.اس اثناء میں میں نے بہت سے دوستوں سے تبادلہ خیالات کیا اور مذہبی معلومات حاصل کیں مگر کوئی خاص اثر میری طبیعت پر نہ ہوا.گاڑی پر سوار ہو کہ میں قادیان سے رخصت ہو گیا مگر ابھی چند میں بھی طے نہ کئے ہوں گے کہ یہ واقعات یکے بعد دیگرے میرے ذہن میں آنے شروع ہوئے اور وہ نوازش، مہربانی اور شفقت جس کا اظہار میرے ساتھ کیا گیا.خوشگوار یادیں بنکر میرے دل میں چکر لگانے لگی جیسے لمحہ بہ لحد میری طبیعت متاثر ہوتی جار ہی تھی.گاڑی جب امر تسر پہنچی تو اس وقت مشاہدات قادیان کا گہرا نقش میرے دل پر کندہ ہو چکا تھا چنانچہ اسکی بد می میں شہر میں بھی گیا میں جماعت کے لوگوں کو تلاش کر تا خوش قسمتی سے وہ ہر شہر میں مجھیل جاتے اور وہاں بھی مجھے وہی شفقت اور محبت کا نظارہ دیکھنے میں آتا جس کا نظارہ میں نے قادیان میں دیکھا تھا.حتی کہ ایک دن ایسا بھی آیا جب میں خود احمدیت کی آغوش عاطفت میں بھا چکا تھا.مجھے ایک سال مسجد احد یہ لنڈن میں رہنے کا موقعہ بہار وہاں بھی میں نے اسی شفقت اور ہمدردی کا مشاہدہ کیا تو قادیان میں دیکھنے میں آئی تھی.اخوت کی یہ روح جو جماعت احمدیہ کے ہر فر دیں پائی جاتی ہے اس کی صداقت کو پھیوں نے کے لئے کافی ہے.اگر مدت سچی نہ ہوتی تو یہ روح بھی مفقود ہوتی جو کسی اور جماعت اور قوم میں دیکھنے میں نہیں آتی " بشیر آکر چھڈ کے بعد حضرت امیر المومنین نے انگریزی میں ایک پر معارف تقریر کی جس میں فرمایا :- بشیر احد ار چو ڈ صاحب چونکہ اردو نہیں جانتے اس لئے اس خیال سے کہ وہ پوری بات کو سمجھ سکھ میں اپنے خیالات کا انگریزی میں اظہار کو دیتا ہوں.ایک وقت تھا جب عیسائی قوم حضرت علی علیہ اسلامی تعلیم یا پرایا اور اسکے ساتھ ساتھ وہ دنیاوی ترقیات میں بھی پیش پیش تھی لیکن اس کی بعد عیسائی قوم نے حضرت سیع کو معبود یا اور جو تیم واتا ھے اسے ہیں نبشت الفضل ا ر ہجرت امی پیش مت کا نم ۳
ہو.ڈال کر سرا سرو نیادی معاملات میں مشغول ہو گئے اور مادیات میں منہمک ہو گئے.ایسے وقت میں کبھی کبھی ان کے دلوں میں خداتقانلی کا ہلکا سا تصور آشکارہ ہوتا مگر عارضی اور غیر دائی اور پھر اپنی دنیا میں لگ جاتے.تب اللہ تعالے نے ان کی ہدایت کے لئے ایک پیغمبر کا بھیجنا ضروری سمجھا.ادہر سلمان اپنے مذہب کو بھول کر افتراق و شقاق کا شکار ہو چکے تھے.انہیں ایک پلیٹ فارم پر جمع کر نے کے لئے ضروری تھا کہ کوئی مصلح آئے.چنانچہ الہ تلائے نے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کو سب اقوام کے اکٹھا کرنے کے لئے بھیج دیا اور تم وہ پہلے شخص ہو مجھے اپنی قوم میں سے اُسے قبول کرنے کا موقع ملا ہے.اور ان کے لائے ہوئے دین کی اشاعت کیلئے وقف زندگی کی سعادت حاصل ہوئی ہے.ہم آپ کے لئے دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو استقامت عطا فرمائے اور ہر روز آپ کے اخلاص اور جوش کو بڑھاتا رہے.بیشک وہ مقصد جسکے لئے آپ کھڑے ہوئے ہیں بہت عظیم الشان ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ اس وقت تمہیں تمہارے ملک کے لوگ بھی نہیں جانتے چہ جائیکہ دوسری دنیا.لیکن وہ وقت آئیگا کہ حبیب خدائے واحد کا نام دنیا پر قائم ہو چکا ہوگا اور ہر طرف احمدیت ہی احمدیت ہوگی تو اس وقت تمہارے ملک کے لوگ تاریخ کی کتابوں کی چھان بین کریں گے اور وہ تلاش کرنے لگیں گے کہ کیا ابتدائی دور میں کوئی انگر نیامدی ہوا.جب وہ دیکھیں گے کہ ہاں ایک شخص مٹر بشیر احمد آرچرڈ تھا نجی ابتداء میں احدیت کو قبول کیا اور غیر معمولی قربانیاں کیں یہ دیکھ کر ان کے دا خوشی سے بھر بھائیں گے.اور اُن کے قلوب اطمینان سے پُر ہو جائیں گے اور نہایت مسرت سے کہیں گئے کہ انگر یہ قوم نے اپنا حق خدمت ادا کر دیا.اس وقت بیشک تم نا معلوم اور غیر معروف ہو لیکن وہ زمانہ آئیگا اور عید آئیگا جب قومیں تمہارے نام پر فخر کریں گی اور تمہارے کارناموں کو سراہیں گی.پس تم اپنی حرکات وسکنات کو معمولی نہ جود در یہ نہ ھو کہ یہ حرکات صرف میری ہیں، بلکہ یہ ساری انگریزی تو کی ہیں.دو لوگ جو بعد میں آئیں گے وہ تمہاری ہر حرکت کی نقل کہیں گے اور تمہارے ہر لفظ کی پیروی کریں گے.کیا تم نے مشاہدہ نہیں کیا کہ آج مسیح علی السلام کے حواریوں کو ایسا بلند در بر حاصل ہے کہ ساری انگرینی توم ان کی پیروی اور نقل میں فخر محسوس کرتی ہے اور اسی طرح مسلمن بھی صحابہ کی ورسول کریم صلی الا علیہ وسلم کے ساتھ ہے اور بینظیر قربانیاں کیں عزت کرتے ہیں اوران کی ہرحرکت اور ہر لفظ کی پر دہی کرنے کی کوشش کرتے ہیں.گر تمہاری حرکات و مکانات اسلام کے مطابق ہوںگی اور میر مرتب و نشان ہو گیا تو یاد رکھو اس وجہ سے تمہاری قوم بھی ترقی کر جائیگی لیکن گر دہ صحیح اسلامی معیار کے مطابق نہ ہوں گی بلکہ ناقص ہونگی تو تمہاری قوم ترقی سے محروم
ردہ بھائے گی.پس ہمیشہ کوشش کرو کہ آنے والوں کیلئے بہترین نمونہ قائم کر جاؤ اور اعلی درجہ کی یاد چھوڑ جاؤ ورنہ للہ تعالی کسی در شخص کو کھڑا کر دنیا جو اس کام کو سر عام دیگا.اس زمانہ میں جب احدیت دنیا پر غالب آئے گی اور ضر در غالب آکر رہے گی اور کوئی طاقت اُسے روک نہیں سکتی اس وقت لوگوں کے دلوں میں تمہاری عظمت بہت بڑھ جائے گی.حتی کہ بڑے سے بڑے وزیر اعظم سے بھی زیادہ ہوگی.پس میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ اخلاص اور جوش سے کام کرو اور آنیوالی نسلوں کے لئے بہترین نمونہ چھوڑ جاؤ.اگر میں مں اللہ تعالی سے دعا کرتا ہوں کہ وہ اپنا فضل اور رحم تمہارے شامل حال رکھنے اور وہ مقصد جیکی ابتداء تم نے کی ہے اُس کی انتہا وہ کامیابی کی ہے.آمین " اے مسٹر بشیر آرچر دار ماه تبوک استمبر تار میش تک قادیان دارالامان میں رہے ازاں بعد پاکستان اور پھر انگستان آگئے اور گلاسگو میں نئے احمدی مشن کی بنیاد رکھی.بعد ازاں ڈر گیا نا بغرض اعلائے کلمہ اللہ تشریف لےگئے.آجکل گلاسگو میں ہی نہایت اخلاص و سرفروشی کے ساتھ تبلیغ اسلام کے فرائض بجالا یہ ہے ہیں.حضرت امیرالمومنین کی طرف سے مالی وجانی ، حضرت علیہ اسی ان ان الصلع الورود نے مجلس مشاورت ہر مہیش کے موقعہ پر فرمایا :- قربانیوں اور محبت کے لئے تیار ہے کا فرمان میں نے...قدم بقدم جما عت میں ان قربانیوں کا احساس پیدا کرنے کے لئے وقف جائیداد کا طریق جامدی کیا تھا.ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری جماعت کے تمام افراد کم سے کم یہ احساس اپنے اندر پیدا کریں کہ ہم سے جب بھی کسی قربانی کا طالبہ کیا جائیگا ہم اسکو پیش کردیں گے اور اپنے دل میں سے نکال دیں کہ بار بار جانی اور مالی قربانی کا مطالبہ کرنے کے باوجود ابھی تک بجان اور مال کو قربان کرنے کا وقت نہیں آیا.زمانہ اس وقت کو ترسے قریب تو ارہا ہے.میں نہیں کہہ سکتا کہ آج سے دس سال بعد یا بیس سال بعد یا پچاس سال بعد وہ زمانہ آنے والا ہے.مگر ہر حال وہ منزل ہمارے قریب آرہی ہے اور جب تک ہماری جماعت اس دروازہ میں سے جماعت اس دروازہ میں سے نہیں گزرے گی وہ صحیح معنوں میں ایک مامور کی جماعت کہلانے کی بھی حقدار نہیں ہوسکتی یہ قطعی اور یقینی اور لازمی بات ہے کہ ہم اسلام اور احمدیت کو ه - الفضل در تجرت مئی میشی - د مندرجہ باں تقریروں کا انگریزی متن رساله دیوید آن ریجنز به انگریزیون - ده شد بابت ماه چون شرو صلا تا مٹ میں شائع شدہ ہے.اس رسالہ میں مسٹر بشیر آرچرڈ کی تصویر بھی موجود ہے) ؟
DAI پھیلاتے ہوئے خطروں کے طوفانوں سے گزریں گے.اسی طرح یہ قطعی اور یقینی اور لازمی بات ہے کہ ہمیں ایک دفعہ ہجرت کرنی پڑے اور اپنے مکانوں اور جائیدادوں سے محض اللہ کے لئے دست بردار ہونا پڑے.مگر ابھی تک ہم اس امتحان سے کبھی نہیں گزرے.بہر حال یہ دن جند یا بدیر آنے والا ہے اور ہماری جماعت کے افراد کو اس دن کے لئے اپنے آپ کو تیار کرنا چاہیئے.ہمیں کیا معلوم کہ وہ دن کب آنے والا ہے یا لہ حفاظ پیدا کرنے کی تحریک ضرت ملا مور نے اور ا رات اور اس میں کو تحریک فرمان کہ قرآن کریم کا چرچا اور اس کی برکات کو عام کرنے کے لئے ہماری جماعت در میں بکثرت محفاظ ہونے چاہئیں.چنانچہ فرمایا :- صدر انجمن احدیدہ کو چاہیئے کہ چار پانچ حفاظ مقرر کرے جن کا کام یہ ہو کہ وہ مساجد میں نماز یں بھی پڑھا یا کہیں اور لوگوں کو قرآن کریم بھی پڑھائیں.اسی طرح جو قرآن کریم کا ترجمہ نہیں جانتے ان کو ترجمہ پڑھادیں اگر صبح وشام دہ محلوں میں قرآن پڑھاتے رہیں تو قرآنکریم کی تعلیم بھی عام ہوجائے گی اندر یہاں مجلس میں بھی جب کوئی ضرورت پیش آئے گی ان سے کام لیا جا سکے گا.ہرحال قرآن کریم کا چر چا عام کرنے کے لئے ہیں حفاظ کی سخت ضرورت ہے.انجمن کو چاہیے کہ وہ انہیں اتنا کافی گزارہ دیے کہ جیسے وہ شریفانہ طور پر گزارہ کر سکیں.پہلے دو چار آدمی رکھ لئے جائیں پھر رفتہ رفتہ اس تعداد کو بڑھایا جائے " کے اہش میں متعدد نئے مشنوں کا قیام عمل میں آیا.چنانچہ جو یں میں نے مشنوں کا قیام وا ققین گذشته سال انگلستان پہنچے تھے ان میں سے بعض تیار رہیں یورپ کے دیگر ممالک میں اسلام کا جھنڈا گاڑ نے کے لئے روانہ ہو گئے.اس سلسلہ میں ار ہجرت رمٹی کو مولوی ر ابراہیم صاحب خلیل اور مولوی مردمان صاحب اٹلی مشن کے کام میں توسیع کے لئے روانہ ہوئے یکے ملک عطاء ارمین صاحب اور چوہدری عطاء اللہ صاحب نے ، ارماہ ہجرت مٹی کو پیرس (فرانس) میں قدم رکھا ئیے چوہدری کرم الہی صاب ظفر اور مولوی محمد اسحق صاحب ساقی - ارماہ احسان رجون کو میڈیڈر سپین میں پہنچے تھے سوئٹزر لینڈ کی طرف چوہدری عبد اللطیف صاحب ، شیخ ناصر احمد صاحب اور مولوی غلام احمد صاحب بشیر بھجوائے گئے.بیجو ه الفضل ارشہادت مرا پریل س ش ص : ه: - افضل ۱۲۶ ظهور را است به پیش جنگ پدر ایش : 1 : ۱۲۰۰ ہجرت / مئی ۲ در پیش مث : ه: - انفض ۲۷ ر احسان اون سالم مش ها به irro ، دار احسان ابون شما f
ارا اور اکتوبر کو زیوریج میں وارد ہوئے.اگلے سال حافظ قدرت اللہ صاحب ساروفا جولائی ہے کہ مہش کو ہالینڈ پہنچے ان کے علاوہ ۱۳۳۵ و پیش میں مولوی غلام احمد صاحب نے عدن میں یوسف سلیمان صاحب نے جنوبی افریقہ میں اور مولوی حمد ہد ہدی صاحب نے اور نیو میں نئے مشن قائم کئے ملکی تفصیل تاریخ احمریت کی گیار ہوں جلد میں درج کی جائے گی.انشاء الله.ی کی اور کو سیندگانی امریکا سید نا حضرت مصلح موعود کی خدمت میں بعض ایسے مقدمات بھی آتے رہتے تھے جن میں میاں بیوی کی طرف کر چھوٹی چھوٹی باتوں کو وجہ نزاع بنا لیا جاتا تھا اور طلاق اور ضلع تک نوبت پہنچ جاتی تھی.حضرت مصلح میشود نے اس نہایت افسر سمیناک اور نا پسندیدہ طریقی کی روک تھام کے لئے اور ماہ احسان ارجون مش کو مفصل خفیہ بجوار شاد فرمایا جن میں احباب جماعت اور قاضیان سلسلہ دونوں کو بہت پر حکمت ہدایات دیں اور انہیں زوجین کے جھگڑوں کو سنجیدگی سے سلجھانے کی تلقین کی.چنانچہ فرمایا :- چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے تعلقات کو خراب کرنا عقلمندوں کا کام نہیں ہوتا.میرے نزدیک اگر بیوی میں کوئی غلطی ہے تو اس کی اخلاقی اصلاح ہونی چاہیئے.لیکن اُسے چھوڑ دینے پر آمادہ نہیں ہونا چاہیئے.ہیڈ ماسٹر لڑکوں کو سبق دیتا ہے کیا جوڑ کے سبق یاد نہیں کرتے انہیں سکول سے نکال دیتا ہے.اسی طرح انسانوں میں غلطیاں بھی ہوتی ہیں.کوتا ہیاں بھی ہوتی ہیں.کمزوریاں بھی ہوتی ہیں.لیکن مومن کا کام ہے کہ ان کو دور کرنے کی کوشش کرے اور وہ جنس جسے اللہ تعالیٰ نے مقدس بنایا ہے اُسے بازار میں کہنے والی جنس نہ بنا دے.پس میں جما عت کو نصیحت کرتا ہوں کہ اُسے ایسے بھگڑے نہایت سنجیدگی کے ساتھ سلجھانے کی کوشش کرنی چاہئیے.اور میں قاضیوں کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ انہیں ایسے معاملات میں نہایت احتیاط سے کام لینا چاہئے.......میں قاضیوں کو ہدایت کرتا ہوں کہ ایسے معاملات میں وہ کسی فریق کے وکیل کو قریب بھی نہ آنے دیں اور وہ بجائے قاضی کے باپ بننے کی کوشش کریں.اور لڑکے کو اپنا بیٹا مجھیں اور لڑکی کواپنی بیٹی جھیں میں طرح باپ اپنے بچوں کو سمجھاتا ہے.اُسی رنگ میں اُن کو سمجھائیں اور شریعت کے مسائل اُنہیں بتائیں اور انہیں طلاق اور ضلع کے نقصانات بتائیں کہ اس کی عام ہونے سے قوم کے اخلاق گر جاتے ہیں جنکی اولاد موجود ہو گی جب وہ بڑے ہوں گے تو ان پر کیا اثر پڑے گا کہ ہمارے ماں باپ نے معمولی سی بات پر بھلائی اختیار کر لی تھی اور دو اپنے ماں باپ سے کو سانیک نمونہ حاصل کریں گے اور ایسی اولاد کیسے ترقی حاصل کر سکتی ہے.پس یہ چیزیں اطلاق کو سنوار نے
DAY والی نہیں.بلکہ اخلاق کو بگاڑنے والی ہیں.جماعت کو ان کی اہمیت سمجھنی چاہیے.کیونکہ میرے نزدیک یہ اہم امور سے بھی بالی چیز ہے.جب بھی قاضی کے پاس کوئی ایسا معاملہ پیش ہو اس کا دل کانپ جانا چاہیئے کہ کہیں میں کوئی ایسا فیصلہ نہ کر دوں جو خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہو اور اُسے معاملہ کے تمام پہلوں کی پر غور کر کے فیصلہ کر نا چاہیئے.اور یہ کوشش کرنی چاہیئے کہ جب کوئی ایسا جھگڑا ہو جائے تو نہ مرد کے ماں باپ اور نہ ہی عورت کے ماں باپ اُس میں دخل دینے کی کوشش کریں اور وہ قاضی پر پورا اعتماد رکھیں.اگر انہیں فیصد میں کوئی سقم معلوم ہوتو وہ ہیں لکھ سکتے ہیں پر ہم دیکھیں گے کہ اس فیول میں رفع میں کوئی سقم موجود ہے یا نہیں.اے اس سال کا ایک نہایت اہم اور قابل ذکر واقعہ یہ ہے کہ البانیہ کے پور کا پہلا احمدی شهید ممتاز احمدی شریف دو ستا اپنے خاندان سمیت کمیونسٹ حکومی سے شریف دو نسا اور حضر مصلح موعود کے ہاتھوں نہایت بے دردی سے شہید کر دئیے گئے.شریف دو تا یورپ کے پہلے احمدی تھے جنہوں نے جام شہادت نوش کیا.حضرت مصلح موعود کی خدمت میں ملک محمدشریف صاحب مبلغ اٹلی نے اس دردناک واقعہ کی اطلاع دی جس پر حضور نے اپنے قلم سے مندرجہ ذیل مضمون رقم فرمایا.اٹلی سے عزیزم ملک محمد شریف صاحب مبلغ نے اطلاع دی ہے کہ شریف دو تھا ایک البانوی سرکردہ اور دیکھیں البانیا اور لوگو و و یہ دونوں کو میں رسوخ اور اثر رکھتے تھے دونوں ملوں کی سرحدیں ملی ہیں اور البانیہ کی سرحد کردار رہنے والے یوگوسلادیہ کے باشندے اکثر مسلمان ہیں اور با رسوخ ہیں اور دونوں ملکوں میں ان کی جائیدادیں ہیں.عزیزم مولوی محمد الدین صاحب اس علاقہ میں رہ کر تبلیغ کرتے رہے ہیں.ان کے ذریعہ سے وہاں کئی احمدی ہوئے.بعد میں سلمانوں کی تنظیم سے ڈر کر انہیں یوگو سلاوین حکومت نے وہاں سے نکال دیا اوروہ اٹھی آگئے، اور جدید گوسی ویہ کی پاریمنٹ میں مسلمانوں کی طرف سے نمائندہ تھے.جنگ سے پہلے احدی ہو گئے تھے اور بہت مخلص تھے.انہیں البانیہ کی موجودہ حکومت نے جو کمیونسٹ ہے ان کے خاندان سمیت قتل کروا دیا ہے ان کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ کمیونسٹ طریق حکومت کے مخالف تھے اور جو سلمان اس ملک میں اسلامی اصول کو قائم رکھنا چاہتے تھے اُن کے لیڈر تھے.انا للہ وانا الیہ راجعون مرتے تو سب ہی ہیں اور کوئی نہیں جو ہی مقر عمر الفضل ۲۵ رو فار جولائی له ش :
سے زیادہ زندہ رہ سکے.مگر مبارک ہے وہ جو کسی نہکسی رنگ میں دین کی حمایت کرتے ہوئے مارا جائے.شریف دوتر کو یہ فخر حاصل ہے کہ وہ یورپ کے پہلے احمدی شہید ہیں اور انفضل المتقدمہ کے مقولہ کے ماتحت اپنے بعد میں آنیوالے شہداء کے لئے ایک عمدہ مثال اور نمونہ ثابت ہو کر وہ ان کے ثواب میں شریک ہوں گے.برادرم شریف کے خاندان میں سے ان کا بڑاٹ کا ہر ام زندہ ہی ہے اور وہ اس وقت مسلمانوں کے ایک ایسے گردہ کا جو البانیہ میں اسلامی حکومت کا خواہاں ہے سردار ہے.ہ اس وقت پہاڑوں میں بیٹھکر مسلماوں کی قیادت کر رہا پر اور کمیونسٹ حکومت سے بر سر پیکار ہے.اللہ تعالی اس عزیز کی حفاظت کر نے اور اگر اس کا مقصد اسلام اور مسلمانوں کے لئے مفید ہے تو اُسے کامیاب کرے اور اگر بظاہر بری نظر آنے والی البائین کمیونسٹ حکومت آئندہ اسلام کے لئے مفید اور کار آمد ثابت ہونیوالی ہے تو اسے اس سے صلح اور اتحاد کی توفیق بجنے کہ علم غیب اللہ ہی کو ہے اور عسى أن تكرهوا شياً وَهُوَ خير نگر.نہ صرف اپنی فرمان ہے بلکہ بار بار انسان کے تجربہ میں آچکا ہے.اللهم آمین.دوست اپنی دعاؤں میں عزیزم بہرام کے لئے دعا کرتے رہا کریں.کہ اللہ تعالیٰ اس کا حا فظ و ناصر ہو اور اُسے صحیح راستہ پر چلنے کی توفیق بخشے.بعض اور ذمہ دار فوجی افسر بھی البانیہ میں احمدی ہیں نہ معلوم ان کا کیا حال ہے.احباب ان کے لئے بھی دعا کرتے رہا کریں.یہ واقعہ ہمارے لئے تکلیف دہ بھی ہے اور خوشی کا موجب بھی تکلیف کا موجب اسنے کہ ایک با رسوخ آدمی جو جنگ کے بعد احمدیت کی اشاعت کا موجب ہو سکتا تھا ہم سے ایسے موقعہ پر جدا ہو گیا جب ہماری تبلیغ کا میدان وسیع ہو رہا تھا.اور خوشی کا اتنی کہ یورپ میں بھی احمدی شہداء کا تخون بہا یا گیا.وہ مادیت کی سرزمین جوخدا تعالی کو چھوڑ کہ دور بھاگ رہ ہی تھی اور وہ علاقہ جو کمیونزم کے ساتھ دہریت کو بھی دنیا میں پھیل رہا تھا وہاں ندائے واحد کے ماننے والوں کا خون بہایا جانے لگا ہے.یہ خون رائیگاں نہیں جائیگا.اس کا ایک ایک قطرہ بھی چھیل کرخدا تعالیٰ کی مد مانگے گا.اس کی رطوبت کھیتوں میں مہذب ہو کر کہ وہ غلہ پیدا کرے گی جو ایمان کی راہ میں قربانی کرنے کے لئے گرم اور کھولتا ہوا خون پیدا کر لے گا جو لوگوں کی رگوں میں دوڑ دوڑ کر انہیں میدان شہادت کی طرف لے جائیگا.اب یورپ میں توحید کی جنگ کی طرح ڈال دی گئی ہے.مومن اس چلینج کو قبول کریں گے اور شوق شہادت میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کریں گے.اللہتعالی ان کا مددگار ہوا اور سعادتمندوں کے سینے کھول دے تا اسلام اور احمدیت کی فوج میں کمی نہ
AND آئے.اور اس کے لئے روز بروز زیادہ سے زیادہ مجاہد ملتے جائیں.اللهم آمین : اسے ہندوستان کے احمدیو ! ذرا غور ت کرو تمہاری اور تمہارے باپ دادوں کی قربانیاں ہی یہ دون لائی ہیں.تم شہید تو نہیں ہوئے مگر تم شہید کہ ضرور ہو.افغانستان کے شہداء ہندوستان کے نہ تھے مگر اس میں کیا شک ہے کہ انہیں احمدیت ہندوستانیوں ہی کی قربانیوں کے طفیل ملی.مصر کا شہید مہندوستانی تو نہ تھا.مگر ا سے بھی ہندوستانیوں ہی نے نور احمدیت سے روشناس کر دیا تھا.اب یورپ کا پہلا شہید کو ہندوستانی نہ تھا مگر کون تھا سنی اسکی اند ر اسلام کا جند یہ پیدا کیا ہ کون تھا جس نے اس صداقت پر قائم رہنے کی بہت ولائی پہ بشیک ایک ہندوستانی احمدی ! اسے عزیز وفتح تمہاری سابق قربانیوں سے قریب آرہی ہے مگر جوں بھوں وہ قریب آ رہی ہے تمہاری سابق قربانیاں اس کیلئے ناکافی ثابت ہو نہ ہی ہیں.نئے مسائل نئے زاویہ نگاہ چاہتے ہیں.نئے اہم امور ایک نئے کہ ناگ کی قربانیوں کا مطالبہ کرتے ہیں.اب ہماری سابق قربانیاں با لکل ویسی ہی نہیں بھیسے ایک جوان کیلئے بچہ کا سیاس.کیا وہ اس لباس کو بہن کہ شریفوں میں گنا تھا سکتا ہے یا عقلمندوں میں شمارہ ہو سکتا ہے.اگر نہیں تو نجان لو کہ اب تم بھی آج سے پہلے کی قربانیوں کے ساتھ وفاداروں میں نہیں گئے جا سکتے.اور مخلصوں میں شمار نہیں ہو سکتے.اب جہاد ایک خاص منزل پر پہنچنے والا ہے.پہلا دور مصیبتوں کا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ آلہ دوستم کے دعوئی رسالت کے ابتدائی دور کے مشابہ تھا ز ر ا ا ا ا ا ا ا و ر ی ر ہا ہے جو سول کریم ملی علیہ والہ وسلم کے دادری میں نظر بند ہونے کے مشابہ ہے.آج اگر ہم نے اس دور کے مطابق قربانیاں نہ کیں تو ہمارا ٹھکانہ ہیں نہ ہو گا.ہماری مالی اس صورت میں اس شخص کی سی ہوگی جو سار کی چوٹی پر پہنچ کر گر جاتا ہے.مبارک ہے وہ جو نان پر پڑھو جاتا ہے مگر اس سے زیادہ بد قسمت بھی کوئی نہیں جو مینار کی چوٹی پر چڑھو کہ کرکھاتا ہے.ہمارے نوجوان قربانیوں کے لئے آگے بڑھ رہے ہیں.الحمد للہ.لیکن ہمارے چندہ دہندگان اپنے بیٹوں کو کھولنے کی بجائے ان کا منہ بند کر رہے ہیں.انا شد اے غافل بھاگو ! اے بے پروا ہو ہوشیار ہو جاتا تحریک جدید نے تبلیغ اسلام کے لئے ایک بہت بڑا کام کیا ہے.مگر اب وہ کام اسقدر وسیع ہو چکا ہے کہ موجودہ چندے اس کے بوجھ کو اٹھا نہیں سکتے.مبارک ہے وہ سپاہی جو اپنی جان دینے کے لئے آگے بڑھتا ہے.مگر بد قسمت ہے اس کا وہ وطنی ہو اس کے لئے گولہ بارود بہتا نہیں کرتا.گولہ بارود کے ساتھ ایک فوج دشمن کی صفوں کو تہ دیاں کر سکتی ہے.مگر اس کی بغیر وہ ایک بکروں کی قطار ہے جسے قصائی یکے بعد دیگر سے ذبح کرتا جائیگا.تمہارے بیٹے ہاں بیٹوں سے بھی زیادہ قیمتی وجود
DAM بیان دینے کے لئے آگے بڑھ رہے ہیں.کیا تم اپنے مالوں کی محبت کی وجہ سے اپنی آنکھوں کے سامنے انکو مرتا ہوا دیکھو گے.اگر وہ اس حالت میں مرے کہ تم نے بھی قربانی کا پورانمونہ دکھا دیا ہو گا تو وہ اگلے جہان میں تمہارے شفیع ہوں گے اور خدا کے حضور میں تمہاری سفارشیں کریں گے لیکن اگر وہ اس طرح بھائی دینے پر مجبور ہوئے کہ ان کی قوم نے اُن کا ساتھ چھوڑ دیا اور ان کے وھی نے اُن کو مدد نہ پہنچائی تو وہ تو شہید ہی ہوں گے مگر یے اہل وطن کا کیا حال ہوگا ؟ دنیا میں ذلت اور مشقتی ہیں ؟ اس سوال کا جواب نہ دنیا جواب دینے سے اچھا ہے.اس دنیا کی وقت سے تو انسان منہ چھپا کہ گزارہ کر سکتا ہے مگر اُس دنیا میں وہ کیا کرہ سے گا ؟ غالب نے خوب کہا ہے.اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گئے : مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے جو ذلت صرف اس دنیا کے متعلق ہو موت اُس سے نجات دے سکتی ہے مگر جو دونوں جہانوں سے متعلق ہوائی میں کیا فائدہ دیگی.وہ تو کلنگ کے ٹیکہ کو اور بھی سیاہ کردے گی.پس اسے عزیہ دالگری کس کو.اور زبانیں دانتوں میں دبا اور جو تم میں سے فرمائی کرتے ہیں وہ در زیادہ قربانیاں کریں.اپنے حوصلہ کے مطابق نہیں دین کی ضرورت کے مطابق.اور جو نہیں کرتے قربانی کرنے والے اُنہیں بیدار کر دیں.ہر تحریک جدید کا حصہ دار اپنے پر واجب کہ لے کہ وہ دفتر دوئم کے لئے ایک نیا حصہ اور تیارہ کر ے گا اور جب تک وہ ایسا نہ کر سکے وہ سمجھ لے کہ میری پہلی قربانی بیکا نہ گئی اور شاید کسی نقص کی وجہ سے مد اتعالیٰ کے دربار سے واپس کر دی گئی.وہ پھل جو درخت بن گیا وہی پھل ہے جو کسی کے پیٹ میں جا کر فضلہ بن گیا.اور اپنی نسل کو قائم نہ رکھ سکا.وہ کیا بھی ہے خدا ہی اُس پر رحم کہ ہے.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد الله جماعت حمید کی پنجاه سال رفتار ترقی جماعت احمدیہ کے مشہور مفت کا فین میں صارلیے اخبار محقق ملک فضل حسین پر اخبار ریاست کا دلچسپ نوٹ ۱۳۲۵ الفضل ربه فورد انگست و پیش میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک غیر مطبوعہ مکتوب شائع کیا جو حضرت اقدس علیہ السلام نے دار تمبر شدہ کو حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کے نام تحریر فرمایا تھا اور میں "الدام ه اتفضل ما رو فار جوهانی ۳۵۰ در پیش من تا هست
PAK کے اند ر کنواں لگانے کیلئے دو آنہ چندہ بھیجنے کی تحریک فرمائی تھی.مردار دیوان سنگھ مفتون صاحب نے اپنے اخبار ریاست د ۱۲ اگست ، میں اس مکتوب پہ " قادیان کے احمدیوں کی پچاس سالہ رفتار کے زیر عنوان حسب ذیل ادار یہ لکھا :- "قادیان کی احمدی جماعت کے اس وقت کئی لاکھ نمبر ہیں.اور ان ممبروں میں چودھری سر محمد ظفر اللہ خاں جیسے بیج فیڈرل کورٹ اصحاب بھی شامل ہیں جو اپنی آمدنی کا زیادہ حصہ رفاہ عام کاموں کے لئے اس جماعت کی معرفت صرف کرتے ہیں اور یہ جماعت مختلف شعبوں کے ذریعہ ہر سال لاکھوں روپیہ ہندوستان وغیرہ ممالک میں مذہب اخلاق کی تبلیغ کے لئے صرف کرتی ہے.مگر آج سے پچاس برس پہلے اس جماعت کے بانی کے پاس ایک کنواں لگوانے کے لئے اڑھائی سو روپیہ بھی نہ تھا اور آپ نے دو دو آنے جمع کر کے رفاہ عام کے لئے ایک کنواں لگوایا.اگرا محمدی جماعت کی اس کا میابی پر غور کیا جائے تو اسکی وجہ صرف یہ ہے کہ یہ جماعت جو روپیہ صرف کرتی ہے وہ ایک ایک پائی پبلک کیلئے صرف کیا جاتا ہے.اس روپیہ کے جمع یا صرف کرنے میں ذاتی اغراض کو دخل نہیں اور پلک جب دیکھتی ہے کہ کارکن دیانتدار اور مخلص ہیں تو وہ اپنی جائیداد فروخت کر کے بھی روپیہ فراہم کرتی ہے جو لوگ پینک مفاد کے لئے کوئی کام کرتے ہوئے رو پید نہ ملنے کی شکایت کرتے ہیں ان کے لئے مرحوم مرزا غلام احمد کا یہ واقعہ آنکھیں کھولنے کا باعث ہونا چاہیئے.کیونکہ پبلک ان لوگوں کے لئے روپیہ نہیں آنکھیں بچھانے کیلئے بھی تیار ہے جو دیانتدار اور مخلص ہوں.مگر ان لوگوں کے لئے پہلا کے پاس پیسہ نہیں جو پبلک فنڈوں کو ہڑپ کرنے کے لئے پبلک کے سامنے گداگری کریں ار مالی مشکلات کا رونا روتے ہیں " اے نڈونیشیا کی تحریک نے دی اور جماعت انڈونیشیا شرق الہند کے اس مجمع الجزائر کا نام ہے جو سولہویں مدیر صدی عیسوی سے ہالینڈ کے مقبوضات پہلے آرہے تھے.دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپان نے ان جزیروں پر مت بضہ جمالیا تھا.۵ در اگست شہداء کو جاپان نے اتحادیوں کے سامنے ہتھیا کر ڈال دیئے.جبیر ملک کی قومی پارٹی نے ڈاکٹر عبدالرحیم سکار نو اور ڈاکٹر عطاء کی قیات میں ، ار اگست ء کو انڈونیشیا کی آزادی کا اعلان حسب ذیل الفاظ میں کردیا.اس اعلان کے ذریعہ ہم انڈونیشین اپنے ملک انڈونیشیا کی آزادی کا اعلان کرتے ہیں.تمام امور بحواله الفضل ۱۹ ظهور اگست ش م :
AAN و کرنےسے تعلق رکھتے اور ہیں جو اختیارات کے منتقل کرنے سے تعلق رکھتے ہیں نہایت احتیاط اور سرعت سے کئے جارہے ہیں بادیہ (بیکورتا ) ا ر اگست ۱۹۳۵ روسیه دار راس اعلان کے بعد ہالینڈ کی ڈچ افواج نے ملک کو پہلے کی طرح اپنے زیر نگیں کرنے کیلئے ہم شروع کر دی.اس اہم مرحلہ پر یوں نا حمد صادق صاحب مبلغ سلسلہ احمدیہ مقیم پیڈ انگ (سماٹرا، نے حضرت مصلح موعود پیڈانگ کی خدمت میں انڈونیشیا کی تحریک آزادی سے متعلق بھار اہم استفسارات بھیجے جن کے حسب ذیل جواب حضور نے اپنے قلم سے تحریر فرمائے :- سوال :.پہلے انڈو نیشیا میں وچ حکومت تھی اسکے بعد جاپانی حکومت قائم ہوئی.پھر جاپانی حکومت بھی ختم ہو گئی.چونکہ اتحادی فوجوں کے آنے میں دیر ہوئی اس لئے انڈونیشیا کے لوگوں نے اپنی آزادی کا اعلان کر کے اپنی حکومت قائم کرلی.آزادی کا اعلان اور حکمت کا قیام اتحادیوں کے مشورہ کے بغیر ہوا اس لیے اتحادیوں نے آج تک انڈونیشین آزادی اور حکومت کو تسلیم نہیں کیا.اس صورت میں کیا اسلام کی رُو سے انڈونیشیا واقعی آزاد قرار پاتا ہے ؟ اور کیا انڈو نیشین حکومت واقعی وہ حکومت ہے جس کی اطاعت رعیت پر فرض ہے یا کہ باغی جمعیت ہے ؟ جواب : - واقعی حکومت تو وہی ہوگی میں کو ملک کی اکثریت قبول کر سے گی بہ باقی اگر ملک کی اکثریت آزاد تحکومت بنائے تو شرعا باغی نہیں کہلائے گی بلکہ حق پر بھی جائے گی کیونکہ ملک کو کلی طور پر فتح کر کے سابق حکومت کے قبضہ سے نکال لیا گیا تھا.باقی رہا سوال مصلحت اور حکمت کا.اسے وہاں کے لوگ خود سمجھ سکتے ہیں.ہمارے نزدیک مغربی حکومت کھلی آزا د حکومت نہیں رہنے دے گی.اس لئے سمجھوتا کرنا مفید ہوگا.سوال:- آزادی کی تحریک اور دوسرے سیاسی امور میں حمدی حصہ لے سکتے ہیں یا نہیں ؟ مثلاً انڈو نیشین حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اگر ڈچ لوگ دفتروں اور کارخانوں پر قابض ہو گئے تو ہم ائی سے بائیکاٹ اور سٹر ایک کریں گے.کیا ایسے بائیکاٹ اور سٹرائیک میں شریک ہونا جائز ہے ؟ جواب : اگر انڈو نیشین حکومت واقعی اکثریت کی حکومت ہے توارد پر لکھا جا چکا ہے کہ وہ جائز حکومت ہے اس صورت میں اسکی احکام کی تعمیل شرعاً جائز ہی نہیں بلکہ پسندیدہ ہے.ه الفضل به ظهور اگست ۳۵ کش ها و مه
DAA سوال : اگر ڈرچ لوگ اس علاقہ میں داخل ہوں اور انڈو نیشین ان کا مقابلہ کریں تو جماعت حمدیہ کو کسرف ہونا چاہیئے؟ جواب :.میں کہ چکا ہوں کہ مصلحت اسی میں ہے کہ زیادہ سے زیادہ حقوق حاصل کر کے صلح کر لی جائے.کیونکہ سب مغربی حکومتیں منہ سے کچھ بھی کہیں ڈچ کے ساتھ ہونگی لیکن ار فی الواقعہ ملک میں اکثریت کی حکومت قائم ہو چکی ہے تو چونکہ وہ جائز حکومت ہے احمدیوں کو اس کا ساتھ دنیا انہیں نہیں پسندیدہ ہوگا.مگریہ فعل انڈونیشین کا ہو گا خلاف حکمت.سوال :.اس آزادی کی تحریک میں بھتہ لیتے ہوئے مرنے والا شہید ہے یا نہیں ؟ اگر نہیں تو من قبل دون اهماله ومَالِهِ فَهُوَ شھید کا کیا مطلب ہے ؟ جواب :.آزادی کی کوشش میں حصہ لینے والا شہید تو ضرور ہوتا ہے مگر یہ شہادت دینی نہیں.ورنہ ہر انگر یز اور بر من بھی شہید ہونا چاہیئے.شہید سے مراد یہ ہے کہ قوم کا ہیرو ہوگا.یہ نہیں کہ خدا تعالیٰ کا ہیروہ ہوگا.خدا تعالیٰ کا ہیرو ہی ہو گا جو دین کے لئے شہید ہوا ہے : ان جوابات کے علاوہ حضرت مصلح موعود نے ۱۶ ظہور اگست یہ ہش کے خطبہ جمعہ میں انڈونیشیاکی آبادی کے حق میں پر زور آواز بلند کی اور دوسرے مسلمانوں کو بھی تحریک فرمائی کہ وہ مسلمانان انڈونیشیاء کی تحریک آزاد تھی کی نہ بر دست تائید کریں.چنانچہ حضور نے فرمایا :- سامری دنیا میں صرف انڈونیشیا ایک ایسا علاقہ ہے جس میں چھ سات کروڑ مسلمان ایک زبان بولنے والے اور ایک قوم کے بستے ہیں اور جن کے علاقے میں غیر لوگ نہ ہونے کے برابر ہیں اور بھی میں اتحاد کی روح اسوقت زورسے پیدا ہو رہی ہے.دنیا بھر میں اور کئی علاقہ اسلامی مرکز ہونے کی انقدر اہمیت نہیں رکھتا ہیں اس وقت اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ اخباروں میں، رسالوں اور اپنے اجتماعوں میں مسلمان اپنے ان بھائیوں کے حق میں آواز اٹھائیں اور ان کی آزادی کا مطالبہ کریں.اگر اب ان کی امدا د نہ کی گئی اور اگر اب انکی حمایت نہ کی گئی.تو مجھے خدشہ ہے کہ ڈرح ان کی آواز کو بالکل دبادیں گے.وہ اپنی طرف سے پوری کوشش کر رہے ہیں کہ آہستہ آہستہ انڈونیشیا کے شور پر قابو پالیں اور اس کوشش میں وہ بہت حد تک کامیاب بھی ه - الفضل ۲۰ صبح / جنوری ماه پیش است : : مولانامحمد صادق صاحب نے سماٹرا نے انہیں دنوں انڈونیشیا کی آزاد حکومت کے آئین کی تفصیل" کے عنوان سے ایک مضمون بھی لکھا تھا جود الفضل ظہور / تبوک ا ہم میں بالا قساط شائع ہوا ہے
ہو گئے ہیں اور دنیا کی نظریں اب انڈو نیشیا کی طرف سے ہٹ گئی ہیں اور انڈونیشیا کے لوگ خود بھی یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ اب ہم اکیلے رہ گئے ہیں لیکن اگر دنیامیںان کی حمایت میں اور ان کی تائید میں آوازیں بلند ہوں ایک شور بر پا ہوجائے تو وہ دلیری اور بہادری سے مقابلہ کریں گے.کیونکہ وہ مجھیں گے کہ ہم اکیلے نہیں لڑ رہے بلکہ ہمارے کچھ دربھائی بھی ہماری پشت پر ہیں.یہ انسانی فطرت ہے کہ جب تک انسان یہ سمجھتا ہے کہ کچھ لوگ اسکی مقابل کو دیکھ رہے ہیں تو دہ زیادہ جوش کے ساتھ مقابلہ کرتا ہے.لیکن جب وہ دیکھتا ہے کہ میں اکیلا ہوں اور مجھے کوئی دیکھ نہیں ہاتھ اس کے ہوش میں کمی آجاتی ہے.پس اگر انڈونیشیا کے لوگوں کے کانوں میں یہ آواز ہیں پڑتی یہ ہیں کہ تمہا رہی ہر قسم کی امداد کریں گے اور جہاں تک ممکن ہو گا ہم تمہارے لئے قربانی کریں گے.اس آزادی کی جنگ میں آپ لوگ اکیلے نہیں لڑرہے.بلکہ ہم بھی آپ لوگوں کے ساتھ ہیں اور پھر جہاں تک ممکن ہو دنیا کے سلمان اپنے ان مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کی کوشش کریں تو وہ اپنی آزادی کے لئے بہت زیادہ بعد جہد کرہی ہے.اور امید کی جا سکتی ہے کہ ان کو جلد آزاد ہی مل جائے نہ لے حضرت مصلح موعود کے گذشتہ فتوی کی روشنی میں انڈو نیشیا کے ملنین.انڈونیشیا کے دوسرے ملکی باشندوں کے دوش بدوش جنگ آزادی میں شامل ہو گئے تھے.اب حضور کے اس تازہ خطبہ کے بعد قادیان کے مرکز کی پرلپس کے علاوہ دنیا بھر کے احمدی مشینوں نے بھی انڈو نیشیا کی تحریک آزادی کے حق میں موثمر آورانہ بلند کی یہاں تک که از ظهور را گستر پیش کر انڈو نیشیا که آنها دی مل گئی ؟ الفضل بدر ظهور اگست په مش مت :
$41..پانچواں باب ا ا ا ا ا ا ا ا اتارا اور تمام اسامی کی من و تیک مسلمانان سے لیکر حضر مصلح موعود کی بہتر پاکستان تک داز شال د مطابق ظهور اگست میش تا شوالیه مطابق ظهور راست پیش ) فصل اوّل لانا الام واتحاد کی تحریک مصلح موٹو کی آمدنی مصروفیات دہی میں نواکھالی در میاد میں فساد اور جماعت حمدیہ کی خدمت خلق متحد ہندوستان کا آخری سالانہ اجتماع اورسلان لیست میں انتقال کرنے والے بزرگ صحابہ ۶۱۹۴۹ کلکتہ اگر یہ ایک عرصہ سے بنگان در بلوں کا مرکز بناہوا تھا مگر اس لکتہ کے دادا میں احمدیوں کاش یا نقصان قیادت اا ا سال ۱۲ تا ۱۸ار ظہور اگست کے فرقہ دارانہ فسادات نے گذشتہ تمام ریکارڈمات کر دیئے.سرسری اندازہ کے مطابق دو تین ہزار کے درمیان نفوس ہلاک اور چار پانچ ہزار کے لگ بھگ زخمی ہوئے.شہر کے چپہ چپہ میں لوٹ مار اور آتش زنی کے بیشمار واقعات ہوئے ہزاروں دکانیں اور مکانات جبل کے راکھ کا ڈھیر بن گئے.ان فسادات میں جماعت احمد یہ کلکتہ کے سب افراد خدا کے فضل سے بخیریت رہے البتہ میں لاکھو روپیہ کے قریب انہیں مالی نقصان ہوا.سب سے زیادہ بلوائیوں کی لوٹ مار کا تختہ مشق " کانٹی نینٹل موٹا اس " کی احمدی فرم کو بنا یا.جس کے مالک.سیٹھ حمد صدیق صاحب ، محمد یوسف صاحب تھے.حضرت مصلح موعود کی خدمت میں ے.سب سے زیادہ نقصا اس رقم کو پہنچ جس کا تخمینہ وروں کو تھا ہے
۵۹۲ جنب کلکتہ کے احمدیوں کے مالی نقصان کی اطلاع پہنچی تو حضور نے اپنے قلم سے لکھا : - الله قالی ان کے ساتھ ہوا اگر وہ بچے صبر اور توکل علی اللہ سے کام میں تو نقصان میں زور نہ ہو گا.انشاء اللہ ترقی ملے گی.چنانچہ خدا کے فضل سے ایسا ہی ہوا.مصیبت اور انیل کے ان پر خطر ایام میں بھی احمدیوں نے دوسرے مصیبت زدوں کی ہر ملک اعداد کی چنانچہ میں پچھوں اور پھر خواتین کو فاز دہ علاقہ سے نکال کر ایک حدی کے گھر پناہ دی گئی.اسی طرح ایک احمدی نے ایک سکھ فوجی افسر کو دمع اہل وعیال اور ایک ہندو کو ایک دن رات اپنے یہاں رکھا اور دوسرے روز بیضی اور معززین کی مدد سے ان کو ان کے گھروں تک بخیریت پہنچایا.علاوہ ازیں احمدی دوست اپنے اپنے حلقہ میں حتی المقدور ہر مذہب وملت کے لوگوں کو تیرکن امداد دیتے رہے.لے ماہ کے حمید رالی میں آتشزدگی ات کا یا اور اس جال میں ہیں یا اب کے دوران صوبائی جماعت احمدیہ بنگال کے دارالتبلیغ کو وجود بخشی از ار روڈ ڈھا کہ میں ہندو آبادی کی اکثریت کے درمیان واقع تھا کہ پہلے دیا گیا پھر ۱۲ تبوک استمبر کی شام کو نذر آتش کر دیا گیا جس سے مسجد حد یہ بالکل خاکستر ہوگی اور دارالتبلیغ کے چنہ حد کبھی بہت نقصان پہنچا دخترکا سامان ، دختری ریکارڈ بنگانی ترجمه قرآن کا مسودہ - افضل کے فائل اور بہت ساندذہبی لٹریچر با کل مل گیا.صوبائی مرکز عارضی طور پر برہمن بڑی ضلع پڑھ میں منتقل کر دینا پڑا.سے مسلمانان عالم کو بروقت آسمانی حضرت امیر مومنین اصلی او اور ایک خواب میں دکھایا گیا کہ امام کے لئے ایک بہت ہی نازک وقت آنے والا ہے اور مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ انتباہ اور متحار ہونے کی تحریک ان معاملات میں آپس میں اتحاد کہ میں جن میں اختلاف کرنے پر ان کا مذہب اور ان کا عقیدہ انہیں مجبور نہیں کرتا : اس الہی اشارہ پر حضور نے "الانذار" کے نام سے الفصل میں ایک مضمون پر دستسلم فرمایا جس میں نہایت تفصیل سے پوری خواب درج فرمائی پھر لکھا :- الفضل ، تبوک استمبر ریش هه و ۲۸ نبوت مشکلمه ش ها : ه: الفضل علیم الماء اکتو بر هست و ۲ را هنا برده ای پیش من
047 اس دیار نے نہیں اس امر کی طرف توجہ دلاتی ہے کہ اسلام کے نئے ایک نہایت ہی نازک زیر آرہا ہے اور مسلمانوں کو دنیوی اور سیاسی معاملات میں اپنے آپ کو متحد کر لینا چاہیئے اور ہر شخص کو در سر سے تمام امور کی نسبت اتحاد کو قدم کر لینا چاہیئے.کیونکہ اس میں مسمانوں کی نجات ہے.یہ نہایت ہی مشکل بات ہے.آسان بات نہیں.اس وقت مختلف مسلمان گروہوں کی طبائع میں اس قدر اختلاف پیدا ہو چکا ہے کہ وہ اختلافی مسائل پر زور دینا زیادہ پسند کرتے ہیں نیبت اتحاد کی کوشش کے بحیثیت مجموعی انہیں مسلمانوں کی بہبودی کی اتنی فکر نہیں جتنی ہر پارٹی کو اپنی پارٹی کی فکر ہے.میں اس خواب کو ظاہر کرتے ہوئے ہر احدی کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے اپنے حلقہ اثر میں مسلمانوں کو اسطراف توجہ دلا سے کہ تمہاری پھوٹ تمہاری تباہی کا موجب ہوگی.اس وقت تمہیں اپنی ذاتوں اور اپنے خیالوں اور اپنی پارٹیوں کو بھول جانا چاہیئے.اور ہر ایک مسلمان کہلانے والے کو اسلام کی حفاظت کے لئے متحد کرنے کی کوشش ہر کرنی چاہیئے اور اختلاف کو نظر اندازہ کر دینا چاہیئے.ہر ایک سے یہ مت خواہش کہ نہ کہ وہ سوفی صدی تمہارے ساتھ مل جائے بلکہ اس سے یہ پو تھے کہ اس جدوجہد میں تم کتنی مد کر سکتے ہو.یقینی مدد شدہ کرنے کے لئے تیار ہو اس کو خوشی سے قبول کر لو اور اس وجہ سے کہ دہ سوئی صدی تمہارے ساتھ نہیں اس کو دھتکار نہیں اور اسلام کی صفوں میں رخنہ پیدا مت کرو.ہر احدی کا فرض ہے کہ وہ اس آواز کو اٹھائے اور رات اور دن اس کام میں لگ جائے حتی که سیاسی پارٹیاں آپس میں اتحاد کرنے پر مجبور ہو جائیں.میں یقین کرتا ہوں کہ اگر اب بھی مسلمان اختلاف پر زور دینے کی بجائے اتحاد کے پہلوؤں پر جمع ہو جائیں تو اسلام کا مستقبل تاریک نہیں رہے گا ورنہ افق سماء پر مجھے سپین کا لفظ لکھا ہوا نظر آتا ہے.لے مسلمانان عالم کےلئے دعائے خاص کا ارشاد حضرت ملا محمد نے الان انار کے نسل میں انتقام بیت المفضل رڈ نیوزی ۲۰ ر ضہور / اگست پر میش کو ایک خطبہ بھی دیا جس میں مسلمانان عالم کے لئے دعائے خاص کی تحریک کی چنانچہ ارشاد فرمایا :- آج کل جس قسم کے حالات میں سے مسلمان گز یہ ر ہے ہیں وہ نہایت ہی تاریک ہیں.ہندوستانی فلسطین.مصر- انڈونیشیا.ان سب جگہوں میں مسلمانوں کی ہستی نہایت ہی خطرہ میں ہے.ہندوستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ کسی کے پوشیدہ نہیں.ایران میں روسی حکومت اپنا اثر ونفوذ پیدا کر رہی ہے.اسے ایرانی حکومت کو نہایت خطرناک علامت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے.انڈو نیشیا میں ڈچ حکومت مسلمانوں کو غلام بنانے کی خاطر تمام قسم کے ہتھیار استعمال کر رہی ہے.الفضل در ظهور ر ا گست میش
۵۹۴ لایا میں چینیوں کو زبردستی ٹھونسا جارہا ہے.ہندوستان سے چل کر ایران.پھر فلسطین - مصر- انڈونیشیا ان سارے ہی علاقوں میں مسلمان سخت خطرات میں گھرے ہوئے ہیں.پس تمام دوستوں کو چاہیئے ان دنوں خاص طور پر دعائیں کریں.دوسرے مسلمانوں کو بھی تحریک کرنی چاہیئے کہ وہ بھی دعاؤں میں لگ جائیں.سوائے اس کے مسلمانوں کے لئے کوئی چارہ نہیں لے لی میں حضر میل مود کی دینی فیات ایمان لایا اور ان کا ستارا را در اکتوبر ه بیش ) سفر د ہی اختیا کہ فرمایا جس کی سیاسی تفصیلات تیسرے باب میں آچکی ہیں.اس موقعہ پر قیام دہلی کے دوران حضور کی بعض اہم دینی مصروفیات کا تذکرہ کیا جاتا ہے.حضرت مصلح موعود کا قیام کوٹھی ہمہ یارک روڈ میں تھا.جہاں حضور روزانہ مغرب و عشاء کی نماز کے بعد مجلس علم و عرفان میں رونق افر نہ ہوتے تھے اور احمدی غیر احمدی بلکہ غیرمسلم بھی بکثرت حضور کی مجلس میں حاضر ہوتے اور استفادہ کرتے تھے.قیام دہلی کے دوران حضور نے مسئلہ دعا موت کے بعد ردرج ، اسلامی عبادات اور چاند ، قدامت روح و مادہ ، ڈبوں کا گوشت ، معجزہ شق القمر ، حضرت صالح کی اونٹنی ، ملکہ سبا کا تخت ، احمدی نام موجود خلافت، قومی رسوم در دارج وغیرہ متعدد مسائل پر لطیف روشنی ڈالی.حقائق و معارف کے اس سلسلہ کے علاوہ جو موٹا روزانہ ہی بار تھا اور جو سر چشمہ ہدایت تھا.حضور نے مسجد احمدی دریا گنج میں تین خطبات جمعہ بھی دیئے.جن میں دہلی کی جماعت کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی ہے جماعت احمدیہ کے جملہ افراد کو یہ فرض یاد دلایا کہ وہ دنیا کی ہرقوم اور ہر فرد کو مخاطب کرے کیے اور دنیا کو تباہی سے بچانے کے لئے خصوصیت سے دعاؤں میں لگ جائے گی.دہلی میں حضور کی تین خاص تقریر یں بھی ہوئیں.۱۳۹ بوک اتمی کا نام احمدیہ دہی کے جلسہ میں تقریر فرمئی اور انہیں اپنے اندر نیک تبدیلی تنظیم مضبوط بنانے.دین کے لئے قربانی کرنے اور بنی نوع انسان کی خدمت کرنے کی قیمتی نصائح سے نواز ا یکم اخا را اکتر جب کہ منصور نے وہلی کی احمدی خواتین سے خطاب فرمایا جس میں انہیں تبلیغ کرنے اور صحابیات کے نقش قدم پر چلنے کی پر زور صحت کی شیه ور اناء ر اکتوبر کو حضور نے اپنی فرودگاہ میں اس اہم موضوع پر لیکچر دیاکہ اسلام دنیا کی موجودہ بے چینی کاگیا الفضل در بوک استمبر مش مست کالم ۲۲ سے افضل اور اضاء ش که بیش ہ ؟ و الفضل ۱۲۸ انجاء ۱۳۲۵ ه ش : ۵۴:- افضل ۳۰ را خاء ۳۲۵ میشه وله الفضل مرا خاو ۳۳۵ پیش صاد ۲ مکمل تقریر کیلئے ملاحظ و الفضل ۱۹ را ا ء اکتو برای نمایش ماتان
سیدنا رنا حضرت خلیفة المسی الثانی المصلح الموعود جماعت احمد یہ دہلی سے خطاب فرمارہے ہیں
۵۹۵ لاج پیش کرتا ہے.اس پر معارف لیکچر میں کم اور غیرسم معزی بکثرت موجود تھے جو خروقت تک نہایت تو عہد اور سکون سے گنتے رہے لیے اخبار " پیج " دہلی نے اپنی ہمارا تو یہ عہء کی اشاعت میں اس تقریر کے بارہ میں حسب ذیل نوٹ شائع کیا : مبر پارک روڈ پر ایک عظیم الشان جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے احمدیوں کے امام حضرت مرزا بشیر الدین خود احمد نے تقریر کرتے ہوئے بتایا کہ امن اور شانتی کا مسئلہ اتناہی پرانا ہے جتنا کہ خود انسان کیونکہ انسانی فطرت کے ساتھ اسکا نہایت ہرا تعلق ہے.اگر اس کا قیام مطلوب ہے تو اس کےلئے جدید و می رفت کوختم کرنا پڑی یا پیر کا سیاسی نہیں ہے بلکہ اخلاقی ہے اور اگر ہم خدا کی خدائی سے باخبر ہوں اور روٹی کا پیار - پیچ وغیرہ کو چھوڑ دیں تو اس کے بعد ہم نفرت اور انے کی بجائے برادری اور محبت کے بجذبات پیدا کر سکتے ہیں.مذہبی دنیا کے اختلافات ختم ہو سکتے ہیں بشرطیکہ ہم ایک دوسرے کے جذبات کا احترام کرنا سیکھیں اور اپنے اندر قوت برداشت پیدا کریں جس طرح مذہبی معاملات میں تحمل کی ضرورت ہے ٹھیک اسی طرح دنیا داری کے معاملات میں بھی اس کا ہونا لازمی ہے.ہمیں قومیت درنگ کے بھاڑوں کو ختم کرکے عالمگیر برادری کا جذبہ پیدا کرنا چاہیئے کے اگلے روز ( ا اناء کو جناب خواجہ حسن نظامی نے حضرت امیر المومنین سے ملاقات کا شرف حاصل کیا بھی کا ذکرہ خواجہ صاحب موصوف نے اخبار منادی (۲۳ اکتو بر الشراء ما پیر کے مرض مخلص اور دور اندیش لیڈر کے عنوان سے بھی کیا چنانچہ انہوں نے لکھا :- آج شام کونئی دہی میں چودھری سرفراد خانصاح کے مکان پر جناب مرزامحمود احد صاحب خلیفہ جماعت احمدیہ سے ملنے گیا تھا.ڈیڑھ گھنٹے تک باتیں کیں ان کو سلمان قوم کے ساتھ جو مخلصانہ ہمدردی ہے وہ شنکر میرے دل پر بہت اثر ہوا اور میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ آج ایک ایسے لیڈر سے ملاقات ہوئی جس کو میں نے بے غرض مخلص سمجھا.ورنہ جو لیڈر ملتا ہے کسی نہ کی مرض میں مبتلا نظر آتا ہے.مرزا صاحب مخلص بھی ہیں.دانشمند بھی ہیں.دور اندیش بھی ہیں اور بہادرانہ ہوش بھی رکھتے ہیں.کے چونکه ۱۲ ماه اخا اور اکتوبر حضور کی روانگی کا دن تھا اسکی آپ نے ایک روز قبل نماز ظہر کے بعد جماعت احمدیہ دہلی سے اور ابھی خطاب فرمایا جو بعد کو حضور کی زندگی کا یہی میں آخری خطاب ثابت ہوا حضور نے اس موقعہ پر نہایت مفید اور قیمتی نصائح ۱۳۲۵ الفضل ، در نهاد پیرایش صدا اس تقریر کامل متن فصل ۵ ا ا ا ا ا ایران می شال شا ہے ؟ - بجواله الفضل در نبوت / نومبرش ها :
۵۹۹ کرتے ہوئے آخر میں فرمایا :- اس وقت تمام دنیا میں اسلام پھیلانے اور لوگوں کے قلوب کو فتح کرنے کی ذمہ داری ہماری ہے.یہ خیال کبھی دل میں نہیں لانا چاہیئے کہ یہ ذمہ داری کسی اورکی ہے.جب تم یہ اچھی طرح ذہن نشین کرو گے تو دنیا جب میں کوئی تمہارا مقابلہ نہیں کر سکے گا.تم جہاں جاؤ گے تمہارے رستہ سے رکھا دیں خود بخود دور ہوتی چلی جائیں گی، مثل مشہور ہے ہر فرعونی را موسی.جسطرح ہر موسیٰ کا مقابل ہر فرعون نہیں کر سکتا اسی طرح ہر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مقابلہ بھی ر اب میں نہیں کر سکتا.تم اگر چھوٹے محمد صلی الہ علیہ سلم ابن ا گئے تو کتنے بھی ابو جہل تمہار سے مقابلہ کے لئے اٹھیں، مارے بھائیں گے.پس آج آپ سب لوگ عہد کہ ہیں کہ اسی دہلی میں جہاں سے پہلے پہل اسلام پھیل اور دور دارا نہ تک پہنچے گیا تھا آپ بھی اپنی تبلیغی کوششوں کو تیز کر دیں گے.اس وقت تمام مسلمان کہلانے والے تبلیغ سے بالکل غافل پڑے ہیں.اگر تبلیغ جاری رہتی توکوئی وجہ نہ تھی کہ اسلام پر زوال آسکتا.پہلی پانچ صدیوں میں مسلمانوں نے ہندوستان میں تبلیغ پر زور دیا.مگر پچھلی پانچ صدیوں والے سست ہو گئے.مگر اب خدا تعالیٰ کا منشاء ہے کہ پھر تمام دنیا اسلام کی آغوش میں آجائے.ہندوستان مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مولد ہے.اس لئے بھی اور اس لئے بھی کہ دہلی ہندوستان کا صدر مقام ہے دہلی دلوں پر خاص کر بہت زیادہ ذمہ داریاں عاید ہوتی ہیں.ہندوستان میں اس وقت چائیں کر وہ آدمی بہتے ہیں ان میں سے دس کے دور مسلمان ہیں گو یا ان حصہ آبادی کو حضرت معین الدین چشتی حمتہ الله علیها در قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ اللّہ علیہ حضرت نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے بزرگان نے مسلمان کیا.اب تمہارے لئے موقع ہے کہ اس کام کو سنبھالو.تین چوتھائی کام تمہارے حصہ میں آیا ہے.خداتعالی مجھ کو اور تم کو اس فرض کے ادا کرنے کی توفیق بنے.وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمین کے یاتی خرید بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ حضرت مصلح موعود قریبا تین ہفتے تک دہلی میں تشریف فرما ر ہے اس دوران میں جماعت احمدیہ دہلی نے مہمانی نوازی کا حق ادا کر دیا جس پر حضور نے اپنی اس آخری تقریر میں اظہار خوشنودی کہتے ہوئے فرمایا :- ر جماعت وہلی نے جس جہان نوازی کا نمونہ دکھایا ہے گو سے مکمل نہ کہا جا سکے مگر یقینا وہ دوسری جماعتوں کیلئے نمونہ ہے.ہماری مہمان نوازی چودہری شاہنواز صاحب نے کی جس میں ان کی اہلیہ صاحبہ کا بہت سا حصہ ہے.فجزاها الله احسن الجزاء باقی ساتھیوں اور مہمانوں کی مہمان نواندی تین ہفتے متواتر جماعت احمدیہ دہلی نے کی.اور بعض لوگ اتفضل دار نبوت / نومبر و مش مت - آخری کالم به
09€ تو رات دن کام پر رہے اور بعض دوست کھانا کھلانے کے لئے اکثر آتے رہے.مثل بابو عبد الحمید صاحب سکریڑی تبلیغ دہلی.اسی طرح اور کئی دوست کام میں لگے رہے.امیر صاحب جماعت دہلی.ڈاکٹر عبد اللطیف صاحب.چودھری بشیر احد صاحب.اسی طرح کئی اور دوست ان دنوں اسی طرح کام پر لگے رہے کہ گویا ان کا مہمان نوازی اور ہماری امداد کے سوا اور کوئی ہے ہی نہیں.ڈاکٹر لطیف صاحب اور سید انتظار حسین صاحب کی موٹریں رات دن ہماری کو بھی پر رہیں اور چودہری شاہ نواز صاحب کی کار کے ساتھ ہر وقت سلسلہ کے کام کرتی رہیں اور یہ قربانی ان لوگوں نے متواتر تین ہفتہ تک رات اور دن پیش کی.یقینا ہی ایمان کا تقاضا تھا اور ایمان کے آنے پر اس قسم کا اخلاص دکھائے بغیر کوئی جماعت اپنے ایمان کے دھونے میں سچی نہیں ہو سکتی.یہ کوئی اخلاص نہیں کہ امام آیا ہوا ہے اور لوگ اپنے کاموں میں لگے ہوئے ہیں.یہ تو دین سے استغناء کا مظاہرہ ہے اور جو دین سے استغناء کرتا ہے وہ ایماندار کسی طرح کہلا سکتا ہے.اکثر احباب جماعت مغرب و عشاء میں متواتر تین ہفتہ شامل ہوتے رہے.میر نزدیک جماعت کا ہر حصہ روزانہ نماز میں آنا تھا اور کافی تعداد کوئی یہ کے قریب با وجود دفتروں کا وقت ہونے کے ظہر و عصر میں شامل ہوتی تھی.ان میں سے بعض کو پانچ چھ بلکہ سات میں سے آنا پڑتا تھا.کثرت سے جماعت کے دوست دوسروں کو ملاقات کے لئے لاتے رہے اور مفید سوال وجواب سے اپنے اور دوسروں کے ایمان تازہ کرتے رہے.بہت سوں نے اس غرض سے دعوتیں کیں تا معزز غیر احمدیوں اور ہندوؤں کو ملنے کا موقعہ ملے گئی کی دعوتیں ہم قبول کر سکے اور کئی کی قلت وقت کی وجہ سے نہ کر سکے.عورتوں کی خدمات اور اخلاص بھی قابل تعریف تھا.انہوں نے قابل رشک نمونہ دکھا یا.بہر حال میں ان سب کا شکر یہ ادا کر تا ہوں اور ان کے اخلاص اور تقوی کی زیادتی کے لئے اور دینی و دنیوی کامیابی کے لئے دعا کہتا ہوں.اللهم آمین لے مولانا جلال الدین صاحب شمس کی میدان جوان ندوی صاحب انت باید داستان دس سال تک نیت کے مرکزہ میں تبلیغ اسلام کا کامیاب جہاد کرنے کے بعد ہار ماہ اعضاء کا میت مرجعت اور ایک گوئی کا ظہور ہے ۳۳۵ مشق کو سعد السيد من الحصنى صاب، امیر جماعت احمدية دمشق قادیان میں تشریف لائے تو اہل قادیان نے اُن کا نہایت پر تپاک اور پر جوش خیر مقدم کیا.۶ ار ماہ انفاء اکتوبر میش کو ان کے اور السید منیر الحصنی کے اعزاز میں جامعہ احمدیہ اور مدرسہ احمدیہ کے طلباء نے دعوت عمرانہ الفضل در تحت / نومبر م مش ها :
۵۹۸ دی جس میں حضرت سید نا لمصلح الموعود نے ایک پر معارف تقریر فرمائی جس میں بتایا کہ : اللہ تعالیٰ اور اگر کیے انبیاء کے کلام کے کئی بطن ہوتے ہیں اور ہر بطن اپنے اپنے وقت پر پورا ہوتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کے متعلق فرمایا ہے کہ اسکی سات بطن ہیں اور سات بطنوں میں سے آگے ہر سطین کی الگ الگ تفاسیر ہیں.اسی طرح ایک ایک آیت سینکڑوں اور ہزاروں معانی پر مشتمل ہے.رسول کریم صلی الل صل اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ آخری زمانہ میں مغرب سے سورج کا طلوع ہوگا.اور جب یہ واقع ہو گا تو اس کے بعد ایمان نفع بخش نہیں رہے گا.۱۹۲۳ء میں احرار نے ہمارے خلاف ایجی ٹیشن شروع کی اور انہوں نے دعوی کیا کہ ہم نے احمدیت کا خاتمہ کر دیا ہے.اور سہ ء سے ہی اللہ تعالٰی نے جماعت کو ایک نئی زندگی بخشی اور اُسے ایک ایسی طاقت عطا فرمائی جو اسی پہلے اُسے حاصل نہ تھی.اس نئی زندگی کے نتیجہ میں ہماری جماعت میں قربانی کا نیا مادہ پیدا ہوا.ہماری جماعت میں اپنے نفوس اور اپنے اموال کو خدا تعالی کی راہ میں وقف کرنیکا نیا جوش پیدا ہوا.اور ہماری جماعت میں دین اسلام کی خدمت اور اللہ تعالی کے کلمہ کے اعلاء کے لئے باہر جانے کا نیا ولولہ اور نیا بپوش موجزن ہوا.چنانچہ پہلے بیسیوں اور پھر سینکڑوں نوجوانوں نے اس غرض کے لئے اپنے آپ کو وقف کیا اور میں نے خاص طور پران کی دینی تعلیم کا قادیا میں انتظام کیا تا کہ وہ باہر جا کر کامیاب طور پر تسلی کر سکیں.اس عرصہ میں جنگ کی وجہ سے ہمارے پہلے مبلغ یا ہرڑ کے رہے اور نئے مبلغوں نے اپنی تعلیم کا سلسلہ بھاری رکھا یہانتک کہ جنگ کے خاتمہ پر ہم نے ساری دنیا میں اپنے مبلغ اس طرح پھیلا دئے کہ احمدیت کی تاریخ اس کی مثال پیش نہیں کر سکتی باقی مسلمانوں میں تو اس کی کوئی مثال تھی ہی نہیں.ہماری جماع میں بھی جو قربانی کی عادی ہے اس قسم کی کوئی مثالی پہلے نظر نہیں آتی.جب مبلغ تیار کر کے بیرونی ممالک میں بھیجے گئے تو خدا تعالی کی مشیت اور رسول کریم صلے اشد علیہ وسلم کی پیشگوئی کے ماتحت ہمارا جو لشکر گیا ہوا تھا اس میں سے سر سے پہلے شمسی صاحب مغرب سے مشرق کی طرف واپس آئے.پس اس پیشگوئی کا ایک بنی یہ بھی تھا کہ آخری زمانہ میں الہ تعالی اسلام کی فتح اور اسلام کی کامیابی اور اسلام کے غلبہ اور اسلام کے استعلاء کے لئے ایسے سامان پیدا کر لیا جن کی مثال پہلے مسلمانوں میں نہیں ملے گی.اور اس وقت سورج یعنی شمس مغرب سے مشرق کی طرف واپس آئیگا.ہمارے مولوی جلالی الدین صاحب کا نام شمس آئی کے والدین نے نہیں رکھا.ماں باپ نے صرف بجلال الدین نام رکھا تھا مگر انہوں نے با وجود اسکے کہ وہ شاعر بھی نہیں تھے جو نہی اپنے نام کے ساتھ شمشن لگا لیا.تا کہ اس ذریعہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشگوئی پوری ہو کہ جب شمس مغرب سے مشرق کی طرف آئے گا یہ
014....پھر وہ زمانہ بھی آجائیگا جب اس پیشگوئی کا دوسرا بطن پورا ہو گا اور مغرب سے اسلام کے مبلغ نکلنے شروع ہوں گے اور عرب میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو بجائے اسلام کو مٹانے کے اسلام کی تبلیغ کے لئے اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوں گے.پھر وہ زمانہ بھی آئے گا جب اس دنیا پر صرف اشرار ہی اشرار رہ جائیں گے اور جب سورج بھی مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع کرے گا اور دنیا تباہ ہو بھائے گی.یہ سارے بطن ہیں جو اپنے اپنے وقت پر پورے ہوں گے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس کا ایک بطن یہ بھی ہے جو شمس صاحب کے آنے سے پورا ہوا اور جسے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق ہمارا اسوقت کاردانی حملہ جا به جا نہ حملہ ہو گا ہو نہ یادہ سے زیادہ قوی ہوتا چلا بھا ئیگا.پس ہماری جماعت کے دوستوں پر بھی اور جامعہ احمدیہ اور مدرسہ احمدیہ کے طلباء پر بھی بہت بڑی ذمہ داری عاید ہوتی ہے.جب جارحانہ اقدام کا وقت آتا ہے تو یکے بعد دیگر ے قوم کے نوجوانوں کو قربانی کی بھینٹ پڑھایا جاتا ہے.جب لڑائی نہیں ہوتی اسی وقت فوجوں کی اتنی ضرورت نہیں ہوتی لیکن جب جارحانہ اقدام کا وقت آتا ہے تو جس طرح ایک تندرواں اپنے تنور میں پیتے تعود لکھتا چلا جاتا ہے اسی طرح نوجوانوں کو قربانی کی آگ میں بھونکنا پڑتا ہے اور یہ پرواہ نہیں کی بھاتی کہ ان میں سے کون بچتا ہے اور کون مرتا ہے.ایسے موقعہ پر سر ہے تقدم رہے اعلیٰ اور سر ہے ضروری یہی ہوتا ہے کہ جیسے پر دانے شمع پر قربان ہوتے چلے جاتے ہیں اسی طرح نو جوان اپنی زندگیاں اسلام کے احیاء کے لئے قربان کر دیں.کیونکہ ان کی موت کے ساتھ اُن کی قوم اور ان کے دین کی زندگی وابستہ ہوتی ہے.اور یہ قطعی اور یقینی بات ہے کہ اگر قوم اور دین کی زندگی کے لئے دس لاکھ یا دس کروڑ یا دس ارب افراد بھی مر جاتے ہیں تو ان کی پرواہ نہیں کی بھا سکتی.اگر ان کے مرنے سے ایک مذہب اور دین زندہ ہو جاتا ہے.پس ہمارے نوجوانوں کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس اپنے اندر پیدا کرنا چاہیئے.شمس صاحب پہلے مبلغ ہیں جو جنگ کے بعد مغرب سے واپس آئے.یوں تو حکیم فضل الرحمن صاحب بھی مغرب میں ہیں.مولوی محمد شریف صاحب بھی مغرب میں ہیں.صوفی مطیع الرحمن صاحب بھی مغرب میں ہیں اور ہو سکتا ھا کہ کوئی اور پہلے آجاتا.ہم نے حکیم فضل الرحمن صاحب کو آج سے نو ماہ پہلے واپس آنے کا حکم دیدیا تھا مگر کو نو آنے حکم اُن میں سے کسی کو واپس آنے کی توفیق نہیں ملی.توفیق ملی تو شمسی صاحب کو ملی.تا اس ذریعہ سے رسول کریم صلی اشد علی اسلم کی یہ پیشگوئی پوری ہو کہ جب آخری حملے کا وقت آئے گا اس وقت مستی نامی ایک شخص مغرب سے مشرق کی طرف واپس آئیگا اور اس کے آنے کے ساتھ اسلام کے جارحانہ اقدام اور ان کی حملہ عظیمہ کی ابتدا و
۲۰۰ ہوگی اور نوجوان ایک دوسرے کے پیچھے قربانی کے لئے بڑھتے چلے جائیں گے.پرد نہ کیا ہے حقیقت اور بے عقل جانور ہے مگر پر دانہ بھی شمع پر جان دینے کے لئے تیار ہو جاتا ہے.اگر پر دانہ شمع کے لئے اپنی جان قربان کر سکتا ہے تو کیا ایک عقلمند اور باغیرت انسان خدا اور اُسکی رسولی کے لئے اپنی جان دینے کو تیار نہ ہو گا ؟ لے نواکھالی اور بہار میں خونریز فسادات فادات کلکتہ کا رد عمل پہلے نواکھالی اور پھر بہار میں ایسی سفاکی ، درندگی اور بہیمیت کی صورت میں ہوا کہ انسانیت روپوش ہوگئی.اور جماعت احمدیہ کی خدمت خلق.نہ کھال من اگر ہے نہ ہندو نہایت بے دردی کو موت کے گھاٹ نو اکھائی میں بے گناہ اتار دیئے گئے تو بہار کے لیے ہیں اور معصوم مسلمانوں پر قیامت ٹوٹ پڑی.فسادیوں نے نہایت وسیع پیمانے پر مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی اور اُن کے دیہات کے دیہات نذر آتش کر دیئے.ہزار دن سلمان شہید ہوئے ہزاروں زخمی ہوئے اور ہزاروں بے خانماں ہو کہ بنگال، سندھ یا پنجاب میں آبسے اللہ ہزاروں دیہاتوں کے بھاگ بھاگ کر شہروں میں پہنچے اور ڈاکٹر سید محمود کے بیان کے مطابق ایک لاکھ دس ہزار مسلمان پناہ گاہ بنوں کے کیمپ میں تقسیم ہو گئے.چنانچہ بھاگل پور سے موادی اختر علی صاحب ریٹائرڈ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس اور پر وفیسر عبد القادر صاحب نے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں ہم ماہ نبوت انذیر کو مندرجہ ذیل تا ر بھجوایا او را نبوت کو موصون ہوا :- مسلمانان بہار پر مظالم کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے.مظالم توڑنے میں عورت ، مرد اور بچے بوڑھے کا کوئی امتیاز نہیں کیا جاتا اصل حالات کو مخفی رکھا جا رہا ہے.سپین کی خونی داستان تمام صوبہ میں دہرائی جارہی ہے.ذرائع ریسل در مسائل اور خط و کتابت بند ہیں مسلمانوں کے خلاف مظالم کا ایک تند طوفان اٹھ رہا ہے.مہربانی فرما کر دعا فرمائیں اور مرکزی حکومت کے ذریعہ اور پبلک میں اصل حقیقت کے اظہار کے ذریعہ اعداد فرمائیں.ہماری جانوں کی حفاظت کے لئے یہ ایک ڈوبتے ہوئے جہانہ کی صدا سمجھیں " کے حضرت مصلح موعود نے نواکھالی اور بہار کے ان خوینیز فسادات پر اولین قدم یہ اٹھا یا کہ نوا ھوالی کے فلاکت زدوں کی امداد کے لئے آل انڈیا نیشنل کانگرس کو پانچ ہزار اور مظلوم مسلمانان بہار کے ریلیف فنڈ میں قائد اعظم محدعلی جناح کی خدمت میں پندرہ ہزار روپیہ کی پہلی قسط بھجوائی.یہ قسط نظارت امور عامہ کی طرف سے ارسال کی گئی س کے ساتھ حسب ذیل خط بھی تھا :- الفضل ۲۹ صلح جنوری ۱۳۳۰ به پیش ۳۲۰ ے یہ بیان انہوں نے پٹنہ ٹائمز " میں شائع کرایا تھا : 31941 که الفضل در نبوت اند بر ۳۳۵ به ش ۲۰ : ه الفضل در نبوت / نومبر ۳۲۵ پش:
" جناب ! حضرت مرزا البشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ کی زیر ہدایت امدیہ جماعت قادیان پندرہ ہزار روپے بہار کے مظلومین کے لئے پیش کرتی ہے.یہ رقم جماعت احمدیہ کی طرف سے صرف بطور قسط ا کی ہے.جو اپنی تعدادی طاقت کے لحاظ سے تین گنا ہے.یعنی کل ہندی مسلم آبادی کا چھیاسٹھواں حصہ.حالانکہ ایک احمدی کے مقابل دو سو غیر احمدی مسلمان ہیں " قائد اعظم محمد علی جناح نے جو اہا لکھا:.نبود ولی ۱۳۳ نومبر بنام ناظر امور عامه جماعت حمدیہ قادیان ، آپ کا خط اور چیک مل گیا ہے.آپ کی امداد کے لئے بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں.بہار کی امداد کیلئے حتی الوسع کوشش کر رہا ہوں.ہر طرف سے امداد کی سخت ضرورت ہے.صورت حال بڑی نازک ہے.بہت بڑی مہم درپیش ہے.جناح نہ لے اس پہلی قسط کے بعد جماعت احمدیہ تے تیس ہزار روپیہ مزید بہار ریلیف فنڈ کے سلسلہ میں بھجوایا سکتے اس مالی امداد کے علاوہ حضرت خلیفہ البیع الثانی المصلح الموعود کے حکم سے ۴ در ماه نبوت / نومبر ہر مہیش کو قادیان سے ایک طبی ودند (معہ ضروری ادویہ و سامان، بہار کے ستم رسیدہ مسلمانوں کی فوری امداد کے لئے بھجوادیا گیا جو حسب ذیل اصحاب پر مشتمل تھا : - مولوی برکات احمد صاحب بی.اسے نائب ناظر امور عامه و امیرو در این حتی میدان اعلام رسول مصاب را یکی ) ۲ پرو فیسر سید فضل احد صاحب ایم.اسے تعلیم الاسلام کالج قادیان - -۳- ڈاکٹر احمد صاحب پسر حضرت صوفی غلام محمد صاحب (سابق مجاہد ماریشی).م ڈاکٹر مسعود احمد صاحب ریپر حضرت بھائی محمود احمد صاحب قادیان) - ه - عبد الغفار صاحب کمپونڈر.سے اس پہلے وفد کے بعد حضرت مصلح موعود نے اور فتح دسمبر کو تحریک خاص فرمائی کہ احمدی ڈاکٹر مصیبت نہ دگان بہار کی امداد کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں.جس پر کیپٹن ڈاکٹر بدر الدین حد صحت ایم بی بی ایس اور کیپٹن ڈاکٹر احمد سید محمد جی صاحب آئی.ایم.ایسی نے اپنے نام دیئے اور ۱۰ رمان فتح / دسمبر کو قادیان سے روانہ ہو کہ بہار میں س الفضل ۲۰ نبوت / نومبر له پش: ار " را کورنگی ار فتح / دسمبر " ، ۲۰ کالم : ردار ۳ : الفضل ۲ هجرت ارمنی کش ها به ص ه ر فتح ا دسمبر عالم مش ها :
پہنچے اور پہلے طبی وزر کا ہاتھ بٹانے لگے.ان کے بعد تیسرا وندر ۱۸ ماه صبح مجبوری یہ ہیں کہ بہار گیا.جو : - حضرت ڈاکٹر بدر الدین احم صاحب اپنی غیر مطبوعہ خود نوشت سوانح میں تحریر فرماتے ہیں : سید نا حضرت اقدس نے تحریک فرمائی کہ بہار میں مسلمان مظلوموں کی امداد کے لئے ابھی اور ڈاکٹروں کی ضرورت ہے.چنانچہ ڈاکٹر مجد جی صاحب اور عاجز دونو نے اپنے آپکو پیش کر دیا.اور چند دنوں کے بعد ہم بہار پہنچے گئے.رہے اول سیدنا مسیح المدعو علي الصلاة و السلام کے مرید مکرم علیم خلیل احمد صاحب کے مکان پر تو گھر پہنچے.مونگیر کو تو ہم بڑا شہر جانتے تھے گو سٹیشن پر سوائے گھوڑا گاڑی کے اور کوئی سواری نہ تھی اور یہ گھوڑے سے پنجابی گدھے کے ایک دو سالہ بچے کی مانند دبلے پہلے اور نحیف تھے.خیر ہم سیدھے حکیم صاحب کے ہاں پہنچ گئے دیکھا تو توجہ فسادات سب طرف خون کی حالت طاری تحتی حکیم صاحب کے ہاں کچھ سامان غرباء میں تقسیم کے لئے موجود تھا.ہم دو تین روز ٹھہرے.حضرت حکیم صاحب کی معیت میں ہم خاص توت میں کی میں.نتظمین امداد مظلومین کے پاس پہنچے مگر ان مسلمانوں میں ہم سے نہیں نیچانی.مگرحکیم صاحب بالخصوص عاجز کے باریش وجود کو بطور تبلیغ استعمال فرمانہ ہے تھے.پھر حکیم صاحب کی معیت میں ہم DISTRICT OFFICER کے پاس گئے.وہ سلمان عمر شخص تھے مگر ہند روی کار در تھا ، کو بھی ہندوؤں کے دباؤ میں رہنا پڑتا تھا.دیکھا کہ ایک ہندو آپ کے پاس بیٹھا ہے اور کوئی ایک گھنٹہ تک برابر پوست ہی میں جاتا تھا.گویا کہ وہ درد کی بجائے اپنی ہی حکومت جان رہا تھے.خیر مشکل ہیں وقت ملا مگر ہر صاحب نے فرمایا کہ اسوقت محالات درست ہو چکے ہیں اور مظلومین کی امداد کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے.ہم اُن سے نا امید ہو کر واپس ہوئے.آخر حکیم صاحب کی معیت میں ہم بذریعہ ریل PATNA پہنچے.وہالی ہمارا ایک دور جناب مولوی برکات احمد صاحب را این حضرت مولوی را بیگی صاحب) کی قیادت میں آیا ہوا تھا اور وہ دیہان امیر جماعت کے مکان پر مقیم تھے.ہم وہاں پہنچ گئے.آخر اُن کی مدد سے ہم نے اور یہ خریدیں اور پھر ان کی قیادت میں بذریعہ ریل اسی علاقہ کی طرف روانہ ہوئے جہاں ہمارے ایک احمدی لگاؤں کی جماعت آباد تھی.ایک خاص سٹیشن پر اتر کر داری میں بیٹھے.ہمارے امیر صاحب کچھ خائف تھے.اور خطرہ ہی کے علاقہ سے ہم گزر رہے تھے اور بار بار ہم میں سے ہر ایک کے پاس آکر ہدایات دیتے رہے کہ اترنے کے وقت اس طریق سے چاہیں گے.غرض ہم تسبیح و تحمید اور درود پڑھتے ہوئے اس جگہ آن پہنچے اور سڑک سے اتر کر کھیتوں میں سے ہو کہ اپنے گاؤں میں پہنچے گئے.اس وسیع علاقہ میں صرف یہی گاؤں بمعہ مسجد کے محفوظ رہا تھا ورنہ چاروں طرف تباہی سے مسلمان نابود ہو گئے تھے.اس حالت کو دیکھ کر صاف اور بین طور پر نشان ہی نظر آرہا تھا کہ کیونکہ جب کہ چاروں طرف سینکڑوں گاڑی کے مسلمان تباہ ہو گئے.یہ صرف ایک گاؤں میں اپنی مسجد کے محفوظ رہا.صاف ظاہر تھا کہ یہاں ملائکہ کا پہرہ تھا.ہماری جماعت کے احباب نہیں دیکھکر بہت خوش ہوئے.وہاں ابھی پولیس کے دو نیچے لگے ہوئے مخالی پڑے تھے ہم میں دیکھکر ہوئے.اب رویے پڑے ہیں تقسیم ہوگئے.یہاں ہمیں بتایاگیا کہ جب ہجوم اس طرف کو بڑھا تھا تو احمدی احباب نے اپنے مکانوں کے اندری پانے چلانے شروع
ٹاکٹر فضل کریم صاحب اور ڈاکٹر اعظم علی صاحب پر مشتمل تھا.ہے پہلے احمدی طبی نہار نے بہار میں پہنچتے ہی اپنی خدمات ضلع مسلم لیگ مونگیر کے سپرد کر دیں اور انہیں تارا پور اور کھڑاک پور وغیرہ کے ان علاقوں میں متعین کیا گیا جو ہے زیادہ تباہ شدہ تھے.احمدی ڈاکٹروں نے نہایت محنت اور ہمدردی سے قریبا آٹھ سور بعضوں کا علاج کیا.تارا اور کیمپ میں راشن کی تقسیم کا انتظام کانگرسی یرضا کاروں کے ہاتھ میں تھا.احد یہ ہند کی کوشش سے مسلم لیگی نمائندوں کو بھی نگرانی کی اجازت مل گئی.قبل ازیں پناہ گنز میوں کو چاول اور مکی ملتی تھی.اب دال بھی میسر آنے لگی.دودھ کی تقسیم کا انتظام پہلے کی نسبت بہت تسلی بخش ہو گیا.اس طرح آخر نومبر سے پہلے خیموں کا انتظام نہ تھا.اب نیچے آنے شروع ہو گئے.اور ان میں روشنی کا انتظام بھی ہو گیا.احمدیہ طبی وند نے تارا پور کیمپ کے علاوہ نمازی پورداد را درین میں بھی وسیع پیمانہ پر امدادی سرگرمیاں جاری رکھیں.اور مریضوں کے علاج معالجہ کے لئے دن رات ایک کر دیا.اور نمازی پور، بھاگل پور، مونگیر، ادرین ، سورج گڑھ اور پٹنہ میں مستحقین کی روپیہ سے بھی امداد کی.حمدیہ ملتی وفد کی ان طبی خدمات کو صدر نہ تھی ضلع لم لیگ اور کنٹر اور من گھیر ڈسٹرکٹ مینرال ریلی ڈائرکٹرند - دونوں نے بہت سراہا اور بطور شکریہ امیر و فر مینوی برکات احمد صاحب کہ حسب ذیل خط لکھے :.(1) از دفتر ضلع مسلم لیگ - مونگیر - ۶ دسمبر تشنہ.پیارے محترم : آپ نے اور آپ کی " پارٹی نے اس ضلع کے مختلف کیمپوں میں پناہ گزینوں کے ساتھ جو قابل ستائش خدمات سرانجام دی.: بقيه حاشیه :- کردئے.اور ایک آدھی بندوق بھی تھی مگر شاخوں کی آواز کو شنکر ہجوم اس طرف جو است نہ کر سکا.صرف ایک نوجوان تمہارا شہید ہوا تھا.جس مقام پر وہ بے چارا گرا تھا وہ ہم نے بجا کر دیکھی اور دعا کی.کچھ مسلمانوں کو ساتھ لے کر ہم نے اُس علاقہ کا ذرہ میں کیا تھا.ارد گرہ کے گاؤں کے گاؤں ظالموں نے تباہ کر دیئے تھے اور عورتوں اور بچوں کو مکانوں میں بند کر کے آگئیں لگا دی تھیں اور لاشوں کو بالوں سے کھینچے کھینچے کو کنڈوں میں ڈال دیا گیا.کنوؤں کے اندر سے ابھی تک بد بو آرہی تھی اور امدادگر کا ساندہ علاقہ ہڈیوں ، پنجیروں اور کھر پر یوں سے کاٹا پڑا تھا.سنا گیا کہ ایک اور جگہ عورتوں اور بچوں کو کہا گیا کہ تمہارے - تو مر گئے ہیں علو ہم تمہیں حفاظت کی جگہ لے جائیں.باہر جا کے اُن کے سروں پر چٹائیاں ڈال دی گئیں اور مٹی کا تیل ڈال کر آگئیں لگادی گئیں.غرضیکہ ہمارا تو دل داللہ غیرت اور ڈکو سے بھر گیا اور مسلمانوں کی اس لیے کیسی اور تباہی پر روتا رہے گا ه الفضل در تبلیغ ه ش مه من
۶۰۴ ہیں.ان کی وجہ سے میں بہت ہی ممنون ہوں.آپ کی امداد اور ریلیف اس ضلع کے پناہ گزینوں کی انتہائی ضروریات تھیں اور انہیں آپ نے پورے طور پر عمدہ طریق سے سرانجام دیا.جس طرز پر آپ نے کام کیا ہے اسکے متعلق مسلم لیگ کی طرف سے پورے اطمینان اور گہرے امتنان کے جذبات ظاہر کر نے میں خوشی محسوس کرتا ہوں.آپ کا مخلص دستخط ، ایس.ایس رشید احمد ، مولوی ، پریذیڈنٹ سونگھیر ضلع مسلم لیگ - بخدمت مولوی برکات احمد صاحب نائب ناظم امور عامه - قادیان پنجاب " (۲) مونگیر میر خر ۱۹۹۳۶ - ۱۲ - ۱۴ قادیان میڈیکل ریلیف کے کارکنان نومبر کے تیسرے ہفتہ میں مونگیر وارد ہوئے اور انہوں نے خونگیر کے متعدد کمیوں میں کام کیا.ان کا گروہ با تنظیم دورہ مینڈک کارکنوں پر شامل ہے اور ان کے لیڈر مولوی برکات احمد بہت با شعور انسان اور ایمان دارہ کا رکن ہیں.کاش ان جیسے کارکنوں کا ایک گردہ مجھے مستقل طور پر مونگیر کے لئے مل جائے.اس وفد کو طور پر مشکل حالات میں کام کرنا پڑا اور بعض اوقات محصول ریلیف کے لئے سرکاری احکام کے ساتھ لڑنا پڑا.مجھ سے ان کا تعارف حکیم تعیل احمد صاحب نے کرادیا جو خود دریا ندارد در مخلص کارکن ہیں.دستخط ہیں.ایم سہیل کنٹرولر مونگیر ڈسٹرکٹ سنٹرل ریلیف ڈائرکٹر نہ ) " ہے اہیم کو یہ تو حد یہ طبی وند کی اہم خدمات تھیں.جہاں تک بہا را در بنگال کے احمدیوں کا تعلق تھا انہوں نے بھی مصیبت زدہ ہونے کے باوجود قتل دعمارت کے اس طوفان میں اپنے مسلمان بھائیوں کی خدمت کا عمدہ نمونہ دکھایا.مونگیر :.چنانچہ مونگیر میںحضرت حکیم معین احد صاحب امیر جماعت احد یہ مونگیر نے پنجاب اور بنگال سے آنیوالے طبی و خود کو احمدی کالونی میں رکھا اور ان سے ہر طرح تعاون کیا.اور اپنے گھر میں بہت سے مسلمانوں کو پناہ دی.اور مسلم لیگ کی شاخ و یلفیئر ایسوسی ایشن کے نمبر کی حیثیت سے سرگرم عمل رہے.در حقیقت مون گھیرمیں مسلم لیگ کی تمام امدادی سرگرمیوں میں آپ روح رواں تھے.آپ کے ساتھ مولوی محمد ظریف صاحب وکیل بھی کام کرتے رہے.اسیطرح سید غلام نبی صاحب نے ضلع مسلم لیگ کے سالا را علی کی حیثیت سے اہم خدمات انجام دیں.ڈاکٹر حبیب اللہ صاحب اور ملک فی الدین صاحب اسپر ملک نور الدین صاحب مرحوم قادریان نے اس علاقہ میں نا ہے اسلامی دن کیا تھال کا کام کیا.: اتفض.صلح / جنوری له میش : ۱۹۴۷
۶۰۵ بھاگلپور: پروفیسرعبدالقادر صاحب ایم.اسے کرنید مرد کے اوقات میں بھی مسلمانوں کے مفا کی خاطر حکام سے بار بار ملتے رہے.اور شہر کے محموں میں پولیس اور ملٹری متعین کر انے میں کامیاب ہو گئے.نیز ان امور کے تعلق میں مار تنگ نیونه (کلکتہ) میں ایک مضمون بھی بھجوایا.مولوی اختر علی صاحب بھی آپ کے دست درباز د تھے جنہوں نے حکام سے رابطہ قائم کرنے یا خود کتابت کرنے میں انتہائی بیدار مغزی اور فرض شناسی کا ثبوت دیا.ڈاکٹر عقیل ہے عبد الف دصاحب نہایت مخدوش حالات میں دوسرے دو مسلمان ڈاکٹروں کو ساتھ لے کر بھاگلپور کے علاوہ تار پور کے نسا وہ علاقہ میں بھی گئے.جو دین کی ترمیم مٹی کی.ڈاکٹر عبد الحی صاحب آت برما پور جنرل ہسپتال میں مریضوں کی دیکھ بھان کرتے رہے اور انکی دیگر ضروریات کی طرف متوجہ رہے.غازی پور - غازی پور کے احمدی لیاقت حسین صاح نے نمازی پور کی حفاظت کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا اگر پے محمد عاشق حسین صاحب صدر جما عت غاندی پور کا پچاس ہزار روپیہ کا نقصان ہوا تھا پھر بھی انہوں نے کئی مسلمان خاندانوں کو اپنے ہاں پناہ دی اور لیبتی کے دوسرے لوگوں کی بھی خدمت بجالاتے رہے.یکم فتح رودسمبر کو گورنر صاحب بہادر اس بد نصیب بستی کا معائنہ کرنے کے لئے آئے تو ایک احدی اصغر حین صاحب نے انہیں لاشوں کے مقامات دکھائے اور گاؤں کے مسلمانوں کی نمائندگی میں فصل حالات پیش کئے اور درخواست کی کہ حالات کے معمول پر آکھانے تک فوج کو پاستور متعین کیا جائے.جس میں مسلمان اور گور سے ہوں.تھان کاٹنے میں حکومت کی طرف سے مدد دی جائے.نیز اجڑے ہوئے مسلمانوں کو ایک مقام پر اکٹھا بسایا جائے اور حفاظت کے لئے اسلحہ دیا جائے.غازی پور کے احمدیوں نے اپنے گاؤں کے مسلمانوں کی لاشیں باقاعدہ دفن کیں جبکہ دوسرے دیہات کئے مردے جلا دیئے گئے.غاندی پور کے احمدیوں کی یہ خدمت غیر مسلموں کو بہت ناگوار گزری اور انہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا.اور وہ یہ کہ چونکہ یہ احمدی دیگر مسلمانوں کی تکلیف میں مدد دیتے تھے اور ان کی جائز شکایات افسران بالا تک پہنچاتے تھے ے پولیس نے ان میں سے ملالہ کو علی الزام کی بناء پر گرفتار کر لیا.لے پٹنہ : یہاں پر وفیسر سید اختر احمد صاحب اور نیوی کی وجہ سے مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن نے باقاعدہ تنظیم کے ساتھ خدمت خلق کا فریضہ ادا کیا اور آپ اسکی روح رواں تھے آپ کے اہلبیت بھی مستورات میں ریلیف کا کام کرتے ہے.بہار کے ان مخلص احمدیوں کے علاوہ ڈاکٹر عبد الحمید صاحب انچارج پاکستان ایمبولینس کو ر کلکتہ اور ڈاکٹر عنایت اللہ شاہ صاحب انچارج علی گڑھ میڈیکل پارٹی مقیم دیکھا میں نے بھی خدمت خلا میں نمایاں حصہ لیا.میخواند گر ه الفضل در ماه تبلیغ فروری سه مش مث :
۶۰۶ کی جدو جہد سے ہی یہ کیمپ جاری ہوا.ان ایام میں جہاں جہاں احمدی افسر موجود تھے وہاں وہاں انہوں نے نہایت اخلاص اور دیانتداری اور جانفروشی سے یہ خدمت کی.ہے ت جماعت احمدیہ کے مرکزی بی وفود اور دوائیں اور دوسرے امدادی کاموں پر دس ہزار سے زاد پوری ہوا.مصلح مور ڈاکٹر ویست لیمن کی توانا اور ا کر میرا ایمان کی کاوانی جنوبی افریقہ کے کالو ایک نہایت معز نہ اور با اثر خاندان کے چشم و چراغ یان فی جنوبی افریقی می تبلیغ حدیت کی داغ میں تھے جو شاہ کے حدیث میں شامل تھے.اور سے بجماعت احمدیہ انگلستان کے مشہور و معروف اور مخلص مستانہ فرد انخاندان مسیح موعود کے عاشق صادق اور اسلام و احمدیت کا عملی نمونہ تھے.انگلستان میں بچپن سے رہائش رکھنے کی درجہ سے انگریزی زبان توگو یا ان کی مادری زبان تھی.علاوہ ازیں جرمن ، فرنچ ، ڈچ اور افریقی زبانیں بھی جانتے تھے اور تبلیغ کا بہت شوق رکھتے تھے.اور انگلستان میں عام لوگوں کے علاوہ مختلف ممالک کے سفیروں اور وزیروں کو موثر طور پر پیغام بھی پہنچاتے رہتے تھے.جنوبی افریقہ میں کسی وہ اصل باشند ستے تھے نئے ہندوستانیوں کا داخلہ بند تھا اور پرانے ہندوستانی باشندوں سے شرمناک سلوک زدار کھا جاتا تھی.حضرت مصلح موجود سالہا سال سے حسرت کی نگاہ سے اس علاقہ کو دیکھ رہے تھے کہ کوئی ذریعہ وہاں مبلغ بھجوانے کا نکل آئے.لیکن اس کا کوئی امکان نظر نہیں آتا تھا.اللہ تعالیٰ نے اس علاقہ میں احمدیت کی اشاعت و تبلیغ کا غیبی سامان یہ کیا کہ ڈاکٹر یوسف سلیمان شروع ماه امان امانه ای می میں اچانک قادیان تشریف لائے اور حضرت مصلح موعود سے ملاقات کی اور بتایا کہ وہ آئندہ جنوبی افریقہ میں رہائش پذیر ہوکر تبلیغ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور ساتھ ہی کسی بیرونی مبلغ کو نگوانے کا وعدہ بھی کیا.چنانچہ حضرت مصلح مویئود نے اپنے خطبہ جمعہ در امان مارچ وہ پیش نہیں اس ملاقات کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ : ڈاکٹر صاحب نے اپنی ساری عمر انگلستان میں گزاری ہے.انہوں نے ڈاکٹری پاس تو کی تھی لیکن ڈاکٹری پیشہ اختیار نہیں کیا.ان کے والد صاحب امیر آدمی تھے اور اتنی جائیداد انہوں نے چھوڑی ہے کہ وہ اس پر گزارہ کرتے ہیں.ان کے والد کیپ ٹاؤن کے علاقہ کے ویسے ہی لیڈر تھے جیسے مسٹر گاندھی ٹال کے اور دونوں مل کر کام کیا کرتے تھے.جب ڈاکٹر صاحب مجھے ملے تو انہوں نے بتایا کہ مسٹر گاندھی کئی دفعہ ہمارے گھر آکر ٹھہرتے اور کئی دفعہ میڈیکل ریلیف وند کے دورہ بہار کی رپورٹ سے ملحق در تبہ ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے سپیکر ڑی بہار کیٹی.مطبوع ۲۰۰۲۰۰۱۶ رفتح ۱۳۳۵ بیش ) بخش ۱۲ ماه امان ۱۳۲۵ پیش ۲۰ : ه : بفضل مهرماه بحرت استی مرا
ہم ان کے گھر جا کر بھر تے ان کے دوسرے بھائی بھی احمدی ہیں.لیکن ہمشیرہ احمد نہیں.انہوں نے کہا کہ میں مس میں ساؤتھ افریقہ کار ہا تھا اور میں نے وہیں کا پاسپورٹ لیا ہوا تھا.جب میں کلکتہ پہنچا تو ارادہ ہوا کہ ہندوستان میں ٹھہر جائیں کیونکہ کلکتہ کی غلاظت دیکھکر مجھ پر اتنا ان ہوا کہمیں نے ارادہ کیا کہ کئی علاقہ تو یہ ہے کہ ہندوستان کے لوگوں کو صفائی کے ساتھ رہنے کی عادت ڈالوں اور ساتھ ہی تبلیغ بھی کروں پھر انہوں نے کہا :.یہاں کی گورنمنٹ مجھے وجہ ساؤتھ افریقین ہونے کے ملک میں رہنے کی اجازت نہیں دیتی ہیں بیچا ہتا ہوں کہ مین اپنے وطن میں رہوں اور سلسلہ کی تبلیغ کروں.میں نے کہا کیا کسی طرح ہم اپنا مبلغ وہاں بھیج سکتے ہیں ؟ انہوں نے کہا ہاں وہاں انہیں استاد کر کے بھیج سکتے ہیں.میں کہوں گا کہ مجھے اپنے لئے دین کے استاد کی ضرورت ہے اسطرح وہ میرے استاد بن کر جا سکتے ہیں.میں نے کہا کہ آپ جائیں اور استاد کے لئے درخواست دیدیں انجازت ملنے پر ہم وہاں اپنا مبلغ انشاء اللہ بھیج دیں گے اب دیکھو یہ خدائی سامان ہیں نہ ارادہ ، نہ خیال مجھے تو یہ بھی پند نہیں تھا کہ وہ آرہے ہیں.اچانک ان کا یہاں آنا معلوم ہوا.اور اچانک خدا تعالیٰ کی طرف سے ساؤ تھا فریقہ میں تبلیغ احمدیت کے سامان پیدا ہو گئے یہ لے ڈاکٹر یوسف سلیمان صاحب تازیان سے انگلستان پہنچے جہاں سے آپ ا ا ا ا ا ا اور بی ایم بی و جنوبی فریقی میں تبلیغ اسلام کے لئے روانہ ہو گئے.اخبار ڈان نے ان کی روانگی کی خبر سب ذیل الفاظ میں شائع کیے.ور لینڈن ۱۳ را ار اکتوبر.رائیٹر ک ایک تار مظہر ہے کہ سجد لندن کے ڈاکٹر یوسف سلیمان کا جنوبی افریقہ روانہ ہوئے.جہاں وہ کیپ ٹاؤن میں ایک سلم مشن قائم کریں گے.ہم جنوبی افریقہ کی یونی میں پانی سم کا واحد ادارہ ہو گا.ڈاکٹر ایمان نے رائٹر کو بتایا کہ مشرقی در مغربی افریقہ میں ہمارے بہت سے اسلامی تبلیغی مش اور مسجدیں قائم میں مگر جنوبی افریقہ میں اب تک کوئی ایسا مشن نہیں ہے.مسجد لندن کے ارباب اختیا ر نے جنوبی افریقہ میں مسلمانوں کی کثیر آبادی کے پیش نظر جد دیان کے ملکی باشند سے بن چکے ہیں.ڈاکٹر سلیمان کو کیپ ٹاؤن می مشن قائم کرنے کی ذمہ داری سپرد کی ہے ڈاکٹر سیمان نے کہا کہ مشن کیلئے مناسب جگہ منتخب کرنے میں کسی جانب سے کوئی اعتراض نہیں اٹھایا جائے گا.اے رمشن کے تفصیلی حالات انگلی جلد میں آر ہے ہیں.: ماهه ا الفضل ۲۰ رامان / مادر به مش منه : ۱۳۲۵ بر ه ران دریای مدر خه م راکتو به مه د حواله روی آن ریجنز، اردو نومبر در مشت ) و خر
استان آخری م تجمع خدام الاحمادة 10 ۱۸ ۱۹ ۲۰ ر ا اور اکتوبر کو ملی خادم ان حدید کا آٹھواں سالانہ اجتماع محلہ دار الشکر کے وسیع میدان میں میں حضر مصلح موعود کی روح پرور تقریر.ہوگا جس میں بیرونی مقامات سے 10 اقدام آئے اور ۱۳۲ مجالس مقامی اور اور مجالس بیرون نے شرکت کی.یہ اجتماع متحدہ ہندوستان کا آخری اجتماع تھا.جس کا اختتام حمر مصلح موعود کے روح پر در خطاب سے ہوا حضور نے اپنے خطاب میں نہایت شریح دلبسط سے اس اس کی طرف خدام کو تو بھائی کو انی مسائلا طاقی اور صلاحیتی کام اور صرف کام کے لئے وقف کر دیں اور اپنے خیالات و افکار اور کردار میں ایسی پاک تبدیلی پیدا کریں کہ اسلام کانمونہ بن جائیں کیونکہ دنیا میں کے چہروں سے اس نور کو مشاہدہ کر نا چاہتی ہے جس کے لئے وہ سرگرداں ہے.وہ ان کے قلوب میں سے نکلی ہوئی تسکین کی دہ شعاعیں دیکھنا چاہتی ہے جو گناہوں کی آگ کو بالکل سرد کردی ہے وقت کی کال اطاعت نیکی کی ہدایت ریا اور ایک فریب می خوری کی صورت دکھ ہے تھے کہ بعض مرکزی اور اریسے ایک دوسرے سے عدم تعاون جبکہ رقابت کا مظاہرہ کرنے لگے تھے.چونکہ اس طریق سے تصور کی جاری فرمودہ تحریکات کو براہ راست نقصان پہنچنے کا اندیشید ۱۳۲۵ تھا.اس لئے حضرت مصلح موعود نے خطبہ حجتہ (۲۵ ماه امام راکتو بر رمیش میں جماعت کو انتباہ کیا اور فرمایا:- ہمارے پر ایک بہت بڑا کام ہے اور وہ کام کبھی سرانجام نہیں دیا جا سکتا جب تک به شخص اپنی جان اس راہ میں نظرانہ دے.پس تم میں سے ہر شخص خود دنیا کاکوئی کام کر رہا ہو اگر وہ اپنا سارا زور اس غرض کے لئے صرف نہیں کردیتا، اگر خلیفہ وقت کے حکم پر ہر احدی اپنی جان قربان کرنے کے لئے تیار نہیں رہتا.اگر اطاعت اور فرمانبرداری اور قربانی اور اشیا ر ہر وقت اس کے سامنے نہیں رہتا.تو اس وقت تک نہ ہماری جماعت تمرینی کر سکتی ہے اور نہ وہ اشخاص مریمتوں میں لکھے بھا سکتے ہیں.یاد رکھو ایمان کسی خاص چیز کا نام نہیں بلکہ ایمان نام ہے اس بات کا کہ خدا تعالی کے قائم کر دہ نمائندہ کی زبان سے جو بھی آواز بلند ہو اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کی جائے.اگر اسلام اور ایمان اس چیز کا نام ہ ہوتا تو ولی الا علیہ وسلم کے ہوتے کسی مسیح کی ضرورت نہیں تھی.لیکن اگر محد صل اللہ علیہ وسلم کے ہوتے مسیح عود کی ضرورت تھی تو صحیح یاد کے ہوتے ہماری بھی ضرورت ہے.ہزار دفعہ کوئی شخص کہے کہ میں مسیح و خود پر ایمان لاتا ہوں.ہزار دفعہ کوئی کہنے کہ میں حدیث پر ایمان رکھتا ہوں.خدا کے حضور اسکی ان دعوؤں کی کوئی قیمت نہیں ہوگی.جب تک دہ اُس شخص کے ہاتھ میں پناہاتھ نہیں دنیا کسی ذریعہ خدا اس زمانہ میں سلام قائم کرنا چاہتا ہے.جب تک جماعت کا ہر شخص ور مفصل تقریر کے لئے ملاحظم ہوا الفضل بر نبوت نو بر ماه پیش ما تاب
پاگلوں کی طرح اُس کی اطاعت نہیں کرتا، در جب تک اُس کی اطاعت میں اپنی زندگی کا ہربچہ سر نہیں کرتا.اس دقت تک وہ کسی قسم کی فضیلت اور عمرانی کا حق دار نہیں ہو سکتا ہے وجوانان احدیت کو قربانیاں حضرت مصلح موعود اپنے عہد خلافت میں ہمیشہ قربانی پر نہ نہ دیتے تھے کہ یہی زندہ تو موں کی زندگی کی علامت و در تماقی کا نشان ہے.اس سال میں میں کرنے کی خاص تحریک.حضور نے جماعت احمدیہ کو اس پہلو کی طرف باد با سر اور مختلف پیرایوں میں زبر راست توجہ دلائی.اس سلسلہ میں حضور نے سر فتح یکبر و مش کو خطبہ جمعہ میں نوجوانوں کو خاص طور پر مخاطب کیا اور ا اس بات کی تلقین فرمائی کہ ہماری ہر دوسری نسل کو پہلی نسل سے بڑھ چڑھ کر قربانیاں پیش کرنی چاہیں.نیز بتایا کہ.وہ دن ہماری جماعت پر خدا کے فضل سے بہت جلد آنے والا ہے کہ جماعت میں ایسے مصنف پیدا ہو جائیں گے تو ہمارے زمانہ کے حالات لکھیں گے اوروہ اس طرح کرید کرید کہ ہمارے حالات کو دریافت کیا کریں گے جس طرح پہلے مصنفین نے صحابہ کے حالات دریافت کئے تھے.اور ہر طبقہ کے قربانی کرنے والے احمدیوں کے حالات لکھیں گے.وہ ایک احدی مزدور کے حالات بھی لکھیں گے وہ ایک احمدی لوہا لہ کے حالات بھی قلمبند کریں گے اور وہ ایک احمدی ترکھان کے حالات بھی محفوظ کریں گے.مغرض وہ ایک ایک مخلص احمدی کے حالات تلاش کر کر کے بڑی ای ضخیم کتابیں لکھیں گے.حضرت سیح موعود علیہ الصلاة والسلام کے زمانہیں اسلام کی مرمت کرنے والے صحابہ یا بعد میں ہمارے زمانہ والے تمام احمدیوں کے حالات کتابوں میں محفوظ کئے جائیں گے اور ان سب کے نام یقینا قیامت تک محفوظ رہیں گے اور جب ان کی نسل ختم ہو چکی ہو گی.جب اُن کا نسب نا مہ ختم ہو چکا ہوگا ادور جب ان کی اولادوں میں سے اُن کا کوئی نام لینہ ابھی باقی نہ ہو گا اس وقت لوگ ان کے کتابوں میں لکھے ہوئے حالات کو پڑھیں گے اور ان کے ناموں کو نہایت عزت اور فخر کے ساتھ یاد کیا جائے گا اور ٹھیک اسی طرح یاد کیا جائیگا جس طرح آج ہم صحابہ رضی الہ عنہم کے ناموں کو عزت اور فخر کے ساتھ یاد کرتے ہیں اور تمہاری آنے والی تسنیں جب تمہاری قربانیوں کے حالات پڑھیں گی تو ادب اور احترام کیسا تھ ان کے سر بھیک جایا کریں گے.متحد ہندوستان کے آخر می سالانه متحد و هندوستان کا آخری سالانه علیه ۲۰-۲۰-۱۲۸۰ ر فتح رود همه کے می کو منعقد ہوا جس میں انتالیس ہزار سات سو کے لگ بھگ جلسہ کے مختصه عمومی کوائف.اصحاب شامل ہوئے.مردانہ جلسہ گاہ حسب معمول تعلیم الاسلام کالج ه : الفضل دار نوت / نومبر م ش ت : : - الفضل درد کمر صبا کالم عادت
۶۱۰ کے میدان میں اور زنانہ جلسہ گاہ کالج کی عمارت کے عقب دالے میدان میں تھی.حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب دنظر دعوت و تبلیغ نے افسر جلسہ اور حضرت مرنا عزیز احمد صاحب ایم اے نے ناظم اعلیٰ جلسہ گاہ کے فرائض انجام دیئے.توراک کی پرچی کے اجرا کے انتظام کی نگرانی حضرت نواب زادہ حمد عبد اللہ خان صاحب کے سپرد تھی.قصر خلافت اور کمرہ ملاقات میں حفاظت خاص کے افسر انچارج میاں غلام محمد صاحب اخترا در بیرون قصر خلافت میں حفاظت خاص کے افسر انچارج چوہدری اسد اللہ خان صاحب تھے.حضرت مصلح موعود سے ملا قات کا انتظام چودھری مظفر الدین صاحب پرائیویٹ سیکرٹری اور ان کے نتائج اول حمد عبد الا ان اعجاز کی نگرانی میں تھا.ایام جلسہ میں نظارت ضیافت اور دوسری نظارتوں میں رابطہ ، تعاون اور اتحاد کا اہم فریضہ حضرت مرند اعز یز احمد صاحب کے ذمہ تھا.اس سال بھی لوائے احمدیت جلسہ گاہ میں سٹیج کے شمال مشرقی جانب ایک بلند پول پر لہراتا رہا.مجلس خدام الاحمدیہ اور علی انصارال کے کیمپ بھی حسب دستور جلسہ گاہ کے قریب قائم تھے.سال گذشتہ کی طرح اس سال بھی شعبہ صنعت و حرفت تحریک جدید ) کی صنعتی نمائش منعقد کی گئی.جس کا افتتاح ۲۷ فتح / دیر کر حضرت نواب محمد الدین صاحب ریٹائر ڈ ڈپٹی کمشنر نے کیا.نمائش میں قادیان کے قریب سب کارخانہ جات نے اپنی مصنوعات نمونہ کے طور پر پیش کیں.تحریک جدید کے اپنے کارخانہ آئین سیل مینوفیکچرنگ کمپنی کی مصنوعات بھی شامل تھیں.نمائش گاہ اور ہال کے باہر تجارتی وقف کے متعلق بطور تحریص ترغیب مختلف قطعات آویزان کئے گئے تھے.نیز جماعت میں تجارت و صنعت کو فروغ دینے کے لئے چار قسم کے مختلف ہینڈ بل بھی اس موقعہ پر شائع کئے گئے تھے.جلسہ میں شرکت کرنے والے مہمانان خاص کی تعداد ۵۳ تھی جن میں حکومت کے اعلی افسر، امراء، رؤساء اور دیگر معززین شامل تھے.سالانہ جلسہ سے چند روز قبل موسم ابر آلود تھا اور دودن قبل بارش بھی ہوئی لیکن پھر مطلع صاف ہو گیا.لیکن جلسہ کے آخری دن صبح ہی کر بارش ہونی شروع ہوگئی.کچھ شالہ باری بھی ہوئی لیکن جلسہ کی کاروائی حسب پروگرام بھاری رہی.سامعین کے لئے جلسہ گاہ کے علاوہ اردگرد کی عمارتوں میں بھی لاؤڈ سپیکر نصب کر دیئے گئے.لیکن پھر بھی ایک کثیر تعداد نے بارش اور نالہ باری کے باد جو جلسہ گاہ میں کھڑے ہو کر حضرت سید نا الصلح الموعود کی آخری تقریر شنی اور دعا اور اجازت کے بعد طلبہ گاہ کو چھوٹا.سے لے :.بجلی کے گھریلو سامان ، بٹن ، عطریات اتا ہے ، ٹارچز، ٹوکے، فرینچ، پمپ ، بجلی کے پنکھے اور دیگر پرندے الفضل یک صلح جنوری ۳۲۶ و پیش سه : اور مشینیں
411 م ملی جودو کی ایمان فروز نفرین شوکت.متحدہ ہندوستان کے اس یادگار جلسہ میں حضرت مصلح موجود نے چھارا ہم تقامہ پر فرمائیں:.پیشگوئی اور جماعت احمدیہ کو فیتی نصائح (1) افتاحی خطاب : حضور نه ور می را کب کا (۱) نے فتح کی افتتاحی تقریر یں نہایت پر شوکت الفاظ میں پیشن گوئی فرمائی :- عیسائیت نے سراٹھایا اور ایک لمبے عرصہ تک اپنے حکومت کی مگر اب عیسائیت کی حکومت اور اس کے غلبہ کا خاتمہ ہے.وہ چاہتے ہیں کہ عیسائیت کے خاتمہ کے ساتھ ہی دنیا کا بھی خاتمہ ہو جائے تا وہ کہہ سکیں کہ دنیا پہ جو آخری جھنڈا لہرایادہ عیسائیت کا تھا مگر ہمارا اخدا اس امر کو برداشت نہیں کہ سکتا.ہمارا خدا یہ پسند نہیں کہ تا کہ دنیا پر آخری جھنڈا عیسائیت کا ہرایا جائے.دنیا میں آخری جھنڈ امحمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلمہ کا گاڑا جائے گا.اور یقینا یہ دنیا تباہ نہیں ہوگی بینک محورسول صلی علیہ وسلم کا جھنڈا ساری دنیا پر اپنی پوری شان کے ساتھ نہیں لہرائے گا " ہے (۲) خواتین سے خطاب : فتح جمبر کو قبل از ظہر حضرت مصلح موعود کا خواتین میں لیکچر ہوا میں نمونے انہیں ہدایت فرمائی کہ:.لجنات بنائی جائیں پھر تعلیم کا انتظام کیا جائے.اپنی تنظیم کرد اگر تم صیح طور پر لکھنا پڑھنا سیکھو لنگی تو اپنے علاقہ میں آسانی سے تبلیغ کر سکو گی اس کے بعد تم دیکھو گی کہ جماعت کی تعداد سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں گئے بڑھ جائے گی ہی سے :- به (۳) سال کے اہم واقعات پر مفصل تبصرہ : نماز جمع کے بعد حضور مردانہ جلسہ گاہ میں رونق افروز ہوئے اور سال گذشتہ کے اہم دانتا است پر محرک الا را تقریر فرمائی میں تیر کبیر انگریز کی قرآن کریم، تراجم قرآن تحریک جدید در اسکی بیرونی مشینوں ، فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اور دیہاتی مبلغین کی سکیم پر مفصل روشنی ڈالی اور جماعت احمدیہ سے غیر معمول قربانیوں کا مطالبہ فرمایا.کے اس تقریر پر اخبار زمزم" لاہور نے اپنی مہر جنوری شکر کی اشاعت میں عمل اور نقوی کے عنوان سے حسب ذیل نوٹ لکھا : مرزا صاحب قادیانی کے جانشین مرزا محمود احمد صا ن نے اپنے سالانہ جلسے پر نظریہ کرتے ہوئے بین اہم امور پر -- اتفضل ۲ فتح ۳۲۵ه پیش ما کالم ! :: ه الفضل ۲۸ فتح الفضل و ر صلح ۳۲۷ به پیش همه کانه ۶۳
ا ا ا ا ا ا ا اور یہ کہ کر ان کی ایک انگریزی تعلیم مکمل ہوچکا ہے.قرآن کریم کے مختلف سات زبانوں کے جو تو جمے ہو رہے تھے وہ بھی پایہ تکمیل کو پہنچ گئے ہیں.تراجم کے سلسلہ میں قادیانی مرکز کو دوں کو چالیس ہزار روپے وصول ہوئے.جس میں سے تراجم پہ ۳۵ ہزار روپے صرف ہوئے.باقی دنوں کھر پانچ ہزار بد حفاظت جمع ہے.مرزا صاحب نے اپنے تبلیغی مشغوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انگلستان میں سات مبلغ کام کر رہے ہیں.اسپین میں دو مبلغ فرض تبلیغ ادا کر رہے ہیں.فرانس - اٹلی سوئیٹر زین - شمالی اور جنوبی (امریکہ ) افریقہ - مصر فلسطین.عراق - ایران - جزائر شرق الہند وغیرہ میں بھی دو دو چار چار مبلغ متعین ہیں.سُن رہے ہیں ہمارے علمائے کرام یہ دنیا فتووں ، مناظروں اور مشاجرات کی کتابوں کو دیکھنے یا عملی کار گزاریوں کو ا علماء چاہتے ہیں کہ صرف مناظروں سے کام نکل جائے.مگر ان کا حریف اتنی دور نکل چکا ہے کہ تعاقب کے لئے بھی ہمت چاہیے " کے (۳) الوداعی تقریر :.حضرت مصلح موعود نے ۲۸ فتح دسمبر میں کو آخری تقر یہ زمائی جس کے آغازین فرما یا کن ر میرا ارادہ کل تو یہ تھا کہ میں آج علمی مضمون یہ تقریر کردن گا لیکن اس ارادہ سے پہلے متواتر میرے دلی میں خیال پیدا ہوا کہمیں اس دفعہ زیادہ تر جماعت کواپنی ملی اصلاح اور اسلم کی اندر جنگ کے لئے تیاری کی طرف توجہ دلائوں.کل جب تفریہ کرنے کے بعد میں واپس گیا تو رات کو پھر متواتر میر سے دل میں خیال آیا کہ بجائے علمی مضمون یہ تقریر کرنے کے لیکن جماعت کے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دہ لاؤں کہ وہ اپنی اصلاح کریں اور اس جنگ کیلئے تیار رہیں تو قریب سے قریب تر آکر ہی ہے ہے.در ران تمہیدی کلمات کے بعد حضور نے جماعت کے دوستوں کو نہایت اختصار مگر پر اثر الفاظ میں مان با شجاعت کی پابندی لبنات اما دانہ کے قیام اور ان کی اصلاح کرنے نیز تنہائی اور محنت کی عادت پیدا کرنے کی طرف توجہ دلائی.جن کا خلاصہ حضور کے الفاظ میں یہ تھا کہ : نماز با جماعت کی پابندی سوائے کسی خاص مجبوری کے یہاں تک کہ اگر گھر میں بھی فرض نماز پڑھی جائے تو اپنے بیوی بچوں کو شامل کر کے جماعت کر لی جائے.یا اگر بچے نہ ہوں تو بیوی کو ہی اپنے ساتھ کھڑا کر کے نمانہ یا جماعت ادا کی جائے.دوسرے بھائی پر قیام.ایسی سچائی کہ دشمن بھی اسے دیکھ کر حیران رہ جائے.تیرے محنت کی عادت : اخبار زمزم گلا ہور صور تنوری ۱۹۳۶ - جواله الفضل بدر منه صلح جنوری احد مش ها ؟
۶۱۳ الی محنت کے بہانہ سازی اور عذر تراشی کی روح ہماری جماعت میں سے بالکل مٹ جائے اور جب کسی پر کوئی کام کیا جائے وہ اُس کام کو پوری تندہی سے سرانجام دے یا اسی کام میں فنا ہو جائے.چوتھے عورتوں کی اصلاح ہر جگہ جنہ اماءاللہ کا قیام اور عورتوں میں دینی تعلیم پھیلا نے کی کوشش.یہ چار چیزیں ہیں جنکے متعلق میں نے اس وقت تک توجہ دلائی ہے کہ نے آخرمیں فرمایا :- یہ چار صیحتیں آپ لوگوں کو کرنے کے بعد میں دعا کے ساتھ آپ سب کو رخصت کرتا ہوں اگر آپ لوگ ان باتوں پر عمل کر لیں گے تو پھر خدا تعالٰی آپ لوگوں کی تبلیغ میں بھی برکت پیدا کر دے گا.آپ کے کاموں میں بھی برکت پیدا کردے گا اور اسلام کی فتح کو قریب سے قریب تم سے آئیگا یہ پھارہ دیواریں ہیں جن پر اسلام کی عمارت قائم ہے کہ ہے سالان حضرت مصلح موعود کی بصیرت افروز تقاریرہ کے علاوہ مندرجہ جلسہ مین کے دور سے مقررین ذیل علماء سلسلہ کی بھی تقریر یں ہوئیں:.1- مولوی محمد سلیم صاحب فائض.اللہ تعالیٰ کی صفت خالقیت کے متعلق اسلامی تصور.میاں عبدالمنان صاحب قمر قرآن مجید بلحاظ کامل شرعیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت کا زندہ ثبوت ہے.- حضرت مفتی محمد صادق صاحب " ذکر حبیب ).م مولانا ابوالعطاء صاحب فاضلی (ضریت عبادت اور دہ غرض اسلامی عبادت سے کسی طرح پوری ہوتی ہے تے.- مولوی عبدالمالک خانصاحب - حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی بعثت آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم کی بات نانی ہے مولانا جلال الدین صاحب شمس - انگلستان میں تبلیغ اسلام ) - اسید نیر المعنی آفندی صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ مشق.قبلہ کے مبارک کے اجتماع سے متعلق میرے مشاہدات و تاثرات "تم " د - حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر حمد صاحب - فلسفہ احکام پردہ ) ( احمدی نوجوانوں سے خطاب.H الفضل ۱۲ صلح / جنوری در پیش من : ه: ايضا گے: اصل تقریر عربی میں تھی.الفضل (١٠ صبح تالہ میں ملا) میں اس کا مکمل ترجمہ شائع شدہ ہے : حضرت صاحبزادہ صاحہ نے فتح کے پہلے اجلاس میں پہلے عنوان پر اور دو رفت کے پہلے اجلاس میں درست عنوان پرتقریر فرمائی و
۶۱۴ > ۹ - حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب - حضرت مسیح ناصری کا سفر کشمیر.۱۰ - جناب پرنہ فیسر قاضی محمد اسلم صاحب ایم.اے.تھیو سافیکل تحریک پر تبصرہ." ۱۱- حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب د اسلام میں دنیا کے اقتصادی مسائل کا حل ہے.۱۲- سردار محمد یوسف صاحب ایڈیٹر نور" - "اسلام رواداری ، امن اور جمہ کات کا مرکز ہے.۱۳ - ملک عبدالرحمن صاحب خادم بی.اے.ایل ایل بی مصلح موعود کے لئے حضرت مسیح موعود کی پیش گوئیوں اور ۳۲۵.انش ۶۱۹۴۶ " الہامات کے مطابق خلیفہ ثانی ہونا ضروری ہے.میں انتقال کرنیوالے بیل القدر صحابه ا ا ا ا م د ر د دی اور صحابہ کا انتقال ہوا.طبیہ عجائب گھر قادیان.(۱) حضرت علیم عبدالعزیزخان صاحب مالک بیعت ستمبر نشده - وفات ۲۹ ماه صلح بجنوری رش ہے صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب نے آپ کے انتقال پر لکھا : رہتی.مکرمی حکیم عبدالعزیز خانصاحب میں چونکہ دو خصوصیتیں تھیں یعنی ایک تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ و انتظام کے صحابی تھے.دوسرے ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے خاندان سے خاص طور پر محبت تھی اور یہ فخر بھی انہیں حاصل تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اپنی اور دکھ اور پھر آ گے ان کی اولاد کو پڑھاتے یہ ہے تھے کہ کے (۳) حضرت منشی عبد العزیز صاحب پٹواری او جملہ ضلع گورداسپور - روفات درماه شهادت را پریل ۱۳۳۵ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آپکے نام ۱۳۱۳ اصحاب کیا رہ کی فہرست میں نمبر ۲۳ پر درج فرمایا ہے.اپنے خاندان میں سو سے پہلے آپ ہی کو حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی معرفت نصیب ہوئی.پھر آپ کے ذریعہ تمام افراد یکے بعد دیگرے حلقہ بگوش احدیت ہوتے چلے گئے التزام نماز میں خوب اہتمام فرماتے اور تہجد ہو کر الٹی تو گویا آپ کی غذا تھی.مالی جہاد میں اپنی حیثیت سے بڑھ کر حصہ لیتے.حضرت مسیح موعود اند حضرت مصلح موعود سے والہانہ عشق تھا اور خاندان کی موجودہ کے سب فراد کو شمار انہیں یقین کرنے اورا کی بہت عزت وتکریم کرتے تھے.نے :- یہ دونوں تقریریں بارش کی وجہ سے نا تمام رہ گئیں : : : - الفضل ۳۱ ماه صلح رمجبوری پر کی ، : اور ما صلح هایش را کالم به ه الفضل وار تبلیغ / فروری بار شست و شه الفضل ۱۲ ماه شهادت / اپریل ه: اصحاب احمد جلد اول مشار مولفه ملک صلاح الدین صاحب ایم ہے، والفضل ۱۳ احسان ۲۵ مه پیش مث :
410 -۳- حضرت میاں غلام محمد صاحب نور مین - دونات - شہادت / اپریل پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی الصلح المدیکود نے ان کی وفات پر فرمایا : - رمش یا یو غلام محمد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے پرانے صحابہ میں سے تھے بلکہ محورحسین صاحب قریشی کے ساتھ انہیں بڑی محبت تھی اور دونوں مل کر قاریان آیا کرتے تھے.اختلاف کے موقعہ پر الہ تعالی نے انکو ابتدا سے ہی اس بات کی توفیق عطا فرمائی کہ وہ ہر قسم کی ٹھو کرا در ابتدا سے بچے رہے نکال کر اثر ڈالنے کے سامان ان کے اردگرد بہت زیادہ تھے.مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب وغیرہ سے ان کی دوستیاں اور تعلقات تھے اور غریب آدمی بڑے آدمی کے تعلقات کے اثر کو بہت جلد قبول کر لیا کر تاہے.مگر با وجود ہر قسم کی شورش کے وہ محفوظ کر ہے کہ کتنے ۲ - حضرت مولوی سید عبدالحکیم صاحب کشکی ، دو (ولادت ۱۸۸۶ (اندازهگی - وفات در احسان /جون شده مین پیر شالی اڈلیہ کے مشہور بزرگ اور بلند پایہ صحابی حضرت مولوی سید عبدالرحیم صاحب کے فرزند اکبر اور عالم باعمل انسان تھر سلامیہ کی ہر اہم تحریک میں نمایاں اور سرگرم حصہ لینا آپ کا طرہ امتیانہ تھا.حصہ وقعیت اپنی زندگی میں ادا فرما دیا تھا.جماعت احمدیہ یہ کھڑا کے نائب امیر اور قاضی بھی رہے.کے (مش) - شیخ اللہ بخش صاحب امرتسری - ولادت قریباً ۱۸۶۰) بیعت ۱۸۹۱ - وفات د ا رماه راستان / جون - - بچه اش به مرتسر کے پرانے مخلص احدی بزرگوں میں سے تھے.آنچہ حضرت مرزا قطب الدین خانصاحب مسگر مرحوم امرتسر کے ذریعہ سے احمدیت کی طرف توجہ ہوئی.آپ "جنگ مقدس کے مشہور مباحثہ میں بھی موجود تھے.ہر سال کا چندہ یکمشت اور پیشگی ادا فرما دیتے تھے.نماز پنجگانہ کے علادہ نوافل وتہجد کے بہت سختی سے پابند تھے.دعا پر آپ کو زبر دست یقین حاصل تھا.آپ کا معمول تھا کہ ہر سال قادیان کے غرباء کے لئے امرتسر سے گرم کپڑے بھجوایا کر تے تھے.اپنی ساری کتا میں مقامی احمد یہ لائبریری میں جمع کرا دی تھیں اور آخری عمر میں قادیان دارالامان میں ہجرت کر کے آگئے تھے اور زیادہ وقت مسیر مبارک میں یاد خدا میں گزارتے تھے.ہے 4 - میان رحیم بخش صاحب گنج لاہور.(وفات - سورو فار جولائی یہ ہیں تو پیش ل: أفضل ۲ شهادت شل کله پیش ما کالم - : - لفضل در ظهور اگست مش هست : _ 149° : ۲۰ ر احسان ۱۳۲۵ ه ش ها کالم ۲ به و در احسان جون با روش ها : بارش شار مضمون سید بہاول شاہ صاحب مرتسر سے ملمختار مطبوعه الفضل ۲۸ احسان / جون له مش نا الفضل اردو فار جولائی س ش ص ::
۱۳۲۵ - حاجی شیر خانصاحب سیالکوٹ.یہ ماہ وفار جولائی مش بعمر ہے سال ) - زمانہ طالبعلم میں ضرت مسیح موعود علی اسلام کے قیام سیالکوٹ کے دوران بیعت کی مسلسل احمدیہ کی ہراہم تحریک میں سرگرم حصہ لیتے.لاہور ملتان اور سیالکوٹ میں سیکرٹری مال یا اس کا کام آپ کے سپرد رہا.ہے - A میاں حیات محمد صاحب جہلمی - روفات ۱۳- ۱۴۲ رو نام جولائی کو.یہ پیش ) - بہت پر جوش احمدی تھے تبلیغ کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے.جب ملازمت سے رخصت ملتی.وطن بھانے کی بجائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت میں رہ کہ برکت و فیض حاصل کرتے.حضرت سیح موعود علیہ السلام جنوری میں جہلم تشریف لائے تو آپ رخصت لے کہ حضور کی خدمت میں حاضر ہو گئے.نشانہ میں ہجرت کر کے قادیان چلے آئے تھے.سے ه - وزیر علی صاحب ہوشیانه پوری محمد دارالشکر قادیان - روفات ۳ رو فار جولائی پر پیش کیے ۱۰ - حافظ مشتاق احمد صاحب پشاور - (وفات ۳۰ رو فار جولائی اللہ ہمیش) - که ۶۱۹۴۹ 11- حضرت مولوی محمد عثمان صاحب لکھنوی.ربیعیت نشاء - وفات ۲۹ ظہور اگست پر اللہ ہیں.ہے حضرت مولوی صاحب کا سلسلہ نسب پینتیسویں پشت میں حضرت ابو بکر صدیق تک جا پہنچتا ہے.آبائی وطن قصبہ باد کی ضلع ہردوئی تھا.مگرتین پشتوں سے لکھنو میں قیام تھا.آپ کی پیدائش پرتاپ گڑھا اودھ میں ہوئی اور لکھنومیں دفن کئے گئے.تے عظیم سید شاہ نواز صاحب کر ضلع انباله رونات و تبول استمبر علیہ میں ہے ۱۳۲۵ ش ۱۳ - مستری اللہ دین صاحب جہلمی - روفات ، سور تبوک استمبر ہ میں ہے ۱۴- حکیم جمال الدین صاحب آن فیض اللہ چک نیپوره - روفات ۱۲۰۰ نبوت / نومبر به کار میش باشید ۱۵ حضرت حافظ موادی ابومحمد عید اللہ صاحب ساکن کھیوه یا جود - ۱۹۴ د ولادت قریباً ۶۱۸۵۶ - بعیت نشده - وفات ۲۰ د نبوت / نومبر له مش عمر ۹۰ سال) به ۶۱۹۴۶ الفضل ها روفا ۳۳ه پیش صدا و الفضل ۲۲ رو نا ۱۳۲۵ مه بهش صدها کالم ۳۷-۴ ه الفضل ۲۰ ظهور را گسترش مت : و : بفضل ۲۴ رو فار جولائی سال پیش ما : الفضل یکم صلح جنوری له مش هت : ھے : الفضل ۱۲۹ ظهور براگست له الفضل ا ر اتحاد بیش مره :: شه الفضل ۳ را خاء " ه الفضل ۲ را مادر اکتوبر هو صبا کالم و به ه دراز الفضل ۲۸ نبوت نومبر ، ص :
पाठ علوم دینیہ کی کمی کے بعد آپ کی زندگی کا بیشتر حصہ اعلائے کلمتہ الہ میں صرف ہوا.شروع میں اہلحدیث عالم کی حیثیت سے شرک وبدعت کے خلاف وعظ کرتے رہے پھر داخل احمدیت ہونے کے بعد تبلیغی جہاد میں پورے جوش سے مصروف عمل ہو گئے.سیالکوٹ لائل پور، سرگودہا منٹگمری شیخوپورہ اور گوجرانوالہ کے سینکردن اشخاص آپ کے ذریعہ احمدی ہوئے اور کئی انجمنیں آپ کی کوشش سے قائم ہوئیں.صاحب الہام درکشوں تھے اور حد درجہ کے منکسر المزاج اور کہ گو.ان کے اپنے بیان کے مطابق ان کی ساری عمر میں ان کی زبان ایک بار بھی جھوٹ سے ملوث نہیں ہوئی.دس سال کی عمر سے لیکر اخر وقت تک انکی کوئی نماز یا روزہ قضا نہیں ہوا.لے ۱۶ - حضرت مولوی سید ضیاء الحق صاحب بی.اے بی ٹی.امیر جماعت احمدیہ سونگڑہ اڑیسہ).ر زیارت قادیان سه - وفات ۳۱ فتح / دسمبر به بیش ) اریہ میں جماعت احمدیہ سلسلہ میں قائم ہوئی اور حضرت مولوی صاحب الیہ کے بار مشہور صحابہ میں سے ایک تھے جو سلسلہ میں قادیان تشریف لائے اور حضرت سیح، وعود سے فیض حاصل کیا.ان کی زندگی کاشعار تبلیغ احمدریت تھا.جس کی خاطر انہوں نے کبھی جانی، مالی اور عزت و آبر و غرض کہ کسی نوع کی قربانیوں سے دریغ نہیں کیا.جماعت احمدی کو نگرہ کے لئے ۳۵اء ، اور امراء کے سال نہایت نازک تھے جن میں مخالفت کے طوفان امڈ آئے مگر اللہ تعالٰی کے فضل سے آپنے مومنانہ جرات کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا.مور میں ظالم آپکے قتل کا منصوبہ کر کے آپکے مکان پر گئے اور کہاکہ ہم اک خون چاہتے ہیں.آپ چلنے پھرنے سے معذور تھے مگر یہ سنتے ہی آپنے پورے جوش سے جوب دیا کہ ہاں میں بھی تو خون ہی ہوتا چاہتا ہوں.مگر افسوس کہ نہ یہ میری قسمت میں ہے اور نہ تم میں جمرات !! عربي ، اردو ، فارسی اور اڈیا نہ بانوں کے ماہر تھے.مولوی ثناء اللہ صاحب امر قمری اور دوسرے کئی علماء کیر الفضل به صلح جوری میش ته د ملخصا از مضمون چوہدری غلام قادر صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ شکری - اب شیخ اور ام صاحب بی اے ایل ایل بی اشپورہ لاہور نے انہی دونوں حضرت مولوی صاحب کی سیرت کے معتمد ایمان فروز تھا قلمبند کئے تھے جو الفضل ۱۹-۲۱ شہادت میں میں چھپ چکے ہیں : : نام : حضرت مولوی سید عبد الرحیم صاحب اولین مبلغ اڈلیہ ، حضرت مولوی سید سعید الدین صاحب - مولوی سید احمد حسین صاحب مولوی ستاد بنیانه الدین صاحب - مولوی سید تفضل حسین صاحب - مولوی سید شفیق الدین صاحب - مدیوی سید عبد الستار صاحب.(یہ بزرگ نشر میں قادیان گئے) حضرت مولوی سید ضیاء الحق صاحب بحضرت مولوی سید نیاز مین صاحب - حضرت مولوی سید اکرام الدین صاحب یہ تینوں نہ میں حضرت مسیح موعود کی خدمت میں حاضر ہوتے گا.سادی حضرت مریدی سید حاجی احمد صاحب - حضرت مولوی سید اختر الدین صاحب رشہ میں پہلی بار قادیان کی زیارت کی ) :
مناظرے کئے اور انہیں لاجواب کیا.نہایت منکسر المزاج ، خوش اخلاق ، غریب پرور ، مہمان نواز اور غیور بزرگ تھے قرآن کریم کا درس ایسی عمدگی سے دیتے کہ قادیان دارالامان کے مرکزی درس کا نظارہ آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے ۱۳۲۵ پیش کر فصل دوم ی کے بعض متفرق مگر اہم واقعات ۶۱۹۴۶ خاندان مسیح موعود میں خوشی کی تقاریب مرا طراح صاحب الی اور امن مارچ میں کو مرزا قمر احمد صاحب پیدا ہوئے.کے (۲) صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب کے ہاں ارماہ چوت رستی پر ہی کو مرزا مظہر احد صاحب کی عادت ہوئی.در ماه نبوت نومبر کو ید الله الحکیم صاحبہ صاحبزادی حضرت سید نا الصلح الموعود) کی تقریب انسان عمل میںآئی ہے احمدی گوبند سنگھ جی کے جنم دن پر تقریرہ کے لئے ایک احمدی مبلغ بھجوانے کی درخواست کی تھی جس پر گیانی واحد حسین صاحب مرکز سے بھجوائے گئے.سکھ صاحبان گیانی صاحب کو جلوس میں شامل کرنے کے واسطے سرکاری بگھی میں لے گئے.جلوس سرکاری سازوسامان سے مزین تھا اور جناب کندر صاحب ( برادر خور و مہاراجہ صاحب بہادر نابجه ، بھی جلوس میں شامل تھے.دوران عبور گیانی منایا کی تقریر کرائی گئی جو نہایت دلچسپی سے سنی گئی.اسی رات کو دوسرے سکھر پیکچر اردو کے ساتھ گیا نی صاحب کی بھی تفریقی.آپ وقت مقررہ پر دس بارہ احمدیوں کے ساتھ گورد دارہ میں پہنچے.ہال کمرہ فوجی اور سول ملازمولی در معززین شہر سے بھرا ہو ا تھا.سیکرٹری صاحب گوردوارہ نے گہانی صاحب کو مغرور نقاء نہایت احترام سے آگے بگردی.شہد پارٹیوں کا وقت ختم ہونے پر اسے پہلے گیانی صاحب موصوف نے سکھ مسلم اتحاد پر ایک گفٹ تک تقریر کی.آپنے تاریخ کی روشنی میں موسم خوشگوار تعلقات کی مثالیں دیتے ہوئے گورو گوبند سنگھ کا وہ - الفصل یک تبلیغ و ار تبلیغ فروری تر می شه : الفضل اور شہادت ۳۲۵ میشی علت کالم : ١٩٣- المفضل للرياه بجرت / منى - ۱۳۲۵ له الفضل اور نبوت نوبه اش : !
۶۱۹ خط بھی سنایا جو انہوں نے حضرت شہنشاہ اورنگ زیب کے نام لکھا تھا اور جوکہ نتھو صاحب میں ظفر نامہ کے نام سے موسوم ہے اور جس میں نہایت محبت و اخلاص کا اظہار کیا تھا.آپ نے ظفرنامہ کا اردو ترجمہ پنجابی زبان میں کیا اور ایسے انداز میں قرآنی تعلیم کی تطبیق گورو نانک صاحب کے اقوال سے کی.شہر سنائے اور آیات قرآنی پڑھیں کہ سامعین پر ایک سماں بندھ گیا اور تحسین و آفرین کی آواز میں آنے لگیں.دوسرے دن سیکرٹری کیٹی نابجہ کے احمدیوں کے پاس آئے اور کہا کہ آپ کے مولوی صاحب کی تقریر اور واقفیت کو پنتھ نے نہایت پسند کیا ہے اور بہت صاحب گوردوارہ نے دھن باد کا پیغام دیا ہے.نے کوٹ سید محمود متصل امرت سر میں سکھوں کی طرف سے دیں بادشا ہی کے گوردوارہ بوڑھی صاحب میں دیوان کے موقعہ پر گیانی عباد اللہ صاحب مبلغ سلسلہ احمدیہ نے لیکچر دیا جو بہت له مقبول ہوا.سکھ پریزیڈنٹ نے کہا کہ اس وقت ملک کو ایسی تقریر دن کی بہت ضرورت ہے.لے آریہ سماج دہلی نے ۱۲؍ فروری ۱ ( ۱۲در تبلیغ ۳۳۵ مہ میں) کو ایک مذہبی کا نفرنس کا انتظام کیا جس کے لئے یہ مضمون مقرر کیا کہ " میرا مذہب ملک کی ترقی کی راہ میں روک نہیں ہے " جماعت احمدیہ کی طرف سے مولانا ابو العطاء صاحب نے اس کا نفرنس میں حصہ لیا.آپ کی تقریہ سامعین نے نہایت اطمینان اور توجہ سے شنی اور دوران تقریر کئی بار نعرہ ہائے تحسین بلند کر کے اپنے جذبات کا اظہارہ کیا.مقامی اخبارہ نتیجے نے اس تقریر کا خلاصہ بھی شائع کیا.سے دستور اساسی خدام الاحمدیہ کے مطابق قادیان کی تقدام الاحمدیہ قادیان کے پہلے قائد مجلس مقامی خدام الاحمدیہ کے لئے الگ قائد نہ تھا بلکہ حضرت صدر مجلس ہی کے سپر د قیادت قادیان کے فرائض تھے.مگر اس سال حضرت امیر المومنین المصلح الموعود کی ہدایت پر قائد مقامی کا انتخاب ۳۰ / امان / مارچ یہ مہیش کو عمل میں لایا گیا جس میں الفضل ، تبلیغ / فروری پیش من ملخصاً مضمون قدرت اللہ صاحب سیکر ٹری انجمن احد یہ نا محه ) حث را سیکریٹری احمدیه تا ) ہش شگاه : ۲۰۱۵ رامان ۱۰ الفضل ۲۵ را مان / مارچ اور امین صحت کالم ۲۲۱۱ " ۱۳ - الفضل اور تبلیغ / فروری
۶۳۰ صاحبزادہ میاں عباس احمد خاں صاحب کثرت رائے سے سب سے پہلے قائد قادیان منتخب ہوئے.صاحبزادہ صاحب قبل ازیں معتمد مجلس مرکز یہ کے فرائض انجام دے رہے تھے.اب یہ نئی ذمہ داری بھی آپ کے سپرد ہوگئی یہ مجھے آپ نبوت / نومبر مہیش تک انجام دیتے رہے.صاحبزادہ مرزا منصور احد صاحب پریسین مینوفیکچرنگ کمپنی مرزا منصور احد صاحبکا سفر انگلستان قادیان کی طرف سے ٹیکنیکل ٹرینینگ اور ولائت کی فیکٹریوں ۱۳۲۵ 1 میں صنعتی تجربہ حاصل کرنے کے لئے 19 ماہ شہادت / اپریل ہمیش کو انگلستان تشریف گئے گئے.اور ٹرینینگ حاصل کرنے کے بعد ۲۸ ماه اضاور اکتو بر ہ مہش کو بخیریت قادیان پہنچے.سے مین مینوفیکچرنگ کمپنی کی بنیاد حضرت خلیفہ ایسیح الثانی الصلح الموعود نے مارا احسان رین ۱۳۲۵ جون میش کو حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کے کارخانہ پریسی مینو فیکچرنگ کمپنی کی بنیاد رکھی اور دعا فرمائی.یہ کارخانہ قادیان اسٹیشن کے قریب جنرل سروس کمپنی کی تیز گرانی تعمیر ہوا.ہے مرزا ابوسعید صاحب کا المناک قتل مرزامحمد ابو سعید صاحب سپر نٹنڈنٹ پنجاب ریلوے پولیس لاہور نہایت مخلص احدی اور محکومت پنجاب کے فرض شناسی افسر تھے.اور ماہ احسان جون پر اس میں کو ایک سکھ کنٹیل پر کرم سنگھ نے ہی کر دی وہاڑے کوئی مار کر قتل کر دیا جو سکھ لیڈروں کی مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز تقریروں کے نتیجہ میں تھا.حضرت مصلح موعود نے ۱۳ ماہ احسان یون سے میش کو مجلس علم وعرفان میں اس ہولناک حادثہ کا نہ ذکر کرتے ہوئے فرمایا :.یہ قتل با شورشوں کا نتیجہ ہے جو وزارتی کمیشن کے آنے پر ملک میں ہو رہی ہیں.خصو صا حال ہی میں سکھوں کی جو سینگ امرت سرمیں ہوئی وہ بہت اشتعال انگیز تھی.یہ گورنمنٹ کی معطلی ہے کہ جب کوئی شرارت کرتا ہے تو یہ دیکھتی ہے کہ شرارت کرنے والا کمزور ہے یا طاقتورہ.اگر طاقتور ہو تو تھا موش رہتی ہے اور اگر کمزور ہو تو کاروائی کرتی ہے.حالانکہ زیادہ تر فساد طاقتور ہی کرتے ہیں.الفضل در شہادت ۲۲ مه پیش ست کالم ۳ : ۱:۵۳ الفضل ۲۳ شہادت ۲۵ ریش ملت : ه : - الفضل ۲۰ را خاء Join " ها مر احستان در i
میں شخص نے ابو سعید صاحب کو قتل کیا وہ پہلے امرت سر یا پھر اہور اگر اپنے محلہ کیا.امرت سرمیں جو تقریریں کی گئیں ان سے ابوسعید صاحب کا کوئی تعلق نہ تھا.مگر حملہ کرنے کی جو دیہ بیان کی جاتی ہے اس میں بھی کوئی معقولیت نہیں چھ ماہ قبل تبدیلی کی درخواست منظور نہ ہونے کا اتراب نکلنا تھا.معلوم یہی ہوتا ہے کہ قاتل نے اس تحریک کا اثر لیا جو سکھوں میں مسلمانوں کے خلاف پیدا کی بھارہی ہے اور بجھا میں پر حملہ کرنے لگا ہوں وہ ابو سعید ہے.یہ نہ سمجھا کہ احمدی ہے اور احمدی تو پہلے ہی مارے ہوئے ہیں ان کو کیا مارنا.مرحوم میں اخلاص تھا اور ان کی ساری ملازمت دیانتداری سے گزری.جب وہ تھانیدار تھے اس وقت بھی افسروں نے بتا یا کہ دیا نداری کے لحاظ سے صوبہ میں وہ ایک مثال رہے.مگر باوجود اس کی ان کی ترتی دغیرہ میں رکاوٹ پیدا ہوتی رہتی.ایک دفعہ میں نے ان سے پوچھا اس کی کیا وجہ ہے ؟ تو کہنے لگے پولیس میں کوئی دیانت دار ترقی کر ہی نہیں سکتا.ایک بات انہوں نے یہ بتائی کہ ہر وقوعہ کی تحقیقات تھانیدار کے ذمہ ہوتی ہے.مگر عملی طور پر ایسا کیا نہیں جاسکتا.دوسرے لوگ حوالدار وں وغیرہ سے تحقیقات کرا کر اپنے نام لکھ دیتے ہیں.میں ایسا نہیں کہ تا اس لئے جواب طلبی ہوتی رہتی ہے.ان کی طبیعت میں ایک قسم کا حجاب تھا اور جماعت کے لوگوں سے کم ملتے تھے.تاکہ کوئی سفارش نہ کر دے.ہے تو یہ غلط بات کیونکہ اگر سفارش بھائمہ اور درست بات کے متعلق ہو تو اسکی قبول کرتے ہیں کیا حرج ہے.اور اگر غلط ہو تو پھر اسکی ماننے کے کیا معنی.بہر حالی ان کا طریق یہی تھا.اب بھی سنا ہے کہ دیانتداری میں وہ مثال تھے کا ہے حضرت مسیح موعود کے بتائے ہوئے تین یہ عورت کی دور روان اور جان ہے.میں کوکامیاب بنائی کا تبلیغ طریقوں کو استعمال کرنی کا اہم ارشاد موثر ذریعہ یہ ہے کہ جماعت کے مبلغین خصوصا اور دیگر افراد موٹا تبلیغ کے ان طریقوں پر عمل کریں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائے ہیں.لیکن ایک عرصہ سے ان کو نظر اندازہ کیا جارہا تھا میں پر حضرت سید نا الصلح الموعود نے ۱۳۲۵ ۱۵ نبوت / نومبر یا اور پیشی کو اس فرد گذاشت کی طرف خاص توجہ دلائی اور ارشاد فرمایا :- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے ہمیں ہر قومیں تبلیغ کرنے کیلئے ۱۳۲۵ ه الفضل ها را حسان / جون ریش ده به
کچھ گر بتائے ہیں.اور وہ ہر قوم کے لئے الگ الگ ہیں اور اگر موقع اور محل کے مناسب انکو استعمان کیا جائے تو ہم ہر قوم میں تبلیغ کر کے بڑی آسانی سے کامیابی حاصل کر سکتے ہیں ان میں سے سلمانوں کے اندر تبلیغ کرنے کے لئے سب سے بڑاگر یہی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی حیات کے مسئلہ کو باطل ثابت کیا بجائے عیسائیوں میں تبلیغ کے لئے یہ گر ہے کہ نقلی اور عقلی دلائل سے ان پر یہ ثابت کیا جائے کہ حضرت علی علیہ السلام صلیب پر چڑھے تو ضرور تھے مگر صلیب پر سے زندہ اتر سے اور بعد میں طبعی موت مرنے سکھوں میں تبلیغ کے لئے یہ گر ہے کہ اُنہیں بتایا جائے کہ ان کے بزرگ حضرت بابا نانک صاحب اسلام کو مانتے تھے اور انہوں نے اپنی زندگی میں اسلام کی خدمت میں کمر باندھی ہوئی تھی اور ہندوؤں میں تبلیغ کا اگر یہ ہے کہ ان کی کتابوں سے جن کو وہ الہامی یا مقدس مانتے ہیں ان کے سامنے یہ ثابت کیا جائے کہ ان کے اوتاردی نے یہ خبر دی تھی کہ وہ دوبارہ اس دنیا میں ایک خاص زمانہ میں ظاہر ہوں گے اور یہ کہ اس سے مراد حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی بعثت ہے اور اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے تشریف لانے سے وہ خبر پوری ہو چکی ہے.یہ تمام گر گو یا تبلیغ کی جان ہیں.اور یہ ایسے کار آمد ہتھیار ہیں جو ہم ہر قوم کے خلاف استعمال کر سکتے ہیں اور ان کے صحیح استعمال سے ہماری ہر میدان میں فتح یقینی ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مختلف علاقوں کے لوگ مختلف طبائع کے ہوتے ہیں اور ان طبائع کے مطابق ذرائع بھی اختیار کر نے پڑتے ہیں جسطرح لڑائی کے میدان میں دشمن کی چالوں کو سمجھنے اور ان کے اندفاع کیلئے کبھی ایک پہلو بدلنا پڑتا ہے کبھی دوسرا پہلو اختیار کرنا پرتا ہے اور جو شخص نادانی سے ایک ہی پہلو اختیار کئے رکھتا ہے وہ دشمن پر فتح نہیں پا سکتا اور جو شخص ہوشیا را در چالاک ہوتا ہے وہ دوسرے کے مطابق اپنا پہلو بدلتا چلا جاتا ہے.اسی طرح تبلیغ میں بھی پہلو بدلنا پڑتا ہے.مگر تبلیغ میں اصولی باتوں کو نظر انداز کر دینا جائز نہیں.اے صاحبزادہ میاں عباس احمد خانصاحب حضرت مصلح موعود کے ارشاد میر عباس احد خانصاح یک سفر انگلستان کے ماتحت بغرض تعلیم کی ان فنی در پیش کی بذریعہ ہوائی جہانہ انگلستان روانہ ہوئے.نے ا ه الفضل فتح امبر ا م : اہش ه الفضل صور فتح / دمبر میشم +
قیام یورپ کے دوران آپنے تعلیم حاصل کرنے کے علاوہ بعض برطانوی پروفیسروں اور دوسرے اکا بر تک بھی پیغام کو پہنچایا.علاوہ ازیں آپ کو ہالینڈ کی مشہور یو نیورسٹی کے صدر مقام لائیڈن میں بھی بھانے کا موقعہ ملا.اور دو " مشہور مستشرقین دکر میر اور کمر اور ا سے ملاقات کر کے اسلام اور احدیت سے متعلق گفتگو کی.اور مقدم الذکر کو اسلامی اصول کی فلاسفی " اور " احمدیت یعنی حقیقی اسلام " کا تحفہ بھی پیش کیا.اے ۶۱۹۲۷ ۲۹ ماه دونار جولائی ہیں اے اللہ میں کو آپ لنڈن سے روانہ ہو کہ اس وفا کو کراچی اور ۲ رماہ ظہور / اگست ر میش کو قادیان پہنچے.سٹیشن پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور دوسرے افراد خاندان حضرت مسیح موعود نے آپ کا خیر مقدم فرمایا.ے کولیبو میں جناب سی.ایچے مختار صاحب سیلون کے اور ادراک ملخص نگا اور رات کی بعض مخلص احمدیوں کی انتقال او میں احمدیوں میں سے تھے جنہوں نے حضرت اولین ۱۳۲۵ خلیفہ اولی کے عہد خلافت میں بعیت کی تھی.آپ نے اس سال دو ماہ صلح جنوری پر پیش ک وفات پائی.سکے آپ کے علاوہ سانٹا کولم مدراس کے رہنے والے اسے ایم سعید احمد صاحب جو جنوبی ہند کے نہایت مخلص و مستانہ اور شہو را در پیر بوش احمدی تھے.ارماہ مسلح جنوری مالیہ مہیش کو اپنے محسن حقیقی سے جاملے.آپ نے سان تان کولم میں سب سے پہلے احمدیت قبول کی.آپنے ابتداء میں احمدیت کی خاطر بہت تکلیفیں اٹھائیں تمام گاؤں والوں نے علاقہ کے سب سے بڑے مفتی کے فتوئی پر بائیکاٹ کر دیا تھا.مگر آپ خدا کے فضل سے ہمیشہ تبلیغ احدیت کرتے رہتے.ہر ایک کے ساتھ نرمی سے پیش آتے اور بہت محبت پیار سے باتیں کرتے.گاؤں کے غیر احمدی کہا کرتے تھے کہ آپ ہیں تو دلی مگر یہ غلطی کر بیٹھے ہیں کہ قادیانی ہو گئے ہیں.سماء مینی مدراس کے ایک تاجر نے تقریبا دس ہزار رہ دیے خرچ کر کے سان تان کولم میں طلبہ کرایا اور ارد گرد کے دیہات سے ہزاروں کی تعداد میں غیر احمدی مدعو کئے.علاقہ کے بڑے بڑے علماء نے آپ کو اور مولوی عبداللہ صاحب مبلغ مالا بار و علاقہ مدر اس کو مناظرہ کے لئے پھیلنج دیا.مولوی صاحب اور مرحوم مناظرہ کے لئے الفضل ، ہجرت مئی یہ ہی مٹ +1424 صدا :.ه الفضل و صلح شما : 4 الفضل امور د ناسته ده رظہور رنگت روش ها
ان کے جلسہ گاہ میں تشریف لے گئے.جب وہاں پہنچے تو انہوں نے ایک شرط یہ لگادی کہ فیصلہ غیر احمدی کریں گے اس پر مولوی صاحب نے کہا کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ تن میرا دشمن کرے.اتنے میں تمام سامعین نے جو کہ ارد گرد کے دیہات سے بلائے گئے تھے شور مچا دیا اور مناظرہ نہ ہو سکا.دو ہر جلسہ گاہ میں غیر صریوں نے یہ فیصلہ کیا کہ مولوی صاحب کو اور ایم سعید احمد صاحب کو قتل کر دیا جائے اور احمدیت کو سانی تان کولم نے مٹا دیا جائے.یہ ارادہ کرکے کچھ لوگ انہیں احمدیہ کی طرف آرہے تھے کہ رستہ میں دو غیر احمدی بھاگتے ہوئے ان کو ملے.ان کو احمدی کچھ کر خوب زدو کوب کیا گیا جب بالکل نڈھال ہو گئے تو مارنے والے چھوڑ کر بھاگ گئے.۱۹۳۳ء میں آپ قادیان تشریف لے گئے اور حضرت امیر المومنین المصلح الموعود سے ایک اینٹ پر ڈھا کر کہ لائے.چونکہ ان دنوں احمدیوں کے لئے زمین خریدنی بہت مشکل تھی اسلئے مسجد احمدیہ کے لئے آپ نے نہ صرف زمین دی بلکہ تمام خرچ بھی خود برداشت کیا اور اس مسجد کی بنیا در اس اینٹ سے رکھی گئی.آپ نے احدیت کے متعلق بہت سی کتابیں اور ٹریٹیٹ تامل (TAMIL ) میں شائع کئے تھے.آپ نے مسجد نگیو سیلون کے بنانے میں بھی بہت بڑا حصہ لیا.فتح دسمبر یہ ہی کی صبح کو آپ کو ضعف قلب کا عارضہ ہویا ۳۱۰ فتح کو ہسپتال میں داخل کئے گئے.ار صلح جبوری یہ ہش کی شام کو وفات پائی.اور اور صبح جنوری پہ ہیش کو ۶۱۹۴۹ احمدیہ قبرستان نگبو میں سپرد خاک کئے گئے.بے له الفضل ۱۲۵ تبلیغ فروری ماه پیش متن
بیرونی مشنوں کی سرگرمیاں مولانا محمد شریعت صاحب ملنے فلسطین نے اس سال حسب ذیل لٹریچر شائع کیا.فلسطین مشن ، تجليات البي نَصِيحَةُ إمَامِ الْجَمَاعَتِ الْأَحْمَدِيةِ - يتبَريطانية والهند و امام جماعت احمدیہ کا ہندوستان اور انگلستان کو پیغام مسلح) ايةٌ مِنْ آيَاتِ رَبَّنا الكبرى (جنگ یورپ سے متعلق حضرت مصلح موعود کی پیش گوئیاں، رسالة إخلاص الكُلّ مسيحي مُتَّدِین رموزی ابو العطاء صاحب کا لکھتا ہوا رساله - انبيانُ الوَاضِح في إبطال الومِيَّة المسيم (عیسائیوں کے عقیدہ الوہیت کا ابطال از شیخ نور احمد صاحب نیتر) السيد ظفر اللہ خان في بلادِ الشام ربا تصویر مولانا جلال الدين صاحب شمش نے مادرمان مشاور ساران به یم انگلستان مشن کے شروع میں مسیح کہاں فوت ہوئے j545 DIE) (WHERE DID کے نام سے ایک ٹریکٹ شائع کیا جس کا یہ خانوی پولیس نے بہت چرچا گیا.چنانچہ اخبار ومبلڈن برو نیوز (۲ور ضروری ۱۹۳۶) نے لکھا:.یہ عقیده که حضرت بوع مسیج تختہ دار پر شکائے تو گئے.مگر فوت نہ ہوئے تھے بلکہ صحتیاب ہو کہ ہندوستان کا دور و راز کا سفر اختیار کیا جہاں آپ نے طبعی طور پر وفات پائی مولوی جلال الدین صاحب شمس امام مسجد لنڈن ساؤتھ فیلڈ نے اپنی کتاب حضرت مسیح نے وفات کہاں پانی میں بیان کیا ہے.یہ عقیدہ جماعت احمدیہ کا بنیادی نقطہ ہے ان خیالات کی درس گاہ کی بنیاد محضر احمد قادیانی نے رکھی جس کی ایک مشارع اس ملک میں بھی قائم ہے اور اس کا مرکز مسجد لنڈن ہے امام شمس صاحب نے ان حقائق اور واقعات کو بالانتصار کھوٹے سے ٹریکٹ کا له الفضل داراحان جون ۱۳۲۵ پیش صفحه ۳ ۱۳ ۱۹۴۶ بحواله الفضل ۱۲ رامان / مارچ ۱۳۳۲ ش صفحه ۲ کالم ۲ به ۶۱۹۴۶
474 شکل میں مرتب کیا ہے اور ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں اسے اس وسیع پیمانہ میں شمولیت و مبلڈن تقسیم کر رہے ہیں (ترجمہ) بشپ آف لنڈن نے کہ سچن ایویڈنس سوسائٹی کی سالانہ میٹنگ میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ :.ندر بھی تک ہم یہی خیال کرنے کے عادی رہے ہیں کہ میدان ہمارے ہی ہاتھ میں ہے مگر اب اہم اس امر کو محسوس کر رہے ہیں کہ صرف ہم ہی اپنے مذہب کا پروپیگینڈہ نہیں کر رہے بلکہ اور لوگ بھی ہمارے مقابل پر ہیں جو اس کام کو سرگرمی سے کر رہے ہیں.پھر مضمون نگارا اپنے مضمون کو جاری رکھتے ہوئے لکھتا ہے کہ بشپ آف لنڈن کے یہ خیالات اس واقعہ سے متاثر ہیں کہ اُس نے ایک ٹیوب سٹیشن میں چند ہندوستانیوں کو سیح کے مقبرہ کے فوٹو پر مشتمل ایک ٹریکٹ کو تقسیم کرتے ہوئے دیکھا.لنڈن کے ہفتہ وار میگزین " F.E.OF FAITH انا نے مسلمانوں کا حملہ انگلستان پر کے عنوان سے لکھا:.”ہم عیسائیوں کے لئے بڑے شرم کی بات ہے کہ ہمارا ملک اب مسلمانوں کے اس قسم کے حملوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے.برطانوی رواداری کی وجہ سے ممکن ہے یہ تحریک پیل بجائے اگر ایسا ہوا تو اس کے لئے ہمیں اچھی طرح مسلح ہونے کی ضرورت ہے ہے سپر پوسٹوں کے کثیر الاشاعت اخبار سائینگ نیوز نے اپنی ۲۰ اپریل ۹۲۶ائے کی اشاعت میں بھی اس پفصل تبصرہ کیا اور اس پر حسب ذیل عنوانات دئے.ایسٹر کے موقعہ پر مسلمانوں کی ایک جماعت کا حیرت انگیز دعوئے.حضرت مسیح مصلون نہیں ہوئے بلکہ بقید حیات ہندوستان گئے اور ایک دوسرے نام کے ساتھ تبلیغ کرتے رہے تے ہندوستان کے بعض مشہور اخبارات نے بھی اس پر تبصرہ کیا چنا نچید راس مشہور اخبار ہند : دیوار پارچه ۱۹۴۶ء کی اشاعت میں لکھا:.اس عجیب و غریب ادعا کا اعلان کہ حضرت یسوع ناصری سرزمین ہند میں دفن ہوئے تھے جناب مولوی جلال الدین صاحب امام مسجد مینی لنڈن کی طرف سے کیا گیا ہے سید ه بوانا تفضل ۳۰ دور و فابولائی ۱۹۲۶ ۱۳۲۵ هش ه مفصل تبصرہ کا ترجمہ الفضل دیکم ظہور ۱۳۲۵ و حشمت میں درج ہے
۶۳۷ ہمارے لندنی نامہ نگار کی اطلاع مظہر ہے کہ امام شمس صاحب نے فرمایا کہ حضرت سیے ناصری کی قبر خانیار محلہ سرینگہ (کشمیر) میں واقع ہے.یہ دھونے حصہ سید مرزا غلام احمد صاحب قادیانی بانی سلسلہ احمدیہ نے کیا ہے اور حضرت مسیح کی آمد ثانی کی پیشگوئی کو اپنے اوپر منطبق کیا ہے.امام شمس صاحب نے اس امر کا اعلان کرتے ہوئے کہ یہ قبر مسیح ناصری کی ہی ہے مزید کہا ہے کہ اس قبر کو کھولا جائے اور تحقیق کی جائے تو متعدد دستاویز است اور الواح اس صداقت کی شہادت میں دستیاب ہوں گی.اس مضمون کا چھوٹا سا ریکیٹ جس میں قبر مسیح کا فوٹو بھی ہے ہزاروں کی تعداد میں انگلستان بھر میں تقسیم کیا جا رہا ہے اسی طرح کلکتہ کے مشہور اخیار است بازار پتریکا نے م ر ماریے سایہ کے شمارہ میں اپنے نامہ نگار خصوصی کی طرف سے درج ذیل آرٹیکل شائع کیا : ترجمہ) حال ہی میں امام مسجد لنڈن نے ایک پمفلٹ شائع کیا ہے میں میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ سوع مسیح کی قبر ہندوستان میں پائی گئی ہے جس کی وجہ سے برطانیہ کے مذاہیں حلقوں میں غصہ کا اظہار کیا جا رہا ہے.خاص طور پر کیتھولک چرچ میں بقول امام صاحب مسجد احمد یہ لندن حضرت مسیح کی پیشگوئی بعثت ثانی حضرت احمد قا دیانی بانی عالمگیر سلسلہ احمدیہ کی ذات میں پوری ہوئی.نیز آپ نے ٹھوس دلائل سے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ لیسوتے مسیح صلیب پر فوت نہیں ہوئے بلکہ اپنے جسم عنصر می کے ساتھ غار سے نکل آئے تھے امام صاحب فرماتے ہیں انجیل کی روایت کے مطابق بیسوع میسج دریائے نائٹریس کے کنارے اپنے حواریوں سے آخری نیاد ملے.نیز اپنے حواری و پیر کو ہدایت کی کہ " میری بھیڑوں کی پرورش کے نا اس ہدایت کے بعدہ اپنے حواریوں سے مبرا ہوئے اور ایک معلوم علاقہ کی طرف چلے گئے.یہ شہوڑ ا فقہ ہے کہ لبوع صبح کے وہ سواریوں میں سے ایک حواری مسٹمی طامس ہندوستان آئے اور یہیں فوت ہو آج انکا مغیرہ دور اس میں خود ہے حضرت احمد قادیانی مسیح مو خود کا یہ انکشاف کہ مسیح ابن مریم کی قبر کشمیر میںموجود ہے عیسائیوں کے آسمان کی طرف بیسوع مسیح کے اٹھائے جانے کے عقیدہ کو بالکل باطل کر دیتا ہے اور یقینی طور پر ثابت کرتا ہے کہ یہ قیر عیسی بن مریم کی ہے اور وہی اس میں مدفون ہیں.الفصل ۲ ۲ روق ۱۳۵۲۵۶ (جولائی ۱۹۳۶)
۶۲۸ یہ قبر مدنی گھر منہ خانیار میں موجود ہے جس کے قرب وجوار میں گم شدہ بنی اسرائیل پہلے بھی آباد تھے اور آج بھی آباد ہیں.اگر اس قبر کی محکمہ آثار قدیمہ والے تحقیق کریں تو کئی ایسے کتنے وغیر ہ مل سکتے ہیں جو اسبات کا مبین پستہ دیں گے.کہ اس قبر میں وہی شخص مدفون ہے جس کی صدیوں سے خدا کی طرح پرستش کی جاتی ہے اس پمفلٹ میں ایک تصویر بھی ہے جس میں پانچ مسلمان قبر کی حفاظت کر رہے ہیں.کیتھولک چرچ کے ہفتہ وار اخبار یونی ورس نے اس خبر کے متعلق ناراضگی کا اظہار کیا ہے.۱۳:۲۵ ر حواله الفضل ۲۶ مارچ ۹۴۶ اور مطابق سالیان د ۱۳۹۳ ) ۲۰-۲ ظهور/ اگست کو حافظ قدرت اللہ صاحب نے لندن مشن کی تاریخ میں پہلی بار نماز تراویح میں قرآن مجید ختم کیا لیا - ویدا نتنا سوسائٹی انٹون کے زیر اہتمام ۲۵ تا امر ظہور اگست میر کو ایک مذا راگ کا نفرنس کا انعقاد ہوا جس میں اسلام کی نمائندگی چوہدری مشتاق احمد صائب امام مسجد لنڈا نے کی ایک نہایتہ کا میا بے لیکچر دیا جس سے حاضرین بہت محفوظ ہوئے ملک م.منڈن کی انڈین کلچرل یونٹی کتے ہر ماہ نبوت / نومبر کو اپنا ایک خاص پرو گرام مہندستان کے مسئلہ اتحاد پر مقرر کیا تھا جس میں ہندو سکھ ، پارسی ، عیسائی اور مسلمان مقررین نے حصہ نیا، مسلمانوں کی طرف سے چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ امام مسجد لنڈن نے کامیاب اور موثر نمائندگی کی میں مشرقی افریقہ مشن (1) ٹورا کے عیسائی مشق نے یسوع یا محمد کے عنوان سے ایک رسالہ شائع کر رکھا تھا.جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک کے خلاف اعتراضات کئے گئے تھے.مشرقی افریقہ کے احمد یہ مشن کی طرف سے اس رسالہ کا مدلل جواب سواحیلی میں شائع کیا گیا.جیسے ملک بھر کے مسلمانوں نے بہت سونا له الفضل لم البوس / ستمبر ۱۳۲۵ صفحه ۲ کالم ۱ القتل ۲۴۲ نوک ۱۳:۲۵ صفحه مة الفضل تو نبوت ۱۳:۳۵۰ صفرا
489 متعدد افریقیوں نے لکھا کہ ہمارے ہاتھ میں یہ رسالہ ایک ایسا بہت خیار ہے کہ ہم عیسائیوں کو حکمت جواب دینے کے قابل ہو گئے ہیں سیسے ۲.مشرقی افریقہ کے پرانے احمدی سیٹھ عثمان یعقوب صاحب نوری ۳۰ ماه نبوت / نومبر ۱۳۲۵ مش مرکز احمدیت میں تشریف لائے سے مولانا محمد صادق حنا کی واپسی مولانا جلال الدین صاحب شہستی کے علاوہ مین کا ذکر جب قبل ازیں آچکا ہے اس سال سولانا محمد صادق صاحید مجاہد سماٹرا بھی آٹھ سال تک تبلیغ احمدیت کا فریضہ انجام دینے کے بعد یہ ۲ ماہ شہادت / اپریل لاش کو قادیان تشریف لائے کہ مبلغین اسلام کی قادیان روانگی اس سال من معبد یل میبینین تامین سے والد کے لا الہ جہ اعلائے کلمتہ (۱) کے لئے روانہ ہوئے.مولوی صدر الدین معنا فاضل ایہ ان کیلئے دوران نارون سوار شدم (۲) مرزا منور احمد صاحب واقف زندگی برائے امریکہ (مورخہ ہ ماہ دو فائر بولائی.(۳) چوہدری غلام نہین صاحب برائے امریکہ (۲۲ رو فار جولائی ۳۲ اس نے رہی، مولوی غلام احمد صاحب برائے عدن.ده ظہور اگست ۲۶ مش شه 1474 (۵) مولوی رشید احمد صاحب پختانی برائے فلسطین (۲۳ ماه اخاء / اکتو بر هم سوار می شه ش) ریا مولوی محمد نہ ہلدی صاحب برائے بورنیو ( ۲۸ نبوت / نومبر شه ش نه (4) ۱۹۲۶ 14 fv مله الفضل ۲۳ ر امان ماده رویش محمد کے کالم ۲-۳ له الفضل سر فتح ۳۳۵ حش من ۲۵ ه الفضل ، شہادت ۲۵ ۱۲ و معش صفحه شد الفضل ۱۲ را حسان جون ۳۵ سر راهش صفحه کال ۲ ۲۵ له الفضل بو ماه و قار جوانی اش صفحنا له الفضل ۲۳ و فار جولائی سرامش صفحه 71904 ه الفضل و ظہور از معش صفحه ا کالم ۲ شه الفضل ۱۲۳ خاء ۱۳۲۵ در بخش صفرا کالم ۲، مولوی خداست موضوت نے اپنی روانگی سے قبل حضرت مصلح موعود کی خدمت میں درخواست کی کہ ان کے غریب خانہ پریشر میں چنانچہ صور علامت طبع کے باوجود ان کے مکان دور فع دار الرحمت میں تشریف لے گئے اور دعا کرائی والفضل اور رخاء ۱۳۲۵ مش صفحه ب له الفضل ۱۲۹ نبوت / نومبر ۱۳۳۵ از معش صفحا
۱۳۲۵عش کی نئی مطبوعا اس سال مرکز سے حسب ذیل لڑ پھر شائع ہوا.ا طریقہ تعلیم : چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے جامعہ احمدیہ میں ایک معلومات افترا لیکچر دیا تھا جو جامعہ احمدیہ کی طرف سے شائع کیا گیا.ہند و اقتدار کے منصوبے) ( از جناب ملک فضل حسین صاحب احمدی مہاجہ) یا اچھوت ادھار کی حقیقت اخبار انقلاب دو ہر فروری شاہ نے اس کتاب پر محبت پیل تبصرہ شائع کیا :.ملک فضل حسین صاحب د قادیان) اپنی بعض مفید کتابوں کے سلسلہ میں کافی شہرت حا صل کر چکے ہیں.ان کی تاندہ کتاب اچھوت ادھار کی حقیقت یا ہندو اقتدار کے منصوبے بھی ان کی دوسری کتابوں کی طرح نہایت قیمتی معلومات سے برینہ ہے ملک صاحب ایک موضوع تجویز کہ کے اس کے متعلق نہایت صید و استقلال سے اخباروں کے تراشے اور افراد کی تقریر میں اور تحریریں جمع کرتے رہتے ہیں اور کچھ مدت کے بعد موضوع زیر بحث کے متعلق اتنا اچھا مواد مرتب کر دیتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اس موضوع پر مختلف حلقوں کی آراء و تاثرات کا اندازہ کرنا چاہے تو صرف ایک کتاب پڑھکر کر سکتا ہے اس کتاب میں کانگریسی اور ہندووں کے ان دعاوی کا تار و پود بکھیرا گیا ہے.ہو وہ اچھوتوں کی اصلاح کے متعلق کرتے رہتے ہیں اور بتایا ہے کہ ہندووں کا یہ تمام شور و شعب محض اپنی سیاسی طاقت کو بڑھانے کے لئے ہے.ورنہ انہیں اچھوتوں سے کوئی خاص ہمدردی نہیں ضخامت ڈھائی سو صفحے سے زیادہ ہے.قیمت کتاب پر لکھی نہیں لیکن ملک صاحب کی کتا ہیں چونکہ عام طور پر ارزاں ہوتی ہیں اسلئے غالباً ایک روپے سے زیادہ نہ ہوگی.ہے ۳- لطائف صادق مر تبہ جناب شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پیتی ) اس کتاب میں وہ قام دلچسپ اور پُر لطف باتیں جمع کر دی گئیں.جو حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو ہندوستان انگلستان اور امریکہ میں پیش آئیں.ا اختیار انقلاب و در فرودی ش۱۹
م تعلیم البنات حصہ اول پاره اول مترجم بطرز حد یاد مع نماز متر هم راز مولوی عبد الرحمن من نمی شمار سکھوں اور مسلمانوں کے خوشگوار تعلقات دان گیانی و احمد حسین صاحب ملنے سلسله احمدیه) گزشتہ اور موجودہ جنگ کے متعلق پیش گوئیاں" ( تالیف مولانا محمد یعقوب صاحب طاہر و مولانا جلال الدین صاحب شمق ) مباحثه و ملی اس نسال دہلی میں ڈریادگار مناظرے ہوئے جن کی تفصیل یہ ہے کہ آریہ سماج دہلی نے اپنے سالانہ جلسہ کے موقع پر جملہ مذاہب کو مناظرہ کا پیلینچ دیا اور ایک پوسٹر بھی شائع کیا کہ جس کا جی پیا ہے آ کہ وید کہ دھرم کی صداقت آزما ہے.جماعت احمدیہ نے یہ چلینج قبول کر لیا اور آریہ ومعصوم میں عورت کا مقام کے موضوع پر مناظرہ قرار پایاجس میں مولومی ابو العطاء صاحبہ فاضل پر نسپل جامعہ احمدیہ نے کا میاب کامیاب محبت کی.آپ کے زبر دست دلائل اور شوکت بیان کے سامنے آریہ مناظر صاحب کے کزور اور غیر معقول جوابات کا یہ اثر تھا کہ آریہ سماج کو مناظرہ کا ڈیڑھ گھنٹہ مقررہ وقت گذار نا مشکل ہو گیا اور ان کی کیفیت " پہ پائے رفتن نہ جائے ماندن " کی مصداق تھی.انتقام مناظرہ پر مسلمانوں نے انبساط و مسرت کے ہوش میں بے اختیار اللہ اکبر" " اسلام زندہ باد کے نعرے بلند کئے اے اس مناظرہ میں آریہ سماج کو زک اٹھا نا پڑی اس کا داغ دھونے کے لئے آریہ سماعت نے دوبارہ اس موضوع پر مباحثہ کی طرح ڈالی.چنانچہ ایک ہفتہ کے اندر نئی دہلی میں دوسرا مناظرہ ہوا اور اس میں کئی ہزار تعلیم یافتہ لوگ شامل ہوئے جماعت احمدیہ کی طرف سے شب سابق مولومی ابو العطاء صاحب نے بحث کی اور آریہ سماج کی طرف سے پنڈت پر بھی ال صاحب پیش ہوئے جو عمر رسیدہ ہونے کے باوجود بد زبانی میں بہت شاق تھے.یہ مناظرہ بھی پہلے کی طرح نہایت کامیابی سے ختم ہوا خود پنڈت رام چند ر صاحب دہلوی نے جو صد تھے اعلان کیا کہ جناب مولوی ابو العطاء صاحب نے نہایت تہذیب و شرافت سے مناظرہ کیا ہے اور کوئی ایسی بات نہیں کہی جو ہمارے مسلمات کے خلاف ہو.مسلمانوں نے مناظرہ کے انتقام ه الفضل ۱۲ رمان مارچ ۳۵ ۳ موش صفحه ۶
۶۳۲ پر تکبیر اور اسلام زندہ باد کے نعرے چند گئے.بعض آریہ ساتھیوں نے کہا کہ نیوگ کا بیان ستیار تھے پر کاش ہیں سے نکال دینا چاہیئے اس کی وجہ سے ہمیں ذلیل ہونا پڑتا ہے.مناظرہ کے بعد کئی معزز مسلمان مولوی ابو العطاء صاحب کی قیامگاہ پر تشریف لائے اور مبار کیا و دی ماه فصل سوم خلافت ثانیہ کا چونتیسوا سال پیش ایک واقعت زندگی تجارت کی غرض سے حضرت مصلح موعود کی زریں ماتنا ۱۳۲۶ و در ماه متسلح / جنوری ۳ ورزش کو قادیان سے ایک واقف نہ ندگی کو روانہ ہوئے تو حضرت مصلح موعود نے اُن کو اپنے فلم مبارک سے حسب ذیل ہدایات لکھ کر عطا فرمائیں.أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بسم الله الرحمن الرحيم تَحْمدَهُ وَنَصَل عَلَى رَسُولِهِ الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو النهود آپ وقت نے زندگی ہیں.تعلیم یافتہ ہیں ایک فن جانتے ہیں نوکری کرتے ، یا اپنا کام کرتے تو اپنی حصہ کے اندر دنیا کھاتے.اشتند والوں کی ترقی کا موجب ہوتے لیکن اب آپ نے خداقو کے لئے اپنے ارادوں کو قربان کر دیا ہے.یہ نازک مرحلہ ہے ایک قدم اِدھر سے اُدھر ہو کچھ نا ة الفضل ۲۰ رامان ۱۳۲۵ همایش صفحه ۹
۶۳۳ قعر مذلت میں گرا سکتا ہے.اپنے عہد پر قائم رہیں تو دین و دنیا آپ کی ہے.اس میں ذراسی لفرش ہو تو تباہی اور بربادی ہے آپ نے دین کے لئے زندگی وقت کی ہے لیکن آپ کو تجارت کے لئے بھجوایا جا رہا ہے.یہ عجیب بات نہیں.ساری فوج لڑے تو شکست یقینی ہے.کچھ لوگ گولہ بارود بناتے ہیں.کچھ روٹی پکاتے ہیں.کچھ بندوقیں تیار کہتے ہیں.کچھ کپڑے، کچھ بوٹ، کچھ موٹمہ بناتے ہیں.اگر یہ لوگ اپنے کام پر خوش نہ ہوں اور ہوش سے حسب ضرورت بلکہ زائر از ضرورت کام نہ کریں تو لڑائی میں شکست یقینی ہے ان کے بغیر سپاہی قیدی ہے.مقتول ہے.فاتح اور غالب نہیں ہیں آپ کا کام مبلغوں سے کم نہیں.مبلغ اپنی جگہ پر لڑتا ہے.آپ لوگ ساری دنیا میں تبلیغ پھیلانے کا ذریعہ نہیں گے.پس اپنے کام کو وسیع کر یں ماپنے نفع کو کروڑوں بوں اور پھر کھریوں تک پہنچائیں تا سینکڑوں سے ہزاروں ، ہزاروں سے لاکھوں مبلغ مقرر ہوں اور کروڑوں کے بعد اربوں ٹریکٹ اور کتب ہر سال شائع اور تقسیم ہو اپنے حو صلہ کو بلند کریں.چھوٹی کامیابیوں پر خوش نہ ہوں.دُنیا کی فتح اپنا مقصود بنا لیں.دنیا کو دُنیا نے اپنے لئے ہزاروں سال کمایا ہے.اب کیوں نہ سب تجارت اور صنعت دین کے لئے فتح کر لی جائے.تاکہ یہ ذاتی جھگڑے بالکل ختم ہو جائیں کمیونسٹ قوم کے لئے لیتے ہیں اور اس طرح ذاتی لڑائی کو قومی لڑائی میں بدل دیتے ہیں اور چونکہ قومیں نہیں بدلیں.لڑائی کی بنیاد ہمیشہ کے لئے قائم کر دیتے ہیں.لیکن ہم اگر تجارت و صنعت کو مذہب کے لئے جیت لیں گے تو لڑائی کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو جائے گا.کیونکہ مذہب بدل سکتا ہے اور اسلام تبلیغی مذہب ہے جب سب لوگ ایک مذہب کے ہو جائیں گے اور تجارت مذہب کے ہاتھ میں ہوگی تو دین و دنیا ایک ہی ہاتھ میں جمع ہو کر لڑائی کا خاتمہ کر دیں گے.مطالعہ وسیع کریں.صرفت ایک تاجر نہیں ایک ماہر اقتصادیات کا درجہ حاصل کرنے کی کوشش کریں صرف ہندوستان اور انگلستان کے درمیان ہی تجارت وسیع کرنے کا سوال
نہیں اپنے مغربی مشنوں سے تبادلہ خیالات کر کے وہاں تجارت کو وسیع کیا جا سکے تو ا سے بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیئے.ہماری غرض عقل کے ساتھ سوچ کہ ساری دنیا کی تجارت پر قبضہ کرنا ہے اور کوشش کرنا ہے کہ تبلیغ اسلام اور بنی نوع انسان کی بہتری کے لئے اس قدر دو پیر کا لیں کہ روپیہ اور مال کی وجہ سے کسی کو تکلیف نہ ہو صرف سمادی آفات رہ جائیں ارضی آفات کا خاتمہ ہو جائے اور سماوری آفات دل کی اصطلاح ہے دورہ ہو سکتی ہیں ان کا دور کہنا آسان ہے کہ اس کا رو کنا رحیم و کریم خدا کے ہاتھ میں ہے.افسروں کی اطاحت باقاعدہ رپورٹ کام کے اہم جزو ہیں جو اس میں غفلت کرتا ہے اس کا سب کام عیث جاتا ہے.دعا عبادت ، دیانت.امانت به محنت تعاون با ہمی ضروری امور ہیں.ان کے بغیر دین نہیں دین کا چھلکا انسان کے پاکس ہوتا ہے.اور کھل کا کوئی نفع نہیں دیتا.والسلام خاکسار و دستخط (مبارک) مرنا محمو د احمد رضيفة السبع الثاني عامله فسادات پنجاب اورر انجاست مسلمان امرتسر کیلئے جامے کا لیف میپ جوں جوں انتقال اقتدار کے ایام قریب سے قریب تر آ رہے تھے ملک فرقہ والہانہ کشیدگی کے نئے سے نئے خونی چگہ میں پھنستا جا رہا تھا.احمد آباد- بمبئی کلکتہ بہار اور گڑھ مکتبر کے لرزہ خیز واقعات ۱۹۴۷ ہ کے شروع میں جبکہ سور مار ے سے کو خضر وزارت مستعفی ہو گئی.پنجاب میں بھی دوہرائے جانے لگے اور لاہور، امرتہ ملتان، گوجرانوالہ اور گوڑ گانوں میں فتنہ و فساد کی آگ بھڑک اُٹھی.خصوصاً امرتسر میں آتشزدگی کی ایسی خوفناک وارداتیں ہوئیں کہ ایک انگریز افسر نے ریجو دوسری جنگ کے دوران لنڈن میں تھا بیان کیا کہ امرتسر کی حالت لنڈن کے ہر اُس حصہ کی نسبت جس پر جنگ میں کہتیاروں کا مجموعی حملہ کیا گیا ہو بد تر تھی.ہے ۲۶ : ۱۳ صفحہ سے سول اینڈ ملٹری گیٹ لاہور بون ۱۹۴۶ ا الفضل بدر صلح امارات
۶۳۵ ان فسادات امرتسر کے پچاس ہزار کمانوں پر گویا ایک قیامت ٹوٹ پڑی.اس دردناک صورت حالات سے حضرت مصلح موعود بہت مضطرب اور مشوش ہوئے اور حضور نے خدام الاحمدیہ مرکز یہ کو ہدایت فرمائی کہ وہ ایک ہزار مسلمانوں کے خور و نوش کا انتظام کرنے کے لئے فوری طور پر امرتسر میں ایک ریلیف کیمپ کھول دے اور اپنے مظلوم او رہے ہیں بھائیوں کی مدد و اعانت ہمیں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کریں.چنانچه حضرت صا فیزاده مرند ( ناصر احمد صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیه مرکز پر قادیان کی زیر نگرانی امرتسر میں یہ امدادی کیمپ قائم کیا گیا جوکئی ماہ تک نہایت اہم خدمات انجام دیتا رہا.حضرت مصلح موعود نے صوبہ کے سر بر آور وہ احمدی اصحاب کو اپنے قلم مبارک سے اس کیمپ کی اعانت کے لئے ایک خاص مکتوب تخریبہ فرمایا میں سے جماعت احمدیہ کی امدادی سرگرمیوں کی نوعیت واہمیت کا اندازہ بھی لگ سکتا ہے.حضور نے لکھا.برادرم میکردم سلمكم الله تعالى السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبر کاتہ امرتسر میں مسلمانوں پر جو سختی ہوئی ہے وہ نا قابل بیان ہے پچاس ہزار مسلمان بے گھر بے درہیں اور نوکری سے محروم.کھانے کو آٹا تک نہیں ملتا اگر ان کی امداد نہ کی گئی تو سب شہر چھوڑ کر دوڑ جائیں گے اور مسلمانوں کا سخت نقصان ہوگا.ان حالات کو دیکھ کہ میں نے خدام الاحمدیہ کے سپرد یہ کام کیا ہے کہ مسلم لیگ سے شہر کا ایک حصہ لیکر اس کے ریلیف کا انتظام کریں.یہ مصیبت اتنی بڑی ہے کہ شہر والوں کی طاقت سے باہر ہے اصل میں پنجاب کے سب ضلعوں اور تخمینوں کو چاہیئے تھا کہ مقامی لیگ کا اس امداد میں ہاتھ بٹائیں اور شہر کے مختلف حصوں کی امداد کا کام اپنے ذمہ لیں مگر اب تک اس طرف توجہ نہیں ہوتی.اب خدام الاحمد نے میری ہدایت سے سردست ایک ہزار آدمی کے لئے ریلیف کی ذمہ داری تین ماہ کے لئے لی ہے.ارادہ ہے کہ مسامان میسر آجائے تو سال بھر کے لئے اس ذمہ داری کو ادا کیا جائے گا اور اگر جماعت کا تعاون زیادہ ہو تو ایک ہزار سے بڑھا کر ڈیڑھ دو ہزار یا اس سے بھی
زیادہ آدمیوں کی امداد کا کام کیا جہاد ہے.اس سلسلہ میں یہ خط آپ کو لکھ رہا ہوں کہ آپ اپنی جماعت کے علاوہ دوسرے ہرا دی رکھنے والوں سے سارے ضلع میں غلہ جمع کریں اور پھر اسے وہیں فروخت کر کے امرتسر ریف فنڈ کے نام بھجوا دیں.یہ فنڈ صدرہ امین احمدیہ کی نگرانی میں قائم کر دیا گیا ہے.امرتسر ریلیف فنڈ کے نام رقوم بھیجواتے رہیں.اگر صرف ایک ہزار آدمکا کے ریلیف کا انتظام کیا جا ئے تو سال میں سوا تین ہزار من شکر نویچ ہوگا کیونکہ امرتسر میں غلہ کی قیمت گیارہ سے بارہ روپے تک ہے اسلئے اس کی قیمت چالیس ہزار روپے تک ہو گئی پچونکہ اضلاع میں طلبہ آٹھ روپے سے تو رو پے من، تاک بکے گا اس لئے پانچ ہزار من قبلہ امرتسر میں سوا تین ہزار من پہنچے گا.اگر کام دوگنا ہو جائے تو دس ہزار من چاہیئے ہم نے گورداسپور میں یہ کام شروع کر وا دیا ہے اور اب سیا لکوٹ شیخو پورہ گوجرانوالہ لائل پور سرگودہا منٹگمری اور تھان کی جماعتوں کو تحریک کی جاتی ہے کہ وہ اسبارے میں جلد سے جلد روپیہ بھجوانا شروع کر دیں.یہ بات یاد رہے کہ اس قسم کے لفظ نہ بولے جائیں کہ ہم لیگ کی طرف سے یہ کام کر رہے ہیں.ہاں یہ بے شک بتایا جائے کہ لیگ کے کام کو ہلکا کرنے کے لئے ہم نے یہ کام شروع کیا ہے جو لوگ اس میں ہمارے ساتھ تعاون کرنا چاہیں کر سکتے ہیں اور اس میں اُن کو بھی ثواب مل نہیں کا....اگر یہ کہا گیا کہ یہ تحریک لیگ کی طرف سے ہے تو اس سے فتنہ پڑنے کا امکان ہے اور لیگ اعتراض کر لے گی کہ ہمارے نام سے ناجائز فائدہ اٹھایا بھالاہا ہے.میں تجویز کہتا ہوں کہ ملتان منٹگمری لائل پور اور سرگودھا کی جماعتیں تمام علاقہ میں تین تین ہزار من غلہ جمعے کرنے کی کوشش کریں اور شیخو پورہ گوجرانوالہ اور سیالکوٹ کی جماعتیں دو و ہزار مین.اس طرح حساب کیا ہو تو اٹھارہ ہزار من ہوجاتے ہیں لیکن چونکہ بعض جماعتیں شاید پوری طرح کامیاب نہ ہو سکیں اسلئے اس قدر حصہ مقرر کر دیا گیا ہے تا کہ اگر کسی جماعت کو پور من کامیابی نہ ہو تب بھی نقصان نہ ہو.والسلام دو مرزا محمود احمد خلیفة المسیح الثانی
ما سی ۳۲۲ ایش کے شروع ما دامان / مارچ نہ پیش کے فسادات کی وجہ अवतर 1976 ما ه امان راری سے قادیان بیرونی علاقوں سے بالکل کٹ گیا تھا کیونکہ فسادات اور قادیان نہ ریل آتی تھی نہ ڈالک نہ نار نہ ٹیلی فون یہ وہ ایام تھے جن میں حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود سندھ تشریف رکھتے تھے.مختلف مقامات سے نار بلوا کر حالات سے مطلع رکھنے کی کوشش کی گئی مگر بعد کو معلوم ہوا کہ بہت کم تا رحضورت تک پہنچ سکے ہیں.اسی طرح ہوتار پیرونی جماعتوں کی غیریت دریافت کرنے اور مرکز سلسلہ کی خیریت کی خبر پہنچانے کے لئے دیئے گئے وہ بھی بہت کم پہنچ سکے البتہ گا ہے گا ہے لاہور اور امرتسر کی جماعت کے ساتھ بعض ذرائع سے رابطہ قائم کرنے کا موقعہ ملتا رہا اس دوران میں آٹھ روز کے لئے لفضل کو بھی ایک درق صورت میں بدل دیا گیا کیونکہ اس کے باہر بھجوانے کی کوئی صورت نہ تھی.اور نہ باہر سے خبریں موصول ہونے کا کوئی انتظام تھا.ماہ رمان مارچ کے تیسرے ہفتے میں خیالا مثال وقتی طور پر معمول پر آگئے اور تانگوں سے ڈاک بھی آنے لگی پھر روزانہ ڈیزل کا کی ایک سروس بھی قائم ہوگئی.اطلاع پہنچی کہ نہ صرف حضرت امیر المومنين المصلح الموعود بخیر سمیت نہیں بلکہ لاہور ملتان اور امرتسو میں بھی احمدی جماعتیں بخیریت ہیں.البتہ امرتسر کے احمدیوں کا کچھ مالی نقصون بھی ہوا اور ایک احمدی کو خفیف سی ضربیں آئیں.قادیان میں فسادات کے ابتداء میں ہی ایک امن کمیٹی بنا دی گئی تھی جس میں احمدیوں کے علاوہ دوسرے مسلمانوں اور سکھوں اور مہند قوں نے بھی شرکت کی جن کی وجہ سے قادیان اور اس کے ماحول میں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آیا.اور فضا پر سکون رہی ہے له الفضل ۲۰ امان اطلاع نمایش صفحه و تو بار قم فرموده حضرت قمر الانبياء مرزابشیر احمد سن الختا اس کمیٹی کے اٹھارہ ممبر تھے میں میں سات احد کی کچھ غیر احمدی اور پانچ ہند ویا سکھ تھے.ار ما د امان امار پر ہم پیش کو کمیٹی کی طرف سے ایک اشتہار بھی شائع کیا گیا جس کا عنوان تھا ہندو ار یاری 19 م مسلمانوں اور سکھوں سے دردمندانہ اپیل آؤ ہم سب اکٹھے ہو جائیں ، وہ ارادہ ایمان کو اس کمیٹی کے زیر اہتمام حضرت صاجزادہ مرد انا صراحمد صاحب کی صدارت میں ایک جلسہ عام بھی ہوا.جس میں اتحاد و اتفاق سے رہنے کی تلقین کی گئی.کمیٹی کے سیکرٹری مولوی برکات احمد صاحب بی اے راجی کی تھے.
۶۳۸ خذہ پنجاب میں آگ کی تو تا کٹائی حضرت مصلح موعود کو تبلیغ ه ش کی نسبت رویاء کو عالم روبار میں دکھایا گیا ہے دو نرخ میں بچھو ہیں لیکن وہ بچھو اس دنیا کی طرح نہیں.یہاں تو بچھو عام طور پر انگلی سے چھوٹے ہوتے ہیں لیکن وہاں جوئیں نے بچھو دیکھے ہیں وہ چھے سات گز کے قریب لیے ہیں ہیں.پہلے مجھے صرف دو بچھو نظر آئے جو علاوہ سا اٹھے گز لیے ہونے کے موٹے بھی ہیں.جیسے ہوائی جہاز ہوتا ہے.ایسے لگتے ہیں.مگر ہوائی جہاز سجتنے جسم نہیں جو کہ ایک نے سمر کے قریب ہوتے جار ہے ہیں ان میں سے ایک دو کے پر گرا ہے جس طرح جانور جفتی کیلئے جمع ہوتے ہیں.جب ایک دوسرے پر کو درانے کی کوشش کرتا ہے تو میں نے دیکھا کہ دوسرے نے اوپر گر نیوالے بچھو کو زور سے ڈنگ مارا اور وہ اچھل کر سامنے جاڑا پھر اس نے دوسے کی طرف منہ کر کے آگ کا شعلہ نکالنا شروع کیا ہو کہ دور اوپر تک جاتا ہے اور دوسے نے بھی اس کے جواب میں آگ کا شعلہ نکالنات روع کر دیا اور وہ دونوں شعلوں کے ساتھ ایک دوسے کے ساتھ لڑائی کرتے ہیں.اس کے بعد کچھ اور بچھو پیدا ہوئے ان کے بعد بھی اسی طرح سات آٹھ گنے کے قریب ہیں.پھر انہوں نے بھی آگ کے شعلوں سے لڑائی شروع کر دی اور ان کے شعلوں کا نظارہ نہایت ہی ناک تھا میں نے دیکھا کہ یکدم ایک بچھو نے پلٹا کھایا اور آدمی کی شکل اختیار کر لی اور اس نے اسی کمرہ کی طرف بڑھنا شروع کیا جہاں میں بیٹھا تھا.میں گھبرا کہ وہاں سے پھل پڑا ہوں.اس وقت سے آواز آئی ہے.معلوم نہیں کہ وہ فرشتے کی آوازہ ہے یا کسی کی.قرآن پڑھو.قرآن پڑھو، اس آوانہ کے آتے ہی میں نے قرآن شریف ملبند اور میرکلی آوانہ سے پڑھنا شروع کر دیا.میں نے محسوس کیا کہ میری آواز بہت سُریلی اور پیلیند ہے.اور میں میں طرف سے گزرتا ہوں میری آواز پہاڑوں اور میدانوں میں گونج پیدا کر دیتی ہے.گویا ساری دنیا اس پھیل رہی ہے اور جس کے کانوں میں وہ آواز پڑتی ہے وہ بھی قرآن کریم پڑھنے لگ جاتا ہے میں چلتا جارہا ہوں اور قرآن کریم
۱۳۹ اخبار ہا ہوں چاروں طرف سے قرآن کریم پڑھنے کی صدائیں میرے کانوں میں آرہی ہیں.اے حضرت مصلح موعود کی زبان مبارک سے حضرت مصلح موعود نے اور وقار جولائی رویا کے پورا ہونے کی تفصیل سے پیش کے خطبہ میں اس آسمانی نشان الفاظ میں بیان فرمائی :.کے لفظ لفظ پورا ہونے کی تفصیل مندر بولا اب دیکھو بعینہ یہی نقشه گذشته فسادات میں دیکھنے میں آیا.پہلے ہندوؤں اور سکھوں نے لاہور میں جلسہ کیا اور اس جلسہ میں انہوں نے بڑے زور کے ساتھ اعلان کیا کہ ہم مسلمانوں کو تلوار کے زور سے سیدھا کریں گے.یہاں تک کہ ایک لیڈر کے متعلق میں نے ہند و اخباروں میں پڑ ھوا کہ تقریہ کرتے ہوئے جوش سے دروازہ کے پاس آگیا اور اپنی تلوار ہوا ہمیں گھیا کہ کہا کہ اس تلوار کے ساتھ ہم مسلمانوں کو سیدھا کہ دیں گے.گویا لڑائی کی ذہنیت کو اللہ تعالے نے بچھو سے مشابہت دی بچھو کے متعلق مشہور ہے کہ ہ نیش عقرب نه از پئے کیس است مقتضائے طبعش این است یعنی یہ جانور حملہ کرتے وقت کوئی وجہ نہیں دیکھتے بلکہ بلاوجہ حملہ کرتے ہیں اور کوئی بھی ان کے آگے آجائے اُسے ڈنگ مار دیتے ہیں پس خواب میں بچھو دیکھا کہ اللہ تعالے نے بنا یا تھا کہ ملک کے ایک طبقہ کے لوگوں کی ذہنیت ایسی ہو چکی ہے کہ وہ بلا وجہ ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے پر تلے ہوئے ہیں اور وہ لوگ نقصان پہنچانے کے لئے کوئی وجہ اور دلیل مر نظر نہیں رکھیں گے بلکہ بلا وجہ ہی وہ بچھو کی طرح ڈنگ ماریں گے اور ایسے لوگ مہندؤوں میں بھی ہیں اور مسلمانوں میں بھی.پھر خداتعالے نے رو یاد میں اسی طرف بھی اشارہ کیا تھا کہ جو لوگ حملہ میں ابتداء کریں گے انہیں مخالف فریق اٹھا کر پورے پھینک دے گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.ہندووں اور سکھوں نے مل کر مسلمانوں پر حملہ کرنے میں ابتداء کی مگر وہ کامیاب نہ ہوئے اور مسلمانوں نے انہیں اٹھا کہ پرے پھینک دیا.پھر دونوں فریق کی آپس میں لڑائی شروع ہو گئی اور جیسا کہ خواب میں دکھایا گیا تھا آگ کے ن الفضل ۲۰ رایان سرباره ما مش صفحه ۱ تا ۲
۶۴۰ شعلوں سے لڑائی ہوئی اور یہ نظارہ لاہور.امرتسر اور کئی دوسری جگہوں میں دیکھتے ہیں آیا اور آگ کے ساتھ ایک دوسرے کو اس قدر نقصان پہنچایا گیا کہ اس کی کوئی مثال ہی نہیں مل سکتی.ایک انگریزی اخبار کا ایک انگریز نا مہ نگار میں نے لاہور اور امرتسر کے تباہ شدہ علاقوں کا دورہ کیا تھا اس نے بیان کیا کہ پانچ سال کی ہو منوں کی وحشیانہ گولہ باری کے نتیجہ میں جتنے مکانات لندن میں تباہ ہوئے تھے اس سے زیادہ مکانات لاہور اور امرتسر کے دو تین ماہ کے فرات ہیں.تباہ ہو گئے ہیں.گویا پانچ سال کے لیے عرصہ میں جتنا ظلم جرمنوں نے انگلینڈ کے سب سے بڑے شہر لنڈن پر کیا تھا اُس سے زیادہ معلم دو تین ماہ کے قلیل عرصہ میں لاہور اور امرتسر میں ہوا.ان شاورت کی ابتداء اور مارچ سے ہوئی گویا ان فسادات سے چھ یا سات دن پیشتر خدا تعالے نے مجھے بتا دیا تھا کہ رب عنقریب آگ کی لڑائی شروع ہونے والی ہے چنانچہ یہ لڑائی اتنی شدت کے سا تحظہ ہوئی کہ بعض شہروں میں تو محلول کے محلے خالی ہو چکے ہیں اور جہاں بڑی بڑی عماد نہیں تھیں وٹالا اب علیہ کے ڈھیروں کے سوا کچھ نہیں رہا.لاہور کے متعلق ایک شیر ملی ہے کہ شاد عالمی دروازہ کے اندر دو دو سو گنہ تک بازار کے دو رویہ مکانات بالکل تقسیم ہو چکے ہیں گویا صرف ایک جگہ ایک بڑے گاؤں یا ایک چھوٹے قصبہ کے برابر مکانات تباہ ہوتے ہیں پھر ان فسادات ہیں ایک ایک محلہ میں کروڑوں کروڑ روپیہ کا نقصان ہوا ہے.بعض جگہیں تو ان شہروں میں تباہی کا عجیب منظر پیش کرتی ہیں اور کوئی شخص انہیں دیکھ کر پہچان ہی نہیں سکتا کہ یہ وہی جگہیں ہیں جہاں چار چار پانچ پانچ منزلہ مکانات ہوا کرتے تھے.پھر ان فسادات کے دوران میں ایسے ایسے درد ناک اور جگہ پاش واقعات ہوئے ہیں کہ ان کو شنکہ بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور وہ ایسے ہیں کو سنگدل سے سنگدل انسان بھی اُن کو شنکر اپنے آنسوؤں کو روک نہیں سکتا مجھے پرسوں ہی کسی دوست نے بتایا کہ جب آگئیں لگی تھیں تو جن کے گھروں کو آگیں لگائی جاتی تھیں ان کے بچے اور عورتیں ہاتھ ہوڑ کے کھڑے ہو جاتے تھے اور نہایت عاجزانہ طور پر آگ لگانے والوں سے کہتے تھے کہ ہم تو پانچے کچھ سوسال سے یہاں رہ رہے ہیں
الم به ہمیں کیوں بے در اور بے گھر کر تے ہو نگہ اُس وقت غصہ کی وجہ سے کسی کو اُن درد بھرے الفاظ کی پروا نہ ہوتی تھی اور یہ صرف اس لئے ہوتا رہا کہ خدائی فیصلہ صاد ہو چکا تھا کہ آگ کی لڑائی لڑی جائے اور یہ ایک اٹل فیصلہ تھا جو بچھوؤں کی سی ذہنیت والوں کے لئے مقدر ہو چکا تھا.پس آگ کی لڑائی ہوئی اور ایسی ہوئی کہ اس نے بہت سے شہروں کو بھسم کر کے رکھ دیا.محلوں کے محلے اور گاؤں کے گاؤں تباہ د ویران ہو گئے اور منہ اتعالیٰ کی پیشگوئی نہایت عظیم الشان طور پر پوری ہوئی ہے نیز فرمایا " ہندوستان کی گذشتہ تاریخ اس کی مثال پیش کر نے سے قاصر ہے بلکہ دنیا کی تاریخ بھی اس آگ کی کوئی نظیر نہیں پیش کر سکتی دُنیا کے کسی انسان کے وہم وگمان اور خیال میں بھی نہ آ سکتا تھا کہ اتنی آگ لگے گیا کہ وہ شہروں کے شہر اور محلول کے محلے، بنیادہ کر دے گی.جماعت احمدیہ کیلئے ایک اہم سبق اس نواب میں جماعت احمدیہ کو بھی ان اہم کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی گئی تھی چنانچہ حضرت مصلح موعود نے اپنے اس خطبہ جمعہ کے آخر میں فرمایا کہ :.خدا تعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے کہ یہ لڑائیاں اور فتنے اور فسادات سوائے قرآن کریم کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے کے دُور نہیں ہو سکتے.قرآن پڑھو کا صرف یہیں مطلب نہیں کہ قرآن کریم کھو کہ تلاوت کے لی جائے بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ قرآن کے ہم کو تعلیم پر عمل کیا جائے اور اس کے محکمت بھرے احکام کی تمام دنیا میں اشاعت کی جائے کیونکہ یہ آگیں اس وقت تک مجھے نہیں سکتیں جب تک فطرتوں کے اندر تبدیلی پیدا نہ ہو جائے اور بنی نوع انسان کی صحیح معنوں میں اصلاح نہ ہو جائے اور ان کی فطرتوں کے اندر زیم ولی اور رحمدلی نہ پیدا ہو جائے".سے له الفضل ، وقار جولائی مش من له الفضل ، وقال جولائی مشق
حضرت مصلح موعود کی طرف سے حفاظت گرادید بجناب طرف سے سیلدنا المصلح الموعود کو کئی سال مالی قربانیوں ، سو نہ دل اور دعاؤں کی تحریک میں قبل مستقبل میں ہونے والے خاص يو ایک اہم ملکی اور جماعتی تغیرہ انقلاب کی نسبت چیز دی جاچکی تھی اور وہ یہ کہ دعوئے مصلح موعود کے پانچے سال کے عرصہ میں جماعت احمدیہ ایک خطرناک طوفانی دور میں سے گزرنے والی ہے.چنانچہ حضور نے ماہ امان / مارچ ۱۹۳۳ میش میں بذریعہ رویا دیکھا کہ ۱۹۴۴ ہے ایک وسیع سمندر ہے اس میں کچھے بوائے ہیں دیوائے وہ صندوق سا ہوتا جو سمندروں میں جہازوں کو خطرات سے آگاہ کرنے کے لئے پانی پر تیرتا رہتا ہے) ایک بوائے کے ساتھ کوئی لمبی سی چیز بندھی ہوئی ہے جس کا بہت سا حصہ سمندر میں غائب ہے میں اس کو کھینچتا جاتا ہوں اور دل میں خیال کرتا ہوں کہ اس کا میری زندگی سے بہت گہرا تعلق ہے اور اس میں کسی اہم واقعہ کی طرف اشارہ ہے جو پانچ سال میں ہو گا " ہے اس اہم انکشاف کی تفصیلات میں حضور کو متعدد ایسے نظارے بھی دکھائے گئے.چین سے واضح طور پر معلوم ہوتا تھا کہ مشرقی پنجاب میں بڑی خوفناک تیا ہی آئے گی ، اور قادیان اور اس کے گردو نواح میں دشمن یکا یک حملہ کہ کے آجائیگا اور حقہ مسجد مبارک کے سوا شہر کے سب حصوں پر اُس کا قبضہ ہو جائے گا اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود اپنی جماعت کو اس طوفان میں سے صحیح سالم پار نکالتے اور پہاڑی کے دامن میں ایک نیا مرکز بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے جیسا کہ اخبار الفضل ۲۱ فتح / دسمجھ ریش کے حوالہ سے تاریخ احمدیت » عید نهم رهفه ۳ ، ۲ - ۲ ۲۷) پر ذکر آچکانی یش کے شروع میں برطانوی حکومت نے سر فروری کو جب یہ اعلان کیا کہ وہ بون شکل تک ملک کا اقتدار ہندوستانیوں کو سونپ دے گی تو حضرت مصلح مود کی توجہ بیکا یک عشق کے مندرجہ بالا خواب کی طرف منتقل ہو گئی جس میں جماعت کے تو ہی سے له با ه الفضل وا شهادت امش من العقل ۲ تبلیغ فروری احش مند ۲۰ / 1954
ایک ال فانی دور میں داخل ہوتے پانچ سال کے اندر اندر ایک اہم جماعتی تغیر کا انکشاف کیا گیا تھا ہے چنانچہ حضور نے ۲۵ ماه تبلیغ ضروری ۱۳۳ ش کو فرمایا کہ جماعت احمدیہ حفاظت مرکز پہلے کے چندہ میں نمایاں قربانی کا نمونہ پیش کرے اور آنے والے پر خطر ایام کے لئے تیار ہو جائے اس تعلق میں حضور نے فرمایا :- دان ہولناک ایام کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.اللہ تعالے ہی بچائے تو بچائے مسلمانوں کی وہ تیاری نہیں ہے اور نہ ہی وہ قربانی کا جذبہ انے میں پایا جاتا ہے جو ایک زندہ رہنے والی قوم میں ہونا چاہیئے.عام مسلمانوں کو جانے دو ابھی آپ لوگوں میں بھی وہ بیداری پیدا نہیں ہوئی جو مومن کے شایانِ شان ہے.مومن اپنے کاموں میں بہت محتاط ہوتا ہے اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے میں بھی اپنے ہزاروں رہے ہے صرف کرنے سے دریغ نہیں کرتا مگر نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جماعت نے اس ضمن میں ایمان کا مظاہرہ نہیں کیا اور مرکز احمدیت کی حفاظت کے لئے ہیں رقم کا جماعت سے مطالبہ کیا گیا تھا اس میں جماعت نے بہت کم حصہ لیا ہے بلکہ اکثروں نے تو با مکل اس کی اہمیت کو ہی نہیں سمجھا اگر ایک شخص کو کوئی مقدمہ آ پڑے تو وہ ہزاروں روپیہ خرچ کر دیتا ہے.بیماری گھر میں آجائے تو سینکڑوں صرف ہو جاتے ہیں مگر کتنے افسوس کی بات ہے کہ تم اپنی حفاظت کے لئے اور اپنے عزیزوں کے لئے تو ہزاروں روپے صرحت کر دو لیکن دین کی حفاظت کے لئے چند سو بھی قربان نہ کر سکو.مجھے حیرت آتی ہے کہ قادیان کے بعض لوگوں جب چندہ مانگا گیا تو انہوں نے یہ کہہ کو ٹال دیا.کہ ہمیں حفاظت کی ضرورت نہیں حالانکہ یہ جھوٹ تھا وہ یہ سمجھتے تھے کہ جب یہ اپنی حفاظت کریں گے تو ہماری خود بخود ہو جائے گی یہ منافقت کی علامت سے" اس ضمن میں نہ بر دست انتباہ کرتے ہوئے مزید فرمایا.آپ لوگوں کو آنے والے خطرناک ایام کے لئے تیار ہو جانا چاہیتے اور بجائے اس کے کہ دشمن سبب کچھ نیاہ کر دے خود اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار رہنا چاہیئے موسن کا کام له الفضل ٢٠ تبليغ / ضرورى تامال
تو کام کرنا ہوتا ہے انجام سے غرض نہیں ہوتی بعضی وقت محنت رائیگان جاتی ہوئی.معلوم ہوتی ہے مگر قربانی کبھی ضائع نہیں جاتی.خدا تعالیٰ قربانی کا ابو ضرور دیتا استان حضرت مصلح موعود نے اس تاکیدی فرمان کے تین روز بعد ۲۸ تنبلیغ / فروری کو ملکی حالات کے پیش نظر نظر یک فرمائی کہ تمام احمدی ۲۰ رناه ما رچے سے لیکر یکم ماہ پھرتے متی تک ہر جمعرات کو روزہ رکھیں اور باقاعدگی اور تعہد کے ساتھ دعاؤں میں لگ جائیں چنانچه فرمایا در ان دنوں تمام جماعت کو چاہیئے کہ خصوصیت کے ساتھ دعاؤں میں لگ جائے کہ اللہ تعالٰی ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے سے انصاف سے پیش آنے کی توفیق دے اور وہ آپس میں تعاون اور مفاہمت کے ساتھ کام کرنے کے لئے تیار ہو جائیں اور ہر ایک قوم دوسری قوم کے متعلق عفو درگزر سے کام سے تا کہ ہمارا ملک کامل آزادی کا منہ دیکھ سکے اور ہمارا ملک بھی آزرو مالک کی صف میں کھڑا ہو سکے.اور تبلیغ کے لئے جو آسانیاں اور سہولتیں اب ہمیں میستر ہیں ان میں جھگڑے اور فساد کی وجہ سے کوئی روک واقع نہ ہو جائے....رو رو کر دعائیں کم و تا کہ اللہ تعالے اپنے فضل سے ہندوستان کو لڑائی اور جھگڑے سے بچا لے اور تمہاری دعائیں لوگوں کے دلوں میں تبدیلی کا باعث بن جائیں اور ان کے دلوں کی میل دھودی جائے وہ رات کو غم و غصہ کے خیالات لے کر سوئیں اور صبح اٹھیں تو ان کے خیالات میں تبدیلی پیدا ہو چکی ہو....پس ایسے طور سے پس ایسے طور سے خشوع اور خضوع کے ساتھ دعائیں کی جائیں کہ اللہ تھامے کا عرش ہل جاتے اور اس کے فرشتے ہماری تائید میں لگ جائیں.اور جس کام کو دوسری طاقتیں نہیں کہ سکتیں ہم اسے کہ لیں " سے پراونشل ایجو کیشنل ایسوسی ایشن کا قادیان میں قادیان کے ملک میں میں حیثیت علی سالانہ اجلاس اور حضرت مصلح موعود کا پیغام سے جو نمایاں مقام حاصل تھا اسکے تو نظر پراونشل ایجو کیشنل ایسوسی ایشین شها الف قتل ۲ تیلین / فراری مش صفحه ۲ کالم مه له الفضل و در امان مارچ ۱۳۲۵ است ۲۳
کا دوسرا سالانہ اجلاس اس سال ۲۶ مش کے شروع میں قادیان میں منعقد ہوا جو ۲۰ ، تبلیغ سلام ماہ فروری سے لیکم ۲ ماه انان / مارچ تک جاری رہا نہیں میں پنجاب کے سکولوں کے ہیڈ ماسٹ، منیجر اور پسند کا لجوں کے پرنسپل اور بعض تعلیمی اداروں سے وابستہ دیگر افراد کم و بیش ایک سو کی تعداد میں شریک ہونے مندوبین کے قیام و طعام کا انتظام بید محمود اللہ شاہ صاحب ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی اسکول کے ذمہ تھا ہوا نیوسی ایشن کے وائس پریذیڈنٹ اور مجلس استقبالیہ کے صدر تھے سنہوں نے اپنے عملہ اور طلبہ کے ساتھ اس فرض کو نہایت خوش اسلوبی سے اور فرمایا.کا نفرنس میں شامل ہونے والے بعض نمائندگان نے آتے ہی اس خواہش کا اظہار کیا کہ جس طرح بھی ممکن ہو اس کا نفرنس کا افتتاح حضرت امام جماعت احمدیہ کریں.چنانچہ ایسوسی ایشن کے سیکہ ڈی مٹر اوم پرکاش چیدہ چیدہ ممبران کا ایک نمائندہ خند لیکر جس میں مولانامحمد یعقوب خیال صاحب ہیڈ ماسٹر مسلم ہائی سکول لا ہو ر ہی شامل تھے) حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے.لیکن حضور نے فرمایا کہ ایسی مجالس میں شریک ہونا ہماری روایات کے خلاف ہے.اور اگر ہم ایسی دعوتوں کو قبول کرنا شروع کر دیں تو پھر یہ سلسلہ کبھی ختم ہونے میں نہ آئے." اور اس طرح ہمارے اصل کام میں حرج واقع ہو.تاہم حضور نے اس خواہش پر کہ اس کا نفرنس کی کارروائی مصنور کے الفاظ اور دھا سے شروع کی جائے، اپنا.ایک پیغام لکھ کر بھیجدیا.جو خان بہا در میاں افضل حسین صاحب سابق وائس چانسلم پنجاب یونیورسٹی کی صدارت میں پنڈت شام نرائن بی.اے.پی ٹی آرگنائزنگ سیکہ ٹری نے پڑھ کر سنایا.پیغام حسب ذیل تھا.بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم نمائندگان پنجاب پر او نشنل ایجو کیشنل ایسوسی ایشن السلام علیکم ورحمه الله و بزرگان دا مله انبوسی ایشن کے پریذیڈنٹ بی ایل دنیا رام تھے
مجھے یہ سن کر خوشی ہوئی ہے کہ آپ لوگ صوبہ کی تعلیمی حالت کی درستی کے لئے بعد و جہد کر رہے ہیں.میں امید کرتا ہوں کہ آپ کی یہ کوششیں ملک میں اچھی فضا پیدا کرنے کا موجب ہونے لگی اور ایسے تو جدان ہمارے قومی اداروں سے نکلیں گے جو نہ صرف اپنے ملک کے لئے مفید ہوں گے.بلکہ ساری دنیا میں نیک نامی پیدا کر نے والے ہوں گے.مجھے افسوس ہے کہ انگلستان کی شہرت کے خلاف جہاں گورنمنٹ تعلیمی سکول پبلک سکولوں سے بہت ادنی سمجھے جاتے ہیں.ہمارے ملک کے پبلک سکول گورنمنٹ سکولوں سے گھٹیا سمجھے جاتے ہیں یا انہیں ایسا ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے حالانکہ پرائیویٹ سکولوں کے کا رکن قومی خدمت کے جذبہ سے معمور ہوتے ہیں اور یقیناً ملک اور حکومت کے شکریہ کے مستحق.میری دعا ہے کہ اگر ہمارے قومی اداروں میں کوئی نقص ہے تو اللہ تعالے آپ لوگوں کو اس کے دور کرنے کی توفیق بخشے اور اگر محض رقابت کی روح ایسے اداروں کو بدنام کر رہی ہے تو اللہ تعالے حکومت کو ان سکولوں کے بنانے والوں اور چلانے والوں کے نیک جذبات - کی قدر کرنے کی توفیق بخشے بہر حال چونکہ آپ لوگ ملکی ترقی کے ایک اہم کام میں مصروف ہیں.کوئی شخص آپ کے کام کی اہمیت سے انکا سے انکار نہیں کر سکتا اور میں اللہ تعالیٰ سے دعا کہتا ہوں کہ وہ آپ کے کام کے چلانے ، بڑھانے اور کامل کرنے میں آپ کی مدد فرمائے.آمین.خاکساره مرز امحمو و احمد امام جماعت احد یہ قادیان ہم ا بله ه الفضل آ رامان / مارت پیش من
کالم ۶ فصل چهارم حضرت مصلح موعود کا متحدہ ہندوستان میں سیدنا حضرت مصلح موعود قریباً ہر سال سندھ تشریف لے جایا کرتے تھے ا عش میں آخری سفر بند حضور سفر سندھ کے لئے لیکم امان ارمان چے کو ر حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو امیر مقامی مقرر فرما کہ ڈیڑھ بجے بذریعہ کار قادیان سے ) روانہ ہوئے اور ناہم بجے لاہور پہنچے.حضور کے ہمراہ حضرت ام المومنین حضرت سید نواب انار گیریم صاحبه احضرت ام متین صاحبہ احضرت ام دسیم صاحبہ ، حضرت سید د بشری بیگم صاحبرا صاجزادی ا منه الرشید صاحبہ ، صاحبزادی امته الجمیل صابعه، صاجزادی امتہ المنین صاحبه ، صاحبزادہ مرزا حمید احمد صاحب ، حضرت ڈاکٹر حشمت الله منال صاحب ، چوہدری منظفر الدین صاحب پرائیویٹ سیکر ٹری کے علاوہ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کے بہت سے کارکنان اور دیگر دفاتر کے متعد د ارکان بھی تھے.حضور دو سرے دن و رامان / مارچ کو بذریعہ کراچی میں روانہ ہوئے.اسٹیشن پر چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب شیخ بشیر احد صاحب امیر جماعت لاہور اور دیگر بہت سے دوستوں نے حضور کو الوداع کہا.لاہور کے بعض دوست رائے ونڈ تک ساتھ گئے.اوکاڑہ کی جماعت حضور کی ملاقات کے لئے حاضر ہوئی.اس کے بعد منتشگری سٹیشن پر صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب، میاں عبداللہ حیم احمد صاحب، چو ہدری محمد شریف صاحب وکیل اور دیگر افراد جماعت منٹگمری حضور سے ملاقات کے لئے حاضر ہوئے.گاڑی چلنے سے پیشتر حضور نے دعا فرمائی.ملتان کے اسٹیشن پر ملک عمر علی صاحب کھو کھر رئیس ملتان اور شیخ فضل الرحمان صاحب اختر امیر جماعت مطلقان مع دیگر دوستوں کے موجود تھے جماعت مسلمان کی طرف سے چار بجے شام کی چائے اور ملک عمر علی صاحب کی طرف سے
شام کا کھانا پیش کیا گیا.اس کے بعد لودھران سمہ سٹہ بہاولپور.ڈیرہ نواب.خانپور - رحیم یارخان سکھر.روہڑی وغیرہ میں جماعت کے دوست ملاقات کے لئے آتے رہے.ایک بجکہ ۳۵ منٹ پر گاڑی کراچی شہر کے سٹیشن پر پہنچی.جماعت احمد یہ کراچی کے احباب کے علاوہ حضرت نواب محمد عبد الله من لصاحب بھی اپنے آقا کے استقبال کے لئے سٹیشن پر آئے ہوئے تھے.جماعت کی طرف سے مہمانوں کو قیام گاہ تک پہنچانے کے لئے کاروں کا انتظام تھا اور سامان وغیرہ بذریعہ ڈک قیامگاہ پر پہنچایا گیا.حضور اپنا قیامگاہ پر پہنچ گئے.اس طرح حضور کا یہ مبارک سفر بخیرو خوبی انجام پذیر ہوا کراچی میں اہم دینی مصروفیات | حضور قریباً ایک ہفتہ تک کراچی سے ہیں قیام فرما رہے حضور کی رہائش کا انتظام محبات کر اچھی کے ذمہ تھا ہو ایک بنگلہ میں سٹیشن سے تین میل دور کیا گیا تھا.وسیع صحن میں سائیان نصب کر کے باجماعت نمازوں کا انتظام کیا گیا کراچی شہر کے علاوہ مضافات کے احمدی دوست بھی بکثرت شرکت کرتے رہے.سو کے قیام کراچی کے ایام میں حضرت سید نا المصلح الموعود نفر با ہر روز نمازوں کے بعد کیس عرفان منعقد فرماتے رہے ہیں میں احمدی احباب کے علاوہ انفرادی ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری رہا.ہ مارچ کو حضور نے جماعت کے عہدیداران کو ضروری نصائح فرمائیں اور صوبہ سندھ میں تبلیغ کو وسیع کرنے کے لئے ضروری ہدایات دیں.ور مارچ کو احمدی انجاب بہت سے غیر احمدی دوستوں کو اپنے ہمراہ لائے ہوئے تھے نہیں حضور نے مجلس عرفان میں قیمتی ارشادات سے مستفیض فرمایا.جماعت کے تاجروں کو بھی حضور نے ضروری نصایح فرمائیں اور اپنی تنظیم کو مضبوط بنانے کی طرف توجہ دلائی.بنه الفضل ، در امان مارچ ۱۳۳۶ معش صفحه یو سے ظیم کہ اچھی کے دور ان حضور کے قیمتی ارشاد و الفضل (۲-۲۲ - ۲۴- ایمان / مارچ ایس پی میں شائع شدہ ہیں."
۶۴۹ اس روز سر غلام حسین ہدایت اللہ صاحب وزیر اعظم سندھ نے حضور کو دوپہر کے کھانے پھر مار سکور کیا.میں میں حضور نے بھی شرکت فرمائی.ارامان پارچ کو جمعہ تھا نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے مزید سائیان نصب کئے گئے ہیں میں ساڑھے تین سو کے قریب احمدی مرد و زن شامل ہوئے.خطبہ جمعہ میں حضور نے جماعت پر تبلیغ کی اہمیت واضح کی اور کراچی میں اس غیر معمولی ترقی پر اظہار خوشنودی فرمایا اور تبلیغی مہم کو وسیع کرنے کی تحریک فرمائی.د رامان ز مارچ کو حضور نے ضروری مشاغل کے علاوہ احمدیہ دارہ التبلیغ اور مسجد وغیرہ کے لئے زمین کا معائنہ فرمایا.اسی روز شام کو ایک احمدی دوست نے دعوت طعام کا اہتمام کیا تھا جسے حضور نے قبول فرمایا.مغرب اور عشاء کے بعد مجلس عرفان متعقد فرمائی.اور اس سے فارغ ہو کہ حضور نے واپسی کا عزم فرمایا اور کار میں سوار ہو کر اسٹیشن پر مع قافلہ تشریف لے گئے.جہاں سے دس بجے شب کی ٹرین سے ناصر آباد کے لئے روانہ ہو گئے اسٹیشن پر احمدی احباب بکثرت موجود تھے.اور انہوں نے اپنے پیارے آقا کو نعرہ ائے تکبیر کے در میان رحمت کیا.حضور نے روانگی سے قبل خدام کو شرت مصافحہ بخت اور دعا کی.حضور کے قیام کراچی کے دوران جماعت کے احباب نے نہایت مخلصانہ خدمات سرانجام دیں اور شبانہ روز مختلف فرائض نہایت خوش اسلوبی سے سرانجام دیتے رہے اور باوجود دنیوی مصروفیات کے حضور کی مضامیت کا زیادہ سے زیادہ و ثروت حاصل کرتے رہے.ان ایام میں چھ اصحاب حضور کے ہاتھ پر بیعت کر کے مشرف به احمدیت ہوئے نے ناصر احمد اور نا صر آباد، کنری احمد آبا دا ور محمد آباد حضرت مصلح موعوده مع فاضله در زمان میں قیام کے مختصر کو الف ما رچ کو ناصر آباد میں پہنچے جہاں حضور اسٹیٹ کوائف کے باغ اور ملحقہ اراضیات کا ملا حظہ کرنے کے لئے تشریف لے گئے اور عملہ کو ضروری ہدایات دیں ارمان مارچے کو صبح گیا کہ بچے له الفضل ، شہادت را اپریل مس من
40.سے مجھے بعد دو پر تک اسٹیٹ کے معاملات کا جائزہ لیا نیز شام سے کچھ پہلے سٹیٹ کے باغ میں سیر کے لئے تشریف لے گئے سے ۱۲ رامان / مارچے کو ناصر آباد میں باغ اور اراضیات کا ملا حظہ فرمایا اور ضروری ہدایات دیں اس کے علاو د کنسرمی جننگ فیکٹری کی توسیع سے متعلق بھی تبادلہ خیالات فرمایات ۵ ارامان / مارچے کو حضور مع افراد خاندان و حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب) بذریعہ کار دس بجے صبح کندی پہنچے باقی مدام بذارید 718 ریل آئے.حضور نے فیکٹری کا ملاحظہ فرمایا اور کارکنوں کو اہم ہدایات سے نوازا.دو پرکا کھانا جماعت کندی نے پیش کیا جس کے بعد نماز ادا کی گئی اور پھر تمام قافلہ محمود آباد اسٹیٹ کے لئے روانہ ہو گیا ہے اور شام تک بخریت پہنچ گیا.حضور نے شام سے قبل اسٹیٹ کی اراضیات کا ملاحظہ فرمایا اور رات کو اسٹیٹ کے معاملات کی پڑتال فرمائی منظور ٹیٹ کے معاملات کا معائنہ فرما کہ اور ضروری ہدایات دے کہ ۸ در امان / مارچ کو بارہ بجے دو پیر احمد آباد روانہ ہوئے تھوڑی دیرہ کنٹری ٹھہرے اور ۲ بجے احمد آباد پہنچ کر اراضیات کا معائنہ فرمایا اور وہاں کے ضروری معاملات پیٹا کہ بذریعہ کا رساڑھے سات بجے شام محمدآباد میں وارد ہو کے لیے ہر زمان کو حضور روزہ کے باو ہو گھوڑے.پر سوار ہو کر دوپہر کے وقت تین گھنٹہ تک اسٹیٹ کا معائنہ فرماتے رہے اور نماز کے بعد مجلس علم و عرفان میں بھی رونق افروز رہے.اگلے تین دنوں میں حضور محمد آباد خاص، روشن نگر ، لطیف نگر، کریم نگرا نور نگر کی اراضیات کا معائنہ فرمایا.اورایمان مارچ کو حضور نے خطبہ جمعہ میں احباب کو سندھ میں منظم تبلیغ کرنے کی اور پوری طاقت سے اپنے فرائض ادا کر نے کی تحریک فرماتی.نماز جمعہ کے بعد بارہ اصحاب نے اور نما نہ عشاء کے بعد چار اصحاب نے صیحت کی.نماز جمعہ کے لئے ناصر آباد ، گرمی، نصرت آباد محمود آریا اور دیگر مقامات سے احباب آئے ہوئے تھے.میاں عبد الرحیم احمد صاحب اسٹیٹ کے دوسرے کارکنوں کے ساتھ اسٹیٹ کے مختلف معاملات حضور کی خدمت میں میں ۱۳:۳ صفحه ١٣:٣٧ بر ه الفضل ام در امان ز مار من له الفضل دار زبان / مارچ همه له الفضل ۲۱ را مان رمان چه ما ه الفضل ، ارامان ماری
کرتے یہ ہے اور حضور نیز حضور کے اہل بیت اور دیگر خدام کی مہمان نوازی میں مصروف رہے ہے اگلے روز ۲۲ رامان کر بار بچے کو حضور مع قافلہ محمد آباد سے دوبارہ ناصر آباد میں رونق افروز ہوتے ہے اور ماورامان / مارچ تک قیام پذیہ رہے.سفر میں شروع ہی سے حضور کو دانت درد کی تکلیف تھی جو ۲۸ ر امان کو بہت شدت اختیار کر گئی.مگر اس کے باوجود حضور اس رود تین گھنٹہ تک سندھ اسٹیٹ کے معاملات کے انتظام اور ترقیات کے متعلق منیجر صاحبان اور دیگر کارکنوں سے تبادلہ خیالات کرنے اور ہدایات دینے میں مصروف رہے پھر خطبه جمعه ارشاد و فرمایا جس میں دین کے لئے قربانی کرنے پر بہت زور دیا.نماز جمعہ کے بعد پیار اصحاب داخل احمدینہ ہوئے.نماز جمعہ میں کنری محمود آباد اور دیگر اسٹیٹ کے احمدی احباب نے کثیر تعداد میں شرکت کی سے + کیجیجی سے سکھر تک و رامان / مارچ را واپسی کا دن تھا.اس روز حضور مع خاندان کار میں سوار ہو کر پونے چار بجے کے قریب کنیچی سٹیشن پر تشریف لائے اور سمافر خانہ میں نماز ظہر و عصر جمع کیں.نمازوں کے بعد منصور خدام کے درمیان رونق افروز ہو کہ مختلف معالات کے متعلق اظہار خیال فرماتے رہے.اس موقعہ پر دو دوستوں نے محبت بھی کی.دوران گفتگو میں سندھ میں بسنے والی نہیچ اقوام میں تبلیغ کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ پیچ اقوام مثلاً بھیل، کو علی و غیره مستان کی پرانی اور اصلی قومیں ہیں جو ہندووں کے ظلم و تعدی کی وجہ سے اس ذلت کو پہنچی ہیں.اس وقت انہیں اٹھانے کی کوشش کرنی چاہیئے.مسلمان اگر ان میں تبلیغ کریں.اور حسن سلوک سے پیش آئیں.تو وہ بہت جلد اسلام کو قبول کہ سکتی ہیں.ان کا اپنا مذہت تی نہیں ہے.ہند و صرف سیاسی فوائد حاصل کرنے کے لئے انہیں اپنے ساتھ ملا لیتے ہیں حالانکہ وہ ان کے ہفتہ کارے ہوئے ہیں.اور ان کے مظالم کی بات ہی اس حالت تک پہنچے ہیں.مسند عہد میں مسلمانوں کے اکثر مزار میں یہی لوگ ہیں.اگر وہ ان پر ذرا سا بھی دباؤ له الفصل ۲۳ امان / مارچ صفحها ۱۳:۲۰ صفرا له الفضل ۲۵ امان ماده همود سه الفضل کم شہادت پر مل استار مش صفحه / اپریل 31577 به اصفر
۶۵۲ ڈالیں تو وہ مسلمان ہو سکتے ہیں.اور اس وقت سندھ میں ہندؤوں کی ہجو آبادی نہایت سرعت سے بڑھ رہی ہے وہ رک جائے.اصل وجہ یہ ہے کہ جب یہ قومیں باہر سے آتی ہیں.تو مہندو انہیں ہتیا لیتے ہیں.حالانکہ وہ شاملات زمین کی طرح ہیں.ہر مذہب ان پر آسانی سے قبضہ کر سکتا ہے.مگر مہندو فائدہ اٹھاتے ہیں.اور مسلمان تو محبہ نہیں کرتے اسی وجہ سے ہندوؤں کی آبادی روز بروز سندھ میں بڑھتی جاتی ہے.اگر مسلمانو نے اس خطرہ کو محسوس کرتے ہوئے اس کا تدارک نہ کیا.تو سندھ میں بھی مسلمان اقلیت ہو جائیں گے.ان اقوام کے ساتھ کھانا کھانے کے ذکر میں حضور نے فرمایا کہ اگر یہ مسلمان ہو جائیں پھر ضرور کھانا چاہیئے.بلکہ نمایاں طور پر ایسے مواقع پیدا کرنے چاہئیں تاکہ دوسروں کو بھی ہمدردی حاصل ہو اور تبلیغ میں آسانی ہو.سلسلہ گفتگو کے دوران ہندو مسلم فسادات کا بھی ذکر آیا جس پر حضور نے فرمایا مسلمانوں میں تنظیم کی بہت کمی ہے اور اس موقعہ یہ ان کی کوئی تیاری نہ تھی.معلوم ہوتا ہے.اللہ انہیں منائے نہیں کرنا چاہتا.بلکہ انہیں زندہ رکھنا چاہتا ہے با ہو اسکے کہ سکھوں اور ہند موں کی بہت تیار کی تھی انہوں نے امرتسر میں جو ان کا مرکز تھا مسلمانوں سے بہت زک اٹھائی.اصل بات یہ ہے کہ مسلمان ایمان اور تنظیم کی طرف توجہ نہیں کہ تھے ورنہ خدا نے انہیں طاقت دی ہے.تقریباً ہر جگہ فسادات میں پیل سکھوں یا ہند نوں کی طرف ہوئی ہے.جس سے پتہ لگتا ہے انہیں اپنی طاقت کا بہت زعم تھی.گاڑی آنے پر حضور مع خاندان و خدام ان میں سوار ہو گئے شام کے قریب گاڑی راستہ چھوڑ میر اوپر خاص پہنچی جہاں احمدی احباب استقبال کے لئے موجود تھے کار پر سوار ہو کہ حضور بیع فاقد جناب ہندی حسین شاہ صاحب کے بنگلہ پر تشریف لے گئے جہاں طعام و رہائش کا خاطر خواہ انتظام تھا شین گلر کے وسیع احاطہ میں نماز مغرب وعشاء جمع کرنے کے بعد حضور خدام کے درمیان ہی تشریف فرما ہے اور ونیک مقامی امور کے متعلق گفتگو فڑاتے رہے اور سندھ میں نئی زمینوں کے متعلق مبادلہ خیالات فرماتے رہے.۳۰ تا رچ کو صلى الصبح حضور مع خاندان بذریعہ کا یہ سٹیشن پر پہنچے گاڑی میں سو اللہ
407 ہو کہ سور دس بجے صبح حیدر آباد پہنچے کہ یہاں سے ساڑھے بارہ بجے کے قریب مع قافلہ سندھ ایک پریس میں سوار ہوئے.پڑون اسٹیشن پر کنال ڈیرہ جمال پور شریف آباد، فارم کولہیہ کا کھنڈ - درسیہ ہوئی.باندھی ا کہ کینڈی مصر می واہ.وغیرہ کے مخلصین جماعت کے علاوہ متعدد غیر احمدی دوست بھی تشریف لائے ہوئے تھے.جماعت کی طرف سے معزز مہمانوں کی خدمت میں سوڈاور پیش کیا گیا.بعض دوستوں نے حضرت امیر المومنین کا تبرک حاصل کرنے کے لئے شربت کے گلاس پیش کرنے شروع کئے.یہ مسلہ لمبا ہوتا چلا گیا.مگر حضور نے ہر پیشکش کو نہایت خندہ پیشانی سے قبول کیا.گاڑی روانہ ہونے کو تھی مگر اعدام اپنے آقا کے گرد گھیرا ڈالے بدستور کھڑے تھے وہ اس تھوڑے سے وقت میں اپنے پیارے آقا کا زیادہ سے زیادہ قرب حاصل کرنا چاہتے تھے گاڑی کے روانہ ہو چکتے پر اس مختصر سی ملاقات کونا کافی سمجھ کر انہوں نے ساتھ ساتھ دوڑنا شروع کر دیا مگر ان کی خواہشات اور ان کے جذبات کے خلاف گاڑی بہت جلد آگے نکل گئی.والہانہ عقیدت کا یہ منظر قریبا ہر سٹیشن پے جہاں گاڑی کھڑی ہوئی ، نظر آتا.نواب شاہ کے اسٹیشن پر بھی اردگرد کی جماعتوں کے بہت سے دوست موجود تھے.چوہدری محمد سعید صاحب نے حضور کی خدمت میں دو پہر کا کھانا پیش کیا.ور بجے کے قریب گاڑی روہڑی پہنچی ہے جہاں سے موڑ کا روں پکھر تشریف لائے اور سید غلام مرتضیٰ شاہ صاحب ایگزیکٹو انجینیر کے بنگلہ پر قیام فرمایا.سکھر میں باڈہ ، کنیٹ، روپڑی، موجودی د کمال دیر و آگره، شریف آباد فارم ریاض اسٹیٹ اور کوئٹہ سے انحباب جماعت مرد اور عورتیں ڈیڑھ سو کے قریب حضور کی زیارت اور ملاقات کے لئے حاضر ہوئے رات کو جماعت سکھر کی طرف سے ایک دعوت طعام کا انتظام کیا گیا.جس میں شہر کے معززین اور سرکاری عہدیداران خاص طور پر مدعو تھے.حضور نے اس موقعہ پر تقریبا ه الفضل الشہادت ٣٢ الفقره اشہادت / اپریل مهر ۱۳۳۶ صفحه ۲
تین گھنٹے تک علمی مذاکرہ فرمایا اور سوال کرنے والوں کو شافی جوابات ارشاد فرماتے رہے اگلے روز ۳۱ امان ما رچ کو گیارہ بجے کے قریب حضور مع اہل بیت لایڈ جارج بیرج دیکھنے کے لئے تشریف لے گئے اور کافی وقت تک ٹیکنیک کے متعلق گفتگو فرماتے رہے.بعد ازاں اپر لینگ پیرچ کو حضور نے ٹرالی پر عبور فرمایا.اس کے بعد کشتیوں پر سوار ہوئے دریا کی سیر کو تشریف لے گئے.اسی دوران میں حضور نے ہندوؤں کے مشہور مندر ساتھ میلے کو بجو دریا کے درمیان ایک جزیرہ کی صورت میں ہے اندر جھا کہ دیکھا.اس دن دوپہر کو جناب حسین صاحب ایکسائز سپرنٹنڈنٹ نے حضور کو مع قافلہ و اسباب جماعت دعوت طعام پیش کی.جس میں کئی معززین شہر مدعو تھے اور تقریب اڑھائی گھنٹہ تک حضور نے مختلف مذہبی سیاسی اور اقتصادی سوالات کے متعلق حقائق و معارف بیان فرمائے.ان تقریبوں سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت فائدہ ہوا اور حضرت امیر المومنین کی بلند پایہ شخصیت اور تجر علمی کا گہرا اثر معززین کی طبائع پر ہوا جس کا بعد میں انہوں نے اظہار بھی کیا حضور کے قیام سکھر کے دوران میں احباب جاعت سکھر خصوصاً صوفی محمد رفیع صاح ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس سید غلام مرتضی شده تا دیگر نیٹو انجینر چو ہدری محمد عبد اللہ صاحب ایمپلائمنٹ ایک چینج نہایت اخلاص سے کام کرتے رہے تصور کے قیام کے دوران میں آٹھ موڑ کا ریں بیک وقت بنگلہ پر موجود رہ نہیں اور آنے والے مہمانوں کے کھانے اور رہائش کا انتظام بھی جماعت سکھر نے کیا یہ جناب سید غلام مرتفعلی صاحب ایک کیو انجینر نے حضور کے اعزاز میں عشائیہ اور ظہرانہ کا انتظام کیا جس میں بہت سے عمائدین شہر بھی شامل ہوئے ہے ه الفضل ، شہادت ابریل ام الفضل ١٩ار شہادت / اپریل ث میں 1476
۶۵۵ سکھر سے قادیان تک سکھر میں مختصر قیام کے بعد حضور اسرامان / مارچ کو ساڑھے چھ بجے شام ہند یعہ سندھ کی پولیس قادیان کے لئے روانہ ہوئے ور بجے شب کے قریب گاڑی رحیم یار خان پہنچی جہاں اردگرد کی احمدی جماعتیں آئی ہوئی تھیں.احباب کی طرف سے چائے پیش کی گئی.اس کے بعد چیچاوطنیا سٹیشن پر کچھ دوست موجود تھے منٹگمری میں بہت سے دوست موجود تھے نہیں حضور نے شرف مصافحہ بخشا.بچو ہدری محمد شریف صاحب وکیل نے چائے پیش کی.اوکاڑہ سٹیشن پر بھی بہت سے دوست مجھے تھے پتوکی سٹیشن پر کھر بیر علی پور شمس آباد کے متعد دوست آئے ہوئے تھے.دوسر ے روزہ یکم شہادت / اپریل ساڑھے گیارہ نیچے دو پہر گاڑی لاہور پہنچی.جہاں جماعت لاہور کے بہت سے احباب حضور کے استقبال کے لئے موجود تھے.بحضور مع اہل بیت کاروں میں سوار ہو کر جناب شیخ بشیر احمد صاحب کی کوٹھی پر تشریف لے گئے.یہاں کھانا تناول فرمانے کے بعد دو بجے دوپہر روانہ ہوئے اور سات کا روں پر مشتمل یہ قافلہ ہ بچے کے قریب قادیان پہنچ گیے لم - متحدہ ہندوستان کی آخری مجاش ایت اور متحد مهند وستان کی آخری علی است ۴ ۵ ۶ ماه شهادت / اپریل مخلصین احمدیت کی شاندار قربانی کا ایمان افه و زه منظره ستار کو منعقد ہوئی جب ہندوستان نے کے طول و عرض سے الالم نمائندگان نے شرکت فرمائی کی اس مشاورت کا اہم ترین واقعہ حضرت مصلح موعود کی طرف سے حفاظت مرکز کے لئے مالی تحریک اور اس پر مخلصین جماعت کا شاندار رنگ میں لبیک کہنے کا ایمان افروز نظارہ ہے.جو مشاورت کے دوسرے دن ہ ماہ شہادت اپریل کو نماز مغرب وعشاء کے بعد دیکھنے میں آیا.اس روز تیرا اجلاس و رنجے شب شروع ہوا جس کے آغاز میں حضرت مصلح موعود نے جاعت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا " حفاظت مرکز کے لئے جماعت سے دو لاکھ کی رقم کا الفضل ۲۲ شہادت له الفضل و ربا دشها دست را پریل در صفحه سر کا لم ۲۴ وریل ۱۹۴۷
مطالبہ کیا گیا تھا.مگر اس وقت تک صرف ۳۰ ہزار کے قریب رقم جمع ہوئی ہے.میں حیران ہوں کہ موجودہ ہولناک تباہیوں اور خونریزیوں کے دیکھتے ہوئے جماعت نے کسی طرح اتنی رقم پر اکتفا کیا.کیا کوئی عقلمند یہ تسلیم کر سکتا ہے کہ یہ حقیر رقم شعائر اللہ کی حفاظت کے لئے کافی ہے اور ہم اپنے فرض سے سبکدوش ہو گئے ہیں.اس سے سینکڑوں گنا زیاد د تو تم سال بھر میں اپنے بیماروں پر خرچ کر دیتے ہو.کیا شعائر اللہ کو اتنی اہمیت بھی حاصل نہیں ؟ اب آپ مجھے بتائیں کہ بقیہ رقم کس طرح پوری ہو سکتی ہے ؟ حضرت مصلح موعود کے - اس ارشاد پر حسب ذیل دوستوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا یہ کریم الدین صاحب محمد شریف صاحب نمائندہ لجنہ اماء اللہ شیخ صاحب دین صاحب گوجرانوالہ فیض احمد صاحب غلام مصطفے صاحبدنذر محمد صاحب - نور الدین صاحب شیخ بشیر احد صاحب حافظ نور الہی صاحب.مولوی غلام قادر صاحب.میاں عطاء اللہ صاحب وکیل ان میں سے بعض دوستوں نے مختلف تجاویز پیش کیں اور اکثر اصحاب نے اپنی کوتاہی اور غفلت کا اقرار کرتے ہوئے حضرت امیر المومنین کے حضور معافی کی درخواست کی.اس موقع پر جناب شیخ بشیراحمد ما معبد امیر جماعت لاہور نے جماعت کے خیالات کی نہایت عمدہ پیرا یہ میں ترجمانی کی.چنانچہ آپ نے فرمایا :- پیار سے آقا ! یہ درست ہے کہ ہم نے حفاظت مرکز کی اہمیت کو نہیں سمجھا اور اس طور توجہ نہیں کی.اس کی وجہ یہ تھی اول تو ہیں صحیح طور پر آگا ہ نہیں کیا گیا.دوسرے ہیں در بیشتر اور پیش بینی حاصل نہیں جو حضور کو حاصل ہے.حضور نے بے شک ہمیں قبل از وقت خطرے سے آگاہ کر دیا تھا.مگر ہم سے کوتا ہیا ہوئی کہ ہم نے اس کی اہمیت کو نہیں سمجھا اور غفلت سے بیدار نہ ہوئے.اب جبکہ خطرہ ہماری آنکھوں کے سامنے آگیا ہے تباہیوں اور خونریزیوں کا ہولناک منتظر ہماری آنکھوں کے سامنے سے گزر چکا ہے تو آج ہماری حات وہ نہیں ہے جو پہلے تھی.آج ہم محسوس کر چکے ہیں کہ ہم اور ہمارے عزیزوں کی جائیں اور ہماری مقدس و محبوب ترین چیزیں خطرہ میں ہیں.نہیں یہ یقین ہو گیا ہے کہ قربانی کا وقت آن پہنچا ہے اور اپنی زندگی کو بہ قرار رکھنے کے لئے اپنے مال و دولت کو نشار
کرنے کی گھڑی آ پہنچی ہے ہم سے ہو غفلت اور کوتاہی ہوئی اس کے لئے معذرت خواہ ہیں.اور آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ آئندہ ہم آپ کے وفی اشارے پر اپنا سب کچھ لٹا دینے کیلئے تیار ہیں اور انشاء اللہ آئندہ کبھی شکایت کا موقعہ پیدا نہ ہونے دیں گے موجودہ وقت ہم سے تقاضا کہتا ہے کہ ہم اپنی ساری آمد نہیں اور جائدادیں حضور کے قبضہ میں دیدیں اور حضور ہیں معمولی ساگذاردہ دیکھ باقی قوم کو جہاں چاہیں خرچ کر دیں نہیں کوئی عذر نہ ہو گات احباب اپنے اپنے خیالات کا اظہار کر چکے تو سیدنا حضرت امیر المومنين المصلح الموعود نے فرمایا.اگر یہ سلسلہ انسانی ہاتھوں کا بنایا ہوتا.تومیں یہ سمجھتا کہ جماعت کی اس معاملہ میں عدم توجہی حقیقی کمزوری ریبان کے نتیجہ میں ہے لیکن جبکہ یہ سلسلہ خدا کی طرف سے ہے اور وہ خود اس کا محافظ ہے تو میں یہ نہیں خیال کر سکتا کہ موجودہ سستی حقیقی مفلت کے نتیجہ میں ہوئی ہے جیسا کہ آپ میں سے اکثر نے اپنی عدم توجہی پر اظہار افسوس کرتے ہوئے احساس ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے.میرا مقصد بھی یہی تھا کہ اس نازک دور کا احساس ہو.اور آپ اپنی غفلت کو چھوڑ کر آنے والی مصائب کے لئے تیار ہو جائیں.قبل ان وقت میں آپ کو جو کچھ کہ رہا تھا.وہ اللہ تعالے کے علم کی بناء پر تھا.اور خدا کی باتیں جھوٹی نہیں ہو سکتیں.اس کی طرف سے دی ہوئی غیب کی خبریں.ایک ایک کر لئے پوری ہو رہی ہیں.اور جس میں طرح بدلنے والے حالات کی طرف اشارہ کیا گیا تھا.وہ بعینہ پوڑے ہو رہے ہیں دنیا میں ہر شخص کے لئے آزادی ہے سوائے ہمارے کہ ہم اپنے مقدس مقامات کو نہ چھوڑ سکتے ہیں اور نہ ہی ان کی حفاظت کر سکتے ہیں.ایک عمارت جو مٹی اور اینٹوں کی بنی ہوتی ہے اس سے ایک مومن کی جان کہیں قیمتی ہوتی ہے لیکن جب وہ عمارت اللہ تعالے کی طرف منسوب ہونے لگے اور شعائر اللہ بن جائے تو اس کی حفاظت کے لئے سینکڑ دیں منوں کی جان بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتی اور انہیں خوشی سے قربان کیا جا سکتا ہے.پس جاعت نے اگر ان باتوں کو مدنظر نہیں رکھا تھا تو میرا فرض تھا کہ میں انہیں احساس ذمہ داری دلاول اور ان کے مونہوں سے کہلواؤں کہ ہم سے غفلت ہوئی.سو میں سمجھتا ہوں کہ وہ غرض پوری ہو گئی ہے.اب سوال یہ ہے کہ وہ کمی کس طرح پوری کی جائے.ہما رے عام پسند سے توان اخراجات
407 کے متحمل نہیں ہو سکتے ہیں کوئی اور ہی طریق اختیار کر نے ہوں گے.سو اس کے لئے جماعت سے میرا سب سے پہلا مطالبہ یہ ہے کہ وہ دوست بن کی یہ قوم یا ہر بنکوں میں جمع ہیں وہ بطور استند قادیان بھیجد ہیں.تاکہ سلسلہ کو اگر کوئی فوری ضرورت پڑے تو اس میں سے خرچ کر سکے.اور پھر آہستہ آہستہ اس کمی کو پورا کر دے.یہ رقوم بطور امانت کے ہوں گی اور بوقت ضرورت واپس مل سکیں گی.اس طرح سلسلہ کی ضرورت بھی پوری ہو جائیگی.اور آپ لوگوں کے ایمان کا امتحان بھی ہو جائے گا.جو دوست اس تحریک پر لبیک کہنے کے لئے تیار ہوں.وہ اپنے نام اور ر قوم لکھا دیں.حضور کی زبان سے ان الفاظ کا نکلنا ہی تھا کہ مخلصین نے نہایت ذوق و شوق سے اپنے نام لکھا نے شروع کر دئے.ہر چہرہ سے یہی اضطراب تظاہر ہوتا تھا کہ وہ دوسروں سے سبقت لینا چاہتا ہے اور ہر دل مضطر تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ رقوم اپنے آقا کے قدموں میں ڈال دے.قریباً نصف گھنٹہ کے عرصہ میں ۱۰۰۰ ۳۷ روپے کے وعدے ہوتے ہیں کا حضور نے کھڑے ہو کہ اعلان کیا اور فرمایا اور بھی کچھے دوست رہتے ہیں.جو سوچ رہے ہونگے اور اکثر ایسے بھی ہیں جنہوں نے مشورہ وغیرہ کرنا ہوگا.اور ابھی ہزاروں ہزار دوست ایسے ہیں جو ہم سے کسی طرح اخلاص میں بکم نہیں ہیں مگر وہ اس وقت دور بیٹھے ہیں.جب آپ لوگ جھا کہ ان کو اطلاع دیں گے تو وہ کبھی بھی آپ سے پیچھے نہ رہیں گے اور مسکن ہے مطلوبہ رقم سے بہت زیاد در و پیہ جمع ہو جائے کہ اس کے بعد فرمایا سب سے پہلے میں جائداد کے وقعت کو لیتا ہوں جو خدا تعالے کے الہام کے ماتحت جاری کیا گیا ہے.مگر میں نہایت افسوس سے کہتا ہوں کہ جماعت نے اس طرف پوری توجہ نہیں کی.اور صرف دو ہزار ادیوں کے سوا کہ اس میں حصہ لیا ہے.حالانکہ لاکھوں کی حیات ہے اور لاکھوں کی جماعت میں سے لاکھوں ہی کو رخصت کرنا چاہیئے تھا.آپ میں سے جن دوستوں نے اپنی آمد یا جائداد وقت کی ہوئی ہے وہ کھڑے ہو جائیں کہ اس پر ۵۵ام میں سے جو ہال میں تھے صرف 14 کھڑے ہوئے ) فرمایا یہ تعداد ہے جو ۳۵ فیصدی کے قریب نیتی ہے.اس پہ دوسری جماعت کا بھی اندازہ کر لیں.آپ میں سے بہو لوگ اس وقت وقعت
404 کرنا چاہیں رہ بھی اپنے نام اور جائداد کی قیمت وغیرہ لکھا دیں.اس پر ہر طرف ناموں کی اور نہ آنے لگی اور کارکنوں نے نام لکھنے شروع کئے.اس سلسلہ کے ختم ہونے پر حضور نے کھڑے ہو کر فرمایا کہ اب آپ لوگوں کا کام ہے کہ جماعون میں جا کہ دوسرے لوگوں کو بھی اس کار خیر میں شریک کریں.ہم اس بات سے نوش نہیں ہوسکتے کہ ہم میں سے اتنے لوگوں نے حصہ لیا.بلکہ ہمیں بھی خوشی ہو سکتی ہے کہ جب جماعت کے ہر فرد نے اس میں شرکت کی ہو اور کوئی بھی اس سے باہر نہ رہا ہو.یہی زندہ جماعتوں کی علامت ہے اس ضمن میں فرمایا " اس وقت میں یہ تجویز کہ تا ہوں کہ وقف جائداد والے دوست اپنی جائداد کی کل قیمت کا ایک فیصد یا چھے ماہ کے اندر اندر مرکز میں جمع کرا دیں اور وہ جنہوں نے ایک شاہ یا دو ماد کی آمد وقت کی ہوئی ہے وہ ایک ماہ کی آمد بھیج دیں.اور جن لوگوں نے وقفت نہیں کی وہ بھی اس پندہ میں حصہ ضرور لیں.وہ اپنی کل جائداد کی قیمت کا پے فی صدی اور اپنی ایک ماہ کی آمد کا نصف چھ ماہ کے اندراندر یہاں بھیجدیں.بالآخر حضور نے نہایت پرجوش کلمات میں نمائندگان کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا.پس جاؤ اور کوئی فرد باقی نہ رہنے دو جو اپنی جائیداد یا آمد وقت نہ کرے اور وہ لوگ ہو انکار کریں ان سے کہدو کہ ہم تمہارے حرام مال سے اپنے پاکیزہ مال کو ملوث نہیں کرنا چاہتے.تیسری تجویز یہ ہے کہ وصیتوں کی تحریک کی جائے اور جماعت کا کوئی فرد نہ رہے میں نے وقیت نہ کی ہو.وصیت بے شک طوعی چیز ہے.مگر اب وقت آ رہا ہے جب طوعی چیزیں بھی فرضی بن جاتی ہیں.چوتھی تجویز یہ ہے کہ جو لوگ پہلے ہی موصی ہیں وہ اپنی وصیتوں کو بڑھائیں.جو ہم کے موصی ہیں وہ ہے دیں.اور جو ہے دیتے ہیں وہ ہے دیں تو علی ہذا.پو تھی تجویہ قادیان کی جائیدادوں کے متعلق ہے کہ جب وہ بیچا جا ئیں.تو جو نفع ہو اس نفع کا بننے سلسلہ کو دیا جائے.اور جن کے پاس پہلی جائیدادیں ہیں وہ منافع کالا فی صدی سلسلہ کو دیں.میں آئندہ کے لئے یہ قانون مقرر کرتا ہوں کہ کوئی جائیدا و امور عام کے علم اور مرضی کے خلاف فروخت نہ ہو.اس حکم کا اطلاق آج سے شروع ہو گا.سلسلہ تقریر
جاری رکھتے ہوئے حضور نے فرما یا اب رہا یہ سوال کہ اگر ان تجاویز کے باوجود مطلوبہ رقم میں کی اس وقت سل کے کام چلانے اور مرکز کی حفاظت کے لئے ضرور ہے پوری نہ ہو تو میں ہی کو ٹھی دار الحمد کو بیچ کر کمی پوری کی جائے.کوٹھی کے ساتھہ بہت سی زمین اور باغ بھی ہے جس کی مالیت چند لاکھ کے قریب ہے.میرے پاس نقد روپیہ نہیں ہے.بہات کے دوست یہ کہیں کہ اسے خر بلہ میں ہے اپنے پیارے آقا کی قربانی کا یہ فقید المثال جذبہ دیکھ کہ ہر مومن نے یہی سمجھا کہ جس طرح اپنے پیار سے امام کے مقابلہ میں ہماری جانوں کی کوئی قیمت نہیں اسی طرح اس کی جائیداد کے مقابلہ میں ہماری جائیدادوں کی کوئی حیثیت نہیں.ہر طرف سے اس قسم کی صدائیں آنے لگیں یہ نہیں ہوگا بلکہ پہلے ہماری جائدادیں فروخت ہونگیں.پہلے ہمارا سب کچھ قربان ہوگا.اس پر حضور نے فرمایا " اگر آپ لوگ قربانی کرنا چاہیں تو میرے ساتھ شامل ہو جائیں مجھے قربانی سے کیوں محروم کرتے ہیں.سب سے مقدم فرض میرا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں سب کچھ قربان کروں.آپ لوگ جائیں اور اپنے دوست کے بھائیوں کو بھی شریک کر میں فر چند افراد میں یہ وہ فائدہ نہیں دے سکتی.جبکہ ساری قوم میں یہ روح ہونی چاہیے.چند افراد تو مشرکوں اور عیسائیوں میں سے بھی غیر معمولی قربانیاں پیش کر دیا کرتے ہیں لیکن اصل چیز یہ ہے کہ قوم کا ہر فرد اس میں شریک ہوا اس خطاب کے بعد حضور نے دعا کرائی اور مشاورت کا آخری امباس گیارہ بجے شب ختم ہوا ہے تحریک قف جائیداد و آمد کی کا میانی ملکی حالات ہونکہ بد سے بلاتے ہوا ہے اور اس کے مفید نتائج تھے اور مرکز احمدیت کے خطرات میں اضافہ ہو رہا تھا اسلئے مجماعت احمدیہ کے اولوالعزم کامیابی قائد اور امام حضرت مصلح موعود نے مجلس مشاورت کے بعد بھی بار بار جماعتوں کو تحر یک وقف جائداد دالکر میں حصہ لینے اور جلد از جلد فہرستیں مکمل کر کے بھیجوانے کی تحریک مسلسل جاری رکھی اور ان کو یہ تحریک آئندہ عظیم الشان اسلامی عمارات کی بنیاد بنے گی.چنانچہ وار ہجرت رستی وا کے و الفضل و ماد شہادت / اپریل ۹ صفحه ۲۰۱
خطبہ جمعہ میں فرمایا " ہیں سمجھتا ہوں کہ یہ تحریک بھی ہمارے سلسلہ کی اور تحریکوں کی طرح اپنے اند خدا تعالے کی بہت بڑی حکمتیں رکھتی ہے اور اس کی خوبیاں صرف اس کی ذات تک ہی محدود نہیں لکہ یہ ایک بنیاد ہے آئندہ بہت بڑے اور عظیم الشان کاموں کو سر انجام دینے کی.اور میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ کوئی اتفاقی تحریک نہیں بلکہ اس تحریک کے ذریعہ ہماری جماعت کی ترقی اور سلسلہ کے مقام کے لئے بعض نہایت ہی عظیم الشان کاموں کی بنیاد رکھی جارہی ہے گوار تک لوگ اس تحریک کی اہمیت کو نہیں سمجھے لیکن دو چار سال تک اس کے کئی عظیم انسان فوائد جماعت کے سامنے آنے شروع ہو جائیں گے جیسے تحریک تبدیل کو جب شروع کیا گیا تھا تو اس تحریک کیا سخو بیاں جماعت کی نگاہ سے مخفی تھیں مگر اب نظر آرہا ہے کہ اس تحریک کے ذریعہ دنیا بھر میں تبلیغ اسلام کا کام نہایت وسیع پیمانے پر جاری ہے.اللہ تعالے نے اپنے فضل اور رحم سے جتنے کام مجھ سے لئے ہیں ان تمام کاموں کے متعلق میں لکھی ہوئی ہر حقیقت وہ بنیاد ہوتے ہیں بعض آئندہ عظیم الشان کاموں کی.اسی طرح یہ تحریک بنیاد ہوئی آئندہ تعمیر ہونے والی عظیم انسان اسلامی عمارات کی ہیں طرح میں نے وقف جائیداد کی تحریک کی تھی جو در حقیقت بنیاد تھی آج کی تحریک کے لئے مگر اس وقت لوگ اس تحریک کی حقیقت کو نہیں سمجھے تھے.کچھ لوگوں نے تو اپنی جائدادیں وقف کر دی نہیں مگر باقی لوگوں نے خاموشی اختیار کر لی اور وہ لوگ جنہوں نے اپنی جائیدادیں وقف کی تھیں وہ بھی بار بار مجھے لکھتے تھے کہ آپ نے وقف کی تو تحریک کی ہے اور ہم اس میں شامل بھی ہو گئے ہیں لیکن آپ ہم سے مانگتے کچھ نہیں.انہیں میں کہتا تھا کہ تم کچھ عرصہ انتظار کرو.اللہ تعالے نے چاہا تو وہ وقت بھی آجائے گا.جب تم سے جائیدادوں کا مطالبہ کیا جائیگا.چنانچہ دیکھ لو اس تحریک ہے خدا تعالے نے کتنا عظیم الشان کام لیا ہے.اگر عام چندہ کے ذریعہ اس وقت جماعت میں حفاظت مرکز کے لئے تحریک کی جاتی تو میں سمجھتا ہوں کہ لاکھ دو لاکھ روپیہ کا اکٹھی ہونا بھی بہت مشکل ہوتا مگر چونکہ آج سے تین سال پہلے وقف جائیداد کی تحریک کے ذریعہ ایک بنیاد قائم ہو چکی تھی.اسلئے وہ لوگ جنہوں نے اس تحریک میں اس وقت حصہ لیا تھا وہ اس وقت بینار کے طور پر ساری جماعت کے سامنے آگئے.اور انہوں نے اپنے عملی نمونہ سے جماعت کو بتا یا کہ جو کام ہم کر سکتے ہیں وہ تم کیوں نہیں کر سکتے.چنانچہ جب ان کا قربانی پیش کی گئی تو میرا ہوں میرا یہ لوگ ایسے نکل آئے جنہوں نے ان کی
۶۶۳ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی جائیدا وہیں وقف کہ دیں ہیں میں طرح وہ تحریک جدید بنیاد تھی پس بعض اور عظیم الشان کاموں کے لئے اسی طرح حفاظت مرکز کے متعلق جو تحریک چندہ کے لئے کی گئی ہے یہ بھی آئندہ بعض عظیم الشان کاموں کا پیش خیمہ ثابت ہوگی اور جس وقت یہ تحریک اپنی تکمیل کو پہنچے گی اس وقت مالی لحاظ سے جماعت کی قربانیاں اپنے کمال کو پہنچ جائینگی در حقیقت جانی قربانی کا مطالبہ وقت زندگی کے ذریعے کیا جارہا ہے اور پانی قربانی کے ایک بہت ہی بلند مقام پر کھڑا کیا جارہا ہے پھر شاید وہ وقت بھی آجائے کہ سلسلہ ہر شخص سے اس کی جان کا بھی مطالبہ کرے اور جماعت میں یہ تحریک کی جائے کہ ہر شخص نے جس طرح اپنی مہانداد خدا تعالے کے لئے وقف کیا ہوئی ہے اسی طرح و اپنی زندگی میں خدا تھا نے کے لئے وقف کر دے تاکہ ضرورت کے وقت اس سے کام لیا جا سکے پہلے اس کے بعد ایک اور خطبہ میں دوبارہ یاد دہانی کراتے ہوئے فرمایا :.و یقین خطرات میں سے اس وقت ہمارا ملک گذرہا ہے اور جن خطرات ہیں سے اس وقت ہماری جماعت گزر رہی ہے ان میں سے جو خطرات ظاہر ہیں وہ سب دوستوں کو معلوم ہیں مگر بہت ہی بانیں ایسی بھی ہیں جو آپ لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہیں اور میان ان کا اس لئے ظاہر ہیں کہ تاکہ کیا منور لوگ دل نہ چھوڑ بیٹھیں ورنہ ان دنوں ہماری جماعت ایسے خطرات میں سے گزر رہی ہے کہ ان کے تصور سے مضبوط سے مضبوط انسان کا دل بیٹھ جاتا ہے اور اس کے قدم لڑکھڑا جاتے ہیں.صرف جماعت کے کزور لوگوں کا خیال رکھتے ہوئے اور بعض دوسرے مصالح کی وجہ سے میں وہ باتیں پر وہ اعضاء میں رکھتا ہوں اور یہ ان دنوں میں بعض اوقات اس طرح محسوس کرتا ہوں جیسے کسی عظیم الشان محل کی دیواریں نکل جائیں اور اس کی چھت کے سہارے کے کے لئے ایک سرکنڈا کھڑا کر دیا جائے.تو جو مال اس سرکنڈے کا ہو سکتا ہے.یہی حال بسا اوقات ان دنوں میں اپنا محسوس کرتا ہوں وہ بو گجر جو اس وقت مجھ پر پڑ رہا ہے.اور وه معطرات جو جماعت کے مستقبل کے متعلق مجھے نظر آ رہے ہیں وہ ایسے ہیں کہ ان کا اظہارہ میں شکل ہے اور ان کا اٹھانا بھی کسی انسان کی طاقت میں نہیں.محض اللہ تعالے کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے ان خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے میں اس ہو تجھ کو اٹھائے ہوئے ہوں ورنہ کوئی انسان ایسا نہیں ہو سکتا جس کے کندھے اتنے مضبوط ہوں کہ وہ اس بوجھے کو سہار سکیں اور ان له الفضل ۲۲ ہجرت رمنی ۱۳۰۰۲۶ صفر
تفکرات کا مقابلہ کر سکیں ہماری جان کے حصے میں تو صرف چندے ہی ہیں تفکرات میں اس کا کوئی حصہ نہیں بلکہ تفکرات اُن تک پہنچتے ہی نہیں جیسے خطرہ کے وقت ماں اپنے بچے کو گود میں سلائینتی ہے اور سارا بوجھ خود اٹھالیتی ہے.ایسی ہی حالت اسوقت میری ہے کہ ان خطرات سے جو اسوقت مجھے نظر آرہے ہیں جماعت کو آگاہ نہیں کر سکتا اور سارا بوجھ اپنے دل پر لے دیتا ہوں کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ جماعت کے کام تو ہر حال خدا تھانے نے ہی سرانجام دیتے ہیں میں جماعت کے لوگوں کو کیوں پریشان کروں.اللہ تعالیٰ جس رنگ میں چاہے گا اُس کی مثبت پوری ہو کر رہے گی.درحقیقت جس مقام پر اللہ تعالیٰ نے مجھے کھڑا کیا ہے اور مخدا تعالیٰ کی طرف سے جو رتبہ مجھے عطا کیا گیا ہے اس کے لحاظ سے سب سے پہلا اور آخری ذمہ دار میں ہی ہوں اور جماعت کے بوجھ اٹھانے کا حق میرا یہی ہے جیسے قرآن کریم میں ذوالقرنین کے متعلق کہا گیا ہے کہ اس نے کہا تھا تونی زبر الحدید یعنی لوہے کے ٹکڑے میرے پاس لاؤ وہی بات میں نے بھی پیش کر دی ہے کہ تم اپنی جائیدادوں کا ایک فی صدی قربانی میں پیش کر دو.وہ خود جماعت کی حفاظت کے سامان پیدا کر دیگا.اس وقت تمہارا کام صرف زیر الحدید پیش کرتا ہے ورنہ اصل اور اہم کام تو خدا تعالے اور اس کے مقرر کردہ افراد نے ہی کرتا ہے جبکہ ازاد نے بھی کیا کرتا ہے خدا نتو رہی ہے جماعت تو ان مصائب اور مشکلات کے مقابلہ کی طاقت ہی نہیں رکھتی کیونکہ اُن کو دور کرنا انسانی فاقت سے بالا ہے.پس سوائے خدا تعالے کی ذات کے اور کوئی ہستی اُن کو دُور کے ہی نہیں سکتی لیکن ہو چھوٹا سا کام ہماری جماعت کے ذمہ ہے اگر جماعت اس میں بھی سستی اور غفلت سے کام لے تو یہ نہایت ہی افسوسناک امر ہو گا یہ سلسلہ تفسیری قرآن نگریزی کی اشاعت جماعت احمدی کی طرف سے قرآن مجید کے کلیدی سے انگریزی ترجمہ اور تفسیر کی ایک عرصہ سے جو مخلصانہ کوششیں جاری تھیں اُس کا پہلا شیریں پھل احسان ربون محلات میں تفسیر القرآن انگریزی جلد اول کی شکل میں ظاہر ہوا جو سورۃ فاتحہ سے لیکر سورۃ کہف تک کے مطالب پر مشتمل اور ساڑھے بارہ سو صفحات پر پھیلی ہوئی تھی اور اس کے ابتداء میں حضرت مصلح موعود کے قلم سے لکھا ہوا ایک نہایت پر معارف دیباچہ ل الفعل الامرد فال جولائی م م 19
بھی شامل تھا یہیں میں دوسرے صحت سماوی کی موجودگی میں قرآن مجید کی ضرورت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ اور جمع القرآن اور قرآنی تعلیمات پر بالکل اچھوتے اور دلاویز پیرا یہ اس روشنی ڈالی گئی تھی یہ جیسا چہ منتقل کتابی صورت میں انگریزی کے علاوہ اردو انڈو نیشی برین اور ڈچ زبانوں میں بھی چھپ چکا ہے.حضرت مصلح موعود نے اس دیباچہ کے آخر میں شکریہ داعرات کے زیر عنوان تخریب فرمایا کہ میں اس دیباچہ کے آخر میں مولوی شیر علی صاحب کی اُن بے نظیر خدمات کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں جو انہوں نے باوجود صحت کی خرابی کے قرآن کریم کو انگریزی میں ترجمہ کرنے کے متعلق کی ہیں.اسی طرہ ملک غلام فرید صاحب - خان بہا در چوہدری ابوالہاشم خال مرحوم اور مرزا بشیر احمد صاحب بھی شکریہ کے متفق ہیں کہ انہوں نے ترجمہ پر تفسیری نوٹ میری مختلف تقریروں اور کتابوں اور درسوں کا خلاصہ نکالی کے درج کئے ہیں.مجھے ان انگریزی نوٹوں کے دیکھنے کا موقعہ نہیں ملا مگر ان لوگوں کے تجربہ اور اخلاص پریقین کرتے ہوئے مجھے یقین ہے کہ انہوں نے صحیح طور پر ان مضامین کی ترجمانی کی ہوگی جو میں نے براور است خدا تعالی کے افضال کے ماتحت قرآن کریم سے یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام بانی سلسلہ احمدیہ کے افاضات سے حاصل کئے ہیں و میں اس موقعہ پر قاضی محمد اسلم صاحب پر وفیسر گورنمنٹ کالج لاہور اور سرمحمد ظفراللہ خاں صاحب حج فیڈرل کورٹ آف انڈیا کا بھی شکر یہ ادا کرتا ہوں جین دونوں نے اس دیباچہ کو انگریزی زبان کا جامہ پہنایا ہے.اللہ تعالے ان سب دوستوں کو اپنی برکات کے عطر سے محسوح کرے اور دین و دنیا میں ان کا حافظ و ناصر ہو.میں یہ بھی کر دینا چاہتا ہوں کہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کا شاگرد ہونے کی وجہ سے کئی مضامیں میری تعمیر میں از ما ایسے آئے ہیں جو میں نے ان سے سیکھے اس لئے اس تفسیر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تفسیر بھی حضرت خلیق اول کی تفسیر ی اور میرا تیر بھی بنائی اور چونکه خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اپنی روح سے منسوخ کر کے ان علوم سے سرفراز فرمایا تھا جو اس زمانہ کے لئے ضروری ہیں اس لئے میں امید کرتا ہوں کہ یہ تفسیر بہت سے بیماروں کو شفاء دینے کا موجب ہو گیا.بہت سے اندھے اس کے ذریعہ سے آنکھیں پائیں گے.بہرے سلنے لگ جائیں گے گونگے بولنے لگ جائیں گے.لنگڑے اور اپنا پہنچ چلنے لگ جائیں گے اور اللہ تعالیٰ
۲۶۵ کے فرشتے اس کے مضامین کو برکت دیں گے اور یہ اس غرض کو پورا کہ بیگی میں غرض کے لئے یہ شائع کی جارہی ہے الله اللهم آمین.حضرت امیر المومنین سیدنا المصلح الموعود نے ا ر احسان / جان کے خطبہ جمعہ میں یہ خوشخبری سنائی کہ قرآن کی ظلم کے انگریزی ترجمہ کی پہلی جلد چھپ کر آگئی ہے.یہ جلد آج سے کچھ : " عرصہ پہلے آجانی چاہیئے تھی.مگر لاہور کے فسادات کی وجہ سے پریس بندر ہے.یا بہت کم کام ہوتا رہا.اس لئے بجائے اپریل میں مکمل ہونے کے یہ جلد جون میں مکمل ہوئی ہے.یہ جلد ساٹھے بارہ سو صفحات کی ہے.ابتدائی مضامین کا دیباچہ جو کہ میں نے لکھا ہے وہ ۲۷۲ صفحات کا ہے یعنی یہ مضمون اردو کے عام کتابی سائنہ کے لحاظ سے پانچ چھ سو صفحات میں آجائیگا اس دیباچے کے کچھ حصہ کا ترجمہ پر و فیسر قاضی محمد اسلم صاحب نے کیا ہے.اور کچھ حصہ کا ترجمہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے کیا ہے.یہ دونوں احباب ہماری جماعت میں انگریزی کی انچا قابلیت رکھتے ہیں اور نہایت عمدہ طور پر لکھنے والے ہیں جس کی وجہ سے ترجمہ بہت اعلیٰ ہوا ہے.گو میں اس دیب بچہ کے ترجمہ کی نظر ثانی نہیں کر سکا.اور میرا خیال ہے کہ اگر نظر ثانی ہو جاتی تو نظر ثانی میں بعض جگہ ترجمہ زیادہ سادہ ہو سکتا تھا.جو کہ اب نسبتا پیچیدہ ہو گیا ہے لیکن پھر بھی ترجمہ نہایت لطیف ہے.کتاب کے چھپنے کے بعد میں نے اُسے پڑھنا شروع کیا.تو وہ مجھے ایسا دلچسپ معلوم ہوا.کہ باوجود غیر زبان میں ترجمہ ہونے کے بعض اوقات ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا یہ مضمون ہی انگریزی میں لکھا گیا ہے.میں اس کی یہ تقسیم کر چکا ہوں کہ آدمی ہندوستان کے لئے اور آدھی غیر ممالک کے لئے.جو دوست یہ کتاب خریدیں انہیں چاہتے کہ خود پڑھنے کے بعد دوسروں کو بھی پڑھوائیں.میں سمجھتا ہوں.کہ اس کتاب کا دیبا چہ ایسا شاندار لکھا گیا ہے کہ وہ خدا تعالے کے فضل سے بہت سے لوگوں کے لئے ہدایت کا موجب بن سکتا ہے اور میرا ارادہ ہے کہ ایک بہت بڑی تعداد میں اس دیباچہ کو الگ چھپوایا جائے نہ صرف انگر نہ کی بلکہ اردو.مہندی.گورمکھی اور دوسری زبانوں میں اس کے تراجم شائع کئے جائیں.اس دیباچہ میں اسلام کی صداقت کے ایسے دلائل بیان کئے گئے ہیں.کہ ان کے ذریعہ قرآن کریم اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو گی.اور تھے یه دنیا چه تصير القرآن (اردو) صلاة، منه طبع دوم و سمبر 19 ناشر صیقہ تالیف تصنیف رہو مطیع لاہور اکٹ برس انار کارلوس
پھرہ بیاچہ کے ساتھ ہو شخص قرآن کریم کا ترجمہ اور اس کے نوٹ بھی پڑھے گا.تو یہ سونے پر سہا گہ اور موتیوں میں دھاگہ والی مثال ہوگی پاس دوسری جلدوں کی اشاعت اس پہلی جلد کے تیرہ سال بعد ملی رو رہے ہیں فتح دسمبر میں دوسری جلد شائع ہوئی بو سورة مري سورة جاشیر تک کی سورتوں پر مشتمل تھی ازاں بعد تیسری اور آخری جلد ابان مارچ هر ۳ امین اشاعت پذیر ہوئی اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے ۲ در امان مارچ معلوم کو چو بیسویں مجلس مشاورت ۱۹۹۳ کی کارروائی کے آغاز میں فرمایا میں دوستوں کو یہ بشارت دینا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم کی انگر یہ ہی تغییر بو آج سے اکیس سال پہلے شروع ہوئی تھی اور جس کے ابتدائی حصہ میں مجھے بھی کچھ خدمت کا موقعہ ملا ہے اور حضرت مولوی شیر علی صاحب بھی اس کام کو کتے رہے ہیں درود صاحب مرحوم بھی یہ کام کرتے رہے.مگر زیادہ کام ملک غلام فرید صاحب کے ذمہ رہا ہے اور اب تو کلینہ ان کے ذمہ ہے اس تفسیر کا آخری حصہ جو باقی تھا اب مکمل ہو کہ آگیا ہے اور اس طرح خدا کے فضل سے یہ کام تکمیل کو پہنچ گیا ہے تے مکرم تفسیر القرآن انگریزی کی کم یا محمد اسماعیل اب اپنی انا نے ان کا ابا یا مالا نیای تاریخ پر ایک نظر میں تفسیرالقرآن انگریزی پر ایک نظر مگر جاری نوٹ سپرد قلم کیا ہے بجو درج ذیل کیا جاتا ہے.صدر انجمن احمدیہ قادیان نے ہزاروں روپیہ خرچ کر کے قرآن کریم کا جو انگریزی ترجمہ شرع ہیں کر دیا تھا وہ تو جناب مولوی محمد علی صاحب ایم.اسے تم (14) میں نے کہ لاہور آگئے اور یہاں احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور نے اسے اپنے طور پر شائع کر دیا.اس کے بعد حضرت امیر المومنین نے حضرت مولوی شیر علی صاحب کو نیا ترجمہ مع تفسیری نوٹوں کے مرتب کرنے کا حکم دیا پر نے میں حضرت امیر المومنین نے اس کام میں حضرت میاں بشیر حجم صاحب کو بھی شامل فرما دیا.اب دونوں بل کہ اس خدمت کو سرانجام دینا شروع کیا.حضرت میاں صاحب حضرت مولوی شیر علی صاحب کے ساتھ مل کر قرآن مجید کے انگریزی ترجمہ شده اختبار الفصل ۲۴ احسان / جون ل سه ر پورت مجلس مشاور ۱۲۲۳ ۱۲۳، نمبر مان راه های ما
۶۶۷ بر کا کام کہ ہی رہے تھے کہ حضرت خلیفہ المسیح ثانی نے بین کو اس کام سے بے حد دلچسپی تھی مناسب سمجھا کہ اس کام کی تکمیل کے لئے مولوی شیر علی صاحب کو کچھ عرصہ کے لئے لندن بھیجدیا جائے وہاں چونکہ اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے بعض ایسی کتابیں موجود ہیں جو یہاں نہیں مل سکتیں ہنا دیاں یہ کام نسبتاً آسانی سے ہو سکیگا.چنانچہ حضرت امیر المومنین کے ارشاد کے ماتحت حضرت مولوی شیر علی صاحب لندن جانے کے لئے قادیان سے ۲۶ فروری ۹۳۶انہ کو روانہ ہو گئے ہے اور وہاں تقریباً تین سال تک وہ کہ یہ کام کرتے رہے.اس عرصہ میں بے شمار لوٹ ترجمة القرآن کے متعلق انہوں نے جمع کیئے جو بعد کے ایام میں اپنی اپنی جگہ تفسیر القرآن انگیر بزی میں درج کئے گئے.دیال سے واپسی کے بعد بھی حضرت مولوی صاحب اسی کام میں مشغول تو ہے مگر چونکہ حضرت امیر المومنین کو اس کام کی تکمیل کی بڑی فکر تھی اور آپ چاہتے تھے کہ میں طرح بھی ہو یہ ضروری کام جنگ جلد ختم ہو جائے اسلئے آپ نے کام کے مسلسل اور باقاعدہ بھاری رہنے اور جلد تھے پایہ تکمیل تک پہنچنے کے لئے یہ انتظام کیا کہ مئی ۹۲ نہ میں جماعت کے قابل اور فاضل حضرات کا ایک بورڈ مقرر فرمایا جو سرعت.تیزی - روائی عمدگی.خوبی اور انتہائی احتیاط کے ساتھ ایک دوسرے کے تعاوات سے اس کام کو انجام تک پہنچائے.بہر حال یہ کام ۱۹۲۲ء میں شروع ہوا اور مسلسل ہوتا رہا.قادیان میں کوٹھی دار الحمد ترجمہ قرآن کا دفتر تھا.یہاں راقم الحروف نے بار ہا حضرت مرزا بشیر احمد فضا حضرت مولانا شیر علی صاحب اور حضرت ملک غلام فرید صاحب کو نہایت انہماک اور محنت کے ساتھ ایک میز پر یہ کام کرتے ہوئے دیکھا ہے ایک ایک لفظ پہ بخشیں ہوتی تھیں.ایک ایک فقرہ بڑی احتیاط کے ساتھ یا ہمی تبادلہ خیال کے بعد کھا جاتا تھا.ایک ایک آیت کے متعلق دیکھا جاتا کہ قدیم مفسرین نے اسکے کیا معنی کئے ہیں ؟ احادیث میں اس کے متعلق کیا لکھا ہے ؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی کیا تفسیر فرمائی ہے؟ حضرت خلیفہ اول نے اس کی کیا تشریح کی ہے ؟ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے اس کا کیا مطلب بیان کیا ہے؟ پھر الفاظ کے متعلق بڑی بحث ہوتی تھی یعنی لغت میں اس لفظ کے کیا کیا معنی ہیں ہے محاور دیں یہ لفظ کس طرح استعمال ہوا ہے ؟ زیر بحث آیت میں اس کے کون سے معنی نسبت زیادہ درست بیٹھتے ہیں ؟ آیت کا مطلب قدیم اور جدید مفسرین نے کیا بتایا ہے ؟ اور ان میں تفصیل تاریخ احمدینہ جلد ہشتم حتا دن میں آچکی ہے.
قریب یہ صحت کو نیا مطلب ہے ؟ آئی پر مخالفین کی طرف سے کیا کیا اعتراض ہوتے ہیں.اور اُن کے کیا کیا جواب ہیں ؟ آیت کا تعلق اُس کی ماسبق اور بعد آنتوں سے کیا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے کن کن معادات کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا ہے ؟ یہ آیت کہاں اور کس وقت اندی؟ اور اس کا شان نزول کیا ہے ؟ اس آیت یا اس سورۃ کے متعلق یورپین تحقیقات کیا ہے ؟ وغیرہ وغیرہ.ہر بات کے متعلق بہت طول طویل بحثیں ہوتی تھیں جب جا کہ ایک آیت کا ترجمہ اور تفسیر کبھی جاتی تھی.اور پھر اس میں ملک غلام بید فرید صاحب آخر وقت تک برابر ترمیم وتنسیخ کرتے رہتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ جو کچھ لکھا جائے انتہائی تحقیق کے بعد لکھا جائے.اور ایسا لکھا جائے کہ دل کو اطمینان اور سکینت سے بھر دے.اکثر ادیان چھپے چھپائے فرے روی کرنے پڑے ہیں.بہت دفعہ پریس میں جھا کہ مشین پر غلطیاں درست کرنی پڑی ہیں اور ہر قسم کی دات - صعوبت اور تکلیف اس کے ترجمہ اور اس کی طباعت میں پراشت کی ہے تب جا کہ ۲۸ فروری ۱۹۴۷ء کو اس کی پہلی جلد ہو بڑی تقطیع کے 440 صفحات پر مشمل ہے بہت اعلی ٹائپ اور نہایت نفیس کا غذ پر سول اینڈ ملٹری گزٹ پریس لاہور میں چھپ کر شائع ہوئی حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے کمال تحقیق کے ساتھ جو عالمانہ اور بسیط مقدمہ اس پر لکھا وہ اصل کتاب کے علاوہ ۲۷۶ صفحات پر محیط ہے اور بجائے خود ایک مستقل کتاب کی حیثیت رکھتا ہے.اس پہلی جلد میں سورۂ فاتحہ سے سورہ تو یہ تک کی تفسیر بیان کی گئی ہے یعنی اس میں وس مکمل پارے آگئے ہیں.ربھی پہلی جلد کے فرموں کی جز بندی نہیں ہوئی تھی اور سارے فرمے سول اینڈ ملٹری پریس لاہور میں رکھے ہوتے تھے کہ ملک کے سیاسی حالات بڑے مخدوش ہو گئے...حضرت خلیفہ مسیح الثانی نے ارشاد فرمایا کہ احتیاط اور حفاظت کا اقتضاء یہ ہے کہ قرآن مجید کے فرمول کو لاہو سے قادیان سے آیا جائے اور یہیں ان کی بہ بندی اور جلد سازی ہو.چنانچہ حضور کے حکم کے مطابق فوراً قرآن محمید کے فرمے قادیان آگئے اور خاک راقم الحروف کے سپرد کر دتے گئے.میں اس زمانہ میں بکڈپوتالیف اشاعت مرکز یہ کا نگران اعلیٰ تھا.میں نے ان تمام فرمول کو کو بھی دارالحمد میں رکھوا دیا اور ایک دفتری سے اس کی بجہ بندی شروع کرادی.نے یہ سہو ہے ماه ملاحظہ ہو القفنا احسان / بعون مصر کو حضرت مصلح موعود نے اس کی اشاعت کا اعلان فرمایا تھا.۲۲ احسان /جون
۶۶۹ اب فلکی حالات اور بھی زیادہ مخدوش اور خطرناک ہو گئے تھے او...قادیان میں خطرہ ہر لحظہ پڑھنا جارہا تھا اس لئے حضرت امیر المومنین نے پھر حکم دیا کہ غیر معمولی قیمت کے ساتھ تمام قرآن شریف زیرا گا ہو پہنچا دیا جائے چنانچہ میں نے یہ تمام مرے ایک بڑی لاری میں بھر کرنا ہور بھیجو تے اور فرسے محرمی شیخ بشیر احد صاحب ایڈووکیٹ کی کوٹھی کے ایک کمرہ میں امانتا ر کھود کیے گئے.میں ستمبر ہ کو قاوات سے لاہور پہنچا اور فرمے شیخ صاحب کے ہاں سے لیکر جلد بندی کے لئے کشمیر آرٹ پر یس کو دیا ہے اور جب سارے قرآن مجید کی جلد میں بندھ گئیں تو پھر ۱۹۴۰ کے شروع سے اُن کی فروخت شروع کی تقسیم کے بعد حضرت مرزا بشیر احمد صاحب حضرت مولوی شیر علی صاحب اور حضرت ملک غلام فریاد صاحب بھی لاہور آگئے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رفتن باغ میں رہنے لگے حضرت مولوی شیر کی صاحب کو ڈیوس روڈ پر ایک کو ٹھی میں جگہ ملی.ملک غلام فرید صاحب میں لوڈ کی کوٹھی نشے میں آباد ہوئے.اور ترجمہ قرآن مجید کا دفتر جود حامل بلڈنگ میں بنایا گیا.حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی ذاتی نگرانی ہیں دوسری جلد کی تیاری کا کام شروع ہو گیا مگر صد ہزار افسوس کہ بورڈ ترجمہ القرآن کے سب سے سینیٹر میر حضرت مولانا شیر علی صاحب کا ہوا تو براہ کو انتقال ہو گیا.اب صرف دو آدمی رہ گئے ایک حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور دوسرے حضرت ملک اور شیر صاحب حضرت مرزا بشیر احمد صاحب قادیان سے آتے ہی حفاظت مرکز اور خدمت درویت ان کے کاموں میں ایسے معروف ہوئے کہ انہیں دن رات میں کسی لمحے بھی فرصت نہ ملتی.اب اس عظیم الشان اور نہایت ہی مشکل کام کا ساز اباد صرف حضرت ملک غلام فرید تا پر آپڑا اور حضرت امیر المومنین نے بھی ان سے یہ فرمایا کہ اب صرف آپ ہی کلینہ میرے سامنے ترجمعہ القرآن کے تمام کام کے جوابدہ اور ذمہ دار ہیں اور مجھے امید ہے کہ آپ اپنی ذمہ داری کو پورے طورپر محسوس کرتے ہوئے اس کام کو جلد سے جلد ختم کرنے کی کوشش فرمائینگے.جو بے حد ضروری اور نہایت اہم ہے.اگر چہ مشکلات بے حد یتیں اور ایک اکیلے شخص سے اس عظیم الشان کام کا سرانجام پانا بظاہر ناممکن نظر آرہا تھا مگر حضرت ملک غلام فرید صاحب نے اس پیرانہ سالی اور مختلف عوارض میں منتقل ہونے کے باوجود اس خالص مذہبی خدمت کو بجالانے کا عزم بالجزم کر لیا اور ہمہ تن
اس کام کی تیاری میں منہمک ہو گئے اور دن رات کی لگاتار محنت کے بعد ۱۹۴۹ میں ترجمۃ القرآن کی دوسری جلد کا پہلا حصہ مرتب کر لیا جس میں سورہ یونس سے سورہ کہفتے تک تفسیر آگئی ہے ان ایام میں ترجمہ القرآن انگریز کمی کے متعلق حضرت ملک صاحب کو چار قسم کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا پڑتا تھا.(۱) کتاب کی ترتیب و تدوین جس میں بے انتہا محنت کرنی پڑتی تھی.دس پروف ریڈنگ جو کئی کئی مرتبہ بڑی احتیاط کے ساتھ کرنی پڑتی تھی.رس طباعت کی نگرانی جو بڑی ہی بھاگ دوڑ اور مصیبت کا کام تھا.ولی طباعت اور تیاری کے بعد قرآن کریم کی فروخت اور تقسیم کی نگرانی ہو بڑے جھیلے کا تھا ظاہر ہے کہ اکیلے ملک صاحب کے لئے ان چاروں کا مول کی سرانجام دہی کس قدر دردسری کا باعث تھی لیکن میں نے دیکھا ہے کہ جناب ملک صاحب نے ان ایام میں بڑے ہی استقلال اور مستعد می اور محنت کے ساتھ تمام کا سول کو سر انجام دیا اور قطعا شکایت نہیں کی.اگر چہ اس تمام عرصہ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سلسلہ کے بہت سے متفرق کا مول میں سخت مشغول رہے تا ہم نہایت عدیم الفرصتی کے با وجود بھی ترجمہ انگریزی کی نظر ثانی کے کام میں برابر جناب ملک صاحب کے شریک رہے.مگر جبکہ جنوری 19 میں حضرت میاں صاحب رتن باغ سے مستقل طور پر ربوہ تشریف لے گئے تو آخری مراحل پر حضرت مولوی محمد دین حنا ناظر تعلیم نظر ثانی کے کام میں حضرت ملک صاحب کی مدد فرماتے رہے لیکن جب وہ بھی سلسلہ کی ضرورت اور سلسلہ کے تعلیمی اداروں کی نگرانی کے لئے ربوہ چلے گئے تو تنہا ملک صاحب نے سارے کام سرانجام دئے.ملک صاحب نے اکیلے رہ جانے پر بھی ہمت نہ ہاری اور ناموشی کے ساتھ پر کام میں مصروف رہے.اللہ تعالے نے ان کی مدد کی اور مہتم بالشان کام آہستگی کے ساتھ آگئے پڑھتا رہا.یہاں تک کہ دسمبر سنہ میں قرآن کریم کی انگریہ کی تفسیر کی جلد دوئم کا دوسر احتہ شائع ہو گیا.یہ سورۃ مریم سے سورہ جاثیہ تک ہے.اس دوران میں حضرت ملک صاحب کے لئے ایک آسانی یہ پیدا ہو گئی کہ تفسیر انگریزی کی تقسیم اور فروخت کا کام اور ٹینٹل اینڈ پلیمیں پیشنگ کارپوریشن لینڈ ریود نے اپنے ہاتھ میں
نے لیا اور حضرت ملک صاحب کو اس بڑے جھمیلے کے کام سے نجات ملی اور یہ ایک حقیقت بھی ہے کہ تصنیفی دماغ آنے پانیوں کا حساب کتاب رکھنے اور ایک ایک کتاب کو بار با رگن کہ رکھنے سے بڑا گھبراتا ہے حضرت ملک صاحب نے اس نئے انتظام کو نہایت غنیمت سمجھا اور اطمینان اور سکون کے ساتھ تصنیفی کام میں مشغول ہو گئے جو ان کا محبوب مشغلہ تھا.دیکھئے مختلف اور متعدد ذمہ واللہ اول کی موجودگی میں کام کی رفتار کتنی سست رہی کہ تغیر کی دوسری جلد کا پہلا حصہ انہ میں چھپا تھا مگر اس کا دوسرا حصہ گیارہ سال بعد نشانه میلہ ۱۹۳۹ میں شائع ہوا لیکن جب کام کی ذمہ داریاں ہلکی ہو ئیں اور حضرت ملک صاحب کو اطمینان کے ساتھ کام کرنے کا موقعہ ملا تو تفسیر القرآن انگریزی کی نمیری اور آخری جلد ۱۹۶۳ء میں چھپ گئی.جو سورہ احقاف سے سورۂ الناس تک کے مضامین پر مشتمل تھی.اس ببلد کے ساتھ تمام قرآن مجید کی انگر یزی تفسیر ختم ہو گئی ہوبڑی تقطیع کے ۲۹۷ صفحات پر پھیلی ہوئی ہے اور عجیب و غریب قرآنی معارف کا حسین و دلفریب مرقع ہے.حضرت امیر المومنین نے تمام تفسیر پر جو نہایت فاضلانہ اور محققانہ مقدمہ لکھا ہے اس کے صفحات ۲۷۶ اصل کتاب کے صفحات سے علیحدہ ہیں یعنی کل تفسیر القرآن انگریزی کے صفحات کی مجموعی تعد او ۳۱۹۳ ہے.حضرت میاں بشیر احمد صاحب کا حصہ اس مقدس کام میں بہت کافی تھا تفسیر القرآن کی پہلی جلد جو ابتدائی پندرہ پاروں پر مشتمل تھی ساری کی ساری حضرت میاں صاحب کی نگرانی میں مرتب ہوئی اور اس میں کسی نہ کسی شکل میں ان کی شرکت اور تعاونت اور امداد شامل ہی لیکن قادیان سے آنے کی پیش نہیوں اور بہت سی مختلف مصر فیتوں کے باعث ہو اس دور ابتدائی میں وقتاً فوقتاً پیش آتی رہیں حضرت میاں صاحب مجبوراً تفسیر القرآن انگریزی کے کام کی طرف اپنی پوری توجہ منعطف نہ کر سکے لیکن یہ حقیقت ہے کہ ترجمہ کی نظر ثانی کا کام آپ حضرت بیک غلام فرید صاحب کے ساتھ ملکر ان کے صلاح مشورے سے آخر تک کرتے رہے.اس کا اظہار ملک صاحب نے بھی ترجمہ القرآن کے متعلق اپنے ایک بیان میں جو نا کہاں راقم الحروت کو لکھ کر دیا صاف طور پر کیا ہے.خدا کا ہزارہ شکر و احسان اور فضل و کرم ہے کہ ہو مہتم بالشان کام حضرت مولوی شیر علی قناه
نے 1910ء میں شروع کیا تھا وہ قریباً پچاس سال کی مسلسل سعی و کوشش کے یہ حضرت ملک غلام فرید صاحب کے ہاتھوں پایہ تکمیل کو پہنچا ہے مغربی مفکرین کے تاثرات انگریزی تفسیر قرآن کے دینی اور ادبی میان نے پورپ اور امریکہ کے چوٹی کے اہل علم کو متاثر کیا ہے اور انہوں نے اس پر شاندار ریویو کئے ہیں.مثلا مسٹر اے جی آر بری نے لکھا:.قرآن شریف کا یہ نیا ترجمہ اور تفسیر ایک بہت بڑا کارنامہ ہے.موجودہ سیلد اس کا نام کی گویا پہلی منزل ہے.کوئی پندرہ سال کا عرصہ ہوا جماعت احمدیہ قادیان کے محقق علماء نے یہ عظیم الشان کام شروع کیا اور کام حضرت اقدس مرزا بشیر الدین محمود احمد کی حوصلہ انتہا قیادت میں ہوتا رہا.کام بہت بلند قسم کا تھا.یعنی یہ کہ قرآن شریف کے متن کی ایک ایسی ایڈیشن شائع کی جائے.یہیں کے ساتھ ساتھ اس کا نہایت صحیح صحیح انگریزی ترجمہ ہو اور ترجمہ کے ساتھ آیت آیت کی تفسیر ہوا پہلی جلد جو اس وقت سامنے ہے.قرآن شریف کی پہلی نو سورتوں پر مشتمل ہے.شروع میں ایک طویل دیباچہ ہے جو خود حضرت مرزا بشیر الدین نے رقم فرمایا ہے اس دنیا چہ میں حضرت اقدس نے لکھا ہے.کہ جو کچھ اس تفسیر میں بیان ہوا ہے.وہ ان معارف کی ترجمانی ہے.جو ہائی سلسلہ احمدیہ نے اپنی کتابوں اور مواعظ میں بیان فرماہے یا پھر آپ کے خلیفہ اول یا نود و حضرت ممدوح نے ہو بانی سلد کے خلیفہ ثانی ہیں بیان فرمائے.اسلئے ہم کہہ سکتے ہیں.کہ یہ ترجمہ اور یہ تفسیر جماعت احمدیہ کے فہم قرآن کی صحیح ترجمانی کرنے والی ہے.موجودہ جلد کے بعد دو جلدیں اور شائع ہو کہ یہ کام پائیں پنچ جائیگا، اگر ہم اس کام کو اسلام کے ذوق علم تحقیق کی عظیم تحقیق کی عظیم یاد گار کہکہ پیش کریں تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا.اس کی تیاری کے ہر مرحلہ پر مستند کتب تفسیر و لغت در تاریخ و غیرہ سے استفادہ کیا گیا ہے.ان کتب کی طویل فہرست پڑھنے والے کو متاثر کرتی ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے.کہ اس ترجمہ و تفسیر کے تیار کرنے والوں نے نہ صرف تمام مشہور عربی تفسیروں کو زیر مطالعہ رکھا ہے.بلکہ ان کے ساتھ ساتھ یور میں مستشرقین ن حیات قمر الانبياء صفحه ۱ تا ۱۲۳ مولفہ مولانا شیخ محمد اسمعیل صاحب پانی پہنچانا شر ما احد کی بھی رام گل نمبر را دار طبع اول م
۶۷۳ نے تنقیدی رنگ میں جو کچھ لکھا ہے.اسے بھی ما نظر رکھا ہے.اگر صرف ترجمہ پر نظر ڈالی ہے تو کہنا پڑتا ہے.کہ ترجمہ کی انگریزی غلطیوں سے پاک اور بیری پروتا ہے.تفسیر پہلے جو دیباچہ ہے.وہ ۲۷۵ بڑے سائز کے صفحات کا ہے اس کی چھپاتی باریک ٹائپ کی ہے اس میں نہیں اسلام حضرت محمدؐ کی پوری سوانح عمری درج ہے.قرآن شریف کسی طرح نازل ہوا.اور پھر کس طرح موجودہ شکل میں جمع ہوا.اس کی تاریخ دی گئی.اصولی تعلیمات قرآن کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے.غیر مسلم معترضین کے اعتراضوں کا رد بھی اس میں ہے.اور دوسرے مذاہب پر مناسب تنقید بھی غیر مسلم پڑھنے والوں کو اس کے کئی بھے کی طر فہ اور متر فضا رنگ ٹے ہوئے معلوم ہونگے.لیکن یا دور ہے یہ حصے بھی خلوص نیت سے لکھے گئے ہیں.اور نہایت توجہ سے پڑھے جانے کے لائق ہیں.ان سے پتہ لگتا ہے کہ متقی اور اہل علم سلمان جب دو کمر مذاہب کی روائتی تعلیموں پر اعتراض کرتے ہیں.تو ایسا کیوں کرتے ہیں.اس ترجمہ اور تفسیر کی پہلی ملدا ایسے وقت میں منظر عام پر آئی ہے.جبکہ جماعت احمدیہ ہندوستان میں شدید آدم مصائب کا شکار ہو رہی ہے.ان مجنونانہ مظالم کی داستان زیادہ لوگوں کو معلوم ہونی چاہئیے.ہندوستان میں اقتدار کی منتقلی کا بھیانک پہلو یہی مظالم ہیں.لیکن جس طرح جماعت احمدیہ نے ان مظالم کا مقابلہ کیا.اس سے اُس صبر اور ثبات اور شجاعت کا ثبوت فنا ہے جو اس جماعت کا شروع ہی سے طرۂ امتیاز رہا ہے دنیا بھر کے نیک خیال لوگ دل سے چاہیں گے کہ یہ شاندار ترجمہ وتفسیر جلد تکمیل کو پہنچے.علم اور تحقیق اور مہمیت کے اس شاہ کار کو کونی ہے جو قدر کی نگاہ سے نہ دیکھے گا ؟ یہ شاندار کام حضرت مرزا بشیر الدین محسود کی زیر نگرانی سرانجام پایا ہے.بین کو مسیح موعود کا دوسرا جانشین اور خلیفہ کہا جاتا ہے اسے صدر انجمن احمدیہ قادیان ہندوستان نے شائع کیا ہے.ہمارے سامنے اس کی پہلی جلد ہے دو ملدیں اور شائع ہوں گی.اس پہلی مجلد میں ۲۰۶ صفحات کا دییا چاہے.میں میں قرآن شریف کا تعارف کرایا گیا ہے.دیباچہ کے بعد 140 صفحات میں آمنے سامنے کالموں میں متن قرآن اور اس کا انگریزی ترجمہ اور تفسیری نوٹ رحل لعات اور معانی دونوں پرمشتمل درج کئے گئے ہیں.گویا ناظرین کے لئے قرآن فہمی کا بیش بہا سامان مہیا کیا گیا.
۶۷۴ لیکن پھر بھی اس میں سے اکثر عربی نہ جاننے کی وجہ سے اس سے پورا فائدہ نہ اٹھا سکیں گے.اس ئے وہ تحریک اور تنظیم جس کی ہمت سے یہ کتاب شائع ہوئی ہے ان کے لئے زیادہ کشش اور تمہیں کا موجب ہوگی.سو مختصر یہ کہ دنیا کافی ہے کہ احمدیہ تحریک کی بنیاد حضرت مرزا غلام احمد نے پنجاب میں منہ میں رکھی.احمدی عقیدہ کے مطابق مرزا صاحب موصوف نے دھوئے کیا.کہ وہ وہی مہدی میں ہیں کی آمد کی پیشگوئی نبی اکرم حضرت محمد نے کی.اور وہ وہی مسیح ہیں میں کی آمد کی خیر بائیبل میں اور اسلامی کتابوں میں لکھی ہوئی موجود ہے.خلیفہ ثانی زمین کی نگرانی میں یہ ترجمہ و تفسیر شائع ہوئی ہے.بانی احمدیت کے بیٹے ہیں.آپ خود شششاہ میں پیدا ہوئے اور اب پاکستان میں آچکے ہیں.اور پاکستان میں رہتے ہیں.آپ کو بانی احمدیت کی پیشگوئیوں میں کلمتہ اللہ کہا گیا ہے.احمدیہ جماعت کا بیان ہے کہ یورپ کا اکثر حصہ مسلمان ہو جائیگا.اور حریت احمد مسیح موعوود مہدی معہود پر ایمان لے آئیگا.دوسرے مذاہب اپنا موجودہ مقام کھو بیٹھیں گے.ان کی جگہ اسلام اور احمدیت کا دور دورہ ہو گا حضرت احملہ کے ماننے والے دنیا پر کچھا جائیں گے.اور دوسرے مذاہب کے ماننے والے کر دوری اور کسمپرسی کی حالت میں آجائیں گے.احمدیہ جماعت کے کئی مرکز قائم ہو چکے ہیں.اور قرآن شریف کا یہ شاندار ایڈیشن اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے پاس کام کرنے کے وسائل کی کمی نہیں.ڈاکٹر پاریس این بیان امریکی ڈاکٹر ایس ایس بیریان در شب تاریخ و ادب ما بیات نار تختہ ویسٹرن یونیورسٹی ایونسٹن امریکہ نے لکھا:.مو کتاب کی طباعت نہایت عمدہ ہے ٹائپ بھی اعلیٰ ہے اور سہولت سے پڑھا جا سکتا ہے.بحیثیت مجموعی انگریزی زبان کے اسلامی ٹریچر میں یہ ایک قابل قدر اضافہ ہے.جس کے لئے دنیا جماعت احمدیہ کی از محمد ممنون ہے".پر وفیسر ایسے ایسے آزردگی پر خیر ہے اے آمادگی نے لکھا.اس کے پڑھنے کے بعد میں نے اس کے ترجمہ کا مطالعہ کیا.یہ ترجمہ قرآن مجید کو انگریزی زبان کا جامہ پہنانے کی ہر سابقہ کوشش کے مقابلے میں زیادہ قابل تحسین ہے.
YLA رچرڈ بیل رچہ ڈھیل نے لکھا وہ زبان کے لحاظ سے اس کی انگریزی نقائص سے پاک ہے اور جماعت کی غلطیاں غیر معمولی طور پر کم ہیں.یہ امر ظاہر ہے کہ میں حد تک مکن ہوتا تھا قرآن کو کل طور پر پیش کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا گیا.یقین قرآنی تعلیمات کو است کے ساتھ پیش کرنے کا یہ انداز بھرت کا حامل اور ہر طرح تحسین کے قابل ہے.اگر انجمن اقوام متحدہ اسمیں بیان کردہ اصولوں پر عمل پیرا ہو سکے تو یقینا کسی حد تک وہ اپنا کھویا ہوا وقار بارڈ پر حاصل کر سکتی ہے.تغیر جامع ہے اور بہت حد تک روحانی اقدار اور ان کی احسن تقسیم کی آئینہ دار ہے اگر چہ بعض تفصیلات ایسی ہیں کہ مین کے بارے میں اختلافی بحث کا دروازہ کھل سکتا ہے تاہم اس امر کا اعتراف نہ کرنا احسان ناشناسی ہوگی کہ ایک عظیم اور قابل تحسین کوشش کا یہ پہلا ثمرہ ہے جو ہمیں (اس ترجمہ اور تفسیر کی شکل میں) میسر آیا ہے.یہ کوشش مصنفین کے حق میں بلا شبہ ایک محبت آمیز شفقت کا درجہ رکھتی ہے.قرآنی تعلیمات کو ایک ایسی شکل میں پیش کرنے کی کوشش کہ جو موجودہ زمانہ کی ضروریات کے مناسب حال ہو روحانی نے ندگی اور تبلیغی جد و جہد کی آئینہ دار ہے اور مجموعی لحاظ سے روشن خیالی اور ترقی پسندی پر دلالت کرتی ہے.ریمیں بلا شہر پرو فیسر ادبیات عربی مدرسه السنه ریمیں بلا شہر پروفیسر ادبیات عربی شرقیہ پیرس نے صدر جہ ذیل الفاظ میں اپنے تاثرات کا اظہار کیا : یہ ترجمہ جیسا کہ فرانسیسی زبان کی ایک مثال ہے.متن کا ہو بہوچہ یہ ہے “.ترجمہ کی یہ صحت جس سے قرآن کے بہم اور مشکل مقامات کو سمجھنے میں بہت مدد ملتی ہے.تعریف سے بالا ہے.اس ترجمہ کے بارے میں یہ کہنا مبالغہ نہ ہو گا کہ اس سے قبل قرآن کریم کے یورپی زبانوں میں جس قدر تراجم ہوئے ہیں وہ اس اہتمام سے عاری ہیں کہ وہ لوگ بھی جو عربی متن کے ظاہری اور بالینی مطالب سے نابلد ہوں اس سے فائدہ اٹھا سکیں.ہماری یہ خواہش ہے کہ ایسی کتاب (تفسیر ا جو یورپ میں صحیفہ اسلام کو مقبول بنانے میں تاریخی حیثیت اختیار کرے گی جلد سے جلد پایہ تکمیل کو پہنچے شامی پریس او را کا بر مشق کا خراج تحسین مشہور سی اخبار الشخص نے لکھا کہ جماعت احمدیہ نے امریکہ اور یورپ کے بڑا معمول میں ثقافت اسلامیہ کا اشاعت کا نمایاں کام کیا ہے اور یہ کام لگاتار مبلغین کی روانگی سے
ہو رہا ہے اور مختلف کتب و اشتہارات کی اشاعت سے بھی بین کے ذریعہ فضائل اسلام اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کو بیان کیا جاتا ہے.ہمیں قرآن مجید کا انگریزی میں ترجمہ دیکھ کہ بہت ہی خوشی ہوئی ہے یہ ترجمہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ کی زیر نگرانی کیا گیا ہے.ترجمہ قرآن مجید جاذب نظر اور ناظرین کے سے قرۃ العیون ہے.یہ ترجمہ بلند پایہ خیالات کا حامل ہے.کا غذ نہات محمود ہے.قرآنی آیات اریک کالم میں درج ہیں اور دوسرے کالم میں یا مقابل انکا ترجمہ کہ دیا گیا ہے.بعد ازاں مفصل تغییر کی گئی ہے مطالعہ کرنے والا ان تفاسیر جدید میں مستشرقین اور یورپین معاندین کے اعتراضات کے مفصل جوابات پاتا ہے.....یہ امر قابل ذکر ہے کہ امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے اس ترجمہ کے ساتھ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت بھی تجریہ فرمائی ہے اور یہ سیرت و ترجمہ بے نظیر ہیں میں سله الاخبار (و مشق نے مندرجہ ذیل عنوان سے خبر شائع کیا :- د جماعت احمدیہ کی طرف سے قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ اپنی مثال آپ ہے" سے ملک میں جھوٹی افواہیں اور حضرت مصلح موعود ملک کے سیاسی تغیرات کے باعث عورت نے اعلانوں اور خبروں کی اشنا سخت پر پابندی کی طرف سے اس کا تجویز فرمود گلاج عائد کر دی تھی جس سے ملک میں ہر طرف ھوٹی افواہیں پھیلنا شروع ہوگئی تھیں میں پر حضرت مصلح موعود نے ۳ورا بھرت کرسی خاتمہ کے 14 خطبہ جمعہ میں ہی حکومت کو مشورہ دیا کہ بجائے اس کے کہ گورنمنٹ اختیار دل پر خبروں کی اشاعت کے متعلق کوئی پابندیاں عائد کرے اسے چاہیئے کہ وہ ایسے موقع پر عملہ کو زیا دو بڑھا دے اور اخباروں میں جو جھوٹی خبریں شائع ہوں وہ عملہ ان چھوٹی خبروں کی تردید کرتا رہے...یا اس کا ایک طریق یہ تھا کہ گورنمنٹ خود سچی خبروں کو شائع کہ ادیتی...یا پھر تیسرا طریق یہ تھا کہ واقعات اور خبریں تو حسب سابق اخبارات میں شائع ہوتی رہیں مگر ہندو اور مسلمان اخبارات کے متصاد بیانات کی صورت نے روز نامہ النصر واستمر ار اس انار کے ایڈیڈا استناد دیے بنیادی ہیں جو امریکن بونوٹ کے اور تفصیل ہ یونیوسٹی ہیں.سے افضل و بوت لوبر ۱۳ صفحدہ سے ماخوف مضمون شیخ نور احمد انا غیر مسلم بلا و عربی) ۱۳:۲ د
میں جو بھی سچا واقعہ ہوتا گورنمنٹ اس کی تصدیق کر دیتی اور اگر دونوں کی باتیں غلط ہوتیں تو گورنٹ دونو کی تردید کر دیتی اس طریق سے یقیناً افواہیں اپنا برا اثر نہ پھیلا سکتیں.جمہوری حکومتوں کا یہ طریق ہے کہ وہ ایسی خبروں کو نہیں روکتیں بلکہ جو خبر غلط ہوتی ہے اس کی تہ دیدہ کر دیتی ہیں بعد اصل مصلحت بھی اس بات میں ہوتی ہے کہ گورنمنٹ اختبارہ والوں سے کہہ دے کہ جو مرضی ہے شائع کہ ولیکن اگر جھوٹی خبر شائع کی تو ہم تمہیں سزا دیں گے...سزا کے لئے یہ ضروری نہیں کہ چھ ماہ یا سال دو سال کی تیسر ی ہو کہ قید کی سزا دینے میں یہ نقص ہوتا ہے کہ اس طرح عمر جگتے سے ایک شخص قوم کا لیڈر اور سردار بن جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس نے قوم کی خاطر قید کائی میرے نزدیک ایسے اخبار کیلئے صرف یہی سزا کا فی ہے کہ اس کے متعلق عدالت یہ فیصلہ کرے کہ اس نے فلاں جھوٹ بولا.اور پھر اخبار والوں کو مجبور کیا جائے کہ تم اپنے اخبار میں یہ شائع کرو کہ میں نے فلاں معاملہ میں جھوٹ بولا تھا.اصل خبر یہ تھی.پس میرے نزدیک اخبار است کو پورا موقع دینا چاہئے کہ وہ خبروں کو شائع کریں.جب لوگوں کے پاس ساری تری پہنچ جائیگی تو تجھوٹی افواہیں فساد نہیں پھیلا سکیں گی یہ سے قادیان کے غیر احمدیوں اور غیرمسلموں حضرت علی موعود نے اپنے با برکت زمانہ کی حفاظت کا عہد خلافت میں ہمیشہ کوشش کی کہ قادیان میں امن قائم رہے اور دشمنوں کی اشتعال انگریوں او فتہ سامانیوں کے باوجود آپ کی یہ کوششیں ہمیشہ کامیاب رہیں اب جبکہ جلد ہی انگریز جار ہے تھے اور ملک کی باگ ڈور ملکی باشندوں کو سپر ہونے والی تھی فرقہ دارانہ تلخیوں نے پورے ملک کی فضا کو مکہ رکھ دیا تھا.ظاہر ہے کہ قادیان اور اس کا ماحول اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا حضرت امیر المومنین المصلح الموعود نے اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے ۲۳ ہجرت رمئی رات سوار کو ایک مفصل خطبہ ارشاد فرمایا جس میں واضح لفظوں میں اعلان فرمایا کہ قادیان کے غیر احمدی ، سکھ اور ہندو ہماری امانتیں ہیں ہم اپنے عزیزوں سے بڑھ کر ان کی حفاظت کریں گے.چنانچہ فرمایا " عد یہ ایک حقیقت ہے کہ قادیان کے اس کی ذمہ داری در حقیقت مجھ پر مائل ہوتی ہے کیونکہ قادیان کی ه الفضل ۲۶ اجرت /مئی ۱۳۲۶ میش 196
۵ فیصدی آبادی احمدی ہے یعنی انہوں نے میرے ہاتھ پر بیعت کی ہوئی ہے اور ان کا دعوی ہے کہ وہ ہر حکم میں میری بات کر لیے.ان حالات میں قادیان کے امن کی ذمہ داری مجھ پر ہے اور میں ایک انسان ہوں.غیب کا علم نہیں رکھتا.یہ ہو سکتا ہے کہ جماعت کا کوئی فرد کسی وقت استعمال میں آکر کوئی غلطی کر بیٹھے اور اگر کوئی شخص ایسا کرے تو یہ اس کا ذاتی فعل ہو گا جماعت اس کے اس فعل سے بیزار ہوگی.ہماری جماعت کی انتہائی کوشش میں ہوگی کہ قادیان میں کل طور پر امن رہے لیکن اگر کوئی شخص میری پہلا یاستے کے با وجود غلطی کرتا ہے تو یہ اس کی جزوی اور انفرادی غلطی ہو گی جماعت اس سے پوسی الذمہ ہوگی.ہاں چونکہ میں ان کی تعلیم دیتا ہوں یہ نہیں ہوسکتا کہ جماعت کی اکثریت فساد میں سنتا ہو جائے لیکن اس کے ساتھ ہی جو باتی پندرہ فی صدی لوگ ہیں ان کا بھی فرض ہے کہ وہ ارد گرد کے لوگوں کو سمجھائیں کہ وہ فساد نہ کریں اور اگر ان تمام باتوں کے باوجود فماذا نخواستہ باہر کے لوگ کوئی فساد کھڑا کہ میں تو اس فساد کی ذمہ داری ہم پر نہیں بلکہ دوسروں پر ہوگی.وہ شخص کسی کے منہ پر تھپڑ مارتا ہے وہ اس کا مستحق ہوتا ہے کہ اس کے منہ پر تھپڑ مارا جائے مگر ظالم کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ ایک طرت ظلم بھی کرتا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی توقع رکھتا ہے کہ میر منہ پر تھپڑ نہ مارا جائے ہم اللہ تعالٰی سے دعا تو کرتے ہیں کہ وہ ہمیں فساد سے محفوظ رکھے لیکن اگر خدا نخواستہ فساد ہو گیا تو شرعا اور اخلاقاً جماعت احمدیہ کا حق ہو گا کہ ظالم کے منہ پر اسی طرح تھپڑ مارے جیسا کہ اس نے مارا.اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض مواقع پر ہم نے امن کو قائم رکھنے کے لئے بہت زیادہ نرمی اختیار کیا ہے.احرار کی شورش کے ایام میں ہیں میں نے کہا تھا کہ اگر کوئی شخص دیکھے کہ اسکے یا پ یا بھائی کو مارا جارہا ہے تو وہ بھی چپ کر کے گزر جائے لیکن اسلامی قانون یہ تقاضا نہیں کی تا کہ ہر موقع پر تم ایک ہی طریق اختیار کرد.نہ ہی اسلامی تمدن اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہموقع پر خاموشی اختیار کی جائے بلکہ اسلام یہ کہنا ہے کہ مناسب حال جو موقع ہو دینا کہ وہ پس میرا فرض ہے کہ میں قادیان میں امن قائم رکھوں لیکن اگر دشمن کی طرف سے حملہ ہو اور جماعت اس کا متلف الجہ کرنے کا فیصلہ کرے تو اس کا ذمہ دار دشمن ہو گا نہ جماعت احمدیہ.اور اس فساد کی ذمہ داری اس پر ہوگی نہ کہ جماعت میں سول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں آنا بھی ا ظلم اصل قائم ہوں ہوتا ہے ہو شاد کی ابتداء کہتا ہے.ہیں تو ہم کوشش کر رہے ہیں کہ جہاں تک ہو سکے صلح اور امن
444 کو قائم رکھا جائے اور ہم ارد گرد کے علاقہ میں بھی یہی کوشش کر رہے ہیں اور روڈ نز دیک کے سب لوگوں کو سمجھا رہے ہیں کہ کوئی فریق ابتداء نہ کرے لیکن اس امر کو ہندو سکھے سب کو یا درکھنا چاہیئے کہ اگر فساد ہوا تو صرف ہمارے لئے نہیں ہو گا بلکہ سب کے لئے ہو گا اور سب کو ملکر این قائم رکھنے کی کوشش کرنا چاہیئے لیکن ان تمام کوششوں کے باوجود ہم وثوق کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ فساد نہیں ہوگا اور ہماری کوششیں ضرور کامیاب ہوں گی.یہ ہو سکتا ہے کہ کوئی جو شیلا فریق اشتعالی میں آلکمہ اخلاق اور روحانیت کا ظلم و استبداد کے استھان پر چڑھاوا چڑھاوے ایسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ قادیان فساد کی لپیٹ میں آجائے ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ ایسا وقت نہ آئے لیکن اگر خدانخواستہ فساد ہو جائے تو میں قادیان کے احمدی سے کہوں گا کہ بہادری اور جوانمردی کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے جان دید و اور یہ ثابت کر دو کہ اللہ تعالٰی کی راہ میں جان کی قربانی سب سے آسان قربانی ہے.ہم کسی سے لڑنے کی خواہش نہیں رکھتے اور نہ کبھی اس قسم کا بنیال سہانے سے دوں میں آنا چاہیئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں لا تتمنو القاء العدو.تم دشمن سے لڑائی کی خواہش بھی نہ کہ واپنے خیالات امن اور مسلح والے رکھو کیونکہ جس شخص کے دل میں لڑائی کے خیالات مویزن ہوں گے وہ ذراسی بات سے ہی مشتعل ہو جائیں گا اور میں شخص کے دل این صلح و آشتی کے خیالات ہوں گے وہ جلدی مشتمل نہیں ہوگا.یہ قدرت کا ایک قانون ہے کہ انسان اپنی حالت کو یکدم نہیں بدل سکتا.فرض کہ وکوئی شخص قہقہہ مار کہ نہیں رہا ہو اور اسے یہ خیر دی جائے کہ تمہارا بیٹا مر گیا ہے تو یہ ہو نہیں سکتا کہ وہ اسی وقت یکدم رونا شروع کر د سے بلکہ اس کی ہنسی تھوڑی دیر میں رُکے گی.پھر وہ کچھ دیر کے بعد افسردہ ہوگا.پھر آنسو بہانا شروع کر دے گا اسی طرح بخش تشخیص.کے دل میں صلح و آشتی کے خیالات ہوں وہ یکدم مشتعل نہیں ہو سکتا.جب دیل اپنا کانٹا بدل لیتی ہے تو وہ بھی آہستہ ہو جاتی ہے اور سست رفتار ہو کہ اُس جگہ سے گزرتی ہے.اگر وہ تیزی سے کا نشاہد سے تو اس کے الٹ جاتے کا اندیشہ ہوتا ہے.اسی طرح اللہ تعالے نے فطرت انسانی کیلئے یہ قانون بنایا ہے کہ وہ اپنی حالت کو آہستہ آہستہ بدلتی ہے.اگر فوراً حالت بدل جاتی تو مہسٹیریا یا جنون ہو جانے کا اندیشہ تھا.پس جو دماغ پہلے سے لڑائی کے خیالات میں منہمک ہوتا ہے وہ فوراً مشتعل ہو جاتا ہے.لیکن جس دماغ میں صلح اور امن کے خیالات ہوتے ہیں وہ کچھ دیر کے بعد مشتعل ہوتا ہے اور اتنی دیر میں تحرم کا جرم ثابت ہو جاتا ہے پس میں جماعت کو قیمت
کہتا ہوں کہ فساد ہی سے نہ بچو بلکہ جھگڑے والے سیارات بھی اپنے دماغ میں پیدا نہ ہونے دو.لیکن ہماری تمام کوششوں کے باوجود جو ہم صلح اور امن کے قیام کے لئے کر رہے ہیں اگر کوئی ایسا واقعہ ہو جائے جو فساد کی بنیاد رکھنے والا ہو تو یاد رکھو کہ اسلام کی یہ تعلیم ہے کہ یہ حرام اور نا جائز ہے کہ جرم کوئی کرے اور سزا کسی کو دی جائے ہماری شریعت ہمیں یہ حکم دیتی ہے کہ جہاں تم رہتے ہو گاں تم ایک دوسرے کے لئے امانت ہو.اس لحاظ سے قادیان کے ہندو سکھے اور خیر احمدی ہمارے لئے بمنزلہ امانت ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ ان کی حفاظت کریں اور ہندو سکھے اور احمدی غیر احمدیوں کے لئے بمنزلہ امانت ہیں اور ان کا فرض ہے کہ ان کی حفاظت کہ میں اسی طرح جہاں ہنڈ یا سکھ زیادہ طاقت ور ہیں ان کا فرض ہے کہ وہ مسلمانوں کی حفاظت کریں کیونکہ مسلمان ان کے پاس بطور امانت ہیں.اسلامی شریعت کے لحاظ سے ہر شریف انسان کا فرض ہے کہ وہ امانت کو دیانت داری سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرے.پس اگر خدانخواستہ قادیان خطرے میں پڑے تو میں قادیان کے ہندووں اور سکھوں کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم ان کی اپنے عزیز دل سے بڑھ کہ حفاظت کرینگے اور اپنی طاقت کے مطابق ہر ممکن ذریعہ سے محفوظ رکھنے کی کوشش کہ میں گئے ایسے مسلمانان ہند کو تدبیر کامل اوریقین کامل حضرت مصلح موعود ایک طرف جماعت احمدیہ سے کام لینے کی پرزو تلقین کو اس کی ذمہ داریوں کا احساس دلا ر ہے تھے.تو دوسری طرف دوسرے مسلمانان ہند کو نذیر میبین کی حیثیت سے بیدار کر رہے تھے چنانچہ اس کو حضور نے محبس معلم و عرفان میں مسلمان ہند کو سمجھے کہ وہ اپنی تی زندگی کے نازک ترین دور میں داخل ہو چکے ہیں.انہیں شدید خطرے کے ان ایام میں تدبیر کامل اور یقین کامل سے کام لینا چاہیئے چنانچہ حضور نے فرمایا :- ان ایام میں مسلمان ایک نہایت ہی نازک دور میں سے گزر ہے ہیں اور ان کے اندر موجودہ حالات ی نزاکت کا اتنا احساس نہیں پایا جاتا تا کہ پایا جانا چاہتے ان ایام میں ہم دیکھتے ہیں کہ اے مسلمان پنجاب اور بنگال میں اکثریت رکھتے ہیں مگر جب کبھی حقوق کا سوال اٹھتا ہے اور مین قومیں ڈیمن کے حق میں آنی کے خلاف رائے رکھتی ہیں اور انگلستان اور امریکہ وغیرہ سے بھی جو آواز اٹھتی ہے وہ عام الفقبل ٢٩ ہجرت ٢٩ مئی
طور پر سامانوں کے خلاف ہوتی ہے....اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت انگلستان کے لوگوں کے مد نظر کوئی مصلحت ہے یا حکومت کی طرف سے انہیں ایسا کرنے کیلئے کوئی اشارہ ہے....ادھر ہندستان کے اند را نگریز افسر عام طور پر ہندوؤں اور سکھوں کی تائید کرتے ہیں مسلمانوں کی نہیں کرتے جہاں تک زیادتی اور ظلم کا سوال ہے اس کا دونوں قوموں نے از تکاب کیا ہے ہم بڑے فعل کو ضرو ر بڑا کہیں گے مگر ہم ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ جہاں مسلمانوں پرعلم ہوا ہے اس کے خلاف بھی آواز اٹھنی چاہئیے...جو اٹھتا ہے وہ کہتا ہے نواکھلی کے مظالم کو دیکھو راولپنڈی اور ملتان کے مظالم کو دیکھو مگر یہ کوئی بھی نہیں کہتا کہ بیٹی ہارا گاڑی کی راحم آبا دا امر را د لاہور کے نظام کو بھی دیکھو.یہ تمام چیزیں ایسی ہیں جومسلمانوں کی آنکھ کھولنے کے لئے کافی ہیں اور وہ مسلمانوں کو اس خطرہ اور مصیبت سے آگاہ کر رہی ہیں جو اُن پر آنیوالا ہے مگر مسلمان ہیں کہ خواب خرگوش سے بیدار ہونے کا نام ہی نہیں لیتے زمانہ اُن کو جھنجھوڑ ھنجھوڑ کر یوگا رہا ہے لیکن وہ جاگنے کا نام نہیں لیتے مصائب کے سیاہ بادل امڈے پہلے آتے ہیں لیکن مسلمان اپنی آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں مخالفت کے طوفان ان کے سینے پر بار بار تباہ کر دینے والی نہریں اچھالتے ہیں لیکن وہ ابھی تک یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ یہ سب کچھ خواب ہے...وہ اپنے و عووں کی جھوٹی امید لگائے بیٹھے ہیں اور جب انہیں سمجھایا جائے کہ اس وقت مسلمانوں کو سخنت خطرہ در پیش ہے تو کہیں گے نہ نہ نہ اس بات کا نام نہ لینا ورنہ مسلمانوں کے حوصلے پست ہو جائینگے اور ان کی دیری جاتی رہے گی....میں سمجھتا ہوں کہ اگر مسلمان اپنے اندر ایک دوسرے کی ہمدردی کا جذبہ پیدا کرتے اور جہاں نہیں کسی مسلمان کو دکھ پہنچتا وہ منتوں کی صورت میں اس کے پاس پہنچتے اس کے نقصان کی تلافی کرے تے اور اس کے ساتھ اپنی ہمدردی کا اظہار کرتے تو دشمن کبھی بھی ان کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھ سکتا مگر افسوس کہ وہ اپنی اصلاح کی طرف سے بالکل غافل بیٹھے ہیں اور دعووں پر دعوے کرتے جارہے ہیں اب دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ بعض مسلمان ایسے ہیں جن پہ کلی طور پر خوف کی حالت طاری ہے اور وہ امید کے راستہ سے بھٹک چکے ہیں وہ لوگ کانگریس کے سامنے ہاتھ جوڑ رہے ہیں اس ڈر سے کہ اگر کانگریس ہم سے ناراض ہوگئی تو خدا جانے ہم پر کونسی آفت ٹوٹ پڑے گی اور کانگریس کی مخالفت سے ہمیں کیا کیا نقصانات برداشت کرنے پڑیں گے.پیس ایک طبقہ مسلمانوں کا ایسا ہے
YAY جو غلط خوف کی طرف جھکا ہوا ہے اور دوسرا طبقہ ایسا ہے جو غلط امیدیں لگائے بیٹھا ہے.حالا نکرہ مومن کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہور اسنہ تجویہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ اس پر بیک وقت خوف درجا کی حالت طاری ہے.ایک طرف اس کے دل میں دشمن کی طرف سے یہ حدت ہے کہ کب وہ اچانک اس پر حملہ کر دیتا ہے اور وہ اس کے لئے تدبیریں سوچتا نہ ہے.دوسری طرف وہ اپنی طرف سے تمام تدبیریں کر چکنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل کا منتظر ہو جائے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب مکہ سے ہجرت کی تورات کے وقت کی اور آپ دشمن کی نظروں سے بالکل چھپ کر نکلے حالانکہ آپ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے آپ کو دشمن کے منصوبوں سے بچانے کے بے شمار وعدے تھے اور آپ نے ان وعدوں کے ہوتے ہوئے بھی کہ اللہ تعالے مجھے ضرور دشمنوں سے محفوظ و متون رکھے گا.حتی الامکان دشمن کی نظروں سے بچکہ نکلنے کی کوشش کیا.یہ نہیں کہا کہ آجاؤ سکنے والو! مجھے پکڑو مگر اس کا یہ مطلب تو ہر گز نہیں ہو سکتا کہ آپ ڈرتے تھے بلکہ آپ نے صرف احتیاطی پہلو اختیار کیا تھا ورنہ آپ کی دیری کا یہ عالم تھا کہ جب آپ اپنے رفیق حضرت ابو بکر کے ساتھ غار ثور کے اند ر تھے تو دشمن میں نمار کے منہ پر پہنچ گیا اور اس کے ساتھ کھوجی بھی تھے جو پاؤں کے نشانوں کا کھوج لگاتے وہاں تک پہنچے تھے مگر اللہ تعالے کی حکمت کے ماتحت جب آپ غار کے اندر داخل ہو گئے تو ایک لکڑ جاتے غار کے منہ پر جھٹ حالا تن دیا.دشمنوں نے یہ دیکھ کہ کہ فار کے منہ پہ تو لکڑی کا جانا ہے اس میں سے کسی آدمی کے گزرنے کا اسکان نہیں ہو سکتا یہ خیالی کہ لیا کہ آپ کسی اور طرف چلے گئے ہیں حالانکہ مکڑی دو یا چار منٹ کے اندر نہایت نیز کی کے ساتھ اپنا جالا تیار کر لیتی ہے اور میں نے خود مکڑی کو حالا تے دیکھا ہے لگہ چونکہ خدا ہے پردہ ڈالنا چاہتا تھا اس لئے دشمن کی سمجھ میں ہی یہ بات نہ آسکی اور انہوں نے کہ دیا کہ یا توده غار کے اندر میں یا آسمان پر چلے گئے ہیں کیونکہ پاؤں کے نشانات فار تک پہنچکر ختم ہو جاتے تھے اس وقت جبکہ دشمن یہ کہ رہے تھے کہ یا تو مجھ نسلی الہ علیہ آلہ ستم اور اس کا تھی غار کے اندر ہیں یا آسمان پر چلے گئے ہیں.حضرت ابو بکر یہ اندر ان کی باتیں سن رہے تھے.ان کے چہرے کا رنگ فق ہو گیا اور آہستہ سے آپ کی خدمت میں عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اوشن تو سر پا پہنچا ہے.اس واقعہ کو قرآن کریم نے بھی بیان کیا.آپ نے فرمایا لا تحزن ان الله عنا
ابو بکر نڈرتے کیوں ہو اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے میں ایک طرف تو آپ نے اتنی احتیاط کی کہ آپ کے مکہ سے چھپ کر نکلے اور دوسری طرف آپ کی امید کا یہ عالم تھا کہ باوجود اس کے کہ دشمن ہتھیاروں سے مسلح تھا اور اگر وہ ذرا بھی جھک کر غار کے اندر دیکھتے تو وہ آپ کو دیکھ سکتے تھے کیونکہ غار ثور کا منہ بڑھا چوڑا ہے اور دو تین گنہ کے قریب ہے.آپ نہایت دلیری اور حوصلہ کے ساتھے فرماتے ہیں ابوبکر اور تے کیوں ہو اِنَّ الله معنا جب خدا تعالٰی ہمارے ساتھ ہے تو نہیں کس بات کا ڈر ہے.ادھر حضرت ابو بکر نہ کے اخلاص کی یہ حالت تھی کہ انہوں نے عرض کیا کہ یار سول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم میں پنے لیے تو نہیں ڈر رہا میں تو اس لئے ڈر رہا ہوں کہ اگر آپ خدانخواستہ مارے گئے تو خدا تعالیٰ کا دین نیاہ ہو جائے گا.نیز فرمایا ” پس آپ کو ایک طرف تو خدا تعالٰی کے وعدوں پر پورا اور کامل یقین تھا اور دوسری طرف یہ سمجھتے ہوئے کہ اللہ تعالٰی غنی بھی ہے.آپ کو خوف بھی تھا مگر اس وقت ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کی یہ حالت ہے کہ وہ احتیاط کی طرف سے کلی طور پر پہلو تہی کرتے ہوئے صرف امیدیں لگائے بیٹے ہیں.محمد رسول اللہ مسلے اللہ علیہ السلام تو فرماتے ہیں سوسن کو امید کی بھی اور احتیاط کی بھی سخت ضرورت ہے مگر مسلمان کہتے ہیں دیکھا جائیگا آجکل کے مسلمان دونوں حدود کے سر پہ پہنچے ہوئے ہیں حالانکہ اصل طریق جو ان کو اختیار کرنا چاہیئے ہ یہ ہے کہ خوف اور امید کی درمیانی راہ تلاش کریں اور خدا تعالے کے بنائے ہوئے راستوں اور محمد رسول اللہ لی الہ علیہ وسلم کی بنائی ہوئی چیزوں پر عمل کریں.ایک طرف انہیں انتہا درجہ کی تنظیم کرنی چاہیئے ور دوسری طرف خدا تعالے پر کامل یقین رکھنا چاہیئے کہیے تمام احمدی بالغ مردوں اور عورتوں کو حضرت مصلح موعود نے سوا انسان پر جون ما با قاعدہ تہجد پڑھنے کی تحریک کے خطبہ جمعہ میں احباب جماعت کو ملک کی تشویشنا کی صورت حال کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا : آجکل ہمار سے ملک پر ابتداء کے بعد ابتلا آرہا ہے ہر آنے والا معاملہ پہلے کی نسبت زیادہ سنگین اور شدید صورت اختیار کرتا جارہا ہے.اسوقت تقسیم ملک کا سوال در پیش ہے اور اس کے متعلق جس جس رنگ میں تجویزیں پیش ہو رہی ہیں.اُن کو دیکھتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ ہمارا ملک کہیں ایسی شکل نہ اختیار کر جائے جیسا کہ ہزار پائے کے پاؤں ہوتے ہیں.اگر خدا نخواستہ ملک کے چھوٹے چھوٹے حصے کر دئیے گئے تو کوئی صعصعہ بھی آزادی کے الفضل از احسان / جون ۱۳۵۲۹
ساتھ ترقی نہیں کر سکے گا.اگر یہی جوش و خروش رہا تو ملک کا چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم ہو جانا کوئی بعید از قیاس بات نہیں.در حقیقت یہ تقسیم ایسے رنگ میں ہونی چاہیئے کہ ملک کے باشندوں کے لئے آرام دہ اور نفع مند ثابت ہو لیکن جیسا کہ میں نے اس سے قبل کئی دفعہ بنایا ہے ان باتومیں سہارا کوئی فصل نہیں کیونکہ ہم تو ایک اقلیت ہیں اور فیصلہ اکثریت نے کرنا ہے..ہم جو بات سیاسی مشورہ کے طور پر بیان کرتے ہیں وہ محض لوگوں کی بہتری اور بہبودی کے لئے بیان کرتے ہیں ورنہ سیاسی طور پر ہم اسے جار ہی نہیں کر سکتے.کیونکہ اگر بہار کی جماعت سیاسی کاموں میں لگ جائے تو دین کا مانہ خالی رہ جائے اور مذہب کا پہلو کزور ہو جائے کے ازانی بعد حضور نے احمدی بالغ مردوں اور عورتوں کو با قاعدہ تہجد پڑھنے اور دعائیں کرنے کی خصوصی تحریک کی چنانچہ فرمایا :- ان حالات میں ہمارے لئے صرف ایک ہی صورت رہ جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے دوارات دعائیں کریں جیسا کہ آج تک ہموار کا جماعت ایسے نازک موقعوں پر ہمیشہ دعائیں کرتی رہی ہے اور اکثر اوقات اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کی دعاؤں کو قبول فرمایا ہے یہ موقع بھی نہایت نازک مواقع میں سے ہے اس لئے تمام ست کو مستزام کے ساتھ یہ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تو ہے ہمارے ملک کو ان نا قابل برداشت فتنوں سے بچائے عام طور پر ہمارے ملک کے لوگ مخرا فیبہ سے نا واقف ہیں اور اس وجہ سے وہ ایسی باتوں کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے اب بھی جو صورت حارات پیدا ہونے والی ہے آپ لوگ اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے.کیونکہ آپ لوگوں کی آنکھوں کے سامنے نقشے نہیں لیکن میری آنکھوں کے سامنے سب نقشے ہیں اور میں دیکھ رہا ہوں کہ کس میدان میں لڑائی لڑی جارہی ہے اگر اس قسم کے خطرناک اقدام کئے گئے تو اس سے دونوں فریق ہی نقصان اٹھا ئیں گے.میں سمجھنا ہوں کہ ملک کے بٹوارے سے زیادہ مصیبت ان حد بندیوں کی وجہ سے پیدا ہو گی اور ملک کی آزادی پہلی غلامی سے بھی بدتر ہو گی...حکومتوں کیا تبدیلی عوام الناس پر اتنی اللہ اندازہ نہیں ہوتی جتنی کہ سرحدوں کی تبدیلی ان پر اثرانداز ہوتی ہے اس قسم کے بٹوارے کی مثال ایسی ہی ہے کہ جیسا کہ دو ہاتھوں کی انگلیوں کو پیچھی پیوست کر دیا جائے.پس ان تمام حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہماری جماعت کو خصوصیت کے ساتھی میں کرنی چاہئیں بلکہ تمام بالغ مرد اور عور توں کو تہجد کیلئے اٹھنا چاہیئے اور اگر زیادہ نہیں تو دو نفل ہی پڑھ لینے چاہئیں اور جومرد اور عورتیں اس پہلے تہجد نہیں پڑھتے انہیں با قاعدگی کے ساتھ تہجد پڑھنی شروع کر دینی چاہئیے اور نہ مہینوں تضرع اور عا بندی کے ساتھ اللہ تعالٰی سے یہ دعا کرنی چاہیئے کہ اللہ تعالٰی اپنے فضل سے ان مشکلات کا حل پیدا کرے اور یہ مصیبیت ہمارے ملک کے لئے باعث رحمت بن جائے ہے الفضل ۱۲ را حال مل۱۳۹۲ )
۷۸۵ فصل ششم چار ممتاز اور مشہور بزرگوں کی المناک بعلت اس سال (تقسیم ہند سے قبل، جماعت احمدیہ کو یکے بعد دیگرے چار ایسے ممتانہ اور مشہور بزرگوں کی مفارقت کے پے در پے صدمات سہنے پڑے جن کی پوری زندگی اسلام اور احمدیت کی بے لوث خدمت میں گذری اور جن کا وجود سلسلہ احمدیہ کے لئے آیہ رحمت تھا.ان بزرگوں کے نام یہ ہیں :- ا حضرت سیٹھ محمد غوث صاحب حیدر آبادی دونات در تبلیغ فروری پیش بر قریبا سال حضرت بابا عبد الرحمن صاحب امیر جماعت احمدیہ انبالہ ( وفات ارامان / مارچ ریش حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب (وفات ۱۳ احسان جون ارایش ت الرمیری حضر ڈاکٹر یہ محمد اسمعیل صاحب (وفات ۸ در وفا جولائی میش ان بزرگوں کے مختصر سو ارنج ذیل میں درج کئے جاتے ہیں :.حضرت یا محمدعوت صلا حیدر آبادی or حضرت سیٹھ صاحب ایک تجارت پیشہ خاندان میں پیدا ہوئے پ حضرت سیٹھ شیخ حسن صاحب احمدی (صحابی) یاد گیر کے پیچازاد بھائی تھے اور انہی کی تحریک تبلیغ سے خلافت اولی میں احمدیت سے منسلک ہوئے.حضرت سیٹھ صاحب نے بیعت کے بعد جس احساس و اضطراب کو اپنے اندر پایا وہ حضرت مسیح موعود کے عصر سعادت کو پانے کے باوجود اس کی برکات سے محروم رہ جانے کا کرب تھا.یہ احساس انہیں ہر وقت بی قرار رکھتا.یہی عاشقانہ جذبہ ان کو صحابہ سیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ملاقات کرتے وقت بیتاب کر دیتا.اور جیسا کہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے ان کے مفصل سوانح میں لکھا ہے اس خصوص میں ان کی حالت حضرت منشی اروڑ سے خاں صاحب رضی اللہ عنہ سے ملتی ہے جو بعد وصال میچ کو سونے کے سکے نذر پیش ور له الفضل" شہادت اپریل س ش صفحه به له الفضل یکم شہادت اپریل میں محرم کا لم ۳-۴ ہے تو " ۱۴ احسان / چون ۵ صفحه A సా # ۹ار وفا جولائی " صفرا
۶۸۶ کرنے کے لئے آئے اور بیتاب ہو گئے لیے حضرت سیٹھ صاحب نے اپنے ایمان کی ترقی اور اس متاع گم گشتہ کو پانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اہلبیت خصوصاً حضرت مصلح موعود سے محبت و اخلاص اور فدائیت و شیدائیت میں یہانتک ترقی کی اور اپنے مخلصانہ تعلق کو اس قدر بڑھایا کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی المصلح الموعود اور دوسرے افراد خاندان مسیح محمدی علیہ السلام نے انہیں اپنے خاندان ہی کا فرد سمجھا اور بارہا اپنی تقریروں اور مختلف تقریبوں میں اس کا اظہار بھی فرمایا.حضرت مصلح موعود نے کم شہادت / اپریل پر ہی کو نماز جمعہ کے بعد آپ کا جنازہ غائب پڑھایا اور خطبہ ثانیہ میں آپ کی نسبت فرمایا :- ۶۱۹۴ محضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں میری ان سے واقفیت ہوئی اور میں جب حج کے لئے گیا تو میں نے ان کو بھیٹی میں دیکھا کہ اس وقت انہوں نے ایسے اخلاص اور محبت کا ثبوت دیا کہ اس وقت سے اُن کے تعلقات میرے ساتھ خانہ واحد کے تعلقات ہو گئے میں اپنے سامان کی تیاری کے لئے جہاں جاتا وہ سائے کی طرح میرے ساتھ لگے رہتے اور جہاز تک انہوں نے میرا ساتھ نہیں چھوڑا.اُن کا اخلاص اتنا گہرا تھا.کہ عبدالحي صاحب عربے زمین کو میں اپنے ساتھ بطور سا تھی لے گیا تھا، ایک دفعہ پانی پینے کے لئے ایک خوبصورت گلاس نکالا.میں نے اُن سے پوچھا کہ یہ پہلے تو آپ کے پاس نہیں تھا اب آپ نے کہاں سے لیا ہے.تو انہوں نے مجھے بتایا کہ مجھے سیٹھ صاحب نے لے کر دیا تھا کہ سب اس میں پانی پیو گے تو میں یاد آجاؤں گا اس وقت ان کو میرے لئے دعا کے لئے یاد کرا دینا.دوسری دفعہ جب میں بمبئی گیا تو سیٹھ صاحب پھر حیدر آباد سے بیٹی پہنچ گئے حالانکہ حیدر آباد سے بیٹی یارہ چودہ گھنٹے کا راستہ ہے لیکن پتہ چلتے ہی فوراً وہاں پہنچ گئے اور آخر دن تک ساتھ رہے بلکہ مجھے اُن کا ایک لطیفہ اب تک یاد ہے.وہ ایسے ساتھ ہو لئے کہ ان کا ساتھ دینا گراں گزرنے لگا.اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم جہاں بجاتے کھانے کا وقت آتا وہ اسی جگہ کسی اچھے سے ہوٹل میں تمام قافلہ له الفضل دار شہادت اپریل و هر وفا جولائی در پیش مضمون حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی) * که ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد ہشتم صفحه ۶۱۹ و تاریخ احمدیت جلد نهم صفحه ۲۴۲ به
YAL کے لئے کھانے کا انتظام کر دیتے اور کھانا کھانے پر مجبور کرتے.آخر میرے دل میں خیال آیا کہ اب تو حد سے زیادہ مہمان نوازی ہو گئی ہے.ایک دن میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ آپ لوگ سیٹھ صاحب کو کیوں ساتھ لے لیتے ہیں.وہ جہاں بھاتے ہیں وہیں کھانے کا انتظام کر دیتے ہیں اور اب تو مہمان نوازی بہت لمبی ہو چکی ہے.چنانچہ یہ طے ہوا کہ آج وقت سے دو گھنٹے پہلے ہی یہاں سے نکل جائیں تا کہ جب سیٹھ صاحب آئیں تو ان کو ہمارے متعلق علم نہ ہو سکے.ہم لوگ موٹروں میں بیٹھ کر دو گھنٹے پہلے ہی گھر سے روانہ ہو گئے.کچھ دور جا کر پھر ہم ریل میں سوار ہوئے.جب ریل اس سٹیشن پر جا کر کھڑی ہوئی جہاں ہم نے اترنا تھا تو ہم نے دیکھا کہ سیٹھ صنا بھی وہاں کھڑے ہیں.جب ہم اُتر سے تو انہوں نے آتے ہی السلام علیکم کہا اور کہا چلئے کھانا تیار ہے.ہم حیران ہوئے کہ ان کو ہمارے پروگرام کا کس طرح علم ہو گیا.اس کے بعد مجھے جب بھی بھی بھانے کا اتفاق ہوا سیٹھ صاحب بھی بمبئی پہنچ جاتے اور قیام کے دوران میں میرے ساتھ رہتے.اس عرصہ میں ان کی بیویوں کے میری بیویوں سے اور ان کی بچیوں کے میری بچیوں سے اور میرے بچوں کے اُن کے بچوں سے تعلقات ہو گئے اور آہستہ آہستہ یہ تعلقات ایک گھر کی مانند ہو گئے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُن کے بچوں اور بچیوں میں بھی بہت اخلاص ہے.اور اللہ تعالے اُن کو سلسلہ کی خدمت کرنے کی توفیق دے رہا ہے.ان کے بڑے لڑکے معم عظام صاحب سکرٹری مال ہیں اور جماعت کے معیار کو بلند کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں.دوسرے بیٹے معین الدین صاحب ہیں.وہ حیدرآباد میں خدام الاحمدیہ کے قائد ہیں اور تعمیرا بچہ ابھی چھوٹا ہے اور تعلیم حاصل کر رہا ہے اور ان کی لڑکیوں کے میری بیوی امتہ الجی مرحومہ سے بھی بہت تحقیق تھے پہلے مله " الفضل" بجرت /مئی ۳۳۶ یه مش صفحه ۹۲ 71904 نے حضرت سيدنا المصلح الموعود نے آپ کے بارے میں ۱۰ تبلیغ فروری یہ مہیش کے خطبہ جمعہ میں یہ واقعہ بھی بیان بارے سات ہے جمعہمیں فرمایا تھا: ایک جلسہ پر میں نماز پڑھانے لگا.عموماً لوگوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ نماز میں میرے ساتھ کھڑے ہوں سیٹھ غلام غوث ( محمد غوث ) مرحوم جو حیدر آباد دکن کے رہنے والے تھے نہایت مخلص احمدی تھے.ان کے بیٹے سیٹھ محمد اعظم صاحب بھی نہایت مخلص نوجوان ہیں اور جماعت حیدر آباد دکن کے سکری مال ہیں سارا خاندان ہی مخلص ہے.ان کا وطن قادیان سے ضرور بارہ سومیل فاصلہ پر ہے.وہ جب جلیہ پر آتے تو نماز میں میرے ساتھ کھڑے ہوتے تاکہ انہیں دعائیں کرنے کا زیادہ موقعہ مل سکے.اس جلسہ پر کے ریقیه باشید اگلے صفحے پیہ)
YAA حضر بابو عبد الرحمن صا اغير جما احمد ان اما الام الحمد النبه حضرت با لبو عبد الرحمن صاحب انبالوی اپنی سوانخ اور قبول احمدیت کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں.مجھ کو میرے والد مرحوم مغفور سے معلوم ہوا کہ انداز یہ عاجز شائر میں پیدا ہوا یعنی غدیر دھلی اد سے نو سال بعد...حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام جب انبالہ چھاؤنی تشریف لائے تھے تو والد صاحب مرحوم بھی حضور کی زیارت کو گئے تھے.اس وقت حضرت صاحب نے دعویٰ نہیں کیا تھا.مجھے یاد ہے کہ والد صاحب نے آکر فرمایا کہ مرزا صاحب اہل حدیث کے بڑے جید عالم حضرت امیر المومنین الصلح الموعود نے حضرت بابو صاحب کا جنازہ غائب بھی ہر ماہ شہادت اپریل کو نماز جمعہ کے بعد پڑھایا اور خطبہ ثانیہ میں سب سے اول آپ کا ذکر خیر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :- بابو عبد الرحمن صاحب حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے پرانے صحابی تھے اور نہایت نیک اور مخلص انسان تھے منشی رستم علی صاحب کی تبلیغ سے آپ احمدی ہوئے اور پھر اس کے بعد تمام عمر جماعت کی تربیت میں مصروف رہے.ان کی زندگی نیکی اور تقویٰ کی ایک مثال تھی.ایسے لوگوں کا گذر جانا قوم کے لئے ابتلاء کا موجب ہوتا ہے اور آنے والی نسلوں کا فرض ہوتا ہے کہ ان کی یاد کو اپنے دلوں میں تازہ رکھیں اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کریں اور ان کے روحانی وجود کو دنیا میں قائم رکھیں حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ سید درشاه غضنفر احمدیت حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب صاحب جنہیں حضرت مسیح موعود نے اعجاز احمدی میں " غضنفر" (شیر) کے لقب سے ملقب فرمایا حضرت سید عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کی کی اولاد میں سے تھے.اس خاندان کی شاخیں خانیار (کشمیر)، داتہ سمجی کوٹ ، پیرکوٹ ، پشاور ، مظفر آباد، بقیه حاشیه صفحه گذشتہ) موقعہ پر بھی وہ میرے ساتھ کھڑے تھے کہ گجرات کے ایک احمدی آگے بڑھے اور انہیں پیچھے دھکیل کر کہنے لگے کہ آپ لوگوں کو تویہ موقع روز ملتا ہے.ہم لوگ دور سے آتے ہیں ہمیں بھی حضور کے ساتھ کھڑا ہونے کا موقع دیں.اب گجرات قادیان سے ۸۰۰۷۰ میل پر واقعہ ہے اور حیدر آباد دکن اور قادیان کے درمیان ہزارہ بارہ سو میل کا فاصلہ ہے لیکن انہوں نے بغیر تحقیقات کے اسے اپنا حق سمجھ لیا " ر الفضل " ۲۹ شہادت / اپریل الفضل ۲ ہجرت اسی ۳ ریش صفحه ۲ : القيها المتصل دور يتوعد اوری ۶۱۹۶۱ )
حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار مبارک پر دعا کر رہے ہیں (آپ کے ساتھ چوہدری محمد طفیل صاحب کھرڑیانوالہ ضلع لائل پور ) حضرت مولانا صاحب مسجد اقصی قادیان میں درس دے رہے ہیں.پیچھے حضرت مرز اعلام مرتضی صاحب کی قبر ہے)
4^4 جہانگیر آباد (دکن) ، گھنڈی ، نورسیری ، کٹھائی.لباسی ، سند گراں ، بوٹی ، دہنی ، انبور اور سیالکوٹ میں کھیلی ہوئی ہیں.اس خاندان کے ایک درخشندہ گوہر اورمشہور بزرگ حضرت سید شاہ محمد غوث صاحب کا مزا لاہور میں ہے.حضرت مولانا محمد سرور شاہ صاحب کسی اور کے لگ بھگ موضع کھنڈی ضلع مظفر آباد میں پیدا ہوئے اعلیٰ ینی تعلیم ہندوستان کی مشہور درسگاہ دیوبند سے حاصل کی.دوم مدرس مولوی خلیل الرحمن انبیٹھوی نے آپکے سند دی جس میں مولوی محمود حسن صاحب اول مدرس نے تحریر کیا تھا کہ میں نئیس سال سے اس مدرسہ میں پڑھاتا رہا ہوں.اس عرصہ میں تین بے مثل طالب علم میرے پاس آئے ہیں.ایک مولوی محمد نیگائی کہ اسے اعتراض پیدا کرنے میں بہت کمال حاصل تھا جس بات کے متعلق ہمارے رہم میں بھی یہ بات نہ آتی ہو کہ اس پر کوئی اعتراض ہو سکتا ہے اس میں بھی وہ کوئی اعتراض پیدا کر لیتے تھے.دوسرے پنجابی مولوی کہ شکل اور پیچیدہ عبارت کو بھی بہت صحیح طور پر مل کر لیتے تھے اور تیرے سرور شاہ صاحب کہ ان کا زمین کبھی غلط بات کی طرف جاتا ہی نہیں بھونئی بات کہتے ہیں وہ نہایت معقول ہوتی ہے.لیکن حضرت مولوی صاحب نے یہ سند واپس کر دی اور کہا کہ آپ یہ دعا کریں کہ جو سند اللہ تعالیٰ نے مجھے دی ہے وہ سند قائم رہے اور زبان پکڑ کر بتایا کہ یہ میری سند ہے.ایبٹ آباد میں ایک دوست با بو غلام محی الدین احمدی تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں واقی پاگئے تھے.حضرت مولوی صاحب نے ان سے بیعت پہ آمادگی کا اظہار کیا.انہوں نے مشورہ دیا کہ سردست آپ بیعت نہ کریں.اس علاقہ کے لوگ مہنوز احمدیت سے بکی نا آشنا ہیں اور اگر آپ نے بیعت کر لی تو یہ لوگ آپ سے فائدہ نہیں اُٹھا سکیں گے بلکہ مخالفت پر آمادہ ہو جائیں گے لیکن اگر آپ اسی حالت پر رہ کر انہیں سمجھاتے رہیں گے تو جب آپ بیعت کریں گے.سب نہیں تو اکثر آپ کے ساتھ شامل ہو جائیں گے مگر حضرت مولانا صاحب کی طبیعت اسے پسند نہ کرتی تھی اور تاثیر بر داشت سے باہر تھی.آخر آپ نے مناسب سمجھا کہ متضور سے مشورہ لے کر اس پر عمل کریں بچنا نچہ آپ نے لکھا کہ یہ امر یقینی ہے کہ میرے اصلان احمدیت پر یہ لوگ میرے مخالفت ہو جائیں گے اور اس ملازمت سے برخاست کر دیں گے.برخاستگی مجھے ناپسند ہے نہیں چاہتاہوں کہ پہلے استعفیٰ دوں اور پھر اعلان کروں.احمدی احباب مجھے مشورہ دیتے ہیں دو تین ماہ تک اسی لیست میں رہوں اور اس کے بعد بیعت کروں لیکن میں چاہتا ہوں کہ حق اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کھول دیا ہے اور میں بعیت کرلوں.آپ کو حضرت مولوی عبدالکریم رضی اللہ عنہ کے قلم سے حضور علیہ السلام کا جواب ملا کہ احمدی احباب کا مذکورہ مشورہ صحیح نہیں کیونکہ اپنے نفس کا حق اپنے اوپر دوسروں سے زیادہ ہوتا ہے اس لئے اپنی اصلاح کے اصحاب احمد جلد پنجم حصہ دوهم صت
دوسروں کی اصلاح سے مقدم ہو تی ہے.پس آپ فوراً بیعت کا اعلان کر دیں اور استعفی کے متعلق خیال صحیح نہیں.شریعت کا حکم ہے الاقامة فيما اقام الله- اور اگر کوئی اس کے خلاف کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے گزارہ کو خود چھوڑتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو میں نے دیا تھا وہ تم نے چھوڑ دیا اب تم خود اپنے لئے کچھ کرو اور انسان ابتلاء میں پڑ جاتا ہے.لیکن اگر خدا خود چھڑا دیتا ہے تو پھر وہ خود کفیل ہوتا اور اس کے لئے کوئی صورت نکال دیتا ہے.پس آپ استعفیٰ مت دیں اور جب وہ نکال دیں گے تو اللہ تعالیٰ کوئی اور انتظام کر دیگا.چنانچہ ظہر کی نماز پڑھا کر آپ صنفی طریق پر ہاتھ اُٹھا کر دعا اللهُم اَنتَ السّلامُ الخ پڑھ رہے تھے کہ کسی نے حضور کا مذکورہ خط آپ کے ہاتھ پر رکھ دیا.پہلا لفظ یہ تھا کہ آپ فوراً بعیت کا اعلان کر دیں.آپ نے اتنا پڑھ کر اگلا حصہ پڑھے بغیر کھڑے ہو کر یہ اعلان کر دیا کہ میری بیعت کی قبولیت کا خط قادیان سے آگیا ہے اور آنچ سے نہیں احمدی ہو گیا ہوں.اور میں یہ مجھتا ہوں کہ تم لوگوں نے میری امامت میں جتنی نمازیں پڑھی ہیں اُن میں سے زیادہ قابل قدر اور لائق قبولیت وہ ہیں جو میرے احمدی ہونے کے بعد آپ نے میرے پیچھے پڑھی ہیں لیکن اگر تعصب کی وجہ سے کسی کو نماز دوہرانے کا شوق ہو تو وہ اپنی نماز دہرا سکتا ہے.آپ کے اعلان بیعت کے بعد ایبٹ آباد بلکہ علاقہ بھر میں شور پڑ گیا.یہ از مارچ ششماہ سے قبل کا واقعہ ہے ایبٹ آباد میں آپ جامع مسجد کے مدرسہ میں پڑھاتے تھے اور پچیس روپے اور کھانا معاوضہ ملتا تھا.لیکن جب آپ پشاور میں آگئے تومن کالج سے ایک سو روپیہ اور پادری ڈے سے انٹی روپے ماہوار یعنی گل ایک سو اسی روپے ملتے تھے.اس کے بعد آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اجازت سے اپریل یا مٹی نشانہ میں مستقل طور پر قادیان ہجرت کر کے آگئے اور نہایت قلیل گذارہ پر قانع ہو کر نہایت درجه خلوص ، فدائیت کے ساتھ سلسلہ کی اہم معلمی خدمات بجالانے لگے.اللہ تعالیٰ نے آپ کے خلوص میں بے انداز برکت ڈالی اور آپ کو مسلسل چھیالیس سال تک نہایت جلیل القدر اور بے شمار خدمات سرانجام دینے کی توفیق عطا ہوئی مثلاً سید نا حضرت مسیح موعود کے عہد مبارک میں آپنے مدرسہ تعلیم الاسلام میں تدریس کے فرائض انجام دیئے اور موضع گرد میں مولوی ثناء اللہ صاحب سے کامیاب مناظرہ کیا.قائمقام نائب ناظم بہشتی مقبرہ، رسالہ تعلیم الاسلام اور رسالہ تفسیر القرآن کی ادارت میں مصروف عمل ہوئے خلافت اولیٰ میں مدرس و پر و فیسر کے فرائض کے علاوہ تبلیغ احمدیت کی.ہندوستان کی مختلف اسلامی
441 درسگاہوں کا معائنہ و مطالعہ کیا.امام الصلوۃ و خطیب جمعہ کی حیثیت سے کام کیا.مجلس برائے نصاب مدرسہ احمدیہ کے رکن منتخب ہوئے.رسالہ تفسیر القرآن کے بدستور مدیہ رہے.خلافت ثانیہ میں رکن مجلس معتمدین و افسر مدرسہ احمدیہ ، پروفیسر اعلی، سیکرٹری بہشتی مقبره ، جنرل سکرنڈی ، ناظر تعلیم و تربیت ، سکریٹری مجلس منتظم جلسه سالانه ، ناظم جلسہ اندرون شہر ، افسر بیت المال، رکن شوری ، ۱۹۳۲ء کی انتظامیہ کمیٹی کے نمبر، افسر مساجد مرکز یہ مفتی سلسلہ، پرنسپل جامعہ احمدیہ اور پرنسپل جامعتہ الواقفین.غرض کہ متعدد شعبوں کے انچارج کی حیثیت سے مثالی کام کیا اور ہر شعبہ کو اپنے ایثار خلوص، محنت اور دعاؤں سے نمایاں ترقی دی اور آنے والی نسلوں کے لئے خدمت دین کا ایسا فقب المثال شاندار نمونہ قائم کیا جو رہتی دنیا تک مشعل راہ کی حیثیت سے یادگار رہے گا چنانچہ حضرت امیر المومنین سیدنا المصلح الموعود نے حضرت مولانا صاحب کے وصال کے تیرے روز از احسان جون در میش کو ایک منفصل خطبہ دیا جس میں آپ کے شہری کارناموں پر نہایت شرح وبسط سے روشنی ڈالی اور فرمایا :- اس زمانہ میں ہماری جماعت میں کوئی اچھے پایہ کا فلسفی اور منطقی دماغ رکھنے والا آدمی نہ تھا ہو اللہ تعالیٰ نے مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کو ہدایت دے دی اور وہ آپ پر ایمان لے آئے اس کے بعد آپ پشاور میں پروفیسر مقرر ہوئے.لیکن کچھ عرصہ کے بعد قادیان کی محبت نے غلبہ کیا.اور آپ قادیان تشریف لے آئے اور دستی بیعت کی بحضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مولوی صاب سے فرمایا.آپ نہیں رہ جائیں چنانچہ آپ نہیں رہنے لگ گئے.بعض لوگوں نے زور دیا کہ مولوی صاحب کا لج میں پروفیسر ہیں اور اچھی جگہ کام کر رہے ہیں ان کی ملازمت سے سلسلہ کو فائدہ ہوگا اور ان کے ذریعہ تبلیغ ہوگی بچنا نچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کو واپس جانے کی اعجاز دے دی.لیکن کچھ عرصہ کے بعد مولوی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ اسلام سے اجازت لے کو واپس آگئے اور قادیان میں مستقل رہائش اختیار کر لی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں مولوی صاحب کا مذ کا مباحثہ مشہور چیز ہے.اس زمانہ میں مولوی صاحب مدرسہ احمدیہ میں پڑھایا کرتے تھے.آپ نے کالج کی پروفیسری چھوڑ کر سکول کی مدرسی اختیار کی.اس وقت آپ کو پندرہ میں روپیہ ماہوار تنخواہ ملتی تھی.میں بھی اُن رتوں سکول میں پڑھتا تھا اور کچھ عرصہ میں نے بھی مولوی صاحب سے تعلیم حاصل کی ہے.....
۶۹۳.جب مدرسہ احمدیہ کالج کی شکل اختیار کرگیا تو آپ کو اس کا پرنسپل مقرر کیا گیا.یہ حالت ان کی قابلیت کے معیار کے کسی حد تک مطابق تھی.ظاہری لحاظ سے مدرسی تعلیم میں مولوی صاحب سب سے زیادہ ماہر فن تھے.میں نے کئی دفعہ دیکھا کہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ درسی کتب کے بعض مشکل مقامات کے متعلق مولوی سید سرور شاہ صاحب سے فرماتے کہ آپ اس کا مطالعہ کر کے پڑھائیں مجھے اس کی مشق نہیں بچنانچہ مولوی صاحب وہ مشکل مقامات طالب علموں کو پڑھاتے.مجھے یاد ہے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے سیبویہ کتاب کے متعلق بھی مولوی مصلحب کو فرمایا کہ اس کے بعض مقامات مجھ پر بھل نہیں ہوئے.اس لئے آپ یہ کتاب طالب علموں کو پڑھائیں ایسی ایک دو اور کتابوں کے متعلق بھی حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ مولوی صاحب آپ یہ طالب علموں کو پڑھا دیں.اور جب مولوی صاحب طالب علموں کو پڑھاتے تو حضرت خلیفہ اول ہ بھی شنا کرتے فرض مولوی صاحب نے مدرسی تعلیم کو کمال تک پہنچا دیا تھا اور قدرتی طور پر ان کا دماغ بھی نسیا تھا جس مسئلہ کے متعلق دریافت کیا جاتا خواہ وہ عام مسئلہ ہی ہوتا مولوی صاحب اسے فلسفی آرنگ میں خوب کھول کر بیان کرتے.یہ علیحدہ بات ہے کہ پوچھنے والے کو ان کے بیان کردہ فلسفہ سے اتفاق ہو یا نہ ہو.مجھے یاد نہیں کہ کبھی ان سے کوئی مسئلہ پوچھا گیا ہو اور انہوں نے اس کا فلسفیا رنگ میں جواب نہ دیا ہو.آپ صرف یہی نہیں بیان کرتے تھے کہ فلاں نے اس کے متعلق یہ لکھا ہے اور فلاں کی اس کے متعلق یہ رائے ہے بلکہ یہ بھی بتاتے تھے کہ اس مسئلہ کی بنیاد کس حکمت پرمینی ہے اور اس کے چاروں کونے خوب نمایاں کرتے تھے اور پھر اس مسئلہ کی جزئیات کی بھی تشریح کرتے.“ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے آخری ایام میں ایک وفد باہر گیا.اس وفد نے بعض ایسی باتیں کیں ہو حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی شان اور آپ کے درجہ کے منافی تھیں.چنانچہ جب وہ وفد واپس آیا تو یہ سوال میں نے اُٹھایا کہ وقفہ کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان کے متعلق جو بیانات باہر دیئے گئے ہیں وہ آپ کی شان کے منافی ہیں اور آپ کے درجہ میں کمی کی گئی ہے.مولوی سید سرور شاہ صاحب بھی اس وفد میں شامل تھے جب انہوں نے
۱۹۳ اس بات کو شنا تو انہوں نے کہا کہ واقعہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان میں کمی کی گئی ہے اور ہم سے چوک ہوئی ہے لیکن اس دن سے لے کر وفات تک مولوی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہمیشہ ہی صحیح مقام بیان کرتے تھے اور آپ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقام بیان کرتے تو آپ کی طبیعت میں ایک خاص قسم کا جوش پیدا ہو جاتا تھا یہاں تک کہ اُن کی آخری ملاقات جس کو آٹھ دس دن ہوئے ہیں مجھ سے اس سلسلہ میں ہوئی تو مولوی صاحب نے مجھے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان میں کمی کی جاتی ہے اور آپ کو صرف میں کے نام سے یاد کیا جاتا ہے.حالانکہ مہدی کی شان مسیح کی شان سے کہیں بلند ہے جیسا کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ اسلام نے اس کا ذکر کئی جگہ اپنی کتب میں کیا ہے.صرف مسیح موعود لکھنے کا کہیں یہ نتیجہ نہ ہو کہ آہستہ آہستہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حقیقی مقام لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو جائے میں نے مولوی صب کو کہا کہ آپ یہ بات مجھے لکھ کر بھیج دیں میں اس پر غور کروں گا.چنانچہ اس کے تیسرے یا چوتھے دن مولوی صاحب کی طرف سے ایک تحریر اسی مضمون کی مجھے مل گئی.گویا مولوی صاحب کو اپنی وفات کے قریب بھی یہی فکر رہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان میں کہیں کمی نہ ہو جائے.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے میں مولوی صاحب کا شاگرد رہا ہوں.عمر کے لحاظ سے مولوی صاحب مجھے سے بہت بڑے تھے اور میں ان سے بہت چھوٹا تھا.لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ با وجود اس کے کہ وہ میرے اُستاد تھے، باوجود اس کے کہ وہ عمر میں مجھ سے بڑے تھے ، با وجود اس کے کہ وہ مدرسی تعلیم میں بہت زیادہ دسترس رکھتے تھے میں نے اکثر دیکھا کہ مولوی صاحب کا غذ پنسل لے کر بیٹھتے تھے اور باقاعدہ میرا لیکچر نوٹ کرتے رہتے تھے.ان میں محنت کی اتنی عادت تھی کہ میں نے جماعت کے اور کسی شخص میں نہیں دیکھی.اگر مجھے کسی کی محنت پر رشک آتا تھا تو وہ مولوی صاحب ہی تھے.بسا اوقات میں بیماری کی وجہ سے باہر نماز کے لئے نہیں آسکتا تھا اور اندر بیٹھ کر نماز پڑھنا شروع کر دیتا تھا.لیکن مسجد سے مولوی صاحب کی قرات کی آواز کانوں میں آتی تو میرا نفس مجھے ملامت کرتا کہ میں جو عمر میں ان سے بہت چھوٹا ہوں نہیں توگھر میں بیٹھ کر نماز پڑھ رہا ہوں اور یہ اسی سال کا بڑھا مسجد میں نماز پڑھا رہا ہے.میرے زمانہ خلافت میں میری جگہ اکثر مولود بعضا ہی نماز پڑھاتے تھے.صرف آخری سال سے میں نے ان کو نماز پڑھانے سے روک دیا تھا کیونکہ
۶۹۳ گرمی کی شدت کی وجہ سے وہ بعض دفعہ بیہوش ہو جاتے تھے اور مقتدیوں کی نماز خراب ہو جاتی تھی اس لئے میں نے اُن کو جبر ہٹا دیا ورنہ وہ کام سے ہٹنا نہیں چاہتے تھے چنانچہ سینکڑوں آدمیوں نے دیکھا ہوگا کہ وہ روزانہ بلاناغہ مجلس عرفان میں شامل ہوتے تھے حتی کہ وفات سے صرف دورات پہلے وہ مجلس میں آئے اور بیٹھے رہے.ان کو مجلس میں ہنی بے ہوشی شروع ہوگئی اور میں نے دیکھا که مولوی صاحب بیٹھے ہوئے پینج پر ٹھکے بھا رہے ہیں.میں نے اُن کے بعض شاگردوں سے کہا مولوی صاحب بیمار معلوم ہوتے ہیں ان کا خیال رکھنا.اسی دن سے آپ پر بیہوشی طاری ہوئی اور آپ تمیرے دن فوت ہو گئے.ایسے عالم کی زندگی نوجوان علماء کے لئے بہت ہی کار آمد تھی.نوجوان علماء کی وہ تنگرانی کرتے تھے اور نوجوان علماء اُن سے اپنی ضرورت کے مطابق مسائل پوچھ لیتے تھے.مجھے کئی سال سے یہ فکر تھا کہ جماعت کے پرانے علماء اب ختم ہوتے جارہے ہیں.ایسا نہ ہو کہ یکم جماعت کو مصیبت کا سامنا کرنا پڑے اور جماعت کا علمی معیارہ قائم نہ رہ سکے چنانچہ اس کے لئے میں نے آج سے تین چار سال قبل نئے علماء کی تیاری کی کوشش شروع کر دی تھی.کچھ نوجوان تو میں نے مولوی صاحب سے تعلیم حاصل کرنے کے لئے مولوی صاحب کے ساتھ لگا دیئے اور کچھ نوجوان باہر بھجوا دیئے تا کہ وہ دیوبند وغیرہ کے علماء سے ظاہری علوم سیکھ آئیں.یہ بھی اللہ تعالے کی مشیت اور قدرت کی بات ہے گر ان علماء کو واپس آئے صرف ایک ہفتہ ہوا ہے جب وہ واپس آگئے تو مولوی صاحب فوت ہو گئے.گویا اللہ تعالٰی نے ان کو اس وقت تک وفات نہ دی جب تک کہ علم حاصل کر کے ہمارے علماء واپس نہیں آگئے اتنی دیمیتک اللہ تعالیٰ نے آپ کو زندہ رکھا تا کہ ظاہر ہو جائے کہ اللہ تعالئے اس سلسلہ کی تائید و نصرت کرتا ہے اور خود اس کا قائم کرنے والا ہے.اللہ تعالیٰ نے اس دن تک ہماری جماعت کے ایک چوٹی کے عالم کو فوت نہیں ہونے دیا جب تک کہ نئے علماء کی بنیاد نہیں رکھی گئی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ نوجوان ابھی اس مرتبہ کو نہیں پہنچے.لیکن وہ جوں جوں علمی میدان میں قدم رکھیں گے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے اتنا ہی وہ ان علماء کے قائم مقام ہوتے جائیں گے مولوی صاحب جب کالج سے فارغ ہو کر آئے تھے تو اس وقت ان کی اور حالت تھی اور جب انہوں نے یہاں آکر لمبی لمبی دعائیں کیں اور روحانیت سے اپنا حصہ لیا تو وہ بالکل بدل گئے اور
790 ایک نیا وجود بن گئے.اسی طرح ہمارے نوجوانوں کو علم تو حاصل ہو گیا ہے.مگر اب وہ جتنا جتنا روحانیت کے میدان میں بڑھیں گے اور اپنے تقوی اور نیکی کو ترقی دیں گے اتنا ہی وہ بلند مقام کی طرف پرواز کریں گے.جہانتک کام کرنے کا تعلق ہے مولوی صاحب میں کام کرنے کی انتہائی خواہش تھی لیکن تنظیم کے معالہ میں وہ زیادہ کامیاب نہ بجھتے.ہاں ایک کام ہے جو اُن کے سپرد ہوا اور انہوں نے اس میں کمال کر دیا اور وہ کام ان کی ہمیشہ یادگار رہے گا.جس طرح لنگر خانہ اور دار الشیوخ میر محمد اسحاق صحبت کے ممنونِ احسان ہیں اسی طرح وصیت کا انتظام مولوی سید سرور شاہ صاحب کا ممنون احسان ہے مولوی صاحب نے جس وقت وصیت کا کام سنبھالا ہے اس وقت ہمیشکل وصیت کی آمد پچاس ساٹھ ہزار تھی مگر مولوی صاحب نے اس کام کو ایسے احسن طور پر ترقی دی کہ اب وصیت کی آمد پانچ لاکھ روپیہ سالانہ تک پہنچ گئی ہے.آپ کو وصیت کے کام میں اس قدر شغف تھا کہ آپ بہت جوش و خروش کے ساتھ اس کام کو سر انجام دیتے تھے کیونکہ نظام وصیت حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کا قائم کردہ ہے اور آپ نہیں چاہتے تھے کہ اس میں کوئی کمزوری واقع ہو جائے.یہ آپ ہی کی محنت اور کوشش کا نتیجہ ہے کہ اب ہمارے چندہ عام سے چندہ وصیت زیادہ ہے.یہ کام ہمیشہ کے لئے آپ کی یادگار رہے گا.بهر حال مولوی صاحب کی وفات سے جماعت کا ایک بہت بڑا نقصان ہوا ہے اور ان کی اولاد کا تو دوہرا نقصان ہوا ہے بلحاظ اولاد ہونے کے بھی اور بلحاظ احمدی ہونے کے بھی ان کو دوبھرا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے.مولوی صاحب با وجود ۸۴ سال عمر پانے کے آخری دم تک کام کرتے رہے یہ اہ حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب نے مندرجہ ذیل لٹریچر بطور علمی یادگار چھوڑا :- -1 القول الحمود في شان الحمود -۲ خلافت حقه ۳ کشف الاختلاف - تفسیر سروری 4- حمائل شریعت مترجم سے " الفضل" سوار احسان اجون ۲۳ سایش صفحه ۳ تا ۵ : ۲۱۹۴۷ الفاروق نه ترینه اولاد : سید مهم ناصر شاہ صاحب سکول ٹیچر آزاد کشمیر سید مبارک احمد شاہ صاحب شرور انسپکیر وصایا ریوه به
حضرت ڈاکرمی محمد امیل صاحب حضرت میرمحمد امین صاحب مار جولائی منسٹر کو پیدا ہوئے.آپ حضرت ام المؤمنین سیدہ نصرت جہاں بیگم رضی اللہ تعالی عنہا کے چھوٹے بھائی تھے.آپ کے والد ماجد حضرت نانا جان میر ناصر نوار ہا ہونے کے از جون شمر کو سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بہت کی اور اس طرح آپ اُن کے ساتھ داخل احمدیت ہوئے حضرت سیح موعود نے آپ کا نام ۳۱۳ اصحاب کبار میں نمبر ۷ پر درج فرمایا کے را پریل شاہ کو جب کانگڑہ کا زلزلہ آیا تو آپ ان دنوں میڈیکل کالج لاہور میں تعلیم حاصل کر رہے تھے اس روزہ ہور سے کئی دوستوں کے خط حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی خدمت میں پہنچے کہ ہم کو خدا وند تعالیٰ نے اس آفت سے بچا لیا مگر حضرت میر صاحب سے متعلق کوئی خیریت نامہ تین دن تک موصول نہ ہو ا جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دھا کی تو الہام ہوا اسسٹنٹ سرجن سے خدا کی قدرت ! آپ اسی سال میڈیکل کالج لاہور کے آخری امتحان میں پنجاب بھر میں اول نمبر پر پاس ہو کر اسسٹنٹ سرجن مقرر ہوئے اور اسی سول سرجن لگ کر ۱۹۳۶ء میں ریٹائر ہوئے.جنوری تشنہ میں صدر انجمن اسیر قادیان کا قیام عمل میں آیا تو حضرت اقدس علیہ السلام نے آپ کو بھی مجلس معتمد ایت کا امیر نامزد فرمایا کے حضرت امیر المومنین المصلح الموعود نے آپ کو سفر یورپ (۹۲۳) کے دوران ناظر اعلی تجویز فرماتے ہوئے ر جولائی ۹ہ کے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا :- ان کے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت بلکہ عشق خاص طور پر پایاجاتا ہے.اس محبت کی وجہ سے روحانیت کا ایک خاص رنگ ان میں پیدا ہو گیا ہے اس لئے میں سمجھتا ہوں ایسی ٹھوکر سے ہو دوسروں کو لگ جاتی ہیں یا لگ سکتی ہیں خدا نے اُن کو محفوظ کیا ہوا ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ اس تعلق کی وجہ سے جو برکات اُن پر نازل ہوتی ہیں ان کے باعث جماعت کے لئے بہت مفید ثابت ہوں گے ھے حضرت میر صاحب پیشن لینے کے بعد قادیان تشریف لے آئے تھے اور آپ حضرت مولوی شیر علی الفضل ۲۲ و فا جولائی سازش صفرا، کیت نفت با سیم حصہ اول صفحه ۱ ارزشی و ارگانی مدیر العلم"." ضمیر انجام آتھم " صفحه ۴۲ ه "بدر" ۲۰ جولائی نشده صفحه : بدر ۲۳ فروری ۱۹ صفر ۲۷۶ ه " الفضل ۲۲ جولائی ۱۹۲۴ : صفحه ۶ : "
صاحب کے مکان (واقع دارالعلوم ) سے متصل اپنے مکان وار الصفہ میں رہائش پذیر ہو گئے تھے لیے یوں تو آپ پیش کے بعد قریبا بیمار ہی پہلے آرہے تھے مگر ماہ امان شہادت / مارچ - اپریل ہی میں آپ کو دمہ کے شدید دور سے شروع ہو گئے اور وسط ماہ احسان / جون میں آپ کی حالت بہت زیادہ نازک ہوگئی اور تم بہرتی 71906 کی حالت طاری ہوگئی.چنانچہ حضرت مصلح موعود نے ہم وفا جولائی یا مہش کے خطبہ جمعہ میں احباب جماعت کو آپ کے لئے تحریک دعا کرتے ہوئے فرمایا :- فوٹو ڈاکٹر میر محمد المعیل صاحب قریباً ایک ماہ سے سخت بیمار ہیں اور اب وہ بہت ہی کمزور ہو چکے ہیں اور دو دن سے ان پر قریباً بیہوشی کی سی حالت طاری ہے.ہماری جماعت ابھی تک بہت سی تربیت کی محتاج ہے اور تربیت کے لئے صحابہ کا وجود بہت ضروری ہے.اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسّلام کے بہت تھوڑے صحابہ باقی رہ گئے ہیں خصوصاً ایسے صحابہ تو حضرت مسیح موعود علیدات لام کے ابتدائی زمانہ کے حالات سے واقف ہیں اور جنہوں نے آپ کے ابتدائی ایام سے ہی آپ کی صحبت سے فیضان حاصل کئے تھے ان کی تعدا بہت ہی کم رہ گئی ہے اس لئے ایسے لوگوں کا وجود جماعت کی ایک قیمتی دولت ہے اور جتنا بقنا یہ لوگ کم ہوتے پہلے جاتے ہیں اتنا ہی جماعت کی روحانی ترقی بھی خطرہ میں پڑتی چلی بجاتی ہے.اور چونکہ صحابہ کا وجود ایک قومی دولت اور قومی خزانہ ہوتا ہے.اس لئے جماعت کے افراد پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ ایسے موقعہ پر خاص طور پر دعائیں کریں تاکہ یہ خزانہ ہمارے ہاتھوں سے بھانا نہ رہے اور اللہ تعالے صحابہ کے وجود کہ ایک لمبے عرصہ تک قائم رکھے تاکہ جماعت ایسے مقام پر پہنچ جائے کہ وہ روحانی طور پہ اپنے پاؤں پر آپ کھڑی ہو سکے اور جماعت کے اندر ایسے نئے وجود پیدا ہو جائیں جو اپنی قربانی اپنے اخلاص اونہ اپنے تقویٰ کے لحاظ سے صحابہ کا رنگ اپنے اندر رکھتے ہوں.جہانتک جانی اور مالی قربانیاں کرنے والے ہیں اور اس کے لئے ان کے اندر بہت زیادہ جوش بھی پایا جاتا ہے مگر روحانی رنگ ظاہری قربانیوں سے پیدا ہوتا ہے.اللہ تعالے له حضرت مولانا شیر علی صاحب شروع میں دار آسیح اور اس کے قرب وجوار میں رہتے تھے ائر کے آخر میں آپ نے دارالعلوم میں اپنے رہائشی مکان کی بنیاد رکھی اور اس کے بعد جلد ہی نانا جان حضرت میر ناصر نواب صاحب نے حضرت ڈاکٹر صاحب کا مکان "دار الصفہ " بنوایا جہاں پہلے پہل حضرت ڈاکٹر صاحب کے بسلسلہ ملازمت باہر رہنے کے ایام میں آپ کے چھوٹے بھائی حضرت میر محمد اسحاق صاحب اپنے مناندان سمیت لمبے عرصہ تک قیام فرما رہے.الفض سوق الجولائی میں صفحہ اکالم 1 : ۱۳۲۶ ش ۱ " و
سے دعائیں کرنا ، اس کے کلام پر غور کرنا ، اس کی صفات کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرنا اور دوسروں کے اندر بھی ان صفات کو پیدا کرنا اس کا نام روحانیت ہے.محض قربانیاں تو غیر اقوام اور غیر مذاہب کے لوگوں میں بھی پائی جاتی ہیں ہو پھیر دنیا کی دوسری قوموں کے اندر نہیں پائی جاتی اور صرف الہی جماعتوں میں ہی پائی جاتی ہے وہ اللہ تعالے کی محبت اور صفات الہیہ کو اپنے اندر جذب کرنا اور لوگوں کو ان چیزوں کی طرف توجہ دلانا ہے اور یہی اصل روحانیت ہے.اس کے بعد دوسری چیزوں کا نمبر آتا ہے " سلہ حضرت میر صاحب کے علاج معالجہ کی ہرممکن کوششیں جاری تھیں حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ نغال صاحب، کیپٹن ڈاکٹر شاہنواز صاحب اور صاحبزاد مرزا منور حمد صاحب شب و روز اس خدمت پر متعین تھے ڈاکٹر عبد الق صاحب ڈینٹل سرجن لاہور سے اور ڈاکٹر محمد یعقوب صاحب ماہر ایکس دے امرتسر سے ٹیلوائے گئے مگر منشار الہی کچھ اور تھا.- مرد قار (جولائی کوآپ پر نمونیہ کا سخت حملہ ہوا جس سے پھیپھڑے بھی بہت متاثر ہو گئے اورشی میں بھی اضافہ ہو گیا.اسی عالم میں مروفا جولائی جمعہ کا دن آگیا اور حالت تیزی سے بگڑنے لگی اس تشویشنان مرحلہ پر حضرت مصلح موعود ان کی کوٹھی دوار الصفہ) میں تشریف لے گئے.نور سہسپتال کے تمام ڈاکٹر بھی پہنچ گئے معائنہ کے بعد علاج کا مشورہ ہوا حضور نے سب سے پہلے فرمایا کہ آکسیجن دی بجائے جولاہور کے سوا ندیل سکتا تھا.آخر معلوم ہوا کہ حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے کارخانہ میں کمرشل آکسیجن ہے وہ لا کر شروع کر دی گئی جس سے چہرہ کی نیلاہٹ سُرخی میں تبدیل ہو گئی.پھر پنسلین کا ایک لاکھ یونٹ دیا گیا اور ساتھ ہی کونین کا ٹیکہ بھی دیگر بے ہوشی میں کمی نہ ہوئی اور ساتھ ہی ۱۰۴ - ۰۵ ا تک بخار ہو گیا.اس موقعہ پر حضرت امیر المومنین نہایت صبر اور اطمینان سے ڈاکٹروں کو ضروری ہدایات دیتے رہے.ساڑھے چھ بجے شام کے قریب حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب نے سورہ یسین کی تلاوت نہایت سونہ اور درد میں ڈوبی ہوئی آواز کے ساتھ شروع کردی خاندان مسیح موعود کی قریباً سب خواتین اور بزرگان اور صاحبزادگان خاموشی سے اپنا اپنا آخری حق خدمت ادا فرمارہے تھے جن میں پیش پیش حضرت میر صاحب کی اہلیہ ثانی تھیں.ساڑھے سات بجے کے قریب جبکہ حضرت امیر المؤمنین اصلح الموعود اور ڈاکٹر شاہنواز خاں صاحب صحن میں حضرت میر صاحب کی له الفضل ، وفا جولائی میر مش صفحه ۱-۲ : 71974
749 حالت پر تبصرہ کر رہے تھے کہ اچانک اندر سے آواز آئی کہ جلدی آئیں حالت خطر ناک ہے.اس پر حضور مع ڈاکٹر صاحب اندر تشریف لے گئے.دیکھا کہ حضرت میر صاحب کا سانس اکھڑ رہا ہے اور تبعض بالکل بند ہے سات بجکر چالیس منٹ پر آپ نے آخری سانس لیا.آہ ! وہ سانس کیا تھا ، صرف مبارک اور پیار ہے لبوں کی آخری معمولی سی جنبش تھی اور قلب کی حرکت ہمیشہ کے لئے بند ہو گئی.انا للہ و انا الیہ راجعون اس سانحہ ارتحال کے بعد حضرت مصلح موعود نے وضو فرما کر خدام کو نماز مغرب پڑھائی اور حضور نے آپ کی وصیت کے مطابق فیصلہ فرمایا کہ آپ کو حضرت نانی اماں کی قبر اور دیوار کے درمیان قطعہ خاص میں جگہ دی جائے.پھر حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا میں شام کے قریب ڈاکٹر شاہنواز خاں.ناقل ) صاحب کو ساتھ لے کر ٹہل رہا تھا کہ میری نگاہ سامنے کے مکان پر پڑی جہاں زرد سی دھوپ نظر آرہی تھی گویا تین چار منٹ سورج غروب ہونے میں تھے.اس وقت میں نے اس خیال سے کہ شاید میر صاحب کی طبیعت پر کسی خواب کی بناء پر یہ اثر ہو کہ جمعہ وفات کا دن ہے اور اگر یہ تین چار منٹ خیریت سے گذر جائیں تو ایک ہفتہ (یعنی اگلے جمعہ تک ) زندگی اور بڑھ سکتی ہے دعا کرنی شروع کی مگر جلد ہی اندر سے بلاوا آگیا کہ میر صاحب کا سانس اکھڑ رہا ہے" ہے حضرت میر صاحب کی المناک وفات کی خبر آناً فاناً قادیان کے گوشے گوشے میں پھیل گئی اور بہت سے احباب آپ کی کو بھی پر جمع ہونا شروع ہو گئے.آپ نے عرصہ ہوا اپنی تجہیز وتکفین سے متعلق خود مفصل ہرایات وصیت کے طور پر تحریر فرما دی تھیں حتی کہ اپنے کفن کا بھی انتظام فرما لیا تھا.چنانچہ رات ہی کو آپ کی وصیت کے مطابق حضرت بھائی عبد الرحیم صاحب قادیانی ، جناب شیخ محمد اسمعیل صاحب پانی پتی اور جناب حکیم عبد اللطیف صاحب گجراتی نے آپ کو غسل دیا اور تجہیز و تکفین کی.اگلے دن ( وار وفا جولائی کو صدر انجین احمدیہ کے تمام دفاتحہ اور تعلیمی اداروں میں تعطیل کردی گئی.صبح ہی سے احباب اور خواتین آپ کی کو بھی پر جمع ہونا شروع ہو گئے.آٹھ بجے کے قریب سیدنا حضرت امیر المومنین بھی تشریف لے آئے.اور ایک بڑے مجمع کے درمیان آپ کا جنازہ اُٹھایا گیا.راستے میں مجمع ہر لمحہ بڑھتا چلا گیا.ہر شخص جناندہ کو کندھا دینے اور اس طرح ایک ایسے وجود کا آخری حق الخدمت ادا کرنے کی کوشش کر رہا تھا جو عمر بھر نہایت بے نفسی کے ساتھ بنی نوع انسان کی دینی اور دنیوی خدمت کرتا رہا جب جنازہ حضرت مسیح موعود له الفضل" و ظهور اگست میش صفحه ۷-۵ ( ملخصا از مضمون ڈاکٹر کیپٹن شاہنواز خانصاحب) + "
** علیہ السلام کے باغ میں پہنچا تو حضرت امیر المومنین نے اپنی نگرانی میں صفوں کو درست کرایا اور پھر ایک بہت بڑے مجمعے کے ہمراہ جو انیس لمبی صفوں پرمشتمل تھا نماز جنازہ ادا فرمائی نماز جنازہ میں شامل ہونے والے افراد کی تعداد کا اندازہ چھے اور سات ہزار کے درمیان ہے.نماز جنازہ کے بعد حضرت امیر المومنین الصلح الموعود نے اپنے دست مبارک سے کفن کا منہ کھولا اور حضر میر صاحب کی پیشانی پر بوسہ دیا.پھر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اور پھر خاندان مسیح موعود کے دیگر افراد نے باری باری بوسہ دیا.اس کے بعد حضور جنازہ کے قریب ہی زمین پر خدام کے ہمراہ تشریف فرما ہو گئے اور احباب کو تنظیم کے ماتحت حضرت میر صاحب کا چہرہ آخری بار دیکھنے کا موقعہ دیا گیا.آپ کا چہرہ با وجود طویل علالت کے بہت با رونق شگفتہ اور نورانی نظر آتا تھا.بعد ازاں جنازہ اُٹھایا گیا.حضرت امیر المومنین نے قبر تک نعش کو کندھا دیا حضور خود قبر میں اُتمہ ہے اور میر داؤد احمد صاحب ابن حضرت میر محمد اسحق صاحب اور میر سید احمد صاحب ابن حضرت میر محمد اسمعیل صاحب نے نعش کو لحد میں اتارا بحضرت میر صاحب کی قبر میں حضور نے اپنے دست مبارک سے مٹی ڈالی.قبر تیار ہو جانے پر حضور نے دعا فرمائی اور پھر واپس تشریف ے آئے ہے حضرت میر محمد اسمعیل صاحب سلسلہ کے چوٹی کے بزرگ ولی اللہ، نہایت بلند پایہ صحابی اور ایک زبر دست ستون کی حیثیت رکھتے تھے.آپ کا انتقال ایک زبر دست قومی صدمہ تھا جس کو جماعت احمدیہ نے عموماً اور صحاً میسج موعود نے خصوصاً بہت محسوس کیا اور آپ کی رفتار پر نہایت گہرے رنج و غم کا اظہار کیا بطور مثال صرف تین اکا بر صحابہ کے تاثرات درج ذیل کئے بجاتے ہیں :- - حضرت مولوی شیر علی صاحب نے تحریر فرمایا :- حضرت ڈاکٹر میر صاحب مرحوم کے ریٹائر ہو کر قادیان آنے کے وقت سے باقاعدہ آپ کی ہمسائیگی بندہ کو میسر آئی.اس عارضی اور مستعار زندگی کے دوران میں آپ نے ہمسائیگی کے تعلق کو جس نوبی اور عمدگی سے نباہا ہے بندہ اس کے بیان سے اپنے آپ کو جائنہ پاتا ہے.آپ ان تمام حقوق کی ادائیگی میں جن کو کہ اسلامی شریعیت ایک مسلمان ہمسایہ پر واجب قرار دیتی ہے نہایت ہی اسلئے بلند پایہ اخلاق پر قائم تھے یہانتک کہ بندہ نے دیکھا کہ آپ کی طرف سے ہمسائیگی کا تعلق له " الفضل " ۲۱ جولائی ۱۳۳۶ ش صفحه ۴ :
یگانگت اور شفقت اور محبت میں تبدیل ہو گیا تھا اور اس پاک وجود نے روٹی کے تمام پردوں کو چاک کر کے رکھ دیا تھا.آپ بلا تکلف بلا احساس غیرت نہایت ہی اعلیٰ درجہ کے مشفقانہ اور برادرانہ رنگ میں بندہ کے مکان پر تشریف لاتے.گھر یلو قسم کے اونی ادنی معاملات پر گفتگو فرماتے اور ہر چھوٹے بڑے امر میں دلچسپی لیتے.آپ کی ذات میں میں نے بہترین قسم کا ساتھی ، ہر کام کا عمدہ مشیر اور ہر دکھ میں بہترین غمگسار پایا بندہ کو علمی رنگ میں بھی آپ سے دو دفعہ خصوصیت کے ساتھ استفاضہ حاصل کرنے کا موقع پیش آیا.دو مضمونوں کی تیاری کے لئے میں نے آپ سے امداد چاہی.آپ نے نہ صرف بغیر سوچنے کے ان مضمونوں کے لئے مجھے ضروری مصالح بہم پہنچا دیار گیا ان مضمونوں کے متعلق تمام معلومات پہلے ہی سے ان کے دماغ میں موجود تھیں ، بلکہ جو مصالح انہوں نے بہم پہنچایا وہ صرف عام باتو شتمل نہیں تھا بلکہ نہایت ہی قیمتی اور نادر نکات پرمشتمل تھا لے -۴- حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب مختار شاہجہانپوری نے فرمایا :- "حضرت میر محمد اسماعیل صاحب اور حضرت میر محمد اسحق صاحب دونوں بھائی اپنے رنگ میں بے نظیر تھے اور سلسلے کے آفتاب و ماہتاب تھے.حضرت میر محمد اسمعیل صاحب نہایت منتقی اور نہایت متواضع تھے.مخلوق خدا کی دینی و دنیوی مدد کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے.اپنی تکلیف نظر انداز کر کے بھی دوسروں کا کام کر دینا اُن کی عادت تھی ہو شخص ایک بارہ آپ سے ملتا تھا ہمیشہ آپ سے دوبارہ ملنے اور بائیں کرنے کی خواہش رکھتا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ آپ کو ایک خاص قسم کا تعلق تھا آپ کی نظر بہت باریک بین تھی " ہے ابوالبرکات حضرت مولانا غلام رسول صاحب قدسی را جیکی نے آپ کے فضائل و مناقب ایک مفصل مضمون لکھا جس میں تحریر کیا کہ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کے وجود با سجود میں دونوں طرح کے نمونے اس اعلی مقصد حیات کے بشان اصلی نمایاں طور پر پائے جاتے تھے.اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور - الفصل ۲۴ وقا/ جولائی مش صفحه ۰۴ 1902 +
عیادت اور معرفت کے لحاظ سے آپ کے اندر عبد مسلم کا بہترین نمونہ پایا جاتا تھا.اللہ تعالے کی مخلوق کی شفقت کی رُو سے آپ کے ڈاکٹری معالجات کا فن جو انواع و اقسام کے مریضوں اور بیماروں کے علاج کے طور پر شب و روز مسلسل فائدہ بخش ہوتا رہتا شفقت علی مخلق اللہ کے معنوں میں احسانات کا ایک وسیع سلسلہ تھا جس کے رو سے آپ کا عبد حسن ہونا نمایاں شان رکھتا تھا.چنانچہ جس جس علاقہ میں بھی آپ نے اپنے اوقات کو اس طرح گزارا وہاں کے بیمار اور تیمار دار ا نکے آپکے حددرجہ مداح پائے جاتے ہیں.اور حدیث نبوی کی رو سے علاوہ اور لوگوں کے صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خصوصیت کے ساتھ آپ کا مداح ہونا علاوہ برکات وصیت کے بیان فرمودہ علامات کے یہ بھی آپ کے جنتی ہونے کی ایک بین علامت ہے..آپ قرآنی حقائق اور لطائف سے خاص طور پر لطف اندوز ہوا کرتے تھے اور مجھ سے زیادہ تر آپ کی محبت قرآن کریم کی وجہ سے ہی تھی گو آپ میرے محبوبوں میں سے ایک محبوب مہتی تھے.لیکن خدا کا شکر ہے کہ خدا تعالیٰ کے پیارے بندوں کی نظر محبت و نگاہِ شفقت کبھی نہ کبھی مجھ جیسے غریب اور حقیر پر بھی پڑ جایا کرتی.أُحِبُّ الصَّالِحِينَ وَلَسْتُ مِنْهُم لعَلَّ اللَّه يَرْزُقُنِي صَلَاحًا قرآنی حقائق کا فہم دقیق آپ کو عطا کیا گیا تھا.آپ قرآنی معارف کے خواص تھے اور آپ کا فہم رسا دقائق کی گہرائیوں میں دُور تک نکل جاتا تھا.روحانی تعلقات کے لحاظ سے بھی مجھے آپ سے ایک گہرا تعلق تھا جس کا ثبوت ذیل کے ایک واقعہ سے بھی ملتا ہے اور وہ یہ ہے کہ خاکسار کو دو ہفتہ سے کچھ زائد عرصہ تک درد گردہ کا شدید دورہ رہا جس کا سلسلہ کسی قدر اب بھی پھلا بھا رہا ہے.ہاں نسبتاً آجکل کچھ افاقہ ہی ہے اور یہ مضمون بھی بحالت علالت لکھا بھا رہا ہے.۱۲ - ۱۳ جولائی کی درمیانی شب کو بوجہ شدید دورہ درد گردہ کے میں سو نہ سکا اور شدت درد کے باعث آنکھ نہ لگی.اسی سلسلہ میں مجھ پر اچانک ایک ریودگی اور غنودگی کی کیفیت طاری ہوئی.اس وقت مجھے
ایسا معلوم ہوا کہ میرے کانوں کے بالکل قریب ہو کر کوئی کلام کرنے لگا ہے.نہایت فصیح اور موثر لہجہ میں کلام کا طرز ہے.اس وقت مجھے یہی محسوس کرایا جا رہا تھا کہ یہ اللہ تعالے کی آواز ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے نہایت ہی حلم اور رحم کے پیرایہ میں یوں کلام فرمایا :- میر محمد اسماعیل ہمارے پیارے ہیں.ان کے علاج کی طرف فکر کرنے کی چنداں ضرورت نہیں.ہم خود ہی ان کا علاج ہیں “.اس مبشرہ میں ایک امر تو حضرت میر صاحب کے لئے بطور بشارت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنا پیارا اور محبوب قرار دیا ہے.دوسرے حضرت میر صاحب طبقی اور ڈاکٹری علاج سے بالا اپنے لئے علاج کے خواہاں معلوم ہوتے تھے جس کے جواب میں خدا تعالے نے دوسرے علاجوں سے ان کے استغناء کا اظہار فرما کہ اس اصل علاج کا ذکر فرما دیا جس کی طبعی طور پر بلحاظ جذبات محبت و ذوق فطرت ان کو شدید خواہش تھی اور وہ علاج اللہ تعالی نے خود ہی ذکر فرما دیا کہ ہم خود ہی ان کا علاج ہیں.گویا وہ بقول حضرت امیر خسرو سے از سر بالین من بر تميز اے ناداں طبیب در دهند عشق را دار و بجز دیدار نیست حضرت میر صاحب جیسے عاشق وجہ اللہ کا علاج اللہ تعالے کا دیدار اور وصال ہی ہو سکتا تھا کالا جو بالآخر آپ کو حسب پسند خاطر نصیب ہو گیا.رزقنا الله ما رزقه عشقاً ووصلا » له حضرت میر صاح کے مزارکا کتبہ محنت میرا بانی اور ان کے مزارمبارک کاکتبر حضرت سید نا اتصلح الموعود نے اپنے قلم سے تحریر فرمایا جو یہ تھا میر محمد اسمعیل صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعویٰ سے پہلے پیدا ہوئے حضرت ام المؤمنین سے سولہ سال چھوٹے تھے.حضرت ام المومنین کی پیدائش کے بعد پانچ بچھے تولد ہوئے جو سب کے سب چھوٹی عمر میں ہی فوت ہو گئے.ان کی وفات کے بعد میر محمد اسماعیل صاحب پیدا ہوئے اور زندہ رہے.حضرت میر ناصر نواب صاحب نے جب پنشن لے کر قادیان میں رہائش اختیار کی تو بوجہ اس " الفضل" و ظہور / اگست ۳ مش صفحه ۳-۴ ه
کے کہ قادیان میں کوئی سکول نہیں تھا انہوں نے ان کو لاہور پڑھنے کے لئے بھجوا دیا اور ساری تعلیم انہوں نے لاہور میں ہی حاصل کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ان سے بہت محبت تھی اور ان کے تمام کاموں میں آپ ڈسپی لیتے تھے.اسی طرح حضرت میر صاحب کا بھی آپ کے تھے عاشقانه تعلق تھا.بھائیوں میں حضرت ام المومنین کو میر محمد اسماعیل صاحب سے زیادہ محبت تھی نہایت ذہین اور ذکی تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب خطبہ الہامیہ دیا.تو آپ نے اس ارشاد کو سُن کر کہ لوگ اسے یاد کریں انہوں نے چند دنوں میں ہی سارا خطبہ یاد کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو سُنا دیا تھا.باوجود نہایت کامیاب ڈاکٹر ہونے کے اور بہت بڑی کمائی کے قابل ہونے کے زیادہ تر پریکٹس سے بچتے تھے اور غربار کی خدمت کی طرف اپنی توجہ رکھتے تھے.اسی وجہ سے ملازمت کے بعد کئی اچھے مواقع آپ نے کھوٹے کیونکہ گوان میں آمدن زیادہ تھی اور رتبہ بڑا تھا مگر خدمت خلق کا موقعہ کم تھا.میری بیوی مریم صدیقہ ان کی سب سے بڑی بیٹی تھی ہو تو ام پیدا ہوئیں.پنشن کے بعد قادیان آگئے لیکن بوجہ صحت کی خوابی کے کوئی باقاعدہ عہدہ سلسلہ کا نہیں لے سکے بلکہ جب طبیعت اچھی ہوتی الفضل میں مضامین لکھ دیا کرتے.بہر حال میر محمد اسمعیل صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسّلام کے صحابہ میں سے تھے اور آپ کے منظور نظر تھے.آپ کی وفات کے بعد تمام ابتلاؤں میں سے محفوظ گزرتے ہوئے سلسلہ کی بہت سی خدمات بجا لانے کا آپ کو موقعہ ملا.اللہ تعالے اُن کے رُوحانی مدارج کو بلند فرمائے آمین" نے اسماعیل حضرت میر محم اصیل صاحب کی تالیفات اور بیدار میامی صاحب نے مندرجہ ذیل لٹریچر بطور یادگار چھوڑا :- - تاریخ مسجد فضل لنون ۲ کرنه که ۲ مقطعات قرآنی م الحسين الطفال - تحفه احمدیت - جامع الاذکار - بخار دل حصہ اول و دوم - مذہب کی ضرورت دکھ سکھ ہے حفاظت ریش ۱- آپ بیتی - H الفضل ۳۳ ر احسان /جون الله مش ، سے منقول از کتابچه واذا الصحف نشرت صفحه ۲۳ - +1gar + ناشر میان عید تعظیم صاحب پروپرائٹر احمدیہ بکڈپو قادیان :
فصل هفتم حضرت مصلح موعود اگر چہ اس سال ہی ریش کے جماعت احمدیہ کو دعاؤں کی بار بار تحریک شروع ہی سے جماع کو بار بار اپنے خطبات اور ملفوظات میں دعاؤں کی طرف توجہ دلاتے آ رہے تھے مگر ماہ اگست ا ظہور کے آتے ہی حضور پہلے سے بھی زیادہ زور دعاؤں پر ہی دینے لگے.اول چنانچه یکم ظہور / اگست یہ مہیش کے خطبہ جمعہ میں فرمایا :- ۳ خدا ہی کی طرف توجہ کرو اور اس سے ڈھائیں کرو کہ اس نازک موقعہ پر تم اسلام کے لئے شرمندی کا موجب نہ ہو بلکہ تمہارے دلوں میں ایسی طاقت پیدا ہو جائے کہ موت تو کیا چیز ہے.بڑے سے بڑے ابتلاء کو بھی تم کھیل سمجھنے لگ جاؤ تا کہ اگر ہم نے مرتا ہے تو خدا تعالے کی راہ میں ہنستے ہوئے مریں اور اس کے نام کا نعرہ بلند کرتے ہوئے مریں اور ہماری موتیں اسلام کی آئندہ تم تی کی بنیادیں نہایت مضبوطی سے گاڑ دینے والی اور اس کے جھنڈے کو دنیا میں بلند کرنے والی ہوں لے دوم - بچار روز بعد حضرت مصلح موعود کی خدمت میں ھر اگست کمر کو لاہور سے یہ اطلاع پہنچی کہ ریڈ کلف ایوارڈ کے سامنے ہند و وکیل مٹر سیتنلواد نے اس بات پر زور دیا ہے کہ گورداسپور کو ہندوستان میں شامل کیا جائے.اس تشویشناک اطلاع پر حضرت مصلح موعود نے اس روز نماز مغرب کے فرض پڑھانے کے معاً بعد احباب کو مخاص طور پر دعا کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا :- حد بندی کمیشن کے سامنے ہندوؤں کے وکیل نے تین چار گھنٹے اس امر پر زور دیا کہ ضلع گوردہ اور کو ہندوستان میں شامل کیا جائے سکھوں کے وکیل نے بھی اپنا آدھا وقت اسی موضوع پر صرف کیا حالانکہ ہندوؤں اور سکھوں کا کوئی اقتصادی اور تمدنی مقلد اس ضلع سے وابستہ نہیں اقتصادی اور تمدنی لحاظ سے انہوں نے اپنے مفاد کو لاہور ، لائل پور ہمنشگری وغیرہ سے وابستہ بتلایا ہے.لیکن اس کے با وجود ضلع گورداسپور کا مطالبہ کرنا بتاتا ہے کہ ان کی کوئی خاص غرض ہے." الفضل " د ظهور / اگست اش صفحه ۳ ؛
اس لئے ان ایام میں دوستوں کو خاص طور پر دعائیں کرنی چاہئیں.حد بندی کمیشن نے مورخہ ۴، ۵ و اگست کو اپنے دلائل صدر کمیشن کی خدمت میں پیش کرتے ہیں.دو روز گذر چکے ہیں.صرف از اگست کا دن باقی ہے اس دن دوست خاص طور پر دعائیں کریں.صدر کمیشن نے اگست تک فیصلہ کرتا ہے.اس لئے گیارہ اگست تک بھی خاص طور پر دعائیں کی جائیں.اگر چہ صدرکیش مبران کمیشن کی آراء و دلائل سُن که از اگست تک اپنا ارادہ قائم کرلے گا لیکن دلوں پر تصرف تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے وہ بعد میں بھی تصرف کر کے صدر سے فیصلہ تبدیل کرا سکتا ہے.اس لئے دوستوں کو گیارہ اگست تک خاص طور پر دعائیں کرنی چاہئیں کہ جو بھی فیصلہ ہو ہمارے لئے مفید ہو اور شماتت اعداد کا باعث نہ ہو.سب دوست جو موجود ہیں اپنے اپنے محلوں میں جا کر اس کا اعلان کرا دیں“ (حضور کے حکم کی تعمیل میں اسی وقت محلوں میں دوستوں کو بھیجوا کر اعلان کرا دیا گیا ) نے سوم.پنجاب حد بندی کمیشن کی کارروائی کے خاتمہ کے دوسرے دن ۸ راگست / ظہور کے خطبہ جمعہ میں حضور رو نے درد و سوز اور تضرع اور انتہال میں ڈوبے ہوئے الفاظ میں فرمایا :- موجودہ ایام میں ہماری جماعت ایسے سخت خطرات میں سے گزر رہی ہے کہ اگر تمہیں ان خطرات کا پوری طرح علم ہو اور اگر تمہیں پوری طرح اس کی اہمیت معلوم ہو تو شاید تم میں سے بہت سے کمزور دل لوگوں کی جان نکل جائے لیکن تم کو وہ باتیں معلوم نہیں اس لئے تم اپنی مجلسوں اور گلیوں میں ہنستے کھیلتے نظر آتے ہو.تمہاری مثال اس بچے کی سی ہے جس کی عمر دو اڑھائی سال کی تھی اور اس کی ماں رات کے وقت مر گئی جب وہ صبح کو اُٹھا تو وہ اپنی ماں کے ساتھ چمٹ گیا.لوگوں نے جب دروازہ کھولا تو انہوں نے دیکھا کہ بچہ اپنی ماں کے منہ پر تھپڑ مار کر ہنس رہا تھا.وہ خیال کر رہا تھا کہ اس نما نہ بولنا مذاق کی وجہ سے ہے حالانکہ وہ مری پڑی تھی جس قسم کی حالت میں سے اور جس قسم کی بے وقوفی اور نادانی کی کیفیات میں سے وہ بچہ گذر رہا تھا اسی قسم کی حالت میں سے تم بھی گزر رہے ہو.میں نے دو دن ہوئے جماعت کے دوستوں کو توجہ دلائی تھی اور آج پھر اسی طرف توجہ دلاتا ہوں.آج بیسویں رمضان کی ہے اور حضرت خلیفہ "الفضل " مر ظهور اگسترش صفحه ۴ * +
اول رضی اللہ عنہ کے عقیدہ کی رو سے اعتکاف صبح سے شروع ہو چکا ہے لیکن عام صنفی عقیدہ کی رو سے جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بھی عمل تھا.اعتکالت آج شام کو شروع ہوگا.جہاں تک نو جوانوں کا تعلق ہے جن کو آج کل کام پر لگایا جانا ضروری ہے اُن کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اس دفعہ اعتکان نہ بیٹھیں.ان کا اعتکاف نہ بیٹھنا زیادہ ثواب کا موجب ہوگا به نسبت اعتکاف بیٹھنے کے.ایک دفعہ جہاد کے موقعہ پر رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.آج روزہ داروں سے بے روز بڑھ گئے ہیں کیونکہ بے روز تو میدان جہاد میں پہنچتے ہی کام کرنے لگ گئے اور روزہ دار لیٹ کر ہانپنے لگے.آجکل پہرے کے دن اور ادھر اُدھر گھومنے کے ایام ہیں.اس لئے ان دنوں نوجوانوں کا اور نوجوانوں کی طرح کام کر سکنے والوں کا اعتکاف نہ بیٹھنا بہ نسبت اعتکاف بیٹھنے کے زیادہ ثواب کا موجب ہے.پس ایسے لوگوں کو جن کی مسلسلہ کو ہنگامی کاموں کے لئے ضرورت ہے اعتکات نہ بیٹھنا چاہئیے.اگر وہ اعتکاف بیٹھیں گے تو یہ ان کی نیکی نہ ہوگی بلکہ ان کے نفس کا دھوکہ ہوگا لیکن جو لوگ اس عمر کے نہیں اور نوجوانوں کی طرح پہرہ وغیرہ کا کام نہیں کر سکتے ان سے میں کہتا ہوں کہ وہ بننے زیادہ اعتکاف میں بیٹھ سکیں اتنے ہی زیادہ بیٹھ جائیں.اور کے اللہ تعالیٰ کے حضور اتنی دعائیں کریں اپنی دعائیں کریں کہ جیسے محاور میں کہتے ہیں اسے ناک رگڑے جائیں اور ان کے ماتھے ھیں جائیں تمہیں چاہیے کہ آج یونس نبی کی قوم کی طرح تمہارے بچے اور تمہاری عورتیں اور تمہارے نوجوان اور تمہارے بوڑھے سب کے سب خدا تعالیٰ کے سامنے روئیں تاکہ خدا تعالے ہماری جیت کو تباہی سے بچالے اور اپنے فضل سے ہماری دست گیری کرے.دنیا میں ہر شخص کا کوئی نہ کوئی سفارش کرنے والا موجود ہے.کسی کی تجارتیں اس کی سفارش کر رہی ہیں کسی کے نیک اس کی سفارش کی ہے میں کسی اعداد و شمار کی سفارش کر رہے ہیں لیکن اگر کوئی جماعت دین میں زدہ ہے کی سمت ہے اگر کوئی دنیا میں برا کام کر رہے ہودہ بابا ہے کہ تمہاری پشت پر کوئی نہیں جو تمہاری سفارش کرنے والا ہو سوائے خدا تعالیٰ کی ذات کے.اس لئے اگر ہم اپنی دعاؤں اور گریہ و زاری سے خدا تعالیٰ کے فضل کو کھینچ لیں تو یقیناً دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت بھی ہمارے حقوق کو تلف نہیں کر سکتی.لیکن
اگر ہم خدا تعالیٰ کے فضل کو نہ کھینچ سکیں تو ہم سے زیادہ بے یار و مددگار دنیا میں اور کوئی نہیں ہو گا.محض عقلی دلائل پر انحصار رکھنا نادانی اور حماقت ہے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ عقلی طور پر ہماری بات معقول ہے اس لئے ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ ہماری بات مانی جائے گی.لیکن ہیں دھینگا مشتی کے زمانہ میں عقل کو کون پوچھتا ہے.اگر لوگ عقل کو پوچھتے تو آج خدا اور اس کا رسول سیکیسی کی حالت میں کیوں ہوتے.اور اگر لوگ عقل کی بات کو پوچھتے تو آج محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی حکومت کی جگہ مشرکوں کی حکومت کیوں ہوتی ؟ تمہاری تائید میں جو دلائل ہیں ان سے بہت زیادہ دلائل قرآن کریم اور خدا تعالے کی تائید میں ہیں.اسی طرح تمہارے تائیدی دلائل سے بہت زیادہ دلائل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید میں ہیں.لیکن آج عقل کو کوئی نہیں پوچھتا.آج لوگ لٹھ کو دیکھتے ہیں اور لٹھ تمہارے ہاتھ میں نہیں بلکہ خدا کے ہاتھ میں ہے.اس لئے تم خدا تعالیٰ سے دعائیں کرو.خدا تعالٰی اگر آج بھی بچا ہے تو وہ آسمان سے صرف ایک کن کہہ کہ ساری دُنیا کے نقشوں کو بدل سکتا ہے.اس لئے ہر شخص دُعاؤں میں مشغول ہو جائے.خصوصاً پہلے ایک دو دن ایسے ہیں جن میں دُعاؤں کی زیادہ ضرورت ہے، آج یا کل یا بعد سے حد پر سون کا دن ایسا ہو گا جس میں فیصلے ہو جائیں گے اور خدا تعالے کی یہ سنت ہے کہ وہ ماضی میں تغیر نہیں کیا کرتا بلکہ مستقبل میں تغیر کرتا ہے.ماضی کے متعلق تو وہ کہتا ہے کہ بعد و جہد کرو اور پھر ہم سے مدد طلب کرو اور آئی ہوئی چیز کے بدلنے میں خدا تعالے کا قانون جو وقت بچا ہتا ہے وہ ضرور لگتا ہے.پس خدا جانے اس پر کتنا وقت لگے اور کتنی تکلیفوں میں سے ہمیں گزرنا ہے لیکن نہیں اپنی تکلیفوں کا بھی اتنا احساس نہیں جتنا سلسلہ کی تکالیف کا احساس ہے.اگر ہماری زندگیوں کا ہی سوال ہوتا تو ہم میں سے بہت سے اپنی اور اپنے بیوی بچوں کی جانیں پیش کر دیتے اور کہتے کہ ہماری جانیں اس غرض کے لئے حاضر ہیں لیکن یہاں جانوں کا سوال نہیں بلکہ سلسلہ کی عزت کا سوال ہے.میں نے اس دفعہ مصلحتنا عورتوں کو اعتکاف بیٹھنے سے منع کر دیا ہے کیونکہ ہم لہنگا می کاموں میں بہت زیادہ مصروف ہونے کی وجہ سے ان کی حفاظت کا صحیح طور پر انتظام نہیں کر سکتے.لیکن مردوں میں سے جو بڑی عمر کے ہیں انہیں چاہئیے کہ اگر ہو سکے تو ساری ساری رات بھا گئیں اور خدا تعالے ¦
کے حضور گریہ وزاری کریں ، اکیلے بھی اور مشترکہ طور پر بھی.اسی طرح عورتوں کو چاہیے کہ وہ گھروں میں بیٹھ کر دعائیں کریں اور اتنی تضرع اور گریہ وزاری سے دعائیں کریں کہ خدا تعالے کا عرش ہل جائے.بلکہ یونس نہی کی قوم کی طرح اگر وہ اپنے دودھ پیتے بچوں کو بھوکا رکھ کر انہیں بھی دعاؤں میں شامل کر لیں تو یہ بھی کوئی بڑی قربانی نہیں ہو گی.ہمارے خدا میں سب طاقتیں ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ جو کچھ ہو گا آخر سلسلہ کے لئے بہتر ہوگا.لیکن آخر سلسلہ کے لئے بہتر ہوگا اور اب بہتر ہو جائے، اس میں زمین و آسمان کا فرق ہے.آخر میں تو ضرور ایسا ہوگا کہ ہمارے سلسلہ کو کامیابی حاصل ہو.لیکن ہو سکتا ہے کہ بہاری غفلت اور کوتاہیوں کی وجہ سے درمیانی عرصہ میں ہزاروں بہانوں کو دُکھ برداشت کرنا پڑ سے اور ہزاروں عزتوں کو برباد کرنا پڑے اور ہزاروں نوجوانوں کو قربان ہونا پڑے.پس دُعائیں کرو.دعائیں کرو اور دعائیں کرو.کیونکہ اس سے زیادہ دنیوی طور پر نازک وقت ہماری جماعت پر کبھی نہیں آیا.خدا ہی ہے جو اس گھڑی کو ٹلا دے اور اپنے فضل سے ایسے راستے پیدا کر دے.کہ جن سے جلد سے جلد ہماری کامیابی کی صورتیں پیدا ہونے لگ جائیں“ لے پناہگترین میں کی ر خون سانڈ کی سکیم کے مطابق ضلع گورداسپور مغربی امرت کے مسلمان پنا بگرین قادیان میں پنجاب پاکستان میں شامل کیا گیا تھا اسلئے یونہی میں اور اُن کے قیام و طعام کا مرکزی نظام مشرقی پنجاب کے دوسرے الطالع بینی اور ہوشیار پور لدھیانہ وغیرہ میں مسلمانوں پر منظم محملے شروع ہو گئے مسلمان اس ضلع میں پناہ گزین ہو گئے اور بالخصوص امرت سر کے پناہ گزینوں کی ایک ہائے تعداد بثالہ اور قادیان میں آپہنچی.حضرت امیر المومنین الصلح الموعود نے ۲ ار است گرد کو مولانا جلال الدین صاحب شمت مبلغ بلاد عربیه و انگلستان کو انچارج مہاجرین مقر فرما دیا تا آنے والے مظلوم ، بے بس اور نہتے مسلمان بھائی کے کھانے اور رہائش کا بہتر انتظام کیا جا سکے.الفضل " ال ظهور/ اگست سره مش صفحه ۲ تا ۳ ۹ + جب میت ۱۳ اگست ۱۹۴۷ء کو قادیان کے
410 صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے اس خدشہ کا اظہار کیا کہ پناہ گزینوں کی داستانیں سن کر یہاں کوئی فساد ہی نہ ہو جائے حضرت صاحبزادہ صاحب کی اس وفد سے کیا گفتگو ہوئی اس کی تفصیل آپ نے وفد کے بھانے کے معا بعد حضرت مصلح موعود کی خدمت میں بھیجوا دی جو مندرجہ ذیل الفاظ میں تھی :- بھی ابھی قادیان کے ہندوؤں اور سکھوں کا ونقد مجھے بل کر گیا ہے.یہ لوگ بہت گھبرائے ہوئے تھے میں نے انہیں تسلی دلائی کہ جب حضرت صاحب اور ہم بار بار کہہ چکے ہیں کہ ہم کسی کے خلافت پیل نہیں کریں گے بلکہ اگر قادیان کے غیر مسلم ہمارے ساتھ وفادار رہیں گے تو اُن کی بھی حفاظت کریں گے تو گھبراہٹ کیسی ؟ انہوں نے کہا کہ حالات کی خرابی کے باعث ہم تسلی کیلئے دوبارہ ملنے آئے ہیں.دوسری بات انہوں نے یہ کہی کہ قادیان میں با ہر سے بہت سے پناہگزین آرہے ہیں ہمیں ڈر ہے کہ اُن کی وجہ سے اور ان کی باتوں کوشن کر کوئی فساد کی صورت نہ پیدا ہو جائے.میں نے کہا جہانتک احمدی پناہ گزینوں کا تعلق ہے وہ ہماری جماعت کا حصہ ہیں اور ہمارے نظام کے ماتحت ہیں.باقی رہے غیر احمدی پناہ گزین تو وہ تو خود بیچارے مسلموں سے بھاگے ہوئے ہیں اُن سے کسی کو کیا ڈر ہو سکتا ہے ؟ اور ہم نے اُن کے انتظام کے لئے پہلے سے ایک افسر مقر کر دیا ہے تا کہ ایک طرف انہیں کسی قسم کی تکلیف نہ ہو اور دوسری طرفت اس بات کا خیال رکھا جائے کہ ان کی وجہ سے اشتعال کی صورت نہ پیدا ہو.ہر حال یہ وقد تستی پاکر گیا ہے اور یہ بھی کہ کر گیا ہے کہ ہم آپ کے ساتھ ہر طرح و فادار رہیں گے علاقہ بھر میں سخت ابتری اور افراتفری میبی گورداسپور کے مسلمانوں کا وصلہ بلند رکھنے کی جدوجہد ہوئی تھی.ان حالات میں ضرورت اس بات کی تھی کہ ضلع گورداسپور اور بالخصوص قادیان کے ارد گرد کے علاقہ میں مسلمانوں کے حوصلے بلند رکھے جھائیں اور انہیں آنے والے حالات میں ثابت قدم رہنے اور اپنے اندر تنظیم اور یک جہتی پیدا کرنے کی تلقین کی جائے.اس اہم ملی تقاضا کے پیش نظر اگست کے وسط میں کئی ایسی پارٹیاں ارد گرد کے علم میں بھجوائی گئیں.اس سلسلہ میں پہلی پارٹی موضع تلونڈی جھنگلاں میں بھیجی گئی.موضع تلونڈی قادیان سے شمال مغربی جانب پانچ میل کے فاصلہ پر واقع ہے.یہاں اکثریت احمدیوں کی تھی سولہ گھر سکھوں اور
اله بلیس کے قریب مہتروں کے تھے کل آبادی دو ہزار کے قریب تھی.گڑ بڑ کے دنوں میں ہی تین ہزار مسلمان پناہ گزین ہو کر یہاں آگئے تھے.جب ہنگامے اُٹھنا شروع ہوئے تو تلونڈی کے باشندوں کی درخواست پر قادیان سے ۱۵ را گست ۹ہ کو چودہ نوجوان بھیجوائے گئے اور انہیں کھلے لفظوں میں ہدایت کی گئی کہ اُن کا مقصد مسلمانوں کے حوصلہ کو بلند رکھنا اور ان کی تنظیم کرنا ہے.۱۴ دوسری پارٹی وار اگست شہر کو آٹھ بجے شام جو بارہ افراد پرمشتمل تھی، کڑی ، بھیٹ ، پیری وغیر مسلمان علاقوں کی طرف بھیجوائی گئی.جب یہ پارٹی روانہ ہوئی تو رات سخت اندھیری اور تاریک تھی اور بارش ہونے کے باعث دلدل کا یہ حال تھا کہ ایک ایک فٹ تک پاؤں دھنستے بھاتے تھے مگر یہ پارٹی حکم کی تعمیل میں آگے ہی آگے بڑھتی چلی گئی.کڑی ، بھیٹ کے تین مسلمان گھڑ سوار پارٹی کی راہ نمائی کہ رہے تھے اور پارٹی پیدل جا رہی تھی.خدا خدا کر کے دو بجے شب کڑی ، بھیٹ کی زمین نظر آئی جہاں دوسرے دن صبح گاؤں کے معتبر افراد کو اکٹھا کیا گیا اور انہیں خود حفاظتی کی نہایت موثر رنگ میں تلقین کی گئی مگر انہوں نے کہا کہ سکھوں کے ساتھ ہمارے پرانے تعلقات ہیں اُن سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں ہے شام کو پارٹی بیری وغیرہ کی طرف روانہ ہونے لگی تو بھیٹ والوں نے ان کا راستہ روک لیا اور اُنھیں نہایت بھولے پن سے یہ مشورہ دیا کہ آج کی بجائے صبح پہلے جانا.پارٹی نے اپنا ارادہ صبح پر ملتوی کر دیا.اور سمجھا کہ شاید انہیں ہماری گذارشات کے متعلق کچھ احساس پیدا ہو گیا ہے مگر اُن کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب انہوں نے اُن کی زبان سے یہ بات سنی کہ ہم اپنے گاؤں کے کمی چوہڑے آپ کے ساتھ بھیج رہے ہیں تا آپ راستہ میں سکھ دیہات پر حملہ کر کے انہیں بھگا دیں اور ہمارے مسلمان بھائی گندم کی ٹوٹ سے فیض یاب ہو سکیں.پارٹی کے افراد نے جھنجلا کر کہا کہ ایسا کرنا شرافت کے صریح خلاف ہے اور یہ کہہ کر ایسا کرنے سے صاف انکار کر دیا اور دوسر سے دن علی الصبح ۵ بجے بیری کی طرف روانہ ہو پڑے.راستہ میں اولکھ اور سونچ (دو سیکھ دیہات میں یہ عجیب خبر مشہور ہو گئی کہ کوئی جمعتہ آرہا ہے میں پر اورلکھ وغیرہ کے سکھوں نے بیری کے مسلمان نمبر دار اور دو تین معتبرین کو اپنے پاس بلا کہ اصل کیفیت پوچھی.اُن میں سے ایک مسلمان نے جواب دیا کہ یہ قادیان والے ہیں جو عوام کو مچھر امن طور پہ رہنے کی تلقین کر رہے ہیں.ان کا قیام میرے ہاں ہے اس لئے آپ کو کسی قسم کا فکر نہ کرنا چا ہیئے.یہ سُن کر سکھوں نے جواب دیا کہ ٹھیک ہے اگر قادیان والے ہیں تو وہ یہاں رہیں ان سے کسی قسم کی خرابی کی ہرگز کوئی توقع نہیں ہو
۱۲ سکتی مگر یہ پارٹی جبار اگست کو ایک بجے شب کے بعد واپس قادیان آرہی تھی تو بیری اور قادیان کے رستہ میں نہر کے پل پر سکھوں کا ایک جتھہ ان کا راستہ روکنے کے لئے موجود تھا مگر اللہ تعالے کی قدرت ! جب پارٹی کے افراد پیل پر پہنچے تو پہلی ڈیوٹی والے دوسری ڈیوٹی والے سکھوں کو نزدیک کے باغ میں جگانے کے لئے چلے گئے اور پارٹی خاموشی سے پل پار کر کے چار بجے صبح مرکز میں پہنچ گئی.حضرت مصلح موعود ۱۲ ظہور / اگست کو نماز عشاء کے لئے.حضرت مصلح موعود کا ایک الہام تشریف لائے توحضور نے احباب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :- در حین امر کے متعلق میں دوستوں کو پہلے بھی دعا کی طرف توجہ دلا چکا ہوں.اس امر کے متعلق آج پھر دعا کی تحریک کرنا چاہتا ہوں.اس وقت تک جو خبر میں آ رہی ہیں وہ تشویشناک ہیں.دوستوں کو ڈھا کرنی چاہئیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ایسے سامان پیدا فرمائے جن سے ہماری مشکلات دور ہوں اور جماعت کو ترقی حاصل ہو " اس کے بعد حضور نے اپنے بعض تازہ الہامات و رڈیا کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا :- اسی طرح آج عصر کے بعد مجھے الہام ہوا کہ اينمَا تَكُونُوا يَاتِ بِكُمُ اللهُ جَمِيعًا " اس الہام میں تبشیر کا پہلو بھی ہے اور اندار کا بھی.تفرقہ تو ایک رنگ میں پہلے ہو گیا ہے.یعنی ہماری کچھ جماعتیں پاکستان کی طرف چلی گئی ہیں اور کچھ ہندوستان کی طرف ممکن ہے اللہ تعالیٰ اُن کے اکٹھا ہونے کی کوئی صورت پیدا کر دے.اگر ہمارا قادیان ہندوستان کی طرفف پہلا جائے تو اکثر جماعتیں ہم سے کٹ جاتی ہیں کیونکہ ہماری جماعتوں کی اکثریت مغربی پنجاب میں ہے.اس لئے دوستوں کو اس معاملہ میں خاص طور پر دعاؤں سے کام لینا چاہیے.جب کسی شخص کا بچہ بیمار ہوتا ہے تو اُسے دُعا کا کتنا بڑا احساس ہوتا ہے اور یہ معاملہ کسی ایک شخص سے نہیں بلکہ جماعت کے لاکھوں آدمیوں سے تعلق رکھتا ہے.اس لئے تمام دوستوں کو نہایت تفریع اور انکسار کے ساتھ دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ اس معاملہ میں ہماری مدد فرمائے اور ایسے سامان پیدا فرمائے تو ہماری بہتری اور ترقی کا موجب ہوں“ لہ ة " الفضل" ١٨ ظهور را اگست ست له مش صفحه ۲ : 71474
47 ۱۴ را گست ۶ مہ کو ہندوستان انگریزی اقتدار سے پر پاکستان اور بھارت کے قیام کیہ آواہ ہو کہ پاکستان اور بھارت کی دو آزاد حکومتوں میں آزاد حضرت سید نا الصلح الموعود کی دعا تقسیم ہو گیا اور ساتھ ہی وسطی پنجاب میں خونریز فسادات شروع ہو گئے حضرت سیدنا المصلح الموعود نے آزادی کے دوسر کروز ها را گست (ظہور) کو خطبہ جمعہ میں اس تغیر تعظیم کا ذکر کرتے ہوئے پہلے تو مشرقی پنجاب میں قتل و غارت اور فساد یہ نہایت درجہ غم و اندوہ کا اظہار کیا اور فرمایا :- مد اس آزادی کے ساتھ ساتھ خونریزی اور تکلم کے آثار بھی نظر آتے ہیں خصوصاً ان علاقوں میں جن کے ہم باشندے ہیں.وسطی پنجاب اس وقت لڑائی جھگڑے اور فساد کا مرکز بنا ہوا ہے ان فسادات کے متعلق روزانہ جو خبریں آرہی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ سینکڑوں آدمی روزانہ موت کے گھاٹ اُتارے بجا رہے ہیں اور ایک بڑی جنگ میں جتنے آدمی روزانہ مارے جاتے تھے اتنے آجکل اس چھوٹے سے علاقہ میں قتل ہو رہے ہیں اور ایک بھائی دوسرے بھائی کا گلا کاٹ رہا ہے.پس ان حالات کے ماتحت جیسے عید کے دن اس عورت کے دل میں خوشی نہیں ہو سکتی جس کے اکلوتے بچے کی لاش اس کے گھر میں پڑی ہوئی ہے اور جیسے کسی قومی فتح کے دن ان لوگوں کے دل فتح کی خوشی میں شامل نہیں ہو سکتے جن کی نسل فتح سے پیشتر اس لڑائی میں ماری گئی.اسی طرح آج ہندوستان کا سمجھ دار طبقہ با وجود خدا تعالے کا شکر ادا کرنے کے اپنے دل میں پوری طرح خوش نہیں ہو سکتا " اس اظہار تاسف کے بعد حضور نے فرمایا :- ید دو حکومتیں جو آج قائم ہوئی ہیں ہمیں ان دو نو سے ہی تعلق ہے کیونکہ مذہبی جماعتیں کسی ایک ملک یا حکومت سے وابستہ نہیں ہوتیں.ہماری جماعت کے افراد پاکستان میں بھی ہیں اور ہماری جماعت کے افراد انڈیا میں بھی ہیں....گو ہماری جماعت کے افراد پہلے بھی غیر ملکوں میں رہتے تھے مگر وہ تو پہلے ہی ہم سے الگ رہتے تھے.مگر اب ہو ہمارے بھائی ہم سے الگ ہو رہے ہیں وہ ایک عرصہ سے اکٹھے رہتے آرہے تھے.اب ہم ایک دوسرے سے اس طرح ملا کریں گے جیسے غیر ملکی لوگ آپس میں ملتے ہیں.
۷۱۴ ام اس آزادی اور ایک کے موت پر خداتعالی سے دعاکرتے ہیں وہ دونوں کی بیوی نے ان دونوں کوکی مدل دامان پر قائم رہنے کی توفیق بخشے اور ان دنوں مکوں کے لوگوں کے دلوں میں محبت اور پیار کی روح بھرا ہے.یہ دونوں ملک ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرینگر برادران و پودر دوران دو برادر مخلص به طور را در بیان ان میں روح مقابلہ پائی جائے وہاں ان میں تعاون اور ہمدردی کی روح بھی پائی بہائے اور یہ ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک حال ہوں.خدا تعالے انہیں ہر شر سے بچائے اور اپنے فضل سے امن اور صلح اور سمجھوتے کے ذریعہ سے ایسے سامان پیدا کر دے کہ ہم.کا اس کو اسلام کی روشنی کے پھیلانے کا مرکز بنا سکیں، اللهم امین قادیان میں یوم آزادی کی تقریب ارگست شہد کو قادیان میں پورے وقارسے یوم آزادی کی تقریب منائی گئی.قادیان کی سرکاری عمارتوں ، ڈاک خانہ ، ایک پینچ آفس، پولیس چوکی وغیرہ پر پاکستان کا جھنڈا لہرایا گیا اور اُسے سلامی دی گئی.نیز غرباء میں مٹھائی تقسیم کی گئی اور کھانا کھلایا گیا.علاوہ ازیں نماز جمعہ کے بعد مسجد اقعی میں حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم.اے (ایم الی ہے کی صدارت میں ایک جلسہ بھی منعقد ہوا جس میں حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ناظر امور عامہ اور حضرت چوہدری صاحب نے تقریریں فرمائیں اور ان اہم ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی جو آزاد ہوتے کے بعد اہل ملک پر عائد ہوتی ہیں.اجتماعی دعا پر یہ جلسہ بر خاست ہوا ہے فصل ہشتم قادیان کے ہندوستان میں شامل کئے جانے کا فیصلہ اب ہم تاریخ احمدیت کے ایک ایسے سنگین اور پُرفتن موڑ میں داخل ہو رہے ہیں جس اور حضرت سید نا الصلح الموعود کا پر شوکت اعلان کی ہولناکیوں کا تصور آج بھی لرزہ بر اندام ه وسله " الفضل " ۱۶ ظهور/ اگست ۱۳۳۶ مش صفحه ۲۰۱
کر دیتا ہے اور نہیں دور کے اثرات صدیوں تک قائم رہیں گے.JANC جماعت احمدیہ کے مقدس امام اور بندا کے پیارے مصلح موعود آنے والے خوفناک خطرات کو اپنی بصیر کی آنکھ سے دیکھ رہے تھے اور ان پرفتن ایام میں مجسم گریہ و بکا بنے ہوئے تھے.حضرت مصلح موعود کی انتہائی خواہش تھی کہ قادیان پاکستان میں شامل ہو اور اس کی تکمیل کے لئے آپ نے ایک فقید المثال اور سر فروشان جد و جہد بھی کی اور بے شمار اقتصادی مشکلات اور محدود ذرائع کے باوجود ہزاروں روپے اس سلسلہ میں قربان کر ڈالے.بہترین علمی قابلیتیں اور فنی صلاحیتیں صرف کیں اور ریڈ کلف ایوارڈ کے سامنے حق و صداقت کی نذر حافی کا حق ادا کر دیا مگر خدائی تقدیر جس کے اندر بے شمار مصلحتیں اور حکمتیں مضمر تھیں بہر کیف پوری ہو کے رہی یعنی ریڈ کلف ایوارڈ میں کاراگست ۱۹۴۷ مه (مطابق ، ظهور ۱۳۳۷ بیش) کو نہایت طالله طور پر بٹالہ ، گورداسپور اور پٹھانکوٹ کی مسلم اکثریت کی تحصیلیں ہندوستان کا حصہ بنا دی گئیں جس کے نتیجہ میں قادیان کی مقدس بستی بھی بھارت میں شامل کر دی گئی.اس فیصلہ کا اعلان سُن کر قادیان کے احمدیوں پر کیا گزری ؟ اس کا اندازہ آج نہیں لگایا جا سکتا.اس دن ہر آنکھ انسکیاں ، ہر چہ اُترا ہوا ، ہر سینہ زخم رسیده ، ہر جسم نڈھال اور ہر روح لرزہ بر اندام تھی.اس ہوشر با قیامت کے دوران شام ہوئی تو حضرت امیر المومنين المصلح الموعود مسجد مبارک میں تشریف لائے.نماز مغرب پڑھائی اور پھر مجلس علم و عرفان میں رونق افروز ہو کر نہایت تفصیل سے بتایا کہ ہم کئی دنوں سے قادیان کے پاکستان میں شامل ہونے کے لئے دُعائیں کر رہے تھے اور بعض کو اس سلسلہ میں مبشر خوا ہیں کبھی آئی تھیں.اس ضمن میں فرمایا :- جن دوستوں نے اپنی کی ہوئی تعبیروں کے غلات ہوتے دیکھا ہے انہیں گھبرانا نہیں چاہیئے.اور نہ یہ سمجھنا چاہیے کہ ان کی خوابیں شیطانی تھیں.جنہوں نے اپنی خوابوں کی تعبیر کی تھی کہ قادریان پاکستان میں شامل ہوگا.ان کی تعبیریں ابھی غلط نہیں ہوئیں اور اپنے وقت پر سچی ثابت ہوں گی " اس سلسلہ میں مزید فرمایا :- " ہم تم تو شطرنج پر ایک مہرے کی حیثیت بھی نہیں رکھتے.سلسلہ احمدیہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک لمبی اور نہ ختم ہونے والی تاریخ کا مالک ہے اور اسلام قیامت
تک کی تاریخ کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے.اگر اس دُنیا کے دو پرت فرض کر لئے بھائیں تو یوں سمجھنا چاہیے کہ ایک پرت قبل از اسلام اور احمدیت کا ہے اور ایک پرت اسلام اور احمدیت کا ہے گویا ورق عالم کا ایک صفحہ قبل از اسلام اور احمدیت کا ہے اور دوسرا صفحہ اسلام اور احمدیت کا ہے اور اس صفحہ پر ہماری حیثیت زیر اور زبہ بلکہ نقطہ کی بھی نہیں کیونکہ کروڑوں کے وڑاحمدیوں کے مقابلہ میں چند لاکھ کی کیا حیثیت ہے.ہم نہیں جانتے کہ آئندہ کیا نتائج نکلنے والے ہیں اور ہم میں سے کون زندہ رہ کر دیکھے گا اور کون مر جائے گا لیکن فتح بہر حال احمدیت کی ہوگی.پس خدا تعالیٰ کے اس فعل کو اپنے لئے مضر نہیں سمجھنا چاہیئے کیونکہ خدا تعالے کا کوئی فصل بہار لئے مضر نہیں ہو سکتا بلکہ وہ ہماری ترقیات کا پیش خیمہ ثابت ہوگا اور اللہ تعالے ملباف حالات میں ہماری تائید اور نصرت فرما کہ یہ بات واضح کر دے گا کہ وہ ہماری جمعیت کیا ہے ممکن ہے.خدا تعالیٰ ہمارے ایمانوں کی آزمائش کرنا چاہتا ہے اور تمہیں ابتلاؤں میں ڈال کر یہ دیکھنا چاہتا ہو کہ ہم میں سے کون اپنے ایمان میں کچھتے ہیں اور کون ہیں جو مجھ پر اور میری نصرت پر کامل ایمان رکھتے ہیں.خدا تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ ہر حال میں ہمارا حامی و ناصر ہو اور اپنے فضل کے دروازے ہم پر کھول دے اور ہمیں ہر ابتکار میں ثابت قدم رہنے کی توفیق دوسرے دن ۱۸ ظہور / اگست کو عید الفطر نفتی ر عید کے اس اجتماع میں فسردگی طاری تھی.ہر احمدی احمدیت اور قادیان کے مستقبل کے متعلق مشوش اور پریشان خاطر تھا کہ حضرت مصلح موعود رونق افرون ہوئے، نماز عید پڑھائی اور اپنے پر شوکت خطبہ سے اسلام اور احمدیت کی ترقی اور کلمہ پر ایک زندہ ایمان اور زندہ ولولہ پیدا کر دیا.اور زخم رسیدہ بلکہ مردہ دلوں میں پھر سے زندگی کی زبر دست روح پھونک دی حضور نے فرمایا :- جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے اور جب سے اللہ تعالیٰ کے رسول دُنیا میں آنے شروع ہوئے ہیں یہ انہی سنت چلی آتی ہے کہ خدا تعالیٰ کے لگائے ہوئے درخت ہمیشہ آندھیوں اور طوفانو ل "الفضل" در تبلیغ فروری مش صفحه ۵ کالم ہو تا ہم :
کے اندرہی ترقی کیا کرتے ہیں اور اللہ تعالے کی جماعت کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ ان آندھیوں اور طوفانوں کو صبر سے برداشت کرے اور کبھی ہمت نہ ہارے جیس کام کے لئے انہی جماعت کھڑی ہوتی ہے وہ کام خدا تعالے کا ہوتا ہے بندوں کا نہیں ہوتا.پس وہ آندھیاں اور طوفان جو بظاہر اس کام پر چلتے نظر آتے ہیں در حقیقت وہ بندوں پر چل رہے ہوتے ہیں اس کام پر نہیں پھیل رہے ہوتے اور یہ محض نظر کا دھوکہ ہوتا ہے.جیسے تم نے ریل کے سفر میں دیکھا ہوگا کہ چل تو ریل رہی ہوتی ہے مگر تمہیں نظر یہ آتا ہے کہ درخت چل رہے ہیں.اسی طرح جب آندھیاں اور طوفان انہی مسلسلوں پر آتے ہیں تو جماعتیں یہ خیال کرتی ہیں کہ یہ آندھیاں اور طوفان ہم یہ نہیں بلکہ سلسلہ پر چل رہے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ وہ سلسلہ پر نہیں رہے ہوتے بلکہ افراد پر آرہے ہوتے ہیں.اُن افراد پر جو اس سلسلہ پر ایمان لانے والے ہوتے ہیں.ان آندھیوں اور طوفانوں کو بھیج کر اللہ تعالے مومنوں کے ایمان کا امتحان لیتا ہے.خدا تعالیٰ کے کلام اور خدا تعالے کی بھیجی ہوئی تعلیم کا امتحان لینے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ امتحان تو انسانوں کا لیا جاتا ہے.پس یہ آندھیاں اور یہ طوفان انسانوں پر آتے ہیں مگر انسان کم عقلی سے یہ سمجھتا ہے کہ کسی اور پر آرہے ہیں اور وہ طوفان جو اس کو ہلا رہے ہوتے ہیں ان کے تعلق وہ یہ خیال کرتا ہے کہ یہ خدائی سلسلہ کو ہلا رہے ہیں.پس ہماری جماعت کو ہمیشہ یادرکھنا چاہیے کہ وہ پودا جو خدا تعالیٰ نے لگایا ہے وہ بڑھے گا، پچھلے گا اور پھولے گا اور اس کو کوئی آندھی تباہ نہیں کر سکتی.ہاں ہماری غفلتوں یا ہماری سمستیوں یا ہماری لغزشوں کی وجہ سے اگر کوئی ٹھو کر آ جائے تو وہ ہمارے لئے ہوگی سلسلہ کے لئے نہیں ہوگی.جب ہم اپنے توازن کو درست کر لیں گے اور اپنے ایمانوں کو مضبوط کر لیں گے تو وہ حوادث نخود بخود دور ہوتے چلے جائیں گے بلکہ وہ حوادث ہمارے لئے رحمت اور برکت کا موجب بن جائیں گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ سے ہجرت کی تو لوگوں نے سمجھا کہ ہم نے ان کے کام کا خاتمہ کر دیا ہے اور یہ حادثہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کے لئے زبردست حادثہ ہے لیکن جس کو لوگ حادثہ سمجھتے تھے کیا وہ حادثہ ثابت ہوا یا برکت و دنیا بھالتی ہے کہ ليه
LIA وہ حادثہ ثابت نہ ہوا بلکہ وہ الہی برکت بن گیا اور اسلام کی ترقیات کی بنیاد اسی پر پڑی.پس ہماری جماعت کو اپنے ایمانوں کی فکر کرنی چاہیے.اگر تم اپنے ایمانوں کو بڑھا لو گے اور اپنے ایمانوں کو مضبوط کر لو گے تو تمہارے لئے سال میں صرف دو عیدیں ہی نہیں آئیں گی بلکہ ہر نیا دن تمہارے لئے عید ہوگا اور ہر نئی رات تمہارے لئے نیا چاند لے کر آئے گی.تم خدا تعالے کی برگزیدہ جماعت ہو اور خدا تعالے اپنی برگزیدہ جماعت کو اُٹھانے اور بڑھانے کے لئے ہر وقت تیار رہتا ہے“ لے حضرت مصلح موعود نے اپنے اس خطبہ عید کے آخر میں جماعت احمدیہ کے ہر فرد کو یہ نصیحت بھی فرمائی کہ تم اپنے متعلق صرف یہ سمجھو کہ خدا تعالیٰ نے تمہیں قربانی کا بکرا بنایا ہے اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ عیدان بکروں کی وجہ سے ہوتی ہے.عید بالکل الگ چیز ہے اور بکر سے الگ چیز ہیں.پس تم اپنے دلوں کے اندر یہ یقین رکھو کہ تم صرف قربانی کے بکرے ہو اور جو کچھ ہے وہ تمہارا خدا ہی ہے تم کچھ بھی نہیں جس دن تم اس انکسار کے مقام پر کھڑے ہو جاؤ گے اور جس دن تم اعتراف نصرت باری کا مقام حاصل کر لو گے تو گو نصرت الہی اب بھی تمہارے شامل محال ہے مگر اس وقت ہو اللہ تعالے کی نصرت تمہارے لئے آئے گی وہ اس سے کہیں بالا ہوگی، پس تم اپنے آپ کو الہی تم خدا تعالے کی تلوار بن بھاؤ.ہتھیار بے شک ایک بے جان چیز ہے مگریہ نہ مجھو کہ تم بے جان ہو کہ گیر بھاؤ گے.اگر ایک بادشاہ کی جوتی یا کسی بادشاہ کا قلم یا شکسپیر کی کتابیں کچھ حیثیت رکھتی ہیں تو تم مجھ لو کہ جو شخص خدا تعالے کا ہتھیار بن جائے اس کی کیا حیثیت ہوگی.پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ تکبیر اور بڑائی کا خیال چھوڑ دو اور اپنے نفسوں پر ایک موت وارد کر لو تا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنا ہتھیار بنائے" سے قدرتوں کا آلہ بنا لو " الفضل ظهور اگست کے ایضاً ه ش
44 فصل نهم قادیان کے ماحول میں فسادات اور جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے اوائل ماہ امان ارماری 51904 مہیش میں لاہور، امرت سر اور ملتان وغیر قتل غارت، اغوا اور آتشنر فیکا خطرناک سلم میں فرقہ وارانہ فسادات آٹھ کھڑے ہوئے جن کی وجہ سے پنجاب بھر میں خوف و ہراس پھیل گیا اور سکھوں کی طرف سے آئندہ فسادات کے لئے زیر دست تیاریاں شروع ہو گئیں.چنانچہ کتاب سکھوں کا منصوبہ میں ماہ مئی کے شاہ کے واقعات کی ذیل میں مستند معلومات کی بناء پر لکھا ہے :."1 مہینے کے آخر میں سکھوں کی تیاریاں موگا ، مالوہ اور دوآبہ میں مکمل ہو گئیں.ماجھا ابھی تیار نہ تھا لیکن علاقہ تھانہ سر بالی ، تو نتان، بیاس اور ویرووال کے باشندوں کو مسلح کرنے کی طرف توجہ کی گئی.قادیان کے آس پاس رہنے والے سیکھ بالکل تیار ہو چکے تھے لیکن تحصیل بٹالہ میں ان کی تیاری اب تک پوری نہ ہوئی تھی " اے قادیان کے ماحول میں فساد کا پہلا واقعہ ۲۴-۲۵ جولائی ۹۴۷ہ ( وفات ۳۲ بیش) کی درمیانی شب کو پیش آیا.پچیس تمیں سکھوں نے وڈالہ گر نتھیاں سٹیشن پر قادیان کی طرف جانے والی گاڑی کو روک کو اس پر حملہ کر دیا جس کی وجہ سے ڈرائیور اور پانچ چھ اشخاص زخمی ہو گئے.فائر مین نے نہایت ہوشیاری سے گاڑی پھلا دی اور اس طرح گاڑی کو قادیان سے آنے میں کامیاب ہو گیا.سے ۱۲ اگست (ظہور) کہ کو قادیان کی ریل بند کردی گئی اور اس کے ساتھ ہی ڈاک کا سلسلہ بھی منقطع ئی اور اس ہو گیا اور پھر جلد ہی تار کا سلسلہ بھی عملاً کٹ گیا اراگست ظہور ہمیش ریڈ کلف ایوارڈ کے فیصلہ کے مطابق قادیان کو ہندوستان یونین میں شامل کر دیا گیا.اور قادیان ” بھاری مخدائی امتحان میں داخل ہو گیا.چنانچہ اگلے روز ہی ۱۸ اگست ظہور میشکو ضلع گورداسپور کے مسلمان دیہات پر سکھوں کے حملوں کا آغاز ہوا جبس س : ے صفحہ ۱۲- ناشر سول ملٹری گزٹ لمیٹڈ لاہور سے " الفصل " ۲۰ وقار جولائی پیش صفحه :
۷۲۰ کے ساتھ قتل و غارت ، لوٹ مار ، اغوا اور آتشزنی کے بھیانک حادثات شامل تھے اور یہ سلسلہ روز برونو زیادہ وسیع اور زیادہ خطرناک ہوتا گیا ھتی کہ بالآخر ضلع بھر کے سب مسلمان دیہات قتل و غارت کے ذریعہ خالی کرائے گئے.انہی ایام میں سکھوں نے قادیان کے ارد گرد سب راستے اور نہروں کے پل مسدود کو نا شروع کر دیئے اور آمد و رفت پر خطرا اور سخت مخدوش ہو گئی.۲۱ اگست (ظہور) کو قادیان سے غربی میانب واقع احمدی گاؤں وتجواں پر سکھوں نے حملہ کیا جس کے نتیجہ میں قریباً ۰ ۵ آدمی شہید اور ۳۹ زخمی ہوئے اور لوٹ مار سے گاؤں خالی کرا لیا گیا.۲۲ اگست (ظہور) کو میجر چودھری شریف احمد صاحب باجوہ بی.اے ، ایل ایل بی سیفٹی آرڈی نیس کے تحت گرفتار کر لئے گئے ہے ای این احمدی در کاقیام پکستان میں ان کا ایوارڈ کے فیصل کے اورسیر الصقر المصلح الموعود نے سب سے پہلا اور اہم قدم یہ اٹھایا کہ جماعت احمدیہ کا خزانہ پاکستان میں منتقل کرنے کا فوری انتظام فرمایا.اور ۲۳ ظہور / اگست این کو دفتر یا سب صدر احسین احمدیہ کی ایک شاخ امپل روڈی ہور میں کھول دی گئی اور راہبہ علی محمد صاحب ناظر بیت المال نے بذریعہ مطبوعہ سرکار مورخہ امر اگست ۱۹۴۷ ) تمام امراء و صد ر صاحبان کو اطلاع دی کہ آئندہ تمام جماعتیں جو مغربی پنجاب اور صوبہ سرحد اور سندھ میں واقع ہیں وہ تا اطلاع ثانی صدر انجین احمدیہ کے ہر قسم کے پھندے اور حفاظت مرکز کی تحریک کے متعلق تمام رقمیں بنام محاسب صاحب صدر انجمن احمدیہ ۱۲ ٹمپل روڈ لاہور بھیجیں اور ہر مقامی جماعت کے ذمہ جس قدر چندے اور وعدے قابل ادائیگی ہیں وہ فوراً ادا کئے بھائیں ، سے ن " الفضل " صلح جنوری ساله اش صفحه ۴ سکہ قریشی محمد عبد اللہ صاحب (حال سپرنٹنڈنٹ تعلیم الاسلام کالج کا بیان ہے کہ حضرت امیرالمومنین خلیفہ السیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ارشاد تھا کہ محاسب صدر انجین احمدیہ (مرزا عبد الغنی صاحب) فورال ہور بذریعہ ہوائی جہاز چلے جائیں اور اپنے ساتھ کوئی ہوشیار کارکن جسے وہ پسند کریں ساتھ لے جائیں اور وہاں دفتر محاسب و امانت کی یہ کریں اور اپنے ساتھ روپیہ بھی لیتے جائیں.چنانچہ مرزا عبد الغنی صاحب 9 اگست کار کو جمعہ کی نماز کے بعد مسجد سے دفتر خزانہ صدر انجین احمدیہ سے خونم کا روپیہ لے کر مارال انور پہنچ گئے اور بذریعہ ہوائی جہاز لاہور روانہ ہو گئے.آپنے روانگی سے قبل خاکسار کو جو اس وقت دفتر محاسب و امانت کا ہیڈ کلرک تھا.ہدایت فرمائی کہ کل صبح نماز فجر کے معا بعد حضرت صاحبزادہ مرزا (بقیہ حاشیہ اچھلے صفر پر )
الصلح المود کا پہلا پیغام قادیان کاتعلق باقی دنیا سے کٹ چکا تھا جس کی وجہ سے بیرونی ر سید نام جماعتوں کا مشوش اور پریشان ہونا لازمی امر تھا حضرت سیدنا بیرونی احمدی جماعتوں کے نام المصلح الموعود نے ان حالات کو دیکھ کہ بیرونی احمدیوں کے لئے اپنے قلم مبارک سے بعض پیغامات لکھے تا دوسری احمدی جماعتیں نہ صرف مرکز کی مخدوش صورت حال سے یا خبر ہوں بلکہ نئے تقاضوں کے پیش نظر اپنی ذمہ داریوں کو مومنانہ جرات سے نباہنے کے لئے سرتا پا مکمل ہو جائیں.د بقیه حاشیه صفحه گذشته بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ سے ہدایات لے کر لاہور پہنچ جاؤں جس کی تفصیل میں خاکسار دو گر دن ۲۰ اگست کو ہفتہ کے روز نماز فجر مسجد اقصیٰ میں ادا کرتے ہی حضرت صاحبزادہ صاحب موصوف کی خدمت میں حاضر ہوا.اور اندر چٹ اپنے نام کی بھیج کر ہدایت چاہی جس پر حضرت میاں صاحب نے سرخی سے نوٹ فرمایا :- لاہور ابھی پہلے بھائیں جہاز دارالا نوار میں تیار ہوگا.اپنے ساتھ صرف دفتر کا ضروری سامان دفتر چلانے کے لئے جو دس سیر سے زائد نہ ہولے جا سکتے ہیں" میں بجائے اس کے کہ گھر جاتا جو وہاں سے صرف پانچ چھ منٹ کا راستہ تھا دفتر محاسب پہنچا اور وہاں سے کچھ رسیدات اور دو ایک ضروری رجسٹر ساتھ لئے اور خزانہ کے پہرہ دار کو کہا کہ میرے گھر پیغام دے دیں کہ میں حضور کے ارشاد کی تعمیل میں لاہور بھا رہا ہوں.میں بھاگا بھاگا دارالا نوار پہنچا.وہاں مسجد دارالانوار کے پاس جہاز اڑان کے لئے سٹار ہو چکا ہوا تھا.اس کے پائلٹ سید محمد احمد صاحب تھے.میں نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کی چٹ سید محمد احمد صاحب کو دی.انہوں نے جو آدمی پہلے جہاز میں لاہور جانے کے لئے بیٹھا تھا اُسے اُتار دیا.اور مجھے اس میں بیٹھنے کو فرمایا میں نے رجسٹر وغیرہ جہاز میں رکھے اور جہاز میں بیٹھ گیا.میرے بیٹھتے ہی جہاز راہوں کے لئے اڑان کر گیا اور میں نے جہاز میں بیٹھے بیٹھے وطن کو آخری سلام کیا.اس دن بارش ہو رہی تھی.راستے میں سید صاحب موصوف مختلف جگہوں پر سکھوں اور ہندو حملہ آوروں کے ہجوم بھی دیکھتے تھے تاکہ وہ اس کی اطلاع حضر امیرالمومنین ہے کو دے سکیں چنانچہ انہوں نے فرمایا.میں جہاز کی کھڑکیاں مذکورہ اطلاع لینے کے لئے کھول رہا ہوں جم کر بیٹھے رہو.کھڑکیاں کھل گئیں.نیچے جگہ جگہ حملہ آوروں کے ہجوم مختلف دیہات میں دیکھے گئے.کئی جگہ آگ لگ رہی تھی.ہمارا جہانہ امرتسر کے بالکل اوپر سے نہیں گذرا کیونکہ امرتسر میں تو ہمارے جہاز کو اُڑا دینے کے پورے سامان موجود تھے.اس لئے جہاز امرتسر سے ذرا ہٹ کر گزرا.قادیان سے لاہور ہم صرف نصف گھنٹہ میں پہنچ گئے.یہاں ہوائی اڈہ پر مکرم شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ تشریف لائے ہوئے تھے.وہی اس وقت لاہور میں مقابل امیر تھے.میں نے انہیں اپنی آمد اور آمد کے مقصد سے اطلاع دی.مجھے انہوں نے اپنی کار میں بٹھایا.اور کو بھٹی ٹمپل روڈ لاہور میں جو صدر انجمن کی ملکیتی ہے، پہنچے.یہاں اس وقت لاہور شہر اور بیرو نجات سے احمدی احباب فسادات کے سلسلہ میں جھولی اور شہر میں جو لوٹ مار ہو رہی تھی کے باعث مکرم شیخ صاحب سے مشورے کرنے آرہے تھے.مجھے تو حکم ہوا کہ میں وہاں کو بھی میں دفتر قائم کر لوں اور جو احباب چندہ جات وغیرہ دیتے ہیں لینے شروع کردوں.میں نے باوجودیکہ کو بھٹی میں تیل دھرنے کو بھی جگہ نہ تھی ایک کونے میں کرسی لگا کر کام
۷۲۲ اس ضمن میں حضور نے سب سے پہلا پیغام ۲۲ ظہور / اگست پیش کو تحریر فرمایا اور بذریعہ ہوائی ۱۹۴۷ جهاز شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ لاہور کو بھیجا کہ وہ اسے چھپوا کر پاکستان اور اس سے باہر ممالک کی جماعتوں کو پہنچا دیں.چنانچہ انہوں نے اس کی پوری تعمیل کی.اس اہم پیغام کا متن یہ تھا:.بسم الله العة الحمر بر اوران سماعت احمدید خدا کے فضل اور رحم کیسا تھے السلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه فسادات بڑھ رہے ہیں.قادیان کے گرد دشمن گھیرا ڈال رہا ہے.آج سنا گیا ہے.ایک احمدی گاؤں پوری طرح تباہ کر دیا گیا ہے.اس گاؤں کی آبادی چھ سو سے اوپر تھی.ریل ، تار ، ڈاک بند ہے.ہم وقت پر نہ آپ کو اطلاع دے سکتے ہیں اور نہ جو لوگ قادیان سے باہر ہوں اپنے مرکز کے لئے کوئی قربانی ہی کر سکتے ہیں.میں نے احتیاطاً خزانہ قادیان سے باہر بھجوا دیا ہے.پھر بھی اگر ان فسادوں کی درجہ سے بعض کو روپیہ ملنے میں دیرہ ہو تو انہیں صبر سے کام لینا چاہیئے کہ یہی وقت ایمان کی آزمائش کے ہوتے ہیں.مجھے بعض لوگ مشورہ دیتے ہیں کہ میں قادیان سے باہر چلا جاؤں.ان لوگوں کے اخلاص میں شیر نہیں لیکن میری بیگہ قادیان ہے.اس میں کوئی شک نہیں، تفسیر کا کام اور کئی اور کام پڑے ہیں.لیکن ان کاموں کے لئے خدا تعالے اور آدمی پیدا کر دے گا یا وہ مجھے قادیان میں ہی دشمن کے حملہ سے بچائے گا.لیڈر کو اپنی جگہ نہیں چھوڑنی چاہئیے.یہ خدا تعالے پر بدلتی ہے.مجھے یقین بقیه حاشیه صفحه گذشته شروع کر دیا.چونکہ ابھی قادیان کی حفاظت کے سلسلہ میں سامان اور رضا کار بھجوائے سما رہے تھے جس کے لئے شیخ صاحب مکرم پہلے پر کی جاری کرتے اور محاسب صاحب کی تصدیق سے لیکن ادائیگی کر دیتا تھا.مذکورہ ضروریات کے لئے حضور رضی اللہ عنہ کے ارشاد کے مطابق حبیب بینک لمینڈا ہور میں صدر انجین احمدیہ پاکستان لاہور کے نام سے اکاؤنٹ کھولا گیا جس کے آپریٹر شیخ بشیر احمد صاحب اور مرزا عبد الغنی صاحب محاسب قرار پائے تھے.مجھے بنک سے حسب ضرورت پچاس ساٹھ ہزارہ روپیہ نکلوا دیا گیا میں روزانہ جو آمد چندہ جھات وصول ہوتی اُسے بنک مذکور میں جمع کرا دیا اور بینک سے برآمد شدہ رقم ہر دو افسران کی ہدایات کے تحت شریح کرتا اور اس کا حساب رکھتا جاتا.لاہور میں اس وقت مکرم چودھری محمد ظفر اللہ خانصاحب جو اس وقت پاکستان کے وزیر خارجہ تھے) اور جماعت احمد ہے کی ہر طرف تعریف ہو رہی تھی کہ یہی ایک مسلمانوں کی جماعت ہے جو ہندو سکھوں کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہی ہے
ہے کہ اللہ تعالے ہماری مدد کرے گا اور ہمیں فتح دے گا مگر پھر بھی حضرت مسیح موعود کی عزت اور احترام کو مد نظر رکھتے ہوئے بعض مستورات کو باہر بھجوانے کا ارادہ ہے بشرطیکہ اللہ تعالے نے انتظام کر دیا.اگر اللہ تعالے کی مدد اس کے وعدوں کے مطابق آگئی تو یہ سب بعد شات صرف ایک احمقانہ ڈر ثابت ہوں گے لیکن اگر ہم نے اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے سمجھنے میں غلطی کی ہے تو یہ بھی ہیں ہمارے لئے ثواب کا موجب ہوں گی.آخر میں میں جماعت کو محبت بھرا اسلام بھجواتا ہوں.اللہ تعالے آپ لوگوں کے ساتھ ہو.اگر ابھی میرے ساتھ مل کر کام کرنے کا وقت ہو تو آپ کو وفاداری سے اور مجھے دیانت داری سے کام کرنے کی توفیق ملے اور اگر ہمارے تعاون کا وقت ختم ہو چکا ہے تو اللہ تعالے آپ کا حافظ و ناصر ہوا اور آپ کے قدم کو ڈگمگانے سے محفوظ رکھے سلسلہ کا جھنڈا نیچا نہ ہو.اسلام کی آواز پست نہ ہو.خدا تعالے کا نام ماند نہ پڑے.قرآن سیکھو اور حدیث سیکھو اور دوسروں کو سکھاؤ اور خود عمل کرد اور دوسروں سے عمل کراؤ.زندگیاں وقف کرنے والے ہمیشہ تم میں سے ہوتے رہیں اور ہر ایک اپنی بھائداد کے وقعت کا عہد کرنے والا ہو.خلافت زندہ رہے اور اس کے گرد جان دینے کے لئے ہر مومن آمادہ کھڑا ہو.صداقت تمہارا زیور ، امانت تمہارا حسن ، تقویٰ تمہارا لباس ہو.خدا تعالے تمہارا ہو اور تم اُس کے ہو.آمین.میرا یہ پیغام ہندوستان کے باہر کی جماعتوں کو بھی پہنچا دو اور انہیں اطلاع دو کہ تمہاری محبت میرے دل میں ہندوستان کے احمدیوں سے کم نہیں.تم میری آنکھ کا تارا ہو.میں یقین رکھتا ہوں کہ جلد سے جلد اپنے اپنے ملکوں میں احمدیت کا جھنڈا گاڑ کر آپ لوگ دوسرے ملکوں کی طرف توجہ دیں گے اور ہمیشہ خلیفہ وقت کے جو ایک وقت میں ایک ہی ہو سکتا ہے فرماں بردار رہیں گے اور اس کے حکموں کے مطابق اسلام کی خدمات کریں گے.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد "Y-A-N4 پاکستان اور بیرونی ملکوں میں حضرت مصلح مو ایام حالات کے تبدیل ہے ہی دیر رات میدیا اور شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ) نے جیت اور دوسری مرکزی اطلاع پہنچانےکا انتظام کراچی سے رابطہ قائم کرلیا جہاں جاعت احمدیہ
۷۲۴ کے ناظر امور عامہ مولانا عبد الرحیم صاحب درد مقیم تھے اور قادیان کی صورت حال کے متعلق پاکستان کے وزرار سے ملاقاتیں کر رہے تھے.کراچی کی جماعت غیر ملکی جماعتوں تک اطلاعات پہنچا دیتی تھی.یورپ کے تمام مشنوں تک اطلاعات کے ارسال کرنے کا طریق یہ اختیار کیا گیا کہ لندن مشن کو کراچی سے اطلاعات موصول ہو تیں اور یہاں سے اُسے یورپ کے دوسرے مشنوں تک پھیلا دیا جاتا.اسی طریق کے مطابق سید نا حضرت مصلح موعود کا یہ پیغام بھی پہلے لاہور پہنچا جہاں سے جماعت احمدیہ لاہور نے بذریعہ فون اُسے کراچی تک پہنچا دیا اور جماعت کراچی نے اسے بیرونی جماعتوں تک پہنچانے کا انتظام کیا اور دہلی اور رنگون دونوں سے بذریعہ سرکلر یہ پیغام نشر کیا گیا.پاکستان اور پاکستان کے باہر دوسرے ممالک تک اطلاعات پہنچانے کا جو طریق اختیار کیا گیا وہی طریق ہندوستان کی جماعتوں کے لئے معرض عمل میں لایا گیا.یعنی کراچی سے براہ راست دتی کو اطلاعات دی جاتی رہیں.جب فسادات شروع ہوئے تو جناب صاحبزادہ مرزا منیر احمد صاحب ہے دریا گنج دہلی میں تھے اور مجلس خدام الاحمدیہ کے قائد تھے.آپ نے یہ دیکھ کر کہ قادیان کی اطلاعات جماعتوں تک نہیں پہنچ رہیں ، ۲۱ اگست کاملہ سے مندرجہ ذیل امرار جماعت کو سر کر لیٹر بھجوانے کا انتظام فرمایا:.آگرہ - انبالہ بمبئی بھوپال - بریلی - پٹیالہ - پانی پت - جالندھر - حیدر آباد دکن ڈیرہ درونی منصوری - رہتک شاہجہان پور - کلکتہ کانپور - کراچی - کوئٹہ لکھنو.لدھیانہ کپورتھلہ مالیر کوٹہ - امرتسر، اٹک نوک کنڈی.بنگلور.بھاگلپور - پشاور - پٹیالہ جے پور - رانچی حیدر آباد سندھ - راولپنڈی جہلم چمن بچٹا گانگ.سکندر آباد - سرگودھا سیالکوٹ صورت سرینگر.کرنال کاٹھیا وارڈ گجرات.تصور، لاہور.مدر اس.میانوالی.مالایار.وزیر آباد چنا نچہ وہلی کے پہلے سرکلر لیٹر میں تحریر کیا گیا کہ ہمیں مرکز سے کوئی اطلاعات نہیں موصول ہو رہیں.مگر احباب کو چاہیے کہ حضور کے خطبہ جمعہ کے ارشاد کے مطابق بار بار دعائیں کریں.دوسرے سرکہ میں بتایا گیا کہ ہم ایک خادم کو ہفتہ میں ایک بار بذریعہ ہوائی جہاز لاہور بھجوایا کریں گے نیز لکھا کہ ہم مرکز سے بالکل بے خبر ہیں اور چاہتے ہیں کہ ایک دوسرے کے ساتھ ہر وقت تعلق رکھیں.جس جماعت کو بھی کوئی قابل اعتبار خبر ملے وہ دوسری جماعتوں تک فوراً پہنچائے.اس سلسلہ میں ہندوستان کی جماعتوں کے لئے مندرجہ ذیل سات مرکز تجویز کئے گئے جن کے ذریعہ فرض عائد کیا گیا کہ وہ روزانہ جھلی سے اطلاعات حاصل کر کے اپنے قرب و جوار کی جماعتوں تک پہنچائیں.
۲۵ 1- حیدر آباد (برائے جنوبی ہند) - کمیٹی برائے صوبہ بیٹی.گجرات کاٹھیا واڑ) ناگپور را چپونتانند) -۴ بنگال ) - بنگال - آسام - اُڑیسہ) ,.• صوبہ بہار) کراچی ) سندھ بلوچستان) - لکھنو ) صوبہ یوپی) " یہ دوسرا سرکر لیٹ لکھا جا چکا تھا کہ مولانا عبدالرحیم صاحب درد کی طرف سے کراچی سے ۲۴ اگست کو مندرجہ ذیل پہلا نار موصول ہوا ( اس مضمون کے مختلف تار کراچی سے دیگر ممالک کی جماعتوں کو بھی دیئے گئے) " 'COMMUNICATIONS WITH QADIAN COMPLETELY CUT OFF.BEING SURROUNDED HOSTILE WITH POPULATIONS ATTACK FEARED BY ANY Moment, IMPRESS UPON Lord MounT BETTON URGENT BY WIRES NEED OF TAKING DECISIVE AND IMMEDIATE MEASURES FOR RESPECT OUR OF AND SECURITY HEADQUARTERS AND RESTORE INFORM COMMUNICATIONS.U.P.AND BIHAR ACTION.SIM MILAR DARD.۱۲۸ اگست ۹۴۷ہ کے سرکر میں بتایا گیا کہ حال ہی میں چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے گورنر جنرل انڈین یونین سے ملاقات کرکے قادیان کی حفاظت کے سلسلہ میں فوری انتظام کا مطالبہ کیا ہے.مولوی محمد سلیم صاحب ( مبلغ کلکتہ) نے پنڈت نہرو، سردار بلدیو سنگھ اور مولانا آزاد سے ملاقات کی اور درخواست کی کہ قادیان سے سلسلہ مواصلات جاری کیا جائے.نیز جماعتوں سے کہا گیا کہ وہ لارڈ ٹونٹ بیٹن ، قائد اعظم جناح، پنڈت نہرو اور لیاقت علی خان کو درخواست کریں کہ ہمیں اپنے پیارے امام اور مرکزہ کی کوئی اطلاع نہیں مل رہی.براہ کرم انتظام فرمایا جائے.اس سے قبل ایک اور سرکلر میں بتایا گیا کہ احباب سے بذریعہ مر کر ہم نے وعدہ کیا تھا کہ مرکز سے متعلقہ تمام معلومات جوں جوں ہمیں معلوم ہوں گی فوراً دوستوں تک پہنچا دی بجائیں گی.اب تک حسب ذیل اطلاعات موصول ہو چکی ہیں.اس کے بعد کچھ معلومات درج ہیں، اور پھر لکھا، مولوی محمد سلیم صاحب مبلغ اپنے ہیڈ کوارٹر
سے بذریعہ ہوائی جہاز کل یہاں پہنچے تاکہ مرکز سے متعلقہ خبریں جماعت کلکتہ کو بھیجیں اس کے بعد کلکتہ بمبئی کراچی اور حیدر آباد کی جماعتوں کے پتے درج کئے گئے ؟ صاحبزادہ مرزا منیر احمد صاحب ۱۳۱ اگست ۱۹۴۷ کو بذریعہ ہوائی جہاز لا ہور تشریف لے آئے تو دھلی کی مجلس خدام الاحمدیہ کے سکوڈی رشید احمد ملک نے یہ ڈیوٹی اپنے ذمہ لے لی کہ وہ ہندوستان کی جماعتوں کو مرکزی اطلاعات سے ضرور باخبر رکھیں گے اور متعدد سرکلر بھجوائے.غرض کہ قادیان کی مقدس نیستی ریڈ کلف ایوارڈ کے فیصلہ سے قبل ہی ہاتی دنیا سے منقطع ہو چکی تھی مگر اس کے فدائی اور شیدائی اس صورت حال کو نہایت اضطراب کی نظر سے دیکھتے ہوئے ہر اس ممکن کوشش میں مصروف تھے کہ ہمیں اپنے محبوب آقا اور محبوب مرکز کے حالات کا علم ہو جائے.پریس میں مسٹر غضنفر علی خان وزیر خوراک پاکستان کے بیشر الام وایی شیخ بشیر احمد احد کے ہم پہلا اہم منصوب متقی پر خیر کی ہوئی کہ آپ ۳ را گست سر کو یہ شائع کراچی سے لاہور آرہے ہیں اور وہ جالندھر میں پنڈت جواہری نہرو وزیر اعظم بھارت سے مشرقی پنجاب کے فسادات کے سلسلہ میں مشورہ کریں گے نیز شائع ہوا کہ دونوں اصحاب نے مشرقی پنجاب میں قیام امن کا کام اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے اور وہ فساد زدہ علاقوں کا دورہ کریں گے اور اس وقت تک واپس نہیں بھائیں گے جب تک امن قائم نہیں ہو جاتا.ہے سیدنا حضرت المصلح الموعود نے اس اطلاع پر شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ لاہور کے نام اپنے قلم مبارک سے مندرجہ ذیل مکتوب تقریر فرمایا :- " مگر می شیخ بشیر احمد صاحب السلام عليكم ورحمة الله وبركاته یار بار باتیں لکھی جاتی ہیں.ایسا نہ ہو مشوش ہو جائیں.ایک کاپی بنا کر اس پر لکھوا لیا کریں.کراچی سے راجہ غضنفر علی آ رہے ہیں ان سے ضرور مل کر مندرجہ ذیل باتیں کریں :.سارے مشرقی پنجاب میں صرف گورداسپور یہی مسلم اکثریت کا ضلع ہے اس لئے اسے تباہ کرنے کی طرف سیکھ لگ گئے ہیں اور اس وقت تک پچاس ہزار آدمی بھاگ ہوچکا ہے.اور عملاً یہ ضلع اقلیت کا " الفصل" با ظهور/ اگست پیش صفر کم کالم عنه 1974
ہو گیا ہے.یہی ان لوگوں کا منشار تھا.یہ حالت اس طرح پیدا ہوئی ہے.الف.فوراً ہی سب مسلمان پولیس واپس چلی گئی.ب:.ملٹری بھی ہندو لگائی گئی.ج افر مسلمان سب پہلے گئے.د گاڑیاں ، تار ، ڈاک بند ہو گئے.عوام نے سمجھا.ہمیں بند کر کے مارنے لگے ہیں.اس لئے بھا گھر سکھوں نے پراپیگنڈا کیا کہ اب یا سکھ ہونا پڑے گا یا ملک چھوڑنا پڑے گا مسلمانوں نے گاؤں چھوڑا تو گاؤں چلا دیئے.اب واپس بھی نہیں جا سکتے.د مغربی و مشرقی حکومتوں کی طرف سے پے در پے اعلان ہونے کہ تبادلہ آبادی کا انتظام کیا جا رہا ہے اس سے لوگ بالکل ہی دل ہار بیٹھے اور اب تو بزدلی کی یہ حالت ہے کہ ایک سکھ نیزہ والا نظر آجائے بیوڑھا جسکی دے دے تو سارا گاؤں گاؤں خالی کر کے بھاگ پڑتا ہے فلم بھی بے انتہا کیا ہے ، بوڑھے، بچے، عورتیں اس قدر مارے گئے ہیں کہ الامان ! یہ لوگ دوسری جگہ جاتے ہیں تو اپنی داستانوں سے اور لوگوں کے حوصلے پست ہوتے ہیں.آپ انتظام کرنے آئے ہیں.خدا کرے کامیاب ہوں.مگر اسلام اور مسلمانوں کی مدد کرنی ہے تو اسی طرح اسلام کی بے حرمتی کو روکئے سکھوں کے آگے سے محمد رسول اللہ کے کے نام لیوا بھاگے جا رہے ہیں.اس سے دل سخت دکھی ہوتا ہے.ترکیب یہ ہے کہ فوراً تار ، ڈاک اور ریل کے جاری کرنے پر زور دیجئے.یہ روک مشرقی پنجاب کی طرف سے ہے.اور مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے کے لئے.۲- اول تو سارے مشرقی پنجاب کے متعلق کہ دیجئے کہ اپنی اپنی جگہ مسلمانوں کو بساؤ ہم مہنداور کو بائیں گے.نہ اُن کو اُدھر جانے دیں گے نہ ان کو ادھر آنے دیں گے.ہم ان لوگوں کو بے وطن نہیں کرنا چاہتے.اگر دوسری جگہ کے مسلمان ایسا نہیں کر سکتے تو گورداسپور کے متعلق ضرور ہی زور دیں.اس سے مسلمان بھی کچھ ٹھہر نے لنگ بھائیں گے.میں نے دیکھا ہے.پناہ گزینوں کے نکالنے میں ہندو سکھ افسر ایسی بھی پی لیتے تھے کہ صاف معلوم ہوتا تھا کہ اس میں وہ اپنا فائدہ سمجھتے ہیں.
-4 فوراً ایک دو ہزارہ پولیس کا مسلمان فارغ کر کے ادھر بھیجوائیے اور زور دیجئے کہ فورا مسلمان علاقوں میں پھیلا دیں.اتنا ہی ہندو اپنی طرف لے کر سہندوؤں کے علاقے میں لگا دیں.ٹری اس وقت خطرہ کا موجب بن رہی ہے.فوراً مسلمان مری خواہ یا ہو پر زور دیجئے نیز اس پر کہ افسر غیر مسلم ہو تو نائب مسلمان ہو.نائب غیر مسلم ہو تو افسر مسلمان ہو ہوائی جہازوں کی سہولت پیدا کی جائے تا ادھر ادھر لوگ جا سکیں.- آپ گورداسپور میں ضرور آئیں.قادیان بھی ہو سکے تو ، ورنہ گورداسپور بٹالہ ضرور ، تا یہ اکثریت کا ضلع اقلیت کا نہ ہو جائے.والسلام مایلی خاکسار مرزا محمو د احمد شاه ۲۳ اگست کو قادیان سے شمالی جانب احمدی گاؤں فیض اللہ چک پر فیض اللہ چاک پر حملہ ہزاروں سے سکھوں نے پولیس اور لٹری کی موجودگی میں حملہ کیا جس میں بہت سے احمدی اور غیر احمدی شہید ہوئے اور کئی مسلمان عورتیں اغوا کرلی گئیں اور سارا گاؤں معدہ ملحقہ دیہات کے خالی کرا لیا گیا اور ایک احمدی جو فیض اللہ چک کی خیریت دریافت کرنے کے لئے موٹر پر جا رہا تھا اس کے ڈرائیور کو گولی کو زخمی کر کے موٹر ضبط کر لی گئی.اس سانحہ ہو شریا کے معاً بعد حضرت مصلح موعود شیخ بشیر احمد صاحہ کے اہم دوسرا اہم مکتوب نے شیخ بشیر احمد صاحب کے ہم حسب ذیل بشیراحمداح کے دوسرا کمکتوب تخریبہ فرمایا :- کمر می شیخ صاحب السلام عليكم ورحمة الله وبركاته کل رات سے فیض اللہ چک احمد می گاؤں پر حملہ ہوا.دو دفعہ وہ لوگ پسپا ہوئے.مگر پھر پولیس کی مدد سے جو جب بھی فیض اللہ چک کو غلبہ ملتا سکتھوں کی مدد کرتی.آخر گل قصبہ تباہ ہوا ہے دی مارے گئے.دو ہزار پناہ گزین قادیان رات کو آیا ہے.اس وقت قادیان کی حالت بالکل لے مسٹر غضنفر علی خان ۲۴ اگست کو لاہور میں پہنچے اور آپ نے مشرقی پنجاب کی صورت حال کی نسبت وزرائے مغربی پنجاب سے طویل طاقات کی اور قائد اعظم محمد علی جناح حکم کی مطابق اہم ہدایات دیں ؟
۷۲۹ بے بسی کی ہے کیونکہ مڑی اور پولیس کا رویہ خطرناک ہو رہا ہے گو ظا ہرا نہیں.اس وقت پیر احسن الدین پر زور دیں کہ ایک ریفیوجی سنٹر قاریان بھی کھلوا دیں.جہاں چھ ہزار سے زائد پناہ گزین ہو چکا ہے اور اور لوگ آرہے ہیں.اس طرح یہاں مسلمان ملٹری اور ایک مسلمان افسر رہ سکے گا.جبکہ گورنمنٹ خود مخالفت کر رہی ہے لیکن سوچ رہا ہوں کہ آیا مقامات سے زیادہ آدمیوں کی حفاظت کی ضرورت نہیں ، حضرت صاحب کا ایک الہام بھی ہے کہ يَأْتِي عَلَيْكَ زَمَن كَمَثلِ زَمَن مُوسی یعنی موسی کی طرح تجھ پر بھی ایک زمانہ آنے والا ہے.سوممکن ہے عارضی ہجرت اس سے مراد ہو.لیکن اب تک تو کنوائے ہی نہیں آیا.حالانکہ کل اطلاع آئی تھی کہ آرہا ہے بٹالہ سے ہزاروں کی تعداد میں عورتیں بچے نکالے جار ہے ہیں.پیر احسن الدین صاحب کو کہہ کر کنوائیز کا انتظام کروا دیں تو قادیان سے بھی عورتوں بچوں کو نکلوا دیا جائے مگر نارووال کی فطرت ہے ۲۵ ظہور / اگست ہش کو جماعت جماعت احمدیہ کے ہوائی جہازوں پر پابندی احمدیہ کے دونوں جہازوں کا قادیان میں آنا جانا ممنوع قرار دیا گیا جو قادیان اور پاکستان سے رابطہ کا واحد ذریعہ تھے.حترام المومنین اور خواتین مبارکہ کی حالت جو کہ بندہ بنا تشویشناک ہو رہے تھے اور صاف نظر آیا تھا کہ دشمن عنقریب قادیان پر حملہ کرنے کا مصمم ارادہ پاکستان میں تشریف آوری کرچکا ہے.اس لئے حضرت سیدنا المصلح الموعود نے صحابہ 314772 میں موجود سے مشورہ طلب کیا کہ حضرت ام المومنین اور خاندان میں موجود کی دوسری مبارک خواتین کو پاکستان میں بھیجوانا مناسب ہے یا نہیں ؟ مولانا جلال الدین صاحب شمس نے ۲۳ ظہور / اگست ہش کو حضر مصلح موعود کی خدمت میں لکھا:.حضرت ام المومنین اور خواتین مبارکہ کے کسی محفوظ مقام پر پہنچانے کے لئے میں نے اپنے محله ( دارالرحمت) کے ۲۴ صحابہ سے اپنی طرف سے تجویز پیش کر کے آج بعد نماز ظہر مشورہ کیا تھا.ان سب نے باتفاق یہی مشورہ دیا کہ حضرت سیدۃ النساء اور خواتین مبارکہ کو کسی محفوظ جگہ پہنچانا مناسب ہے.میرا ارادہ تھا کہ اس مشورہ کے بعد دوسرے اشخاص سے بھی مشورہ کروں لیکن بھائی عبدالرحیم صاحب نے فرمایا کہ میرا مشورہ یہ ہے کہ اس کے متعلق مشورہ کی بجائے
۷۳۰ صرف حضور ہدایت دے دیں.اسے اشاعت دینے کی ضرورت نہیں “ اس پر حضرت مصلح موعود نے فیصلہ فرمایا کہ خواتین مبارکہ کو جلد سے جلد قادیان سے پاکستان پہنچانے کا انتظام کیا جائے چنانچہ ۲۵ ظہور / اگست کو یہ انتظام ہو گیا اور حضرت ام المؤمنین اور دوسری خواتین میاکر ریاستثناء حضرت سیده ام متین صاحبه و حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ) لاہور تشریف لے آئیں.حضرت سیدنا الصلح الموعود کا تیسرا ہم ابھی جاعت احمدیہ کے ہوائی جہازوں پر پابندی کی اطلاع حضرت مصلح موعود تک نہیں پہنچی تھی کہ حضور نے اپنے قلم سے بشیر امت مکتوب شیخ بشیراحمد صاحب کے نام حضرت مرا بشیر احمد صاحب کو یک ام مکتوب کی جو پیش آمدہ حالات کے مد نظر نہایت بیش قیمت ہدایات پرمشتمل تھا.اس مکتوب سے جو در اصل شیخ بشیر احمد صاب امیر جماعت احمدیہ لاہور کے لئے لکھا گیا چونکہ ان پر خطر اور پُرفتن ایام کی صحیح معنوں میں عکاسی ہوتی ہے اس لئے اُسے بھینسہ درج ذیل کیا جاتا ہے:." كله یہ مضمون پڑھ لیں.جب بھی موقع سے یہ مضمون شیخ بشیر احمد صاحب کو چھپوا کر شائع کروانے اور اشتہاروں کو اطلاع دینے کے لئے بھجوا دیا جائے.انہیں اطلاع دی جائے کہ (قادیان میں ہے امن کی رپورٹ (جو بعض افسروں نے کی ہے ) بالکل غلط ہے، اس کی تردید کریں.کچھ دنوں سے فسادات کی صورت ترقی کی طرف ہے کسی پر نہیں.ہاں مسلمان کچھ زیادہ مقابلہ کرنے لگے ہیں ریہاں حضور نے اپنے قلم سے حاشیہ میں لکھا " ہاں چوہدری سر ظفر اللہ خاں صاحب کو بھی کسی طرح تار دستے کو بلوایا جائے تا وہ حالات خود دیکھ کر وائسرائے ، نہرو، سر تو دیدی وغیرہ کو مل سکیں.حالات رو بروز بگڑ رہے ہیں ) پس اس وجہ سے اب سیکھ ذرا سوچنے لگا ہے.دوسرے ایک دو دن ہے له سیکھ کیز و لیٹی CASUALTY بڑھ گئی ہے ( قادیان میں مسلمان ملٹری آگئی ہے.(جس کا افسر سندر ہے اگر کوئی خاص فائدہ ابتک نظر نہیں آتا.ہاں سیکھ کچھ محتاط ہو گیا ہے مگر ساتھ اس کے حیلے سے زیادہ کام لینے لگ گیا ہے جو زیادہ خطرناک ہے.جماعت کو جھوٹے الزامات سے له " الفضل" در صلح اجنوری کش : ے اس صفحہ پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے یہ نوٹ دیا ” میں نے پڑھ لیا ہے.اللہ تعالے بہتر نتائج پیدا کرے ولاحول ولا قوة الا بالله العظيم مرزا بشیر احمد شد ۲۶: سه ر له و شه و له حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے قلم سے اضافہ +
نقصان پہنچانے کی تدبیریں ہو رہی ہیں.ہمارے سپرد قافلہ کو فوراً واپس کرنے کا انتظام کیا جائے.ڈاکٹر احد کو بھی.(ہمارے مردوں کے بہانے کی وجہ سے پرسخت ضعف ہو رہا ہے کام کرنے والے کم ہو گئے ہیں.ان لڑکوں نے سخت غلطی کی ہے کہ مل کر باہر چلے گئے سلسلہ کی عظمت اپنی ذاتی خواہشات پر مقدم ہونی چاہیے.اب اگر اُن کی عدم موجودگی میں حملہ ہوا تو یہ لوگ تو اب سے اس طرح محروم رہ جائیں گے.مظفر سے فون یا خط وغیرہ سے باقاعدہ تعلق رکھیں.وہ پولیس کے چند آدمی حسب فیصلہ بھیجوا دیں.بہت ہوشیار ہوں.وہ ڈیرہ بابا نانک سے قادیان تک کا مناسب راستہ دیکھتے آئیں اور قادیان آگر اطلاع دیں.ڈیھ کے دوسری طرف یا جہاں سے سیالکوٹ کو راستہ ہے ایک باقاعد بچوکی لگوا دیں مسلح پولیس کی تما جانے والوں کی حفاظت ہو سکے.ڈیرہ کا تھانیدار شرارتی ہے وہ ضرور شرارت کرے گا.اگر کسی بہانے سے ملڑی کا کوئی نہ کوئی سپاہی ادھر آتا رہے تو اس کا بھی فائدہ ہو سکتا ہے.ملٹری کے اسکورٹ سے سیالکوٹ سے بھی کنوائے CONVOY آسکے تو مفید ہے.آنے والوں کے لئے رہائش کی جگہ ایک علاقہ کے مختلف گاؤں میں ہو جائے.دانہ زید کا کے آس پاس کے گاؤں میں احمدی زیادہ ہیں.اگر وہاں کئی در حین مکان لئے جائیں کچھ نٹے احمدیوں سے گارے کے تعمیر کروائے جائیں تو کام میں سکتا ہے ہم ۲۶ نیز آپ ایک سوسائٹی سیاسی کام کے لئے فوراً بنا لیں.اس کا اعلان ہو.چند مخلص نوجوانوں کو شامل کر نہیں.ان کی طرفت سے آمدہ اطلاعات کی بناء پر جن لوگوں سے شرارت کا شبہ ہو انہیں تنبیہہ ہوتی رہے تاکہ ان کی اصلاح ہو جائے.مثلاً پٹیالہ، فرید کوٹ اور کپور تھلہ نے فوجیں بھیجوا دی تھیں اور اعلان کر دیا ہے کہ فوجیں بھاگ گئی ہیں.انہیں اس سوسائٹی کی طرف سے خط پہلے جائیں کہ اگر آپ اپنی سو دو سو یا ہزار فوج کو نہیں سنبھال سکے تو چار کروڑ مسلمان کو گون سنبھال سکتا ہے.اس کا خمیازہ پھر آپ ہی کو بھگتنا پڑے گا.اسی طرح مسلمانوں کو ادھر کے حالات کی خبر ملتی رہے مگر فساد نہ ہو.عزیزم مظفر احمد کو کہیں ایک اسکورٹ اپنی کار کے نام پر لاویں بپھر وہاں سے بھجوا کے وہ نیا لکھو کا قریب ترین راستہ اور محفوظ دیکھ کر قادیان آئے اور معلومات دے جائے وگرنہ اگر وسیع پینے
پ ہجرت کا سوال ہوا تو ناقابل برداشت مشکلات ہوں گی اور اس صورت میں ملٹری اسکورٹ ضروری ہے ورنہ یہاں کی ملٹری راستہ میں حملہ کرے گی.غالباً اتنا بڑا قافلہ کوئی چار دن میں نارون ہارڈر کو پار کر سکے گا.کوئی پینتالیس میل کا فاصلہ ہے یا پچاس میل کا.کیا الیسا اسکورٹ وہاں سے آسکتا ہے.اصل غرض یہ ہے کہ خود ملٹری اور پولین شہرارت نہ کرے.عورتوں اور بچوں پر جو آہستہ آہستہ چلتے ہیں.ادھر ادھر سے فائرنگ نہ ہو.خطرہ ہے کہ جہاز بھی ضبط کئے جائیں گے تب آپ لوگوں کو وہاں سے جہاز لا کر روزانہ خبر لائی ہوگی.والسلام تھا کسان مرزا محمود و احمد حضرت مصلح موعود نے ۲۹ ظہور (اگست) حترامیرالمومنین کی ضروری ہلایا ا حبات ادیان کیلئے ر میش کو مسجد مبارک میں خطبہ جمعہ پڑھایا.یہ حضور کا قادیان میں آخری خطبہ تھا جس میں حضرت اقدس نے اہلِ قادیان کو خصوصیت سے مندرجہ ذیل ہدایات دیں.حالات خواہ کچھ ہوں مومن کو بہر حال انصاف ، انکار ، محبت ، شفقت اور رحم پر قائم رہنا چاہیے اور اپنے دلوں کو بغضوں اور کمینوں سے پاک رکھنا چا ہیئے کہ نیک نمونہ دشمن کو بھی خیر خواہ بتا سکتا ہے.ہمیں ہر سہندو اور سکھ عورت اور بچے کی اپنی بہن اور بیچتے کی طرح حفاظت کرنی چاہیئے.- ایک خاص حد تک ظلم برداشت کرنے کے بعد اسلام نے ظلم کا مقابلہ کرنے کی اجازت دی اور دنیا کی کوئی حکومت اسے ناجائز قرار نہیں دے سکتی نظالم کے مقابلہ کے وقت ایک مومن دس دس اشخاص پہ بلکہ بعض اوقات ساٹھ ساٹھ ، ستر ستر اشخاص پر غالب ہوتا ہے.پس ظلم کا بہادری کے ساتھ مقابلہ کرنا چاہیئے.خطرے کے وقت بھاگنا خود ہلاکت کو دعوت دینے کے مترادف ہوتا ہے.قادیان میں پناہ گزینوں کی کثرت ہے.اس لئے ضروریات زندگی گندم ، لکڑی، مٹی کے تیل کو چاندی کی طرح سنبھال کر رکھنا چاہیئے اور کم سے کم استعمال کرنا چاہیے.ہ ڈھاؤں میں کمی نہیں آنے دینی چاہیئے.حالات خواہ کچھ ہوں لیکن ہندسے کا کام پہنچی ہے.
کر وہ دعا مانگتا چلا جائے اور پھر خدا تعالے جو کچھ کرے اس پر راضی رہے ".اس تعلق میں حضور نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مندرجہ ذیل اہم دعاؤں کو خصوصیت پڑھنے کا ارشاد فرمایا : - اعوذُ بِكَلِمَتِ اللهِ الثَّامَاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلق میں اللہ تعالیٰ کے کلمات تامہ کے ذریعہ مخلوق کے شر سے پناہ چاہتا ہوں.- بسد اللَّهِ الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ انسبِهِ شَيْ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ : اللہ تعالیٰ کے نام سے جس کے ہوتے ہوئے نہ زمین میں کوئی چیز ھر پہنچا سکتی ہے اور نہ آسمان میں اور وہی سننے والا اور جاننے والا ہے.ه اللهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ جَهْدِ الْمَلَاءِ وَدَرَكِ الشَّقَاءِ وَسُوءِ الْقَضَاءِ وَ الفضل " یکم تبوک استبر درپیش صفرا که حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے ان ایام میں بعض بزرگوں کو خاص طور پر تحریک فرمانی کہ وہ حضرت مصلح موعود مرکز سلسلہ اور جماعت کی حفاظت کے لئے دعائیں کریں اور آگے دوسرے اصحاب اور اپنے اہل و عیال میں بھی یہی تحریک کریں اور اگر کوئی امرظاہر ہو تو اس سے طلع فرمائیں.ان احباب کے اسماء گرامی یہ ہیں:.ا.حضرت بھائی عبد الرحیم صاحب ڈاکٹر سیدہ غلام غوث صاحب -14 را حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب میاں محمد دین صاحب لکھا دریا نی -19 14- ۲۴ ۲۵ • -☑+ ۲۷ ۰۲ -PI •.4 4 • مرزا محمد اشرف صاحب - صوفی غلام محمد صاحب مار پیشینی مولوی غلام رسول صاحب را جیکی مولوی عبدالرحیم صاحب نیر حافظ محمد ابراہیم محاسب سید محمود عالم صاحب مولوی غلام نبی صاحب مصری شیخ فضل احمد صاحب ڈاکٹر محمد عبد اللہ صاحب کو ٹر عبد السميع صاحب امروہی ملکہ مولا بخش صاحب چودھری غلام محمد صاحب سابق ہیڈ ماسٹر مولوی عبد القادر صاحب * خاکسار مرزا بشیر احمد ۲۹۰۸۰۴۰ ایم.اسے بھاگلپوری مراد ہیں (ناقل) بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی میاں خیر دین صاحب سیکھوانی پیر منظور محمد صاحب پیر افتخار احمد صاحب با با حسن محمد صاحب منشی محمد اسمعیل صاحب سیالکوٹی ماسٹر محمد دین صاحب قاضی محمد عبد اللہ صاحب ول 4 4 4 " ، چوہدری فتح محمد صاحب " -A -11 -10 میاں محمد شریف صاحب قاضی ظہور الدین الکسل صاحب ا، ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری مولوی جلال الدین صاحب شمستن + -14
-A شماتة الأعداء * اے اللہ میں بلاء کی شدت سے ، شقاوت کا شکار بننے سے ، تقدیر کے بڑے مقدر سے اور دشمنوں کے خوش ہونے سے تیری پناہ چاہتا ہوں.اللَّهُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِنَا وَ مِنْ مِنْ رَدْعَاتِناء اسے اللہ ہماری کمزوریوں کی پردہ پوشی فرما اور ہمارے خطرات کو امن سے بدلی دے.اللهُمَّ سَجَدَ لَكَ سَوَادِى رَحْيَالِي وَ آمَنَ بِكَ نُوَّادِي وَ اقَتْ لَكَ لِسَانِي فِيهَا أَنَا ذَا بَيْنَ يَدَيْكَ يَا عَظِيمُ يَا غَافِرَ الذَّنْبِ العَظِيمِ * اے اللہ میر احسم بھی اور میرا خیال بھی تیرے لئے سجدہ کر رہے ہیں اور میرا دل تجھ پر ایمان رکھتا ہے اور میری آبان تیرے جانوں کی مقر ہے.اب میں تیرے سامنے ہوں.اسے با عظمت بادشاہ اسے گناہ عظیم بخشنے والے خدائے حضرت مصلح موعود نے قادیان سے بیرونی جماعتوں کیلئے حضرت صلعمود کا دوسرا پیغام ۳۰ ظہور / اگست میش کو بیرونی جماعتوں کے لئے حسب ذیل دوسرا اور آخری پیغام دیا :.اعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطانِ الرَّحِيرُه بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم هوال محمدُهُ وَنُفَة عَلَى رَسُولِهِ الكرام خدا کے فضل اور رحم کیساتھ سام جماعت کو ہدایات جو فوراً شائع کر دی بھائیں.باوجود بار بار زور دینے کے لاہور کی جماعت نے کنوائے نہیں بھجوائے جس کی وجہ قادیان کا بوجھ سے زیادہ ہو گیا.گر گنوائے آتے تو شاید میں بھی چلا جاتا اور جب مسٹر جناح اور پنڈت جی آئے تھے اُن سے کوئی مشورہ کرتا مگر افسوس کہ فرض شناسی نہیں کی گئی.ار قادیان میں کوئی حادثہ ہوجائے تو پہلا فرض جماعت کا یہ ہے کہ شیخو پورہ یا سیالکوٹ میں ریل کے قریب لیکن نہایت بستی زمین لے کر ایک مرکزی گاؤں بسائے مگر قادیان والی لعلی نہیں کہ کوٹھیوں پر زور ہو.سادہ عمارات ہوں.فوراً ہی کالج اورسول اور مدرسہ احمدیہ اور جامعہ کی تعلیم کو جاری کیا جائے دینیات کی تعلیم اور اس پر عمل کرنے پر ہمیشہ نہ ور ہو علماء بڑے سے بڑے ملے یکم تبوک استمبر م مش صفحه ۸۱ :
پیدا کرتے رہنے کی کوشش کی جائے.-۲- تبلیغ کا سلسلہ اسی طرح بھاری رہے.وقف کے اصول پر جلد سے جلد کافی مبلغ پیدا کرنے کی کوشش کی جائے.- اگر میں مارا جاؤں یا اور کسی طرح جماعت سے الگ ہو جاؤں تو پہلی صورت میں فوراً تخلیفہ کا انتخاب ہو اور دوسری صورت میں ایک نائب خلیفہ کا.۴.جماعت با وجود ان تلخ تجربات کے شورش اور قانون شکنی سے بچتی رہے اور اپنی نیک نامی کے ورثہ کو ضائع نہ کرے.۵- سہارے کاموں میں ایک بعد تک مغربیت کا اثر آگیا تھا یعنی محکمانہ کاروائی زیادہ ہو گئی تھی.اسے چھوڑ کہ سادگی کو اپنانا چاہیے اور تصوف اور سادہ زندگی اور نماز و روزه کی طرف توجہ اور دعاؤں کا شغف جماعت میں پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے.قرآن کریم کا ترجمہ و تفسر انگریزی داردو جلد جلد شائع ہوں میں نے اپنے مختصر نوٹ بھجوا دیتے ہیں اس وقت تک جو ترجمہ ہو چکا ہے اس کی مدرسے اور تیارکیا جاسکتاہے مترجم کر نیوالا دعائیں بہت کے.ان مصائب کی وجہ سے خدا تعالی پر خالی نہ کرنا اللہ تعالی جماعت کو کبھی ضائع نہ کریگا پہلے نبیوں کو بڑی بڑی تکلیف پہنچ چکی ہیں عزت وہی ہے جو خدا اور بندے کے تعلق سے پیدا ہوتی ہے.مادی اشیاء سب خانی ہیں خواہ وہ کتنی ہی بزرگ یا قیمتی ہوں.ہاں خدا تعالے کا فضل مانگتے رہو شاید کہ وہ یہ پیالہ ملادے.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد اخبار ” ڈان" کراچی نے انہی دنوں قادیان کے ان استان اول باران تشویشناک ماحول کی خبر سب ذیل الفاظ میں شائع کی.QADIAN SURROUNDED by HOSTILE SIKHS: HEAD'S LIFE IN DANGER By Dawn staff Reporter: Qadian, the headquarter of Ahmed- tyya Movement, is surrounded by a hostile mob of Sikhs during
the last few days.All Communications have been cut off from the outside world.There is a fear of attack at any moment.About 2000 muslims from the neighbouring villages had taken refuge in Qadian.In view of the grave situation it is now proposed to shift women and children to a safer place, says a telegram received by Dr.Ahmad acting Amir of the Ahmadlyya Jamaat Karachi from the Head of the Ahmadiyya Community in Qadian.Dr.Ahmad in an interview said that members of his community in Karachi and elsewhere were gravely perturbed and grave anxiety prevails about the safety of their Head and the Community in Qadian, several young members of community to Mave for Qadian immediately disregarding all have decided dangers.(ترجمہ) قادمان سکھوں کے گھیرے میں سربراہ کی زندگی خطرے میں رڈان کے سٹاف رپورٹر سے) گذشتہ چند دنوں سے جماعت احمدیہ کے مرکز قادیان کو سکھوں کے ایک مخالف گروہ نے محاصر میں لے لیا ہوا ہے.باہر کی دنیا سے سلسلہ مواصلات بالکل منقطع ہے کیسی گھڑی بھی حملہ ہو سکتا ہے گردو نواح کے دو ہزار مسلمانوں نے یہاں پناہ لی ہوئی ہے.جماعت احمدیہ قادیان کے سربراہ نے ڈاکٹر امر امیر جماعت احمدیہ کراچی کو بذریعہ تارا اطلاع دی ہے کہ خطرے کے پیش نظر تجویز ہے کہ عورتو ور بچوں کو کسی محفوظ مقام پر بھجوا دیا جائے.ڈاکٹر احمد نے ایک بیان میں کہا کہ عمران جماعت کراچی و دیگر مقامات تشویش میں ہیں کہ مبادا احتضر امام جماعت احمدیہ کو کوئی گزند پہنچے جماعت کے سینکڑوں نوجوانوں نے فیصلہ کیا ہے کہ خطرات کی پروا نہ کرتے ہوئے وہ قادیان ضرور بھائیں گے.
قادیا اور اسے ماحول کی المناک کیفیت اگست کے آخرمیں قادیان اور اس کے ماحول کی کیفیت کیا تھی، اس کی تفصیل حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے مندرجہ خوردار است بارش میں ذیل مکتوب سے آسانی معلوم ہوسکتی ہے جو آپ نے سیدنا حضرت مصلح موعود کے ارشاد پر حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم.اے کے نام تحریر فرمایا: حضور کا ارشاد ہے کہ فوراً بٹالہ جائیں وہاں پنڈت جواہر لال صاحب نہرو اور نواب لیاقت علی خان صاحب آئے ہوئے ہیں.آپ ان دونوں سے الگ الگ میں لیکن اگر الگ الگ ملنے کا موقعہ نہ ہو تو پھر بیشک اکٹھے مل لیں اور انہیں (قادیان) اور اس کے ماحول کے حالات بتائیں اور خصوصاً مندرجہ ذیل باتوں کا ذکر کریں :.ا.معلوم ہوا ہے کہ آپ ضلع گورداسپور کے حالات دیکھنے کے لئے گوردا سیکور جا رہے ہیں اور وہاں ڈی سی صاحب اور دوسرے افسروں سے مل کر حالات معلوم کریں گے.اصل کام یہ ہے کہ آپ تباہ شدہ علاقے یا خطرے والے علاقے کو دیکھیں اور میں آپ کو دعوت دینے آیا ہوں کہ آپ سلسلہ احمدیہ کے مرکز قادیان کو چل کر دیکھیں کہ اس کا ماحول کس طرح تباہ شدہ ہے اور خود قادنیا کس طرح خطرات سے گھرا ہوا ہے.قادیان ایک ساری دنیا میں پھیلی ہوئی جماعت کا مرکز ہے اور بہت سے علمی اور تحقیقاتی اداروں کا صدر مقام ہے اور ضلع میں سب سے زیادہ اہم جگہ ہے.اس کی حفاظت کا تسلی بخش انتظام ہونا چاہیے ہو اس طرح ہو سکتا ہے کہ وہاں ہمدرد اور کافی تعداد میں ملٹری مقرر کی جائے اور اس ملٹری کو واضح ہدایت دی جائے کہ اس نے بہر حال قادیان اور اس کے ماحول میں امن قائم رکھنا ہے اور کہ دیا جائے کہ اس شکتی ہوئی تو تم ذمہ دار ہو گئے.قادیان جیسی جگہ پر تباہی کا آنا حکومت کے لئے ساری دنیا میں بدنامی کا موجب ہو گا ورنہ ہم عارضی طور پر مرکز بھی دوسری جگہ بنا سکتے ہیں.گو اپنے مقدس مقامات کو بھی چھوڑا نہیں جاسکتا.۴.قادیان میں اس وقت سات آٹھ ہزار پناہ گزین ہے جو ارد گرد کے مسلمان دیہاتوں کے خانما ہو کر یہاں بیٹھا ہوا ہے اس کے لئے نہ تو حکومت کی طرف سے پناہ گزینوں کا کمپ ہے اور نہ ان پناہ گزینوں کو دوسرے علاقہ میں منتقل کرنے کا کوئی انتظام موجود ہے اس کے علاوہ
خود قادیان کی رہنے والی ہزاروں مستورات اور بچے ایسے ہیں جنہیں خطرے کے وقت میں دوسر جگہ منتقل کرنا ضروری ہے پس اس تعلق میں دو قسم کے انتظامات فوری طور پہ درکار ہیں.اول پنا نگر میوں کے کمپ کا قیام، دوسرے قادیانی عور توں در پوں اور پناہ گزینوں کو لاہور یا سیالکوٹ منتقل کرنے کا انتظام قادیان میں ایک عرصہ سے ریل اور تاربند ہے اور ٹیلیفون گو چند دن بند رہنے کے بعد اب کھلا ہے مگر عملاً اس کا کنکشن نہیں ملتا اور چونکہ سڑک کا راستہ مسافروں کے لئے بغیر انتظام کے خطرناک ہے اس لئے ہمارا مرکزہ ایک عرصہ سے باہر کے علاقہ سے بالکل کٹا ہوا ہے اور ڈاک اور اخبارات کا سلسلہ بالکل بند ہے ، ضروری ہے کہ پبلک میں اعتماد پیدا کرنے کے لئے ریل اور تار کو جلد ترکھول دیا جائے اور ٹیلیفون کے رستہ میں جو علی روکیں ہیں کہ امرتسر کا ایک چینچ کنکشن نہیں دیتا اُسے دور کیا جائے..ہمارے پاس دو جہاز تھے جن سے ہم اپنی ڈاک و تاریں لاہور بھجواتے تھے اور لاہور سے اپنی ڈاک اور تاریں منگوا لیتے تھے یا دوائیاں اور دیگر ضروریات زندگی لاہور سے منگوا ایھتے تھے.یا کسی سواری کو کسی کام پر لاہور بھیجوانا ہو تو اُسے بھیجوا دیتے تھے مگر چند دن سے مقامی افسروں نے ہمارے بہازوں پر بھی پابندی لگادی ہے اور اب وہ لاہور میں بند پڑے ہیں.الزام یہ لگایا گیا ہے کہ یہ جہاز سیکھ دیہات پر پھر کر ان میں دہشت پیدا کرتے تھے اور ہوا سے ہم گراتے اور شوٹ کرتے تھے.ہم ایک مذہبی جماعت ہیں اور خدا کو حاضر ناظر جان کر کہتے ہیں کہ یہ الزامات بالکل غلط ہیں اور ایک بہانہ بنا کر ہمارے اس آخری تعلق کو کاٹ دیا گیا ہے جو لاہور وغیرہ کے ساتھ ہمیں حاصل تھا.اور اب تو ہم ضلع کے حکام کے ساتھ بھی کوئی ملاپ کی صورت نہیں رکھتے حالانکہ ہم نے اس بات کی آمادگی ظاہر کی تھی کہ بہار سے جہازوں کی حرکات پر جو بھی معقول پابندی لگائی جائے ہم اس کو قبول کرنے کے لئے تیار ہیں.بہر حال ضلع کے عملی حالات اس بات کو واضح کر ر ہے ہیں کہ فلم کس قوم پر ہو رہا ہے اور ہمارے جہازوں نے عملی نتیجہ کیا پیدا کیا ہے..ہمیں یہ بھی دھمکی دی بھارہی ہے کہ قادیان جو معائنہ نائینس والا اسلحہ ہے اسے ضبط کر لیا جائیگا.ملے ان جہازوں کے پائلٹ میر سید احمد صاحب (ابن حضرت میر محمد امیل صاحب) اور محمد لطیف صاحب ( ابن حضرت ڈیٹی میاں محمد شریعت صاحب بیٹارڈ ای.اسے بھی تھے جنہوں نے ان ایام میں نہایت درجہ اخلاص اور کمال قدوائیت اور جانفروشی کے ساتھے یه خدمت انجام دکی
ہم انصاف کے نام پر اپیل کرنا چاہتے ہیں کہ جب دوسری قوم کا ایک طبقہ ناجائز اسلحہ سے علاقہ میں قتل وغارت کر رہا ہے تو کیا مظلوم قوم کا جائز اسلحہ ضبط کرنا قرین انصاف ہے.موجودہ حالات کو بہتر بنانے کے لئے ہم یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور انڈیا میں اول تو مستقل طور پر ورنہ کم از کم عارضی طور پر اقلیت والی قوم کے افسرا اور فورس مناسب تعداد میں مقرر ہونے چاہئیں یعنی انڈیا میں سول اور پولیس مناسب تعداد مسلمان افسروں کی ہو اور پاکستان میں ہندو اور سکھ افسروں کی مناسب تعداد ہو جب تک کہ نارمل حالات پیدا نہیں ہو جاتے.بلکہ یہ انتظام مستقل طور پر قائم ہو سکے تو اور بھی بہتر ہے.یہ افسر اور یہ پولیس جو مشرقی پنجاب میں ہوگی بیشک مشرقی پنجاب کی حکومت کے ماتحت ہوگی مگر پھر بھی اقلیت کو ایک سہارا ہو گا اور اعتم کی صورت ہوگی.ے.اسی طرح موجودہ غیر معمولی حالت میں یہ ضروری ہے کہ مشرقی پنجاب میں کچھ مسلمان ملٹری ہوا اور مغربی پنجاب میں کچھ غیر مسلم ملڑی ہو جو بے شک علاقہ کی حکومت کے ماتحت ہو مگر اس کا وجود اقلیت کے اندر اعتماد پیدا کرنے میں مفید ہو گا.۸ - قادیان میں رسد ختم ہو رہی ہے اور ہمیں پناہ گزینوں اور مقامی آبادی کو رسد پہنچانے میں مشکلات کا سامنا ہو رہا ہے.اس کے لئے بھی مناسب انتظام ہونا چاہیے جن میں سے ایک یہ ہے کہ کم از کم پناہ گزینوں کے لئے حکومت میں جہیا کرے..چونکہ سارے انتظامات کے باوجود ایک حصہ آبادی کو قادیان سے لاہور.سیالکوٹ کی طرف منتقل کرنا ہو گا اس لئے کافی تعداد میں اور تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد کنوائے کا انتظام ہونا چاہیئے جن کے ساتھ مسلح گارڈ ہو جس میں کافی حصہ بلکہ موجودہ حالات میں سالم حصہ مسلمانوں کا ہو.اس کنوائے کے ذریعہ قادیان کی عورتوں اور بچوں اور کمز ور بیا بہ مردوں کے علاوہ پناہ گزینوں کو بھی باہر نکالنے کا انتظام ہوگا..یہ بھی کہا جائے کہ احمدیہ جماعت ہندوستان اور پاکستان دونوں میں موجود ہے اور طبعا ہم دونوں حکومتوں سے تعلق اور دلچسپی رکھتے ہیں اور دونوں پر حقوق بھی.خاکسار مرزا بشیر احمد الله ٣٠ "
افسوس حضرت چودھری صاحب پنڈت جواہر لال صاحب نہرو سے مل نہ سکے) حضرت امیر المومنین صالح الموعود کی ہدایت پر حضرت مرزا بشیر احمد رمضان اجبات ادیان کیلئے ضروری اعلان کی طرف سے اور اگست میں کو قادین کے صدر صحبت کو حساب ذیل اعلان بھیجوایا گیا.بخدمت صدر صاحبان ! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته حضرت صاحب نے ارشاد فرمایا ہے کہ موجودہ خطرے کے ایام میں احمدی عورتیں اور چھوٹی عمر کے بچے قادیان سے باہر پاکستان کے علاقہ میں بجانا چاہیں انہیں اس کی اجازت ہے بشر طیکہ لاہور میں ان کی رہائش کا انتظام ہو سکے یا لاہور سے آگے جانے کا انتظام موجود ہو.نیز یہ بھی ضروری ہے کہ قادیان سے باہر پاکستان کے علاقہ تک پہنچنے کے لئے مسلم ملٹری گارڈ کا انتظام موجود ہو گر قادیا کا کوئی احدی مرد آجکل بغیر اجازت باہر نہیں جاسکتا جس شخص کوئی مجبوری پیش ہو وہ اپنی مجبوری بیت کر کے ابھازت حاصل کرے.یہ بات بھی قابل وضاحت ہے کہ سلسلہ کی طرف سے مسلم کنوانے کا انتظام کیا جا رہا ہے جو کبھی کبھی قادیان آیا کرے گا اور اس میں حسب گنجائش مستورات اور بچوں اور اجازت والے مردوں کی موقع دیا جائے گا.مگر یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ چونکہ گنجائش محدود ہوتی ہے اس لئے باری باری ہی افقع مل سکتا ہے.جو غیر احمدی اصحاب یا ہر جانا چاہیں وہ بھی اس انتظام میں شامل ہو سکتے ہیں.اگر گورنمنٹ کا کا نوائے آئے تو وہ بلا کرایہ لے بھائے گا.لیکن اگر اپنے کانوائے کا استعمال کیا جائے تو اس کے لئے مناسب کرایہ لگے گا مگر مغرباء کو سہولت دی جائے گی.صدر صاحبان اپنے اپنے محلہ میں یہ بھی بتا دیں کہ ایسے بچوں ، عورتوں، مردوں کی فہرست شیخ عبد السید احب عاجز بی.اے کی نگرانی میں تیار ہوتی ہے.پس تمام درخواستیں ان کے پاس بھانی چاہئیں کو منظور کی نظارت باری باری لوگوں کو موقعہ دیں گے.در صاحبان کو یہ بھی چاہیئے کہ اس کام میں گھبراہٹ کا رنگ نہ پیدا ہونے دیں بلکہ وقار اور انتظام کے ماتحت سمارا کام سرانجام پائے.فقط والسلام مرزا بشیر احمد ۳۱
صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب نے بواسطہ مولوی ابوالعطاء صاحب تجویز محلوں میں اجتماعی پیش کی تھی کہ اس ظہور / اگست کو مغلوں کی مساجد میں اجتماعی طور پر ڈھا کی بجائے بچنا نچہ اس روز پہ بجے سے 9 بجے تک تمام مساجد میں دعا کی گئی.قادیان مرکزی فسوں اورکارکنوں کاخاص ان سیدنا الصلح الموعود فرماتے ہیں: ان تکلیف دہ ایام میں قادیان کے مرکزی احمدی افسروں اور کارکنوں نے نہایت درجه خلوص کا ثبوت دیا.چنانچہ قادیان کے کارکن...سب کے سب اپنی جانیں ہتھیلی پر لئے ہوئے خدا تعالیٰ کے شعائر کی حفاظت میں لگے ہوئے ہیں...دان بالعموم بائیں بائیں گھنٹے تک کام کرنا پڑتا ہے خود مجھ پر بہت راتیں ایسی گزری ہیں کہ صبح تک میں آنکھ بھی ٹھیک نہیں سکا کیونکہ ماتحت عملہ کی ڈیوٹی تو با لیتی رہتی ہے لیکن اوپر جو عملہ ہوتا ہے اور جس کا فرض دوسروں سے کام لینا ہوتا ہے، اس کی ڈیوٹی بدل نہیں سکتی.رات کو کام کرنے والے آتے ہیں تو وہ کام بھی کرتے ہیں اور اپنے افسر کو بھی بتاتے ہیں کہ انہوں نے کیا کام کیا.اسی طرح دن کو کام کرنیوالے کام کرتے ہیں تو وہ اپنے افسر کو بھی کام کی رپورٹ دیتے اور اس کی ہدایات کے مطابق عمل کرتے ہیں" سے فصل دیم حضرت مصلح موعود کا سفریت اب ہم متحد ہندوستان کے اس آخری یادگار اور اہم واقعہ تک آپہنچے ہیں جیسن سے جماعت احمدیہ کی تاریخ میں اور پاکستان میں ورود مسعود ایک نئے اور انقلابی دور کا آغاز ہوا.ہماری مراد سیدنا حضر مصلح موعود کے سفر ہجرت سے ہے جو حضور نے جماعتی مشورہ کے بعد اس ظہور اگست میش کو / اختیار فرمایا..له الفضل» سر تبوک ستمبر کالم ۲-۳ (خطب جمبر فرموده ۱۲ رتبوک استر پیش مقام سجدا حمید لاہور ) به
ام حضرت مصلح موعود خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اپنی روانگی سے ایک روز قبل یعنی ظہور اگست پیش کی رات کو قادیان وجماعتہائے احمدیہ مضلع گورداسپور کے نام بہت الوداعی پیغام حسب ذیل الوداعی پیغام لکھا اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو اپنے پیچھے امیر مقامی مقر کرتے ہوئے تم است فرمائی کہ حضور کے قادیان سے روانہ ہونے کے بعد جماعت تک پہونچا دیا جائے چنانچہ آپ نے اس کی نقلیں کروں کے مغرب اور عشاء کی نمازوں میں قادیان کی تمام احمدی مساجد میں بھیجوا دیں جو پڑھ کر سنا دی گئیں.پیغام یہ تھا :.اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم محمده ونصلى على رسوله الكريم میں مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی تمام پر یزید نشان انجمن احمدیہ قادیان و محله جات و دیہات ملحقہ قادیان ددیہات تحصیل بٹالہ تحصیل گورداسپور کو اطلاع دیتا ہوں کہ متعدد دوستوں کے متواتر اصرار اور لمبے غور کرنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ قیام امن کے اغراض کے لئے مجھے چند دن کے لئے لاہور ضرور جانا چاہیے کیونکہ قادیان سے بیرونی دنیا کے تعلقات منقطع ہیں اور ہم ہندوستان کی حکومت سے کوئی بھی بات نہیں کر سکے حالانکہ ہمارا معاملہ اس سے ہے لیکن نا ہو اور دہلی کے تعلقات ہیں.تار اور فون بھی جا سکتا ہے.ایل بھی جاتی ہے اور ہوائی جہاز بھی جا سکتا ہے.میں مان نہیں سکتا کہ اگر ہندوستان کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال صاحب پر یہ ام کھولا جائے کہ ہماری جماعت مذہباً حکومت کی وفادار جماعت ہے تو وہ ایسا انتظام نہ کریں کہ ہماری جماعت اور دوسرے لوگوں کی جو ہمارے ارد گرد رہتے ہیں حفاظت نہ کی جائے جہانتک مجھے معلوم ہے بعض لوگ حکام پر یہ اثر ڈال رہے ہیں کہ مسلمان جو ہندوستان میں آئے ہیں ہندوستان سے دشمنی رکھتے ہیں.حالانکہ اصل بات یہ ہے کہ انہیں اپنے جذبات کے اظہار کا موقعہ ہی نہیں دیا گیا.ادھر اعلان ہوا اور ادھر فساد شروع ہو گیا ورنہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ مسلمان مسٹر جناح کو اپنا سیاسی لیڈر تسلیم کرنے کے باوجود ان کے اس مشورہ کے خلاف جاتے کہ اب جو مسلمان ہندوستان میں گئے ہیں انہیں ہندوستان کا وفادار رہنا چاہیئے.غرض ساری غلط فہمی اس وجہ سے پیدا ہوئی کہ یکدم فسادات ہو گئے اور صوبائی حکام اور ہندوستان کے موکام پر حقیقت نہیں کھلی.ان حالات
میں میں سمجھتا ہوں کہ مجھے ایسی جگہ جانا چاہیئے جہاں سے دہلی و شملہ سے تعلقات آسانی سے قائم کئے جاسکیں اور ہندوستان کے وزراء اور مشرقی پنجاب کے وزرا ء پر اچھی طرح معاملہ کھولا بھا سکے.اگر ایسا ہو گیا تو وہ زور سے ان فسادات کو دور کرنے کی کوشش کریں گے.اسی طرح کا ہور میں سیکھ لیڈروں سے بھی بات چیت ہو سکتی ہے جہاں وہ ضرور تا آتے جاتے رہتے ہیں اور اس سے بھی فساد دور کرنے میں مدد مل سکتی ہے.ان امور کو مد نظر رکھ کر میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں چند دن کے لئے لاہور جا کر کوشش کروں.شاید اللہ تعالے میری کوششوں میں برکت ڈالے اور یہ شور و شتر جو اس وقت پیدا ہو رہا ہے دور ہو جائے میں نے اس امر کے مدنظر آپ لوگوں سے پوچھا تھا کہ ایسے وقت میں اگر میرا جانا عاری طور پر زیادہ مفید ہو تو اس کا فیصلہ آپ لوگوں نے کرنا ہے یا میں نے، اگر آپ نے کرنا ہے تو پھر آپ لوگ محکم دیں تو میں اسے مانوں گا لیکن میں ذمہ داری سے سبکدوش ہوں گا اور اگر فیصلہ میرے اختیار میں ہے تو پھر آپ کو حق نہ ہوگا کہ چون و چرا کریں.اس پر آپ سب لوگوں نے لکھا کہ فیصلہ آپ کے اختیار میں ہے سوئیں نے چند دن کے لئے اپنی سکیم کے مطابق کوشش کرنے کا فیصلہ کیا ہے.آپ لوگ دعائیں کرتے رہیں اور حوصلہ نہ ہاریں.دیکھو مسیح کے حواری کتنے کمزور تھے مگر میں انہیں چھوڑ کر کشمیر کی طرف چلا گیا اور سیجیوں پر اس قدر مصائب آئے کہ تم پر ان دنوں میں اس کا دسواں حصہ بھی نہیں آئے لیکن انہوں نے ہمت اور بشاشت سے ان کو بر داشت کیا.ان کی جدائی تو دائی تھی مگر تمہاری جدائی تو عارضی ہے اور خود تمہارے اور سلسلہ کے کام کے لئے ہے.مبارک وہ جو یئے بلنی سے بچتا ہے اور ایمان پر سے اس کا قدم لڑکھڑاتا نہیں.وہی جو آخر تک صبر کرتا ہے بعد ان عالی کا انعام پاتا ہے.پس صبر کرو اور اپنی عمر کے آخری سانس تک خدا تعالیٰ کے وفادار رہو.اور ثابت قدمی اور نرمی اور عقل اور سُوجھ بوجھ اور اتحاد و اطاعت کا ایسا نمونہ دکھاؤ کہ دنیا عش عش کر اُٹھے جو تم میں سے مصائب سے بھاگے گا وہ یقیناً دوسروں کے لئے ٹھوکر کا موجب ہوگا.اور خدا تعالے کی لعنت کا ستحق.تم نے نشان پر نشان دیکھتے ہیں اور خدا تعالے کی قدرتوں کا منور جلوہ دیکھا ہے اور تمہارا دل دوسروں سے زیادہ بہادر ہونا چاہیے.میرے سب لڑکے اور داماد اور د دنوں بھائی اور بھتیجے قادیان میں ہی رہیں گے اور میں اپنی غیر حاضری کے ایام میں عرینہ
تمام کا مرزا بشیر احمد صاحب کو اپنا قائمقام ضلع گورداسپور اور قادیان کے لئے مقررکرتا ہوں.ان کی فرمان برداری اور اطاعت کرو اور ان کے ہر حکم پر اس طرح قربانی کو جس طرح محمد رسول الله صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں.مَنْ أَطَاعَ أَمِيرِى فَقَدْ أَطَاعَى وَ منْ عَلی امیری فَقَدْ عَصَانِی یعنی جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی.پس جو اُن کی اطاعت کرے گا وہ میری اطاعت کرے گا.اور جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اطاعت کرے گا وہ رسول کریم صلے اللّہ علیہ و آلہ وسلم کی اطات کرے گا اور وہی مومن کہلا سکتا ہے دوسرا نہیں.اے عزیز و ! احمدیت کی آزمائش کا وقت اب آئے گا اور اب معلوم ہوگا کہ ستیا مومن کونسا ہے نہیں اپنے ایمانوں کا ایسا نمونہ دکھاؤ کہ پہلی قوموں کی گرہیں تمہارے سامنے جھک جائیں اور آئندہ نسلیں تم پر فخر کریں.شاید مجھے تسلیم کی غرض سے کچھ اور آدمی قادیان سے باہر بھجوانے پڑیں مگر وہ میرے خاندان میں سے نہ ہوں گے بلکہ علماء سے ہوں گے.اس سے پہلے بھی میں کچھ علماء باہر بھجوا چکا ہوں.تم ان پر باطنی نہ کردہ بھی تمہاری طرح اپنی جان کو خطرہ میں ڈالنے کے لئے تیار ہیں لیکن خلیفہ وقت کا حکم انہیں مجبور کر کے لے گیا.پس وہ تو اب میں بھی تمہارے ساتھ شریک ہیں اور قربانی میں بھی تمہارے ساتھ شریک ہیں.یہاں وہ لوگ جو آنوں بہانوں سے اجازت لے کر بھاگنا چاہتے ہیں وہ یقیناً کمزور ہیں.خدا تعالیٰ اُن کے گناہ بجتے اور نیچے ایمان کی حالت میں جان دینے کی توفیق دے.اسے عزیز و ! اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ ہر وقت تمہارے ساتھ رہے اور مجھے جب تک زندہ ہوں سچے طور پر اور اخلاص سے تمہاری خدمت کی توفیق بخشے اور تم کو مومنوں والے انقلاص اور بہادری سے میری رفاقت کی توفیق بخشے.خدا تعالے تمہارے ساتھ ہو اور آسمان کی آنکھ تم میں سے ہر مرد ہر عورت اور ہر بچہ کو سچا مخلص دیکھے اور خدا تعالیٰ میری اولاد کو بھی اخلاص اور بہادری سے سلسلہ کی خدمت کرنے کی توفیق بخشے.والسلام " الفضل" در احسان /جون خاکسایی (دستخط حضرت مرزا محمود احمد خلیفة السيح ٣٠
۷۲۵ اگلے روز (۳۱) ظہور / اگست یہ ہش کو حضرت امیر المومنین الصلح الموعود نے روانگی سے قبل اپنے لخت جگر صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب کو قصر خلافت کا بالائی کمرہ سپرد فرمایا.اور انہیں اپنے بعد اس میں قیام پذیر ہونے کی ہدایت فرمائی.ازاں بعد حضور کیپٹن ملک عطاء اللہ صاحب آفت دوالمیال کی اسکوٹر میں قریباً ایک بجے احمدیہ چوک قادیان میں موٹر میں سوار ہوئے اور پھر سوا ایک بجے کو بھی دارالسلام قادیان راحمد میں پہنچے جہاں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ، صاحبزاده مرا مهار شد صاحب ، صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب اور نوابزادہ میاں عباس احمد خاں (جو حضور کے ساتھ ہی کو کٹی دار السلام میں آئے تھے اور ان کے علاوہ مخاندان مسیح موعود کے بعض اور افراد نے حضور کو الوداع کہا اور حضور یہاں سے بذریعہ موٹر روانہ ہو کہ پام بجے کے قریب شیخ بشیر احمد صاحب امیر مقامی جماعت احمدید لاہور کے مکان پر بخیر و عافیت پہنچے گئے.اس تاریخی سفر میں حضرت سیدہ ام متین صاحبہ اور حضرت سیدہ منصور بیگم صاحبہ (حرم حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر حمد صاحب بھی حضور کے ہمراہ تھیں یہ حضرت مسیح موعود کی ہجرت سے متعلق حضرت سيتنا افضل عمر خليفة السي الثاني الصلح الموعود کی ہجرت پاکستان سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک اہم پیش گوئی کا شاندار ظہور کی تیار کی ایک خواب پوری ہوئی جس میں حضور پر کی انکشاف کیا گیا تھا کہ آپ خود یا آپ کا کوئی خلیفہ ہجرت کرے گا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ ایک شخص میرا نام لکھ رہا ہے تو آدھا نام اس نے عربی میں لکھا ہے اور آدھا انگریزی میں لکھا ہے.انبیاء کے ساتھ ہجرت بھی ہے لیکن بعض رویا نبی کے اپنے زمانہ میں پورے ہوتے ہیں اور بعض اولا د یا کسی متبع کے ذریعے سے پورے ہوتے ہیں.مثلاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قیصر و کسری کی کنجیاں ملی تھیں تو وہ ممالک حضرت عمر کے زمانہ میں فتح ہوئے " سے اس پیشگوئی کی تفصیل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بعض اور الہامات بھی ہوئے جو حضور نے براہین احمدیہ صفحه ۲۴۱ پر درج کئے.اور "واقع البلا" (مطبوعہ اپریل سنشائہ کے صفحہ ۲۱ پر ان کا ترجمہ مع تشریح مندرجہ ذیل الفاظ میں شائع فرمایا.۲ الحكم استمبر "الفضل " ۸ احسان جون س ش صفحه ۳: له "بدر" میر شاه صفر، " ه وارد صفحه ۳ ۱۱۹۴۸
تعیسائی لوگ ایذا رسانی کے لئے مگر کریں گے اور خدا بھی مکر کرے گا اور وہ دن آزمائش کے دن ہوں گے اور کہہ کہ خدایا پاک زمین میں مجھے جگہ دے.یہ ایک روحانی طور کی ہجرت ہے“ سر ہجر کے مالی این بار این اسال الموجود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :- میں اتی طور پر ایک بہت بڑا ابتلاء کہ میں آیا اور الہی تقدیر کے ماتحت ہمیں قادیان چھوڑنا پڑا.شروع میں میں سمجھتا تھا کہ جماعت کا جرنیل ہونے کی حیثیت سے میرا فرض ہے کہ قادیان میں لڑتا ہوا مارا جاؤں ورنہ جماعت میں بوند لی پھیل جائے گی اور اس کے متعلق میں نے باہر کی جماعتوں کو چٹھیاں بھی لکھ دی تھیں.لیکن بعد میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے الہامات کے مطالعہ سے مجھ پر یہ امرمنکشف ہوا کہ ہمارے لئے ایک ہجرت مقدر ہے اور ہجرت ہوتی ہی لیڈر کے ساتھ ہے.ویسے تو لوگ اپنی جگہیں بدلتے ہی رہتے ہیں مگر اسے کوئی ہجرت نہیں کہتا.ہجرت ہوتی ہی لیڈر کے ساتھ ہے.پس یکس نے سمجھا کہ خدا تعالے کی مصلحت یہی ہے کہ ہمیں قادیان سے باہر چلا جاؤں.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے الہامات کے مطالعہ سے میں نے سمجھا کہ ہماری ہجرت یقینی ہے اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ مجھے قادیان چھوڑ دینا چاہئے تواس وقت اور فون کیا گیا کہ سینہ کی طرح ٹرانسپورٹ کا انتظام کیا جائے لیکن آٹھ دس دن تک کوئی جواب نہ آیا اور جواب آیا بھی تو یہ کہ حکومت کسی قسم کی ٹرانسپورٹ مہیا کرنے سے انکار کرتی ہے اس لئے کوئی گاڑی نہیں مل سکتی ہیں اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات کا مطالعہ کر رہا تھا.الہامات کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے ایک الہام نظر آیا " بعد گیارہ " میں نے خیال کیا کہ گیا ہے مراد گیارہ تاریخ ہے اور میں نے سمجھاکہ شاید ٹرانسپورٹ کا انتظام قمری گیارہ تاریخ کے بعد ہو گا گر انتظا کرتے کہ تے عیسوی ما کی وہ تاریخ آگئی لیکن گاڑی کا کوئی نظام نہ ہوسکا.تاریخ کا اعلان ہوگیا کہ اسرت کے بعد ہر ایک حکومت اپنے اپنے علاقہ کی حفاظت کی خود ذمہ دار ہوگی.اس کا مطلب یہ تھا کہ انڈین یونین اب مکمل طور پر قادیان پر قابض ہوگئی ہے میں نے اس وقت خیال کیا کہ اگر مجھے جانا ہے تو اس کے مکو عربی زبان میں باریک اور خفیہ تدبیر کو کہا جاتا ہے جس میں ریڈ کلف ایوارڈ کے عیسائی منصوبے کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے؟ حضرت مسلم وجود کی ہجرت کے ایام عام مسلمانوں کے لئے عموماً اور جماعت احمدیہ کے لئے خصوصاً ابتلاء اور آزمائش کے ایام تھے.که " پاک زمین یعنی پاکستان *
کام ہے لئے فوراً کوشش کرنی چاہیئے ورنہ قادیان سے نکلنا محال ہو جائے گا اور اس کام میں کامیابی نہیں ہوسکیگی ان لوگوں کے مخالفانہ ارادوں کا اس سے پتہ چل سکتا ہے کہ ایک انگریز کوئی جو بٹالہ گا ہوا تھا میرے پاس آیا اور اس نے کہا مجھے ان لوگوں کے منصوبوں کا علم ہے جو کچھ یہ اسر اگست کے بعد مسلمانوں کے ساتھ کریں گے اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا.یہ باتیں کرتے وقت اس پر رقت طاری ہو گئی لیکن اس نے جذبات کو دبا لیا اور منہ ایک طرف پھیر لیا جب میں نے دیکھا کہ گاڑی وغیرہ کا کوئی انتظام نہیں کی سکتا اور میں سوچ رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہام" بعد گیارہ سے کیا مراد ہے تو مجھے میاں بشیر احمد صاحب کا پیغام ملا کہ میجر جنرل نذیر احمد صاحب کے بھائی میجر بشیر احمد صاحب ملنے کے لئے آئے ہیں.دراصل یہ ان کی غلطی تھی وہ میجر بشیر احمد صاحب نہیں تھے بلکہ ان کے دوسرے بھائی کیپٹن عطاء اللہ صاحب تھے جب وہ ملاقات کے لئے آئے تو میں حیران تھا کہ یہ تو میجر بشیر احہ نہیں اُن کے چہرے پر تو پیچک کے داغ ہیں مگر چونکہ مجھے ان کا نام میجر بشیر احمد ہی بنایا گیا تھا اس لئے میں نے دورانِ گفتگو میں جب انہیں میجر کہا تو انہوں نے کہا میں میجر نہیں ہوں کیپٹن ہوں اور میرا نام بشیر احمد نہیں بلکہ عطاء اللہ ہے کیپٹن عطاء اللہ صاحب کے متعلق پہلے سے میرا یہ خیال تھا کہ وہ اپنے دوسرے بھائیوں سے زیادہ مخلص ہیں اور یک سمجھتا تھا کہ اگر ندمت کا موقعہ مل سکتا ہے تو اپنے بھائیوں میں سے یہی اس کے سب سے زیادہ تحق ہیں.میں نے انہیں حالات بتائے اور کہا کہ کیا وہ سواری اور حفاظت کا کوئی انتظام کر سکتے ہیں.انہوں نے کہا کہ میں آج ہی واپس جا کر کوشش کرتا ہوں.ایک جیب میجر جنرل نذیر احمد کو لی ہوئی ہے اگر وہ مل سکی تو دو اور کا انتظام کر کے میں آؤں گا کیونکہ تین گاڑیوں کے بغیر پوری طرح حفاظت کا ذمہ نہیں لیا جا سکتا کیونکہ ایک جیپ خواب بھی ہو سکتی ہے اور اس پر حملہ بھی ہو سکتا ہے لیکن ضرورت ہے کہ تین گاڑیاں ہوں تا سب خطرات کا مقابلہ کیا جا سکے.یہ باتیں کر کے وہ واپس لاہور گئے اور گاڑی کے لئے کوشش کی.مگر میجر جنرل نذیر احمد صاحب کی جیپ انہیں نہ مل سکی.وہ خود کہیں باہر گئے ہوئے تھے.آخر انہوں نے نواب محمد دین صاحب مرحوم کی کار لی اور عزیز منصور احمد کی جیپ اسی طرح بعض اور دوستوں کی کاریں حاصل کیں اور قادیان چل پڑے.دوسرے دن ہم نے اپنی طرف سے ایک اور انتظام کرنے کی بھی کوشش کی اور چاہا کہ ایک احمدی کی معرفت کچھ گاڑیاں مل جائیں.اس دوست کا وعدہ تھا کہ وہ ملٹری کو ساتھ لے کر آٹھ نو بجے قادیان پہنچ جائیں گے لیکن وہ نہ پہنچ سکے یہانتک کہ دس بج گئے.اس وقت مجھے یہ خیال آیا کہ شاید
دراما گیارہ سے مراد گیارہ بجے ہوں اور یہ انتظام گیارہ بجے کے بعد ہو میاں بشیر احمد صاحب جن کے سپردان ونوں ایسے انتظام تھے.اُن کے بار بار پیغام آتے تھے کہ سب انتظام رہ گئے ہیں اور کسی میں بھی کامیابی نہیں ہوئی ہیں نے انہیں فون کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہام بعد گیارہ سے ہی سمجھتا ہوں کہ گیارہ بجے کے بعد کوئی انتظام ہو سکے گا.پہلے میں سمجھتا تھا کہ اس سے گیارہ تاریخ مراد ہے لیکن اب میرا خیال ہے کہ شاید اس سے مراد گیارہ بجے کا وقت ہے.میرے لڑکے ناصر احمد نے بھی جس کے سپرد باہر کا انتظام تھا مجھے فون کیا کہ تمام انتظامات فیل ہو گئے ہیں.ایک بدھ فوجی افسر نے کہا تھا کہ خواہ مجھے سزا ہو جائے میں ضرور کوئی نہ کوئی انتظام کروں گا اور اپنی کار و ساتھ روانہ کروں گا لیکن عین وقت پر اسے بھی کہیں اور جگہ جانے کا آرڈر آگیا اور اس نے کہا ئیں اب مجبور ہوں اور کسی قسم کی مدد نہیں کر سکتا.آخر گیارہ بیچ کر پانچ منٹ پر میں نے فون اٹھایا اور چاہا کہ ناصر احمد کو فون کروں کہ ناصر احمد نے کہا کہ میں فون کرنے ہی والا تھا کہ کیپشن عطاءاللہ یہاں پہنچ چکے ہیں اور گاڑیاں بھی آگئی ہیں چنانچہ ہم کیسین عطاء اللہ صاحب کی گاڑیوں میں قادیان سے لاہور پہنچے.یہاں پہنچ کر میں نے پورے طور پرمحسوس کیا کہ میرے سامنے ایک درخت کو اکھیڑ کر دوسری جگہ لگانا نہیں بلکہ ایک باغ کو اکھیڑ کر دوسری جگہ لگانا ہے ہمیں اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ فوراً ایک نیا مرکز بنایا جائے اور مرکزی دفاتر بھی بنائے جائیں لے سید نا حضرت امیرالمومنین خلیفہ اسیح الثانی المصلح الموعود کی ہجرت کے بعد کس طرح انتہائی زہرہ گداز اور جگہ پاش حالات میں قادیان کے مخلص احمدیوں اور جانفروش درویشوں نے مشرقی پنجاب بلکہ پورے ہندوستان میں اسلام کا جھنڈا بلند رکھا.نیز پاکستان میں خدا تعالیٰ کے پاک دعدوں اور بشارتوں کے عین مطابق اس کے اولو العزم اور مقدس خلیفہ مولود کے مبارک ہاتھوں سے نئے سرے سے احمدیت کا باغ لگایا گیا یعنی ربوہ جی ما نگیر شہرت کا حال مثالی اور شاندار مرکز تعمیر ہوا، او طیور ابراہیمی آسانی قرار کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے دوبارہ جمع کو گئے؟ اللہ سب ایمان افروز واقعات کی تفصیل انشاء اللہ العزیز و توفیقہ تعالئے اگلی جلد میں آئے گی الفضل ۳۱ وفا جوائی بیش صفحه ۵-۶- +
۱۳۲۳ ۲۲ تعلیم الاسلام کالج قادیان کا پہلا پی ایس متعلقه صفحه ۲۵ (انگریز کیا سے ترجمہ) بسم الله الرحمن الرحبي تمهید و تعارف موجودہ دور میں اخلاقی انحطاط اور مادہ پرستی میں انتہا کو پہنچی ہوئی ہے وہ محتاج بیان نہیں.بد قسمتی سے مغربی تعلیم کا وہ نظام ہو اس وقت ہمارے ملک میں بھاری ہے باوجود اس کے کہ اس کے بعض پہلوؤں میں کچھ خوبیاں بھی موجود ہیں اس نے مغربی تہذیب کو ہوا دینے میں ملتی پر تیل کا کام کیا ہے.پس اس مقصد کے پیش نظر کہ ہمارے احمدی بچے مادہ پرستی اور موجود تہذیب کے سیلاب سے محفوظ رہیں نیز یہ کہ وہ دنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ اسلام اور احمدیت کا روحانی به کامت سے بھی آراستہ ہوں.اور ایک خاص دینی اور اخلاقی ماحول میں پر ورش پائیں.جماعت احمدیہ نے اپنے مقدس بانی حضرت احمد علیہ السلام کی زیر ہدایت ست ادیان میں تعلیم الاسلام ہائی سکول جاری فرمایا اور اب یہ اداره می ۱۹۲۴ میں انٹر میڈیٹ کالج (آرٹس اور سائنس ) کی صورت میں ترتی پا رہا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت جلد اسے ڈگری کالج کے معیارہ تک پہنچا دیا جائے گا.جس میں آرٹس اور سائنس کے تمام مضامین دچار سالہ کورس) بالترتیب پڑھائے جائیں گے.کالج کے قیام کا مقصد یہ ہے کہ ایسے بند کر دار نوجوان پیدا کئے جلدیں جونہ صرف موجوده علوم اور زندگی کے موجودہ تقاضوں سے پوری طرح عہدہ برا ہونے کی صلاحیت رکھتے ہوں.بلکہ اسلامی تمرین کی حقیقی مرورنا کے حامل.اور احمدیت اور اسلام کی اخلاقی اور روحانی
اقتدار کا مجسمہ ہوں.اس کے علاوہ وہ بہترین شہری اور معاشرت کا عمدہ ترین نمونہ ہوں.یہ کالج صدر انجین احمدیہ کے زیر انتظام ہوگیا اور ایک بہت بڑے دیے دیہاتی طبقے رکہ میں کا مرکز اس وقت قادیان ہے) کی تعلیمی ضروریات بھی پوری کرے گا میں نام لب کو بلا نفرین مذنب وقت داخلے کی اجازت ہوگی.اور ہرطالب علم اپنے ضمیر کے مطابق پوری دل کبھی کے ساتھ تمام علوم سے بہرہ در ہوسکے گا.الیس معہ داخلہ گنجائش کے مطابق و نوعیت، مضامین کے اعتبار سے کیا جا سکے گا.اسٹاف - حضرت مرزا ناصر حمد صاحب اپنے اسے پنجاب بی اے پنجاب، بی اے آنند ( ماڈرن گر میں آکسن، انگلستان) پرنسپل اور لیکچرار دینیات اور اقتصادیات.مكرم الرواند عبد القادر صاحب ایم اے لیکچرار انگریزی مكرم عباس بن عبد القادر صاحب ایم اے لیکچرار تاریخ -۲ مکرم خواجہ عبد العزیز صاحب حقانی ایم ہے.لیا.ٹی.اپنے دھیگ لیکر این اسفی - مکرم عبد الرحمن صاحب نافرائیم ہے.لیکچرار ریاضی.A- - مکرم ذو الفقار علی صاحب تھی ایم ایس سی.لیکچرار فنرکس اور کیمسٹری.مکرم بشارت الرحمن صاحب ایم اے لیکچرار عربی.مکرم متقاضی محمد نذیر صاحب ( اینچا ہے.ایسے پانی) لیکچرارت رہی اور اردو.مکرم صوفی محمد ابراہیم صاحب بی ایس سی بی ٹی ڈی انسٹریٹر اور ٹیچر سائنس مکرم محمد البدالعلیم صاحب بی اے ایس اے وی ٹیچر انگلش اور جنرل نالج.مکرم محمد امام صاحب ناصر بی اے بھائی ٹیچر ریاضی.مکرم ماسٹر محمد السلام خان صاحب ڈرائینگ ماسٹر فزیکل انسٹرکٹر آسامی جلد میر کی جارے کی ہے ه نمیره تا و پر مندر ہے اساتذہ انٹر میڈیٹ کالج کے باقاعدہ افتتاحسے قبل ہی تعلیم الاسلام ہائی سکول سے منسلک کردئے گئے.پہلے فریکل انسٹر میر چوہدری محمد یا میل صاحب نکلی تھے ارتلی (درودی ہیں میں ان کی بجائے چوہدری کی فضل داد من مقر ر ہے.
-۱۴ لائبررین ( آسامی جلد ٹچ کی جانے کی ہے -10 -۱۵ میڈیکل آفیسر جناب خان صاحب ڈاکٹر محمد عبد اللہ صاحب - K آفس کلرک اور خز انجا اور آپ کی جلدی کی جائے گی ) لیبارٹی اسٹنٹ دو کسی ) آسامیاں طلبہ ٹچ کی جائیں گی ) مضامین کالج میں موجودہ حالات میں مندرجہ ذیل مضامین پڑھائے جائیں گے.ران انگریزی ۱۲ عربی میں فارسی (ہی) ریاضی (ره) اقتصادیات (۶) تاریخ یا اساسه فرکس (9) کمری (۱۰) اردو اور دینیات زائد مضامین ہوں گے.ر طلباء مندرجہ ذیل مضامین کے گہ آپ میں سے اپنے لئے کسی مناسب گروپ کا انخاب کر سکتے ہیں:.بان انگریزی ربی یا فارسی - ریاضی اور تاریخ انگریز کیا عربی یا فارسی ریاضی اور اقتصادیات (۳) انگریزی عربی یا فارسی ریاضی اور فزکسی ربی انگریزی سوبی یا نارسی تاریخ اور ست السفر (۵) انگریزی عربی یا نارسی ریاضی اور مسلسفه ا کھانے کے پہلے لائبرمین مولوی محمد دین صاحب ہیں.آپ نے وقار جوان کی ہم سے اسٹنٹ کے طور پر چارج سنبھالا ہوں نی کم الدین سی بی اے بی ایل ایل او اکر مولان در مران صاحب نام یا دور میں میں نے شروع میں بطور سیڈ کلرک کام کیا منشی صاحب در اورامان کر مار ها و مرا مارچ کو نیشنل گار ترین تفضل ٹرنینگ لیتے ہوئے گولی سے شہید ہوئے (الفضل دارای بانو مطابق اول صفحہ ایک کالم ۳ - ماه محرت معنی ايات في عبد الرحمن صاحب جنید ابن حضرت قاضی ہوا ١٩٤٨ م મ محمد ظہور الدین صاحب اکمل گھرانی سپر نٹنڈنٹ آفس بنے.ه عبد المجد صاحب ناصر کلارک تر و وقار بلال که اولین لیبارٹری اسٹنٹ جو صدی غلام حید رهاب در راه خدا راکتور -> { اندانی محمد میر صاحب الفقر ما تبلیغ در دیار شیخ فضل نادر صاحب الفرید ناشی ) مونیر تقررمه فروری ملک عبد العزیز صاحب ( تقرر در امان ۳۲۵امش مطابق ۸ مارچ ۱۹۲۶ (۶)
العین ایس سی زنان میڈیکل ر انگریزی سربی یا فارسی تاریخ اور اقتصادیات ریخ انگریزی عربی یا فارسی اقتصادیات ادت السفه انگریزی طلباء کا وی شله فراکسی کیمسٹری اور ریاضی.یونیورسٹی کے قواعد کے مطابق ضرور کی ہے کہ کالج میں داخلے کے وقت طلبا ء خود حاضر ہوں چنانچہ فرسٹ ایک کل اس میں داخلے کے وقت طلبان کی حاضری اصالت ضروری ہے یہ داخلہ میٹرک کے نتائج کے دس دن کے بعد سے مشروع کیا جاوے گا.داخلے کے وقت طلباء کو حسب ذیل سرٹیفیکیٹ پیش کرنے ہوں گے.پر دویر یا سرتفیکیت جس میں تاریخ پیدائش درج ہو اور گزشتہ امتحان یونیورسٹی میں لئے گئے مضا مین در ان کے نمبروں کی تفصیل درست ہو.- عمدہ چال چلن کا سر ٹیفکیٹ بورش ادارے کے سربراہ کی طرف سے جاری کیا گیا تو جیب میں طالب علم نے آخری مرتبہ تعلیم حاصل کی ہے -۳- دالدین یا سرپرست کی طرف سے تصدیق کہ طالب علم مذکور کو کالج میں داخلے کی اجازت ہے فییں ایف اے کی کلاسوں کی نہیں حسب فیل ہوگئی نین داخله یو نوید شمار برش نیس ٹیوشن نیس راہ و مہینوں کے لئے ) لا سر میری نفس والے کے موقع پر ایک مرتی) دی ماه) ه ر ایل این جیب که کالج چھو جاتی میڈ سکلا فس رفی نام) یونین کلب نور ۱۰-۲۵ دی ماه) I I i
0 ہوسٹل کی فیس نین داخله رہائش روشنی علیحدہ کمره پنکھا (اگر استعمال کیا جائے ) ضمانت کھانے کا پیشگی خوی \ —..لوقت والله) ر في ماه ) " 1-0...( قابل واپسی) ۱۰ رواخلے کے وقت ایک مرتبا در پھر قابل واپسی) نوٹ : بعد ڈنگ میں طلباء کو چار پائیاں بہت کی جائیں گی لیکن روشنی کے لئے بلنب اور دیکھے انہیں خود ہی حاصل کرنے ہوں گے : و و مینی کیوی یا پانی را روی -۲ فوٹور موقع رہائی از جیل (مارشل لار) منعقدت را پرو نیز چوہدری محمد علی صاحب ایم اے ) میر غیر مقبول احمد صاحب ایم اے (میتھی، یوں مولانا غلام اسم صاحب سید علی رام به نفیسر احمد عبد القادر صاحب ایم اے ران کے پیچھے بین الرشید نا کتنی ره حمیدی غلام حمید صاحب ٹور کیپر فر کی حمال لیکچرار اسٹنٹ) (1) مولوی ابوالفتح عبد الف در صاحب ایم اے قائم مقام ایسا اعلان اسلام کا لج باران می بیند ہاتھی یہ نفس سپرنٹنڈنٹ ران کے مجھے افضل خان ترکی (۸) چوہدری محمد فضل دادم با ۵۲۰ ان کے پیچھے غلام نبی صا جب لیبارٹری اسٹنٹ (9) حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب رایه الله تعالی ) پرنسپل تعلیم الاسلام کالج (1) محمد احمد صاحب انور حیدر آبادی ایم ہے.ان کی گود میں مرنا مزید اثرات کمر تعالے اور بچے بین الدین صاحب مددگار کار کن (۱۱) پر دیر حبیب الله خان صاحب ایم ایس سی (۱۲) پروفیسر
محمد احمد صاحب ایم ایس کی بیالوجی (۱۳) پروفیسر عباس بن عبد القادر صاحب ایم اے کہیڑی (۱۴) پر دنیسر میاں عطاء الرحمن صاحب ایم ایس سی فزکس (۱۵) پروفیسر صوفی بہت ست الرحمن صاحب ایم اے عربی (14) پر غیر مید سجاد حیدر صاحب (حالہ ڈپٹی کمشنر ) (۱۴) مولوی محمد الدین صاحب ایم اے لائبریرین بہ فوٹو تعلیم الاسلام کالج لاہور (سابقہ ڈی اے دیا کالی، میں کھینچی گئی.- فوتو تقریب کچر اسلام کا اقتصادی نظام سٹیج پر نیچے بیٹھنے والے (دائیں سے بائیں - مولوی صدر الدین صاحب واقف زندگی باغ ایرانی) ہوا حضرت شیخ مشتاق حسین صاحبار الدیکرم شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیت سوم ماه بعد المصاحب آصف ی صاحبزاده حرف الحفیظ احمد صاحب (۵) لطیف احمد صاحب طاہر ر ا کرم محافظ فایت الله هات حالات زندگی م اینه دانایی ها و دیدنی عبدالطیف صاحب واقف زندگی و بینی جرمنی ) (م) جناب محمد صدیقی صاحب ثابت یہ کیا اور باہو کے فن م من الرحمن صاح بینی ایم اے نام ملک خط الرحمن صد مبلغ فرانس) روی خالد احمدیت ملک عبدا من حب خادم) با ہ - حضرت مصلح موعود کے قلم مبارک سے تاریخ احمدیت سے متعلق لبعض اہم سوالات کا جواب و مؤلف کتاب ہذا نے ظہور / اگست سو سو سو اسٹیش میں حضرت مصلح موعود کی خدمت ہیں بذریعہ مکتو به عرق کیا که حضور از راه شفقت (را) اپنے تاریخی سفر دیمی (۱۹۴۶) (۲) جوان ۱۹۴۷ء کے امرت سر ریلیف کمیپ میں لڑکر بات باؤنڈری کمیشن اور ہی) احمدیہ محمود رنڈم کی تفصیل معلومات کے تعلق میں احتضر کی رہنمائی فرما ہیں حضرت امیر المومنین نے و جوان دنوں صوبہ سندھ میں تشریف فرما تھے ، اپنے مسلم مبارک سے ان استف رات کا با نفرتیں مندرجہ ذیل جواب تحریر فرمایا:
بر مان است امور اجاورت نمایا اور ریان کا دیور نورانی المد بعد الله آکے موت سلمان الله در رساست ساله که رباب کرے تو الستاره ه ن یہ کام دوسرے دوست گرشگاه متر را با صر الله سیمان بارکن شهر به شخص کے اس کہ سے مہروی چیا باسی این ابزاریم دارند حماه
احمدیہ 4 / حمدیہ سمیر رنگا سے باز شاہد الکاسوسی کرنا نہیں کھا کر کے کا پریشن کیا ہے جسے بینکوں کے سکھر اللہ الحمید سے کان هونا آ جانا شاید نمانند تا کرمان ما شبا پوشه (۱) به هر حال سب امحمود اخبارات میں یا امور عاصمہ کی روپورٹوں میں آچکے ہوں گے مگر ربوہ آکر درد صاحب اور میاں بشیر احمد صاحب سے بات کر کے نوٹ لکھوائے جاسکتے ہیں.یہ کام دوسرے لوگ کرتے ہیں.مرزا ناصر احمد اور میاں بشیر احد زیادہ بنا سکتے ہیں.(۳) لڑکر امریکہ سے ہوائی جہاز میں ایک ہزار سے زائد خرپا ڈاک کا لگا.رہی احمدی محور نام پہلے تیار کی اس کا پیش کر نائیک کے اشارہ پر ملتوی کیا.پھر عیب ہندووں نے سکھوں اور انکھوت کا ڈھونگ رچایا تو تعداد نمائندگی بڑھانے کے لئے لیگ کے اشارہ پر پیش کیا چونکہ پیش کروانا لیگ کے اختیار میں تھا.اس لئے بغیر اس کی مرضی کے ہم پیش ہی نہ کر سکتے تھے: وت : مندرجہ بالا جواب میں نمبروں کا اضافہ قارئین کی سہولت کے لئے کیا گیا ہے خون اور یونین کے الفا یک ایرانی کا (۲) جواب پر ۲۷ اگست ۱۹۵۴ء کی مہر ثبت.ضیاء الاسلام پریس ریوه ناشر ادارة المصنفين راوية ۲۵ دسامبر ۱۹۹۹ مر
ضمیمه نمبر ۲ Comments on English Translation of THE HOLY QURAN "The publication of this first volume of a new annotated translation of the Quran marks a stage in the accomplishment of a very great enterprise.It is now some fifteen years since the learned scholars of the Ahmadiyya Community of Qadian, under the inspiring leadership of His Holiness Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad, embarked upon an ambitious plan to produce an edition of the text of the Quran, accompanied by a faithful English translation and a full commentary.This first volume comprises the first nine Suras, together with a long general introduction from the pen of His Holiness, who explains that the commentary is based on the interpretation of the Quran established by the Founder of the Ahmadiyya Movement, his first Successor, and himself, the second Successor.The translation and commentary may thus be accepted as the authentic voice of the Ahmadiyya Movement.It is to be completed in two more volumes.It is no exaggeration to describe this work as a veritable monument of Islamic scholarship.A formidable list of authorities has been consulted at all stages of the undertaking, and the translators have taken into account the views not only of traditional Arab exegesis but also of European criticism.The translation is in faultless and dignified English.The general introduction, in 275 large, closely.printed pages, comprises a biography of the prophet Muhammad, a history of the compilation of the Quran, and an account of the chief features of the Quranic teachings; it contains incidentally a detailed refutation of views on Islam expressed by non-Muslims, and a 1
criticism of other religions.Much of the apologetics perhaps seems somewhat partisan and even captious to the non-Muslim reader; but it is sincerely animated, and merits careful study as throwing light on the reactions of pious and learned Muslims to what they find objectionable in the traditional doctrines of other faiths.The appearance of this first volume at a time when the Ahmadiyya Community in India was suffering most grievously-the story of this senseless persecution needs to be more widely known, for it was a most disturbing feature of the transfer of power-is itself a symbol of the fortitude and devotion which have been such outstanding characteristics of the Movement since its inception.All men of good will must wish prosperity and good fortune to the enterprise in its remaining stages, and recognise the high importance of this fine product of pious endeavour and good learning.(A.J.ARBERRY.) " "THE HOLY QURAN, WITH ENGLISH TRANS- LATION AND COMMENTARY.Vol.I.Distributed by: the Ahmadiyya Movement in Islam 220 S.State St., Chicago, $12, 50.This impressive work is "published under the auspices of Hazrat Mirza_Bashiruddin Mahmud Ahmad, Second Successor of the Promised Messiah, by the Sadr Anjuman Ahmadiyya, Qadian, India,” It was produced in India.The present volume (the first of three) contains 276 pages of introduction to the Quran (Koran to most readers in English), and 968 pages of Arabic text with parallel English translation and commentary, linguistic and theological.Since perhaps few readers of this paper are sufficiently familiar with the Arabic language to avail themselves of the remarkable aids here offered to its study, the organisation which issues the book may be more interesting to them than the book itself.The Ahmadiyya Movement, the only active missionary movement now at work in Islam, was founded in 1890 by Hazrat Mirza Ghulam Ahmad, in the Punjab."He claimed to be the Mahdi whose advent was foretold by the Holy Prophet Muhammad and the Messiah whose advent had been foretold in the Bible and in the
" Moslem Scriptures.” The "second successor,' named above, is his son.This son, born in 1889 and now resident in Pakistan, was described in prophecy as "the Word of God.” The expectation of his followers is: "The greater part of the people of Europe will believe in Hazrat Ahmad, the Promised Messiah and Mahdi.All other religions will give place to Islam and Ahmadi- yyat, and will in the end almost cease to exist.The earth shall be inherited by Hazrat Ahmad's followers, and the followers of other religions shall be few in number and shall occupy humble positions.' Many communities have been established, and the publication of this splendid edition of the Quran is evidence that they are not without resources.งง " (THE CHRISTIAN CENTURY) "The book is very well printed.The type is good, easily readable.Altogether it is a very valuable addition to the literature of Islam in the English tongue.The world is greatly indebted to the Ahmadiyya Movement for it" (Dr.Charles S.Braden, Chairman, History and Literature of Religions Deptt.North western University Evanston, IIl)."After reading it, I turned to the translation and for commending this edition as better than any previous attempt to present an English version." (H.A.R.Gibb)." "The English is faultless, and misprints are remarkably few.Evidently no pains have been spared to present the Quran in as perfect a form as possible.’ "The characteristics of Quranic Teachings thus authoritatively expounded are certainly modern and in most respects admirable.If the United Nations could act up to the principles here laid down, it might regain some of its prestige.' " "The Commentary is full and often shows a fine sense of spiritual values." "There are many details which may weaken con- troversy.But it would be ungracious not to recognise that we have here the first part of a great and meri- torious enterprise.It has no doubt been a labour of love to its authors." "This attempt to present the teaching of the Quran 8
in a form adapted to the needs of the present, is a sign of spiritual life and Missionary enterprise, and is on the whole enlightened and progressive." (Richard Bell)."The translation is as we say in French-sticking to the text.No one could praise enough the merit of this exactitude that helps to elucidate any difficulties of the Quranic language.(Regis Blachere, Professor of Literary Arabic, School of Oriental Languages at Paris)." "I do not think I am going too far in saying that, up to now, no translation of the Quran in & European language has pushed its endeavours So far to instruct the reader who is no scholar of Arabic with regard to the explicit as well as implicit contents of the text translated.One would wish that the publica- tion of a work that will be epoch-making in the popularization of the book of Islam in Europe may be completed soon" (Ibid) A