Language: UR
تقویم ہجری شمسی کے اجرأ سے لیکر حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے دعویٰ مصلح موعود تک ۔ (پرانے ایڈیشن کے مطابق جلد 9)
تاریخ احمدیت جلد نهم تقویم ہجری شمسی کے اجرا سے لیکر حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی کے دعوکی مصلح موعود تک ۳۱۹ آتش / ۱۹۲۰ء تا ۱۳۲۳ ش سر ۱۱۹۴۳ دوست محمد شاہد
نام کتاب مرتبہ طباعت موجودہ ایڈیشن تعداد شائع کردہ مطبع : تاریخ احمدیت جلد ہشتم مولا نا دوست محمد شاہد 2007 : 2000 : نظارت نشر و اشاعت قادیان پرنٹ ویل امرتسر ISBN - 181-7912-115-1 TAAREEKHE-AHMADIYYAT (History of Ahmadiyyat Vol-8 (Urdu) By: Dost Mohammad Shahid Present Edition : 2007 Published by: Nazarat Nashro Ishaat Qadian-143516 Distt.Gurdaspur (Punjab) INDIA Printed at: Printwell Amritsar ISBN - 181-7912-115-1
بسم اللہ الرحمن الرحیم پیش لفظ اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں داخل فرماتے ہوئے اس زمانہ کے مصلح امام مہدی ومسیح موعود علیہ السلام کو ماننے کی توفیق عطا کی.قرونِ اولیٰ میں مسلمانوں نے کس طرح دُنیا کی کایا پلٹ دی اس کا تذکرہ تاریخ اسلام میں جا بجا پڑھنے کو ملتا ہے.تاریخ اسلام پر بہت سے مؤرخین نے قلم اٹھایا ہے.کسی بھی قوم کے زندہ رہنے کیلئے اُن کی آنے والی نسلوں کو گذشتہ لوگوں کی قربانیوں کو یا درکھنا ضروری ہوا کرتا ہے تا وہ یہ دیکھیں کہ اُن کے بزرگوں نے کس کس موقعہ پر کیسی کیسی دین کی خاطر قربانیاں کی ہیں.احمدیت کی تاریخ بہت پرانی تو نہیں ہے لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے الہی ثمرات سے لدی ہوئی ہے.آنے والی نسلیں اپنے بزرگوں کی قربانیوں کو ہمیشہ یادرکھ سکیں اور اُن کے نقش قدم پر چل کر وہ بھی قربانیوں میں آگے بڑھ سکیں اس غرض کے مد نظر ترقی کرنے والی قومیں ہمیشہ اپنی تاریخ کو مرتب کرتی ہیں.احمدیت کی بنیاد آج سے ایک سو اٹھارہ سال قبل پڑی.احمدیت کی تاریخ مرتب کرنے کی تحریک اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دل میں پیدا فرمائی.اس غرض کیلئے حضور انور رضی اللہ عنہ نے محترم مولانا دوست محمد صاحب شاہد کو اس اہم فریضہ کی ذمہ داری سونپی جب اس پر کچھ کام ہو گیا تو حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی اشاعت کی ذمہ داری ادارۃ المصنفین پر ڈالی جس کے نگران محترم مولانا ابوالمنیر نور الحق صاحب تھے.بہت سی جلدیں اس ادارہ کے تحت شائع ہوئی ہیں بعد میں دفتر اشاعت ربوہ نے تاریخ احمدیت کی اشاعت کی ذمہ داری سنبھال لی.جس کی اب تک 19 جلدیں شائع ہو چکی ہیں.ابتدائی جلدوں پر پھر سے کام شروع ہوا اس کو کمپوز کر کے اور غلطیوں کی درستی کے بعد دفتر اشاعت ربوہ نے
اس کی دوبارہ اشاعت شروع کی ہے.نئے ایڈیشن میں جلد نمبر 9 کو جلد نمبر ۸ بنایا گیا ہے.حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے قادیان سفر کے دوران تاریخ احمدیت کی تمام جلدوں کو ہندوستان سے بھی شائع کرنے کا ارشاد فرمایا چنانچہ حضور انور ایدہ اللہ کے ارشاد پر نظارت نشر و اشاعت قادیان بھی تاریخ احمدیت کے مکمل سیٹ کو شائع کر رہی ہے ایڈیشن اول کی تمام جلدوں میں جو غلطیاں سامنے آئی تھیں ان کی بھی تصحیح کر دی گئی ہے.موجودہ جلد پہلے سے شائع شدہ جلد کا عکس لیکر شائع کی گئی ہے چونکہ پہلی اشاعت میں بعض جگہوں پر طباعت کے لحاظ سے عبارتیں بہت خستہ تھیں اُن کو حتی الوسع ہاتھ سے درست کرنے کی کوشش کی گئی ہے.تاہم اگر کوئی خستہ عبارت درست ہونے سے رہ گئی ہو تو ادارہ معذرت خواہ ہے.اس وقت جو جلد آپ کے ہاتھ میں ہے یہ جلد ہشتم کے طور پر پیش ہے.دُعا کریں کہ خدا تعالیٰ اس اشاعت کو جماعت احمد یہ عالمگیر کیلئے ہر لحاظ سے مبارک اور با برکت کرے.آمین.خاکسار برہان احمد ظفر درانی ( ناظر نشر و اشاعت قادیان)
بسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنَصَ عَلَى رَسُو الكريم - تصل عَبْدِهِ المَسيح الموحد تاریخ احمدیت جلد نهم در قم نمودن مکرم و محترم بود هری معموظف الله خالص اسب) یہ امر میرے لئے باعث خوشی ہے کہ امسال ادارۃ المصنفین کی طرف سے تاریخ احمدیت کی تویں جلد احباب کے سامنے پیش کی جا رہی ہے.عنوانات پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لود سی اسلہ کے بہت ہی اہم واقعات پر مشتمل ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ جو قومیں اپنی تاریخ کو زندہ رکھتی ہیں اُن کی تاریخ انہیں زندہ رکھتے ہمیں ممد و معاون ثابت ہوتی ہے.اور اپنے اسلامت کو بھلا دینے والی تو میں رفتہ رفتہ بھولی بسری قوموں کے انبود یں شامل ہو کر اپنی انفرادیت کو کھو دیتی ہیں لیکن وہ قومیں جو دنیا وی شیتوں اور بندھنوں سے تالیف پاتی ہیں اُن سے کہیں زیادہ مذہبی قوموں کا فرض ہوتا ہے کہ اپنی تاریخ اور اپنے اسلام کے اعمال اور کردار کو زندہ و پائندہ رکھیں.دنیاوی قوموں کی تاریخی تو بسا اوقات یاد رکھنے کے قابل واقعات سے ہی خالی ہوتی ہے بلکہ اکثر و بیشتر کم حق تلفی ، خود فراموشی اور خدا فراموشی کے واقعات کی کثرت کے باعث انتہائی بد زیب اور بھیانک نظر آتی ہے اس کے باد خود دنیا وی تو میں اپنے اسلامت کی یادوں کو زندہ رکھنے کے لئے کثیر اموال صورت کر کے اپنی تاریخ کے مٹتے ہوئے باریک نقوش کو محفوظ کرنے میں ہمیشہ کوشاں نہ بتی ہیں پھر کیا نہ ہی اقوام کا اس سے کہیں زیادہ یہ فرض نہیں کہ حقائق پر مشتمل اپنی قمیتی تاریخ کو محفوظ کرنے کی پوری کوشش کریں.
جماعت احمدیہ کی تاریخ کا یہ دور جو اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا اولین دور ہے اپنی قدر وقیمت کے لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم، تابعین اور تبع تابعین کی تاریخ کے بعد دنیا کی ہر دوسری تاریخ سے زیادہ بلند مرتبہ اور ذی شان ہے.اور یقینا اس لائق ہے کہ مقدور بھر کوشش کے ساتھ اس کے تمام حسین خد و خال کو علمی اور عملی دونوں لحاظ سے زندہ رکھا جائے.میری دُعا ہے کہ اللہ تعالے ادارۃ المصنفین کو یہ مقدس فریضہ کما حقہ اعمدگی اور احتیاط کے ساتھ سرانجام دینے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر قدم پر ان کا رگھستان کی راہ نمائی فرمائے جو اس عظیم الشان خدمت پر مامور ہیں.جماعت کے تمام ذی استطاعت اصحاب کو چاہیے کہ وہ جلد از جلد اس قیمتی سرمایہ کو اپنے گھروں اور سینوں میں محفوظ کرنے کی کوشش کریں خود بھی اس سے استفادہ کریں اور اپنے اعزاء اور اقرباء کو بھی اس سے استفادہ کرنے کی پر زور تحریک کریں.موجودہ زمانہ میں اس امر کی شدید ضرورت محسوس کی جا رہی ہے کہ ہماری نئی نسل اپنے اسلاف کے کارناموں ، اخلاق اور اطوار سے پوری طرح واقف ہو اور ان تمام نیک روایات کو اپنے کردار میں محفوظ کرے جن کے باعث ہمارے بزرگ، اسلامت آسمان ہدایت کے روشن ستارے بنے ہوئے تھے.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فرائض کو سمجھنے اور پوری طرح ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.والسلام شما کسان کے ظفر اللہ خان
بسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَةٌ وَنَصَلَّ عَلَى رَسُولِهِ الكَريم وَعَلى عَبْدِهِ المسيح الموعود.پیش لفظ یہ محض للہ تعالی کاحسان ہے کہ تاریخ احمدیت کی نویں جلد طبع ہو کیا حباب کے ہاتھوں میں پہنچ رہی ہے.کئی سالوں سے ہر جلسہ سالانہ کے موقع پر ادارۃ المصنفین تاریخ احمدیت کی ایک ضخیم جلد احباب کے سامنے پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے.تقریباً سات صد صفحات پرشتمل کتاب کے مرتب کرنا، اس پر نظر ثانی کرنا ، اس کو لکھوانا اور طبع کرانا بہت ہی محنت شاقہ کو چاہتا ہے اور اس کا اندازہ وہی اصحاب کرسکتے ہیں جو تصنیف وطباعت کا تجربہ رکھتے ہیں.اللہ تعالی کی مولوی دوست محمد مصلوب شاہید کو جزائے خیرہ سے اور اپنی برکتوں اور فضلوں سے نوازے کہ وہ نہایت ہی محنت اور جانفشانی سے ہر سال ایک جلد کا مواد اکٹھا کرتے اُسے مرتب کرتے اور لکھتے ہیں.اور مواد اکٹھا کرنے اور تصاویر حاصل کرنے کے لئے انہیں کئی سفر بھی کرنے پڑتے ہیں ادار تعیین کے عمل کو تاریخ کی طباعت کے سلسلہریں بہت جد و جہد کرنی پڑتی ہے مضمون کو لکھواتا ، پروف پڑھنا اور تصاویر کے بلاک نوا کر چھپوانا کافی تگ و در چاہتا ہے.اللہ تعالی کا شکر ہے کہ ہماری محنت ٹھکانے لگ رہی ہے اور ہر سال ہم اپنی منزل مقصود کے قریبہ سینچ رہے ہیں.تاریخ احمدیت کی ہر جلد ہی اہم واقعات پر مشتمل ہوتی ہے لیکن یہ جلد اس لحاظ سے خصوصیت رکھتی ہے کہ اس میں تین ایسے اہم واقعات کا ذکر آرہا ہے جو رہتی دنیا تک اثر انداز ہوں گے راہ سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا دعوی مصلح موعود اور اس کے اثرات (۲) تفسیر کبیر جلد سوم کی تصنیف اور اس کی اشاعت (۳) مجلس الہ الاللہ کا قیام.یہ تینوں اتحات تاریخ سلسلہ میں بہت ہی اہم واقعات ہیں اور بڑے دور رس نتائج کے حامل ہیں.اس جلد میں نہیں قدرو اقعات کا ذکر ہے ان سب کا خاکسار عینی شاہد ہے جب سیدنا حضرت علی المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ کے بیگم کے مطابق دھوئی مصلح موعود فرمایا تو وہ دن جماعت کے لئے عید کا دن تھا اور تشخص کا چہرہ خوشی سے پہک رہا تھا اللہ تعالی نے اسلام کی صداقت کا زندہ ثبوت دنیا کے سامنے پیش کر دیا.وہ پیشگوئی جولی سود میں ہزاروں سال سے موجود تھی اور پھر اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا اور پھر اولیائے امت نے اُسے لوگوں کے سامنے پیش کیا اور اس زمانہ میں بستید حضرت سیم موجود علا السلام نے اللہ تعالی سے نقل ر کارکردگی کی اطلاعی و پیشگوئی پوری ہورہی تھی دعوی مسلح دور کے بعد ہوشیار پور لاہور، لدھیانہ اور دہلی میں جلسے ہو
لاہور میں حضور نے تقریر فرماتے ہوئے بو ہے فرمایا کہ اس وقت میں نہیں بول رہا بلکہ خدا میری زبان سے بول رہا ہے.آج بھی ان الفاظ کی گونج کانوں میں موجود ہے.دھوئی مصلح موعود کے بعد حضور نے ہر روز مغرب کی نماز کے بعد مسجد مبارک میں بیٹھنا شروع کیا، تا کہ آپ لوگوں کاتزکیہ نفوس اور تربیت کرسکیں.تقریب روزانہ پی لیس ہوتی.گرمیوں میں مسجد مبارک کی چھت پر اور سردیوں میں مسجد مبارک کے اندرونی حصہ میں جب حضور سند پر رونق افروز ہوتے تو گویا یوں نظر آتے جیسے چاند ستاروں کے درمیان چپک رہا ہو.عشاق تکلیف کی پروا کئے بغیر سردیوں اور گرمیوں میں دور دور سے مجلس میں پہنچتے حضور اپنے نکتوں سے نوازتے.رویا وکشوت و الہامات سُناتے.قرآن مجید کے معارف بیان فرماتے اور علمی گفتگو سے اس محفوظ کرتے ر وجد کی کیفیاری ہوجاتی جب تو نے ویسے تفسیر کبیر تصنیف فرمائی تو از راہ شفقت خاکسار کو کتابت و طباعت کے انتظام و انصرام کے لئے منتخب فرمایا خاکسار وقتا فوقتاً حضور کی خدمت میں مضمون لینے کے لئے حاضر ہونا بعض اوقات حوالہ جات کے ضمن میں یا اور کوئی بات پوچھنے کے لئے بنانا پڑتا تو دیکھا کہ حضور صبح آٹھ بجے سے کام شروع کر کے رات تین چار بجے تک اور ابض اوقات پانچ بجے تک تصنیف کے کام میں مشغول ہوتے اور اس ضمن میں آپ نے اپنی صحت کا بھی خیال نہ رکھا.اور اپنی صحت کو خطرے میں ڈال کر آپ نے قرآن مجید کی وہ تغیر دنیا کے سامنے پیش کر دی جو قیامت تک قرآن مجید کی سچائی پر شاہد ناطق ہوئی.مجلس علم و عرفان میں بھی انتظام کی سعادت نصیب ہوئی.اور ہر روز حضور کے بیٹھنے کے لئے مسندوں کو رکھوانے ، باہر سے آنے والے احباب کی ملاقات کروانے اور دیگر متعلقہ انتظامات کرنے کا موقعہ ملتا رہا.فالحمد للہ علی ذلک.کتاب کے مسودہ پر نظرثانی بھی کافی محنت چاہتی ہے.یہ محض اللہ تعالے کا احسان ہے کہ اس نے امسال بھی مسودہ پر نظر ثانی کرنے کی توفیق دی اللہ تعالے مکرم سیٹھ محمداعظم صاحب جلد آباد کو ری اب خیر ہے کہ انہوں نے قیمتی وقت شریح کر کے اوّل سے آخر تک مسودہ کو دیکھا اور مکرم مولانا ابو العطاء صاحب اور مکریم شیخ نوراحمد صاحب منیر نے مسودہ کے بعض حصوں کو دیکھا اور مریم قاضی محمد نذیر صاحب ناظر اصلاح و ارشاد بھی قابل شکر یہ ہیں کہ انہوں نے مکرم مولانا دوست محمد صاحب شاہد کو مفید اور قیمتی مشوروں سے نواز ایکرم شیخ خورشید احد صاحب نے کاپیاں پڑھنے اور پرو یا نا اہم فریاد کیا جا اما الا ان الجود ہر سال کوشش کی جاتی ہے کہ کتاب میں بیان ہونے والے واقعات کے ساتھ تعلق رکھنے والی تصاویر بھی محفوظ کر دی جائیں.ان تصاویر کے حصول کے لئے کافی جد و جہد کرنی پڑتی ہے.امسال مواد اور تصاویر مہیا کرنے میں مندرجہ ذیل اصحاب نے ہمارے ساتھ تعاون فرمایا :- 1- مریم مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل - تکریم شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ لائل پور
مکرم شیخ محمد حنیف صاحب امیر جماعت احمدیہ کوئٹہ ۴- الحاج خلیفہ عبد الرحمن صاحب کوئٹہ -- مکرم میجر سید سعید احمد صاحب لاہور.6 مکرم میاں بشیر احمد صاحت اینب امیر جماعت احمدیہ ناظم علاقائی انصار اللہ کوئٹہ مکرم عبد الرحمن خاں صاحب کوئٹہ مکرم مولوی عبد الرحمن صاحب اور فاضل مکرم جناب شیخ بشیر احمد صاحب سابقی حج ہائیکورٹ لاہور ۱ مکرم جناب عزیز احمد صاحب این تک سٹوڈیو لاہور ۱۱.مکریم پیر خلسل احمد صاحب گولیکی ۱۲- مکرم چودھری غلام حیدر صاحب تعلیم الاسلام کا لج ربوہ -۱۳- مكرم عبدالرشید صاحب سماری ناظم اشاعت خدام الاحمدیہ کراچی ۱۴۷- مکرم قائد صاحب مجلس خدام الاحمدیہ کراچی مندرجہ ذیل احباب نے مستورہ نقل کرنے میں مدد دی.ا مکرم قاضی منیر احمد صاحب ادارة المصنفین (۲) چودھری نذیر احمد صاحب اکو نٹنٹ سی.ایم.اسے کراچی (۳) عزیزم میر الحق صاحب شاہد ایم اے.اسی طرح چودھری محمد صدیق صاحب ایم اے انچارج خلافت لائیبریری اور ان کے رفقار کار کلام را در امر یعقوب صاحب ، ملک محمد اکرم صاحب اور مبارک، احمد صاحب خاص شکریہ کے متفق ہیں کیونکہ انہوں نے مکرم مولانا روس میلہ صاحت کے ساتھ خاص تعاون فرمایا.کرم چودھری شاہ محمد صاحب اور مکرم محمد اسمعیل صاحب کا تب نے نہایت توجہ اور عمدگی سے کتابت کی.قاضی منیر احتمار صاحب اور لطیف احمد صاحب کارکنان ادارہ نے نہایت محنت اور توجہ سے کتاب کی طباعت کا کام سرانجام دیا.الغرض سب احباب جنہوں ن مواد یا کیا کتابت عمدگی سے کی.کاپیاں اور پوت پڑھے.کتاب کو عمدگی سے چھاپا سبھی قابل شکریہ ہیں.اللہ تعالے ان سب کو اپنے فضلوں ، احسانوں اور برکتوں سے نواز ہے - آمین ".
فهرست مضامین تاریخ احمدیت جلد هم عنوان پہلا باب صفحه قمری مہینوں کی تعیین عنوان تقویم قمری کا اجمالی خاکہ تقویم مجری شمسی کے اجزاء سے لیکم ہجری شمسی تقدیم (کیلنڈر) بابت ۳۱ پیش تفسیر کبیر (جلد سوم) کی اشاعت تک مطابق ساله خلافت ثانیہ کا ستائیسواں سال ۳۱۹ له ش فصل اوّل خلافت جو بلی سے پیدا شدہ نئی ذمہ داریوں کو پورے اخلاص اور جذبہ کے ساتھ ادا کرنے کی تلقین تقویم ہجری و شمسی کا اجتراء A نشر و اشاعت کی طرف سے پہلے کیلنڈر کی اشاعت د آئی ہجری شمسی کیلنڈر حضرت مولانا غلام حسن خاں صاحب پشاوری کی ١٨ > IA 19 ۲۵ ۲۵ ۲۶ بیعت خلافت اور ہجرت فصل دوم حضرت خلیفہ المسیح الثانی وہ کا سفر سندھ و دہلی ۳۲ سیدنا حضرت مرزا کے عہد خلافت میں نہ مری کی نیا و حضرت علی الی الان رند کی تقریری بیٹی ریڈ یو تجری شمسی تقویم کی ضرورت ہجری شمسی تقویم جاری کرنے کی اسلامی کوششیں 1.اسٹیشن سے نواب بہادر یار جنگ، مرحام ادره با اعمت احمد ریه سلام رت سید افضای رای و تقویم هجری شمسی کی طرف 11 نواب صاحب کے تاثرات حضرت مصلح موعود تقدیم کے لئے کمیٹی کی تشکیل تقویم هجری شمسی کی ترتیب و تجویز کی ذات مبارک کے متعلق مام مسلم لیگ کے تاریخی اجلاس میں شرکت کے تہجری شمسی سال کا آغاز اور اس کے دنوں کی اس کے بعد قادیان میں آمد مینیون پر تقسیم تجری شمسی مہینوں کے نام ۱۵ نواب صاحب کے تاثرات قادیان کے متعلق है ۱۵ چودھری محمد المد ال خانصاحب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ۴۹
صفحه AP M مه ^^ ۹۲ ۹۲ ۹۲ 94 4^ ۹۹ 49 عنوان صفحہ فصل سوم عنوان قادیان میں انصار اللہ کی تبلیغی جد و جہد قادیان میں مجلس انصار اللہ کے اجلاسوں کی ابتداء غیر مبالعین کو محبت و خلوص سے تبلیغ کرنے کی زعماء انصار اللہ اور گروپ لیڈروں کے مشاورتی تحریک خاص اور اس کے ثرات ا اجلاس ہندوستان کی فیڈرل کورٹ کے چیف جسٹس قادیان میں ۵۲ حضرت خلیفہ مسیح الثانی رو کا اہم خطبہ انصار الله ایک اندرونی خفته کے متعلق صاحبزادی امتہ الودود بیگم صاحبہ کی وفات کا المناک مجلس انصار اللہ کا دستور اساسی حادثه حضرت مسیح موعود کے احاطہ مزار مبارک کی توسیع حضرت امیرالمومنیو ان کی وصیت ۶۰ تقیم اعلیٰ کا عیب رہ انصار اللہ کا عہد ۹۷ مجلس انصاراللہ کا پہلا بجٹ انصار اللہ کا پہلا سالانہ اجتماع اور حق امیر المومنین فصل چهارم کی تقریر مجلس انصار اللہ کا قیام دور ثانی کے بعض متفرق کو ائف مجلس انصاراللہ اور دوسری مجالس کے بنیادی مجلس انصار اللہ کا دوسرا سالانہ اجتماع مجلس انصار اللہ کا تعمیر ادور مجلس انصار اللہ کی تنظیم کا چوتھا سنہری دور حضرت امیر المومنین سے اخبار " سول اینڈ ملٹری گزٹ " اور سٹیٹمین" کے نامہ نگاروں کی ملاقات ضلع کانگرگاہ میں تبلیغ اسلام کی مناص موهم ва A.^.AI Ai اغراض و مقاصد انصار اللہ کی حیثیت جماعتی نظام میں مجلس انصاراللہ کا پہلا دور انصار اللہ کے اولین فرائض بیرونی مقامات کی ابتدائی مجالس مجلس العصا اللہ کا دوسرا دور مرکزی دفتر کا قیام مرکزی سکرٹریوں کو شعبوں کی تفویض
عنوان فصل پنجم عنوان دعائے خاص کی تحریک مسودہ پر نظرثانی کی تکمیل کمال یار جنگ ایجوکیشن کمیٹی کا وفد قادیان میں ۱۰ تفسیر کبیر کا نام اور اس کی وجہ تسمیہ کو تفسیر کبر کے متعلق " (دیباچہ تفسیر کبیر جلد سوم ) نقشه ماحول قادیان 11-p قادیان کے قریب اکالی کا نفرنس اور احمدیوں کا فسیر کبیر کی پہلی جلد حضرت امیر اومنین کی امن پسند رویه خدمت میں ۱۲۷ ۱۲۹ ۱۳ نکھ اختبار "ریاست " کی طرف سے احمدیوں کی تفسیر کبیر جلد سوم کی جناب انہی میں مقبولیت ۱۴۰۰ امن پسندی کا اعترافت تفسیر کبیر جلد سوم کا انڈیکیس اختبار " سول اینڈ ملٹری گزٹ کی جھوٹی خبر تغییر کبیر کی دوسری جلدوں کی اشاعت اتری پارہ کی تفسیر کے لئے اخراجات ۱۴۲ اخبار " الفضل " کا چیلنج حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیال رض کا تغییر کبیر کے مسودات کی حفاظت کا خاص وضاحتی بیان ۱۱۲ اہتمام مرزا سلیم بیگ صاحب کا رکن اعلی ہائیکورٹ حیدر آباد تفسیر کبیر کی دوسری جلدوں کی اشاعت دکن وسیاح بلاد اسلامیہ قادیان میں مرنا سلیم بیگ صاحب کا تحریری بیان "کلام الله (دیباچہ تفسیر کبیر جلد اول) 119 تفسیر کبیر کی تالیف کے دوران القاء مولوی محمد رفیق صاحب سے مجاہد تحریک جدید کا انتقال تفسیر کبیر کی تو اہم خصوصیات فصل ششم ۱۴۳ ۱۴۴ ۱۴۵ IM اه تفسیر کبیر کے انقلاب انگیز اثرات ۱۵۰ تفسیر کبیر اور علامہ نیاز فتحپوری مدیمه "نگار" تفسیر کبیر عبد سوم کی اشاعت تفسیر کبیر اور نواب بہادر یار جنگ کا مشہور درس القرآن اور اس کے تفسیر کبیر اور پروفیسر عبد المنان بیدل سابق صدر نوٹ حضرت امیر المومنین ان کا ہیمی شال مجاہدہ ۱۲۳ شعبہ فارسی پٹنہ کالج ۱۲۷ تقیہ کبیر اور سید جعفر حسین صاحب ایڈووکیٹ حیدر آبادی ۱۵۷ ۱۵۸ ۱۵۸ 104
صفحه عنوان عنوان اور 192 اناطولیہ (ترکی) میں ہولناک زلزلہ اور جماعت احمدیہ ۱۹۷ فصل فتم سناتن دھرم سبھا مشام چوراسی میں ایک احمدی حضرت امیرالمومنین کی طرف سے تصفیہ مسائل مبلغ کی تقریر کے بعض آسان طریق 149 ۱۶۳ فرقه ست سنگ (بنگال) کے مرکز میں تبلیغ احمدیت (۱۹۹ جناب مولوی محمد علی صاحب کے ایک مضمون کی معہ سب سے پہلا احمدی ہوا باز جواب ” الفضل“ میں اشاعت 174 ونجوں کے احمدیوں پر پولیس کے مظالم جناب مولوی محمد علی صاحب کو قادیان آنے، اور لیکچر جود هری محمد ظفر اللہ خانصاحب کا دوبارہ تقریر او ۱۹۸ اخبار " انقلاب" دینے کی دعوت سالانه جلس رش میں حضرت امیر المومنین محلہ دارالا نوار کی مسجد کا افتتاح ۱۷۹ ملک غلام محمد صاحب قادیان میں کا خطاب حضرت امیر المومنین کی تقریر کا ذکر اخبار سٹیٹسمین" نماینده اخبار " لائف" (نیو بارک) کی حضرت اقدس ہمیں IA.سے ملاقات مختلف مذاہب اور مختلف فرقوں کے معززین کی مسجد احمدیہ موسی بنتی (بہار) کا افتتاح سالانہ جلسه ۱۹۴۰ء میں شرکت ایک احمدی طالب علم کی شاندار کامیابی ندھوں کے جلسہ میں ایک احمدی کا پیغام احمدیت سالانہ جلسہ پر بیعت کرنے والوں کی تعداد ۱۸۳ مکانات کے سنگ بنیاد 144 ۲۰۰ : ۲۰۱ I ۲۰۲ ۲۰۳ X فصل هشتم جناب مولوی شاء اللہ صاحب امرتسری کا ایک دلچسپ مشورہ جلیل القدر صحابہ کا انتقال ۱۸۳ نگیر صنعتی سکول قادیان فصل نهم بچوں کو تیرا کی سکھانے کیلئے تالاب کی تعمیر احمدیہ مسجد سرینگر کی بنیاد ار پیش کے بعض متفرق مگر اہم واقعات سناتن دھرم سمبھالا ہور کی مذہبی کا نفرنس میں خاندان سیح موعود میں خوشی کی تقاریب ۱۹۶ احمدی مبلغ کی کامیاب تقریر ۲۰ ۲۰۵ I
عنوان انگلستان میں پہلا کامیاب مناظرہ صفحه مولا ناراحت علی صاحب کی جزائر شرق الہند کو روانگی ۲۱۰ مشرقی جاوا کے پہلے احمدی کا انتقالی ش کی نئی مطبوعات ٢١٠ عنوان فصل دوم تر منشی ظفر احمد صاحب کپور علوی کا وصال امیر المومنین کی زبان مبارک سے حقیر منشی ظفر احمد صاحب اندرون ملک کے مشہور مباحثات ۲۱۴ اور کپور تھلہ کے دوسرے عشاق احمدیت کا مفصل تذکرہ ۲۳۳ شیخ روشن الدین صاحب تنویر کا قبول احمدیت دوسرا باب ۲۲۱ فصل سوم ر المومنین کی طرف سے افغانستان سے حیدر آباد تک اری کی خصوصی تحریک سے یہ واہ بیوی اکیلی ہوئی خاص احمدی جماعتوں کا ذکر خلافت ثانیہ کا اٹھائیسواں سال ۳۲ میش +1401 ۲۴۲ فظ آباد ، گھٹ چنیوٹ اور کوئٹہ میں مسجدوں کی تعمیر ۲۴۸ فصل اوّل واقعہ ڈلہوزی فصل چهارم صحابہ کرام کو اشاعت احمدیت کے لئے سرگرم عمل واقعہ ڈلہوزی کی تفصیل حضرت امیرالمومنین کے الفاظ میں ہونے کی تحریک ۲۲۵ مخلصین جماعت کا رد عمل حضرت امیرالمومنین کا خطاب خدام الاحمدیہ کے تیرے اخبارات کا احتجاج سالانہ اجتماع پر تغیر سندھ ۲۲۶ گیت پنجاب کی طرف سے کمشنر صاحب لاہور ۲۲۷ کو معذرت کرنے کی ہدایت حضرت امیرالمومنین کی آل انڈیا ریڈیو سٹیشن سے حکومت پنجاب کا تحریری معذرت نامہ ٢٩٠ حالات عراق کی نسبت تقریر اخبار "ریاست" دہلی کا تبصرہ ۲۲۷ ۲۳۰ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا اعلان واقعہ ڈاہوری میں حکومت کے اعلیٰ حکام کے ملوث ہونے کا ثبوت ۲۶۹
صفحه عنوان صفحه عنوان فصل پنجم فصل اوّل قادیان سے ہمت کر کے پہاڑیوں کے دامن میں نیا ماہنامہ فرتان کا اجراء مرکز تعمیر کرنے کا آسمانی انکشاف جلیل القدر صحابہ کا انتقال امیر المومنین کی تقریریں سالانہ جلسہ روش پر 514 فصل ششم ۲۹۱ ۲۷۳ مرکزی اسمبلی میں قاضی بل اور جماعت احمدیہ کا احتجاج ۲۹۳ ۲۷۶ حکومت انگریزی سے شیخ الاسلام مقرر کرانے کی پر ۲۸۰ درخواست اور اخبار " الفصل علامہ محمود شلتوت کا فتونی وفات سیخ رد عمل پیش کے بعض متفرق مگر اہم واقعات علامہ محمد شلتوت کی طرف سے مدتی اور مسکت جواب خاندان سیح موعود میں خوشی کی تقاریب ۲۰ کتاب الفتاوی " میں اشاعت مہاراجہ صاحب بہادر آف ریاست پٹیالہ قادیان میں ۲۸۱ عبدالرحمن صاحب سماٹری کی وفات فصل دوم ۲۹۴ ۲۹۶ ۳۰۸ ٣١٢ ۳۱۳ فلسطین کے معمر ترین احمدی کا انتقال ۲۸۲ قادیان کے عزباء کیلئے علم کی تحریک اور اس کا شاندار اثر ۳۱۳ بیرونی مبلغین احمدیت کی آمد اور روانگی ۲۸۳ غلہ کی تحریک کے دو اہم اعراض +971 میش کی نئی مطبوعات ۲۸۵ قادیان کی دیگر احمدی آبادی کے لئے فلہ کا انتظام اور اندرون ملک کے بعض مشہور مناظر سے ۲۸۵ مخلصین کا شاندار نمونہ تیسرا باب مجلس ارشاد کے ماتحت علمی تقریروں کا سلسلہ نماز با جماعت کیلئے حضرت امیر المومنین کا تاکیدی ارشاد رسالہ فقران کے اجراء سے لیکر حضرت شعار اسلامی کی پابندی کے لئے اہم ارشاد خلیفہ اسیح الثانی کے لیکچھ نظام نو تنک ۲۹ مخلافت ثانیہ کا انتیسواں سال ۱۳۲۱ پیش ۶۱۹۴۲ فصل سوم مقامات مقدسہ کی حفاظت کے لئے دعا کی تحریک H ۳۱۸ ٣٢٠ ۳۲۱ علام
۱۲ عنوان صفحه عنوان صفحه [PAA] ٣٨٩١ احمدی نوجوانوں کو فوج میں بھرتی ہونے کی تحریک ۳۳۱ میجک لینڈن کے ذریعہ تبلیغی لیکچر بیرونی مبانتین کے لئے مخصوصی دعا کی تحریک ۳۴۱) آل اڑیسہ احمدیہ کا نفرنس سونگڑہ مبلغین سلسلہ کو ذکر الہی کے لئے اہم تحریک ۳۴۵ آل انڈیا مسلم گوجر کانفرنس میں احمدی مبلغ کی کمانی تقریبی (۳۸۹ چینی مسلمانوں کے نمائندہ شیخ عثمان صاحب قادیان میں ۳۲۸ ۳۲۸ کلیار تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کی نمایاں کامیابی ۳۸۹ ہندوستان میں پناہ حق کی منظم اشاعت کے لئے تبلیغ آریہ سماج کے متعلق حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی خاص کی تحریک ۳۴۹ اور اخبار " شیر پنجاب" حضرت امیر المومنین سے پروفیسر سید اختر احمد صاحب سرینگر میں مذاہب کا نفرنس اور نینوی کی ایک ملاقات بیرونی مشنوں کے بعض اہم واقعات ۳۵۳ مونوی محمد الدین صاحب مجاہد البانیہ کی المناک شہادت ۳۵۸ مشرق بعید کی احمدی جماعتوں اور مبلغوں کے فصل چهارم تحریک جدید کے جاری کرنے کی ایک عرض لئے دور ابتکار ۳۳۷ مہ مہش کی نئی مطبوعات ۱۹۴۲ء ۳۵۹ اندرونِ ملک کے بعض مشہور مناظرے سلسلہ احمدیہ کے مصنفوں اور ناشروں کے لئے فرمان ۳۶۲ پیش کے قادیان پر ایک اچٹتی نظر حضرت امیرالمومنین کا لیکچر نظام نو فصل پنجم جلیل القدر صحابہ کا انتقال فصل ششم ارش کے متفرق اہم واقعات ۶۱۹۴۲ خاندان سیح موعود میں کچھ مسترت تقاریب ۳۶۵ ۱۹۴۲ء چوتھا باب ترکی وفد سے تعلق حصہ تخلیفہ ربیع الثانی کے ۳۰۱ روضاتی اخطبہ سے سیر ساراجا کے بیچر اور سنہ انیک خلافت ثانیہ کا تلبیسواں سالی فصل اول کی بوند سے تین حضرت امیر المومنین کا وضاحتی خطبہ مین کی شخصیت ۱۳۸۸ حضرت امیرالمومنین کاخطاب سندھ کی صوبائی انجین احمدیہ کے سالانہ اجلاس میں ١٣٩٠ ۱۳۹۱ ٣٩١ ۳۹۵ F94 ۴۰۱
۱۳ عنوان صفحه عنوان ملک عبدالرحمن صاحب خادم کی گرفتاری اور رہائی ۴۰۰ حضرت امیر المومنین کی طرف سے سلسلہ احمدیہ کی تاریخ صفحه وط تعلیم کی مانعت اور اسلامی پر دہ کی ترویج کے محفوظ کرنے والے تین بزرگوں کو خراج تحسین ۴۵۱ متعلق پر شوکت میشگوئی ۴۰۷ افتار کمیٹی کا قیام محضر امیر المومنین کی شاندار تقاریر سالانه نمایش ۴۵۰ فصل پنجم مشقی مباحات پر نجبار نا پسندیدگی فصل دوم ۴۱۶ جليل القدر صحابه كل انتقال.حادثہ بھابڑی ای ایتانی کا یا جماعت احمدیہ کے نام ۲۸ام ملکی پریس میں ذکر ۴۲۹ فصل ششم مظلوم احمدیوں کے خلاف مقدمہ کا تکلیف دہ سلسلہ ۴۲۹ رمیش کے بعض متفرق مگر ہم واقعات محمد ان صاحب نقد مر جاری میں مبارک طرز عمل ۴۳۰ خاندان حضرت بی مو خودمیں خوشی کی تقاریر ۴۶۰ مرکزی مبلغین کا تبلیغی و منصوبہ یوپی میں pon ۴۷۲ ۴۷۵ فصل سوم بیرونی مشنوں کی تبلیغی سرگرمیاں جادا.ہانگ کانگ سنگا پور اور اٹلی کے محب اہدین کی سفر ڈلہوزی احمدیہ لائیبریری یاد گیر ۴۳۶ نسبت اطلاعات بنگال اور اڑیسہ کے قحط زدگان کی امداد ۴۳۷ نئی مطبوعات قدر اس یو نیورسٹی میں ظہور اسلام پر کامیاب لیکچر ۴۳۹ مباحثہ بیزم تبلیغ اسلام کے جہاد کی خاص تحریک اور مباحات سے بہت ۴۴۰ انچواں باب ی یونین کی تنگی ایک غیراسلامی حرکت پر اور مجالس خدام الاحمدیہ کا ریزولیوشن فصل چهارم تر امیر او نیوی کی ایک اہم نصیحت ۲۰ حضرت امیر مومنین خلیفہ اسی انسانی کے دعوی مصلح موعود سے لیکر علی معلم وعرفان قیامت تک خلافت ثانیہ کا اکتیسواں سال
۱۴ صفحه عنوان عنوان مولوی محمد علی صنا اور ان کے بعض دو سر رفتار کا ناروا طرز عمل فصل اول مولوی عزیر بخش یکی یی او یا اصلا به دریان پیشگوئی متعلقہ مصلح موجود کے مصداق ہونے کا امان اور جماعت احمد کیلئے ایک نئے اور مبارک کوے کا آغاز پیشگوئی مصلح موعود کا پس منتظر سفر ہوشیار پور مصلح موعود کے عطا کئے بجانے کی بشارت پنڈت لیکھرام کا اشتہار مصلح موعود کے متعلق مزید انکشافات شادی فصل دوم صفحه ۵۱۸ لح الموعود کا تروح پرور جوا ۵۲۱ انستقرام طاہر سیده مریکی اور حضرت میمحمد امان صاحب کی ۴۷۷ المناک وفات ۴۸۲ ۴۸۲ ۵۲۳ رسیدہ طاہر کے جنازہ اور تمیز نکنی کے رقت انگیز حالات لات ۵۲۳ سيدنا المصلح الموعود کی طرف جماعت کو رضا بالقضاء کی تلقین ح موعود کے مسلم مبارک سے تر سید ام طائر کا ذکر خیر تیز اشتہار کے موعود کی ولادت ۴۸۳ متر میرمحمد اسحاق صاحب کا المناک وصال بزرگان سلسلہ کا مسلک غیر مبائع اصحاب کا مطالبہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی بن کا موقف ۵۲۶ ۵۲۷ سر میر محمد الحق صاحب کی شہر میں میں علالت اور وصیت ۵۴۰ ۴۸۵ بیماری کا آخری شدید حملہ اور وفات ۴۸۲ حضرت امیرالمومنین کی درد انگیز تقریر خدا تعالے کی طرف سے حضرت خلیفہ اسیح الثانی پر نکشان ۴۹۰ تدفین کا روح فرسا اور دلخراش منظر سيرتنا المصلح الموعود کا پر شوکت دعوئی کہ میں ہی پیش گوئی ر میر صاحب کی بلند پایہ اورانقلاب انگیز تصانیف و تالیف مصلح موعود کا مصداق ہوں قادیان میں جشن مسرت و شادمانی ۴۹۱ ۵۰۶ فصل سوم بیرونی جماعتوں کو اطلاع اور مبارکباد کے خطوط اور تاریں سید المصلح الموعود کی جاری فرمودہ مبارک تحریکیں انکشاف کے متعلق مخلصین جماعت کی خواہیں بیات و عظیم الشان قربانیوں کے لئے تیار ہو جانے کا ارشاد ا اور ابیرام های رویای صلح موعود سے متعلق خاندان مسیح موعود کو خدمت دین کیلئے وقف ہو جانے کی تحریک ۵۱۲ تحریک رقف جائیداد رسالہ فقرن کا مصلح موعود میر ت خلیفہ اول کی ایک حیرت انگیز پیشگوئی کا انکشاف ۵۱۴ تحریک وقف زندگی ۵۱۴ بعض سعید القطرات غیر مبالعین کا قبول حق ۵۱۸ تعلیم الاسلام کا لج کیلئے ڈیڑھ لاکھ رویہ چندہ کی تحریک 004 ANA AAI ۵۵۲ ۵۵۵ Aan ADA ۵۵۹
صفر ۵۸۳ ۵۸۴ ۵۹۳ ۵۹۵ ۵۹۶ ۵۹۹ ۲۰۰ ۶۰۴ 4-4 4-9 411 ۶۱۱ ۶۱۲۴ ۶۲۱ ۱۵ عنوان صفحه عنوان جماعت کو ماہرین علوم پیدا کرنے کی تحریک ۵۶۱ حضرت سیدنا المصلح الموعود کی تقریر حفاظ پیدا کرنے کی تحریک ۵۶۴ جلسہ لاہور رضا کارانہ تبلیغ کرنے کی ولولہ انگیز تریک ۵۶۴ حضرت امیرالمومنین کی ابتدائی تقریر تسبیح وتحمید اور درود شریف پڑھنے کی تحریک اصلاح نسوان کے لئے الہامی تحریک ٹھوکوں کو کھانا کھلانے کی تحریک تحریک حلف الفضول نوجوانان احمدیت کو بالالتزام نماز تہجد پڑھنے کی تحریک 040 044 مبلغین کی تقریریں حضرت سیدنا المصلح الموعود کا حلفیہ اعلان ۵۶۶ اخبار " طریعیون “ میں جلسہ لاہور کی خبر ۵۶۶ جلسه لدھیانہ ۵۶۸ ودھری محمد ظفراللہ خاں صاحب کی مختصر تقریر ہندوستان میں سات مراکز بنانے کی تحریک ۵۲۸ سید نا المصلح الموعود کی آخری تقریر بیویوں میں عدل و انصاف کرنے کی تحریک ۵۶۸۱ نیا کی مشہور زبانوںمیں تراجم قرآن اوردوسر تبلیغی لرکی حضرت امیرالمومنین کی دہلی میں آمد ۵۶۹ شائع کرنے کی تحریک حضرت امیر المومنین کی ایمان افروز تقریر کمیونسٹ تحریک مطالعہ کرنے اوراس کا رد سوچنے کی تحریک ۵۷۳ دہلی کی بعض سعید رو میں احمدیت کی آغوش میں کا کی روحیں خداتعالی کا پیغام جماعت احمدیہ کے نام روز جزا قریب جگہ دبئی کے تفصیلی حالات سیدنا الصلح الموعو " روز ہے اور کہ بعید ہے" فصل حیات ۵۷۵ کی زبان مبارک سے فصل پنجم ایا اور اور ای ایا اور ان میں علما ان انت انت تجلس معلم و عرفان کا آغاز ای روانی نمایان جلسہ ہوشیار پور ۵۷۸ مسجد مبارک کی توسیع قادیات ہوشیار پور جانے والوں کا پہلا اور دوسر قافلہ 69 غیر اسلام کے لئے چالیس روزہ دعاؤں کا سلسلہ تضرت مصلح موعود کی ہوشیار پور میں تشریف آوری ۵۸۳ ضمیمہ تاریخ احمدیت جلد نهم
نمبر شمار جل مصلح موعود ویلی فهرست تصاویر حضرت مولانا شیر علی صاحب کی زیر صدارت جلسه..اجتماع انصار الله ۱۳۳۷ پیش کر دو عدد ۶۱۹۵۵ دیباچہ تفسیر کبیر رقم فرموده سيدنا المصلح الموعود مبلغین سلسلہ عالیہ احمدید سالانہ جلسه قادیان - عكس مكتوب سيدنا المصلح الموعود بنام جناب شیخ محمد احمد صاحب مظهر حضرت امیرالمومنین خلیفہ اسیح الثانی " کا سفر ڈلہوزی حضرت مرزا شریف احمد صاحبی گولیکی میں عکس اخبارہ ریاض بنده یکم مارچ شاه (چھ صفحات) جبکہ ہوشیار پور کے مناظر سلا حضرت سید تا المصلح الموعود اور مبلغین کی تقاریر جناب شیخ بشیراحمد صاحب ایڈووکیٹ کے مکان کا کرہ جہاں سیدنا المصلح الموعود پر انکشاف ہوا حضرت مصلح موعود جماعت احمد لاہور کے ساتھ گروپ فوٹو قدیم اساتذہ وطلبہ مدرسہ احمدیہ قادیان حضرت میر محمد اسحاق صاحبہ بہنے کا کمرہ مدرسہ احمدیہ قادیان میں بالمقابل صفحه المنشورات سلام سلام سلام م GAY 6x ۰۹۲ 00 الم لله
خد تیری دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچاو میں ہے اور ا شت پائگا اور قومیں سید نا حضرت خلیفہ المسح الثانی المصلح الموعود جلسہ دہلی کو خطاب فرما رہے ہیں (۱۶ شہادت ۳۲۳اهش، اپریل ۱۹۴۴ء ) ۱
سمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمُ * نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّ عَلَى وع لاعب ين المسيم الوعود پہلا باب تقویم مجری شمسی کے اجرا سے لیکر تفسیر کبیر (جلد سوم) کی اشاعت تک خلافت ثانیہ کا ستائیسواں سال - ذیقعده ۱۳۵۸ ء مطابق مسح المين ۱۳۵۹ ه.مطابق.فصل اول تاریخ احمدیت کی آٹھویں جلد خلافت جو بی منعقدہ دسمبر کے ایمان افروز حالات پر ختم ہوئی تھی.اب اس بجلد سے نہ کے واقعات کا آغاز کیا جارہا ہے.یہ سال اپنے اندر بہت سی خصوصیتیں رکھتا ہے.جن میں سے درج ذیل تین مخصوصیات کو بالخصوص شہرت دوام حاصل رہے گی :- (1) تقویم هجری شمسی کا اجراء (۲) مجلس انصار اللہ کا قیام (۳) تفسیر کبیر (جلد سوم) کی اشاعت
علاوہ ازیں اس سال متعدد ایسے اہم واقعات پیش آئے جو مستقبل میں بڑے دور رس نتائج کے معامل ثابت ہوئے اور بالآخر جماعت احمدیہ کی ترقی اور عروج کا موجب بنے.یر کا ایک نہایت رنجیدہ اور تکلیف وہ پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ اس میں حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب جلالپوری ، حضرت ماسٹر عبدالرؤف صاحب بھیروی ، حضرت مولوی امام الدین صاحب نے گولیکی حضرت میاں معراجدین صاحب عمر اور دوسرے کئی اکابر صحابہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نشانوں کے عینی گواہ تھے ہمیشہ کے لئے داغ مفارقت دے گئے.ہ کے واقعات و حوادث کا نہایت مختصر سا خاکہ پیش کرنے کے بعد اب اس سال کے تفصیلی امور پر روشنی ڈالی جاتی ہے.وَمَا تَوْفِيْعُنَا الَّا بِاللَّهِ الْحَةِ الْعَظِيمِ جماعت احمدیہ چونکہ مسلہ کی خلافت جوبلی کی عظیم است خلافت جوبلی سے پیدا شدہ نئی ذمہ داریوں تقریب کے بعد اپنی زندگی کے پہلے پنجاه سالہ دور سے کو پورے اخلاص اور جزیہ کیا ادا نے کی تین مار کر ان کی سفیدی میں داخل ہو چکی تھی اور ساتھ ہی الہی سنت و قانون کے مطابق نئی ذمہ داریوں اور نئے فرائض کا بار گراں بھی اس کے کندھوں پر آن پڑا تھا، اس لئے جو نہی یہ پُر وقار گر تصنع اور تکلف سے خالی اور اسلامی سادگی کا آئینہ دار روھانی جشن بخیر و خوبی ختم ہوا ، قافلہ احمدیت کے اولوالعزم سپہ سالانہ اور آسمانی قائد حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی نے نہ کے آغاز میں ۱۲ صلح ۱۳۱۰ ه ش ر مطابق ۱۲ جنوری شاہ کو ایک نہایت پر معارف اور لطیف خطبہ خاص اسی موضوع پر ارشاد فرمایا جس میں جماعت احمدیہ پر عائدہ ہونے والی نئی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کرتے ہوئے پہلے تو یہ بتایا کہ : دنیا میں جب کسی شخص کو کوئی خوشی پہنچتی ہے یا جب کوئی شخص ایسی بات دیکھتا ہے جو انس کے لئے راحت کا موجب ہوتی ہے تو اگر وہ اللہ تعالے پر یقین رکھتا ہے تو وہ ایسے موقعہ پر یہی کہتا ہے کہ اللہ تعالے کا بڑا شکر ہے کہ ہم کو یہ بات محاصل ہوئی اور جب کسی مسلمان کو ایسی خوشی پہنچتی ہے تو وہ اس مفہوم کو عربی زبان میں ادا کرتا اور کہتا ہے الحمد للہ.تو اس جلسہ پر ہماری جماعت نے جو خوشی منائی اس کا اگر خلاصہ بیان کیا جا تو وہ یہی بنے گا کہ پیغام نبوت
اور پیغام خلافت کی کامیابی پر ہماری جماعت نے اس سال الحمد للہ کہا.مگر باقی دنیا اور اسلام کی تعلیم میں ایک فرق ہے.باقی دنیا الحمد للہ کو اپنی آخری آواز سمجھتی ہے مگر اسلام الحمد للہ کو نہ صرف آخری آواز قرار دیتا ہے بلکہ اس کو ایک نئی آواز بھی قرار دیتا ہے.لہ..- اس ایمان افروز تمہید کے بعد حضور نے بتایا کہ : پس یہ جو خوشی کا جلسہ ہوا اس نے در حقیقت ہماری ذمہ داریوں کو بہت بڑھا دیا ہے..ایک خاص جلسے کے منانے کے معنے ہی یہ ہیں کہ وہ ایک منزل پر پہنچ گئے ہیں اور انہوں نے اپنے کام میں ایک درجہ کو حاصل کر لیا ہے.پس اس کے بعد ایک نئی ولادت کی ضرورت ہے گویا پہلا سلسلہ ختم ہوا.اور اب ایک نیا سلسلہ شروع ہوگا.جیسے ایک دانہ بویا جاتا ہے تو اُس سے مثلاً ستر یا سو دانے نکل آتے ہیں.اب ستر اور سو دانوں کا نکل نے اپنی ذات میں ایک بڑی کامیابی ہے مگر وہ پہلے بیج کا ایک تسلسل ہوتا ہے اور زمیندار اُسے کوئی نیا کام نہیں سمجھتا بلکہ وہ سمجھتا ہے میرے پہلے کام کا ہی سلسلہ جاری ہے.لیکن جب زمیندار ان نئے دانوں کو پھر زمین میں ڈال دیتا ہے تو اُسے یہ احساس ہوتا ہے کہ اب میرے کام کا نیا دور شروع ہوا.....اسی طرح جب ہماری جماعت نے اس جلسہ کو خوشی کا جلسہ قرار دیا تو بالفاظ دیگر انہوں نے یہ اعلان کیا کہ ہمارا پہلا بیچ جو بویا ہوا تھا اس کی فصل پک گئی.اب ہم نیا بیچ ہو رہے ہیں اور نئی فصل تیار کرنے میں مصروف ہو ر ہے ہیں.یہ اقرار بظاہر معمولی نظر آتا ہے لیکن اگر جماعت کی حالت کو دیکھا جائے تو اس اقرار کی اہمیت بہت بڑھ جاتی اور اس پر ایسی ذمہ داری عائد ہو جاتی ہے کہ اگر اس کے افراد رات دن کو شش نہ کریں تو اس ذمہ داری سے کبھی عہدہ برآنہیں ہو سکتے.اس پچاس سالہ دور کے متعلق ہم نے جو خوشی منائی ، ہمیں غور کرنا چاہیئے کہ اس دور کی پہلی فصل کس طرح شروع ہوئی تھی.جب ہم اس نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ اس پہلی فصل کا بیج صرف ایک انسان متھا.رات کو دُنیا سوئی.ساری دُنیا اس بات سے نا واقعت تھی کہ خدا اُس کے لئے کل کیا کرنے والا ہے.کوئی نہیں جانتا تھا کہ اللہ تعالے کی مشیت کل کیا ظاہر کرنے والی ہے.یہ آج سے پچاس سال پہلے کی بات ہے کہ له " الفضل" ۲۵ جنوری ۱۹۷ صفحه ۰۴
ایک خوبی دنیا کا نہیں تھا جسکو علیم نہ ہو کہ اشر تعالی دی اس ایک انقلاب پیدا کرنا چاہتا ہے.یکدم بغیر اس کے کہ پہلے کوئی شام ہو بغیر اس کے پہلے کوئی اندار ہو ، بغیر اس کے کہ پہلے کوئی اعلان ہو ، ایک شخص میں کو خود بھی یہ معلوم نہ تھا کہ کیا ہونے والا ہے خدا نے اُس کو جگایا اور کہا کہ ہم دنیا میں ایک نئی زمین اور نیا آسمان بنانا چاہتے ہیں اور تم کو اس زمین اور آسمان کے بنانے کے لئے معمار مقرر کرتے ہیں." لا نبی کے بلائے جانے کے بعد دنیا میں جو بیج بوئے ہوئے ہوتے ہیں وہ پھر نئی جد و جہد شروع کر دیتے ہیں.نبوت خلافت کا جامہ پہن لیتی ہے اور خلافت کے ذریعہ پھر خدا کے لئے نئے قلوب کی فتح شروع ہو جاتی ہے.یہی اس زمانہ میں ہوا.اور جب ہم نے ایک جشن منایا، ایک منوشی کی تقریب سرانجام دی تو کسان کی زبان میں ہم نے یہ کہا کہ ہم نے پہلی فصل کاٹ لی.مگر کیا جانتے ہو کہ دوسرے لفظوں میں ہم نے کیا کہا؟ دوسرے لفظوں میں ہم نے یہ کہا کہ آج سے پچاس سال پہلے جو ایک بیج بویا گیا تھا ، اُس بیج کی فصل ہم نے کاٹ لی.اب ہم ان بیجوں سے جو پہلی فصل سے تیار ہوئے تھے ایک نئی فصل ہونے لگے ہیں.اس عظیم انسان کام کے آغاز کے بعد تم سمجھ سکتے ہو کہ تم پر کتنی عظیم الشان ذختہ داریاں عائد ہو گئی ہیں.تم نے اب اپنے اوپر یہ ذمہ داری عائد کی ہے کہ جس طرح ایک بیچ بڑھ کر اتنی بڑی فصل ہو گیا اسی طرح اب تم ان بیجوں کو بڑھا گچی جو اس فصل پر تم نے بوئے ہیں اور اسی رنگ میں بڑھاؤ گے جس رنگ میں پہلی فصل بڑھی.پس ہم نے حیشن مسترت منا کر اس بات کا اعلان کیا ہے کہ جس طرح ایک بیج سے لاکھوں نئے بیج پیدا ہو گئے تھے.اسی طرح اب ہم ان لاکھوں بیجوں کو از سر نو زمین میں ہوتے ہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ پچھلے پچھلیش یا پچانش سال میں جس طرح سلسلہ نے ترقی کی ہے اسی طرح اتنے ہی گئے اگلے پچھیں یا پچاس سال میں ہم آج کی جماعت کو بڑھا دیں گے.یہ کوئی معمولی ذمہ داری نہیں جو تم نے اپنے اوپر عائد کی.گذشتہ پچاس سال میں ایک بیج سے لاکھوں بیچے بنے تھے.اب جب تک اگلے پچاس سال میں ان لاکھوں سے کہ وڑوں نہیں نہیں گے اس وقت تک ہم اپنی دفتہ داری سے سبکدوش نہیں سمجھے جائیں گے.غرض اس جشن کے منانے سے ہم نے یہ اعلان کیا ہے کہ ہم نے پہلی فصل کاٹ لی اور نئے سرے سے اس سے حاصل شدہ بیجوں کو زمین میں ڈال دیا.میرا تو جسم کا ذرہ ذرہ کانپ جاتا ہے.جب مجھے یہ خیال آتا ہے
کہ کتنی اہم ذمہ داری ہے جو جماعت نے اپنے اوپر عائد کی.اگر ہم پہلی فصل نہ کاٹتے تو ہماری ذمہ داریاں کم تھیں.مگر جب ہم نے اس فصل کو کاٹ کر الْحَمدُ لله کہا تو إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ إِيَّاكَ نَسْتَعین کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کا سامان بھی ہمیں مہیا کرنا پڑا.پس میں جماعت کے دوستوں کو اُن کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں.اس جلسہ کے نتیجہ میں ہم نے لاکھوں نئے بیج زمین میں بو دیئے ہیں.اب ہمارا فرض ہے کہ اگلے پچھیں یا پھانش سال میں ہم جماعت میں حیرت انگیز طور پر تغیر پیدا کریں.کیا بہ لحاظ آدمیوں کی تعداد کے اور کیا بہ لحاظ مالی قربانی کے اور کیا یہ لحاظ تبلیغ کے اور کیا بلحاظ تربیت کے اور کیا بلحاظ تعلیم کے.آج سے مثلاً پچیس یا پچاس سال کے بعد اگر ہم نئی فصل کے ویسے ہی شاندار نتائج نہ دکھائیں جیسے پہلی پچاس سالہ فصل کے نتائج نکلے تو ہماری احمد بے معنی اور ہماری اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِين جھوٹی ہو جاتی ہے.پس میں جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس بجلسہ کے بعدان کو اپنی نئی زور دار یا بہت جوش اور توجہ کے ساتھ ادا کرنی چاہئیں.اب ہماری پہلی فصل کے جو نتائج رونما ہوئے ہیں ہماری کوشش یہ ہونی چاہیئے کہ اگر اس سے زیادہ نہیں تو کم سے کم اتنے ہی گئے نتائج نئی فصل کے ضرور رو نما کر دیں.اور اگر پہلے ایک سے لاکھوں ہوئے تو.آج سے پچاس سال بعد وہ کروڑوں ضرور ہو جائیں.اگر آج سے پچیس سال پہلے جماعت دس بارہ گئے بڑھی تھی ، تو اگلے پچیس سال میں کم سے کم دس بارہ گئے ضرور بڑھ بھانی چاہیئے.مگر یہ کیونکہ ہو سکتا ہے جب تک ہر احمدی کیا مرد اور کیا عورت اور کیا بچہ اور کیا بوڑھا ، اور کیا کمزور اور کیا مضبوط ، اپنے ذمہ یہ فرض عائد نہ کرلے کہ میں احمدیت کی ترقی کے لئے اپنے اوقات صرف کروں گا اور اپنی زندگی کا اولین مقصد اشاعت دین اور اشاعت احمدیت سمجھوں گا نہ اسی طرح علمی طور پر کب ترقی ہو سکتی ہے جب تک ہماری جماعت کا ہر فرد دین سیکھنے اور دینی باتیں سننے اور پڑھنے کی طرف توجہ نہ کرے.اسی طرح مالی قربانی میں کب ترقی ہو سکتی ہے جب تک ہماری جماعت نہ صرف قربانیوں میں بیش از پیش ترقی کرے بلکہ اپنے اخراجات میں بھی دیانتداری سے کام لے.مال ہمیشہ دونوں طرح سے بڑھتا ہے.زیادہ قربانیوں سے بھی بڑھتا ہے اور زیادہ دیانتداری سے خرچ کرنے سے بھی بڑھتا ہے.رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے ایک واقعہ ایک
شخص کو ایک دینار دیا اور فرمایا جاکر قربانی کے لئے کوئی عمدہ سا بکرا نا دو.اس نے کہا بہت اچھا.تھوڑی دیر کے بعد وہ حاضر ہوا اور کہنے لگا.یا رسول اللہ یہ بکرا موجود ہے اور ساتھ ہی اس نے دینار بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو واپس کر دیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حیران ہوئے اور فرمایا " یہ کس طرح ؟“ وہ کہنے لگا.یا رسول اللہ مدینہ میں شہر کی وجہ سے چیزیں گراں.ملتی ہیں.میں دس بارہ میل باہر نکل گیا.وہاں آدھی قیمت پر بکرے فروخت ہو رہے تھے میں نے ایک دینار میں دو بکرے لے لئے اور واپس چل پڑا.جب میں آرہا تھا تو رستہ میں ایک شخص مجھے ملا.اسے بکرے پسند آئے اور کہنے لگا اگر فروخت کرنا چاہو تو ایک بکرا مجھے دے دو.میں نے ایک بکرا ایک دینار میں اُسے دے دیا.پس اب بکر ابھی حاضر ہے اور دینار بھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بہت ہی خوش ہوئے اور آپ نے اس کے لئے دعا فرمائی کہ "خدا تجھے برکت دے" صحابہ کہتے ہیں کہ اس دعا کے نتیجہ میں اُسے ایسی برکت ملی کہ اگر وہ مٹی میں بھی ہاتھ ڈالتا تو وہ سونا بن جاتی اور لوگ بڑے اصرار سے اپنے روپے اُسے دیتے اور کہتے کہ یہ روپیہ کہیں تجارت پر لگا دو.غرض کروڑوں کروڑ روپیہ اُسے آیا.تو اچھی طرح خرچ کرنے سے بھی مال بڑھتا ہے.مال بڑھنے کی صرف یہی صورت نہیں ہوتی کہ ایک کے ڈوبن جائیں بلکہ اگرتم ایک روپیہ کا کام اٹھتی میں کرتے ہو تو بھی تمہارے دو بن جاتے ہیں.بلکہ اگرتم روپیہ کا کام اٹھتی میں کرتے ہو اور ایک روپیہ زائد بھی کما لیتے ہو تو تمہارے دو نہیں بلکہ بہار بن جائیں گے پس صرف یہی کوشش نہیں ہونی چاہئیے کہ مالی قربانیوں میں زیادتی ہو بلکہ اخراجات میں کفایت کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے اور میں کارکنوں کو بالخصوص اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ایک روپیہ کا کام اٹھتی میں کرنے کی کوشش کیا کریں.غرض اب جو ہمارے پاس جماعت موجود ہے، اب جو ہمارے پاس روپیہ ہے، اب جو ر پاسی تلی سان ہیں، اب جو ہماری دنیا می شن قائم ہیں، اب جو ہماری تعلیم اعصاب جو ہماری تربیت ہے ، ان سب کو نیا بنچ تصور کر کے آئندہ پچاس سال میں حیات کی ترقی کے لئے سرگرم جد وجہد کرنی چاہیئے تاکہ آئندہ پچاس سال میں موجودہ حالت سے ہماری تعداد بھی بڑھ بھائے ، ہمارا مال بھی بڑھ جائے ، ہمارا علم بھی بڑھ جائے، ہماری تبلیغ بھی بڑھ جائے.اور اسی نسبت سے بڑھے جیس نسبت سے وہ پہلے پچاس سال
میں پڑھا" حضرت امیر المومنین نے پتے اس اپر شوکت خطبہ کے آخر میں ارشاد فرمایا کہ :.اگر ہم اس رنگ میں کوشش نہیں کریں گے تو اس وقت تک ہماری نئی فصل کبھی کامیاب نہیں کہلا سکتی.مگر یہ کام ویسا ہی ناممکن ہے جیسا آج سے پچاس سال پہلے نظر آتا تھا.پھر اس وقت خدا کا ایک نبی کھڑا تھا.بے شک اس وقت کوئی احمدی نہ تھا مگر بخدا کا نبی دُنیا میں موجود تھا ہو اس پیغام کو لے کر دنیا میں کھڑا تھا.مگر آج وہ نبی ہم میں موجود نہیں اور اس وجہ سے ہماری آواز میں وہ شوکت نہیں جو اس کی آواز میں شوکت تھی.پس آج ہمیں اس سے زیادہ آواز بلند کرنی پڑے گی اور تمہیں اس سے زیادہ قربانیاں کرنی پڑیں گی.اس کے لئے ڈھائیں بھی کرو اور اللہ تعالیٰ کے دروازہ کو کھٹکٹا اور یاد رکھو کہ جب تک جماعت دکھاؤں پر یقین رکھے گی.جب تک تم ہر بات میں اللہ تعالیٰ سے امداد کے طالب رہو گے اس وقت تک تمہارے کاموں میں برکت رہے گی.مگر جس دن تم یہ سمجھو گے کہ یہ کام تم نے کیا ، جس دن تم یہ سمجھو گے کہ یہ نتائج تمہاری محنت سے نکلے اور جس دن تم یہ کجھو گے کہ یہ ترقی تمہاری کوششوں کا نتیجہ ہے اُس دن تمہارے کاموں میں سے برکتیں بھی جاتی رہیں گی.کیا تم نہیں دیکھتے کہ آج دنیا میں تم سے بہت زیادہ طاقتور تو میں موجود ہیں مگر ان سے کوئی نہیں ڈرتا اور تم سے سب لوگ ڈرتے ہیں.اس کی کیا وجہ ہے ؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ تمہاری مثال اس تار کی سی ہے جس کے پیچھے بجلی کی طاقت ہوتی ہے.اب اگر تار یہ خیال کرے کہ لوگ مجھ سے ڈرتے ہیں تو یہ اس کی حماقت ہوگئی.کیونکہ لوگ تار سے نہیں بلکہ اس پھلی سے ڈرتے ہیں جو اس تار کے پیچھے ہوتی ہے.جب تک اس میں بجلی رہتی ہے ایک طاقتور آدمی بھی اگر تار پر ہاتھ رکھے تو وہ اس کے ہاتھ کو بھلا دے گی.لیکن اگر بھلی نہ رہے تو ایک کمزور انسان بھی الحسین تار کو توڑ پھوڑ سکتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھو اور اس پھیلی کو اپنے اندر سے نکلنے نہ دو.بلکہ اُسے بڑھاؤ اور ترقی دور.تبھی تم کامیابی کو دیکھ سکتے اور نئی فصل زیادہ شاندار اور زیادہ عمدگی کے ساتھ پیدا کر سکتے ہو.لیکن اگر یہ جعلی نکل گئی تو پھر تم کچھ بھی نہیں رہو گے.ہاں اگر یہ عجیلی رہی تو دنیا کی کوئی طاقت تمہارا مقابلہ نہیں کر سکے گی اور اس صورت میں تمہارا یہ عزم کہ تم اگلے پچاس سال میں تمام دنیا پر چھا بھاؤ، ناممکن نہیں ہو گا.کیونکہ کام مفدا نے کرنا ہے اور خدا
کے لئے کوئی چیز ناممکن نہیں " سے سیدنا حضرت امیرالمونین خلیفہ اسیح الثانی اگر چہ اہل مغرب کو حلقہ بگوش تقویم هجری شمس کا اجرا اسلام کرنے کے بہت فکر مند اور اسی وجہ سے ان کے دلی خیر خواہ اور میونس ضویہ تھے.مگر آپ کو فطری طور پر مغربیت سے شدید نفرت تھی اور اس کا اظہار اپنی تقریروں اور تحریروں میں ہمیشہ بر ملا فرمایا کرتے تھے.آپ کی یہ بھی قلبی خواہش تھی کہ جماعت احمدیہ کا ایک ایک فرد مغربیت کی ایک ایک یاد گار کو صفحہ ہستی سے مٹاکر اُن کی جگہ اسلامی تہذیب اور اسلامی تعلیم کی شاندار عمارت استوار کرنے میں ہمہ تن مصروف ہو جائے.حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی اس سلسلہ میں اپنے زمانہ خلافت کے آغاز ہی سے مختلف عملی اقدامات کرتے آرہے تھے.نومبر 1917ء میں حضور نے تحریک جدید کی بنیاد رکھی جس کے متعدد مطالبات میں مغربیت سے بغاوت کی روح نمایاں طور پر کار فرما تھی.بعد ازاں حضور نے سالانہ جلسہ ۹۳ کے موقعہ پر حضرت مسیح موعود علیات نام کے علم کلام اور الہامات کی روشنی میں جماعت احمدیہ کے سامنے علیہ اسلام کا یہ واضح تصور پیش فرمایا کہ :- س طرح آج باد بود مذاہب کے اختلاف کے مغربی تہذیب دنیا پر غالب آئی ہوئی ہے اسی طرح ہمارا کام ہے کہ ہم اسلامی تمدن اور اسلامی تہذیب کو اس قدر رائج کریں کہ لوگ خواہ عیسائی ہوں مگر ان کی تہذیب اور اُن کا تمدن اسلامی ہو.لوگ خواہ یہودی ہوں مگر اُن کی تہذیب اور اُن کا تمدن اسلامی ہو.لوگ خواہ مذہبا ہندو ہوں مگر اُن کی تہذیب اور اُن کا تمدن اسلامی ہو.یہ چیز ہے جس کے پیدا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا.کہ تہذیب اسلامی کو اتنا رائج کیا جائے اتنا رائج کیا جائے کہ اگر کچھ حصہ دنیا کا اسلام سے باہر بھی رہ بجائے پھر بھی اسلامی تہذیب اُن کے گھروں میں داخل ہو جائے.اور وہ وہی نمستن قبول کریں جو اسلامی تمدن ہو.گویا جس طرح آجکل لوگ کہتے ہیں کہ مغربی تمدن بہتر ہے.اسی طرح دنیا میں ایسی رو چل پڑے کہ ہر شخص یہ کہنے لگ جائے کہ اسلامی تمدن ہی سب سے بہتر ہے.$195.ے اخبار الفضل قادیان دار الامان مورخه ۲۵ جنوری سن ۱۹ بمطابق ها بر دوا سمجه ۱۳۵ ورده انقلاب حقیقی » صفحه ۱۱۰۰۰۹۹ ( تقریر فرموده ۲۸ دسمبر سان اور بر موقعه علیه سالانه قادیان * "
१ مرتبہ عیسوی کیلنڈر مغربیت کے مانگی دونوں میں سے مروجہ عیسوی سنہ بھی ہے جو دراصل ا قدیم رومی کیلنڈر ( ROMAN CALENDAR) ہے جسے پہلے - اگسٹس ( AUGUSTUS ) پھر جولین ) JULIAN) نے ترمیم کیا اور جولین کیلنڈر کہلانے لگا.اس کے بعد بھی کئی بار اس میں ترمیم کی گئی.آخری بار مارچ مہ میں پاپائے گریگوری سیز دہم POPE CAEGORY) کے حکم سے اس میں ترمیم ہوئی.جولین کے کچھ سو سال بعد ایک عیسائی راہب ڈینس ایگریگوس (DIONYSIOUS XXICUUS) نے اس رومن کیلنڈر سے حضرت مسیح کی پیدائش کے زمانہ سے قبل کے سال خارج کر کے اسے سی ٹی سنہ قرار دے دیا کہ سیدنا حضرت عمر کے عہد خلافت جہانک اسلامی کیلنڈر کا تعلق ہے اس کا آغاز خلیفہ ثانی سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ہوا.چنانچہ علامہ میں سنہ ہجری کی بنیا شبلی نعمانی نے اپنی مشہور تالیف الفاروق میں لکھا ہے:- عام واقعات کے یاد رکھنے کے لئے جاہلیت میں بعض بعض واقعات سے سنہ کا حساب کرتے تھے مثلاً ایک زمانہ تک کعب بن لوئی کی وفات سے سال کا شمار ہوتا تھا.پھر عام الفیل قائم ہوا.یعنی جس سال ابراہتہ الاشرم نے کعبہ پر حملہ کیا تھا.پھر عام انفجار اور اس کے بعد اور مختلف سنہ قائم ہوئے حضرت عمر رض نے ایک مختلف سنہ قائم کیا جو آج تک جاری ہے.اس کی ابت را یوں ہوئی کہ سلسلہ میں حضرت عمری کے سامنے ایک چیک پیش ہوئی جس پر شعبان کا لفظ تھا.حضرت عمر نے کہا کہ یہ کیونکر معلوم ہو کہ گذشتہ شعبان کا مہینہ مراد ہے یا موجودہ.اُسی وقت مجلس شوری منعقد کی.تمام بڑے بڑے صحابہ جمع ہوئے اور یہ مسئلہ پیش کیا گیا.اکثروں نے رائے دی کہ فارسیوں کی تقلید کی جائے چنانچہ ہرمزان جو خوزستان کا بادشاہ تھا اور اسلام لا کر مدینہ منورہ میں مقیم تھا.طاب کیا گیا.اس نے کہا کہ ہمارے ہاں جو حساب ہے اس کو ماروز کہتے ہیں اور اس میں جہینہ ے امریکن میں انسائیکلو پیڈیا (زیر لفظ کیلنڈر، بحوالہ " تقویم تاریخی صفحوم.ن مرتبه عبد القدوس صاحب ہاشمی مرکزی اداره تحقیقات اسلامی کراچی ہے یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مسیحی جغرافیہ نویسوں نے تسلیم کیا ہے کہ سبھی کیلنڈر میں غلطی ہو گئی ہے چنانچہ آرچ بشپ اشرز ( SHERS (1) نے اپنی کتاب علم تاریخ ( CHRONOLOGY) میں اور ڈاکٹر کٹو (1770 K) نے اپنی کتاب " ڈیلی بائیل السٹریشنز (DAILY BIBLE ILLUSTRATIONS) نہیں ثابت کیا ہے کہ جو تاریخ مسیحی کیلنڈر میں واقعہ مصلیب کی دی گئی ہے وہ غلط ہے، اور یہ غلطی مڑ میں لگی ہے.
اور تاریخ دونوں کا ذکر ہوتا ہے.اس کے بعد یہ بحث پیدا ہوئی کہ سنہ کی ابتداء کب سے قرار دی جائے.حضرت علی نے ہجرت نبوی کی رائے دی اور اسی پر سب کا اتفاق ہو گیا.آنحضرت نے ربیع الاول میں ہجرت فرمائی تھی.سال میں دو مہینے آٹھ دن گزر چکے تھے.اس لئے ربیع الاول سے آغاز ہونا چاہیئے تھا.لیکن چونکہ عرب میں سال محترم سے شروع ہوتا ہے اس لئے دو پہینے آٹھ دن پیچھے ہٹ کر شروع سال سے سنہ قائم کیا".ہجری تقویم کی بنیاد چاند کی تاریخوں پر رکھی گئی تھی.مگر جیسا کہ قرآن مجید کی ہجری شمسی تقویم کی ضرورت میں اور ہیں لکھنا ہے کہ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانُ یعنی سورج اور چاند دونوں ہی حساب کے لئے مفید ہیں.اور عقلی طور پر بھی اگر دیکھا جائے تو ان دونوں میں فوائد نظر آتے ہیں چنانچہ عبادتوں کوشش بھی طریق پر چلانے کے لئے چاند مفید ہے.چاند کے لحاظ سے موسم بدلتے رہتے ہیں اور انسان سال کے ہر حصہ میں اللہ تعالے کی عبادت کرنے والا قرار پا سکتا ہے.پس عبادت کو زیادہ وسیع کرنے کے لئے اور اس لئے کہ انسان اپنی زندگی کے ہر لحظہ کے لئے کہہ سکے کہ وہ اس نے اللہ تعالے کی عبادت کے لئے گزارا ہے.عبادت کا انحصار قمری مہینوں پر رکھا گیا ہے لیکن وقت کی صحیح تعیین کے لئے سورج مفید ہے اور سال کے اختتام یا اس کے شروع ہونے کے اعتبار سے انسانی دماغ سُورج سے ہی تسلی پاتا ہے.ہجری شمسی تقویم جاری یہی وہ ضرورت تھی جس کی وجہ سے ہجری تقویم کے اجراء کے بعد قرن اول کے مسلمان بادشاہوں میں یہ خیال بڑی شدت سے اُٹھا کہ ہجری کرنے کی اسلامی کوششیں تری کی طرح ہجری شمس بھی ہونی چاہیئے.چنانچہ تاریخ سے ثابت ہے کہ خلفائے عباسیہ مثلاً ہشام بن عبد الملک، ہارون الرشید ، معتضد باللہ، متہ کل القائع بلہ نے ہجری شمسی تقویم جاری کرنے کی پے در پے کوششیں کیں ہیے مگر اس میں بعض رکا وٹیں پیدا ہوگئیں.ازاں بعد ہوگئیں.ازاں بر دولت عثمانیہ نے شام میں تقویم بنائی مگر وہ کا رائج نہ ہوسکی.وه مله " الفاروق جلد دوئم صفحه ۲۰۳ - ۲۰۴ ۱ تا شر شیخ غلام علی اینڈ سنز پبلشرز کشمیری بازار لاہور بہ ل سورة الرحمن آیت ۵ پاره ۲۷ به سے تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو " تقويمنا الشيسي» ( از محب الدین خطیب ) صفحه ۱۰ تا ۱۵- (ناشر المطبعة السلفيه ومكتبتها " قاهره ۱۳۴۷م :
ہندوستان میں سلطنت خداداد میسور کے آخری تابعدار سلطان ابو الفتح فتح علی ٹیسورحمة اللہ علیہ ۶۱۷۵۳۲ - 1299ء) نے ہجری شمسی تقویم کی ضرورت کا احساس کرتے ہوئے ایک نئی تقویم تیار کی بچنا نچہ محمود خاں محمود بنگلوری اپنی کتاب " تاریخ سلطنت خداداد " میں لکھتے ہیں :- سلطان سے پہلے ملک میں مغلیہ زمانے سے سنہ ہجری کا رواج چلا آتا تھا اور اُس میں یہ نقص تھا کہ لگان کی وصولی میں بہت سی مشکلات پیش آتی تھیں.اس لئے کہ لگان فصلوں کی تیاری کے بعد لیا جاتا تھا.سنہ ہجری کے مہینے آگے پیچھے ہو جاتے تھے.اس نقص کو محسوس کرتے ہوئے اس نے ایک نئی تقویم بنائی جس کی وجہ سے ہر مہینہ ٹھیک اسی موسم میں آتا تھا، جیسے اگلے موسم میں تھا.تقدیم بنانے کے بعد اس نے مہینوں کے نام ابجد و ابتث کے جسنا پر رکھے.اس سے سلطان کی مراد یہ تھی کہ حروف پہنچی کی ترتیب یا ابجد کے حساب پر اگر نام رکھے جائیں تو لوگوں کو یاد رکھنے میں زیادہ سہولت ہوگی.سلطان شہید نے حروف ابجد کے حساب سے بارہ مہینوں کے حسب ذیل نام رکھے.احمدی.بہاری - جعفری - دارائی.ہاشمی - واسعی.زیر جدی - حیدری - طلوعی - یوسفی بازوی بیاسی بحساب ابتت انہی نہینوں کو بالہ تیب مندرجہ ذیل ناموں سے موسوم کیا.احمدی.بہاری تھی.ثمری - جعفری - حیدری خسروی - دینی - ذکری - رحمانی - راضی رہا: اے سلطان ٹیپو کی شہادت کے بعد یہ تقویم جاری نہ رہ سکی.تاہم مسلمان مرتبوں کے دلوں میں یہ خیان برابر پرورش پاتا رہا کہ تقویم شمسی ہونی چاہئیے.چنانچہ مصر کے مشہور عالم السید محب الدین خطیب نے ۱۳۶ھ میں قاہرہ کے المطبعۃ السلفیہ سے تقويمنَا الشَّمسی " کے نام سے ایک کتا بچہ شائع کیا جس میں ہجری شمسی تقویم کے لئے گذشتہ مسلم سلاطین کی جدوجہد کی تاریخ بیان کی اور آخر میں اس کے اجراء کی ضرورت و اہمیت واضح کی.حضرت فضل عمر کی توجہ مگر جو سعادت ازل سے حضرت فضل عمرہ کے عہد زریں کے ساتھ وابستہ تھی اس کی تکمیل کسی اور دور میں کیسے ہو سکتی.واقعہ یہ ہوا تقویم هجری شمسی کی طرف سر سیدنا حضرت خلیفہ مسیح الانی نے سر میں اپنے سیر له تاریخ سلطنت خدا داد " (میسور) صفحه ۵۰۰۰۴۹۹ مولفه محمود خان محمود بنگلوری ناشر پیش رز یونائیٹڈ ہو ے " طبع چہارم والد نے
روھانی “ والے مشہور سفر کے دوران جب دہلی میں رصد گاہیں اور بجنتر منتر دیکھے تو اسی وقت سے تہیہ کر لیا کہ اس بارہ میں کامل تحقیق کر کے عیسوی شمسی سند کی بجائے ہجری شمسی سنہ جاری کر دیا جائے اور آئیندہ کے لئے عیسوی سنہ کا استعمال چھوڑ دیا جائے.خواہ مخواہ عیسائیت کا ایک طوق ہماری گردنوں میں کیوں پڑا رہے.تقویم کے لئے کمیٹی کی شکل ان پر ور نے نوری اشتہ کے شروع میں تقویم مجری شمی کی انچہ حضور ممبر نامزد فرمائے :- ترویج سے متعلق ایک کمیٹی قائم فرما دی اور اس کے لئے مندرجہ ذیل -۱- حضرت سید محمد اسحاق صاحب فاضل ہیڈ ماسٹر مدرسہ احمدیہ قادیان (صدر کمیٹی) -۲- حضرت صاحبزادہ حافظ میرزا ناصر احمد صاحب فاضل پرنسپل جامعہ احمدیہ قادریان - -۳- حضرت مولوی محمد اشفعیل ساحب حلالپوری (سابق پروفیسر مجامعہ احمدیہ قادریان ) م مولوی ابو العطاء صاحب فاضل سابق مبلغ بلاد عربید چونکہ حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب کمیٹی کی تشکیل سے قبل از خود ایک قمری تقویم تیار کر رہے تھے اس لئے ارکان کمیٹی کی طرف سے تقویم کا ڈھانچہ تجویز کرنے کا اہم فریضہ آپ ہی کے سپرد کیا گیا.آپ نے اس کا ایک خاکہ کمیٹی کے سامنے رکھ دیا جو کمیٹی نے اپنی رائے تقویم کی منظوری اور اجراء کے ساتھ حضرت خلیفہ اسی الثانی کی خدمت میں پیش کیا جس کی منظوری حضرت امیر المومنین سیدنا فضل عمر نے جنوری سال کے آغاز میں دے دی.اش میں یہ تقویم شائع حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحبت حلالپوری نے " الفضل " ۲۶ جس کی کردی اور جماعت احمدیہ کے اولوالعزم امام ہمام کی برکت اور توجہ سے عالم اسلام کی ایک قدیم ضرورت پوری ہوئی.اور ہجری شمسی تقویم جاری ہوگئی.تقویم هجری شمسی کی امتیازی حیثیت خلافت عثمانیہ نے شام میں جو بھری شمسی تقویم رائے کی وہ شمسی مہینہ مارچ سے شروع ہوتی تھی مگر موجودہ تقویم مروجہ سیر روحانی تقریر سید نا حضرت خلیفه اسبیع الثانی رضا فرموده ۲۸ دسمبر ۱۹۳۵) صفر ۱۹۹ ۱۰۱ له الفضل - قادیان جنوری ۱۹۴۰ و صفحه ۳ کالم معاینه له " تقديمنا : الشمسی صفحه ا ) از محب الدین الخطيب) ناشر المطبعة السلفية ومكنيتها "القاهره ۱۳۴۶ هـ *
عیسائی کیلنڈر کے بالکل متوازی چلتی تھی یعنی اُس کے ہر نئے سال کا آغاز اور اس کے مہینوں کی تقسیم بالکل رومن کیلنڈر کی طرح تھی.دولت عثمانیہ کے ہجری شمسی کیلنڈر میں مہینوں کے نام رومن سے مخلوط سریانی زبان سے اخذ کئے گئے تھے جو یہ تھے:- عادت ، نیسان ، ایس ، حزیران ، تموز ، اغسطس ، ایلول ، تشرين الاول، تشرين الثانی ، کانون الاول ، کانون الثانی ، شباط اس کے مقابل حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے جاری فرمودہ تقویم ہجری شمسی کی نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ اس میں مہینوں کے نام ایسے مناسب تجویز کئے گئے جو اسلامی تاریخ کے مشہور واقعات کے لئے بطور یادگار تھے تا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضان اور دنیا کے لئے دین کامل کی یاد قیامت تک ہر لحظہ تازہ ہوتی رہے.بالفاظ دیگرے ہجری شمسی سال کے بارہ مہینوں میں زمانہ نبوی کے بارہ ایسے ضروری واقعات آنکھوں کے سامنے پھر جاتے تھے جو تاریخ اسلام کا نقطہ مرکز یہ اور پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مقدسہ کی جان ہیں.بہر حال حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے تقویم هجری شمسی کے مہینوں کے مندرجہ ذیل نام تجویز فرمائے.صلح ( جنوری) (۲) تبلیغ (فروری) (۳) امان ( مارچ) (۴) شہادت (اپریل) (۵) ہجے (منی) (۶) احسان (جون) ظہور (اگست) (9) تبوک دستمبر) (اکتوبر) (11) نبوت (نومبر) (۱۲) فتح (دسمبر) < (4) وفاء (جولائی) (۸) (10) انشاء (۱۱) جوی کمی کی نسبت تفصیلا تو میری امی کی ایک اور وار کے کیے جاری کی بیویاں حضر مولوی محمد الفیل صاحب کے قلم سے کو کی وجہ تسمیہ کیا ہے ؟ نیز اس تقدیم کے عملی نفاذ کے سال اول ہم سے کا کیلنڈر کیا ہے ؟ ان سب امور پر حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب سلالپوری کے ایک مضمون میں رہو الفضل " ۲۶ صلح ۳۱ پیش مطابق ۲۶ جنوری 19 میں شائع ہو چکا ہے بڑی شرح وبسط سے روشنی پڑتی ہے جسے بجنسہ درج ذیل کیا جاتا ہے ؟ له تقويمنا الشمسي " صفحه ۱ : 14 حضرت مولوی صاحب نے ہر ماہ تبلیغ فروری ۱۳۱۹ ش / ۱۹۴۰ء کے الفضل " میں اپنے مضمون کے بعض الفاظ کی اصلاح کی تھی جس کے مطابق متن میں بھی ترمیم و تصحیح کر دی گئی ہے ؟ ( ناقل )
ہجری شمسی تقویم کیلنڈری د منظور فرمود و حضرت امیر المومنين خليفة اسم الثاني بداله بقصر العربية تقویم هجری شمسی کی ترتیب و تجویز - ہجری شمسی تقویم کے مرتب کرنے کے ساتھ تعلق رکھنے والے ضروری امور پر غور کر کے اس بارے میں رپورٹ پیش کرنے کے لئے حضرت سیدنا و اما منا حضرت امیر المؤمنین خلیفتہ اسیح الثانی ایار الله تعالے بصرہ العزیز نے 11 کے اوائل میں ایک کمیٹی مقرر فرمائی اور اس کے پچھار میر متعین فرمائے حضرت سید محمد اسحاق صاحب فاضل ہیڈ ماسٹر، رسہ احمدیہ قادیان (صدر کمیٹی) ، حضرت صاحبزادہ حافظ منیرا ناصر احمد صاحب فاضل پرنسپل جامعہ احمدیہ قادیان ، مولوی ابوالعطاء صاحب فاضل مبلغ سلسلہ احمدیہ، خاکسار محمد اسمعیل (سابق پروفیسر جامعہ احمدیہ قادیان) اور ارشاد فرمایا کہ اس کیلنڈر کا ڈھانچہ تیار کر کے پیش کیا جائے اور اس میں دوسرے مروجہ شمسی کیلنڈروں کی نسبت مروجہ عیسوی کیلنڈر کو مقدم طیور پر سامنے رکھا جائے جو در حقیقت میسوی کیلنڈر نہیں بلکہ روحی کیلنڈر ہے جسے عیسائیوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانہ سے ۵۲۷ سال بعد صرف اس قدر تبدیلی کے ساتھ کرسچین کیلنڈر بنا لیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام سے قبل کے سالوں کے اعداد اس میں سے کم کر دیے اور لیس ، لیکن چونکہ اس کے کئی ایک مہینوں کے نام مشہر کا نہ ہیں اس لئے مہینوں کے نام کوئی اور تجویز کئے جائیں جو مناسب اور موزوں ہوں اور عیسوی کیلنڈر کی اصلاح کے لئے جو تبدیلی اس میں عیسائیوں نے کی ہے جس کے ماتحت اس کیلنڈر کو اب چلایا جا رہا ہے اس مجوزہ کیلنڈر میں شروع سے ہی ملحوظ رکھا جائے.چونکہ اس کمیٹی کے ارکان کو معلوم تھا کہ خاکسار را قم ایک قمری تقویم تیار کر رہا ہے اس لئے کمیٹی نے قرار دیا کہ ہجری شمسی تقویم کا ڈھانچی بھی خاکسا رہی تجویز کرے.اور اُسے کمیٹی کے سامنے پلیش کرے چنانچہ میں نے اس کا ایک خاکہ مرتب کر کے کمیٹی کے آگے پیش کیا.اور کمیٹی نے اس کے ساتھ اپنی رائے شامل کر کے اُسے حضور کی خدمت میں پیش کیا.حضور نے اس کے متعلق تمام مبران کی آرا رشتکر حسب ذیل فیصلہ فرمایا : -
ہجری کسی سال کا آغاز اور اس کے دنوں کی اس کے مہینوں پر قسیم - مروجہ عیسوی کیلنڈر کا کوئی نیا سال حبس روز سے شروع ہو گا اسی روز سے ہجری شمسی سال کا آغاز شمار ہوگا.اور سال کے دنوں کی تقسیم بھی مہینوں پر مروجہ عیسوی کیلنڈر کی طرح ہی ہوگی اور لیپ سال بھی وہی شمار ہوں گے جو مروجہ عیسوی کیلنڈر میں شمار کئے جاتے ہیں.اور پہلے ہجری شمسی سال کا آغاز بھی سلاہ کے آغاز کے وقت سے محسوب ہوگا.لیکن چونکہ عیسوی کیلنڈر کے سابقہ طریق شمار میں غلطی سے ہر صدی میں لیپ کے ۲۵ سال گنے جاتے تھے اور ساتویں صدی عیسوی کے آغاز کے وقت تک اس غلطی کی وجہ سے تین دن زائد شمار ہو چکے تھے اس لئے مسلمش (ہجری شمسی) کے آغاز کے دن کی عیسوی تاریخ یکم جنوری یہ نہیں بلکہ ۲۹ دسمبر ۱۳۷ محسوب ہوگی.اور چونکہ اس کے بعد بھی سلاید تک یہ غلط طریق شمار برابر جاری رہا اس لئے یہ فرق بڑھتا چلا گیا اور سولھویں صدی عیسوی میں دس دن تک پہنچ گیا اور شہداء میں آکر اس غلطی کی اصلاح کی طرف توجہ کی گئی مگر وہ بھی بیک وقت نہیں بلکہ مختلف ممالک میں سے ادا سے لے کر قریباً ساڑھے تین سو سال کے لیے عرصہ میں مختلف اوقات میں مختلف طریقوں سے اس کی اصلاح کی گئی حتیٰ کہ بعض اقوام نے اب بیسویں صدی میں آکر اس اصلاح کا اجراء کیا ہے جبکہ یہ فرق تیرہ دن تک پہنچ چکا تھا.ہاں اب چونکہ اس فرق کا ازالہ کیا جا ہوچکا ہے اس لئے مروجہ عیسوی کیلنڈر کے کسی سال اور کسی مہینہ کے آغاز کے دن اور اس کے مقابل کے ہجری شمسی سال اور مہینہ کے آغاز کے دن میں اب کوئی فرق نہیں ہو گا اور شاہ پیش کے آغاز کا دن وہی محسوب ہوگا جو ستار کے آغاز کا دن تھا.ہجری شمسی مہینوں کے نام.ہجری شمسی سند کے مہینوں کے نام حضور نے حسب ذیل منظور فرمائے ہیں :.- ماه صلح بمقابل جنوری.اس مہینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک رویا کی بنا پر تین ہزار صحابہ کرام کی محبت میں عمرہ کے لئے بیت اللہ شریف کی طرف روانہ ہوئے مگر کفار قریش
14 مزاحم ہوئے.اس وجہ سے حد بسیہ کے مقام سے آپ کو واپس ہونا پڑا لیکن اس موقعہ پر ان لوگوں کے ساتھ آپ کا ایک صلح کا معاہدہ ہو گیا جس کا نام اللہ تعالیٰ نے فتح مبین رکھا ہے.اس صلح کے نتیجہ میں لوگ کثرت سے اسلام میں داخل ہونے شروع ہو گئے.گویا دریا کا بند ٹوٹ گیا.- ماہ تبلیغ بمقابل ضروری.اس مہینہ میں حضرت رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بادشاہوں کی طرفت تبلیغی خطوط ارسال فرمائے اور انہیں اسلام کی دعوت پہنچائی.ماہ امان بمقابل مارچ.اس نہینہ میں حجتہ الوداع کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ آلہ سلم نے اعلان فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری جانوں ، تمہارے مالوں اور تمہاری عزت و آبرو کو دیسی حرمت بخشی ہے جیسی کہ اس نے حج کے دن کو حج کے مہینہ کو اور حج کے مقام مکہ معظمہ کی حریت عطا کی ہے.- ماہ شہادت بمقابل اپریل.اس مہینہ میں دشمنان اسلام نے دھوکہ اور غداری سے کام لے کہ اور انحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں یہ درخواست کر کے کہ ہمیں دین اسلام کی تعلیمات سکھانے کے لئے ہمارے ہاں تعلیم اور مبلغ بھیجے جائیں اور اس طرح اکا بر صحابہ کو اپنے ہاں بلا کر بے دردی کے ساتھ انہیں شہید کیا اور ایک مہینہ میں دوبار یہ غداری کی.ایک تو رجیع کے مقام پر جہاں آپ نے چھ یا سات اکابر صحابہ کرام کو بھیجا تھا تین میں سے ایک یا دو کو تو ان لوگوں نے پکڑ کر کفار قریش کے پاس جا کر بیچ دیا اور باقی سب کو شہید کر دیا.اور دوسرے بیر معونہ کے مقام پر، جہاں آپ نے ابو بر آر گلابی رنگیں بنی کلاب کی درخواست پر اور اس کی ذمہ داری پر ستر انصار کو جو نہایت مقدس لوگ اور قرآن کریم کے حافظ اور ماہر تھے، ان لوگوں کی تعلیم و تربیت کی غرض سے بھیجا.ان لوگوں نے سوائے ایک انصاری کے جیسے وہاں کے سردار نے ایک غلام کو آزاد کرنے کے متعلق اپنی ماں کی نذر پوری کرنے کے لئے چھوڑ دیا تھا باقی تمام کو شہید کر دیا.ماہ ہجت بمقابل مٹی.اس مہینہ میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ طیبہ میں قیام اختیار فرمایا.4 - ماہ احسان بمقابل جون.اس مہینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی علی کے اسیروں کی
12 حاتم کے ساتھ ان کی قومی نسبت کی وجہ سے از راہ کرم و احسان آزادی بخشی.ماہ وفا بمقابل جولائی.اس نہینہ میں غزوہ ذات الرقاع ہونا تھا جس میں سفر کی شدت اور سواری کی کمی کی وجہ سے پیدل چلنے کے باعث صحابہ کرام کے پاؤں چھلنی ہو گئے اور صحیح بخاری کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض صحابہ کے تو پاؤں کے ناخن بھی جھڑ گئے اور انہوں نے اپنے کپڑے پھاڑ پھاڑ کر اور پاؤں پر پیٹ پیٹ کر اس کا راستہ طے کیا اور اسی وجہ سے اس مہم کا نام ذات الرقاع مشہور ہو گیا اور اسی موقع پر صلوۃ الخوت کا حکم نازل ہوا.غرض اس جنگ میں بھی صحابہ کرام نے خارق عادت طور پر اپنے صدق و وفا اور تسلیم و رضا کا نمونہ دکھایا تھا.- ماہ ظہور بمقابل اگست.اس مہینہ میں جنگ موتہ کے سلسلہ میں آنحضرت صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہاتھ سے اللہ تعالیٰ نے بیرون عرب میں اسلام کی اشاعت اور ظہور یعنی غلبہ کی بنیاد رکھوائی.اس واقعہ سے قبل آپ نے ہرقل کے مقرر کردہ امیر بصری کی طرفت حضرت حارث ابن عمیر ان دی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ ایک تبلیغی خط بھیجا تھا.جب وہ موتہ کے مقام پر پہنچے تو شرحبیل غستانی نے انہیں باندھ کو قتل کر دیا جس پر حضور نے اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی امارت کے ماتحت تین ہزار صحابہ کرام کی فوج وہاں بھیجی.اور ارشاد فرمایا کہ اگر زید شہید ہو جائے تو اس کی جگہ جعفر بن ابی طالب لے لے.وہ شہید ہو جائے تو عبداللہ بن روائحہ اس کی جگہ پر کھڑا ہو جائے اور وہ شہید ہو جائے تو مسلمان اپنے میں سے کسی کو امیر بنا لیں اور اسی ترتیب سے وہ اس جنگ میں شہید ہوئے.- ماہ تبوک بمقابل ستمبر.اس مہینہ میں جنگ تبوک کے موقعہ پر مخلصین کے اخلاص کا مختلف صورتوں میں امتحان ہوا.اور انہوں نے اپنے اپنے رنگ میں اعلیٰ سے اعلی جو ہر ایمان رکھتے.۱ ماه اخاء بمقابل اکتوبر.اس مہینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جہا جرین اور انصار میں سے ایک، ایک مہاجر اور ایک ایک انصاری کے درمیان خاص طور پر اخوت کا تعلق قائم کیا جس کے نتیجہ میں مہاجرین اور انصار کے تعلقات سگے بھائیوں سے بھی بڑھ کر ہو گئے.11 ماہ نبوت بمقابل تو میر.اس مہینہ میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کو منصب نبوت و رسالت بخشا.
IA ۱۲.ماہ فتح مقابل دسمبر.اس مہینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر اپنے خونخوار دشمنوں کو لات تُريب عَلَيْكُم اليوم آپ کر عضو عام کا اعلان فرمایا.قمری مہینوں کی تعیین ان واقعات کو ان شمسی مہینوں کی طرف منسوب کرتے وقت اس بات کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے کہ حجتہ الوداع کے موقعہ پر جو آنحضرت صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اعلان فرمایا تھا کہ آئندہ مہر ایک قمری سال بارہ مہینوں کا شمار ہوگا.اس سے پہلے عرب میں ہو تاریخ شماری کا یہ طریق قریباً دو اڑھائی سو سال سے بھاری تھا کہ مہینے قمری گھنے بھاتے تھے اور سال شمسی.اور ان دونوں شماروں کو ملانے کے لئے ہر آٹھ سال میں تین سال ۱۳ - ۱۳ ماہ کے شمار کئے کھاتے تھے.اس کی بناء پر سب نت کے ابتدائی دس سالوں میں چار سال ۱۳۱۳ مہینوں کے گئے گئے تھے اور وہ اس طور پر کہ نویں طور اور دسویں سنہ کے درمیان یعنی ان میں ایک سال کے اختتام اور دوسرے سال کے آغاز کے موقعہ پر ایک مہینہ زائد شمار کیا گیا جس سے پہلے، ساتویں اور آٹھویں سال کے درمیان اور ان سے پہلے، چوتھے اور پانچویں سال کے درمیان اور اس سے قبل پہلے اور دوسرے سال کے درمیان ایک ایک مہینہ زائد شمار کیا گیا تھا.پس ابتدائی دس ہجری سالوں کا عرصہ ۱۲۰ قمری مہینوں کا نہیں بلکہ ۱۲۴ قمری مہینوں کا شمار ہوا تھا.تقویم قمری کا اجمالی خاکہ اس تقویم میں نئے قمری دور کا آغازہ سنہ ہجری کے شروع سے شمار کیا گیا ہے.اور ۳۰ - ۳۰ دنوں اور ۲۹ - ۲۹ دونوں کے قمری مہینوں کی تعیین کے لئے قمری مہینہ کی اوسط مقدار کو سامنے رکھا گیا ہے اور تواریخ کی تعین کے لئے ایک طرف اس بات کو پیش نظر رکھا گیا ہے کہ مجتہ الوداع کے دن یعنی و ذو الحمد سنہ ہجری کو جمعہ تھا.اور دوسری طرف یہ کہ ابتدائی دس ہجری سالوں میں سے پہلا مہینہ جمعہ کے روز شروع ہوا تھا.اور پانچواں مہینہ (جو ہر ایک سال کو بارہ ماہ کا شمار کرنے کی صورت میں سندھ کا پہلا مہینہ ہوتا ہے، پنجشنبہ کو یعنی جمعرات کے روز اور طول البلد کی رو سے بیت اللہ
۱۹ شریعت اور حرمین شریفین کی رویت کو معیار قرار دیا گیا ہے.حرمین شریفین کی رویت میں اور ہندوستان کی روایت میں بعض اوقات طول البلد کے اختلاف کی وجہ سے ایک دن کا فرق پیدا ہو سکتا ہے اور ہو جاتا ہے.کیونکہ ہندوستان کی نسبت عرب میں سورج کسی قدر دیر سے غروب ہوتا ہے.اس لئے وہاں چاند لبعض دفعہ ایک دن پہلے نظر آجاتا ہے.اسب ذیل میں شامله مش مطابق نشر موافق شاہ اور شاہ کا کیلنڈر دیا جاتا ہے.قوم شده کیلنڈر) بابت ۱۳۱۹ منہ مطابق ہجری ش ماه صلح ۱۳۱۹ ل له مطابق ماہ جنوری ۱۹۴۰ئر ایام هفته ہفتہ اول هفته دوم ہفتہ سوم ہفتہ چہارم ہفتہ پنجم دوشنبه الوالد سوموار نگل ☐ ۱۴ م ذوالحج 1 ذوالحجر ۱۸ ذوالحمد ✓✓ یقت هد والمنجد ۱۳ ذو الحمد 19 ذو الحمد ☑ १ 14 ۲۳ ٣٠ ۲۱ ذیقعده ۲۸ وعده ۲۲ ذیقعده ۲۳ ذی قعدہ یکم ذوالحجہ یکم ذو الجو 100 زوال ب ذوالحجہ ۱۳ ذو الحمد 14 ۲۴ ذیقعده زو الحمد ۱۳ ذو الحجہ ۲۱ ذوالحجہ ۲۵ المحمية ها ذو الحجة IF 14 ۲۶ دور 9 ذوالحمد 14 ذوا لحجر 4 ۱۳ ۲۵ ذیقعده ۲۷ سم ذو الحجة 10 ذو الحجة ذوالحمد
ماه تبلیغ ۱۳۱۹ مش مطابق ماه فروری ۱۹۴۰ء ایام ہفتہ ہفتہ اول ہفتہ دوم ہفتہ سوم ہفتہ چہارم ہفتہ پنجم لام ١٨ ۲۵ ۲۵ ذو الحجہ قوم ار محرم ار مریم دوشنبه سه شنبه چهارشنبه سوموار ۱۲ ۲۶ ذوالحجہ ار محترم ار محرم ۱۷ محرم ۲۷, ذوالحجه ۴ محترم ۱۴۷ 11 ۲۱ دار محترم ۲۸ ذو الحجر هر محرم ۱۲ محرم ۱۹ محرم ۱۵ ۲۲ ۲۹ ۲۹ ذو الحجر محرم ۱۳ محرم ۲۰ محرم q ۲۳ ۲۳ فدا محمد ۳۰ ذو الحمد یر محترم ۱۴ محرم دورا مجھے یکم محرم بافت کلاه هر محرم ماه امان ۱۳۱۹ پیش مطابق ماه مارچ ۶۱۹۴۰ ۲۴ ها محترم ایام ہفتہ هفته اول ہفتہ دوم ہفتہ سوم ہفتر چهارم هفته پنجم هفته ششم و وسليم اتوار سوموار منگل ۲۴ ۲۴ محرم ۲ صفر ور صفر ۲۶ 19 ۲۵ محترم ۳ صفر ។ ۲۷ محرم ۲۷ ^ 11 ۲۰ ۲۱ ۱۴ 19 هر صفر ۱۲ صفر +9 ۱۵ ۲۸ محرم صفر ير ۲۹ مهر دار صفر ۱۴ صفر + ما ☑
۲۱ ماہ شہادت ۱۳۱۹ این مطابق ماہ اپریل ۱۹۴۰ ایام هفته ہفتہ اول ہفتہ دوم ہفتہ سوم ہفتہ چہارم ہفتہ پنجم یکشنبه (توان) دوشنبه ۱۴ ۲۱ ۲۸ ر سوموار) ۲۳ صفحه ۳۰ صفر سه شنبه (منگل) هم ۲ از صفر ۲۹ صفر ر ربیع الاول ۱۳ ربیع الاول ۲۰ ربیع الاول 4 ۱۵ ٢٢ ۲۹ در ربیع الاول ام ار ربیع الاول ۲۱ ربیع الاول 14 ۲۳ ۳۰ یکم ربیع الاول در ربیع الاول ۱۵ ربیع الاول ۱۲۲ ربیع الاول چہار شنبہ ۱۰ 14 ۲۴ (بدھ) ۲۵ صفر ار ربیع الاول 9 ربیع الاول ور ربع الاول ۱۲ ربیع الاول پنجشنبه " ۱۸ (جمعرات) ۲۶ صفر ربیع الاول ۱۰ ربیع الاول ار ربیع الاول 止 14 ۲۶ جمعه ۲۷ صفر ربیع الاول ۱۱ ربیع الاول هار ربیع الاول شنبه (ہفتہ) ۲۷ هار ربیع الاول ربیع الاول ۱۹ ربیع الاول.ا مش طابق ماہ مئی ۱۹۴۰ ) (توان) هر ربیع الثانی ۱۲ ربیع الثانی ۱۹ ربیع الثانی ایام ہفتہ ہفتہ اول ہفتہ دوم ہفتہ سوم هفته چهارم هفته پنجم یکشنبه 14.14 ۲۷ ربیع الاول دوشنبه ۱۳ ۲۰ شنبه (منگل) چهارشنبه ۱۴ ☑A ۲۹ ربیع الاول ✓✓ ۲۹ (RA) پنجشنبه جمعرات جمعہ شنبه ۲۸ ربیع الاول ربیع الثانی ۱۳ ربیع الثانی ۲۰ رجمع الثانی ربیع الثانی ۱۴ ربیع الثانی ۲۱ ربیع الثانی ۲۳ ربیع الاول یکم ربیع الثانی در ربیع الثانی ۱۵ ربیع الثانی ۲۲ ربیع الثانی 9 14 ۲۳ ۲۴ ربیع الاول ار رجمع الثانی ور ربیع الثانی ۱۲ ربیع الثانی ۲۳ ربیع الثانی سلام ۱۰ 16 ۲۴ ۳۱ ۲۵ ربیع الاول ۳ ربیع الثانی ار ربیع الثانی ۱ ربیع الثانی ۲۴ ۱ ربیع الثانی وم JA ۲۵ د هفته ۲۶ ربیع الاول کار ربیع الثانی اور ربیع الثانی ۱۸ ربیع الثانی
२ ماه احسان ۱۳۱۹ برش مطابق مطابق ماه جون ۶۱۹۴۰ ہفتہ اول ہفتہ دوم ہفتہ سوم ہفتر چهارم هفته پنجم هفته ششم 3 T 6 ٣٠ ۲۳ 17 9 ☑ + ** ۱۲۶ ربیع الثانی ۱۳ جمادی الاولی ۱۰ جمادی الاولی ۱۷ جمادی الاولی ۲۴ جمادی الاولی ☑ ۲۷ ربیع المثانی مر جمادی الاولی الار جمادی الاولی دار جمادی الاولی " ۲۵ ۲۸ ربیع الثانی در جمادی الاولی ۱۲ جمادی الاولی ۱۹ جمادی الاولی ۱۲ 19 ۲۶ ۲۹ ربیع الثانی ۲ جمادی الاولی در جمادی الاولی ۲۰ جمادی الاولی 보 IN ۳۰ ربیع الثانی در جمادی الاولی ۴ در جمادی الاولی ۲۱ جمادی الاولی ۱۴ ۲۱ سیم جمادی اولی در مبادی الاولی ۱۵ جمادی الاولی ۲۲ جمادی الاولی ها ۲۲ ۲۹ ۲۵ ربیع الثانی در جمادی الاولی 4 جمادی الاولی ۱ جمادی الاولی ۲۳ جمادی الاولی ماه و فار ۱۳۱۹ بر شمطابق ماہ جولائی ۱۹۴۰ ایام هفته ہفتہ اول یکشنبه ( الوار) دوشنبه سه شنبه (منگل) چهار شنبه ہفتہ دوم ہفتہ سوم ہفتہ چہارم ہفتہ پنجم ۲۱ YA ۲ جمادی الاخری 9 جمادی الاخونی ۱۶ جمادی الاخری ۲۳ جمادی الاخری ۱۵ ۲۲ ۲۹ ۲۵ جمادی الاولی سر جمادی الاخری از جمادی الاخری دار جمادی الاخری ۱۴۴ جمادی الاخری 14 ۲۶ جمادی الاولی مر جمادی الاخری ۱۱ جمادی الاخری ۱۸ جمادی الاخونی ۲۵ جمادی الاخونی 1.14 ٣١ ۲۷ جمادی الاولی در جمادی الاخری ۱۳ جمادی الاخوئی ۱۹ جمادی الاخولی ۲۶ جمادی الاخری Yo تور استیم ۲۸ جمادی الاولی در جمادی الاخری ۱۳ جمادی الاخری ۲۰ جمادی الاخری (جمعرات) ۱۴ - 14 ۲۹ جمادی الاولی ، جمادی الاخری ۴ از جمادی الاخری ۲۱ جمادی الاخری ماله ۲۷ ١٣ جمادی الاخری در جمادی الاخری ار جمادی الاخری ۲۲ جمادی الاخری
۲۳ ہفتہ اول ہفتہ دوم کروم ماه ظهور ۱۳۱۹ ش مطابق ماہ اگست ۶۱۹۴۰ ہفتہ سوم ہفتہ چہارم ہفتہ پنجم " 1 ۲۵ ۳۰ جمادی الاخری ۷ رجب الرجب ر رجب یکم رجب 4 19 ۱۲ ٢٠ ۱۳ ۲۶ ۳۳ رجب ۲۷ L ار رجب ۱۹ رجب ا رجب ۱۵ ۲۷ جمادی الاخرى اور رجب ۲۹ جمادی الاخرى رجب 14 ۱۳ رجب 14 ٢١ رجب سوموار رجب ۴ ۲۸ A by ٣٠ 2 ۳۱ ۲۲ ۲۳ ۲۵ رجب ۱۹ رجب ۲۶ رجب ۲۰۰ رجب ۲۷ رجب ماہ تبوک ۱۳۱۹ این مطابق ماہ ستمبر ۶۱۹۴۰ مش ایام ہفتہ ہفتہ اول هفته دوم ہفتہ سوم ہفتہ چہارم ہفتہ پنجم یکشنبه i دوشنبه Y پیر شن ۲۹ ۱ رجب اتوار ۲۸ / رجب د شعبان ۱۳ شعبان ۲۰ شعبان ۲۷ شعبان ر شعبان ۱۴ شعبان ۲۱ر شعبان ۱۳۸ شعبان ۱۵ ۲۲ ۲۹ 14 ۲۳ ٣٠ سلام 14 یکم شعبان چهار شنبه ^ 11 شعبان ۱۵ شعبان ۲۲ شعبان ١٨ ۲۵ ۲ شعبان ۱۳ ار شعبان ار شعبان کار شعبان ر شعبان ۱۱ر شعبان هار شعبان ۱۲، شهدان _____ دار شعبان ۲۳ شعبان 14 ۲۶ ۲۴ شعبان ۲۰ A ۲۱ شعبان ۳۵ر شعبان ۱۹ شعبان ۲۶ شعبان
۲۴ ماه اسناء ۱۳۱۹ پرش مطابق ماه اکتوبر ۱۹۴۰ مهٔ/ ہفتہ اول ہفتہ دوم ہفتہ سوم ہفتہ چہارم ہفتہ پنجم 보 ۱۳ ۲۰ ۲۷ رمضان اثر رمضان دار رمضان ۲۵ رمضان ۱۴ ۲۱ ۲۸ هار رمضان ۱۲ رمضان وار رمضان ۲۶ رمضان 1 ۱۵ ۲۹ شعبان ار رمضان ۲۹ ۱۳ رمضان ۲۰ر رمضان ار رمضان 14 ۲۳ ۳۰ 1 ۴ ۳۰ر شعبان هر رمضان ۴ در رمضان ار رمضان ۲۸ رمضان یکم رمضان رمضان تم ☐ K ۲۴ ۳۱ هار رمضان ۲۲ رمضان ۲۹ رمضان ۲۵ 4 + ۲ رمضان ور رمضا ار رمضان ۲۳ رمضان ۱۲ 14 ۲۶ ر رمضان ار رمضان ار رمضان ۲۴ / دهستان مش ماہ نبوت ۱۳۱۹ ریزش مطابق ماہ نومبر ۱۹۴۰ ایام هفته ہفتہ اول ہفتہ دوم ہفتہ سوم ہفتہ چہارم ہفتہ پنجم یکشنبه ناتوان دوشنبه 14 ۲۴ ۱۳ شوال دار شوال ۱۷ شوال ۲۴ از شمال سوم ۱۸ ۲۵ هر شوال ادر شوال دار شوال ۲۵ شوال سه شنبه ١٢ 19 (منگل) A دار سشوال شوال وار شوال چهارشنبه دیکھا پنجشنبه در شمال ار شوال ۲۰ شوال ۱۴ ۲۱ 44 ۲۷ کا سوال جمعه است) YA در شوال ارشوان ۲۱ شوال ۲۸ شوال ۱۵ ۲۲ ۲۹ یکم شوال در شوال ۵ار شوال ۲۲ شوال ۲۹ شوال د ہفتہ - ور شوال ۲ شوال 14 ۲۳ ار شوال ۲۳ شوال ۱۳۰ شوال
۲۵ ماه نادیتی ۱۳۱۹ پرش مطابق ماہ دسمبر ۲ ہفتہ اول ہفتہ دوم ہفتہ سوم ہفتہ چہارم ہفتہ پنجم ذیقعده یکم ذیقعده در دی هار ذیقعده ۲۲ ذیقعده ۲ ذیقعده ور ذیقعده ۱۶ ذیقعده ۱۵ ۲۲ 1 ۲۹ ۲۹ ذیقعده 14 ۲۳ یکم ذوال 123 A I h ۳۱ ذیقت ا ذیقع ار ذیقعده ۲۴ ذیقعد ر ذوالجه ۲۵ مر ويقعده ار ويقصده ۱۸ ذیقعده ۲۵ ذیقعده ١٢ 19 ذیقعده ۱۳ ذیقعده ۱۹ ذیقعده ۲۶ ذیقدره ۲۷ ۲۷ ذیقعده ۲۸ ۱۳ ذیقعدہ سود ذیقعدہ ۲۰ ذیقعده ذیقعد ۱۴ ذیقعده ۲۱ ذیقعده ۲۸ ذیقعده نشر و اشاعت کی طرف سے ابریشمی قوم کا ا ا ا ا ا ا ا ا ا اس سال کے آغازمیں نفرات دعوت و تبلیغ کے شعبر نشر واشاعت کی طرف سے نہایت خوبصورت اور دیدہ زیب پہلے کیلنڈر کی اشاعت صورت میں شائع کردیاگیا.اس کیلنڈر کی خصوصیات دیتیں.(1) اس میں سنہ ہجری شمسی ، سنہ ہجری قمری اور سنہ عیسوی تینوں دیئے گئے تھے.(۲) دل ، مہینے اور سال اردو کے علاوہ انگریزی میں بھی لکھے گئے.(۳) کیلنڈر کے درمیان لوائے احمدیت کا خوشنما بلاک تھا.دم) کیلنڈر اعلی آرٹ پیپر پچر پچار رنگوں میں شائع کیا گیا اور اس کا سائز ۱۸ × ۲۲ تھا.کیلنڈر پر سبز رنگ میں اسلامی تعطیلات ، سُرخ رنگ میں سرکاری تعطیلات اور سیاہ رنگ میں عام تاریخیں درج تھیں کہ دائی میری کمی کیلنڈر اس پہلے کینٹ کے بعدبھی وقت فوق مختلف الوں کے کی ندرت کو ہوتے رہے مگر ضرورت اس امر کی تھی کہ سالانہ کیلنڈروں کی اشاعت کے علاوہ پوری تحقیق تشخیص شه ان دونوں خلیفہ صلاح الدین صاحب ناظم نشر واشاعت تھے ان الفضل هم ماه شهادت ام سي لا فضل لامي امارت مواد اپریل
کے ساتھ ایک دائی شمسی ہجری کیلنڈر بھی تیار کیا جائے.اس نہایت کٹھن ، دشوار اور محنت طلب کام کا پیڑا جمعدار فضل الدین صاحب کمبوہ نے اُٹھایا.اور نہایت درجہ محنت شاقہ اور دیدہ ریزی کے بعد شہر میں " فضل عمر ہجری شمسی دائمی تقویم " کے نام سے ایک مستقل تقویم شائع کر دی جس میں چودہ کیلنڈر ہیں جن کی مدد سے ہزاروں سال قبل اور ہزاروں سال آئندہ کی صحیح تاریخ ، دن، مہینہ اور سال بڑی آسانی سے علوم کئے جاسکتے ہیں.انہوں نے ” مجمع البحرین کے نام سے اس تقویم کا ایک ضمیمہ بھی شائع کیا جس میں ہجری سال سے عیسوی اور عیسوی سال سے ہجری سال معلوم کرنے کا بہترین فارمولا پیش کیا.حضرت مولوی غلام حسن جناں نہ کا ایک نہایت اہم واقعہ حضرت مولوی غلام حسن خاں صاحب پشاوری کی بیعت خلافت ہے حضرت مولوی صاحب صاحبت باشوری کی بیعت خفت ار مئی نشہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کر کے داخل احمدیت ہوئے اور صوبہ سرحد میں جماعت احمدیہ کے ایک بھاری ستون بن گئے.جولائی اگست سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام لدھیانہ تشریف لے گئے تو آپ بھی محض زیارت کے لئے حضور کی ماہیت میں پہنچے چنانچہ حضور نے ازالہ اوہام میں اپنے دوسرے میالدین و محبتین کا نام بنام ذکر کرتے ہوئے ۳۳ نمبر پر آپ کی نسبت مندرجہ ذیل تعریفی کلمات تحریر فرمائے :- یبی فی اللہ مولوی غلام حسن صاحب پشاوری اس وقت لدھیانہ میں میرے پاس موجود ہیں محض مواقی کی غرض سے پشاور سے تشریف لائے ہیں.میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ وفادارہ مخلص ہیں اور لا يخافون لومة لاکی پر میں داخل ہیں.جوش ہمدردی کی راہ سے دو ماہواری چندہ دیتے ہیں.مجھے امید ہے کہ وہ بہت جلد ہی راہوں اور دینی معارف میں ترقی کریں گے کیونکہ فطرت نورانی رکھتے ہیں.اکتوبر امداد کو بمقام حمزہ تحصیل امر تسری پیدا ہوئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کا شرفت خواجہ کمال الدین صبا کی کو بھی (واقع برانڈرتھ روڈ لاہوں میں مئی شاہ میں حاصل کیا.اگست سنہ میں حضرت خلیفہ المسیح الاول کے دست مبارک پر مبعیت کی سے دونوں کتابچے میسرز فورمین کیلنڈر پبلشرز کوارٹر مل بلاک بھی ٹمپل روڈں ہور نے شائع کئے.آپ نے ایک معلومات افزا کتاب تطبيقات لدنیہ" کے نام سے بھی لکھی ہے جس میں نہایت تحقیق کے ساتھ سلسہ سے نگاہ کی تقویم سنہ عیسوی کے ساتھ درج کی ہے.مگر یہ کتاب ابھی شائع نہیں ہوئی : سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ مبارک کے بیعت رجستر میں آپ کا نام ۱۹۲ نمبر پر درج ہے ؟ که " ازالہ اوہام " طبع اول صفحه ۸۱۳ و ۸۱۳ ۰
۲۷ حضرت صارزاده جنوری شام میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تمیمہ انجام آتھم میں اپنے ۳۱۳ اصحاب کبار کی فہرست شائع فرمائی تو آپ کا نام نمبر کا ون پر درج کیا.سنٹر میں آپکی ایک صاحبزادی مرزا بشیر احمد صاحب کے عقد میں آئیں.شاہ کے اوائل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کو صدر پنجمین احمدیہ کے معتمدین میں شامل فرمایا.حضرت مولوی غلام حسن صاحب خلافت اولیٰ کے عہدہ میں سلسلہ کی خدمات بجالاتے رہے.مگر 9 منٹ کے شروع میں جماعت میں آئندہ نظام خلافت کے خاتمہ کی نسبت مولوی محمد علی صاحب کے خیالات سے معاشہ ہو کر ان کے زیر دست موید و ہمنوا بن گئے بچنا نچہ جب مولوی محمد علی صاحب نے حضرت خلیفہ اول کی زندگی کے آخری ایام میں " ایک نہایت ضروری اعلان " کے نام پر یمن ٹیم پریس لاہور سے جو خفیہ ریکیٹ شائع کیا تو اس پر آپ کی مندرجہ ذیل مفید ته عبارت درج تھی کہ ”مذکورہ بالا مضمون کی میں تصدیق اور تائید کرتا ہوں اور سلسلہ کی بھلائی اسی پر عامل ہونے میں یقین رکھتا ہوں.غلام حسن سب رجسٹرار پیشاور لے حضرت مولوی صاحب ایک لمبے عرصہ تک احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے نہایت ممتاز رکن رہے اور دیانتداری سے سلسلہ احمدیہ کی خدمت میں مصروف رہے لیکن اپنی فطرت نورانی کے باعث بالآخر لاہوری طریق سے بھی الگ ہو گئے.اسی دوران میں ۱۹۳۹ہ کا جلسہ قریب آگیا.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے اس تقریب سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے حضرت مولوی صاحب کو قادیان تشریف لانے کی دعوت دی) نیز لکھا کہ پیشاور سے قادیان تک آنے کے لئے موٹر وغیرہ کا انتظام بھی ہو جائے گا.مگر اُن کی طرف سے قریباً نفی میں جواب آیا.ایک تو انہوں نے بیماری اور کمزوری کا عذر کیا اور لکھا کہ اب ایسی حالت ہے کہ ڈرتا ہوں کہ کہیں سفر میں ہی پیغام آخرت نہ آجائے.دوسری بات انہوں نے جولی کی تقریب کے متعلق لکھی کہ یہ ایک بدعت ہے لیے اس پر حضرت میاں صاحب نے ادب کے طریق پر جواب لکھا اور اس میں جوبلی کی تقریب سے متعلق ے ٹریکٹ ایک نہایت ضروری اعلان صفحه ۲۱ د شائع کرده مولوی محمد علی صاحب تاریخ له به که به تفصیلات حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے ایک مکتوب سے ملتی ہیں جو آپ نے ار دسمبر ۹۳۶ہ کو قاضی محمد یوسف صاحب (امیر جماعت احمد یہ سابق صور سرحد کے نام لکھا تھا اور میں میں انہیں تاکید کی تھی کہ وہ مولوی صاحب سے دوبارہ ملیں اور وعدہ یاد دلا کر کوشش فرمائیں کہ آپ تشریف لانے کے لئے تیار ہو جائیں ،
۲۸ وضاحت فرمائی.اس کا یہ اثر ہوا کہ آپ خدا کے فضل و کرم سے قادیان تشریف لے آئے اور اس مبارک جلسہ پر خلافت کے تازہ انوار اور اس کی زندہ برکات کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا اور ۲۲ جنوری شاہ کو دوبارہ خلافت سے وابستہ ہو گئے اور تبلیغ شال پیش (ضروری نامہ) کو ” میری بیعت “ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا.جس میں اپنی بیعت خلافت کے مختصر وجوہ لکھے.آپ کا یہ مضمون نے تبلیغ ۱۳ میشد ، ضروری نہ کو اخبار الفضل میں شائع ہوا ہو آپ نے اپنے سارے بیٹوں اور سرکردہ غیر مبائعین کے نام بھیجوا دیا بجیت نامہ کی اشاعت پر مولوی محمد علی صاحب نے سخت تنقید کی اور پیغام صلح میں مضامین لکھے جس پر حضرت مولوی غلام حسن خاں صاحب نے دوبارہ قلم اُٹھایا اور ایک اور مضمون لکھا جس میں اپنی بیعت کے اہم وجوہ پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی اور لکھا کہ:.میں نے جو حضرت خلیفہ مسیح ثانی کی بیعت اختیار کی ہے.تو جیسا کہ ہمیں اپنے سابقہ مضمون میں تشریح کر چکا ہوں.وہ تین وجوہات پر مبنی ہے :- اول یہ کہ حضرت مسیح موعود کے بعض الہامات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ صدر انجمین کا انتظام وقتی اور عارضی تھا جو حضرت مسیح موعود نے اُس وقت کے حالات کے ماتحت اپنی رائے سے قائم کیا تھا.مگر خدا تعالیٰ نے اس انتظام کو مٹاکر اس کی جگہ اپنے پسند کردہ نظام خلافت کو قائم کر دیا اور ایسا تصرف فرمایا کہ خود ارکان صدر انجین کے ہاتھ سے ہی یہ تبدیلی عمل میں آئی جس سے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کا احترام بھی قائم رہا اور خدا کی مشیت بھی پوری ہو گئی.اس کی تائید میں میں اپنے سابقہ مضمون میں حضرت مسیح موعود عليه الصلوة والسلام کے دو واضح الہامات جو حقیقۃ الوحی (صفحہ ۱۰۵ طبع دوم) میں بالکل پاس پاس درج ہیں ، بیان کر چکا ہوں.جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انجمن کے نظام کو میٹا کر اس کی جگہ خلافت کے نظام کو قائم کر دیا.دوسری دلیل جو مجھے قادیان میں آکر نظر آئی، وہ اس تائید اور نصرت انہی سے تعلق رکھتی ہے جو حضر خلیفہ اسیح ثانی کی قیادت میں مرکزی جماعت کو حاصل ہوئی ہے اور ہو رہی ہے.اور چونکہ مذہبی اختلافا میں سب سے بڑی دلیل خدا تعالے کی عملی اور فعلی شہادت ہوا کرتی ہے ، اس لئے میں نے اسی شہارات کو قبول کر کے بیعت اختیار کی.مولوی محمد علی صاحب کا یہ فرمانا کہ ان کی انجین کو قرآن مجید کا ترجمہ چھاپنے اور بعض اور کتب کی اشاعت کی توفیق ملی ہے ، میری اس دلیل کو باطل نہیں کرتا.محض بعض کتب کی
۲۹ اشاعت کوئی فیصلہ کن امر نہیں ہے.کیونکہ قرآن مجید کے ترجمے اور تفاسیر تو بعض غیر مسلموں نے بھی شائع کئے ہیں.اور دوسری طرف قادیان کی جماعت کی طرف سے بھی نہایت عمدہ لٹر پھر شائع ہو رہا ہے اور قرآنی علوم کی اشاعت کا سلسلہ بھاری ہے اور خدا نے چاہا تو تفسیر کی صورت میں بھی ترجمہ قرآن کریم کی اشاعت ہو جائے گی، مگر جس بات کو میں نے لیا ہے وہ مخدا تعالے کی فعلی شہادت ہے جو نصرت اور تائید الہی کی صورت میں ظاہر ہو رہی ہے جس کی وجہ سے مولوی محمد علی صاحب کے رفقاء تواب بھی اسی جگہ کھڑے ہیں جس جگہ وہ آج سے چھبیس سال پہلے کھڑے تھے بلکہ شاید لبعض لحاظ سے گر گئے ہیں.مگر مرکزی جمجمت کو اللہ تعالیٰ ہر رنگ میں ترقی دے رہا ہے اور یہ ومند کر رہا ہے.تیسری وجہ: میری بیعت کی یہ ہوئی ہے کہ میری توجہ اس طرف مبذول ہوئی کہ اسلام کا یہ منشار ہے کہ باوجود اختلاف رکھنے کے انسان کو چاہیئے کہ وہ جماعت میں منسلک ہو کہ رہے بچنا نچہ حضور نے فرمایا ہے.اِتَّبِعُوا سَوَادَ الْأَعْظَم نیز فرمایا تَلْزِمُ الْجَمَاعَة - مولوی محمد علی صاحب کا یہ کہنا ، کہ میں قادیان میں جا کر کثرت سے مرعوب ہو گیا ہوں ، خوش نہی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا.کیونکہ جو دلائل میری بیعت کے ہیں وہ تین اور واضح ہیں.جن میں کسی بات سے مرعوب ہونے کا سوال پیدا نہیں ہوتا.ضمنا ئیں یہ بات بھی کہنا چاہتا ہوں کہ مولوی محمد علی صاحب نے جو اصول کثرت اور قلت کے متعلق بیان کیا ہے اس میں اُن کو سخت غلطی لگی ہے.قرآن شریف کے جس اصول کو انہوں نے جماعت کی اندرونی حالت پر لگایا ہے وہ مرسلین کے ماننے والوں اور انکار کرنے والوں کے باہمی مقابلہ سے تعلق رکھتا ہے نہ کہ ایک امور کی جماعت کے اندرونی اختلافات سے.اگر مولوی صاحب کے اصول کو اس قدر وسعت حاصل ہے جو مولوی صاحب نے بیان کی ہے تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ ہر حال میں ہر کثرت ہر قلت کے مقابل پر غلطی خوردہ ہوتی ہے جو بالبداہت باطل ہے.مثلاً کیا مولوی صاحب اس بات کو ماننے کے لئے تیار ہیں کہ ان کی انجین میں ہر فیصلہ قلت رائے سے ملے پانا چاہیے.یا یہ کہ صحا نے جو فیصلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات پر کثرت رائے سے ایک مخلیفہ کے انتخاب کے متعلق کیا.اس کے مقابل پر بعض انصار کی یہ قلت رائے درست تھی کہ دو خلیفے ہونے چاہئیں؟ مجھے افسوس ہے کہ جو نتیجہ مولوی صاحب نے قرآن شریف کی آیات سے نکالا ہے وہ ایک سطحی خیال سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا." اے 190 الفضل " ۱۳ تبلیغ ساله اش / ۱۲ فروری 2 +
آخر میں جناب مولوی محمد علی صاحب (امیر احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور) کو یہ دردمندانہ تحر یک فرمائی کہ اگر ان کو بعض مسائل میں شرح صدر نہیں تو پھر بھی آپ اختلافات کو حوالہ بخدا کرتے ہوئے مرکز کے ساتھ پیوند کرلیں.چنانچہ لکھا:." میں دیانتداری کے ساتھ یہ ظاہر کر چکا ہوں کہ مجھے ابھی تک بعض مسائل میں حضرت خلیفہ ثانی ہے اختلاف ہے.لیکن باوجود اس قلیل اختلاف کے ہیں اُن کے اصول کے مطابق اور اپنی ضمیر سے ہدایت لینے کے بعد خدا کی قولی اور فصلی شہادت کو دیکھ کر اُن کی بیعت میں داخل ہوا ہوں....حضرت خلیفہ ثانی تو مامور نہیں ہیں.حضرت مسیح موعود نے بھی جو مامور اور مرسل تھے نواب محمد علی خاں صاحب کو بعض اختلافات کے باوجود بعیت کی اجازت دی تھی حالانکہ نواب صاحب شیعہ خیالات رکھتے تھے.تو پھر میرے معاملہ میں یہ صورت کس طرح قابل اعتراض ہو سکتی ہے اور اس کی بناء پر اعتراضات اٹھانا کس طرح بھائی سمجھا جا سکتا ہے بلکہ میں بڑی ہمدردی اور خیر خواہی کے ساتھ مولوی محمد علی صاحب سے بھی تحریک کروں گا کہ اب جبکہ وہ بھی اپنی آخری عمر میں پہنچ رہے ہیں وہ اپنا محاسبہ کر کے اس بات پر غور فرمائیں کہ کیا جماعت کا اتحاد اور وحدت کی برکات اور خدائی نصرتوں سے مستفید ہونے کے مواقع اس قابل نہیں کہ اپنے بعض اختلافی عقائد کے باوجو د جماعت کے ایک جھنڈے کے نیچے جمع ہونے دیا جائے.مولوی محمد علی صاحب کے جذبات خواہ میرے متعلق کچھ ہوں ، میری ہمدردی اور نیک نیتی صرف اسی ایک بات سے ظاہر ہے کہ جب بیعت کے بعد میں نے حضرت خلیفہ ثانی سے پہلی ملاقات کی تو اس ملاقات میں میں نے حضرت خلیفہ صاحب سے مولوی صاحب کی ہدایت کے متعلق خصوصیت کے ساتھ دعا کے لئے عرض کیا تھا اور میں خود بھی دُعا کرتا ہوں کہ خدا تعالے مولوی صاحب کو پھر مرکزی سلسلہ کے جھنڈے کے نیچے لے آئے اور الوصیت کے منشاء کے ماتحت سب کو مل کر کام کرنے کی توفیق دے اے قادیان کے قیام کے دوران میں حضرت مولوی صاحب نے بیعت کے بعد انشراح و انبساط کے معاملہ میں بہت جلد مجلد ترقی کی خود اپنی خوشی سے وصیت بھی کر دی اور اس کے بعد طوعا چندہ تحریک جدید میں بھی شرکت فرمائی حضرت مولوی صاحب کو یہ بہت خوشی تھی کہ حضرت خلیفہ ثانی کے عہد میں جماعت نے ہر " الفضل" ۱۳ تبلیغ ۳۱ منیش / ۱۳ فروری ۱۹۴۰ صفحه ۰۶۰۵
رنگ میں ترقی کی ہے.۳۱ حضرت مولوی صاحب کی پشاور کی حضرت میرزا بشیر احد صاحبت کا منشار تھا کہ اب حضرت مودودی محبت صاحب قادیان ہی میں رہیں اور وہ بھی یہاں رہنے میں خوش طرف واپسی اور قادیان کی طرف جیب سے کم آپ کے رویوں کی طرف سے تا کہ واپس بشور تھے مگر عزیزوں سے تقاضا آجائیں مگر آپ کے مشورہ سے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے انہیں لکھ دیا کہ اب انہیں خدمت کا موقع ملنا چاہئیے البتہ کبھی مناسب وقت پر حسب ضرورت عارضی طور پر پشاور جانے کا انتظام ہو تو اور بات ہے " خود انتضرت مولوی صاحب نے یہ ارادہ فرمایا کہ محرم کی چھٹیوں میں کچھ عرصہ کے لئے پشاور واپس تشریف لے جائیں اور اسی غرض کے لئے اُن کے صاحبزادہ عبد الرحمن صاحب قادیان آگئے اور حضرت مولوی صاحب قریباً دو ماہ تک قادیان کی برکات سے متمتع ہونے کے بعد در تبلیغ فروری ان کو بذریعہ مو ٹر پشاور روان / ۲۱۹۴۰ ہو گئے اور اگلے روز بخیریت پشاور پہنچ گئے.اس سفر میں صاحبزادہ عبد الرحمن صاحب کے علاوہ محترم ملک محمد عبد اللہ صاحب مولوی فاضل بھی آپ کے ہمراہ تھے تجھے حضرت مولوی صاحب نے پشاور پہنچتے ہی یہ جد و جہد شروع کر دی کہ کسی طرح دوسرے بچھڑے ہوئے غیر مبائع اصحاب بھی سلسلہ احمدیہ کے اتحاد کی خاطر نظام خلافت سے وابستہ ہو جائیں بچنا نچہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے انہی دنوں قاضی محمد یوسف صاحب کے نام ۲۶ تبلیغ نر فروری اس میں کو ایک مکتوب میں اطلاع دی کہ 190 " جو خط آج میرے نام حضرت مولوی صاحب کا آیا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں کامل انشراح ہے.اور وہ اپنے دوستوں میں بھی اس بات کی کوشش فرما رہے ہیں کہ وہ ادھر کھینچے آئیں.مگر جیسا کہ مولوی صاحب تحریر فرماتے ہیں چھبیس سال کی دوری کی وجہ سے بعض لوگوں کے ذہنوں میں ایک رنگ کی تاریکی آگئی ہے جو اب خاص کوشش سے ہی نکلے گی " سے دادین کے الفاظ تیر کا حضرت قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے ایک مکتوب سے اخذ کئے گئے ہیں (۲۲) تبلیغ / فروری پیش بنام قاضی محمد یوسف صاحب احمدیه مسجد پیشاور ) : ۱۳۱۹ t صلح ل مكتوب حضرت قر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب بنام قاضی مهر یوسف صاحب پشاور موره شی الفضل ۲۰ فروری تبلیغ سایش صفحه ۲ * 191
۳۴ ۱۹۴۲ حضرت مولوی صاحب نبوت / نومبر میں کے آخر میں مستقل طور پر پشاور سے ہجرت کر کے قادیان آ گئے اور بالآخر یکم تبلیغ فروری سے پیش کو ساڑھے دس بجے شب انتقال کیا جیسا کہ ان کے حالات میں ۱۹۴۳ ۱۹۴۳ ذکر آئے گاہ فصل دوم حضرت خلیفہ ایسیح الثانی کا اس سال کے اہم واقعات میں سے سیدنا حضرت خلیفہ اسی اشانی کا سفر سندھ و دہلی حضرت امیر المومنین صلح / جنوری با ایش کے آخر میں قادیان سے روانہ کا سفر سندھ و دہلی ہے جو حضور نے شروع سال میں اختیار فرمایا.ہوئے اور 9 مصطلح جنوری کو کراچی پہنچے تھے 51950 تبلیغ / فروری کو سندھ سے دہلی تشریف لے گئے اور آنریل چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی کوٹھی میں فروکش ہوئے اور دو روزہ قیام کے بعد واپس کراچی تشریف لے آئے.واپسی کے وقت دہلی اسٹیشن پر دہلی اور شملہ کے بکثرت احمدی احباب جن میں آنریل چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب ، چودھری بشیر احمد صاحب سب بچی ، شیخ اعجاز احمد صاحب سب بیج ، حافظ عبدالسلام صاحب امیر جماعت احمدیہ شمله ، با بو نذیر احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ وہلی بھی شامل تھے، مشایعت کے لئے موجود تھے حضور نے سب سے مصافحہ فرمایا اور دعاکی.قیام کراچی کے دوران حضور کے اعزاز میں دو پر تکلف دعوتیں دی گئیں.پہلی دعوت کپتان سلطان احمد ن "الفضل" ۲۹ نبوت / نومبر صفحہ ا کالم -۲- قاضی محمد یوسف صاحب فاروقی قاضی خیل ہوتی مردان نے تاریخ اور ۶۱۹۴۴ دسر بعد میں تحریر فرمایا ہے کہ اس دفعہ آپ میری تحریک پر قادیان تشریف لے گئے تھے صفحہ ۲۹.له الفضل تبلیغ ضروری نمایش صفحه ۲ کالم ! + الفضل" ۲۸/ صلح / جنوری ۳۱ ایرایش صفحہ ۲ کالم ۳.اس سفر میں حضرت سیدہ ام ناصر اور صاحبزادی امتہ القیوم +1950 صاحبہ بھی حضور کے ہمراہ تھیں : سے "افضل" در تبلیغ / فروری با این صفحه ۲ کالم را هه " الفضل" ۱۳ تبلیغ / فروری ۶۱۹۴۰ ۲۱۹۴۰ المان
السلام السلام صاحب کھٹانہ نے ۱۶ تبلیغ ۱۹له میش (مطابق ۱۲ فروری سنہ کو چار بجے شام دی جین میں دوسرے بہت سے معززین شہر کے علاوہ مندرجہ ذیل احباب بھی شامل ہوئے.۱.کرنل بگم (ملک معظم جارج ششم کے طبی مشیر ، ۱۳- محمد نواز صاحب کشتکی سیکر ٹری انجمن احمدیہ کراچی ۲.میجر ہیں.وی پامرکمانڈنگ سنسر ڈیپارٹمنٹ ۱۴- الشیخ کاظم الر جیلی عراق قونصل مسٹر ویورٹ کا رنک ۴.مسٹر نائیٹین ایجنٹ بحرین پٹرولیم کمپنی ه مسٹر نائیٹن ۱۵ مسٹر رؤوف آفندی سیکرٹری عراق قونصل 14 مسٹر محمد ابراہیم خان صاحب ۱۷.خان صاحب محمد اکبر خانصاحب سول سفر آفیسر مسٹر پہیلی فیکس آئی سی ایس ریٹائی ڈکشنر ۱۸ خانصاحب اللہ بخش خان صاحب سول سنسر.مس کریچٹ آفیسر - حضرت خالصاحب فرزند علی صاحب ناظر بیت المال ۱۹.لیفٹیننٹ خالد حمید سفر آفیسر قادیان ۲۰.لیفٹینٹ غلام سرور سفر آفیسر حضرت نواب محمد عبد الله خان صاحب آن مالیر کومله ۲۱.محمد عبد اللہ صاحب بی.اسے ایل ایل پی پرین یار - حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب د خصوصی طبی خواجه فرقه مشیر حضرت خلیفة المسیح الثانی ام ۲۲ - محمد قاسم خان صاحب.ملک صلاح الدین صاحب ایم.اسے پرائیویٹ سکوٹری ۲۳- نصیر احمد صاحب گھستانہ حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ۲۷.مسٹر ڈی سوزا صاحب ١٣ - عبد الکریم صاحب آئی.ایم.ایس ایک پریذیڈنٹ ۲۵- قریشی محمد یوسعت صاحب ۱۳ نجمین احمدیہ کراچی چائے نوشی کے بعد کپتان سلطان احمد صاحب کھٹانہ نے ایڈریس پیش کیا جس کے جواب میں حضور نے مختصر تقریر فرمائی جس میں دوسری جنگ عظیم میں حکومت سے اہل ہند کے تعاون کی ضرورت و اہمیت واضح فرمائی.دوسری پارٹی ۲۹ تبلیغ فروری کو خان بہادر اللہ بخش صاحب وزیر اعظم سندھ کی طرف سے دی گئی مدعوین میں کسر غلام حسین ہدایت اللہ صاحب وزیرقانون پر انہی خیش صاحب وزیر تعلیم، مسٹ حاتم علوی، ل " الفضل" ۲۳ تبلیغ / فروری ۱۳۱۱ برش صفحه ۲ کالم را 7190
مسٹر جمشید این آر جہستہ ایم ایل اے حضرت نواب محمد عبد اللہ خاں صاحب آف مالیر کوٹلہ ، صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب بی.اے حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب ، ملک صلاح الدین صاحب ایم انے اور عبدالکریم صاحب پریذیڈنٹ انیمین احمد بہ شامل تھے.بلے پارٹی کے بعد حضور معہ قافلہ کراچی سے روانہ ہوئے اور اگلے روز یکم امان/ مارچ کو بذریعہ ناصر آباد میں قیام گاڑی کبھی پہنچے اور کنجیھی سے ناصر آباد تشریف لے گئے.یکم امان/ مارچ کو مسجد ناصر آباد کا افتتاح کرتے ہوئے پہلی نماز جمعہ کی پڑھائی اور ایک لطیف خطبہ ارشاد فرمایا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ مسجد کا حق ہے کہ اُسے آباد اور صاف رکھا جائے.اس میں بدبودار چیز کے ساتھ نہیں آنا چاہیئے اگر اس بات پر عمل کیا جائے تو ہمارے دیہات میں صفائی پیدا ہو سکتی ہے.دیہاتی لوگ اس وقت تک بدن سے کپڑا نہیں اُتارتے جب تک پھٹ نہ بھائے.مگر عرب کے لوگ خواہ امیر ہوں یا غریب کپڑے صاف رکھتے ہیں.اب جبکہ مسجد بن گئی ہے اس کا حق ادا کرنا چاہئیے ازاں بعد بتایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک نابینا صحابی حضرت عتبان میں مانیکا نے اجازت چاہتی تھی کہ وہ گھر میں نماز پڑھ لیا کریں مسجد آتے وقت ٹھوکریں لگتی ہیں.آنحضرت نے فرمایا کہ کیا اذان کی آواز سُنائی دیتی ہے.عرض کیا.ہاں.اس پر حضور نے فرمایا.پھر گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں یہ حدیث بیان کرنے کے بعد حضور نے فرمایا کہ چونکہ زمینداروں کو باہر جا کہ کام کرنا ہوتا ہے اس لئے انہیں وقت مقرر کر لینا چاہیئے تا اُن کے کام میں حرج نہ ہو اور وہ نماز با جماعت بھی ادا کر سکیں ہے قادیان میں تشریف آوری ناصر آباد میں چند روز قیام کےبعد تصور کنی سے بذریعہ گاڑی عازم قادیان ہوئے گاڑی اورامان / مارچ کو 4 بجے شام لاہور پہنچی جہاں سے بذریعہ کار پورے سات بجے روانہ ہوئے اور تو بچ کر چالیس منٹ پر قادیان میں رونق افروز ہوئے.احمدیہ چوک میں بہت "الفضل در امان مارچ به صفحه ۲ کالم عاه + سے مسند احمد بن حنبل جلد ۴ ص ۴۳ پر حضرت عتبان بن مالک کی یہ روایت درج ہے.ه الفضل در امان / مارچ ش صفحه ۲ کالم مل 4 (کچھ خفیف سے لفظی تغیر کے بعد ) ۶۱۹۴۰
۳۵ سے اصحاب استقبال کے لئے جمع تھے جنہیں حضور نے شرف مصافحہ بخشا دوبارہ روانگی حضرت امیرالمومنین خلیفہ ایسی اشانی قارین میں قریبا دو او کے قیام کے بعد ہر رہتے وئی ان کو دوبارہ کراچی تشریف لے گئے اور ۲۵ ہجرت مئی مین کو پانی ی شد شب بخیریت قاریان پہنچے ہیں اس سفرمی خاندان مسیح موعود میں سے حضرت یده ام تین نامه اجرای نام بیگم صاحبه، صابر ادامه این یگر ما به ماجرای ات العمری بیگم صاحبه اما ازادی اند الورود بیگم صاحبہ اور اراده مربا منصور احمد صاحب او ر ر ر ر دامود حباب میں سے حضرت مولوی فرزند علی خاں صاحب ناظر بیت المال ، حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب ، ملک صلاح الدین صاحب ایم.اسے پرائیویٹ سکرٹی منشی فتح دین صاحب ، خان میر صاحب افغان بھی منصور کے ہمرکاب تھے لیکے سمندر کی سیر اور عارفانہ کلام اس سفر من حضور ایک شب کلفٹن کی سیر کے لئے بھی تشریف لے اس سفر شہر لئے میں تشریف لے گئے جہاں سمندر کے کنارے پر چاند کا دلکش نظارہ کرتے ہوئے حضور کی توجہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس مشہور شعر کی طرف منعطت ہوگئی کہ چاند کو کل دیکھ کر میں سخت بیکل ہو گیا کیونکہ کچھ کچھ تھا نشاں اس میں جمالِ یار کا اس شعر کا خیال آتے ہی حضور پر محبوب حقیقی کی یاد میں ایک خاص کیفیت طاری ہوئی اور حضور کے قلب صافی سے عارفانہ کلام جاری ہو گیا.چنانچہ حضور خود ہی فرماتے ہیں :- سمندر کے کنارے پچاند کی سیر نہایت پُر لطف ہوتی ہے.اس سفر کراچی میں ایک دن ہم رات کو کلفٹن کی سیر کے لئے گئے.میری چھوٹی بیوی صدیقہ بیگم سلمہا اللہ تعالے میری تینوں لڑکیاں ناصر بیگم سلمہا اللہ تعالے ، امتہ الرشید بیگم سلمہ اللہ تعالے ، امتہ العزیز سلمہا اللہ تعالے، امتہ الودود مرحومہ اور عزیزم منصور احمد سلمہ اللہ تعالے میرے ساتھ تھے.رات کے گیارہ بجے چاند سمندر کی ہروں میں ہلتا ہوا بہت ہی بھلا معلوم دیتا تھا اور اوپر آسمان پر وہ اور بھی اچھا معلوم دیتا تھا."الفضل" ۱۳ امان / مارچ ۱۳۱۹ ش صفحه ۲ : +191 س "الفضل ، ہجرت / مئی ۳۱ ش " ۱۹۴۰ کے " الفضل ۳۸ هجرت منى الش ٢٨, 7197 ۶۱۹۴۰ ش که " الفضل ، ہجرت / مئی رین سفر به کانم )
۳۶ جوں جوں ریت کے ہموار کنارہ پر ہم پھرتے تھے لُطف بڑھتا جاتا تھا اور اللہ تعالے کی قدرت نظر آتی تھی.تھوڑی دیر ادھر ادھر ٹہلنے کے بعد ناصرہ بیگم سلمہا اللہ اور صدیقہ بیگم جن دونوں کی طبیعت خراب تھی تھک کر ایک طرف ان چٹائیوں پر بیٹھ گئیں جو ہم ساتھ لے گئے تھے.اُن کے اریم اما ما تعال بھی اکھڑے ہو اور پر عزیز است العزیز ال تعال بھی جان لیا گیا.اس صرف ه ای ماتا اور وامه الودود مرحومہ پانی کے کنارے پرکھڑے رہ گئے.میری نظر عزیزہ ایک بال پھر آسمان کی طرف اُٹھی اور میں نے چاند کو دیکھا جو رات کی تاریکی میں عجیب انداز سے اپنی چمک دکھا رہا تھا.اس وقت قریباً پچاس سال پہلے کی ایک رات آنکھوں میں پھر گئی جب ایک عارف باللہ محبوب ربانی نے پچاند کو دیکھ کہ ایک سرد آہ کھینچی تھی.اور پھر اس کی یاد میں دوسرے دن دنیا کو یہ پیغام سنایا تھا ے حیساند کو کل دیکھ کر میں سخت بیکل ہو گیا کیونکہ کچھ کچھ تھا نشاں اس میں جمالِ یار کا پہلے تو تھوڑی دیر میں یہ شعر پڑھتا رہا.پھر میں نے چاند کو مخاطب کر کے اسی جمالِ یار والے محبوب کی یاد میں کچھ شعر خود کہے" سے اس موقعہ پر حضور نے کل آٹھ اشعار کہے جن کو حضور نے لطیف اور پر معارف تشریح کے ساتھ چاند میرا چاند کا عنوان دے کر اخبار الفضل“ (اروفا/ جولائی سب سیاست میں شائع فرما دیا اور بعد ۳۱۹ کو کلام محمود" میں بھی شامل کر دیئے گئے.بطور نمونہ حضور کے تسلم سے اس پاکیزہ کلام کے دو شعر اور ان کی وضاحت درج کی جاتی ہے.فرماتے ہیں :- میری نظر سمندر کی بہروں پر پڑی جن میں چاند کا عکس نظر آتا تھا اور میں اس کے قریب ہوا.اور چاند کا ٹکس اور پورے ہو گیا.میں اور بڑھا اور عکس اور دُور ہو گیا.اور میرے دل میں ایک درد اٹھا اور میں نے کہا.بالکل اسی طرح کبھی سالک سے سلوک ہوتا ہے.وہ اللہ تعالے کی ملاقات کے لئے کوشش کرتا ہے مگر بظاہر اس کی کوششیں ناکامی کا منہ دیکھتی ہیں.اُس کی " الفضل و وفا / جولائی اش صفحه ۱ - ۲ +
عبادتیں، اُس کی قربانیاں ، اُس کا ذکرہ ، اس کی آہی کوئی نتیجہ پیدا نہیں کرتیں.کیونکہ اللہ تعالی اس کے استقلال کا امتحان لیتا ہے اور سالک اپنی کوششوں کو بے اثر پاتا ہے.کئی تھوڑے دل والے مایوس ہو جاتے ہیں اور کئی ہمت والے کوشش میں لگے رہتے ہیں یہانتک کہ اُن کی مراد پوری ہو بھاتی ہے.مگر یہ دن بڑے ابتلاء کے دن ہوتے ہیں اور سالک کا دل ہر لحظہ مرجھایا رہتا ہے اور اس کا حوصلہ پست ہو ہو جاتا ہے.چونکہ چاند کے عکس کا اس طرح آگے آگے دوڑتے پہلے جانے کا بہترین نظارہ کشتی میں بیٹھ کر نظر آتا ہے جو میلوں کا فاصلہ طے کرتی جاتی ہے مگر پچاند کا عکس آگے ہی آگے بھا کا چھلا بھاتا ہے، اس لئے میں نے کہا بیٹھے کہ جب عشق کی کشتی میں آؤں تیرے پاس آگے آگے چاند کی مانند تو بھاگا نہ کر میں نے اس شعر کا مفہوم دونوں بچیوں کو سمجھانے کے لئے اُن سے کہا کہ آؤ ذرا میرے ساتھ سمندر کے پانی میں پہلو اور میں انہیں لے کر کوئی پچاس ساتھ گز سمندر کے پانی میں گیا اور میں نے کہا.دیکھو چاند کا عکس کس طرح آگے آگے بھاگا جاتا ہے.اسی طرح کبھی کبھی بندہ کی کوششیں اللہ تعالے کی ملاقات کے لئے بیکار ہو جاتی ہیں اور وہ بہتنا بڑھتا ہے اتنا ہی اللہ تعالی پیچھے ہٹ جاتا ہے.اور اس وقت سوائے اس کے کوئی علاج نہیں ہوتا کہ انسان اللہ تعالیٰ ہی سے رحم کی درخواست کرے اور اسی کے کرم کو چاہیے تاکہ وہ اس انتظار کے سلسلہ کو بند کر دے اور اپنی ملاقات کا شرف اُسے عطا کرے.اس کے بعد میری نظر چاند کی روشنی پر پڑی.کچھ اور لوگ اس وقت کہ رات کے بارہ بجے تھے سیر کے لئے سمندر پر آگئے.ہوا تیز چل رہی تھی.لڑکیوں کے برقعوں کی ٹوپیاں ہوا سے اُڑی جا رہی تھیں.اور وہ زور سے اُن کو پکڑ کر اپنی جگہ پر رکھ رہی تھیں.وہ لوگ گو ہم سے دُور تھے مگر میں لڑکیوں کو لیے کہ اور دور ہو گیا اور مجھے خیال آیا کہ چاند کی روشنی جہاں دلکشی کے سامان رکھتی ہے وہاں پردہ بھی اُٹھا دیتی ہے اور میر اخیال اس طرف گیا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کبھی بندہ کی کمزوریوں کو بھی ظاہر کر دیتے ہیں اور دشمن انہیں دیکھ کر ہنستا ہے اور میں نے اللہ تعالیٰ کو مخاطب کر کے کہا اسے شعاع نور یوں ظاہر نہ کہ میرے عیوب غیر میں چاروں طرف اُن میں مجھے رسوا نہ کر لے ن الفضل و وفا جولائی اسایش صفحه ۱-۲ : " 190-
حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی حضرت خلیفہ ایسی نشانی نے کی اشیا ریڈیو اسی معنی کے کار پر ان ان تقریر بمبئی ریڈیو اسٹیشن - سے کی خواہش پہ ہمیں اسلام کو کیوں مانتا ہوں“ کے عنوان سے ایک اُردو تقریر لکھی جو ۱۹ تبلیغ فروری میں کو ساڑھے آٹھ بجے شام بھیٹی 14% نمبرا کے براڈ کاسٹنگ اسٹیشن سے نشر کی گئی.ریڈیو والوں نے تقریر سے قبل اور بعد یہ معذابت کی.کہ بعض مجبوریوں کے باعث حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب امام جماعت احمدیہ کی زبان مبارک سے ہم بید تقریر نہیں سنا سکے بلکہ دوسرے شخص کو پڑھنے کے لئے مقرر کیا گیا ہے.قادیان میں حضور کی تقریر سننے کے لئے میاں عبد الغفور خاں صاحب پٹھان نے نظارت تعلیم و تربیریت کی اجازت سے اپنا ریڈیو سیٹ لگا دیا.جہاں مردوں اور عورتوں نے تقریر سنی.مستورات کے لئے پردہ کا الگ انتظام موجود تھائیے حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے اپنی لطیف تقریر کے شروع میں بتایا کہ چونکہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ان صاحب تجربہ لوگوں میں سے ہوں جن کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے وجود کو متعدد بار اور مخارق عادت طور پہ ظاہر کیا.اس لئے میرے لئے اس سے بڑھ کر کہ میں نے اسلام کی سچائی کو خود تجربہ کر کے دیکھ لیا ہے اور کسی دلیل کی ضرورت نہیں.اس تمہید کے بعد حضور نے اُن لوگوں کے لئے جنہیں یہ تجربہ حاصل نہیں ہوا.اسلام کے دین حق ہونے پر پانچ بنیاد کی دلائل دیئے جو حضور ہی کے الفاظ میں درج ذیل کئے جاتے ہیں :.اول.میں اسلام پر اس لئے یقین رکھتا ہوں کہ وہ ان تمام مسائل کو حسن کا مجموعہ مذہب کہلاتا ہے ، مجھ سے زبر دستی نہیں منواتا.بلکہ ہر امر کے لئے دلیل دیتا ہے.خدا تعالے کا وجود ، اس کی صفات فرشتے ، دعا اور اس کا اثر ، قضاء و قدر اور اس کا دائرہ ، عبادت اور اس کی ضرورت ، شریعت اور اس کا فائدہ ، الہام اور اس کی اہمیت ، بحث ما بعد الموت ، جنت ، دو نرخ ، ان میں سے کوئی امر بھی ایسا نہیں میں کے متعلق اسلام نے تفصیلی تعلیم نہیں دی.اور جیسے عقل انسانی کی تسلی کے لئے زیر دست دلائل کے ساتھ ثابت نہیں کیا.پس اس نے مجھے ایک مذہب ہی نہیں دیا بلکہ ایک یقینی علم بخشا ہے جس سے کہ میری عقل کو تسکین حاصل ہوتی ہے اور وہ مذہب کی ضرورت کو مان لیتی ہے.ن الفضل " لا تبلیغ / فروری با این صفحه ۲ کالم ملا ہے ۶۱۹۴۰
۳۹ دوم.میں اسلام پر اس لئے یقین رکھتا ہوں کہ اسلام صرف قصوں پر اپنے دعوی کی بنیاد نہیں رکھتا.بلکہ وہ ہرشخص کو تجربہ کی دعوت دیتا ہے اور کہتا ہے کہ ہر سچائی کسی نہ کسی رنگ میں اسی دنیا میں کچھ جا سکتی ہے اور اس طرح وہ میرے دل کو اطمینان بخشتا ہے.سوم میں اسلام پر اس لئے یقین رکھتا ہوں کہ اسلام مجھے یہ سبق دیتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے کلام اور اس کے کام میں اختلاف نہیں ہوتا اور وہ مجھے سائنس اور مذہب کے جھگڑوں سے آزاد کر دیتا ہے.وہ مجھے یہ نہیں سکھاتا کہ میں قوانین قدرت کو نظر انداز کر دوں اور ان کے مخلاف باتوں پر ہی تین رکھوں.بلکہ وہ مجھے قوانین قدرت پر غور کرنے اور اُن سے فائدہ اُٹھانے کی تعلیم دیتا ہے اور کہتا ہے کہ چونکہ کلام نازل کرنے والا بھی خدا ہے اور دنیا کو پیدا کرنے والا بھی خدا ہے اس لئے اس کے فعل اور اس کے قول میں اختلاف نہیں ہو سکتا.پس چاہئیے کہ تو اس کے کلام کو سمجھنے کے لئے اس کے فعل کو دیکھے اور اس کے فعل کو سمجھنے کے لئے اس کے قول کو دیکھے.اور اس طرح اسلام میری قوت فکریر کو تسکین بخشتا ہے.چہارم.میں اسلام پر میں لئے یقین رکھتا ہوں کہ وہ میرے جذبات کو کھلتا نہیں بلکہ ان کی صحیح رہ نمائی کرتا ہے.وہ نہ تو میرے جذبات کو مار کر میری انسانیت کو جہادیت سے تبدیل کر دیتا ہے اور نہ جذبات اور خواہشات کو بے قید چھوڑ کر مجھے حیوان کے مرتبہ پر گرا دیتا ہے.بلکہ جس طرح ایک ماہر انجیرہ آزادیانیوں کو قید کر کے نہروں میں تبدیل کر دیتا ہے اور بنجر علاقوں کو سرسبز و شاداب بنا دیتا ہے اسی طرح اسلام بھی میرے جذبات اور میری خواہشات کو مناسب قیود کے ساتھ اعلیٰ اخلاق میں تبدیل کر دیتا ہے.وہ مجھے یہ نہیں کہتا کہ خدا تعالیٰ نے تجھے محبت کرنے والا دل تو دیا ہے مگر ایک رفیق زندگی کے اختیار کرنے سے منع کیا ہے ، یا کھانے کے لئے زبان میں لذت اور دل میں خواہش تو پیدا کی ہے مگر عمدہ کھانوں کو تجھ پر حرام کر دیا ہے.بلکہ وہ کہتا ہے کہ تو محبت کر مگر پاک محبت اور جائز محبت جو تیری نسل کے ذریعہ سے تیرے پاک ارادوں کو ہمیشہ کے لئے دنیا میں محفوظ کر دے اور تو بے شک اچھے کھانے کھا مگر بعد کے اندر رہ کر تا ایسا نہ ہو کہ تو تو کھائے مگر تیرا ہمسایہ بھوکا ر ہے.غرض وہ تمام طبیعی تقاضوں کو مناسب قیود کے ساتھ طبیعی تقاضوں کی حد سے نکال کر اگلی اخلاق میں داخل کر دیتا ہے اور میری انسانیت کی تسکین کا موجب ہوتا ہے.
۴۰ پنجم.پھر میں اسلام پر اس لئے یقین رکھتا ہوں کہ اس نے نہ صرف مجھ سے بلکہ سب دنیا ہی سے انصاف بلکہ محبت کا معاملہ کیا ہے.اس نے مجھے اپنے نفس کے حقوق ادا کرنے ہی کا سبق نہیں دیا بلکہ اس نے مجھے دنیا کی ہر چیز سے انصاف کی تلقین کی ہے اور اس کے لئے میری مناسب رہنمائی کی ہے.اس نے اگر ایک طرف ماں باپ کے حقوق بتائے ہیں اور اولاد کو اُن سے نیک سلوک کرنے بلکہ انہیں اپنے ورثہ میں حصہ دار قرار دینے کی تعلیم دی ہے تو دوسری طرف انہیں بھی اولاد سے نیک سلوک کرنے ، انہیں تعلیم دلانے ، اعلیٰ تربیت کرنے ، اچھے اخلاق سکھانے اور ان کی صحت کا خیال رکھنے کا حکم دیا ہے اور انہیں اپنے والدین کا ایک خاص حد تک وارث قرار دیا ہے.اسی طرح اس نے میاں بیوی کے درمیان بہترین تعلقات قائم کرنے کے لئے احکام دیئے ہیں.اور انہیں آپس میں نیک سلوک کرنے اور ایک دوسرے کے بعد بات کا خیال رکھنے کا حکم دیا ہے.وہ کیا ہی زرین فقرہ ہے جو اس بارے میں بانی اسلام نے فرمایا ہے کہ وہ شخص کس طرح انسانی فطرت کے حسن کو بھول جاتا ہے جو دن کو اپنی بیوی کو مارتا اور رات کو اس سے پیار کرتا ہے.اور فرمایا تم میں سے بہتر اخلاق والا وہ شخص ہے جو اپنی بیوی سے اچھا سلوک کرتا ہے.اور پھر فرمایا عورت شیشہ کی طرح نازک مزاج ہوتی ہے.تم جس طرح نازک شیشہ کو استعمال کرتے ہوئے احتیاط کرتے ہو اسی طرح عورتوں سے معاملہ کرتے ہوئے احتیاط سے کام لیا کرو.پھر اس نے لڑکیوں کے حقوق کو بھی نظر انداز نہیں کیا.انہیں تعلیم دلانے پر خاص زور دیا ہے.اور فرمایا ہے جو اپنی لڑکی اچھی تعلیم دیتا ہے اور اس کی اچھی تربیت کرتا ہے.اس کے لئے جنت واجب ہو گئی.اور وہ لڑکیوں کو بھی ماں باپ کی جائیداد کا دارث قرار دیتا ہے.پھر اس نے حکام سے بھی انصاف کیا ہے اور رعایا سے بھی.وہ حاکموں سے کہتا ہے کہ حکومت تمہاری ائیگا نہیں بلکہ ایک امانت ہے.پس تم ایک شریف آدمی کی طرح اس امانت کو پوری طرح ادا کرنے کا خیال رکھو.اور رعایا کے مشورہ سے کام کیا کرو.اور رعایا سے کہتا ہے کہ حکومت خدا تعالیٰ نے ایک نعمت کے طور پر تم کو دی ہے.اپنے حاکم انہیں چنو جو حکومت کرنے کے اہل ہوں.اور پھر اُن لوگوں کا انتخاب کر کے اُن سے پورا تعاون کرو.اور بغاوت نہ کرو.کیونکہ اس طرح تم اپنا گھر بنا کہ اپنے ہی ہاتھوں اس کو برباد کرتے ہو.
اور اس نے مالک اور مزدور کے حقوق کا بھی انصاف سے فیصلہ کیا ہے.وہ مالک سے کہتا ہے کہ جب تو کسی کو مزدوری پر لگائے تو اُس کا حق پورا دے اور اُس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے مزدوری ادا کی.اور جو تیرا دست نگر ہو، اُسے ذلیل مت سمجھ کیونکہ وہ تیرا بھائی ہے جس کی نگرانی اللہ تعالٰی نے تیرے ذمہ لگائی ہے اور اُسے تیری تقویت کا موجب بنایا ہے.میں تو اپنی طاقت کو نادانی سے آپ ہی نہ توڑے.اور مزدور سے کہا ہے کہ جب تو کسی کا کام اُجرت پر کرتا ہے تو اس کا حق دیانتداری سے روا کر اور سستی اور غفلت سے کام نہ لے.اور وہ جسمانی صحت اور طاقت کے مالکوں سے کہتا ہے کہ مزدوروں پر سلم نہ کرو اور جسمانی نفس والوں پر ہنسو نہیں بلکہ شرافت یہ ہے کہ تیرے تمہایہ کی کمزوری تیرے رحم کو اُبھارے نہ کہ تجھے اس پر پہنائے.اور وہ امیروں سے کہتا ہے کہ غریبوں کا خیال رکھو اور اپنے مالوں میں سے پچالیسواں حصہ ہر سال حکومت کو دو تا دہ اُسے غرباء کی ترقی کے لئے خرچ کرے.اور جب کوئی غریب تکلیف میں ہو تو اُسے سُود پر روپیہ دے کہ اس کی مشکلات کو بڑھاؤ نہیں بلکہ اپنے اموال سے اس کی مد کرو کیونکہ اس نے تمہیں دولت اس لئے نہیں دی کہ تم عیاشی کی زندگی بسر کرو بلکہ اس لئے کہ اس کے ذریعہ سے دنیا کی ترقی میں حصہ لے کہ اپنے لئے ثواب دارین کماؤ.مگر وہ غریب سے بھی کہتا ہے کہ اپنے سے امیر کے مال پر لالچ اور حرص سے نگاہ نہ ڈال کہ یہ تیرے دل کو سیاہ کر دیتا ہے اور صحیح قوتوں کے حصول سے محروم کر دیتا ہے بلکہ تم خدا تعالے کی مدد سے اپنے اندر وہ قوتیں پیدا کمر د جن سے تم کو بھی ہر قسم کی ترقی حاصل ہو.اور حکومت کو ہدایت دیتا ہے کہ غرباء کی اس جدو جہد میں اُن کی مدد کرے.اور ایسا نہ ہونے دے کہ مال اور طاقت صرف چند ہاتھوں میں محدود ہو جائے.اور وہ ان لوگوں سے جن کے باپ دادوں نے کوئی بڑا کام کر کے عزت حاصل کر لی تھی جس سے ان کی اولاد بھی لوگوں میں معزہ ہو گئی، کہتا ہے کہ تمہارے باپ دادوں کو اچھے کاموں سے عزت ملی تھی ، تم بھی اچھے کاموں سے اس عزت کو قائم رکھو اور دوسری قوموں کو ذلیل اور ادنیٰ نہ مجھو کہ خدا تعالیٰ نے سب انسانوں کو براہ بنایا ہے.اور یاد رکھو کہ جس خدا نے تمہیں عزت دی ہے وہ اس دوسری قوم کو بھی عزت دے سکتا ہے.پس اگر تم نے ان پر ظلم کیا تو کل کو وہ قوم تم پر ظلم
کرے گی.سو دوسروں پر بڑائی جتا کر فخرنہ کرو بلکہ دوسروں کو بڑا بنا کر فخر کہو.کیونکہ بڑا وہی ہے جو اپنے گرے ہوئے بھائی کو اُٹھاتا ہے.انا اور وہ کہتا ہے کہ کوئی ملک دوسرے ملک سے اور کوئی قوم دوسری قوم سے دشمنی نہ کرے.ایک دوسرے کا حق نہ مارے بلکہ سب مل کہ دنیا کی ترقی کے لئے کوشش کریں.اور ایسا نہ ہو کہ بعض قو میں اور ملک اور افراد آپس میں مل کر بعض دوسری قوموں اور ملکوں اور افراد کے خلاف منصوبہ کریں.بلکہ یوں ہو کہ تو میں اور ملک اور افراد آپس میں یہ معاہدے کریں کہ وہ ایک دوسرے کو تکلم سے روکیں گے اور دوسرے ملکوں اور قوموں اور افراد کو اُبھاریں گے؟“ سے حضور نے اسلام کی حقانیت پر مندرجہ بالا دلائل دینے کے بعد آخر میں فرمایا :- غرض میں دیکھتا ہوں کہ اس دنیا کے پر وہ پر میں اور میرے پیارے کوئی بھی ہوں ، کیا ہوں، اور کچھ بھی ہوں، اسلام ہمارے لئے امن اور آرام کے سامان پیدا کرتا ہے.میں اپنے آپ کو جس پوزیشن میں بھی رکھ کر دیکھتا ہوں، مجھے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی تعلیم کی وجہ سے میں اس پوزیشن میں ہوتے ہوئے بھی ترقی اور کامیابی کی راہوں سے محروم نہیں ہو جاتا.پس چونکہ میرا نفس کہتا ہے کہ اسلام میرے لئے اور میرے عزیزوں کے لئے اور میرے ہمسایوں کے لئے اور اس اجنبی کے لئے جسے میں جانتا تک نہیں ، اور عورتوں کے لئے اور مردوں کے لئے، اور بزرگوں کے لئے اور خوردوں کے لئے ، اور غریبوں کے لئے اور امیروں کے لئے، اور بڑی قوموں کے لئے اور ادنیٰ قوموں کے لئے اور ان کے لئے بھی جو اتحاد اعم چاہتے ہیں اور حب الوطنی میں سرشاروں کے لئے بھی یکساں مفید اور کار آمد ہے.اور میرے اور میرے خدا کے درمیان یقینی رابطہ اور اتحا پیدا کرتا ہے.پس میں اس پر یقین رکھتا ہوں اور ایسی چیز کو چھوڑ کر اور کسی چیز کو میں مان بھی کیونکر سکتا ہوں" سے ISLAM "WHY I BELIEVE IN ISLAM لیکھر کی اشاعت حضرت خلیفہ ایسی الثانی کا یہ لیکچر arm (میں اسلام کو کیوں مانتا ہوں ) کے نام سے پہلی بار صیغہ نشر و اشاعت قادیان نے وزیر مہندیہ میں امرتسر سے طبع کروا کے شائع کیا تھا.ل ریویو آف ریلیجنز " امان / مارچ ۱۳۱۹ ش صفحه ۲۷ تا ۳۱ : ۶۱۹۴۰ صح ا
۴۳ نواب بہادر یار جنگ نواب بہادر یار جنگ کل ہند شہرت کے ممتاز قائد مملکت حیدر آباد کی واحد نمائیندہ مسلم سیاسی جماعت انجمین استحاد المسلمین" کے صدر اور جماعت احمدیہ ہونے کے علاوہ آل انڈیا مسلم لیگ کی شاخ کل ہند ریاستی مسلم لیگ کے صدر بھی تھے اور " لسان الامت" کے نام سے یاد کئے جاتے تھے.آپ قائد اعظم محمد علی جناح کے بہترین اور بے تکلف دوستوں اور گہرے رفقاء میں سے تھے.قائد اعظم محمد علی جناح کی نظر میں اُن کی شخصیت کتنی بلند پایہ تھی اس کا اندازہ اس واقعہ سے بخوبی لگ سکتا ہے کہ ایک بار نظام حیدر آباد رکن نے قائد اعظم سے ایک ملاقات کے دوران کہا کہ " بہادر یار جنگ حیدر آباد کے ایک جاگیر دار اور جمعدا ہیں.میں انہیں شہر بدر کر سکتا ہوں ، انہیں سزا دے سکتا ہوں قائد اعظم نے اس کے جواب میں فرمایا :- کیا میں اسے آپ کا چیلنج سمجھوں ؟ اگر یہ واقعہ ہے تو میں اسے اپنے اور مسلمانان ہند کی طرف سے قبول کرتا ہوں.میں اسے جانتا ہوں کہ یہاں بہادر یار جنگ کی وہی حیثیت ہے جس کی آپنے ابھی توضیح کی ہے لیکن اس کے سوا بھی ایک مقام ہے جس پر آپ نے غور نہیں کیا.وہ نہ صرف حیدر آباد بلکہ سارے ہندوستان کے مسلمانوں کے رہنما سمجھے جاتے ہیں.اس لئے ان کے متعلق ہو کچھ بھی ہوگا اسے لازما سارے مسلمان انفرادی اور اجتماعی طور پر محسوس کریں گے.پھر میں جانتا ہوں کہ جاگیر اور منصب سے زیادہ انہیں قوم کی عظمت اور خود آپ کی سلامتی عزیز ہے تاکہ حیدر آبادی مسلمان اقلیت کی زد میں نہ آجائیں.آپ سے يه جو کچھ کہا گیا ہے وہ نتیجہ ہے اس سازش کا جو حیدر آباد میں قومی تحریک کو کچلنے کے لئے کی جا رہی ہے." تحریک پاکستان کو برطانوی ہند کے طول و عرض میں پھیلانے اور مقبول بنانے میں قائد اعظم کے دوش بدوش جن زعمائے مسلم لیگ نے نمایاں حصہ لیا، ان میں نواب بہادر یار جنگ مسلمہ طور پر صف اول میں شمار کئے جاسکتے ہیں.جون (احسان ۱۳۲۳ میش) میں آپ نے انتقال کیا.جس پر قائد اعظم نے فرمایا کہ ریاستی مسلم لیگ کے صدر کا انتقال نہیں ہوا بلکہ میرا ایک بازو ٹوٹ گیا ہے.لے کتاب " قائد اعظم میری نظر میں " صفحہ ۲۱۲ - ۲۱۳ : نے رسالہ نقوش (لاہور) خطوط نمبر 1 صفحہ ۲۸ کمیوں کے ممتاز لیڈر چودھری غلام عباس صاحب نے اپنی کتاب کشمکش میں لکھا ہے کہ جن دنوں تو اب بہادر یار جنگ کی وفات ہوئی قائد اعظم سرینگر میں فروکش تھے.میں نے نواب صاحب کی وفات کے المناک حادثہ کی اطلاع دی تو پانچ منٹ کے بعد قائد اعظم نے فرمایا کہ غالباً پہلی دفعہ مجھے کسی کی موت سے اتنا شدید صدمہ ہوا ہے پھر نواب صاحب کی خوبیاں بیان کیں.اس کے بعد مرحوم کی بیگم کو بذریعہ تار پیغام تعزیت بھیجوایا " ر کشمکش" صفحه ۲۴۷ ناشر اردو اکیڈیمی لوہاری دروازہ لاہور)
توا صبا کے تاثرات مضر و او برادر یا جنگ و جان سلمانی در تاکستان سے رخص حجت تھی وہاں آپ جماعت احمدیہ کی اسلامی تنظیم اور اسلامی خدمات سے کی ذات مبارک کے متعلق سے نہایت درجہ متاثر اور حضرت سید نا خلیفہ المسیح الثانی کے از سد مداح تھے.چنانچہ جناب سیٹھ محمد اعظم صاحب حیدر آبادی کا بیان ہے کہ حضرت مصلح موعود کی آمد حیدر آباد (اکتوبر شانہ ) کے موقع پر نواب بہادر یار جنگ بہادر الہ دین بلڈنگ سکندر آباد پر جہاں حضور فروکش تھے ملاقات کے لئے حاضر ہوئے تھے.اور اس موقع پرمسلمانان حیدرآباد حیدر آباد کے مسائل پر حضور نے تخلیہ میں طویل گفتگو کی تھی....نواب بہادر یار جنگ بہادر مجلس اتحاد المسلمین مملکت اسلامیہ آصفیہ کے صدر تھے.ان کے طویل دور صدارت میں راقم الحروف ان کی مجلس عاملہ کا سینٹر رکن تھا.کئی مرتبہ اپنی مجلس عاملہ کے اجلاسوں میں انہوں نے اپنے اسس خیال کا اظہار کیا تھا کہ وہ اپنی زندگی میں دو شخصیتوں کی سیاسی بصیرت اور اعلیٰ دماغی صلاحیتوں سے متاثر تھے.ایک حضرت امام جماعت احمدیہ کی دوسری قائد اعظم محمد علی جناح کی.ان کے اس بیان اور تاثہ کے گواہ پاکستان میں اُن کے اور میرے قدیم ساتھی اور دوست اور استحاد المسلمین کی مجلس عاملہ کے رکن احمد عبد الله المسدوسی مصنف " مذاہب عالم " اور " افریقہ.ایک چیلنج " وغیرہ ہیں.حال میں مجھ سے مسدوسی صاحب نے حضرت مصلح موعود کی وفات پر نواب بہادر یار جنگ کے مذکورہ بالا تاثر کا ذکر کیا تھا.ان کے ذہن میں حضور کے نام کے ساتھ دوسرا نام مفتی اعظم فلسطین سید امین الحسینی کا تھا.بہر حال میری اور ان کی یادداشت میں حضرت امیر المومنین کا نام مشترک ہے.ہو سکتا ہے کہ نواب صاحب نے کسی موقعہ پر مفتی اعظم فلسطین کا بھی نام لیا ہو “ کے سیٹھ صاحب مزید لکھتے ہیں کہ میں نے اپنی توضیح میں اس امر کا ذکر کیا تھا کہ نواب بہادر یار جنگ نے کئی مرتبہ اس امر کا ذکر کیا تھا کہ وہ دو اصحاب کی سیاسی بصیرت اور اعلیٰ دماغی صلاحیت سے متاثر تھے.ایک حضرت امام جماعت احمدیہ اور دوسری قائد اعظم محمد علی جناح کی ذات محسن اتفاق سے - ارمنی کو مولوی محمد لقمان نے مکتوب جناب سینیٹر محمد اعظم صاحب حیدر آبادی (بنام مولف تاریخ احمدیت " مرقومه ۱۹ ہجرت امی یہ مش از سی / ۴۲ ہو زنگ کالونی اسکندر آباد (ضلع میانوالی).
صاحب پریزیڈنٹ جماعت ہے گ.ب تحصیل و ضلع لائل پور جو تقریباً دس سال غالباً ۹۳۳ار سے ۱۹۴۴ء تک حیدر آباد میں مقیم رہے تھے مجھ سے ملنے یہاں اسکندر آباد آئے تھے.ان کے قیام حیدر آباد کے زمانے کی باتیں پھل نکلیں.انہوں نے بغیر میرے ذکر کرنے کے خود کہا کہ وہ ایک مرتبہ نواب بہادر یار جنگ سے ملے تھے اور اس موقعہ پر نواب صاحب موصوف نے ان سے وہی بات کہی تھی جوئیں نے اپنے بیان میں کہی ہے.دوسری بات جو مولوی صاحب موصوف نے بیان کی وہ یہ تھی کہ نواب صاحب موصوف نے حضرت مصلح موعود رضی الہ عنہ کی تقریر سیر روحانی " سے تعلق میں ان سے کہا تھا کہ وہ اس تقریر سے اس قدر متاثر تھے کہ اس کو انہوں نے تین دفعہ پڑھا تھا.نواب صاحب موصوف نے غالباً فروری یا مارچ ۱۹۳۶ء میں دہلی میں سر محمد یعقوب کی ایک دعوت میں چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی زبانی اس تقریمہ کا خلاصہ سنا تھا بچنا نچہ حیدر آباد واپس آن کر ایک علمی صحبت میں بہت تفصیل کے ساتھ انہوں نے یہ خلاصہ سنایا تھا ( نواب صاحب کا حافظہ ایسا تھا کہ وہ کسی کی گفتگو یا تقریر کو تقریباً لفظ بلفظ شستا دیا کرتے تھے.خود اُن کی اپنی جو تقریریں شائع شدہ ہیں وہ تقریر کے بعد انہوں نے لفظ بلفظ لکھوائی تھیں.حضرت مصلح موعود کی یہ تقریر سیر روحانی " جب شائع ہوئی تو محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے اس کی ایک جلد میں پر انہوں نے نواب صاحب کا نام اور اپنے دستخط فرمائے تھے میرے ذریعے نواب صاحب کو بھجوائی تھی اور نواب صاحب اس کے مطالعہ کے بعد اکثر اپنی مجلسوں میں اس پر بڑے تعریفی کلمات کہا کرتے تھے جماعت احمدیہ سے گہرے روابط نواب بہادر یار جنگ کے جماعت امید سے واہم کا یہ عالم تھا کہ پروفیسر الیاس برنی د د ولادت ۱۸۹۴ -- وقات (۱۹۵۸ء) نے ۲۲ تبلیغ / فروری اش کو شاہ حسین میاں پھلواری شریف کے نام ایک خط میں نواب 51970 صاحب اور جماعت احمدیہ کے تعلقات پر بڑی تشویش و اضطراب کا اظہار کرتے ہوئے لکھا :- ن (ضلع میانوالی) + نے اس کا تذکرہ جلد ہشتم میں ہو چکا ہے ؟ ک مکتوب سیٹھ محمد اعظم صاحب ( بنام مولف تاریخ احمدیت محوره ۱۲۵ هجرت می سی سی / ۴۲ ہو زنگ کا لونی اسکندر آباد ضلع میانوالی :
Py یہاں جہادیوں کی اچھی خاصی جماعت ہے جس میں نواب بہادر یار جنگ بھی شامل ہیں.یہ جماعت حضرت سید محمد جونپوری کو مہدی مانتی ہے اور اگرچہ شاید صریحاً ان کو نبی نہیں کہتی تاہم عقیدہ اُن کو رسول الله کے ہم پلہ بلکہ اس سے بھی بڑھ کو مانتی ہے اور اپنے طرز پر تاویلات کرتی ہے.قادیانیوں سے ملتے جلتے عقائد ہیں.البتہ عقائد کی عام اشاعت نہیں کی جاتی بلکہ ایک حد تک عقائد مخفی رکھے جاتے ہیں.....چونکہ نواب بہادر یار جنگ مسلمانوں کی سیاسیات میں شامل ہو گئے ہیں اور نمایاں حصہ لے رہے ہیں مسلمانوں نے بھی تفریق کو نظر انداز کر دیا اور اُن کو اپنا سر گروہ بنالیا.مولوی ایوا حسین سید علی صاحب کا بھی یہی معاملہ ہے.مسلمانوں میں لیڈر مانے بجاتے ہیں اور ہر دلعزیز ہیں.نب سے قادیانیوں کا بھانڈا پھوٹا، وہ دینیات ، اسلامیات اور سیاسیات میں بہت نامور ہو گئے.لیکن افسوس ہے کہ مسلمانوں کے علی الرغم نواب بہادر یار جنگ قادیانیوں سے میل جولی بڑھا رہے ہیں بلکہ واقفت لوگ ساز باز کا شبہ کرتے ہیں.اس سے مسلمانوں میں بد ولی پیدا ہو رہی ہے توجہ بھی دلائی گئی مگر کچھ اثر نہ ہوا.خدا کہ ہے آئندہ سمجھ آئے.میں تو سیاسیات سے الگ تھلگ رہتا ہوں.تاہم میرا جو علم تھا آپ کو لکھ دیا لیکن یہ بات آپ ہی تک رہے باہر نہ جائے....اپنے اثرات اور مسلمانوں کی عدم توجہی سے فائدہ اُٹھا کر اسی جماعت نے سرکاری جنتری میں حضرت سید محمد جونپوری کی تعطیل میں لفظ میلاد شریف" درج کرا لیا.علی ہذا جو نظم رسول اللہ کی توصیف میں لکھی جاتی ہے وہ نعت کہلاتی ہے لیکن جہد وہی لوگ سید محمد جونپوری کی منظوم توصیف کو بھی نعت کہتے ہیں.حالانکہ مسلمانوں کی اصطلاح میں ایسی نظمیں منقبت کہلاتی ہیں.ا فرقہ مہدویہ کے تفصیلی حالات و عقائد کے لئے ملاحظہ ہو " رود کوثر" صفحہ ۱۹ تا ۲۹ مرتبہ جناب شیخ محمد اکرام صاحب ایم.اے شائع کردہ فیروز سنترال ہور * لے اس مراسلہ سے یہ بات بھی پوری طرح واضح ہے کہ تحریک پاکستان کی کامیابی کا سب سے بڑا راز اس میں مضمر تھا کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی زیر دست ذہانت اور فراست سے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر ہر قسم کے نقطۂ خیال رکھنے والے مسلمانوں کو جمع کر دیا تھا اور آپ سیاسیات کے میدان میں اختلاف عقائد کا لحاظ نہیں کرتے تھے اور ہر مسلمان کہلانے والے کو مسلم لیگ کے سٹیج پر آکر کام کرنے کا موقعہ دیتے تھے.۳ رسالہ "نقوش" لاہور خطوط تمبرا صفحہ ۰۴۸۰
مسلم لیگ کے تاریخی اجلاس میں ۱۳۱۹ پیش ۲۱ ۲۲ ۲۳ رامان / ماری ماں کوں ہور میں مسلم لیگ - ۶۱۹۴۰ کا وہ تاریخی اجلاس منعقد ہوا جس میں قرار داد پاکستان پاس شرکت کے بعد قادیان میں آمد کی گئی.اس اجلاس میں شرکت کے لئے نواب بہادر یار جنگ *190 در امان مارچ کو حیدرآباد سے عازم لاہور ہوئے.آپ کے ساتھ مسٹر سید احمد محی الدین ایڈیٹر رہبر کن ، مسٹر ابوالحسن سید علی (مجلس استحاد السلمین) ، مولانا سید بادشاہ حسین صاحب (سکوٹری مجلس علمائے دکن) بھی تھے سیلہ مسلم لیگ کے اجلاس میں سرگرم حصہ لینے اور دوسری متعدد مجالس سے پر اثر خطاب کرنے کے بعد حیدر آباد واپس جاتے ہوئے آپ قادیان بھی تشریف لے گئے جہاں چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی کو بھٹی میں حضرت خلیفہ ایسیح الثانی سے مفصل طاقات ہوئی جس میں چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کے علاوہ سیٹھ محمد اعظم صاحب بھی موجود تھے.اس اہم ملاقات کے علاوہ آپ نے مرکز احمدیت کے اداروں اور تنظیم کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا.اور اپنے تاثرات اپنے قلم سے لکھ کر شیخ محمود احمد صاحب عرفانی مدیر الحکم کو ارسال فرمائے جو اُن کی کتاب " مرکز احمدیت قادیان" کے آخری صفحات میں طبع شدہ ہیں.نواب بہادر یار جنگ صاحب نے اپنے تاثرات میں نوار سلاد کے تاثرات قادیان کے متعلق نوری بی لکھا کہ مارچ کر کے اواخر میں لاہور مسلمانان ہند کا مرکز بنا ہوا تھا.ایک تو اس وجہ سے کہ وہاں آل انڈیا مسلم لیگ کا وہ اہم اجلاس منعقد ہو رہا تھا میں نے ہندوستان کی سیاسیات میں ایک نئے باب کو کھولا.دوسرے اس لئے کہ مخاکساروں کی جماعت پر حکومت پنجاب کی بے دردانہ آتشیاری نے سارے ہندوستان کے مسلمانوں کو آتش زیر پا کر دیا تھا.اجلاس مسلم لیگ کے اختتام پر میری تمام تر توجہ مخاکساروں کے مسئلہ پر مرکوز تھی.اسی سلسلہ میں ضرورت پیش آئی کہ میں اپنے کرم فرما ہچو ہدری سر ظفر اللہ خان صاحب سے طاقات کروں جو اس زمانہ میں وائسر سے نے روزنامہ انقلاب" لاہور ۲۰ مارچ ۱۹۸ + ملاحظہ ہو کتاب " انجمن " (مؤلفه فقیر سید وحید الدین مرحوم) ناشر رائن آرٹ پریس (کراچی) لمیٹڈ فرئیر روڈ کراچی طبع اول اپریل له :
کی مجلس وزراء کے اہم ترین رکن تھے اس لئے...مارچ ۱۹ ء میں پند گھنٹوں کے لئے قادیان گیا جہاں چوہدری صاحب مقیم تھے جوئیں نے قادیان میں چند گھنٹے بسر کئے لیکن ان چند گھنٹوں کی یاد ابھی تک باقی ہے.اسٹیشن پر میرے قدیم کہ مفرما مولوی عبدالرحیم صاحب نیر اور مولوی محمد اعظم صاحب نے استقبال کیا.مولوی عبد الرحیم صاحب نیر جماعت احمدیہ قادیان کی طرف سے کئی سال تک حیدر آباد میں مقیم رہے ہیں.اور ان چند اصحاب میں سے ہیں جنہوں نے مجلس اتحادالمسلمین حیدر آباد کا سنگ بنیاد رکھا.اور مولوی محمد اعظم صاحب حیدر آباد کی مشہور دوکان محمد اعظم معین الدین کے مالک اور مجلس اتحاد المسلمین کی مجلس عاملہ کے قدیم ترین رکن اور میرے رفیق کار ہیں اور ان چند نوجوانوں میں سے ہیں جن کی رفاقت پر میں فخر کرتا ہوں.ان دونوں حضرات نے زوال آفتاب تک مجھے قادیان کی ایک ایک گلی میں گھمایا اور جماعت احمدیہ کے ایک ایک ادارہ کی سیر کرائی.قادیان پنجاب کے ضلع گورداسپور کی ایک چھوٹی سی آبادی ہے لیکن جماعت کا مرکز ہونے کی وجہ سے آج اس کو بین الاقوامی شہرت حاصل ہے.ہر سال ماہ دسمبر میں وہاں اس جماعت کے متوصلین کا کثیر اجتماع ہوتا ہے جس کی خصوصیت مرزا غلام احمد صاحب کے جانشین مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کا خطبہ ہے.ان خطبات کو احمدی عقائد سے اپنے کامل اختلاف کے باوجود میں التزاماً پڑھا کرتا ہوں.تمام ہندوستان کے احمدیوں کی نمائندگی کا دوسرا اجتماع ہر سال ایسٹر کی تعطیلات میں ہوا کرتا ہے جس کو یہ لوگ اپنا بجٹ مشن کہتے ہیں.اتفاق سے میں اسی زمانہ میں قادیان پہنچا تھا اور ان نمائندوں میں سے بعض سے مجھے ملاقات کا موقعہ ملا.احمدی جماعت کو اپنی بقا و استحکام کے لئے جن شدید مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا.اس نے قدر تا ان میں ایک مکمل تنظیم پیدا کر دی ہے.اور چونکہ کوئی تنظیم ایثار کے بغیر نہیں پیدا ہو سکتی.اس لئے میں قادیان کے تمام اداروں کے تفصیلی معائنہ کے بعد یہ یقین رکھتا ہوں کہ اس جماعت کے پیرو اپنے اندر اطاعت امیر اور ایثار کے حقیقی جذبات رکھتے ہیں.قادیان کا مدرستہ العلوم ، عربی کی درسگاہ ، دار الاقامته ، دار الاشاعت ، بین الاقوامی تبلیغ کا مرکز نوجوان فدائیان احمدیت کا تنظیمی ادارہ ، مہمان خانہ ، میرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب امیر جماعت
کا دفتر، یہانتک کہ قبرستان ، ان میں سے ہر ایک اپنی باقاعدگی اور خوش سلیقگی کے اعتبار سے کارکنوں کی دلچسپی اور فرض شناسی کا ثبوت دے رہے تھے اور یہ محسوس ہوتا تھا کہ میں کسی جماعت کے تنظیمی اداروں کو نہیں بلکہ کسی حکومت کے مختلف محکمہ جات کا معائنہ کر رہا ہوں.خذ ما صفا کے اصول کے ماتحت میری دلی تمنا ہے کہ میں تمام دنیا کے مسلمانو کو اس چھوٹی سی جماعت کی طرح منظم اور ایک مرکز کے تحت جو اصول اسلامی کے مطابق ہے حرکت کرتا ہوا دیکھوں.اس وجہ سے قادیان کے سفر کو میں اپنی زندگی کے وہ لمحات سمجھتا ہوں جن میں میری نظر ہو شیار نے کچھ دیکھا اور حاصل کیا.لال گڑھی (جاگیر) ۲۰ شوال المکرم مطابق ۳۱ اکتوبر ۹۴ ایده من خلف الشهر حال صاحب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ایک اہم تقریب منعقد ہو رہی تھی.مودهری جس میں تقسیم انعامات کے لئے آنریل چودھری محمد ظفراللہ خاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں صاحب کی خدمت میں درخواست کی گئی جسے آپ نے بخوشی قبول فرمایا.اور آپ ۹ امان/ مارچ میں کو دہلی سے بذریعہ کار کا کلکتہ میل سوا نو بجے وارد علی گڑھ ہوئے.71900 ریلوے سٹیشن پر معززین نے آپ کا پر تپاک استقبال کیا جن میں حسب ذیل خاص طور پر قابل ذکر ہیں :.۱- آنریل سرشاه محمد سلیمان صاحب وائس چانسلر مسلم یونیورسٹی رج فیڈرل کورٹ دہلی.-۲- مسٹرا سے بی.اے علیم صاحب پرو وائس چانسلر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ.مسٹرا ہے.ٹی تقوی آئی سی ایس کلکٹر ضلع علیگڑھ.م.ڈاکٹر ہادی حسن صاحب صدر شعبہ فارسی مسلم یونیورسٹی.کپٹن حیدر خا لصاحب صدر شعبہ کیمیسٹری مسلم یونیورسٹی.-- ڈاکٹر طاہر رضوی صاحب صدر شعبہ جغرافیہ مسلم یونیورسٹی.۷ تھال بہادر شیخ محمد عبد اللہ صاحب.مسٹر عبداللہ بٹ لیکچر مسلم یونیورسٹی.آرمیبل چودھری صاحب اسٹیشن سے بذریعہ کا مسلم یونیورسٹی کی طرف روانہ ہوئے جہاں وکٹوریہ گیٹ پر یونیورسٹی ه مرکز احمدیت قادیان" صفحه ۴۵۴ تا ۴۵۶ مصنفه شیخ محمود احمد عرفانی ایڈیٹر الحکم " قادیان +
کے رائٹنگ سکواڈ ) RIDING SOUND (R) نے آپ کو سلامی دی.پھر آنریل چودھری صاحب نے آنریل سرشاہ محمد سلیمان صاحب کے ہمراہ تمام یونیورسٹی کا چیکو لگایا اور قریباً ہر شعبہ کا معائنہ فرمایا.ساڑھے چار بجے بعد دو پہر آپ کے اعزاز میں یونیورسٹی کی طرف سے دعوت چائے دی گئی.اس کے بعد کھیلوں کے بعد تقسیم انعامات میں جناب چودھری صاحب نے انعامات تقسیم فرمائے.اختتام پر مسٹر اسے بی اے تعلیم صاحب پرو وائس چانسلر مسلم یونیورسٹی نے آپ کا انگریزی میں شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا.ہم آنریل چودھری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب کے نہایت شکر گزار ہیں.جو اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود اپنے کام کا حج کر کے یہاں تشریف لائے نیز آپ کی غیر معمولی قابلیت، اعلیٰ پایہ کے مدیر سیاستدان اور پارلیمنٹرین ہونے کا ذکرہ نہایت شاندار الفاظ میں کیا.اس کے جواب میں چودھری صاحب نے سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد اُردو میں تقریر کی جس میں فرمایا کہ میں آپ لوگوں کا نہایت شکر گزار ہوں کہ آپ نے میری عزت افزائی کی ہے.اور میں چاہتا ہوں کہ میں بھی آپ کی تواضع کروں.آپ حیران ہونگے، کیونکہ آپ کا خیال ہو گا کہ میں انگریزی میں تقریر کروں گا.لیکن میں آج چونکہ ایسے موضوع پر کچھ کہنا چاہتا ہوں جس کے لئے اُردو زبان زیادہ موزوں ہے.اس لئے میں اسی سے کام لوں گا.آپ نے بارہا سیاست اور دیگر مسائل پر عالمانہ تقریریں سنی ہوں گی.لیکن آج میں ایسے موضوع پر کچھ کہنا چاہتا ہوں جو میرے نزدیک سب سے اہم ہے.آپ نے حدیث انما الاعمال بالنیات کی تشریح و تفسیر نہایت پر اثر اور لطیف پیرایہ میں کی یہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے واقعات اور دیگر بزرگوں کے حالات بیان کئے.آپ نے فرمایا، جو کام کیا بجائے اس کے لئے نیت نیک ہونی چاہیئے اور وہ کام خدا ہی کے لئے ہونا چاہیئے تمہارا اُٹھنا بیٹھنا چلنا پھرنا سب کچھ خدا تعالیٰ کے لئے ہونا چاہئیے.اور ہر کام کرتے وقت تمہاری نیت نیک ہونی چاہیئے.اگر کھیلوں کے میدان میں کھیلو تو اس میں بھی خدا تعالے کی رضا اور خوشی کو مد نظر رکھ کر کھیلو.اس موقعہ پر آپ نے حضرت اسماعیل شہید رحمتہ اللہ علیہ کا واقعہ بیان کیا کہ آپ جب دریائے اٹک پر پہنچے تو آپ کو معلوم ہوا کہ یہاں ایک غیر مسلم ہے جو بہت بڑا تیراک ہے اور کہ کوئی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا.اس پر آپ کی غیرت نے گوارا نہ کیا کہ وہاں سے آگے بڑھیں.وہیں ڈیرے ڈال دیئے اور تیرنا شروع کر دیا.آخر اتنی مشق کر لی کہ اس غیر مسلم کو چیلنج دے کو شکست دی.ہمارے نوجوانوں کو چاہیئے کہ ہر کام میں اسلام کی برتری ، ترقی اور یہودی کی کوشش کریں.
۵۱ یہ مختصر ذکر ہے اس تقریر کا جو آر یہل چو دھری صاحہ نے کی.سامعین پر اس کا ہے ا ر ہو یا در دوران ترکی ترید خوشی کے اظہار کے لئے چیر کیا.جلسہ کے اختتام پر طلبا نے جناب چودھری صاحب کو تین دفعہ چیر کیا.اس کے بعد آپ ریلوے سٹیشن پر تشریف لے گئے جہاں آپ کو مسلم یونیورسٹی کے خاکساروں نے سلامی دی اور آپ نے اُن کا معائنہ کیا.پاے بجے شام کی گاڑی کلکتہ میں سے آپ واپس دہلی تشریف لے گئے بیلہ فصل سوم بالعین کو محبت خلوص سے بلیغ حضرت مولوی غلام حسن خاں صاحب کی بیعت خلافت نے غیر مبائعین میں بہت جوش و خروش پیدا کر دیا جس کرنے کی خاص تحریک اور اس کے اتمام بیت الیت ایسی نانی نے اور بان برای بیان پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی رامان کی کو ایک تحریک خاص فرمائی کہ نہایت درد اور اخلاص کے ساتھ اپنے بچھڑے ہوئے بھائیوں کی اصلاح کی پوری کوشش کی جائے.نیز ہدایت فرمائی کہ ہر جماعت میں سکوڈی اصلاح مابین " کے نام سے ایک عہدیدار مقرر کیا جائے جس کا یہ فرض ہو کہ وہ غیر مبالعین سے ملے ، انہیں تبلیغ کرے ، پرانا ٹر پھر مہیا کرے اور جماعت کو اس لٹریچر سے آگاہ کرے.دوسرے یہ حکم دیا کہ جماعتیں غیر مبائعین کی مفصل لسٹیں مرکز میں بھجوائیں تا اُن کو مرکز سے بھی تبلیغی لٹریچر بھجوایا جا سکے.ساتھ ہی نظارت دعوت و تبلیغ کو توجہ دلائی کہ وہ اس قسم کے علماء اور انگریزی خوانوں کی ایک لسٹ تیار کرے جو غیر مبائعین کے متعلق مفید مضامین لکھ سکتے ہوں.اور پھر انہیں اخباروں اور رسالوں میں مضامین لکھنے کی تحریک کرے.حضرت خلیفہ المسیح الثانی ہو نے غیر مبائین کو تبلیغ کرنے والوں یا ان کی نسبت مضمون لکھنے والوں کو خاں طور پر یہ نصیحت فرمائی کہ دوستوں کو محبت اور پیار سے کام لینا چاہیئے اور کبھی بھی سختی نہیں کرنی چاہئیے.یاد رکھو سختی سے تم دوسرے کو چُپ کرا سکتے ہو سختی سے تم دوسرے کو شرمندہ کر سکتے ہو سختی سے تم ت ۱۳۱۹ مش ایان ۱۳۱۹ پیش له الفضل " مورخه ۱۹ تا ۶۱۹۴۵ با صفحه به الفضل به مورخه ستعمار احمد اس منفحه لا دے مورخه ۵/ اپریل ۶۱۹۴۰
۵۲ دوسرے کو ذلیل کر سکتے ہو مگر سختی سے تم دوسرے کے دل کو فتح نہیں کر سکتے.اگر تم دل فتح کرنا چاہتے ہو تو تمہارے اپنے دل میں یہ اخلاص اور درد ہونا چاہیے کہ میرا ایک بھائی گمراہ ہو رہا ہے اُسے کسی طرح میں ہدایت پر لاؤں جب تک یہ احساس اور یہ جذبہ تمہارے اندر نہ ہوگا.اس وقت تک تمہاری تبلیغ موثر نہیں ہو سکتی چاہے تمہیں بظاہر شاندار معلوم ہو اور بچا ہے بظاہر جب تم مضمون لکھو تو لوگ کہیں کہ خوب مضمون لکھا.کیونکہ کامیابی یہ نہیں کہ لوگ تمہاری تعریف کریں بلکہ کامیابی یہ ہے کہ دوسروں کی ہدایت کا موجب بنو.پس جو مضمون لکھنے والے ہیں انہیں بھی تھیں کہتا ہوں کہ سنجیدگی اور محبت سے مضامین لکھو اور جو زبانی تبلیغ کرنے والے ہوں انہیں بھی کہیں نصیحت کرتا ہوں کہ سنجیدگی اور محبت سے تبلیغ کرد" اس سلسلہ میں اصلاح مابین کے سکرٹریوں کو ارشاد فرمایا کہ تب انہیں مرکز سے ٹریکٹ وغیرہ بھجوائے جائیں تو وہ محنت سے انہیں غیر مبائعین کے گھروں تک پہنچائیں تا اُن میں سے جو سعید لوگ ہیں وہ سلسلہ کی طرف توجہ کریں " سلہ اس تحریک کے بعد حضور نے 19 شہادت / اپریل میں کو ایک اور خطبہ جمعہ بھی اس مضمون پر دیاں چنانچہ حضور نے فرمایا : یکن دوستوں کو ہدایت کرتا ہوں کہ جو مضمون بھی لکھیں نرمی اور محبت سے لکھیں.یہ صحیح ہے کہ جہاں کوئی تلخ مضمون آئے گا اس کی کچھ نہ کچھ تلخی تو باقی رہے گی لیکن جہاں تک ہو سکے الفاظ نرم استعمال کرنے چاہئیں...میں مانتا ہوں کہ پیغامیوں کی طرف سے ہمیشہ سختی کی جاتی ہے.اس لئے بعض دوست جواب میں سختی سے کام لیتے ہیں.مگر مجھے یہ طریق سخت نا پسند ہے.میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ شدید سے شدید دشمن کے متعلق بھی سخت کلامی مجھے پسند نہیں.میرے نزدیک مولوی ثناء اللہ # " الفضل" هر شہادت / اپریل ۳۱ مش صفحه ۶ - ۲۷ ہے اس خطبہ کے چند ایام بعد اخبار الفضل ".شہادت / اپریل میں ایک مضمون نکلا جس میں لاہوری فریق کی نسبت سخت الفاظ استعمال کئے گئے تھے.اس پر حضرت امیر المومنین نے ناظر صاحب اعلی کو فوری ارشاد فرمایا کہ " با وجود ممانعت کے ایسا کیا گیا ہے.اس لئے جب ایک انمین مجھے اس امر کی نسبت تسلی نہ دلائے کہ آئندہ سخت الفاظی نہیں ہوگی میں اخبار کی اشاعت بند کرتا ہوں “ اس کے بعد جب تک صدرا نمین احمدیہ نے مضامین کی اشاعت میں نرم پالیسی اختیار کرنے کا واضح وعدہ نہیں کر لیا.حضور نے اخبار کی اشاعت پر پابندی نہیں اُٹھائی (ملاحظہ ہو دیکارڈ نظارت علیار جیٹر خ- م ۱۳۱۹ مش *
۵۳ صاحب ہمارے اشد ترین دشمن ہیں.مگر میں نے کئی بار دل میں غور کیا ہے.ان کے متعلق بھی اپنے دل میں کبھی بغض نہیں پایا.اور میں سمجھتا ہوں اگر کسی دشمن کے متعلق دل میں بغض رکھا جائے تو اس سے اسلام کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے ہر شخص کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے.اگر کسی نے سزا دینی ہو تو اس نے ، اگر کسی نے بخشنا ہو تو اس نے ، میں کیوں اپنے دل میں بغض رکھ کر اسے " سیاہ کروں.پس دل میں بغض اور کینہ رکھ کر کام نہ کرو بلکہ محبت و اخلاص رکھ کر کر لے حضرت خلیفہ اسیح الثانی رض کی اس خاص تحریک پر احمدی جماعتوں نے منظم طریق پر غیر مبالعین تک پیغام حق پہنچانے کی طرف توجہ دی.اہل قلم بزرگوں اور دوستوں نے " الفضل“ ، ” فاروق “ اور ” ریویو آف ریلیجینز“ میں معلومات افزا مضامین منیش کے دوران لکھے.تحریک غیر سائین سے متعلق لکھنے والوں میں مکرم مولوی ابوالعطا صحف فاضل ، مکرم قاضی محمد نذیر مضافامیں لائلپوری ، مکرم ملک محمد عبداللہ صاحب فاضل ، مکرم مولوی سید احمد علی صبا حضرت ابوالبرکات مولانا غلام رسول صاحب راجیکی ، ملک عبد الرحمن صاحب خادم بی.اے، ایل ایل بی پلیڈر ہم ما گجرات اور شیخ نور شید احمد صاحب سکرٹری مجلس خدام الاحمدیہ بھائی دروانہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں.علاوہ ازیں انظارت دعوت و تبلیغ قادیان نے غیر مبائین کے لئے مناسب ریکٹ اور اشتہارات شائع کئے اور ایک کمیٹی اصلاح مابین کے لئے قائم کر دی جس کے فرائض میں سے ایک فرض یہ بھی تھا کہ غیر مبائع اصحاب کے استفسارات کا جواب دیا جائے.اس کمیٹی کے سکو بڑی مکرم قاضی محمد نذیر صاحب لائلپور ہی مولوی فاضل مقرر کئے گئے.یہ کمیٹی کے پاس متعدد اعتراضات پہنچتے رہے جن کا مدلل جواب علمائے سلسلہ کی طرفف سے دیا جاتا رہا.ان سب اصلاحی کوششوں کا محمد علی نتیجہ یہ ہوا کہ جہاں جماعت احمدیہ کے نوجوان مخصوصاً اور دوسرے افراد له الفضل یہی ماہ ہجرت مئی مایش صفحه ۳ کالم ۱ - ۲ : رحال اسسٹنٹ ایڈیٹر الفضل") حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضا نے ان کی نسبت خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ " بھی ایک بچہ ان کے رد میں مضامین لکھ رہا ہے جس کا نام خورشید احمد ہے اور اس وقت لاہور میں رہتا ہے.اس کے مضمون ایسے اعلی درجہ کے ہوتے ہیں کہ پہلے میں سمجھتا تھا کہ یہ کوئی بڑی عمر کا آدمی ہے.مگر بعد میں معلوم ہوا ہے کہ خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب کا تو اسہ ہے اور ۱۷- ۱۸ سال عمر ہے ( " الفضل " ۲۶ وفا جولائی " الفضل " ۱۲۵ هجرت منی سرمایش صفحه ۴ کالم ۲-۰۴ ه
۵ عموماً متنازعہ مسائل کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اصل موقف کو پہلے سے زیادہ عمدہ طریق پرسمجھنے لگے وہاں بعض سعید الفطرات غیر مبائعین کے حلقہ سے نکل کر نظام خلافت سے وابستہ ہو گئے.ہندوستان کی فیڈرل کورٹ چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی دعوت پر ۱۴ شہادت کا اپیلیا مرد کو ہندوستان ، فیڈرل کورٹ کے چیف جسٹس کے چیف جسٹس قادیان میں سر مارس گوائمہ کے سی بی.کے سی بی ایس آئی اور ان کے فرزند مسٹر جان گواٹر ساڑھے نو بجے صبح کی گاڑی سے قادیان تشریف لائے اور 4 شہادت اپریل بر این کو ساڑھے دس بجے بذریعہ کار واپس چلے گئے.اس مختصر قیام میں چیف جسٹس صاحب نے.تمام جماعتی اداروں اور مرکزی کارخانوں کا معائنہ کرنے کے علاوہ تعلیم الاسلام ہائی سکول کے وسیع ہال میں چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی زیر صدارت ایک لیکچر بھی دیا اور اپنے تاثرات مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کئے :- میں نے دیکھا ہے کہ آپ کی جماعت کے لوگوں میں ایمان کی آگ شعلہ زن ہے اور اس کے سینے بعض مقاصد اور اصول ہیں جن کے مطابق وہ اپنی زندگیوں کو ڈھالنا چاہتے ہیں.میں نے آپس میں مساوات مختلف قوموں میں مساوات کے عظیم الشان اصول کو یہاں ایک نئی قوت کے ساتھ کام کرتے پایا ہے.انسانی اخوت کا یہ اصول انسانی زندگی کا اساس ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ مساوات اور اخوت کی رُوح آپ کی جماعت میں موجود ہے اور اسی ضمن میں میں سمجھتا ہوں کہ میرے اصول آپ کے اصول سے مشترک ہیں ایک اندرونی فتنہ اجرت ای بی دین میں یکایک ایک درونی فتنہ کا نشان ہوا تفصیل اس اجمال کا فتنر کی یہ ہے کہ محمد معیل نامی ایک صاحب نے (جو پہلے صوفی کہاتے تھے پھر اپنے نام کے ستھے ے مثلاً خان عبد الحمید خان صاحب پلیڈر ( فرزند حضرت مولانا غلام حسن خاں صاحب پشاوری و داماد ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ مرحوم) خان عبد المجید خان صاحب اور خان عبد الوحید خان صاحب (خال عبد الحمید خان صاحب پلیڈر کے خلف الرشید) سید ممتاز علی صاحب سابق مہتم مہمان خانہ احمدیہ بلڈنگس لاہور ( الفضل ۲۱ شہادت / ایمیل ۱۳۱۵ بیش صفحه ۲ ، م ہجرت امنی، ۲۴ ہجرت مٹی ) الفضل " ا شہادت / اپریل ۳۱ این صفحه ۱ - ۲ : $190 " الفضل " دار شہادت / اپریل ۱ المان صفحه ۲ : که " الفضل» در شهادت / اپریل و میش صفحه ۲ به 5190 140
۵۵ خواجہ کا لفظ لکھنے لگے، چند سال قبل احمدیہ سپلائی سٹیر کے نام سے قادیان میں ایک کمپنی جاری کی جس کا آخر میں دیوالہ نکال دیاگیا اور کمپنی کے حصہ دار اور کمپنی سے لین دین کرنے والے کئی لوگ شکائتیں لئے نظارت امور امہ کے پاس گئے اور تحقیقات شروع ہو گئی.ابھی یہ معاملہ پل ہی رہا تھا کہ ان صاحب نے یونس کارپوریشن کے نام سے ایک خفیہ کمپنی بنائی اور ملازمت کے خواہشمند لوگوں سے بعض مالی شرائط پر درخواستیں طلب کیں اور منی آرڈر اور درخواستیں بھی ایک دوسرے شخص کے نام پر منگوانے لگے اور خط و کتابت بھی ایک دوسرے شخص کے پتہ پر کرتے رہے.نظارت امور عامہ کو جلد ہی اس کمپنی کا پتہ چل گیا اور شکایات کی تحقیق کرنے پر صاف کھل گیا کہ یونس کارپوریشن کا قیام محض حصول زر کے لئے عمل میں لایا گیا ہے.غرض ایک سال سے ان صاحب کی بد معاملگی ، نادہندگی اور کوئی جائزہ معاش پیدا نہ کرنے کی متعدد شکایات موصول ہوئیں.تحقیقات سے ان کے ذمہ مطالبات درست ثابت ہوئے اور انہوں نے تحریری وعدے ان کی ادائیگی کے لئے نظارت سے کئے مگر عملاً ان سے کوئی وصولی نہ ہوئی.اسی اثناء میں ان کی اہمی یلجہ نے ۲ ستمبر ۳۶ مہ کو نظارت سے درخواست کی کہ مجھے خرچ کی بہت تنگی رہتی ہے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں جن کے اخراجات پریشان کرتے رہتے ہیں.کوئی معین صورت گزارہ کی نہیں.میرے خاوند عرصہ دراز سے بیکار ہیں.چاہیئے کہ حضرت امیر المومنین یا نظارت امور عامہ کی طرف سے انہیں کوئی روزگار کرنے کے لئے کہا جائے.اگر ایسا ہو جائے تو یہ میری صحیح اعداد ہوگی ہے ان صاحب کو مختلف طریق اور مختلف مواقع پر سمجھایا گیا کہ بیکار رہنے کی عادت اچھی نہیں.لیکن ان پر کوئی نصیحت کارگر نہ ہوئی بلکہ اس کا رد عمل یہ ہوا کہ انہوں نے قادیان ہی میں انجمن استاد عالمین کے نام سے دھاگوں کی ایک خفیہ انجین قائم کرلی.اور اس کا پتہ ایک غیر معروف گاؤں دنیال ڈاکخانہ سموال براستہ علم ظاہر کرنے لگے.انجین کا نام خفیہ رکھا جاتا.اور لوگوں کو اپنی خوا میں بتاتے اور ان سے رتھیں اور نذرانے وصول کر کے دعائیں کی جائیں.یہی نہیں.اس پارٹی کے ممبر مسجد کے قرب میں ہونے کے باوجود لوگوں کو مسجد میں جانے سے روکتے تھے اور کہتے تھے کہ سجد میں تو کسی نمازیں پڑھی جاتی ہیں جن سے کچھ حاصل نہیں ہوتا.اپنی بیٹھک ہی کو مسجد کیوں نہ بنائیں اور یہاں لمبی لمبی نمازیں پڑھ کر خدا تعالے کا قرب حاصل کریں.عبد الواحد خان صاحب (پسر حافظ ملک نے مزید یا تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو رسالہ " اہم شہادات مرتبہ مہتم نشر و اشاعت نظارت اصلاح و ارشاد ربوه : له الفضل ۱۵ هجرت / مئی میرا این صفحه ۰۵ سے اسی نام کا ایک ٹریکٹ بھی شائع کیا گیا تھا.+ کے اہم شہادات صفحه ها ( ناشر مہتم نشر و اشاعت نظارت اصلاح و ارشاد ربوه ) +
04 محمد صاحب پٹیالوی) کا بیان ہے کہ انہی دنوں خواجہ محمد اسمعیل صاحب نے مجھے بتایا کہ " ہم رات کو اکٹھے ہو کر رات کے ایک بجے تک بعض بعض اوقات ڈھائی بجے تک دعائیں کرتے ہیں.ہمیں بڑے بڑے نظارے خدا تعالیٰ دکھاتا ہے.دعائیں قبول ہوتی ہیں.اسی طرح ہم صبح کے وقت یا ہر دور ایک دو میل نکل کر فضل ادا کرتے ہیں ، دھا کرتے ہیں.اس لئے آپ آجایا کریں.دعاؤں میں شامل ہو جایا کریں.یہ جو مسجد میں جا کر نماز ادا کی جاتی ہے یہ تو ایک وقت ضائع کرنے والی بات ہے.اصل نماز تو وہی ہے جو انسان بالکل الگ پڑھے....ان الفاظ پر فور میرے دل نے یہی گواہی دی کہ یہ شخص تو اللہ تعالے اور اس کے رسول کے خلاف ایک نئی قسم کا دین بناتا ہے حضرت امیر المومنین کا پہلا انتباہ سیدنا حضرت علیہ ایسی نشانی کی خدمت میں یہ اطاعت پہنچیں تو حضور نے سور نومبر ۹ہ کے خطبہ جمعہ میں انتباہ فرمایا کہ " مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری جماعت میں بعض خواب بینوں نے اپنی بخوابوں اور دعاؤں کو آمد کا ذریعہ بنایا ہوا ہے اور وہ آنوں بہانوں سے لوگوں سے سوال بھی کرتے رہتے ہیں جس شخص کو اللہ تعالے بندوں سے مانگنے پر مقرر کر دیتا ہے وہ تو ایک عذاب ہے.ایسے شخص کی خواہیں بھی یقینا ابتلاء سے دیتا کے ماتحت ہو سکتی ہیں.انعام کے طور پر نہیں.ہاں یہ جائز ہے کہ دین کے لئے انسان دعا کے پورا ہونے پر خدمت مقرر کرے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے.اپنے نفس کے لئے جائز نہیں اور کامل مومن کی فطرت ہی کے یہ امر خلاف ہے سوائے اس کے کہ اللہ تعالے کسی کی دعا مینے اور پھر جس کے حق میں دعا کی گئی ہے.اس کے دل میں تحریک کرے کہ وہ خود اپنی خوشی سے دعا کرنے والے کی خدمت کرے" له انتباہ کا افسوسناک رو عم اتنی بھی خواہ محمد میاں صاحب اوران کے ساتھی اپنی رویش پر بدستور قائم رہے، اور اس بدعت شفیعہ کو ترک کرنے پر آمادہ نہ ہوئے جب یہ فتنہ پڑھنے لگا تو جماعت احمدیہ کو اس کے اغلاقی، دینی اور مالی نقصانات سے بچانے کے لئے انجمن اتحاد عالمین توڑ دینے کی ہدایت کی گئی.ان لوگوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا.تیس پر ۲ ہجرت مٹی سی امین کو قادیان میں اُن کے مقاطعہ کا اعلان کرنا پڑا.اعلان کے بعد اس پارٹی نے نظام سلسلہ کے مقلات مد و تعصب وو " ے اہم شہادات " صفحہ ۱۹ : "الفضل" در نومبر ۱۹۳۹ صفحه ۸ کالم ۳
بلکہ باقاعدہ مقابلہ کی صورت اختیار کر لی جس پر یہ لوگ جماعت سے نکال دیئے گئے ہے یہ لوگ ابھی پوشیدہ ہی تھے کہ اللہ تعالیٰ نے دعا گو پارٹی کی نسبت حضرت ام ہم حضرت خلیفہ اسیح الثانی رض کو ایک خواب میں اس فتنہ کے آغاز اور اس کی ناکامی کا نظارہ دیکھا دیا.حضور نے یہ پوری خواب ، ہجرت ۳۱ دیش کے خطبہ جمعہ میں سنائی اور نظام خلافت کی موجودگی میں ایسی تحریکوں کو سراسر باطل قرار دیتے ہوئے فرمایا :- یہ خواب جب میں نے دیکھا یہ لوگ بھی پوشیدہ تھے اور اندر ہی اندر اتحاد عالمین کے نام سے اپنی گدی بنانے کی سکیمیں بنا رہے تھے.ان کے اندر خود پسندی اور خود ستائی تھی اور اپنی ولایت بگھارتے پھرتے تھے.لوگوں سے کہتے تھے ہم سے دعائیں کر اور حالانکہ خلافت کی موجودگی میں اس قسم کی گرمیوں والی ولایت کے کوئی معنی ہی نہیں.جیسے گوریلا وار کبھی جنگ کے زمانہ میں نہیں ہوا کرتی.چھا پہلے اسی وقت مارے جاتے ہیں جب یا قاعدہ جنگ کا زمانہ نہ ہو.خلفاء کے زمانہ میں اس قسم کے ولی نہیں ہوتے.نہ حضرت ابو بکر یہ کے زمانہ میں کوئی ایسا ولی ہوا نہ حضرت عمرہ یا حضرت عثمان یا حضرت علی رند کے زمانہ میں.ہاں جب خلافت نہ رہی تو اللہ تعالٰی نے ولی کھڑے کئے کہ جو لوگ اُن کے جھنڈے تلے جمع ہو سکیں انہیں جم کر لیں تا قوم بالکل ہی تقریر نہ ہو جائے.لیکن جب مخلافت قائم ہو اس وقت اس کی ضرورت نہیں ہوتی جیسے جب منظم فوج موجود ہو تو گوریلا جنگ نہیں کی بھاتی.پس خلافت کی موجودگی میں ولایت کا وسوسہ در اصل کثیر اور بڑائی ہے.اس خواب میں جو سانپ میں نے دیکھتے ہیں.میں سمجھتا ہوں اُن میں سے ایک سے مراد اندرونی فتنہ ہے اور ایک سے بیرونی اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں قسم کے فتنے اس وقت بل کو حملہ کر رہے ہیں.مگر اللہ تعالیٰ دونوں کو دور کر دے گا اور فرشتوں کے ذریعہ اُن کے ہاتھ بنا کر دے گا.انسانی ہمت کڑیاں کوئی چیز نہیں اصل وہی ہیں جو اللہ تعالے کی طرف سے لگائی جائیں حکومتیں کسی کو نظر بند کرتی ہیں تو اس کے ساتھی موجود رہتے ہیں جو اس کی آواز کو پہنچاتے رہتے ہیں.لیکن خدا تعالے کسی کو ہتھکڑی لگائے طب و"الفضل" ۱۵ هجرت مئی مش لے یہ صاحب خود لکھتے ہیں کہ بعض لوگوں نے اپنی خصوصیت جتانے کے لئے یہ نرالا ڈھنگ اختیار کیا ہے کہ اپنی بعض دعاؤں کی قبولیت اور کچھ خوابوں کی بناء پر عوام کو راغب کر کے انہیں اپنا غلام بنا لیتے ہیں، شخص مذکور کا رسالہ " تعلق بالله ، صفحه ۴۰۳ :
۵۸ تو اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ اس تحریک کو کامیابی نہیں ہو سکتی“ اس ضمن میں یہ بھی بتایا کہ ایسے فتنے در اصل جماعت کی بیداری کے لئے ہوتے ہیں.میں دیکھتا ہوں کہ جماعت میں ایک طبقہ ایسا ہے جو احمدیت میں داخلہ کے بعد روحانی ترقی کی طرف بہت کم توجہ کرتا ہے.وہ اس طرح دنیا کے کاموں میں لگے رہتے ہیں جس طرح احمدیت میں داخلہ سے پہلے تھے.اسلام دنیا کے کاموں سے روکتا نہیں بلکہ اجازت دیتا ہے.انبیاء بھی یہ کام کرتے رہے ہیں.حضرت داؤد علیہ السلام کے کام ثابت ہیں.حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے کام ثابت ہیں.وہ زراعت بھی کرتے تھے.اولیاء اور صحابہ کا کام کرنا بھی ثابت ہے.اسلام جس چیز سے منع کرتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ اسی کام کا ہو جائے.بعض لوگ قادیان میں ہجرت کر کے آتے ہیں.مگر یہاں آکر دنیا کے کاموں میں ہی لگ بھجاتے ہیں اور دین کا کام بالکل نہیں کرتے....ان کے اندر بیداری پیدا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ ایسے فتنے پیدا کرتا رہتا ہے.جب کوئی فتنہ اٹھتا ہے تو ایسے کمزور لوگوں میں بھی جوش پیدا ہو جاتا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ان مخالفوں کا خوب مقابلہ کرنا چاہیے.خوب تقریریں ہوں اور رسالے لکھے جائیں بھالانکہ اگر وہ پہلے ہی تقریروں اند رسالوں کا انتظام کرتے تو وہ فتنہ پیدا ہی نہ ہوتا.اور اب بھی اگر وہ اپنی اصلاح کر لیں اور اپنے اندر بیداری پیدا کر لیں تو اللہ تعالے فتنوں کے سلسلہ کو روک سکتا ہے.یہ فتنے تو محض جنگانے کے لئے ہوتے ہیں.جب کوئی شخص نیند سے بیدار نہ ہو تو ہم اسے ہلاتے ہیں.پھر بھی ہوش میں نہ آئے تو پانی کا چھینٹا دیتے ہیں.اور پھر بھی نہ بھاگے تو چار پائی الٹا دیتے ہیں.اللہ تعالے بھی اسی طرح کرتا ہے“ آخر میں حضور نے نصیحت فرمائی کہ جماعت کو بچاہیئے کہ اپنے اندر بیداری پیدا کرنے، تبلیغ میں لگ جائے، نمازوں کی پابند ہو اور مہر لحاظ سے اپنی اصلاح کرے.پھر یہ لوگ آپ ہی آپ خاموش ہو جائیں گے.ان کی نہ تو علم کے لحاظ سے کوئی حیثیت ہے اور نہ خدا تعالے کی طرف سے ان کو کوئی تائید یا نصرت حاصل ہے.وہ جانتے بھی نہیں کہ تقوی کیا ہے.ان کو صرف بڑائی کا خیال ہے جماعت کو چاہیے کہ وہ ان کی باتوں سے ے رشتے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رض کی یہ فراست حرف بحرف صحیح ثابت ہوئی.یہ صاحب کچھ عرصہ بعد انگلستان چلے گئے دیقیہ حاشیہ اگلے صفحہ نہیں)
۵۹ کی طرف کوئی دھیان ہی نہ دے.وہ آپ ہی آپ بھاگ کی طرح بیٹھ جائیں گے.اپنی اصلاح میں لگ جائے دین سیکھنے اور سکھانے کی طرف متوجہ ہو.زبان کو پاک لکھا جائے گالی گلوچ نہ کی جائے.نمازوں کی پاندا کی جائے.کیونکہ ان باتوں کے بغیر خدا تعالیٰ کا فضل حاصل نہیں ہو سکتا.اگر جماعت اپنی اصلاح کرے اور تبلیغ میں لگ جائے.تو ان لوگوں کے فتنے خود بخود مٹ جائیں گے کیونکہ یہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں اور جھوٹ بولنے والا کامیاب نہیں ہو سکتا." ایک نقص کی اصلاح جماعت کی دوستوں م م ا ا ا ا ا ا ا نا کہ حضرت می مو و علی اسلام بعض و کے الہامات یا تو سرے سے پڑھتے ہی نہیں تھے اور اگر پڑھتے تھے تو سارے الہلا کو گزرے ہوئے واقعات پر چسپاں کر دیتے تھے اور سمجھتے تھے کہ جماعت احمدیہ ابتلاؤں کے بغیر اپنی منزل مقصود تک پہنچ جائے گی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نہ نے ۱۴ ماہ احسان / جوان پیش کو ایک خطبہ جمعہ خاص اسی موضوع پسر ارشاد فرمایا جس میں اس خطر ناک نقص کی اصلاح کرنے کی طرف توجہ دلائی چنانچہ حضور نے فرمایا :- و ہماری جماعت کے لوگوں میں یہ وہم ہے کہ وہ خیال کرتے ہیں ہماری جماعت ہمیشہ پھولوں کی سیچ پر ترقی کرتی پہلی بجائے گی....میں اس ناواقفیت اور متجاہل کے متعلق کیا کہوں.مجھے ہمیشہ تعجب آتا ہے کہ ہماری جماعت کے دوست اس غلط فہمی میں کیوں مبتلا ہیں.حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات سے صاف ظاہر ہے کہ جماعت احمدیہ بڑے بڑے ابتلاؤں میں سے گزرے گی.وہ ابتلا سیاسی بھی ہوں گے.ہ ابتلا اقتصادی بھی ہوں گے.وہ ابتلا مالی بھی ہوں گے.وہ ابتلا علمی بھی ہوں گے.وہ ابتلا قومی بھی ہوں گے.غرض ہر قسم کے اہست لاؤں کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات میں ہے بحکومتوں کی طرف سے تشتد اور جھگڑوں کا بھی ان الہامات میں ذکر ہے.اقوام کی طرف سے تشدد اور سختیوں کا بھی ان میں ذکر ہے بعض سیاسی ابتلاؤں کا بھی الہامات میں ذکر ہے بعض ہجرتوں کا بھی ذکر ہے.اسی طرح.قتلوں اور طرح طرح کے دکھوں سے جماعت احمدیہ کے ستائے جانے کا بھی ذکر ہے.لیکن باوجود اس کئے میں نے بار بار کہا.ہماری جماعت کے دوست حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے رقیه حاشیه هم گذشتہ جہاں انہوں شعر اسلام کی فریاد کہدیا اور ڈاڑھی منڈوا کر اپنے اسی الوجود ہونے کی صورت بنانے لگے اور پھر خاتم النبیین ہونے کا دعویٰ کر دیا "مقام شہادت صفحه ۲۸ - " فصل الخطاب صفحه ۲۵ مصنفه خواجه محمد اسمعیل صاحب) در ۱۳۱۹ مش له الفضل ا ر احسان اش صفحه ۴ تا ۶ *
الہامات کو پڑھنے کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے اور جو پڑھتے ہیں ان میں یہ مرض ہے کہ وہ سارے الہامات گزرے ہوئے واقعات پر چسپاں کر دیتے ہیں.اور یہ ایک نہایت ہی خطرناک نقص ہے " ماه احسان مریش (مطابق جون نہ ) کے آخری عشرہ کی صاحبزادی امتہ الود و بیگم صاحبه ابتداء میں حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی لخت جگر صاحبزادی کی وفات کا المناک حادثہ امتہ الود و بیگم صاحبہ کی اچانک وفات کا حادثہ پیش آیا جس نے خاندان مسیح موعود بلکہ پوری جماعت کو سوگوار کر دیا.صاحبزادی صاحبہ ۲۰ جون کی نصف شب تک بظاہر بالکل تندرست تھیں اور چار پائی پر لیٹی ہوئی تھیں کہ یکایک گھبرا کر اٹھیں اور سر درد کی شکایت کی تشیخ کا عارضہ بھی لاحق ہو گیا.منہ متورم ہو گیا اور بیہوشی طاری ہو گئی.تھوڑی دیر کے بعد دو دفعہ تھے ہوئی.ہوش آیا تو سخت سردرد اور سردی کی شکایت کی.پھرتے ہوئی جس کے معا بعد دوبارہ بیہوش ہو گئیں اور ساتھ ہی سانس میں رکاوٹ کی تکلیف ہونے لگی.علاج کے لئے حضرت ڈاکٹر میر محمد المعیل صاحب ، حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب ، ڈاکٹر محمد ثناء اللہ صاحب، ڈاکٹر محمد احمد صاحب اور ظفر نور صاحبہ نرس کو بلایا گیا.بعض ضروری ادویہ کے ٹیکے کئے گئے لیکن سانس اور بیہوشی میں کوئی فرق نہ آیا.حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے پہلی بار دیکھتے ہی حالت مایوس کن بتلائی اور کہا کہ " یہ موت کا وقت ہے.اس بیماری کا کوئی علاج نہیں" سے اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب نے صاحبزادی صاحبہ کی شدید تکلیف دیکھ کر حضرت ام المومنین 11 سیدنا امیر المومنین خلیفہ ایسیح الثانی منہ کو اطلاع کرائی اور حضور اپنے اہلبیت سمیت فوراً حضرت میاں صاحب کی کوٹھی (واقع محلہ وار الفضل میں تشریف لے گئے حضور کی موجودگی میں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے لمبر نکھر کیا یعنی ریڑھ کی ہڈی سے پانی نکالنا چاہا تو پانی کی بجائے خون نکلا جس سے صاف ظاہر ہو گیا کہ له " الفصل " ۱۸ر احسان جون در صفحه ۳ کالم ۲۰۱ : لے یہ کو الف الفضل ۲۲ احسان جون ان میں شائع شدہ ہیں.مگر ڈاکٹر محمد حمد صاحب ( ا اور اکرم حشمت الله " این خان صاحب نے اپنی یہ معنی شہادت لکھی ہے کہ علاج معالجہ کے لئے حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب ، والد محترم حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحبہ اور خاکسار ڈاکٹر محمد احمد کو حضرت میاں صاحب کی کوٹھی پر بلایا گیا.ہم تینوں ڈاکٹروں کے مشورے سے علاج شروع ہوا.(مکتوب بنام مؤلف کتاب " تاریخ احمدیت محوره ۲ ہجرت مئی میشه ۱۳۱۹ ۶۱۹۶۸ الفضل ۲۲ احسان / جون مایش صفحه ۱ و " الفضل ۲۳ احسان اچون بینی بارش صفحه ۳ کالم را به ه LUMBER PUNCTUREے.اس موقعہ پر ڈاکٹر محمد احمد صاحب نے معاون کے خدمت انجام دی :
۶۱ دماغ کی رگ پھٹ گئی ہے.ڈاکٹر محمد احمد صاحب کا بیان ہے کہ " حضرت میر صاحب نے جب دیکھا کہ خون نکل رہا ہے تو فوراً سوئی ( NEEDLE ) کو بڑی سے باہر نکال دیا اور کمرے سے یہ کہتے ہوئے تشریف لے گئے کہ اس کے بچنے کی اب کوئی امید نہیں ہے.میں بھی حضرت میر صاحب کے ساتھ باہر کو چلا مگر مجھے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی رضی نے زور سے آواز دے کر کہا کہ ڈاکٹر محمد احمد ادھر آؤ اور جب تک مریض کی نبض پھیل رہی ہے علاج کرتے بھاؤ چنانچہ میں اپنی سمجھ کے مطابق کچھ انجکشن وغیرہ کرتا رہا ہے لیکن خدا کی مشیت پوری ہوئی اور صاحبزادی صاحبہ ساڑھے تین بجے صبح اس جہان فانی سے ہمیشہ کے لئے جدا ہوگئیں.فانا الله وانا اليه راجعون - حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے سیدنا حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ صاحبزادی امتہ الودود صاحبہ کی بیماری کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے قلم سے ہماری کے حالات فرماتے ہیں." کوئی دو بجے کا وقت تھا کہ میری بیوی نے مجھے جگایا اور یہ فقرہ میرے کان میں پڑا کہ میاں شریعت احمد صاحب کی طرف سے اماں جان کے پاس آدمی آیا ہے کہ امتہ الودود کو درد کا دورہ ہوا ہے اور وہ بیہوش ہو گئی ہے.ڈاکٹر جمع ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اس کا آخری وقت ہے.منہ دیکھنا ہے تو آکر دیکھ لیں“ حضرت ام المومنین لاہور تھیں.میں گھبرا کر اٹھا اور گو بوجہ بیماری چھلنا پھر نا منع تھا.مگر ایسے وقت میں بیماری کا خیال کیسے رہ سکتا ہے.میں انا للہ پڑھتا ہوا اُٹھا.اور چونکہ موٹر کوئی موجود نہ تھا.ٹانگہ کے لئے آدمی دوڑایا.مریم صدیقہ کو جگایا.مریم ام طاہر کو اطلاع دی.عزیزہ ناصرہ بیگم کو جو امتہ الودود کی بھاوج ہے اور دو دن کے لئے ہمارے گھر آئی ہوئی تھی جگایا.اور ٹانگہ میں بیٹھ کر میں ، ناصرہ سلمہا اللہ تعالے ، ام دوسیم اور مریم صدیقہ عزیزم میاں شریف احمد صاحب کے گھر کی طرف روانہ ہوئے.میں اب تک کی رپورٹ سے یہی سمجھ رہا تھا کہ اپنڑے سائیٹس کا دورہ ہوا ہو گا.یا کبھی خیال آتا تھا کہ جوان لڑکیوں کو بعض دفعہ ایام میں ٹھنڈے نے مکتوب ڈاکٹر محمد احمد صاحب بنام مؤلف کتاب تاریخ احمدیت محمده ۲۷ ہجرت امنی پر پیش ۳۱۹ بم : بله - الفضل ۲۲ احسان / جون له میشن صفحہ ا کالم م :
پانی کے استعمال سے کچھ روک پیدا ہو کہ شدید درد ہو جاتی ہے.شاید ایسی ہی کوئی تکلیف ہو.میں نے احتیاطاً اپنی ہو میو پیتھک دواؤں کا بکس بھی ساتھ لے لیا.لیکن جب وہاں پہنچے تو کمرے میں امتد الودو لیٹی ہوئی تھی اور لمبے سانس جن میں بلغم کی شریرو ہٹ شامل تھی لے رہی تھی.وہ بالکل بیہوش تھی اور آج اس کے چھا آیا " کی آمد اس کے لئے بالکل کوئی معنے نہ رکھتی تھی.باہر ڈاکٹر تھے.میں نے اُن سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ درد کی رپورٹ غلط تھی.اس کے دماغ کی رگ سوتے سوتے پھٹ گئی ہے اور طلبی معلومات کی رو سے اس کے بچنے کی کوئی صورت نہیں.جب حالات دریافت کئے تو معلوم ہوا کہ رات کو بارہ بجے کے قریب لیٹیں اور تھوڑی دیر بعد کراہنے کی آواز آئی.اس کے ابا میاں شریف احمد صاحب نے اس کی آواز شنی اور اس کے پاس آئے اور دیکھا کہ بیہوش ہے اور تشیخ کے دورے پڑ رہے ہیں.وہ اس کی چار پائی برآمدے میں لائے اور اس وقت اس نے قے کی اور قے کے بعد اس قدر لفظ کہے کہ میرا سر پھٹا جاتا ہے، سر پکڑو اور خود ہاتھ اٹھا کہ سر پکڑ لیا.میں یہ ہی اس کی ہوش تھی اور یہ ہی اس کے آخری الفاظ، فوراً ڈاکٹروں کو بلوایا گیا اور انہوں نے جو کچھ وہ کر سکتے تھے کیا.مگر ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے شروع ہی سے کہہ دیا تھا کہ یہ موت کا وقت ہے.اس بیماری کا کوئی علاج نہیں.میرے سامے امر پنکچر کیا گیا اگر تشخیص مکمل ہو جائے چنا نچہ لب پنکچر سے بجائے پانی کے خون نکلا.جس سے یہ امر یقینی طور پر معلوم ہو گیا اور که مصر کی رگ پھٹ کر دماغ کو خون نے ڈھانک لیا ہے.چند منٹ کے بعد سانس رکھنے لگا.میرے آنے کے نصف گھنٹہ بعد یہ بچی ہم سے ہمیشہ کے لئے جُدا ہو گئی.انا للہ وانا الیہ رَاجِعُونَ تجہیز و تکنین ساڑھے چھ بجے شام تابوت اٹھایا گیا.سیدنا حضرت خلیفہ البیع الثانی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ، حضرت مرزا شریف احمد صاحب اور خاندان مسیح موعود کے دوسرے افراد تابوت کو اُٹھا کر باہر لائے.جہاں ایک جم غفیر انتظار میں موجود تھا.بہت سے لوگوں کو باری باری کندھا دینے کا موقع ملا.تابوت باغ میں پہنچا تو قریباً سات بجے حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے کئی ہزار کے مجمع سمیت نماز جنازہ پڑھائی.قبر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار کی چار دیواری میں کھودی گئی تھی.نعش حضرت خلیفتہ السیح الثانی حضرت مرزا شریف احمد حصان 1419 له " الفضل " ۲۳ احسان / بون له مش صفحه ۲ تا ۳ *
اور صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب نے قبر میں رکھی.تدفین مکمل ہو چکی تو حضور نے اجتماعی دعا کرائی اور واپس تشریف لے آئے یہ حضرت امیر المومنین کا مفصل صاحبزادی صاحبہ کا انتقال چونکہ ایک جماعتی المیہ تھا اس لئے مضمون امتہ الودود کی یاد میں اس موقعہ پر نہ صرف بزرگان جماعت کی طرف سے معدہ مضامین شائع ہوئے بلکہ خود حضرت امیر المؤمنین خلیفہ اسیح الثانی نے " امتہ الودود میری بچی " کے عنوان سے ایک مفصل مضمون سپرد قلم فرمایا جس کے شروع میں لکھا کہ " سب ہی مرتے پہلے آئے ہیں.کچھ کر رہے ہیں اور کچھ مر جائیں گے.اور کچھ پیدا ہوں گے، پھر وہ بھی مریں گے.اگلی نسلیں نئے جذبات لے کر آئیں گی.ہمارے فانی تغذیات ہمارے ساتھ ختم ہو جائیں گے.جو موتیں آج ہمارا دل زخمی کرتی ہیں وہ اُن کا ذکر ہنس ہنس کر کریں گے جن موتوں سے وہ ڈر رہے ہوں گے اُن کا خیال کر کے ہمارے دل میں کوئی حرکت پیدا نہیں ہوتی.کیونکہ باوجود ہماری نسلوں میں سے ہونے کے زمانہ کے بعد کی وجہ سے ہم انہیں نہیں جانتے اور وہ ہم میں سے کئی کو نہ جائیں گے.مثلا اگر بخدا تعالیٰ نے میری نسل کو قائم رکھا تو چھٹی ساتویں پشت کے کتنے بچے ہوں گے جو اپنی بڑی پھوپھی امتہ الودود کے نام سے بھی واقف ہوں گے.مگر با وجود اس کے کہ وہ چھٹی ساتویں نسل کے بچے میری اپنی نسل سے ہوں گے.ان کے غموں اور دکھوں کا احساس مجھے آج کس طرح ہو سکتا ہے اور ان کی خوشیوں میں میں کس طرح حصہ لے سکتا ہوں گر امتہ الودو جسے ہم پیار سے دُودی کہا کرتے تھے، جو گل ہم سے جدا ہوئی گو میری بھتیجی تھی ، مگر ان میری آئندہ نسلوں کے غم اس کے غم کو کہاں پہنچ سکتے ہیں.کیونکہ خدا تعالے کا یہ ہی قانون ہے کہ زمانہ ، رشتہ اور تعلق یہ تین چیزیں مل کر دلوں میں محبت کے جذبات پیدا کیا کرتی ہیں.پھر اگر ان میں سے کوئی ایک چیز زور پکڑ جائے تو وہ دوسری چیزوں کو دبا دیتی ہے.اور جب تینوں جمع ہو جائیں تو جذبات بھی شدید ہو جاتے ہیں.دُوری میری بھتیجی تو تھی.مگر زمانہ کے قرب اور تعلق نے اسے میرے دل کے خاص گوشوں میں جگہ دے رکھی تھی.بعد کی نسلیں تو الگ رہیں.میرے اپنے بچوں میں سے کم ہی ہیں جو مجھے اس کے برابر پیارے تھے." الفضل ۲۲ احسان / جون ش صفحه ۲ کالم ۲۰۱ : ا ر احسان صفا: له
سلام الله حضرت امیر الہ میں نے اس تمہید کے بعد اپنے اس قیمتی مضمون کے آخری حصہ میں صاحبزادی صاحبہ کے بچپن اور زمانہ تعلیم کے حالات پر روشنی ڈالی اور پھر اپنی آخری ملاقات کا ذکر نہایت درد انگیز پیرایہ میں کیا.چنانچہ تحریر فر مایا که صحت کی درستی کے بعد اسے تعلیم کا شوق پیدا ہوا.اور وہ برا برتعلیم میں بڑھتی گئی.انٹرنس تنک تو مجھے خیال رہا کہ یونہی مدرسہ میں جاتی ہے لیکن جب وہ انٹرنس میں اچھے نمبروں پر پاس ہوئی تو مجھے زیادہ توجہ ہوئی اور جب وہ ملتی میں اس سے اس کی تعلیم کے متعلق بات کرتا.پھر ایف اے میں وہ پاس ہوئی اور میں نے زور دیا کہ صدیقہ بیگم اور امتہ الودود بی اے کا امتحان دیں اور دونوں نے تیاری شروع کر دی مگر پہلی دفعہ کامیاب نہ ہوئیں.پھر دوسری دفعہ پڑھائی کی.پھر بھی کامیاب نہ ہوئیں.میں نے اصرار کیا کہ امتحان دیتے جاؤ چنانچہ اس دفعہ پھر تیاری کی.جب امتحان کے دن قریب آئے.عزیزہ کے منجھلے بھائی عزیزم مرنا ظفر احمد بیرسٹر ایٹ لاء اپنی شادی کے لئے قادیان آئے.امتحان کے دنوں میں شادی کی تاریخ تھی.انہوں نے کہا کہ امتحان نہ دو.تم نے پاس تو ہوتا نہیں.گھر کے اور آدمیوں نے بھی کہا اور اس نے امتحان دینے کا ارادہ ترک کر دیا.مجھے معلوم ہوا تو میں نے عزیزم میاں شریف احمد صاحب کو کہا کہ یہ ٹھیک نہیں.مجھے اس دفعہ ان کے پاس ہونے کی امید ہے.اگر صدیقہ پاس ہو گئیں تو امتہ الودود کے لئے اکیلا امتحان دینا مشکل ہوگا چنانچے انہوں نے بجا کہ اُسے امتحان کے لئے پھر تیار کر دیا.امتحان کے بعد کراچی سے واپس آکر ایک دن صدیقہ بیگم کو رقعہ لکھا کہ چچا ابا سے کہہ دیں کہ اگر آپ دعا کریں تو میں پاس کیوں نہ ہو جاؤں.اب کہ انہوں نے خود امتحان دلایا ہے.اگر میں پاس نہ ہوئی تو میں نہیں مانوں گی کہ انہوں نے دعا کی ہے.میں نے کہلا بھیجا کہ میں دعا کر رہا ہوں اور اب کے مجھے یقین ہے کہ تم دونوں پاس ہو بھاؤ گی اور خدا تعالٰی نے دونوں کو پاس کر ہی دیا.پاس ہونے کے بعد دونوں سہیلیوں نے مبارکبا کا تبادلہ کیا.ہفتہ کی شام کو امتہ الودود صدیقہ کو مبارکباد دینے آئی اور اتوار کی صبح کو صدیقہ اُسے مبارکباد دینے گئیں.میں اس دن بہت بیمار تھا.وہ میرے پاس بیٹھ گئی.صدیقہ بیگم ساتھ تھیں بعد میں اس کی چھوٹی بہن اور میری بڑی لڑکی اس کی بھاوج بھی آگئیں.میں نے کہا.دودی تم پاس نہیں ہوئیں میں پاس ہوا ہوں کیونکہ تم تو امتحان کا ارادہ چھوڑ بیٹھی تھیں.
۶۵ پھر میں نے کہا کہ پڑھائی کے دن تو اب ختم ہوئے اب کام کا وقت آگیا.اب میں تم کو اور صدیقہ کو مضامین کے نوٹ لکھوایا کروں گا اور تم انگریزی میں مضمون تیار کر کے ریویو وغیرہ میں دیا کرو کہنے لگی کہ میں نے تو کبھی مضمون لکھا نہیں چھوٹی آپا کو لکھوایا کریں.میں نے کہا تم دونوں ہی نے پہلے مضمون نہیں لکھے.اب تم کو کام کرنا چاہیئے.کہنے لگی اچھا.یہ واقعہ میں نے اس لئے بیان کیا کہ مرحومہ میں یہ خوبی تھی کہ با وجود شرمیلی طبیعت کے جب کوئی مفید کام اُسے کہا بھاتا وہ اس پر کاربند ہونے کے لئے تیار ہو جاتی.میں سمجھتا ہوں کہ اگر میں اپنی لڑکیوں سے کہتا تو ان میں سے اکثر شرم کی وجہ سے انکار پر اصرار کرتیں.مگر اُسے جب میں نے دُہرا کر کہا کہ اب تم کو اپنے علم سے دنیا کو فائدہ پہنچانا چاہئے تو باوجود تا تجربہ کاری اور حیاء کے اس نے میری بات کو منظور کر لیا.تھوڑی دیر کے بعد ناصرہ بیگم سلمہا اللہ تعالے نے کہا کہ چھوٹی بچی دودھ کے لئے رو رہی ہوگی میں نے بھانا ہے.اور ساتھ ہی امتہ الودود بھی اُٹھی.میری عادت رہی ہے کہ امتہ القیوم اور امتر الو د و ر جب پاس سے اٹھا کر تھیں تو میں کہا کرتا تھا کہ میری بچی اللہ تمہارا حافظ ہو اور پھر پیار کر کے رخصت کیا کرتا تھا.اس دن میں نے یہ الفاظ تو کہے مگر اُٹھ کر اُسے پیار دے کر رخصت نہیں کیا.میں نے اس کے چہرہ پر کچھ ملال کے آثار دیکھے اور کہا.میں آج بیمار ہوں.اُٹھ نہیں سکتا چوتھے دن اسی بیماری کی حالت میں مجھے اس کی بیماری کی وجہ سے جانا پڑا.اور میں نے جاتے ہی اس کے ماتھے کو چوما.مگر اب وہ بیہوش تھی.اب اس کے چچا ابا کا پیار اس کے لئے خوشی کا موجب نہیں ہو سکتا تھا.اور اسی بیہوشی کی حالت میں وہ فوت ہو گئی.ہاں وہ بچی جس نے اپنی ساری عمر علم سیکھنے میں خرچ کر دی اور باوجود شہر میلی طبیعت کے میرے کہنے پہ اس پہ آمادہ ہو گئی کہ اپنی جنس کی بہتری کے لئے وہ مضمون لکھا کرے گی.جہاں تک اس دنیا کا تعلق ہے ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گئی.کیونکہ خدا تعالے کا منشار کچھ اور تھا.وہ اسے وہاں لے گیا جہاں باتیں نہیں کی بھاتیں جہاں کام کیا جاتا ہے.جہاں کوئی کسی انسان کی نصیحت کا محتاج نہیں جہاں صرف اللہ ہی ہر ایک کا ہادی ہوتا ہے.امتہ الو د و ر ا جب تم اس دنیا میں تھیں میں تمہاری عارضی رخصت پر نہایت محبت سے کہا کرتا تھا بھاؤ میری بھی تمہارا اللہ حافظ ہو.اب تو تم دیر کے لئے ہم سے بھدا ہو رہی ہو.اب تو اس سے بھی زیادہ درد
۶۶ کے ساتھ میرے دل سے یہ نکل رہا ہے کہ بھاؤ میری بچی تمہارا اللہ حافظ ہو.نادان کہیں گے.دیکھو یہ ایک مردہ سے باتیں کرتا ہے.مگر مردہ تم نہیں وہ ہے نمازیں پڑھنے والے اپنے رب سے رو رو کر دعائیں کرنے والے بھی مرا کرتے ہیں ؟ اور تم تو بڑی دعائیں کرتے والی اور دعاؤں پر یقین رکھنے والی بچتی تھیں.....تو اپنے بچی! تو جو دنیا کی تکلیف کے احساس نے اپنے رب کے آگے رویا کرتی تھی تجھے اللہ تعالے کب موت دے سکتا ہے.یقینا اللہ تعالے ہماری آوازیں تیرے تک پہنچاتا رہے گا اور تیری آوازہ ہمارے تک پہنچاتا رہیگا.ہماری جدائی عارضی ہے اور تیری نئی جگہ یقیناً پہلی سے اچھی ہے.دنیوی خیالات کے ماتحت تیری اس بے وقت موت کو دیکھ کر کوئی کہ سکتا تھا کہ پھول تو دو دن بہایہ جانفزا دکھلا گئے حسرت ان غنچوں پر ہے جو بن کھلے مرجھا گئے اور میرے دل میں بھی ایک دفعہ یہ شعر آیا.مگر جب میں نے غور کیا تو یہ شعر تیرے حالات کے بالکل خلاف تھا.تو تو اس باغ میں گئی ہے جس پر کبھی خزاں ہی نہیں آتی.حتی وقیوم خدا کی جنات عدن میں مرجھانے کا کیا ذکر.اسے ہمارے باغ کے نیچے تو کل سے اللہ تعالیٰ کے باغ کا پچھوں بن چکا ہے.ہمارے دل مرجھا بھی سکتے ہیں غمگین بھی ہو سکتے ہیں مگر تیرے لئے اب کوئی مُرجھانا نہیں.اب تیرا کام یہی ہے کہ ہر روز پہلے سے زیادہ سرسبز ہو، پہلے سے زیادہ پر رونق ہو.جب تیری جان نکلی تو میں ایک کونے میں بجا کر سجدہ میں گر گیا تھا اور بعد میں بھی وقتاً فوقتاً دُعا کرتا رہا.یہانتک کہ تجھے دفن کر کے واپس آئے.اور وہ دعا یہ تھی کہ اسے اللہ تعالے یہ نا تجربہ کار روج تیرے حضور میں آئی ہے.تیرے فرشتے اس کے استقبال کو آئیں کہ اُسے تنہائی محسوس نہ ہو.اس کے دادا کی رُوح اُسے اپنی گود میں اٹھا لے کہ یہ اپنے آپ کو اجنبیوں میں محسوس نہ کرے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ اس کے سر پر ہو کہ وہ بھی اس کے روحانی دادا ہیں.اور تیری آنکھوں کے سامنے تیری جنت میں یہ بڑھے.یہاں تک کہ تیری بخشش کی چادر اوڑھے ہوئے ہم بھی وہاں آئیں.اور اس کے خوش چہرہ کو دیکھ کر مسرور ہوں.اس دھا کے ساتھ میں اب بھی سمجھے شخصت کرتا ہوں.بجا میری بچی تیرا اللہ حافظ ہو اللہ حافظ ہو.مرزا محمود احمد نه " الفصل " ۲۳ احسان خون ماه صفر ۵۰۴ +191
تمال مشرق - دروازه دیوار جو گرائی گئی حضرت خلیفة المسیح الاول حضرت مولوی نور الدین صاحب ح موعود حضرت مسیح موعود علی الت شر حضرت مسیح موعود علیہ اس میاں محمد حمید اللہ صاحب این حضرت خلیفہ اسے الاول صاحبزادہ مرزا حمید احمد صاحب این حضرت مرزابیت پابو شاہ دین صاحب ساکن سا ہو والہ سیالکوٹ صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی حاجی فضل حسین صاحب الثانی این حضرت مسیح موعود علیه السلام صاحبزادی امتہ الود و دیگر مصاحبه احاطہ کی نئی دیوار جس سے توسیع ہوئی دروازه شاهجهان پور تان بہادر حضرت مرزا سلطان احمد این حضرت مسیح موعود صاحب تو ر صاحب سکنہ ما بصری مصاحبه زوجه مولوی غلام حسین صاحبت خوست علاقه کامل محمد الفیل ما بالیہ کو علوی لاہوری به خاطر بیگم صاحبه زوجه میاں احمد جی صاحب تولد جیسا مولوی جو چودھری الہ داد خاں صاحب ساکن کلیان مهر خان میاں انہی بخش صاحب مالیہ کو ٹلہ حافظ ا حضرت مولوی عبد الکرید دروازه محمد نصیر صاحب کن و بگران میان امیرخان صاحب ماکن بنوره شیخ مسیح اللہ صاحب در والر (منقولة الممثل"
42 حضرت مسیح موعود کے اس سال کا ایک قابل ذکر کام یہ بھی ہے کہ اس میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے احاطہ مزار مبارک کی مشرق اور شمال دونوں طرف احاطہ مزار مبارکی توسیع توسیع کی گئی.قبل ازیں احاطہ میں بارہ قبریں تھیں مگر نئے اضافہ کے نتیجہ میں مزید انہیں قبریں اس مقدس حلقہ میں شامل کر دی گئیں.باہر دفن ہونے والے موصیوں کے کتبے اُن کے علاوہ تھے.یہ توسیع سال کے وسط میں کی گئی تھی.حضرت امیر المومنین و یا ا ا تقدیر ٹل بھی سکتی ہے.کئی ماہ سے بعض احمدیوں کو بذریعہ خواب یہ دکھایا جا رہا تھا کہ تنفر خلیفہ اسیح الثانی کی وفات قریب ہے.نیز یہ کہ صدقہ سے یہ اس پر حضرت امیرالمومنین خلیفہ اسیح الثانی رض نے جہاں صدقات کا انتظام فرمایا وہاں ۲۳ و فار جولائی ات کو اپنے قلم سے مندرجہ ذیل وصیت لکھی جو افضل " ۲۵ وفا / جولائی منیش کے پہلے صفحہ پر شائع ہوئی.اعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ حمَدُنَا وَنَصَلَّى عَلى رَسُولِهِ الكَرِيمِ هوالت خدا کے فضل اور رحم کیساتھ میری وصیت (حضرت امیر الم متین مخلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے قلم سے) سامير برادران : السلام عليكم ورحمة الله وبركات کئی ماہ سے دوستوں کی طرف سے مجھے ایسی خوابوں کی اطلاع آرہی ہے جس میں میری وفات کی خبر انہیں معلوم ہوئی ہے.بعض خوابوں میں یہ ذکر بھی ہے کہ صدقے سے یہ امر مل سکتا ہے.چونکہ خواب میں جو بات دکھائی بھائے اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ اسے پورا کیا جائے.میں نے ان خوابوں کی بناء پر اس قسم کے صدقات کا بھی انتظام کیا ہے جو بعض لوگوں کو بتائے
ЧА گئے ہیں اور عام صدقہ کا بھی انتظام کیا ہے.مگر چونکہ آخر ہر انسان نے مرنا ہے میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ تقویٰ ، خدا تعالے پر توکل اور دین کی اشاعت کے لئے اپنے اندر جوش پیدا کریں.اور اتحاد جماعت کو کبھی ترک نہ کریں.اگر وہ ان باتوں پر قائم رہیں گے.اگر قرآن کریم کو مضبوطی سے پکڑے رکھیں گے.اگر وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آوانہ بے پر ہمیشہ کان رکھیں گے اور اُن کے پیغام کا جواب اپنے دلوں سے دیتے ہوئے دنیا تک اسے پہنچانے رہیں گے، تو اللہ تعالے ہمیشہ ان کا حافظ و ناصر رہے گا اور کبھی دشمن ان کو ہلاک نہ کر سکے گا بلکہ ان کا قدم ہمیشہ آگے ہی آگے پڑے گا.انشاء اللہ تعالے میں یہ بھی اعلان کرتا ہوں کہ میری نیت ہمیشہ سے یہ رہی ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بغیر وصیت کے مقبرہ بہشتی میں دفن ہونے کا حق دیا ہے اس لئے اس کے شکریہ میں نہ کہ مقبرہ بہشتی کی وصیت کے طور پر اپنی جائداد کا ، وہ تھوڑا ہو یا بہت ، ایک حصہ ان اعراض کے لئے جو مقبرہ بہشتی کے قیام کی ہیں وقف کر دوں.سو اس کے مطابق میں اعلان کرتا ہوں کہ میری جائیداد جو بھی قرضہ کی ادائیگی کے بعد بچے اس کی آمد کا دسواں حصہ میرے ورثا اصل مین احمدیہ کے حوالے کر دیا کریں تاکہ وہ اشاعت اسلام کے کام پر خرچ کیا جائے، مگر یہ شکریہ بھی کافی نہیں.ایک کام جماعت کا اور بھی ہے جو توجہ کا مستحق ہے اور جس کی طرف سے جماعت کے احباب اکثر غافل رہتے ہیں اور وہ اس کے غرباء ہیں.سو میں یہ بھی وصیت کرتا ہوں کہ میری جائیداد کا ایک اور دسواں حصہ (جو قرض کے ادا کرنے کے بعد نیچے) غرباء، مساکین ، بیتا می، اور بیواؤں کے لئے وقف ہوگا.پس میری بجائیداد کی جو بھی آمد ہو ، کم یا زیادہ ، اس میں سے دسواں حصہ سلسلہ کے مساکین ، قرباء ، بتائی اور بیواؤں کی امداد کے لئے خرچ کیا جائے.اس رقم کو خرچ کرنے کے لئے میں ایک کمیٹی تجویز کرتا ہوں جس میں دو نمائندے میرے ورثاء کی طرف سے ہوں اور ایک خلیفہ وقت کی طرف سے.وہ باہمی مشورہ سے مذکورہ بالا مستحقین پر اس رقم کو خرچ کریں.اگر کبھی اختلاف ہو تو خلیفہ وقت کا فیصلہ اس بارہ میں ناطق ہوگا.میں اپنی اولاد سے امید کرتا ہوں کہ وہ اپنی زندگیوں کو دین کے لئے خرچ کرینگے اور دنیاوی ترقیات کو دین کی ضرورتوں پر قربان کریں گے.
۶۹ میرا ارادہ اپنی بقیہ جائیداد کو وقف علی الاولاد کرنے کا ہے جس کے لئے میں الگ قواعد مقرر کر دونگا اس صورت میں اگر کسی وقت میری اولاد باقی نہ رہے یا میری جائیداد سے فائدہ نہ اٹھا سکے ، تو کل جائیداد یا اس کا کوئی جند و حس پر بھی اس کا اثر ہو وہ سلسلہ کی خدمت کے لئے وقف ہو بجائے گی.خدا تعالے ہمارا انجام بخیر کرے اور ہمیں اپنی رضا پر چلنے کی توفیق دے اور ہمارا مرنا جینا اسی کے لئے ہو.آمین اللہم آمین خاکسار مرزا محمود احمد ۲۳ ماه و فایر ۳۵۱ اس وصیت کا شائع ہونا ہی تھا کہ پوری جماعت میں درد و اضطراب کی ایک زبر دست لہر پیدا ہو گئی اور ہر جگہ صدقات اور دعاؤں کا ایک وسیع سلسلہ شروع ہو گیا ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے کمزور بندوں پر رحم فرمایا اور ان کی دعاؤں اور صدقات کو شرف قبولیت بخشتے ہوئے تقدیر بدل دی اور حضرت امیر المومنین کو اس کے بعد پچیس سال کی کامیابی و کامرانی سے معمور لمبی عمر جماعت کی قیادت کے لئے عطا فرما دی.فالحمد لله على احسانه.+ ۱۳۱۹ بیش له الفضل " ۲۵ روف / جولائی اش نیز " فاروق ۲۸ و فار جولائی پرش الفضل ظہور / اگست ش صفحه ۲ ، و ظہور / اگست این صفحه ۲، ۱۵ ظهور/ اگست ١٣١٩ ین بار اگست ظهوره اش صفر ۲ ۱
فصل چیدم مجلس انصار اللہ کا قیام سید نا حضرت خلیفتہ ایسیح الثانی نہ کی تحریک اور رہنمائی میں دسمبر ﷺ سے عورتوں کی تربیت کے لئے لجنہ اماءاللہ اور جنوری شملہ سے نوجوانوں کی تربیت کے لئے نیلس خدام الاحمدیہ کی تنظیمیں قائم تھیں اور بہت جوش و خروش سے اپنی تربیتی ذمہ داریاں ادا کر رہی تھیں اور ان کی وجہ سے جماعت میں خدمت دین کا ایک خاص ماحول پیدا ہو چکا تھا.مگر ایک تیسرا طبقہ ابھی ایسا بانی تھا جو اپنی پختہ کاری ایسے تجربہ در فراست کے اعتبار سے اگرچہ سلسلہ احمدیہ کی بہترین خدمات بجا لا رہا تھا مگر کسی مستقل تنظیم سے وابستہ نہ ہونے کے باعث قوم کی اجتماعی تربیت میں پورا حصہ نہیں لے سکتا تھا.حالانکہ اپنی عمر اور اپنے تجربہ کے لحاظ سے قومی تربیت کی ذمہ داری براہ راست اسی طبقہ پر پڑتی تھی.علاوہ ازیں خدام الاحمدیہ کے نوجوانوں کے اندر قدمت دین کے جوش کا تسلسل قائم رکھنے کے لئے بھی ضروری تھا کہ جب جوانی کے زمانہ کی دینی ٹریننگ کا دور ختم ہو اور وہ عمر کے آخری حصہ میں داخل ہوں تو وہ دوبارہ ایک تنظیم ہی کے تحت اپنی زندگی کے بقیہ ایام گزاریں اور زندگی کے آخری سانس تک دین کی نصرت و تائید کے لئے سرگرم عمل رہیں.حضرت علیقہ مسیح الثانی نے کو " مجلس خدام الاحمدیہ کی بنیاد رکھتے وقت بھی اس اہم ضرورت کا شدید احساس تھا.مگر حضور چاہتے یہ تھے کہ پہلے مجلس خدام الاحمدیہ کی رضا کارانہ تنظیم کم از کم قادیان میں اپنے پاؤں پر کھڑی ہو جائے تو بتدریج کوئی نیا عملی قدم اٹھایا جائے.چنانچہ دو ڈھائی سال کے بعد جبکہ یہ مجلس حضور کی تجویز فرمودہ لائنوں پر چل نکلی اور نوجوانوں نے رضا کارانہ طور پر حضور کے منشار مبارک کے مطابق کام کرنے کرنے کا پوری طرح اہل ثابت کر دکھایا تو حضور نے ۳۶ رو فار جوں کی پیش کو اعلان فرمایا کہ +140' " آج سے قادیان میں غدام الاحمدیہ کا کام طوعی نہیں بلکہ میری ہوگا.ہر وہ احمدی جس کی پندرہ سے که تفصیل تاریخ احمدیت " بعد نعیم صفحہ ۲۲۱۳ ۲۲۱ میں گذر چکی ہے ؟ دیکھئے تاریخ احمدیت جلد اشتم صفحه ۴۸۰۲۴۴۵ به
ور چالیس سال تک عمر ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ پندرہ دن کے اندر اندر معالم الاحمدیہ میں اپنا نام لکھا دے لے اور خدام الاحمدیہ کو یہ ارشاد فرمایا کہ اور ایک نہینہ کے اندر اندر خدام الاحمدیہ آٹھ سے پندرہ سال کی عمر تک کے بچوں کو منظم کریں.اطفال احمدیہ کے نام سے ان کی ایک جماعت بتائی جائے اور میرے ساتھ مشورہ کر کے ان کے لئے مناسب پر وگرام تجویز کیا جائے“ رس اعلان کے ساتھ ہی حضور نے پالیس سال سے اوپر کے احمدیوں کی ایک مستقل تنظیم کی بنیاد رکھی، جس کا نام مجلس انصار اللہ " تجویز فرمایا.اور فی الحال قادیانی میں رہنے والے اس عمر کے تمام احمدیوں کی شمولیت اس میں لازمی اور ضروری قرار دی.انصار اللہ کی تنظیم کا عارضی پریزیڈنٹ مولوی شیر علی صاحب کو نامزد فرمایا اور ان کی اعانت کے لئے مندرجہ ذیل تین سکرٹری مقررہ فرمائے :.- حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب درد ایم اے، حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیال ایم اے ہ حضرات خانصاحب مولوی فرزند علی صاحب اس موقعہ پر حضرت امیر المومنین نے مجلس، انصار اللہ کی نسبت بعض بنیادی ہدایات بھی دیں جن کا تذکرہ حضور ہی کے الفاظ میں کیا جانا چاہیئے.حضور نے فرمایا :- چالیس سال سے اوپر عمر والے جس قدر آدمی ہیں وہ انصار اللہ کے نام سے اپنی ایک المین بنائیں اور قادیان کے وہ تمام لوگ جو سچالیس سال سے اوپر ہیں اس میں شریک ہوئی.ان کے لئے بھی نازمی ہو گا کہ وہ روزانہ آدھ گھنٹہ خدمت دین کے لئے وقف کریں.اگر مناسب سمجھا گیا.تو بعض لوگوں سے روزانہ آدھ گھنٹہ لینے کی بجائے مہینہ میں ۳ دن یا کم و بیش اکٹھے بھی لئے جا سکتے ہیں.مگر بہر حال تمام بچوں بوڑھوں اور نوجوانوں کا بغیر کسی استثنا کے قادیان میں منظم ہو جانا لازمی ہے.مجلس انصار اللہ کے عارضی پریذیڈنٹ مولوی مشیر علی صاحب ہوں گے اور سکرڑی کے فرائض سرانجام دینے کے لئے مکیں مولوی عبدالرحیم صاحب درد ، چودھری فتح محمد صائب اور ا " بفضل" یکم ظہور اگست ۱۹ ت صفحه ۶ کالم ۳ : سفر " at
۷۲ خالصاحب مولوی فرزند علی صاحب کو مقرر کرتا ہوں.تین سکوٹری میں نے اس لئے مقرر کئے ہیں کہ مختلف محلوں میں کام کرنے کے لئے زیادہ آدمیوں کی ضرورت ہے ان کو فوراً قادیان کے مختلف حصوں میں اپنے آدمی بٹھا دینے چاہئیں اور چالیس سال سے او پر عمر رکھنے والے تمام لوگوں کو اپنے اندر شامل کرنا چاہئیے.یہ بھی دیکھ لینا چاہیئے کہ لوگوں کو کس قسم کے کام میں سہرورت ہو سکتی ہے.اور جو شخص جس کام کے لئے موزوں ہو اس کے لئے اس سے نصف گھنٹہ روزانہ کام لیا جائے.یہ نصف گھنٹہ کم سے کم وقت ہے اور ضرورت پر اس سے بھی زیادہ وقت لیا سیا سکتا ہے.یا یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ کسی سے روزانہ آدھ گھنٹہ لینے کی بجائے مہینہ میں دو چار دن لے لئے جائیں جس دن وہ اپنے آپ کو منظم کر لیں اسی دن میری منظوری سے نیا پریزیڈینٹ اور نئے سکوڈی مقرر کئے جا سکتے ہیں.سر دست میں نے جن لوگوں کو اس کام کے لئے مقرر کیا ہے وہ عارضی انتظام ہے اور اس وقت تک کے لئے ہے جب تک سب لوگ منظم نہ ہو جائیں.جب منتظم ہو جائیں تو وہ چاہیں تو کسی اور کو پریزیڈنہیٹ اور سنکر فرمی بنا سکتے ہیں مگر میری منظوری اس کے لئے ضروری ہوگی.میرا ان دونوں مجلسوں سے ایسا ہی تعلق ہوگا جیسا مرتی کا تعلق ہوتا ہے اور ان کے کام کی آخری نگرانی میرے ذمہ ہوگی یا جو بھی تخلیفہ وقت ہو.میرا اختیار ہوگا کہ جب بھی مناسب سمجھوں ان دونوں مجلسوں کا اجلاس اپنی صدارت میں بلالوں اور اپنی موجودگی میں ان کو اپنا اجلاس منعقد کرنے کے لئے کہوں.یہ اعلان پہلے صرفت قادیان، دالوں کیلئے ہے اس لئے ان کو میں پھر منتقبہ کہتا ہوں کہ کوئی فرد اپنی مرضی سے ان مجالس سے باہر نہیں رہ سکتا.سوائے اس کے جو اپنی مرضی سے ہمیں چھوڑ کر الگ ہو جانا چاہتا ہوں.ہر شخص کو حکماً اس تنظیم میں شامل ہونا پڑے گا.اور اس تنظیم کے ذریعہ علاوہ اور کاموں کے اس امر کی بھی نگرانی رکھی بھائے گی کہ کوئی شخص ایسا نہ رہے جو مسجد میں نماز باجماعت پڑھنے کا پابست در نہ ہو سوائے ان زمینداروں کے جنہیں کھیتوں میں کام کرنا پڑتا ہے.یا سوائے ان مزدوروں کے جنہیں کام کے لئے باہر جانا پڑتا ہے.گو ایسے لوگوں کے لئے بھی میرے نزدیک کوئی نہ کوئی ایسا انتظام ضرور ہونا چاہیئے جس کے ماتحت وہ اپنی قریب ترین مسجد میں نماز باجماعت پڑھ سکیں.
۷۳ اس کے ساتھ ہی میں بیرونی جماعتوں کو بھی اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ خدام الاحمدیہ کی مجالس تو اکثر جگہ قائم ہی ہیں.اب انہیں ہر جگہ چالیس سال سے زائد عمر والوں کے لئے مجالس انصار اللہ قائم کرنی چاہئیں.ان مجالس کے وہی قواعد ہوں گے جو قادیان میں مجلس انصارہ اللہ کے قواعد ہوں گے.مگر سردست باہر کی جماعتوں میں داخلہ قرض کے طور پر نہیں ہوگا.بلکہ اُن مجالس میں شامل ہونا ان کی مرضی پر موقوف ہو گا.لیکن جو پریزیڈنٹ یا امیر یا سکرٹری ہیں اُن کے لئے یہ لازمی ہے کہ وہ کسی نہ کسی مجلس میں شامل ہوں.کوئی امیر نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنی عمر کے لحاظ سے انصار الله یا خدام الاحمدیہ کا ممبر نہ ہو.کوئی پریزیڈنٹ نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنی عمر کے لحاظ سے انصار الله یا خدام الاحمدیہ کا ممبر نہ ہو.اور کوئی سکرٹی نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنی عمر کے لحاظ سے انصار الله یا خدام الاحمدیہ کا ممبر نہ ہو.اگر اس کی عمر پندرہ سال سے اوپر اور چائیں سال سے کم ہے تو اس کیلئے خدام الاحمدیہ کا میر ہونا ضروری ہوگا اور اگر وہ چالیس سال سے اوپر ہے تو اس کیلئے ان ائیر ک نمبر ہونا ضروری ہوگا.اس طرح ڈیڑھ سال تک دیکھنے کے بعد خدا نے چاہا تو آہستہ آہستہ باہر بھی ان مجالس میں ال و انداز کر دیا جائیگا کیونکہ احدیت صحابہ کے نقش قدم رہے میں نے جہاد کا مانا جاتا تھا ان کی مرضی کے مالی نہیں لیا جاتا تھا بلکہ کہا جاتا تھا کہ جاؤ کام کرو.مرضی کے مطابق کام کرنے کا میں نے جو موقعہ دیتا تھا وہ قادیان کی جماعت کو میں دے چکا ہوں اور جنہوں نے ثواب حاصل کرنا تھا انہوں نے ثواب حاصل کر لیا ہے.اب پندرہ سے پچالیس سال تک کی عمر والوں کے لئے خدام الاحمدیہ میں شامل ہونا لازمی ہے.اور اس لحاظ سے اب وہ ثواب نہیں رہا جو طوعی طور پر کام کرنے کے نتیجے میں ہو سکتا تھا.بیشک خدمت کا اب بھی ثواب ہو گا لیکن جو طوعی طور پر داخل ہوئے اور وفا کا نمونہ دکھایا وہ سابق بن گئے.البتہ انصار اللہ کی مجلس چونکہ اس شکل میں پہلے قائم نہیں ہوئی اور نہ کسی نے میرے کسی حکم کی خلاف ورزی کی ہے.اس لئے اس میں جو بھی شامل ہوگا اُسے وہی ثواب ہو گا جو طوعی طوبہ پر نیک تحریکات میں شامل ہونے والوں کو ہوتا ہے “ لے الفصل یکم ظہور اگست میشه صفحه ۷-۱۸
مجلس انصار الله اور دوسری مجالس حضر خلیفہ ایسیح الثانی کے پیش نظر مجلس انصاراللہ اور دوکر تنظیموں کے قیام کا مقصد کیا تھا اور حضور کی ان سے کیا توقعات کے بنیادی اغراض و مقاصد وابستہ تھیں؟ اس کی وضاحت خود حضور ہی کے الفاظ میں کیا جانا مناسب ہے.بتصور فرماتے ہیں :- و میں نے انصار الله، خدام الاحمدیہ اور اطفال احمد یہ تین الگ الگ جماعتیں قائم کی ہیں تاکہ نیک کاموں میں ایک دوسرے کی نقلی کا مادہ جماعت میں زیادہ سے زیادہ پیدا ہو.بچتے بچوں کی نقل کریں ، نوجوان نوجوانوں کی نقل کریں اور بوڑھے بوڑھوں کی نقل کریں جب بیچتے اور نوجوان اور بوڑھے سب اپنی اپنی جگہ یہ دیکھیں گے کہ ہمارے ہم عمر دین کے متعلق رغبت رکھتے ہیں.وہ اسلام کی اشاعت کی کوشش کرتے ہیں.وہ اسلامی مسائل کو سیکھنے اور ان کو دنیا میں پھیل آنکھیں مشغول ہیں.وہ نیک کاموں کی بجا آوری میں ایک دوسرے سے بڑھ کر حصہ لیتے ہیں تو اُن کے دلوں میں بھی یہ شوق پیدا ہو گا کہ ہم بھی ان نیک کاموں میں حصہ لیں اور اپنے ہم عمروں سے آگے نکلنے کی کوشش کریں.دوسرے وہ جو نقابت کی وجہ سے عام طور پر دلوں میں غصہ پیدا ہوتا ہے وہ بھی پیدا نہیں ہوگا جب بوڑھا بوڑھے کو نصیحت کرے گا ، نوجوان نوجوان کو نصیحت کرے گا اور بچہ بچے کو نصیحت کرے گا تو کسی کے دل میں یہ خیال پیدا نہیں ہوگا کہ مجھے کوئی ایسا شخص نصیحت کر رہا ہے جو عمر میں مجھ سے چھوٹا یا عمر میں مجھ سے بہت بڑا ہے.وہ سمجھے گا کہ میرا ایک ہم عمر جو میرے جیسے خیالات اور میرے جیسے جذبات اپنے اندر رکھتا ہے مجھے سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے اور اس وجہ سے اس کے دل پر نصیحت کا خاص طور پر اثر ہوگا اور وہ اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہو جائے گا.مگر یہ تغیر اسی صورت میں پیدا ہو سکتا ہے جب جماعت میں یہ نظام پورے طور پر رائج ہو جائے ہماری جماعت کے سپرد یہ کام کیا گیا ہے کہ ہم نے تمام دنیا کی اصلاح کرنی ہے.تمام دنیا کو اللہ تعالیٰ کے آستانہ پر جھکاتا ہے.تمام دنیا کو اسلام اور احمدیت میں داخل کرنا ہے.تمام دنیا میں اللہ تعالیٰ کی بادشاہت کو قائم کرتا ہے.مگر یہ عظیم الشان کام اس وقت تک سرانجام نہیں دیا جا سکتا، جب تک ہماری جماعت کے تمام افراد خواہ بیچتے ہوں یا نوجوان ہوں یا بوڑھے ہوں ، اپنی
اندرونی تنظیم کو مکمل نہیں کر لیتے اور اس لائحہ عمل کے مطابق دن اور رات عمل نہیں کرتے.جو ان کے لئے تجویز کیا گیا ہے....جب ہم تمام جماعت کے افراد کو ایک نظام میں منسلک کر لیں گے تو اس کے بعد ہم بیرونی دنیا کی اصلاح کی طرف کامل طور پر توجہ کر سکیں گے اس اندرونی اصلاح اور تنظیم کو مکمل کرنے کے لئے میں نے خدام الاحمدیہ ، انصار اللہ اور اطفال احمدیہ تین جماعتیں قائم کی ہیں اور یہ تینوں اپنے اس مقصد میں جو اُن کے قیام کا اصل باعث ہے اسی وقت کامیاب ہو سکتی ہیں جب انصار الله ، خدام الاحمدیہ اور اطفال احمد یہ اس اصل کو اپنے مد نظر رکھیں جو حَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَئی میں بیان کیا گیا ہے.کہ ہر شخص اپنے فرض کو سمجھے اور پھر رات اور دن اس فرض کی ادائیگی میں اس طرح مصروف ہو جائے جس طرح ایک پاگل اور مجنون تمام اطرافت سے اپنی توجہ کو ہٹا کر صرف ایک بات کے لئے اپنے تمام اوقات کو صرف کر دیتا ہے.جب تک رات اور دن انصار اللہ اپنے کام میں نہیں لگے رہتے جب تک رات اور دن خدام الاحمدیہ اپنے کام میں نہیں لگے رہتے جب تک ، رات اور دین اطفال الاحمدیہ اپنے کام میں نہیں لگے رہتے اور اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لئے تمام اوقات کو صرف نہیں کر دیتے اس وقت تک ہم پنی اندرونی تنظیم مکمل نہیں کر سکتے اور جب تک ہم اپنی اندرونی تنظیم کو مل نہیں کر لیتے اس وقت تک ہم بیرونی دنیا کی اصلاح اور اس کی خرابیوں کے ازالہ کی طرف بھی پوری طرح توجہ نہیں کر سکتے " سے سلسلہ کے رُوحانی بقاء کے لئے میں نے خدام الاحمدیہ ، انصار الله اور لجنہ اماءاللہ کی تحر یا تات جارہی کی ہوئی ہیں اور یہ تینوں نہایت ضروری ہیں.....ان تحریکات کو معمولی نہ سمجھیں.اس زمانہ میں ایسے حالات پیدا ہو چکے ہیں کہ یہ بہت ضروری ہیں.پرانے زمانہ میں اور بات تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں آپ کی ٹریننگ سے ہزاروں استاد پیدا ہو گئے تھے جو خود بخود دوسروں کو دین سکھاتے تھے اور دوسرے شوق سے سیکھتے تھے.مگر اب حالات ایسے ہیں کہ جب تک دو دو تین تین آدمیوں کی علیحدہ علیحدہ نگرانی کا انتظام نہ کیا جائے کام نہیں ہو سکتا.ہمیں اپنے اندر ایسی خوبیاں پیدا کرنی چاہئیں کہ دوسرے ان کا اقرار کرنے پر مجبور ہوں الفضل استاد ایران $190
24 اور پھر تعداد بھی بڑھانی چاہیے.اگر گلاب کا ایک ہی پھول ہو اور وہ دوسرا پیدا نہ کر سکے تو اس کی خوبصورتی سے دنیا کو کوئی قائدہ نہیں پہنچ سکتا.فتح تو آئیندہ زمانہ میں ہونی ہے اور معلوم نہیں کب ہو.لیکن نہیں کم سے کم اتنا تو اطمینان ہو جانا چاہئیے کہ ہم نے اپنے آپ کو ایسی خوبصورتی کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کر دیا ہے کہ دنیا احمدیت کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتی.احمدیت کو دنیا میں پھیلا دیتا ہمارے اختیار کی بات نہیں لیکن ہم اپنی زندگیوں کا نقشہ ایسا خوبصورت بنا سکتے ہیں کہ دنیا کے لوگ بظاہر اس کا اقرار کریں یا نہ کریں مگر ان کے دل احمدیت کی خوبی کے معتر ہو جائیں اور اس کے لئے جماعت کے سب طبقات کی تنظیم نہایت ضروری ہے ؟" لے ایک اور موقعہ پر فرمایا :- عوام سست ہوں تو حکام ان پر نگرانی کے لئے موجود ہوتے ہیں اور حکام سست ہوں تو عوام ان پر نگرانی کے لئے موجود ہوتے ہیں.اسی نکتہ کو مدنظر رکھ کر میں نے جماعت میں مدام تعلق اور انصار اللہ دو الگ الگ جمائتین، قائم کیں کیونکہ میں سمجھتا ہوں ایسا ہو سکتا ہے کہ کبھی "حکومت" کے افراد شست ہو جائیں اور ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ کبھی عوام شست ہو بھائیں.عوام کی غفلت اور اُن کی نیند کو دور کرنے کے لئے جماعت میں ناظر وغیرہ موجود تھے.مگر چونکہ ایسا بھی ہو سکتا تھا کہ کبھی ناظر سُست ہو جائیں اور وہ اپنے فرائض کو کما حقہ ادا نہ کریں.اس لئے اُن کی بیداری کے لئے بھی کوئی نہ کوئی جماعتی نظام ہونا چاہیے تھا جو اُن کی غفلت کو دور کرتا اور اس غفلت کا بدل جماعت کو مہیا کرنے والا ہوتا.چنانچہ خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ اور لجنہ اماءاللہ اسی نظام کی دو کڑیاں ہیں اور ان کو اسی لئے قائم کیا گیا ہے تاکہ وہ نظام کو بیدار رکھنے کا باعث ہوں میں سمجھتا ہوں اگر عوام اور حکام دونوں اپنے اپنے فرائض کو سمجھیں تو جماعتی ترقی کے لئے خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ ایک نہایت ہی تنقید اور نوشکن لائحہ عمل ہوگا.اگر ایک طرف نظارتیں جو نظام کی قائم مقام نہیں، عوام کو بیدار کرتی رہیں اور دوسری طرف خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ اور لجنہ اماءاللہ جو عوام کے قائمقام نہیں نظام کو بیدار کرتے رہیں تو کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ کسی وقت جماعت کلی طور پر گر جائے اور اس کا قدیم ترقی کی طرف اُٹھنے سے رک جائے.جب بھی ایک غافل ہو گا دوسرا اُسے جگانے کے لئے تیار ہو گا.جب بھی ایک سست ہوگا.ا دوسرا اُسے ہوشیار کرنے کے لئے آگے نکل آئے گا کیونکہ کے بعض کے دن ۱۳۲۴ پیش صفحه ۲ کام ۲۰ نفر حضرت مصلح موعود بر موقعه جات را نه ۱۳۷۱ مش - ارچ ۶۱۹۴۰
66 وہ دونوں ایک ایک حصہ کے نمائندہ ہیں.لے نیز فرمایا :- " انصاراللہ کا وجود اپنی جگہ نہایت ضروری ہے.کیونکہ تجربہ جو قیمت رکھتا ہے وہ اپنی ذات میں بہت اہم ہوتی ہے.اسی طرح امنگ اور ہوش ہو قیمت رکھتا ہے وہ اپنی ذات میں بہت اہم ہوتی ہے.تعدام الاحمدیہ نمائندے ہیں جوش اور امنگ کے، اور انصار اللہ نمائیندے ہیں تجربہ اور حکمت کے، اور جوش اور امنگ اور تجربہ اور حکمت کے بغیر کبھی کوئی قوم کا میاب نہیں ہو سکتی “ ہے اسی سلسلہ میں یہ بھی ارشاد فرمایا :- میری عرض انصار اللہ اور غدام الاحمدیہ کی تنظیم سے یہ ہے کہ عمارت کی چاروں دیواروں کو میں مکمل کر دوں.ایک دیوار انصار اللہ ہیں، دوسری دیوانہ خدام الاحمدیہ ہیں اور تعمیری دیوار اطفال الاحمر ہیں اور چوتھی دیوار بجنات اما ء اللہ ہیں.اگر یہ چاروں دیواریں ایک دوسری سے علی وہ علیحدہ ہو جائیں بیر لازمی بات ہے کہ کوئی عمارت کھڑی نہیں ہو سکے گی.عمارت اس وقت مکمل ہوتی ہے جب اس کی چاروں دیواریں آپس میں جڑی ہوئی ہوں.اگر علیحدہ علیحدہ ہوں تو وہ چار دیواریں ایک دیوار جتنی قیمت بھی نہیں رکھتیں.کیونکہ اگر ایک دیوار ہو تو اس کے ساتھ ستون کھڑے کر کے چھت ڈالی سیا سکتی ہے لیکن اگر ہوں تو چاروں دیواریں، لیکن بھاروں علیحدہ علیحدہ کھڑی ہوں تو ان پر چھت نہیں ڈالی جا سکے گی.اور اگر اپنی حماقت کی وجہ سے کوئی شخص چھت ڈالے گا تو وہ گر جائے گی.کیونکہ کوئی دیوار کسی طرف ہوگی اور کوئی دیوار کسی طرف.ایسی حالت میں ایک دیوار کا ہونا زیادہ مفید ہوتا ہے بجائے اس کے کہ چار دیواریں ہوں اور چاروں علیحدہ علیحدہ ہوں.پس خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ دونوں کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ انہیں اپنے آپ کو تفرقہ اور شقاق کا موجب نہیں بنانا چاہیئے.اگر کسی حصہ میں شقاق پیدا ہوا تو مفدا تعالیٰ کے سامنے تو وہ جوابدہ ہوں گے ہی میرے سامنے بھی جوابدہ ہوں گے یا جو بھی امام ہوگا اس کے سامنے انہیں جوابدہ ہونا پڑے گا.کیونکہ ہم نے یہ مواقع ثواب حاصل کرنے کے لئے مہیا کئے ہیں اس لئے نہیں نہیں کئے کہ بابات "الفضل" کا ثبوت / تو بر ۱۳۲۲ میشه صفحه ۳ کالم ۳ - ۴ : ۱۳٢٤٤ ریشه صفحه الفضل» ۳۰ و فا/ جولائی یہ مفید ۳ کالم ۴ * وفا
کو جو طاقت پہلے سے حاصل ہے اس کو بھی ضائع کر دیا جائے " اے انصار الله کی حیثیت جماعتی نظام میں کیا ہے ؟ اس کی وصیات انصار اللہ کی حیثیت جماعتی نظام میں بھی حضرت خلیفہ المسیح الثانی رض نے مجلس کی بنیاد کے زمانہ میں فرما دی تھی.چنانچہ فرمایا :- انتصار اللہ کو تنظیم کے لحاظ سے علیحدہ ہیں مگر بہر حال وہ لوکل انجمن کا ایک حصہ ہیں.ان کو بھی کوئی پریذیڈنٹ بحیثیت جماعت حکم نہیں دے سکتا.ہاں فردا فردا وہ انصار اللہ کے ہر ممبر کو اپنی مدد کے لئے بلا سکتا ہے اور انصار اللہ کا فرض ہے کہ وہ لوکل انجمن کے ہر پریذیڈنٹ کے ساتھ پورے طور پر تعاون کریں.بہر حال کوئی پریذیڈنٹ انصار اللہ کو بحیثیت انصار الله یا خدام الاحمدیہ کو بحیثیت خدام الاحمدیہ کسی کام کا حکم نہیں دے سکتا.وہ یہ تو کہہ سکتا ہے کہ چونکہ تم احمدی ہو اس لئے آؤ ، اور فلاں کام کرو.مگر وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ آؤ انصاریہ کام کر دیا آؤ غلام یہ کام کرو.خدام کو قدام کا زعیم مخاطب کر سکتا ہے اور انصار کو انصار کا تعیم مخاطب کر سکتا ہے.مگر چونکہ لوکل انجمن ان دونوں پر مشتمل ہوتی ہے.انصار بھی اس میں شامل ہوتے ہیں اور خدام بھی اس میں شامل ہوتے ہیں اس لئے گو وہ بحیثیت جماعت خدام اور انصار کو کوئی حکم نہ دے سکے مگر وہ ہر تقادم اور انصار اللہ کے ہر ممبر کو ایک احمدی کی حیثیت سے بلا سکتا ہے اور خدام اور انصار دونوں کا فرض ہے کہ وہ اس کے احکام کی تعمیل کریں ؟ ہے مجلس انصار اللہ کا پہلا دور حضرت خلیفہ ایسیح الثانین کی ہدایات و ارشادات کی روشنی میں ملیں وف ۱۳۱۹ ش م فتح ۱۳۲۱ مش انصار اللہ کی تنظیم قائم کرنے اور اس کے لئے ابتدائی طریق کار تجویز کرتے اور ڈھانچہ بنانے کے لئے ۲۷ وفا جولائی میش کو مسجد مبارک جولائی ۶۱۹۴۰ اماند قادیان میں صبح ساڑھے نو بجے ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں حضرت مولوی شیر علی صاحے ، آپ کے تینوں سکوری درست مولوی عبدالرحیم صاحب درد ، حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیال اور تخانصاحب مولوی فرزند علی همان شامل ہوئے اور حسب ذیل فیصلے کئے گئے :- له الفضل وفا جولائی مش صفحه ۵ کالم ۲۰۱." " A صفحہ ۴ کالم ۴ +
24 ا.قادیان کے انصار کی مردم شماری اور تجنید کے لئے دو ہزار فارم چھپوا لیا جائے.فارم کا نمونہ حسب ذیل منظور کیا گیا :- نمبر شمار - نام - ولدیت - عمر تعلیم تربیت پیتر - تاریخ (حاشیہ) سابق سکونت - تاریخ ہجرت ( اُن لوگوں کی جو نالہ کے بعد قادیان آئے) -- قادیان کو تین حلقوں میں تقسیم کر کے ان کی نگرانی کا کام مندرجہ ذیل طریق سے تینوں سکرٹریوں کے سپرد کیا گیا :- نام ر حلقہ حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیال دار السعر مع کھارا ، دار البرکات مع بھینی دارالانوار مع قادر آباد حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب درد مسجد مبارک ، مسجد اقصی ، مسجد فضل مع دار الصحت ، ناصر آباد مع ننگل حضرت خانصاحب مولوی فرزند علی صاحب دار الرحمت ، دارلعلوم مع احمد آباد ، دار الفضل دار الفتوح اخفاء / اکتوبر یہ مہش کو بعض مشکلات کی وجہ کھارا ، بھینی اور نگل کے احباب انصار اللہ کی +190 ہدایات کی پابندیوں سے ایک سال کے لئے مستشنیٰ کر دیئے گئے تھے) له اس اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ ہر حلقہ میں سکر ریان اپنے معاون خود مقرر کر لیں گے لے اس پہلے اجلاس کے بعد قادیان کے محلوں میں انصار اللہ کی تنظیم کا عملی دور شروع ہو گیا.۱۲ ظہور / اگست ریش کو فیصلہ کیا گیا کہ ہر عملہ میں انصار اللہ کے دس دس افراد کے گروپ بنائے جائیں اور ہر ایک گروپ کا ایک ایک لیڈر ہو.اسی دن کے اجلاس میں شرح چندہ کم از کم ایک آنہ ماہوار رکھی گئی اور قرار پایا کہ جو موت ایک آنہ مار ہوار بھی نہ دے سکیں اُن کو تخفیف یا معافی دینا سکوٹری حلقہ کے اختیار میں ہوگا.*190 چندہ کی فراہمی کا کام ماہ اضاد اکتو برای پیش سے شروع ہوا.اور اس کے ساتھ ہی انجمن انصار الله ۶۱۹۴۰ کے نام سے ختہ انہ صدر انجمین احمدیہ میں امانت کا حساب کھولا گیا.جس کا لین دین صدر مجلس انصاراللہ کے نه ریکارڈ مجلس انصارالله : +
۸۰ ستخطوں سے ہوتا تھا چندہ کی ایک ایک آنہ کی رسیدیں دینے کی بجائے اس کے ریکارڈ کا یہ محتاط طریق اختیار کیا گیا کہ جو چندہ جمع کیا جاتا وہ فورا چندہ دینے والے کے سامنے اور اسے دکھلا کر رجسٹر میں درج کر دیا جاتا اور وصول شدہ چندہ کی ایک فہرست ہر محلہ کی مسجد میں کسی کی زیر نگرانی نمازوں کے وقت آویزاں کر دی جاتی.ماہ نبوت نومبرا پیش میں مجلس انصار اللہ کی تنظیم کو مضبوط تر بنانے کے لئے ہر محلہ میں حلقہ کے سکڑی کے تحت ایک زعیم مقرر کیا گیا جوسوڑی حلقہ کے سامنے ہر قسم کے کام کی نگرانی کا ذمہ دار تھا اور سیکرٹری حلقہ کو اختیار دیا گیا کہ وہ اپنی مرضی سے مندرجہ ذیل کچھ عہد یدار بطور معاون اپنے حلقہ میں سے چن لے :- جنرل سیکر ٹری ، ناظم مال ، ناظم تربیت ، ناظم تعلیم ، ناظم تبلیغ ، ناظم امور دنیا انصار اللہ کے اولین فرائض حضرت خلیفہ ہی ان من الالہ کے وہ شروع میں پاک ام لگائے :- تبلیغ کرنا ۲- قرآن شریف پڑھانا ۳ شرائع کی حکمتیں بتانا.اچھی - تربیت کرنا.قوم کی دنیوی کمزوریوں کو دور کر کے اسے ترقی کے میدان میں بڑھانا پہلے سال قادیان کے علاوہ حین بیرونی مقامات پر انصار الله بیرونی مقامات کی ابتدائی مجالس کی مجالس کا قیام مل میں آیا ان کے نام یہ ہیں.کلکتہ - بریمن بریہ (بنگال) - گوجه (ضلع لائل پور) - چک سکندر (ضلع گجرات) - زنگون در گانوالی، پنڈال ، چھا گو بیٹے ، بھاگو دال ، کوٹ کریم بخش (ضلع سیالکوٹ) - کیرنگ (ضلع پوری اڑیسہ) کراچی - مالیر کوٹلہ - عالم گڑھ ضلع گجرات) - لاہور - شاه مسکین (ضلع شیخوپور) شاہدرہ (لاہور) - داتا زید کا (ضلع سیالکوٹ ) کوئٹہ.کوٹ رحمت خاں (ضلع شیخوپورہ) کپور تھلہ جہلم - فیروز پور - لالہ موسی - چک 4 شمالی ( سرگودہا).چوہد ریوالہ رکھ ضلع لائل پور) مٹھیا نہ ضلع ہوشیار پور) - لکھنو - گجرات - بہادر کوٹ (ڈاکخانہ کو ہاٹ).لاچی بالا (ضلع کو ہاٹ.گورداسپور - مجاور (وسطی ہند ) - محمد آباد ٹاہلی (سندھ) گولیکی (ضلع گجرات) بمبئی.مردان (صوبہ سرحد) - کولابہ (بمبئی) - سکندر آباد - بالا کوٹ (ہزارہ ) - بانکی پور (پٹنہ) - نوشہرہ کے زنیاں (پسرور ) - چار کوٹ (ریاست همون ) چک (ضلع لائلپور) طع النقل و شهادت ۱۳۷۰ ش من له الفضل ۲۰ اه سال ۶۱۹۴۱ سب
M چنیل پور (سی پی ).چاہ ڈیڈی (ضلع سمرا ) - لودھراں (ضلع ملتان) - چاه قادر نہ موضع بھی اللہ مجلس انصار اللہ نے اپنے قیام کے ابتدائی دو ڈھائی سال خدام الاحمدیہ کے مختلف جماعتی کاموں مثلاً ہفتہ تعلیم و تلقین، وقاد عمل اور امتحان کتب مسیح موعود میں اشتراک عمل کی طرف خاص توجہ دی مگر خدام الاحمر کے مقابل اس کی تنظیمی سرگرمیوں کی رفتار نہایت غیر تسلی بخش اور سست رہی.چنانچہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے سالانہ مجلہ پیش کے موقعہ پر ارشاد فرمایا :- ۱۳۲۱ :- " مجھے افسوس ہے کہ احباب جماعت نے تاحال انصار اللہ کی تنظیم میں وہ کوشش نہیں کی جو کرنی پہنچے تھی.اس کی ایک وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ اس کا ابھی کوئی دفتر و غیرہ بھی نہیں.مگر دفتر قائم کرنا کس کا کام تھا بے شک اس کے لئے سرمایہ کی ضرورت تھی.نگر سرمایہ مہیا کرنے سے انہیں کس نے روکا تھا شاید وہ کہیں کہ خدام الاحمدیہ کو تحریک جدید سے مدد دی گئی ہے.مگر ان کی مدد سے ہم نے کب انکار کیا.ان کو بھی چاہئے تھا کہ دفتر بناتے اور چندہ جمع کرتے.اب بھی انہیں بچاہیئے کہ دفتر بنائیں کلارک وغیرہ رکھیں.بخط و کتابت کریں.ساری جماعتوں میں تحریک کر کے انصار اللہ کی مجالس قائم کریں اور چالیس سال سے زیادہ عمر کے سب دوستوں کی تنظیم کریں" سے مجلس انصار اللہ کا دوسرا دور ہ ہمیش سے مجلس انصاراللہ کی تحریک دوسرے دور میں داخل ہوئی جبکہ با قاعده مرکزی دفتر قائم ہوا.مقامی سکرٹریوں کو مستقل شعبے سپرد کئے گئے.سالانہ بجٹ تجویز ہوا.دستور اساسی مرتب کیا گیا.مرکزی قائدین کا تقر عمل میں لایا گیا.مجلس کے آنریری انسپکٹر ، آڈیٹر اور نمائیندگان مشاورت منتخب کئے گئے.سالانہ اجتماعات کا آغاز ہوا.اور انصار اللہ کے ارکان قادیانی اور بیرونی مقامات پر تبلیغی سرگرمیوں کی طرف پہلے سے زیادہ توجہ دینے لگے.مرکزی دفتر کا قیام اب تک مجلس الا اللہ کوئی مرکزی در نہیں تھا.صدر میں حضرت مولنا شرلی صاحب اور دوسرے تین مرکزی عہدیدار جو مرکزی سیکر ٹری کہلاتے تھے ، مسجد مبارک میں جمع ہوتے اور مجلس کی تنظیم اور دوسرے امور کے بارہ میں باہمی مشورہ کرتے اور کاروائی باقاعدہ ایک رجسر میں محفوظ کرلی جاتی.دفتری نوعیت کے کام مجلس کے آزیری کارکن شیخ عبدالرحیم صاحب شر ما د نومسلم سابق کش اعل) الفضل ۲ شهادت / اپریل ۳۳ مش صفحه 4 1991 Irte الفضل حكم امان / مارح مش صفحه ۲ کالم ۲ : یہ رجسٹر اب تک مجلس انصار الله م کر یہ ربوہ کے ریکارڈ میں موجود ہے.
AN انجام دیا کرتے تھے.لیکن صلح جنوری یہ مہش سے مجلس کا مرکزی دفتر فی الحال گیسٹ ہاؤس دارالا نوار کے ایک مغربی کمرہ میں قائم کیا گیا اور ساتھ ہی ایک کلرک کی اسامی ہمیں روپیہ مشاہرہ پر منظور کی گئی جس پر شیخ عبدالرحیم حصت تو مسلم شہر کا ہی مقرر کئے گئے بلے " ابتدائی تین سالوں میں دفتر مرکز یہ انصاراللہ کے لئے اپنا کوئی سامان فرنیچر وغیرہ نہیں تھا." مجلس تعلیم اور ترجمۃ القرآن کے دفتر کا فرنیچر مستعار لے کیا استعمال کیا جاتا تھا.لیکن ہر ہجرت مٹی یہ مہش کو ایک درمیانی نیز، چار کرسیاں اور ایک پنچ خریدنے کے لئے مبلغ ساٹھ روپیہ کی منظوری دی گئی.اسی روز فیصلہ ہوا کہ مرکزی دفتر گیسٹ ہاؤس سے شہر میں منتقل کر دیا جائے.۲۰ فتح / دسمبر ۳۳ میش کو قرار پایا کہ مجلس مرکزیہ کا مستقل دفتر تعمیر کیا جائے اور اخراجات کے لئے پندرہ ہزار روپیہ کا تخمینہ لگایا گیا.تعمیر دفتر کے علاوہ نشر و اشاعت کی مضبوطی کا فیصلہ بھی کیا گیا.ان ہر دو کاموں کے لئے معلی انصار اللہ مرکزیہ نے قائد مال ر حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کو عطیات کی ذرائی کا اختیار دیا گیا.چنا پر سالانہ اجتماع ۱۳۲۳ میں پر اس چندہ کی تحریک کی گئی.نیز ایک سب کمیٹی بھی مقرر کی گئی جس کے صدر ماسٹر خیر الدین صاحب (نائب ناظر تعلیم و تربیت سگرٹی منشی محمد الدین صاحب مختار عام ، نائب سیکرٹری مولوی غلط محمد صاحب ہیڈ کلرک دفتر بہشتی مقبرہ اور ممبر باب فضل دین صاحب ریڈر ہائیکورٹ اور بابو قاسم دین صاحب گورداسپور تھے.۱۳۳۴ ہمیشہ میں سہر دو مدات میں صرف ۱۴۷۶ روپے وصول ہو سکے.ان دنوں مجلس کی مالی حالت نہایت درجہ مخدوش تھی، بجس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہمیش میں مجلس کو چندہ کی آمد صرف مبلغ آٹھ د یو روپے ایک آنہ چھ پائی ہوئی سکھے ابتدا میں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی مین کے ارشاد بلکہ نامزدگی پر مرکزی سیکرٹریوں کو شعبوں کی تفویضی مجلس انصار اللہ کے تین مرکزی سکریٹری مقرر تھے جن کے سپرد لے حضرت شیخ صاحب کا اصل وطن قصبہ نوریاست پٹیالہ تھا.پیدائش ء میں ہوئی.وسط شام میں حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے دست مبارک پر بیعیت کا شرف حاصل کیا.۲۶ دسمبر نشانہ کو مستقل طور پر اجرت کر کے قادیان آگئے.مولوی عبد الکریم صاحب شر کا مبلغ مشرقی افریقہ آپ ہی کے مخلف الرشید ہیں." اصحاب احمد جلد دہم صفحه ۷۱ تا ۶۹ مرتبہ ملک صلاح الدین صاحب ایم اے) ہیں آپ کے خود نوشت حالات شائع شدہ نہیں ؟ له الفضل در صلح جنوری همایش صفحه ۵ کالم " الفضل".+
قادیان کے کئی کئی محلے تھے جن کو مجموعی طور پر ہر ایک شعبہ (مثلا تبلیغ تعلیم و تربیت اور چندوں کی فراہمی وغیرہ کے کام اپنے اپنے حلقوں میں کرنے پڑتے تھے.مگر اصلح / جنوری ۳۳ میش کی سابقہ انتظام بدل دیا گیا اور اس کی بجائے مرکزی سکریٹریوں کو علیحدہ علیحدہ شعبے تقسیم کر دیئے گئے چنانچہ اس نئی تقسیم کے مطابق :- ای حضرت خال تنام و او می فرزند علی صاحب مہتم مال اور مہم تعلیم و تربیت مقرر کئے گئے.حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد کو جنرل سکریڑی کا فریضہ سپرد ہوا.آپ صدر مجلس کی نگرانی میں مرکزی دفتر کے انچارج بھی تھے اور بیرونی مجالس کا کام بھی آپ کے ماتحت تھا.شعبہ تبلیغ کے مہتم حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیال قرار پائے کے قادیان میں انصار اللہ اگر چہ انصار اللہ کے والنٹیر پہلے دور میں بھی شعبہ مقامی تبلیغ صدر انجمن احمر کی ہدایت پر بیرونی مقامات پر جاتے تھے اور تبلیغی خدمات انجام دیتے تھے.کی تبلیغی جد و جہد یار منظم رنگ میں اس کا نان در تبلیغی فروری میں کو ہوا اس دی گر ۲۱۱۹۴۳.تبالیقی اغراض کے لئے قادیان کو آٹھ حلقوں میں تقسیم کر دیا گیا کہ ان میں سے دو حلقوں کی دوکانیں پر جرات کو دور جعفر کو نماز جمعہ کے اختتام تک بند رہا کریں گی اور دوکاندار ہر جمعرات کو تبلیغ کے لئے باہر چلے جائیں گے اور جمعرات اور جمعہ کی درمیانی رات باہر گزار کر جمعہ کی نمازہ قادیان آکر ادا کریں گے بلکہ ا فیصلہ کے بعد انصار ایک تنظیم کے ساتھ قادیان کے گرد و نواح میں تشریف لے جاتے اور پیغام حق پہنچاتے تھے.بعد کو قادیان کے علاوہ بیرونی مجالس میں بھی تبلیغی وفود بھجوائے جانے لگے بین کی رپورٹیں اس زمانہ کے الفضل " میں شائع شدہ موجود ہیں.قادیان میں مجلس انصار اللہ کے اقبل ازیں مجلس انصاراللہ کے کام سے متعارف کرانے کے لئے محلوں میں کوئی جلسے نہ ہوتے تھے.نتیجہ یہ تھا کہ اکثر لوگ اس اہم اجلاسوں کی ابتداء تقریب سے بھی پوری طرح واقف نہیں تھے اور اس امر کی سخت ۶۱۹۲۳ ضرورت تھی کہ مجلس کے لئے محلہ وار اجلاس کا سلسلہ شروع کیا جائے.چنانچہ از امان / ماری مری کو فیصلہ کیا گیا کہ تمام انصار اللہ قادیان کا ایک ایک ماہ کے وقفہ کے بعد باری باری اجلاس منعقد ہوا کرے اه ایکارد مجلس النصار الله مرکزیده " رہ بد قادیان کے ماحول میں انصار اللہ کی تبلیغی مساعی کی رپورٹیں الفضل ا اور سایت " " میں ملتی ہیں.
جس میں انصار اللہ کو ان کے کام کی اہمیت سے واقف کرایا بھائے اور کام کرنے کا شوق دلا کر بیداری پیدا کی بجائے انصار اللہ کی تحریک کو زیادہ سے زیادہ روشناس کرانے کے لئے زعماء انصار اللہ کو یہ بھی ہدایت دی گئی کہ وہ ان مرکزی اجلاسوں کے علاوہ اپنے محلوں میں بھی اجلاس کیا کریں زعماء انصار اللہ اور گروپ | مجلس کی طرف سے تربیتی اجلاس کے آغاز کے ساتھ ہی یہ لازم قرار دے لیڈروں کے مشاورتی اجلاس مدیاگیا کہ قادین کے ملوں کے جملہ زعما انتصار اور گروپ لیڈروں کا بھی احوال کی مناسب تجاویز سوچیں.ماہوار اجلاس ہوا کرے جن میں پیش آمدہ مشکلات پر غور کر کے اصلاح حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا حضرت ایت ایسی ان ان دور نادر اکتبر سپاہیوں کے خلیا سیار اللہ کے متعلق مجمعہ میں انصارالہ کے فرائض اور ذمہ داریوں کی طرف خاص طور پر انصار توجہ دلائی اور مجلس کی بیداری اور تنظیم کی کامیابی کے لئے بعض نہایت سنہری اصول پیش فرمائے.چنانچہ فرمایا :- میرا مقصد ان جماعتوں کے قیام سے ہر فرد کے اندر ایک بیداری پیدا کرنا تھا نگی...متینی بیداری تخدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کے ذریعہ جماعت میں پیدا ہوئی ہے وہ ہر گنہ کافی نہیں بلکہ کافی کا ہزار سود حصہ بھی نہیں.ضرورت اس بات کی ہے کہ انصار اللہ خصوصیت کے ساتھ اپنے کام کی عمدگی سے نگرانی کریں تاکہ ہر جگہ اور ہر مقام پر ان کا کام نمایاں ہو کہ لوگوں کے سامنے آجائے اور وہ محسوس کرنے لگ جائیں کہ یہ ایک زندہ اور کام کرنے والی جماعت ہے.مگر میں سمجھتا ہوں کہ جونک انصار الله اپنی ترقی کے لئے صحیح طریق اختیار نہیں کریں گے اس وقت تک انہیں اپنے مقصد میں کامیابی حاصل نہیں ہوگی.مثلاً میں نے انہیں توجہ دلائی تھی کہ وہ اپنے کام کی توسیع کے لئے روپیہ جمع کریں اور اُسنے مناسب اور ضروری کاموں پر خرچ کریں.مگر میری اس ہدایت کی طرف انہوں نے کوئی توجہ نہیں کی.اب میں دوسری بات انہیں یہ کہنا چاہتا ہوں کو غالباً میں ایک دفعہ پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ اگر انہیں مالی مشکلات ہوں تو سلسلہ کی طرف سے کسی حد تک انہیں مالی مدد بھی دی جا سکتی ہے مگر پہر حال پہلے انہیں خود عملی قدم اُٹھانا چاہیے اور روپیہ خرچ کر کے اپنے کام کی توسیع کرنی چاہیے یکن سمجھتا ہوں.بڑی عمر کے لوگوں کو ضرور یہ احساس اپنے اندر پیدا کرنا چاہیئے کہ وہ شباب کی عمرمیں
۸۵ سے گزر کر اب ایک ایسے حصہ عمر میں سے گزر رہے ہیں جس میں دماغ تو سوچنے کے لئے موجود ہوتا ہے مگر زیادہ عمر گزرنے کے بعد ہاتھ پاؤں محنت ومشقت کے کام کرنے کے قابل نہیں رہتے اس وجہ سے ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے کاموں کے سر انجام دینے کیلئے کچھ نوجوان سیکرٹری راہیں سال کے اوپر کے مگر زیادہ عمر کے نہ ہوں) مقرر کریں جن کے ہاتھ پاؤں میں طاقت ہو.اور وہ دوڑنے بھاگنے کا کام آسانی سے کر سکیں.تاکہ ان کے کاموں میں سستی اور غفلت کے آثار پیدا نہ ۵۵ ہوں.میں سمجھتا ہوں اگر وہ چالیس سال سے پیشن سال کی عمر تک کے لوگوں پر نظر دوڑاتے تو انہیں ضرور اس عمر کے لوگوں میں سے ایسے لوگ مل جاتے جن کے ہاتھ پاؤں بھی ویسے ہی چلتے جیسے اُن کے دماغ پھلتے ہیں.مگر انہوں نے اس طرف توجہ نہ کی اور صرف انہی کو سکوٹری مقرر کہ دیا جن کا نام میں نے ایک دفعہ لیا تھا..حالانکہ میں نے وہ نام اس لئے لئے تھے کہ میرے نزدیک وہ اچھا دماغ رکھنے والے تھے.ان کی رائے صائب اور سکبھی ہوئی تھی اور وہ مفید مشورہ دینے کی اہلیت رکھتے تھے.اس لئے نام نہیں لئے تھے کہ ان میں کام کرنے کی ہمت اور قوت بھی نوجوانوں والی موجود ہے اور وہ دوڑ بھاگ بھی کر سکتے ہیں.ان کا کام صرف نگرانی کرنا تھا اور ضروری تھا کہ ان کے ماتحت ایسے نوجوان لگائے جاتے جو دوڑنے بھاگنے کا کام کر سکتے.اب بھی اگر وہ اچھا کام کرنا چاہتے ہیں تو انہیں سابق سکرٹریوں کے ساتھ بعض نوجوان مقرر کر دینے چاہئیں.چاہیے نائب سیکرٹری بنا کہ یا جائنٹ سکریٹری بنا کر تا کہ انصار اللہ میں بیداری پیدا ہو اور ان پر غفلت اور جمود کی جو حالت طاری ہو چکی ہے وہ دُور ہو جائے.ورنہ یا درکھیں عمر کا تقاضا ایک قدرتی چیز میں سمجھتا ہوں انصار اللہ پر بہت بڑی ذمہ داری ہے.وہ اپنی عمر کے آخر می حصہ میں سے گزر رہے ہیں.اور یہ آخری حصہ وہ ہوتا ہے جب انسان دنیا کو چھوڑ کر اگلے جہان جانے کی فکر میں ہوتا ہے اور جب کوئی انسان اگلے جہان جا رہا ہو تو اس وقت اسے اپنے حساب کی صفائی کا بہت زیادہ خیال ہوتا ہے اور وہ ڈرتا ہے کہ کہیں وہ ایسی حالت میں اس دنیا سے کوچ نہ کر جائے کہ اس کا حساب گندہ ہو.اس کے اعمال خراب ہوں اور اس کے پاس وہ زادِ راہ نہ ہو جو اگلے جہان میں کام آنے والا ہے جب احمدیت کی غرض یہی ہے کہ بندے اور خدا کا تعلق دوست ہو جائے تو ایسی عمر میں اور عمر کے ایسے حصہ میں اس کا جنس قدر احساس ایک مومن کو ہونا چاہیے وہ ہے
Aч کسی شخص سے مخفی نہیں ہو سکتا.نوجوان تو خیال بھی کر سکتے ہیں کہ اگر ہم سے خدمت خلق میں کوتاہی ہوئی تو اتصال اللہ اس کام کو ٹھیک کر لیں گے مگر انصاراللہ کس پر انحصار کر سکتے ہیں، وہ اگر اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی سے کام لیں گے اور اگر دین کی محبت اپنے نفوس میں اور پھر تمام دنیا کے قلوب میں پیدا کرنے میں کامیاب نہ ہوں گے.وہ اگر احمدیت کی اشاعت کو اپنا اولین مقصد قرار نہ دیں گے اور وہ اگر اس حقیقت سے اغماض کر لیں گے کہ انہوں نے اسلام کو دنیا میں پھر زندہ کرنا ہے.تو انصار اللہ کی عمر کے بعد اور کونسی عمر ہے جس میں وہ یہ کام کرینگے.انصار الله کی عمر کے بعد تو پھر ملک الموت کا زمانہ ہے.اور ملک الموت اصلاح کے لئے نہیں آتا بلکہ وہ اس مقام پر کھڑا کرنے کے لئے آتا ہے جب کوئی انسان سزا یا انعام کا مستحق ہو جاتا ہے.پس میں ایک دفعہ پھر انصار اللہ کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے فرائض کو سمجھیں ایک دفعہ پہلے بھی میں نے انہیں کہا کہ وہ بھی مقدام الاحمدیہ کی طرح سال میں ایک دفعہ خاص طور پر لوگوں کو باہر سے بلوایا کریں تاکہ ان کے ساتھ مل کر اور گفتگو اور بحث و تمحیص کر کے انہیں دوسروں کی مشکلات کا احساس ہوا اور وہ پہلے سے زیادہ ترقی کی طرف قدم اٹھا سکیں....مگر اب تک انصار اللہ کا کوئی جلسہ نہیں ہوا.پس میں ایک دفعہ پھر جماعت کے مخلصین کو توجہ دلاتا ہوں کہ اُن پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہے.یاد رکھو اگر اصلاح جماعت کا سارا دار و مدار نظارتوں پر ہی رہا تو جماعت احمدیہ کی زندگی کبھی نہیں نہیں ہوسکتی.یہ خدائی قانون ہے جو بھی پہل نہیں سکتا.ایک حصہ میں گا یا ایک حصد جائیگا.ایک حصہ فائل ہوگا اور ایک حصہ ہوشیار ہوگا.خدا تعالیٰ نے دنیا کو بنا کر فیصلہ کر دیا ہے کہ اس کے قانون میں یہ بات خاص کے کہ نی کا ایک حصہ ہے اور ایک حصہ جاگے ہی نظام اور عوام کے کام کا اس دنیا میں دکھائی دیتا ہے.حقیقت پر تو ہیں تقدیر اور دیر کے کبھی عوام سوتے میں ان نظام جاگتا ہے.اب بھی نظام ہوتا ہےاور عوام جانتے ہیں کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ نظام بھی جاتا ہے ان عوام بھی جاگتے ہیں اور وہ وقت بڑی باری کامیابی اور تورات کا ہوتا وہ گھڑیاں جب کسی قوم پر آتی ہیں.جب نظام بھی بیدار ہوتا ہے اور عوام بھی بیدار ہوتے ہیں تو وہ اس قوم کے لئے فتح کا زینہ ہوتا ہے.وہ اس قوم کے لئے کامیابی کا زمانہ ہوتا ہے.وہ اس قوم کے لئے ترقی کا زمانہ ہوتا ہے وہ شیر کی طرح گرجتی اور سیلاب کی طرح بڑھتی چلی جاتی ہے.ہر روک جو اس کے راستہ میں حائل
AL ہوتی ہے اُسے مٹا ڈالتی ہے.ہر عمارت جو اس کے سامنے آتی ہے.اُسے گرا دیتی ہے.ہر چیز جو اس کے سامنے آتی ہے اُسے بکھیر دیتی ہے اور اس طرح وہ دیکھتے ہی دیکھتے چاروں طرف ، اس طرف بھی اور اس طرف بھی بڑھتی چلی جاتی ہے اور دنیا پر اس طرح چھا جاتی ہے کہ کوئی قوم اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی.مگر پھر ایک وقت ایسا آجاتا ہے جب نظام سو جاتا ہے اور عوام جاگتے ہیں.یا عوام سو جاتے ہیں اور نظام بھاگتا ہے.اور پھر آخر میں وہ وقت آتا ہے جب نظام بھی سو جاتا ہے، اور عوام بھی سو جاتے ہیں.تب آسمان سے خدا تعالے کا فرشتہ اُترتا ہے اور اس قوم کی رُوح کو قبض کر لیتا ہے.یہ قانون ہمارے لئے بھی بھاری ہے جاری رہے گا اور کبھی بدل نہیں سکے گا.پس اس قانون کو دیکھتے ہوئے ہماری پہلی کوشش یہی ہونی چاہیئے کہ ہمارا نظام بھی بیدار رہے اور ہمارے عوام بھی بیدار رہیں.اور در حقیقت یہ زمانہ اسی بات کا تقاضا کرتا ہے.خدا کا مسیح ہم میں قریب ترین زمانہ میں گذرا ہے.اس لئے اس زمانہ کے مناسب حال ہمارا نظام بھی بیدار ہونا چاہئیے.اور ہار سے عوام بھی بیدار ہونے چاہئیں.مگر چونکہ دنیا میں اضمحلال اور قوتوں کا انکسار انسان کے ساتھ ساتھ لگا ہوا ہے اس لئے عوام کی کوشش یہ ہونی چاہیئے کہ وہ نظام کو جگاتے رہیں اور نظام کی کوشش یہ ہونی چاہیئے کہ وہ عوام کو جگاتا رہے تا خدانخواستہ اگر ان دونوں میں سے کوئی سو جائے، غافل ہو جائے اور اپنے فرائض کو بھول جائے تو دوسرا اس کی جگہ پہلے.اور اس طرح ہم زیادہ سے زیادہ اس دن کو بعید کر دیں جب نظام اور عوام دونوں سو جاتے ہیں اور خدائی تقدیر موت کا فیصلہ صادر کر دیتی ہے.پس دونوں کو اپنے اپنے فرائض ادا کرنے کی کوشش کرنی چا ہیئے تاکہ اگر دونوں نہ جائیں تو کم از کم ایک تو جاگے اور اس طرح وہ دن جو موت کا دن ہے ہم سے زیادہ سے زیادہ دور رہے..پس میں اس نصیحت کے ساتھ انصار اللہ کو بھی بیدار کرنا چاہتا ہوں.اور اگر یہ دونوں یعنی خدام از محمد ید اور خدام الاحمدیہ کو بھی بیدار کرنا چاہتا ہوں..انصار الله مل کر جماعت میں بیداری پیدا کرنے کوشش کریں تو اللہ تعالی کے فضل سے اس بات کی معیار کی جاسکتی ہے کہ اگر خدانخواستہ کسی وقت ہمارا نظام سو جائے تو یہ لوگ اس کی بیداری کا باعث بن جائینگے اور اگر یہ خود سو جائیں گے تو نظام ان کو بیدار کرتا رہے گا " اے له " الفضل" ارنبوت / نومبر صفحه ۴ تا ۰۰ ۱۳۲۲ مرش
مجلس انصار اللہ کا پہلا دستور اساسی حضرت امیر یونین کے اس طلبہ پر عہدیداران مجلس نے پہلا قدم یہ اُٹھایا کہ ۲۷ اضاء / اکتوبر ۳۳ پیش کو مجلس کا ایک نوری -19m² اجلاس بلایا جس میں حضرت مولانا شیر علی صاحب (صدر مجلس) کے علاوہ حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیال ، حضرت خانصاحب مولوی فرزند علی صاحب بھی شامل ہوئے.صدر مجلس کی درخواست پر قمر الا نبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحت نے نے بھی شرکت فرمائی.اس اجلاس میں انصار اللہ کا پہلا دستور اساسی تیار کیا گیا جس کی منظوری حضرت خلیفتہ اہسیح الثانی مورنے بھی عطا فرما دی اور تحریر فرمایا کہ منظور ہے عمل کیا جائے “ لے مجلس انصاراللہ کا یہ پہلا دستور اساسی مجلس کی تاریخ میں چونکہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے لہذا اس کا مکمل متن ذیل میں درج کیا جاتا ہے :- 1.مورقه ام ۲۰ کو مجلس مرکزیہ کا اجلاس منعقد ہوا، جس میں مندرجہ ذیل ممبران شریک ہوئے.شیر علی ، چودھری فتح محمد صاحب ، مولوی فرزند علی صاحب.ان کے علاوہ میری درخواست پر حضرت مرزا بشیراحمد مطلب بھی شریک ہوئے.یہ اجلاس خصوصیت سے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز گئے گذشتہ جمعہ کے خطبہ کے ارشادات کی بنا پر منعقد کیا گیا جس میں حضور نے انصار اللہ کو اس طرف توجہ دلائی تھی کہ اُن کے کام میں ابھی تک زندگی اور پستی کے آثار مفقود ہیں.مشورہ کے بعد مندرجہ ذیل فیصلہ جات ہوئے جنہیں بغرض منظوری حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں پیش کیا گیا حضور نے منظور فرمائے.اور دا، علاوہ صدر کے آئندہ مجلس مرکزیہ کے پھار عہدہ دار ہوں گے.اول قائد تبلیغ ، دوم قائد تعلیم و تربیت اور سوم قائد مال چهارم قائد عمومی سابق تمام جنرل سیکرڈی ).یہ جملہ عہدہ داران اپنے اپنے کام کے نگران ! ذمہ دار ہوں گے اور انصار اللہ کا سارا حلقہ خواہ وہ قادیان میں ہو یا بیرو نجات میں ان کی نگرانی اور قیادت کے ماتحت ہو گا.(۲) مجلس مرکز ی میں تین مزید ممبر بغرض مشورہ مقرر ہوا کریں گے.ان کے پاس کوئی صیغہ نہیں ہوگا بلکہ وہ صرف مشورہ کی عرض سے مرکزی مجلس میں شریک ہوا کر دینگے.ه المفضل » در فتح اردسمبر میشن صفحه ۳ کالم ۰۳۰۲
۸۹ (۳) صدر بدستور مولوی شیر علی صاحب رہیں گے.قائد تبلیغ چوہدری فتح محمد صاحب سیال ، قائد تعلیم و تربیت خانصاحب مولوی فرزند علی صاحب ، قائد مال میر محمد اسحاق صاحب اور ف یا عمومی مولوی عبد الرحیم صاحب درد ہوں گے.زائد عمر فی الحال چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب ، حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ٹے صاحب اور خان بہادر چوہدری ابوالہاشم خان صاحب ہوں گے.(۴) الف - قائد صاحبان کے ساتھ امداد کے لئے مندرجہ ذیل نائب قائد ہوں گے :- تبلیغ مولوی ابو العطاء صالحب تعلیم و تربیت مولوی قمر الدین صاحب مال عمومی مولوی ظہور حسین صاحب مولوی عبد الرحمان صاحب جٹ (۵) قادیان شریف کے ہر محلہ میں اور بیرون جات کی ہر جماعت میں انصار اللہ کے نظام کے ماتحت سار کاموں کی عمومی نگرانی کے لئے ایک ایک مقامی عہدہ دار مقرر ہوگا جس کا نام زعیم انصار اللہ ہو گا.اُسے مقامی نظام میں وہی حیثیت حاصل ہوگی جو مرکزی نظام میں صدر کو.(4) اسی طرح قادیان شریف کے ہر محلہ اور بیرو نجات کی ہر جماعت میں ہر شعبہ کی علیحدہ علیحدہ نگرانی کے لئے ایک کارکن ہو گا جو اپنے اپنے شعبہ کے کام کا ذمہ وار ہو گا اور مقامی نظام کے نعیم اور مرکز کی نظام کے قائد کی نگرانی کے ماتحت کام کرے گا.ایسے عہدہ دارہ مہتم تبلیغ ، مہتم تعلیم و تربیت ، مہتم مال و مہتم عمومی کہلائیں گے (6) تمام مہتمم صاحبان کا فرض ہوگا کہ اپنے اپنے کام کے متعلق پندرہ روزہ رپورٹ اپنے اپنے زعیم کی معرفت اپنے اپنے شعبہ کے قائد کے پاس ارسال کریں.اور قائد صاحبان کا فرض ہوگا کہ اپنے اپنے شعبہ کی رپورٹ پندرہ روزہ صدر صاحب کے پاس ارسال کریں بحیس کا خلاصہ صدر صاحب کی طرف سے حضرت امیرالمونین ایده اله تان کی خدمت میں ارسال کیا جائے گا.(ب) ایسی جماعتیں جن کی طرف سے پندرہ روزہ رپورٹ کا آنا غیر ضروری یا دقت طلب ہو.ان کے متعلق صدر صاحب کو بمبشوره قائد و زعیم صاحبان مناسب ترمیم یا استثناء کرنے کا اختیار ہوگا.ے حضرت میر صاحب کا ب رامان / مارچ ہش کو وصال ہو گیا اور ان کی جگہ حضرت سید زین العابدین ولی الہ شاہ صاحب کاند مال مقرر کئے گئے ، (مرتب) سے تاریخ وقات هر احسان انتون رشو
4.(۸) قادیان میں مرکزی مجلس انصار اللہ کا ایک باقاعدہ دفتر مقر کیا جائے جس میں جملہ ریکارڈ باقاعدہ طور پر رکھا جائے.ہر قائد کو دفتر کے عملہ سے اپنے اپنے شعبہ کے تعلق میں کام لینے کا اختیار ہوگا مگر ویسے انتظامی طور پر عملہ دفتر صدر کی ماتحتی میں سمجھا جائے گا.(9) قادیان کے ہر محلہ میں نہینہ میں کم از کم انصار اللہ کا ایک مقامی جلسہ منعقد ہونا ضروری ہوگا اور سال کے کسی مناسب حصہ میں سارے انصار اللہ کا ایک مشترکہ جلسہ منعقد کیا جائے گا جس میں بیرونی عہدے داران و نمائندگان کو شرکت کی دعوت دیا جائے اور اس موقعہ پر حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں بھی درخواست کی جایا کرے کہ حضور اس موقعہ پر انصار اللہ کو اپنے روح پرور نصائح سے تفیض ہونے کا موقعہ عطافرما دیں.(۱۰) جماعت کا ہر فرد جو چالیس سال یا چالیس سے اوپر کی عمر کا ہے وہ قادیان شریف میں لازمی طور پر انصار اللہ کارکن سمجھا جائے گا.بیر و نجات میں مقامی انجمنوں کے عہدہ دار جو اس عمر کے ہوں ، وہ بھی لازماً انصار اللہ کے عمبر مجھے بجائیں گے اور باقیوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ بھی انصار اللہ کے ممبر بنیں اور ایسی تحریک ہوتی رہنی چاہیے.(11) تمام ممبروں سے کم از کم ایک آنہ ماہوار کے حساب سے چندہ لیا جائے گا حسین کا باقاعدہ حساب رکھا جائے گا.(نوٹ: بیرونی انجمنیں اپنے مقامی چندوں کا ۷۵ فیصدی اپنے پاس رکھ کر اپنے طور پر خرچ کر سکتی ہیں.باقی مرکز میں آنا چاہیے لیکن حساب کتاب بہر حال باقاعدہ ہونا چاہیئے.(۱۲) اپنے ممبروں کی علمی اور عملی ترقی کے لئے مرکزی نظام انصار اللہ کی طرف سے سال میں ایک دفعہ کتب سلسلہ کا امتحان مقرر کیا جائے گا جو حتی الوسع سب جگہوں پر منعقد ہوا کرے گا اور نتیجہ اخبار میں شائع کیا جایا ۱۰۰ اور اول و دوم وسوم نکلنے والوں کو مناسب انعام دیئے جائیں.کرے گا.اول یہ امتحان کی شرکت کے لئے زیادہ سے زیادہ وسیع پیمانہ پر تحریک کی جائے.(۱۳) جن ممبران انصار اللہ کا کام سال کے دوران میں خصوصیت سے نمایاں ہو.انہیں جلسہ سالانہ کے موقع پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے ہاتھ سے مناسب انعام دلوایا جائے تاکہ کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہو.(۱۲) قائد تبلیغ اور جملہ مہتمان تبلیغ کا فرض ہوگا کہ اپنے اپنے حلقہ میں تبلیغ کا بہترین انتظام کریں.کہ ہر
91 انصار اللہ کے ذریعہ جماعت میں سال بھر میں کم از کم ایک کسی احمدی پیدا ہو.تبلیغ زیادہ تر انفراد کی صورت میں کی جائے اور نا مناسب بحث و مباحثہ کے رنگ سے احترازہ کیا جائے.اسی طرح قائد ومہتممان تعلیم و تربرت کا یہ کام ہو گا کہ وہ جماعت میں اسلام اور احمدیت کی تعلیم کو زیادہ سے زیادہ وسیع طور پر اور تفصیلی صورت میں جاری کریں اور لوگوں کے اخلاق اور عادات کی نگرانی رکھیں.مقامی درسوں اور بڑی عمر کے ناخواندہ اصحاب کی تعلیم کا انتظام بھی مہتمم صاحبان کے سپرد ہو گا.قائد و مہتمم صاحب مال کا کام انصار اللہ کے لئے مختلف قسم کے چندہ بھات کی وصولی کا انتظام کرنا اور حساب رکھنا ہوگا اور دیگر جمیلہ قسم کا کام جو کسی دوسرے قائد کے حلقہ کار میں نہیں آتا وہ قائد و مہتمم صاحبان عمومی کے حلقہ میں سمجھا جائے گا.(۱۴) صدر کی ہدایت اور نگرانی کے ماتحت قائد عمومی کے یہ کام بھی ہوں گے :.العت ایسی ما تحت انجمنان انصار اللہ کا قیام ہو (جو) سارے قائدوں کے حلقہ کار سے یکساں تعلق رکھتی ہوں.حب : قاعدہ 1 کے ماتحت انصار اللہ کے ماہوارہ اشلار سالانہ جلسوں کا انتظام ج: مرکزی دفتر کا چارج نوٹ : مگر ہر وہ کام جو دوسرے قائدوں کے حلقہ کار سے تعلق رکھتا ہو وہ ان قائدوں کے مشورہ سے سر انجام دیا جائیگا اور بصورت اختلاف صدر کا فیصلہ سب کے لئے واجب القبول ہوگا.ام) مرکزی مجلس انصار اللہ اور اس کے عہدہ داروں نیز مقامی مجالس اور مقامی عہدہ داروں کی فرض ہوگا کہ اپنے اپنے حلقہ کار میں صدر انمین احمدیہ اور اس کی ماتحت مجالس اور اس کے عہدہ داروں اور اسی طرح خدام الاحمدیہ کی مرکزی مجلس اور مقامی مجالس اور عہدہ داروں کے ساتھ پورا پورا تعاون کا طریق اختیا کریں اور ان کے کام سے آگاہ رہنے اور اپنے کام سے ان کو آگاہ رکھنے کی حتی الوسع کوشش کریں.(۱۶) مرکزی اور مقامی نظام ہر دو میں ہر بالا افسر کو ہر ماتحت افسر کا کام پڑتال کرنے اور ہدا یاست جاری کرنے کا اختیار ہوگا سے ے نقل مطابق اصل ۱ و مرتبہ ہی درج شدہ ہے (ناقل) : له سوارہ کیا ہے (ناقل)." + + الفضل " مورخه ۲ فتح / دسمبر الا صفحہ ۳ کالم ت تا صفحہ ہم کالم ہے :
۹۳ زعیم اعلیٰ کا عہدہ نگرانی ہو.۲۳ ر امان مارچ پرش کو فیصلہ کیا گیا کہ اگر کسی بڑی جماعت میں کئی زعماء الصالات مقرر ہوں تو وہاں ایک نعیم اعلیٰ کا عہدہ بھی ہونا چاہیے.جس کا کام زعماء کے کام کی پہلے آنریری انسپکٹر انصاراللہ کا کام کرتا رہتا اس لئے مرکزیہ کی طرف سے قاریان میں اور حسب ضرورت بیرونی مقامات میں بھی حملہ شعبہ جات کے اعتبار سے اس کا بجائزہ لینے اور پڑتال کرنے کے لئے ایک انسپکٹر کی ضرورت بڑی شدت سے محسوس ہو رہی تھی چنانچہ ہم ہجرت مٹی ہش کو شیخ نیاز محمد صاحب نیشنر مجلس کے پہلے آنریری انسپکٹر مقرر کئے گئے بیلے عہد انصار اللہ کے مفلسوں میں کوئی عہد نہیں دہرایا جاتا تھا.۳۰ نبوت دی کو انصار اللہ کا پہلا ہے.مجلس کا ماہانہ جلسہ نماز فجر کے بعد زیر صدارت حضرت مولانا شیر علی صاحب نے منعقد ہوا جس میں حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب درد قائد عمومی نے اس طرف توجہ دلائی کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی المصلح الموعود نے جلسہ جوبلی پر لوائے احمدیت سے متعلق عہد لیا تھا.مجالس انصار اللہ کو بچا ہیئے کہ اپنے بھلا ہوں میں اس کو دوہرایا کریں.اس تجویز کے مطابق اسی اجلاس میں مندرجہ ذیل الفاظ میں یہ عہد دہرایا گیا :- میں اقرار کرتا ہوں کہ جہانتک میری طاقت اور سمجھ ہے اسلام اور احمدیت کے قیام اس کی مضبوطی اور اس کی اشاعت کے لئے آخر دم تک کوشش کرتا رہوں گا اور اللہ تعالے کی مدد سے اس امر کے لئے ہرممکن قربانی پیش کروں گا کہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام دوسرے سب دینوں اور سلسلوں پر غالب رہے اور اس کا جھنڈا کبھی سرنگوں نہ ہو بلکہ دوسرے سب جھنڈوں سے اُونچا اڑتا رہے.اللهم آمین اللهُمَّ آمِين - اللَّهُمَّ آمِيْن رَبَّنَا تَقَبَّلَ مِنَّا إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ مجلس النصار اللہ کا پہلا سیٹ روم میں جب اللہ کا کوئی یہ نہیں بتایا جاتاتھا لیکن اس دوسرے دور میں باقاعدہ بجٹ تیار کیا جانے لگا مجلس مرکزیہ کا پہلا بجٹ ا فتح ا دسمبر میش کو منظور کیا گیا جس کی تفصیل یہ تھی :- و تفصیل اگلے صفحہ پر ملاحظہ ہو ) + له ای کارڈ مجلس انصار الله مرکزیہ
بجٹ آمد (۱۳۲۳۲۴ مش ۹۳ بجٹ استراجات آمد چنده جاست مقامی و بیرونی مجالس عطیات از ذی ثروت احباب میزان آمد عملہ سائی فرینچر التراجات غیر معمولی طبع فارم و رپورٹ و لیٹر فارم - حاضری نما کی کاپیوں کی طباعت (برائے قادیان)، طباعت قواعد و ضوابط انصار الله مرکزی قائد صاحبان کے لئے مہر تخمینہ اخراجات بر موقعه علی سالانه میزان کل اخراجات روپے 4.| A ۱۵۳۵ انصار اللہ مرکزہ یہ کے ماہانہ اجلاس تو اکثر ہوتے رہتے تھے مگر دیان انصار اللہ کا پہلا سالانہ اجتماع اور بیرونی مقامات کے انصار میں کام کی اجتماعی رُوح پیدا کرنے کے اور حضرت امیر المومنین کی تقسیم نے کوئی سالانہ اجتماع معقد نہیں ہوتا تھا اس کی کو پورا کرنے کےلئے حضرت خلیفہ اسی انسانی نے اپنے خطبہ معدہ ۲ الفاء راکتور میلے میں میں خاص توجہ والی منی پینا نچہ حضور خلیفہ اسی الثانی اپنے (۱۲ پر دلائی تھی.چنانچہ مسجدال کے منشا مبارک کی تعیل میں اس سال اتر رہبر کوبانی قادیان میں نے بعدازظهر پاسالا اجتماع منعقد ہوا جس کا افتتاح حضرت خلیفہ اسیح الثانی برنیا ایک مختصر مگر ایمان افروز خطاب فرمایا جو درج دیل کیا جاتا ہے :."سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : میں صرف مجلس انصاراللہ کی خواہش کے مطابق اس جلسہ کے افتتاح کے لئے آیا ہوں اور صرف چند کلمات کہہ کر دعا سے اس جلسہ کا افتتاح کر کے واپس چلا جاؤں گا.انصار اللہ کی مجلس کے قیام کو
۹۴ کئی سال گزر چکے ہیں.لیکن میں دیکھتا ہوں کہ اب تک اس مجلس میں زندگی کے آثار پیدا نہیں ہوئے.زندگی کے آثار پیدا کرنے کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ اول تنظیم کا مل ہو جائے.دوسرے متواتر حرکت عمل پیدا ہو جائے اور تیرے اس کے کوئی اچھے نتائج نکلنے شروع ہو جائیں.میں ان تینوں باتوں میں مجلس انصاراللہ کو ابھی بہت پیچھے پاتا ہوں.انصار اللہ کی تنظیم ابھی ساری جماعتوں میں نہیں ہوئی حرکت عمل ابھی ان میں پیدا ہوتی نظر نہیں آتی.نتیجہ تو عرصہ کے بعد نظر آنے والی چیز ہے مگر کسی اعلی درجہ کے نتیجہ کی امید تو ہوتی ہے.اور کم از کم اس نتیجہ کے آثار کا ظہور تو شروع ہو بجاتا ہے مگر یہاں وہ امید اور آثار بھی نظر نہیں آتے.غالباً مجلس انصار اللہ کا یہ پہلا سالانہ اجتماع ہے.میں امید کرتا ہوں کہ اس اجتماع میں وہ ان کاموں کی بنیاد قائم کرنے کی کوشش کرینگے اور قادیان کی مجلس انصار اللہ بھی اور بیرونی مجالس بھی اپنی اس ذمہ داری کو محسوس کریں گی کہ بغیر کامل ہوشیاری اور کامل بیداری کے کبھی قومی زندگی حاصل نہیں ہو سکتی.اور ہمسایہ کی اصلاح میں ہی انسان کی اپنی اصلاح بھی ہوتی ہے.خدا تعالیٰ نے انسان کو ایسا بنایا ہے کہ اس کے ہمسایہ کا اثر اس پر پڑتا ہے.نہ صرف انسان بلکہ دنیا کی ہر ایک چیز اپنے پاس کی چیز سے متاثر ہوتی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ پاس پاس کی چیزیں ایک دوسرے کے اثر قبول کرتی ہیں.بلکہ سائنس کی موجودہ تحقیق سے تو یہانتک پتہ چلتا ہے کہ جانوروں اور پرندوں وغیرہ کے رنگ ان پاس پاس کی چیزوں کی وجہ سے ہوتے ہیں جہاں وہ رہتے ہیں.مچھلیاں پانی میں رہتی ہیں، اس لئے ان کا رنگ پانی کی وجہ سے اور سورج کی شعاعوں کی وجہ سے جو پانی پر پڑتی ہیں سفید اور چمکیلا ہو گیا.مینڈک کناروں پر رہتے ہیں اس لئے ان کا رنگ کناروں کی سبز سبز گھاس کی وجہ سے سبزی مائل ہو گیا.ریتلے علاقوں میں رہنے والے جانور مٹیالہ رنگ کے ہوتے ہیں.سبز سبز درختوں پر بسیرا رکھنے والے طوطے سبز رنگ کے ہو گئے جنگلوں اور سوکھی ہوئی جھاڑیوں میں رہنے والے تیتروں وغیرہ کا رنگ سوکھی ہوئی جھاڑیوں کی طرح ہو گیا.غرض پاس پاس کی چیزوں کی وجہ سے اور ان کے اثرات قبول کرنے کی وجہ سے پرندوں کے رنگ بھی اسی قسم کے ہو جاتے ہیں.پس اگر جانوروں اور پرندوں کے رنگ پاس پاس کی چیزوں کی وجہ سے بدل بھاتے ہیں.حالانکہ ان میں دماغی قابلیت نہیں ہوتی تو انسانوں کے رنگ جن میں دماغی قابلیت بھی ہوتی ہے
پاس کے لوگوں کو کیوں نہیں بدل سکتے.خدا تعالیٰ نے اسی لئے قرآن مجید میں فرمایا ہے ، کہ كونوا مع الصادقین یعنی اگر تم اپنے اندر تقویٰ کا رنگ پیدا کرنا چاہتے ہو تو اس کا گریہی ہے کہ صادقوں کی مجلس اختیار کرو تا کہ تمہارے اندر بھی تقویٰ کا وہی رنگ تمہارے نیک ہمسایہ کے اثر کے ماتحت پیدا ہو بھائے جو اُس میں پایا جاتا ہے.پس جماعت کی تنظیم اور جماعت کے اندر دینی روح کے قیام اور اس روح کو زندہ رکھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہر شخص اپنے ہمسایہ کی اصلاح کی کوشش کرے کیونکہ ہمسایہ کی اصلاح میں اس کی اپنی اصلاح ہے.ہر شخص جو اپنے آپ کو اس سے مستغنی سمجھتا ہے وہ اپنی روحانی ترقی کے راستہ میں نمود روک بنتا ہے.بڑے سے بڑا انسان بھی مزید روحانی ترقی کا محتاج ہوتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آخر دم تک اهدنا الصراط المستقيم صراط الذين أنعمت علیھم کی دعا کرتے رہے.پس اگر خدا کا وہ نبی جو پہلوں اور کچھپلوں کا سردار ہے جس کی رُوحانیت کے معیار کے مطابق نہ کوئی پیدا ہوا ہے اور نہ ہوگا اور جس نے خدا تعالے کا ایسا قرب حاصل کیا کہ اس کی مثال نہیں ملتی اور نہ مل سکتی ہے.اگر وہ بھی مدارج پر مدارج حاصل کرنے کے بعد پھر مزید روحانی ترقی کا محتاج ہے اور روزانہ خدا تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہو کر اعلمنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم کہتا ہے اکیلا نہیں بلکہ ساتھیوں کو ساتھ لے کر کہتا ہے تو آج کون ایسا انسان ہو سکتا ہے جو خدا تعالی کے سامنے کھڑا ہوکر اهدنا الصراط المستقیم کہنے سے اور جماعت میں کھڑے ہو کر کہنے سے اپنے آپ کو مستغنی قرار دے.اگر کوئی شخص اپنے آپ کو اس سے مستغنی قرار دیتا ہے تو وہ اپنے لئے ایک ایسا مقام تجویز کرتا ہے جو مقام خدا تعالیٰ نے کسی انسان کے لئے تجویز نہیں کیا.پس جو شخص اپنے لئے ایسا مقام تجویز کرتا ہے وہ ضرور کھو کر کھائے گا.کیونکہ اس قسم کا استغناء عزت نہیں بلکہ ذلت ہے.ایمان کی علامت نہیں بلکہ وہ شخص کفر کے دروازے کی طرف بھاگا جارہا ہے.پس تنظیم کے لئے ضروری ہے کہ اپنے متعلقات اور اپنے گردو پیش کی اصلاح کی کوشش کی جائے.اس سے انسان کی اپنی اصلاح ہوتی ہے.اس سے قوم میں زندگی پیدا ہوتی
94 ہے.اور کامیابی کا یہی واصلہ ذریعہ ہے.دعائیں بھی وہی قبولی ہوتی ہیں جو خدا تعالیٰ کے قانون کے ماتحت کی بجائیں.خدا تعالے نے ہمارے دعا مانگنے کے لئے اھدنا الصراط المستقیم میں جمع کا صیغہ رکھ کر ہمیں بتا دیا ہے کہ اگر تم روحانی طور پر زندہ رہنا اور کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہو تو تمہارے لئے صرف اپنی اصلاح کر لینا ہی کافی نہیں بلکہ اپنے گرد و پیش کی اصلاح کرنا اور مجموعی طور پر اس کے لئے کوشش کرنا اور مل کر مقدا سے دعا مانگنا ضروری ہے.چنانچہ اسی غرض کے لئے میں نے مجلس انصاراللہ لجنہ اماء الله ، مجلس خدام الاحمدیہ اور مجلس اطفال قائم کی ہیں.پس میں امید کرتا ہوں کہ مجلس انصار الله مرکز یہ اس اجتماع کے بعد اپنے کام کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھ کر پوری تنت رہی اور محنت کے ساتھ ہر جگہ مجالس انصاراللہ قائم کرنے کی کوشش کرے گی تاکہ ان کی اصلاحی کوششیں صرف اپنے تک ہی محدود نہ ہوں بلکہ گردو پیش کی اصلاح کے لئے بھی ہوں اور ان کی کوشش دریا کی طرح بڑھتی چلی جائیں اور دنیا کے کونے کونے کو سیراب کر دیں.اب میں دُعا کے ذریعہ جلسہ کا افتتاح کرتا ہوں.خدا کرے مجلس انصار اللہ کا آج کا اجتماع اور آج کی کوششیں بیج کے طور پر ہوں بہن سے آگے خدا تعالیے ہزاروں گنا اور بیج پیدا کرے اور پھر وہ بیج آگے دوسری فصلوں کے لئے بیج کا کام دیں یہاں تک کہ خدا تعالے کی روحانی یا د شاعت اسی طرح دنیا پر قائم ہو جائے جس طرح کہ اس کی مادی بادشاہت دنیا پر قائم ہے.آمین حضرت خلیفہ ایسیح الثانی نے مندرجہ بالا افتتاحی خطاب پہلے اجتماع کے دوسرے مقررین کے بعد دعا فرمائی اور تشریف لے گئے اور اجتماع کی بقیہ کارروائی حضرت مولوی شیر علی صاحب کی صدارت میں شروع ہوئی اور مندرجہ ذیل انصاری تقریریں فرمائیں.آنریل چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب ۲ حضرت مفتی محمد صادق صاحب حضرت خانصاحب مولوی فرزند علی صاحب الفضل بر ظهور اگست ۱۳۳۴ درپیش صفحه ۲۰۱ * (پابندی نظام) (انصار اللہ کے فرائض ) تعلیم و تربیت)
96 جناب شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ لاہور ۵ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی (اطاعت) (قربانی اور تقویٰ) حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب دتر یک برائے تعمیر دفتر مرکزیہ و نشر و اشاعت) حضرت شاہ صاحب کی تحریک پر کچھ رقم چندہ کی جمع ہوئی.زاں بعد یہ پہلا اجتماع دعا کے ساتھ 47 بجے شام پر قاست ہوا.ہے اس مقام پر میں انصار اشد مرکز یہ کی بتدائی تاریخ کے بعض متفرق دور ثانی کے بعض متفرق کوائف کو الفت کا درج کرنا خالی از قائدہ نہ ہوگا.اول.اس دور کے ابتدائی سالوں میں مجلس مشاورت کے لئے مندرجہ ذیل انصار نے مجلس کی نمائندگی کے فرائض انجام دیئے :.ا میاں محمد شریف صاحب ای.اے سی سی - شیخ نیاز محمد صاحب انسپکٹر پولیس کے ۲- مر ۳ مرزا برکت علی صاحب له ماسٹر نیر الدین صاحت ہے دوم ۲۳ شہادت / ایمیل کار مہیش کو مندرجہ ذیل فیصلے ہوئے :- (1) قائدین اور نائب قائدین باری باری سہر دو ماہ میں ایک دفعہ محاسبہ اور تحریک کی غرض سے مختلف جھلوں کا دورہ کیا کریں.(۲) مرکزی اجلاس مہینہ میں کم از کم ایک بار ضرور منعقد ہوا کرے.اگر کوئی قائد کسی مجبوری کی وجہ سے خود نہ آسکیں تو استثنائی حالات میں نائب قائد ان کی جگہ بطور قائم مقام شامل ہوں تا اجلاس ملتوی له الفضل " ۲۶ فتح / دسمبر ۳۲۳ ه ش کے ریکارڈ مجلس انصار اللہ مرکزید ، رپورٹ مجلس مشاورت ایش صفحه ۱۶۱ کالم ما به پر سر मिल ۱۸۷.رپورٹ میں غلطی سے نام نیاز احمد لکھا گیا ہے.آپ کا نام مشاورت میش کے نمائندوں میں بھی درج ہے (صفحہ (1) + ے ریکارڈ مجلس انصار الله مرکزیہ ، رپورٹ مجلس مشاورت ہ ہی صفحہ ۱۱ کالم ۳ ۱۹۴۵
۹۸ نہ ہوتے رہیں.(۳) مقامی اور بیرونی زعماء مجالس میں سے بہترین کام کرنے والے کو حسن کارکردگی کا سرٹیفکیٹ.قائد متعلقہ کے دستخطوں سے ہر سال سالانہ جلسہ کے موقع پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی المصلح الموعود کے دست مبارک سے دلایا تھا یا کہی ہے.زعماء اور عہدیداران مجالس انصاراللہ کا انتخاب سالانہ ہوا کر ہے.بیرونی مجلس انصاراللہ سے ہم کی بجائے ہا شرح سے وصول شدہ چندہ کی رقم مرکز میں بھجوائی جایا کرے.مجلس کے حساب کی پڑتال کے لئے فی الحال ملک نادر خاں صاحب کو آڈیٹر مقرر کیا جائے ہے فتح دسمبر ۱۳۳۳ پیش تک صرف ۲۴۸ بیرونی مجالس کا قیام عمل میں آیا جن میں سے ۱۲۵ سوم شہری اور ۱۲۳ دیہاتی تھیں کے مجلس انصار اللہ کا مجلس انصار اللہ کا دوسرا سالانہ اجتماع ۲۵ فتح دسمبر پر مشکو مسجد اقصی میں زیر صدارت حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب ناظر دعوة وتبليغ منعقد ہوا.دوسرا سالانہ اجتماع تلاوت و نظم کے بند وانا ابوالحصار صاحب جالندھری نائب قام بلی نے تبلیغ کی اہمیت کے متعلق ، آنریل چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے انصار اللہ کے فرائض پر ، نواب اکبر یار جنگ بہا در حیدر آباد دکن نے انصار الله اور توسیع تعلیم کے عنوان پر ، مولوی قمر الدین صاحب مولوی فاضل نے انصار الله اور قیام اسلام و احمدیت پر اور حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب نیر نے تبلیغ و تربیت کے موضوع پر تقریریں کیں.اجتماع میں حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب درد قائد عمه می مجلس انصار اللہ نے مجلس کی مساعی کی عمومی رپورٹ اور حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ سائب قائد مال نے اخراجات سے متعلق رپورٹ پیش فرمائی بچوہدری خلیل احمد صاحب ناصر نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا " انصار اللہ کے نام ایک پیغام " کے عنوان سے ایک نہایت ہی مفید اور دلچسپ مقالہ پڑھ کر سنایا.آفر میں حضرت صاحبزادہ مرزا شریعت احمد صاحب نے بعض مفید تصالح فرمائیں اور دعا پر اجتماع کی کارروائی اختنام باز پر ہوئی ہے له الفضل ا صلح جنوری میش.افسوس انصار اللہ کے مرکزی ۶۱۹۴۶ سے ریکارڈ مجلس انصارالله مرکزیه یکارڈ بور الفضل : دنوں سے اس بارہ میں کوئی رہنمائی نہیں سنتی کہ ا پیش تک ملک میں کل کتنے اور کہاں کہاں مجالس قائم ہو میلی متین ٢٠١٠ 5190' حضرات موران شیر علی ما یا صدر مجلیں، اپنی علالت کے باعث شامل اجتماع نہ ہو سکے تھے.افضل فتح پر اس کی تفصیل روداد الفضل صلح جنوری اش میں چھپ گئی تھی : ، +
حضرت مفتی محمد صادق صاحب ، مسجد اقصی قادیان میں حضرت مولانا شیر علی صاحب صدر مجلس انصار اللہ مرکزیہ کی زیر صدارت تقریر فرمارہے ہیں
سیدنا حضرت الصلح الموعود مجلس انصاراللہ مرکزیہ پاکستان کے پہلے سالانہ اجماع میں رونق افروز ہیں اور انصار کو شرف مصافحہ عطا فرما رہے ہیں ارکان مجلس انصار اللہ مرکزیہ ( نبوت / نومبر ۱۳۳۴ هش ۱۹۵۵ء) (دائیں سے بائیں ) کرسیوں پر حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب، حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال، حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب نائب صدر مجلس انصاراللہ مرکزیہ، حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب درد.مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری قائد تبلیغ ( پیچھے ) مولانا ظہور حسین صاحب مبلغ بخارا.مولانا احمد خان صاحب نیم.چوہدری ظہور احمد صاحب
۹۹ مجلس انصاراللہ کا تیسرا دور ہی میں ملک برقی اور فسادات کی لپیٹ میں آگیا.اورساتھ ۱۹۴ اہی مجلس انصار اللہ کے دوسرگرم، قائد حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیانی اور حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کو بھارتی حکومت نے گرفتار کرکیا اوروہ کئی ماہ تک نظر بند رکھے گئے.اس دوران میں مجلس انصار اللہ کے پہلے صدر حضرت مولانا شیر علی صاحب جو مشرقی پنجاب اور قادیان کی کثیر احمدی آبادی کے ساتھ ہجرت کر کے لاہور آگئے تھے.۱۳ نبوت / نومبر تار میش کو رحلت فرما گئے جس کے بعد برصغیر میں پیدا شدہ حالات کے باعث مجلس انصار اللہ کی تنظیم بھی کچھ عرصہ تک با شکل معطل رہی.حضرت وبار بھی فتح محمد صاحب شہادت / اپریل ہر مہیش میں رہا ہو کہ پاکستان پہنچے تو حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے ان کو مجلس کا صدر مقرر فرمایا اور نظارت علیا کے ایک کمرہ میں انصار اللہ کا عارضی دفتر بنایا گیا.نبوت / نومبر بارش میں حضرت امیر المومنین نے چودھری صاحب کی بجائے حضرت مرزا عزیز احمد صاحب ناظر اسلئے کو صدر تحویزہ فرمایا.علاوہ ازیں اس کی مجلس عاملہ میں کچھ اور بھی تبدیلیاں کی گئیں مثلاً حصر مولوی عبد الرامین صاحب فاضل بحث کی بجائے چودھری ظہور احمد صاحب آڑ میٹر نائب قائد عمومی مقرر کئے گئے.اسی طرح مود تا این العطاء صاحب حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیال کی جگہ قائد تبلیغ (بعد ازاں قائد رشد و اصلاح) اور نائب قائد تبلیغ مولوی احمد خاں صاحب نستیم بنائے گئے.,190 مجلس انصار اللہ کی تنظیم حضرت میاں عزیز احمد صاحب چار برس تک صدر مجلس کے فرائض انجام دیتے رہے.بالآخر نبوت نومبر کار مہیش میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ∙1904 کا چوتھا سنہری دوسے اس اہم مجلس کی عنان قیادت صاحبزادہ حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب کو سپرد فرمائی اور مجلس کی نشاۃ ثانیہ کا ایک سنہری دور شروع ہوا جس سے نہ صرف زندگی کی زبر دست روح پھونکی گئی بلکہ اس کے اندر روحانی و اخلاقی اعتبار سے ایک عظیم انقلاب کے آثار نمایاں ہو گئے اور یہ جلد جلد توقی کی منازاں ہے کرنے لگی اس اہم دور کی بہت سی خصوصیات ہیں جن میں سے بطور نمونہ چند کا تذکرہ کو ناضروری ہے :- (1) انصاراللہ مرکزیہ کے روح پرور سالانہ اجتماعات کا آغاز ہوا جن سے نہ صرف انصار اللہ میں بلکہ علیست کے دوسرے طبقات میں بھی تربیت ، تزکیۂ نفس اور نظام خلافت سے وابستگی کے لئے ایک مثالی ماحول میں آیا حال امیر جماعت احمدیہ مہندوستان :
1 (۲) مجلس کی تنظیم مضبوط اور فعال صورت اختیار کرگئی.انصار اللہ کا ضلع وار نظام قائم کیا گیا.(۳) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے امتحانات کا بابرکت سلسلہ تیار کی ہوا.دیم) دستور اساسی کی از سر نو تدوین ہوئی.(۵) مجلس کا مستقل دفتر تعمیر ہوا.(4) مستعد مجالس کو علم انعامی دیا جانے لگا.(۷) مجلس مرکز یہ نے قابل قدر لٹریچر شائع کیا.(۸) حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کے متعدد صحابہ کرام کے حالات اور ان کی روایات اُن کی آواز میں ریکارڈ کی گئیں.(4) انصار اللہ " ہی کے نام سے مجلس کا ایک بلند پایہ علمی و توییتی ماہنامہ اور مرکزی ترجمان جاری کیا گیا.مگر اس عہد زریں کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے انصار اللہ کی تنظیم جن بنیادوں رکھی تھی اس دور میں ٹھیک ٹھیک انہی بنیادوں پر یہ از سر نو قائم اور مستحکم ہوئی اور ہورہی ہے حسین کی پوری تفصیلات انشاء العدا اپنے مقام پر آئیں گی.حضرت امیر المومنین سے اخبار سول اینڈ لٹری گزٹ مجلس خود ان کی تحریک تفصیلی روشنی ڈالنے کے بعد اب ہم دوباره میش و ٹیٹمین کے نامہ نگاروں کی ملاقات کے بقیہ واقعات کی طرف آتے ہیں حضرت اور امیرالمومنین خلیفہ ایسیح الثانی رض کی وصیت کے شائع ہونے کے بعد لاہور کے مشہور نیم سرکاری انگریزی روزیان سول اینڈ ملٹری گزٹ کے تین نمائیندے از مسٹر ایک آروہرہ، مسٹر اوم پرکاش کھوسلہ اور ملک محمد یوسف صاب بذریعہ کار قادریان آئے اور چھ بجے شام سے قریباً ساڑھے نو بجے تک (نماز مغرب کا وقت نکال کر ) حضرت خلیفہ المسیح الثانی ریہ سے ملاقات کی لیے اس طویل ملاقات کے تاثرات و مشاهدات اختبارہ سول اینڈ ملٹری گزٹ " کی یکم ستمبر ۹۴ نہ کی احساسات میں لاہور ڈائری کے مستقل کالم کے تحت " مغل خلیفہ سے ملاقات ، خاندان بنا دیان کی تاریخ نخواہیں اور پیشگوئیاں" کے عنوان سے شائع ہوئے.اختیار کے نامہ نگار نے اپنے تاثرات میں اگر یہ تعصب آنگولی اور بیجا قیاس آرائی اور رنگ آمیزی کا له الفضل" ۲۷ ظهور ! اگست به بیش صفر ۲ کالم : " 4
خوب مظاہرہ کیا.مر بعض باتیں غیر شعوری طور پر اس کے قلم سے ایسی بھی نکل گئیں جن سے اس اہم ملاقات کے بعض گوشے کسی حد تک اپنی اصلی صورت میں نمایاں ہو گئے.مثلاً اس نے لکھا ہیے " خلیفہ صاحب سے میری ملاقات تین گھنٹے تک رہی.اس دوران میں شام کی نماز کا وقفہ بھی پڑا.اُن کے پرائیویٹ سیکرٹری نے مجھے اُن کے تصور میں پہنچایا.اس نے سیڑھیوں پھر سے بلند آواز کے ساتھ السلام علیکم کہہ کر میری آمد کی اطلاع دی جس کا یہ تپاک جواب خلیفہ صاحب کی طرف سے علیکم السلام کی صورت میں آیا تخلیفہ صاحب کی دلکش آواز ایک اشارہ تھی کہ ہم چلے آئیں" میں ایک طویل برآمدہ میں داخل ہوا جس میں ایک درجن کے قریب کرسیاں پڑی تھیں خلیفہ صاحب نے اٹھ کر میرا استقبال کیا اور بہت جلد نہایت دلچسپ انٹرویو شروع ہو گیا.گو ماحول غیر دلکش تھا.میں آمدہ تنگ اور بہت لمبا تھا جسے علمنتوں نے دنیا کی نظروں سے چھپایا ہوا تھا.اس پیرانی طرز کی عمارت میں ملاقات میرے لئے ایک معمہ ہی رہی.میں متوقع تھا کہ ملاقات کسی پر تکلف کمرہ میں کی بجائے گی جس میں ایرانی قالین بچھے ہوئے ہوں گے؟ ہو نہی کہ میں خلیفہ صاحب کے مقابل پر بیٹھا تو محویت سے اس انسان کی شکل و صورت دیکھنے لگا جسے ہوئی ہے کہ اُسے تعلق باللہ اصل ہے میرا پہلا تاثر یہ تھا کہ خلیفہ صاحب ہندوستانی نہیں ہیں.ان کی آنکھوں کی بناوں سے یوں معلوم دیتا تھا کہ وہ وسط ایشیاء کے رہنے والے ہیں.ان کی لمبی.....ڈاڑھی میں ابھرے ہوئے رخساروں سے معلوم کیا جا سکتا ہے.عجیب طرز کی آنکھیں اور خواب آلود وضع...سے بخوبی معلوم کیا جا سکتا ہے کہ ایشیا کے کسی عالی خاندان کا خون اُن کی رگوں میں گردش کر رہا ہے سے سول اینڈ ملٹری گزٹ کے علاوہ ہندوستان کے مشہور انگریزی روزنامہ سٹیٹسمین کے بھی ایک نامہ نگار قادیان میں آئے اور بحضور سے ملاقات کی بہو سا اثبات وہ لے کر گئے ان کی نسبت اس نے سٹیل مین مورخ ار اگست 19 میں اپنے الفاظ اور اپنے رنگ میں ایک بیان شائع کیا جس میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی وصیت، جماعت کے صدقہ و خیرات وغیرہ دینے اور بعض دیگر امور کا بھی تذکرہ تھا ہے لے یہاں یہ وضاحت کرنا اولین ضروری ہے کہ اخبار مذکورہ سول اینڈ ملٹری گزٹ کا اصل پر چھہ بہار سے مطالعہ میں نہیں آسکا.نامہ نگار کے.مضمون کے بعض حصوں کا تو یہ اخبار پیام صلح مجھ سے اس ستمبر اکتوبر شاہ نے اپنے گمراہ کن اور مخالفانہ تیر کے ساتھ شائع کی تھا متن میں مندرجہ اقتباسات اسی ترجمہ ہی سے نقل کئے گئے.کے پیغام صلح پور ۲۱ ستمبر ۱۹۴۷ نه صفحه ۲ + گے.رسالہ ریویو آف دیچیتر دارد و مسلح جنوری مش صفحه ۲ :
I-F علاقہ کانگڑھ کے اچھوت اگر چہ آریہ سماج نے ہندو بنائے تھے مگر اگر میں راجپوت زمیندار ان کو اپنے چشموں سے پانی نہیں بھرنے دیتے تھے اچھوتوں نے اس ظلم سے تنگ آکر جلسے کئے اور اعلان کیا کہ وہ پچاس ہزار کی تعداد میں مسلمان ہو جائیں گے.اس پر چوٹی کے آریہ اور ہندو لیڈر راجہ نریندر ناتھ اور سر گوگل چند نارنگ کا نگرہ پہنچے اور اچھوتوں ک چشموں سے پانی بھرنے کی جبراً اجازت دلوادی مگر بہت روؤں نے پھر بائیکاٹ کر دیا اور پانی لینے کی اجازت نہ دی جس پر اخبارات میں شور اٹھا اور مقدمات شروع ہو گئے.یہ صورت حال دیکھ کر مسلمانوں کی مختلف انجمنوں نے نمایندے بھیجے.مرکز احمدیت کی طرف سے تبوک استمبر اپریشن میں تہاشہ محمد عمر صاحب فاضل ( سابق یوگندر پال) اور شیخ محمد سلیم صاحب نو مسلم وہاں بھجوائے گئے.دوسری انجمنوں کے علماء تو سب واپس آگئے مگر مہاشہ صاحب نے زیادہ عرصہ تک قیام کیا اور اچھوتوں میں آزادی کی سپرٹ قائم رکھنے کے علاوہ مسلمانوں کی حفاظت کا کام بھی کرتے رہے اور ان کے حوصلے اس یہ وقت امداد سے بلند ہو گئے بیٹے صدر انجین احمدیہ کی سالانہ رپورٹ کے مطابق مباشہ صاحب فتح / دسمبر تار میش تک کانگرگاہ کے دیتا +191 کا دورہ کر کے اچھوتوں کو پیغام اسلام پہنچاتے رہے.ماشہ صاحب کی کوششوں سے بعض لوگ اسلام لانے پر بھی آمادہ ہو گئے تھے.فصل پنجم کمال یار جنگ کو کیش کمیٹی کہ میں تو کمال یا جنگ بہادر کی صدارت میں ایک آل انڈیا کلکتہ نواب ایجو کیشن کا نفرنس منعقد ہوئی جس میں فیصلہ کیا گیا کہ ایک کمیشن کا وفد قادیان میں مقرر کیا جائے جو یہ رپورٹ پیش کرے کہ مسلمانوں کی تعلیمی اصلاح کس طرح ہو سکتی ہے؟ بعد ازاں تبلیغ / فروری رمیش میں فیصلہ کیا گیا کہ ہندوستان کے مسلم اداروں ے رپورٹ سالانه صد را نمین احمدیہ بھرت امٹی سی میش تا شهادت اپریل کلیه مش صفحه : ۲ھ کوئی 19 VANI ہجرت امنی است که پیش تا شہادت / اپریل یہ پیش صفحه ۹ : +1901 ۶۱۹۴۲
۱۰۳ کا معائنہ کر کے مفصل کو الف مرتب کئے جائیں اور اس غرض کے لئے ایک تصمیمی کمیٹی مقر کر دی گئی جس کے اور اسی حسب ذیل تھے :- ۱- سر عزیز الحق صاحب سپیکر بنگال لیجسلیٹو اسمبلی وائس چانسلر کلکتہ یونیورسٹی ۲۰- مولوی حاجی ابو الحسن صاحب ایم اے آئی ای ایس ریٹائر ڈ سابق ڈائر یکٹر آف پبلک انسٹرکشن ریاست کشمیر - مولوی کے علی افضل صاحب بی ایس سی (ایڈنبرا، بار ایٹ لاء سیکرٹری تیرگال لیجسلیٹو اسمبلی.۱۳۱۹ مسٹر بقا محمد سماں چیف انسپکٹر آف سکولز بہاولپور سٹیٹ ۵ مولوی اسد الحق صاحب ایم.اسے پرسنل اسسٹنٹ ٹی وی چیئر مین سکے فیصلہ کے مطابق کمیٹی کے ارکان نے تین ماہ تک جنوبی ہند کے مسلم اداروں کا اس نقطہ نگاہ سے معائنہ کیا کہ مختلف مدرسوں میں دینیات اور اسلام کی تعلیم کس طریق پر دی جا رہی ہے.۲۲ تبوک استمبر میش کو یہ تعلیمی وفد دوماہ کے لئے شمالی ہند میں آیا جہاں صوبہ کے مختلف اسلامی مدارس کا دورہ کرنے کے بعد ۲۳ اضاء/ اکتوبر یہ مہیش کو ساڑھے آٹھ بجے شب کی گاڑی سے قادیان پہنچا سکے ارکان کمیٹی نے قادیان میں اپنے مختصر قیام کے دوران نہ صرفت مرکز کی درسگاہوں کا قریب سے مطالعہ کیا بلکہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی رض کی ملاقات کا شرف بھی حاصل کیا اور بہت متاثر ہوئے بچنا نچہ خان بہادر مولوی عزیز الحق صاحب صدر کمیٹی نے مولوی حاجی ابوالحسن صاحب ایم اے کی موجودگی میں نمائیندہ الفضل" دواسر محمد ابراہیم صاحب بی اسے) کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنے مقصد میں بہت کامیابی ہوئی ہے ہم نے جماعت احمدیہ کے طریق عمل اور طریقہ تعلیم کا مطالعہ کیا ہے.بہت سے دوستوں سے گفتگو کر کے اُن کے خیالات کو سُنا ہے.اور ہم کہ سکتے ہیں کہ اُن کے خیالات سے ہمارے خیالات کو بہت مدد ملی ہے.الفضل اضاء/ اکتوبر راه مش صفحه ه " الفصل" ۲۵ اسقاء / اکتوبر ۳۱ مش صفحه ۲ کالم ۱ : 19ء 1 قبل ازیں اس وفد نے از اعضاء / اکتوبر ین کو سرینگر کا بھی دورہ کیا.وفد کا استقبال کرنے والے معززین میں احمدی صحافی مولوی عبدالواحد صاحب ایڈیٹر اخبار " اصلاح و پریذیڈنٹ کشمیر جرنلسٹس ایسوسی ایشن بھی شامل تھے.وفد نے 9 فضا در اکتوبر ر میش کو جماعت احمدیہ کے وفد سے بھی ملاقات کی اور ضروری معلومات حاصل کیں.(اخبار اصلاح “ سرینگر در اتحاد اکتوبر همایش صفحه ) کالم (۳)
۱۰۴ ہم نے قادیان میں بہت کچھ دیکھا اور بہت کچھ سنا.اور اس کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ہم قدر اور تعریف کے جذبات سے لبریز ہیں.حضرت امیر المومنین سے ملاقات کے بارے میں ان کے تاثرات یہ تھے کہ "ہم نے آج ایک گھنٹہ کے قریب امام جماعت احمدیہ سے ملاقات کی اور ہم نے ان سے جو خیالات سنے.وہ ہماری کمیٹی کے مقصد کے لئے بہت ہی مفید ہیں.ہم نے ان سے بہت کچھ حاصل کیا ہے اور ہمارے دل فی الحقیقت آپ کی قدر اور تعریف سے پُر ہیں " نہ سلسلہ احمدیہ کی تنظیم کی نسبت انہوں نے اس رائے کا اظہار کیا کہ ہم نے جماعتی نظام کا اچھی طرح مطالعہ کیا ہے.آپ کی جماعت اسلام کی بہت خدمت کر رہی ہے اور آپ کا کام اسلام کے لئے بہت مفید ہے.یہ علیحدہ بات ہے کہ مسلمانوں کے ایک حصہ کو آپ کے عقائد سے اختلاف ہے.لیکن آپ کا کام واقعی قابل قدر اور لائق تحسین ہے.یہ تے اس سال حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے نہایت محنت اور ۶ قریزی نقشہ ماحول قادیان سے تبلین تنظیم ،اور خرید اراضیات کے پیش نظر مرکز احدیت قادیان کے ماحول کا ایک مفصل نقشہ ظہور / اگست شلیہ پیش میں شائع فرمایا.جس میں قادیان کے ارد گرد کا دس دس میل تک کا علاقہ دکھایا گیا تھا.اور دیہات کی حدود ، اہم راستوں اور نہروں کے علاوہ تھانے ذیلوی کے صدر مقام ، موٹروں کے اڈے، ڈاک بنگلے اور سکول بھی دکھائے گئے تھے.نقشہ میں ہر گاؤں کے متعلق یہ اندراج بھی تھا کہ اس میں کس قوم کی آبادی ہے.یہ نقشہ پیشت پر کپڑا لگا کر مجلد کرا دیا گیا تھا.اور کتاب کی طرز سے جیب میں بھی رکھا جا سکتا تھا.سگے قادیان کا نقشہ محض تبلیغی اور تنظیمی مقاصد اکالی کا نفرنس اور احمدیوں کا امن پسندانہ رویہ کے پیش نظر شائع کیا گیا تھا جس کے پیچھے.لے ان کے انگریزی الفاظ یہ تھے:- FULL OF PRAISE AND APPRECIATION FOR HIM" ه الفضل " ٢٧ اخاء اكتوبر اله بیش صفحه ۵ کالم عن وعد : " کے "الفضل" بر ظہور / اگست سہ میں صفحہ ۲ کالم ، نقشہ کی ایک کاپی خلافت لائیبریری ربوہ میں محفوظ ہے ؟ "I یش ؟
۱۰۵ کوئی سیاسی مصلحت ہرگز کار فرما نہ تھی مگر افسوس کہ احمدیت کی مخالف طاقتوں نے جو برسوں سے مخالفت کا محاذ قائم کئے ہوئے تھیں، اس نقشہ کو جماعت احمدیہ کے خلاف اشتعال پھیلانے کا ایک ذریعہ بنا لیا اور سکھوں کو اکسانے کے لئے یہ پراپیگنڈہ کرنا شروع کر دیا کہ احمدی حکومت سے گٹھ جوڑ کر کے اپنی ریاست قائم کرنے کے منصو بے باندھ رہے ہیں.اس سلسلہ میں گورمکھی کا ایک اشتہار بھی شائع کیا گیا.جس کا خلاصہ یہ تھا کہ احمدیوں کی طرف ہند کو یہ تحریک کی جا رہی ہے، کہ قادیان کے ارد گرد دس دس کوس تک ان کی ریاست مان لی جائے جس کے بدلے میں پیسہ اور آدمیوں کے ذریعہ یہ موجودہ گورنمنٹ کی جنگ میں امداد کریں گے.اس اشتہار میں نا واقعہ اور سادہ لوح سکھوں کو بھڑکا یا گیا تھا کہ ۱۷- ۱۸ نومبر ۱۹۴۰ کو صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لئے قادیان کے قریب بوہڑ صاحب میں جمع ہو جائیں.یہ جو ہر صاحب وہی مقام تھا جہاں پر کو سکھوں سے مشتعل ہجوم نے مذبع گرایا تھا سکے سیکھ وفقد قادیان میں سے یہ پراپیگنڈہ جب یکایک زور پکڑ گیا تو علاقہ کے سکھوں کا ایک وفد حقیقت حال معلوم کرنے کے لئے قادیان پہنچا.تحقیق و تفتیش کے بعد جب یہ سب کہانی من گھڑت نکلی تو و قد مطمئن ہو کر واپس چلا گیا اور اس نے حسب ذیل بیان دیا :- و ہم نے بصورت وقد قادیان بجا کر چوہدری فتح محمد صاحب سیال ناظر اعلی قادیان سے ملاقات کی ہے.چودھری صاحب خلیفہ صاحب قادیان کے چیف سکرٹری بھی ہیں ہم نے ان سے دو یات کیا ہے.انہوں نے رجسٹر اخبار نقشہ وغیرہ دکھا کہ ہماری پوری طرح تسلی کر دی ہے کہ یہ اقواہ کہ مرزا صاحب قادیان والے دس دس کوس تک قادیان کے گردا گرد ریاست بنا رہے ہیں یہ بالکل غلط ہے.احمدیوں نے اخبار میں بھی اس افواہ کی تردید کر دی ہے.یہ افواہ احراریوں نے اڑائی ہے.اور ان کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ احمدیوں اور سکھوں کے تعلقات کو کشیدہ کر دیں.ہم اکالی بھائیوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ اگر وہ کا نفرنس کریں تو مذہبی کانفرنس کریں.ایسی افواہ پر سیاسی تقاریر کر کے علاقہ کی فضا کو خراب نہ.له الفضل " نبوت / نومبر صفحه." ۲ ایش ۱۰ + ۱۹۴۰ء سکو تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو " تاریخ احمدیت " جلد ششم صفحه ۱۶۹ - ۱۷۰.+14=-
1.4 کریں کیونکہ اس علاقہ میں احمدیوں کے سکھوں سے بہت اچھے تعلقات ہیں اور مرزا صاحب قادیان والے ہمیشہ معزز سکھوں سے ہمدردانہ سلوک کرتے رہے ہیں" و شخط (سردار) نو نہال سنگھ ذیلدار کماله ، سردار بخشیش سنگھ آن بهام ، ( سردار) بھگت سنگھ ذیلدار پنڈا روڑی ، دسردار) اندرسنگھ ڈسٹرکٹ درباری ڈلہ # اس واضح تردید کے باوجود دشمنان احمدیت نے سکھ عوام کو شتعل سکھوں کا جلوس اور اجتماع کر کے اجتماع کرنے کی تیاریاں اندر ہی اندر بھاری رکھیں.اور آخر اُن کے بجھتے ، ارنبوت / نومبر ہر مہیش کو قادیان میں داخل ہو گئے لیے پولیس افسروں نے پہلے خود ہی 190 ایک راستہ اُن کے لئے تجویز کیا اور احمدیوں سے کہا کہ وہ ان کے علاقہ سے نہیں گزرے گا.مگر جب سکھوں نے احمدی علاقہ سے گزرنے کے لئے اپنا رخ تبدیل کر لیا تو پولیس روکنے کی بجائے ان کے آگے آگے ا تو وہیں چل پڑی اور اپنا فیصلہ خود ہی رو کر دیا ملے یہ موقعہ انتہائی نازک تھا اور قریب تھا کہ تصادم تک نوبت پہنچ جاتی.مگر حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی بر وقت راہنمائی اور صبر و تحمل کی تلقین کی بدولت احمدیوں نے حیرت انگیز طور پر اپنے بعذبات پر قابو رکھا اور قادیان میں فرقہ دارانہ فساد کرانے کی سب کوششیں ناکام ہو گئیں.حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ نے حکام کے معناً محکام کے معاندانہ رویہ پرتنقید روبه ی زبردست تنقید کی اور فرمایا.رویہ پر ہمیں ضلع کے حکام کی طرف سے یقین دلایا گیا تھا کہ سکھوں کے جلوس کے لئے ایک راستہ معین کر دیا گیا ہے اور یہ کہ وہ اسی راستہ کو اختیار کریں گے دوسرا راستہ اختیار نہیں کریں گے لیکن بطور احتیاط ہم نے دوسرے راستے پر اپنے آدمی کھڑے کر دیئے تھے.مگر سکھوں نے اپنے معین راستہ کو چھوڑ کر وہ راستہ اختیار کیا جس کے متعلق یقین دلایا گیا تھا کہ وہ اس طرف نہیں جائیں گے.اگر احمدی احباب کو یہ ہدایت نہ ہوتی کہ جو سکھ قادیان میں اکٹھے کئے گئے ہیں انہیں اصل حقیقت کا علم نہیں.وہ اگر اس دوسرے راستے سے آرہے ہیں تو انہیں گزرنے دیا جائے." الفضل ۱۶ نبوت / نومبر ۳۱۹ بیش صفحه : کالم ۵۱ له الفضل" وار نبوت / نومبر ب الله بش صفحه ۸ کالم 1 : $190 A -1 سے " الفضل حكم صلح جنوری در پیش صفرا کالم ۱-۲+ یکم / مادرش
تو فساد ہونے کا احتمال غالب تھا.لیکن بجائے اس کے کہ (حکام ناقل) اس شریفانہ سلوک کی قدر کرتے ، انہوں نے سمجھا کہ احمدی ڈر گئے " سے وہ حکام جو فتنہ پردازوں کے سامنے جیسا کہ گذشتہ کالی کا نفرنس میں ہوا دب جاتے ہیں اور شرفاء کی شرافت سے ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہیں وہ ہر گز انتظام حکومت کے قابل نہیں.اور وہ اپنے اس قسم کے رویہ سے شرفاء کو مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ بھی مقابلہ میں شرافت کو چھوڑ کر مفسده پردازی کا انسداد جبر اور زور سے کریں“ سے بهر حال جلوس قادیان کی احمدی آبادی میں سے گزرنے کے میں کانفرنس میں اشتعال انگیز تقریریں بعد میاں کے تھلے بیان میں کائی کا نفرنس رود جاری رہی اور اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور جماعت احمدیہ کے خلاف بہت بہودہ سرائی کی گئی.انتہائی اشتعال انگیز تقریروں کے بعد یہ تجویز پاس کی گئی کہ چونکہ اس علاقہ میں اس خبر کے پھیلنے سے کہ مرزا صاحب دس دس میل تک ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں سخت بے چینی پھیلی ہوئی ہے اس لئے حکومت کو چاہیے کہ اس تجویز کو کامیاب I a نہ ہونے دے ورنہ علاقہ میں سخت اشتعال پھیلے گا جس کے نتائج بھیانک ہوں گے " " اور اس تجویز کی تائید قادیان کے ملا عنایت اللہ صاحب استماری نے پُر جوش انداز میں کی.اور یہانتک کہا کہ "جب تک ہم زندہ ہیں ، مسلمان زندہ ہیں ، جب تک گورو گوبند سنگھ کے سنگھ زندہ ہیں ، مرزا نواب نہیں ہو سکتا." کا نفرنس میں آخری تقریر سردار تیجا سنگھ صاحب کی تھی.جنہوں نے کہا :- پرسوں مرزائیوں کا ایک وفد ماسٹر تارا سنگھ صاحب سے ملنے گیا تھا.ہم لوگ وہاں نہ تھے.ماسٹر صاحب پر ان کی باتوں کا کچھ اثر ہو گیا.ہمیں کہنے لگے وہ تو اس خبر کی تردید کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہم سکھوں کی دل آزاری نہیں کرتے.میں نے کہا اس سے زیادہ دل آزاری کیا ہوگی ، کہ ند " الفضل" اس فتح دسمبر امه اش صفحه ۵ کالم : "الفضل" ۱۹ نبوت / نومبر TANATILATION نہش صفحه ۸ کالم : A ܀ کے " الفضل" ۲۰ نبوت / نومبر یش صفحه ۱-۲-۱.اس پرچہ میں اکالی کا نفرنس کی مفصل رو نداد شائع شدہ ہے
گورو نانک کو مسلمان کہتے ہیں.پھر کہتے ہیں صاحبزادے شہید نہیں ہوئے.گور و تیغ بہادر نے خودکشی کی کس قدر ڈوب مرنے کا مقام ہے.ہماری ساری انتہاس پر پانی پھیرنے کی کوشش کی جارہی ہے.اور دل آزاری کیا ہوگی.باقی رہی یہ بات کہ ریاست بنانے سے انکار کرتے ہیں.میں تو کہتا ہوں کہ تم ریاست بنانے والے کب پیدا ہوئے.اگر ریاست قائم ہو تو جو لوگ اکالی دل کی رہنمائی میں قربانیوں کے لئے تیار ہوں وہ ہاتھ اٹھائیں " لوگوں نے یہ سنتے ہی ہاتھ اُٹھا دیئے اور عہد کیا کہ وہ کٹ مریں گے مگر احمدیوں کی ریاست نہیں قائم ہونے دیں گے.اس موقعہ پر چونکہ قادیان اور اس کے ماحول کی فرقہ وارانہ فضا قیام امن کیلئے انتظامی کمیٹی تشکیل میں کے مکدر ہونے کا خطرہ لاحق ہو گیا تھا اس لئے کا نفرنس کے انعقاد سے ایک روز قبل ۱۶ نبوت / نومبر اس پر مہش کو مرکز احمدیت میں امن عامہ کے قیام ، مقامات مقدسہ کی حفاظت اور سکھ لیڈروں اور سرکاری افسروں سے گفتگو کرنے اور ان کی مہمان نوازی کے فائض انجام دینے کے لئے ایک انتظامیہ کمیٹی تشکیل دی گئی جس کے سیکرٹڑی اور نگران عمومی حضرت سید زین العابدات ولی اللہ شاہ صاحب ناظر امور عامہ مقرر کئے گئے.اس کمیٹی کے ممبروں میں صدر انجین احمدیہ کے ناظر اعلیٰ اور آئین کے دوسرے ممتاز مہر شامل تھے سرکاری افسروں کے سامنے جماعت کے موقف کی سیاسی نمائندگی کا فریضہ حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم اے اور حضرت خانصاحب مولوی فرزند علی خانصاحب کے سپرد ہوا سکھوں کے ساتھ گفتگو کے لئے حضرت مولوی عبد المغنی خان صاحب کا نام تجویز ہوا مہمان تواری کی خدمت حضرت میر محمد اسحق صاحب ناظر ضیافت کے ذمہ لگائی گئی.انتظامیہ کمیٹی کے ایک ممبر حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی بھی تھے جن کے فرائض میں پہرہ داروں کا تقریر اور ان کی نگرانی کا کام تھا.اس بر وقت اقدام کا یہ فائدہ ہوا کہ اگر چہ سکھ جلوس اصل رستہ چھوڑ کر احمد نی آبادی میں سے گزرا اور پھر اس کے مقرروں نے اپنی تقریروں میں جماعت احمدیہ کے خلاف سخت زہر اگلا اور علاقہ میں زبر دست اشتعال پھیلانے میں اپنا پورا زور صرف کر دیا.مگر اس کے با وجود ان ایام میں کسی قسم کا کوئی ناخوشگوار وقعہ پیش نہیں آیا.له " الفضل" ۲۱ نبوت / نومبر اش صفحه ۲-۸ :
1.9 جماعت احمدیہ کے نظام اور اس کے صلح کن اصولوں کی تعظیم اسان اخلاقی فتح تھی جس کا اعتراف مشہور سکھ اختیار نویس سردار دیوان سنگھ احمدیوں کی امن پسند کیا اعترا) صاحب مفتون نے اپنے اخبار سیاست دہلی (۲ دسمبر ) میں بھی کیا بچنا نچہ انہوں نے صاف لکھا کہ مسلمانوں میں غالباً احمدیوں کا ہی ایک ایسا فرقہ ہے جو گورو نانک اور سری کرشن وغیرہ غیر مسلم بزرگوں کو پیغمبر سمجھتے ہوئے اُن کی عزت کرتا ہے اور قادیان کی احمدی جماعت کا یہ ملک پر بہت بڑا احسان ہے جس نے ہند و مسلم اتحاد کی اس راہ کو اختیار کیا.احمدیوں کی اس قابل تعریف سپرسٹ میں اتفاق پسند حلقوں کے اندر یہ انتہائی افسوس کے ساتھ سُنا جائے گا کہ پچھلے ہفتے جب سکھوں نے قادیا سے دومیل کے فاصلہ پر اکالی کا نفرنس کی تو سکھوں کے غیر دوستانہ اور تحکمانہ رویہ کے باعث قادیان کے احمدی حضرات نے اپنے بچوں اور عورتوں کو گھروں سے نکلنے کی مانعت کر دی تاکہ فساد نہ ہو اور سکھوں کو اگر احمدیوں کے خلاف کوئی دوسری شکایت نہیں تو اب یہ کہا جا رہا ہے کہ احمدی گورو نانک کو مسلمان کہ کر سکھوں کی توہین کر رہے ہیں.ہمیں یاد ہے چند برس ہوئے سکھوں نے ایک احمدی کے خلاف اس الزام میں مقدمہ بھی دائر کیا تھا کہ اس نے گورو نانک کو مسلمان کہا.اور ہم نے اس مقدمہ پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے سکھوں سے پوچھا تھا کہ اگر کسی نیک مسلمان کو کوئی سکھ یہ کہہ دے کہ آپ تو نیکی کے لحاظ سے سکھ ہیں “ تو کیا اس مسلمان کی تو مین ہوگی.اسی طرح ہی ہم سکھوں سے پوچھتے ہیں کہ اگر احمدی گورو نانک سے اظہار محبت کرتے اور اپنا سمجھتے ہوئے گورو صاحب کو مسلمان کہتے ہیں تو اس میں سکھوں کی توہین ہے یا احمدی حضرات کے اخلاص و محبت کا انتہائی ثبوت! ہمیں افسوس ہے کہ سکھوں کا قادیان کی اکالی کا نفرنس میں احمدیوں کے خلاف تحکمانہ رویہ اختیا کونا یا دوستانہ سپرٹ کا ثبوت نہ دینا استحاد پسند حلقوں میں پرچھا گردی اور وحشیانہ پن قرار دیا جا سکتا ہے.کیونکہ اشاعت مذہب اور اشاعت خیالات کے لئے ضروری ہے کہ رواداری اور محبت کا اظہار ہوتا کہ لوگ اس سے متاثر ہو سکیں نہ کہ غنڈہ پن کا جس سے کہ لوگ نفرت کریں" ے بحوالہ اخبار الفضل فتح / دسمبر بارش صفحه ۱-۲-
11.اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ کی جھوٹی خبر کیا جاتا ہے اب اگرچه منابہت ہی کمر مر گئی کی بی ای تھی مگر اس کشیدگی میں لاہور کے نیم سرکاری اختیار سول اینڈ ملٹری گزٹ نے ۲۸ دسمبر 9لہ کے پرچہ میں یہ غلط خبر شائع کر کے اور بھی اضافہ کر دیا کہ حضرت امام جماعت احمدیہ نے حکومت پنجاب کو سالانہ جلسہ سب یہ ہش کے موقعہ پر جھمکی دی ہے کہ جماعت احمدیہ ۶۱۹۴۰ عدم تشدد کی قائل نہیں.لہذا اگر اس نے جماعت احمدیہ کے خلافت پالیسی میں تبدیلی نہ کی تو اس کے بدنتائج کے لئے تیار رہے.دیس سراسر بے بنیاد او غلط خبر کی تردید سالانہ جلسہ کے موقعہ پر ہندو پریس کی اشتعال انگیزی فتح ا دسمبر شاہ پیش کے اجلاس میں کئی ہزار کے مجمع میں کم رو دی گئی اور پھر اس فتح / دسمبر ہمیش کے الفصل " میں بھی شائع کر دی گئی مگر ہند و پولیس نے اخبار " سول اینڈ ملٹری گزٹ " کی پھیلائی ہوئی خبر کو بڑی اہمیت دی اور اخبار پرتاپ ( ۳۰ دسمبر) نے تو پورے صفحہ کی یہ علی مشر حتی قائم کی کہ پنجاب گورنمنٹ اپنی انٹی احمد یہ پالیسی ترک کر دے نہیں تو ہم جوابی کارروائی کریں گے اور اس کے نیچے یہ عنوان دیا " خلیفہ قادیان مرزا بشیر الدین احمد کی حکومت کو دھمکی کہ ہمارا مذہب ہمیں عدم تشدد کی تعلیم نہیں دیتا ہ اخبار پرتاپ " کے علاوہ اخبار" احسان بھی اس مہم میں شامل ہو گیا اور اس نے سول اینڈ ملٹری گزٹ اور پھر تاپ میں شائع شدہ غلط بیانی کا ایک فقرہ لے کر قادیانی اور کانگرس " کے عنوان سے یکم جنوری اللہ کی اشاعت میں ایک مقالہ افتتاحیہ بھی لکھ دیا.سے اخبار پرتاپ " کی دوبارہ زہر چکانی اصل حقیقت کھل جانے پر اخبار پرتاپ نے جماعت احمدیہ کی مخالفت کے لئے پھر پہلی افواہ کو پھیلانا شروع کر دیا.چنانچہ پر جنوری نہ کے شمارہ میں لکھا :- ور معلوم ہوتا ہے کہ احمدیہ جماعت قادیان کو ایک ایسی سٹیٹ بنانا چاہتی ہے جس میں ان کی مطلق العنان حکومت ہو جس میں سوائے اس جماعت کے کوئی جماعت یا فرقہ اپنے دھارمک به بحوالہ " الفضل " و صلح / جنوری ۳۳ پیش " " +191 صفحه ای
مجلسی جلسے بھی منعقد نہ کر سکے مگر قادیانی اصحاب کو معلوم ہونا چاہیے کہ ایک علیحدہ سٹیٹ بنانے کے متعلق ان کے خواب پورے نہیں ہو سکتے.یہ بیسویں صدی ہے.اس میں اس قسم کی مطلق العنانی نہیں نکل سکتی ہے فتنہ دوسری شکل میں چند ماہ بعد فتنہ نے یک نئی کروٹ لی ہوا یہ کہ سکھوں کے ایک اخبار شیر نجاب نے ۲۷ اپریل شاہ کے پرچہ میں ” قادیان میں فرقہ وارانہ جنگ کی تیاریاں" کے عنوان سے چودھری فتح محمد صاحب سیال کی 11 کی ایک ذاتی یاداشت کو " گشتی پھٹی اور ایک شقیہ سرکہ کا نام دے کر لکھا کہ جماعت احمدیہ کے ناظر اعلیٰ نے ایک خفیہ سرکلو یاگشتی مراسلہ احمدیوں کو بھیجا ہے جس میں فرقہ وارانہ جنگ کے لئے تیاری کرنے کی تلقین کی گئی ہے.منافرت پھیلانے کی یہ ایک خطرناک کوشش تھی جس کا سدباب کرنے کے لئے اخبار الفضل نے ۳، ۷ار ہجرت مئی یہ مہش کی اشاعتوں میں پر زور اداریے لکھے اور بتایا کہ جماعت احمدیہ کے ناظر اعلیٰ نے ایسا کوئی مراسلہ جاری نہیں کیا اور جو تحریر سر کو قراردی جارہی ہے وہ حضرت چوہدری صاحب کے محض پرائیویٹ اور ذاتی نوٹ تھے جو حفاظت قادیان" کے عنوان سے اُس زمانہ میں لکھے گئے جبکہ سکھوں نے ، اگست کو پولیس کی موجودگی میں مربع گرا دیا تھا اور قادیان پر حملہ کر کے اُسے ٹوٹ لینے کی دھمکیاں دی تھیں.چوہدری صاحب نے از خود چند حفاظتی تھے وہ کاغذ کے ایک پرندہ پر لکھیں جونہ شائع ہوئیں نہ کہیں بھیجی گئیں.نہ ان پر کوئی عملدرآمد ہوا.کاغذ کا یہ پردہ کسی طرح مصری پارٹی کے ہاتھ آگیا.یہ لوگ پہلے تو عام سکھوں کو یہ کا منہ دکھاتے رہے مگر اُن پر کوئی اثر نہ ہوا.البتہ سکھ اخبار شیر پنجاب نے اُسے خوب اچھالا اور ہندو اور مسلمان اخباروں میں اس کی بازگشت سنائی دینے لگی.ہندو پریس جو اُن دنوں جماعت احمدیہ کی مخالفت میں بہت پیش پیش تھا.رالفضل کی تردید کے باوجود ) برامہ اس کی اشاعت کرتا رہا.بلکہ اخبار " پرتاپ " ۲۳۱ مئی الہ نے تو حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے یہاں تک لکھ دیا کہ "کیا وہ خفیہ سر کر جو جماعت احمدیہ کے صدر مقام سے احمدیوں کے نام بھاری ہوا ہے پنجاب گورنمنٹ کی نظر سے گزرا ہے ؟ اور گزرا ہے تو اس نے اس بارہ میں کیا کارروائی کی ہے.یہ بحواله الفضل صلح جنوری له میش صفحه 1 : ۱۳۲۰ ۱ / سلالالالاليم ے اس واقعہ کی تفصیل " تاریخ احمدیت جلد ششم (صفحہ ۱۶۹-۱۷۱) میں موجود ہے : " الفضل " یکم احسان / چون " ستہ ہیں ١٩٤ صفحه
١١٢ سرکلر یقیناً اس بات کا مستحق ہے کہ اس کے خلاف ڈیفنس آف انڈیا رولز کے ماتحت کارروائی کی بجائے" سے ފ حلة كات " ۲۴ اخبار الفضل "چیلنج اخبار الفضل " وہ ہجرت معنی ہیں نے اخبار پرتاپ" اور اس کے ہم نوا دوسرے اخباروں کو جو مسلسل تردید کے باوجود غلط بیانی اور مغالطہ انگیزی سے باز نہیں آرہے تھے، کھلا انعامی چیلنج کیا کہ اگر وہ اس نام نہاد سرکلہ کی کاپیاں بہیت کر دیں تو انہیں ہر کاپی پر سو روپیہ انعام دیا جائے گا.مگر ایسا کوئی سرکلر تھا ہی نہیں تو وہ کہاں سے لاتے.اور جیسا کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے وضاحت فرمائی کہ و اگر کوئی ایسا سر کار بھیجا جاتا تو وہ ناظر امور عامہ کی طرف سے ہونا چاہیئے تھا نہ کہ ناظر اعلئے کی طرف سے.ہمارے نظام کے لحاظ سے اس کا تعلق ناظر امور عامہ سے ہے ناظر اعلیٰ سے نہیں یہ امر بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ ایسا کوئی سرکلہ ہے ہی نہیں.ناظر اعلی تو آئینی لحاظ سے ایسا مرکز بھیجنے کا مجاز ہی نہیں.ناظر اعلیٰ کی طرف سے ایسے سرکلر کا بھیجا جانا تو ہمارے کانسٹی ٹیوشن کے ہی خلاف ہے.اگر ایسا سر کلر بھیجا بجاتا تو ناظر امور عامہ کی طرف سے بھیجا جاتا.پس یہ بات سرے سے بناوٹی ہے.سکے اب حقیقت پوری طرح کھل چکی تھی.مگر چونکہ جماعت احمدیہ کی مخالفت سرکلر کا دوبارہ شاخسانہ کرنے والے ہندو سکھ اور کانگریس نواز عناصر کا مقصد جماعت احمدیہ کو بدنام کر کے اسے عوام اور حکومت کی نظروں میں گرانا اور نقصان پہنچانا تھا.اس لئے کچھ عرصہ کے بعد اس مفروضہ سرکلر کا شاخسانہ دوبارہ کھڑا کر دیا گیا.اور اس دفعہ اس پراپیگینڈے کا آغاز حکومت کے ایک آفیسر یعنی سردار بچن سنگھ سب انسپکٹر پولیس بٹالہ کی طرف سے کیا گیا اور حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیال ناظر اعلیٰ کے خلاف اس زور اور شدت سے افواہیں پھیلائی گئیں کہ حکومت کے بعض وزرا بھی خلافی کا شکار ہو گئے اور جماعت احمدیہ کی نسبت بدگمانیوں کا دروازہ پہلے سے بہت زیادہ وسیع ہو گیا.جب صورت حال اس درجہ پیچیدہ ہو گئی تو نمائندہ الفضل نے چودھری فتح محمد صاحب کا مفصل انٹرویو بحوالہ " الفصل ۲۴ ہجرت مئی م مر ہی صفحہ کالم ۳-۴ : ۶۱۹۴۱ 71957 ے " لفضل میکم ماه احسان احون مش صفحه ۵ کالم ۳ - ۴ :
١١٣ شائع کیا جس میں اصل واقعات اور ان کے پس منظر پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی تھی.اس اہم انٹرویو کا ایک حصہ درج ذیل کیا جاتا ہے :.میں گذشتہ پندرہ سال میں متواتر ضلع گورداسپور کے دیہات کا دورہ کرتا رہا ہوں اور مختلف دیہات میں میرے لیکچر ہوتے رہے ہیں جن کی تعداد ایک سال میں اوسطاً پچاس تک رہی ہے.لیکن پولیس ایک مثال بھی ایسی پیش نہیں کر سکتی جس سے ثابت ہو کہ میں نے کبھی سکھوں ؟ مسلمانوں یا سکھوں اور احمدیوں کو ایک دوسرے کے خلاف اکسایا.اس کے برعکس میں نے ہمیشہ انہیں آپس میں پُر امن اور محبت سے رہنے کی تلقین کی.پولیس میری تقریروں کو نوٹ کرتی رہی ہے.اور وہ دیکھ سکتی ہے کہ میں نے کبھی کوئی ایسی بات نہیں کہی جس سے مسلمانوں یا احمدیوں کو سکھوں کے خلاف مشتعل کیا گیا ہو.ہاں میں سکھ اور مسلمان دیہاتیوں کو یہ تلقین کرتا رہا ہوں کہ سودی لین دین سے پر ہیز کیا جائے اور ساہوکاروں کے پنجے سے بھیں بلاوہ ازی قانون انتقال اراضی کی بعض دفعات کی وضاحت کی جاتی رہی ہے تا عوام اس سے فائدہ اُٹھائیں.نیز میں عوام کو یہ بھی کہتا رہا ہوں کہ بدمعاشوں کے خلاف پولیس کی امداد کی بجائے تا گاؤں کے پر امن لوگ نقصانات سے بچ جائیں.علاوہ ازیں جنگی امداد کی تحریک کرتا رہا ہوں اور حضرت امام جماعت احمدیہ کے جنگی امداد سے متعلق خطبات کو دیہاتیوں تک پہنچاتا رہا ہوں.شرارت کے وجوہ کے ذکر میں بجناب چوہدری صاحب نے فرمایا.میں سمجھتا ہوں کہ میرے خلاف ایجی ٹیشن پھیلانے والے دو طبقے ہیں.اول پولیس کا رشوت خور عنصر اور دوسرے ساہو کا طبقہ.ظاہر ہے کہ ان ہر دو گروہوں میں انسانی ہمدردی کا جذبہ بالکل مفقود ہوتا ہے.اور اب چونکہ یہ عناصر تختم ہونے پر نہیں اس لئے انہیں گھبراہٹ ہو رہی ہے.آپ نے فرمایا.مجھے اس بات سے سخت رنج ہے کہ میرے سکھ دوستوں میں میرے خلاف پروپاگنڈہ کر کے خطرناک قسم کی باطنی پھیلانے کی کوشش کی گئی ہے.لیکن میں اس کے متعلق فی الحال صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں اور سکھوں میں جو بھاٹ قوم کا حصہ ہے اُن کو یقین دلاتا ہوں کہ میری تکالیف کی اصل وجہ زمینداروں کی خیر خواہی ہے خواہ وہ مسلمان
۱۱۴ ہوں یا ہندو یا سکھ.ان کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئیے کہ جب کسی غیر زراعت پیشہ سکھ کی طرف سے پراپیگنڈہ کیا جارہا ہے تو اس کا کیا مطلب ہو سکتا ہے.اس ضمن میں اس امر کا بھی ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ نشانہ میں اس علاقہ میں زمینداروں نے اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے ایک کمیٹی بنائی تھی جس میں علاقہ کے معززہ ہندو سکھ اور مسلمان نہینڈر شامل تھے.ان لوگوں نے بالاتفاق مجھے صدر منتخب کیا تھا اور اس کے متعدد اجلاس موضع بگول.قادیان اور دیگر مقامات پر ہوئے.اس کمیٹی کی اغراض میں یہ بھی تھا کہ زمینداروں کو ساہوکاروں سے اور رشوت خور افسروں سے بچایا جائے.نیز زمینداروں کی فلاح وبہبود کے لئے جو توانین پاس کئے گئے ہیں ان کی وضاحت مقصود تھی تا زمیندار اُن سے کما حقہ فائدہ اُٹھا سکیں.ایک ساہوکار نے اڑتیں ساله گردی ناموں کو واپس کر کے بعض بیوقوف زمینداروں سے ہیں سالہ یا دس سالہ مستاجری لکھوانی شروع کر دی تھی.ان جلسوں میں زمینداروں کو بتایا گیا کہ وہ ساہوکاروں کے اس قسم کے سہتھکنڈوں سے بچیں.انہی دنوں اسی ساہوکانہ کی سازش سے میرے خلاف ایک غیر زراعت پیشہ تھانیدار کے زمانے میں ایک خود غرض اور پولیس کے اتھ میں کھیلنے والے زمیندار سے رپوڑ میں لکھوائی گئیں اور مجھے بدنام کرنے کی کوشش کی گئی " سے مرزا سلیم بیگ صاحب بکارکن اعلی ہائیکورٹ مزا سلیم بیگ صاحب کے داد مرزا عبدالقادر یا مطلب اور حضرت ام المومنین کی نانی اماں محترم حضر قادری بیگم حیدر آباد دکن و سیاح بلاد اسلامی ادیان ماہ دونوں حقیقی بھائی ہی تھے.ان خاندانی تعلقت صاحبہ کی تجدید مرزا سلیم بیگ صاحب کو دوبارہ فتح / دسمبر و پیش میں قادیان سے آئی.مرزا سلیم بیگ صاحب کی آنکھ نے مرکز احمدیت میں کیا دیکھا ؟ اس کی تفصیل خود ان کے قلم سے لکھی جاتی ہے.فرماتے ہیں :.لعہ کی بات ہے جبکہ میں دہلی میں میاں بشیر الدین محمود احمد (خلیفہ اسیح، اور آیا نصرت جہاں بیگم (ام المومنین سے ملا تھا.عرصہ تک پھر ملنا نہیں ہوا.حالانکہ ڈاکٹر محمد المغصیل صاحب سے بارہا دہلی میں ملتا جلتا رہا حیدر آباد کی ملازمت نے وطن سے دور کر دیا.بیگانے ن الفضل ۱۹ صلح / جنوری ۱۳۳۳ پیش صفحه ۴ کالم اس ۱۹۴۴ء
۱۱۵ اپنے ہو گئے اور اپنے بیگانے کنبہ کے بہت سے لوگ نئی پیدا وار کے ہیں.یہ نہ بھانتے ہیں نہ پہچانتے ہیں.اور ان باتوں کا موقع بھی نہیں ملتا.دہلی کا کنبہ ہندوستان کے بھاروں کھونٹوں میں آباد ہو گیا ہے.ہر شخص نے اپنا نیا گنبد بنا لیا ہے اور نئی جنت بنا ڈالی ہے.میں بھی اپنی دنیا میں بہر حال آباد ہوں.اسی طرح قادیان میں ایک کنبہ آباد ہے بجو لوگ جانتے ہیں وہ جانتے ہیں.زندگی میں دو چار دفعہ ملتا ہو گیا ہے.ہم ختم ہوئے اور کتبہ داری کی زنجیر ٹوٹی شہر سے کی کسی ٹپنی میں ہمارا بھی نام لٹکا ہوگا.گرچہ بسے گذشت که نوشیروان نماند.اکثر دل چاہتا تھا کہ قادیان جاؤں اور ایک دفعہ تو مل آؤں مگر دہلی تک بجا کر اتنی دلچسپیاں بڑھ جاتی تھیں کہ رخصت کا مختصر زمانہ وہلی کی جنت میں ختم ہو جاتا اور قادیان جانے کی نوبت نہ آتی.تمنا تو ہمیشہ رہی مگر کبھی شرمندہ تعمیل نہ ہوئی.بالکل اتفاق تھا کہ نہ میں حضرت میاں محمود احمد صاحب حیدر آباد تشریف لائے اور عزیزوں سے ملنے کا انہوں نے خاص انتظام کیا.دیدہ اور باز دید ملاقاتوں میں تجدید محبت ہوئی.یا یوں کہئے کہ بچھڑے ہوئے اپنی زندگی میں پھر ہے.حیدر آباد کی یہ ملاقاتیں میرے قدیم خیال کو تقویت پہنچانے لگیں بن شاہ میں کلکتہ گیا تو جنگ کی وجہ سے بازاروں میں سرد بازاری پائی اور طبیعت نے قرار نہ لیا.اور قادیان کے ارادہ سے کلکتہ سے وہی پہنچا.اور دہلی سے قادیان.قادیان اور جماعت احمدیہ کی جو تصویر میں نے ذہن میں تیار کی تھی، وہ اس کے بعد و محال تازہ کرنا چاہتا تھا کہ علی الصبح گاڑی بدلنے کے لئے امرتسر کے اسٹیشن پر اترنا پڑا.پلیٹ فارم پر پہنچا تو معلوم ہوا کہ بہت سے مسافر قادیان کا اردو رکھتے ہیں.نماز اور ضروریات سے فارغ ہو کہ ایک دوسرے کا پرسان حال ہوا چنانچہ میرا تعارف بھی بہت سے اشخاص سے ہوا.اور کرایا گیا.ناشتہ کے لئے کئی اصحا نے مجبور کیا...بعض احباب نے تو اتنا کھلایا کہ میں نے اُن کے دستر خوان پر سے اُٹھنے پر اللہ کا شکر ادا کیا.کھانا وہ لوگ کھا رہے تھے اور میں ہاضمہ کی دوا اور ہیضہ کے انسداد پر خور کو رہا تھا.گاڑی جب بٹالہ پہنچی تو چار میں مجھے شریک ہونا پڑا.تواضع اور اخلاق کی مشین گن نے ایک پیالی چھار کی گنجائش نکال ہی لی اور قہر درویش بر جان در ولیش شکریہ کے ساتھ چار پی.بٹالہ سے گاڑی بدل کر قادیان جانے والی گاڑی میں سوار ہو گئے.
114 لیجئے صاحب! میں قادیان پہنچ گیا.ڈاکٹر صاحب اور عرفانی صاحب نے اسٹیشن پر یہی گلے لگایا.گلے ملتے اور باتیں کرتے ڈاکٹر صاحب کے ہاں پہنچے.ہاتھ منہ دھویا.چار اور تکلفات تو یہاں بھی بہت تھے مگر مجھے اپنی سلامتی کی ضرورت تھی محمود احمد صاحب عرفانی کو لے کر نکل گیا.یہ وہ شہر ہے نہیں کا نام برسوں سے سُنتا آرہا تھا.ہر مکان کو دیکھتا.ہر مکین پر نظریں جھاتا ، بازار کو دیکھتا، اور دوکانداروں کو گھورتا ، اس شہر نما قصبہ میں گزرتا رہا.قادیان کی وضع تو پنجاب کے اور قصبوں کی سی ہے مگر جماعت کے اتحاد، اتفاق اور تنظیم نے اس کو چار چاند لگا دیئے ہیں بڑے بڑے بنگله خانه باغ ، سٹرک مدر سے ، بورڈنگ ہاؤس ، اسپتال ، بازار اور ساہوکارہ ، برقی پریس، اطبار یونانی ، ویدک دواخانہ ، کارخانے جیسی چیزیں یہاں موجود ہیں.یہاں کی آبادی میں حضر مسیح موعود کے خاندان کے افراد آباد ہیں، جماعت کے کارکن آباد ہیں.وہ بھی آباد ہیں جو اعتقاد دایمان سے قربت چاہتے ہیں اور وہ بھی ہیں جو قربت حاصل کر چکے ہیں.ایسے بھی ہیں جو ترک وطن کر کے آباد ہوئے ہیں.ایسے بھی ہیں جو جماعت کی خاطر مقیم ہیں.ایسے طالب علم بھی ہیں جو شوق تبلیغ میں علم حاصل کر رہے ہیں.ایسے طالب علم بھی ہیں جو مدارس میں ابتدائی تعلیم کے لئے بورڈنگ میں ہیں جماعت کا ہر شعبہ ایک افسر کی نگرانی میں ہے اور اس افسر کا عملہ اور دفتر علیحدہ ہے.تمام دنیا کے ڈاک خانوں سے یہاں ڈاک آتی ہے اور بجاتی ہے تار آتے ہیں اور بجاتے ہیں.اس لئے قادیان کو قصبہ کہنا تو غلطی ہے.اچھا خاصہ شہر ہے اور انشاء اللہ تعالے روز بروزہ اس میں ترقی ہی ہوگی کیونکہ جواں ہمت اور جواں عزم جماعت کا کر رہی ہے اور پابند ملت مسلمانوں کی بستی ہے جو بستے بستے بسی ہے.عرفانی صاحب کے ساتھ میں جماعت کے مقامات دیکھتا، یادگاروں پر نظر ڈالتا قدیم 14 بستی میں آپا نصرت جہاں بیگم کے پاس پہنچا.یہاں جماعت کی طرف سے مسلح پہرہ ہے.اطلاع کرائی گئی اور زنانہ میں بلا لیا گیا.آپا نے بڑھ کر مجھے اپنے کمرہ میں لیا اور نہایت کمار نی آواز سے سلام علیکم کہا.مزاج پوچھا بخیریت دریافت کی.حالات پوچھے.گذرے ہوؤں کا ذکر کیا.زندوں کو دعادی عزیزوں کو نام بنام دریافت کیا اور پھر حاضر ہونے کے وعدہ پر میاں بشیر الدین محمود احمد صاحب سے ملنے باہر چل دیا.میاں مجھ سے ایک سال چھوٹے ہیں.
116 پنجاب کی آب و ہوا میں رہ کہ وہ کسب علم اور جماعت کی ضروریات کے انہماک میں رہ کرہ مجھ سے بڑے معلوم ہوتے ہیں.قومی مغلوں کے سے ہیں.آنکھوں میں چمک ویسی ہی ہے چہرے کی دونوں بڑیاں اُبھری ہوئی ہیں.کشادہ پیشانی ، بلند قامت ہیں.گفتار اور رفتار میں مردانہ وضع ہیں.میاں جس مکان میں رہتے ہیں یہ اور بھائیوں کے مکانات سے ملا ہوا ہے.بھتے بعدا بعدا ہیں مگر آپس میں سب ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں.ان مکانو تک موٹہ آجاتی ہے.یہاں سے قریب ہی مسجد اقصیٰ ہے اور اسی مسجد میں مینارہ اسیج ہے.یہیں نماز جمعہ ہوتی ہے.مسجد شاندار نہیں کیونکہ تھوڑی تھوڑی بنی ہے اور ہر حصہ اپنے پہلے حصہ سے جدا معلوم ہوتا ہے.قادیان کے قیام میں میرا ناشتہ تو ڈاکٹر صاحب کے ہاں ہو تا.اور وقتوں کے کھانے دعوتوں کی صورت میں ہوتے.دھوتوں سے وقت بچتا تو قادیان کے قرب و جوار کے مقامات دیکھنے میں صرف کرتا.محمود احمد عرفانی میرے ساتھ تھے اور بعد ھر مونہہ اُٹھتا اُدھر نکل جاتے.پنجاب کی آب و ہوا دسمبر کا مہینہ ، مرغن اور مکلف کھانے کھاتا بھی اور سہیم بھی کر بجاتا.اگر حیدر آباد میں ایک ہفتہ بھی بد پرہیزی کہ بھاتا تو اپریشن نہیں تو کم از کم تنقیہ معدہ کی ضرورت لاحق ہو بھاتی.عزیزوں نے محبت سے کھلایا اور ایک عزیزہ مسافر نے آنکھیں بند اور دل کھول کر مسافر نوازی کی داد دی.میرا قیام تو ڈاکٹر صاحب کے ہاں تھا مگر مہمانی پورے قادیان نے اور کی.ڈاکٹر صاحب اکثر جگہ ساتھ ہوتے گھر وہ نقرس کے مرض سے مجبور ہو گئے ہیں.آہستہ چھلتے ہیں.آہستہ بات کرتے ہیں.نہایت متین سنجیدہ اور تعلیم ہیں.سب سے محبت سے پیش آتے ہیں.سب کی خاطر کہ تے ہیں.سب سے نوش ہو کر ملتے ہیں.دہلی کی قدیم وضع کا مکان ہے جس میں پائیں باغی ہے.پنشن لے لی ہے اور قادیان میں اطمینان کی زندگی گزار رہے ہیں..جب تک میں قادیان میں رہا گویا میں دارات سلام میں رہا.نہ تو موسم کی تیزی نے کوئی بڑا اثر کیا اور نہ میری بد پرہیزی نے میرا کچھ بگاڑا.آپا صاحبہ (ام المومنین کا یہ وطیرہ رہا کہ علی الصبح مرے پاس پہنچ جاتیں اور دروازہ کو کھٹک کر اندر آجائیں.سلام علیکم کرتیں اور باتیں شروع
HA کر دیتیں.میں لحاف اوڑھے پلنگ پر بیٹھا ہوتا اور شہل ٹہل کر باتیں کرتی جائیں.آواز میں کرانہ چنا باقی ہے.ہاتھ پاؤں تندرست اور سیدھے ہیں.آنکھیں کام دیتی ہیں.فوسی میں تو نائی اور سیتی معلوم ہوتی ہے اور بات کو معقولیت سے گنتی ہیں اور معقولیت سے جواب رہتی ہیں.زندگی کے ہر شعیہ ہے.گفتگو کر تی ہیں اور بے دھڑک خیالات کا اظہار کرتی ہیں.پان کا زیادہ شوق ہے.باتیں کرتی جاتیں ہیں اور پان کھاتی جاتی ہیں.دلّی والوں کا سا لباس ہے.اُونی پانتا بہ پہن کر گرم رنگین تنگ موری پاجامہ پہنتی ہیں.گرم اُونی گرتہ پر سویٹر پہن کہ کشمیری شال سر سے اس طرح اوڑھتی ہیں کہ سر بھی ڈھک جاتا ہے اور مغلہ بھی معلوم ہوتا ہے.اوور کوٹ پہن کر ان سب کو ایک جگہ کر لیتی ہیں.ایک ہاتھ میں تسبیح اور ایک میں دستانہ ہوتا ہے.علی الصبح بعد نماز گھر سے نکلتی ہیں.پہلے عزیزوں کے ہاں ، دوستوں کے ہاں، اخلاص ، سندوں اور معتقدوں کے ہاں بھاتی ہیں.اس میں مزاج پرسی ، دریافت حال عیادت اور تیمار واری سب ہی کچھ ہوتا ہے.کہیں بچوں کا علاج کرتی ہیں اور کہیں بڑوں کی مزاج پرسی ، کسی جگہ دوا بتاتی ہیں اور کہیں دوا خود تیار کر کے دیتی ہیں.دلّی کی بڑی بوڑھی بیگمات کا یہ طریقہ تھا کہ بچوں کے درو دکھ کا علاج گھر کی بڑی بوڑھی بیگمیں کیا کرتی تھیں.وہی آیا صاحبہ کا طریقہ کا ر ہے.اور اس علاج معالجہ میں ان کو اچھی دستگاہ.ہے چھوٹے چھوٹے چکنے بچوں کے معمولی امراض میں بہت مفید ہوتے ہیں.دس گیارہ بجے تک وہ اپنی اس مصروفیت سے فارغ ہو کہ گھر پہنچے جھاتی ہیں.دوپہر کا کھانا کھا کر آرام کرتی ہیں.ظہر اور عصر کی نماز تک گھر میں بہو بیٹیوں سے ملتی رہتی ہیں اور شام کو پھر چہل قدمی کو نکل جاتی ہیں.اس پروگرام کی وہ حتی المقدور پابندی کرتی ہیں.اس وقت ان کی عمر ( ۵ ) سال ہے مگر موردہ میں جوان ہیں عمل میں جوان ہیں.اپنے عرسم میں جوان ہیں.ایک بارعب کمانڈر کی طرح قادیان کی آبادی پر اثرہ ہے.جس طرح خلوص اور محبت سے ملتی ہیں.اسی طرح رعب اور اثر سے کام لیتی ہیں.ان امور میں اُن کو دلچسپی ہے اور اسی کو انہوں نے اپنا شغل بنا رکھا ہے.جس طرح کنبہ کو اُن کی ضرورت ہے.اسی طرح قادیان کی سه اصل بیان میں والدین کے درمیان کوئی لفظ نہیں تھا.مگر چونکہ حضرت ام المومنین کی ولادت ا اد میں ہوئی اس لیے یہاں مرتب کی طرف سے معین عمر لکھ دی گئی ہے ؟
119 آبادی کو ان کی ضرورت ہے.یہ بلالحاظ مذہب و ملت ہر ایک سے حسن سلوک کے ساتھ ملتی ہیں جو کچھ ممکن ہوتا ہے اس کی خدمت کرتی ہیں.اطمینان اور دلاسہ دیتی ہیں.بہر حال برسوں کی آرزو پوری کر کے عزیزوں سے مل کے، قادیان کو دیکھ کے، قادیان سے رخصت ہو گیا.جی تو چاہتا ہے کہ ایک دفعہ اور ہو آؤں مگر اے بسا آرزو که خاک شده" اب تک تو یہی ہو رہا ہے آئندہ کی خبر خدا جانے.والسلام - سلیم بیگ مرزا سلیم بیگ صاحب نے اپنے سفر قا دیان م صاحب کا ایک اور تحریری بیان کے رات کا اظہار اپنے ایک دوسرے تحریری بیان میں بھی کیا.چنانچہ انہوں نے لکھا :.اہ میں پہلی مرتبہ مجھے قاہرہ (مصر) بجانے کا اتفاق ہوا.میں قاہرہ میں ٹھہر گیا.اور مرے ہم سفر دوست دو روزہ قاہرہ میں ٹھہر کہ یورپ چلے گئے.تقریباً ایک ہفتہ کے بعد مجھے قاہر میں محمود احمد صاحب عرفانی سے ملنے کا شرف حاصل ہوا.کچھ وطنیت کچھ سلسلہ واقفیت نے ہم دونوں کو اس طرح متحد کیا کہ میرا اکثر وقت محمود احمد صاحب عرفانی کے ساتھ گزرنے لگا.عرفانی صاحب قاہرہ میں جماعت احمدیہ کی طرف سے مبلغ اسلام تھے اور وہاں اپنے مشن کا کام مصریو میں نہایت ہی خوبیوں کے ساتھ کہ رہے تھے.اجنبیت اور غیر ملکی ہونے کے باوجود عرفانی صاحب نے مصری شرفاء کی مجلسوں میں اچھا رسوخ پیدا کر لیا تھا.نامور اور ذمہ دار مستیوں سے مراسم رکھتے تھے.اس لئے عرفانی صاحب کی وجہ سے مجھے قاہرہ اور زندگی قاہرہ کے مطالعہ کا کافی موقع ملا.اور مکیں اس مشن کی کوششوں کو بھی دیکھتا رہا جو عرفانی صاحب مبلغ کی حیثیت سے وہاں انجام دے رہے تھے.عرفانی صاحب کی ہی رہبری سے فلسطین اور شام میں محبت احمدیہ کے تبلیغی مشن کی کوششوں کو دیکھا.دوسری مرتبہ 29 میں قاہرہ بجانے کا اتفاق "سيرة حضرت سيدة النساء ام المومنين نصرت جہاں بیگم " صفحه ۱۹۶ تا ۱۹۸ (حصہ دوم) ناشر حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کبیر حیدر آباد دکن تاریخ اشاعت ۲۵ جولائی شانه و مطبوعه انتهای پرسیس حیدر آباد دکن)
۱۲۰ ہوا.اور یہ میری خوش نصیبی تھی کہ عرفانی صاحب موجود تھے.اور ان کا مشن نہایت کامیابی اپنے کام میں لگا ہوا تھا.اس مرتبہ کی طلاقات تجدید اتحاد کا باعث ہوئی اور سیشن کی کارگذاری پر میشن کے رسوخ پر مبلغ کے خلوص پر غور کرنے کا بہت زیادہ موقع کا.میں ان تاثرات کو لئے ہوئے فلسطین، شام ، استنبول اور بولن وغیرہ گیا.یہاں مجھے جماعت احمدیہ کی تنظیم اور کوششوں کا ثبوت ملتا گیا.مجھے حقیقتاً نہایت صد قدل سے اس کا اعتراف ہے کہ میں نے ہر جگہ جماعت احمدیہ کے مبلغوں کی کوششوں کے نقوش دیکھے.ہر جگہ اسلامی روایات کے ساتھ تنظیم دیکھی.ہر جگہ اس جماعت میں خلوص اور نیک نیتی پائی.جماعت احمدیہ میں سب سے بڑی خوبی اتحاد عمل اور امام جماعت کے احکام کی پابندی ہے.اس لئے اس کے اراکین کہیں اور کسی حال میں شعار اسلام اور احکام اسلام کو نظر انداز نہیں کرتے اور نہ ہی اپنی اصلی غرض اور فرض سے انجان ہوتے ہیں.تقریروں، تحریروں یا ملاقاتوں میں ان کا نقطہ نظر موجود ہوتا ہے اور وہ اشارہ کتابیشہ اپنا کام کئے بھاتے ہیں.محنت برداشت کرتے ہیں.غیر مانوس اور غیر مشرب لوگوں میں رسوخ پیدا کر کے اپنے فرائض کی تکمیل کرتے ہیں.اور اپنی تبلیغی حیثیت کو نمایاں رکھتے ہیں.محمود احمد صاحب عرفانی نے یہ میں قاہرہ سے ایک اخبارہ اسلامی دنیا بھی اُردو زبان میں ٹائپ پریس سے شائع کیا تھا.یہ اخبار مصور بھی تھا اور اُردو میں اسلامی دنیا کی خبریں نہایت شرح وبسط سے شائع ہوتی تھیں.افسوس ہے کہ ناگزیر مجبوریوں نے اس اخبار کو جاری نہ رہنے دیا اور اشاعت بند ہو گئی.اس اخبار میں کچھ حصہ میرے سفر کا بھی شائع ہوا تھا.شام و مصر کی ان ملاقاتوں کا یہ اللہ ہوا کہ مجھے جماعت احمدیہ کے صدر مرکزہ قادیان جانے کا اتفاق ہوا.دسمبر 11 ہ میں قادیان دارالسلام پہنچا.قادیان امرتسر سے تقریباً ۵۰ میل ہے.دیل جاتی ہے مگر دو تین بجگہ اس کو بدلنا پڑتا ہے.یہ ایک گاؤں ہے جہاں مجھے احمدیہ کے عروج کے ساتھ اس قصبہ کو بھی عروج ہو رہا ہے.سڑکیں بن گئی ہیں.مکانات تعمیر ہو گئے ہیں.باغ اور کھیلوں کے میدان تیار کئے جارہے ہیں.اسپتال، مدارس اور بورڈنگ ہاؤس تیار ہیں جہاں اس جماعت کے اساتذہ جماعت کے ہونہار بچوں کی تعلیم و
۱۲۱ تربیت پر لگے ہوئے ہیں.ہسپتال جس کا خرچ جماعت احمدیہ برداشت کرتی ہے.منظم اور ایک حد تک آلات و ادویات سے آراستہ ہے.بورڈنگ ہاؤس کی عمارت بہت وسیع اور شاندار شاہجہانی وضع پر تعمیر کی گئی ہے جو ایک پر فضا مقام پر سکول کے متصل ہے.اس کے قریب وہ میدان ہے جہاں جماعت کے ضروری اور سالانہ اجلاس ہوتے ہیں.میں نے دیکھا ہے کہ سالانہ اجلاس کی تیاری اس میدان میں نہایت وسیع پیمانے پر ہو رہی تھی.مہمانوں کے قیام، ہمانوں کے طعام و ضروریات زندگی کی فراہمی پر اراکین کی سعی بلیغ قابل تحسین و قابل تقلید تھی.اوقات و اہتمام کی تقسیم جو اس جماعت کی نمایاں خوبی ہے ، سرعت و خلوص نیت کے ساتھ کار فرما تھی.گو میں سالانہ اجلاس کے وقت تک قیام نہ کر سکا مگر انتظام و اہتمام کے نقوش میرے سامنے تھے اور ہر وقت میں اُن کی یک جہتی کا قائل اور اُن کی مدنیت کا شیدا ہوتا گیا.قبرستان کا اہتمام اور اس میں صنعت بندی میں نے پہلی مرتبہ قادیان میں دیکھی بغیر کسی آرائش اور لحاظ منصب کے اس قبرستان میں قبور ایک صف میں بنائی گئی ہیں مدفن کی لوح ، مدفونوں کی ایک مختصر تاریخ وفات اور وصیت نامہ کے نمبر رجسٹری کے ساتھ کند ہوتی ہے.ہر قبر پہ بالالتزام یہ لوح ہوتی ہے.ہر قبر دوسری قبر سے معقول فاصلہ پر ہوتی ہے ہر صف کے آمدو رفت کے لئے راستہ چھوڑا جاتا ہے اور ممکن طریقہ پر اس قبرستان کو سایہ دا درختوں سے خوش نما کیا گیا ہے.قادیان میں اکثروں نے ترک وطن کر کے سکونت اختیار کر لی ہے.یہاں ایک ایسی انجمن بھی ہے جو اپنی جماعت کو قادیان میں تعمیر مکان کیلئے قرضہ دیتی ہے.بالاقساط وصول کرتی ہے.اس جماعت کے اراکین اپنی املاک جماعت کے لئے وقف کر دیتے ہیں اور اس کا انتظام بھی ایک خاص محکمہ کی نگرانی میں ہوتا ہے.خزائد ، داد وستد امور مذهبی ، نشر و اشاعت ، اہتمام ترکه و وقت کے لئے محکمہ جات قائم ہیں.بہر ایک کے لئے مقررہ عملہ اور عہدہ دار ہیں.ان سب دفاتر پر خلیفہ ثانی حضرت میاں بشیر الدین محمود صاحب کی نگرانی ہے جو بالذات روزانہ اس کی خدمات کی جانچ کرتے ہیں : حبس زمانہ میں مجھے قادیان بجانے کا اتفاق ہوا حضرت خلیفہ صاحب تفسیر قرآن لکھنے میں مصروف
۱۲۲ تھے.یہ تفسیر قادیاں میں شب و روز کی محنت سے بر وقت شائع ہوئی اور حضرت صاحب کی عنایت سے اس تفسیر کبیر کی ایک جلد مجھے بھی حیدرآباد میں ملی جس کا میں بے حد ممنون ہوں.خداوند تعالے اُن کے کام میں برکت دے اور تمہیں احکام قرآنی کے سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین فقط نے مولوی محمد رفیق صاحب مجاہد اس سال کا ایک امناک واقعہ مولوی محمد رفیق صاحب محب بعد تحریک جدید کا انتقال ہے جو ترکستان کے مشہور شہر کا شعر میں تحریک جدید کا انتقال ہوا.مولوی صاحب موصوف چاچڑ ضلع شاہ پور کے رہنے والے تھے.تحریک جدید کے دسویں مطالبہ کے تحت وہ تحریک جدید سے صرف زاد راہ نے کر وطن سے نکل کھڑے ہوئے تھے با ۱۹۳ ء میں آپ مولوی (راجہ عدالت خال صاحب کی قیادت میں کشمیر پہنچے مولوی عدالت نفان صاحب کو اپنے ضلع سے غیر تسلی بخش رپورٹ آنے پر پاسپورٹ نہ مل سکا مگر آپ کو مل گیا اور آپ کچھ عرصہ سرینگر ٹھہرنے کے بعد گلگت پہنچے گلگت سے کا شعر تک کا سفر نہایت دشوار گذار ہے.راستہ میں سر فیک پہاڑ اور خوفناک برفانی میدان آتے ہیں.مولوی محمد رفیق صاحب دو ماہ میں یہ لمبا سفر طے کر کے صحیح و سالم کا شہر پہنچے.قیام سرینگر کے دوران آپ نے کچھ چینی زبان سیکھ لی تھی.کا شعر پہنچے کہ آپ نے درزی کا کام شروع کر دیا.پھر پارچہ فروشی بھی کرنے لگے روسی حکومت کے حکم سے چند دن نظر بندر ہے مگر تبلیغ احمدیت کا کام برابر سرگرمی سے کرتے رہے.ترکستان میں احمدیت کا بیج بو دیا یعنی حاجی آل احمد صاحب اور باجی جنود الله صاحب معه خاندان احمدی ہو گئے جیسا کہ جلد مفتم میں ذکر کیا جا چکا ہے.موادی صاحب موصوف کا شعر میں تبلیغی جہاد میں مصروف تھے کہ یکایک استسقاء کی مہلک بیماری میں مبتلا ہو گئے اور اس سال شاش کے آخر میں اپنے مولائے حقیقی کو جاہے.فانا للہ وانا الیہ راجعون مرکز احمدیت قادیان صفحه روم تا ۶۳ م مولعه شیخ محمد احمد صاحب عرفانی مرحوم کے الفصل ، رفع ایر این ایران آپ قیام پاکستان کے بعد سرگودھا میں آباد ہو گئے تھے اور شہر میں ایک اعلیٰ معالج دندان کی حیثیت سے خاصی شہرت رکھتے تھے.۲۳ ظہور / اگست یہ مہیش کو آپ کا اسی شہر میں انتقال ہوا.اور اگلے روز کے کام بہشتی مقبرہ ربوہ میں سپرد خاک کئے گئے.آپ نے گیارہ بچے اپنی یادگار چھوڑے ہیں "الفضل "مورخہ ۲۷-۲۵ ظهور را گسترش ) :
۱۲۳ فصل ششم تفسیر کبیر جلد سوم کی اشاعت فتح اوسمبر اس پر بہش کا دن سلسلہ احمدیہ کی تاریخ میں ہمیشہ یادگار رہے گا.کیونکہ ہی وہ مبارک $190.دن ہے جبکہ حضر سے امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے مقدس ہاتھوں سے تفسیر کبیر جلد سوم جیسی معرکۃ الآرا تفسیر کی تالیف کا عظیم الشان کام پایہ تکمیل کو پہنچا.اس کے تین روز بعد العینی ۲۴ فتح کی) اس کی طباعت کا مرحلہ ختم ہوا.اور ۲۴-۲۵ فتح / دسمبر کی درمیانی شب کو میاں عبداللہ صاحب مالیر کوٹلوی جلد ساز نے اس کی ابتدائی مجلد کا پیاں تیار کیں اور یہ روحانی خزانہ سالانہ جلسه میش پر پہلے بیرونی احباب کو حاصل ہوا، اور بعد کو قادیان کے احمدیوں کے ہاتھوں تک پہنچا.اس طرح دنیائے تفسیر میں ایک ایسے انقلاب انگیز دور کا آغاز ہوا جس سے لاکھوں قلوب و اذہان میں خدائے عزوجل کے کلام پاک کی نئی شمعیں روشن ہو گئیں اور قرآن مجید کے غیر محدود حقائق و معارف معلوم کرنے کے لئے بیشمار در پیچے کھل گئے.جیسا کہ جلد ششم کی چوتھی فصل (صفحہ ۷۷ تا ۸۳) میں بالتفصیل ۹۲ہ کا مشہور درس القرآن بتایا جا چکا ہے کہ حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ اور اُس کے نوٹ نے دراگست ۹۲۸ہ سے لے کر ستمبر شاہ تک ایک نہایت روح پرور درس قرآن دیا تھا جو سورہ یونس سے سورہ کہف کے پانچ پاروں پر مشتمل تھا.اس درس کے لکھنے کی سعادت حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب ، حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب جٹ مولانا ارجمند خان صاحب، مولانا غلام احمد صاحب بد و ملہوی ، مولوی ظہور حسین صاحب (مبلغ بخارا و روس ) مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری، حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی ، مولانا عبدالغفور صاحب ، مولوی محمد یار صاحب عارف ، مولوی ظفر الاسلام صاحب اور شیخ چراغ الدین صاحب کو نصیب ہوئی.سکے رو ر " الفضل" ۲۷ فتح / دسمبر س ا ر ش صفحه ۴ کالم ۲ - ۳ : سیجی از تاریخ احمدیت مجلد ششم صفحه ۲۸ ۱۹۴۰
۱۳۴ حضرت امیر المومنین کا ابتدا ہی سے منشاء مبارک تھا کہ درس کے نوٹ نظر ثانی کے بعد کتابی صورت میں شائع کر دیئے جائیں تا حضور کے بیان فرمودہ قرآنی معارف محفوظ ہو جائیں.حضرت اقدس نے اس غرض کے لئے مولوی محمد اسمعیل صاحب فاضل حلالپوری کو مقرر فرمایا.حضرت مولوی صاحب کی نگرانی میں سورہ یونس وسُورہ ہود کے تفسیری نوٹ ۲۵۶ صفحات تک طبع ہوئے جس کے بعد عرصہ تک تفسیر کا کام ملتوی رہا.البتہ جن دوستوں کو تفسیر کے پڑھنے کا از حد شوق تھا انہیں تفسیر کے مطبوعہ صفحات ہی دے دیئے گئے.حضور نے سالانہ جلسہ ہ پر قرآن مجید کی تفسیر کے جلد شائع کئے جانے کا اعلان فرمایا اور ارادہ کیا کہ قرآن کریم کی تفسیر کا کام ابتدا ہی سے شروع کر دیں.چنانچہ حضور نے سر رمیش کے آغاز میں ۶۱۹۴۰ بہت محنت اور عرقریزی سے کئی سو صفحے نوٹوں کے تیار بھی کہ لئے مگر پھر خیال آیا کہ اس طریق سے قرآن کریم کی تفسیر کا چھپا ہوا حصہ پڑا رہے گا.لیکن اگر درس کے نوٹ ترمیم و اصلاح یا اضافہ کے ساتھ شائع کر دیئے جائیں تو کاغذ بھی ضائع نہ ہوگا اور کام بھی جلد مکمل ہو جائے گا.حضور نے اس خیال کے آتے ہی پہلے پارہ کے نوٹ لکھنے بند کر دیئے اور اس کی بجائے سورہ یونس تا کہف کی تفسیر مکمل کرنے کا فیصلہ فرمایا.ابھی کام شروع نہیں ہوا تھا کہ حضور ۲۴ مسلح کو کراچی تشریف لے گئے.حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب ملالپوری بھی حضور کے ہمراہ تھے اور تفسیر کے کام کی خاطر بہت سی کتب اپنے ساتھ لے گئے تھے.دراصل حضور کا منشاء یہ تھا کہ حضرت مولوی صاحب کی صحت بحال ہو جائے اور وہ سلسلہ کی خدمت کے لئے تازہ دم ہو جائیں.لیکن افسوس کراچی جا کہ وہ سخت بیمار ہو گئے اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے ارشاد سے سے ار تبلیغ فروری کی شام کو کراچی میں سے واپس تشریف لے آئے کہ قادیان پہنچتے ہی آپ کی حالت اور زیادہ دگر گوں ہو گئی اور آپ در امان ماریچ سالہ مہش کو انتقال کر گئے.ماہ شہادت / اپریل کے شروع میں حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی نے ارادہ فرمایا کہ جس قدر درس القرآن طبع ہو چکا ہے اس سے آپکے مزید کام شروع کر کے اس کو مکمل کر دیا جائے.اس سلسلہ میں حضور نے مولوی نور الحق صاحب واقف زندگی کو قصر خلافت میں یاد فرمایا اور ان کو درس القرآن کے " ۶۱۹۴۰ నా نه "الفضل ۲۴ امضاء / اکتوبر ۱ ماه پیش: سے خطیب جمعه فرموده ما را خاد/ اکتوبر سال پیش مطبوعه الفضل ۲۴۰ اتحاد / اکتوبری از پیش صفحه هم کالم ۳-۴ * الفضل ۲۱ در امان ماریچ همه مش صفحه ۵ + کے ابو المنیر مولوی نور الحق صاحب حال مدیہ مینجنگ ڈابریکیٹ ادارۃ المصنفین مراد ہیں ؟
۱۲۵ غیرمطبوعہ مسودہ کا ایک حصہ ہو سورہ ہود کی آیت 1 سے لے کر سورہ یوسف کی آخری آیت تک کے مضامین مشتمل تھا، سپرد فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ منشی عبد الحق صاحب خوشنویں سے اس کی کتابت کروائی جائے بیچنا نچہ اس کی تعمیل میں منشی صاحب موصوف نے کتابت شروع کر دی.اس کے ساتھ ہی حضور نے ہدایت فرمائی کہ سورۃ رعد سے لے کر سورۃ بنی اسرائیل تک کے مرتب شدہ نوٹ دوبارہ نقل کروائے بھائیں اور حل لغات درج کرانے اور حوالہ جات لگانے کے بعد حضور کی خدمت میں پیش کئے جائیں.چنانچہ مولوی تو الحق صاحب، حافظ قدرت اللہ صاحب ، مولوی محمد صدیق صاحب ، مولوی صدر الدین صاحب اور مرزا منور احمد صاحب واقفین تحریک جدید) نے بقیہ مسودہ صاف اور خوشخط کر کے نقل کیا.حل لغات اور حوالوں کے نکالنے کا کام مولوی نور الحق صاحب نے انجام دیا حضرت امیر المومنین نے سورہ رعد اور سورہ ابراہیم کے مسودہ پر ماہ ظہور (اگست میں نظر انی فرمائی اور باتری منشی بالای ما اور قاضی نورمحمد حیات نے اس مضمون کی کتابت کی.ماہ تبوک دستمبر میں حضور انور نے بذریعہ تار سورہ حجر کا مسودہ شملہ منگوایا.حضور شملہ سے ۳ اضاء (اکتوبر) کو واپس قادیان دارالامان تشریف لائے.اس وقت تک تغیر کے ۴۹۶ صفحات کی کتابت ہو چکی تھی.حضور نے فرمایا که سالانہ جلست تک تفسیر مکمل طور پر تیار ہو جانی چاہئیے.وقت نہایت تنگ تھا اور صورت یہ تھی کہ سورہ حجر کے بعد کی سورتوں پہ نظر ثانی تک کا کام ابھی باقی تھا.حضور در حقیقت تقریباً سارا مسودہ دوبارہ ہی اپنے قلم مبارک سے لکھ رہے تھے.کیونکہ پہلا لکھا ہوا مسودہ بہت اہنی مختصر تھا.علاوہ ازیں کتابیت ، طباعت ، اور جلد بندی کے مراحل باقی تھے بحضور نے کتابت کا کام بروقت مکمل کرانے کے لئے ارشاد فرمایا کہ متعدد کا تب مقرر کر دیئے جائیں تا نظر ثانی کے ساتھ ساتھ مضمون کی کتابت بھی بھاری رہے.چنانچہ منشی عبد الحق.صاحب اور قاضی نور محمد صاحب کے علاوہ (جو پہلے سے مصروف کتابت تھے ، قاضی بشیر احمد صاحب بھٹی، منشی محمد اسمعیل صاحب اور منشی احمد حسین صاحب سے کی خدمات حاصل کی گئیں جس سے کام کی رفتار میں ے والد ماجد ابو المنیر مولوی نورالحق صاحب.آپ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے صحابی ہیں.آپ کی بیعت عشانہ کی ہے.آپ کو حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی متعدد کتب کی کتابت کا موقعہ ملا.اور حضور کو آپ کا خط بہت پسند تھا تاریخ احمدیت جلد سوم میں بھی آپ کا ذکر آچکا ہے ہے تفسیر کبیر جو ششم یعنی تیسویں پارہ کی تفسیر کی کتابت کی ان کو سعادت نصیب ہوئی جو اب وفات پا چکے ہیں، سے ان تاریخی مسودات کا اکثر و بیشتر حصہ اب بھی مخلافت لائیبر بیری ربوہ میں محفوظ ہے کہ ابن حضرت قاضی عبدالرحیم صاحب بھٹی ہم جکل آپ راولپنڈی میں رہتے ہیں.عربی طرز قاعده لیست رنا ! آپ حضرت پیر منظور محمد صاحب کے شاگر دخاص ہیں حضرت پیر صاحب (معذوری کے بعد ) آپ ہی.مد ) آپ ہی سے قرآن مجید لکھوایا کرتے تھے ، شہ آپ ہجرت ماہ کے بعد فیروز والا ضلع گوجرانوالہ میں رہائش پذیہ میں حضرت مسیح موعود کی کتب کا مکمل ریدہ نے روحانی قرائن کے نام پر شائع کیا ہے آپ ہی نے لکھا ہے نہ ولد موجب میں میں کتابت کرتے آرہے ہیں ،
حیرت انگیز طور پر اضافہ ہو گیا.ان کاتبوں کو دیکھ کر یوں معلوم ہوتا تھا کہ معرکہ درپیش ہے جس کو سر کرنے کے لئے یہ انتھک سپاہی سردھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں.اسی طرح قادیان کے دو تو پریس ضیاء الاسلام پولیس اور اللہ بخش سٹیم پریس شب و روز تفسیر کی چھپائی کے لئے وقف تھے.مولوی نور الحق صاحب کا بیان ہے کہ آخری دوماہ کے عرصہ میں روزانہ انہیں چند منٹ کرسی پر اونگھنا ہی نصیب ہوتا تھا.کیونکہ اُن کے کمرہ میں حضور کی طرف سے گھنٹی لگی ہوئی تھی اور حضور رات اور دن کے اوقات میں کام کے لئے یاد فرماتے تھے.اسی طرح کا پیاں پڑھنا ، کاتبوں سے انہیں درست کروانا ، پروف دیکھنا یہ سب کام مشکل ہی ختم ہوتے تھے آخری ایام میں حضور نے مولانا ابوالعطاء صاحب کو بھی پیر دنوں کے دیکھنے اور اصل لغات وغیرہ چیک کرنے کے لئے مقرر فرما دیا چنانچہ آپ نے سورۃ بنی اسرائیل اور سورۃ کہف کے حوالوں کو بھی ٹھیک کرنے کے علاوہ کا نبیوں کی لکھی ہوئی کاپیاں اور پر دن بھی پڑھے.تاہم اس نوعیت کے کام کی اصل ذمہ داری را بخوانید مولوی نور الحق صاحب پر عائد رہی.چنانچہ خود حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے اپنی ایک تقریر میں ارشاد فرمایا کہ تفسیر کبیر جلد سوم...کی لغت، ترجمہ اور تدوین کا اکثر کام اُن کے ریعنی مولانا محمد اسماعیل صاحب فاضل علالپوری ناقل) کے سپرد کیا گیا تھا.گو آخری حصہ کے وقت موادی صاحب وفات پاچکے تھے.تاہم تیسری جلد کی تدوین لغت اور ترجمہ کا بہت کچھ کام انہوں نے یہی کیا ان کی وفات کے بعد مولوی نور الحق صاحب کے سپرد یہ کام کیا گیا.باوجود اس کے کہ ان کا علمی پایه مولوی محمد اسماعیل صاحب جیسا نہیں اور با وجود نوجوان اور ناتجربہ کار ہونے کے انہوں نے میرے منشار کو سمجھا اور خدا تعالیٰ نے انہیں میرے منشاء کے مطابق کام کرنے کی توفیق عطا فرمائی “ سے نے مولوی البو المنیر نور الحق صاحب کا بیان ہے کہ " کاتبوں کے متعلق حضور کا خاص طور پر ارشاد تھا کہ ان کی ہر ضرورت کا خیال رکھا جائے تاکسی کی صحت میں نقص پیدا ہو کر کام میں روک نہ پیدا ہو جائے بچتا بچہ رات دن ان کاتبوں کو ہر وہ چیز مہیا کی جاتی تھی جس کے وہ عادی تھے اور ہر طرح ان کی دلداری کی جاتی تھی“ ہے یه کره دفتر تحر یک جدید قادیان کی بالائی منزل میں دختر پرائیویٹ سیکرٹری سے متصل تھا اور اسی کمرہ میں تغییر لکھنے والے کا تب کام کرتے تھے.له الفضل“ وارو فار جولائی پیش صفہ و کالم ! حضرت خلیفہ اسیح الثانی رض نے اس اظہار خوشنودی کی ایک ۶۱۹۴۵ عملی صورت یہ بھی فرمائی کہ قصہ خلافت میں انہیں خصوصی طور پر شرف باریابی بخشا اور اپنے مبارک ہاتھوں سے اپنا ایک چوغہ پہنایا جو ابتک اُن کے پاس موجود ہے ؟
۱۲۷ جب دوسرے مقدام کی مصروفیت ، استغراق اور انہماک کا یہ عالم ہو.کہ وہ دن رات خدمت قرآن میں مصروف ہوں تو آقا کی محنت اور ر امیرالمومين البيتا مایه ورودی است خدمات قرن میں ہوں مجابهة عرقریزی کس درجہ پہنچ چکی ہوگی ؟ اس کا اندازہ کرنا چنداں مشکل نہیں حق یہ ہے کہ ایک روھانی جو نبیل حتی المقدو جس شان سے علمی جہاد میں حصہ لے سکتا ہے اس شان کا حقیقی رنگ حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے وجود مبارک میں ان دنوں پوری طرح جلوہ گر تھا.حضور کو صبح آٹھ بجے سے لے کر رات کے پچار پانچ بجے تک منہمک رہنا پڑتا تھا.چنا نچہ حضرت سیدہ ام متین صاحبہ فرماتی ہیں :- قرآن مجید سے آپ کو جو عشق تھا اور جس طرح آپ نے اس کی تفسیریں لکھ کر اس کی اشاعت کی رہ تاریخ احمدیت کا ایک روشن باب ہے.خدا تعالے کی آپ کے متعلق پیشگوئی کہ کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو اپنی پوری شان کے ساتھ پوری ہوئی جن دنوں میں تفسیر کبیر لکھی نہ آرام کا خیال رہتا تھا نہ سونے کانہ کھانے کا بس ایک دھن بھی کہ کام ختم ہو جائے.رات کو عشاء کی نماز کے بعد لکھنے بیٹھے ہیں تو کئی دفعہ ایسا ہوا کہ صبح کی اذان ہو گئی" دُعائے خاص کی تحریک اگر چہ حضرت خلیفتہ امیع الثانی کو سلسل محنت اور جانفشانی سے کام کرنے کی ایک اعجازی طاقت و قوت حاصل تھی مگر ان دنوں حضور پر اتنا بوجھہ آن پڑا کہ حضور نے ۱۳ ماہ فتح اردسمبر کو تفسیر القرآن کی تکمیل کے لئے خطبہ جمعہ میں خاص طور پر دعائے خاص کی تحریک فرمائی.اور اس میں اپنی اور دوسرے کام کرنے والوں کی غیر معمولی محنت و مشقت کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ "1 میری طبیعت کچھ دنوں سے زیادہ علیل رہتی ہے اور چونکہ قرآن شریف کے ترجمہ اور تفسیر کے کام کا بہت بڑا بوجھے ان دنوں ہے اور جبلہ تک دن بہت تھوڑے رہ گئے ہیں.مگر ابھی کوئی ایک سو صفحہ کتاب کا یا چار سو کالم مضمون کا لکھنا باقی ہے اور آجکل اکثر ایام میں رات کے ۳-۴ بلکہ بجے تک بھی کام کرتا رہتا ہوں.اس لئے اس قسم کی جسمانی کمزوری محسوس کرتا ہوں کہ اس قدر بوجھ طبیعت زیادہ دیر تک برداشت نہیں کر سکتی.چونکہ جلسہ تک دن تھوڑے رہ گئے ہیں اس لئے دوستوں سے چاہتا ہوں کہ دُعا کریں اللہ تعالے خیریت سے اس کام کو پورا کرنے کی توفیق دے.M "الفضل " ۲۵ رامان / مارچ ش صفحه ۵ کالم ۱ ۴۵ -79.47
۱۲۸ وہ لوگ جو میرے ساتھ کام کر رہے ہیں اور جن کا کام کتابت کا پیوں کی تصحیح کرنا اور مضمون صاف کر کے لکھنا وغیرہ ہے وہ بھی بہت محنت سے کام کہ رہے ہیں.اتنی دیر تک روزانہ کام کرنے کی انہیں عادت نہیں پھر بھی ۲ - ۳ بجے رات تک کام کرتے ہیں ممکن ہے اس سے بھی زیادہ دیر تک کام کرتے ہوں مگر ۲ - ۳ بجے تک تو کئی دفعہ بات پوچھنے کے لئے میرے پاس آتے رہتے ہیں.اسی طرح کا پیاں لکھنے والے کاتب ہیں.بے شک وہ اُجرت پر کام کرتے ہیں مگر جس قسم کی محنت انہیں کرنی پڑتی ہے اور وہ کر رہے ہیں وہ اخلاص کے بغیر نہیں ہو سکتی.روزانہ کام کیا جائے، معمول سے دگنا کیا جائے اور اچھا کیا جائے، یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے.کاتب کا کام آنکھوں کاتیل نکالنا ہوتا ہے کیونکہ وہ ایک منٹ کے لئے بھی آنکھ اوپر نہیں اٹھ سکتا آنکھ کا غذ پہ اور قلم ہاتھ میں لے کر بیٹھا رہتا ہے اور بیٹھنا بھی ایک خاص طریق سے ہوتا ہے.میں تو اس کام کے متعلق سمجھتا ہوں کہ عمر قید کی سزا ہے اور دیکھا گیا ہے کہ کاتب لوگ بہت جلد بوڑھے ہو جاتے ہیں.کیونکہ کتابت کے کام میں انہیں سخت محنت کرنی پڑتی ہے.آنکھیں ہر وقت ایک ہی طرف لگی رہتی ہیں.اس وجہ سے ان کی صحت ضائع ہو جاتی ہے.ہم لوگ جو تصنیف کا کام کرتے ہیں.اُن سے زیادہ وقت کام میں دیتے ہیں مگر اس حصہ میں ان کا کام زیادہ مشقت طلب ہوتا ہے.ہم تو کبھی پڑھ رہے ہوتے ہیں.کبھی بیٹھ بھاتے ہیں کبھی کوئی حوالہ تلاش کرنے لگتے ہیں.کبھی لکھنا شروع کر دیتے ہیں اور پھر جو کچھ لکھتے ہیں وہ مضمون ہمارے ذہن میں ہوتا ہے.اگر ہم آنکھیں بند بھی کرلیں تو لکھ سکتے ہیں.زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا کہ سطریں ٹیڑھی ہو جائیں گی.مگر کا تب بیچارے کو دو طرف نظر رکھنی پڑتی ہے.ادھر وہ ہمارے لکھے ہوئے کو دیکھتا ہے اور اُدھر کاپی پر نظر جمائے رکھتا ہے.پھر ہم تو جو چاہیں لکھتے جائیں لیکن کا تب کو اجازت نہیں ہوتی کہ اپنی طرف سے کچھ کرے.اور کاتبوں کا اتنا علم بھی نہیں ہوتا کہ مضمون میں دخل دے سکیں “....اس وقت جو کا تب کام کر رہے ہیں ان پر کام کا بڑا ہار ہے.کا تب اگر اچھا لکھے تو تو ۶ سے ۸ صفحے روزانہ لکھ سکتا ہے.مگر اب کام کی زیادتی کی وجہ سے ۱۲ سے ۱۶ صفحے تک روزانہ ایک ایک کا تب سے لکھوایا جا رہا ہے کیونکہ اگر ایسا نہ کریں تو کام جلسہ تک ختم نہ ہو سکیگا •
۱۲۹ اس کے بعد اہم کام چھپوائی کا ہے.مگر خدا تعالیٰ نے اس کے لئے بہت کچھ سہولت عطا کر رکھی ہے.ایک وقت تو وہ تھا جب کہ ہستی پر لیس چلانا بھی مشکل تھا.مگر اب ڈو پر یس کام کر رہے ہیں اور ایک میں دو شیفتیں چل رہی ہیں.کجا تو یہ کہ دستی پریس بھی نہ تھا اور کجا یہ کہ مشینیں کام کر رہی ہیں اور بھلی سے دو دو پر لیں چل رہے ہیں.پر لیس والوں نے وعدہ کیا ہے کہ ۴۸ صفحے روزانہ چھاپ کر دیتے رہیں گے.اس وقت تک ساڑھے سات سو صفحے چھپ چکے ہیں.اور پونے دو سو کے قریب چھپنے باقی ہیں.مگر ان کے متعلق کوئی فکر نہیں ہے.البتہ کاتبوں کا کام ایسا ہے کہ اگر ایک کی بھی صحت خراب ہو گئی تو کام رک جانے کا اندیشہ ہے.پھر جلد سازی کا مرحلہ طے ہوتا باقی ہے.جلد ساز نے عہد لے لیا گیا ہے کہ تمام کا پیاں چھپ جانے کے بعد کم از کم 20 جلدیں روزانہ کے حساب سے دے گا....پس بہت ۷۵ ہی دعاؤں کی ضرورت ہے.اس کام کی وجہ سے دوباہ سے انتہائی بوجھ مجھے پر اور ایک ماہ سے میرے ساتھ دوسرے کام کرنے والوں پر پڑا ہوا ہے.یہ بوجھ عام انسانی طاقت سے پڑھا ہوا ہے اور زیادہ دیرہ تک برداشت کرنا مشکل ہے جب تک خدا تعالے کا فضل اور نصرت نہ ہو.پس دوست دعا کہ میں کہ خدا تعالے کا میابی عطا کرے.مسودہ پر نظرثانی کی تکمیل اش قصائی نے اپنے فضل سے امت محمدی کو تفسیر قرآن کے لئے ماری اللہ تعالیٰ پر کی کی توفیق بھی بخشی اور پھر ان کی قبولیت کا خود ہی یہ سامان کر دیا کہ حضر خلیفہ مسیح الثانی کے ہر فتح دسمبر تک یعنی ایک ہفتہ کے اندر تفسیر کے باقی ماندہ مسودہ پر نظر ثانی کر کے کائیوں کے سپرد کر دیا بچنا نچہ حضور نے اسی روز جماعت کو خطبہ جمعہ کے دوران یہ خوشخبری سنائی اور فرمایا کہ و جہانتک ان کو سورتوں کا تعلق ہے یعنی سورۃ یونس سے شروع کر کے سورۃ کہف تک پر یوں میں نے کام ختم کر دیا ہے اور پرسوں شام تک پریس والے ختم کر دیں گے.ہم نے ، ۸۰ سو صفحات حجیم کا اندازہ کیا تھا.پھر اندازہ لگانے والوں نے کہا کہ ۸-۹ سو کے درمیان صفحات ہوں گے.پھر ا.۱۰ سو صفحات کا اندازہ کیا گیا.اور اب رپورٹ ملی ہے کہ ۶ ، صفحات سے ضیاء الاسلام پریس اور اللہ بخش سٹیم پریس * سه خطبه جمعه فرموده ۱۳ فتح / دسمبر میش مطبوعة الفضل " ما فتح او سمبر به الا الله و
١٣٠ ہو جائیں گے جس محنت کے ساتھ کام کیا گیا ہے اس کا لازمی نتیجہ ہے کہ آخری حصہ ایسا اچھا نہیں چھپ سکتا جیسا کہ ارادہ تھا.کاتبوں سے دن رات کام لیا گیا ہے.اسی طرح پر ایس والوں سے بھی.انسانی طاقت جتنا بوجھ اٹھا سکتی ہے اُسے اُٹھانے کا بہت اعلیٰ نمونہ کارکنوں نے دکھایا ہے.مگر اس محنت کے باوجود کتابت وغیرہ کی بعض غلطیاں ہوں گی.میں دوبارہ تو پر وقت دیکھ ہی نہیں سکا اور اس لئے مجھے خیال ہے کہ بعض جگہ ضرور غلطیاں رہ گئی ہوں گی.لکھتے ہوئے بعض اوقات میں نوٹ دے دیتا ہوں کہ حوالہ دے دیا جائے یا فلاں معنی لغت سے نکال کر لکھ دیئے جائیں.عین ممکن ہے ان میں سے کوئی حوالہ لکھنا رہ جائے یا معنے نقل کرنے رہ جائیں.بہر حال اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ تمام کارکنوں نے بہت محنت اور اخلاص سے کام کیا ہے.لیکن اس کے باوجود بعض غلطیاں رہ گئی ہوں گی.ہم غلط نامہ کی اشاعت کی بھی کوشش کر رہے ہیں یہانتک میں سمجھتا ہوں آخری حصہ میں پہلے سے کم غلطیاں ہوں گی.اس کی وجہ یہ ہے کہ مولوی محمد اسمعیل صاحب عالم تو بہت تھے مگر ان کو کاپی اور پیرون دیکھنے کی مشق نہ تھی.اس لئے اس حصہ میں بہت غلطیاں رہ گئی ہیں.کوئی حصہ کہیں چھوٹ گیا ہے، کوئی غلط جوڑ دیا گیا ہو ہم نے اس کی درستی بھی کی ہے.بعض جگہ علیحدہ پر چیاں چھپوا کر لگا دی گئی ہیں.غلط نامہ بھی چھپ جائے گا اور اس طرح صحت کی پوری پوری کوشش کی جا رہی ہے.اب جماعت کا فرض ہے کہ اُس سے فائدہ اُٹھائے جیسا کہ میں نے بتایا ہے قرآن کریم کی تفسیر تو کوئی انسان نہیں لکھ سکتا اور اس لحاظ سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ قرآنی مطالب سارے یا آدھے یا سواں حصہ بلکہ ہزارواں حصہ بھی بیان کر دیئے گئے ہیں.کیونکہ قرآن غیر محدود خدا کا کلام ہے.اس لئے اس کے علوم بھی غیر محدود ہیں.اور اس نسبت سے ہم اس کے مطالب کا نہ کروڑواں نہ اربواں حصہ بیان کر سکتے ہیں.زیادہ سے زیادہ یہ کہ سکتے ہیں کہ اس زمانہ کی ضرورتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ضروری باتوں پر روشنی ڈال دی گئی ہے.مجھے اس خیال سے شدید ترین نفرت ہے کہ تفاسیر میں سب کچھ بیان ہو چکا ہے.ایسا خیال رکھنے والوں کو میں اسلام کا بدترین دشمن خیال کرتا ہوں اور احمق سمجھتا ہوں گو وہ کتنے بڑے بڑے بجتے اور پگڑیوں والے کیوں نہ ہوں.اور جب میرا دوسری تفسیروں کے متعلق یہ خیال ہے تو میں اپنی تفسیر کی نسبت
۱۳۱ یہ کیونکر کہہ سکتا ہوں.ہم یہ تو کوشش کر سکتے ہیں کہ اپنے زمانے کے علوم ایک حد تک بیان کر دیں مگریہ کہ قرآن کریم کے اپنے زمانہ کے بھی سارے علوم بیان کر دیں.اس کا تو میں خیال بھی دل میں نہیں لا سکتا.قرآن کریم کے نئے نئے معارف ہمیشہ کھلتے رہتے ہیں.آج سے سو سال کے بعد جو لوگ آئیں گے وہ ایسے معارف بیان کر سکتے ہیں جو آج ہمارے ذہن میں بھی نہیں آسکتے.اور پھر دو سو سال بعد غور کرنے والوں کو اور معارف میں گے.بعض نادان خیال کرتے ہیں کہ اس طرح کہنے سے لوگوں کی توجہ تفسیر کی طرف سے ہٹ جائے گی اور بعض دفعہ بعض نادان یہ بھی کہہ دیا کہتے ہیں کہ انہوں نے تو خود کہہ دیا ہے کہ یہ کچھ نہیں.مگر میں قرآن کریم کے متعلق سچائی کے بیان کو ہر چیز سے زیادہ ضروری خیال کرتا ہوں.لاکھوں کا تفسیر نہ پڑھنا بہت کم نقصان دہ ہے یہ نسبت اس کے کہ ایک بھی شخص ہو جو یہ خیال کرے کہ اس تفسیر میں سب کچھ آچکا ہے.اگر دس کروڑ آدمی بھی خیال کر لیں کہ اس میں کچھ نہیں تو کوئی نقصان نہیں بہ نسبت اس کے کہ ایک بھی یہ خیال کرے کہ اس میں سب کچھ آگیا ہے جو یہ خیال کرے گا کہ اس میں کچھ نہیں وہ تو میرے کلام سے محروم رہے گا لیکن یہ سمجھنے والا کہ ان میں سب کچھ آگیا ہے خدا تعالیٰ کے کلام سے محروم رہ جائے گا " پھر فرمایا : چونکہ یہ خدائی تائید سے لکھی گئی ہے اس لئے میں کہہ سکتا ہوں کہ اس میں اس زمانہ یا آئندہ زمانہ کے ساتھ تعلق رکھنے والی دینی اور روحانی باتیں جو لکھی گئی ہیں وہ صحیح ہیں.ہاں بعض آئندہ ہونے والی باتوں کے متعلق یہ احتمال ضرور ہے کہ ہم اُن کے اور معنے کریں اور جب وہ ظاہر ہوں تو صورت اور نکلے.پس جہاں تک علوم ، اخلاق ، رومانیت اور دین کا تعلق ہے میں امید کرتا ہوں کہ یہ بہتوں کے لئے ہدایت کا اور ان کو گمراہی سے بچانے کا موجب ہوگی اے تفسیر کبیر کا نام او س کی وجہ تسمیه این علما ان تغیر کا نام سید حضرت مسیح موارد الشان نا اوراس یہ علیہ اسلام کے ایک خواب کی بناء پر تفسیر کبیر" رکھا گیا.له " الفضل" ۲ فتح / دسمبر به بیش صفحه ۰۴۰۳
۱۳۲ حضرت مسیح موعود کا وہ خواب مندرجہ ذیل ہے :- " آج ہی ایک خواب میں دیکھا کہ ایک چوغہ زریں جس پر بہت شہری کام کیا ہوا ہے.مجھے غیب سے دیا گیا ہے.ایک چور اس چوغہ کو لے کر بھاگا.اس چور کے پیچھے کوئی آدمی بھا گا جس نے چور کو پکڑ لیا اور چوغہ واپس لے لیا.بعد اس کے وہ چوغہ ایک کتاب کی شکل میں ہو گیا جس کو تفسیر کبیر کہتے ہیں اور معلوم ہوا کہ کپور اس کو اس غرض سے لے کر بھاگا تھا کہ اس تفسیر کو نابود کر دیے.اگه دو فرمایا.اس کشف کی تعبیر یہ ہے کہ چور سے مراد شیطان ہے.شیطان چاہتا ہے کہ ہمارے ملفوظات لوگوں کی نظر سے مغائب کر دے.مگر ایسا نہیں ہوگا اور تفسیر کبیر جو چونہ کے رنگ میں دکھائی گئی اس کی یہ تعبیر ہے کہ وہ ہمارے لئے موجب عزت اور زینت ہوگی.واللہ اعلم " کے تفسیر کبیر کے مسودات پر نظرثانی مکمل ہو چکی تو حضور نے ۲۰ فتح / دسمبر ہی کو اپنے دست دیباچہ مبارک سے ایک دیباچہ تحریر فرمایا.جس میں نہایت اختصار مگر جامعیت کے ساتھ اس تفسیر کے پس منظر، اس کی خصوصیات اور اس کے ماخذوں پر روشنی ڈالی اور اُن امور کی نشاندہی فرمائی جو اس کی تصنیف کے وقت حضور کے پیش نظر تھے.اس اہم دیباچہ کا مکمل متن درج ذیل کیا جاتا ہے :.أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ سمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلّى عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمُ هوالت خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ کچھ تفسیر کبیر کے متعلق سامر سورہ یونس سے سورہ کہف تک کے تفسیری نوٹ شائع ہو رہے ہیں.میں نے اپنی طرف -19.به مورخه هم د کشمیر نشانه ها کے بدر مورخه در تهران انه صفحه ۳ ، " الحكم ".ار ستمبر مشابه صفرا سے یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ تفسیر کبیر جلد سوم نہایت ہی تنگ وقت اور مہلت میں طبع ہوئی تھی جس کی وجہ سے سورہ کہف کی آیت ثُمَّ بَعَثْنَاهُمْ لِنَعْلَمَ أَى الْحُزُبَيْنِ أَحْصَى لِمَا ليتوا امرا کی تفسیر جو اصل مسودہ میں موجود تھی سہو کتابت سے رہ گئی تھی.یا میں میں جبکہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود ڈاہوری میں قیام فرما تھے مولوی ابو المنیر نور الحق صاحب نے حضور کی خدمت میں اس امر کا ذکر کیا تو حضور نے دوبارہ اس آیت کی مفصل تفسیر لکھوادی جیسے مولوی صاحب موصوف نے الفصل ۲۰ شہادت / اپریل کی لہر میں صفحہ سہ میں شائع کرا دیا ہے " ن
۱۳ سے پوری کوشش کی ہے کہ قرآن کریم کا صحیح مفہوم پیش کروں اور مجھے یقین ہے کہ اس تفسیر کا بہت سا مضمون میرے محور کا نتیجہ نہیں بلکہ اللہ تعالے کا عطیہ ہے مگر بہر حال چونکہ میرے دماغ نے بھی اس کام میں حصہ لیا ہے اس لئے ممکن ہے کہ کوئی بات اس میں ایسی ہو جو قرآن کریم کے منشاء کو پوری طرح واضح نہ کرتی ہو.اس لئے میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ اپنے کلام کی خوبیوں سے اپنے بندوں کو نفع پہنچائے اور انسانی غلطیوں کے نقصان سے محفیظ رکھے.اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق عطاء فرمائی تو انشاء اللہ اگلی جلد سورۃ فاتحہ سے شروع کی جائیگی.یہ جلد پہلے اس لئے شائع کی گئی ہے کہ ان سورتوں کے متعلق میرے ایک درس کے نوٹ اڑھائی سو صفحات تک چھپ چکے تھے اور ان کے ضائع ہونے کا ڈر تھا.پس مناسب سمجھا گیا کہ پہلے سورۃ یونس سے سورۃ کہف تک تفسیری نوٹوں پر مشتمل جلد شائع ہو.اور اگر اللہ اللہ توفیق عطا فرمائے تو بعد میں قرآن کریم کی بقیہ سورتوں کے تفسیری نوٹ شروع سے ترتیب وار شائع کئے جائیں.میں نے تفسیری نوٹوں کو لکھتے ہوئے اس امر کو مد نظر رکھا ہے کہ آیات اور سورتوں کی ترتیب اچھی طرح ذہن نشین ہو جائے.جہاں تک میں سمجھتا ہوں انشاء اللہ تعالے قرآن کریم کے معافی کا ایک سلسلہ پوری ترتیب کے ساتھ پڑھنے والے کی سمجھ میں آجائے گا.اور وہ کسی صورت یا کسی آیت کو بے جوڑ نہ سمجھے گا.ترتیب کا مضمون ان مضامین میں سے ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھے خاص طور پر سمجھائے ہیں.وَلا يُحِيطُ اَحَدُ بِشَيْ مِنْ عِلْمِهِ الإِيمَا شاءَ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرضَ.رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں قرآن کریم کے سات بطن ہیں اور ہر بطن کے کئی معانی ہیں.اس سورۃ میں قرآن کریم کی کوئی ایسی تفسیر لکھنا جو سب معانی پرمشتمل ہو ، نا مسکن ہے.اور جو شخص کہے کہ اس تھے قرآن کریم کی مکمل تفسیر لکھ لی ہے وہ دیوانہ ہے یا جاہل.جو شخص میرے نوٹوں کی نسبت کوئی ایسی بات منسوب کر سے میں اُس سے بری ہوں.میرے نزدیک ان نوٹوں کی خوبی یہی بہت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر فضل فرما کر موجودہ زمانہ کی ضرور تو کے متعلق بہت کچھ انکشافت فرمایا ہے.نگہ ہر زمانہ کی ضرورت الگ ہوتی ہے اور ہر زمانہ
۱۳۴ کی ضرورت الگ ہوتی ہے اور ہر زمانہ کی ضرورت کے مطابق قرآن کریم میں علوم موجود ہیں جو اپنے موقع پر کھولے جاتے ہیں.پہلے مفسرین نے اپنے زمانہ کی ضرورتوں کے مطابق بہت بڑی خدمت قرآن کریم کی کی ہے اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا.اگر وہ دو غلطیاں نہ کرتے تو اُن کی تفاسیر دائمی خو بیاں رکھتیں.(1) منافقوں کی باتوں کو جو انہوں نے مسلمانوں میں مل کر شائع کیں.ان تفاسیر میں جگہ دے دی گئی ہے اور اس وجہ سے بعض مضامین اسلام اور آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی ذات کے لئے ہتک کا موجب ہو گئے ہیں.(۳) انہوں نے یہودی کتب پر بہت کچھ اعتبار کیا ہے اور ان میں سے بھی مصدقہ باکسپل پر نہیں بلکہ یہود کی روایات پر.اور اس طرح دشمنوں کو اعتراض کا موقع دے دیا ہے.اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا کہ لَا تُصَدِ تُوهُمْ وَلَا تَكْذِبُوهُمْ ان کے ذہن میں رہتا تو یہ مشکل پیش نہ آتی.بہر حال ان دو غلطیوں کو چھوڑ کر جو محنت اور خدمت ان لوگوں نے کی ہے اللہ تعالے ہی اُن کی بینا ہو سکتا ہے.دو اور غلطیاں بھی اُن سے ہوئی ہیں.مگر میں سمجھتا ہوں وہ زمانہ کے اللہ کے نیچے تھیں ایک بعض آیات کو منسوخ قرار دے دینا ، دوسرے مضامین قرآن کی ترتیب کو خاص اہمیت نہ دینا.مگر میرے نزدیک با وجود زمانہ کی لہو کے خلاف ہونے کے اس بارہ میں انہوں نے سفید بعد و جہد ضرور کی.اور بالعموم (گو اصولی طور پر نہیں ) آیات زیر بحث کو غیر منسوخ ثابت کرنے کے لئے محقق مفترین نے ضرور کوشش کی ہے.اسی طرح مطالب کی ترتیب کے متعلق بھی بہت زور لگایا ہے میرے نزدیک ان محقق مفسرین میں علامہ ابن کثیر، علامہ ابوحیان صاحب محیط اور علام زمخشری صاحب کشان خاص طور پر قابل ذکر ہیں.گو آخر الذکر پر اعتزال کا داغ ہے.طبری نے تفسیر کے متعلق روایات جمع کرنے میں خاص کام کیا ہے اور علامہ ابو البقاء نے اعراب قرآن کے متعدن املاءها من بہ الرحمن کتاب لکھ کر ایک احسان عظیم کیا ہے.گذشتہ صدی کی کوششوں میں تفسیر روح المعانی علوم تقلید کی جامع کتاب ہے.نگہ تجربہ
۱۳۵ سے معلوم ہوا ہے کہ بالعموم وہ روایت کو اپنے الفاظ میں درج کر دیتے ہیں مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سی تفاسیر کا خلاصہ اس میں آجاتا ہے.اب میں ان ماخذوں کا ذکر کرتا ہوں جن سے مجھے نفع ہوا ہے.اور سب سے پہلے اس ازلی ابدی منفذ علوم کا شکریہ ادا کرتا ہوں جس سے سب علوم نکلتے ہیں اور جن کے باہر کوئی علم نہیں.وہ علیم وہ نور ہی سب علم بخشتا ہے.اسی نے اپنے فضل سے مجھے قرآن کریم کی سمجھ دی اور اس کے بہت سے علوم مجھ پر کھولے اور کھولتا رہتا ہے.جو کچھ ان نوٹوں میں لکھا گیا ہے ان علوم میں سے ایک حصہ ہے.سُبحَانَ اللَّهِ وَالْحَمدُ لِلَّهِ وَلَا حَولَ وَلَا قوة الا بالله - دوسرا ماخذ قرآنی علوم کا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے آپ قرآن نازل ہوا.اور آپ نے قرآن کو اپنے نفس پر وارد کیا حتی کہ آپ قرآن محبتم ہو گئے آپ کی ہر حرکت اور آپ کا سکون قرآن کی تفسیر تھے.آپ کا ہر خیال اور ہر ارادہ قرآن کی تفسیر تھا.آپ کا ہر احساس اور ہر ہر جذبہ قرآن کی تفسیر تھا.آپ کی آنکھوں کی چمک میں قرآنی قیر کی تھیلیاں تھیں اور آپ کے کلمات قرآن کے باغ کے پھول ہوتے تھے.ہم نے اس سے مانگا اور اس نے دیا.اس کے احسان کے آگے ہماری گردنیں خم ہیں DANDANT KANWALA NA محمد وعلى ال محمد وَبَارِكَ وَسَلَّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيد.پھر اس زمانہ میں علوم قرآنیہ کا ماخذہ حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود و مہدی مسعود کی ذات علیہ الصلوۃ والسلام ہے جس نے قرآن کے بلند و بالا درخت کے گرد سے جھوٹی روایات کی آکاس بیل کو کاٹ کر پھینکا اور خدا سے مدد یا کہ اس جنتی درخت کو سینچا اور پھر سر سبز و شاداب ہونے کا موقعہ دیا.الحمد للہ ہم نے اس کی رونق کو دوبارہ دیکھا اور اس کے پھل کھائے اور اس کے سائے کے نیچے بیٹھے.مبارک وہ جو قرآنی باغ کا باغبان بنا.مبارک وہ جس نے اُسے پھر سے زندہ کیا اور اس کی خوبیوں کو ظاہر کیا.مبارک وہ جو خدا تعالے کی طرف سے آیا.اور خدا تعالے کی طرف چلا گیا.اس کا نام زندہ ہے اور زندہ رہے گا.مجھے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے علوم سے بہت کچھ دیا ہے اور حق یہ ہے کہ اس میں میرے فکر یا میری کوشش کا دخل نہیں.وہ صرف اس کے فضل سے ہے.مگر اُس فضل
کے جذب کرنے میں حضرت استاذی المکرم مولوی نورالدین صاحب خلیفہ المسیح الاول کا بہت ساحصہ ہے.میں چھوٹا تھا اور بیمار رہتا تھا.وہ مجھے پکڑ کے اپنے پاس بٹھا لیتے تھے اور اکثر یہ فرماتے تھے کہ میاں تم کو پڑھنے میں تکلیت ہوگی.میں پڑھتا جاتا ہوں تم سنتے جائے اور اکثر اوقات خود ہی قرآن پڑھتے خود ہی تفسیر بیان کرتے.اس کے علوم کی چاٹ مجھے انہوں نے لگائی اور اس کی محبت کا شکار بانی سلسلہ احمدیہ نے بنایا.بہر حال وہ عاشق قرآن تھے اور ان کا دل چاہتا تھا کہ سب قرآن پڑھیں.مجھے قرآن کا ترجمہ پڑھایا اور پھر بخاری کاری اور فرمانے لگے لومیاں سب دُنیا کے علوم آگئے.ان کے سوا جو کچھ ہے یا زائد یا ان کی تشریح ہے.یہ بات ان کی بڑی سیتی تھی جب تک قرآن و حدیث کے متعلق انسان کا یہ یقین نہ ہو علوم قرآنیہ سے حصہ نہیں لے سکتا.میں آخر میں ان سب کام کرنے والوں کے لئے جنہوں نے ان نوٹوں کی طباعت میں حصہ لیا ہے دُعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالے اُن پر اپنا فضل فرمائے.انہوں نے رات دن محنت کر کے اس کام کو تھوڑے سے وقت میں ختم کیا ہے.اللہ تعالے ان سب کی محنت اور قربانی کا بدلہ اپنے پاس سے دے.آمین.پھر اسے پڑھنے والو! میں آپ سے کہتا ہوں ، قرآن پڑھنے پڑھانے اور عمل کرنے کے لئے ہے.پس ان نوٹوں میں اگر کوئی خوبی پاؤ تو انہیں پڑھو پڑھاؤ اور پھیلاؤ، عمل کرو عمل کراؤ اور عمل کرنے کی ترغیب دو.یہی اور یہی ایک ذریعہ اسلام کے دوبارہ اخبار کا ہے.اسے اپنی خانی اولاد سے محبت کرنے والو اور خدا تعالیٰ سے ان کی زندگی چاہنے والو! کیا اللہ تعالے کی اس یاد گار اور اس تحفہ کی ردھانی زندگی کی کوشش میں حصہ نہ لو گے تم اس کو زندہ کرد ، وہ تم کو اور تمہاری نسلوں کو ہمیشہ کی زندگی بخشے گا.اُٹھو کہ ابھی وقت ہے.دوڑو کہ خدا کی رحمت کا دروازہ ابھی کھلا ہے.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں پر بھی رحم فرمائے اور مجھ پر بھی کہ ہر طرح سیکس ہے ہیں اور پر شکستہ ہوں اگر مجرم بنے بغیر اس کے دین کی خدمت کا کام کر سکوں تو اس کا بڑا احسان ہوگا.يَا سَتَارُ يَا خَفَارُ ارحمني يا اَرحَمَ الرَّاحِمِينَ بِرَحْمَتِكَ اَسْتَخِيْتُ مرزا محمود احمد ۲۰ ماه فتح ۱۳۱۹ ش - ۲۰ ذیقعده ۱۳۵۶ هجری ۲۰ دسمبر ۱۹۹
۱۳۷ تفسیر کبیر کی اشاعت کا انتظام مولوی عبدالرحمن صاحب انور (سابق تفسیر کبیر کی پہلی جلد انچارج دفتر تحریک بدید) کے ذمہ تھا.ان کا بیان ہے کہ حضر امیر ومنین کی خدمت میں جب تقیہ کبیر کی سورہ یونس کی تفسیر والی پہلی جلد ریت کو چار بجے کے قریب مکمل ہوئی تو حضور کی ہدایت کے بموجب کہ جو نہی کتاب کی پہلی جلد تیار ہو حضور کی خدمت میں فوری پیش کی جائے.جب پیش کرنے کے لئے دستک دی تو حضور فوراً تشریف لے آئے اور تیار شدہ جلد کو ملاحظہ فرما کہ بہت خوش ہوئے “ سے فسیر کبر جلد سوئم کی اشاعت تقریر کی جلد سوم یک بار راست صفات کی منی کتاب تھی جو تین ہزار کی تعداد میں طبع ہوئی تھی اور اس کا پہلا ایڈیشن ہجرت می تک بالکل ختم ہوگیا اور مرز کو بیرونی مشنوں کے لئے بعض دوسری جماعتوں مثل حیدر آباد د کن وغیرہ سے اس کے نسخے خریدنے پڑے.دنیا کی احمدی جماعتوں نے تفسیر کبیر کی اشاعت میں کتنا حصہ 71901 لیا ؟ اس کی تفصیل خود حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے اپنی زبان مبارک سے سالانہ جلسہ یہ ہش میں بیان فرما دی تھی جو حضور ہی کے الفاظ میں درج ذیل کی سجاتی ہے.فرمایا :- تفسیر کبیر جو چھپوائی گئی تھی وہ ختم ہوچکی ہے.بلکہ اب تو ہم بیرونی مشنوں کے لئے بعض جماعتوں سے اس کے نسخے خرید رہے ہیں.کچھ حیدر آباد سے خریدے ہیں.مگر مجھے افسوس ہے کہ جماعت کے معتد بہ حصہ نے اس کی اشاعت میں حصہ نہیں لیا.اس کی اشاعت میں غیر احمدیوں کا بھی کافی حصہ ہے تین ہزار میں سے پانسو سے کچھ زائد غیر احمدیوں نے خریدی ہے اور باقی اڑھائی ہزار احباب جماعت نے.مجھے افسوس ہے کہ جماعت کے دوستوں نے اس کی اشاعت کی طرف پوری توجہ نہیں کی.ہر احمدی باپ کا فرض تھا کہ اپنی اولاد کے لئے تفسیر کبیر خریدتا.میں نے خود اپنی ہر لڑکی اور ہر اڑ کے سے دریافت کیا کہ کیا انہوں نے تفسیر خرید کی ہے یا نہیں ه ۲۴-۲۵ دسمبر کی درمیانی شب مراد ہے ؟ ه رسالة الفرقان "ریوه فضل عمر نمبر شماره فتح دسمبر ۳۳۲اله مش و صلح ۳۳۵ مه بهش صفحه ۶۲ - ۶۳ ۰ +1940 ۱۹۶۶ سے اس کا سرورق حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاد حمد صاحب کا تجویز کردہ ہے جس کا اصل کا تخذ مخلافت لائیبریر کی کے ریکارڈ میں اب تک محفوظ ہے.ا " / الفضل ۲ ہجرت مئی م ا ا ا لسه مش صفحه ۲ کالم ۲ یش ج لفضل ۱۶ صلح (جنوری ماله مش صفحها کالم ) ( تقریر سید نا حضرت تعلیفة المسیح الثانی (رض) مال
۱۳۸ اور جب تک ان سب نے نہیں خریدی مجھے اطمینان نہیں ہوا.میں نے تو خود سر سے پہلے اسے خریدا اور حق تصنیف کے طور پر اس کا ایک بھی نسخہ لینا پسند نہیں کیا کیونکہ میں اس پر اپنا کوئی حق نہ سمجھتا تھا میں نے سوچا کہ مجھے علم خدا تعالیٰ نے دیا ہے وقت بھی اسی نے دیا ہے اور اسی کی توفیق سے میں یہ کام کرنے کے قابل ہوا.پھر میرا اس پر کیا حق ہے اور میرے لئے یہی مناسب ہے کہ خود بھی اسے اسی طرح شمریدوں جس طرح دوسرے لوگ خریدتے ہیں.افسوس ہے کہ بعض بڑے بڑے شہروں کی جماعتوں نے بھی اس کی طرف بہت کم توجہ کی ہے.میں تمام جماعتوں کی خریداری کی فہرست سُنا دیتا ہوں.اس سے احباب اندازہ کر سکیں گے کہ کس کیس نے اس کی اشاعت کی طرف توجہ کی ہے.ضلع گورداسپور ۶۰۷.اس میں سے قادیان میں ۵۷۲ اور باقی مضلع میں ۲۵ فروخت ہوئیں :..دہلی ۵۲ ۰۰۰ امرتسر ۴۶ - به جماعت عام طور پر غرباء کی جماعت ہے اور گو شہر کے لحاظ سے زیادہ چاہیئے لیکن جماعت کی حالت کے لحاظ سے یہ تعداد ایسی بری نہیں.لائل پور ۵۱...ملتان ۷۹ ، شہر اور جماعت کی حالت کے لحاظ سے یہ تعداد اچھی ہے.شیخو پورہ ۲۰ - ڈیرہ غازیخان ۲۷ - سرگودھا ۳۵ گجرات ۳۷ - سیالکوٹ ۲۷...گوجرانوالہ ۱۹ - جہلم -۸- انبالہ جالندھر ۳ ۷ جھنگ ، میانوالی - فیروز پور ۲۰ - گوڑ کا نواں ۸ رہتک -۱- حصار -۲- ریاست کپورتھلہ ۱.مالیر کوٹلہ ۲ - شملہ ۲- جے پور ۳ - جودھ پور ۳- حیدر آباد سکندر آباد ۲۴۷۱ مگر میرا خیال ہے یہ تعداد ۳۱۰ ہے.معلوم نہیں دفتر نے کس طرح غلط رپورٹ کی ہے.صوبہ سرحد - 44 - مدراس - - بہار -۲۳ بمبئی - - یوپی ۱۱ - رامپور ۴.سی پی ۱۴- ہے.نوان نگیر ۱۰۰ - مانگرول ۲ - بذریعہ چودھری ظفر اللہ خان صاحب کے - ۵۹۶ - - پریا ۲۴۴ عراق ۲- فلسطين - جاوا اسما ما ہم یہ کل تعداد ۲۹۰۹ ہے.اسے دیکھ کر دوست اندازہ کر سکتے ہیں کہ جماعت نے زیادہ کوشش نہیں کی.چاہئیے تو یہ تھا کہ جماعت میں ہی ہ و سے یاد رہے انفرادی طور پر جن احمدیوں نے تفسیر کبیر کی اشاعت میں نمایاں حصہ لیا ان میں سرفہرست چودھری محمد ظفر اللہ خانصاحب اور دوسرے نمبر پر سیٹھ محمد اعظم صاحب حیدر آبادی تھے.
۱۳۹ یہ تمام پک کر کم سے کم ۳.ہم ہزار کا مطالبہ اور ہوتا.مگر ہوا یہ کہ قریباً ۲۴۰۰ جماعت میں فروخت ہوئی اور باقی پانچ سو دوسروں نے لی.مجھے امید ہے کہ آئندہ جماعت ایسی غفلت نہ کرے گی....یہ تفسیر ایک بہترین تحفہ ہے جو دوست دوست کو دے سکتا ہے.ایک بہترین تحفہ ہے جو خاوند بیوی کو اور بیوی خاوند کو دے سکتی ہے.باپ بیٹے کو دے سکتا ہے.بھائی بہن کو دے سکتا ہے.یہ بہترین جہیز ہے جو لڑکیوں کو دیا تھا سکتا ہے." چونکہ تفسیر کبیر کی اشاعت محض قرآنی علوم و انوار کو زیادہ سے زیادہ پھیلانے تغیر کی جلد سوم کا ہدی ی کی غرض سے ہوئی تھی اور کوئی ذاتی مقصد مد نظر نہیں تھا اس لئے حضرت تعلیقہ آسیح الثانی نے جنگ کی ہوشربا گرانی کے باوجود اس کا ہدیہ ابتداء صرف پانچ روپے مقرر فرمایا مگر بعد کو جب حجم اندازہ سے بھی بہت زیادہ بڑھ گیا مزید ایک روپیہ کا اضافہ کر دیا گیا ہاں پیشگی رقم دینے والو کی کے پانچ روپے میں ہی کتاب دی گئی.تفسیر کبیر بہت جلد نایاب ہو گئی اور پہلے آٹھ دس پھر بھیں اور بعدازان سو سو روپے میں فروخت ہوئی چنانچہ حضور انور نے مجلس مشاورت لہ بہش کے دوران خود یہ واقعہ ۶۱۹۴۵ بیان فرمایا کہ پر سوتی ہی میرے پاس عراق سے ایک خط آیا جسے پڑھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی.وہاں ایک امری ڈاکٹر ہیں.انہوں نے کہا کہ مجھ سے تفسیر کبیر ایک غیر احمدی ڈاکٹر نے پڑھنے کے لئے لی تھی.کچھ عرصہ کے بعد اُن کا تبادلہ ہو گیا اور میں نے اپنی کتاب واپس لے لی.انہیں معلوم ہوا کہ ایک اور احمدی کے پاس یہ کتاب ہے.چنانچہ وہ غیر احمدی ڈاکٹر اس کے پاس گئے اور ایک سو روپیہ میں انہوں نے یہ کتاب اس سے خرید لی " " یہی نہیں ایک وقت ایسا بھی آیا جبکہ بعض غیر احمدی شائقین نے ایک سو روپیہ دینے کی پیشکش "" الفضل ۱۵ صلح جنوری همایش صفحه ۱-۲+ " صفحه ۲ - کالم ۲ * مورخه ۲۸ / امان / مارچ ۱۳۲۲ مه بهش : ۱۱۹۴۵ * یہ کرنیل بھی تھے ( الفضل " ۳ شہادت / اپریل پیش صفحہ ، کالم +1909 1 رپورٹ پیلس مشاورت منعقده ۳۰-۳۱ رایان و حیکم شهادت / اپریل ۳۲۴ه مش صفحه ۳۹-۴۰ : یار و
۱۴۰ کی ، مگر تفسیر کبیر کی قیمت ایک سو پچیس روپیہ تک پہنچ گئی.اس تعلق میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضہ کا بیان فرمودہ ایک واقعہ درج کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا.حضور نے ۲۸ فتح / دسمبر ۱۳۳۴ میش کو اپنی سالانہ ۶۱۹۵۵ جلسہ کی تقریر میں بتایا کہ سورۃ یونس سے سورہ کہف تک جو تفسیر ہے اس کے متعلق ایک غیر احمدی کا مجھے خط آیا کہ ایک احمدی نے مجھے یہ جلد دی تھی جسے وہ واپس مانگ رہا ہے.میں سو روپیہ دیتا ہوں مگر وہ تفسیر نہیں دیتا.آپ مجھے سو روپیہ پر لے دیں.میں نے پوچھا تو مجھے بتایا گیا کہ ابھی اس کی ایک جلد ایک سو پچیس روپیہ میں پکی ہے.میں نے کہا تم سو سمجھے کے کہتے ہو گے کہ تم بڑی قربانی کر رہے ہو وہ تو ۱۲۵ کو ابھی پکی ہے.“ سے ب الہی میں مقبولیت حضرت خلیفہ اسیع الثانی نے سالانہ جلس ہر پیشے کے تفسیر کی جناب الی میں مقبولیت موقع کا ارشاد فرمایا کہ ۱۱۹۴۱ " تفسیر کبیر کا اثر تعلیم یافتہ طبقہ پر بہت اچھا ہے اور بعض لوگ اس سے گہرے طور پر متاثر ہوئے ہیں اور سب سے بڑی چیز تو یہ ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کے حضور مقبول ہو چکی ہے.اور اس کی دلیل یہ ہے کہ دشمن نے اس کی مخالفت شروع کر دی ہے.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک واقعہ سُنایا کرتے تھے کہ ایک بزرگ نے ایک کام بڑی نیک نیتی کے ساتھ کیا....اور وہ اس پر بہت خوش تھے کہ اس کی توفیق ملی.مگر کچھ عرصہ کے پر بعد وہ آپ سے ملے اور کہا معلوم ہوتا ہے میری نیت میں ضرور کوئی خرابی تھی کیونکہ میرا یہ کام خدا تعالیٰ کے ہاں مقبول نہیں ہوتا.میں نے کہا کہ آپ کی تحریک تو کامیاب ہوئی ہے.بہت سے لوگ ممبر بھی ہو گئے ہیں ، چندہ بھی آنے لگا ہے.پھر آپ کیسے کہتے ہیں کہ مقبول نہیں ہوا.اس بزرگ نے جواب دیا کہ خدا تعالٰی کے ہاں کسی نیک کام کی قبولیت کا ثبوت یہ نہیں ہوتا کہ لوگ اس میں مدد کرنے لگیں.بلکہ خدا تعالیٰ کے ہاں مقبول عمل وہ ہوتا ہے جس کی لوگ مخالفت کریں اور چونکہ میرے اس کام کی مخالفت کسی نے نہیں کی اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کے ہاں مقبول نہیں ہوا.اور اس پر وہ بہت افسردہ له " الفضل " ۵ار شہادت / اپریل سه مش صفحه ۲ کالم ۴ * >1904
سید نا حضرت خلیفہ لمسح الثانی' کا مکتوب گرامی شیخ محمد حمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ کپورتھلوی کے نام (۱۵ دسمبر ۱۹۳۷ء) برانو د سر جم کر کے مسجد متحده و شلها على الوله رنگ عزیز یک For السلام عليكم ورحمة الله وبركاتة الله لكه هر موراتا کو جنت مین اعلم انشاهای دیگری ک ا ا ا ا ا اور میری رها دونگا تو که لود کا دلادے کا جی کے سرے نبی الله تعالا الہ کے قائد ان امر باشد 2 با برکت کرے اور مامو مرتبت اسد گاه تند تا کرے.کا لطبيه للدر سامهونا پیار کا امریکی اتوس مرا آمونه ها اقرب رسی کنه بار بار پیچید بودید گردن کے ایک کا پاس سوور و ریاست حضرت مسیح موعنده متعلق لکتواسی راستی تاریخی است و اعطا نه امور سو ہوں میں تم کا سر این حرفت من کاسه ای نیوه بلکه سه کار تاریخ اش ھوکر سے تشیع کے واقعات تاریخی علی سرمایه آنان مونودر راج ان کیسوں میں یاد گار اور ما کار آمد سالانا ہے ورس مقالات فلفلة اليام 15.12 37
حضرت مصلح موعودؓ کے رقم فرمود و د یا چہ کا عکس مشمول تفسیر کبیر جلد اول جز اول ( ۲۳ مئی ۱۹۴۸ء ) تلاہے اسہ قرآن کریم ایک ہیں کیا م سے جو کے ابلہ کر سکتی ہے کیونکہ دوسری کیت دورہ انسانی بھی ہوں ملوع الند نہیں کیونکہ ان کی انسانی حلوہ بھی شامل ہے خالص Nr کلام اللہ الف سے لیکری تک ہے اللہ سے لیکر دانا کی صرف قرآن کرتا ہے.یہ کتا ہوا لوں سے ہے کہ تاتا ہوں کہ ہمارے زمانہ ایک جوں کا توں لفظ ہے نہ ایک لفظ کی نہ ایک زیادہ نہ کوئی حکم نا قابل عمل نہ کوئی آية متونه پر رگ زیر زیر محفظه بر ایک حرکت و وقت ببینه میں اک کور اور کون کا کیا ہو نہیں جیسے کی یقین دما تعد اپنے کیے مشکل راہ بنایا ماتے کہ ایک سال اسی سے کوئی مشتبه یکی نه مالکان اور مرد دوسی که ملاتونا
وسی قیمتی نگاہوں کو پھلی دیہات دور سے چیوز کیر دوسری کتے کی طرف متوجہ می کند خدا تائے کی نکہ خود ساختہ لیڈروں کا سمجھے چل رہے ہی کی نازکی اینده سابقه اس کی ہے ان کا تب بھی ہے کہ عطا کیا جو لوگ عربی ہی جا ئے میں پید اہوئی اپنی بلکہ اللہ کجھنے کا موشته علی بان اسد کا اندرونی تو یوں آپ کے وقت پر پائی.پہلی بید تیزی لگا کے ہیں بادیبانہ بیان منظوره کارے کے لکھ لے ہوں تین جلدی در سای اور آخر حسرت میری پہلے لے رہی ہیں اس راہ میری بند گوشتی تو تبول ترمان کرد که نیزه درینہ کے قرآن کرنا نا نا ہوکر ظاہر و بالی یر و کتک کر کے سر بھی ہے اس نیز می کرنے کا تو قیقی تھے.سوال والا
سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی' ڈلہوزی میں
۱۴۱ تھے.مگر پھر کچھ دنوں کے بعد ملے تو بہت خوش تھے.چہرہ بشاش تھا.میں نے اس کی وجہ پوچھی تو جیب سے ایک خط نکال کر دکھایا کہ دیکھو یہ گالیوں کا خط آیا ہے.اللہ تعالی کے کاموں کا مقابلہ شیطان ضرور کرتا ہے اور اس کے کام کے لئے جو آدمی مقرر ہوتے ہیں وہ خواہ علماء سے ہوں یا روساء میں سے اور خواہ عام لوگوں میں سے وہ ضرور اپنا کام کرتے ہیں چنا نچہ اس تفسیر پر مولوی ثناء اللہ صاحب نے بھی اعتراض کئے ہیں اور بہت غصہ کا اظہار کیا ہے کہ امام جماعت احمدیہ نے تفسیر بالرائے لکھی ہے اور پھر اس کے جواب کی ضرورت اس قدر محسوس کی ہے کہ لکھا ہے کہ میں اس تفسیر کے مکمل ہونے کا انتظار نہیں کر سکتا.کیونکہ ممکن ہے اس وقت تک مر ہی جاؤں.اس لئے ابھی سے اس کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کر دیتا ہوں.چنانچہ ایک رسالہ چند اعتراضات پر معینی شائع بھی کیا ہے.پیغامیوں کی طرف سے بھی اس کی مخالفت شروع ہے اور ایک پیغامی مبلغ نے تو یہانتک کہا ہے کہ میں اپنی عاقبت کی درستی کے لئے اس تفسیر کا جواب لکھنا ضروری سمجھتا ہوں.اس سے پتہ لگ سکتا ہے کہ دشمن کو یہ تفسیر بہت چھبی ہے خصوصاً پیغامی صاحبان کے لئے تو یہ بے حد تکلیف اور اذیت کا موجب ہوئی ہے کیونکہ انہوں نے تفسیر کو خاص طور پر جلب زر کا ذریعہ بنا رکھا تھا جب ضرورت ہوتی تحریک شروع کر دیتے کہ فلاں جگہ اتنی جلدوں کی ضرورت ہے.فلاں ملک میں ایک ہزار جلد بھجوائی جانی چاہیے اور اس طرح فروخت کر کے اس میں سے اپنا حصہ حاصل کر لیتے.اس لئے ان کو خاص طور پر دکھ ہوا ہے.یہ نبوت وغیرہ کے مسائل اور تقریریں کرنے کے جو سوال اُٹھائے جا رہے ہیں یہ دراصل تفسیر ہی کی جلن کا اظہار ہے.حال میں مجھے ایک دوست نے لکھا ہے کہ ان کے ایک مصنف نے اپنی انجمن کو لکھا ہے کہ اب کمیشن کی آمد بہت کم ہو گئی ہے اس لئے یا تو اہم سو روپیہ ماہوارہ رقم کا انتظام کیا جائے اور یا پھر اتنی رقم مجھے قرض ہی دے دی جایا کرے.گویا اُس کی آمد پر اس کا اثر پڑا ہے اور اس وجہ سے وہ چیخ اُٹھے ہیں.یہ مقابلہ جو اب ان کی طرف سے شروع ہوا ہے یہ دراصل تغییر کا ہے ، نبوت وغیرہ کا نہیں.بہر حال ان گالیوں سے ہم ناراض نہیں ہیں کیونکہ یہ دراصل ثبوت ہے اس بات کا کہ یہ کام خدا تعالیٰ نے قبول فرما لیا
۱۴۲ مولوی محمد علی صاحب کی تفسیر کو شائع ہوئے بہت عرصہ ہو چکا ہے اور ہماری جماعت کے دوست بھی حسب ضرورت اُسے خریدتے رہے ہیں کئی دفعہ بعض علاقوں کے احمدیوں نے مجھ سے پو چھا کہ کونسی انگریزی تفسیر خریدیں تو میں نے اُن کو کہا کہ سردست مولوی صاحب کی تفسیر خرید لیں لیکن ان کی یہ حالت ہے کہ ابھی ایک ہی جلد شائع ہوئی ہے اور وہ مخالفت پر کھڑے ہو گئے ہیں“ لے لے تفسیر کبیر جلد سوم کا اندکی اگر جوانی صد اراضی صاحب اور ان کی تحریک عید نے تغیر چه مولوی عبد الرحمن انچارج مدمیں کبیر جلد سوم کے مضامین کی ایک مختصر سی فہرست اس کے آخر میں شامل کر دی تھی مگر ضرورت تھی کہ اس کی مفصل فہرست بھی شائع کی جائے.اس اہم خدمت کی تکمیل قاضی محمد اسلم صاحب پروفیسر گورنمنٹ کالج لاہور کے ذریعہ ہوئی جنہوں نے ماہ تبوک استبرای پیش میں اس کا مفصل انڈیکیشن شائع کر دیا.اور جس پر حضرت خلیفہ ایسیح الثانی نے بھی پسندیدگی کا اظہار فرمایا.تفسیر کبیر جلد سوم کی اشاعت کے بعد حضرت امیرالمومنین تفسیر کبیر کی دوسری جلدوں کی اشاعت خلیفہ ربیع الثانی نے قرآن مجید کے تیسویں ارہ کی تفسیر کی طرف توجہ فرمائی اور وفا جولائی کار مہیش سے اس کے درس کا آغاز فرمایا اور پہلے ڈلہوزی میں سُورۃ النسیا سے سورۂ طارق تک، پھر صلح جنوری دیش میں قادیان آکہ سورۂ اعلیٰ سے سورۂ قدر ۱۹۴۵ء تک کا درس دیا.ازاں بعد ظہور / اگست ۱۳۲۴ پیش میں بمقام ڈلہوزی ، سورۂ البینہ سے سورۂ الهمزة ۶۱۹۴۵ تک اور ۳۲ میش میں بمقام کوئٹہ سورۃ الفیل سے سورہ کو شہ تک درس دیا ھے.الفصل ۱ صلح اه بیش صفحه ۲-۱۳ ۶۱۹۴۲ معترضین نے ان دنوں تغییر کبیر پر اعتراضات شائع کیئے.ان کے جواب میں مندرجہ ذیل علما نے قسلم اُٹھایا اور نہایت مدلّل مضامین شائع کئے.مولانا جلال الدین صاحب شمس ، مولانا ابو العطاء صاحب ، مولانا ابوالمثير نور الحق صاحب ، مولانا محمد شریف صاحب فاضل مبلغ بلاد عربیہ مولانا ابوالمنیر صاحب کا جواب "الفضل " میں کئی قسطوں میں شائع ہوا جس پر مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے گھبرا کہ یہ تبصرہ کیا کہ " قادیانی پارٹی نے اس کے جواب میں ایک سلسلہ مضمون بظاہر ایک نوجوان کے نام سے شروع کیا ہوا ہے (ہفت روزہ اہلحدیث ۲۸ نویر اشاء صفحه ۴) * حال پر سیل تعلیم الاسلام کا لج ریلوہ و ناظر تعلیم صدر امین احمدیہ ریوه ؛ حال ، ک فہرست کا پورا نام " تفسیر کبیر جلد ۳ تالیف منیف حضرت مرزا بشیر الدین محمود احد امیر المومنین خلیفة المسیح الثانی امام جماعت " احمدیہ کا انٹر کیں" ناشر جماعت احمدیہ لاہور " تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحه ۱۴۵ تفسیر کبیر (سورة الفجر ) صفحه ۴۸۳ - ۴۸۷ * •
حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی کے یہ سارے درس مولوی محمد یعقوب صاحب فاضل دانچارج شعبہ زود نویسی نے قلمبند کئے جو نبوت ( تو میرا دیش سے حضور کے ارشاد کے ماتحت دفتر افضل" قادیان سے تفسیر القرآن کے کام پر منتقل ہو گئے تھے.تاہم محل لغات اور حوالہ جات کی فراہمی کا فریضہ مولوی ابو المنیر نورالحق صاحب فاضل (پر وفیہ جامعہ احمدیہ ہی کے سپرد رہا اور انہی کی زیر نگرانی ان درسوں کی کتابت، پروف ریڈنگ اور طباعت بھی ہوئی.حضور کے یہ اہم درس تین جلدوں میں شائع کئے گئے.٣٠٠٠ پہلی جلد سورۃ النبار سے سورۃ البلد تک کے معارف پر مشتمل تھی ( تعداد تین ہزار ضخامت ۶۲۸ صفحات ، تاریخ اشاعت ظہور / اگست ۳۳۴ میش) ۲۱۹۴۵ دوسری جلد میں سورۃ الشمس سے سورۃ الزلزال تک کے مضامین شائع ہوئے ( تعداد تین ہزار ضخامت ۴۷۲ صفحات ، تاریخ اشاعت (۲۵ فتح / دسمبر مش تا تمیری جلد صورة العاديات ما سورۃ الکوثر کی تفسیر پاش ملی تھی وضخامت ۵۰۰ صفحات له تاریخ اشاعت فتح ا دسمبر به ریشه 1190 تیسویں پارہ کی آخری اور جو بھی جلد جس میں سورۃ الکافرون سے سورۃ الناس تک کے مطالب موجود تھے ، اختار اکتوبر ۳۵ سالہ مہش میں شائع ہوئی.یہ جلد حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے لکھے ہوئے نوٹوں اور حضور کے دیئے ہوئے درسوں سے مرتب کی گئی تھی اور حضور رضی اللہ عنہ نے ان نوٹوں کو اول سے آخر تک سُن کر ان میں ترمیم و تصحیح فرمائی کے تعداد اشاعت تین ہزار ، ضخامت ۲۱۲ صفحات ، سن اشاعت استار را کتوبر له ش) حضرت خلیفہ السیح الثانی نے مندرجہ بالا جلدوں کی طبع و اسانت آخی پارہ کی تفی کیلئے اخراجات کے لئے دس ہزار روپے مرحمت فرمائے جیسا کہ حضور نے کے رپورٹ سالانہ صیغہ حیات صدر انجین احمدیہ کم ہجرت مئی یش لغایت سر شهادت / اپریل امش مرتبہ چودھری فتح محمد صاحب سیال ایم.اسے ناظر اسکی ناشر صد را همین احمدیہ قادیان مث : سے ان سب جلدوں کی کتابت مکرم قاضی نور محمد صاحب کا تب مرحوم نے کی و سے ان نوٹوں کے منانے کی سعادت مکرم ابو المتغیر اور الحق صاحب کو ملی ہے
۱۴۴ آخری پارہ کی پہلی جلد کے دیباچہ میں رقم فرمایا کہ پارہ غم کی تفسیر کی طباعت کے لئے میں نے دس ہزار روپیہ دیا ہے اور یہ پارہ اس رقم سے شائع کیا جائے گا.یہ رقم اور اس کا منافع بطور صدقہ جاریہ میری مرحومہ بیوی مریم بیگم ام طاہر عمر الله لَهَا وَاحْسَنَ منوبھا کی روح کو ثواب پہنچانے کے لئے وقف رہے گا اور اس کی آمد سے قرآن کریم ، احادیث اور سلسلہ احمدیہ کی ایسی کتب ہو تائید اسلام کے لئے لکھی جائیں.شائع کی جاتی رہیں گی اور اس کا انتظام تحریک جدید کے ماتحت رہے گا.اللہ تعالے اس صدقہ جاریہ کو مرحومہ کی درجات کی بلندی اور قرب الہی کا موجب بنائے “ سے میں تفسیر کبیر کے مسودات کی حفاظت کا امام کا کیا بتایا ہے کہ معدہ ہندوستانی اس کی دو جلدیں ہی شائع ہوئی تھیں اور بقیہ جلدوں کے مستورات (تا سورۃ العمرة، اشاعت کے بغیر پڑے تھے کہ ہندوستان تقسیم ہو گیا جس پر حضر امیر المومنین خلیفة المسیح الثانی نے ابو المنیر مولوی نور الحق صاحب کو بتاریخ ۲ ظهور/ اگست ۳۲۶ میش مسودات تفسیر دے کر لاہور بھیجوا دیا.چنانچہ آپ کا بیان ہے :- "پاکستان کے قیام پر فسادات کے پیش نظر حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلا قافلہ ہم کو لاہور بھجوایا تھا.اس میں حضرت ام المؤمنین رضی اللہ عنہا اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواتین مبارکہ تھیں اور خاندان کے صرف چند ایک مرد فرد تھے.اس قافلہ میں حضور نے مجھے بھی شامل فرمایا اور ہدایت فرمائی کہ تفسیر کبیر کے مطبوعہ اور غیر مطبوعہ سب مسودات لے کر لاہور پہنچوں چنانچہ خاکساران سب مسودات کو لے کر لاہور پہنچ گیا حضور نے یہ سب اس لئے کیا.تا ایسا نہ ہو کہ مسودات ضائع ہو جائیں " ازاں بعد حضرت خلیفتہ اسیح الثانی خود بھی ۳۱ ظہور / اگست پیش کو ہجرت کر کے پاکستان ۱۳۳۶ 1190 تشریف لے آئے.یہاں پہنچتے ہی آپ نے بین امور کی طرفت فوری توجہ فرمائی اُن میں تفسیر کا کام بھی تھا.چنانچہ حضرت امیر المومنین نے مورخہ ۳ تبوک استمبر سال پیش حضرت میاں بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ له حضرت تخلیقة أمسیح الثانی کے ارشاد مبارک کی تعمیل میں تفسیر کبیر دپارہ ہم) کی پہلی تین جلدیں دفتر تحر یک جدید نے شائع کیں مگر چو تھی جلد ام مظاہر ٹیسٹ کے لئے الشرکۃ الاسلامیہ ربوہ کی نگرانی میں طبع ہوئی ،
۱۴۵ (امیر مقامی قادیان) کے نام حسب ذیل ہدایت جاری فرمائی.فرمایا :- جو کنوائے آئے گا اس کے ساتھ تفسیر کے تین بکس دفتر سے ضرور بھیجوا دیں.اور مولوی محمد یعقوب کو ، تاکہ دو چار دن میں تفسیر کی آخری جلد مکمل کر دوں تا اس طرفت سے دلجمعی ہو جائے.باقی کام ہوتا رہے گا.کون شخص ہے جس نے سارے دنیا کے کام کئے ہوں لئے اس محکم کی تعمیل میں حضرت میاں صاحب نے تفسیر کے تین بکس بھی لاہور بھجوا دیئے اور مولوی محمد یعقوب صاحب انچارج شعبہ زود نویسی ) کو بھی روانہ کر دیا.اشاعت میں تقریر کرنے علاوہ تنیسویں پارہ کی مکمل تفسیر لکھنے کے علاوہ محضرت خلیفہ اسیح تفسیر کبیر کی دوسری جلدوں کی اا ا ا ا الثانی کی تفسیر کبیر کی مندرجہ ذیل پانچ جلدیں بھی شائع ہوئیں.تفسیر کبیر جلد اول جمعہ اقول لا سورۃ البقرہ کے پہلے نور کوع پیشمتل صفحات ۵۴۸ ، تاریخ اشاعت ۲۳ ہجرت امئی سے بہش یہ تفسیر ضیاء الاسلام پرایس قادیان میں چھپی مگر سر ورق اتحاد پریس لاہور میں طبع ہوا.اس جلہ کا مسودہ حضرت خلیفتہ ایسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے اپنے ہاتھوں کا تحریر کیا ہوا ہے.اس ببلد کی نسبت حضور نے قبل ازیں سالانہ مجلس میش کے موقعہ پر بتایا :- اُردو تفسیر کے متعلق مجھے افسوس ہے کہ وہ شائع نہیں ہو سکی.پانسو صفحات سے زیادہ کا مضمون میں دے پچکا ہوں اور اس سال پچھلے سال کی نسبت زیادہ کام ہوا ہے.میری صحت بہت خراب رہی ہے ور نہ اس سے بھی زیادہ کام ہو سکتا تھا.میری صحت کی خرابی میں دانتوں کا دخل ہے.بعض اوقات دانت کا ٹکڑا آپ ہی آپ ٹوٹ کر گر جاتا ہے اور اس وجہ سے نہیں کھانا وغیرہ چبا کر نہیں کھا سکتا.روٹی بہت کم کھا سکتا ہوں.بسا اوقات چھٹانک سے بھی کم وزن کا پھل کا ہوتا ہے جو کھاتا ہوں.مگر اس کے باوجود پیٹ میں خرابی رہتی ہے.خون کم پیدا ہوتا ہے اور پیش بھی ہو جاتی ہے اور اس ه (اقتباس از مکتوب حضرت خلیفہ مسیح الثانی مه حره ۲ تبوک استمبر ریش تھے اس مجلہ کی کتابت کردم منشی عبد الحق صاحب نے کی صرف آخری ایک رکوع کریم قاضی نور محمد صاحب لکھا ؟ سے یہ پریس تحریک جدید نے انجین سے خرید لیا تھا.چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی نہ نے ۲۰ فتح او سمبر پیش کی تقریر میں فرمایا :- در بینے کی بات ہے کچھ کا پیاں ایک پریس پر لگائی گئیں تو وہ سب کی سب اُڑ گئیں.اب میں نے تحریک بعدید کی طرف سے ایک پریس خرید لیا ہے اور دس ہزار روپیہ اس پر صرف آیا ہے.انشاء اللہ جنوری میں فٹ ہو کر تفسیر کی چھپوائی شروع ہو جائیگی " " الفضل " ۲۵ تصلح ۱۳۳۳ ش ) ۲۵ جنوری ۹۴۵ ایر صفحه ۲ کالم ۲ :
۱۴۶ دید سے ہاتھ کی انگلیاں بھی پوری طرح کام نہیں کر سکتیں.آخر سوچنے کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ مضمون کاتب کو لکھوا دیا کروں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اس میں بڑی کامیابی ہوئی ہے اور بڑی جلدی کام ہونے لگا ہے.جنہوں نے دیکھا ہے وہ کہتے ہیں کہ اس طرح لکھے ہوئے اور میرے ہاتھ کے لکھے ہوئے میں فرق نہیں.اس طرح بعض اوقات میں نے ساتھ ساتھ کالم مضمون لکھوا دیا ہے اور امید ہے کامیابی ہوگی.مشکل یہ ہے کہ مضامین اس طرح الجھتے ہیں کہ جیسے ایک خزانہ کے اندر دوسرا خزانہ مخفی ہو.اور آٹھ رکوع میں ہی پانچ سو صفحات ختم ہو گئے ہیں اور اتنا بھی مضامین کا گلا گھونٹ گھونٹ کہ کیا گیا ہے.پہلے تجویز بھی کہ تین سورتیں پہلی جلد میں ختم ہو جائیں.پھر یہ خیال کیا کہ دو سورتیں پہلی جلد میں ختم کی جائیں.مگر اب یہ بھی مشکل نظر آتا ہے.میں بہت سی باتیں چھوڑتا بھی ہوں.مگر چونکہ ابتدائی مضمون ہے اس لئے یہ بھی خیال ہے کہ ممکن ہے تفصیل آگے فائدہ دے اس لئے ہربات بیان کرنی پڑتی ہے اور اس لئے پانچ سو صفحات میں صرف آٹھ رکوع ختم ہوئے ہیں" تفسیر کبیر کی اس پہلی بار کے ابتدار میں حضور نے " کلام اللہ“ کے عنوان سے حسب ذیل دیباچہ رقم فرمایا.لس الله الرحمن الرحيم تحدة وَنُصَل عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ محمدةً الله قرآن کریم ایک ہی کتاب ہے جو کلام اللہ کہلا سکتی ہے.دوسری کتب خواہ الہامی بھی ہوں کلام الہ نہیں.کیونکہ ان میں انسانی کلام بھی شامل ہے.خالص کلام الله الف سے لیکر ی تک بسم الله سے لے کر والناس تک صرف قرآن کریم ہے.یہ کتاب اس وقت سے کہ نازل ہوئی ہمارے زمانہ تک جوں کی توں ہے.نہ ایک لفظ کم نہ ایک لفظ زیادہ ، نہ کوئی حکم نا قابل عمل نہ کوئی آیت منسوخ ، ہر ایک زبہ زیر محفوظ ، ہر ایک حرکت و وقف بعینہ.پس اس کے سوا اور کوئی کتاب نہیں جیسے اس تعیین کے ساتھ اپنے لئے مشعل له / "الفضل " یکم امان / مارت بیش صفحه ۳ - ۱۴
۱۴۷ راہ بتایا جا سکے کہ اس سے کوئی مشتبہ محکم نہ ملے گا.مگر افسوس کہ مسلمانوں نے اس قیمتی کتاب کو بھلا دیا ہے.وہ اسے چھوڑ کر دوسری کتب کی طرف متوجہ ہیں اور خدا تعالے کی جگہ خود ساختہ لیڈروں کے پیچھے چل رہے ہیں.میں نے اس امید کے ساتھ کلام اللہ کی تفسیر لکھی ہے کہ جو لوگ عربی نہیں جانتے یا بدقسمتی سے اس کلام پر غور کرنے کا وقت نہیں پاتے یا جن کے دل میں یہ خواہش پیدا نہیں ہوتی انہیں کلام اللہ سمجھنے کا موقعہ مل جائے اور اس کی اندرونی خوبیوں سے وہ واقف ہو جائیں.پہلی جلد تفسیر کی یہ ہے جس کا دیباچہ میں ان سطور کے ذریعے سے لکھ رہا ہوں تین جلدیں درمیانی اور آخری حصہ کے متعلق پہلے چھپ چکی ہیں.اللہ تعالے میری حقیر کوشش کو قبول فرمائے اور اس تفسیر کے ذریعہ سے قرآن کریم کے مطالب کو ظاہر و باطن میں پھر زندہ فرمائے اور مجھے بھی اس تفسیر کے مکمل کرنے کی توفیق بخشے (آمین) میرزا محمود احمد رتن باغ لاہور ۲۳ ۲- تفسیر کبیر جلد چهارم اشتمل بر سورة مريم وسورة طه وسورة انبياء صفحات ۵۸۰، تاریخ اشاعت دست ر امان مادری یہ ہی یہ جلد حضرت ام طا ہر فنڈ کی رقم سے الشرکتر الاسلامیہ لینڈ ربوہ نے شائع کی.٣ تفسیر کبیر جلد پنجم حصہ اول (سورة الحج ، سورة المومنون اور سورۃ النور کی تفسیر، صفحات ۴۱۲، +1904 تاریخ اشاعت فتح دسمبر ۳۶ له بهش ، ناشر الشركة الاسلامی لمیٹڈ ربوہ ) ۴- تفسیر کبیر جلد پنجم حصہ دوم (سورۃ الفرقان اور سورۃ الشعراء کی تفسیر صفحات ۵۰۰ ، تاریخ اشاعت ۱۳۰ نبوت / نومبر پیش ، ناشر الشركة الاسلامیہ لمیٹیڈو یوه ) ۱۹۵۹ء تفسير كبير جلد پنجم حصہ سوم (سورة النمل ، سورۃ القصص اور سورۃ العنکبوت کی تفسیر ، بحجم ) صفحات ۳۹۰ ، تاریخ اشاعت ۱۵ نبوت / نومبر له مش ، ناشر اشترکتر الاسلامیہ لمیٹیڈ ربوہ) سے +194.جیسا کہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے تفسیر تفسیر کبیر کی تالیف کے دوران القاء کبیر جلد سوم کے شروع میں لکھا ہے کہ " اس تفسیر کا بہت ے تفسیر کبیر کی یہ پانچوں جلدیں (باستثناء سورۃ مریم حضرت امیر المومنین خلیفہ ربیع الثانی رضی اللہ تعالی عنہ کے درسوں اور نوٹوں سے مرتب ہوئیں اور حضور نے مکرم مولوی محمد یعقوب صاحب مرحوم اور ابو المنیر نور الحق صاحب سے ان نوٹوں کو شنا اور ان میں تصحیح و ترمیم فرمائی ،
۱۳۸ سا مضمون میرے غور کا نتیجہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا عطیہ ہے" اس خدائی عطیہ کا ایک خصوصی پہلو یہ تھا کہ اللہ تعالے کی طرف سے تفسیر کبیر کی تالیف کے دوران حضور کو بعض مشکل مقامات کا اصل یکایک القاء کیا جاتارہا.بطور مثال ایک اہم واقعہ کا بیان کرنا ضروری ہے ہو حضور نے سورۃ الفجر کے درس کا آغاز کرتے ہوئے بیان فرمایا کہ قرآن کریم کی کئی مشکل آیات کے معن اللہ تعالیٰ نے اپنے الفاء اور الہام کے ذریعہ مجھ پر منکشف فرماے ہیں.اور اس قسم کی بہت سی مثالیں میری زندگی میں پائی بھاتی ہیں.انہی مشکل آیات میں سے میرے لئے ایک یہ سورۃ بھی تھی.میں جب بھی سوچتا اور غور کرتا مجھے اس کے معانی کے متعلق تسلی نہیں ہوتی تھی بلکہ ہمیشہ دل میں ایک خلش سی پائی جاتی تھی اور مجھے بار بار یہ خیال پیدا ہوتا تھا کہ جو معانی بتائے جاتے ہیں، وہ قلب کو مطمئن کرنے والے نہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مفسرین نے بہت سے معانی کئے ہیں جو لوگوں کی نگاہ میں اس سورۃ کو حل کر دیتے ہیں.مگر میری اپنی نگاہ میں وہ اطمینان بخش معانی نہیں تھے اور اس لئے ہمیشہ ایک بے چینی سی میرے اندر پائی جاتی تھی.میں سوچتا اور غور کرتا مگر جو بھی معنے میرے ذہن میں آتے اُن کو مزید غور کے بعد میں خود ہی رد کر دیتا اور کہتا کہ یہ درست نہیں ہیں.آخر بڑی مدتوں کے بعد ایک دفعہ جب میں عورتوں میں قرآن کریم کے آخری پارہ کا درس دینے لگا تو اس کا ایک حصہ حل ہوگیا.مگر پھر بھی وصل ہوا وہ صرف ایک حصہ ہی تھا.مکمل مضمون نہیں تھا.جو معنے مجھ پر اس وقت روشن ہوئے ان سے پاروں کھونٹے قائم نہیں ہوتے تھے.دو تو بن جاتے تھے مگر دورہ جاتے تھے.یہ حالت چلتی چلی گئی اور مجھے کامل طور پر اس کے معانی کے متعلق اطمینان حاصل نہ ہوا.اب جو میں نے درس دینا شروع کیا تو پھر یہ سورۃ میرے سامنے آگئی (یعنی سورۃ الفجر ناقل ) اور میں نے اس پر غور کرنا شروع کر دیا.میں نے آخری پارے کا درس جولائی اور میں شروع کیا تھا.اور ڈلہوزی میں اس کی ابتداء کی تھی.اس وقت سے لے کر اب تک کئی دفعہ اس سورۃ پر نظر ڈالی اور مجھے سخت فکر ہوا کہ اس سورۃ کا درس تو قریب آرہا ہے مگر ابھی اس کے معافی ترتیب سوز کے لحاظ سے مجھے پر روشن نہیں ہوئے.بار بارہ میں اس سورۃ کو دیکھتا ، اس کے مطالب پر غوبہ کرتا اور کوئی مضمون میرے ذہن میں بھی آجاتا.مگر پھر سوچتے سوچتے میں اس کو ناکافی قرار دے دیتا.غرض بیسیوں دفعہ میں نے اس سورۃ پر نگاہ دوڑائی مگر مجھے اپنے مقصد میں کامیابی نہ ہوئی پہان تک کہ سورۃ الغاشیہ کے درس کا وقت آگیا.اور میں اس کے نوٹ لکھنے لگا.مگر اس وقت
۱۴۹ بجائے معاشیہ پر نگاہ ڈالنے کے میری نظر بار بار آگے کی طرف نکل جاتی اور سورۃ الفجر میرے سامنے آجاتی.فاشیہ کے متعلق میں سمجھتا تھا کہ یہ تو حل شدہ ہی ہے.اور اگر کوئی مشکل آیت بھی ہوئی تو ترتیب میں آکر وہ خود بخود حل ہو جائے گی.جس طرح ایک انسان جب گیند پھینکتا ہے تو اُسے پتہ ہوتا ہے کہ یہ گیند اتنی دور بجائے گا ، اسی طرح جو شخص قرآن کریم کی تفسیر ترتیب آیات اور ترتیب موز کو مد نظر رکھ کر کرتا ہے وہ سمجھ جاتا ہے کہ اسی ترتیب کے مطابق فلاں آیت کے فلاں معنے بنیں گے مگر اس بات کو وہی شخص سمجھ سکتا ہے جس نے اپنی عمر اس فن میں صرف کر دی ہو.وہی جانتا ہے کہ شہر کا رخ کس طرف ہے اور پانی کا بہاؤ کدھر ہے.دوسرا شخص جیسے قرآن پر اس رنگ میں غور کرنے کا موقعہ نہ ملا ہو وہ ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتا.جب میں سورۃ کہف کی تفسیر لکھ رہا تھا تو لا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فَاعِلُ ذَلِكَ غَدًا إِلَّا أَن يَشَاء الله (الکیت (۱۲:۴) کے معنے میری سمجھ میں نہیں آتے تھے مگر تفسیر لکھتے وقت میں نے سمجھا کہ میں صحیح ترتیب پر پھیل رہا ہوں.جب میں اس آیت پر پہنچوں گا تو دیکھوں گا کہ اس کے کیا معنے بنتے ہیں.چنانچہ ترتیب آیات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں تفسیر کرتا چلا گیا یہانتک کہ جب میں اس آیت پر پہنچا تو اس وقت یہ آیت اپنے معافی کے لحاظ سے یوں واضح ہو گئی کہ میں نے سمجھ لیا کہ اس کے سوا اس آیت کے اور کوئی معنے ہو ہی نہیں سکتے.کیونکہ پہلی آیتیں مجبور کر کے ان معنوں کی طرف لے جا رہی تھیں.لطیفہ یہ ہوا کہ انگریزی ترجمہ القرآن کے سلسلہ میں مولوی شیر علی صاحب کے نوٹ جب میرے پاس آئے تو ان میں وہی معنے لکھے ہوئے تھے مگر وہ نوٹ انہوں نے یہاں نہیں لکھے تھے بلکہ ولایت میں لکھے تھے.میں نے ملک غلام فرید صاحب سے پوچھا کہ مولوی صاحب نے یہ نوٹ اب ٹھیک کئے ہیں یا پہلے سے اسی طرح لکھے ہوئے تھے.انہوں نے بتایا کہ یہ ولایت کے لکھے ہوئے ہیں.میں نے کہا اگر یہ ولایت کے نوٹ ہیں تو پھر اس آیت کے یہ معنے ولایت میں کس طرح پہنچ گئے ؟ میں تو اس آیت پر بڑا غور کرتا رہا تھا مگر اس کے معنے پندرھویں پارہ کی تفسیر لکھتے ہوئے میری سمجھ میں آئے تھے.اس پر انہوں نے بتایا کہ آپ نے جو درس سنہ میں دیا تھا اس میں یہی متنے بیان کئے تھے اور اس وقت کے نوٹوں سے مولوی صاحب نے یہ معنے درج کئے ہیں.معلوم ہوتا ہے سر کا درس دیتے وقت جب میں اس آیت پر پہنچا تو خود بخودیہ آیت
۱۵۰ حل ہو گئی.مگر چونکہ عین وقت پر حل ہوئی اس لئے میرے قرآن کریم کے حاشیہ پر وہ معنی نہ لکھے گئے.اور کچھ عرصہ بعد مجھے بھول گئے.اب گو ان معنوں کو ئیں بھول چکا تھا مگر جب ترتیب آیات کے لحاظ سے غور کرتے ہوئے میں اس آیت پر پہنچا تو فوراً وہی معنے پھر ذہن میں آگئے.تو ترتیب کے لحاظ سے جو شخص آیات کے معنے کرنے کا عادی ہو وہ ادھر ادھر جا ہی نہیں سکتا.وہ اسی رو اور اسی نالی میں بہہ رہا ہوتا ہے جس کی طرف مضمون زبان حال سے اشارہ کر رہا ہوتا ہے.غرض جوں جوں سورۃ فجر کا درس نزدیک آتا گیا میرا اضطراب بھی بڑھتا چلا گیا.میں نے کہا جب اس سورۃ کے متعلق میری اپنی تسلی ہی نہیں ہوئی تو میں دوسروں کو کیسے مطمئن کر سکتا ہوں.مفسرین نے جو معنی بیان کئے ہیں وہ میں بیان کر سکتا تھا.مگر جو ترتیب گذشتہ سورتوں سے میں بتاتا آرہا ہوں اس کے لحاظ سے چاروں کھونٹے قائم نہیں ہوتے تھے پہلے خیال آیا کہ میں دوسروں کے معانی ہی نقل کردوں کیونکہ یہ درس اب جلد کتابی صورت میں چھپنے والا ہے کب تک میں ان معانی کا انتظار کروں جو ترتیب کے مطابق ہوں.شاید ترتیب کے مطابق معنے اللہ تعالیٰ پھر کسی وقت کھول دے.آخر پرانے مفسروں نے کوئی نہ کوئی معنے ان آیات کے کئے ہی ہیں.رازی نے بھی اس کے معنے لکھے ہیں.بحر محیط والوں نے بھی معنے لکھے ہیں.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے بھی معنے کئے ہوئے ہیں.اور ان تمام معانی کو ملحوظ رکھ کر کچھ نہ کچھ بات بن ہی بجھاتی ہے.مگر چونکہ میرا دل کہتا تھا کہ ترتیب آیات کو مد نظر رکھتے ہوئے وہ معانی پوری طرح ہم منطبق نہیں ہوتے.مجھے اطمینان نہ ہوا.یہانتک که ۷ ارماه صلح ۱۳۲۷ پیش مطابق ۷ ارجنوری ائر بروز بدھ میں سورۃ غاشیہ کا درس دینے کے لئے مسجد مبارک میں آیا.میں نے درس سورۃ نقاشیہ کا دینا تھا مگر میں غور سورۃ فجر یہ کہ رہا تھا.اسی ذہنی کشمکش میں میں نے عصر کی نماز پڑھانی شروع کی اور میرے دل پر ایک بوجھ تھا لیکن خدا تعالے کی قدرت ہے کہ جب میں عصر کی نماز کے آخری سجدہ سے سر اُٹھا رہا تھا تو ابھی سر زمین سے ایک بالشت بھر اُونچا آیا ہو گا کہ ایک آن میں یہ سورۃ مجھ پر حل ہو گئی.پہلے بھی کئی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ سجدہ کے وقت خصوصاً نماز کے آخری سجدہ کی حالت میں اللہ تعالیٰ نے بعض آیات کو مجھ پر حل کر دیا مگر اس دفعہ بہت ہی زبر دست تفہیم تھی کیونکہ وہ ایک نہایت مشکل اور نہایت وسیع مضمون
اها پر حاوی تھی.چنانچہ جب میں نے عصر کی نماز کا سلام پھیرا تو بے تحاشہ میری زبان سے الحمد للہ کے الفاظ بلند آواز سے نکل گئے " لے " تفسیر کبیر" کے ذریعہ کلام اللہ کا مرتبہ اس شان سے تفسیر کبیر کی بعض اہم خصوصیات ظاہر ہوا ہے کہ اس کی نظیر مخلفار کی گذشتہ تاریخ میں تلاش کرنا محال ہے یہ تفسیر دنیلہ کے تغیر کی ایک بے نظیر تفسیر ہے جس نے نہ صرف قرآن کے حسین چہرہ بھی کو صحیح صورت میں دنیا کے سامنے پیش کیا ہے بلکہ زمانہ مستقبل کے مفسرین کے لئے صحیح راستوں کی نشاندہ بھی کی ہے.یہی وجہ ہے کہ یہ عظیم الشان تفسیر اپنے اندر بے شمار خصوصیات رکھتی ہے جن میں سے بعض کا نہایت مختصر سا تذکرہ ذیل میں کیا جاتا ہے :- " پہلی خصوصیت اس تغیر کی پہلی عظیم خصوصیت یہ ہے کہ اس سے آیتوں اور سورتوں کی ترتیب اور ربط کا محکم قرآنی نظام آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے.ترتیب کا یہ مضمون ان مضامین میں سے ہے.جو اللہ تعالیٰ نے سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی کو خاص طور پر عطافرمائے تھے.چنانچہ حضرت اقدس فرماتے ہیں.میرا ترجمہ اور میری تفسیر ہمیشہ ترتیب آیات اور ترتیب سور کے ماتحت ہوتی ہے.اور یہ لازمی بات ہے کہ جو شخص اس نکتہ کو مد نظر رکھے گا وہ فوراً یہ نتیجہ نکال لے گا کہ اس ترتیب کے ماتحت فلاں فلاں آیات کے کیا معنی ہیں.فرض کرو ، ایک نقطہ یہاں ہے اور ایک وہاں اور درمیان میں جگہ خالی ہے تو ہوشیار آدمی دونوں کو دیکھ کر خود بخود درمیانی خلا کو پُر کو سکینگا اور وہ سمجھ جائے گا کہ جب یہ نقطہ فلاں بات کی طرف توجہ دلاتا ہے اور وہ نقطہ فلاں بات کی طرف تو درمیان میں جو کچھ ہو گا وہ بہر حال وہی ہو گا جو ان دونوں نقطوں کے مطابق ہو.اگر درمیانی مضمون کسی اور طرات چلا جائے تو دائیں بائیں کے مضامین بھی لازماً ادھورے رہ جائیں گے اور سلسلہ مطالب کی کڑی ٹوٹ جائے گی.پس میں چونکہ ہمیشہ ترتیب آیات اور ترتیب سور کو ملحوظ رکھ کر تفسیر کیا کرتا ہوں اس لئے اگر کوئی شخص میری ترتیب کو سمجھ لے تو گو میں نے کسی آیت کی کہیں تغیر کی ہوگی اور کسی آیت کی کہیں.درمیانی آیات کا حل کرنا اس کے لئے بالکل آسان ہوگا کیونکہ ترتیب مضمون + ه تفسیر کبیر جلد ششم جز و چهارم نصف اول سورة الفجر : ۴۸۴ - ۴۸۵ ۰
۱۵۲ اُسے کسی اور طرف جانے ہی نہیں دے گی اور وہ اس بات پر مجبور ہوگا کہ باقی آیتوں کے وہی معنی کرے جو اُس ترتیب کے مطابق ہوں....اسی طرح میری تفسیر کے نوٹوں سے انسان سارے قرآن کریم کی تفسیر سمجھ سکتا ہے بشرطیکہ وہ ہوشیار ہو اور قرآن کریم کو سمجھنے کا مادہ اپنے اندر رکھتا ہو سکے اسی ضمن میں حضور نے سورہ کہف کے درس کے دوران کا ایک واقعہ بھی تفسیر کبیر میں لکھا ہے.فرماتے ہیں :.یکن جب سورہ کہف کا درس دینے لگا اور میں نے اس سورۃ پر غور کیا تو اور سُورۃ تو سب حل ہو گئی مگر ایک آیت کی مجھے سمجھ نہ آئی.میں نے بہت سوچھا اور غور کیا مگر وہ آیت مجھے بالکل لیے چھوڑ معلوم ہوتی تھی.آخر میں نے درس دینا شروع کر دیا.جوں جوں وہ آیت قریب آئی جائے میری گھبراہٹ بڑھتی چلی جائے کہ اب اس آیت کے متعلق کیا ہوگا یہانتک کہ صرف دویا تین آیتیں رہ گئیں مگر پھر بھی وہ میری سمجھ میں نہ آئی.اُس وقت میری گھبراہٹ بہت زیادہ ہوگئی.مگر جس وقت میں اس سے پہلی آیت پر پہنچا تو مجھے یوں معلوم ہوا کہ وہ آیت تو بالکل حل شدہ ہے اور اس کے نہایت صاف اور سیدھے معنے ہیں جن میں کسی قسم کی الجھن نہیں.تو حقیقت یہ ہے کہ اگر قرآن کریم کی ترتیب کو مدنظر رکھا بھائے اور اس پر غور اور تقریبہ کرنے کی عادت ڈالی جائے تو اس کی بہت سی مشکلات خود بخود حل ہو بھاتی ہیں" کے دوسری خصوصیت تفسیر کبیر میں قرآن مجید کی آیات کا ترجمہ اور تفسیر عربی زبان کی مستند لغات (مثلاً تاج العروس ، المنجد ، کلیات ابو البقاء ، اقرب الموارد ، مفردات ، لسان العرب ، قاموس) کی روشنی ہیں کی گئی اور وہی معنے اختیار کئے گئے جن کی اجازت لغت دیتی ہے.تیسری خصوصیت اس تغیر کی تیسری اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں الفاظ کے مختلف لغوی معانی بیان کر کے مختلف زاویہ ہائے نگاہ سے قرآنی حقائق و معارت کا انکشاف کیا گیا ہے.یہ وہ علم ہے جو حضرت له " الفضل" اور وفا جولائی له میش ( تقریر فرموده سالانه جلسه میشه ۱۱۹۴۵ " تفسیر کبیر ( سورۃ مریم صفحه ۳۲۲ - ۳۲۳ :
۱۵۳ خلیفة المسیح الثانی المصلح الموعود کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص طور پر عطا فرمایا گیا بحضور خود ہی ارشاد فرماتے ہیں :- رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کے کئی بطن ہیں.ایک بطن تو قرآن کریم کا یہ ہے که کسی آیت کے معنی کرتے وقت اسکے سیاق وسباق کی تمام آیات کو دیکھا جاتا ہے اور اس کے معنی سیاق سباق کو مدنظر رکھے کئے جاتے ہیں.کیونکہ اگر سیاق و سباق کو مد نظر نہ رکھا جائے تو معنوں میں غلطی کا امکان ہوتا ہے پھر ایک بطن یہ ہے کہ کسی آیت کے معنے کرتے وقت اس کے کچھ آگے آنے والی آیتوں اور کچھ پیچھے آنے والی آیتوں کو دیکھا جاتا ہے اور ان کے معنوں میں تطابق کا لحاظ رکھا جاتا ہے.پھر ایک بطن یہ ہے کہ جس آیت کے معنے مطلوب ہوں اس ساری سورۃ کو دیکھا جاتا ہے.پھر ایک بطن یہ ہے کہ کئی سورتوں کو ملا کہ اس کے معنے اخذ کئے جاتے ہیں.پھر ایک بطن یہ ہے کہ سارے قرآن مجید کو پیش نظر رکھنا پڑتا ہے.یہ علم اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے مجھے عطا فرمایا ہے.بعض دفعہ ایک مضمون کا تعلق ابتدائی سورتوں کے ساتھ ہوتا ہے اور بعض وفعد بعد والی سورتوں کے ساتھ.پھر ایک معنے کسی آیت کے منفرداً ہوتے ہیں اور ایک معنے دوسری آیتوں کے ساتھ ملا کر کئے جاتے ہیں" لے چوتھی خصوصیت چوتھی خصوصیت تفسیر کبیر کی یہ ہے کہ اس میں روز روشن کی طرح ثابت کر دیا گیا ہے کہ قرآن مجید کی بیان فرمودہ موسوی تاریخ ہی مستند ہے.اور اس کے مقابلے میں بائیبل پر اعتماد کرنا کسی طرح درست نہیں.پانچویں خصوصیت " تفسیر کبیر " عہد حاضر کی واحد تفسیر ہے جس میں نو لڈک تھیوڈرر NOLDEN.THEODOR) ریورنڈ ویر کی (REVEREND YERE) ہے.ایم راؤول (RODELL.3) ترولیم میور ( SIRE WILLIAM MUIR ) اور آرنلڈ ) ARNOLD) وغیرہ مستشرقین کے اسلام اور قرآن مجید پر کئے ہوئے اعتراضات کے مسکت اور مدلل جواب دیئے گئے ہیں بلکہ اسلام کے بارے میں ان کی جہالت اور عربی زبان کی باریک خوبیوں سے محرومی بے نقاب کی گئی ہے.چھٹی خصوصیت قرآن مجید چونکہ الہامی کتاب ہے.اس میں ہر زمانہ کے متعلق پیشگوئیاں موجود ہیں.ے تفسیر کبیر د سورة الشعراء صفحه ۴۸۳ کالم طا بطور مثال ملاحظہ ہو سورہ یوسف کی تفسیر
۱۵۴ ہو اپنے اپنے وقت پر پوری ہو کہ قرآن کریم کی صداقت کا ثبوت بنتی رہیں اور بنتی رہیں گی.گریہ پیشگونی کی حقیقت اس کے ظہور سے ہی کھلتی ہے.یہ بات پہلے متعدد مفترین سے اوجھل رہی.اور انہوں نے مستقبل سے متعلق تمام قرآنی پیشگوئیوں کو یا قیامت پر چسپاں کر دیا یا گذشته و اقعات پر ، مگر حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے تفسیر کبیر میں قرآن شریف کی ایسی بہت سی پیشگوئیوں کی نشاندہی فرمائی جو قرآن مجید میں موجود تھیں اور اب اس زمانہ میں پوری ہو چکی ہیں اور قرآن مجید اور آنحضرت کی صداقت پر زندہ نشان کی حیثیت رکھتی ہیں مثلاً مغربی اقوام اور روس کی ترقی کی پیشگوئی ، نہر سویز اور نہر پانامہ کی پیشگوئی، معانی جہازوں کی پیشگوئی کردی موٹر اور ہوائی جہازوں کی ایجاد کی پیشگوئی، ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم کی پیشگوئی ، کاسمک رینہ اور بموں کی پیشگوئی ، بادشاہتوں کی تباہی اور جمہوریتوں کے قیام کی پیشگوئی ، پچڑیا گھروں کے قیام کی پیشگوئی ، فرعون موسی کی لاش کی حفاظت کے متعلق پیشگوئی ، وحشی اقوام کے متمدن بن جانے کی پیشگوئی ، پر لیں اور کتابوں کی بکثرت اشاعت کی پیشگوئی ، علم ہیئت کی ترقی کی پیشگوئی ، علم طبقات الارض کی ترقی کی پیشگوئی ، چاند اور مریخ کے زمین کے ساتھ وابستہ ہونے کی پیشگوئی ، علماء ظواہر کے علم دین سے بے بہرہ ہو جانے کی پیشگوئی وغیرہ سینکڑوں پیشگوئیاں تفسیر کبیر میں ملتی ہیں جن سے قرآن مجید کا زندہ کتاب ہونا ثابت ہو جاتا ہے.ساتویں خصوصیت حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے قرآنی آیات کی روشنی میں مستقبل میں آنے والے متعدد انقلابات، اور حوادث کا استدلال تفسیر کبیر میں فرمایا ہے جن میں سے بعض اس تفسیر کی اشاعت کے بعد ظاہر ہو چکے ہیں مثلاً فلسطین میں یہود کی حکومت اور مسلمانوں پر دور ابتکار، جماعت احمدیہ پر سر میں ایک تکلیف دہ دور آنے کی خیر ہے اور جماعت کے ساتھ تائید خداوندی کی خبر ، اپنی وفات کے وقت جماعت کے نظام خلافت سے بالاتفاق وابستہ ہونے کی پیشگوئی ہے مگر یہ ایسے واقعات ایسے ہیں جن کا ظہور مستقبل میں مقدر ہے مثلاً یہ م بم سے زیادہ نہلک ہتھیار ایجاد ہونے کی پیشگوئی ہے فلسطین پر اسلامی پرچم لہرانے کی پیشگوئی ، چوتھی عالمگیر جنگ کے بعد مغربی اقوام کی مکمل تباہی اور اسلام کے عالمگیر غلبہ کی پیشگوئی ہے اردو زبان کے شاندار مستقبل کی نسبت پیشگوئی وغیرہ وغیر + ه تفسیر کبیر جلد سوم : " تغییر كبير (سورة الفجر ) صفحه ۵۲۹ + کے تفسير كبير (سورة الفجر اصفحه ۲۵۴۸ ه تفسیر کبیر (سورة الفلق) صفحه ۱۸۹ کالم ۲ : تفسیر کبیر (سورة النمل) صفحه ۱۴۸ + ه تفسير كبير (سورة الانبياء) صفحه ۵۷۶ تا ۵۷۹ ك تغير كبير ( سورة التطفيف ) صفحه ۳۰۷ + تفسير كبير جلد سوم (سورۃ ابراہیم صفحه ۴۴۴ کالم ۲ *
۱۵۵ آٹھوں خصوصیت تفسیر کبیر کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ یہ تفسیر عہد حاضر کے بعد ید علمی و روحانی تقاضوں کو پورا کرتی اور مشرقی اور مغربی دنیا کو قرآن مجید کی پاکیزہ تعلیمات سے روشناس کرانے کی بہترین اور کامیاب ترین کوشش ہے خصوصاً اس لئے کہ اس میں قرآنی صداقتوں کی تائید میں سائنس کےموجودہ اکتشافات و نظریات پیش کئے گئے ہیں مثلاً رنگوں کے خواص، ہر چیز کا نر و مادہ ہونا ، زمین کا گول اور متحرک ہونا اور سورج کی روشنی کا ذاتی اور چاند کی روشنی کا انعکاسی ہونا ، آسمانوں اور ستاروں کا ظاہری ستونوں کے بغیر قیام و بقاء ، اجرام فلکی میں حرکت کی نوعیت ، اعمال انسانی کی ریکارڈنگ ، زمین و آسمان کی تخلیق کا مختلف ادوار میں ہونا ، آغاز کائنات کی دکھانی حالت وغیرہ انکشافات جن تک سائنس کی موجودہ دنیا ۰۰ ایک لمبے تجربہ کے بعد پہنچنے میں کامیاب ہوئی ہے، قرآن مجید نے نہایت مختصر مگر جامع رنگ میں چودہ کہو سال پیشتر بیان فرما دیئے ہیں.تفسیر کبیر نے امام الزمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے اس نظریہ کی حقانیت سائنسی اکتشافا سے بھی منوالی ہے کہ مذہب خدا کا کلام اور سائنس خدا کا فعل ہے.اس زمانہ میں اگر کوئی محقق اس بارے میں مفصل تحقیق کرنا چاہے تو اس کی معلومات کا بہترین ماخذ " تفسیر کبیر" ہوگی.نویں خصوصیت تفسیر کبیر کی بہت سی اقلیات ہیں.مثلاً حروف مقطعات کو قرآنی علوم کے سمجھنے کے لئے کلید قرار دینا ، اصحاب کہف اور ذوالقرنین کے بارے میں جدید تحقیق ، قرآن مجید سے ولادت حضرت عیسی کے ایام کی تعیین ، وحی کی تفصیلی اقسام ، سورۃ التین میں عظیم الشان مذہبی ادوار کا ذکر و غیر سین کو مو تفسیری نکات ہیں جو پہلی بار تفسیر کبیر ہی کے ذریعہ سے پوری تفصیل کے ساتھ بیان ہوئے ہیں.یہ چند خصوصیات بطور مثال بیان کی گئی ہیں ورنہ ہر صاحب علم دعرفان اپنے اپنے ذوق اور اپنے اپنے زاویہ نگاہ سے اس کے امتیازات و خصائص پر روشنی ڈال سکتا ہے.مفتر ، مورخ ، فقیہ ، سیاستدان ، سائنسدان ، صوفی ، ماہر اخلاق ، ماہر نفسیات ، ماہر اقتصادیات ، غرض کہ ہر شخص قرآن مجید کی اس بیش بہار تفسیر سے برا بر فائدہ اُٹھا سکتا ہے.برصغیر پاک و ہند کے مشہور ادیب جناب اختر اورینوی ایم اے ، ڈی لٹ صدر شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی (بہار) تفسیر کبیر کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں " حضرت مرزا محمود احمد کے تصنیفی کارناموں میں گل سرسید تفسیر صغیر اور تفسیر کبیر کی تابناک
۱۵۶ جلدیں ہیں.یہ تفسیریں سراج منیر ہیں.ان سے قرآن حکیم کی حیات بخش شعاعوں کا انعکاس ہوتا ہے.تفسیر قرآنی کی یہ دولت سرمدی دنیا اور عقبی کے لئے لاکھوں سلطنتوں اور ہزاروں ہزار جنتوں سے افضل ہے علوم قرآنی کے گہر ہائے آبدار کان معانی و معدنِ عرفان سے نکالے گئے ہیں.خواص معارف پر فدا ہونے کو جی چاہتا ہے.ان تفسیروں کی خوبیاں بیان کرنے کے لئے ایک دفتر چاہئیے.میری ناچیز رائے میں تفسیر کبیر مندرجہ ذیل خوبیوں کی عامل ہے.اس میں قرآن کریم کے تسلسل ، ربط تنظیم ، ترتیب، تعمیر اور سورتوں کے موضوعات و معانی کی ہم آہنگی کو صاف ، روشن و مدتی طور پر ثابت کیا گیا ہے قرآن مجید صرف ایک سلک مروارید نہیں بلکہ یہ ایک روحانی قصر الحمراء ہے.ایک زندہ تاج محل ہے.ان کے عناصر ترکیبی کے حسن کارانہ نظم وضبط ، اس کے تراشیدہ ایجاز بیان ، اس کی معجزانہ صنعت گری ، اس کی گہری ، وسیع اور بلند معنی آفرینی اور اس کے غیر ختم خزینہ علم و عرفان کا شعور تفسیر کبیر کے مطالعہ سے حاصل ہونے لگتا ہے.قرآن کریم کے اس مقام عظیم کی فوریست در اصل محمد و عصر ظل محمد صلی اللہ علیہ وسلم حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کی دریافت ہے.انگریز مصنف ادیب کار لائل نے قرآن مجید کے محاسن کو تسلیم کرنے کے باوجود یہ بات کہہ دی تھی کہ " قرآن ایک خوبصورت مگر بے ربط بیان ہے " It is a beautiful jargon حضرت مرزا محمود احمد نے نہایت لطیف و بلیغ انداز میں اس امر کو درجہ یقین تک پہنچا دیا کہ قرآن مجید ایک کتاب عظیم ہے اور اس کے ابواب و عناصر، اس کی سورتیں اور آیات گل و میدہ کی طرح محسن یوسف کی مانند نظام شمسی کی مثال مربوط و منظم ، متناسب ہم آہنگ اور حسین ہیں.تفسیر کبیر کی یہ خصوصیت بھی ہے کہ اس میں انسانی تقاضوں ، ضرورتوں اور مسئلوں سے وابسته به کثرت نئے مضامین ، نکتے اور تفصیلیں ملتی ہیں اور ہماری روح اور ذہن کی تشنگی بجھاتی ہیں.ہر سورۃ ہریارہ کی تفسیر میں معارف اور علوم کا دریائے رواں جوش مارتا ہوا نظر آتا ہے.اس کے ذریعہ نئے علوم اور نئے مسائل پر گہری تنقیدیں ملتی ہیں اور اسلامی نظریوں کا اتنا تسلی بخش اظہار و بیان ملتا ہے کہ آخر الذکر کی برتری ثابت ہو جاتی ہے.
۱۵۷ تفسیر کبیر میں قصص قرآنی کی عارفانہ تعبیریں اور تفصیلیں ملتی ہیں.علم و حکمت ، روحانیت و عرفان ، نکته دانی و وضاحت کی تجلیاں شکوک و شبہات کے خس و خاشاک کو دور کر کے تفہیم و تسکین کی راہیں صاف و روشن کر دیتی ہیں.تاریخ عالم ، قوموں کے عروج و زوال ، اسباب زوال سامان عروج ، نفسیات اجتماعی، فرد و جماعت کے روابط اور بندے کے اللہ سے تعلق کی اعلیٰ تحقیق و توضیح ملتی ہے.معجزات ، پیش گوئیوں ، انبیاء اور غیر انبیاء کے خوابوں، رموز استعارات قرآنی و مقطعات کی حقیقی حکمتی اور ایمان افروز تعبیروں سے تفسیر کبیر کے اوراق تابناک ہیں.اس عظیم تفسیر میں تعلیمات اسلامی کا فلسفہ نہایت عمدہ طور پر پیش کیا گیا ہے.دوسرے مذاہب کی تعلیموں اور معروف فلسفوں سے موازنہ و مقابلہ بھی عالمانہ و منصفانہ رنگ میں کیا گیا ہے.اسلامی تعلیمات کی پُر شوکت فضیلت سے دل کو طمانیت راحت و تسکین ملتی ہے اور ذہن کو رفعت حاصل ہوتی ہے.اس تفسیر کا انداز نظر عصری اور سائنسی بھی ہے.فلسفیانہ اور حکمتی بھی اور وجدانی دعرفانی بھی.اس تفسیر اکبر کے عالم علم و عرفان کی تجلیات بیان کرنے کے لئے دفتر در دفتر چاہیئے.یہ تفسیر ملت اسلامیہ کی بے بہا دولت ہے.قرآن حکیم کی اس تفسیر سے امت محمدیہ کا مستقبل وابستہ ہے " تفسیر کبیر کے انقلاب انگیز اثرات بالآخر یہ بتانا زمیں ضروری ہے کہ تفسیر کبیرنے علمی اور عملی طور پر دنیا کے قلوب و اذہان پر نہایت گہرا اثر ڈالا ہے.اس ضمن میں بعض واقعات درج ذیل کئے جاتے ہیں :- تفسیر کبیر اور علامہ نیاز فتنپوری اُردو کے مایہ ناز محق اور بلند پایه نقاد جناب نیاز محمد خان نیاز فتحپوری مرحوم پر تفسیر کبیر جلد سوم کے مطالعہ کا ایسا زبر دست اثر ہوا کہ ان کے خیالات و تصورات کی کایا پلٹ گئی اور وہ عمر کے آخری دور میں تحریک احمدیت کے زیر دست مداح بن گئے.اور اپنے قلم سے احمدیت کی تائید اور دفاع میں متعد د زور دار مضامین اپنے رسالہ " نگار" میں ملاحظات " کے زیر عنوان لکھے اور یہ انقلاب نتیجہ اه " مجلة الجامعه ربوہ شماره ۹ صفحه ۶۳ - ۶۴ - ۶۵ + سے ان کا جواب مضامین کا مجموعہ ملاحظات نیاز نتھوری کے نام سے اس سال زیر لیے ہے جو مولوی محمد جمیل صاحب ایم اے شاہد مربی سلسلہ احمدیہ کراچی نے مرتب کیا ہے اور " امریک سنٹر فیڈرل بازار کراچی نمبر ۳۸ کی طرف سے شائع ہوگا.انشاء اللہ تعالے.(یہ سطور ماہ نبوت سوراخ کے آغاز میں لکھی جارہی ہیں.مرتب )
۱۵۸ تھا تفسیر کبیر کی مافوق العادت تاثیر اور مقناطیسی قوت کا ! چنانچہ علامہ نیاز نے حضرت سیدنا المصلح الموعود کی خدمت میں لکھا :- تفسیر کبیر جلد سوم آجکل میرے سامنے ہے اور میں اسے بڑی نگاہ غائر سے دیکھ رہا ہوں.اس میں شک نہیں کہ مطالعہ قرآن کا ایک بالکل نیا زاویہ فکر آپ نے پیدا کیا ہے اور یہ تفسیر اپنی نوعیت کے لحاظ سے بالکل پہلی تغییر ہے جس میں عقل نوفل کو بڑے حسن سے ہم آہنگ دکھایا گیا ہے.آپ کی تبحر علمی ، آپ کی وسعت نظر، آپ کی غیر معمولی فکر و فراست ، آپ کا حسن استدلال اس کے ایک ایک لفظ سے نمایاں ہے اور مجھے افسوس ہے کہ میں کیوں اس وقت تک بے خبر رہا.کاش کہ میں اس کی تمام جلدیں دیکھ سکتا.کل سورۃ ہود کی تفسیر میں حضرت لوط پر آپ کے خیالات معلوم کر کے جی پھڑک گیا اور بے اختیار یہ خط لکھنے پرمجبور ہو گیا.آپ نے ھؤلاء بناتی کی تفسیر کرتے ہوئے عام مفترین سے جدا بحث کا جو پہلو اختیار کیا ہے اس کی داد دینا میرے امکان میں نہیں.خدا آپ کو تا دیر سلامت رکھے " تفسیر کبیر اور نواب بہادر یار جنگ جناب سیٹھ محمد اعظم صاحب حیدر آبادی بیان کرتے ہیں کہ یہ غیر سند و پاکستان کی معروف شخصیت نواب بہادر یار جنگ (جن سے سیٹھ صاحب کے بڑے دوستانہ تعلقات تھے.سالہا سال ان کے رفیق کار رہے ہیں جس کمرہ میں سویا کرتے تھے اس کی ایک دیوار پر قرآن کریم رکھنے کے لئے انہوں نے ایک خوبصورت تختہ لگوایا تھا.تفسیر کبیر بجلد سوم کی اشاعت پر اس کی ایک جلد نواب اکبر یار جنگ بہادر نے سیٹھ صاحب موصوف کے ذریعہ نواب بہادر یار جنگ کو بھیجوائی تھی جس کا انہوں نے بالاستیعاب مطالعہ ایک سے زیادہ مرتبہ کیا تھا اور ان کی وفات تک جو بھون ۱۹۹۲ء میں واقع ہوئی وہ جلد اس تختہ پر قرآن کریم کے نسخہ کے نیچے رکھی ہوئی سیٹھ صاحب نے دیکھی ہے.سیٹھ صاحب کہتے ہیں کہ نواب بہادر یار جنگ اپنی محبتوں میں تغیر کبیر کا اکثر ذکر کیا کرتے تھے اور اس کی عظمت کا ہمیشہ اعتراف کرتے اور کہا کرتے تھے کہ اس کے بیان کردہ معارف سے انہوں نے بہت استفادہ کیا ہے.تفسیر کبیر اور پروفیسر عبد المنان بیدک جناب اختر اورینوی ایم اے صدر شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی اپنا ایک سابق صدر شعبہ فارسی پٹنہ کالج چشم دید واقعہ بیان کرتے ہیں کہ " میں نے یکے بعد دیگہ سے حضرت خلیفہ المسیح الثانی رض کی تفسیر کبیر کی سند جلدیں پروفیسر عبد المنان بیدل ن والفضل" در نومبر ۱۹۶۳ صفحه ۳ کالم ۰۴
۱۵۹ سابق صدر شعبہ فارسی پیٹنہ کالج ، پٹنہ و حال پرنسپل شبینہ کا لج پٹنہ کی خدمت میں پیش کیں.اور وہ ان تفسیروں کو پڑھ کر اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے مدرسہ عربیہ شمس الہد نے پٹنہ کے شیوخ کو بھی تفسیر کی بعض جلدیں پڑھنے کے لئے دیں.اور ایک دن کئی شیوخ کو بلوا انہوں نے ان کے خیالات دریافت کئے.ایک شیخ نے کہا کہ فارسی تفسیروں میں ایسی تفسیر نہیں ملتی.پروفیسر عبد المنان صاحب نے پوچھا کہ عربی تفسیروں کے متعلق کیا خیال ہے شیوخ خاموش رہے.کچھ دیر کے بعد اُن میں سے ایک نے کہا.پٹنہ میں ساری عربی تفسیر یں ملتی نہیں ہیں.مصر و شام کی ساری تفاسیر کے مطالعہ کے بعد ہی صحیح رائے قائم کی جا سکتی ہے.پروفیسر صاحب نے قدیم عربی تفسیروں کا تذکرہ شروع کیا اور فرمایا.مرزا محمود کی تفسیر کے پایہ کی ایک تفسیر بھی کسی زبان میں نہیں ملتی.آپ جدید تفسیریں بھی مصر و شام سے منگوا لیجئے اور چند ماہ بعد مجھ سے باتیں کیجئے.عربی و فارسی کے علماء مبہوت رہ گئے “ اے بر اور سید جعفر حسین تفسیر کبیر کے مبارک اثرات کا چوتھا واقعہ جناب سید جعفر حسین صاحب صاحب ایڈووکیٹ حید آبادی ایڈووکیٹ حیدر آبادی کا ہے جو حیدر آباد کی مشہور تنظیم اتحاد المسلمین کے معروفت کا رکن تھے اور اسی کی پاداش میں ۲۶ تبوک استمبر ہیش کو نظر بند کر دیئے گئے سکندر آباد جھیل کی تنگ و تاریک کوٹھڑی میں تفسیر کبیر پڑھنے کا موقعہ ملا جس کے مطالعہ سے اس درجہ متاثرہ ہوئے کہ میں کینہ امان ماری رمیش میں بیعت کا فارم بھی پڑر کر دیا.اور اپنی زندگی بھی اسلام و احمدیت کے لئے وقف کر دی ہے.ر احسان جون پر میش کے دن رہا ہو گئے جس کے بعد آپ نے اولین فرصت میں یہ کام کیا کہ اخبار صدق بعد یڈ کے ایڈیٹر مولانا عبد الماجد صاحب دریا بادی کو اپنے حلقہ بگوش احمدیت ہونے کی اطلاع کے لئے ایک مختصر مکتوب لکھا جو مولانا صاحب نے صدق بعدید دلکھنو) کی ۲۰ را پریل سہ کی اشاعت میں ایک >1941 صدق خواں کا قبول احمدیت" کے عنوان مع تعارفی نوٹ کے شائع کر دیا جس کا متن یہ تھا :- ریده شماره سے تاریخ ولادت ۱۵ ستمبر شاه ۴۴لہ میں میں عثمانیہ یونیورسٹی سے بی.ایڈ کی تکمیل کی.۲۶ تبوک استمبر ر میش کو صاحبزادہ مرنا وسیم احمد صاحب کی تحریک پر مستقل طور پر قادیان ہجرت کر کے آگئے.تجر مئی ☑ یہ پیش کو حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثالث حضرت حافظ صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایده ال بنظر العزیز کے ارشاد پر صدر انمین احمدیہ کے مشیر قانونی مقرر کئے گئے اور اب تک اسی منصب پر فائز ہیں.اس کے علاوہ حضور ایدہ اللہ کی اجازت سے صلح جنور کی اسے مشرقی پنجاب میں وکالت بھی کر رہے ہیں ؟
14.دکن کے ایک بی.اے.این.ایل.بی ایڈوکیٹ کا جو سالہا سال انجمن اتحاد المسلمین کے بڑے پر خوش رکن رہے اور اسی سلسلہ میں جیل بھی گئے اور صدق سے بھی مخلصانہ تعلق برسوں قائم رکھا ، تازہ مکتوب صرف ان کے نام اور سابق مستقر کے حذف کے بعد :- حیدر آباد دکن ۲۸ مارچ نه حضرت قبلہ - السلام عليكم دار السلام مجلس استحاد المسلمین کے سلسلے میں گورنمنٹ اندھرا پردیش نے مجھے ۲۶ ستمبر نہ کو نظر بند کیا اور حال میں میری رہائی ہوئی.ان دنوں میرا مستقر....متھا.جیل لے جانے والے عہدہ داروں سے میں نے درخواست کی کہ ( مجھے اسٹیشن پر گرفتار کیا گیا تھا جبکہ میں ایک پیشی کر کے....سے واپس ہو رہا تھا، مجھے گھر لے جا کر قرآن کریم ساتھ لینے کی اجازت دیں.پولیس کے عہدیدار بڑے شریف مزاج تھے.اپنی حراست میں مجھے گھر لے گئے.میرے ایک دوست تھے جنہوں نے مجھے حضور خلیفہ صاحب جماعت احمدیہ کی لکھی ہوئی تفسیر کبیر کی بجلد دی تھی.مجھے پڑھنے کی فرصت نہ ملتی تھی.ایک دن دوپہر کے وقت جب میں کھانے کے لئے آفس سے گھر آیا تو بیوی نے دستر خوان پچھنے میں کچھ دیر کی.تفسیر کبیر کی جلد میر یہ بازو میں تھی.میں نے اُٹھالی اور چند اوراق الٹ کر دیکھنے شروع کئے.یہ والْعَادِيَاتِ صبحا کی تفسیر کے صفحات تھے.میں حیران ہو گیا کہ قرآن مجید میں ایسے مضامین بھی ہیں.پھر میں نے قادیان خط لکھا اور تفسیر کبیر کی حملہ جلدیں منگوائیں.لیکن پڑھنے کا مجھے وقت نہ ملنا تھا.جبیل کو روانگی کے وقت میں نے یہ جلدیں ساتھ رکھ لیں اور نو ماہ کے عرصہ میں جب کہ میں جیل میں تھا متعدد بار صرف یہی تفسیر پڑھتا رہا.جیل ہی میں میں نے بیعت کولی اور جماعت احمدیہ کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دیا.آپ بھی دعا فرمائیں " سید جعفر حسین صاحب ایڈوکیٹ نے اس مختصر مکتوب کے بعد ایک مفصل مضمون بھی اخبار صدق ید کو بھجوایا جس میں انہوں نے تفسیر کبیر کے مبارک اثرات اور قبول حق کے حالات پہ قدرے تفصیل سے روشنی ڈالی.یہ مضمون " صدق جدید" کے دو نمبروں میں قسط وار (۸ - ۱۵ جون ر) شائع ہوا.اس ل بجواله الفضل" هر هجرت /مئی ۱۳۴۷ ریش " ۵ -
141 انہم مضمون کا متعلقہ حصہ درج ذیل کیا جاتا ہے :- حصولی دار السلام کی بعد و جہد میں مجھے جب جیل پہنچایا گیا تو میرے دن مجھے وجوہات نظر بندی تحریر کی شکل میں مہیا کئے گئے.جن میں میری گذشتہ تین چار برسوں کی تقریروں کے اقتباسات تھے.اور الزام یہ تھا کہ میں ہندوستان کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتا ہوں.میں حیران تھا کہ مجھے جیسا چھوٹا آدمی اور یہ پہاڑ جیسا الزام.لیکن مجھے آہستہ آہستہ محسوس ہوا کہ میری تقریری سے کچھ ایسا ہی مفہوم اخذ کیا جا سکتا ہے.میں نے آپ سے عرض کیا تھا کہ میں بھٹو کا ہوا مسافر تھا جس کی منزل تو متعین تھی لیکن راستہ کا پتہ نہ تھا.مسلمانوں کی انجمن استحاد المسلمین ہو یا کوئی اور جماعت ان سب کی حالت یہی ہے.دوسرے دن میں نے تفسیر کبیر کا مطالعہ شروع کیا جو میں اپنے ساتھ لے کر گیا تھا.تو مجھے اس تغییر میں زندگی سے معمور اسلام نظر آیا.اس میں وہ سرکھے تھا نہیں کی مجھ کو تلاش تھی تفسیر کبیر پڑھ کر میں قرآن کریم سے پہلی دفعہ روشناس ہوا جیسا کہ آپ نے ارشاد فرمایا ہے.اپنا مسلک چھوڑ کر احمدیہ جیسی جماعت میں داخل ہونا جس کو تمام علمائے اسلام نے ایک ہو ا بنا رکھا ہے.کچھ معمولی بات نہیں لیکن حق کے کھل جانے کے بعد یہاں خطرات کی پروا بھی کسی کو نہ تھی تاہم سمجد میں گر کر شب و روز میں نے دعائیں شروع کیں کہ یا اللہ مجھے صراط مستقیم دکھا.کئی ماہ اسی حالت میں گزر گئے.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میری سجدہ کی زمین آنسوؤں سے تر ہو جاتی تھی.مجھے یقین ہے کہ میری دعائیں قبول ہوئیں کیونکہ احمدیت کو سچا سمجھنے کے عقیدے میں مستحکم ہو گیا اور قادیان سے حضرت میاں مرزا وسیم احمد صاحب کی خدمت میں ایک خط کے ذریعہ سے میں نے درخواست کی کہ میں بیعت کرنا چاہتا ہوں جواب میں ایک بیعت فارم آیا جو آپ کے ملاحظہ کے لئے منسلک ہے.میری قید کا بڑا حصہ سکندر آباد جیل میں گزرا.وہاں کے جیلیں ایک مسلمان اور علم دوست بھی تھے.قیدیوں کی پوری خط و کتابت ان لوگوں کے علم میں رہتی ہے کیونکہ ان کے دستخط کے بعد ہی قیدیوں کے خطوط روانہ یا حوالہ ہوتے ہیں.اگرچہ یہ بات کچھ اچھی نہ تھی لیکن جرات کی کمی کے باعث میری یہ کوشش رہتی تھی کہ قادیان کو لکھے ہوئے نیر سے خطوط اس کا جیل کے علم میں آنے پائیں مجلس اتحاد المسلمین حیدر آباد ایک بڑی ہی ہر دلعزیزہ جماعت ہے.جیل کا عملہ جمعیت حتی کہ
۱۶۲ جیل کے سارے ہی قیدی مجھ سے بڑی محبت اور عقیدت سے پیش آتے تھے.اگرچہ پہرہ والوں کے سوا مجھ سے کوئی نہ مل سکتا تھا.ان وجوہ سے حکام کے علم میں آئے بغیر میرے خطوط قادیان کو پوسٹ ہو جاتے تھے لیکن جو خطہ قادیان سے آتا تھا وہ بہر صورت جھیلہ کے علم میں آنا ضروری تھا.جب قادیان سے بیعت کا فارم آیا تو جیل میں بڑی گڑ بڑ ہوئی.راز باقی نہ رہ سکا.کمرہ کی صفائی کرنے والے قیدی ، کھانا پہنچانے والے ، اخبار لانے والے وغیرہ وغیرہ کسی نہ کسی بہانے آتے اور مجھ سے پوچھتے کہ کیا آپ قادیانی ہو گئے ہیں؟ میں انہیں غلط نہ کہہ سکتا تھا.لیکن ابھی چونکہ میں نے بیعت نہیں کی تھی اس لئے میں اُن سے کہتا کہ یہ بات صحیح نہیں ہے.بالآخر جیلہ میرے پاس آئے اور میرا خط معہ بیعت فارم کے اُن کے پاس تھا مجھ سے بڑی ہی ہمدردانہ گفتگو کی کہ یہ آپ کیا کر رہے ہیں.قرآن کی اس تفسیر کو چھوڑیئے میں آپ کو مولانا ابو الکلام آزاد اور مولانا مودودی کی تفسیر قرآن دیتا ہوں آپ کے خیالات ٹھیک ہو جائیں گے.چنانچہ انہوں نے وہ دو تو تفسیریں لا دیں جو اصل میں ترجمہ تھے اور کہیں کہیں تفسیر تھی.بیعت کا فارم تکمیل کر کے بھیجنے سے قبل میں نے ان دونوں تفاسیر کا مطالعہ کیا.تفسیر کبیر کے طالب علم میں اتنی اہمیت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ دیگر تمام تفاسیر پرتنقید کر سکے.چنانچہ میں نے جیلہ صاحب کو بتلایا کہ ان دونوں تفاسیر میں کون کون سے مقامات مہم میں کہاں کہاں ترجمہ کی غلطی ہے اور کہاں کہاں معنی محدود ہیں.مجھے ایسا کرنے میں آسانی اس لئے ہرونی کہ تفسیر کبیر میں لغت قرآن بھی موجود ہے.لا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَرُونَ.صرف مطہر لوگ ہی قرآن کریم کے مطالب کو سمجھ سکیں گے.چیلر صاحب ۲۴ گھنٹے اپنے سرکاری فرائض میں مشغول رہتے.قرآن کریم کو دیکھنے کا بھی نہیں موقعہ نہ ملتا.میری بات میں انہوں نے دلچسپی نہ لی.پھر میں نے جیلر صاحب کو تفسیر کبیر کی پہلی جلد دی اور اُن سے درخواست کی کہ وہ کم از کم اس میں سے سورۃ فاتحہ کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں جو بہ مشکل (۵۰) صفحات پرمشتمل ہے.وہ لے گئے لیکن چند دن کے بعد یہ کہہ کر واپس کر گئے کہ مجھے تو پڑھنے کی فرصت نہ ملی.البتہ میری خوشدامن صاحبہ یہ کتاب دیکھ چکی ہیں وہ اس کی بڑی تعریف کرتی ہیں میں نے بیعت کا فارم پر کر کے بھیج دیا.یہ تفصیل آپ کی خدمت میں اس لئے لکھی کہ مجھ پر سے یہ الزام دورہ ہو جائے کہ میں نے بیت
۱۶۳ میں عجلت کی بیعت کا فارم بھیج کر میں دعاؤں میں لگ گیا کہ میری بیعت کے قبول ہونے میں کچھ رکاوٹیں ہوں تو اللہ تعالے اُن کو دُور فرمائے.میرا اندیشہ غلط نہ نکلا.میری بیعت قبول کرنے سے پہلے حضور خلیفہ صاحب نے دریافت فرمایا کہ ایک احمدی مسلمان کا فرض ہے کہ وہ حکومت وقت کا بھی وفادار رہے.اور قانون کے اندر رہ کر کام کرے.میں نے جواب دیا کہ حضور کی تفسیر نے یہ ساری باتیں میرے دن پر نقش کر دی ہیں.کچھ دنوں کے بعد جب قادیان سے مجھے معلوم ہوا.کہ میری بیعت قبول کر لی گئی تو میں سجدہ میں گھر گیا.تفسیر کبیر میں ایک مقام پر میں نے پڑھا تھا کہ خلیفہ جو مصلح موعود ہوگا وہ اسیروں کی رہائی کا باعث ہوگا.میں نے حضور سے درخواست کی کہ وہ میری رہائی کے لئے دعا فرمائیں.حضور خلیفہ صاحب نے دعا فرمائی کہ اللہ تعالئے آپ کی رہائی کے سامان کرے.اس کے چند ہی دنوں بعد میں رہا ہو گیا.خلیفہ موعود کی نسبت یہ پیشین گوئی کہ وہ اسیروں کی رہائی کا باعث ہوگا ئیں اس کا زندہ ثبوت ہوں " سے فصل بیستم پیش کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ ان دو برسوں ۱۹۴۰۰۴۱ء سیدنا الثانی حضرت امیر المومنین کی طرف سے میں ستات حضرت خلیفہ اسی نشان نے بدعت سے بچھڑے کی تصفیہ مسائل کے بعض آسان طریق ہوئے غیر مبانی بھائیوں کونہ صرف دلائل و براہین کے ذریعہ قریب تر لانے کی انتہائی کوشش کی بلکہ جناب مولوی محمد علی صاحب ( امیر احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور) کے سامنے تصفیہ مسائل کے لئے لیکے بعد دیگرے پانچ نہایت آسان طریق پیش کر کے مفاہمت کی راہ بالکل صاف کر دی.اس سلسلہ میں پہلا طریق فیصلہ حضور نے یہ پیش فرمایا کہ : دونوں فریق کی وہ تحریرات جو زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ہیں اکٹھی شائع کردی له بحوالہ" الفضل " ۲۳ احسان جون مرا به بیش صفحه ۰۴۱۲ ۱۹۹۲
بھائیں اور دونوں ان پر لکھ دیں کہ آج بھی ہمارے عقائد یہی ہیں.اس کے بعد دنیا خود فیصلہ کریگی کہ اُس زمانہ میں میرے عقائدہ اور تھے یا مولوی محمد علی صاحب کے ؟ اگر یہ ثابت ہو بھائے گا کہ اور وہ میں نے اب اپنے عقائد بگاڑ لئے ہیں تو میرا اثر جاتا رہے گا اور اگر یہ ثابت ہوگا کہ اُن کے عقائد اُس زمانہ میں اور تھے تو اُن کے ساتھیوں کے لئے یہ بات ہدایت کا موجب ہو جائے گی یہ سمجھے بجائیں گے کہ مولوی محمد علی صاحب کے زمانہ صحابیت کے عقائد اور تھے اور آج اور ہیں یہ نہایت آسان طریق ہے اور بہترین طریق ہے.اگر وہ اس پر متفق ہوں تو فیصلہ نہایت آسان ہو جاتا ہے.یہ ایک ایسا مباحثہ ہو گا جو گویا حضرت مسیح موعود علیہ نصلوۃ والسلام کی شہادت ساتھ رکھتا ہوگا.نے اس کے علاوہ حضور نے فیصلہ کے پھارہ اور طریق بھی رکھے جو حضور ہی کے الفاظ میں درج ذیل کئے جاتے ہیں :.فیصلہ کا پہلا طریق پہلا طریق فیصلہ کا میرے نزدیک یہ ہے کہ نبوت کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود ہی غلطیوں کا ازالہ فرما دیا ہے.یعنی ایک غلطی کا ازالہ لکھ کر ان غلطیوں کو دور فرمایا ہے جو اس بارہ میں اپنواں کی گانوں کو لگ رہی تھیں.میں تجویز کرتا ہوں کہ آئندہ دونوں فریق نبوت کے متعلق بحث مباحثہ کو بالکل بند کر دیں اور صرف یہ کیا بجائے کہ میری طرف سے اور آپ کی ضرورت سے دو چار سطر میں یہ مضمون لکھ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی کے متعلق ہمارا مذہب وہی ہے جو اس اشتہار میں درج ہے.تمام لوگ اسی کو ہمارا مذہب تصویر فرمائیں اور اس کے خلاف اگر ہماری کوئی تحریرہ ہو تو اسے غلط سمجھیں اور ہم دونوں کی اس تحریر کے بعد ایک غلطی کا ازالہ " اشتہار بغیر کسی معاشیہ کے شائع کر دیا جائے اور ہر سال کم سے کم پچاس ہزارہ کاپی اس اشتہار کی ملک میں تقسیم کر دی جائے.پا خرچ اس کا ہم دیں گے اور ہم اس کا خرچ مولوی صاحب اور ان کے رفقاء دیں.اس کے بعد دونوں فریق کے لئے بجائزہ نہ ہوگا کہ اپنی طرف سے کوئی اور مضمون اپنے اخباروں یا رسالوں یا ٹریکیوں میں لکھیں بلکہ جو اس امر کے متعلق سوال کرے اُسے اشتہار کی ایک کاپی دے دی جائے کیونکہ اس میں خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے غلطیوں ازالہ کر دیا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اگر پانچ سال تک بھی دونوں فریق اس پیمہ کاربند رہیں تو نزاع بہت " " الفصل ۲۴ و فا/ جولائی سه صفر ۰۵۰۴.
۱۶۵ کچھ کم ہو جائے گا اور شاید اس عرصہ میں اللہ تعالیٰ مزید مسلح کے راستے کھول دے فیصلہ کا دوسرا طریق دو سرا طریق فیصلہ کا میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام نے صاف لکھا ہے کہ خدا تعالے کی اصطلاح میں چشمہ معرفت ص۳۲۵) قرآن کریم کی اصطلاح میں (ایک غلطی کا ازالہ) اسلام کی اصطلاح میں زلیکچر سیالکوٹ صفحه ۱۷-۱۸ نیز الحکم ۶ مئی حسن شاہ) سابق انبیاء کی اصطلاح میں ( الوصیبتہ صفحہ ۱۲) اور خدا تعالیٰ کے حکم سے میرے نزدیک دستم حقیقۃ الوحی صفحہ ۲۸) اور لغت کی اصطلاح میں (مکتوب مندرجہ اخبار عام ۲۶ مٹی مسلہ نبی اُسے کہتے ہیں جس پر کثرت سے امور غیبیہ ظاہر کئے جائیں اور اس کو شرف مکالمہ و مخاطیہ حاصل ہو اور یہ کہ ان معنوں کے رُو سے حضرت مسیح موعود علیہ السّلام نبی ہیں اور کسی معنوں میں نہیں.پس ایک اشتہار ہم دونوں کے دستخط سے ملک میں شائع کر دیا جائے کہ ہم دونوں فریق اس امر کا اعلان کرتے ہیں کہ ہم حضرت مسیح موعود علی اسلام کو شر مند افعالے کی اصطلاح کے مطابق ، اسلام کی اعلان کے مطابق سابق انبیا کی اصطلاح کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے جو حکم دیا تھا اس کے مطابق اور عربی اور عبرانی لغتوں کے مطابق نبی سمجھتے ہیں.اس کے سوا کسی اور تعریف کے مطابق نبی نہیں سمجھتے بلکہ دوسری اصطلاحوں کے مطابق ہم صروف ا متعارہ آپ کے لئے نبی کے لفظ کا استعمال جائز سمجھتے ہیں حقیقی طور پر نہیں " فیصلہ کا تیسرا طریق ” اگر الحکم کے حوالہ ( مارا گست ملٹری کی وجہ سے باوجود کچھ سیالکوٹ کے توالد کے اور الحکم کی ڈائری دور نئی مسلہ کے آپ کو ایسی تحر یہ پر دستخط کرنے پر اعتراض ہو تو میری تیسری تجویز یہ ہے کہ آپ ایک اشتہار اس مضمون کا دے دیں کہ میں صرف اللہ تعالے کی اصطلاح کے مطابق قرآن کریم کی اصطلات کے مطابق سابق انبیاء کی اصطلاح کے مطابق اور اس حکم کے مطابق جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے دیا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نہی سمجھتا ہوں.باقی اسلام کی اصطلاح کے رو سے میں آپ کو حقیقی نبی نہیں سمجھتا.اس اصطلاح کے رو سے آپ کو صرف مجازی نبی یقین کرتا ہوں.میں امید کرتا ہوں کہ اگر آپ ایسا اشتہار دے دیں گے تو اس سے بھی دنیا کو بہت کچھ اس مسئلہ کے سمجھنے میں سہولت ہو جائے گی." فیصلہ کا چوتھا طریق فیصلہ کا چوتھا طریق یہ ہے کہ آپ ایک اشتہار اس مضمون کا دے دیں کہ
جو شخص یہ سمجھتا ہو کہ خدا تعالنے کی اصطلاح میں قرآن کریم کی اصطلاح میں اسلام کی اصطلانے میں سابق انبیاء کی اصطلاح میں اور نبی کے لفظ کے متعلق خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کو جو حکم دیا تھا اس کے مطابق جو شخموں سے خیال کرتا ہے کہ نبی کی یہ تعریف ہے کہ جو شخص خدا تعالی سے کثرت سے امور غیبیہ پر اطلاع پاتا ہے وہ نبی ہے وہ غلطی خوردہ ہے اور اسلام کی تعلیم کے خلافت کہتا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ ان طریقوں میں سے آپ کسی طریق کو بھی اختیار کرلیں.فیصلہ تک پہنچنا آسان ہوگا.وما علینا الا البلاغ المبين له اگر جناب مولوی محمد علی صاحب مندرجہ بالا پانچ طریقوں میں سے کسی ایک طریق ہی کو قبول فرما لیتے تو فریقین میں اختلافات کی خلیج یقیناً بہت کم ہو جاتی اور جماعت کی باہمی طاقتیں ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہونے کی بجائے بہت حد تک تبلیغ اسلام کے متحدہ مقصد کی تکمیل میں مرکوز ہو جاتیں.مگر افسوس آپ اپنی گذشتہ روایات کے مطابق باہمی تصفیہ کی ان سیدھی، صاف اور آسان تجاویزہ کو بھی مختلف حیلوں بہانوں سے ٹال گئے مولوی محمد علی صاد کے ای مضمون جناب مولوی محمد علی صاحب نے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضا کے کی معدہ جواب الفضل میں اشاعت کرتے ہوئے لکھا کہ ایک خطبه جمعه و فرموده در احسان جون پر میش) کی طرف اشارہ میاں صاحب نے جو دلائل حضرت مسیح موعود کی نبوت کے متعلق دیئے ہیں.ہمیں ان تمام کو قارئین پیغام کے سامنے لانے کو تیار ہوں بشرطیکہ جناب میاں صاحب میرے اس جواب کو جو اصل مضمون کے متعلق میں اب لکھتا ہوں اپنے اخبار الفضل میں شائع کرا دیں....لیکن اس کے ساتھ میں یہ بھی کہ دیتا ہوں کہ میاں صاحب اس تجویز کو کبھی منظور نہ کریں گے.اس کی وجہ ؟ اپنے مخالف کے دلائل کو اپنی جماعت کے سامنے لانے سے وہی شخص ڈرتا ہے جسے یہ خوف ہو کہ اس کی جماعت مخالف کے دلائل سے متاثر ہو کر پھسل جائے گی.سو یہی خوف جناب میاں صاحب کے دل میں ہے.....منہ سے جناب میاں صاحب جس قدر بلند و عادی چاہیں کریں مگران له الفضل " مورخه هم از طهور / اگست ۱۳۳۰ بهش صفحه ۲۲ ۲۳ ۰ کے خطبہ کا عنوان تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کے متعلق خدا تعالیٰ ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم محضر میچ موجود علیہ السلام اور خود مولوی محمد علی صاحب کی شہادت" " الفصل ۸ در احسان جون با منیش منه 7140
146 کا طرز عمل یہ بتا رہا ہے کہ ان کا دل ہمارے دلائل کی مضبوطی کے خوف سے کانپ رہا ہے.اور ان کے نزدیک اس کے سوائے اپنی جماعت کی حفاظت کا اور کوئی طریق نہیں کہ وہ ہمارے دلائل کو ان کے سامنے نہ آنے دیں - حضرت امیرالمومنین نے اپنے زمانہ خلافت میں کبھی غیر مبائین کا لٹریچر پڑھنے سے نہیں روکا تھا اور اس وقت تک اخبار " الفضل ، اخبار "فاروق" ، " تشيد الاذهان" ، " ریویو آف ریلیجینز (اردو) میں بہت سے مضامین شائع ہو چکے تھے جن کے لکھنے والے سینکڑوں افراد تھے جو متفرق مقامات کے رہنے والے تھے اگر حضرت امیر المومنین کی طرف سے ان کے لٹریچر کا مطالعہ کرنے کی ممانعت کر رکھی تھی تو انہوں نے ان لوگوں کے خلاف قلم کیسے اُٹھایا اور اپنے مضامین میں ان کی کتابوں، رسالوں اور پمفلٹوں کے حوالے کیسے درج کر دیئے.مگر حضرت امیر المومنین رضہ کی فراعندلی اور وسعت حوصلہ ملاحظہ ہو کہ حضور نے مولوی صاحب کی یہ تجویز بھی مان لی اور فرمایا کہ میں ان کے مضمون کو "الفضل" میں شائع کرانے کو تیار ہوں بشرطیکہ وہ میرا جواب الجواب بھی پیغام صلح میں شائع کرائیں یا اگر وہ پسند کریں تو یہ سب یعنی میرا خطبہ ان کا جواب اور میرا جواب الجواب کتابی صورت میں شائع کر دیا جائے جس پر خرچ دونوں کا آدھا آدھا ہو اور کتابیں بھی آدھی آدھی لے لیں.اس سے بڑھ کر میں ان کے لئے ایک اور آسانی کر دیتا ہوں پہلے تو میں نے کہا تھا کہ وہ اگر میری اس تجویز کو مانیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے زمانہ کی دونوں کی تحریریں اکھٹی شائع کر دی جائیں تو میں ان کی اس تجویز کو مان لوں گا.مگر ان پر اتمام حجت کے لئے میں یہ بھی مان لیتا ہوں کہ چلوئیں اس کو بھی چھوڑ دیتا ہوں بشرطیکہ وہ میری اس تجویز کو مان لیں یعنی میرا جواب الجواب بھی ساتھ شائع ہو....بلکہ ایک اور آسانی ان کے لئے پیدا کر دیتا ہوں.اور وہ یہ کہ اگر وہ میرا جواب الجواب شائع کرنے پر تیار ہوں تو خرچ کے دو حصے ہم دے دیں گے اور صرف ایک حصہ وہ دیں اور دو حصے کتب ہم لے لیں اور ایک حصہ وہ.اور میری طرف سے اتنی رعایتوں کے باوجود اگر وہ میری بات ماننے کے لئے تیار نہ ہوں تو ہم سوائے اس کے کیا کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالے انہیں سچے ه "پیغام صلح ۱۲ جولائی ۲ مار منظر ۵-۰۶
۱۶۸ کو سچ سمجھنے کی توفیق دے اور ان کا وہ غصہ دُور ہو جو ان کے لئے صداقت کے سمجھنے میں روک ہو رہا ہے اس مخلصانہ پیشکش پر مولوی محمد علی صاحب نے اخبار پیغام صلح ۱۲ جولائی 19 میں ایک مضمون لکھا جسے حضرت امیر المومنین کے حکم سے اخبار " الفضل در ظہور / اگست بارش میں چھاپ دیا گیا اور اگلے شمارہ میں حضور نے اپنا جواب الجواب ایک مفصل مضمون کی صورت میں شائع کر دیا.اب مولوی محمد علی صاحب کو چاہیئے تھا کہ وہ حضور کا مضمون اپنے اخبار میں شائع کراکے اپنے موقف کے مضبوط اور دلائل کے مستحکم ہونے کا عملی ثبوت دیتے یا حضور کی فراخدلانہ تجویز کے مطابق ایسے اپنے مضمون کے ساتھ کتابی صورت میں شائع کر دیتے مگر مولوی صاحب موصوف نے حضور کا مضمون تو شائع کرنا گوارا نہیں کیا البتہ خود ایک اور مضمون پیغام صلح ہر ستمبر 9اہ کے پرچہ میں لکھ کر اوپر یہ نوٹ دے دیا کہ " میں امید رکھتا ہوں کہ میاں صاحب اسے اپنے اختبار الفضل میں شائع کر دیں گے" ہی نہیں بلکہ جب افضل " میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا مضمون اُن کے مضمون کے جواب میں شائع ہوا تو حضرت اقدس اور مولوی محمد علی صاحب دونوں ڈلہوزی میں فروکش تھے.حضور نے ” الفضل“ کا وہ پرچہ دے کو چودھری خلیل احمد صاحب ناصر بی.اے مجاہد تحریک جدید اور ایک اور نوجوان کو بھیجا کہ بجا کہ مولوی صاحب موصوف کے لڑکے کو دے آئیں اور ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ میرا خیال ہے کہ وہ نہیں لے گا.وہ لے کر گئے مگر اس نے " الفضل " کا پرچہ لینے سے انکار کر دیا.سلہ مولوی محمد علی صاحب کو قادیان آنے اور لیکچرا حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے مولوی محمدعلی صاحب پر اتمام حجت کرنے اور ان کے اس دہم کا ازالہ کرنے دینے کی دعوت اور ان کا افسوسناک مظاہرہ کے لئے کہ گویا آپ نے اپنے غلام کو غیر یامین کی تحریرات پڑھنے سے روک رکھا ہے مولوی صاحب کو قادیان تشریف لانے اور یہاں آکر تین لیکچر دینے کی دعوت دی.چنانچہ حضور نے فرمایا :- میں اس کے لئے بھی تیار ہوں کہ وہ قادیان آ جائیں تھیں یہاں اُن کے تین لیکچر اپنی جماعت میں کرا له " الفضل" ۲۶ وفا / جولائی یہ ہش صفحه ۱۶ " الفضل" ۱۶ صلح استوری با سایر مش صفر ۴ کالم ۰۴
149 روں گا اور ان لیکچروں میں وہ دل کھول کر اپنے عقائد اور دلائل بیان کر لیں اور اس بات کی تسلی کر لیں کہ ان کے خیالات اچھی طرح ہماری جماعت تک پہنچ گئے ہیں اور اگر وہ کسی طرح بھی ماننے کو تیار نہ ہوں اور اپنی ہی بات دہراتے چلے جائیں تو اس کا علاج میرے پاس کوئی نہیں.اس کا علاج خدا تعالیٰ ہی کے پاس ہے" سے جناب مولوی محمد علی صاحب نے قادیان میں لیکچر دینے کی اس دعوت کو لفظا منظور کرنے کے باوجود یہ مطالبہ کیا کہ " میں حاضر ہوں مگر اس کے لئے بہترین موقعہ جلسہ سالانہ ہے" کے حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے اس انوکھے مطالبہ کے جواب میں فرمایا :.جلسہ سالانہ کے موقع پر ہماری جماعت لاکھ ڈیڑھ لاکھ کر ایہ کا خرچ کر کے اس لئے جمع ہوتی ہے کہ وہ میرے اور دوسرے علماء سلسلہ کے خیالات سُنے اور ہمارا اس وقت ان کی جہانی پر پھیس میں ہزارہ روپیہ خرچ ہوتا ہے.کیا دوسرے کے خیالات سُننے کی اجازت دینے میں یہ احتراجات بھی شامل ہوتے ہیں کہ میں اپنے جلسہ کو اور لاکھوں کے خرچ کو مولوی صاحب کی مخاطر بر داشت کروں.ہاں میں یہ کر سکتا ہوں کہ اگر جلسہ کے موقعہ پر ہی مولوی صاحب کو اپنے خیالات سُنانے کا شوق ہو ، تو شت جلسہ کے دو دن اور بڑھا دوں مگر اس شرط پر کہ ان دنوں کی مہمان نوازی کا خرچ مولوی صاحب بروست کریں جو ان دنوں کے لحاظ سے اوسطاً تین ہزار روپیہ روزانہ ہو گا.پس مولوی صاحب چھ ہزار روپیہ اس غرض سے ادا کر دیں تو میں جلسہ کے دنوں کے بعد دو دن اُن کے لیکچروں کے لئے مقرر کر دوں گا.اور اعلان کر دوں گا کہ جو دوست بھانے پر مجبور نہ ہوں، دو دن اور ٹھہر جائیں اور مولوی صاحب کے خیالات سُنتے جائیں.اگر یہ نہیں تو یکیں یہ ہزاروں کا خریج ان کے لئے برداشت کرنے پر تیار نہیں اور نہ جماعت کو جو لاکھ ڈیڑھ لاکھ خرچ کر کے قادیان آتی ہے اسے اس کی خواہش سے محروم کر سکتا ہوں.ہاں میری دعوۃ جو قادیان میں لیکچر کے متعلق ہے جس میں مجھے کوئی خاص خرچ کرنا نہیں پڑتا وہ موجود ہے.اگر مولوی صاحب کو وہ منظور ہو تو بڑی خوشی سے تشریف لے آئیں" سے ل الفصل" ۲۶ وفا / جولائی یہ بیش صفحه ۶ کالم ۴۰۳ بے سے پیغام مسلح در اگست ۱۹۴۷ صفحه ۶ کالم کے الفصل ۱۴ر ظهور / اگست له مش صفحه ۲۳ P1971 ۰
14.جناب مولوی محمد علی صاحب نے اس کے جواب میں لکھا کہ قادیان میں جا کر ہم آپ کے جہان ہوں گے اور آپ اور آپ کی جماعت کی حیثیت میزبان کی ہوگی اور میزبان کا یہ مطالبہ کہ مہمان اپنا ہی نہیں میزبان کا خرچ بھی ادا کرے مہمان نوازی کے اسلامی مشفق کی بالکل ضد ہے لے حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے اس " زیر دستی کی دعوت " کا جواب یہ دیا کہ " میں نے جو دعوت دی تھی وہ ایسے موقعہ کے لئے تھی جب میرے لئے سہولت ہو مولوی صاحب کا مطالبہ جلسہ سالانہ کے موقعہ پر تقریر کا ہے.لیکن جلسہ کے موقعہ پہ ہماری جماعت کے لوگ لاکھوں روپیہ خرچ کر کے یہاں پر میری اور میرے ساتھ کام کرنے والوں کی باتیں سننے کے لئے آتے ہیں ، مولوی صاحب کی نہیں.اگر انہیں ان کی باتوں کا شوق ہوتا تو یہاں نہ آتے بلکہ لاہور جاتے.پس جو لوگ لاکھ ڈیڑھ لاکھ روپیہ خرچ کر کے میری اور میرے ساتھ کام کرنے والوں کی باتیں سننے آتے ہیں انہیں میں مولوی صاحب کی خاطر کیوں مایوس کروں اور کیوں تکلیف میں ڈالوں.البتہ میں نے یہ کہا تھا کہ اگر وہ اس موقعہ پر باتیں سُنانا چاہیں تو ہم جلسہ کی تاریخوں سے آگے یا پیچھے دو دن بڑھا دیں گے اور میں اعلان کر دوں گا کہ دوست کوشش کر کے ان دنوں کے لئے ٹھہر جائیں.مگر ان مہمانوں کو چونکہ مولوی صاحب کی باتیں سننے کے لئے ہی ٹھہرایا جائیگا اس لئے ان دنوں کا خرچ بھی انہی کو دینا چاہیئے.مولوی صاحب کہتے ہیں کہ میرا یہ مطالبہ کہ مہانی اپنا ہی نہیں میزبان کا خرچ بھی ادا کرے جہان نوازی کے اسلامی معلق کی بالکل ضد ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ میزبان تو میں ہوں اور میں نے تو اپنا خرچ نہیں مانگا.باہر سے آنے والے تو مہمان نہیں اور تین مہمانوں کو ان کی دعوت پر اور ان کی باتیں سننے کے لئے ٹھہرایا جائے ان کا خرچ تو بہر حال انہی پر پڑھنا چاہیئے اور یہ اسلامی خلق کے بالکل مضلات بات نہیں.اگر تو مولوی صاحب کہیں کہ میں خود آتا ہوں تو ہم ان کی مہمانوازی کریں گے.لیکن یہ کہ مہمان کہے میرے ساتھ اتنے ہزار آدمیوں کی بھی دعوت کرو اور ان کے لئے بھی کھانے کا انتظام کرو یہ کوئی اسلامی حلق نہیں ہے اور ایسی بات نہ کر سکنے کا نام اسلامی مخلق کی ضد کیں نے تو کسی جگہ نہیں پڑھا.اگر جیسا کہ وہ اخبار پیغام مصلح» ۱۳۱ نومبر ۱۹۴۷ و صفحه ۵ کالم ۵۱ •
141 کہتے ہیں یہی اسلامی خلق ہے تو وہ ہمیں اجازت دیں کہ ہم بھی اس طرح مہمان نوازی کی دعوت دے دیا کریں اور لکھ دیا کریں کہ آپ اس قدر آدمیوں کی مہمان نوازی کا انتظام کریں.ہمارے آدمی آپ کو کچھ باتیں سُنانے کے لئے آتے ہیں.ہم دیکھیں گے کہ وہ کس طرح اس اسلامی خلق پر عمل کرتے ہیں.ہماری تو لاہور کی جماعت ہی خدا تعالیٰ کے فضل سے کافی ہے.باہر سے بھی لے جانے کی ضرورت نہیں.اگر وہی ان کے اس اسلامی خلق کا امتحان کرنے لگے تو ان کو دو چار دفعہ میں ہی پتہ لگ جائے.عرض مہمان کا یہ حق نہیں کہ وہ کہے کہ میری تقریر سننے کے لئے ہمیں پچیس ہزار آدمی جمع کئے جائیں اور ان کو کھانا بھی کھلایا جائے اور ایسا مطالبہ پورا نہ کر سکنے کا نام اسلامی خلق کی ضد رکھنا زیرہ دستی اور دھینگا مشتی ہے.اگر مولوی صاحب ثابت کر دیں کہ یہ بھی مہمانوازی میں شامل ہے کہ کوئی شخص کہے.کہیں اپنی تقریر سُنانے آرہا ہوں اور اُسے سننے کے لئے ہمیں چھپیں ہزارہ آدمی جمع کئے جائیں اور ان کے لئے کھانے وغیرہ کا انتظام کیا جائے تو وہ ایسی آیت اور حدیث جس میں اسے مہمان نوازی کا حصہ قرار دیا گیا ہو لکھ کر بھیج دیں تو میں مان لوں گا چاہے مجھے کتنا نقصان ہو.میں فوراً تسلیم کرلوں گا.لیکن اگر واقعی ان کا یہ عقیدہ ہے کہ اس قسم کی مہمان نوازی اسلامی خلق میں داخل ہے تو اس تعلق کا تجربہ ہمیں ایک سال کے لئے کہ لینے دیں.اس کے بعد ہم سے مطالبہ کریں.ہاں مولوی صاحب اگر میری دعوت کے مطابق آنا چاہتے ہیں تو اپنی سہولت کے لحاظ سے جس موقعہ پر انہیں میں دعوت دوں آجائیں.لیکن ان کا ہمارے جلسہ کے وقت کو اپنے لئے حاصل کرنے کا مطالبہ کرتا اور یہ کہنا کہ زائد وقت دے کر اپنے بھی اور ان کے بھی ہزاروں آدمیوں کے کھانے کا انتظام کروں یہ کوئی اسلامی حلق میں شامل بات نہیں....ہو جا ئز صورت تھی وہ تو میں نے خود پیش کر دی تھی اور اس کے لئے میں اب بھی تیار ہوں.اس صورت میں میرے لئے صرف اتنا کام ہوتا کہ میں قادیان کے لوگوں کو جمع کر دیتا مگر ان کا یہ مطالبہ کہ جلسہ کے دنوں میں ہم ہزاروں لوگوں کو روکیں اور ان پر خرچ کریں یہ مہمان نوازی کا طریق اسلام کی کسی تعلیم میں میں نے نہیں پڑھا ہاں میری دعوت موجود ہے.جلسہ کے موقعہ کے سوا جب وہ آ سکیں اور مجھے بہت
۱۷۲ ہو وہ تشریف لے آئیں.میں قادیان کے لوگوں کو جمع کردوں گا بلکہ باہر بھی اعلان کر دوں گا کہ جو دوست آنا چاہیں آجائیں.وہ اپنی باتیں سنا دیں اور میں یا میرا نمائندہ اپنی سُنا دے گا....مولوی صاحب کو معلوم ہونا چاہیئے کہ ان کے جلسہ پر بھی اتنے آدمی نہیں ہوتے جتنے یہاں عام جمعہ کے دن جمع ہوتے ہیں.چنانچہ اس وقت بھی جمعہ کے لئے جتنے لوگ بیٹھے ہیں اتنے کبھی بھی انہیں اپنے جلسہ میں نصیب نہیں ہوتے.اگر میں ان کے جلسہ پر جاؤں یا میرا نمائندہ جائے.فرض کرد مولوی ابو العطاء صاحب جائیں تو انہیں وہاں اتنے سامعین تو نہیں مل سکتے جتنے یہاں جمعہ میں بیٹھے ہیں.پس انہیں اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیئے.اور حق تو یہ ہے کہ باتیں ایک دوسرے کی سُننے والے سنتے اور پہنچانے والے پہنچاتے ہی رہتے ہیں.اس انتظام کی بھی کوئی خاص ضرورت نہ تھی.یہ تو ہم نے ان کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے بطور احسان دعوت دی تھی مگر انہوں نے اس احسان کی قدر نہ کی اور غیر معقول مطالبات شروع کر دیئے لے حضرت امیر المومنین نے جناب مولوی محمد علی صاحب کو اپنے خیالات قادیان کی مرکزی جماعت کو شنانے کے لئے جو سنہری موقعہ دیا تھا اُسے انہوں نے اپنے عقائد کی کمزوری کو بھانپ کر خود ہی ضائع کر دیا.مگر اپنے رفقار کو طفل تسلیاں دیتے ہوئے کہا :- " فرمایا کہ ان کی جماعت وہ تو نہیں جو قادیان میں ہے وہ تو اُن کے ملازمین اور ایسے لوگ ہیں.جن کی ضروریات اُن سے وابستہ ہیں.جماعت تو وہ چیز ہے جو اس سلسلہ کو قائم رکھنے والی ہے.بیرونی لوگ جو جلسہ پر آتے ہیں اصلی جماعت وہ ہے" سے سید نا حضرت خلیفہ مسیح الثانی نے حضرت مسیح موعود پر اس نئے حملہ کا پہیہ زور دفاع کرتے ہوئے ور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو قادیان میں رہنے کی تعلیم دی ہے اور آپ نے فرمایا ہے کہ جو شخص سب کچھ چھوڑ کر اس جگہ آکر آباد نہیں ہوتا یا کم سے کم یہ تمنا دل میں نہیں رکھتا وہ منافق ہے اور مولوی محمد علی صاحب کے نزدیک جو لوگ قادیان میں آبسے ہیں وہ منافق ہیں.گویا حضرت میسج موجود و علیہ الصلوۃ والسلام نے جتنی باتیں بیان فرمائی تھیں.غیر مبالعین کے نزدیک وہ سب ۲۱۹۴۱ له " الفضل" افتح دسمبر ۳۳ مه مش صفحه ۵-۶ : کے پیغام صلح" در دسمبر در صفحه ۵ کالم ۱-۲ سے حاشیہ اگلے صفر پر ملاحظہ ہو.
لتی جاتی ہیں...غرض قادیان کے رہنے والوں کے متعلق یہ اتنا بڑا انتہام اور بہتان ہے کہ خود مولوی محمد علی صاحب بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ جھوٹ ہے.اول تو یہی دیکھ لو کہ قادیان میں انجمن کے ملازم کتنے ہیں.قادیان میں دس ہزار احمدی بستے ہیں.ان میں سے ملازم زیادہ سے زیادہ سو دو سو ہوں گے.اگر ان کے ساتھ ان کے بیوی بچوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو پانچ چھ سو بن جائیں گے.ان کے علاوہ چھ سات ہزار وہ لوگ ہیں جو زمیندار ہیں یا پیشہ ور ہیں.اور ایک اچھی خاصی تعداد ان لوگوں کی ہے جن کے باپ بھائی یا خاوند وغیرہ گورنمنٹ کی ملازمت میں ہیں اور انہوں نے اپنے بچوں یا دوسرے عزیزوں کو قادیان میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھیج دیا ہے.ان پر پھیلا انجمن کا کیا دباؤ ہو سکتا ہے.یا میرا ان پر کیا دباؤ ہو سکتا ہے.وہ تو خود چندے دیتے اور سلسلہ کے لئے قربانیاں کرتے ہیں.بہر حال کثرت ان لوگوں کی ہے جو پینشن یافتہ ہیں یا پیشہ ور ہیں زمیندار و غیرہ ہیں یا پھر قادیان میں وہ لوگ رہتے ہیں جن کے باپ بھائی وغیرہ گورنمنٹ کی ملازمت میں ہیں اور وہ انہیں تعلیم کے لئے اخراجات بھیج دیتے ہیں.یا اگر وہ پڑھتے نہیں تو ان کا گزارہ بہر حال اپنے باپ یا بھائی کی آمد پر ہے.اس قسم کے تمام لوگ کونسے جماعت کے دباؤ کے ماتحت ہیں..خود پیغامیوں میں ایک خاصہ طبقہ ایسے لوگوں کا ہے جو گورنمنٹ کی ملازمت میں ہے مگر ان کے نزدیک گورنمنٹ کی ملازمت ان کے اعتقادات پر کوئی اثر نہیں ڈال سکتی.میاں غلام رسول صاحب قہ صفحہ گذشتہ : اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرتسیح موعود پر قادیان میں ہجرت کر کے آنے والے احمدیوں کی نسبت الہام ہوا " أَصْحَبُ الصُّفَةِ وَمَا أَدْرُوكَ مَا أَصْحَبُ الصُّفَةِ تَرَى أَعْيُتُهُمْ تَفَيْضُ مِنَ الدَّمْعِ يُصَلُّونَ عَلَيْكَ “ اس الہام کی تشریح حضرت اقدس علیہ السلام نے اپنے قلم سے یہ فرمائی کہ خدا تعالیٰ نے انہی اصحب الصفہ کو تمام جماعت میں سے پسند کیا اور جو شخص سب کو چھوڑ کر اس جگہ آکر آباد نہیں ہوتا اور کم سے کم یہ تمنا دل میں نہیں رکھتا اس کی حالت کی نسبت مجھ کو بڑا اندیشہ ہے کہ وہ پاک کرنے والے تعلقات میں ناقص نہ رہے اور یہ ایک پیشگوئی عظیم الشان ہے اور ان لوگوں کی عظمت ظاہر کرتی ہے کہ جو خدا تعالیٰ کے علم میں تھے کہ وہ اپنے گھروں اور وطنوں اور املاک کو چھوڑ دیں گے اور میری ہمسائیگی کے لئے قادیان میں آکر بود و باش رکھیں گے " ا تریاق القلوب طبع اول صفحه ۶۰)
تمیم ، میاں محمد صادق صاحب ، ڈاکٹر مرز الیعقوب بیگ صاحب ، ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب، ڈاکٹر بشارت احمد صاحب ، یہ سب عیسائی حکومت کے ملازم تھے کیا یہ سب ان ایام میں عیسائی ہو گئے تھے یا عیسائیوں کی ہاں میں ہاں ملانے لگ گئے تھے ؟ کیا اس وقت جو لوگ انجمن اشاعت اسلام کے ملازم ہیں وہ سب کے سب مولو یقینا کے تجربہ کے مطابق منافق ہیں کیونکہ وہ مولوی صاحب اور ان کی انجمن کے لڑ لگے ہوئے ہیں.اگر مولوی صاحب کے نزدیک یہ لوگ منافق نہیں تو کیا وجہ ہے کہ وہ لوگ تو انگریزوں یا انجمن اشاعت اسلام کی ملازمت کر کے منافق نہ ہوئے مگر قادیان کے احمدی صدر انجمن احمدیہ کی ملازمت کر کے اپنے ایمان کو سلامت نہ رکھ سکے.اگر صدر انجمن احمدیہ کی نوکری کرنے سے عقیدہ بھی بدل جاتا ہے تو پیغامیوں میں جتنے لوگ گورنمنٹ کے ملازم ہیں ان سب کے متعلق یہ سمجھا جانا چاہیے کہ یہ سب عیسائی ہیں.کیونکہ مولوی محمد علی صاحب کے اس اصل کے مطابق یہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ گورنمنٹ کے ملازم ہو کر انہوں نے اپنے ایمان کو محفوظ رکھا ہو.پھر میں کہتا ہوں مولوی محمد علی صاحب کو اپنا تجربہ بھی یاد ہونا چاہیئے.اب تو قادیان کی آبادی کا ایک کثیر حصہ ایسا ہے جو صدر انجمین احمدیہ کا ملازم نہیں مگر مجبہ مولوی محمد علی صاحب قادیان میں رہتے تھے تو یہاں کے اسی فی صد انجمن کے نوکر یا ان نوکروں سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے.اور مولوی محمد علی صاحب کو یاد ہوگا کہ باوجود اس کے کہ وہی سیکرٹری تھے اور باوجود اس کے کہ خزانہ ان کے پاس تھا ، قادیان کے لوگوں نے مولوی صاحب کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا.جب ایمان کا معاملہ آیا تو انہی قادیان والوں نے جس طرح مکھی کو دودھ سے نکال کو باہر پھینک دیا جاتا ہے، اسی طرح انہوں نے مولوی محمد علی صاحب کے نکال کر باہر کر دیا.حالانکہ یہ وہ لوگ تھے جن کے مال اور جن کی جانیں اسی طرح مولوی محمد علی صاحب کے قبضہ میں تھیں جس طرح اب وہ ہمارے متعلق کہتے ہیں کہ ہمارے قبضہ میں لوگوں کے مال اور ان کی جانیں ہیں اگر اس وقت قادیان والوں نے ایمان کے معاملہ میں کسی قسم کی کمزوری نہیں دکھائی تو اب وہ کس طرح خیال کر سکتے ہیں کہ قادیان کے رہنے والے ایمان کے معاملہ میں کمزوری دکھاتے اور منافقت سے کام لیتے ہیں.ان کو تجربہ ہے کہ قادیان وانوں نے اپنے ایمان کو فروخت نہیں کیا
140 تھا بلکہ جب انہیں معلوم ہوا کہ اب دین اور ایمان کا سوال پیدا ہو گیا ہے تو انہوں نے مقابلہ کیا اور اس بات کی انہوں نے کوئی پروا نہ کی کہ وہ صدر انجمن احمدیہ کے ملازم ہیں.پھر میں مولوی محمد علی صاحب سے کہتا ہوں.مولوی صاحب ! آپ بھی قادیان کی نوکری کرتے رہے ہیں.کیا اس وقت آپ کا ایمان بگڑا ہوا تھا یا سلامت تھا.آپ تو اس وقت اڑھائی سو روپیہ ماہوار تنخواہ لیا کرتے تھے جن پر آپ اعتراض کر رہے ہیں ان میں سے اکثر تو ہمیں تمہیں بھا ئیں لینے والے ہیں مگر آپ اڑھائی سو روپیہ ماہوار وصول کیا کرتے تھے.پس آپ بتائیں کہ آپ کے اعتقاد کا اس وقت کیا حال تھا.پھر ہمارے اعتقادات کے بدلنے کا تو ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں مگر مولوی محمد علی صاحب کے متعلق ہمارے پاس اس بات کا قطعی اور یقینی ثبوت ہے کہ جب تک وہ قادیان سے اڑھائی سو روپیہ ماہوار تنخواہ لیتے رہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نبی کہتے کہتے ان کی زبان خشک ہوتی تھی.مگر جب وہ اڑھائی سو روپیہ ماہوار ملنے بند ہو گئے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مجدد کہنے لگ گئے.جس شخص کے ایمان کا یہ حال ہو کہ وہ اڑھائی سو روپیہ کے بدلے کسی کو نبی کہنے کے لئے تیار ہو جائے اور عدالتوں میں قسمیں کھا کھا کہ کہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نبی تھے اُسے یہ کس طرح زیب دیتا ہے کہ وہ دوسرو پر طعنہ زنی کرے.پھر جس شخص کو اس دن کی روٹی بھی اسی ترجمہ کے طفیل ملی ہو جو اُس نے قادیان میں بیٹھ کر اور جماعت احمدیہ سے تنخواہ پا کر کیا تھا اس کو کب یہ زیب دیتا ہے کہ وہ قادیان والوں کی عیب چینی کرے.حالانکہ اُس نے اُس روز صبح کو جو ناشتہ کیا تھا وہ بھی اسی ترجمہ کے طفیل تھا جو اُس نے قادیان میں باقاعدہ تنخواہ لے کر گیا.اور اس نے اس روز ہو.روٹی کھائی تھی وہ بھی اسی ترجمہ کے طفیل مھتی جو اس نے قادیان میں تنخواہ پر کیا اور اس نے اس روز جو کپڑے پہنے تھے وہ بھی اسی ترجمہ کے طفیل تھے جو اس نے قادیان میں تنخواہ پاکر کیا.کیونکہ اس کا کون انکار کر سکتا ہے کہ جس ترجمہ کے کمشن پر مولوی صاحب کا گزارہ.ہے وہ ترجمہ مولوی صاحب نے اپنے گھر سے کھا کر نہیں کیا بلکہ صدر انجمن احمدیہ سے تنخواہ لے کر اور اس کی خریدی ہوئی لائیبریری کی مدد سے کیا تھا.(جس لائیبریری کو وہ بعد میں دھوکا دے کر کہ میں چند روز کے لئے لے جاتا
164 ہوں غصب کر بیٹھے ہیں) ایسا انسان بھلا کس مونہہ سے یہ کہہ سکتا ہے کہ قادیان والے منافق ہیں.مولوی صاحب نے شاید سمجھا ہوگا کہ باہر والے اتنے کمزور ہیں کہ جب وہ یہ سنیں گے کہ قادیان والوں کو انہوں نے اصل جماعت احمدیہ قرار نہیں دیا ہے بلکہ اصل جماعت احمدیہ باہر کے رہنے والوں کو قرار دنیا ہے تو وہ خوش ہو جائیں گے.مگر یہ ان کی غلطی ہے.ان سے پہلے اور بھی بعض لوگ اس قسم کی باتوں سے تفرقہ پیدا کرنے کی کوشش کر چکے ہیں.چنانچہ مدینہ میں ایک شخص نے ایک دفعہ انصار اور مہاجرین میں تفرقہ پیدا کرنے کے لئے کہہ دیا تھا.لا تُنفِقُوا عَلَى مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّى يَنْفَضُّوا (المنافقون ۱ : ۱۳) ارے یہ لوگ روٹیاں کھانے کے لئے یہاں بیٹھے ہیں.تم ذرا ان کی روٹیاں بند کر د پھر دیکھو گے کہ کس طرح یہ لوگ یہاں سے بھاگ نکلتے ہیں.مگر جانتے ہو کہ یہ بات کہنے والے کا کیا حشر ہوا.اسی کا بیٹا حضرت رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے باپ کے فعل پر لعنت ڈالی.پس مولوی محمد علی صاحب کو بھی یاد رہے کہ ان کا یہ حملہ جو انہوں نے قادیان کی جماعت احمدیہ پر کیا ہے، اس سے باہر کے لوگ خوش نہیں ہوں گے بلکہ باہر کی جماعتیں خود اس حملہ کا جواب دیں گی اور وہ ان کی تائید نہیں کریں گی بلکہ اُن کے اس دعوے کی پر زور تردید کریں گی.کیونکہ ان کا اخلاص اس بات کا تقاضا کرتا ہے اور اُن کے دل اس حسرت سے ٹیچر ہیں کہ کاش انہیں بھی قادیان میں رہنے کی توفیق ملتی.وہ قادیان میں آنے کو نفاق نہیں سمجھتے بلکہ ایمان اور اخلاص کی علامت سمجھتے ہیں لے یہ اعلان چونکہ بیرونی مخلصین احمدیت کے دلوں کا ترجمان اور ان کی قلبی کیفیت کا آئینہ دار تھا اس لیے جو نہی حضرت امیر المومنین کی آواز اُن کے کانوں تک پہنچی انہوں نے مولوی محمد علی صاحب کے رویہ کے خلاف شدید نفرت کا اظہار کیا اور ریزولیوشن پاس کر کے قادیان کے احمدیوں کی فضیلت کا اقرار کیا.اس سلسلہ میں انباغہ کی له الفضل لا فتح اردسمبر نمایش صفحه ۱۰۶۰۵ تھے حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضا زرماتے ہیں :."مولویصہ اس کے یہ الفاظ جب شائع ہوئے تو یہاں کے لوگوں نے ان کے خلاف احتجاج کے لئے جلسہ کرنا چاہا اور مجھ سے اس کے لئے اجازت طلب کی.مگر میں نے کہا.ہرگز نہیں یہ حملہ تم پر ہوا ہے.پس یہ بات وقار کے خلاف ہے کہ تم ہی ان کا جواب بھی دور رسول کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مومن مومن بھائی ہوتے ہیں جب ایک پر حملہ ہو تو دو سر کو تکلیف پہنچتی ہے.اس وقت باہر کی جماعتوں کے اخلاص کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اس کا جواب دیں اور تم ی رہی.ہاں جب ان پر جملہ ہو تو اس وقت تمہارا فرض ہے کہ جواب دو " و " الفضل ۱۶ صلح (جنوری سایش صفحه ۵ * # ۱۱۹۴۲
162 جماعت اول نمبر پر آئی جس نے سب سے پہلے تار دیا کہ وہ مولوی صاحب کے اس حملہ کو بری نظر سے دیکھتے اور اس کی مذمت کرتے ہیں.اسی طرح جو کہ ضلع سرگودھا کے ایک احمدی نے حقیقی مومنانہ جذبہ دکھایا.اور نہایت معقول رنگ میں جواب دیا.انہوں نے لکھا کہ مولوی محمد علی صاحب اس بات پر مصر ہیں کہ میں باہر کی جماعتوں کو اپنی تقریر سنانا چاہتا ہوں.ان کے دل میں یہ وہم ہے کہ باہر کے لوگ چونکہ عموماً نا خواندہ ہوتے ہیں اس لئے ممکن ہے قادیانی جماعت کا ساتھ چھوڑ دیں.مگر مولوی صاحب کو معلوم ہونا چاہیئے میں موضع مجوکہ ضلع سرگودھا کا رہنے والا ہوں.اس علاقہ کی جماعتیں آپ کے عقیدہ سے خوب واقف ہیں.میں ان جماعتوں کے متعلق قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ اگر سورج بجائے مشرق کے مغرب سے طلوع ہونے لگے تو بھی وہ ہرگز ہرگز حضرت امیرالمؤمنین کا پاک دامن چھوڑنے والی نہیں حضرت خلیفہ ایسیح الثانی نے سالانہ جلسہ میں 5140′ پر جماعت انبالہ کی اولیت کا ذکر کیا اور مجوکہ کے احمدی کے اس جواب پر اظہار خوشنودی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا " یہ جواب ہے تو بہت سادہ مگر ایمان کا نہایت عمدہ مظاہرہ ہے بیرونی جماعتوں نے محض اسی پر اکتفا نہیں کیا کہ باہر سے قرار وادیں بھیجوا دیں.بلکہ انہوں نے سالانہ جلسہ ہش کے اجلاس اول ( منعقدہ ۲۶ فتح / دسمبر) میں کوہ ہزاروں کی تعداد میں جمع تھیں حسب ذیل قرارداد پاس کی :- ر مولوی محمد علی صاحب امیر غیر مبالعین کا مطالبہ کہ ان کو جلسہ سالانہ کے موقعہ پر تقریر کرنے کی ابعات دی بجائے حقارت کے ساتھ تھا را دیا جائے.بیرونی جماعتوں میں سے کوئی بھی ان کا لیکچر مننا نہیں چاہتی.چونکہ انہوں نے ہمارے مقدس اور جان سے پیارے امام حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز اور جماعت قادیان وار الامان کی جس کو تمام جماعتیں سب سے بہتر و افضل جماعت یقین کرتی ہیں سخت بنک کی ہے اس لئے وہ ہرگز اس قابل نہیں کہ ان کو اس سٹیج پر بولنے کی اجازت دی جائے.ہم میں سے کوئی شخص بھی ان کی بات سننے کے لئے طیارہ نہیں." یہ قرار داد ملک عبدالرحمن صاحب خادم بی اے ، ایل ایل بی نے پیش کی اور متفقہ طور پر پاس کی گئی.اب بیرونی احمدی جماعتوں کے جذبات و خیالات کا پوری طرح اظہار ہو چکا تھا اور مولوی محمد علی صاحب نه "الفضل " ۱۶ صلح / جنوری به بیش صفحه ۲۵ "افضل" یکم صلح رمجبوری لایه مش صفحه ۵۳ نو
کی گہری تدبیر جو انہوں نے ان جماعتوں کو خوش کر کے مرکز احمدیت سے بدظن کرنے کے لئے کی تھی پوری طرح نا کام ہو چکی تھی مگر اس کے باوجود حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے اگلے دن اپنی تقریر کے دوران دوبارہ تمام حاضرین سے رائے طلب کی کہ اگر آپ لوگ جلسہ کے موقعہ یہ ان کی تقریریں سننا چاہتے ہیں تو بتا دیں.میں کل کا دن انہیں دے سکتا ہوں اور ابھی تار دے کر ان کو بلا لیتا ہوں" سے یہ سُن کو جلسہ میں شامل سب احباب نے بالاتفاق کہا کہ ہم ان کی کوئی بات نہیں سننا چاہتے.اس پر حضرت خلیفہ المسیح نے فرمایا :- اگر جماعت مسننا نہیں چاہتی تو ہم نے کونسا اُن کا قرض دینا ہے کہ اُن کو ضرور موقعہ دیں اور اس طرح سال میں تین دن قادیان میں گزارنے اور میری اور سلسلہ کے علماء کی تقریر میں سُننے کا جو موقعہ دوستوں کو ملتا ہے وہ ان کی نذر کر دیں " پھر فرمایا :- یہ وہی چالا کی ہے جیسے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں مہاجرین اور انصار کو باہم لڑانے کے لئے منافقین کیا کرتے تھے.مولوی صاحب نے سمجھا یہ جماعت بیوقوف ہے.جب میں کہوں گا کہ قادیان کی جماعت تو اصل جماعت نہیں تو باہر والے خوش ہوں گے اور کہیں گے کہ مولوی صاحب نے ہماری تو تعریف کر دی ہے.لیکن انہیں پتہ نہیں کہ جماعت ضدا تعالٰی کے فضل سے اس دھو کے میں آنے والی نہیں اور ہمارے دوست انہیں خوب سمجھتے ہیں.جیسا کہ کسی نے کہا ہے بہر رنگے کہ خواہی جامہ سے پوش من انداز قدت را می شناسم یعنی تم خواہ کسی قسم کا لباس پہن کر آؤ میں پال سے اور قد کے انداز سے سمجھ جاتا ہوں کہ کون ہوگا " سے " الفضل ١ صلح / جنوری سالہ مبش صفحه ۴ : ١١٩٤٢ مرکی "
129 ۱۳۱۹ سالانہ جل ریش میں سالانہ جلسہ پر اللہ تعالیٰ کے بہت سے افضال کا نزول ہوا جن میں سے ایک نمایاں فضل یہ تھا کہ اگرچہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی صحت حضرت امیر المؤمنین کا خطاب بیماری اور کام کی وجہ سے بہت کمزور تھی مگر اللہ تعالیٰ نے نہ صرف جزانہ طور پر حضور کو سالانہ جلسہ پر حسب دستور ایمان افروز تقاریہ کرنے کی طاقت بخشی بلکہ جہاں گذشتہ سالوں میں ان ایام کی مصروفیات کے باعث کھانسی کا شدید حملہ ہو جاتا تھا وہاں اس سال اس تکلیف میں نمایاں کمی واقع ہو گئی.چنانچہ حضور نے سر صلح / جنوری سنیہ مہیش کو خطبہ جمعہ میں فرمایا :- " میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے باوجود اس کے کہ میری طبیعت جلسہ سے قبل بیماری اور کام کی زیادتی کی وجہ سے بہت ضعیف تھی اور میں اپنے نفس میں سمجھتا تھا کہ غالباً میں جلسہ کے موقع پر اس حد تک بھی تقریریں نہ کر سکوں گا جس حد تک کہ پہلے کیا کرتا تھا.اور دوسرے کاموں میں بھی غالباً کمی کرنی پڑے گی.مگر اللہ تعالے کا فضل ہے کہ کسی کام میں کوئی کمی نہیں کرنی پڑی.بلکہ پہلے جلسوں کے بعد میں جس قدر کوفت محسوس کیا کرتا تھا.اس سال اس سے بہت کم کوفت محسوس ہوئی.اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا جلسہ آیا ہی نہیں.بلکہ کئی لحاظ سے نہیں اس وقت اپنی طبیعت کو جلسہ سے پہلے کی نسبت بہت بہتر پاتا ہوں گویا ایک قسم کا علاج ہو گیا.بے شک جلسہ کے بعد کھانسی ضرور ہوئی ہے مگر یہ کھانسی حلق کی معلوم ہوتی ہے اور اس کھانسی سے ضعف نہیں ہوتا.اور پھر پہلے سالوں کی نسبت اس سال کھانسی میں بھی کمی ہی رہی ہے.گو دو چار روزہ قبل کھانسی کچھ زیادہ تھی مگر کل نہیں اٹھی.آج کچھ کچھ اُٹھ رہی ہے.مگر اس دفعہ کا حملہ اس کے مقابلہ میں کچھ نہیں جو پہلے سالوں میں جلسہ کے بعد ہوا کرتا تھا.پہلے تو جلسہ کے بعد ایسی شدید کھانسی ہوا کرتی تھی کہ مجھے رات کے ایک ایک دو دو بجے تک بستر میں بیٹھ کر وقت گزارنا پڑتا تھا.اور نیند نہیں آتی تھی.اس سال کو صبح شروع ہوتی ہے مگر دس بجے تک ہٹ بھاتی ہے.اور پھر شام کو کچھ شروع ہو کر سونے کے وقت تک تک بھاتی ہے.اس کے علاوہ سردی لگنے کی وجہ سے متلی کی بھی کچھ شکایت ہوئی اور جگر کی خرابی کا کچھ دورہ ہوا.مگر مجموعی لحاظ سے اور توقع کے بالکل خلاف میری طبیعت بہت اچھی رہی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ایسی نصرت کی ہے کہ کام بھی ہو گیا اور طبیعت میں بھی کوئی خرابی نہیں ہوئی.بلکہ طبیعت پہلے کی نسبت اچھی ہے.اس میں
(A.کچھ دخل ایک اور بات کا بھی ہے مگر وہ بھی خدا تعالے کا فضل ہی ہے.اور وہ یہ کہ میں ہمیشہ عام طور پر جلسہ کی تقریروں کے نوٹ دوران جلسہ میں لیا کرتا ہوں.چونکہ فرصت نہیں ہوتی اس لئے میرا قاعدہ ہے کہ سفید کاغذ تہہ کر کے جیب میں رکھ لیا کرتا ہوں اور دوسرے کاموں کے دوران میں سیو وقت مل جائے اس میں کاغذ نکال کر نوٹ کرتا رہتا ہوں.مثلاً ڈاک دیکھ رہا ہوں.دفتر والے کا نتدانا پیش کرنے کے لئے لانے گئے اور اس دوران میں میں نوٹ کرنے لگ گیا یا نماز کے لئے تیاری کی.سنتیں پڑھیں اور جماعت تک جتنا وقت ملا اس میں نوٹ کرتا رہا.اس طرح یہ تیاری پندرہ سولہ ستمبر سے شروع کر دیتا تھا.اور قریباً ۲۲ - ۲۳ دسمبر تک کرتا رہتا تھا اور اس کے بعد دوسرے کاموں سے فراغت حاصل کر کے نوٹوں کی تیاری میں لگ جاتا.ان کو درست کر کے لکھنے کا کام میں بالعموم ۲۷-۲۰ کو کرتا.اور اس کے لئے وقت انہی تاریخوں میں ملتا تھا.اس وجہ سے طبیعت میں کچھ فکر بھی رہتا تھا کہ صاف کر کے لکھ بھی سکوں گا یا نہیں.لیکن اس دفعہ قرآن کریم کی تفسیر کا کام رہا اور اس کے لئے وقت نہ تھا.۲۲ کی شام کو ہم تفسیر کے کام سے فارغ ہوئے.۲۳ کو بعض اور کام کرنے تھے وہ کئے.۲۴ کی شام کو نوٹوں کا کام شروع کیا اور فکر تھا کہ یہ کس طرح کروں گا.مگر اللہ تعالے کا ایسا فضل ہوا کہ نوٹوں کی تیاری میں بہت آسانی ہو گئی حوالے و غیرہ بہت جلد جلد ملتے گئے اور ۲۵ کی شام کو تینوں لیکچروں کے نوٹوں سے میں فارغ ہو چکا تھا یہ بھی ایک وجہ ہے کہ مجھے زیادہ کوفت نہیں ہوئی.کیونکہ زیادہ محنت نہ کرنی پڑی.اگر مضمون پیچید ہو جاتا تو مجھے زیادہ محنت کرنی پڑتی اور پھر بوجھ بھی زیادہ محسوس ہوتا اور تکلیف ہوتی مگر اللہ تعالیٰ نے اس سے بچا لیا " اے حضرت امیر المومنین کی تقریر دلی کے مشہور اخبار میشمین نے اپنی اور سر تشنہ کی اشاعت میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی سالانہ جلسہ کی ایک تقریر فرموده ۲۷ دسمبر کا ذکر اخبار سٹیٹسمین میں اس کی سب خیلی چھوٹ شائع کی.رپورٹ : " قادیان ۲۸ دسمبر آج جماعت احمدیہ کے سالانہ جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ نے فرمایا کہ دنیا اس وقت نہایت ہی نازک دور میں سے گزر رہی ہے ل " الفضل " ۱۴ صلح / جنوری است ۱۳۲ بیش صفحه ۱-۲ : 1901
اور ابھی اور نازک دور آنے والا ہے.آپ نے فرمایا.انسانیت کی موجودہ مشکلات اور دکھوں میں ایک نیا نظام پیدا ہو گا جو موجودہ نظام سے بہت مختلف اور اس سے بہت بہتر ہوگا.تقریر کے دوران میں آپ نے جماعت کی تعمیری سرگرمیوں نیز اندرونی مخالفین کی شرارتوں اور بیرونی دشمنوں کے حملوں پر بھی تبصرہ کیا اور آئندہ سال کے لئے ایک عملی پروگرام جماعت کے سامنے رکھا حکومت کے ساتھ جماعت کے تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ قادیان میں سکھوں کی کانفرنس کے موقعہ پر جو سلوک ہم سے کیا گیا ہم اُسے سخت ناپسند کرتے ہیں.آپ نے جماعت کو سادہ زندگی اختیار کرنے کی تاکید فرمائی اور نوجوانان جماعت سے پُر زور اپیل کی کہ وہ اسلام کی خدمت کے لئے میدان میں نکلیں.آپ نے عورتوں کے جلسہ میں بھی تقریر کی جو لجنہ اماءاللہ کے زیر اہتمام ایک علیحدہ پنڈال میں منعقد ہوا“ لے مختلف مذاہب اور مختلف فرقوں کے معززین حسب معمول اس سال بھی فی احمدی اور غیرمسلم مرزین نے سالانہ جلسہ میں شرکت کی.ایسے اصحاب کی کی سالانہ جلسہ ۱۳۵ میریش میں شرکت تعداد دو سو کے قریب تھی.اکثر نے حضرت 4190.خلیفہ المسیح الثانی نے سے شرف ملاقات بھی حاصل کیا اور مقامات مقدسہ دیکھے.ذیل میں بعض چیدہ اصحاب کے نام درج کئے جاتے ہیں :.(1) مسٹر دلفریڈ سی سمتھ ان ٹورنٹو سٹی کینیڈا.امریکہ یوسینٹ جان کالج کیمیہ ج انگلستان کے طالب علم تھے اور اسلام میں نئی مذہبی اور نیم مذہبی تحریکات " پر مضمون تیار کر رہے تھے.(۳۰۲) مسٹر دلتے حال صاحب آف چیکوسلواکیہ کے اہلیہ صائبہ (۵۰۴) مسٹر باملک صاحب آف چیکوسلواکیہ مع اہلیہ صا حمید (م) رائیه صاحب لالہ مقتولال صاحب پوری پی سی.انہیں ریٹائر کی وزیر ریاست شاه پوره ( راجپوتانه) پنڈت راجند کشن عما سب کول سب بیج درجہ اول لائل پور لالہ کرم چند صاحب بی.اے.ایل ایل بی پلیڈر کانگڑہ لالہ اوم پرکاش صاحب امپریل سکرٹریٹ دہلی."الفضل " یکم صلح / جنوری مش صفحه ۲ :
۱۸۲ (1) مسٹر انیس احمد صاحب عباسی ایڈیٹر روزنامہ حقیقت “لکھنو.(11) سچودھری عنایت علی صاحب آنریر کی مجسٹریٹ گوجرانوالہ.(۱۲) خانصاحب میاں مراد بخش صاحب آنریری مجسٹریٹ جلال پور بھٹیاں ضلع گوجرانوالہ چودھری محمد نواز خان صاحب آنریری مجسٹریٹ رسول پور ضلع گوجرانوالہ.پنڈت نگیندر مومن پریشاد صاحب تیوری حج ریاست جے پور.| (۱۵) ملک علی بہادر خاں صاحب آف گڑھی آوان ممبر ڈسٹرکٹ بورڈ ضلع گوجرانوالہ چودھری اکرام اللہ خانصاحب ریمیں ایمین آباد.(۱۷) لفٹینٹ کرتی سنگھ اہلو والیہ آف پٹھانکوٹ ڈائرکٹر واہ سیمنٹ کمپنی.(۱۸) سردار منظور احمد خانصاحب تمندار و آنریری مجسٹریٹ کوٹ قیصرانی ضلع ڈیرہ غازیخاں.(۱۹) چودھری فیض علی خاں صاحب آنریری مجسٹریٹ و جاگیردار ضلع گوجرانوالہ ان کے علاوہ بہت سے مزز غیر احمدی اور غیر مسلم اصحاب، آنریل چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی کو بھی بیت الظفر میں فروکش تھے جن میں سے بعض کا ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے :- (۲۰) ملک غلام محمد صاحب کنٹرولر جنرل پر چیز دہلی (۲۱) مسٹر زاہد حسین صاحب فنانشل ایڈوائزہ رسپلائی ڈیپارٹمنٹ دہلی (۲۲) اے کے ملک آئی سی.ایس انڈین سٹور نہ ڈیپارٹمنٹ دہلی (۲۳) خان بہادر ڈاکٹر عبدالحمید صاحب بٹ اسٹنٹ ڈائرکٹر پبلک ہیلتھ پنجاب.(۲۴) خان بہادر راجہ اکبر علی صاحب دہلی.(۲۵) شیخ محمد تیمور صاحب وائس پرنسپل اسلامیہ کالج پشاور.(۲۶) با وا جھنڈا سنگھ صاحب ریٹائرڈ سب جج امرتسر مسٹر فضل الرحمن صاحب شریعت امرتسر (۲۸) مسٹر مظہر شریف صاحب ایم.اسے امرتسر ے آپ ۱۷ اکتوبر ۵ہ سے 4 اگست ۹۵۵ تک پاکستان کے گورنر جنرل رہے : ۱۶۰ له گورترینک دولت پاکستان : +
۱۸۳ (۲۹) خان بہادر میاں غلام قادر محمد شعبان صاحب ایم.ایل.اسے سنٹرل کراچی.(۲۰) مسٹر شوندر بہا در سه گل حیدر آباد دکن - (۳۱) لالہ کرم چند صاحب ایڈیٹر" "پارس" لاہور.(۳۲) مسٹرا ہے.کے مشتاق صاحب حیدر آباد دکن.(۳۳) میاں محمد رشید صاحب آسٹریلین دواخانہ ( لاہور) (۳۴) بخشی چانن شاہ صاحب لاہور.(۳۵) شیخ لائق علی صاحب سینٹر سب بیج امرتسر.(۳۶) چودھری عبد الکریم صاحب آنریری مجسٹریٹ لاہور.(۳۷) شیخ عبد العزیز صاحب امرتسر (۳۸) شیخ عبدالرشید صاحب امرتسر (۳۹) رفعت پاشا صاحب امر تسره ۶۱۹۲۰ ہ ہش کے سالانہ جلسہ کے موقعہ پر جو اصحا سالانہ جلسہ پر بیت کرنے والوں کی تعداد استان حضرت میر مومنین مین ایسی بات ان کے سید نا خلیفة المسیح الثانی دست مبارک پر بیعت کر کے داخل احمدیت ہوئے ان کی تعداد تین سو چھیا سی تھی جن میں ۱۹۹ مرد اور ۱۸۷ خواتین تھیں کی فصل ششتم جلیل القدر صحابی انتقال اس ال سیدان ترمیم مو و علی الصلاة والسلام کے مندر جلیل القد صحابہ ہم سے ہمیشہ کے لئے جدا ہو گئے.ان کے نام مع مختصر حالات کے لے پہلے سرگودھا ڈویشن کے کمشنر رہے.اس کے بعد ملتان ڈویژن کے کمشنر بنے اور اب ریونیو بورڈ حکومت ۱۳۲۱ مغربی پاکستان کے ممبر ہیں ، ( روزنامہ الفضل قادیان حکم صلح جولائی میش) له "الفضل" ۲ صلح الجبوری له بش صفحه ۲ کالم * +191
۱۸ درج ذیل کئے جاتے ہیں :.ا میاں خیر دین صاحب کما چوں (ضلع جالندھر) وفات : امان / مارچ رش - حضرت مولانا محمد اسماعیل صاحب حلالپوری - (زیارت مسیح موعود : نومبر تشاد بمقام لا بعد به مسیحیت تحریری ۱۷ فروری سشنامه دستی ۱۳ ر ا پریل شائد وفانت در امان مارچ سه رش حضرت مولانا محمد اسماعیل صاحب سلسلہ احمدیہ کے ایک بلند پایہ عالم ، بہت بڑے محقق ، علوم شرقیہ کے ماہر ، نہایت منکسر المزاج ، طبیعت کے سادہ، دل کے غنی اور محبت و اخلاص کے مجسمہ تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے عہد مبارک کے آخری ایام میں قادیان آئے اور حضور کے دست مبارک پر بیعت کر کے واپس چلے گئے.پھر انتظار میں ہجرت کر کے مستقل طور پر قادیان میں رہائش پذیر ہو گئے.پہلے مدرسہ احمدیہ میں مدرس ہوئے.آخر میں جامعہ احمدیہ کے پروفیسر مقرر ہو کر شہر میں ریٹائر ہوئے ریٹائر ہونے کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الثانی رض نے ان کے سپرد دو اہم کام کیئے :.مجاہدین سفر یک جدید کی تعلیم و تربیت ۲- ترجمہ قرآن کریم کے لئے لغات کے حوالوں کی تخریج سے حضرت مولوی صاحب بوڑھے ہو چکے تھے اور مسئول بھی تھے مگر آپ یہ دونوں کام آخر دم تک نہایت خوش اسلوبی سے نبھاتے رہے.آپ کی المناک وفات نے جماعت احمدیہ کے افراد کو عموماً اور علمی ذوق رکھنے والی شخصیتوں کو محسوس کرا دیا کہ جماعت سے صرف ایک عالم جدا نہیں ہوا بلکہ علوم کا ایک سورج اس دنیا سے ہمیشہ کے لئے غروب ہو گیا ہے.چنانچہ حضرت میر محمد الحق صاحب ، حضرت مفتی محمد صادق صاحب ، مولانا ابو العطاء صاحب اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے آپ کے علم و فضل اور اخلاق وشمائل کی نسبت درد و گداز سے ڈوبے ہوئے مضامین لکھے اور شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ اور حضرت مولانا ذوالفقار علیخاں سائٹی نے آپ کی یاد میں مرشئے کے دیے دو له س الفضل در امان مارچ به شش صفحراج " ۱۳۱۹ صفحه ۹۴ رپورٹ پیلس مشاورت س ش صفحه ۱۷۸ 7145- ۲۱ مهرش صفحه ۴ و صفحه ۵ ۰ ۴۵ افضل ۱۲ رامان / مارچ میں & P هر در م "الفضل" 19 رامان / مارچ صفحه 4 4 ك " الفضل" و در امان مار یش صفحه ۲ ، " / " الفضل ۲۲ رامان از ماریج به بیش صفحه ۴ * 1414 191-
140 حضرت مولانا محمد اسماعیل صاحب کے شاگردوں کا سلسلہ بہت وسیع تھا.آپ نے ایک بیش بہا لڑر پھر اپنے پیچھے بطور یاد گار چھوڑا.آپ کی مشہور تالیفات و تصنیفات حسب ذیل ہیں :- تنویر الابصار - نشان رحمت - تبدیلی عقائد مولوی محمد علی صاحب - درود شریف - محامد خاتم النبیین.اہل پیغام کے بعض خاص کارنامے.تعلیمات میسیج موعود درباره در و دشریفیه میرا عقیده درباره نبوت مسیح موعود تبد یکی عقیدہ کے جواب الجواب - احمدی لڑکی کا رشتہ اہل پیغام کا کچا چٹھا.اے - قاضی تاج الدین صاحب (وفات ۱۶ مارچ انه بعمر ۷۷ سال ، حضرت قاضی کرم الہی صاحب کے چھوٹے بھائی اور قاضی محمد اسلم صاحب ایم.اے امالی پرنسپل تعلیم الاسلام کا لج ربوہ) کے چچا تھتے ہے ۴.حضرت شیخ میاں فقیر علی صاحب بر اور حضرت حافظ حامد علی صاحب بھتہ غلام نبی.ر وفات ۴۷ رامان / مارچ برش بعمر نوے سال ) قدیم صحابہ میں سے تھے.پہلی بار آپ انہ کے سالانہ جلسہ پر شامل ہوئے اور حضرت مسیح موعود بار سے منہ ☑ عليه الصلوة والسلام نے حاضرین جلسہ کی فہرست میں آپ کا نام ۱۵۶ نمبر پر درج فرمایا اس کے علاوہ جلسہ احباب ( منعقده ۲۰ تا ۲۲ جون عشائر) میں بھی آپ کی شرکت ثابت ہے ہے آپ تھہ غلام نبی میں فوت ہوئے.اور موضع بازید جنگ میں دفن کئے گئے بلے الله - ۲ به مہر اروڑا صاحب سیالکوٹ ( وفات ۲ شہادت / اپریل پر بیش بعمر ننانوے سال ہے حضرت مادر عبد الرؤف صاحب بھیروی ( تاریخ پیدائش اپریل حمله، بیعت : خدایه ، دفات و ل كتابة وَإِذَ الصُّحُفُ نُشرت صفحه ۳۳ ۳۴ مرتبه مكرم عبدالعظيم صاحب درویش قادیان مسینجر حدید یک و قادیانی له الفضل ۱۹ رامان / ماریچه میش صفحه 1 ۲۱۹۴۰ ۶۱۹۴۰ } ا کالم • 1 "الفضل" ۱۰ ہجرت مئی میں صفحہ ۲ کالم ۲ : " کے آئینہ کمالات اسلام " صفحه ۶۲۲ : ھے ملاحظہ ہو اشتہار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة و السلام بعنوان فیلمه احباب صفحه ۳۰۷ (روحانی خزائن جلد ۱۳ + نوٹ : تبلیغ رسالت جلد ششم میں جلسہ احباب" کے مہمانوں کی فہرست حدت کر دی گئی ہے : اصحاب احمد بلد سیزدهم صفحه ۸۸ (مؤلفه ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے : " که " الفضل" هر شہادت / یل ۱۹ ساله مش صفحه ۱ : شه " الفضل " ۱۲ ہجرت / مئی الہ ہیں صفحہ ۲ کالم را
LAY مئی ماہ سے لے کر دسمبر سنتر تک مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان میں مدرس رہے.نالہ وسنشائر میں پہلے خانصاحب عجب خاں صاحب تحصیلدار کے ہاں اور پھر حضرت سید ناصر شاہ صاحب کے ہار قیام کیا.میں واپس قادیان تشریف لے آئے.شیر کے آغاز سے پھر تعلیم الاسلام سکول کی خدمت پر بطور کلر کرو اور بالآخر ہیڈ کلرک بن کر ۲۷ نومبر ۹ہ کو پنشن یاب ہوئے لیے -A ابوالکمل حضرت مولوی امام الدین صاحب گجراتی (ولادت : نومبر شاه ، بیعت وفات : شہادت اپریل ہر مش عمرا کا نوے سال کے ۱۱۹۴ حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے آپ کے انتقال پر لکھا کہ : 21494 حضرت مولانا صاحب ایک جید عالم اور عارف تھے اور حضرت مسیح موعود کی صداقت پر ایک عالمانه و عارفانہ یقین کے ساتھ نہایت پختگی سے قائم تھے.پہلے گولیکی میں رہائش تھی پھر ہجرت کر کے قادیان پہلے آئے اور یہاں متفرق کلاس میں اور اس کے علاوہ بھی مولوی فاضل کلاس اور اس کے اوپر دینیات کی جماعت کے طلباء کو پڑھانے میں مصروف رہتے تھے.با وجود پیرانہ سالی اور ضعیفی کے ہر نماز با جماعت ادا کرتے اور باقاعدگی سے تہجد پڑھتے.آپ صاحب کشف و الہامات تھے سے چوہدری نواب خاں صاحب آن گھٹیالیاں (ضلع سیالکوٹ) (وفات : ۱۲ شهادت / اپریل بر ا لله مش الله - چوہدری محمد اسماعیل خان صاحب نمبر دار و صدر جماعت احمدیہ بگول ضلع گورداسپور (بیعت باد ، وفات ۲۳ شہادت اپریل سال پیش) احمدیت کے شیدائی اور نہایت عابد و زاہد انسان ! جن کی تبلیغ سے بگول ، پھیر و چیچی ، گھوڑ یواہ ، شیں بھٹی ، جلال پور اور بھٹیاں میں کئی لوگوں نے احمدیت قبول کی.پروفیسر ناصر الدین عبد اللہ وید بھوشن مزید تفصیل حضرت ماسٹر عبد الرؤف صاحب کا مضمون مطبوعہ الحکم ۱۷ ۱۲۱ اپریل ۳۷ اور میں ملاحظہ ہوں ن "افضل" ۱۶ شهادت / اپریل پیش صفحه ۲ کالم ما به ه " الفضل ۲۰ شہادت / اپریل انه مش صفحه ۲ کالم : تفصیلی حالات کے لئے ملاحظہ ہو " الفضل " ۱۳۱۹ 1 ہیں " ار شهادت را پریل به بیش صفحه ۴ تا ۶ ، نیز" الفضل " و در نبوت / نومبر همایش صفحه ۴ کالم ۳ - ۰۲ شه " الفضل " - از هجرت التی به بیش صفحه ۲ کالم ۱-۲ : 14M
کا رویہ تیر تھے پروفیسر جامعہ احمدیہ کے والد کے اوائل عمر میں کڑر عیسائی ہو گئے تھے بلکہ اسلام کے خلاف دو کتابیں بھی لکھیں.حتی کہ اپنے بیٹے (ناصرالدین عبداللہ صاحب) کو میشن کالج میں تعلیم ولا کر عیسائیت کا مناد بنانے کا مصمم ارادہ کر چکے تھے.چوہدری محمد اسماعیل صاحب کو پتہ چلا تو آپ ناصر الدین عبداللہ صاحب کو جو تیری پاس کر چکے تھے ، قادیان سے گئے.اگلے روز اُن کے والد بھی قادیان پہنچ گئے.جنہیں چودھری صاحب نے اس رنگ میں تبلیغ کی کہ وہ عیسائیت چھوڑ کر پر جوش احمدی ہو گئے.چودھری صاحب موصوف کو تبلیغ کا گویا ایک جنون ساتھا.آپ جس افسر کے پاس تشریف لے بھاتے ، سرکار کا کام کرنے کے بعد اُسے ضرور حق کا پیغام پہنچاتے تھے.لہ سردار محمد علی صاحب ساکن جوڑهہ کرنا نہ ضلع گجرات (مولوی ابوالمنیر نور الحق صاحب کے دادا جان کے بھائی تاریخ بیعت : ۲۱ ر اپریل کنشکنه ، وفات : ۲۵ / امان / مارچ سے اللہ ہیں.آپ ۱۹۰۲ء میں فوج میں بطور ۶۱۹۴۰ ورزی نفیس میٹر چھاؤنی میں لازم تھے توکچھ عصر کو نہ پہاڑ پر آپ حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین ما رحم کے ساتھ اکٹھا رہنے واقعہ ملا اور انہی کی بدولت آپ نے احدیت قبول کی.آپ امت کی ہر تحریک کے چندہ میں قلعہ جمعہ لیا کرتے تھے چنانچہ آپکے نام منارہ اسیح پر بھی کندہ ہے.آپ نوصی تھے.آپ کی وصیت کا نمبر ہے.آپ کی نعش بعض وجوہات کی بنا پر قادیان کوئی جاسکی اور آپ کو اپنے گاؤں کے قبرستان میں بطور امانت دفن کر دیا گیا.بہشتی مقبرہ قادیان میں آپکی یاد گار کتب ۳ ۴۲ نمبر کے تحت نصب ہے.آپ مورخہ یکم اگست ۱۹۲۱ء کو فیشن حاصل کر کے اپنے وطن آگئے اور تا وفات وہیں رہے.آپکے گھر کے سامنے ایک مسجد ہے شروع میں ایک دن ظہر کے وقت آپ اس مسجد میں تشریف لے گئے تو ایک مخالف نے اُن سے پانی کا لوٹا چھین لیا اور کہا کہ تم کافر جو اس مسجد سے چلے جاؤ چنانچہ اس کے بعد آپ اپنے مکان ہی پر نماز ادا کرنے لگے پیش پر آنے کے بعد آپ اٹھارہ سال زندہ رہے.اس عرصہ میں آپ ہر روز بلانا تحرصبح کی نماز کے بعد دو گھنٹہ تک اپنے دروازہ کے سامنے کھڑے ہو کر بند آواز میں احمدیت کی تبلیغ کیا کرتے تھے حالانکہ آپ عمر رسیدہ تھے اور قصبہ کے تمام لوگ مخالف تھے.آپ کے مکان ہی پر دوسرے احمدی اکٹھے ہو کر نماز پڑھتے اور جمعہ کی نماز ادا کرتے تھے.وقت کے وقت عمرہ کے سال تھی.اد چودھری محمد شفیع صاحب بی.اے بی ٹی ہیڈ ماسٹر گورنمنٹ ہائی سکول بھیرہ.بیعت وفات مواد ۱۳ حاجی احمد الدین صاحب محله ناصر آباد.قادیان ( وفات : احسان ارجون ) ۱۳ حضرت حافظ قاری غلام نبیین صاحب (بیعت : ۶۱۸۹۷ ، وفات: ۲۲ وفا / جولائی تعمیر ۷ سال ہے ۱۲۱۹ ش) ۱۳۱۹ من + له الفضل لم اجرت ارمنی به این صفحه را کالم ۱-۲- له الفضل در هجرت اسی ریش صفحه ۲ کالم ۳.190 " 191 14 ۲۳ اختار جیون به ده مش صفحه ۲ کالم ۳ : " صفر : ۶۱۹۴۰ ۲۵ وفا جولائی یہ ہی صفحہ ۲ کالم 1 * +
IAA -۱- حضرت میاں معراجدین صاحب عمر d ربیعت : ۱۶ جولائی شاه ، وفات : ۲۸ وفا / جولائی برای پیش بعمر ۷۵ سال ہے مؤلف " لاہور تاریخ احمدیت کی تحقیق کے مطابق شہر لاہور کے اصل باشندوں میں سے حضرت میاں چراغ دین صاحب دیکھیں لاہور کے خاندان نے سب سے پہلے احمدیت قبول کی اور اس خاندان میں جو بزرگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قدموں میں سب سے پہلے آئے وہ حضرت میاں معراجدین صاحب عمر تھے جنہیں حضرت مولوی رحیم اللہ صاحب کے فیض تربیت سے شناخت حق کی توفیق ملی بجیسا کہ خود ہی تحریر فرماتے ہیں :- در خاکسار مولوی رحیم اللہ مرحوم کے حق میں دعا کرتا ہے کہ ان کی صحبت اور تربیت کے طفیل مجھے اس امام سے اس وقت میں بیعت کا شرف نصیب ہوا جبکہ آپ نے ابھی دعوئی کا اعلان کیا تھا اور اس وقت میری عمر بھی بہت تھوڑی تھی بیجت کے قدیم ریکارڈ سے تو یہانتک ثابت ہے کہ آپ حضرت مولوی رحیم اللہ صاحب سے بھی قریباً ڈیڑھ ماہ پہلے حلقہ بگوش احمدیت ہوئے.بچنا نچہ اس ریکارڈ میں جہاں آپ کی تاریخ بیعت ۱۶ جولائی املہ درج ہے وہاں حضرت مولوی رحیم اللہ صاحب کی بیعت کا دن ۳۰ اگست شاہ لکھا ہے.واللہ العلم بالصواب حضرت میاں معراجدین صاحب کی مشہور تالیفات و مطبوعات یہ ہیں :- (1) صداقت مریمیه (۲) واقعہ صلیب کے چشمدید حالات (۳) تقویم عمری (۱۷۸۳ سے ۱۹۰۷ ء تک ، ایک سو پچیس سال کی جنتری ) له " الفصل» ۳۰ وفا/ جولائی راہ پیش صفحه ۲ : ኦሪ له " لاہور تاریخ احمدیت ، صفحہ ، مولفہ مولانا شیخ عبد القادر صاحبت فاضل (سابق سوداگرمل، طابع و ناشر شیخ عبد الشکور صاحب مسجد احمدیه بیرون دہلی دروازہ لاہور (سال مکان نمبر گلی نمبر ۲ سلطان پورہ جناح پارک نا ہو) سے محضرت مسیح موعود مرزا اسلام احمد قادیانی علیہ السلام مولف براہین احمدیہ کے مختصر حالات مشموله براین احمدیه بار چهارم مسفحه مشابه لاہور تاریخ احمدیت " صفحہ 91 پر آپ کی بیعت کا یہ اندازہ درج ہے کہ آپ نے حضرت میاں عبد العزیز صاحب مغل سے آٹھ دن پہلے کی تھی مگر یہ صحیح نہیں ہے وجہ یہ کہ حضرت میاں عبد العزیز صاحب مغل کی تاریخ بیعت ار جنوری سنہ ہے (ملاحظہ ہو بیعت کا قدیم (جبر) ه
1A9 علاوہ ازیں آپ نے اپریل ۱۹۰۶ء میں اپنے مطبع بدر لاہور سے براہین احمدیہ کے پہلے چار حصے شائع کئے اور حصہ اولیٰ کے شروع میں اپنے قلم سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسّلام کی سوانح عمری بھی لکھی جو اٹھانوے صفحات پرمشتمل تھی.۲۱ مارچ ۱۹۰۵لہ کو اختبار" "بدر" کے مالک و مدیر حضرت بابو محمد افضل صاحب انتقال فرما گئے.تو اخبار حضرت میاں معراجدین صاحب عمر نے خرید لیا جو آپ کے زیر انتظام "بدر" کے نام سے سر تک برابر جاری رہا اور سلسلہ کی نہایت مخلصانہ خدمات انجام دیتا رہا.-۱۵ - حاجی میران بخش صاحب قریشی محله فلوت انباله شهر ابعت: ۶۱۹۰۴ ، وفات : ظهور اگست به همش نہایت نیک طینت اور خوش اخلاق بزرگ تھے.جماعت کی ہر تحریک میں حصہ لیتے تھے تبلیغ احمدیت کا بہت شوق تھا.مسجد احمدیہ انبالہ جس کی زمین بابو عبد الرحمن صاحب امیر جماعت احمدیہ انبالہ نے دی تھی آپ ہی کی زیر نگرانی تعمیر ہوئی.ظهور /اگست پیش کی درمیانی شب آپ اور آپ کی اہلیہ صاحبہ نہایت سفاکانہ رنگ میں شہید کر دیئے گئے.ملک محمد مستقیم صاحب وکیل نے "الفضل ۲۰ اگست پیش میں اس المناک واقعہ کی تفصیل حسب ذیل الفاظ میں شائع کی :- مور ۱۴٫۱۳ اگست کی درمیانی شب کے گیارہ بجے جبکہ آپ اور آپ کی اہلیہ اپنے مکان میں سوئے ہوئے تھے.آپ پر قاتلانہ حملہ ہوا.پہلے حاجی صاحب مرحوم پہ قاتلوں نے تیز چاقو سے حملہ کیا اور پسلی کے قریب ایک گہرا زخم لگایا.جس پر حاجی صاحب فوراً ہی جان بحق ہو گئے.اِتا لله وإنا إليه را تعون.اس ہیبت ناک واقعہ کو دیکھ کر ان کی اہلیہ کی آنکھ کھلی اور وہ شور مچا کر مدد حاصل کرنے کے لئے چھت پر پڑھنے لگی کہ سنگدل قاتلوں نے مرحومہ کو سیڑھیوں سے نیچے گرا لیا اور ایک دو وار میں ہی کام ختم کر دیا.چھوٹی بچی بعمر دس ماہ ان کی گود میں تھی.وہ اُن کے نیچے دب گئی اور ان کی لاش تڑپ کر ٹھنڈی ہو گئی.بوقت ملاحظہ..اُن کے جسم پر گہرے نہ خم آئے تھے اور جسم خون میں تر تھا.انا للہ و إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون - نه په مسجد محلہ پختہ باغ کے چوک میں واقع تھی :
14- یہ سنسنی خیز خبر ہوا کی طرح شہر میں پھیل گئی اور صبح تک مردوں اور عورتوں کا تانتا لگ گیا.پولیس آگئی اور تفتیش شروع ہوئی.لاشوں کو پوسٹ مارٹم کے لئے سول ہسپتال بھیجا گیا اور واپسی پھر جماعت احمدیہ نے ان لاشوں کا مطالبہ کیا.مگر ان کے نام نہاد رشتہ داروں نے کہا.کہ یا تو فاحی صاحب اور ان کی بیوی کی لاش کو فوراً قادیان لے جاؤ.ورنہ ہم ان کو بکس میں بطور امانت ودفن نہیں کرنے دیں گے.مقامی پولیس نے بھی جماعت احمدیہ کی مدد نہ کی بچنا نچہ مرحوم و مرحومہ کی لاشوں کو بلا کس کے ہی سپرد خاک کر دیا " ہے -۱۶ میاں سندھی شاہ صاحب ساکن بینگه ( تحصیل نوانشهر د و آبه مضلع جالندهر) -16 -IA روفات : ۱۹ر ظهور / اگست به بش بعمر ۷۵ سال کے 1900 حکیم غلام محمد صاحب قبولہ ضلع منتشگری که چودھری فضل الدین صاحب بیٹواری سیکھواں ضلع گورداسپوری ۱۹- رعایت اللہ صاحب بھونچال کلاں ضلع جہلم شے ۲۰- حضرت میاں اللہ بخش صاحب بنه دار متوطن بزدار تحصیل سنگھڑ ضلع ڈیرہ غازی خاں.روفات : ۷ تبوک استمبر مش بعمر قریباً ستر سال ) ڈیرہ غازی خان کے علاقہ میں سب سے پہلے تلہ میں حضرت مولوی محمد ابو الحسن صاحب نے قبولِ احمدیت اور صحابیت کا شرف پایا.حضرت مولوی صاحب کی تبلیغ و تحریک پر جن لوگوں کو شناخت حق کی توفیق ملی.ان میں پستی بزدار کے حضرت مولوی جند وڈا صاحب اور حضرت میاں اللہ بخش صاحب بھی تھے.یہ دونوں بزرگ پہلے تحریری بیعت کے چھ ماہ یا زیادہ سے ایک سال بعد حضرت مسیح موعود کی زیارت کے شوق میں بزدار سے پا پیادہ چل دیئے پہلے موضع کالہ (ضلع ڈیرہ غازیخان میں پہنچے جہاں مولوی ہوت خاں صاحب احمدی مدرس تھے." الفصل ۲۰ ظهور را گسست همایش صفحه ۶ کالم ۴۰۳ مه ۱۹۴۰ صفحه ۲ کالم 1.در تبوک معتبر کلیه بیش صفحه ۲ کالم ۵۲ 4 " ۰۱ $ نے ان کی بیعت کا ذکر الحکم ۲۴ اگست ست در صفحه ۱۶ کالم مز میں موجود ہے ،
۱۹۱ پھر وہاں سے پیدل چل کر ملتان آئے.میاں محمد بخش صاحب احمدی چھاپ کر کے ہاں رات بسر کی.زاد راہ کم تھا اس لئے صرف ملتان سے لاہور تک گاڑی میں سفر کیا اور پھر پیدل سفر کرتے اور تکلیف اُٹھاتے پروانہ وا قادیان پہنچے.صبح کی نماز کے وقت حضرت اقدس مسیح زماں مہندی دوراں تشریف لائے حضرت مولوی جنڈا مرحوم نے اپنے رویاء کی بناء پر حضور کو پہچان لیا.حضرت میاں اللہ بخش صاحب فرمایا کرتے تھے.میں نے چہرہ مبارک کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا تو دل باغ باغ ہو گیا.دیکھنے سے دل کی سیری نہ ہوتی تھی.چاہتے تھے کہ دنیا و مافیہا کو چھوڑ کر آپ کا دیدار کرتے رہیں.حضرت اقدس نماز کے بعد تھوڑی دیر تک مسجد میں جلوہ افروز رہے.پھر اندرون خانہ تشریف لے گئے ہم نے بیعت کی درخواست کی.فرمایا کچھ دن ٹھہرو - ہم شنبہ یعنی سنیچر کے دن دارالامان بوقت شام پہنچے.اور جمعہ پڑھ کر واپس لوٹے.گویا ہمارا قیام دارالامان میں صرف سات دن رہا.جمعہ کے دن ہم دونوں نے بیعت کی.کچھ اور آدمیوں نے بھی بیعت کی اور ہم واپس لوٹے.حضرت اقدس نے ہمارے لئے دعا فرمائی حضرت مولوی نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ سے جب ہم رخصت ہونے لگے تو آپ نے بھی دُعا ہمارے وطن کے حالات بھی دریافت فرمائے اور نہایت ہمدردی سے پیش فرمائی.آئے.ہم جمعہ پڑھ کر واپس روانہ ہوئے.جب ہم دارالامان سے واپس آگئے تو ہماری سخت مخالفت شروع ہو گئی.مولوی چند وڈا صاحب بچوں کو قرآن مجید پڑھاتے تھے.بچوں کو اُن سے پڑھانا بند کر دیا.اُن کی جو خدمت کرتے تھے اس سے ہاتھ اٹھا لیا.اُن کا اس کے سوا کوئی ذریعہ معاش نہ تھا.مگر اس متوکل انسان نے اس کی کوئی پروانہ کی میرے رشتہ داروں نے قطع تعلق کر لیا.ہر طرح سنایا اور میں اکیلا رہ گیا.چھ سات سال بعد شیر محمد خان نمبردار جو ہماری برادری کے معزز فرد تھے.حضرت خلیفہ اول کے زمانہ خلافت میں شامل احمدیت ہو گئے.پھر میرے خُسر نے بیعت کرلی اور آہستہ آہستہ ایک اچھی جماعت بستی بزدار میں قائم ہو گئی ہے حضرت میابی اللہ بخش صاحب کو حدیث شریف پڑھنے اور سننے کا از حد شوق تھا.قرآن وحدیث یا سید نا المسيح الموعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب کا مطالعہ کرتے تو آپ کی آنکھیں پھر تم ہو جائیں.نمازیں ۱۳۲۱ حکم ۲۸ ہجرت امنی بس مش صفحه ۱۹-۲۰ ، " الحكم " ۷ - ۲۸ احسان ابون مایش صفحه میں آپ کے مفصل حالات شائع ہو چکے ہیں ؟
۱۹۲ خشوع و خضوع سے ادا فرماتے اور نماز تہجد میں رقت و سوز کا عجیب رنگ پایا جاتا تھا.صاحب رویا تھے.۳۱ محمد یحیی خان صاحب کارکن دفتر پرائیویٹ سکرٹری.ر ولادت : ۱۸ جوان ۹مله وفات : ۱۲۱ تبوک استمبر میشه حضرت حکیم مولوی محمد انوار حسین خانصاحب ساکن شاه آباد ضلع ہردوئی کے فرزند ۱۸۹۴ء میں پیدا ہوئے اور شاہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی زیارت سے فیض یاب ہوئے.آپ قادیان میں اپنی پہلی آمد کا ذکر ان لفظوں میں فرماتے ہیں :." میں میرے بڑے بھائی عبد الغفار خاں کو تعلیم کی غرض سے دارالامان بھیجا.اور اس کے بعد شاہ میں جب بڑے بھائی صاحب گرمی کی رخصتیں ختم کرنے کے بعد واپس آنے لگے مجھے بھی بھیج دیا.اور اس کے بعد میرے منجھلے بھائی عبدالستار خان کو.مکی جب قادیان آیا اس وقت میری عمر دس سال کی تھی اور بورڈران میں سب سے چھوٹا تھا.والد صاحب مرحوم جب کبھی قادیان آتے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اطلاع ہوتی تو حضور حافظ حامد علی صاحب مرحوم کو بھیج کو بلوالیتے.میں بھی والد صاحب کے ہمراہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوتا.ان دنوں اکثر حضور مسجد مبارک کی بغلی کوٹھڑی جہاں ام المومنین ایک یا اللہ کا راستہ ہے یا مسجد میں ملاقات فرمایا کرتے تھے اور وہاں کے علماء اور اعزا کی مخالفت کا حال دریافت فرماتے رہتے “ کی ، حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے ایک مکتوب سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ خلافت ثانیہ کے اوائل میں ایک احمدیہ ایجینسی" قائم ہوئی تھی جس کے کام کو وسیع کرنے نیز ایک اور تجارتی کام کے لئے حضور ا نہیں قادیان بگوانا چاہتے تھے.مگر اس مکتوب سے یہ ظاہر ہے کہ فی الحال وہ تجاویہ عملی صورت اختیار کرنے سے رہ گئیں.تاہم اس کے جلد بعد بنی حضور نے انہیں یاد فرمایا اور وہ حضور کے دفتر میں بعض خصوصی خدمات ه " الفضل ۲۴ تبوک /ستمبر مر را به مبش صفحه ۲ کالم ۱.+1 له ۳۱۳ اصحاب کی فہرست میں آپ کا نام نامی ۵۲ نمبر پر درج ہے.رجسٹر " روایات صحابہ جلد ۳ صفحه ۱۳۴ * که جبر و روایات صحابه مبله ۳ صفحه ۱۳۵ + ہے اس خط کا بچہ یہ اگلے صفحہ پر دیا گیا ہے :
١٩٣ عزیز کردم السلام علیکم.آپکے دونوں فطر سے ہو جہ سفر کے کھو اب نہیں لکھ گا.میں نے آپکو اس لیے خط لکھا تھا کہ اللہ یہ ایجنسی کے لیے تجویز تھی کہ ایجنٹ مقرر کرکے گالی متر ویسے کیا جائے کی پیا تا تھا کہ اگر مہینے تو آئینو ی یہاں بوالوں - ایک اور کام بھی تھا جوکے متعلق امید تھی کہ جلد شروع ہو جائیگا.جو کہ ان کی ایک دفعہ کی فتنوں کے اچھے معلوم ہوا تھا کہ آپکو تجارت ہے دلجس سے میں نے آپکو خط لکھ دیا لیکن فی الحال وہ تجاویز علی صورت اختیار کرنے کے رہ گئیں اور ہم اپنے جب پھر توجد موامی آپکو لکھوں گا.موقعه لکھونگاه مجھتا ہوں آپ اس نکاح کو اچھی طرح کر سکتے ہیں والله میس المنانه گی یاری کے کیا ہونے کی.افسوس ہوا الدہ امی نے انکو شفا طائرات امرسب خیریت شده و اسلام تاجر ا حصہ
بجالانے لگے حضرت امیر المومنین کی ذاتی لائیبریری کا انتظام ، ڈاک کے ضروری کاغذات اور اخبارات کے تراشوں کی حفاظت حضور کے سفروں کے انتظامات اور بعض دوسرے اہم فرائض آپ کے سپرد ہوتے تھے.آپ کا شمار حضرت خلیفہ ثانی کے خاص خدام میں ہوتا تھا ہو خلیفہ وقت سے غایت درجہ ادب و احترام کے ساتھ ساتھ نہایت بے تکلفی سے گفتگو کر سکتے تھے اور مجالس کی رونق ہوتے تھے آپ نہایت خوبصورت، وجیہ تشکیل ، با ذوق ، زندہ دل اور غایت درجہ مستعد اور فرض شناس بزرگ تھے.۲۳- حضرت حافظ عبدالرحمن صاحب بھیروی ( والد ماجد مکرم حافظ مبارک احمد صاحب سابق پروفیسر جامعہ احمدیہ ) د وفات : ۲۳ تبوک استمبر بارش ہے ۲۳ نواب خان صاحب ساکن پیرانہ تحصیل پنڈی گھیپ ضلع کیمبلپور fz Pr Pr P تے روفات : ۲ فتح / دسمه ر له ش له بقول حضرت مفتی محمد صادق صاحب ایک درویش صفت عاشقانہ رنگ کے آبادی تھے سکے حضرت مولوی شیر علی صاحب نے ان کی وفات پر لکھا :.مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے ایک مخلص صحابی تھے.سلسلہ اور مرکز سلسلہ قادیان سے از حد محبت اور عقیدت رکھتے تھے.باوجود اپنی غربت اور افلاس کے اخلاص کے ساتھ سال میں ایک دفعہ اور بعض اوقات دو دفعہ ضرور قادیان آتے تھے.اپنے دور دراز وطن سے اکثر پیدل ہی قادیان آتے.اور پیدل ہی اپنے وطن واپس جاتے تھے.کئی دفعہ اپنے بچوں کو بھی ہمراہ لاتے تا کہ اپنے ساتھ اپنے بچوں کو بھی قادیان کی مقدس بستی اور سلسلہ کے ساتھ اخلاص میں ثابت قدم رکھیں.مخالفوں میں بھی صداقت کا اظہار کرنے سے کبھی نہ پڑ سکتے تھے.ان کے لڑکے نے اطلاع دی ہے کہ انہوں نے وفات کے وقت شروع کی حالت میں بھری مجلس میں جو کہ غیر احمدیوں کی تھی فرمایا کہ " تم سب گواہ رہو کہ میں احمدی ہوں " یہ ان کے آخری الفاظ تھے “ کے عراق الفضل ۲۴ تبوک استمبر بار برش صفحه ۲ کالم ۱ * ۱۲ فتح دسمبر با سایر مش صفحه ۲ کالم ۴ + ۲۶ ملح اجنوری سنت سه بیش صفحه ۵ کالم ۰۳ یش ۶ + ار صلح جنوری سنه مش صفحه 4
۱۹۵ ۲۴- حضرت مولوی فخرالدین صاحب آفت گھر گھیاٹ - میانی رضلع شاہ پور (والد ماجد مون تامر یعقوب صاحب فاضل خاہر انچارج شعبہ زود نویسی ) ربیت ولادت قریباً : شاهه وفات ۱۰ر نبوت / نومبر اش بعد ۵۹ سال) پنشن لینے کے بعد قادیان میں ہجرت کر کے آگئے تھے.تین سال نظارت بیت المال میں ناظر صاحب کے پرسنل اسسٹنٹ کے طور پر کام کرتے رہے.کچھ عرصہ نظارت دعوت و تبلیغ میں بھی کام کیا اور چھ ساتیک سیکرٹری امامت فنڈ تحریک جدید کے فرائض انجام دیئے.علاوہ ازیں حضرت خلیفہ المسیح الثانی اور حضور کے برادران عالی مقام کے مختار عام بھی رہے میلہ ۲۵- میاں مولا بخش صاحب بنگری روفات ۲۱ نبوت / نومبر به پیش است ۲۶.بابو غلام نبی صاحب ریٹائر ڈ انجینیئر ساکن ہریانہ ضلع ہوشیار پور وفات : ۱۲ فتح / دسمبر بارش ) ۲۷ میاں محمد صاحب مکی متوطن چمکنی ضلع پشاور ۶۱۹۴۰ ربیعت : ۶۱۹۰۱ وفات : ۱۴ فتح / دسمبر ریش بعمر هانه سال ) آپ ایک عالم ، محمدہ شاعر اور با خبر بزرگ تھے.اگرچہ ، میں اختلاف سلسلہ کے دوران غیر مبالعین کا ساتھ دیا مگر وفات سے قبل دوبارہ خلافت سے وابستہ ہو گئے کہ ۳۸- شیخ عطا محمد صاحب سیالکوٹی د ڈاکٹر سر محمد اقبال کے بڑے بھائی اور شیخ اعجاز احمد صاحب کے والد بزرگوار) " ر وفات : فتح دسمبر به ش) ه " الفضل ۱۲ نبوت / نومبر به الا الله مش صفحه ۲ کالم 1 : ۲۸ " صفحه با کالم د صلح اجنوری سه مش صفر ۲ کالم د لوگو ۱۹۴۰ ہے هار فتح / دسمبر له میش صفحه ۲ کان ۱ و شیخ خلط محمد صاحب نے تین بیٹے اپنی یادگار چھوڑے.نما ۲۵ (1) شیخ اعجاز احمد صاحب (۳) شیخ امتیاز احمد صاحب (۳) شیخ مختار احمد صاحب
149 ۱۳۱۹ فصل نهم ہ کے بعض متفرق مگر اہم واقعات میں کی ا صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کے ہاں ۲۱ صلح جنوری خاندان سے موعود میں خوشی کی تقاریب یی که اجرای اعد القداس پیدا ہوئی ہے صاحبزادی امتہ ۲ ۲۲ رامان / مارچ نہش کو سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ہونے مسجد نور میں اپنی صاحبزادی امتہ الرشید ۶۱۹۴۰ بیگم صاحبہ کا نکاح میاں عبدالرحیم احمد صاحب بھاگلپوری ( ابن مولوی علی احمد صاحب ایم.اے) سے ایک ہزار مہر ہے اور اپنی دوسری صاحبزادی امتہ العزیز بیگم صاحبہ کا نکاح مرزا حمید احمد صاحب (خلف الرشید حضرت صاحبزادہ میرزا بشیر احمد صاحب) کے ساتھ ایک ہزارہ روپیہ مہر پر پڑھا سکتے ر شہادت / اپریل یا اللہ ہی کو مرزا ظفر احمد صاحب بی.اے کی تقریب شادی منعقد ہوئی شے خان مسعود احمد خاں صاحب بی.اے کی شادی ۱۷ شہادت / اپریل ہر نہش کو ہوئی ہے ۵ - حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب زایده الله تعالے، کے ہاں ۲۶ شہادت / اپریں ہمیش کو صاحبزادی امتہ الشکور صاحبہ کی ولادت ہوئی.فتح دسمبر اہلیہ بش کوبعد نماز عصر حضرت میر محمد اسحق صاحب کی صاحبزادی سیدہ بیگم صاحبہ کی تقریب رخصتانہ عمل میں آئی.اس تقریب پر حضرت میر محمد اسحق صاحب نے ایک مفصل مضمون پڑھا جیں میں ازدواجی تعلقات کے متعلق اسلام کی تعلیم پیش کی اور میاں بیوی کے حقوق بیان کئے.آخر میں حضرت ل الفضل " ۱۲۵ صلح / جنوری به بیش صفحه ۲ کالم :: 1714 ۲۱۹۴۰ ے پہلے آپ کا نام عبد الراب تھا جو حضرت خلیفہ ثانی ہونے ایک روبار کی بنار بچہ بدل دیا اور یہ نیا نام رکھا الفصل ۲۴ / امان / ماریخ لسه مش صفحه ) ( 21 " الفضل " ۲۴ امان ماریه مش صفحه ا کالم ۲ ۲۱۹۴۰ MA " الفضل" ٣ار شہادت اپریل ساده میشن : الفضل وار 4 4 الفضل ٢٨
196 لیفہ مسیح الثانی نے مختصر سی تقریر فرمائی اور رشتہ کے بابرکت ہونے کے لئے مجمیع سمیت دعا کی سلے اگلے دن شام کو ملک عمر علی صاحب بی.اے نے اپنی کو بھی واقع دارالا نوار میں وسیع پیمانہ پر دعوت ولیمه دی بسید نا حضرت امیر المومنین نے بھی شرکت فرمائی اور دعا کی یہ اناطولیہ (ترکی میں ہولناک زلزلہ ایشیائے کوچک ( ASIA MINOR ) میں اناطولیہ کے MINOR) میں نام سے ایک جزیرہ نما ہے جو آرمینیا اور کردستان کی سطح اور جماعت احمدیہ مرتفع کے مغرب ، بحیرہ اسود کے جنوب اور شام و لبنان کے شمال میں مشہور مسلمان ملک ترکی کے معدود سلطنت میں واقع ہے.۲۷-۲۶ دسمبر ۶ہ کی درمیانی رات کو اس خطہ میں ایک ہولناک زلزلہ آیا جس کے شدید جھٹکے صلح جنوری به پیش تک محسوس ہوتے رہے.ترکی وزارت داخلہ کے بیان کے مطابق قریباً ۴۵ ہزارہ نفوس زخمی اور تیس ہزار کے قریب لقمہ اجل ہو گئے.ضلع ارزنجان کی کل آبادی ۶۵ ہزار تھی جس میں سے ۳۰ فیصدی ہلاک اور ۲۰ فیصدی مجروح ہوئے.۱۶ صوبائی شہر اور ۹۰ دیہات پیوند زمین ہوئے اور ساتھ ہزار مربع میل کا علاقہ زلزلہ کی تباہ کاری سے ہسپتال اور قبرستان کا منظر پیش کرنے لگا.اس آفت ناگہانی کے علاوہ تریکی کا وسیع علاقہ سیلاب کی زد میں آگیا.خصوصاً سمرنا ، بروسا اور اڈریا نویل کے اضلاع میں بے شمار انسان اور مویشی بہہ گئے اور جو لوگ زلزلہ سے بچ گئے وہ بے خانماں ہو کہ ادھر ادھر مارے مارے پھرنے لگے اور نا قابل برداشت سردی اور برفباری کرنے لگے.ترکی کے طول و عرض میں اس زلزلہ سے کہرام مچ گیا اور صف ماتم بچھ گئی اور خصوصاً عالم اسلام کو اس ہولناک اور قیامت خیز زلزلہ سے شدید صدمہ پہنچا.قادیان میں جب زلزلہ کی یہ ہو شر با خبر پہنچی تو حضر خلیفہ المسیح الثانی رضی کے ارشاد پر سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ناظر امور خارجہ نے صدر جمہوریہ ترکی عصمت انونو کے نام حسب ذیل تار بھیجا :- جماعت احمدیہ اور اس کے امام کو زلزلہ کی مصیبت اور آفت پر سخت صدمہ ہوا.مہربانی فرما کر عمیق ہمدردی کا پیغام ترک قوم اور بالخصوص مصیبت زدگان تک پہنچا دیں مہمدردی کے اس تار کا حجاب جمہوریہ ترکی کی طرف سے سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب فرانسیسی الفضل فتح دسمبر سن و کالم سے " الفضل در فتح را ویرایش صفحه ۰۹۰۸ " الفضل ، ار جنوری صلح ۳۱ میشه ٢١٩٤٠
14A زبان میں موصول ہوا جس کا ترجمہ یہ ہے:." آپ کے ہمدردانہ پیغام سے ہم بہت ہی متاثر ہوئے ہیں اور صدر جمہوریہ ترکیہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اس کے متعلق آپ کا شکریہ ادا کروں.کمال گید ملنگ جنرل سیکرٹری انقره " له مصیبت زدگان ترکی کی حالت زار پر اخبار " الفضل " نے متعدد نوٹ شائع کئے اور حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے خاص ارشاد پہ ناظر بیت المال قادیان نے ستم رسیدہ ترکوں کے لئے امدادی چندہ کی اپیل شائع کی جس میں لکھا :.کسی کی مصیبت میں ہمدردی کرنا ایک عام انسانی جذبہ ہے جس سے کوئی فرد خالی نہیں لیکن سب سے زیادہ اور مناسب اور لازمی طریق پر یہ جذبہ مومنین کی جماعت سے ہی ظاہر ہوتا ہے کیونکہ خدا شناسی کے نور کے باعث شفقت علی خلق اللہ کا رنگ ان پر سب سے زیادہ چڑھا ہوتا ہے.اس وجہ سے مجھے یقین ہے کہ ہر احمدی نس نے زلزلہ کی اس تباہی کا کچھ بھی حال سنا ہے.وہ مصیبت زدگان کے لئے ہمدردی کا جوش اپنے اندر ضرور رکھتا ہوگا.یوں تو بغیر کسی امتیاز مذہب و ملت کے بھی اس قسم کے مصائب و آلام میں اظہار ہمدردی کرنا واجب ہوتا ہے.لیکن جبس سلطنت اور علاقہ میں یہ تباہی آئی ہے وہ چونکہ اسلام سے نسبت رکھتا ہے اس وجہ سے بھی ان لوگوں سے ہماری ہمدردی دوسروں سے زیادہ ہونی چاہیئے.پس حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے ماتحت میں اناطولیہ کے مصیبت زدگان کی امداد کے متعلق اپیل کرتا ہوں کہ ہر احمدی اپنی اپنی حیثیت اور حالات کو مد نظر یہ سستے ہوتے ضرور چندہ دنے اور عہدیداران جماعت ہائے احمدیہ اس کا انتظام کریں کہ تمام احمدی افراد سے ان کی حیثیت کے مطابق چندہ جمع کر کے محاسب صدر المین احمدیہ قادیان کے نام پہ امداد مصیبت زدگان اناطولیہ کی مدمیں بھجوا دیں لیکن اس چندہ کی فراہمی اور ترسیل میں بھلہ کوشش کرنی چاہیے.تا حتی الوسع مرکز سے جماعت کی طرف سے یکجائی کا طور پر ہر وقت مصیبت زدگان کو معتند به رقم امداد کے طور پر بھیجی جا سکے لہ ا الفضل معلم از صلح / جنوری با سایه اش صفحه ۲ کالم ۱." له الفضل ۱۳ صلح / جنوری سیاه میش صفحه ۱+ +
199 حضور کی اس اہم تحریک پر جس قدر رقم جماعت کی طرف سے جمع ہوئی وہ ترکی کے مفلوک الحال باشند دی کی بہبودی کے لئے بھیجوا دی گئی.سناتن دھرم سبھا شام چوراسی - ارتبلیغ شاه پیش مطابق دار فروری سنشاه کو سناتن دهرم سبها شام چوراسی کی طرف ایک مذہبی کا نفرنس منعقد کی گئی جس میں میں ایک احمدی مبلغ کی تق میں ماہر ہی شفیع صاحب ہم نے میا دھرم مجھے کیوں پیارا ہے" اسلم 4 کے مقررہ موضوع پر ایک گھنٹہ تقریر کی.آپ کی تقریر کے بعد سناتن دھرمی پنڈت گوپال مصر صاحب نے کہا کہ " آج سے قبل جن مسلمانوں یا عیسائیوں سے مجھے ملنے کا موقع طاء انہوں نے یہی کہا کہ ہمارے نبی کے بعد خدا کسی سے کلام نہیں کرتا.اور میں یہ کہتا کہ اگر آپ کا خدا کلام نہیں کرتا تو کیا وہ گونگا ہے مگر آج مولوی صاحب کی تقریر سے مجھے اپنا خیال بدلنا پڑا.اور مجھے خوشی ہوئی کہ آج بھی مسلمانو کے اندر ایسے خیال کے لوگ موجود ہیں جو کہتے ہیں کہ خدا بولتا ہے اور اس نے فلاں شخص سے کلام کیا“ کا نفرنس میں ہر مذہب کے لوگ کثیر تعداد میں موجود تھے سب نے احمدی مبلغ کی تقریر پسند کی بیت فرقه ست سنگ رنگا کے مرکز میں تیلی حمایت کلکتہ کے ایک منہ مودی مود شمس ادین صاحب ارتبلیغ فروری با پردیش کو ·190° ہندوؤں کے مشہور فرقہ " ست سنگ کے مرکز میں (جو پنبہ شہر سے تین میل کے فاصلہ پر واقع ہے) گئے.اور فرقہ کے بانی شہری بھٹا کر انو کل چند راجی سے ملاقات کر کے ان تک احمدیت کا پیغام پہنچا یا شمس الدین صاحب نے کلکتہ واپس آکر تھا کر صاحب کے مطالعہ کے لئے ٹیچنگز آف اسلام ، پاره اول مترجم انگریزی اور پیغام صلح ( انگریزی ترجمہ وغیرہ کتب بھی بھجوا دیں سیلان جوابات ر سے پہلا احمدی ہوا باز میاں محمد علیفت صاحب ( ان میاں محمد شریف صاحب ای.اے.سی پنشن جو کچھ عرصہ سے لاہور فلائنگ کلب میں ہوا بازی کی ٹریننگ لے رہے تھے.انہیں شانہ کے شروع میں سرکاری پر بطور ہوا باز منتخب کر لیا گیا.میاں صاحب ہوا باز ہیں.ه " الفضل" ۲۵ تبلیغ / فروری ماه بیش صفحه ۵ کالم ۳ - ۴ ے تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو " فاروق " ۱۴ تبوک ه میش صفحه ۳ - ۰۴ ه " الفصل" ۲۷ تبلیغ فروری همایش صفحه ۲ ۰۲ سے پہلے احمدی
۲۰۰ نوان حیوان پولیس کے ظالم بی ۲ تبلیغ فروری به دی برش کو ٹالہ صدر پولیس نے پولیس سٹیشن میں علاقہ کے چند بد معاشوں کو طلب کیا اور ساتھ ہی مخالفین احمدیت کے ایمار سے و نجواں (تحصیل بٹالہ) کے تین احمدیوں کو بلا کر ان میں سے دو بیکسوں کے ساتھ نہایت وحشیانہ سلوک کیا یعنی ان غریبوں کو منہ کے بل زمین پرلٹا کران کے ہاتھوں پر مضبوط جوان کھڑے کر دیئے اور پھر اُن کو برہنہ کر کے ایک سب انسپکڑنے اُن کی کمر پر گھٹنے ٹیک دیئے اور ایک تو الدار نے دوسرے کی گردن اپنے پاؤں میں رہا لی اور سپاہیوں کو حکم دیا کہ ان کی راتوں اور سرینوں پر جوتے ماریں.پھر بد معاشوں نے ایک ایک طمانچہ پورے زور سے لگایا اور یہ سب کارروائی ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس گورداسپور کی موجودگی میں ہوئی ہے اس تشد و بیجا پر جماعت احمدیہ کے پولیس نے زبر دست احتجاج کیا اور ڈی.آئی جی پولیس پنجاب نے خاص تحقیقات کا حکم دے دیا.احمدی ہوا باز میاں محمد لطیف صاحب ۱۲ر امان مارچ بریش حمدی ہوا باز کی قادیان پر پروانہ کرہ ہورے پرواز کر کے قادیان آئے اور ڈھا کے لئے برت پر پیاں پھینکتے رہے.لو لا چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کے آر میں چودھری سرمحمدظفراللہ خان صاحب وائسرائے ہند کی ایگزیکٹو کونسل کے ممبر کی حیثیت سے ملک و قوم کی شاندار دوبارہ تقریر اور اخبار انقلاب" خدمات بجا ل رہے تھے.آپ کے اس عہدہ کی میعاد ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ ملک معظم نے آپ کا دوبارہ تقریر ایگزیکٹو کونسل وائسرائے ہند کی مہبری کے لئے منظور کر لیا جس پر شمالی ہند کے مشہور سلم اخبار" انقلاب " نے اپنی ۱۴ مارچ نہ کی اشاعت میں لکھا:.مسلمانان پنجاب بجا طور سے اس امر پر فخر کر سکتے ہیں کہ آج تک وائسرائے کی کونسل میں جتنے پنجابی مسلمان محمد مقرر ہوئے ہیں ، انہوں نے اپنی قابلیت ، محنت ، ہوشمندی اور تدبیر کا بہترین ثبوت دیا ہے اور مجالس وضع قوانین سے ہمیشہ تحسین و اعتراف کا خراج حاصل کیا ہے سر محمد شفیع مرحوم اور سر فضل حسین نے حکومت ہند میں اپنی قابلیت کے روشن نقوش چھوڑے سه " فاروق " قادیان ۲۸ تبلیغ فروری ارتش صفحه ۰۸ ل "المسلم" بچے امان/ تاریخ د میش نسخه ۲ کالم او
ہیں اور اب سر محمد ظفر اللہ خاں کا وجود بھی مسلمانان پنجاب کے لئے افتخار اور نیک نامی کا باعث ہے.ہم ان کو توسیع عہدہ پر دلی مبارک باد پیش کرتے ہیں" سے ۲۲ / امان / مارچ به ش کو حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی محلہ دارالانوارکی مسجد کا افتتاح ۶۱۹۴۰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قادیان کے محلہ دارالا نوار کی مسجد کا افتتاح فرمایا اور مغرب و عشاء کی نمازیں اس میں بڑھائیں بیک ملک غلام محمد صاحب قادیان میں ۲۱ شهادت اپریل باد پیش کوملک غلام محمد صاحب جی کنٹرول آف ریلوے سٹور نہ قادیان تشریعیت لائے اور چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کے ہاں قیام پذیر ہوئے اور مرکزی اداروں اور کارخانوں کا معائنہ کرنے کے بعد حضرت امیر المومنین خلیفتہ اسیح الثانی رض کی ملاقات سے بھی مشرف ہوئے.مسٹرو میں کرک لینڈ آف شکاگو جو نیو یارک کے مشہور اخبار نمائندہ اخبار الالف نیو یارک) "لائف" (LIFE) کے نمائندہ تھے.۲ شہادت / اپریل میں کی حضر اقدس سے ملاقات کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رض کی خدمت میں ملاقات کے لئے حاضر ہوئے اور شام کو واپس پہلے گئے ہے هر هجرت مئی مہیش کو حضرت الحاج مولوی عبد الرحیم مسجد احمدیه موسی بنی وہاں کا اتارا صاحب نیر نے مسجد احمدیہ موسی بنی (بہار) کا افتتاح کیا اور سب سے پہلی اذان ( ابوالبشارت) مولوی عبدالغفور صاحب نے دی لے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا.یہ توسیع میعاد کی صورت نہیں تھی بلکہ اسی عہد ہ پانچ سال کے لئے دوبارہ تقریر تھا : انقلاب " لاہور ( ۱۴ مارچ شاه) بحوالہ " الفضل و ارامان / مارچ بر میشه 止 ه الفضل "۲۴ رامان / مارچ یه مش صفحه ا کالم ۱ ، " ۶۱۹۴ شه یہ وہی ملک غلام محمد صاحب ہیں جو قیام پاکستان کے بعد پہلے مرکزی حکومت کے وزیر خزانہ رہے پھر گورنر جنرل کے عہدہ پر ممتاز ہوئے : شه "فاروق" ۲۸ شهادت / اپریل سه مش صفحه ۲+ ن " الفضل" ۲۳ شہادت / اپریل ۱ بیش صفحه ۲ کالم ۱-۲ + ہو 1 شه " الفضل " ۱۲ مئی ہجرت یه میش صفحه ۰۶ یہ مسجد انڈین کا پر کارپوریشن لمیٹڈ کے افسروں ۲۱ - ۶۱۹۴۰ نے کمپنی کے خرچ پر بنوا کر دی تھی +
۲۰۲ للہ میں تیس ہزار طلباء پنجاب یونیورسٹی کے میٹرک ایک احمدی طالب علم کی شاندار کامیابی سے امتحان میں شریک ہوئے جن میں سے بائیں ہزار کے قریب پاس ہوئے جن میں سے جھنگ کے ایک احمدی طالب علم عبد السلام جو چودھری محمد حسین حساب ہیڈ کلرک سررشتہ تعلیم جھنگ کے صاحبزادے ہیں نہ صرف ۷۶۵ نمبر لے کر پنجاب بھر میں اول آئے بلکہ یونیورسٹی کا گذشتہ ریکارڈ توڑ دیا.یہی وہ طالب علم ہیں جو آج پر و فیسر عبد السلام کے نام سے دنیائے سائنس میں عالمگیر شہرت رکھتے ہیں اور صدر مملکت پاکستان کے سائنسی مشیر کی حیثیت سے اہم قومی خدمات بجا ا ا ا ا ا ا نا ہی ہے اس سال است در روی بیل مکانات کا سنگ بنیاد ان کے دست مبارک سے رکھا.لا رہے ہیں.- مکانات کے سنگ بنیلو - مرزا احدبیگ صاحب الم شیس آفیسر ر تاریخ سنگ بنیاد : ۱۲۳ صلح جنوری برای همیشه دامالانوار /.ملک عمر علی صاحب ہی.اسے کھو کھر ٤١٩٤٠ تاریخ سنگ بنیاد : ۳ ہجرت مئی به ش کے دارالانوار ۳- چودھری ابوالہاشم خان صاحب پیش) ر تاریخ سنگ بنیاد : ۳ ہجرت / مئی ریش) وار الانوار.ڈاکٹر احمدی صاحب آن افریقہ 양 تاریخ سنگ بنیاد : بهجرت مٹی ریش دار البرکات ۲ به نالندہ (بنگال) میں بدھوں کی ایک مشہور قدیم بدھوں کے جلسہ میں ایک احمدی کا پیغام احمدیت درس گاہ قائم تھی جس کے نام پر بندوں نے نالندہ ودیا بھون کے نام سے ایک ادارہ جاری کیا.جس میں بدھسٹ علوم کی ہر شارخ ، جین ازم ، زمانی وسطی کی ہندوستانی فلاسفی اور ہندوستان کی قدیم و جدید زبانوں کے مطالعہ کا انتظام کیا یہاں بدھ طلباء " الفضل ۲۱ ہجرت مئی مساله مش صفحه ۲ ، الفضل ۲۳ ہجرت / مئی * 1 "الفضل" ۲۵ ر صلح اجنوری سه مش صفرا کالم ! "الفضل" ۵ ہجرت امنیہ نہیں صفحہ ۲ کالم : ریش + po R : |
۲۰۳ 1719 ۶۱۹۴۰ بنگال کے علاوہ برما اور سیام سے بھی آتے تھے میں میں اچاریہ جگدیش چند را پیر جی ہندو اور ده علوم مشہور سکالمہ اس کے انچارج تھے.اس درسگاہ کے طلبار نے ار وفا جولائی میر پیش کو پھ بجے شام جلسہ کیا جس میں مسٹریدم راج (مشہور ہندو مہا سبھائی لیڈی کی زیر صدارت اچاریہ جگر یش چندر پیٹر جی ، ڈاکٹر کا لید اس ناگ ایم.اے ڈی لٹ اور بعض دوسرے اصحاب کے علاوہ احمدیہ الیسوسی ایشن کلکتہ کے سیکرٹری مولوی دولت احمد خاں صاحب خادم نے بھی تقریب کی جس میں بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رہی تعلیم ہے کہ دنیا میں کوئی ایسی قوم نہیں جس میں کوئی نہ کوئی نبی اور رسول نہ گزرا ہو.اور حضرت بڑھ ، حضرت کرشن ، حضرت زرتشت اور حضرت کنفیوشس تمام اللہ تعالیٰ کے پیغمبر تھے مولوی دولت احمد خان صاحب نے اپنی تقریر میں یہ بھی بتایا کہ حضرت بدھ نے جو اپنی آمد ثانی کی خبر دی تھی وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ظہور سے پوری ہو چکی ہے.نیز آپ نے بدھوں کو احمدیہ لٹریچر کا مطالعہ کرنے کی تحریک کی.ایک اعلی کلاس کے طالب علم نے یہ تقریر سے نکہ اس رائے کا اظہار کیا کہ اسلام کی یہ تشریح میرے لئے ایک انکشاف جدید ہے کیونکہ میں اسلام کو اس سے قبل ایک محدود اور فرقہ وارانہ مذہب خیال کرتا تھا.مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری اس سال مولی کرم الہی صاحب نظر مجاہد تحریک جدید کو کا ایک دلچسپ مشورہ دبئی سے سو میل دور رقبہ مہرولی میں ولی کامل حضرت دہلی قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ کے مزار پر جانے کا اتفاق ہوا جہاں مسلمانوں کی قبر پرستی کا افسوستاک مظاہرہ بچشم خود دیکھا جس کی تفصیل انہوں نے ” الفضل“ ۲۳ ظهور را گسترش میں شائع کر دی جسے مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے اپنے اخبار اہلحدیث مورخہ 4 ستمبر نشہ میں نقل کر کے حسب ذیل دلچسپ نوٹ لکھا :.برادران توحید ! کیا یہ آواز سن کر بھی آپ لوگ بزم توحید قائم کرنے میں غفلت سے کام لیں گے کیا ابھی کچھ اور بھی سننا چاہتے ہیں.میری رائے کو کوئی صاحب غلط نہ ٹھیرائیں تو میں یہ کہنے سے نہیں رک سکتا کہ مسلمان قوم آپس میں تقسیم کار کولے سیاسی مسلمان جن میں مرزائی بھی شامل ہیں.بیشک غیر مسلموں میں اسلام کی اشاعت کریں اور ان کو کلمہ پڑھا کہ مردم شماری کی ه الفضل ظهور/ اگست به بیش صفحه ۲م کالم ۳ *
۲۰۴ حیثیت میں مسلمانوں کی تعداد بڑھاتے جائیں جو ان کی اصلی غرض ہے.مگر اہل توحید اصحاب یہ کام اپنے ذمہ لیں کہ مسلمانوں میں جو رسوم شرکیہ رائج ہو چکی ہیں وہ اُن کی اصلاح پر توجیہ کریں تاکہ وہ لوگ صحیح معنیٰ سے عند اللہ مسلمان ہو جائیں.پس دونوں فریق اپنا اپنا کام کرتے جائیں.ہمارے مشورہ پر عمل کریں تو دونوں اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکتے ہیں “ لے زکیه خانم صاحبه بنت شیخ محمد لطیف صاحب نے گرلز سکول قادیان زکیہ صنعتی سکول قادیان کے نزدیک اپنے سرمایہ سے ایک صنعتی سکول جاری کیا جس کا افتاح حضرت ام المومنین نے ۱۵ تبوک استمبر یہ پیش کو فرمایا.اس موقعہ پر حضرت ام ناصر احمد صاحب ، حضرت +190 ام طاہر احمد ، حضرت ام مظفر احمد صاحب اور صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ بھی موجود تھیں.خاندان مسیح موعود کی خواتین ہی نے نہیں خود حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے بھی سکول کے صنعتی نمونوں کو پسند فرمایا ہے حضرت مولوی محمد دین صاحب سابق ہیڈ ماسٹر چوںکو تیرا کی سکھانے کیلئے تالاب کی تہ ا ا تعلیم الاسلام ہائی سکول کی تحریک اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی مساعی جمیلہ کے نتیجہ میں محلہ دارالعلوم میں بچوں کو تیرا کی سکھانے کے لئے ایک تالاب تعمیر کیا گیا.جس کا افتتاح اراضا / اکتوبر میش کو ہوا.اس تقریب پر تلاوت و نظم کے بعد حضرت مرزا شریف احمد صاحب نے تقریر فرمائی جس میں بتایا کہ " اس کے متعلق سب سے پہلے تحریک مولوی محمد الدین صاحب سابق ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول نے کی تھی اور یہ ضروری سمجھا گیا کہ اس تحریک کو عملی صورت دی جائے مگر اس کے لئے کوئی فنڈ نہ تھا.باوجود اس کے اسے عملی جامہ پہنانے کی کوشش شروع کر دی گئی اور یہ تالاب سکول کے طلباء نے خود کھودا.اس وقت یہ خیال تھا کہ کچا تالاب کام دے بھائے گا.صرف ارد گرد کی دیواریں پختہ کرالی جائیں.لیکن جب تعمیر شروع ہوئی تو بعض دوستوں نے مشورہ دیا کہ جب تک فرش بخند ہ ہو تالاب نہانے کے قابل نہ بنے گا.اس لئے تعمیر کے وقت دیواروں کے ساتھ ہی فرش بھی پختہ تیار کیا گیا.اس وقت اخراجات سپورٹس فنڈ کے چندہ سے اور باقی قرض لے کر پورے اہلحدیث ۲ شعبان المعظم ١٣٥٩ يجرى مطابقة استمبر ١٩٢ : صفحه." الفضل" ۱۵ توک استمبر الله مش صفحه ۲ کالم ۲
۲۰۵ کئے گئے.لیکن پھر جب دیکھا گیا کہ تالاب کے کنارے کچھے ہونے کی وجہ سے مٹی نہانے والوں کے پاؤں کے ساتھ لگ کر تالاب میں جاتی ہے اور ارد گرد روک نہ ہونے کی وجہ سے بعض بیمار بھی نہاتے ہیں جن کی بیماری سے دوسروں کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو سکتا ہے تو کوشش کی گئی کہ تالاب کے ارد گرد بھی پختہ فرش بنا دیا بھائے اور تالاب کے گرد چار دیواری ہو.نیز دوسری ضروریا کے لئے بھی انتظام کیا جائے.ان حالات میں موجودہ صورت میں اُسے تعمیر کیا گیا ہے تاکہ بچے تیرنے کی مفید ورزش کر سکیں اور حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالے تیرا کی کی ورزش کے متعلق جو ارشاد کنی یاد فرما چکے ہیں اس پر عمل کیا جائے.اس تعمیر اور بیچنگ کے انتظام پر چھ ہزار سے کچھ اوپر رقم خرچ ہو چکی ہے جس میں ، ۹۵ روپے صدر انجمن نے دیئے ہیں.کچھ چندہ جمع ہوا.اور باقی قرض ہے.امید ہے کہ تعلیم الاسلام سکول کے اولڈ بوائز اس قرض کی ادائیگی کی طرف توجہ کریں گے.اس موقعہ پر دعا کی بجائے کہ یہ کام با برکت ہو بچوں کی صحت ، ایمان اور سلسلہ کے مفاد کے لئے جو بچے اس میں تیرنا سیکھیں انہیں جسمانی طور پر ہی فائدہ نہ ہو بلکہ وہ دین کی خدمت کرنے کے قابل بھی بن سکیں اور کسی ڈوبتے ہوئے کو بچا سکیں" سے حضرت صاحبزادہ صاحب کے خطاب کے بعد بالترتیب حضرت ملک غلام فرید صاحب ایم.اے، حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب درد ایم.اے حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیال ایم.اے اور حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے تقریریں کیں اور بالآخر حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب نے دعا کرائی.ان تقادیر کے بعد تالاب کا عملی افتتاح اس طرح ہوا کہ حضرت مرزا شریف احمد صاحب ، حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیال حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ، حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اور بعض اور بزرگ تالاب میں تیرتے رہے اور ان کے ساتھ سکول کے بہت سے بچوں نے بھی اس کی مشق کی ۲۰ احضار پر پیش کو دس بجے دن مسجد احمدیہ سرینگر کا سنگ بنیاد مسجد سرینگر کی بنیاد لکھا گیا.اس تقریب پر سر مینگر اور ناسنور کے احباب جماعت موجود تھے.له الفضل ۱۲ را غار / اکتوبرش صفحه 1 صفحها : صفحه ۱-۲+
۲۰۶ سب سے قبل حضرت مسیح موعود کے قدیم صحابی حضرت خلیفہ نورالدین صاحب جمونی نے دعا کرائی.ازاں بعد مولانا ابو العطاء صاحب نے اللہ تعالیٰ کے اس گھر کا پہلا بنیادی پتھر رکھا.پھر سب احباب نے مل کو ڈھا کی سالہ مسجد کا ایک کرہ اگلے سال نہ ہی میں تیار ہوا تو اس میں پہلا خطبہ جمعہ حضرت قاضی محمد یوسف صاحب امیر جماعت احمدیہ صوبہ سرحد نے پڑھایا اور ۷۰ افراد کے قریب احمدی احباب نے نمازادا کی لیے چندہ مسجد کی فراہمی کے سلسلہ میں چودھری عبد الواحد صاحب نے سندھ حیدرآباد دکن ، بہار، بنگال، انڈیہ، یوپی اور دہی کی جماعتوں کا دورہ کیا اور احتباب جماعت نے عموماً اور جماعت ٹاٹانگر جمشید پور موسی بنتی نے خصوصاً نہایت اخلاص سے تعاون کیا.ان دنوں چودھری عبداللہ خان صاحب ٹاٹا نگر کی جماعت احمدیہ کے امیر تھے.مکے سناتن دھرم سیالاہور کی مذہبی کا فرش اور نبوت اور پیش روستای دهم سمبا ہو نے ایک مذہبی کا نفرنس منعقد کی مضمون ” ایشور پاستا یعنی میں احمدی مبلغ کی کامیاب تقریر عبادت انہی تھا.دوسرے مختلف مذاہب کے نمائندوں کے علاوہ ملک عبدالرحمن صاحب قادم بی.اے.ایل ایل بی نے بھی تقریر فرمائی اور دس منٹ کے مختصر سے وقت میں نہایت پر فصاحت اور پُر جوش طریق سے اس موضوع پر اسلام اور احمدیت کے نقطہ نگاہ سے روشنی ڈالی اور بتایا کہ خدا تعالے کی کامل اطاعت اس کے نقش کو قبول کرنا اور اُس کے صفات کو اپنے اندر پیدا کرنا اصلی عبادت ہے.آپ نے یہ بھی واضح کیا کہ اسلام نے عبادت الہی کا ایک بہترین طریق نماز کا قائم کیا ہے.جس کی ابتداء الله اکبر سے ہوتی ہے اور انتہا سلامتی کی کیفیت پر.اسلامی نماز میں صفوں کا قیام دنیا میں مساوات کا بہترین طریق ہے.یہ وہ طریق ہے جس سے ایمان کا شجر ہمیشہ سرسبز اور با ثمر رہتا ہے جس کا زندہ ثبوت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وجود مبارک ہے ہے ه " الفضل " ۲۹ الفاء / اکتوبر ر ش صفحه ۲ کالم ۱ له الفضل" ۶ و ۱۶ رتبوك /ستمبرم صفحه ۲ ایش صفحه ۲ کالم ۰۲ " الفضل " تبليغ / فروری س ش صفحه ۲ کالم 2.4 کالم سید عبداله الدین صار نے خصوصاً بہت معاونت فرمائی کا انتخابات تلاوت ه بیش صفحه ۲ کال ۳ - ۴ که " الفضل " لم ار شہادت / اپریل یا الفضل / فتح دسمبر مش صفحه ۰۴
اگر چہ عالمگیر جنگ چھڑ جانے کی وجہ سے انگلستان کا پورا ملک فضائی بناظرہ انگلستان میں پہلا کامیا بین فروا حملوں کی زدمیں آچکا تھا گرم وینا جلال الدین صاحب شخص مبلغ انسانی شقق پرائیویٹ ملاقاتوں ، لیکچروں اور لٹریچر کی اشاعت اور دوسرے ذرائع سے تبلیغ اسلام کا فرامیہ پوری سرفروشی سے بجا لا ر ہے تھے.خصوصا ہائیڈ پارک میں آپ نے متعدد لیکچر دیئے اور دوسرے لیکچراروں پر بھی سوالات کرتے رہے.اس سال کا ایک خاص واقعہ یہ ہے کہ آپ نے ہائیڈ پارک میں حضرت مسیح کی صلیبی موت" کے موضوع پر پہلا کامیاب مناظرہ کیا جو اس سرزمین میں اپنی طرز کا مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان پہلا مباحثہ تھا.اس دلچسپ مباحثہ کی تفصیل حضرت مولانا شمس صاحب کے الفاظ میں لکھنا زیادہ مناسب ہو گا.فرماتے ہیں :- متعدد مرتبہ میر عبد السلام صاحب اور خاکسار نے ہائیڈ پارک میں تقریریں کیں.نیز دوسرے لیکچراروں پر سوالات کئے.۳۱ جولائی کو ئیں ابطال العربیت میسج کے موضوع پہ بولا.سوال و جواب کے دوران میں مسیح کی صلیبی موت کا بھی ذکر آیا.لیکچر کے بعد ایک پادری نے اس مسئلہ کے متعلق مجھ سے گفتگو کی.آخر قرار پایا که راگست کو اس موضوع پر مباحثہ کیا جائے چنانچہ وقت مقررہ پر جب میں نے بولنا شروع کیا تو وہ پادری بھی آگیا.اس نے وقت مانگا میں نے کہا اپنا پلیٹ فارم لے آؤ.چنانچہ وہ اپنا پلیٹ فلام لے آئے.در بجے سے.اربجے شام تک دو گھنٹے مباحثہ ہوا.دس دس منٹ بولنے کی باری مقرر ہوئی.ایک شخص کو ٹائم کیپر مقرر کیا گیا.مباحثہ ہوتے دیکھ کر پبلک خوب اکٹھی ہو گئی.میں نے اپنی پہلی تقریر میں مسیح کے صلیب پر نہ کرنے کے ثبوت میں انجیل سے مسیح کی دعا پیش کی کہ اے خدا! ہر ایک طاقت تجھ کو ہے تو یہ پیالہ مجھ سے ٹال دے چنانچہ ایرانیوں ہے میں لکھا ہے کہ وہ دعا اس کی سنی گئی نیز زبور سے اس دُعا کی قبولیت کے لئے پیشگوئیوں کا بھی ذکر کیا اور کہا.اگر تسلیم کیا جائے کہ یہ دعا قبول نہیں ہوئی تھی تو میسیج مطابق یوحنا گناہگار ثابت ہوتے ہیں.اس کے جواب میں عیسائی مناظر نے کہا کہ میسیج کی دُعا پوری نہیں پیش گئی.اس کے ساتھ ہی یہ لکھا ہے کہ تیری مرضی نہیں بلکہ جو تیری مرضی ہے وہی ہو.اور وہ اس لئے آیا تھا کہ صلیب پر مرکہ لوگوں کے گناہوں کا کفارہ ہو.میں نے کہا.اگر اس فقرہ کا یہ مطلب ہے کہ اگر تیری مرضی ہے کہ میں صلیب پر مارا جاؤں تو پھر مجھے مارا جانا چاہیئے
۲۰۸ -- تو یہ دعا بے معنی ہوگی کیونکہ اس دعا کا خلاصہ یہ ہوگا کہ اسے خدا ! ہم ایک طاقت تجھ کو ہے.تویہ موت کا پیالہ مجھ سے ٹال دے..پر اگر تو نہیں چاہتا تو نہ ڈال.کیا یہ با معنی دعا کہلا سکتی ہے خدا کی مرضی تو ہو کہ ہی رہے گی چاہے کوئی کہے یا نہ کہے.دعا صرف اتنی ہوگی کہ اے خدا تو موت کا پیالہ مجھ سے ٹال دے اور اگر یہ درست ہے کہ وہ لوگوں کی خاطر مرنے کے لئے آئے تھے تو پھر انہیں موت کے پیالہ سے بچنے کے لئے دعا کرنا درست نہ تھا.لیکن اصل بات یہ ہے کہ پادری صاحبان میسج کے اس قول کا کہ راے خدا میری نہیں بلکہ تیری مرضی پوری ہو) کا مطلب نہیں سمجھے میسج کی دعا کے الفاظ جیسا کہ مرقس میں لکھا ہے یہ تھے "اے خدا ہر ایک چیز تیرے لئے ممکن ہے سو یہ پیالہ تو مجھ سے ٹال دے لیکن اس لئے نہیں کہ جو میں کہتا ہوں وہ ہو.بلکہ اس لئے کہ تا تیری مرضی پوری ہو، اس کا مطلب یہ تھا کہ میں جو موت سے بچنے کے لئے دُعا کرتا ہوں تو وہ اس لئے نہیں کہ میں تیرے راستے میں اپنی نے لئے دعا کہ جان دینے سے ڈرتا ہوں.میں تو حاضر ہوں لیکن چونکہ میں تیرا رسول ہوں اور تو میری صداقت کو دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے اس لئے اگر میں جیسا کہ میرا دشمن چاہتا ہے مارا گیا تو ان کے نزدیک میں جھوٹا ثابت ہوں گا.اس لئے میری یہ درخواست ہے کہ مجھ سے موت کا پیالہ ٹال دیا جائے یہ صرف تیری مرضی اور ارادہ پورا کرنے کے لئے ہے نہ موت کے ڈر سے.اور اگر یہ معنی نہ لئے بھائیں تو وہ دعا ہی بے معنی ہو جاتی ہے.اس کا جواب وہ آخر تک نہ دے سکے.اسی طرح دیگر دلائل پر بحث ہوئی دوران بحث میں اس نے بعض سخت الفاظ استعمال کئے اور کہا کہ تم جھوٹ بولتے ہو.اگر یہی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے سکھایا اور قرآن میں لکھا ہے تو یہ جھوٹ سکھایا.نیز لوگوں کو اکسانے کے لئے کہا یہ عیسائیت کو تباہ و برباد کرنے کیلئے آئے ہیں.ان کی جرات تو دیکھو کہ عیسائیت کے سینٹر میں ہاں لنڈن کے ایک پارک میں عیسائیت کے عقائد کی اس طرح تم دید کی جاتی ہے.اگر مسیح صلیب پر نہیں کرے تو وہ کفارہ بھی نہیں ہوئے.اس سے تو عیسائیت باطل ہو جاتی ہے مگر اس سے بڑھ کر بھوٹ کیا ہو سکتا ہے.یہ اس جگہ جہاں سے کہ دنیا میں مشتری بھیجے جاتے ہیں عیسائیت کی تردید کرتے ہیں اور اسلام پھیلانا چاہتے ہیں.اس کے سخت الفاظ پر حاضرین نے شیم شیم کے آوازے
۲۰۹ گئے.میں نے کہا میں اسلام کی تعلیم کے مطابق گالیوں کا جواب گالی سے نہیں دوں گا اور نہ ہی میں اس پر دوسرے انگریزوں کو قیاس کر سکتا ہوں کیونکہ میں نے بہت سے چھوٹے اور بڑوں سے گفتگوئیں کی ہیں لیکن میں نے انہیں نہایت مستین اور شریف پایا.معلوم ہوتا ہے.اس نے ایسے امول میں پرورش پائی ہے جس قسم کے اخلاق کا اُس نے مظاہرہ کیا ہے.میں نے اپنی آخری تقریر میں کہا کہ اسلام سے پہلے یہود نے اس عقیدہ کی بناء پر کہ مسیح مصلوب ہو گئے انہیں لعنتی اور مفتری قرار دیا اور عیسائیوں نے بھی جیسا کہ پولوس نے کہا اُسے ملعون تسلیم کیا چنانچہ مناظر نے بھی اقرار کیا کہ اُن کی مخاط الملعون ہوا.لیکن انہوں نے طمعون پر غور نہیں کیا.ایک انسان ملعون اس وقت کہلاتا ہے جب اس کا خدا سے معلمی یا اس سطح ہو جائے اور وہ اپنے اقوال و اعمال میں شیطان کی مانند ہو جائے.اسی لئے شیطان کا نام ملعون ہے اور ایک ملعون شخص دوسرے کو لعنت سے کیونکر بچا سکتا ہے.کیا اندھا اندھے کی راہنمائی کر سکتا ہے.پس یہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا احسان تھا کہ آپ کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے مسیح علیہ السلام کو اس لعنت کے داغ سے بری قرار دیا اور فرمایا وہ صلیب پر نہیں بلکہ طبعی موت سے مرے اور ہماری تحقیقات کی رو سے صلیب سے بیچ کر کشمیر میں آئے اور وہیں وفات پائی چنانچہ ان کی قبرمحلہ خانیار سرینگر کشمیر میں موجود ہے.اس نے اپنی تقریر میں چونکہ یہ بھی کہا تھا.کہ انا جیل میں لکھا ہے میسج نے اپنی بھان دے دی.اس کا میں نے تفصیل سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اناجیل میں ایسے اختلات موجود ہیں جن کے درمیان مطابقت نہیں دی جا سکتی اور یقینی طور پر بعض بیانات غلط ہیں.اس لئے میں اپنے مد مقابل کو چیلنج دیتا ہوں کہ وہ آئندہ ۱۴ اگست کو اختلافات انا بیل پر مجھ سے مباحثہ کر لے.لیکن اس چیلینج کا اس نے کوئی جواب نہ دیا.پبلک پر اچھا اثر ہوا.کئی حاضرین نے مجھ سے کہا کہ آپ کے دلائل زیر دست تھے اور اس کی سخت کلامی کی مذمت کی.۴ار اگست کو میں نے انھیں سے اختلافات پیش کئے جن پر بعض نے سوالات کئے بین کے میں نے جوابات دیئے.ایک اختلاف میں نے یہ پیش کیا تھا کہ مسیح نے جب اپنے بارہ شاگردوں کو تبلیغ کے لئے بھیجنا چاہا تو بعض ہدایات دیں.متی کہتا ہے کہ اس نے یہ ہدایت بھی دی کہ وہ اپنے ساتھ سونٹا نہ لیں لیکن مرقس کہتا ہے کہ اس نے یہ ہدایت دی تھی کہ وہ سوائے سونٹے کے اور کچھ نہ لیں.یہ ایک صریح تناقض ہے جو کسی طرح نہیں اُٹھ سکتا.ہر ایک عقلمند یہی کہے گا کہ دونوں
۲۱۰ میں سے ایک نے ضرور غلط بیانی کی ہے کیونکہ دونوں ایک ہی واقعہ کا ذکر کرتے ہیں.ایک عورت نے کہا مثلاً جر من کہتے ہیں کہ آج ہم نے برٹش کے سو ہوائی جہانہ گرائے لیکن انگریز کہتے ہیں صرف پچیس گرائے.اس اختلاف سے یہ تو ثابت نہیں ہوتا کہ کوئی واقعہ ہی نہیں ہوا.میں نے کہا کہ میں واقعہ کا تو انکار نہیں کرتا.میں تو صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ متی اور مرقس میں سے انگریز کون ہے، اور حبر من کون؟ کسی کا مخلاف واقعہ بیان ہے.میرے علم کے مطابق اس طرز کا مباحثہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان پہلا مباحثہ ہے.سالہ مولانا رحمت علی صاحب کی موادی رحمت علی صاحب مبلغ انجیر کی جزائر شرق المسند ۱۴ رخاء / اکتوبر ۱۳۱۹ پیش کو گیارہ بجے صبح کی گاڑی سے چوتھی با جزائر شرق الہند کو روانگی و از شرق الہند میں تین کے لئے روانہ ہوئے ہے جزائر تبلیغ مشرقی جاوا کے پہلے احمدی کا انتقال مسٹر کوری آستر جو مشرقی جانا میں پہلے احمدی تھے.ار فتح رودسمبر ہش کو ستر سال کی عمر میں انتقال کر گئے مرحوم نہایت مخلص احمدی تھے.دن رات تبلیغ میں مصروف رہتے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عشق تھا.مسجد سرو بایا کے لئے نہ صرف اپنی زمین وقف کر دی تھی بلکہ اس کی تعمیر کے لئے چندہ بھی دیا.جماعتی چندوں میں بھی بہت با قاعدہ اور جماعتی کاموں میں بہت سرگرم تھے.سے ۶۱۹۴۰ کی نئی مطبوعات 1 خطبات عیدین اسید نا حضرت امیر المومنین خلیق پی سیح الثانی رضی اللہ عنہ کے حقائق و معارف سے لبریز خطبات کا مجموعہ جو ملک فضل حسین صاحب نے مرتب کر کے شائع کیا ؟ جوبی، -- رویداد جلسه خلافت ہو یلی مرتبه مولوی عبد الرحیم صاحب درد ایم.اسے سیکرٹری خلافت بہائی تحریک پر تبصرہ " (مولفہ مولوی ابوالعطاء صاحب ) بہائیت کے متعلق تاریخی معلومات کا مستند مجموعہ جس میں بہائی شریعیت، اقدس کا اصل نسخہ اور اس کا ترجمہ " له الفضل ، در احادا اکتوبر بار بیش صفحه ۵ : " ار صفحه ۷ کالم ۲ ار شہادت اپریل ۱۳۳۲ و بیش صفحه ۲ کالم ۰۲
۲۱۱ شامل کرنے کے علاوہ اسلامی شریت سے اس کا موازنہ بھی کیا گیا ہے اور احمدیہ عقائد اور بہائی عقائد کا مقابلہ بھی کیا گیا ہے.رساله معارف دبابت ماہ فروری شاہ نے اس پر حسب ذیل ریویو کیا :- ابو العطاء صاحب نے اس کتاب میں خود بہائی لٹریچر اور ان کی کتابوں سے اس تحریک کی ای سی اور اس کے عقائد پر تبصرہ کر کے اس کی گمراہیوں کو آشکارا کیا ہے.بہائیوں کی کتاب اقدس کا عربی متن بھی محمد ترجمہ کے دیدیا ہے.کتاب مفید اور دلچسپ ہے لیکن ائق مصنف اپنے فرقہ کی تبلیغ سے نہیں چوکتے ہیں“ م مسلم نوجوانوں کے سنہری کارنامے “ دمرتبہ جناب رحمت اللہ بیخان صاحب شاکر سٹنٹ ار الفضل یہ کتاب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی تحریک پر لکھی گئی تھی.اپنا نچھر اس کے دیباچہ میں آپ نے تحریر فرمایا کہ شاکر صاحب نے جس موضوع پر تسلم اُٹھایا ہے.وہ ایک عرصہ دراز سے بلکہ طالب علمی کے زمانے سے میرے مدنظر تھا.مجھے خوب یاد ہے کہ جب یہ خاکسار سکول کی نہم اور دہم جماعت میں تعلیم پانا تھا تو اس وقت ہمیں ایک انگریزی کی کتاب "گولڈن ڈیڈز " پڑھائی جاتی تھی جس میں حیض مغربی بچوں اور نوجوانوں کے سنہری کارناموں کا ذکر درج تھا.مجھے اس کتاب کو پڑھ کر یہ خواہش پیدا ہوئی کہ ایک کتاب اردو میں مسلمان نوجوانوں کے کارناموں کے متعلق لکھی ہجائے جس میں مسلمان بچوں کے ایسے کارنامے درج کئے جائیں جو مسلمان نو نہالوں کی تربیت کے علاوہ دوس کار قوموں کے لئے بھی ایک عمدہ سبق ہوں.یہ خواہش طالب علمی کے زمانہ سے میرے دل میں قائم ہو چکی تھی.اس کے بعد جب میں نے اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیا.تو یہ خواہش اور بھی ترقی کر گئی کیوکو میں نے دیکھا کہ جو کارنامے مسلمان نوجوانوں کے ہاتھ پہ ظاہر ہو چکے ہیں.وہ ایسے شاندار اور روح پرور ہیں کہ ان کے مقابل مسیحی نوجوانوں کے کارناموں کی کچھ کیسی حیثیت نہیں اور میں نے اراد کیا کہ جب بھی خدا توفیق دے گا میں اس کام کو کروں گا.مگر افسوس ہے کہ ایک لمبے عرصہ تک میری یہ خواہش عملی جامہ نہ پہن سکی.بالآخر گذشتہ سال اللہ تعالٰی نے اس کی یہ تقریب پیدا کر دی کہ شیخ رحمت اللہ صاحب شاکر نے مجھ سے مشورہ پوچھا کہ میں آجکل رخصت کی وجہ سے فارغ
۲۱۲ ہوں.مجھے کوئی ایسا مضمون بتایا جائے ہمیں پر میں ایک مختصر کتاب لکھ کہا اسلام اور احمدیت کی خدمت کر سکوں.اس پر میں نے شاکر صاحب کو اپنی یہ خواہش بتا کر یہ تحریک کی کہ وہ اس موضوع پر مطالعہ کر کے کتاب تیار کریں اور میں نے چند ایسی کتابوں کے نام بھی بتا دیئے جس سے وہ اس مضمون کی تیاری میں مدد لے سکتے تھے اور انتخاب وغیرہ کے متعلق بھی مناسب مشورہ دیا اور مجھے خوشی ہے کہ شاکر صاحب نے مطلوبہ کتاب کے تیار کرنے میں کافی محنت سے کام لے کر ایک اچھا مجموعہ تیار کر لیا ہے.میں نے اس سارے مجموعہ بالاستیعاب نہیں دیکھا.مگر بعض حصے دیکھتے ہیں اور بعض جگہ مشورہ دے کر اصلاح بھی کروائی ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ انشاء اللہ یہ کتاب نوجوانوں کے لئے مفید ثابت ہوگی " سے 2 - گورو گوبند سنگھ کے بچوں کا قتل (مؤلفه گیانی واحد حسین صاحب مبلغ سلسلہ احمدیہ ) حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی رضہ نے مجلس مشاورت ۱۹۳۷ٹہ کے موقعہ پر جماعت کے اہل قلم کو توجہ دلاتے ہوئے فرمایا تھا کہ اگر علمی مذاق رکھنے والے لوگ اپنی فرصت کے اوقات میں کوئی کتاب ہی لکھ دیں تو اس میں کیا سمج ہے...مگر یہ ضروری بات ہے کہ جو کتاب لکھیں وہ معقول ہو اور علمی رنگ میں لکھی گئی ہو.....مصلف دہ ہوں جو ہوش و حواس قائم رکھتے ہوں اور عقل و فکر سے کام لینے والے ہوں.یہ بی ضروری نہیں کہ وہ کوئی ایسا فلسفہ نکالیں جس سے دنیا میں تہلکہ مچ جائے بلکہ ایسی باتیں لکھی جائیں جو عام سمجھ کے مطابق ہوں اور جن میں اسلام پر تو اعتراضات کئے جاتے ہیں ان کا حل کیا گیا ہو مثلاً مورخین کی گنتا ہیں نہیں ان میں مسلمان بادشاہوں پر سخت ظلم کئے گئے اور ان پر نہایت گندے الزامات لگائے مثال کے طور پچہ کہتا ہوں.اور نگ زیب کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام متجدد...گئے ہیں.کہا کرتے تھے لیکن اور نگ زیب کی شکل تاریخوں میں نہایت ہی تاریک دکھائی گئی ہے..بغرض تاریخوں میں مسلمان بادشاہوں پر بہت سے اعتراضات عائد کئے گئے ہیں.ہماری جماعت کے مصنف اس طرف بھی توجہ کریں تو سلسلہ کے لئے مفید لٹریچر مہیا کر سکتے ہیں.سے گیانی و احمد حسین صاحب کا یہ رسالہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی رض کے مندرجہ بالا ارشاد کی تعمیل کی ایک کامیاب " نے بیانیہ سلم نوجوانوں کے سنہری کارتا ہے " صفحہ ۲۰۱ء کے رپورت مجلس مشاورت ۶۱۹۳۷ صفحه ۹۱۵۴۰۱۵۲
۲۱۳ کوشش تھی جس میں ٹھوس واقعات کی روشنی میں پانچ زبر دست دلائل سے اس الزام کو بے بنیاد اور فرضی ثابت کیا گیا کہ حضرت عالمگیر رحمہ اللہ علیہ کے عہد میں اس کی پالیسی کے ماتختہ گورو گوبند صاحب کے دولڑ کے مسلمانوں کے ہاتھوں جنکور میں قتل ہو گئے اور دو اور چھوٹے بچوں کو محض اسلام قبول نہ کرنے کی پاداش میں قلعہ سر ہند کی دیواروں میں زندہ چنوا دیا گیا.گیانی صاحب نے اس رسالہ میں یہ بھی بتایا کہ مسلمانوں نے گورو گوبند سنگھ صاحب اور ان کے بچوں پر کبھی علم نہیں کیا بلکہ ہمیشہ نرمی و ملاطفت سے پیش آتے رہے، تبھی تو گور و صاحب ہمیشہ حضرت عالمگیر رحمتہ اللہ علیہ کے مدح سرا ر ہے جیسا کہ ظفر نامہ میں لکھا ہے.اس رسالہ کا دیباچہ ملک کے بلند پایہ ادیب مولانا عبد المجید خان صاحب سالک ایڈیٹر روزنامہ انقلاب نے لکھا.احمدیت کی نحقی کتاب مؤلفه ماریا همه تصفیه شد علاقه امكاني) مولوی محمد علی صاحب یک جنگ موعود نبی سے منہ ماستہ محمد شفیع صائب آلم مابق یہ مچا ہی امونه مولوی محمد علی اور اس کی تفسیر بیان القرآن خلاف مذهب آخر الزمان مولفه قاضی محمد یوسف صاحب فاروقی امیر جماعتہائے احمدید سه بعد) یہ رسالہ میاں حیات محمد صاحب احمدی بھیروی سب ڈویژنل آفیسر پشاور کی تحریک اور ان کے خلف الرشید میاں محمد انور صاحب کی خاص دلچسپی سے لکھا گیا.چشمه عرفان (مرتبه مبارک احمد خان صاحب امین آبادی سابق مدیر جریدہ عبرت کلکتہ) یہ کتاب چودھری محمد مالک خان صاحب تسنیم بی.اسے متعلم لا کالج میں ایمن آباد کی یادگار کے طور پر شائع کی گئی جو مبارک اخوان ما کی تاریک تبلیغ سے ہر سال میں حلقہ بگوش احمد ہی ہوئے اور اپنے اخلاص، سعادت مندی اور دینی ذوق میں جلد جلد ترقی کرنے لگے مگر افسوس زندگی نے وفانہ کی اور تقریباً ایک ماہ تک مو قد میں مبتلارہ کر دار جولائی شاہ کو ۲۳ برس کی عمر میں اپنے مالک حقیقی سے جاملے.پشمیہ عرفان دینی اور روحانی نکات و مضامین کا ایک مختصر مگر نہایت مفید مجموعہ ہے.- گلدسته دینیات" (احمدی لڑکوں کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضور کے خلفاء لے آپ کی وفات پر چین بزرگان سلسلہ نے تعزیت نامے لکھے.ان میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب مبلغ انگلستان و مریکہ ، حضرت مولوی محمد دین صاحب ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول ، ملک خدا بخش صاحب جنرل سکرٹری جماعت احمدیہ لاہور، ملک عبد الرحمن صاحب خادم پیراکبر علی صاحب ایم بی ای ، ایم ایل اے ایڈوکیٹ فیروز پور اور میر محمد بخش صاحب پلیڈ ر امیر جماعت احمید گوجرانوالہ کے اہم و قابل ذکر میں مرحوم کا جنازہ بھی صار نے پڑھایا تھا ؟
۲۱ اور دوسرے بزرگان سلسلہ کی تحریرات پر مشتمل دینی اسباق جو پیر صلاح الدین صاحب بی.اے.ایل.ایل بی اور ملک مبارک احمد خاں صاحب نے مرتب کئے.رسالہ کے آخر میں بہت سی دلچسپ ، مفید اخلاقی و روحانی کہانیاں درج تھیں جو وہ بھی بیشتر انہی عظماء کی بیان فرمودہ تھیں.۱۱ علیہ السلام بذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت مسیح موعود علی است نام کی ایمان پرور تقریرات کا مجموعہ مرتبہ مولوی عبد الرحمن صاحب میشر مولوی فاضل ؟ اندرون ملک کے مشہور مباحثات ۲۴ تبلیغ ۱۳۱ پیش مطابق ۲۴ فروری سن کو امین آباد ضلع گوجرانوالہ میم مسکه مباحه امین آباد ضلع گوجرانواله) اختم نبوت پر مناظرہ ہوا.احمدیوں کی طرفت سے مولوی محمد سلیم صاحب اور غیر احمدیوں کی طرف سے سائیں لال حسین صاحب اختر نے بحث کی.لال حسین صاحب کی دوبارہ اپنی بد زبانی پر احمدیوں معافی مانگتی پڑی اور دو بار حضرت میں موجود کی کتب کے ادھور سے اقتباس پیش کر کے اور اعتراض کر کے شرمندگی اور رسوائی کا منہ دیکھنا پڑا.غیر احمدی نشر قار نے اعتراف کیا کہ ان کا نمائندہ احمدی مناظر کے مقابلہ میں دلائل پیش کرنے سے قاصر رہا.ہند و پلاک نے عام طور پر یہ رائے ظاہر کی کہ احمدی مناظر علم، دلائل اور شرافت و متانت میں اپنی نظیر آپ تھے بلہ مباحثہ قادیان در امان مارچ میش کو حضرت سید محمد اسحاق ساحت کے زیر اہتمام مولوی ما مرالدین عبداللہ صاحب دید بھوشن مولویف اصل کا یہ تیر تھے پر وفیسر جامعہ احمدیہ اور پنڈت ترلوک چند صاحب شاستری ٹیچر ڈی اے وی ہائی سکول قادیان کے درمیان نہایت دوستانہ ماحول میں تقریری مناظرہ ہوا.مولوی ناصرالدین عبدالله صاب کا دعوی یہ تھا کہ ہندو دھرم کی مقدس کتاب انترو ویرہ کانٹ میں ایک رسی کی آمد کا ذکر ہے جس کی آمد کا مقام قرون اور نام احمد بتایا گیا ہے جسب تجویز مولوی عبد الله ناصرالدین صاحب پنڈت ترلوک چند صاحب اپنے بعض رفتار سمیت حضرت میر محمد اسحق صاحب کے دفتر میں آگئے اور فریقین نے اپنے اپنے پرچے آپ کی نگرانی میں لکھے.پہلا پرچہ مولوی صاحب نے اپنے دعوئی کے اثبات میں لکھا جس کا جواب پنڈت صاحب نے تحریمہ کیا.اس طرح باری 77400 سوکت لے ملاحظہ ہو مضمون ملک مبارک احمد خان صاحب امین آبادی مطبوع الفضل در امان ماریع می صفحہ کے کالم ۰۲ کے انتھرو ایک کانٹڈ نمبر ۲۰ سوکت ۵۰ منتر ۱-۲ نیز سوکت ۶ منتر ۱-۲-۳ نبوکت ۱۱۵ منترا نمبر ۱۳۷ متر سوکت ۹۰ منتر ۳ ، سوکت نمبر ۷۳ منتر ب : ، ایک
۲۱۵ باری چاہ پرچے مولوی صاحب نے اور تین پرچے پنڈت صاحب نے لکھے اس کے بعد اسی روز 9 بجے شب مسجد اقصی میں حضرت میر صاحب کی صدارت میں ایک پبلک جلسہ منعقد ہوا جس میں احمدیوں کے علاوہ بہت سے آریہ صاحبان اور اور انزاری بھی شامل ہوئے اور حسب ترتیب، ساتوں پر چھے باری باری سنائے گئے بجلسہ گیارہ بجے ختم ہوا.یہ مناظرہ اسی سال ویدوں میں احمد اور قادیان کے نام سے چھپ گیا تھا جس کا دیباچہ حضرت میر محمد اسحاق صاحب نے تحریر فرمایا میں ۱ رامان / مارچ یہ ہش کو گوجرانوالہ شہر میں مولانا ابوالعطاء صاحب کا موادی احمدیانہ اس مباحثہ گوجرانوالہ سےمسئلہ اورمسلہ پر صاحب (غیر مبائع) سے مسئلہ کفر و اسلام اور مسئلہ نبوت پر کامیاب مناظرہ ہوا، اگرچہ باہمی فیصلہ کے مطابق مسئلہ خلافت پر بھی مباحثہ قرار پایا تھا.گر غیر مبالعین نے کہلا بھیجا کہ وہ اس کے لئے تیار نہیں مجلس مناظرہ میں بعض غیر احمدی بھی شامل ہوئے تھے جنہوں نے مولا کا ابو العطاء صاحب کی علمی قابلیت اور شتہ حاضر جوابی کی تعریف کی اور غیر مبائع مناظر کی بے لسی، بے علمی اور کم حوصلگی پر اظہار نا پسندید کی کیا.موضع دیوانی وال تحصیل بٹالہ کے قریب ایک گاؤں کوٹ گورایا مباحثہ کوٹ گوراب تحصیل بیان ضلع گورد اپلوی) ہے جہاں دیوانی وال کے بعض احمدی تبلیغ کے لئے گئے.تبلیغ شروع ہوئی تو گاؤں والے مسانیاں کے ایک مخالف عالم مولوی فیروز الدین صاحب ، دو مدد گار علماء اور ایک حافظ قرآن لے افضل ۱۲ رمان ز مارچ به مش صفحه ۰۲ " سے بلدیہ گڑھ ضلع پوری اڑیسہ میں بابو بیراگی چون مصر صاحب نے جلسہ عام میں تسلیم کیا کہ دیر میں احمد اور قادیان کا ذکر ہے مگر ساتھ ہی عذر کیا کہ ابھی کلجگ پورا نہیں ہوا تو اونار کیسے آسکتا ہے ( افضل اور ہجرت امی سرمایش صفر ) پروفیسر عبداللہ ناصر الدین صاحب نے الفصل ۱۸ ہجرت امی یہ ہیں میں یہ جواب دیا کہ حضرت کرشن نے گیتا میں خود ہی فیصلہ فرما دیا ہے کہ " لھوای یگے لگے " یعنی کوشن یگ کے دوران میں آتا ہے نہ کہ یگ کے خاتمہ پر ال اس سلسلہ میں پروفیسر صاحب کے ایک اہم مضمون کے لئے ملاحظہ ہو الفضل اور اجرا می ش ا) گه حضرت میر صاحب نے اپنے دیباچہ میں لکھا ” میرے نزدیک یہ بحث ہمارے نقطہ نگاہ سے کوئی اصولی بحث نہیں ہے اگر انھر و دید میں احمد کا نام یا قادیان کا لفظ ثابت نہ ہو تو اس سے ہمیں کوئی نقصان نہیں.قادیان کی اہمیت یا احمد کی صداقت خود ان کے وجود سے ظاہر ہو رہی ہے.اگر اتھرو ویدان کے ذکر سے خالی ہو تو کیا مضائقہ ؟ لیکن اگر یہ دونوں نام انفر و دید میں ثابت ہو جائیں تو آریوں پر بے شک یہ بڑی حجت ہے.کیونکہ اگر ان کی الہامی کتاب احمد کے ذکر اور قادیان کے نام پر مشتمل ہو تو اُن کا فرض ضرور ہے کہ وہ ان کی صداقت کے قائل ہو جائیں" ر رسالہ ویدوں میں احمد اور قادیان" صفحہ ۲-۳ ) "الفضل و شہادت / اپریل ۳۱ بیش صفحه ۶ +
اور چالیس پچاس سید صاحبان کو لے آئے.احمدیوں نے مسئلہ وفات مسیح پر گفتگو کے لئے کہا مگر انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے کوئی حضرت مینی کی وراثت تقسیم کرتی ہے ہمیں حضرت عیسی کی موت سے کیا تعلق اہم تو یہ ثابت کرنے آئے ہیں کہ مرزا صاحب مسلمان ہیں یا نہیں.آخر لمبی گفتگو کے بعد سامعین کے اصرار پر قرآن مجید کی رو سے مسئلہ ختم نبوت پر مناظرہ کرنے پر رضامند ہو گئے.فریقین نے اپنے اپنے صدر مقرر کئے.جماعت احمدیہ کی طرف سے مولوی محمد اعظم صاحب مولوی فاضل اور فریق ثانی کی طرف سے مولوی فیروز وین صاحب فاضل مدرسہ عثمانیہ مناظر قرار پائے.مولوی محمد اعظم صاحب نے نہایت عمدگی کے ساتھ قرآن مجید سے ثابت کر دیا کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد حضور کی غلامی سے فیض نبوت جاری ہے مگر مد مقابل عالم قرآنی دلائل کا کوئی جواب نہ دے سکے اور خلافت شرط صرف حدیث لا ی بعدی پر سارا زور صرف کرتے رہے.بعد ازاں انہوں نے احمدی مناظر کی تقریرہ کے دوران شور ڈالنہ شروع کر دیا.آخر کار قرآن و حدیث سے پیش شدہ دلائل کے سامنے جب بالکل عاجز اور بے لیس ہو گئے تو مناظرہ چھوڑ کر میدان مناظرہ میں اپنا جلسہ شروع کر دیا.جماعت کی طرف سے اس وقت صدر مناظره محمد ملک صاحب پریزیڈنٹ جماعت احمدی دیوانی وال تھے.انہوں نے درخواست کی کہ احمدی مناظر کو بھی اختتام جلسہ پر جواب دینے کا تھوڑا سا وقت دیا جائے مگر انہوں نے بالکل انکار کر دیا جس پر سب احمدی دوست واپس دیوانی وال آ گئے بلے مباحثہ غازی کوٹ (ضلع گورداسپور احسان جون پر بہش کو گورداسپور سے تین میل کے فاصلہ ١٩٤ پر واقع گاؤں غازی کوٹ میں تین مناظرے ہوئے.طے شدہ شرائط کے مطابق پہلا مناظرہ ختم نبوت پر مولوی ابوالعطاء صاحب اور لال حسین صاحب اختر کے مابین ، دوسرا صداقت حضرت مسیح موعود پر مولوی دل محمد صاحب اور اختر صاحب کے مابین اور تمیر وفات مسیح پر مولوی ابوالعطاء صاحب اور حافظ محمد شفیع صاحب کے مابین ہو تا تینوں مناظروں میں احمدی علماء نے قرآن کریم اور حدیث شریف سے واضح استدال گئے اور اپنی تائید میں بزرگان احسان کے اقوال بھی پیش کئے مگر دوسرے علماء زیادہ تر حضرت مسیح موعود علی الصلاة والسلام کی بعض تحریروں کو غلط انداز میں پیش کر کے عوام کو مغالطہ دینے کی کوشش کرتے رہے مگر خدا کے فضل وکرم سے اس میں بھی کامیاب نہ ہو سکے.دوسرا مناظرہ شروع ہونے سے قبل لال حسین صاحب اختر نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی نہ کی شان مبارک مین خواه مخواه بد زبانی شروع کردی جس پر احمدیوں نے احتجاج کیا اور صدر جلسہ مولانا ابوالعطاء صاحب نے پورے زور کے ساتھ مجسٹریٹ صاحب علاقہ کو (جو مناظرہ میں موجود تھے) تو بہ دلائی کہ اس شخص کو ان الفاظ کے واپس لینے پر مجبور له الفضل ۳۱ پیجرت منیش صفحه ۲
۲۱۷ کیا جائے.انسپکٹر صاحب پولیس نے شہادت دی کہ واقعی لال حسین صاحب نے سخت ناروا کلمہ کہا ہے اور احمدیوں کی واقعی وہ تاری کی گئی ہے.اس پر مجسٹریٹ صاحب نے احراری نمائیندہ شریعت حسین صاحب وکیل کو بلوا کر محکم دیا کہ مولوی لال حسین صاحب یہ الفاظ واپس لیں ورنہ مناظرہ بند کر دیا جائے اور آپ لوگ یہاں سے فوراً پہلے جائیں.اس پر سائیں لال حسین صاحب نے کھڑے ہو کر کہا کہ میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں.اس پر مناظرہ شروع ہوا.اس مناظرہ کو سننے کے لئے قادیان دارالامان سے بہت سے احباب تشریف لے گئے تھے.مباحثہ پٹھانکوٹ آریہ سماج پٹھانکوٹ نے اپنے جلسہ کے موقعہ پر اشتہار کے ذریعے تبادلہ خیالات کی عام دعوت دی جسے جماعت احمد یہ دولت پور پٹھانکوٹ نے قبول کرتے ہوئے شرائط مناظرہ ملے کیں اور آریوں کا میلہ ختم ہونے کے دوسرے دن ۱۹ اگست کو پہلے پہر اصول آریہ سماج پچر اور پچھلے پہر اصول احمدیت پر مناظرہ ہوا.ہر مضمون کے لئے سواتین گھنٹے وقت تھا.پہلی تقریر میں آدھ آدھ گھنٹہ اور بعد کی تقریریں پندرہ پندرہ منٹ کی تھیں.پہلے مضمون میں جماعت احمدیہ کی طرف کہا شہ محمد عمر صاحب مولویف افضل مناظر اور مولوی ظہور حسین صحاب مبلغ بخارا پریذیڈنٹ تھے.آریہ مناظر پنڈت شانتی پرکاش صاحب نے اپنی پہلی تقریر میں دیدوں کے متعلق کہا کہ وہ ابتدائے دنیا میں اُتارے گئے تھے اور اُن میں سائنس کی باتیں ہیں.پرمیشور کے متعلق اعلیٰ تعلیم ہے وغیرہ جہاشہ صاحب نے اپنی تقریریں بتایا کہ پرمیشور کے متعلق ویدک تعلیم یہ ہے کہ وہ مالوں کو چراتا اور چرواتا ہے.بسوم رس پیتا ہے اور ایسی مثالوں سے بعض نصائح کی گئی ہیں کہ انسان کو بیان کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے.ویدوں کے محترف و مبدل ہونے کے ثبوت میں مختلف مثالیں پیش کیں اور مختلف ایڈیشنوں سے دکھایا کہ بعض ویدوں میں سے منتر کے منتر اڈا دیئے گئے ہیں.اور بعض جگہ نہیں پچیس منتروں تک زائد کر دیئے گئے ہیں.ویدوں کی تعداد میں اختلاف ہے.پھر اس میں اختلاف ہے کہ کس پر نازل ہوئے اور ویدک تعلیم کے متعلق مثالوں سے بتایا کہ وہ ہرگز قابل عمل نہیں.آریہ مناظر نے بہت ہاتھ پاؤں مارے لیکن آخر تک تہاشہ صاحب کے اعتراضات کا قطعا کوئی جواب نہ دے سکا.قرآن مجید اور سیح موعود علیہ السلام کے الہامات پر بنو اعتراضات پنڈت صاحب نے کئے.جہاشہ صاحب مکرم نے ان کے تسلی بخش جواب دیئے اور ایسا اچھا اثر ہوا کہ غیر احمدی مسلمانوں نے بھی تعریف کی.دوسرے مناظرہ میں جماعت احمدیہ کی طرف سے چودھری محمد یار صاحب عارف مناظر تھے.آپ نے پہلی تقریر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض حوالے جن سے احمدیت اور اسلام کے اصول ایک ہی ثابت ہوتے ہیں سُنانے کے بعد دس اصول جماعت احمدیہ کے بیان کئے مثلاً آپ نے بتایا کہ ہم احسان افضل ۱۹ جون ایش صفحه ۲ ، ايضاً " الفضل ۲۰ احسان جوان ده مش صفحه ۵ :
۲۱۸ خدا کو ایک مانتے ہیں.آریوں کی طرح صرف دعوئی ہی نہیں بلکہ روح و مادہ کو پیدا کرنے والا مان کر اس کی حقیقی توحید کے قائل ہیں.پھر یہ کہ ہم زندہ خدا کو ماننے والے ہیں.اس کو کامل صفات والا مانتے ہیں.ایسی تعلیم دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں جس پر ہر انسان عمل کر سکتا ہے.ایسی الہامی کتاب ماننے کی دعوت دیتے ہیں جس کی زبان زندہ اور جو ہر ضروری دعوی خود کرتی اور خود ہی اس کے دلائل دیتی ہے وغیرہ.آپ نے ہر بات کے لئے قرآن مجید سے ثبوت دیا اور ساتھ ساتھ آریوں کے پرمیشور اور دیدوں کا اور ویدک تعلیم کا نہایت موثر طریق سے مقابلہ کیا.آرید مناظر نے کھڑے ہوتے ہی کہا کہ یہ مناظرہ مسلمانوں سے نہیں بلکہ احمدیوں سے ہے.اس لئے میں بیان کردہ امور کی بجائے حضرت مرزا صاحب علیہ السلام) کی باتیں پیش کرتا ہوں.اس کے بعد اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام پر اعتراضات کئے اور بعد کی تقریروں میں بھی پیشگوئیوں اور الہامات وغیرہ پر اعتراض کرتا رہا.عارف صاحب نے جواب میں ستیارتھ پرکاش کے دو چار حوالے پڑھ کر جن میں اسلام پر گندے اعتراضات کئے گئے ہیں بتایا کہ آریہ سماج کے مقابلہ میں سب مسلمان ایک ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیشک مامور ہونے کا دعوی کیا اور اپنا ماننا ضروری قرار دیا.لیکن آپ کی بعثت کی غرض تو اسلام کی حقانیت کو ثابت کرنا تھی.پھر پیشگوئیوں اور الہامات پر اعتراضات کے مدلل جواب دیئے.بعد کی تقریروں میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کو اسلام کا نمائند ثابت کیا اور پنڈت لیکھرام کی پیشگوئی اور مقابلہ کا وضاحت سے ذکر کر کے اسلام کی افضلیت ثابت کی.آریہ مناظر نے ہر ممکن کوشش کی کہ مسلمانوں کو جماعت احمدیہ کے خلاف بھڑکائے لیکن احمدی مناظر ایسی عمدگی سے جواب دیتا رہا کہ آریہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے.بلکہ دوران مناظرہ میں جب لبعض آریہ ہمارے مناظر کے ناقابل تردید مطالبات اور اپنے پنڈت کی کمزوری کو محسوس کرتے ہوئے بول پڑے تو مسلمانوں نے نہایت سختی سے ان کا مقابلہ کیا.احمدی مناظر نے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے اپنے بیان کردہ اصول کو بھی بار بار دہرا کہ پنڈت شانتی پرکاش صاحب کو چیلنج کیا کہ ان کے مقابلہ میں ویدک اصول کی کمزوری کا جواب دیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات پر اعتراض کا جواب دے کر ویدوں کے چالیس پچاس بے معنی منتر پیش کر کے بار بار پوچھا کہ کیا یہی وہ کامل الہی کتاب ہے جس کے قبول کرنے کی دعوت آپ مسلمانوں کو دیتے ہیں اور خواب دیکھا کرتے ہیں کہ اوم کا جھنڈا مکہ اور مدینہ میں بھی گاڑا جائے گا.لیکن آریہ مناظر، آخر دم تک ان مطالبات کا کوئی جواب نہ دے سکا.آخری تقریرہ میں عارف صاحب نے نہایت احسن پیرایہ میں تبلیغ کی اور آریوں کو مخاطب کر کے کہا کہ مذہب کوئی کھیل تماشا نہیں جو باتیں ہم نے پیش کی ہیں اُن پر ٹھنڈے دل سے غور کریں بخدا تعالیٰ کے فضل سے مناظرہ بہت کامیاب رہا.آریہ مناظر نے ہر چند کوشش
۲۱۹ کی کہ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے الہامات اور تحریرات پر اعتراض کر کے مسلمانوں کی ہمدردی حاصل کرے اور اس کوشش میں اس نے ویدوں اور بانی آریہ سماج پر ہمارے مناظر کے کئے ہوئے اعتراضات کو بالکل نظر انداز کر دیا اور کسی ایک اعتراض کا بھی جواب نہ دیا.اس سے یہاں آریہ سماج کے اصولوں کی کمزوری حاضرین پر واضح ہو گئی وہاں جماعت احمدیہ پر عام اعتراضات کے تسلی بخش جوابات دیئے گئے اور ایسے مسلمان جو احمدیت پر محض اعتراض کرنا ہی جانتے ہیں اور جوابات سننا بھی جنہیں گوارا نہیں ان پر ان اعتراضات کی لغویت اچھی طرح واضح کی گئی اور اس طرح غیر احمدیوں کو تبلیغ کرنے کا ایک نہایت ہی اچھا موقع مل گیا اور تقریباً دو ہزار لوگ جو نصف کے قریب مسلمان تھے نہایت اچھا اثر لے کر گئے بیلہ الحمد للہ علی ذالک.ار تبوک استمبر پر پیش کو بمقام مردان احمدیوں اور غیر احمدیوں کے مابین وفات مسیح اور مباحثه مردان ختم نبوت کے موضوع پر مناظر بود حملوں کی خرا اخر مودی چراغ الدین صاحب ملتے سلسلہ تھے اور غیر احمدی اصحاب کی طرف سے مولودی مصلح الدین صاحب.مناظرہ میں غیر احمدی عالم لا جواب ہو گئے بلے مباحثه گلشاد نگال میں گھنا اہلحدیث کامشہور گاؤں تھاجہاں قریشی مرمضیف صاحب قمر سائیکل (بنگال) سیاح کا مولوی نعمت اللہ صاحب اور دیگر چار علما ء سے مسئلہ حیات و وفات مسیح پر مباحثہ ہوا پندرہ منٹ کے بعد مولوی نعمت اللہ صاحب مجلس سے فرار کر گئے اور اُن کے باقی رفتار گالیوں پر اُتر آئے.قریشی صاحب نے جب اہلحدیث کتب خانہ سے بعض کتابیں لے کر انہی سے حوالے دکھانے شروع کئے تو اُن سے کتابیں چھین لی گئیں اور کتب خانہ منتقل کر دیا ہے جماعت احمدیہ اور جماعت حنفیہ مونگ کے درمیان ۲۹-۳۰ اتحاد / اکتوبر مباحثہ مونگ (ضنع گرت ر میش کو مباحثہ قرار پایا تھا.شرائط حسب ذیل تھیں :- (1) مبحث تین ہوں گے (۱) وفات مسیح (۲) ختم نبوت (۳) صداقت حضرت مسیح موعود (۳) (۲) مابه الاستدلال قرآن ، حدیث و اقوال اہلسنت والجماعت و اقوال حضرت مرزا صاحب و بزرگان احمدی پہلی تقریر بیس بیس منٹ کی اور اس کے بعد ہر تقریہ دس منٹ کی مباحثہ تین گھنٹے دس منٹ ہوگا.پہلی اور پھیلی تقریہ مدعی کی ہوگی.(۴) مباحث زبانی ہو گا (۵) ہر فریق کے مناظر دائرہ تہذیب میں رہ کر مناظرہ العصر ظهور اگست بیش صفحه ۱۲ له الفضل " - اراخان اکتوبر پیش صفحه ۵ کالم ۱۲۴ یه 1114.له الفضل " از اتحاد اکتوبر پر بیش صفحه ۵ کالم ۱ و ۰۲ +
۴۲۰ کریں گے.ہر فریق بو بد زبانی کرے یا تالی بجائے شکست خوردہ سمجھا جائے گا.(4) ہر فریق کے تین تین آدمی حفظ امن کے ذمہ وار ہوں گے جماعت احمدیہ کی طرف سے سید حیدر شاہ صاحب ، خان محمد صاحب اور روشن خان صاحب قرار پائے ، فریق مخالف کی طرف سے راجہ مہدی خاں صاحب، مولوی اللہ دتہ صاحب اور راجہ حاکم خان (6) مباحثہ دائرہ راجہ احمد خاں میں ہوگا (۸) حضرت مرزا صاحب کا صرف قول ہی پیش کیا صاحب جائے گا تشریح نہیں کرنی ہوگی.حسب قرارداد ۲۹ اکتوبر کو ٹھیک ساڑھے آٹھ بجے مناظرہ شروع ہوا.سامعین کی تعداد خاصی تھی اور اُن میں ہندو اور سکھ بھی شامل تھے.پہلے مباحثہ میں جو حیات عمات مسیح پر تھا مدعی لال حسین اختر اور مجیب مولانا محمد یار صاحب عارف تھے مباحثہ نہایت خوش اسلوبی سے ہوا.اگر چہ لال حسین صاحب نے لوگوں کو مشتعل کرنے کی کوشش کی مگر عادت صاحب کی تقریر کچھ ایسی موثر ہوئی تھی کہ لوگ لال حسین صاحب کے دھوکے میں نہ آئے.میدان مناظرہ میں بالکل سکوت چھایا ہوا تھا مخالفین بھی آپ کی تقریر کے وقت ہمہ تن گوش ہو کر سُن رہے تھے.دوسرا مباحثہ اسی تاریخ کو زیر صدارت عارف صاحب شیخ عبد القادر صاحب فاضل تو مسلم نے کیا.آپ نے بھی اپنے وقت میں اچھے دلائل دیئے اور ختم نبوت کے مسئلہ کو بہت عمدگی سے واضح کیا.تمیرا مباحثہ ۳۰ اکتوبر کی صبح کو 9 بجے شروع ہوا.اور ایک بجے ختم ہوا.اس مباحثہ میں جو صداقت حضرت مسیح موعود پر تھا ملک عبد الرحمن صاحب خادم بی اے.ایل ایل بی بلیڈ ر گجرات کی زیر صدارت منعقد ہوا.اور مناظر چودھری محمد یار صاحب عارف تھے.اس مباحثہ میں نقص امن کا زیادہ خطرہ تھا مگر قابل صدر کی کوشش سے اور قابل مقرر کی عالمانہ تقریر سے جو در حقیقت خدا کے فضل کے اسباب تھے کوئی ناگوار واقع پیش نہ آیا.اگر چہ مخالف احمدیت نے بڑی کوشش کی کہ لوگوں کو مشتعل کرے غلط باتیں پیش کر کے معاصرین کو اکسایا مگر وہ اپنے بعد ارادہ میں کا میا نے ہوا.له پیرول صوبہ بہار ( انڈیا ) کی ایک بستی ہے جہاں پر پیش کے آخر میں ابوالبشارت مباحثه پیرول دبهد مولوی عبدالغفور صاحب فاضل نے ایک غیر احمدی عالم سے ایک گھنٹہ تک مناظرہ کیا.جب غیر احمدیوں نے دیکھا کہ ان کے مولوی صاحب احمدیت کے معقول دلائل تسلیم کر چکے ہیں اور بعض سے ساکت آگئے ہیں تو انہوں نے شور مچانا شروع کر دیا اور سال گفتگو ختم ہو گیا ہے مباحثہ لاہور سجد احمدیہ (بیرون دہلی دروازہ) لاہور میں ۲۷ امضاء) اکتوبر پر ہیش کو مسلہ نبوت پر اور کار +190 نبوت اور پیش کو مسئلہ کفر و اسلام پر غیر مبائع اصحاب سے نہایت کامیاب مناظرے ہوئے.له الفضل " و نبوت / تو مبرا مش صفحه 4 الفضل " ۲۳ نیوت اتو میر به بیش صفحه هر کالم ۰۳۰۲
مبلغین سلسلہ عالیہ احمدیہ حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی کے ساتھ ( دسمبر ۱۹۳۹ء) ناموں کی تفصیل ضمیمہ میں درج ہے
سالانہ جلسه قادیان سید نا حضرت خلیفہ مسیح الثانی تقریر فر مار رہے ہیں
۲۲۱ اول الذکر موضوع میں جماعت احمدیہ قادیان کی طرف سے میاں محمد عمر صاحب بی ایس سی ایل ایل بی نے اور فریق لاہور کی طرف سے مولوی احمد یار صاحب نے بحث کی.میاں محمد عمر صاحب نے اثبات نبوت مسیح موعود میں چار فیصلہ کن دلائل پیش کئے اور ہر دلیل کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی واضح تقریبات پیش کیں اور غیر مبالحسین کے غلط استدلال کے دندان شکن جوابات دیئے مگر فریق لاہور کے مناظر صاحب بار بار دو ایک حوالوں کو ہی دہراتے ہے اس شیخ روشن دین صاحت بس کا قبول اس سال جو خوش نصیب سلسلہ احمدیہ سے وابستہ ہوئے.ان حمیت ابر میں شیخ روشن دین صاحب تنوکیہ بی اے، ایل ایل بی سیالکوٹ ,١٩٤٠٠ ر حال مدیر افضل نے خاص طور پر قابل ذکر ہیں.آپ نے ۲۰ مصلح رجبوری میش کو بعیت کا فارم پر کیا.شیخ صاحب نے انہی دنوں اپنے قبول احمدیت کے حالات " الفضل " نہیں بھی شائع کرا دیئے تھے جن کا ایک ضروری حصہ درج ذیل کیا جاتا ہے :- سمبر منہ کے شروع میں میری ایک مرتبہ نے جو نہایت مخلص احمدی ہیں مجھے قادیانی دارالامان کی زیارت کی دعوت دی.میں نے یونہی کچا پکا وعدہ کر لیا.انہی دنوں محترمی محمد نذیر صاحب فاروقی ضلع دار ریاست بہاولپور نے بھی (جو میرے لنگوٹیے یار ہیں) ایک خط میں اسی قسم کی دعوت دی.ان کا ایک مطلب یہ بھی تھا کہ دیرینہ مفارقت کے بعد ملاقات کا اچھا موقع ہاتھ آ جائے گا.مزید برآں مرکز سے بھی ایک فارمل دعوت ایک عزیز نے بھیجوا دی.اس سہ گو نہ دعوت کا مقابلہ میری بے پروائی سے نہ ہو سکا.۲۴ دسمبرش نہ کی مبارک صبح کو میں قادیان کا واپسی ٹکٹ خرید کر پلیٹ فارم پر گاڑی کی روانگی کے انتظارمیں ٹہل رہا تھا کہ انویم چو دھری شاہنواز صاحب ایڈووکیٹ سے مٹھ بھیڑ ہوئی میں نے اُن سے قادیان جانے کا تذکرہ کیا مگران کو یقین نہ آیا.اور آتا بھی کسی طرح ان کو خوب معلوم تھا کہ میں احمدیت کا سخت مخالف ہوں جب میں نے اُن کو ٹکٹ دکھایا تو وہ حیران رہ گئے.انہوں نے فرمایا.قادیان سے تم ضرور احمدی ہو کر پلٹو گے میں نے جواب دیا یہ ناممکن ہے.آپ جانتے ہیں مجھ جیسا آزادمنش آدمی ایسی قیدوں میں نہیں سما سکتا.میں تو صرف ایک له عبد الرحمن صاحب مغل سیکرٹری تبلیغ حلقہ دہلی دروازہ لاہور نے اس مباحثہ کی مفصل روئیداد " الفصل ۱۲۹۴ نبوت / نومبر میں شائع کرادی تھی سے ولادت ۱۲ اپریل ۱ - ۲ ار اتحاد / اکتوبر میں سے اخبار" الفضل" کی ادارت کے فرائض ادا کر رہے ہیں.آپ کی تالیفات : صور اسرافیل " ابتدائی دینی نظموں کا مجموعہ) " اسلام میں ارتداد کی سزا " اس کے علاوه " الامام المہدی اور الجہاد“ کے عنوان سے آپ کے معرکۃ الاراء مضامین رسالہ " ریویو آف ریلیجز "اردو میں شائع ہو گے سے ان کا نام سکیسیتی ہی ہے ،
تماشہ دیکھنے جا رہا ہوں تعطیلات ہیں، لاہور نہ سہی قادیان کہی.اتنے میں روانگی کی سیٹی بھی اور ہم مدار ہو گئے.ویر کا ریلوے سٹیشن تبدیلی کے لئے اترنا پڑا.پلیٹ فارم پر ، احمدی خاندانوں کے خاندان اتر پڑے پلیٹ فارم سوٹ کیسوں، رنگوں اور بستروں سے پٹ گیا.اس منظر نے ایک عجیب غریب اثر میر سے دل پر کیا.مجھے ایسا معلوم ہوا کہ صدیوں کی سوئی ہوئی کوئی چیز میرے رگ پنے میں بھاگ رہی ہے.مرد عورتیں اور بچے ، بچے کچھ ماؤں کی گودوں میں، اور کچھ نھنے تھے قدم اُٹھاتے ہوئے ، انگلیاں پکڑے، اس سردی کے موسم میں ، کنبوں کے کتبے ، گھروں کو تالے لگا کہ کس شوق و ذوق سے آمادہ سفر میں پختگی اعتقاد کا ایک مقدس پہاڑ میری نگاہوں میں بلند ہو رہا تھا.مرد، عورتیں اور بیچتے ، ماؤں کی گودوں میں ہمکتے ہوئے بیچتے چلتے پھرتے بچے ، سب میری آنکھوں میں چکا چوند پیدا کر رہے تھے میں ایک ہی دنیا میں چلا گیا.ایسی دنیا میں جو گذشتہ دنیا سے پاکیزہ تو اور ارفع و اعلیٰ تھی جو مقدس اعتقاد کی دنیا ہے جہاں سو صفائی قلب اور جذب روحانی کے اور کچھ نہیں.یہ اثر تھا جو میری روح پہ ہوا.یہ پہلا اثر تھا اس نے زیارت قادیان کا جوش پوری طاقت کے ساتھ میرے دل میں پیدا کر دیا.انتظار کی گھڑیاں مجھے قیامت کی صدیاں معلوم ہونے لگیں.بخدا خدا کر کے ہماری گاڑی آپہنچی اور میں بڑے اشتیاق کے ساتھ سوار ہوا.اگرچہ گاڑی میں اس قدر بھیڑ تھی کہ بہت سے لوگوں کو کھڑے ہونے کے لئے بھی جگہ میسر نہ تھی اور مسافر سخت تنگی میں تھے مگر مجھے اشتیاق قادیان کی وجہ سے اس کھچا کھچی میں بھی ایک تکلف آنها تقصد اور میں اپنے آپ کے جنت میں بیٹھا ہوا تصور کرتا تھا.گو گاڑی کی رفتار مجھے شست معلوم ہوتی تھی.میں چاہتا تھا کہ میری روح اور رسم کی تمام طاقت بھی انجمن کی قوت کے ساتھ مل بھائے اور گاڑی فور قادیان پہنچ جائے.غروب آفتاب کے وقت آخہ گاڑی قادیان کے سٹیشن پر بھا کھڑی ہوئی سٹیشن پر اتنا انہوں تھا کہ کھوے سے کھوا چھلتا تھا.یہ ابھی پہلا روز تھا پلیس تاریخ کوشید.کا آغاز ہونا تھا.ایک حشر تھا کہ بپا ہو گیا تھا.تقدس کا ایک سمندر تھا کہ ٹھاٹھیں مار رہا تھا اور میں اس کی موجوں کی آغوش میں پہچکولے کھا رہا تھا جس مکان میں ہم ٹھہرے وہ محلہ دار البرکات میں واقع تھا.محلوں کے نام سُنے تو ایسا نہیں ہوتا تھا کہ ہم خلد بریں میں آگئے ہیں.معرت و تکریم کی لہر میری رگ رگ میں دوڑ گئی اور ایک روحانی بارش میری روح پر برس رہی تھی.ایک بیرونی کمرے میں ہم اُترے.نیچے کماد کا پھل کا بچھا تھا سردی کا موسم تھا.نرم گریلوں میں یہ لطف کہاں.آرام و تعیش پر موت وارد ہو چکی تھی سوا تسکین کے اور کوئی بات ہی نہ تھی لنگر سے کھانا منگوایا.کھایا اورسو ہے.صبح اٹھ کر بازار سے ہوتے ہوئے بہشتی مقبرہ کی زیارت کی قبروں کی قطاریں زندہ انسانوں کی صفیں معلوم
۲۲۳ ہوتی تھیں.مردوں کی پاک نفسی قبروں کے گوشوں سے نکل نکل کر میری روح سے ہم آغوش ہو گئی.تو بتوں کی سادگی نہایت سیاذب نظر تھی.زندہ مردوں کی ایک دنیا ! ایسے مردے کو تین کے سامنے مجھے علی سازنده ایک مردہ معلوم ہوتا.یہ ان عقیدت کیش لوگوں کی آخری آرام گاہ.ہے جنہوں نے اپنا تن ، من ، دھن اسلام کے نام پہ قربان کر دیا.پاک نسوں کا اتنابڑا جو گھٹا شاید ہی کسی اور جگہ دیکھنے میں آئے بے اختیار میرے ہاتھ فاتحہ کے لئے اُٹھ گئے اور میری روح ان مٹی کی پاک قبروں کے ساتھ لپٹ گئی.بعد با ہم اس چاردیواری میں داخل ہوئے یہاں سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والست نام کا مزانہ مقدس ہے.سادگی پر ہزاروں بنائیں قربان ہو رہی تھیں.ناک کے ذرے ذرے سے صداقت کی آواز اٹھ رہی تھی.یہ قبر اس انسان کی تھی جس نے اپنے مسیحائی کے دعوے کی وجہ سے لاکھوں کروڑوں انسانوں کے ساتھ عمر بھر نبرد آزمائی کی جس کی تکفیر کے فتو سے لکھے گئے جس پر عیاذ باللہ صرف عیاشی کے ہی اتہام نہ لگائے گئے بلکہ نہیں کو قتل کی دھمکیاں بھی دی گئیں اور جس کی اہانت کرنے کے لئے کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہ کیا گیا.گورندرا نے اس کو ہر ایک گزند سے بچایا.وہی انسان آج اس سادہ سے اور تہی از تکلف مزار کی آغوش میں جاودانی نیند پڑا سو رہا ہے.اس مٹی کی ڈھیری نے میرے دل میں ایمان کا شعلہ بھڑکا دیا اور میں ایک مضطرب بجان لے کر وہاں سے لوٹا.بعد دو پہر حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی باتیں انجمن خدام احمدیہ کے جلسہ میں نہیں.اس گرانمایہ شخصیت کے متعلق جتنے شکوک میں اپنے دل میں لے کر آیا تھا تمام کے تمام اس طرح میٹ گئے کہ گویا کبھی پیدا ہی نہیں ہوئے تھے.اتنا سادہ اور پُر زور کلام میں نے پہلے کبھی نہیں سنا.تقریر میں کوئی دقیق مسائل نہیں بیان کئے گئے تھے.سادہ روز مرہ کی باتیں تھیں.مگر انہی سادہ باتوں میں خدا جانے کہاں کی جاذبیت تھی کہ میں نے ایک ایک لفظ ہمہ تن گوش ہو کر سنا.اور اپنے آپ کو زندہ سے زندہ تر پایا.دوران جلسہ میں حضور کی دیگر تقاریر بھی سنیں جو اپنی سادگی ، برجستگی ، اور تاثیر کے لحاظ سے ہمیشل تھیں.باوجود ان تاثرات کے میں پکا غیر احمدی رہا اور مورخہ ۲۹ دسمبر اثر کو صبح کی گاڑی قادیان سے رخصت ہو کر گھر کو روانہ ہوا.میرے ہمراہ اور بھی بہت سے لوگ اس گاڑی پر واپس ہو رہے تھے جو عموماً احمدی تھے میرے ڈبے میں ایک شخص کے پاس چند کتب تھیں جو وہ قادیان سے خرید کر لایا تھا.میں نے دفع الوقتی کے لئے ایک کتاب اُن میں سے اُٹھالی اور پڑھنے لگا.یہ کتاب حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی تقریر انقلاب حقیقی" تھی.اس تقریر کے ختم کرنے تک میں
دل میں احمدی ہو چکا تھا.زمین تو پہلے تیار تھی.صرف بیج ڈالنے کی دیر تھی جو " انقلاب حقیقی نے ڈال دیا.اور خدا کی رحمت یکبارگی مجھ پر نازل ہو گئی.پہلے میں نے احمد یہ لٹریچر کا مطالعہ ایک مخالفانہ نکتہ نگاہ سر کیا ہوا تھا.وہ تمام مطالعراب یکدم مجھ پر کریمانہ انداز سے جھپٹا اور میں شکار ہو گیا.مجھے اپنے آپ خو یقینی نہ آتا تھا.میری رگ رگ میں ایک بہیجان بپا تھا اور مجھے ایسا معلوم ہوا کہ ابھی ابھی میری روح میرے جسم کو چھوڑ دے گی جس طرح اچانک کسی ہتھیلی پر جھلتا ہوا کوئلہ رکھ دیا جائے اور وہ اس اثر سے تلملانے لگے یہی حال میری روح کا تھا.عید قربان کی نماز جامع احمدیہ سیالکوٹ میں اور کی اور گھر آکر بیعت کا فارم پر کر کے امیر جماعت احمدیہ سیالکوٹ کو بھیجدیا.جس کے زیر عنوان مندرجہ ذیل فی البدیہ رباعی تھی سے عید قربان ہے آج اسے تنویر مجھے پر ہے فضل رب سبحانی پیش کرتا ہوں رُوح و قلب و دماغ کاش منظور ہو یہ قربانی ١٣١٥ له حضرت خلیفہ ایسیح الثانی نے ۱۲ شہادت اپریل باد پیش کو خطبہ جمعہ کے دوران شیخ صاحب موصوت کے شامل احمدیت ہونے کا ذکر بایں الفاظ فرمایا.بھی سیالکوٹ میں ایک دوست احمدیت میں داخل ہوئے ہیں.شیخ روشن الدین صاحب تنویر ان کا نام ہے اور وکیل ہیں.جب مجھے ان کی بیعت کا خط آیا تو میں نے سمجھا کہ کالج کے فارغ التحصیل نوجوانوں میں سے کوئی نوجوان ہوں گے مگر اب جو وہ ملنے کے لئے آئے اور شوری کے موقع پر میں نے انہیں دیکھا تو اُن کی ڈاڑھی میں سفید بال تھے.میں نے چودھری اسد اللہ نعال صاحب سے ذکر کیا کہ میں سمجھتا تھا کہ یہ نوجوان ہیں اور ابھی کالج میں سے نکلتے ہیں مگر ان کی تو ڈاڑھی میں سفید بال آئے ہوئے ہیں.انہوں نے بتایا کہ یہ تو دس بارہ سال سے وکیل ہیں.پہلے احمدیت کے سخت مخالف ہوا کرتے تھے مگر احمدی ہو کر تو اللہ تعالٰی نے اُن کی کایا ہی پلٹ دی ہے.الفصل".۱۵ امان / مارچ ش صفحه ۵۰۴ + کے " الفضل" ۲۱ شہادت / اپریل یہ پیش صفحه ۱۳ کالم ۲ :
۲۲۵ دوسرا باب اشاعت احمیت کی خیریتی تحریک ایک واقعہ ڈلہوزی تک خلافت ثانی کا المحامیان سال فتح ۱۳۲۰ میش ذی الحجه ۱۳۵۶ صبح تاذی الحجر ١٣ م جنوری ۶۱۹۴۱ الحجر فصل اول ستوری ها ۶۱۹۴۱ صحابہ کرام کو اشاعت احمدیت اور ان کو ان کا پہلا بعد تھا جس کے خطبہ میں حضرت خلیفة المسیح الثانی نے سال نو کا پروگرام رکھتے ہوئے نو کا صحابه سیح موعود کو تلقین فرمائی کہ وہ احتمادیت کی عمارت کو دنیا کیلئے سرگرم عمل ہونے کی تحریک میں مضبوط ومستحکم بنانے کے لئے ہر مان جلد جہاد سے کام میں.چنانچہ حضور نے فرمایا :- گردن اور ہر رات ہمیں موت کے قریب کرتی جارہی ہے اور صحابیوں کے بعد جنہوں نے حضرت سیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھا یہ کام تابعین کے ہاتھ میں اور پھر اُن کے بعد تبع تابعین کے ہاتھوں میں جائیگا نہیں کوشش کرنی چاہیئے کہ آئندہ احمدی ہونے والے جنہوں نے حضرت سیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نہیں دیکھا وہ یہ تو کہہ سکیں کہ ہم نے آپ کے دیکھنے والوں کو دیکھا یا یہ کہ آپ کے دیکھنے والوں کے دیکھنے والوں کو دیکھا.پس جن لوگوں نے حضرت
۲۲۶ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھا ان کی زندگیاں بہت قیمتی ہیں اور جتنا کام وہ کر سکتے ہیں دو سر نہیں کر سکتے ، اس نے اُن کو کوشش کرنی چاہیئے کہ مرنے سے قبل احمدیت کو مضبوط کر دیں تا دنیا کو معلوم ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ مصلوۃ والسلام کے صحابہ نے ایسی محنت سے کام نت سے کام کیا کہ احمدیت کو دنیا میں پھیلا کر مرے ہیں حضرت امیر المومنین کا خطاب اقدام الاحمدی کا تیسرا سالن اجتماع و تبلیغ نادر شاهی فروری ۶۱۹۳۷ اتصلے میں منعقد ہوتا ہے جس میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے نماز ام الاحمدیہ کے میسر سالانہ اجتماع کے بعد ایک نہایت این ارز خطاب فرایا اورنوجوانان احمدیت کو خاص طور پر اس طرف توجہ دلائی کہ :-...حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالی نے اس لئے بھیجا ہے کہ اپنی زندگیوں میں اسلامی تعلیم کا کامل نمونہ پیش کر کے توڑا ور اس تہذیب اور تمدن کی عمارت کو جو اسوقت ا دنیا میں اسلام کے خلاف گھڑی ہے اٹکڑے ٹکڑے کردو اس قلعہ کو تو شیطان نے اس میں بنا لیا ہے اُسے زمین کے ساتھ لگا دو بلکہ اس کی بنیادیں تک اکھیڑ کر پھینک دو.اور اس کی جگہ وہ عمارت کھڑی کرو جس کا نقشہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو دیا ہے.یہ کام حضرت سیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا تھا اور اس کام کی اہمیت بیان کرنے کے لئے کسی لمبی چوڑی تقریر کی ضرورت نہیں ہر انسان سمجھ سکتا ہے کہ دنیا کے جس گوشہ میں ہم جائیں، دنیا کی جس گلی میں ہم گذریں دنیا کے جس گاؤں میں ہم اپنا قدم رکھیں وہاں ہیں جو کچھ اسلام کے خلاف نظر آتا ہے اپنے ایک نمونے اُسے مٹاکر اس کی جگہ ایک ایسی عمارت بنانا جو قرآن کریم کے بنائے ہوئے نقشہ کے مطابق مو ہمارا کام ہے.میں تم سمجھ سکتے ہو کہ تمہارا چین اور تمہارا طور اور تمہارا طریق اسی وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منشا کو پورا کرنے والا ہو سکتا ہے جبکہ تم دنیا میں خدا نما وجود نبود اور اسلام کی اشاعت کے لئے کفر کی ہر طاقت سے گھر لینے کے لئے تیار رہو اکہ كان الفضل سيار در را جوری ۶۱۹۴۱ I صفحه به کام را ے اس اجتماع کی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں پہلی بار بیردانا دائم بھی شرکت کی.بات یہ تقریر الفضل ۴ - ۳-۶-۷ اکتوبر میں اقساط شائع ہوئی.اجار د الفضل در انو ۳۳۹ روش صفحه ۲ کالم
۲۲۷ سفر ابریل سفر سنده حضرت ایران نی نی یا نانی یاسای سند تشریف لے گئے اور ہر رات کو ردانہ ہونے اور ا سے ہجرت کو واپس قادریان دار الامان میں تشریف لائے کیے حضور ہیں سفر کے دوران ت پیش کو معہ اہلبیت بندی کار ناصر آباد سے کراچی تشریف لے جا رہے تھے کہ ہتھور دا شیش سفر ری ۶۱۹۴۱ کے راستہ میں کار کو ایک خطرناک حادثہ پیش آیا.گر حضور معجزانہ طور پرمحفوظ رہے کہ حضر امیر المومنین کی آل انڈیا ریڈیو نے دوسری جنگ عظیم کے دوران شو سلام ملت عراق کو ایک نئی مصیبت سیشن سے حالا عراق کی نسبہ کی کا سامنا کرنا پڑا.یہاں شیخ رشید، علی جیلانی اور ان کے ساتھیوں نے شورش برپا کر دی جس پر سلمانان عالم نے سخت نفرت و حقارت کا اظہار کیا شیخ رشید علی کے طرز عمل سے نازی طاقتوں کی حوصلہ اخترائی ہوئی اور عالم اسلام کے مقدس ترین مقامات خطرہ میں گھر گئے.ان حالات میں حضرت امیر المومنین خلیفة أسرع انسانی نے خاموش رہنا گوارا نہ فرمایا اور ان کی نظم کو آٹھ بج کر پچاس منٹ پر اے ریڈیوٹی سے عراق کے حالات پر تبرہ" کے عنوان سے ایک اہم نظریہ فرمائی جسے دہلی اور لکھنڈ کے سٹیشنوں نے بھی نشر کیا.اس تقریر کا تمن در ج ذیل کیا جاتا ہے.عراق رانی موجودہ شورش دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے بھی اور ہندوستانیوں کے لئے مسود تشویش کا موجب ہو رہتا ہے.عراق کا دارالخلافہ بغداد اور اس کی بندرگاہ بقرہ اور اُس کے تیل کے چشموں کا مرکز موستل ایسے مارت میں مین کے تاہم ایک مسلمان بچپن ہی سے روشناس ہو جاتا ہے.بنوعباس کی حکومت علوم وفنون کی ترقی کو با نظر رکھتے ہوئے طبعا مسلمانوں کے لئے ایک خوشکن یاد گار ہے لیکن الف لیلہ جو عرفی معنوم کی طرف توجہ کرنے والے بچوں کی بہتر ہی درست ہے اُس نے تو بغداد اور بصرہ اور موصل کو ائی سے اس طرح روشناس کر رکھا ہے کہ آنکھیں بند کرتے ہی بغداد کے بازار اور بصرہ کی گلیاں اور موصل کی ڑکیں اُن کے سامنے اس شرح آکھڑی ہوتی ہیں، گویا کہ انہوں نے ساری عمر انہی میں بسر کی ہے.میں اپنی نیست تو یہاں تک کہہ سکتا ہوں کہ بچپن میں بغداد اور بصرہ مجھے منڈی اور پیرس سے کہیں زیادہ دلکش نظر آیا کرتے تھے کیونکہ اول الذکر میرے علم کی دیواروں کے اندر ضد تھے اور ثانی الذکر میری قوت واہمہ کے ساتھ تمام عالم میں پرواز کرتے نظر آتے تھے.جب ذرا یہ ہوئے تو علم حدیث نے امام احمد بن عبیل کو فقر هنا اه الفضل در شهادت ماه صفر ۲ کام ۳ الفضل ابرات ما الفضلات هنا صفوا كالم ٣ - الفضل ۱۵ بحجرت من صفر ، کالم ) ۱۹۳۱ متحد به ظالم ہے
VYA قت ام ابوحنیفہ اور ام روایت کو تقویت نے، جنید شبلی اور سید عبدالقادرجیلانی کو تاریخ نے بعد ارمین بن قیم کو علم تدریس نے ، نظام الدین خوشی کو ادب نے ، مبرو، سیبویہ جزیہ اور فرزدق کو سامنے ہارون - مامون اور ملک شاہ جیسے لوگوں کو جو اپنے اپنے دائرہ میں یاد گار زمانہ تھے اور ہمیں ایک ایک گر کے آنکھوں کے سامنے لاکر اس طرح کھڑا کیا کہ اب تک اُن کے کمالات کے مشاہدہ سے دل امید سے پر ہیں اور افکار بلند پردازیوں میں مشغول.ان کمالات کے مظہر اور دلکشیوں کے پیارا کرنے والے عراق میں فتنہ کے ظاہر ہونے پر سلمانوں کے ول وکھے بغیر کسی طرح رہ سکتے ہیں، کیا ان ہزاروں بزرگوں کے مقابہ جو دنیوی نہیں روحانی رشتہ ہے ہمارے ساتھ منسلک ہیں ان پر بمباری کا خطرہ ہیں بے فکر رہنے دے سکتا ہے ؟ عراق شستی اور شیعہ دونوں کے بزرگوں کے مقدس مقامات کا جامع ہے.وہ مقام کے لحاظ سے بھی اسلامی دنیا کے لب میں واقع ہے.پس اس کا امن ہر سلمان کا مقصود ہے.آج وہ اس خطرہ میں پڑ رہا ہے اور دنیا کے مسلمان اس پر خاموش نہیں رہ سکتے اور خاموش نہیں ہیں.دُنیا کے ہر گوشہ کے مسلمان را موقت گھبراہٹ ظاہر کر رہے ہیں اور ان کی یہ گھبراہٹ بجا ہے کیونکہ یہ جنگ جس کے تصفیے کی افریقہ کے حراء امیر ترین کے سند میں امید کی جاتی تھی اب وہ مسلمانوں کے گھروں میں لڑی جائینگی.اب ہماری مساجد کے بھی اور ہمارے بزرگوں کے مقابر کے احاطے اس کی آماجگاہ بنینگے.اور یہ سب کو معلوم ہے کہ جرمنوں نے جن ملکوں پر قبضہ جما رکھا ہے ان کی کیا حالت ہو رہی ہے.اگر شیخ رشید علی حسینانی اور ان کے ساتھی جرمنی سے ساز باز نہ کرتے تو اسلامی دنیا کے لئے یہ خطرہ پیارا نہ ہوتا.اس فتنہ کے نتیجہ میں رکی گر گیا ہے، ایران کے دروازہ پر جنگ آگئی ہے ، مشام جنگ کا راستہ بن گیا ہے ، عراق جنگ کی آماجگاہ ہو گیا ہے، افغانستان جنگ کے دروازہ پر کھڑا ہوا ہے، اور مری کے بڑا نظرہ یہ پیدا ہو گیا ہے کہ وہ مقامات جو تمہیں ہمارے وطنوں ہماری جانوں ، اور ہماری عزتوں سے بھی زیادہ عزیہ یا جنگ ، ان کی بین سرحد تک آگئی ہے.وہ بے فصیلوں کے مقدس مقامات و ظاہری حفاظت کے سامانوں سے خالی جگہیں جن کی دیواروں سے ہمارے دل شک رہے ہیں.اب بمباروں اور چھنڈیانی طیاروں کی زد میں ہیں.اور یہ سب کچھ ہمارے ہی چند بھائیوں کی غلطی سے ہوا ہے کیونکہ اُن کی اس غلطی سے پہلے جنگ ان مقامات مقدسہ سے سینا گلیوں میں، پر سے تھی.
۲۲۹ ان حالات میں ہر سلمان کا فرض ہے کہ وہ اس فتنہ کو اس کی ابتداء میں ہی دیا دینے کی کوشش کرے ابھی وقت ہے کہ جنگ کو پرے دھکیل دیا جائے کیونکہ ابھی تک عراق اور شام میں جرمنی اور اٹلی کی قومیں کسی بڑی تعداد میں داخل نہیں ہوئیں اگر خدانخواستہ بڑی تعدادمیں وہیں یہاں داخل ہوگئیں تو یہ کام آسان نہ رہیگا.جنگ کی آگ سرعت کے ساتھ عرب کے صحراء میں پھیل جائے گی.اس فتنہ کا مقابلہ شیخ رشید علی صاحب یا مفتی یور مسلم کو گالیاں دینے سے نہیں کیا جاسکتا، انہیں غدار کہار ہم اس آگ کو نہیں مجھا سکتے ہیں شیخ رشید صاحب کو نہیں جانتالیکن مفتی صاحب کا ذاتی طور پر را تقف ہوں.میرے نزدیک وہ نیک نیت آدمی ہیں اور ان کی مخالفت کی یہ وجہ نہیں کہ ان کو جرمنی والوں نے فریاد لیا ہے بلکہ اُن کی مخالفت کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ اگ عظیم میں جو وعدے اتحادیوں نے عنوں سے کئے تھے وہ پورے نہیں کئے گئے.وہ لوگوں کو برا کہنے سے صرف یہ نتیجہ نکلے گا کہ اُن کے قاف اور دوست اشتعال میں آجائینگے کیونکر جب کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو اپنے تجربے کی بناء پر دیانتدار سمجھتا ہے تو جب کوئی اس دوسرے شخص پر بدیانتی کا الزام لگائے تو خواہ اس فعل کی وجہ سے بد دیانتی کا الزام لگایا گیاہے براہی کیوں نہ ہو چونکہ اس پہلے شخص کے نزدیک وہ فل بد دیانتی کے باعث سے نہیں ہوتا وہ اس الزام کی وجہ سے جسے وہ غلط خیال کرتا ہے اس دوسرے مجر مشخص سے ہمدردی کرنے لگتا ہے اور آہستہ آہستہ اس کے افعال میں شریک ہو جاتا ہے.پس ان ہزاروں لاکھوں لوگوں کو جو عالیہ اسلامی میں شیخ رشید اورمفتی اور شام سے سن بینی رکھتے ہیں ٹھو کر اور ابتداء سے بچانے کے لئے ہمارا فرض ہے کہ اس نازک موقع پر اپنی طبائع کو جوش میں نہ آنے دیں اور جو بات کہیں اس میں صرف اصلاح کا یہ جو مد نظر جو اظہار غصب مقصود نہ ہو تاکہ فتنہ کم ہو بڑھے نہیں.یو رہے کہ اس فتنہ کے بارہ میں اس قدر مجھے لینا کافی ہے ک شیخ رشید علی صاحب اور ان کے رفقاء کا یہ فصل اسلامی ملکوں اور اسلامی مقدس مقامات کے امن کو خطرہ میں ڈالنے کا موجب بنتا ہے ہمیں ان کی نیتوں پر حملہ کرنے کا نہ حق ہے اور نہ اس سے کچھ فائدہ ہے اس وقت تو سلمانوں کو اپنی ساری طاقت اس بات کے لئے شریح کر دینی چاہئیے کہ عراق میں پھر امن ہو جائے.اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ مسلمان جان اور مال سے انگریزوں کی رو گریں اور اس فتنہ کے پینے اور بڑھنے سے پہلے ہی اس کے دہانے میں اُن کا ہاتھ بٹائیں تاکہ بینگ مدینہ منورہ اور گر کر قید سے دُور رہے اور ترکی ایرانی اطراق اور شام اور فلسطین اس خطرناک آگ کی پیٹوں سے محفوظ رہیں.یہ وقت وقت
۲۳۰ بھٹوں کا نہیں کام کا ہے ، اس وقت ہر ایمان کو چاہیے کہ اپنے ہمسایوں کو اس خطرہ سے آگاہ کرے بجود عالیم اسلام کو پیش آنے والا ہے تاکہ ہر سلمان اپنا فرض ادا کرنے کے لئے تیار ہو جائے اور جو قربانی بھی اُس سے ممکن ہو اُسے پیش کردے.جنگ کے قابل آدمی اپنے آپ کو بھرتی کے لئے پیش کریں اور ر پیر والے لوگ روپیہ سے اور اہل دین ، اہل قلم اپنی علمی قوتوں کو اس خدمت میں لگا دیں اور جس سے اور کچھ نہیں ہو سکتا وہ کم سے کم دُعا کرے کہ اللہ تھانے اس بینگ سے اسلامی ملکوں کو محفوظ رکھے.ہمارے جن بھائیوں سے غلطی ہوئی ہے اُن کی آنکھیں کھول دے کہ وہ خود ہی پشیمان ہو کر اپنی غلطی کا ازالہ کرنے میں لگ جائیں.میرے نزدیک عراق کا موجودہ فتنہ صرف مسلمانوں کے لئے تازیانہ تینیہ نہیں بلکہ ہندوستان کی تمام اقوام کے لئے تشویش اور فکر کا موجب ہے کیونکہ عراق میں جنگ کا روازہ کھلنے کی وجہ سے جنگ ہندوستا کے قریب آگئی ہے اور ہندوستان اب اس طرح محفوظ نہیں رہا جس طرح کہ پہلے تھا.جو فوج عراق پر تابض ہو عرب یا ایران کی طرف سے آسانی سے ہندوستان کی طرف بڑھ سکتی ہے.پس ہار دوستان کی تمام اقوام کو اس وقت آپس کے جھگڑے بھلا کو اپنے ملک کی حفاظت کی خاطر بر خانومی حکومت کی امداد کرنی چاہیئے کہ یہ اپنی ہی امداد ہے.شاید شیخ رشید علی میلانی کا خیال ہو کہ سابق عالمگیر جنگ میں عربوں کو یقین دیا گیا تھا کہ ایک متحد عرب حکومت کےقیام میں ان کی روکی جائیگی گر ہوا یہ کہ عرب و پہلے ترکوں کے ماتحت کم سے کم ایک قوم تھے اب چارپانچ ٹکڑوں میں تقسیم ہوگئے ہیں.بے شک انگریز وں نے عراق کو ایک حد تک آزادی دی ہے مگر عربوں نے بھی سابق جنگ میں کم قربانیاں نہ کی تھیں.اگر اس غلطی کے ازالہ کا عہد کر لیا جائے تو میں یقین رکھتا ہوں کہ سب اسلامی دنیا متحد ہو کر اپنے علاقوں کو جنگ سے آزاد رکھنے کی کوشش کرے گی..- راس جنگ کے بعد پولینڈ اور زیکو لوکیہ کی آزادی ہی کا سوال حل نہیں ہونا چاہیئے بلکہ متحدہ عرب کی آزادی کا بھی سوال حل ہو جانا چا ہیئے..شان مین اور عرق کو ایک متد او آزاد کو دو پر رتی کی ا وع ا نا چاہئے.انصاف اس کا تقاضا کرتا ہے بلد اخبار ریاست ربی کا تبصرہ یہ نشری تقریر لک کے مختلف حلقوں میں بہت پسند کی گئی ٹیچنا نچہ دہلی کے ۱۳۲ له الفضل ۲۰ بحرت ه صفراد ۲ + ۵۲ اخبار اصلاح ۱۲۹ مئی ۱۹۴۷ء متعمدا ۶۱۹۴۱
۳۳۱ مشہور سکھ اخبار ریاست ارجون 1 نے اس پر حسب ذیل الفاظ میں تبصرہ کیا.رام القوام اور غلام ممالک کے کیر کیر کا م ہے کمزور پہلو یہ ہوتا ہے کہ ان کے فواید اخلاقی سچائی اور جرات سے محروم ہو جاتے ہیں اور چاپلوسی جھوٹ خوشامد اور بزدلی کی سپر سٹائن میں نمایاں ہو جاتی ہے.عراق کا رشید علی برطانوی حکومت یا برطانوی رنایا کے نقطۂ نگاہ سے غلطی پر ہو یا اس کا برطانیہ سے جنگ کرنا غیر مناسب ہو گہر اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ شخص اپنے ملک کی سیاسی آزادی کے لئے لڑ رہا گیا اور اس کو سی قیمت پر بھی اپنے ملک کا غدار یا ٹریٹر قرارنہیں دیا جاسکتا.مگر ہمارے غلام ملک کے دالیان ریاست اور ٹینڈروں کا کیریکٹر دیکھئیے جو والی ریاست عراق کے متعلق تقریر کرتا ہے رشید علی کو نقدار کہ کر پکار رہا ہے اور جو لیڈر جنگ کے متعلق بیان دیتا ہے سب سے پہلے وہ رشید علی کو یر قرار دیتا ہے اور پھر اپنے بیان کی بس اللہ کرتا ہے.اور ان انبیائی ریاست اور لیڈروں کا کیریکٹر غلامی کے باعث استقدر بہت ہے کہ یہ غلط خوشامد اور چاپلوسی کو ہی ملک یا حکومت کی خدمت سمجھ رہے ہیں.ہمارے والیان ریاست اور لیڈروں کی اس احمقانہ خوشامد کی موجودگی میں قادیان کی احمدی جماعت کے پیشوا کی اخلاقی جرات آپ کا بلند کیریکٹر اور آپ کی صاف بیانی بچسپی اور مسرت کے ساتھ محسوس کی جائیگی جس کا اظہار آپ نے پچھلے ہفتہ اپنی ریڈیو کی ایک تقریر میں کیا ہے فصل دوم راحمد منا کپور تھلویکا وصال مال میں لایا اور مایہ نے افعال کی ان میں جن القدر صحابہ حضرت منشی ظفر احمدرضا کا سے متار اور رہے قدیم اور انتہائی پاک نفس بزرگ حضرت مدنی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی تھے جنہوں نے ششماہ میں لدھیانہ کی بیدات ان کی تم پر حقیر نشی اور اعصاب کے بعد جمعیت کا شرفت حاصل کیا اور ساری عمر سلسلہ احمدیہ کی نہایت درجہ عاشقانہ اور والہا نہ خدمات بجا لانے کے بع.ظہور : لاء کی صبح کو انتقال فرما گئے.فرما.۲۰ ی پست ۶۱۵۲۳۱ جماعت احمدیہ کی کوئی تاریخ آپ کے تذکرہ کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی.حضرت مسیح موعود بر است این ۱۳۱۳ می یاب raitor دغا باز.ه الفضل ، باق الذ + سور کامران اور میرا کام ہو ۲ ہے کے تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو اصحاب احمد جلد چہارم مرتبہ ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے تادیات
۲۳۲ کی فہرست میں آپ کا نام نمبر 9 پر درج فرمایا.علاوہ ازیں حضور علیہ اسلام کی کتب اشتہارات اور مکتوبات میں آپکا ذکر تا ہے.مثلاً ازالہ اوہام میں آپ کی نسبت حسب ذیل تعریفی کلمات موجود ہیں :- بنی فی الله منشی ظفر احمد صاحب یہ جوان صالح، کم گو اور خلوص سے بھرا دقیق فہم آدمی ہے ؛ استقات ر ، کے آثار وانوار اس میں ظاہر ہیں.وفاداری کی علامات وامارات اس میں پیدا ہیں.ثابت شدہ صداقتوں کو خوب سمجھتا ہے اور ان سے لذت اٹھاتا ہے.اللہ اور رسولی سے سچی محبت رکھتا ہے اور ادب پر تمام مدار حصول فیض کا ہے.اور حین نطرق جو اس راہ کا مرکب ہے دونوں سیرت میں ان میں پائی جاتی ہیں.الله ـة خير الجزاء " جواہ حضرت منشی ظفر احمد صاحب دسمبر میں بیمار ہوئے تو حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ۱۴ دسمبر ۱۹۳۶ء کو دلیل اُن کے فرزند شیخ محمد احمد صاحبی ایڈ کیٹ کپورتھلہ کو اپنے قلیم مبارک سے ایک مکتوب میں لکھا کہ : منشی صاحب کی بیماری کی خبر سے افسوس ہوا، آپ یہ کام مرور کریں کہ بار بار پوچھ پوچھ کر امی سے ایک کاپی میں سب روایات حضرت مسیح موعود کے متعلق لکھوا لیں.اس نہیں تاریخی اور واعظانہ امور سب ہی قسم کی ہوں یعنی صرفت ملفوظات ہی نہ ہوں بلکہ سلسلہ کی تاریخ اور حضور علیہ اسلام کے واقعات تاریخی بھی ہوں.یہ آپ کے لئے ثواب اور اُن کے لئے بہترین یادگار اور سلسلہ کے لئے ایک کار آمد سامان ہوگا.والسلام ۱۵۰ ۱٣٤ - ٢ خاکسار مرزا محمود احمد خلیفه البیع الثانی) ۱۹۳۷ محترم شیخ محمد احمدہ اپنے اپنے آقا کے اس ارشاد کی تعمیل میں اور دسمبر ہ سے روایات تحریر کرنا شروع گر دین حضرت منشی صاحب جو واقعات لکھناتے آپ انہی کے الفاظ میں اور اسی ترتیب سے تلمبند کر تے گئے.حضرت منشی صاحب نے تقریبا سوا سو نہایت نروح پرور روایات لکھوائیں.اس سلسلہ کی آخری روایت یہ تھی کہ :- حضور میں یہ ایک خاص بات ہم نے دیکھی کہ اگر معتر میں کے پاس اعتراض کرنے کے لئے کافی الفاظ نہ ہوتے تھے تو حضور اس کو اظہار مدعا میں درد دیتے تھے جتنی کہ معترض سمجھتا کہ اب جواب نہیں ہوسکی گا پھر حضور جب جواب دیتے تو سمال بہر ھے جھان." نیمه انجام انعام صحرا کالم ۱ که اینا میگنه کمالات اسلام صفحه ۸۸۲ باشید ۵۳ از امداد ام طبع اول صفحه ۸۰۰ حال امیر رهانات الساعدی نوع اولیور و فری پاکستان به هم سفر ۶ تا ۱۴۰ (طبع اوال مرتبه لک صابرح الدین اسباب ، قادیان -
۲۳۳ جناب شیخ محمد احمد صاحب مظہر یہ روایت درج کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں کہ : بر اگست ۹۴لہ کو عاجز نے مندرجہ بالا روایات لکھیں اور اس روایت کے بعد کہ " حضور میں یہ ایک خاص بات میں نے دیکھی ماضی کیا کہ کچھ اور کھو ئیں.والد صاحب نے نہایت دردمندانہ الفاظ میں آبدیدہ ہو کر فرمایا یہ محمد احمدہ نہیں، خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسی خاص الخاص خدمات کا موقع ملا ہے کہ ہم تو وہ باتیں اب بیان بیٹی نہیں کر سکتے.روایات کے متعلق آپ کے یہ آخری الفاظ تھے جو بعد میں مضمون کو ختم کرنے والے ثابت ہوئے.کیونکہ اس کے بعد روایات لکھنے کا عاجز کو موقع نہیں ملا - ۱۳ اگست ۹۷ پر کو آپ بیمار ہوگئے.19 را گست ۱۹ کو بہت کمزور ہو چکے تھے.کو صبح یہ بچے آپ اپنے مصور حقیقی سے جاملے.انا للہ وانا اليه راجعون.حضرت منشی ساحیب کی بیان فرمودہ یہ سب روایات پہلی بار رادیو آت ریجنز اردو مے اور میں چھپیں.۱۲۰۰ اگست ۱۳۷ جنور می ۱۶۱۹۴۲ بعد ازان مالک صلاح الدین صاحب ایم.اے نے انکو اصحاب احمد کی چوتھی بعد میں بھی شائع کر دیا.حضرت منشی ظفر احد صاحب کپور تھلوی کی رجعت تر امیرالمومنین کی زبان مبارک تقر منشی ظفر احمدت پر تل کے دو سر عشاق اہمیت کا مفصل تذکرہ جماعت احمدیہ کے لئے ایک بہت بڑا قومی المیہ تھا.یہی وجہ ہے کہ حضرت امیر المومین و لیفیت ایسے الاکی نے ہر ماہ ظہور من اللہ اور اگست (۵) کو ایک مفصل خطبہ ارشاد فرمایا جس کے شروع میں ان کے جنازہ کی نسبت فرمایا کہ : ان ہفتہ جماعت کو ایک نہایت ہی دردی پہنچانے والا اور تکلیف میں مبتلا کرنے والا واقع پیش آیا ہے یعنی منشی ظفر احمد صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ابتدائی صحابہ میں سے ایک تھے وہ اس ہفتہ میں فوت ہو گئے ہیں.مجھے افسوس ہے کہ میں اس وقت ڈلہوزی میں تھا جب انکی نخش یہاں لائی گئی اور میں اس جنازہ میں جو ان کی لاش پر پڑھا گیا شامل نہیں ہو سکا.مجھے ایسے وقت میں اطلاع ہوئی جبکہ میں کل صبح ہی آسکتا تھا.پہلے تو میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ تار نوں کہ جنازہ کو اس وقت تک روک لیا جائے جب تک میں نہ پہنچ جاؤں لیکن گرمی کی وجہ سے اور اس خیال سے گہ نہیں اس عرصہ تک روکنے سے نعش کو نقصان نہ پہنچنے میں نے تار دینا مناسب نہ سمجھا اور اس بات کو مقامی لوگوں پر چھوڑ دیا کہ اگر فش رہ سکتی ہے تو وہ میرا انتظار کریں گے کیو نکہ انہیں علم ہے کہ
۲۳۴ یکن آنے والا ہوں اور اگر مناصب نہ ہوا تو وہ انتظار نہیں کرینگے.چنانچہ جب میں یہاں پہنچاتو مجھے معلوم ہوا کہ پریوں رات ہی انہیں دفن کیا جا چکا ہے.مدتیں جمعہ کے بعد ان کا جنازہ پڑھا لگا.کیسے نہیں معلوم کہ کس حد تک یہاں کے لوگوں کو اس جنازہ کا علم ہوا اور وہ کس مدیک اس میں شامل ہوئے لیکن بہر حال جو لوگ اُن کے جنازہ میں شامل نہیں ہو سکے تھے اب ان کو بھی موقع مل جائیگا اور جو لوگ شامل ہو چکے ہیں انہیں دربارہ دُعا کا موقعہ مل جائیگا.میں سمجھتا ہوں لوگوں کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ وہ لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے عدی کے ابتدائی ایام میں آپ پر ایمان لائے، آپ سے تعلق پیدا کیا اور ہر قسم کی قربانیاں کرتے ہوئے اس راہ میں انہوں نے ہزارہ ہی نہیں اور تکلیفیں برداشت کیں اُن کی وفات جماعت کے لئے کوئی معمولی مدرسہ نہیں ہوتا.میرے نزدیک ایک مومن کو اپنی بیوی اپنے بچوں اپنے باپ اپنی ماں اور اپنے بھائیوں کی وفات سے ان لوگوں کی وفات کا بہت زیادہ صدمہ ہونا چاہیئے اور یہ واقعہ تو ایسا ہے کہ دل اُس کا تصور کر کے سخت دردمند ہوتا ہے کیونکہ منشی ظفر احمد صاحب ان آدمیوں میں سے آخری آدمی تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة و اسلام کے ساتھ انتہائی ایام میں اکٹھے رہے اور یہ ایک عجیب بات ہے کہ یہ رتبہ پنجاب کی دو ریاستوں کو ہی حاصل ہوا.پٹیالہ میں میاں عبداللہ صاحب سنوری کو خداتعالی نے یہ رتبہ دیا.کپور تھالی می نشی اروڑے خان صاحب نے عبد المجید خان صاحب کے والدینشی محمد خان صاحب اور منشی ظفر احمد صاحب کو یہ مرتبہ ملا.یہ چار آدمی تھے جن کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ کوئی ماموریت اور بیعت سے بھی پہلے کے تعلقات تھے اور اس قسم کے خادم نہ تعلقات تھے کہ ایک منٹ کے لئے بھی دور رہنا برداشت نہیں کر سکتے تھے.پس ایسے لوگوں کی وفات ایک بہت بڑا اور اہم مسلہ ہوتا ہے اور ان لوگوں کے لئے دعا کرنا اُن پر احسان کرنا نہیں ہوتا بلکہ اپنے اوپر احسان ہوتا ہے.بیٹے ازاں بعد حضور حضرت منشی عبدالله صاحب سنوری ، حضرت منشی روڑے خان صاحب ، حضرت منشی محمد خان سی این اور حضرت منشی ظفر احمد صاحب نے کے بلند مقام کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کے والہانہ اخلاص و فدائیت کے متعدد واقعات بیان کئے.چنانچہ فرمایا :- وہ لوگ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی ابتدائی زمانہ میں خدمات کی میں ایسی ہستیاں ہیں کہ جو الفضل ۲۸ فور صفحه ا۲۰ به احمدیت ۶۱۹۴۱
۲۳۵ دنیا کے لئے ایک تحریے اور حفاظت کا ذریعہ ہیں یہ لوگ جو خدا تعالے کے انبیاء کا قرب رکھتے ہیں، خدا تعالیٰ کے نبیوں اور اس کے قائم کردہ خلفاء کے بعد دوسرے درجہ پر دنیا کیئے ان ادور سکون کا باعث ہوتے ہیں.یہ ضروری نہیں کہ ایسے لوگ بڑے لیکچرار ہوں ، یہ ضروری نہیں کہ ایسے لوگ خطیب ہوں ، یہ ضروری نہیں کہ ایسے لوگ پھر پھر کر لوگوںکو تبلیغ کرنے والے ہوا، اُن کا وجود ہی لوگوں کے نے برکتوں اور منتوں کا موجب ہوتا ہے اور جب کبھی خدا تعالی کی طرف سے بندروں کی نافرمانی کی وجہ سے کوئی عذاب نازل ہونے لگتا ہے تو اللہ تعا لے اس عذاب کو روک دیتا ہے اور کہتا ہے ابھی اس قوم پر مت نازل ہو کیونکہ اس میں ہمارا ایسا بندہ موجود ہے جسے اس عذاب کی وجہ سے تکلیہ ہوگی پس اُس کی خاطر دنیا میں امن اور سکون ہوتا ہے.تگریہ لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لائے یہ تو اس عام درجہ سے بھی بلا تھے.ان کو خدا نے آخری زمانہ کے مامور اور مرسل کا صحابی اور پھر ابتدائی صحابی بننے کی توفیق عطافرمائی.اوران کی والہانہ محبت کے نظارے ایسے ہیں کہ دنیا ایسے نظارے صدیوں میں بھی دکھانے سے قاصر رہے گی..مجھے وہ نظارہ نہیں بھولتا اور نہیں مجھول سکتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات پر ابھی چند ماہ ہی گذرے تھے کہ ایک دن باہر سے مجھے کسی نے آواز دے کر گوایا اور خادمہ یا کسی بچہ نے بتایا کہ دروازہ پر ایک آدمی کھڑا ہے اور وہ آپ کو بلا رہا ہے یں باہر نکلی تو منشی روڑے خان صاحب مرحوم کھڑے تھے.وہ بڑے تپاک سے آگے بڑھے مجھ سے مصافحہ کیا اور اس کے بعد انہوں نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا.جہاں تک مجھے یاد ہے انہوں نے اپنی جیب سے دو یا تین پاؤنڈ نکالے اور مجھے کہا کہ یہ اماں جان کو دے دیں اور یہ کہتے ہیں اُن پر ایسی رقت طاری ہوئی کہ وہ پہنچیں مار کر رونے لگ گئے اور اُن کے رونے کی حالت اس قسم کی تھی کہ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے بکرے کو ذبح کیا جا رہا ہے.میں کچھ حیران سارہ گیا کہ یہ رو کیوں رہے ہیں.مگر میں خاموش گھڑا رہا.انتظار کرتا رہا کہ وہ خاموش ہوں تو ان سے رونے کی وجہ دریافت کروں.اس طرح وہ کئی منٹ تک روتے رہے.منشی روڑے خان صاحب مرحوم نے بہت ہی معمولی ملازمت سے ترقی کی تھی.پہلے کچہری میں وہ چپڑاسی کا کام کرتے تھے اپھر اہل مد کا عہدہ آپ کو مل گیا.اسکے بعد نقشہ نہیں ہو گئے.پھر اور ترقی کی تو سر رشتہ دار ہو گئے.اس کے بعد ترقی پاکر نائب تحصیلدار ہو گئے اور پھر تحصیلدار بین کر ریٹائر ہوئے.ابتداء میں اُن کی تنخواہ دس پندرہ روپے سے زیادہ نہیں ہوتی تھی.جب اُن کو
ذرا مہر آیا تو میں نے اُن سے پوچھا کہ آپ روٹے کیوں ہیں.وہ کہنے لگے.میں غریب آدمی تھا.مگر جوب بھی مجھے چھٹی ملتی قاریان آنے کے لئے چل پڑتا تھا.سفر کا بہت سا حصہ میں پیدل ہی طے کرتا تھا تا کہ سلسلہ کی خدمت کے لئے کچھ پیسے بیچے جائیں مگر پھر بھی روپیہ ڈیڑھ روپیہ خرچ ہو جاتا.یہاں اگر جب میں امراء کو دیکھتا کہ وہ سلسلہ کی خدمت کے لئے بڑا روپیہ خرچ کر رہے ہیں تو میرے دل میں خیال آتا کہ کاش میرے پاس بھی روپیہ ہو اور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خارمت میں پاندی کا تحفہ لانے کے بجائے سونے کا تحفہ پیش کروں.آخر میری تنخواہ کچھ زیادہ ہوگئی (اُس وقت اُن کی تنخواہ شاید بیس پچیس روپیہ تک پہنچ گئی تھی اور میں نے ہر مہینے کچھ رقم جمع کرنی شروع کر دی اور میں نے اپنے دل میں یہ نیت کی کہ جب یہ رقم اس مقدار تک پہنچ جائے گی جوئیں چاہتا ہوں تو میں اسے پونڈوں کی صورت میں تبدیل کر کے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی خدمت میں پیش کو زنگا.پھر کہنے لگے کہ میرے پاس ایک پونڈ کے برابر رقم جمع ہوگئی.پھر وہ رقم دے کر میں نے ایک پونڈے لیا.پھر دوسرے پونڈ کے لئے رقم جمع کرنی شروع کر دی.اور جب کچھ عرصہ کے بعد اس کے لئے رقم جمع ہو گئی تو دوسرا لونڈے لیا.اس طرح میں آہستہ آہستہ کچھ رقم جمع کر کے انہیں پونڈوں کی صورت میں تبدیل کرتا رہا اور میرا فشا یہ تھا کہ میں یہ پونڈ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی خدمت میں بطور تحفہ پیش کرونگا.مگر جب میرے دل کی آمدو پوری ہوگئی اور پونڈیرے پاس جمع ہو گئے تو یہاں تک وہ پہنچے تھے کہ پھر ان پر رقت کی حالت طاری ہو گئی اور آخر روتے روتے انہوں نے اس نفرہ کو اس طرح پورا کیا کہ جب پونڈ میرے پاس جمع ہو گئے تو تقصر مسیح موجود علیہ اسلام کی وفات ہوگئی.یہ اخلاص کا کیسا اندار نمونہ ہے کہ ایک شخص چندے بھی دیتا ہے قربانیا بھی کرتا ہے.مہینہ میں ایک دفعہ نہیں دو دفعہ نہیں بلکہ تین تین دفعہ جمعہ پڑھنے کے لئے قادیان پہنچ جاتا ہے بسلسلہ کے اخبار اور کتابیں بھی خریدتا ہے.ایک معمولی سی تنخواہ ہوتے ہوئے جب کہ آج اس تنخواہ سے بہت زیادہ تنخواہیں وصول کرنے والے اس قربانی کا دسواں بلکہ عبیسواں حصہ بھی قربانی نہیں کرتے اُس کے دل میں یہ خیال آتا ہے کہ امیر لوگ جب حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی خدمت میں سونا پیش کرتے ہیں تو میں اُن سے پیچھے کیوں رہوں.چنانچہ وہ ایک نہایت ہی قلیل تنخواہ میں سے اہوار کچھ رقم جمع کرتا اور ایک عرصہ دراز تک جمع کرتا رہتا ہے، نامعلوم اس دوران میں اُس نے اپنے گھرمیں کیا کیا تنگیاں برداشت کی
۲۳۷ ہونگی کیا کیا تکلیفیں تھیں جو اس نے خوشی سے جھیلی ہونگی محض اس لئے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں اشرفیاں پیش کر سکتے.گر جب اُس کی خواہش پورا کرنے کا وقت آتا ہے تو اللہ تعلی کی حکمت اُس کو اس رنگ میں خوشی حاصل کرنے سے محروم کر دیتی ہے جس نگ میں وہ اُسے دیکھنا چاہتا تھا.میں کئی دفعہ سنایا ہے کہ منشی روڑے خان صاحب مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ بعض غیر احمدی دوستوں نے کہا کہ تم ہمیشہ ہیں تبلیغ کرتے رہتے ہو فلاں جگہ مولوی ثناء اللہ صاحب آئے ہوئے ہیں تم بھی چلو اور انکی بانوں کا جواب دو مینشی روڑے خان صاحب مرحوم کچھ زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے دوران ملازمت میں ہی انہیں پڑھنے لکھنے کی جوش ہوئی ہی انہیں حاصل تھی.وہ کہنے لگے جب ان دوستوں نے اصرار کیا نی نے کہا اچھا چلو.چنانچہ وہ انہیں بلکہ میں نے گئے.مولوی ثناء اللہ صا دینی احمدیت کے خلاف تقریر کی اور اپنی طرف سے خوب دلائل دیئے جب تقریر کر کے دو بیٹھ گئے تو منشی رٹے خان صاحبت ہے.اُن کے دوست کہنے لگے کہ بتائیں ان دلائل کا کیا جواب ہے ، منشی روڑے خان صاحب فرماتے تھے میں مین سے کہا.یہ مولوی ہیں میں ان پڑھ آدمی ہوں ان کی دلیلوں کا جواب تو کوئی مولوی ہی دے گا.میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ میں نے مرزا صاحب کی شکل دیکھی ہے وہ جھوٹے نہیں ہو سکتے.اسی طرح ایک دفعہ کسی دوست نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں ایک واقعہ سنایا جس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی پہنے اور پلیس میں بیٹھے ہوئے دوسرے لوگ بھی بہت محفوظ ہوئے بنٹی روڑے خان صاحب شروع میں قادریان بہت زیادہ آیا کرتے تھے.بعدمیں چونکہ اہم کام ان کے سپرد ہو گئے اسلئے جلدی چھٹی منا اُن کے لئے مشکل ہو گیا تھا مگر پھر بھی وہ قادیان اکثر آتے رہتے تھے ہمیں یاد ہے.جب ہم چھوٹے بچے ہوا کرتے تھے توان کا آٹا ایسا ہی ہوا کرتا تھا جیسے کوئی مدتوں کا بچھڑا ہوا بھائی سالہا سال کے بعد اپنے کسی عزیز سے آکر ملے.کپور تھر کی جماعت میں سے منشی سے خان صاحب منشی ظفر احمد صاحب اور نشی محمد خان صاحب جب بھی آتے تھے تو ان کے آنے سے ہمیں بڑی خوشی ہوا کرتی تھی.غرض اس دوست نے بتایا کہ منشی روڑے خان صاحب تو ایسے آدمی ہیں کہ یہ مجسٹریٹ کو بھی ڈرا دیتے ہیں.پھر اُس نے سُنایا کہ ایک دفعہ انہوں نے مجسٹریٹ سے کہا میں قادیان جانا چاہتا ہوں مجھے چھٹی دے دیں.اُس نے انکار کر دیا.اسوقت وہ سیشن جج کے دفتر میں لگے ہوئے تھے انہوں نے کہا.قادیان میں میں نے ضرور جاتا ہے مجھے آپ چھٹی دے دیں.وہ کہنے لگا کام بہت ہے اس وقت
آپ کو چھٹی نہیں دی جا سکتی.وہ کہنے لگے بہت اچھا : آپ کا کام ہوتا رہے میں تو آج ہی بددعا میں لگ جاتا ہوں.آپ اگر نہیں جانے دیتے تو نہ جانے دیں.آخر اس مجسٹریٹ کو کوئی ایسا نقصان پہنچا کہ وہ سخت ڈر گیا اور جب بھی ہفتہ کا دن آتا وہ عدالت والوں سے کہتا کہ آج کام ذرا جلدی بند کر دیا.کیونکہ منشی روڑے خان صاحب کی گاڑی کا وقت نکل جائیگا.اس طرح وہ آپ ہی جب بھی منشی صاحبت کا ارادہ قادیان آنے کا ہوتا انہیں چھٹی دے دیتا.اور وہ تمادیان پر پہنچ جاتے.پھر اُن محبت کا یہ نقشہ بھی مجھے کبھی نہیں بھولتا جو گو انہوں نے مجھے خود ہی سنایا تھا مگر میری آنکھوں کے سامنے وہ یوں پھرتا رہتا ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے اس واقعہ کے وقت میں بھی وہیں موجود تھا.انہوں نے سنایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ایک دفعہ ہم نے عرض کیا کہ حضور کبھی کپور تھالہ تشریف لائیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وعدہ فرمالیا کہ جب فرصت ملی تو آ جاؤنگا.وہ کہتے تھے ایک دن کپورتھلہ میں میں ایک دوکان پر بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شدید ترین دشمن اڈے کی طرف سے آیا.اور مجھے کہنے لگا تو تمہارا مرزا کپور تھلے آگیا ہے.معلوم ہوتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کو نسب مہلت کی وہ اطلاع دینے کا وقت نہ تھا اس لئے آپ بغیر اطلاع دیئے ہی چل پڑے مینشی روڑے خان صاحب نے یہ خبر سنی تو وہ خوشی میں تنگے سر اور ننگے پاؤں اڈے کی طرف بھاگے مگر چونکہ خبر دینے والا شدید ترین مخالف تھا.وہ ہمیشہ احمدیت سے تمسخر کرتا رہتا تھا ان کا بیان تھا کہ تھوڑی دور جا کہ مجھے خیال آیا کہ یہ بڑا بیٹ دشمن ہے اس نے ضرور مجھ سے ہنسی کی ہوگی.چنانچہ مجھے پہ جنون سا طاری ہوگا اور یہ خیال کرکے کہ نا معلوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام آئے بھی ہیں یا نہیں.میں کھڑا ہو گیا اور میں نے اُسے بے تحاشہ برا بھلا کہنا شروع کر دیا کہ تو بڑا خبیث اور بد معاش ہے.تو کبھی میرا پیچھا نہیں چھوڑتا اور یہ ہنسی کرتا رہتا ہے بھلا ہماری قسمت کہاں کو حضرت صاحب کپورتھلہ تشریف لائیں.وہ کہنے لگا کہ آپ ناراض نہ ہوں اور جا کر دیکھ لین مرزا صاحب واقع میں آئے ہوئے ہیں.اُس نے یہ کہا تو میں پھر دوڑا مگر پھر خیال آیا کہ اس نے ضرور مجھ سے دھو کہ کیا ہے چنانچہ پھر میں اُسے کوسنے لگا کہ تو بڑا جھوٹا ہے ہمیشہ مجھ سے مذاق کرتا رہتا ہے ہماری ایسی قسمت کہاں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام ہمارے ہاں تشریف لائیں.مگر اُس نے پھر کہا.خشی صاحب وقت ضائع نہ کریں مرزا صاحب واقع میں آئے ہوئے ہیں.چنانچہ پھر اسی خیال سے کہ مث یاد آہی گئے ہوں میں دوڑ پڑا اگر پھر یہ خیال آجاتا کہ کہیں
اس سے دھوکہ ہی نہ دیا ہو.چنانچہ پھر سے ڈانٹا.آخر وہ کہنے لگا.مجھے برا بھلا نہ کہو اور جاکر اپنی آنکھوں سے دیکھ لو واقع میں مرزا صاحب آئے ہوئے ہیں.غرض میں کبھی دھوتا اور کبھی یہ خیال کر کے کہ مجھ سے مذاق ہی نہ کیا گیا ہو ٹھہر جاتا.میری یہی حالت تھی کہ میں نے سامنے کی طرف جو دیکھا تو فقر مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام تشریف لا رہے تھے.آپ یہ والہانہ محبت اور عشق کا رنگ کتنے لوگوں کے دلوں میں پایا جاتا ہے.یقیناً بہت ہی کم لوگوں کے دلوں میں.میاں عبد اللہ صاحب سنوری بھی اپنے اندر ایسا ہی عشق رکھتے تھے.ایک دفعہ وہ قادیان میں آئے اور حضرت سیح موعود علیہ اسلام سے ملے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اُن سے کوئی کام لے رہے تھے اس لئے جب میاں عبد اللہ صاحب سنوری کی چھٹی ختم ہوگئی اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جانے کیلئے اجازت طلب کی تو حضور نے فرمایا.ابھی ٹھہر جاؤ.چنانچہ انہوں نے مزیادہ رخصت کے لئے درخواست بھجوادی نگر محکمہ کی طرف سے جواب آیا کہ اور چھٹی نہیں مل سکتی تو انہوں نے اس امر کا حضرت کی موعو علی السلام سے ذکر کیا تو آپ نے پھر فرمایا کہ ابھی ٹھہرو.چنانچہ انہوں نے لکھ دیا کہ میں ابھی نہیں آسکتا.اس پر محکمہ والوں نے انہیں ڈریں مس کر دیا.چار یا چھے مہینے جتنا عرصہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں رہنے کے لئے کہا تھا وہ یہاں ٹھہرے رہے.پھر جب واپس گئے تو محکمہ نے یہ سوال اٹھا دیا کہ میں افسر نے انہیں ڈس میں کیا تھا اس افسر کا یہ حق ہی نہیں تھا کہ وہ انہیں ڈس میں کرتا.چنانچہ وہ پھراپنی جگہ پر بحال کئے گئے اور پچھلے مہینوں کی جو قادیان میں گزر گئے تھے تنخواہ بھی مل گئی.اسی طرح منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی کے ساتھ واقعہ پیش آیا جو کل ہی ڈلہوزی کے راستہ میں میاں عطاء اللہ صاحب وکیل سلم اللہ تعالیٰ نے سنایا.یہ واقعہ الحکم ۱۲ را پر یا دیا چکا ہے.اس لئے منشی صاحب کے اپنے الفاظ میں اسے بیان کرتا ہوں :- میں جب سر رشتہ دار ہوگیا اور پیشی میں کام کرتا تھا تو ایک دن مسلیں وغیرہ بند کر کے قادریان چلا آیا.تیسرے دن میں نے اجازت چاہی تو فرمایا ابھی ٹھہری.پھر عرض کرنا مناسب نہ سمجھا کہ آپ ہی فرمائیں گے اس پر ایک مہینہ گزر گیا.ادھر سکیں میرے گھر یں تھیں کام بنا.ہوگیا اور سخنت مخطوط آنے لگے گا یہ ہی یہ حالت تھی کہ ان خطوط کے متعلق دہم بھی نہ آتا تھا.حضور کی صحبت میں ایک ایسا لطف اور محویت تھی کہ نہ نوکری جانے کا خیال تھا اور نہ کسی بات پر سی کا اندیشہ به
آخر ایک نہایت ہی سخت خط وہاں سے آیا.میں نے وہ خط حضرت صاحب کے سامنے رکھ دیا.پڑھا اعد فرمایا کھاد ہمارا آنا نہیں ہوتا.میں نے دہی فقرہ لکھ دیا.اسپر ایک تہمینہ اور گزر گیا.تو ایک دن فرمایا کتنے دن ہو گئے.پھر آپ ہیں گھنے لگے اور فرمایا اچھا آپ چلے جائیں میں چلا گیا اورکپور تھلی پہنچ کر لالہ ہر روان اس مجسٹریٹ کے مکان پر گیا تاکہ معلوم کروں کیا فیصلہ ہوتا ہے.انہوں نے کہا.منشی جی ! آپ کو مرزا صاحب نے نہیں آنے دیا ہوگا.میں نے کہا.ہاں.تو فرمایا اُن کا حکم مقدم ہے." میان عطاء اللہ صاحب کی روایت میں اسقدر زیادہ ہے کہ منشی صاحب مرحوم نے فرمایا.کچھ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ لکھ دو ہم نہیں آسکتے.میں نے وہی الفاظ لکھ کر مجسٹریٹ کو بھیجوا دیئے.یہ ایک گروہ تھا جس نے عشق کا ایک کھلے اعلی درجہ کا نمونہ دکھایا کہ ہماری آنکھیں اب پچھلی جماعتوں کے آگے نیچی نہیں ہوسکتیں.منہ حضرت امیر المومنین نے اپنے خطبہ کے آخر میں احباب جماعت کو جماعت احمدیہ کونصیحت نصیحت فرمائی کہ : یہ وہ لوگ ہیں جن کے نقش قادم پیر جماعت کے دوستوں کو چلنے کی کوشش کرنی چاہیئے.کہنے والے کہیں گے کہ یہ شرک کی تعلیم دی جاتی ہے.یہ جنون کی تعلیم دی جاتی ہے.یہ پاگل پن کی تعلیم دی جاتی ہے گر حقیقت یہ ہے کہ پاگل رہی ہیں جنہوں نے اس رستہ گو نہیں پایا اور اس شخص سے زیادہ عقلمند کوئی نہیں جس نے عشق کے ذریعہ خدا اور اس کے رسول کو پا لیا اور میں نے محبت میں محمد ہو کر اپنے آپ کو اُن کے ساتھ وابستہ کر لیا.آپ اُسے خدا سے اور خدا کو اس سے کوئی چیز جدا نہیں کر سکتی کیونکہ عشق کی گرمی ان دونوں کو آپس میں اس طرح ملا دیتی ہے جس طرح ویلڈنگ کیا جاتا ہے اور نور چیزوں کو جوڑ گر آپس میں بالکل پیوست کر دیا جاتا ہے مگر وہ جسے محض فلسفیانہ ایمان عامل ہوتا ہے اس کا خدا سے ایسا ہی جوڑ ہوتا ہے جیسے قلعی کا ٹانکہ ہوتا ہے ذرا گر میں لگے تو ٹوٹ جاتا ہے.مگر جب ویلڈنگ ہو جاتا ہے تو ایسا ہی ہو جاتا ہے جیسے کسی چیز کا جزو ہو.پس اپنے اندر عشق پیدا کرو اور وہ راہ اختیار کرو جو ران لوگوں نے اختیار کی پیشتر اس کئے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے جو صحابی باقی ہیں وہ بھی ختم ہو جائیں له الفضل ۲۸ فرور هر صفحه ۳ تا ۲ *
یشن بنائی گہرا تعلق رکھنے والے لوگوں میں سے منشی ظفر احد صاحب آخری صحابی تھے گھر ابھی بعض آور پرانے لوگ موجود ہیں گو اتنے پرانے نہیں جیتنے منشی ظفر احمد صاحب تھے.چنانچہ کوٹلہ میں میر عنایت علی صاحب ابھی زندہ ہیں جنہوں نے ساتویں نمبر پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تھی مگر پھر بھی یہ جماعت کم ہوتی جا رہی ہے اور وہ لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں آپ سے گہرا تعلق اور بے تکلفی رکھتے تھے اُن میں سے غائبا منشی ظفر احمد صاحب آخری آدمی تھے.کپور تھلہ کی جماعت کو ایک یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس جماعت کو یہ لکھ کر بھیجا تھا کہ مجھے یقین ہے جس طرح خدا نے اس دنیا میں ہمیں اکٹھا رکھا ہے.اسی طرح اگلے جہان میں بھی کچھ تھلہ کی جماعت کو میرے ساتھ رکھیے گا.مگر اس سے کپورتھلہ کی جماعت کا ہر فرد مراد نہیں بلکہ صرف وہی لوگ مراد ہیں جنہوں نے اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کا ساتھ دیا.مجھے منشی روڑے خان صاحب تھے یا منشی محمد خان صاحب تھے یا منشی ظفر احمد صاحب تھے.یہ بزرگ حضرت مسیح موعود علی الصلوۃ والسلام کے ہزاروں نشانوں کا چلتا پھرتا ریکارڈ تھے.نامعلوم وگوں نے کس حد تک ان ریکارڈوں کو محفوظ کیا مگر بہر حال خدا تعالیٰ کے ہزاروں نشانات کے وہ چشم دید گواہ تھے.ان ہزاروں نشانات کے جو حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے ہاتھ اور آپ کی زبان اور آپ کے کان اور آپ کے پاؤں وغیرہ کے ذریعے ظاہر ہوئے.تم صرف وہ نشانات پڑھتے ہو جو الہامات پورے ہو کر نشان قرار پائے مگر ان نشانوں سے ہزاروں گئے زیادہ وہ نشانات ہوتے ہیں جو خدا تعالے اپنے بندوں کی زبان ناک کان ہاتھ اور پاؤں پر جاری کرتا ہے اور ساتھ رہنے والے سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ خدا کے نشانات ظاہر ہو رہے ہیں وہ انہیں اتفاق قرار نہیں دیتے کیونکہ وہ نشانات ایسے حالات میں ظاہر ہوتے ہیں جو بالکل مخالف ہوتے ہیں اور جن میں ان باتوں کا پورا ہونا بہت بڑا نشان ہوتا ہے.پس ایک ایک صحابی جو فوت ہوتا ہے وہ ہمارے ریکارڈ کا ایک بھر ہوتا ہے جسے ہم زمین میں دفن کر دیتے ہیں.اگر ہم نے ان رجسٹروں کی نقلیں کرتی ہیں تو یہ ہمارے لئے خوشی کا مقام ہے اور اگر ہم نے ان کی نفی نہیں کیں تو یہ ہماری بدقسمتی کی علامت ہے.بہرحال ران لوگوں کی قدر کرو.ان کے نقش قدم پر چلو اور اس بات کو اچھی طرح یاد رکھو کہ فلسفیانہ ایمان انسان کے کسی کام نہیں آتا.وہی ایمان کام آسکتا ہے جو مشاہدہ پر مبنی ہو اور مشاہدہ کے بغیر
۲۴۲ عشق نہیں ہو سکتا.جو شخص کہتا ہے کہ بغیر مت پورہ کے اُسے بہت کامل حاصل ہو گئی ہے وہ جھوٹا ہے مشاہدہ ہی ہے جو انسان کو عشق کے رنگ میں رنگین کرتا ہے.اور اگر کسی کو یہ بات حاصل نہیں تو وہ سمجھ لے کہ فلسفہ انسان کو محبت کے رنگ میں رنگین نہیں کر سکتا فلسفہ فردونی پیدا کرتا ہے.ہے فصل سوم حترامی یونین کی طرق افغانستان حیدرآباد تک حضرت سیٹو محوفوت صاحب میده بارانی پھیلی ہوئی مخلص احمدی جماعتوں کا ذکر ایک نہایت نص سے سلسلہ کے فلائی بزرگ مخلص اور تھے.ہار تیک دستمبر کو اُن کی چھوٹی لڑکی.داشته اصلی صاحبہ) کی تقریب نکاح تھی جس کا اعلامی حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے فرمایا حضور نے خطیہ انکار میں اضافات سے نیر حیدر آباد تک پھیلی ہوئی احمدی جماعتوں کا بڑی شرح وبسط سے ذکر کرتے ہوئے بعض مخلصین کی خاص طور پر تعریف کی.چنانچہ فرمایا : اللہ تعالیٰ کی شفقت کے تحت جو قدیم سے اوروں کے متعلق چلی آتی ہے اس نے ہماری جماعت کو بھی مختلف علاقوں میں پھیلا یا ہوا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کی قدیم سنت ہے کہ اہلی جماعتیں بطور بیچ کے پھینکی جاتی ہیں جس طرح ہم اگر ایک فٹ سے زمین پر دانے پھینکیں تو وہ تھوڑی سی جگہ میں پھیلیں گے لیکن اگر ایک بلند مینار پر سے پھینکیں تو دور دور گریں گے اور کسی بلند پہاڑ پر سے پھینکیں تو اور بھی معد زمین پر پھیلیں گے.اسی طرح ہو کہ اللہ تعالی کی طرف سے ایمان آسمان سے پھینکا جاتا ہے وہ ساری دنیا پر پھیل جاتا ہے..اسی چھینٹے میں مختلف علاقوں میں مختلف مدارج کے لوگ پیدا ہوئے ہیں.افغانستان میں سید عبد اللطیف صاحب نعمت اللہ صاحب اور اور کئی شہداء پیدا ہوئے.پھر کئی اُن میں سے قادیان آگئے.اور ان کے ذریعہ تمام علاقہ میں تبلیغ ہوگئی ورنہ کہاں مند دستمان اور کہاں افغانستان ہمارے لئے تو سرداروں پر تبلیغ کرنامشکل تھا مگر یہ اللہ تعالی کی مشکیت تھی کہ وہ ان لوگوں کو سرحدوں سے پارلے گیا تا کہ ان تمام علاقہ میں تبلیغ ہو سکے.صفحه
سلام سلام ال...کسی کو بہائیں اور کسی کو بنگال میں اور کسی کو یوپی میں بیعت کی توفیق ہوئی، اور ان صرب نے اپنی اپنی جگہ پر حمایت کو پھیلانا شروع کر دیا.انہی میں سے ایک حیدر آباد کی جماعت ہے جو یہاں سے تقریبا ڈیڑھ ہزار میل دور ہے.بیچ میں ایک لمبا علاقہ ہے جہاں نام کو بھی کوئی احمدی نہیں سی پی کا علاقہ بیچ میں ہے اُس میں جتنے احمدی ہیں وہ سب ملا کر بھی شاید شہر حیدر آباد کی جماعت کے برابر نہ ہوں.یوپی میں بھی بہت کم ہیں.اور ان مدرب علاقوں کو پار کر کے اللہ تعالے نے حیدر آباد میں ایک جماعت پیدا کر دی اور وہاں ایسے مخلص احباب پیدا ہوئے جنہوں نے احمدیت کے لئے بہت قربانیاں کی ہیں اور ایثار سے کام کیا وہاں جماعت مولوی محمد سعید صاحب کے ذریعہ قائم ہوئی.المیہ میں ایک گاؤں سنیل پور سارے کا سارا احمدی ہے.اور وہ بھی در اصل حیدر آباد کی ہی پیدا شدہ جماعت ہے.سید عبد الرحیم صاحب وہاں کے رہنے والے حیدر آباد آگئے تھے وہاں وہ موبی بی پرسید صاحب سے ملے.مولوی صاحب نے انہیں تبلیغ کی اور بعض کتب میں بھی دیں جن کے مطالعہ سے وہ احمدی ہو گئے اور پھر اُن کے اثر کی وجہ سے یہ گاؤں سارے کا سارا احمدی ہو گیا.اس وقت میں جن کی لڑکی کے نکایج کا اعلان کرنے والا ہوں وہ حیدر آباد کے رہنے والے سیٹھ محمد غوث ہیں وہ بھی اُن مخلصین میں میں جنگا دل خدمت سلسلہ کے لئے گداز ہے اور وہ اسوین کا بہت ہی احساس رکھتے ہیں ہیں تو وہ پہلے سے احمدی مگر میرے ساتھ اُن کی واقفیت جو ہوئی تو وہ صبح کو جاتے ہوئے ۱۹ ء میں ہوئی تھی.شاید اُن کو علم ہو کہ میں جا رہا ہوں یا شاید وہ تجارت کے سلسلے میں وہاں آئے ہوئے تھے.بہر حال اُن سے میری پہلی ملاقات وہاں ہوئی اور پھر ایسے تعلقات ہو گئے کہ گویا واحد گھر کی صورت پیدا ہو گئی مستورات کے بھی آپس میں تعلقات ہو گئے.حج کے موقعہ پر عبد ابھی عرب بھی میرے ساتھ تھے وہاں سے روانگی کے وقت سیٹھ صاحب نے اُن کو بعض چیزیں دیں جن میں ایک گلاس بھی تھا.وہ انہوں نے عبد الحی صاحب کو یہ کہہ کر دیا تھا کہ جب آپ اس میں پانی پیئیں گے تو میں یاد آجاؤنگا اور اس طرح آپ میرے لئے دعا کی تحریک کر سکیں گے.غرض سیٹھ صاحب حیدر آباد کے نہایت مخلص لوگوں میں سے ہیں.چندہ کی فراہمی کے لحاظ سے ، جماعت میں اتحاد و اتفاق قائم رکھنے کے لحاظ سے انہوں نے بہت اچھا کام گیا ہے اور بغیر اس کے کہ کوئی وقفہ پڑا ہو گیا.اور اُن کے اخلاص کا ہی نتیجہ ہے کہ اُن کو اولاد بھی اللہ تعالی نے مخلص دی ہے.بعض لوگ خود تو مخلص ہوتے ہیں مگر اُن کی اولاد میں وہ اخلاص نہیں ہو تا گر میٹھے نصاب
۲۴۴ کی اولاد بھی مخلص ہے.ان کے بڑے لڑکے محمد عظیم صاحب میں ایسا اخلاص ہے جو کہ نوجوانوں میں ہوتا ہے تبلیغ ور تربت کی اور انہیں خاص توجہ میں نے دیکھا ہے.ریاستوں والی کرنے و ا ا ا و ر پر تے میں ہر کوئی بات وہی تو ایک معقد و بعد بی تو کیتے تے ہیں اور وہ یا تو ان میں تو پیدا کرتے رہتے ہیں.اور اب بھی نوجوان میں جوش پیدا کرتے رہے ہیں.کر کے معین الدین میں بھی بہت خاص سے سلسلہ کے کاموں میں حصہ لیتے اورخدام الاحمدیہ کی تحریک میں بہت جدو جہد کرتے ہیں.ہاتھ سے کام کی نے کی تحریک کو مقبول بنانے کا بھی انہیں شوق ہے.لڑکیوں میں سے اُن کی بڑی لڑکیوں کے تعلقات امتد الحی مرحومہ کے ساتھ تھے.پھر اُن کی چھوٹی لڑکی خلیل کے ساتھ بیاہی گئی جو تحریک جدید کا مجاہد ہے.اس لڑکی کے امتہ القیوم کے ساتھ بہنوں جیسے تعلقات ہیں اور شروع سے اب تک اس خاندان نے ایسے اخلاص کے ساتھ تعلق کھا اور اسے نبھایا ہے کہ اس میں کبھی بھی کمی نہیں آئی.اللہ تعالیٰ ایسے مخلصین کے لئے ذرائع بھی خود مہیا کرتا ہے.ان کے لڑکوں کی شادیاں بھی ایسے گھرانوں میں ہوئی ہیں جو بہت مخلص ہیں.محمد اعظم کی شادی حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے مخلص اور دائی های حکیم مرسین صاحب قرشی موجد مفرح عنبری کی لڑکی ہوئی ہے موجود قریشی صاحب بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ابتدائی صحابہ میں سے تھے اور ایسے مخلص تھے کہ الہ تعلی نے ہر ابتلاء سے انہیں بچا لیا.جب پہلے پہل خلافت کا جھگڑا اُٹھا تو خواجہ صاحب اور اُن کے ساتھیوں نے لاہور کی جماعت کو جمع کیا اور کہا کہ دیکھو سلسلہ کس طرح تباہ ہونے لگا ہے.یہ حضرت خلیفہ امسیح الاول کی خلافت کا زمانہ تھا جب میر محمد اسحاق صاحب نے بعض سوالات لکھ کر آپ کو دیئے تھے اور آپ نے جواب کے لئے وہ باہر کی جماعتوں کو بھجوا دیئے.اس وقت لاہور کی ساری کی ساری جماعت اس پر شفق ہوگئی منفی کہ دستخط کرکے خلیفہ اول کو بھجوائے جائیں کہ خلافت کا یہ طریق احمد یہ جماعت میں نہیں بلکہ اصل ذمہ دار جماعت کی انجمن ہے.جب سب لوگ امر امر کی تصدیق کر رہے تھے قریشی صاحب خاموش بیٹھے رہے کہ میں سب سے آخر میں اپنی رائے بتاؤنگا.آخر پر ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے بڑے زور سے اس خیال کی تمدید کی اور کہا کہ یہ گستاخی ہے کہ ہم خلیفہ کے اختیارات معین کریں ہم نے اُن کی بیعت کی ہے اس لئے ایسی باتیں جائزہ نہیں.وہ آخری آدمی تھے اُن سے پہلے سب اپنی اپنی رائے ظاہر کر چکے تھے مگر ان کے اخلاص کا نتیجہ تھا کہ سب لوگوں کی سمجھ میں یہ بات آگئی اور خواجہ صاحب کے مویار صرف وہ لوگ رہ گئے جو ان کے ساتھ خاص تعلقات رکھتے تھے.اسی طرح میری خلافت کے ابتدائی ایام میں بھی غیر مبائین سے مقابلہ کرنے میں بڑی
ندہی سے حصہ لیا حضرت مسیح موعود علی الصلوۃ والسلام پہنی کی معرفت، لاہور سے سامان وغیرہ منگوایا کرتے تھے حضور خط لکھ کر کسی آدمی کو دے دیتے ہو ا سے حکیم صاحب کے پاس لے جاتا اور وہ سب اشیاء خرید کر دیتے.گویا وہ لاہورمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایجنٹ تھے.حضرت مسیح موعود عليه الصلوۃ و السلام بھی اُن سے بہت محبت رکھتے تھے اور لاہور کی احمدیہ سجاد بھی انہی کا کارنامہ ہے.دوسروں کا تو کا کہنا تیں خود بھی اس کا مخالف تھا کیونکہ میں سمجھتا تھا کہ یہ اتنا بڑا بوجھ ہے کہ جو لاہور کی جماعت سے اٹھایا نہ جاسکی گا مگر انہوں نے پیچھے پڑ کے مجھ سے اجازت لی اور ایک بڑی بھاری رقم کے خرچ سے لاہور میں ایک مرکز می مسجد بنادی سیٹھ صاحب کے دوسرے لڑکے کی شادی خانصاحب نے انصار علی خان صاحب کی لڑکی سے ہوئی ہے.خان صاحب بھی مخلص آدمی ہیں اور گو بہت پرانے نہیں گر مجھے آکر بھی انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اپنے تعلقات مضبوط کئے اور بڑہائے تو دین کے لڑکوں کے رشتے بھی اللہ تعالے نے مخلص گھرانوں میں گرا دیئے.لڑکیوں کی شادیاں بھی وہ چاہتے تھے پنجاب میں ہی ہوں.غرض المتہ الحفیظ کا نکاح توضیل احمد صاحب سے ہوگیا........اور چھوٹی لڑکی امتہ الحی کے نکاح کا اعلان میں اس وقت کر رہا ہوں جو خانصاحب ڈاکٹر محمد عبد اللہ صاحب کے ایک قریبی عزیز اور شاید بھانجے محمد یونس صاحب کے ساتھ قرار پایا ہے.اس رشتہ میں بھی سیٹھ صاحب نے اخلاص کو مد نظر رکھا ہے.تمدن کے اختلاف کی وجہ سے میں انکو لکھتا تھا کہ حیدر آباد میں ہی رشتہ کریں.مگر اُن کی خواہش تھی کہ قادیان یا پنجاب میں ہی رشتہ ہو تا قادیان آنے کے لئے ایک اور تحریک اُن کیلئے پیدا ہو جائے.محمد یونس صاحب ضلع کرنال کے رہنے والے ہیں جو دہی کے ساتھ لگتا ہے گر حیدرآباد کی نسبت قادیان سے بہت نزدیک ہے.سیٹھ صاحب کا خاندان ایک مخلص خاندان ہے.انکی مستورات کے ہمارے خاندان کی مستورات سے ان کی لڑکیوں کے میری لڑکیوں سے اور ان کے اور ان کے لڑکوں کے میرے ساتھ ایسے مخلصانہ تعلقات ہیں کہ گویا خانہ وا حار والا معاملہ ہے.ہم ان سے اور وہ ہم بے تکلف ہیں اور ایک دوسر کی شادی و غمی کو اس طرح محسوس کرتے ہیں جیسے اپنے خاندان کی شادی غمی کو.حافظ آباد گھر چنیوٹ اور واٹر یا ان کے ان مندرجہ زیل را اقامت پراحمدی مساجد تعمیر کی گئیں :- میں مسجدوں کی وهم حافظ آباد با گکھٹر ۳- چنیوٹ ۴- کورس ۱-
۲۴۶ مسجد احمدیہ حافظ آباد : اس مسجد کے لئے قطعہ زمین ناصرالدین صاحب صدیقی تحصیلدار حافظ آباد کی اسے فراہم ہوا.اور اس کی بنیادی اینٹ حضرت مولانا غلام رسول صاحبت را یکی نے سر اشارات ان کو بھی ہے پریل ۶۱۹۴۱ ر اس سال کے آغاز میں ضلع گوجرانوالہ تھی گھر میں ایک احمدی مسجد کی تعمیر ہوئی لیے مسجد احمدید مسجد احمدیہ چینوٹ.چنیوٹ ضلع جھنگ کا ایک مشہور تجارتی شہر ہے.جہاں مجھ میں ایک ت خوبصورت احمد مسجد پایہ تکمیل کو پہنچی میں سیٹھ محمد صدیق صاحب بائی کلکتہ مسجد احمدیہ چنیوٹ کے انتہائی حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں :- غالبا تشار کا ذکر ہے جماعت احمدیہ چنیوٹ کے احباب غیر اتحادیوں کی مسجد میں جو بڑے بازار کے عقب میں واقع ہے عمدہ اندر والی مسجد کہلاتی ہے جمعہ کی نماز ادا کیا کرتے تھے کیونکہ اس ایریا کے غیر احمدی می بالی ولی میں جمعہ پڑھا کرتے تھے.ایک جمعہ کی نماز کے معا بعد ان لوگوں کے سرکردہ نمبر ایک حاجی صاحہ نے اعلان کیا که دوست سنتیں پڑھنے کے بعد بیٹھ جائیں کیونکہ مرزائی ہماری مسجد میں جمعہ پڑھتے ہیں اس مسجد سے اُن کو نکال دینا چاہیئے.بعد از ان به تقریبا دو تین صد اشخاص کا جمعہ غیر حاجی صاحب مذکور کی سرکردگی میں مسجد اندر والی " پہنچا.اس وقت احمدیوں کا خطبہ ہو رہا تھا.اُن حاجی صاحب نے آگے بڑھکر احمدیوں کو مخاطب کرتے ہوئے بڑے غصہ اور درشت الفاظ میں کہا کہ " یہ مسجد ہماری ہے.تم لوگ یہاں نماز پڑھنے کیوں آتے ہو.اگر آئندہ یہ حرکت کی تو نہایت برا سلوک کیا جائیگا " یہ کہ کر وہ جو اب کے انتظار میں کھڑے ہو گئے.اس وقت شیخ مون پخش صاحب گوں مرحوم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے.انہوں نے خطبہ کے دوران ہی میں آسمان کی طرف منہ کرتے ہوئے کہا کہ " خدایا : ہم تو اس مسجد کو تیرا گھر سمجھ کر تیری عبادت کرنے یہاں آیا کرتے تھے.اب یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ تیرا گھر نہیں ہے بلکہ ان کا ہے.سو اُن کے گھر میں توہم تیری عبادت کرنے نہیں آئیں گے.اس جواب کوئ نکردہ لوگ چلے گئے.اُن ایام میں ہی خاکسار کلکتہ سے چنیوٹ گیا ہوا تھا.میں نے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے احباب جماعت سے درخواست کی کہ آئندہ سے جمعہ کی نمازیں وہ میرے مکان پر ادا کیا کریں.اور اس کے لئے ضروری انتظام بھی کیا.اتفاق کی بات ہے کہ اس جمعہ سے تین ہفتہ قبل امن اسلامیہ چنیوٹ نے اپنی ملو کہ زمین واقعہ محلہ راجن پورہ کو فروخت کرنے کا بذریعہ منادی اعلان کیا.زمین کے محمد د کالم ۲۳ ٢٠١ ٥ الفضل ١٩٩ اپریل ۱۹۳۱ ه بنشر در هنگاه صفوره کام ۲
مختلف پلاٹ بنائے گئے تھے.اور مذکورہ حاجی صاحب کو جو اس انجمن کے آمیزی نائب منتظم تھے نیلام کندہ کی ڈیوٹی پر مامور کیا تھا نیلام کے لئے مذکورہ واقعہ والے جمعہ کے بعد آنے والی جمعرات کا دن بعد از نماز عصر مقرر تھا.جب نیلامی شروع ہوئی تو میں بھی تماشائی کے طور پر اس مجمع میں اُن حاجی صاحب گئے بالکل قریب کھڑا تھا.جب اس پلاٹ کی باری آئی میں پر اب مسجد احدید بنی ہوئی ہے تو نیلام کنندہ نے سرگوشی کے ساتھ مجھے مخاطب کرتے ہوئے آہستہ سے کہا کہ " تمہارے پاس کوئی مسجد نہیں یہ بہت موقعہ کا چوکور پلاٹ ہے کیوں اسے خرید نہیں لیتے ؟ ان کے یہ الفاظ میرے کانوں سے گذر کر اس طرح دل میں اُتر گئے جس طرح سوچ کے دہانے سے بجلی کا بلب روشن ہو جاتا ہے.اس بارہ میں احباب جماعت سے مشورہ تو الگ رہا سرسری ذکر بھی کبھی نہیں ہوا تھا مگر میں نے تو کل بنا را بولی میں حصہ لینا شروع کر دیا.دوسرے خریدار چونکہ دنیا دی اغراض کے لئے اس پلاٹ کے خواہشمند تھے اس لئے وہ قیمت کے بارہ میں محتاط رنگ میں بولی دے رہے تھے مگر میرے دل میں تو خدا کے گھر کی تعمیر کی خاطر ایک خاص جوش پیدا ہو چکا تھا اس لئے میں نے اس بولی میں حصہ لینا شروع کر دیا جس کے نتیجہ میں چھے مرلہ کا یہ کھڑا ہومو ستر روپے فی مرلہ کے حساب سے میرے نام پر ختم ہوا.گوئیں نے نیلام کنندہ کی تحریک کے جواب میں ایک لفظ بھی اپنے منہ سے نہیں نکالا تھا مگر انہیں نیلام کنند حاجی صاحب نے في الفور اُس مجمع میں اعلان کر دیا کہ بھائیو ! یہاں مرزا کیوں کی مسجد بنے گی.خدا تعالے کے کیا ہی عجیب تصرفات ہیں کہ جس شخص نے احمدیوں کو اپنی مسجد سے نکالا تھا وہ سر جمعہ آنے سے قبل اسی کی تحریک پر احمدیوں نے مسجد کے لئے زمین خریدی اور خود اسی کی زبان سے اللہ تعالے نے اس کا اعلان بھی کرا دیا کیا اللہ العظیم.دوسرے دن جمعہ کی نماز کے لئے حسب انتظام جب احمدی احباب میرے مکان پر جمع ہوئے تومیں نے ان کو یہ خوشخبری سنائی اور اسی وقت زمین کی قیمت وغیرہ کے لئے چندہ کی پہیل کی چنیوٹ کے جو احباب کلکتہ لاہور آگرہ وغیرہ مقامات پر تجارت کرتے تھے سب کو تحریک کی گئی مود کریم کی مہربانی سے سب نے حسب توفیق دل کھول کر چندہ دیا.کافی عرصہ تک وہ زمین یو نہی پڑی رہی اور غالباً ہمیں بائیس سال ہی جماعت کے دوستوں کو خدا تعالیٰ نے توفیق دی کہ وہ اس خانہ خدا کی تعمیر کریں.میرے نہایت ہی جو آنا قوام جنگ چھا میاں جناب حاجی تاج محمود صاحب مرحوم کی سرپرستی میں اور میرے چھوٹے بھائی میاں محمد یوسف صاحب بانی کی نگرانی میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ
۲۴۸ خوبصورت مسجد تیار ہو گئی.چنیوٹ ک اور بھی بعض دوستوں نے اس کم عمری مینا یا مات سرانجام دیر مسجد احمدیہ کوئٹہ :.اس سال جماعت احمدیہ کی چوتھی مشہور مسجد کوئٹہ میں تعمیر ہوئی.اس مسجد کا سنگ بنیاد ور اس کو رکھا گیا.سب سے پہلے امیر جماعت کو کٹر نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا مسجد فضل لری سے متعلق افتتاحی خطاب پڑھ کر سنایا.ازاں بعد کو ئٹہ میں موجود صحابہ نے مسجد مبارک کی دو اینٹیں دھن پر حضرت خلیفہ مسیح الثانی نے دعا فرمائی تھی ، ایک رومال میں رکھ کر محراب کی بنیاد تک پہنچائیں.اور امیر جماعت نے ان کو نصب کر دیا.مسجد کی تعمیر جب تمام مراحل طے کرتی ہوئی چھت تک پہنچی تو احمدیوں نے کنکریٹ کی چھت ڈالنے کے لئے لار خار کنویں کو رمضان شریف کے مبارک مہینہ میں ڈھائی بجے دوپہر سے لیکر نو بجے شب تک نہایت جوش و خروش سے تار عمل منایا - ۲۸ر نبوت کو نماز جمعہ کے بعد اس کا افتتاح عمل میں آیا ہے اس مسجد کی کی تعمیر یں کوئٹہ کے مخلص احمدیوں کے علاوہ سمندر پار کے احمدیوں نے بھی فراخدلی سے چندہ دیائی فصل چهارم واقعہ ڈامروزی حکومت پنجاب کے بعض علی اشرہ سالہا سال سے جماعت احمدیہ کو باخی ثابت کر کے اس کے خلیات منتقمانہ کاروائیوں پر کے ہوئے تھے.اس خوفناک منصوبہ نے جو اندر ہی اندر ایک خاص حکیم کے تحت جاری تھا منہ میں یکایک ایک نئی اور بھیانک شکل اختیار کرنی جس کی نسبت حضرت خلیفتہ اسیح تھا ایکا الثانی نے یہ رائے ظاہر فرمائی کہ سلسلہ کی تاریخ میں ایک نرالا واقعہ ہے.ایسا نرالہ کہ میں اسے ۱۹۳۳ء کے اس واقعہ سے ڑھ کر سمجھتا ہوں جبکہ گورنر پنجاب نے مجھ کو رات کے وقت نوٹس بھجوایا تھا کہ تمام یہ جماعت کے افراد کو روک دوکھ وہ قادیان میں نہ آئی اور بادی گورنر ان کونسل نے اس کے متعلق دو دفعہ معذرت کی اور اپنی غلطی کا اقرار کیا ہے له الفضل و صفحه + سے پہلی مسجد ۹۳۵ار کے زلزلے میں شہید ہوگئی تھی اور انقدری ایک عارضی ای است ۶۱۹۶۴ عمارت میں نماز ادا کیا کرتے تھے." ، سے ایک اینٹ جو مسجد مبارک کی شمال مغربی کھڑکی کی تھی محراب کے مغربی حصہ ۶۱۹۴۱ میں اور دوسری اینٹ جو مسجد مبارک کی سیڑھیوں کی تھی محراب کے دائیں طرف نصب کی گئی.الفضل 19 در مفصل روئیداد موجود ہے.۵۵ تفصیل افضل در اور صفحہ پر شائع شدہ ہے.ر فضل و صفر ۲ + کے تعمیر سی میں نمایاں حصہ لینے والوں کا نام سجاد کی شرقی دیوار کے کتبہ پر کندہ ہے.۶۱۹۴۱ نومبر شه الفضل با در نبوک هن ۱۳۵۲ دسمبر ۱۹ صفحه ا کالم ۲ +
یه ایم واقعه دار بوگ هنر را در تیرا ) کو پیش آیا جبکہ حضور ڈلہوزی میں تبدیلی آب وہوا کے لئے تشریف فرما تھے.واقعہ ڈلہوزی کی تفصیل یا یہ واقعہ جسے ہم اشارہ واقعہ ڈراموزی کے نام سے موسوم کریں گے اپنی اہمیت کے لحاظ سے تقاضا کرتا ہے کہ اس کی تفصیلات خود حضرت حضر امر المومنین کے الفاظ میں یرالمونین کی زبان مبارک سے بیان کی جائیں حضور نے دور کے کو اس واقعہ کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ : بارہ بجے کا وقت تھا کہ میرا لڑکا خلیل احمد جس کی عمر اس وقت یو نے سترہ مثال ہے میرے پاس آیا اُس کے ہاتھ میں ایک پیکٹ تھا جو بند تھا.وہ پیکٹ گول تھا اُس کے باہر ایک کاغذ پٹا ہوا تھا اور اُس کا غذ پر اس کا پتہ لکھا ہوا تھا.خلیل احمد نے وہ پیکٹ مجھے دکھاتے ہوئے کہا کہ یہ پیکٹ کسی نے میرے نام بھجوایا ہے اور گورمنٹ کے خلاف معلوم ہوتا ہے.میں نے وہ پیکٹ اُس کے ہاتھ سے لے لیا اور چونکہ وہ بند تھا اس لئے طبعا مجھے خیال پیدا ہوا کہ اسے کیونکر معلوم ہوا کہ یہ پیکٹ گورنمنٹ کے خلافت ہے.چنانچہ میں نے اس سے کہا یہ پیکٹ تو بند ہے تمہیں کیو نکر معلوم ہوا کہ اس میں کوئی ایسے کا غذات ہیں جو گورنمنٹ کے خلاف ہیں.اُس نے کہا کہ اس پیکٹ کا خول کچھ ڈھیلا سا ہے میں نے بغیر اوپر کا گو پیمانے کے اندر سے کاغذات نکال کر دیکھنے کو معلوم ہوا کہ اس میں گورنمنٹ کے خلاف باتیں لکھی ہوئی ہیں.اس پر میں نے بھی دیکھا تو واقعہ یں اور کچھ ڈھیلا سا تھا.پھر تجربہ کے طور پرمیں نے بھی بخیر گور پھاڑنے کے اس میں سے کاغذات نکا سے ور مجھے نورا معلوم ہوگیا کہ خلیل احمد جوکچھ کہتا ہے ٹھیک ہے میں نے وہ اشتہار سب کا سب انہیں پڑھا بلکہ صرف ایک نظر دیکھی اسکا مضمون کچھ اس قسم کا تھا کہ گورنمنٹ نے بعض ہندوستانی سپاہیوں کو کسی جگہ مروا دیا ہے.غرض بغیر اس کے کہ میں اس اشتہارہ کو پڑھنا صرف ایک سطر دیکھ کر اور خلیل احمد کی بات کو درست پا کرمیں نے وہ پندا گورمیں ڈال دیا اور نقد صاحب کی طرف آدمی بھیجوایا کہ وہ فورا مجھ سے آگر میں.درد صاحب ایک دو منٹ بعد ہی سیڑھیوں پر آگئے.میں سیڑھیوں میں اُن کے پاس گیا اور میں نے ان کے ہاتھ میں، وہ پیکٹ دیتے ہوئے کہا کہ یہ پیکٹ خلیل احمد کے نام آیا ہے اور اس نے مجھے ابھی اگر دیا ہے اُس نے مجھے بنایا تھا کر یہ پیٹ گورنمنٹ کے خلاف معلوم ہوتا ہے.اور جب میں نے اس سے پوچھا کہ نہیں کسی طرح
۲۵۰ پتہ لگا کہ یہ گورنمنٹ کے خلاف ہے تو اُس نے بتایا کہ میں نے بغیر گور پھاڑنے کے اندر کے کاغذات نکال کر دیکھے تھے وہ مجھے اس کا مضمون گورنمنٹ کے خلاف معلوم ہوا.اس پر میں نے بھی غیر بھاری کے اس میں سے کاغذات نکال کر دیکھے تو وہ آسانی سے باہر آگئے اور اس پر نظر ڈالتے ہی مجھے معلوم ہو گیا کہ وہ گورنمنٹ کے خلاف ہیں.نہ صرف اس لئے کہ ایک سطر جوئیں نے پڑھی اس کا مضمون گورنمنٹ کے خلاف تھا بلکہ اس لئے بھی کہ گورنمنٹ کے خلاف جو اشتہارات وغیرہ شائع کئے جاتے ہیں وہ دستی پریس پر چھائے جاتے ہیں اور وہ کا غذات بھی دستی پریس پر ہی چھپے ہوئے تھے اس پیکیٹ کے اوپر جو تہ لکھا ہوا تھا وہ خوشخط لکھا ہوا تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کسی مسلمان نے لکھا ہے.یہ توئی نہیں کر سکتا کہ اس میں مرزا کا لفظ بھی تھا یا نہیں گراہ صاحبزادہ خلیل احمد ضرور لکھا ہوا تھا حق کا دائرہ بھی بڑا اچھا تھا اور ح کے گوشے بھی خوب نکالے ہوئے تھے اور یوں معلوم ہوتا تھا جیسے پتہ کسی مسلمان کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے.خیر میں نے وہ پیکٹ زرد صاحب کو دیا ور کہا کہ یہ کسی کی شرارت معلوم ہوتی ہے در چونکہ مکی ہے کہ اس قسم کے ٹریکٹ تمام پنجاب کے نوجوانوں میں عام طور تقسیم کئے جارہے ہوں اس لئے آپ فورا یہ پیکٹ ہرا کسی ایسی گورنر صاب پنجاب کو بھجوا دیں اور انہیں لکھ دیں کہ میرے لڑ کے خلیل احمد کے نام ایسا پیکٹ آیا ہے.اور چونکہ ممکن ہے کہ اور پنجاب کے نوجوانوں کے نام بھی اسی طرح ٹریکٹ اور اشتہارات وغیرہ بھیجے گئے ہیں اس لئے یہ پیکیٹ آپ کو بھجوایا جاتا ہے آپ اس کے متعلق جو محکمانہ کاروائی کرنا مناسب سمجھیں کریں.میں یہ بات کر کے واپس ہی لوٹا تھا کہ ایک آدمی نیچے سے آیا اور درد صاحب سے کہنے لگا کہ پولیس والے آئے ہیں اور وہ آپ کو بلاتے ہیں.میں نے اس آدی کو نہیں دیکھا کیونکہ وہ سیڑھیوں کے موڑ کے پیچھے تھا.یہ بات سن کر میں نے درد صاحب سے کہا کہ آپ جائیں اور جاکر معلوم کریں کہ پولیس والے کیا کہتے ہیں.درد صاحب گئے اور تین چار منٹ کے بعد ہی واپس آگئے.انہوں نے مجھے کہا کہ پولیس کے کچھ سپاہی آئے ہوئے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ہم نے مرزا خلیل احمد صاحب سے لیا ہے.مرد صاحب کہنے لگے کہ میں نے انہیں کہا کہ خلیل تو بچہ ہے اُس سے آپ نے کیا بات کرتی ہے.جو کچھ آپ کہنا چاہتے ہیں وہ مجھے لکھ کر دیدیں اگر انہوں نے اصرار کیا اور کہا کہ ہم اُسی سے با کرنا چاہتے ہیں اور اس کا میں کچھ ٹھیک نہیں دے سکتے.دردہ صاحب کچھ اور باتیں بھی کرنا چاہتے تھے
۲۵۱ گر میں نے اس خیال سے کہ معمولی بات ہے اُن سے کہا.کوئی حرج کی بات نہیں میں خلیل کو بھجوا دیتا ہوا چنانچہ میں نے اُسی وقت خلیل احمد کو بھجوا دیا.چند منٹ کے بعد ہی خلیل احمد واپس آیا اور اُس نے مجھے کہا کہ سپاہیوں نے مجھ سے یہ پوچھا تھا کہ کیا اس قسم کا پیکٹ تمہارے نام آیا ہے اور میں نے کہا کہ ہاں آیا ہے مگر میں نے اپنے آبا کو دے دیا ہے.پھر پولیس والوں نے اس پیکٹ کی طرف اشارہ کرکے وجود تو صاحب نیچے لے گئے تھے، کہا کہ پیکٹ اپنے ہاتھ میں لے کر کھول دور گھر میں نے کہا کہ میں اسے نہیں کھول سکتا خلیل احمد سے جب یہ بات میں نے سنی تو میں نے کہا کہ تم نے بہت اچھا گیا ریکٹ اپنے ہاتھ سے نہیں کھولا.میں سمجھتا ہوں کہ اس کے ہاتھ سے پیکٹ کھلوانے کا منشاء یہ تھا کہ وہ شرارتا اس طرح اپنی کا نفس کو یہ تسلی دلانا چاہتے تھے کہ انہوں نے خلیل کے ہاتھ سے یہ پیکٹ لیا ہے.خیر وہ بات کر کے ہٹا تو اُسی وقت درد صاحب نے سیڑھیوں پر سے آواز دی اور میرے جانے پر انہوں نے کہا کہ ان لوگوں نے مجھے سے وہ پیکٹ مانگا تھا مگر میں نے دینے سے انکار کر دیا اوران سے کہا کہ تم مجھے وہ قانون بتاؤ جس کے ماتحت تم مجھ سے یہ پیکٹ لینا چاہتے ہو.پھر ین نے من سے آپ کا نام لے کر کہا کہ مجھے خلیفہ اسی کی طرف سے یہ پیکٹ ایک بڑے فسر کو بھجوانے کیلئے ملا ہے اس لئے بھی یہ پیکٹ تمہیں نہیں دے سکتا.اس پر انہوں نے دو پیکٹ مجھ سے چھین کر باہر پھینک دیا اور ایک سپاہی اسے لیکر بھاگ گیا.میں نے پھر جلدی میں اُن کی پوری بات نہ سنی اور میں سمجھ گیا کہ یہ ہم سے شرارت کی گئی ہے.چنانچہ میں نے ان پر اگر گورنر صاحب کو ایک تاریکھا جس میں وہ اہم واقعات جو اس وقت تک ہوئے تھے لکھے دیتے.یہ تارے کہ میں پھر سیڑھیوں میں آیا تو اس وقت درد صاحب واپس جا چکے تھے میں نیچے اتر کر ٹھیک میں آیا تو میں نے دیکھا کہ ہماری کوچ اور کرسیوں پر پولیس والے اپنی لاتیں دراز کر کے یوں بیٹھے ہیں کہ گویا ان کا گھر ہے میں جھٹ دروازہ بند کر کے برآمدہ کی طرف سے دفتر کے کمر میں آیا تو میں نے دیکھا کہ برآمدہ مں بھی پی لے کھڑے ہیں.خیر میں نے درد صاحب کو تار دیا اور کہا کہ یہ ابھی گورنر صاحب کو بھیجوا دیا جائے.پھر میں گورنر صاحب کو ایک مفصل چٹھی لکھنے بیٹھے گیا.اس عرصہ میں دو دفعہ مجھے پھر نیچے جانا پڑا.ایک دفعہ تو میں درد صاحب کو یہ کہنے کے لئے گیا کہ آپ اس تار کا مضمون پولیس کے سپاہیوں کو بھی سنادیں اور اُن سے پوچھ لیں کہ اس میں کوئی غلط بات تو بیان نہیں کی گئی اور اگر کسی واقعہ کا وہ انکار کریں تو "
۲۵۲ جھے بتایا جائے تاکہ اگر کسی قسم کی اسمیں غلطی ہو تو اس کو دور کر دیا جائے.میرے اس کہنے کی وجہ یہ تھی کہ نیچے جو واقعات در دصاحب کو پیش آئے تھے وہ میں نے نہیں دیکھے تھے اور میرا فرض تھا کہ ان واقعات کے بیان کرنے میں دوسروں کو صفائی کا موقعہ دوا.اور اگر کوئی خلافت واقعہ بات درج ہوگئی ہو تو اس کی تصحیح کر دوں.پھر بعد میں مجھے ایک اور بات کی نسبت خیال آیا کہ اس کا لکھنا بھی تار میں ضروری تھا اس لئے میں دوسری دفعہ یہ نیچے اترا اور میں نے درد صاحب کو اس واقعہ کے لکھنے کی بھی ہدایت کی اور ساتھ ہی پھر انہیں کہہ دیا کہ یہ واقعہ کبھی ان کوٹنا دیا.اس وقت بھی پولیس برابر ہمارے مکان کے نچلے حصہ پر قبضہ جمائے بیٹھی رہی.اتفاق کی بات ہے کہ اُس دن ہمارے اکثر آدمی باہر کام پر گئے ہوئے تھے.عزیزم مرزا مظفر احمد صاحب جو لہوزی میں ہمارے ہاں مہمان آئے ہوئے تھے وہ بھی مرزا ناصر احمد کو ملنے کے لئے انکی کو بھٹی پر گئے ہوئے تھے خیر کچھ دیر کے بعد مجھے خیال آیا کہ ہمیں تو قانون کی واقفیت نہیں مرز مظفر احمد اور مرزا ناصر حمد کو بلوا لیا جائے.چنانچہ میں پھر نیچے اترا اور ایک شخص سے کہا کہ در و صاحب سے جاکر کہیں کہ فوری طور پر مرزا مظفر احمد اور مرزا ناصر حمد کو بلا لیا جائے.اُس وقت مجھے پھر معلوم ہوا کہ ابھی تک پولیس مکان پر قابض تھی.خیر اس شخص نے مجھے بتایا کہ درد صاحب پہلے ہی ایک آدمی اُن کی طرف بھیجوا چکے ہیں.چنانچہ تھوڑی دیر کے بعد مرزا مظفر احمد اور مرزا ناصر احمد دونوں پہنچ گئے اور انہوں نے بتایا کہ پچھے آرڈر پولیس انھیں لے کہ چلی آرہی ہے.زند صاحب نے مرزا عبدالحق صاحب پلیڈر کی طرف بھی آدمی بھیجوا دیا اور وہ بھی تھوڑی دیر کے بعد آگئے.اُس وقت تک بھی پولیس کمرہ اور برآمدہ پر قابض تھی.مجھے اس وقت خیال گذرا کہ پولیس والوں نے ضرور تھانہ میں کوئی رقعہ بھیجا ہے اور اس کا یہ نتیجہ ہے کہ آرٹہ پولیس رائفلیس لے کر ہمارے مکان پر پہنچ گئی.اس کے بعد میں پھر خط لکھنے میں مشغول ہو گیا.اور تھوڑی دیر کے بعد میں نے مرزا مظفر احمد سے کہا کہ مجھے تو قانون کا علم نہیں تم قانون پڑھے ہوئے ہو کیا پولیس کا کسی کے مکان کے اندر داخل ہونا جائز ہے.انہوں نے کہا کہ قانون کی رو سے یہ بالکل نا جائز ہے میں نے کہا تو پھر تم جاؤ اور پولیس والوں سے بات کرے.اتنے میں مرزا ناصر احد بھی آگئے اور کہنے لگے کہ پولیس والے ہمارے مکان کے اندر کیوں بیٹھے ہیں اور درد صاحب نے انہیں بیٹھنے کیوں دیا یہ بالکل خلاف قانون حرکت ہے جو پولیس والوں نے کی ہے.پولیس والے بغیر اجازت کے کسی گھر میں داخل
۲۵۳ نہیں ہو سکتے.اور اگر وہ داخل ہوں تو اس صورت میں انہیں اپنی تلاشی دینی ضروری ہوتی ہے.کیونکہ کیا پتہ کہ وہ کوئی ناجائز چیز اندر پھینک جائیں.اس لئے قانون یہی کہتا ہے کہ پولیس کی پہلے تراشی ہونی ضروری ہے.ایسا نہ ہو کہ وہ اپنی طرف سے کوئی نا جائز چیز پھینک دے اور گھر والوں کو مجرم بنادی.پھر انہوں نے پو چھا کہ کیا پولیس والوں کی تلاشی سے لی گئی تھی.میں نے کہا کہ میرے علم میں تو یہ بات نہیں آئی کہ پولیس والوں کی تلاشی لی گئی ہو.اسپر وہ کہنے لگے کہ یہ درد صاحب کا فرض تھا کہ پولیس والوں کو اللہ نہ آنے دیتے.مرزا ناصر احمد نے چونکہ بیرسٹری کی بھی کچھ تعلیم پائی تھی وہ کچھ قانون سے واقعت ہیں.میں نے کہا کہ جب پولیس والوں کو قانوناً یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی دوسرے کے مکان میں داخل ہوں تو پھر جاؤ اور ان کو قائل کرو.اس پردہ نیچے آئے اور پولیس والوں سے اونچی باتیں کرنے لگے.مرزا ناصر احد کی آواز ذرا زیادہ بلند تھی میں نے اس وقت یہ خیال کیا کہ یہ بچہ ہے ابھی پورا تجربہ نہیں ہم اس وقت چاروں طرف سے دشمنوں میں گھرے ہوئے ہیں.اگر اس نے کوئی بات کی تو ممکن ہے کہ پولیس والے اس پر کوئی الزام لگا دیں کہ اس نے ہم پر دست درازی کی ہے اس لئے میں جلدی سے نیچے اترا اس وقت پولیس والے اندر کمرے سے نکل کو برآمادہ میں آپکے تھے اور مرزا ناصر احمد انہیں یہ کہہ رہے تھے کہ تم جہاں اندر بیٹھے تھے ہیں جابیٹھو ئیں اسی حالت میں تمہاری تصویر لینا چاہتا ہوں اور دہ کہہ رہے تھے کہ ہم وہاں نہیں جاتے ہیں نے جب ان کی یہ باتیں سنیں تو میں نے سپاہیوں سے کہا کہ تم سب پہلے اندر بیٹھے ہوئے تھے اور کئی بھلے مانس اس کے گواہ ہیں میں نے خود تمہیں اندر بیٹھے دیکھا.درد صاحب نے تمہیں اندر بیٹھے دیکھا.مرزا مظفر احمد اور مرزا ناصر احمد نے تمہیں اندر بیٹھے دیکھا.ہمارے عملہ کے اور کئی آدمیوں نے تم کو اندر بیٹھے دیکھا ہے.اب اس میں تمہارا کیا حرج ہے کہ پھر تم وہیں جا مٹھو اور تمہاری اس وقت کی تصویر لے لی جائے.اگر تمہارا اللہ آنا قانون کے مطابق تھا تو تم اب بھی ہیں بیٹھ سکتے ہو اور اگر تمہارا اندر پیچھا قانون کے خلاف تھا تو تم اپنی غلطی کا اقرار کرو.اس پر وہ کہنے لگے کہ ہم تو اندر بیٹھے ہی نہیں.میں نے ان سے کہا کہ تین دفعہ تومیں نے تمہیں اندر بیٹھے دیکھا ہے.اسی طرح درد صاحب نے تمہیں اندر بیٹھے دیکھا ہے خلیل احمد سے جو تم نے باتیں کیں وہ اندر ہی کیں.اسی طرح تمہیں مظفر احمد نے اندر دیکھا ناصر احمد نے اندر دیکھا.اب تم کیس طرح کہ رہے ہو کہ تم اندر بیٹھے ہی نہیں اور اتنابڑا جھوٹ بولتے ہو.گھر اس پر بھی انہوں نے
۲۵۴ ++ میں کہا کہ ہم اندر بالکل نہیں بیٹھے.اتنے میں مرزا مظفر احمد نے کہا کہ میں جب آیا تھا تو اس وقت بھی یہ سب سپاہی اندر بیٹھے تھے.اور نہ صرف اندر بیٹھے ہوئے تھے بلکہ ایک سپاہی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ خلات قانون اپنی بیٹی کھول کر میٹھا تھا.گروہ یہی کہتے چلے گئے کہ ہم اندر نہیں گئے.اس پر میں نے انہیں کہا کہ مجھے افسوس ہے کہ آج مجھے ذاتی طور پر اس بات کا تجربہ ہواکہ عدالتیں کن جھوٹے آدمیوں کی گواہیوں پر لوگوں کو سزا دیتی ہیں.میں نے اُن سے کہا کہ تم وہ ہو کہ تمہیں اس بات کا علم ہے کہ میں تمہارے پاس آیا اور میں نے تمہیں اندر بیٹھے دیکھا ایک وقعہ نہیں بلکہ تین دفعہ پھر تم نے در و صاحت یہاں باتیں کیں تم نے خلیل احمد کیا تم نے یہاں نہیں کیں.تم نے ناصر احمد سے یہاں باتیں کیں اور تم میں سے ہر شخص جانتا ہے کہ جو کچھ میں کہ رہا ہوں وہ درست ہے مگر اتنے گواہوں کے باوجود تم کہہ رہے ہو کہ تم اندر نہیں میٹھے میں قسم کا جھوٹ تم لوگ بول رہے ہو اس قسم کی گواہیوں پر علاقوں کی طرف سے لوگوں کو سزاؤں کا ملنا یقینا نہایت ہی افسوسناک اور ظالمانہ فعل ہے.اس پر وہ کچھ لکھ پانے سے ہو گئے مگر اقرار انہوں نے پھر بھی نہ کیا کہ وہ کمرہ کے اندر بیٹھے تھے جب میں نے دیکھا کہ وہ اس طرح کھلے طور پر جھوٹ بول ہے ہیں تومیں نے خیال کیا کہ نا معلوم ہمارے متعلق وہ اندر کیا باتیں بنائیں.شاید وہ یہی کہہ دیں کہ ہم پر انہوں نے حملہ کر دیا تھا ور ہمیں مارنے پیٹنے لگ گئے تھے.اس لئے میں نے مرزا مظفر احمد سے کہا کہ مظفر اس ملک میں احمدیوں کے قول پر کوئی اعتبار نہیں کرتا تم تعلیم یافتہ و عہدیدار ہولیکن پھر بھی اگر کوئی واقعہ ہوا تو تمہاری کسی بات پر اعتبار نہیں کیا جائیگا یا کہ اختیار انہی لوگوں کی بات پر کیا جائیگا.اس لئے بہتر ہے کہ ان واقعات کی شہادت کے لئے کسی اور کو بھی بلا لیا جائے.ہمارے ہمسایہ میں ایک غیر احمدی ڈپٹی کمشنر صاحب چھٹی پر آئے ہوئے تھے میں نے مرزا مظفر احمد سے کہا که خورا نیکی اور ایک آدمی دوڑا دیا جائے اور کہا جائے کہ ایک ضروری کام ہے آپ مہربانی کر کے تھوڑی دیر کے لئے تشریف لے آئیں.میرا منشاء یہ تھا کہ وہ آئیں تو اس واقعہ کے گواہ بن جائیں گے.چنانچہ مرزا مظفر احمد نے ان کی طرف ایک آدمی دوڑا دیا کہ ضروری کام ہے آپ جلدی تشریف لائیں.اسکے بعد دیں پھر اوپر چلا گیا.اتنے میں نیچے سے مجھے آوازیں آئیں.اور میں نے آواز سے پہچان لیا کہ ٹھیک کر صاحب آگئے ہیں اور وہ اُن سپاہیوں سے بات کر رہے تھے اور کہو رہے تھے تم نے صریح خلا اور اتوں
۲۵۵ حرکت کی ہے.یہ باتیں سنگر میں بھی نیچے اتر آیا اور میں نے ان کے سامنے تمام پہلی باتوں کو دہرانا شروع گیا میں نے کہا کہ اس طرح خلیل احمد کے نام ایک پیکٹ آیا تھا جوئیں نے درد صاحب کو اس لیئے دیا کہ وہ گورنر صاحب پنجاب کو بھجوا دیں.انہوں نے درد صاحہ ہے وہ پیکٹ چھین لیا.اور پھر انہو نے تھانے میں کوئی جھوٹی رپورٹ بھیج دی جسپر مسلم پولیس آگئی.پھر میں نے ان سپاہیوں سے کہا کہ یہ جو مسلح پولیس آئی ہے یہ ضرور کسی تمہاری رپورٹ کے نتیجہ میں آئی ہے.تم نے لکھا ہوگا کہ یہ لوگ ہیں مارنے اور منتقل کرنے کے درپے ہیں.یقینا تم نے ایسا ہی لکھا ہے ورنہ تھانے والوں کو کیا پڑی تھی کہ وہ سلح پولیس یہاں بھیج دیتے.پھر میں نے اُن سے کہا کہ جب درد صاحب سے تم نے پیکٹ چھینا تھا تو گیا اس سے تمہاری غرض یہ نہیں تھی کہ تم یہ بات بنا سکو کہ تم نے یہ پیٹ فیل سے لیا ہے.اس پر وہ کہنے لگے جس طرح آپ نے کوئی بات بنائی تھی اسی طرح ہم نے بھی کوئی بات بنائی ہی تھی.یہ باتیں انہوں نے ان ڈپٹی کمشنر صاحب کے سامنے کیں.اور میں نے بھی ان سے اس لئے کہلوائیں تاکہ وہ ڈپٹی کمشنر صاحب ان باتوں کے گواہ بن جائیں اگو ئی نہیں کر سکتا ان باتوں میں سے انہوں نے کتنی منیں کی نکہ اس وقت مختلف باتیں ہو رہی تھیں.اسی طرح ابھی ڈپٹی کمشنر صاحب نہیں آئے تھے کہ مجھے نیچے سے ایک سپاہی کی آواز آئی جو دو سرے سپاہی سے بات کر رہا تھا.معلوم ہوتا ہے کوئی سپاہی بدنیتی سے اندر آنا چاہتا تھا کہ ہمارے آدمیوں نے اُسے اندر داخل ہونے سے روک دیا.اس پر دو سر انسپاہی اُسے کہنے لگا..ایدھر آجا اوئے انہاں دا کی اعتبار ہے جوچاہ میں گل بنائیں." یعنی ان کا کیا اعتبار ہے ان کا جو جی چاہے گا ہمارے خلافت بات بتائیں گے.گویا ہمارے سب لوگ جھوٹے تھے اور وہ لوگ جو روزانہ جھوٹی قسمیں کھاتے اور ہمارے سامنے جھوٹ بول رہے تھے وہ بچے تھے.خیر ان ڈپٹی کمشنر صاحب نے کچھ دیر اُن سے باتیں کرنے کے بعد مجھ سے کہا کہ ان سپاہیوں سے باتیں کرنی فضول ہیں ان میں کوئی افسر نہیں ہے اور نہ ہی ان کا کوئی اختیار ہے.آپ کو چاہئے کہ ضلع گودی پور کے ڈپٹی کمشنر صاحب کی طرف آدمی بھیجوا دیں اور انہیں ان تمام حالات سے اطلاع دیں.میں نے کہا.اس کا ئیں نیند کرا چکا ہوں.ڈپٹی کمشنر صاحب اور سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس دونوں اس وقت با ہرائیں اسی وجہ سے ہم حیران ہیں کہ یا کہیں.انہوں نے کہا کہ پھر یہ جو انٹیل یا سیڈ کی ٹیبل میں ان سے بات کرنی فضول ہے انہیں دیکھے کہ تویہ بھی پتہ نہیں لگتا کہ ان کا افسر کون ہے.پھر انہوں نے کہا.
۲۵۶ b یہاں مسٹر سلیٹر ایس ڈی: ہیں.مرزا مظفر احمد صاحب اُن کے پاس چلے جائیں.میں نے کہا مظفر احمد کا جانا ٹھیک نہیں.وہ یہاں گواہ کے طور پر ہیں.میں درد صاحب اور مرزا ناصر احمد کو بھیجوا دیتا ہوں.چنانچہ میں نے ان دونوں کو مسٹر سلیٹر کی طرنٹ بھیجوا دیا اور خود ان سپاہیوں سے پوچھا کہ تم میں افسر کون ہے.اسپر پہلے تو وہ کہنے لگے کہ نہیں پتہ نہیں ہمارا کون افسر ہے.پھر جب مزید اصرار کیا تو ان میں سے کوئی کہے کہ یہ انسر ہے اور کوئی کہے وہ افسر ہے.آخر ایک کی طرف اشارہ کر کے وہ کہنے لگے کہ ہم میں سے یہ سب سے بڑا ہے اور وہ بغیر وردی کے تھا.اس سے پوچھا تو وہ کہنے لگا یکی وردی میں ہی نہیں خلاف شخص ہے.اس نے اس سے پوچھا تو اس نے کہا کہ وہ بے دردی شخص سینیٹر ہے میں افسر نہیں.جب اُسے کہا گیا کہ وہ تو منکر ہے تو اُس نے جواب دیا کہ جیہنوں سمجھ ہو " یعنی جسے چاہیں افسر سمجھے ہیں.آخر ان ڈپٹی کمشنر صاحب نے ان سے پوچھا کہ تم کو یہ تو بتانا چاہیئے تم میں سے بڑا کون ہے.اس پر بھی انہوں نے کچھ ایسا ہی جواب دیا.غرض اسی قسم کی آئیں بائیں شائیں کرتے رہے.خیر انہوں نے کہا.مسٹر سلیٹر ایس ڈی او ابھی آجائیں گے.ان لوگوں سے بات کرنی نخوا کے آپ اندر چل بیٹھیں.چنانچہ وہ اور میں اور عزیزم مظفر احمد کمرہ میں بیٹھ گئے.تھوڑی دیر میں مسٹر سٹیئر ناصر احمد کے ساتھ آگئے میٹر سلیٹر نے کوٹ اتارا اور بیٹھتے ہی کہا کہ میں پولیس افسر نہیں.میرے پاس تو جب میں آتا ہے اُس وقت اُسے سنتا ہوں.وہ مجھے ذاتی طور پر نہیں جانتے تھے.یونہی پیش نگر کہ کوئی شخص باہر سے یہاں چنا دونوں کے لئے آیا ہوا ہے اور اسے پولیس والوں کے متعلق کوئی شکایت پیدا ہوئی ہے چلے آئے.میں نے بھی اُن کا شکریہ ادا کیا کہ آپ بغیر اس علم کے کہ کیا واقعہ ہوا ہے اور ہم پر کیا گزری ہے تشریف لے آئے ہیں.خیر انہیں تمام واقعات بتائے گئے انہوں نے کہا کہ ٹریفتی آف انڈیا رولز کے تحت پولیں بغیر دارنٹ دکھائے گرفتار کر سکتی ہے.ڈپٹی کمشنر صاحب کہنے لگے ید اختیارات انسپکٹر پولیس یا سب انسپکٹر پولیس کو حاصل ہیں ہر ایک کو حاصل نہیں اس پر مسٹر سلیٹر نے بتایا کہ انسپکٹر پولیس بیمار تھا اور تھانہ دار دورہ پر تھا اُس وقت انچارج ایک ہیڈ کانسٹیبل ہی ہے اس لئے اُسے اختیار حاصل ہے.پھر وہ واقعات سنتے رہے اور انہوں نے اس پر افسوس کا بھی اظہار کیا.اور کہا کہ کیا آپ کے نزدیک یہ کافی نہ ہو گا کہ میں انسپکٹر کو کہوں کہ وہ ان لوگوں کے متعلق مناہوپ کار روائی کرے.میں نے انہیں کہا کہ میں تو اس کے متعلق گورنر صاحب کو بھی تار دے چکا ہوں.
۲۵۷ اس لئے ان کے فیصلہ کا مجھے انتظار کرنا پڑے گا.اسی دوران میں پولیس کے بعض نقائص کو بھی انہوں نے تسلیم کیا.اور جب انہیں بتایا گیا کہ وہ بغیر تلاشی لئے اندر آگئے تھے تو انہوں نے کہا کہ یہ واقعہ میں خلاف قانون حرکت ہے.اندرا نہیں اندر نہیں آنا چاہیئے تھا.مگر انہوں نے کہا کہ میں مجسٹریٹ ہوں اور صرف اتنا کر سکتا ہوں کہ جب کیکس میرے سامنے آئے تو اس کا فیصلہ کردوں.پولیس کی کارروائی میں دخل نہیں دے سکتا.البتہ لڑکے کی ضمانت ابھی لے لیتا ہوں.ڈی سی صاحب نے کہا.میں اس بارہ میں تجربہ کار ہوں.آپ یہ بات نہ کریں کیونکہ اس طرح آپ خود الزام کے نیچے آجائینگے.پولیس نے ابھی تک آپ کے پاس رپورٹ نہیں کی اور قاعدہ یہ ہے کہ پہلے پولیس رپورٹ کرے.اور پھر اس پر کسی قسم کا ایکشن لیا جائے.انہوں نے کہا.بہت اچھا.میں انچارج کو بلا لیتا ہوں.اُن کے ساتھ نائب تحصیلدار تھا.انہوں نے اُسے بھیجا کہ جا کر تھانیدار انچارج کو بلا لاؤ کہ اس پر دوری شخص آیا جو بے دردی تھا.مسٹر سلیٹر نے اُس سے پوچھا کہ کیا تم انچارج ہو ؟ اس نے کہا تیں تو دردی میں نہیں میں کس طرح انچارج ہو سکتا ہوں.انہوں نے کہا اچھا تو پھر کسی دردی والے کو بلاؤ.اس پر وہ کسی دوسرے کو بلا لایا جو وردی پہنے ہوئے تھا.اس سے جب پوچھا گیا کہ کیا تم انچارج ہو ؟ تو وہ کہنے لگا میں کس طرح انچارج ہو سکتا ہوں میں تو جونیئر ہوں انچارج تو یہ ہے جو بغیر وردی کے ہے.اس پر سٹرسلیٹر بھی حیران ہوئے اور انہوں نے اسی شخص سے جو بغیر وردی کے تھا کہا کہ تم اس کیس کے متعلق میرے پاس رپورٹ کرو.پھر میں اس کا فیصلہ کروں گا.میں نے اس دوران میں انہیں توجہ دلائی کہ آپ دیکھیں یہ لوگ کسی قسم کی حرکات کر رہے ہیں کہ اصل انچارج بغیر وردی کے ہے اور جو دردی میں ہے وہ انچارج ہونے سے منکر ہے.اس سے وہ بہت متاثر ہوئے اور کہنے لگے کہ نسپکٹر بیمار تھا.اگر وہ اچھا ہوتا توش مکہ اس طرح واقعات نہ ہوتے.خیر وہ بے دردی شخص تو رپورٹ لکھنے کیلئے چلا گیا اور مسٹر سیلٹر انتظار کرتے رہے گر جب دیر ہوگئی ہم نے ان سے کہا کہ آپ تشریف لے جائیے جب رپورٹ آئیگی اور آپ چاہیں گے لڑکے کو آپ کے پاس ضمانت کے لئے پیش کر دیا جائے گا.چنانچہ اس پر رضامند ہو کر چلے گئے.اور کہو گئے کہ ڈی سی بھی شام کو آجائینگے میں نو بجے اطلاع دونگا.اگر ضرورت ہوئی تو مرزا نظفر احمد خلیل احمد کو نے کر آجائیں میں ضمانت لے ہوں گا.وہ تو چلے گئے گر پولیس والے برابر ۱۲ بجے سے لیکر سات بجے شام تک رائفلیس لے کر
۲۵۸ ہمارے مکان کے صحن میں کھڑے رہے.پھر میں نے اپنے دوستوں سے کہا کہ اب تم ان سے پوچھو کہ یہ کس قانون کے ماتحت یہاں کھڑے ہیں اور ان سے لکھوا لو تاکہ بعد میں یہ نہ کہہ دیں کہ ہم تو اس وقت تک وہاں نہیں ٹھہرے.انہوں نے کہا ہم کچھ لکھ کر دینے کے لئے تیار نہیں.اس پر مرزا عبد الحق صاحب نے کہا کہ اس کا تو یہ مطلب ہے کہ جس طرح تم نے آج جھوٹ بولا ہے.اسی طرح کل جھوٹ بول دو اور کہہ دو کہ ہم تو وہاں گئے ہی نہیں تھے.پھر مرزا عبد الحق صاحب پلیڈر نے اُن سے کہہ دیا کہ اگر لکھے کہ نہیں دیتے کہ ہم اس وقت تک بالا افسروں کے حکم سے مکان پر قبضہ کئے ہوئے ہیں تو پھر تمہارا کوئی حق یہاں ٹھہرنے کا نہیں پھر تم نکل جاؤ میں نے مرزا اعصاب سے کہا کہ آپ انہیں یہ نہ کہیں کہ یہاں سے نکل جاؤ کیونکہ ممکن ہے یہ نوگ جا کر یہ رپورٹ کریں کہ ہیں مارا گیا ہے اور بات آخر دیہی منی جائیگی جو یہ کہیں گے.آجکل چونکہ جنگ ہو رہی ہے.اس لئے مجسٹریٹوں کا ذہن اس طرف جاتا ہے کہ پولیس والوں کو کیا ضرورت تھی کہ وہ جھوٹ بولتے پس میں نے اُن سے کہا آپ یہ نہ کہیں کہ نکل جاؤ بلکہ کہیں کہ نہیں لکھے کو دیتے تو تمہاری مرضی ہم یہ سکھ میں لگے کہ تم نون وقت تک یہاں ٹھہرے ہو اور دوبارہ ان کی تصویر لے لو بعد اس تصویر پروت بھی لکھ دو کہ اتنے بجے یہ تصویر لی گئی ہے.آخر شام کو اطلاع کی کہ ایس ڈی او صاحب کے حکم کے مطابق جب پولیس نے رپورٹ کی تو معلوم ہوا کہ جس دفعہ کے ماتحت پولیس والوں نے کاروائی کرنی چاہی تھی اس کے ماتحت کارروائی کرنے کا پولیس کو اختیار ہی حاصل نہیں تھا.غرض اُن کی اور بے ضابطگیوں میں ایک بڑی بے ضابطگی یہ بھی پائی گئی کہ میں دفعہ کے ماتحت انہوں نے کاروائی کرنی چاہی اس دفعہ کے ماتحت مجسٹریٹ کے حکم کے بغیر کارروائی کرنے کا انہیں حق ہی حاصل نہیں تھا.سنا گیا ہے کہ اس رپورٹ پر ایس ڈی او صاحب نے انچارج ہینڈ کا نشمیل کو بلا کر کہا کہ تم نے اس دفعہ کے ماتحت کہیں طرح کارروائی کی ہے جبکہ کاروائی کرنے کا تمہیں کوئی قوی ہی حاصل نہیں تھا مجسٹریٹ نے کہا.قانون نہیں اس بات کا اختیار نہیں دیتا البتہ مجسٹریٹ کے حکم سے تم ایسا کر سکتے ہو.اس کے بعد انہوں نے اُسی وقت آدمی بھیجوا دیا کہ وہاں جو پولیس کھڑی ہے اُسے کہ دیا جائے کہ وہ کوٹھی سے واپس چلے جائیں.چنانچہ سات بجے شام کو پولیس وہاں سے ہٹی.رات کو ایس ڈی او صاحب کا پھر ربعہ آیا کہ صبح میں مرزا خلیل احمد کے بارہ میں اطلاع دونگا.دوست گردن
۲۵۹ حسب وعدہ گیارہ بجے کے قریب اُن کا رقعہ آیا کہ آپ خلیل احمد کو بے شک لے جائیں.ہماری طرت اسے اس میں کسی قسم کی روک نہیں.چنانچہ اس پر ہم قادیان آگئے.صبح کے شور شر کے بعد جب مختلف لوگوں کی گواہیاں لینے کے لئے میں نے مرزا عبد الحق صاحب کو مقرر کیا تا کہ تازہ تازہ شہادت قلمبنا، ہو جائے تو مجھے معلوم ہوا کہ پولیس ڈاک آنے سے پہلے ہی ڈاکخانہ کے پاس بیٹھی تھی حالانکہ ابھی پیکٹ نہیں آیا تھا.اسی طرح وہ سڑکوں پر بھی مختلف جگہوں پر کھڑی تھی.جس کے معنے یہ ہیں کہ پولیس پیکیٹ کے منصوبہ میں شامل تھی اس کے ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوا کہ ڈاکیہ نے اصرار کر کے خلیل احمد کو پیکٹ دیا تھا.واقعہ یہ ہے کہ جب ڈاکیہ پیکٹ لایا تو فضیل احمد وہ پیکٹ دور صاحب کے پاس لایا اور کہنے لگا کہ یہ میرے نام بیرنگ پیکٹ آیا ہے کیا میں نے لوں ؟ درد صاحب کہتے ہیں کہ میں نے اُس سے کہا ایسا پیکٹ نہیں لینا چاہیئے.گروہ باہر جا کر پھر آیا اور اُس نے نہ آنہ ڈاکیہ کو دینے کے لئے طلب کئے جب اُس سے پوچھا گیا کہ تم نے ایسا کیوں کیا تو اپنے دانہ دینےکےلئے کئے جو اس پوچھا کہ تم نے ایسا تو اسے کہا کہ ڈاکیہ اصرار کرنے لگا تھا کہ ضرور پکیٹ سے لیا جائے اور کہنے لگا کہ دو آنے فریج کرنا کونسی بڑی بات ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ ڈاکیہ کو بھی پولیس نے یہ کہکر بھجوایا تھاکہ تم اصرار کرتا کہ خلیل احمد اس پیکٹ کو وصول کرلے.یہ واقعات ہیں جوئیں نے بغیر کسی قسم کی جماع کے اور بغیر اپنے جذبات کو ظاہر کرنے کے بیان کر دیتے ہیں.میں نے یہ نہیں بتایا کہ کس کس طرح ان واقعات سے سلسلہ اور ہم پر حرف آیا ہے یا ان واقعات سے اور ان سے جن کو ئیں نے ظاہر نہیں کیا کس طرح پولیس والوں کی بریتی اور ان کی جماعت کو ذلیل کرنے کی کوشش ظاہر ہوتی ہے.ہیں ان امور کو اس وقت تک ملتوی رکھتا ہوں جب تک گورنمنٹ سے اس بارہ میں میں گفتگو نہ کروں اور یہ نہ معلوم کرلوں کہ اس کی ذمہ داری کیس پر ہے.مگر جو چیز مجھے عجیب لگی ہے جو میرے دل کھٹکتی ہے اور جس کے بیان کرنے سے میں نہیں رک سکتا وہ یہ ہے کہ اگر اس ایکٹ کا دہی مفہوم ہے جو اس واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے تو پھر اس ایکٹ کے ماتحت کسی کو بھی کوئی پیکٹ بھیجوا کر گرفتار کرا دیتا بالکل آسان امر ہے اور اس طرح ہماری جماعت کا کوئی فرد اس سے محفوظ نہیں رہ سکتا یک ممکن ہے میرے پاس اس طرح کا کوئی پیکٹ آجائے اور پولیس مجھے گرفتار کرنے.آخر سوشلسٹوں کے لئے یا پولیس کے نئے اس قسم کا پیکٹ بھیجوانا کیا مشکل ہے.سوشلسٹوں کے اشتہارات وغیرہ اس کے قبضہ میں آتے ہی رہتے ہیں
۲۶۰ وہ آسانی سے کسی دوسرے کے نام وہی اشتہارات بصورت پیکٹ بھیج کر اُسے گرفتار کر سکتی ہے.گویا تمام معززین کی عزتیں اور جانیں خطرہ میں ہیں اور اس محض سی.آئی.ڈی کے چند انسروں کے ہاتھ میں رہ گیا ہے.میں نے اس خط میں جو ہز ایکسی لینسی گورنر پنجاب کو بھجوایا ہے یہی لکھا ہے.ناور اُن سے پوچھا ہے کہ کیا قانون کا یہی غشاء ہے.میں کسی بڑے افسر کا نام ادب کی وجہ سے نہیں لیتا لیکن کیا اُن کو اس قسم کا پیکٹ اگر کوئی بھیج دے تو پولیس تین چار منٹ کے بعد ہی اُن کو گرفتار کرلے گی حالانکہ تین چار منٹ میں کوئی انسان خواہ کتنا ہی سمجھے دار ہو کتنا ہی اقور ہو کتنے ہی وسیع ذرائع رکھنے والا ہو یہ نہیں کر سکتا کہ اس پیکٹ کو ڈپٹی کمشنر یا پی ٹنڈن ٹے پولیس کے پاس بھیجوائے.آخر وہ کونسا ذریعہ ہے جس کے ماتحت اس قسم کا پیکٹ پہنچنے کے یقین چار منٹ بعد ہی انسان اُسے کسی ذمہ دار انستر تک پہنچا سکے.اور اس طرح اپنی تربیت ثابت کر سکے تنت یں سمجھتا ہوں انگریز ایک جیل اور کیل بھی یہ طاقت نہیں رکھتے کہ وہ باوجود ٹرین میں رکھنے کے باد جو ہوائی جہانے رکھنے کے اس قسم کا پیکٹ پہنچنے کے بعد تین چار منٹ کے اندر اندر اس کے متعلق کوئی کاروائی کر سکیں.پس اگر اس قانون کا یہی مفہوم ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ ہندوستان کے ہر شخص کی عزت خطرے میں ہے.فرض کریہ میں اسوقت، وہاں موجود نہ ہوتا تو کیا اس قانون کے ماتحت خلیل احمد مجرم نہیں تھا.یا فرض کرو وہ اس کی اہمیت کو نہ سمجھتا اور اس پیکٹ کو کمرہ میں پھینک دیتا تو کیا وہ مجرم نہ بن جاتا.میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس قانون کا یہ منشاء ہو جو پولیس نے سمجھا.لیکن چونکہ میں نے اس کے متعلق گورنمنٹ کو توجہ دلائی ہے اس لئے میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ گورنمنٹ اس کا کیا جواب دیتی ہے.اگر گورنٹ کا یہی منشار ہے تو بغیر مزید تحقیق کئے ابھی سے یہ کہے دیتا ہوں کہ اس کے ماتحت ہندوستان میں کسی شخص کی عزت محفوظ نہیں.اور اگر اس قانون کا یہ مشاء نہیں اور اگر گورنمنٹ نے ایسے اصول تجویز کئے ہیں جن سے اس قسم کے خطرات کا ازالہ ہو سکتا ہے تو یقیناً گورنمنٹ کا فرض ہے کہ ان لوگوں کو جو اس واقعہ کے ذمہ دار اور اصل مجرم میں سزا دے اپنے اس واقعہ کا منظر عام پر آنا ہی تھا کہ مخلصین جماعت کے باوں میں مخلصین جماعت کا رد عمل زیر دست ہیجان اور جوش پیارا ہوگیا.اور انہوں نے حضر امیر المومنین کے حضور اپنے نام پیش کرنے شروع کر دیے کہ اس موقعہ پر ہم سے انفرادی طور پر تین میں قربانی کا مطالبہ الفضل مما ۱۳۵۲ ت بوک (۴ در ستمبر ۱۹۳۷) صفحه ۲ تا ۷ هم
کیا جائے گا اس سے دریغ نہیں کرینگے.تاہم جذبات کے حددرجہ مجروح ہونے کے باوجود انہوں نے ہر نوع کے غیر آئینی اقدام سے کلیشہ اجتنا آیا اور صبر و تحمل کا بے نظیر نمونہ دکھایا.دوسروں کا رد عمل جماعت احمدیہ کی مظلومی کا یہ نظارہ دیکھ کر ملک کے سیدہ نو متر سیم غیر مسلم حلقوں نے بھی پولیس کی ظالمانہ کاروائی کو سخت نفرت و حقارت سے رو و دیکھا اور جماعت سے ہمدردی کا اظہار کیا ہے اخبارات کا زبردست احتجاج سب سے عمدہ نمونہ ہندوستان کے پریس نے دکھایا جس نے احتجاجی نوٹ لکھے.اس واقعہ کی تفصیلات شائع کرنے کے علاوہ اس پر نوید آ اخبار انقلاب لاھور : شمالی ہند کے مشہور عمان اخبار انقلاب در مور نے اپنی تعمیر کارو کی اشاعت میں لکھا :.قادیانیوں کے متعلق کسی سرکاری یا غیر مہ کاری آدمی کو یہ شبہ نہیں ہوسکتا کہ وہ حکومت کے خلات با فیات ٹریچر کی اشاعت میں شریک ہو سکتے ہیں.حکومت کے ساتھ تعاون اور مساعی جنگ کی پرزور حمایت کے باب میں ان کی پالیسی ساری دنیا پر آشکارا ہے، پھر اگر اس گروہ کے امام کا سا جزادہ بھی ایک ایسے مقالے -- میں حمل مشبہات بن سکتا ہے جس سے نظر یہ ظاہر اس کا کوئی تعلق نہ تھا تو ان لوگوں کی آزادیاں اور عزتیں کیونکر محفوظ سمجھی جاسکتی ہیں جن کے متعلق حکومت یا عوام کو وفاداری کا دیسا یقین نہیں ہو سکتا جیسا کہ قادیانی اصحاب کے متعلق ہے.ہم مرزا صاحب کی اس رائے سے متفق ہیں کہ قانون کا ایسا استعمال نے ان پڑھ یا قریباً ان پڑھ پولیس کے معمولی جوانوں کو مختار بنا دینا یقینا ہے حد خطر ناک ہے اور جین حوادث سے مرزا صاحب کو سابقہ: پڑا کسی شریعت انسان کے لئے بھی اطمینان بخش نہیں ہو سکتے.حکومت کا فرض ہے کہ اس قسم کے واقعات کا سختی سے انسلاد کرنے حکومت کے کار بار اس وتخفق پورے ملک میں غائی غیر مبائین کی ہی واحد پارٹی تھی جس کے ساتھ تعلق رکھنے والے بعض لوگوں نے کھلم کھلا سرامر فیق اله مومنان وتار در شرافت انسانیت گرا مواردی اختیاری حتی روی ما وجود ایرانی نے پریس کی کاروائی پر زاهد کہ میں خوشیاں منائیں اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی ذات اقدس کیلئے نہایت درجہ نازیبا الفاظ استعمال کئے دو نفضل است SIMI ܀
کوئی آئین پسند انسان اختلاف نہیں کر سکتا.لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ جس شخص کے نام کوئی شخص خلافت آئین لٹریچر بھیج دے اُسے معا مجرم سمجھ لیا جائے اور اس کی زندگی کے محکم حقائق کی طرف سے آنکھیں بالکل بند کرنی جائیں.یہ طرز عمل سراسر غلط اور دل آزار ہے.حکومت پنجاب کا فرض ہے کہ وہ اس واقعہ کی مناسب تلافی کرے اور آئندہ کے لئے قانون کے صحیح استعمال کے متعلق تمام لوگوں کو یقین دلانے کی یہ کم سے کم صورت ہے.عالمہ مرزا صاحب یا ان کی جماعت کا نہیں بلکہ ہر نہ دوستانی کو اس کے ساتھ گہرا تعلق ہے نیلے اخبار پارس " لاھور : - لاہور کے ہندو اخبار "پارس" نے امیر جماعت احمدیہ سے بدسلوکی کے عنوان ۲۷ ستمبر ر ہ کی حسب ذیل اداریہ لکھا: ایک مذہبی پیشوا کی حیثیت سے مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کو ملک میں جو قابل رشک پوزیشن حاصل ہے اُس سے ہر شخص واقف ہے.جماعت احمدیہ کے ہر فرد کے لئے اُن کا لفظ حکم کا درجہ رکھتا ہے.وہ ایک ایسی جماعت کے رہبر ہیں جس کے بانی نے بادشاہ وقت کی اطاعت کو ایک اصول کا درجہ دیا.حکومت برطانیہ کی وفاداری اور اس سے دوستی کو جماعت مذکور نے اپنا فرض قرار دیا جس کیلئے اُسے اپنے ہم وطنوں کے طعن وتشنیع برداشت کرنے پڑے.گذشتہ اور موجودہ جنگ میں مرزا صاحب اور اُن کے پیرو کان نے حکومت کی مالی اور بھرتی کے سلسلہ میں جو مدد کی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں لیکن اُن کے ساتھ حکومت کے کارندوں کی طرف سے جو نا مناسب سلوک روا رکھا گیا ہے وہ راس قابل نہیں کہ جسے آسانی سے نظر انداز کیا جائے.مرزا صاحب موصوف کو ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ کے استعمال پر اپنے ساتھ پیش آمدہ مذکورہ بالا واقعہ سے کس قدر ذہنی تکلیف ہوئی ہے اس کا اندازہ اُن کے ذیل کے تلخ الفاظ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے.آپ اپنے خطیہ کے دوران میں فرماتے ہیں.( اگے حضور کے خطبہ سے اقتباس دیا گیا.نائل) جہاں ہمیں اس رنجیدہ معاملہ یں خلیفہ صاحب قادیان سے دلی ہمدردی ہے وہاں ہم حکومت کے اس نظام کی خامیوں پر ماتم کئے بغیر نہیں رہ سکتے جس کی رو سے ایک ایسی جماعت کے پیشوا کی توہین ہوئی جو حکومت برطانیہ کی بہت بڑی مددگار اور دوست سمجھی جاتی ہے.اگر مرزا صاحب کے خاندان ها لتصل در توک هند تمبو صفورا کالم * نیوک
۲۶۳ کے کسی فرد پر بعض ایک پیکٹ کے وصول ہونے کی وجہ سے سنڈیشن کا شبہ کیا جا سکتا ہے اور مرز اعضا ایسی پوزیشن کے بلند مرتبت بزرگ کے ساتھ پولیس کے معمولی سپاہی بد سلوکی سے پیش آسکتے ہیں تو پھر کسی بھی شخص کی عزت محفوظ نہیں سمجھنی چاہئیے.حکومت کو چاہیے کہ اس معاملہ کو معمولی سمجھ کر ٹال کرنی ہے بلکہ کسی خاص افسر کے ذریعہ اس کی تحقیقات کروائے اور اس سازش کا پتہ لگا کہ جس کے ذریعہ مرزاصات کو نقصان پہنچانے کی مذموم حرکت کی گئی.سازش کنندگان کو قرار واقعی سزائیں دے تاکہ آئندہ کسی کو اس قسم کی جسارت کی جرات نہ ہو سکے.ہماری رائے میں بلالحاظ مذہب و ملت ہر جماعت الیور تور دار اختیار کو اس واقعہ کی جو مرزا صاحب قادیان کے ساتھ پیش آیا پر زور الفاظ میں مذمت کرنی چاہیئے.کیونکہ اسے اگر نظر انداز کیا گیا تو اس قسم کے واقعات بڑی سے بڑی پوزیشن کے مذہبی اور کس سیاسی ہنما کے ساتھ پیش آسکتے ہیں.اخبار حق لکھنو :.لکھنؤ کے اخبار حق نے ہا شمیر اور کی اشاعت میں جماعت احمدیہ کی توہین " کے عنوان سے حسب ذیل نوٹ لکھا:.اگر یہ اطلاع صحیح ہے تو ہم گورنمنٹ پنجاب سے یہ پوچھنے کا پورا حق رکھتے ہیں کہ ایک ایسی محترم اور باعث عزت شخصیت کے خلاف کہ جو ایک طاقتور جماعت کا سردار اور امیر ہے اور میں کی شخصی اور جماعتی و فاداری حکومت کے ساتھ ضرب المثل کا درجہ رکھتی ہے اُس کے ہونہیں نے اس قسم کا اہانت آمیز برتاؤ کیوں کر گیا.اور کس کے حکم سے اس جماعت کے بارے میں ظاہر ہے کہ یہ شبہ تو ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ اس کا کوئی فرد چہ جائیے کہ اس کا خود امیر حکومت کے خلاف کسی با خیانہ لٹریچر کی نشر و اشاعت کا سبب بن سکتا ہے.اس لئے کہ نہ فر مسابقہ موقعوں پر بلکہ موجودہ جنگ میں بھی ان کا گورنمنٹ برطانیہ کے ساتھ اتحاد عمل اور اتحامی حکومتوں کی تائید میں اُن کا پروپیگنڈا ہر ایک کے علم میں ہے.اور اگر اس کے باوجود بھی کسی ایسی نماز و محرم شخصیت کے ساتھ حکومت پنجاب اس قسم کے طرز عمل کو جائز قرار دے سکتی ہے تو ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ کسی دوسرے کو اس سے کیا توقع رکھنی چاہیے.اور یہ بھی تو دیکھے کہ انصاف اور قانون کے کس ضابطہ اور اصول کے ماتحت ایسے شخص کو کہ میں کا وفاداری کا ریکارڈ اتنا مه SEDition، فساد، الغاوت بلوہ حکومت کے خلاف اشتعال انگیزی.
۲۶۴ شاندار ہو حض مغویا نہ لٹریچر کے ڈاک سے وصول کرنے کی پاداش میں مجرم قرار دیا جا سکتا ہے.اگر قصور وار کوئی ہو سکتا ہے تو اس کا بھیجنے والا نہ کہ اُس کا پانے والا.بہر حال ہم نون زیر دست نا نہیں اور سیاسی اختلافات کے باوجود کہ جو ہمارے اس جماعت سے ہیں پنجاب پولیس کے اس بر شریفانہ طرز عمل کے خلاف اپنے دلی غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے حکومت پنجا ہے اس کی تحقیقات اور تلافی اور آئندہ کے لئے اس کے انسداد کی پر زور خواہش کرینگے.اگر واقعات وہ نہیں ہیں کہ جو اس سلسلہ میں ہمارے علم میں آئے.تو حکومت پنجاب کا یہ ایک ضروری اور اخلاقی فرض ہے کہ وہ امیر جماعت احمدیہ کے اس بیان کے جواب میں جو انہوں نے روزنامہ الفضل میں اس کے متعلق شائع کیا ہے اپنا جوانی بیان شائع کر کے اپنی پوزیشن کی صفائی پیش کر دے تاکہ عام قلوب میں اس کے اس طرز عمل سے جو بے چینی پیدا ہوئی ہے وہ 2" رفع ہو جائے.کیا سر سکندر کی حکومت ہمارے اس جائز مطالبہ کو پورا کرنے پر تیار ہوسکتی ہے اخبار سر فراز لکھنو : - شیعہ اصحاب کے جماعتی آرگن روزنامہ سر فراز " لکھنو نے جماعت احمد ہے کی ایک قابل لحاظ شکایت کے عنوان سے اور ستمبر 19 اور کو لکھا:.ہم کسی مذہب وقت کے پیشوا کی تو ہین پسند نہیں کرتے اس لئے ہمیں یہ شنکر افسوس ہوا کہ جماعت احمدیہ (قادیان) کے موجودہ پیشوا کے ساتھ کوہ ڈلہوزی پر جہان آپ بغرض تبدیل آب ہوا معد اپنے متعلقین کے مقیم تھے پنجاب کی پولیس نے غالباً کسی خفیہ رپورٹ کی بناء پر اتنا زیادہ نامستان برتاؤ کیا میں سے خود آپ کو نیز آپ کے معتقدین کو بڑی تکلیف پہنچی.ہم کو امید ہے کہ حکومت اس معاملہ کی چھان بین کر کے اس کی مناسب تلاشی کرنے گئی.تاکہ مند بستان کی ہر ملت و قوم کو یہ اطمینان ہو سکتے کہ اس کے پیشوا کی عزت سرکاری عمال کے ہاتھوں معرض خطر میں نہیں لائی جائیگی ماستے اخبار حقیقت لکھنو: صوبہ متحدہ کے سنی مسلمانوں کے ترجمان اخبار حقیقت نے 19 ستمبر کو جماعت احمدیہ کے پیشوا کی تو ہیں " کی سرخی سے حسب ذیلی شذرہ سپرد قلم کیا : " معاصر الفضل ( قادیان) سے ہمیں یہ معلوم کر کے بہت افسوس ہوا کہ امام جماعت احمدیہ قادریان سے بحوالہ اختبار الفضل قاریان مورخه امضاء هنا ١٣ محرم + ١٢ الفضل ۱۵ اقاعد ۳ اکتوبر ۶۱۹۲۱ اکتوبر ۶۹۳۱ صفحه
۲۶۵ کے ساتھ کوہ ڈلہوزی پر جہاں آپ بغرض تبدیل آب ہوا معہ اپنے متعلقین کے مقیم تھے پنجاب پولیس کی جانب سے غالباً پنجاب سی آئی ڈی کی کسی رپورٹ کی بناء پر بہت ہی نازیبا اور قابل اعتراض برتاؤ کیا گیا......اگر کسی اور جماعت کے لیڈر کے ساتھ ایسا برتاؤ کیا گیا ہوتا تو ہمارا خیال ہے کہ اس وقت ہندوستان میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک ایسی آگ لگ چکی ہوتی جو آسانی سے بھائی نہیں جا سکتی تھی...عام مسلمانوں کو احمدی جماعت سے عقائد میں یقیناً اختلاف ہے لیکن اس وقت ہم میں واقعہ کا ذکر کر رہے ہیں وہ ان عقاید کے سوال سے بالا ہے اور یہ وہ امور ہیں جن پر سب کو متفق ہو کر پنجاب گورنمنٹ کے اس نا زیبا نعل کےخلاف صدائے احتجاج بلند کرنا چاہیے.کیونکہ ایک ایسی حکومت کے لئے میں کا وزیر اعظم ایک مسلمان ہو اس قسم کے امور ضرور شرمناک کہے جائیں گے.یہ ایسی بات ہے جس کے بارے میں اگر احتجاج نہ کیا گیا تو کسی بڑے سے بڑے ہندوستانی بیڈ کی عزت اور آبرو محفوظ نہ رہے گی.واقعہ یہ ہے کہ اس قسم کے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب سر سکندر کی حکومت میں ہندوستان کے سو سے زیادہ امام اشعار دفدار اور پابند قانون جماعت کے لیڈر کے ساتھ ایسا انسانیت سوز برتاؤ ہو سکتا ہے تو پھر کانگرسی رہنماؤں ہے کیا کچھ سلوک نہ ہوتے ہونگے.کاش! اسی واقعہ سے احمدیوں کو اس بات کا احساس ہو جائے کہ اس زمانہ میں حکومت کی وفاداری اور اطاعت شعاری کی نہ تو پبلک میں کچھ قدر ہے اور نہ خود گورنمنٹ کی نظروں میں کچھ وقعت ہے لہ نیشنل پھیر لٹ" لکھنو : لکھنو کے موقر انگریزی جریدہ نیشنل ہیرلڈ نے لکھا:.ڈیفنس آف انڈیا رولز کا ایسا غلط استعمال بہت خطرناک ہے اور حکومت کا فرض ہے کہ اس کا انسداد کرے.یہ بالکل غلط اصول ہے کہ جس کسی کے نام کوئی باغیانہ لٹریچر ڈاک میں آئے اُسے مجرم گردان لیا جائے اور اُس کی وفاداری کے گذشتہ ریکارڈ کو بالکل نظر انداز کر دیا جائے.یہ بات واضح ہے کہ ڈیفنس آف انڈیا رو از پاس کرتے وقت نجسلیچر کا منشاء وہ نہ تھا جو پنجاب پولیس سے رہی ہے ا سکے ا افضل دارای صفحه ۳ ۰ ۵۲ الفضل ها را فاد هنگان در رده در اکتوبر ۱۹۲۳ پیر صفحه ۳ ۶ - ۶۱۹۴۱
۲۶۶ ۱۹۴۱ اودھ اخبار لکھنو : لکھنو کے اودھ اخبار نے ۳۰ اکتوبر انٹر کے پرچہ میں درج ذیل نوٹ لکھا:.ابھی چند روز ہوئے کہ ڈلہوزی میں ایک ایسا ناگوار واقعہ پیش آیا جس پر مختلف اخباروں نے احتجاجی مقالے لکھے اور حکومت پنجاب کو اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ وہ ایسے واقعہ کے متعلق پوری تحقیقات کرے اور اگر یہ واقعہ صحیح ہو تو اس کی تلافی کرے.اسی سلسلہ میں واقعہ کی تفصیل پر تبصرہ کرتے ہوئے بتایا تھا کہ گذشتہ ستمبر کی کسی تاریخ کو جبکہ ڈلہوزی میں نام جماعت احمدیہ مقیم تھے ایک میٹھی ریسمان نے ایک پیکٹ امام جماعت احمدیہ کے صاحبزادے خلیل احمد کے نام تقسیم کیا.یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہ پیکٹ بیرنگ تھا اور اس نے پہلے وصول کرنے ت انکار کر دیا لیکن بیان کیا جاتا ہے کہ بیٹھی رسان نے صاحبزادہ خلیل احمد صاحت سے اصرار کیا کہ وہ اس پیکیٹ کو لے لیں.بہر حال انہوں نے اس پیکٹ کو وصول کر لیا اور اس کے فوراً ہی بعد صاحبزادہ موصوف اپنے والد صاحب کے پاس پہنچے اور پیکٹ حوالہ کرتے ہوئے کہا کہ اس پکیٹ میں کوئی باغیانہ سٹریچر ہے چنانچہ امام جماعت احمدیہ نے بھی چونکہ پیکٹ ڈھیلا تھا اُس کا لڑ پر نکال کہ ملاحظہ کیا تو یہ بات صحیح معلوم ہوئی کہ میں کسی انقلابی جماعت کی طرف سے یہ لڑ پر نوجوانی کے نام دردانہ کیا گیا تھا.امام جماعت احمدیہ نے فورا ہی پرائیویٹ سکرٹری کو بلا کر اس بات کی ہدایت کی کہ وہ اس خبر کو گورنر صاحب پنجاب کو روانہ کر دیں کہ ایسا لٹریچر پیکٹ میں کسی نے شرارتاً ان کے لڑکے کے پاس روانہ کیا ہے ممکن ہے اور نوجوانوں کو بھی بھیجا گیا ہو اس لئے اسکے متعلق نوری کا رروائی کی جائے.ظاہر ہے کہ امام جماعت احمدیہ کا یہ عمل بر بنائے خلوص ہی تھا لیکن ابھی یہ ہدایات دی ہی جارہی تھیں کہ فورا پولیس کی ایک جماعت بھی امام جماعت ، حمدیہ کی کو ٹھی میں پہنچ گئی.میں اس پیکٹ کے متعلق تحقیقات شروع کر دی.اس پیکیٹ کو بھی چھین لیا اور مکان کے اس ڈرائنگ روم میں داخل ہو گئی جہاں خود امام جماعت احمدیہ کی نشست گاہ تھی اور وہاں پولیس کی جماعت نے نہایت توہین آمیز طریقہ اختیار کیا نہیں نہیں معلوم کہ اصل واقعات کیا ہیں لیکن اگر یہ واقعہ صحیح ہو سکتا ہے تو ہمیں پنجاب پولیس کے اس رویہ پر سخت افسوس اور تکلیف ہے کہ اُس نے ایک جماعت کے پیشوا اور رہنما کے ساتھ نہایت توہین آمیز رویہ اختیار کر کے اس جماعت کے وفادارانہ جذبات کو ٹھیس لگائی جماعت احمدیہ کے متعلق یہ بتانے کی ضرورت
نہیں ہے کہ اس جماعت کے پیشوا سے لیکر افراد تک جن کی تعداد ہندوستان اور بیرون ہندمیں لاکھوں تک کہ برطانوی حکومت ساتھ کسقدر وفاداران دوستی رکھتے ہیں ان میں ہزار اس کی سیاسی اور غیرسیاسی را شر ہی ہوتی این درختم ہو جاتی ہیں.ہماری تحریکات ایسی ہوتی ہیں جن کا براہ راست اثر حکومت پر بھی پڑتا ہے لیکن جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جس سے یہ اندازہ ہو کہ اس نے کسی ایسی تحریک ی حصہ لیام موجوحکومت کی منی نفت میں پیش کی جاسکے بلکہ یہ جماعت ہمیشہ حکومت کی ایک از مرد و خوار جلالت ہی کی ایسی وفادار کہ جس کی کوئی مشکل نہیں پیش کی جا سکتی.پھر اس جماعت کے قائلہ کے ساتھ یہ توہین آمیز رویہ نا جائز اور غیر قانونی جیسا کہ مختلف اخبارات سے ظاہر ہوتا ہے یہ طریقہ اختیار کرنا ہماری سمجھ میں نہیں آتا اور ہم پولیس کے ایسے ناروا طریقہ پر اظہار رنج کئے بغیر نہیں رہ سکتے.حکومت پنجاب کا یہ فرض ہو جاتا ہے کہ وہ ان واقعات کی تحقیقات خاص طور پر کرائے ورنہ جب پولیس حکومت کے ایک ایسے وفادار دوست کے ساتھ یہ سلوک کر سکتی ہے تو پھر ظاہر ہے کہ اس کی رو سے کسی اور کا دامن کیسے بیچ سکتا ہے.اصل میں ان لوگوں کی تلاش کرنا چاہیے جو اس قسم کی شرارتیں کرتے ہیں جن کی زندگی ہی ایسے مہنگاموں کے لئے وقعت ہے.اخبار الفضل " میں اس واقعہ کی جو تفصیل دی گئی ہے وہ کافی بے چینی پیدا کرنے والی ہے اور اس جماعت کے پیرووں میں تو یقیناً بہت زیادہ بے چینی ہوگی.اس لئے حکومت کو بھی جلد از جلد اس سلسلہ میں اپنی پوزیشن کی وضاحت کر دینا چاہیئے یہ ھے حکومت پنجاب کی طرف سے واقعہ ڈلیوری کی نسبت جماعت احمدیہ اور حکومت کے کی درمیان نو ماہ تک خط و کتابت جاری رہی حکومت نے کمشنر صال ہو کو معذرت کرنے کی ہدایت تحقیقات بھی کرائی اور پھر پولیس کے ڈی.آئی.جی نے بھی تفتیش کی ہے بعد ازاں شہادت ها ۱۳ اپریل ۹۷اہ میں کشتر صاحب لاہور کو اس غرض کے لئے مقرر کیا کہ وہ اس معاملہ میں حضرت امام جماعت احمدیہ کے پاس اظہار افسوس کریں.چنانچہ کشتر صاحب لاہور گورداس پور آئے اور اُن کی چٹھی حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی خدمت میں آئی کہ میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں.کیا آپ مجھے یہاں اگربیل سکتے ہیں ؟ اگر آپ نہیں سکتے ہوں تو اپنے کسی رشتہ دار کو ہی بھجوا دیں تم الفضل تو میر ۶۱۹۴۱ بیرت ها صفرا کالم >14ft
۲۶۸ کیونکہ گورنمنٹ کی طرف سے میں ایک پیغام لایا ہوں جو آپ کو پہنچانا چاہتا ہوں.حضور کو قبل از وقت معلوم ہو چکا تھا کہ کمشنر صاحب لاہور اس غرض کے لئے آنے والے ہیں.چنانچہ حضور نے انہیں کہلا بھیجا کہ مجھے اگر آپ سے ملاقات کی ضرورت ہوتی تو میں خود آپ کے پاس آتا مگر چونکہ کام آپ کو ہے اس لئے میرے آنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا.اگر کسی افر کو مجھ سے کوئی کام ہے تو اس کا فرض ہے کہ وہ میرے پاس آئے نہ یہ کہ میں آگرہ کے پاس جاؤں.باقی مجھے معلوم ہے کہ آپ کیا کہنا! چاہتے ہیں اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ گورنمنٹ کی طرف سے آپ کو واقعہ ہوزی پر اظہار افسوس کر کے لئے بھیجا گیا ہے.گر آپ مجھے یہ بتائیں کہ وہ واقعہ گورنمنٹ کی نادانی سے پریس میں آچکا اور مارے ہندوستان میں مشہور ہو چکا ہے.اب اگر میں یہ اعلان کر دوں کہ گورنمنٹ نے اپنی غلطی کا ازالہ کر دیا ہے اور اس نے اپنے فعل پر اظہار افسوس کیا ہے تو دشمن ہنسے گا اور کہے گا کہ خودہی ایک بات بنائی گئی ہے دینہ گورنمنٹ نے اظہار افسوس نہیں کیا.جیسے ہماری پنجانی زبان میں ضرب المثل ہے کہ آپے میں رقی بچتی آپنے میرے بچے جیون اگر گورنمنٹ اس فعل پر اظہار ندامت کرنا چاہتی ہے تو اسے چاہئے کہ تحر یا کرے تاکہ دنیا کے سامنے اس تحریر کو رکھا جاسکے" کمشنر صاحب لاہور نے اس پیغام کے جواب میں کہلا بھیجا کہیں تو ایسی تحریر نہیں دے سکتا کیونکہ مجھے اجازت نہیں البتہ میں گورنمنٹ کو آپ کی یہ بات پہنچا دونگا ہے چنانچہ کشتر صاحب لاہور کی رپورٹ پر حکومت پنجاب حکومت پنجاب کا تحریری معذرت نامه نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی خدمت میں تحریری طور پر معذرت نامہ بھیجا.اس سلسلہ میں حکومت پنجاب کے ہوم سیکرٹری (ایف بی وین ) نے جو چھی لکھی اُس کا ترجمہ درج ذیل کیا جاتا ہے :- نمبر ۲۹۵۲ - ایچ (جی) ۴۲/۲۶۳۹۵ منجانب ایف بی دلیس بی آئی ای آئی سی ایس ہوم سیکرٹری حکومت پنجاب بنام خلیفہ اسیح حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدید له الفضل اجرت ها مصوبه قاریان ضلع گورداسپور مئی ۶۱۹۴۲
N.2952-H (G) 42/26395 Dated 27.4.1942 From F.B.Wace Esquire, C.I.E., I.C.S.Home Secretary to Government Punjab.Te Khalifatul Masih Hazrat Mirza Bashiruddin Mahmud Ahmad Head of the Ahmadiyya Community Qadian Disst, Gurdaspur.Your Holiness, The Punjab Government have bød under examination the incident in Dalhousie last September at your residence there, when certain action was taken by the police in connection with unauthoris- ed news sheets.Owing to achain of unfortunate circumstances, no superior police officer was available in Dalhousie, to take charge of this action and enquiry seems to show that the junior officer who was in charge displayed a lack of tact and consideration in carrying out his duties.Suitable action has been taken against this officer and the subordinate officials concerned and I am to express the great regret of the Punjab Government for any unnecessary inconvenience which may have been caused to you and your household in consequence.It need hardly be said that no kind of insult or indignaty was intented to you personally or to the religious body of which you are the respected head.I have the honour to he Your holiness Your most obedient servent Sdf- F.B.Wace Home Secretary to Government Punjab.
تقدس مآب : ۲۶۹ پنجاب گورنمنٹ اس واقعہ کے متعلق جو گذشتہ ستمبر میں ڈاہوری میں آپ کے گھر پر ہوا تھا اور جس میں پولیوں نے ایک ضبط شدہ ٹریکٹ کے متعلق کارروائی کی تھی اس وقت تک تحقیقات کرتی رہی ہے اور اب اس کے متعلق مندرجہ ذیل تحریر بھجواتی ہے :.بعض اتفاقی واقعات کی وجہ سے جو قابل افسوس ہیں پولیس کا کوئی اعلیٰ افسر اس وقت ڈھوری میں موجود نہیں تھا جو اس معاملہ کو اپنے ہاتھ میں لیتا.مگر یہ بات تحقیقات سے ثابت ہے کہ جونیئر افسر انچارج نے اپنے فرائض کے ادا کرنے میں عقل اور پوری توجہ سے کام نہیں لیا.گورنمنٹ نے اس افسر اور ماتحت افسروں کے خلاف جن کا اس واقعہ سے تعلق تھا مناسب کا دروائی کی ہے.اور مجھے گورنمنٹ پنجاب کی طرف سے ہدایت ہوئی ہے کہ میں اس بارہ میں تحریر کروں کہ گورنمنٹ پنجاب کو اس تکلیت پر جو آپ کو یا آپ کے خاندان کے لوگوں کو پہنچی ہوگی شدید افسوس ہے.آخرمیں میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس امر کے اظہار کی ضرورت نہیں.اس واقعہ سے کسی قسم کی مہتک یات مد نظر نہیں تھی.آپ کی ذات کی یا اس مذہبی جماعت کی جس کے آپ معزز مہر دار ہیں اسے حضرت خلیفہ یا الان کا اعلان اور نی نی نی توانای بی بی سی کے سینے پر ر ہجرت اللہ کے خطبہ جمعہ میں فرمایا : سی ۶۱۹۴۲ جہاں تک امام جماعت احمدیہ کا سوال ہے گورنمنٹ شروع میں ہی اظہار افسوس کہ چکی تھی لیکن ہماری بحث گورنمنٹ سے یہ نہیں تھی کہ امام جماعت احمدیہ سے یہ واقعہ پیش نہیں آنا چاہیئے تھا بل کہ ہماری بحث یہ تھی کہ کسی بہانت ستانی سے بھی ایسا واقعہ نہیں ہونا چاہئے.چنانچہ گورنمنٹ نے جو مجھے اُس وقت چٹھی لکھی تھی اس میں اس نے لکھا تھا کہ افسوس ہے ہمیں غلطی لگی اور ہمیں اس وقت یہ معلوم نہیں ہوا کہ امامیہ جماعت احمدیہ کا اس سے کوئی تعلق ہے.میں نے اسی وقت اس چھٹی کے جواب میں گورنمنٹ کو لکھ دیا تھا کہ میری اس جواب سے تسلی نہیں ہو سکتی کیونکہ میرا سوال انصاف کے قیام کے متعلق ہے.میرا سوال یہ نہیں کہ امام جماعت احمدیہ سے اس قسم کا واقعہ پیش نہیں آتا چاہیئے تھا بلکہ میرا سوال یہ ہے کہ کسی ہندوستانی کو بھی ایسا واقعہ پیش نہ آئے ہیں اس کا اجرت ها صفحه ا الفضل ۳۰ مج ۶۱۹۳۳
٢٠ ید اعتراض که جماعت کے نظام کا کوئی فائدہ نہ ہوا بے محل اعتراض تھا.کیونکہ یہاں تک امام جماعت احمدیہ کا تعلق تھا گورنمنٹ چند دنوں کے اندر اندر معذرت کا اظہار کر چکی تھی اور میں نے اس معذرت کو قبول نہیں کیا تھا.اس لئے کہ میرے نزدیک امام جماعت احمدیہ ہونے کی حیثیت سے حکومت کی معذرت کافی نہ تھی رات این وضاحت کے بعد حضور نے کمشنر صاحب لاہور کے گورداسپور آنے اور پھر حکومت کے تحریری معذرت نامہ کرنے کا ذکر کرنے کے بعد حکومت پنجاب کے ہوم سیکرٹری کی انگریزی چٹھی اور اس کا ترجمہ سنایا اور پھر اعلان فرمایا :- گو اس میٹھی میں تین بعض سوالات کا جو ہم نے اٹھائے ہوئے تھے جواب نہیں دیا گیا مگر بہر حال اس میں گورنمنٹ نے اس طریق کو اختیار نہیں کیا جو پہلے کیا تھا کہ اگر نہیں معلوم ہوتا کہ اس میں آپ کا تعلق ہے تو ایسا واقعہ نہ ہوتا.بلکہ بعض واقعہ کے متعلق لکھا ہے کہ وہ قابل افسوس ہے اور اُن افسروں کو سزادی گئی ہے جو اس کے ذمدار ہیں.میں نے جنگ کے حالات کو مد نظر کتے تو گورنٹ کے اس اظہار افسوس کو قبول کر لیا ہے اور اسے لکھ دیا ہے کہ ہم اس واقعہ کو آب ختم شدہ کہتے ہیں.بہائے واقعہ ڈھوری میں حکومت کے حضرت امیرالمومنین خلیفہ ایسی الثانی نے جو حکومت پنجاب اعلی حکام کے ملوث ہونے کا ثبوت کی معذرت قبول فرما لینے کا اعلان کر دیا مگر ساتھ ہی اس واقعہ کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے پوری وضاحت سے بتایا کہ : میں جہاں تک سمجھتا ہوں کو گورنمنٹ کے لئے یہ ماننا مشکل ہے کہ اس واقعہ کی بنیاد بعض اعلیٰ نگام کی سلسلہ احمدیہ سے مخالفت ہے کیونکہ واقعات بتاتے ہیں کہ جن امور کی وجہ سے یہ کاروائی کی گئی ہے وہ ڈیڑھ سال پہلے کے تھے.اور اس کی ڈپٹی کمشنر اور پر نٹنڈنٹ پولیس کو بھی اطلاعیں دی جا چکی تھیں.ان مخالف انسوں میں سے مثال میں سی آئی ڈی کے ایک اعلی افسر کا ذکر کرتا ہوں.سال سوا سالی ہوا انہوں نے ہمارے مبلغ صوفی عبد القدیر صاحب کو بلایا اور ان سے کہا کہ ان الفضل مات صفحه کالم سوم * له الفضل می ملل متحده کانم ۲ + صفحه ۳ + ۳۰ رنگی ۶۱۹۴۲
PZI جاپان کے متعلق مجھے وہ معلومات در جو تم نے وہاں رہ کر حاصل کی ہیں.اور جو کا روائیاں وہاں ہو رہی ہیں وہ مجھے بتاؤ.صوفی عبد القدیر صاحب نے درست طور پر جواب دیا کہ میں جماعت کا ایک فرد ہوں اور اس کی طرف سے میں جاپان میں تبلیغی خدمت پر مقرر رہا ہوں.میں اس سوال کا جواب نہیں دے سکتا ہوں.ایک مبلغ کی حیثیت سے اُن کا یہ جواب بالکل صحیح اور درست تھا.دنیا کی تمام مہذب گورنٹین پادریوں کو اس قسم کے معاملات میں پیٹا نہیں کرتیں.اور اگر وہ متبلون کو بھی اس پیٹ میں لے لیں تو تبلیغ کرنی مشکل ہو جائے.آخر مبلغ دوسرے ملکوں میں تبلیغ کرنے کے لئے جاتا ہے جاسوسی کرنے کے لئے تو نہیں جاتا.اگر جاپان اور امریکہ اور روس اور اٹلی اور سپین اور جرمن وغیرہ حکومتوں کو یہ خیال پیدا ہو جائے کہ احمدی مبلغ انگریزوں کے جاموس ہوتے ہیں تو وہ انہیں تبلیغ کی کہاں اجازت دیں گے.ایسی صورت میں تو جب کوئی مبلغ اُن کے ملک میں جائیگا وہ اُسے پکڑ کر باہر نکال دیں گئے.پس یہ نہایت ہی نا مناسب بات ہے کہ کسی جماعت کے مبلغوں کو اس کام پر مامور کیا جائے.اس افسر نے صوفی صاحب سے یہ بھی کہا کہ اگر آپ جاپان کے حالات نہیں بتائیں گے تو ڈیفنس آف انڈیا رولز کے ماتحت آپ کو گرفتار کر لیا جائیگا.صوفی صاحب نے کہا کہ اگر آپ نے مجھے گرفتار ہی کرنا ہے تو بے شک کرلیں.اس واقعہ کے بعد ہمیں معلوم ہوا ہے کہ انہیں نمبر ون کے بستے میں رکھ لیا گیا.چنانچہ اب تک اُن کی مخفی نگرانی کی جاتی ہے.یوں مخفی تو نہیں کہ کسی کو اس کا پتہ نہیں جب شخص کی نگرانی کی جاتی ہے اُسے تو پتہ لگ ہی جاتا ہے.البتہ ظاہر میں پونیس ان کے دروازے پر نہیں بیٹھتی.اسی بعد یکدم ده پیرانا واقعہ جو سال ڈیڑھ سال کا تھا اُٹھانا شروع کر دیا گیا.پس ہمارے لئے اس بات کے یقین کرنے کی وجوہ موجود ہیں کہ اس میں بعض علی حکام اور بعض سی آئی ڈی کے افسروں کا ہاتھ تھا.چنانچہ ہمارے دوسرے مبلغ مولوی عبد الغفور صاحب کو جو مولوی ابوالعطاء صاحب کے بھائی ہیں.انہیں بھی دھوکہ دے کر امرتسر با دیا گیا اور اُن سے کہا گیا کہ کیا تم جاپان کے متعلق ہمیں معلومات دے سکتے ہو یا اگر تمہیں جاسوس بنا کر بھیجا جائے تو تم یہ کام کر سکتے ہو.حالانکہ میں انسر نے یہ بات کہی اس کا ضلع گورداسپور کے کسی فرد کو گورداسپور کی پولیس کی وساطت کے بغیر ملاہے کا کوئی اختیا ر ہی نہیں تھا.اس کے ساتھ ہی اُس نے یہ دھمکی بھی دی کہ جاپان سے جو لوگ
آئے ہیں انہیں گورنمنٹ پکڑ رہی ہے اگر تم نے حالات نہ بتائے تو تمہیں بھی پکڑ لیا جائے گا.انکو میہ بالکل غلط ہے.ہزاروں لوگ ایسے ہیں جو جاپان سے آئے مگر انہیں کسی نے گرفتار نہیں کیا.صرف اسی آئی ڈی کے بعض افسر معلومات حاصل کرنے کے لئے اس قسم کی دھمکی دے دیتے ہیں.پس اگر گورنمنٹ کے معنے وزراء کی باقاعدہ مجلس کے ہیں تو میں مان سکتا ہوں کہ اس واقعہ میں گورنمنٹ کا ہاتھ نہیں تھا لیکن دوسرے بعض حکام اور سی آئی ڈی کے بعض افسروں کا راس میں ہاتھ ضرور تھا...جب یہاں ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس آئے تو میں نے اُن کے سامنے ایسے واقعات رکھے جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ یہ ڈیڑھ سال کا ایک پرانا واقعہ ہے اور میں نے اُن سے پوچھا کہ یہ ڈیڑھ سال کا واقعہ نئی صورت کس طرح اختیار کر گیا.اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ ایک عجیب اتفاق ہے مگر دنیا میں مجیب اتفاقات ہو ہی جایا کرتے ہیں پھر میں نے دوسری مثال دی.کہنے لگے یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے.میں نے کہا یہ سارہ عجوبے یہاں کی طرح اکٹھے ہو گئے.اور ان پرانے واقعات نے نئی صورت کس طرح اختیار کرنی ؟ غرض ہمارے پاس اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ در حقیقت اس واقعہ میں بعض بالا افسروں کا ہاتھ تھا لیکن جو فعل ہوا وہ مقامی آدمیوں سے ہوا.گویا ہی لفظ جو اس چٹھی میں استعمال کیا گیا شعر ہے یعنی آن فارچون" وہ اس واقعہ پر پوری طرح منطبق ہوتا ہے کہ بدقسمتی سے بعض اور لوگ مارے گئے.حالانکہ اصل مجرم اور تھے.میں اس وقت ساری باتیں اپنے خطبہ میں بیان نہیں کر سکتا اور بعض باتیں تو ایسی ہیں جن کا بیان کرنا مناسب بھی نہیں.صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے پاس ایسے یقینی ثبوت ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض بالا افسر اس کا رروائی میں شامل تھے.میں یہ ماننے کے لئے تیار ہوں کہ قانونا جس شکل کو گورنمنٹ کہتے ہیں وہ اس واقعہ کی ذمہ دار نہ تھی.مگر بعض اور بھی بالا افسر ایسے ہوتے ہیں جو گورنمنٹ کے قائم مقام سمجھے جاتے ہیں.اور جب اُن کی رائے کسی کے خلاف ہوتی ہے تو ماتحت افسر اسے خود بخود نقصان پہنچانا شروع گر دیتے ہیں.ہیں.بیشک اصطلاحی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ گورنمنٹ کا ہا تھے اس واقعہ میں نہیں تھا گر حقیقی طور پر گورنمنٹ کے بعض افسروں کا اس میں ہاتھ تھا.بہر حال چونکہ گورنمنٹ نے قطع نظر OMFORTUNE بدقسمتی سے *
۲۷۳.اس سے کہ اس واقعہ کا تعلق امام جماعت احمدیہ سے تھا یا نہیں......اقرار کیا ہے کہ اسکے افسروں نے عقل اور تدبیر سے کام نہیں کیا بلکہ ہتک آمیز طریق اختیار کیا جس پر اس نے اظہار افسوس کرتے ہوئے اُن افسروں کے خلاف ایکشن لیا ہے جو اس نعل کے مرتکب ہوئے تھے یا اے فصل پنجم کے قاریان برت کرکے باریوں میں یا اس کی تیاری میں منشیات کی ایک سلسلہ احمدیہ کی دان میں عظیم خصوصیت یہ ہے کہ اس سال کے آخرمیں الہ تھا با مرکز تعمیر کرنے کا آسمانی انکشاف نے حضرت یہ ایسی انسانی پر بذریعہ یا اکتشان خلیفہ نیا من فرمایا کہ حضور کو مستقبل میں قادیان سے ہجرت کر کے پہاڑیوں کے دامن میں تنظیم کی غرض سے ایک نیا مرکز قائم کرنا پڑے گا.چنانچہ حضور نے ۱۲ فتحه ۱۳۵۲ (۱۲ر دسمبر ۱۹ء) کے خطبہ جمعہ میں فرمایا : ایک رویا ہوا.میں نے دیکھا کہ میں ایک مکان میں ہوں.جو ہمارے مکانوں سے جنوب کی طرف ہے.اور اُس میں ایک بڑی بھاری عمارت ہے جو کئی منتروں میں ہے.اس کئی منزلہ عمارت میں میکی بھی ہوں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ یکدم عظیم حملہ کرکے آگیا ہے اور اس فلیم کے حملہ کے مقابلہ کے لئے ہم سب لوگ تیاری کر رہے ہیں.میں اُس وقت اپنے آپ کو کوئی کام کرتے نہیں دیکھتا مگر میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ میں بھی لڑائی میں شامل ہوں.یوں اُس وقت میں نے نہ تو میں دیکھی ہیں نہ کوئی اور سامان جنگ گرمیں سمجھتا یہی ہوں کہ تمام قسم کے آلات حرب استعمال کئے جارہے ہیں.اسی دوران میں میں نے محسوس کیا کہ وہاں...پھر یہ نظارہ بدل گیا اور مجھے یوں معلوم ہوا کہ جیسے ہم اس مکان سے نکل آئے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دشمن غالب آگیا ہے اور نہیں وہ جگہ چھوڑنی پڑی ہے.باہر نکل کر ہم حیران ہیں کہ کہیں جاگہ جائیں اور کہاں جا کر اپنی حفاظت کا سامان کریں.اتنے میں ایک شخص آیا اور اُس نے کہا کہ میں آپ کو ایک جگہ بتاتا ہوں الفضل مهاجرت مفید ہوا ہے ۶۱۹۴۲
۲۷ آپ پہاڑوں پر چلیں وہاں ایک اٹلی کے پادری نے گرجا بنایا ہوا ہے اور ساتھ ہی اُس نے بعض عمارتیں بھی بنائی ہوئی ہیں جنہیں وہ کرایہ پر مسافروں کو دے دیتا ہے.وہاں چلیں وہ مقام سب سے بہتر رہے گا.میں کہتا ہوں بہت اچھا.چنانچہ میں گائیڈ کو ساتھ نیکر پیدل چل پڑتا ہوں.ایک دو ریست اور بھی میرے ساتھ ہیں.چلتے چلتے ہم پہاڑوں کی چوٹیوں پر پہنچ گئے مگر وہ ایسی چوٹیاں ہیں جو ہموار ہیں.اس طرح نہیں کہ کوئی چوٹی اونچی ہو اور کوئی نیچی جیسے عام طور پر پہاڑوں کی چوٹیاں ہوتی ہیں بلکہ وہ سب ہموار ہیں جس کے نتیجہ میں پہاڑ پر ایک میدان پیدا ہو گیا ہے.وہاں میں نے دیکھا کہ ایک پادری کالا ساکوٹ پہنے کھڑا ہے اور پاس ہی ایک چھوٹا سا گر جا ہے.اس آدمی نے پادری سے کہا کہ باہر سے کچھ مسافر آئے ہیں انہیں ٹھہرنے کے لئے مکان چاہیے.وہاں ایک مکانی بنا ہوا نظر آتا ہے وہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ پادری لوگوں کو کرایہ پر جب گھر دیتا ہے.اُس نے ایک آدمی سے کہا کہ انہیں مکان دیکھا دیا جائے.وہ مجھے مکان دکھانے کے لئے لے گیا.ایک دو در صمت اور بھی ہیں.میں نے دیکھا کہ وہ کچا مکان ہے اور جیسے فوجی بارگیں سیدھی چلی جاتی ہیں اسی طرح وہ مکان ایک لائن میں سیدھا بنا ہوا ہے.مگر کمرے صاف ہیں.میں ابھی غور ہی کر رہا ہوں کہ جو شخص مجھے کمرے کھا رہا تھا اس نے خیال کیا کہ کہیں میں یہ نہ کہ دوں کہ یہ ایک پادری کی جگہ ہے ہم اس میں نہیں رہتے ایسا نہ ہو کہ ہماری عبادت میں کوئی رنک پیدا ہو.چنانچہ وہ خود ہی کہنے لگا.آپ کو یہاں کوئی تکلیف نہیں ہوگی کیونکہ یہاں مسجد بھی ہے.یہ نے اسے کہا کہ اچھا مجھے مسجد دکھاؤ اُس نے مجھے مسجد دکھائی جو نہایت خوبصورت بنی ہوئی تھی مگر چھوٹی سی تھی مسجد مبارک سے نصف ہوگی لیکن اس میں چٹائیاں اور دریان غیرہ بھی ہوئی تھیں اسی طرح امام کی جگہ ایک صاف قائینی مصلی بھی بچھا ہوا تھا مجھے اس مسجد کو دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی.اور میں نے کہا کہ ہمیں یہ جگہ منظور ہے.خواب میں مبینی یہ خیال نہیں کیا کہ مسجد وہاں کس طرح بنائی گئی ہے، مگر بہر حال مسجد دیکھ کر مجھے مزید تسلی ہوئی اور میں نے کہا کہ اچھا ہوا مکان بھی مل گیا اور ساتھ ہی مسجد بھی مل گئی.تھوڑی دیر کے بعد میں باہر نکلا اور میں نے دیکھا کہ لگا ہو گا احمدی وہاں آرہے ہیں خواب میں میں حیران ہوتا ہوں کہ میں نے تو ان سے یہاں آنے کا ذکر نہیں کیا تھا ان کو میرے یہاں آنے کا پتہ لگ گیا ہے
تو معلوم ہوا کہ یہ کوئی محفوظ جگہ نہیں.چاہے یہ دوست ہی ہیں لیکن بہر حال اگر دوست کو ایک مقام کا علم ہو سکتا ہے تو دشمن کو بھی ہو سکتا ہے.محفوظ مقام تو نہ رہا.چنانچہ خواب میں میں پریشان ہوتا ہوں اور میں کہتا ہوں کہ ہمیں پہاڑوں میں اور زیادہ دور کوئی جگہ تلاش کرنی چاہیے.اتنے میں میں نے دیکھا کہ شیخ محمد نصیب صاحب آگئے ہیں.میں اس وقت مکان کے دروازے کے سامنے کھڑا ہوں.انہوں نے مجھے سلام کیا.میں نے اُن سے کہا کہ لڑائی کا کیا حال ہے.انہوں نے کہا.دشمن غالب آگیا ہے.میں کہتا ہوں مسجد مبارک کا کیا حال ہے.انہوں نے اس کا یہ جواب دیا کہ مسجد مبارک کا حلقہ اب تک لڑ رہا ہے.میں نے کہا کہ اگر مسجد مبارک کا حلقہ اب تک لڑرہا ہے تب تو کامیابی کی امید ہے.میں اس وقت سمجھتا ہوں کہ ہم تنظیم کے لئے رہیں اورتنظیم کرنے کے بعد دشمن کو پھر شکست دے دیں گے.اس کے بعد میں نے دیکھا کہ کچھ اور دوست بھی وہاں پہنچ گئے ہیں.اُن کو دیکھ کر مجھے اور پریشانی ہوئی اور میں نے کہا کہ یہ تو بالکل عام جب گہ معلوم ہوتی ہے.حفاظت کے لئے یہ کوئی خاص مقام نہیں.ان دوستوں میں ایک حافظ محمد ابراہیم صاحب بھی ہیں.اور لوگوں کو میں پہچانتا نہیں صرف اتنا جانتا ہوں کہ وہ احمد ہی ہیں.حافظ صاحب نے مجھ سے مصافحہ کیا اور کہا کہ بڑی تباہی ہے.بڑھی تباہی ہے.پھر ایک شخص نے کہا کہ نیلے گنبد میں ہم داخل ہونے لگے تھے گروہاں بھی ہیں داخل نہیں ہونے دیا گیا.میں نے تو نیای گنبد لا ہور کا ہی شنما ہوا ہے.اگر اعظم کوئی اور بھی ہو.بہر حال اس وقتہ میں نہیں کہ سکتا کہ نیلے گنبد کے لحاظ سے اس کی کیا تعبیر ہو سکتی ہے البتہ اس وقت بات کرتے کرتے میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا ہے کہ نیلا سمندر کا رنگ ہوتا ہے.اس کے بعد حافظ صاحب نے کوئی و نفعه بیان کرنا شروع کیا ند ا سے بڑی نبی طرز سے بیان کرنے لگے جس طرح بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ بات کو جلدی ختم نہیں کرتے کہ اسے بلا وجہ طول دیتے چلے جاتے ہیں.اسی طرح حافظ صاحب نے پہلے ایک لمبی تمہید بیان کی اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ جالندہر کا کوئی واقعہ بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہاں بھی بڑی تباہی ہوئی ہے اور ایک منشی" کا جو غیر احمدی ہے اور پٹواری یا گرداوری
144 بار بار ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ منشی جی ملے اور انہوں نے بھی اسی طرح کہا.میں خواب میں بڑا گھبراتا ہوں کہ یہ موقعہ تو حفاظت کے لئے انتظام کرنے کا ہے اور اس بات کی ضرورت ہے کہ کوئی مرکز تلاش کیا جائے.انہوں نے منشی جی کی باتیں شروع کر دی ہیں.چنانچہ میں اُن سے کہتا ہوں کہ آخر ہوا کیا ؟ وہ کہنے لگے منشی جی کہتے تھے کہ ہماری تو آپ کی جماعت پر ہی نظر ہے میں نے کہا بس اتنی ہی بات تھی نہ کہ منشی جی کہتے تھے کہ اب اُن کی جماعت احمدیہ پر نظر ہے یہ کہکر میں انتظام کرنے کے لئے اُٹھا اور چاہا کہ کوئی مرکز تلاش کروں کہ میری آنکھ کھل گئی ہے مندرجہ بالا رویا میں اللہ تعالے نے مندرجہ ذیل خبریں دیں :- ا.قادیان اور اس کے گرد و نواح میں دشمن یکدم حملہ کر کے آجائے گا.دشمن کی طرف سے جنگ خفیہ برٹنگ میں ہوگی.۳.قادیان سے جالند ہتر ک بڑی خوفناک تباہی آئے گی اور لوگ نیلا گفتند یعنی کھلی فضا کے نیچے پناہ گزین ہونگے.۴ - دشمن قادیان پر بھی غالب آجائے گا.مگر مسجد مبارک کا حلقہ استقلال اور پامردی سے ڈھی رہے گا اور محفوظ رہے گا.لاب اس تباہی کے دوران حضرت خلیفہ اسیح الثانی اپنے خاندان کے علاوہ بعض اپنے جان نثار خواہ کے ساتھ قادیان سے کسی دوسرے ملک میں مرکز کی تلاش میں ہجرت کر آئیں گے.اور بالآخر پہاڑیوں کے دامن میں جماعت احمدیہ کا ایک نیا مرکز تعمیر کرینگے جہاں پہلے فوجی بار کوں کی طرز پر مکان بنانے پڑیں گے.یہاں اس امر کا ذکر کرنا مناسب نہ ہوگا کہ یہ سب واقعات تقسیم ہند کے بعد جماعت احمدیہ کے نے مرکز ربوہ کی تعمیر سے حفظاً لفظ پورے ہوئے جیسا کو اس کا ذکر اپنے مقام پر آئیگا.جلیل القدر صحابہ کا انتقال حضرت مفتی ظفر احمد صاحب کوی علوی کی وفات کا تذکرہ ہے خشی کپور | K ہو چکا ہے اب یہاں منہ میں رحلت کرنے والے دوسرے ستره جلیل القدر صحابہ کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے :- الفصل ا صفحه ۳ و
ام حضرت شیخ عبد ا رشید صاحب پٹیالوی دوفات ، تبلیغ اور ہے سیتی فروری ۳۱ ملا عمر - میان شمس الدین صاحب سود اگر چرم امور در معیت تشابه دفات بعمر ۶۴ سال) فروری سم 19 مخیر بزرگ تھے.لاہور کی مسجد احمدیہ سیر دن دہلی دروازہ کیلئے آپ نے پانچ ہزار روپیہ چندہ دیا.تجارتی حلقوں میں آپ ایک نمونہ تھے.ہمیشہ عمدہ مال خرید تے اور فروخت کرنے میں بھی نہایت دیانتداری سے کام لیتے.حلقہ سلطان پورہ لاہور کے نام الصلوۃ تھے ہے.بابو وزیر خان صاحب اور سیر دونات ۲۸ تبلیغ هستی فروری ۶۱۹۴۱ مولوی محمد عبد الله صاحب امیر جماعت احمدیہ پیر هیچی زا ادفات در امان ۵- عبد الله صاحب ساکن داشته ضلع ہزارہ وفات اور اسان هن سا ہے میاں امام الدین صاحب ساکن قادیان درفات اور شهادت هنا نہایت ساده طبع بین مفتی انسان اپریل 1991ء تھے.حضرت خلیفہ اول میں اللہ عنہ نے انہیں ابلے ہوئے چنے فروخت کر کے معاش پیدا کرنے کا ارشاد فرمایا جس پر مرحوم آخر وقت تک کار بند رہے اور خدا تعالٰی نے اس میں بہت برکت ڈائی تیه نے حضرت میاں امام الدین صاحبت سیکھوائی والد ماجد حضرت مولانا جلال الدین صاحب مشق ربیعت ر نومبر د وفات در میری عمر تقریباً اتنی سال ) آپ دعوی میں بہت سے قبل بھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے اور کھانا اپنے رشتہ داروں کے ہاں کھایا کرتے تھے مگر عونی کے بعد حضرت اقدس علیہ السلام نے آپ کو ارشاد فرمایا کہ آپ سے آپ ہمارے مہمان ہیں چنانچہ اس کے بعد جب قادیان آئے تو اکثر حضرت اقدس کے دستر خوان اور نگران سے علی کھاتے.حضرت میاں امام الدین صاحب اور اُن کے دونوں حقیقی بھائی : حضرت میان جمال الدین صاحب اور حضرت میاں خیر دین صاحب) باد جو دیکھ نہایت غریب تھے لیکن ہر حال میں تاریخ اور خدا تعالی کے شکر گزار رہتے تھے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آواز پر لبیک کہنے اور عالی قربانی میں اپنی طاقت مور بساط سے بڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے جس کا تذکرہ خود وہ نور علیہ السلام نے بھی اپنی کتب داشتہارات میں نہایت محبت اور پیار کے الفاظ میں فرمایا ہے.چنانچہ ضمیمہ انجام آنتیم ۲۱۳ صحابہ کی فہرست میں ه الفضل ، و به صفحه ۲ + له الفضل و تبلیغ ها ا فروری ۱۹۴۱ و ه الفضل در جرت هنته ورشی شد صفحه کالم ۳ + هم الفضل در شهادت هه وه سراپایان نشده ایم متحده به الفضل اور شہادت هنا ۲۴ اپریل اور صفحه ۲ کالم +
Y&A ام الدین صاحب کا نام (معہ اہمیت پر اور اُن کے بھائیوں کے نام زمعہ اہمیت ) ۳۰-۳۱ نمبر پر لکھے.اور تحریر فرمایا : میں اپنی جماعت کے محبت اور اخلاص پر تعجب کرتا ہوں کہ اُن میں سے نہایت ہی کم معاش والے جیسے میاں جمال الدین اور غیر دین اور امام الدین کشمیری میرے گاؤں سے قریب رہنے والے میں وہ تینوں غریب بھائی میں جوش ایدر تین آند یا چار آند روزانه مزدوری کرتے ہیں سرگرمی سے ماہواری چندہ میں شریک ہیں.ان کے دوست میان عبد العزیزہ پٹواری کے اخلاص سے بھی مجھے تعجب ہے کہ وہ با وجود قلت معاش کے ایک دن مورد چیر دے گیا کہ میں چاہتا ہوں کہ خدا کی راہ میں خرچ ہو جائے.وہ سو روپید شاید اُس غریب نے کئی برسوں میں جمع کیا ہو گا.مگر یہی جوش نے خدا کی رضا کا جوش یا یا باشند پھر اکتوبر کو اپنے اشتہار بعنوان " جلسة الوداع " میں وفد نصیبین کے اخراجات کے تعلق میں تحریر فرمایا :- نشی عبد العزیز صاحب پیوری ساکن او جلہ ضلع گورداسپورہ نے باوجود قلت سرمایہ کے ایک صو میں (۱۲۵) روپے دیئے ہیں.میاں جمال الدین کشمیری ساکن سیکھواں ضلع گورداس پورہ اور ان کے دور از حقیقی میاں امام الدین اور میاں خیر دین نے پچاس روپے دیئے ہیں.ان چاروں صاحبوں کے چنان کا معاملہ نہایت تھیب اور قابل رشک ہے کہ وہ دنیا کے مال سے نہایت ہی کم حصہ نہ رکھتے ہیں گیا حضرت بوبکر رضی اللہ عنہ کی طرح جو کچھ گھروں میں تھا وہ سب سے آئے ہیں اور دین کو آخرت پر مقدم کیا جیسا کہ بیعت میں شرط تھی یا سکہ.علاوہ ازیں جب حضور علیہ السلام نے یکم جولائی منشائے کو سارہ المسیح قادیان کے لئے سو صو روپیہ دینے والے مخلصین کی فہرست شائع فرمائی تو ان تینوں بھائیوں اور اُن کے والد محمد صدیق صاحب چاروں کی طرف سے ایک نمو روپیہ منظور فرما کر ان کے نام نمبر ۱۴ پر درج فرائے کے المختصر حضرت مولوی امام الدین صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نہایت علی مرتبہ صحابہ میں سے تھے.مینشی محمد دین صاحب به بیشتر دین پوره لاهور دونات ه ر احسان در مطلبی در خون داره نا ضمیمه انجام آنهیم صفحہ اس کالم ۳ : ۵۲۰ ضمیمه انجام آنهم حاشیه صفحه ۱۲۰/۲۹ ۱۳ ضمیمه اشهار الانصار مرا کتوبر شده اند مشموله تبلیغ رسالت جلد ہشتم صفحور 1 + آن اشتہار یکم جولائی اور مشمولد تبلیغ رسالت جلد نهم + ه الفضل ، را حسان ه ۱۳۵۶ در ریون ۱۹۴۷) صفحه ۲ کالم )
۲۷۹ کی ۵۹ وفا باب علی محمد صاحب ساکن بر ضلع امرتسر (وفات بوده ای ها وفاه ا ٣ ۱۰ - مولایی جان محمد صاحب متوطن ڈسکہ مہاجر محلہ دار البرکات ربوده (وفات ۲۸ جوانی ۱۳ نمبر ۸ سال) ۱۱ - محمد حسین صاحب ناظر و بیشتر در هرم ساله ربیعت ۱۹۹۴ و وفات دناه ۱۳۵۲ جولائی ۱۹۴۱ء بیست مارچ ۱۹ وفات اور ظہور عمر ۷۵ سال ۳۱۴ 146 ت ، محرم الحرام ۱۲ - حضرت سید مهدی حسین صاحب مورج متومان ستید کھیڑی علاقہ راجپورہ ریاست پٹیالہ زماد بار کریمی ۳۰۰ ر ا پریل ۶۱۸۷۸ بعمر 20 سال ۳۱۳ صحابہ کبار کی فہرست میں آپکا نام 1 اپر درج ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشہور خدام میں سے تھے.کتب خانہ مسیح موعود علیہ السلام کے مہتم بھی رہے.نزول المسیح آپ ہی کی زیر نگرانی شائع ہوئی.کا پہیوں کی تصحیح میں آپ کو خاصی دسترس تھی.اکتوبر 9ء میں بغرض تبلیغ ایران تشریف لے گئے اور چھے ماہ تک اعلائے کلمۃ اللہ میں مصروف رہنے کے بعد از مئی ۱۹۳۶ء کو واپس آئے یہ حضرت میر صاحب نے اپنی زندگی میں ہی اپنی روایات اور اپنے حالات اخبار الحکم دو اکتوبر - دسمبر و الحکم، اور اگست ۱ و ۱۲-۲۱ تمبر د میں شائع به مر کرائے تھے.۱۳ - میاں غلام خسم صاحب د تاریخ وفات پر تو عمرے سان ار ستمبر ۶۱۹۴۱ ۱۳ حاجی مفتی گلزارمحمد صات بانوی ربیعت هنر و وفات ٢ ١ - مولوی خادم حسین صاحب ڈنگوی دونات مادر بوت هام نومبر ۶۱۹۳۱ ۱۹۴۱ تعمیر با ۷ سال) ۱۹ - میان احمد بخش صاحبت امام سید احمد یہ تلونڈی جنگوں روفات فوت هنا سوار ہے ۱۷- میان رحمت اللہ صاحب باغانوالہ ساکن بنگر ضلع باشند هر دونات هر ماه فتح هنا مطابق هر بر تار سالم ۱۸ چوہدر ی محبوب عالم صاحب بقا پوری برادر اصغر مولانا محمد ابراہیم صاحب به اپوری واعظ مقامی ربیعت ته وفات ۲ رفتم ۱۳:۲۰ مطابق ۲۷ دسمبر ۱۹ پر ہے الحكم الدار اگست ۹۳ صفحه 4 کالم ب ٥د الفضل.دناه صفحه با کالم به ضمیمه انجام آنهم صفحه ۲۳+ یوار صفحه ا کالم سو 1615 تفصیل تاریخ احمدیت جملہ مفتی صفحہ ۲۲۲ تا ۲۵۰ پر گذر چکی ہے.شده لفضل پور جوک دستمبر، هما الامر الفضل ۸ در تبرگ هن ۱۸ ستمبر السماء صفحه + شاه الفضل ۲۰در نبوت هه ۲۰۰ رند میر صفحه، کالم ۲ الفضل عمار نبوت هنگ یا ما رنویر شاد منحدرا کالم ۲ + ۱۱۲ الفضل ارفتح هند دارد سیر و عظمیرا کالم ۳ سال افضل در تبلیغ ها (۲۰ فروری ۱۹۳۷) صفوره + کا ۹۳
۲۸۰ مندرجہ بالا صحابہ کے علاوہ اس سال حضرت شیخ محمد یعقوب صاحب پانی پتی (والد ماجد شیخ محمد اسمایل صحاب پانی پتی نے بھی وفات پائی.آپ حضرت خلیفہ اول کے زمانہ خلافت میں احمدیت سے مشرف ہوئے تھے.امیرالمومنین حضرت امیر المومنین کی تقریریں حسب معمولی اس سال بھی ۲۶ ۲۷ ۲۸ میر کو جماعت احمدیہ کا سالانہ جلسہ منعقاد ہوا جس میں حضرت امیر المومنین ۱۳۲۰ هش خلیفة المسیح الثانی نے تین ایمان افروز تقاریر فرمائیں.سالانہ جلسه ۱۹۴۱ جوگر داد افتتاحی تقریر جو اپنی نیتوں کو درست کر کے خدا تعالے کے حضور جھک جانے کی نصیحت " مشتمل تھی.(۲) مسائل حاضرہ پر تقریر جو پونے تین بجے سے شروع ہو کر پونے سات بجے ختم ہوئی.(۳) سیر روحانی " کے موضوع پر علمی تقریر جو اڑھائی بجے سے شروع ہو کر ساڑھے سات بجے تک مسلسل پانچ گھنٹے جاری رہی بیٹے فصل ششم ن کے متفرق گراہم واقعت ۶۱۹ ۱ تبلیغ فرندی خاندان مسیح موعود میں خوشی کی تقاریب این نمین نشته دی خود استاد کو مزاده مرزا ظفر احمد صاحب خلف الرشيد صاجزادہ دوم تیر ہوا کالم حضرت صاحبزادہ مرزا شریعیت احمد صاحب) کے ہاں صاحبزادی امد المومن صاحبہ کی ولادت ہوئی ہے اس ۱۲ ماه شهادت (اپریل کو خان مسعود احمد خان صاحب د ابن حجة الله حضرت نواب محمدعلی خالصان مه تاریخ وفات ۲۸ مرد تا هنت را مطابق ۲۸ جدیدتی ۱۹۳۷ ۶ نمبر ۸ سال را نقض با ظهور هن ۱۳:۱۲ ۲۰ تا ۲۸۰ و و آپ پانی پت کے پہلے حمدی تھے.تبدیلی احمدیت کی وجہ سے آپ کا کم بر بخت نظافت جاری تھی.شہر کے لوگ اُن کو ہمیشہ جانی مانی اور جسمانی تکالیف پہنچاتے رہے ایک دفعہ ایک مولوی جووت نامی نے یوپی سے آکر آپکے خلاف شہر میں آگ سی لگا دی نتیجہ یہ ہوا کہ کنید دانوں نے متفقہ طور ائیکاٹ کر دیا جودو اڑھائی سال تک کالم میلی گرم قریشی صاحب نے انکی کوئی پروا نہ کی اہم پیشہ بلی اور پیام احمدیت پھیلانے میں مصرورت رہے الفت کو نیوالوں نے چونکہ دہلی اور پانی پت کے مینو یو سے قومی حاصل کیا کہ یہ مرنے کے بعد سلمانوں کے قبرستان میں دفن ہونے نہ پائیں.ے ان کی وفات ہو جب کے بانی تبرستان میں رکھنے کی تو روک دی گی گرفت کا کچھ ایس تعریف ہوا کہ خود کھلنے سے اس تنگ انسانیت فصل کے فلات ٹھ کھڑے ہو گئے اور خود موقعہ پر پہنچکر اپنی نگرانی میں قبر کھودائی تفصیلی حالات کیلئے کلا خطہ ہو جناب شیخ محم لفضل در خون ۱۳۳۰ : ۲۸۲ صلح ها ۲ ۳ دیکم جنوری (۱۹۳۳) الفضل یکم ماه مسلم هو ۱۳۵۳ جلد دوم
۲۸۱ رئیس ائیر کو کورین ال عند) کے ہاں صاحبزادہ میاں مودو د احمد خان پیدا ہوئے پینے ۳ - ۹ر ثبوت دو میرا کو صاحبزادی امتہ العزیز بیگیم ماجد بنت حضرت امیرالمومنین خلیفة المسم الثانی کے رخصتان کی تقریب عمل میں آئی.صاحبزادی صاحبہ کا نکاح مرزا حمید احمد صاحب را این حضرت مرزا بشیر احمد صاحب) سے مشاورت میں پڑھا گیا تھا.اس مبارک تقریب پر جو قصہ خلافت میں ہوئی ، حضرت امیر مومنین کی طرف سے ڈیڑھ سو کے قریب اصحاب پر خو تھے اور برات میں شامل ہونے والے اصحاب کی تعداد قریبا چالیں تھی.حضرت امیرالمومنین خلیفہ اسی الثانی حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ، صاحبزادہ حضرت مرزا مبارک احمد صاحب ، صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب اور دیگر افراد خاندان نے برات کا استقبال کیا.اور حضور نے اپنے دست مبارک سے مرزا حمید احمد صاحب کے گلے میں پھولوں کا ہار ڈالا اور ساڑھے پانچ بجے مجمع سمیت دعا فرمائی بله حضرت امیر المومنین کے فرزند ارجمنار صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب کی برات در نبودت پاه بیجھے شام کی گاڑی سے مالیر کوٹلہ گئی.ہرات میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ، حضرت مرزا شریف احمد صاحب حضرت مولوی بسیار محمد سرور شاہ صاحب ، حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ، صاحبزادہ مرزا مبار کنا حمار صاحب ، مرزا منصور احمد صاحب اور مرزا امیر احمد صاحب شریک تھے.علاوہ ازیں حضرت سیدہ ام ناطر حمد صاحب د حرم اول حضرت خلیفہ المسیح اور حضرت سیدہ ام متین صاحبہر حرف رابع حضرت خلیفتہ المسیح بھی ہمراہ تھیں.برات 4 ماہ نبوت (نومبر) کے دس بجے صبح کی گاڑی سے واپس پہنچی تو مقامی جماعت کے ہزاروں افراد نے اس کا پر تپاک استقبال کیا.اور سب سے پہلے سیار تا حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی نے بعد ازاں بعض اور اصحاب نے صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب کے گلے میں ہار ڈالے پیلے ست را مہاراجہ صا بہادرات ریا پیالہ قادیان میں آپ 100 رشادت هنو کو مہاراجہ یا دوندر سنگھ مہندر بہ اور مہا راجہ آف ریاست پٹیالہ ڈیڑھ بجے بعد دوپہر بار یہ کام قادیان آئے.حضرت سید زین العا بارین نبی اللہ شاہ صاحیات ناظر امور عامه و خارجه نے احمدیہ کور کے رضا کاروں کے ساتھ خیر مقدم کیا.مہاراجہ صاحب نے چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب کی کو ٹھٹھی بيرت الظفر میں قیام کیا.اسی روز عصر کے بعد حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے اپنی کو بھی دار الحمد میں دونوں جائے الفضل شمانت پریل ۶۱۹۴۱ الفضل بوت هن ٣ صفحوا + ٥٣ الفضل مدار توبر ۱۹۴۱ء نبوت هن۲ : ۱۳ تو میر ۶۱۹۳۱
۲۸۲ ہی.جس میں آنریل چودہ برمی صاحب اور قبض اور معززین سلسلہ بھی مدعو تھے.شام کو آنریل چوہدری صاحب نے مہا راجہ صاحب کے اعزاز میں دعوت طعام دی میں میں سیدنا حضرت امیر المومنین نے بھی شرکت فرمائی ہے اگلے روز (۵ ار شہادت کی مہاراجہ صاحب بہادر نے صدر انجمن احمدیہ کے مختلف ادارے دیکھے اور سردار محمد پوست صاحب ایڈیٹر اخبار نور کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گود لکھی زبان میں مطبوعہ میرت تحفہ قبول کی.مہاراجہ صاحب بہادر اداروں کے معائنہ کے بعد سوا اس کے تیل دو پر قادیان روانہ ہوگئے لیے اس سیال مہا راجہ صاحب پٹیالہ کے علاوہ جو لوگ قادیان میں زیارت کے لئے آئے ان میں ڈائریکٹر ڈاکخانہ جات سر فریڈرک تمیز سیٹھ حسن بھائی کال جی صاحب تا جریبی در کن مرکزی اسمبلی خاص طور پر قابل ذکر ہیں.عبد الرحمن صمنا سماری کی وفات) مولوی ابوبکر صاحب سماری کے ایک بھائی عبدالرحمن صاحب امر سے مرکز سلسلہ میں آکر دینی تعلیم حاصل کر رہے تھے اسی سال کے وسط میں تپ محرقہ میں مبتلا ہو گئے اور ایک ماہ کے بعد ا ظہور کو ۲۴ ۲۵ سال کی عمر میں رحلت کر گئے.آپ جب قادیان تشریف لائے زاردو سے بالکل نا آشنا تھے مگر بہت جلد ردو سمجھنے اور بولنے لگے.اور مدرسہ احمدیہ کی تیسری اور چوتھی جماعت کا امتحان ایک ہی سال میں پاس کر کے چھٹی جماعت میں داخلہ لے لیا.آپ اپنی جماعت کے چوٹی کے طلباء میں سے تھے.اور صرف و نحو میں ہمیشہ اول رہتے تھے.بہت شریف بہت شرمیلے اور بہت پر جوش احمدی نوجوان تھے.آپ اگرچہ موصی نہ تھے مگر حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے ارشاد سے مقبرہ بہشتی میں دفن کئے گئے شیشے القادر عوزه فلسطین کے معمر ترین احمدی کا انتقال بالا بود اندر خود و یا محمد یسین کے معمر ترین کے احمدی تھے.اس سال کے آخر میں ۲۲ رمضان ۱۳۹۶ بعد اکتوبر نشده) کو ایک سو بارہ برس کی عمر میں انتقال کر گئے ، آپ علامہ جلال الدین صاحب شمس کے قیام حسین کے زمانہ میں داخل احمدیت ہوئے اور آخر دم تک نہایت اخلاص جوش اور ایثار سے اپنا عہد بیعیت نبھایا.آپ سچ سچ اُن لوگوں میں سے تھے جنہیں خدا کے کلام میں ابدال الشام کہا گیا ہے.دُعا اُن کا روز و شب کا مشخانہ تھا.آخر عمر تک بڑھاپے کے باجود قیام اللیل کے پابند رہے اور ٹھنڈے پانی سے وضو کرتے تھے ۱۳۵۲ الفضل بهار شیارت من له الفضل ، در شهادت هفته صفحه عالم به سه افضل ۱۵ تبلیغ داشت اصغر دتای یخ آمار ۲۳ تو امین ۱۹۴۱ متر اپریل ۲۱۹۴۱ با الفضل زمان نه کانم و تاریخ آخره ارایان هنشگاه - ه الفضل دار ظهور هفته به ده راگست ۱۹۲۰ بر صفحه ۲ - ۱۳
۳۸۳ بارها از راہ مذاق کہا کرتے.تم جوان میرے ساتھ اب بھی گشتی نہیں کر سکتے.حضرت امیر المومنین کی ذات با برکات سے تو انہیں والہانہ عشق تھا.جب ہندوستان کی ڈاک پہنچتی تو سارے حالات دریافت فرماتے اور خیریت کا علم ہونے پر خوشی کا اظہار کرتے حضور کی درازی عمر کے لئے ہمیشہ دعا کرتے رہتے.ہر شخص کے سامنے اپنے احمدی ہونے کو فخریہ طور پر پیش کرتے.اور جب کوئی شخص ملنے کے لئے آتا تو اس سے ضرور یہ سوال کرتے کہ کیا تم احمدی ہو.اگر وہ کہتا کہ میں احمد ہی نہیں ہوں تو کہتے کہ فورا احمدی ہو جاؤ.یہ دن پھر کہاں نصیب ہونگے.لوگ جب اُن سے پوچھتے کہ کیا آپ احمدی ہیں ؟ تو زور سے کہتے اَنَا أَحْمَدِيٌّ غَضَبًا عَنْكُم تم خواہ کتنے ناراض ہو ئیں تو بہر حال احمد ہی ہوں.حضرت الحاج عبد القادر آخری سانس تک ذکر الہی کرتے ہے اور آخری پیغام یہ دیا کہ میری طرف سے حضرت امیرالمومنین کی خدمت میں السلام علیکم پہنچا دیا جائے.آپ نے اپنے پیچھے ایک مخلص خاندان اور قربانی کرنے والے بیٹے اور پوتے چھوڑے.آپ کے پوتے السید محمد صالح اعمودی پہلے احمدی ہیں جن کو فلسطین کی سرزمین سے وصیت کرنے کی توفیق ملی ہے بیرونی مبلغین احمدی کی آم اور روانگی برای مرد این صاحب ما باید بیانیه دار ا مولوی فاضل مصر اعلی البانیہ اور مصر وغیرہ میں قریباً پانچ سال تک تبلیغی فرائض انجام دینے کے بعد ۱۴ رامان هسته د مارچ شارٹ کو ساڑھے نو بجے صبح کی گاڑی سے واپس تشریف بیئے یہ چوہدری محمد اسحاق صاحب سیالکوٹی مجاہد ہانگ کانگ (چین) در شهادت هن مرا بریل ) کو صبح کی گاڑی سے دارد قادیان ہوئے سیکھے مولوی عبد الغفور صاحب مولوی فاضل جالندہری مبلغ جاپان ۳۰ ر اخاء هنر (۳۰ اکتو برد کو دس بجے کی گاڑی جاپان سے قادیان پہنچے بے - ملک عزیز احمد صاحب مجاہد تحریک جدیار (معہ صدر الدین بینی صاحب سے ) جاوا کے لئے روانہ ہوئے ہے ا الفضل تمر له له الفضل در امان ها + شہادت ۳۲۰ الفضل دار ه: انفال دار نبوت ها آپ جزیرہ سیلے دین حاصل کرنے کے لئے قادیان تشریف لائے اور سات سال تک اس کی ہر کالت سے فیضیاب ہونے کے بعد ملک صاحب کے ساتھ عازمہ وطن ہوئے ( المفضل.نبوت هه ند کو نمبر ه الفضل مهر نبوت ها هر نومبر ۱۹۳۱) صفر ۰۲ توبر ۱۹
بیرون مشنوں کے ضروری واقعات گولڈ کوسٹ اسی سال کے میں کماسی نہ میں درسہ اس سال کے شروع میں کماسی علاقہ شانٹی) میں مدرسہ احمدیہ کی عمارت یہ تکمیل تک پہنچی اور ۱۳ صلح هنو کو اس کا افتتاح عمل میں آیا.اس موقعہ پر شاہ اشانتی نے اپنے ایک خاص نمائندہ کو اپنا ایک پیغام دے کر بھجوایا اور مولانا نذیر احمد صاحب بیشتر مبلغ گولڈ کوسٹ (غانا) نے اسلام کی خوبیوں اور اس کے تعلیمی نظریات پر دو گھنٹہ تک لیکچر دیا ہے میلون مولانا بی عبد الله صاحب مالا باری - ار رمضان (مارچ کو کو لہو سے کنڈی تشریف لے گئے تین روز وہاں قیام کرکے پیغام حق پہنچایا.علاوہ ازیں ایک غیر احمدی عالم سے ایک شرب دو گھنٹے اور دوسری رات سات گھنٹے تک اختلافی مسائل پر کامیاب تبادلہ خیالات کیا.سکھ مولانا رحت عل صاحب مبلغ جزائر شرق الہند نے اسی سال کے شروع میں جاوا جزائر شرق الہند اور ساڑا کا وسیع تبلیغی دورہ کیا.پہلے پندہ دین سماٹرا کے شہر میدان میں سماٹرا رہے.پھر دو اہ تک پلٹانگ میں قیام کیا اور و ارایان هری و اراد و شام کو جاوا می پہنچے.کیا 4 مارچ جہاں آپ نے تیس لیکچرز دیے.ان لیکچروں کا پروگرام پہلے سے اخبارات میں شائع کر دیا جاتا تھا.جاوا میں آپ یکم ہجرت نہ دیکم مئی سال تک قیام فرمار ہے لیله موادی محمد صادق صاحب مبلغ سماٹرا نے وفا هنا (جولائی روم میں ایک تبلیغی دورہ کیا جس کے دوران آپ نے میدان سے بارہ میل کے فاصلہ پر ایک قصبہ کے راجہ کی بو آن (LABUAN) سے بھی ملاقات کی اور احمدیت سے متعلق ضروری معلومات بہم پہنچائیں.راجہ صاحب نے کہا کہ ان کے کئی شکوک کا ازالہ ہونا ہے.نیز خواہش ظاہر کی کہ مجھے علامات جمہاری پرشتمل احادیث بھی بھجوا دیں اور ان کے پورا ہونے کا ثبوت بھی میں اپنے علماء سے مزید تحقیق کراؤں گا.راجہ صاحب کو اسلامی اصول کی فلاسفی انگریزی اور تصدیق مسیح سماری زبان) دو کتابیں پیش کی گئیں جو انہوں نے بخوشی قبول کیں ہیں الفضل صفورہ کالم او له الفضل در شاد ی صغیرہ کا کم ہے.آپ پینتیس سال تک : ۲۹ اپریل ما یار اور سیون میں نہایت درجہ اخلاص و خدائیت سے تبلیغی جہاد کرنے کے بعد امسال ۹ر توک مهر انتقال فرما گئے ہیں کے افضل صفوره كالم۳ + سه الفصل : صدر ۶۱۹۳۱ ور تمبر، کو فطر او کالم دوسم
۲۸۵ مکرم شیخ مبارک احمد صاحب نے ہز ہائی نس سلطان آفت زنجبار سے تین بار ملاقات مشرقی افریقیه کر کے اُن تک احمدیت کا پیغام پہنچایا جو ہز ہائینس نے نہایت خوشی اور شوق سے سنا اور کہا.میں تسلیم کرتا ہوں کہ آپ جو کچھ کہتے ہیں درست ہے.ایک زمانہ آئے گا کہ ہم سب ایک ہو جائیں گے یہاں نائیجر یا احمد بیش لیگوں کی طرف سے ایک ٹریکٹ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی موجودہ جنگ کے متعلق پیشگوئیاں اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے الہامات کے عنوان پر ایک ہزار کی تعداد میں شائع کیا گیا ہے ه کی نئی مطبوعات | انیمسئلہ جنازہ کی حقیقت مؤلفہ حضت صاحبزادہ ۶۱۹۴۱ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.احمدیت نظارت تعلیم و تربیت قادیان کا شائع کردہ تربیتی چارٹ کیے تعلیم طلب مسیح موعود علیہ اسلام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طبی نسخہ جات کا مجموعه - ناشر محمد یا مین صاحب تاجر کتب قادیان - صلح هـ - ۱۳ اندرون ملک کے بعض مشہور مناظرے مباحشه خبره دا دیوال ۰ اور کو ملک جنوری ۶۱۹۴۱ جماعت احمدیہ فجوپورہ دھاریوال اور غیر احمدیوں میں مسئلہ ختم نبوت پر ایک کامیاب مناظرہ ہوا.احمدیوں کی طرف سے مولوی ابوالعطاء صاحب اور غیر احدیوں کی طرف سے موادی محمد حیات صاحب مقرر ہوئے.سامعین احمدی مناظر کے بیان کردہ دلائل آیات واحادیث سے بہت متاثر ہوئے.دو افراد داخل سلسلہ احمدیہ بھی ہوئے.خاتمہ بحث پر احمدی صدر نے درخواست کی کہ اسکای پر امن طریق سے مسئلہ حیات و وفات مسیح پر بھی بحث کرنی جائے مگر غیر احمدی مناظر نے بالکل انکار کر دیا ہے ۲- مباحثه مدرسه چیه (ضلع گوجرانواله ۱۳۰۰ صلح ه۱۳۹۲ ۲۰ جنوری ساشا کو مدرسہ چھ ضلع گوجرانوالہ میںجماعت احمدیہ اور اہل سنت والجماعت کے درمیان ایک شاندار مباحثہ ہوا.موضوع زیر بحث مسئلہ ختم نبوت تھا.جماعت احمدیہ کی طرف سے حضرت مولوی غلام رسول صاحب را بیگی اور غیر احمدیوں الفضل در بوت هند مصوبه کانم ۱۳ که افضل ، بوت و نحوه کانم ده م له الفضل در ارم ه مولومی عنایت اللہ صاحب جالندھری : 22 الفضل ۱۵ صلح هن ۱۳ ۵۰ در جبور می را در صفحه ۶ کالم ۴۳
Pay کی طرف سے مولوی محمد نذیر صاحب مناظر تھے.مناظرہ تین گھنٹہ جاری رہا.غیر احمدی مناظر نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد فیضان نبوت کے بالکل مسدود ہونے کی تائید میں جس قادیر دلائل پیش کئے اُن سب کو حضرت مولانا راجیکی صاحب نے دلائل عقلیہ و نقلیہ سے بے بنیاد ثابت کیا.نیز سامعین پر واضح کیا کہ ایک طرف تو فریق ثانی کے مناظر یہ دعونی پیش کر رہے ہیں کہ آیت خاتم النبیین کے معنے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام نبیوں کو ختم کر دیا بند کر دیا اور دوسری طرف اُن کا عقیدہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللّہ علیہ وسلم کے بعد حضرت مسیح ناصری دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے.گویا اُن کا اپنا عقیدہ ہی اُن کے دھونی کو غلط اور ہے حقیقت ثابت کر رہا ہے.بغیر احمدی مناظر آخر وقت تک اس کا کچھ جواب نہ دے سکے اور غیر متعلقہ باتیں پیش کر کے پبلک کو غلط فہمی میں ڈالنے کی کوشش کرتے رہے مختصر یہ کہ خدا کے فضل سے اس مناظرہ نے احمدیت کے زور دار دلائل کی دھاک بٹھا دی بیله -۲- مباحثه رو تری سکھر - ۲۳ تبلیغ ها دهم فرودی ایم کو انجن اسلامیہ رو پڑی اور جماعت احمدیہ سکھر کے مابین ایک مناظرہ بمقام رو ٹری منعقد ہوا.جماعت احمدیہ کی طرف سے مونانا ابولاعطاء صاحب بنے اور اہل سنت والجماعت کی طرف سے لال حسین صاحب اختر نے مناظرہ کیا.پہلا مناظرہ حیات سیم اور رفع الی السماء پر تھا.مولوی ابو العطار صاحب نے پندرہ آیات - دس احادیث اور اقوال بزرگان سلف اور اجماع صحابہ سے وفات مسیح ثابت کر دکھائی.مگر غیر احمدی مناظر ان دلائل کا جواب دینے اور اپنے دعونی کو ثابت کرنے کی بجائے ادھر ادھر کی باتوں میں اُلجھے رہے.دوسرا مناظرہ مسئلہ ختم نبوت پر تھا.احمدی مناظر نے تخت کی مستند کتاب مفردات القرآن (امام راغب) پیش کرکے بتایا کہ خاتم المین کے حقیقی معنے کسی چیز کا در سری چیز یں اپنی تاثیر پیدا کرنا اور اپنے نقوش قائم کر دینے کے ہوتے ہیں لیے ان حقیقی معنوں کی رھے خاتم النبیین کا مفہوم یہ ہوگا کہ وہ نبی جس کی روحانی توجہ نبی تراش ہو.فاضل مناظر نے اپنے موقف کی تائید میں مسئلہ ختم نبوت پر بخوبی نکتہ نگاہ سے روشنی ڈالنے کے علاوہ قرآن مجید، احادیث صحیحہ اور اقوال الفضل ها تبلیغ ها ۱۳۶۰ n صفحہ کالم او۱۳۹۲ حضرت امام راغب رحمتہ اللہ علیہ کے اصل الفاظ یہ ہیں :- الخدم والقيم يُقَالُ عَلى وَجْهَيْنِ مَعْدَهُ خَمْتُ وَطَبَعْتُ وَهُوَ نَاثِيرُ الشَّيْءِ كنقش الخاتم والطَّابِ وَالثَّانِي الوَثَرُ الْحَاصِلُ عَنِ النَّفْسِ" (زیر لفظ ختم یعنی ختصر اور طبع کی دو صورتیں ہیں.پہلی صورت یہ ہے کہ یہ ختمت اور طبیعت کا مصدر ہے جس کے معنے ہیں دو میری چیز میں اثرات پیدا کر دینا جیسا کہ شہر کا نقش دوسری چیز میں اپنے نقش واثرات پیدا کرتا ہے.اور دوسری صورت اس نقش کی تاثیر کا اثر حاصل ہے.
YAL بزندگی ہی سلف کے متعد واضح دلائل پیش کئے.احمدی مناظر کی برجسته د تل اور متین دن شائستہ تقریرون کا اہل علم طبقہ پر نہایت ہی عمدہ اثر ہوا ہے مباحثہ مجوپورہ دھاریواں : نجو پورہ میں پہلے مناظرہ کے ایک ماہ بعد دو برا مناظرہ صدر قرتی مسیح موعود عبد السلام کے موضوع پر ہوا.جماعت اجر پہ کی طرفت سے مولانا ابو العطاء صاحب فاضل ہی مناظر تھے مگر اہل سنت و الجماعت کی طرف سے مولوی عبداللہ عمار صاحب امرتسری پیش ہوئے.مولوی ابو العطاء صاحب نے قرآن مجید کی متعدد آیات ، احادیث نبویہ اور معیار ہائے صداقت انبیاء کے رو سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی ثابت کی مگر معمار صاحب نے دوران مباحثہ لاجواب ہو کر مرزا احمد بیگ والی پیشگوئی پر اعتراض شروع کر دیئے اور دعوی کیا کہ مرزا احمد بیگ کا چھے ماہ میں مرجانا پیش گوئی کے خلاف ہے کیونکہ اس کے لئے تین سال کی میعاد مقرر تھی.مولوی ابو العطاء صاحب نے جواب دیا کہ حضرت مسیح موعود نے اپنے اشتہار ۲۰ فروری شہر میں تحریر فرمایا تھا کہ وہ تین برس کے عرصہ تک بلکہ اس سے قریب فوت ہو جائیگا یہے یعنی تین سال پورے ہونے ضروری نہیں.معمار صاحب نے جواب میں کہا کہ اگر ایک ہفتہ میں بھی یہ حوالہ دکھا دیں تو میں پچاس روپے انعام دونگا گر مولوی ابوالعطاء صاحب کے بار بار مطالعہ کے با وجود کہ وہ چلینج کر کر دے دیں نہیں آخر وقت تک تحریر دینے کی جرات نہ ہو سکی.جو نہی مناظرہ ختم ہوا دہ چہکے سے احمدیوں کے سٹیج پر آکر کہے گئے کہ فساد کا اندیشہ ہے اس وقت تحریر کا مطالبہ نہ کریں مولوی ابو العظام صاحب نے ایک معزز غیر احمدی بابو عبد الستار صاحب کے ہاتھ مندرجہ ذیل تحریر لکھ بھیجی.میں اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشتہار سے جو تبلیغ رسالت میں شائع ہو چکا ہے دکھاؤں گا کہ آپ نے لکھا ہے کہ احمد بیگ نکاح کے بعد تین سال بلکہ قریب عرصہ میں مرجائیگا اگرمیں کل مورخہ در ماری شہ کو موضع فجود * میں نہ دکھا سکا تو اپنے وعدہ میں جھوٹا ہونگا.خاکسار ابو العطاء جالند سری ۲ جالندری بابو عبد الستار صاحب موصوف یہ رقعہ لے کہ معمار صاحب کے پاس پہنچے اور جلد ہی واپس اگر بتایا که معمار صاحب اب اس تھریہ پر بھی فیصلہ کرنا نہیں چاہتے اور حسب ذیل الفاظ میں اپنا بیان لکھ دیا.یہ اصل میں سید اولاد حسین صاحب اور مولوی عبداللہ صاحب معمار کے پاس لیکر گیا.لیکن له الفضل يكم بان هنا صفحه ۲ ۰ ۵۰ تاریخ رسالت جلد اول صفحه ال حاشیه
۲۸۸ انہوں نے اسے قبول نہیں کیا اور اس پر فیصلہ کرنا منظور نہیں کیا.استاد انگریزی بالا با استار ما است -۴- مباحثه موضع بیری ضلع گورداسپور : سارامان هنر در مارا سر کو موضع بری : ۱۳ میں مولوی ابو العطاء صاحب فاضل نے وفات حضرت مسیح علیہ اسلام اور صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر مولوی عبد اللہ صاحب معمار سے ایک کامیاب مناظرہ کیا جس میں قادیان سے بھی بکثرت لوگ شامل ہوئے ہے ۵ مباحثات دہلی : این ان کا آخری ہفتہ غیر مبالعین سے مناظرات کا مرکز بنا رہا.ادان تاریخ ۶۱۹۴۱ اس ہفتہ تین مناظرے ہوئے اور تینوں میں مولانا ابوالعطاء صاحب مناظر تھے.پہلا مناظرہ ۲ ر امان (مارچ ) کی شب کو ہوا جس میں غیر مبائعین کی طرف سے مولوی اختر حسین صاحب مصور تھے.بحث کا موضوع حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ظلی نبوت قرار پایا.جناب مولوی ابو العطاء صاحب نے پہلے نصف گھنٹہ اس موضوع پر تقریر فرمائی اور اس کے بعد مناظرہ شروع ہوا.جو دو گھنٹے تک جاری رہا.فاضلی مناظر نے ملی.بروزی اور امتی نبی وغیرہ اصطلاحوں کی حقیقت کو حضرت اقدس کے کلام مبارک سے نہایت احسن طریق پر سامعین کے ذہن نشین کرایا.جس کے جواب میں مولوی اختر حسین صاب اخیر تک کوئی معقول بات پیش نہ کر سکے.بغیر مبائع مناظر نے اس بات پر زور دیا کہ حضرت اقدس نے نہیں ملتی مجد یا علی محدث کے الفاظ استعمال نہیں فرمائے ہاں خلقی نبی لکھا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ حضور اپنے آپ کو مجدد محدث سمجھتے تھے اس لئے نبی کے لفظ کے ساتھ خلقی کا استعمال فرمایا ہے.ہمارے فاضل مناظر نے اُن کی اس غلطی کو بھی نہایت عمدہ طریق پر ظاہر کردیا اور ازالہ اوہام کے حوالہ سے واضح فرما دیا کہ حضور فرماتے ہیں کہ ہمیں جو کچھ ملتا ہے علی طور پر ملتا ہے.پس جب سب کچھ فلی طور پر ملا ہے تو مجددیت یا محدثیت کہاں باہر رہ سکتی ہے اس کا کوئی جواب مولوی اختر حسین صاحب نے باد خود بار بار توجہ دلانے کے نہ دیا.دوسرا مناظره ۲۳ امان (۲۳ مارچ ) کو ہوا.غیر مبائین کی طرف سے شیخ عبد الحق صاحب مناظر تھے.موضوع مناظرہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی فضیلت برسیح ناصری علیہ اسلام اور اُس کی بنیاد ثبوت پر ہے یا نہیں قرار پایا.مولوی ابو العطاء صاحب نے دور ان مناظرہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دوسرے حوالے سنانے کے بعد خاص طور پر نزول مسیح کی مندرجہ ذیل عبارت پڑھی کہ : 1917) ه الفضل درامان هنر در پارچ (۱۹۳) صفحه ۲۵ ۵۲ الفضل ها ر امان هر ۵ ار ماراح اشتم صفحه و کالم t
۲۸۹ خداتعالی نے اور اس کے پاک رسول نے بھی مسیح موعود کا نام نبی اور رسول رکھا ہے اور تمام خدا تعالیٰ کے فیوں نے اس کی تعریف کی ہے.........جس شخص کو خدا تعالٰی بصیرت عطا کرے گا وہ مجھے پہچات بیگار میں مسیح موعود ہوں.میں دیتی ہوں جس کا نام سرور انبیائ نے نبی اللہ رکھا ہے اور اس کو سلام کہا ہے.ملے اس حوالہ کا کوئی معقول جواب فریق لاہور کے مناظر سے نہ بن سکا.تيسر مناظرہ ۲۶ مارچ دامان کی شب کو ہوا.غیر مسائلین کی طرف سے مولوی اختر حسین صاحب مناظر تھے.بجناب موندی ابوالعطاء صاحب نے نصف گھنٹہ تقریر فرمائی اور قرآن مجید اور احادیث صحیحہ نیز لغت محاورات اور بزرگان کے اقوال سے فیضان ختم نبوت کا ثبوت دیا اور نہایت احسن طریق پر ثابت کیا کہ است محمدیہ میں صرف تشریعی نبوت کا دروازہ بند ہے.یہی حضرت مسیح موعود علیہ اسلام نے فرمایا ہے.اور یہی بزرگان امت کے اقوال سے ثابت ہے.اللہ تعالٰے کے فضل سے یہ مناظر سے نہایت کامیاب ثابت ہوئے اور سامعین پر ان کا بہت اچھا اثر ہوا ہے -- مباحثہ مکیریاں : کے وسط میں کیریاں ضلع ہوشیاریوں میں ڈاکٹرعبدالامان ما ہوگا نے ماہر ختم نبوت پر اور شیخ عبد القادر حرب فال والو سلم نے صداقت مسیح موعود پر مباختہ کیا.ان پر نہ نازع مباحثات میں غیر احمدیوں کی طرف سے لال حسین صاحب اختر نے بحث کی ہیے مباحثہ دانہ زید کا :- مولوی محمد اسمعیل صاحب فاضل دیا گڑھی نے ماہ شہادت نرمی ام میں عیسائیوں کے ساتھ دو مناظرے کئے ایک صداقت مسیح موعود پر اور دوسرا انیل کا پیشکرد مسیح پر عیسائیو اور غیر احمدیوں نے احمد یہ عظیم کام کی فوقیت تسلیم کی ہے کی مباحثہ لاہور : ۲۵ ر احسان (جون کو چند غیر مبالعین اپنے عقاید خصوصی کی اشاعت کیلئے : بھائی گیٹ لاہور کے احمدی حلقہ میں آئے.۲۷ احسان (جون) کو نہی دیر تک گفتگو ہوتی رہی جس نے اگلے روز د ۲۸ احسان کی باقاعدہ مناظرہ کی صورت اختیار کرلی جس میں جماعت احمد یہ قادیان کی طرف سے میاں محمد عمر صاب بی ایس سی.ایل ایل بی وکیل اور غیر مبائع اصحاب کی طرف سے مولوی احمد بار صاحب ایم.ائے مناظر تھے اور موضوع بحث تھا.مسئلہ نبوت مسیح موعود.میاں محمد عمر احدی نے اپنی اصولی بحث میں ثابت کیا کہ تربیت نبوت حضور علیہ السلام منتخب ہوتی ہے نیز واضح کیا کہ خدا تعالی رو انبیاء علیهم السلام (۳) اسلام اور خود حضرت مسیح موعود حق دا المسيح لصفحه ٠٣٨ ٢٣ الفضل ١٣ الشهادات صفحه اپریل ۱۹۳۱ هرته العفش صفحه و کاشم*
۲۹۰ کے نزدیک بھی نبی کو محدث سے ممتاز کرنے کے لیے صرف ایک شرط ضروری ہے اور دہ ہے، بکثرت اظہار اور عبید اور یہ شرط یقیناً حضرت مسیح موعود میں موجود ہے.غیر مبائع مناظر دلائل کا جواب دینے سے قاصر رہے اور اس کی نه تلافی انہوں نے ذاتی حملوں اور غلط بیانیوں سے کی.البتہ اپنے نامناسب الفاظ بار بطولات ال واپس بھی لے لیتے یہ ہے میلے -- مباحثہ لائل پور : ماه اخار یا نبوت (اکتوبر نومبرمیں لائلپور کے شر ورور مائع حاجی شیخ بیان حمد صاحب کی کوٹھی کے احاطہ میں جماعت احمدیہ قادیان اور فریق لاہور کا مناظرہ ہوا.جماعت احمدیہ کی طرف سے مولانا ابو العطار صاحب جالندھری اور فریق ثانی کی طرف سے مولوی اختر حسین صاحب مناظر تھے.قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری اور مرزا مظفر بیگ صاحب ساطع نے پریذیڈنٹ کے فرائض انجام دیئے مولانا ابوالعطاء صاحب نے قرآن کریم، احادیث، اقوال بزرگان کتب مسیح موعود علیہ سلام لغت عرب سے ثابت کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی علمی میں فیضان نبوت جاری ہے.بغیر مبائع مناظر نے نہایت واضح اقتباسات کو نظر انداز کر کے من الرحمن " کے ایک حوالہ پر بہت زور دیا لیکن جب اس خداللہ کا ترجمہ نیچے سے پڑھ کر سنایا گیا تو کہنے لگے یہ ترجمہ غلط ہے لہذا حضرت صاحب کا نہیں ہو سکتا.پھر کہا کسی غیر احمدی عالم سے دریافت کر لیا جائے کہ آیا ترجمہ غلط ہے یا صحیح.جماعت احمدیہ قادیان کی طرف سے کہا گیا کہ ہم ہرگز کسی غیر احمدی عالیم کو اسبارہ میں حکم ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں.اس پر غیر مبائع مناظر نے اپنی پارٹی کے ایک مولوی صاحب کو کھڑا کرنا چاہا مگر انہوں نے بھی کہہ دیا کہ میں حضرت صاحب کے توحید کو احمدی ہو کر کیسے غلط کہ سکتا ہوں.ازی با غیر مبائع مناظر نے ایک غیر احمدی سے یہ کہلایا کہ یہ ترجمہ غلط ہے.فانا اللهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون به اح الفضل دارد فا ر ه ۱۳۲۰ (۲) جولائی ۱۹۴۱ صفحه ۵ + ٣ الفضل در فوت هن ۱۳۸۷ (۱۲۱ نومبر ا ر ( صفحه ۶ -
رسالته فرقان ۲۹۱ بفتری خلافت ثانیہ کا اسکیسواں سال صلح هرا تاذى الحجه الاسلام.فصل اوّل ۱۹۴۲ فرقان ماہنامہ فرقان کا اجراء انت بعش رو کا آغاز قاریان کے ماہنامہ زمین سے ہوتا ہے جو مجلس رفقاء احمد کی طرف سے جاری کیا گیا.اس مجلہ کے سب ارکان ہے مجس کے ابتدائی ارکان : 1- مولانا ابوالعطاء صاحب جالند بیری سابق مبلغ بلاد عر بید ۲۰ - مولانا قاضی محمد نازیر تاب فاضل را نکپوری ۳ شیخ ناصر احمد صاحب - ۴ - مولوی عبدالغفور صاحب فاضل ۵ - مولوی غلام احمد صاحب بدر ہوئی.- - مولوی محمد سلیم صاحب ، شیخ عبد القادر صاحب - مولوی ظهور سین صاحب فاضل ۹ - مولوی تاج الدین صاحب کپوری ۱۰ صاحبزاده عبد المنان صاحب ایم اے.حافظ قدرت اللہ صاحب مولوی فاضل ۱۰ ایدی کار عبد الله صاب ۱۰..اللہ تعلیمی محمد عبدالله انجاز ۱۳- مرزا منور احمد صاحب مولوی فاضل ۱۴۳ - محمد سعید احمد صاحب ناروتی ۱۵.قریشی محمد نذیر صاحب متافی - -14- چوہدری میں احمد صاحب ناصر ۱۷ مولوی مهر بار صاحب عارفت ۱۸- ملک محمد عبد الله صاحب ۱۹ - مولوی علی محمد صاحب میری ۲۰ مولوی احمد خان صاحب نسیم ۲۱ - حافظ عبد الغفور صاحب جالند سری ۲۲- چوہدری مشتاق احمد صاحب با خوده ۲۳ - ملک عطل الرحمن صاحب ۲۴ سید اعجاز احمد صاحب مولوی فاضل ۲۵ بود یا محمد شریف را با بی.اے دباتی ،اگلے صفحہ ۲۹۲ پر)
۲۹۳ اور عہدیدار آنریری کام کرتے اور حسب توفیق ماہوار چندہ بھی دیتے تھے جس کی کم از کم مقدار چار آند مقر تھی کہیے چنانچہ اس مجلس نے سب سے پہلے ایک ٹریکٹ کی اشاعت کی.بعد ازاں حضرت امیر المومنین رضی اللہ عنہ کی تحریک پر صلح مش سے فرقان" کے نام سے ایک ماہنامہ جاری کر دیا.جنوری ۶۱۹۴۲ رسالہ فرمان کے پہلے پرچہ میں حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی " کا مندرجہ ذیل ارشاد گرامی شائع ہوا.اعوذ بالله من الشيطان الرحيم بسم الله ارحمن الرحیم.خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ چھور و اصلی علی رسولہ الکریم تحدة سامير میری تحریک پر بعض نوجوانوں نے لاہور کی انجین احمدیہ اشاعت اسلام کی طرف سے جو ہماری د نسبت اور سلسلہ احمدیہ جس کا مرکز قادیان ہے، کے عقائد کی نسبت بدظنیاں پھیلائی جاتی ہیں ان کی جواب دینے کیلئے ایک ماہواری رسالہ کا اجراء کیا ہے.میں اس رسالہ کی پہلی اشاعت کے لئے یہ سطور بطور تعارف لکھ کر دے رہا ہوں.اور صرف اس قدر کہنا چاہتا ہوں کہ اپنی فیتوں کو نیک کر کے کام کرے.کہرا، ریاء اور نخوت سے آزاد ہوکر کام کرد.خدا تعالی پر توکل کر کے کام کرد اس صورت میں خدا تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا اور تم اس جنگ سے فاتح لوٹو گے.خدا تعالے تمہاری مدد کرے.والسلام خاکساری مرزا محمود احمد ۲۲ فتح ستار میش ۲۲۰ ر د سمیرت ۱۹ و شد بقیه حاشیه - ۲۶ - مرزا محمد یعقوب صاحب ۲۷ - ھوئی عبد القدیر صاحب بی - است ۲۸ - مولوی قمر الدین صاحب ۲۹- حکیم عبد اللطیف صاحب گجراتی ۳۰ - مولوی محمد صدیق صاحب ۳۱ - مولوی محمد دین صاحب مجانه ۳۳ - مولوی عبد الرحمن صاحب بیشتر ۲۳ - چوہدری غلام نیسین صاحب بی.اے.۳۴ - ملک صلاح الدین صاحب ایم ہے ۳۵ - مولوی عبد الرحمن صاحب انور ۳۶ - چوہدری عبد اللطیف صاحبه ۳۷ - مولوی صدر الدین صاحب فاضل - ۳۸ - میان عبد الحی صاحب -۳۹- چوہدری محمد اسمعیل صاحب خالد ہم ملک سیف الرحمن صاب مولوی فاضل د فرقان صلح ۱۳۲۱۵ صفحه ۳۲) ۲۱ الفضل (۲) صلح ۳۲۳اهش ۱۲۰۰ خوری ۱۹۴۳ صفحه ۲ کالم ۲- سے رسالہ "فرقان" صبح ۱۳۰۳۱۵ صفحه ۳۲ سے رسالہ فرمان صبح ها صفحه ۳ ۹ جنوری ۶۱۹۴۲ جنوری ۶۱۹۴۲ +
پہلے تین سالہ دور میں رسالہ کی ادارت کے فرائض مولانا ابو العطاء صاحب نے انجام دینے اور نائب کے طور پر چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر نے کام کیا.ان تین برسوں میں رسالہ نے غیر مبایعین اصحاب پر نہایت درجہ معقولیت سنجیدگی اور مدتل طریق سے حجت تمام کر دی جس سے ایک طرفت سے مسالہ احمدیہ کے لڑیچرمیں ٹھوس مستند اور قیمتی معلومات کا اضافہ ہوا اور دوسری طرف احمدی نوجوانوں اور دوسرے احمدیوں پر مولوی محمد علی صیب ایم.اے اور اُن کے رفقاء کے عقائد دخیالات کی حقیقت بھی خوب واضح ہوئی.اور کئی سعید روحیں نظام خلافت سے بھی وابستہ ہو گئیں.رسالہ کے دوسرے دور میں میاں عبد المنان صاحب عمر مدیر تھے اور مولوی غلام احمد صاحب بلاد ملہوی بلک عطاء الرحمن صاحب اور مولوی ابوالمنیر نور الحق صاحب نائب مدیر افترقان کے دور جدید کا ہر شمارہ غیر سائین ۱۳۹ هیش اور بہائیوں کے متعلق مضامین پر مشتمل ہوتا تھا.رسالہ فرقان " کا آخری ایشوع اور شائع ہوا جس کے بعد ہندو مسلم فسادات شروع ہو گئے اور اسے بند کر دینا پڑا.میں ہے یہ رسالہ ایک ہزار کی تعداد میں چھپتا تھا اور کثیر تعداد میں غیر سائین اور بہائیوں کو مفت بھیجا جاتا تھا تھا حکیم عبد الطیف صاحب منشی فاضل پر دو دور میں اس کے طابع دنا شہر کے فرائض انجام دیتے رہے.مرکزی ابی میں قاضی بیل اور اس کا واقعہ ہے کہ کانظامی مانو کی کوششوں سے ہندوستان مان نشہ علماء کی مرکزی اسمبلی میں ایک مسودہ قانون " قاضی بل " کے نام سے پیش جماعت احمدیہ کا احتجاج مارچ ۶۱۹۳۲ کیا گیا.جس کا مفاد یہ تھا کہ مسلمانوں کا نکاح پڑھنے کے لئے سرکاری طور پر قاضی مقرر کئے جائیں جو شادیوں کا ریکارڈ رکھیں.اس بل کی بڑی دفعات یہ تھیں :- صوبائی حکومتیں موزون اشخاص کو بطور قاضی مقرر کر ینگی.نام زندگی ڈسٹرکٹ کمیٹیاں کریں گی.- ڈسٹرکٹ کمیٹی مندرجہ ذیل اشخاص پشتمل ہوگی: ڈسٹرکٹ جج.ڈپٹی کمشنر.ایک مسلم وکیل.میونسپل بورڈ کا ایک مسلم ممبر- دو علماء یجسلیٹو اسمبلی کے مسلمان ممبر جو ضلع کی طرف سے منتخب شدہ ہوں.یہ ڈسٹرکٹ کمیٹی ه رساله "فرقان" امان ۳۲ دهش زمارچ ۱۹۲۶ ۶ صفحه ۳۶ به ۲۲ پمفلٹ مسلم لیگ کے شاندار اسلامی کا رتا ھے" صفحه ۲ مرتبه تبعية العلماء صوبہ دہلی.ناشر سید انظار الدین قاسمی) جمعیتہ العماء کی طرف سے اس بل کا بظاہر یہ مقصد بتایا گیا کہ مسلمانوں کو اُن کے شرعی معاملات میں سہولتیں حاصل ہو جائیں گی.(ایضا صفحہ ہے )
۲۹۴ ضلع کے لئے قاضیوں کی تعداد اور اُن کے ناموں کی لوکل گورنمنٹ سے سفارش کرے گی.قاضیوں کے کام کی نگرانی کرے گی.اور وقتا فوقتا ان کے کام کے متعلق گورنٹ کور اور ریگی ۳.قاضی کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ حسب ذیل مدرسوں کا فارغ التحصیل ہو :- دارالعلوم دیو بند مظہر العلوم سہارن پور - مدرسه خانقاه اطلوی تھانہ بھوائی.دیوند درسه شماری مراد آباد - در کمند امر و سه - در رتبه گولائی - مدرسته بدایوان - مدرسه بریلی مدرسه النہیات کا پور - عربی مدرسہ الہ آباد میں اس بل میں چونکہ اسلامی نکاحوں پر ناجائز قیود اور بے معنی پابندیاں عائد کر کے مسلمانان ہند کے لئے گوناگوں مشکلات پیدا کی گئی تھیں اور ملک کے تمام مختلف الخیال اسلامی فرقوں کے ایک اہم مذہبی و معاشرتی معاملہ کو سرکاری طور پر چند مخصوص مدرسوں کے فارغ التحصیل علماء کے ہاتھ میں دے دیا گیا تھا اس لئے احمدیہ پریسین اور احمدیہ جماعتوں نے اس کے خولات موثر آواز بلند کی.اور آل انڈیامسلم لیگ نے بھی اسی کی شدید مخالفت کی.نتیجہ یہ ہوا کہ قاضی بل" اسمبلی میں پاس نر موسکا اور مسلمانان ہند ایک نہایت درجہ ضرور رانا قانون کی زد سے بچ گئے.حکومت انگریزی سے شیخ الاسلام نظر بند استان کشور دستاز عالم والی سیدمحمدسلیمان اسب کے وممتاز را نیکی در خواست اور اخبار الفضل ندی نے ها (د) کے شروع میں مسلمانان ہے کا نظام شریعی" کے عنوان سے ملکی اخبارات میں ایک مضمون شائع کیا جس میں ہندوستانی مسلمانوں کی پراگندگی اور زبوں حالی کا دردناک نقشہ کھینچتے ہوئے لکھا ہے ہندوستان میں مسلمانوں میں مذہبی امور سخنت انتشار اور بے ترتیبی کی حالت میں میں مسجدیں ویرانی ہیں.اماموں اور سورتوں کی حالت سخت قابل اصلاح ہے.مدر سے کس مپرسی میں پڑے ہیں.ہندون میں جس قدر مذہبی مدارس ہیں اُن میں کوئی باہمی نظم و سلسلہ نہیں.اوقاف کی حالت سخت قابل افسوس ہے.مسلمانوں کی ابتدائی مذہبی تعلیم کا کوئی انتظام نہیں.ملک کے بڑے بڑے رقبے مذہبی جہالت کی بناء پر اسلام اور حکومت دونوں کے لئے خطرناک ہیں.طلاق دنکاح نسق دو تفریق کے ہزار ہیں معاملات جو رات دن پیش آتے رہتے ہیں تمام ہندوستان میں مسلمانوں کے لئے ان کا کوئی انتظام صفحه ۵۲ واحطه والفضل ۲۰۱۳ و ۲۵ ام ۲ شهادت اپریل ) ام الفضل
۲۹۵ نہیں ، جناب مولوی صاحب موصوف نے مسلمانوں کی اس ناگفتہ بہ حالت کا علاج یہ تجویز کیا کہ حکومت انگریزی ایک مذہبی صیغہ تائم کرے جس کا ناظم اعلیٰ شیخ الاسلام ہو جو مسلمانوں کے انتخاب اور حکومت کی منظوری سے مقرر کیا جائے اور تنخواہ دار ہو.چنانچہ انہوں نے لکھا :- اسلام کی گذشتہ روایات اور موجودہ رسومہ جاریہ کے مطابق مسلمانوں کیلئے ایک نہ ہی صیغہ ہندوستان میں قائم کیا جائے جس کا اعلی عہدیدار شیخ الاسلام مو جس کی عزت اور وقار سرکاری طور سے اعتراف کیا جائے اس کو ایک بڑی تنخواہ دے کر اس کے اعزاز کو بڑھایا جائے.اُس کا تقرر مسلمان جماعتوں کے انتخاب اور گورنمنٹ کی منظوری سے ہو.اس کے ماتحت صوبوں میں اور صوبوں کے ماتحت ضلعوں میں اس کے عہدیدار ہوں جو اپنے حدود کے انتظامات کریں “ اس مضمون کے آخر میں لکھا : گورنمنٹ کی اعانت کے بغیر یہ کام انجام نہیں پا سکتا ہے اس مضمون کی اشاعت پر اخبار الفضل نے اپنی ۲۴ ماه شهادت ها ۱۳ (۲۳ اپریل ۱۹۳۲ء) کی است میں ایک ادارتی نوٹ لکھا جس میں اس تجویز کو غیر معقول اور ناقابل عمل قرار دیتے ہوئے بتایا کہ : دمی جو وہ غیر مسلم حکومت کی قائم کردہ عدالتیں تو اکثر علماء کے نزدیک اس بات کی مجاز نہیں کہ نے سلمانوں کے کسی جھگڑے کا فیصلہ کریں لیکن اس کا مقدر گردہ اور اس کا تنخواہ دار شیخ الاسلام مسلمانوں کو دین دونیا کی برکات سے مالا مال کر دے گا.اُن کی مسجدوں کو آباد کر دے گا.اُن کے اماموں اور موزیک کی اصلاح کردے گا اور اُن کے ہر قسم کے جھگڑے فساد مٹاکر انہیں اسلام کی اصل تعلیم کا پابند بنا دے گا.یہ سب کچھ سہی مگر سوال یہ ہے کہ ایسا انسان حکومت کہاں سے ڈھونڈ کر لائینگی اگر ایسی تابعیت اور اس قسم کی استعداد رکھنے والا کوئی انسان ہندوستان کی سرزمین میں موجود ہی نہیں جو مسلمانوں کی اصلاح کا بیڑا اٹھا سکے اور ان کی پراگندگی اور انتشار کو دور کر کے ایک ملک میں منسلک کر سکے.انہیں اسلامی تعلیم پر چلا سکے تو حکومت کیونکر مہیا کرے گی.لیکن اگر کوئی موجود ہے تو کیا وہ کسی گوشہ تنہائی میں میٹھا اس بات کا انتظار کر رہا ہے کہ گورنمنٹ انگریزی اس کی عزت اور وقار کا سرکاری طور پر اعتراف کرے اور اُس کو ایک بڑی تنخواہ دے کر اس کے اعزاز کو پڑھائے تب وہ نمودار ہو اور پھر مسلمانوں کی دینی اصلاح کی طرف متوجہ ہو.ظاہر ہے کہ یہ شان کسی دینی مصلح بحواله انفضل ۲۲ر شہادت هر ۱۳۷۱ (۲۳ اپریل ۱۹۳۳ ۶ صفحه ۱ + +1
۲۹۶ کی نہیں ہو سکتی ہاں ایک خود غرض اور نفس پرست انسان کی ہو سکتی ہے مگر اس سے کسی قسم کی اصلاح کی توقع بالکل فضول ہے.افسوس مسلمانوں کی پراگندہ حالی نے اُن سے قوت غور و فکر بھی سلب کرلی ہے.وہ اوّل تو اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوتے.اور اگر متوجہ ہوتے ہیں تو اس قسم کی سکیمیں بناتے اور ایسی تجاویز کے پیچھے پڑتے ہیں جو نہ تو قابل عمل ہوتی ہیں اور نہ اُن کا کوئی اچھا نتیجہ نکل سکتا ہے حکومت انگریزی سے تنخواہ دار شیخ الاسلام مقرر کرانے کی التجا ت بھی ایسی ہی ہے.اس سے یہ تو ممکن ہے کہ کسی عالم کہلانے والے کو معقول تنخواہ مل جائے اور وہ اپنے ڈھب کے مولویوں کو اپنے ماتحت عہدیدار مقرر کر کے حکومت کے تنخواہ دار ایجنٹ بنا دے.لیکن اس طرح مسلمانوں کی دینی لحاظ سے اصلاح ہو سکے اور دنیوی لحاظ سے وقار حاصل کر سکیں، قطعا محال ہے.کاش مسلمان حکومت برطانیہ نے شیخ الاسلام منظور کرانے کی بجائے خدا تعالیٰ کے حضور سچے دل سے التجا کریں کہ اہلی نہیں کسی ایسے صلح کا امن پکڑنے کی توفیق عطا فرما جسے تو نے ہمارے لئے مقر گیا ہو اور اسکی اطاعت کے لئے ہمارے دل کھول دیے تا کہ ہم تیرا قرب اور تیری رضا حاصل کر سیکس سینه سیح موعود کے علم کلام کی شاندار فتح جیساکہ سلسلہ احمدیہ کی ابتدائی تاریخ سے تاب ہے ست نفر مسیح موجودہ کے شیخ و زر علایم محمود شلتوت کا فتوی دنات یخ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعوئی مسیحیت علیه السلام کے بعد دنیائے اسلام کے سامنے جو مخصوص علم کلام پیش فرمایا اس میں نظریہ و نات کیے کو بنیادی حیثیت حاصل تھی.یہی وجہ ہے کہ شاہ سے یعنی اس زمانہ سے جبکہ آپ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ الہا کا انکشاف ہوا کہ مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہو چکا ہے اور اس کے رنگ میں ہو کر نہ عدہ کے موافق آپ آئے ہیں مخالفت علماء نے نہ صرف آپ پر فتوئی گھر لگایا بلکہ بڑے زور شور سے مسئلہ حیات مسیح کی تائید کے لئے مناظروں کا بازار گرم کر دیا اور اپنے موقف کی تائید میں پے در پے کرتا ہیں اور رسائل شائع کرنے لگے.یہ علمی جنگ پوری شدت سے جاری تھی کہ اس سال مشرق وسطی کے بعض مسلم ممالنگ سے یکا یک وفات مسیح کے حق میں ایک مفصل فتوئی شائع ہو گیا جس نے قائلین حیات مسیح کے کیمپ میں زبردست کھلبلی مچادی.م القضا شهادت ها صفحه + کے ازاله او نام طبع اول صفحه ۵۶۱-۵۶۲ پریل ۱۵۴۲ و
۲۹۷ یر توی عالیم اسلام کی قدیم ترین یونیورسٹی جامعه از سر کی جماعت کبار العلماء کے رکن فضیلتہ الاستاذ علامہ محمد شلتوت کا تھا ہو تاہرہ کے ہفت روزہ الرسالہ " کی جلد شماره ۱۳۶۲ مورخه دار مئی ۳۶ اور میں ترفع عیسی" کے عنوان سے شائع ہوا.مریکی مود شلتوت کے فتوی کا مکمل متن علامہ محمود شلتوت کے اس معرکۃ الاراء منوی کا مکمل متن درج ذیل کیا جاتا ہے :.(اداريه ) دَرَدَ إِلَى مَشْيَئَةِ الأَزْهَرِ الْجَلِيلَةِ مِنْ حَضْرَةِ عَبْدِ الكَر يمرخان بِالْقِيَادَةِ الْعَامَّةِ بِجُيُوشِ الشَّرْقِ الْأَرْسَطِ سُوال جَاءَ فِيهِ مَالْ عِيسَى حَيَّ أَوْمَيِّتَ فِي نَظر القران الكريمرِ وَالسُّنَّةِ الْمُطَهَّرَةِ ، وَمَا حُكْمُ الْمُسْلِمِ الَّذِي يُنْكِرُ أَنَّهُ حَي - 1 ما حكم من لا يُؤْمِنُ بِهِ إِذَا فُرِضَ أَنَّهُ عَادَ إِلَى الدُّنْيَا مَرَّةً أخرى؟ وَقَدْ حول هذا السؤال إلى فَضِيلَةِ الأستاذ الكَبِيرِ الشَّيْخِ مَحْمُودِ شَلَتُوت عُضُرُ جمَاعَةٍ كَبَارِ اسْلَمَاءِ فَكَتَبَ مَا يَأْتِي - امَّا بَعْدُ فَإِنَّ الْقُرْآنَ الكَرِيمَ قَدْ عَرَضَ لِعِيْسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ فِيْمَا يَتَّسِلُ بنهاية شَائِهِ مَعَ قَوْمِهِ فِي ثَلَاثِ سُوءٍ - سے مولانا محی الدین الالوائی ایم.اسے فاضل الازہر اپنی کتاب "عرب دنیا میں لکھتے ہیں :.یہ یونیورسٹی دنیا کی سب سے قدیم ترین یونیورسٹی ہے.جامعہ ان پر پھر سے علمی ادبی اور مذہبی خدمات انجام دے رہا ہے.جامعہ از ہر اپنے مجھے ایک عظیم تاریخ " رکھتا ہے......جامعہ از ہر قاہرہ میں ہے اور قاہرہ شہر کے بانی المعزالدین اللہ العظمی نے اس کو قائم کیا تھا ، صفحہ ۱۳۹۳ ناشر مکتبه بران اردو بازار جامع مسجد نبی سے علامه محمود شلتوت ۱۳ اپریل ۱ در یک و نیم مینی بی منصور بحیرہ میں پیدا ۹ ہوئے.شہر میں عالمیہ نظامیہ کی ڈگری حاصل کی.ہمیں قاہرہ میں یا تعلیم کے استاذ بنے.میں جب الشیخ مرافی شیخ الازہر مقرر ہوئے تو آپ نے ازہر کی اصلاح وتی یاد میں ان کا ہاتھ بٹایا.شائر میں آپ کو تگیر شریعہ ان اسلامیہ کی وکالت سپرد ہوئی.ائر میں آپ علماء کبار کی جماعت کے رکن تجویز کئے گئے یا اور میں آپ نے وفات مسیح سے متعلق معرکتہ الآراد فتونی دیا.۱۹۵۶ء میں آپ موتمر اسلامی کے مشیر مقرر کئے گئے.پھ 19 اور اکتوبر شداد کو منصب شیخ الازہر پر نائز کئے گئے اور بر سر میں انتقال فرما گئے علامہ محمود شلتوت نے نہایت قابل قدر ٹر پر اپنے تجھے علمی یادگار کے طور پر چھوڑا ہے زمرہ تفصیل کیئے ملاحظہ ہو مجلہ الان باید به ماه ربیع الآخر جاری لادانی مهم)
۲۹۸ ١ - فى سُورَةِ إِلِ عِمْرَانَ قَوْلُهُ تَعَالَى " فَلَمَّا اَحْسَ عِيسَى مِنْهُمُ الكُفْرَ قَالَ مَنْ انْصَارِى إلى اللهِ.قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللهِ امَنَّا بِاللهِ وَاشْهَدْ بِأَنَا مُسْلِمُونَ، رَبَّنَا آمَنَّا بما انزلتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُولَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ و مَكَرُوا وَمَكَرَ اللهُ وَاللَّهُ خير المَاكِرِينَ - إِذْ قَالَ اللهُ يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَى وَمُطَقِراكَ مِنَ الذينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ثُمَّ إلى مَرْجِعُكُمْ فَاحْكُمْ بَيْنَكُمْ فِيمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ : ۰۵۵۰۵۳ ٢ - وَفي سُورَةِ النِّسَاءِ قَوْلُهُ تَعَالَى : وَتَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رسول اللهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِن شُبِّهَ لَهُمْ وَإِنَّ الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوا فِيهِ تفى شَاكٍ مِنْهُ مَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتَّبَاعَ اللبِ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينا - بل رفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ وَكَانَ اللهُ عَزِيزًا حَكِيمًا ، ۱۵۸/۱۵۷ - ٣ - وَفي سُورَةِ المَائِدَةِ قَوْلُهُ تَعَالَى " وَ إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَنتَ تقُلْتَ لِلنَّاسِ أَخَذُونِي وَأُتِيَ الْهَيْنِ مِن دُونِ اللَّهِ قَالَ سُبْحَنَكَ مَا يَكُونُ لي أن أقول مَا لَيْسَ لِي بِحَيَّ إِنْ كُنْتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتُهُ تَعْلَمُ مَانِي نَفْسِي ولا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ إِنَّكَ أَنتَ عَلامُ الْغَيُوبِ مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا اَمَرْتَنِي به آنِ اعْبُدُوا اللهَ رَبّى وَرَبِّكُمْ وَكُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أنتَ الرَّيْبَ عَلَيْهِمْ وَأَنتَ عَلَى كُلِّ شَى رشيد - 1 - 1 هَذَا هِيَ الْايَاتُ الَّتِي عَرَضَ الْقُرْآتُ فِيهَا لَنِهَايَةِ شَانٍ عِيسَى مَعَ قَوْمِهِ والآيَاتُ الاخيرة راية الماليالة ) تَذكُرُ لَنَا شَأْنَا أُخْرُوِيًّا يَتَعَلَّقُ بِعِبَادَةِ قَوْمِهِ لَهُ وَلامَّهِ فِي الدُّنْيَا وَقَدْ سَأَلَهُ اللهُ عَنْهَا وَهِيَ تَقَرَرُ عَلَى لِسَانِ عِيسَى عَلَيْد الا أنَّهُ لَمْ يَقُل لَهُمْ إِلَّا مَا آمَرَهُ الله بِهِ أَعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبِّكُمْ وَإِنَّهُ كَانَ شَهِيدًا عَلَيْهِمْ مُدَّةَ إِقَامَتِهِ بَيْنَهُمْ وَإِنَّهُ لَا يَعْلَمُ مَا حَدَثَ مِنْهُمْ بَعْدَ أن تَوَفَّاهُ الله." وَكَلِمَةُ تَوَنِي قَدْ وَرَدَتْ فِي الْقُرْآنِ كَثِيرًا بِمَعْنِي الْمَوْتِ حَتَّى صَارَ
۲۹۹ هذَا المَعْنى هُوَ الْغَالِبَ عَلَيْهَا المُتَبَادِرَ مِنْهَا وَلَمْ تُسْتَعْمَلْ فِي غَيْرِ هَذَا الْمَعْنى الا وبجانبها ما يَصْرِفُها ءَ نْ هذَا الْمَعْنَى الْمُتَبَادِرٍ.قُلْ يَتَوَفكُمْ مَلَكُ المَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ - إِنَّ الَّذِينَ تَوَقُهُمُ المَلَائِكَةُ ظالِمِي أَنْفُسِهِمْ - وَلَوْ تَرَى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا الْمَلَائِكَةُ - تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا - وَمِنْكُمْ مَنْ يَتَوَنى - حَتَّى يَتَوَنَّا هُنَّ الْمَوْتُ تَوَفَّنِي مُسْلِمَانَ الْمِقْنِي بِالصَّالِمِينَ وَمِنْ مَنْ كَلِمَةٍ تَوَفَّيْتَنِي فِي الْآيَةِ أنْ تُحْمَلَ عَلَى هَذَا الْمَعْنَى الْمُتَبَادِرِ وَهُوَ الاِمَانَةُ العَادِيَّةُ الَّتِي يَعْرِفُهَا النَّاسُ وَيُدْرِكُهَا مِنَ اللَّفْظِرَ مِنَ السَّيَانِ النا لِقُونَ بِالظَّادِ وَإِذَتْ فَالْايَةُ لَوْ لَمْ يَتَّصِلُ بِمَا غَيْرُهَا فِي تَفْريرِ نِهَايَةِ عَيْسَى مَعَ قَوْمِهِ لَمَّا كَانَ هُنَاكَ مُبَرُرُ لِلْقَوْلِ بِأَنَّ عِيسَى حَيَّ لَمْ ولا سَبِيلَ إِلَى الْقَوْلِ بِأَنَّ الوَنَاةَ هُنَا مُرَادُ بِهَا وَنَاةٌ عِيسَى بَعْدَ نُزُولِهِ مِن السَّمَاءِ بِنَاءً عَلَى زَهْمٍ مَن يَرَى أَنَّهُ حَيَّ فِي السَّمَاءِ اَنَّكَ سَيَنزِلُ مِنْهَا أَجْرَ الزَّمَانِ رآن الآيَةَ ظَاهِرَةً فِي تَحْدِيدِ عَلَاقَتِهِ بِقَوْمِهِ هُوَلا بِالْقَوْمِ الَّذِينَ يَكُونُونَ أخر الزَّمَانِ وَهُمْ قَوْمُ مُحَمَّدٍ بِاتِّفَاتِ لَا قَوْمٌ مِيسَى أمَّا ايَةُ النِّسَاءِ فَإِنَّهَا تَقُولُ بَلْ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ وَلَا نَشَرَهَا بَعْضُ الْمُمي بَلْ جُمْهُورُهُمْ بِالرَّفْعِ إِلَى السَّمَاءِ وَيَقُولُونَ إِنَّ اللَّهَ الْقَى عَلَى غَيْرِهِ شَبْهَهُ وَرَفَعَهُ جسَدِهِ إِلَى السَّمَاءِ فَهُوَ حَيَّ فِيهَا وَسَيَنْزُلُ مِنْهَا أَجْرَ الزَّمَانِ فَيَقْتُلُ الْخِنزير و تكسر الصليب وَيَعْتَمِدُونَ فِي ذَاكَ.اوله على رِوَايَاتٍ تُفيدُ نُزُولَ عِيسَى بَعْدَ الدَّجَالِ وَهِيَ رِوَايَاتٌ مُضْطَرِبَةً مُختلِفَةً فِي الْغَافِهَا وَمَعَانِيهَا اخْتِلَافًا لَا مَجَالَ مَعَهُ لِلْجَمْعِ بَيْنَهَا وَقَدْ نَعَتَ عَلَى ذالك علَمَاءُ الْحَدِيثِ وَهِيَ فَوْقَ ذَالِكَ مِنْ رِوَايَةٍ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّةٍ وَكَعَبِ الْآخَبَارِ وَهُمَا مِنْ أَهْلِ الْكِتَبِ الَّذِينَ اعْتَنَقُوا الْإِسْلَامَ وَقَدْ عُرِنَتْ دَرَجَتُمَا فِي الْحَيانِيثِ عِنْدَ عُلَمَاء الْجَرْحِ وَالتَّحْدِيلِ - وثانيا على حديث مروي عن ابى هُرَيْرَةَ أَنتُهِرَ فِيهِ عَلَى الاخبار ترُونَ عَلَى
۳۰۰ وَإِذَا مَمَّ هَذَا الْحَدِيثُ فَهُوَ حَدِيثُ أَمَادٍ - وَقَدْ أَجْمَعَ الْعُلَمَا وَ عَلَى آنَ لَعَادِيثَ تحاد لا تُفيدُ عَقِيدَةً وَلَا يُمِيةُ الاعْتِمَادُ عَلَيْهَا فِي شَأْنٍ الْمُغَيِّبَاتِ.وَثَالِنَّا عَلَى مَا جَاء فِي حَدِيثِ الْمِحْرَاج مِنْ أَنَّ مُحَمَّدًا عَلَى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حينَمَا صَعِدَ إِلَى السَّمَاءِ وَ أَخَذَ يَسْتَفْتَحُهَا وَاحِدَةً بَعْدَ وَاحِدَةٍ فَتُفْتَحُ لَهُ ويَدْخُلُ رَأَى عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ هُوَ وَ ابْنَ خَالَيهِ يَحْيِي فِي السَّمَاءِ الثَّانِيَةِ وَيَكفينا في تَوْمَانِ هَذَا الْمُسْتَنَدِ مَا قَرَّرَهُ كَثِيرُ مِن شُرَاحِ الْحَدِيثِ فِي شَأْنِ الْمِعْرَاجِ وَفِي شَانِ إِجْتِمَاعِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْأَنْبِيَانِ دَانَّهُ كَانَ إِجْتِمَاعًا وميا لا جسمانيا أنظر فتح البارى وَ زَادَ الْمَعَادِ وَغَيْرُهَا وَمِنَ الطَّرِيفِ أَنَّهُمْ يَسْتَدِلُّونَ عَلَى أَنَّ مَعْنَى الرَّفْعِ فِي الْآيَةِ هُوَ رَنْعُ عِيسَى بِجَسَدِ إِلَى السَّمَاءِ بحديث المخراج بَيْنَمَا تَرَى فَرِيقًا مِنْهُمْ يَسْتَدِلُّ عَلَى انَّ اجْتَمَاعَ مُحَمَّدٍ نسى فِي الْمِعْرَاءِ كَانَ إِجْتِمَا مَّا جَسَدِيًّا بِقَوْلِهِ تَعَالَى رَبِّكَ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ وَ هكَذَا يَتَّخِذُونَ الآيَةَ وَلِيْهِ عَلَى مَا يَنْهَمُونَهُ مِنَ الْحَدِيثِ دَلِيلاً عَلَى مَا يَفْهَمُونَهُ مِنَ الْآيَةِ مِيْنَ يَكُونُونَ فِي نَفْسِيرِ الايَةِ - وَنَحْنُ إِذَا رَجَعْنَا إِلَى قَوْلِهِ تَعَالَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَى فِي آيَاتِ الِ عِمْرَانَ مَعَ قَوْلِهِ بَلْ رَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ فِي آيَاتِ النِّسَاءِ وَجَدْنَا الثَّانِيَةَ أَخْبَارُ مَنْ تَحَقُّقِ الْوَعْدِ الَّذِي تَضَمَّنَتَهُ الأولى وَقَدْ كَانَ هَذَا الْوَعْدُ بِالتَّونِيَةِ وَالرَّفْعِ والتعييرِ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا فَإِذَا كَانَتِ الْآيَةُ الثَّانِيَةُ تَدَ جَاءَتْ خَالِيَّةٌ مِنَ التَّونِيَةِ وَالتَّطْهِيرِ وَاقْتَصَرَتْ عَلَى ذِكْرِ الرَّفْعِ إِلَى اللهِ فَإِنَّهُ يَجِبُ أن يلاحظ فيها ما ذكر في الأولى جَمْعًا بَيْنَ الْآيَتَيْنِ.وَ الْمَعْنَى أَنَّ اللَّهَ تَوَفَى عِيسَى وَ رَفَعَهُ إِلَيْهِ وَطَهَّرَهُ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَ قد فسر الألوسِيُّ قَوْلَهُ تَعَالَى إِنِّي مُتَوَنِكَ، بِرَجُوةٍ مِّنْهَا وَهُوَ اظْهَرُهَا إِنِّي مستوني أجَلَكَ وَمُبِيْتُكَ حَتْكَ انْفِكَ لا أُسَلِّطْ عَلَيْكَ مَن يَقْتُلُكَ وَهُوَ كَنَايَةً مَنْ عَصَمَتِهِ مِنَ الْأَعْدَارِ وَمَا هُمْ بَصَدَدِهِ مَنَ الْفَتَاكِ بِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ
٣٠١ للهُ يَنْزِمُ مِنْ إِسْتِبْفَاءِ اللَّهِ أَجَلَهُ وَمَرْيَهُ حَتْفَ انْقِهِ ذَلِكَ ظَاهِرَ أَنَّ الرَّنْعَ الذي يَكُونُ بَعْدَ التَّرْبِيَةِ هُوَ رَفعُ المَكَانَةِ لَا رَزْمُ الْجَسَدِ خَصُومَا وَقَدْ جَاءَ بِجَانِبِهِ قَوْلُهُ رَبِّ مُعَقِرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِمَّا يَدُلُّ عَلَى أَنَّ الأَمْرَ أَمْرُ تشريف وَتَكْرِيمٍ وَقَدْ جَاءَ الرَّفْعُ فِي الْقُرْآنِ كَثِيرًا بِهَذَا الْمَعْنَى فِي بُيُوتِ اذَنَ اللهُ أَنْ تُرْفَعَ " تَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَنْ نَشَاءُ " " وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ " " وَ رفعتهُ مَكَانًا عَلِيًّا يَرْفَعُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا رَفَعْنَهُ " وَإِذَنْ فَالتَّعْبِيرُ بِقَوْلِهِ وَرَافِعُكَ إِلَى وَقَوْلُهُ بَلْ رَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ.كَالتَّعْبِيرِ فِي تَوْبِهِمْ لَحقَ فَلَانَ بِالرَّفِينِ الاعلى - وَلَي " إِنَّ اللهَ مَعَنا وَ في عِنْدَ مَابَابٌ مُّقْتَدِرٍ - وَكُلُّها لا يُنْهَمُ مِنْهَا سِوَى مَعْنَى الرِّعَامَةِ وَالْحِفْظ الدُّخُولِ فِي الكَيْفِ الْمُقَدَّسِ - نَمِنْ أَيَنَ تُؤْخَذُ كَلِمَةُ السَّمَاءِ مِنْ كَمَةِ (اليه) ؟ اللَّهُمَّ إِنَّ هَذَا نَظَلَةَ لِلتَّعْبِيرِ القُرَانِي الْوَاضِحُ خُضُوعًا لِقَصَص ورَرَايَاتٍ لَمْ يُقَمْ عَلَى الطَّنَ بِهَا فَضْلاً عَنِ الْيَقِينِ بُرْهَانَ وَلَا شِبُهُ بُرْهَانٍ - وبعد فَمَا عِيسَى إِلَّا رَسُول قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ نَاصَبَهُ قَوْمُهُ العِمَام وَكَهَرَتْ عَلَى وُجُوهِهِمْ بَوَادِرُ الشَّرِ بِالنِّسْبَةِ إِلَيْهِ فَالْعَجَأَ إِلَى اللَّهِ شَانٍ الانبياء والمُرْسَلِينَ فَأَنْقَذَهُ اللهُ بِعِزَّتِهِ وَحِلْمَتِهِ وَخَيَّبٌ مُكَرَ اعْدَائِهِ وهذَا هُوَ مَا تَضَمَّنَتَهُ الوَيَاتُ " فَلَمَّا اَحَتَ عَلَى مِنْهُمُ الكُفْرَ قَالَ مَنْ انْصارِي إِلَى اللهِ إِلَى أَخِيرِهَا بَيْنَ اللهُ فِيهَا دِئَةَ مَكْرِه بِالنِّسْبَةِ إِلى مَكْرِهِمْ وَان مَكْرَهُمْ في عَتِبَالِ عِيسَى قَدَ ضَاعَ آمَا مَ مَكْرِ اللَّهِ فِي حِفْظِهِ وَعَصْمَتِهِ إِذْ قَالَ اللهُ يَا عِيسَى إِلَى مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَى وَمُطَهَّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا " فَهُوَ يدرُهُ بِالْجَائِهِ مِنْ مَكْرِهِمْ دَرَدِ كَيْدِهِمْ فِي تُمُورِهِمْ وَإِنَّهُ سَيَسْتُونِي اجَلَهُ حَتَّى يَمُوتَ حَتْفَ انْفِهِ مِنْ غَيْرِ قَتْلٍ وَلَا صُلْبِ ثُمَّ يَرْفَعَهُ الله إِلَيْهِ وَهَذَا هُوَ مَا يَفْهَمُهُ الْقَارِئُ بِلايَاتِ الْوَارِدَةِ فِي شَأْنٍ نِهَايَةِ عَلى مَعَ قَوْمِهِ عَلَى رُقِفَ عَلَى سُنَّةِ اللهِ مَعَ انْتِيَارِهِ مِيْنَ يَنَالُبُ عَلَيْهِمْ عُصُومَهُم
وَمَتَى خَلَا ذِهْنُهُ مِنْ تِلْكَ الرَّوَايَاتِ الَّتِي لَا يَنْبَغِي أَنْ تُعْلَمَ فِي الْقُرْآنِ وَلَسْتُ آذرى كَيْفَ يَكُونُ اِنْقَاذُ مِيسَى بِطَرِيْقِ انْتِزَاعِهِ مِنْ بَيْنِهِمْ وَرَفْعِهِ بِحَسَدة إلى السَّمَاءِ مَكَرًا وَكَيْفَ يُوصَتُ بِأَنَّهُ خَيْرٌ مِّنْ مَّكْرِهِمْ مَعَ أَنَّهُ شَيْ لَيس في اسْتِطَاعَتِهِمْ أَنْ يَقَارَمُوهُ شَيْ لَيْسَ فِي قُدْرَةِ الْبَشَرِ الَّهِ إِنَّهُ لَا يَتَحَقَقُ مَكَر مُقَابِلَةِ مَكْرٍ إِلَّا إِذَا كَانَ جَادِيًا عَلَى اسْلُو بِهِ غَيْرَ خَارِج عَنْ مُّقْتَضَى الْعَادَةَ فِيهِ وقَدْ جَارَ مِثْلُ هذا في شَانٍ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الذينَ كَفَرُوا لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوا أَوْ يُخْرِجُوا وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللهُ وَ ميرُ المَاكِرِينَ وَالْخُلاصَةُ مِنْ هَذَا الْبَحْثِ خيرا في وَلا أَنَّهُ لَيْسَ فِي الْقُرْآنِ الكَرِيمِ وَلَا فِي السُّنَّةِ الْمُطَهَّرَةِ مُسْتَنَةٌ يَصْلُحُ لِتَكُويْنِ عقِيدَةٍ يَكْمَينَ إِلَيْهَا القَلَبُ بِأنَّ عِيسَى رُفِعَ بِسْمِهِ إِلَى السَّمَار و انه حي إلى الونَ فِيهَا وَانَّهُ سَيَنزِلُ مِنْهَا آخَرَ الزَّمَانِ إِلَى الْأَرْضِ - ، انَّ كُلَّ مَا تُفيدُ الايْتُ الْوَارِدَةُ في هذا الشَّانِ هُوَ وَعْدُ اللَّهِ عِيسَى بِأَنَّهُ مُتَوَفِيهِ اجلاء وَرَافِعُهُ إِلَيْهِ وَعَامِمُهُ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَإِنَّ هَذَا الْوَعَدَ قَدْ تَحَقَّقَ فَلَمْ يَقْتُلُهُ أَعْدَاءهُ وَلَمْ يُصْلِبُوهُ وَلَكن وَقَاهُ اللَّهُ اجَلَهُ وَرَفَعَهُ إِلَيْهِ.- (۳) أَنَّ مَنْ انْكَرَات عَيْنِي قَدْ رُفِعَ بِسْمِهِ إِلَى السَّمَاءِ وَ أَنَّهُ فِيهَا حَيَّ إِلَى الْآنَ وانَّهُ سَيَنْزِلُ مِنْهَا أَخَرَ الزَّمَانِ فَإِنَّهُ لا يَكُونُ بِذَابِكَ مُنكِرًا بِمَا نَعَتَ بِدَلِيلِ تَطْعِي فَلَا يَخْرُجُ عَنْ اسْلَامِهِ وَإِيْمَانِهِ وَلَا يَنْبَغِي أَنْ يُحْكَمَ عَلَيْهِ بِالرَّدَةِ بَلْ هُوَ مُسْلِمُ مُؤْمِنَ إذَا مَاتَ فَهُوَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ يُعَلَى عَلَيْهِ كَمَا يُصَلَّى عَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَ يدفنُ فِي مَقَابِرِ الْمُؤْمِنِينَ وَلَا شِيَةَ فِي إِيْمَانِهِ عِندَ اللهِ وَاللَّهُ بِعِبَادِ لا خَبير تصير.أما السؤال الاخير في الاستفتَا وَهُوَ مَا حُكْمُ مَن يَا يُؤْمِنُ بِهِ إِذَا فُرِضَ أَنَّهُ عاد مرة أخرى إلى الدُّنْيَا ) فَلَا مَحَلَ لَهُ بَعْدَ الذِي قَرِّرْنَاهُ وَلَا تَجِهُ السُّوَالُ عَنْهُ وَاللَّهُ أَعْلَمُ (محمود شلتوت) "
۳۰۳ مندر جہ بالا عربی فتوالی کا ترجمہ حسب ذیل ہے :- ترجمہ : ازہر کی سب سے بڑی مجلس کے پاس جناب عبد الکریم خان صاحب ہے نے جو ان دنوں مشرق وسطی کی فوجوں کی قیادت عامہ میں شامل ہیں.ایک استفسار بھیجا کہ کیا قرآن کریم اور سنت نبویہ سے حضرت عیسی فوت شدہ ثابت ہوتے ہیں یا زندہ ؟ نیز اس مسلمان کے متعلق کیا فتوی ہے جو حیات مسیح کا منگر ہے؟ اور اگر حضرت علی کا دوبارہ دنیا میں آنا درست ہو تو جو شخص اس وقت ان پر ایمان نہ لائے گا اس کا کیا حکم ہے ؟ یہ استفسار جواب کے لئے جماعت کبار العلماء کے رکن فضیلت الاستاذ علامه محمود شلتوت کے سپرد کیا گیا.جنہوں نے حسب ذیل جواب تحریر کیا ہے.اما بعد قرآن کریم نے تین صورتوں میں حضرت علی علیہ سلام کا ایسے طور پر ذکر فرمایا ہے جس سے اس انجام کا پتہ لگتا ہے جو ان کا اپنی قومہ کے ساتھ ہوا.۱.سورۃ آل عمران میں اللہ تعالی فرماتا ہے.فَدنَا آمَسَ عِيسَى مِنْهُمُ الكفر والآية ) ٣- سورة النساء میں آتا ہے وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيبُ عَلَى بْنَ مَرْيَمَ رَسُولُ اللَّهِ الآية ) ٣ - سورة المائدہ میں فرمایا - وَإِذْ قَالَ اللهُ يَا عِيسَى ابْرَى مَرْيَمَ (الآية ) یہی آیات ہیں جن میں حضرت عیسی علیہ السلام کے انجام کو قرآن پاک نے بیان کیا ہے.آخری آیت (سورۃ مائدہ والی اس معاملہ کا ذکر کرتی ہے جو دنیا میں نصاری کے سینے اور ان کی والدہ کی عبادت کرنے سے متعلق ہے لہ تعالی نے اس بارے میں حضرت بیچے سے سوال کیا ہے.آیت مذکورہ حضرت کیے کی زبانی بتاتی ہے کہ انہوں لوگوں کو ہمیشہ ہی کہا جس کا اللہ تعالی نے اکو حکم دیا تھا یعنی کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو جو میرا اور تمہا رات ہے نیز آیت بتلاتی ہے کہ جب تک حضرت علی ان کے درمیان رہے اُن کے نگران تھے در انہیں اپنی توئی کے بعد اپنی قومیں پیدا ہونے والے واقعات وحالات کا مطلقاً علم نہیں ہے.لفظ تو فی قرآن مجید میں موت کے معنوں میں بکثرت آیا ہے یہاں تک کہ توفی کے یہ معنے ہی غالب اور متبادر ہو گئے ہیں.اور لفظ تو قی موت کے معنے کے سوا کسی اورمعنی میں صرف اسی وقت استعمال ہوا ہے جگہ اس کے ساتھ کوئی ایسا ر نہ پایا جاتا ہو جو اسے ان متبادر الی الذین معنوں میں استعمال ہونے سے روکتا ہو.آیات ذیل اے عبد الکریم خان جناب یوسف زئی نوری 1 ء میں بمقام گروپ (جموں) پیدا ہوئے اور ا ہوں پیدا ہوئے اور غالیا ، جون داد کو تحریری بیعت کر کے حلقہ بگوش احمدیت ہوئے دالحکم اور جولائی ۱۹۳۶ ء صفحہ ۱۱۹) دوسری جنگ عظیم کے در ری جنگ عظیم کے دوران آپ مشرق وسطہ میں مقیم تھے اور اسی زمانہ میں آپنے علماء مصر سے یہ فتوی طلب کیا ؟ مخالفین نے پوری کوشش کی کہ آپ کو مصری عدالت میں گھر بیٹا جائے مگر ناکام رہے.افسوس !! مار کر دیئے گئے.(الفضل سر ظهور
۳۰۷ بطور نمونہ یہ ہیں :- قُلْ يَتَوَنَكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي رُكَلَ بِكُمْ إِنَّ الَّذِينَ تَوَثُهُمُ الْمَلِئِكَةُ قَدِيمِي فيهِمْ وَلَوْ تَرَى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا الْمَلَائِكَةُ ، تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا، وَمِنكُمْ مَنْ يَتَوَفَّى + حَتَّى يَتَوَتهُنَّ الْمَوْتُ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَ الْحَقْنِي بِالصَّالِحِيْنَ.اور آیت قرآنی فَلَمَّا تَوَخَيْتَنِي كُنتَ أنتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ میں لفظ تو ذَيْتَنِي کا حق ہے کہ اسے مذکورہ بالامتیا در معنوں پر ہی محمول کیا جائے اور وہ یہ کہ توفی کے معنے موت کے ہیں.اس لفظ کے یہ معنے تمام لوگ جانتے ہیں اور خود لفظ توفی سے نیز آیت کے سیاق سے بھی سب عربی بولنے والے یہی معنی سمجھتے ہیں.اندریں صورت اگر اس آیت میں کچھ اور نہ ملایا جائے جس سے بیچ کے انجام کی وضاحت کی جائے تو یہ کہنے کی ہرگز گنجائش نہیں ہے کہ حضرت مینٹی نوت نہیں ہوئے یا یہ کہ ہندہ ہیں.اس آیت میں اس رکیک تادیل کا بھی موقعہ نہیں کہ وفات سے مراد اس جگہ وہ وفات ہے جو آسمان سے اترنے کے بعد واقع ہوگی.یہ تا دیل وہ لوگ کرتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ حضرت علیلی آسمان میں زندہ ہیں اور وہی آخری زمانہ میں آسمان سے اترینگے کیونکه زیر نظر آیت واضح طور پر اس تعلق کی حد بندی کر رہی ہے جو ان کا اپنی قوم سے تھا باقی وہ لوگ جو آخری زانہ میں ہیں وہ تو بالاتفاق حضرت محمدصلی الہ علیہ وسلم کی قوم ہیں کہ حضرت عیسی کی قوم اسے اپنے حضرت عیسی کا کیا تعلق ؟ سورۂ نساء کی آیت میں بلا رفعه الله مالی" آیا ہے.بعض ملکہ اکثر مفسرین نے اس کی تفسیر آسمان پر اٹھائے جانے کے ساتھ کی ہے.وہ کہتے ہیں کہ اللہ نے مسیح کی شکل کسی اور پر ڈال دی اور انہیں جسم سمیت آسمان پر اٹھالیا.وہ اب آسمان میں زندہ ہیں.وہاں سے آخری زمانہ میں اتریں گے.سٹوروں کو قتل کرینگے اور کیوں کو توڑیں گے مفترین اپنے اس عقیدہ کی بنیاد اول تو ان روایات پر رکھتے ہیں جو بناتی ہی کہ عیسی درقبال کے بعد نازل ہونگے.یہ روایات مضطرب ہیں.ان کے الفاظ اور معانی میں اتنا شدید اختلاف ہے کہ تطبیق ناممکن ہے خود علماء حدیث نے اس کی تصریح کی ہے.علاوہ ازیں یہ وہب بن منبہ اور کعب الاحبار کی روایات ہیں جو اہل کتاب میں سے مسلمان ہوئے تھے.علماء جرح و تعدیل کے نزدیک ان راویوں کا جو درجہ ہے وہ آپ خود جانتے ہیں.دوسری بنیاد مفسرین کے نزدیک حضرت ابو ہریرہ کی وہ روایت ہے جس میں انہوں نے نزول عیسی کی خبر دیہ کرنے پر مصر کیا ہے.یہ حدیث اگر صحیح بھی ہو تو بھی حدیث احاد ہے اور علماء کا اسپر اجتماع ہے کہ احادیث احاد
۳۰۵ کسی عقیدہ کی بنیاد نہیں بن سکتیں اور نہ مشکگرمیوں کے سلسلہ میں اُن پر اعتماد کیا جا سکتا ہے میفتمرین کے دعوئی کی تیسری بنیاد حدیث معراج ہے جس میں آتا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آسمان پر گئے تو یکے بعد دیگرے آسمان کھلتے جاتے تھے اور حضور اُن میں داخل ہوتے جاتے تھے اسی اثناء میں حضور نے دوسرے آسمان پر حضرت عیسی اور اُن کے خالہ زاد بھائی حضرت یحی " کو دیکھا.ہمارے نزدیک اس سند سے اس استدلال کی کمزوری ظاہر کرنے کے لئے یہی کافی ہے کہ اکثر شارحین حدیث نے معراج کے موقعہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کا نبیوں سے عنا صرف رومانی قرار دیا ہے اور جبہ بانی ملاقات کی نفی کی ہے ملاحظہ ہو فتح الباری زاد المعاد و غیره کتنی عجیب بات ہے کہ مفترین بل رَحَهُ اللہ ایک ہے میں رفع کے معنے حضرت عیسی کے آسمان پر لے جانے کا استدلال حدیث معراج سے کرتے ہیں جب کہ ان میں سے ہی ایک گردہ حدیث معراج میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت عیسی سے ملاقات کو جسمانی قرار دینے کیلئے آیت بل رفعه الله اکیہ سے سنا پڑتا ہے یا اس طرح جب وہ حدیث کی شرح کرنے لگتے ہیں تو اپنے مفہوم کے لئے آیت کو دلیل گردانتے ہیں اور جب آیت کی تفسیر کرتے ہیں تو اپنے مفہوم کے لئے آیت پر عاریت کو دلیل بنا لیتے ہیں.ہم جب سورة ال عمران کی آیت اني متوفية ومرافعات رائی کو سورۃ نساء کی آیت بل رفعه الله الله سے ملاتے ہیں تو معلوم ہو جاتا ہے کہ مؤخر الذکر آیت میں پہلی آیت کے وعدہ کے ایفاء کی خبر دی گئی ہے اور یہ وعدہ وفات ، رفع اور کفار کے الزامات سے تطہیر کا تھا.دوسری آیت رباب رفعہ اللہ الیہ) میں اگر چہ وفات اور تظہیر کا ذکر موجود نہیں صرف رفع الی اللہ کا بیان ہے لیکن ضروری ہے کہ اس آیت کی تفسیر کے وقت دونوں آیتوں کو اکٹھا کرنے کے لئے پہلی آیت میں مذکور جملہ امور کو ملحوظ رکھا جائے.پس معنیٰ یہ ہونگے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی کو فات دی اُن کا رفع فرمایا اور کفار سے انہیں نظیر بخشی.علامہ آلوسی رحمتہ اللہ تعالی نے رانی منو لیک کی تفسیر می مستعد و معانی ذکر کئے ہیں.جن میں زیادہ واضح اور موزون تر یہ ہیں کہ اسے ملیلی ! میں تیری مدت حیات کو مکمل کر کے تجھے طبعی موتی سے وفات دینے والا ہوں تجھے پر ان کو مسلط نہ ہونے دونگا جو تجھے قتل کر دیں.یہ دشمنوں سے محفوظ رکھنے
۳۰۶ اور ان کے منصوبہ قتل سے بچانے کے لئے کنایہ ہے کیونکہ خدا کے پوری عمر دینے اور طبعی عمر سے وفات دینے سے یہی لازم آتا ہے.ظاہر ہے کہ جو رفع بعد وفات ہوتا ہے وہ مرتبہ کی بزرگی کے معنوں میں ہی ہوتا ہے نہ کہ جسم کا اٹھانا بالخصوض جبکہ رانی کے ساتھ اور ان کا قول و مُظاهِرُكَ مِن الو یا بھی موجود ہے.جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہاں پر صرف حضرت سیج کے اعزاز و تکریم کا معاملہ مذکور ہے.لفظ رفع ان معنوں میں قرآن مجید میں بکثرت آیا ہے جیسا کہ آیات ذیل سے ظاہر ہے :- في بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَنْ تُرْفَعَ - نَرْفَعُ دَرَجَبٍ مَنْ نَشَاءُ + وَرَفَعْنَا لَكَ ذكركَ ، وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَليا - يَرْفَعُ اللّهُ الَّذِينَ آمَنُوا + پس اللہ تعالیٰ کے ارشاد رَافِعُكَ إِلَى اور بل رفعه الله اليه میں اسی مطلب کو ظاہر کیا ہے.جو عربوں کے قول تحتى فلان بالرفيق الأعلى اور آیت إِنَّ اللَّهَ مَعَنا.نیز عِندَ مَلی ہے مقتدر میں بیان کیا گیا ہے.ان تمام الفاظ سے بجز نگہداشت ، نگرانی اور خدائی حفاظت میں داخل ہو جانے کے کچھ اور مراد نہیں ہوتا.نامعلوم لفظ اللہ سے آسمان کا لفظ کیسے نکال لیا گیا ہے.یقیناً یہ قرآن کریم کی واضح عبارت پر ظلم ہے اور محض ان روایات اور قصوں کو ماننے کی بناء پر یہ ظلم کیا گیا ہے جن کی یقینی صحت تو کجا ظنی صحت پر بھی کوئی دلیل یا آدھی دلیل بھی قائم نہیں ہوتی.علاوہ ازیں حضرت عیسی محض ایک رسول تھے.ان سے پہلے رسول گزر چکے ہیں.حضرت عیتی کی قوم نے اُن سے روشنی کی اور ان کے متعلق ان کے بڑے ارادے ظاہر ہو گئے.تب جمله انبیاء و مرسلین کی سنت کے مطابق ذات باری کی طرف ملتبھی ہوئے ، اللہ تعالیٰ نے اپنے غلبه وحکمت کے مطابق اُن کو دشمنوں کے ہاتھوں سے بچایا اور ان کے منصوبہ کو ناگاہ کر دیا.یہی وہ امر ہے جو آیت قرآنیہ فَلَمَّا تَحْتَ عِيسَى مِنْهُمُ الكُفْرَ قَالَ مَنْ انْصَارِى إِلَى اللَّهِ الوَ میں مذکور ہوا ہے.ان آیات میں اللہ تعالے نے کفار کی تدبیر کی نسبت اپنی تدبیر کے زیادہ مخفی ہونے کا ذکر فرمایا ہے.اور یہ کہ انہوں نے حضرت عیسی کے تباہ کرنے کے لئے جو مگر کیا تھا اس خدائی تجویز کے سامنے جو حضرت عیسی کی حفاظت کے لئے تھی ناکام ہو گیا.فرمایا اذ قال الله
يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَى وَمُهْرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا.اس میں اللہ تعالیٰ نے مسیح کو بشارت دی ہے کہ وہ دشمنوں کی تدبیر کو نا کام کر دے گا اور مسیح کو ان کے مکر سے بچائیگا بیٹی کو پوری عمر دے گا یہاں تک کہ سمیت قتل و صلب کے بغیر طبعی میت سے فوت ہوگا پھر خدا اس کا رفع کرے گا.یہ دو مفہوم ہے جو ہر پڑھنے والے کو ان آیات سے سمجھ آتا ہے.جن میں حضرت عیسی کے انجام کی خبر دی گئی ہے بشرطیکہ وہ پڑھنے والاخدا تعالی کی اس سنت سے واقعت ہو جو وہ نبیوں کے ساتھ اختیار کرتا رہا ہے جبکہ اُن کے دشمن اُن پر حملہ آور ہوتے ہیں.نیز اس قاری کا ذہن ان روایات سے بھی خالی ہو جو کسی صورت میں قرآن مجید پر علم نہیں بن سکتیں.میری تو سمجھ میں ہی نہیں آتا کہ حضرت عیسی کو یہود کے درمیان سے چھین کر آسمان پر لے جانا مگر کیسے کہلا سکتا ہے؟ اور پھر سے اُن کی تدبیر سے بہتر تدبیر کیسے قرار دیا جا سکتا ہے جبکہ اس کا مقابلہ کرنا میہور کی اور نہ کسی اور کی طاقت میں ہے.یاد رکھیئے کہ لفظ مکر کا اطلاق اسمی وقت ہو سکتا ہے جبکہ وہ بات اسی طریق پر ہو اور عادت سے خارج نہ ہو.چنانچہ بائل ؟ طرح کی آیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں وارد ہوئی ہے.فرمایا : وإِذْ يَمْكُرُ بِاكَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِيُشْتَوا أَوْ يَقْتُلُوكَ اَوْ يُخْرِجُوكَ وَيَمْكُرُونَ ويمكر الله وَاللهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ - خلاصه بحث: مندرجہ بالا محبت کا خلاصہ یہ ہے کہ دا، قرآن مجید اور احادیث بندگی میں کوئی ایسی سند موجود نہیں ہے جو سانی بخش طریق پر اس عقیدہ کی بنیاد بن سکے کہ حضرت عیسی اپنے جسم سمیت آسمان پر اٹھائے گئے ہیں اور وہ اب تک وہاں زندہ ہیں اور وہیں سے کسی وقت زمین پر نازل ہونگے.و کاره (۲) اس بارے میں آیات قرآنیہ صرف یہ ثابت کر رہی ہیں کہ اللہ تعالے نے حضرت عیسی سے فرمایا کہ دہ اُن کی مدت عمر کو پورا کرے گا.اور پھر اس کا اپنی طرف رفع کرے گا اور اسے کافرون سے بچا ئیگا.اور یہ کہ یہ وعدہ پورا ہوچکا.دشن حضرت عیسی کو نہ قتل کر سکے نہ صلیب سے مار سکے بلکہ اللہ نے اسکی مدت زندگی کو پورا کر کے اُن کو وفات دی اور اُن کا رفع کیا.(۳) یقیناً ہر شخص حضرت عیسی کے زندہ جسم سمیت آسمان پر جانے اور آج تک وہاں بیٹھے رہنے
۳۰۸ اور آخری زمانہ میں اترنے کا منکر ہے وہ کسی ایسی بات کا منکر نہیں جو کسی قطعی دلیل سے ثابت ہو پس ایسا شخص اپنے اسلام و ایمان سے ہرگز خارج نہیں ہوتا.اور اُس کو مرتد قرار دیا مرز سیب نہیں بلکہ وہ پکا مومن مسلم ہے.جب وہ فوت ہوگا تو مومن ہو گا.اس کی نماز جنازہ اسی طرح پڑھی جائے گی جس طرح مومنوں کی پڑھی جاتی ہے اور اُسے موسموں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا.اللہ کے نزدیک ایسے شخص کے ایمان میں کوئی داغ نہیں ہے.اللہ اپنے بندوں کو جانے والا اور دیکھنے والا ہے.باقی رہا استفتاء میں مندرج آخری سوال کہ اگر حضرت عیسٹی دوبارہ آئیں گے تو اُن کے منکر کا کیا حکم ہوگا ؟ تو ہمارے مندرجہ بالا بیان کے بعد اس سوال کا کوئی موقعہ ہی نہیں اور یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا.واللہ اعلم محمود شلتوت فوی کار و عمل اس فتوی کا منظر عام پر آنا ہی تھا کہ مصر کے قدامت پرست علماء نے علامہ محمود شہتوت کے خلاف مخالفت کا زبردست طوفان کھڑا کر دیا اور اخبارات میں سب و شتم اور طعن و تشنیع سے بھرے ہوئے سخت اشتعال انگیز مضامین شائع کئے اور لکھا کہ یہ فتوی قادیانیوں کی موافقت میں ہے اور یہی وہ کامیاب ہتھیار ہے جس سے قادیانی ہمارے ساتھ مباحثات و مناظرات کرتے ہیں اور یہ نتونی قادیانیت کی عظیم الشان فتح ہے اس لئے ازہر کو چاہیئے کہ اس کو واپس لے لے.علماء مصر از ہر نے اس فتوئی پر کس قدر گھبراہٹ اور پریشانی کا اظہار کیا ؟ اس کا اندازہ لگانے کے لئے ذیل میں فضيلة الاستاذ الشيخ عبدالله محمد الصديق الغماری کے ایک مضمون کے بعض اہم اقتب سانے کا اردو ترجمہ دیا جاتا ہے.الشیخ محمد الصادیق الغماری نے لکھا :- ایک ہند وستانی عبدالکریم نامی نے ایک سوال مشایخ از ہر کے نام ارسال کیا جس میں یہ دریافت کیا گیا کہ آیا حضرت عیسی علیہ السلام از روئے قرآن کریم دحدیث زندہ ہیں یا وفات یا فتنہ.یداس سوال کا خلاصہ ہے.اگر مسائل کا مقصد استفادہ اور استر شاد کا ہوتا تو وہ اس سوال کا جواب ان ہندوستانی علماء کی کتب میں دیکھتا جو اس موضوع میں اردو اور عربی زبان میں تحریر کی گئی ہیں.نے جناب شیخ نور احمد صاحب بیر به آن با ریہ کے ایک مفصل مضمون (مطبوعہ الفضل دفادر جولائی تا ہے، احمد بلاد
٣٠٩ لیکن یہ ہندوستانی اس سوال سے مستفید ہوتا نہیں چاہتا تھا بلکہ وہ تو اس فتوی کو باقاعدہ قانونی طریقہ سے حاصل کر کے اپنے دعا دی کے اثبات میں بطور ایک دلیل اور سہارا بنانا چاہتا تھا.اس کا یہ خیامد کارگر ہو گیا اور دنیا کے عجائبات میں سے ایک اعجوبہ ہوگیا ہے بلکہ یہ حجامہ اپنی نوع کے کیا کہ اول نمبر پر ہے.یہ وہ اعجوبہ ہے جس سے ایک اندھے ہندہ ستمانی نے ایک عالم کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا چنانچہ الرسالة والرواية کے ۴۶۲ صفحہ میں ایک فتونی شیخ محمود شلتوت کے دستخطوں سے شائع ہوا ہے جس کا عنوان رفع عیسی ہے اور اس فتوئی کا مضمون یہ ہے کہ عیسی علیہ السلام حقیقی موست سے وفات پاچکے ہیں.اور آپ کا رفع آسمان کی طرف نہیں ہوا.اور نہ ہی وہ آخری زمانہ میں نزول فرمائیں گے.اور اس بارہ میں جتنی احادیث وارد ہیں وہ احاد کا درجہ رکھتی ہیں اور عقائد کے بارہ میں احاد کا کوئی درجہ نہیں.نیز یہ راویت وہب بن منبہ اور کعب الاحبار کی ہے اور ان دونوں کا درجہ محدثین کے نزدیک معروف ہے یعنی غیر مقبولین اور غیر ثقتین.یہ وہ فتوئی ہے جس نے امت محمدیہ کے اجتماع کو پاش پاش کر دیا ہے اور احادیث متواترہ کے خلاف ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ فتویٰ اس وجہ سے ایک بہت بڑی مصیبت اور ایک اہم واقعہ ہے.اس فتوی میں پہلی غلطی تو یہ ہے کہ اس کا دینے و الا جلد باز معلوم ہوتا ہے.کیونکہ جب قاری اس فتویٰ اور غیر مصر کے علماء کی تحقیق کے درمیان موازنہ کرے گا تو وہ مندر جو دیل امور پر پہنچنگا کہ جامعہ ازہر کو علم حدیث سے کوئی تعلق نہیں.یہ نتیجہ اس سے نکلتا ہے کہ مفتی نے دعوی کیا ہے کہ نزول عیسی علیہ السلام کی حدیث احاد میں سے ہے.دوسرے اُسے اس حدیث کی صحت میں شک ہے جو کہ بخاری شریعت اور سلم میں موجود ہے.سقوم وہ مفتی کہتا ہے کہ حدیث نزول دھتب اور کعب سے مروی ہے.چہارم اس کا یہ دعوی ہے کہ یہ دونوں راوی ضعیف ہیں.حلانکہ اُن کی احادیث صحیح ہیں.اور پنجم یہ کہ احادیث نزول میں اضطراب پایا جاتا ہے.دوم - از سر میں کوئی ایسا فرد نہیں پایا جاتا جو اجماع اور خلافت کے مواقع کو جانتا ہو کیونکہ مفتی نے حضرت عیسی علیہ اسلامہ کے رفع اور نزول سے انکار کیا ہے.دوم یہ کہ احاد اعداد بیش مقامہ اورمفید بات میں عمل نہیں ہوتا.یہ وہ امور ہیں جو قاری کے ذہن میں موازنہ کرنے سے پیدا ہوتے ہیں.اور اس مقتدی کو ان نہر کی طرف منسوب کیا جاتا ہے کیونکہ از ہر کے علماء کبارمیں سے.
ایک عالم نے یہ فتوی دیا ہے.اور لوگ آجکل ظاہری حالات کی طرف دیکھتے ہیں.اور وہ جزو کو گل پر محمول کرتے ہیں چاہے وہ صحیح اس کے خلاف ہی ہو.قادیانی جماعت نے اس فتوی کو اپنے لئے بطور ایک دلیل اور ہتھیار اختیار کر لیا ہے اور اس فتوی کو لے کر وہ مسلمانوں کے پاس جاکر ان کو بیوقوف بناتے اور اُن کے خیال کو خطا پر محمول کرتے ہیں اور وہ خوش اور ضرور ہیں اور وہ کامیاب اور فتحمنار لہجہ میں کہتے ہیں حاهو دا لاره موافقنَا وَيُخَالِعُكُمْ فَلَيْسَ عِيسَى بِحَي وَلا هُوَ مَرْفُوعَ وَلَا هُوَ نَازِكَ كَمَا تَزْعَمُونَ فَايْنَ تَذْهَبُوت - یہ وہ جامعہ ازہر کا فتوی ہے جو ہماری تائید میں ہے اور تمہارے مخالف پس عیسی علیہ السلام نہ تو زندہ ہیں اور نہ ہی انکو آسمان پر اٹھایا گیا ہے اور نہ ہی وہ تمہارے گمان اور خیال کے مطابق آسمان سے نزول فرمائیں گے تم کس خیال میں گھوم رہے ہو ہم نے اس فتوئی اور ان حالات کو کچشم دید دیکھا اور حضرت مفتی صاحب سے کہدیا جو کچھ اس متوالے کے متعلق سنا اور دیکھا اور اس کی وجہ سے جو کچھ ہوا اور جو آئندہ ہو گا اس کا بھی ذکر کیا گھر مفتی صاحب نے اس کا یہ جواب دیا انا ابدیت ترائى وَلَا يَضُرُّني أن أوافق الالية انفير هم یعنی میں نے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے قادیانی جماعت یا غیر کی تائید مجھے کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتی.اسی سلسلہ میں یہ بھی لکھا:.بعض اوقات مصلحت عامہ اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ بعض آراد کو ظاہر نہ کیا جائے اور ان کو نادیہ خمول اور طارق نسیان میں رکھ دیا جائے.حضرت مفتی صاحب عالیم مریخ میں زندگی بسر نہیں کرتے کہ اُن کے متعلق یہ خیال کیا جائے کہ ان کو زمانہ کے حالات کا علم نہیں.سر زمین ہند میں ایک گروہ جو قادیانی فرقہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اس کی بحث اور کلام کا نکتہ مرکزی موت علیستی اور علم رفع ہے.اس جماعت نے اپنے مبلغین ترکی البانیہ شام - مصر، امریکہ اور انگلستان وغیرہ میں بھیجے ہوئے ہیں....مفتی صاحب پر یہ واجب تھا کہ وہ اس گروہ کی مخالفت کر کے خدا کا قرب حاصل کرتے اور مسلمانوں کی تائید کرتے.اگر وہ اس خیال سے بھی نہ کرتے تو کم از کم ان علماء کبار کی
۳۱۱ تائید کرتے جنہوں نے اپنی زندگی ان قادیانیوں کے دفاع کی خاطر وقف کر رکھی ہے.اسے مفتی ! تجھے تیرے رب کی ہی قسم ہے دیکھے کہ ہمارے ان ہندی بستانی علماء بھائیوں کی کیا حالت ہوگی جنہوں نے کہ نزول عیسی علیہ السلام کو ۷۰ احادیث سے اور حیات عیسی و رفع میٹی کو ثابت کردیا.......جب ان کو قادیانی جماعت کے ذریعہ سے یہ اطلاع ہوگی کہ از ہر اُن کی مخالفت کرتا ہے اور اس کی رائے ہے کہ ان مسائل میں نہ تو کوئی دلیل ہے اور نہ شہر دلیل.خدا کی قسم میں تجھ سے پھر پوچھتا ہوں کہ وہ کیا کہیں گے ؟ اور ان کی کیا اہمیت ہوگی ، مجھے یقین ہے کہ علماء ہند دو احتمالوں میں مبتلا ہو جائیں گے اور وہ دونوں ہی عمار کا باعث ہیں.یا تو وہ یہ کہیں گے کہ از ہر علماء سے خالی ہو چکا ہے.یا وہ کتب ستہ یعنی صحاح ستہ اور کتب تفاسیر اور اُن کی احادیث کی کتب سے جو کہ اہل علم کے در میان متداول ہیں اُن سے ناواقف ہیں.یا وہ اس امر کا اظہار کریں گے کہ علماء از مہر میں دینی جرات نہیں ہے جو کہ خصوصاً ایک مومن کے شامل حال ہونی چاہیے.چاہے وہ پہلی رائے کا اظہار کریں یا دوسری کا جامعہ ازہر کا رتبہ ان کی آنکھوں سے گر جائے گا.اور قلوب سے تعظیم جاتی رہے گا اور علمائے ازہر کے متعلق وہ شاعر کا یہ قول پڑھیں گے وَإِخْوَانًا حَسِبْتُمُوا در دعا فَكَانُوهَا، وَلكِنْ لا عَادِي اور کئی بھائی ہیں جن کو میں نے اپنے لئے زرد یعنی بچاؤ کا نے بعد خیال کیا تھا.بے شک وہ آفات و مصائب سے بچانے کے لئے زرمیں تھیں لیکن حقیقت میں دشمنوں نے اُن سے فائدہ اٹھایا نہ لے شیخ نے علامہ شلتوت کو وفات مسیح علیہ السلام کا صاف صاف اقرار کرنے کی پاداش میں برا بھلا کہنے کے علاوہ ان کو نصیحت کرتے ہوئے لکھا :.دا) استاذ شلتوت نے اپنی رائے کے اظہار میں غلطی کی ہے میفتی کو چاہیئے کہ وہ قواعد افتاء اور اصول سے کما حقہ واقف ہو.انہیں چاہیئے تھا کہ وہ از روئے علم غور سے دیکھتے اس معاملہ میں جو ان کی خدمت میں پیش کیا گیا تھا اور وہ مستفتی (فتوی دریافت کرنیوالے) کے ه بجواله افضل رونار ه۱۳۵۲۵) در جولائی ۴۸۱۹۲۶ صفحرم ۵۰۴
٣١٢ احوال کا خیال رکھتے ہوئے فتوی دیتے.نیز یہ خیال کرتے کہ اس سوال کا مقصد کیا تھا.کیونکہ بعض اوقات مفتی کے سامنے ایسا واقعہ پیش کرنے سے یہ غرض ہوتی ہے کہ اُسے فتنہ برپا کرنے میں بطور جواب استعمال کیا جائے.اس لئے مفتی کو چاہیے کہ وہ پیارا ر اور روشن بصیر ت ا والا ہو اور سوال کے مطابق جواب دے جیسے علماء سابقین کیا کرتے تھے......یہ فتوئے ہمارے ایک ہندوستانی بعدی بھائی بابو عبد الکریم صاحب یوسف زئی نے دریافت کیا تھا اُن کے متعلق شیخ الغماری نے تحریر کیا :.ر ایک سنار دوستانی فوجی جو کہ چوبیس گھنٹے موت کے منہ کے سامنے کھڑا ہے اور وہ لوگوں میں سے سب سے زیادہ محتاج ہے کہ وہ احکام تو بہ پر عمل کرے اور مظالم سے خلاصی کا طریقہ معلوم کرے اور حقوق اللہ و العباد کا علم حاصل کیے.کیونکہ ان حالات ہیں اسے ان باتوں کی معرفت زیادہ ضروری ہے لیکن اُسے کیا سوجھتا ہے ؟ یہ کہ حضر عینی زندہ ہیں یا وفات پاچکے ہیں ، وہ آسمان سے نزول فرمائیں گے یا نہیں ؟ اُسے یہ کیا خیال آیا اوران سوالات سے اُسے کیا تعلق ؟ کیا اس نے تمام عقائا ر سے واقفیت حاصل کر نی ہے.اور اُس کے لئے سوائے اس عقیدہ کی تحقیق کے کوئی چیز باقی نہیں رہی ؟ کیا اپنے ہر واجب علم حاصل کر لیا ہے؟ کیا احکام الصلوۃ والصوم کو اس نے معلوم کر لیا ؟ اور سمجھ لیا ہے ؟ اگر فاضل استاذ جاری نہ کرتے اور ان سوالوں پر غور کرتے تو وہ حقیقتی راز معلوم کرلیتے جس کی وجہ سے یہ امر دریافت کیا گیا تھا اور پھر اس کو درست جواب دیتے لیکن به علام شلتوت نے ان امور پر غور نہ کیا اور بہادری سے جواب دیکر ایک بہت بڑی مصیبت خریدتی ہے.علامہ محو حلقوت کی طرف سے الفرض الشيخ عبد الله حمدالصديق الخمار اور دوسرے مصری علماء نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ علامہ | علماء کو مد تل اور مسکت جواب شکرت فتوی وفات مسیح را پس لے میں گرم نامہ موصوف نے قرآن و حدیث کو چھوڑ کر نام نہاد علماء کے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے صاف انکار کر دیا ه الفضل در دفا ۱۳۲۵ هش رو جولائی ۹۳) صفورہم ہے
۳۱۳ " اور خم ٹھوک کر میدان مقابلہ میں آگئے اور الرسالة والروایت کی پانچ اشاعتوں میں منی لقین کے چھوٹے بڑے سب اعتراضات کے عالمانہ رنگ اور شستہ اور پاکیزہ زبان میں نہایت درجہ مدتل اور مسکت جوانیلی دیئے جن سے مسئلہ وفات مسیح کے تمام پہلو بالکل نمایاں ہو کر سامنے آگئے.کتاب الفتاوی میں اشاعت | قاری پر شلتوت نے ایک عرصہ بعد اپنا یہ کل قومی اور اس پر اعتراضات کے جوابات کا ملخص اپنی مشہور کتاب الفتاوی میں بھی چھاپ دیا.یہ کتاب قاہرہ کے مشہور اداره الادارة العامة للثقافة الاسلامي نے جمادی الآخره ۱۳۷۶ مبر (1903ء میں شائع کی جبکہ علامہ محمود شلتوت شیخ الازهر (RECTOR OF AL-AZHAR UNIVERSITY caipo ) کے منصب جلیلہ پر فائز تھے.اس طرح اس فتوی کو ) کے.مصری حکومت کے مفتی اعظم کے سرکاری فنولی کی حیثیت حاصل ہوگئی.فصل دوم ان قادیان کے غرباء کے لئے اس سال کے شروع میں ہندوستان کے اندر خاکری تحط رو نما ہو گیا اور غلہ کی سخت قلت ہو گئی.علم کی تحریک اور اس کا شاندار اشہر میں ہونا محمد کے آثار او یا اس میں شروع اس ماہ ہو گئے تھے لیکن حضرت خلیفتہ امسیح الثانی نے جنہیں خدائی بشارتوں میں یوسف کے نام سے بھی پکارا گیا تھا ہ پر احباب جماعت کو توجہ دلائی کہ انہیں غلہ وغیرہ کا انتظام کرنا چاہیے اور اعلان فرمایا کہ جو دوست غلہ خرید سکتے ہیں وہ فودا خرید میں بعض نے خریدا گر بعض نے توجہ نہ دی کہ تمہارے پاس پیسے ہیں جب چاہیں گے لے لیں گے.مگر جب آٹا وغیرہ ملنا بند ہوا اور سیاہ دانوں کی گندم ڈیویں دی سالانه جلسه ه۱۳۵۲۰ ما را حظه به الى صالة جلد شماره ۵۱۴ و ۵۱۹ و ۵۱۷ و ۵۱۸ و ۵۱۹ رایضًا الفتاوى صفحه ۵۹-۵، ناشر الإدارة العامة للثقافة الإسلامية جمادی الآخره شکار دبیر علامہ محمود شلتو نے یہ کتاب شیخ نور احمد صاب شكلا اور کے میر مبلغ باراد عربیہ کو بطور تحفہ دی تھی جو آجتک ان کے پاس موجود ہے.سے مجلہ ال از متر فروری سنٹر میں بھی یہ مقوای انگریزی زبان میں چھپ چکا ہے جس کا اردو ترجمہ مہتم نشر اشاعت میں انجن احمد یہ ربوہ پاکستان نے رفع عیسی علیہ اسلام کے نام سے شائع کر دیا ہے.
جانے لگی تو انکو اپنی غلطی کا احساس ہوا.اس کے بعد جب فصل نکلی تو حضور نے پھر ارشاد فرمایا کہ دوست للہ جمع رہیں.اور ساتھ ہی زمیندار دوستوں کو یہ ہدایت فرمائی کہ وہ غلہ زیادہ پیدا کریں اور اسے حتی الوسع جمع رکھی ہے.اس ضمن میں حضور نے ہر بیرت لے کو ملک کی سب احمدی جماعتوں کو نصیحت فرمائی کہ وہ ہر جگہ اپنے غریب احمدی بھائیوں کے لئے فلہ کا انتظام کریں.نیز خاص طور پر یہ تحریک فرمائی کہ قادیان کے غرباء کے لئے زکوۃ کے رنگ میں اپنے غلہ میں سے چالیسواں حصہ بطور چندہ ادا کریں.اور جو لوگ غلہ نہ دے سکیں وہ رقم بھجوا دیں کہ ہماری طرف سے اتنا غلہ غرباء کو دے دیا جائے.مقصود یہ تھا که غرباء کو کم از کم اتنی مقدار میں تو گندم مہیا کر دی جائے کہ وہ سال کے آخری پانچ مہینوں میں جو گندم کی کمی کے مہینے ہوتے ہیں بآسانی گزارہ کر سکیں.اور تنگی اور مصیبت کے وقت انہیں کوئی تکلیف نہ ہو.اس غرض کے لئے حضور نے پانچسو من غلے کا مطالبہ جماعت سے فرمایا.اور اس میں سے بھی پچاس من خود دینے کا وعدہ کیا.چنانچہ فرمایا :- راه مومنوں کے متعلق قرآن کریم میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ وہ بھوک اور تنگی کے وقت غرباء کو اپنے نفس پر ترجیح دیتے ہیں اور در حقیقت ایمان کے لحاظ سے یہی مقام ہے جس کے حاصل کرنے کی ہر مومن کو کوشش کرنی چاہئیے.مگر موجودہ زمانہ میں ہمیں وہ نمونہ دکھانے کا موقعہ نہیں ملتا جو صحابہ نے مدینہ میں دکھایا.اس لئے ہمیں کم سے کم اس موقعہ پر غرباء کی مد کر کے اپنے اس فرض کو ادا کرنا چاہیئے جو اسلام کی طرف سے ہم پر عائد کیا گیا ہے.اور اگر ہم کوشش کریں تو اس مطالبہ کو پورا کرنا کوئی بڑی بات نہیں.پانچسو من غلے کا اندازہ بھی درحقیقت کم ہے.اور یہ بھی سارے سال کا اندازہ نہیں بلکہ آخری پانچ مہینوں کا اندازہ ہے جبکہ قحط کا خطرہ ہے.ممکن ہے اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے آئندہ فصل اچھی کردنے اور جوار وغیرہ نکل آنے کی وجہ سے گندم سمستی ہو جائے.بہر حال ہم میں سے ہر ایک کو سمجھ لینا چاہیئے کہ اللہ تعالے کے غریب بندے خدا تعالیٰ کے رزق کے ہم سے کم حصہ دار نہیں.خدا کی نا معلوم کی حکمت نے ہم کو رزق دے دیا اور اُن کو نہیں دیا شاید خدا تعالیٰ کو ہمارا امتحان منظور ہے کہ وہ یہ دیکھے کہ ہم اس رزق کو کس طرح استعمال تبلیغ صفحومہ کا ہم سے بیٹی دسمبر سے اپریل تک کے مہینے ، ا تقریر فرموده جلاس سالانه ها و مطبوعه ۶۱۹۳۲ در ۲۳ ۱۳۳ دری ۱۹۳۵ء
۳۱۵ کرتے ہیں یا شاید بعض کے لئے اس میں سترا کا کوئی پہلا مخفی ہو.یا شاید اس ذریعہ سے اللہ تعلی ہمیں ثواب دینا چاہتا ہو کہ چونکہ ان کو رزق نہیں ملا اسلئے تم ان کو رزق دے کر اللہ تعالئے سے ثواب حاصل کرد - نامعلوم ان تینوں باتوں سے کونسی بات اللہ نالے کے مدنظر ہے.لیکن بہر حال یہ یقینی بات ہے کہ غریب بندے خدا تعالے کے رزق میں ہم سے کم حصہ دار نہیں اور ہم میں سے کوئی فرد ایسا نہیں جو بشر ہونے کے لحاظ سے ایک غریب پر فوقیت رکھتا ہو.بلکہ بشر ہونے کے لحاظ سے نبی اور کافر بھی برا بر ہوتے ہیں.قرآن کریم میں بار بار اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے.قُلْ مَا أَنَا إِلَّا بَشر مثلكم یعنی یعنی اے رسول! کہارے.ابو جہل سے کہدے ، عقبہ سے کہار سے شیبہ سے کہدے کہ بشر ہونے کے لحاظ سے میں تمہاری طرح ہی ہوں اور مجھے میں اور تم میں کوئی فرق نہیں.اگر فرق ہے تو یہ کہ میں نے خدا تعالیٰ کے قرب کو پا لیا اور تم نے اس کا انکار کر کے اُسے ناراض کر دیا.اگر تم بھی نیکی اور تقوی اختیار کرو اور تم بھی قربانیوں میں حصہ لو - تو اللہ تعالیٰ تم کو بھی ایسا ہی محبوب بنا سکتا ہے جیسے اس نے اور لوگوں کو بنایا.آخر خدا نے ابو جہل کو ابو جہل اور ابو بکر کو ابو بکر اسلئے بنایا کہ ابوبکر نے اپنی بشریت کا صحیح استعمال کیا.ابوجہل نے صحیح استعمال نہ کیا.اگر ابو جہل بھی اپنی بشریت کا صحیح استعمال کرتا تو وہ بھی ابوبکر بن جاتا.پس یہ اللہ تعالیٰ کی حکمتیں ہیں جن کے ماتحت وہ کسی کو رزق دے دیتا ہے اور کسی کو نہیں دیتا.یہ بات غلط ہے کہ اگر کوئی عالم ہو تو اسے رزق مل جاتا ہے اور اگر عالم نہ ہو تو رزق نہیں تھا.ہزاروں انٹرنس پاس ہیں جو چار چار سو پانچ پانچ سو روپیہ تنخواہ نے رہے ہیں اور ہزاروں بی.اے اور ایم.اے ہیں جنہیں نہیں میں تیس تیس ہے کی بھی نوکری نہیں ملتی اور اگر ملتی ہے تو عارضی طور پہ.پس یہ کوئی خدا کی مشیت ہے جس کے ماتحت وہ اپنے بندوں کا امتحان لیتا رہتا ہے.ہر شخص کو کوشش کرنی چاہئیے کہ وہ اس امتحان میں کامیاب ہو یا منه الفضل ۱۳۰ هجرت ۱۳۳ پلش (۳۰ رستی (۶/۱۹۲۲) صفحه ۷ و ۸
لہ کی تحریک کے دو اہم اعراض مصور حضور کے منظر اس اہم تحریک کی لو اعراض نہیں.جن کی حضور نے خود ہی وضاحت فرمائی کہ : اس اعلان کے کرنے میں میری دو غرضیں ہیں.......ایک تو یہ کہ قرآن کریم نے خرچ کرنے کی مختلف اقسام بیان فرمائی ہیں.اُن اقسام میں سے ایک قسم خرچ کی اپنے دوستوں اپنے رشتہ داروں اور اپنے بھائیوں کی امداد ہے.اگر یہ اخراجات ان معنوں میں صدقہ نہیں کہلاتے جن معنوں میں غرباء کو روپیہ دینا صدقہ کہلاتا ہے.عربی زبان میں صدقہ کا مفہوم بہت وسیع ہے اور اس میں صرف اتنی بات داخل ہے کہ اپنے اس فریج کے ذریعہ سے اس تعلق کا ثبوت دیا جائے جو انسان کو اپنے پیدا کرنے والے سے ہے.صدقہ کے معنے خدا تعالیٰ سے اپنے بچے تعلق کا اظہار ہے........تو صدقہ کی کئی اقسام ہیں اور لوگ عام طور پر قرآنی صدقہ کی بہت سی قسموں سے غافل ہوتے ہیں.پس اس تحریک سے میرا ایک مطلب تو یہ ہے کہ عربی زبان میں صدقہ کا جو مفہوم ہے وہ بھی پورا کرنے کا دوستوں کو موقعہ بل جائے اور یہ مفہوم یہ نہیں کہ رو بلا کے لئے خرچ کیا جائے بلکہ یہ ہے کہ خداتعالی کی خوشنودی کے لئے خروج کیا جائے.پس میرا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جن دوستوں کو پہلے ایسا خرچ کرنے کا موقعہ نہیں ملا انہیں اس کا موقع مل جائے اور نیکی کا یہ خانہ خالی نہ رہے.دوسری عرض میری یہ ہے کہ ہماری جماعت میں جہاں بھی اور باہر بھی بعض سادات قابل اعداد ہیں اور سادات کو معروف صدقہ دینا منع ہے.پس اگر یہ انہی معنوں میں صدقہ کی نیت سے دیا جائے جو ہمارے ملک میں اس کا مفہوم ہے تو اس سے ہم سادات کی مدد نہیں کر سکتے.ہاں ہدیہ اور تحفہ سے ان کی مدد بھی کر سکتے ہیں.تحفہ انسان ماں باپ بھائی بہن بیوی بچوں دوستوں رشتہ داروں غرضیکہ سب کو دے سکتا ہے.پس میری یہ دو اغراض ہیں جن کی وجہ سے میں نے کہا ہے کہ جو دوست میری اس تحریک میں حصہ لیں وہ صدقہ کی نیت نہ کریں بائے اس اہم تحریک پر قادیان میں سب سے پہلے مولوی ملک سیف الرحمن صاحب ، مولوی عبد الکریم مهتاب د این حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب اور میاں مجید احمد صاحب ڈرائیور نے وعدے بھجوائے جس پر سے لفضل در م شهدا ۲۰ خطبه جمعه فرموده ۲۹ اکیست ها جون ۱۹۴۲ء
٣١٧ حضور نے اظہار خوشنودی کرتے ہوئے تحریر فرمایا :- آج ۲۲ مٹی، میں نے خطبہ جمعہ میں اس امر کی تحریک کی ہے کہ قادیان کے غرباء کے لئے بھی عالیہ کا انتظام کیا جائے تاکہ جن دنوں میں فلم کم ہو انہیں تکلیف نہ ہو.پانچسو من غلہ کے لئے میں نے جماعت سے مطالبہ کیا ہے.قادیان سے باہر میری کچھ زمین ہے وہ بٹائی پر دی ہوئی ہے کچھ گرو ہے جو پھر واپس مقاطعہ پر لی ہوئی ہے.کیونکہ اس دفعہ فصل ماری گئی ہے اس کا مقاطعہ اور گورنمنٹ کا معاملہ اور اوپر کے اخراجات ادا کر کے کوئی پچاس من فلہ بچتا ہے.وہ سب میں نے اس تحریک میں دے دیا ہے.اس کے علاوہ اس وقت تک مندرجہ ذیل وعدے آئے ہیں :.مدادی سیف الرحمن صاحب امیر اله مولی دارای اب ان مولوی محمد ایا اتنا روم کی من سیان مجبار احمد ڈرائیور ایک من خدا کی قدرت ہے کہ سب سے پہلے لبیک کہنے کی توفیق اُن کو ملی ہے جو خود غریب ہیں.شاید تبھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم رفداہ نفسی و روحی، نے فرمایا ہے کہ خدا تعالے مجھے غرباء میں شامل کرے.اس تحریک میں چندہ فلہ کی صورت میں لیا جائے گا.یعنی کو بھیجنے والا رد پید ارسال کرے مگر اس کا وعدہ غلہ کی صورت میں ہونا چاہیئے.اس کے روپیے وعدہ کے مطابق غلہ خرید دیا جائیگا.لمبا وعدہ کوئی صاحب نہ کریں.جو ایک مہینہ کے اندر غلہ دے سیکس وہی وعدہ کریں منه خاکساد مرزا محمود احمد (۲۲) منی) بیرونی جماعتوں میں سب سے پہلے وعدے بھیجوا نے والی جماعت لائل پور تھی.چنانچہ حضرت خلیفہ ایسے الثانی رضی اللہ عنہ نے ۱۲۹ ہجرت ها (۲۹ مئی ۹۳) کے خطبہ جمعہ میں فرمایا :- باہر کی جماعتوں میں سے سب سے بڑھ کر حصہ لینے والی اور اول نمبر حاصل کرنے والی لائلپور کی جماعت ہے.اس جماعت نے سب سے پہلے اور فوری طور پر اور جماعتی رنگ میں اپنا وعدہ بھیجوایا.اس کے سوا باہر کی کوئی ایسی جماعت نہیں جس نے اس وقت تک جماعتی طور پر حصہ لیا کرو الفضل ۲۲ هجرت ۱۳۵۲۵) (۲۲ مئی ۱۹۳۶) صفحه صفحہ ۲ *
۳۱۸ گوید جماعت چھوٹی ہے اور اس لحاظ سے اس نے حصہ بھی تھوڑا ہی نیا ہے اور خطبہ شائع ہونے سے بھی پہلے نیا ہے اور اجتماعی رنگ میں لیا ہے اور اس وجہ سے وہ بیرونی جماعتوں میں اول نمبر نے گئی ہے سوائے ان جماعتوں کے بین تک ابھی یہ اطلاع نہیں پہنچی اور نہ پہنچ سکتی تھی بنے یہ تو صرف اولیت کا شرف پانے والے افراد کا تذکرہ کیا گیا ہے ورنہ قادیان اور قادیان سے باہر دوسری مخلص احمدی جماعتوں نے اس تحریک پر میں والہانہ انداز میں لبیک کہا.اس کا نظارہ ہمیں سلسلہ مامورین کے سوا کہیں نظر نہیں آتا.اُن سے مطالبہ صرف پانچسومن غلہ کا کیا گیا تھا مگر انہوں نے پندرہ سومن جمع کر دیا بیٹے جس پر حضرت امیر المومنین نے اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا :- میں نے تحریک کی تھی کہ غرباء کے لئے بھی دوست بطور امداد غلہ جمع کریں.چنانچہ اللہ تانے کے فضل سے قادیان کے غرباء کو پندرہ مومن گندم جو ان کی پانچ ماہ کی خوراک ہے تقسیم کی گئی اور انہیں ہدایت کی گئی کہ وہ اسے آخری پانچ ماہ کے لئے محفوظ رکھیں.اور خدا تعالیٰ کی عجیب قدرت ہے کہ قحط بھی عین اسی وقت شروع ہوا.میں نے کہا تھا کہ جن لوگوں کو یہ گندم مہیا کی گئی ہے وہ اسے دسمبر میں کھانا شروع کریں.اور قحط بھی دسمبر میں ہی شروع ہوا ہے.یہ بھی نظام کی ایک ایسی خوبی ظاہر ہوتی ہے کہ ساری دنیا میں اس کی مثال نہیں جا سکتی.کہ ہر غریب کے گھر میں پانچ ماہ کا فقہ جمع کر دیا گیا یا اسے قادیان کی دو شر احمدی آبادی کیلئے غلہ کا انتظام یہ تو غرباء کی بات ہے جہاں تک قادیان کی دوسری ش احمدی آبادی کا تعلق تھا حضرت خلیفہ المسیح الثانی رض اور مخلصین کا شاندار نموند کے ارشاد پر صدر انجمن احمدیہ کے کارکنوں کو غلہ کے لئے پیشگی رقم دے دی گئی تھی اور جو احمدی از خود غلہ خرید سکتے تھے انہوں نے ذاتی کوشش سے فرید لیا مگر بعض لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے استطاعت کے باوجود بر دقت غلہ کا انتظام نہ کیا اور غفلت کا ثبوت دیا.ایسے لوگوں کے لئے بھی حضرت خلیفہ مسیح الثانی کی ہدایت اور بیرونی جماعتوں کے تعاون سے گندم کا انتہائی تسلی بخش انتظام کر دیا گیا جس کی تفصیل خود حضرت امیر المومنین رضی اللہ عنہ کی زبان مبارک سے بیان کی جاتی ہے.حضور فرا تے ہیں :- ا الفضل در احسان مقوم كالا به ام الفضل ۲ بر ۱۹۳۲ به الفضل ۲۸ بلیغ ه مفرده فروری ۶۱۹۴۵
۳۱۹ باہر کے بعض لوگوں نے اس موقعہ پر قادیان والوں کی مدد کی ہے اور انہوں نے میری ہدایت پر نہایت اخف باص سے عمل کیا ہے.چنانچہ میں اُس کی ایک امثال پیش کرتا ہوں جس کی کوئی دور نظیر مجھے ساری جماعت میں نہیں ملی.اور وہ چودہری عبداللہ خان صاحب دانته زیاد کا والوں کی مثال ہے.انہوں نے گذشتہ سال شروع میں ہی اپنی ضرورت سے زائد گندم محفوظ کوئی تاکہ اگر قادیان دالوں کو دوران سال میں ضرورت پیش آجائے تو وہ دے سکیں.چنانچہ اس کے بعد جب گندم کی قیمتیں بہت زیادہ چڑھ رہی تھیں انہوں نے گورنمنٹ کے مقرر کردہ ریٹ پر اڑھائی سو من غلہ ہیں مہیا کر دیا.حالانکہ اگر وہ چاہتے تو اس سے پہلے چھے بلکہ سات روپے پر منڈی میں اسے فروخت کر سکتے تھے.مگر انہوں نے غلے کو روکے رکھا اور جلسہ سالانہ پر مجھ سے کہا کہ ہم نے آج تک اپنے خالہ کو اس لئے روک رکھا ہے کہ اگر قادیان و الوں کو نروند ہو تو ہم انہیں دے دیں.تم خود سوچ لو کہ ایک زمیندار کی یہ کس قدر قربانی ہے کہ وہ اپنے غلہ کو اچھے داموں پر فروخت نہیں کرتا محض اس لئے کہ اگر قادیان دالوں کو ضرورت پیش آگئی تو ان کا کیا انتظام ہوگا.غرض یہ ایک ایسے اخلاص کی مثال ہے جس کے مقابلہ میں اس معاملہ میں مجھے کوئی دوسری مثال اپنی جماعت میں سے نہیں ملی گو ایسی جماعت میں جو خدا تعالی کی جماعت ہو اس قسم کی سینکڑوں مثالیں ہونی چاہئیں.بعض جماعتوں نے بے شک ایسا نمونہ دکھایا.چنانچہ قادیان میں جب غلہ کی سخت تلت ہو گئی تو سرگودھا کی جماع نے تمام جماعتوں سے بڑھ کر غلہ مہیا کر کے دیا.مگر یہ ایک جماعت کی مثال ہے اور چودھری عبداللہ خان صاحب کی مثال ایک فرد کی ہے.سرگودھا کی جماعت نے اس موقعہ پر ہمیں ۸۲۲ من غلہ مہیا کر کے دیا.اسی طرح شیخو پورہ کے مضلع والوں نے قریبا ، من غلہ دیا.بعض اور دوستوں نے بھی اپنے طور پر بعض واقف غیر احمدیوں سے غلہ لے کر بھیجوایا.ضلع منٹگمری کی طرف سے ہم من ہ پہنچا.اور اسی طرح ان سب جماعتوں نے اپنے اپنے درجہ کے مطابق اخلاص اور محبت کے ثبوت دیا.بہرحال ان نوں میں اپنی ضرورت پوری کرنے کیلئے ایمان والوں کو وہ ہوتیں میسر آسکتی ہیں دو با پر کی جانوں یا ی قربانی کی بہ بیت گئیں.بیرونی شہروںمیں ان دنوں غلہ کی قلت کی وجہ سے لوگوں کی سخت تکلیف کا سامنا کرنا پڑا.نانچہ جو اخبارات پڑتے ہیں وہ یہ ہیں کہ لوگوں کوآٹے کی کسی تکلیف اٹھانی پڑی القلب اخبار میں بھی کئی دفعہ یہ با
۳۲۰ استفادة جیسی ہے کہ سنڈے سے آٹے کے لئے لوگوں کو کئی کئی گھنٹے ڈیو کے سامنے کھڑے رہنا پڑتا تھا.گر قادیان میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسا کوئی دن نہیں آیا جب کسی شخص کو آٹے کے لئے ز تکلیف ہوئی ہو.سوائے اس کے کہ کسی نے بہت ہی نادانی کر کے اپنے حق کو زائل کر دیا ہو کیونکہ یہاں یا تو لوگوں کو فلہ کے لئے قرض رو پے دے دیئے گئے تھے یا غرباء میں فقہ مفت تقسیم کر دیا گیا تھا، یا پھر باہر کی جماعتوں نے قادیان دانوں کے لئے غلہ مہیا کر دیا تھا جو تاریان والوں کو باہر کے ریٹوں سے بہت سستا دیا جارہا تھا.جب باہر سو اچھے اور سات روپے گندم کا بھاؤ تھا ہم قادیان میں سوا پانچ روپے پر دیتے رہے اور جب باہر آٹھ اور تو ہم یہ ریٹ تھا ہم سات روپیہ پر دیتے رہے اور جب باہر گندم مولہ رد ہے پر بک رہی تھی ہم نے جو انتظام کیا اُس کے مطابق قاریان والوں کو آٹھ روپے پر گندم ملتی رہی.گویا باہر کے بھاؤ میں اور اُس بھاؤ میں جس پر ہم نے قادیان میں گندم دی دو گنا فرق تھا.اس وقت بھی تمہارے پاس کچھ گندم باقی تھی مگر باوجود اس کے کہ اس وقت امرتسر میں ساڑھے نو اور دس رو پیر قیمت ہے میں نے دفتر والوں سے کہا اعلان کردو کہ جن لوگوں نے روپیہ جمع کرا دیا ہوا ہے وہ آٹھ روپیہ کے حساب سے گندم سے نہیں اور وہ نہ میں تجھ دوسروں کو اسی قیمت پر گندم دیں.در حقیقت یہ قیمت بھی اس لئے مقرر کرنی پڑی کہ جب گندم بہت گراں ہوگئی تو اس وقت بعض جگہ ساڑھے نو اور پونے دس رو پلے پر گندم خریدی گئی مگر اس کے مقابلہ میں بعض احمد یوں نے ہمیں بستی گندم دے دی.اس لحاظ سے ہمیں اوسطاً آٹھ رو پے قیمت مقررکرنی پڑی.درند جو گندم ہم نے آٹھ روپے پر فروخت کی ہے اس کا کچھ حصہ ایسا ہے جو ساڑھے نو اور دس پر خریدا گیا ہے.مگر چونکہ اس کے مقابلہ میں بعض احمدیوں سے سستی گنا مہ مل گئی اس لئے تمام اخراجات ملا کر ایک اوسط قیمت مقرر کردی گئی اور اس طرح قادیان والوں کو باہر کے مقابلہ میں پھر بھی کستی گندم مل گئی یاسے مجلس ارشاد کے تحت علمی تریدین سلسله حضرت را در ایاق صاحب این شد ن کو بروقت ہو یرید تڑپ رہتی تھی کہ سب احمد می سلطان القلم حضرت ام الفضل ۱۲۰ شهادت ۱۲ ۱۳ (۲۰ اپریل ۱۹۳۳) صفحه ۳۰۲ به
۳۲۱ مسیح موعود علیہ اسلام کے حقیقی معنوں میں وارث بن جائیں اور حضور علیہ السلام کی طرح اسلام کی خوبیوں اور قرآنی معارف کے بیان کرنے اور غیر مذاہب کے رڈ اور اُن کے اعتراضات کے دفاع میں ہر وقت منہمک رہیں.اسی غرض سے آپ نے قادیان میں مجلس ارشاد قائم کی تھی جو بہت مفید کام انجام دی ہی تھی.اس مجلس کے زیر انتظام آپ نے اس سال ملمی تقریروں کا ایک مفباری سلسلہ جاری فرمایا.جو آپ کی وفات امان ) تک برابر جاری رہا.اس تعلق میں آپ کی زیر صدارت پہلا علمی جلسہ ۱۲ هجرت هسته ای ساد) کو مسجد اقصی قادیان میں بعد نماز مغرب منعقد ہوا.جس میں حسب ذیل مقالے پڑھے گئے :.- ا مسیح اور ان کی والدہ کا میں شیطان پاک ہونا.(مولانا ابو العطاء صاحب فاضل) مسیح کا مُردے زندہ کرنا " دڈاکٹر حضرت مفتی محمد صادق صاحب ڈی ڈی پی ایچ ڈی ) " ۳ مسیح کا خالق طیور ہوتا " حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احم و صدا سیما بی.اے آمین ) - " مسیح کا بن باپ پیدا ہونا " (مولوی عبد المنان صاحب، مولوی فاضل ایم.اسے پلی اگ) میچ کا روح اللہ اور کلمۃ اللہ ہونا " (حضرت میر محمد الحق صاحب نے ) ہے یہ پانچوں مقالے نہایت پر مغنر اور بہت معلومات افزا تھے.جن میں سے چار ریویو آن ریجنز اردو کی مختلفت اشاعتوں میں بھی چھپ گئے ہے نماز با جماعت کے لئے حضر حضرت امیرالمومنین خلیفہ المسیح الثانی کی خدمت میں امیرالمومنین کا تاکیدری ارشاد ۱۱۹۴۲ یہ افسوسناک اطلاعات موصول ہوئیں کہ قادیان کے بعضی احمدی نمازوں میں سست ہیں.حضور نے د رحمان رجون ر کو خاص طور پر اسی مسئلہ پر ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس میں نماز با جماعت کی شرعی اہمیت واضح کرنے کے بعد انصار اللہ اور خدام احمدیہ کا فرض مقرر فرمایا کہ وہ قادیان میں اس امر کی نگرانی رکھیں کہ نمازوں کے اوقات میں کوئی دکان کھلی نہ رہے اور نماز کے متعلق ہر شخص اپنے ہمسایہ کی اس طرح جاسوسی کرنے میطرح پولیس مجرموں کی جاسوسی کا کام کرتی ہے.نیز فرمایا کہ میں اس کے بعد ان لوگوں کو نہ یہی مجرم سمجھوں گا جو ام الفضل اور بیرت ها داوری سه صفحه ۱ + له الفضل ۲۰۲۱ را بیرت ها در می یاد شد ۳۳ امین و • t ے یا نہ ہو ایویو آن را نیز اردو ان ال ال ها و جوری اور جون جولائی -
۳۲۲ نماز باجماعت ادا نہیں کریں گے.اور انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کو قوم مجرم سمجھوں گا کہ انہوں نے نگرانی کا فرض ادا نہیں کیا.اس کے ساتھ ہی حضور نے بیرونی جماعتوں کو بھی توجہ دلائی کہ انہیں بھی اپنے بچوں اور نوجوانوں اور عورتوں اور مردوں کو نماز با جماعت کی پابندی کی عادت ڈالنی چاہئیے.اگر اس بیات میں وہ کامیاب نہیں ہو سکتے تو وہ ہرگز خدا تعالیٰ کے حضور سرخرو نہیں ہو سکتے چاہے وہ کتنے ہی چندے دیں اور چاہے وہ کتنے ہی رینہ ٹیوشن پاس کر کے بھیجوا دیں " سے شعار اسلام کی پابندی کیلئے ہم ارشاد سیدنا حضرت ایرانی خلیفہ اسی انسانی میشه می نا امیرالمومنین ہی مختلف طریق سے جماعت کو اس طرف توجہ دلاتے رہتے تھے کہ جماعت احمدیہ کسی انجن کا نام نہیں یہ ایک مذہبی نظام ہے جس کا مقصد دنیا میں اسلامی شریعت کا قیام را یاد ہے.ی حقیقت احباب جماعت کے ذہن نشین کرانے کے لئے اس سال بھی حضور نے اور اعیان طلاق کو ایک مفصل خطبہ ارشاد فرمایا.جس میں شعایہ اسلامی کی پابندی کی از حد تاکیا کی اور بتایا کہ داڑھی منڈوانے والے احمدی شکست خوردہ ذہنیت رکھتے ہیں.انہیں جماعت کے کسی عہدہ کے لئے منتخب نہ کیا جائے.چنانچہ حضور نے فرمایا :- جہاں شریعت کے احکام کا سوال آجائے وہاں اگر ہم دوسروں کی نقل کریں تو یقیناً ہم اسلام کی ذلت کے سامان کر کے دشمنوں کی مدد کر نیو الے قرار پاتے ہیں.اپنی نقلوں میں سے ایک نقل داڑھی منڈوانا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک وفعہ نہیں متواتر داڑھی منڈوانے سے منع فرمایا ہے.اور داڑھی منڈوا کہ کوئی خاص فائدہ انسان کو نہیں پہنچتا......جو شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتنی چھوٹی سی بات میں نہیں مان سکتا اس سے یہ کتب توقع کی جا سکتی ہے کہ اگر اس کے سامنے کوئی بڑی بات پیش کی جائے تو وہ اسے مان لیگا " نیز فرمایا :- میں نے متواتر جماعتوں کو تو جہ دلائی ہے اور ہمارے ہاں قانون بھی ہے کہ کم سے کم جماعت کے عہدیدار ایسے نہیں ہونے چاہئیں جو داڑھی منڈواتے ہوئی ہے اس طرح اسلامی ه فضل در احسان ها گه ر ده رجون ۱۹۳۳) صفحه ۱ - ۰۲
۳۲۳ احکام کی بنک کرتے ہوں.مگر میں دیکھتا ہوں کہ اب بھی دنیا داری کے لحاظ سے جس کی ذرا تنخواہ زیادہ ہوئی یا چلتا پرزہ ہوگا یا دنیوی لحاظ سے اسے کوئی اور اعزاز حاصل ہوا.جماعت کا عہدیدار بنا دیا جاتا ہے خواہ وہ داڑھی منڈوانا ہی ہو.حالانکہ دنیوی لحاظ سے ہماری جماعت کے بڑے سے بڑے آدمی بھی ان لوگوں کے پاسنگ بھی نہیں جو اس وقت دنیا میں پائے جاتے ہیں.اور اگر دنیوی لحاظ سے ایسے لوگوں کو عہد یدار بنایا جاسکتا ہے قوعیسائیوں اور ہندوؤں کو کیوں نہیں بنایا جاسکتا.وہ بہت زیادہ دولتمند اور دنیومی لحاظ سے بہت زیادہ معزز ہوتے ہیں.مگر در حقیقت یہ کام وہی کر سکتا ہے جسے اسلام اور احمدیت کے جیتنے کی امید نہیں اور جو اسلام اور احمدیت کو ایک شکست خوردہ مذہب سمجھتا ہے.ورنہ شخص اسلام اور حمدیت کو جیتنے والا مذہب سمجھتا ہے اس کے سامنے تو اگر کروڑ پتی بھی آجائیں تو وہ اُن کو حقارت سے ٹھکرا دیتا ہے اور دنیا کے تمام بادشاہوں کو بھی ایک پیچھے مومن کے مقابلہ میں ذلیل سمجھتا ہے.دنیا آخر ہے کیا چیز! کیا یہ خدا کے فیون کے مقابلہ میں کھڑی ہوئی اور کامیاب ہوئی ؟ آخر ہزاروں بنی دنیا میں آئے ہیں.ان ہزاروں نہیوں میں سے کب کوئی ایسا نبی آیا کہ اُسے دنیوی لحاظ سے کوئی عزت حاصل تھی لیکن کب اس کا سلسلہ ختم ہوا اور وہ فاتح اور حکمران نہیں تھا.یہی حال احمدیت کا ہے.پس یہی شکست خورد ذہنیت کے لوگ جنہوں نے مغربیت کے آگے اپنے ہتھیار ڈال رکھتے ہیں وہ ہرگزہ کسی عہدہ کے قابل نہیں ہیں.وہ بھگوڑے ہیں اور بھگوڑوں کو حکومت دے دینا اول درجہ کی حماقت اور نادانی ہے.......پس میں ایک دفعہ پھر جماعتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ یہاں سوال چند بالوں کا نہیں بلکہ یہاں سوال اس ذہنیت کا ہے جو مغربیت کے مقابلہ میں اسلام اور احمدیت نے پیدا کرتی ہے اور میں ذہنیت کو ترک کر کے انسان مغربیت کا غلام بن جاتا ہے.تمہارا ایمان تو ایسا ہونا چاہیئے کہ اگر دس کروڑ بادشاہ بھی آکر کہیں کہ ہم تمہارے لئے اپنی بادت نہیں چھوڑنے کے لئے تیار ہیں تم ہماری طرف ایک بات مان لو جو اسلام کے خلاف ہے تو تم ان دس کروڈ باد شمارموں سے گہر: کہ تف ہے تمہاری اس حرکت پر میں تو محمد مصطفے صلی اللہ علی ام کی ایک بات کے مقابا میں تمہاری اور تمہارے باپ دادا کی بادشاہتوں کو جوتی بھی نہیں مارتا
۳۲۴ یہ ہے ایمان کی کیفیت.جو شخص یہ کیفیت اپنے دل میں محسوس نہیں کرتا اس کا یہ دعوی کہ اس کا ایمان پکا ہے ہم ہر گزمانے کے لئے تیار نہیں ہو سکتے ؟ فصل سوم دوسری جنگ عظیم کے دوران وسطہ اس میں محمدی وہ ا ا ا اد کیا کی ۶۱۹۴۲ طاقتوں کا دباؤ مشرق وسطی میں زیادہ بڑھ گیا اور جرمن تو میں جنرال رویل کی سرکردگی میں اور احسان (جون) کو بروقت کی قلعہ بندیوں پر حملہ کر کے برطانوی افواج کو شکست فاش دینے میں کامیاب ہو گئیں جس کے بعد اُن کی پیشقدمی پہلے سے زیادہ تیز ہو گئی.اور یکم و فار جولائی تک مصر کی حدود کے اندر گھس کر العالمین کے مقام تک پہنچ گئیں جو اسکندریہ سے تھوڑی ور مغرب کی جانب برطانی مدافعت کی آخری چوکی تھی جس سے مصر براہ راست جنگ کی لپیٹ میں آگیا اور مشرق وسطی کے دوسرے اسلامی ممالک خصوصاً حجاز کی ارض مقدس پر محوری طاقتوں کے حملہ کا شماریار خطرہ پیدا ہو گیا.ران پر خطر حلات میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ۲۶ احسان جون کے خطبہ جمعہ میں عالم اسلام کی نازک صورت حال کا دردناک نقشہ کھینچتے ہوئے بتایا کہ :- اب جنگ ایسے خطر ناک مرحلہ پر پہنچ گئی ہے کہ اسلام کے مقدس مقامات اس کی زد میں آگئے ہیں.مصری لوگوں کے مذہب سے ہمیں کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو وہ اسلام کی بجو توجیہ و تفسیر کرتے ہیں ہم اس کے کتنے ہی خلاف کیوں نہ ہوں مگر اسی انکار نہیں کر سکتے کہ ظاہر ا طور پر وہ ہمارے خدا ہمارے رسول اور ہماری کتاب کو ماننے والے ہیں.انکی اکثریت اسلام کے خدا کے لئے غیرت رکھتی ہے ، ان کی اکثریت اسلام کی کتاب کیلئے غیرت رکھتی ہے اور ان کی اکثریت محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے لئے غیرت رکھتی ہے.اسلامی لٹریچر.شائع کرنے اور اُسے محفوظ رکھنے میں یہ قوم صف اول میں رہی ہے.آج ہم اپنے مدارس میں احسان هلا ۳ صفحه ۳-۵-۱۶ جون ۱۱۹۴۲
۳۲۵ بندی اور مسلم وغیرہ احادیث کی جو کہا میں پڑھاتے ہیں وہ مصر کی چھپی ہوئی ہی ہیں.اسلام کی ناور کتابیں مصرمیں ہی چھپتی ہیں اور مصری قوم اسلام کے لئے بغیر کام کرتی چلی آئی ہے.اس قوم نے اپنی زبان کو بھلا کر عربی زبان کو اپنا لیا.اپنی نسل کو فراموشن کر کے یہ عربوں کا حصہ بن گئی.اور آج دونوں قوموں میں کوئی فرق نہیں.مصر میں عربی زبان عربی تمدن اور عربی طریق رائج ہیں.اور محمد عربی صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مذہب رائج ہے.پس مصر کی تکلیف اور تباہی پر سلمان کے لئے دُکھ کا موجب ہونی چاہیئے خواہ وہ کسی فرقہ سے تعلق رکھنے والا ہو.اور خواہ مذہبی طور پر اسے مصریوں سے کتنے ہی اختلافات کیوں نہ ہوں.پھر مصر ساتھ ہی وہ مقدس سرزمین شروع ہو جاتی ہے جس کا ذرہ ذرہ ہمیں اپنی جانوں سے زیادہ عزیز ہے نہر سویز کے ادھر آتے ہی آجکل کے سفر کے سامانوں کو مد نظر رکھتے ہوئے چند روز کی نشست کے فاصلہ پر ہی وہ مقدس مقام ہے جہاں ہمارے آقا کا مبارک وجود لیٹا ہے جس کی گلیوں میں محمد مصطفے صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پائے مبارک پڑھا کرتے تھے جس کے مقبروں میں آپ کے والا د شیدا خدا تعالے کے فضل کے نیچے میٹھی نیند سو رہے ہیں اس دن کی انتظار میں کہ جب صور پھونکا جائے گا وہ لبیک کہتے ہوئے اپنے رب کے حضور حاضر مو جائینگے دو اڑھائی سوئیل کے فاصلہ پر ہی وہ وادی ہے جس میں دو گھر ہے جسے ہم خدا کا گھر کہتے ہیں اور جس کی طرف دن میں کم سے کم پانچ بار منہ کر کے ہم نماز پڑھتے ہیں اور جس کی زیاد اور حج کے لئے جاتے ہیں جو دین کے ستونوں میں سے ایک بڑا ستون ہے.یہ نفس مقام صرف چند سومیل کے فاصلہ پر ہے اور آجکل موٹروں اور ٹینکوں کی رفتار کے لحاظ سے چار پانچ دن کی مسافت سے زیادہ فاصلہ پر نہیں.اور اُن کی حفاظت کا کوئی مسلمان نہیں وہاں جو حکومت ہے اُس کے پاس نہ ٹھیک ہیں ، نہ ہوائی جہانہ اور نہ ہی حفاظت کا کوئی اور سامان کھلے دروازوں اسلام کا خزانہ پڑا ہے بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ دیواریں بھی نہیں ہیں.اور جوں جوں دشمن ان مقامات کے قریب پہنچتا ہے ایک مسلمان کا دل لرز جاتا ہے ا سنہ الفضل ۳ رماه ۳۳۱ صفحه ۳۰۲ جولائی ۱۹۴۳ و
۳۲۶ حضور نے خطبہ کے دوران مقامات مقدسہ کی حفاظت کے خدائی وعدوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یقین دلایا کہ اللہ تعالیٰ خود ہی ان کی حفاظت فرمائے گا “.لیکن ساتھ ہی مسلمانوں کو اُن کی عملی ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ دلائی.اور فرمایا :- یہ ہمارا یقین ہمیں اپنی ذمہ داریوں سے نہیں چھڑا سکتا.جس طرح مکہ کے متعلق خاندانی کا وعدہ تھا کہ وہ اسکی حفاظت کریگا جس طرح اسلام کی حفاظت کے قا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا و رسول کریم صل اللہ علی المکی حفاظت کا بھی وعدہ اُس نے کیا ہوا تھا.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ :.واللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ.(المائده ) گر با وجود اس وعدہ کے ، ایسے ہی مقدس اور یقینی وعدہ کے جیسا کہ مکہ مکرمہ اور خانہ کعبہ کی حفاظت کے متعلق ہے پھر بھی صحابہ کر امر اس وعدہ پر کفایت کر کے بے فکر نہیں ہو گئے تھے اور انہوں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ خدا تعالے خود آپ کو دشمنوں سے بچائیگا ہمیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں.بلکہ مدینہ میں آپ کے داخلہ سے لیکر آپ کی وفات تک برابردہ آپ کے گھر کا پہرہ دیتے رہے.مدینہ کے لوگوں یعنی انصار پر اللہ تعالی بڑی بڑی برکتیں نازل کرے وہ بڑی ہی سمجھ دار اور قربانی کرنے والی قوم تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میںآئے تو انہوں نے فوراً اس بات کا فیصلہ کیا کہ آپ آپ کی ذات کی حفاظت کرنا ہمارا فرض ہے.اور ہر رات الگ الگ گروہ آپ کے مکان پر مہرہ کے لئے آتا تھا.پہلے تو انصار بغیر ہتھیاروں کے پہرہ پر کے لئے آتے تھے.انہوں نے یہ خیال کیا کہ مدینہ اسلامی شہر ہے یہاں خطرہ کی کوئی بات نہیں ہر قبیلہ باری باری پہرہ کے لئے اپنے آدمی بھیجتا تھا مگر وہ بغیر تھیاروں کے ہوتے تھے.ایک رات رسول کریم صلے اللّہ علیہ وسلم اپنے گھرمیں تھے کہ باہر آپ نے تلواروں اور نیزوں کی جھنکا.سنی.آپ باہر تشریف لائے تو دیکھا کہ انصار کا ایک گروہ سرسے پاؤں تک مسلح آپ کے مکان کے گرد پہرہ کے لئے کھڑا ہے.آپ نے دریافت فرمایا کہ یہ کیا بات ہے تو انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ لوگ تو بغیر ہتھیاروں کے مہرہ کے لئے آیا کرتے تھے مگر ہمارے قبیلہ نے فیصلہ کیا ہے کہ مہرہ کے انتظام کے معنے یہ ہیں کہ خطرہ کا احتمال ہے.اور جب خطرہ ہو سکتا ہے تو اُسے روکنے کیلئے ہتھیار بھی ضرور ہونے چاہئیں.اس لئے ہم مسلتے ہو کہ پہرہ کیلئے آئے ہیں.
۳۲۷ آپ نے اُن لوگوں کے لئے دعا فرمائی اور اندر تشریف لے گئے.اس کے بعد باقی قبائل نے بھی مسلح ہو کہ پہرہ دینا شروع کر دیا.ایک دفعہ مدینہ میں کچھ شور ہوا اور خیال تھا کہ شاید رومی حملہ کرینگے.اس سے مسلمان ہتھیار لے کر باہر کی طرف بھاگے.اگر چند صحابی دوڑ کر مسجد بوتی میں جمع ہو گئے.لوگوں نے اُن سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے جملہ کا خوف تو باہر سے تھا.آپ لوگ مسجدمیں کیوں آ بیٹھے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہمیں تو یہی جگہ حفاظت کئے جانے کے قابل نظر آتی ہے.اس لئے یہیں آگئے.یہ قربانیاں کرنے والے جانتے تھے کہ اللہ تعالے نے عرش سے آپ کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہوا ہے اور فرمایا ہے کہ اللہ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ یعنی اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ تعالے تجھے لوگوں کے حملوں سے بچائے گا مگر باوجود اس وعدہ کے جو قربانیاں انہوں نے آپؐ کی حفاظت کے لئے کیس کیا اس کے یہ معنے ہیں کہ اُن کا ایمان کمزور تھا اور وہ خدا تعالیٰ کو ایسیں وعدہ کے پورا کرنے پر قادر نہ سمجھتے تھے ؟ یا کیا وہ سمجھتے تھے کہ اللہ تعالے نے ایسا کوئی وعدہ نہیں فرمایا بلکہ خوذ باللہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس سے بنالیا ہے ؟ ان کی قربانیاں اور ان کا اخلاص دونوں بتاتے ہیں کہ ان میں سے کوئی بات بھی اُن کے وہم یا خیال میں نہ تھی.اُن کو یقین تھا کہ اللہ تعالی عرش سے آپ کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے اور انہیں یہ بھی یقین تھا کہ وہ آپ کو بچانے کی طاقت رکھتا ہے اور اپنے وعدہ کو پورا کرنے کے لئے سامان مہیا کر سکتا ہے مگر اُن کی تمنا اُن کی آرزو اور اُن کی خواہش یہ تھی کہ اللہ تعالے محمد صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بچانے کے لئے جو ہتھیار اپنے ہاتھ میں لے وہ ہم ہوں.انہیں خدا تعالے کے وعدے پر شک نہ تھا.آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی زبان پر شک نہ تھا بلکہ حرص تھی کہ اس وعدہ کو پورا کرنے کا جو ذریعہ اللہ تعالے اختیار کرے وہ ہم ہوں.وہ چاہتے تھے کہ کاش وہ ذریعہ جو اللہ تعالے نے آپ کو بچانے کا اختیار کرنا ہے وہ ہم بن جائیں اور وہ بن گئے.اور انہوں نے نواز در سال تک اپنی جانوں اور عزیز ترین رشتہ داروں کی جانوں کو قربان کرکے اپنے آپ کو خدا تعالٰی کا ہتھیار ثابت کر دیا.وہ مہاجر اور وہ انصار اس وعدہ کو پورا کرنے کا ذریعہ بن گئے جنہوتی محمد مصطفے صلے اللہ علیہ وسلم کے آگے اور پیچھے ہو کر ہر موقعہ پر جنگ کی.اُن کی اول خواہش اور تمنا بھی
۳۲۸ اور اُن کی آخری خواہش اور تمنا بھی یہی تھی کہ کاش وہ فنا ہو جائیں وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں.گر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر کوئی آنچ نہ آئے.ایک صحابی کو کچھ لوگ قید کر کے لے گئے اور نگہ والوں کے پاس بیچ دیا.مگھر والوں کا کوئی آدمی کسی مسلمان کے ہاتھ سے مارا گیا تھا.اور وہ اُس کے بدلہ میں کسی مسلمان کو مارنا چاہتے تھے اس لئے اُسے خرید لیا.انہو نے اُس کے گلے میں طوق اور پاؤں میں بیٹریاں ڈالی ہوئی تھی اور قتل کرنے کی تیاریاں کر رہے تھے کہ ان میں سے کسی نے اُس صحابی کو مخاطب کر کے کہا کہ کیا تم یہ پسند نہ کرو گے کہ تم موقت آرام سے اپنے بیوی بچوں میں بیٹھے ہو اور تمہاری جگہ یہاں محمد صلے اللہ علیہ و آلہ و سلم سمار "" قبضہ میں ہو.اس صحابی نے جواب دیا کہ تم لوگ بڑے بیوقوف ہو جو یہ سوال کرتے ہو.تم تو یہ کہتے ہو کہ میں یہ پسند کرتا ہوں یا نہیں کہ میں مدینہ میں اپنے بیوی بچوں میں بیٹھا ہوں اور میری جگہ رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم یہاں تمہاری قید میں ہوں میں تو یہ بھی نہیں چاہتا کہ تی اپنے گھر بیٹھیوں اور آ نحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ یتیم کے تلوے میں مدینہ کی گلیوں میں کوئی کانٹ بھی چھے جائے.پھر ایک صحابی کے متعلق لکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک جنگ کے لئے تشریف لے گئے اور وہ صحابی کسی اتفاقی حادثہ کی وجہ سے پیچھے رہ گئے وہ اپنے گھر میں داخل ہوئے اُن کی بیوی بیٹھی تھیں.دونوں کی باہم بہت محبت تھی وہ صحابی جوش سے پیار کے لئے اپنی بیوی کی طرف بڑھتے مگروہ حقارت سے پیچھے ہٹ گئیں اور کہا کہ تمہیں شرم نہیں آتی کہ محمدرسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم تو لڑائی کے لئے تشریف لے گئے ہیں اور تم بیوی کو پیار کرنے لگے ہو.یہ بات سنکردہ فوراً باہر نکلے اور جنگ کے لئے چل پڑے.یہ وہ قربانیاں تھیں جو باوجود اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے وعدہ کے صحابہ نے آپ کی حفاظت کے لئے کیں.پس اس میں شبہ نہیں کہ مگر اور ماریہ کی حفاظت کے لئے اللہ تعالے کے وعدے ہیں مگر اللہ تعالے حفاظت کے لئے آسمان سے فرشتے نہیں اتارا کرتا.بلکہ بعض ناموں کو ہی فرشتے بنا دیتا ہے.اور اُن کے دلوں میں اخلاص پیدا کر دیتا ہے کہ اُس کے وعدوں کو پورا کرنے کے لئے ہتھیار بن جائیں.وہ گو انسان نظر آتے ہیں مگر اُن کی روحوں کو فرشید کر دیا جاتا ہے.اللہ تعالے نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کی راہ میں شہید ہو جائے
۳۲۹ اینا ان کو مردہ مت کہو وہ زندہ ہیں.اس کا مطلب یہی ہے کہ خدا تعالٰی نے جو کام فرشتوں سے لینا تھا گئے کرنے کے لئے وہ آگے بڑھتے ہیں اسلئے وہ فرشتے بن جاتے ہیں.اور جب وہ فرشتے ہو گئے تو مر کیسے سکتے ہیں.فرشتے نہیں مرا کرتے.اسی لئے اللہ تعالیٰ شہداء کے متعلق فرماتا ہے کہ وہ مردہ نہیں بلکہ زندہ ہیں اور اپنے خدا کے حضور رزق دیئے جاتے ہیں.پس گران مقامات کی حفاظت کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے کیا ہے مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ مسلمان اُن کی حفاظت کے فرض سے آزاد ہو گئے ہیں.بلکہ ضروری ہے کہ ہر سچا مسلمان اُن کی حفاظت کے لئے اپنی پوری کوشش کرے جو اُس کے بس میں ہے یا ملے خطبہ کے آخر میں حضور نے خاص تحریک فرمائی کہ احمد می مالک اسلامیہ کی حفاظت کیلئے نہایت تفریح اور عاجزی سے دعائیں کریں.چنانچہ حضور نے فرمایا :- یہ مقامات روز بروز جنگ کے قریب آرہے ہیں اور خف را تعالٰی کی مشیت اور اپنے گناہوں کی شہادت کی وجہ سے ہم بالکل بے بس ہیں اور کوئی ذریعہ ان کی حفاظت کا اختیار نہیں کر سکتے، ادنی ترین بات جو انسان کے اختیار میں ہوتی ہے یہ ہے کہ اس کے آگے پیچھے کھڑے ہو کر جان دیارے گریم تو یہ بھی نہیں کر سکتے اور اس خطرناک وقت میں صرف ایک ہی ذریعہ باقی ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالے کے حضور دعائیں کریں کہ وہ جنگ کو ان مقامات مقدسہ سے زیادہ سے زیادہ دور لے جائے اور اپنے فضل سے اُن کی حفاظت فرمائے.وہ خدا جس نے ابرہہ کی تباہی کے لئے آسمان سے دبا بھیجدی تھی اب بھی طاقت رکھتا ہے کہ ہر ایسے دشمن کو جس کے ہاتھوں سے اس کے مقدس مقامات اور شعائر کو کوئی گزند پہنچ سکے کچل دے.پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی زمہ داریوں کو سمجھیں اور خدا تعالٰی سے دعائیں کریں کہ وہ خود ہی ان مقامات کی حفاظت کے سامان پیدا کر دے.اور اس طرح دُعائیں کریں جس طرح بچہ بھوک سے تڑپتا ہوا چلاتا ہے جس طرح ماں سے جُدا ہونے والا بچہ یا بچہ سے محروم ہو جانے والی ماں آہ و زاری کرتی ہے اسی طرح اپنے رب کے حضور رو رو کر دعائیں کریں کہ اسے اللہ ، توخود ان مقدس مقامات کی حفاظت فرما.اور ان لوگوں کی اولادوں کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جائیں فدا کر گئے ا • الفضل رفاهی جولائی ۱۹۳۲ء صفحه ۳ و۴ دوم
٣٣٠ اور ان کے ملک کو ان خطر ناک نتائج جنگ سے جو دوسرے مقامات پر پیش آرہے ہیں بچا ہے.اور اسلام کے نام لیواؤں کو خواہ وہ کیسی ہی گندی حالت میں ہیں اور خواہ سمر سے اُن کے کتنے اختلافات میں اُن کی حفاظت فرما اور اندونی و بیرونی خطرات سے محفوظ رکھ جو کام آج ہم اپنے ہاتھوں سے نہیں کر سکتے وہ خدا تعالیٰ کا ہاتھ کردے اور ہمارے دل کا دکھ ہما ر ہا تھوں کی قربانیوں کا قائم مقام ہو جائے یا شئے بعض متعصب ہندو ہمیشہ اعتراض کیا کرتے تھے کہ مسلمانوں کے دلوں میں ہندوستان کی نسبت نگر اور مدینہ کی محبت بہت زیادہ ہے.اس موقعہ پر حضور نے اس اعتراض کا یہ نہایت لطیف جواب دیا کہ :- بے شک، دین کی محبت ہمارے دلوں میں زیادہ ہے مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ وطن کی محبت نہیں ہے.اگر ہمارا ملک خطرہ میں ہو تو ہم اس کے لئے قربانی کرنے میں کسی ہندو سے پیچھے نہیں رہیں گے لیکن اگر دونوں خطرہ میں ہوں یعنی ملک اور مقامات مقدسہ تو مؤخر الذکر کی حفاظت چونکہ دین ہے اور زندہ خدا کے شعار کی حفاظت کا سوال ہے اس لئے ہم اُسے مقدم کرینگے.بیشک..ہم عرب کے پتھروں کو ہندوستان کے پتھروں پر فضیلت نہ دیں لیکن ان پتھروں کو صرف فضیلت دیں گے جن کو خدا تعالے نے ہمارے لئے فضیلت کا مقام بنایا ہے.......ایک مادہ پرست ہندو کیا جانتا ہے کہ وطن اور خدا تعالے کے پیدا کردہ شعائر میں کیا فرق ہے.وہ عرفان اور نیکی نہ ہونے.کی وجہ سے اس فرق کو سمجھ نہیں سکتا......حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الإِيمَانِ بہار ایمان کا جزء ہے مگر وہ گلیاں جن میں ہمارے پیارے آقا محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم چلتے رہے ہیں.وہ پتھر نہیں خدا تعالے نے ہمارے لئے عبادت کا مقام بنایا ہمیں وطن سے زیادہ عزیہ ہیں یا پسر کوئی ہندو یا عیسائی حاسد جلتا ہے تو جل مرے ہیں اس کی کوئی پروا نہیں اسے حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی اس تحریک پر قادیان اور بیرونی احمد می جماعتوں میں مقاما مقدسہ کے لئے مکمل نہایت پر درد دُعاؤں کا سلسلہ جاری ہو گیا.اللہ تعالے نے اپنے فضل و کرم سے اپنے محبوب خلیفہ اور اپنی پیاری جماعت کی تصرفات کو بیائید قبولیت جگہ دی اور جلد ہی جنگ کا پانسہ پلٹ گیا.۱۲۳ ماده ۱۳۲۲ (۲۳ اکتوبر (۹۴) کو برطانی فوجوں نے العالمین پر جوابی بیخیار شروع کی.اُدھر له الفضل ر صفحه بم و ت الفضل جولائی ۶۹۳
بھرتی کے سلسلہ میں حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی گولیکی ضلع گجرات میں تشریف آوری (۲۶ تبلیغ ۱۳۲۲ هش / فروری ۱۹۴۳ء) دائیں سے بائیں ۱.پیر بشیر احمد صاحب ۲.پیر محمد عالم صاحب جاوید ۳.حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب ۴ چوہدری ا صاحب سب بیج.پیچھے چوہدری سردار خان صاحب
شمالی افریقید کے مغربی حصے دیعنی مراکش اور الجزائی میں امریکہ نے اپنی فوجیں اتار دیں جو مغر سے مشرق ۱۹۴۲ کہ بڑھنے لگیں.سو ماہ نبوت ها ۳۴۳ : در دو میرا کو برطانی فوجوں نے طریق پر اور ۲۰ ماه نبوت ۲۰ نومبر آتنک بن غازی پر دوبارہ قبضد کر لیا میلے حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اس رسالہ پر غیرت، اسلامی کا جو اظہار فرمایا سے من افلین احمدیت نے بھی بہت سراہا.چنانچہ احراری اخبار" زمزم" نے اپنی اور جولائی ا یکی انشافات میں لکھنا :- موجودہ حالات میں خلیفہ صاحب نے مصر اور حجاز مقدس کیلئے اسلامی غیرت کا جو ثبوت دیا ہے وہ یقینا قابل قدر ہے.اور انہوں نے اس غیرت کا اظہار کر کے مسلمانوں کے جذبات کی صحیح ترجمانی کی ہے : نیز یکھا :- زمرہ معترف ہے کہ مقدس مقامات کی طرح سے خلیفہ صاحب کا اندیشہ بالکل حق بجانب ہے ؟ ہے احمدی نوجوانوں کو فوج میں سید نا حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے جماعت احمدیہ کے سامنے بار بار اور مختلف پیراؤں میں یہ حقیقت باین فرمائی کہ: بھرتی ہونے کی تحریک جس دن کفر کو یہ معلوم ہو گیا کہ تم اسے دنیا سے مٹا دینے والے ہو وہ یقینا سختی سے تمہارا مقابلہ کریگا.اور تمہاری گردنوں میں تمہارے سینوں میں تمہارے جگر میں خنجر گاڑ دے گا.اور کفر اپنا سارا زور لگائیگا کہ اسلام کو قتل کر دے اور اسلامی عمارت کو منہا ہم کردے ، گو ابھی دو دن دور میں بیکن آہستہ آہستہ قریب آتے جاتے ہیں.اب بھی کئی ممالک ایسے ہیں جن میں احمدیت کا داخلہ بند ہے.اور ہمارے مبلغین کو جانے سے روکا جاتا ہے.غرض مالی لحاظ سے تو جماعت کئی سال سے قربانیاں کرتی آ رہی ہے گو اعلیٰ معیار تک بھی تک نہیں پہنچی مگر جانی قربانی کے لحاظ سے ابھی ابتداء نہیں ہوئی.البتہ وقف زندگی کے مطالبہ کے ذریعہ بنیاد کا ایک نشان لگا دیا گیا ہے.جیسے بنیا د کھودتے وقت کستی سے ٹیک لگایا جاتا ہے ر بنیاد کھودی جاتی ہے جب بنیاد کی کھدائی ہو جاتی ہے تو اسپر دیواری کھڑی کرتے ہیں.جب دیواریں بن جاتی ہیں تو امه تاریخ اقوام عالم صفحه ۷۳۸ ( مؤلفه مرتضی احمد خان) ناشر مجلس ترقی ادب - زیسنگھ داس کاروان کتاب روڈ لاہور (سن اشاعت (۱۹۵۸) له بوالد اخبار افضل ۲۲ ردفاها ۳ : ۱۳ ۱۳۱ جوان کی ۱۹۳۷) صفحہ ا کالم ۴ + **
۳۳۲ ان دیوار دن پچھتیں ڈالی جاتی ہیں اس کے بعد پلستر کیا جاتا ہے.دروازے اور کواڑ لگائے جاتے ہیں تب کہیں جاکر مکان تیار ہوتا ہے.جس طرح مکان آہستہ آہستہ کچھ عرصہ کے بعد جا کر تیار ہوتا ہے اسی طرح جان دینے کی عمارت کے تیار ہونے میں کچھ دیر باتی ہے.کوئی عمارت بھی ایک دن میں تیار نہیں ہوتی.ایسے ہی یہ نہیں ہو سکتا کہ لوگ جمع ہو کر آئیں اور وہ کہیں کہ اگر تم میں سے پانچہزار آدمی اپنی گردنوں پر چھری پھیر لیں تو ہم اسلام کو قبول کر لیں گے.بلکہ یہ قربانیاں آہستہ آہستہ دینی پڑیں گی.پہلے ایک دو، پھر آٹھ دس ، پھر پندرہ ہیں اسی طرح آہستہ آہستہ یہ تعداد بڑھتی چلی جاتی ہے.آخر وہ دن آجاتا ہے کہ اللہ تعالے اپنے بندوں کو غلبہ عطا کرتا ہے.اور کفر متھیار ڈال دیتا ہے اور یہ کام ایک لمبے عرصہ میں جاکر ہوتا ہے.اسے اس سلسال میں مبلغین احمدیت کو خاص طور پر انتباہ فرمایا کہ : تم یہ مت سمجھو کہ ہم چونکہ تبلیغی جماعت ہیں اس لئے کوئی دشمن ہماری گردنوں کو نہیں کاٹے گا.ایسا خیال کرنا اول درجہ کی نادانی اور حماقت ہے.میں نے بار بار تمہارے ذہنوں سے اس بات کو نکالا ہے مگر میں دیکھتا ہوں کہ جب بھی کوئی ایسا ذکر آئے ہماری جماعت کے بعض لوگ فوراً کہہ دیا کرتے ہیں کہ یہ کیسی ہو توفی کی بات ہے ہم تبلیغ کرنے والے میں لڑنے والے کہاں ہیں کہ ہماری گردنیں کاٹنے کے لئے قومیں آگے بڑھیں گی.مگر یہ خیال بالکل غلط اور باطل ہے.دنیا میں ہمیشہ مبلغوں کی گردنیں کاٹی جاتی ہیں مسیحیوں کی تین سو سال تک گردنیں کاٹی گئیں حالانکہ مسیحی جنگ سے جتنے متنفر تھے اتنے ہم نہیں.ہمیں تو اسلام وقت پر لڑائی کی اجازت دیتا ہے مگر مسیحیوں کو لڑائی کی کسی صورت میں اجازت نہیں تھی لیکن باوجود اس کے اُن کی گردنیں کاٹی گئیں.اور سینکڑوں سال تک کاٹی گئیں.اسی طرح جب ہم بھی صحیح معنوں میں تبلیغ کریں گے تو دنیا اس بات پر مجبور ہوگی کہ ہماری گردنوں کو کاٹے.ابھی تک تو ہم نے تبلیغ کو اس زنگ میں جاری ہی نہیں کیا کہ ہماری جماعت کے آدمیوں کی گردنیں کاٹی جائیں، تمہارا مبلغ امریکہ میں گیا اور اُسے وہاں کی حکومت نے نکال دیا مگر تم نے یا کیا تم اناللہ وانا الیہ راجعون پڑھ کر ٹھ گئے.مگر جب حقیقی تبلیغ کا وقت آئے گا اُس وقت یہ طریق اختیار نہیں کیا جائیگا.فرض کرد ن الفضل بوک ۱۳۵۲۴۵ ۶۱۹۴۵ صفحه ۳ +
۳۳ تمہارا مبلغ امریکہ میں جاتا ہے اور اُسے وہاں کی حکومت نکال دیتی ہے تو اُس وقت یہ نہیں ہوگا کہ تم خاموشی سے گھروں میں بیٹھے رہو بلکہ تمہارا دوسرا مبلغ اس جگہ جائیگا اور اُس کو نکال دیا جائیگا تو تیرا مبلغ جائیگا اُس کو نکال دیا جائیگا تو چوتھا مبلغ جائیگا.اسی طرح ایک کے بعد دوسرے اور دوسرے کے بعد تیسرے اور تیسرے کے بعد چو تھے شخص کو وہاں جانا پڑے گا.اور جب اس طرح بھی کوئی اثر نہیں ہو گا تو ہزار دو شخصوں کیا جائیگا کہ وہ اپنےاپنے گھر سے نکل کھڑے ہو اور خواہ نہیں بھوکا رہنا ے خواہ پیاس کی تکلیف برداشت کرنی پڑے وہ جائیں اور اس ملک میں داخل ہو کر تبلیغ کریں جب ملک میں داخل ہونے سے حکومت نے روک رکھا ہے.ایسی صورت میں کیا تم سمجھتے ہو امریکہ جانے تمہیں قتل نہیں کرینگے؟ وہ ہر اس شخص کو جو اُن کے ہاتھ آئیگا قتل کر ینگے اور کوشش کریں گے کہ اُن کے ملک میں ہمارا کوئی مبلغ داخل نہ ہو.لیکن اس کے باوجود جو مبلغ داخل ہونے میں کامیابیا ہو جائیگا وہ ایسی شان کا مبلغ ہو گا کہ امریکہ کے لوگ خود بخود اُس کی باتیں سننے پر مجبور ہونگے.مگر اب تو یہ ہوتا ہے کہ سیکنڈ یا تھرڈ کلاس میں ایک شخص سفر کرتا ہوا جاتا ہے.اُسے ہرقسم کی سہولتیں میسر ہوتی ہیں اور وہ کسی غیر ملک میں جاکر تبلیغ کرنے لگ جاتا ہے.ایسا شخص مبالغ نہیں سیاح ہے مبلغ قد میں رہی ہیں کہ جب حکومتیں انہیں اپنے ملک میں داخل ہونے سے روکتی ہیں تو وہ خاموش نہیں بیٹھے جائیں بلکہ اپنی تجارت اپنی زراعت اپنی ملازمت اور اپنے گھر بار کو چھوڑ کر نکل کھڑی ہوتی ہیں اور اُن میں سے ہر شخص یہ تہیہ کئے ہوئے ہوتا ہے کہ اب میں اس ملک میں داخل ہو کر رہونگا.اور تبلیغ کرونگا.ایسی صورت میں دوری باتیں ہو سکتی ہیں یا توحکومت ریتہ دے اور مبلغوں کو اپنے ملک میں داخل ہونے دے یا انہیں داخل نہ ہونے دے اور ان سب کو اپنے حکم سے مروا ڈالے.اور یہ دونوں باتیں ایسی ہیں جو قربانیوں کا مطالعہ کرتی ہیں.اگر حکومت رستہ دیگی تو تم تبلیغ میں کامیاب ہو جاؤ گے اور اگر حکومت تمہیں مارے گی تو تم خون کی ندی میں بہہ کر اپنی منزل مقصود کو پہنچو گے.پس یہ خیال مت کرد که مبلغوں کے لئے قربانیاں نہیں ہوتیں وہ تبلیغ جو لوگوں کو ہلا دیتی ہے ابھی تک ہم نے شروع ہی نہیں کی.لیکن اب اس جنگ کے بعد غائباً زیادہ انتظار نہیں کیا جائیگا اور تمہیں ان قربانیوں کے لئے اپنے گھروں سے باہر نکلنا پڑے گا یا نے الفضل ۵ر تبوک ۱۳۳۲ رهش (۵ر ستمبر ۶۸۱۹۴۲) صفحه ۹۵
کوم مسلم معلم اسلام اور کفر کا یہ فیصلہ کن معرکہ جس کے بعد دنیا بھر میں حضرت علی اللہ علیہ وسلم کی بادشاہت قایم ہوگی اور ہر جگہ قانون اسلامی نافذ ہوگا ، کب اور قربانیوں کے کن مراحل کے بعد پیش آئیگا، انکی تفصیلات پر تو سو نہیں سترھویں صدی ہجری کا مورخ ہی روشنی ڈال سکیگا.البتہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے قرآن مجید کی سورۃ التطقیف سے یہ لطیف استنباط فرمایا کہ : عیسائیت کی تباہی کے لئے دنیا میں تین جھٹکے لگیں گے اور چوتھا تبھی کا اسلام کے قیام کا موجب ہوگا.بظاہر جہاں تک عقل کام دیتی ہے یہی معلوم ہوتا ہے کہ پہلی جنگ عظیم جوش میں ختم ہوئی پہلا جھٹکا تھا جو عیسائیت کو لگا.اب دوسری جنگ جو شروع ہے.یہ دوسرا جھٹکا ہے.اس کے بعد ایک تیسری جنگِ عظیم ہوگی جو مغرب کی تباہی کے لئے تیسرا اور آخری جھٹکا ہو گا.اس کے بعد ایک چو تھا جھٹکا لگی گا جس کے بعد اسلام اپنے عروج کو پہنچ جائیگا اورمغربی اقوام بالکل ذلیل ہو جائیں گی یا لے OF FAITH) ۱۹۳۵ چنانچہ دوسری جنگ عظیم دیکم ستمبر ۱۹۳۵ء تا مئی شش روم مغربی تہذیب و تمدن اور عیسائیت کی تباہی کے لئے سچ سچ دو سرا ز بر دست جھٹکا ثابت ہوئی اور سلطنت برطانیہ کو تین کا بادشاہ عیسائیت کا پاسبان DEFENDER) کہلاتا ہے اور جس کے مقبوضات کے متعلق مشہور تھا کہ اُن پر کبھی آفتاب غروب نہیں ہوتا ہندستان جیسے بر صغیر سے بھی ہاتھہ ھو لینا پڑا اور ساتھ ہی سراسر مخالف حالات کے باوجود پاکستان کی عظیم ترین مسلمان حکومت معرض وجود میں آگئی.جیسا کہ آئندہ تفصیل سے ذکرہ آرہا ہے.خدائی تقدیر میں چونکہ دوسری جنگ عظیم عیسائیت کی آخری تباہی اور اسلام اور مسلمانوں کے آخری غلبہ کو قریب سے قریب تر کرنے کے لئے لڑی جا رہی تھی اس لئے خدا تعالیٰ نے جنگ کے آغاز ہی سے اپنے خلیفہ برحق حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی توجہ خود بخود اس طرف منتقل فرما دی کہ نوجی ٹرینگ کا ایک نہایت اہم موقعہ پیدا ہوا ہے جس سے مسلمانان ہند کو عموماً اور جماعت احمدیہ کے نوجوانوں کو خصوصاً پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہیئے تا وہ اسلام کے جہاد میں حصہ لے سیکس حصول آزادی کے بعد ملکی دفاع میں اپنے شایان شان اور موثر کردار ادا کر کے قوم و ملت کے بچنے خادم بھی ثابت ہوں اور سب سے بڑھ کریہ کہ اُن میں ایسی بے مثال بہادری پیدا ہو جائے کہ جب حق و باطل کی آخری جنگ شروع ہو تو وہ صحابہ رسول تفسیر کبیر (سورة التخفيف ) صفحه ۳۰۷ کالم المطبوعه طور هم ه اگست ۹۴۵
۳۳۵ از عنوان الله علہیم اجمعین ) کی طرح کفر کا ہر تیر پوری جانثاری اور جانبازی کے ساتھ اپنے کھلے سینوں پر تھام نہیں، اور ناموس محمد صلی الہ علیہ سلم و عظمت اسلام کی خاطر اپنی جانیں نچھاور کر دیں اور اپنے خون سے اسلام کے مرجھائے ہوئے باغ کی آبیاری کرنا اپنی سب سے بڑی سعادت اور سب سے بڑا اعزاز سمجھیں.اس نوع کی اغراض کے پیش نظر حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے دوسری جنگ عظیم کے دوران جماعت کے وجوان کو بار بار در نهایت مو رنگ میں توجہ دلائی کہ وہ فوج میں بکثرت بھرتی ہوں اور اس جنگ کو ظا پہنچ کی تقدیر کا ایک مظاہرہ سمجھتے ہوئے اسے نعمت غیر متر رتبہ مجھیں کہ اللہ ہی نے نے اسے جاری کر کے ہمارے لئے یہ موقعہ بھی پیدا کر دیا ہے کہ اگر چاہیں تو فنون جنگ سیکھ سکتے ہیں اور جرات و بہادری پیدا کرنے کے سامان کر سکتے ہیں.بیٹے حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اس سلسالہ میں جو خطبات ارشاد فرمائے وہ اخبار الفضل (قادیان) میں شائع شدہ ہیں.اس جگہ بطور نمونہ حضرت امیر المومنین کے ایک خطبہ جمعہ د فرموده ۳ وفاه ، کا ایک اقتباس درج ذیل کیا جاتا ہے.حضور نے احمدی نوجوانوں کو فوج میں بھرتی ہونے کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا :- کوئی جماعت زندہ نہیں رہ سکتی جب تک اس کے افراد فوجی فنون کے ماہر نہ ہوں.قوموں کے مرنے کی علامت یہی ہوا کرتی ہے کہ موت کا خوف اُن کے لوں میں بڑھ جاتا ہے اور تولوں کی زندگی کی علامت یہ ہوتی ہے کہ موت کا خوف اُن کے دلوں سے جاتا رہے.جو قومیں موت کا خون اپنے دلوں میں بڑھا لیتی ہیں وہ کبھی فاتح نہیں ہو سکتیں اور جن قوموں کے دلوں میں سے موت کا خوف میٹ جاتا ہے انہیں کوئی مفتوح نہیں کر سکتا....بھابہ کو دیکھ لو.انہیں مارنے کیلئے شہری نے کتنی کوششیں کیں ، تقریباً تیس چائیں جنگیں ہوئیں مگر سوائے ایک درجنگوں کے جن میں چند مسلمان تید ہو گئے کبھی سلمان تیار نہ ہوئے ورنہ کا فر تو بیسیوں کی تعداد میں تیار ہوتے تھے مگر مسلمان ایک بھی قید نہیں ہوتا تھا.اور ان کے قید نہ ہونے کے معنے یہی تھے کہ وہ اتنا لڑتے تھے کہ یا تو مارے جاتے تھے یا فتح حاصل کر لیتے تھے.گویا موت سے نڈر رہنے کی وجہ سے وہ قیدی نہیں بنتے تھے.اور یہی چیز اُن کے غلبہ کا موجب بن گئی.مگر کا فر ہمیشہ تیاری بننے کو ترجیح دیتے اور ام الفضل ، ارد قاهر ۳ ( روی ۱۹۳۲ صفحه ۵ ( خطبه جمعه فرموده از جوانی و ) ، ارد فاهمه جویایی ۶
PPY جب بھی دیکھتے کہ اُن کا پہلو لڑائی میں کمزور ہو رہا ہے تو وہ بہت چھوڑ دیتے اور قیدی بن جاتے.راند راستہ یہی چیز ان کی تباہی کا موجب ہوگئی.کیونکہ کچھ تو تیار ہونے کی حالت میں ہی مسلمان ہو جاتے اور کچھ مسلمانوں سے ایسے مرعوب ہو جاتے کہ اُن کا مقابلہ کرنے کی روح کھو بیٹھتے.پس کا فرقیدی یا تو مسلمان ہو جاتے تھے یا آجکل کی اصطلاح کے مطابق وہ مسلمانوں کا تفتیر کالم مبین جایا کرتے تھے.اور اپنی قوم کو ڈرایا کرتے تھے کہ دیکھو سلمانوں کا مقابلہ نہ کرنا وہ بڑے سخت لوگ ہیں.بالآخر اس کا دہی نتیجہ نکلا جو نکلنا چاہیئے تھا کہ مسلمان کامیاب ہو گئے اور آثار نا کام ہو گئے.ہماری جماعت کو بھی یادرکھنا چاہیئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئیوں کے مطابق ایک زمانہ آنے والا ہے جب ہماری جماعت جو اسوقت سب سے زیادہ کمزور اور دنیا کے ظلم کا نشانہ بنی ہوئی ہے دنیا کی فاتح اور حکمران ہوگی.اور دنیا کی سب قومیں، دنیا کی سب حکومتیں اور دنیا کی سب سلطنتیں اس کی تابع اور فرمانبردار ہونگی.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام نے فرمایا ہے کہ ایک دن ایسا آنے والا ہے جب ہماری جماعت ساری دنیا میں پھیل جائیگی.اور دوسری قومیں اُس کے مقابلہ میں ایسی ہی رہ جائیں گی جیسے چوڑے اور چہار ہوتے ہیں.پیس جب تک ہماری جماعت کے افراد کے اندر جرات اور بہادری پیدا نہ ہو اور جب تک وہ فنون جنگ سے آشنا نہ ہوں وہ ایسے زمانہ میں کس طرح کام آسکتے ہیں.حکومت ہمارے پاس نہیں کہ اسکے زار سے ہم انی جہاد کے مردہ کو ابھی سے یہ ٹرینگ دے سکیں مصرف یہی طریق ہے کہ مندہ تعالی نے نوجی ٹریننگ حاصل کرنے کا جو ذریعہ ہماری جماعت کے لئے نکالا ہے اُس سے ہماری جماعت کے دوست زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں.فوج میں داخل ہونے سے صرف ایک چیز کا خون ہو سکتا ہے ارمدہ موت ہے.گر جیسا کہ میں نے بنایا ہے موت ایک ایسی چیز ہے جو گھر پر بھی آجاتی ہے ایسے ایسے طریق پر آتی ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے.ایک شخص رات کو اچھا بھلا ہوتا ہے مگر اچانک پچھلی رات اُسے مہیضہ ہوتا ہے اور وہ صبح ہونے سے پہلے پہلے فوت ہو جاتا ہے.یا چھت گرتا ہے اور وہ اُس کے نیچے دب کر ہلاک ہو جاتا ہے.یا پاؤں پھسل جاتا ہے اور اسکی ہڈی پسلی ٹوٹ جاتی ہے.اور ایسے عیسیوں واقعات روزانہ ہوتے رہتے ہیں.پس موسی سے ڈڑنا جہالت کی بات ہے.میں تو سمجھتا ہوں ہاری بات چونکہ فوجی فنون سے نا آشنا اسلئے آئے ہے زیادہ
۴۳۷ وجی کا موں میں حصہ لینا چاہیئے تاکہ زیادہ سے زیادہ اُس کے اندر جرات اور دلیری پیدا ہو ہمارے ملک میں سکھ بہت تھوڑے ہیں مگر عام طور پر لوگ اُن سے ڈرتے ہیں اور اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ زیادہ تر فوج میں ملازم ہیں.اور فوجی کاموں کی وجہ سے وہ نڈر ہو جاتے ہیں.تو فوجی خدمت قوم کو بہادر بناتی اور اس کے افراد کے اندر جرات اور بہادری پیدا کرتی ہے.اسی طرح انتظام کی پابندی کی عادت بھی فوج میں داخل ہونے سے پیدا ہوتی ہے.......پھر جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ جنگ اس قسم کی ہے کہ اسلام اور احمدیت پر اس کا بڑا بھاری اثر پڑنے والا ہے اس لئے اسلام اور حمایت پر اس جنگ کا جو بھی اللہ ہو اس کو مٹانے کا ذریعہ یہ ہے کہ ہماری جماعت کے لوگ زیادہ سے زیادہ فوج میں داخل ہوئی تاکہ ان بد اثرات کو مٹا سکیں اور اگران بد اثرات کو نہ مٹا سکیں تو کم سے کم وقت پر اپنی جماعت کی حفاظت تو کر سکیں.اگر آج وہ فوجی فنون نہیں سیکھیں گے تو کل وہ ان برکات کو بھی حاصل نہیں کر سکیں گے جو فاتح قوموں کے لئے مقدر ہوتی ہیں.موت اور حیات اللہ تعالٰی کے قبضہ میں ہے جو قومیں موت سے ڈرتی ہیں اور اپنے بچوں کی جانوں کی حفاظت کرتی ہیں، اللہ تعالٰی اُن کے بچے دوسرے ذرائع سے اُن کے سامنے مار ڈالتا ہے.پس میں جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں خصوصا ان اضلاع کی جماعتوں کو جن کا ناظر صاحب امور عامہ دورہ کر رہے ہیں کہ وہ ہمت اور کوشش کرکے نوجوانوں کو بھرتی کرائیں اور انہیں اس دن کے لئے تیار کریں میں دن احمدیت اُن سے قربانی کا مطالبہ کرے گی.اگر آج وہ تیار نہیں ہونگے تو وہ وقت پر کچے دھا گے ثابت ہونگے.اور اسلام اور احمدیت کے لئے قربانی نہیں کر سکیں گے.بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ اگر فوج میں بھرتی ہوئے تو جرمنوں کے ہاتھوں مارے جائیں گے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر وہ فوج میں بھرتی نہ ہوئے تو گیا جز من اُسی جگہ نہیں آجائیں گے.اس صورت ہیں تو وہ اسی جگہ جرمنوں کے ہاتھوں مارے جائیں گے اور یہ ایک ذلت کی موت ہوگئی جس سے انہیں بچنے کی کوشش کرنی چاہیئے.پھر میں کہتا ہوں مومن تو وہ ہوتا ہے جو سوائے خدام کے کسی سے ڈرتا ہی نہیں.آج وہ جرمن سے ڈر گئے ہیں کل جاپان سے ڈر جائیں گے.پرسوں کسی اور قوم سے خوف کھاتے پھریں گے.پھر وہ فتح کس پر حاصل کر یگئے حالانکہ مومن تو وہ ہوتا ہے جو
۳۳۸ کسی کی پروا ہی نہیں کرتا اور وہ سمجھتا ہے کہ میرے مقابلہ میں کوئی دشمن نہیں ٹھہر سکتا میں مومن کے نال میں یہ یقین پیدا ہو جاتا ہے وہ مقابلہ کے وقت سب پر بھاری ہوتا ہے.......پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اُن میں سے جو لوگ بھرتی کے قابل ہیں وہ اپنے آپ کو بھرتی کے لئے پیش کریں.ہر شخص بھرتی کے قابل نہیں ہوتا.گورنمنٹ نے اس کے لئے صحت کا ایک معیار مقرر کیا ہوا ہے جو دوست اس معیار پر پورے اترتے ہوں انہیں زیادہ سے زیادہ تعداد میں بھرتی ہونا چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ نوجوان فنون جنگ سے آشنا ہو سکیں کیسی کو کی معلوم کہ کب خدا تعالی کی طرف سے یہ آواز آنیوالی ہے کہ اپنا سب کچھ قربان کر کے خدا تعالٰے کے دین کے لئے نکل کھڑے ہوں.اور یہ کام آسان نہیں بلکہ لڑائی سے بہت زیادہ مشکل ہے بڑائی میں تو یں اور تلواریں ساتھ جاتی ہیں مگر اس لڑائی میں نہ توپ ساتھ ہوتی ہے نہ تلوار ساتھ ہوتی کا پس کون مہر سکتا ہے کہ ہمار بیان کی آزمائش کا موقعہ کب آنیوالا ہے.یہ آزمائشیں جو اس وقت ہو رہی ہیں یہ تو بالکل ابتدائی ہیں.اور ایسی ہی ہیں جیسے معمار اپنی ہتھوڑی سے اینٹ کے کنارے صاف کرتا ہے.اینٹ کے کنارے صاف کرنا اس کا اصل کام نہیں ہوتا بلکہ اصل کام وہ ہوتا ہے جوب.اینٹ دیوار میں لگ جاتی ہے.اسی طرح ابھی تو ہمارے کنارے صاف کئے جا رہے ہیں پھر وہ وقت آئیگا جو ب ان اینٹوں کو دیوار میں لگا دیا جائے گا اور سارا ہو مجھے ان اینٹوں پر آپڑے گا.ایسی طرح جماعت کے جو کارکن ہیں ان کو بھی میں توجہ دلاتا ہوں کہ اُن میں ایسے دوست اپنے نام مجھے یا دفتر امور عامہ میں لکھ کر بھیجوا دیں جو اپنے اپنے علاقوں میں اس غرض کے نئے دور کرنے اور نوجوانوں کو بھرتی پر آمادہ کرنے کے لئے تیار ہوں.ہمارے خاندان میں سے ایک نتیجہ فوج میں گیا ہوا ہے.باقی بچے اس قابل نہیں.کسی کی آنکھیں کمزور ہیں اور کسی کی عمر نہیں.ہمارے ایک اور بچے نے تین دفعہ بھرتی ہونے کی کوشش کی مگرنا کام رہا.اس نے اس غرض کے لئے اپنی پڑھائی بھی چھوڑ دی تھی مگر کامیابی نہ ہوئی.تو ہمارے خاندان نے اپنا نمونہ پیش کر دیا ہے یہ نہیں کہ ہم نے اپنے پیچھے چھے پاکر رکھے ہوئے ہوں.ایک بچہ فوج میں گیا ہوا ہے اور دوسرے نے پوری کوشش کی مگر اسے کامیابی حاصل نہیں ہوئی.غرض اللہ تعالٰے کے فضلوں پر یقین رکھتے ہوئے آئنارہ مسلمان کی خدمات کے لئے تیار کرنے اور اس وقت جنگی
۳۳۹ خدمات میں حصہ لینے کے لئے اس بات کی ضرورت ہے کہ ہماری جماعت کے نوجوان زیادہ ہے زیادہ تعداد میں اپنے آپ کو بھرتی کے لئے پیش کریں.اسی طرح مجھے یا ناظر صاحب امور عامہ کی وہ دوست اپنے اپنے نام بھجوا دیں جو اپنے اپنے علاقوں میں اس غرض کے لئے دورہ کرنے کو تیار ہوں.ایسے دوستوں کو چاہیے کہ وہ گاؤں گاؤں میں پھر کر نوجوانوں کو تلقین کریں.اور اُن میں سے جو قابل ہوں انہیں فوج میں بھرتی کرائیں.میں نے جیسا کہ کہا ہے ایک دفعہ پھر اس امر کو واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ موت کا ڈر کسی زندہ قوم کے افراد کے دل میں نہیں ہو سکتا.اگر خدانخواستہ تمہارے دلوں میں موت کا ڈر ہے یا جاپانیوں کا ڈر ہے یا جرمنوں کا ڈر ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ تمہارے دل کا اتنا حصہ ایمان سے خالی ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں صاف طور پر فرماتا ہے إِيَّايَ فَارْهَبُونِ کہ مجھ سے ہی ڈرو.ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے تین دفعہ اس بات پر زور دیا ہے کہ صرف خدا سے ہی ڈرنا چاہیئے کسی اور سے نہیں ڈرنا چاہئیے.چنانچہ آیاکی سے پہلے فعل محذوف ہے جو اِذْهَبُوا ہے یعنی اِذْهَبُوا إِيَّايَ اس کے بعد ایک اور امر محاوت ہے جس پر نا کا حربنا دلالت کرتا ہے اور وہ فعل بھی ارْهَبُوا ہے.تیسری بار فاز همون کہہ کر پھر نا کیار کی گئی ہے گویا اس فقرہ کو اگر پھیلایا جائے تو یوں نے گا کہ إِرْهَبُوا إِيَّاى إِرَهَبُوا فَارْحَبُونِ - یعنی مجھ سے ڈرو - ڈرو مجھ سے.ہی ڈرو.یعنی سوائے خدا کے کسی سے نہیں ڈرنا چاہیئے.یہی مومن کی علامت ہے.جو شخص خدا تعالے کے میرا کسی اور سے نہیں ڈرتا اُس کو کوئی طاقت مغلوب نہیں کر سکتی.اسی طرح جب کسی قوم کے دل سے ڈر نکل جائے تو وہ قوم یا تو مرجائے گی یا ناتج ہو کر زندگی بسر کریگی غلام کی زندگی نہیں بسر کرے گی.پس اپنے زاوں سے موت کا ڈر نکال دو اور سوائے خدا کے کسی سے نہ ڈرو.پھر دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی طافت بھی نہ کو مغلوب نہیں کرسکی مادہ حضرت امیر المومنین رضی اللہ عنہ نے مزید فرمایا : " تم مرت سمجھو کہ احمدیت کی فتح اسی طرح ہوگئی کہ ایک احمدی یہاں سے ہوا اور ایک وہاں سے.یہ تو ویسی ہی جنگ ہے جیسی بڑی جنگ سے پہلے ہراول دستوں ں چھوٹی چھوٹی له الفضل و روناهه د و ر جولائی ۶۱۹۲۳ صفحه ۳ تا ۹ + الم
جھڑ ہیں ہو جایا کرتی ہیں.ان معمولی ہر اول دستوں کی جنگوں کو بڑی جنگ سمجھنا غلطی ہے ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب احمدیت کو دوسرے تمام مذاہب کے مقابلہ میں ڈٹ کر مقابلہ کرنا پڑے گا.تب دنیا کے مستقبل کا فیصلہ ہوگا اور تب دنیا کو معلوم ہوگا کہ کونسا مذہب اس کی نجات کے لئے ضروری ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ یہ تلوار کی جنگ ہوگی مگر تمیں یہ ضرور کہونگا کہ یہ مضبوط دلوں کی جنگ ہوگی اور دلوں کی مضبوطی اس وقت تک پیدا نہیں ہو سکتی جب تک انسان خطرات میں اپنے آپ کو ڈالنے کے لئے تیار نہ ہو جائیں.پس ہر جگہ جہاں کوئی شخص ڈوب رہا ہو وہاں ایک احمدی کو سب سے پہلے کہ دنا چاہئیے.اس لئے بھی کہ دہ مسلمان یا سکھ یا عیسائی یا انہار و اس کا ایک بھائی ہے جس کو بچانا اس کا فرض ہے اور اسلئے بھی کہ اُس کے اندر جرات اور بہادری پیدا ہو.ہر جگہ جہاں آگ لگ گئی ہو وہاں ایک احمدی کورس آگ کے مُجھانے کے لئے سب سے پہلے پہنچنا چاہیئے.اس لئے بھی کہ جس کے گھر کو آگ لگی ہے وہ خواہ مسلمان ہے یا ہندو ہے یا سکھ ہے یا عیسائی ہے بہر حال اس کا ایک بھائی ہے اور اس لئے بھی کہ اُس کے نفس کو آگ میں کودنے کی مشق ہو اور جرات اور دلیری اُس کے اندر پیدا ہو.اسی طرح ہر جینگ جو وطن کی حفاظت کے لئے لڑی جائے اس میں ایک احمدی کو سب سے پہلے شامل ہونا چاہیئے اس لئے بھی کہ وطن کا حق ہے کہ اسکی حفاظت کے لئے جان دی جائے.اور اس لئے بھی کہ اس کے اندر جرات اور بہادری پیدا ہو اور جب شیطان کی جنگ خدا تعالٰی کی فوج کے ساتھ ہو تو اُس وقت وہ اس جنگ میں خدا تعالٰی کے لئے اپنی جان کو قربان کرنے والا ہو.جو شخص آج اپنے آپ کو اس رنگ میں تیار نہیں کرتا.جو شخص آج اپنے نفس کی اس طرح تربیت نہیں کرتا.جو شخص آج اپنے اندر یہ جرات اور دلیری پیارا کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا کل اُس پر کوئی امید نہیں کی جاسکتی.وہ کچے دھاگے کی طرح ٹوٹ جائے گا.اور اس کی زبان کے دعوے اُسے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکیں گے ہاسے جنگ میں بھرتی ہونے کی تحریک کو کامیاب بنانے کے لئے حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے اور سیکسانہ کے بعض اور کارکنوں نے ملک کے وسیع دورے کئے جس کے نتیجہ میں قریباً سولہ ہزار احمدی جنگ میں بھرتی ہوئے.الفضل ناه ۱۳۵۲ ( ۲۲ بنائی اور و صفحه ه و ه ج له الفضل ا / ا ١٩٢٥د اکتوبر ۱۹۹۳ حضرت امیرالمومنین خلیفة المسیح الثانی فرموده درا خار ۳۳۳۵ (۵ را کتوبر ۱۹۳۵) مغیرہ کالم اور خطیبه تی عیر
چین کا رسالانہ چندہ ایک لاکھ کے قریب پہنچ گیا.احمدی سپاہیوں نے اندرون ملک اور ملک سے باہر شرق وسطی مشرق بعید میں فرض شناسی اور شجاعت بہادری کے خوب جو ہر دکھلائے.اس دوران میں نہیں ہانگ کا تنگ وغیرہ علاقوں میں ہندوستانی فوجیوں کی مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا اور جاپان کی قید و بند کی صعوبتیں بھی جھیلنا پڑیں مگر انہوں نے کمال صبروتحمل کا نمونہ دکھلایا.اور نظر بندی کے زمانہیں نمازوں اور دعاؤں کا خاص التزام رکھتے جو احمد بیت کی تعلیم کا اعجاز تھا.از بیرونی مبلغین کے لئے حضرت خیرہ المسیح الثانی کو سیسہ کے مبلغین سے در حد محبت تھی خصوصی دعا کی تحریک اور حضور اپنے بیٹوں سے بڑھ کر ان پرشفقت فرماتے تھے.اور خصوصاً اور یا ہر جانے والے مبلغوں کی نسبت تو فرمایا کرتے تھے کہ میرے دل میں اُن کے لئے جذبات ممنونیت اس درجہ پیدا ہوتے ہیں کہ اگرچہ وہ محض سلسلہ کی خاطر اپنے وطنوں کو خیر باد کہتے ہیں گریں سمجھتا ہوں کہ یہ گویا میرے ذاتی کام کے لئے جا رہے ہیں.سمبر ۶۱۹۴۲ جنگ کے قیام میں حضور اپنے ان خدام کے لئے جو کتاب عالم میں مصروف تبلیغ تھے اور نہ ا ئب و آلام میں گھر گئے تھے بہت مشوش تھے اور اُن کی خیریت و سلامتی اور اُن کے مقاصد کی تکمیل کے لئے خود بھی دعائیں فرماتے اور سالانہ جل کے موقعہ پر احباب جماعت کو بھی ارشاد فرماتے کہ وہ اپنی دعاؤں میں ان مجاہدین کو خاص طور پر یاد رکھیں.اس سال کے دوران میں جب رمضان کے مبارک ایام آئے جو دعاؤں کی قبولیت کے لئے خصوصیت رکھتے ہیں تو حضور نے ۵ ارماہ ہو م کو اپنے خطبہ جمعہ میں متقین کے لئے خصوصی ۵ار دعا کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا :- آج کل سینکڑوں نہیں ہزاروں احمدی لڑائی میں گئے ہوئے ہیں.شاید ہی کوئی ایسی جگہ ہو جہاں بڑی تعداد میں احمدی رہتے ہوں اور وہاں سے کوئی احمدی لڑائی میں نہ گیا ہو.پھر بہت سے احمد ہیں جو لڑائی کی وجہ سے آجکل قید ہیں.اسی طرح ہمارے کئی مبلغ قید ہیں یا قیر نما حالت میں ہیں.اُن میں سے دس بارہ تو مشرقی ایشیا میں ہی ہیں.مستند مولوی رحمت علی صاحب ، مولوی شاہ محمد صاحب ، ملک عزیز احمد صاحب ، مولوی محمد صادق صاحب ، موادی اے رپورٹ سالانہ صدر انجین احمدیہ قادیان ه صفر ۱۵۹ + ۲ تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو محمد نصیب جناب عارفت د پسر ابو حمد شریف صاحب مرحوم محلہ دار ا رحمت قادیان) کے مضامین مطبوعہ الفضل ۲۹ ا ا و ♥M $15 والفضل صحیح ۱۳:۲۵ دهار
۳۴۲ غلام حسین صاحب ، ان کے علاوہ کچھ لو کل مبلغ ہیں جو پانچ سات ہیں جن میں سے بعض کو یہاں سے مقرر کیا گیا تھا اور بعض کو وہاں کی جماعتوں نے اپنا مبلغ بنالیا تھا.ان تمام مبلغین کے متعلق نہ ہمیں کوئی خبر ہے نہ اطلاع ، اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم ان سب کو اپنی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں کیونکہ وہ ہماری طرف سے ان ممالک میں تبلیغ اسلام کے لئے گئے تھے.اللہ تعالٰی نے بعض باتوں کو فرض کفایہ قرار دیا ہے اور تبلیغ بھی انہی میں سے ایک ہے.یعنی اگر قوم میں کوئی شخص بھی تبلیغ نہ کرے تو ساری قوم گناہگار اور اللہ تعالے کے عذاب کی مورد ہوگی.لیکن اگر کچھ لوگ تبلیغ کے لئے کھڑے ہو جائیں تو باقی قوم گنہگار نہیں ہوگی.پس اگر یہ لوگ تبلیغ کے لئے غیر ممالک میں نہ جاتے تو احمدیہ جماعت اللہ تعالٰی کی نگاہ میں گناہگار ٹھہرتی.اور وہ اس کے عذاب کی مور بن جاتی کیونکہ وہ کہتا کہ اس قوم نے تبلیغ کو بالکل ترک کر دیا ہے جیسے مسلمانوں کی حالت ہے کہ جب انہوں نے فریضہ تبلیغ کی ادائیگی میں کوتاہی سے کام لیا اور اُن میں ایسے لوگ نہ رہے جو اپنے وطنوں کو چھوڑ کر اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر اور اپنے آرام دانش کے سامانوں کو چھوڑ کر غیرممالک میں جائیں اور لوگوں کو داخل اسلام کریں تو وہ مورد عذاب بن گئے.پس جن لوگوں کی وجہ سے اللہ تعالٰی نے ہماری جماعت کو اپنی خاص رحمتوں کا مورد بنایا ہوا ہے، یقیناً اُن کا حق ہے کہ ہم انہیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں.اُن کے لئے دعا کرنا اپنی ذاتی دعائیں پر مقدم سمجھیں اور متواتر الحاج اور عاجزی سے اُن کی صحت اور سلامتی کے لئے دعائیں کریں.اسی طرح اور بہت سے مبلغ ہیں جن کی قربانیوں کا مجھے اندازہ ہماری جماعت کے دوست نہیں لگا سکتے.بالخصوص دو مبلغ تو ایسے ہیں جو شادی کے بہت تھوڑا عرصہ بعد ہی تبلیغ کے لئے چلے گئے اور اب تک باہر ہیں.اُن میں سے ایک دوست تو نو سال سے تبلیغ کے لئے گئے ہوئے ہیں حکیم فضل الرحمن اُن کا نام ہے.انہوں نے شادی کی اور شادی کے تھوڑے عرصہ کے بعد ہی انہیں تبلیغ کے لئے بھیجوا دیا گیا.وہ ایک نوجوان اور چھوٹی عمر کی ہیوی چھوڑ کر گئے تھے مگر اب وہ آئیں گے تو انہیں ادھیڑ عمر کی بیوسی لے گی.یہ قربانی کوئی معمولی قربانی نہیں میرے نزدیک تو کوئی نہایت ہی بے شرم اور بے حیا ہی ہو سکتا ہے جو اس قسم کی قربانیوں کی قیمت کو نہ سمجھے اور انہیں نظر انداز کر دے.اسی طرح مولوی جلال الدین صاحب سمستی ہیں
سلام سلام سلام انہوں نے بڑی عمر میں شادی کی اور دو تین سال بعد ہی انہیں تبلیغ کے لئے بھیج دیا گیا.اُن کے ایک بچے نے اپنے باپ کو نہیں دیکھا اور باپ نہیں جانتا کہ میرا بچہ کیسا ہے.سوائے اس کے کہ تصویروں سے، انہوں نے ایک دوسرے کو دیکھ لیا ہو.وہ بھی کئی سال سے باہر ہیں اور اب تو لڑائی کی وجہ سے اُن کا آنا اور بھی مشکل ہے.قائم مقام ہم بھی نہیں سکتے اور خود وہ آنہیں سکتے کیونکہ راستے محل کش ہیں.اس لئے ہم نہیں کر سکتے کہ وہ کب واپس آئیں گے لڑائی ختم ہو اور حالات اختلال پر آئیں تو اس کے بعد اُن کا آنا ممکن ہے اور نہ معلوم اس میں ابھی اور کتنے سال لگ جائیں.ان لوگوں کی ان قربانیوں کا کم سے کم بدلہ یہ ہے کہ ہماری جماعت کا ہر فرد دعائیں کرے کہ اللہ تعالے ان کو اپنی حفاظت اور پناہ میں رکھے اور اُن کے اعزہ اور اقرار پر بھی رحم فرمائے.میں تو سمجھتا ہوں جو احمدی ان مبلغین کو اپنی دعاؤں میں یاد نہیں رکھتا اس کے ایمان میں ضرور کوئی نقص ہے.اور مجھے شبہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کے ایمان میں خلل واقع ہو چکا ہے اسی طرح اور بھی کئی مبالغ ہیں جن کی قربانی گواس حد تک نہیں مگر پھر بھی وہ سالہا سال سے اپنے اعزہ اور رشتہ داروں سے دُور ہیں اور قسم قسم کی تکالیف برداشت کر رہے ہیں.ان مستعین میں سے مغربی افریقہ کے دو مبلغ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں.ایک مولوی نذیر احمد صاحب ز این بابو فقیر علی صاحب) اور دوسرے مولوی محمد صدیق صاحب.یہ لوگ ایسے علاقوں میں ہیں جہاں سواریاں مشکل سے ملتی ہیں.کھانے پینے کی چیزیں بھی آسانی سے میسر نہیں آئیں بستر میں کبھی ستو پھانک کر گزارہ کر لیتے ہیں اور کبھی کوئی پھل کھا لیتے ہیں.پھر انہیں سینکڑوں میں کے دورے کرنے پڑتے ہیں اور ان دوروں کا اکثر حصہ وہ پیدل طے کرتے ہیں.یہ قربانیاں ہیں جو سالہا سال سے یہ لوگ کر رہے ہیں.چیفیت اور رؤساء اُن کا مقابلہ کرتے ہیں بعض دفعہ دگو ہمیشہ نہیں ، گورنمنٹ بھی اُن کے راستہ میں روڑے اٹکاتی ہے.عام پالک اور مولوی بھی مقابلہ کرتے رہتے ہیں.لیکن دین تمام رنگوں کے باوجود وہ مختلف علاقوں میں جماعتیں قائم کرتے اور خانہ بدوشوں کی طرح دین کی اشاعت کے لئے پھرتے رہتے ہیں.یہ لوگ ایسے نہیں کہ اب سات ان کی قربانیوں کے واقعات کو تسلیم کرنے سے انکار کر سکتے نہیں فرمانیوں کے واقعات کو تسلیم کرنے کی بجائے ان کے احسانات کو تسلیم کرنے کے الفاظ استعمال کرنے لگا تھا گر پھرتی نے
نفط احسان اپنی زبان سے نہیں نکالا.کیونکہ دین کے لئے قربانی کرنا ہر مومن کا فرض ہے.اس لئے یں نے کہا ہے کہ جماعت ان لوگوں کی قربانیوں کو تسلیم کرنے سے انکار نہیں کر سکتی.لیکن بہر حال اس میں کیا شیہ ہے کہ جو کام یہ لوگ کر رہے ہیں وہ ساری جماعت کا ہے اور اس لحاظ سے جماعت کے ہر فرد کو اپنی دعاؤں میں ان مبلغین کو یا د رکھنا چاہیے.اسی طرح اور مبلغ دوسرے مختلف ممالک میں اخلاص اور قربانی سے کام کر رہے ہیں.صوفی مطیع الرحمن صاحب امریکہ میں کام کر رہے ہیں اور بعض مشکلات میں ہیں.مولوی مبارک احمد صا مشرقی افریقہ میں کام کر رہے ہیں.مولوی رحمان علی صاحب ساؤتھ امریکہ میں کام کر رہے ہیں چوہدری محمد شریف صاحب فلسطین اور مصرین کام کر رہے ہیں جیم فضل الرحمن صاحب کا ذکر میں پہلے کر چکا ہوں ان کے علاوہ مولوی نذیر احمد صاحب بیشتر سیا سکوٹی آجکل گولڈ کوسٹ میں کام کر رہے ہیں.یہاں گو جماعتیں پہلے سے قائم ہیں مگر وہ اکیلے کئی ہزار کی جماعت کو سنبھالے ہوئے ہیں.پھر ان کی قربانی اس لحاظ سے بھی خصوصیت رکھتی ہے کہ وہ آریزی طور پر کام کر رہے ہیں.جماعت اُن کی کوئی مدد نہیں کرتی.وہ بھی سات آٹھ سال سے اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں سے جدا ہیں بلکہ تبلیغ پر جانے کی وجہ سے وہ اپنی بیوی کا رخصتانہ بھی نہیں کر اسکے ہوئے خدا تعالے نے محض اپنے فضل اور رحم سے حضرت امیر المومنین رضی اللہ عنہ اور احباب کی متضرعانہ دعاوی کوٹنا اور مجاہدین کی اعجازی رنگ میں حفاظت فرمائی.مولانا جلال الدین صاحب شمشق امام مسجد لنت کی رہائش گاہ کے دائیں اور بائیں جرمن جہانوں نے بمباری کی مگر آپ محفوظ رہے.اسی طرح چو ہد محمد مسرت صاحب مجاہد اٹلی بھی.ملک عزیز احمد خان صاحب ، مولوی عبد الواحد صاحب سماٹری اور سید شاہ محمد صاحب کو جاری علماء کی مخبری پر جاپانی حکام نے جیل میں ڈال دیا اور مولوی محمد صادق صاحب کو جاپانی حکومدینے پھانسی دینے کا فیصلہ کر لیا تھا.مگر قبل اس کے کہ اس ناپاک منصوبہ کو عملی جامہ پہنایا جاتا خدائے ذوالجلال نے اس ظالم حکومت کا تختہ ہی الٹ دیا مینہ لے الفصل یکم افادها در یکم اکتوبرام مصر ۱۲ + ۵ ملا نظر مو تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحه ۵۱۹ - ۵۲۱ صفحه حافظه - ۰۵۲۱-
۲۴۵ حضرت امیرالمومنین خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے جہاں کرایا میں اللہ کو کراہی کیلئے کام کر کی جماعت کے دوستوں کو یونی بینین کے لئے دعاکی مبلغین تحریک فرمائی وہاں خود میتوں کو بار شاد فرمایا کہ وہ ہمیشہ ذکر الہی میں مصروف رہیں تا اُن کی تبلیغ میں جذب و اثر پیدا ہو.چنانچہ فرمایا : - حقیقت یہی ہے کہ اسی قوم کے دن زندہ ہوتے ہیں جس کی راتیں زندہ ہوں جو لوگ ذکر الہی کی قدر و قیمت کو نہیں سمجھتے اُن کا مذہب کے ساتھ وابستگی کا دعوی محض ایک رسمی چیز ہے.کئی نوجوان ایسے ہوتے ہیں جو تبلیغ بڑے جوش سے کرتے ہیں چندوں میں بھی شوق سے حصہ لیتے ہیں گر ذکر الہی کے لئے مساجد میں بیٹھنا اور اخلاق کی درستی کے لئے خاموش بیٹھنا ان پر گراں ہوتا ہے اور جو وقت اس طرح گذرے اُسے وہ سمجھتے ہیں کہ صنائع گیا ، اُسے تبلیغ پر صرف کرنا چاہیے تھا.ایسے لوگ اِس بات کو بھول جاتے ہیں کہ تلوار اور سامان جنگ کے بغیر لڑائی نہیں جیتی جا سکتی جس طرح لڑائی کے لئے اسلحہ اور سامان جنگ کی ضرورت ہے اسی طرح تبلیغ بھی بغیر سامانوں کے نہیں ہو سکتی.تبلیغ کے میدان جنگ کے لئے ذکر الہی آرسنل اور فیکٹری ہے اور جو مبلغ ذکر الہی نہیں کرتا وہ گویا ایک ایسا سپاہی ہے جس کے پاس تلوار نیزہ یا کوئی اور اسلحہ نہیں.ایسا مبلغ جس چیز کو تلوار یا اپنا ہتھیار سمجھتا ہے وہ کرم خوردہ لکڑی کی کوئی چیز ہے جو اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی.آخر یہ کیا بات ہے کہ وہی دلیل محمد مصطفی اسلے اللہ علیہ وسلم دیتے تھے اور دل پر اثر کرتی تھی.لیکن وہی دلیل در سرا پیش کرتا ہے لیکن سننے والا ہنس کر گذر جاتا ہے اور کہتا ہے کہ کیا بیہودہ باتیں کر رہا ہے.یہ فرق کیوں ہے ؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ اُس شخص کے پاس جو ہتھیار ہے وہ ٹکڑی کا کرم خوردہ ہتھیار ہے گر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لوہے کی ایسی تیز تلوار تھی جو ذکر الہی کے کارخانے سے تازہ ہی بن کر نکلی تھی.کیا وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی باتوں میں جو اثر تھا وہ دوسروں کی باتوں میں نہیں.ہمارے مبلغوں کی تقریروں میں وہ اثر نہیں اس کی وجہ یہی کہ جس مبلغ کی تقریرہ کو ذکر الہی نے تلوار نہیں بنایا ہوتا.اس کے ہاتھ میں لکڑی کا کرم خوردہ ہتھیار ہے جسے گھی لگا ہوا ہے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے
ہاتھ میں جو تلوار تھی وہ ذکر الہی کے کارخانہ سے نئی نئی بن کر آئی تھی.جسے نہ کوئی زنگ لگا تھانہ چربی وغیرہ کوئی چیز لگی تھی.مبلغ جو تلوار استعمال کرتا ہے وہ کسی پرانی فیکٹری میں بنی ہوئی ہوتی ہے.جسے دندانے اور نشان وغیرہ پڑھکتے ہیں اور جو پہلے استعمال ہو چکتے کی وجہ ہے خراب ہو چکی ہے اور پرانی ہونے کی وجہ سے اُس کے مینڈل کو کیڑا لگا ہوا ہے.یہ اُسے مارتا ہے تو بجائے دوسرے کو نقصان پہنچانے کے خود ہی ٹوٹ کر گر جاتی ہے.دوسرے اثر تبلیغ اور دلیل سے ہی نہیں پڑتا بلکہ اس کے پیچھے جو جذبہ ہوتا ہے اس کا اثر ہوتا ہے ایک بزرگ کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ جہاں وہ رہتے تھے اُس محلہ میں ایک بہت فسادی اور شریعہ آدمی تھا جو ہر وقت عیاشی میں مصروف رہتا.اور دین سے ہمیشہ مذاق کرتا تھا وہ اُسے بہت سمجھاتے تھے مگر اُس پر کوئی اثر نہ ہوتا تھا.وہ بزرگ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں حج کے لئے گیا.تو اُسے دیکھا کہ نہایت عجز و انکسار کی حالت میں طواف کر رہا ہے.جب فارغ ہوئے تو اس بزرگ نے اس سے دریافت کیا کہ یہ کیا بات ہے کہ تم حج کے لئے آگئے ہا تم تو دین سے مذاق کیا کرتے تھے اور کسی نصیحت کا تم پر اثر ہی نہ ہوتا تھا.اُس نے کہا.میری ہدایت کا واقعہ یہ ہے کہ ایک دفعہ میں بازار میں جا رہا تھا.عیاشی کے خیالات میں محو تھا اور عیش و طرب کے مرکزہ کی طرف ہی جا رہا تھا کہ ایک مکان میں کوئی شخص قرآن شریف بلند آواز سے پڑھ رہا تھا کہ آیت اکستر يَاتِ لِلَّذِينَ آمَنُوا اَنْ تَخْشَى قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ الله میرے کان میں پڑی یعنی کیا مومنوں کے لئے بھی وہ وقت نہیں آیا کہ جب اُن کے دل خدا تعالے کے ذکر کے لئے نرم ہو جائیں اور وہ ذکر الہی شروع کر دیں.اس آواز میں ایسا سوز و گداز اور ایسی محبت تھی کہ مجھے یوں معلوم ہوا کہ وہ دنیا میں سے کسی انسان کی آواز نہ تھی.اُس آواز کو سنتے ہی میں گویا اُڑ کر کہاں سے کہاں پہنچ گیا.اُسی وقت گھر آیا اور عیش و طرب کے سب سامان توڑڈا سے اور حج کے لئے روانہ ہو گیا.یہ قرآن کی یہی آیت ہے جو کئی لوگ پڑھتے اور سُنتے ہیں مگر ان پر کوئی خاص اثر نہیں ہوتا لیکن یہی آیت جب ایک ایسے دل سے نکلی جو ذکر الہی سے سرسبز اور شاداب تھا تو سننے والے پر ایسا اثر کیا کہ اسکی زندگی میں گویا ایک افق مہیا کردیا.
اسی طرح ایک اور بزرگ کا واقعہ ہے کہ کسی شہر میں بادشاہ کا کوئی مہاری رہتا تھا جس کے ہاں شب و روز گانا بجانا ہوتا اور میتہ والے سخت تنگ آچکے تھے محلہ کے لوگ اُس بزرگ کے پاس گئے اور کہا کہ اس طرح رات بھر شور و شہر کی وجہ سے عبادت میں خلل پڑتا ہے اگر عبادت کرنا چاہیں تو شور کی وجہ سے نہیں کر سکتے اور اگر سونا چاہیں کہ تہجد کے وقت اُٹھیں گے تو شور کی وجہ سے نیند نہیں آتی.ان حالات میں ہم لوگ کیا کریں ؟ کئی لوگ اس در بادی کو سمجھاتے رہے وہ بزرگ بھی پیغام بھیجتے رہے مگر اس پر کوئی اثر نہ ہونا تھا اور نہ ہوا.آخر جب لوگوں نے اُس درباری سے کہا کہ اب سختی سے تمہارا مقابلہ کرنا پڑ ے گا.اس نے جواب دیا کہ تم میرا کیا مقابلہ کر سکتے ہو تم جانتے نہیں کہ میں بادشاہ کا درباری ہوں.میں بادشاہ سے کہا کہ کل یہاں پولیس مقرر کرا دوں گا.پھر تم کو اچھی طرح پتہ لگ جائے گا.اُس بزرگ نے کہا کہ تم پولیس مقصر کر لو گے تو ہم بھی مقابلہ کرینگے.اُس نے جواب دیا کہ بڑے آئے مقابلہ کرنے والے.تمہارے پاس کیا رکھا ہے، جس سے بادشاہ کی فوجوں کا مقابلہ کرو گے ؟ اس بزرگ نے کہاکہ ہم تو راتوں کے تیروں سے مقابلہ کرینگے.اس بزرگ کو دعاؤں کی طاقت اور اپنی دعاؤں کی قبولیت کا جو یقین تھا اُس کا یہ اثر ہوا کہ اُن کے مونہہ سے یہ بات نکلنے کے ساتھ ہی اس درباری کی پہنچیں نکل گئیں.اس نے نورا حکم دیا کہ سارنگیاں وغیرہ توڑ دی جائیں.اور اس بندرگ سے کہا کہ راتوں کے تیروں کا مقابلہ ہم واقعی نہیں کر سکتے.تو ذکر الہی کی طاقت سے بات میں بہت زیادہ اثر پیدا ہو جاتا ہے.دیکھو قرآن کریم وہی تھا مگر مسلمان اس سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکتے تھے اس لئے کہ اُن کے دلوں میں حقیقی ایمان نہ تھا.مگر یہی قرآن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ میں آکر کس طرح اسلام کے دشمنوں کو نہیں نہیں کر رہا ہے.اور چاروں طرف مُردے ہی مرد سے نظر آتے ہیں.یہ اس لئے ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ ذکر الہی کی طاقت تھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وفات مسیح کے جو دلائل پیش فرمائے ہیں اُن میں میں نہیں بلکہ او سوکا اضافہ بھی بے خشک کر لو لیکن اگر ذکر الہی نہیں تو ان تمام دلائل اور انہیں بیان کرنے والے
۳۴۸ مبلغوں کا کوئی اثر نہیں ہو سکتا.اثر زبان نہیں دل کا جذبہ کرتا ہے.خالی زبانی باتوں سے کچھ نہیں بنتا.اس میں شبہ نہیں کہ انسان کو اللہ تعالٰے نے عقل دی ہے اور وہ معقول بات کو ہی قبول کرتا ہے.لیکن صرف بات کا معقول ہونا ہی اثر نہیں کر سکتا جب تک کہ اُس کے ساتھ محبت اور بنیاد گی نہ ہو.بات معقول بھی ہو اور پھر اس کے ساتھ محبت اور سنجید گی بھی ہو تب اثر ہوتا ہے.اخلاص اور محبت کے بغیر کوئی اثر نہیں ہو سکتا.اس لئے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ الدين النصح یعنی دین اور اخلاص ایک چیز ہے.جب تک اخلاص نہیں دین بھی نہیں.اور جب اخلاص مٹے گا دین بھی مٹ جائیگا.چینی مسلمانوں کے نمائیندہ چین کے مسلمانوں کی ایک مرکز می تنظیم نیشنل اسلامک سالوشن فیڈریشن کے نام سے قائم تھی جس کے نمائندہ شیخ شیخ عثمان ان صاحب قادیان میں عثمان صاحب نظارت دعوت و تبلیغ کی تحریک پر لاہور یکم اخار هر ۳۰۳ (اکتبر ۱۹۳۷ء) کو قادیان آئے.آرمیل چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی کو بھی بیت الظفر میں اُن کا پُر تپاک استقبال کیا گیا.بعض احباب سے انگریزی اور چینی میں گفتگو کی.جزائر شرق الہند کے احمدی نوجوانوں سے بھی ملے اور بہت خوش ہوئے.اس طاقات کے بعد آپ نے مرکزی ادارے دیکھے.شام کو حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے بیت الظفر میں انہیں اور بعض دوسرے معززین کو دعوت افطاری دی اور دعوت سے قبل انگریزی میں مسلمانان چین کے منہ ہیں تمہ نی اور معاشرتی حالات سے متعلق گفتگو فرماتے رہے لیکے + حي " دوسرے روز (۳ را خار کو آپ نے 9 بجے صبح تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ہال میں زیر صدارت حضرت مفتی محمد صادق صاحب مسلمانان چین کے کوائف پر لیکچر دیا.بعد ازاں آپ قصر خلافت میں آئے جہاں حضرت امیر المومنین خلیفہ اسی الثانی نے آپ کی درخواست پر الوداعی ملاقات کا شرف بخشا اور آپ بجے واپس لاہور روانہ ہو گئے.شیخ عثمان صاحب حضرت خلیفہ اسی انشائی کی زیارت سے بہت متاثر تھے چنانچہ انہوں نے خود ہی بعض دوستوں کو بتایا کہ حضور کی شخصیت نے میرے دل پر بہت گہرا اثر کیا ہے، آپ بہت ہی فارها ۳ صفر ۳۰ به سه الفضل ۲۵ را حسان ۱۳:۲۵ صفره.بس الفضل ٣ / الخبر ٠٩١٩٣٢ الفضل اکتوبر ۶۹۴۲ A
۳۴۹ قابل تعریف شخصیت ہیں اور آپ کی معلومات نہایت وسیع ہیں.آپ ہر ایک اہم موضوع پر نہایت عمدگی کے ساتھ عالمانہ گفتگو فرما سکتے ہیں اور کئی زبانوں سے واقعت ہیں لیے ہندوستان میں پیام حق کی منظم | حضرت امیرالمومنین خلیفہ المسیح الثانی مینی منه عنه کو دوسری جنگ عظیم کے دوران میں اسی طرت تو یہ ہوئی کہ اب اشاء کیسے تبلیغ خاص کی تحریک تک جماعت احمدیہ انفرادی رنگ میں تبلیغ کرتی رہی ہے.اب اسے اجتماعی تبلیغ کا رنگ اختیارہ کرنا چاہیے اور جنگ کے خاتمہ سے پہلے ہندوستان میں تبلیغ احمدیت کے لئے پورا زور لگا دیا جائے اور جو نہی جنگ ختم ہو اور بیرونی رستے کھلیں تو غیر مانگ پر مدھانی ہے اور تبلیغی حملہ کر دیا جائے تا دنیا میں جو خلا پیدا ہو وہ احمدیت کے ذریعہ بآسانی پورا کیا جا سکے.چنانچہ حضور نے فرمایا :- گو ہندوستان سے باہر مبلغ نہیں بھیجے جاسکتے مگر جنگ کے بعد بہت ضرورت ہوگئی فی الحال ہمیں ہندوستان میں ہی تبلیغ کے کام کو بڑھانا چاہیئے اور باہر کا جو رستہ بند ہو چکا ہے اس کا کفارہ یہاں ادا کرنا ضروری ہے.پس کیوں نہ ہم یہاں اتنا زور لگائیں کہ جماعت میں ترقی کی رفتار سوائی یا ڈیوڑھی ہو جائے.اور دو تین سال میں ہی جمات دوگنی ہو جائے.جب تک ترقی کی یہ رفتار نہ ہو کامیابی نہیں ہو سکتی.ہمارے سامنے بہت بڑا کام ہے.پونے دوارب مخلوق ہے جن سے ہم نے صداقت کو منوانا ہے اور جب تک باہر کے راستے بند ہیں ہندوستان میں ہی کیوں نہ کوشش زیادہ کی جائے یا ملے ماہ ادھر اس مقصد کے مد نظر حضور نے اور اور اس کے خطبہ معد میں ہندوستان کے چند چینی تک پیغام احمدیت پہنچانے کے لئے ایک تبلیغ خاص کی نہایت اہم تحریک فرمائی جس کے دو حصے تھے.اول : غیر احمدی علماء ، امراء اور مشائخ کے نام خطبہ نمبر الفضل" اور سن رائز کے ہزار ہزار پرچے جاری کرائے جائیں.دوم: ملک کے بااثر اور مقتدر طبقہ کو خطوط کے ذریعہ بھی باریار تبلیغ کی جائے سے تبلیغ خاص کی اس نئی تحریک کی تفصیلات پر حضور نے مندرجہ ذیل الفاظ میں روشنی ڈالی : الفضل افاده سلام الفضل ۲۲ اکتوبر ۶۱۹۴۲ ۶۱۹۴۲ ۱۳۲۱۰ صفحه! ا + الفضل.تبلیغ هم صحبه ( تقریر فرموده با سیاه ) فروری ۶۱۹۴۲ W صفحہ ہم.اُن دنوں الفضل" کے خطبہ نمبر کا سالانہ چندہ اڑھائی رہی ہے اور سن رائز گار ہندوستان کی پہلے کیلئے چار
۳۵۰ انبیاء کی جماعتیں جب حقیقی تبلیغ کے لئے اُٹھتی ہیں تو دیوانگی کا رنگ رکھتی ہیں.لوگ کہتے ہیں یہ لوگ پاگل ہیں.وہ بھی کہتے ہیں کہ ہاں ہم پاگل ہیں.مگر اس جنوں سے پیاری چیز نہیں اور کچھ نہیں.مگر یس دن کے آنے سے پہلے تبلیغ میں تیزی کی ضرورت ہے سمندر کو ایک دن میں کوئی شخص پار نہیں کر سکتا جو اُسے پار کرنا چاہے پہلے ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو اُس کے قریب کرے.ایک چھلانگ میں ہی کوئی اُس تک نہیں پہنچ سکتا پس پہلے اس کے لئے تیاری کی ضرورت ہے.اس سلسلہ میں میں نے یہ تجویز کی ہے کہ سردست ضرورت ہے کہ ایک حد تک اس طبقہ میں جو علماء اور رو ساعر اور اصرار یا پیروں اور گدی نشینوں کا طبقہ ہے اُس تک باقاعدہ سلسلہ کا لٹریچر بھیجا جائے الفضل" کا خطبہ نمبر یا انگریزی دان طبقہ تک سن رائز جس میں میرے خلیہ کا انگریزی ترجمہ چھپتا ہے باقاعد ہ پہنچایا جائے.تمام ایسے لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے جو عالم نہیں یا امراد لو صار یا مشایخ میں سے ہیں اور جن کا دوسروں چھ اثر در سورخ ہے.اور اس کثرت سے اُن کو بھیجیں کہ وہ تنگ آکر یا تو اس طرفت توجہ کریں اور یا مخالفت کا بیڑہ اٹھائیں اور اس طرح تبلیغ کے اس طریق کی طرف آئیں جسے آخر ہم نے اختیار کرنا ہے.لٹریچر اور الفضل" کا خطبہ نمبر یائسن رائز بھیجنے کے علاوہ ایسے لوگوں کو خطوط کے ذریعہ بھی تبلیغ کی جائے اور بار بار ایسے ذرائع اختیارہ کر کے اُن کو مجبور کر دیں کہ یا وہ صداقت کی طرف توجہ کریں اور تحقیق کرنے لگیں اور یا پھر مخالفت شروع کر دیں.مثلاً ایک چٹھی بھیج دی.پھر کچھ دنوں کے بعد اور بھیجی.پھر کچھ انتظار کے بعد اور بھیجدی جس طرح کوئی شخص کسی حاکم کے پاس فریاد کرنے کے لئے اُسے چٹھی لکھتا ہے اگر جواب نہیں آتا تو اور رکھتا ہے.پھر وہ توجہ نہیں کرتا تو ایک اور لکھتا ہے حتی کہ وہ افسر توجہ کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے.پس تکرار کے ساتھ علماء اور امراء د روساء مشاریخ نیز را جوں جہارا ہجوں نوابوں اور بیرونی ممالک کے بادشاہوں کو بھی پٹھیاں لکھی جائیں.اگر کوئی شکر یہ ادا کرے تو اس پر خوشی نہ ہو جائیں اور پھر لکھیں کہ ہمارا مطلب یہ ہے کہ آپ اس کی طرف توجہ کریں.جواب نہ آئے تو پھر چنار روز کے بعد اور لکھیں کہ
۳۵۱ اس طرح آپ کو خط بھیجا گیا تھا مگر آپ کی طرف سے اس کا کوئی جواب نہیں آیا.پھر کچھ دنوں تک انتظار کے بعد اور لکھیں حتی کہ یا قوزہ بالکل ایسا ڈھیٹ ہو کہ اُس کے دل پر مہر لگی ہوئی ہے اور اس کی طرف سے اس کے سیکرٹری کا جواب آئے کہ تم لوگوں کو کچھ تہذیب نہیں بار بار دق کرتے ہو.راجہ صاحب نے یا پیر صاحب نے خط پڑھ لیا اور وہ جواب دینا نہیں چاہتے.اور یا پھر اس کی طرفنا سے جواب آئے کہ آپ جو سُنانا چاہتے ہو شنا لو.اس رنگ میں تبلیغ کے نتیجہ میں کچھ لوگ غور کے لئے تیار ہو جائیں گے مگر اس وقت تو یہ حالت ہے کہ غور کرتے ہی نہیں.پس اب اس رنگ میں کام شروع کرنا چاہیئے اس کے لئے ضرورت ہے ایسے مخلص کارکنوں کی جو اپنا وقت اس کام کے لئے دے سکیں بہت سی چھٹیاں لکھنی ہو گی.چٹھیاں چھپی ہوئی بھی ہو سکتی ہیں مگر پھر بھی ان کو بھیجنے کا کام ہوگا.اگر جواب آئے تو اُن کا پڑھنا اور پھر ان کے جواب میں بعض چٹھیاں دوستی بھی لکھنی پڑیں گی.بعض جیٹھیوں کے مختلف زبانوں میں تراجم کرنے ہونگے اور یہ کافی کام ہو گا.اس کے لئے جن دوستوں کو اللہ تعالیٰ توفیق دے وہ اس کام میں مدد دیں.پھر چود دوست اتفضل کا خطبہ نمبر ان سن رائز دوصروں کے نام جاری کر اسکیس وہ اس رنگ میں مدد دیں.امداد دینے والے دوست اپنے نام میرے لئے پیش کریں، میں خود تجویز کروں گا کہ کن لوگوں کے نام یہ پرچے جاری کرائے جائیں.پھر اس سیلسانہ میں اور جو دوست خدمت کے لئے اپنے نام پیش کرنا چاہیں وہ بھی کر دیں.اُن کے ذمہ کام لگا دیئے جائیں گئے.شار یہ کہ فلاں قسم کے خطوط غلاں کے پاس جائیں اور اُن کے جواب بھی وہ لکھیں.اس کام کی ابتداء کرنے کے لئے میں نے ایک خط لکھا ہے جو پہلے اردو اور انگریزی میں اور اگر ضرورت ہوئی تو دوسری زبانوں میں بھی ترجمہ کرا کے دنیا کے بادشاہوں اور ہندوستان کے راجوں مہارا ہوں کی طرف بھیجا جائیگا.اس قسم کے خطوط بھی وقتا فوقتا جاتے رہیں.مگر اصل چیز افضل کا خطبہ نمبر یا سن رائز" ہے جو ہر ہفتہ اُن کو پہنچتا رہے.اور چونکہ خطبہ کے متعلق مسنون طریق یہی ہے کہ وہ اہم امور پر مشتمل ہو اس لئے اس میں سب مسائل پر بخشیں آجاتی ہیں.اس میں سلسلہ کے مسائل بھی ہوتے ہیں.جماعت کو قربانی کی طرف بھی توجہ دلائی جاتی ہے
۳۵۲ اور مخالفوں کا ذکر بھی ہوتا ہے.اور اس طرح جس شخص کو ہر ہفتہ یہ خطبہ پہنچتا رہے احمدیت گویا تنگی ہوکر اس کے سامنے آتی رہے گی اور وہ بخوبی اندازہ کر سکتا ہے کہ اس جماعت کی امنگیں اور آرزوئیں کیا ہیں کیا ارادے ہیں ؟ یہ کی کرنا چاہتے ہیں؟ دشمن کیا کہتا ہے اور یہ کس رنگ میں اُس کا مقابلہ کرتے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں ؟ اگر اس رنگ میں کا م شروع کیا جائے تو ایک شور بیچ سکتا ہے.اگر دو ہزار آدمی بھی ایسے ہوں جن کے پاس ہر مفتہ سلسلہ کا ٹریچر پہنچتا ہے تو بہت اچھے نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے.ان لوگوں کو چٹھیاں بھی جاتی رہیں اور ان سے پوچھا جائے کہ آپ ہمارا لٹریچر مطالعہ کرتے ہیں یا نہیں ؟ اگر کوئی کہے نہیں تو اس سے پوچھا جائے کیوں نہیں ؟ یہ پوچھنے پر بعض لوگ لڑیں گے اور یہی ہماری غرض ہے کہ وہ لڑیں یا سوچیں.جب کسی سے پوچھا جائے گا کہ کیوں نہیں پڑھتے ، تو وہ کہے گا کہ یہ پوچھنے سے تمہارا کیا مطلب ہے تو ہم کہیں گے کہ یہ پوچھنا ضروری ہے کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کی آواز ہے جو آپ تک پہنچائی جا رہی ہے.اسپر وہ یا تو کہیگا شنا لو اور یا پھر کہے گا کہ میں نہیں مانتا اور میں دن کوئی کسی گا کہ جاؤ میں نہیں مانتا اُسی دن سے وہ خدا تعالٰی کا مد مقابل بن جائے گا اور ہمارے رستہ سے اُٹھا لیا جائے گا.جن لوگوں تک یہ آواز ہم پہنچائیں گے اُن کے لئے دو ہی صورتیں ہوگی یا تو ہماری جو رحمت کے فرشتے ہیں سنیں اور یا پھر ہماری طرحت سے منہ موڑ کر خدا تعالیٰ کے عذاب کے فرشتوں کی تلوار کے آگے کھڑے ہو جائیں.مگر اب تو یہ صورت ہے کہ کہ نہ وہ ہمارے سائے میں اور یہ ملائکہ عذاب کی تلوار کے سامنے بلکہ آرام سے اپنے گھروں میں یٹھے ہیں.نہ تو وہ خدا تعالیٰ کی تلوار کے سامنے آتے ہیں کہ وہ انہیں فنا کر دے اور نہ اُس کی محبت کی آواز کو سنتے ہیں کہ ہدایت پا جائیں.اب تو وہ ایک ایسی چیز ہیں جو اپنے مقام پر کھڑی ہے اور وہاں سے بہتی نہیں.لیکن نئی تعمیر کے لئے یہ ضروری ہے کہ اُسے وہاں سے ہلایا جائے.یا تو وہ ہماری طرف آئے اور یا اپنی جگہ سے ہٹ جائے ہائے اسی ضمن میں حضور نے اپنے ایک دوسرے خطبہ میں ان اخبارات کو اور ان کے متعلقہ محکموں کو ہدایت فرمائی کہ وہ اپنے پرچوں کو زیادہ سے زیادہ مکمل اور دلچسپ بنانے کی کوشش کریں اور مواد اس طرح مرتب کریں کہ اشاره ۲ صفحه ۴ده +
۳۵۳ اسلام او را تحدیت کا صحیح نقشہ پڑھنے والوں کے سامنے آجائے اور ساتھ ہی میں قلم اصحاب کو منی طلب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ :- دہ مختصر عبارتوں میں ایسے مضامین لکھیں کہ جن سے یہ پرچے زیادہ دلچسپ اور زیادہ مفید بین سیکس اور لوگوں کی توجہ تبلیغ کی طرف کھینچ سکے.خالی دلچسپی بھی کوئی چیز نہیں.یہ تو بھانڈ پن ہی کے بلکہ پیپسی کا مطلب یہ ہے کہ دین کے معاملات کو ایسی عمدگی اور خوبصورتی سے پیش کیا جائے کہ لوگوں کے دل ان کی طرف مائل ہوں.قرآن کریم سے زیادہ دلچسپ کتاب اور کوئی نہیں ہو سکتی مگر اس میں کھیل تماشے کی کوئی بات نہیں.پھر بھی کا نسر یہ کہتے تھے کہ کانوں میں انگلیائی ڈال کو خوب شور مچاؤ تا یہ کلام کانوں میں نہ پڑے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ساحہ اور قرآن کریم کو سحر کہتے تھے.یہ دلچسپی کی ہی بات ہے اور اس کا مطلب یہی ہے کہ جو سینے اس پر صرہ رائثر ہوتا ہے بشرطیکہ اس کے دل میں خدا کا خوت ہو یا ہے حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی دوسری تحریکوں کی طرح یہ تحریک بھی بہت کامیاب رہی اور مخلصین جماعت نے پناہ ہفتوں کے اندر اندر انفضل اور سن رائز کے پرچوں کے لئے مطلوبہ رقم پیش گردی شاید اسی طرح کئی احمدی خطوط کے ذریعہ تبلیغ کرنے کی ہم میں شامل ہو گئے.اس تحریک کے بہت عمدہ اور خاطر خواہ نتائج بر آمادہ ہوئے.حضرت امیر المومنین سے پر فیرسید اختر احمد خار هر اکتوبر ) کا واقعہ ہے کہ چند کے مشہور ادیب پر نفیسر سید اختر احمد صاحب صاحب اور نیوی کی ایک اہم ملاقات اور بیوی کو اشتراکیت اور اشتمالیت کے مطالعہ کیے دوران اسلام کے معاشی نظام کے متعلق بعض الجھنیں پیدا ہو چکی تھیں اور آپ اُن کو حل کرنے کے لئے مختلف علماء سے تبادلہ خیالات بھی کر چکے تھے مگر آپ کا زمین تسلی نہ پا سکا تھا.آخر آپ اس پریشانی کے عالم میں اپنے مسائل کی عقدہ کشائی کے لئے حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت میں حاضر ہوئے حضور نے آدھے گھنٹہ کی گفتگو سے ان مسائل پر ایسے موثر از از میں پیشنی ڈالی کہ کر دیا ک نے نئے زاوی کھل گئے اور ان کی ذہنی مستریں آسان ہو گئیں اور جب حضور کے لیکچر نظام نو اور اسلام کا اقتصادی نظام ویر ۱۵۳۲ صفحه ۶۱۹۴۳ و صفحہ ہے کا تم با ++ " ه رساله مجله الجامعه دیده جلد ۳ شماره من با جنوری فروری مارچ ۱۹۹۹ کے رشتے ان کا ذکر آگے آرہا ہے.شہ
۳۵۲ یے اشاعت پذیر ہوئے تو ان کی بسیرت میں اور بھی اضافہ ہو گیا.اس اہم ملاقات کی تفصیل خود پر وفیسر صاحب موصوف کے قلم سے تھی جئی.آپ حریر فرماتے ہیں.توبر 9ء کی بات ہے میں ٹینہ سے قادیان کے لئے روانہ ہوا.علی گڑنے پہلی اور لاہور ہوتا ہوا دار الامان پہنچا اور مہمان خانہ میں ٹھہرا میرے ذہن و دماغ میں کئی اہم سوالات اضطراب پیدا کر رہے تھے...میرے ذہن میں جو عقد سے تھے اور دل میں جو اضطراب تھا وہ اقتصادی مسائل کے متعلق تھا میں نے گذشتہ سالوں میں معاشی صنعتی اور سماجی تنظیم کے متعلق اشتراکی ، اشتمالی ، فسطائی اور سرمایہ دارانہ نظریوں کا مطالعہ کیا تھا.۱۹۴۷ میں فسطائیت نے دنیا کو آگ اور خون کی نذر کر رکھا تھا.سرمایہ دارانہ جمہوریتیں اور اشتمالی جمہور میشید روس جیسے ریاستی معاشیاتی آمریت بھی کہہ سکتے ہیں، فسطائیت کا مقابلہ کر رہی تھیں.شریخ فوج کی جرات اور پامردی نے ذہنوں اور تخیل کو گہرے طور پر متاثر کیا تھا میں روس کی اشتمالی تنظیم سے بہت متاثر ہو رہا تھا اور یہ محسوس کرنے لگا تھا کہ ماہ میں دشمنی سے قطع نظر ایش تمامیت کی معاشی اور صنعتی تنظیم کا پروگرام فلاکت زدہ انسانیت کے درد کا درماں ہے.سرمایہ داری تو بہت ہی رسوا طور پر نا کا میاب ثابت ہو چکی تھی.فسطائیت درد کا درماں نہیں بلکہ تجاریاد درد تھی.سرمایہ داری اور فسطائیت دونوں انسانیت آزار اور محبت گش انتہا پسندانہ وطنیت کے شعلوں کو بھڑکا رہی تھیں مگر اشتمالیت بین القومیت کا خیال پیش کرتی تھی.سب کچھ تھا مگر اشتمالیت ہے دین خدا دشمن اور دہریت پسند تھی.اور فسطائیت بھی بے دین ، خدا نا آشنا اور مادیت نہاد تھی اور سرمایہ داران جمہوریت بھی منافقانہ بے یقین سطحی ، کاروباری مذہبیت کا ڈھونگ رچائے ہوئے تھی اور میں اسلامی اقتصادیات کی واضح شکل نہیں دیکھ سکا تھا اور اس کی روح کو بھی نہیں سمجھے پایا تھا.لہذا میں متردد اور متلاشی تھا.اور اس آزار جستجو کے درمان آفرین کے پاس پہنچنا چاہتا تھا.یں لاہور احمد یہ ہوسٹل میں چند دن ٹھہرا.وہاں خاندان مسیح موعود علیہ سلام کے بعض نوجوانوں سے ملنے کا موقعہ ملا.اُن سے میں نے اپنا عندیہ ظاہر کیا.سمجھوں نے اس موضوع سے
۳۵۵ دلچسپی لی اور میرے سفیر قادیاں اور حضرت ام ایدہ اللہ بنصرہ العزیز سے ہدایت جوئی کے ارادہ کو بہت پسند کیا.اس وقت تک اسلام کا اقتصادی نظام تفصیلات کے ساتھ جماعت کے سامنے نہیں آیا تھا.احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں خود حضرت امام ایدہ اللہ تعالی نے اس مسئلہ کو چھیڑا تھا اور اس پر نظر ڈالی تھی لیک حلقہ جماعت میں عالمی نظام ہائے معاشیات کی روشنی میں اس مسئلے پر بحث : نظر نہیں ہوئی تھی.احمد یہ علم الکلام نے بہت سے مسائل کے باپ یں اغیار کے مقابلہ می نتیں حاصل کی تھیں مگر اس میدان میں ابھی کھل کے لڑائی نہیں لڑی گئی تھی متکلمین احمد نیست، دانشوران جماعت ، اس کے ذہین طبقے اور جمہور احمدی ہنوز اسلام کی معاشیاتی تقسیمات کا مقابلہ موازنہ دوسرے نظاموں کے اصول سے اچھی طرح نہیں کر پائے تھے.دوسری طرف ملک کے تعلیم یافتہ طبقے میں کسان اور مزدوروں کے درمیان معاشی مسلئے چھڑتے ہوے تھے.اور دوسری عالمگیر جنگ نے عوام الناس اور دانشوروں کے احساسات و جذبات اور ذہین و اور اگا کو اس طرف شدت سے منعطف کر دیا تھا.میں نے اس سے پہلے بھی بعض علمائے جماعت سے اپنی تشفی کرنا چاہی تھی مگر مجھے تسلی نہیں کی تھی.قادیان پہنچ کر بھی میں نے بعض علماء سے لاتماتیں کیں مگر مجھے شرح صدر نہ ہوا میں حضرت امیر المومنین کے سامنے جاکر تفصیلی سوال کرنے سے جھجک رہا تھا.دل میں این جستجو بھی تھی اور رعب خلات بھی عجیب کشاکش کا عالم تھا.میں نے اپنی الجھن کا تذکرہ حضرت سید سخت و استاد صاحب ،جناب ملک غلام فرید صاحب اور مولوی علی احمد صاحب پروفیسر سے کیا.ان بزرگوں نے مجھے اس بات پر مجبور کر دیا کہ میں حضرت امام سے ضرور مذکورہ مسئلہ کے بارہ میں جماعت کی فلاح کی خاطر رہبری حاصل کروں.اس کے باوجود محمود کے سامنے جا کہ سرگرم سوال ہونے کی اس ایانہ کو جبرائت نہیں ہو رہی تھی.میں نے پروفیسر علی احمد صاحب سے درخواست کی کہ وہ بھی میرے ساتھ دربار خلافت میں حاضر ہوں اور مجھے سہارا دیں.آخرش ایک روز میں نے باریاب ہونے کی اجازت حاصل کی اور پروفیسر علی احمد صاحب کی معیت میں حضرت امیر المومنین سے ملنے قصر خلافت میں حاضر ہوا.غالبا ان دونوں کرم بابا میم صاحب درد پرائیویٹ سیکٹری کے فرائض سرانجام دے رہے تھے ہم لوگوں کی باری آئی.
۳۵۶ اور ہم زمینوں پر سے ہوتے ہوئے اوپر کی منزل پر گئے.محرابوں اور دروں پر چلمن پڑی ہوئی تھی.اور برآمدہ میں مینڈھے اور گریسیاں رکھی ہوئی تھیں.حضرت محمود ایدہ اللہ ان میں سے ایک کرسی پر رونق افروز تھے.جیسے ہی ہم آخری زینے طے کرتے ہوئے بالائی منزل پر پہنچے.آپ ہمارے استقبال کے لئے کھڑے ہو گئے اور از راہ محبت و خادم نوازی خندہ پیشانی کے از ساتھ آگے بڑھتے چلے آئے.ہم نے بھی بڑھ کر دلی جذبات کے ساتھ مصافحہ کیا.اللہ الہ ! کتنا کرم تھا ، کیسی محبت تھی.کتنی سادگی امیرالمومنین خلیفہ اسیے اپنے خادموں کےساتھ مساوات، اخوت و محبت کا برتاؤ اس خطر می اندازمیں کر رہے تھے کہ میری تھی اک کا فور ہوگئی.اور یہیں اب اس قابل تھا کہ اپنے دل کی گہر ہیں اور ذہن کے عقاد سے عقدہ کشا کے سامنے پیش کر دوں میں حضرت امیر المومنین سے جلسہ سالانہ کے دنوں میں ملتا رہا تھا.مگران موقعوں پر بہار کی جماعت کے ساتھ باریانی ہوا کرتی تھی.ہمارا امام جماعتوں کے ساتھ فرش پر بیٹھ کر انہیں شریف ملاقات خطا کرتا تھا.وہ دلکش مسکراتا ہوا چہرہ سب کے لئے ابدی مسرت کا سامان ہوتا تھا.اجتماعی ملاقاتوں کے علاوہ مجھے اس سے پہلے انفرادی طلاقات کا موقعہ نہیں ملا تھا اور انفرادی ملاقات بھی اس رنگ کی کہ حضرت امیر المومنین سے ایک نہایت ہی اہم موضوع کے متعلق شرح صدر کے لئے گفتگو کرنے کی جرات کرنی لیکن حضرت امام نے ایسی خوش گوار فضا پیدا کر دی کہ میری بہت کے بڑھ گئی اور میرے محبت آمیز اعتماد کو اتنی تقویت پہنچی کہ میں نے حضرت امیر المومنین سے اشتمالی نظام کے متعلق باتیں شروع کیں.میں نے مختصر تمہید کے بعد اپنی انجمنیں حضرت امیرالمومنین کے سامنے پیش کیں اور ستی چاہتی حقیقت یہ ہے کہ میں نے اپنی دقتوں کی وضاحت بھی نہیں کی تھی کہ مصلح موعود نے اپنی غیر معمولی خداداد بصیرت کی وجہ سے سب کچھ سمجھ لیا اور ظاہری و باطنی علوم کی مہارت کے سبب اپنی تقریر اس رنگ میں شروع کی اور اس دل نشین انداز میں عقدہ کشائی فرماتے رہے کہ نہ صرف میرے ذہن در باغ کے پردے اُٹھتے چلے گئے بلکہ دل کو بھی نہایت تسکین و طمانیت حاصل ہوئی.آدھے گھنٹہ حضور مستانست ومحبت سے باتیں کرتے رہے اور ہم میں اور پروفیسر کی احمد ما) بیٹھے سنتے رہے.مجھے ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ حضور میرے دل و دماغ سے مرکز می اور
۳۵۷ بنیادی سوالات پچھنتے جاتے ہیں اور ان کے جوابات تشفی بخش اور دلکشا طور پر دیتے جاتے ہیں.دعائے مسیح اور وعدہ خدائے ذوالجلال کے مطابق مصلح موعود بننے والے فوق فطرت طور پر اُس ذہین وفی شخص نے اشتمالیت اور اسلام کا اصولی مقابلہ موازنہ تاریخ عالم کی پیشینی اور علم النفس کی شہادتوں کے ساتھے کیا.حضرت محمود نے اشتمالیت کی دو خصوصیات پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اشتمالیت جبر کے ذریعہ اصلاح معاشرہ کرنا چاہتی ہے.وہ جبر نے اہل سرمایہ کی دولت چھین کر سماج پر خرچ کرتی ہے.اور اپنے نظام کے قیام کے لئے بھی جبر اور شہر کو عملاً مرکزی اور بنیادی حیثیت دیتی ہے آپ نے فرما یا جمہ یہ طریقہ شدید رد عمل پیدا کرتا ہے.اور اُس کے ظاہرا اچھے نتائج دیر پا نہیں ہوتے.آپ نے امریکہ میں جبر سے نشراب بندی کی اسکیم کی رسوائے عالم نا کامیابی کی مثال دی اور پھر اسلامی ممانعت خمر کی کا میابی کو پیش کیا.اسلام نے پہلے نفسی انقلاب اور اخلاقی اصلاح کی بنیادیں مضبوط کریں.پھر شراب ممنوع قرار دی.تو یہ علت ایسی میٹی کہ تاریخ عالم میں اس کی مثال نہیں ملتی.اسی طرح اسلام دوست یا ذرائع پیداوار پر با امیر قبضہ کرنا پسند نہیں کرتا.وہ سرمایہ داری کو جبر و قہر سے مٹانے کے اصول پیش نہیں کرتا بلکہ وہ ایسی تعلیمات دیتا ہے اور معاشرہ کی ایسی روحانی اور اخلاقی اصلاح کرتا ہے کہ طوعی طور پر رفتند رفته مگر یقینا وہ ساری معاشی برکتیں حاصل ہو جاتی ہیں جن کے حصول کا دعوی اش می ایسے کرتی ہے اور اسلامی تعلیم سے انفرادی تخلیقی روح اور قوت مسابقت فنا بھی نہیں ہوتی اور طومی نیکی کی وجہ سے نیکی کی صلاحیت ، سماجی احساس اور انسانی درد نداری کی میں افراد معاشرہ میں بڑھتی جاتی ہے.برخلاف اسلام کے امیرالمومنین نے واضح کیا کہ اشتمالیت نا دانستہ دماغی قوتوں کو تاریخی طور پر کھلنے کا سامان کرتی ہے.اول تو اس طرح کہ اشتمالیت بدنی محنت کی قدر وقیمت سب کچھ بتاتی ہے اور دماغی کام کی قدر و منزلت کو دوہ مقام نہیں دیتی جو اس کا حق ہے.اور قوم اس طرح کہ برادر میکانکی اور کہانی کے ذریعہ مدرج مسابقت، دما فی ایچ ، قوت ایجاد و اقدام ، فیصلہ اور ارادہ کی طاقت کو مٹاتی ہے.زیر پا طور پر اس اشتمالی نظام کے بڑے نتائج ظاہر ہونے لگتے ہیں اور عاجلانہ
۳۵۸ کامیابی مستقل نا مرادی میں بدل جاتی ہے ، اسلام نفسیاتی اور فطری ، اخلاقی اور روحانی ، آزاد اور خود مختارانہ طریقوں سے معاشرہ میں مساوات ، اخوت اور حریت پیدا کرتا ہے.اسلام نہایت لطیف اور پر اثر رنگ میں تقسیم دولت کر کے موزوں معاشی مساوات پیدا کر دیا ہے اور دماغی صلاحیتوں کی پرورش بھی کرتا ہے.امیراللہ منین کی دل میں گھر کرلینے والی تشریحات سے میری روح تسکین پاتی رہی اور جب حضور نے کلام ختم کیا تومیں نے ایک آخری سوال کرنے کی جرات کی تین نے پونچھا اگر بالا بہر دا کراہ معاشی تنظیم کے نئے حکومت اہل محنت اور ذرائع پیداوار کے مالک کے طبقہ کے درمیان کچھ ایسا سمجھوتہ ہو کہ اقتصادی منصوبہ بندی) ممکن ہو سکے اور متوازی حالات پیدا ہو سکیں تا کہ ملک کی معاشی قوت ضائع نہ ہو تو یہ جائز ہوگا یا نہیں.حضور نے فرمایا.یہ طریقہ جائز ہوگا.اس کے بعد میں نے اور پروفیسر علی احمد صاحب نے اجازت چاہی اور قصر خلافت سے واپس ہونے کیلئے اٹھے.ہمارے آقا نے ہمیں نہایت ہی محبت اور خاطر داری کے ساتھ رخصت کیا گیا ہے (PLANNED ECONomy اراس سال کے اللہ ہناک واقعات میں سے مولوی محمد الدین صاحب مولوی محمدالدین ما مابعد البانيه.باخ البانيه ومصر کی المناک شہادت کا سانحہ بڑی اہمیت رکھتا کی المناک شہادت ہے.مولوی صاحب موصوف حضرت امیرالمومنین لیفہ البیع الثانی خليفة نومبر ۱۹۴۷ و کے اور شادی پر شکر فضل الرحمن صاحب مبلغ نائیجیریا سے چارج لینے کے لئے اور نبوت ان کی شاعر کو ارشاد حکیم قادیان سے روانہ ہوئے اور بیٹی سے شایاوہ نامی جہاز پر سوار ہوگئے.مگر بد قسمتی سے یہ جہانہ محوریوں کے تارپیڈو سے غرق ہو گیا.اور آپ میدان جہاد میں پہنچنے سے قبل ہی عالم جوانی میں اپنے رب کے حضور سرخرو ہو کر حاضر ہو گئے.فانا للہ وانا الیہ راجعون.حضرت سید نا ظیفہ ایسی اشانی نے ، اور ان کو سالانہ جل کے موقعہ پر عوامی محی الدین مین خلیفة المسیح جلسہ پر مولوی کی یورپ میں تبلیغی مساعی پر اظہار خوشنودی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :- ه ما نامه در دایش تبلیغ ها در صفحه ۲ تا ۲۲ د شاه ۵۲ جبر و ز دیوشن صدر انجمن احمد به مورخه هم بینی ها مفروم ۲۱ فروری > 14 فروری ۱۹۴۲ء له الفضل ٠ لے کر سفر مزید حالات کے لئے ملاحظہ ہو رسالہ الفرقان زبده امان الله صفحه ۱۰ نیم ۴۲ جون ۲۳ در
۳۵۹ مولوی محمد الدین صاحب اگرچہ انگریزی علوم سے نادا قعت تھے اور اُن کو تجربہ بھی نہ تھا نگر یورپ میں تبلیغ کے زمانہ میں ایسا اعلیٰ نمونہ دکھایا کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے.وہ پہلے البانیہ گئے.اور دہاں تبلیغ شروع کی.متعدد لوگ داخل اسلام کبھی ہوئے مگر منی نفین نے حکومت کے پاس شکایات کیں کہ یہ شخص مذہب کو بگاڑ رہا ہے.البانیہ کی حکومت مسلمان تھی مسلمانوں نے مشہور کیا اور کنگ زونغو نے آرڈر دے دیا کہ مولوی صاحب کو وہاں سے نکال دیا جائے.پولیں ان کو پڑھ کر سرحد پر چھوڑ آئی.وہاں سے نکالے جانے پر انہونی پہلے یونان میں تبلیغ شروع کر دی اور میرے لکھنے پر وہاں سے یوگو سلاویہ چلے گئے.البانیہ کی سردار یوگو سلاویہ سے ملتی ہے.میں نے انہیں لکھا کہ وہاں بھی تبلیغ کرتے رہیں.اور اُن کی تبلیغ سے بعض ایسے لوگ بھی احمدی ہوئے جود مسلمانوں کے لیڈر سمجھے جاتے تھے اور پارلیمنٹ میں مسلمانوں کے نمائندہ کی حیثیت سے شامل تھے حکومت یوگوسلادیہ کو حکومت البانیہ نے توجہ دلائی اور تحریک کی کہ مولوی صاحب کو وہاں بھی نکال دیا جائے.چنانچہ انہیں وہاں سے بھی نکال دیا گیا.اس پر وہ اٹلی آگئے.اور پھر ہاں سے مصر اور وہاں سے ہندوستان واپس آگئے.پھر ان کو مغربی افریقہ بھیجا گیا تھا اور وہ وہاں جا رہے تھے کہ اُن کا جہاز ڈوب گیا یہ سنتے فصل چهارم حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی الله عنه په ما نبوت همان مرا تحریک یک بار سینی کی ایک اہم عروض....د نومبر ۹ میں نقرس کا شد یار جمالہ ہوا جس کی وجہ سے چلنا تو درکنار بیٹھنا بھی قریباً ناممکن تھا.سوائے اس کے کہ تکیہ لگا کر اور سہارا لے کر بیٹھیں.ان حالات میں حضور نے ارادہ فرمایا کہ اس ماہ تحریک جدید کے سال نہم کا اعلان خطبہ جمعہ کی بجائے ایک مضمون کے ذریعہ سے کردیں لیکن پھر حضور کے ذہن میں بعض تاریخی واقعات اس قسم کے آئے کہ بعض جرنیلوں نے میدان جنگ میں نفرس کے درد کی حالت میں فوجوں کی کمان کی ہے اور پالکیوں میں بیٹے لیٹے لوگوں کو احکام بیٹے ے غیر مطبوعہ
٣٦٠ اور فتوحات حاصل کی ہیں.اس پر حضور نے سوچا کہ گو یہ ایک تکلیفتادہ امر ہے کہ انسان دوسروں کے کندھوں پر پڑھ کر آئے اور بظاہر یہ ایک معیوب سا فعل معلوم ہوتا ہے لیکن بہر حال جب تک ہمارا مقابلہ بھی دشمن سے ایک جنگ کے رنگ میں ہی ہے اگر چہ جسمانی نہیں بلکہ روحانی جنگ ہے اور پہلے انبیاء نے بھی کہا ہے کہ آخری زمانہ میں خدا تعالے کے فرشتوں اور شیطان کی آخری جنگ ہوگی تو کوئی وجہ نہیں کہ اگر دنیوی جنگیں نفرس کے حملہ میں پالکیوں میں بیٹھ کر لڑی گئی ہیں تو میں بھی اسی رنگ میں شامل نہ ہوں " اس خیال کے آنے پر حضور نے فیصلہ کیا کہ اس تکلیف کے باوجود میں خود جمعہ کے لئے جاؤں اور تحریک جدید کے نئے سال کے لئے اسی رنگ میں تحریک کروں جیسے گذشتہ سالوں میں ہمیشہ تحریک کرتا چلا آیا ہوں تا کہ اس فیصلہ کے مطابق حضور آرام کرسی پر بیٹھ کر جیسے چند دوستوں نے اٹھایا ہوا تھا مسجد قبلی میں تشریف لائے اور بیٹھ کر ایک نہایت لطیف اور پر جلال خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا بلکہ جس میں تحریک جدید کے سال نہم کا اعلان فرمایا اورتحریک جدید کے بنیادی اعراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ.تحریک جدید سے میری غرض جماعت میں صرف سادہ زندگی کی عادت پیدا کرنا نہیں بلکہ میری غرض انہیں قربانیوں کے تنور کے پاس کھڑا کرنا ہے تاکہ جب ان کی آنکھوں کے سامنے بعض لوگ اس آگ میں کود جائیں تو ان کے دلوں میں بھی آگ میں کودنے کے لئے جوش پیدا ہو.اور وہ - بھی اس جوش سے کام لے کر آگ میں کود جائیں اور اپنی جانوں کو اسلام اور احمدیت کے لئے قربان کر دیں.اگر ہم اپنی جماعت کے لوگوں کو اس بات کی اجازت دے دیتے کہ وہ باغوں میں آرام سے بیٹھے رہیں تو وہ گرمی میں کام کرنے پر آمادہ نہ ہو سکتے اور بزدلوں کی طرح پیچھے ہٹ کر میٹھے جاتے.مگر اب جماعت کے تمام افراد کو قربانیوں کے تنور کے قریب کھڑا کر دیا گیا ہے تاکہ جب اُن سے قربانیوں کا مطالبہ کیا جائے تو وہ اپنی جان کو قربان کرتے ہوئے آگ میں کود جائیں.چنانچہ جب قربانی کا وقت آئیگا اُس وقت یہ سوال نہیں رہیگا کہ کوئی مبلغ کب واپس آئیگا.اُس وقت واپسی کا سوال بالکل محبت ہو گا.دیکھ لو علی سائیوں نے جب تبلیغ کی تو اسی رنگ میں کی.تاریخوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب کوئی حواری یا کوئی ان شخص کسی علاقہ میں تبلیغ کے لئے گیا تو پھر یہ نہیں ہوا کہ وہ دائیں الفضل.ما تاهه الفصل ومبر ۶۱۹۲۰۲
۳۶۱ آگیا ہو.بلکہ ہم تاریخوں میں یہی پڑھتے ہیں کہ فلاں مبلغ کو فلاں جگہ پھانسی دے دی گئی اور خلال مبلغ کو نسلاں جگہ قید کر دیا گیا.ہمارے دوست اس بات پر خوش ہوا کرتے ہیں کہ صاحبزاد عبداللطیف صاحب شہیر نے سلسلہ کے لئے اپنی جان کو قربان کر دیا حالانکہ ایک عبد الطیف نہیں جماعت کو زندہ کرنے کے لئے سینکڑوں عبد اللطیف درکار ہیں جو مختلف ملکوں میں جائیں اور اپنی اپنی جانیں اسلام اور احمدیت کے لئے قربان کر دیں.جب تک ہر مک اور ہر علاقہ میں عبد الطیف پیدا نہیں ہو جاتے اس وقت تک احمدیت کا رعب قائم نہیں ہو سکتا احمدیت کار شعب اسی وقت قائم ہو سکتا ہے جب سب لوگوں کو گھروں سے نکال کر ایک میدان میں قربانی کی آگ کے قریب کھڑا کر دیا جائے تا جب پہلی قربانی دینے والے قربانی دیں تو ان کے کچھ کر خود بخود آگ میں کودنا شروع کر دیں اور اسی ماحول کو پیارا کرنے کے لئے میں نے تحریک جدید جاری کی ہے ہے ریڈیو کے تعلق تر امیرالمونین کی ہم بھی ان کی موجودہ و اخلاق اور ریاض کے پھیلانے کی میں جین ایجاد وں کا براہ راست عمل دخل ہے اُن میں سینما اور ریڈیو خاص طور پر قابل ذکر ہیں سینما کی ایجاد مشہوری ئینسدان ایڈمین نے سر میں کی اور ریڈیو کا موجد مارکونی تھا جس نے شاہ میں یہ آلہ تیار کیا.یہ دونوں اینجا دیں اپنی ذات میں بہت مفید تھیں، مگر جدید زمانہ کی نام نہاد تہذیب وتمدن نے انہی کو بے حیائی اور فحاشی کا ذریعہ بنا دیا جس کے ہولناک نتائج اب پوری دنیا کے سامنے کھل کر آ گئے ہیں.پوری دنیا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی دوربین نگاہ نے مدتوں قبل ہی سینما کی شریعتی ہوئی رو کے عواقب واثرات بھانپ لئے تھے اسی لئے حضور نے ۱۹۳۳ء میں تحریک جدید کی بنیاد رکھتے ہوئے جماعت سے سینما بینی کو ترک کرنے کا مطالعہ فرمایا جس پر جماعت کی غالب اکثریت نے نہایت شاندار رنگ میں عمل گیا.اس سال حضرت خلیفہ آسیح الثانی نے اپنے ۲۷ ) نبوت (نوبر، سر کے خطبہ جمعہ میں نوجوانوں کو سینما اور ریڈیو دونوں کی نسبت ایک خاص وصیت بھی فرمائی جو حضور ہی کے مقدس الفاظ میں درج ذیل کی جاتی ہے.حضور نے فرمایا :- الفضل در فتح ه ۱۳۵۳ (۱۲ دسمبر ۳۲ صفحه ۵ به
۳۹۲ N بیشک ریڈیو کے ذریعہ بعض اچھی چیزیں بھی نشر کی جاتی ہیں مگر ناچ اور گانا ایسی گناہ ہیں چیزیں این جنہوں نے ہر گھر کو ڈوم اور میرانی بنا دیا ہے.اور ہماری جماعت کا فرض ہے کہ وہ اپنے آپ کو اور باقی دنیا کو اسکی ضر سے بچائے اور اس کا صرفت مفید پہلو قائم رکھے اللہ تعالٰی قرآن کریم میں فراتا ہے.لا يعركُم مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَ يَتُو المائده ال جب تم ہدایت پر ہو تو تمہیں دوسرے کی گمراہی کی پروا بھی نہیں کرنی چاہیئے.اگر تم صحیح راستہ پر چل رہے ہو اور دوسرا شخص تمہارے ساتھ یہ شرط کرنا چاہتا ہے کہ تم صحیح راستند کو چھوڑ کر غلط راستے کو اختیار کر لو تو فرماتا ہے ایسے شخص کو بے شک تم گمراہ ہو نے دو مگر صحیح راستے کو ترک نہ کرو.تو ان چیزوں کو دنیا سے تم نے مٹانا ہے اور تمہارا فرض ہے کہ خدا تعالے تمہیں جب حکومت اور طاقت عطا فرمائے تو جس قدر ڈوم اور میرائی میں ان سب کو رخصت گردو اور کہو کہ جا کر حلال کمائی کماؤ.ہاں جغرافیہ یا تاریخ یا مذہب یا اخلاق کا جو حصہ ہے اس کو بے شک رہنے دو.اور اعلان کر دو جس کی مرضی ہے ریڈیو سنے اور جس کی مرضی شنے.اس وقت ریڈیو والوں نے ایک ہی وقت میں دو نہریں جاری کی ہوئی ہیں.ایک نہر میٹھے پانی کی ہے اور دوسری نہر کڑوے پانی کی ہے.اللہ تعالے قرآن کریم میں بھی دو شہروں کا ذکر کرتا ہے.اور فرماتا ہے ایک نہر میں تو میٹھا پانی ہے مگر دوسری نہر میں کڑوا پانی ہے.تیں جب بھی ریڈیو سنتا ہوں تو مجھے پر یہی اثر ہوتا ہے کہ یہی دو نہریں ہیں جن کا قرآن کریم نے ذکر کیا ہے.اس سے ایک طرف میٹھا پانی جاری ہوتا ہے اور دوسری طرف کڑوا پانی جاری ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.ان کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا اور یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ کڑی نالی کے ہوتے ہوئے میٹھا پانی غالب آجائے.بیٹھا پانی اُسی صورت میں غالب آ سکتا ہے جب کڑوے پانی کی نالی کو بالکل بند کر دیا جائے یا ملہ کیلئے سمو را شروع ما در افتح هاله در بیری ده کا واقعہ سیم هم سلسل احمد کے مصنفوں اور نا شروی اہم فرمان ہے کہ ایک اور نوجوان نے املا در ایمانی احمدی فتح ) میں تخت گاہ رسول میں اہل اللہ کا عظیم الشان اجتماع" کے عنوان سے ایک مضمون لکھا چونکہ قریہ کے بغیر " له الفضل در فتح هاته (۱۲ دسمبر ۱۹۳۲ صفحه ۰۹۰۸ و
ہو رسول" کا لفظ نہ صرف رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات کے لیئے اور تخت گاہ رسول کا نقظ صرفت مدینہ منورہ کے لئے مخصوص ہے.اس لئے حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے مضمون پڑھتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ اس روز جو خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا اس میں اس مضمون کو فتنہ کی بنیاد قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف پوری قوت و طاقت کے ساتھ آواز بلند کی اور اس ضمن میں احمدیوں کو نصیحت فرمائی کہ جماعت میں کوئی ایسی تحریک نہ اُٹھنے دیں جن میں حضرت مسیح موعود اور حضور کے خلفاء کے متعلق غلو سے کام لیا گیا ہو.چنانچہ حضور نے فرمایا : یکی جماعت کے تمام مصنفین وغیرہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس قسم کے الفاظ کا استعمال کرنا جائز نہیں.میں یہ نہیں کہتا کہ تم قادیان کے متعلق تخت گاہ رسول کے الفاظ استعمال است گرد میں یہ کہتا ہوں کہ جب مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے علاوہ دوسرے شہروں کا ذکر آجائے تو اس کے مقابلہ میں قادیان کو تخت گاہ رسول کہا جاسکتا ہے.مگر جب شہروں کا عام ذکرہ جن میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ بھی شامل ہوں تب قادیان کے متعلق تخت گاہ رسول کے الفاظ کا استعمال درست نہیں.کیونکہ اس صورت میں تخت گاہ رسول فتر مدینہ منورہ ہوگا.جیسے نبیت اللہ " کا لفظ ہم ہر سجد کے لئے بول سکتے ہیں مگر اس صورت میں جب کوئی اشارہ اور قرینہ موجود ہو.لیکن جب بغیر قرینہ کے بیت اللہ کا لفظ استعمال کیا گیا ہو تو اس سے مراد صرف بیت اللہ کی مسجد ہوگی احمد کوئی مسجد نہیں ہوگی.نہیں اس بارے میں ہمارے لئے احتیاط بہت ضروری ہے.ہمارا کام صرف یہ نہیں کہ ہم پیشامیوں کا مقابلہ کریں بلکہ ہمارا کام یہ بھی ہے کہ ایسی تحریکیں بھی جماعت میں نہ اُٹھنے دیں جن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یا آپ کے خلفاء کے متعلق غلو سے کام لیا گیا ہو.میں نے دیکھا ہے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں بعض لوگ ایسے تھے جنہوں نے آہستہ آہستہ آپ کو ایک مستقل درجہ دینا شروع کر دیا تھا.اور اب بھی اگر سلسلہ کے اخبارات کو گہرے غور سے پڑھا جائے جس طرح میں پڑھا کرتا ہوں تو تھوڑے تھوڑے مہینوں کے بعد اس کی پیک سی پیدا ہو جاتی ہے اور صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ بعض لوگ حضرت خلیفہ اول کو مستقل طور پر کوئی الگ درجہ دینا چاہتے ہیں.میرے ڈر کی وجہ سے یا سلسلہ *
نظام کے ڈر کی وجہ سے اس قسم کے خیالات ابھرتے نہیں.لیکن تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد اس کی ایک ہی پیدا ہو جاتی ہے.اور مجھے ہمیشہ ایسی باتوں کو پڑھ کر مزا آتا ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک دفعہ مجھے ہی مخاطب کرتے ہوئے فرمایا اور شاید اسی لئے فرمایا کہ میں اس کی نگرانی کروں کہ ہماری جماعت میں تین قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں.ایک تو وہ ہیں جو حضرت مولوی صاحب کی وجہ سے سلسلہ میں داخل ہو گئے ہیں ، حضرت خلیفہ اول کو حضرت مسیح موعود علیہ سلام عام طور پر مولوی صاحب کہا کرتے تھے) وہ مودی صاحب کی قدر جانتے ہیں ہماری نہیں.چونکہ مولوی صاحب نے ہماری معیت کر لی ہے اس لئے وہ بھی بیعت میں شامل ہو گئے ہیں.اس سے زیادہ اُن کا ایمان نہیں بیشک اُن کے دلوں میں ایمان ہے مگر اُن کا ایمان واسطے کا ایمان ہے.اس کے مقابلہ میں ایک گردہ ہماری جماعت میں ایسا ہے جس نے یہ دیکھا کہ ایک جماعت بن گئی ہے اور اس میں قربانی اور ایثار کا مادہ پیدا ہوگیا ہے تو قوم کی خدمت کے لئے وہ اس جماعت میں شامل ہو گیا.کیونکہ قومی خدمت کے لئے قربانی اور ایثار کرنے دانوں کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ سوائے ہماری جماعت کے اور کہیں نہیں مل سکتے.ایسے لوگ چاہتے ہیں کہ انجمنیں بنائیں، مدر سے بنائیں.دفاتر بنائیں اور دنیوی رنگ میں قوم کی بہبودی کے کام کریں.ایسے لوگ بیشک ہم کو مانتے ہیں مگر اپنے کاموں کا آلہ کار بنانے کے لئے ہمارے مقام کو مقدم سمجھ کر نہیں مانتے.مگر ان کے علاوہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے ہم کو سچے دل سے مانا وہ ہمیں خدا کا مامور سمجھتے ہیں اور ان کی نگاہ پہلے ہم پر پڑتی ہے اور ہم سے اتر کر پھر کسی اور پر پڑتی ہے اصل مخلص رہی ہیں باقی جس قدر ہیں وہ ابتلاء اور ٹھوکر کھانے کے خطرہ نہیں ہیں.یہ بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے میرے سامنے بیان کی تھی حالانکہ میری عمر اس وقت بہت چھوٹی تھی.آپ کا اِس بات کا میرے سامنے بیان کرنا بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم کے ماتحت آپ اس بات کو جانتے تھے کہ لوگوں کی نگرانی کسی زمانہ میں میرے سپرد ہونے والی ہے اور آپ نے اُسی وقت مجھے ہوشیار کر دیا.چنانچہ ایک ٹکراؤ تو میری خلافت کے شروع ہوتے ہی انجمن دالوں سے ہو گیا اور وہ قادیان سے نکل گئے.باقی جو غلو کرنے والے ہیں
۳۶۵ وہ بھی ہمیشہ رہتے ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ اُن کا سر کچلتے رہیں کا سنہ اس حضر امیرالمومنین کا لکچر نظام تو دنیا کی عالی تاریخ سے پتہ چلتاہے کہ بی اے کا سال تو ۶۱۹۴۲ دنیا کی سب اقوام کے لئے نہایت درجہ پریشانی کا سال تھا.جس میں ایک طرف خوفناک مادی جنگ لڑی جارہی تھی اور دوسری طرف سرمایہ داری او اشتمالیت داشتراکیت کے نظام ہائے زندگی آپس میں شدید طور پر متصادم ہو رہے تھے اور دنیا کا معاشرہ بے شمار سماجی معاشی اور اقتصادی مصائب میں گھر چکا تھا اور ضرورت تھی کہ کوئی مرد خدا دنیا کی راہنمائی کرے.یہ تھے وہ حالات جن میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی اقوام عالمہ کی قیادت کے لئے آگے بڑھے.اور حضور نے ۲۷ فتح ها (دسمبر سنہ) کو جلسہ سالانہ کے تیسرے دن نظامی نوکی تعمیر پر ایک معرکتہ الآراء وخطاب فرمایا.جن میں پہلے تو شہارِ حاضر کی ان اہم سیاسی تحریکات ( مثلا جمہوریت کا اشخاصیت د و اشتراکیت و غیره ) پر سیر حاصل روشنی ڈالی جو عام طور پہ غریبوں کے حقوق کی علمبردار قرار دی جاتی ہیں.اور خصوصاً اشتراکیت کے سات بنیادی نقائص کی نشاندہی کی.ازاں بعاد غریبانہ کی حالت سدھارنے کے لئے یہودیت، عیسائیت ، بہانہ ازم کی پیش کردہ تدابیر کا جائزہ لیا اور آخر میں اسلام کی بے نظیر تعلیم بیان کر کے اسلامی نقطہ نگاہ کے مطابق دنیا کے نئے نظام کا نقشہ ایسے دلکش اور موثر پیرائے میں پیش کیا کہ سننے والے عش عش کر اُٹھے.رانی ضمن میں حضور نے یہ بھی فرمایا کہ قرآن مجید کی عظیم الشان تعلیم کو دنیا میں قائم کرنے کے نئے خدا تعالے کے مامور کے ہاتھوں دسمبر ہ میں نظام نو کی بنیاد قادیان میں رکھی گئی جس کو مضبوط کرنے اور قریب تر لانے کے لئے اللہ تعالے کی طرف سے ۱۹۳۳ء میں تحریک جدید جیسی عظیم الشان تحریک کا القاء فرمایا گیا.اس عظیم الشان لیکچر کے آخر میں حضور نے پر شوکت الفاظ میں فرمایا : غرض تحریک جدید گو وصیت کے بعد آئی ہے مگر اس کے لئے پیشرو کی حیثیت میں ہے.گویاده میسج کے لئے ایک ایلیاہ نبی کی حیثیت رکھتی ہے اور اس کا ظہور مسیح موعود کے عید والے ظہور کے لئے بطور ا رہاص کے ہے.ہر شخص جو تحریک جارید میں حصہ لیتا ہے بیت کے نظام کو وسیع کرنے میں مدد دیتا ہے.اور ہر شخص جو نظام وقیمت کو وسیع کرتا ہے وہ ن الفضل ارتح هذا لا ۱۰ دسمبر ۱۹۴۲) صفحه ۳۰۲
٣٦٩ نظام نو کی تعمیر میں مدد دیتا ہے.خلاصہ یہ کہ میں نے بتایا ہے حقیقت جاری ہے اس تمام نظام پر جو اسلام نے قائم کیا ہے بعض لوگ غلطی یہ خیال کرتے ہیں کہ جیت کا مال اشرفی انسان اسلام کےلئے ہے گریہ بات درست نہیں دویت تلفظی است و عملی اشاعت دونوں کے لئے ہے جس طرح اس میں تبلیغ شامل ہے اسی طرح اُس میں اس نئے نظام کی تکمیل بھی شامل ہے جس کے ماتحت ہر فرد بشر کی باعزت روزی کا سامان مہیا کیا جائے.جب وصیت کا نظام مکمل ہوگا تو صرف تبلیغ ہی اس سے نہ ہوگی بلکہ اسلام کے فشار کے اتحت ہر فرد بشر کی ضرورت کو اُس سے پورا کیا جائیگا اور دکھ اور تنگی کو دنیا سے مٹا دیا جائیگا انشاء اللہ یتیم بھیک نہ مانگے گا.بیوہ لوگوں کے آگے ہاتھے نہ پھیلائے گی.بجے سامان پیشان نہ پھرے گا.کیونکہ دقیقت بچوں کی ماں ہوگی جوانوں کی باپ ہوگی.عورتوں کا سہاگ ہوگی اور جبیر کے بغیر محبت اور دلی خوشی کے ساتھ بھائی بھائی کی اس کے ذریعہ سے مدد کرے گا.اور اس کا دنیا ہے بدلہ نہ ہوگا بلکہ ہر دینے والا خدا تعالے سے بہتر بدلہ پائیگا.نہ امیر گھاٹے میں رہے گا.نہ غریب.نہ قوم قوم سے لڑے گی بلکہ اس کا احسان سب دنیا پر دینی ہوگی ! پس اسے دوستو ! دنیا کا نیا نظام نہ مسٹر چرچل بنا سکتے ہیں نہ مسٹر روز ویلٹ بنا سکتے ہیں.یہ اٹلانٹک چارٹر کے دعوے سب ڈھکوسلے ہیں.اور اس میں گئی نقائص ، گئی عیوب اور کئی خامیاں ہیں.نئے نظام رہی لاتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں مبعوث کئے جاتے ہیں.کین کے دلوں میں نہ امیر کی دشمنی ہوتی ہے نہ غریب کی بے جا محبت ہوتی ہے جو نہ مشرقی ہوتے ہیں نہ مغربی.وہ خدا تعالے کے پیغامبر ہوتے ہیں اور وہی تعلیم پیش کرتے ہیں جو امن قائم کرنے کا حقیقی ذریعہ ہوتی ہے.پس آج رہی تعلیم امن قائم کرے گی جو حضرت مسیح موعود کے ذریعہ آئی ہے اور جس کی بنیاد الوحیة کے ذریعہ 190 ء میں رکھ دی گئی ہے........پس اے دوستو جنہوں نے وصیت کی ہوئی ہے سمجھ لو کہ آپ لوگوں میں سے جس جس نے اپنی اپنی جگہ وصیت کی ہے، اس نے نظام نو کی بنیاد رکھ دی ہے اس نظام نوئی جو اُس کی اور اُس کے خاندان کی حفاظت کا بنیادی پتھر ہے اور میں میں نے تحریک جدید میں حصہ لیا ہے اور گر وہ اپنی ناداری کی وجہ سے اس میں حصہ نہیں لے سکا تو وہ اس تحریک کی کامیابی کیلئے
مسلسل دعائیں کرتا ہے اُس نے وصیت کے نظام کو وسیع کرنے کی بنیاد رکھدی ہے.پس آے دوستو! دنیا کا نیا نظام دین کو مٹا کر بنایا جا رہا ہے.تم تحریک جدید اور وصیت کے ذریعہ کہ سے کس سے بہتر نظام دین کو قائم رکھتے ہوئے تیار کرد - گر جلدی کرد که دوڑ میں جو آگے نکل جائے وہی جیتتا ہے.پس تم جلد سے جلد وصیت کرو تاکہ جلد سے جلد نظام نو کی تعمیر ہو.اور وہ مبارک دن آجائے جبکہ چاروں طرف اسلام اور احمدیت کا جھنڈا لہرانے لگے.اس کے ساتھ ہی میں ان سب دوستوں کو مبارک باد دیتا ہوں جنہیں وصیت کرنے کی توفیق حاصل ہوئی.اور میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالٰی ان لوگوں کو بھی جو ابھی تک اس نظام میں شامل نہیں ہوئے توفیق دے کہ وہ بھی اس میں حصہ لیکر دینی و دنیوی برکات سے مالا مال ہو سکیں اور دنیا اس نظام سے ایسے رنگ میں فائدہ اٹھائے کہ آخر اسے تسلیم کرنا پڑے کہ قادیان کی وہ بستی جسے کو ردہ کہا جاتا تھا، جسے جہالت کی بستی کہا جاتا تھا اُس میں سے وہ نور نکلا تمہیں نے ساری دنیا کی تاریکیوں کو دور کر دیا.جس نے مداری دنیا کی جہالت کو دور کر دیا.جس نے ساری دنیا کے دکھوں اور دردوں کو دور کر دیا اور جس نے ہر امیر اور غریب کو ہر چھوٹے اور بڑے کو محبت اور پیار اور گفت باہمی سے رہنے کی توفیق عطا فرما دی.اخبار سٹیٹین میں ذکر اخبار سیشین بابر نے نیا کا نظام دی ایرانی اور نفر سٹیٹسمین شانہ کے عنوان سے اس لیکچر کا خلاصہ جن الفاظ میں شائع کیا اُن کا ترجمہ درج ذیل کیا جاتا ہے :- جماعت احمدیہ کے جلسہ سالانہ کے آخری دن کی آخری تقریر میں امام جماعت تقدیر حفر میرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے دنیا کے نئے نظام کا ذکر کیا.پہلے آپ نے اُن تمدنی، اقتصادی اصولوں کا ذکر کیا جو مختلف طریق سے دنیا میں دولت کی غلط تقسیم کو مٹانے اور دنیا سے افلاس دمحتاجی کو دور کرنے کے لئے پیش کئے جاتے ہیں.اور فرمایا کہ اب ملوکیت کا زمانہ نہیں رہا.امیر شلیزم کے ظالمانہ برتاؤ اور بے رحم اقتصادی دباؤ اور مختلف طبقوں کے نظام نو صفحه ۱۲ تا ۱۴
و نظر ڑھتے ہوئے باہمی مقابلہ اور تصادم کی مدت اب ختم ہوگئی اور نے نظام کا وقت آگیا ہے ٹرانک چارٹر کی نسبت فرمایا کہ اس سے بھی فائدہ نہ ہوگا.نیز فرمایا کہ اگرچہ اصول کے لحاظ سے کیونزم کا اصول خوشکن معلوم ہوتا ہے کہ ہر شخص سے اس کی مالی حیثیت کے مطابق نے کیا جائے اور ہر شخص کو اس کی ضرورتوں کے مطابق دیا جائے مگر عمل میں یہ کامیاب نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ ذاتی ملکیت سے محروم کرتا ہے اور اس سے انسان کا جوشی عمل ضائع ہو جاتا ہے.نیز کمیونزم کے اصول میں یہ بڑا نقص ہے کہ وہ انسان کے وجدان روحانی کو خدا پرستی سے روک کر سخت صدمہ پہنچاتا ہے.اس کے ساتھ آپ نے جرمنی، جاپان اور اٹلی کے آمرانہ طریق حکومت پر سخت اعتراض کیا اور کہا کہ یہ وحشیانہ تخیلات ہیں جن میں قومی منافرت ، تنگ نظری اور فوجی طاقتوں کا بھیانک مظاہرہ ہوتا ہے.موجودہ جنگ ان ہی کے خراب منصوبوں کا نتیجہ ہے جن سے اُن کا یہ مقصد تھا کہ تمام دنیا پر غلبہ حاصل کریں اگر یہ کامیاب ہوئے تو انسانی تہذیب و تمدن برباد ہو جائے گا بلکہ مذہب بھی بٹ جائیگا حضرت امام جماعت احمدیہ نے ایک نہایت خوش نما منظر اس نظام کا پیش کیا جس پر بند جنگ دنیا کی تعمیر ہوگی.آپ نے فرمایا کہ حد سے زیادہ مناتے نہیں لئے جائینگے دولت کے ڈھیر سود کے ذریعہ جمع نہ ہو سکیں گے.اسلام اپنے قانون وراثت سے دالت کو سیع حلقہ میں تقسیم کرے گا اور روپیہ چند ہاتھوں میں جمع نہ ہو سکے گا.زکواۃ ۲ فیصدی ٹیکس آمدنی پر ہی نہ ہوگی بلکہ اصل اور منافع دونوں پر ٹیکس ہوگا.بہت سی صورتوں میں خالص منافع کا پچاس فیصدی تقسیم ہو گا.ان کے علاوہ اسلامی حکومت کو اختیار ہے کہ وہ امد ذرائع سے بھی اپنا خزانہ پھر کرے.لیکن باوجود اس کے اسلامی حکومت جوش عمل کو برقرار رکھنے اور بڑھانے کے لئے ذاتی ملکیت کو تسلیم کرتی ہے اور اسلام یہ سبق بھی دیتا ہے کہ قدرتی تمام اشیاء تمام انسانوں کی ملکیت ہیں اور ان پر کوئی خاص انسان قبضہ نہیں کر سکتے ہے سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا یہ سیکچر دختر تحریک جدید کی طرف سے نظام نو“ کے نام سے ه بحواله اختبار الفضل در صلح (جنوری ۱۲۳ ۱۳ صفحه -
۳۶۹ کتابی شکل میں شائع کر دیا گیا.اور بہت مقبول ہوا جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امان را مارچ ۱۹۴۹ء تک اس کے تین ایڈیشن شائع ہوئے اور ہاتھوں ہا تھ یک گئے بیٹے نظام نو " کو بیرونی دنیا سے روشناس کرانے کے لئے اب تک اُس کے عربی ، انگریزی اور ترکی زبان میں تراجم بھی شائع ہو چکے ہیں.مصر کے مشہور ادیب ،الاستاذ عباس محمود العقاد نے اس عظیم الشان لیکچر کے انگریزی ترجمہ کی المات پر مصر کے مشہور ادبی مجتہ الرسالة " میں حسب ذیل تبصرہ کیا: اس لیکچر کے مطالعہ سے یہ بات عیاں ہے کہ ناضل بیکچرار : حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ، عالمگیر نظام کی توجہ اس طرف پھیرتے ہیں کہ فقر اور غربت کی مصیبت کو دور کیا جائے.یا با اخاه دیگر جمع شدہ اموال کو تمام دنیا کی قوموں اور لوگوں میں تہعنہ ردی تقسیم کیا جائے.بلا شک آپ نے دیکھا ر صاحب نے تمام دنیا کے جملہ نئے نظاموں پر جنہوں نے اس مصیبت اور مشکل کو ڈور اور حل کرنے کی کوشش کی ہے.یعنی نیسی از م ، نازی ازم اور کمیونزم اور بعض دیگر جمہوری نظام.اور یہ ظاہر ہے کہ آپ کو ان سب نظاموں کے متعلق ہر جہت سے مکمل اطلاع ، اور علم حاصل ہے.لیکن ساتھ ہی آپ یہ اعتقاد بھی رکھتے ہیں جو بالکل صحیح اعتقاد ہے کہ سیاست دان اور پارٹی لیڈرز اور حکومتیں اس مشکل کو حل نہیں کر سکتیں اس لئے ایسی مشکلات کو حل کرنے کے لئے روحانی قوت کی ضرورت ہے.کیونکہ ہر ایسی مشکل جو تمام انسانوں سے تعلق رکھتی ہے اس کا حقیقی مل اور علاج تمام کے تمام انسان ہٹا کر ہی کر سکتے ہیں.اس لئے ہے بڑی چیز جو اطمینان پیدا کرتی ہے اور نیک کاموں اور اصلاح کے لئے دلیری پیدا کرتی ہے یعنی اعتقاد ے پیار ایڈیشن اور دوسرا ایڈیشن مہر شہادت دیرین) میں، تیسرا ایڈیشن اور ان کو شائع ہوا.تیسرے ایڈیشن کی طباعت میں حضرت قمر انہ نبیا و من جزادہ مرزا بشیر احمد صاداری این ایم ہے.ابو یہ مولوی نور الحق صاحب داقت زندگی - حافظ بشیر الدین صاحب واقف زندگی اور چوہدری محفوظ الحق صاحب واہ نہ زندگی نے معاونت کی.سے عباس محمود العقاد دنیائے عرب کی ایک مشہور ادبی شخصیت تھے جن کا شمار اس صدی کے گنے چنے عرب موانفین مصنفین میں ہوتا ہے.آپ کی تالیفات و تصفیفات کی تعداد بھائی سے متجاور ہے.ہر کتاب اپنے موضوع اور مواد کے اعتبار سے نظر ہے.
٣٧٠ اور ایمان اس کو نظر انظار نہیں کیا جاسکتاہ اس کے بعد آپ نے ہندوستان میں موجود بڑے بڑے راہ پر خصوصی اور دنیا کے دوسرے مذاہب پر عموماً ایک محققانہ نظر ڈالی ہے تا اُن سے وہ علاج دریافت کیا ہے جو وہ اس مشکل کے دور کرنے کیلئے جسے دنیا بری نظر سے دیکھتی ہے وہ پیش کرتے ہیں.اور تا اُن سے نیا نظام دریافت کیا جائے جو وہ موجودہ نظام کی بجائے پیش کر سکتے ہیں کیونکہ ان کا بھی فرض ہے کہ وہ اس مشکل کو حل کریں اور اس مصیبت کو دور کریں.اس کے بعد آپ نے بہت سے دلائل اس بات کے لئے پیش کئے ہیں کہ ان سب مذاہب میں سے صرف اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو اپنے اندر ان مشکلات کو حل کرنے کی طاقت رکھتا ہے اور تمام اقوام اور تمام لوگ پہلے بھی اس پر عمل کر سکتے تھے اور اب اس موجودہ زمانہیں بھی عمل کر سکتے ہیں.(اس کے بعد الاستاذ عباس محمود العقاد نے نظام تون اس حصے کا خلاصہ اپنی زبان میں دیا ہے) موکت یا بالفاظ دیگر فاضل لیکچرار صاحب نے صرف ان مذہبی عقائد کا ہی جن کا ہم نے مذکورہ بالا سطور میں نہایت مختصر طور پر اشارہ ذکر کیا ہے مقابلہ اور موازنہ کرنے میں ہی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی بلکہ آپ نے خاص طور پر اُن پر گہری نظر ڈالی ہے اور خاص اہتمام سے کام لیا ہے.کیونکہ صرف مقیارہ ہی جیسا کہ آپ نے فرمایا ایک ایسی چیز ہے جس سے صلاح کی امید رکھی جاسکتی ہے.اور ساتھ ہی آپ نے ان عقاید کا مقابلہ اور موازنہ کرنے کے علاء و ان تمام سیاسی اور سوشل نظاموں کا بھی مقابلہ اور موازنہ کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ سبد کے سب عملی طور پر بھی اور روحانی طور پر بھی اپنے مقاصد میں ناکام رہے ہیں (اس کے بعد نظام نو کے اس حصہ کا خان صہ دیا ہے جو سیاسی اور سوشل نظاموں پر مشتمل ہے) یکچر کا انگریزی ترجمہ جو یذکورہ بالا خلاصہ کی تفصیلات پر مشتمل ہے متوسط تقطیع کے ایک سوا اور کچھ اوپر صفحات پرمشتمل ہے.اور ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ اگر یہ آوازہ یورپ اور امریکہ کے انگریزی خوان طبقہ میں پھیپ لائی جائے بلکہ خود اہلِ ہندوستان اور اہل مشرق کے درمیان بھی پھیپ پائی جائے تو یقینا اپنا اثر دکھلائے گی.رجب ن الفضل در فتح هش (۱۶ دسمبر ۱۹۲۱) صفحه ۴ * + جمه
۳۷۱ تقریر کے نوٹ لکھوانا : نظام نو کے تعلق میں بالآخر یہ بتانا بھی مناسب ہوگا کہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے اس تقریر کے نوٹ حضرت سیدہ اہم متین کو خوار کرائے تھے.چنانچہ آپ تحریر فرماتی ہیں:.حضور کی تقریروں کے نوٹ سے لے کر خدا تعالیٰ کے فضل سے تیز لکھنے کی عادت پڑی اللہ تعالی کا فضل تھا کہ کتنا ہی تیزی سے مضمون لکھواتے تھے لکھے لیتی تھی.سب سے نے جس تقریر کے نوٹ مجھے امداد کروائے تھے وہ نظام نو " والی تقریری تھی.آپ لکھواتے گئے میں لکھتی گئی.جب نوٹ مکمل ہو گئے تو فرمانے لگے کچھ سمجھ آیا ؟ میں نے جو کچھ آپ نے لکھوایا تھا وہ بتانا شروع کیا.کہنے لگے نہیں! یہ تو تمہیدیں ہیں.یہ قرآن مجید اور احادیث کے حوالہ جات ہیں.ان سے میں کیس مضمون کی طرف آنا چاہتا ہوں میں نے کہا ، یہ تو سمجھ نہیں آئی.کہنے لگے یہی تو کہاں ہے کہ سارا مضمون اشاروں میں سکھوا گیا مریم بتا نہ سکیں کہ کیا موضوع میری تقریر کا ہوگا.میں نے کہا.پھر بتائیں.کہنے لگے.نہیں اب جلسہ پر ہی سنتا ؟ فصل پنجم جلیل القدر صحابہ کا انتقال ۱ - جو ہندی حاکم علی صاحب پک پیار ضلع گجرات.د تاریخ وفات در ماه صلح ها ۰۲ ۱۳ جنوری ۱۹۳۷ یم کله نهایت قدیم صحابی : جو نہایت متقی اور سلسلہ کے ساتھ گہرا اور دانہا نہ اخلاص رکھنے والے تھے.19 صلح هر ۱۳:۲۱ ۲ - بھائی محمد اسمعیل صاحب ساکن دید ها علاقه اسناد ربیعیت نشره وفات مار بہت غیور اور اپنے علاقہ میں احمدیت کا اعلیٰ نمونہ تھے بیٹے میاں محمد رمضان صاحب پنڈی چری صلح در ۱۳۰۲۱ دونات ۲۱ مر جنوری ۶۱۹۴۲ جنوری ۶۱۹۳۲ آپ نہایت نیک اور صالح آدمی تھے.ایک عرصہ تک جماعت پنڈی چھری کے امام الصلوۃ بھی.1944.( در صلح ها صفحه الالم ا در جیور کی ۶۱۹۴۲ ن ر الفضل ۲۵ امان ۱۳:۳۵ مارچ ۶۱۹۶۶ صفحه ۳ کالم ۲+ ، ٣ ٢٣ الفضل در صبح الفضل ۱۲ تبلیغ ها ۱۳۵۲ صفحه یم کالم ۳-۴ + ۱۲ الفضل ، در تبلیغ ها ۱۳ ه ) ) از فروری الفضل ار تبلیغ ۱۳۳۵ (۷) فروری ۱۹۳۳ در صفحه ۲ کالم فراری ۱۱۹۴۲ * 4 1
۳۷۲ ۳- چوہدری محمد حسین صاحب ریٹائرڈ سٹیشن ماسٹر ساکن محله دارالعلوم قادیان امارات اور صبح ها جنوری ۱۹۴۲) حکیم سید احمد صاب ساکن میان ضلع گجرات شهر مارم حکیم الاحسن حمد لا بردن ناديا اونا ۳۰/ در تسلیح دا ت جنوری ۱۹۴۲ء - حضرت موادی غلام احمد صاحب اختر اوچ شریف ریاست بہاولپور (ونات ماه تبلیغ (فروری ) ۶۱۹۳۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مختلف صحافی اور فارسی کے تبحر عالم تھے سوفات کے وقت بچے چھوٹے تھے اور دیگر پسماندگان احمدی نہ تھے اس لئے مرکز قادیان میں ان کی وفات کی اطلاع ماہ وفا یعنی چار ماہ بعد پہنچی حضرت حافظ نبی بخش صاحب متوطن فیض اللہ چک ضلع گورداس پور والد ماجد حکیم فضل الر حمن صاحب مجاہد مغربی افریقی - دبیعت از مار چ نشانه - وفات ۲۳ رایان زمارچ ) عمر ۸۵ سال) حضرت حافظ صاحب کو شل عملہ ء سے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی خدمت میں بار بانی کا مشیر حاصل تھا.حضور آپ کو گول کمرہ یا مسجد میں ٹھہرایا کرتے تھے.اوائل زمانہ میں آپ کو بیت الفگر میں کئی بار سونے کا بھی شہرت حاصل ہوا.اور کئی دفعہ حضور کے ساتھ ایک ہی برتن میں کھانا کھانے کا موقعہ ملا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عصر کی ایک نمازہ آپ کی امامت میں بھی ادا فرمائی.نشہ میں آپ کا لڑکا عبدالرحمن جو ہائی سکول قادیان کی ساتویں جماعت میں تعلیم پا رہا تھا وفات پا گیا.اس حادثہ کے چند دن بعد آپ قادیان آئے اور مسجد مبارک میں پہنچے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس وقت محراب میں گھر کیوں کے درمیان اپنے خدام کے ساتھ تشریف فرما تھے.حضور کی نظر شفقت جو نہی آپ پر بڑی حضور نے پاس بلا کر بٹھا لیا.اور فرمایا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ نے اپنے بچے کی وفات پر بڑا صبر کیا ہے.پھر کمر پر دست شفقت پھیرا اور فرمایا " ہم نے آپ کے لئے بہت دعا کی ہے اور کریں گے.یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالے نعم البدل دے گا.اس دعا کے نتیجہ میں حضرت حافظ صاحب کو جو بہتر نعم البدل کے طور پر عطا ہوا وہ حکیم فضل الرحمن صاحب تھے کیے جنہوں نے عین جوانی میں سیلہ ملہ کی خدمت کے لئے اپنے تیں وقف کیا اور قریباً ربع صدی تک مغربی افریقہ میں تبلیغی جہاد میں سرگرم عمل رہے اور ۱۲۸ ظہور (اگست ۱۳۰۳۳۵ که انتقال فرمایا.حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے اُن کی وفات پر اُن کی دینی قربانیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا : " حکم فضل الرحمن صاحب......شادی کے تھوڑا عرصہ بعام ہی مغربی افریقہ میں ۶۱۹۵۵ ه الفضل سوم رماه صبح ۱۳۳۵ (۲۳۲ جنوری ۶۱۹۲۲ صفرا و شه الفضل بیکم ماه تبلیغ ها سر دیکم فروری ۱۶۱۴۲۲ صفحه ا کالم ۲ س ہجرت ها دار هجرت الفضل مرناها صفحه کانم + ۴ الفضل در به و
۳۷۳ تبلیغ اسلام کے لئے چلے گئے.اور تیرہ چودہ سال تک باہر رہے.جب وہ واپس آئے تو ان کی بیوی کے بال سفید ہو چکے تھے.اور اُن کے بچے جوان ہو چکے تھے.انہ حضرت حافظ صاحب عابد زاہدہ بزرگ تھے.تہجد کا خاص طور پر اہتمام فرماتے.اول درجہ کے مہمان نواز تھے اور نہایت صابر و شاکر تھے سلسلہ کے سب اخبارات خریدتے تھے.سلیسانہ کی تحریکوں میں حتی الوسع حصہ لیتے تھے.دمیت کی رقم اور جائیداد کا حصہ زندگی میں ہی ادا فرما دیا تھا یہ ۱۹۳۵ ء میں چلنے پھرنے سے معذور ہو گئے.اور اس وقت سے مرض الموت تک فریش رہے.اس دوران میں اور بعد میں بھی مختلف عوارض کا حملہ آپ پر ہوتا رہا مگر کبھی حرف شکایت زبان پر نہیں لائے.ہمیشہ اللہ تعالے کا شکر ادا کرتے اور ہر شخص سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملاقات فرماتے.۸ - حضرت چودھری نظام الدین صاحب والد ماجد حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیال ایم.اے ناظر اعلی قادیان ربیعیت ۶۱۹۹۵ دنات ۲۹ ا هم بعمر ۸۵ سال سے آپ فرمایا کرتے تھے کہ میری پیدائش ر ا ج ۶۱۹۴۲ غدر سے کچھ پہلے ہوئی.آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی عظیم شخصیت کا علم پہلے پہل شر میں.براین احمدیہ سے ہوا جو سید عبدالوحید صاحب ڈپٹی کلکٹر نہر کے ذریعہ انہیں ملی.اوائل شہر میں آپ فریق مخالف کی شرارت سے قتل کے ایک مقدمہ میں ملوث کر دیئے گئے.مگر خارا تعالے نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعا کی برکت سے بذریعہ کشف بریت کی قبل از وقت اطلاع دے دی جس کا آپ نے لوگوں میں پہلے ہی اعلان کر دیا.دشمنوں نے اس کشف پر بہت سہنسی اڑائی گر د اتعالیٰ کے فضل وکرم سے آپ بڑی ہو گئے.اس واقعہ کے بعد انہوں نے جون 1992 میں اپنے بیٹے چوہدری فتح محمد صاحب سیال کو پڑھنے کے لئے قادیان بھیج دیا.جہاں آپ تعلیم الاسلام سکول میں داخل ہو گئے.حضرت چودھری نظام الدین صاحب کو تبلیغ کا بہت شوق تھا کر کپڑ، لدھینگے نہیں، ادھیکے اونچے لکھنے کے ، در علی پور وغیرہ ضلع لاہور کی جماعتیں آپ ہی کے ذریعہ قائم ہوئیں لیے حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے اُن کی وفات پر ایک مفصل نوٹ لکھا جس سے اُن کے الفضل ۲۲ ها صفحه ۲ - ۵ مضمون خلصانہ مقام اور مرتبہ فدائیت کا پتہ چلتا ہے.حضرت عرفانی انگیر نے لکھا :- افاد ۳۳ صفحه ۳ کالم ۲ + ۲ بالفضل مو در شهادت را پر یا هم شهادت همر جیم فضل الرحمن صاحب بلغ نائیجریا ) : ٣ الفصل یکم شهادت ها ۳۲ صفحه ۴ + اکتوبر ۶۱۹۵۵ اپریل ۱۹۴۲ منفجره و مضمون چوهدری فتح محمد صاحب سیال ایم اے ) ایضا در شهادت ما که ما ب *
وہ بیعت سے قبل بھی ایک عام عقیدت کے آغاز میں اس قدر غیور تھے کہ حضر قدس کے خلاف کچھ مٹن نہ سکتے تھے.ان ایام میں کثرت سے رکھا نوانے سے آتے اور حضرت اقدس کے اشتہارات اور تصنیفات کو سُنتے اور تصدیق کرتے چونکہ اپنے علاقہ میں وہ ایک با اثر اور زیر معزز رئیس تھے اس لئے کسی کو یہ جرات نہ ہوتی تھی کہ اُن کے سامنے سلسلہ کی مخالفت کرے.اس مہار جوانی میں باوجود زمیندار ہونے کے میں نے اُن کو منہیات شرعیہ سے ہمیشہ مجتنب پایا.ان کی طبیعت میں خشونت تھی.شاید یہ لفظ ثقیل ہو مگر میں نے اس کو واقعات کی صورت میں لکھا ہے لیکن جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا غصہ حالت اسلام میں صحیح مقام حاصل کر چکا تھا چوہدری نظام الدین صاحب کی خشونت غیرت دینی کے رنگ میں رنگین ہو گئی.وہ بہت صاف دل اور صاف گو تھے.زبیری اور جرات قابل تقلید تھی.حق کہنے میں وہ کسی کی پروا نہ کرتے تھے.ان ایام میں باوجودیکہ ابھی انہوں نے بیعت نہ کی تھی مگر حضرت اقدس کی تحریکات چندہ میں حصہ لیتے تھے اور اشتہارات اور کتابوں کی اشاعت اور تبلیغ میں سرگرمی کا عملی اظہار کرتے تھے.چودھری فتح محمد صاحب کو جب قادیان مدرسہ میں داخل کیا تو انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ شیخ صاحب میں نے تو فتح محمد کو یہاں اسواسطے داخل کیا ہے کہ ہم زمیندار لوگ ہیں بچے جوان ہو جاتے ہیں تو اپنے کاروبار میں لگا نا ہم کو عزیز ہوتا ہے.میں نے اس کو یہاں بھیج دیا ہے کہ ہم تو اپنی زمینداری کے دھندوں میں پھنسے ہوئے ہیں فتح محمد جو ان ہو گر کوئی دین کا کام کرے.ورنہ ہمارے پاس قصور میں کیا سکول نہیں.اس سے اُن کی مخلصانہ نیت کا پتہ لگتا ہے.انہوں نے اپنے دل میں چودھری فتح محمد صاحب کو بچپن میں وقف کر دیا تھا.اور ان کے صدق نیت اور اخلاص کا نتیجہ ہے کہ آخر فتح محمد سلسلہ کا ایک خادم سپاہی بن گیا.چودھری فتح محمد صاحب کی شادی کی تجویز جب مفتی فضل الرحمن صاحب مرحوم کی صاحبزادی ہاجرہ مرحومہ سے ہوئی تو چودھری صاحب مرحوم قادیان آئے.اُن کا معمول تھا کہ وہ قادیان آتے تو مجھے ضرور ملنے کے لئے آتے اور تمام ضروری باتیں اپنے معاملات کی بھی کرتے.وہ
۳۷۵ اس طرح پر عمید اخوت و مودت کا ایک قابل تقلید نمونہ پیش کرتے تھے.غرض میرے پاس آئے اور اس واقعہ کا ذکر کر کے کہنے لگے کہ میں نے تو احمدی ہو کر اپنا ارادہ ختم کر دیا ہے.اب جو منشاء یہاں کا ہوتا ہے وہی میرا ہوتا ہے.اس معاملہ میں میری رائے کا دخل ہی نہیں.اور میں خوش ہوں کہ فتح محمد کے لئے جوئیں نے ارادہ کیا تھا خدا اُسے پورا کر رہا ہے ایسا ہی جب چودھری صاحب کو ولایت بھیجا گیا تو وہ آئے اور مفتی صاحب مرحوم کے مجرد میں ہی مقیم تھے.فرمایا کہ میری ایسی قسمت کہاں تھی کہ میرا بیٹا دین کی خدمت کے لئے اناڑان جائے.یہ تو خدا کا محض فضل ہے.غرض با وجود ایک زمیندار ہونے کے فہم دقیق رکھتے تھے اور سلسلہ کے لئے اُن کے دل میں تقسیم کی قربانی کا جذبہ تھا.حضرت مسیح موعود علیہ اسلام اور آپ کے الیست ساتھ انہیں خدائیان محبت تھی ہے 9 - حضرت میر قاسم علی صاحب ایڈیٹر فاروق قادیان تاریخ بیعت ہوائی ه - وفات اور شہادت را پریل ( حضرت میر صاحب جماعت احمدیہ کے ابتدائی مصنفوں میں سے ایک او ۶۱۹۴۲ کامیاب مصنف تھے اور سلسلہ احمدیہ کی تاریخ صحافت میں بھی ان کو بلند مقام حاصل تھا انہوں نے سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے بعد دہلی میں ایک باقاعدہ تبلیغی مرکز قائم کر دیا اور اپنی انفرادی کوششوں سے بہت سے اشتہارات ، ٹریکٹ اور رسائے تائیار احمدیت میں شائع کئے.حضرت اقدس کی وفات کے بعد خلافت اولی میں حبیب مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کی بار زبانی حد سے بڑھ گئی تو آپ نے 12 ء میں دہلی سے رسالہ احمدی " جاری کیا جس میں مولوی حساب مورو سے کے اعتراضات کے دندان شکن اور قرار واقعی جوابات دیئے جاتے تھے.اس کے ساتھ ہی آریوں کے اعتراضات کے جوابات کے لئے بھی آپ نے دہار ہی سے ایک ہفتہ وار اخبار الحق جاری کیا.جو ہنا.دستان کے نصف درجن سے زائد آریہ اخبارات کا نوٹس لیتا تھا.اور اُن کے اسلام کے خاران زہریلے اثر کو دور کرتا تھا.خلافت ثانیہ کے عہار میں آپ نے مسلمہ کے مشہور ہفتہ وار اخبار" فاروق کی بنیاد ڈالی جس کا سب سے پہلا پرچہ ، راکتو بر شاہ کو قادیان دارالامان سے شائع ہوا جو بعض الفضل ۱۵ شهادت هر ۲ ر ه ار اپریل ۱۹۳۳ و صفحه ۰۴ اسلام پر
ناگزیہ درمیانی وقفوں کے ساتھ اخیر مارچ ۹۴۳ تک جاری رہا.ران اخبارات کے علاوہ آپ نے تیس کے قریب چھوٹے بڑے رسالے اور کتابیں تصنیف فرمائی ہے جن میں سے بعض مولوی ثناء اللہ صاحب کے جواب میں ہیں.اور بعض آریوں کے رہیں.غیر مبایعین اور دوسرے اندوئی مخالفین احمدیت کے مقابلہ میں بھی آپ نے قابل قدر خدمات انجام دیں.خدا تھانے نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی برکت سے آپ کو ایک زبردست قوت تحریر عطا فرمائی تھی.اور دشمن آپ سے مرعوب اور لرزان وترساں رہتا تھا.نین خطابت اور مناظرہ میں بھی آپ کو ایک خاص مقام حاصل تھا.بڑے بڑے جلسوں اور مناظروں میں آپ کی تقریریں مخالفین تک سے داد تحسین حاصل کرتی تھیں.آپ کا انداز بیان بہت دلکش ہوتا تھا جب کسی زمانہ میں غیر احمدی علماء مولوی ثناء اللہ صاحب امدادی مرتضی حسن صاحب پر بھنگی اور مولوی انور شاہ صاحب دیوبندی وغیرہ سال بسال قادیان میں جلسہ کرنے آیا کرتے تھے تو جناب میر صاحب مرحوم بڑی دلیری سے اُن کا مقابلہ کیا کرتے تھے.۲۲ میں جب آریہ سماج کے دریدہ دین مصنفوں الیکگراند نے ہندوستان کے طول و عرض میں آنحضرت صلے اللہ علیہ والہ وسلم اور اسلام کے خلاف گندے اعتراضات کر کے مسلمانوں کے دل دکھائے اور ہر جگہ مناظرات کا میدان گرم ہوا تو جناب میر صاحب مرحوم نے اسلام کے ایک جری پہلوان کی طرح اس مقدس جنگ میں حصہ لیا اور مخالفین اسلام کے دانت کھلتے کر دیئے.امر تسر اور لاہور وغیرہ مقامات ہمیں آپ کے اس زمانہ کے لیکچروں کی مدتوں تک دھوم تھی.ہندستان کے دور اور نزدیک کے دیگر شہروں سے بھی غیر احمدی اصحاب آریوں کے مقابلہ کے لئے تا دیان ہی سے مبلغ بلوایا کرتے تھے اور ان کی طرف سے جناب میر صاحب کو بھجوانے کی خاص طور پر فرمائش ہوتی تھی.آپ کی تصنیف چودھویں صدی کا فہرشی اُس وقت کی فضاء میں آریوں کا بہترین فہرست - فیصلہ خدائی بر مسلمات ثنائی.چھوت چھات بھی ان سوالات - در میان کا کچا چٹھا بھیجی مقبول.از پاشی باطل.چھوت کا بھوت انیسویں صدی کا بلیدان - بطالوی کا انجام.صاعقہ ذو البول حصہ اول و دوم پایه قاسم تقویم مشین گن.تارپیڈو - ذو الفقار علی برگرین دیو شتی شدھی کی اندھی انعامی.دین الحق یا ہمارا ر ہے.علم کے خلفت.تصدیق الايام يلجم ثاني - النبوة فی غیر است - ثنائی ہرزہ سرائی - شنائی فرار اور سیالہ سے انکار.نیصانہ پہلی ثنائی دو سیاہی.فیصلہ خدائی بر مسلمات ثنائی.تحفہ مشتریان واہلہ - مرتع ثنائی.انیسویں صدی کا مریشی - صباحته منصوری - خلافت محمود و صیح موجود د کتابچه اذا اشوف نشرت " مربہ بیان عبد العظیم صاحب پر پرانی ہر احمدیہ کالا و لاریان داره کان کے حضرت میر صائین کا ایک پو کے قابل فراموش کار امہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود کے سب اشتها را تبلیغ اور اللہ کے نام سے بنا نے کے تھے انگلی نسلوں کے لئے محفوظ کر دیئے.تو
جواب تھی.اس کتاب کی اشاعت نے آریوں میں ایک ہلچل ڈال دی اور اُن کو معلوم ہو گیا کہ دوسروں کے بزرگوں کی تو ہین ایک نہایت خطرناک کھیل ہے.اس کتاب کی ضبطی کے لئے آریوں کی طرف سے کئی مرتبہ کو شش کی گئی لیکن چونکہ یہ کتاب اُن کی کئی زہر کی اور گندی کتابوں کے جواب میں شائع ہوئی تھی اسلئے وہ اسے ضبط کرانے میں کامیاب نہ ہو سکے.حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے آپ کے وصال پر لکھا :- حضرت میر قاسم علی صاحب مرحوم سلسلہ حقہ کے مشہور جرنلسٹ حضرت مسیح موعود علیہ اصل کی اسلام اور حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ کے مخلص شیدائی اور پر جوش اور پر محبت خادم تھے.مضامین اخبار و رسائل اور تصنیف و تالیف کتب کے ذریعہ سے انہوں نے مسلسل حق احمد ہی کی نہایت قابل قدر خدمات انجام دیں.بین اسلام کی تائید میں انہوں نے عیسائیوں اور آریوں کا ایسا مقابلہ کیا کہ خودشن بھی ان کے بیان کی خوبی اور ان کے دلائل کی قوت کا قائل تھا.مرتو جب روئی میں مقیم تھے ا وقت عاجز کو جب کبھی تبلیغی دورے پر جانے کا اتفاق ہوتا تو مرحوم کے مکان پر ہی قیام ہوتا تھا.اور دیگر دوست بھی عموماً اُن کے ہاں قیام کرتے.اور انکی مہمان نوازی سے بہرہ ور ہوتے.اسوقت دہلی کے مسلمان ، آریوں اور عیسائیوں کے ساتھ مناظرات، کے واسطے میر صاحب مرحوم کو ہی لے جایا کرتے تھے اور ان کا دہلی میں ہونا ایک نعمت غیر مترقبہ یقین کرتے تھے.مرحوم کو اس عاجز کے ساتھ محبت کا خاص تعلق تھا.اپنی عمر کے آخری سال میں اُن کا معمول تھا کہ روزانہ شام کو محلہ مسجد مبارک میں اپنی کتابوں کی دوکان فاروق ایجنسی میں آتے.عاجز بھی وہاں اُن کے پاس جائیھتا اور بعض دیگر احباب بھی آجاتے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے زمانہ کی باتوں اور کاموں کا ذکر رہتا جو حاضرین کے واسطے موجب ازدیاد ایمان ہوتا.ممبران خاندان نویت کے ساتھ مرحوم کا اخلاص حنیفا نہ رنگ اپنے اندر رکھتا تھا.مرحوم کی اگر چہ یعنی اولاد نہ تھی مگر اپنے بعض عزیزوں کے بچوں کو ان کی پیدائش کے زمانہ سے دیگر استقدر محبت کے ساتھ اُن کی تقسیم و تربیت کی کہ اُن بچوں کو ہمیشہ یہی یقین رہا کہ میر صاحب ہی اُن کے باپ اور اُن کی مرحومہ بیوی اُن کی ماں ہے.اور ان بچوں کو اچھے عہدوں پر ملازم کرایا.اور ان میں سے بعض کی اولاد کی بھی پرورش کی نیند ام افضل ۳۰ شهادت هر ۲ ۱ : مارا اپریل ۱۹۳۳ ، صفحه ۵ +
YLA 4 مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل مدیہ قرتان نے مندرجہ ذیل الفاظ میں آپ کو خراج حسین ادا کیا :- احمدیت کا پرانا جرنیل میسیج پاک کا غیور صحابی ، خلافت کا وفادار خادم اور دشمنان اسلام و سلسله کے سامنے ہمیشہ سینہ سپر ہونے والا سپاہی میں قاسم علی اور اپریل کی شب کہ فوت ہوگیا.انا للہ - وانا اليه راجعون.جناب میر صاحب مرحوم کی زندگی میں غیرت دینی کا ایک بہترین نمونہ موجود تھا جس طرح اپنی ذاتی مشارع کی حفاظت میں انسان پوری قوت خرچ کر دیتا ہے اسی طرح حضرت میر صاحب مقدور بھر اسلام و احمدیت کی خدمت کرتے رہے.اللہ تعالے نے انہیں تحریر و تقریر میںخاص مل کر عطا فرمایا تھا.اور طبعیت بھی نکتہ رس اور بذلہ سنج تھی.تقریر کے وقت حاضرین کو مسحور کرلینا اور تحریر کے قارئین کی دبی تنگی کو اخیر تک قائم رکھنا اُن کا نمایاں وصف تھا.بے شک حضرت میر قاسم علی صاحب نے طبعی عمر پائی اور جنت الفردوس کے دارث ہوئے لیکن انکی وفات ایک جماعتی صدمہ ہے اور ہر مخلص کے لئے رنجیدہ حادثہ.زمانہ کی گردش ایسے جانباز خادمیم دین کے ذکر کو دلوں میں تازہ کرتی رہے گی اور رہتی دنیا تک احمدیت کی تاریخ میں میر قاسم علی کا نام عزت کے ساتھ یاد کیا جائیگا.مجھے دیا مر طالب علمی سے ہی میر صاحب سے واقفیت ہے، میں نے انہیں ہمیشہ سلسلہ کی عزت کے لئے غیور مومن پایا.غلطی انسان سے ہو جاتی ہے لیکن دینی غیرت کے ماتحت غلطی بھی انتظامی حصہ کو مستثنیٰ کرکے ایک خوبصورت فعل ہے.میر صاحب کے کارنامے ایک طویل کتاب کے محتاج ہیں.خدا جسے توفیق دے گا وہ آسمان احمدیت کے ان یکے بعد دیگرے نظروں سے اوجھل ہونے والے مگر ابلہ تک درخشندہ ستاروں کی تاریخ مرتب کو سیکی گا.بہر حال میر صاحب مرحوم کی وفات سے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے پر نور چہرہ کہ دیکھنے والا ایک اور وجود کم ہو گیا.اے اللہ ! تو جناب میر صاحب کے درجات کو لبناء فرما.اور ان کے پسماندگان پر رحم فرما.اور احمدیت کے جانباز سپاہیوں میں اضافہ فرماتا اسلام کا پرچم جلار تر دنیا کے سب ممالک پر لہرائے.اللہم آمین ہونے ے رسالہ "فرقان" بجرت ها شمار دبئی ۱۹۳۳ ) صفحه ۳۳۲
٣٧٩ ۶۱۹۴۲ ۱۰- حکیم عبدالرحمن صاحب محله مسیح فضل قادیان روفات ۲۵ اجرت هاللہ ہے پیر محمد شاہ صاحب آن شاه مسکین ضلع شیخو پوره (ولادت شراء بعت اور وفات یا ) - اپنے ماموں حضرت میاں معراج دین صاحب عمر کی تبلیغ سے احمدیت قبول کی.19 ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام لاہور تشریف لائے تو آپ کو دور ان قیام حضور کی خدمت کا قیمتی موقعہ میسر آیا.جن پر جوش مخلصین نے منٹگمرہی میں جماعت قائم کی اُن میں آپ بھی تھے مسجد محمدیہ منٹگمری آپ کی تبلیغی کوششوں اور جماعتی استحکام کی جدو جہد کی ایک عمدہ یاد گار ہے.منٹگمری کے علاوہ آپ (لازم محکمہ نہر کی مشیت ہے ) کئی اور مقامات میں بھی رہے.اور ہر جگہ احمدیت کا ایسا اچھا نمونہ پیش کیا کہ دشمن بھی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے میں ۱۲ حضرت خلیفہ نورالدین صاحب جونی رولادت شله بکرمی مطابق ۵۲۵ بیعت ۲۷ دسمبر اشاره ۳۱۳ صحابہ کیا میں وفات اور تبوک د ستمبر، هلال الاول حضرت مسیح موعود علیہ سلام کے مقرب صحابی اور حضرت خلیفہ المسیح الاول مولانا نورالدین کے مایہ ناز شاگرد حضرت اقدس علیہ السلام دعوائے مسیحیت سے قبل جب حضرت مولانا نورالدین خلیفہ اول کی عیادت کے لئے جموں تشریف لے گئے تو حضور نے آپ ہی کے کمرہ میں قیام فرمایا تھا ئیں حضرت خلیفہ صاحب رضی اللہ عنہ اپنے حالات زندگی میں لکھتے ہیں:.ئیں ابتدائے جوانی میں گجرات میں رہتا تھا.اور اس وقت فرقہ اہل حدیث کا ابتدائی چرچا تھا اور پبلک میں اس کی سخت مخالفت تھی.اُن کی باتیں معقول پا کر میں بھی اہل حدیث میں شامل ہو گیا.ایک دفعہ سیال شریف جاتے ہوئے راستہ میں بھیرہ مولوی سلطان احمد صاحب مرحوم سے ملاقات ہوئی.انہوں نے ذکر کیا کہ میرا بھائی نورالدین نام مگر میں حدیث پڑھ رہا ہے.اس طرح پہلی دفعہ میں نے حضرت مولوی نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ خلیفہ اسیح الاول کا حال سنا.پھر جب میں نے سنا کہ مولوی صاحب مگر سے واپس بھیرہ آگئے ہیں تو میں انہیں ملنے کے واسطے گیا.اور اُن کے عقائد اور تحقیقی مسائل سے متفق ہو کر ایک عرصہ اُنکے راسان همان مفجره ه الفضل ۲۸ بر صفحہ کالم ۲ + سے اب اس کا نام ساہیوال ہے : ٣ الفضل ۲۸ در ان ۶۱۹۴۲ جوان ۶۱۹۴۲ 147 د شخصاً مضمون سلطان محمود صاحب شاید بی ایس سی حال پروفیسر تعلیم الاسلام کالی دیوہ) سے الحکم ہے نومبر 1 صفحہ ۶۰۵ اس پرچہ میں آپ کی املاء کردہ سوانح حیات درج ہے.+
پاس رہا اور پھر ان کے ساتھ ہی جنوں آگیا.جب حضرت مرزا صاحب کی خبر لی مین کی روایات کے واسطے قادیان گیا.ایک عرصہ رہا.جب حضرت مرزا صاحب نے بیعت لینی شروع کی تو میں نے بھی بیعت کرنی چاہی گرمتر مولوی نورالدین صاحب نے فرمایا کہ ہمارے داماد عبد الواحد پسر موادی عبد اللہ صاحب غزنوی ثم امرتسری کو پہلے سمجھانا ضروری ہے.وہ بیعت کرنے وانوں کی بات کو نہ سنیگا تم ابھی بیعت نہ کرو اور اُسے سمجھاؤ.میں اُسے سمجھاتا رہا مگر اس نے نہ مانا.اور جب حضرت مسیح موعودہ دہلی سے واپس آئے تو میں نے بیعت کرلی.اُس وقت نشان آسمانی " لکھی گئی تھی.جب کشمیر میں ایک سخت ہیضہ ہوا اسوقت میں سری نگر میں ملازم تھا.میری ڈیوٹی لگی کہ شہر کے مختلف حصوں میں پھر کر لوگوں کو صفائی اور علاج وغیرہ کی طرف متوجہ کروں.اسوقت سری نگر کے محلہ خانیار میں مجھے معلوم ہوا کہ یہاں ایک قبر ہے جسے شہزادہ نبی یوز آسف کی قبر کہتے ہیں اور بعض اسے حضرت عیسی نہی کی قبر بھی کہتے ہیں.میں نے حضرت مولوی صاحب کے پاس اس بات کی رپورٹ کی دو شنگر چپ ہو رہے.اس کے بعد جب حضرت مولوی صاحب قادیان گئے اور ایک دفعہ اتفاقاً اس امر کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ اسلام سے ہوا تو حضرت صاحب نے مجھے بلوایا اور اس امر کی تحقیقات کے واسطے کشمیر بھیجا ایک لہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آئینہ کمالات اسلام صفحه ۶۲۷ - ۶۳۴) حجت الاسلام و صفحه ۵) ریه دهرم صفحه ضمیمه انجام انتم صفحه ۲۳۳) کتاب البرية (صفحه ، تحفہ گولڑویہ صفحه (۱۵) نزول است د صفحه ۱۳۲۲ - ۲۳۸) اور اشتہار ۴ اکتوبر شه رمشمولہ تبلیغ رسالت جلد ہشتم) میں آپ کا ذکر فرمایا ہے اور نہایت تعریفی کلمات سے نوازا ہے.چنانچہ تحفہ گولڑویہ میں لکھا ہے : جب میں نے اس قصہ کی تصدیق کے لئے ایک معتبر مرید اپنا جو خلیفہ نور الدین کے نام سے مشہور ہیں کشمیر سری نگر مں بھیجا تو انہوں نے کئی مہینے رہ کر بڑی آہستگی اور تدبیر سے تحقیقات ہے کی.آخر ثابت ہو گیا کہ فی الواقعہ صاحب قبر حضرت عیسی علمی اس کام میں جو اور اس کے نام سے مشہور ہوا.تحقیق جدید معاق تبریسیح مؤلفه حضرت مفتی محمد صادق صاحب تاثر یکی تو تالیف دا شاعت قادیان طبع اول اکتوبر.اس کتاب کے صفحہ ہے پر آپ در مقر ستری فیض احمد یار جونی کا فوٹو بھی موجود ہے ، ہے تحفہ گولڑویہ
٣٨١ اسی طرح اپنے اشتہار ۱۲ اکتوبر شارہ میں تحریر فرمایا : ار - ار خلیفہ نور الدین صاحب ہیں جو ابھی محض مہینہ ایک خدمت پر مامور ہو کر کشمیر بھیجے گئے تھے اور چند روز ہوئے قائر الحرام ہو کر واپس آگئے ہیں.میں اس تحقیقات کے متعلق ایک کتاب تالیف کر رہا ہوں جس کا نام ہے میسج ہندوستان میں " چنانچہ میں نے اس تحقیق کے لئے مخلصی محتی خلیفہ نور الدین صاحب کو جن کا ابھی ذکر کر آیا ہوں کشمیر میں بھیجا تھا تا کہ وہ موقعہ پر حضرت مسیح کی قبر کی پوری تحقیقات کریں.چنانچہ وہ قریباً چار ماہ کشمیر میں رہ کر ہر ایک پہلو سے تحقیقات کرکے اور موقع پر قبر کا ایک نقشہ بنا کر اور پہار چھو چھپن آدمیوں کی اس پر تصدیق کرا کر کہ یہی حضرت عیسی علیہ السلام کی قبر ہے جس کو عام لوگ شہزادہ نبی کی قبر اور بعض یوز آسف نبی کی قبر اور بعض عیسی صاحب کی قبر کہتے ہیں.ار ستمبر شمارہ کو واپس میرے پاس پہنچ گئے.سر کشمیر کا مسئلہ تو خاطر خواہ انفصال پا گیا.اور پانچ سو چھپن شہادات سے ثابت ہو گیا کہ در حقیقت یہ حضرت عیسی علیہ السلام کی قبر ہے جو سری نگر محلہ خانیار کے قریب موجود ہے " 001.۵۵۶ (حاشیہ خلیفہ نورالدین صاحب کو خدا تعالے اجر بخشے کو اس تمام صفر اور رہائش کشمیر میں انہوں نے اپنا خرچ اٹھایا.اپنی جان کو تکلیف میں ڈالا اور اپنے مال سے سفر کیا وہ حضرت خلیفہ صاحب اسید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض نشانوں کے بھی گواہ تھے.بعض الہامات و رڈیا میں بھی آپ کا نام ملتا ہے یہ جنگ مقدس کے مباحثہ کی کاروائی آپ نے اور حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے قلمبند کی تھی.حضرت ماسٹر عبد الرحمن صاحب نو مسلم (سابق مہر سنگھ) کا بیان ہے کہ : میں نے دیکھا کہ ایک ایک وقت میں آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ سلام کی خدمت میں پانچ پانچ سو روپیہ ناز پیش کیا.جب سے آپ نے میر انہ طور پر چندہ میں حصہ لینا شروع کیا تب سے آپ کے کاروبار میں بھی خداوند کریم نے ترقی پر ترقی دی حضرت مسیح موعود علیہ السلام تبلیغ رسالت جلد شتم صفحه ۷۰ تا ۷۲ : ۵۲ لا خطہ ہو نزول المسیح و مه لا خطہ ہونا اسیح صفحه ۲۱۱ دتذکره طبع دوم صفحه ۲۴۹ - ۳۲۰ البدر در نومبر د هر دسمبر شده و موره را محکم و در نوار ها و نوری در کارهای اداری
۳۸۲ کے مساعی جمیلہ میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر داد دیا کرتے تھے اور سیالکوٹ لاہور وغیرہ لیکچروں میں حاضر ہو کر ہر طرح امداد دیا کرتے تھے...حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کی نگرانی طباعت میں اورپروف بینی میں بہ صلیا کرتے ترین کاپہلا ادی مولوی عام قادر صیح صاحب سیالوی نے 1998ء میں دوسرا حضرت حکیم فضل الدین صاحب بھیروی نے 1896ء میں اور تیسرا ایڈیشن حضرت خلیفہ نور الدین صاحب نے " در مشین کامل" کے نام سے اکتوبر 1901ء میں شائع فرمایا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آپ کے نام رقم فرموده خطوط یا اپنی تالیفات کےبعض قیمتی مسودات اور تبرکات اکثر و بیشتر جموں میں ہی ضائع ہو گئے تھے.البتہ دو خط اور کشتی نوح اور نزول المسیح کے بعض قیمتی مسودات جو حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے قلم مبارک سے لکھے ہوئے ہیں اب تک ان کے فرزند الخارج خلیفہ عبد الرحمن صاحب کے پاس محفوظ ہیں میلے ۱۳ - حضرت مستری فیض احمد صاحب (ولادت ای بیعت کر وقات به رز بوک ها ۱۲ ۱۳ و در ستمبر ۱۹۲۳ در ماه ۱۹۴۲ میاں محمد ابراہیم صاحب بھی.اسے جوگی نے ان کی مختصر سوانح اور تیک ماہ کے الفضل میں شائع کرا دی تھی جس کا ایک ضروری حصہ درج ذیل کیا جاتا ہے :- ابتدائی تعلیم سیالکوٹ میں حاصل کی.مولوی محمد ابراہیم صاحب سیالکوئی اہلحدیث اور حضرت مولوی فیض الدین صاحب کے ساتھ پڑھتے رہے.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کا شاگرد ہوئے.نے یہ ایڈیشن مؤلف کتاب ہذا کی سلطان لائبریری ربوہ میں موجود ہے.حضرت خلیفہ صاحب کی اولاد : فلام فاطمہ صاحبہ زوجہ حضر ، سر عبد الرحمن حساب وسلم ۲۰ - حضرت خلیفہ عبد الرحیم صاحب و ا د ا ر دبیر ) آپ کی پیدائش حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی خاص دعاؤں کا نتیجہ تھی.۳.امتہ اللہ بیگم صاحبہ زوجہ حضرت ستری فیض احمد صاحب جونی - ۴ - الحاج خلیفہ عبد الرحمن صاحب (ولادت از ماری نشده) آپ قریباً تین سال تک محرمات احمدیہ + 1 سری نگر کے پریزیڈنٹ بھی رہے ہیں.ان دونوں کو ئٹ میں تقسیم ہیں، ٣ الفضل بار تبوک دسمبر، صفحه ا کالم که حال ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول ریوہ - محترم میاں صاحب موصوت آپ کے ہمشیرہ زاد بھائی ہیں جنہیں حضرت مستری صاحب نے آپ کے والد ماجد کی زندگی میں ہی اپنی تربیت میں لے لیا اور پھر آپ کی تعلیم پر استقدر ہے میری تو یہ فریج کیا کہ بہت سے لوگ آپ کو حضرت مستری صاحب کا حقیقی بیٹا سمجھنے لگے
۳۸۳ کا فخر حاصل تھا.ابتدا میں اہلی ریشوں کی طرف سے مناظروں میں شریک ہوتے تھے.بعد میں حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی تحریک پر احمدیت کی طرف توجہ ہوئی اور سٹالہ میں بیعت کا مشیر حاصل کیا.سیالکوٹ میں حکم حسام الدین صاحب مرحوم اور حضرت میر حامد شاہ صاحب کے خاص مصاحبوں میں سے تھے اور ان کا دینی شخف اور علم انہیں بزرگوں کا رہین منت تھا کاروبار کے سلسلہ میں جموں سکونت اختیار کی تو حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ مسیح الاول کی جو ان دنوں سمیات ست جوں میں سرکار کے طبیب تھے معیت نصیب ہوئی اور ان سے خاص انس و محبت پیدا ہوگئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت سے مشرف ہو چکنے کے بعد اکثر قادیان آتے رہے اور وفات تک یہی معمول رہا.حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی صحبت سے فیضیاب ہونے کی وجہ سے تقولٰی د روحانیت سے خاص حصہ ملا تھا اور حضور علیہ السلام سے ایک خاص انس و عیقیادت تھی.باوجود کاروباری آدمی ہونے کے دین کو صحیح معنوں میں دنیا پر مقدم رکھتے تھے.تبلیغ مسائل سلسلہ اُن کا من بھانا مشغلہ تھا.دن رات یہی دھن لگی رہتی تھی.گھر میں اور با ہر ہر جگہ یہی چرچا ہوتا تھا.گفتگو نہایت موثر اور مدیل ہوتی تھی اور ہر مخالف کو خدا داد قاطعیت اور جوش ایمان کی درج ہے شکست دے سکتے تھے.ایمان اور عقیدہ اسقدر پختہ تھا اور پھر خود حق پر ہونے کا اسقدر یقین تھا کہ نہ صرف غیر احمدی اور غیر سائح بلکہ غیر مذاہب کے بڑے بڑے عالم کا بلاخوف و خطر مقابلہ کرتے تھے.چنانچہ مولوی ابراہیم صاحب سیالکوٹی.وادی ثناء اللہ صاحب امرتسری کشمیر کے میر احفظ دور سیر و سیاحت پر کشمیر آنے والے بڑے بڑے آریہ لیڈروں کے ساتھ نہایت کامیاب گفتگو کرتے رہے بغیر مائع کو ہاتھوں ہاتھ لیتے تھے.چنانچہ جموں کے غیر مبائع اصحاب نے جہاں تک مجھے یاد ہے یہ فیصلہ کیا ہوا تھا کہ ان سے گفتگو نہ کی جائے.ایمان بالرسالت اور خلافت کے مسئلہ پر خاص طور پر عبور تھا اور اہل حدیثوں کی مزعومہ توحید کی مخصوص تشریح فرمایا کرتے تھے اور عام فہم اور معقول دلائل دیتے ہوئے خود فرمایا کرتے تھے.اِتَّقَوْا فَرَاسَةَ الْمُؤْمِنِ إِنَّهُ يَنْظُرُو بنوتي الله - گھر میں دینی فضاء پیدا کرنے کا موجب ہونے کے علاوہ جنوں کی جماعت کے روح رواں تھے.اور جب پیغامیوں کا تفتنہ پیدا ہوا اور خواجہ جمال الدین صاحب برادر خواجہ کمال الدین مرحوم انسپکٹر مدارس جنوں اور دیگر سرکردہ لوگ جماعت کا ساتھ چھوڑ گئے تو نہایت استقلال
PAP اور استقامت کے ساتھ اُن کا مقابلہ کر کے جماعت احمدیہ جموں کے قیام کا باعث ہوئے......اور چونکہ خدا کے فضل سے کاروبار کے سلسلہ میں حکام سے واسطہ پڑتا رہتا اس لئے حکام اور عوام میں جماعت اُن کے اثر و رسوخ کے طفیل ایک باوقار جماعت سمجھی جاتی تھی میتیں سلسلہ بلکہ افراد جیسا نہیں جتوں یا کشمیر ٹھہرنے یا جانے کا اتفاق ہوا ہے سبھی اس بات کے گواہ ہیں کہ احمدی احباب کی خاطر و مدارات کرنے میں وہ ایک گونہ راحت پاتے تھے.اور ان کی خدمت کرنا بلکہ مالی امداد تک کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے اور خود کوشش کر کے دوستوں کو اپنے ہاں یہاں ٹھہراتے خدا کے فضل سے صاحب کشوف درد یا تھے حتی کہ خواب میں حضرت تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت بھی کر چکے تھے یہ لے ۱۴ - میاں زین العابدین صاحب زیرا در خود حضرت حافظ حامد علی صاحب ، ساکن تصد غلام نبی ۶۱۹۴۲ ضلع گورداسپور (وفات ۲۸ ر تبوک دستمبر ۵ ها اجاء ه ۱۳۵۲۱ ۱۵.ڈاکٹر عالم الدین صاحب کڑیانوالہ ضلع گجرات (وفات ۱۲ رای که اکتوبر ۱۹۳۲ -۱۶ - مرزا شریف اللہ خان صاحب نے موضع مانیری پایان تحصیل صوابی ضلع مردان - تعمیر ۶۷ سال) ولادت ام بیعت وفات در نبوت و نویر ها ) شاد ۶۱۹۲۲ آپ نے حضرت میاں محمد یوسف صاحب نے اپیل نویسی مردان کی کوشش سے احمدیت قبول کی.بڑے خلیق.مہمان نواز، خوش مزاج ، حاضر جواب ، متواضع اور جوانمرد انسان تھے.تبلیغ کا بہت شوق تھا.اور صوبہ سرحد میں اشاعت احمدیت کے لئے بڑی دلچسپی لیتے اور مالی امداد بھی کرتے رہتے تھے.کہیے ۱۷- چوہدری غلام حیدر مصاحبت نمبر دار چک ۲۳ جنوبی ضلع سرگودها - روفات ۱۲ نبوت هر ۱۳۹۱ نومبر ۶۱۹۴۴ ۱۸ حافظ محمد امین صاحب تاجر کتب جہلم - محمد دونات فتح دو سمبر ها حضرت مولانا نور الدین خلیفہ المسیح الاوّل کے رضاعی بھائی تھے.آپ کا نام ۳۱۳ اصحاب سیچ موجود پر درج ہے بیٹھے افضل از ستمبر ۶۱۹۴۲ + ه الفضل به رنج همه صفحه ۵۵۰ که ضمیمہ انجام به تیم منصور به م کالم ۳ ہم ہم ۲۰۰۳ الفضلي صلح ادا کا نام را نومبر ۱۹۴۲ جنوری ۶۱۹۴۳
۳۸۵ مندرجہ بالا صحابہ کے علاوہ اس سال اہلیہ صاحبہ حضرت مولانا شیر علی صاحب جو حضرت مسیح موعود عليه الصلوة والسلام کی مخلص صحابیہ تھیں اردا جولائی کو انتقال کر گئیں.آپ منہ میں بعمر پندرہ سولہ برس ہجرت کر کے قادیان آئیں اور ستائر میں داخل احمدیت ہو گئیں اور پھر وفات تک یہیں رہیں.پابن.صوم و صلوۃ ، شب بیدار اور اپنے واجب التعظیم شوہر کی حد درجہ فرمانبردار خاتون تھیں لیے حضرت مولانا شیر علی صاحب نے اُن کی وفات پر لکھا :- مرحومہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کی خواتین نہایت محبت کی نگاہ سے دیکھتی تھیں اور یہ اس دیرینہ محبت کا تقاضا تھا کہ حضرت ام المومنین کہ ظلہ العالی نے مرحومہ کے چہرہ پر اپنے مبارک ہاتھ پھیرے.مرحومہ غریبوں پر رحم کرنے والی اور مصیبت زدوں پر ترس کھانے وائی تھیں.وہ کسی کو بھی خالی واپس کرنا پسند نہ کرتی تھیں.نہایت فیاض اور مہمان نوانہ تھیں.میرے لئے تو سرا سرعت مد رحمت تھیں.جو سلوک اور برتاؤ انہوں نے میرے ساتھ کیا اُس دیکھے کہ ہمیشہ میں یہی سمجھتا تھا کہ خدا تعالیٰ نے ان کو خاص میرے لئے ہی بنایا تھا.مرحومہ ہمیشہ مجھے نماز کے لئے جگاتی یہ ہیں اور اپنی اس ڈیوٹی کو اپنی بیماری کی شدید ترین حالت میں بھی ادا کرتی رہیں.مگر جب اُن کی کمزوری اس حد تک پہنچ گئی کہ وہ اپنی آواز مجھ تک پہنچا نہ سکتی تھیں تو وہ اپنی نواسی کو جو اُن کے بالکل قریب ہوئی ہوتی تھی جگائیں تا کہ وہ مجھ کو جگا ہے.ان کو یقین تھا کہ یہ اُن کی آخری بیماری ہے.اس کے بعد وہ اس دنیا سے رخصت ہونے وائی ہیں.لیکن وہ نہایت اطمینان کے ساتھ اپنی آخری گھڑی کا انتظار کرتی رہیں.اپنے بچوں کو بھی صبر کی تلقین کرتے ہوئے کہتیں کہ رونا نہیں صبر کرنا.کسی قسم کا اضطراب یا بے چینی ان کی طبیعت میں نہ پائی جاتی تھی.اس دنیا سے اور عزیزان سے آنے والی جدائی کے خیال پر کسی قسم کی گھبراہٹ کا اظہار نہیں کیا.بیمار پرسی کرنے والوں سے اُن کی اسس کے سوا اور کوئی درخواست نہ تھی کہ میرے نیک خاتمہ اور ایمان کے لئے دعا کرو.....مرحومہ کے دادا نے جو ایک صالح انسان تھے غائبا رمضان شریف کے آخری عشرہ الفضل ١٤ صفحہ اکام - مزید حالات کے لئے ملاحظہ ہو میرت حضرت مولانا شیر علی صاحب " صفحہ ۸۳ ۹۴ د مومنہ ڈاکٹر ملک نذیر احمد صاحب ریاض )
PAY کی راتوں میں جگہ وہ اپنے کھیتوں میں کھڑے پانی دے رہے تھے ایک روشنی دیکھی اس روشنی میں دیکھا کہ فرشتے ایک پالکی اٹھائے لئے آرہے ہیں.اس نظارہ کے متعلق میرا یہی خیال رہا ہے کہ ان کو دکھایا گیا کہ ان کی اولاد سے ایک خوش قسمت خاتون پیدا ہوگی جن کے لئے یہ مقلد تھا کہ وہ نو عمری کی حالت میں ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدموں میں حاضر ہوئیں اور اپنی ساری عمر سیح کی بستی میں گزاری.اور آخر خدا کے فضل سے حضرت فضل عمر سے نماز جنازہ کا شرف حاصل کرتے ہوئے اور بہت سے بزرگوں اور خواتین کی دعائیں ساتھ لیتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قدموں میں پہنچ گئیں.اور اس پر اللہ تعالے نے مزید احسان یہ کیا کہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے جنازہ کو کندھا دیا...ابتدائی زمانہ میں مرحومہ کو دار سیخ موجود میں رہنے کا فخر حاصل ہوا.اوائل عمر میں ان کو ہسٹریا کے دورے بھی ہو جایا کرتے تھے.چنانچہ ایک دن سخت دورہ ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ الہ لوة و السلام کو اطلاع دی گئی.آپ نے دعا بھی کی اور دوا بھی دی.مرحومہ کہا کرتی تھیں کہ یہ آخری دورہ تھا جو مجھے کو ہوا.اور یہ بات وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نشان کے طور پر ذکر کیا کرتی تھیں اسی طرح وہ اور نشانات کا ذکر بھی کیا کرتی تھیں".مندرجہ ذیل مخلصین بھی اس سال دار فانی سے رحلت کر گئے :.بعض دو ستر مخلصین کی وفات) ا خواجہ عبد الرحمن صاحب کارکن الفضل و این حضرت میان شادی خان صاحب) ۲ صوبیدار خوشحال خان مادر شهید مینی تحصیل صوابی ضلع مردان شاه سی ڈاکٹر احمد خان صاحب شیخ پور ضلع گجرات میگه بهام به مولوی محمد عثمان صاحب ضلع بستی دیو.پی ) ہے ه الفضل در تبوک دسمبر، هاله صفحه ۰۵۰۴ ۵۲ وفات ۱۳ در بحرت (سی) هم عمر ۵۲ سال (الفضل م ۶۱۹ 7195 ها صفحه ۲ کالم ۰۳ ۵۳ تاریخ شہادت ۲۹ ماه هجرت (دستی) ام الفضل کے راجستان (جون) ۶۱۹۴۲ ۱۶ هجرت رسمی همه ۱۲ - ه صفحه ۳ شه وفات ۲۴ ظهور (اگست، هم بعمر یم ، سال را الفضل ها را خار داکتون ها معمره ۶۱۹۴۲ ه تاریخ وفات ۲۸ ر تبوک دستمبر والفضل ارماه افاد (اکتوبی ۱۳:۲۵ صفحه ۲ +
۳۸۷ -۵- چوہدری علی محمد صاحب چدھڑ نائب تحصیل داره رود گھر ہی تونسہ ضلع ڈیرہ غازی خان موطن ضلع جھنگ تحصیل چینوٹ بکه کمار ابراہیم صاحب د جنرل سیکرٹری جماعت ہائے احمدیہ برما میں ملک شیر محمد خان صاحب امیر جماعت احمدیہ کوٹ رحمت خان ضلع شیخو پوره کیه فصل ششم کے متفرق اہم واقعات خاندان مسیح موعود میں پرمسرت تقاریب حضرت مازاد نظام را ناصر صاحب کے ان و ہے رادی امتہ الحلیمہ صاحبہ کی یاد ہوئی.سنوری ۶۱۹۴۲ ۲- حضرت خان محمد عبداللہ خان صاحب کی صاحبزادی ظاہرہ بیگم صاحبہ کی تقریب رخصمانه ۲۸۰ / انان نماز عصر نہایت سادگی سے ان کی کوٹھی واقع دارالعلوم میں منعقد ہوئی.بات حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے فرزند صاحبزادہ مرزا منیر احمد صاحب کی تھی حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی نے جو پہلے سے رونق افروز تھے اپنے دست مبارک سے دولہا میاں کو ہار پہنایا اور جمیع سمیت دعا فرمائی شے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی طرف سے ان کو بعد نماز مغرب سابق زمانہ لنگر خانہ کے صحن میں دعوت ولیمہ دی گئی جس میں حضرت امیر المومنین ۳۰ ۶۱۹۴۲ نے بھی شرکت فرمائی.- حضرت خان محمد عبدالله خان صاحب کی صاجزادی زیر بیگم مساجد کی تقریب رخصتانه ، رماه بمریت هر کو بعد نماز عصر کوٹھی دارالسلام کے باغ میں عمل میں آئی.صاحبزادہ مرزا داد د احمد صاحب ابن حضرت صاحبزادہ مرزا شریف حمد صاحباں کی برات میں خاندان مسیح موعود علیہ سلام کے صاحبزادگان کے علاوہ اور بھی بہت سے بزرگ تھے.اس موقعہ پر حضر مير المؤمنين خلیفہ المسیح الثانی نے اجتماعی دعا کرائی ہے ہر ہجرت کو حضرت مرزا شریف احمد صاحب نے ۶۱۹۴۴ اپنی کوٹھی پر بعد نماز مغرب دعوت دیمہ کا اہتمام فرمایا جس میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے بھی شرکت فرمائی اور دعا کرائی ہے.مه دنات.اراخاء و مکتوبی هم (الفضل در نبوت نوبری ها صفحه ۷ + شه وفات در خاور اکتوبی ها ۳ والفضل مدارا ناء و اکتوبی ها صفحه وفات یکم نبوت ونوبر، افضل بر نبوت ، نومبر ا من کالا هم والفضل ۲۳ ۶۱۵ صحیحیہ کالم و شه الفضل حکیم شادت هاله صفر یا الفضل اور بحرت هر مفروم کالم ! الفضل ا ر بخوری ۶۱۹۴۲ + ۱۹۴۲ صفحه
۳۸۸ مدعوین کی تعداد پانچ سو کے لگ بھگ تھی بیٹے ۴ - صاحبزادہ مرزا حمید احمد صاحب د امین حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے ہاں ۲۸ صاحبزادی امتہ المجیب میگم صاحبہ کی ولادت ہوئی ہے ۵ محبت اللہ حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے فرزند میاں محمد احمد خان صاحب کے ہاں کار تم کو میان حامد احمد خان صاحب کی ولادت ہوئی ہے دسمبر القاء حيا نامدھاری سکھیوں کے گورو شری پرتاپ سنگھ جی نے اپنے صدر نظام مبینی تصاب نامدھاری سکھوں کی اتحاد کانفرنس میں احمدی مبلغین کی شمولیت ضلع لدھیانہ میں کم یا اس کو ایک اتحاد کا فرض منعقد کی.شہادت اپریل جماعت احمدیہ کی طرف سے منتظمین کی خواہش پر مہماشہ محمد عمر صاحب سے اور گیا نی عباد اللہ صاحب اس کا نفرنس میں شامل ہوئے.احمدی مبلغین کی تقریریں بہت دیپسی سے سنی گئیں اور بھرے مجمع میں اس بات کا اقرار کیا گیا کہ ہندو سکھ مسلم اتحاد کا سہرا اصل میں جماعت احمدیہ کے امام حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ** صاحب کے سر ہے جنہوں نے آج سے برسوں قبل اپنی جماعت کے ہر فرد کو اس بات کی تلقین فرمائی کہ ہر ایک احمدی کا اولین فرض ہے کہ وہ دنیا کی تمام قوموں کے مذہبی پیشواؤں کی عزت اور عظمت کو دنیا میں قائم کرے.ایک صاحب نے اپنی تقریر میں بعض باتیں اسلام کے خلاف بیان کرنے کی کوشش کی مگر منتظمین نے : سے فوراً روک دیا اور دقت سے پہلے ہی اس کی تقریر بند کرا دی اور اُس کی اس حرکت پر اظہار نفرت کیا گیا.نامدھاری صاحبان کی طرف سے اتخدامی مبلغین کو سرد یا دیئے گئے.جو نہایت محبت بھرے الفاظ میں پیش کئے گئے.گور و پرتاپ سنگھ صاحب جلسہ سے اٹھ کر احمدی مبلغوں کو الوداع کہنے کے لئے آئے اور بغلگیر ہوئے.دوسرے نامداری اصحاب نے بھی معانقہ کیا اس کا نفرنس میں تقریکا چاہیں ہزار افراد نے شرکت کی." بلیغ لیکر اس سال ماسٹر محمد شفیع صاحب اسم امیر المجاہدین مکانہ) نے اپ کانہ) نے اپنے ڈانی مصالہ میجک لینٹر پر بلیغی ٹیچر کے سیما بینڈ مہیا کی تھی اس سلسلہ میں نے ایک لیکچر لینٹرن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئیوں پر تیار کیا.آپ پہلے حضور علیہ اسلام کے الہامات اور نظم ونتر کے اقتباسات دکھاتے پھر جنگ کے ہولناک مناظر پیش کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام حق تھے.یہ کچھ ٹھنڈہ ، لاہور.امین آباد - ڈسکہ.بدیہی اور دوسرے بہت سے مقامات پر دیئے گئے جن سے پلا اقتباز ۲ کالم ۳ به ۱۵۲ الفضل ۲ فتحه ر صفحه به کالم ۳۰ ۵۳۰ الفضل ۲۳ شہادت من صفر کالم : 1 افضل بار بیت الله صفحه کانم ۲ ام وانت بار که افضل ۱۵ اپریل ۶۱۹۴۷ به ۶۱۹۳۷ به لٹریچر زیر لفظ ہر وہاں سرت پاؤں تک
٣٨٩ ندہی ب دو قیمت ہزاروں لوگ متاثر ہوئے اور بعض نے تو علی الاعلان اقرار کیا کہ حضرت مرزا صاحب کا دعوئی خواہ کچھ ہی ہو مگر یہ پیش گوئیاں جو آپ نے جنگ کی نسبت کی تھیں.وہ حرف بحرف پوری ہو رہی ہیں.کئی لوگ لیکچر سُن کر حلقہ بگوش احمدیت ہوئے بیٹے سنگ میاد ۲۲ بیست هه کو حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے محلہ دار الانور میں قاضی محمد سالم صاحب ایم.نے پروفیسر گورنمنٹ کالج لاہور) کی کوٹھی کا سنگ بنیاد رکھا مینے ماه مو آل اور یہ احمدیہ کا نفرنس سونگڑھ اس سال ۲۹-۲۰۳۰ و بمریت اس کو سونگری میں آل اڑیسہ احمدیہ کا نفرنس منعقد ہوئی جس میں حضرت مولانا غلام رسول صاحبت را یکی ، ماشد محمد عمر صاحب - گیانی عباد اللہ صاحب اور مولوی محمد سلیم صاحب نے شرکت کی.ہندو مسلم اتحاد - فضائل نبی.احمدیت یعنی حقیقی اسلام کرین اوتار کا ظہور - صداقت مسیح موعود از نئے سیکھے دھرم.دنیا کے مہاپرش - ختم نبوت کے موضوع پر بہت مؤثر دلاویز اور پر از حقائق تقاریر فرمائیں.یہ کانفرنس بہت کامیاب رہی اور غیر احمدی علماء کے روکنے کے باوجود ہر طبقہ کے لوگ بکثرت شامل جلسہ ہوئے.حضرت ولانا را یکی کی تقاریر تے سامعین از حد متاثر ہوئے.اسی طرح مہا شہ محمد عمر صاحب فاضل کی سنسکرت دانی اور گیانی عباد اللہ صاحب کی سکھ لڑ پھر سے واقفیت نے غیر مسلموں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا میلہ آل انڈیا مسلم گوجر کانفرنس میں یا اس کو دو اور جو میں کی نیا اسلم گوجر جو کو سوپور آل کانفرنس منعقد ہوئی جس میں کانفرنس کے سیکرٹری کی درخواست احمدی مبلغ کی کامیاب تقریریں پر نظارت دعوت وتبلیغ کی طرف سے ڈاکٹر عبد الرحمان حساب موگا مردم احتمان بھیجوائے گئے.ڈاکٹر صاحب کی تقریر میں قومی ترقی کے وسائل کے موضوع پر تھیں.یہ کانفرنس بہت کامیاب رہی اور کارکنان مجلس نے وعدہ کیا کہ وہ ہمیشہ اپنی کانفرنسوں میں احمدی مبلغین کو محبت دیا کرینگے لیے ۱ میان سایت ۲۱۰۲۰۰۱۹ احسان کو پنجاب العالم الاسلم ان کو تاوان کی نمایان میانی ان میں سب کے نت ایران کے پ تحت مقابلے میڈیکل کالج لاہور اور گورنمنٹ کالج لاہور کے تالاب میں ہوئے جن میں تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیانی کی آٹھویں جماعت کے طالب علم مصلح الدین صاحب بنگالی نے بارہ سال تک کے لڑکوں میں ۵۰ میٹر انٹا تیر نے اور ۵۰ میٹر الفضل ۲۶ بون ۱۹۴۲ متر یه مفجره + ۵۲ الفضل ۲۶ / اخبرت هم به صفحه ا کا تم ۲ ن سید عبد السلام صاحب پراونشل سیکرٹری جویان بودم ۶۱۹ تبلیغ ال ایسے سونگری کی رپورٹ ا الفضل و را ( صفحہ) سے مخوصا ج سے فاضل به از احسان صفحه ۲ کالم ۰۲
۳۹۰ چھاتی کے زور سے تیرنے کے گذشتہ ریکارڈ توڑ کرنے ریکارڈ قائم کئے.علاوہ ازیں ۵۰ میٹر سیدھا تیرنے میں بھی اول رہے.خان بہادر افضل حسین صاحب وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی نے مصلح الدین کو دونئے ریکارڈ قائم کرنے پر خصوصیت سے شاباش دی بیلے آریہ سماج کے متعلق حضرت مسیح موعود کی حضرت مسیح موعود علیہ اسلام نے آریہ سماج کی نسبت 19 ء میں پیشگوئی فرمائی تھی کہ : یشگوئی اور اخبار " شیر پنجاب " " جس مذہب میں روحانیت نہیں ر ہیں تاہب اور میں خدا کے ساتھ مکالمہ کا تعلق نہیں اور صدق و صفا کی روح نہیں اور آسمانی کشش اس کے ساتھ نہیں اور فوق العاوت تبدیلی کا نمونہ اس کے پاس نہیں وہ مذہب مردہ ہے.اس سے بہت ڈھن ابھی تم میں لاکھوں اور کروڑوں انسان زندہ ہونگے کہ اس مذہب کو نابود ہوتے دیکھ لو گے.کیونکہ یہ ناب آریہ کا زمین سے ہے نہ آسمان سے اور زمین کی باتیں پیش کرتا ہے نہ آسمان کی لا ہے جن دنوں پیش گوئی کی گئی آریہ سماجی تحریک پورے زوردان پر تھی.گر کچھ عرصہ بعد ہی یہ زوال پذیر ہو گی.یہاں تک کہ ماہ تک اس کی سرگرمیاں ایسی مدھم پڑ گئیں کہ خود غیرمسلموں نے اس حالت کو سکوت مرگ سے تعبیر کیا.چنانچہ سکھ اخبار شیر پنجاب رہا ہور) نے اپنے ار جولائی رٹ کے پرچہ میں لکھا :- اپنی دونوں مرزا غلام احمد قادیانی نے اسلام کا علم بلند کیا.وقت کی رفتار کے مطابق انہوں نے دلیل اور عقل سے اسلام کے خلاف اعتراضات کا جواب دینے کے لئے تحریر وتقریر کا سلسلہ جاری رکھا.مرزا صاحب کی یہ تحریک استقدر کا میاب ہوئی کہ انہوں نے پیغمبری کا دعوی کیا اور ان کا یہ دعوئی بھی ایک بڑی جما دینے صیحت تسلیم کر لیا مسلمانوں میں احمدی، ہندوؤں میں آریہ سماجی مذہبی واقفیت کے اعتبار سے باقی جماعتوں پر فوقیت رکھتے تھے.احمدیوں کی تحریک ت اب تک زندہ ہے گر آریہ سماج کی تحریک ختم ہوچکی ہے.سنگھ بھا ئی تحریک کی جگہ کالی تھر آپ نے لے لی.مگر اب سکھوں میں مذہب کیلئے نہ وہ جوش ہے نہ محبت حرم سے واقفیت کا نوجونوں کو کوئی شوق نہیں یہ سکے ه ۱۳:۲۱ سرینگرمیں مذاہب کا نفرنس امامت امیر سری نگر زیر اتمام و ورود و او پراخ ونسپل گارڈن میں ایک عظیم الشان مذاہب کا نفرنس کا انعقاد ہوا.جن میں اسلام ہندودھرم اور کھ ازم کے نان یا موجودہ بیچین کا لینا دینا ہی کیا ہے ان کی اسی کے موضوع پر تقریریں کیں له الفضل ۲۵ سال ها نور و ٢٣ تذكرة الشهادتين صفحه من له الفضل دی ۱۹۴۲ گرم 4 وفاهام جولائی ۶۱۵۴۳ صفحه ۲ کا امیر
۳۹۱ اس کا نفرنس کے دو اجلاس تھے.پہلے اجلاس کی صدارت حضرت خان بها در نواب چوہدری محمد الدین صاحب سابق منسٹر جو چور نے فرمئی اور مولوی عبدالواحد صاحب مبلغ سلسلہ احمدیہ امر اجر مدیر البری سرد یا جوش نمانده اره سالا چو حریمی خلیل احمد صاحب ناصر اپنڈت پرمانند صاحب چودھری اسد اللہ خان صاحب - ڈاکٹر دولت سنگھر صاب راجہ نریندر نا تھے صاحب کول اور حضرت نواب محمد الدین صاحب نے خطاب کیا.دو سر اجلاس خواجہ غلام السیدین مناسب ڈاریکٹر محکمہ تعلیم یاست جموں و کشمیر کی صدارت میں ہوا.اور اس میں پنڈت آمر نا تھے صاحب کاک عمر اسی جوان کی ابو العطار صاحب اللہ پر جمعیت لال صاحب نے تقریریں کیں.بعد ازاں صاحب صدر نے منتظمین کا نفرنس کو سراہا.یہ کا نفرنس توقع سے زیادہ کا میاب رہی ملے بیرونی مشنوں کے بعض اہم واقعات شرق بعید کی حیا او و در جد تکالیف کا سامنا کرنا پڑا.قید و بند کی زہرہ گذار صعوبتیں بشردوست اور مبلغوں کیلئے دور ابتلایو کہیں اور جاوا اور سماٹرا کے مبلغین اور دوسرے احمدیوں پر جاپانی حکومت کی طرف سے بڑے بڑے مظالم ڈھائے گئے مگر ان کا پتہ برسوں بعد چلا کیونکہ کئی سال تک مرکز کو ان کے حالات کی کچھ خبر نہیں مل سکی چنانچہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے.کے خطبہ جمعہ میں فرمایا :- ۲۰ مارس ۶۱۹۳۷ ملایا کی فوجوں میں بڑے اور چھوٹے افسر اور سپاری وغیرہ ملا کر سینکڑوں احمدی تھے اور اب وہ سارے ہی قید ہیں.ہم نہیں جانتے کہ وہ زندہ ہیں یا مرگئے ہیں.ہم نہیں جانتے کہ انہیں تکلیفیں دی جارہی ہیں یا نہیں دی جارہیں.اور اگر نہیں دی جار میں تو بھی قید بہر حال قیار ہے.ہمارا ایک مبلغ سنگا پور میں تھا اور بہار آٹھ وسیع سماٹر اور جاو ایں تھے اب سب کے متعلق جینگ جنگ کا خاتمہ نہ ہو جائے ہمیں کچھ علم نہیں ہوسکتا کہ ان کا کیا حال ہے.سیٹھ فلسطین مشق جماعت احمدیہ فلسطین نے ہجرت مئی میں سیع پیمانہ پروم تبلی منایا.اور اس تقریب پر مبلغ بلاد عربیہ مولوی محمد شریف صاحب نے بیت المقدس.بیت نجم خلیل نائیں کا سفر کیا جس کی تفصیل مولوی صاحب موصوف کے الفاظ میں درج ذیل کی جاتی ہے :.ماہ مئی میں حسب ہدایت نظارت وعودة وتبلیغ غیرمسلموں میں یوم التبلیغ منایا گیا.اس روز ا حباب کہا بیر ر حیفا کے حسب سابق وفود بنائے گئے اور فلسطین کے سند برای شور مقالات ناصرہ یا نا بھی اسیب ا مفضل هزار تبوک در رتبه هاله صفحرم له الفضل ٢٩ /مين ) ٩ مارج (هر صفحه) ۵ ستمهای ۶۱۹۴۲
۳۹۲ بیت المقدس.بہت کم خیلیل - حیفا - کیا.بعہ - کفر کیا میں اسلام کا پیغام پہنچایا.اور اس موقعہ پر.سات ہزار کے قریب مختلف اشتہارات کتب تقسیم کیں.دعا ہے کہ اللہ تعالی لوگوں کو راہ حق کی طرف ہدایت دے اور ہمارے احمدی احباب کو اجر عظیم عطافرمائے جنہونے سخت عدیم فرصتی کے ایام میں اپنے پنے اخراجات پر ریفر کئے.آمین.خاکسار نے یہ م التبلیغ کے موقعہ پر بیت المقدس دبیت لحم وخلیل دنابلس کا سفر کیا.میرے ہمراہ مریم مرزا محمد صادق صاحب احمدی ایس ڈی او لاہور نزیل مشرق وسط بھی تھے.اس سفر میں ہم نے زبانی اور بذریعہ اشتہارات من تبلیغ ادا کیا.بازاروں اور پھر چوں میں عربی اور انگریزی اشتہارات تقسیم کئے.ایک ارمنی چرچ میں جس کے متعلق مشہور ہے کہ وہاں حضرت مسیح ناصری علیہ السلام واقعہ میں سے پہلے قید خانہ مں رکھے گئے تھے ایسے پانچ قید خانے بیت المقدس میں ہیں ، ہم نے پادریوں کو اشتہارات دیئے.یہاں ایک سم شیخ طریقہ (پیر، اشیخ خلیل بھی موجود تھے جو اس چریح کے قرب وجوار میں رہنے والے تھے جب انہو نے ہمارے اشتہارات کو دکھا اور ان کے بیٹنگ پڑھے یعنی عیسائیوان مغیرہ کو روحانی مقابلہ کی دعوت بھی اور اسلامی تعلیم کا مقابلہ.عیسائیوں سے نہیں سوالات.آنحضرت صلی اللہ لیہ وسلم کی قدرت کا ثبوت با میل ہے.توانہوں نے ہمارے تعلق خاص برچسپی لینا شروع کر دی.چنانچہ جب ہم چرچ مذکور کے پادریوں سے فارغ ہوئے تو وہ ہمیں اپنے دولت خانہ پر لے گئے اور جس بے منقور عرب قہوہ غیرہ سے تواضح کی اُن سے دو گھنٹہ کے قریب مختلف موضوع سلسلہ عالیہ حمدیہ پرگفتگو ہوئی جس سے وہ خدا کے فضل سے متاثر ہوئے اور اپنے ہاں رات رہنے کیلئے بالخارج درخواست کی اور ہمارا مزید لٹریچر پڑھنے کیلئے مزید اشتیاق ظاہر کیا.جبل زیتون پر بھی وفارت شیخ کے متعلق ایک اجتماع میں گفتگو کی گئی جو میں قریباً سب حاضرین نے جومسلمان تاجر تھے اس بات کو تسلیم کیا کہ آیت فلما توقی سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت شدہ ہیں.وہاں میں مقام کے متعلق بعض مجاوروں نے مشہور کر رکھا تھا کہ وہاں حضرت مسیح علیہ السلام آسمان پر اٹھائے گئے اور وہاں ایک مصنوعی قدم کا نشان بھی بنا رکھا ہے وہاں بھی گفتگو ہوئی.اگرچہ ایک غنڈے نے یہاں رات کیا کیا گیا اور اور ان کی کمی نہ ہوگا.خلیل میں جہاں حضرت ابراہیم و سارہ علیہا السلام اور پکے دیگر اعزہ اسحاق رفتہ یعقوب یوسف علیہم السلام کی قبریں ہیں علاوہ اشتہارات وغیرہ تقسیم کرنے کے افسرادقات اسلامیہ الشیخ توفیق بوب نے بھی خاص طور پر ملاقات کی گئی.اور ان کو اشتہارات وغیرہ دیئے گئے نہیں دیکھ کر وہ بہت
۳۹۳ خوش ہو کہ ہماری مائی کا اچھے دن میں بہت سے رانا کیا اور خار دارای مجزا امیر آتے وقت خاکسار نے نابلس میں بھی قیام کیا اور دعوت حق پہنچائی وہاں پر حال ہی میں دو نوجوانوں نے بیعت کی ہے.انہوں نے خاکسار کی دعوت کی اور اپنے دیگر اعزہ کو پیغام حق پہنچایا.اپنی ابلیس کی ذہنیت عجیب واقعہ ہوئی ہے.وہ میں فتنہ پردازی کا یہی شہر اور ا سکے نواحی دیہات مرکزی نقطہ تھے خاکسار کے آنے جانے کے بعد وہاں کے علماء کی طرف سے احمدی احباب کو قتل وغیرہ کی دھمکیاں دی گئیں.اور اب بھی ان کی مخالفت زوروں پر ہے اللہ تعالی بہار احمدی احباب کا حافظ و ناصر ہو.اور اُن کو ہر قسم کے مکروہات سے محفوظ رکھے.الغرض یہ مضر خداتعالی کے فضل پر لانا بہتر ہے.احمد ندای والامل شام مشن مبلغ فلسطین کو شام بھجوایا.آپ میکم اور اکتوب اس کو فلسطین سے شام پہنچے نیام جماعت احمدیہ دمشق کی درخواست پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے مولوی محمد شریف صاب ۱۳ ۶۱۹۴۲ میں اُن دنوں جماعت کے خلاف سخت جوش تھا.کئی مشائخ مثلاً الشيخ صابونی اور الشیخ جو بجانی وغیرہ.مناظرہ کی دعوت دے رہے تھے.اور ایک شیخ تو مباہلہ کا چیلینج بھی دے چکا تھا.ماہ تبوک دستمبر میں تین و شقی احمدیوں الاستاذ منير الحسنی صاحب، الحاج عبد الرؤدت الحسنی صاحب اور الاستاذ شفیق شعیب صاحب وغیرہ کو زد و کوب کیا جا چکا تھا.الاستاذ شفیق سیب اور الاستاذ غیر ملکی ابھی داخل سلسلہ ہوئے تھے السی علماء دمشق سخت غضب ناک تھے.مولوی محمد شریف صاحب نے یہاں با قاعدہ ایک پر نگرام کے ماتحت کام شروع کر یا.اور روزانہ انفرادی طاقاتوں کے ذریعہ اکابر مشتق تک دعوت احمدیت پہنچانے لگے.یہ سب صحاب نہایت چین سلوک سے پیش آئے اور پیغام حق نہایت توجہ سے سُنا.ان اکابرین سے الشیخ عبد القادر المغربی بھی تھے جنہوں نے ۱۹۲۴ میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی سے دوران نزول دمشق کہا تھا کہ یہاں کوئی شخص احمدیت کو قبول نہیں کریگا جس پر حضور نے سفیر ولایت سے واپسی پر حضرت سیتار زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اور مولانا جلال الدین حساب شت کو بھیجگر دشت میں احمدیہ شن قائم کر دیا اور کئی سعادتمند احمدیت میں شامل ہو گئے.خود اشیخ عبدالقادر المغربی کے مسئلہ حیات مسیح کے بارے میں خیالات میں انقلاب آگیا اور وہ وفات مسیح کے قائل ہو چکے تھے.اور جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات کی تعریف کرتے تھے.جماعت کی طرف سے شام میں چونکہ کوئی ٹریکٹ نہیں شائع کیا جا سکتا تھا اسلئے مولوی محمد شریف صاحب نے مشائخ دمشق کو زبانی پیغامات بھیجوائے کہ وہ مرد میدان نہیں اور باقاعدہ مناظرہ کریں اور مباہلہ بھی بیشتر میکہ شام کے پچاس مشاہیر علماء اس میں شامل ہوں تا لوگوں پر حق و باطل واضح ہو جائے مگر کسی الفضل در خور هاشم به راگست ۱۹۳۲ صفحه و دی :
۳۹۴ میراحمدی علم کو یہ پینے قبول کرنے کی جرات نہ ہوسکی جس سے دمشق کے احمدیوں خصوصا تو مبائین کے ایمانوں میں اور بھی اضافہ ہوا.مولوی محمد شریف صاحب دمشق میں تین ہفتہ قیام فرما ہونے کے بعد حمص تشریف لے گئے جہاں ایک ہفتہ تک پیغام احدیت پہنچاتے رہے.ایک پرائیویٹ مناظرہ وفات مسیح پر بھی کیا.آپ نے ایک مخالف عالم الشیخ ابو ذر نظامی (ہندی) کے گھر جا کر ان سے گفتگو کرنا چاہی گردہ کچھ ایسے مرعوب ہوئے کہ تبادلہ خیالات کیلئے آمادہ ہی نہ ہوئے.اور یہ کہ کر انکار کر دیا کہ میں خلوت نشین آدمی ہوں مناظرہ کرنا نہیں چاہتا.حالانکہ یہ وہ صاحب تھے جو ابتداء میں مرہ کڈمین کے سرخیل تھے.مقصد میں مولوی محمد شریف ها رو موناکی بشپ آرتھوڈوکس اور پادری علینی سے واقعہ مصلیب کے موضوع پر گفتگو بھی ہوئی.حمص سے ہو کہ آپ دوبارہ دس روز کے لئے دمشق میں تنزیل ہوئے.اور رات دن تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا.خطبہ عید الفطر مں جماعت کو قربانیوں کی طرف توجہ دلائی.اور جمعہ کے خطبات میں رسالہ الوصیت " پڑھ کر سنایا.جیسے شنکر الاستاذ منیر الحصنی صاحب نے دسویں حصہ کی وصیت کی اور اپنی منقولہ جائیداد کے دسویں حصہ کے طور پر دو سو شامی پونڈ نقد پیش کر دیئے.مولوی محمد شریف صاحب شام میں ایک ماہ سات دن رہ کر اور نبوت کو واپس فلسطین پہنچ گئے بلے شیخ عل الفرق پریذیڈنٹ یا ایریا کی دنیا اس سال کے ریمی نالی کے امیر احدیوں کیسے ۶۱۵۴۷ ایک ممتاز بزرگ شیخ علی الفرق ساٹھ سال کی عمر میں انتقال کر گئے.مولوی ابو العطار صاحب نے اُن کی وفات پر لکھا :- "آپ ایک نہایت درجہ غیور احمدی تھے.بسلسلہ کی محبت اُن کے رگ وریشہ میں کوٹ کوٹ گو بھری تھی حضرت امیر المومنین ایک اللہ تعالیٰ سے بہت ہی عقیدت تھی.ہمیشہ حضور کی کامیابی کے لئے دعا کرتے تھے.جس دن ڈاک ہندوستان سے جاتی تو پہلی خبر یہ پوچھتے کہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی صحت کے متعلق کیا اطلاع ہے ، نہایت زاہد اور متوکل انسان تھے.ریلوے میں ملازم تھے مگر آخر ریٹائر ہو چکے تھے.اس وقت ان کی انتہائی خواہش یہ تھی کہ قادیان ہجرت کر کے چلے جائیں.مجھ سے بارہا اس نیت کا ذکر کیا.چنانچہ جب میں اور میں ہندوستان واپس آنے لگا تو رو کر کہنے لگے کہ وہ دن کب آئیگا جب ہم بھی دارالامان روانہ ہونگے.انہیں جملہ مبلغین و خادمان دین سے تہی محبت تھی.میرے قیامی فلسطین کے عرصہ میں روزانہ بلاناغہ تشریف لاتے اور جب کبھی نہ آئیں تو میں سمجھتا کہ بیمار ہونگے میں اُن کے مکان پر پہنچتا.دوستی اور بھی محبت الفضل، ار فتح ۱۳۲ (۱۷ار دسمبر ۶۱۹۴۲ صفحه ۵ + ها ۴۵
۳۹۵ کو آخر تک نبھانے والے بزرگ تھے.خط و کتابت کا سلسلہ برابر جاری رکھا.میری بعض مجبوریوں کے باعث انہیں بجا شکوہ تھا کہ آپ کی طرف سے خطا دیر سے اور بہت کم آتے ہیں شیخ علی التفرقی نے مسلمہ کی خدمت کی ہر تحریک میں حصہ لیا اور احمدیت کے نام کو بلند کرنے کے کسی موقعہ کو ہاتھ سے نہیں کھو یا مرحوم مسن رسیدہ ہونے کے باوجود جفاکش اور شگفتہ دل تھے.ان کا ایک برجستہ جواب مجھے ہمیشہ یاد رہتا ہے.ایک مرتبہ میرے پاس نابیکس کے چند اساتذہ آئے تھے.اُن سے وفات سیح پر سلسلہ گفتگو شروع تھا حضرت شیخ علی مرحوم بھی موجود تھے.اساتذہ میں سے ایک نے کہا کہ آپ ہیں بتائیں کہ حضرت علی کی قبر کہاں ہے بایں نے کہا کہ کشمیر ی اور اس پر دلیل قرآنی دادینا هما یر إلى ربوة ذَاتِ قَرَارٍ معين موجود ہے.وہ نوجوان استاد تعجب اور حقارت آمیز منجمدمیں کہنے لگا کہ حضرت عیسی فلسطین سے اتنی دور کشمیر میں کیسے چلے گئے ؟ میں ابھی جواب دینے نہ پایا تھا کہ مرحوم جلد بول اٹھے اور کہنے لگے حل كَانَتْ بِلاد الشامية ابعد من الشاعر کہ کیا کشمیر کا ملک آسمان سے بھی دور ہے ؟ اس پر سب ہنس پڑے اور اُس شخص کو شرمندہ ہو کر خاموش ہونا پڑا.اور شیخ علی مرحوم کو الہ تعالی نے دینی امور میں نہایت عمدہ فرامت عطا فرمائی تھی اور جرات دلیری سے دین کا پیغام پہنچانا ان کا مرغوب مشغلہ تھا.اُن کے گھر سے کیا بیر اٹھائی تین میل کے بلند پہاڑ پر واقع تھا.مگر جب مدرسہ احمدیہ وہاں قائم ہوا تو اپنے چھوٹے بچے عبد الوہاب کو دہاں داخل کیا اور خود اس کے ساتھ جاتے تھے.احمد یہ مطبعہ میں اپنے ہاتھ سے کام کرتے تھے.اُن کے بڑے بیٹے سید خضر افندی القزق جماعت کے سیکرٹری مال ہیں.الشیخ علی الفرق کے تینوں بیٹے نہایت مخلص اور سلسلہ کے خادم ہیں.اُن کا گھر احدیت کیلئے مرکز کی حیثیت رکھتا ہے یا نہ کی نئی مطبوعا اس سال جماعت کی طرف سے عرب ذیل ٹر پر شائع ہوا.١٣٠٢١ ۶۱۹۴۲ ا مرکز احمدیت قادیان" مؤلفہ شیخ محمود احمد صاحب عرفانی ایڈیٹر الیہ قادیان) اس کتاب میں مرکزہ سلسلہ احمدیہ کی تاریخ ایسے موثر اور اچھوتے اور دلچسپ پیرایہ میں لکھی تھی کہ پڑھنے والوں کے سامنے قادیان کے قدیم اور جدید ادار کا پورا نقشہ کھچ جاتا تھا.اور اسکے دل میں یہ خواہش پیدا ہو جاتی تھی کہ وہ ایک بار ضرور قادیان کی زیارت کرے.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے اس کتاب پر یہ تبصرہ فرمایا کہ: ایک سرسری نظر میں نے اس کے مضامین پر ڈالی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس میں بہت سے الفضل ۲۴ فتح ۱۳۲۵ (۲۴ دسمبر ۱۹۴۲) صفحه ۰۴
سفید معلومات قاریان موسیلہ کے معلق جمع کر دیئے گئے ہیں.اس تنگی کے زمانہ میں انہوں نے اچھے موٹے کاغذ پر خوشخط کتاب چھپوائی ہے جو دوست باہر کی دنیا کو قادیان اور سلسلہ کے حالات سے روشناس کرانا چاہیںاور ان کی یہ بھی خواہش ہو کہ لیے مضامین نہ ہوں بلکہ ایک مختصر کتاب میں جماعت کے کام اور مرکزی خصوصیات کا ذکر ہو تا کہ اسے خرید کر لوگوں کو اس کے مطالعہ کی تحریک کی جائے تو ایسے دوستوں کے لئے یہ کتاب بہت مفید ثابت ہو سکتی ہے ہے.ر اخلاق احمد " دمرتبه پروفیسرمحبوب عالم صاحب خالد ایم.اسے ہم امام مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ قادیان) شعیر اطفال مجلس خدام الاحمدیہ قادیان کی طرف سے ہر چھے ماہ کے بعد کتب سلسلہ کے امتحانات کا انتظام کیا جاتا تھا یہ تالیف ماہ شہادت ۳ (اپریل ۱۹۴۳ء) کے امتحان کے لئے بطور نصاب مقرر کی گئی.صد عمل مخدوم احمد مرکز یہ قادیان حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب نے اپنے قلم مبارک سے اس کا حسب ذیل دیباچہ لکھا : حضرت مسیح موعود علیہ السلام اخلاق محمدی رصلی اللہ علیہ وسلم) کے کامل حامل اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بعد بہترین اخلاق کے مالک ہیں.آپ کے اخلاق ہمارے لئے نمونہ ہیں جنہیں بڑے بار کے ساتھ اس رسالہ میں احمدی بچوں کے سامنے رکھا جا رہا ہے تا اس نمونہ کی پیروی کرتے ہوئے ہمارے بچے حقیقی معنی میں اطفال احمدیت بن سکیں اور تا دنیا اُن کے نمونہ سے سبق سے اور تا اللہ تعالے کی دی ہوئی طاقتوں کو بہتر سے بہتر نشود نمادے کر ہمارے بچے اس کی خوشنودی حاصل کر سیکس را ظلم آین؟ اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ انسان کی حقیقی اور کامیاب ترقی کا راز عقل کی پیروی میں ہے نہ جذبات کی پیروی میں حقیقی ترقی تبھی حاصل ہوتی ہے جب روحانیت کا سورج طلوع ہو کر عقل د جذبات کے حدود کو نمایاں کر دیتا ہے اور اللہ تعالے اپنے بندے کو ان حدود میں رہنے کی توفیق عطا فرماتا ہے عقل اور جذبات کے اس صحیح استعمال کے بعد انسان جن عمدہ اخلاق کو اپنے اندر پیدا کر لیتا ہے اُس کی بہترین مثال انبیاء علیہم اسلام کے اخلاق ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے اخلاق کا نمونہ اپنے بچوں کے سامنے رکھنے سے ہماری یہی عرض ہے کہ تا انہیں علوم ہوسکے کہ انہیں کیا بنتا ہے ؟ اور کس راہ پر چل کر وہ ایسا بن سکتے ہیں.وباللہ التوفیق خاکسار مرزا ناصراحه مد مجلس خدام الاحم به کله چشمہ ہدایت" بعض اہم عنوانات پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلمات طیبات کا مجموعہ جو مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر نے شائع کیا ) له الفضل ۱۲۰ صبح ۳۵ ۲۰۱۳ جنوری ۳۳ را صفحہ اس اخلاق احمد نبوت نومبر ۶۱۹۴۴ ے
496 اندرون ملک کے بعض مشہور مناظرے ۱۵ اور ۲۲ ها در ۱۳ تبلیغ ها ار فروری ۱۹۴۳ئر کو امرتسر میں مولانا قاضی مباحثه امرتسر محمد نذیر صاحب نال نے غیر مبالغ مبلغ موتی احمدیار صاحب سے مسئلہ نبوت اور مسئلہ کفر اور اسلام پر کامیاب مناظرے کئے لیے مباحثه بدو لهی یدہ الہی (ضلع سیالکوٹ، غیر سائین کا گڑھ سمجھا جاتا رہا ہے.اس جگہ ۲۵/ ۲۷ تبلیغ ها ۱۳۵۳ (۲۵-۲۷ فروری ۶۱۹۳۷ ) کو مولوی غلام مصطفے صاحب مولوی فاضل نے مسئلہ ختم نبوت اور پیشگوئی مصلح موعود پر میانے گئے.غیر مبائع اصحاب کی طرف سے موادی احمد بار صاحب نے بحث کی.غیر مبائع مناظر اصل موضوعات کو چھوڑ کر کفر و اسلام کے میدان میں گھومتے رہے.جس پر اُن کے اپنے پریذیڈنٹ نیز ایک اور معزز غیر مبائع دوست نے انہیں توجہ دلائی کہ آپ کیا کر رہے ہیں مگر وہ باز نہ آئے.سے ۱۳ : ۲۱۵ ۶۱۹۴۲ کے قادیان پر ایک اچٹتی نظر ۶۱۹۴۲ راس سال کے متفرق اقعات بیان کرنے کے بعد مناسب ہوگا کہ اس کے قادیان کی ساری ترقی پر : بھی ایک نظر ڈال لی جائے تا یہ معلوم ہو سکے کہ قادیان کی گمنام بستی کو خلافت ثانیہ کے با برکت عہد میں نہ صرف علمی روحانی اور اخلاقی لحاظ سے دنیا بھر میں عروج نصیب ہوا بلکہ خدائی بشارتوں کے مطابق اس محض احمدیت کی برکت سے باڈی لحاظ سے بھی حیرت انگیز ترقی کی جس کا نقسنہ شیخ محمود احمد صاحب عرفانی مردم ایڈیٹر الحکم نے اپنی کتاب مرکز احمدیت قادیان میں بایں الفاظ کھینچا :- " وہ قادیان جس کے بازاروں میں خریدنے کے لئے چیزیں دستیاب نہ ہوتی تھیں آج اس کے بازار دنیا کی چیزوں سے بھرے پڑے ہیں.وہ بازار جو اجڑے ہوئے تھے آج پر رونق اور بھرے ہوئے ہیں.کئی نئے بازار نکل آئے ہیں جہاں ایک پر پیر ه الفضل ۱۳۲۰ شہادت - ۲۵ شهادت ۱۲ بجرت ا ار این ها یا ان مباحات کی اصل این را می پوشی در - احسان امان موجود ہے.لفضل اسرار صفحه ها
ماہوار کو دوکان کرایہ پر نہ پڑھتی تھی اب دس دس بارہ بارہ روپے ماہوار کرایہ دینے والی دوکانیں موجود ہیں.تجارت کا مال دنیا کے کونوں کونوں سے آتا ہے.ایک وہ زمانہ تھا کہ قادیان میں پان میسر نہ آتا تھا.آج یہ وقت ہے کہ قادیان میں پان فروشوں کی متعدد دوکانیں موجود ہیں.چند دن ہوئے کہ ایک پان فروش مولوی عبد الواحد نے مجھے بتلایا کہ اس کے پاس تیس ہزار پان قادیان میں موجود ہیں.ایک ایک چیز کی کئی کئی دوکانیں ہیں.کپڑے کی دوکانوں کا یہ حال ہے کہ دوکان لالہ سری رام راجہ رام پرستان صاحب کی دوکان میں کم و بیش میں ہزار کا کپڑا موجود ہے اور ویسے تو ایک درجن سے بھی زیادہ کپڑے کی دوکانیں موجود ہوں گی.سینکڑوں من دودھ دن دشت میں سے آتا ہے.متعدد حلوائیوں کی دوکانیں ہیں جو سب خوب چلتی ہیں.جہاں ایک آدھ موجی کام کرتا تھا وہاں بوٹ بنانے والے ایک در چین آدمی کام کر رہے ہیں.دار الصناعت فٹ ویر کا کارخانہ الگ ہے جس میں خاصی مقدار میں مال تیار ہوتا ہے.جہاں حجاموں کی یہ حالت تھی کہ وہ عید وغیرہ پر نعام ملنے کی امید پر کام کرتے تھے وہاں اب اعلی درجہ کے میر کنگ سیلوان بنے ہوئے ہیں.دوا خانے ہرقسم کے ڈاکٹر یونانی.ویدک.ڈاکٹری ہر قسم کے ڈاکٹر یونانی - ویدک.ڈاکٹری.ہومیو پیتھی.طب جدید وغیرہ کے ماہر موجود ہیں.فون ٹھوک.بلغم.پیشاب پاخانہ وغیرہ ٹسٹ کرنے کے لئے ڈاکٹر کٹک جیسے تجربہ کار ڈاکٹر کی لیبارٹری موجود ہے.دانتوں کے لئے ڈاکٹر محمدعبد اللہ صاحب ڈینٹل سرجن ڈاکٹر ھا جی جنود اللہ صاحب ڈینٹل سرجن ہمدردو خلیق اور دلسوزی سے کام کرنے والے موجود ہیں.آنکھوں کیلئے ڈاکٹرمحمد عبداللہ صاحب پلی والے نہایت محبت سے عارج کرتے ہیں.ان کے پاس ہر قسم کی عینکیں میسر آسکتی ہیں.طبی عجائبات کے لئے دواخانہ خدمت خلق.ایڈیٹر صاحب نور کا دواخانہ حکیم نظام جان صاحب کا دواخانہ طبقہ عجائب گھر.کاغانی صاحب کا دواخانہ - یک یونانی دواخانہ دواخانه نورالدین - در خانه رفیق حیات - دو آخانہ فاروتی وغیرہ اچھا کام کر رہے ہیں.ان کے علاوہ متعدد انگریزی یسینسریاں اور میڈیکل ہال کھلے ہوئے ہیں..
۳۹۹ کارخانے اسٹار ہوزری :- ایک بہت بڑا کارخانہ ہے.ایک ہزار کے قریب مرد در عورتیں اس کارخانے کے ذریعے اپنی زندگی کے ایام بخوبی نبسر کر رہے ہیں.اس کا رخانے کے طفیل متعدد گھروں میں مشینیں لگی ہوئی ہیں.کہیں درزی کام کر رہے ہیں، کہیں عورتیں گھروں پر لاکر کام کر رہی ہیں.یہ کارخانہ بانو اکبر کی صاحب جیسے لائق اور قابل انسان کے ہاتھ میں ترقی کر رہا ہے.میک درکس: تازیان کا قابل صد رشک کارخانہ ہے جس کی وجہ سے قادیان کی صنعتی شہرت دُور دُور کے شہروں تک پھیلی ہوئی ہے.اس کے علاوہ اکبر علی اینڈ سنز - جنرل سروس - احمد برادرز - پیر در کس مکینیکل اور شریف آمرانی سٹیل سیٹل وغیرہ کارخانے نو ہے کا کام کر رہے ہیں.جگہ جگہ بھٹیاں جل رہی ہیں.رہے پگھل رہے ہیں.مختلف اشیاء ڈھل رہی ہیں.کہیں آٹا پیسنے کی مشینیں ہیں.کہیں روئی دھنے کی کیں کام کر رہی ہیں اور کہیں نکڑی چیرنے کی مشینیں چل رہی ہیں.موسم گرمامیں متعدد سوڈا واٹر فیکٹریاں کام کرتی ہیں.عطریات کے لئے پر نیومری کا کارخانہ ہے شیشہ کا کارخانہ ہے.غرض ہر طرف کارخانوں کی شان نظر آرہی ہے.سیمنٹ کی ایجنسیاں، لکڑی اور کو ملنے کی متعدد دوکانیں ہیں.اینٹوں کیلئے بھٹے کام کر رہے ہیں.بجلی لگی ہوئی ہے.کئی مکانات میں الیکٹرک واٹر پمپ کام کر رہے ہیں عمدہ عمدہ باغات بن رہے ہیں.وسیع کو ٹھیاں اور جنگلے بن رہے ہیں.سڑکیں اور راستے ڈاکخانہ تیار ہو رہے ہیں.یا اکخانہ کا ایسا اعلی انتظام ہے تار میٹری منی آرڈر ، پارسل دینی وغیرہ کے لئے الگ کھڑکیاں ہیں متعدد پوسٹ میں کام کرتے ہیں.بابو لوگ معقول تنخوا میں لے رہے ہیں.ہزار ہا روپیہ کا کاروبار اور ساری دنیا کے ملکوں سے خط و کتابت ہوتی ہے.قادیان کے ڈاکخانہ میں سب سے پرانا آدمی منشی جان محمد صاحب پوسٹ مین ہے جو حضرت مسیح موعود کا صحابی ہے.تار و ٹیلیفون | احمدیت کے طفیل یہاں تار اوٹیلیفون کے محکمے بھی کھل گئے ہیں.طفیل یہاں تار بھی ہیں.
قاریان بیٹھ کر جس ملک سے چاہونٹوں میں تلیفون پر گفتگو کی جاسکتی ہے.یہ ایک بہت بڑی سہولت ہے.جو خدا نے قادیان کو مہیا کر دی.ریلوے سٹیشن ریوسے ہونے کی وجہ سے قادیان تک سفر بہت آسان ہوگیا ہے دنیا بھر کے ملکوں سے ریلیں مہمانوں کو لے کر قادیان اسٹیشن پر آتی ہیں.f اور مبلغین کوئے گر دنیا کے ملکوں میں جاتی ہیں.اور کمنٹ یہاں ایک عرصہ سے مٹاؤن کمیٹی بھی قائمہ ہے جس کی وجہ سے صفائی کا اچھا ٹاؤن مینی انتظام ہو رہا ہے.یملی کی پیشنی ہے.اس وقت ملک مور پخش صاحب.یشر کیٹی کے پرینڈنٹ ہیں اور مرزا اسلم بیگ صاحب سیکرڑی ہیں ، اس ماہ نومبر سے محکمہ چونگی بھی قائم ہو گیا ہے.ستہ عرصہ سے قادیان کی حفاظت کے لئے پولیس چود کی قائم ہے.اسوقت یویں امین پولیس چوکی سرکاری عمارت میں ہے.یہ اس وقت چوہدری رادھا کرشن صاحب اسسٹنٹ سب انسپکٹر انچارج چود کی ہیں.ڈی اے دس ہائی سلامتی یا امام کا ایک اور امده اند هم به دور دی نصرت گرلز ہائی سکول کے علاوہ ایک آریہ سماج کی طرف سے ڈی.اے بی ہائی سکول بھی چل رہا ہے اور لڑکیوں کے لئے ایک مستر سنی پاٹھ شانہ بھی ہے.العرض ریل تارا ٹیلیفون ، ڈاکخانه ، شفاخانہ ، ہرقسم کے کارخانے، بازار، تجارت کی فراوانی آج کی قادیان میں موجود ہیں اور یہ اس جدید قادیان کی مادی ترقی ہے.دارالانوار کی شاندار کو ٹھیاں ، دار احمد بیت الظفر بیت الحکمت گیسٹ ہاؤس بیٹھ عبداللہ بھائی کی کوٹھی.بیت النصرت - میر محمد الحق صاحب مولانا در و صاحب استید زین العابدین دلی اللہ شاہ صاحب کی کوٹھیاں.یہ سب کو ٹھیاں قابل دید ہوں، اس لئے یہ سب سلسلہ کی صداقت کی منہ بولتی تصویریں ہیں اسے مرکز ، حمدمیت قادیانی صفحره ۱ تا ۱۹ نم +
چوتھا باب و یا اینا یا ان کے مایا اس سے ایک ایک کالا ای بر یک وضاحتی خلافت تانیہ کا تیسواں سال محرم ۱۳۹۳ مه مطابق صلح جنوری ۱۳۲۳/۰۶ فصل اوّل اس سال کے شروع میں ایک ایسا واقعہ ہوا اس نے مہندا است ترکی و ال ام المومنین و ناخی خطبہ میں یک جوان پیدا کردی تھی اس جمال کی یہ ہے کہ ان دنوں ترک اخبار نویسوں کا ایک دفعہ دورہ کرتے ہوئے لاہور پہنچا تو اس کے لیڈر موسیو عطائی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہم پہلے ترک ہیں پھر مسلمان تیر کہا کہ سفرمیں روزانہ منہ کی ضرورت نہیں ہے.علاوہ ازیں جن بوابات انہوں نے ایسے دیئے یا ہندوستانی پر میں نے ان کی طرف منسوب کر کے شائع کئے جو مسلمانان ہند کے ایک حصہ کے لئے افسوس اور دوسرے حصہ کے لئے پریشانی کا باعث بت بیچنا نچہ مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری، مدیر اہلحدیث “ (امرتسر) نے لکھا:.اپور میں اختبار نویسوں کی طرف سے ترکی وفد کوئی پارٹی دعوت بچائے، دی گئی جس میں رئیس وفد نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہم پہلے ترک ہیں پھر مسلمان " اس فقرہ سے ہم نے ترکوں کی اسلامی عقیدت کا خونشتر پایا ہے اس سے ہمیں سخت صدمہ ہوا.اس فقرے کا واضح اور صاف مطلب یہ ہے کہ تم کی قوم کی رسوم معاشرت اور سیاست ان کے نزدیک اسلامی رسوم اور معاشرت سے مقدم ہیں مثلاً بعض جرائم پر جو سزائیں شرع شریعت میں آئی ہیں تم کی قوانین کے خلاف ہوں تو ان کے ملکی قوانین ان کے نزدیک مقدم ہیں اور اسلامی احکام موخر ایسا کہنا اور کرنا اسلام کے صریح خلافت ہے.ارشاد ہے : مَا كَانَ ل الفضل صلح اینوریا صفحہ امیں پر بھاٹ کے حوالہ سے ان جوابات کی تفصیل شائع شدہ ہے ؟
المؤمِن وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمُ خدا اور رسول کے حکم کے سامنے کسی مومن کو بھر تسلیم کے کوئی اختیار نہیں ہے.ترکوں کی سلطنت کو اور قومیت کو یورپ نے سخت نقصان پہنچایا ہے.اس پر بھی وہ یورپ کی تقلید سے نہیں ہٹے ہندو سیتی مسلمان ترکوں کی ہر مصیبت میں شریک غم رہے مگر ترکوں نے آخر یہی جواب دیا جو اُن کے منقولہ مقولہ سے پایا جاتا ہے اس موقعہ پر خصوصاً ہندو پر میں نے ان جوابات کو بہت اچھالا اور یہ نتیجہ نکالا کہ ترک اسلام سے بیزار ہیں.اور مسلمانان ہند کی سیاست سے ان کو انقلاف ہے.انہوں نے اس خیال کا بھی اظہار کیا کہ ترکوں نے فیصلہ کر دیا کہ قومیت پہلے ہے اور مذہب بعد میں.اسی طرح ہندوستان میں قومیت کو مقدم رکھنا چاہیئے اور مذہب کو موخر سمجھنا چاہیئے.چنانچہ اخبار" ملاپ " (۳ فرور می ۱۹۳۳ مٹر) نے لکھا : ترک اخبار نویسوں کے وفد کی وجہ سے پنجاب کے مسلم لیگیوں کو خصوصاً اور ہندوستان کے مسلم لیگیوں کو موماً جو خفت اٹھائی پڑی ہے اُسے شاید وہ ایک عرصہ تک فراموش نہ کر سکیں گے.....ان باتوں نے مسلم لیگ کے اس سارے تخیل کو مٹھی میں ملا کر رکھ دیا ہے جس پر وہ اپنی تمام سرگرمیوں کا محل کھڑا کر رہے تھے" قبل ازیں ۳۱ جنوری ۱۹۳۳مہ کی اشاعت میں لکھا :.ترک اختیار نویسوں نے اُن کے مونہہ پر.ایک ایسی چیست لگائی ہے جسے وہ عمر بھر یاد رکھیں گے...یہ چیت اتنی کراری اور زیرہ دست ہے کہ کسی وضاحت کی ضرورت نہیں" اخبار " پر سجات" دیکم فروری ۹۲للہ نے لکھا :- ترک جرنلسٹوں نے ہندی مسلمانوں اور ترک مسلمانوں کی بھائی سیندی کا بھانڈا چھوڑا ہے میں پھوڑ دیا " ان حالات میں ملک بھر میں متفرق دیاں ہی ایک مقدس ہستی تھی جہاں سے ایک ایسی آواز اٹھی جس نے ہندو و کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا اور مسلمانان ہند کو اسلام کے شاندار مستقبل کی خبر دے کر ان کے حوصلوں کو ن اخبار" اہلحدیث " امرتسر مورخه هر فروری ۱۹۲۳ صفحه ۰۹ حواله الفضل " مورثه در تبلیغ فروری از پیش صفحه ۱ به د النا - ایمنا
وم بلند اور ان کے عزائم کومستحکم کیا اور ان کے ولولوں کو حیات نو بخشی به آواز امام جماعت احمدید خلیفہ اسی نشانی کی آواز تھی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی شان در تبلیغ فروری پیش کو قادیان کی مسجد اقصی کے منبر سے ترکی وفد کے جوابات کی نسبت ایک خاص خطبہ ارشاد فرمایا جس میں ترکی وفد کے اس جواب کے بارے میں کہ وہ ” ترک پہلے اور پھر مسلمان میں نہایت لطیف وضاحت کی کہ :.اس کا مفہوم محض یہ تھا کہ ہمیں باقی مسلمان قوموں سے بے شک ہمدردی ہے.لیکن اگر ہم کسی وقت دیکھیں گے کہ ہماری قوم کو نقصان پہنچنے والا ہے تو اس وقت ہم اپنی جان پہلے بچائیں گے اور دوسروں کا فکریجہ میں کریں گے.یہ معنی نہیں تھے کہ ہم ترکی نسل کو مقدم کریں گے اسلام کو مقدم نہیں کریں گے.کیونکہ وہاں تو کوئی اختلاف ہے ہی نہیں.سب لوگ مسلمان ہیں.یہ اختلاف تو ہندوستان میں ہی پایا جاتا ہے.کیونکہ یہاں مختلف مذاہب کے لوگ پائے جاتے ہیں.ترک تو سب کے سب مسلمان کہلاتے ہیں.ان کا ذہن ان معنوں کی طرف جاہی کس طرح سکتا ہے.کہ ہم قومیت کو مقدم کریں گے اور مذہب کو موخر کریں گے.پس ان کا ہو اب سیاسی جواب ہے.اور یہ سیاسی جواب نیا تو نہیں جب ان میں خلافت قائم تھی.اس وقت بھی ان کی طرف سے یہی بات پیش کی جاتی تھی اور آج بھی یہی بات پیش کی جاتی ہے" جہانتک ترکی وفد کے اس جواب کا تعلق تھا کہ سفر میں نماز کیا پڑھنی ہے حضور نے اس کو بہت اہمیت دی اور فرمایا کہ اگر وہ سچ ہے تو واقعہ میں افسوسناک ہے.یہ جواب بتاتا ہے کہ اگر یہ بات سچتی ہے تو ترکوں کا وہ وفد جو ہندوستان میں آیا ہے اس کے دل میں اسلام کی تعلیم نے پوری طرح گھر نہیں گیا ہم اس سے یہ نتیجہ نہیں نکال سکتے کہ ساری ترک قوم ایسی ہے، کیونکہ ہر حال یہ چند افراد کا جواب ہے اور وہ اپنے فعل کے آپ ذمہ دار ہیں.لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ وہ تحریکوں کے منتخب نمائندے ہیں.پس بیشک اُن کا فعل ایک قوم کا فعل قرار نہیں دیا جا سکتا.مگر چونکہ ترکوں نے انہیں اپنا نمائندہ منتخب کر کے بھیجا ہے.اس لئے یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ترکوں کی طرف سے جو نمائندہ بے چین کر بھیجے گئے ہیں ان کے دلوں میں نماز کی جو اس پیم کے ارکان میں سے ایک بہت
بڑا رکن ہے کوئی عظمت نہیں" اس ضمن میں ہندوؤں کی نسبت حضور نے فرمایا :- "مگر میرے نزدیک اس میں بھی ہندوؤں کے لئے خوش ہونے کی کوئی وجہ نہیں.میں نے خود ایک دفعہ ایک ہندو اخبار میں یہ لکھا ہوا دیکھا تھا کہ ہمارے ہاں سندھیا (یعنی صبح کی عبادت کا جو طریق اه رائج ہے اس کا ہم میں سے ایک بھی پابند نہیں.پس جس قوم کی اپنی یہ حالت ہو، اور جس قوم کا ایک فرد بھی عبادت کا پابند نہ ہو اُسے اس بات پہ کیا خوشی ہو سکتی ہے کہ دو کروڑ ترکوں میں سے چھ ترک ایسے ہیں جو سفر کی حالت میں نماز نہیں پڑھتے.“ حضور نے اس الزامی جواب پر اکتفاء نہ کرتے ہوئے مزید فرمایا کہ ید اعتراض بھی تب ہوتا جب یہ تسلیم کیا جاتا کہ اسلام اپنی عملی صورت میں اس وقت دنیا میں موجود ہے گر یہاں تک غیہ احمدیوں کا سوال ہے وہ بھی یہ نہیں کہتے کہ اسلام اپنی اصل شکل میں دنیا میں موجود ہے.اور احمدیوں کا تو سوال ہی نہیں.ہمارے تو دعوی کی بنیاد ہی اس بارت پر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة واست نام کو اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں بھیجا ہے تاکہ آپ اسلام کو اس کی اصل شکل و صورت میں پھر قائم کریں.پس اگر ترکوں نے یہ کہا کہ سفر میں نماز کیا پڑھتی ہے تو اس کے معنے صرف اتنے ہیں کہ انہوں نے اپنے اس جواب سے ایک اور تصدیق اس امر کی بہم پہنچا دی کہ اللہ رت لئے کی طرف سے دنیا کی اصلاح کے لئے ضرور کوئی مامور مبعوث ہونا چاہئیے کیونکہ آج خود مسلمانوں کی یہ حالت ہو رہی ہے کہ وہ اسلامی تعلیم پر عمل کرنا ضروری نہیں سمجھتے.پس مسلمانوں کو اس جواب پر پریشان ہونے اور گھبرانے کی ضرورت نہیں......آج سے پچاس سال پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ تمام نقشہ کھینچ کر رکھ دیاتھا.ترکی وفد نے کونسی نئی بات بتائی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا.محمد ہر کسے در کار خود با دین احمد کار نیست ہر شخص کو اپنے اپنے کام سے تعلق ہے مگر رسول کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین سے کسی کو کوئی واسطہ نہیں.اسی طرح آپ نے فرمایا تھا.پھر بیکسے شد دین احمد پیچ خویش دیار نیست لم ملک فضل حسین صاحب نے حضرت خلیفہ ربیع الثانی کے اس خطبہ کی تائید میں نہایت تحقیق کر کے ایک مضمون "افضل" کی اشاعت میں لکھا اور اس میں متعہ دمشہور آریہ سماجی لیڈروں اور اخباروں کے حوالے دیئے ؟..
۴۰۵ دین اسلام بیکس ہو گیا ہے اور کوئی اس کا دوست و مد کار نہیں رہا.یہ وہ چیز ہے جیسے سلسلہ احمدیہ پچاس سال سے پیش کر رہا ہے اور ہم تسلیم کر چکے ہیں کہ آج مسلمانوں کی یہی حالت ہو رہی ہے.پھر اس کو اسلام کی ایک نئی شکست کیونکر قرار دیا جا سکتا ہے.یہ بیماری تو وہ ہے نہیں کا اعلان آج سے پچاس سال پہلے بلکہ اس سے بھی پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کر دیا تھا.پس یہ کوئی نئی بیماری نہیں جو بہار ہے سامنے پیش کی جائے.دشمنان اسلام کو جو کچھ دیکھنا چاہیئے وہ یہ ہے کہ کیا اس بیماری کے علاج کا کوئی شفا خانہ دنیا میں قائم ہو چکا ہے یا نہیں.اگر دنیا میں اس بیماری کے علاج کا شفا خانہ قائم ہو چکا ہے تو پھر اس میں اُن کے لئے خوشی کا کہ ناموقعہ ہے.آج دوبارہ اسلام کی ترقی کے سامان خدا تعالیٰ نے پیدا کر دیتے ہیں اور دوبارہ اسلام کی بنیادوں کی تھری کیلئے قادیان میں اس نے اپنا ایک انجیر بھیج دیا ہے.اس انجنیر نے اسلامی بنیادوں کو مضبوط کر کے اس پر اسلام کے رفیع الشان محل کی عمارت کو کھڑا کرنا شروع کر دیا ہے.پس اگر کوئی دشمن اسلام اسلام کی اس گرتی ہوئی بنیاد کو دیکھ رہا ہے تو وہ اُن اُٹھتی ہوئی بنیا دوں کو بھی دیکھے جس کے عظیم الشان محل میں دنیا کی تمام پاکیزہ گروں کو لا کر اکٹھا کر دیا جائے گا.ان کو وہ چھ شکست خوردہ ذہنیت کے مالک مسلمان نظر آتے ہیں مگر وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ان کے گھروں کے سامنے خدا تعالے کی یہ آواز بلند کی جارہی ہے کہ "میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا " کیا یہ آواز ان کے کانوں میں نہیں آتی.وہ محل جس کی دیواریں ایک طرف گر رہی ہوں اور دوسری طرف اس کی نئی اور مضبوط دیواریں کھڑی کی جارہی ہوں.اس محل کی دیواریں گرنے پر کسی دشمن کو کیا خوشی ہو سکتی ہے.اگر ایک طرف اسلام کی کوئی دیوار گر رہی ہے تو دوسری طرف اس کی نئی اور مضبوط دیواریں خدا تعالیٰ کے فضل سے کھڑی کی جا رہی ہیں.پس دشمن کے لئے خوشی کا کوئی موقعہ نہیں.بیشک یہ ایک کمزوری ہے اور ہم اس کم دوری کو تسلیم کرتے ہیں.مگر ہمارے لئے یہ کمزوری کوئی نئی چیز نہیں.آج سے تیرہ سو سال پہلے رسول کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کی خبر دے دی تھی.اور آپ بتا چکے تھے کہ ایک زمانہ میں مسلمانوں کی کیا حالت ہو جائے گی....تو دشمن کے لئے خوش ہونے کا کوئی موقع نہیں.اسلام کی دیواریں اگر ایک طرف گیے رہی ہیں تو ساتھ ہی ایک نئی بنیاد اسلام کی ترقی کے لئے اٹھائی جا رہی ہے.اگر دشمن یہ دیکھتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلعہ میں سے آپ کے نام کی طرف منسوب ہونے والے چند شکست نخوردہ لوگ ایک دروازہ سے نکلتے ہوئے آپ نے ہتھیار پھینک رہے ہیں تو وہ آنکھیں اُٹھا کر
دیکھے کہ دوسری طرف ایک اور قوم جس کی رگوں میں جوانی، امید اور امنگوں کا خون تیزی سے دورہ کر رہا ہے فتح کے جھنڈے اڑاتی ہوئی محمد صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نام کو بلند کرنے اور اس کی حکومت کو دوبارہ قائم کرنے کے لئے ایک دوسرے دروازے سے محمد نی قلعہ میں داخل بھی ہو رہی ہے" سے ۱۲ / مارچ ۱۳ حضرت امیر المومنین کا خطاب سندھ کی ارمان بادی میں کو ناصرآباد سندہ میں صوبائی نہیں امیر کی احمدیہ کا سالانہ اجلاس منعقد ہوا یسیں میں قرب وجوار کی احمدی صوبائی امین احمدیہ کے سالانہ اجلاس میں جماعتوں کے صدر اور کراچی ، روہڑی ، باڈا ، کمال ڈیرہ اور ضلع حیدر آباد کے قریباً اسی نمائندے شامل ہوئے.حضرت خلیفہ المسیح الثانی رض نے نماز مغرب و عشاء کے بعد اس نمائندہ اجلاس کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمارا سندھ میں آنا اللہ تعالے کی خاص مشیت کے ماتحت ہے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہاں ایک وسیع رقبہ عطا فرمایا ہے جس کی وسعت میں میل تک پھیلی ہوئی ہے اور اس میں احمدی آبادیاں ہیں.اللہ تعالیٰ نے احمدیت اور اسلام کی اشاعت کے لئے پنجاب کو مرکز بنایا ہے اور سندھ کو ایک طرف پنجاب اور دوسری طرف سمندر سے ملا کہ اُسے دوسری دنیا کے لئے پنجاب کی ڈیوڑھی بنایا ہے.اس لئے سندھ میں سلسلہ احمدیہ کا استحکام باہر کی تبلیغ کا ایک اہم اور بنیادی حصہ ہے.حضور نے فرمایا کہ دوستوں کو سندھ میں تبلیغ کو بہت وسعت دینی چاہیے اور دلو اند وار تبلیغ میں لگ بھانا چاہیے.ایک دھن ہو اور ایک آگ سی لگی ہوئی ہو مجلس منتظمہ کو بار بار اجلاس بلا کر اپنی شکلات کو دور کرنا اور کار آمد اور مفید تجاویز پر غور کر کے ان پر عمل کرتے رہنا چاہیے.مبلغ سندھ کو چاہئیے کہ وہ سندھی مبلغ تیار کرے.حضور نے فرمایا جب تک سندھی لگ عقیدہ میں ہمارے ساتھ متفق نہیں ہوتے اس وقت تک پنجاب کام نہیں کر سکتا.سندھ کے ہمارے ساتھ شامل ہو جانے سے غیر ممالک میں تبلیغ کے لئے آنے بھانے کی سب وقتیں دور ہو کہ آسانیاں پیدا ہو جائیں گی.اس وقت جو حالات پیدا ہو رہے ہیں وہ اسلام کے لئے نازک نہیں.اسلام کی ان حالات سے حفاظت کرنے اور اُسے ترقی دینے کے لئے ہمیں اپنی کوششوں کو وسیع اور ہمتوں کو بلند کرنا چاہیئے اور اپنا عملی نمونہ ایسا اعلیٰ درجہ کا بنانا چاہیے کہ لوگوں کے دلوں میں احمدیت کو قبول کرنے کی کشش پیدا کر سکتے ہے " الفضل ۲۸ تبلیغ فروری ۱۲ پیش صفحه ۴۰۴ سے " الفضل ۲۵ ر ا مان خارج ش صفحه ۳ ۶۱۹۴۳
۴۰۷ ملک عبد الرحمن صاحب خادم کی اور ان پیاری ہی میں کان جماعت حمدیہ کے لئے ایک نہایت رامان / ش وحشت ناک خبر لے کر آیا اور وہ یہ کہ جماعت کے ممتاز مناظر اور عالم دین گرفتاری اور رہائی ملک عبد الرحمن صاحب خادم بی.اے ایل ایل بی ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ (زیر دفعہ ۱۲۹) کے تحت گرفتار کئے گئے.یہ ظالمانہ کارروائی گجرات کے ہندو ڈپٹی کمشنر مسٹر گریوال کے خلاف شائع شدہ ایک نظم کی بناء پر کی گئی بھالانکہ جیسا کہ ملک صاحب نے مطلقا بیان دیا کہ ان کا اس نظم کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں تھا حتی کہ علم بھی نہیں تھا کہ یہ کس نے لکھی ہے ہے جماعت احمدیہ کے سبھی حلقے اس نظر بندی پر تڑپ اُٹھے اور انہوں نے ملک صاحب کے محترم والدین اور دیگر عزیزوں سے گہری ہمدردی کا اظہار کیا اور نہایت درد دل سے اُن کی باعزت بریت کے لئے دعائیں کیں یہ احمد پر لیس نے اس صریح ھاندلی پر جو مخالفین کی ریشہ دوانیوں کے نتیجہ میں مچائی گئی تھی ، زبردست احتجاج کیا.اور مرکز سلسلہ نے حکومت کی مشینری کو اس ظلم کی طرت بار بار توجہ دلائی نتیجہ یہ ہوا کہ حکومت نے ملک صاحب کو دو ہفتہ کے بعد رہا کر دیا گے پرده شہادر مخور تعلیم کی مانعت اور اسامی پر وہ اس سال کی مجلس مشاعت (منطقه ۲۲۰۳۳-۱۸ برتر کی ترویج کے متعلق پیشوکت پیشگوئی سنت نیند ایسی نشانی نے فیصلہ فرما کہ حضرت خلیفہ المسیح ایمیل میش کے دوران مخلوط تعلیم کا معاملہ پیش ہوا.تو و مخلوط تعلیم کسی صورت میں بھی درست نہیں سبھی جاسکتی نظارت تعلیم و تربیت کو اس کے انسداوری متعلق جو انہیں ایک عام اعلان کرنا چاہیئے تا کہ ہر شخص کو علم ہو جائے کہ مرکز اس بارہ میں کیا رائے رکھتا ہے.ان کے بعد جو لوگ اس بزم کے مرتکب ہوں ان سے جواب طلبی کی بجائے اور انہیں اصلاح کی مرات توجہ دلائی جائے.اگر اس تنبیہ کے باوجود ان کی اصلاح نہ ہو تو انہیں سزا دی بجائے جس کی عد اخراج از جماعت تک ہو سکتی ہے.اس فیصلہ کا اعلان کرنے کے بعد حضور نے اسلامی پردہ کی اہمیت و ضرورت پر روشنی ڈالی اور مستقبل میں برپا ہونے والے اسلامی انقلاب کی نسبت پیشگوئی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا.۲۲ اد" الأفضل" ، شہادت / اپریل س ش صفحہ ا کالم ۲ : سے " الفصل ۳ شہادت اپریل ریش صحرا کالم ۱۴۰۳ صفحه : کالم ا ا سه صفحه سے رپورٹ عباس مشاورت سه مش صفحه ۴۶ * ·16 Sp "
۰۸ وهر اچھی طرح یاد رکھو کہ پردہ اسلام کا اہم ترین محکم ہے جو شخص پردہ کی خلاف ورزی کرتا ہے وہ اسلام کی بنک کا ارتکاب کرتا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مغربیت کی رو دلوں میں اباحت پیدا کر رہی ہے اور بعضی احمدی بھی کہتے سنائی دیتے ہیں کہ اب پر وہ دنیا میں قائم رہتا نظر نہیں آتا.مگر میں اُن سے کہتا ہوں تمہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وجود بھی دنیا میں قائم ہوتا نظر نہیں آتا تھا پھر آج کیا یہ نظارہ تم اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ رہے کہ دنیا کے کناروں تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام پھیل چکا ہے.اسی طرح اب جو لوگ کہتے ہیں کہ پردہ قائم رہتا نظر نہیں آتا.میں اُن سے کہتا ہوں کہ تمہیں تو پردہ قائم ہوتا نظر نہیں آتا.اگر دنیا ہمارے وعظ ونصیحت سے مقاشہ ہو کہ بے پردگی سے باز نہیں آئے گی تو کیا تم سمجھتے ہو اس زمین کو پیکر دینا خدا کے اختیار سے باہر ہے.یہ بگڑی ہوئی دُنیا ہو آج نہیں دکھائی دے رہی ہے خدا اُسے ایک ایسا چکر دے گا کہ یہ مجبور ہو گی اس بات پر کہ اسلام کے احکام پر عمل کرے اور ہر قسم کی غلط آزادی کو خیر باد کہ دے.اس زمانہ میں اللہ تعلی کی طرف سے بڑے بڑے اہم تغیرات ، مقدر ہیں.رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ آدمی رات کو مومن سوئے گا اور صبح کو کافر اٹھے گا.صبح کو کافر ہو گا اور رات اس پر ایسی حالت میں آئے گی جبکہ وہ مومن ہوگا.اس میں اسی امر کی تجو انسانی قیاسات سے بالکل بالا ہوں سکہ ایک شخص مومن ہونے کی حالت میں سوئے گا اور وہ یہ بن کر اُٹھے گا اور ایک دوسرا شخص دہریہ ہونے کی حالت میں سبیح کرے گا اور شام کو وہ محمد رسول الہ صل اللہ علیہ وسلم کے حلقہ غلامی میں آچکا ہو گا.ہمارا کام یہ ہے کہ ہم خدا کے حکم کے مطابق پھلتے پھلے جائیں اور اپنی اطاعت اور وفادار کی کا نمونہ دکھا کر تھا اتعالیٰ کے پیچھے سپاہی نہیں.اگر ایک فوج کو حکم دیا سہاتا ہے کہ وہ سمندرمیں اپنے گھوڑے ڈال دے تو سپاہیوں کا یہ کام نہیں ہوتا کہ وہ اعتراض کریں اور کہیں کہ ہم سمندر میں اپنے گھوڑے کیوں ڈالیں.ہماری بھانوں کا اس میں خطرہ ہے.اُن کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ بے دھنک سمندر میں کود جائیں اور اپنے افسر کے حکم کو بجالائیں.اسی طرح ہمیں اگر روھانی فوج میں داخل ہونے کے بعد بعض نا قابل عبور سمندر نظر آتے ہیں یا وہ گڑھے نظر آتے ہیں جن میں گر گئے ہماری پسلیاں چور چور ہو سکتی ہیں اور اللہ تعالے کا حکم یہ ہے کہ ہم سمندر کو عبور کر جائیں اور گڑھوں پر سے چھلانگ لگا کر گذر بائیں.تو اگر خدا کا منشار یہ ہوگا کہ وہ ہمیں زندہ رکھے اور ہمارے ذریعہ سے دنیا کے احیاء کے سامان پیدا فرمائے تو پیشتر اس کے کہ ہم ان گڑھوں میں گریں خدا تعالیٰ کے فرشتے بنیادی طریقه اشارہ کیا گیا ایسے ایسے انقلابیات پیدا ہوں گے.
۴۰۹ آسمان سے اتر کر اُن کو پُر کر دیں گے اور جب ہم پہنچیں گے وہ ہمیں گڑھے نہیں بلکہ تہوار اور سیدھا اور کلا راستہ نظر آئے گا.پس ہمارا کام یہ ہے کہ ہم اپنی آنکھیں بند کر کے چلتے پہلے جائیں اور اس امر کی پروانہ کریں کہ دنیا ہمارے متعلق کیا کہتی ہے.جس خندق کو عبور کرنے کا خدا نے حکم دیا ہے وہ بہال عبور کی جائے گی.اگر ہمارے لئے یہ مقدر ہے کہ ہم اس میں گر کر مر جائیں تو اس موت سے زیادہ ہمارے لئے خوشی کی چیز اور کوئی نہیں ہوسکتی.اور اگر ہمارے لئے بچنا مقدر ہے تو کوئی خطرہ ہمارے ارادوں کو پست اور ہماری ہمتوں کو کوتاہ نہیں کر سکتا لیکن میں کہتا ہوں یہ خیال ہی غلط ہے کہ ہمارے رستے میں وہ گڑھے آنے والے ہیں جو ہمیں ہلاک کر دیں گے.ان گڑھوں کو خدا کے فرشتے ہمارے پہنچنے سے پہلے پہلے ہی پر کر دیں گے اور ہم سلامتی کے ساتھ دنیا میں امن کا جھنڈا قائم کر کے رہیں گے.یہ خدا کی تقدیم ہے جسے کوئی بدل نہیں سکتا.یہ عرش پر خدا کا وہ فیصلہ ہے جسے بدلنے کی کوئی شخص قوات نہیں رکھتا.ہمارا کام دین کی عظمت اور اس کے جلال کو دنیا میں قائم کرتا ہے.بہمارا کام محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کے نام کو دنیا میں بلند کرتا ہے ہمیں نہیں چاہئیے کہ ہم کوئی ایسا کام کریں جو دشمنوں کی نظر میں اسلام کو بدنام کرنے والا اور اُن کو دین کے متعلق اور زیادہ شبہات میں مبتلا کرنے والا ہو.مجھے خدا تعالیٰ کے فضل سے کابل یقین ہے کہ یہ حالات جو بے پردگی وغیرہ کے سلسلہ میں دنیا میں نظر آرہے ہیں چونکہ خدا تعالیٰ کے دین کے خلاف ہیں اس لئے اب دنیا میں قائم نہیں رہ سکتے ہے پروی مٹ جائے گی.مرد اور عورت کا آزادانہ میل جول جاتا رہے گا.مغربیت اپنے ہاتھوں اپنی قبر کھود رہی ہے جس میں وہ ایک دن ہمیشہ کی نیند سلا دی بجائے گی اور اسلام اپنی پوری شان اور اپنی پوری آب تاب کے ساتھ دنیا کے ہر گوشہ میں بلکہ ایک ایک گھر اور ایک ایک دل میں جلوہ نما ہو گا.اگر خدا ہمیں کل ہی حکومت دے دے اور ہم وائسرائے کی طرح ایک آرڈی ننس جاری کر دیں کہ جو عورتیں پردہ نہیں کریں گی انہیں قید کر دیا جائے گا، تو تم دیکھو گے کہ دوسرے ہی دن وہ عورتیں ہو آج کھلے منہ مشرکوں اور بازاروں میں گھومتی دکھائی دیتی ہیں دوڑی دوڑی جائیں گی اور گھروں میں سے نہیں نکلیں گی جبتک انہوں نے برقع پہنا ہوا نہ ہوگا.پھر یہ سوال تو رہ جائے گا کہ برقع کا سرخ رنگ ہونا چاہیئے یا سبز ہونا چاہیے ، سیاہ ہونا چاہئیے یا سفید ہونا چاہیے.کوئی طبقہ کسی رنگ کو پسند کرے گا اور کوئی کسی رنگ کو.مگر یہ نہیں ہوگا کہ کوئی ایک عورت بھی بے پرد نظر آئے.پس ہمارے لئے گھیرانے کی کوئی وجہ نہیں.
۱۰ آسمان پر فرشتے اسلام کی تائید کے لئے کھڑے ہیں اور وہ زمین پہ اترنے والے ہیں.ہمارا کام یہ ہے کہ ہم نڈر ہو کر کام کرتے چلے جائیں اور اسلام کی اصل شکل میں ایک خفیہ سے خفیف تبدیلی بھی کبھی برداشت نہ کریں یا ساله یه انقلاب آہستہ آہستہ کیوں ہو رہا ہے ؟ اس کا فلسفہ بھی حضور نے اسی مجلس مشاورت میں بیان کیا.چنانچہ فرمایا :- میں سمجھتا ہوں لڑائی کا یہ سلسلہ جو اس وقت جاری ہے زیادہ عرصہ تک نہیں رہ سکتا.شکر کے پہلے نصف حصہ میں یا تو جنگ بالکل ختم ہو جائے گی یا ایسی صورت اختیار کرلے گی کہ انسان اطمینان کے تھے یہ کہہ سکے گا کہ اس لڑائی کا کیا انجام ہوگا.اور اس کی بنیاد اسی سال یعنی کہ میں پڑے گی.مگریہ فتنے ابھی ختم نہیں ہوں گے اور اللہ تعالیٰ ان فتنوں کو لمبا کرے گا اور لمبا کرتا چلا جائے گا تا کہ وہ قوم اس عرصہ میں تیار ہو جائے جس نے آئندہ دنیا کی حکومتیں اپنے ہاتھ میں لیتی ہیں.سورہ کہف میں ذکر آتا ہے کہ حضرت موسی علیہ السّلام اپنے ساتھی کے ساتھ بھا رہے تھے کہ انہوں نے ایک دیوار دیکھی جو گر رہی تھی.انہوں نے دیوار کو بغیر کسی اجرت کے دوبارہ کھڑا کر دیا اور اسے گرنے سے محفوظ کر دیا.پھر اللہ تعالے اس سورۃ میں یہ بتاتا ہے کہ دیوار کو مضبوط بنانے میں حکمت یہ تھی کہ اس کے نیچے دو یتیم بچوں کا خزانہ تھا.اور اللہ تعالے بیاہتا تھا کہ جب تک وہ بچے جوان نہ ہو جائیں اُن کا خزانہ دیوار کے نیچے محفوظ رہے.جنگ کی موجودہ حالت بھی ایسی ہی ہے.مگر وہاں تو دیوار بنانے سے خریم محفوظ رہا تھا اور یہاں دیواریں گرانے سے خزانہ محفوظ رہتا ہے.یہی وجہ ہے کہ خدا تعالے ان دنیوی عمارتوں کو گرا رہا ہے مگر بجائے اس کے کہ وہ یکدم سب عمارتوں کو گرائے اُن کو آہستہ آہستہ گرا رہا ہے کیونکہ وہ لوگ بن کے سپر ار اس عمارت کی نئی تعمیر ہے وہ خدا تعالیٰ کے انجنیئر نگ کالج میں اس وقت پڑھ رہے ہیں اور ابھی اپنی تعلیم سے فارغ نہیں ہوئے.پس اگر آج تمام عمارتیں یکدم گر جائیں تو چونکہ وہ لوگ جنہوں نے کئی عمارتیں کھڑی کرتی ہیں، ابھی اپنی تعلیم کی تکمیل نہیں کر سکے.اس لیئے خلا رہ جائے گا.اسی وجہ سے خدا تعالیٰ آہستہ آہستہ ان دیواروں اور مکانات کو گرا رہا ہے.آج ایک دیوار کو گراتا ہے.تو کل دوسری دیوار کو گرا دیتا ہے.آج ایک بہت اُڑاتا ہے تو کل دوسری چھت کو اُڑا دیتا ہے.آج ایک کمرہ کو گراتا ہے تو کل دوسرے کمرے کو گرا دیتا ہے.اسی طرح وہ آہستہ آہستہ اور قدم بقدم دنیا کی تمام ۱۳۲ اے رپورٹ مخملیس مشاورت ریش سفته ۵۴ تا ۲۵۶ "
۴۱۱ عمارتوں ، دنیا کے تمام مکانوں اور دنیا کے تمام سامانوں کو گرا رہا مٹا رہا اور تباہ و برباد کر رہا ہے.اور اس کا منشاریہ ہے کہ وہ اُس وقت تک ان عمارتوں کو مکمل طور پر بر باد نہ کرے جب تک خدا تعالے کے کالج میں جو لوگ تعلیم حاصل کر رہے ہیں وہ اس کالج سے تعلیم حاصل کر کے فارغ نہ ہو جائیں اور اُن پر قبضہ کرنے کے لئے تیار نہ ہو جائیں.پس یہ رستہ ہے جو خدا تعالے کی طرف سے ہماری جماعت کی ترقی کے لئے کھولا گیا ہے.یہ تغیر ایک دن ہوگا اور ضرور ہوگا مگر آہستگی سے اس لئے ہو رہا ہے تاکہ وہ لوگ جنہوں نے اس پر قبضہ کرنا ہے پوری طرح تیار ہو جائیں اور خدا تعالیٰ کے کالج میں تعلیم حاصل al " کرلیں." مغربی نظام کی تباہی اور اسلام کی عالمگیر حکومت کی نسبت دوبارہ پیشگوئی کرتے ہوئے فرمایا.یں نے پہلے بھی بارہا کہا ہے اور اب پھر بڑے زور سے کہتا ہوں کہ دنیا میں مغربیت نے کافی حکومت کم لی.اب خدا تعالے کا منشار ہے کہ وہ مغربیت کو کچل کر رکھ دے.جو لوگ ڈرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مغربیت کا مقابلہ کس طرح ہو سکتا ہے، پردہ قائم رہتا ہوا نظر نہیں آتا.مردوں اور عورتوں کے آزادانہ میل جول کو کس طرح روکا جا سکتا ہے، یہ چیزیں ضروری ہیں.اور اگر ہم ان امور میں مغربیت کی پیروی نہ کریں تو کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے.وہ لوگ یاد رکھیں کہ وہ اپنے ان افعال سے اسلام اور احمدیت کی کامیابی کے راستہ میں روڑے اٹکا رہے ہیں.یہ چیزیں مٹنے والی ہیں.میٹ رہی ہیں اور مٹ جائیں گی ابھی تم میں سے کئی لوگ زندہ ہوں گے کہ تم مغربیت کے درو دیوار اور اس کی پھتوں کو گرتا ہوا دیکھو گے اور مغربیت کے ان کھنڈرات پر اسلام کے محلات کی نئی تعمیر مشاہدہ کرو گے.یہ کسی انسان کی باتیں نہیں بلکہ زمین و آسمان کے خدا کا فیصلہ ہے.اور کوئی نہیں ہو اس فیصلہ کو بدل سکے.پس ہماری قیمت کا سوال نہیں.نہ ہم نے پہلے کبھی کہا کہ یہ تغیر بہاری طاقت سے ہوگا اور نہ آئندہ کبھی کہہ سکتے ہیں.ہم جو کچھ کہتے ہیں وہ یہ ہے کہ اس تغیر کا اخدا نے وعدہ کیا ہے اور خدا تعالیٰ کے وعدوں کے اٹل ہونے کا ہم اپنی زندگی میں بارہا مشاہدہ کر چکے ہیں.پس کوئی وجہ نہیں کہ اس مشاہدہ کے بعد ہمارے ایمانوں میں تزلزل پیدا ہو.بہار سے اعتقادات میں کمزوری رُونما ہو.یقیناً دنیا گھٹنوں کے بل گر کر عاجزی کرتی اور دانت پیستی ہوئی ہمارے سامنے آئے گی اور اُسے اپنے لئے قبول کرنا پڑے گا.ے رپورٹ مجلس مشاور ری اش صفحه ۱۴۸ - ۱۴۹ + ۶۱۹۴۳
۱۳ پس تم مت ڈرو کہ اگر ہم نے پردہ یا مخلوط تعلیم کے خلاف آواز بلند کی تو لڑکیاں بغاوت کر دیں گی یا لڑکیوں کے ماں باپ بغاوت کر دیں گے.ان لڑکیوں اور ان کے ماں باپ کا تو کیا ذکر ہے.وہ لوگ جو ان خیالات کے بانی ہیں وہ خود گھٹنوں کے بل گر کر ہم سے معافی مانگنے والے ہیں.پس یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ ہماری عورتیں بے پر دہوں اور ہمیں اُن کے مقابلہ میں ندامت اور شر مند کی حاصل ہو.بلکہ وہ خود ہزار ندامت اور پیشانی سے اپنی گردنیں جھکائے ہوئے ہمارے سامنے حاضر ہوں گے اور انہیں اقرار کرنا پڑے گا کہ وہ غلط راستہ پر چل رہے تھے.میجیے راستہ وہی ہے جو اسلام نے پیش کیا.یہ خدا کا فیصلہ ہے اور اس فیصلہ کے نفاذ کو دنیا کی کوئی طاقت دنیا کی کوئی حکومت اور دنیا کی کوئی بادشاہت روک نہیں سکتی.پس ان تغییرات کے لئے اپنے آپ کو تیار کرو اور اللہ تعالیٰ سے ہر وقت دعائیں کرتے رہو اور اپنے اندر یتین اور شوق پیدا کرو جس دن تمہارے اندر یقین پیدا ہو گیا اس دن تمہارے سے سارے شک ہمارے شبہات اور سارے وساوس آپ ہی آپ ڈور ہو جائیں گے.اور تم اپنے آپ کو ترقی کے ایک مضبوط اور بلند تر مینار پر کھڑا دیکھو گے لے مشقی مباحثات پر اظہار ناپسندیدگی قاریان میں ای ال بل مختلف اداروں اور مجلس میں مشقی مباحثات نے زور پکڑ لیا اور ان میں گہری دلچسپی لی جانے لگی تھی.ابتداء بچوں میں قلم و تلوار" اور "علم و دولت " اور " صنعت وحرفت اور ملازمت" کے موضوع زیر بحث آئے.رفتہ رفتہ یہ شوق بڑوں میں بھی سرایت کر گیا.حتی کہ نوبت یہانتک جا پہنچی کہ معمولی مسائل کی بجائے سنجیدہ امور بھی زیر بحث لائے جانے لگے پہنا نچہ ایک بار مخلوط اور جدا گانہ انتخاب پر بھی مبادلہ افکار ہوا.جس پر حضرت خلیفہ مسیح الثانی نے اپنے خطبہ جمعہ ( فرموده ۱۰ فروری ش۳ لٹا میں اس قسم کے بحث مباحثہ کو آوارگی سے تعبیر کیا.چنانچہ حضور نے فرمایا : اچھے انداز میں گفتگو کرنا بھی ایک خاص فن ہے.ایسی مجلسوں میں علمی اور دینی باتیں ہوں لیکن بحث مبات نہ ہو.اس چیز کو بھی میں آوارگی سمجھتا ہوں.اور میرے نزدیک یہ بات سب سے زیادہ دل پر زنگ لگا والی ہے.مباحثہ کرنے والوں کے مد نظر تقویٰ نہیں بلکہ مد مقابل کو چُپ کرانا ہوتا ہے.اور یہی وجہ ہے کہ میں ہمیشہ مباحثات سے بچتا ہوں اور میری تو یہ عادت ہے کہ اگر کوئی مباحثانہ رنگ میں سوال کریے ہ رپورٹ مجلس مشاورت سه مش صفحه ۱۵۰ تا ۱۵۲ ۰ م 14
۱۳ تو ابتداء میں الہ ساجواب دیتا ہوں کہ کئی لوگوں نے کہا ہے کہ انہوں نے کسی سوال پر پہلے پہل میرا جواب من کہ یہ خیال کیا کہ مشاہدہ میں جواب نہیں دے سکتا.اور در اصل ٹالنے کی کوشش کرتا ہوں مگر جب کوئی پیچھے ہی پڑ جائے تو میں جواب کی ضرورت محسوس کرتا ہوں اور پھر خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسا جواب دیتا ہوں کہ وہ بھی اپنی غلطی محسوس کر لاتا ہے.یاد رکھو.سچائی کے لئے کسی بحث کی ضرورت نہیں ہوتی.میں نے ہمیشہ ایسی باتوں سے روکا ہے.ڈیبیٹنگ کلبیں بھی میرے نز دیک آوارگی کی ایک شاخ ہے اور میں اس سے ہمینہ روکتا رہتا ہوں.لیکن یہ چیز بھی کچھ ایسی راسخ ہو چکی ہے کہ براہمہ بھاری ہے بھالانکہ اس سے دل پر سخت زنگ لگ جاتا ہے.ایک شخص کسی چیز کو مانتا نہیں مگر اس کی تائید میں دلائل دیتا جاتا ہے تو اس سے دل پر زنگ لگنا لازمی امر ہے.مجھے ایک واقعہ یاد ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ طریق ایمان کو خراب کرنے والا ہے.مولوی محمد احسن صاحب امرو ہوئی حضرت مسیح موعود علیه السلام گوشن یا که مولوی بشیر صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بہت مریکہ اور میں مخالفت تھا.مولوی بشیر صاحب ہمیشہ دوسروں کو براہین احمدیہ پڑھنے کی تلقین کرتے اور کہا کرتے تھے کہ یہ شخص مجدد ہے.آخر میں نے اُن سے کہا کہ آؤ مباحثہ کر لیتے ہیں.مگر آپ تو چونکہ مؤید ہیں آپ مخالفانہ نقطہ نگاہ سے کتابیں پڑھیں اور میں مخالفت ہوں اس لیئے موافقانہ نقطہ نگاہ سے پڑھوں گا.سات آٹھ دن کتابوں کے مطالعہ کے لئے مقرر ہو گئے اور دونوں نے کتابوں کا مطالعہ کیا نتیجہ یہ ہوا کہ میں جو مخالف تھا احمدی ہو گیا اور وہ جو قریب تھے بالکل دُور پہلے گئے.ان کی سمجھ میں بات آگئی اور اُن کے دل سے ایمان جاتا رہا.تو علم النفس کی رُو سے ڈیلیٹیں کرنا سخت مضر ہے اور بعض اوقات سخت نقصان کا موجب ہو جاتا ہے.یہ ایسے باریک مسائل ہیں جن کو سمجھنے کی ہر مدرس اہلیت نہیں رکھتا.ابھی تھوڑا عرصہ ہوا.یہاں ایک ڈیلیٹ ہوئی اور جین کی شکایت مجھ تک بھی پہنچی تھی.اس میں اس امر یہ بحث تھی کہ ہندوستان کے لئے مخلوط انتخاب چاہیئے یا جدا گانہ.حالانکہ میں اس کے متعلق اپنی رائے ظاہر کر چکا ہوں.اور یہ شور ادبی ہے کہ اس بات کا علم ہونے کے باوجود کہ میں اس امر کے متعلق اپنی رائے ظاہر کر چکا ہوں پھر اس کو زیر بحث لایا جائے.جن امور میں خدا تعالے یا اس کے رسول یا اُس کے خلفاء اظہار رائے کر چکے ہوں ان کے متعلق بحث کرنا گستاخی اور بے ادبی میں داخل ہے.کوئی یہ کہ سکتا ہے کہ یہ تو محض کھیل ہے لیکن کیا کوئی کھیل
Min کے طور پر اپنے باپ کے سر میں جوتیاں مارسکتا ہے تو ڈیبیٹس سے زیادہ حماقت کی کوئی بات نہیں.ہر احمدی وفات مسیح کا قائل ہے مگر ڈیلیٹ کے لئے بعض حیات مسیح کے دلائل دینے لگتے ہیں.میں تو ایسے شخص سے یہی کہوں گا کہ بے حیا بخدا تعالیٰ نے تجھے ایمان دیا تھا مگر تو گھر کی چادر اوڑھناچاہتا ہے.پس یہ ڈیلیٹس بھی آوارگی میں داخل ہیں.اگر خدا تعالیٰ نے تمہیں یہ توفیق دی ہے کہ حق بات کو تم نے مان لیا تو اس کا شکریہ ادا کرو نہ کہ خواہ مخواہ اس کی تردید کر و بعض نادان کہہ دیا کرتے ہیں کہ اس سے عقل بڑھتی ہے.لیکن اس عقل کے بڑھانے کو کیا کرنا ہے جس سے ایمان جاتا رہے.دو نو باتوں کا موازنہ کرنا چاہیے.اگر ساری دنیا کی عقل مل جائے اور ایمان کے پہاڑ میں سے ایک ذرہ بھی کم ہو جائے تو اس عقل کو کیا کرتا ہے.یہ کوئی نفع نہیں بلکہ سرا سرخسران اور تہا ہی ہے.ہیں یہ بھی آوارگی میں داخل ہے.اور میں نے کئی دفعہ اس سے روکا ہے گر پھر بھی پیٹیں ہوتی رہتی ہیں جس طرح کوڑھی کی خارش ہوتی ہے اور وہ رہ نہیں سکتا.اسی طرح ان لوگوں کو بھی کچھ ایسی خارش ہوتی ہے کہ جب تک ڈیلیٹ نہ کرالیں چین نہیں آتا اور پھر دینی اور مذہبی مسائل کے متعلق بھی ڈیٹیں ہوتی رہتی ہیں حالانکہ وہ تمام مسائل حین کی صداقتوں کے ہم قائل ہیں یا جن میں سلسلہ اظہار رائے کر چکا ہے ان پر بحث کرنا دماتی آوارگی ہے اور حقیقی ذہانت کے لئے سخت مضر ہے.میں نے سو دفعہ بتایا ہے کہ اگر اس کے بجائے یہ کیا جائے کہ دوست اپنی اپنی جگہ مطالعہ کر کے آئیں اور پھر ایک مجلس میں جمع ہو کہ یہ بتائیں کہ فلان مخالف نے یہ اعتراض کیا ہے بجائے اس کے کہ یہ کہیں کہ میں یہ اعتراض فلان مسئلہ پر کرتا ہوں.اگر مولوی ثناء اللہ صاحب یا مولوی ابراہیم صاحب یا کسی اور مخالف کے اعتراض پیش کئے جائیں اور پھر سب مل کر جواب دیں اور خود اعتراض پیش کرنے والا بھی جواب دے تو یہ طریق بہت مفید ہو سکتا ہے.مگر ایسا نہیں کیا جاتا بلکہ ڈیبیٹوں کو ضروری سمجھا جاتا ہے اور انگریزوں کی نقل کی بھاتی ہے کہ ہاؤس " یہ کہتا ہے.ہماری مجلس شوری میں بھی یہ ہاؤس" کا لفظ داخل ہو گیا تھا مگر میں نے تنبیہ کی.اس پر وہاں سے تو نکل گیا ہے مگر مدرسوں میں رواج پکڑ رہا ہے.میں نہیں سمجھتا کہ اس طرح کہنے سے اس بات میں کونسا سر مخاب کا پر لگ جاتا ہے.سیدھی طرح کیوں نہیں کہہ دیا جاتا کہ جماعت کی یہ رائے ہے.اس کے یہ معنے ہیں کہ دماغ کو کفر کی کاسہ لیسی میں لفت اور سرور حاصل ہوتا ہے.الفصل" در تاریخ ۹۳۹ صفحه ۰۸
۴۱۵ حضور کے اس خطبہ کے بعد بعض مخلصین جماعت نے تقریری مقابلوں ہی کو سراسر نا جائز قرار دے لیا بعض لوگ یہ سمجھے کہ حضرت اقدس کی مباحثات سے مراد صرف ایسے مباحثات ہیں جن میں مذہبی مسائل زیر بحث لائے بھائیں.دیگر مسائل پر مشتمل مباحثات قبیح اور نا پسندیدہ نہیں ہیں.اس پر پروفیسر محبوب عالم صاحب خالد ایم.اے نے مزید وضاحت و راہ نمائی کے لئے حضرت امیر المومنین کی خدمت اقدس میں حسب ذیلی مریضہ تحریر کیا - پیارے آقا ! السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ جامعہ احمدیہ کی طرفت سے ایسے تقریر کا مقابلے کروائے جانے کا پروگرام مرتب کیا جا رہا ہے جس کے ماتحت مختلف اداروں سے مقررہ ایک ہی موضوع پر تقریر کریں مثلاً دیانت و امانت موضوع رکھ دیا جائے جس پر تقریروں کے لئے مختلف اداروں کو دعوت دی جائے.چونکہ اس میں ایک پہلو پر تقریریں ہوں گی اس لئے اس میں مناظرہ کی صورت نہیں ہوگی.بعض اصحاب کا خیال ہے کہ حضور کے ایک گذشتہ خطبہ جمعہ کی روشنی میں ایسے مقابلوں کی بھی اجازت نہیں اس لئے حضور کی خدمت میں عاجزانہ درخواست ہے کہ حضور مطلع فرما دیں کہ اس قسم کے مقابلے حضور کے منشاء کے خلاف تو نہیں ، بعض حلقوں میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضور کی مراد تو فقط مذہبی امور میں مناظروں کو بند کرنے سے ہے.سیاسی امور پر مناظرے حضور نا پسند نہیں فرماتے.بصد ادب عرض ہے کہ از راہ شفقت اس پہلو پر بھی روشنی فرماویں جزاکم اللہ احن الجزاء حضور کا اونی غلام خاکسار خالد ۱۸ اس پر حضور نے اپنے قلم مبارک سے مندرجہ ذیل عبارت تحریر فرمائی." دونوں باتیں ایسی ہیں کہ حیرت ہوتی ہے.مختلف لوگوں کے ایک موضوع کی تائید میں مضمون لکھنا مباحثہ کس طرح ہو سکتا ہے اور جبکہ میں نے مثال ہی سیاسی مباحثہ کی دی تھی یعنی مخلوط انتخاب کی تو یہ کہنا کہ میری مراد سیاسی مباحثات سے نہیں ہے کسی احمق کا ہی خیال ہو سکتا ہے." الفضل " ۶ بر احسان جوان به مش سفره." ۱۳۲۲مه ۰ مرزا محمود احمد نے
۱۶ فصل دوم اس سال کے آغاز میں حادثہ بھا مڑی پیش آیا جس کے تفصیلی حالات حضرت میر محمد اسحاق حادثہ بھا مڑی صاحب ( ناظر ضیافت رسیڈ ماسٹر مدرسہ احمدیہ) کے قلم سے درج ذیل کئے جاتے ہیں بعضر میر صاحب تحریر فرمایا کہ : : شعبه تبلیغ مقامی جماعت احمدیہ کا جب سے قیام ہوا ہے.اس کے افراد قانون رائج الوقت کی ہدایات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے عقائد کی تبلیغ کرتے پہلے آئے ہیں.کیونکہ احمدی جماعت ایک تبلیغی جماعت ہے اور اس سلسلہ کی تاریخ انفرادی اور اجتماعی تبلیغی تقریبوں سے بھری پڑی ہے.احمدی جماعت کی تبلیغی مساعی کا ایک حصہ مقامی تبلیغ کے نام سے موسوم ہے.جین کا مفہوم یہ ہے کہ جو علاقہ مرکز سلسلہ کے ارد گرد واقع ہے اس کا حق ہے کہ اُسے خصوصیت سے تبلیغ کی بجائے.اس کام کے انچارج جناب چودھری فتح محمد صاحب سیال ایم.اسے اور نائب انچارج مولوی دل محمد صاحب مولوی فاضل ہیں.اس ادارہ نے علاوہ انفرادی تبلیغ کے اس سال کے لئے یہ سکیم تجویز کی کہ کم سے کم ہر ماہ کسی ایک گاؤں میں تبلیغی جلسہ ہو جایا کرے.چنانچہ ان کے شروع سے اس سکیم کو عملی جامہ پہنایا گیا اور مجھ سے فرمائش کی گئی.کہ میں ان جلسوں کی صدارت کروں.چنانچہ میری صدارت میں سنکویا ، گھوڑ یواہ ، بھاگووال ، کھوکھر ، اٹھوال اور قلعہ لال سنگھ میں جلسے ہو چکے ہیں.ایسے جلسوں کے انعقاد سے قبل اخبار الفضل " میں ہمیشہ اعلان کر دیا جاتا رہا ہے که فلان تاریخ فلاں جگہ جلسہ ہو گا.اسباب اس میں شامل ہوں.بھا مڑی کا جلسہ اور مخالفین کی مزاحمت اس سکیم کے ماتحت ایک تبلیغی جلسہ موضوع بھا مڑی میں جو ایک بہت بڑا گاؤں قادیان سے پانچ میل کے فاصلہ پر جانب مشرق سری گوبند پور کے تھانہ میں واقع ہے تجویز کیا گیا.اس گاؤں میں ایک مخلص اور اہل علم احمدی گھرانہ ہے اور یہ گاؤں سکھوں اور مسلمان جھاٹوں کی قریباً برابر آبادی پرمشتمل ہے اس جلسہ کے متعلق ۶ ارجون کے اخبار الفضل" میں جو ہار جون کو شائع ہوا تھا اعلان موجود ہے کہ ۷ ارجون کو یہ جلسہ ہوگا.چونکہ یہ موضع قادیان سے قریب ہے اور چونکہ مدرسہ احمدیہ دینی تعلیم کے لئے مقرر ہے اور طلباء کو تبلیغ کی عملی مشق کرانا بھی ہمارا فرض ہے.اس لئے میں نے بحیثیت ہینڈ ماسٹر مدرسہ احمدیہ کے مدرسہ کی آرڈر ٹیک میں درج کر کے یہ آرڈر جاری کیا کہ ہر طالب علم کے لئے اس عیسہ کی شمولیت ضروری ہے اور غیر حاضر طالب علم کو ۱۲ مجرمانہ کیا بجھائے گا.چنانچہ ارجون کو صحیح ، نیچے مدرسہ کی گھنٹی بجائی گئی اور حاضری لے کر ہر جماعت کو ایک ایک استاد کی نگرانی
میں قطار دار موضع مذکور کی طرف روانہ کیا گیا.جب سب طلباء روانہ ہو گئے اور اُن میں کثرت کے ساتھ چھوٹے بیچتے اور حافظ کلاس کے نابینا بچے بھی شامل تھے تو میں خانصاحب مولوی فرزند علی صاحب اور اپنے بچوں کو لے کر ٹانگر میں سوار ہو کہ روانہ ہوا.اور طلباء کے ساتھ آملا.اس وقت طلباء کی پہلی قطاروں کی طرف سے ایک طالب علم سائیکل پر آیا اور مجھے کہا کہ ہر چو وال کے نہر والے پل پر موضع بھا مڑی کے بہت سے آدمی راستہ رو کے کھڑے ہیں اور طلباء کو آگے جانے سے روکتے ہیں.میں نے اس طالب علم کو کہا کہ تم ابھی بھا کر جناب سید ولی اللہ شاہ صاحب کو اس واقعہ کی اطلاع دو.اور یہ کہ کہ میں ٹانگہ سے اتر پڑا.اور میں نے آگے بڑھ کر دیکھا کہ ہمارے طلبا پل پروئے گے کھڑے تھے اور پل کے سامنے راستہ روک کر موضع بھاڑی کے ۳۰ ۴۰۰ آدمی لاٹھیاں لے کر مشتغل صورت بنائے ہوئے اونچی اونچی آواز سے کہہ رہے تھے کہ ہم نے بھا بڑی میں جلسہ نہیں ہونے دینا.اس مجمع میں بھابڑی کے مولوی محمد یعقوب اور اس کا بھائی محمد ابراہیم اور حاجی محمد حسین اور اس کا بھتیجا بھینی بھی موجود تھے جو سب مخالفین سلسلہ میں سے ہیں.میں خاموشی سے آگے بڑھا اور ان کو ان کو کہا کہ تمام طلباء چار چار افراد کی قطار میں ہو کہ خاموشی اور امن کے ساتھ بھاڑی کی طرف چل پڑو.یہ دیکھ کر جمع کے لوگ اعلان کے طور پر کہنے لگے کہ اچھا چلو گاؤں چلتے ہیں وہاں جا کہ دیکھتے ہیں کہ یہ جلسہ کس طرح کرتے ہیں.اب فساد ہی ہوگا.یہ آہ کہ وہ مختلفت فقروں میں فساد کا لفظ دہراتے ہوئے موضع بھا لڑکی کی طرت بجائے، استر پر جانے کے کھیتوں میں سے ہوتے ہوئے چل پڑے اور میں طلباء کو لے کے راستہ پر چل پڑا.میں نے علاوہ خاموش رہنے کی ہدایت کے یہ بھی حکم دیا تھا کہ کوئی طالب علم کسی شخص کی طرف نہ دیکھے اور ہم سب نظریں سامنے رکھ کر میں پڑے.چنانچہ قطار و الہ آہستہ آہستہ طلباء روانہ ہوئے جب تم مونہ بھاری میں پہنچے تو گاؤں سے باہر کھڑے ہو کر میری اقتدار میں سب نے ہاتھ اٹھا کر دعا کی کہر سے خدا ہمیں بخیر و عافیت اور عزت اور امن و سلامتی سے توفیق دے کہ ہم تیرا پیغام اس گاؤں تک پہنچا سکیں.دعا کے بعد پھر ہم گاڈر کے اندر داخل ہوئے راستہ میں گاؤں کے ساتھ ایک سایہ ہزار افتاده کھلی جنگہ میں ایک بڑا مشتعل گروہ کھڑ ا تھا جو کہ ہمارے راستہ کے میں دائیں طرف تھا.گزرتے وقت طلبا نے اس تجمع کی صرف نجوبہ کے رنگ میں نظر کی تو میں نے سختی سے کہا کہ خبردار کسی شخص کی طرف نظر نہ کرو.یہ گردہ جو اُن لوگوں پر بھی مشتمل تھا جنہوں نے ہم کو نہر بچہ روکا تھا اُونچی اونچی آواز سے کہہ رہا تھا کہ ہم نے جلسہ نہیں ہونے دینا.نہیں ہونے دینا.ہم وہاں سے گزر کہ اس مکان میں داخل ہوئے جہاں جلسہ تجویز ہوا تھا.جا سکے انعقاد میں روکاوٹیں یہ مکان ایک غیراحمدی کا تھا جو اس احمدی گھرانے کے قریبی رشتہ داروں
۴۱۸ میں تھا جو موضع بھاڑی میں رہتا اور وہاں کا باشندہ ہے.ہمارے و النٹیرز نے اس مکان کی چھت پر سائبان لگایا.میز اور کرسیاں رکھیں اور قریب تھا کہ ہمیں تلاوت اور نظم کے بعد عیسہ کی کارروائی شروع کرتا کہ میں نے دیکھا کہ ارد گرد کی متصل چھتوں پر غیر احمدی نوجوان پڑھنے شروع ہوئے ہیں اور ان کی طرف سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ ہم کو گھیرنا چاہتے ہیں اور جلسہ میں مزاحم ہونا چاہتے ہیں.اس کے علاوہ اس مکان کے مالک کو بلا کر دھمکایا گیا، وانخفض باوجود اس کے کہ وہ ایک احمدی کا بھتیجا تھا گاؤں والوں سے ڈر گیا....اور اس نے آکر مجھے کہا کہ آپ یہاں جلسہ نہ کریں.میں نے کہا کہ تم نے خود ہمیں اجازت دی تھی اب یہ اجازت واپس کیوں لیتے ہو.وہ کہنے لگا.کہ کیا کروں مجھے طاقت نہیں کہ گاؤں والوں کا مقابلہ کروں.میں نے کہا کہ بہت اچھا.یہ کہ کر میں نے طلباء سے کہا کہ یہا سے جانا کھیڑ لو، مینز اور گریسیاں اور صفین لے پھلو.اس کے بعد ہم اس احمدی گھر میں گئے جو اکیلا اس گاؤں میں تھا.یہ مکان بہت تنگ تھا مگر مجبوراً اس میں جلسہ کیا گیا اور چھت پر سائبان لگایا گیا اور نیچے سخت گرمی میں ہمارے آدمی بیٹھ گئے اور جلسہ شروع ہوا.یہاں پہنچ کر مجھے رپورٹ دی گئی کہ صبح کو ہم سے پہلے بھی دو موقعوں پریہ گاؤں والوں نے جلسہ کے منتظمین سے مزاحمت کی.ایک.اس وقت جبکہ مکرم مولوی عبدا ارجمین سالب دیوی فاضل ٹانگہ میں بیٹھ کر اور سائیان وغیرہ سامان لے کر بھابڑی روانہ ہوئے تو ہر چودوال کے پل پر اس مجمع نے جس نے ہم کو رہ کا تھا اُن کے ٹانگہ کو بھی روکنا چاہا.مگر وہ کسی نہ کسی طرح ان سے پھوٹ کر گاؤں میں داخل ہو گئے.اسی طرح جب وہاں کے احمدی خاندان نے ایک مقامی باورچی کو کھانا پکانے پر مقرر کیا تو گاؤں والوں نے اُسے اس کام سے روک دیا.پھر جب لنگر خانہ کے باورچی میاں مولا بخش صاحب کام کرنے لگے تو گاؤں والوں نے انہیں مارنا چاہا.انہوں نے اپنی ٹوپی اتار کر اپنا سر ان کی طرف کر دیا کہ لو مار لو مگر مجھے کھانا پکانے دو.بلکہ یہانتک سنایا گیا ہے کہ جب صبح کے وقت ایک کنسٹیبل جس کا نام او حسین، بتایا جاتا ہے افیر دردی کے ہر چو وال کے پل پر سے گذرنے لگا تو اُسے بھی احمدی سمجھ کہ روکا گیا مگر جب اس نے اپنی اصلیت ظاہر کی تب وہ گذر سکا.غریم مزاحمت کا سلسلہ صبح سے شروع تھا بلکہ جیسا کہ آگے چل کر ظا ہر ہو گا اس سے بھی پہلے ہے.ہمارے جلسہ کے مقابل مخالفین کا جلسہ بالآخر جب ہم نے مقامی احمدیوں کے مکان پر جلسہ شروع کیا.اور تلاوت قرآن کریم اور نظم کے بعد میں نے افتتاحی تقریر کی کہ مذہبی جماعتوں کو کبھی ہمت نہ ہارنی چاہیے اگر کسی جلسہ میں ایک شخص بھی تقریر سننے کے لئے نہ آئے تو یہ نہ سمجھا جائے کہ جلسہ ناکام رہا.کیونکہ کامیابی اور ناکامی کا معیار یہ ہے کہ ہم نے نیک نیتی اور حسن عمل کے ساتھ کام کیا ہے یا نہیں.اگر ہم نیت نیک رکھیں اور اپنی طرف سے کل و حق شنانے
میں کوشاں رہیں تو ہم کامیاب ہیں.خواہ کوئی سُنے یا نہ سُنے.پس ہم نیک نیتی سے آئے اور حسن عمل کرتے ہوئے آئے.ہمدردی سے آئے محض گاؤں والوں کی خیر خواہی سے، اور جب ایک جگہ جلسہ کرنے لگے تو ہمیں لوگوں نے روک دیا ہم تمام سامان وغیرہ لے کر یہاں آگئے.اب ہم جلسہ شروع کرتے ہیں.خواہ کوئی سنے یا نہ سُنے.اس پر جلسہ شروع ہوا.شروع میں میرے لڑکے محمود احمد نے تقریر کی اور پھر مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر نے تقریر کی.ابھی وہ پندرہ بیں منٹ ہی بول سکے تھے کہ یکدم ہماری چھت کے بالکل متصل چھت پر چند غیر احمدی چڑھنے شروع ہو گئے.اور مولوی محمد یعقوب بھابڑی والا ایک سائیاں لے کر آیا اور بجلدی سے سب نے مل کر سائبان لگایا.اور میز اور کرسی لگا کر فیض اللہ شنالہ صدر بنا اور ایک شخص نے تلاوت قرآن مجید شروع کی.اس پر باوجود اس کے کہ ہمارے لئے شریعاً ایسا کرنا ضروری نہ تھا.میرے کہنے سے مولوی مبشر صاحب نے تلاوت کے احترام میں تقریمہ بند کر دی اور اونچی آواز سے کہا کہ قرآن مجید پڑھا جا رہا ہے اس لئے میں تقریر بند کرتا ہوں.خیر احمدی تلاوت کننده دیر تک تلاوت کرتا رہا جب وہ تلاوت ختم کر چکا تو ہمارے ایک آدمی نے تلاوت شروع کی اور پھر نظم شروع کی گئی.اور جب پھر مولوی صاحب تقریر شروع کرنے لگے تو غیر احمدیوں نے نعرے لگانے شروع کئے اور چونکہ وہ بالکل متصل چھت پر تھے اور دونوں چھتوں کے درمیان کوئی منڈیہ بھی نہ تھی اس لئے ان نعروں کی وجہ سے ہماری تقریہ کا ایک لفظ بھی سنا نہ بھا سکتا تھا.اس پر میسہ کی کارروائی بند ہو گئی.اور ہمارے دوست صلِ على محمد وغیرہ وغیرہ نظمیں پڑھنے اور اللہ اکبر وفیہ نعرے لگانے لگے.پولیس افسر کا عجیب فیصلہ اتنے میں سنایاگیا کہ می گویند پور کے اسٹنٹ سب انسپکٹر پولیس موقع پر پہنچ گئے ہیں دوو پولیس کانسٹیل پہلے پہنچ سکے تھے ، اس عرصہ میں قادیان سے جناب سید ولی اللہ شاہ صاحب ناظر امور عامہ بھی تشریف لے آئے.انہوں نے ، اس پولیس افسر کی علامت رقعہ لکھا کہ ہمارا ملا.شروع تھا اور وہ بھی احمدی کے مکان پرہ.مگر یہ احمدیوں نے بالکل متصل جلسہ شروع کر کے ہماری کارروائی کو بند کر دیا ہے.اس کا انسداد کیا جائے.اس درخواست کی دو کاپیاں تھیں کہ ایک پر رسیدی دستخط کر کے واپس کر دی جائے.مگر اسسٹنٹ سب انسپکٹر صاحب نے ہمارا رقعہ تو لے لیا مگر رسید دینے سے انکار کیا.پھر دوبارہ رقعہ لکھ بھیجا.اور پھر تیسرا رقعہ بھیجا گیا جس میں چند مفسدین کے سرغنوں کے نام بھی تھے.اس وقت سب انسپکٹر ہمارے جلسہ میں تشریف لائے اور ایک کرسی پر بیٹھ گئے اور غیر احمدیوں کو بلایا جس پر اُن کے چند آدمی آئے جن میں نام کشمیری سکنہ قادیان بھی تھا جو کہ ایک مقدمہ میں زیر ضمانت ہے.اسسٹنٹ سب انسپکٹر نے کہا کہ احمدیوں کا جلسہ پہلے سے
۴۲۰ شروع ہے پھر تم یہاں کیوں جلسہ کرتے ہو.انہوں نے کہا کہ ہم نے ان کا جلسہ یہاں نہیں ہونے دینا.غرض دیر تک بحث اور رو دگر ہوتا رہا.آخر ان کا اصرار اور سند دیکھ کر اور ہماری شرافت سے ناجائنہ فائدہ اُٹھا کر اسسٹنٹ سب انسپکٹر صاحب نے ہمیں کہا کہ آپ ہی کسی اور جگہ جلسہ کر لیں.حالانکہ ہمارا جلسہ پہلے سے شروع ہو چکا تھا.اور میں مکان پر ہم جلسہ کر رہے تھے وہ ایک احمدی کا مکان تھا اور سائبان وغیرہ لگانے کی زحمت ہم برداشت کر چکے تھے.اور جلسہ شروع تھا.مگر پھر بھی ہم نے اسسٹنٹ سب انسپکٹر صاحب سے کہا کہ بہت اچھا آپ ہمیں کوئی اور جگہ دیدیں ہم وہاں جلسہ کر لیں گے.اس پر وہ اُٹھ کر جگہ کی تلاش میں گئے.اور مخالف بدستور نعرے لگاتے رہے.جن میں احمدیت مردہ باد کے نعرے بھی تھے.اسٹنٹ سب انسپیکٹ صاحب کے ساتھ مولوی دل محمد صاحب گئے.پہلے اسٹنٹ کسب انسپکٹر صاحب نے ایک ایسی جگہ دکھلائی جو گندی اور گوبر سے آئی پڑی تھی.پھر جب ایک سکھ نے بطور خود کہا کہ ہمارے گوردوارہ کے پاس بڑ کے نیچے جلسہ کر لیا جائے تو سب انسپکٹر صاحب نے اس کی تائید کی جس پر مولوق دل محمد صاحب نے وہ بنگہ صاف کروائی اور ہم کو اطلاع دی.ہم نے اپنا سامان سینوں وغیرہ کو اٹھا لیا اور اس بڑ کے نیچے جو گوردوارہ کے پاس تھا جلسہ شروع کیا.جب ہم اپنا سامان اسے کو نئی جگہ جانے لگے تو مخالفوں نے تالیاں بجائیں اور نعرے لگائے کہ گویا احمدی شکست کھا کہ یہاں سے جالہ رہے ہیں.گوردوارہ میں جو کنواں تھا ہم اس سے پانی لینے لگے تو ہمیں پانی لینے سے روک دیا گیا اور غیر احمدیوں کی دھمکی سے گوردوارہ والے میں متاثر ہوئے.اتنے میں ایک ہندو پریشو تم داس نے جوڑی.اسے وہی سکول قادیان کا طالب علم رہ چکا تھا اور ہمارے مدرسہ کے طلباء سے میچ وغیرہ کھیلنے کے سلسلہ میں ملاقات کی راہ و رسم رکھتا تھا، کہا کہ آپ ہمارے کنوئیں سے پانی لے سکتے ہیں.مگر بالآخر بعض لوگوں کے زور دینے پر گوردوارہ سے پانی ملنے لگا.تھوڑی دیر بعد پھر گاؤں والوں نے گوردوارہ والوں پر زور ڈالنا شروع کیا کہ یہاں جلسہ نہ کرنے دیا جائے.سپنا نچہ سکھوں کی دو پارٹیاں ہوگئیں اور وہ آپس میں جھگڑنے لگے مگر اکثریت ہمارے مخالفوں کی تھی.یہاں تک کہ گوردوارہ والوں نے ڈر کر اسسٹنٹ سب انسپکٹر صاحب سے کہا کہ ہمیں لوگ تنگ کرتے ہیں اس لئے ہم جلسہ نہیں ہونے دیں گے.مگر چونکہ وہ اسٹنٹ سب انسپکٹر کے ملنے جگہ دے چکے تھے اس لئے اس نے کسی طرح انہیں تسلی دی اور جلسہ شروع رہا.جلسہ کے دوران میں لوگ اللہ کر باری باری کھانا کھانے لگے اور تقریر میں جاری رہیں.اس عرصہ میں ناظر صاحب امور عامہ اور خانصاحب مولوی فرزند علی صاحب سیٹھ پر یشو تم داس کی دعوت پر اس کے ہاں چائے پینے چلے گئے.
جال کا اختتام اور اب کے دو اقعا پانچ بجے کے قریب جب جلسہ ختم ہوا تومیں نے اعلان کیا کہ ہم سر تو دال کی نہر پر جب پہنچ کر اکٹھے نماز پڑھیں گے.اس پر لوگ اُٹھ کھڑے ہوئے.اور ایک راستہ کی طرف رخ کیا.اس وقت جیسا کہ مجھے معلوم ہوا ہے بعض مقامی لوگوں نے ہمارے بعض آدمیوں سے کہا کہ اس راستہ سے نہ جائیں بلکہ دوسرے راستہ سے جائیں جس پر ہمارے لوگوں نے اس مشورہ کو نیک نیتی کا مشورہ سمجھ کر اسے اختیار کر لیا.مگر یہ راستہ ملیا اور پیچیدہ ثابت ہوا.اور ہمیں بالآخر حاجیوں کی سویٹی کے سامنے لے آیا.جہاں بہت سے مخالفین بدنیتی کے ساتھ جمع تھے.روانہ ہونے سے پہلے میں اپنا سامان درست کروانے لگاتا کہ سامان ٹانگہ پر رکھا جائے.اتنے میں بہت ساحصہ لوگوں کا روانہ ہو چکا تھا کہ میں بھی روانہ ہوا.میرے پیچھے چالیس پچاس لوگ ہوں گے باقی سب آگے تھے.راستہ میں سیٹھ پر شو تم داس کا مکان تھا.وہاں سے خانصاحب مولوی فرزند علی صاحب اور سید ولی اللہ شاہ صاحب بھی ساتھ ہو لئے.اور ہم باتیں کرتے ہونے اطمینان سے واپس چلنے لگے ہمارے آگے پیچھے سے صل علی محمد ونیر کی آوازیں آرہی تھیں اور لوگ اطمینان سے واپس آرہے تھے.اس جگہ میں ایک نقشہ دیتا ہوں جس سے احباب معلوم کر لیں گے کہ بعد کے واقعات کس طرح رونما ہوئے.آبادی جو بڑ مشرق آبادی آبادی مخالفین کے ہجوم کی طرف شدید خشت باری امارت گوگوئی و اکل احتہ الفت نام گلی سے مل کر کیسے راستہ میں ہو کہ انساب اور جہ کے درمیان سے گذر کر د سے گزرا.اور و سے ہوتا ہواس تک ہوا کہ قادیان کی طرف سی نے کا راستہ ہے پہنچ گیا.اگلے حصہ میں دیہات کے مضبوط اور صحتور آدمی تھے.مولوی دل محمد صاحب بھی اس حصہ میں جا رہے تھے جب ہمارے لوگوں کا پچھلا حصہ جس میں زیادہ تر چھوٹے لڑکے اور قادیان کے مدارس کے
۴۲۲ طالب علم اور بوڑھے اور کمزور لوگ تھے ج نام حویلی کے سامنے جو حاجیوں کی حویلی کہلاتی ہے، قریب پہنچا تو وہاں دوسو کے قریب مخالفین جمع تھے.چونکہ یہ مکان زیر تعمیر ہے اس لئے کم سے کم پانچ چھ ہزار کچی اینٹیں رہا ڈھیر کی صورت میں رکھی تھیں.یہ لوگ احمدیت مردہ باد کے نعرے لگا رہے تھے کہ اتنے میں نامی حاجی نے جو بھا مڑی کے مخالفوں کا سرغنہ ہے تالی بھائی اور ہجوم نےسامنے استہ پر پھیلنے والے احمدیوں پر اچانک خشت باری شروع کردی.میں اس وقت الف مقام پر نہیں پہنچا تھا.اس لئے خشت باری کی ابتداء میں نے نہیں دیکھی.مگر جب میں الف کے مقام پر پہنچا تو میں نے دیکھا کہ حویلی ہم سے ایک وقت میں سو سو اینٹیں سڑک پر ہمارے لوگوں پر پڑ رہی ہیں.بہشت باری کیا تھی، اینٹیوں کی موسلا دھار بارش تھی اور ٹڈی دل کی صورت میں فضا غیا ہو ہو رہی تھی.میرے ساتھ خانصاحب فرزند علی صاحب تھے میرا لڑکا محمود احمد جس کی عمر ۱۳ سال ہے ذرا آگے تھا.سید ولی اللہ شاہ صاحب ذرا اور پیچھے تھے.میں نے جب اینٹوں کی بارش دیکھی تو میں دوڑ کر اینٹوں کی پوچھاڑ میں سے گذرتا ہوا تو ملی ج کے کوٹھے کے سامنے کھڑا ہو گیا اور ایک لکیر کھینچ کر بڑے زور وارانہ لہجہ میں آگے گزرے ہوئے لوگوں کو واپس لوٹنے سے روک کر کہا کہ خبردار کوئی احمدی اس لکیر سے آگے نہ بڑھے.میرے ہاتھ میں چھتری تھی.مجھے دیکھ کر مخالفیں نے خشت باری زیادہ کہ دی اور چھت پر بھی چند آدمی چڑھ گئے اور مکان کے تو تعمیر ہونے کی وجہ سے جو ملبہ وہاں پڑا تھا وہ اُوپر سے مجھ پر پھینکنے لگے.چنانچہ ایک شکستہ گھڑا مجھے پر پھینکا گیا.مگر خدا کا فضل رہا کہ مجھے باوجود اس کے کہ میں عین نیچے کھڑا تھا ایک ٹکڑا بھی نہیں لگا حالانکہ میرے پاس جو لوگ کھڑے تھے وہ زخمی ہوئے.وہاں پہنچ کر ہو نظارہ میں نے دیکھا وہ یہ تھا کہ اس وقت مجھے مخالف اور اُن کی اینٹیں یوں معلوم ہوتی تھیں کہ جیسے مکھیاں بھنک رہی ہوں.یہ کیوں ؟ اس لئے کہ میں اس وقت اپنی ذاتی بیثیت میں نہ تھا بلکہ من الام امرى فَقَدْ أَطَاعَني.میں اس وقت خلیفہ حق کا نمائندہ اور اس کی جماعت کا امیر تھا.غرض میں نے تمام مجمع کو واپس کوٹنے سے روک کر اپنی جگہ کھڑا کر دیا.اب مجھے فکر ہوئی کہ شاہ صاحب اور خانصاحب کہاں ہیں ؟ یہاں پر احباب نقشہ کو دیکھیں اور غور فرمائیں.جیسا کہ میں اوپر لکھ آیا ہوں کہ میں راستہ پھلنے والے احباب کے پچھلے حصہ میں تھا.میرے پیچھے چالیس پچاس کے قریب دوست ہوں گے جب یہ لوگ الف مقام پر پہنچے تو انہوں نے (ج) کے سامنے خشت باری دیکھی تو وہ بجائے اس کے کہ خشت باری کے سامنے سے گزر کر ہمارے پاس آجاتے وہ سامنے ایجنٹوں کی بارش دیکھ کر اور پہلو میں ایک کھلا میدان ایک حافت ہو کر نکل جانے کا پاکر اپنے بائیں جانب مڑ کر (ب) کی طرف گھوم گئے اور غالباً گھبراہٹ سے بجائے اکٹھے
۴۴۳۳ چلنے کے منتشر سورت میں پھلنے لگے.چونکہ دشمنوں کا مقام (ج) سے اینٹیں مارنے کا بڑا مقصد بھی یہ تھا کہ وہ ہمارے پچھلے حصہ کو ہم سے جدا کر دیں اس لئے جب ہمارے پیچھے یہ چالیس کے قریب لوگ بائیں طرف مڑے اور خشت باری کے مقام سے کترا گئے اور ہم سے کٹ گئے تو مخالفین فوراً حویلی میں سے باہر کو کر کل آئے اور لاٹھیوں کہ پانیوں اور تلواروں سے اُن کو گھیر کو بری طرح زخمی کیا.چنانچہ میرے بالکل پیچھے جناب خانصاحب مولوی فرزند علی صاحب تھے.یہ جب خشت باری دیکھ کر میرے پیچھے پیچھے آنے لگے تو انہیں دو اینٹیں لگیں.اس پر یہ بائیں جانب مڑ کر اور کھیتوں میں سے ہوتے ہوئے (سم) کی طرف بھا کر ٹانگوں تک پہنچ گئے.اُن کے پیچھے جناب سید ولی اللہ شاہ صاحب تھے جب وہ الف کے مقام پر پہنچے تو آگے اینٹوں کی بارش دیکھ کر مقام (ب) کی طرف مڑے.ان کے ہمراہ اُن کا تیرہ سالہ لڑکا بھی تھا.شاہ صاحب نہایت ثبات قلب کے ساتھ آہستہ آہستہ بجا رہے تھے کہ گاؤں والوں نے انہیں گھیر لیا اور ڈانگوں سے حملہ کر دیا.پہلے تو شاہ صاحب ہا تھوں پر روکتے رہے مگر جب کندھوں اور کمر پر لاٹھیوں سے زور سے چوٹیں لگیں تو بے ہوش ہو کہ گیہ پڑے.مگر ان کے گر بجانے پر بھی لوگ مارتے رہے.شاہ صاحب کے جسم پر ایک نشان تلوار کی ضرب کا بھی معلوم ہوتا ہے گوندا کے فضل سے اس نے کاٹا نہیں.ان کے بچے کو بھی چوٹ لگی اور وہ بھی شاہ صاحب پر گر کر رونے لگا.اسی طرح بقیہ لوگ جب منتشر ہو کر بجائے اس کے کہ ہم کو آملتے بائیں طرف مڑے تو گاؤں والوں نے انہیں الگ الگ اور منتشرپا کر کسی کو کرپان تلواروں سے کسی کو ڈانگوں سے غرض مختلف طریقوں سے سخت زخمی کیا.مگر اس سارے عرصہ میں ہم کو جو کہ مقام (ج) اور مقام (د) کے سامنے کھڑے تھے بالکل معلوم نہ تھا کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے.کیونکہ وہ ہماری نظروں سے او میں تھے.لیکن جب میں نے اپنے احمدیوں کو پر سکون مجمع کی صورت میں کھڑا کر لیا تو اب شاہ صاحب اور خان صاحب کا خیال آیا.اتنے میں اسسٹنٹ سب انسپکٹر پولیس بھی میرے پاس آپہنچا.لیکن نے اُسے غصہ سے کہا کہ دیکھو اتنے لوگ کھڑے ہیں اور ہم پر اتنا ظلم ہوا ہے.یہ لوگ اگر دفاع کرتے تو ان مخالفوں کو کے ٹکڑے کر دیتے مگر میں نے ان کو روک رکھا ہے لیکن آپ نے گاؤں والوں کو روکا تک نہیں.وہ شرمندگی کے لہجہ میں کہنے لگا کہ میں کیا کروں میرے پاس سپاہی نہیں صرف تین چار آدمی ہیں.میں کس طرح اس مجمع کو روک سکتا تھا.اتنے میں شاہ صاحب اور خانصاحب کی تلاش کے لئے میں خود میں پڑا کہ مجھے جامعہ احمدیہ کے طلبہ نے گھیرا ڈالا کر روک لیا کہ آپ نہ جائیں.اس پر اسسٹنٹ سب انسپکڑ نے کہا کہ میں شاہ صاحب کا پتہ لیتا ہوں.یہ وہ وقت
مام تھا کہ ہمارے گردہ کے پچھلے لوگ بسبب منتشر ہو جانے کے گاؤں والوں کے ہاتھوں سے پیٹ رہے تھے نقشہ میں جو کھیتوں اور مقام سب کے پیچھے نقطے دیئے گئے ہیں یہ وہ احمدی لوگ ہیں جو منتشر ہونے کی وجہ سے گاؤں والوں نے گھیر کر زخمی کر دیئے.یہ حالت بھاری تھی اور ہمارے آدمی پیٹ رہے تھے اور ہم کو معلوم نہ تھا کہ یکدم.ایک حاوی طالب علم احمد رشدی....نے شور مچا کر کہا کہ ہمارے آدمیوں کو گاؤں والوں نے گھیر • '.اپنے لیا ہے اور انہیں مار رہے ہیں.اس پر ہمارا مجمع جسے میں نے روکا ہوا تھا قریباً ڈیڑھ سو آدمی.آدمیوں کی حفاظت کے لئے بے تحاشا کھیتوں میں پہنچا.ان کو دیکھ کر وہ مخالف ہو احمدیوں کا تعاقب کر کے انہیں.زخمی کر رہے تھے مقام ب کی طرف واپس بھاگے.یہ دیکھ کر اور یہ خیال کرتے ہوئے کہ شاید یہ افواہ غلط ہو کہ رہا ہے آدمی زخمی ہوئے ہیں.....میں نے بلند آواز سے لوگوں کو واپس بلانا شروع کیا کہ واپس آؤ.واپس آؤ.اس پر اس مجمع میں سے مختلف احمدی میرا نام لے کر احمدیوں کو بلانے لگے کہ میر صاحب بلاتے ہیں.واپس آؤ.واپس آؤ.غرض بڑے زور سے میں نے مجمع کو واپس بلایا ہو پھر....میرے پاس پہنچ گئے.اس وقت معلوم ہوا کہ ہمارے بعض آدمی اپنے زخمیوں کو اٹھا کہ مقام حہ میں موٹر اور ٹانگوں کے پاس لے آئے ہیں.ان زخمیوں میں سے دو شخصوں کے سائیکل بھی مخالفت چھین کرلے گئے.جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ شاہ صاحب کو چوت لگی ہے اور وہ بے ہوش ہو گئے تھے مگر اب ہوش میں ہیں اور ہمارے لوگ ان کو مقام سحر تک لے آئے ہیں تو میں مقام حج تک تمام مجمع کو لے آیا.یہاں پر تمام زخمی موٹر اور ٹانگہ میں بٹھا دیئے گئے اور ہم مقام ح سے چل کر قادیان مردانہ ہوئے.اس وقت اچانک کیا دیکھتے ہیں کہ مقام جب سے چار پانچ سو آدمیوں کا مجمع ہو کہ سب کا سب لاٹھیوں، نگوؤں ، کھویوں اور تلواروں سے مسلح تھا اور جس میں مسلمانوں کے علاوہ سکھ بھی تھے نہایت تیزی سے ہماری طرف نعرے لگاتا اور چیلنج کرتا ہوا بڑھ رہا تھا.یہ گویا دوسرا حملہ تھا.یہ مجمع ایسا خوفناک تھا کہ میں نے دیکھ کر اس وقت یہ یقین کر لیا کہ ہم وہاں سے زندہ بچ کر نہیں جا سکتے کیونکہ ہارا مجمع غیر مسلح تھا.صرف تین یا چار فیصدی کے پاس لاٹھیاں تھیں.باقی سب نہتے تھے مجمع میں نہایت خود در سال عمر کے بہت سے بچتے تھے حتی کہ آٹھ نو نابینا بچے بھی تھے.بوڑھے اور معذور اور کمزور لوگ بھی تھے.یہ مجمع دیکھ کر ہمارے بعض تو جوان با لخصوص جامعہ احمدیہ کے طالب علم دفاع کے خیال سے آگے بڑھے اور خدا نے انہیں قوت بخشی کہ وہ موت کے منہ میں بھانے کے لئے تیار ہوئے.مگر میں نے آگے بڑھ کر ان کو روکا اور واپس نے آیا.اس وقت میرے پاس اسسٹنٹ سب انسپکٹر پولیس
۴۲۵ آیا کہ آپ اپنے آدمیوں کو راستہ راستہ لے چلیں.نہیں اس مجمع کو روکتا ہوں.میں نے آواز دے کر سب کو واپس چھلنے کو کہا اور سب کو لے چلا اور جب مڑ کر میں نے دیکھا تو یہ نظارہ نظر آیا کہ اسسٹنٹ سب انسپکٹر صاحب معد سپاہیوں کے مخالفوں کے مجمع کی طرف آگے بڑھا ہے اور جیسا کہ بعض لوگوں نے مجھے بتایا ہے کہ اس موقع پر پولیس نے مخالفین پر لاٹھی چارج بھی کیا.بہر حال میں نے دیکھا کہ لوگ واپس بھاگ رہے ہیں.اب معلوم نہیں کہ یہ لاکھٹی چارچ کا نتیجہ تھا یا یہ کہ کوئی اور بات تھی.بہر حال میں اپنے سب آدمیوں کو لے کر واپس قادیان روانہ ہوا.اور زخمیوں کو ہر چو وال کی ڈسپنسری میں بھیج دیا.نہر پر پہنچ کہ مولوی دل محمد صاحب کو کہا کہ آپ تمام مجمع کو نماز پڑھا کر قادیان سے بھائیں اور خود موٹہ میں جو مجھے ہاسپیٹل سے شاہ صاحب نے بلانے کے لئے بھیجی تھی بیٹھ کر ہر چو وال کی ڈسپنسری میں پہنچا.وہاں ڈاکٹر انچارج موجود نہ تھا.ایک کمپاؤنڈر تھا جس نے ایک مضروب احمد دین کی بیٹی کی.باقیوں کو موٹہ اور ٹانگہ میں واپس قادیان سے آیا اور نور ہسپتال میں داخل کرا دیا.پولیس کی کارروائی اور بعد کے حالات اسی رات قادیان میں پولیس پہنچی اور صبح کے چار بجے کے بعد نور ہاسپیٹل میں زخمیوں کے بیانات لئے گئے.دوپہر کو سپرنٹنڈنٹ پولیس اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس بھی پہنچ گئے.اور قادیان کی پولیس چوکی میں خالصہ صوب مولوی فرزند علی صاحب کے اور میرے بیانات ہوئے.پھر ہم موضع بھارتی سپر نٹنڈنٹ صاحب کے ساتھ گئے اور انہیں موقع دکھلایا.وہاں بھی مخالف پارٹی کے تین اشخاص کے بیان قلمبند کئے گئے.پھر مورخہ ۲۵ کو سری گوبند پور کے تھانہ دار صاحب نے قادیان آکر مجھ سمیت سولہ اشخاص کے پچالان کی غرض سے حاضری عدالت کی ضمانتیں ہیں.یہ ہیں مختصر سے کو الف اس جلسہ کے.اب معاملہ بظاہر عدالت انگریزی کے ہاتھ میں اور بباطن عدالت عالیہ سماویہ کے قبضہ میں ہے.وہی کچھ ہو گا جو آسمان پر مقدر ہے کیونکہ وَالْقَدْرِ خَيْرِهِ وَشَیرہ پر ہم ایمان لانے والے ہیں.ہمار کی دعا یہی ہے کہ ہمارے لئے وہی ہو جو ہمارے حق میں خیر اور بہتر ہو.ان مسلسل واقعات کی لڑی کے علاوہ بعض اور باتیں احباب کی واقفیت کے لئے بیان کر دیتا ہوں.(1) جب ۷ ارجون کو سہمیں ہر ھے وال کی نہر کے پل پر بھاڑی والوں نے بھانے سے روکنے کی کوشش کی تو میں نے ناظر صاحب امور عامہ کو اطلاع کے لئے دو سائیکلسٹ یکے بعد دیگرے بھیجے تو ناظر صاحب امور عامہ نے ایک تار گورداسپور میں دن کے دس بجکر دس منٹ پر سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس اور ایک خط سائیکلسٹ کے ہاتھ سری گویند پور کے تھانیدار صاحب کو بھیجا کہ وہاں کے لوگ فساد پر آمادہ ہیں انہیں روکا جاوے.
(۲) اس سے قبل نے ہمارے جلسہ کا اعلان الفضل میں پڑھنے کے بعد 14 جون کو اپنے بورڈ پر قادیان میں اعلان کیا کہ بھا مڑی میں ہم بھی.ارجون کو جلسہ کریں گے.(س) جلسہ سے ایک روز قبل کے بورڈ کی اطلاع پا کر جناب چودھری فتح محمد صاحب انچارج مقامی تبلیغ نے مولوی احمد خان صاحب نسیم کو اور مولوی عبد العزیز صاحب سکنہ بھاڑی کو سری گویند پور کے تھانیدار کے پاس رپورٹ دینے کے لئے بھیجا کہ بھا مڑی والے فساد پر آمادہ ہیں مگر افسوس کہ تھانیدار صاحب نے یہ رپورٹ روز نامچہ میں درج نہیں کی.(۴) جب میں سپرنٹنڈنٹ صاحب کے سامنے بیان دے چکا تو ڈی.ایس پی صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ میر صاحب آپ یہ فرما دیں کہ جب آپ کا جلسہ ختم ہو چکا تو پھر بھڑی والوں نے فساد کیوں کیا ؟ اگر ان کی فساد کی نیت ہوتی تو سیلیسہ کے دوران میں کرتے.میں نے کہا کہ یہی موقعہ تو فساد کا تھا.کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ہم جلسہ کر سکیں اور ہمارے عیسہ کو روکنا چاہتے تھے.مگر جب ہم جلسہ کرنے میں کامیاب ہو گئے تو انہیں اپنی ناکامی کی وجہ سے اشتعال پیدا ہوا.اور انہوں نے اس کا انتقام فساد کے ذریعہ لیا.(۵) ایک بات میں نے سپرنٹنڈنٹ صاحب اور ڈی.الیں.پی صاحب کو یہ کہی تھی کہ آپ یہ نقطۂ خیال کبھی نہ بھٹو نہیں کہ اگر ہماری طرف سے اشتعال دلایا گیا اور فساد ہوا تو عجیب بات ہے کہ ہم لوگ ایک لمبا فاصلہ گاؤں کے اندر طے کرتے رہے مگر انہیں اشتغال نہ آیا.مگر جب ہمارے لوگ اور وہ بھی طالب علم اور بچے اس خوبی کے پاس سے گزرے جہاں پر بہت سی اینٹیں ڈھیر کی صورت میں جمع تھیں اور جہاں ہمارے مخالفین دوسو کی تعداد میں جمع تھے وہاں کیوں اشتعالی آگیا.میں نے کہا.آپ یہ سوچیں کہ ہمارے مخالف اور کسی حویلی میں کیوں نہیں جمع ہوئے.کیوں حاجیوں کی حویلی میں جمع تھے یہاں اینٹیں جمع تھیں.کیا یہ دونوں اجتماع اتفاق سے ہو گئے علاوہ اس کے بعد میں معلوم ہوا کہ وہاں مخالفوں کا ٹھیاں بھی جمع کر رکھی تھیں اور زیر تعمیر عمارت کے بالے وغیرہ بھی پڑے تھے (4) میں نے اپنے بیان میں نیہ بھی لکھایا تھا کہ اگر ہماری نیت فساد کی تھی تو کیا وجہ ہے کہ (الف) مدرسہ احمدیہ کے پھوٹے سے چھوٹے طالب علم بھی میں جلسہ میں لایا.(ب) میں اپنے تینوں لڑکوں کو ہمراہ لایا.(ج) حافظ کلاس کے آٹھ کم عمر اندھوں کو ہمراہ لایا.(د) ہم لوگ کثرت کے ساتھ بغیر لاٹھی کے آئے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہم تساد کی نیت سے نہیں آئے.(۷) میں اور تھا نصاحب مولوی قرتند علی صاحب اور مولوی دل محمد صاحب فساد کے دوسرے روز سپرنٹنڈنٹ
۴۲۷ صاحب کے ساتھ موقعہ دکھانے کے لئے گئے تو اسسٹنٹ سب انسپکٹر نے جو ہمارے جلسہ کے انتظام کے لئے بھا مڑی میں مقرر تھا سپرنٹنڈنٹ صاحب سے کہا کہ جب میں نشت باری کے موقعہ پر پہنچا تو میر صاحب اپنے لوگوں کو روک رہے تھے اور میں نے بھاڑی والوں کو روکا.مگر مجھے معلوم نہیں کہ تحریری طور پر اسسٹنٹ سب انسپکڑنے کیا نوٹ درج کیا ہے ؟ البتہ سنا گیا ہے کہ ہمارے خلاف پولیس ہی کے بیان پر کارروائی کا آغاز ہوا ہے گو مخالفین کے خلاف ہماری رپورٹ پر کارروائی کی گئی ہے.(۸) آخری بات میں احباب کی واقفیت کے لئے یہ کہتا ہوں کہ ہمارے گروہ میں اینٹوں کے ذریعہ تو لوگ زخمی ہوئے ہیں ان کے زخم خفیف ہیں.اور گو اینٹوں کی وجہ سے ۴۰ ۵۰۰ کے قریب اشخاص کو معمولی چوٹیں آئی ہیں گر میں قدر اشخاص شدید زخمی ہوئے ہیں وہ ڈانگوں، تلواروں اور کر پانوں وغیرہ سے ہوئے ہیں اور یہ سب وہ لوگ ہیں جو خشت باری دیکھ کر بجائے آگے بڑھ کر خشت باری کے مقام سے گزر کر ہمارے بڑے مجمع میں آملنے کے بائیں طرف مقام سب کی طرف مڑ گئے تھے اور بڑے بھی الگ الگ یعنی خانصاحب اکیلے شاہ صاحب اکیلے اور باقی احباب بھی اکیلے اکیلے اور اس طرح دشمن بہشت باری کر کے اپنے اس مقصد میں کامیاب ہو گیا کہ اُس نے احمدیوں کے پچھلے حصہ کو اگلے حصہ سے الگ کر کے ایک ایک کو گھیر کر مار مار کر بیہوش کر دیا.انا للهِ وَإِنا اليه رابوون اس میں ہم کو ایک سبق ملتا ہے کہ کبھی ہم لوگوں کو ایک دوسرے سے جدا نہ ہونا چاہئیے بلکہ خواہ مصیبت ہو یا کیسی سخت آفت ہو سب کو مل کر اکٹھے رہنا چاہئیے.اس موقعہ پر میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ جب مخالف خشت باری کہ رہے تھے ہمارے بعض نوجوان اُن کے مظالم کو دیکھ کر ایسے جوش میں تھے کہ اگر میں انہیں آگے بڑھنے کی اجازت دیتا تو یقیناً وہ مخالفوں کو اس شرارت کا مزا چکھا دیتے.مگر میں نے باوجود مظلوم ہونے کے باوجود حق دفاع رکھنے کے باوجود قانون کی اجازت کے دوستوں کو روکے رکھا.اور دوستوں نے بھی مجھے امیر جلسہ سمجھ کر میرے احکام کی تعمیل کی اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے ایک بہت بڑے حادثہ سے ہم کو بچالیا.اور ایک دفعہ پھر دنیا پر ثابت کر دیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفا ر نے ایک انہی جماعت تیار کی ہے جس سے بڑھ کر امن پسند اور عافیت پسند دنیا میں اور کوئی جماعت نہیں.مجھے میرے ساتھیوں میں سے بعض نے غصہ سے طعنہ دیا.مگر سچی بات یہ ہے کہ مجھے اس وقت صرف یہ خیال تھا کہ اگر میں با وجود قانون کی اجازت کے اپنے آدمیوں کو دفاع کی اجازت دوں تو قادیان میں جا کر حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کو کیا مونہہ دکھاؤں گا.اور میں نے اپنے دل
میں یہ فیصلہ کیا کہ حضرت صاحب کا یہ عتاب برداشت کر لوں گا کہ تم نے اپنے آدمیوں کو خشت باری سے کیونکہ اس وقت مجھے لاٹھیوں کے حملہ کا علم نہیں تھا، پٹوایا.مگر دفاع کی اجازت نہ دی.مگر یہ دوسری جہت کا عتاب میری طاقت سے باہر ہے کہ تم نے مارکیوں نہ کھائی اور لڑائی سے دوستوں کو بازکیوں نہ رکھا یا یہ عتاب میری برداشت سے باہر تھا.واجود عُونَا آنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ.ونوٹ) اوپر کے مضمون میں میں نے صرف جلسہ و حادثہ بھاڑی کے متعلق اپنے چشمدید قریب سے منے ہوئے حالات درج کئے ہیں.اور مخالفین نظاہری و خفی کی اُن کا رروائیوں کا ذکر نہیں کیا جو جنت سے باہر یا بعد میں ہوئی ہیں اور نہ دوسری زائیکر با توں کا ذکر کیا ہے ؟ لے حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا پیغام بھاڑی کے تشویش ناک حالات کی اطلاع سید الطابت می تونی امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی کی خدمت میں پہنچی تو سٹور نے جماعت کے نام جماعت احمدیہ کے نام ا حسب ذیل پیغام دیا :- برادران جماعت احمد ہے ! السلام عليكم ورحمته الله و بركاته.اس وقت جماعت پر اس کے دشمنوں نے ایک سخت حملہ کیا ہے اور حکومت کے کچھ کل پیر ز سے بھی اس میں شامل معلوم ہوتے ہیں.احمدیت کے لئے پھر ایک ابتلاء کی صورت پیدا ہو رہی ہے.گورنمنٹ کے دلی دشمن جو اس کے ملازموں میں شامل ہیں ، انہیں ہماری جنگی خدمات نہیں بھائیں اور چونکہ کھلا مقابلہ وہ نہ کر سکتے تھے.انہوں نے دوسرے اوچھے ہتھیاروں سے کام لین شروع کیا ہے.چند دنوں تک حقیقت واضح ہو جائے گی.میں زندہ رہوں یا مروں ، جماعت کی عزت کی حفاظت کے لئے آپ لوگوں کا ہر قربانی کرنا فرض ہے.کیا پچاس سال شکست کھا کر دشمن ای غالب آجائے گا.کیا آج احمدیت کا ایمان جماعت کو گذشتہ قربانیوں سے زیادہ قربانیاں پیش کرنے کے لئے آمادہ نہ کرے گا.میں امید کرتا ہوں کہ آپ میں سے ہر شخص کہے گا کہ ضرور ضرورہ اور آسمان آپ کی آواز پر تصدیق کرے گا اور احمدیت کے پوشیدہ دشمن ایک دفعہ پھر منہ کی کھائیں گے.اچھا خدا حافظ آج بھی اور ہمیشہ ہی.اس دنیا میں بھی اور اگلے جہان میں بھی بہادر بنو اور کسی انسان سے نہ ڈرو سوائے تعداد کے.والست سلام " " خاکسار مرزا محمد و احمد ۲۰ له الفضل و احسان جون میش صفر تا ۵ : له " الفضل ۲۲ احسان جیون ساله بیش صفحه ۰۱ به ه ر +
۴۲۹ اس واقعہ کی خبر ملکی پر میں نے نہایت گمراہ کن اور مسخ شدہ صورت میں شائع کی.البتہ ملکی پریس میں ذکر ذکرہ اس شمالی ہند کے مشہور مسلمان اخبار انقلاب نے اپنے ایک شذرہ میں اس کے صحیح واقعات بیان کرنے کے بعد لکھا :- " یہ واقعات نہایت افسوسناک ہیں.ہمیں فریقین میں کسی کے ساتھ بھی کوئی خصوصی تعلق نہیں لیکن آزادی تقریہ کے اس دور میں کسی جماعت کے جلسہ کو بزور تشت درہ کتنا کسی اعتبار سے بھی بھائز نہیں قرار دیا جا سکتا اور جس حالت میں جلسہ ہو چکا تھا اور قادیانی وہاں سے جا رہے تھے اس وقت اُن پر حملہ کرنا صریح بیوہ و فساد تھا جو کسی حالت میں حق بجانب نہیں ہو سکتا ، لے مظلوم احمدیوں کے خلا بھائی میں معاندین نے مل بھی کیا اور جب میں جماعت احمدیہ کے بزرگوں اور مقدمہ کا تکلیف دہ سلسلہ جلسہ میں شامل ہونے والے دوسرے احمدیوں کے خلاف پولیس میں جھوٹی رپورٹ بھی دے دی جس پر پولیس نے ہر دو فریق کے آدمیوں کا چالان کر دیا اور پندرہ سولہ مظلوم احمدی حین میں حضرت میر محمد الحق صاحب احضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صابر اور حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب فاضل جٹ جیسے بلند پایہ بزرگ بھی شامل تھے استغاث علیه گردان کا مقدمہ کے ایک نہایت تکلیف دہ سلسلہ میں اُلجھا دیئے گئے.مقدمہ بھا مڑی کی عدالتی کارروائی کا باقاعدہ آغاز ۱۳ تبوک استمبر پیش گو یعنی اصل واقعہ کے تقریباً دو ماہ بعد ہوا ہی چودھری محمد اسحق صاحب ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسر بیٹے نے اس مقدمہ کی سماعت کی.و نبوت رانو مبر پردیش کو عدالت نے زیر دفعات ۱۴۹۱۴۸، ۱۳۲۳ ۳۲۵ مندرجہ ذیل تیره احمدی اصحاب پره فرو بریم نگا دیا :- حضرت میر محمد اسحاق صاحب ناظر ضیافت -۲ حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ناظر امور عامه حضرت مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل (جٹ ) جنرل پریزیڈنٹ قادیان ۴ مولوی دل محمد صاحب مہتمم تبلیغ ۵ چودھری محمد نذیر صاحب لاہور ہاؤس قادیان به انقلاب جون ۱۹۳۳ بحواله الفضل ۲ و فار جولائی ر ی صفرا کالم 1 + " دو ش الفصل" هار تبوک استمبر سایش صفحه ۴
۴۳۰ A چودھری محمد لطیف صاحب لاہور ہا ؤس قادیا.ٹھیکیدار علی احمد صاحب قادیان - چودھری بڑھا صاحب ساکن بیسرا ۱۰ - چودھری فضل الدین صاحب حمرا چودھری امیر احمدہ صاحب بسراواں مولوی محمد ابراہیم صاحب فاضل بھا مڑی ۱۲ مولوی عبدالعزیز صاحب بھا مری ۱۳ چودھری محمد شفیع صاحب بگولی سے اس مقدمہ میں سماعت دھار یوال ، بٹالہ یا گورداسپور میں ہوتی تھی.تقریباً پچاس سے زائد پیشیاں بھگتنی پڑیں اور جماعت احمدیہ کی طرف سے وقتا فوقتا مندرجہ ذیل وکلار پیش ہوئے.مرزا عبد الحق صاحب ایڈووکیٹ گورداسپور ، میر محمد بخش صاحب ایڈووکیٹ گوجرانوالہ.شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ کپورتھلہ ، مولوی فضل الدین صاحب پلیڈر.چودھری اسد اللہ خاں صاحب بیرسٹرایٹ لاء لاہور ، شیخ ارشد علی صاحب پلیڈر.حضرت میر محمد اسحاق صاحب کا مقدمہ بھاڑی میں حضرت میر محمد اسحاق صاحب امیر قافلہ ہوتے تھے.آپ نے اس مقدمہ کے دوران عدالت سے مقدمہ بھا مڑی میں مبارک طرز عمل باہر اور عدالت کے اندر جو مبارک طرز عمل اختیار فرمایا وہ ایک مثالی چیز ہے جس کا تذکی ہمیشہ سنہری حروف میں کیا جائے گا.بطور مثال اس جگہ تین اہم بیانات درج ذیل کئے بجاتے ہیں.ا حضرت مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل (جت) مقدمہ بھا مڑی کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:.اس مقدمہ کی تاریخ کے لئے ہمیں گورداسپور اور دھالہ یوال جانا پڑتا تھا.ہم صبح کی گاڑی قادیان سے چل کر بٹالہ اتر جاتے اور پٹھانکوٹ کی گاڑی کے لئے اسٹیشن کے قریب ایک چھوٹی سی مسجد میں آرام کرتے جو بابو محمد شریف صاحب احمدی مرحوم کے آباؤ و اجداد نے بنوائی ہوئی تھی.اسی جگہ صبح کا ناشتہ بھی کرتے.اُن دنوں قادیان سے یہ گاڑی منہ اندھیرے ہی روانہ ہوتی تھی.اس لئے ایک دن ایسا اتفاق ہوا کہ مسجد میں حضرت میر صاحب نے جو امیر قافلہ ہوتے تھے آنے والوں کی گنتی کی تو معلوم ہوا کہ چار پانچ آدمی زیادہ آئے ہیں.اس پر آپ نے مجھے حکم دیا کہ اسٹیشن سے اتنے ٹکٹ بٹالہ تاق دریان لائے جائیں.چنانچہ ٹکٹ آنے پر آپ نے ان کو اپنے ہاتھ سے پھاڑ دیا اور فرمایا چونکہ یہ دوست کو یہ له " الفضل" نبوت / تو میر ی بیش صفحه ۵ کالم ۱ کے رپورٹ سا امر صد را تخمین احمدیه ۳۳۳۳ سه مش صفحه ۳۴ ۱۳۲۳۲۳۲ ۰۳۴۰ 1976 16
السالم گاڑی میں سواری کر چکے ہیں اور محکمہ ریل نے پوچھا نہیں مگر سر کار کو اس کا حق ملنا چاہئیے !! اپنی مقدمہ کے دوران میں ایک دفعہ جبکہ حضرت میر محمد اسحاق صاحب کی شہادت ہمارے فریق مخالفت کے خلاف ہو رہی تھی تو ایک ایسی بات جس سے فریق ثانی پر حرف آتا تھا وکیل مخالف کے سوال کرنے پر حضرت میر صاحب نے بتائی.تب فریق مخالف کے وکیل نے آپ پر جمع کی.کہ یہ بیان آپ نے پولیس میں کیوں نہیں دیا تھا؛ کیونکہ آپ کے پولیس کے بیانوں میں یہ نہیں ہے جواب میں آپ نے فرمایا.میں تو اب بھی عدالت میں یہ بیان دینے کے لئے تیار نہ تھا.لیکن آپ لوگوں نے پوچھا ہے تو مجھے مجبوراً جواب دینا پڑا.ورنہ میں قطعاً بیان نہ کرتا ہے مرزا عبد الحق صاحب ایڈووکیٹ گورداسپور کا بیان ہے کہ شہادت استغاثہ کے ختم ہونے کے بعد ہماری طرف سے شہادت صفائی پیش ہوئی.محترم خانصاحب مولوی فرزند علی صاحب مرحوم ہمارے گواہ صفائی تھے.آپ نے اپنے بیان میں حضرت میر صاحب کے متعلق فرمایا کہ آپ ایک نہایت معزز سید خاندان سے ہیں.عالم قرآن و حدیث ہیں اور بعض اور وجاہت کے پہلو بھی بیان فرمائے.حضرت میر صاحب اس وقت میرے پاس ہی کرسی پر بیٹھے تھے.با وجود ملزم ہونے کے عدالت آپ کو ہمیشہ کرسی دیتی تھی.جب محترم خانصاحب مرحوم یہ بیان دے رہے تھے تو حضرت میر صاحب کے آنسو رواں ہو گئے.آپ نے رُومال نکال کر اپنی آنکھوں پر رکھ لیا اور آہستہ سے نہایت وقت سے مجھے فرمانے لگے.مرزا صاحب ! ان چیزوں سے انسان بخت نہیں جاتا.مومن اللہ تعالیٰ کے فضل سے بخشا جاتا ہے.اللہ تعالے مجھے معاف فرمائے آپ کے الفاظ تو مجھے پورے طور پر یاد نہیں.لیکن ان کا مفہوم وہی ہے جو میں نے لکھا ہے.آپ کی آواز میں خاص درد انگیز رقت تھی اور آپ کے آنسو بہہ رہے تھے.اسی کیس میں جس روز آپ کا بیان ہوا.آپ میرے پاس ہی میرے مکان پر ٹھہرے ہوئے تھے.مجھے اندر سے بلا کر اپنے ساتھ چار پائی پر بٹھا لیا اور بڑی رقت کے ساتھ فرمانے لگے کہ مجھ سے کوئی نادانستہ غلط بیانی تو نہیں ہو گئی.میں نے تسلی دی لیکن آپ کے آنسو بہنے لگ گئے.اور آپ فرماتے رہے.یا اللہ! اگر کوئی غلطی ہو گئی ہو تو مجھے معاف فرمانا.آپ کا بیان واقعات کے سه " الغرتان میر محمد اسحاق نمبر ستمبر اکتوبر شارد صفحه ۴۵ + س حال مقیم سرگودھا - امیر صوبائی جماعت ہائے احمدیہ مغربی پاکستان.+
بالکل مطابق تھا.لیکن تقویٰ کا یہ حال تھا کہ ہر حال میں خدا سے ڈرتے کہ اے شیخ محمد احمد صاحب مظہر کپور ضلوی ایڈووکیٹ کا بیان ہے کہ دالت ہم چیند و کلار مقدمہ کی پیروی کرتے تھے.دھار یوال یا گورداسپور میں پیشی ہوتی تھی.دوران مقدمہ میں رمضان شریفت آگیا.میر صاحب فجر کی نماز کے بعد مسجد اقصی قادیان میں درس دیکر بی دینی پوڈر ایوال پہنچ سجاتے.باوجود مقدمہ کی پیشی کے آپ نے درس میں ناغہ نہ ہونے دیا.(ب) چونکہ میرہ صاحب کی واپسی قادیان کو ہر روز ہو جاتی تھی.اس لئے آپ خود روزہ رکھتے تھے.اور احمدی و کلار کے لئے جو بوجہ مسافرت روزہ نہ رکھ سکتے تھے قادیان سے دوپہر کا کھانا پکوا کر اپنے ہمراہ لاتے تھے.(ج) فریق مخالفت کے بعض اشخاص کو میر صاحب بڑی مہربانی سے عدالت سے باہر اپنے پاس بٹھاتے.انہیں تبلیغ و تلقین کرتے اور کسی قسم کا بغض و کینہ آپ کی طبیعت میں نہ تھا.(2) فریق ثانی کے وکیل نے میر صاحب پر جرح کی اور یہ سوال بھی کیا کہ بھابڑی والوں نے آپ کے جلسے میں مزاحمت کی اس لئے آپ کے دل میں ان کے خلاف غم و غصہ منہ وہ پیدا ہوا ہو گا ؟ میر صاحب ہی نے برجستہ جواب دیا کہ غم و غصہ نہیں بلکہ رحم و ہمدردی کے جذبات میرے دل میں آپ کے موکلوں کے لئے پیدا ہوئے.اس جواب سے مجسٹریٹ منتقسیم اور محفوظ ہوا.اور وکیل فریق ثانی شرمسد - (6) مجسٹریٹ میر صاحب سے با ادب پیش آتا تھا.لیکن خاکسار نے دیکھا کہ میر صاحب جب عدالت کے کمرہ میں داخل ہوتے تو تین چار منٹ تک طزمان کے کٹہرے میں اکیلے اور غمزدہ سے ہو کر کھڑے رہتے.ہم سب بھی تعظیماً کھڑے رہتے حتی کہ میر صاحب کٹہرے سے باہر نکلتے اور پھر ہم سب کرسیوں پر بیٹھے جاتے.یہ ماجرا ئیں نے کئی بار دیکھا لیکن میری سمجھ میں یہ بات نہ آئی کہ میر است ایسا کیوں کرتے ہیں ؟ آخر ایک دن میں نے میر صاحب سے اس کا سبب دریافت کیا.آپ چشم پر آب ہو گئے.فرمانے لگے کہ آتما رام مجسٹریٹ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عدالت میں کھڑا رہنے پر مجبور کیا.اس لئے جب کبھی مجھے عدالت میں جانے کا اتفاق ہوتا ہے تو حضرت مسیح موعود 1441 له "الفرقان" حضرت میر محمد اسحاق مهر ماه ستمبر اکتوبر انه صفحه ۲۶ - ۰۲۷ که حال امیر میرا محبت ہائے احمدیہ شہر و ضلع لائل پور
کام علیہ السلام کی یاد میں چند منٹ میں بھی اسی طرح کھڑا رہتا ہوں.میر صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عزیز تھے اور آپ نے حضور کے دامن تربیت میں پرورش پائی تھی اور نہایت قریب سے حضور کو دیکھا تھا.اس واقعہ سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ حضرت میر صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کس قدر عشق و محبت اور والہیت تھی سے ذوق این باده نیابی بخدا تا نچشی نے مقدمہ بھا مڑی کے معاملہ میں پولیس نے جماعت استمدید نٹ میں گوردا پلور کا مخالفانہ رویہ کے خلاف انتہائی معاندانہ رویہ اختیار کیا اور سپرنٹنڈنٹ پولیس گورداسپور سردار وریام سنگھ صاحب نے تو خاص طور پر مخالفین احمدیت کی پرزور حمایت کی چنانچہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی سر نے ایک موقعہ پر فرمایا کہ دو موضع بھا مڑی میں جو جھگڑا ہوا تھا اس میں ایک سکھ سپر نٹنڈنٹ پولیس سردار وریام سنگھ صاحب نے جو ان دنوں ضلع گورداسپور میں متعین تھے ظاہر طور پر ہماری جماعت کے خلاف حصہ لیا تھا.ہماری جماعت کے خلاف ان کے دل میں سخت غصہ تھا.ایک دفعہ چو ہدری فتح محمد صاحب سیال اُن سے ملے تاکہ اُن کو جماعت کے متعلق صحیح معلومات بہم پہنچائیں تو انہوں نے کہا کہ مجھے آپ کی جماعت سے بہت شکوہ ہے کیونکہ آپ کی جماعت سکھوں کی دشمن ہے.بھاڑی کے کیس میں با وجود اس کے کہ جو حالات ہماری جماعت نے پیش کئے وہی صحیح تھے اور ہمارے مقابل پر جو باتیں فریق مخالفت نے پیش کیں وہ صریح غلط تھیں.ان سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس نے فریق مخالف کی باتوں کو درست تسلیم کیا اور ہماری باتوں کو غلط سمجھا.بہر حال ہماری طبیعت پر اُن کے متعلق بُرا اثر تھا.اور ان کو گورداسپور سے تبدیل کرانے میں بہت کچھ حصہ ہمارا بھی تھا.اُن کے ایک ماتحت افسر نے خلا قانون کام کیا.سردار وریام سنگھ صاحب نے اپنے ماتحت افسر کی حمایت کی.ہماری جماعت نے اس معاملہ ہیں ان کی مخالفت کی اور افسران بالا کو صحیح حالات سے آگاہ کر دیا.سردار وریام سنگھ صاحب یہ سمجھے کہ مجھے ذلیل کرنے کے لئے جماعت نے یہ سب کچھ کیا ہے جب ڈپٹی کمشنر صاحب کو صحیح حالات پہنچاتے گئے تو انہوں نے اس تھانیدار کو سزا دینی چاہی.اس بات پر سپرنٹنڈنٹ صاحب پونیں ل "الفرقان حضرت میر محمد اسحاق نمبر ستمبر اکتوبر شانه صفحه ۱۵۳
اور ڈپٹی کمشنر صاحب میں اختلاف پیدا ہو گیا.پہلے تو حکومت کی طرف سے ڈپٹی کمشنر صاحب کو بدلنے کا فیصلہ کیا گیا، لیکن جب صحیح حالات حکومت کے سامنے رکھے گئے تو اس نے سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس کو تبدیل کر دیا ہے دشمنان احمدیت کی ناکامی پولیس نے جاعت احمدی کی مخالفت میں ایڑی چھٹی کا زور لگادیا.مگر خدا تعالیٰ نے اپنا خاص فضل فرمایا اور عدالت نے سب احمدی احتبا کو تیری قرار دے دیا.اس ضمن میں گورداسپور پولیس نے مقدمہ کے دوران چوبین احمدی احباب کے خلاف ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ کی دفعات ۵۴ ، ۵۶ ) ، ۱۲۱ کے تحت ایک الگ مقدمہ بھی کھڑا کیا اور اس میں اُن + تیراہ افراد کے علاوہ جن پر مقدمہ بھاری کے دوران فرد جرم عائد کی گئی تھی حضرت مولانا عبدا ارنسیم صاحب نیر تے ماسٹر فضل داد صاحب وغیرہ گیارہ دوسرے احمدیوں کا بھی چالان کیا گیا اور اُن کو ضمانتیں داخل عدالت کرنا پڑیں سے مگر پولیس کو اس منصوبہ میں بھی ناکامی ہوئی اور حکومت کو شروع پر ہی میں مقدمہ واپس لینا پڑا.اور جیسا کہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی شا نے ۲۰ احسان جون ہر ہش کو اپنے پیغام میں صریحا خبر دی تھی کہ " احمدیت کے پوشیده دشمن ایک دفعہ پھر منہ کی کھائیں گے " معاندین احمدیت و فی الواقعہ شکست فاش ہوئی اور وہ اپنے تا پاک عزائم میں ہر طرح ناکام و نامراد رہے.فصل سوم حضرت خلیفہ تاریخ الثانی وہ چونکہ اس سال در مہیش میں کئی ماہ تک صاحب فراش سفر ڈلہوزی سے اس لئے حضور نے ڈاکٹری مشورہ کے مطابق بھائی صحت کے لئے ڈلہوزی میں قیام فرمایا.حضور ۲۰ را حسان ایون سر میش کو قادیان سے روانہ ہوئے اور چار ما بعد ۱۸ اکتوبر ۱۹۳۳ء کو اپس هم تشریف لائے اس اس دوران میں حضرت مولانا شیر علی صاحبہ نے امیر مقامی اور حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ ساء گلا ۳۲۵ " الفضل "هر احسان جون له بش صفحه ۱ : "الفضل " و صلح (جنوری ۲۳ بیش صفحه ۳ : 41900 ا سے " الفضل " ۳ تبلیغ / فروری سه پش صفحها : شه" الفضل " ۳۲ را حسان الجون سر مش صفحه ا کالم ۲ : +1477 Fan ۵ الفضل ۱۲۰ خاء / اکتوبر ۱۳۲۲ بهش ۱۹۴۳ ، صفحہ ۱، اگست میں حضور جمعہ پڑھانے چند دن کیلئے دارالامان میں آئے تھے
(۴۳۵ صاحب نے امام الصلوۃ کے فرائض انجام دیئے بے قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اس سفر کا ایک گھر یلو واقعہ حسب ذیل الفاظ میں بیان فرماتے ہیں :- حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ چونکہ گذشتہ سال ایک لمبی بیماری سے اُٹھے تھے.اس لئے قیام ڈلہوزی کے آخری ایام میں حضور نے صحت کے خیال سے بعض تفریحی سیروں کا انتظام فرمایا تھا.ان سیروں میں سے آخری سیر کالا ٹوپ پہاڑ تک کی تھی جو ڈلہوزی سے قریباً چھ سات میں چنبہ کی جانب واقع ہے.اس ٹرپ میں یہ خاکسار بھی ساتھ تھا.مستورات کے لئے عموما گھوڑوں کا انتظام تھا: اور مرد پیدل تھے.اور ٹرپ کا اہتمام بدستور رسیده ام طاہر احمد کے ہاتھ میں تھا.چونکہ سیدہ موصوفہ نے انتظام وغیرہ کی وجہ سے سب سے آخر میں آنا تھا.اس لئے میں نے دیکھا کہ جب ہم اپنے گھروں سے ایک میل نکل آئے تو سیدہ مرحومہ والے گھوڑے پر اُن کی بجائے ہماری بڑی مسمانی آرہی ہیں.مجھے حیرانی ہوئی کہ یہ کیا بات ہے.اور میں نے اس کا ذکر حضرت امیر المومنین سے بھی کیا.اس پر میں نے دیکھا کہ حضور کے چہرے پر کسی قدر فکر اور اس کے ساتھ ہی رینج کے آثار ظاہر ہوئے.فکر اس لئے کہ سیدہ ام طاہر کی غیر موجودگی میں کہیں انتظام میں کوئی دقت نہ ہو اور رینج اس لئے کہ ٹرپ کو رونق دینے والی رفیقہ حیات پیچھے رہ گئیں.مگر حضور نے زبان سے صرف اس قدر فرمایا کہ سارا انتظام ام ظاہر نے ہی کیا ہوا ہے اور انہیں ہی معلوم ہے کہ کونسی چیز کہاں ہے اور کونسی کہاں ، کسی اور کو تو کچھ خبر نہیں میں نے اشارہ سمجھ کر جلدی سے ایک شخص کو آگے بھگا دیا کہ ڈاک خانہ کے چوک کے پاس بنا کر کوئی گھوڑا تلاش کرو.اور اگر مل جائے تو فوراً ہے کہ پہلے آؤ اور سیدہ ام طاہر کو لے آؤ.اور خدا کا شکر ہے کہ گھوڑا فوراً مل گیا.مگر ابھی یہ گھوڑا واپس جاہی رہا تھا کہ کیا دیکھتے ہیں کہ وہ ایک خادمہ کونے کہ پیدل ہی چلی آرہی ہیں.حالانکہ پیدل چلنے سے انہیں سخت تکلیف ہو جایا کرتی تھی.اس وقت میں نے محسوس کیا کہ انہیں دیکھ کر گویا حضرت صاحب کا فکر اور رینج سب دُور ہو گیا اور ہم خوشی خوشی آگے روانہ ہو گئے.ان کے پیچھے رہنے کی یہ وجہ معلوم ہوئی کہ جب وہ گھوڑے پر چڑھ کر روانہ ہو رہی تھیں تو حضرت ام المومنین اطال اللہ علیہا نے انہیں دیکھ کر فرمایا کہ شوکت (ہماری بڑی عمانی صاحبہ) نے ضرور جانا ہے.ان کے لئے ضرور انتظام کردو.سیدہ موصوفہ جنہیں حضرت اماں بھان سے انتہائی محبت اور اخلاص تھا.فوراً اپنے گھوڑے سے له الفضل " ۲۲ احسان / بون ۲۳ س ش صفحه ۱ کالم ۲ : 51977
وم اتر آئیں اور مانی جان کو اپنا گھوڑا دے کر روانہ کر دیا اور آپ پیدل چل پڑیں“ لے حضرت سیٹھ شیخ حسن صاحب جماعت احمدیہ یاد گیر کے روح رواں اور بہت احدی لائیبریری یادگیر مخیر اور بلند پایہ بزرگ تھے.آپ نے اپنی ذاتی کوشش سے یاد گیر میں ایک شہندا احمدیہ لائبریری قائم کی اور اس کا افتتاح اا ظہور / اگست یہ ہش کو عمل میں آیا.اور مولوی محمد اسماعیل صاب فاضل وکیل اس کے پہلے ناظم مقر ہوئے لیے یہ لائبریری آجتک قائم ہے اور اس علاقہ میں جماعت احمدیہ کی ایک بہت بڑی علمی ضرورت کو پورا کر رہی ہے.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب ( عرفانی الکبیر) نے حیات حسن " میں اس لائبریری کا تذکرہ مندرجہ ذیل الفاظ میں کیا ہے :- سلسلہ کی اشاعت اور عوام میں مذہبی اور علمی مذاق پیدا کرنے کے لئے حضرت حسن نے اللہ کو یادگیر بازارمیں احمدیہ لائیبریری کو قائم کیا حیرت ہوتی ہے کہ ایک شخص جو بذات خود عرفی دولت علم سے آشنا نہیں وہ اشاعت علم کا کس قدر جوش اپنے دل میں رکھتا ہے اور نہ صرف جوش بلکہ وہ خوب سمجھتا ہے کہ لوگوں کے معلومات میں کس طرح اضافہ کیا جا سکتا ہے اور کس طرح ان میں علمی مذاق پیدا ہوسکتا ہے.غرض ایک نیک مقصد کے پیش نظر یہ لائیبریری قائم کی گئی.اور ایک فرد واحد کی طرف سے یہ پہلی لائیبریری تھی.اس لائیبریری کے قیام اور اس کے ابتدائی اخراجات تو خود حسن اور اس کے خاندان کے افراد نے اپنے ذمہ لئے پھر حضرت سیٹھ عبد اللہ بھائی نے گرانت در امداد دی اور ا کے جاریہ اخراجات کے لئے سالانہ اعانت مقرر کی تھی.وہ لائیبر پیری جو چند کتابوں سے شروع ہوئی.آج اس میں چار ہزار کتابیں موجود ہیں جو تفسیر، حدیث ، فقہ، سيرة وسوانخ ، تاریخ ، کتب سلسله احمدیہ جو خود حضرت مسیح موعد وعلیہ الصلوۃ والسلام اور خلفاء سلسلہ کے علاوہ علمائے سلسلہ کی تقصاصات مشتمل ہیں.اور ان کے علاوہ مذاہب مختلفہ ، ہر قسم کی اخلاقی کہانیاں ، اخلاقی ناول (انگریزی، اردو) گویا ہر مذاق کے لوگوں کے لئے ایک ذخیرہ جمع کر دیا گیا.اور عام ملکی اور غیر ملکی اخبارات کے علاوہ سلسلہ کے اخبارات و رسائل موجود رہتے ہیں.ماہانہ اوسطاً ۶۰۰ افراد اس سے مستفید ہوتے ہیں.گویا ہ ہزار کے قریب افراد دارالمطالعہ میں آتے ہیں.ایک ہزار روپیہ سالانہ اس پر شریج ہوتا ہے.اور خرید ه تابعین اصحاب احمد حصد سرم صفحه ۳۰۰ - ۳۰۲ مرتبه جناب ملک صلاح الدین صاحب ایم.اسے قادیان ناشر احمدیہ بیڈ پو ریوہ له " الفضل " ۲۸ ظهور ۱۳۳۲ بیش صفحه ۶۰۴ 1941 پاکستان) طبع اول دسمبر ۱۹
کتب و اخبارات ملا کر تین ہزار سالانہ خرچ ہے.کے ۳ کام اس لائیبریر ی سے ہر طبقہ کے شوقین اور علم دوست لوگ استفادہ کرتے ہیں.اس کا باقاعدہ انتظام سکوڑی بیت المال جماعت احمدیہ یاد گیر کے سپرد ہے مستقل ممبروں کے لئے قواعد و ضوابط ہیں.برمن یہ لائیبریری اپنی طرز کی تعلقہ یاد گیر میں ایک ہی ہے اور ہر روز ترقی کرتی جاتی ہے، کیا کتابوں کے ذخیر کی وجہ سے اور کیا دار المطالعہ میں آکر استفادہ کرنے والوں کی تعداد کے لحاظ سے.یہ حسن کی ان مساعی جمیلہ میں سے ایک ہے جو اس نے اشاعت علوم اور مذہب سے دلچسپی پیدا کرنے کے لئے کی ہیں.اس قسم کی لائیبریری ہر شخص قائم نہیں کر سکتا.یہ حکومت کا کام ہے مگر حسن من جس کے دل میں ملک اور قوم کی خدمت کا بے پناہ جذبہ تھا اور جو چاہتا تھا کہ گرے ہوئے انسانو کو اٹھائے ، اُن میں علمی مذاق پیدا ہو ، ان کی معاشی حالت درست ہو اور ان کے اندر اخلاق فاضلہ پیدا ہوں.اس نے اس ضرورت کو اپنی ذاتی ضرورتوں پر مقدم کر لیا.اپنی ضروریات زندگی میں کفایت اور سادگی پیدا کر کے دوسروں کو جو اُٹھ نہ سکتے تھے اپنے اموال کو اُن کے اُٹھانے پر خرچ کر دیا.اور آج اس کے وفات پا جانے پر بھی یہ سلسلہ بدستور قائم ہے.الحمد لہ علی ذلک نے اس سال بنگال میں انتہائی ہولناک قسط رونما ہوا جس میں ہزارو بنگال اور اریبہ کے قحط زدگان کی امام رگ مردان و ترکشی بسیار اور قسم سم کے دوسرے دہائی لوگ امراض کا شکار ہو گئے معصوم اور شیر خوار بچے دودھ نہ ملنے کی وجہ سے اپنی ماؤں کی گود میں سسک سسک کر مر گئے.خاوند تنگ آکر اپنی بیویوں اور بال بچوں کو تنہا چھوڑ کر بھاگ گئے.مائیں اپنے جگر گوشوں اور بچوں کو بازاروں اور گلیوں میں آوارہ چھوڑ گئیں.کئی بیگہ والدین نے اپنی اولاد کو اپنے ہاتھوں دریا برد کر کے خود کشی کر لی.ایسے بیسیوں روح فرسا نظارے دیکھنے میں آئے کہ ماں بھوک کی وجہ سے مرچکی ہے مگر اس کا شیر خوار بچہ اس کی خشک چھاتیاں چوس رہا ہے.ان ہوشہ یا ایام میں جماعت احمدیہ کلکتہ کے امیر بنا اب شیخ دوست محمد صاحب شمس اور مبلغ کلکته مولوی خلق الرحمن صاحب بنگالی تھے.علاوہ ازیں حضرت مسیح موعود علیم المعلوۃ والسّلام کے پوتے اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے فرزند ساحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب بھی ان دونوں کلکتہ میں مقیم اور ایک معزز عہدہ پر فائز تھے.جونہی ه حیات حسن احمدی مرتبه عرفانی الکبیرات نامت و ملکه مضمون ید اعم از احمد صاحب بقیع مسلط بر مین پی اور امنیت شد عبد الفصل ۲۳ نیوت / نومبر میں متحد ہم) سے فائوڈو سے حال کی پور " ۱۳۳۲
۲۷۳۸ صوبہ میں قحط شروع ہوا.ان اصحاب نے جماعت احمدیہ کلکتہ کے دوسرے مخلص احمدیوں مثلاً میاں محمد حسین صاحب آن کینٹل موٹر ہاؤس ، میاں محمد نسین صاحب ، میاں نذر محمد صاحب ، بہار الحق صاحب ، سید ہمایوں جاہ صاحب، مولوی ظفر احمد صاحب (معتمد بقدام الاحمدیہ کلکشا کے تعاون سے قحط زدگان کو کھانا کھلانے کا کام شروع کر دیا.مگر یہ ایک مختصر اور چھوٹے پیمانہ کی کوشش تھی جس میں وسعت اس وقت ہوئی جب حضرت میر محمد اسحاق صاحب ناظر ضیافت قادیان نے ۳۱ ظہور اگست میش کو بذریعہ الفضل" کلکتہ کے احمدی دوستوں سے خطاب“ کے عنوان سے اپیل کی کہ میرا دل چاہتا ہے کہ عزیزم مرزا ظفر احمد صاحب سلمہ اللہ جو کلکتہ میں ایک معزز عہدہ پر فائز ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے پوتے ہیں جب دفتر سے فرصت پائیں سب آرام اور آسائش چھوڑ کو ڈیل روٹی اور دودھ کی بوتلیں لے کر گلیوں میں دیوانہ وار پھریں اور سڑک پر گرے ہوؤں کے پاس جاویں اور انہیں کہیں کہ میرے مقدس دادا کو اس کے پاک و برتر خدا نے حکم دیا تھا.يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ العِمُوا الْجَانِعَ وَالمُعتد یعنی اسے خدا کے نبی بھوکوں اور محتاجوں کو کھانا کھلا.میرا دادا اب اس دنیا میں نہیں اس لئے میں تمہارے پاس اس کا قائم مقام ہو کر آیا ہوں.منہ کھولو میں تمہارے مند میں دودھ ڈالوں پھر دودھ پی کر بیٹھ جاؤ میں تم کو کھانا کھلاؤں اور آؤ میرے ساتھ چلو نہیں تم کو ٹریم کار میں بٹھا کر ایسی جگہ پہنچا دوں کہ تم وہاں آرام سے زندگی بسر کر سکو.یہی خواہش میری کلکتہ کے دوسرے احمدی دوستوں سے ہے کہ وہ فرصت نکالیں.اور کھانے کی چیزیں بالخصوص دودھ ضرور لیں کیونکہ یہ ٹھوک اور پیاس دونوں کا علاج ہے.اور عالی معدہ والوں کے لئے نہایت زندگی بخش غذا ہے.وہ سڑکوں پر گھومیں اور غیر احمدیوں سے بڑھ کر ہندوؤں سے بڑھ کر ، سرکاری افسروں سے بڑھ کر ہیو اسمتی والوں سے بڑھ کر، غرض دنیا کے ہر کارکن سے بڑھ کہ محنت سے ، مشقت سے ، تکلیف سے گر شوق اور محبت سے ، بھوکوں ، قحط زدہ لوگوں ، سڑکوں پر مرنے والوں کو دودھ پلا دیں اور کھانا کھاویں اور پھر اُن کے بہترین مستقبل کا انتظام کر دیں.کیونکہ دنیا کے لوگ شہرت کے لئے یا تنخواہ کے لئے یا قومی ہمدردی سے یا طبیعی اور فطری رافت کی وجہ سے یہ کام کرتے ہیں.مگرتم فدا ہاں زندہ خدا کے لئے یہ کام کرتے ہو.پس تمہارا کام دوسروں سے بڑھ کر ہونا چاہیے ہے لے " الفضل لیوک رستش نیز " الفضل ۲۱-۲۲ تبوک استمر لسه مش صفحه ۱۳۲۳ سبق +19 بر مش حتہ کالم ۲۰۱ ۶۱۹۴۳
۴۳۹ اس اپیل پر نہ صرف کلکتہ کے احمدیوں نے اپنی امدادی سرگرمیاں تیز کر دیں بلکہ کلکتہ کے علاوہ بعض دوسرے مقامات کے احمدیوں نے بھی اُن کا ہاتھ بٹانا شروع کر دیا.چنانچہ حضرت مرزا شریف احمد صاحب اور ان کے اہلبیت اور دیگر اعزہ نے ایک گرانقدر رقم بطورچندہ بھجوائی.علاوہ ازیں متعدد اور مخلصین نے قحط زدگان کے لئے امدادی رہے رقوم دیں.اسی طرح قدام الاحمدیہ محمد آباد سندھ نے بھی مالی امداد کیاور صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب کی خاص جد و جہد کے نتیجہ میں ہر تبوک استمبر رہش سے بلا تفریق مذہب و ملت روزانہ ایک سو افراد کو کھانا کھلانے کا بندوبست ہو گیا جو کئی ہفتوں تک بھاری رہا.پاک سرکس ایریا میں صاحبزاده برنا ظفر احمد صاحب علی الصبیہ عبدا لما صاحب بہت مصلح الدین صاحب سعدی ، اور چودھری ظفر احمد صاحب کو ساتھ لے کر بھٹو کے اور شیر خوار بچوں کو تلاش نہ کر کے ان کو دُودھ تقسیم کرتے تھے.احمدی مستورات میں سے محترمہ بلقیس بیگم صاحبہ اہلیہ مہتہ عبد القادر صاحب اور اہلیہ صاحبہ چودھری انور احمد صائب کاہلوں نے خاص طور پر مصیبت زدہ مستورات اور بچوں کی دیکھ بھال کی خدمت نہایت اخلاص سے انجام دی ہیے ینگان کے علاوہ اڑیسہ کے بعض اضلاع میں بھی تحط نے بڑی تباہی مچائی اور بعض ساحلی خطوں میں لوگ دانہ دانہ کے محتاج ہو گئے.زندگی اور موت کی کشمکش سے دوچار ہو کر گھاس اور درختوں کے پتوں اور بیڑیوں پر گزارہ کر کے ہڈیوں کا ڈھانچہ بن کے رہ گئے.المیہ کے ان فلاکت زدہ لوگوں کے لئے حکومت اور عوام کی متحدہ کوششوں سے قریباً ایک درجن لنگر بنانے جاری کئے گئے.اس کارخیر میں حضرت سیٹھ عبد اللہ الہ دین صاحب (سکندر آباد دکن)، نواب احمد نواز جنگ بہادر (سکند بر آباد)، زینب حسن صاحبہ اور سکرٹری لجنہ اماءاللہ سکندر آباد نے نمایاں حصہ لیا.شد مداس یونیورسٹی کے ماتحت پرنسپل عطر آنجہانی کی لیکچھ دارای یونیوسٹی میں ظہور اسلا پر کامیاب نیچے بہار میں مرد سے ہرسال کچھ سیکو دیئے جاتے یادگار عرصہ ستہ بین کا موضوع مقصد حیات اور تاریخ عالم کا کوئی معنی خیز حصہ ہوتا تھا.اس سال یونیورسٹی کی طرف سے پر فیہ قاضی محمد اسلم صاحب زگورنمنٹ کالج لاہور) کو " ظہور اسلام" کے موضوع پر لیکچر دینے کا موقعہ دیا ۲۸ تبوک استبر رمیش کو ہوئے اور بہت کامیاب رہے.قاضی صاحب موصوف گیا.یہ لیکچھ ۲۸ -۲-۲۵- ن " الفضل مرتبوک استمبر ریش صفحه ۲ کالم له الفضل " انت اور اکتویرایش صفحه ۲ کالم ۱+ + صفحه ا کالم کا یہ ہے = ۲۶ تھوک ستمبر - صفحه ۲ نیز الفضل ما تبوک استمبر یش صفحه ۲ کالم او سے " الفضل" هوا خاد/ اکتور مش هناك : له الفضل ، تبوک ستمبر مفهوم کالم 1
۴۴۰ نے پہلے لیکچر میں صداقت اسلام کے دلائل بیان کئے.دوسرے لیکچر میں ماہرین علم النفس میں سے بعض کی ظہور اسلام سے متعلق غلط تو جیہات کا رد کیا اور تیرے لیکچر میں اقتصادی، جغرافیائی اور سہ سیاسی توجیہات کا رد پیش کر کے ثابت کیا کہ اسلام ایک عالمگیر رومانی تحریک ہے جو بنی نوع انسان کی روھانی تاریخ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے خدا تعالے کی طرف سے جاری ہوئی اور حسین کا دور ثانی ہمارے موجودہ زمانہ میں شروع ہوا.پہلے لیکچر میں مدراس یونیورسٹی کے وائس چاک ڈاکٹر کشمن سوامی عدالیا ر نے صدارت کے فرائض انجام دیئے اور دوسرے اور تیرے لیکھر کے صدر، صدر یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر مہادیوں تھے.لیکچروں میں یونیورسٹی کے مختلف شعبوں کے اساتذہ طلباء اور مدراس کے اہل علم اصحاب نیز احمدی دوست بھی شامل ہوئے اور گہری دلچسپی کا اظہار کیا ہے -> تبلیغ اسلام کے جہاد کی انی اشانی من نے اس روز ایک نہایت ایمان افر در خطبہ ارشاد فرمایا جس میں احمدیوں کو خاص تحریک اور مباحثات سے ممانعت تبلیغ الامیں دیوانہ وار نیک ہو جانے کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاد کو دعوت وتبلیغ سے وابستہ قرار دیا ہے یعنی صرف ممانعت اجتہاد کا آپ نے اعلان نہیں کیا بلکہ اس کے ساتھ ہی آپ نے اس طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ اب اسلام کی اشاعت اور اس کی ترقی کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ لوگوں کو تبلیغ کی جائے اور انہیں اسلام کی طرف کھینچا جائے چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسی ممانعت جہاد والی نظم کے خاتمہ پر فرماتے ہیں :.تم میں سے جس کو دین و دیانت سے ہے پیار اب اس کا فرض ہے کہ وہ دل کر کے استوار لوگوں کو یہ بتائے کہ وقت مسیح ہے اب جنگ اور بہاب او حرام اور قبیح ہے یعنی یہ نہیں کہ میں تم کو صرف جنگ سے روکتا ہوں بلکہ اس کے ساتھ ہی تمہیں یہ بھی کہتا ہوں کہ اسلام کی فتح کا راستہ اور ہے اور اسی راستہ پر چلانے کے لئے خدا تعالیٰ نے مجھ کو بھیجا ہے.پس میں تمہیں یہ بتاتا ہوں کہ اب تلوار کے ذریعہ تم کامیاب نہیں ہو سکتے بلکہ اگر تم دشمنوں پر فتح حاصل کرنا چاہتے ہو.تم اسلام کو دورہ سر سے تمام ادیان پر غالب اور برتر گرینگا " الفضل اور افادر اکتوبی از پیش صفحه ۲ کالم ۱ و ۲ طرف بر باد یا نسین مرادہ ہے.ہیلی کا ہو گی.اور ۲ ادارے کے ملکوں سے کیا ہو ہے ( کامل )
چاہتے ہو تو تم میری تعلیم اور میرے لائے ہوئے براہین کو لوگوں کے سامنے پیش کرو.اور پھر دیکھو کہ کس طرح اسلام دنیا پہ غالب آتا ہے.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے جہاد کی ممانعت کے ذریعہ مسلمانوں کے دلوں میں مایوسی پیدا نہیں کی بلکہ جہاد کے غلط راستہ پر پھلنے سے روک کر تبلیغ کا راستہ ان کے سامنے کھول دیا اور اس طرح ان کے دلوں میں اسلام کی فتح اور اس کی کامیابی کے متعلق ایک غیر متزلزل یقین اور ایمان پیدا کر دیا.آج زمانہ کے حالات نے بھی بتا دیا ہے.کہ اب اسلام کے احیاء اور اس کی تبلیغ و اشاعت کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ تبلیغ سے دوسرے ادیان پر فتح پانا ہے.پس ہر وہ شخص جس کے دل میں دین کا درد ہے.جو اپنے اندر سچا ایمان اور سچا اخلاص رکھتا ہے اس کا فرض ہے کہ وہ لوگوں کو بتائے کہ میسج آگیا ہے.وہ لوگوں کو یہ پیغام پہنچائے کہ اسلام کا خدا سچا خدا ہے.محمد رسول اللہ اس کے سچے رسول ہیں.اور قرآن اس کی سچی کتاب ہے تاکہ اگر کوئی شخص مقابلہ کرے تو وہ اسلام کے نشانات و معجزات کی تلوار سے کاٹا جائے اور فرشتوں کی کھینچی ہوئی تلوار اس کے سر پر پڑے.آخر ہوائی جہانہ کیوں غالب آتے ہیں اسی لئے کہ وہ اور ہوتے ہیں اور لوگ نیچے ہوتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی فرماتے ہیں.يَد العليا خير من يد الشغلی - اُوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے ہمیشہ بہتر ہوتا ہے.ہوائی جہاز چونکہ اُوپر ہوتے ہیں اور لوگ پیچھے ہوتے ہیں اس لئے وہ بمباری کر کے لوگوں کو تباہ کر دیتے ہیں لیکن مخداوند تعالیٰ کے فرشتے تو ہوائی جہازوں سے بھی اُوپر ہوتے ہیں.پس جب کوئی خدا تعالیٰ کے مبین کا مقابلہ کرتا ہے تو آسمان کی بلندیوں سے اس پر گولے برسائے بھاتے ہیں اور کسی شخص کی طاقت میں نہیں ہوتا کہ ان کا مقابلہ کر سکے کیونکہ ہوائی جہاز بھی نیچے رہ بھاتے ہیں اور دوسرے لوگ بھی نیچے رہ جاتے ہیں مگر فرشتے اوپر سے ان پر گولے برساتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ نے موجودہ زمانہ کے حالات کے ذریعہ نہیں بتا دیا ہے کہ اسلحہ کے ذریعہ دشمنوں کا کبھی مقابلہ نہیں کیا جا سکتا.دیجائی طاقتوں کے کھلنے اور اسلام کو غالب کرنے کا ایک یہی ذریعہ ہے کہ ہر شخص تبلیغ میں منہمک ہو جائے اور لوگوں تک خدا تعالے کی وہ آواز پہنچائے جو اس کے کانوں میں پڑی اور جسے قبول کرنے کی اُسے سعادت حاصل ہوئی.یہ ایسا
ذریعہ ہے کہ انسان بعض وقعہ یہ محسوس کرتا ہے کہ یہ تلوار دوسرے کی بجائے وہ خود اپنے اوپر پھیلا رہا ہے.وہ تبلیغ کرتا ہے اور مہینوں نہیں سالوں تبلیغ کرتا چلا جاتا ہے مگر اس کا اثر کوئی نہیں دیکھتا.لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ یہ تلوار بے حقیقت ہے یا تبلیغ اپنے اندر کوئی اثر نہیں رکھتی.کیونکہ اس کے ساتھ ہی ہمیں یہ بھی نظارہ نظر آتا ہے کہ ایک مدت کے بعد جب تبلیغ کا اثر ہونے لگتا ہے تو لوگ یوں جوق در جوق حق کو قبول کرنے لگ جاتے ہیں کہ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے دریا نے بڑی تیزی سے کناروں کو گرانا شروع کر دیا ہے.غلطی یہ ہے کہ صحیح طور پر تبلیغ نہیں کی جاتی اور استقلال سے تبلیغ نہیں کی بھاتی.رسول کریم صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تیرہ سال تبلیغ کی مگر مگر میں صرف اتنی آدمیوں نے آپ کو قبول کیا.اس کے بعد آپ مدینہ تشریف لے گئے تو پانچویں سال کے آخر میں ہی قوموں کی قو میں، علاقوں کے علاقے اور قبیلوں کے قبیلے اسلام میں داخل ہونے لگ گئے اور وہ آپ کے پاؤں پر عقیدت کے d پھول نچھاور کرنے لگے.غرض اس جنگ نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ اس زمانہ میں جہاد کا رستہ بند ہے تو تبلیغ کا رستہ پہلے سے زیادہ کھلا ہوا ہے.میں نے جو کہا ہے کہ اس زمانہ میں تبلیغ کا رستہ پہلے سے زیادہ کھلا ہوا ہے تو اس کی میرے پاس دلیل بھی موجود ہے.اللہ تعالے قرآن کریم میں فرماتا ہے وَ إِذَا الْجَنَّةُ از لغت کہ آخری زمانہ میں جنت قریب کر دی جائے گی جس کے معنی یہ ہیں کہ تبلیغ کا راستہ پہلے کی نسبت زیادہ کھل جائے گا کیونکہ جنت تبھی قریب ہو سکتی ہے جب بغیر کسی خاص مشقت کے جنت میں داخل ہونے کے سامان میستر آبھائیں.چنانچہ موجودہ زمانہ میں ایسے ہی حالات پیدا ہو چکے ہیں کہ اب لوگوں کے دل خود بخود موجودہ دینوں سے متنفر ہو رہے ہیں سیس طرح یورپین لوگوں کے دل ایشیائیوں کی حقارت سے پر ہیں اسی طرح اُن کے دل اپنے مذہب کی تحقیر سے بھی لبریز ہیں.پین اگر ایک طرف وہ سہارا مٹی کا گھر توڑنے کی فکر میں ہیں تو دوسری طرف وہ اپنے روحانی گھر کو بھی توڑ رہے ہیں.پس یہ کیسا ہی اچھا موقعہ ہے کہ جب وہ ہمارے مٹی کے گھر کو توڑ رہے ہوں ہم انہیں تبلیغ کے ذریعہ اپنے روحانی گھر میں لے آئیں.اس کے بعد خانہ واحد کا معام ہو جائے گا اور ہمارا نقصان ان کا نقصان اور ہمارا فائدہ اُن کا فائدہ ہو جائے گا.غرض یہ ایک ایسی آنکھیں کھولنے والی بات ہے کہ اگر اس کو دیکھتے ہوے بھی کسی شخص کے دل میں تبلیغ کے متعلق ے بھی جہاد السيف زيا قبل )
۲۴۳ بیداری پیدا نہ ہو اور وہ یہ عہد رسمیم کر کے نہ اُٹھے کہ میں ارد گرد کے رہنے والوں کو اور اپنے ہمسائیوں کو اور جہاں جہاں میں پہنچ سکتا ہوں وہاں تک رہنے والوں کو اسلام کی تبلیغ کروں گا تو اس سے زیادہ بد قسمت انسان اور کوئی نہیں ہو سکتا.آج اسلام کی ترقی کے لئے چاروں طرف تلوار کا راستہ بند ہے اور مسدود ہو چکا ہے.اسلام کی ترقی کے لئے بندوق کا راستہ بند اور مسدود ہو چکا ہے.اسلام کی ترقی کے لئے توپ کا راستہ بند اور مسدود ہو چکا ہے.اسلام کی ترقی کے لئے جہازوں ہوائی جہازوں کا اتہ بند اور مسدود ہو چکا ہے.ایک یا ابو محمد و ال صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ نے اپنے خون کو بہا کر قائم کیا تھا آج مسمار ہوتا نظر آرہا ہے اور تلواروں ، بندوقوں ، تو پوں اور ہوائی جہازوں سے اُن قلعوں کو محفوظ رکھنے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا.لیکن اسی دنیا کے پردے پہ ایک احمدیہ جماعت ایسی ہے جو اپنے دل میں یقین اور ایمان رکھتی ہے کہ توپوں کے ذریعہ سے نہیں، تلواروں کے ذریعہ سے نہیں ، بندوقوں کے ذریعہ سے نہیں ، ہوائی جہازوں کے ذریعہ سے نہیں بلکہ تبلیغ اور تعلیم اور وعظ و نصیحت کے ذریعہ سے پھر دوبارہ ان گرتے ہوئے قلعوں کی تعمیر کی جائے گی.پھر دوبارہ اسلام کے احیاء کی کوشش کی جائے گی.پھر دوبارہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کو کسی چوٹی پر نہیں، کسی پہاڑ پر نہیں، کسی قلعہ پر نہیں بلکہ دنیا کے قلوب پر گاڑا جائے گا.اور اس میں کیا شبہ ہے کہ دلوں پر گاڑا ہوا جھنڈا اس جھنڈے سے بہت زیادہ بلند اور بہت زیادہ مضبوط اور بہت زیادہ پائیدار ہوتا ہے، جسے کسی پہاڑ کی چوٹی یا قلعہ پر گاڑ دیا جائے.پس آج اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ تبلیغ میں لگ جائے.بیت اور غیر احمدیوں کو بھی تلقین کرے کہ وہ دوسرے مذاہب والوں کو تبلیغ کیا کریں.کیونکہ گو اتحاد اور عام مسلمانوں کے عقائد میں بہت بڑا فرق ہے.مگر پھر بھی مشترکہ مسائل ایسے ہیں جن میں ہمارا اور اُن کا یکساں عقیدہ ہے.پس اگر غیر احمدی بھی تبلیغ کرنے لگ جائیں اور وہ غیر مذاہب والوں کو داخل اسلام کریں تو گو وہ حقیقی اسلام سے پھر بھی دور ہوں گے مگر بہار نقطہ نگاہ سے وہ پہلے کی نسبت اسلام سے بہت زیادہ قریب ہو جائیں گے.آخر ہر جگہ ہم بہت روؤں میں تبلیغ نہیں کر سکتے.بہر جگہ ہم سکھوں میں تبلیغ نہیں کر سکتے.ہر جگہ ہم چینیوں میں تبلیغ نہیں کر سکتے.ہر جگہ ہم
زرکشہ یوں میں تبلیغ نہیں کر سکتے ہر جگہ ہم بدھوں میں تبلیغ نہیں کر سکتے.بلکہ سینکڑوں ایسے مقامات ہیں جہاں ایک بھی احمدی نہیں.پس اگر ہم ہی تبلیغ کریں تو ایک وسیع میدان تبلیغ سے خالی پڑا رہ ہیگا لیکن اگر ہم ہر غیر احمد کو سمجھانے کی کوشش کریں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب جہاد سے منع کیا تھا تو اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ تم اپنے ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھ جاؤ.اور اسلام کی ترقی کے لئے کوئی کوشش نہ کرو.بلکہ اس کا مطلب یہ تھا کہ محمد صل اللہ علیہ آلہ وسلم کے لائے ہوئے دین کو بجائے تلوار کے ذریعہ پھیلانے کے دلائل و براہین اور تبلیغ کے ذریعہ پھیلاؤ.اور اس لحاظ سے اب تمہارا بھی فرض ہے کہ تم یہی ہتھیار لے کر گھر سے نکلو اور ہر غیرمسلم کو تبلیغ کے ذریعہ اسلام میں داخل کرنے کی کوشش کرو.تو اس کے بعد تہجو لوگ ان غیر احمدیوں کے بعد اسلام میں داخل ہوں گے..وہ حقیقی اسلام کے پہلے کی نسبت بہت زیادہ قریب ہو جائیں گے.پس صرف خود ہی تبلیغ نہ کرو بلکہ ہر غیر احمدی کو جو تمہیں ملتا ہے سمجھاؤ اور اُسے بتاؤ کہ آج اسلام کی ترقی کا صرف یہی ایک حربہ رہ گیا ہے اس کے سوا اور کوئی ذریعہ اسلام کی ترقی کا انہیں جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ تم میں سے جسے دین سے پیار ہے جسے دیانت سے پیار ہے جس کے اندر اور ایمان اور نور اخلاص پایا جاتا ہے اب اُس کا فرض ہے کہ وہ اپنے دل کو استوار کر کے لوگوں کو یہ بتائے کہ وقت میں ہے اب جنگ اور جہاد حرام اور قبیح ہے اب اس کا یہی فرض ہے کہ وہ اپنے آپ کو تبلیغ کے لئے وقعت کر دے اور لوگوں کو بتائے که یه وقت مسیح ہے.جنگ و جدل کا زمانہ گزر گیا.اب تلوار کا زمانہ نہیں بلکہ تبلیغ کا زمانہ ہے پس ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ دن کو بھی تبلیغ کرے اور رات کو بھی تبلیغ کرے.صبح کو بھی تبلیغ کرے اور شام کو بھی تبلیغ کرے.اور جب عملی رنگ میں تبلیغ نہ کر رہا ہو تو دماغی رنگ میں تبلیغ کے ذرائع پر غور کرتا رہے.گویا اس کا کوئی وقت تبلیغ سے فارغ نہ ہو اور وہ رات اور دن اسی کام میں مصروف رہے " کہ له الفضل قادیان ۱۲ اضاد اکتوبرش صفحه 4- به الله التي جهاد بالسيف و ناقل) ۱۱۹۴۳
۵ م م اس ارشاد کے ساتھ ہی حضور نے بحث و مباحثہ کو پوری قوت سے کچل ڈالنے کی بھی ہدایت کی چنانچہ فرمایا.یاد رکھو تبلیغ وہی ہے جو حقیقی معنوں میں تبلیغ ہو بحث مباحثہ کا نام تبلیغ نہیں.میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ جس طرح تم اس سانپ کے مارنے کی فکر میں لگ جاتے ہو.جو تمہارے گھر میں نکلے.اسی طرح اگر تمہارے دلوں میں نور ایمان پا یا جاتا ہے تو تم بحث مباحثہ کو اسی طرح کچل دو یہیں طرح شنا کا سر کھیلا جاتا ہے.جب تک تم میں بحث و مباحثہ رہے گا.اس وقت تک تمہاری تبلیغ بالکل محدود رہے گی اور تمہارا میشن ناکام رہے گا.اگر تم اپنی تبلیغ کو وسیع کرنا چاہتے ہو.اگر تم اپنے مشن میں کامیاب ہونا چاہتے ہو تو تم بحث مباحثہ کو ترک کر دور جس دن تبلیغ کے لئے صحیح معنوں میں نکلو گے اور اپنے دلوں میں لوگوں کے لئے درد اور سوز بھر کر اُن تک پہنچو گے وہی دن تمہاری کامیابی کا دن ہوگا اور اسی دن تم صحیح معنوں میں تبلیغ کرنے والے قرار پا سکو گے.تمہارا کام یہ ہے کہ تمہارے سامنے خدا تعالیٰ نے جو راستہ کھو لا ہے اس پر میل پڑو اور اپنے دائیں بائیں مت دیکھو کہ مومن تجب ایک صحیح راستہ پر پل پڑتا ہے تو اپنے ایمان اور اخلاص کے لحاظ سے وہ کسی اور طرف دیکھنے سے اندھا ہو جاتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ میرا کام یہی ہے کہ میں اس راستہ پر چلتا چلا جاؤں اور درمیان میں آنے والی کسی روک کی پروا نہ کروں.وہ بہادر اور نڈر ہو کر سچائی دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے اور بحث مباحثہ کو ترک کر دیتا ہے میرے پاس ایک دفعہ ایک انگریز آیا اور مجھے کہنے لگا.آپ کس طرح کہتے ہیں کہ اسلام سچا مذہب ہے.میں نے اُسے اسلام کی سچائی کے متعلق کئی دلائل بتائے.مگر ہر دلیل جب میں پیش کرتا وہ اس کے مقابلہ میں انجیل کی کوئی آیت پڑھ دیتا اور کہتا.آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں.انجیل میں تو یہ لکھا ہے.میں نے اُسے کئی دلائل دیئے.مگر جب بھی کوئی دلیل دوں وہ ایسے رحم کے ساتھ کہ گویا میں پاگل ہو گیا ہوں ، میری طرف دیکھتا تھا اور کہتا تھا.آپ کو یہ غلطی لگی ہے انجیل میں تو یہ لکھا ہے.میں نے اس وقت اپنے دل میں کہا کہ گو یہ ایک غلط راستہ پر ہی ہے مگر اپنے غلط مذہب سے ایسا اخلاص رکھتا ہے جو قابل رشک ہے.اگر وہ عیسائی ایک منسوخ اور غلط کتاب پر اتنا یقین رکھتا تھا کہ اس کے مقابلہ میں وہ کسی دلیل کو سُننے کے لئے تیار نہیں تھا.تو کیا ہم سچی کتاب اپنے پاس رکھتے ہوئے یہ پسند کر سکتے ہیں کہ ہم عقلی بحثوں میں پڑے ہیں اور اس
کے دلائل لوگوں کے سامنے پیش نہ کریں.لیکن مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم میں سے بعض کی یہ حالت ہے کہ وہ سچی کتاب اپنے پاس رکھتے ہوئے عقلی بحثوں میں پڑھاتے ہیں.اور درد ست اور سوز کے ساتھ تبلیغ کرنے سے کتراتے ہیں.حالانکہ سجاد عونی خود اپنی ذات میں ایسا ز نبود اثر رکھنے والا ہوتا ہے کہ اگر اس کے ساتھ کوئی دلیل نہ ہو تو اس کا صرف تکرار ہی لوگوں پر اثر ڈالے کے لئے کافی ہوتا ہے.تم اگر توحید کے دلائل پیش نہ کرو اور صرف اتنا ہی کہنا شروع کر دو کہ خدا ایک ہے.اس کی نافرمانی کرتا اور اس کے مقابلہ میں بتوں کو کھڑا کرنا اچھی بات نہیں.تو گو اس دعوئی کے ساتھ کوئی دلیل نہ ہو.چونکہ یہ ایک صداقت ہے اور صداقت خود اپنی ذات میں ایک شہادت رکھتی ہے.اس لئے یہی بات دل پر اثر کر جائے گی اور دوسرا شخص متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے گا.پس بحث مباحثہ کو ترک کر دو کہ اس کا نتیجہ اچھا نہیں نکلتا.بحث مباحثہ میں انسان کبھی مذاق کر بیٹھتا ہے.کبھی چبھتا ہوا کوئی فقرہ کہ دیتا ہے کبھی کسی بات پر اعتراض کر دیتا ہے.اور اس طرح بحث مباحثہ بجائے ہدایت دینے کے دوسرے کے دل کو اور بھی زیادہ سخت کر دیتا ہے اور تمہارا اپنا ایمان بھی اس کے نتیجہ میں کمزور ہو جاتا ہے.کیونکہ جب تم مذاق کرتے ہو یا کوئی چبھتا ہوا نقرہ کہہ دیتے ہو تو تمہارے اپنے دل پر بھی زنگ لگ جاتا ہے اور تمہارا ایمان کمزور ہو جاتا ہے.جب تک تم یہ تبدیلی اپنے اندر نہیں کرتے.اس وقت تک تم تبلیغ کے کبھی صحیح نتائج نہیں دیکھ سکتے.پس بحث مباحثہ کا سر کچلو اور تبلیغ کی تلوار لے کر کھڑے ہو جاؤ حضرت امیرالمومنین کی خفگی ایک غیر اسلامی ۱۲۷ اختار اکتوبر کو مجلس خدام الاحمدیہ کے پانچویں مرکزی سالانہ اجتماع کا تیسرا دن تھا.اس روز حضرت امیرالمومنین حرکت پر اور مجلس خدام الاحمدی ریز الیون سینه ای اشانی و مقام اجتماع ودار الشکر کے شمالی میدان میں بارہ بج کر پانچ منٹ پر تشریف لائے.اور کبڈی کا فائنل میچ شروع ہوا.میچ کے دوران میں بعض نا ترمیمیت یافتہ خدام اور اطفال نے تالیاں بجائیں جس پر حضور نے میچ بند کرا دیا اور فرمایا.چونکہ اسلامی تعلیم کے خلاف عمل کیا گیا ہے اس لئے جلسہ پر خواست کیا جاتا ہے.یہ کہ کر حضور اسی وقت واپس تشریف لے گئے.اور ساڑھے چار بجے "الفضل قادیان دار اتحاد بر اکتوبر سایه بیش صفحه ۸ کالم مرا
پیغام بھیجا کہ خدام قصر خلافت میں آجائیں تو میں ملاقات کر لوں گا.پانچ بجے مقدام تنظیم کے ساتھ قصر خلافت میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضور نے شرف مصافحہ بخشا.خدام پھر اپنے کیمپ میں کوٹے اور آٹھ بجے کے قریب اجتماع کی بقیہ کارروائی اختتام پذیر ہوئی.ہے چونکہ یہ نازیبا اور غیر اسلامی حرکت حضرت خلیفہ اسیح الثانی بند کی شدید خفگی کا موجب تھی اور اس کی اولین ذمہ داری مجلس عاملہ مرکزیہ اور قائدین وزعماء مجلس پر عائد ہوتی تھی.اس لئے مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے فوراً ایک اجلاس خصوصی منعقد کیا جس میں حسب ذیل قرار داد پاس کی :- ہم میں سے بعض نا تربیت یافتہ خدام و اطفال کی طرف سے ایک آداب اسلامی کے خلاف سر زد ہونے والی حرکت کے باعث سید نا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہم سے ناراض ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک کے تاریخی حالات سے ثابت ہے کہ جب بعض اوقات حضور کے بعض صحابہ کرام کی طرف سے کوئی ایسی غلطی سرزد ہو گئی جس کا نتیجہ حضور علیہ السلام کی ناراضگی ہو تو اُن اصحاب رسولی نے اس لغزش کی پاداش میں اپنے پر کوئی سزا وارد کرلی.جو سزا اُن کی توبہ اور اصلاح کا موجب ہوئی.صحابہ کرام کا اسوہ حسنہ ہم نوجوانان احمدیت کے لئے مشعل راہ ہے، چنانچہ اس اسوہ کی روشنی میں مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کا یہ اجلاس قرار دیتا ہے کہ چونکہ اس کی اولین ذمہ داری مجلس عاملہ مرکزیہ اور قائدین وزعمار پہ ہے.اس لئے وہ سب پانچ روزے رکھیں.روزہ ہر اتوار کے روز رکھا بھائے.دیگر اراکین تین روزے رکھیں اور اس حرکت کے تصو دار خدام کے لئے یہ اضافہ ہے کہ علاوہ تین روزوں کے وہ پہلے روزہ میں اعتکاف بیٹھیں اور ہفتہ کی مغرب (۳۰ اخار) سے اتوار کی مغرب تک وقت مسجد میں گزاریں.روزوں میں سب خدام غدا تعالیٰ کے حضور پوری توجہ اور الحاج کے ساتھ استغفار کریں.یہ اجلاس قرار دیتا ہے کہ اس ریزولیشن کی تعمیل ہر مقام کی ہر مجلس کے ہر خادم کے لئے لازمی اور ضروری ہے اور جملہ قائدین ، زعماء اور قصور وار دام انفرادی طور تحمیل کے بعد دفتر مرکزیہ کو رپورٹ کریں.قرار پایا کہ اس قرارداد کی نقول حضرت امیر المومنین ایده الله بنصرہ العزیز صدر تحلیل انصار اللہ اور الفضل" کو بھجوائی جائیں " سے الفضل» ۲۶ اخا / اکتوبرش صفحه ۴ : هر فصل در خاور اکتوبرش صفحه
فصل چهارم کچھ عرصہ (خصوصا پر پیش کے آغاز سے حضرت حضرت امیرالمومنین کی ایک اہم صحت نیا سی ان ان کی سمت بعد عالمی کم کرنے اور دوسری علمی مصروفیات میں دن رات منہمک رہنے کی وجہ سے گرتی جارہی تھی اور حالت یہ ہو گئی تھی کہ مہینہ میں ایک دن ایسا آتا تھا جس میں حضور اپنے تئیں تندرست کہہ سکتے تھے اور پندرہ بیس دن ایسے ہوتے تھے کہ جونیم بیماری اور نیم تندرستی کے دن کہلا سکتے تھے.اور یہ علالت در اصل تفسیر کبیر جلد سوم کے زمانہ کی محنت شاقہ کا طبعی رد عمل تھی جیسا کہ حضور نے ہر ثبوت / نومبر ہش کے خطبہ جمعہ میں خود بتایا کہ " تفسیر کبیر کا جو کام نلہ میں میں نے کیا اور جس میں راتوں کو بعض اوقات تین تین چار چار بجے تک کام کرنا پڑتا.اس میں روزانہ ۱۷ - ۱۸ گھنٹے کام کرنے کا عمل میری جد و جہد والی زندگی کا آخری دور سیاست ہوا.اور اس کے بعد قومی مضمحل ہو گئے ".پہلے نقرس کا عارضہ تھا.پھر ایگزیما ، کھانسی اور نزلہ کے عوارض بھی لاحق ہو گئے.عمر مبارک بھی چون سال تک پہنچ گئی.مگر احمدی دوستوں خصوصاً قادیان کے احباب کو ابھی تک یہ احساس نہ ہو سکا کہ اعلانات نکاری اور ولیمہ کی دعوتوں میں حضور کا وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے.آخر با دای ناخواستہ حضور کو خود ہی اعلان کرنا پڑا.کہ میں ایک سال تک نہ کوئی نکاح پڑھاؤں گا اور نہ کسی دعوت میں شریک ہوں گا.مگر بعض دوستوں کی طرت سے کہا جانے لگا کہ ہم استفاد کے طور پر اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں.اور اعلان کے بعد استشنیٰ کے طور پر بیس پچیں نکاح پڑھانے اور دس پندرہ دعوتوں میں شریک ہونے کی درخواستیں آگئیں.اور اس طرح بعض دوستوں نے بیماری میں بھی اپنے آقا پر زائد بوجھ ڈالنے سے گریز نہیں کیا.ان حالات میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی رض کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہ رہا کہ پوری جماعت کے سامنے صورت حال رکھ دیں.چنانچہ اسی مقصد کے پیش نظر حضور نے ھر نبوت / نومبر کی ایک خاص اور اہم پہ اللہ خطی جمیعہ ارشاد فرمایا.جس میں اپنی خرابی صحت کی کیفیت پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ سة الفضل " نبوت / نومبر رش صفحه.به بیش + له ایضاً ایضاً صفحه ۲-۳ ( خطبه جمعه حضرت خلیفہ اسیح الثانی رض.
۴۴۹ ہ تم سے بہت زیادہ مخلص رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ میں گذرے ہیں اور مجھ سے بے انتہار شان کا زیادہ آدمی اُن میں موجود تھا.مگر اُن کے اخلاص کا یہ رنگ نہ تھا اور نہ وہ لوگ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم سے اس قربانی کا مطالبہ کرتے تھے جس کا مجھ سے کیا جاتا ہے.میکس اسے اخلاص نہیں بلکہ عدم علم اور دین کی نا واقفیت سمجھتا ہوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پڑھے ہوئے نکاح بہت ہی محدود ہیں.مگر اب میں دیکھتا ہوں کہ ذہنیت یہ ہو رہی ہے کہ اسلام زندہ رہے یا مرے ، اسلامی علوم پر کتابیں لکھی جا سکیں یا نہ لکھی جاسکیں مگر یہ ضروری ہے کہ ہمارا نکاح خلیفہ پڑھے....خواد کتنا ضروری کام کیوں نہ ہو ، خلیفہ کی صحت اجازت دے یا نہ دے ، خوابی صحت کی وجہ سے اس کی عمر ۱۰ سال کم ہوتی ہے تو ہو جائے مگر یہ ضروری ہے کہ اُسے ولیمہ کی دعوت میں آنا چاہئیے.ایک وقت تک میں نے اس بات کو برداشت بھی کیا جبکہ میرا ایسا کرنا اسلام کی خدمت کے راستہ میں روک نہ بن سکتا تھا.مگر اب میری صحت ایسی نہیں رہی کہ سوائے اس کام کے جو خدمت اسلام کا میرے ذمہ ہے یا کسی ایسے کام کے ہو صحت کو درست کرنے والا ہو کوئی اور کام کر سکوں.اگر میں ایسا کروں تو اس کے معنی یہ ہونگے کہ میں اس کے لئے اسلام کے کام کو قربان کروں اور اس کے لئے میں تیار نہیں ہوں.مجھ سے جب بھی صحت کے متعلق کوئی سوال کرتا ہے تو...تین جواب ہی میں دے سکتا ہوں.یا کہوں گا اچھا ہوں یا بیمار ہوں اور یا یہ کہ نیم بیمار اور نیم تندرست ہوں.مگر جب میں کہتا ہوں کہ اچھا ہوں تو اس کے معنے یہی ہوتے ہیں جیسے چراغ سحری ٹمٹماتا ہے.اگر ایک دن بیچ میں حالت اچھی ہو جاتی ہے تو اس کے معنی یہ نہیں کہ میں تندرست ہو گیا ہوں.مُردہ بھی تو مرنے سے پہلے سانس لے لیتا ہے اور تجربہ بتاتا ہے کہ اگر ایک دن طبیعت اچھی رہتی ہے تو دوسرے دن پھر خراب ہو جاتی ہے.مومن کا کام ہے کہ ایک دن کے لئے بھی تکلیف میں کمی ہو.تو کہے الحمد للہ اچھا ہوں.مگر حالت یہ ہے کہ ایک دوست آتے ہیں.پوچھتے ہیں.کیا حال ہے.میں کہہ دیتا ہوں الحمد للہ اچھا ہوں.تو وہ جھٹ کہہ دیں گے اچھا پھر شام کو دعوت ہمارے ہاں ہے.یا اگر میری حالت کچھ اچھی ہے تو میں کہتا ہوں.الحمد للہ پہلے سے اچھا ہوں.تو وہ کہیں گے.اللہ تعالے فضل کرے گا کل تک بالکل صحت ہو جائے گی اور کل دوپہر ہمارے ہاں آپ دعوت قبول فرمائیں.
۴۵۰ ایک حصہ دوستوں کا بے شک ایسا ہے کہ اگر میں بیمار ہوں اور کہوں کہ بیمار ہوں تو افسردگی کا اظہار کر کے خاموش ہو جاتا ہے.مگر ایک حصہ تو ایسا ہے کہ جب میں کہوں، لیکن بیمار ہوں تو کہتے ہیں کہ کوئی ہرج نہیں ہم سواری کا انتظام کر کے لے چلیں گے اور آپ کو ہر گز کوئی تکلیف نہ ہوگی.گویادہ اپنی دعوت کو نماز سے بھی زیادہ ضروری سمجھتے ہیں.میں بعض اوقات کہتا ہوں کہ نماز تو مجھے ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ نے مسجد میں جا کر ادا کرنا معاف کر دیا ہے مگر آپ کی دعوت معاف نہیں ہو سکتی ہے یہ تمام تفصیلات بیان کرنے کے بعد فرمایا :- پس میں جماعت کے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ابھی اسلام کے بہت سے کام کرنے والے ہیں.....حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے بہت سے صحابہ فوت ہو چکے ہیں.اب بہت تھوڑے بہاتی ہیں.اور اُن میں سے بھی وہ جن کو حضور علیہ السلام کی صحبت نصیب ہوئی اور جن کو حضور علیہ السلام کی دعاؤں کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم، حدیث اور اسلامی علوم عطا کئے وہ تو اب بہت ہی تھوڑے ہیں.مخالفین نے اسلام کے ہر پہلو پر اور نئے نئے رنگ میں اعتراضات کئے ہیں.اس لئے ضرورت ہے کہ اسلام کے تمام پہلوؤں پر نئے سرے سے روشنی ڈالی جائے.ورنہ خطرہ ہے کہ پھر وہی گمراہی دنیا میں نہ پھیل بھائے جیسے دُور کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسّلام دنیا میں تشریف لائے.پیس ان کاموں سے جو دوست مجھ سے ہی کروانا ضروری سمجھتے ہیں ، بہت بڑا کام باقی ہے اور شاید اس کام کا ابھی چوتھا حصہ بھی مکمل نہیں ہوا.اور ضرورت ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے دعائیں کریں کہ اللہ تعالے ہمیں اس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم میں سے جو لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسّلام کے صحبت یافتہ ہیں اور جنہوں نے حضور کی دعاؤں سے حصہ وافر پایا ہے یا جن پر آپ کا علم بذریعہ الہام اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے، اُن کی موجودگی میں یہ کام مکمل کر سکیں تا آئندہ صدیاں اسلام سے قریب تر ہوں ، دور تر نہ ہوں.یہ اس کام کے کرنے کا زمانہ ہے.مگر موجودہ حالت یہ ہے کہ میں اس سال کا اکثر حصہ بیمار رہا ہوں اور کوئی کام نہیں کر سکا لیٹے لیٹے ڈاک دیکھ لی یا بعض خطوط کے جواب نوٹ کرا دیئے تو یہ کوئی کام نہیں ہے.اصل کام اسلام کی اس روشنی میں تو ضیح و تشریح له ۱۴ " الفضل" در نبوت / نومبر ۳۲۳ مه سبق صفحه ۲ :
۴۵۱ ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ نازل فرمائی اور یہ میں اس سال خطبات میں بھی بیان نہیں کر سکا.سال میں کچھ ماہ میں بیمار رہا ہوں اور کچھ ماہ نیم بیمار.گویا آدھا وقت تو یوں ضائع ہو گیا.اور اب تو صحت بھی ایسی ہوتی ہے کہ پورا کام نہیں ہو سکتا.پہلے جہاں ۱۷ - ۱۸ گھنٹے کام کر لیتا تھا.اب کچھ سات گھنٹے بھی نہیں کر سکتا.اور اس طرح سال کے تین ماہ ہی رہ جاتے ہیں.اور وہ بھی نیم بیمار کے.اور اس قلیل وقت میں سے بھی اگر اور ضائع ہو.تو کام کی کیا صورت ہو سکتی ہے.اچھی طرح یاد رکھو کہ اسلام پر ایسا دور آنے والا ہے جب اسلام کفر سے آخری ٹکر لے گا.اور یہ زمانہ ان سامانوں کے جمع کرنے کا ہے جن سے عیسائیت اور دوسرے مذاہب کو پاش پاش کر دیا جائے.اگر یہ سامان جمع نہ ہوئے تو لڑائی کا یہ پہلو نمایاں طور پر کمزور رہ جائیگا.گو اللہ تعالے معجزانہ فتح دے دے تو اور بات ہے.پس اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ جس جس کو اللہ تعالٰی نے اپنے کلام کی جتنی جتنی سمجھ دی ہے.اس کے مطابق اسلامی علوم کو محفوظ کر دیا جائے.ورنہ جو جو لغویات اسلام کی طرف منسوب کی گئی ہیں.ان سے بہت زیادہ گرامی پھیلنے کا اندیشہ ہے اور آنے والی نسلیں اس صداقت سے محروم رہ جائیں گی جو حضرت مسیح موعود عليه الصلوة والسلام نے ظاہر کی ہے.پس میں پھر ایک دفعہ احباب جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ اب یہ حالت ہے کہ میرا نصف سے زیادہ وقت بیماری میں صنائع ہو جاتا ہے اور جو نصف وقت رہتا ہے اس میں کمزوری کی وجہ سے زیادہ کام نہیں کر سکتا.اس لئے دوستوں کو چاہیے کہ ان باتوں میں عقل و خرد سے کام لیں اور اسلام سے محبت کا ثبوت دیں اور میرے وقت کو خواہ مخواہ ضائع ہونے سے بچائیں.ورنہ یہ مت سمجھیں کہ یہ باتیں برکت دینے والی ہیں.ایسی باتیں برکت دینے والی نہیں بلکہ اللہ تعالنے کی ناراضگی کا موجب ہو جایا کرتی ہیں.یہ میرے ساتھ محبت کا اظہار نہیں بلکہ تکلیف دینے والی باتیں ہیں" ہے لمومنین کیلو سے سلامیہ کی تاریخ سلسلہ احمدیہ کے پہلے مورخ حضرت شیخ یعقوب علی منصات " عرفانی نے گر شیار" الحکم اور متعدد تالیفات کے ذریعہ محفوظ کرنے والے تین بزرگوں کی خراج تحسین سے تاریخ احمدیت محفوظ کرنے کا عظیم کارنامہ انجام دیا تو "الفضل قادیان ۱۴ نبوت / نومبر صفحه ۳ به
۴۵۲ حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو اخبار "بدر" کے مدیر کی حیثیت سے اس عہد مقدس کے حالات محفوظ کرنے کا شرف حاصل ہوا.علاوہ ازیں حضرت مفتی صاحب نے دسمبر میں ذکر جیب کے نام سے ۲۴۰ صلوات پرمشتمل ایک نہایت ایمان افروز کتاب شائع فرمائی جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مبارک زمانہ کے اہم واقعات درج کئے جو سلسلہ احمدیہ کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں.ماه نبوت نومبر اہ مہش کا ذکر ہے کہ سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی رضا کی خدمت میں یہ اطلاع ۶۱۹۴۳ پہنچی کہ کسی نوجوان سے ایک مجلس میں یہ سوال کیا گیا کہ کتاب " ذکر حبیب کے بارہ میں اُس کی کیا رائے ہے، اور حضرت مفتی صاحب کو ایک مورخ کی حیثیت سے وہ کیا سمجھتا ہے ؟ اس پر اس نے جواب دیا کہ میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو ایک مؤرخ کی حیثیت سے سند نہیں مانتا.اُن کا حافظہ اس قسم کا نہیں کہ کسی کے سوانح لکھنے کے وہ قابل ہوں بے حضرت خلیفہ ایسیح الثانی رض نے 9 ارنبوت / نومبر پر پیش کو ایک مفصل خطبہ جمعہ میں اس حرکت پر سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے حضرت مفتی محمد صادق صاحب احضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی اور حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی رنہ کو اس عظیم خدمت پر خراج تحسین ادا کیا کہ انہوں نے سلسلہ احمدیہ کی تاریخ محفوظ کرکے جماعت احمدیہ پر بہت بڑا احسان کیا ہے.چنانچہ حضور نے فرمایا :- اس وقت صرف چند لوگ ایسے ہیں جن کے ذریعہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے نسان کی باتیں مل سکتی ہیں مفتی صاحب میں شیخ یعقوب علی صاحب ہیں.بڑے بڑے تو یہی ہیں.جو ایڈیٹر بھی تھے اور جن کو کثرت سے آپ کی باتیں سننے کا موقعہ ملا تیسرے پیر سراج الحق صاحب مرحوم تھے.ان کو بھی خوب باتیں یاد تھیں مفتی صاحب اور شیخ یعقوب علی صاحب بدر اور الحکم کے ایڈیٹر تھے.اور مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اُن پر بعض دفعہ ناراضگی کا اظہار بھی فرمایا کرتے تھے.آپ فرماتے تھے کہ یہ تو ہمارے لئے اس طرح ہیں جس طرح مردہ کے لئے منکر نکیر ہوتے ہیں.ہم یونہی بات کرتے ہیں اور یہ چھاپ دیتے ہیں اور دشمن پیچھے پڑ جاتے ہیں.مگر با وجود اس کے آپ اُن کی بہت قدر کرتے تھے مفتی صاحب کو تو آپ اپنے خاص صحابہ میں شمار کیا کرتے تھے.اسی طرح شیخ یعقوب علی صاحب بھی آپ کے بڑے مقرب اور پیارے تھے.پس ان لوگوں کے متعلق یہ کہنا کہ یہ غیر مستند ہیں علم تاریخ بو الفضل هم با ظهور اگست بیش صفحه ۲ کالم ۱ +1440
۴۵۳ سے ناواقفی کی بات ہے.بعض اوقات انسان بات کا مطلب غلط سمجھ لیتا ہے مگر اس وجہ سے اُسے غیر مستند نہیں کہا جا سکتا.غیر مستند اور ناقابل اعتبار اُسے کہا جاتا ہے جو غلط طریق اختیار کرتا ہے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں عقل اور سمجھ دی ہے.اگر کوئی ایسی بات کسی روایت میں ہو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پھلین اور کیریکٹر کے خلاف ہو ، آپ کی عام تعلیم کے خلاف ہو تو ہم کہ سکتے ہیں کہ راوی کو غلطی لگی ہے.یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ غیر مستند ہے.تو انسان کو اس علم کے بارے میں جیسے وہ جانتا نہیں بات کرتے وقت بہت احتیاط کرتی چاہیے.ایسی بات کرنے والا شخص عظیم تاریخ سے قطعاً نا واقف ہے.تاریخ کا علم بڑا پیچیدہ علم ہے.کسی تاریخی بات کو سمجھنے کے لئے اس زنجیر کو سمجھنا بھی ضروری ہوتا ہے جس سے وہ بات چلتی ہے.اگر کوئی شخص کسی دوسرے علم میں دسترس رکھتا ہے تو اس کے یہ معنے نہیں کہ وہ تاریخ کے علم کا بھی ماہر ہے.ایک بڑے سے بڑے فلاسفر کا ڈاکٹری کے علم میں ماہر ہونا ضروری نہیں.اسی طرح ایک بڑے سے بڑا ڈاکٹر ا زنا فلاسفہ نہیں ہو سکتا.اور جس علم سے واقفیت نہ ہو اس میں دخل دینا غلط طریق ہے اور ایسی باتیں کرنا آداب کے خلاف ہے.میں بھی یہ مانتا ہوں کہ مفتی صاحب کی روایات میں غلطی ہو سکتی ہے.اور اگر کہنے والے کے علم میں ایک بات غلط ہے تو ممکن ہے میرے نزدیک دس باتیں غلط ہوں لیکن اس کے باوجود ان لوگوں کی تمدمات اور اُس احسان میں جو تاریخ لکھ کر انہوں نے جماعت پر کیا ہے ، کوئی فرق نہیں آسکتا.غلطیاں شاید میں دوسروں سے زیادہ جانتا ں مگر اُن کی بناء پر ان کو نا قابل اعتبار قرار نہیں دیا جا سکتا.جس طرح میں نے بتایا ہے کہ یہ انے مفسرین کی کسی غلط بات کی بنیاد پر اُن کی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا.بعض نادان مجھ سے یہ بات سن کر کہ کمانے مفسرین نے فلاں بات لکھی ہے، کہہ دیا کرتے ہیں کہ ان تفسیروں میں کیا رکھا ہے.مگر میں میں سے کسی غلط بات کا علم حاصل کر کے وہ یہ الفاظ کہتے ہیں اُن کے احسان کو مانتا ہوں اور میری گردن ان کے بار احسان سے اُٹھ نہیں سکتی.اگر وہ لوگ بغوی، صرفی نخونی بخشیں نہ کرتے اور وہ دعائیہ تین نہ کر جاتے ، اگر وہ اس قدر وقت صرت نہ کرتے تو آج ان باتوں پر ہمیں وقت لگانا پڑتا.پھر اگر ہم اُن کے ممنون نہ ہوں تو یہ غداری اور ناشکری ہوگی.انہوں نے قرآن کریم کی ایسی خدمت کی ہے کہ اگر وہ آج ہوتے تو بے شک وہ اس احسان کی بھی قدر کرتے جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے
۳۵۴ " ذریعہ کیا ہے.مگر اس حصہ میں جو خدمت قرآن میں اُن کا ہے ہم بھی ان کی شاگردی سے دریغ نہ کرتے.پس ہمارے نوجوانوں کو بہت احتیاط سے کام لینا چاہئیے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کی عزت و احترام میں فرق نہ لانا چاہیے.میں یہ نہیں کہتا کہ وہ جو کچھ کہیں اُسے مان لیں ہیں خود بھی ہر بات کو نہیں مانتا.مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ ناقابل اعتبار ہیں.اگر کوئی بات غلط ہے تو اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ممکن ہے اس وقت راوی کی توجہ کسی اور طرف ہو ممکن ہے.اس نے ساری بات سنی ہی نہ ہو.پھر یہ بھی ممکن ہے ، ساری بات سنی تو ہو مگر غلط سمجھی ہو.مگر اس کی وجہ سے اسے ناقابل اعتبار نہیں کہا جا سکتا.جن لوگوں کو انبیاء کی صحبت حاصل ہوتی ہے اُن سے بھی غلطیاں ہو سکتی ہیں.مگر وہ اتفاقی ہوتی ہیں.اور غلطی کے امکان کے باوجود یہ کام وہی لوگ کو سکتے ہیں.جس نے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کو دیکھا ہی نہیں.اُسے اگر کہا جائے کہ آپ کے زمانہ کی تاریخ لکھو تو وہ کیا لکھ سکتا ہے.وہ بھی لازماً ان لوگوں کے پاس ہی جانے پر مجبور ہوگا.پس کسی بات کی وجہ سے انہیں غیر مستند اور ناقابل اعتبارہ قرار دینا درست نہیں.غلطی کا ہونا اور بات ہے اور غلط کار ہوتا اور بات ہے.ہم کسی بڑے سے بڑے موقع کے متعلق بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ گھر کی بات ہے مگر اس کی وجہ سے اُسے کا فر نہیں کہ سکتے.اسی طرح کسی بات کے متعلق ہم کہ سکتے ہیں کہ واقعات اس کی تصدیق نہیں کرتے.مگر اس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ مصنف ناقابل اعتبار اور غیر مستند ہے" قیام افتار کمیٹی کا قیام اس سال کے آخرمیں فقہ اسلام کے مختلف مائل پر غور و فکر کرنے کے لئے قطارات تعلیم و تربیت کی درخواست اور حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی رض کے ارشاد پر افتار کمیٹی " کے نام سے ایک نیا ادارہ معرض وجود میں آیا جس کے ابتداء میں حسب ذیل ممبران حضور کے حکم سے نامزد کئے گئے :.+1 حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب (مفتی سلسله) -۲- حضرت میر محمد اسحاق صاحب ہیڈ ماسٹر مدرسہ احمدید ۳.مولانا ابو العطاء صاحب بمالند هری شه اح "الفضل " ۲۴ ظهور / اگست ایش صفحه ۳ تا ۱۵ + " الفضل فتح دسمبر ۱۳۳۳ ش صفحه ۲ کالم ۲ ۱ راسم مهم ۱۹ و
۴۵۵ حضرت میر محمد اسحاق صاحب اگلے سال ارامان / مادر میش کو انتقال فرما گئے جس پر حضور نے مبران افتاء کمیٹی میں حضرت مولانا غلام رسول صاحب را یکی اور مولانا عبد الرحمن صاحب فاضل (جت) کا اضا فرما دیا.اور کمیٹی کے صدر حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب اور سیکرٹری مولانا ابو العطاء صاحب مقررہ کئے گئے بے ر احسان جون بش کو حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب کا وصال ہو گیا.اور حضرت خلیفہ السیح الثانی المصلح الموعود کے حکم سے ملک سیف الرحمن صاحب واقف زندگی تحریک بدید اس اہم منصب پر ممتاز ہوئے اور اب تک مفتی سلسلہ کے فرائض بجا لا ر ہے ہیں.ملک سیف الرحمن صاحب مفتی سلسلہ احمدیہ کی رپورٹ پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود نے ماہ نبوت نومبر ہی میں افتاء کمیٹی کا از سر نو قیام مجلس افتار" کے نام سے فرمایا.جس کے ابتدائی فرائض قواعدیہ قرار پائے :- فتوی کی غرض سے دختر افتاء میں آمدہ اہم مسائل کے بارہ میں مفتی سلسلہ عالیہ احمدیہ کو مشورہ دینا.نفقہ اسلامیہ کے اہم اختلافی مسائل کے متعلق آئمہ فقہ کی آراء اور اُن کے دلائل سے واقفیت حاصل کرنا.اس سلسلہ میں ہر ممبر کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ اپنے مطالعہ کے نتائج اور اس بارہ میں اپنی ذاتی رائے سے دفتر افتاء کو وقتاً فوقتاً مطلع کرتا رہے.-۲- سیاسی، تمدنی اور تاریخی حالات کی روشنی میں ” علم الخلاف " کا مطالعہ خصوصی دختر افتاء کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ ہر اہم فتویٰ کے متعلق مجلس کے کم از کم تین ممبر ان کا مشورہ حاصل کرے لیکن مفتی سلسلہ اس مشورہ کو قبول کرنے پر مجبور نہیں ہونگے.البتہ اگر مجلس کے تمام ممبران متفق الرائے ہوں اور مفتی سلسلہ کو پھر بھی اس سے اختلاف ہو.تو اس صورت میں دختر افتاء پر واجب ہوگا کہ وہ تمام حالات حضرت خلیفتہ اسی کی خدمت اقدس میں تحریر کرکے اس کے متعلق آخری فیصلہ حاصل کرے لینے حضرت سیدنا المصلح الموعود نے مجلس افتاء کے اولین میر مندرجہ ذیل علماء سلسلہ کو مقرر فرمایا -1- مولانا جلال الدین صاحب شمس ناظر تالیف و تصنیف له " الفضل ۲۴۰ سی انٹی ة الفضل" ، نبوت انو میری پیش صفحه ۲ کالم ۰۲
۴۵۶ مولانا ابو العطار صاحب جالندھری پرنسپل جامعہ احمدیہ احمد نگر.مولوی ابوالمنیر نورالحق صاحب واقعفت زندگی تحریک تجدید مولوی محمد احمد صاحب ثاقب واقف زندگی تحریک جدید مولوی خورشید یه صلب واقف زندگی تحریک جدید مولوی محمد احمد صاحب عقیل واقف زندگی تحریک تجدید یماری اور امیرالمومنین کی موری یا ری کوری کے بیان ہے کے یا گردے شاندار تقاریر سالانه علیه امیرش کے مقام پر شدید درد کا حملہ ہوا.اور متلی اور قے کی وجہ سے دل میں بھی بہت تکلیف شروع ہوگئی اور پھر بخار بھی ہوگیا ہے ، فتح و نقرس اور کھانسی کی تکلیف بڑھ گئی ہیں مگر بندا کے فضل سے بعد کو بتدریج ان سب عوارض میں افاقہ ہونے لگا اور ۱۳ فتح کو نقرس سے بھی آرام آگیا.اور حضور چلنے پھرنے لگے گے.ہم نقاہت بہت ہو گئی اور اسی بنا پر حضور نے احباب جماعت کو قبل از وقت آگاہ بھی فرما دیا کہ میری اپنی طبیعت بھی بہت کمزور ہے.پھر بڑے زور کا حملہ نزلہ اور کھانسی کا مجھ پر ہوا ہوا ہے.اور سینہ میں درد اور گلے میں سخت خراش ہے.متواتر بیماریوں کی وجہ سے میں بہت کمزور ہو چکا ہوں.اس لئے ملاقاتوں اور تقریروں کے وقت میں معد یہ کمی کرنی ضروری ہوگی.اس لیئے دوستوں کو چاہیے کہ قربانی کر کے مجھے اس مالا طاق ہو مجھ سے بچائیں.غالباً اگر مجھے بولنے کی توفیق ملی تو گھنٹہ دو گھنٹہ سے زیادہ میں نہ بول سکوں گا.اور طلاقاتیں رات کے وقت اگر کلی طور پر بند نہ کی گئیں تو بہت حد تک محدود ضرور ہوں گی " شے پھر حضور کی توجہ کو بٹانے والی اور بہت بڑی تشویش کا موجب حضرت سیدہ ام طاہر احمد کی تشویشناک حلالت تھی جنہیں حضور بے حد نازک حالت میں علاج کے لئے ، ارماہ فتح دسمبر کو لاہور لے گئے تھے اور وہاں لیڈی ولنگٹن ہسپتال میں داخل کرانے کے بعد محض سالانہ جلسہ پر کرنے والے دوستوں کی خاطر ۲ راہ فتح دسمبر کو واپس قادیان تشریف ه الفضل " فتح ورش صفورا کالم ۲ ۳ " الفضل " فتح در دیر همایش صفحه ۱ کالم ۲ : ۲ : ۳ ۳۲ * " " " " ✓ * می گیر لوگو " + 4 • * 14 ۲۴ " کرو گے
۴۵۷ لے آئے.۲۶ فتح اردسمبر تک اُن کی حالت میں کوئی افاقہ نہیں ہوا تھا بلکہ اس دن حضور کو یہ اطلاع موصول ہوئی کہ ڈاکٹروں نے فیصلہ کیا ہے کہ اپریشن کے سوا علاج کی اور کوئی صورت نہیں اور بدھ کے دن (۲۹ ماہ فتح) اپریشن کرنا تجویز کیا گیا ہے.لیکن اللہ تعالی نے اپنے عاجز بندوں کی دردمندانہ التجائیں قبول فرماتے ہوئے ایک طرف حضرت سیدہ ام طاہر کو قدرے افاقہ بخشا اور اپریشن کی فوری ضرورت نہ رہی.دوسری طرف حضرت خلیفہ اسیح الثانی رض کو ان ایام میں غیر معمولی طور پر ایسی طاقت اور توانائی عطا فرمائی کہ حضور نے حسب معمول سالانہ جلسہ پر ملاقاتیں بھی کیں اور پانچ تقریریں بھی.جن میں سے ، اور ۲۰ فتح کی دو تقریریں بھی تھیں.موخر الذکر تقریب اسوہ حسنہ کے موضوع پر تھی اور جو بعد کو کتابی شکل میں بھی شائع ہو گئی.حضرت امیرالمومنین نے اپنی اس آخری معرکتہ الآراء تقریر میں بڑے دلنشیں انداز میں اس حقیقت پر روشنی ڈالی کہ ہمیں اپنے ہر قول، ہر فعل اور ہر حرکت و سکون میں یہ امر مد نظر رکھنا چاہئیے کہ ہمارا یہ کام محمد رسول الله صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طریق عمل کے مطابق ہے یا نہیں.کیونکہ ہماری نجات اسی میں ہے کہ ہم حضور کی کامل متابعت اختیار کر کے نقوش محمدی اپنے آئینہ قلب میں پیدا کرلیں.اسی تعلق میں حضور نے فرمایا :- ہ لوگ کہتے ہیں.اسلام نے تصویر بنانا منع کر کے آرٹ کو نقصان پہنچایا ہے.وہ نادان یہ نہیں جانتے کہ اسلام تو ہر مسلمان کو آرٹسٹ بناتا ہے.وہ تصویر بنانے سے نہیں روکتا بلکہ ادنی اور ہے نفع تصویریں بنانے سے روکتا ہے اور وہ تصویر بنانے کا حکم دیتا ہے جو اس دنیا میں بھی انسان کے کام آنے والی ہے اور آخرت میں بھی انسان کے کام آنے والی ہے.لوگ تصویریں بناتے ہیں تو کیا کرتے ہیں.وہ برش لے کر کبھی کتے کی تصویر بناتے ہیں.کبھی گدھے کی تصویر بناتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں کہ انہوں نے گتے یا گدھے کی تصویر بنالی.مگر اسلام کہتا ہے.اسے مسلمانو با تم میں ہر شخص رات اور دن صبح اور شام ، بچپن اور جوانی اور بڑھاپے میں عقل اور فہم کا برش لیکر محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی تصویر کھینچتا رہے جو ہماری تصویر ہے.پس اس تصویر کو کھینچو اور بار بار مینچو یہانتک کہ تم بھی محمد بن جاؤ اور چونکہ محمد ہماری تصویر الفصل" حكم صلح / جنوری سایش صفحه 1 +1,
+ ۴۵۸ ہے اس لئے جب تم محمد بنو گے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح تم بھی ہمارے قرب میں آجاؤ گے.پس ہر مسلمان آرٹسٹ ہے.ہر مسلمان مصور ہے.مگر وہ اس قیمتی چیز کی تصویر بناتا ہے جو دنیا کے لئے بھی مفید ہے اور آخرت کے لئے بھی مفید ہے.وہ لغو چیزیں نہیں بناتا جن سے بہتر تصویریں نیچر نے پہلے ہی تیار کی ہوئی ہیں.ورنہ اسلام ہر مسلمان کو حکم دیتا ہے کہ جلوہ انہی قلب محمد پر پڑ رہا ہے.اس نے خدا تعالے کا قرب حاصل کر کے اس کی تصویر اپنے دل پر کھینچ لی ہے مگر تم میں سے ہر شخص کو خدا تعالیٰ سے اس قدر قریب ہونے کی توفیق نہیں ہے اس لئے تم محمد رسُولُ اللہ کے دل کی تصویر اپنے دلوں پر کھینچو.اس طرح اصل کو دیکھ نہ سکو تو اس کی تصویر سے تم ایک اور تصویر کھینچ سکو گے.غرض تمام انسان معتمدی تصویر سے جمال الہی کی تصویر کھینچنے کے قابل ہیں.صرف ہمت کی ضرورت ہے اور کوشش کی ضرورت ہے ورنہ راستہ کھلا ہے اور ہمیشہ کھلا رہے گا.ہے فصل پنجم اس سال کئی مقتدر اور بلند پایہ صحابہ نے وفات پائی.ان کے مختصر کوائف جلیل القدر صحابہ کا انتقال درج ذیل کئے جاتے ہیں.ا چودھری رکن الدین صاحب لدھیانوی ) وفات ۴۲ صلح جنوری سی ۱۳۳۲ برش اله ۲- عبد المغنی خاں صاحب سنوری تو بیعت نامه وفات : از صلح جنوری ۱۳۳ مه بهش بعمر ۸۰ سال بیعت سے پہلے آپ کے گھر میں محترم کی مجالس ہوا کرتی تھیں.مگر جب سے بیعت کی گھر کا رنگ ہی بدل گیا اور مجالس محرم کی جگہ در شین کے اشعار نے لے لی.خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمات بجالانے کا به ر سورچسته » صفحه ۱۲۹ تا ۱۳۳ (لیکچر حضرت خلیفہ اسیح الثانی رض) به ۲ " الفضل" ، صلح (جنوری میں 16 " الفضل و صلح جنوری ۱۳۳۳ بیش صفحه ۱ کالم ۲ +
۴۵۹ بہت شوق تھا.سالانہ جلسہ کے علاوہ بار بار نہ صرف خود قادیان حاضر ہوتے رہتے بلکہ اپنے عزیزوں کبھی بیتے آپنے اپنے اکلوتے بیٹے عبد الغفور خاں مہ اس کی والدہ کے اسی طرح اپنے بھانجے سید علی احمد صاحب ساکن رجا ولی ( انبالہ) کو تحصیل علم کے لئے لڑکپن ہی میں قادیان بھیجوا دیا تھا.اور اپنے بیٹے اور نواسے اور پوتی اور نواسی کے رشتے قادیان ہی میں کئے ہیں زمین خریدی اور پانچ چھ سو روپیہ لگا کر کنواں لگوایا.حضرت قاضی ظہور الدین صاحب اکمل نے نے اُن سے پوچھا کہ آپ اسے اتنا مستحکم کیوں کر رہے ہیں ؟ جواب دیا کہ پشتوں تک کام دے.فالج کا حملہ ہوا تو بالا صرانہ قادیان میں آگئے.مگر پھر کچھ عرصہ بعد واپس جانا پڑا اور پٹیالہ میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان کے قطعہ صحابہ میں دفن کئے گئے بیلے حافظ غلام محمد صاحب ساکن دھیر کے کلاں ضلع گجرات ( برادر خورد ابو عبید اللہ حضرت حافظ مولوی غلام رسول صاحب وزیر آبادی ) روفات : ماه صلح جنوری در پیش بعمر ۸۲ سال ہے کا یا م حضرت مولوی غلام حسن خاں صاحب پشاوری رضو ولادت : ۱۵۱۲۶۸ ۶۱۸۵۲ بیعت ارمنی نشانه : وفات : یکم تبلیغ فروری سیش حضرت مولوی صاحب کی سلسلہ احمدیہ سے وابستگی ، فدائیت اور بیعت خلافت ثانیہ کی تفصیل بر مش میں گذر چکی ہے جس کے اعادہ کی ضرورت نہیں.نظام خلافت سے دوبارہ وابستہ ہونے کے بعد آپ نیوت انو مبر بیش سے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے ہاں قیام پذیر تھے.حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے نے آپ کا جنازہ ۳ تبلیغ فروری یہ ہش کو ایک بھاری مجمع کے ساتھ بہشتی مقبرہ سے مفصل باغ میں پڑھایا.نعش کو کندھا دیا اور صحابہ کے قطعہ خاص میں تدفین کے بعد آپ کی قبر یہ دعا کرائی شے +۱۹۴۲ آپ کی وفات پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے ایک بزرگ صحابی کا وصال " کے عنوان سے ایک لطیف مضمون تحریر فرمایا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظر میں آپ کے مقام ، آپ کی خدمات اور آپ کے خدا تعالے کی تقدیر خاص سے بیعت خلافت سے مشرف ہونے اور خلافت ثانیہ کی تائید میں مضامین لکھنے اور بالآخر بہشتی مقبرہ میں سپرد خاک کئے جانے پر نہایت موثر اور پر زور پیرایہ میں روشنی الفضل ۲۷ رامان / مار چه میش متعهد له الفضل ۲۰ صلح / جنوری سایه میش صفحه ا کالم ۲." ه " الفضل در تبلیغ فروری یه " اس المرمش صفحه ۳ ) مختصر سوانح مرتبہ حضرت قاضی محمد یوسف صاحب آفت مردان) : ۱۱۹۴۳ والفصل ۳ * گوشی صفحه ال کالم ا ب له الفضل " تبليغ / فروری مش صفحه +
ڈائی اور اس کے آخر میں غیر مبالعین کے ایک معزز رکن مولوی محمد یعقوب خان صاحب ایڈیٹر اخبار" لائٹ" کا ایک مبارک دمبشر خواب بھی درج فرمایا، ہو یہ تھا :- یکین نے (حضرت مولانا مرحوم کی وفات سے چند دن قبل) روبار میں دیکھا کہ آپ ہی کے مکان میں مولا نا چار پائی پر پڑے ہیں اور بیماری کی حالت میں ہیں.اس چارپائی کے ساتھ ساتھ بڑے موٹے موٹے انار لگے ہوئے ہیں جیسے ایک درخت کے ساتھ مگر ہر ایک انار کٹا کٹایا ہے اور اس کے موٹے موٹے جانے ایسی چمک اور کشش رکھتے تھے کہ کھانے کو دل للچاتا تھا.اور جب میں نے بھی ہاتھ بڑھا کر اس کے دو چار دانے کھائے تو خیال گذرا کہ یہ تو مولانا کی چیز ہے اور ساتھ ہی یہ سمجھ آئی کہ یہ جنت کا وہ نقشہ ہے جو قُطُوفُهَا دَانِية میں کھینچا گیا ہے" له یہ رویا جہاں ایک طرف حضرت مولوی صاحب مرحوم کے نہایت نیک انجام کی طرف اشارہ کرتی تھی.وہی دوسری طرف ہمارے غیر مبالعین اصحاب کے لئے بھی ایک زیر دست محبت تھی.۵ حضرت مفتی چراغ الدین صاحب بٹالوی سابق ملازم ریاست کپور تھلہ روفات : ۲۵ ہجرت مئی مال من العمر تقریباً سو سال ) آپ کی بیان فرمودہ روایات الحکم ۱۴-۲۱ صلح جنوری سہ ہش میں شائع شدہ ہیں.- گلاب خان صاحب سب ڈویژنل آفیسر ملٹری ورکس سیالکوٹ روفات : ۲۹ احسان جوان ش) آپ حضرت مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوٹی جن کے خاص دوستوں میں سے تھے اور انہی کے ساتھ حضرت میسج موجود و علیہ السلام کی بیعت میں داخل ہوئے تھے.نمازوں اور دعاؤں کا خاص شغف تھا.اور خاندانِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فدائی تھے.میں حضرت چوہدری غلام احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ کی یام تحصیل نوان شهر دو آیه ضلع جالندهر بیعت: جنوری فروری ۹۰۳ ه ، وفات ۳ وفا بولائی پریش) (ولادت المرات ۳۲۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نہایت مخلص اور فدائی صحابہ میں آپ کا شمار ہوتا ہے.شب بیدار له الفضل " ۱۸ تبلیغ / فروری مش صفحه ۲ کالم وله الفضل نما بونی جولائی میر مش صفحه ۲ کالم می " به " ة " الفضل " در وقار جولائی پر مش صفحه ۵ +
مستجاب الدعوات اور صاحب رویا، وکشف بزرگ تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کی بیعت لینے کے بعد فرمایا " اللہ تعالے جلد جماعت پیدا کر دے گا چنانچہ یہ پیشگوئی حرف بحرف پوری ہوئی اور کچھ ماہ کے اندر کہ پیام میں مضبوط جماعت بن گئی جو ۲۹ نومبر ۱۹۳۶ء کوتین سو پندرہ نفوس تک اور شائر میں قریباً پانچسونک پہنچ گئی.آپ نے گردو نواح میں بھی تبلیغ کا حق ادا کر دیا.آپ کو قصبہ راہوں کے چودھری فیروز خاں صاحب، اور کا ٹھ گڑھ کے مولوی عبدالسلام صاحب جیسے پُر جوش رفقاء مل گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ اسلام ہی کے مبارک زمانہ میں کو یام ، راہوں ، کاٹھ گڑھ ، سروعہ ، لنگڑوعہ ، کریم پور ، بنگه ، پنام ، مکند پور، کھلویہ اور لنگیری وغیرہ مقامات پر مخلص احمدی جماعتیں قائم ہو گئیں." حضرت مسیح موعود علیہ السّلام نے تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ ۹۶ پر اپنے ایک عظیم الشان نشان کے گواہوں میں آپ کا نام پچاسویں نمبر پر درج فرمایا ہے.آپ اُن سابقون الاولون میں سے تھے جنہوں نے حضور کے عہد مبارک میں (۲۹ دسمبر نشانہ کو) وصیت کر کے اپنا حصہ جائے او حق صدر انجمن احمدیہ قادیان ہبہ کر کے قبیصہ بھی دے دیا تھا کہ حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے کئی بار اپنے خطوط میں آپ کو لکھا کہ مجھے آپ سے بہت محبت ہے.ایک بار موضع کریم پور ضلع بھالندھر) کے احباب حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضور نے اُن کو نصیحت فرمائی کہ آپ لوگ بار بارہ قادیان آتے رہیں تا ایمان تازہ رہے.انہوں نے اپنی مجبوریاں پیش کیں.اس پر فرمایا.اچھا اگر قادیان نہ آسکو تو حاجی غلام احمد صاحب کے پاس کر یام ہو آیا کرو" کے حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے ساتھ غایت درجہ محبت تھی اور حضور کی ہر تحریک پر ابتداء ہی میں پر جوش رنگ میں شمولیت سے انہیں خاص روحانی سرور حاصل ہوتا تھا.فرض اور طلوعی ہر قسم کے چندوں میں نمایاں حصہ لیتے.اور مالی اور جانی قربانیوں پیش پیش رہتے تھے.اور اغراض سلسلہ کی تکمیل کے لئے شبانہ روز مصروت رہتے.تبلیغ میں انہاک کا یہ عالم تھا کہ آپ نے جماعت کے بام کو دس حصوں میں تقسیم کر کے ان کے امیروند مقرر کر رکھے تھے.ہر گروہ آپ کی زیر نگرانی تبلیغ کے لئے باہر جاتا تھا.حلقہ تبلیغ ارد گرد کا پانچ میل تک کا علاقہ ہوتا نے اصحاب احمد جلد دہم صفحه ۹۶ ( مولفہ جناب ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے قادیان سے " الفصل" ۴۳ار جوان له صفحه ( روایات حضرت حاجی صاحب) سے " اصحاب احمد » جلد دهم صفحه ۹۹ حاشیه و صفحه ۱۲۴ شه " اصحاب احمد چند دهم صفحه ۱۲۷ (حاشیه).&
۴۶۲ تھا.حضرت خلیفہ ایسیح الثانی رض کے ارشاد پر خود بھی سال بھر میں نئے احمدی بنانے کی تحریک میں حصہ لیتے اور دوسروں سے بھی وعدے لیتے یہ آپ نے ضلع جالندھر اور ہوشیار پور میں مبلغین احمدیت کے ساتھ کئی بار طویل دورے کئے بائر میں جن مجاہدوں نے علاقہ ارتداد ملکانہ میں تبلیغی جہاد کیا.اُن میں آپ بھی شامل تھے ۱۹۳۵ء میں علاقہ مکیریاں کی تبلیغی مہم میں شرکت کی اور ایک ایک ماہ وقف کر کے پہلے سال موضع عمرا پور میں اور دوسرے سال خاص میریاں میں بطور امیر المجاہدین کام کیا جس پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے خوشنودی کے سرٹیفکیٹ عطا فرمائے.ابتدا میں کم یام اور کو رہا کے احمدی آپ کے مکان کی بیٹھک میں نمازیں پڑھتے تھے.سماء میں حضرت حاجی صاحب نے نے ایک فراغ اور عمدہ مسجد تعمیر کرائی جس کے اکثر اخراجات آپ نے برداشت کئے تعمیر مسجد کے بعد اگلے سال آپ نے ۳ جون شالہ سے ایک پرائمری سکول بھاری فرمایا اور ابتداء میں اس کا پورا خریچ اپنی گرہ سے ادا کیا.بعد کو اگرچہ حکومت اور مرکز سلسلہ کی طرف سے بھی اعداد ملنے لگی.مگر جب بھی گرانٹ بند ہو جاتی.آپ مدرسہ کی مالی ضروریات از خود پوری کر دیتے.اس مدرسہ کے نگران اور مینجر کے فرائض ہمیشہ خود انجام دیتے اور بعض اوقات طلبہ کو خود بھی پڑھاتے تھے سکے حضرت حاجی صاحب کی دیانتداری اور راست بازی ہر دوست دشمن کو مسلم تھی.ایک شخص رام لال پر بہت ساکتی رہوں نے پچاس گھماؤں اراضی آپ کے نام بغیر اطلاع دیئے کرا دی.عدالتیں آپ کو ثالث بناتیں اور کبھی کسی فریق کو اُن کے فیصلے پر اعتراض نہ ہوتا تھا.کہتے ہیں ایک بار آپ کے گاؤں میں ایک مجسٹریٹ نے موقع دیکھتے وقت مدعی فریق سے کہا کہ اگر اس جگہ کوئی سچ بولنے والا ہو تو پیش کرو.اس نے حضرت حاجی صاحب کا نام نے مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو میاں عطاء اللہ صاحب پلیڈر امرتسر رحال کینیڈا) کا مفصل مضمون مطبوعۃ الفضل " مورد ار و فار جولائی یہ مش صفحه ۴ + لے کر یام سے دو اڑھائی میل کے فاصلہ پیسا ایک گاؤں جو مولانا ابوالعطاء صاحب ۱۳۲۲ ۳۲ فاضل کا وطن مالوف ہے اور جہاں آپ کے والد ما بعد حضرت منشی امام الدین صاحب قیام فرما تھے اور جمعہ کی نماز کے لئے ہمیشہ بالالتزام کریام تشریف لے جایا کرتے تھے اور جب نہ پہنچ سکتے تو حضرت حاجی صاحب اور کریام کے دوسرے احمدی سمجھتے کہ آپ بیمار ہو گئے ہوں گے حضرت منشی صاحب نے شاہ کے قریب صحابہ کے زمرہ میں شامل ہوئے.اپنے گاؤں میں اکیلے احمدی تھے.قبول احمدیت پر آپ کے والد اور کر یہا کے دوسرے لوگوں کی طرف سے سخت تکالیف دی گئیں اور ہر طرح ظلم وستم کا نشا بنائے گئے مگر آپ ثابت قدم رہے تبلیغ کا از حد شوق رکھتے تھے.استنقاد کی مرض سے بیمار ہوئے.علاج کیلئے قادیان آگئے مگر جانبر نہ ہو سکے.سمیر شاہ کو انتقال کیا اور بہشتی مقبرہ میں دفن کئے گئے ( الفضل ۱۳ دسمبر ۱۹۲۷ و صحت و الفضل بر جنوری ۱۹۲۸ صفحه ۱۰ کالم ۳ مضمون حضرت حاجی غلام احمد صاحب : سه اصحاب احمد جلد دہم صفحه ۶ون سے ایضا صفحہ ۱۲۷ :
به لام لیا.آپ کو طلب کیا گیا.حاکم نے عزت سے بٹھایا اور اصل حقیقت دریافت کی.آپ نے سچی بات کہ دی حاکم نے حاجی صاحب کی شہادت کی بناء پہ مدعی فرق کے حق میں فیصلہ کر دیا.مدعا علیہ فریق احمدی تھا.اس نے مسجد میں آنا جانا بند کر دیا.حضرت حاجی صاحب نے اپنے بعض دوستوں کی معیت میں جاکر اُسے سمجھایا کہ اگر ظالم نہیں تھا تو ترک نماز مجھے کرنا چاہیے تھی مگر آپ اپنے تئیں مظلوم سمجھ کر نماز چھوڑ بیٹھے.نیز کہا.میں نے تو خدا کے حکم کے مطابق بچی شہادت دی ہے.آپ کو ناراض نہیں ہونا چاہئے تھا.الغرض منت سماجت کر کے اُسے مسجد میں لے آئے اور نماز شروع کوادی لینے کے ۸ - مرزا غلام سرور صاحب ساکن کو ٹلہ مخلان ضلع ڈیرہ غازیخاں ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر ور نیکر مڈل سکول.ر وفات : ۲۱ ظہور / اگست بر میشه ہیں) اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے مگر سب سے بہت مشفقانہ اور ہمدردانہ سلوک کرتے.ان کی ہمدردی اور امداد کا دروازہ ہر قوم اور مذہب کے لوگوں کے لئے کھلاڑی بہتا تھا.طبیعت کے علیم اور ملنسار تھے.اخوند محمد افضل خاں صاحب سابق پریزیڈنٹ جماعت احمدیہ ڈیرہ غازیخاں کی اکلوتی بیٹی اُن کے عقد میں تھی.یکے حضرت سید میر عنایت علی شاہ صاحب لدھیانوی رضور ) ولادت : HADA بیعت بموقعہ معیت اولی ۲۳ مارچ شمارہ نمبر ؟ پر وفات : ٣ تبوک استمبر سه ش حضرت مسیح موعود علیہات سلام نے جب لدھیانہ میں بیعت اولی کا آغاز فرمایا تو اگرچہ اپنی باری کے اعتبار سے آپ کا تیسرا نمبر تھا.مگر آپ کو حضرت قاضی خواجہ علی صاحب کو بلانے کے لئے جانا پڑا جس کے دوران پانچ احباب نے بیعت کر لی.آپ حضرت مسیح موعود علیہ استسلام کے خاص دوستوں میں سے تھے.آپ کی شادی اوائل عمری میں سید میر عباس علی شاہ صاحب کے ہاں ہوئی اور انہی کے ذریعہ سے حضرت مسیح موعود کی ا الفضلا وفا جولائی یہ مش صفحہ ۶ کالم 1 + کے حضرت حاجی صاحب کی پہلی شادی سے کوئی اولاد نہ ہوئی.دوسری شادی میں تعدا تعالیٰ نے ایک لڑکی اور تین لڑکے عطا کئے.لڑکی صغرستی میں فوت ہو گئی.بڑا لڑکا ظہور الدین نہ میں ۲۶ سال کی عمر میں انتقال کر گیا.منجھلے صاحبزادے احمد الدین صاحب بی.اسے لائل پور میں بینک آفیسر ہیں اور مقامی جماعت کے سرگرم رکن ہیں.تیسرے اور چھوٹے صاحبزاد ے نور الدین صاحب ایم.انہیں سی لاہور میں ریسریچ آفیسر کے عہدہ پر فائز ہیں.حضرت حاجی صاحب کے مزید تفصیلی حالات کے لئے ملاحظہ ہو ملک صلاح الدین صاحب ایم اے کی الیف اصحاب احمد " جلد دہم : " ١٣٢١ " الفضل ظهور/ اگست ۱۳۳۲ به بیش صفحه ۴ کالم ۰۱ 1 ۱۳۲۲ 1 + " الفضل ۲۸ نبوت / نومیر به مش صفر ۴ + ه " الفضل" مر تبوک همایش صفحه ۴ کالم 1907
تم و نهم خدمت میں حاضری کا شرف حاصل ہوا.مگر جب میر عباس علی صاحب کو ٹھوکر لگی تو مرحوم کے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہ آئ اور اپنےقابل تنظیم چا اور خسر کی پروانہ کر " ہوئ سچائی کاست و یا حصیر خان نواب محمد علی خانصاحب ریکیں مالیر کوٹلہ کے محاسب اور مصاحب کی حیثیت سے بھی کام کرتے رہے.بڑے عبادت گزار تھے جب سے ہوش سنبھالا، نماز روزه تو در کنار تنی جگہ بہت کم قضاء کی ایمانداری ، وفاداری اور صبر کی خوبیاں خاص طور پر نمایاں تھیں جن کی وجہ سے مرحوم مخالفین کی نظروں میں بھی عزیز تھے.دینی امور میں نہایت صفائی ، صدق اور جوش سے کام کرتے تھے.لدھیانہ کی ایک خانقاہ کے ساتھ کافی زمین تھی اور آپ بھی اس کے وارثوں اور سجادہ نشینوں میں سے تھے مگر آپ کبھی وہاں جا کر کھڑے بھی نہ ہوتے یہانتک کہ جو لوگ وہاں جاروب کش تھے وہ مالک بن بیٹھے پھر بھی کبھی خیال نہ کیا.مریدوں سے فرمایا کرتے کہ ہم تو اصلی سرکار کے خود مرید ہیں.رشتہ داروں نے ۱۹۲۶ میں دعوی دخلیا بی اُن کی طرف سے کر دیا اور عدالت نے بھی ان کا حق ملکیت تسلیم کر لیا.لیکن مخالف نے ایک سوال یہ اُٹھا دیا کہ یہ تو مرزائی ہیں اور خانقاہوں کو مانتے نہیں.انہوں نے سوائے بیحرمتی کے وہاں کیا کرتا ہے جس پر جج نے آپ سے سوال کیا کہ کیا آپ مرزائی ہیں؟ اس وقت جو لوگ عدالت میں موجود تھے بتاتے ہیں کہ بوش کی وجہ سے مرحوم کی آواز بلند ہو گئی.کھڑے ہوکر فرمایا کہ ” ہاں میں احمدی ہوں“ چنانچہ فیصلہ آپ کے عضلات ہو گیا.آپ کو دینی کتب کا بیحد شوق تھا.بہت سی پرانی کتب و رسالہ جات آپ نے جمع کئے تھے بجوانی میں اُن کا مطالعہ آپ پر ابر جاری رکھتے.چندوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے.تبلیغ کا شوق اتنا کہ لوگوں میں مشہور تھا کہ میر صاحب تو چھوڑتے نہیں.غیرت اور محبت اتنی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ، مغلفاء اور احمدیت کی شان میں کوئی گستاخی برداشت نہ کر سکتے.اخیر میں نظر کمزور ہو گئی تو عینک کے استعمال کے باوجود لکھ پڑھ نہ سکتے.اس لئے بیٹھے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی نظمیں پڑھتے اور تلاوت قرآن مجید کرتے رہتے.بڑے مستجاب الدعوات تھے.حتی کہ غیر احمدی دعائیں کرواتے.صاحب کشف تھے.کثرت سے ایسی خواہیں دیکھتے جو اپنے وقت پر پوری ہوتیں صحت شروع ہی سے بہت اچھی تھی.اور آخر وقت تک ہوش و حواس صحیح سالم رہے ہمیشہ اپنے ہاتھ سے کام کرتے.بازار سے سود ا سلعت خود لاتے.ایک ماہ پیشتر اپنے بڑے لڑکے سید محمد عبد الرحیم صاحب کے ہمراہ قادیان تشریف لائے اور حضرت خلیفہ السیح الثانی سے ملاقات کر کے ہشاش بشاش واپس ہوئے معمولی بخار ہوا.جو تیرے دن اتر گیا مگر کمزوری غالب آگئی.ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب ریٹائرڈ ڈی.ایم.او برڑ نے علاج میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا.آخری بلاوا آن پہنچا.مگر اس وقت بھی نہایت اطمینان سے لیٹے تھے.کوئی گھبراہٹ یا اضطر اپنے تھا.i
MYA آہستہ آہستہ سانس میں کمی آنے لگی.یہانتک کہ ۲ رمضان المبارک (مطابق ۳ تبوک ستمبر ۳۳۳ رش کو بر وزه جمعه بجکہ ۴۵ منٹ پر آخری سانس لیا.جنازہ دوسرے دن قادیان پہنچایا گیا جس وقت گھر سے جنازہ اکٹھا بیشمار خلقت موجود تھی سٹیشن قادیان پر شتر نواب محمد عبد الله خان صاحب آف مالیر کوٹلہ اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اس نے انتظام خاص سے اہتمام کیا.نماز جنازہ ایک جم غفیر نے باغ میں حضرت مولوی شیر علی صاحب کے اقتدار میں پڑھی.صاحبزادگان ماندان حضرت مسیح موعود علی اسلام اور اکثر بزرگوں نے کندھا دیا.خود حضرت خلیقہ مسیح الثانی نے ڈلہوزی سے ٹیلیفون پر افسوس کا اظہار فرمایا اور آپ قطعہ خاص صحابہ میں دفن کئے گئے.لے ۱۰- سید محمد زاہد صاحب بے سونگڑہ ضلع کٹک ( وفات و احضار اکتوبر میش) 14M مرحوم اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے سلسلہ میں داخل ہوتے ہی آپ کے والد صاحب کی طرف سے سختی شروع کر دی گئی مگر با تاخر آپ کے نیک نمونہ سے وہ بہت متاثر ہوئے اور اگر کہتے " زاہد زاہد ہی ہے " آپ ایک عرصہ تک جماعت سونگڑہ کے سکڑی تعلیم و تربیت کے فرائض بجا لاتے رہے.ایک حلقہ کے محصل مقریہ ہوئے تو آپ کا حلقہ چندہ کی ادائیگی میں سبقت لے گیا.نہایت خوش خصال، صوفی منش اور صاحب کشف بزرگ تھے کہ 11 - قاسم خان صاحب گھٹیالیاں روفات مرا خاد/ اکتوبه اش مه مش مندرجہ بالا صحابیہ کے علاوہ مندرجہ ذیل احمدی مخلصین نے بھی دوسرے وفات یافته مخلصین) اسی سال وفات پائی.مخلصین قاضی عبدالمجید صاحب و برادر قاضی محمد اسلم صاحب (یہ اسے حال پرنسیاں تعلیم الاسلام کا لج ربوہ ) اخوند زاده محمد شاہ صاحب ساکن دو بیاں تحصیل صوابی ضلع مردان - مرزا ناصر علی صاحب امیر جماعت احمدیہ فیروز پورت سعد الفضل " تبوک ستمبر یه مش صفحه ۳ نے ۳۱ • 14 تھے " الفضل " ۱۲ نبوت / نومبر مش صفحه ۱۴ کو " صفرا در اخاه / اکتوبر س ش صفحه ۲ + ۱۳ صلح اسنوری - مرحوم تحکیمہ ملک کے معزز عہدوں پر کھیوڑہ اور کالا باغ میں ملازم رہے اور اپنے نیک نمود سے احمدیت کی تو یہاں نقش کر دیں.حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے ساتھ ان کی موانست و تثبت طالب علمی کے زمانہ سے بھی رالفضل ۲۰ را میل اشہادت اش صفر ۳ به مش ه کے وفات ۲۹ امان امارت رش ۱۹۲۷ء میں بعیت کی ۳۲ سے سولہ تک مسجد احمدیہ پشاور میں مقیم رہے اور آمدید کی خدمات بجالاتے رہے ( الفضل ، شہادت ( این این صفحه ۲ کالم و قاعات و اجرت اما برای اش پیر مہر علی صاحب ایم ایل اے کے شہر اور مرمرزا ظفر علی سنا ریٹائر بیچ ایکور ہے بھائی بنا ء میں داخل سلسلہ المیہ ہوے سالہ لفصل.ار احسان را جون شاره)
-۴- شیخ یوسف علی صاحب بی.اے خان بہادر چودھری نعمت اللہ خانصاحب آنریری مجسٹریٹ ساکن در ضلع جالندهران - بابو محمد عالم خانصاحب پریزیڈنٹ جماعت احمدیہ ممباسہ (مشرقی افریقہ) خانصاحب نعمت اللہ خانصاحب برج انجنیر ریلوے)، بیاست - شه با بو اکبر علی صاحب - عبد القیوم خانصاحب بٹالوی n ہیں.له تاریخ وفات ۲۰ احسان جون ۱۳ پیش بعمر ۴۵ سال.مرحوم سلسلہ کے از حد مخلص اور انتھک کارکنوں میں سے تھے س او سے لیکر تک علاقہ ملکانہ میں مصروف جہادر ہے.ازاں بعد حضرت امیر المومنین خلیفہ ربیع الثانی بنہ نے آپ کو لاہور کے احمدیہ ہوسٹل کا سپر نٹنڈنٹ مقر فرمایا.مارچ یا اپریل شاہ تک آپ اسی کام پر مامور رہے.اسی اثناء میں حضرت امیر المومنین من کی نگاہ انتخاب پرائیویٹ سکرٹی کے عہدہ کے لئے آپ پر پڑی (الفضل ظہور ۱۳۶ پیش مت) اور آپ کئی سال تک حضور کے ارشاد سے پرائیویٹ سیکنڈری کے اہم فرائض بجا لاتے رہے، نیز ایک عرصہ تک پہلے نائب ناظر اور انہ پھر نائب ناظر تعلیم و تربیت کی حیثیت سے کام کیا.مرض کہ پوری عمر خدمت سلسلہ میں گذاری (الفضل ۲۹ احسان خون ۳۲ بیش صفحه ۲ کالم ۱ ).ید تا مسیح الموعود کے قدیم صحابی حضرت پر دھری رستم علی صاحبیت کورٹ پکڑ کے قریبی رشتہ دار جواپنے گاؤں میں اکیلے احمد تھے اور نہایت سادہ مزاج، خوش خلق اور غریب پرور بزرگ تھے (تاریخ و انام وفا جولائی سریش والافضل وفام رامش من کتب سه تاریخ وفات ۳۱ وقار جولائی میش ( الفصل یکم ظہور اگست ۳۲۲ مه پیش صفر یہ ک) جماعت احمدیہ تمباسہ کے ایک ستون اور احمدیت کا بہت ہی عمدہ نمونہ تھے.خدمت دین اور تبلیغ کا بیحد خوش ) خوش رکھتے تھے گفتگو نہایت ملائل اور پر اثر کرتے تھے نہیں الصوت تھے.ایسے بند ہے سے کلام کرتے کہ معترض ساکت ہو کے رہ جاتا.تحریک جدید میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے.نہایت متشرع اور تہجد گزار تھے.درین کے لئے بہت غیرتمند اور قرآن مجید کے عاشق صادق تھے حضرت خلیفہ السیح الثانی کا ذکر آتے ہی آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے تھے طبیعت میں ہمدردی اور خدمت خلق کا جذبہ کمال تک پہنچا ہوا تھا ان کے طور ہے که تاریخ وفات ب ظهور را گسترش "الفضل " در ظهور اگست یه مش صفر یه که شه تاریخ وفات ۳۰ ظهور اگست میشد ميش الفضل اسم عبور من صنفها نيز " الفضل ، یکم اضادار پیش حضرت مفتی محمد صادق سنا نے مرحوم کی وفات پر حسب ذیل نوٹ لکھا: "بابو صاحب میرے پرانے دوستوں میں سے تھے جب میں اخبار بدر کی ایڈیٹری پرمتعین تھا تو بابو صاحب جب قادیان آیا کرتے بمع اہل عیال میرے ہی غربی نشانے پر قیام کرتے میرے سفر ولایت اور امریکہ کے زمانہ میں بھی ان کے ساتھ سلسلہ خط و کتابت جاری رہا، اور امریکہ سے واپسی پر جب میں عہدہ نظارت پر مامور ہوا اور سلہ کی ضروریات کیلئے دی جانے کی ضرورت ہوئی تو اس وقت بالو اورانی میں پیلوے کے انسپکٹر تھے اور میں ان کے ہاں ہی تھا قیام کرتا.بابو صاحب نہایت مہمان نواز دوستوں کے بچے خیر خواہ اور سلسلہ حقہ کا کے دلی خادم تھے سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہو کر انہوں قادیان میں مستقل رہائش اختیار کی.اپنا شاندار مکان بنوایا.گلاس فیکٹری اور موزر کی انتظام کیا اور سلسلہ کے محکم انجنیری کے کئی کام سر انجام دیئے غریبوں کی ہمیشہ ادا کرتے کبھی کسی سائل کو محروم نہ بھیجتے.نظام سلسلہ کی طرح ہے قاضی مقرر ہو کہ انہوں نے بہت سے مقدمات کا فیصلہ کیا اور بہتوں کی آپس میں مصالحت کرادی بغرض بابو صاح میں بہت سی خوبیوں کا مجموعہ تھے" والفضل کے تبوک ستمبر سال پیش صفر م ) ؟ ه تاریخ وفات ۳ار اتار / اکتوبر سلسلہ میں تبلیغ کا خاص، ولولہ رکھتے تھے.ایک بار سفر میں سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری سے گفتگو کرنے کا موقعہ مل اور اپنے مخصوص طرز کلام سے اُن کو لاجواب کر دیا.شاہ صاحب کہنے لگے کہ نگران جیسے سیب حربوں کے اخلاق اور دماغ ہوں تو حمایت کی اشاعت کو کوئی طاقت نہیں روک سکتی افضل وفتح ایمر را در این سفر به "
فصل ششم کے بعض متفرق مگر اہم واقعات خاندان حضرت مسیح موعود میں خوشی کی تقاریب حضرت نوب مرعبداللہ خان صاحب کے ہاں وفا جولائی یہ مہیش کی درمیانی شب میانی مصطفی احمد خاں صاحب پیدا ہوئے لیے صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب (خلف الرشید حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کے ہاں مورخہ نا جلالی اش کو صاحبزادی امتہ الصمد کی پیدائش ہوئی ہے.میاں ہار.میاں عبدالرحیم احمد صاحب کے ہاں دار ظہور / اگست میش کو صاحبزادی امتہ النور صاحبہ کی ولادت ہوئی.مبلغین سلسلہ کے ایک وفد نے جو مہالہ محمد عمر صاحب ، مرکزی مبلغین کا تبلیغی و د صوبہ یوپی میں کیا نی عباداله صاحب اور مولوی عبدالمالک خانصاحب پر مشتمل تھا ار تبلیغ فروری میش سے لے کر ۱۲ احسان م ش تک صوبہ یوپی کا نہایت کامیاب ۶۱۹۴۳ تبلیغی دورہ کیا.اور سہارنپور ، دیوبند میرٹھ ، متھرا ، بند ر ا بن ، ریاست اور ، باندی کوئی ، ساندھن ، کانپور ، لکھنو ، ڈیرہ دون ، ایودھیا ، مسکرا ہمیر پور ، رائے بریلی ، شاہجہانپور ، بریلی اور کشیا وغیرہ اہم مقامات میں پینگ مجلسوں ، پرائیویٹ مجالس اور لٹریچر کے ذریعہ مسلم اور غیر مسلم طبقوں تک پیغام اسلام و احمدیت پہنچایا.ہے سید ارشد علی صاحب لکھنوی نے جو کئی شہروں میں شریک وفد تھے، اس وفد کی نسبت اپنے ذاتی تاثرات حسب ذیل الفاظ میں شائع کئے :- له الفضل " ۱۳ روفا / جولائی میش صفحه ۲ له الفضل " ۳۸ دفا رسولائی یہ ہی صفحہ ۲ کالم : له " الفصل " ا ظہور / اگست ۱۳۳۳ به بیش صفحه هم کالم ۱ + کے شه و فر کی تبلیغی رپورٹیں ۲۵ تبلیغ فروری ۲۱۹۳۳ ارامان / مارچ ، ۲۴ امان ماریچ در شهادت / اپریل ، ۲۵ شهادت / اپریل ۵۰ ہجرت امنی : ۲۸ اجرت امنی از احسان جون ۷ ۱۹ر احسان احون ، ۱۳ روفا جولائی یہ مہش کے " الفضل " میں شائع شدہ ہیں.1907 i
اس وفد کے ذریعہ خدا کے فضل سے یو پی میں دس منٹے افراد نے بیعت کی.یورپی کے رو سار کو سلسلہ ر کے حالات اور تحریک احمدیت اس جنگ میں پہنچائی گئی ہے کہ اس سے ایک خاص دلچسپی پیدا ہو گئی ہے عام طور پر ہمارے مخالفین نے جو غلط اور بے بنیاد باتیں ہماری جماعت کے متعلق پھیلا رکھی ہیں ایک حد تک خدا کے فضل سے ان کا بھی ازالہ ہو گیا ہے.یو پی کے اہل علم طبقہ میں سلسلہ کا وقار قائم ہوگیا ہے مقامی جماعتوں میں بھی وقد نے بہت کچھ ورح عمل پیدا کی.ڈیرہ دون میں وفد نے جو کام کیا ہے انشاء اللہ وقت آنے پر اس کے اظہار پر مسرت ہوگی.اس مختصر تفصیل کے بعد بعض دلچسپ واقعات آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں.بنارس میں ہمارا وفد جناب پنڈت مدن موتین صاحب مالوی سے ملنے گیا.پنڈت صاحب ہندوستان میں جس شخصیت کے مالک ہیں اس کے لحاظ سے ہلدا وفد کوئی ظاہری توجہ کے اسباب اپنے اندر نہیں رکھتا تھا.لیکن محض خدا کے فضل سے ہمارے وفد کے علمی معیار نے موصوف کو متحیر کر دیا.ارکان وفد کے سمیر صاحب نے سلسلہ کے پورے حالات سُنائے اور حضرت کوشن قادیانی کی آمد ثانی کے متعلق ہندو کتب سے سنسکرت میں جو حوالے پڑھ کر سنائے اُس سے موت کو تعجب ہوا.اور اُن کی سنسکرت دانی نے ان پر بہت اثر کیا.وہ وفد سے بڑی محبت اور عقیدت سے پیش آئے اور سلسلہ کی کتب پڑھنے کا وعدہ فرمایا.اجودھیا میں حضرت کوشن کی آمد کی خبر سناتے ہوئے ہمارے دوست اسی مضمون کا ایک رسالہ ہندی میں تقسیم کرتے رہے کہ ایک ہندو خاتون جن کے ساتھ ایک چھوٹا بچہ بھی تھا.جب ایک تبلیغی رسالہ اس خاتون کی خدمت میں پیش کیا گیا تو اس بچہ نے اپنی ماں کے ہاتھ سے وہ رسالہ لے لیا.اور سہرارت پر حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کا نام پڑھے کہ اپنی ماں سے کہنے لگا کہ " ماتا یہ تو کسی مسلمان کا نام ہے.یہ اوتار کیسے ہو سکتا ہے ؟ کچھ کے سوال کے جواب میں اس ہندو دیوی نے بڑی متانت سے کہا کہ " بیٹا اوتار کے لئے ہند و سلمان کی کوئی قید نہیں " اس حیرت انگیز جواب سے قلب کو جو سرور حاصل ہوا وہ ظاہر ہے " سے امیری امی ایا ایک کیاری میں ایمان اداری بیرونی مشنوں کی تبلیغی سرگرمیاں سی بیش کردن بینی اہمیت کہتاہے کہ کہ اس دور آنہیں کیونکہ له الفضل " يكم اجرت مٹی پر مش سفر ۴ ،
چودھری محمد ظفراللہ خان صاحب نے اپنے صفر امریکہ دانگلستان سے واپسی پر لیگوس کی پہلی احمدی مسجد کا سنگ بنیاد بعد نماز عصر کی مبلغ نائیجیر یاحکیم فضل الرحمن صاحب نے ایڈریس پیش کیا جس کے جواب میں چودھری صاحب نے روحانیت سے بریز تقریر فرمائی.اس تقریب پر نائیجیریا کی سب مشہور جماعتوں نے اپنے نمائندے بھیجے ہز ایکسینی گورانی چیف سکیڑی اور دوسرے مر ز حکام اور غیر سرکاری یورپین اور افریقین نیز سر عزیز الحق صاحب اور بیٹی کے نامزد گورنہ ہر ایسی نفسی سر جان کا لوں بھی موجود تھے.اور غیر معمولی طور پر بہت بڑا مجمع تھا.سامعین حضرت چودھری صاحب کے خطاب سے بہت متاثر ہوئے اور پولیس نے اس کی وسیع پیمانہ پر اشاعت کی ستے ہندوستان کے اخباروں میں سے اخبار سٹیٹمین" (کلکتہ نے اپنی ۱۴ مارچ سالہ کی اشاعت میں حسب ذیل خبر دی :- "جمعہ کے روز میر ظفر اللہ خان صاحب نے لیگوس میں پہلی مرکزی احمدیہ مسجد کا سنگ بنیاد رکھا.اس تقریب پر گھر تو نیز سر عزیز الحق صاحب الی نشتر برائے ہند (لنڈن بھی موجود تھے.نائیجیریا کے احمدی مسلمان اپنے مرکز کے ساتھ گہرا اور عقیدت مندانہ تعلق رکھتے ہیں.مرکز نے نئی مسجد کی تعمیر کے لئے پانچ ہزار روپیہ کی گرانت مد امداد دی ہے" (ترجمہ) لیگوس کی پہلی عالیشان مسجد تقریباً ساڑھے پانچ ماہ مں پایہ تکمیل کو پہنچی.اور حضرت خلیفہ ایسے الثانی نے اس کا نام مسجد فضل“ رکھا اور فرمایا کہ لندن کی پہلی مسجد کا نام بھی مسجد فضل ہے.اس کا نام بھی مسجد فضل رکھا جائے.اس مسجد پر ہو حکیم فضل الرحمن صاحب مبلغ نائیجیریا کی نگرائی میں تعمیر ہوئی ، قریب ایک ہزار پونڈ خرچ ہوئے بیگوں کے احمدیوں نے جن میں مرد خواتین اور بچے بھی شامل تھے، مسجد کی زمین کا ملبہ اٹھانے، بنیادیں کھودنے، بنیادیں بھرنے اور فرش لگانے کا کام خود کیا.مسجد الیگوس کا افتتاح ۲۷ ظهور اگست میش کو مجمعہ ہی کے دن ہوا جس کی خبر نائیجیریا پرایس نے بھی شائع کی ساتھ ے پورت سالانه مینیات مصر امین الهیات منیر اے ایل ایس اور اس کا جواب تفضل سور بررسی پیش : ایڈریس " کے صدرا ١١٩٣ ۱+ کے اب یہ اخبار میں شائع شدہ ہے ؟ ه الفضل ۱۹رامان / خارج ش صفحه ۲ کالم 1+ وطی سے نکلتا ہے ؟ شد بحواله اخبار الفضل " د ارامان / باری سال به بیش صفحه ۲ کالم ۲ - حکیم فضل الرحمن صاحب ممتع نائیجیریا نے اپنے ایڈر ایں میں بتایا " ان مسجد کے لئے پانچ ہزار روپیہ تو مرکزی بیت المال نے دیا ہے اور ایک ہزار پونڈ کے قریب نائیجیریا کے احمدیوں نے جمع کیا ہے.نائیجیریا کے اطراف و اکناف سے جو عطیے موصول ہوئے ہیں وہ اس کے علاوہ ہیں "الفضل " و ہجرت امنی اش ہے منیش الفصل ۱۲۴ نبوت / نومبر ۱۳۲۳ بیش صفحه ۴۲
مشرقی افریقہ مشن : مکرم شیخ مبارک احمد صاحب مبلغ مشرقی افریقہ ایک عرصہ سے قرآن مجید کا سرائیکی زبان میں ترجمہ کر رہے تھے جو امنی پر میش کو تعداد کے فضل سے مکمل ہو گیا ہے فلسطین :مشن فلسطین میں یہ قانون تھا کہ مسلمانوں کا نکاح عدالت شرعیہ کی اجازت کے بعد رجسٹرڈ نکاح خواں ہی پڑھے سکتا تھا.برسوں سے احمدیوں کے نکاح بھی اسی طرح پڑھے جاتے تھے.اس سال فتح اردسمبر ریش میں احمدی فریقین کی طرف سے سرکاری شرعی فارم پُر کر کے عدالت شرعیہ حیفا میں پیش کیا گیا.مگر عدالت شرعیہ نے اجازت دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ جب تک تم " مسلمان نہ بن جاؤ تمہارا نکاح نہیں پڑھا بھا سکتا.اس پر چودھری محمد شریعت صاحب مبلغ بلاد عربیہ نے ڈسٹرکٹ کمشنر حیفا سے ملاقات اور المجلس الاسلامی الا علی سے خط و کتابت کی.آخر آٹھ ماہ کی مراسلت اور ڈسٹرکٹ کمشنر سے دو تین ملاقاتوں کے بعد مسلم سپر بھی کونسل نے قاضی شرعی حیفا کا حکم کالعدم قرار دے دیا.اور یہ فیصلہ صادر کیا کہ احمد کی مسلمانوں ہی کا ایک فرقہ ہیں.اس لئے حسب دستور سابق احمدیوں کے نکات پڑھے جایا کریں.چنانچہ وہ نکاح جس کا انعقاد آٹھ ماہ سے روکا ہوا تھا.اس فیصلہ کے بعد قاضی شرعی حیفا کے حکم سے پڑھا گیا ہے اس سال فلسطین مشن کو ایک رنجیدہ واقعہ بھی پیش آیا.اور وہ یہ کہ چودھری محمد شریف صاحب مبلغ فلسطین کی اہلیہ صاحبہ ۲۷ تبلیغ فروری ہمی کو کہا بیر میں وفات پاگئیں.مرحومہ حضرت خلیفہ السیح الثانی کے ارشاد پر اپنے شوہر کے ہمراہ بلاد عربیہ میں خدمت دین کے لئے گئیں اور وہیں خدمت کرتے کرتے حیفا کے قبرستان میں سپرد خدا کر دی گئیں.دیار غیر میں وفات پانے والی ہے پہلی ہاجرہ احمدی خاتون تھیں.مرحومہ جب پہلے پہل اس ملک میں گئیں تو عربی زبان میں کلام نہ کر سکتی تھیں.انہوں نے اللہ تعالیٰ سے رو رو کر دعائیں مانگنا شروع کیں.آخر چند ماہ میں ہی اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مرحومہ کی زبان کھول دی اور وہ عربی بو لنے لگیں اور ڈیڑھ دو سال تک مدرسہ احمدیہ کیا بیریان بچیوں کی تین جماعتوں کو تعلیم دیتی ہیں.رسالہ البشرنی کی تیاری اور ترسیل میں بھی خاص مدد کیا کرتی تھیہ ہے 4 المال الفضل ا له الفضل و وفا بولائی سے پیش صفحه له" الفضل " ٣٠ غار اکتوبر سال بیش له پیش سفر ۲ که " الفضل " ۲۱ شہادت / اپریل که بیش صفحه ۲ : موسا از مضمونی چودهری محمد شریعت صاحب صفحه سابق مبلغ ملا د عربیه و حال مبلغ کی بیا ) :
انگلستان مشن : ر مہیش میں اتحادیوں کو افریقہ میں نمایاں فتح حاصل ہوئی تھی.اس موقعہ پر مولانا جلال الدین صاحب شمس امام مسجد لنڈن نے ایک پمفلٹ شائع کیا جس میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے کے بعض اہم رویاء درج کئے جن میں برطانیہ کی ابتدائی کمزور حالت کے بعد چھ ماہ کے اندر اندر رفتہ رفتہ طاقت پکڑنے ، شاہ لیوپولڈ کی تخت سے دستبرداری اور پھر شمالی افریقہ میں جنگ کے تغیرات اور بالآخر دشمن کی شکست کے نظارے دکھائے گئے تھے اور جو حیرت انگیز رنگ میں پورے ہو گئے بے صداقت اسلام اور احمدیت کے اس زندہ نشان کا انگلستان کے اہل علم طبقہ پر بہت گہرا اثر ہوا.ذیل میں اس کے متعلق بعض معترز اصحاب کی آراء اختصاراً درج کی جاتی ہیں :- ا کارڈیم ڈوڈ (سابق کمانڈر انچیف انڈیا ) : "بہت ہی دلچسپ رویا جو ہو بہو پوری ہوئیں" مسٹر آئی ایس.امیری (وزیہ ہند) نہایت دلچسپ مطبوعہ سفوف ہے جس سے امام جماعت احمدیہ کی روحانیت سے امام احد دور بین نگاہ کا پتہ چلتا ہے.سر جیفرے ڈی مونٹ مورسی (سابق گورنر پنجاب " مجھے رویار کی تفصیل اور جس طرح وہ پوری ہوئیں اُن کے متعلق بہت دلچسپی ہے تم سرلوٹی ڈین :- " میں صرف یہ کہ سکتا ہوں کہ ان کی پاکیزہ خواہشات کا ہم کہ شکر گزار ہونا چاہیئے " سر فرینک براؤن ( آنریری سکوڈی آف ایسٹ انڈیا ایسوسی ایشن ، پمفلٹ کے ارسال کرنے پر بہت بہت شکریہ یہیں سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت امام جماعت احمدیہ کی رویا ہو پیش گوئیوں پرمشتمل نھیں کس طرح لفظ بلف یا پوری ہوئیں.یہ بات قابل غور ہے کہ حضرت امام جو علت احمدیہ کی پیشگوئی اتحادیوں کی فتح کی نسبت اس وقت کی گئی تھی جبکہ اتحادیوں کی حالت مکہ کے موسم گرما میں بہت کمزور تھی اور سلطنت برطانیہ تنہا تو یوں کے مقابلہ میں کھڑی تھی.جب آپ حضرت کی خدمت میں تحریر کریں تومیری طرف سے بھی سلام اور پیش گوئیوں کے پورا ہونے پر مبارک باد دین" کرتی ہے.ایک سائیکس (کمانڈنگ انڈین کنٹجنٹ) : " یہ پمفلٹ بڑاری دلچسپ ہے اور رویا بھی نہایت نجیب " نے اللہ تعالنے کی جراف سے حضرت خلیفہ اسیح الثانی رض کو جنگ عظیم کے آغاز سے اختتام تک بہت سی غیبی خبری بتائی گئیں جو پوری شان سے ظہور پذیر ہوئیں جن کا تذکرہ خاتمہ جنگ کے حالات میں کیا جائے گا ہے
ان اصحاب کے علاوہ لارڈ سیموئیل، سر سٹیفورڈ کرپس وغیرہ نے بھی یہ پمفلٹ بہت دلچسپی سے پڑھائے اسی سال انگلستان مشن نے مولانا جلال الدین صاحب شمس کا ایک کتا بچر بعنوان اسلام " دو ہزار کی تعداد میں شائع کیا ہے جاوا، ہانگ کانگ، سنگا پور اور اٹلی دوسری جنگ عظیم کے دوران مشرق بعید کے مجاہدین امریت کا رابطہ مرکز سے کٹ چکا تھا اور کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ وہ کے مجاہدین کی نسبت اطلاعا کسی حال میں میں یہ پہلا سال تھاجس میں خدا تعالی کے فضلو کرم سے اُن کی خیریت کی اطلاعات مرکز میں پہنچیں.چنانچہ ریڈ کر اس کمشنر شملہ کی طرف سے ۱۲ وفار جولائی سے پیش کو بذریعہ تار اطلاع ملی کہ دشمن کے ذرائع سے حاصل شدہ اطلاع مظہر ہے کہ مولوی رحمت علی صاحب (مبلغ جاوا) زندہ اور بخیریت ہیں میکے ماده وفا بولائی سے یہ مہیش کے پہلے عشرہ میں بیٹھ کر اس شملہ نے دشمن کے ملک سے ریڈیو کا پیغام انا اور اس کی اطلاح جماعت احمدیہ کو دی که مولودی غلام حسین صاحب آیاز مبلغ سنگا پور اور وہاں کے دوسرے امرانی شیح سالم این شیشه مولانا جلال الدین صاحب شمس نے ہر تبوک استمبر ریش کو بذریعہ تار اطلاع دی کہ مولوی محمد شریف صاحب مبالغ اٹلی کے بغیر بیت ہونے کا خط موصول ہوا ہے مجھے.اس ماہ حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی رض کی خدمت میں انٹر نیشنل ریڈ کر اس سوسائٹی جنیوا کی طرف سے ہانگ کانگ کے احمدیوں محمد یوسف ، غلام احمد ، رحمت خان ، محمود کی شیریت کی خبر بھی پیچی شد گذشته و موجودہ جنگ کے متعلق پیشگوئیاں مولانا جلال الدین صاحب شمس نمی مطبوعات سلسله نا امام مسجد لنڈن کے اہم مضامین کا مجموعہ جو رسالہ کر یویو آف ریلیجنز (اردو) کے بعض شہروں میں شائع ہوئے اور مکتبہ احمدیہ قادیان نے انہیں یکجائی طور پر چھاپ دیا.ان مضامین میں نہ صرفت حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی پیشگوئی کے ظہور پذیر ہونے کی مستند معلومات فراہم کی گئیں جن کا تعلق پہلی عالمگیر 4 لے اصل ۱۲ تبوک / ستمبر را میش صفحه 1 الفضل " را خدا استخری صفحہ ۳ کالم ۱ ا راندا و • هار و فار جولائی " ا و فارجو دائی * 1 ار تبوکت استمبر و نه ۴ به ر تبو کا رستمیر صفحه ۰۴
۷۳ جنگ سے تھا بلکہ دوسری جنگ کی نسبت سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی رنز کی پیشنگوئیاں بھی درج کی گئیں اور جنگ کے بارہ میں سپر پولسٹوں اور نجومیوں کی پیشگوئیوں کا از روئے واقعات غلط ہونا بھی بالبداہت ثابت کیا گیا تھا.سیرت مسیح موعود حصہ پنجم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے شمائل و اخلاق پر مشتمل ایک اور مفید اور مستند کتاب جو سلسلہ احمدیہ کے پہلے مؤرخ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے مرتب فرمائی.۳- تاریخ اندلس" مصنفہ حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد سابق امام مسجد لندن، بیر ایک مختصر مگر عالمانہ کتاب تھی جس میں سپین کی اسلامی حکومت کے قیام اور اس کے عروج و زوال پر ٹھوس معلومات جمع کی گئیں.فاضل مصنف نے قیام انگلستان کے زمانہ میں سپین کا سفر کیا.اور پھر آکسفورڈ ، کیمبرج لندن یونیورسٹیوں کی طرف سے مسلم سپین " کے موضوع پر لیکچر دینے کی دعوت پر تاریخ اندلس کا گہرا مطالعہ کیا اور نوٹ لکھے.یہ کتاب ان سب معلومات کا نچوڑ اور خلاصہ تھی.۴ سیرت حضرت ام المومنین حصہ اول دمرتبه شیخ محمود احمد صاحب عرفانی ایڈیٹر اخبار المحکم" قادیان سابق مبلغ بلاد عریبیہ حضرت ام المومنین سیدہ نصرت جہاں بیگم رضی اللہ عنہا کی یہ پہلی اور مستند سوا نخوری تھی جو خاص اہتمام سے مرتب ہوئی اور شائع کی گئی.فاضل مولف کئی سال سے مریض پہلے آرہے تھے اور مختلف اوقات میں مرض کے خطرناک حملے ہوئے.کتاب کی تالیف کے دوران بھی ایک بار پھر ہماری کا حملہ ہوا.مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے اس نہایت قیمتی کتاب کے پہلے حصہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی سعادت عطا کی.حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے اس کے مسودہ پہ نظر ثانی فرمائی.اور یہ رائے دی کہ " میری رائے میں یہ کتاب ایک اور یجنل ( ORIGINAL ) تصنیف ہے اور اکثر احباب تو اسے اوّل سے آخر تک بالکل نئی معلومات کا مجموعہ پائیں گے جو نہ صرف اُن کے لئے بلکہ اُن کی بیویوں اور لڑکیوں کے لئے میر اسمر رحمت اور برکت کا موجب ہوگی اور قرآن کریم ، حدیث اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد یہ وہ کتاب ہوگی جیسے احمدی آئندہ اپنی لڑکیوں کو التزاما جہیز میں دیا کریں گے....اللہ تعالے مصنف کو جزائے خیر دے...مجھے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کتاب کی تصنیف کا خیال بھی خدا کی طرف سے اُن کے دل میں ڈالا گیا ہے.یہ سنہ اس اہم تالیف سے جماعت کی ایک بہت بڑی ضرورت پوری ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم له الفضل ۲۱ فتح دسمبرم صفر ۰۵۰
سے اس کو یہ قبولیت بھی بخشی کہ طبع ہونے سے پہلے تین ہزارہ کتاب فروخت ہو گئی.کتاب کی اشاعت میں سب سے زیادہ نمایاں حصہ الحاج حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب آف سکندر آباد نے لیا اور انہی کے نام نامی سے یہ کتاب مُعَنُونَ ومُنتَسَب ہوئی ه " قیامِ شریعیت " حصہ اول - (مؤلفہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر مولوی فاضل ) یہ کتاب انسانی زندگی کے دور اول یعنی پیدائش سے لیکر بلوغت تک کے ضروری اسلامی مسائل پر مشتمل تھی.4 - انعامات خداوند کریم“ نہایت قیمتی نصایح کا مجموعہ تو حضرت پیر افتخار احمد صاحب نے لدھیانوی نے مرتب فرمایا ہے شمائل احمد (مرتبہ چودھری مشتاق احمد صاحب با بود بی.اسے ایل ایل بی مہتم شعبہ اطفال خدام الاحمدی مرکز یہ قادیان) خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے شعبہ اطفال کی طرف سے بچوں کی تربیت کے سلسلہ میں پہلی کتاب اخلاق احمد چھپی تھی.اب دوسری کتاب شمائل احمد " کے نام سے شائع کی گئی.اس تالیف کا نام حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے تجویز کیا اور اس کے تعارف میں لکھا :- مجلس عقدام الاحمدیہ مرکزیہ کے ارکان ایک مجموعہ شمائل احمد کے نام سے شائع کر رہے ہیں.اس مجموعہ کے مسودہ کو میں نے سرسری نظر سے دیکھا ہے اور کہیں کہیں مشورہ کے رنگ میں بعض اصلاحات کی طرف بھی توجہ دلائی ہے بغلطی کا تو ہر انسانی کام میں امکان ہوتا ہے.لیکن یہ مجموعہ زیادہ تر سلسلہ عالیہ احمدیہ کی شائع شدہ روایات پر مبنی ہے اور کارکنوں کی نیت بھی خدا کے فضل سے صالح ہے.اس لئے میں امید کرتا ہوں کہ یہ مختصر مجموعہ جو بچوں اور نو جوانوں کی تربیت کی غرض سے شائع کیا جا رہا ہے انشاء اللہ مفید ثابت ہوگا.کیونکہ یہ ناممکن ہے کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے شمائل کی تصویر صحیح طور پر پیش کی جائے تو وہ نیک اثر پیدا کرنے سے قاصر رہے.اس مجموعہ میں ایک اور بھی خوبی ہے اور وہ یہ کہ یو جد اس کے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے بارے میں چشم دید حالات پر مبنی ہے جو روایات کے رنگ میں بیان کئے گئے ہیں.وہ نصیحت اور اُسوہ دو نو کا کام دیتا ہے اور یہی دو چیزیں تربیت کی جان ہیں.یعنی یہ کہ اچھی نصیحت کے ساتھ ساتھ اچھا اسوہ بھی آنکھوں کے سامنے رہے.میں امید کرتا ہوں کہ دوست اس مجموعہ کی اشاعت سے پورا فائدہ اُٹھانے کی کوشش کریں گے.خاکسار مرزا بشیر احمد اردسمبر کے مطابق الفتح ۲۳۲ انے کتاب کا یہ پہلا ایڈیشن نا تمام صورت میں تھا ؟ نے شمائل احمد " صفحه 1.
اجد میعاد مقررہ کا العمل ر اخبار میفته من ایک بار دوست THE RIAZHIND -* شنر کو شائع جمال ایک اشتمانی و یار و درهفته سهامی کی موسوی اختبار بأخر در خواست کو سیا نده قیمت این جا کر میرا ان کو چاہے کہ درخواست کو سابقہ قیمت میدین تحریر حوالی کیو اسلم کا رو جوابی بیجین مین ناممکن مین جرت اشتهارات سیصد خاص تی سطر اور مقر پر نیند عام منه خریدار کی تبدیلی ہو توده اپنا پروگرام ہمارے پاس پہنچین تا پاس پہنچیں تا کہ جس جگہ ہونا اخبار ایسی جگہ پہنچی.نوبر اس مطبع مین ہر قسم کا کام نہایت.عمدگی اور صفائی سے کیا جاتا ہے.مطبوعه یکم مارچ شته بروز دو شینه شته بروز دوشینه جلدا جيك حبرين ۹۶۳۱۱ ۱۲ الفاظ که جسکو انعام مقررہ ملا رسی نانو اکنون وی نوی تعلیم دی جاتی جوانکی به نکون سے دوسرا ۲۵۰۴۶ کو ہ کو چھر تعلیم ہو رہی ہے کہ وہ پہرہ د سکین.شاہ توبہ کی ایک خاص توار ہندستان کو ائی ہے بوست ولایت کو رات کو باری بدن تان بینوایان اس مرتبه این مین کم عمرلوگ بہت زیادہ مین بنگلور مین ایک ہندو لیڈی واول مرتبه انتشارات کر ندارد اگر زمین چاول کی کاشت مین کا امتحان پاس کیا.بر سماعین سے.رمیان امام در برابر این گیتار بر ما این ضلع شیو کا نک مین ۱۵ اس حسین عورتین چیف جش بیانی اور اب ها را دارید قرار دیا، اور لڑکے بھی شامل ہیں ڈاکو برآمد ہوئی.اگر کوئی محشر یٹ یا حاکم اہانت اہل متقد مر کرے مسٹر ونسٹن کی حیات کا اب بالکل اعتبار نہیں ہے تو او سپر مالش کرو تو وقت مدعی کو ضرورت نہیں ہے میشه ما باری کو جان پر ساری کنید و از بی منشور کی سرکار را از این که بی تو اس کی ذاتی بیوقوفی ر کر لیا کہ سال کے اندر شادی کرنا نہ با خلافت ہے.سر کا ر سے کیا مطلب.ایی فرانس بین دولین کو مقابل ہوا ک کون راست فرارایان در دورانا ایا این می شود سب سو جلد گفتگوکرتی ہو ایک حضرت ثالث بن العار و یا ایه ای خرید کالا ایک نہرا پیوند نها یاد گفتگو تین نشانی کہ جس عرصه اقرارنا حجات مهریه و اتمام ایک یا جانا اتنا و تا سرکار مین ایک تر ۳۵۰ ۲ الفاظ پڑ ہے اور دوسری نی گورنمنٹ نواب موقوف کر دیا ہے.سود اگر ا
واهند یکه تاریخ نمبر ۱۸ جلد دیا فرهند خماد واقعات رساله سراج المینه مصنفہ مرزا غلام احمد هادی شیرین مرزا صاحب کو فضائل صوری اور کمالات معنوی اس سے جس سیاسی کا بغرض قتل کسی انور دشمن کا مقام سے زیاد این که این اما چیزی همین انکی نسبت کو ایک پین دی سر را بیانات میں کہا گیا تا الاستوانی له مذہب اسلام کو اشبت اور احقاق حق میں دلایل قاطی کانون بیٹی والے علاقہ فاضل کا ضلع فیروز پورین بنابراین سطح کو جس خوبی اور سلولی موبیان کیا ہوالی داستان جاکر ایک ذیلدار کوجوان لڑ کو کو مار ڈالا.کہتی ہیں وہ زمان اور عمادگی بیان من علایم ما تقدم اور اتار کی نفی را نیز ذیلدار سے کسی دیوار کو مقدمہ کو سب رنجیدہ تنہا ایک گونه خاص سبقت لیگی ہیں.چنانچہ جن صاحبوں نے جب اسنم مقتول : بندوق کی غیر کئی اور گرا دیا.من صاحب کی کتاب براہین احمدیہ کو حفظ کیا ہو پہلا گانو کو تمام لوگ جمع ہوگئی.مگر ڈر کر بارے کوئی خیره ها و سایت اس عالم من هم می تونگر باوجود یک کتاب دست انداز نو کا آخر کار ترانه دارا به سر و پین کیک کو کئی سال و مشتہر ہوچکی اور اسکو جواب نور کا تیل انتظام کیا.دوستو اپر آپکو معہ بندوق تانیا از کالای اماراتی شایع ہو لیکن مخالفین کے والد کیا.پولیس کا چالان مرتب کر کی عادات اما در یکی یا انو کو یہ رات نبوی که این نام اور ضلع میں مسجد نہ ہو کہ رہی کہ قاتل کو چہرہ سے کر نکیت و استان کرمان این قدم دومین مرنا اس کے بانی کوئی پریشانی یا ایشیا کی معلوم نہیں ہوئی خوش سوال جواب پرده کرکر خاص بات اردو و انگریزی من بوی خوش با یقین کرتا ہو اوسکا نام شام سنگہ ہو اور گر ر هندوستان تمام بری بری بیرون داد یورپ دایره یکی ۲۲ سال کی.سر ی میمن کو شیر کرایا اس کو سلام کر جان جنوبی امریکی مین سب سی مالدار عورت ایک تر بود اره ما مبنی بر با این شده بود تا او کور کیا اس کا خاوندتی کر دی ایکر زمین اور کئی کروڑ روپی.او سکاطمینان ہوتا ہو ایک برس تک ہماری پاس ریکتر بیٹی نے بکراین ام ریکوئیلہ تانیا اور چاندی کی کامین کی سمانی نشانیا اپنی نیکون و حفظ کرد در اسکا با شرت چھوڑ کر مرا - ایک بیڑہ آپنی جہازات کا اور کتری اسلام و بی یا ہونا آسان نشانیون ارسال به کار میں ایلوی مشرک او نو د شته مین پائی اور اوسکی سالی خوراک اور کرایه آمدورفت بطور ا دان بنی جیت کی موت آسمانی کی کروڑ روپیہ کی ہے صرف کوئیلہ کی کانون کا ہوا کہ بیوی کی کیا کیا اور یاد ہے نا اس کا اسلام کی آمدنی و ہزار ڈالر کی ہو جس مکان میں وہ و پایا ارد اشار کی دو مسیر زیاده گرگی تو بی ساکنان درد رہتی ہوا دوسکی تیاری بین ایک کروڑ ڈال صرف ہواہے
میرا جب دریا ان الامر ابو یکم مایع شده بسم اله الرحمن الرحيم حمل ونصلى على رسو الكريم جوند سب غیر کے پیشواؤن یا واعطون یا مبرون سے تعلق رکھتی ہیں اور اس قسم میں بہنے صرف علی جان دلم فدای جان مخته دست خاکم نشار کوچه ای متحد است نمونه چند نامی اور یہ صاحبون اور چند قادیان کے دیدم مبین قلب شوید گریز در مهرگان ندائی جا محلات ہندوں کو لیا ہے جنکی نسبت تخلف قسم کی جنگوریاں این هشدار دا که بخلق خدا هم یک قطره از هر زلال محمد است مین کیونکہ او نہین میں آج کل نئی نئی تیزی اور انکار این آتشم ز آتش مهر مهدویت و این آب من آب لال محمد الشد پایا جاتا ہے اور ہمیں اس تقریب پر یہی خیال رساله سراج منیر شما نشانهای رب دیر ہے کہ خدا وند کریم پاری سن گورنت الات کو بیکر ہاری ہ سالہ اس احقر ( مختلف براہین احمدیہ نے اس فرض سے تالیف احسانات سر کو بتا ستر فراخت و آزادی گوشت خلوت کرنا چا ہو کہ تانگرین حقیت اسلام دین مین سالت حضرت میر رکنی این سال حاصل ہے ظالموں کے ہاتہ یرا نام علی الا الفالف سلام کی انہوں کے آگے ایک ایپ سے اپنی خط و حمایت من ورکر اور روس نویس کا ہوا چراغ کہا جائے جنگی برای ست سوگی ہر ادا کیا اینی کو اپنی سرگردانون مین مبوم محکوم مبتلا کر يطرح نکل رہی ہے اور بڑی بڑی پیشگویوں پر جو هنوز وقوع ین بین بین ہماری گورنمنٹ کو فتح و نصرت نصیب بر تایم ده شکل ہے چنانچہ خو خداوند کریم ایشان دور اس نے جیو پوشیده میدان بشارمین بی اگر لیا لیکن اس عمده موقع پر وچ کی خبر ہے اس نا کارہ کو بعض اسرار خفیہ اخبار یہ مطلع کرکے رسالہ کرین انشاءاله تعالی اور چونکہ پیشگو یا ان کی ار عظیم سے سبکدوش فرما حقیقت میں اس کا فضل ہے اور اس کا اختیاری بات نہیں ہیرا ہمیشہ اور ہرحال میں کام جس نے چار طرف کشاکش مخالفون موافقون با نانی تیری بات کیا الا انا نام این ایز انی قد کوتاه کرد درد در سرب یار بود و اب کی پیالی مخالفین کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ اگر قریب الاختام برا انشاءالله القدیر صرف چند ہفتوں کاکام کی پیشنگوی کو اپنی نسبت اور طبی رامین بیروت اور اس سال میں تین قسم کی میگویان بین اوان و پیشگویان که فوت یا کسی در مصیبت کے نسبت ) با دین توماس سیاه جو خود اس احقر کی ذات سے تعلق رکتی مین بینی و کچه راحت این ناچیز کو سند در تصور فرما دین بالخصوص و صاحب یا حیات یا وفات این ناچیز سے متعلق پریا جوکچھ تفضلات انسان جو باعث مخالفت و مغایرت ندسیپ اور بوجیه الہیہ کا عده این چیز کودیا گیاہے وہ ان مشکولون من مسند نا محرم اسرار و نیکروشن خان کیطرف بشکل جوع دوسری دره پیشگویان وبعض احباب یا عام طور پر کسی ایک کرسکتے ہیں جسے منشی اندرین صاحب مراد آبادی شخص این نوع سر تعلق من اورانین سر این کیک کا بانی ہے ویا اگر پنڈت کیک راج صاحب پشاوری غیر جنگی یہی ہےاور خدا تعالی نے چاہا تو وہ بقیہ ہی ملے ہو جائیگا میری بنا دیا قضا و قدر کے متعلق غالبا اس سال میں بقید این مساله اراس
۱۴۶ وقت وتاریخ کچھ تحریر ہوگا ان صاحبن کی خدمت میں ہم پر ظاہر ہو وہ عالم جبوری ہے جو ہم تم میری ہم نظا تو علی صدق سر ہم گزارش کرتے ہیں جو بین فی الحقت کہی ہوئی بیعت کیساتھ اپنی سالمین تری گرنگی چنانچہ ہم پر ی به وای دل من بین یک بار خداوندکریم خوب جانا ہی خود اپنی نسبت اپنے بعض بہت ہی اقدار کی نسبت سے کہ ہم سب کی بلائی چاہتے ہیں اوربدی کی جگہ نیکی کرنے کو بعض دوستوں کی نسبت اور بعض اپنی فلاسفر قومی بیانیان معتقد بین اور بنی نوع کے ہمدردی سی ہمارا سینہ منور کی نسبت کو گویا نجم الہند ین اور ایک دیسی امیر ندارد بنابی صور ہے اور بے الم ہم باحت وعافیت گویا استار من الاصل کی نعبت بعض متوحش خبرن جو سی کے ابتدا ہی ہیں یکن جوان کی موافق یا خالف کی نسبت یاخود با نیتی کے موت اور نعرہ اور کس کے دو اپنی اس پر بات کرتی که این در کشف و تو هم این یکی مورد سعد در این این انها الا اتنی های جایگی جان ایف نان ایسی بات کو دریغ نکلر کے بعد جوکس دل کے پہنی ہوئی ہیں اور ہر ایک کے لئے ہم دعا کرتے ہیں کیونکہ کا موجب بڑے ہم سخت لعن و طعن کے بابق با کیا ہم جانتے ہیں کہ گر تقدیر معلق ہو تو اون مینی کے مستوجب ٹرینگے.ہم قسمیہ بیان کرتے ہیں اور المیہ بفضلہ تعالی مل سکتی ہے اسی لئر رجوع کرنے وال یوں گوار رکھ کر کہتے ہیں کہ مارا یہ سراسر نیک نیتی سر براہی کے وقت مقبولون کی طرف رجوع کرتے ہیں اور شو خون ہے اور یہین کسی فرد بشر سے عداوت نہیں اور گوگوئی اور براہیوں سے باز آ جاتے ہیں.با اینم اگر کسی احب بدظنی کی راہ سے کیسی ہی بدگوئی دید زبانی کی شق کرے پر کوئی ایسی پیش گوئی شان گذرے تو وہ مجاز میں کہ کچھ ہے اور نا خدا ترسی سے ہمیں آزار دے رہا ہے ہم اپنی تنہایہ سے یا اس تاریخ سے جو کسی خیار می پہلی فقہ پر ہی اُس کے حق میں دعا ہی کرتے ہیں کہ ان صدای میمون بائی یو ٹھیک ٹھیک دو ہفتہ اندر اپنی تخطی تحریر نے ارا وانا اس کمپنی اور ہم اسکو کے ناپاک یال اور ہم کو اطلاع دین اوہ پیشگوی سبکو ظہور سے وہ پیتے ناگفتنی با ون مین مد و مهمترین کونکی هم باشترین مین اندراج رمال سے علحدہ رکھی جا سے اور موجب کہ اپنی اسکا مادہ ہی ایسا ہے اور ہنوز اسکی مجید اور نظر ولازاری تمہید کرکی کو سپر مطلع نہ کیا جا سے اور کسی کو اس قدر ہے کہ جو قایق عالیہ تک نہیں پہنچ سکتی.اُس کے وقت ظہور سے خضر : دیجا.نہ تماد ظاهر پوست از حال ما آگاه نیست اُن ہر قسم کی پیشگویوں میں جانا للہ رسالہ در حق ماهر چه گوید جای بسیج اگر انسیت مین به بسط نام درج ہو ئی پہلی پیشگوئی جوخود اس تصوری گ ور با وجود این مت عام کےکہ جو فطری طور پر این برای متعلق بر آج بیس فروری شده مین جو مطابق پندرد وبر جی نے بہار سر وجود میں رکھی ہے اگر کسی کی نسبت جمادی الاول سے برمامیت ایجاز اقتصار كلمات التامه کوئی بات نا ایم یا کوئی مینگوی حشت ناک بذریعو الهام نور کے طور پر لکھی جاتی ہے اور مفصل سالہ میں مندرج
پہلی.تیری ہی قومیت و نسل ہو گا.خوبصورت پاک کر گا تہا ہو گی انشاء اللہ تعالی لی اااااا انا انام واویلا شیری بر استان خدائے رحیم کریم بزرگ بر ترن جو ہر یک چیز ہر تار روح دیگئی ہے اور وہ اس پر پاک ہے.وہ نورانید ہے جل شانہ عزائمہ ہی کی اہے الہام سے مخاطب ہے.مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے اس کا تہ بیوی کی کر کے فرمایا کہ میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں جو اس کے آیسکے سابقہ آئیگا وہ صاحب کو، اور عظمت اور ایران اسی کے موافق جو تو نے مجھے ہنگا سومینے تیری ہوگا وہ دنیا میں آئیگا اور اپنے سی نفس اور روح الحق تفرعات کو سنا اور تیری دعاؤن کو اپنی رحمتے کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کریگا.وہ بیایہ قبولیت جگہ دی اور تیرے سفر کو جو ہوشیار پور کمتہ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت و غیوری نے اُسے اور اور درمیانہ کا مضر ہے تیرے لئے مبارک کر دیا تو اپنے کا تحمید سے ہیجا ہے.و بخت وہین نہیم اور رحمت اور تربیت کا نشان تجر دیا جاتا ہے فضل اور ہو گا اور دل کا علم اور علوم ظاہری وباطنی سے احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے اور فتح اور مظفر پر کیا جائیگا اور ہمیں کوچار کر والا ہوگا اسکے منے کی کلید تجھولتی ہے.اسے منظر تجہ پر سلام خدا نے سمجھ میں نہیں آئے) دوشنہ ہر مبارک دو شنبه ی کہا تارہ جوزندگی کے خواہان میں موت کے پنجہ سے فرزند دلبند گرامی ارجمند معظم الاول والآخر نظم الحق نجات پاوین اور وہ جو قیر دن میں دبے پڑے بین و العلاء كان الله نزل من السماء جبر کا نزول است با هر دین اور تا دین اسلام کا شرف اور کلام اسکا مرمر مبارک اور جلال انہی کے ظہور کا موجب ہوگا.نور تا ہے لوگوں پر ظاہر صوار تاق اپنی تمام برکتوں کے ساتہ نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر می مسوح کیا آجائے اور باطل اپنی نام نوستون کر انتہ بھاگ جائے ہم امین اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ ہی کے سپر اور تالوگ سیمین کہ مین قادر میون جو چاہتا ہوں کرتا ہوں ہوگا.وہ جلد جلد بڑہے گا اور اسیرون کی سنگاری کا اور مادہ یقین لائین کہ میں تیرے ساہتہ ہوں اور موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائیگا تا اود نہین جوخدا کے وجود پرایمان نہیں لاتے اور خدا اور قومین اُس سے برکت پائین گی تب منیر نفسی نقط دین اور اسکی کتا ہے اسکے پاک رسول محمد مصطفے کو انکلا آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا وَكَانَ امرا مقضيا - اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ایک کہتی نشانی پر خدائے کریم نے مجھے بشارت دیکر کہا کہ تیر ملے اور حجب مون کا ماہ ظاہر ہو جائے.سو تھی ابشار گهر برکت سر پر گیا اورمن این متین نماد پر پوری کرنا ہو کہ ایک وجیہ اور پاک لڑکا تہم دیا جائیگا.ایک کی اور خواتین بہار کہ سے جنہین سے تو بعض کو اس کے غلام (لڑکا تجھے علی گارہ اریگا تیرے ہی تم سے بعد پائیگا تیری نسل بہت ہوگی اور مین تیری ذریت کو
بہت بڑا ؤں گا اور برکت دوں گا گر بعض انہیں سے علی حسب الاخلاص اپنا اپنا اجر پائین گے.تو مجھے ** کمتری میں موت بھی ہونگے اور تیری نسل کی اس ہی ایسا ہے میں انبیا بنی اسرائیل امین علی طورپ ملکون میں سیل مانگی اور ہر ایک شاخ تیری جدی ماینونو اُن سے مشابہت رکھتا ہی تو مجھے ایسا ہے جیسی کی کائی جائیگی اور وہ جلد لا ولور پر ختم ہو جائیگی.میری توحید.تو محبت اور مین تجہ سے ہوں اور اگردہ تو بہ نہ کرین گے تو خدا استر طلا بطلان از کریگا وہ وقت آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ خدا با دشاہوں اور یہاں تک کہ وہ نابود ہو جائیں مجھے اون کے گہر یوں امیرون کے دلوں میں تیری محبت ڈالیگا یہ اراک کے مہارانی سے پر جائیں گے اور ان کی دیواروں پر فضہ نازل کردہ تیرے کپڑوں برکت ڈھونڈیں گے.اسی نکرد ہو گا لیکن اگر وہ رجوع کرنے تو صدا رحم کے ساتہ بیوی اور حق کے مخالف اگر تم میرے بندہ کی نسبت شک کریگا.خدانی برکتین اردگر پلائے کیا اورایک خدا میں ہواگر تمہیں کسی ضلہ احسان سے کچھ انکار ہے جو ہوارہ ترجمہ سے آباد کر گیا اور ایک ڈراتا اگر براتون پہنے اپنے بندہ پر کیا تو اس نشان صحت کی مانند نم بر دے گا.تیری ذریت منقطع نہیں ہوگی اور آخر می نوں ہی اپنی نسبت کوئی سچانشان پیش کرو اگر تم پتے ک سر ریز ریگی خدا تیرے نام کواس در زن جودنیای واراد اگر می شد را وارد را در کوک بر زمین کره ای منقطع ہو جاتے عزت کے ساتہ ایم ہو گا ورتیری وای وای ای دارد و انا فراون و و و و و در مدت بر نیر سے کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دیگا.میں تھی اٹھاؤ گا والوں کے لئے تیار ہے فقط اور اپنی طرف بلالوں گا پر تیرا نام مسیر زمین سرکهن ترین ایا اس کا ا ا ا ر ا ا نی نی تو اس کا کیا مانیا با این اریگا اور ایسا ہوگا کہ سب وہ لوگ جو تیری دلت کو فکرین علیہ السلام مشابہت پیدا کرے یہی کامل اتباع کی حقیقت اور علت فائی ہے جس کے لئے سورہ فاتحہ میں دعا کرنیکی لگے ہوئے میں اور تیری ناکام رہتی کے دیے اور تیرینی اور لئے ہم لوگ امور مین بلکہ یہی انسان کی فطرت میں تقاضا کرنے کے خیال مین میں وہ خو ناکام رہیں گے او ناکای پایا جاتا ہے اور اسی وجہ سلمان لوگ اپنی اولاد کے نام اور نا مرادی مین مرین گئے لیکن خدا تجھے بھی کامیاب بطور تعادل عیسی دارد موسیٰ یعقوب محمد و غیره انبیاء ملالہ سلم کے نام پر کہتی ہیںاور طلبہ ہوتا ہی کہتا کریگا اور تیری ساری مرادین تخجیر دیگا.میں تیری ای اخلاقی و برکات بطور علی امین ہی پیدا ہو جائیں خالص اور دلی مجنون کا گردہ پی ٹی ونگا اور ان نقوی و سیال میں برکت دوں گا اور امین کرت بخون گاو دا ناک غلام احمد (بیلی برای مولت میں خاکسار سلمانوں کے اس دوسرے گردہ پر تا بروز قیامت براہین احمدیه) از مقام موشیار پور قالب بین گے جو حامد دن اور معائدون کا گروہ ہر خدا انہیں نہین بولینگا اور فراموش نہیں کریگا اور وہ MAY طویله شیخ مهم على صاحب میں ۲۰ فرور ان شاء الده
۴۷۵ اس سال اندرونِ ملک میں مباحثہ ہیزم کے سوا کوئی قابل ذکر مناظرہ نہیں ہوا.ہمیزم بوشید مباحثہ ہیزم کے ضلع میں ایک قصبہ ہے جہاں ۲ احسان جون پر ہش کوغیر احمدیوں اور احمدیوں کے احسان پر ما بین مناظرہ کی شرائط طے ہو چکی تھیں.بموجب شرائط ہر فریق کے لئے لازم تھا کہ وہ سند یافتہ مولوی فاضل مناظر نمایش کرے بصورت دیگر مبلغ پچاس روپیہ جرمانہ فریق ثانی کو ادا کرنا ضروری تھا.غیر احمدی اصحاب چونکہ یہ شرط پوری نہ کر سکے اس لئے طویل بحث و تمحیص کے بعد انہوں نے پبلک میں اپنی معذوری پر ندامت کا اظہار کیا.جس پر "وفات وحیات مسیح " اور مسئلہ ختم نبوت “ پر مناظرہ کا آغاز ہوا.H پہلا مناظرہ بجے شروع ہوا.غیر احمدیوں کی طرف سے مولوی عبد اللہ صاحب معمار امرتسری اور جماعت احدید کی طرف سے مولوی سید احمد علی صاحب مولویفا ضل مناظر تھے.جماعت احمدیہ کے مناظر نے قرآن مجید احادیث اور بزرگان سلف کے اقوال کی رو سے حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی وفات پر بحث کی.دوسرا مناظرہ سوا چار بجے بعد دو پہر شروع ہوا.جماعت احمدیہ کی طرف سے مولانا قاضی محمد نذیر صاحب امپوری مولوی فاضل اور غیر احمدیوں کی طرف سے مولوی عبداللہ صاحب منار تھے.جناب قاضی صاحب نے از روئے قرآن مجید اس بات کو پایہ ثبوت تک پہنچا دیا کہ حضرت نبی کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی شان اس قدر اعلیٰ اور ارفع ہے کہ آپ کی اتباع کامل سے انسان نبوت کے انعام سے بھی فیضیاب ہو سکتا ہے.غیر احمدی مناظر اس کا کوئی معقول جواب نہ دے سکے اور اپنی عادت کے مطابق گالیوں اور بد زبانی کے اوچھے ہتھیاروں پر اُتر آئے.اس دوسرے مناظرہ کا ابھی نصف وقت بھی نہ گزرا تھا کہ پولیس نے مداخلت بیجا کر کے مناظرہ ختم کروا دیا بغیر احمدی علماء پولیس کی بات سنتے ہی سٹیج چھوڑ کر چلے گئے.خدا تعالیٰ کے فضل سے مناظرہ نہایت کامیاب رہا.پبلک نہ نہایت اچھا اثر لیا.احمدی احباب مناظرہ سننے کے لئے دُور دُور سے آئے ہوئے تھے.لاہور سے جناب چودھری اسد اللہ خان صاحب بار ایٹ لاء اور میاں غلام محمد صاحب اختر مع دیگر احباب پہنچ گئے تھے.اور قادیان سے بہت سے احباب نے سائیکلوں پر اور پیدل چل کر مناظرہ میں شمولیت کی بیلے الفصل از احسان خون به بیش صفحه ۴ * ۶۱۹۴۳
پانچواں باب حَضَرَتْ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِين خَلِيفَةُ المَسيحَ النَّكَ دعوی مصلح موعود سے یکم مجلس علم وعرفان کی قیامت کہ یگر تک خلافت ثانیہ کا اکتیسواں سال محرم ۱۳۹۳ مطابق مسلح جنوری امر مان ته ر فصل اول پیشگوئی معات تصلح موجود کے مصداق ہونے کا اعلان اوب جماعت احری کیلے اک نئے دور مبارک کا آغاز دنیا کی قدیم مذہبی تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ مصلح موعود پیشگوئی مصلح موعود کا پس منظر می آماری پیشگوئی اصولی اور سیدی اعتبار سے سب سے پہلے کی کی بنیادی بنی اسرائیل کے سامنے منکشف کی گئی اور بتایا گیا کہ میں موجود کے انتقال کے بعد اس کا فرزند اور اس کا پوتا اس کی آسمانی بادشاہت کا وارث ہوگا.چنانچہ سالموں میں لکھا ہے :.IT IS ALSO DIE, AND SAID THAT HE SHALL HIS KINGDOM SON TO HIS DESCEND AND GRANDSON.1878 له طالمود باب پنجم صفحہ ۳۷ مطبوعہ لنڈن شماله ) از جوزف بارکلے ایل ایل ڈی) ناشر الله جان مرے البیرل سٹرین →
یہ بھی ایک روایت ہے کہ مسیح (موعود ) کے وفات پانے کے بعد اُس کی بادشاہت ریعنی آسانی بادشاہت) اس کے فرزند اور پھر اس کے پوتے کو ملینگی " اس ابتدائی شہر کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی حدیث فَيَتَزَوَّجُ رَيُولَهُ لَهُ میں امت مسلہ کو دوبارہ مصلح موعود کی بشارت دی.اور پانچویں صدی ہجری کے شامی بزرگ حضرت امام یحیی بن عقب رحمۃ اللہ علیہ نے خدا سے اطلاع پا کر کھلے لفظوں میں پسر موعود کے نام تک کی خبر دے دی.چنانچہ رہ فرماتے ہیں : دو حُمُودُسَـ سيطه بعد هذا وَ يَمْلِكُ الشَّامَ بِلا قتال یعنی مسیح مولود اور ایک عربی النسل انسان کے بعد محمود ظاہر ہوگا اور ملک شام کو کسی (مادی) جنگ کے بغیر فتح کرے گا.اس شامی بزرگ کے علاوہ ہندوستان کے مشہور ولی حضرت شاہ نعمت اللہ حمہ اللہ علیہ اپنے شہرہ آفاق الہامی تعمیرہ میں پیشگوئی فرمائی کہ دور او چون شود تمام بکام پرسش یادگار می بینم و یعنی " جب مسیح موعود کا زمانہ کامیابی کے ساتھ گذر جائے گا تو اس کے نمونہ پر اس کا لڑکا یادگار رہ جائے گا.یعنی مقدر یوں ہے کہ خدائے تعالے اس کو ایک لڑکا پارسا دے گا جو اس کے نمونہ پر ہوگا اور اس کے رنگ میں رنگین ہو جائے گا اور وہ اس کے بعد اس کا یاد گار ہوگیا ہے ہے اب چونکہ ان خدائی نوشتوں کے ظہور کا وقت آپہنچا تھا اس لئے جناب الہی کی طرف سے سفر ہوشیار پور سی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جنوری ماہ میں حصول نشان کیلئے ہوشیار پورے میں خلوت گزیں ہو کر دعائیں کرنے کا حکم ملا اور الہام ہوا کہ تمہاری عقدہ کشائی ہوشیار پور میں ہوگی.مله " مشكوة " مجتبائی باب نزول عیسی بن مریم صفحه ۲۰۰ باب نزول عیسی علیه السلام لا شمس المعارف الكبرى" مصری صفحه ۳۴۰ * له "الحسين في احوال المهيد مين " مؤلفہ حضرت سید اسمعیل شہید کے یہ ترجمہ سیدنا انسیح الموعود کے مسلم مبارک ہے (ملاحظہ ہو نشان آسمانی صفحه ۲ طبع اول ) + شه سیرۃ المہدی حصہ اول صفحه ۶۹ مرتبہ حضرت قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب)
میں پرتضور نے مولوی عبداللہ صاحب سنوری کو دیا بلوا لیا اور شیخ مہرعلیشاہ صاحب رکھیں ہوشیار پور کے نام خط لکھا کہ میں دو ماہ کے لئے ہوشیار پور آنا چاہتا ہوں.کسی ایسے مکان کا انتظام کر دیں جو شہر کے کنارے یہ ہو اور اس میں بالا خانہ بھی ہو.علاوہ ازیں ۱۳ جنوری شاہ کو اپنے مخلص مرید چودھری رستم علی صاحب (مدار ضلع جالندھر) کو اطلاع دی کہ : اس خاکسار نے حسب ایمار خداوند کریم...اس شرط سے سفر کا ارادہ کیا ہے کہ شب و روز تنہا ہی رہے اور کسی کی ملاقات نہ ہو اور مخداوند کریم جلتا نہ نے اس شہر کا نام بتا دیا ہے جس میں کچھ مدت بطور مغلوت رہنا چاہیئے اور وہ ہوشیار پور ہے.آپ کسی پر ظاہر نہ کریں کہ بھر چند دوستوں کے اور کسی پر ظاہر نہیں کیا گیا ہے کہ چنانچہ اس پروگرام کے مطابق سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پہلی میں بیٹھ کر دریائے بیاس کے رستے ۲۲ جنوری دار (مطابق ۱۵ ربیع ثانی اه) بروز جمعہ ہوشیار پور تشریف لے گئے.اس مقدس سفر میں حضرت اقدس کے ساتھ حضور کے مخلص مُریدوں میں حضرت مولوی عبداللہ صاحب سنوری اور حضرت شیخ حامد علی صاحب کے علاوہ ایک صاحب فتح خان (ساکن رسول پور متصل ٹانڈہ ضلع ہوشیار پور بھی تھے.ہوشیار پور میں حضرت اقدس طویلہ شیخ مہرعلی صاحب کے ایک بالاخانہ پر فروکش ہوئے اور پوری خلوت نشینی اختیار فرماتے ہوئے چلہ کشی کی بچنا نچہ حضرت مولوی عبداللہ صاحب سنفورتی کا بیان ہے کہ :.ہ ہم راستہ میں فتح خاں کے گاؤں میں قیام کرتے ہوئے دوسرے دن ہوشیار پور پہنچے.وہاں جاتے ہی حضرت صاحب نے طویلہ کے بالا خانہ میں قیام فرمایا اور اس غرض سے کہ ہمارا آپس میں کوئی جھگڑا نہ ہو، ہم تینوں کے الگ الگ کام مقرر فرما دیئے بچنا نچہ میرے سپرد کھانا پکانے کا کام ہوا.فتح خاں کی یہ ڈیوٹی لگائی کہ وہ بازار سے سودا و فیولایا کرے.شیخ صاد ملی کایہ کام مقدر ہو کہ گھر کا بالائی کام اور آتے ه حضرت مولوی عبدالله صاحب سنوری کو یہ خصوصیت بھی حاصل تھی کہ شملہ میں عالمگیر دعوت نشان نمائی کیلئے جو دو ہزار انگریزی اشتہار نور نے شائع فرمائے تھے ان کی چھپوائی اور قادیان میں لانے کا انتظام حضور نے انہی کے سپرد فرمایا تھا ملاحظہ ہو مکتوب حضرت مسیح موعود مورخہ 9 فروری شنار مشموله مکتوبات احمدید جلد پنجم نمبر انجم صفحه ۱۵۲) کے ہوشیار پور پہنچنے کی اس تاریخ کی تعیین خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ اور تقویم شمسی کی روشنی میں بآسانی ہوسکتی ہے اور وہ اس طرح کہ حضور نے ، چوری مسئلہ کو حضرت چو بردی رستم علی صاحب مدار ضلع جالندھر کے نام خط لکھا کہ اس وقت روانگی براہ راست ہوشیار پور، تجویز ہوکر کل انشاءاللہ یہ ماجدہ روانہ ہو جاوے گا.بعد ازاں ۲۲ جنوری شملہ کو بذریعہ مکتوب اطلاع دی که یه عاجز بروز جمعہ بخیر و عافیت ہوشیار پور پہنچ گیا ہے (مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر سوم صفحہ ۱۰-۱۱) اب اگر یہ حساب کیا جائے کہ ۸ار اور ۲۶ جنوری کے درمیان جمعہ کا دن کس تاریخ کو آتا ہے تو وہ ٹھیک ۲۲ جنوری شششانہ ہی کی تاریخ بنتی ہے ، حضرت الصلح الموعود فرماتے ہیں: "حضر مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ۲۱ جنوری شاہ کو روانہ ہوئے اور ایک رات رسول مظہر تے ہوئے ۲۲ جنوری جمعہ کے دن وہاں پہنچے گئے (الموجود و صفحه ۱۲ )
۴۹ بجانے والے کی مہمان نوازی کرے.اس کے بعد حضرت مسیح موعود نے بذریعہ دستی اشتہارات اعلان کے دیا کہ چالیس دن تک مجھے کوئی صاحب ملنے نہ آویں اور نہ کوئی صاحب مجھے دعوت کے لئے بلائیں.ان چالیس دن کے گزرنے کے بعد میں یہاں ہمیں دن اور ٹھہروں گا.ان میں دنوں میں ملنے والے میں دھتو کا ارادہ رکھنے والے دعوت کر سکتے ہیں اور سوال و جواب کرنے والے سوال جواب کر لیں اور حضرت صاحب نے ہم کو بھی حکم دے دیا کہ ڈیوڑھی کے اندر کی زنجیر بہ وقت لگی رہے اور گھر میں بھی کوئی شخص مجھے نہ بلائے.میں اگر کسی کو بلاؤں تو وہ اسی حد تک میری بات کا جواب دے نہیں بعد تک کہ ضروری ہے اور نہ اور ریال انا میں کوئی میرے پاس آوے.میرا کھانا او پر پہنچا دیا جاوے.مگر اس کا انتظار نہ کیا جا دے کہ میں کھانا کھائوں خالی برتن پھر دوسرے وقت لے جایا کریں.نماز میں اُوپر الگ پڑھا کروں گا.تم نیچے پڑھ لیا کرو.جمعہ کے لئے حضرت صاحب نے فرمایا کہ کوئی ویران سی مسجد تلاش کرو جو شہر کے ایک طرف ہو جہاں ہم علیحدگی میں نماز ادا کر سکیں بیچنانچہ شہر کے باہر ایک باغ تھا.اس میں ایک چھوٹی سی ویران مسجد تھی.وہاں جمعہ کے دن حضور تشریف لے جایا کرتے تھے اور ہم کو نماز پڑھاتے تھے اور خطبہ بھی خود پڑھتے تھے " یہ چلہ کشی اور ریاضت شاقہ اول سے آخر تک چونکہ خدائے عزو جل و قادر و توانا کے خاص اذن اور اُسی کی راہ نمائی سے تھی اس لئے حضور نے اس کے دوران اور ضروری شام کو چودھری رستم علی صاحب کو خط لکھا کہ بھی تک مجھ کو کچھ خبر نہیں کہ کتک اس شہر میں رہوں اور کس راہ سے جاؤں یہ سب باتیں جناب انہی کے اختیار میں ہیں.امر من آمدنى إِلَى اللَّهِ هُوَنِعْمَ الْمَوْلَى وَنِعْمَ النَّصِيرُ له اس عظیم مجاہدہ کے دوران اللہ تعالے کی طرف سے حضور پر آسمانی افضال و انوار کے بے شمار دروازے کھولے گئے اور بار بار مکالمات و مخاطبات سے نوازا گیا.چنانچہ حضرت مولوی عبد اللہ صاحب سنفورتی کی روایت ہے کہ میں کھانا چھوڑ نے اُوپر جایا کرتا تھا اور حضور سے کوئی بات نہیں کرتا تھا مگر کبھی حضور مجھ سے خود کوئی بات کرتے تھے تو جواب دے دیتا تھا.ایک دفعہ حضرت صاحب نے مجھ سے فرمایا.میاں عبد الله ان دنوں میں مجھ پر بڑے بڑے خدا تعالیٰ کے فضل کے دروازے کھلے ہیں اور بعض اوقات دیر دیر تک خد العالے مجھ سے باتیں کرتا رہتا ہے.اگر اُن کو لکھا جاوے تو کئی ورق ہو بھا دیں " سے سلہ سیرت المہدی طبع دوم حصہ اول صفحه ۷۰ مرتبه تر الانبیا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب مكتوبا احمدية جلد پنج نفر سوم مفروم ۱ ( ناشر محضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی الكبير ماستر المهدی طبع دوم حصہ اول صفر ۷۰-۰۷۱ "
۴۸۰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بند کشی کے دوران مصلح موجود کے عطا کئے جانے کی بشارات اسلامی مان لی کے لے اپنے محبوب حقیقی کی کی آسمانی فتح لیئے بارگاہ میں ایک رحمت کے نشان کے لئے نہایت تفریع اور ابتہال کے ساتھ جو دعائیں کیں وہ قبول ہو گئیں ور اللہ تعالی نے اس مجلہ عظیمہ کے خاتمہ پر آپ کو بنا یا الہامات نہ صرف خود حضور کی ذات حضور کی ذریت عقبہ اورمستقبل میں پیدا ہونے والی تنضور کی جماعت کی نسبت بھری بشار میں دیں بلکہ آپ کی ذریت و نسل اور تخم سے پیدا ہونیوالے ایک سپر موعود ح موعود کی خبردی نیز بتایاگیا کہ اس کا وجود دنیا بھرمیں خدا کے دین اور اس کی کتاب اور اس کے پاک رسول حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے منکروں اور مکذبوں پر حجت قاطعہ کی حیثیت رکھے گا جس کے ذریعہ سے دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہوگا.علاوہ ازیں بذریعہ وحی خفی یہ بھی خبر دی گئی کہ ایسا لڑکا بموجب وعدہ الہی نو برس کے عرصہ تک ضرور پیدا ہو گا خواہ جلد ہو خواہ دیر سے بہر حال اس عرصہ کے اندر پیدا ہو جائے گا.“ لے حضرت مسیح موعود علیہات کلام فرماتے ہیں.یہ صرف پیشگوئی ہی نہیں بلکہ ایک عظیم الشان نشان، آسمانی ہے جس کو خدائے کریم مٹانہ نے ہمارے نبی کریم رؤف و رحیم محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت و عظمت ظاہر کرنے کے لئے ظاہر فرمایا ہے اور در حقیقت یہ نشان ایک مردہ کے زندہ کرنے سے صدہا درجہ اسلئے و اولی داکمل و افضل و اتم ہے" سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مصلح موعود سے متعلق عظیم مشان نشان رحمت کی الہامی تفصیل ۲۰ فروری م کے اشتہار میں درج فرمائی جو پہلی بار اختیار ریاض ہند امرتسر مورخہ یکم مارچ ستارہ میں بطور ضمیمہ شائع ہوا.اور جس کا متن یہ تھا :- پہلی پیشگوئی بالهام الله لا و اعلامه عز وجل خدا رحیم و کریم بزرگ بر تو نے جو سر یک چیز پرقادر ہے دخیل شانہ و عزاسمہا مجھ کو اپنے الہام سے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے به اشتہار واجب الاظهار ۳۲ واریخ ها (تبلیغ رسالت جلد اول صفحه ۷۲ اشتباه در پریل شانه و تبلیغ رسالت جلد اول مت، و استتبار محک اخیار و استرار تبلیغ رسالت جلد اول صفحه ۸۴) * ے اشتہار ۲۲ ، ماری شاه ( تبلیغ رسالت جلد اول صفحه ۱۷۴۷۳
ایک حکمت کا نشان دیتا ہوں.اُسی کے موافق جو تو نے مجھ سے مانگا، سوئیں نے تیری تفریحات کو سنا اور تیری دعاؤں کو اپنی رحمت سے بیانیہ قبولیت جگہ دی اور تیرے سفر کو جو ہوشیار پور اور لدھیانہ کا سفر ہے، تیرے لئے مبارک کر دیا.سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے.فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے.ار فتح اور ظفر کی کلی تجھے ملتی ہے.اسے منظر تجھ پر سلام.خدا نے یہ کہا.تاوہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنجہ سے نجات پاویں اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آویں اور تا دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو اور ناحق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آجائے اور باطل اپنی تمام خوستوں کے ساتھ بھاگ بجھائے اور تا لوگ یہ سمجھیں کہ میں قادر ہوں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں اور تا وہ یقین لائیں کہ میں تیرے ساتھ ہوں اور تا انہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا کے دین اور اس کی کتاب اور اس کے پاک رسول محمد مصطفے کو انکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ایک کھلی نشانی ملے اور مجرموں کا راہ ظاہر ہو جائے.سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا.ایک زکی غلام (لڑکا) مجھے ملیگا.وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذریت و نسل ہوگا.خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے.اُس کا نام منمحو ائیل اور بشیر بھی ہے.اس کو مقدس روح دی گئی ہے اور وہ رجس سے پاک ہے.وہ نور اللہ ہے.مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے.اس کے ساتھ فضل ہے جو اُس کے آنے کے ساتھ آئے گا.وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا.وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے سیمی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا.وہ کلمتہ اللہ ہجر کیونکہ خدا کی رحمت و غیور ی نے اسے اپنے کلمہ تمجیدے ہے.وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دال کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پیر کیا جائے گا اور وہ تین کو چارہ کرنے والا ہو گا اس کے معنے سمجھ میں نہیں آئے، روشنیہ ہے مبارک دو شنبہ فرزند دلبند گرامی ارجمند: مظہر الاول والاخر منظمة الحق والعلاء كان الله نزل من السمار
جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الہی کے ظہور کا موجب ہوگا.نور آتا ہے اور جس کو ہے اپنی رضا مندی کے عطر سے مشوح کیا ہم اس میں اپنی روح ڈا ئیں گے اور خدا کا سایڈس کے سرپرہ ہوگا.وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اُٹھایا جائے گا.وَكَانَ أَمْراً مَقْضِيًّا له الم پنڈت لیکرام کا اشتہا ایوی کی اشاعت پرینت کلام نے ارادہ استاد کو استاد " دیا کہ " آپ کی ذریت بہت جلد منقطع ہو جائے گی.فائت درجہ تین سال تک شہرت رہے گی " ہمارے الہام یہ کہتا ہے کہ لڑکا کیا تین سال کے اندر اندر آپ کا خاتمہ ہو جائے گا اور آپ کی ذریت سے کوئی باقی نہ رہے گا یہ سکے موعود اس ماہ کے دور میں وجود میان تام نے مصلح موعود کی نسبت مزید انکشافات سلم مور کے بارے میں حریر احسانات کے تھے مزید آستانہ احدیت کی طرف توجہ کی تو اللہ مینشانہ کی طرفت سے د اپریل شاہ کو یہ کھلا کہ : ایک لڑکا بہت ہی ترکیب ہونے والا ہے جو ایک مدت حمل سے تجاوز نہیں کر سکتا.اس سے ظاہر ہے کہ غالباً ایک لڑکا ابھی ہونے والا ہے یا بالضرور اس کے قریب بھول ہیں لیکن بہ ظاہر نہیں کیا گیا کہ جو آب پیدا ہو گا یہ وہی لڑکا ہے یا وہ کسی اور وقت میں تو ریس کے عرصہ میں پیدا ہوگیا ہے بشیر اول پیشگوئی کے اس حقہ کے مطابق کہ ایک لڑکا بہت ہی قریب ہونے والا ہے ، اگست شمار کو پیدا ہوئے اور ۲ فروری ملنے والی پیشگوئی خوبصورت پاک لڑاکا تمہارا مہمان آتا ہے کی آسمانی خبر کو پورا کرتے ہوئے کہ نو بر شاہ کو قوت ہو گئے جس پر مخالفین اسلام نے شور مچا دیا کہ مصلح موعود والی پیشگوئی جھوٹی نکلی حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں البہائم کبھی پسر موعود قرار نہیں دیا تھا.اس پر اللہ تعالی کی طرف سے نو سالہ میعاد میں ایک مزید تعیین کی تصریح ہو گئی.یعنی اطلاع دی گئی گراب بشیر ثانی یا مصلح موعود سے کلیات آید سافر صنفی ۲۹۳ - ۵۰۱ شائع کردہ رائے صاحب منشی گلاب سنگھ اینڈ نر مطبع مفید عام امور مطبوعاه الله " ه اشتهار ا پریل شاد تبلیغ رسالت " جلد اول صفحه 4 • سه سیند اشتہار سفر
۴۸۳ بلا توقف پیدا ہو گا.ی تعیین اگر اشتہار ۲۰ فروری مسئلہ کے مندرجہ ذیل الہام میں موجود تھی کہ اس دینی بشیر اول ناقل) کے ساتھ فضل یعنی بیشی ثانی یا صلح موجود ناقل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئیگا " لیکن بیشیر قول کی وفات سے جہاں دشمنان اسلام کی اندرونی کیفیت بے نقاب ہو گئی وہاں اللہ تعالے کی طرف سے مزید تسلی کے طور پر زیادہ صر استانی خبردی گئی چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بشیر اول کی وفات پر یکم دسمبر شاعر کو سبز اشتہا شائع کیا کہ : بشیر اول جو فوت ہو گیا ہے بشیر ثانی کے لئے بطور ارہاس تھا اس لئے دونوں کا ایک ہی پیشگوئی میں ذکر کیا گیا ہے اب تظلمت اور روشنی دونوں اس لڑکے (بشیر اول ناقل) کے قدموں کے نیچے ہیں.یعنی اُس کے قدم اُٹھانے کے بعد جو موت سے مراد ہے ان کا آنا ضرور ہے.سواے اے لوگو جنہوں نے ظلمت کو دیکھ لیا.حیرانی میں مت پڑھو بلکہ خوش ہو اور ذیشی سے اچھلو کہ اس کے بعد اب روشنی آئے گی (ج) دوسرا لڑکا جس کی نسبت الہام نے بیان کیا کہ دوسرا ایشیہ دیا جائے گا جس کا دوسرا نام معمور ہے وہ اگر چہ اب تک جو یکم دسمبر حملہ ہے پیدا نہیں ہوا مگر خدا تعالیٰ کے دعدہ کے موافق اپنی میعاد کے اندر ضرور پیدا ہوگا.زمین - آسمان مل سکتے ہیں پر اس کے وعدوں کا ملنا ممکن نہیں.نادان اس کے الہامات پر ہنستا ہے اور احمق اس کی پاک بشارتوں پر ٹھٹھا کرتا ہے کیونکہ آخری دن اس کی نظر سے پوشیدہ ہے اور انجام کار اس کی آنکھوں سے چھپا ہوا ہے " سبز است تہار کی اشاعت کے قریباً ڈیڑھ ماہ بعد ۱۲ جنوری سیز اشتہار کے موعود ی ولادت کار برای مومیایی مولودی ولادت باسعادت ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی دن ایک اشتہار بعنوان تکمیل تبلیغ " شائع فرمایا جس میں دن شرائط بیعت " میں دن شائع کرتے ہو سکے اطلاع دی کہ ے بارے میں نے....اپنے لطف وکرم سے وعدہ دیا تھا کہ بشیر اول کی وفات کے بعد ایک دوسرا بشیر دیا جائے گا جس کا نام سٹور بھی ہوگا...سو آج ۱۲ جنوری شملہ میں کے سبز اشتہار د طبع اول، حاشیہ مصفی ۲۱ ب شه ایضا صفحہ ۱۷ و که این حاشیه صفحه ای
مطابق و جمادی الاول تکلہ روز شنبہ میں اس عاجز کے گھر میں بفضلہ تعالئے ایک لڑکا پیدا ہو گیا ہے.جس کا نام بالفعل محض تفاؤل کے طور پر بشیر اور محمود بھی رکھا گیا ہے اور کامل انکشاف کے بعد پھر اطلاع دی جائے گی" سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے اس وعدہ کے مطابق بعد میں شائع ہونے والی متعدد تصانیف مثلا سراج منیر، متر الخلافہ ، ضمیر انجام آنهم ، تریاق القلوب اور حقیقۃ الوحی میں پر زور طریق سے دنیا بھر کو یہ اطلاع دے دی کہ ۲۰ فروری شملہ کا وہ موعود فرزند جیسے وعدہ الہی کے مطابق نو سالہ میعاد کے اندر بشیر اول کے بعد بلا توقف پیدا ہوتا تھا اور جس کو سبز اشتہار میں بشیر ثانی اور محمود اور مصلح موعود کے الہامی ناموں سے یاد کیا گیا تھا پیدا ہو چکا ہے.اور خدا کی پیشگوئی حرف بحرف صحیح نکلی ہے.چنانچہ حضور نے تحقیقۃ الوحی" میں تحریر فرمایا کہ: میرے سیتر اشتہار کے ساتویں صفحہ میں اس دوسر لڑکے کے پیدا ہونے کے بارے میں یہ بشارت ہے.دوسرا بشیر دیا جائے گا تین کا دوسرا نام محمود ہے.وہ اگر چہ اب تک جو یکم ستمبر ہ ہے پیدا نہیں ہوا.مگر ندا تعالیٰ کے وعدہ کے موافق اپنی میعاد کے اندر ضرور پیدا ہوگا.زمین آسمان مل سکتے ہیں پر اس کے وعدوں کا ملنا ممکن نہیں.یہ ہے عبادت اشتہار سبز کے صفحہ سات کی جس کے مطابق جنوری شہر میں لڑکا پیدا ہوا.جس کا نام محمود رکھا گیا اور اب تک بفضلہ تعالیٰ زندہ موجود 14 ہے اور سترھویں سال میں ہے " کے بندگان سلسلہ کا مسلک استید ناحی مولا علی الصلاة والسلام کے اس فیصلہ کن ارشاد کی وجہسے حضرت سلسلہ احمدیہ کے مقتدر بزرگ شروع ہی سے حضرت سیدنا محمود کو مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق یقین کرتے تھے چنانچہ حضرت مولوی محمد احسن صاحب امروہی نے سالانہ جلب نشایہ کے موقعہ پر اپنی تقریر کے دوران واضح لفظوں میں اعلان کیا کہ ایک یہ بھی الہام تھا کہ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ مَظْهَرُ الْحَقِّ وَالْعَلَاءِ الا جو اس حدیث کی پیشین گوئی کے مطابق تھا جو مسیح موعود کے بارے میں ہے يَتَزَوَّجُ وَ يُولَدُ لَهُ یعنی آپ کے ہاں ے تبلیغ رسالت " طبع اول جلد اول حاشیه صفحه ۱۴۷ - ۱۴۸ که البعضاً حاشیه صفحه ۱۲۴ سے ایضاً صفحه ۰۵۳ ایضاً صفحه ۱۵ ۹ ايضا صفحہ ۴۲.حقیقۃ الوحی" (طبع (قل) صفحه ۳۶۰ ۰ له الهنا صفحه ۱۳۶۰
۴۷۸۵ ولد صالح عظیم الشان پیدا ہوگا چنانچہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب موجود ہیں " اسی طرح حضرت مولانا نورالدین خلیفہ ایسح الاول نے اپنے عہد خلافت میں اس عقیدہ و مسلک کا برملا اظہار فرمایا کہ پسر موعود میاں صاحب ریعتی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمدی ہی ہیں.چنانچہ پر منظور محمد صاحب استمبر ان کو حضرت خلیفہ اول سے عرض کیا کہ " مجھے آج حضرت اقدس کے اشتہارات کو پڑھ کر پتر مل گیا ہے کہ پر موجود میاں صاحب ہی ہیں“ اس پر حضور نے ارشاد فرمایا :- ہمیں تو پہلے ہی سے معلوم ہے.کیا تم نہیں دیکھتے کہ ہم میاں صاحب کے ساتھ کسی خاص طرز سے ملا کرتے ہیں اور ان کا ادب کرتے ہیں" حضرت پیر صاحب موصوف نے یہی الفاظ لکھ کہ تصدیق کے لئے پیش کئے تو حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے اپنے دست مبارک سے رقم فرمایا :- یہ نظمین نے ا ورم منظور حد سے گھر میں یہ لفظ میں نے برادرم پر منظو محمد سے کہے ہیں نورالدین - استمبر سانہ حضرت پیر صاحب نے خلافت ثانیہ کے ابتدائی ایام میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے مصلح موعود ہونے کے شہوت میں " پر موعود" کے نام سے ایک لاجواب رسالہ شائع کیا جس میں حضرت خلیفہ المسیح الاولی کی اس تحریر کا پتہ یہ بھی چھاپ دیا.غیر مبالغ اصحاب کا مطالبہ امید پیر با ابا نے اس نے اقرار کیا کہ اگر ضرت صاحبزادہ صاحب البامی دعوتی الہامی دعوتی اور حلفیہ بیان دے دیں تو وہ بلا تامل آپ کو مصلح موعود مان لیں گے.چنانچہ اخبار "پیغام صلح نے لکھا :.ہمیں حضرت صاحبزادہ میرزا محمود احمد صاحب کے موعود لڑکا ماننے میں کوئی بھی عذر نہیں.اور نہ ا ضمیمہ اخبار "بدر" ۲۶ جنوری ۱۹۱۱ صفحه ۲ +
AY له ہمیں مسیح موعود کے وکوں میں کسی لڑکے کی جانشینی کا کوئی سوال ہے.صرف اس موعود لڑکے کے متعلق حضر مسیح موعود نے الوہیت میں یہ علامت بتائی کہ وہ قرب اور وحی کے ساتھ مخصوص کیا بھائے گا.سر وحی اور مامور ہونے کا ہمیں انتظار ہے کسی بات سے انکار نہیں".اسی طرح بجناب خواجہ کمال الدین صاحب نے اپنے رسالہ اندرونی اختلافات سلسلہ احمدیہ کے اسباب ہیں حلفیہ بیان کا مطالبہ کرتے ہوئے تحریر کیا.آخری التماس حضرت میاں محب کی خدمت میں یہ بھی کرتا ہوں....اگر وہ الہاما مامور ہیں تو بڑے کے علف اعلان کریں کہ میں الہاما کھڑا کیا گیا اور میں وہی ہوں جس کا وصیت میں ذکر ہے اور مجھے الہانا اضلاع دی گئی ہے کہ قدرت ثانی کا ئیں مظہر ہوں بشم ما روشن دل ما شاد کون چاہتا ہے کہ وہ دن قریب نہ آوین.کم از کم میں اپنے متعلق فیصلہ کرنا چاہتا ہوں.اس حلقت کے بعد مجھ پر حرام ہوگا کہ ہاں حضرت میاں صاحب کے عقائد کے خلاف کچھ لکھوں یا...قبول کر لوں گا یا میں دھاؤں میں لگ بھاؤں گا بہر حال میں خاموش ہو جاؤں گا....اگر وہ مصلح موعود ہیں تو پھر وہ ملفاً یہ بیان کریں کہ آیا الہاما ان کو السلاح ملی که ده وہی فرزند ہیں جس کا اشارہ سبز اشتہار میں ہے.اگر وہ الہاما نہیں تو پھر اپنے مریدوں کو روکیں کیونکہ وہ آپ کو صلح موعود یا پسر موعود بنا رہے ہیں.آپ کیوں خاموش ہو رہے میں باید خاموشی رہا ہے.خطر ناک ہے.آپ کے مبالعین میں سے ایک نے مصلح موعود آپ کو بنایا اور ایک رسالہ میں لکھا.الخ حضرت خلیفہ اسی رانی کا وقت اس سوال کا جواب نامیاتی اور تین ایسی اشانی نے یہ موقف اختیارہ فرمایا کہ میں مصلح موعود ہونے کا دعویٰ نہیں کرتا نہ دعوی کرنا ضروری سمجھتا ہوں.بطور نمونہ چند تحریرات ملاحظہ ہوں :- پہلی تھر میں حضور نے شہر میں فرمایا : : وہ نہ جہ مصلح موعود کے لئے نہ تو علوی وحی سے ضروری ہے اور اللہ بلا دی کے...اور ہو سکتا ہے کہ وہ دعوی بھی نہ کرے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی پیشگوئیاں امت کے بڑے بڑے آدمیوں کی نسبت فرمائیں.بعض نے اُن کے مستحق ہونے کا دعوی بھی نہ کیا.ہاں لوگوں نے سمجھ کر ان پر چسپاں ۰۱ اه " الفصل " ٢٩ ماد ١٩١٢ ی صفحہ ہم کالم کے اندرونی اختلافات سلسلہ احمدیہ کے اسباب " صفحہ ۲۷۲ دنا شر احمد یہ امین الشاعت اسلام لاہور.دسمبر سالم : ناشر یہ لفظ اسی در کتابت کی وجہ سے رہ گیا ہے ؟ $2191
کیں مثلا محمد مہدی فاتح قسطنطنیہ کی نسبت پیشگوئی موجود ہے اُس کا دعوی ثابت نہیں.اور بھی ہیں.یہیں یں مصلح موجود ہونے کا دعوی نہیں کرتا.اگر میں ہوں تو الحمد للہ دعوی سے فائدہ نہیں.اگر میں نہیں تو اس احتیاط سے میں ایک غلطی سے محفوظ ہو گیا.بعض لوگ مجھے وہ موجود سمجھتے ہیں.میں اُن کو بھی نہیں روکتا ہر ایک شخص کا اپنا خیال و تحقیق ہے اور خلاف شریعت نہیں“ لے دوسری تحریمہ پھر وسط جون شاہ کی بات ہے کہ راولپنڈی میں غیر مبالعین سے ایک تقریری مناظرہ طے پایا.ایک موضوع "مصلح موجود بھی مقرر تھا اور مناظر مولانا ابو العطاء صاحب قرار پائے.آپ جب قادیان سے روانہ ہونے لگے تو حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب فاضل معلالپوری نے فرمایا کہ اگر غیر مبا لعین نے یہ کہا کہ حضرت خلیفہ ایسے الثانی ہو تو دعوی نہیں کرتے اور آپ لوگ اپنی طرف سے انہیں مصلح موعود کہے جار ہے ہیں تو کیا جواب ہوگا ؟ مولانا ابوالعطار صاحب نے یہی سوال حضرت خلیفہ مسیح الثانی کے سامنے رکھ دیا.اس پر حضور نے اپنے قلم سے حسب ذیل تحر یہ لکھ دی.یکن بدلوی زیور العطاء به الیت السلام عليكم ورقة السيد و بركاته آپے سوال کا چور ہو یہ ہے کہ زول.میرے نزدیک مصلح دو عدد بہ ہرحال حضرت مسیح موعود میر اصلاح کا موجود یہ اونلویی رو اور میر بیماری کو نا مردت باشر خم یا نه که آکنده زمانه می رویت والا
۴۸۸ دوم مرے نزدیک جس حد تک کسی نے رکہ پیش گو کا کا مطالعہ کیا ہے اسکا تونے کی صدی باتیں میرے یا نہ ملا فست فوری کا بولا کے مطابق اسی سوم به مو ک س ا ا ا ا ا ا ا ا و و و دالان میں عید کویر کا اسلام به ردار نہیں ہوتا کیسے کرے تو دیک کرے لے کے نظام کا حرکت منطوری مرده نہین ہے گمنامی کھتا ہوں کہ کیا پیش گوگا گیا جو مرضی ہے اس N تا لک میں ا کی اہمیت کافی ست شما دیکھنا اگر میرے بھائیوں سے یا گیا ورور د د د د د د ا ا ا ا ا ا ای یاران یک ابر مگر دوسرے تھے
٢٨٩ نا قدر نقاط کرورت گرمی مولوی ابو العطاء صاحب عاهد 1837 خلیفة المسیح الثانی السلام علیکم ورحمة الله و بركاته آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ اول.میرے نزدیک مصلح موعود به هر حال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی موجودہ اور اد میں سے ایک لڑکا ہے نہ کہ آئندہ زمانہ میں آنے والا کوئی فرد دوم.میرے نزدیک جس حد تک نہیں نے اس پیشگوئی کا مطالعہ کیا ہے.اس کی نوے فیصدی باتیں میرے زمانہ خلافت کے کاموں سے مطابق ہیں.سوم.چونکہ میں اس پیشگوئی کے موعود کے لئے دعوئی کو شرط قرار نہیں دیتا.اس لئے میرے نزدیک میرے لئے بھونی کی ضرورت نہیں ہے.ان میں سمجھتا ہوں کہ اس پیشنگوئی کی جو عرض ہے دو بڑی حد تک خداستانی نے میرے ذریعہ سے پوری کر دی ہے.لیکن میں اس میں تعجب کی بات نہیں دیکھتا.اگر میرے بھائیوں میں سے کسی دوسرے کے ذریعہ سے بھی اسی قسم کے کام یا ان سے بڑھ کر کام خدا تعالیٰ کروائے.IɅ ۳۷ خاکسار مرزا محمود احمد خلیفة المسیح الثانی ۶۱۹۴۰ تیسری تحریر اس تحریر کے تین برس بعد حضور نے بہ عیش میں خطبہ جمعہ کے دوران ارشاد فرمایا :- لوگوں نے کوشش بھی کی ہے کہ مجھ سے دعوی کرائیں کہ میں مصلح موعود ہوں.مگر میں نے کبھی اس کی : ضرورت نہیں سمجھی.مخالف کہتے ہیں.آپ کے مرید آپ کو مصلح موعود کہتے ہیں.مگر آپ خود دھوئی نہیں کرتے مگر ہمیں کہتا ہوں کہ مجھے دعوئی کی ضرورت کیا ہے؟ اگر میں مصلح موعود ہوں تو میرے دعوئی نہ کرنے سے میری پوزیشن میں کوئی فرق نہیں آ سکتا.جب میرا عقیدہ یہ ہے کہ جو پیشگوئی غیر مامور کے متعلق ہو اس
۴۹۰ کے لئے دعوی کرنا ضروری نہیں ہوتا.تو پھر دعوے کی مجھے کیا ضرورت ہے ؟ رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم نے ریل کے متعلق پیشگوئی فرمائی تھی.کیا ضروری ہے کہ ریل دعوی کرے...امت مسلمہ میں مجتہدین کی جو فہرست حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دکھانے کے بعد شائع ہوئی ہے، ان میں سے کتنے ہیں جنہوں نے دعوی کیا ہو ؟ میں نے خود حضرت مسیح موعود علیہ اسلام سے سنا ہے کہ مجھے تو اورنگ نہیں بھی اپنے زمانہ کا مجلد نظر آتا ہے.مگر کیا اس نے کوئی دعوی کیا ؟ معمر بن عبد العزیز کو مجدد کہا جاتا ہے کیا اُن کا کوئی دعوی ہے؟ پس غیر مامور کے لئے دھوئی ضروری نہیں.دعوی صرف مامورین کے متعلق پیشگوئیوں میں ضروری ہے.غیر مامور کے صرف کام کو دیکھنا چاہئیے.اگر کام پورا ہوتا نظر آ جائے تو پھر اس کے دعوئی کی کیا ضرورت ہے.اس صورت میں تو وہ انکار بھی کرتا جائے تو ہم کہیں گے کہ وہی اس پیشگوئی کا مصداق ہے پس میری طرف سے مصلح موعود ہونے کے دعوے کی کوئی ضرورت نہیں " سے •.خدا تعالے کی طرف سے امر حضرت این ایس ا ا ا ا ا ا ل ا ن اپنے عہد خلافت کے ابتدای اٹھا میں انتیس برس تک مسلسل اور متواتہ اسی موقف پر قائم رہے.ت خلیفہ ربیع الثانی پر انکشاف اس عرصہ میں بڑے بڑے انقلابات آتے اور پیشنگوئی مصلح موجود سے متعلق ایک ایک کر کے قریباً سب علامات آپ کے وجود مبارک میں نہایت خارق عادت طریق سے پوری ہوگئیں.خدا تعالے کی اس فعلی شہادت کے مد نظر اگرچہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے علی وجہ البصیرت اپنی اس رائے کا اظہار فرما دیا کہ سبز اشتہار میں جو (مصلح موعود) کی پیشگوئی ہے اس میں مجھے کوئی شبہ نہیں کہ وہ میرے ہی متعلق ہے بایں ہمہ مصلح موعود ہونے کا دعوی نہیں کیا یہانتک کہ آپ کی عمر مبارک پچپن سال کے لگ بھگ پہنچ گئی اور دیش کا سال شروع ہو گیا.حضرت امیرالمومنین کا جسم مبارک مسلسل بیماریوں اور دماغی محنتوں کی وجہ سے نڈھال ہو چکا تھا اور صحت روز بروز گرتی جارہی تھی اور بار بار بیماریوں میں مبتلا ہو رہے تھے.اسی حالت میں حضور نے سالانہ جلسہ پوش کو خطاب فرمایا.پھر جلدی دی حضرت سیدہ ام طاہر کی تشویشناک علالت کے باعث لاہور تشریف لے آئے جہاں حقیر ه الفضل " ۲۳ رامان / مادری از پیش صفر، کالم ۲-۳- " الفضل " ۲۷ فروری ۱۹۳۷ئد صفحه ۶ +
سید نا حضرت خلیہ اسی الثانی اصلح الموعود لا ہور کے صحابہ اور دوسرے احباب کے ساتھ اوائل ۱۳۲۳اعش ۱۹۴۴ء المسیح ناموں کی تفصیل ضمیمہ میں درج ہے)
شیخ بشیر احمد صاحب ایڈوکیٹ کے مکان کا وہ تاریخی کمرہ لمصلہ جہاں حضرت اصلح الموعود پر انکشاف ہوا سامنے وہ چار پائی ہے جہاں حضور انور بوقت رؤیا سور ہے تھے.بائیں طرف شیخ بشیر احمد صاحب مصروف گفتگو ہیں.
۹۱ لیڈی ولنگڈن ہسپتال میں داخل تھیں.اس سفر میں حضور کا قیام مکرم شیخ بشیر احمد منا ہی اسے ایل ایل بی ایڈوکیٹ کی کوٹھی واقع ۱۳ امپل روڈ میںتھا.خدا تعالیٰ نے آپ کے قیام لاہور کے دوران رضائیا) ۵ ۶ صبح اجنوری ۱۹۴۴ ہی کی درمیانی شب کو ایک عظیم الشان ردیار کے ذریعہ آپ پر یہ انکشان فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۲۰ فروری شملہ کو جبس موجود بیٹے کی پیدائش کا اعلان ہوشیار پور کی سرزمین سے فرمایا تھا اور جس کے متعلق یہ بتایا گیا تھا کہ وہ سیحی نفس ہوگا ، جلد جلد بڑھے گا ، علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا اور وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی وغیرہ وغیرہ اس پیشگوئی کے مصداق آپ ہی ہیں.عجیب بات یہ تھی کہ حضرت مسیح موعود علی است لام پر سفر ہوشیار پور کے دوران مصلح مو عجیب مشابہتیں کے متعلق الہامات ہوئے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے کو بھی یہ کشف سفر میں ہی ہوا.مزید تحقیق کرنے پر یہ بھی علم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام شیخ مہر علی صاحب ریمیں ہوشیار پور کے بالا خانہ میں ٹھہرے تھے اور حضرت خلیقہ مسیح الثانی بن شیخ ایشیا ہر صاحب کے جس مکان میں قیام فرما تھے وہ شیخ مہر علی صاحب ہوشیار پوری کی برادری ہی کے ایک فرد شیخ نیاز محمد مرحوم پلیڈر کا تھا.سینا الصلح الموعود کا پر شوکت دعوی کہ خدائے ذو العرش کے اس انکشاف کے بعد حضور انور یونہ ۲۷ ماه صلح زنبوری قادیان تشریف لائے اور اگلے روز میں ہی پیشگوئی مصلح موعود کا مصداق ہوں و با صلح بجنوری کو سجد اقصی قادیان کے منبر پہ رواق ۲۸ ماه افروز ہو کر ایک مفصل خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس میں پہلے تو اپنی تازہ روبار بالتفصیل بیان فرمائی اور پھر یہ پر شوکت اعلان فرمایا کہ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں.چنانچہ حضور نے سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.آج میں ایک ایسی بات کہنا چاہتا ہوں تین کا بیان کرنا میری طبیعت کے لحاظ سے مجھے یہ گراں گزرتا ہے.لیکن چونکہ بعض ہو تیں اور الہی تقدیریں اس بات کے بیان کرنے کے ساتھ وابستہ ہیں.اس لئے میں اس کے بیان کرنے سے باوجود اپنی طبیعت کے انقباض کے رُک بھی نہیں سکتا.یہ له الفضل یکم تبلیغ میں میں متعین تاریخ کی بجائے بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات بتائی گئی ہے ؟ الفضل " ۱۶ تبلیغ فروری پیش صفر ۲ کالم ۴ سے " الفضل " ۲۹ صلح جنوری هم مش صفراء
۴۹۲ جنوری کے پہلے ہفتہ میں غالباً بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات کو رمیں نے غالباً کا لفظ اس لئے استعمال کیا ہے کہ میں اندازہ سے کہہ رہا ہوں کہ وہ بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات تھی ) میں نے ایک عجیب رویا دیکھا.میں نے جیسا کہ بارہا بیان کیا ہے.غیر مامورین کا اپنے کسی رویار کو بیان کرنا ضروری نہیں ہوتا.اور میں خود تو سوائے پچھلے ایام کے جبکہ اس جنگ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے بعض اہم خبریں مجھے دیں.بہت کم ہی رویا بتایا کرتا ہوں بلکہ اللہ بہتر جانتا ہے.یہ طریق درست ہے یا نہیں میں اپنے روپا و کشور اور الہامات لکھتا بھی نہیں اور اس طرح وہ خود بھی کچھ عرصہ کے بعد میری نظروں سے اور جھیل ہو جاتے ہیں بچنا نچہ ابھی لاہور میں مجھے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے ایک امر کے سلسلہ میں میرا ایک نہیں پچیس سال کا پرانا رو با یاد کرایا.پہلے تو وہ میرے ذہن میں ہی نہ آیا.مگر بعد میں جب انہوں نے اس کی بعض تفصیلات بیان کیں تو اس وقت مجھے یاد آ گیا.تو میری یہ عادت نہیں ہے کہ میں رویار و کشون بیان کروں لیکن چونکہ اس رڈیار کا تعلق بعض اہم امور سے ہے، نہ صرف ایسے امور سے جو کہ میری ذات سے تعلق رکھتے ہیں.بلکہ ایسے امور سے بھی جو بعض سابق انبیاء کی ذات اور ان کی پیشگوئیوں سے تعلق رکھتے ہیں اور نہ صرف وہ بعض سابق انبیاء کی ذات اور ان کی پیشگوئیوں سے تعلق رکھتے ہیں.بلکہ آئندہ رونما ہونے والے دنیا کے اہم حالات سے بھی تعلق رکھتے ہیں.اس لئے لیکن مجبور ہوں کہ اس رویار کا اعلان کروں اور میں نے اس کے اعلان سے پہلے خدا تعالیٰ سے اس بارہ میں دعا بھی کی ہے اور استخارہ بھی کیا ہے تاکہ اس معاملہ میں مجھ سے کوئی بات خدا تعالیٰ کے منشاء اور اس کی رضاء کے خلاف نہ ہو.وہ رویا یہ تھا کہ میں نے دیکھا.میں ایک مقام پر ہوں جہاں جنگ ہو رہی ہے.وہاں کچھ کار میں ہیں.نہ معلوم وہ گڑھیاں ہیں یا ٹرنچز ہیں.بہر حال وہ جنگ کے ساتھ تعلق رکھنے والی کچھ عمارتیں ہیں.وہاں کچھ لوگ ہیں جن کے متعلق میں نہیں جانتا کہ آیا وہ ہماری جماعت کے لوگ ہیں یا یونہی مجھے اُن سے تعلق ہے میں ان کے پاس ہوں.اتنے میں مجھے یوں معلوم ہوتا ہے جیسے جرمن فوج نے جو اس فوج سے جس کے پاس میں ہوں بر سر پیکار ہے، یہ معلوم کو لیا ہے کہ میں وہاں ہوں اور اس نے اس مقام پر حملہ کر دیا ہے اور وہ حملہ اتنا شدید ہے کہ اس جگہ کی فوج نے پسپا ہونا شروع کر دیا.یہ کہ وہ انگریزی فوج تھی یا امریکن فوج یا کوئی اور فوج تھی.اس کا مجھے اس وقت کوئی خیال نہیں آیا.بہر حال وہی
۹۳ جو فوج تھی اس کو جرمنوں سے دینا پڑا.اور اس مقام کو چھیڑ کر وہ پیچھے ہٹ گئی جب وہ فوج پیچھے ہٹی تو بر من اس عمارت میں داخل ہو گئے جس میں میں تھا.تب میں خواب میں کہتا ہوں.دشمن کی جگہ پر رہنا درست نہیں اور یہ مناسب نہیں کہ اب اس جگہ ٹھہرا جائے.یہاں سے ہمیں بھاگ چلتا چاہیئے.اس وقت میں رویا ر میں صرف یہی نہیں کہ تیزی سے چلتا ہوں بلکہ دوڑتا ہوں.میرے ساتھ کچھ اور لوگ بھی ہیں اور وہ بھی میرے ساتھ ہی دوڑتے ہیں.اور جب میں نے دوڑنا شروع کیا تو رویا میں مجھے یوں معلوم ہوا.جیسے میں انسانی مقدرت سے زیادہ تیزی کے ساتھ دوڑ رہا ہوں.اور کوئی ایسی زیر دست طاقت مجھے تیزی سے لے جا رہی ہے کہ میلوں میں میں ایک آن میں طے کرتا جا رہا ہوں.اس وقت میرے ساتھیوں کو بھی دوڑنے کی ایسی ہی طاقت دی گئی مگر پھر بھی وہ مجھ سے بہت پیچھے رہ جاتے ہیں.اور میرے پیچھے ہی بر من فوج کے سپاہی میری گرفتاری کے لئے دوڑتے آرہے ہیں.مگر شاید ایک منٹ بھی نہیں گزرا ہو گا کہ مجھے رویاء میں یوں معلوم ہوتا ہے کہ بر من سپاہی بہت پیچھے رہ گئے ہیں مگر میں پھلتا پھلا جاتا ہوں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ زمین میرے پیر کو کے نیچے سمٹتی چلی جارہی ہے.یہاں تک کہ میں ایک ایسے علاقہ میں پہنچا جو دامن کوہ کہلانے کا مستحق ہے.ہاں جس وقت جرمن فوج نے حملہ کیا ہے رویاء میں مجھے یاد آتا ہے کہ کسی سابق نبی کی کوئی پیشگوئی ہے یا خود میری کوئی پیشگوئی ہے.اس میں اس واقعہ کی خبر پہلے سے دی گئی تھی اور تمام نقشہ بھی بتایا گیا تھا کہ جب وہ موعود اس مقام سے دوڑے گا تو اس اس طرح دوڑے گا اور پھر فلاں جگہ جائے گا.چنانچہ روبار میں جہاں میں پہنچا ہوں وہ مقام اس پیشگوئی کے مین مطابق ہے اور مجھے معلوم ہوتا ہے کہ پیشینگوئی میں اس امر کا بھی ذکر ہے کہ ایک خاص رستہ ہے جسے میں اختیار کروں گا اور اس راستہ کے اختیار کرنے کی وجہ سے دنیا میں بہت اہم تغیرات ہوں گے اور دشمن مجھے گرفتار کرنے میں ناکام رہے گا.چنا نچہ جب میں یہ خیال کرتا ہوں تو اس مقام پر مجھے کئی ایک پک ڈنڈیاں نظر آتی ہیں جن میں سے کوئی کسی طرف بھاتی ہے اور کوئی کسی طرف میں ان پک ڈنڈیوں کے بالمقابل دوڑتا چلا گیا ہوں تا معلوم کروں کہ پیشگوئی کے مطابق مجھے کہیں کہیں راستہ پر جانا چاہیئے اور میں اپنے دل میں یہ خیال کرتا ہوں کہ مجھے تو یہ معلوم نہیں کہ میں نے کسی راستہ سے جانا ہے اور میرا کسی راستہ سے جانا خدائی پیشگوئی کے مطابق ہے.
۴۹۴ ایسا نہ ہو میں غلطی سے کوئی ایسا راستہ اختیار کر لوں جس کا پیشنگوئی میں ذکر نہیں.اس وقت میں اس شرک کی طرف بھا رہا ہوں جو سب کے آخر میں بائیں طرف ہے.اس وقت میں دیکھتا ہوں کہ مجھ سے کچھ فاصلہ پر میرا ایک اور ساتھی ہے اور وہ مجھے آواز دے کر کہتا ہے کہ اس سڑک پر نہیں دوسری سٹرک پر سیمائیں.اور میں اُس کے کہنے پہ اس سڑک کی طرف جو بہت دُور ہٹ کر ہے واپس ٹوٹتا ہوں وہ جس سڑک کی طرف مجھے آوازیں دے رہا ہے انتہائی دائیں طرف ہے اور جس سڑک کو میں نے اختیار کیا تھا وہ انتہائی بائیں طرف تھی.پس چونکہ میں انتہائی بائیں طرف تھا اور جس طرف وہ مجھے بلا رہا تھا وہ انتہائی دائیں طرف تھی.اس لئے میں کوٹ کر اس سڑک کی طرف چلا.مگر جس وقت میں پیچھے کی طرف واپس ہوتا.ایسا معلوم ہوا کہ میں کسی زیر دست طاقت کے قبضہ میں ہوں اور اس زبر دست طاقت نے مجھے پکڑ کر درمیان میں سے گزرنے والی ایک پک ڈنڈی پر چلا دیا.میرا ساتھی مجھے آوازیں دیتا پچھلا جاتا ہے کہ اُس طرف نہیں اس طرف اُس طرف نہیں اِس طرف.مگر میں اپنے آپ کو بالکل بے بس پاتا ہوں اور درمیانی پک ڈنڈی پر بھاگتا چلا جاتا ہوں ( اس جگہ کی شکل رو یاد کے مطابق اس طرح بنتی ہے) شمال دایاں پہاڑی راستند که بڑی سڑک جس پر میں دوڑ رہا ہوں در میانی پک ڈنڈی جو آگے بھا کہ پھر دو شاخوں میں تقسیم ہو جاتی ہے پایان پرسهای راسته دوز مشرق جنوب
۴۹۵ جنب میں تھوڑی ڈور پھلا تو مجھے وہ نشانات نظر آنے لگے جو پیشگوئی میں بیان کئے گئے تھے.اور میں کہتا ہوں.میں اُسی راستہ پر آگیا جو خدا تعالیٰ نے پیشگوئی میں بیان فرمایا تھا.اس وقت رویا ر میں میں اس کی کچھ تو یہ بھی کرتا ہوں کہ میں درمیانی پک ڈنڈی پر جو ملا ہوں تو اس کا کیا مطلب ہے.چنانچہ جس وقت میری آنک کھیلی.معا مجھے خیال آیا کہ دایاں اور بایاں راستہ جو رویاء میں دکھایا گیا ہے اس میں بائیں راستہ سے مراد خالص دنیوی کوششیں اور تدبیریں ہیں اور دائیں راستہ سے مراد خالص دینی طریق دعا اور عبادتیں وغیرہ ہیں اور اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ ہماری جماعت کی ترقی درمیانی راستہ پر پلنے سے ہوگی.یعنی کچھ تدبیریں اور کوششیں ہوں گی اور کچھ دعائیں اور تقدیریں ہوں گی اور پھر یہ بھی میرے ذہن میں آیا کہ دیکھو قرآن شریف نے امت محمدیہ کو اُمة وسطاً قرار دیا ہے.اس وسطی راستہ پر چلنے کے یہی معنے ہیں کہ یہ امت اسلام کا کامل نمونہ ہوگی اور چھوٹی پک ڈنڈی کی یہ تعبیر ہے کہ راسته گو درست راستہ ہے مگر اس میں مشکلات بھی ہوتی ہیں.غرض میں اُس راستہ پر چلنا شروع ہوا.اور مجھے یوں معلوم ہوا کہ دشمن بہت پیچھے رہ گیا ہے.اتنی دور کہ نہ اس کے قدموں کی آہٹ سنائی دیتی ہے اور نہ اس کے آنے کا کوئی امکان پایا جاتا ہے مگر ساتھ ہی میرے سے ساتھیوں کے پیروں کی آہٹیں بھی کمزور ہوتی چلی جاتی ہیں.اور وہ بھی بہت پیچھے رہ گئے ہیں مگر میں دوڑتا پھلا بھاتا ہوں اور زمین میرے پاؤں کے نیچے سمٹتی چلی جا رہی ہے.اس وقت میں کہتا ہوں کہ اس واقعہ کے متعلق جو پیشنگوئی تھی اس میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اس رستہ کے بعد پانی آئے گا اور اس پانی کو عبور کرنا بہت مشکل ہوگا.اس وقت میں رستے پر چلتا تو چلا جاتا ہوں مگر ساتھ ہی کہتا ہوں.وہ پانی کہاں ہے ؟ جب میں نے یہ کہا.وہ پانی کہاں ہے.تو یکدم میں نے دیکھا کہ میں ایک بہت بڑی جھیل کے کنارے پر کھڑا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کھیل کے پار ہو جاتا پیشگوئی کے مطابق ضروری ہے.میں نے اُس وقت دیکھا کہ کھیل پر کچھ چیزیں تیر رہی ہیں.وہ ایسی لمبی ہیں جیسے سانپ ہوتے ہیں اور ایسی باریک اور ہلکی چیزوں سے بنی ہوئی ہیں جیسے بے وغیرہ کے گھونسلے نہایت باریک تنکوں کے ہوتے ہیں وہ اُوپر سے گول ہیں جیسے اژدھا کی پیٹھ ہوتی ہے اور رنگ ایسا ہے جیسے بئے کے گھونسلے سے سفیدی زردی اور خاکی رنگ ملا ہوا.وہ پانی پر تیر رہی ہیں اور اُن کے اوپر کچھ لوگ سوار ہیں جو اُن کو سہلا رہے ہیں.خواب میں میں سمجھتا ہوں.یہ بت پرست قوم ہے.اور یہ چیز مین پر یہ لوگ سوار ہیں.اُن کے
بت ہیں اور یہ سال میں ایک دفعہ اپنے بتوں کو نہلاتے ہیں اور اب بھی یہ لوگ اپنے بتوں کو نہلانے کی غرض سے مقررہ گھاٹ کی طرف لے جارہے ہیں اور جب مجھے اور کوئی چیز پارے بھانے کے لئے نظر نہ آئی تو میں نے زور سے چھلانگ لگائی اور ایک بت پر سوار ہو گیا.تب میں نے سنا.بہتوں کے پجاری زور زور سے مشرکانہ عقائد کا اظہار منتروں اور گیتوں کے ذریعہ سے کرنے لگے.اس پر میں نے دل میں کہا کہ اس وقت خاموش رہنا غیرت کے مخلافت ہے اور بڑے زور زور سے میں نے توحید کی وقع اُن لوگوں کو دینی شروع کی اور شرک کی برائیاں بیان کرنے لگا.تقریر کرتے ہوئے مجھے یوں معلوم ہوا کہ میری زبان اُردو نہیں بلکہ عربی ہے.چنانچہ میں عربی میں بول رہا ہوں اور بڑے زور سے تقریر کر رہا ہوں.روبار میں ہی مجھے خیال آتا ہے کہ ان لوگوں کی زبان تو عربی نہیں.یہ میری باتیں کس طرح سمجھیں گے.مگر میں محسوس کرتا ہوں کہ گو ان کی زبان کوئی اور ہے مگر یہ میری باتوں کو خوب سمجھتے ہیں.چنانچہ میں اسی طرح ان کے سامنے عربی میں تقریہ کر رہا ہوں اور تقریر کرتے کرتے بڑے زور سے اُن کو کہتا ہوں کہ تمہارے بید ثبت اس پانی میں غرق کئے بجائیں گے اور خدائے واحد کی حکومت دنیا میں قائم کی جائے گی.ابھی میں یہ تقیہ کر ہی رہا تھا کہ مجھے معلوم ہوا کہ اس کشتی نمائت والا جس پر میں سوار ہوں یا اس کے ساتھ کے بت والا بت پرستی چھوڑ کر میری باتوں پر ایمان لے آیا ہے اور موقد ہو گیا ہے.اس کے بعد اثر پڑھنا شروع ہوا.اور ایک کے بعد دوسرا، اور دوسرے کے بعد تغییرا، اور تغیرے کے بعد چو تھا اور چوتھے کے بعد پانچواں شخص میری باتوں پر ایمان لاتا ، مشرکانہ باتوں کو ترک کرے اور مسلمان ہوتا چلا جاتا ہے.اتنے میں ہم جھیل پار کر کے دوسری طرف پہنچ گئے.جب ہم جھیل کے دوسری طرف پہنچ گئے تومیں حکم دیتا ہوں کہ ان میتوں کو جیسا کہ پیشگوئی میں بیان کیا گیا تھا، پانی میں غرق کر دیا جائے.اس پر جو لوگ موحد ہو چکے ہیں وہ بھی اور جو ابھی موقد تو نہیں ہوئے مگر ڈھیلے پڑ گئے ہیں ، میرے سامنے جاتے ہیں اور میرے حکم کی تعمیل میں اپنے بتوں کو جھیل میں غرق کر دیتے ہیں اور میں خواب میں حیران ہوں کہ یہ تو کسی تیرنے والے مادے کے بنے ہوئے تھے یہ اس آسانی سے جھیل کی تہہ میں گیس طرح چلے گئے.صرف پجاری پکڑ کر اُن کو پانی میں غوطہ دیتے ہیں اور وہ پانی کی گہرائی میں جاکر بیٹھ بناتے ہیں.اس کے بعد میں کھڑا ہو گیا اور پھر انہیں تبلیغ کرنے لگ گیا.کچھ لوگ تو ایمان لا چکے تھے مگر باقی قوم جو ساحل پر تھی.ابھی ایمان نہیں لائی تھی.اس لئے میں نے اُن کو تبلیغ کرنی شروع
کر دی.یہ تبلیغ میں اُن کو عربی زبان میں ہی کرتا ہوں.جب میں انہیں تبلیغ کر رہا ہوں تاکہ باقی لوگ بھی اسلام لے آئیں تو یکدم میری حالت میں تغیر پیدا ہوتا ہے اور مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ اب میں نہیں بول رہا بلکہ خدا تعالے کی طرف سے الہامی طور پر میری زبان پر باتیں کی جا رہی ہیں ، جیسے تخطیہ الہامیہ تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان پر اللہ تعالے کی طرف سے بھاری ہوا.غرض میرا کلام اس وقت بند ہو جاتا ہے اور خدا تعالے میری زبان سے بولنا شروع ہو جاتا ہے.بولتے بولتے میں بڑے زور سے ایک شخص کو جو غالباً سب سے پہلے ایمان لایا تھا.غالبا کا لفظ میں نے اس لیئے کہا کہ مجھے یقین نہیں کہ وہی شخص پہلے ایمان لایا ہو.ہاں غالب گمان یہی ہے کہ وہی شخص پہلا ایمان ہے والا یا پہلے ایمان لانے والوں میں سے با اثر اور مفید وجود تھا.بہر حال میں یہی سمجھتا ہوں کہ وہ سر سے پہلے ایمان لانے والوں میں سے ہے اور میں نے اس کا اسلامی نام عبد الشکور رکھا ہے.میں اُس کو مخاطب کر کے بڑے زور سے کہتا ہوں کہ جیسا کہ پیشگوئیوں میں بیان کیا گیا ہے.میں اب آگے جاؤں گی اس لئے اسے عبد الشکور ! تجھے کو میں اس قوم میں اپنا نائب مقرر کرتا ہوں.تیرا فرض ہوگا کہ میری واپسی تک اپنی قوم میں توحید کو قائم کرے اور شرک کو مٹا دے اور تیرا فرض ہوگا کہ اپنی قوم کو اسلام کی تعلیم پر عامل بنائے ہیں واپس آکر تجھ سے حساب لوں گا اور دیکھوں گا کہ تجھے میں نے جن فرائض کی سرانجام دہی کے لئے مقرر کیا ہے ان کو تُو نے کہا تک ادا کیا ہے.اس کے بعد وہی الہامی حالت جاری رہتی ہے اور میں اسلام کی تعلیم کے اہم امور کی طرف اُسے توجہ دلاتا ہوں اور کہتا ہوں کہ تیرا فرض ہوگا کہ ان لوگوں کو سکھائے کہ اللہ ایک ہے اور محمد اُس کے بندہ اور اُس کے رسول ہیں اور کلمہ پڑھتا ہوں اور اس کے سکھانے کا اُسے حکم دیتا ہوں.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لانے کی اور آپ کی تعلیم پر عمل کرنے اور سب لوگوں کو اس ایمان کی طرف بلانے کی تلقین کرتا ہوں جس وقت یکیں یہ تقریر کر رہا ہوں (جو خود الہامی ہے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کے وقت اللہ تعالیٰ نے خود رسول اللہ صلی الہ علیہ وآلہ وسلم کو میری زبان سے بولنے کی to توفیق دی ہے اور آپؐ فرماتے ہیں انا محمد عبدُهُ وَرَسُوله - اس کے بعد حضر مسیح موعود.علیہ الصلوۃ والسلام کے ذکر پر بھی ایسا ہی ہوتا ہے اور آپ فرماتے ہیں آنا المسيح الموعود اس کے بعد میں اُن کو اپنی طرف تو یہ ولاتا ہوں چنانچہ اس وقت میری زبان پر جو فقرہ عیاری ہوا.وہ یہ
٤٩٨ ہے.وانا المسيح الموعود مشِيلُهُ وَخَلیفتہ اور میں بھی مسیح موعود ہوں یعنی اُس کا مثیل اور اُس کا خلیفہ ہوں.تب خواب میں ہی مجھ پر ایک رعشہ کی سی حالت طاری ہو جاتی ہے.اور میں کہتا ہوں کہ میری زبان پر کیا بھاری ہوا؟ اور اس کا کیا مطلب ہے کہ میں مسیح موعود ہو ہے اس وقت معا میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ اس کے آگے جو الفاظ ہیں کہ مشیلہ میں اس کا نظیر ہوں وخلیفتہ اور اُس کا خلیفہ ہوں.یہ الفاظ اس سوال کو حل کر دیتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام کہ وہ حسن و انسان میں تیرا نظیر ہوگا اس کے مطابق اور اُسے پورا کرنے کے لئے یہ فقرہ میری زبان پر بھاری ہوا ہے اور مطلب یہ ہے کہ اس کا مثیل ہونے اور اس کا تخلیفہ ہونے کے لحاظ سے ایک رنگ میں میں بھی مسیح موعود ہی ہوں کیونکہ جو کسی کا نظیر ہوگا اور اس کے اخلاق کو اپنے اندر لے لیگا وہ ایک رنگ میں اس کا نام پانے کا مستحق بھی ہوگا.پھر میں تقریر کرتے ہوئے کہتا ہوں نہ وہ میں ہوں جس کے ظہور کے لئے اُنہیں سو سال سے کنواریاں منتظر بیٹھی ہیں.اور جب میں کہتا ہوں میں وہ ہوں جس کے لئے انہیں سو سال سے کنواریاں اس سمندر کے کنارے پر انتظار کر رہی تھیں تو میں نے دیکھا کہ کچھ نوجوان عورتیں اور ہو سات یا تو ہیں.بعین کے لباس صاف ستھرے ہیں.دوڑتی ہوئی میری طرف آتی ہیں.مجھے السلام علیکم کہتی اور اُن میں سے بعض برکت حاصل کرنے کے لئے میرے کپڑوں پر ہاتھ پھیرتی جاتی ہیں اور کہتی ہیں ” ہاں ہاں ہم تصدیق کرتی ہیں کہ ہم انہیں سو سال سے آپ کا انتظار کر رہی تھیں" اس کے بعد میں بڑے زور سے کہتا ہوں کہ میں وہ ہوں جسے علوم اسلام اور علوم عربی اور اس زبان کا فلسفہ ماں کی گود میں اس کی دونوں چھاتیوں سے دودھ کے ساتھ پلائے گئے تھے.رویاء میں جو ایک سابق پیشگوئی کی طرفف مجھے تو یہ دلائی گئی تھی.اس میں یہ بھی خبر تھی کہ جب وہ موعود بھاگے گا تو ایک ایسے علاقہ میں پہنچے گا یہاں ایک جھیل ہوگی اور جب وہ اس جھیل کو پار کر کے دوسری طرف جائے گا تو وہاں ایک قوم ہوگی جس کو وہ تبلیغ کرے گا اور وہ اس کی تبلیغ سے متاثر ہو کہ مسلمان ہو جائے گی تب وہ دشمن جس سے وہ موعود بھاگے گا اس قوم سے مطالبہ کرے گا کہ اس شخص کو ہمارے حوالے کیا جائے مگر وہ قوم انکار کر دے گی اور کہے گی ہم لڑ کر مر جائیں گے مگر اسے تمہارے حوالے نہیں کریں گے بچنا نچہ خواب میں ایسا ہی ہوتا ہے.جرمن قوم کی طرف سے مطالبہ ہوتا ہے کہ تم ان کو ہمارے حوالے
۴۹۹ کر دو.اُس وقت میں خواب میں کہتا ہوں.یہ تو بہت تھوڑے ہیں اور دشمن بہت زیادہ ہے.مگر وہ قوم با وجود اس کے کہ ابھی ایک حصہ اس کا ایمان نہیں لایا ، بڑے زور سے اعلان کرتی ہے کہ ہم ہرگز ان کو تمہارے حوالے کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں.ہم لڑکر فنا ہو جائیں گے مگر تمہارے اس مطالبہ کو تسلیم نہیں کریں گے.تب میں کہتا ہوں دیکھو وہ پیشگوئی بھی پوری ہو گئی.اس کے بعد میں پھر ان کو ہدائتیں دے کر اور بار بار توحید قبول کرنے پر زور دے کرہ اور اسلامی تعلیم کے مطابق زندگی بسر کرنے کی تلقین کر کے آگے کسی اور مقام کی طرف روانہ ہو گیا ہوں.اس وقت میں سمجھتا ہوں کہ اس قوم میں سے اور لوگ بھی جلدی جلدی ایمان لانے والے ہیں بچنا نچہ اسی لئے میں اس شخص سے جسے میں نے اُس قوم میں اپنا خلیفہ مقرر کیا ہے، کہتا ہوں.جب میں واپس آؤں گا تو اسے عبدالشکور ! میں دیکھوں گا کہ تیری قوم مشرک چھوڑ چکی ہے ، موقد ہو چکی ہے اور اسلام کے تمام احکام پر کاربند ہو چکی ہے.یہ دہ رویاء ہے جو میں نے جنوری از مطابق صلح ۱۳۲۳ بہش میں دیکھی اور جو غالباً پانچ اور چھ کی درمیانی شب بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات میں ظاہر کی گئی.جب میری آنکھ کھلی تو میری نیند بالکل اُڑ گئی اور مجھے سخت گھبراہٹ پیدا ہوئی کیونکہ آنکھ کھلنے پر مجھے یوں محسوس ہوتا تھا گویا میں اردو بالکل بھول چکا ہوں اور صرف عربی ہی جانتا ہوں بچنا نچہ کوئی گفتہ بھر تک میں اس رویا پر غور کرتا اور سوچتا رہا.مگر میں نے دیکھا کہ میں عربی میں ہی غور کرتا تھا اور اُسی میں سوال و جواب میرے دل میں آتے تھے بے اس روبار میں تین پیشگوئیوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.ایک پیشگوئی تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا میں نے ہی کی ہے یا کسی سابق غیر معروف نہی نے اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کسی نبی کی پیشگوئی ہے اور آیا دنیا کے سامنے اس رنگ میں یہ پیشگوئی پیش بھی ہو چکی ہے یا نہیں؟ لیکن اس کے 194 له الفضل " میں سہو کتابت سے ۱۹۳۳ : چھپ گیا تھا ؟ سيدتنا المسلح الموعود نے فرمایا " مجھ پر کبھی جب یہ تازہ انکشاف ہوا.اور اس کے بعد میری آنکھ کھٹی تو ایک دو منٹ تو اس رویاء پر ہی میں غور کرتا رہا.اس کے بعد اللہ تعالٰی نے معا مجھے سمجھ دی کہ اتنا وقت میں نے نائق ضائع کر دیا.اور میں نے فورا اللہ تعالے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ يَا رَبِّ أَنَا اوَّلُ الْمُؤْمِنين" والفضل در امان مارچ ۳ که بیش تر ۱۴ کالم ۱۴
۵۰۰ علاوہ دو اور پیشگوئیوں کی طرف اس میں اشارہ کیا گیا ہے.پہلی پیشگوئی حیں نہیں یہ ذکر ہے کہ انہیں سو سال سے کنواریاں میرا انتظار کر رہی تھیں.وہ در حقیقت حضرت عیسی علیہ السلام کی ایک پیشگوئی ہے جس کا انجیل میں ذکر آتا ہے حضہ کیسے فرماتے ہیں جب میں دوبارہ دنیا میں آؤں گا تو بعض تو میں مجھے مان لیں گی اور ہے.بعض قومیں انکار کریں گی.آپ ان اقوام کا تمثیلی رنگ میں ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں.ان کی مثال ایسی ہی ہوگی جیسے کچھ کنواریاں اپنی اپنی مشعلیں لے کر دولہا کے استقبال کو نکلیں وہ دولہا کے انتظار میں بیٹھی رہیں ، بیٹھی رہیں اور بیٹی رہیں مگر دولہا نے آنے میں بہت دیر لگائی جو عقلمند تھیں انہوں نے تو اپنی مشعلوں کے ساتھ تیل بھی لے لیا تھا مگر ہو بیوقوف تھیں انہوں نے مشعلیں تو لے لیں گر تیل اپنے ساتھ نہ لیا.جب دولہا نے بہت دیر لگائی تو سب اونگھنے لگیں.تب وہ جو بے احتیاط عورتیں تھیں انہوں نے معلوم کیا کہ ان کا تیل ختم ہو رہا ہے اور انہوں نے دوسری عورتوں سے کہا اپنے تیل میں سے کچھ ہمیں بھی دے دو کیونکہ ہماری مشعلیں بھی جاتی ہیں.انہوں نے کہا ہم تمہیں تیل نہیں دے سکتیں.اگر دے دیں تو شاید ہمارا تیل بھی ختم ہو جائے.تم بازار میں بھاؤ شاید تمہیں وہاں سے تیل مل جائے.جب وہ مول لینے کے لئے بازار گئیں تو پیچھے سے دولہا آپہنچا اور وہ جو تیار تھیں اس کو ساتھ لے کر قلعہ میں چلی گئیں اور دروازہ بند کر دیا گیا.کچھ دیر کے بعد وہ بے احتیاط عورتیں بھی آئیں اور دروازے کو کھٹکھٹا کر کہنے لگیں ہمارے لئے بھی دروازہ کھولا جائے.ہم اندر آنا چاہتی ہیں.مگر دولہا نے جواب دیا.تم نے میرا انتظار نہ کیا.تم نے پوری طرح احتیاط نہ بہ تی.اس لئے اب صرف انہی کو حصہ ملے گا جو چوکس تھیں.تمہارے لئے دروازہ نہیں کھولا جا سکتا.یہ در حقیقت حضرت مسیح ناصری کی اپنی بعثت ثانیہ کے متعلق ایک پیشگوئی تھی جو انجیل میں پائی بھاتی ہے.پس روبارمیں میں نے جو یہ کہا کہ یکیں وہ ہوں جس کے لئے 19 سو سال سے کنواریاں اس سمندر کے کنارے پر انتظار کر رہی تھیں “ اس سے لیکن یہ سمجھتا ہوں کہ خدا تعالے میرے زمانہ میں یا میری تبلیغ سے یا اُن علوم کے ذریعہ سے جو اللہ تعالیٰ نے میری زبان اور مسلم سے ظاہر فرماتے ہیں ان قوموں کو جن کے لئے حضرت مسیح موعود عليه الصلواة واستسلام پر ایمان لانا مقدر ہے اور جو حضرت مسیح ناصری کی زبان میں کنواریاں قرار دی گئی ļ
۵۰۱ ہیں.ہدایت عطا فرمائے گا اور اس طرح خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ میرے ہی ذریعہ سے ایمان لانے والی سمجھی جائیں گی اور یہ جو فرمایا کہ مثيْلُهُ وَخَلیفتہ اس خدائی الہام نے وہ بات ہو ہمیشہ میرے سامنے پیش کی جاتی تھی اور حسین کا جواب دینے سے ہمیشہ میری طبیعت انقباض محسوس کیا کرتی تھی آج میرے لئے بالکل حل کر دی ہے.یعنی اس الہام الہی سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ پیشگوئی ہو مصلح موعود کے متعلق تھی خدا تعالیٰ نے میری ہی ذات کے لئے مقدر کی ہوئی تھی.لوگوں نے کہا اور بار بار کہا کہ آپ کی ان پیشگوئیوں کے بارہ میں کیا رائے ہے ؟ مگر میری یہ حالت تھی کہ میں نے کبھی سنجیدگی سے ان پیشگوئیوں کو پڑھنے کی بھی کوشش نہیں کی تھی اس خیال گریمیر نفس مجھے کوئی دھوکا نہ دے اور میں اپنے متعلق کوئی ایسا خیال نہ کر لوں جو واقعہ کے خلاف ہو.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دفعہ مجھے ایک خط دیا اور فرمایا.میاں یہ خط جو تمہاری پیدائش کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مجھے لکھا ، اس خط کو تشحی الاذهان" میں چھاپ دو.یہ بڑے کام کی چیز ہے.میں نے اس وقت ان کے ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے وہ خط لے لیا.اور ان کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اُسے تشھید میں شائع کرا دیا مگر اللہ بہتر جانتا ہے میں نے اس وقت بھی اس خط کو غور سے نہیں پڑھا.صرف سرسری طور پر پڑھا اور اشاعت کے لئے دے دیا.لوگوں نے اس وقت بھی کئی قسم کی باتیں کہیں گر میں خاموت رہا.اس کے بعد بھی بار بار یہ سوال میرے سامنے لایا گیا مگر ہمیشہ میں نے یہی جواب دیا کہ اس بات کی کوئی ضرورت نہیں کہ جس شخص کے متعلق یہ خبریں ہیں اُسے بتایا بھی جائے کہ تمہارے متعلق خبریں ہیں.یا ہرگز یہ ضروری نہیں کہ جس شخص کے متعلق یہ پیشگوئیاں ہیں وہ دعوئی بھی کرے کہ میں ان پیشگوئیوں کا مصداق ہوں بلکہ مثال کے طور پر میں نے بعض دفعہ بیان کیا ہے کہ ریل کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی.ماننے والے مانتے ہیں کہ پیشگوئی پوری ہو گئی.کیونکہ وہ واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں.اب یہ ضروری نہیں کہ ریل خود دعوئی بھی کرے کہ میں رسول کریم صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم کی فلانی پیشگوئی کی مصداق ہوں.ہماری جماعت کے دوستوں نے یہ اور اسی قسم کی دوسری پیشگوئیاں بارہا میرے سامنے رکھیں اور اصرار کیا کہ میں اُن کا اپنے آپ کو مصداق ظاہر کروں.مگر میں نے انہیں ہمیشہ یہی کہا کہ پیشگوئی اپنے مصداق کو آپ ظاہر کیا کرتی
۵۰۲ ہے.اگر یہ پیشگوئیاں میرے متعلق ہیں تو زمانہ خود بخود گواہی دے دیگا کہ ان پیشگوئیوں کا میں مصداق ہوں.اور اگر میرے متعلق نہیں تو زمانہ کی گواہی میرے خلاف ہوگی.دونوں صورتوں میں مجھے کچھ کہتے کی ضرورت نہیں.اگر یہ پیشگوئیاں میرے متعلق نہیں تو میں یہ کہہ کر کیوں گنہگار بنوں کہ یہ پیشگوئیاں میرے متعلق ہیں.اور اگرمیری ہی متعلق ہیں تو مجھے جلد بازی کی کیا ضرورت ہے ، وقت خود بخود حقیقت ظاہر کردے گا.غرض جیسے الہام الہی میں کہا گیا تھا.انہوں نے کہا کہ آنے والا یہی ہے یا ہم دوستی کی راہ تکیں" ( تذکره صفحه (۱۴۶) دنیا نے یہ سوال اتنی دفعہ کیا.اتنی دفعہ کیا کہ اس پر ایک لمبا عرصہ گزر گیا.اس لمبے عرصہ کے متعلق بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات میں خبر موجود ہے.مثلاً حضرت یعقوی علیہ السلام کے متعلق حضرت یوسف کے بھائیوں نے یہ کہا تھا کہ تو اسی طرح یوسف کی باتیں کرتا رہے گا یہاں تک کہ قریب المرگ ہو بھائے گا یا ہلاک ہو جائے گا اور یہی الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہوا.تذکر صفحه ۱۶۵) اسی طرح یہ الہام کہ یوسف کی خوشبو مجھے آرہی ہے (تذکرہ صفحہ ۴۸۵) بتاتا تھا کہ خدا تعالے کی مشیت کے ماتحت یہ چیز ایک لمبے عرصہ کے بعد ظاہر ہوگی.میں اب بھی اس یقین پر قائم ہوں کہ اگر ان پیشگوئیوں کے متعلق مجھے اللہ تعالے کی طرف سے موت کے قریب وقت تک یہ علم نہ دیا جاتا کہ یہ میرے متعلق ہیں بلکہ موت تک مجھے علم نہ دیا جاتا اور واقعات خود بخود ظاہر کر دیتے کہ چونکہ یہ پیشگوئیاں میرے زمانہ میں اور میرے ہاتھ سے پوری ہوئی ہیں اس لئے میں ہی ان کا مصداق ہوں تو اس میں کوئی حرج نہ تھا.کسی کشف یا الہام کا تائیدی طور پر ہونا ایک زائد امر ہوتا ہے.لیکن خدا تعالیٰ نے اپنی مشیت کے ماتحت آخر اس امر کو ظاہر کر دیا اور مجھے اپنی طرف سے علم بھی دے دیا کہ مصلح موعود سے تعلق رکھنے والی پیشگوئیاں میرے متعلق ہیں چنانچہ آج میں نے پہلی دفعہ وہ تمام پیشگوئیاں منگوا کہ اس نیت کے ساتھ دیکھیں کہ میں ان پیشگوئیوں کی حقیقت سمجھوں اور دیکھوں کہ اللہ تعالٰی نے ان میں کیا کچھ بیان فرمایا ہے.ہماری جماعت کے دوست چونکہ میری طرف ان پیشگوئیوں کو منسوب کیا کرتے تھے اس لئے میں ہمیشہ ان پیشگوئیوں کو غور سے پڑھنے سے بچتا تھا اور ڈرتا تھا کہ کوئی غلط خیال قائم نہ ہو جائے.مگر آج پہلی دفعہ میں نے وہ تمام پیشگوئیاں
۵۰۳ پڑھیں اور اب ان پیشگوئیوں کو پڑھنے کے بعد میں خدا تعالیٰ کے فضل سے یقین اور وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے یہ پیشگوئی میرے ذریعہ سے ہی پوری کی ہے میں اس کے متعلق اس وقت تفصیل سے کچھ نہیں کہ سکتا.مگر یہ جو آتا ہے کہ " وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا اس کے متعلق ہمیشہ سوال کیا جاتا ہے کہ اس کے کیا معنی ہیں ؟ اسی طرح " دوشنبہ ہے مبارک دوشنبہ “ کے متعلق سوال کیا جاتا ہے.سو یہ جو الہام ہے کہ وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا" حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسّلام کا ذہن اس طرف گیا ہے کہ وہ تین بیٹوں کو چار کرنے والا ہوگا یعنی وہ چوتھا بیٹا ہوگا.اگر یہ مفہوم لے لیا جائے تو چوتھے بیٹے کے لحاظ سے بھی بات بالکل صافت ہے.مجھ سے پہلے مرزا سلطان احمد صاحب ، مرزا فضل احمد صاحب اور مرزا بشیر احمد ( اول، پیدا ہوئے اور پو تھا میں ہوا.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مجھ سے پہلے ہماری والدہ سے تین بچے ہوئے.اس طرح بھی میں تین کو پار کرنے والا تھا.اسی طرح میرے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تین بیٹے ہوئے.اس لحاظ سے بھی میں تین کو چار کرنے والا ہوا.پھر میری خلافت کے ایام میں اللہ تعالٰی نے مرزا سلطان احمد صاحب کو احمدیت میں داخل ہونے کی توفیق دی.اس طرح بھی میں تین کو چار کرنے والا ہوا.گویا تین کو چار کرنے والا میں تین طرح ہوں.اول و دوم اس طرح مرزا محمود احمد.مرزا سلطان احمد سلطان احمد - مرزا فضل بشیر اول مرزا بشیر احمد اکثریت احمد سوم - مرزا سلطان احمد مرزا بشیر احمد.برزا شریف احمد.مرزا محمود احمد.اس طرح میں نے تین کو چار کر دیا.لیکن میرا ذہن خدا تعالیٰ نے اس طرف بھی منتقل کیا ہے کہ الہامی طور پر یہ نہیں کہا گیا تھا کہ وہ تین بیٹیوں کو چار کرنے والا ہو گا.الہام میں مزید بتایا گیا تھا کہ وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا.پس میرے نزدیک یہ اس کی پیدائش کی تاریخ بتائی گئی ہے.یہ پیشگوئی ابتداء ہ میں کی لے تصحیح کے لئے ملاحظہ ہو سیدنا حضرت الصلح الموعود کا رقم فرمودہ نوٹ مطبوع الفضل" با تبلیغ / فروری سن مستمر.
۵۰۴ گئی تھی.پس - ۱۸۸ - ۱۸۸۷ - ۱۸۸۸ تین سال ہوئے.ان تین سالوں کو چار کونسا سال کرتا ہے؟ کرتا ہ کرتا ہے اور یہی میری پیدائش کا سال ہے.پچیس تین کو چار کرنے والی پیشگوئی میں یہ تبر دی گئی تھی کہ اس کی پیدائش چوتھے سال میں ہوگی.چنانچہ ایسا ہی ہوا.ہے اور یہ جو آتا ہے "دوشنبہ ہے مبارک دوشنیہ اس کے اور معنی بھی ہو سکتے ہیں مگر میرے نزدیک اس کی ایک واضح تشریح یہ ہے کہ دو شنبہ ہفتے کا تیسرا دن ہوتا ہے.شفیہ پہلا، یک شنبہ دوسرا اور دو شنبہ تیرا.دوسری طرف روحانی سلسلوں میں انبیاء اور اُن کے خلفاء کا الگ الگ دور ہوتا ہے اور جس طرح نبی کا زمانہ اپنی ذات میں ایک مستقل حیثیت رکھتا ہے.اسی طرح خلیفہ کا زمانہ اپنی ذات میں ایک مستقل حیثیت رکھتا ہے.اس لحاظ سے غور کر کے دیکھو.پہلا دور حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسّلام کا تھا.دوسرا دور حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کا تھا اور تیسرا دور میرا ہے.ادھر اللہ تعالے کا ایک اور الہام اس تشریح کی تصدیق کر رہا ہے اور وہ الہام " فضل عمر" (تذکرہ حاشیہ صفحہ (۱۴) حضرت عمر بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے تیرے مقام پر ہی خلیفہ تھے.پس دوشنبہ ہے مبارک دو شنبہ سے یہ مراد نہیں کہ کوئی خاص دن خاص برکات کا موجب ہو گا.بلکہ مراد یہ ہے کہ اس کے زمانہ کی مثال احمدیت کے دور میں ایسی ہی ہوگی جیسے دوشنبہ کی ہوتی ہے.یعنی اس سلسلہ میں اللہ تعالے کی طرف سے خدمت دین کے لئے جو آدمی کھڑے کئے جائیں گے اُن میں وہ تیسرے نمبر پر ہو گا." فضل عمر کے الہامی نام میں بھی اسی طرف اشارہ ہے.گویا کلام الله يُفَتِهُ بَعْضُهُ بَعْضًا کے مطابق " فضل عمر کے لفظ نے دو شنبہ ہے مبارک دوشنبہ" کی تفسیر کر دی.مگر اس الہام میں ایک اور خبر بھی ہے اور خدا تعالیٰ مبارک دو شنبہ اب ایک ایسے ذریع سے بھی لانے والا ہے جو میر نے اختیار میں نہیں تھا.اور کوئی انسان نہیں کہہ سکتا کہ میں نے اپنے ارادہ سے اور جان بوجھ کر اس کا اجراء کیا.میں نے ۱۹۳۲ء میں تحریک جدید کو ایسے حالات میں جاری کیا جو ہرگز میرے اختیار میں نہیں تھے.گورنمنٹ کے ایک فعل اور احرار کی فتنہ انگیزی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اس تحریک کا انقاد فرمایا اور اس تحریک کے پہلے دور کی تکمیل کے لئے میں نے دس سال میعا
۵۰۵ مقرر کی.ہر انسان جب کوئی قربانی کرتا ہے تو اس قربانی کے بعد اس پر ایک عید کا دن آتا ہے.چنانچہ دیکھ لو.رمضان کے مہینہ میں لوگ روزے رکھتے اور تکلیف برداشت کرتے ہیں مگر جب رمضان گزر جاتا ہے تو اللہ تعالے مومنوں کے لئے ایک عید کا دن لاتا ہے.اسی طرح ہماری دس سالہ تحریک جدید جب ختم ہو گی تو اس سے اگلا سال ہمارے لئے غیر کا سال ہوگا.دوست بھانتے ہیں تحریک جدید کا پہلا دس سالہ دور سی سیل پینٹی کہ میں ختم ہوتا ہے.اور یہ عجیب بات ہے کہ کہ جو ہمارے لئے عید کا سال ہے پیر کے دن سے شروع ہوتا ہے لیپس اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں یہ خبر بھی دی تھی کہ ایک زمانہ میں اسلام کی نہایت کمزور حالت میں اس کی اشاعت کے لئے ایک اہم تبلیغی ادارہ کی بنیاد رکھی جائے گی اور جب اس کا پہلا کامیابی سے دور ختم ہو گا تو یہ جماعت کے لئے ایک مبارک وقت ہو گا.اس لئے وہ سال جب مومن اس عهد و قربانی کو پورا کر چکیں گے جو وہ اپنے ذمہ لیں گے تو ایک مبارک بنیاد ہوگی اور اس سے اگلے سال سے خدا تعالے ان کے لئے برکت کا بیج بوئے گا اور خوشی کا دن اُن کو دکھائے گا اور میں سال میں یہ وقوع میں آئے گا اس کا پہلا دن پیر یا دو شنبہ ہو گا.پس وہ سال بھی مبارک اور وہ دن بھی مبارک پس" دوشنبہ ہے مبارک دو شنبہ" مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس کے ایک معنے یہ بھی ہیں کہ مصلح موعود اس سلسلہ کی تیسری کڑی ہوگا.بعض دفعہ ایک چیز کی کسی اور چیز سے مشابہت دے دی جاتی ہے مگر ضروری نہیں ہوتا کہ اس سے مراد وہی ہو.پیس میرے نزدیک اس کے معنے بالکل واضح ہیں.اور فضل عمر “ جو الہامی نام ہے وہ ان معنوں کی تائید کرتا ہے.یکیں اس امر کا بھی ذکر کر دینا چاہتا ہوں کہ جب روبار کے بعد میری آنکھ کھلی تو میں اس مسئلہ پر سوچتا رہا اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے.عربی میں ہی سوچتا رہا.سوچتے سوچتے میرے دماغ میں جو الفاظ آئے اور میں جس نتیجہ پر پہنچا.وہ یہ تھا کہ اب تو خدا نے بالکل فیصلہ کر دیا ہے.جاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا.اور عجیب بات یہ ہے کہ آج جب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسّلام کا اشتہار پڑھ رہا تھا تو اس میں مجھے یہی الفاظ نظر آئے کہ حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آگیا اور باطل اپنی تمام نخوستوں کے ساتھ بھاگ گیا.پس اللہ تعالیٰ نے میرے لئے، میں یہ نہیں کہتا کہ دوسروں کے لئے بھی، کیونکہ کوئی دوسرا شخص کسی غیر مامور کے کشف یا الہام
۵۰۶ کو ماننے کا مکلف نہیں.لیکن بہر حال میرے لئے خدا تعالیٰ نے حقیقت کو کھول دیا ہے.اور اب میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کہ سکتا ہوں کہ خدا تعالے کی یہ پیشگوئی پوری ہوئی اور خدا تعالیٰ نے ایک ایسی بنیاد تحریک جدید کے ذریعہ سے رکھ دی ہے جس کے نتیجہ میں حضرت مسیح ناصری کی وہ پیشگوئی کہ کنواریاں دولہا کے ساتھ قلعہ میں داخل ہوں گی.ایک دن بہت بڑی شان اور عظمت کے ساتھ پوری ہوگی مثیل مسیح ان کنواریوں کو اللہ تعالٰی کے حضور کے بجائے گا.اور وہ تو میں جو اس سے برکت پائیں گی خوشی سے پکار اُٹھیں گی کہ ہوشعنا.ہوشعنا.اس وقت انہیں محمد صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانا نصیب ہوگا اور اسی وقت انہیں حقیقی رنگ میں مسیح اول پر سچا ایمان نصیب ہو گا.اب تو وہ تو میں انہیں خدا تعالے کا بیٹا قرار دے کر در حقیقت گالیاں دے رہی ہیں.لیکن مقدر یہی ہے کہ میرے بوٹے ہوئے بیج سے ایک دن ایسا درخت پیدا ہوگا کہ یہی عیسائی اقوام مثیل مسیح سے برکت حاصل کرنے کے لئے اس کے نیچے بسیار کریں گی اور خدا تعالیٰ کی بادشاہت میں داخل ہو جائیگی اور جیسے خدا کی بادشاہت آسمان پر ہے ویسے ہی زمین پر آجائے گی " ara حضور کی زبان مبارک سے یہ اعلان سن کر خطبہ میں موجو د صب قادیان میں جشن مسرت و شادمانی احمدیوں کے دل نہایت درجہ خوشی ، مسرت اور شادمانی سے بھر گئے کہ اللہ تعالٰی نے انہیں مصلح موعود کا مبارک دور دیکھنے کی سعادت عطا فرمائی ہے اور انہوں نے نماز جمعہ کے بعد ایک دوسرے کو مبارک باد دی.اگر چہ سب سامعین پر اس نشان کا اثر تھا مگر حضرت مفتی محمد صادق صاحب پر تو خطبہ جمعہ کے دوران ہی وجد کی ایک خاص کیفیت طاری ہوگئی.اگلے روز اس نئے اور مبارک دور کے آغاز پر قادیان میں یوم صلح موعود منایا گیا اور تین بجے بعد نماز ظهر له الفضل قادیان محکم تبلیغ / فروری به بیش صفحه ۱ تا ۸ : " با نے حضرت سيدنا المصلح الموعود نے ۲۸ صلح جنوری یہ ہش کے خطبہ جمعہ میں اپنی رویاد کی تفصیلات بیان کر کے اطلاق / فرمایا تھا کہ آپ ہی پیشگوئی مصلح موعود کے مصداق ہیں.اس اعلان کے بعد حضور نے ہم تبلیغ / فروری کو ایک نہایت لطیف و پر معارف اور مفصل تخطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس کے پہلے حصہ میں نہایت شرح وبسط سے روشنی ڈالی کہ مصلح موعود کی نسبت ۲۰ فروری شانہ کے اشتہار میں جو علامات بتائی گئی تھیں وہ آپ کی روبار میں آپ پر چسپاں کر کے بتائی گئی ہیں اور دو تہرے حصہ میں اپنے متعدد سابقہ الہامات بتائے جن میں آپ کے منصب مصلح موعود کی طرف واضح اشارات موجود تھے.(خطبہ کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۱۶ تبلیغ / فروری نیز ، رامان / مارچ به شه ه الفضل» ۳۰ صلح / جنوری صفحہ اکالم ۲ که الفضل ۱۶ تبلیغ / فروری همایش صفحه ۸ کالم ۱۲ پیش هم الفضل" یکم فروری تبلیغ بش صفحه ۲ کالم ۰۲ " "
چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم.اسے ناظر اعلی کی زیر صدارت مسجد اقصی میں نہایت تزک و احتشام سے ایک جلسہ عام منعقد کیا گیا جس میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب، قاضی محمد نذیر صاحب فاضل لائلپوری ، حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب نیره حضرت خانصاحب غشی برکت علی صاحب ، حضرت ماسٹر عبد الرحمن صاحب نو مسلم حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب ، مولودی ابو العطاء صاحب اور مولوی عبد الرحیم صاحب درد نے ایمان افروز تقریر میں کہیں.آخر میں حسب ذیل عرضداشت پاس کی گئی کہ ہم تمام افراد جماعت احمدیہ قادیان ہو اس جلسہ میں شریک ہیں ، حضور کی خدمت میں پیشگوئی مصلح موعود کے بارے میں خدا التعالے کی طرف سے کابل انکشاف پر خادمانہ طور پر اجتماعی رنگ میں مبارکباد تعرض کرتے ہیں ہم سب نا چیز مدام اس شاندار موقعہ پر اللہ تعالے کا شکر ادا کرتے ہوئے حضور کی خدمت میں اظہار عقیدت پیش کرتے ہیں کہ ہم اپنی جان ، مال ، عزت حضور کے حکم پر ہر وقت نشانہ کرنے کو تیار ہیں.اللہ تعالے ہمیں توفیق بخشے.ہم خادم حضور سے درخواست کرتے ہیں کہ حضور اپنی خاص قوت قدسیہ سے جو خدا تعالیٰ نے حضور کو عطا فرمائی ہے ہمارے لئے بھی دعا فرمائیں کہاللہ تعالے ہماری کمزوریو کو دور فرمائے اور حضور کے ارشادات و ہدایات کے ماتحت خدمت دین کی توفیق دے." اس عرضداشت کے بعد حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیال نے تقریر فرمائی اور جلسہ 4 بجے شام ختم ہوا ہے بیرونی جماعتوں کو اطلاع اور حضرت میر المومنین صالح الودود نے ۱۲۰ صلح جنوری اپنے مصلح موعود ہونے اعلان فرمایا تھا.اخبار" الفضل نے پہلی بار ۳۰ صلح /جنوری کی اشاعت مبارکباد کے خطوط اور تاریں کالا میں بیرونی جماعتوں کو خوشخبری پہنچائی کہ حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی نے خدا تعالیٰ کے انکشات کی بناء پر مصلح موعود ہونے کا اعلان فرما دیا ہے.اس پریچہ میں خواجہ غلام نبی صاحب ایڈیٹر الفضل " کے ادارتی نوٹ کے علاوہ جو ”مبارک صد مبارک، جماعت احمدیہ کے لئے ایک عظیم استان خوشخبری کے دوہرے عنوان سے صفحہ اول و دوم پر چھپا - مولوی محمد یعقوب صاحب مولو فاضل اسسٹنٹ ایڈیٹر الفضل" اور مولانا ابوالعطاء صاحب کے مضامین بھی شائع ہوئے.الفضل" کے اس پر چہ کے معا بعد اگلے شمارہ میں حضرت امیر المومنین کا معرکۃ الآراء خطبہ جمعہ بھی شائع کر دیا گیا.جو نہی یہ دونوں پر سچے بیرونی جماعتوں میں پہنچے، دنیا کے گوشہ گوشہ سے مبارکباد کے بکثرت خطوط اور تار حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود کی خدمت اقدس میں پہنچنا شروع ہو گئے.ه " الفضل " ، تبلیغ فروری سه بخش صفحه ۱-۲ :
۵۰۸ لیا نکشان کے متلای شخصی منتجا کی وہیں یہ..اور وہ یہ کہ احمدیوں کی طرف سے ایسی رویا بھی بڑی کثرت سے موصول ہوئیں جن میں انہیں قبل از وقت بتایا گیا تھا کہ اللہ تعالے کی طرف سے حضور پُر نور کو ایک نئے اور عالی منصب پر سرفراز کیا جارہا ہے.سب سے عجیب رویا ، منصف خان سے جب اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر کا تھا جس میں حضرت مصلح موعود کے خطبہ اور اس میں بیان فرمودہ خواب کا سارا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا گیا تھا.اور جس کا ذکر خود ہم حضرت مصلح موعود نے ہم تبلیغ فروری پیش کو خطبہ جمعہ میں اپنی زبان مبارک سے یوں فرمایا کہ وہ لکھتے ہیں کہ ۳۰ ر اور ۳۱ کی درمیانی شب کوئیں نے یہ رویا دیکھا ہے خطبہ میں نے ۲۸ جنوری کو پڑھا تھا.اور یقینا یہ خطبہ خواب دیکھنے کے وقت تک اُن کو نہیں ملا." الفضل " میں اس بارہ میں میں پہلی خیبر سر جنوری کے پرچہ میں شائع ہوئی ہے.اور الفضل " کا یہ پرچہ ان کو ۲۱ جنوری کو مل سکتا تھا لیکن انہوں نے ۳۰ اور اس جنوری کی درمیانی رات کو یہ خواب دیکھا اور پھر اُن کے خط میں بھی اس امر کا کوئی ذکر نہیں کہ اخبار میں انہوں نے یہ خبر پڑھ لی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ رویا، ان کو ایسے حالات میں ہوئی ہے جبکہ انہیں اس بات کا کوئی علم نہ تھا کہ میں نے اپنے خطبہ میں اس پیش گوئی کے مصداق ہونے کا اعلان کیا ہے.وہ لکھتے ہیں کہ روبار میں میں نے دیکھا کہ احمدیوں کا ایک بہت بڑا ہجوم ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا کوئی عظیم الشان نشان ظاہر ہوا ہے جس پر وہ خدا تعالے کی حملہ اور اس کی تسبیح و تحمید کر رہے ہیں اور بڑے جوش سے ان کے منہ سے تسبیح کی آوازیں نکل رہی ہیں.وہ لکھتے ہیں.رویا ر میں میں نے دیکھا کہ اور لوگوں پر بھی اس کا اثر ہے.لیکن مفتی محمد صادق صاحب پر تو وبعد کی حالت طاری ہے.اب دیکھو پچھلے خطبہ میں تمام احمدیوں پر اللہ تعالیٰ کے اس نشان کا اثر تھا.مگر مفتی صاحب پر تو اس کا ایسا اثر ہوا کہ وہ مخطبہ جمعہ میں ہی بول پڑے.وہ لکھتے ہیں.میں حیران ہوا کہ یہ کیا بات ہے.اس کے بعد مجھے ایک کمرہ نظر آیا جس میں شیشے کی تین چوکھٹیں لگی ہوئی ہیں اور ان پر نہایت اعلیٰ پالش کیا ہوا ہے تاکہ اُن پر تصویر آسکے.اس کے بعد یکن کیا دیکھتا ہوں کہ اُن پر دو تصویریں نمودار ہوگئی ہیں.ایک تصویر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ہے اور ایک آپ کی ہے اور یہ دونوں تصویریں اکٹھی کمرہ کے اندر چکر کھا رہی ہیں اور اُن کو دیکھ کر لوگ خوش ہو رہے اور اللہ تعالے کی تسبیح و تحمید کر رہے ہیں.انہوں نے تیری تصویر کا ذکر نہیں کیا.یعنی
۵۰۹ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصویر کو انہوں نے نہیں دیکھا یا شاید دیکھا تو ہومگر چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل انہوں نے دیکھی ہوئی نہیں تھی اور آپ کی تصویر بھی دنیا میں کوئی موجود نہیں.اس لئے وہ نہ سمجھ سکے ہوں کہ یہ کس کی تصویر ہے، لیکن رویاء میں انہوں نے شیشے تین ہی دیکھتے ہیں.اور میری روبار میں بھی تین وجودوں کے بولنے کا ذکر آتا ہے.پہلے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم آئے.اور میری زبان سے بولے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آئے اور میری زبان سے بونے اور پھر میں نبود بولا- پھر وہ لکھتے ہیں جواب میں عربی زبان میں کچھ باتیں ہو رہی ہیں جنہیں میں سمجھ نہیں سکا.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نزول السماء- نزول السمار کہا جا رہا ہے.اس میں در حقیقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے اس الہام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو آنے والے موعود کے متعلق حضرت مسیح موعود علی الصلوۃ وسلام کے اشتہار میں پایا جاتا ہے کہ كَانَ الله نَزَلَ مِنَ السَّمَاء چونکہ وہ عربی سے ناواقف ہیں.اس لئے کہتے ہیں مجھے اور تو کچھ یاد نہیں رہا.صرف اتنا یاد رہا کہ عربی میں کچھ باتیں ہو رہی ہیں.جن میں نزولی السماء کے الفاظ ہیں.تو دیکھو کس طرح خدا تعالیٰ نے انہیں رویا ر میں خطبہ کے وقت کی کیفیت بتادی اور کس طرح اس رویار کا نقشہ بھی بتا دیا جو میں نے دیکھی تھی.حالانکہ اس وقت تک انہیں میرے اس اعلان کا کوئی علم نہیں تھا.اسی طرح اور لوگوں کو بھی ان ایام میں ایسی خواہیں دکھائی گئی ہیں.لہ اُن سینکڑوں خوابوں میں سے جو جماعت کے کثیر التعداد دوستوں کو حضور مسلحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب دعومی مصلح موگود سے قبل آئیں اور مومنوں کے ازدیاد ایمان کا کی رویا صلح موعود سے متعلق باعث بنیں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احد صاحب کی خواب بھی خاص طور پر قابل ذکر ہے.حضرت صاحبزادہ صاحب ہمیشہ اپنی خوابوں کے اظہار سے طبعا گریز کرتے تھے مگر اس موقعہ پر آپ نے مقا موش رہنا گوارا نہ فرمایا اور مرکز احمدیت سے روٹھے ہوئے بھائیوں کی ہدایت کی غرض سے اُسے شائع بھی کر دیا.اس ایمان افروز خواب کی تفصیل حضرت صاحبزادہ صاحب کے قلم سے لکھی جاتی ہے.فرمایا :- قریباً دو سال یا شاید سوا دو سال کا عرصہ ہوا جبکہ ابھی حضرت خلیفہ امسیح ایدہ اللہ کی طرف سے مصلح موعود کے بارے میں کوئی معین اعلان نہیں ہوا تھا اور نہ آپ پر اس بارے میں بخدا کی طرف سے کوئی انحشا ہی ہوا تھا اور میرے وہم و گمان میں بھی مصلح موعود والی پیشگوئی کا مضمون نہیں تھا کہ میں نے ایک الفضل تبلیغ ضروری به مش صفحه ۹۸ ۱۳ " /
خواب دیکھی.میں نے دیکھا کہ میں اپنے مکان کے صحن میں کھڑا ہوں اور اسی صحن کے شرقی جانب جو مکان حضرت خلیفتہ امیج ایدہ اللہ تعالیٰ کا ہے جیسن میں آج کل حضور کی حریم اقل سیدہ ام ناصر احمد صاحبہ رہتی ہیں اس کے سب سے بالائی حصہ میں جہاں حضرت مسیح موعود علی رات ہم نے ایک علیحدہ خانگی مسجد سی بنا رکھی تھی ایک خوبصورت نوجوان کھڑا ہوا ہمارے صحن کی طرف جھانک رہا ہے.اس نوجوان کا رنگ شفاف اور سفید تھا جو اپنی سفیدی کی وجہ سے گویا چمک رہا تھا.میں نے جب اُس نوجوان کی طرف نظر اٹھائی تو اشارے کے ساتھ اس سے پوچھا کہ تم کون ہو ؟ اس نے اس کے جواب میں مجھے آہستہ سے کہا " خلیفہ..الدین " یعنی خلیفہ کے لفظ کے بعد کوئی لفظ بولا جو میں - سمجھ نہ سکلہ اور آخری لفظ الدین تھا.اس پر میں نے تصریح کے خیال سے سوالیہ رنگ میں کہ." خلیفہ ناصرالدین ؟" اس نے غالباً سر لا کر جواب دیا کہ نہیں.بلکہ میرا نام کچھ اور ہے.جس پر میں نے کہا " خلیفہ صلاح الدین ؟ اس پر اس نے آہستگی کے ساتھ گویا اس بات کو مخفی رکھ کر بتا رہا ہے، عربی میں جواب دیا " نعم " پھر میں قدم بڑھا کہ اپنے کمرہ کی طرف بجانے لگا تو جب میں دروازہ کے قریب پہنچا تو یہ نوجوان نہایت آہستگی اور وقار کے ساتھ ہوا میں اترتا ہوا میرے دائیں کندھے پر اس طرح آبیٹھا کہ اس کی ایک ٹانگ میرے سامنے کی طرف آ گئی اور ایک پیچھے کی طرف پیٹھ کے ساتھ رہی اور منہ میری طرت تھا.جو انہی کہ یہ نوجوان میرے کندھے پر اترا میں نے اس کی ٹانگوں کو سہارا دینے کے رنگ میں اپنے ہاتھوں کے ساتھ تھام لیا اور اُسے آہستگی کے ساتھ کہا " بڑی دیر سے آئے “ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی اور صبح اُٹھنے پر مجھے اس کی کوئی تعبیر توکچھ سمجھ میں نہیں آئی.البتہ میں نے اُسے ایک عجیب سی خواب سمجھ کر اس کا ذکر اپنے کئی عزیزوں کے ساتھ کیا.اور اس کے بعد میں اس خواب کو بھول گیا اور دو سال تک بالکل بھولا رہا.آخر جب حضرت خلیفہ آسیح ایدہ اللہ نے گذشتہ ایام میں ایک روبار کی بنا پر اپنے مصلح موعود ہونے کا اعلان کیا تو اس وقت مجھے میری لڑکی عزیزہ امتہ الحمید بیگم اور میری بھانجی عزیزہ محمودہ بیگم سمہما اللہ ن یاد کرایا کہ دو سال ہوئے آپ نے یہ خواب دیکھی تھی اور ساتھ ہی کہا کہ ہمارے خیال میں یہ خواب حضرت صاحب کے دعوی مصلح موعود پر چسپان ہوتی ہے.تب میں سمجھا کہ واقعی یہ خواب اسی امر کے متعلق تھی.چنانچہ غور کرنے پر معلوم ہوا کہ اس خواب میں کئی باتیں خاص طور پر قابل توجہ ہیں.مثلاً :-
۵۱۱ (1) اُس نوجوان کا حضرت خلیفہ ایسیح ایدہ اللہ کے مکان پچہ اور اس کے بلند ترین حصہ میں نظر آتا جس میں حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے وجود کی طرف اشارہ تھا.(۲) اُس کا اپنا نام " خلیفہ صلاح الدین ظاہر کرنا جو ان الفاظ کا لفظی ترجمہ ہے کہ وہ مصلح موعود جو حضر میسج موعود کا خلیفہ بھی ہے.اور سب جانتے ہیں کہ حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کا بعینہ یہی دعوتی ہے.(۳) اس کا آہستگی اور اختفاء کے رنگ میں بولنا گویا کہ ابھی پورے انکشاف اور اعلان کا وقت نہیں آیا تھا.(۴) اس کا میرے سوال کے جواب میں عربی زبان میں " نعم " کہنا جو عین حضرت خلیفہ امسیح ایک اللہ کے اُس رویاء کے مطابق ہے جس میں آپ نے اپنے آپ کو عربی میں گفتگو فرماتے دیکھا ہے.(۵) میرا اُسے یہ الفاظ کہنا کہ ” بڑی دیر سے آئے ہو مصلح موعود کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے ان الہامی الفاظ کا لفظی ترجمہ ہے کہ " دیمہ آمدہ " پس یہ ایک واضح خواب تھی جو خدا تعالے نے مجھے آج سے قریباً دو سال قبل دکھائی اور اس خواب کی شہادت اس بات سے اور بھی زیادہ قوی ہو جاتی ہے کہ جب میں نے یہ خواب دیکھی اُس وقت نہ میرے خیال میں یہ آیا کہ یہ خواب مصلح موعود کے متعلق ہے اور نہ ہی ان لوگوں کا خیال اس طرف گیا جنہیں میں نے یہ خواب سنائی.بلکہ مجھے تو یہ خواب بھی بھولی ہوئی تھی جو دو سال بعد بعض عزیز وں کے یاد دلانے سے یاد آئی.مگر میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے آج سے دو یا سوا دو سال قبل یہ خواب دیکھی اور گو اس کا کوئی لفظ حافظہ کی غلطی سے بدل گیا ہو مگر مفہوم اور حقیقت بالکل ہی تھے اور اہم الفاظ بھی یہی ہے.جماعت احمدیہ کے اہل قلم بزرگوں اور دوستوں نے اس نئے مرحلہ پر جبکہ بارات اہل قلم بزرگوں کی خدمات احمدیہ ایک انقلابی دور میں داخل ہو رہی تھی، پیشنگوئی مصلح موعود کے مختلف پہلوؤں پر بہت قیمتی اور عمدہ اور سیر حاصل مضامین لکھے جو اخبار الفضل"، رسالہ ” فرقان" اور رسالہ " ریویو آف دیلیمیز میں شائع ہوئے.ان مضامین سے جماعت کے ہر طبقہ کو اس پیشگوئی کے پس منظر اس کی عظمت و اہمیت اور مقاصد کے سمجھنے میں بھاری مدد ملی.بعض مضمون نگار بزرگوں اور دوستوں کے اسماء گرامی درج ذیل کئے جاتے ہیں :- حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ، حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب مولانا ابوالعطاء صاحب اخواهر ل رساله فرقان " با بست ماه شهادت / اپریل به بیش صفحه - به بیش صفحه ۰۹-۱+
۵۱۳ غلام نبی صاحب ، حضرت مولادی شیر علی صاحب ہیں.اسے، حضرت میر محمد اسمعیل صاحب نے حضرت ڈاکٹر حشمت الله خانصاحب ، چودھری محمد ظفراللہ خان صاحب ، مولانا جلال الدین صاحب تمس امام مسجد لنڈن ، ملک عبد الرحمان صاحب خادم ، مولوی شریف احمد صاحب امنیتی مولوی فاضل مدرس مدرسہ احمدیہ، مولوی محمد یعقوب صاحب فاضل طاہر اسٹنٹ ایڈیٹر " الفضل" ، ملک محمد عبد الله صاحب فاضل ، پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب ، حضرت پیر منظور محمد صاحب ، چودھری علی محمد صاحب بی.اے بی ٹی ،چودھری خلیل احمد صاحب ناصر ، قاضی محمد نذیر صاحب، حضرت حکیم محمدرسین صاحب مرہم مینی حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب چودھری مشتاق احمد رضا با بوه ، خواجہ خورشید احمد صاحب مجاہد سیالکوٹی ، سید احمد علی صاحب ، مرزا منور احمد صاحب واقف زندگی ، مولوی محمد صدیق صاحب واقف زندگی سید غلام حسین صاحب ویٹرنری آفیسر ریاست بھوپال اخوند فیاض احمد صاحب ، علاوہ ازیں حضرت میر محمد اسمعیل صاحب ، حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب المال ، حضرت خانصاحب ذو الفقار علی خانصاحت ، شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ کپورتھلہ ، مولوی برکت علی صاحب لائق لد یا نوری ، جناب محمد صدیق صاحب ثاقب زیر دی ، شیخ روشن دین صاحب تنویر ، جناب نسیم سلیقی صاحب ، عبد المنان صحاب ناہید سیالکوٹی وغیرہ شعرائے احمدیت نے دور مصلح موعود کی آمد پر نہایت پر زور نظمیں کہیں.اگرچہ اس موقعہ پر پیشگوئی مصلح موعود کے پس منظر، اس کی تفصیلات اور رساله رفتاران کا مصلح موجود تم ۱۹۳۴ برای اہمیت کے سلسلہ میں اخبار الفضل " کا ایک خاص شماره ۲۰ تبلیغ افریدی ے پیش کو شائع ہوا.مگر پیشگوئی پر مفصل روشنی ڈالنے کا حق صحیح معنوں میں رسالہ ” فرقان“ نے ادا کیا جس نے ماہ شہادت اپریل ہش میں ضخیم مصلح موعود نمبر نکالا.اس نمبر میں دیگر مشہور اور نامور بزرگان اور اہل قلم حضرت.کے نہایت قیمتی اور بلند پایہ مضامین کے علاوہ (مدیر فرقان، مولانا ابو العطار صاحب کے قلم سے ایک مبسوط مقالہ بھی شامل اشاعت تھا.رستان کے اس خصوصی شمارہ کو دو اور اہم خصوصیات بھی حاصل تھیں :.اول.اس رسالہ میں پہلی بار ہوشیار پور کے جلسہ مصلح موجود کی تصاویر کی اشاعت ہوئی.دوم حضرت خلیفہ ایسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے دعوی مصلح موعود کے بعد جو پہلی نظم کہی وہ اسی میں شائع ہوئی.حضور کے اپنے دست مبارک سے تحریر شدہ اس نظم کا چربہ سامنے کے صفحہ پر ملاحظہ ہو.به اعلان مصلح موعود کے جملوں کا تفصیلی ذکر آگے آتا ہے؟
AIR سيدنا المصلح الموعود کے قلم مبارک سے لکھے ہوئے اشعار کا چربہ بعد فضلی تیرا یار نیا کو کا ابلا ہو.احیای ایکا ایکیا میری تر رہا ہو ا بعد پارس س درش ہی کو انکا پرواہتا ہے کہ ہی فتان گی حاصل کردیں کو نگار ہو بران خود کر میرا دلامی شرکا و ما بعد سینہ کا خفت احمدی کیا ہو - لب مکلف محمد ہم سیکا ننگی شور سے کتے باتھ رکی یہاں ہے.کالا تا رہا ہو کر انصافی ہو مهوش رسو زوج پریا سجدہ میں محمد د سر پر کیا کہ یا ملا کا یہ نبی کے سائے مرا ہو 15/4/99
ہو فضل تیرا یا رب یا کوئی ابتلاء ہو ، راضی ہیں ہم اُسی میں جس میں تیری رضا ہو سینہ میں جوش غیرت اور آنکھ میں کیا ہو ، لب پہ ہو ذکر تیرا دل میں تیری وفا ہو مٹ بھاؤں میں تو اس کی پروا نہیں ہر کچھ بھی ، میری فنا سے حاصل گر دین کو بقا ہو شیطان کی حکومت مٹ جائے اس جہاں ، حاکم تمام دنیا پر میرا مصطفے ہو محمود عمر میری کٹ جائے کاش یونہی ، ہو رُوح میری سجدہ میں سامنے خدا ہو اس پر معارف نظم کی تقریب یہ پیدا ہوئی کہ مکرم مولوی ابا العطاء صائب نے ۵ ارشہادت اپریل پیش کو حضرت امیرالمومنین کی خدمت میں مسجد مبارک کی سیڑھیوں کے پاس عرض کیا کہ حضور" فرقان " کے لئے کو ئی تازہ تنظیم عطا فرمائیں تھوڑی دیمہ کے بعد حضور انور گھر سے واپس تشریف لائے اور اپنے دست مبارک سے یہ تازہ کلام عنایت فرمایا.اعلان مصلح موعود کے معابعد علمی اعتبار سے ایک اہم ترین ضرورت یہ محسوس کی گئی اکہ مصلح موعود کے تازہ نشانِ رحمت کے متعلق مرکز کی علامت سے ضروری لٹریچر شائع ظهور صلح موعود" کتاب کیا جائے.اس تعلق میں سب سے پہلی کتاب مولوی شریف احمد صاحب امینی مدرس، مدرسہ احمدیہ قادیان نے ظہور مصلح موعود کے نام سے شائع کی جس کا دیباچہ حضرت مولوی شیر علی صاحب نے نے لکھا اور نظر ثانی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے فرمائی.حضرت مصلح موعود کے دعوئی کے بعد حضرت خلیفہ مسیح الاول ست خفیف اول کی ایک حیرت انگیز پیشگوئی اس عورت کا مال موی کی اس عظیم الشان پیشگوئی کا انکشاف ہوا کہ مصلح موعود کم کمبر کا انکشاف میاں عبد المنان صلح بے کے ذریعے ۹۱۲ائر سے تیس سال بعد ظاہر ہو گا.یہ اہم شہادت سلسلہ احی کے لڑ پھر میں سر سے پہلے جناب میاں عبد المنان صاحب تم ایم.اے نے شائع کی چنانچہ انہوں نے رسالہ " فرقان زماہ رش میں نشان صداقت " کے عنوان سے ایک مفصل اداریہ سپرد قلم کیا جس میں لکھا :- حضرت خلیفة أمسیح الا قبیل رضی اللہ عنہ نے یکم رسم پر اللہ کو بعد نماز عصر سورہ اعراف کی آیت ونقد اخَذْنَا ألَ فِرْعَوْنَ بِالسنين...الخ کا درس دیتے ہوئے فرمایا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضر موسی سے فتوحات کے دورے کئے تھے لیکن قوم کی نافرمانی کی وجہ سے وہ چالیس برس پیچھے ڈال دیئے گئے اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بھی اللہ تعالیٰ نے وعدے کئے ہیں اور ضرور ماه سال مبلغ سلسلہ احمدیہ بھارت :
۵۱۵ ہے کہ وہ پورے ہوں لیکن افسوس ہے کہ تم لوگوں کی گستاخیوں کی وجہ سے ان میں التوا ہو رہا ہے اور جس طرح حضرت موسی کے وقت اُن وعدوں کے پورا ہونے کا زمانہ چالیس برس پیچھے ڈال دیا گیا.اسی طرح تمہاری گستاخیوں کی وجہ سے احمدیت کی فتوحات کا زمانہ بھی پیچھے ڈال دیا گیا ہے لیکن آج سے تیس سال بعد مظہر قدرت ثانیہ ظاہر ہوگا.اور اس طرح اللہ تعالے اس بندہ کے ذریعہ اس بند کئے ہوئے دروازہ کو کھولنے کا سامان کر دے گا.اس موقعہ پر حضور کے جو الفاظ قلمبند کئے گئے وہ میں ذیل میں درج کرتا ہوں :- ن سم اور دوسرو جھے اسلام ہوتا بین فرق ہے.مجھے دلی ہوتی ہے.میارم فردا شاب خود فیلم ایرانی - سروی - اعلام دونوں ہو تے ہے.پھر شی کا لفظ اور کسی مرینی آیا.بطور ایسی ه سیبابی بوجود أمني مخالفت 2 کیلو نی ہوئی.فوت ہوگئی اسے اللہ نے وعدہ کیا.کہ ترکی قوم نے ترئیس زمین نوقتی سر یا ستم.تمہ ہے تک ماہو.یگانی قوم نے نافرمانی کی در کیا نیم مول ام برک ڈہیں دی گئی اورانیم خوت موسی اور پلی فوت ہوگئے.
۵۱۶ مجھے یہ ڈر ہے.کہ خوت میں بھی الو تعالی نے ہا ہے کہ امام مالک کے پیچھے کیا کیا ہے موجود - - دورات ثانیه ای انصار کی ذرا کی گستاخی سے حضور نجی سریے نے قریا - که قیاف کا تم پر سلطنت خوام ہے.تم بھی گستاخ رویا ہو.یہ الفاظ بالکل صاف اور ان کا مفہوم بالکل واضح ہے.حضرت خلیفتہ امسیح الاول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے حضرت مسیح موعود سے جو وعدے کئے تھے وہ ہم میں سے بعض لوگوں کی غلطی سے معرض التوا میں پڑ گئے ہیں اور اب سے تین سال بعد اللہ تعالے کا ایک موعود بندہ جو قوم کی تجدید کرے گا اور مظہر قدرت ثانیہ ہوگا، ظاہر ہوگا اور پھر اس کے ہاتھ سے وہ وعدے پورے کئے جائیں گے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے بیٹے سے کئے ہیں اور یہ اللہ تعالے کا فضل و احسان ہے کہ اس نے ان الفاظ کے کہے بجانے کی تاریخ سے تیس سال بعد ہی حضرت خلیفہ المسیح الثانی مظہر قدرت ثانیہ ابد الله بنصرہ العزیز پر پیشگوئی مصلح موعود کے مصداق ہونے کا انکشاف کر دیا.اور آپ نے الہی الہام کی بنیا اپنے مصلح موعود ہونے کا دعوی فرما دیا.احادیث میں آتا ہے.ایک جنگ کے موقعہ پر حضرت مقداد رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلے اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ حضور ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور آپ کے بائیں بھی ، آگے بھی
۵۱۷ لڑیں گے اور پیچھے بھی اور جس طرح یہود نے حضرت موسیٰ سے کہا تھا ہم آپ سے نہیں کہیں گے اذْهَبْ أَنتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هُهُنَا قَاعِدُونَ.اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کیس طرح گذری ہوئی اقوام کے ان واقعات سے جو قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں غیرت و بصیرت حاصل کرتے تھے.دیکھنا یہ ہے کہ اخرین منھم کی جماعت کس طرح عبرت و موعظت حاصل کرتی ہے اور اب تو خدا کے ایک صدیقی بندے نے ہمیں اس طرف متوجہ بھی کر دیا ہے.مبارک ہیں جو اس سے فائدہ اُٹھاتے ہیں اور صلح موعود کے قدموں میں اپنے تئیں لا ڈالتے ہیں کہ وہ الہی خوشنودی کو حاصل کریں گے اور فتوحات کے ان وعدوں کی تکمیل میں شریک ہو کر دین و دنیا کی سرخروئی پانے والے نہیں گئے.بنی اسرائیل کو جس قوم کے خلاف جنگ کرنے کا حکم دیا گیا تھا اور حسین سے انہوں نے انکار کر دیا وہ بت پرست قوم تھی اور اُس روبار میں جو مصلح موعود کی پیشگوئی کا انکشاف کرنے والی ہے اُس میں بھی آپ ایک بت پرست قوم ہی میں وعظ و تلقین فرماتے ہیں.گویا جس قوم کی سنرا یا اصلاح کے فرض سے بنی اسرائیل نے پہلو پتی کی اور فتوحات سے محروم رہ گئے تھے.اب اس فرض کو مصلح موعود نے ادا کر کے فتوحات کے بند کئے ہوئے دروازہ کو کھولنے کے سامان پیدا کر دیئے ہیں.سید نا حضرت خلیفہ ربیع الاول رضی اللہ عنہ نے تمہیں سال کے بعد موعود مجدد ( قدرت ثانیہ کے ظہور کی حسین امید کا اظہار فرمایا ہے اس کی بنیاد در اصل باریک الہی اشارہ کے ماتحت اس واقعہ پر ہے کہ حضرت موسی کی قوم سے بھی جو وعدے تھے وہ قوم کی گستاخیوں کی وجہ سے چالیس سال تک معرض التوا میں پڑ گئے.اسی طرح مسیح موعود سے جو وعدے اللہ تعالیٰ نے فرمائے ہیں اُن کی تکمیل بھی متاخر کر دی گئی اور اب قوم کو تیس سال مزید انتظار کرنا چاہیئے.اس پر میرے ذہن میں خلجان تھا کہ اصل بنیاد اربعين سنة یعنی پائیں سال کے الفاظ پر معلوم ہوتی ہے.لیکن حضرت خلیفہ اول تا عیدین پھالیں سالی کی بجائے تمہیں سال کی فرماتے ہیں.اس کی کیا وجہ ہے چنا نچہ جب میں نے یہ حوالہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی المصلح الموعود ایدہ اللہ الود دو کے سامنے پیش کیا تو حضور نے فرمایا ” بہت لطیف حوالہ ہے“ اور ساتھ ہی میری اس مشکل کو بھی حل فرما دیا کہ چالیں سال کی مدت اس طرح بنتی ہے کہ بعض لوگوں نے دراصل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی
AIA ہی میں لنگر خانہ وغیرہ کے انتظامات پر اعتراضات شروع کر دیئے تھے اور اس طرح اُس وقت سے لے کر پیشگوئی مصلح موعود کے انہی انکشاف کے وقت تک جو نہ میں ہوا پورے چالیں سال بنتے ہیں.بعض سعيد 2" حضرت امیرالمومنین خلیفہ اسیح الثانی کے دعوی مصلح موعود سے ی و یا مین قبول حق جہاں اہل حق کے ہاتھ میں اسلام کی صداقت کے لئے ایک زیر دست ہتیا ریل گیا وہاں غیر مبائعین پرخدا کی محبت عینی قائم ہوگئی.اور اب اُن کے لئے اس کے سوا اور کوئی چارہ کا نہیں رہ گیا تھا کہ یا تو وہ غدا ترسی کا ثبوت دیتے ہوئے خلافت ثانیہ کے ساتھ وابستہ ہو جائیں یا سید نا الصلع الورود کی ذات مبارک کے بار ے میں کامل خاموشی، در سکوت اختیار کرلیں.چنانچہ غیر مبالعین میں سے جو طبقہ سنجیدہ اور سعید فطرت رکھتا تھا اور خدا کی بیناب میں فی الفور ہدایت پا جانے کا ستحق قرار پا چکا تھا وہ آسمانی منادی کی آواز پر لبیک کہتا ہوا آگے بڑھا اور خلافت ثانیہ کی بیعت میں شامل ہو گیا.ین انچه امین احمدیہ اشاعت اسلام لاہور کے حسب ذیل پانچ ممتاز ارکان کو دعوی مصلح موعود کے تھوڑے دنوں بعد نظام سلافت سے وابستہ ہونے کی توفیق ملی.اسے احنات اشرفی الر صاحب میرا نیا اسلام کیا اوروالی والی ایک امام الصلوات خان بہادر میاں محمد صادق صاحب لاہور ریٹائرڈ ڈی ایس پی (آنریری جنرل سکرٹری احمدی انجمن اشاعت اسلامی س سید امجد علی شاہ صاحبه با سیالکوٹ ( آنریری جنرل سکری احمدیہ انتین اشاعت اسلام لا ہوں کپٹن سید محمد اسلم صاحب ایم بی بی ایس ( زیر تجویز مبلغ سپین احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور) ۵- ڈاکٹر محمد شریعت شمال صاحب ریٹائرڈ سول سرجن بٹالہ نے کے نعمت اللہ صاحب سیدایتی (بمبئی) این ماسٹر فقیر اللہ صاحب زندہ خدا کے زندہ کلام کا نزول ، اس کی پیشکونی مولوی محمد علی صا اور انکے بعض دوست رفقاء کا ناروا طرز عمل ں کا پورا ہونا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام د قران قاریان بابت ماه بارت امنیت محمد و تا لے کے بیعت سوانت - ارامان برداری میش در فتوت تخوان بہادر میان محمد صادق صاحب اپنی زندگی کے آخری ایام میں اپنے عہد بیعت پر قائم نہ رہے ؟ کے بیعت خلافت شروع ماہ شہادت اپیل کر میش کے بیعت خلافت، رسالہ "فرقان" ماہ ہجرت مئی جون ۲ ۱۳۲۳ میل سفر ۰۵۲ احسان بیعت خلافت احسان ربونی له ش که "فرقان" ، حیرت - احسان / مئی جون صفحه ے شه بیعت خلافت انسان جون ۳۳ ش الفصل " ۲۷ احسان جون کے
۵۱۹ کی صداقت پر ایک عظیم الشان آسمانی نشان کا ظہور مومنوں کے لئے انتہائی مسرت و شادمانی کا موقعہ تھا اور یقیناً یہ روحانی عید تھی.چنانچہ اس انکشافتِ الہی پر جماعت احمدیہ کا ہر فرد اللہ تعالیٰ کے حضور سجدات شکر بجا لایا.اس کا فضل دیکھ کہ اُن کے دل خوشی سے بھر گئے اور وہ بیساختہ پکار اٹھے مبارک صد مبارک.دُور کے اصحاب نے براجہ تار اس تہنیت میں شرکت کی.اور مبارک باد اور خوشیوں سے معمور یہ تقریب بھی ایک محافظ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس واضح ارشاد کی تعمیل ہی میں تھی کہ اے دے لوگو جنہوں نے ظلمت کو دیکھ لیا جبرانی میں مت پڑھو بلکہ خوش ہو اور خوشی سے اُچھلو کہ اس کے بعد اب روشنی آئے گی " سے ہی نہیں خود اللہ تعالیٰ نے ایک موعود فرزند کے ملنے پر اپنے مسیح موعود کو الہام فرمایا :- ” ساقیا آمدن عید مبارک بادت کے یعنی اے ساقی! عید کا آنا تجھے مبارک ہو یکن مولوی محمدعلی صاد باز امیراحمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور) نے نشانِ رحمت کے ایمان افزا اعلان کو ” نے موسم کی بعید “ قرار دیتے ہوئے لکھا :." ان ایام میں قادیان میں ایک بے موسم کی عید آگئی ہے.تاریں پھیل رہی ہیں ، مبارکبادیں دی جا نہ ہی ہیں سکول اور دفاتر بند ہو رہے ہیں اور جلسے منعقد ہو رہے ہیں.اگر کوئی مصلح موعود ہو بھی گیا تو یہ خوشی اور تاروں کا کونسا موقعہ ہے ؟ کے مچھر لکھا :- حدیث میں وعدہ ہے کہ ہر صدی کے سر پر بھی قد آئے گا.اس کے علاوہ سب چیزوں کو فضول اور صدی کے سر کا انقطار کرد.شاید اللہ تعا لئے کسی کو کھڑا کر دے.ابھی بڑا وقت 15 له تبارم میمیره تبلیغ رسالت جلد اول صفحہ ۱۳۷ ه "بدر ۳۱ اکتوبر کشته صفهم : کے "پیغام صلح" در فروری ۱۹۳۷ از صفحه ۱ و ۲ یہ مولوی صاحب کی بیگم صاحبہ نے لکھا.ہمیں قادیان والوں کی اس اندھا دھند " عقیدت سے مرعوب ہونا چاہیے بلکہ یہ ایک ابتکار کا وقت ہے ہمیں اس میں ثابت قدم رہنا چا ہیے (پیغام صلح ۲۹ ارچار سٹھ ۳ بحوالہ ان شہادت اپریل بیش نه ۲ - * را بریال کے عجیب بات ہے کہ مولوی بھی علی ساس نے منہ مصلح وہ خود کا انکار اس نے کیا کہ آپ کا دخوئی عندی کے سر پر نہیں مگر ان کے رفقاء نے ان کی وفات کے بعد خود انہی کو اہمیت کا پہلا مجدد قرار دے لیا.چنانچہ شیخ میاں محمد صاحب نے لکھا."میرا ایمان ہے کہ جس طرح اسلامی دور میں فتنوں کو دور کرنے کے لئے ہر صدی میں مجدد آتے رہے اسی طرح احمدیت کے دور میں پیدا ہونیوالے فتنوں کو دور کرنے کے لئے سب
۵۲۰ باقی ہے.بھائیس سال با تی ہیں؟ - مولوی صاحب موصوف کا یہ موقف حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے فرمودات کی روشنی میں کہانتک حق بجانب قرار دیا جا سکتا تھا.اس کا قطعی فیصلہ کرنے کے لئے صرف اتنا بتا دینا کافی ہوگا کہ اشتہار ۲۰ فروری ہے اور اور سبز اشتہار میں مصلح موعود کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صلبی اولاد میں سے اور بشیر اول کے بعد بلا توقف پیدا ہونے والا فرزند قرار دیا گیا تھا نہ کہ آئندہ کسی اور سندی کے سر پر ظاہر ہونے والا.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ وضاحت بھی موجود تھی کہ ی امام جوخدا تعالے کی طرف سے مسیح موعود کہلاتا ہے وہ محمد صدی بھی ہے اور مجددالف آخر بھی پھر فرمایا : یہ بھی اہل سنت میں متفق علیہ امر ہے کہ آخری مجدد اس امت کا مسیح موعود ہے" جناب مولوی صاحب موصوف نے دعوی مصلح موعود کا مذاق اُڑاتے ہوئے اور بھی بہت کچھ خامہ فرسائی کی چنانچہ لکھا :- ا.اگر اس فساد کی اصلات کی ضرورت ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ جماعت احمدیہ لاہور کا ایک آدمی مصلح موجود ہے اور وہ ایسا دعوی کریں تو حق بجانب ہیں کہ." اس درویار) میں موجود کا لفظ کہیں نہیں نہ مصلح موعود نہ پسر موعود.رہا یہ کہ مثیل اور خلیفہ کہا ہے تو خلیفے سینکڑوں اور ہزاروں ہو سکتے ہیں" شه له "پیغام صلح و فروری ۱۲۵ مه بحوالہ فقران تبلیغ فروری ، یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ مولوی محمد علی صاحب سے قبل ازیں سوال کیا گیا کہ آیا گذشتہ مجددین کی طرح اس صدی کے آخر پر سلسلہ کا انجام بھی ہو گا ؟ مولوی محمد علی قصاب نے جواب دیا کہ " آنحضرت صلعم کے بعد جو مجددین کا سلسلہ چلتا ہے رہی قیامت تک چلے گا مگر چونکہ اس صدی کے جد کا کام محض وقتی تجدید نہیں بلکہ اسلام کو دنیا میں غالب کرنے کی بنیاد اس کے ظہور کے ساتھ رکھی گئی ہے اور یہ علیہ قیامت تک ہوتا چلا جائے گا اور ہمیشہ رہے گا.اس لئے اس سلسلہ کا انجام بھی کوئی نہیں لیکن ہر مجدد اپنے وقت کا امام ہوگا اور غلبہ اسلام کی سین راہوں پر وہ پھلائے.انہی پر چلنا ہو گا.خواہ وہ وہی ہوں جن پر اس صدی کے مجدد نے چلنے کے لئے بلایا ہے اور خواہ کوئی اور ہو " اپیغام صلح" ۲۱ جنوری ۳ بر صفر ۶ کالم 1) * لیکچر سیالکوٹ ، صفحہ ، لیکچر فرموده از تو بر نامه بمقام سیالکوٹ سے حقیقۃ الوحی صفحه ۱۹۳ طبع اول سے "پیغام صلح و فروری ۱۹۹۴ صفحه ۲ شه ايضاً ايضاً الينا
۵۲۱.اس زمانہ میں خوابیں بھی بھی آتی ہیں جبکہ لکھنے اور پراپیگنڈا کے سامان بہتر ہیں " مہم." ان خوابوں کی بنا پر خلافت بنی.اب تو ابوں کی بناء پر مصلح موعود بن رہے ہیں “ سے ۵ - " مریدوں نے گواہی دے دی کہ کچھ ہو گیا ہے اور اوپر سے اللہ تعالیٰ نے بھی ایک ناواقف بادشاہ کی طرح ایک خطاب دے دیا." سے جناب مولوی محمد علی صاحب کے علاوہ ان کے ساتھیوں میں سے ایک صاحب نے اخبار پیغام صلح رو فروری انہ میں ایک طویل مضمون شائع کرایا جس میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے کی روبار کے اس حصہ سے جس میں آپ کے دائیں اور بائیں راستہ کی بجائے وسطی راستہ پر چلنے کا ذکر ہے یہ نتیجہ نکالا کہ مولوی محمد علی صاحب اصحاب الیمین میں سے ہیں اور (معاذ اللہ) حضرت خلیفہ السیح الثانی اصحاب الشمال میں سے حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے درمیانی راہ ہی کو صرف مستقیم قرار دیا ہے چنانچہ مسند احمد، نسائی اور دارمی میں حضرت عبداللہ بن مسعود کی یہ حدیث ہے کہ عَن عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٌ قَالَ خَطَ لَنَا رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَخَطَّا ثُمَّ قَالَ هذا سبيلُ اللَّهِ ثُمَّ خَطَ خُطُوطَا عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ وَقَالَ هَذِهِ سُبُلُ عَلَى كُل سَبيلِ مِنْهَا شَيْطَانَ يَدْعُوْا إِلَيْهِ وَقَرَهَ وَإِنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ النية " اگر دو یعنی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک بار ہمارے سامنے ایک خط کھینچا اور ارشاد فرمایا کہ یہ اللہ کی راہ ہے.پھر حضور علیہات سلام نے اس خط کے دائیں اور بائیں بہت سے خطوط کھینچے اور فرمایا کہ بیر ایسے راستے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک راستہ پر شیطان بیٹھا ہوا لوگوں کو اپنی طرف بلا رہا ہے.یہ فرما کر حضور نے آیت دَانَ هذا صراطی مستقیما کی تلاوت فرمائی.مولوی عزیز بخش صاحب کی سیٹی اور قصہ مصر میں اس لیے میں یہ مبا چوڑا مضمون شائع ہوا پیغام سلح تو مولوی محمد علی صاحب کے بڑے بھائی مولوی عزیز بخش رستينا المصلح الوجود کا روح پرور جواب صاحب نے اسے فر مایا ربیع الثانی الصلح المولو نے حضرت خلیفہ کام + له "پیغام صلح و فروری ۹۴ از صفر سے پیغام صلح " ۲۳ فروری ۱۹۹۴ صفحه ۲ : ۱۹۲۴ ۱ سے "پیغام صلح" ہے " مشكوة المصابيح" باب الاعتصام بالكتاب والسنتر صفحه ۳۰.در مارچ
۵۲۲ کو رجسٹری کر کے بھیجدیا اور ساتھ ہی حسب ذیل مکتوب لکھا :- 22 بسم الله الرحمن الرحیم نحمده ونصلى على رسوله الكريم مکرم و معظم صاحبزادہ میاں، بشیر الدین محمود احمد صاحب قادیانی ! السلام علیکم ورحمته الله وبرکاته آج بذریعہ رجسٹر ڈ بک پوسٹ ایک پرچہ اخبار پیغام مسلح و ضروری یہ آپ کی خدمت میں ارسال ہے.اس کے صفحہ 4.آ پہ آپ کے خواب کی صحیح تعبیر دی گئی ہے.اللہ اسے غور سے پڑھیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ اپنے فضل و کرم سے آپ کو دائیں طرف والے رستہ پر آجانے کی توفیق عطا فرمائے جو احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کا مسلک ہے.بکو بھی دعا کرتا ہوں اللہ تعالیٰ قبول فرما دے.آمین.والسلام خاکسار عربی بخش خادمی مواد آریانا یا اسلام او اس کے جواب میں حضرت سیدنا المصلح الموعود نے لفافہ کی پشت پر ہی تحریر فرمایا :- پر چہ مل گیا.میں نے ہوا اعلان کیا ہے.بڑی دُعاؤں کے بعد کیا ہے اور اللہ تعالے پر جھوٹ نہیں بونہ باقی آپ تو مولوی عبدالرحمن صاحب مصری کی تعبیر کی طرف اشارہ کر دی ہے نہیں اس کا جواب رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں موجود ہے جب شائع ہوگا.آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ درمیانی راستہ پر جانے والا غلطی پر ہے یا ان تعبیروں کے مرتکب اور خدا تعالیٰ کے دین پر ہنسی کرنے والے ! آپ کی دعاؤں کا بہت بہت شکریہ مگر یہ سمجھ میں نہ آیا کہ آپ کے نزدیک حضرت مسیح موعود علی استسلام کی عمر بھر کی دعائیں آپ کی اولاد کے حق میں رہ گئیں تو آپ کی ایک دُعا سے کیا بنے گا ؟ آپ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کو جس امر کے بارہ میں بیکار قرار دیتے ہیں تو اپنی دعاؤں کو اس بارے میں کیا اور کیوں وقعت دیتے ہیں ؟ " " ہ اس حدیث کا متن جلد ہی اخبار الفضل" اور "فرقان“ میں شائع کر دیا گیا تھا.ے رسالہ " فقان " بابت ماہ شہادت / اپریل ۱۹۷۲ : صفحه نم :
۵۲۳ فصل دوم احول ماتا کی المناک وفات سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو مصلح موعود کی نسبت یہ گیر اسرار اور ذو الوجوہ الہام ہوا کہ إِنَّا اَرْسَلْنَهُ شَاهِدًا وَ مُبَشِّرًا وَنَذِيرًا كَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمَاءِ فِيْهِ ظُلُمَتُ وَ رَعْدٌ وَبَرْقٌ - كُلِّ شَيْءٍ تَحْتَ قَدَمَيْهِ " یعنی ہم نے اس بچہ کو شاہد اور مبشر اور نذیمہ ہونے کی حالت میں بھیجا ہے اور یہ اس بڑے سینہ کی مانند ہے جس میں طرح طرح کی تاریکیاں ہوں اور رعد اور برق بھی ہو.یہ سب چیزیں اس کے دونوں قدموں کے نیچے ہیں.“ سے اس الہام کے عین مطابق مصلح موعود سے متعلق انکشاف کے ساتھ ہی جہاں اسلام اور احمدیت کی شاندار ترقیات اور عظیم الشان فتوحات کے نئے سے نئے دروازے کھول دیئے گئے وہاں حوصلہ شکن حوادث اور صبر آزما ابتلاؤں کا ایک متوازی سلسلہ بھی جاری ہو گیا.اس تعلق میں انکشات مصلح موعود کے معاً بعد جماعت احمدیہ کو حضرت سیدہ مریم بیگیم رابہ طاہر اور حضرت میر محمد اسحاق صاحب کی مفارقت کے پے در پے اور انتہائی تکلیف دہ اور زہرہ گداز صدمات سہنے پڑے.ان مقدس اور مبارک اور محسن وجودوں کی وفات جماعت احمدیہ کے ہر طبقہ کے لئے ایک قیامت صغریٰ اور حشر کا نمونہ تھی.ہر آنکھ اشکبار تھی اور ہر دل غمزدہ اور زخم رسیده ! حضرت ام مظاہر کے انتقال نے اگر جماعت کے غریبوں یتیموں اور مسکینوں کو محسوس کرا دیا کہ اُن کی ایک شفیق اور مہربان ماں کا سایہ اُٹھ گیا تو حضرت میر صاحب رضی اللہ عنہ کی جدائی پر وہ فرط غم سے کہ اُٹھے کہ ہمارا باپ بھی آج رخصت ہوا.حضر اور سیدہ عطیہ ح سیدہ امہ طاہر کے جنازہ اور حضرت بی وام اشتر گنگارام اسپتال لاہور میں زیر سلاح تھیں کہ آپ کی مبارک و مطہر روح هر امان / مارچ پر میش کو بارگاہ تجہیز و چین کے رقت انگیر الہی میں پہنچ گئی.اس حادثہ عظمیٰ کی دردناک اطلاع اسی روز با سط تاریخ الهام ، راگست کلاه سبز اشتہار موجو یکم دسمبر هار صفحه ۱-۲ تذكرة وطابع ورم صفر ۱۵۴- ۱۵۵ به سه الفصل در امان ماری اور میشه /
کروم تین بجے بعد دوپہر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی طرف سے بذریعہ فون امیر مقامی حضرت مولوی شیر علی صاحب کے نام ان الفاظ میں پہنچی کہ ہمشیرہ سیدہ اسم طاہر احمد صاحبہ کو اڑھائی بجے اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلا لیا.اناللہ وانا الیہ راجو اران بعد گیارہ بجے شب کے قریب حضرت خلیفہ ربیع الثانی المصلح الموعود اور دیگر افراد خاندان حضرت سیدہ کی نعش مبارک سے کرتی دیاں پہنچ گئے.اس وقت ایک بہت بڑا مجمع دو میل سے زیادہ لمبی سڑک پر بٹالہ کے موڑ سے لے کہ مسجد مبارک تک پھیلا ہوا تھا اور حد نگاہ تک خلقت ہی خلقت نظر آتی تھی.لاری احمدیہ چوک میں پہنچی تو نعش چار پائی پر رکھ کر ان کے مکان میں لے جائی گئی.حضرت امیر المومنین المصلح الموعود بھی چار پائی اُٹھانے والوں میں شامل تھے.حضرت سیدہ مرحومہ کو وفات کے بعد لاہور ہی میں غسل دے دیا گیا تھا اور جناب شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کی کوٹھی واقع ٹمپل روڈ لاہور) کے زنانہ صحن میں روانگی سے قبل حضور نے لاہور کی جماعت کے ساتھ نماز جنازہ پڑھائی.قادیان پہنچ کر رات کو احتیاطاً مرحوم مغفورہ کی چارپائی کے نیچے اور ساتھ برف رکھ دی گئی.اور رات کو مستورات کے ذریعہ پہرہ کا بھی انتظام کرا دیا گیا.دن چڑھتے ہی ستورات زیارت کے لئے آنا شروع ہو گئیں اور دس بجے سے لے کر تین بجے بعد دوپہر تک نہ صرف قادیان اور بیرو نجات سے آئی ہوئی خواتین بلکہ ارد گرد کے دُور دُور کے دیہات تک کی ہزاروں خواتین نے لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے زیر انتظام نہایت ہی اخلاص اور محبت سے اپنی بزرگ خاتون کی آخری زیارت کی.اس وقت تک لاہور، لدھیانہ، فیروز پور ، کپور تھلہ، امرتسر، سیالکوٹ ، گورداسپور وغیرہ مقامات کے بہت سے احباب بھی جنازہ میں شرکت کے لئے پہنچ چکے تھے.اور مسجد مبارک کے چوک سے لے کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے باغ تک ہزار ہا افراد کا اجتماع ہو چکا تھا.ھ بجے کے قریب حضرت امیر المومنین الصلح الموعود اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے افراد نیز حضرت سیدہ مرحومہ مغفورہ کے برادران حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب و حضرت میجر سید حبیب الله شاہ صاحب نے جنازہ اُٹھایا.نماز جنازہ کا انتظام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسّلام کے باغ میں بجانب مغرب کیا گیا تھا.جہاں سیدھی صفیں باندھنے کے لئے زمین پر سفیدی سے خط کھینچ دیئے گئے تھے.احمدیہ چوک میں جنازہ ه " الفضل " ، رامان / مارش
۵۲۵ کے پہنچنے پر جماعت کے دوسرے احباب کو اُٹھانے کا موقعہ دیا گیا اور جنازہ گاہ تک ہزاروں افراد نے چار پائی کو کندھا دینے یا کم از کم درد بھری دعاؤں کے ساتھ ہاتھ لگانے کا ثواب حاصل کیا صنفیں کھڑی ہونے کے بعد اندازہ لگایا گیا تو سات اور آٹھ ہزار کے درمیان صرف مردوں کی تعداد تھی جو خواتین از خود باغ میں پہنچ گئی تھیں وہ اس کے علاوہ تھیں.ان کی تعداد بھی دو ڈیڑھ برا سے کم نہ ہوگی.نمازجنازہ میں شامل ہونے والوں کی اتنی بڑی تعداد یہاں پہلے نہیں دیکھی گئی.نماز جنازه شروع کرنے سے قبل حضرت امیرالمومنین نے حاضرین کو مخاطب کر کے فرمایا.پہلی تکبیر کے بعد سورۂ فاتحہ پڑھی جاتی ہے.دوسری تکبیر کے بعد درود شریف اور تیسری تکبیر کے بعد میت کے لئے دعا کی جاتی ہے.چونکہ یہ آخری امداد ہے جو ایک بھائی اپنے بھائی کی یا ایک بھائی اپنی بہن کی کرتا ہے سوائے قریبی تعلق والوں کے کہ وہ فوت ہونے والوں کو پھر بھی یاد رکھتے اور اُن کے لئے دعائیں کرتے ہیں.اس لئے چاہیئے کہ آج ہوا اس قسم کی دعاؤں کا خاص موقعہ ہے خشوع و خضوع کے ساتھ دعائیں کی جائیں.اس کے بعد حضور نے نماز جنازہ پڑھائی اور نماز کے بعض حصوں میں کسی قدر اونچی آواز سے جسے صرف قریب کے چند افراد سُن سکتے تھے ، نہایت تضرع اور رقت کے تھے مسنون دعائیں کیں جنہیں سننے والوں کی چیخیں نکل گئیں.یوں بھی تمام مجمع نے نہایت خشیت اور رقت کے ساتھ مرحومہ مغفورہ کے واسطے دعائیں کیں.نماز جنازہ کے بعد جنازہ مقبرہ بہشتی کے اس خاص احاطہ میں لے جایا گیا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة دالسلام کا مزار ہے.قبر کی جگہ حضرت امیر المومنین المصلح الموعود نے صبح ہی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو بہشتی مقبر میں بھجوا کر معین فرما دی تھی جو حضرت سیدہ امتہ الحی صاحب مرحومه مغفورہ اور حضرت سیدہ سارہ بیگم مرحومه مغفورہ کی قبروں کے ساتھ جانب مشرق اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قریباً قدموں میں تھی.میت کو لحد میں اتارنے کے لئے حضرت سیدنا المصلح الموعود ، جناب میجر سید حبیب اللہ شاہ صاحب ، صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب (حصر سیدہ مرحومہ کے اکلوتے بیٹے ) اور صاحبزادہ مرزا خلیل احمد صاحب اُتر ہے.اور چار پائی پر سے خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دوسرے صاحبزادگان نے نیت کو اُٹھایا.لحد میں رکھنے اور لحد پر اینٹیں چھننے کے دوران میں حضرت امیر المومنین نہایت ہی درد بھری آواز سے (جو بعض دفعہ شدت رقت و غم کی وجہ سے بالکل مدھم ہو جاتی تھی مسنون دعائیں کرتے رہے.جب لحد تیار ہو چکی تو حضور نے دعائیں کرتے ہوئے قبر میں تین دفعہ مٹی ڈالی.پھر دوسرے احباب کو مٹی ڈالنے کا موقعہ دیا گیا.اس کے بعد حضور نے سیدہ مرحوم مغفورہ کی قبرپر تمام جمع میت نہایت وقت کے ساتھ کسی قدر دیجی آواز میں دعا فرمائی اور اپنی پیاری رفیقہ حیات کو اپنے آسمانی بادشاہ کی سپردگی میں دے دیا.
۵۲ چونکہ سورج غروب ہونے میں تھوڑا ہی وقت تھا اس لئے حضور نے باغ میں اس جگہ جہاں جنازہ پڑھا گیا تھا عصر کی نماز پڑھائی.اس کے بعد حضور پھر سیدہ مرحومہ کی قبر پر تشریف لائے اور السلام علیکم کہہ کر اور پھر اُسے دوہرا کر واپس تشریف لے آئے لیلہ سیدنا المصلح الموجود کی طرف سے سیدہ امتیام راضی شد نیا کی وفات گوپر پیری جماعت کے لئے اگرچہ المیہ کی حیثیت رکھتی تھی مگر طبعی طور پر اس کا سب سے زیادہ صدمہ جماعت کو ضار بالقضاء کی مین خود سيدنا المصلح الموعود کو پہنچا لیکن حضور نے اس موقعہ پر نہ صر ۱۳۱۳ پیش بیمثال رضا بالقضاء کا نمونہ دکھایا بلکہ پوری زخم رسیده جماعت کو صبر کی تلقین فرمائی.چنانچہ ارامان /مارچ سے کے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا :- اس ہفتے جو میرے گھر میں ایک واقعہ ہوا ہے لینی میری بیوی اہم طاہر فوت ہوتی ہیں اس کے متعلق میں دکھتا ہوں کہ جماعت میں بہت بڑا درو پایا جاتا ہے خصوصاً عورتیں اور غریب عورتیں بہت زیادہ اس درد کو محسوس کرتی ہیں کیونکہ میری یہ بیوی جو فوت ہوئی ہیں ان کے دل میں غرباء کا خیال رکھنے کا مادہ بہت زیادہ پایا جاتا تھا.ان کی بیماری کے لیے عرصہ میں جماعت نے جس قسم کی محبت اور ہمدردی کا اظہار کیا ہے وہ ایک ایسی ایمان بڑھانے والی بات ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ مومن واقعہ میں ایک ہی جسم کے ٹکڑے ہوتے ہیں....جو لوگ ہمارے گھر کے حالات جانتے ہیں اُن کو معلوم ہے کہ مجھے اُن سے شدید محبت تھی لیکن با وجود اس کے جو خدا تعالئے کا فعل ہے اس پر کسی قسم کے شکوہ کا ہمارے دل میں پیدا ہونا ایمان کے بالکل منافی ہوگا.یہ چیز اللہ تعالے ہی کی ہے ہمیں رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم نے یہی تعلیم دی ہے جب کوئی شخص وفات پا جائے ہمارا اصل کام یہی ہوتا ہے کہ ہم کہہ دیں إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ یہ کیسی نطبیعت تعزیت ہے ہما ر ہے ریت کی طرف سے ! اس سے پڑھ کر بندہ بھلا کیا تعزیت کو سکتا ہے؟" اس کے بعد اس خدائی تعزیت کی نہایت لطیف تشریح کی اور فرمایا :- یہ زمانہ اسلام کی فتوحات کا ہے.بادشاہ کا کوئی نوکر یہ جرات نہیں کر سکتا کہ جس وقت اس کا بادشاہ کامیابی حاصل کرکے واپس آٹا ہو اور فتح کا جشن منارہا ہو تو وہ اس سے کسی کس کے کم کا اظہار کرے خواہ الفضل " در امان مارچ ۳۳ به بیش صفحه ۱-۲ " مید A
اُس دن اُس کا باپ مرگیا ہو.اُس کا بیٹا مر گیا ہو.اُس کی بہیں مرگئی ہو.اُس کی بیوی مر گئے ہو.وہ اپنی انکھوں کو پنچھتا اور اپنی کمر کو سیدھی رکھتا ہے کیونکہ وہ کہتا ہے کہ آج میرے آقا کی خوشی کا دن ہے.آج میرے لئے غم کا اظہار کرنا جائز نہیں.اسی طرح آج ہمارے نئے خوشی کا دن ہے.آج ہمارے " مستربت و شادمانی کا دن ہے کہ ۱۳۰۰ سال کے لیے وجہ اور ہزار سال نیج اعوج کے بعد خدا نے پھر چاہا کہ اس کے بندے اس کی طرف واپس آئیں.خدا نے پھر چاہا کہ محمد صل اللہ علیہ وسلم کا نام دنیا میں پھیلے بغدا نے پھر چاہا کہ توحید کو دنیا میں قائم کرے.خدا نے پھر چاہا کہ شیطان کو آخری شکست دے کر دین کو ہمیشہ کے لئے زندہ کر دے.پس آج جبکہ ہمارے رب کے لئے خوشی کا دن ہے ہمارے رنج اس کی خوشی پر قربان ہم اس کی خوشی کے دن منحوس با تیں کرنے والے کون ہیں.جتنے احسانات اللہ تعالیٰ نے ہم پر گئے ہیں واقعہ یہ ہے کہ اگر ہمارے جسم کا ذرہ ذرہ اور اگر ہماری بیویوں، اور ہمارے بچوں کا ذرہ زیرہ آروں سے چیر دیا جائے تب بھی ہم نہیں کہ سکتے کہ ہم نے اس کے احسانوں کا کوئی بھی شکریہ ادا کیا ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ ہمیں یا تم میں سے سارے اس مقام پر ہیں.مجھ میں کبھی کمزوریاں ہیں اور تم میں بھی.لیکن سچی بات یہی ہے اور جتنی بات اس کے خلاف ہے وہ یقینا ہماری یہ نفس کا دھوکا ہے.آج آسمان پر خدا کی قوتوں کی فتح کے نقارے بج رہے ہیں.آج دنیا کو خدا کی طرف لانے کے سانا گئے بیما رہتے ہیں.آج خدا کے فرشتے اُس کی حمد کے گیت گا رہتے ہیں اور تجہ بھی اس گیت میں ان فرشتوں کے ہمنوا اور شریک ہیں.اگر ہم جسمانی طور پر غمزدہ ہیں اور ہمارے دل، تخم خوردہ ہیں تب بھی مینا طور پر ہمارا یہی فرض ہے کہ ہم اپنے رب کی فتح اور اس کے نام کی بلندی کی خوشی میں شریک ہوں تا اس کی بخشش کے مستحق ہوں.اللہ تعالے ہم پر رحم فرمائے اور ہمارے غموں کو خود بلکا کرے کہ رُوح اُس کے آستانہ پر پھیلی ہوئی مگر گوشت پوست کا دل دکھ محسوس کرتا ہے " اے حصیلی موجود کے قلم مبا انا انا انا انا انا انا انا الا ان ریا ہے تین ماہ تک حضرت سیدہ ام طاہر کی نسبت کچھ نہیں لکھا.سلت حضرت سید ارقم ظاہر و بالا کرتی از ان بعد ارشاد برونی اذکر را محاسن موتا کور کے مطابق ایک مضمون له الفضل در امان مارش به و نضرة النور" شرح مختارات الاحاديث النبويه جز اول تیر ۵۹) نادر مصطفی البابی الحلبی مصر ه در تم اپنے دوں کے معاش کا تذکرہ کیا کرو"
۵۲۸ رقم ایا جس میں حضور نے بڑی تفصیل سے حضرت سیدہ کے سوانح ، ان کی فصائل وعادات ، ان کے کارناموں اور ا اور آخری بیماری کے الم انگیز حالات بیان فرمائے.اس اہم مضمون کے بعض بیستہ جستہ مقامات درج ذیل کئے جاتے ہیں ۳۶ سال کے قریب ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب کی لڑکی مریم بیگم کا نکاح ہمارے مرحوم بھائی مبارک احمد صاحب سے پڑھ.اس نکاح کے پڑھوانے کا موجب غالباً بعض خوابیں تھیں جن کو ظاہری شکل میں پورا کرنے سے ان کے انداری پہلو کو بدلنا مقصود تھا.مگر اللہ تعالے کی مشیت پوری ہوئی اور مبارک احمد مرحوم اللہ تعالیٰ سے جا ملا اور وہ لڑکی ہوا بھی شادی اور بیاہ کی حقیقت سے نا واقف تھی بیوہ کہلانے گی.اس وقت مریم کی عمر دو اڑھائی سال کی تھی اور وہ اور اُن کی ہمشیرہ زادی عزیزہ نصیرہ اکٹھی گول کمرہ سے جس میں اس وقت ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب مرحوم ٹھہرے ہوئے تھے ، کھیلنے کے لئے اوپر آجایا کرتی تھیں اور کبھی کبھی گھبرا کر جب منہ بسورنے لگتیں تومیں کبھی مریم کو اُٹھا کر کبھی نصیر کو اُٹھا کر گول کمرے میں چھوڑ آیا کرتا تھا.اس وقت مجھے یہ خیال بھی نہ آسکتا تھا کہ وہ بچی جیسے میں اُٹھا کر نیچے لے جایا کرتا ہوں، کبھی میری بیوی بننے والی ہے.اور یہ خیالی تو اور بھی بعید از قیاس تھا کہ کبھی وہ وقت بھی آئے گا کہ میں پھر اُس کو اُٹھا کر نیچے لے بھاؤں گا.مگر گول کمرہ کی طرف نہیں بلکہ قبر کی لحد کی طرف.اس خیال سے نہیں کہ کل پھر اس کا چہرہ دیکھوں گا.بلکہ اس یقین کے ساتھ که قبر اس کنارہ پر پھر اس کی شکل کو جسمانی آنکھوں سے دیکھنا یا اس سے بات کرنا میرے نصیب میں نہ ہو گا.عزیز مبارک احمد فوت ہو گیا اور ڈاکٹر صاحب کی رخصت ختم ہو گئی.وہ بھی واپس اپنی ملازمت پر رعیہ ضلع سیالکوٹ پہلے گئے.سید ولی اللہ شاہ صاحب اور ڈاکٹر سید حبیب اللہ شاہ صاحب اس وقت سکول میں پڑھا کرتے تھے.دو نو میرے دوست تھے مگر ڈاکٹر نجیب عام دوستوں سے زیادہ تھے.ہم یک بیان و دو قالب تھے.مگر اس وقت کبھی وسیم بھی نہ آتا تھا کہ ان کی بہن پھر کبھی ہمارے گھر میں آئے گی.اُن کی دوستی خود اُن کی وجہ سے تھی.اس کا باعث یہ نہ تھا کہ اُن کی ایک بہن ہمارے ایک بھائی سے چند دن کے لئے بیاہی گئی تھی.دن کے بعد دن اور سالوں کے بعد سال گذر گئے اور مریم کا نام بھی ہمارے دماغوں سے بہٹ گیا مگر حضرت خلیفہ ایسے لاوانی کی وفات کے بعد ایک دن شاید کسانہ یا شانہ تھا کہ میں امتد الحی مرحومہ کے گھر میں بیت الخلاء سے نکل کر کمرہ کی طرف آرہا تھا.راستہ میں ایک چھوٹا سا صحن تھا.اس کے ایک طرف لکڑی کی دیوار تھی.میں نے دیکھا کہ ایک ڈیلی پہلی سفید کپڑوں میں ملبوس لڑکی مجھے دیکھ کر اس لکڑی کی دیوار سے چمٹ گئی اور اپنا سارا لباس سمٹا لیا.میں نے کمرہ میں جا کو استرالی مرحومہ سے پوچھا.اعتدالی.یہ لڑکی یا ہرکوں کھڑی ہے ؟ انہوں نے کہا.آپ نے پہچانا نہیں.
۵۲۹ ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحب کی لڑکی مریم ہے.میں نے کہا.اُس نے تو پردہ کیا تھا.اگر سامنے بھی ہوتی تو میں اُسے کب پہچان سکتا تھا.شاہ کے بعد اس طرح مریم دوبارہ میرے ذہن میں آئی.اب میں نے دریافت کرنا شروع کیا کہ کیا مریم کی شادی کی بھی کہیں تجویز ہے.جس کا جواب مجھے یہ ملا کہ ہم سادات ہیں ہمارے ہاں بیوہ کا نکاح نہیں ہوتا.اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر میں کسی جگہ شادی ہو گئی تو کر دیں گے ورنہ لڑکی اسی طرح بیٹھی رہے گی.میرے لئے یہ سخت صدمہ کی بات تھی.میں نے بہت کوشش کی کہ مریم کا نکاح کسی اور جگہ ہو جائے مگرناکامی کے سواکچھ نتیجہ نہ نکلا.آخر میں نے مختلف ذرائع سے اپنے بھائیوں سے تحریک کی کہ اس طرح اس کی عمر ضائع نہ ہونی چاہئیے ان میں سے کوئی مریم سے نکاح کر لے.لیکن اس کا جواب بھی نفی میں ملا.تب میں نے اس وجہ سے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فعل کسی جان کی تیاری کا موجب نہ ہونا چاہیے اور اس وجہ سے کہ ان کے دو بھائیوں سینہ حبیب اللہ شاہ صاحب اور سید محمود اللہ شاہ صاحب سے مجھے بہت محبت تھی.میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں مریم سے خود نکاح کرلوں گا.اور نہ میں ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب مرحوم سے میں نے درخواست کر دی جو انہوں نے منظور کرلی اور ، فروں کی شر کو بہمارا نکاح مسجد مبارک کے قدیم حصہ میں ہو گیا.وہ نکاح کیا تھا ایک ماتم کدہ تھا.دعاؤں میں سب کی چیخیں نکل رہی تھیں اور گریہ و زاری سے سب کے رخسار تر تھے.آخر ۲۱ فروری سنہ کو نہایت سادگی سے جا کر میں مریم کو اپنے گھر لے آیا اور حضرت ام المومنین کے گھر میں ان کو تارا جنہوں نے ایک کمرہ اُن کو دے دیا جس میں اُن کی باری میں ہم رہتے تھے.وہی کرہ نہیں ہیں اب مریم صدیقہ رہتی ہیں.وہاں پانچ سال تک رہیں اور وہیں اُن کے ہاں پہلا بچہ پیدا ہوا یعنی طاہر احمہ (اول) مرحوم اور اس کے پہلے میں وہ سخت بیمار ہوئیں جو بیماری بڑھتے بڑھتے ایک دن ان کی موت کا موجب ثابت ہوئی.مریم کو احمدیت پر سچا ایمان حاصل تھا.وہ حضرت مسیح موعود علیہ سلام پر قربان تھیں.ان کو قرآن کریم سے محبت تھی اور اس کی تلاوت نہایت خوش الحانی سے کرتی تھیں.انہوں نے قرآن کریم ایک محافظ سے پڑھا تھا.اس لئے طرق منوب بینک رضہ عورت سے زیادہ زور سے ادا کرتی تھیں علمی باتیں نہ کہ سکتی تھیں مگر علمی با توان کا مزہ خوب لیتی تھیں جمعہ کے دن اگر کسی خاص مضمون پر خطبہ کا موقعہ ہوتا تھا تو واپسی میں اس یقین سے گھر میں گھست کہ مریم کا چہرہ چمک رہا ہو گا اور وہ بجاتے ہی تعریفوں کے پل باندھ دیں گی اور کہیں گی کہ آج بہت مزہ آیا اور یہ میرا قیاس شاذ ہی غلط ہوتا تھا میں دروازے پر انہیں منتظر پاتا خوشی سے اُن کے جسم کے اندر ایک تھر تے راہٹ پیدا ہو رہی ہوتی تھی.
۵۳۰ مریم ایک بہادروں کی عورت تھیں جب کوئی نازک موقعہ آتائیں یقین کے ساتھ اُن پر اعتبار کر سکتا تھا.اُن کی نسوانی کمزوری اس وقت دب جاتی.چہرہ پر استقلال اور عزم کے آثار پائے جاتے اور دیکھنے والا کہ سکتا تھا کہ اب موت یا کامیابی کے سوا اس عورت کے سامنے کوئی تیسری چیز نہیں ہے.یہ مر جائے گی مگر کام سے پیچھے نہ ہٹے گی عضور کے وقت راتوں اس میری محبوبہ نے میرے ساتھ کام کیا ہے اور تھکان کی شکایت نہیں کی.انہیں صرف اتنا کہنا کافی ہوتا تھا کہ یہ سلسلہ کا کام ہے یا سلسلہ کے لئے کوئی خطرہ یا بدنامی ہے اور وہ شیرنی کی طرح ایک کر کھڑی ہو جاتیں اور بھول جاتی اپنے آپ کو ، بھول جائیں کھانے پینے کو بھول جاتیں اپنے بچوں کو بلکہ بھول جاتی تھیں مجھے کو بھی ، اور انہیں صرف وہ کام ہی یاد رہ جاتا تھا.اور اس کے بعد جب کام ختم ہو جاتا.تو وہ ہو تیں یا گرم پانی کی بوتلیں تین میں لیٹی ہوئی وہ اس طرح اپنے درد کرنے والے جسم اور متورم پیٹ کو چاروں طو سے ڈھانپے ہوئے لیٹ باتیں کہ دیکھنے والا مجھتا تھا یہ عورت بھی کوئی بڑا اپریشن کروا کر ہسپتان سے آئی ہے اور وہ کام ان کے بیمار جسم کے لئے واقعہ میں بڑا پریشن ہی ہوتاتھا.مهمان نواز انتہا درجہ کی حق ہر ایک کو اپنے گھر میں جگہ دینے کی کوشش کرتیں اور حتی الوسع جلسہ کے موقعہ پر بھی گھر میں ٹھہرنے والے مہمانوں کا لنگر سے کھانا نہ منگوائیں خود تکلیف اُٹھا ئیں بچوں کو تکلیف دیتیں لیکن بہمان کو خوش کرنے کی کوشش کرتیں بعض آپنے پر اس قدر بوجھ لاد لیتیں کہ میں بھی خفا ہوتا کہ آستر نگارخانہ کا عملہ اسی غرض کے لئے ہے تم کیوں اس قدر تکلیف میں اپنے آپ کو - - - ڈال کر اپنی صحت برباد کرتی ہو.آخر تمہاری بیماری کی تکلیف مجھے ہی اُٹھانی پڑتی ہے، مگر اس بارہ میں کسی نصیحت کا ان پر اثر نہ ہوتا.کاش اب جبکہ وہ اپنے رب کی مہمان ہیں اُن کی یہ مہا نوانیاں انکے کام آجائیں اور وہ کریم میزبان اس وادی غربت میں بھٹکنے والی روح کو اپنی جنت الفردوس میں مہمان کر کے لیے بہائے.استہ ابھی مرحومہ کی وفات پر لڑکیوں میں تعلیم کا رواج پیدا کرنے کے لئے میں نے ایک تعلیمی کلاس جاری کی.اس میں مریم بھی داخل ہو گئیں مگر ان کا دل کتاب میں نہیں کام میں تھا.وہ اس بوجھ کو اُٹھا نہ سکیں اور کسی نہ کسی بہانہ سے چند ماه بعد تعلیم کو چھوڑ دیا گر حافظہ اس بلا کا تھا کہ اس وقت کی پڑھی ہوئی بعض عربی کی نظمیں اب تک انہیں یاد تھیں.ابھی چند ماہ ہوئے نہایت خوش الحانی سے ایک عربی نظم مجھے سنائی تھی.جب میں نے تعلیم نسواں کے خیال سے سارہ بیگم مرحومہ سے شادی کی تو مرحومہ نے خوشی سے اُن کو اپنے ساتھ رکھنے کا وعدہ کیا مگر اس وعدہ کو شاہ نہ سکیں اور آخر الگ الگ انتظام کرنا پڑا.یہ یہ بھی رقابت ساره بیگم کی وفات تک رہی مگر بعد میں ان کے بچوں سے ایسا پیار کیا کہ وہ بچے ان کو اپنی ماں کی عارت عزیز سمجھتے تھے "
۵۳۱ مریم بیگم کو پہلے بچہ کی پیدائش پر ہی اندرونی بیماری لگ گئی تھی جو ہر بچہ کی پیدائش پر بڑھ جاتی تھی اور جب بھی کوئی محنت کا کام کرنا پڑتا تو اس سے اور بھی بڑھ جاتی تھی میں نے اس کے لئے ہر چند علاج کروایا مگر فائدہ نہ ہوا.دو دفعہ ایچی سن ہاسپیٹل میں داخل کروا کر علاج کروایا.ایک دفعہ لاہور چھاؤنی میں رکھ کر علاج کروایا.کرنل نلسن ، کرنل ہینز ، کرنل کا کس وغیرہ ہوئی کے ڈاکٹروں سے مشورے بھی لئے ، علاج بھی کروائے مگر مرض میں ایسی کمی نہیں آئی کہ صحت) عود کر آئے بلکہ صرفت عارضی افاقہ ہوتا تھا.چونکہ طبیعت حسّاس تھی کسی بات کی برداشت نہ تھی.کئی دفعہ ناراضنگی میں بیہوشی کے دورے ہو بھاتے تھے اور ان میں اندرونی اعضاء کو اور صدمہ پہنچ جاتا تھا.آخر میں نے دل پر پتھر رکھ کر اُن سے کہہ دیا کہ پھر دورہ ہوا تو میں علاج کے لئے پاس نہ آؤں گا چونکہ دورے ہسٹیریا کے تھے نہیں جانتا تھا کہ اس سے فائدہ ہوگا.اس کے بعد صرف ایک دورہ ہوا.اور میں ڈاکٹر صاحب کو بلا کر فورا چلا گیا.اس وجہ سے آئندہ اُنہوں نے اپنے نفس کو روکنا شروع کر دیا.اور عمر کے آخری تین چار سالوں میں دورہ نہیں ہوا.میں نے اوپر لکھا ہے کہ ان کا دل کام میں تھا کتاب میں نہیں جب سارہ بیگم فوت ہوئیں تو مریم کے کام کی روح بھری اور انہوں نے لجنہ کے کام کو خود سنبھالا.انہوں نے بلینہ میں جان ڈال دی.آج کی لجنہ وہ لمبند نہیں جو امتہ الحی مرحومہ یا سادہ بیگم مرحومہ کے زمانہ کی تھی.آج وہ ایک منظم جماعت ہے جس میں ترقی کرنے کی بے انتہار قابلیت موجود ہے.انہوں نے کئی کو ناراض بھی کیا مگر بہتوں کو خوش کیا.بیواؤں کی خبرگیری، بیتائی کی پرورش ، کمزوروں کی پرسش ، جلسہ کا انتظام ، باہر سے آنے والی مستورات کی مہمانوازی اور خاطر مدارات غرض ہر بات میں انتظام کو آگے سے بہت ترقی دی.اور جب یہ دیکھا جائے کہ اس انتظام کا اکثر حصہ گرم پانی سے بھری ہوئی ریٹہ کی بوتلوں کے درمیان چارپائی پر لیٹے ہوئے کیا جاتا تھا تو احسان شناس کا دل اس کمزور ہستی کی محبت اور قدر سے بھر جاتا ہے.اسے میرے رب! تو اس پر رحم کر اور مجھ پر بھی.ٹہ میں میں سندھ میں تھا کہ مرحومہ سخت بیمار ہوئیں اور دل کی حالت خراب ہو گئی.مجھے تار گئی کہ دل کی حالت خواب سے میں نے پوچھا کہ کیا میں آجاؤں تو جواب گیا کہ نہیں.اب طبیعت سنیل گئی ہے.یہ دورہ مہینوں تک چلا اور کہیں جون جولائی میں بھا کو افاقہ ہوا.اس سال انہی دنوں میں اقتہ ناصر احمد کو بھی دل کے دورے ہوئے.نہ معلوم اس کا کیا سبب تھا.ہ کے مئی میں میں اُن کو دہلی لے گیا کہ اُن کا علاج حکیموں سے کو داؤوں حکیم محمود احمد خالصاحب کے صاحبزادے کو دکھایا اور علاج تجویز کر وایا مگر مرحومہ علاج صرف اپنی مرضی کا کردا سکتی تھیں.چنانچہ وہ علاج انہیں پسند نہ آیا.اور انہوں نے پوری طرح کیا نہیں.وہاں بھی چھوٹا سا ایک دورہ اندرونی تکالیف کا ہوا.جماعت کی مستورات اس امر کی گواہ ہیں کہ انہوں نے باوجود علم کی کمی.
لم رسم الله گر بلدی آرام آگیا.اس بیماری میں بھی جاتے آتے آپ ریل میں فرش پر لیٹتیں اور میری دوسری بیویوں کے بچوں کو سیٹوں پر لٹوایا.وہلی سے واپسی کے معا بعد مجھے سخت دورہ کھانسی بخار کا ہوا جس میں مرحومہ نے بعد سے زیادہ خدمت کی.ان گرمی کے ایام میں راست اور دن میرے پاس رہتیں اور اکثر پاخانہ کے برتن خود اٹھائیں اور خود صاف کرتیں.کھانا بھی پکائیں نٹی کہ پاؤں کے تلوے ان کے گھس گئے.ہمیں جاگتا تو ساری ساری رات جاگتیں.سو جاتا اور کھانسی اٹھتی تو سب سے پہلے وہ میرے پاس پہنچ چکی ہوتی تھیں.جب کچھ افاقہ ہوا اور ہم ڈلہوزی آئے تو وہاں بھی با در پیخانہ کا انتظام پہلے انہوں نے لیا اور کوئٹی کو باقریہ سجایا.یہاں اُن کو پھر شدید دورہ بیماری کا ہوا.مگر میری بیماری کی وجہ سے زیادہ تکلیف کا اظہار نہ کیا.جب مجھے ذرا اور افاقہ ہوا، اور میں چنبہ گیا تو با وجود بیمار ہونے کے اصرار کے ساتھ وہاں گئیں اور گھوڑے کی سواری کی کیونکہ کچھ عرصہ سفر میں ڈنڈی نہ ملی تھی.میں نے سمجھایا کہ اس طرح بھانا مناسب نہیں.مگر حسب ستور یہی جواب دیا کہ آپ چاہتے ہیں کہ میں سیر نہ کروں میں ضرور جاؤں گی.آخر ان کی بیماری کی وجہ سے میں نے دوسروں کو روکا اور اُن کو ساتھ لے گیا.اس کے بعد رمضان آگیا اور ہندوستانی عادت کے ماتحت قافلہ کے لوگوں نے غذا کے بارہ میں شکایات شروع کیں.اور ملازم آخر ملازم ہوتے ہیں.نتیجہ یہ ہوا کہ مرحومہ نے اس جان لیوا بیماری میں رات کو اٹھ اٹھ کر تین تین چار چار سیر کے پر اٹھے سحری کے وقت پکا کر لوگوں کے لئے بھیجے جس سے بیماری کے مقابلہ کی طاقت جسم سے بالکل جاتی رہی ہیں تو کمزور تھا.روزے نہ رکھتا تھا جب مجھے علم ہوا میں نے اُن کو روکا.مگر اس کا جواب انہوں نے یہی دیا کہ کیا معلوم پھر ثواب کمانے کا موقعہ ملے یا نہ ملے اور اس عمل سے نہ روکیں.ہم واپس آئے تو ان کی صحت ابھی کمزور ہی تھی.تین چار ہفتوں کے بعد ہی پھر شدید دورہ ہو گیا.میں اس وقت گردے کے درد سے بہار پڑا ہوا تھا.اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ دورہ ایسا سخت ہے کہ بچنے کی امید نہیں.یہ پہلا موقعہ تھا کہ مریم کی موت میری آنکھوں کے سامنے آئی.میں پہل تو نہ سکتا تھا.اس لئے جب میرا کہ خالی ہوا چارپائی پر اوندھا گر کر میں نے اپنے رب سے عاجزی اور انکسار کے ساتھ اُن کے لئے دعائیں کیں اور اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور اس وقت موت ٹل گئی اور میں اچھا ہو کہ وہاں جانے لگ گیا.کچھ دنوں بعد مجھے پھر نقرس کا دورہ ہوا.اور پھر وہاں جانا چھٹ گیا.اس وقت ڈاکٹروں کی غلطی سے ایک ایسا
۵۳۳ ٹیکہ لگایا گیا جس کے خلاف مریم بیگم نے بہت شور کیا کہ یہ ٹیکہ مجھے موافق نہیں ہوتا.اس کے بعد اس ٹیکہ کے متعلق مجھے لاہور کے قیام میں بڑے بڑے ڈاکٹروں سے معلوم ہوا کہ مرحومہ کے مخصوص حالات میں وہ نیکہ واقعہ میں مضر تھا.اس ٹیکہ کا یہ اثر ہوا کہ ان کا پیٹ یکدم پھول گیا.اور اتنا پھولا کہ موٹے سے موٹے آدمی کا اتنا پیٹ نہیں ہوتا میں بیماری میں لنگڑاتا ہو وہاں پہنچا اور ان کی حالت زیادہ خطرناک پا کر لاہور سے کرنل ہیز کو اور امرت سر سے لیڈی ڈاکٹر وائن کو 16 بلایا.دوسرے دن یہ لوگ پہنچے اور مشورہ ہوا کہ انہیں لاہور پہنچایا جائے جہاں سترہ دسمبر کو موٹر کے ذراجہ انہیں پہنچایا گیا.کرنل کی رائے تھی کہ کچھ علاج کر کے کوشش کروں گا کہ دواؤں سے ہی فائدہ ہو بجائے چنانچہ، ارد سمیر سے آٹھ نو جنوری تکہ وہ اس کی کوشش کرتے رہے.گر آخر یہ فیصلہ کیا گیا کہ اپریشن کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا.ڈاکٹر میر محمد المعیل صاحب کی رائے اس کے خلاف تھی.مگر اس کے سوا کوئی چارہ نظر نہ آتا تھا اس لئے میں نے مرحومہ سے ہی پوچھا کہ یہ حالات ہیں.تمہارا ہو منشاء ہو اس پر عمل کیا جائے.انہوں نے کہا کہ اپریشن کرواہی ہیں.گو مجھے اس طرح محفوظ الفاظ میں مشورہ دیا مگر ان کے ساتھ رہتے والی خاتون نے بعد میں مجھ سے ذکر کیا کہ وہ مجھ سے کہتی رہتی تھیں کہ دعا کرو کہ کہیں وقت پر حضرت صاحب کا دل اپریشن سے ڈرنہ بھائے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے نزدیک اپریشن کو ضروری سمجھتی تھیں.بہر حال جودہ جنوری کو ان کا اپریشن ہوا.اس وقت ان کی طاقت کا پورا خیال نہ رکھا گیا اور پندرہ جنوری کو ان کے دل کی حالت خراب ہونی شروع ہو گئی.اس وقت ڈاکٹروں نے توجہ کی اور انسانی خون بھی جسم میں پہنچایا گیا اور حالت اچھی ہو گئی اور اچھی ہوتی گئی.یہانتک کہ ۲۵ تاریخ کو مجھے کہا گیا کہ اب چند دن تک ان کو ہسپتال سے رخصت کر دیا جائے گا اجازت لے کر چند دن کے لئے قادیان آگیا.میرے قادیان بجانے کے بعد ہی ان کی حالت خراب ہو گئی اور زخم جیسے مندمل بتایا جاتا تھا پھر دوبارہ پورا کا پورا کھول دیا گیا مگر مجھے اس سے غافل رکھا گیا اور اس وجہ سے میں متواتر ہفتہ بھر قادریان ٹھہرا رہا.ڈاکٹر غلام مصطفے جنہوں نے اُن کی بیماری میں بہت خدمت کی بہت اہم اللہ احسن الجزاء انہوں نے متواتر تاروں اور فون سے تسلی دلائی اور کہا کہ مجھے جلدی کرنے کی ضرورت نہیں لیکن جمعرات کی رات کو شیخ ابشیر احمد صاحب کا فون ملا کہ برادریم سید جلیب اللہ شاہ صاحب کہتے ہیں کہ ہمشیرہ مریم کی حالت خراب ہے آپ کو فوراً آنا چا ہئیے جس پر میں جمعہ کو واپس لاہور گیا اور اُن کو سخت کمزور پایا.یہ کمزوری ایسی تھی کہ اس کے بعد تندرستی کی حالت اُن پر پھر نہیں آئی.
۵۳۴ دو تو میں ان پر رات اور دن پہرہ کے لئے رکھی جاتی تھیں اور چونکہ اُن کا خرچ پچاس ساٹھ روپے روزانہ ہوتا تھا مجھے معلوم ہوا کہ اس کا اُن کے دل پر بہت بوجھ ہے اور وہ بعض سہیلیوں سے کہتی ہیں کہ میری وجہ ان پر اس قدر بوجھ پڑا ہوا ہے.مجھے کسی طرح یہ بات معلوم ہوئی تو میں نے اُن کو تسلی دلائی کہ مریم اس کی بالکل فکر نہ کرو یہیں یہ خروج تمہارے آرام کے لئے کر رہا ہوں تم کو تکلیف دینے کے لئے نہیں.اور اُن کی بعض پہیلیوں سے بھی کہا کہ ان کو سمجھاؤ کہ یہ خرچ میرے لئے عین خوشی کا موجب ہے اور میرا خدا جانتا ہے کہ ایسا ہی تھا.یہانتک کہ ان کی بیماری کے لمبا ہونے پر میرے دل میں خیال آیا کہ خرچ بہت ہو رہا ہے روپیہ کا انتظام کس طرح ہوگا تو دل میں بغیر ادنی انقباض محسوس کئے میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں کو بھی دار الحمد اور اس کا ملحقہ باغ فروخت کر دوں گا.میں نے دل میں کہا کہ اس کی موجودہ قیمت تو بہت زیادہ ہے لیکن ضرورت کے وقت اگر اسے اونے پونے بھی فروخت کیا جائے تو پچہتر ہزار کو وہ ضرور فروخت ہو جائے گی اور اس طرح اگر ایک سال بھی مریم کے لئے خرچ کرنا پڑا تو چھ ہزار روپیہ ماہوار کے حساب سے ایک سال تک ان کے خرچ کی طرف سے بے فکری ہو جائے گی.اور یہی نہیں، میرا نفس مریم بیگم کے لئے اپنی جائداد کا ہر حصہ فروخت کرنے کے لئے تیار تھا تاکہ کسی طرح وہ زندہ رہیں خواہ بیمار کی ہی کی حالت میں.گر کچھ دنوں کے بعد میں نے محسوس کیا کہ وہ بیماری سے سخت اذیت محسوس کر رہی ہیں جو زخم کے درد کی وجہ سے ناقابل برداشت ہے.تب میں نے اپنے رب سے درخواست کرنی شروع کی.اے میرے رب تیرے پاس صحت بھی ہے پس تجھ سے میری پہلی درخواست تو یہ ہے کہ تو مریم بیگم کو صحت دے لیکن اگر کسی وجہ سے تو سمجھتا ہے کہ اب مریم بیگم کا اس دنیا میں رہنا اس کے اور میرے دین و دنیا کے لئے بہتر نہیں تو اسے میرے ربت پھر اسے اس تکلیف سے بچالے جو اس کے دین کو صدمہ پہنچائے.اس دعا کے بعد جو اُن کی وفات سے کوئی آٹھ نو دن پہلے کی گئی تھی میں نے دیکھا کہ اُن کی درد کی تکلیف کم ہونی شروع ہو گئی مگر اُن کے ضعف اور دل کے دوروں کی تکلیف بڑھنے لگی.ظاہری سبب یہی پیدا ہوا کہ ڈاکٹر بڑو پہ نے جین کے علاج کے لئے اب ہم انہیں سر گنگا رام ہسپتال میں لے آئے تھے انہیں افیون بھی دینی شروع کر دی تھی.بہر حال اب انجام قریب آرہا تھا.مگر اللہ تعالی پر امید قائم تھی، میری بھی اور اُن کی بھی.وفات سے پہلے دن ان کی حالت نازک دیکھ کر اقبال بیگم رہو اُن کی خدمت کے لئے ہسپتال میں اڑھائی ماہ نہیں.اللہ تعالے
۵۳۵ انہیں دونوں جہان میں بڑے مدارج عطا فرمائے، رونے لگیں.ان کا بیان ہے کہ مجھے روتے دیکھ کر مریم بیگم محمدت سے بولیں.پگلی روتی کیوں ہو.اللہ تعالے میں سب طاقت ہے دُعا کرو وہ مجھے شفا دے سکتا ہے.چار مارچ کی رات کو میر محمد اسمعیل صاحب اور ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب نے مجھے بتایا کہ اب دل کی حالت بہت نازک ہو چکی ہے.اب وہ دوائی کا اثر ذرا بھی قبول نہیں کرتا اس لئے میں دیر تک وہاں رہا.پھر جب انہیں کچھ سکون ہوا تو شیخ بشیر احمد صاحب کے گھر پر سونے کے لئے چلا گیا.کوئی چار بجے آدمی دوڑا ہوا آیا کہ جلد ملیں حالت نازک ہے.اس وقت میرے دل میں یہ یقین پیدا ہو گیا کہ اب میری پیاری مجھ سے رخصت ہونے کو ہے اور میں نے خدا تعالیٰ سے اپنے اور اس کے ایمان کے لئے دعا کرنی شروع کر دی.اب دل کی حرکت کمزور سے کمزور تر ہوتی جا رہی تھی اور میرے دل کی ٹھنڈک دار الآخرت کی طرف اُڑنے کے لئے پر تول رہی تھی.کوئی دس بجے کے قریب میں پھر ایک دفعہ جب پاس کے کمرہ میں جہاں میں معالجین کے پاس بیٹھا ہوا تھا اُن کے پاس گیا تو ٹھنڈے پسینے آرہے تھے.اور شدید ضعف کے آثار ظاہر ہو رہے تھے مگر ابھی بول سکتی تھیں.کوئی بات انہوں نے کی جس پر میں نے انہیں نصیحت کی.انہوں نے اس سے سمجھا کہ گویا ئیں نے یہ کہا ہے کہ تم نے روھانی کمزوری دکھائی ہے.رحم کو اُبھارنے والی نظروں سے میری طرف دیکھا اور کہا کہ میرے پیار سے آقا ! مجھے کافر کر کے نہ ماریں یعنی اگر میں نے غلطی کی ہے تو مجھے یہ ناراض نہ ہوں مجھے صحیح بات بتا دیں.اس وقت یں نے دیکھا کہ موت تیزی سے اُن کی طرف آرہی ہے.میر احساس دل اب میرے قابو سے نکلا جا رہا تھا میری طاقت مجھے جواب دے رہی تھی.مگر میں سمجھتا تھا کہ خدا تعالئے اور مرحومہ سے وفاداری چاہتی ہے کہ اس وقت یں انہیں ذکر الہی کی تلقین کرتا جاؤں اور اپنی تکلیف کو بھول جاؤں میں نے اپنے دل کو سنبھالا اور ٹانگوں کو زور سے قائم کیا اور مریم کے پہلو میں مجھک کر کہا.تم خدا تعالے پر باطنی نہ کرو وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کی نواسی (وہ سید تھیں اور سیح موعود کی بہو کہ کا فر کر کے نہیں مارے گا.اس وقت میرا دل چاہتا تھا کہ ابھی چونکہ زبان اور کان کام کرتے ہیں میں ان سے کچھ محبت کی باتیں کولوں مگر میں نے فیصلہ کیا کہ اب یہ اس جہان کی رُوج نہیں اُس جہان کی ہے.اب ہمارا تعلق اس سے ختم ہے.اب صرف اپنے رب سے اس کا واسطہ ہے.اس واسطہ میں خلل ڈالتا اس کے تقدس میں خلل ڈالنا ہے.اور میں نے چاہا کہ انہیں بھی آخری وقت کی طرف توجہ دلاؤں تاکہ وہ ذکر انہی میں مشغول ہو جائیں.مگر صاف طور پر کہنے سے بھی ڈرتا تھا کہ ان کا کمزور دل کہیں ذکر الہی کا موقعہ پانے سے پہلے ہی بیٹھ نہ بھائے.آخر سوچ کو میں نے
۵۳۶ اُن سے اس طرح کہا کہ مریم مرتا تو ہر ایک نے ہے دیکھو اگر میں پہلے مر بھاؤں تو میں اللہ تعالیٰ سے درخواست کردوں گا کہ وہ کبھی کبھی مجھ کو مہاری ملاقات کے لئے اجازت دیا کرے اور اگر تم پہلے فوت ہو گئیں تو پھر تم اللہ تعالٰی سے درخواست کرتا کہ وہ تمہاری روح کو کبھی کبھی مجھ سے ملنے کی اجازت دے دیا کرے اور مریم اس صورت میں تم میرا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ اسلام سے سلام کہنا.اس کے بعد میں نے کہا.مریم تم بیماری کی وجہ سے قرآن کریم نہیں پڑھ سکتیں.آؤ میں تم کوقرآن کریم پڑھ کہ سناؤں.پھر میں نے سورہ میں جو ان کو بہت پیاری تھی پڑھ کو سُنانی شروع کی مجھے اس کا علم نہ تھا بعد میں اُن کی بعض سہیلیوں نے بتایا کہ ایسا تھا) اور ساتھ ساتھ اس کا ترجمہ بھی سنانا شروع کیا جب میں سورۃ پڑھ چکا تو انہوں نے آہستہ آواز میں کہا کہ اور پڑھیں.تب میں نے سمجھ لیا کہ وہ اپنے آخری وقت کا احساس کر چکی ہیں اور اب میں نے سورہ یسین پڑھنی شروع کر دی.اس کے بعد چونکہ اب اپنے آخری وقت کا انکشاف ہو چکا تھا.کسی بات پر جو انہوں نے مجھ سے کہا کہ میرے پیارے تو میں نے اُن سے کہا.اب وہ وقت ہے کہ تم کہ میرا پیار بھی بھول جانا چاہیئے.اب صرف اسی کو یاد کرو ہجو میرا بھی اور تمہارا بھی پیارا ہے.مریم ! اسی پیارے کو یاد کرنے کا یہ وقت ہے.اور میں نے کبھی لا اله الا انت سُبحَنَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّلِمِينَ اور کبھی رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي ذُنُوبِي إِنَّهَ لَا يَغْفِرُ الله ثوب الا انت اور کبھی بِرَحْمَتِكَ اسْتَغِيْثُ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمین پڑھنا شروع کیا.اور اُن سے کہا کہ وہ اُسے دہراتی بجائیں.کچھ عرصہ کے بعد میں نے دیکھا کہ ان کی زبان اب خود بخود اذکار پر چل پڑی ہے.چہرہ پر مجیب قسم کی ملائمت پیدا ہو گئی اور علامات سے ظاہر ہونے لگا جیسے کہ خدا تعالے کو سامنے دیکھ کر ناز سے اس کے رحم کی درخواست کر رہی ہیں.نہایت میٹھی اور پیاری اور نرم آواز سے انہوں نے بار بار يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ بِرَحمتِكَ يَسْتَغِيثُ کہنا شروع کیا.یہ الفاظ وہ اس انداز سے کہتیں اور اس نیت کہتے وقت اُن کے ہونٹ اس طرح گول ہو جاتے کہ معلوم ہوتا تھا اپنے رب پر پورا یقین رکھتے ہوئے اس سے ناز کر رہی ہیں اور صرف عبادت کے طور پر یہ الفاظ کہہ رہی ہیں در نہ اُن کی روح اس سے کہہ رہی ہے کہ میرے رب مجھے معلوم ہے تو مجھے معاف کر ہی دے گا.اس کے بعد مکیں نے ڈاکٹر میرمحمد اسمعیل صاحب کو بلوایا کہ اب مجھ میں برداشت نہیں آپ تلقین کرتے رہیں.چنانچہ انہوں نے کچھ دیر تلاوت اور اذکار کا سلسلہ جاری رکھا.اس کے بعد کچھ دیر کے لئے پھر میں آگیا.پھر میر صاحب تشریف لے آئے.باری باری ہم تلقین کرتے رہے.اب اُن کی آواز رک گئی تھی مگر ہونٹ ہل رہے تھے اور زبان بھی حرکت کر رہی تھی.اس وقت
۵۳۷ ڈاکٹر لطیف صاحب دہلی سے تشریف لے آئے اور انہوں نے کہا کہ بیماری کی وجہ سے سانس پر دباؤ ہے.اور ڈر ہے کہ جانکندن کی تکلیف زیادہ سخت نہ ہو اس لئے آکسیجن گیس سنگھانی چاہیئے.چنانچہ وہ لائی گئی اور اس کے سنگھانے سے سانس آرام سے چلنے لگ گیا مگر آہستہ ہوتا گیا لیکن ہونٹوں میں اب تک ذکر کی حرکت تھی.آخرد و بجکر دس منٹ پر جبکہ میں گھبرا کر باہر نکل گیا تھا.عزیزم میاں بشیر احمد صاحب نے باہر نکل کر مجھے اشارہ کیا کہ آپ اندر چلے بھائیں.اس اشارہ کے معنی یہ تھے کہ خدا تعالیٰ کا فیصلہ صادر ہو چکا ہے.میں اندر گیا اور مریم کو بے حس و حرکت پڑا ہو پایا.مگرچہرہ پر خوشی اور اطمینان کے آثار تھے.ان کی لمبی تکلیف اور طبیعت کے پڑی اپن کی وجہ سے ڈر تھا کہ وفات کے وقت کہیں کسی بے صبری کا اظہار نہ کر بیٹھیں.اس لئے ان کے شاندار اور مومنانہ انجام پر میرے منہ سے بے اختیار الحمد اللہ نکلا اور میں اُن کی چھار پائی کے پاس قبلہ رخ ہو کر سجدہ میں گر گیا.اور دیر تک خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتا رہا.کہ اُس نے اُن کو ابتلا سے بچایا اور شکر گزاری کی حالت میں اُن کا خاتمہ ہوا.اس کے بعد ہم نے اُن کے قادیان سے بجانے کی تیاری کی اور شیخ بشیر احمد صاحب کے گھر لا کر انہیں غسل دیا گیا.پھر موٹروں اور لاریوں کا انتظام کر کے قادیان خدا کے بیچ کے گھر ان کو لے آئے.ایک دن اُن کو انہی کے مکان کی نچلی منزل میں رکھا اور دوسرے دن عصر کے بعد بہشتی مقبرہ میں اُن کو خدا کے مسیح کے قدموں میں ہمیشہ کی جسمانی آرامگاہ میں خود میں نے سر کے پاس سہارا دے کو اُتارا اور لحد میں لٹا دیا.اللَّهُمَّ ارْحَمْهَا وَارْحَمْنِي مرحومہ کی اولاد چار بچے ہیں.تین لڑکیاں اور ایک لڑکا.یعنی امتہ الحکیم.امتہ الباسط - طاہر احمد اور امتہ الجمیل.سمہم اللہ تعالے وَكَانَ مَعَهُمْ فِي الدُّنْيا والاخرة.جب مرحومہ کو لے کر ہم شیخ بشیر احمد صاحب کے گھر پہنچے تو چھوٹی لڑکی امتہ المیل جو اُن کی اور میری بہت لاڈلی تھی اور کل سات برس کی عمر کی ہے.اُسے میں نے دیکھا کہ ہائے امی ہائے امی کہ کر چیخیں مار کر رو رہی ہے.میں اُس بچی کے پاس گیا اور اُسے کہا جمتی رہم اُسے حتی کہتے ہیں) اتی اللہ میاں کے گھر گئی ہیں.وہاں اُن کو زیادہ آرام ملے گا.اور اللہ میاں کی یہی مرضی تھی کہ اب وہ وہاں چلی جائیں.دیکھو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ، تمہارے دادا جان فورت ہو گئے.کیا تمہاری امی ان سے بڑھ کر بھتی؟ میرے خدا کا سایہ اس بچی سے ایک منٹ کے لئے بھی جدا نہ ہو میرے اس فقرہ کے بعد اس نے ماں کے لئے آجتک کوئی چیخ نہیں ماری اور یہ فقرہ سُنتے ہی بالکل خاموش ہوگئی بلکہ دوسرے دن جنازہ کے وقت جب اس کی بڑی بہن جو کچھ بیمار ہے صدمہ سے چیخ مار کر بیہوش ہو گئی تومیری چھوٹی بیوی مریم صدیقہ کے پاس جا کر میری جمتی اُن سے کہنے لگی جھوٹی آپا (انہیں بچے چھوٹی آپا کہتے ہیں، باجی کتنی پاگل ہے.ابا بیان کہتے ہیں.اُمتی کے مرنے
۵۳۸ میں اللہ کی مرضی تھی.یہ پھر بھی روتی ہے.اے میرے رب! اے میرے رب ! جس کی چھوٹی بچی نے تیری رضار کے لئے اپنی ماں کی موت پر غم نہ کیا.کیا تو اسے اگلے جہاں میں ہر غم سے محفوظ نہ رکھے گا.اسے تیرے رحیم مقدا تجھ سے ایسی امید رکھنا تیرے بندوں کا حق ہے اور اس امید کو پورا کرنا تیرے شایان شان ہے" اس درد بھرے مضمون کے آخر میں حضور نے تیمارداری کرنے والوں کا ذکر کر کے اُن کے لئے جناب الہی میں دعائیں کیں.چنانچہ فرمایا :.مریم بیگم کی بیماری میں سب سے زیادہ شیر محمد خانصاحب آسٹریلیا والوں کی بیوی اقبال بیگم نے خدمت کی.اڑھائی جہینہ اس نیک بخت عورت نے اپنے بچوں کو اور گھر کو بھلا کر رات اور دن اس طرح خدمت کی کہ مجھے و ہم ہونے لگ گیا تھا کہ کہیں یہ پاگل نہ ہو جائیں.اللہ تعالے اُن پر اور اُن کے سارے خاندان پر اپنے فضل کا سایہ رکھے.پھر ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب ہیں جن کو ان کی بہت لمبی اور متواتر خدمت کا موقعہ ملای شیخ بشیر احمد صاب نے کئی ماہ تک ہماری جہاں نوازی کی اور دوسرے کاموں میں امداد کی میاں احسان اللہ صاحب لاہوری نے دن رات خدمت کی یہانتک کہ میرے دل سے دعا نکلی کہ اللہ تعالئے ان کا خاتمہ بالخیر کرے حکیم سراجدین صاحب بھائی دروازہ والوں نے بر ایران کی ہمراہی عورت کا اڑھائی ماہ تک کھانا پہنچایا اور خود بھی اکثر ہسپتال میں آتے رہے.ڈاکٹر معراجدین صاحب کو رعشہ کا مرض ہے اور بوڑھے آدمی ہیں.اس حالت میں کانپتے اور ہانپتے اور لرزتے ہوئے جب ہسپتال میں آکر کھڑے ہو جاتے کہ میں نکلوں تو مجھ سے مریضہ کا حال پوچھیں تو کئی دفعہ اللہ تعالٰی کے اس احسان کو دیکھ کر کہ مجھ نا کارہ کی محبت اس نے کس طرح لوگوں کے دلوں میں پیدا کر دی ہے میری آنکھوں میں آنسو آ جاتے.لاہور کے اور بہت سے احباب نے نہایت اخلاص کا نمونہ دکھایا اور بہت سی خدمات ادا کیں سیٹھ محمد غوث صاحب حیدر آبادی کے خاندان نے اخلاص کا ایسا بے تغیر نمونہ دکھایا کہ حقیقی بھائیوں میں بھی اس کی مثال کم ملتی ہے.حیدر آباد ایسے دور دراز مقام سے پہلے اُن کی بہو اور بیٹیاں دیر تک قادیان رئیں اور بار بار لاہور جاکر خیر پوچھتی رہیں.آخر جب وہ وطن واپس گئیں تو عزیزم سیٹھ محمد اعظم اپنا کا روبار چھوڑ کر حیدر آباد سے لاہور آبیٹھے اور مرحومہ کی وفات کے عرصہ بعد واپس گئے.ڈاکٹر لطیف صاحب کئی دفعہ دہلی سے دیکھنے آئے.میرے خاندان کے بہت سے افراد نے بھی محبت سے قربانیاں کیں.مگر اُن پر تو حق تھا.میں ان لوگوں کو سوائے دنیا کے اور کیا بدلہ دے سکتا ہوں.اسے میرے رب ! تو ان سب پر اور ان سب پر جن کے نام میں نہیں لکھ سکا یا جن کا مجھے علم بھی نہیں اپنی برکتیں اور فضل نازل کرے.سے ملک احسان اللہ صاحب (سابق مبلغ مغربی افریقہ) مراد ہیں :
۵۳۹ مریم بیگم کی وفات پر جس اخلاص کا اظہار جماعت نے کیا رہ ایمان کو نہایت ہی بڑھانے والا تھا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیح موعود علیہ السلام کی برکت ہی ہے جس نے جماعت میں ایسا اخلاص پیدا کر دیا ہے.اللہ تعالی ان کے اخلاص کو قبول کرے.ان کی غلطیوں کو دور کرے اور نیکیوں کو بڑھائے اور ان کی آئندہ نسلوں کی اپنے ہاتھوں سے تربیت فرمائے.اللهم آمین" سے حضرت میر محمد اسحاق صاحت کا امنا وصال حضرت اہم امر رضی الہ عنہا کی اردو کی موت کے زخم ۳۲۳ پیش ابھی تازہ ہی تھے کہ صرف بارہ روز بعد که امامان مامانی کو جماعت احمدیہ کے فقید المثال محبت اور عظیم المرتبت عالم منتظر حضرت میر محمد اسحاق صاحب بھی رحلت فرما گئے.انا للہ وانا الیہ راجعون قبیل اس کے کہ اس انتہائی المناک ساتھہ پر روشنی خوردنوشت حضرت میر صاحب کی خود نوشت سوانح حیات پائی جائے مناسب معلوم ہتا ہے کو تری یا حق کہ حضر صاحب کے ابتدائی سوانح حیات کا تذکرہ آپ کے اپنے مبارک الفاظ میں کر دیا جائے حضرت میر صاحب نے دسمبر نہ میں تحریر فر مایا کہ میری پیدائش ستمبر تالہ کو بمقام لدھیانہ ہوئی یہاں حضرت والد صاحب مرحوم سرکاری ملازم تھے.الا شاہ کے بعد سے مستقل سکونت قادیان میں ہے.قیام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں آپ کے دار میں تھا.بچپن سے ۱۸ سال کی عمر تک حضرت مسیح موعود کے روز و شب کے حالات مشاہدہ میں آئے اور اب تک قریباً اسی طرح ذہن میں محفوظ ہیں.گورداسپور ، بٹالہ ، لاہور ،سیالکوٹ اور دہلی کے سفروں میں ہمرکاب ہونے کا فخر حاصل ہے.آخری بیماری کی ابتداء سے وصال تک حضرت جری اللہ فی مصل الانبیاء کے پاس رہا بحضور نے متعدد مرتبہ مجھ سے لوگوں کو خطوط کے جوابات لکھوائے حقیقۃ الوحی کا مسودہ مختلف جگہ سے فرماتے گئے اور میں لکھتا گیا.روزانہ سیر میں آپ کے ساتھ جاتا اور بجانے کے اہتمام مثلاً قضاء حاجت و وضو کا انصرام اور ہاتھ میں رکھنے کی چھڑی تلاش کر کے دینے سے سینکڑوں دفعه مشترف ہوا.آپ کی کتابوں میں بیسیوں جگہ میرا ذکر ہے.آپ کے بہت سے نشانوں کا عینی گواہ ہوں اور بہت سے نشانوں کا مورد کبھی ہوں.جن دنوں منصور باہر مہمانوں کے ساتھ کھانا کھایا کرتے سلة" الفضل وفا جونائی اش به ۶۱۹۴۴ سے حضرت میر ناصر نواب صاحب دہلوی ( نبیرہ حضرت خواجہ میر درد رحمت اله علیه) د.
تھے دونوں وقت میں بھی شریک ہوتا تھا.مجھے یاد ہے ہم عربی میں آشیقینی السماء کہ کہ پانی مانگا کرتے تھے.بچپن میں بیسیوں دفعہ ایسا ہوا کہ حضور نے مغرب و عشاء اندر عورتوں کو جماعت سے پڑھائیں اور کہ وعشاء اندر میں آپ کے دائیں طرف کھڑا ہوتا.عورتیں پیچھے کھڑی ہوئیں.غالباً میں پیدائشی احمدی ہوں.نہایت چھوٹی عمر سے اب تک حضور کے دعاوی پر ایمان ہے.آپ کے وصال کے بعد حضرت مولوی نور الدین صاحب کو دل سے صدیق اکبر اور سچا خلیفہ تسلیم کیا حضرت خلیفہ اول سے بچپن سے نہایت بے تکلفی اور محبت و پیار کا تعلق تھا.اُن کی وفات پر سچے دل سے صاحبزادہ محمود احمد صاحب کو خلیفہ ثانی سمجھا اور سمجھتا ہوں باقاعدہ اور بے قاعده مولوی عبدالکریم صاحب ، محافظ روشن علی صاحب ، مولوی سرور شاہ صاحب مولوی محمد معین صاحب اور حضرت خلیفہ اول سے عربی علوم کے پڑھنے کی کوشش کی بنا شائد میں مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا.ان میں صدر انجمن احمدیہ قادیان کی ملازمت میں داخل ہوا.جامعہ احمدیہ کے قیام سے قبل مدرسہ احمدیہ میں مدرس تھا.اب جامعہ احمدیہ میں پڑھاتا ہوں.اس ملازمت کے علاوہ بعض اور کام بھی خلافت ثانیہ میں سلسلہ کے سر انجام دینے کی کوشش کرتا رہتا ہوں حضرت مسیح موعود کے وجود سے بنو شرف حاصل ہوئے وہ اس لئے لکھتے ہیں کہ ابتداء ایسی اچھی ہے.پڑھنے والے دعا کریں کہ انتہاء بھی ایسی ہی اچھی ہو کہ عروسی بود نوبت ما تمت اگر ہر نکوئی بود خاتمت اله ہر حضرت میر محمد اسحاق صاحب کی حضرت پیر مہربانی کے مستان کے صف اول یک جامد احمدیہ کے پروفیسر کی حیثیت سے اپنے فرائض بجا لاتے رہے.بعد ازاں ہ دیش میں علالت اور وصیت آپ کو مدرسہ احمدیہ جیسی مرکزی درسگاہ کی قیادت سپرد ہوئی.اس اہم فریضہ کی ادائیگی کے علاوہ نظارت ضیافت ، دار الشیوخ اور دوسرے جماعتی شعبوں کو جماعت میں مقبول اور محبوب بنانے میں آپ نے دن رات ایک کر دیا.حضرت میر صاحب نہایت قلیل گذارہ پر نہایت تنگی کی حالت میں بسر اوقات کرتے تھے.اور آپ کی زندگی سرتا پا جہاد تھی.از ماه شهادت / اپریل رش کا واقعہ ہے کہ حضرت میر صاحب نے یکا یک بیمار ہو گئے اور ناک کے دائیں تکھنے سے نیلے پانی کے قطرے گرنے لگے اور آنکھوں میں سخت آشوب کی کیفیت پیدا ہو گئی.دماغ کھو کھلا معلوم ہونے له رسالة "جامعة الحديد" (سالنامه) قادیان صفحه ۰۴
مدرسہ احمدیہ کے قدیم اساتذہ وطلبہ کا ایک نایاب فوٹو حضرت میر محمد اسحاق صاحب دائیں سے بائیں آٹھویں کرسی پر بیٹھے ہیں (مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو ضمیمہ )
مدرسہ احمدیہ قادیان پھاٹک سے متصل کمرہ میں حضرت میر محمد احق صاحب تشریف فرما ہوتے تھے
۵۴۷۱ لگا.اور نظر میں زبر دست کمی آنے لگی ہے بیماری جنب شدت اختیار کرگئی تو لاہور تشریف لے گئے اور ہر ماہ ہجرت امئی کو خان بہادر ڈاکٹر محمد بشیر صاحب سے معائنہ کرایاہے اور گو علاج تجویز ہوا اگر بیماری کی کوئی خاص تشخیص بھی نہ ہوسکی.لہذا قیام لاہور کے دوران آپ نے ا ماه هجرت امی بیش کو اپنے قلم سے حسب ذیل وصیت لکھی :- (لا دومیت ) الحمد تر آن وقت مرے ہوش خواست قائم ہو اشهد ان الا الله وحده لا شریک نہ ୭ أشهد أن محمداً عبده و رسوله مجھے دلی یقین کے ساتھ زبان سے اس امر کا اقرار ہے کہ آیا وقت وف مذہب اسلام موجب نجات کا اد بیماری کی تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو آپکے رقم فرمودہ مضمون مطبوعہ الفضل ، ماه هجرت استی برش صفحه ، ایضا مراسله حضرت میر صاحب بنام حضرت میر محمد اسمعیل صاحب مطبوعہ رساله الفرقان والالم ۳۲۰ انه مش صفحه ۱۳
۵۴۴ نہیں چھو ارکان پر ایمان رکھتا ہوں پانی نیا و السلام کا فایل سولہ میں ستی نوں شیعه یا خوارج میں سے ہیں غیر متلو ہوں ائے اربعہ سے سے کسی کا مقلد بہن کو چاہوں کا خاک یا ہیں اور زبان پھر تواتر ہو حدیث کو محبت کیا سیون فوت مرزا غلام احمد کادیانی عیلمان در تمام دعاولی ہوں پر ایمان رکھتا ہوں بنایع سونی تیر مانع نہیں تو ایدین او الامر راه کار اور شیعہ ابا جماعت احمدیہ تو عمرانہ کا مشیرالی نما ہوں مجھے یقین ھے تو ہماری جماعت کی حجیم شده مین احمد رہ سکتی ہے جبکہ وہ ایک واجب الاطاعت امام در ماتی ربیعت کرت بهم خلیفه اخت 3 با کمت ایک المین نے اسلامی امور مالی
۵۴۲۳ تمایلات دیے ہوئی ہے ناگالے کو خدائے پولی ہے کا پایہ تخت اور احدیت کا ابدی گوگز یقین کرتا ہوں بخشی بود که واقدین نیر کسی تا دیل کتنی کا مدفن سمجھتا ہوں سی عوضی ہوا کام حساب مافه میرے پھر عدد سپر سرست کچھ اتو یه نفروشی در این صیح ہیں اگر بین سازه بسته می ہیں سا جاؤں پر نا نقش طو ر ا دی پاک مقام پر ایجاد یہاں سے طور اوسی چرا ہور برا انجام خوردگی و سید دالان مسافر نام ہیں هم نوٹ اگر میں فوت ہو جاؤں تو حضرت ابرالمونین لا ید الله اله حضرت ام المومنین سلمان نه بلوم بہار ہو؟
۵ (وصیت) الحمد للہ اس وقت میرے ہوش و حواس قائم ہیں.أشهد أن لا إله إلا اللهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ وَاشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ مجھے دلی یقین کے ساتھ زبان سے اس امر کا اقرار ہے کہ اس وقت صرف مذہب اسلام موجب نجاست ہے.میں کچھ ارکان پر ایمان رکھتا ہوں.پانچ بنار اسلام کا قائل ہوں.میں سُستی ہوں.شیعہ یا خوارج میں سے نہیں.غیر مقلد ہوں.آئمہ اربعہ میں سے کسی کا مقلد نہیں گر چاروں کا خا کیا ہوں.اقول قرآن پھر تو اتر پھر حدیث کو حیات سمجھتا ہوں حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کے تمام وعادی پر ایمان رکھتا ہوں.مبائع ہوں.غیر مبائع نہیں.نور الدین کو ابوبکر کا اور موجودہ امام سباعت احمدیہ کو عمر کا مشیل سمجھتا ہوں.مجھے یقین ہے کہ ہماری جماعت تبھی صحیح معنوں میں احمدی رہ سکتی ہے جبکہ وہ ایک واجب الاطاعت امام کے ہاتھ پر بیعت کرے خلیفہ وقت کے ماتحت ایک انمین ضرور انتظامی اور مالی معاملات کے لئے ہونی چاہئیے.قادیان کو خدا کے رسول کا پایہ تخت اور احمدیت کا ابدی مرکز یقین کرتا ہوں بہشتی مقبو کو واقع میں بغیر کسی تاویل کے یقینی بہشتیوں کا مدفن سمجھتا ہوں.میں موصی ہوں.تمام حساب سات ہے.میرے پچھتر روپے سپرنٹنڈنٹ احمدیہ ہوٹل کے پاس جمع ہیں.اگر میں یہاں فوت ہو بھاؤں میری نعش ضرور اس پاک مقام پر پہنچا دی جائے بھے بہشتی مقبرہ کہتے ہیں اور یہی میری واحد خواہش ہے اسے میرے اللہ تو میرا انجام بخیر فرما.سید محمد اسحق مسافر ہور ۱۰ نوٹ : اگر میں فوت ہو جاؤں تو حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ اور حضرت ام المؤمنین سلمها الله کو میرا سلام پہنچا دیں..حضرت میر صاحب لاہور میں چند روزہ قیام کے بعد ہر ماہ ہی سی پی کو واپس قاریان تشریف سے ہے حضرت میر محمد اسحاق صاحب سلسلہ عالیہ احمدیہ کے نہایت ہی قیمت اور گرانمایہ وجود کتنے جونہ صرف حضرت مسیح موعود علا استسلام کے مقدس خاندان سے نہایت ہی قریبی تعلق رکھنے کی وجہ سے بلکہ اپنی ذاتی صفات کے لحاظ سے ایک نہایت ممتاز شخصیت اور دینی علوم ومعارف کا بحر بیکراں تھے.ایسے بلند پایہ بزرگ کی بیماری سے جماعت کے ہر فرد کا مشوش ہونا طبعی امر تھا.جماعتوں تک جو نہی آپ کی علالت کی خبر پہنچی انہوں نے اجتماعی دعائیں شروع کر دیں بیمار پرسی کے بکثرت له الفضل " ۲۰ احسان ارجون ای به له " الفضل " ۱۶ بستر ارمنی نمایش صفحه ۲ کالم ما به
۵۴۵ خطوط لکھے.کثیر التعداد افراد نے آپ کی خدمت میں خود حاضر ہو کہ اظہار محبت کیا.بعض نے نسخے تجویز کئے اور بعض نے بذریعہ پارسل ادویہ بھی ارسال کر دیں اسی طرح بعض نے صدقے بھی دیئے.آپ قادیان میں حضرت میر محمد اسماعیل صاحب کے زیر علاج تھے اور اُن کی ہدایت کے ماتحت تمام کاموں سے فارغ ہو کر ہر وقت بستر پر لیٹے رہتے تھے مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیماری اپنی جگہ رک گئی اور ٹیکوں کی وجہ سے بدن اور سر میں آہستہ آہستہ طاقت محسوس ہونے لگی.جب اس عارضہ سے ذرا فاقہ ہوا تو آپ دوبارہ مفوضہ خدمات بجالانے لگے.جس طرح عشق قرآن میں حضرت خلیفہ اسی الاول رضی اللہ عنہ ضرب الش تھے.درس حدیث کا دوبارہ اجراء اسی طرح عشق رسول کے باب میں حضرت میر صاحب کا مقام تھا.یہی وجہ ہے حضرت میر صاحب نے بیماری سے اُٹھنے کے معاً بعد سب سے پہلا کام یہی کیا کہ مسجد اقصی میں بخاری کا درس دوبارہ شروع کر دیا.ہجو آپ کی زندگی کا محبوب اور مقدس ترین مشغلہ تھا بیچنا نچہ خود ہی فرماتے ہیں :." مجھے خدا کی بندگ کتاب قرآن مجید کے بعد حضور رسول مقبول صلے اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے عشق ہے اور سرور کائنات کا کلام میرے لئے بطور غذا کے ہے کہ جس طرح روزانہ اچھی غذا ملنے کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا.اسی طرح بغیر سید کو تین کے کلام کو ایک دو دفعہ پڑھنے کے میری طبیعت بیچین رہتی ہے.جب کبھی میری طبیعت گھبراتی ہے تو بجائے اس کے کہ میں باہر سیر کے لئے کسی باغ کی طرف نکل بھاؤں میں بخاری یا مہ بہت کی کوئی اور کتاب نکال کر پڑھنے لگتا ہوں اور مجھے اپنے پیارے آقا کے کلام کو پڑھ کر خدا کی قسم وہی تفریح حاصل ہوتی ہے.جو ایک غمزدہ گھر میں بند رہنے والے کو کسی خوشبودار پھولوں والے باغ میں سیر کر کے ہو سکتی ہے اور میری تو یہ حالت ہے کہ باغ احمد سے ہم نے پھل کھایا میرا بستان کلام احمد ہے اور واقعہ میں میرے آقا کا کام ایسا پاکیزہ ، ایسا پیارا ، ایسا دلفریب اور ایسا دلربا ہے کہ کاش دنیا اسے پڑھے اور پھر اسے معلوم ہو کہ میرے بادشاہ کا منہ ایسے پھول برساتا تھا کہ جن کی خوشبو اگر ایک دفعہ کوئی سونگھ لے.پھر اُسے دنیا کی کوئی خوشبو کوئی خطر اور کوئی پھول اپنی طرف مائل نہیں کر سکتا.اور میری ہمیشہ یہ خواہش رہی ہے کہ لوگ میرے آقا کا کلام پڑھیں اور سنیں.اسی لئے میں بخاری شریف کی مد میں لوگوں سے الفصل ۲۴ ہجرت اعلی است صفحه ۵ ( مضمون حضرت میر محمد اسحاق صاحب.
کوشنا تا رہتا ہوں" ہے ہیش کے بعد آپ کئی بار پہلی بیماری میں مبتلا ہوئے مگر برا پر خدمت بیماری کا آخری حملہ اور وفات دین میں مصروف رہے یہانتک کہ وسط امان مار پیش کو اس کا ایسا سخت حملہ ہوا کہ بھائیر نہ ہو سکے چنانچہ حضرت میر محمد اسماعیل صاحب فرماتے ہیں :- میر صاحب رضی اللہ عنہ کو کئی سال سے ایک بیماری تھی جو خود کر کر کے آتی متقی یعنی ان کے دماغ کا مصفا پانی ناک کے راستے ٹیکنا شروع ہو بہاتا اور پھر خود ہی بند ہو جایا کرتا تھا.یہ ایک بہت شاز بیماری ہے جس کا کا علاج اب معلوم نہیں ہوا ہر ماہ کے عمرو بہت ہوجاتے تھے اور خانہ سے اسے کوئی علاج اب تک معلوم نہیں ہوا.ہر حملہ کے بعد مرحوم بہت کمزور ہو جاتے تھے اور اہل خانہ سے اسے چھپانے کی کوشش کرتے تھے.تاکہ وہ گھبرا نہ جائیں.لاہور کے جلہ مصلح موعود سے واپس تشریف لائے تو نزلہ ہو گیا بخار آنے لگا اور ناک میں سے پانی گرنا پھر شروع ہو گیا.۱۴ مارچ کو مجھے بلایا.میں نے نسخہ تجو یہ کیا.اشارہ سے کہا کہ والدہ داؤد کو اس پانی کے گرنے کی خبر نہ ہو.4 ار مارچ کی شام کو بجے شیخ احسان علی معنا کی دوکان کے آگے ملے.فرمایا کہ سر میں شدید درد ہے.کئی ٹکیاں اسپرین کی کھا چکا ہوں.اب گھر بھا رہا ہوں.رگیسٹ ہاؤس میں مقیم تھے، میں یہ سنکر مسجد مبارک میں عصر کی نماز پڑھنے چلا گیا.نماز سے فارغ ہوا تھا کہ کسی نے کہا کہ میر صاحب دار الشیوخ میں بڑ کے درخت کے نیچے پڑے ہیں اور گر کی بیہوش ہو گئے ہیں.جب میں وہاں پہنچا تو دیکھا کہ لڑکے انہیں دبا رہے تھے اور پیر جھنس رہے تھے.میاں عبد المنان صاحب بھی پاس تھے.فرمایا کہ نا قابل برداشت درد میرے سر میں ہے اور بغیر مارفیا کے کسی چیز سے فائدہ نہ ہو گا.میں نے شیخ احسان علی صاحب کے ہاں سے مار یا انجکشن تیار کرا کے منگائی اور لگا دی.تھوڑی دیر کے بعد قدرے سکون ہو گیا.اتنے میں حضرت امیر المومنین ایک اللہ تعالے نے گیسٹ ہاؤس تک بھانے کے لئے اپنی موٹر بھیج دی.تھوڑی دیر میں لیٹے لیٹے پھار پائی پر بیٹھ گئے اور نہایت جوش سے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں (یا تم گواہ رہو) کہ اللہ تعالیٰ وَحْدَهُ لا شريك ہے.اس کے بعد ہم نے کہا کہ موٹر احاطہ سے باہر کھڑی ہے اس پر سوار ہو جائیں.فرمانے لگے.میرے لئے اب یہ بھی ناممکن ہے اس پر کئی لڑکوں نے ان کی چار پائی اُٹھالی اور باہر موٹر کے پاس لے گئے.فرمانے لگے یونہی گھر لے چلو مجھے اور مولوی عبد المنان صاحب کو فرمایا کہ گھر تک ہمراہ رہیں.گھر میں آکر منایا گیا بیوی مدینے آئیں تو ہاتھ اُٹھا له " الفضل ٢٠ فتح سمير رمیش سے منعقده ۱۲ر امان ماری ہیں.تفصیل آگے آئیگی انشاء اللہ + :
کر فرمانے لگے.بالکل فکر نہ کرو یکیں اچھا ہوں.مجھے کچھ تکلیف نہیں ہے.اور اس طرح ان کی تسلی کی.اتنے میں اپنیما تیار کیا گیا اور کئی دفعہ کوشش کی مگر کامیابی نہیں ہوئی.بعدہ دن کے کھانے کی قے آئی.پھر چند جلد غنودگی بڑھنے لگی مگر قے جاری رہی سخت درد سرقے اور غفلت کی وجہ سے نصف شب کے قریب خیال ہوا کہ یہ یوریمیا ( UAEMIA) ہے پیشاب ربڑ کی نلکی سے نکالا گیا تو اس میں کافی البیومن ( ALBUMIN) تھا مگر بعض اور علامات سے رات کے دو بجے یہ فیصلہ کیا گیا کہ دماغ کا پانی یعنی (CEREBRO - SPINAL FLUID) کر میں سوراخ کر کے نکالا جائے.وہ نکالا گیا تو بہت زور سے دھار باندھ کر اور دودھ کی طرح سفید یعنی پیپ سے ملا ہوا نکلا جس میں خوردبینی امتحان کرنے پر ہر قسم کے پیپ کے جراثیم پائے گئے معلوم ہوا کہ وہ پانی جو ہمیشہ ناک سے نکلا کرتا تھا اور دماغ کے اندر اور پردوں میں اس کا منبع تھا وہ سپٹک ( SEPTIC) ہو گیا ہے اور سرسامی کیفیت غفلت، تشنج ، قے اور آنکھوں کا ایک طرف کو پھر جانا اور تیلیوں کا سکڑ جانا سب اسی وجہ سے ہے.اور صورت درم دماغ ( MENINEITIS ) کی قائم ہو گئی ہے.ایک دفعہ بیہوش ہو کر پھر ہوش نہیں آیا.تیز بخار اس دوران میں برا بر چڑھا رہا.ان چوبیس گھنٹوں میں انسان دعا اور دوا سے کوشش اور جدوجہد کرتے رہے گر تف پیر الہی انکار کرتی رہی " رامان / مارچ کی شب اور ۷ ارامان / مارچ کا دن نہایت تشویش میں کے حضرت میر صاحب کے آخری لمحات گزرا، عون عام کے ذریعہ سب حدیں تک آپ کی علالت کی اطلاع گڑنا.اعلان احمدیوں پہنچانے کی کوشش کی گئی سب نے نہایت ہی درد اور کرب کے ساتھ دعا کی بعلاج معالجہ میں بھی ہر ممکن کوشش کی گئی.گھر چھے بجے شام کے بعد نبض بہت زیادہ کمزور ہوگئی اور خطرہ بہت بڑھ گیا.حافظ محمد رمضان صاحب بلند آواز سے قرآن کریم کی دعائیں پڑھنے لگے.نیز سورہ یسین کی تلاوت کرتے رہے حضرت امیرالمومنین الصلح الموعود بھی دوسرے صحن میں قرآن کریم پڑھتے رہے.پھر حضور اس کمرہ میں تشریف لے آئے جہاں حضرت میر صاحب تھے اور اُن کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بہت دیر تک وقت بھری آواز میں قرآن کریم کی دعائیں فرماتے رہے.یہ نظارہ نہایت ہی رقت انگیز تھا.کمرہ کے اندر اور باہر دگوں کی چیخیں نکل رہی تھیں.اس وقت حضور نے فرمایا.اگر تو یہ رونا دعا کا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ گناہ ہے حضور پھر باہر تشریف لے آئے چونکہ نماز مغرب کا وقت ہو چکا تھا حضور نے نماز کی تیاری کرنے کا ارشاد فرمایا.ابھی نماز شروع نہ ہوئی تھی کہ حضرت میر محمد اسحاق صاحب پر عالم نزرع طاری ہو گیا.حافظ محمد رمضان سلة " الفضل يكم بناء التوبه ی صفحه * " الفضل برامان / مار له پیش صفراء
۵۴۸ صاحب حضرت میر صاحب کی چار پائی کے پاس بیٹے پہلے دوسری قرآنی دعائیں پڑھ چکے تھے اور اب سورہ الیستین کی تلاوت کر رہے تھے.جب حافظ صاحب موصوف سلام قولا مِن رَّبِّ رَّحِیمِ دین آیت ۵۸) پر پہنچے تو حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب نے زور سے یہ آیت دہرائی اور ساتھ ہی حافظ صاحب سے کہا کہ یہ آیت پھر پڑھئے بچنانچہ انہوں نے بھی اور دوسرے احباب نے بھی پھارہ پانچ بار یہ آیت رفت بھری آواز میں دوہرائی.محافظ محمد رمضان صاحب سورہ ایسین اور قرآن کریم کے اور حصوں اور دعاؤں کی تلاوت ختم کر چکے تو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے حافظ قدرت اللہ صاحب کو بلوایا.جنہوں نے پھر سورہ الیسین کی تلاوت شروع کی جب آپ آیت سلام قولا من ربِّ رَّحِیہ پر پہنچے تو انہوں نے بھی یہ آیت بارہ بار پڑھی.اسی دوران میں حضر میر صاحب نے آخری سانس لیا.حضرت سیدنا الصلح الموعود اس وقت برآمدہ میں تشریف فرما تھے اور نماز مغرب پڑھنے کے لئے کھڑے ہونے والے ہی تھے کہ حضور کو حضرت میر صاحب کے المناک انتقال کی اطلاع دی گئی جس پر حضور فوراً اُس کمرہ میں تشریف لائے جہاں احمدیت کے اس بطل جلیل کی نعش رکھی تھی جس کی زندگی کا ایک ایک سانس اسلام اور احمدیت کی خدمت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس کلمات کو پرنم آنکھوں سے پہنچانے کے لئے وقف رہا جس کا وجود شوکت اسلام کا نشان اور جس کی زباں شمشیر براں تھی اور جس کے دل و دماغ سے عشق رسول کے دریا رواں تھے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی الصلح الموعود حضرت میر صاحب کی نعش مبارک دیکھ کر رقت سے بھر گئے اور پرینم آنکھوں سے باہر تشریف لائے اور مغرب وعشاء کی نمازیں جمع کر کے پڑھائیں لیے " نماز کے بعد حضرت امیر المومنین نے ایک درد انگیز تقریر کی جس میں فرمایا.حرم امیر المومنین کی دردانگیز تقریر جب رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو صحابہ کرام کے لئے وہ ایک موت کا دن تھا.مگر جب حضرت ابو بکر نہ فوت ہوئے تو وہ تابعین جنہوں نے رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم کونہ دیکھا تھا اور اسلام حضرت ابوبکرین سے ہی سیکھا تھا ان کو اس وفاست کا شدید ترین صدمہ ہوا.ولیسا ہی صدمہ جیسا کہ صحابہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا ہوا تھا.اسی طرح ایک کے بعد ایک زمن کے لوگ گزرتے چلے گئے.اور جب سارے گزر گئے تو کسی وقت عالم اسلامی کیلئے سن بصری یا جنید بغدادی کی وفات ایسے ہی صدمہ کا باعث تھی جیسی صحابہ کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ، مگر یہ احساس نتیجہ تھا اس بات کا کہ حسن بصری اور جنید بغدادی جیسے لوگ مسلمانوں میں بہت شان پیدا ہوتے تھے.له الفص شہادت اپریل له مش صفحه ۲ کالم ۴ * " ٣ ہم
اگر ساری امت ہی حسن اور جنید ہوتی تو وہ درود اور وہ چھین جوان بزرگوں کی وفات پر بلند ہوئیں یوں بلند نہ ہوتیں.بدقسمتی سے اکثر لوگ رونا بھی بھانتے ہیں.اظہار کم کرنا بھی جانتے ہیں گرا کر روان تعالی کیلئے زندگی وقف کرنا اور کام کرنا نہیں جانتے.یہی وجہ ہے کہ دنیا پر خون وغم کی چادر پڑی رہتی ہے.اگر سب کے سب لوگ دین کی خدمت کرتے اور اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی میں لگے ہوتے تو دنیا کامرانی اور علم ایسے بلند معیار پر آجا تاکہ کسی قابل قدر خادم اسلام کی وفات پر جو یہ احساس پیدا ہوتا ہے اور یہ فکر لاحق ہوتا ہے کہ اب ہم کیا کرینگے یہ کبھی نہ ہوتا.میر محمد اسحاق صاحب خدمات سلسلہ کے لحاظ سے غیر معمولی وجو د تھے.در حقیقت میرے بعد علمی لحاظ سے جماعت کا فکر اگر کسی کو تھا تو ان کو.رات دن قرآن وحدیت لوگوں کو پڑھا نا اُن کا مشغلہ تھا وہ زندگی کے آخری دور میں کئی بار موت کے منہ سے بچے جلسہ سالانہ پر وہ ایسا اندھا دھند کام کرتے.کہ کئی بار اُن پر نمونیہ کا حملہ ہوا.ایسے شخص کی وفات پر طبعا لوگوں میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ اب ہم کیا کریں گے ؟ لیکن اگر ہماری جماعت کا ہر شخص ویسا ہی بننے کی کوشش کرتا تو آج یہ احساس نہ پیدا ہوتا.جب ہر شخص اپنی ذمہ داری کو سمجھتا ہو تو کسی کا رکن کی وفات پر یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ اب ہم کیا کریں گے؟ بلکہ ہ شخص بجانتا ہے کہ ہم سب یہی کر رہے ہیں.عزیزہ اور دوست کی جدائی کا غم تو ضرور ہوتا ہے مگر یہ احساس نہیں ہوتا کہ اب اس کا کام کون سنبھالے گا.موت کا ریچ تو لازمی بات ہے گر به درج مایوسی پیدا نہیں کرتا.بلکہ ہر شخص ایسے موقعہ پر اللہ تعالے کا شکر ادا کرتا ہے کہ اس نے وقت پر چاروں کونوں کو سنبھال لیا تھا.احباب کی اس غلطی کی وجہ سے کہ ہر ایک نے وقت پر اپنے آپ کو سلسلہ کا واحد نمائندہ تصویر نہ کیا اور اس کے لئے کوشش نہ کی.آج میر صاحب کی وفات ایسا بڑا نقصان ہے کہ نظر آرہا ہے کہ اس نقصان کو پورا کرنا آسان نہیں حضرت مسیح مولود علیہ السلام کے زمانہ میں مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم اس طرزہ کے آدمی تھے.ان کے بعد حافظ روشن علی صاحب مرحوم تھے اور تیرے اس رنگ میں میر صاحب رنگین تھے اور اُن کی وفات کا بڑا صدمہ اس وجہ سے بھی ہے کہ اُن بھی ہے اور لوگ جماعت میں موجود نہیں ہیں.اگر اور لوگ بھی ایسے ہوتے تو بیشک اُن کی وفات کا صدمہ ہوتا.ویسا ہی صدمہ عیسا ایک عزیز کی وفات ہوتا ہے مگر جماعتی پہل محفوظ ہوتا.اور یہ دیکھ کر کہ اگر ایک آدمی فوت ہو گیا ہے تو خواہ وہ کسی رنگ کا تھا اس کی جگہ لینے والے کئی اور موجود ہیں.جماعت کے
۵۵۰ لوگ مایوس نہ ہوتے اور وہ سمجھتے کہ اگر اللہ تعالے کی مشیت نے ایک آدمی ہم سے لے لیا ہے تو اس کے کئی قائم مقام موجود ہیں.مگر قحط ارتحال ایسی چیز ہے کہ جو لوگوں کے دلوں میں مایوسی پیدا کر دیتی ہے اور جب کام کا ایک آدمی فوت ہوتا ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ اب کیا ہوگا اور دشمن بھی کہتا ہے کہ اب یہ جماعت تباہ ہو جائے گی.اب اس کا کام چلانے والا کوئی نہیں لیکن اگر ایک کے بعد کام کر نیوالے کئی موجود ہوں تو پھر نہ اپنوں میں کوئی مایوسی پیدا ہوتی ہے اور نہ دشمن کو نوش ہونے کا موقعہ مل سکتا ہے.پس اگر جماعت کے دوست اپنی اپنی ذمہ داری کو سمجھتے تو آج جو یہ گھبراہٹ پائی جاتی ہے نہ ہوتی.اللہ تعالے کا شکر ہے کہ اس نے مجھے بر وقت سمجھ دی اور میں نے نوجوانوں کو زندگیاں وقت کرنے کی تحریک کی جس کے ماتحت آج نوجوان تعلیم حاصل کر رہے ہیں لیکن ہمارا کام بہت وسیع ہے.ہم نے دنیا کو صحیح علوم سے آگاہ کرنا ہے اور اس کے لئے ہزار ہا علماء درکار ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سنت تھی کہ جب کبھی سلسلہ کے لئے غم کا کوئی موقعہ ہوتا.آپ دوستوں سے فرماتے کہ دعائیں کرو اور استخارے کرو تا اللہ تعالے دلوں سے گھبراہٹ دور کر دے اور بشارات دے کر دلوں کو مضبوط کر دے ہیں آپ لوگ بھی آئندہ چند دنوں تک متواتر دعائیں کریں مخصوصاً آج کی رات بہت دعائیں کی بھائیں کہ اگر جماعت کے لئے کوئی اور ابتلاء مقدر ہوں تو اللہ تعالیٰ انہیں ٹال ہے اور اگر تمہارا خیال غلط ہو تو دلوں سے دہشت کو دور کر دے اور اپنے فضل سے ایسی بچی بشارتیں عطا کرے کہ جن سے دل مضبوط ہوں اور کمزور لوگ تھوکر سے بچ جائیں.پس خوب دعائیں کرد اور اگر کسی کو خواب آئے تو بتائے خصوصاً صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام.کے افراد بہت دعائیں کریں.وہ لوگ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ استلام کا زمانہ پایا اور انہیں موقعہ ملا کہ وہ حضور علیہ السلام کی پاک صحبت میں رہے ، خاص طور پر میرے مخاطب ہیں.وہ آج رات بھی اور آئندہ بھی بہت دعائیں کریں کہ اللہ تعا لئے جماعت کو ایسے واقعات اور ابتلاؤں سے بچائے جو کمزوروں کے لئے ٹھوکر کا موجب ہو سکتے ہیں اور جن سے افسردگی پیدا ہوتی ہے کہ یہ دین کی فتح کے دن ہیں اور ان دنوں میں افسردگی نہیں ہونی چاہیئے.بلکہ دوں میں ایسا تم میں ہونا چاہیئے کہ جس کا تخت دوست بڑھ بڑھ کر قربانیاں کرسکیں " سلہ + له الفضل" یکم شہادت / اپریل مش صفحه ۱ - ۰۲ / —
اهه اور حضرت سیدنا الصلح الموعود نے یہ تقریر اس رقت اور سوز سے فرمائی کہ منصور کی آواز ڈک ڈک بھاتی تھی.ٹنے والوں کی چیخیں نکل رہی تھیں.تقریر کے بعد حضور نے نہایت خشوع و خضوع سے دعا کرائی.اس تقریر کے بعد حضرت میر صاحب رضی اللہ عنہ کو غسل دینے کا انتظام کیا گیا.غسل دینے اور کفن پہنانے کے بعد گیسٹ ہاؤس کے بیرونی حصہ میں جنازہ لایا گیا اور رات بھر کے لئے پہرہ دار مقر کر دیئے گئے اور حضور تا ۱۲ بجے کے قریب اپس تشریف لائے.اس حادثہ کی اطلاع جماعتہائے احمدیہ لاہور، امرتسر، جالندھری الدین، ویران آن بیرونی جماعتوں کو حادثہ کی اطلاع ہی پور نگری سیالکوٹ، گجرات وغیره که برای تار نوادرات دے دی گئی.سنه اگلے روز حضرت خلیفہ اسیح الثانی الصلح الموعود پانچ بجے کے قریب نماز عصر تغیر کا روح فرسا اور دلخراش منظر مسجد مبارک میں پڑھ کر گیسٹ ہاؤس میں تشریف لائے جہاں حضرت میر صاحب کی نعش مبارک کی تھی.اس وقت آخری بار اس مقدس اور خدا نما انسان کی زیارت کرائی گئی.چہو دیکھنے سے یہ علوم نہ ہوتا تھا کہ فوت ہو چکے ہیں بلکہ اس طرح نظر آتا تھا کہ نہایت آرام اور اطمینان کی نیند سو رہے ہیں بلکی کسی مسکراہٹ، جو ہر وقت آپ کے چہرہ مبارک پر رہتی تھی اس وقت بھی موجود تھی.آخر حضرت امیر المومنین اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دوسرے ارکان نے جنازہ اٹھایا اور تھوڑی دور لے بھانے کے بعد باغ تک احباب جماعت نهایت اخلاص و محبت کے جذبات کے ساتھ کندھا دیتے اور باری باری ثواب حاصل کرتے گئے.نماز جنازہ حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود نے حضرت مسیح موعود کے باغ میں اسی جگہ پڑھائی جہاں چند روز قبیل حضرت سیده ایم طاہر احمد صاحبہ رضی اللہ عنہا کی نماز جنازہ پڑھائی تھی اور جہاں ابھی سفیدی کے وہ خطوط موجود تھے جو خود حضرت میر صاحب نے ہی صفیں سیدھی باندھنے کے لئے لگوائے تھے صفیں کھڑی ہونے کے بعد تعداد کا اندازہ لگایا گیا تو مردوں کی تعداد ساڑھے چار ہزار معلوم ہوئی.نماز جنازہ نہایت رقت اور سوز کے ساتھ پڑھی گئی اور پھر جنازہ حضرت مسیح موعود علیہ اس نام کے مزار کے احاطہ میں شرقی سڑک کی جانب سے لے جایا گیا.قبر حضرت نانی اماں صاحبہ (والدہ ماجدہ حضرت میر محمد اسحاق صاحب اور حضرت نانا جان میر ناصر نواب صاحب والده بعد حضرت میر محمد الحق صاحب کے پہلو میں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدموں میں کھودی گئی.میت کو لحد میں رکھنے کے لئے حضرت مرزا شریف احمد صاحب ، حضرت میر محمد اسمعیل صاحب، حضرت مرزا عزیز احمد صاحب ، سید داؤد احمد صاحب دختر میر صاحب کے سب سے بڑے فرزند) تمہ ہے.خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دوسرے افراد نے ساله الفضل و ارامان زمار 8 میش صفحه با کالم :
۵۵۲ میت اٹھا کر اُن کے ہاتھوں پر لکھ دی اور جب وہ مقام پر پہنچا کہ باہر آگئے تو حد پر اینٹی چینی گئیں.اس کام میں مودی عبد المنان صاحب عر خلف حضرت خلیفہ ایسے الاول شریک رہے.بعد میں رکھنے کے وقت سے مٹی ڈالنے تک حضرت میرالمومنین نہایت رقت سے مسنون دعائیں فرماتے رہے اور دعائیں کرتے ہوئے حضور نے تمام مجمع سمیت دعا فرمائی.لاہور، امرتسر، گورداسپور، جالندھر، کپور نقلہ ، فیروز پور وغیرہ کے بہت سے احباب نماز جنازہ میں شریک ہونے کے لئے پہنچ چکے تھے.نیز ارد گرد کی جماعتوں کے احباب بھی بکثرت شریک ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلاة و اسلام کے مزار کے احاطہ میں جنازہ کے ساتھ داخل ہونے پر اول حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسّلام کے مزار پر حضرت اميرالمومنين المصلح الموعود نے دعا فرمائی اور پھر حضرت سیدہ ام طاہر احمد صاحبہ کے مزار پر.آخر واپسی سے قبل ایک بار پھر تمام مجمع سمیت مزار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر دعا فرمائی اور واپس تشریف لے آئے.دوسر سب لوگ بھی اس محبوب اور خادم اسلام کو جس نے ساری عمر اور اپنی ساری طاقتیں سلسلہ کی خدمت میں حضرت کر دیں، سپر و خاک اور حوالہ بنی را کر کے واپس آگئے بلے حضرت میرمحمداسحاق صاحب نے بے شمار خوبیوں کے حال فضا ختر میر محمدالحق صاحب کے شمائل اخلاق شخصیت اور خدمت دین میں محویت کا اک کامل نمونہ ھے دن راست خدا اور اس کے پاک رسول صلے اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر اُن کا شغل تھا صدر نجمین احمدیہ کے نہایت اہم صیغہ ضیافت کے ناظر اور دارالشیوخ کے ناظم اعلیٰ، جماعت احمدیہ کے قاضی مجلس افتاء کے رکن ، مدرسہ احمدیہ کے ہیڈ ماسٹر مجلس تعلیم کے مبر، مجلس ارشاد کے صدر کے فرائض با حسن وجوہ ادا کرنے کے علاوہ مسجد اقصی میں روزانہ بخاری شریف کا درس دیتے تھے جس میں ایسی محبت اور رقت سے رسولِ کریم صل اللہ علیہ وسلم کا ذکر فرماتے کہ دل گداز ہو جاتے تبلیغی اجتماعات اور جلسوں کے روح رواں ہوتے تھے.اور نوجوانوں کے دین کے سیکھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی دلکش اور نہایت موثر پیرایہ میں تلقین فرماتے تھے.باطل کے خلاف حق کی شمشیر برہنہ تھے بگو علیمی و فروتنی، عجز و انکسار اور مروت د ملنساری میں بھی آپ عدیم المثال وجود تھے.اللہ تعالیٰ نے قوت افہام و تفہیم اور بیان میں ایسا ملکہ عطافرمایا تھا کہ بد ترین معاند بھی قائل ہوئے بغیر نہ رہ سکتا تھا.اخلاق ایسے اعلیٰ کہ دشمن بھی تعریف میں رطب اللسان تھے.رضی نظر میر صاحب کی بلند پای اور انقلاب انگیز تصانیف و تالیفات حضرت میر صمدانی صاحب منی شناخته سله " الفضل ۲۱ رامان / مار بیش صفحه ۲۰۱ + نے حسب ذیل لٹریچر بطور یادگار چھوڑ اے وبجانے کے بعد حضور نے
۵۵۳ مخصوصیات اسلام اوعیہ القرآن - چہل حدیث - اسلامی اخلاق - ندائے حق.رسالہ کسر صلیب.رسالة النحو خلاصتہ التحو.ختم نبوت گوشت خوری - رو تناسخ - نقشه وفات مسیح خمسین احادیث بگڑھ مذہب حدوث روح و مادہ ہے میر اس کے بعد مض متبادل انتقام حضرت میر مداحی صاحب کی وفات سے جماعت میں ایک زبر دست خوار پیدا ہو گیا تھا.اس قومی نقصان کی تلافی تو مکن نہ تھی البتہ جو بھی وقتی یا متبادل انتظامات ممکن تھے وہ کر دیئے گئے.درس الحدیث کی اہم خدمت مولانا ابو العطار صاحب فاضل کے سپرد ہوئی حضرت قاضی محمد عبد الله صاحب قائم مقام ناظر ضیافت تجویز ہوئے.حضرت مولوی عبد الرحیم صلعب فاضل جٹ مدرسہ احمدیہ کے ہیڈ ماسٹر بنا دیئے گئے.دارالشیوخ چلانے کے لئے ایک کمیٹی بنائی گئی.اسی طرح دوسرے شعبوں میں بھی حضرت میر صاحب کی بجائے دوسرے نمبروں کی نامزدگی ہوگئی مگریہ حقیقت ہے کہ حضری صاحب جس سرفروشی للہیت اور فدائیت کے ساتھ تنہا یہ تمام خدمات بجالاتے تھے.اس کا رنگ نہ اجتماعی نہ انفرادی صورت میں کسی سے پھر پیدا نہ ہو سکا الحل الله يحدث بعد ذلك أمرا ) فصل سوم سینا اصلح الوفود کی ساری اور مبارک حمرمکین یں مانگی تر امیرالمومنین خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے وجود مبارک میں یکایک مصلح موعود کی آسمانی خلعت سے مفتخر ہوتے ہی سید نا حضرت ایک انقلاب عظیم برپا ہو گیا.تقریر میں جلال و جمال اور تقریر میں بجذب و تاثیر کے رنگ ہی بدل گئے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بیماریوں سے نڈھال اور بڑھاپے میں مضمحل ہونے کے باوجود خدائے قادر و توانا کی طرف سے آپ پر سچ مچ اندار شباب پلٹ آئے اور پھر سے عزم جواں عطا ہوا.اور آپ اس یقین سے لبریزہ ہو گئے کہ اس نئے منصب پر فائز ہونے کے بعد بعدا تعالے کی طرف سے اختیار اسلام اور اشاعت دین کی اہم ذمہ داری اب براہ راست لة وإذ الحمد، نشرت صفحه ۳۳ ( از میان عبدالعظیم صاحب پروپرائٹر احمدیہ بکڈپو قادیان دارالامان) -
۵۵۴ آپ کو سپرد کر دی گئی ہے اس لئے آپ نے فرمایا کہ جماعت کو اپنے سب جذبات و احساسات بکلی ترک کر کے صرف انہی راہوں پر چھلنا ہو گا جو خدا تعالے کی طرف سے آپ پر کھولی جائیں گی بیچنا نچہ حضور نے اس دور جدید کی پہلی مجلس مشاورت کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :- یمیں نے ایک عرصہ تک جماعت کے جذبات اور اس کے احساسات کا خیال رکھنا اور باوجود دوستوں کی ناتجربہ کاری ، ان کی سیاست سے ناواقفیت اور دینی جماعتوں کے اصول سے لاعلم ہونے کے ہمیشہ ان کے مشوروں کو قبول کیا.اور اگر اپنی کوتاہ نظری سے گرد و پیش کے حالات سے غلط طور پر متاثر ہو کر انہوں نے بعض مشورے دیئے تو میں نے اُن کو بھی رد نہیں کیا.مگر اب وقت آگیا ہے کہ میں ایسے مشوروں کو قبول نہ کروں اور دوستوں کے جذبات اور ان کے احساسات کا خیال رکھے بغیر ان کو کھٹے طور پر رد کر دوں.میں جانتا ہوں کہ در حقیقت بات یہی ہے کہ اب جو کچھ میں کہوں گا اسی پر جماعت کا چلنا مفید اور بابرکت ہوگا نہ اس راہ پر چلنا جس کو وہ خود اپنے لئے تجویز کی ہے.اگر خدا نے مجھ پر یہ انکشاف کیا ہے کہ میں حسن و احسان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نظیر ہوں تو در حقیقت اس کے یہی معنے ہیں کہ اب تمہاری ذمہ داری بحیثیت ایک شخص کے ہے.بحیثیت جماعت جو ذمہ داری سمجھی جاتی تھی وہ ختم ہو گئی ہے.اب میں خدا تعالیٰ کے سامنے اس کے دین کی اشاعت اور اسلام کے اختیار کے لئے ذاتی طور پر وقتہ والہ ہوں اس لئے اب مجھے جماعت کے مشوروں کی زیادہ پہ وا نہیں ہوگی.اگر کسی معاملہ میں جماعت کی شدید رائے کو بھی تو کرنا پڑا تو میں اُسے کھلے طور پر رو کر دوں گا.اور اس بات کی ذرا بھی پروا نہیں کروں گا کہ یہ وہ مشورہ ہے جو جماعت نے متفقہ طور پر دیا ہے.اب خدا کے سامنے میں صرف اپنے آپ کو ذمہ وار سمجھتا ہوں اور میں اللہ تعالیٰ کے الہامات اور اس کی تائید کی روشنی میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ رسول کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کیا منشار تھا ؟ یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم کو لے کر دنیا میں مبعوث ہوئے یہ پس آئندہ میں صرف اس آواز کو سنوں گا جو خدا تعالے کی ہوگی.دوسرا کوئی لفظ میرے کان برداشت نہیں کر سکتے.میرا فرض ہے کہ اب میں اس کی طرف بڑھتا چلا جاؤں اور خواہ میرے سامنے کوئی بات کیسی ہی خوبصورت شکل میں پیش کی بجائے اس کی پروا نہ کروں جبکہ میراں یہ گواہی دے رہا ہو کہ میں وہی کام کر رہا ہوں جو حضر سے مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کام تھا اور میں رہی کام کر رہا ہوں جو رسول کریم صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم منعقده ۷-۸-۹ شهادت / اپریل میش
AAA کا کام تھا.درحقیقت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کو میری زبان پر تصرف دینے کے معنی ہی یہی تھے کہ تم اس آواز کو سنو جو براہ راست رسول کریم صل اللہ علیہ آلبه ولم تمہیں کہیں.اور تم اس آواز کو سنو جو براہ راست حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تمہیں کہیں.کوئی شخص اس کے یہ معنی نہ سمجھے کہ باوجود خدا تعالٰی کے کلام اور اس کی تصوص صریحہ کے تئیں کوئی ایسا کام بھی کر سکتا ہوں جو اس کی تعلیم کے خلاف ہو.میرے اس بیان کے یہ معنی نہیں ہیں بلکہ میرے قول کا مفہوم یہ ہے کہ تمام نصوص صریحہ سچائی کی طرف بھاتی ہیں اور غلطی کی طرف وہ بات بھاتی ہے جو خدا اور اس کے رسول کے احکام کے خلاف ہوتی ہے.پس یہ نہیں کہ جو کچھ میں کہوں گا وہ خدا اور اس کے رسول کے منشاء کے خلاف ہو سکتا ہے بلکہ جو کچھ میں کہوں گا رہی خدا اور اس کے رسول کے منشار کے مطابق ہوگا اور میرے مقابلہ میں جو کچھ دوسرا سمجھے گا وہ خدا اور اس کے رسول کے منشار کے خلافف ہو گا مگر یہ چیزیں ساری کی ساری قیاسی اور وہی ہیں.اللہ تعالے اپنی پاک جماعت کو ہمیشہ ایسی ٹھو کروں سے بچالیتا ہے جو اس کے ایمان کو ضائع کرنے والی ہوں جب میں یقین رکھتا ہوں کہ آپ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہیں اور اس زمانہ کے لوگ ہیں جن کو خدا تباہ نہیں کیا کرتا.اور جبکہ میں یقین رکھتا ہوں کہ باوجود اپنی ساری کمزوریوں اور نالائقیوں کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی لائی ہوئی تعلیم کی اشاعت کی دختر داری میرے کمزور کندھوں پر ڈالی گئی ہے تو میں یہ بھی یقین رکھتا ہوں کہ وہ مجھ سے کوئی بات ایسی نہیں کہلوائے گا جو خدا اور اس کے رسول کے منشاء کے خلاف ہو.اور میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا تم سے بھی کبھی اس بات کا انکار نہیں کرائے گا جو خدا اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق ہو.آخر میں بھی اس کے قبضہ میں ہوں اور آپ لوگ بھی اسی کے قبضہ میں ہیں " خدائی سلسلوں پر ہونے والا ہر انعام خداوندی اپنے ساتھ نئی جماعت کو تعظیم الشان قربانیوں تہ داریاں انا ان کی قربانیوں کاتقاضاکرتا ہے.اسی دائمی ذمہ اور نئی کیلئے تیار ہو جانے کا ارشاد سنت کے مطابق سید نا الصلح الموعود نے جماعت کو شروع ہی سے متنبہ فرما دیا کہ احمدیوں کو عظیم الشان قربانیوں کے لئے تیار ہو جانا چاہیئے چنانچہ حضور نے ارشاد فرمایا.اد رپورٹ مجلس مشاورت جماعت احمدید متعقده - ۹۰۰ ماه شهادت اپریل بش صفحه ۲۰-۲۱+
۵۵۶ جلد جلد ترقی کی طرف اپنے قدموں کو بڑھاؤ میں نہیں جانتا کہ جب خدا نے میرے متعلق یہ کہا ہے کہ یکن جلد جلد بڑھوں گا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میری موت جلد آنے والی ہے.یا یہ مطلب ہے کہ یکن جلد جلد ترقی کی منازل طے کرتا چلا جاؤں گا.تم ان دو میں سے کوئی بھی پہلو لے لو.بہر حال اس امر کو اچھی طرح یاد رکھی کہ اب جماعت میں سے وہی شخص اپنے ایمان کو سلامت رکھ سکے گا اور وہی شخص با ایمان کر سکے گا جو خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت اور اس کے سلسلہ کی ترقی کے لئے جلد جلد قدم اُٹھائے گا.اگر تمہارا جرنیل دشمن کی فوج پر حملہ کر دے اور تم آرام سے اپنے گھروں میں بیٹھے رہو تو کون تمہیں وفادار کہہ سکتا ہے ؟ کون تمہاری اطاعت کا قائل ہو سکتا ہے ؟ کون تمہیں عزت کی نگاہ سے دیکھ سکتا ہے؟ جب خدا نے مجھے کہا کہ میں بجلد جلد قدم اُٹھاؤں گا.اور جب خدا نے مجھے یہ نظارہ دیکھایا کہ میں بھاگتا چلا جارہا ہوں اور زمین میرے پاؤں کے نیچے سمٹتی چلی جا رہی ہے تو در حقیقت خدا نے تم کو کہا کہ تم جلد مجلد پڑھو اور جلد زمینوں کو طے کرتے پھلو جب ایک شخص کو افسر مقرر کیا جاتا ہے تو اس افسر کو حکم دینے کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ ماتحتوں کو اس کے واسطہ سے مسکم دیا جائے.قرآن کریم میں اللہ تعالے فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ آدم کو سجدہ کرو اور ڈانٹتا شیطان کو ہے کہ تم نے کیوں سجدہ نہ کیا بہ شیطان میں نفسانیت سہی ، ہزاروں گناہ سہی ، مگر اس میں اتنی عقل ضرور تھی کہ اس نے یہ نہیں کہا کہ اسے خدا تو نے مجھے کب حکم دیا تھا ؟ تُو نے تو فرشتوں کو حکم دیا تھا.مجھے تو حکم دیا ہی نہیں تھا.وہ جانتا تھا کہ فرشتوں کو جب حکم دیا گیا تو اس کے معنے یہی تھے کہ میں بھی اتباع کروں.پس وہ نادان جو کہتا ہے کہ یہ تو مصلح موعود کے متعلق کہا گیا ہے کہ وہ جلد جلد بڑھے گا میرے متعلق نہیں کہا گیا کہ میں جلد جلد بڑھوں.وہ شیطان سے بھی اپنے آپ کو زیادہ احمق قرار دیتا ہے شیطان نے تو تسلیم کر لیا تھا کہ جب فرشتوں کو حکم دیا گیا تو در حقیقت اُن کے واسطہ سے مجھے بھی حکم دیا گیا.گری تسلیم نہیں کرتا کہ مصلح موعود کو جو حکم دیا گیا ہے، اس کے ماتحت وہ خود بھی آتا ہے.پس ہر احمدی کو سمجھ لینا چاہیئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ سے الہام پا کر میرے متعلق جو یہ خبر دی ہے کہ میں مجلد جلد بڑھوں گا اس کے معنے یہ نہ تھے کہ دشمنوں کی صفوں کے بالمقابل میں اکیلا کھڑا ہوں گا.بلکہ یہ تھے کہ کام کی اہمیت کے پیش نظر میرا فرض ہوگا کہ میں تیزی اور سرعت کے ساتھ اپنے قدم کو بڑھاتا چلا جاؤں اور جب میں دشمن کے مقابلہ میں جلد جلد قدم
۵۵۰ بڑھاؤں گا تو خدا تعالیٰ اُن لوگوں کو بھی جو مجھ پر ایمان لائیں گے اس بات کی توفیق عطا فرما دے گا کہ وہ جلد جلد اپنے قدم بڑھائیں.اسی طرح جب خدا نے مجھے خبر دی کہ زمین میرے پاؤں کے نیچے سمٹتی چلی جا رہی ہے اور میں تیزی کے ساتھ بھاگتا چلا جا رہا ہوں تو اس کے معنے بھی درحقیقت یہی تھے کہ جب یکن تیزی کے ساتھ بھاگوں گا اور زمین میرے قدموں کے نیچے سمٹنی شروع ہو گی تو اللہ تعالئے ان بچے مخلصوں کو بھی جنہیں میرے ساتھ وابستگی حاصل ہوگی اس امر کی توفیق عطا فرما دے گا کہ وہ زمین کو جلد جلد ملے کریں اور آنا فانا دور دراز فاصلوں کو طے کرتے ہوئے دُنیا کے کناروں تک پہنچ جائیں.پس اپنے اندر ایک غیر معمولی تغیر پیدا کرو اور جلد سے جلد عظیم الشان قربانیوں کے لئے تیار ہو جاؤ.اب تم زیادہ انتظار مت کرد پیشگوئیوں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ وقت اب آگیا ہے جب زیادہ انتظار نہیں کیا جائے گا جب تمہیں دیر تک منتظر نہیں رہنا پڑے گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں اور قیست اس طرح اکٹھے ہیں جس طرح انگشت شہادت کے ساتھ دوسری انگلی ملی ہوئی ہوتی ہے.پس بہت بڑے تغیرات ہیں جو دنیا میں رونما ہونے والے ہیں اور خدا تعالیٰ کے نزدیک یہ تغیرات بہت بھاری اہمیت رکھتے ہیں.اللہ بہتر جانتا ہے کہ اب کیا ہو جائے گا مگر اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ کسی عظیم الشان تغیر یا بہت بڑے عظیم الشان تغیرات کی بنیا دیں جلد سے جلد رکھ دی جائیں گی اور وہ شخص جو ان مہمات میں میرا ساتھ نہیں دے گا، وہ شخص جو جلد جلد اپنے قدم کو نہیں بڑھائے گا اس کے دل پر زنگ لگ بجائے گا اور وہ اس خطرہ میں ہوگا کہ اپنے پہلے ایمان کو بھی کھو بیٹھے " الغرض حضرت سید نا المصلح الموعود نے ایک آسمانی بجو نیل کی حیثیت سے جماعت کو اطلاع دی کہ اسلام کی فتح اور اس کی کامیابی کے لئے جو جنگ ہونے والی ہے وہ اب قریب آرہی ہے اور ہمیں اس کی خاطر قربانیاں کرنے کے لئے تیار رہنا چاہیئے اور اسی تیاری کے جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے اپنے دعوئی فصیح ہو گود کے بعد اپنی مقدس زندگی میں بہت سی تحریکیں فرمائیں جن پر خدا تعالیٰ کے فضل و کرم اور اسی کی دی ہوئی توفیق سے جماعت احمدیہ نے اپنی گذشتہ روایات کے مطابق نہایت شاندار طریق سے بینک کہا اور اس کا قدم المصلح الموعود کی قیادت میں نہایت تیزی سے آگے ہی آگے بڑھتا گیا.ان مصب تحریکات کا ذکر اپنے اپنے موقعہ پر آئے گا.مگر اس فصل میں اُن سولہ نہایت اہم اور بنیادی تحریکوں به اختتامی تقریر حضرت مصلح موخود رپورٹ مجلس مشاورت سرمایش صفحه ۱۷۸ - ۱۷۹)
۵۵۸ کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو حضور نے دعوی مصلح موعود کے پہلے سال جاری فرمائیں اور جو اپنے اندر ستقل افادیت کی دونگی شان رکھتی ہیں خاندان سیح موعود کو خدمت دین حضرت خلیفہ ایسی الثانی الی الوانی قربانیوں کے مطالبات ا المصلح الموعود کی کے سلسلہ میں نئے اور مبارک دُور کی پہلی تحریک خاندان مسیح موعود کیلئے وقف ہو جانے کی تحریک سے متعلق تھی اور وہ یہ کہ اتنا فارس اپنی تمام زندگی خدا تعالی کے تھی اور وہ یہ اپنی لئے وقف کر دیں.چنانچہ حضور نے.ارامان / مارچ پیش کے خطبہ جمعہ میں فرمایا :- ۱۳۳۳ :- ہے دیکھو ہمارے اوپر اللہ تعالیٰ کے اس قدر احسانات ہیں کہ اگر مسجدوں میں ہمارے ناک گھیس جائیں، ہمارے ہاتھوں کی ہڈیاں گھیس بھائیں تب بھی ہم اس کے احسانات کا شکر ادا نہیں کر سکتے.اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری موعود کی نسل میں ہمیں پیدا کیا ہے اور اس فخر کے لئے اس نے اپنے فضل سے ہمیں چن لیا ہے پس ہم پر ایک بہت بڑی ذمہ داری عائدہ ہے.دنیا کے لوگوں کے لئے دنیا کے اور بہت سے کام پڑے ہوئے ہیں مگر ہماری زندگی تو کلینر دین کی خدمت اور اسلام کے اختیار کے لئے وقف ہونی چاہیئے.اس تحر یک وقت پر سب سے پہلے حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب نے لبیک کہا.چنا نچہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی الصلح الموعود نے انہی دنوں فرمایا : "سب سے پہلے ہمارے خاندان میں سے عزیزم مرزا ناصر احمد نے اپنے آپ کو وقف کیا تھا “ ہے - دوسری تحریک حضرت سیدنا المصلح الموعود نے اسی تاریخ کو یہ فرمانی کہ تحریک وقت جائیداد میں تحریک وقت جائیداد ر ہم میں سے کچھ لوگ جن کو خدا تعالے توفیق دے اپنی جائیدادوں کو اس صورت میں دین کے لئے وقف کر دیں کہ جب سلسلہ کی طرف سے اُن سے مطالبہ کیا جائے گا.انہیں وہ بھائید او اسلام کی اشاعت کے لئے پیش کرنے میں قطعا کوئی عذر میں ہوگا " اس تحریک کے اعلان سے قبل پہلے خود حضور نے پھر چودھری محمد ظفراللہ خان صاحب نے اپنی بجائیدادیں اسلام احمدیت کے لئے پیش کر دی تھیں.ازاں بعد جب حضور نے اپنی زبان مبارک سے پہلی بار خطبہ جمعہ میں تحریک فرمائی تو قادیان کے دوسرے دوستوں نے بھی چند گھنٹوں کے اندر اندر قریباً چالیس لاکھ روپے کی جائیدادیں وقت کر دیں کہ جس " الفضل" بم ارامان ز مارچ یش صلا کالم ۲ : که " الفضل " ۱۲ صلح جنوری ۳۳۲ بر صفحه ۳ کالم ۲ 4 ما کالم لم : " الفضل " ۱۴ رامان / مارچ تر بیش صفحه ۱۳ کالم ۰۴
۵۵۹ پر حضرت نے اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا :.میں نے بھائی داد وقف کرنے کی تحریک کی تھی.قادیان کے دوستوں نے اس کے جواب میں شاندار نمونہ دکھایا ہے اور اس تحریک کا استقبال کیا ہے.بہت سے دوستوں نے اپنی جائیدادیں وقعت کر دی ہیں " سے قادیان کے بعد بیرونی مخلص جماعتوں نے بھی اس قربانی میں گوئے سبقت لے جانے کی مخلصانہ جد و جہد کی نتیجہ یہ نکلا کہ وقت ہونے والی جائیدادوں کی مالیت چند دنوں کے اندر اندر کروڈ تک جا پہنچی ہے اُن دنوں جوش کا یہ عالم تھا کہ جو احمدی ذاتی جائیدادیں نہ رکھتے تھے وہ اپنی ماہوالہ یا سال بھر کی آمدنیاں وقف کر کے دیوانہ وار اس مالی جہاد میں شامل ہو گئے.تحریک وقعت زندگی میری کریں.چنانچہ فرمایا :- حضرت سیدنا المصلح الموعود نے ۲۲ رمان مارچ پیش کو تیسری اہم تحریک یہ باید فرمائی کہ ہر قابلیت کے نوجوان خدمت دین کے لئے زندگیاں وقف ضروری ہے ور جسمانی کام ایک ایک آدمی سے بھی پھیل سکتے ہیں کیونکہ جسم کا فتح کرنا آسان ہے مگر روحانی کاموں کے لئے بہت آدمیوں کی ضرورت ہوا کرتی ہے کیونکہ دلوں کا فتح کرنا بہت مشکل کام ہے.اس لئے ضرورت ہے کہ ہمارے پاس اتنے معلم ہوں کہ ہم انہیں تمام جماعت میں پھیلا سکیں.کہ ہماری جماعت کا ہر زمیندار، تاجرہ، پیشرور ، وکیل، بیرسٹر، ڈاکٹر، انجنیر ایک خاص حد تک قرآن حدیث اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا علم رکھتا ہو مگر یہ نہیں ہو سکتا جب تک ہمارے پاس علماء کی کثرت نہ ہو...اسلام کے نزدیک ہر شخص اگر خدمت دین کرے تو وہ معزز اور ہر تو سردار ہے مگراُن قوموں کے لئے جو سیاسی طور پر معتز سمجھی جاتی ہیں ، بہت شرم کی بات ہوگی اگر وہ قربانیوں میں حصہ نہ لینے کی وجہ سے گر جائیں اور سیاسی طور پر ادنی سمجھی بھانے والی قومیں آگے آ جائیں.پس میں تحریک کرتا ہوں کہ سیاسی طور پر معزز سمجھی جانے والی اقوام کے لوگ اپنے کو اور اپنی اولادوں کو دین کے لئے وقف کریں..کام کی وسعت کا تقاضا یہ ہے کہ ہر سال کا " الفضل “ ۳۱ رامان / مارچ میش صفحه ۵ کالم ۲ سے وقعت مخلصین کے جائیدادیں وقف کرنے والے معین کی متعدد فرستین افضی میں شائع شدہ ہیں.اس سلسلہ میں پولیسویں فہرست ۲۷ شہادت / اپریل امہ میں صفحہ ہ.کے پرچے میں بھی چھپی نہیں کے مطابق اس وقت تک کے وقف کنندگان کی تعداد ۲۲۰۱ بیسی
۵۶۰ ایک سو نہیں بلکہ دو سو مبلغ رکھے جائیں..پس میں ایک تحریک تو بہ کرتا ہوں کہ دوست مدرسہ احمدیہ میںاپنے بچوں کو بھیجیں تا انہیں خدمت دین کے لئے تیار کیا جا سکے.اور دوسری تحریک انجمن کو یہ کرتا ہوں کہ پڑھائی کی سکیم ایسی ہو کہ تھوڑے سے تھوڑے عرصہ میں زیادہ سے زیادہ دینی تعلیم حاصل ہو سکے اور اس رستہ میں جو چیز بھی حائل ہو اُسے نکال دیا جائے مولوی فاضل بنانا ضروری نہیں جس نے ڈگری حاصل کرنی ہو وہ باہر سیلا جائے.اس دوغلا پن کو ڈور کرنا ضروری ہے.دو کشتیوں میں پاؤں رکھنے والا کبھی ساحل پر نہیں پہنچا کرتا.پس تعلیم کا نظام ایسے رنگ میں کیا جائے کہ جلد سے جو مکمل علما ہیں مل سکیں، فقہ ، تفسیر، حدیث ، تصوف اور کلام وغیرہ علوم میں ایسی دسترس حاصل کر سکیں کہ چوٹی کے علماء میں ان کا شمار ہو بلکہ دنیا میں صرف وہی علماء سمجھے جائیں.اور اسلام کے ہر فرقہ اور ہر ملک کے لوگ اختلاف عقائد کے با وجود تسلیم کریں کہ اگر ہم نے ان عوام کو یکھنا ہے تو احمدی علماء سے ہی سیکھنا چاہئے....ایسے نوجوان بھی اپنی زندگیاں وقوف کریں بہنوں نے سائنس میں میٹرک پاس کیا ہو یا اس سال پاس ہونے کی امید ہو.اسی طرح گریجوایٹ وغیرہ ، تا جو ڈاکٹری کے لئے مناسب ہوں انہیں ڈاکٹری تعلیم دلوا کر ادنی اقوام میں جن تک ابھی اسلام کا نور نہیں پہنچا، تبلیغ کے لئے بھیجا جا سکے.اور جو دوسرے کاموں کے لئے مناسب ہوں انہیں دوسرے کاموں کے لئے تعلیم دلائی جائے.ہندو ان لوگوں کو ابھی تک ذلیل سمجھتے ہیں.ان سے چھوت چھات کرتے ہیں.ان غریبوں کو غلام قرار دے رکھا ہے.اس لئے جب ہمدردی سے ان کی خدمت کی بجائے اور احسن رنگ میں اسلامی تعلیم اُن کے سامنے پیش کی جائے تو عیسائیوں کی نسبت کئی گنا زیادہ کامیابی ہوسکتی ہے یہیں یہ راستہ بھی تو تین دنیوی تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان بھی اپنے آپ کو وقف کر سکتے نہیں اور اُن سے فائدہ بھی اُٹھایا جاسکتا ہے.مگرید یا درہے کہ تعلیم اور کام کے متعلق ان کا کوئی دخل نہ ہوگا.یہ کام ہمارا ہوگا کہ ہم فیصلہ کریں کہ کس سے کیا کام لیا جائے گا ؟ بعض لوگ حماقت سے سمجھتے ہیں کہ جو تقریرہ اور تحریر کرے وہی مبلغ ہے.حالانکہ اسلام تو ایک محیط کل مذہب ہے.اس کے احکام کی تکمیل کے لئے ہمیں ہر قسم کے آدمیوں کی ضرورت ہے.وہی مبلغ نہیں جو تبلیغ کے لئے باہر جاتا ہے.جو سلسلہ کی جائیدادوں کا انتظام تندہی اور اخلاص سے کرتا ہے اور باہر بجانے والے مبلغوں کے لئے اور سلسلہ کے لڑیچر کے لئے روپیہ زیادہ سے زیادہ مقدار میں کھاتا ہے وہ اس
۵۶۱ سے کم نہیں اور خدا تعالیٰ کے نزدیک مبلغوں میں شامل ہے جو سلسلہ کی عمارتوں کی اخلاص سے نگرانی کرتا ہے وہ بھی مبلغ ہے جو سلسلہ کے لئے تجارت کرتا ہے وہ بھی مبلغ ہے.جو سلسلہ کا کارخانہ چلاتا ہے وہ بھی مبلغ ہے.ہو زندگی وقف کرتا ہے اور اُسے سلسلہ کے خزانہ کا پہریدار مقر کیا جاتا ہے وہ بھی مبلغ ہے.کسی کام کی نوعیت کا خیال دل سے نکال دو اور اپنے آپ کو سلسلہ کے ہاتھ میں دے دو پھر جہاں تم کو مقر کیا جائے گا وہی مقام تمہاری نجات اور برکت کا مقام ہوگا یہ ہے اس عظیم الشان تحریک پر بھی مخلصین جماعت نے شاندار جوش و خروش کا مظاہرہ کیا اور ڈیڑھ ماہ کے اندر اندر قادیان اور بیرونی مقامات کے ۳۳۵ مخلصین نے (جن میں ہر طبقہ ، ہر عمر اور ہر قابلیت کے افراد شامل تھے، اپنے آقا کے منصور وقف زندگی کی درخواستیں پیش کر دی کے علاوہ ازیں حضور کے ارشاد مبارک کی تعمیل میں مدرسہ احمدیہ کے نصاب میں بھی مناسب تبدیلی کر دی گئی.لئے اہم کوئی مصلح موعود کے بعد چوتھی تحریک تعلیم الاسلام کا لج جیسے تعلیم الاسلام کا بیج کے.اہم ادارہ کے قیام و اخبار کے لئے ڈیڑھ لاکھ روپیہ سندھ کی تھی جو حضور ڈیڑھ لاکھ رویہ چندہ کی تحریک نے رمان مرد کو جماعت کے سامنے بھی کی کوالی فنڈ میں سب سے پہلے نمبر پر خدا کے موعود خلیفہ سید نا لمصلح الموعود نے حصہ لیا اور گیارہ ہزار روپیہ کی رقم کا لج فنڈ میں مرحمت فرمائی جس میں سے پانچ ہزار روپیہ اپنی طرف سے اور ایک ایک ہزار حضرت سیدہ امتد الحی صاحب ، حضرت سیده ساره بیگم صاحبه حضرت سیدہ ام طاہر احمد مصاحبه حضرت سیدہ ام وسیم بعد حضرت سیدہ ام متین کی طرف سے تھا بھلاوہ ازیں حضرت سیدہ ام وسیم نے ہمیں روپے اور حضرت سیدہ ام مستین صاحبہ نے اپنی طرف سے از خود پچاس روپے چندہ بھی دیا تھا.علاوہ ازیں حضور نے اپنی دو صاحبزادیوں سیدہ امتہ الحکیم صاحبہ اور سیدہ استرالیا صاحبین کی طرف سے بھی بچائیں روپے عطا فرمانے لگے حضرت مصلح موعود اور حضور کے اہلبیت کے علاوہ خاندان کی موعود اور جماعت کے دوسرے بہت سے مخلص اور مخیر دوستوں نے بھی نہایت فیاضی سے چندہ دیا ہے جماعت کو ماہرین علوم پیا کرنے کی ترکی مینا نانی نے سی و مالی امور کی توجہ اس ہی تعالیٰ سیدنا المصلح کے شروع میں آر ہے ہیں.لة الفضل اورامان / مارچ ارتش سفته -- با سه القضاع " ہجرت امنی اش صفحه ۱۶ ۳ الفضل " ۳۱ انان مارچ ۱۳۲۳ " " مش مهم وله الفضل ۲۳ ہجرت حتی سالم و کالم ۳ یا کے چندہ دہندگان کے استان نامی الفضل".یش مند ۲۰۵ انا اکتوبر صفحه ۵ - ۶ ، ۲۵ خاو باکتری یا نبوت را برایش سترہ میں شائع شدہ ہیں بے تعلیم اور یہ کالی کے نہیں ہے
۵۶۲ طرف مبذول فرمائی کہ جماعت میں جلد سے جلد علماء اور علوم اسلامیہ کے ماہرین پیدا کرنے ضروری ہیں تا پہلے بزرگوں کے قائم مقام ہو سکیں اور جماعت کے لئے من حیث الجماعت اپنے علمی مقام سے گرنے کا امکان باقی نہ رہ ہے.چنانچہ حضور نے مجلس مشاورت دیش کے دوران فرمایا :- خدا تعالے کی حقیقت پوری ہوئی اور میر صاحب وفات پا گئے.اُن کے انتقال سے جماعت کو اس لحاظ سے شدید صدمہ پہنچا ہے کہ وہ سلسلہ کے لئے ایک نہایت مفید وجود تھے.مگر یاد رکھو مومن بہادر ہوتا ہے اور بہادر انسان کا یہ کام نہیں ہوتا کہ جب کوئی ابتدار آئے تو وہ رونے لگ جائے یا اس پر افسوس کرنے بیٹھ جائے.بہادر آدمی کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ فوراً اپنی غلطی کو درست کہ نا شروع کر دیتا ہے.اور نقصان کو پورا کرنے میں مشغول ہو جاتا ہے.وہ شخص جو رونے لگ جاتا ہے مگر اپنی غلطی کی اصلاح نہیں کرتا وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا.کامیاب ہمیشہ وہی ہوتا ہے جو ابتلاء کے بعد اپنے آپ کو ایسے رنگ میں تیار کرنا شروع کر دیتا ہے کہ وہ پہلے سے زیادہ مضبوط اور با ہمت ہو جاتا ہے.ہمارے لئے جو بلوار آئے ہیں یہ خدا تعالے کی طرف سے ایک بہت بڑا تازیانہ ہیں کہ تم کیوں ایسی حالت میں بیٹھے ہوئے ہو کہ جب کوئی شخص پہلا جاتا ہے تو تم کہتے ہو اب کیا ہوگا ؟ تم کیوں اپنے آپ کو اس حالت میں تبدیل نہیں کر لیتے کہ جب کوئی شخص مشیت ایزدی کے ماتحت فوت ہو جائے تو تمہیں ذرا بھی یہ سیکر.محسوس نہ ہو کہ اس سلسلہ کا کام کس طرح چلے گا بلکہ تم میں سینکڑوں لوگ اس جیسا کام کرنے والے موجود ہوں.ایک غریب شخص جس کے پاس ایک ہی کوٹ ہو.اگر اس کا کوٹ ضائع ہو جائے تو اُسے سخت صدمہ ہوتا ہے لیکن اگر ایک امیر شخص جس کے پاس پچاس کوٹ ہوں.اس کا اگر ایک کوٹ ضائع بھی ہو ائے تو اُسے خاص صدمہ نہیں ہوتا کیونکہ وہ بھالتا ہے میرے پاس انچاس کوٹ اور موجود ہیں.اسی طرح ہماری جماعت اگر روحانی طور پر نہایت مالدار بن جائے تو اُسے کسی شخص کی موت پر کوئی گھبراہٹ ناحق نہیں ہو سکتی.تم اپنے آپ کو روحانی لحاظ سے مالدار بنانے کی کوشش کرو.تم میں سینکڑوں فقیہہ ہونے چاہئیں.تم میں سینکڑوں محدث ہونے چاہئیں.تم میں سینکڑوں مفتیتر ہونے چاہئیں.تم میں سینکڑوں علیم کلام کے ماہر ہونے چاہئیں.تم میں سینکڑوں علیم اخلاق کے ماہر ہونے چاہئیں.تم میں سینکڑوں علیم تصوف کے ماہر ہونے چاہئیں.تم میں سیکڑوں منطق اور فلسفہ اور فقہ اور لغت کے ماہر ہونے چاہئیں ) تم میں سینکڑوں دنیا کے ہر علم کے ماہر ہونے چاہئیں.تاکہ جب اُن سینکڑوں میں سے کوئی شخص فوت
۵۶۳ ہو جائے تو تمہارے پاس ہر علم اور ہر فن کے ۴۹۹ عالم موجود ہوں اور تمہاری تو بجہ اس طرف پھرنے ہی نہ پائے کہ اب کیا ہو گا جو چیز ہر جگہ اور ہر زمانہ میں مل سکتی ہو اس کے کسی حصہ کے ضائع ہونے پر انسان کو صدمہ نہیں ہوتا.کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ایسی سینکڑوں چیزیں میرے پاس موجود ہیں.اسی طرح اگر ہم میں سے ہر شخص علوم و فنون کا ماہر ہو تو کسی کو خیال بھی نہیں آسکتا کہ فلای عالم تو مر گیا.اب کیا ہو گا.یہ خیال اسی وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنے وجودوں کو نا در بننے دیتے ہیں اور اُن جیسے سینکڑوں نہیں ہزاروں وجود اور پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرتے.اگر ان کے نادر ہونے کا احساس بھاتا رہے جس کی سوائے اس کے اور کوئی صورت نہیں ہو سکتی کہ ان کے قائم مقام ہزاروں کی تعداد میں ہمارے اندر موجود ہوں تو کبھی بھی جماعت کو یہ خیال پیدا نہ ہو کہ فلاں شخص تو قوت ہو گیا.اب کیا ہوگا ؟ *..بیمار ہے دیکھو.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ.تم نیکی کے میدان میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو.اگر ہم قرآن کریم کے اس حکم کے مطابق یہ اشتیاق رکھتے کہ ہم دوسروں سے آگے بڑھ کر رہیں.اگر ہم میں سے ہر شخص اشتیاق کی روح کو اپنے اندر قائم رکھتا تو آج ہم میں سے ہر شخص بڑے سے بڑا محدت ہوتا.بڑے سے بڑا مفتر قرآن ہوتا.بڑے سے بڑا عالم دین ہوتا.اور کسی کے دل میں یہ احساس تک پیدا نہ ہوتا کہ اب جماعت کا کیا بنے گا ؟ لئے یہ خطرہ کی بات نہیں ہے کہ حضرت خلیفہ اول بہت بڑے عالم تھے جو فوت ہو گئے یا مولوی عبد تکریم صاحب بہت بڑے عالم تھے جو فوت ہو گئے یا مولوی برہان الدین صاحب بہت بڑے عالم تھے جو فوت ہو گئے یا حافظ روشن علی صاحب بہت بڑے عالم تھے جو فوت ہو گئے یا قاضی امیر سین صاحب بہت بڑے عالم تھے جو فوت ہو گئے یا میر محمد اسحاق صاحب نے بہت بڑے عالم تھے جو فوت ہو گئے.بلکہ ہمارے لئے خطرہ کی بات یہ ہے کہ جماعت کسی وقت بحیثیت جماعت مر جائے اور ایک عالم کی جگہ دوسرا عالم ہمیں اپنی جماعت میں دکھائی نہ دے " لے اس پانچویں تحریک کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور سیرت الصلح المورونی اله تعالی عنہ کی خصوصی توجہ نئے اور نوجوان علماء کی ایک کثیر تعداد پیدا ہوگئی جس کے نتیجہ میں سلسلہ میں پیدا شدہ مخلا کو پُر کرنے میں بھاری مدد ملی.سے رپورٹ مجلس مشاورت رش صفر ۱۷۴ تا ۱۰۸ ۲۱۹۴۴
۵۶۴ حفاظی پیدا کرنے کی تحریک وہ ره ۲۴ شہادت / اپریل بیش کو حضرت خلیفہ اسي الثاني المعلم المو رضی اللہعنہ نے چھٹی تحریک جماعت میں حفاظ پیدا کرنے کی فرمائی ہے جس کا اثر یہ ہوا کہ جماعت کے اندر اس مقدس فریضہ کی تکمیل کیلئے پہلے سے زیادہ توجہ پیدا ہوگئی.سيدنا المصلح الموعود نے یکم ہے امتی ہی کو محبت امکانات تبلیغ کرنے کی ولولہ انگیز تحریک کے سامنے ساتویں اہم تحریک بیہ فرمائی کہ دنیامیں تبلیغ اسلام کے لئے ہزاروں میلتوں کی ضرورت ہے.یہ ضرورت صرف اس طرح پوری ہو سکتی ہے کہ احمدی بدھ بھکشوؤں اور حضرت سیج کے حواریوں کی طرح قریہ قریہ، بستی بستی میں نکل کھڑے ہوں.چنانچہ فرمایا :- دنیا میں تبلیغ کرنے کے لئے ہمیں ہزاروں میلقوں کی ضرورت ہے مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ مبلغ کہاں سے آئیں اور اُن کے اخراجات کون برداشت کرے.میں نے بہت سوچا ہے.مگر بڑے غور و فکر کے بعد سوائے اس کے اور کسی نتیجہ پر نہیں پہنچا کہ جب تک وہی طریق اختیار نہیں کیا جائے گا جو پہلے زمانوں میں اخت تیار کیا گیا تھا اس وقت تک ہم کامیاب نہیں ہو سکتے...حضرت مسیح ناصری نے اپنے حواریوں سے کہا کہ تم دنیا میں نکل بھاؤ اور تبلیغ کرو یجب رات کا وقت آئے تو جس بستی میں نہیں ٹھہر نا پڑے اس لیستی کے رہنے والوں سے کھانا کھاؤ اور پھر آگے چل دو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بڑی حکمت سے یہ بات اُمت کو سکھائی ہے.آپ نے فرمایا ہر بستی پہ باہر سے آنے والے کی مہمان نوازی تین دن فرض ہے.ایک صحابی نے عرض کیا.یا رسول الله اگر بستی والے کھانا نہ کھلائیں تو کیا کیا جائے ؟ آپ نے فرمایا.تم زیر دستی اُن سے ملے لو.گویا ہمارا حق ہے کہ ہم تین دن ٹھہریں اور بستی والوں کا فرض ہے کہ وہ تین دن کھانا کھلائیں.میں سمجھتا ہوں اس میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تبلیغ کے طریق کی طرف اشارہ کیا ہے اور فرمایا ہے.اگر تم کسی بستی سے تین دن کھانا کھاتے ہو تو یہ بھیک نہیں ہاں اگر تین دن سے زائد ٹھہر کر تم اُن سے کھانا مانگتے ہو تو یہ بھیک ہوگی.اگر ہماری جماعت کے دوست بھی اسی طرح کریں کہ وہ گھروں سے تبلیغ کے لئے نکل کھڑے ہوں.ایک ایک گاؤں اور ایک ایک بستی اور ایک ایک شہر میں تین تین دن ٹھہرتے جائیں اور تبلیغ کرتے جائیں.اگر کسی گاؤں والے لڑیں تو جیسے حضرت مسیح ناصری نے کہا تھا وہ اپنے پاؤں سے خاک له الفضل ۲ تا جولائی ہش مند ۳ کالم ، +
04A جھاڑ کر آگے نکل جائیں تو میں سمجھتا ہوں تبلیغ کا سوال ایک دن میں حل ہو جائے" سے مالی تحریکوں کے ساتھ ساتھ جماعت میں روحانی انقلاب بر پا کرنے کے لئے تسبیح وتحمید اور درود شریف حضور نے بعض اخلاقی اور روحانی رنگ کی تحریکیں بھی فرمائیں مثلا ۱۲ بوست پڑھنے کی اہم تحریک منی میش کو یہ آٹھویں تحریک فرمائی کہ احمدی نمازیں سنوار کر اور باجماعت پڑھیں اور روزانہ کم از کم بارہ دفعہ تسبیح و تحمید اور درود شریف کا التزام کریں.چنانچہ فرمایا.رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں.گلستانِ حَبِيبَنَانِ إِلَى الرَّحْمَنِ خَفِيفَتَانِ عَلَى النِّسَانِ ثَقِيلَتَانِ فِي الْمِيزَانِ سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ - فرماتے ہیں.دو کھے ایسے ہیں کہ رحمن کو بہت پیارے ہیں.خَیفَتَانِ عَلَى النِّسَانِ زبان پر بڑے ہلکے ہیں.عالم ، جاہل ، عورت، مرد ، بوڑھا، بچہ ، ہر شخص ان کلمات کو آسانی سے ادا کر سکتا ہے....جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تسبیح و تحمید اور تکبیر کی طرف توجہ دلائی ہے.وہاں تسبیحوں میں سے یہ تسبیح آپ نے بڑی اہم قرار دی ہے.پس میں جماعت میں تحریک کرتا ہوں کہ ہر احمدی کم سے کم بارہ دفعہ دن میں یہ تسبیح روزانہ پڑھ لیا کرے.وہ چاہنے تو سوتے وقت پڑھ لے.چاہے تو ظہر کے وقت پڑھ لے بچا ہے تو عصر کے وقت پڑھ لے.بچا ہے تو مغرب کے وقت پڑھ لے.چاہے تو عشاء کے وقت پڑھ لے.چاہیے تو فجر کے وقت پڑھ لے.بہر حال ہر احمدی یہ کہ ذکر ہے کہ وہ روزانہ بارہ دفعہ سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيمِ پڑھ لیا کرے گا.اسی طرح دوسری چیز جو اسلام کی ترقی کے لئے ضروری ہے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکات اور آپ کے فیون کا دنیا میں وسیع ہوتا ہے اور ان پر کامت اور فیونی کو پھیلانے کا بڑا ذریعہ درود ہے.بیشک ہر نماز کے وقت تشہد کے وقت درود پڑھا جاتا ہے مگر وہ جبری درود ہے اور جبری ورود اتنا فائدہ نہیں دیتا جتنا اپنی مرضی سے پڑھا ہوا درود انسان کو فائدہ دیتا ہے.وہ درود بیشک نفس کی ابتدائی صفائی کے لئے ضروری ہے.لیکن تقرب الی اللہ کے حصول کے لئے اس کے علاوہ بھی درود پڑھنا چاہئیے.پس میں دوسری تحریک یہ کرتا ہوں کہ ہر شخص کم از کم باره دفعه روزانہ درود پڑھنا اپنے اوپر فرض قرار دے لے...پس جو لوگ محبت اور اخلاص کے ساتھ درود پڑھیں گے وہ ہمیشہ ہمیش کے لئے اللہ تعالے کی برکات سے لے " الفضل " ا ر فتح / دسمبر ۱۳۳۳ به مش صفحه ۵۰۴ ۰
044 حصہ پائیں گے.اُن کے گھر رحمتوں سے بھر دیئے جائیں گے.اُن کے ولی اللہ تعالیٰ کے انوار کا جلوہ گاہ ہو جائیں گے اور نہ صرف ان روحانی تعمار سے وہ لذت اندوز ہوں گے بلکہ محمد صلے اللہ علیہ وسلم کی محبت کی وجہ سے چونکہ اُن کی خواہش ہوگی کہ اسلام پھیلے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام اکنات عالم تک پہنچے اس لئے وہ اپنے اس ایمانی جوش اور دردمندانہ دکھاؤں کے نتیجہ میں اسلام کے غلبہ کا دن بھی دیکھ لیں گے.اور سچی بات تو یہ ہے کہ دعائیں ہی ہیں جن سے یہ عظیم الشان کام ہو سکتا ہے.دنیوی کوششیں تو محض سہارے اور ہمارے اخلاص کے امتحان کا ذریعہ ہیں ورنہ قلوب کا تغیر محض خدا کے فضل سے ہوگا اور اس فضل کے نازل ہونے میں ہماری وہ دعائیں محمد ہوں گی جو ہم عاجزانہ طور پر اس سے کرتے رہیں گے راہ اللہ تعالی کی طرف سے حضرت سیدنا المصلح الموجود کو الہاما اصلاح نسواں کیلئے الہامی تحریک پر بھی بنایا گیا.یہ اگر تم پچاس فیصدی عورتوں کی اصلاح کر لو تو اسلام کو ترقی حاصل ہو جائے گی ہے اس الہام پر حضور نے جماعت کو خصوصاً لجنات کو توجہ دلائی کہ وہ اصلاح کریں.یہ اس مبارک دور کی نویں اہم تحریک تھی.-} ہو سمیت اصلی میش کو حضرت میرالمومنین خلیفتہ اسی ٹھوکوں کو کھانا کھلانے کی تحریک الثانی المصلح الموعود نے جماعت احمدیہ کو عموماً اور اہل قادیان) کو خصوصاً یہ اہم دسویں تحر یک فرمائی.ہر شخص کو اپنے اپنے محلہ میں اپنے ہمسائیوں کے متعلق اس امر کی نگرانی رکھنی چاہئیے کہ کوئی شخص ٹھو کا تو نہیں.اور اگر کسی ہمسایہ کے متعلق اُسے معلوم ہو کہ وہ بھوکا ہے تو اس وقت تک اُسے روٹی " نہیں کھانی چاہئیے جب تک وہ اُس بھوکے کو کھانا نہ کھلا لے ۵۳ تحریک جلت الفصول ا ا ا ا صورت " حلف الفضول" ایک معاہدہ تھا جو حضرت رسول کریم صل اللہ علیہ سلم کے زمانہ میں بعثت سے قبل ہو ا جس میں زیادہ جوش کے ساتھ حصہ لینے الفضل ۲۳ اجرت امیرش صفحه ۵-۶ : له الفصل ۲۴ ہجرت مٹی سرش صفحه ۲ کالم ۲ : الفضل اور احسان جون ۱۳۳۳ بیش صفحہ ۳ کالم ۲ کے عربی میں حلفت کا لفظ معاہدہ کے لئے بھی مستعمل ہے ؟
046 والے تین فضل نام کے آدمی تھے اور اسی لئے اس کو حلف الفضول کہتے ہیں.یہ معاہدہ عبداللہ بن بعد عمان کے مکان میں ہوا.اس کے اولین اور پر جوش داعی آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے چچا اور خاندان کے سر براہ زیرین مطلب تھے.اور طے پایا کہ ہم مظلوموں کو ان کے حقوق دلوانے میں مدد کیا کریں گئے اور اس بات میں ایک دوسرے کی تائید کریں گے.آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حمایت مظلوم کی اس تحریک میں بنفس نفیس شرکت فرمائی.حضور عہد نبوت یں بھی فرمایا کرتے تھے کہ میں عبدالدین جدعان کے مکانپر ایک ایسے معاہدہ میں شریک ہوا تھا کہ اگر آج اسلام م کے زمانہ میں بھی مجھے کوئی اس کی طرف بلائے تو میں اس پر لبیک کہوں کہ سیدنا المصلح الموعود کے قلب مبارک پر القاء کیا گیا کہ اگراسی قسم کا ایک معاہدہ آپ کی اولاد بھی کرے اور پھر اس کو پورا کرنے کی کوشش کرے تو خدا تعالئے اُن کو ضائع نہیں کرے گا بلکہ ان پر اپنا فضل نازل فرمائے گا.اس الہام ربانی کی بنا پر حضور نے ہر ماہ وفا جولائی 3 کے خطبہ جمعہ میں تحریک فرمائی کہ جماعت احمدیہ کے بعض افراد معاملات کی صفائی اور مظلوم کی امداد اور دیانت وامانت اور عدل و انصاف کے قیام کے لئے باقاعدہ عہد کریں.حضرت سیدنا المصلح الموعود نے حلف الفضول" کی مبارک تحریک میں شمولیت کے لئے یہ شرائط تجویز فرمائیں کہ جو لوگ اس میں شامل ہوتا چاہیں اُن کے لئے لازمی ہے کہ سات دن تک متواترہ اور بلاناغہ استخارہ کریں.بعشاء کی نماز میں یا نماز کے بعد دو نفل الگ پڑھ کر دعا کریں کہ اسے بخدا اگر میں اس کو بیاہ سکونتگا تو مجھے اس میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرما.ایک اور شرط یہ ہوگی کہ ایسا شخص تخواہ امام الصلوۃ کے ساتھ اسے ذاتی طور پر کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو مرکزی حکم کے بغیر اس کے پیچھے نماز پڑھنا ترک نہیں کرے گا اور اپنے کسی بھائی سے خواہ اُسے شدید تکلیف بھی کیوں نہ پہنچی ہو اس سے بات چیت کرتا ترک نہ کرے گا اور اگر وہ دعوت کرے تو اُسے رد نہ کرے گا.ایک اور شرط یہ ہے کہ سلسلہ کی طرف سے الفضل بن فضاله الفضل بن وداعه الفضل بن الحرث وستر علبه صفحه ها تالیف اور ملا علی بن برأن الدين البنات فعلی ہ شاید یہ اسی خیال کا اثرتھا کہ جب ایک دفعہ حضرت امیرمعاویہ کے نظر میں ان کے بھتیجے ولید بن عقبہ بن ابی سفیان (امیر دینی نے حضرت سینڈ حسین بن علی ابن ابی طالب کا کوئی حق دبا لیا تو حضرت امام حسین نے نے فرمایا.خدا کی قسم ! اگر ولی نے میرا حق نہ دیا تو میں تلوار نکال کر مجھے نبوی میں کھڑا ہو جاؤں گا اور صلف الفضول کی طرف لوگوں کو بلاؤں گا حضرت عبد اللہ بن زبیر نے سنا تو فرمانے لگے کہ اگر حضرت حسین نے اس قسم کی طرف بلایا تو میں اس پر ضرور لبیک کہوں گا اور ہم یا تو اُن کا حق دلوائیں گئے اور یا اس کوشش میں سب مارے بھائیں گے بعض اور لوگوں نے بھی اسی قسم کے الفاظ کہے جس پر ولید دب گیا اور اس نے حضرت حسین علیہ سلام کا حق ادا کر دیا.لا ابن ہشام بحوالہ سیرت خاتم النبیین حصہ اول صفحه ۱۳۵ - ۱۳۶ طبع دوم دسمبر در مولفه تم الانبیاء حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمد صاحب) له الفضل ۲۲ وقار / جولائی همایش صفحه ۲ کالم ۳ * " ٢٣ جولالى" ۳۳۳ ۳*
اسی یوسزادی جائے گی اُسے بخوشی برداشت کرے گا اور ایک ایہہ اس کام میں نفسانیت اور ذاتی نفع نقصان کے خیالات کو نظر انداز کر دیگا " سے اس دعوت پر وسط پیش تک بود دوست شریک معاہدہ ہوئے ان کی تعداد ۷۷ انتھی بلے ۱۲- سیدنا المصلح الموعود نے ۲۳ احسان جون برش کے خطبہ نوجوانان احمدیت کو بالالتزام جمعہ میں بارھویں تحریک به درمانی کہ نماز تہجد پڑھنے کی تحریک خدام کا فرض ہے کہ کوشش کریں تو قیدی تو جو ہے نوجوان نماز تہجد کے عادی ہوں یہ ان کا اصل کام ہو گا جس سے سمجھا جائے گا کہ دینی روح ہمارے نوجوانوں میں پیدا ہو گئی ہے قرآن کریم نے تہجد کے بارے میں اشد وظا فرمایا ہے یعنی یہ نفس کو مارنے کا بڑا کارگر مربہ ہے....با قاعدہ تہجد پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ سو.فیصدی تہجد گزار ہوں الا ماشاء اللہ سوائے ایسی کسی صورت کے کہ وہ مجبوری کی وجہ سے ادا نہ کر سکیں اور تعدا تعالیٰ کے حضور ایسے معذور ہوں کہ اگر فرض نماز بھی جماعت کے ساتھ ادانہ کر سکیں تو قابل معافی ہوں گے“ سے ۱۳ حضرت سيدنا المصلح الموعود نے ملک میں تبلیغ اسلام کو وسیع پیمانے ہندوستان میں سات مراکزہ پر شروع کرنے کے لے اور جوانی کوتحریک فرائی کہ ہندوستان بنانے کی تحریک کے سات مقا امینی پشاور اکراچی کی میز ، مدراس کمیٹی ، کلکتہ، دہلی اور لاہور میں تبلیغی مراکز قائم کئے جائیں ؟ اس تحریک کے مطابق چند ماہ کے اندر اندر بیٹی ، کلکتہ اور کراچی میں باقاعدہ مشن کھول دیئے گئے.حضور نے ان مقامات پر قیام مساجد کی تحریک بھی فرمائی.کراچی میں عرصہ ہوا کہ حضور پہلے ہی پار کنال زمین خرید چکے تھے.اس تحریک کے مطابق پہلے ہی سال دہلی کی جاعت نے تیس ہزار کے وعدے پیش کئے ہے ۱۴ حضرت امیر المومنین کو رڈیا میں دکھایا گیا کہ کسی احمدی ترین بیویوں میں عدل انصاف کرنے کی تحریک کی بیویاں میں گروہ ان میں سے اک کے ساتھ جھا سة الفضل كم صلح البنوری مش صفحه ۳ کالم ۲۱ سله الفضل ۱ احسان این کار میں مسفر ار اس شمارہ میں مقید کرنیوالوں کی تیسری فہرست موجود ہے سے افضل عروف جولائی کار می سروس کالم او که " الفضل مهم ظهور است هم " الفصل" يكم مسلح جنوری در صفحه ۲ کالم ۲-۰۳ صفحواه i
049 سلوک نہیں کرتا.اس پر آپ کی زبان پر یہ الفاظ جاری ہوئے آؤ اس ظلم کو مٹا دیں" حضور نے ظہور / اگست کو مجلس علم و عرفاں کے دوران یہ رویا ر سنائی اور پھر تحریک فرمانی کہ ہماری جماعت کے دوستوں کو اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیئے.جہاں انہیں کوئی ایسا واقعہ نظر آئے اور دیکھیں کہ ظلم ہو رہا ہے تو اس آدمی کو مجبور کریں کہ وہ انصاف کرنے یا جائز طور پر ایک کو طلاق دے دے اور یا پھر اُسے جماعت کا عضو معطل سمجھا جائے.جو شخص احکام شریعیت کی اس طرح اعلانیہ خلاف ورزی کرتا ہے وہ قیامت کے دن آدھا اُٹھایا جائے گا.وہ جماعت کو کیا فائدہ دے سکتا ہے یا لے نیا کی مشہور بنوں میں تراجم کروں جوں جوں دوسری جنگ عظیم کے خانہ کا وقت قریب کا کی ماریانا آرہا تھا حضرت خلیفہ اسی الثانی المصلح الموعود کی تو یہ دنیا اور وہ تبلیغی لٹریچر شائع کرنے کی تحریک بھر میں رہنی جنگ کے آغاز کی مختلف سکیموں پر بڑھتی جا رہی تھی.اس سلسلہ میں حضور نے بر اغار) اکتوبر ان کو دنیا کی سات مشہور زبانوں انگریزی ، روسی ، جرمن، فرانسیسی، اطالوی ، ڈیھ ، ہسپانوی اور پرتگیزی زبان میں قرآن مجید کے تراجم کی عظیم الشان تحریک کی.اور پھر اپنے عہد خلافت میں اس کی تکمیل کے لئے کامیاب جد و جہد فرمائی جیسا کہ تاریخ احمدیت جلد رشتم صفحه ها) میں ذکر کیا جا چکا ہے.اس اہم اور اس دور کی پندرھویں تحریک کو عملی جامہ پہنانے اور ضروری اخراجات مہیا کرنے کے لئے حضور نے شروع میں یہ اعلان فرمایا کہ اطالوی زبان میں قرآن مجید کے ترجمہ کا خرچ میں ادا کروں گا.یہ انتخاب خدا تعالیٰ کے القاء کے تحت تھا.چنانچہ خود ہی فرمایا :- خدا تعالے نے میرے دل میں ڈالا کہ چونکہ پہلے مسیح کا خلیفہ کہلانے والا اٹلی میں رہتا ہے.اس مناسبت سے قرآن مجید کا جو ترجمہ اطالوی زبان میں شائع ہو وہ مسیح محمدی کے خلیفہ کی طرف سے سے ہونا چاہیئے" اس اعلان کے ساتھ ہی حضور نے جرمن ترجمہ کا خرچ ہندوستان کی لجنہ اماء اللہ کے ذمہ اور ایک ترجمہ قرآن له الفضل ۳۱ ظہور / اگست سایر مش صفحہ یہ کالم او سے انگریزی زبان میں ترجمہ کا کام پہلے ہی سے جاری تھا اس لئے والفضل ۲۷ اضاء / اکتوبر بیش صفحه ۲-۹۳ عملا سات تراجم کا معاملہ زیر خور تھا..گے" الفضل ۲۷ اتحاد ، اکتوبر تار میش مسفر ۲ کالم ۲ ۲
۵۷۰ کی رقم جماعت احمدیہ قادیان کے ذمہ ڈالی اور باقی چار تراجم قرآن کے متعلق فیصلہ فرمایا کہ ان کے اخراجات چار شہروں کی جماعتیں یا افراد پیش کریں.له تراجم قرآن مجید کے علاوہ غیرملکی آئنہ زبانوں میں حضور نے لینی ٹیم کی اشاعت کا پروگرام بھی رکھا اوروہ یہ کہ اسلامی اصول کی فلاسفی ، مسیح ہندوستان میں ، احمدیت یعنی حقیقی اسلام ، رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم کی سوانح عمری حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سوانح عمری، رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم کے متعلق پیشگوئیاں ، ترجمہ احادیث ، پرانے اور نئے عہد نامہ کی روشنی میں توحید، نظام تو اور تین اور اہم مضامین پشتمل بارہ کتب کا سیٹ شائع کیا جائے.عربی ممالک کے لئے کتابوں کا الگ سیٹ تجویز ہونا چاہیئے.عربی سمیت دنیا کی مشہور تو زبانوں میں چھوٹے چھوٹے ٹریکٹ اور اشتہار چھپوائے جائیں جو چار چار صفحے سے لیکر سولہ سولہ صفحے تک کے ہوں تاکہ کثرت کے ساتھ ان کی اشاعت ہو سکے اور ہر آدمی کے ہاتھ میں پہنچائے جا سکیں ہے خطبہ کے بعد چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب اور آپ کے چند اور رفتار نے ایک ترجمہ کا خرچ اپنے ذمہ لیا اب باقی صرف تین تراجم رہ گئے ہو حضور نے پوری جماعت پر چھوڑ دیئے اور فرمایا :- جو فرد اکیلا ایک ترجمہ کی رقم اُٹھانا چاہیے وہ اکیلا اٹھا لے.جو چند دوستوں کے ساتھ مل کر یہ بوجھ اٹھانا چاہتا ہو وہ ایسا کرلے.جو جماعت مل کر ایک ترجمہ کی رقم دینا چاہے وہ حیات اس کا وعدہ کر لے.جو صوبہ ایک ترجمہ کی رقم دینا چاہے وہ صوبہ اس کا وعدہ کرلے“ سے اس تحریک کو اللہ تعالٰی نے حیرت انگیز اور بخارق لاو و رنگ میں قبولیت بخشی اور تحریک کی اشاعت کے چھ دن کے اندر اندر تین کی بجائے پانچ تراجم کے وعدہ حجات حضرت اقدس کے حضور پہنچ گئے بچنا نچہ حضور نے فرمایا :- یہ خدا تعالے کا کتنا بڑا فضل ہے کہ ادھر بات منہ سے نکلتی ہے اور ادھر پوری ہو جاتی ہے.باوجود خطبہ کے دیر سے شائع ہونے کے 4 دن کے اندر سات زبانوں کے تراجم کے اخراجات کے وعدے آگئے خطبہ کے باہر پہنچنے کے چند گھنٹے کے اندر اندر اختر صاحب نے دہلی سے بذریعہ تار اطلاع دی کہ ایک ترجمہ کے اخراجات وہ مع اپنے دوستوں کے دیں گے.ایک تار لاہور سے آیا کلکتہ کی سے بشمول انگریزی زبان سے" الفضل " ۲۷ اختار / اکتوبر میش سفر ۴- سے " الفضل" بر اختار اکتوبر م متحدہ کالم ۰۲ سکه میان غلام محمد صاحب اختر مراد ہیں.ہیو ان دنوں را ننگ آفیسر تھے.
جماعت نے یہ اطلاع دی ہے کہ ایک زبان کے ترجمہ کی اشاعت کے اخراجات وہ دے گی.ایک تار قصور سے ملک عبد الرحمن صاحب کا آیا.تو و تراجم کے اخراجات کے وعدے آچکے ہیں.گویا جتنی زبانوں میں شائع کرنے کا ارادہ ہے اُن سے دو کے زائد زائد کے لئے چندہ تو نہیں لیا جائیگا گر یہ خدا کا کتنا بڑا فضل اور انعام ہے کہ جماعت کے ایک تھوڑے سے حصہ نے نہایت قلیل عرصہ میں مطالبہ سے بھی بڑھ کر وعدے پیش کر دیئے.خاص کر قادیان کی غریب جماعت نے اس تحریک میں بہت بڑا حصہ لیا ہے خدا تعالیٰ نے سیدنا المصلح الموعود کو فدائیوں، شیدائیوں اور سر فروشوں کی بے مثال جماعت بخشی تھی.جس نے اس موقعہ پر روج مسابقت اور جذیر اخلاص کے اس نمونہ پر قانع و مطمئن ہونا گوارا نہیں کیا بلکہ نو تراجم کے وعدوں کے بعد مزید درخواستوں کا تانتا بندھ گیا اور یہ نیا مسئلہ پیدا ہو گیا کہ اب تراجم کی تقسیم کی صورت کیا ہو؟ چنانچہ سیدنا المصلح الموعود نے ۳ نبوت / نومبر میش کے خطبہ جمعتہ اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :- یں نے پچھلے خطبہ سے پہلے خطبہ میں (۱۲۰ اکتوبر کو قرآن مجید کے سات تراجم کے متعلق تحریک کی تھی یہانتک اس کی کامیابی کا سوال تھا مجھے اس میں کسی قسم کا شبہ نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ اس وقت تک خدا تعالیٰ کا میرے ساتھ ہمیشہ یہ معاملہ رہا ہے کہ وہ جب کبھی میرے منہ سے کوئی بات نکلواتا ہے تو اس کی کامیابی کے سامان بھی کر دیتا ہے.لیکن اس میں ایک نئی بات پیدا ہو گئی ہے کہ اس تحریک کے بعد جو درخواستیں آئی ہیں وہ ہمارے مطالبہ سے بہت زیادہ ہیں.ہمارا مطالبہ تھا سات تراجم کے اخراجات کا اور درخواستیں آئی ہیں بارہ تراجم کے اخراجات کے لئے.اور اکٹھی بیرو نجات سے پیٹھیاں آرہی ہیں کہ وہ اس چندہ میں حصہ لینا چاہتے ہیں جہانتک وسیع علاقوں کا تعلق ہے اور جہاں جماعتیں پھیلی ہوئی ہیں وہ علاقے چونکہ سب کے مشورہ کے بغیر کوئی ذمہ واری نہیں اُٹھا سکتے اس لئے ان درخواستوں میں وہ شامل نہیں کیونکہ وہ بلدی مشورہ کر کے اتنے وقت کے اندر اطلاع نہیں دے سکتی تھیں.یہ درخواستیں صرف ان جماعتوں کی طرف سے ہیں جو اپنی ذمہ داری پر اس بوجھ کو اُٹھا سکتی تھیں یا افراد کی طرف سے ہیں.مثلاً چوہدری ظفراللہ خالی ہے اور اُن کے بعض دوستوں کی طرف یا اسلام محمد اختر اور ان کے دوستوں کی طرف سے لاہور کی جماعت کی طرف سے، کلکتہ کی و الفضل ۲ نبوت تو بر سرمایش صفحه ۲ کالم ۳ :
۵۷۲ جماعت کی طرف سے اور میاں محمد صدیق اور محمد یوسف صاحبان تاجران کلکتہ کی طرف سے، ملک عبد الرحمن صاحب مل اونر قصور کی طرف سے اور سیٹھ عبداللہ بھائی سکندرآباد کی طرف سے.یہ سب در خواستین ان جماعتوں کی ہیں جہاں یا افراد زیادہ ہیں اور وہ اس ذمہ داری کا بوجھ بغیر دوسری جماعتوں سے مشورہ کرنے کے خود اُٹھا سکتی ہیں.یا اُن افراد کی طرف سے ہیں جو صاحب توفیق ہیں اور یہ بوجھ اُٹھا سکتے ہیں.قادیان کی جماعت کے متعلق مجھے یقین دلایا گیا ہے کہ ایک ترجمہ کی جگہ وہ دو کا خرچ اپنے ذمہ لے گی اور لجنہ کا بھی جس رنگ میں چندہ ہو رہا ہے، اس رنگ میں ڈو کا بھی سوال نہیں.بلکہ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُن کا چندہ دو سے بھی بہت زیادہ ہوگا.کیونکہ اس وقت تک بینہ قادیان کی طرف سے چھ ہزار تین سو کے وعدے آچکے ہیں اور ابھی ہزار بارہ سو روپیہ کے وعدو کی اور امید ہے (خطبہ صاف کرتے وقت آٹھ ہزار سے زائد کے وعدے ہو چکے ہیں، گوئیں نے سارے ہندوستان کی لجنہ کے قتہ جو ایک ترجمہ کا خرچ لگایا تھا.اس سے زیادہ کے وعدے قادیان سے ہی ہو چکے ہیں اور ابھی باہر کی ساری بنائیں باقی ہیں.اسی طرح قادیان کی جماعت کے علاوہ صدر پنجمین کے کارکنوں نے بھی ایک ترجمہ کا خرچ اپنے ذمہ لیا ہے.کارکنوں کے علاوہ دوسروں کے چندہ کا وعدہ ایک ترجمہ سے زیادہ کا ہو چکا ہے اور ابھی ہو رہا ہے.اب ان جماعتوں یا افراد کی طرفف سے چین کا حصہ نہیں لیا جا سکا ، الحاج کی پیٹھیاں آرہی ہیں اور وہ اصرار کے ساتھ لکھ رہی ہیں کہ نہیں بھی اس چندہ میں حصہ لینے کا موقع دیجئے ملے حضور کو مخلصین جماعت کی بیتابی دیکھ کر سات تراجم اور بارہ بارہ کتابوں کے مکمل سیٹ کی از سر نو تقسیم کا اعلان کرنا پڑا جس کے مطابق ایک ایک ترجمہ قرآن اور ایک ایک کتاب کی اشاعت کا شروچ طلوعی اور اختیاری رنگ میں مندرجہ ذیل سات حلقوں پر تقسیم کر دیا گیا.(1) الجنہ اماء الله سند دستان (۲) قادیان (س) جماعتہائے لاہور ، امرت سر، شیخوپورہ، گوجرانوالہ شیخو پورہ، گویرا نوالہ ، فیروز پور (۴) جماعتہائے دہلی بہار، یوپی، لدھیا ، ضلع انبالہ، ریاست پٹیالہ کلک (4) حیدر آباد دکن، میسور ، بمبئی ، مدراس اور اس کے ساتھ ملحقہ دیا تیں (۷) صوبه سر بهار و صوبہ سندھ سنگه ه "الفض" در ثبوت / نومبر س ش صفحه ا کالم انا لم.+ صفوه کالم ا ب
اس نئی تقسیم کے اعلان پر جماعت کے ان مخلصین کی طرف سے بھی جنہوں نے پورے ترجمہ کے اخراجات کی پیشکش کی تھی اور اُن افراد اور جماعتوں کی طرف بھی جو اس چندہ میں شمولیت کا ارادہ رکھتی تھیں اور ان کو اس میں شامل ہونے سے محروم کر دیا گیا ، اپنے آقا کے حضور التجاؤں اور درخواستوں کے پے در پے خطوط بھیجے گئے.جین میں حد درجہ اضطراب اور انتہائی گھیرا ہٹ کا اظہار کیا گیا کہ ہمیں اس ثواب میں شامل ہونے کا موقعہ نہیں دیا.اور یہ امر ان کے لئے انتہائی کرب اور دکھ کا موجب ہے لیے حضرت امیر المومنین کی خدمت میں جب اس نوعیت کے مسلسل اور پے در پے خطوط پہنچے تو حضور نے دها ماه نبوت / نومبر ریش کو مخلصین جماعت کی التجاؤں پر اپنی تجویز فرمودہ پہلی تقسیم بھی کالعدم قرار دے دی.اور اس کی بجائے نئی تقسیم کا اعلان فرما دیا جس سے پوری جماعت کے لئے ثواب میں شریک ہونے کا موقعہ فراہم ہو گیا.حضور نے سالانہ جلسہ پر ہش پر اس تحریک کی کامیابی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا.۶۱۹۴۴ جو حلقے میں نے مقرر کئے تھے انہوں نے بہت اچھا نمونہ دکھایا ہے " اسی طرح الجنہ امار اللہ کی مساعی کا ذکر ان الفاظ میں فرمایا کہ ہماری جماعت کی عورتوں نے اپنی قدیم روایتوں کو قائم رکھا ہے اور اس وقت تک پوستیں ہزار روپے کے وعدے ہو چکے ہیں، شہ کمیونسٹ تحریک کا مطالعہ کرنے ۱۲- در فتح دوسرے میں کو حضرت سیدن الصلو باوجود نے کی اپنی ایک روبار کی بناء پر اس سال کی آخری اور سولھویں اور اس کا رز سوچنے کی تحریک تحریک یہ فرمائی کہ جماعت کے علما، اختیار اساتذہ پروفیسر واقفین زندگی، طلبہ مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ سب کمیونسٹ تحریک کا خوب اچھی طرح ناقدانہ نظر سے مطالعہ کریں کیونکہ مستقبل میں اسلام کے خلاف سب سے بڑی جنگ اشتراکیت ہی سے لڑی بجانے والی ہے.چنانچہ حضور نے فرمایا : سے مثلاً فوج میں بھرتی احمدی جن کی نسبت حضور نے خود بیان فرمایا کہ "ہماری جماعت کے وہ دوست ہو فوج میں بھرتی ہو کر گئے ہیں.اُن میں سے بعض کے مجھے خطوط آئے ہیں کہ ہمیں کسی گروہ میں بھی شامل نہیں کیا گیا حالا نکہ ہم بھی اس تحریک میں شامل ہونا چاہتے ہیں" (الفصل ۱۴ نیوت/ نوسه ر مین مسفر ) کالم (۳) له الفضل ۱۴ نبوت / نومبر میش صفحه ۱ : " سے المفضل ما نبوت ہیں میں حضور کے الفاظ میں اس تقسیم جدید کی تفصیل موجود ہے ؟ يكم فة : الفضل ، یکم صلح جنوری ۲۳ رمش صفحه ۲ کالم ۴ مه الانهار لذوات المعمار حصہ اول صفحه - اسم (مرتبہ حضرت سیده ام متین مریم صدیقہ صاحبہ الجند ماء الله مرکز یه ناشر فنر بند اما الله مرکزیده طبع دوم اریش :
م که جماعت کے علماء اور واقفین اور مدرسہ اور جامعہ کے طلبہ بھی اچھی طرح کمیونسٹ تحریک کا مطالعہ کریں اور اُن کے جوابات سوچ چھوڑیں اور اگر کسی امر کے متعلق تسلی نہ ہو تو میرے ساتھ بات کر لیں.اسی طرح کا بچوں کے پروفیسروں اور سکولوں کے اساتذہ کو چاہیے کہ کمیونسٹ تھریک کے متعلق اپنا مطالعہ مسیح کریں اور اگر کوئی کمی رہ بھائے تو مجھ سے مل کر ہدایات لے لیں اور اس رنگ میں اس تحریک کے متعلق جوابات سوچ رکھیں کہ ان کا پوری طرح سے رو کر سکیں.یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ زیادہ مقابلہ ہمار کمیونسٹوں سے ہی ہے.انہوں نے دہریت کو مذہب کے طور پہ بنا لیا ہے.خدا تعالیٰ سے یہاں تک منہبی اور تمسخر کیا جاتا ہے اور ایسے ڈرامے کھیلے جاتے ہیں جن میں خدا تعالے کو نعوذ باللہ محرم کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس کی وجہ سے نعوذ باللہ دنیا میں سب فساد اور خرابی پیدا ہوئی اور پھر کمیونسٹ حج خدا تعالے کو نعوذ باللہ پھانسی کی سزا دیتا ہے کہ میں اس پتلے کو پھانسی کی سزا دیتا ہوں کیونکہ اس کے وجود کے خیال کی وجہ سے دنیا میں تمام خرابی پیدا ہوئی ہے.پس یہ ایسی تحریک ہے جس نے دہریت کو...مذہب کے طور پر پیش کیا ہے اور جو اندر ہی اند رفتنہ اور فساد پیدا کرنے والی اور امن کو برباد کرنے والی تحریک ہے.اور اس کی تمام کامیابی عارضی اور سطحی ہے.موجودہ جنگ کے بعد اس تحریک کا گلی طور پر دنیا کو مقابلہ کرنا ہوگا اور یہی وہ آخری لڑائی ہوگی جوف ہری لحاظ سے سیاسی وجوہ کی بناء پر لڑی بھائے گی.مگر خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ لڑائی مذہب کی تائید کے لئے ہوگی.پس کمیونسٹوں کا بعض دوسری حکومتوں کے ساتھ جو اتحاد ہے یہ ہمیشہ کے لئے نہیں چل سکتا.اس جنگ کے بعد جلد یا بدیہ اس تحریک کے ساتھ کو بظاہر سیاسی وجوہ کی بنار پر لڑائی ہو گی مگر وہ لڑائی ایسی ہوگی کہ خدا تعالئے دوسروں کو آگے کر کے مذہب کے لئے راستہ کھول دے گا.غرض یہ جنگ تو بہر حال ہوتی ہی ہے مگر اس وقت تک کہ خدا تعالے کوئی ایسی صورت پیدا کرے ہمیں ہوشیار ہو جانا چاہیئے.جو لوگ مسائل سے اچھی طرح واقف نہیں ہوتے یا نٹے اور کچے ہوتے ہیں اس قسم کے دھوکہ میں آجاتے ہیں.پس جماعت کے علماء، فقہاء ، اساتذہ اور پروفیسروں کو چاہیے کہ اس قسم کی تحریکات کی تفصیلات سے پوری طرح واقف ہوں تاکہ نوجوانوں کی صحیح راہنمائی کر سکیں ا " " الفصل ۲۵ فتح / دسمبر ليه مش صفحه ۳-۰۴ به
۵۵ خدا تعالیٰ کا پیغام جماعت احمدیہ کے نام اگر چہ حضرت خلیق مسیح الثانی الصلح الموعود تازہ انکشاف - کے بعد جماعت کو عظیم الشان قربانیوں کے لئے تیار کرنے روز جزا قریب ہے اور کہ بعی ہے کے لئے نہایت اہم تحریکات فرما رہے تھے اور جماعت ان پر دیوانہ وار ٹیک بھی کہ رہی تھی مگر اللہ تعالے کا منشار مبارک یہ تھا کہ احمدی اپنا قدم اور زیادہ تیز اور اپنی قربانیوں کے معیار کو اور زیادہ بلند کر دیں تا اسلام کی فتوحات کا زمانہ قریب سے قریب تو آجائے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے الهاماً فرمایا :- روز جزا قریب ہے اور کہ بعید ہے" حضرت سید نا المصلح الموعود نے ہار شہادت / ایمیل یہ ہش کے خطبہ جمعہ میں خدا تعالے کا یہ پیغام سناتے ہوئے فرمایا : مجھ پر ایک الہام نازل ہوا جس نے میرے ہوش اڑا دیئے.وہ الہام یہ تھا جو خود ایک مصرعہ کی شکل میں ہے کہ روز جتنا قریب ہے اور کہ بعید ہے" بڑے زور سے یہ الہام مجھ پر نازل ہوا اور بار بار اس کو دہرایا گیا.اس الہام کے اور معنی بھی ہو سکتے ہیں.مگر میں نے اس وقت جو الہام کے معنے سمجھے وہ یہ ہیں کہ وہ تغیرات عظیمہ جن کا پیش گوئیوں میں ذکر کیا گیا تھا اور وہ اسلام اور احمدیت کے غلبہ کے ایام جن کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر دی گئی تھی بالکل قریب آپہنچے ہیں.روز جزا اب سر پر کھڑا ہے.قدرت کا زبر دست ہاتھ اس دن کو اب قریب تر ہو رہا ہے مگر رہ بعید ہے.جماعت نے اس آنے والے دن کے لئے ابھی وہ تیاری نہیں کی جو اُسے کرنی چاہئے تھی.اور ابھی اس نے وہ مقام حاصل نہیں کیا جو اس عظیم الشان یوم جزا کے انعامات کا اسے مستحق بنانے والا ہو.اس کے لئے ابھی بہت بڑا لمبا راستہ پڑا ہے جسے اُسے طے کرنا ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے روز جزا قریب ہے یعنی وہ جو ہمارا کام تھا ہم نے اُسے پورا کر دیا اور ہم نے اس دن کو تمہارے سامنے لا کر رکھ دیا جو تمہاری کا میابی اور تمہاری فتح اور تمہارے طلبہ کا دن ہے.گویا اللہ تعالے اس الہام کے ذریعہ جماعت احمدیہ کو مخاطب کرتا اور اُسے فرماتا ہے کہ اسے احمدی جماعت ! جو ہمارا حصہ تھا ہم نے اُسے پورا کر دیا بھتنے سالن
۵۷۶ یوم جزا کو قریب تر لانے کے لئے ضروری تھے وہ ہم نے سب مہیا کر دیئے اور اسلام اور احمدیت کی فتح کے سامان ہم نے جمع کر لئے.پس اب قریب ترین زمانہ میں اس فتح کے آثار ظاہر ہونے شروع ہو جائیں گے.قریب ترین زمانہ میں اسلام اور احمدیت کے غلبہ کے راستے دنیا میں کھل بنائیں گے مگر یہ بعید ہے.وہ راستہ جو ابھی تم نے طے کرتا ہے اور جس پر چل کر تم نے اس روز ہوا سے فائدہ اُٹھانا ہے وہ ابھی بہت بعید ہے.تم میں سے کئی ہیں جنہوں نے ابھی اس راستہ پر چلتا بھی شروع نہیں کیا اور کئی ایسے ہیں جو اس راستہ پر چل تو پڑے ہیں مگر انہوں نے سفر ابھی بہت کم طے کیا ہے گویا ہم نے تو اپنا حصہ پورا کر دیا مگر تم نے اپنے حصہ کو پورا نہیں کیا.اب دیکھو یہ ایسی ہی بات ہے جیسے دو شخص آپس میں ٹھیکہ کریں اور ایک شخص دوسرے سے سمجھوتہ کرے کہ تم امرتسر سے دس میل کے فاصلہ پر اتنے لاکھ من سوتا پہنچا دو.وہاں تک سونا پہنچانا تمہارا کام ہے.اس کے بعد میرا کام شروع ہو گا.اور میں اس سونے کو اٹھا کر اپنے گھر لے آؤں گا.اب اگر دوسرا شخص اس معاہدہ کے مطابق ٹھیک مقررہ تاریخ کو امرت سر سے دس میل کے فاصلے پر سوتا لا کر رکھ دے مگر یہ شخص ابھی قادیان سے ایک میل کے فاصلے پر ہی ہو تو جانتے ہو.اس کا کیا نتیجہ ہوگا؟ یہی ہو گا کر چور آئیں گے اور اس سونے کو اٹھا کر لے جائیں گے.ڈاکو آئیں گے اور اس سونے پر قبضہ کر لیں گے.اور جب یہ شخص وہاں سونا لینے کے لئے پہنچے گا تو اس جگہ کو بالکل عالی پائے گا.اللہ تعالے بھی اس الہام میں اسی امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ تم نے ابھی اس راستہ کو ملے ہی نہیں کیا جس پر چل کر ان انعامات کے تم مستحق بن سکتے ہو.مگر ہماری حالت یہ ہے کہ ہم اس دن کو جو تمہاری فتح اور کامیابی کا دن ہے، تمہارے قریب لا چکے ہیں.پس روز جزا قریب ہے اور رہ بعید ہے " میری طرف سے جو کچھ ظاہر ہونا تھا اس کی تیاریاں آسمان پر مکمل ہو چکی ہیں.مگر تم نے جو کچھ کرنا تھا اس کے لئے ابھی کئی منزلیں طے کرنی باقی ہیں.مجھے جب یہ الہام ہوا تو میں نے اس وقت سوچا کہ گو میں جماعت کو بھلدی جلدی آگے کی طرز فر اپنا قدم بڑھانے کی تحریکات کر رہا ہوں جس سے بعض لوگ ابھی سے گھبرا اٹھے ہیں کہ کتنی جلدی جلدی نئی سے نئی تحریکیں کی جا رہی ہیں.کبھی وقت بھائیداد کی تحریک کی جاتی ہے، کبھی وقعت زندگی کی تحریک
کی جاتی ہے کبھی کالج کی تعمیر کے لئے چندہ کی تحریک کی جاتی ہے.مگر اللہ تعالے اس کو بھی ناکافی قرار دیتا ہے اور فرماتا ہے تمہارا کہ بعید ہے.یعنی ابھی تم نے کچھ بھی نہیں کیا.سفر بھی بہت باقی ہے اور تمہارا قدم خطر ناک طور پر سست ہے.حالانکہ میں نے جو کام کرنا تھا وہ کر لیا.میرا ٹھیکہ پورا ہو گیا.اور جو چیز میں نے تم کو دینی تھی وہ دے دی.گر تم ابھی اپنے کام کے لئے تیار نظر نہیں آتے.اس مفہوم کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے اس الہام کا ایک اور امر کی طرف بھی اشارہ ہو سکتا ہے گونزول الہام کے وقت میں نے اس کے وہی معنی سمجھے جو میں نے ابھی بیان کئے ہیں لیکن پھر بھی اس الہام کا ایک اور مطلب بھی ہو سکتا ہے.لیکن وہ بھی اپنی ذات میں کوئی خوش کن نہیں بیعینی اس الہام کا ایک یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ہر شخص جو تم میں سے اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے کوشش کر رہا ہے اُس کی یہ کوشش اتنی تھوڑی اور اس قدر کم ہے کہ اس کی اس کوشش اور بعد و جہد کے مقابلہ میں اس کی زندگی کے جس قدر ایام ہیں ان میں ان کوششوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا.گویا تم میں سے ہر شخص جو کوشش آج اسلام اور احمدیت کے غلبہ کے لئے کر رہا ہے اگر مرتے دم تک وہ اسی رنگ میں کوشش اور بجد وجہد کرتا رہے اور اپنا قدم تیز نہ کرے تو یہ کوششیں اس قدر کم ہیں کہ تمہارا یہ خیال کرنا کہ ان کوششوں کے نتیجہ میں تم اسلام کا غلبہ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکو گے یہ ناممکن ہے.اگر تمہاری کوشش اور بعد و جہد کی یہی رفتار رہی تو تم اپنی زندگی میں یوم جزار کو نہیں دیکھ سکو گے.یہ معنی اگر لئے جائیں تو یہ بھی کوئی خوشکن معنے نہیں.مگر جو معنے اس وقت میں نے سمجھے وہ یہی تھے کہ روز جزا قریب ہے " کا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے تم سے اسلام اور احمدیت کے غلبہ کے متعلق جو وعدے فرمائے ہیں ان کے پورا ہونے کا وقت آگیا.آسمان پر فرشتوں کی فوجیں اس دن کو لانے کے لئے تیار کھڑی ہیں.مگر جو کوشیش تم کر رہے ہو وہ بہت ہی حقیر اور بہت ادنیٰ اور معمولی ہے.جب ہم نے اپنے فضل کا دروازہ کھولی دیا.جب آسمان سے فرشتوں کی فوجیں زمین میں تغیر پیدا کرنے کے لئے نازل ہوگئیں.جب گھر کی بر بادی کا وقت آپہنچا.جب اسلام کے غلبہ کی گھڑی قریب آگئی تو اس وقت تم اگر پوری طرح تیار نہیں ہو گے ، تم نے اپنے اندر کامل تغیر پیدا نہیں کیا ہوگا ، تم نے اپنی اصلاح کی طرف پوری توجہ
۵۷۸ نہیں کی ہوگی تو نتیجہ یہ ہوگا کہ تم اس دن سے فائدہ اُٹھانے سے محروم رہ جاؤ گے اور اسلام کی دائمی ترقی میں روک بن جاؤ گے.کیا تم نہیں دیکھتے کہ جس پانی کو سنبھالا نہ بھائے وہ بجائے فائدہ پہنچانے کے لوگوں کو تباہ کر دیتا ہے.جس دُودھ کو محفوظ نہ رکھا جائے وہ پھٹ جاتا ہے.وہی پانی فائدہ پہنچاتا ہے جس کو سنبھالا جائے اور دہی دودھ انسان کو طاقت بخشتا ہے جس کو پھٹنے سے محفوظ رکھا جائے.پھٹا ہوا دودھ کس کام آسکتا ہے ؟ گیرا موا سالن کون استعمال کرتا ہے ؟ کتے کے آگے پڑی ہوئی روٹی کون کھا سکتا ہے ؟ اسی طرح اگر ہم نے اس دودھ کو محفوظ نہ رکھا جو خدا نے ہمارے لئے نازل کیا ہے ، اگر ہم نے اس کھانے کی حفاظت نہ کی جو خدا نے ہمیں دیا ہے.اگر ہم نے اس پانی کو نہ سنبھالا جو خدا نے آسمان سے اُتارا ہے تو یہ پانی اور یہ دودھ اور یہ کھانا ہمارے لئے ایک طعنہ کا موجب بن جائے گا.کیونکہ ہمیں چیز تو لی مگر ہم نے اس کی قدر نہ کی.پس میں آج پھر خدا تعالیٰ کے اس پیغام کو جماعت تک پہنچاتا ہوں.پہلے میری طرفت سے ہی گھبراہٹ تھی اور میں جماعت کو بار بار کہتا تھا کہ جلد جلد بڑھو.جلد جلد اپنا قدم آگے کی طرف بڑھاؤ.مگر اب خدا تعالے کی طرف سے بھی یہ گھبرا دینے والا پیغام آگیا ہے کہ روز جزاء قریب ہے اور کہ بعید ہے" جزاء کا دن بہت قریب ہے مگر تمہاری رہ بہت بعید ہے.فصل چهارم له ہوشیار پوری ہور، لدھیانہ اور دہلی میں عظیم الشان جلسوں کا انعقاد مصلح موعود کا ظہور مذہبی دنیا میں زیر دست تہلکہ مچا دینے والا واقعہ تھا.اس نشان رحمت کی یہ عظمت اہمیت تقاضا کرتی تھی کہ بیرونی دنیا میں عموماً اور سر زمین ہند کے اکناف میں خصوصاً پورے زور سے یہ آواز بلند کر دی جائے کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ سے علم پا کر ۲۰ فروری سمار نے علم بر له " الفضل " ۲۷ شہادت اپریل له مش صفحه 4 AAY I
۵۷۹ کو جس پر موجود کی بشارت دی تھی.وہ ظاہر ہوچکا ہے.چنانچہ اس مقصد کے لئے یہ بہش کے شروع میں چکا ہوشیار پور، لاہور ، لدھیانہ اور دہلی میں پبلک جلسے منعقد کئے گئے یہ چاروں جلسے الگ الگ شان کے حامل اور نہایت درجہ روح پرور ، ایمان افروز اور کامیاب جلسے تھے بین میں خود حضرت سید نا المصلح الموعود نے بنفس نفیس شرکت فرمائی اور اپنی پر شوکت تقریروں میں اپنے دعوئی مصلح موعود کا حلفیہ اور پر سبلال اعلان فرمایا اور اہلِ ہند پر حجت تمام کر دی.اعلان مصلح موعود کے سلسلہ میں پہلا جلسہ عام ۲۰ فروری ۲۲ ۲۰۱ تبلیغ ۱۳۲۳ پیش کو ہوشیار پور جلسہ ہوشیار پور تا میں منعقد ہوا جلسوں کا یہ سلسلہ چونکہ خالص اعلائے کلمتہ اللہ اور بندا کے ایک زندہ و تابندہ نشان کے لئے جاری کیا جا رہا تھا اس لئے حضرت مصلح موعود نے امر تبلیغ افردی رمیش کو جماعت کے نام حسب ذیل پیغام دیا :- برادران! السلام علیکم ورحمته الله و بركاته ام آپ ہوشیار پور کے جلسہ کی نسبت اعلان پڑھ چکے ہیں.اس جلسہ کی غرض صرف یہ ہے کہ میں جگہ دنیوی حالات کے خلاف ہوتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک رحمت کے نشان کی خبر دی تھی جس کے ذریعہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچیگا اسی جگہ آج یہ اعلان کیا جائے کہ وہ پیشگوئی نہایت شان کے ساتھ پوری ہو گئی ہے.پس یہ موقعہ خشیت اور تفوئے اللہ کے اظہار کا ہے نہ کہ دنیوی تقریبوں پر جیس طرح مظاہر ہے کئے جاتے ہیں ، اس کا.پس میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ صرف وہی لوگ اس جلسہ میں شامل ہوں جو دعائیں کرنے والے استغفار کرنے والے حمد کرنے والے اور ذکر کرنے والے ہیں اور اُس جگہ پر جب تک رہیں اس امر کا تعبت کریں کہ نہ بلا وجہ بات کریں ، نہ ہنسی مذاق کریں ، نہ ہنسی تمسخر تھے کام لیں بلکہ تمام وقت سنجیدہ رہیں اور دعاؤں اور استغفار میں مشغول رہیں.پس اس بات کا خیال رہے کہ لڑکے اور چھوٹی عمر کے نوجوان وہاں نہ جائیں نہ وہ جو اپنی طبیعتوں پر قابو نہیں رکھ سکتے، نہ وہ جو تھوڑی دیر خاموش بیٹھنا پڑے تو گھبرا جاتے ہیں.بلکہ وہ جب کہیں جو اس ارادہ کے ساتھ گھر سے نکلیں کہ کلی طور پر خاموشی سے شمولیت کریں گے اور سب وقت اللہ تعالٰی لے یہ پیغام حضرت اقدس نے لاہور عنایت فرمایا جہاں حضور ان دنوں حضرت ام ظاہر کی علالت کے باعث مقیم تھے.
کے ذکر میں گزاریں گے یا ایسے کاموں میں جو اُن کے سپرد کئے جائیں گے.میں نہیں کہ سکتا کہ میں ام طاہر احمد کی بیماری کی وجہ سے خود شامل ہو سکوں گا یا نہیں، مگر ممکن ہوا تو شامل ہوں گا.انشاء اللہ تعالے.پس جو شامل ہونے والے ہیں.انہیں میں ابھی سے نصیحت کرتا ہوں کہ اگر آپ نے میری نصیحت پر عمل کیا تو یہ عمل آپ کا مقبول بارگاہ الہی ہوگا.ورنہ آپ اپنے عمل کو ضائع کر لیں گے اور شاید لبعض غضب الہی کو بھڑ کا ہیں.خاکسار میرزا محمود احملہ از لا ہور سے اس پیغام نے جلسہ ہوشیار پور میں شامل ہونے والوں پہ نہایت گہرا اثر ڈالا.قریباً پیغام کا غیر معمولی شما در شعانی مواد محمدی جو اس تقریب پر دوسرے مقامات سے پوشید پور پہنچے اون دو اڑھائی ہزار ہوشیار کی ہر حرکت و سکون سے خاص وقار اور خشیت اللہ کا اظہار ہوتا تھا.تسبیح و تحمیدان کی زبانوں پر تھی اور وہ متانت و سنجیدگی کے پیکر معلوم ہوتے تھے.اس روحانی کیفیت کا حال پڑھ کر مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری مدیر اہلحدیث" نے لکھا :- ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا صحابہ کرام کی فوج نگر فتح کرنے جارہی ہے تھے قادیان سے ہوشیار پور بجانے والوں کا پہلا قافلہ 19 تبلیغ قادیان سے ہوشیار پر جانیوالوں کی الماری کو شام کی گاڑی سےحضرت مریم اسحاق صاحبت کی زیر امارت روانہ ہوا.اس قافلہ کے لئے بڑی کوشش سے صرف ایک تیسرے درجہ کی ہوگی مخصوص کرائی جاسکی جو مسافروں کی تعداد کے لحاظ سے بالکل ناکافی تھی اور اس میں صرف ان اصحاب کو بمشکل جگہ مل سکی جو آمد و رفت کا کر این تظمین کے پاس پیشگی جمع کراچکے تھے.باقی اصحاب دوسرے ڈبوں میں سوار ہوئے حضرت میر محمد اسحاق صاحب نے روانگی سے قبل چند مفروضات “ کے نام سے ایک ہینڈبل چھپوا کر جانے والوں میں تقسیم کرا دیا سیس میں لکھا تھا :- روم اگر خدائے بزرگ و توانا کی مرضی مبارک ہوئی توت دیان دارالامان سے بروز ہفتہ مورخہ پر کو شام 4 بجے گاڑی سے بجلسہ ہوشیار پور میں شمولیت کے لئے ایک احمدی فاضلہ روانہ ہو گا.جناب ا الفضل ٤ تبليغ / فروری مه مش صفحه ا ۲۴ " کالما الویت کاری و فریم کالم ۶۶۳
۵۸۱ له ناظر صاحب دعوہ و تبلیغ نے جو اس مہم کے افسر اعلئے ہیں.خاکسار کو قافلہ کا خادم مقرر فرمایا ہے اس لئے یہ خادم اہل قافلہ کی خدمت میں چند ضروری امور پیش کرنا چاہتا ہے جو یہ ہیں :- (1) اگرخدا تعالیٰ کے فضل سے ریزرو گاڑی کا نظام ہوگیا تو ہر ڈبہ میں صرف اتنے مسافر بٹھائے جائیںگے جتنے ریلوے قوانین کے مطابق بٹھائے بجا سکتے ہیں ورنہ وقت پر مناسب طریق اختیار کیا جائے گا.(۲) ریز رو ہونے کی صورت میں ہر مسافر ہر ڈبے میں نہیں بیٹھ سکتا.بلکہ میرے مقرر کردہ منتظمین کی ہدایا کے ماتحت بیٹھنا ہو گا.(۳) جیسا کہ حضرت امیر المومنین المصلح الموعود کا ارشاد" الفضل“ میں شائع ہو چکا ہے نہایت ضروری ہوگا کر قادیان سے روانگی کے وقت سے ہی تمام اہل قافلہ کو خاموشی ، متانت خشوع و خضوع اور دعاوی میں لگے رہنے کی عادت سے متصف ہو جانا ضروری ہے.قادیان سے روانہ ہو کر صرف امرتسر پہنچنے پر گاڑی سے باہر نکلا جا سکتا ہے.امرتسر انشاء اللہ مغرب و عشاء کی نماز با جماعت ہوگی.اگر کوئی شخص نماز با جماعت سے غیر حاضر رہا تو اُسے امرتسر سے آگے بجانے کی اجازت نہ ہوگی.اسی طرح نماز تہجد کا بھی انتظام ہوگا اور نماز فجر با جماعت کا بھی.راستہ میں کسی شخص کو نعرہ لگانے یا اشعار پڑھنے کی اجازت نہ ہوگی.ہر ڈبہ میں ایک ایک شخص امیر ہو گا.اس کی اطاعت ضروری ہوگی.کھانا کھا کہ دوست قادیان سے روانہ ہوں یا اپنے ہمراہ کھانا لے جائیں.کھانے کا انتظام مرکز کی طرح سے نہ ہو گا کیونکہ گاڑی میں ہی غالباً ساری رات بسر ہوگی.اس لئے گاڑی میں بستر بچھانے کی گنجائش نہ ہوگی.بدیں وجہ دوست کانی گرم کپڑا اوڑھ کر بیٹھیں.جو شخص کسی قسم کی ناشائستہ حرکت کا مرتکب ہوگا اعلاوہ اس کے کہ وہ گاڑی سے فوراً کسی اسٹیشن پر اتار دیا جائے گا، اس کا معاملہ حفر امیر المومنین المصلح الموعود کے حضور پیش کیا جائیگا.معرض یه سفر نهایت تہذیب، متانت، شرافت اتقویٰ اور خشوع و خضوع کے ساتھ ہونا چاہیئے اس موقعہ پر ہمیں دعا کرتا ہوں کہ اسے میرے قادر مطلق خدا ! توہمیں دنیا داروں ، فیشن پرستوں اور ظاہر پرستو کی طرح تمام خرابیوں سے بچا کہ اس طرح اس سفر پہ لے جا کہ تیری نظر میں عام لوگوں کی طرح نہیں بلکہ ہم فرشتوں کی ایک جماعت ہوں جو محض تیری تسبیح و تہلیل کا پانی پیتے ہوئے اور تیری تجمید و تقدیس کی غذا کھاتے ہوئے اور تیری تعمیر وتکبیر کی ہوا میں سانس لیتے ہوئے قادیان سے ہوشیار ہو ں اور لے یعنی حضرت مولوی عبد المغنی خانصاحب (مرتب) *
۵۸۲ ہوشیار پور سے قادیان کا سفر کریں.آمین یارب العالمین.سید محمد اسحق تصادم قافلہ ہوشیار پور" اس قافلہ میںجو تقریباً اڑھائی سو افراد پرمشتمل تھا حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ہے تر قادیان سے جالندھر مولوی شیر علی سلب حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب اور خانصاحب حضرت مولوی فرزند علی صاحب بھی شامل تھے.جب گاڑی روانہ ہوئی تو سب نے مل کر دعا کی.امرتسر کے اسٹیشن پر اور بھی بہت سے اصحاب شریک قافلہ ہو گئے مغرب اور عشاء کی نمازوں کے لئے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر اذان کہی گئی اور دونوں نمازیں جمع کر کے حضرت میر صاحب نے پڑھائیں گیارہ بجے کے قریب ڈیرہ دون پسنجر کے ساتھ ریز رو بوگی لگائی گئی.اور دوسرے اصحاب نے گاڑی میں سوار ہونے کی کوشش کی لیکن با وجود انتہائی کوشش کے اُن میں سے بہت سے رہ گئے اور وہ دوسری گاڑی سے جالندھر پہنچے بجالندھر شہر کے پٹیشن پر گاڑی ڈیڑھ بجے کے قریب پہنچی اور بقیہ رات اسٹیشن پر گاڑیوں میں اور پلیٹ فارم پر گذاری گئی.عمر رسیدہ اور بزرگ اصحاب کا سخت سردی میں زمین پر یا گاڑیوں کے تنگ تختوں پر رات گذارنا اگرچہ کٹھن بات تھی لیکن ہر خورد و کلاں اور ہر بوڑھا اور جوان کچھ ایسے رومانی سرور اور لذت میں مست تھا کہ کسی کو تکلیف کا خیال تک نہ رہا بسحری کے وقت اکثر لوگ خود بخود تہجد کی نماز کے لئے اُٹھے اور جونہ اٹھ سکے وہ جگائے گئے صبح کی اذان پلیٹ فارم پر دی گئی اور نماز فجر حضرت میر محمد اسحاق صاحب نے پڑھائی.گاڑی سات بجے کے قریب ہوشیار پور کے لئے روانہ ہوئی.اس وقت تک جالندھر سے ہوشیار پورے وہ اصحاب بھی پہنچ چکے تھے جو مرتسر کے ہیش پر قافلہ کے ساتھ آنے سے اسٹیشن رہ گئے تھے بلکہ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے بات شامل ہو گئے جو لاہور یا دہلی کی طرف سے آئے تھے.نو بجے کے قریب گاڑی ہوشیار پور کے اسٹیشن پر پہنچی جہاں حضرت مولوی عبد المغنی خاں صاحب ناظر دعوة وتبلیغ کی قیادت میں بعض اصحاب پہلے سے موجود تھے.اسٹیشن پر سے پانچ پانچ کی قطار میں قافلہ روانہ ہوا.اور بجائے قیامت تک جو شہر کے درمیان گرلز سکول کی عمارت تھی ، اسی ترتیب سے گیا.ر صاحبزادہ مرزا بشیراحمد صاحب کی طرف روان بنا کر حضرت میر صاحب نے موقعہ کے لفظ سے مختصر تقریر فرمائی اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رض سے جل گاہ کے انتظامات کی نگرانی انتظامات جلسہ اور مقام دعا کا ملاحظہ فرمانے کے لئے تشریف لے گئے پونکہ ایک روز قبل بارش ہو چکی تھی اس لئے کنک منڈی کے بیع احاطہ میں (جسے جلسہ کیلئے
حضرت سیدنا الصلح الموعود ہوشیار پور میں جلسہ سے قبل نماز پڑھارہے ہیں (قیام) (رکوع)
سید نا حضرت مصلح موعود کے دائیں ہاتھ حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب اور ان کے ساتھ حضرت میر محمد اسحاق صاحب التحیات میں بیٹھے ہیں
DAY تجویز کیا گیا تھا اور جو اس مکان کے قرب کی وجہ سے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے چلہ کشی فرمائی تھی بہترین جگہ تھی کیچڑ تھا اور اس پر مٹی ڈالی جا رہی تھی.لیکن جس رفتار سے کام ہو رہا تھا اُسے کافی نہ خیال کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے زیادہ سرگرمی سے کام کرنے کا ارشاد فرمایا اور امداد دینے کے لئے جتنے آدمیوں کی ضرورت کام کرنے والوں نے سمجھی وہ قادیان سے آنے والے قافلے میں سے بھجوا دیئے میونسپلٹی کے ملازمین کے علاوہ ملک نادر خاں صاحب افسر مال لدھیانہ اور میجر حبیب اللہ خانصاحب نے بھی ہر قسم کا انتظام مکمل کرنے میں پوری مستعدی دکھائی.اور حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود کی تشریف آوری سے قبل خدا تعالیٰ کے فضل سے سب انتظامات مکمل ہو گئے.ایک بچے کی گاڑی سے قادیان کا دوسرا قافلہ جو مولانا ابوالعطار صاحب کی قیادت میں دوسرا قافلہ ۲۰ تبلیغ / فروری کی صبح کو قادیان سے روانہ ہوا تھا، پہنچ گیا اور بآسانی جلسہ میں شریک ہو گیا.حضرت سید نا لمصلح الموعود پونے دو بجے کے قریب لاہور سے بذریعہ میں تشریف آوری درد ، حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب ، شیخ بشیراحمد صاحب ، ، ایڈووکیٹ اور سیٹھ محمد اعظم صاحب حیدر آبادی بھی تھے.یہ حضور موٹر سے اترتے ہی جل گاہ میں تشریف لائے اور ظہر و عصر کی نمازیں نہایت خشوع خضوع سے جمع کر کے پڑھائیں.جلسہ گاہ میں یہ الہامی فقرے موٹے حروف میں لکھ کر نمایاں جگہ پر آویزاں کر دیئے گئے تھے :- سند تیری دعوت کو دُنیا کے کناروں تک پہنچا دے گا " وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائیگا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی " نمانو کے بعد تین بجے جلسہ کی کارروائی شروع ہوئی.سب سے قبل حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا کارروائی کا آغاز ، مراد صاحب نے تلاوت قرآ کرم فرمائی اور وہ بنی اسرائیل کا رکوع و پڑھ جس میں الہ لیا فرماتا ہے جَاء الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقاً.یہ آیات قرآنیہ چونکہ موقع کے عین مطابق تھیں اس لئے مومنین کے قلوب ان آیات قرآنیہ کے سُننے سے خاص طور پر متاثر ہوئے.تلاوت قرآن کریم کے بعد حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد (سابق امام مسجد لندن) پرائیویٹ سکریٹری حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے حضرت مولوی عبد اللہ صاحب سنوری رضی اللہ عنہ کے قریبی رشتہ دار ہونے کی حیثیت سے ایک مختصر سی تقریر کی ہے پر شائع ہوئی له الفضل " تبليغ / فروری سال صفحه ۱-۲- الفصل ۲ تبلیغ فروری ۲۳ ساله مش ملت ، درد صاحب کی مکمل تقریة الفضل ۲ " ۶۱۹۴۴ 51400
سلام ۵۸ حضرتی با اصلح الموعود کی تقریر اور صاحب کے بعد سیدنا حضرت مریم امینی خلیفت ایسی الثانی اصلی نا المومنین الموعود رضی اللہ عنہ تقریب کے لئے کھڑے ہوئے اور تشہد وتعوذ کے بعد حضور نے سورہ فاتحہ کی تلاوت فرمائی حضور اهدنا الصراط المُستَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ علیم کے قرآنی الفاظ پر پہنچے تو حضور نے دوبارہ انہی بابرکت الفاظ کو نہایت سوز ، تضرع اور ابتہال کے ساتھ اللهُمَّ يَا رَبِّ اهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ “ کہو کہ دوہرایا.ان الفاظ میں اور حضور کی آواز میں جو اس وقت انہی تصرت کے ماتحت معلوم ہوتی تھی ایسا درد بھرا ہوا تھا کہ سننے والوں کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں.اُن کے قلوب درد سے بھر گئے، رقت غالب آگئی اور گریہ وزاری کا عالم طاری ہو گیا.اور انہوں نے بھی اپنے دل میں انہی الفاظ کو نہایت عجز و انکسار کے ساتھ دہرایا.اراں بعد حضور نے مندرجہ ذیل ادعیہ ماثورہ پڑھیں.جنہیں جماعت کے احباب نے بھی حضور کی آواز کے ساتھ ساتھ نہایت رقت اور سوز سے ڈسہرایا :- ا رَبَّنَا لا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَانَا رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لاَ طَاقَةَ لَنَا بِهِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا انتَ مَوْلنَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ ، ويقره رسوع ٢٠ ) ربَّنَا أَمَنَا بِمَا أَنْزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُولَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِرِينَ (آل عمران ع ) واسرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَيْتُ أَندَامَنَا رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ ) (آل عمران ١٩٤) ربنا انَنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِى لِلْإِيمَانِ أنْ أمِنُوا بِرَبِّكُمْ مَنَارَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيَاتِنَا وَتَوَنَنَا مَعَ الأَبْرَارِ، رَبَّنَا وَاتِنَا مَا وَعَدَ تَنَا عَلَى رُسُلِكَ وَ لَا تُخْرِنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَنَّكَ لَا تُخَلِفُ الْمِيعَادِ ، آل عمران ع ) ر ۲۰ ه رَبَّنَا لا تزغ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الوهاب : (آل عمران ١٤ ) یہ دعائیں حضور کی زبان مبارک سے کچھ ایسے درد اور سوز کے ساتھ بلند ہوئیں کہ تمام مجمع کی آنکھیں آنسو سے لبریز ہوگئیں.دل اللہ تعالے کی خشیت اور اس کی محبت سے بھر گئے اور آہ و بکا کی آواز ہر طرف سنائی دینے لگی.
سید نا حضرت امیر المومنین المصلح الموعود جلسہ ہوشیار پور کو خطاب فرمارہے ہیں
AA
۵۸۵ حضور نے دعائیں پڑھنے کے بعد فرمایا." یہ اللہ تعالے کی وہ دعائیں ہیں جن میں انبیاء اور اُن کی ابتدائی جماعتوں کے لئے خدا نے ایک طریق راہ بیان فرمایا ہے.اس کے بعد میں قرآنی الفاظ میں ہی اپنے رب کو مخاطب کر کے اس کے حضور نذیر عقیدت پیش کرتا ہوں.دوست بھی ان الفاظ کو دہراتے جائیں“ چنانچہ حضور نے مندرجہ ذیل الفاظ اپنی زبان مبارک سے ادا فرمائے :- امَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنْزِلَ إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَ يَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَى وَعِيسَى وَمَا أُوتِيَ النَّبِيُّونَ مِنْ رَّيَّيم لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ وَ نَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ : (المان ع و) تمام مجمع نے ایک بار پھر اشکبار آنکھیں اور درد مند قلوب کے ساتھ ان الفاظ کو دہرایا اور اس وقت یوں محسوس ہوا کہ آسمان ہے انوار الہی انزول ہو رہا ہے اور فرشتے دلوں کو ہر قسم کی میل کچیل سے صاف کر کے انہیں پاکیزہ و مظہر بنارہے ہیں لیے ان دعاؤں اور جناب باری تعالیٰ.یا اصلا المودود کا پرشوکت خطاب اب ہوشیارپور کو اب عقیدت کے بایستید اصلی مورد اظہار المصلح الموعود نے ایک نہایت و بعد آفرین اور بچہ شوکت تقریر فرمائی جس میں پیشگوئی مصلح موعود کے پس منظر پر روشنی ڈالنے کے بعد بتایا کہ یہ پیشگوئی کس طرح نہایت مخالف حالات کے باوجود خارق عادت رنگ میں ظہور پذیہ ہو سیکی ہے.اس سلسہ میں حضور نے اس انکشاف سے متعلق اپنی تازہ رویا بھی بڑی شرح وبسط سے بیان کی اور پھر فرمایا.میں آج اسی واحد اور تہت رخدا کی قسم کھاکر کہتا ہوں جس کے قبضہ و تصرف میں میری جانا ہے کہ میں نے جو رویا بتائی ہے وہ مجھے اسی طرح آئی ہے.الا ماشاء اللہ کوئی خفیف فرق بیان کرنے میں ہو گیا ہو تو علیحدہ بات ہے.میں خدا کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ میں نے کشفی حالت میں کہا أَنَا المَسَحُ المَوْهُودُ مَثِيلُهُ وَخَلِيفَتُهُ اور میں نے اس کشف میں خدا کے حکم سے یہ کہا کہ میں وہ ہوں جس کے ظہور کے لئے انہیں سو سال سے کنواریاں منتظر بیٹھی تھیں.پس میں خدا کے حکم کے ماتحت قسم کھا کر یہ اعلان کرتا ہوں کہ خدا نے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی کے مطابق آپ کا وہ موجود بیٹا قرار له الفضل " ۱۹ تبلیغ فروری پیش صفحه ۵-۰۶ / ۱۳۳۵
۵۸۶ دیا ہے جس نے زمین کے کناروں تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام پہنچانا ہے میں یہ نہیں کہتا کہ میں ہی موجود ہوں اور کوئی موعود قیامت تک نہیں آئے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی پیشگوئیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اور موجود بھی آئیں گے اور بعض ایسے موعود بھی ہوں گے جو صدیوں کے بعد پیدا ہوں گے.بلکہ خدا نے مجھے بتایا ہے کہ وہ ایک زمانہ میں خود مجھ کو دوبارہ دنیا میں بھیجے گا اور میں پھر کسی شرک کے زمانہ میں دُنیا کی اصلاح کے لئے آؤں گا جس کے معنے یہ ہیں کہ میری روح ایک زمانہ میں کسی اور شخص پر جو میرے جیسی طاقتیں رکھتا ہو گا، نازل ہوگی اور وہ میرے نقش قدم پر چل کر دنیا کی اصلاح کرے گا.پس آنے والے آئیں گے اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق اپنے اپنے وقت پر آئیں گے.میں جو کچھ کہتا ہوں وہ یہ ہے کہ وہ پیشگوئی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر اس شہر ہوشیار پور میں سامنے والے مکان میں نازل ہوئی جس کا اعلان آپ نے اس شہر سے فرمایا.اور جس کے متعلق فرمایا کہ وہ نو سال کے عرصہ میں پیدا ہو گا.وہ پیشگوئی میرے ذرایعیہ سے پوری ہو چکی ہے اور اب کوئی نہیں جو اس پیشگوئی کا مصداق ہو سکے حضرت خلیفہ السیح الثانی الصلح الموعود کی اس پہلی پر متعارف تقریر کے بعد مبلغین سلسلہ کی باری باری مختصر تقریریں ہوئیں جن میں اس امر پر روشنی ڈالی گئی کہ ۲۰ فروری سامانہ کی پیشگوئی میں جو یہ بشارت دی گئی تھی کہ خدا تیری دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دیا سیدنا امیرالمومنین خلیفہ اسیح الثانی المصلح الموعود کےذریعہ وہ بڑی شان و عظمت کے ساتھ پوری ہو چکی ہے اس تقریب پرشین اصحاب نے تقریریں کیں ، اُن کے نام یہ ہیں :- -۱- حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیال ایم.اے ( انگلستان) حضرت ملک غلام فرید صاحب بے ایم.اے (جرمنی) جناب محمد ابراہیم صاحبت ہے ہی.اے بی ٹی (سنگری) حضرت مولوی محمد دین صاحب (شمالی امریکہ) سلة " الفضل " تبليغ / فروری سایش صفحه ۱۰ کالم ۲ تا ۴ سے یہ تقریریرین الفصل " ۲۵ تبلیغ / فروری تا ۲ / امان/ مارچ دیش میں چھپ گئی تھیں
مبلغین احمدیت کی تقاریر ہوشیار پور کے جلسہ مصلح موعود میں مولانا ابو العطاء صاحب فلسطین مشن کے واقعات بیان کر رہے ہیں.
او پرا.حضرت مولوی عبد المغنی خان صاحب ناظر دعوت وتبلیغ مائیکروفون کے سامنے کھڑے ہیں
AAL مولوی عبد الرحمن صاحب انور انچارج تحریک جدید) (برائے مولوی آنان علی صاحب ار پینٹائن جنوبی امریکہ ملک عزیز احمد صاحب سرو بایا ، سید شاہ محمد صاحب جاوا ، مولوی غلام حسین صاحب ایا نہ ملایا ) حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیر اسم الیون گولڈ کوسٹ ، نائیجیریا ).مولوی محمد سلیم صاحب مولوی فاضل ( مصر ) حضرت مولوی عبد المغنی صاحب (برائے شیخ مبارک احمد صاحب مولوی فاضل مشرقی افریقہ، مولوی رحمت علی صاحب ، مولوی محمد صادق صاحب ، مولوی عبد الواحد صاحب میلفیین جاد اسماٹرا ) -4 حضرت صوفی حافظ غلام محمد صاحب ہی.اسے (ماریشس ) لے ۱۰ مولوی ابوالعطاء صاحب جالندھری ( فلسطین) حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب (شام) ۱۲ مولوی ظهور رسین صاحب (روس) ۱۳- تحکیم مولوی عبد اللطیف صاحب دہرائے محمد رفیق صاحب مرحوم مجاہد تحریک جدید کا شعر ) ۱۴ حضرت بابو فقیر علی صاحب (برائے حضرت شہزادہ عبد المجید صاحب شہید( ایران ) ۱۵ جناب عبد الاحد خان صاحب افغان (کابل) جناب محمد زیدی صاحب اسٹریٹ مسلمینٹ) -16 مولوی عبد الواحد صاحب (چین) ۱۸ صوفی عبد القدیر صاحب (جاپان) ان تقریروں کے دوران جب کسی ملک میں تبلیغ اسلام اور اشاعت احمدیت کے واقعات بیان کئے جاتے.تو ساتھ ہی اس ملک کا نام بھی بھلی حروف میں احباب کے سامنے لیکا دیا جاتا ہے ی اصل محمود کی تقریکا تم ان تقریروں کے بعد حضرت سید نا الصلح موعود نے آخری خطاب مہ کرتے ہوئے فرمایا : اس وقت مختلف ممالک کے مبلغین نے آپ لوگوں کو بتایا ہے کہ کس طرح دنیا کے کناروں تک میرے زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے اسلام اور احمدیت کا نام پہنچایا.مغرب کے انتہائی کناروں یعنی شمالی امریکہ سے آپ نے مولوی محمد دین صاحب مبلغ یوگو سلاویہ و البانیہ کی نمائندگی میں بھی تقریب کی * که " الفضل ۲۴ تبلیغ فروری ساله مش صفحه ۳ کالم ۳-۰۴
۵۸۸ وغیرہ سے لے کر مشرق کے انتہائی کناروں یعنی چین اور جاپان وغیرہ تک اللہ تعالیٰ نے مجھے اسلام کا نام اور اس کی تعلیم پہنچانے کی توفیق عطا فرمائی.اسی طرح ایشیاء اور یورپ کے مختلف علاقوں میں اللہ تعالیٰ نے میرے بھیجے ہوئے مبلغین کے ذریعہ لوگوں کو اسلام اور احمدیت میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرمائی اور اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وہ پیشگوئی پوری ہوئی جس پیک میں اللہ تعالیٰ نے آپ سے یہ وعدہ فرمایا تھا کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں پہنچاؤں گا" اور ساتھ ہی آپ کی وہ پیشگوئی پوری ہوئی جس میں آپ نے فرمایا تھا کہ میرا ایک لڑکا ہوگا جو زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا جس کے معنے یہ تھے کہ وہ پہلی پیشگوئی جو زمین کے کناروں تک تبلیغ پہنچنے کے ساتھ تعلق رکھتی ہے وہ میرے اس لڑکے کے ذریعہ پوری ہوگئی جس نے زمین کے کناروں تک شہرت حاصل کرتی ہے.اب ہر شخص غور کر کے دیکھ لے کہ وہ کونسا ہاتھ تھا جس نے حضرت مسیح موعود علی اسلام کی تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کا فیصلہ کیا ؟ وہ کونسا ہاتھ تھا جس نے اس تبلیغ کو اس وقت تک دنیا کے کناروں تک پہنچنے سے روکے رکھا جب تک وہ لڑکا ظاہر نہ ہو گیا ؟ اور پھر وہ کونساہاتھ تھا جس نے میرے مبلغوں کے ذریعہ جاپان سے لے کو شمالی امریکہ تک تمام دنیا میں اس سلسلہ کو پھیلانا شروع کر دیا.بلکہ ہر ملک کے افراد کو اس میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرمائی.ان میں ہزاروں ایسے لوگ ہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام سننا بھی گوارا نہیں کرتے تھے مگر اب وہ آپ پر درود اور سلام بھیجتے ہیں اور صبح شام آپ کے مدارج کی بلندی کے لئے دعائیں کرتے ہیں ہزاروں ایسے ہیں جو خدا تعالیٰ کے نام تک سے نا آشنا تھے مگر خدا تعالے میرے ذریعہ سے ان لوگوں کو اپنے آستانہ پر لے آیا.صرف خدا کا ہی ہاتھ تھا جس نے تمام روگوں کو دور کیا اور صرف تعدرا کا ہی ہاتھ تھا جس نے اپنے کلام کو پورا کرنے کے لئے زمین کے کناروں تک اسلام اور احمدیت کا نام میرے ذریعہ سے پہنچایا.پس یہ پیشگوئی جس مقام سے کی گئی تھی اسی مقام کے سامنے کھڑے ہو کر یہ اعلان آپ لوگوں کے سامنے کر دیا گیا ہے تاکہ آپ لوگ گواہ رہیں کہ خدا کی یہ پیشگوئی پوری ہو گئی" نیز فرمایا :- میں اُن لوگوں کو جو ابھی جماعت میں شامل نہیں تو یہ دلاتا ہوں کہ مغرب کے کناروں سے مشرق کے الفضل وار تبلیغ فروری به بیش صفحه ۳ کالم ۱ - ۰۲
۵۸۹ انتہائی کناروں تک ہم اسلام کی تبلیغ کر رہے ہیں.ہم لوگ چاہتے ہیں کہ آپ بھی اس سلسلہ کی حقیقت پر غور کریں اور خدا تعالیٰ کے ان نشانات سے فائدہ اُٹھائیں جو دنیا میں ظاہر ہو چکے ہیں.اور اگر آپ لوگ ابھی اس سلسلہ کی صداقت پر غور نہیں کر سکتے تو کم سے کم خدا تعالے کا اتنا خوف اپنے دل میں ضرور پیدا کریں کہ جب اس جماعت کے افراد اسلام کی تبلیغ کے لئے نکلیں تو اُس وقت اُن کی لغت کرنے سے احتراز کریں اور سمجھ لیںکہ یہ والہ اُن پر نہیں بلکہ خدا کے دین پر ہو گا اور اس کا نقصان افراد کو نہیں بلکہ مذہب اور اسلام کو ہوگا.اسی طرح میں اُن لوگوں سے بھی جو ابھی اسلام کی صداقت کے قائل نہیں، کہتا ہوں کہ ہم مبلغ ہیں تبلیغ ہمارا کام ہے اور یہ کام ہم نے ہمیشہ کرنا ہے خواہ کوئی ہندو ہو سکھ ہو عیسائی ہو.یہارا فرض ہے کہ ہم اُنسے تبلیغ کریں اور اسلام کی تعلیم اس کے کانوں تک پہنچائیں.میں یہ نہیں کہتا کہ تبلیغ کرنا صرف ہمارا حق ہے.اُن کا بھی حق ہے کہ وہ ہمیں تبلیغ کریں ہیں اس پر کوئی جگہ نہیں ہو سکتا.لیکن اس کے مقابلہ میں یہ بھی ضروری ہے کہ وہ ہماری تبلیغ پر پڑہیں نہیں.ہم مجبور ہیں کہ ہم نمی اور پیار اور محبت سے ان کو تبلیغ کریں.اور جب ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ خداتعات کی مرضی یہی ہے کہ لوگ اس دین کو اختیار کریں تو پھر چاہے لوگ ہمیں ماریں پیٹیں گالیاں دیں ہم مجبور ہیں کہ اُن کو اسلام کی تبلیغ کرتے پہلے بھائیں.کسی کا بچہ کنوئیں میں گر رہا ہو تو دوسرا شخص اُسے دیکھ کو چُپ نہیں رہ سکتا.کسی جگہ آگ لگ رہی ہو تو کوئی شخص اُس آگ کو دیکھ کر آرام سے بیٹھ نہیں.سکتا.پھر جبکہ ہم کو بھی اُن سے ویسی ہی محبت ہے جیسے ایک باپ کو اپنے بیٹوں سے ہوتی ہے یا بھائی کو اپنے بھائی سے ہوتی ہے.اور جبکہ ہم سمجھتے ہیں کہ جو لوگ اسلام میں داخل نہیں وہ ایک آگ میں گرے ہوئے ہیں تو پھر ہم پورا زور لگائیں گے کہ وہ اس آگ سے بچ جائیں.خواہ اس بعد واجب میں ہماری اپنی بھان بھی کیوں نہ پھلی بھائے.پس تبلیغ کے لئے کوشش کرنا ہمارا فرض ہے اور ہم اپنے اس فرض کو ہمیشہ ادا کرتے رہیں گے لیکن آپ لوگ مت سمجھیں کہ آپ خدا کی تقدیر کو پورا ہونے سے روک سکتے ہیں بخدا کی تقدیر ایک دن پوری ہو کر رہے گی اور یہ سلسلہ تمام زمین پر پھیل جائے گا کوئی نہیں جو اس سلسلہ کو پھیلنے سے روک سکے، کہیں آسمان کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں میں زمین کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں میں گشیار پور کی ایک ایک اینٹ کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ یہ سلسلہ دنیا میں پھیل کر رہے گا.اگر لوگوں کے دل
04.سخت ہوں گے تو فرشتے اُن کو اپنے ہاتھ سے ملیں گے یہانتک کہ وہ نرم ہو جائیں گے اور اُن کے لئے احمدیت میں داخل ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا.سالہ حضرت سید تا المصلح الموعو وہ اس پر اثر خطاب کے بعد چلہ کشی والے مقدس و مقدس کمرہ میں اجتماعی دعا مدیر کوہ میں تشریف لے گئے جوان دنوں ایک مرز مین ویٹو کردن درس کی ملکیت تھا جنہوں نے اُسے شیخ مہر علی صاحب سے خرید کر اس پر ایک مکان تعمیر کر کے اس کے بالائی حصہ پر سیز رنگ کر دیا تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چلہ کشی والا بالا خانہ اپنی اصلی شکل میں موجود نہیں تھا.لیکن اسی موقعہ اور انہی بنیادوں پر ایک کمرہ تعمیر شدہ تھا جہاں سیٹھ صاحب نے بڑی خوشی سے دُعا کرنے کی اجازت دی.بلکہ حضرت مولوی عبد المغنی خاں صاحب ناظر دعوت و تبلیغ کے ذریعہ خواہش کی کہ اگر حضرت مرزا صاحب یہاں تشریف لائیں تو میری بڑی خوش قسمتی ہوگی.چنانچہ جب حضور مکان پر تشریف لے گئے تو جناب سیٹھ صاحب اور اُن کے خاندان کے دوسرے افراد نے نہایت عزت و احترام کے ساتھ استقبال کیا اور ایک بڑے آراستہ کمرہ میں جو مکان کے دوسرے کونے میں واقعہ تھا، حضور کو بٹھایا اور حضور کی خدمت میں پھیل پیش کئے اور اپنے خاندان کے افراد کا تعارف کرایا.اس کے بعد حضور مقدس کمرہ میں تشریف لے گئے اور قبلہ رخ دوزانو بیٹھ کر تسبیح و تحمید کرنے لگے اس کمرہ میں اس وقت کے لئے فرش کا انتظام جماعت کی طرفت سے کیا گیا تھا.جگہ کی تنگی کی وجہ سے حضرت امیر المومنین المصلح الموعود کے علاوہ حسب ذیل پینتیں احباب اس کمرہ میں تشریف لے گئے جنہیں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے ایک ایک کر کے انتظام کے ساتھ اندر بھجوایا.حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب ۹- صاحبزادہ مرزا مبشر احمد صاحب صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب ۱۰ صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب ار صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب ہ صاحبزادہ مرزا خلیل احمد صاحب ۱۲ حضرت خان محمد عبد اللہ خان صاحب صاحبزادہ مرزا حفیظ احمد صاحب ۱۳ صاحبزادہ مسعود احمد خان صاحب ا صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب ۱۴ صدا نیز اد عباس احمد خان صاحب نمه صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب صاحبزادہ مرزا حمید احمد صاحب له الفضل ۱۹ تبلیغ فروری با مش صفرم کالم ۱ - ۲ * 7149.۱۵ حضرت مولانا شیر علی صاحب ۱۹ حضرت مولانا سید سرور شاہ صاحب نے
۵۹۱ ۱۷- حضرت میر محمد اسحق صاحب ۲۷ حضرت خالصاحب مولوی فرزند علی صاحب یا حضرت حافظ محمد ابراہیم صاحب قادیانی ۲۸ حضرت ڈاکٹر سید غلام غوث شاہ صاحب قادیان ۱۹ حضرت حافظ مختار احمد صاحب شاہجہانپوری ۲۹ میاں فیروز دین صاحب سیالکوٹ ۲۰ - حضرت مولوی غلام رسول صاحب برا چیکیان ۳۰ حضرت حافظ نور محمد صاحب فیض اللہ چک ۲۱- حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب درد ۳۱ حضرت شیخ عبد الرحمن صاحب قادیانی رضا ۲۲ جناب شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور ۳۲ حضرت منشی محمد الدین صاحبت کھاریاں ۲۳- حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب ۳۳ حضرت مولوی عبد الرحمان صاحب جیٹ ۱۲۴ مولوی عبد المنان صاحب قمر ایم.اے ن۲۴ بجناب صوفی عبد القدیر صاحب نیاز بی.اسے ۱۳ حضرت چودھری فتح محمد صاحب ایم.اے ۲۶ حضرت مولوی عبد المغنی تھاں صاحب ان احباب کے علاوہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب بھی کمرے میں تشریف فرما رہے بلے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ در اصل شروع میں جب مکان کے اندر جا کر دعا کرنے والوں کی فہرست بنائی گئی تو اس وقت حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالے کا ارشاد تھا کہ مندرجہ ذیل چار اقسام کے احباب کمرہ کے اندر جائیں.ا الیہ سے پہلے بیعت کرنے والے صحابہ (۲) جمله ناظر صاحبان (۳) افراد خاندان حضرت مسیح موعود علیہ اسلام اور حضرت خلیفتہ ایسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ (۴) ایسے احباب جن کا پیشگوئی مصلح موعود کے ساتھ خاص تعلق ہے، یعنی صوفی عبد القدیر صاحب ہو حضرت میاں عبداللہ صاحب ستوری مرحوم کے لڑکے ہیں جو سفر ہوشیار پور میں حضرت مسیح موعود عليه الصلوۃ والسلام کے ہمراہ تھے.اور مولوی عبد الرحمن صاحب جٹ ہو شیخ تعامد علی صاحب مرحوم کے داماد ہیں اور وہ بھی سفر ہوشیار پور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہمراہ تھے اور مکرمی شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور جن کے مکان میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی المصلح الموعود نے اپنے مصلح موعود ہونے کے متعلق رویا، دیکھا.اس طرح یہ فہرست قریباً ساٹھ ستر اصحاب کی بن گئی تھی.الفضل ۱۰ تبلیغ فروری س ش صفر ۴ +
۵۹۲ اور خیال تھا کہ کمرہ کے علاوہ جو مکان کی دوسری منزل پر واقع تھا کچھ دوست اس کے ساتھ کے برآمدہ میں بھی کھڑے ہو جائیں گے اور باقی دوست باہر کی پبلک گلی اور ساتھ کے میدان میں کھڑے رہیں گے.مگر تقریر کے اختتام کے قریب مالک مکان کی طرفت سے حضرت خلیفہ مسیح المصلح الموعود کو پیغام آیا کہ چونکہ کمرہ چھوٹا ہے اس لئے اگر حضور کے ساتھ صرف چھ سات احباب اندر آئیں تو مناسب ہوگا.اس پر حضرت خلیفہ امسیح المصلح الموعود نے مجھے ارشاد فرمایا کہ شاید مالک مکان لوگوں کی کثرت سے گھبراتے ہیں اس لئے تم جلدی سے جا کر مکان کے دروازے پر کھڑے ہو جاؤا اور پہلی فہرست کو منسوخ سمجھو اور صرف چند دوستوں کو اندر بھجوا دو اور فرمایا کہ تم خود بھی آجانا اور میاں شریف احمد صاحب بھی آجائیں.اور ناظروں میں سے ناظر اعلی آجائیں اور تین چار دوست پرانے صحابہ میں سے آجائیں جنہیں تم دیکھ کر اندر بھجوا دیتا.چنانچہ میں نے دروازہ پر جا کہ اعلان کر دیا کہ اب سابقہ فہرست کے مطابق کوئی دوست از خود اندر نہ تشریف لے جائیں بلکہ میرے بلانے پر اندر آئیں.اور اس کے بعد میں نے مجمع پر نظرڈال کر ایک ایک دوست کو آواز دے کر اندر بھیجوانا شروع کیا اور خدا کا فضل ایسا ہوا کہ مجھے مالک مکان کی عملی رضامندی کے ساتھ حضرت خلیفہ ایسے الصلح الموعود کے علاوہ ۳۵ اصحاب کو اندر بھجوانے کا موقعہ میل گیا.گو بعد میں مجھے یہ معلوم کر کے افسوس ہوا کہ بعض ایسے اصحاب باہر رہ گئے جو اگر اس وقت میری نظر کے سامنے آجاتے تو میں انہیں بھی ضرور اندر لے جانے کی کوشش کرتا.مگر وہ اس وقت میری نظر سے اوجھل رہے.یہ نہ المختصر جب کمرہ بالکل بھر گیا اور کسی اور کے داخل ہونے کی گنجائش نہ رہی تو حضرت امیر المؤمنين الصلح الموعود نے ارشاد فرمایا کہ اس موقع پر کسی ذاتی غرض کے لئے دُعانہ کی جائے بلکہ صرف اسلام کی ترقی وشوکت کے لئے دعا کی بجائے اس کے بعد حضور نے ہاتھ اُٹھا کر دعا کی جس میں وہ تمام احمدی احباب بھی شریک ہوئے جو مکان کے نیچے گلی اور میدان میں گھڑے تھے.دعا نہایت گریہ و زاری سے قریباً دس منٹ ہوئی.دعا سے فراغت کے بعد حضور نیچے تشریف لائے اور اسی وقت موٹر میں سوار ہو کر لاہور کے لئیے روانہ ہو گئے.کئے له " الفضل " ۲۵ تبلیغ فروری ۳ ده مش صفحه ۲ کالم ۳-۴ $
شیخ مہر علی صاحب کے مکان سے ملحق گلی میں دعا کا منظر
۵۹۳ اعلان ظہور صلح موعود کے لئے دوسرا پر شکوہ جلسہ الامان / مارچ مہیش کو لاہور میں جکڑی ہوں منعقد ہوا.اس جلسہ کے مہمانوں کے کھانے کا انتظام چوہدری اسد اللہ خان صاحب کے مکان واقع نیز روڈ) پر تھا.اور ملنگانہ ہوسٹل میڈیکل کالج سے متصل پٹیالہ ہاؤس کی گراؤنڈ میں تھی جہاں ایک ai وسیع شامیانہ لگایا گیا تھا.اس جلسہ لاہور میں نہ صرف احمدیہ جماعت کے افراد شامل تھے بلکہ ہزاروں کی تعداد میں ہندو سکھ عیسائی اور دوسرے مذاہب کے افراد بھی شامل تھے جنہوں نے پورے سکون اور اطمینان کے ساتھ آخر وقت تک تمام جلسہ کی کارروائی سُنی اور اپنے اپنے ظرف کے مطابق فائدہ اُٹھایا.حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی المصلح الموعود سوا دو بجے رالمومنین کی تشریف آوری کے در کی نگاہ میں وقت فرار ہوئے حضور کی تشریف آوری سے قبل شریخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کے نے حضور کا یہ ارشاد مبارک تمام لوگوں کو سنایا جو تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد دہرایا جاتا رہا کہ درود اور ذکر الہی میں وقت گزاریں ، لغو بات کوئی نہ کرے نہ آتے نہ جاتے.دعائیں کثرت سے کریں.نعرہ کوئی نہ لگائے" کچھ وقفہ کے بعد حضور مجلسہ گاہ میں تشریف لے آئے اور حضور نے جب گاہ میں ظہر وعصر کی نمازیں جمع کر کے پڑھیں.جلسہ گاہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق خدا تعالیٰ کا یہ الہام کہ جلسہ گاہ کا عام منظر عند تیری دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دے گا.اور الصلح الموعود کے متعلق یہ الہام کہ " وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی " موٹے حروف میں لکھوا کر سٹیج کے قریب لگا دیا گیا تھا.اس انتظام میں مجلس خدام الاحمدیہ لاہور نے نمایاں حصہ لیا.جماعت احمدیہ لاہور کے دیگر افراد کبھی اپنی اپنی ڈیوٹیوں پر کمر بستہ تھے.لاوڈ سپیکر کا نہایت عمدہ انتظام تھا اورعورتوں کے لئے بھی بر رعایت پر وہ جلسہ سینے کا اہتمام تھا.قادیان سے بہت سے دوست ایک روز قبل لاہور پہنچ چکے تھے.باقی احباب یوسینکڑوں کی تعداد میں تھے ،۲ در امان مارچ کی صبح کو روانہ ہوئے.اس غرض کے لئے بعض ڈبے ریزرو کرائے گئے تھے جن کی وجہ سے بہت سہولت رہی ہحضرت میر محمد اسحاق صاحب امیر قافلہ تھے.قادیان کی بہت سی خواتین بھی له " الفضل " ۱۲ رامان / مارج مش مصفیه ۴ آپ اُن دنوں امیر جماعت لاہور تھے ہے
۵۹۴ اس جلسہ میں شریک ہونے کے لئے تشریف لے گئیں جن کے لئے لاہور اسٹیشن پر جماعت احمدیہ لاہور کی طرف سے لاریوں کا انتظام تھا جلس کا آغاز ظہر وعصر کی نمازیں ادا کرنے کے بدید تاریخی جلسہ شروع ہوا حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے تلاوت قرآن کریم فرمائی اور مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم.اے نے حضرت مسیح موعود عليه الصلاة والسّلام کے سفر ہوشیار پور اور پھلہ کے حالات بیان کئے اور المصلح الموعود کے متعلق اُس مقام پر خدا کا جو کلام نازل ہوا اُسے نہایت موثر اور جذب رکھنے والے انداز میں بیان فرمایا.اس کے بعد حضرت امیر المومنین المصلح الموعود کھڑے ہوئے اور حضر امیر المومنین کی ابتدائی تقریب حور نے وہ پرملال تقریر فرمائی جس کا ایک ایک لفظ دل میں اترتا وہ جارہا تھا.قلوب ڈھل رہے تھے.آسمان سے انوار کا نزول ہر شخص مشاہدہ کر رہا تھا." المصلح الموجود کے متعلق بخدا نے جو کلام نازل فرمایا.اس میں خدائے : وبھل نے مصلح موعود کی ایک علامت یہ بیان فرمائی ہے کہ اس کا نزول ایسا ہوگا - كَانَ الله نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ گویا خدا آسمان سے اتر آیا.اور وہ لوگ جو اس جلسہ میں شریک ہوئے ان میں سے ہر شخص اس بات کی شہادت دے سکتا ہے کہ ایسا ہی نظارہ وہ اپنی روحانی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے.بلکہ ایک مقام پر تو حضرت مصلح موعود کی زبان مبارک سے یہ کلمات بلند ہوئے ہو ہزاروں انسانوں نے اپنے کانوں سے سنے کہ " اس وقت میں نہیں بول رہا بلکہ خدا میری زبان سے بول رہا ہے“ حضور نے سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد عجز و انکسار کے ساتھ وہ قرآنی دعائیں پڑھنا شروع کیں تو قبل ازیں علیہ ہوشیار پور کے موقعہ پر بھی پڑھی تھیں.تمام مجمع حضور کی آواز کے ساتھ ساتھ آہستگی مگر وقت ، تضرع اور خشوع کے ساتھ وہ دعائیں پڑھتا گیا.دلوں میں درد تھا اور آنکھوں میں تھی، اور ہر شخص آستانہ ایزدی پر گرا ہوا دکھائی دے رہا تھا.وہ لوگ جو ہماری جماعت میں شامل نہیں تھے اور جنہوں نے بینک اسلام کے ایسے اشارہ خدام اپنی آنھوں نے نہیں دیکھے تھے وہ تو تصویر حیرت بنے کھڑے ہی تھے، خود جماعت احمدیہ کے افراد اپنے ایمانوں میں ایک نمایاں تازگی محسوس کر رہے تھے.ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس انکشاف عظیم کے معا بعد آسمان کے دروازے کھل گئے ہیں...اور اسلام کی روحانی زندگی کا آغاز ہو گیا ہے.اب کوئی نہیں جو اس فتح کو روک سکے اور کوئی نہیں جو ان دروازوں کو بند کر سکے.
۵۹۵ دعاؤں کے بعد حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی نے جلسہ ہوشیار پور کی طرح ایک مفصل تقریر فرمائی جو قریباً سوا گھنٹہ جاری رہی.یہ تقریبہ اہل لاہور کے لئے حجت تھی.یہ تقریر غیر مبائع اصحاب کے لئے محبت تھی.یہ تقریرہ ہر مخالف اسلام کے لئے محبت تھی محضور نے بڑی تحدی کے ساتھ اسلام اور محمد صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم وز حضرت مسیح موعود علیہ سلوۃ والسّلام کی صداقت اور اپنے دعوی مصلح موعود کو پیش فرمایا ہے سيدنا المصلح الموعود نے اپنی تقریمہ کے پہلے حصہ میں اپنے خاندانی حالات اور پھر اللہ کے اختلافات سلسلہ کی تاریخ پر تفصیلی روشنی ڈالی اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مصلح موعود سے متعلق بیشارت اور اس کے ظہور پز کے ہونے کا تذکرہ نہایت دلکش انداز میں کرنے کے بعد فرمایا :- دنیا میں کون کہہ سکتا ہے کہ میرے ہاں ضرور بیٹا پیدا ہوگا.پھر کون کہہ سکتا ہے کہ وہ بیٹا زندہ رہے گا.پھر کون کہہ سکتا ہے کہ وہ ایک جماعت کا امام بنے گا.پھر کون کہہ سکتا ہے کہ وہ دنیا کے کناروں تک شہرت پائے گا...یقینا کوئی انسان ایسی باتیں اپنی طرف سے نہیں کہہ سکتا...عرض...خدا تعالے کی تازہ تائیدات نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ سلسلہ خدا تعالے کا قائم کردہ سلسلہ ہے اور اس کی نصرت اور تائید اس کے شامل حال ہے.اس طرح وہ پیشگوئی ہو آج سے انسٹھ سال پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ کی گئی تھی کہ میں تجھے ایک بیٹا عطا کروں گا جو خدا تعالیٰ کی رحمت کا نشان ہو گا جو خدا تعالے کی قدرت کا نشان ہوگا.جو خدا تعالیٰ کے فضل اور احسان کا نشان ہوگا.اس کے ذریعہ اسلام اور احمدیت کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچے گا.وہ پیشگوئی بڑی شان اور جاہ و جلال کے ساتھ پوری ہوگئی.آج سینکڑوں ممالک زبان حال سے گواہی دے رہے ہیں کہ میرے زمانہ خلافت میں ہی اسلام کا نام ان کو پہنچا.میرے زمانہ خلافت میں ہی احمدیت کے نام سے وہاں کے رہنے والوں کے کان آشنا ہوئے، اس پہلی تقریب کے بعد مبلغین سلسلہ نے اختصار کے ساتھ وہ تبلیغی کارنامے پیش کئے ہو مبلغین کی تقریریں المصلح الموعود کے زمانہ میں حضور کی زیر ہدایت انہوں نے انجام دیئے اور جن کی وجہ سے نہ صرف مصلح الموعود نے زمین کے کناروں تک شہرت پائی بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کا نام بھی دنیا کے کناروں تک پہنچا.چنانچہ انگلستان کے متعلق حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیاتی ناظر علی نے ، پین : اٹلی ہنگری، البانیہ، یوگوسلاویہ ، پولینڈ، زیکو سلو و یکیہ اور جنوبی امریکہ کے متعلق مولوی عبد الرحمن صاحب انور انچارج لة الفضل "۵ در امان مان به ۱۹ 4 ه " "الفضل صفحه ۱۵-۲۱۶ ۱ بلیغ / فروری 1
844 تھر یک جدید نے جو منی کے متعلق ملک غلام فرید صاحب ایم.اے نے ، شمالی امریکہ کے متعلق حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے ، البانیہ کے متعلق جناب مولوی محمد دین صاحب شہید کی بجائے جناب ملک عبدالرحمن صاحب خادم نے ، سیرالیون گولڈ کوسٹ ، نائیجیریا کے متعلق حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیر نے مصر کے متعلق مولوی محمد سلیم صاحب نے ، کینیا کالونی، یوگنڈا اور ٹانگانیکا کے متعلق حضرت مولوی عبد المغنی خانصاحب ناظر دعوت وتبلیغ نے اسیلون اور ماریشس کے متعلق حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب تیر نے ، فلسطین کے متعلق مولوی ابو العطاء صاحب نے شام کے متعلق حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے اور روس کے متعلق مولوی ظہور سین صاحب مبلغ بخارا و روس نے مختصر تقریریں کیں لیے آخر میں حضرت خلیفہ مسیح الثانی المصلح الموعود دوبارہ کھڑے حقیر سید نا اصلح الموعود کا صافیہ اعلان ہونے اور بل کاموں کو خطاب کرتے ہوئے ایک نہایت پر طلال اہل لاہور تقریر فرمائی جس میں حضور نے خدائے واحد و قہار کی قسم کھاکہ نہایت درجہ پر شوکت الفاظ میں اعلان عام فرمایا کہ آج میں اس جلسہ میں اسی واعد اور قہار خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جیسں کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے اور میں پر افتراء کرنے والا اس کے عذاب سے کبھی بیچ نہیں سکتا کہ خدا نے مجھے اسی شہرلاہور میں میں میل روڈ پر شیخ بشیر احمد صاحب ایڈوکیٹ کے مکان میں یہ خبر دی کہ میں ہی مصلح موجود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں اور میں ہی وہ مصلح موعود ہوں جس کے ذریعہ اسلام دنیا کے کناروں تک پہنچے گا اور توحید دنیا میں قائم ہوگئی ہے جماعت احمدیہ کی عظیم الشان اس دل ہلا دینے والے الیہ اعلان کے بعد حضورنے جماعت احمید کی عظیم الشان عالی اور جانی قربانیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا :- مالی قربانیوں کا تذکرہ ایک طرف اگر خدا نے یہ خبر دی کہ وہ میرے ذریعہ دنیا میں اسلام کا نام روشن کرے گا تو دوسری طرف اُس نے ایک غریب جماعت میں اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے وہ ایمان پیدا کر دیا جس کی مثال آج روئے زمین پر اور کوئی جماعت پیش نہیں کر سکتی.ابھی ایک خطبہ جمعہ میں یں نے جماعت کے سامنے اعلان کیا کہ اسلام اس وقت تم سے خاص قربانی کا مطالبہ کر رہا ہے.تم اگر خدا کی رضا حاصل کرنا چاہتے ہو تو اپنی تمام بھائیدادیں اسلام کی خدمت کے لئے وقت کر دو تا کہ جب بھی اسلام پر کفر کاحملہ ہو ہمیں اس کے مقابلہ کے لئے پریشانی نہ ہو کہ ہم روپیہ کہاں سے لائیں بلکہ ہر وقت ہمارے له الفضل ۱۵ رامان / مارچ ۱۳۲۳ ش صفحه ۲ ۰ مهم ام ۶۱۹
۵۹۷ پاس جائیدادیں موجود ہوں جن کو فروخت کر کے یا گیر د رکھ کر ہم اسلام کی تبلیغ آسانی سے کر سکیں.ہماری جماعت ایک چھوٹی سی جماعت ہے.ہماری جماعت ایک غریب جماعت ہے.مگر جمعہ کے دن دو بجے میں نے یہ اعلان کیا اور ابھی رات کے دس نہیں بجے تھے کہ چالیس لاکھ روپیہ سے زیادہ کی جائیدادیں انہوں نے میری آواز پر خدمت اسلام کے لئے وقف کر دیں.جن میں پانچ سو سے زیادہ مرتبہ زمین ہے اور ایک سو سے زیادہ مکان ہیں اور لاکھوں روپیہ کے وعدے ہیں.یہ وہ اللہ تعالیٰ کی تائید اور اُس کی نصرت کے نشانات ہیں جو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور جن کے بعد کوئی ازلی شفتی ہی خدا تعالیٰ کے اس نور کو قبول کرنے سے انکار کر سکتا ہے.میں نے اس سے پہلے جس قدر مبلغ دنیا میں بھجوائے وہ قریباً سب کے سب اناڑی تھے.کوئی کالج سے نکلا تو میں نے اُس سے کہا کہ خدا کے دین کے لئے آج مبلغوں کی ضرورت ہے.کیا تم اس خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کر سکتے ہو؟ اور میرے کہنے پر وہ تبلیغ کے لئے نکل کھڑا ہوا.یہی مولوی ظہور حسین صاحب جنہوں نے ابھی روس کے حالات بیان کئے ہیں جب انہوں نے مولوی فاضل پاس کیا تو اس وقت لڑ کے ہی تھے.میں نے اُن سے کہا کیا تم روس جاؤ گے ؟ انہوں نے کہا ئیں جانے کے لئے تیار ہوں.میں نے کہا بھاؤ گے تو پاسپورٹ نہیں ملیگا.کہنے لگے بیشک نہ ملے میں بغیر پاسپورٹ کے ہی اس ملک میں تبلیغ کے لئے بھاؤں گا.آخر وہ گئے اور دو سال جیل میں رہ کر انہوں نے بتا دیا کہ خدا نے کیسے کام کرنے والے وجود مجھے دیئے ہیں.خدا نے مجھے وہ تلواریں بخشی ہیں جو کفر کو ایک لحظہ میں کاٹ کر رکھ دیتی ہیں.خدا نے مجھے وہ دل بخشتے ہیں جو میری آواز پہ ہر قربانی کے لئے تیار ہیں.میں انہیں سمندر کی گہرائیوں میں چھلانگ لگانے کے لئے کہوں تو وہ سمندر میں چھلانگ لگانے کے لئے تیار ہیں میں انہیں پہاڑوں کی چوٹیوں سے اپنے آپ کو گرانے کے لئے کہوں تو وہ پہاڑوں کی چوٹیوں سے اپنے آپ کو گرا دیں.میں انہیں جلتے ہوئے تنوروں میں گود بھانے کا حکم دوں تو وہ جلتے ہوئے تنوروں میں گود کر دکھا دیں.اگر خود کشی حرام نہ ہوتی، اگر خود کشی اسلام میں نا جائز نہ ہوتی تو میں اس وقت تمہیں یہ نمونہ دکھا سکتا تھا کہ جماعت کے سو آدمیوں کو میں اپنے پیٹ میں خنجر مار کر ہلاک ہو جانے کا حکم دیتا اور وہ سو آدمی اسی وقت اپنے پیٹ میں خنجر مار کر مر جاتا.خدا نے ہمیں اسلام کی تائید کیلئے کھڑا کیا ہے خدا نے میں محمد کو اللہ سے الماری کا کام بلند کرنے کے لئے کھڑا کیا ہے یا له الفضل مصلح موعود نمبر ۱۸ تبلیغ فرور یا امه مش صفحه ۱۷ ۱۸ ۹
۵۹۸ اختتامی کلمات اما استید تا لمصلح الموعود کی دوسری اور اختتامی محرکة الآراء تقریر مندرجہ ذیل الفاظ پر ختم ہوئی.اسے اہل لاہور ہائیں تم کو خدا کا پیغام پہنچاتا ہوں.میں تمہیں اسی انزلی ایدی خدا کی طرف بلاتا ہوں جس نے تم سب کو پیدا کیا.تم مت سمجھو کہ اس وقت میں بول رہا ہوں اس وقت میں نہیں بول رہا بلکہ خدا میری زبان سے بول رہا ہے.میرے سامنے دین اسلام کے خلاف جو شخص بھی اپنی آواز بلند کہے گا اس کی آواز کو دیا دیا جائے گا جو شخص میرے مقابلہ میں کھڑا ہوگا وہ ذلیل کیا جائے گا، وہ رُسوا کیا جائے گا ، وہ تباہ اور پر یاد کیا جائے گا.مگر ن دا بڑی عورت کے ساتھ میرے ذریعہ اسلام کی ترقی اور اس کی تائید کے لئے ایک عظیم الشان بنیاد قائم کر دے گا.میں ایک انسان ہوں.میں آج بھی کر سکتا ہوں اور گل بھی مر سکتا ہوں.لیکن یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ ہمیں اس مقصد میں ناکام رہوں جس کے لئے خدا نے مجھے کھڑا کیا ہے..اگر دنیا کسی وقت دیکھ لے کہ اسلام مغلوب ہو گیا.اگر دنیا کسی وقت دیکھ لے کہ میرے ماننے والوں پہ میرے انکار کرنے والے غالب آگئے تو بے شک تم سمجھ لو کہ میں ایک مفتری تھا لیکن اگر یہ خبر سیچی نکلی تو تم خود سوچ لو تمہارا کیا انجام ہو گا کہ تم نے خدا کی آواز میری زبان سے سُنی اور پھر بھی اُسے قبول نہ کیا.لہ حضور نے یہ آخری تقریر صرف چند منٹ فرمائی.مگر ایسے پر علال الفاظ میں کہ اگر فر کو ایک پہاڑ سے تشبیہ دی جائے تو بلا مبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ حضور کی اس تقریرہ نے اس کو پاش پاش کر دیا.حق ظاہر ہو گیا اور باطل بھاگ گیا.چھ بجے کے قریب نئے دور کا یہ دوسرا مبارک جلسہ دکھا پر ختم ہوا.اور سب دوست اللہ تعالٰی کے اس تازہ نشان پر حمد اثناء اور تسبیح وتحمید کرتے ہوئے اپنے اپنے گھروں کو واپس لوٹے یہ جلسہ صرف تین گھنٹے رہا.مگر قلوب میں کس نے ایسے انمٹ نقوش چھوڑے ہو مدتوں تک تازہ رہیں گے بیلے جلسہ کے اختتام کے بعد سیدنا المصلح الموعود اپنی قیامگاہ یعنی شیخ بشیر احمد صاحد ایٹے کیٹ جلسہ کے بعد کے مکان پرتشریف لے گئے اور وہیں غرب عشا کی نمازیں جمع کرکے پڑھائیں.ازاں عد بعض احباب کے ساتھ اس کمرہ میں تشریف لے گئے جس میں اللہ تعالیٰ نے بذریعہ رویا ر یہ انکشاف فرمایا تھا کہ آپ ہی مصلح موجود ہیں حضور نے دوستوں کو وہ چار پائی بھی دکھائی جس پر اس روباز کے وقت حضور آرام فرما رہے تھے بے له الفضل ندا تاریخ فروری اش شاه امان اش است که مل هم الان لا املاک ش
۵۹۹ اخبار تریلیوں میں جلسہ کی خیر اخبار تریلیون ( ارماری ) نے اپنے نمائندہ خصوصی کے ے قلم سے اس جلسہ کی رپورٹ ہم سب کے دوست ہیں کسی کے دشمن نہیں" اور "جماعت احمدیہ کے دوہرے عنوان سے شائع کی اس شہر کا ترجمہ درج ذیل کیا جاتا ہے:.لاہور ۱۲ مارچ - حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ نے اپنی جماعت کے ایک بہت بڑے مجمع کے سامنے پٹیالہ گراونڈ میں شامیانہ کے نیچے آج سہ پہر کو تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ " ہندو سکھ عیسائی اور ہندوستان کی اقوام کے دیگر لوگ یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ ہم ان سب کے دوست ہیں.اور کسی کے دشمن نہیں.اگرچہ ہم اسلام کا پیغام ہر جگہ پہنچانا چاہتے ہیں" احمدیہ جماعت کے بہت سے افراد صوبہ کی مختلف اطراف اور شمال مغربی سرحدی صوبہ سے آئے ہوئے تھے.انہوں نے اپنے مذاہبی امام کی تقریر مکمل خاموشی کے ساتھ دو گھنٹہ تک سنی.مہر بخاموشی صرف اسی وقت ٹوٹتی تھی جبکہ گا ہے جگا ہے حاضرین میں سے بہت سے افراد کے آنسو بہنے لگتے تھے.جیگری امام جماعت احمدیہ قرآن سے بعض آیات کی تلاوت فرماتے تھے.پولیس کے بہت سے سپاہی بہتر ایشور داس صاحب انسپکٹر اور سردار ہر دیپ سنگھ صاحب سب انسپکٹر گوالمنڈی کی قیادت میں موجود تھے.امام جماعت نے اپنے خاندان کی تاریخ تفصیل سے پیش کی اور آپ نے بیان فرمایا کہ ان کا خاندان تیمور کی اولاد میں سے ہے.اپنی پیدائش اور پیشنگوئی کا ذکر کرتے ہوئے جو اُن کے والد ماجد بانی سلسلہ احمدید نے شائع فرمائی تھیں حضرت مرزا صاحب امام جماعت احمدیہ نے بیان فرمایا کہ آپ ہی موعود " امن کے شہزادے ہیں جن کے متعلق بانی سلسلہ نے بعد اسے الہام پا کر پیش گوئی فرمائی تھی.اُن حالات کا ذکر فرماتے ہوئے جن میں امام جماعت احمدیہ جماعت کے خلیفہ مقرر ہوئے.آپ نے فرمایا جب آپ خلیفہ مقرر ہوئے تو اُن کے پاس خودانہ میں صرف چودہ آنے تھے اور کئی ہزار کا جماعت کے بینم پر بار تھا.آپ نے فرمایا کہ آپ لوگوں کی راہبری کرنے اور قرآن کریم (خدا تعالیٰ کے پیغام) کی تفسیر کرنے کے لئے مبعوث ہوئے ہیں.حضرت مرزا صاحب نے تفصیلاً بیان فرمایا کہ کس طرح اُن کو کشمت میں بتلایا گیا کہ مسلطنت برطانیہ فرانس کی حکومت کے سامنے یہ پیش کش کرے گی کہ دونوں حکومتیں اس وقت جبکہ حالات نازک ہو جائیں گے متحجر
4..ہو جائیں اس طور پر کہ شہریت کے حقوق مشترک ہو جائیں.آپ کو یہ بھی بتایا گیا کہ یہ حالت صرف چھ ماہ کے لئے رہیگی.اس کشمت کا امام جماعت نے سر ظفر اللہ خانصاحب سے ذکر کیا جنہوں نے یہی بات لارڈ لنلتھگو تک پہنچائی اور یہ پیشگوئی سیتی ثابت ہوئی.اسی طرح حضرت مرزا صاحب نے سرمحمد ظفر اللہ خانصاحب اور بعض دیگر اصحاب کو اس واقعہ سے بہت عرصہ پہلے یہ بتلا دیا تھا کہ امریکہ برطانیہ کو ۳۸۰۰ ہوائی جہاز دے گا.اس کے متعلق بھی سر محمد ظفر اللہ خان صاحب نے اپنے حکومت میں رفقاء کار سے ذکر فرمایا تھا اور یہ پیشگوئی بھی حروف بحرف پوری ہوئی تھی " ہے جلسہ الدھیانہ کوئی مصلح موعود کے سلسلہ میں تیسرا مبارک جلسہ لدھیانہ میں ۲۴ ماریا پر بہش کو قرار پایا تھا.اس جیسہ کا اعلان ۱۸ رامان ( مادر ) کو کیا گیا نہیں کے معا بعد لدھیانہ میں جلسہ کو رکوانے کے لئے زبردست مظاہرے شروع ہو گئے.شہر میں مخالفت کا طوفان اُٹھ کھڑا ہوا.نیز ۲۰ رامان ز مارچ) کے نیندو اخبار پرتاپ " اور " پر بھارت نے یہ خبر شائع کی : شہر کے علماء نے ڈپٹی کمشنر سے درخواست کی ہے کہ وہ مداخلت کرکے احمدیوں کی اس کا نفرنس کو بند کردیں" آخر جب جلسہ روکنے میں ناکامی ہوئی تو ۲۳ امان/ مارچ کو ہلڑ بازی اور مہنگامہ خیزی کی سعد کر دی گئی.چنانچہ اخبار پرتاپ" نے لکھا:.آج صبح سے ہی شہر کے مسلمان مختلف گروہوں میں پھرتے نظر آرہے تھے پچند ایک جلوس بھی نکالے گئے ایک جلوس میں ایک لڑکے کا منہ کالا کر کے اُسے گدھے پر بٹھایا ہوا تھا " اسی طرح " و یہ بھارت نے لکھا کہ احمدیہ کا نفرنس شروع ہے.احراریوں نے اس سلسلہ میں مظاہرے کئے اور جلوس نکالے.ایک لڑکے کا منہ کالا کر کے اُسے گدھے پر سوار کرایا گیا اور ایک جنازہ بھی نکلا جس میں مرزا قادیان کے خلاف نعرے لگائے بجھارہے تھے.کچھ احمدیوں پرڈاکخانہ کے قریب جوتے بھی پھینکے گئے ؟ " ان سراسرنا موافق تمالات میں اللہ تعالیٰ نے سید نا المصلح الموعود کو جلسہ سے قبل ہی اس جلسہ کی کامیابی اور A له الفضل عه رامن مارچ ۱۳۳ پیش منا کر ۲ ساله افضل ۲۸ میں ملا کہ یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ جن لوگوں نے اس جلد مصلح موعود کے وقت جنازہ کالا جس نے چارپائی دی اور جنہوں نے جنازہ اٹھایا نہ میں نے منہ کالا کر کے مصنوعی بیت کا پارٹ دا کیا.کے چند ماہ کے بعد بد کاری دخیر مقدمات میں ماخوذ ہو کر سزا یاب ہوئے ( الفضل ".ا اجرت اسمی تین سفر ۲ کالم )
부이 موجب برکات ہونے کی بشارت دی.چنانچہ حضرت سیدنا الصلح الموعود خود فرماتے ہیں :- " جب ہم لدھیانہ جا رہے تھے تو اس روز بارش ہو رہی تھی.رستے خراب تھے.نہر والوں نے بھی انکار کر دیا کہ ہم دروازہ نہیں کھول سکتے.غرض ایسی حالت ہو گئی کہ میں ڈرتا تھا کہ شائد ہمارا جلسہ بھی ہو سکے یا نہ ہو سکے.مگر اسی حالت میں مجھے الہام ہوا " بہت سی برکتوں کے سامان کروں گا آخری لفظ کے متعلق مجھے مجھے طور پر یاد نہیں رہا کہ کرونگا " تھا یا " ہونگے " تھا.بہر حال الفاظ یہ تھے کہ بہت سی برکتوں کے سامان کرونگا " یا "بہت سی برکتوں کے سامان ہوں گے" میں حیران ہوا کہ حالت تو یہ ہے کہ بارش ہو رہی ہے اور نہر والے بھی راستہ نہیں دے رہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ بہت سی برکتوں کے سامان کروں گا.یہ الہام لدھیانہ جاتے ہوئے راستہ میں ہی مجھے ہوا ہے کرام حضرت خلیفہ اسیح الثانی المصلح الموعو نجلس میں شمولیت کیلئے المصلح الوجود کا دھیان میں ورود قادیان سے بذریعہ کار لدھیانہ پہنچے اور دار البیعت میں دُعا کرنے کے بعد ساڑھے تین بجے کے قریب جلسہ گاہ میں تشریف لائے جو بھدروڑ ہاؤس کے وسیع میدان میں شامیانوں کے نیچے تھی.اس وقت عوام کا ایک بہت بڑا جھمگٹا جو سارا دن ادھر ادھر منڈلاتا رہا تھا جلسہ گاہ کے پاس ہی کھڑا شور مچارہا تھا.حضور کے جلسہ گاہ میں پہنچتے ہی تقاطر شروع ہو گیا اور جب حضور نے ظہر کی نماز پڑھانا شروع کی تو موسلا دھار بارش ہونے لگی.اسی حالت میں حضور نے ظہر و عصر کی نمازیں پڑھائیں جو نہایت خشوع خضوع اور اطمینان کے ساتھ ادا کی گئیں.اس وقت خوب زور کی بارش ہو رہی تھی اور شور و شر کرنے والوں کا ہجوم بالکل منتشر ہو چکا تھا.نمازوں کے بعد حضور نے ارشاد فرمایا.دوست اپنی اپنی جگہ بیٹھے رہیں.اب جلسہ شروع ہوتا ہے.چنانچہ ایسی حالت میں جبکہ زور کا مینہ برس رہا تھا اور نیچے کہیں تھوڑا کہیں زیادہ پانی بہہ رہا تھا اور کپڑے بھیگ رہے تھے نہ صرف تمام احمدیوں نے نہایت درجہ اخلاص و عقیدت کے ساتھ کار روائی منی بلکہ بہت سے معزز غیر احمدی مسلمان حتی که غیر سم شنا بھی نہایت صبر و سکون اور دلجمعی اور اطمینان کے ساتھ جلسہ کے آخر تک بیٹھے رہے.حضر امیر المومنین کا زندگی بخش خطاب جس کا افتاح تلاوت قرآنکریم سے کیا گیا جوحضرت صاحبزادہ مرا جلسہ ناصر احمد صاحب نے فرمائی اس کے بعد حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب درد نے مختصر تقریر کی اور پھر حضرت خلیفہ اسیح الثاني الصلح الموعود نے حسب سابق سورۃ فاتحہ اور له " الفضل " ۲۵ احسان جون پیش صفر ۲ کالم ۲-۳ ہے ۶۱۹۴۴
۶۰۲ بعض قرآنی دعاؤں کی تلاوت کے بعد اپنا روح پر ور خطاب مندرجہ ذیل الفاظ سے شروع فرمایا.میں آج اس میگہ اس لئے کھڑا ہوا ہوں کہ آج سے ۵۵ سال پہلے خدا تعالے کی بتائی ہوئی خبروں اور اس کے ارشاد فرمائے ہوئے حکم کے ماتحت اس شہر لدھیانہ میں ۲۳ مارچ شاہ کو حضرت مسیح موعود عليه الصلوۃ والسلام بانی سلسلہ احمدیہ نے بعیت کی تھی اور اس بیعت کے وقت صرف چالیس آدمی آپ پر ایمان لانے والے تھے یہ ساری کی ساری پونجی تھی جسے لے کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اسلام کی فتح کے لئے کھڑے ہوئے تھے.باقی تمام دنیا ہندو، عیسائی ، سیکھ ، ہندوستانی ، ایرانی اور برطانی سب کے سب آپ کے مخالف تھے اور آپ کو مٹا دینے پر تلے ہوئے تھے مگر ان مخالفتوں کے باوجود آپ نے اللہ تعالیٰ سے خبر پا کہ دنیا کو بتایا کہ دنیا میں ایک نذیمہ آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا.اور بڑے زونہ آور حملوں سے اس کی سچائی کو ظاہر کر دے گا.اس اعلان کے بعد با وجود شدید مخالفتوں کے اللہ تعالٰی نے آپ کے سلسلہ کو بڑھانا شروع کیا “ ان تمہیدی کلمات کے بعد حضور نے پیشگوئی مصلح موعود کا تذکرہ کیا.اور پھر اہل لدھیانہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے ہوشیار پور میں بھی ایسا ہی جلسہ کیا تھا مگر وہاں کسی نے کوئی مخالفت نہیں کی.پھرلاہور میں پندرہ ہزار کے مجمع میں میں نے تقریر کی.وہاں بھی کسی نے کوئی مخالفت نہیں کی.مجھے کئی دفعہ یہ خیال آتا تھا کہ خدا تعالے کی طرف سے جن باتوں کا اعلان کیا جاتا ہے.اُن کی مخالفت لوگ ضرور کرتے ہیں.معلوم نہیں میرے اس اعلان کے بعد کہ یہ پیشگوئی پوری ہو چکی ہے اب تک کسی نے مخالفت کیوں نہیں کی.سو خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ آج لدھیانہ میں یہ مخالفت بھی ہوگئی اور اللہ تعالیٰ کے قانون اور انبسیار کی سنت کے مطابق لدھیانہ کے لوگوں نے اللہ تعالے کی باتوں پر استہزاء کیا.وہ ایک دائمی حیات پانے والے انسان کے متعلق کہہ رہے تھے کہ مرگیا.مگر ہم ان لوگوں سے ناراض نہیں ہیں جنہوں نے اللہ تعالے کی باتوں سے استہزاء کیا ہم اُن کے لئے بھی دعا ہی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آے سه مولوی محمد یعقوب صاحب طائر انچارج صیغہ زود نویسی) نے نہ صرف ہوشیار پور اور لاہور کی پوری تقادیر تیمبند کرلیں بکند لدھیانہ کی یہ تقریر معین بارش کے دوران نوٹ کی اور بعد ازاں دوسری تقریروں کے علاوہ اس تقریری متن بھی الفضل میں شائع کرا کے ہمیشہ کیلئے محفوظ کر دیا.فجزاہ اللہ احسن الجزاء ".
خدا ! ان لوگوں نے جو کچھ کیا، نادانی سے گیا، نا واقعی سے کیا محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو بھلانے کی وجہ سے استہزاء کیا مگر اے خدا ! تو ان کو معاف کر اور ان کو ہدایت دے اور اُن کے قلوب کو سچ کے قبول کرنے کے لئے کھول دے اور جس طرح آج میں نے اُن کو دین کے ساتھ استہزاء کرتے دیکھا.میں اپنی آنکھوں سے اُن کو دین کے لئے قربانیاں کرنے کی غرض سے آگے بڑھتا ہوا دیکھوں.انہوں نے آج اس بات پر استہزاء کیا ہے جو اللہ تعالی کی طرف سے ہے اور میں پر استہزاء کا اب تک نہ ہوتا مجھے حیران کر رہا تھا.سو اللہ تعالیٰ نے آج میری یہ خواہش بھی ان لوگوں کے ذریعہ پوری کر دی.کیونکہ انہوں نے خوب مخالفت کی اور ہنسی اڑائی.اس قسم کا سلوک اب تک کسی اور شہر میں ہمارے ساتھ نہیں ہوا تھا.سوئیں ان لوگوں کے لئے دعا کرتا ہوں.جنہوں نے میری اس خواہش کو پورا کیا کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنی رضا کی راہوں پر چلنے کی توفیق ہے ان کو ہدایت دے اور ایمان بخشے.اس وقت اس جلسہ میں لدھیانہ کے لوگ غالباً بہت کم ہوں گے.زیادہ تو بیرونی لوگ ہیں لیکن اگر یہاں ایک بھی لدھیانہ کا شخص ہے تو میں اس کے ذریعہ اہل لدھیانہ کو یہ پیغام دیتا ہوں کہ اسے گدھیا کے لوگو ! تم نے میری مخالفت کی اور یکن تمہارے لئے دعا کرتا ہوں.تم نے میری موت کی خواہش کی مگر میں تمہاری زندگی کا خواہاں ہوں.کیونکہ میرے سامنے میرے آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال ہے.آپ جب طائف میں تبلیغ کے لئے گئے تو شہر کے لوگوں نے آپ کو پتھر مارے اور ہاہاہا کر کے شہر سے نکال دیا.آپ زخمی ہو کہ واپس آرہے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتہ آپ کے پاس آیا اور اس نے کہا.اگر آپ فرمائیں تو اس شہر کو الٹا کر رکھ دوں.مگر میرے آقا محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیرے ماں باپ میری جان میرے جسم اور میری روح کا ذرہ ذرہ آپ پر قربان ہو ، فر مایا کہ نہیں ایسا نہیں ہونا چاہئیے.یہ لوگ ناواقف تھے ، نادان تھے ، اس لئے انہوں نے مجھے تکلیف دی.اگر یہ لوگ تباہ کر دیئے گئے تو ایمان کون لائے گا ؟ سواے اہل لدھیانہ اجنہوں نے میری موت کی تمنا کی.میں تمہارے لئے زندگی کا پیغام لایا ہوں ابدی زندگی اور دائمی زندگی کا پیغام ایسی ابدی زندگی کا پیغام جس کے بعد فنا نہیں اور کوئی موت نہیں.میں تمہارے لئے خدا تعالے کی رضا کا پیغام لایا ہوں جسے
۶۰۴ حاصل کرنے کے بعد انسان کے لئے کوئی دکھ نہیں رہتا.اور مجھے یقین ہے کہ آج کی مخالفت گل دلوں کو ضرور کھولے گی.اور دنیا دیکھے گی کہ یہ شہر انشاء اللہ خدا تعالیٰ کے نور سے منور ہوگا اور میرے کام میں میرا حمار و معاون بنے گا.میں خدا تعالیٰ سے یہی دُعا کرتا ہوں اور اُس کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ ضرور ایسا ہو کہ رہے گا لے نیز فرمایا :- آج میں ایل لدھیانہ کو یردیتا ہوں کہ حضرت میں موجود علی السلام نے خدا تعالے کی طرف سے غیر پا کہ قدرت اور فضل اور رحمت کے جس نشان کی خبر دی سختی وہ ظاہر ہو چکا.جن لوگوں کے کان میں یہ آواز پہنچے وہ اُن لوگوں تک اُسے پہنچا دیں جو نہیں سن رہے.اور میں لدھیانہ والوں کو یہ پیغام دیگریری لاله ہوتا ہوں اور اُن کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ انکار کر کے نقصان نہ اٹھائیں.یہ عظیم الشان پیشگوئی غیر معمولی حالات میں پوری ہو چکی ہے.پہلے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عمر اور غلبہ عطا کیا.پھر جیسا کہ نعمت اللہ صاحب وئی کی پیشگوئی میں بھی پیار پانچ سو سال قبل بتایا گیا تھا کہ پسرش یادگار می بینم اور جیسا کہ پہلے انبیاء کی پیشگوئیوں میں بھی بنایا گیا تھا.اللہ تعالیٰ نے آپ کو اولاد دی اور پھر ایسا بیٹا عطا کیا جو ان پیشگوئیوں کا مصداق ہے اور اللہ تعالیٰ نے اُسے اپنے نشانوں کے ساتھ کھڑا کیا.میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ الہ تالے کس رنگ میں اور کس طریق سے اپنے کام کو پورا کرے گا.لیکن یہ ضرور ہے کہ وہ کام ہو کر رہے گا.میرے ذریعہ یا مجھ سے دین سیکھنے والے کسی اور کے ذریعہ اور جہاں آج دنیا میں ہر طرف محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کرنے والے موجود ہیں، وہاں گھر گھر سے درود کی آوازیں آئیں گی، اور خدا تعالیٰ کا وعدہ پورا ہو ک ر ہے گا.تلہ حضرت امیر المومنین المصلح الموعود کی اس ایمان افروز تقریر کے چودھری مخالف اللہ خانصاحب کی تحقر تقریبا بعد از یا ماروی سرمد فواد خان صاحب نے بایت آنریل چود وقت حسب ذیل تقریر فرمائی.تر اپنے فضل سے مجھے یہ توفیق بخشی اور اس کے لئے مواقع بہم پہنچائے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام پہنچا ہوا اور آپ کی تعلیم کو دکہ وہ حقیقی اسلام ہے اور " : " / الفصل تبلیغ فروری اش مسخره کالم اتمام سله الفضل ما تبلیغ فروری میشی صفر الا کالم ۱-۲+ "A A
۶۰۵ اسی کو پھیلا.نہ سکے لئے خدا تعالیٰ نے آپ کو مبعوث فرمایا تھا) پھیلے ہوئے دیکھا بھین کے مغربی علاقہ میں یہاں آجکل چینیوں کی حکومت ہے ، احمدیت کی اشاعت کو دیکھنے کا مجھے اتفاق ہوا.گو خدا تعالیٰ کے فضل سے وہاں احمدیت پھیلانے والا میں ہی تھا.وہاں ایک واقعہ پیش آیا.جب مجھے پہلی دفعہ اسلام پر تقریر کرنے کا موقعہ ملا تو ایک صاحب جو ہمارے ہی عملہ میں تھے اور احمدیت کے سخت مخالف تھے انہوں نے کہا کہ اگر اسلام یہ ہے اور یہی احمدیت ہے تو میں احمد بہت میں داخل ہوتا ہوں.چنانچہ انہوں نے احمدیت قبول کر لی.دوسرا ملک جہاں میں اپنے احمدی دوستوں سے ملا وہ عراق ہے.وہاں مجھے احمدی مبلغین کا کام دیکھنے کا موقع تو نہیں ملا مگر وہاں کے احمدی دوستوں سے ملا اور حالات سنے.پھر مصر میں قاہرہ کے مقام پر دو دفعہ مصری اور شامی احمدی دوستوں سے ملا.اپنے احساسات پیش کئے اور ان سے حمالات سنے.مغربی افریقہ کے ملک نائیجیریا میں دو بار گیا.وہاں کے احمدی مبلغ سے حالات سنے مشورہ بھی دیا.دوسری دفعہ جب میں گیا تو وہاں کے مرکزی شہر لیگوس میں مسجد احمدیہ کی تعمیر کے لئے سنگ بنیاد رکھنے کا شرت مجھے دیا گیا.گولڈ کوسٹ میں احمدی مبلغ سے ملنے کا مجھے اتفاق نہیں ہوتا.میں گورنہ کے ہاں ٹھہرا ہوا تھا اور ہمارے مبلغ علاقہ میں تھے.البتہ ٹیلیفون پر ان سے گفتگو کی اور اس میں تبلیغ احمدیت کا ذکر آیا.جنوبی امریکہ میں برازیل اور گی آنا میں جہاں میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر درود بھیجنے والے لوگ دیکھے وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر درود بھیجنے والے بھی موجود تھے.ہ اور پھر سہ میں مجھے شمالی امریکہ میں جانے کا اتفاق ہوا.شکاگو میں میں نے احمدی مبلغ کا کام بھی دیکھا.خود بھی تقریریں کیں.شکاگو اور دوسرے مقامات پر وہاں کے احمدی دوستوں سے ملاقاتیں بھی کیں.شکاگو میں احمدیہ مسجد ہے.وہاں امریکیوں کو تبلیغ بھی کی.انگلستان میں کئی بار خدا تعالیٰ نے احمدیت کی اشاعت کے دیکھنے کا موقعہ دیا.وہاں خدا تعالے کے فضل سے احمدیت کا کامیاب مشن ہے.مشن ہاؤس ہے.مسجد ہے.مجھے بھی جب میں وہاں بھاتا ہوں کام کرنے کا موقع ملتا ہے.پولینڈ میں محو منہ میں احمدی مبلغ سے ملاقات کی.وہاں کے حالات کا مشاہدہ کیا اور تقریر کی ہنگری کے بوڈا کیسٹ شہر میں اور اٹلی میں بھی اپنے مبلغوں سے ملنے اور جن
لوگوں کو وہ اپنے ساتھ لائے اُن کو تبلیغ کرنے کا موقع ملا.اس لحاظ سے میں کہہ سکتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے بھاروں براعظموں میں میں نے اپنی آنکھوں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نام اور آپ کی تعلیم کو پھیلتے ہوئے دیکھا اور ان ممالک کے لوگوں کو اسلام کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے پایا جس کے لئے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا.الحمد لله على ذلك "له حضرت چودھری صاحب کی اس مختصر مگر پر مغز تقریر کے بعد مبلغین احمدیت المصلح الموعود کی آخری تقریب کی مختلف ممالک میں تبلیغ احدیت سے متعلق تقریریں ہوئیں جن کے بعد محتر میں خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود نے فرمایا : اب آپ لوگوں نے وہ حالات من لئے ہیں جو تبلیغ اسلام کے متعلق میرے ہاتھوں سے اللہ تعالیٰ نے ظاہر فرمائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے علم یا کر یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ خدا تعالیٰ آپ کی تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچائے گا.نیز ایک پیشگوئی یہ فرمائی تھی کہ وہ مولود لڑکا دنیا کے کناروں تک شہرت پائے گا اور اس طرح یہ دونوں پیشگوئیاں پوری ہوئی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تبلیغ بھی دنیا کے کناروں تک پہنچی اور میرا نام بھی تو اس پیشگوئی کا مصداق ہوا دنیا کے کناروں تک پھیلا.پھر آج جو بارش ہوئی ہے یہ بھی ایک پیشگوئی کو پورا کرتی ہے جو اس موجود لڑکے کے بارہ میں ہے.یہ ایک عجیب بات ہے کہ ہوشیار پور میں جو سہارا جلسہ ہوا تو وہاں پیشگوئی کا یہ حصہ پورا ہوا کہ نوکر آتا ہے نور ۱۲۰ فروری ۹۲نہ کو وہاں ہمارا جلسہ ہوا.اس سے کئی روز قبل بارش ہو رہی تھی.۱۹ فروری کو عشاء کے وقت مجھے بذریعہ فون اطلاع دی گئی کہ بارش ہو رہی ہے.مگر میں نے کہا کہ ہم انشاء اللہ پہنچ جائیں گے.۲۰ فروری کو اللہ تعالے کا ایسا افضل ہوا کہ بارش بالکل بند رہی.اور خوب دھوپ نکل آئی.اور جب ہم وہاں سے آگئے تو پھر بارش ہونے لگی.گویا پہلے بھی بارش اور بعد میں بھی بارش اور بیچ میں دھوپ : اور اس طرح اس پیشگوئی کا یہ حصہ پورا ہوا کہ نور آتا ہے نور آج کے میسر میں بھی اس موجود لڑکے کے متعلق پیشگوئی کا ایک دوسرا حصہ پورا ہوا ہے.الہام الہی میں اس کے متعلق کہا گیا تھا کہ اِنَّا اَرْسَلْنَهُ شَاهِدًا وَ مُبَشِّرًا وَنَذِيرًا كَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمَاءِ فِيْهِ له الفضل ۲۸ رامان / ماری بش صفحہ ا کا لم اتا کم ہے ۶۱۹۴۴
ظلمتُ وَرَعْدٌ وَبَزی یعنی اس کی مثال اس بارش کی سی ہوگئی جس میں ظلمت اور گرج اور چمک ہو.یہ الہام ظاہری رنگ میں آج پورا ہو گیا.آج بارش میں ہی ہم نے نماز پڑھی اور بارش ہی میں (میں) نے تقریر کی.ہمارے مخالف خوش ہوتے ہوں گئے کہ بارش شروع ہو گئی ہے اور یہ اُن کے جلسہ کو روک دے گی لیکن میرا دل اس بارش کو دیکھ کر خوشی سے لبریز ہورہا تھا کہ اللہ تعالے کا ایک اور نشان پورا ہو رہا ہے اور لدھیانہ کے لوگ اس نشان کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے جس کا اعلان یکم دسمبر رملہ کے اشتہار میں کیا گیا تھا.اب میں لدھیانہ کے لوگوں کو اور ان لوگوں کو بھی ہو باہر سے آئے ہوئے ہیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ آسمان کی آواز ہے جو اللہ تعالیٰ نے بلند کی ہے.اسے بند کرنا آسان نہیں.یہ جماعت شروع میں صرف پالیس افراد پرمشتمل تھی مگر اب خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری تعداد لاکھوں تک پہنچ چکی ہے....اس سلسلہ کی تائید کے لئے خدا تعالیٰ کے فرشتے آسمان سے اُتریں گے اور روز بروزید سلسلہ پھیلتا چلا جائے گا اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ پیغام اُن ممالک تک جو آپ پر ایمان نہیں رکھتے ضرور پہنچے گا.اور جس طرح پہاڑوں سے دریا نکلتے ہیں اور پھر اُن سے نہریں نکلتی ہیں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کی نہریں میرے ذریعہ ساری دنیا میں جاری ہوں گی.اسلام دنیا میں بھینسے گا اور ضرور جیت کر رہے گا.مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ ہم ان لوگوں کے دشمن ہیں جو ابھی تک ایمان نہیں لائے ہم ان کے حقیقی خیر خواہ ہیں اور ان کی خیر خواہی سے مجبور ہوکہ ہی اُن کو سمجھاتے ہیں جس طرح ایک ماں جب دیکھتی ہے کہ اس کا بچپر کنوئیں میں گرنے لگا ہے تو وہ پوری کوشش کر کے اُس کو بچاتی ہے.اسی طرح ہم ان لوگوں کو ہلاکت سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں.جب ہم اسلام کو سچا سمجھتے ہیںتو پھر ہم یہ بھی اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ سچائی کو دنیا میں پھیلائی ہمارے مخالفت اگر ایمان نہ بھی لائیں تو بھی اُن کو چاہیے کہ ہماری خیر خواہی کے قائل ہوں اور اس بات کو انیں کہ ہم جو کچھ کہتے ہیں ان کی ہمدردی کے لئے کہتے ہیں اور کہتے چلے جائیں گے بچاہے وہ ہم کو کتنے دُکھ کیوں نہ دیں، کتنی تکالیف کیوں نہ پہنچائیں، خواہ وہ ہمیں آروں سے چیر دیں، خواہ شیروں کے آگے ڈالیں، پتھروں سے سنگسار کریں، پہاڑوں سے گرا کر ہلاک کریں، سمندر میں پھینک دیں.ہم خدا کا نام لے کرکھڑے ہوئے ہیں اور اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے سے رہ نہیں
۶۰۸ سکتے جب تک ہماری بھان میں جان ہے ہم یہ آواز بلند کرتے چلے جائینگے اور ہمارا ایمان ہے کہ تعلیم ضرور کھیل کر رہے گی اور زیر دست سے زبر دست تو میں بھی ہمارے رستہ میں اگر کھڑی ہوں گی تو وہ نا کام ہوں گی.بیشک ہمارے جسموں کو وہ مٹاسکتی ہیں مگر بہاری رو میں بلند ہوں گی اور یہ پیغام بند نہ ہوگا پس بہتری اسی میں ہے کہ ہماری آواز کو سنو.اپنی عاقبت کی بہتری کے لئے سنو ! اور اس آواز کو جو اللہ تعالے کی طرف سے بلند ہو رہی ہے بغیر سے مشورہ ر کھنے کی کوشش کرو.اے خدا ! میں تجھ سے دُعا کرتا ہوں کہ تو ان لوگوں کے دلوں کو کھول دے اور ساری دنیا کے کانوں تک اس آواز کے پہنچنے کے سامان پیدا کر دے جس طرح ہم تیرے بندے ہیں.اسی طرح وہ بھی ہیں جنہوں نے ابھی تیرے پیارے محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کونہیں پہچانا تو ان کو ہدایت دے اور سب کو اپنے جھنڈے کے نیچے جمع کر دے.دنیا سے فساد ، بدامنی، بیدینی ظلم، فسق و فجور، ایک دوسرے کے مال کو کھانے اور آپس میں لڑنے کی رُوح کو دنیا سے مٹا دے اور امن و آشتی کی روح پیدا کر دے.اب میں دعا کرتا ہوں ایہو دوست بھی دعا کریں تا اللہ تعالٰی دلوں کو کھول دے اور دنیا کی بڑھالی کو خوشحالی میں تبدیل کر دے " سے تقریر کے خاتمہ پر حضرت المصلح الموعود نے دعا کرائی اور سات بجے شام کے قریب یہ مبارک جلسہ بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوا.اور حضور معہ چند اصحاب کے اسی وقت بذریعہ کار قادیان کے لئے روانہ ہو گئے بیہ دیگر کوائف اس بیلہ میں قادیان سے خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے چھوٹے بڑے قریبا تمام افراد نے شرکت فرمائی نیز حضرت مولوی شیر علی صاحب بین حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب اور حضرت میر محمد اسمعیل صاحب اور بہت سے دوسرے عمر رسیدہ اور قدیم صحابی بھی شامل ہوئے.قادیان سے بجانے والوں کی تعداد ایک ہزار کے قریب ہوگی.پہلا قافلہ دور بہزرو بوگیوں اور عام گاڑی میں ۲۲ امانی " الفضل " ۸ در تبلیغ / فروری س ش ص ۱۳۰ کالم ۲-۳-۴۲ اور اتا ہم و ناب سیٹھ محمد اعظم صاحب حیدر آبادی کا بیان ہے کہ حضرت خلیفہ السیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اپنے مصلے پڑنے کے اعلان کے وقت پہلے قادیان میں اور بعد میں لدھیانہ اور لاہور میں جو گرم کوٹ زیب تن فرمایا تھا وہ حضور نے خاکسار کی درخواست په از راه دره نوازی نها کسار کو مرحمت فرما دیا تھا.یہ کوٹ اب میں نے اپنے لڑ کے محمد اکرم (ڈپٹی چیف انجنیر داؤد خیل کو اس کے اصرار پر دے دیا ہے جو اس کے ہاں محفوظ ہے.
۶۰۹ کی شام کو اور دوسرا قافلہ ۳ برامان / مارچ کی صبح کو قادیان سے روانہ ہوا پہلے قافلہ کے امیر سفر حضرت مولوی شیر علی صاحب اور دوسرے قافلہ کے حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب تھے.قافلہ میں شریک احباب آتے جاتے پورے التزام سے خدا تعالیٰ کی حمد و ثناء کرنے اور دعائیں مانگنے میں مصروف رہتے.مصلح موعود کے زندہ نشان کے اعلان اور اہل ہند پر اتمام حجت کے لئے پو تھا اور آخری جلسہ عام جلسہ علی ہندوستان کے دارالسلطنت وصلی میں ۱۲ ماہ شہادت اپریل یہ پیش کو منعقد کیا گیا بعید گاہ ہارڈنگ لائیبریری کے متصل ملکہ کے باغ میں تھی.پنجاب، یو پی ، نواح دہلی اور حیدر آباد دکن تک سے یا چار پانچ ہزار احمدی اس مقدس اجتماع میں شامل ہوئے بہکے جماعت احمدیہ دہلی نے بیرونی مہمانوں کے طعام وقیام کا انتظام احمدیہ فرنیچر ا اس کشمیری گیٹ کے وسیع احاطہ میں کر رکھا ہے بعض دوسرے احباب کے ہاں بھی بہانوں کے ٹھہرنے کا انتظام تھا.مہمانوں کے استقبال کی ذمہ داری جناب سیال غلام محمد صاحب اختر کے سپرد تھی بہن کے ساتھ تین نائب اور بیلیس معادن سرگرم عمل رہے جو بہت دہلی.نے مستعدات کو قیام گاہ تک پہنچانے کے لئے تانگوں کا انتظام کر رکھا تھا.جلسہ کا اسطلان مختلف طریقوں سے کیا گیا.پچاس ہزار پوسٹر اور اشتہارات اردو، انگریزی اور ہندی میں شائع کئے گئے ہو تقسیم کرنے کے علاوہ ٹریم گاڑیوں پر بھی چسپاں کر دیئے گئے.نیز وہلی کے قریباً تمام اخبارات میں بھی اعلان چھپے.اسی طرح بلجنہ اماءاللہ نے بذریہ اشتہار خواتین سے جلسہ میں شمولیت کی درخواست کی.جات مصلح موعود کی خبر ملتے ہی دہلی میں اشتعال انگیز تقاریر اور اشتہارات کا ایک باقاعدہ سلسلہ جاری کر دیا گیا اور عوام کو ہر طرح سے مشتعل کر کے ہر صورت جلسہ درہم برہم کرنے کی تلقین کی گئی اور جگہ جگہ کھلے لفظوں میں اعلان کیا گیا کہ ہم خون کی ندیاں بہا دیں گے مگر قادیانیوں کا جلسہ نہیں ہونے دیں گے.ان حالات کے باوجود جماعت احمدیہ دہلی نے پوری دھمھی اور استقلال سے جلسہ کی تیاریاں نہایت تیزی سے مکمل کرلیں میلہ گاہ نہایت سلیقہ سے آراستہ کی گئی.داخلہ کے لئے بہت خوبصورت اور بڑا گینٹ نصب کیا جس کے دونوں طرف اسلامی نشان چاند اور ستارہ کے نیچے کھا گیا کہ خدا تعالیٰ کے ایک عظیم الشان نشان کے اعلان کیلئے جماعت احمدید روسلی کا جلسه لا اله الا الله محمد رسول الله " زمانہ جلسہ گاہ علیحدہ بنائی گئی معنی مردانہ جلسہ گاہ میں " ۲-۹۳ لله الفضل در امان زمان سایش صفحه ۲-۳ " الفضل".ارتش صفحه ۹۶ کہ یہ جگہ ریلوے اسٹیشن دہلی کے دوسری طرف بالکل قریب ہی واقع تھی اور پیدل چلنے و لے ریلوے کا پیل (جو کاٹھ کا میل کہلاتا ہے) جبور کرنے کے بعد بآسانی دس منٹ میں پہنچ سکتے تھے ؟
41- سطین کے دونوں طرف کرسیاں اور باقی جگہ پہ دریاں بچھائی گئیں میرالمومنین حضرت علی تر ایچ ای سی او اور اس میں شمولیت فرانے کیلئے وہ شہادت امیرالمومنین کی دلی میں اس ایریا کی ہی کو بے ایریا سے وہ اپنے بیان پرایک بہت برا بھی حضور کے استقبال کے لئے موجود تھا دلی کے امیر جماعت باہر نذیر احمد صاحب کی طرف سے ہدایت تھی کہ کوئی صاحب اس موقعہ پر مصافحہ نہ کریں اور اس ہدایت کی خود انہوں نے بھی پابندی کی حضرت امیر مومنین خدام کے بہت بڑے ہجوم میں بٹیشن سے باہر تشریف لائے اور نئی دہلی کی کوٹھی چونڈ سرپیلیں میں قیام فرما ہوئے.جہاں حضرت حافظ صاحبزادہ مرزا ناصر احا طائب اپنی بیگم صاحبہ کے علاج کے لئے پہلے سے فروکش تھے.حضرت امیر مومنین سیار بچے کے قریب جلسہ گاہ میں رونق افروز ہوئے.اور شہر و عصر کی نمازیں قصر کر کے پڑھائیں اس وقت تک ہر مذہب و ملت کے بہت سے لوگ جلسہ گاہ میں پہنچ چکے تھے یہ ٹھیک ساڑھے چار بجے جلسہ کی کاروائی کا آغاز کیا گیا.سب سے پہلہ نسب سابق حضرت صاحبزادہ میرزا ناصر احمد صاحب سورہ بنی اسرائیل کے نویں رکوع کی تلاوت کے لئے کھڑے ہوئے.ابھی آپ نے قرآن مجید کی تلاوت شروع ہی فرمائی تھی کہ ایک شورش پسند طبقہ نے جو جلسہ کو درہم یہ تم کرنے کی غرض سے آیا تھا اور بڑے دروازہ کے سامنے کھڑا تھا گالیاں دیتے اور شور مچاتے ہوئے مداخلت شروع کر دیتی.جب ان لوگوں کو مل گئے سے باہر نکال دیا گیا تو سات آٹھ ہزار کا ایک بہت بڑا ہجوم جلسہ گاہ کے ارد گرد جمع ہو گیا.عین اس وقت جب شور و غوغا بلند ہورہا تھا حضرت امیر مومنین الصلح المو دو نے ہدایت فرمائی کہ ہماری جماعت کے سب دوست بیٹھ جائیں اور اگر کوئی باہر گئے ہوں تو واپس آ جائیں خواہ اُن کو کوئی مارے اور بیٹے وہ کوئی جواب نہ دیں.سیل کا آغاز تہ اس کے بعد کچھ دیر تک پنڈال میں خاموشی طاری رہی.اس دوران میں حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب درد نے صلح موعود کی پیشگوئی سے متعلق مختصر تقریر کی پر حضرت امیر المومنین نے اپنی نہایت ایمان افروز تقریر شروع فرمانی حس پر شور و شر پیدا کر نہ مانے ہجوم کا ایک حصہ دوبارہ گالیاں رہتا اور شور کرتا ہوائی پر حملہ کرنے کی نیت سے آگے بڑھا.جیسے اکھیوں نے روک دیا اور منور کی تقریر جاری رہی.اس پر پنڈال سے باہر تمل نجوم نے جلسہ گاہ پر سلسل پھر برسانا شروع کر دیتے.ور پر دور کرتا ہوا مستورات کی بعد گاہ کی طرف بڑھنے لگا.مجھے روکنے کے لئے احمدی نوجوان قناتوں سے باہر صف باندی کے لة الفضل " - شہادت پر تھے 40 سے اس ہنگامہ کی نسبت دہلی کے اخبار انصاری نے بیان دیا :- و مرزا بشیر الدین محمود بولنے کے لیے گھرانے دئے بہت سے لوگوں نے انہیں بولنے سے روکا اور مختلف اقسام کے نعرے بلند کئے " بالفاظ دیگر کوئی فقرہ بنے بغیرای شورش بر پا کردی گئی.مگر اصل حقیقت یہی تھی کہ ختنہ کی ابتداء حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی تقریر کے وقد نہیں جگروں سے قبل تلاوت قرآن مجید سکھ شروع میں کی گئی تھی جس کے لئے کوئی وجہ جواز نہ ستی ،
۶۱۱ کھڑے ہو گئے جس پر ہجوم نے جلسہ گاہ کے زنانہ حصہ پر پتھر برسانا شروع کر دیئے.اس عرصہ میں ہجوم اس قدر زیادہ ہو گیا کہ جلسہ گاہ چاروں طرف سے لوگوں سے گھر گئی.آخر جب یہ فتنہ پرداز گروہ خواتین کے مجمع کی طرف بڑھا اور سخت خطرہ پیدا ہو گیا کہ حملہ کر دے گا تو حضرت خلیفہ اسیح الثانی المصلح الموعود نے ارشاد فرمایا کہ عورتوں کی حفاظت کے لئے ایک سو آدمی پہلے بائیں باقی سب بیٹھے رہیں.اگر تم میں سے کوئی کمزور دل ہو تو وہ نہ بھائے اس کی بجائے میں جانے کے لئے تیار ہوا.اس پر ایک معمر دوست ملک حسن محمد صاحب نے جوش سے کا پنپتے ہوئے عرض کیا حضور جب تک ہم زندہ ہیں حضور کس طرح جاسکتے ہیں.دشمن جب ہماری ہڈیاں پیس کر رکھ دے تب حضور جاسکیں گے بین اس موقعہ پر حضور نے حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :- حضر امیرالمومنین کی ایمان افروز تقریر یہ لوگ جو شور چھا رہے ہیں اور گالیاں دے رہے ہیں یہ بھی میری صداقت کی ایک دلیل پیش کر رہے ہیں.بھلا جھوٹ سے بھی کوئی ڈرتا ہے اور جھوٹ کبھی غالب آسکتا ہے ؟ لوگ ڈرتے اسی تے ہیں جس کے متعلق سمجھتے ہیں کہ حقیقی طاقت اس کے پاس ہے اور وہ غالب آجائے گا ہم وہ باتیں سننے کے لئے تیار ہیں جو یہ الگ تہذیب اور شرافت سے منائیں.یہ ہماری باتیں سننے سے لوگوں کو روکتے ہیں.مگر میں ان مولویوں سے کہتا ہوں کہ وہ ہمارے ہاں قادیان میں آئیں اور ہمیں اپنی باتیں تہذیب کو مدنظر رکھتے ہوئے سُنائیں.ہم اُن کی باتیں سننے سے لوگوں کو منع نہیں کریں گے بلکہ انہیں جمع کر دیں گے اور ان علماء کا سب خرچ بھی دیں گے" اس کے بعد حضور نے ہنگامہ بپا کرنے والوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اس شور و شہر سے تو کچھ فائدہ نہ ہوگا.آپ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ آپ کے دلوں میں اسلام کا ہے اور آپ اپنے زعم میں نہیں دشمن اسلام تصور کرتے ہوئے ہمارے سے مٹانے کے درپے ہیں.انسان نے بہر حال ایک دن مرنا ہے کوئی پہلے مر جائے گا اور کوئی پیچھے مردگان اسر الئے آؤ ! میں ایک مفید اور صحیح طریق فیصلہ آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں جو بتا دے گا کہ ہم میں سے کو نیا فریق اپنے دلوں میں اسلام سے بھی محبت اور اس کے لئے سچا درد رکھتا ہے اور اس سے تبلیغ اسلام کو بھی بہت بڑا فائدہ پہنچے گا.اور وہ طریق فیصلہ یہ ہے کہ آپ لوگ اپنی اپنی جماعت اور اپنے اپنے ہم خیال لوگوں میں ہے اسلام کی اشاعت کے لئے اپنی زندگیاں وقت کرنے والے نوجوانوں اور تبلیغ دین کیلئے اپنی جائیدادیں اور اموال راہ خدا میں دینے والے اشخاص کا مطالبہ کریں تا کہ اس ذریعہ سے بلاد غربیہ اور اطراف و کناف ماه " " الفصل ۲ شهادت / ایمیل همایش صفحه ۱* ۱۳۳۳
۱۳ عالم میں تبلیغ اسلام ہو سکے.میں بھی اپنی چھوٹی اور غریب جماعت سے یہی مطالبہ کروں گا.اس کے نتیجہ سے دنیا پر واضح ہو جائے گا کہ کن کے ساتھ خدا تعالے کی تائید و نصرت کا ہاتھ ہے اور کونسا فریق اسلام کا حقیقی خیر خواہ اور دلوں میں اس کا سچا در درکھتا ہے.میری تازہ تحریک پر جوئیں نے اپنی جماعت میں ابھی حال ہی میں کی ہے اس وقت تک ڈیڑھ سو اعلی تعلیم یا فتہ نوجوان اپنی زندگیاں اسلام کی خدمت کے لئے وقف کر چکے ہیں.اور ایک کروڑ روپیہ کی جائیداد اس وقت تک وقف ہو چکی ہے.پس گالیاں دینے، اینٹ اور پتھر برسانے سے کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا.اگر آپ لوگ سچے ہیں تو میں دعوت دیتا ہوں کہ میدان میں نکلیں اور اس طریق فیصلہ کو قبول کر کے اپنے دعوئی کی صداقت کو ثابت کریں لے اس کے بعد حضور نے فرمایا :- حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی جس پیشگوئی کے پورا ہونے کا ذکر میں اس وقت کرنا چاہتا ہوں اور جو مصلح موعود کے متعلق ہے، اس میں ایک علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ ظاہری اور باطنی علوم سے پر کیا جائے گا اور یہ ایسی واضح علامت ہے کہ اسے بآسانی معلوم کیا جا سکتا ہے.میں جسے خدا تعالیٰ نے اس پیشگوئی کا مصداق قرار دیا ہے تمام علما کو چیلنج دیتا ہوں کہ میرے مقابلہ میں قرآن کریم کے کسی مقام کی تفسیر لکھیں اور جتنے لوگوں سے اور جتنی تفسیروں سے چاہیں مدد لے لیں.مگر خدا کے فضل سے پھر بھی مجھے فتح حاصل ہو گی.ہے نیز فرمایا : میں یہ دعویٰ کرتا ہوں کہ بیشک ہزار عالم بیٹھ جائیں اور قرآن مجید کے کسی حصہ کی تفسیر میں میرا مقابلہ کریں، مگر دنیا تسلیم کرے گی کہ میری تفسیر ہی حقائق و معارف اور روحانیت کے لحاظ سے بینظیر ہے.اس کے بعد فرمایا.میں خدا سے خبر پا کر اعلان کرتا ہوں کہ وہ پیشگوئی جس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۲۰ فروری ہ کے اشتہار میں فرمایا تھا، پوری ہو گئی ہے.خدا تعالیٰ نے روبار میں مجھے اطلاع دی کہ مصلح موجود کی پیشگوئی کا مصداق میں ہی ہوں میں اس خدائے وحدہ لا شریک لہ کی قسم کھاکر کہتا ہوں میں کی جھوٹی قسم کھانا مفتیوں کا کام ہے کہ یہ رویا جس کا ذکر میں نے کیا ہے.تعدا نے مجھے بتایا ہے میں نے خود نہیں بنایا.اگر میں اس بیان میں سچا ہوں اور آسمان و زمین کا خدا شاہد ہے کہ میں سچا ہوں تو یا د رکھنا چاہئیے کہ آخر ایک دن میرے اور میرے شاگردوں کے ذریعہ ل الفضل و ہجرت امی اس کالم ہے" الفضل " ۲۳ شهادت را پریل مش صفحه ۱ اور ۳ ، ۳
لم سے رسول کریم صلی الہ علی اسم کا کلمہ ساری دنیا پڑھے گی اور ایک دن آئے گا جب ساری دنیا پر اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ شان کے مقام سلام کی حکومت قائم ہو جائے گی عیسا کہ پہلی صدیوں میں ہوئی تھی نے حضرت خلیفہ ایسی نشانی اصلح ا مولود کی عادت تقریر قریبا این و هند تک جاری رہی.مبلغین کی تقریریں جس کے بعد رات والی عبدالمنا ا ا ا اتارا اور تبلیغ داران نے اعلان کیا کہ اب اُن مبلغین کی محمد پورمیں پیش کی جائیں گی جنہوں نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے عہد میں دنیا کے کناروں تک اسلام کی تبلیغ کی بچنا نچہ اس کے بعد بیرون ہند کے مبلغین نے اپنے اپنے ملک کے تبلیغی حالات سُنائے.اس دوران میں شور و شتر بر پا کرنے والے لوگ خواتین کی جلد گالہ احمدیوں کی طرف سے صبر تحمل کا مظاہرہ سے ہو کر کھلی طرف آگئے اور ان جو حدی نوجوان پرو پے اس لئے کھڑے تھے کہ مفسد لوگ جلسہ گاہ میں داخل ہو کر فساد نہ کر سکیں ان پر پتھر برسانا شروع کر دیئے.اس موقعہ پر فساد کرنیوالوں کی طرف سے بارش کی طرح پتھر برسائے گئے اور کئی ایک احمدی نوجوان سخت زخمی اور لہو لہان ہو گئے.جن میں حضور کے داماد میاں عبد الرحیم احمد صاحب بھی تھے جنہیں سخت چوٹیں آئیں.اور وہ بیہوش ہو ک گر گئے.انہیں اُٹھانے اور سٹیج کی طرف لانے کے وقت فتنہ پردازوں نے اور زیادہ شدت کے ساتھ سنگباری کی جس سے زخمیوں کی تعداد میں اور اضافہ ہو گیا.ان سب کو فوراً احمدی ڈاکٹروں کی طرف سے فرسٹ ایڈ ہم پہنچائی گئی اور زخموں پہ ڈاکٹر صاحبان نے پٹیاں باندھ دیں.اس وقت ایک طرف تو زخمیوں کو پٹیاں باندھی جا رہی تھیں اور ان کے سروں اور چہروں سے بہتا ہوا خون دھودیا بھارہا تھا اور دوسری طرف جلسہ کی کارروائی با قاعدہ بھاری تھی اور احمدی مبلغین بے گناہوں اور دین کے خادموں کا خون بہانے والوں کو یہ بتا رہے تھے کہ دنیا کے کناروں تک غدا تعالے کی وحدانیت قائم کرنے اسلام کی تعلیم پھیلانے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بلند کرنے کے لئے وہ حضرت امیر المومنین کی ہدایت کے ماتحت کس قدر جد وجہد کر رہے ہیں.اس کے بعد حضرت امیر المومنين المصلح الموعود نے پھر تقریر فرمائی اور جلسہ دُعا پر ختم ہوا.فتنہ پر دانوں نے پہلے ہی ستم توڑنے میں کوئی کمی نہ کی تھی لیکن اس وقت تو انہوں نے اُسے انتہا ر تک پہنچا دیا جب خواتین کو جلسہ گاہ سے گھروں کو بھیجا گیا.انہوں نے راستہ میں کھڑے ہو کر لاریوں پر حملے کئے.اه رساله " فرقان قادیان شمارہ شہادت پر یار با صفحه ۱۹۹ له و الفضل " ۲۰ شہادت / اپریل سے ہی مسلم عالم ا و
۶۱۴ مگر خدا تعالیٰ نے مستورات کو شریروں کی گزند سے ہر طرح محفوظ رکھا.البتہ ان احمدی نوجوانوں میں سے بعض کو سخت پھوٹیں آئیں جو لادیوں کے ساتھ حفاظت کے لئے بھیجے جاتے تھے.مگر باوجود ان لوگوں کی ان حرکات کے حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الثانی المصلح الموعود نے اُن کے لئے دعا کی کہ خدا تعالے ان کی آنکھیں کھولے اور انہیں حق کو دیکھتے اور ہدایت کو قبول کرنے کی توفیق بخشے " ہے دہلی کی بعض سعید روحیں اس جلسہ کے بعد حضرت خلیفہ اسی الثانی تین روز تک نئی دہلی میں تشریف فرمار ہے.اس عرصہ میں غیر احمدی اور ہندو سکھ معززین کی ایک بڑی تعداد احمدیت کی آغوش میں نیز ایک عرب صاحب نے شرف ملاقات حاصل کیا.حضور روزانہ بعد نماز مغرب رات کے گیارہ بجے تک احمدی و غیر احمدی احباب کے مختلف مذہبی وسیاسی سوالات کے جواب دیتے تھے " اس اثنا میں حسب ذیل احباب حضور کے دست مبارک پر بیعت کر کے داخل احمدیت ہوئے.ار محمد حسین صاحب (چیف انجینئر آفس نئی دہلی آفتاب احمد صاحب (چیف انجنیئر آفس نئی دہلی -۳- فیاض بیگ صاحب دریا گنج دہلی رمعہ اہلیہ صاحبه و پسران و دختران الله آخری روز یعنی ۲۰ شہادت / اپریل کو حضور تین بجے کے قریب سیدنا مصلح موعود کی دعا حضر خواجہ میر درد پہلے حضرت خواجہ میر درد رحمۃ اللہ علیہ کے مرقد مبارک پر اور اور حضرت شاہ ولی اللہ محدث کے مزار پر حضرت شاہ ولی اله محمدی در وی رحمہ اللہ علیہ کے مزار دہلوی مقدس پر دعا کے لئے تشریف لے گئے اور کافی دیر تک دعا فرماتے رہے.ان ایام میں دہلی کے اطراف و جوانب سے آنے والے احمدی دوست بھی حضور کی زیارت سے مشرف ہوتے رہے.الغرض حضور کے ایام انتہائی مصروفیت میں گزر ہے.انہاں بعد حضور ۲۰ شہادت اپریل کوگیارہ بجے شب دہلی سے روانہ ہوئے.اگلے روز ۲۱ شہادت پریل کو پونے بارہ بجے بخیریت قادیان تشریف لے آئے شے ة المصير صلی حالاست این بار اس المصلح الموعود نے قادیان پہنچتے ہی خطبہ جمعہ دیا جس میں اپنی زبان مبارک سے الفضل ۲۳ شہادت اپریل این سفر است له الفضل " ، ہجرت امنی ریش سفاک سے " الفصل" " ۳۲۳ : ۲۰ شہادت / اپریل ۳۲۳ میش ملک : له الفضل"، ہجرت مئی میں متک به شم" الفضل " ۲۲ شہادت اپریل سه مش صله ۲۲ ۰ +
۶۱۵ جلسہ دہلی کے مفصل حالامت پر روشنی ڈالی.چنانچہ فرمایا :- ہلی میں ہمارے جلسہ کے اعلان کے بعد کئی دن وہاں مختلف مقامات پر ایسے جیسے ہوتے رہے کہ احمدیوں کا یہ جلسہ نہ ہونے دیا جائے اور اشتہار بھی شائع کئے گئے بلکہ حکومت کو بھی تو بقیہ دلائی گئی کہ چونکہ اس جلسہ میں ہمارے عقائد کے خلاف باتیں ہوں گی اس لئے اشتعال پیدا ہوگا.بہر سال وہ لوگ پہلے سے ہی ہمارے جلسہ کے خلاف جوش پیدا کر رہے تھے اور اسے خراب کرنے کا ارادہ رکھتے تھے.اسی نیت اور ارادہ سے مخالفین جلسہ میں آئے....عزیزم مرزا ناصر احمد صاحب نے تلاوت قرآن کریم شروع کی تو ایک لفظ میں زبر کی جگہ زیر ان کے منہ سے نکل گئی.قران الفجر کی بجائے قران الفجر کہ دیا.لیں یہ الفاظ اُن کے منہ سے نکلنے تھے کہ یہ لوگ جو منتظر ہی تھے ایشور وغیرہ کرنے کا کوئی موقعہ مل سکے فوراً کھڑے ہو گئے اور شور مچانے لگے کہ قرآن کریم غلط پڑھا جا رہا ہے.اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ ان کے منہ سے زبر کی بجائے زیرہ نکل گئی مگر اس پر اتنا شور مچانے کی تو کوئی وجہ نہ تھی.اتنا کافی تھا کہ ان میں سے کوئی صاحب کھڑے ہوتے اور کہ دیتے کہ قاری صاحب قران کے لفظ پر زیر نہیں بلکہ زہرہ ہے تو ہم لوگ ان کے ممنون ہوتے.کیونکہ قرآن کریم کے پڑھنے میں اگر کوئی غلطی کرے تو اس کی اصلات کر دینا ایک نیکی ہے.تمام عالم اسلامی میں یہ طریق ہے کہ رمضان میں تراویح پڑھانے کے لئے جہاں حفاظ مقرر کئے جاتے ہیں وہاں سامنے بھی مقرر کئے جاتے ہیں تا اگر حافظ کوئی...غلطی کر بجائے تو اس کی اصلاح کی جا سکے.مگر جونہی عزیزم ناصر احمد صاحب کے منہ سے یہ لفظ نکلا یہ لوگ شور مچانے لگ گئے اور کسی طرح چپ ہونے میں نہ آتے تھے.آخر چند تو جاناں مجبور ہو گئے کہ ان کو جلسہ گاہ سے باہر کے بل دیں.مگر ان کی بات سننے کی بجائے ان شور مچانے والوں نے اُن پر حملہ کر دیا.نتیجہ یہ ہوا کہ لڑائی شر و بع ہو گئی.دوسری چیز یہ پیارا ہوئی کہ چونکہ الہ تعالے پہلی وانوں کا امتحان لینا چا ہتا تھا.لاء ڈسپیکر خراب ہو گیا.جب ہمارے بعض نوجوان ان لوگوں کو باہر رہنے لگے اور ان شورش پسندوں نے اُن میں سے بعض کو مارنا شروع کر دیا اور ان کا جواب بھی بعض احمد یوں نے دینا شروع کر دیا تو میں نے کہنا شروع کیا کہ ان سے تعرض نہ کرو.واپس آجاؤ.اور اگر مار پڑے تو بر داشت کرو.اور میں حیران تھا کہ میری تاکید کے با وجو د احمدی واپس کیوں نہیں آرہے.اس پر ایک شخص نے بتایا کہ لاؤڈ سپیکر خراب ہو گیا ہے اور آپ کی آواز ان لوگوں تک نہیں پہنچ رہی.تب
میں نے آدمی مقدر کئے کہ میری آواز کو دہراتے جائیں.پھر کہیں بجا کہ دوستوں کو میری ہدایات کا علم ہوا.اور رہ واپس آئے.تو یہ دوسرا ذریعہ ہو گیا اس فتنہ کو بڑھانے کا.اس کے بعد ان لوگوں نے نہایت ہی ناروا اور نا و اسب طریق اختیار کیا اور ایسی گندی گالیاں دیں کہ جنہیں انسان برداشت نہیں کر سکتا.اور یہ محض اللہ تعالی کا فضل اور احسان تھا کہ اس نے احمدیوں کو اُن کے برداشت کرنے کی توفیق دی، میں جب جلسگاہ میں داخل ہوا تو ایک آدمی سٹیج کے پاس ہی کھڑا تھا.میں جب اس کے پاس سے گزرا تو اس نے زور سے کہا.لَعْنَتُ اللهِ عَلَ الكَاذِبِینَ.اس کا مطلب یہ تھا کہ تم کا ذب ہو اور تم پر اللہ تعالے کی لعنت ہو.مگر ایک احمدی نے زور سے کہا.آمین.پس ان لوگوں کا شروع سے ہی طرق اشتعال انگیز تھا.ہم نے پہلے جلسہ گاہ میں نماز پڑھی.پھر قرآن کریم کی تلاوت شروع ہوئی.مگر ان سب باتوں سے بھی پہلے سے یہ لوگ آوازے کس رہے تھے.اس جھگڑے کے بعد ان لوگوں نے سارے شہر میں یہ اعلان کیا کہ احمدیوں نے ہم پر حملہ کر دیا ہے اور لوگوں کو وہاں چلنا چاہئیے.نتیجہ یہ ہوا کہ چاروں طرف سے لوگ اکٹھے ہو گئے اور سات آٹھ ہزار کی تعداد میں بارگاہ کے ارد گرد جمع ہو گئے.لاوڈ سپیکر تو خراب ہی تھا.اس لئے ان لوگوں کا شور و شہر جلسہ کی کاروائی کو خراب کر رہا تھا.پھر بھی اللہ تعالے کا ایک فضل ہوا کہ میری تقریرہ کے دوران میں وہ کوئی ایسی بات نہ کر سکے کہ تقریر ترک جائے لیکن جب مبلغین نے تقریر یں شروع کیں اور انہوں نے سمجھا کہ شاید اب ہماری تعداد اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ ہم حملہ کر سکتے ہیں تو انہوں نے اور بھی زور سے نعرے لگانا اور آگے بڑھنا شروع کیا.پولیس نے ان کو روکا مگر وہ رکے نہیں.اتنے میں مجھے پاؤں کی آوازیں زور سے آنی شروع ہوئیں اور میں نے کھڑے ہو کہ دیکھا تو سینکڑوں لوگوں کا ایک گردہ عورتوں کی جلسہ گاہ کی طرف حملہ کرنے کے لئے بھاگا جا رہا تھا.یہ ایک ایسی بات ہے کہ جیسے کوئی شریف قوم برداشت نہیں کر سکتی.پولیس بھی اُن کو روکنے کے لئے دوڑی وہ لوگ پولیس کے پہلو بہ پہلو دوڑ رہے تھے مگر پہلے وہاں پہنچ گئے.زمانہ جلسہ گاہ کے ارد گرد دو تناتیں تھیں ایک قنات کے اندر صحن تھا اور پھر آگے جا کر دوسری تنات تھی اور اس کے اندر عورتیں بیٹھی تھیں.اگر ایسانہ ہوتا تو جس گاہ کا ایسا خطرناک انجام ہوا کہ ممکن ہے بہت زیادہ خون خرابہ ہو جاتا.ان لوگوں نے پہلی قاتوں کو پھاڑ دیا اور گرا دیا.اتنے میں پولیس بھی پہنچ گئی مگرمعلوم ہوتا ہے کہ باہر کے پردہ کے اندر جب انہوں نے دیکھا کہ عورتیں نہیں ہیں تو غالباً یہ سمجھا کہ یہاں سے چلی گئی ہیں اور اگلی قناتوں تک وہ نہ گئے.
416 اور اس ذریعہ سے اللہ تعالی نے اس بڑے خطرہ سے ہمیں بچا لیا.ورنہ اگر عورتوں کی بھیر مستی تک نوبت پہنچتی تو پھر کوئی شریف آدمی صبر سے کام نہ لے سکتا تھا.اگر خدانخواستہ ایک ہو جاتا تو دہلی وہ نظارہ دیکھتی جو اس نے گذشتہ اسی سال میں نہیں دیکھا، جب انہوں نے عورتوں پر حملہ کا ارادہ کیا تومیں نے حکم دیا کہ ایک سو مضبوط نوجوان بھا کر عورتوں کی مجلس گاہ کے باہر کھڑے ہو کر پہرہ دیں عورتوں کا احترام نہایت ضروری اور لابدی ہے.اس لئے وہی کھڑا ہو جو کرنا جانتا ہے.بلکہ میں نے یہانتک کہا کہ اگر تم میں سے کوئی مرتا نہیں جانتا تو وہ ہر گز نہ جائے.وہ واپس آ جائے اس کی جگہ میں خود بجانے کو تیار ہوں کیونکہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے کرنا جانتا ہوں.اس وقت ہو غیر مسلم اور غیر احمدی خواتین رہاں تھیں اُن کے رشتہ داروں نے کہلا بھیجا کہ ہمیں اپنی مستورات کی نسبت بہت گھبراہٹ ہے.خطرہ بہت ہے کوئی انتظام کیا جائے.اس پر میں نے ان کی تسلی کے لئے اعلان کیا کہ آپ فکر نہ کریں.اپنی عورتوں سے پہلے ہم آپ کی عورتوں کی حفاظت کریں گے بچنا نچہ وہ اس امر کے شاہد ہیں کہ ہم نے وہ وعدہ پورا کر دیا.بعض غیر احمدی مستورات کے ساتھ میری بیٹیاں گئیں اور اُن کو گھر پہنچا کر پھر اپنے گھر آئیں.جب وہ ہجوم وہاں سے ہٹا تو پھر مختلف جہات سے سنگیاری شروع ہو گئی اور وہ لوگ آگے بڑھنے لگے معنی کہ ایک دفعہ اتنے قریب آگئے کہ سٹیج کے پاس پتھر پڑنے لگے.یہ وہی موقع تھا جب میرے داماد میاں عبد الرحیم احمد صاحب کے سر پر چوٹ آئی.بعد میں ایک سر سے معلوم ہوا ہے کہ اُن کے سر کی ہڈیاں تین جگہ سے ٹوٹ چکی ہیں اور حالت خطرناک ہے.اسی طرح اور بھی بہت سے احمدی زخمی ہوئے.پہلے تو خیال تھا کہ زخمیوں کی تعداد ۲۴ - ۲۵ ہے.مگر بعد میں معلوم ہوا کہ چالیس کے قریب ہے.ان میں سے بعض کی ضربات شدید ہیں جیسے میاں عبد الرحیم احمد صاحب کی.اور میاں فضل کریم صاحب پراچہ کی.اُن کے ہاتھ کی ہڈیاں ٹوٹ گئی ہیں چودھری مشتاق احمد صاحب باجوہ بی.اے ایل ایل بی واقف تحریک کنید کے بھی سخت چوٹ آئی ہے.اور شبہ ہے کہ اُن کی آنکھ کے پاس کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے.اب تک وہ سر نہیں اٹھا سکتے.مگر ہیں اس تمام عرصہ میں متواتر اپنے تمام آدمیوں کو یہ نصیحت کہ رہا تھا کہ اپنی جگہ پر بیٹھے رہیں.ماریں کھائیں مگر جواب نہ دیں.اور اللہ تعالے کا شکر ہے کہ دشمن کی جو غرض بھی کہ جلسہ نہ ہو اور میں تقریر نہ کر سکوں ، وہ پوری نہ ہوسکی.اور ہم نے دکھا اور تقریر کے بعد جلسہ ختم کیا.جب خطرہ بڑھا تو ہم نے فیصلہ کیا کہ عورتوں کو وہاں سے پہرہ کے اندر محفوظ مقامات پر پہنچا دیا جائے پہلے
۶۱۸ غیر مسلم اور غیر احمدی خواتین کو پہنچائیں اور پھر احمدی خواتین کو.اس کے لئے لاریاں منگوائی گئیں اور جس جس جگہ کو عوتوں نے اپنے لئے محفوظ سمجھا وہاں اُن کو پہنچا دیا گیا.مثلاً سکھ عورتوں نے کہا نہیں گوردوار میں پہنچا دیا جائے.چنانچہ اُن کو گوردوارہ میں پہنچا دیا گیا.اور عورتوں کو محفوظ مقامات پر پہنچانے کی وجہ سے ایک لمبے عرصہ تک ہمیں جل گالہ میں انتظار کر نا پڑا مگر ان لوگوں کی شرافت کا یہ حال تھا کہ انہوں نے اُن لاریوں پر بھی حملہ کیا جو عورتوں کو لے بھا رہی تھیں.بیچنا نچہ ایک لارمی جس میں عورتیں تھیں انہوں نے اس کے آگے لاٹھیاں وغیرہ رکھ کر روک لی مگر میں چونکہ جانتا تھا کہ یہ لوگ ایسے اخلاق کے مالک ہیں.اس لئے میں نے ہر داری کے ساتھ محافظ بھیجوانے کا حکم دیا تھا.جب لاری رک گئی تو انہوں نے بے تحاشا پتھر برسانے شروع کر دیئے.ان حملوں میں بھی ہمارے بعض نوجوان زخمی ہوئے.اور بعض تو جب واپس آئے تو سر سے پاؤں تک خون میں نہائے ہوئے تھے.مگر اس موقعہ یہ بھی اللہ تعالیٰ نے دشمن کو یہ بتا دیا کہ گو احمدی صبر کرتے ہیں مگر جب اُن پر خواہ مخواہ حملہ کیا جائے خصوصاً جب عورتوں کی حفاظت کا سوال ہو تو وہ ڈرتے نہیں.اسی سلسلہ میں ایک ہندور نئیں نے ڈاکٹر لطیف صاحب کو سنایا کہ میں سڑک پر جا رہا تھا کہ سامنے سے ایک لاری آتی دیکھی جس میں عورتیں تھیں.کئی سو آدمیوں کا ایک ہجوم آگے بڑھا اور لاری کو روک لیا.لاری کے ساتھ چند ایک نو جوان تھے جب ہجوم نے لاری کو روکا تو میں نے خیال کیا کہ اب ان عورتوں کی خیر نہیں ہجوم نے پتھر برسانے شروع کئے.مگر میرے دیکھتے دیکھتے پانچ سات نوجوان آگے آئے اور انہوں نے سینکڑوں لوگوں کا مقابلہ کیا.میں یہ دیکھ کر حیران تھا اور سمجھتا تھا کہ یہ نوجوان مارے جائیں گے.مگر ابھی دو تین منٹ بھی نہ گزرے تھے کہ میں نے دیکھا وہ ہجوم بھیڑوں بکریوں کی طرح بے تحاشا بھاگا جا رہا تھا اور لاری اور اُس کے محافظ سائیکلسٹ آرام سے اپنی منزل مقصود کی طرف جا رہے تھے.بات یہ ہے کہ ہم امن کی وجہ سے خاموش رہتے ہیں اور گورنمنٹ کا کام اپنے ہاتھ میں لیتا نہیں چاہتے ور نہ سچی بات تو یہ ہے کہ انبیاء کی جماعتیں جہاں صبر کرنا جانتی ہیں وہاں کرنا بھی جانتی ہیں.اور جو قوم مرنے کے لئے تیار ہو اُسے کوئی نہیں مار سکتا.میں خدا تعالیٰ کے فضل پر بھروسہ رکھتے ہوئے کہ سکتا ہوں کہ یہ سات آٹھ ہزار آدمی نہیں اگر جھلی کے تمام لوگ بھی ہم پر حملہ کرتے تو بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہم اُن کو بھگا دیتے.مگر ہم نے پولیس کے کام میں دخل دینا پسند نہ کیا جب عورتوں کی لاریوں پر انہوں نے
حملہ کیا تو وہاں احمدیوں نے مقابلہ کیا اور خدا تعالیٰ کے فضل سے چند آدمی سینکڑوں کو بھگا کرئے گئے.غیر مسلم اور غیر احمدی خواتین کو نظرہ کا بہت احساس تھا.بعض تو گھبراہٹ میں کا اپنے لگیں.مگر اس وقت آمد می خورتوں نے بھی بہادری دکھائی اور ان کے ارد گرد قطار باندھ کر کھڑی ہوگئیں اور کہا کہ آپ گھبرائیں نہیں.اگر کوئی اندر آیا بھی تو ہم مقابلہ کریں گی.حکومت ہند کے ایک سیکر ٹری صاحب کی اہلیہ صاحبہ بھی جلسہ میں تھیں.اُن کو جب موٹر میں بٹھایا گیا تو اُن کے، ایک طرف میری لڑکی بیٹھ گئی اور دوسری طرف ایک اور غیر احمد می مفاتون جو بہا در دن کی تھیں لئے تا اگر باہر سے پتھر وغیرہ آئیں، تو ان کو نہ لگیں اور اس طرح موٹر میں بیٹھا کر ان کو گھر پہنچایا گیا.توالت لا کے فضل سے اس موقعہ پر عورتوں نے بھی ثابت کر دیا کہ اگر موقعہ آئے تو وہ بجھان دینے سے دریغ نہیں کرتیں بہر حال دارت تک یہ شور و شر ہوتا رہا.آخر جب عورتیں چلی گئیں.تب میں نے افسروں سے کہلا بھیجا کہ اب ہم نے جاتا ہے کیا آپ لوگ ہمارے لئے رستہ بنا دیں گے یا ہم خود بنائیں ؟ انہوں نے کہا کہ ہم خود آپ لوگوں کو بحفاظت پہنچائینگے چنانچہ پولیس گارد ہمارے آدمیوں کے آگے پیچھے ہو کر انہیں محفوظ جگہ پہنچا آئی..." سیدنا الصلح الموعود نے مندرجہ بالا دافع بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ بشارتیں جلسہ کی کامیابی سے تعلق تین آسانی یاری می شود و در مالت کاکوئی جو بھی نہ تا کہ کبھی اس شورش وجود اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے راحت اور ایمان میں ترقی کاسامان مہیا فرما دیا تھا حضرت مسیح موعود علی اسلام فرماتے ہیں کردیا میں دیکھا کہ دلی گئے ہیں اور بخیریت واپس آئے ہیں" پر الہاما یہ الفاظ زبان پر جاری ہوئے الْحَمْدُ للهِ الَّذِى أوصلنى ميعا تذکرہ صفحہ ۵۳۶) یعنی اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہو فساد اور دشمن کے حملے سے صحیح وسالم بچا کر واپس لے آیا.اس الہام کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ سلام دہلی تشریف لے ہی نہیں گئے آخری سفر جو آپ نے دہلی کی طرف کیا وہ عنہ کا ہے تو یہ ایک پیشگوئی تھی جس کا مطلب یہ تھا کہ آپ کا مثیل دہلی جانے گا.لوگ اس پر پتھراؤ کریں گے یہ تو سنگباری کی گورا ، یہ دراصل مجھ پر تھی جسے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کی مسند پر بٹھایا ہے براللہ تعالی فرماتا ہے کہ وہ آپ کو یعنی آپ کے ظہر کو صحیح و سالم واپس قادیان سے آئیگا.پس جو کچھ ہوا اس میں اس ماہ سے بھی ہماری فتح اور کامیابی ہے.سلسلہ کی صداقت کا ایک ثبوت ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مامور من اللہ اور خدا القائے کا پیارا ہونے کا ایک ثبوت ہے.ہر پھر جو وہ لوگ ہم پر مار رہے تھے وہ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی او مليني صحيحا کی صداقت کی گواہی دے رہا تھا اور ہر مچھر شاہد تھا اس امر کا کہ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام اللہ تعالنے کی طرف سے تھے اور خدا تعالیٰ آپ سے ہم کام ہوتا تھا یہ جوکہاگیا کہ مجھے مین و سالم واپس پہنچا دیا اس کے مطلب یہ ہے کہ بعض دوسروں کو نقصان پہنچے گا.مگر ان لوگوں کی اصل غرض تو مجھے نقصان پہنچانا تھی.لیکن جہاں سیالکو کے پتھراؤ میں تین پھر مجھے بھی آگے وہاں دہلی میں خدا تعالیٰ کے فضل سے مجھے ایک بھی نہیں لگا.ی ی ی ی ی ی ی یتیمی میں بتایا گیا تا کہلایا اور کترین
۶۲۰ کی پوری کوشش کریں گے لیکن اللہ تعالے اُسے بخیر و عافیت قادیان پہنچا دے گا.اور یہ پیشگوئی قریباً ، و سالی کے بعد خدا تعالیٰ کے فضل سے پوری ہوئی.ہر انصاف پسند کو سوچنا چاہئیے کہ کیا ۳۷ سال قبل ایسی بات بیان کر دینا جو اپنے وقت پر صحیح ثابت ہو کسی انسان کی طاقت میں ہے.بید ان لوگوں کے لئے بھی قابل غور بات ہے جو پیغامی کہلاتے ہیں.وہ بتائیں کہ اس پیشگوئی کے مطابق کون ہے جو دہلی گیا.مخالفین نے اُسے ضرور پہنچانے کی پوری کوشش کی اور اللہ تعالے اُسے صحیح و سالم واپس قادیان سے آیا.یہ لوگ تو اب قادیان آتے ہی نہیں بلکہ بہشتی مقبرہ کے لئے جو میتیں کر رکھی تھیں وہ بھی منسوخ کرائیں اُن میں سے اگر کوئی قادیان آئے تو اس کی نگرانی کرتے ہیں.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.دیکھا کہ دھلی گئے اور خیریت سے واپس آئے ہیں.اور یہ رویا بتاتا ہے کہ قادیان میں ہی ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مثیل ہوں گے اور جن کا دہلی جانا اور یہ سلامت واپس پہنچتا خود مصر مسیح موعود علیہ اسلام کا جانا اور صحیح و سالم واپس پہنچنا ہو گا.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.الْمُؤْمِنُ يَرَى أَوْ يُرَى لَهُ جس روز میں نے دہلی جانا تھا.اسی روز یا اس سے ایک روز قبل خلیفہ صلاح الدین صاحب کا خط مجھے دہلی سے ملا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ قادیان سے خبر آئی ہے کہ خلیفتہ المسیح نگینہ سے بخیریت واپس قادریانا پہنچ گئے ہیں.نگینہ انگو سٹی کے مرکز میں ہوتا ہے اور دہلی ہندوستان کا مرکزی شہر ہے.دہلی کو ہندوستان میں وہی حیثیت حاصل ہے جو نگینہ کو انگوٹھی میں.گویا اس خواب میں بتا دیا گیا کہ حضرت یح موعود علی اسلام نے جو رویا ۱۳ جنوری تشنشاہ کو دیکھا تھا وہ اسی سفر کے متعلق تھا.وہی بات جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ۳۷ سال قبل دکھائی گئی تھی.جلسہ سے چند روز قبل آپ کے ایک مرید کو دکھائی گئی.یہ گویا ایک اشارہ تھا اس امر کی طرف کہ اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا وقت آگیا ہے.تو ہمارے لئے ہر حال میں خوشی ہی خوشی ہے.سر بلا کیں قوم را حق داده اند و زیر آن گنج کریم بنهاده اند اسی طرح اس فساد کے ذریعہ سے میرا ایک الہام بھی پورا ہوا جو دہلی کے جلسے سے چند دن پہلے ہوا تھا جو یہ ہے بَیدُ اللهِ فَوْقَ ایدییم خدا کا ہاتھ اُن کے ہاتھوں کے اوپر- اس الہام میں کے فساد کے موقعہ پر چندا احمدی سینکڑوں پر بھاری ثابت ہوںگے اور ہر جنگان و فتح نصیب ہوگی نام رش علی یک ساله سلم " الفضل " اجرت منی له مش صفحه ۲ تا ۵ :
۶۲۱ فصل پنجم مجلس اعرف ان انا مسجد مہار کی توسیع غلبه استلام کیلئے چالیس و موهای سایر اصل کا مجلس علم و عرفان و خصوصیت حاصل ہے.کا دوئی مصلح موعود کے بعد جماعت احمدیہ پر چین بے شمار آسمانی برکات و انوار کا نزول ہوا ان میں سے حضرت خلیفتہ اسی الثانی المصلح الموعود کی مجلس علم عرفان کو ایک نمایاں اور امتیازی 1900 نه یہ مجلس دینی حقائق اور قرآنی معارف کی ایک مثال درسگاہ تھی جو قادیان میں ماہ امان / مارچ ریش شروع ہوئی اور وقفہ وقفہ کے ساتھ ) ماہ ظہور / اگست ۳۲ پیش تک بھاری رہی.اس مجلس کا پس منظر خود سیدنا حضرت المصلح الموعود نے و امان ہمیش کو بعد نماز عصر مسجد مبارک میں بیان فرمایا جو حضور ہی کے الفاظ میں درج کیا جاتا ہے.فرمایا :- جب خدا تعالیٰ نے مجھے اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ اب اسلام کے غلبہ کا وقت آپہنچا ہے تو وہ مختلف پہلو میرے ذہن میں آنے شروع ہوئے جو اس غلبہ کے لئے ضروری ہیں وہ بیسیوں پہلو ہیں اور کسی ایک خطبہ یا تقریر میں ان کو بیان نہیں کیا جا سکتا.میرا ارادہ ہے کہ لاہور یا لدھیانہ کے جلسہ کے بعد روزانہ مغرب اور عشاء کے درمیان مسجد میں بیٹھا کروں اور دوستوں کو اُن باتوں میں سے کچھ نہ کچھ منایا کروں تاکہ وہ آگے کی طرف قدم بڑھا سکیں“ نے اس موقعہ پر حضور پر نور نے احباب قاریان کو خاص طور پر تحریک فرمائی کہ وہ کم از کم ایک نماز مسجد مبارک میں ے قبل ازیں ستنا الصلح ا مور اپنےزمانہ قیام اور میںبھی نماز تر کے بعد میں میں تشریف فرما ہوتے اور اہم ارشادات فرماتے تھے حضور کا منشاء مبارک تھا کہ اس دوران کے ملفوظات تفہیمات لاہوریہ کے نام سے خود جماعت لاہور شائع کرے اور اپنی قومی اور انفرادی زندگی اس کے مطابق استوار کرنے کیلئے دیوانہ وار سر گرم عمل ہو جائے.( الفضل و احسان جون میش) ۶۱۹۴۴ " الفضل" 4 شہادت / اپریل مش صفحه 1 // +1
ضرور ادا کیا کریں حضور کے اس ارشاد مبارک کے بعد سجد مبارک میں نماز ادا کرنے والوں کا غیر معمولی اضافہ ہو گیا.خصوصاً نماز مغرب کے وقت تو نمازیوں کی خوب چہل پہل اور رونق ہونے لگی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی الصلح الموعوز ناز مغرب کے بعد رونق افروز ہوتے اور جماعت کے سلنے ایسے ایمان افروز رنگ میں نرمینی ، اخلاقی اور روحانی مسائل پر روشنی ڈالتے کہ روح وجد کرتی اور قلب و دماغ معطر ہو جاتے.اس ضمن میں حضور وہ تربیتی اور اخلاقی امور خاص طور پر بیان فرماتے جو غلبہ اسلام کو قریب تر لانے کے لئے ضروری تھے.شروع شروع میں حضور مسجد مبارک کے محراب ہی میں تشریف فرما ہوتے اور اپنے قیمتی ارشادات سے نوازتے تھے نگره در امان مارش کی حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب نے عرض کیا کہ حضور نورگ، زیارت کے بھی خواہش مند ہوتے ہیں اس لئے اگر اجازت ہو تو یہاں محراب میں کوئی اونچی سی جگہ بنادی جائے.اس پر حضور نے ارشاد فرمایا.ایک بینچ بنوا لیا جائے تاکہ اس پر میں بھی بیٹھ جاؤں اور کچھ اور آدمی بھی بیٹھ جائیں" - چنانچہ اس حکم کی تعمیل میں دیار (عمارتی لکڑی کی سات مسندیں سی بنوائی گئیں اور ساتھ ہی ایک چھوٹا سا گریل بھی بیر سندیں بوقت ضرورت نماز مغرب کے بعد مسجد مبارک کے پیچھے یا بالائی محراب کے سامنے بچھادی جاتی تھیں.وسطی سند پر حضرت خلیفة السيح الثاني الصلح الا خود تشریف فرما ہوتے اور دائیں بائیں حضرت مولانا سید که در سر در شاه صاحت ، حضرت ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب یا بعض اور احباب !! اس طرح مشتاقان زیارت کو اپنے محبوب آقا کے دیدار عام کا شرف بھی نصیب ہونے لگا.تاہم ابھی ایک ضرورت باقی تھی یعنی آلہ نشر الصوت کا انتظام ہو یہ اہم ضرورت سلسلہ کے ایک نہایت مخلص ایشار پیشہ اور مخیر دوست سیٹھ محمد صدیق صاحب بانی (آف کلکتہ) نے پوری کر دی اور ۱۶ احسان ارجون دیش سے مجلس علم و عرفاں میں لاوڈ سپیکر کا بھی انتظام ہو گیا جس پر حضور نے اظہار خوشنودی کرتے ہوئے دعا فرمائی کہ جس طرح انہوں نے ہماری آواز لوگوں تک پہنچانے کا انتظام کیا ہے اللہ تعالے ان کو بھی توفیق دے کہ وہ خدا تعالے کی آواز سن کر اس پر مزید عمل کرنے کی کوشش کرتے رہیں " له الفضل " از شہادت اپریل له مش صفحه ۱ - له الفضل و شہادت را پیله ی صفر یم کالم 1 : لة یا ہلے ہی ایک ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے نے " اصحاب احمد مجلد پنجم مصر سوم حاشیہ منہ میں ذکر کیا ہے یہ سب سنین اور گریبا مسجد مبارک قاریان میں اب تک محفوظ ہے اور قریشی فضل حق صاحب درویش و زن کی تحویل میں ہیں.محترم ملک صاحب نے اپنی اس کتاب میں ان کے معین طول و عرض کے ساتھ ایک مفصل تھا کہ بھی درج کیا ہے ؟ کے ان چوکیوں پر بزرگوں کے علاوہ بعض دفعہ مہمان بھی بیٹھ جاتے تھے.چنانچہ ہجرت مئیر میش کا واقعہ ہے کہ بعض سکھ اور ہندو دوست تجلس میں حاضر ہوئے خبر پر نور نے نوجوانوں سے ارشاد فرمایا کہ وہ آنے والے جہانوں کو جگہ دیں.چنانچہ نوجوان اٹھ گئے اور ان کی بجائے چوکیوں پہ یہ غیر مسلم امہ گئے (الفضل اور ہجرت امی مش مفروم کالم لهم الفضل 19 احسان جون سالار مش صفحه ۲ کالم ).14
۶۲۳ اس پاکیزہ اور خدا نما مینس سے سید نا المسیح الموعود کے دربار شام کی یاد اکثر تازہ ہو جاتی تھی اور اس میں نہ صرت احمدی دوست ہی نہایت بیتا بی اور ذوق و شوق سے حاضر ہوتے تھے بلکہ غیر احمدی حتی کہ غیر مسلم بھی آتے اور استفادہ کرتے تھے.حضور کا معمول مبارک تھا کہ اکثر او قاری خودی بعض اہم موضوعات پر خطاب شروع فرما دیتے مگر گاہے گاہے بھلیں میں پیش ہونے والے بعض اہم اور ضروری سوالات پر بھی المینان بخش روشنی ڈالتے تھے.ان ہر دو صورتوں میں حضور نے اپنی زبان مبارک سے جو قیمتی نکات بیان فرمائے وہ جماعت احمدیہ کے علم کلام اور دستور الہمن کا بیش قیمت سرمایہ ہیں.حضرت سيدنا المصلح الموعود نے مجلس علم و عرفان میں جن جن مسائل وحقائق پر روشنی ڈالی ان کا شمار کرنا تو مشکل ہے البتہ بطور نمونہ صرف پانچ نکات معرفت کا تذکرہ کیا جاتا ہے تا موجود و اور آئندہ نسلیں اس روحانی محفل سے کسی قدر مشت اندوز ہو سکیں.لائکہ ارماہ شہارت (اپریل و پیش کا واقعہ ہے کہ ایک دوست نے مختلف سوالات کئے جن میں ایک یہ سوال بھی تھا کہ کیا خلیفہ راشد کی موجودگی میں کوئی الگ مجدد بھی آسکتا ہے؟ اس استفسار کے جواب میں سیدنا المصلح الموعو مون نے ارشاد فرمایا کہ خلیفہ تو خود مجد حد سے بڑا ہوتا ہے اور اس کا نام ان احکام شریعیت کو نافذ کرنا اور دین کو قائم کرنا ہوتا ہے.پھر اس کی موجودگی میں مجدد کس طرح آسکتا ہے؟ مجدد تو اس وقت آیا کرتا ہے جب دین میں بگاڑ پیدا ہو جائے “ ہ دوسر انکہ ایک شخص نے مجلس میں عرض کیا کہ سجدہ میں قرآنی دعاؤں کا پڑھنا کیوں نا جائز ہے جبکہ سجدہ انتہائی تنزل کا مقام ہے؟ اس کے جواب میں حضور نے فرمایا : سجده بیشک تذتل کا مقام ہے مگر آن عزت کی چیز ہے.اس کی دعائیں سجدہ کی حالت میں نہیں پڑھنی چاہئیں.دعا انسان کو پیچھے کی طرف لے جاتی ہے اور قرآن انسان کو اوپر کی طرف لے جاتا ہے.اس لئے قرآنی دعاؤں کا سجدہ کی حالت میں مانگنا نا جائز ہے" سے تیرا نکتہ ایک بار آیت لنظر یا علی المدین محلہ کی نصیف تفسیر کرتے ہوئے فرمایا :- اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں اسلام کی برتری نیز بیات کے طاظ سے بھی ہمیشہ کے لئے ظاہر ہو جائے گی.یہ نہیں ہوگا کہ کہا جائے اسلام میں چونکہ توحید کا بیان ہے اور فلان الفضل ، شہادت پریل پیش صفر ۲ کالم سے افضل " ۱۶ شہادت / اپریل بیش صفحه ۱ کام کا +
سلام ۱۳۴۳ ۱۳۹۶ فلاں مذہب شرک کی تعلیم دیتے ہیں اس لئے اسلام افضل ہے.یا صرف رسالت کے لحاظ سے اسلامی تعلیم کو افضل ثابت نہیں کیا جائے گا.بلکہ جزئیات کا ذکر کر کے اُن کے لحاظ سے بھی اسلام کو سب پر غالب کیا جائے گا.گویا اقتصادی، تمدنی بسیاسی حیس قدر احکام ہیں ان تمام میں اسلام کا کفر سے ٹکراؤ ہوگا اور پھر اسلام کو فتح حاصل ہو گی.یہ حکمت ہے کہ اس آیت میں دین کو مفرد رکھ کر اس کی طرفت ملنے کی ضمیر پھیری گئی ہے.اگر اسلام کے مخالف دین کے سب حصے مراد نہ ہوتے بلکہ سب دین بحیثیت اعمالی دین کے مراد ہوتے.....تو عَلَى الاديان كلها آتا ہے جو تھا نکتہ عرض کیا گیا کہ رویا وکشو میں اللہ تعالے کی رویت زیادہ تر انسانی شکل میں کیوں ہوتی ہے ؟ حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے اس سوال کے جواب میں فرمایا :- اول اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوق بنایا ہے.دوسرے اس لئے کہ رویت باری کے نظارہ کی غرض یہ ہوتی ہے کہ بندے کا خدا کے ساتھ لگاؤ پیدا ہو جائے اور انسان کو انسان کی صورت سے ہی لگاؤ ہو سکتا ہے.اگر ایک اچھی بھینس کی شکل میں کوئی ایسا نظارہ دکھایا جائے تو اس سے اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا نہیں ہوگی.پھر یہ بھی صحیح نہیں کہ زیادہ تر انسانی شکل میں ہی رویت باری تعالئے ہوتی ہے.میں نے زیادہ تر خدا تعالے کو نور کی صورت میں دیکھا ہے.کبھی خدا تعالے کی تجلی بجلی کی تیز روشنی کی طرح مجھے دکھائی دی ہے.مگر اس میں اس قسم کی تیزی اور حدت نہیں ہوتی جیسے بجلی کی روشنی میں ہوتی ہے بلکہ وہ روشنی اپنے اندر ایک سکون اور راحت رکھتی ہے “ سے پانچواں نکتہ استندا الصلح الموعود نے امام کی مجلس سے فیضان حاصل کرنے کے طریق پر وضاحت کرتے ہوئے فرمایا :- ور امام اگر باہر مجلس میں آکر بیٹھتا ہے تو صرف اس لئے آکر نہیں بیٹھتا کہ وہ سوالوں کا جواب دیتا رہے.بلکہ اگر مجلس میں بیٹھ کر لوگ ذکر الہی کریں.اپنے قلوب کی صفائی کا خیال رکھیں اور اللہ تلے کی تسبیح وتحمید بجالائیں تو یہ چیز سوالات سے بہت زیادہ اہم اور بہت زیادہ مفید نتائج پیدا کرنے والی ہوتی ہے.مجلس کو ڈیلیٹنگ کلب بنا دینا ہرگز مومنوں کا شیوہ نہیں.خدا تعالیٰ کے ماموروں اور اُن کے خلفاء اور مصلحین کا کام ڈیبیٹنگ کلب میں بیٹھنا نہیں ہوتا بلکہ لوگوں کو اللہ تعالے کی له الفضل " شہادت اپریل ۳۳۳ پیش صفر ۳ کالم ۱-۲ سے افضل اسرا اور اکتوبر صفحه ۲ کالم ۰۳
۶۲۵ محبت کی طرف توجہ دلانا ہوتا ہے.اس لئے وہی شخص ان سے فائدہ اٹھا سکتا ہے جو مجلس میں خاموشی کیتھ میٹھے.اپنے قلب کو ہر قسم کے دنیوی مالوفات سے پاک کر دے اور اُسے اس طرح خالی کرے کہ جب اللہ تعالے کی طرف سے نور نازل ہو تو اس کا دل اس نور کو قبول کرنے کے لئے تیار ہو ضمنی طور پر کوئی سوال پوچھ لینا منع نہیں.رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی لوگ سوالات پوچھ لیتے تھے.قرآن کریم نے بھی سوالات کرنے سے گلیشہ نہیں روکا.صرف یہ فرمایا ہے کہ اس رنگ میں ہونا پسندیدہ ہو سوال نہیں کرنا چاہیئے.ورنہ اگر امام لوگوں کے سوالات کا جواب ہی دیتا رہے تو نیہ صورت بن سناتی ہے کہ گویا مقتدی امام کے اختیارات چھین رہے ہیں...یہ تو امام کے دل میں خدا تعالیٰ نے ڈالنا ہے کہ کونسی باتیں قلب کی صفائی کے لئے ضروری ہیں.اگر اس کو موقعہ ہی نہ ملے گا اور لوگ اپنے مشغلہ میں مشغول رہیں گے تو وہ خاموش رہے گا یہانتک کہ وہ وقت آجائے گا جو اعمال کے نتائج ظاہر ہونے کا ہوتا ہے اور چونکہ لوگوں نے محض باتوں میں اپنے وقت کو ضائع کر دیا ہو گا.عملی رنگ میں اصلاح اور تربیت اور تزکیہ کے طور پر کوئی فائدہ حاصل نہیں کیا ہوگا.اس لئے نتائج اُن کے خلاف نکلیں گے اور وہ کف افسوس ملتے رہیں گے اے ی و بطور نمونہ معرفت و طریقت کے چند علمی اور روحانی نکات بیان کئے گئے ہیں ورنہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ کے لئے دعا ، نبی اور رسول ، سپر چونکلزم ، حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی طرف منسوب تین جھوتے كم له آداب نماز، دعا اور مسمریزم ، ستاروں کی تاثیرات ، قرآن سے قال ، ظہر و عصر میں قرات مخفی رکھنے کی وجہ، نماز میں ہر اسم اللہ نہ پڑھنے کی حکمت ، نمازوں کے محسن اوقات ، احمدی بادشاہ اور اسلامی شریعیت ، حضرت اسمعیل علیایت لام کی عمر ہجرت کے وقت ، غیرہ بلا مبالغہ سینکڑوں ایسے اہم مسائل ہیں جن پر حضور نے اس اہم میٹس میں بالوضاحت روشنی ڈالی جن کی تفصیل مولانا محمد یعقوب صاحب طاہر مرحوم مولوی فاضل کی محنت و کاوش سے والفضل میں محفوظ ہو چکی ہے."" الفضل احسان جون میش من له الفضل " به احسان جون ش علا الفصل ارجون / احسان شما له / بار ة ، کو شد.یکم نبوت / نومبر " 14 ار صلح / جنوری ۳۳۳ بیش صدا ۱۰ تبلیغ فروری ܀ " 每 " ار اتحاد القدیر فتح ادسمبر " ۱۳۲۴ Z " مایه شده ۱۳۱ اتحاد اکتوبر ایش داد " الی ۲۲ صلح جنوری له ما به اه مر گیا ۱۹ صلح جنوری ۱۹۷۵ ፊ
۶۲۶ مسجد مبارک کی توسیع حضرت مصلح موعود نے 9ر امان / مارچ کو جہاں مجلس علم و عرفان کے آغاز کا اعلان فرمایا.وہاں ساتھ ہی مسجد مبارک کی توسیع کا بھی فیصلہ کیا.چنانچہ فرمایا : اور نوتعمیر حصہ کا افتتاح " اب اس کثرت سے لوگ یہاں نمازیں پڑھنے آرہے ہیں کہ کل سے میں بھی سوچ رہا ہوں اور بعض دوسرے دوست بھی کہ اب یہ مسجد اس قابل نہیں رہی کہ سب لوگ اس میں سماسکیں بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسے بڑھا دیا جائے.چنانچہ اس کے نتیجہ میں پہلی برکت تو یہ نازل ہوئی ہے کہ آج ہی میں نے فیصلہ کر دیا ہے کہ اس مسجد کو پہلو کی طرف بڑھا دیا جائے.اس سے انشاء اللہ یہ مسجد موجودہ مسجد سے دوگنی ہو جائے گی مسجد کے لئے یہ جگہ سالہا سال سے خریدی جا چکی تھی....اب انشاء اللہ اس مسجد کو بڑھا دیا جائے گا.میں اپنے قلب میں ایسا محسوس کرتا ہوں جیسے خدا تعالے کی طرف سے یہ انکشاف ہوتا ہے.گو کسی الہام یا رویا کی بناء پر میں یہ نہیں کہ رہا.مگر میرا قلب یہ محسوس کرتا ہے کہ ہر شخص جو یہاں نماز پڑھنے کیلئے آتا ہے وہ سلسلہ کی ترقی کے لئے ایک نیا باب کھولتا ہے “ اس فیصلہ کے مطابق بہت جلد مسجد مبارک کی توسیع عمل میں آئی جس سے مسجد کی عمارت نہایت شاندار اور پہلے کی نسبت دو گنی سے بھی زیادہ ہوگئی.ماہ فتح دسمبر میش کو حضرت خلیفة السيح الثاني الصلح الموعودة ۲ نے نئے محراب میں نماز ظہر پڑھا کہ اس کا افتتاح فرمایا.اس حصہ کی توسیع کے لئے رویہ حفرستید تا المصلح الموعود کی ذاتی اپیل پر دوستوں نے پرجوش طوطی چندوں کی صورت میں پیش کیا جس میں ایک معقول حصہ خود حضور کے ذاتی چندہ کا تھا.اس تعمیر کی نگرانی کا کام حضور کی خاص ہدایت کے تحت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے انجام دیا اور عملی نگرانی سید سردار حسین شاہ صاحرب اوور سیر نے کی.مسجد مبارک کی نئی توسیع عملاً فتح دسمبر ہش ہی میں مکمل ہو چکی تھی اور اسی لئے محضور نے اس تجدید حصہ میں نماز ۱۱۹۴۴ کا آغاز فرما دیا.مگر اس کی تکمیل کی بعض ضمنی تعمیرات یہ مہیش کے شروع تک جاری رہیں.$1900 اس آخری توسیع کے بعد مسجد مبارک کی شکل یہ ہو گئی: ر نقشہ سامنے کے صفحہ پر ملاحظہ ہو ) " الفضل و شہادت / اپریل مش صفحه ۲۰۱ + ے" الفضل " هم فتح دسمبر میں صفحہ ۲ کالم ۳- ١٣٢٣ - ن K مسجد کے نئے حصہ کی تعمیر کا آغاز ماہ احسان جون میش کے شروع میں ہوا (" الفضل ، احسان اجون رامش صدا کالا " الفضل ۲۶ رامان / مارچ 51938
۶۲۷ ور جنوب YA ۳۲۳ ایش کی توسیع ہ کی توسیع کی اصل تعمیر ۲۷ شمال اکھ فٹ تغیر اسلام کیلئے سیا میں روزہ حضرت خلیفہ ربیع الثانی الصلح الموں نے سر امان اماری مین کو مسجد مبارک میں نماز مغرب پڑھانے کے بعد محراب میں کھڑے ہو کر ارشاد فرمایا.دعاؤں کا خاص سلسلہ ایک تجوید زمین میں آئی ہے جو بیان کرنی چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ چالیس دن متواتر حضرت کی موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مزار پر جا کو اسلام کے غلبہ کے لئے دعا کی جاے بعض خاص وجودوں کے ساتھ ڈھا کی قبولیت کو خاص تعلق ہوتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو مجھ پر درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ کے فرشتے اس پر درود بھیجتے ہیں.پس جب ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم
чка کے لئے دعا کرتے ہیں تو وہی دُعا ہمارے حق میں بھی قبول ہو جاتی ہے.اسی طرح اگر ہم وہاں جا کر دعا کریں یہاں وہ شخص مدفون ہے جس کے ساتھ اللہ تعالٰی نے اسلام کے قبیلے کے وعدے کئے ہیں اور ہم کہیں کرے بعدا یہ وہ شخص ہے میں کے ساتھ تو نے اسلام کے غلبے کے وعدے کئے اور اب تو ان وعدوں کو پورا کر.تو یہ دعا بہت جلد قبولیت حاصل کرلے گی جماعت میں ایک نئی زندگی پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اُس جگہ پر جا کر دعا کریں تا اللہ تعالے کی غیرت کو بھڑکایا جائے اور تا اسلام کو ایسی نویج میستر آجائے جو اپنے آپ کو خدا کے آگے ڈال دے.اللہ تعالیٰ کے ارادے تو بہت وسیع ہیں مگر یکں کہتا ہوں کہ جس حد تک میرے ارادے ہیں اگر جماعت میں اتنی ہی تبدیلی پیدا ہو جائے تو موجودہ لاکھ دو لاکھ سے ہی ہم نہ صرف روحانی طور پر بلکہ جسمانی طور پر بھی دنیا کو فتح کر سکتے ہیں.اگر چہ ہمارا مقصد روحانی فتح ہے جسمانی نہیں.لیکن جہانتک طاقت کا سوال ہے میں سمجھتا ہوں جسمانی فتح کے لئے بھی جس قدر ضرورت اخلاص اور عزم کی ہے اس قدر مقدار افراد کی نہیں ہے.پس ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ جتنے لوگ ہم کو مل چکے ہیں پہلے ہم اُن کے دلوں کو دوبارہ فتح کریں.ہیں جو دوست جا سکتے ہوں وہ عصر کے بعد میرے ساتھ بجھا کر دعا میں شامل ہو سکتے ہیں اور جو قادیان سے باہر ہیں وہ بامر مجبوری چالیس دن تک اس دعا میں عصر کے بعد اپنی اپنی جنگہ شامل ہو سکتے ہیں خواہ مسجد میں، خواہ اپنے گھروں میں خواہ دفتروں میں، خواہ بازار یا گذرگاہوں ہیں.ام طا ہر احمد کے لئے میں نے چند دن جانا ہی تھا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب کسی کی وفات ہو جاتی ہے تو کچھ عرصہ کے لئے اس کی روح میں کچھ توحش سا پیدا ہو جاتا ہے پس اس توحش کو دور کرنے کے لئے اگر میت کے اعزہ اور اقرباء قبر پر جا کر دعا کرتے ہیں.تو میں سمجھتا ہوں اس سے مُردہ کو اس دوسری زندگی میں سہولت میسر ہو سکتی ہے.پس میں نے سوچا کہ جب اس غرض سے میں کچھ دن متواتر مقبرہ میں جاؤں گا تو ساتھ ہی یہ دوسرا کام بھی شروع کر دیا جائے اور اسلام اور سلسلہ کی فتوحات کے لئے دعا کرنے کے لئے چالیس دن مقرر کر لئے بائیں نامند اتعالیٰ کا فضل بھی نازل ہو اور ہمارے دلوں میں بھی تبدیلی ہو.پچھلے دنوں مجھ پر بہت توجہ رہا.لیکن مجھے خدا تعالیٰ نے توفیق دی کہ میں اس بوجھ کو اُٹھا سکوں لیکن اتم طاہر احمد کی وفات کے بعد میری طبیعت ناساز ہوگئی ہے....پس اگر میں باہر ہوں یا بیمار ہوں تو جو مقامی امام ہو یا نہیں کو میں مقرر کر دوں میری جگہ جا کر دعا کروائے جتنے دن میں دعا نہ کر سکوں گا ان کی کمی بعد میں پوری کردوں گا.اس طرح چالیس دن تواتر کے ساتھ ہم دعا کریں گے کہ اللہ تعالے ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنے
۶۲۹ تا پنیز وجودوں کو اس کی درگاہ کی بھینٹ چڑھا دیں جماعت اللہ ہی سنبھالتا ہے.اللہ ہی دلوں کو فتح کرتا ہے.لیکن انسان جب اپنی قربانی پیش کر دیتا ہے تو باقی کام اللہ تعالی خود کر دیتا ہے.پس ضروری ہے کہ جماعت کا ہر فرد اپنی قربانی اس طرح سے پیش کر دے جس طرح ابراہیم نے سمعیل کو پیش کر دیا تھا جس کے نتیجے میں محمد رسول اللہ سے اللہ علیہ وسلم جیسا وجود پیدا ہوا.آج بھی اگر ہم میں سے ہر شخص سمعیل بن جائے تو جلد ہی ناممکن بات ممکن ہو جائے گی.دنیا میں آج اس قدر غفلت ہے ، اتنی دہریت ہے.اس قدر مادیت ہے.مذہب سے اس قدر بے اعتنائی ہے کہ ایک منٹ کے لئے بھی کوئی خیال نہیں کر سکتا کہ کوئی زبر دست تبدیلی دنیا میں پیدا ہو بجائے گی ہیں آؤ! ہم اپنی گردنوں کو خدا تعالیٰ کے دروازہ پر جھکا کر خود اپنے ہاتھوں سے اُن پر چھری پھیریں تاکہ محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی حکومت پھر دنیا نہیں قائم ہو جائے “ لے اسلام کی فتح رُوحانی کے لئے ان دردمندانہ دعاؤں کا سلسلہ دوسرے دن مامان مارچ ہم میں سے شروع ہو گیا./ سے حضرت خلیفہ ربیع الثانی اس روز نماز عصر کے بعد خدام کی ایک کثیر تعداد کے ساتھ بہشتی مقبرہ تشریف لے گئے لیے اگلے روز حضور نے دعا کرنے سے قبل پچاردیواری کے دروازہ میں کھڑے ہو کر یہ وضاحت فرمائی کہ مہاری عرض یہاں آکر دعائیں کرنے سے سوائے اس کے کچھ نہیں کہ حضرت سیح موعود علیات کام کے مزار کو دیکھ کہ ہمارے اندر رقت پیدا ہو اورہم خدا تعالیٰ سے عرض کریں کہ اے خدا ! ابی وہ شخص ہے جس نے اسلام کی خاطر پنی تمام زندگی وقف کردی یہ وہ شخص ہے جس پر تو نے الہابات نازل کئے کہ اس کے ہاتھوں سے اسلام کا اختیار ہو گا اور دنیا ایک نئے رنگ میں پلٹا کھائے گی.اب یہ شخص فوت ہوچکا ہے اور ہمارے سامنے زمین میں دفن ہے.ہم دعوی کرتے ہیں کہ ہم اس کے ساتھ محبت رکھتے اور اس کے غلاموں میں شامل ہیں.اس لئے اب یہ ہمارا فرض ہے کہ اس ذمہ داری کو ادا کریں اور ان وعدوں کو جو تو نے کئے پورا کرنے کیلئے پنی جد و جہداور کوشکو کمال تک پہنچادیں بگریم کمزوری ہے اندر کی قسم کی کوتاہیاں پائی جاتی ہیں تو آپ اپنے فضل سے ہمارے کمزور کندھوں کو طاقت دے بہارے بات ان ہاتھوں کو مضبوط بنا اور ہماری کوششوں میں ایسی برکت پیدا فرما کہ تیرے وعدے پورے ہوں اور تیرا دین دنیا پر غالب آجائے“ کے له الفضل درامان / اری صفحه التام خلافت ثانیہ کے اکتیسویں سال اور دعوئی مصلح موجود کے سال اول کی پہلی سہ ماہی کے ایمان افروز واقعات اس جلد پر ختم ہوئے.الحمد لله أَوَلَا وَ أَحَدًا فَظَاهِرًا وَبَاطِنَا وَعَلَيْهِ النَّحْلَانِ نِعْمَ الْمَوْلَى وَنِعْمَ النبي طالر و یا خاکسار شاه محمد شاهد منو شنونه انت رنو
۶۳۰ کتاب تاریخ احمدیت جلد نهم سیح موعود د وعلی (صفرا) نمایاں طور پر شناخت ہونے والے اصحاب کے نام یہ ہیں :.سٹیج پرکھڑے ہونے والے دائیں سے بائیں.۴ سید نا حضرت خلیفة السيح الثاني الصلح الموعود ر حضور کے قدموں میں صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب) ۵- صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب سٹیج پر بیٹھنے والے پہلی قطار دائیں سے بائیں :-.نگڑی وعینک والے مولوی محمد عبداللہ صاحب اعجاز اسٹنٹ پرائیویٹ سکرٹی: ۲.سیٹھ محمد فوت ماست حیدرآبادی (آپ کے دائیں ہاتھ پچھلی جانب سفید ریش حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب سکندر آباد دکن) حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خانصاحب ۹ مکرم نوراحمد صاحب سنوری ۱۰.میاں عبد اللہ صاحب د برادر مولانا ابوالبشارت عبد الغفور صاحب) سٹیج کے نیچے بیٹھنے والے پہلی قطار میں :- سفید بالوں والے حضرت حکیم محمدحسین صاحب المعروف مریم عیسی اور چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب کے قدموں میں بیٹھنے والے چوہدری سلطان احمد صاحب را بین چوہدری علی محمد صاحب آف گوکھو والی ضلع کا لیوم - فوٹو سالانہ اجتماع انصار الله (صفحہ ۹۹) سٹیج پر کھڑے دائیں سے بائیں :- ا حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ۲ موادی ظهر رسین صاحب مولوی عبد الرحمن صاحب انور ۴- مولوی احمد خان صاحب نیستیم ه - چوہدری ظہور احمد صاحب آڈیٹر - حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب ورد حضرت خلیفہ اسیح الثانی الصلح الموعود کے ساتھ حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب بیٹھتے ہیں.
فوٹو مبلغین سلسلہ احمدیہ (صفحه ۲۲۰) (دائیں سے بائیں کرسیوں پہ : 1 مولوی محمد سلیم صاحب -۲- قریشی محمد نذیر صاحب ملتانی - مولوی محمد یار صاحب عارت سابق مبلغ انگلستان ہے.مولوی فضل الرحمن صاحب بنگالی مولانا ۵ حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی رم 4 مولانا عبد الله صاحب حالا با رمیان رحمت علی صاحب - مولانا ابو العطاء صاحب ۹ مولانا ابوالبشارت عبد الغفور صاحب (دائیں سے بائیں کسی قطار : 1- مباشر محمد عمر صاحب تو مسلم (سابق یوگندر پال) ۲- مولوی محمد حسین صاحب مبلغ کشمیر - مولوی عبدالواحد صاحب کشمیری ۴ مولوی غلام احمد صاحب فرخ ۵ شیخ عبد القادر صاحب نو مسلم (سابق سوداگریل) 4- چوہدری منظفر الدین صاحب بنگالی.ردائیں سے بائیں) دوسری قطار : 1- مولوی محمد اعظم صاحب بوتالوی ۲- گیانی واحد حسین صاحب ر سابق شیر سنگھ - مولوی عبدالمالک خانصاحب ۴- مولوی احمد خان صاحب نسیم ۵۰ مولوی دل محمد صاحب - گیانی عباداللہ صاحب - مولوی غلام احمد صاحب ارشد - -۴ حضرت مصلح موعود کا گروپ فوٹو جماعت احمدیہ لاہور کے ساتھ وال سینی (سنو ہم) نیچے بیٹھے ہوئے (دائیں سے بائیں) : 1- قاضی محبوب عالم صاحب مالک راجپوت سائیکل ورکس تیله شید -۲- ملک خدا بخش صاحب جنرل سکرٹری - قاضی محمد اسلم صاحب ایم.اے ۴.شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ - شیخ مشتاق حسین صاحب 4- میاں احمد دین صاحب بابو عبد الحمید صاحب ریلو ے آڈیٹر - میاں تاج دین صاحب ۹ پہلوان معراج الدین صاحب ۱۰- قریشی محمود احمد صاحب کرسیوں پر (دائیں سے بائیں ) : محمد اقبال صاحب زرگر -۲- چوہدری عبد الرحیم صاحب - میاں عبدالمجید صاحب حضرت اميرالمؤمنين خليفة أسيح الثاني المصلح الموعودان - میاں محمد یوسف صاحب پہلوان کریم بخش صاحب x رحمن کھڑے (دائیں سے بائیں - ڈاکٹر معراج الدین صاحب (جن کے آگے ایک بچہ کھڑا ہے) - شیخ محب الرحمن صاحب کہ حکیم محمد حسین صاحب مرسم عیسی ۵- با بو فضل الدین صاحب چوہدری اسد اللہ خانصاحب - مولوی عبد الرحیم صاحب درد ۸ مستری نور محمد صاحب وروم - -4
۶۳۲ میستری جان محمد صاحب ۱۰- ملک عبد الکریم صاحب 11 ڈاکٹر حافظ عبد الجلیل صاحب ۱۲- میان فیروز الدین صاحب سیالکوٹی ۱۳.بھیرہ کے ایک دوست ۱۴ متری حسن دین صاحب - -۱۶ ڈپٹی میاں محمد شریف صاحب - تصویری کی تاریخ اور خیال بودم -10 مدرسہ حمدیہ کے قدیم اساتذہ اور طلبہ کا فوٹو (صفحه (۵۴) گوئیوں پر ادائیں سے بائیں : حضرت مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل (جت) ۲ حضرت ماسٹر محمد طفیل صاحب ۲۰۱۳ حضرت مولوی غلام نبی صاحب (مصری) که حضرت قاری غلام پیشین صاحب رضی الد عند ه نعمت الله تعال صاحب انور بدایونی کرک بورڈنگ مدرسه ۶ قاضی عطاء اللہ صاحب انگریزی ٹیچر حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب نے ہیڈ ماسٹر مدرسہ - حضرت میر محمد اسحاق صاحب رض و شیخ عبد الرحمن صاحب مصری ١٠- حضرت مولانا مولوی از حمید خان صاحب !! حضرت قاضی سید امیر حسین صاحب ۱۲ حضرت مولانامحمد معیل صاحب فاضل حلالپورشی ۱۳- شیخ محمود احمد صاحب عرفانی مرحوم میشتر بلاد اسلامیہ پیچھے کھڑے ہونے والے ادائیں سے بائیں ) :- ا سید محمد ہاشم صاحب بخاری و قاضی عطاه الله صاحب کے بائیں کندھے پر ہاتھ رکھنے والے).پیر حبیب احمد صاحب - مولوی عزیز بخش صاحب م مولوی ناصرالدین صاحب حمید اللہ خان صاحب ابر اور حضرت خان ارجمند خان صاحب ) میاں شیخ محمد صاحب پوسٹ مین قادیان - مولوی عنایت الله صاحب قادیانی - مولوی قمر الدین صاحب لکھواتی -- مولوی تاج الدین صاحب ۱۰- مولوی عبد الله صاحب بد و تهی 11- مولوی علی احمد صاحب سیکوالوی رضیاء الاسلام پولین دیوه )