Tarikh-eAhmadiyyat V07

Tarikh-eAhmadiyyat V07

تاریخ احمدیت (جلد 7)

1934ء تا 1939ء
Author: Other Authors

Language: UR

UR
تاریخ احمدیت

تحریک جدید کی بنیاد سے لیکر خلافت جوبلی تک۔ (پرانے ایڈیشن کے مطابق جلد 8)


Book Content

Page 1

تاریخ احمدیت جلد ہشتم تحریک ہے یہ کی فیا سے لیکر خلافت جو ٹی تک (۱۹۳۳ شد تا ۱۹۳۹) مؤلّفه دوست محمد شاهد

Page 2

نام کتاب مرتبہ طباعت موجودہ ایڈیشن تعداد شائع کردہ مطبع تاریخ احمدیت جلد ہفتم مولا نا دوست محمد شاہد 2007 : 2000 : : ; نظارت نشر و اشاعت قادیان پرنٹ ویل امرتسر ISBN-181-7912-114-3 TAAREEKHE-AHMADIYYAT (History of Ahmadiyyat Vol-7 (Urdu) By: Dost Mohammad Shahid Present Edition : 2007 Published by: Nazarat Nashro Ishaat Qadian-143516 Distt.Gurdaspur (Punjab) INDIA Printed at: Printwell Amritsar ISBN-181-7912-114-3

Page 3

MEHTA B شبیہ مبارک سید نا حضرت امیر المؤمنین خلیفہ امسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ (دسمبر ۱۹۳۹ء)

Page 4

مجلس مشاورت قادیان دارالامان کے دومناظر

Page 5

سید نا حضرت علیہ اسیح الثانی مسجد اقصی قادیان میں خطبہ جمعہ کے لئے تشریف لارہے ہیں.پیچھے خان میر خان صاحب اور دوسرے پہرے دار ہیں سیدنا حضرت خلیفہ امسیح الثانی صدارت فرمارہے ہیں.حضور کے دائیں جانب چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب ہیں ( مقام شوری تعلیم الاسلام ہائی سکول ہال قادیان)

Page 6

بسم اللہ الرحمن الرحیم پیش لفظ اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں داخل فرماتے ہوئے اس زمانہ کے مصلح امام مہدی ومسیح موعود علیہ السلام کو ماننے کی توفیق عطا کی.قرونِ اولیٰ میں مسلمانوں نے کس طرح دنیا کی کایا پلٹ دی اس کا تذکرہ تاریخ اسلام میں جا بجا پڑھنے کو ملتا ہے.تاریخ اسلام پر بہت سے مؤرخین نے قلم اٹھایا ہے.کسی بھی قوم کے زندہ رہنے کیلئے اُن کی آنے والی نسلوں کو گذشتہ لوگوں کی قربانیوں کو یا درکھنا ضروری ہوا کرتا ہے تا وہ یہ دیکھیں کہ اُن کے بزرگوں نے کس کس موقعہ پر کیسی کیسی دین کی خاطر قربانیاں کی ہیں.احمدیت کی تاریخ بہت پرانی تو نہیں ہے لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے الہی ثمرات سے لدی ہوئی ہے.آنے والی نسلیں اپنے بزرگوں کی قربانیوں کو ہمیشہ یادرکھ سکیں اور اُن کے نقش قدم پر چل کر وہ بھی قربانیوں میں آگے بڑھ سکیں اس غرض کے مد نظر ترقی کرنے والی قو میں ہمیشہ اپنی تاریخ کو مرتب کرتی ہیں.احمدیت کی بنیاد آج سے ایک سو اٹھارہ سال قبل پڑی.احمدیت کی تاریخ مرتب کرنے کی تحریک اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دل میں پیدا فرمائی.اس غرض کیلئے حضور انور رضی اللہ عنہ نے محترم مولا نا دوست محمد صاحب شاہد کو اس اہم فریضہ کی ذمہ داری سونپی جب اس پر کچھ کام ہو گیا تو حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی اشاعت کی ذمہ داری ادارۃ المصنفین پر ڈالی جس کے نگران محترم مولانا ابوالمنیر نور الحق صاحب تھے.بہت سی جلدیں اس ادارہ کے تحت شائع ہوئی ہیں بعد میں دفتر اشاعت ربوہ نے تاریخ احمدیت کی اشاعت کی ذمہ داری سنبھال لی.جس کی اب تک 19 جلدیں شائع ہو چکی ہیں.ابتدائی جلدوں پر پھر سے کام شروع ہوا اس کو کمپوز کر کے اور غلطیوں کی درستی کے بعد دفتر اشاعت ربوہ نے

Page 7

اس کی دوبارہ اشاعت شروع کی ہے.نئے ایڈیشن میں جلد نمبر ۸ کو جلد نمبر ے بنایا گیا ہے.حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے قادیان سفر کے دوران تاریخ احمدیت کی تمام جلدوں کو ہندوستان سے بھی شائع کرنے کا ارشاد فرمایا چنانچہ حضور انور ایدہ اللہ کے ارشاد پر نظارت نشر و اشاعت قادیان بھی تاریخ احمدیت کے مکمل سیٹ کو شائع کر رہی ہے ایڈیشن اول کی تمام جلدوں میں جو غلطیاں سامنے آئی تھیں ان کی بھی تصحیح کر دی گئی ہے.موجودہ جلد پہلے سے شائع شدہ جلد کا عکس لیکر شائع کی گئی ہے چونکہ پہلی اشاعت میں بعض جگہوں پر طباعت کے لحاظ سے عبارتیں بہت خستہ تھیں اُن کوحتی الوسع ہاتھ سے درست کرنے کی کوشش کی گئی ہے.تاہم اگر کوئی خستہ عبارت درست ہونے سے رہ گئی ہو تو ادارہ معذرت خواہ ہے.اس وقت جو جلد آپ کے ہاتھ میں ہے یہ جلد ہفتم کے طور پر پیش ہے.دُعا کریں کہ خدا تعالیٰ اس اشاعت کو جماعت احمد یہ عالمگیر کیلئے ہر لحاظ سے مبارک اور با برکت کرے.آمین.خاکسار برہان احمد ظفر درانی ناظر نشر و اشاعت قادیان)

Page 8

بسم اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ يَحْمَدُهُ وَصَلى عَلَى رَسُولِهِ الكونية تاریخ احمدیت کی آسٹرین جلد در قم فه رموده مکرم و محترم چودهری معروف شیشه نام سالی) الحمدللہ کہ تاریخ احمدیت کی آٹھویں جلد طبع ہو کہ اشاعت کے قریب پہنچ چکی ہے.اس جلد میں ہے کے آخر سے لے کر نہ کے آخر تک کے واقعات درج ہیں، گویا اس مجلد کے ساتھ سلسلہ احمدیہ کی پہلی نصف صدی کی تاریخ کی تکمیل ہوتی ہے.خاکسار کو ابھی اس جلد کے مطالعہ کا موقعہ تو نہیں ملا لیکن اس میں شنک نہیں کہ تاریخی لحاظ سے اس جلد کی اہمیت کسی پہلی جلد سے کم نہیں.جلد ہفتم کے ہن میں ان افسوسناک اور عبرت انگیز واقعات کا ذکر ہے جو حکومت پنجاب اور مجلس احرار کی نفقه فیت کے نتیجے میں سلسلہ احمدیہ کے لئے نازک صورت اختیار کر گئے احرار کا نفرنس کے دوران میں شاک رانگستان میں تھا.ویر میں واپس اہور پہنچا ایک رات اور نظر کہ دوسری صبح قادیان حاضر ہوا اور ای شام بورنوٹ آیا تخمینی وارات ا علم خاکسار کو قادیان میں حضرت خلیفہ مسیح ثانی کی زبان مبارک سے حاصل ہوا جناب میاں سر فضل حسین صاحب کا تو بھی پیغام حضور کی خدمت میں پہنچا وہ خاکسار کے توسط سے نہیں پہنچا تھا.خاکسار انعوقت تک ابھی انگلستان میں تھا.قادیان سے واپسی کے دوسرے دن سر پر بٹ ایمرسن گورنر پنجاب کا پیغام خاکسار کو ملا کہ وہ خاکسار کی ملاقات کے تحتی ہیں.یہ علاقات دو گھنٹے تک جاری رہی، گورز صاحب نے تفصیل اپنا نقطہ نظر بیان کیا، خاکسارخاموشی سے سنتا رہا جب دہ بیتابیاں ختم کر چکے جب بھی خاکسار خاموش رہا.انہیں توقع ہوگی کہ خاکسار اپنی طاقت سے کس دارائے کا اظہار کرے اور بنا کسانہ کوئی غرض لے کر اُن کی خدمت میں حاضر ہوا نہیں تھا.ان کی خواہش کی تعمیل میں مضر ہو گیا تھا.ڈاکار کو بالکل خاموش پا کر انہوں نے پھر اپنی ی تقریر کو مقصرطور پر دوہرایا اور آخرمیں کہامیں تسلیم کرتاہوں کہ اتار کو قادیان میں کانفرنیں کرنے کی اجازت دینا غلطی تھی انہوں نے اس موقعہ سے بہت بیجا فائدہ اُٹھایا اور اُسے صرف سلسلہ اور بائی سلسلہ کے خلاف اشتعال پیدا کرنے کے لئے استعمال کیا مرزا صاحب کے احساسات اور جذبات کو جو د ہ پہنچا ہے اس کا بھی میں اندازہ کرسکتا ہوں.انہوں نے چند ہفتوں سے اپنے خطبات

Page 9

جمعہ میں اپنے رنج کا اظہار کرنا شروع کیا ہے جس کے ساتھ مجھے کسی قدر ہمدردی بھی ہے لیکن اب وہ بہت کچھ کہہ چکے ہیں بیت معلوم ہوتا ہے کہ اب یہ سلسلہ ختم کیا جائے.ظفر اللہ خان تو مجھ سے آپ کیا چاہتے ہیں ؟ سر سر مرٹ ایمرسن، تم اپنا اثر استعمال کر کے اس قضیے کو ختم کرا دو.ظفر اللہ خان میں کس حیثیت سے اس معاملے میں دخل دے سکتا ہوں ؟ آپ ابھی فرما چکے ہیں کہ جہانتک سلسلے کا تعلق ہے آپ امام جماعت حمدیہ کے علاوہ کسی اور فرد و کسی حیثیت سے بھی سلسلے کا ماندہ تسلیم نہیں کرتے.خاکسار و جناب امام جماعت احمدیہ نے اپنی نمایندگی کرنے کا فخر نہیں بخشا.سر سر بریٹ ایمرسن تمہیں ہر صورت اس معاملے میں دلچسپی تو ہے اور تم ضرور چاہتے ہو گے کہ یہ قضیہ ختم ہو.فر اللہ خان جیسی ہی نہیں میرے لئے یہ امرد درجہ کا موجب ہے کیو نے باجاجات وسیلے کی تین کی سکی کر ہر بوٹ ایمرسن.یہ تو بہت سنجیدہ الزام ہے.ظفر اللہ خان.واقعات شاہد ہیں.اس مرحلہ پر خاکسار نے واقعات پر مختصر تبصرہ کر کے الزام ثابت کرنے کی کوشش کی سر پر روٹ نے بات تو تحمل سے سن لی لیکن کہا آپ ضرورت سے زیادہ ذکی الس ہو رہے ہیں.خاکسار نے کچھ جوش میں کہا بجا ہے.جہاں ایسی اقدار اور ایسی سنیوں کا تعلق ہوجو انسان کو جان سے عزیفہ ہوں وہاں انسان ان کی نظر میں جنہیں ایسی کوئی وابستگی نہ ہو ضرورت سے زیادہ ذکی الحس نظر آتا ہے.اس مرحلے پر خاکسار اجازت لے کر رخصت ہوا.دوسرے دن گورنر صاحب نے پھر پیغام بھیجکر بلوایا اور کہا کچھ تدبیر ہونی چاہیے میں نے دریافت کیا، کیا تدبیر ہو انہوں نے بنایا کہا تم مرزا صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر میری طرف سے کہو کہ وہ اپنا نقطہ نظر سیلک میں واضح کر چکے ہیں اور مجھے ان کے پنج ہیں ہمدردی ہے.اب خطبات کا یہ سلسلہ بند ہو جائے تو مناسب ہے میں نے کہا میری نگہ میں حکومت کو کم سے کم یہ تو تسلیم کرتا چاہیے کہ نوٹس امامجماعت احمدیہ کے نام جاری نہیں ہونا چاہیئے تھا.بفرض محال اگر کوئی قانونی ذمہ داری تھی بھی تو وہ سلسلہ کے افر کی تھی جس کی طرف سے پیٹیاں جلی ہوئی تھیں گور صاحے کا ہے اور یہی تسلی کرلے لیکن اس بات کو ظاہر کی ہے خاکسار حضرت خلیفہ شیخ کی خدمت میں حاضر ہوا.اور جو بات چیت گور نر صاحب کے ساتھ ہوئی تھی حضور کی خدمت اقدس میں گذارش کردی بضور نے فرمایا مجھےحکومت کو دق کرنا زاد نہیں لیکن میں یہ تو نہیں کرسکتا کہ حکومت کی طرف سے خفیہ بستی دیے جانے ای کیک خاموش ہو جاؤں.مجھے توسیلے کا احترام اور وقار مطلوب ہے، اگر میں بغیر کسی اعلان یا اظہار کے خاموش ہو جاؤں تو اس سے تو سلسلے کے تار و پہلے کی نسبت زیادہ مت چاہ یہی فرض کیا جائیگا کہ مودی نے مجھے دھمکی دے کر خاموش کر دیا.مجھے کم سے کم

Page 10

で یہ کہنا ہوگاکہ حکومت نے ان مورمیں میرا موقف تسلیم کرلیا ہے خاکسارنے لاہور واپسی پر نور کا مکمل گو ر صاحب کی خیریت گزارش کر دیا.گور نرصاد نے اُسے تسلیم کرلیا.آخر یہی قرار پایا کہ متعلقہ سیکرٹری حضور کے منشاء کے مطابق حکومت کی طرف سے حضور کی خدمت میں چھٹی بھیجدے اور گورنر صاحب نے یہ بھی کہدیا کہ اگر مرزا صاحب چاہیں تو بیشک میٹھی شائع کر دیں.آخر یہ بات کھپی تو رہ نہیں سکتی.کوئی احراری نمائندہ کونسل میں سوال کر کے حقیقت معلوم کر سکتا ہے لیکن حضرت خلیفہ اسی نے چھٹی شائع کرنا پسند نہ فرمایا.بظاہر تویہ عامہ یوں سمجھ گیا لیکن حکومت پنجاب کی طرف سے ایذا دہی کاسلسلہ ختم نہ ہوا.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل ورحم سے سلسلے اور جماعت کو مخالفین کی ہر چال کے مقابل اپنی حفاظت اور نصر سے نوازا، فالحمدللہ علی ذالک.احرار کا فرمیس اور حکومت پنجاب کی مخالفانہ روش کو اللہ تعالیٰ نے ہر بلا کی قومرا حق داده اند کے مطابق ایک گنج کرم کا موجب بنا دیا.ان حالات کے پیش آنے کے نتیجے میں حضرت خلیفہ ایسے ثانی نے تحریک جدید کو جاری فرمایا جس کے شاندار تقبل پر پھیلی تکث صدی کی کامرانیاں شاہد ہیں.اللہم زد فرد - ۱۹۳ء میں خلافت ثانیہ کی برکات پر ربع صدی کے عرصہ کی تکمیل ہونے کے پیش نظر حضرت خلیفہ مسیح ثانی نے کی خدمت اقدس میں شکرانہ کے طور پر خلافت جوبلی منانے کی اجازت کی درخواست گزارش کی گئی حضور نے فرمایا خلافت کی جوبلی منانے میں تو شاید مجھے قائل ہوتا لیکن نہ ہی میں سلسلہ کے بھی پچاس سال پورے ہوں گے.اس لحاظ سے جوبلی منانے کی اجازت ہے اور اسی سلسلہ میں یہ ارشاد بھی فرمایا سلسلہ کے سو سال پورے ہونے پر بڑی شان سے بوٹی منانا ! سلنے کی تاریخ کا ہر سال کئی نشان لے کر آتا ہے جن کا محفوظ کر ناسلے کی اہم ذمہ داریوں میں سے ہے.تاکہ موجودہ اور آئندہ نسلیں ان نشانات سے سبق حصل کریں اور اپنے ایمانوں کو تازہ اور مضبوط کریں اور ولیمكَانَ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنگ کے روح پر ورشواہد کو اپنے لئے مشعل راہ بنائیں اور يعبدونني لا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا کا صحیح نمونہ دنیا کے سامنے پیش کرتے جائیں.وَمَا تَوفيقنا الا الله لعلي الْعَظِيمِ، هُوَ مَوْ لَنَا نِعْمَ المَولى وَنِعْمَ النَّصِيرِ وَاخِرُ دَعْوَانَا آنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ * خاکسار ظفر السر خان 19½ ۱۵ ار دیگر مست ۱۳۹۶

Page 11

د الله الرَّحْمنِ الرَّحِيم حمده ونصلى على رسوله الكريم ومداعبة المسمير المومن تاریخ احمدیت جلد نم للہ تعالے کی دی ہوئی توفیق سے امسال جلسہ سالانہ کے موقع پر خافت ثانیہ کے با برکت دور کی تاریخ کی چوتھی سلد احباب کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے.یہ جلد شاہ کے آخر سے لے کر یہ تک کے واقعات پر مشتمل ہے.اس جلد میں تین اہم واقعات کا ذکر خاص طور پر کیا گیا ہے.اس تحریک جدید کا اجراء، اس کی برکات اور نتائج ، ۲ - خدام الاحمدیہ کی تحریک اور شاہ تک اس کی تاریخ ، ۳.خلافت ثانیہ کی پچیس سالہ جوئی.حضرت امیرالمومنین خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے جو تحریکات اسلام کے غلبہ کیلئے جاری فرمائیں اُن میں سے تحریک جدید اور خدام الاحمدیہ کی تحریک نہایت ہی اہمیت رکھتی ہیں.تحریک تجدید کے اجزاء سے جماعت احمدیہ کے پیشن مختلف ممالک میں قائم ہوئے اور جماعت کی ترقی تیز رفتاری سے غیر ممالک میں شروع ہو گئی اور اب مختلف ممالک میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ اور آپ کے فرزند جلیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مشق ومحبت رکھنے والے حسین کی ایسی جماعتیں قائم ہوگئی ہیں جو اسلام کی راہ میں بھی اور مالی قربانیاں دینے کے لئے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے والی ہیں.اسلام کے عالمگیر غلبہ کے لئے ہماری ایک نسل یا دونسل کی قربانیاں معنی نہیں بلکہ اس امرکی ضرورت ہے کہ قیامت تک ہر ایک صدی میں ہماری نسلیں صحیہ کرائم کے نقش قدم پر چلنے والی صحیح اسلام پر قائم رہنے والی اور اسلام کے تھنڈے کو بلند کرنے والی ہوں اور یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا لینک کہ ہماری نسلوں کی صحیح تربیت کا انتظام نہ ہو اور اس اہم عرض کو پورا کرنے کیلئے سیدناحضرت امیر مومنین خلیفہ ربیع الثانی رضی اللہ عنہ نے خدام الاحمدیہ کی با برکت تحریک بھاری فرمائی.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ قیامت تک اس تحریک کے نتیجے میں ایسے لوگ پیدا ہوتے جائیں جو صحیح اسلام کو دنیا کے سامنے پیش کرنے والے اور اسلام کا جھنڈا بلند کرنے والے ہوں.آمین.مصنف کتاب مردم موادی دوست محمد صاحب شاہد نے رات دن محنت شاقہ کر کے کتاب کے مسودہ کو مکمل کیا.اسہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ انہیں اجر عظیم عطا کرے اور دنیا اور آخرت کی نعمتوں سے نوازے اللہ تعالی کی دی ہوئی توفیق سے خاکسار نے خود بھی اول سے آخرتک مسودہ کو پڑھا اور اسبات کو مد نظر رکھا کہ ہرزاویہ سے مضمون مکمل ہو کرم بی محمد اعظم صاحب حیدرآبادی، مکرم چودھری محمد صدیق صاحب فاضل انچارج خلافت لائیبریری اور مکرم ڈاکٹر سید ظہور احمد شاہ صاحب نے اپنے قیمتی وقت کو خرچ کر کے مسودہ کو اوّل سے آخر تک پڑھا اور اپنے قیمتی مشورے سے نوازا.اسی طرح دیگر بزرگان نے بھی کتاب کے مختلف حصوں کو دیکھ کراپنی میت آراس سے آگاہ کیا.فجزاهم الله کرم شیخ خورشید احمد حصان اسٹنٹ ایڈیٹر الفضل نے نہایت محنت سے کاپیوں اور پردونوں کو پڑھا اور مکرم قاضی منیر احمد صاحب الطیف الر صاحت کالا كنان ادارۃ المصنفین نے کتاب کے چھپوانے میں پوری جدو جہد کی.اسی طرح خلافت لایبریری کے میلہ کارکنان بالخصوص راج محمد یعقوب مسلم اور ملک محمداکرم صاحب بھی شکریہ کے متفق ہیں انہوں نے مکرم مولوی دوست محمد صاحب شاہد کے ساتھ پورا تعاون کیا جناب مبارک اما با این آبادی امیرشاد ما ایمر جناب عزیز احمدیت اینک سٹوڈیوں ہوں، چوہدری خلیل صاحب کھوڑیانوالہ جناب احمد مین صاحب حیدر آبادی اور جناب ممتازاحمد مصادف اوکاڑا بھی شکریہ کے تھی ہیں جنہوں نے کتاب کیلئے تصاویر اور مواد مہیا فرمایا.اسطرح دیگر دوست جنہوں نے مواد مہیا کرنے حوالہ جات نکالنے میں مدد کی، کتابت عمدگی سے کی اور اُسے چھاپا سب ہی قابل شکریہ ہیں اللہ تعالے اس کے جزائے خیر عطا فرمائے.آمین.خاکہ ابوالمنیر نورالحق مسیجنگ دار کیر دار المصنفین زنده کار میبرد ادارة

Page 12

فہر رضی امین تاریخ احمدیت جلد شم عنوان عنوان پہلا باب تری دید کے کامیاب ہونیکی عظیم الشان پیشگوئی ۳۱ کمز در طبع اصدیوں کا اضطراب اور حضرت امیر المومنین تحریک جدید کی بنیاد ، مخلصین جماعت کی کا ایمان افروز جواب بیمثال قربانیاں ، وقف زندگی کا وسیع نظام تحریک جدید کا اثر غیروں پر اور اُس کے عالمی تاثرات.فصل اول تحریک جدید کا اول اور اس کی نسبت آسمانی بشارت ہیں تحریک جدید کی بنیاد کے وقت ماحول تحریک جدید کا ذکر ملکی پریس میں فضل سوم مطالبات تحریک جدید پر جماعت احمدیہ کی طرف سے اخلاص د قربانی کا شاندار مظاہرہ اور غیروں کا خراج تحسین تحریک جدید کا ذکر سید نا حضرت مسیح موعود مانی مطالبات اور جماعت احمدیہ علیہ السلام کے کشف میں دوسری بشارات خدا تعالٰی کی نانہ لی کردہ تحریک تحریک جدید کی نسبت پہلا اعلان تین فوری احکام قربانی کا ماحول پیدا کرنے کا اور شاد فصل دوم امانت فنڈ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی دعائیں تحریک جاریہ کا نو شگوار اثر صد را نمین احمدی کے چندوں پر " ۳۵ A " مالی مطالبات پر سب سے پہلے لبیک کہنے والی جماعتیں ۳۹ بیرونی ممالک سے تحریک جدید کے حق میں آوانہ بیرون ہند کی بعض اور مخلص جماعتیں دوسرے مطالبات اور جماعت احمدیہ تبلیغ کے لئے یک ماہی وقف تحریک عید کے امین مطالبات اور ملکی پریس سه ساله در قف ایش مطالبات حضرت امیر المومنین کے اپنے الفاظ میں 1 مطالبات تحریک جدید کا پس منظر تحریک جدید جبری نہیں اختیاری سکیم ہے ساڑھے تیرہ سو سال قبل کی تحریک ۲۳ پینشنر اصحاب کی طرف سے بقیہ زندگی وقف بے کار نوجوانوں سے متعلق مطالبہ ۲۸ ہاتھ سے کام کرنے کا مطالبہ قادیان میں تعمیر مکان کا مطالبہ ۳۳ " منم ۴۵

Page 13

" no " " V صفحه ۶۲ ۶۴ ۶۴ مطالبہ دعا عنوان فصل چهارم خاندان مسیح موعود کی قربانیاں ۴۵ عنوان اشاعت احدیت پر سیکسی ذریعہ سے نئی درس گاہیں ملک کا تبلیغی سروے مگیریان میشن حضرت خلیفہ ایسے الانی کا جو قسم تحریک مید بن گیا ۲۶ دیر و دال میشن و حضور کی مصروفیات حضرت امیرالمونی و حضورکے اہل بیت کا مینی مالی جہاد دیگر مطالبات میں مشعل راہ فصل پنجم دفتر تحریک ایک کا قیام اور اس کا ابتدائی ڈھانچہ پہلے واقعفت زندگی کارکن فنانشل سیکر ٹری کا تقرر گراف ۵۱ 무무 دار الصناعت بورڈنگ تحریک جدید و یارک یونانی دو انما نه دیلی قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ ۲۵ لاکھ کا ریزرو فنڈ فصل ہفتم بیرونی ملک میں تحریک جدید کی ابتدائی مرگیا ملک تحریک ابتدائی دفتر فنانشل سیکرٹری کے ابتدائی متفرق کو الف ۵۳ تحریک جدید کا ایک اہم مقصد صیغه امانت جائیداد تحریک تجدید کا پہلا ٹیسٹ ( خروج ) مستقل دفتر کا قیام اور اسکی پہلے انچارج حضرت خلیفہ المسیح الثانی رض کی زریں ہدایات اخر احیاست کے بنیادی اصول واقفین تحریک جدید کی تنوع اقسام بیرونی مشنوں کے سیکرٹری سیکرٹری تجارت و صنعت فصل ششم ۵۶ DL " 04 4 تحریک جدید کے دور مجاہدوں کا قابل رشک مظاہرہ تحریک تجدید کے پہلے تین سالہ دور کے شاندار نتائج پر ایک نظر بعض ابتدائی تلخ تجر ہے فصل ششتم تحریک جدید کا دوسرا ہفت ساله " دور القاء الہی سے دس سالہ دور کا تقرر ہفت سالہ دور مقرر کرنے کی حکمت چندہ تحریک جدید میں تخفیف اندرون ملک میں تحریک جدید کی ابتدائی مرگیا مطالبات تحریک جدید میں اضافہ اہم ٹرینوں کی اشاعت کتابوں کی اشاعت ۶۲ مطالبہ سادہ زندگی میں مستثنیات مستقل وقف کی تحریک 60 44 z

Page 14

} ١١٣ " ۱۱۴ 114 ۱۱۸ 争事 114 " ۸۶ q.41 کو تو عنوان خاندانی وقت کی تحریک بیرونی ممالکی تبلیغ تحر یک جدید کے دائرہ عمل میں تحریک و قف تجارت خاتمه جنگ اور مجاہدین تحریک جدید کی روانگی تحریک تجدید کی رجسٹریشن عنوان مستقل واقفین کی ٹرینینگ نب واقفین کے لئے ہدایات حضرت خلیفہ ایسیح الثانی کا اظہار خوشنودی نصاب کی تشکیل واقفین کے اساتذہ دار المجاہدین ۹۲ مجلس تحریک جدید کا قیام تقسیم ہندا در تحریک جدید واقفین میں مجاہدانہ پیرٹ پیدا کرنے کیلئے خصوصی ممبران کا تقریر مختلف اقدامات - سنیما کی مستقل ممانعت = ۹۳ وقت زندگی برائے تسلیم دیہاتی مبلغین ۹۸ وقف جائیدا داد ر وقف آمد کی اہم تحریک وقف زندگی کی وسیع تحریک 1 وسیه ارزان اهمیت کلا شواندا - اخلاص غیر احمدی نوجوانوں پر تحریک وقت کا اثر ۱۰۲ مجاہدین تحریک بعدینیہ کے لئے استاد اشاعت لٹریچر تحریک جدید کے دس سالہ دور پر ایک نظر فصل نهم 11 〃 تحریک جدید کی پاکستان میں رجسٹریشن جامعتہ المبیشتر ین کا قیام تحریک جدید کے مستقبل شعبوں کے لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا دستور العمل تحریک جدید کا بجٹ مجلس مشاورت میں وقعت زندگی سے متعلق نئے اصول اور مٹیل اینڈریلیجس پبلشنگ کمپنی کا قیام ربوہ میں دفا تر تحریک جدید کی عمارت کی تعمیر تحریک جدید میں شمولیت کی خاص تحریک.کتاب ۵ ہزاری مجاہدین کی اشاعت چندہ تحریک جدید کیلئے نئی اقل ترین شرح دفتر دوم سے لیکر دفتر سوم تک تفسیر القرآن انگریزی کی تکمیل ماہنامہ تحریک جدیدہ کا اجراء ر می داد تا نومبر داد ۱۳ تحریک جدید کی مطبوعات دفتر دوم میں ۱۰۵ دفتر سوم کا اجراء.مجاہدین و نفتر سوم کو نصیحت فصل دهم تحریک جدید کے نظام کی موجودہ وسعت مخلصین 1+4 دفتر دوم کا آغاز فضل محمد ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا قیام معاہدہ خلف السنفولی کا احیاء جنگ عظیم ثانی کا تحریک جدید پر اثر شہور نہ بانوں میں لٹریچر پیرنی تاریخ او خصوصی تعلیم کیلئے واقفین کا اہم انتخاب

Page 15

۱۵۷ 144 ۱۶۵ " " 144 " عنوان صفحه عنوان احمدیت کی مالی اور جانی قربانیوں پر ایک نظر تبلیغ حضرت امیر المومنین نے کا سفر گورداسپو را در اخلاص و اسلام سے متعلق تحریک تجدید کی عظیم الشان قد مات فدائیت کے ایمان افروز منتظر - غیوں کی آراء اور تحریک جدید کا شاندار مستقبل تحریک جدید کا موجودہ مرکزی نظام تحریک بدید کی مجموعی آمد ١٢٢ دوسرا سفر تیسرا سفر ۱۲۴ فدائیان احمدیت کی عزت افزائی تحریک جدید کی بدولت قائم ہونے والے بیرونی میشن ۱۲۵ جلسه بیرونی ممالک میں تبلیغ اسلام کا شرف پانیو الے بہوت کرنے والے و الفین تحریک تبدید ریلوے میں نظارت امور عامہ کے ٹکٹ چیکر تحریک جدید کے طبی میشن تحریک جدید کے بیرونی مدارس بیرونی مساجد بیرونی رسائل و جرائد وکالت تبشیر کی اہم مطبوعات ۱۳۵ گولو 〃 " سفر گورداسپور سے متعلق غیروں کے تاثرات کونگر ایک مسلمان اخبار نویس کا تبصرہ اخبار احسان کانوٹ ایک سکھ صحافی کا تبصرہ ۱۳۷ پنجمین جماعت اسلام اور جماعت احمدیہ غیوں کی آرا و تحریک جدید کی تبلیغی مساعی سے متعلق ۱۳۰ مجلس مشاورت میں حضرت امیر المومنین کا تحریک جدید دائمی قربانی کی تحریک ہے جماعت کو انتباہ قربانیوں کی ابدی ضرورت پر حضرت امیر المومنین نے کا پر شوکت فرمان خلفاء کو وصیت تحریک جدید کا شاندار مستقبل دوسرا باب 10+ 101 ۱۵۲ احمدی نوجوانوں اور احمدی بچوں سے عہد لینا.فصل دوم 11 " 141 ۱۷۳ ڈاکٹر محمد اقبال صاحب بیان جماعت احمدیران نسبت ۱۷۳ ۱۵۳ اخبار سیاست کا اداریہ ۱۵۴ روزنامہ حق " لکھنو کا ادارتی نوٹ حضرت امیر المومنین کا بصیرت افروز تبصره ) خطبه جمعه ) عراق میں شیخ احمد فرقانی کی شہد سے لیکر اب انا اتنی نیکی حضرت امیر المومنین کا بصیرت افروز تبصرہ خلافت ثانیہ کا با یوال سال - جنوری تا دسمبر ۱۳۵ فصل اول مضمون کی صورت میں) ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کا ر و عمل ڈاکٹر صاح کے بعض عجیب بے غریب نظریات عراق میں شیخ احمد فرقانی کی المناک شہادت ۱۵۶ مسئلہ وفات مسیح کی معقولیت کا واضح افراد 144 ^] ۱۸۴ JAA ۱۹۳ 144 199

Page 16

عنوان حضرت امیر المومنین خلیفہ ایسیح الثانی کا اظہار مسرت ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کے ایک خیال پر فصل سوم مجاہدین تحریک جدید کا بیرونی ممالک میں جانیوالہ پیدا تافل دارا التبلیغ سٹریس سیٹلمنٹ 144 را عنوان فصل چهارم احرار کا احمدیت پر دوبارہ حملہ اور نا کامی حضرت امیر المومنین کا پر شوکت جواب احرار کو مباہلہ کا چیلنج حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی طرف سے نمائندگان ۳۳ ۲۳۵ ۲۳۷ ۲۳۹ الم حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا اظہار خوشنودی ۲۱۱ کا تقریر اور چیلنج کی مزید وضاحت - مون تا غلام حسین صاحب آیاز کی دوبارہ روانگی ۲۱۲ شرائط مباہلہ میں غیر و تبدل کی پیشکش مباہلہ ٹالنے کے لئے احرزادہ کا ناپسندیدہ رویہ ۲۱۳ احرار لیڈروں کا مطالبہ اور اس کا جواب ۲۲۲ ۲۱۶ مباہلہ میں شرکت کیلئے احمدیوں کا جوش و خروش ۲۲۴ سنگا پور میں کام کرنیوالے دوسرے مجاہدین حریت کی خدمات مولی نا محمد صادق صاحہ کے کارنامے دوسرے مجاہدین کی سرگرمیاں دارا التبلیغ سنگا پور غیروں کی نظر میں دار التبلیغ جاپان کا قیام " PIA احرار کا صداقت مسیح موعود پر مباہلہ کا چیلنج اور اس کی منظوری.۲۴۵ دار التبلیغ ہانگ کانگ دین کا قیام حضرت امیر المؤمنین کا پہلا سفر سندھ ۲۲۲ حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی طرف سے احرار پر کوئٹہ میں ہولناک زلو لہ اور مصیبت زدگان کی اتمام حجت - ۲۲۱ کا تصفیہ شرائط کئے بغیر تاریخ مباہلہ کا تقرر ۲۴۶ ۲۴۹ ۲۵۰ ۳۵۳ ۲۵۴ ۲۵۵ ۲۵۶ ۲۵۰ " حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نمی سلفی بیان ناظر ودعوت و تبلیغ کو سند نمائندگی ۲۲۷ وسیع پیما نے میر امداد + لنڈن سے " مسلم ٹائمز " کا اجماع لنڈن سے رسالہ " الاسلام" انگریزی الہ کے نام پہ قادیان میں ہنگامہ کھڑا کرنے کا اجراء حجاز کے ولی عہد مسجد فضل لنڈن میں کی تیاریاں.۲۲۷ احراری کارروائی کاپس منتظر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعونے پر ام کو قادیان میں جمع کرنے کیلئے پراپیگنڈا.۲۲۸ حق کی فتح حضرت امیر المومنیں بند کی حلفیہ شہادت.سعود کی حکومت کا غیر مسلم کمپنی سے معاہدہ اور حکومت پنجاب کا نوٹس حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ کا بصیرت افروز بسیان ۲۲۸ اتراہ کی درخواست اور حکومت کا جواب کی اور کا جواب رکن ادارہ اخبار " احسان" کا ایک نوٹ موادی شاء اللہ صاحب مرتسری کا دلچسپ تبصرہ

Page 17

عنوان احرانہ کا احتجا جا جمعہ نہ پڑھنے کا اعلان زنده خدا کا نه مده نشان فصل پنجم عنوان ۲۵۸ سرگودہا میں مذہبی کا نفرنس ۲۵۹ فرید کوٹ میں مذہبی کا نفرنس ۱۹۳۵ م کی نئی مطبوعات اندرون ملکہ کے مشہور مناظر سے میشہ رابی سینیا) میں ڈاکٹر نذیر احد صاحبہ کی تو میا ئعین تبلیغی خدمات - ۲۶۱ لم ۲۸ 4 ۲۸۵ YAA حضرت امیر المومنیٹی کی شادی نئے مہمان خانہ کی بنیاد آل انڈیا نیشنل لیگ کو بر قادیان کی ابتدائی سرگرمیان ۲۲۸ تیتر ا باب ہنگری.پولینڈ چیکوسلواکیہ سپین - اٹلی البانیہ اور یوگوسلاویہ میں احمدی مشنوں کا قیام دوم ٢٩٠ مبلغین کو اہم ہدایات بعض جلیل القدر صحابہ کا انتقال ار کے دیگر ضروری واقعات.خلافت ثانیہ کا تئیسواں سال حضرت خلیفتہ المسیح الثانی فلم کی زبان مبارک سے دار التبلیغ ہنگری.پولینڈ چیکوسلواکیہ ذکر خیر.احمدیت اور سیاسیات عالم ۲۷۶ فصل دوم ۳۵ رو کی عید الفطر اور حضرت امیر المومنین دار التبلیغ ارجنٹائن ( جنوبی امریکی ) کا بسیرت افروز خطبہ فصل ششم ۱۹۳۵ء ۲۷۸ فصل سوم دار التبلیغ سپین دائمی ہ کے بعض متفرق مگر اہم واقعات ۲۷۹ مجاہد سپین داخلی کے خود نوشت حالات خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں تمہ تقی سنگ بنیاد گوردوارہ پٹنہ صاحب کی تعمیر کے لئے امداد بر ما مشن کا قیام اخبار البشری حیدر آباد کا اجراء لکھنو میں احمدیہ دار التبلیغ اور احمدیہ دارالمطالعہ کا افتتاح ۲۸۰ فصل چهارم ۲۹۰ ۲۹۲ ۳۹۴ ۲۹۵ ۲۸۱ حضرت مولانا شیر علی صاحب کا سفر انگلستان ۳۰۱ ۲۸۲ ۳۸۳ ایک احمدی خاتون کی بے نظیر بہادری فصل نخجیم جانا اور رانا رانا مریم اما حکومت کے قیام کا ارشادمبارک ۳۰۲

Page 18

عنوان مسجد محلہ دیتی پھلہ تادیان کا افتتاح قادیان میں اجتماعی وقار عمل کے بابرکت سلسلہ کا آغاز صفحه ۲۰۵ ۳۰۵ عنوان فصل نهم صفحه ۱۹۲۶ء کے متفرق مگر اہم واقعات.سلم تسلم مسلم حضرت خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ کا ایک قادیان میں ٹیلیفون کا افتتاح ولولہ انگیز ارشاد مبلیقین کو نہایت اہم نصائح فصل ششم دار التبليغ البانیہ اورگان و به ۳۰۶ میلین سلسلہ کی بیرونی ممالک کو روانگی و واپسی ۹۳۶ مرد کی نئی مطبوعات اندرون ملک کے بعض مشہور مناظر ہے.چوتھا باب مولوی محمد دین صاحب کے مزید تبلیغی حالات اور عالمیگر جنگ کے خوفناک اثرات سے بچنے کیلئے دردناک شہادت کا واقعہ حضرت امام جماعت احمدیہ کا پیغام اچھوت کا نفرنس بھنور کے لئے.کانفرنس حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب کی ولایت سے تشریف آوری.دعاؤں کی خاص تحریک سے لیکر احیائے شریعت و سنت کے میر جلال اعلان تک - ۳۱۴ خلافت ثانیہ کا پچوبیسواں سال ۱۳۷ ۳۱۴ فصل اول }}}} ۳۳۵ میاں سر فضل حسین صاحب کی المناک وفات ۳۱۵ حضرت امیرالمومنین کا نئے سال کیلئے اہم پیغام ۳۲۵ مجلس انصارہ سلطان التعلم کا قیام حضرت امیر المومنین کی کامہ پر حملہ فصل هفتم بعض جلیل القدر صحابہ کا انتقال فصل هشتم مشتر کہ دعائیں کرنے کا فرمان ایک خوفناک عالمگیر جنگ کی خبر اور دعاؤں کی خاص ترکی اور فرانس کا تنازعہ تحریک مولوی ناصرالدین عبداللہ صاحب کی واپسی ۳۲۱ شکار پور سندھا میں قباد - فصل دوم ۳۴۹ ۳۲۴ مولانا عبد الرحمن صاب فاضل کی اسیری اور رہائی ۳۵۱ ایڈورڈ ہشتم کی تخت شاہی سے دستبرداری پر حضرت امیر المومنین کا چیلنج اخبار احسان کو حضرت امیر المومنین کے تاثرات ۳۲۵ مولوی محمدعلی صحت کو مباحثہ کی واضح دعوت اور انکا گریز (۳۲۹ گیسٹ ہاؤس کی تعمیر

Page 19

عنوان فصل سوم ایک اندرونی فتنہ کا خروج فتنہ کا بانی اور اس کی ابتدائی حالات شیخ مصری صاحب کی بعیت خلاقت تانیہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی پر آسمانی انکشاف معمری صاحب اور غیر مبائعین مصری صاحب کے بنیادی عقیدہ میں تبدیلی on ۱۳۵۳ ۲۵۷ pyp مقامی مبلغین عنوان مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری کا درود مرکزی مبلغین کا پہلا اجتماعی دوره باؤ کا ہوں کے ذیلی مرکز کی مضبوطی اور عیسائیوں - کی پسپائی.سیرالیون کا ملک گیر تبلیغی سردے ماگور کا اور بو میں مخالفت کے با وجود مراکز کا قیام سیرالیوں کے احمدیوں پر مظالم کا پہلا دورہ معی ٣٩٠ " کھو کر ۱۳۹۳ ۳۹۸ مصری صاحب کے سب وشتم سے بریز تین خطوط ۳۶۲ سیرالیون کے احمدیوں پر مظالم کا دوسرا دور ۳۹۹ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا ایمان افروز جواب ۳۶۵ احباب جماعت کو وقف عارضی کی تحریک جماعت احمدیہ کے خلاف مصری حباب کی خفیہ تنظیم ۳۰۰ مولوی نذیر احمدعلی صاحب کی المناک وفات ۴۰۳ ٣٧٨ دار التبلیغ سیرالیون مولوی محمد صدیق صاحب کے مولوی محمد علی صاحب کی پشت پناہی مصری صاحب کی تعلیاں اور بلند بانگ دعادی ۳۶۹ عجیب و غریب اور نام نہاد مصلح مصری صاحب کی طرف سے مقدمات عہد امارت میں.عیسائی مشنوں کو چیلنج.آرچ بشپ آف کنٹر بری کو دعوت مقابلہ مصرفی صاحب کے مقدمات میں امراری اور غیر مبائع سیرالیون میں تبلیغی جہاد کرنے والے دوسرے مبلغین وکلاء کی اعانت - * سیرالیون کی سالانہ کانفرنسوں کیلئے حضر امیر مومنین مصری صاحب کی ناکامی اور نظام خلافت کی کامیابی کے خصوصی پیغامات.کی عظیم الشان پیشگوئی.مولوی محمد علی صاحب کو خصوصی انتباہ مصری صاحب کی نظریاتی اور اخلاقی شکست مولوی محمد علی صاحب کا عبرتناک انجام فصل چهارم وارا لتبلیغ سیرالیون کا قیام حضرت مولوی عبید الرحیم صاحب نیتر کی آمد سیرالیون دار التبلیغ قائم کرنے کا فیصلہ PAI FAY " ماہنامہ افریقین کو سینٹ کا اجراء اور نذیر سلم پریس کا قیام.سیرالیون کے جشن آزادی میں شیخ بشیر احمد صاحب ۳۸۳ کی شمولیت.میشن ہاؤس FAL سیرالیون کے احمدیوں کی تعداد احمدية مساجد تعلیمی ادارہ سے سیرالیون کے بعض مخلصین ۴۰۳ ۴۰۵ "

Page 20

۴۴۵ ۴۴۷ ۴۴۷ ۴۴۹ ۴۵۳ رکی ۴۵۴ ۴۵۵ ۴۵۶ ۳۵۷ 3 V ۴۵۹ " ۴۶۴ 4 اسلامک بک ڈیو عنوان فروغ احدیت کے اسباب میں خدائی نشانات کا نمایا می " H دار التبلیغ سیرالیون کی اسلامی خدمات دوسروں کی نظر میں کی نظرمیں ۳۲۰ فصل پنجم عنوان کے پر معارف لیکچروں کے آغاز تک.خلافت ثانیہ کا پچیسواں سالی ( ) فصل اول ام ام ام ای میل کا قیام اور سکی ابتدائی دس سالہ مختصر تاریخ حضرت امیر المؤمنین کا سفر سندند و بمبئی ۴۲۹ خدام الاحمدیہ کے قیام کی بنیادی غرض روایات صحابہ محفوظ کرنے کی اہم تحریک " مجلس خدام الاحمدیہ کی داغ بیل حضرت امیر المومنین کی طرف سے احیاء شریعیت و شفت عهده و ایران مرکزه یید ین گرم مل ہو جانیکا پر ملال اعلان اور عالمگیر اسلامی ۲۳۲ خدمت خلق انقلاب کی بشارت.بعض جلیل القدر صحابہ کا انتقال فصل ششم مجلس کا بیج.بیچ.۳۳۲ مجلس کا پہلا شہید خدام الاحمدیہ کا عہدہ نامہ پہلا سالانہ اجتماع لہ کے بعض متفرق مگر اہم واقعات تخدام الاحمدیہ سے متعلق اہم سلسلہ خطبات خاندان حضرت مسیح موعود میں خوشی کی تقاریب - ۳۶ وقار عمل نمائندہ سلطان مسقط قادیان میں اڑیسہ پراونشل الجمین احمدیہ کا پہلا جلسہ پروفیسر جان کلارک اگر چہرہ قادیان میں.د مخلصین کی عیادت - مبلغین احمدیت کی بیرونی ممالک کو روانگی.بیرونی مشنوں کے بعض اہم واقعات.و کی نئی مطبوعات - - ۴۳۷ وقار عمل اور خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی " تعلیم ناخواندگان کا انتظام حضرت صدر مجلس کے بیرونی دورے ۳۳۹ دوسر است الانه اجتماع " لوا کے خدام الاحمدیہ حفاظت سوائے احمدیت ۳۳۰ انعامی معلم خدام الاحمدية اندرون ملک کے بعض مشہور مناظر ہے.۳۲۱ کتب حضرت مسیح موعود کا امتحان پانچواں باب خدام الاحمدیہ اور انعالی کی حمدیہ کی مان می نشینید مجلس خدام الاحمدیہ کی قانونی دستوری حیثیت مجلس خدام الاحمدیہ کی بنیاد سے سیر روحانی نظام جماعت ہیں.

Page 21

عنوان صفحه سالانہ جلسه پر ذیلی دفتر تیسر اسالانہ اجتماع " دکانوں کی نگرانی کا فرض عنوان ۳۶۹ ولایت سے آنیوالے قافلہ کے اعزاز میں دعوت اور حضرت امیر المؤمنین کا خطاب حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب چوتھا سالانہ اجتماع اور جلیسوں ہور کے ایک خادم کا جامعہ احمدیہ کے سٹاف ہیں.قابل تعریف فعل - اختلافی مسائل کے لئے ہفتہ تعلیم و تلقین دفتر مجلس مرکز یہ کی بنیاد.مہتممین کے دوروں کا آغا نہ بزم حسین بیان کا قیام الطارق کا اجراء مخالفین احمدیت کی طرف سے مجلس کو خراج تحسین.پہلی دینیات کلاس پہلی تعلیم القرآن کلاس کا پروگرام.۵۰۰ ۳۰ دیوار کے پاؤں تلے سے زمین نکل جانی کا اعتراف ۵۰۱ و" فصل چهارم ۲۰۳ قادیان کے ماحول میں زبر دست تبلیغی مہم نوجوان علماء کو حضرت امیر المؤمنین کی قیمتی نصائح "" فصل پنجم ۳۷۴ حضرت امیر المومنین نے کا سفر حیدر آباد دکن ۲۷۵ حضرت امیر المومنین کا مکتب سیٹھ عبد الہ الہ دین صاحب حضرت امیر المومنین کی طرف سے نئے ہفت سال دور کے نام.۲۰۶ قادیان سے بمبئی تک - مجلس کا شائع کہ وہ دس سالہ لٹریچر ۲۷ حیدرآباد دکن میں آمد اور مصروفیات فصل دوم پہنے اور دوسرے روز کی مصروفیات عمائدین حیدر آباد کا اجتماع قادیانی ہجرت کی نسبت ایک اہم خود کتابت ۲۸۱ تیسرے اور چوتھے روز کی مصروفیات حضرت امیر المومنین کا سفر سندھوا در صداقت احدیت کا دبی می آمد ۵۰۲ ۵۰۵ ۵۰۷ " * " ۵۱۲ ۵۱۴ DID DYI ۵۲۲ عجیب نشان - ۲۸۲ قادیان میں تشریف آوری علمائے سلسلہ کے فرائض ۲۸۳ تبلیغی نقطہ نگاہ سے سفر کے تاثرات صاحبزادہ مرزا مبار ک احمد صاحب کا سفر مصر اور مادگی یادگار وس عالم روحانی کا انکشاف ۴۸۴۱ حضرت امیر المؤمنین کی زریں نصائح فصل ششم فصل سوم " ۵۲۵ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی انگلستان پیریڈ عمانی اور سیرید معانی کے پر معارت اور علمی لیکچروں ۵۲۹ سے روانگی اور بلا د عربیہ میں قیام - ۴۹۱ کا آغاز -

Page 22

11 عنوان فصل تفتیم جلیل القدر صحابہ کا انتقال قادیان میں خسرہ کی عید الفطر صفحه ۵۳۳ ۵۳۶ عنوان چھٹا باب قضیہ فلسطین میں معربوں کی پرزور حمایت سے لے کو خلافت جو بلی کے جلسہ تک سالانہ جلسہ قادیان ایک سیکھ و دوان کی نظر میں ٥٠ خلافت ثانیہ کا چھبیسواں سال دار فصل ہشتم فصل اول م ۱۹۳ء کے بعض متفرق مگر اہم واقعات مسئلہ فلسطین کا پس منظر السيد عبد الحمید خورشید قادیان میں ۵۲۰ قضیہ فلسطین اور جماعت احمدیہ مسجد اقصیٰ میں لاؤڈ سپیکر کی تنصیب ۵۳۹ مسجد احمدیہ لندن میں شہزادہ امیر فیصل اور دیگر عرب حضرت ماسٹر عبد الرحمن صاحبہ وسلم کی قید اور رہائی ممالک کے نمائندوں کی تشریف آوری.صاحبزادہ مرزا سعید اصر صاحب کی المناک وفات ۵۳۲ ولیداد خانصاحب کی شہادت ۵۲۳ حضرت امیر المومنین کی طرف سے آل انڈیا مسلم لیگ سنگ بنیاد احمدیه داران انی یا کالای ایران را شیرین در بوس کی پرزور تائید - مسجد اقصیٰ کی توسیع طہران کا ایک زرتشتی سیاح قادیان میں دو عیسائی مشنری قادیان میں مذہبی کا نفرنس کراچی قبر مسیح کا اعلان یورپ میں مرزا فرحت اللہ بیگ قادیان میں خاندان مسیح موعود میں خوشی کی تقاریب دعوت ولیمہ میں شمولیت مباہلہ کمال ڈیرہ سندھ مبلغین احمدیت کی روانگی اور آمد کی نئی مطبوعات اندرون ملک کے مشہور مناظر سے." مسلمانان جمیہ پر مظالم کے خلاف احتجاج ۵۲۵ حضرت امیر المومنین میل کا سفر دھر مسالہ " قبولیت دعا کے دو نشان ۵۵۳ ۵۵۵ ۵۵۶ 00A 004 041 ترکستان کے پہلے احمدی خاندان کی ہجرت ۵۶۵ ۵۲۶ قریشی مد نذیر صاحب فاضل ملتانی پر قاتلانہ حمله ۵۶۸ 敲 " ۵۴۷ " یوم پیشوایان مذاہب کی بنیاد - جلیل القدر صحابہ کا انتقال فصل دوم چوہدری محمد ظفر اللہ خانصاحب کی طرف سے خلافت جو بلی منانے کی تحریک ۵۲۸ مخلصین کی شاندار قربانی - جوبلی منانے کے لئے مشورہ."I ۵۶۹ AL.۵۷۳

Page 23

عنوان ۱۳ صفى عنوان صفحه سب کمیٹی تشکیل پروگرام جو بلی کی تشکیل د و میتہ الرسول کی اشاعت.مجلس مشاورت ا دمیں سب کمیٹی نظارت علیا جلسہ خلافت جوبلی کے انتظامات کی رپورٹ.حضرت خلیفہ اسی انسانی کی طرف سے ارشاد - لوائے احمدیت سے متعلق تجویز کی منظوری مشاعرہ کی ممانعت پر انماں کی مشروط منظوری جلوس کی نسبت نید.فلم بنانے کے خلاف فیصلہ.سب کمیٹی تکمیل پروگرام جو بھی کی جدو جہد تجھے بھی کی لوائے احمدیت کا اہتمام فصل سوم مساعدة المسيح هر چرانمان جماعت دارد جلسہ گاہ میں جانے کا نظارہ سپاس نامه صوبہ سرحد کے احمدیوں کا سپاسنامہ جماعت احمدیہ ہندوستان کا سپاسنامه مقامی ہندوؤں کا اخلاص بیرونی جماعتوں کی طرف سے کیا کیا د کے نام سپاسناموں کے جواب میں حضرت امیر المومنین کی تقریہ ۵۸۰ DAI فصل چهارم الکا بر ملک کے پیغامات 971 ۹۱۲ ۵۸۲ خواجہ حسن نظامی صاحب اور خلافت جوبلی ۶۱۳ " ۵۸۳ المركز [DAY ار DAL DAA " ملکی پریس اور خلافت جودہلی.فصل پنجم 1ء کے بعض متفرق مگر اہم واقعات خاندان مسیح موعود میں پر مسرت تقاریب مسجد فضل لندن میں مذاہب کا نفرنس سیٹھ محمد غوث صاحب کی دختر کا نکاح قادیان میں روسی ترک عالم موسی جار اللہ اور بعض دوسری اہم شخصیتوں کی آمد.مبلغین احمدیت کی بیرونی ممالک کو روانگی اور مراجعت بیرونی مشنوں کے بعض اہم واقعات ۹۳ کی نئی مطبوعات اندرون ملک کے مشہور مناظر ہے.فصل ششم چو ہدری محمد ظفراللہ خانصاحب کی طرف سے چیک دیا جاتا.299 اور میں سلسلہ احمدیہ کا مرکزی نظام خلافت ثانیہ کے پہلے پچیس سال میں اموال حضرت امیر المؤمنین کی دوسری تقریر.نوائے احمدیت کی پرچم کشائی اور جماعت سے اقرار - 41 لوائے خدام الاحمدیہ کی پرچم کشائی.احمدیہ جھنڈے کی حفاظت کا انتظام نظام خلافت سے وابستگی کیلئے وصیت " کی ترقی ضمیر ۶۱۴ 714 A ۶۱۹ ۶۲۰ ۶۲۱ ۶۲۲ ۶۳۵ ۶۲۶ ۶۲۸ ۶۳۵

Page 24

ba وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَومو پہلا باب تخنیک پسند کی بنیاد مخلصین جماعت کی مثال ایرانیان وقت زندگی کا وسیع نظام اور اُس کے عالمی اثرات فصل اول تحریک جدید کا ماحول اور اُس کی نسبت آسمانی بشارت میں یر کا اختتام ایک ایسے عظیم انشان واقعہ کے آغاز سے ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ کی دینی اشاعتی سرگرمیاں جو پہلے صرف چند ممالک تک محدود تھیں، عالمگیر صورت اختیار کرگئیں اور تبلیغ اسلام کا ایک نبی دوست نظام معرض وجود میں آیا.ہماری مراد تحریک جدید سے ہے جس کی بنیاد خدا تعالے کی مشیت خاص اور اس کے القار سے حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی کے ہاتھوں عین اس وقت رکھی گئی جبکہ احراری تحریک اپنے نقطہ عروج پر تھی اور احرار اپنے خیال میں (معاذاللہ قادیان اور احمدیت کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کا فیصلہ کر کے قادیان کے پاس ہی اپنی کا نفرنس منعقد کرنے والے تھے.تحریک میں کی بنیاد کے وقت ماحول انا ان تمر حنیف ای امانی خودفرماتے ہیں.نانچہ حضرت جدید یہ تحریک ایسی تکلیف کے وقت شروع کی گئی تھی کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ دنیا کی ساری طاقتیں جماعت احمدیہ کو یمن کے لئے بہت ہوگئی ہیں.ایک طرف احمالہ نے

Page 25

اعلان کر دیا کہ انہوں نے جماعت احمدیہ کو مٹا دینے کا فیصلہ کر لیا ہے اور وہ اس وقت تک سانس نہ لیں گے کی پاتک مٹانہ ہیں.دوسری طرف جو لوگ ہم سے ملنے جلنے والے تھے اور بظاہر ہم سے محبت کا اظہار کرتے تھے انہوں نے پوشیدہ بغض نکالنے کے لئے اس موقعہ سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے سینکڑوں اور ہزاروں روپوں سے اُن کی امداد کہانی شروع کر دی اور تیری طرف سارے ہندوستان نے ان کی پیٹھ ٹھونکی.یہانتک کہ ایک پہلوا وفد گورنر پنجاب سے ملنے کے لئے گیا تو اُسے کہا گیا کہ تم لوگوں نے احرار کی اس تحریک کی اہمیت کا اندازہ نہیں لگایا.ہم نے محکمہ ڈاک سے پتہ لگایا ہے پندرہ سو روپیہ روزانہ ان کی آمدانی ہے.تو اُس وقت گورنمنٹ انگریزی نے بھی اعمار کی فتنہ انگیزی سے متاثر ہو کہ ہمارے خلاف ہتھیار اٹھا لئے اور یہاں کئی بڑے بڑے افسر بھیج کر اور احمدیوں کو رستے چلنے سے روک کر احرار کا جلسہ کو ایا گیا.، ، ایسے وقت میں تحریک تند پیر کو جاری کیا گیا.“ لے بدید احراری شورش تو محض " مگر احراری شورش تو محض ایک بہانہ تھی.تحریک جدید کی سکیم کا نافذ ہونا خدا کی از لی تقدیروں میں سے تھا.جیسا کہ حضور نے خود وضاحت کرتے ہوئے ارشاد ایک بہانہ تھی فرمایا :- حقیقت یہی ہے کہ احرار تو خدا تعالیٰ نے ایک بہانہ بنا دیا ہے کیونکہ ہر تحریک کے بھاری کرنے کے لئے ایک موقعہ کا انتظار کرنا پڑتا ہے اور جب تک وہ موقعہ میسر نہ ہو جاری کردہ تحریک مفید نتائج نہیں پیدا کر سکتی ہے نیز فرمایا : تحریک جدید کے پیش کرنے کے موقع کا انتخاب ایسا اعلی انتخاب تھا جس سے بڑھ کر اور کوئی اصلی انتخاب نہیں ہو سکتا اور بعدا تعالیٰ نے مجھے اپنی زندگی میں بیو خاص کا میا بیاں اپنے فضل سے عطا فرمائی ہیں اُن میں ایک اہم کامیابی تحریک جدید کو عین وقت پر پیش کر کے مجھے حاصل ہوئی اور یقیناً میں سمجھتا ہوں میں وقت میں نے یہ تحریک کی وہ میری زندگی کے خاص مواقع میں سے ایک موقع تھا اور میری زندگی کی اُن بہترین گھڑیوں ایک سے ایک گھڑی تھی جبکہ مجھے اس عظیم الشان کام کی بنیاد رکھنے کی توفیق ملی.اس وقت ہم بحت کے دل ایسے تھے جیسے چلتے گھوڑے کو جب روکا جائے تو اس کی کیفیت ہوتی ہے.“ ہے تقریر فرموده ۲۷ دسمبر سه (غیر مطبوعہ) له الفضل در فروری ۱۹۳۶ و صفحه ۱۰ و تقریر فرموده ۲۶ دسمبر

Page 26

تحریک جدید کا ذکر سید نا حضرت تحریک جدید کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعہ سے حضرت مسیح موعود عليه الصلوة والسلام کا وہ کشف بھی پورا ہو گیا جس میں حضور مسیح موعود علیہ السلام کے کشف میں سر غلبہ اسلام کے لئے پانچ ہزار سپاہیوں پشتمل ایک روحانی فرمودی گئی تھی.چنانچہ حضور علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.کشفی حالت میں اس عاجز نے دیکھا کہ انسان کی صورت پر دو شخص ایک مکان میں ملیٹھے ہیں.ایک زمین پر اور ایک چھت کے قریب بیٹھا ہے.تب میں نے اُس شخص کو جو زمین پر تھا مخاطب کر کے کہا کہ مجھے ایک لاکھ فوج کی ضرورت ہے گروہ چُپ رہا اور اس نے کچھ بھی جواب نہ دیا.تب میں نے اس دوسرے کی طرف ریٹ کیا.جو جھت کے قریب اور آسمان کی طرف تھا.اور اسے میں نے مخاطب کر کے کہا کہ مجھے ایک لاکھ فوج کی ضرورت ہے.وہ میری اس بات کو سُن کر بولا کہ ایک لاکھ نہیں ملے گی مگر پانچ ہزار سپاہی دیا جائے گا.تب میں نے اپنے دل میں کہا کہ اگر چہ پانچہزار تھوڑے آدمی ہیں پر اگر خدا تعالیٰ چاہے تو تھوڑے بہتوں پر فتح پاسکتے ہیں.اس وقت میں نے یہ آیت پڑھی گرمِن قِشَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةٌ كَثِيرَةٌ بِإِذْنِ اللَّهِ پھر وہ منصور مجھے کشف کی حالت میں دکھایا گیا اور کہا گیا کہ خوشحال ہے خوشحال ہے.مگر خدا تعالے کی کسی حکمت خفیہ نے میری نظر کو اس کے پہچاننے سے قاصر رکھا.لیکن امید رکھتا ہوں کہ کسی دوسرے وقت دکھایا جائے یہ ہے اس کشف کے علاوہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی اور جماعت احمدیہ کے متعدد افراد کو بھی تحریک دوسری ابشار میں جدید کے بابرکت ہونے کی نسبت بشارتیں ملیں.چنانچہ حضرت خلیفہ ربیع الثانی نے وہ نومبر کو فرمایا :- میں نے اللہ تعالٰی سے متواتر دکھا کرتے ہوئے اور اس کی طرف سے مبشر رویا حاصل کرتے ہوئے ایک سکیم تیار کی ہے جس کو میں انشاء اللہ آئندہ جمعہ سے بیان کرنا شروع کروں گا.میں نے ایک دن مخاص طور پر دھا کی تو میں نے دیکھا کہ چودھری ظفراللہ تعال صاحب آئے ہیں....اور میں قادیان سے باہر یورانی سٹرک پیر ان سے ملا ہوں.وہ ملتے ہی پہلے مجھ سے بغلگیر ہو گئے ہیں.اس کے بعد نہایت جوش سے انہوں نے میرے کندھوں اور سینہ کے اوپر کے حصہ پر بوسے دینے شروع کئے ہیں.اور نہایت رقت کی حالت ان ازالہ اونام به طبع اول صفحه ۹۷ تا ۹۹ حاشیه

Page 27

۴ تا ہے اور وہ بو سے بھی دیتے جاتے ہیں اور یہ بھی کہتے جاتے ہیں کہ میرے آقا امیر اجسم اور روح آپ پر قربان ہوں.کیا آپ نے خاص میری ذات سے قربانی چاہتی ہے ؟ اور میں نے دیکھا کہ ان کے چہرہ پر اخلاص اور اپنی دونوں قسم کے جذبات کا اظہار ہو رہا ہے.میں نے اس کی تعبیر یہ کی کہ اول تو اس میں چوہدری صاحب کے اخلاص کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ کیا ہے کہ انشاء اللہ حیں قربانی کا ان سے مطالبہ کیا گیا.خواہ کوئی ہی حالات ہوں وہ اس قربانی سے دریغ نہیں کریں گے.دوسرے یہ کہ ظفر اللہ خان سے مراد اللہ تعالے کی طرف سے آنے والی فتح ہے اور ذات سے قربانی کی اپیل سے مالی نصر اللہ کی آیت مراد ہے کہ جسے خدا تعالے کی مدد اور نصرت سے اپیل کی گئی تو وہ آگئی اور سینہ اور کندھوں کو بوسہ دینے سے مراد علم اور یقین کی زیادتی اور طاقت کی زیادتی ہے اور آقا کے لفظ سے یہ مراد ہے کہ فتح و ظفر مومن کے غلام ہوتے ہیں اور اُسے کوئی شکست نہیں دے سکتا.اور جسم اور روح کی قربانی سے مرد جسمانی قربانیاں اور دعاؤں کے ذریعہ سے نصرت ہے جو اللہ تعالیٰ کے بندوں اور اُس کے فرشتوں کی طرف سے ہمیں حاصل ہوگی.اس کے علاوہ بیسیوں رویا و کشوف اور الہامات اس تحریک کے بابرکت ہونے کے متعلق لوگوں کو ہوئے بعض کو رویا میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ یہ تحریک بابرکت ہے اور بعض کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بتایا کہ یہ تحریک بابرکت ہے اور بعض کو الہامات ہوئے کو یہ تحریک بہت مبارک ہے.فرض یہ ایک 鎗 ایسی تحریک ہے میں کے بابرکت ہونے کے متعلق بیسیوں رویا و کشون اور الہامات کی شہادت موجود ہے" سے خدا تعالے کی نازل کردہ تحریک تحریک جدید براہراست خداتعانے کی نازل کردہ تحریک تھی جو حضرت ا خلیفہ المسیح الثانی کے قلب مبارک پر ایسے رنگ میں یکایک القار ہوئی کہ دنیا کی روحانی اور اسلامی فتح کی سب منزلیں اپنی بہت سی تفصیلات و مشکلات کے ساتھ حضور کے سامنے گئیں اور مستقبل میں لڑی جانے والی اسلام اور کفر کی جنگ کا ایک مجامع نقشہ آپ کے دماغ میں محفوظ کر دیا گیا.تحریک جدید کی اس نمایاں خصوصیت کا تذکرہ خود حضرت خلیفہ ایسیح الثانی نے متعدد بار فرمایا بطور مثال چند فرمودات درج ذیل کئے بجاتے ہیں :- ا جب میں نے اس کے متعلق ارادہ کیا تو میں خود نہ جانتا تھا کہ کیا کیا لکھوں گا.نگر ہوں جوں میں نوٹ لکھتا جاتا.خدا تعالے وہ طریق اور وہ ذرائع سمجھاتا جاتا تھا جن سے احمدیت مضبوط ہو سکتی تھی“ سے له الفضل " مر امیر شاه صفر و کالم ۳۰۲ به سے افضل ۲۱ و بر اه اه سنی ۵ کالم ۲ خطبه جمعه فرموده در شمار سے تقریر فرموده ۲۰ د کمبر له (غیر مطبوعه

Page 28

میرے ذہن میں یہ تحریک بالکل نہیں تھی.اچانک میرے دل پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ تحریک نازل ہوئی.پس بغیر اس کے کہ میں کسی قسم کی غلط بیانی کا ارتکاب کروں میں کہہ سکتا ہوں کہ وہ تحریک جدید جو خدا نے جاری کی میرے ذہن میں یہ تحریک پہلے نہیں تھی.میں بالکل خالی الہمن تھا.اچانک اللہ تعالٰی نے یہ سکیم میرے دل پر نازل کی اور میں نے اُسے جماعت کے سامنے پیش کر دیا.پس یہ میری تحریک نہیں بلکہ خدا تعالنے کی نازل کردہ تحریک ہے.لے اس سکیم میں بعض بچیزیں عارضی ہیں.پس عارضی چیزوں کو میں بھی مستقل قرار نہیں دیتا.لیکن باقی تمام سکیم مستقل حیثیت رکھتی ہے کیونکہ وہ محض اللہ تعالیٰ کے القار کے نتیجہ میں مجھے سمجھائی گئی ہے.میں نے اس سکیم کو تیار کرنے میں ہرگز خور اور فکر سے کام نہیں لیا اور نہ گھنٹوں میں نے اس کو سوچا ہے.خدا تعالے نے میرے دل میں یہ تحریک پیدا کی کہ میں اس کے متعلق خطبات کہوں.پھر ان خطبوں میں میں نے جو کچھ کہا وہ میں نے نہیں کہا بلکہ اللہ تعالیٰ نے میری زبان پر جاری کیا کیونکہ ایک منٹ بھی میں نے یہ نہیں سوچا کہ میں کیا کہوں.اللہ تعالے میری زبان پر خود بخود اس سکیم کو جاری کرتا گیا اور میں نے سمجھا کہ میں نہیں بول رہا بلکہ میری زبان پر سخدا بول رہا ہے.یہ ہے تحریک جدید ایک ہنگامی چیز کے طور پر میرے ذہن میں آئی تھی.اور جب میں نے اس تحریک کا اعلان کیا ہے اس وقت خود مجھے بھی اس تحریک کی کئی حکمتوں کا علم نہیں تھا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک نیت اور ارادہ کے ساتھ میں نے یہ سکیم جماعت کے سامنے پیش کی تھی.کیونکہ واقعہ یہ تھا کہ جماعت کی اُن ونوں حکومت کے بعض افسروں کی طرف سے شدید ہتک کی گئی تھی اور سلسلہ کا وقار خطرے میں پڑ گیا تھا پس میں نے چاہا کہ جماعت کو اس خطرے سے بچاؤں.مگر بعض اوقات اللہ تعالیٰ کی رحمت انسانی قلب پر تصرف کرتی اور روح القدس اس کے تمام ارادوں اور کاموں پر حاوی ہو جاتا ہے.میں سمجھتا ہوں میری زندگی میں بھی یہ ایسا ہی واقعہ تھا جبکہ روح القدس میرے دل پر اُترا اور وہ میرے دماغ پر ایسا حاوی ہوگیا کہ مجھے یوں محسوس ہوا گویا اس نے مجھے ڈھانک لیا ہے اور ایک نئی سکیم ایک دُنیا میں تغیر پیدا کر دینے والی سکیم میرے دل پر نازل کر دی اور میں دیکھتا ہوں کہ میری تحریک جدید کے اعلان سے پہلے کی زندگی اور بعد کی زندگی میں زمین و آسمان کا فرق ہے.قرآنی مکتے مجھ پر پہلے بھی کھلتے تھے 1449 له الفضل اور دسمبر که خطبه جمعه فرموده ۲۱ اکتوبر ۹۳۶ء مطبوعه الفضل " ۲۶ فروری له.

Page 29

اور اب بھی کھلتے ہیں.مگر پہلے کوئی معین سکیم میرے سامنے نہیں تھی جس کے قدم قدم کے نتیجہ سے میں واقف ہوں اور میں کہہ سکوں کہ اس اس رنگ میں ہماری جماعت ترقی کرے گی.مگر اب میری حالت ایسی ہی ہے کہ جس طرح انجنیئر ایک عمارت بناتا اور اُسے یہ علم ہوتا ہے کہ یہ عمارت کب ختم ہوگی؟ اس میں کہاں کہاں طاقچے رکھے جائیں گے، کتنی کھڑکیاں ہوں گی کتنے دروازہ سے ہوں گے، کتنی اونچائی پر چھت پڑے گی.اسی طرح دنیا کی اسلامی فتح کی منزلیں اپنی بہت سی تفاصیل اور مشکلات کے ساتھ میرے سامنے ہیں.دشمنوں کی بہت سی تدبیریں میرے سامنے بے نقاب ہیں.ان کی کوششوں کا مجھے علم ہے.اور یہ تمام امور ایک وسیع تفصیل کے ساتھ میری آنکھوں کے سامنے موجود ہیں.تب میں نے سمجھا کہ یہ واقعہ اور فساد خدا تعالیٰ کی خاص حکمت نے کھڑا کیا تھا تا وہ ہماری نظروں کو اس عظیم الشان مقصد کی طرف پھرا دے جس کے لئے اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا.پس پہلے میں صرف ان باتوں کہا ایمان رکھتا تھا.مگر اب میں صرف ایمان ہی نہیں رکھتا بلکہ میں تمام باتوں کو دیکھ رہا ہوں.میں دیکھ رہا ہوں کہ سلسلہ کو کس کس رنگ میں نقصان پہنچایا جائے گا.میں دیکھ رہا ہوں کہ سلسلہ پر کیا کیا حملہ کیا جائے گا اور میں دیکھ رہا ہوں کہ ہماری طرف سے ان حملوں کا کیا جواب دیا جائے گا.ایک ایک چیز کا اجمالی علم میرے ذہن میں موجود ہے " اے تحریک جدید بھی القائی طور پر خدا تعالیٰ نے مجھے سمجھائی ہے.جب میں ابتدائی خطبات دے رہا تھا مجھے خود بھی یہ معلوم نہ تھا کہ میں کیا بیان کروں گا.اور جب میں نے اس سکیم کو بیان کیا تو میں اس خیال میں تھا کہ ابھی اس سکیم کو مکمل کروں گا اور میں خود بھی اس امر کو نہیں سمجھ سکا تھا کہ اس سکیم میں ہر چیز موجود ہے.مگر بعد میں جوں جوں سکیم پر میں نے غور کیا مجھے معلوم ہوا کہ تمام ضروری باتیں اس سکیم میں بیان ہو چکی ہیں اور اب کم از کم اس صدی کے لئے تمہارے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہے وہ سب اس میں موجود ہیں سوائے جائیات کے کہ وہ ہر وقت بدلی بجا سکتی ہیں.پس جماعت کو اپنی ترقی اور عظمت کے لئے اس تحریک کو سمجھنا اور اس پر غور کرنا نہایت ضروری ہے.اللہ تعالے حسین طرح مختصر الفاظ میں ایک الہام کر دیتا ہے اور اس میں نہایت باریک تفصیلات موجود ہوتی ہیں اسی طرح آئی کا القادر بھی ہوتا ہے.اور جس طرح الہام مخفی ہوتا ہے اسی طرح انتقاد بھی مخفی ہوتا ہے الفضل ۷ را پریل ۱۹۳۶ رد صفحه ۷ کالم ۱-۹۲

Page 30

بلکہ القاء الہام سے زیادہ منفی ہوتا ہے.یہ تحریک بھی جو القادم الہی کا نتیجہ تھی پہلے تھی تھی مگر جب اس پر نخور کیا گیا تو یہ اس قدر تفصیلات کی جامع نیکلی کہ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالٰی نے ہمارے زمانہ کے لئے اس میں اتنا مواد جمع کر دیا ہے کہ اصولی طور پر اس میں وہ تمام باتیں آگئی ہیں جو کامیابی کے لئے ضروری ہیں" سے تحریک جدید کی نسبت پہلا اعلا جب کہ اوپر ذکرکیا جاتا ہے کہ الہ تعالی کی طرف سے سیدنا چکا حضرت خلیفہ اسیح الثانی پر تحریک جدید کا القاء اکتوبر ۱۹۳۷ء میں منعقد ہونے والی نام نہاد " احرار تبلیغ کا نفرنس کے دوران ہوا.حضرت امیرالمومنین اگر چاہتے تو کا نفرنس شروع ہونے سے پہلے ہی اس کا اعلان فرما دیتے.مگر حضور نے حیرت انگیز صبر و تحمل اور بے نظیر ذہانت و فطانت کا ثبوت دیتے ہوئے اُسے کانفرنس کے اختتام تک ملتوی کر دیا.ابستہ 19 اکتوبر کو یعنی کا نفرنس کے شروع ہونے سے صرف دو روز پیشتر اپنے خطبہ جمعہ میں یہ اعلان ضرور فرما دیا کہ سات یا آٹھ دن تک اگر اللہ تعالٰی نے مجھے زندگی اور توفیق بخشی تو میں ایک نہایت ہی اہم اعلان جماعت کے لئے کرنا چاہتا ہوں.....میں وہ مطالبہ احراری جلسہ کے ایام میں پیش کرنا نہیں چاہتا تاکہ اُسے انتقامی رنگ پر محمول نہ کیا جا سکے اور تا وہ مطالبہ فتنہ کا کوئی اور دروازہ نہ کھول دے.اس کے بعد میں دیکھوں گا.کو آپ لوگوں میں سے کتنے ہیں جو اس قربانی کے لئے تیار رہتے ہیں جو قربانیاں اس وقت تک ہماری جماعت کی طرف سے ہوئی ہیں.وہ ان قربانیوں کے مقابلہ میں بہت ہی حقیر ہیں جو حضرت موسی علیہ السلام کی جماعت نے کیں یا عیسی علیہ السلام کے حواریوں نے کہیں یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ نے کیں لیکن اب وقت ہا گیا ہے کہ ہم اس رنگ میں قربانی کریں جو بہت جلد نتیجہ خیز ہو کہ ہمار ے قدموں کو اس بلندی اتک پہنچا دے جس بلندی تک پہنچانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دنیا میں مبعوث ہوئے.میں امید کرتا ہوں کہ اگر آپ لوگوں میں سے بعض کو دور دراز ملکوں میں بغیر ایک پیسہ لئے نکل جانے کا حکم دیا گیا تو آپ لوگ اس حکم کی تعمیل میں نکل کھڑے ہوں گے.اگر بعض لوگوں سے اُن کے کھانے پینے اور پہننے میں تبدیلی کا مطالبہ کیا گیا تو وہ اس مطالبہ کو پورا کریں گے.اگر بعض لوگوں کے اوقات کو پورے طور پر سلسلہ کے کاموں کے لئے وقف کر دیا گیا تو وہ بغیر چون و چرا کئے اس پر رضامند ہو جائیں گے اور جو شخص ان مطالبات کو پورا نہیں کرے گا وہ ہم میں سے نہیں ہو گا بلکہ الگ کر دیا جائے گا “ سے ا الفصل ۴ ۲۹ فروری در صفحه به فرموده ۲۱ اکتوبر ان له الفضل ۲۴ اکتوبر ۱۹۳۵ء صفحه ۰۳۱۲ *

Page 31

اس سلسلہ میں حضور نے اسی خطہ میں فوری طور پر تین احکام صادر فرمائے :.تین فوری احکام پہلا حکم: ہر وہ شخص جس کے چندوں میں کوئی نہ کوئی بقایا ہے یا ہر وہ جماعت جس کے چندوں میں بتائے ہیں وہ فوراً اپنے اپنے بھاٹہ سے کرے اور آئندہ کے لئے چندوں کی ادائیگی میں باقاعدگی کا نمونہ دکھلائیں " دوسرا حکم.اس ہفتہ کے اندر اندر ہر وہ شخص جس کی کسی سے لڑائی ہو چکی ہے ، ہر وہ شخص جس کی کسی سے بول چال بندہ ہے ، وہ جائے اور اپنے بھائی سے معافی مانگ کو مسلح کر لے اور اگر کوئی معاف نہیں کرتا ، تو اس سے لجاجت اور انکسار کے ساتھ معافی طلب کرے اور ہر قسم کا تذل اس کے آگے اختیار کی ہے.تاکہ اس کے دل میں رحم پیدا ہو اور وہ نبش کو اپنے دل سے نکال دے اور ایسا ہو کہ جس وقت میں دوسرا اعلان کرنے کے لئے کھڑا ہوں اس وقت کوئی دو احمدی ایسے نہ ہوں جو آپس میں لڑے ہوئے ہوں.اور کوئی دو احمدی ایسے نہ ہوں میں کی آپس میں بول چال بند ہو.پس جاؤ اور اپنے دلوں کو صاف کرو جاؤ اور اپنے بھائیوں سے معافی طلب کر کے متحد ہو جاؤ.جاؤ اور ہر تفرقہ اور شقاق کو اپنے اندر سے دور کر دو تب خدا تعالیٰ کے فرشتے تمہاری مدد کے لئے اُتریں گے.آسمانی فوجیں تمہارے دشمنوں سے لڑنے کے لئے نازل ہوں گی اور تمہارا دشمن خدا کا دشمن سمجھا جائے گا.یہ دو نمونے ہیں جو میں اپنی جماعت میں دیکھنا چاہتا ہوں جس شخص کو یہ خطبہ پہنچے وہ اس وقت تک سوئے نہیں جب تک کہ اس حکم پر عمل نہ کر لے سوائے اس کے کہ اُس کے لئے ایسا کرنا ممکن ہو.مثلاً جس شخص سے لڑائی ہوئی ہو وہ گھر میں موجود نہ ہویا اُسے تلاش کے باوجود مل نہ سکا ہو یا کسی دوسرے گاؤں یا شہر میں گیا ہوا ہو.جماعتوں کے سکرڑیوں کو چاہیئے کہ وہ میرے اس خطبہ کے پہنچنے کے بعد اپنی اپنی جماعتوں کو اکٹھا کریں اور انہیں کہیں کہ امیر المومنین کا حکم ہے کہ آج وہی شخص اس جنگ میں شامل ہو سکے گا جس کیئے اپنے کسی بھائی سے رنجش یا لڑائی نہ ہو اور جو ضلع کر کے اپنے بھائی.مسجد ہو چکا ہو اور جب میں قربانی کے لئے لوگوں کا انتخاب کروں گا تو میں ہر ایک شخص سے پوچھ لوں گا کہ کیا تمہارے دل میں کسی سے رخیش یا بغض تو نہیں.اور اگر مجھے معلوم ہوا کہ اس کے دل میں کسی شخص کے متعلق کینہ اور بعض موجود ہے تو میں اس سے کہوں گا کہ تم بُنیان مرصوص نہیں.تمہارا کندھا اپنے بھائی کے کندھے سے ملا ہوا

Page 32

4 نہیں بالکل ممکن ہے کہ تمہارے کندھے سے دشمن ہم پر حملہ کر دے.پس جاؤ مجھ کو تمہاری ضرورت نہیں.یہ وہ کام ہیں جن کا پورا کرنا میں قادیان والوں کے ذمہ اگلے خطبہ تک اور باہر کی جماعتوں کے ذمہ اس خطبہ کے چھپ کو پہنچنے کے ایک ہفتہ بعد تک فرض مقرر کرتا ہوں" تیسرا حکم مجھے فوراً جلد سے جلد ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے جو سلسلہ کے لئے اپنے وطن چھوڑنے کے لئے تیار ہوں.اپنی بھانوں کو خطرات میں ڈالنے کے لئے تیار ہوں اور بھوکے پیاسے رہ کر بغیر تنخواہوں کے اپنے نفس کو تمام تکالیف سے گزارنے پر آمادہ ہوں.پس میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ جو نوجوان ان کاموں کے لئے تیار ہوں وہ اپنے نام پیش کریں.نوجوانوں کی لیاقت کے متعلق میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یا تو وہ مولوی ہوں مدرسہ احمدیہ کے سند یافتہ یا کم سے کم انٹرنس پاس یا گر کچھ ایٹ ہوں.....شرط یہ ہے کہ وہ سرکاری ملازم نہ ہوں اور نہ ہی تاجر ہوں اور نہ طالب علم ہوں.صرف ایسے تو جوان ہوں جو ملازمت کی انتخاب میں اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے ہیں.یہ لے قربانی کا ماحول پیدا کرنے کا ارشاد امین احکام کے بعد صور نجات کو بھی بتایا کہ کئی بڑی قربانی میں حضور کے الفاظ یہ تھے :- نہیں کی جا سکتی جب تک اس کے لئے ماحول نہ پیدا کیا جائے اس سلسلہ کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ ماحول ٹھیک ہو اور اگر گردو پیش کے حالات موافق نہ ہوں تو کامیابی نہیں ہو سکتی.اس نکتہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بہت سے لوگ نیکی سے محروم رہ جاتے ہیں.اُن کے اندر نیکی کرنے کا مادہ بھی موجود ہوتا ہے اور بعد یہ بھی، مگر وہ ایسا ماحول نہیں پیدا کر سکتے جس کے ماتحت صحیح قربانی کر سکیں.پس ماحول کا خاص طور پر خیال رکھنا ضروری ہے.میرے ایک بچہ نے ایک دفعہ ایک جائزہ امر کی خواہش کی تو میں نے اُسے لکھا کہ یہ بیشک جائز ہے گر تم یہ سمجھ لوکہ تم نے خدمت دین کے لئے زندگی وقف کی ہوئی ہے اور تم نے دین کی خدمت کا کام کرنا ہے اور یہ امر تمہارے لئے اتنا بوجھ ہو جائے گا کہ تم وین کی خدمت کے رستہ میں اُسے تباہ نہیں سکو گے اور یہ تمہارے رستہ میں مشکل پیدا کر دے گا.تو میں نے دیکھا ہے کہ بہت سے لوگ نیکیوں سے اس لئے محروم رہ جاتے ہیں کہ وہ ماحول پیدا نہیں کر سکتے ل " الفضل " ۱۸ نومبر ۱۹۳۳ء صفحه ۰۹

Page 33

وہ صرف یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے جب کہا کہ قربانی کریں گے تو کرلیں گے حالانکہ یہ صحیح نہیں.مجھے ہزاری لوگوں نے لکھا ہے کہ ہم قربانی کے لئے تیار ہیں اور جنہوں نے نہیں لکھا وہ بھی اس انتظار میں ہیں کہ سکیم شائع ہوئے تو ہم بھی شامل ہو جائیں گے.مگر میں بتاتا ہوں کہ کوئی قربانی کام نہیں دے سکتی جب تک اس کے لئے ماحول پیدا نہ کیا جائے.یہ کہنا آسان ہے کہ ہمارا حال سلسلہ کا ہے.مگر سب ہر شخص کو کچھ روپیہ کھانے پر اور کچھ لباس پر اور کچھ مکان کی حفاظت یا کرایہ پر کچھ علاج پر خرچ کرنا پڑتا ہے اور پھر اس کے پاس کچھ نہیں بچتا.تو اس صورت میں اس کا یہ کہنا کیا معنی رکھتا ہے کہ میرا سب مال حاضر ہے.اس قسم کی قربانی نہ قربانی پیش کرنے والے کو کوئی نفع دے سکتی ہے اور نہ سلسلہ کو ہی اس سے فائدہ پہنچ سکتا ہے.سلسلہ اس کے ان الفاظ کو کہ میرا سب حال حاضر ہے کیا کرے جبکہ سارے مال کے معنے صفر کے ہیں جس شخص کی آمد منو روپیہ اور خرچ بھی منظور و پہ ہے وہ اس قربانی سے سلسلہ کو کوئی نفع نہیں پہنچا سکتا جب تک کہ پہلے خرچ کو شو سے توبے پر نہیں لے آتا.تب بیشک اس کی قربانی کے معنے دس فیصدی قربانی کے ہوں گے پس ضروری ہے کہ قربانی کرنے سے پیشتر اس کے لئے احول پیدا کیا جائے.اس کے بغیر قربانی کا دعوی کرنا ایک نادانی کا دعوی ہے یا منافقت.یا د رکھو کہ یہ ماحول اُس وقت تک پیدا نہیں ہو سکتا جب تک عورتیں اور بچے ہمارے ساتھ نہ ہوں.مرد اپنی جانوں پر عام طور پر پانچ دس فیصدی خرچ کرتے ہیں سوائے اُن عیاش مردوں کے جو عیاشی کرنے کے لئے زیادہ خرچ کرتے ہیں.ورنہ کنبہ وارمرد عام طور پر اپنی ذات پر پانچ دس فیصدی سے زیادہ خرچ نہیں کرتے اور باقی تو سے پچانوے فیصدی عورتوں اور بچوں پر خرچ ہوتا ہے اس لئے بھی کہ اُن کی تعداد زیادہ ہوتی ہے.اور اس لئے بھی کہ اُن کے آرام کا مرد زیادہ خیال رکھتے ہیں.پس ان حالات میں مرد جو پہلے ہی پانچ یا دس یا زیادہ سے زیادہ پندرہ میں فیصدی اپنے او پر خرچ کرتے ہیں اور جین کی آمدنی کا اسی تو سے فیصد کی عورتوں اور بچوں پر شروع ہوتا ہے، اگر قربانی کرنا بھی چاہیں تو کیا کر سکتے ہیں جب تک عورتیں اور بچھے ساتھ نہ دیں.اور جب تک وہ یہ نہ کہیں کہ ہم ایسا ماحول پیدا کر دیتے ہیں کہ مرد قربانی کرسکیں.پس تعمیری اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ قربانی کے لئے پہلے ماحول پیدا کیا جائے.اور اس کے لئے نہیں اپنے بیوی بچوں سے پوچھنا چاہیے کہ وہ ہمارا ساتھ دیں گے یا نہیں ؟ اگر وہ ہمارے ساتھ قربانی کے لئے تیار نہیں ہیں تو قربانی کی گنجائش بہت کم ہے.

Page 34

مالی قربانی کی طرح جانی قربانی کا بھی یہی حال ہے جسم کو تکلیف پہنچانا کس طرح ہو سکتا ہے جب تک اُس کے لئے عادت نہ ڈالی جائے جو مائیں اپنے بچوں کو وقت پر نہیں جگائیں.وقت پر پڑھنے کے لئے نہیں بیچتیں ان کے کھانے پینے میں ایسی احتیاط نہیں کرتیں کہ وہ آرام طلب اور عیاش نہ ہو جائیں وہ قربانی کیا کر سکتے ہیں عادتیں جو بچپن میں پیدا ہو جائیں وہ نہیں چھوٹتیں.اس میں شک نہیں کہ وہ بہت بڑے ایمان سے ذب بھاتی ہیں.مگر جب ایمان میں ذرا بھی کمی آئے پھر عود کر آتی ہیں.پس بھائی قربانی بھی اس وقت تک نہیں ہو سکتی.جب تک عورتیں اور بیچتے ہمارے ساتھ متحد نہ ہوں.جب تک مائیں متحد نہیں ہوں گی تو وہ روز ایسے کام کریں گی جن سے بچوں میں شکستی اور غفلت پیدا ہو.پس جب تک مناسب ماحول پیدا نہ ہو کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا اسے فصل دوم تحریک جدید کے انمیش مطالبات ور ملکی پریس اب تمہیدی اور چونکہ بیان کئے جاچکے تھے.اس لئے حضور نے ۱۲۳ نومبر ۳۰, نومبر اور دسمبر ہ کے تین خطبات میں اپنی سکیم تفصیلی طور پر جماعت کے سامنے رکھی اور اُسے در سمیرہ کے ایک مطبوعہ اعلان میں تحریک جدید کے نام سے موسوم فرمایا.شد انیش مطالبات حضرت امیر المومنين رض " تحریک جدید کی سکیم انمیں مطالبات پر مشتمل تھی.جن کی تشریح و توضیح ذیل میں خود سیدنا امیر المومنین خلیفہ السیح الثانی رضی اللہ عنہ کے اپنے الفاظ میں کے الفاظ مبارکہ میں درج کی جاتی ہے :.پہلا مطالبہ " آج سے تین سال کے لئے..ہر احمدی جو اس جنگ میں ہمارے ساتھ شامل ہونا چا ہے یہ اقرار کرے کہ وہ آج سے صرف ایک سائن استعمال کرے گا.روٹی اور سالن یا چاول اور سالن یہ دو چیزیں سے افضل " ۱۷ دسمبر ۱۹۳۲ صفحه ۱ * له الفضل ۲۹ نومبر ۱۹۳۳ و صفحه ۵۰۴ ۰ عہ حضرت فضل عمرہ کی یہ تحریک میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بھی ملتی ہے.چنانچہ حضرت ابو الحسن علی بن محمد بن عبد الكريم الجزری رامین بشیری نے اسد الغابہ میں حضرت عمر کے حالات میں یہ واقعہ لکھا ہے: " عن ابى حازم قال دخل عمر بن الخطاب على حفصة ابنته فقدمت اليه مزقاً بارها وصبت في المرق زيتا فقال أدمان في إناء واحد لا أذوقه حتى القى الله عز وجل (جلد چهارم صل (مصری).دیقیہ اگلے صفحہ پر )

Page 35

۱۲ نہیں بلکہ دونوں مل کر ایک ہوں گے لیکن روٹی کے ساتھ دو سالنوں یا چاولوں کے ساتھ دو سالنوں کی است نہ ہو گی...سوائے اس صورت سے کہ کوئی دعوت ہو یا مہمان گھر پر آئے.اس کے احترام کے لئے اگر ایک سے زائد کھانے تیار کئے جائیں تو یہ جھائے ہوگا.مگر جہان کا قیام لمبا ہو تو اس صورت میں اہل خانہ خود ایک ہی کھانے پر کفایت کرنے کی کوشش کرے یا سوائے اس کے کہ اس شخص کی کہیں دعوت ہو اور صاحب خانہ ایک سے زیادہ کھانوں پر اصرار کرے یا سوائے اس کے کہ اس کے گھر کوئی چیز بطور تحفہ آجائے یا مثلاً ایک وقت کا کھانا تھوڑی مقدار میں نیکی کر دوسرے وقت کے کھانے کے ساتھ استعمال کر لیا جائے..جہان بھی اگر جماعت کا ہو تو اُسے بھی چاہیئے کہ میزبان کو مجبور نہ کرے کہ ایک سے زیادہ سالن اس کے ساتھ مل کر کھائے.بہر احمدی اس بات کا پابند نہیں بلکہ اس کی پابندی صرف اُن لوگوں کے لئے ہوگی جو اپنے نام مجھے بتا دیں.لباس کے متعلق میرے ذہن میں کوئی خاص بات نہیں آئی.ہاں بعض عام ہدایات میں دیتا ہوں مثلا یہ کہ جین لوگوں کے پاس کائی کپڑے ہوں.وہ ان کے خراب ہو جانے تک اور کپڑے نہ بنوائیں پھر جو لوگ نئے کپڑے زیادہ بنواتے ہیں.وہ نصف پر یا تین چوتھائی پر یا کہے پر آجائیں....ہاں سب سے ضروری بات عورتوں کے لئے یہ ہوگی کہ محض پسند پر کپڑا نہ خریدیں....بلکہ ضرورت ہو تو خریدیں دوسری پابندی عورتوں کے لئے یہ ہے کہ اس عرصہ میں گوٹر کنار کا فیتہ وغیرہ قطعا نہ خریدیں....تیسری شرط اس ترین یہ ہے کہ جو عورتیں اس عہد میں اپنے آپ کو شامل کرنا چا ہیں.وہ کوئی نیاز بور نہیں بنوائیں گی اور جو مرد اس میں شامل ہوں وہ بھی عہد کریں کہ عورتوں کو نیا زیور بنوا کر نہیں دیں گے.پرانے زیور کو تڑوا کر بنانے کی بھی ممانعت ہے...جب ہم جنگ کرنا چاہتے ہیں تو روپیہ کو کیوں خواہ مخواہ ضائع کریں خوشی کے دنوں میں ایسی جائزہ باتوں سے ہم نہیں روکتے.لیکن جنگ کے دنوں میں ایک پیسہ کی حفاظت بھی ضروری ہوتی ہے.ہاں ٹوٹے ہوئے زیور کی مرقمت جائز ہے....علاج کے متعلق میں کہ چکا ہوں کہ اظہار اور ڈاکٹر سستے نسخے تجویز کیا کریں....پانچواں خرج سنیما اور تماشے ہیں.ان کے متعلق میں ساری بقیه حاشیه معمر گذشته یعنی حضرت ابوحرم سے مروی ہے کہ ایک بار حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ اپنی بیٹی حضرت حفصہ کے ہاں تشریف لائے حضرت حفصہ نے سالن میں زیتون کا تیل ڈال کر پیش کیا.آپ نے فرمایا کہ ایک وقت میں دو دو سالن را خدا کی قسم میں اسے کبھی نہیں کھاؤں گا ہے اے حضور نے اس مطالبہ کی مزید تشریح کے دسمبر کے خطبہ جمعہ میں بھی فرمائی.یہ خطبہ ۱۳ دسمبر ۱۹۳۶ء کے الفصل " میں شائع شدہ ہے.

Page 36

تحریک جدید کے ابتدائی خطبات سے متعلق سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی سے قلم مبارک سے لکھی ہوئی قیمتی یادداشتوں کا عکس (۳) یه مسکن بینی که سر تجویز کی تفصیل آپ لوگو فر ما می دان تفصیلات کا اہم ہے رفو د جماع کو خراب کر دیتا ہے میں بعض تھے سکتا ہے.لور نا ر سے ہونگے کہ انہی ملک نفتی برای بیان نہیں گیا.بیان شاه اریون کو میری بات پایان با نصیب لانا ریکا اور کیا وجہ ہے.نبی قرار دیا.(۳) کوئی بڑی قربانی نہیں کی جا سکتی جبتک اسکے لیے ماحول انہ کیا جائے.کوئی یہ شادیتا ہوں کہ آپ لاکھڑا سادہ کرتی آسر لا کو درست کریں آپو گا یا ہو رہا ہو سکے خشک آپ اسکے لئے وہ حالات نہ پیدا کرہی اور اسکے لئے آسو کا دینی کوشش بھی کافی نہیں بیویوں اور ہیں ر از لانگاہ اور بھی ضرورت ہوتی

Page 37

مثلا جانی قربانی سے لینے اپنی جان کو نیک ہے ہی.ڈالنا اس کے لیے غذاء میں اصلاح کا ضرورت ہے لکھا نے میں تقسیشی ان بهای تی نہ ہو ا حد یہ ہو ہنسی کا بینک ہے کھرے لوگ ساتھ تعاون نہ کرتی اور اگر یہ نہ ہو تو تکلیف کے کام بھی ہم نہیں کرسکتے.دو سال مالی قربانی یہ بھی نہیں ہو سکا جیک رکتے ہے ماحول پیدا نہ ہو آپ بے شک ازاده کریں کہ ہم آئندہ کو اسی قدر رقم دین کے ہے دینگے لیکن اگر آپ کے اخراجات.ہو گیا یہی ہوگا کہ آپ مصروفین ہو کر آئندہ قدرت دیں یہ ہے کہ وہ رہ جائنگے الو بڑے بڑے اخراجات کو گولی یہ ہوتے ہی -۱- غذاء -- لبا کا زیور ام لا تان دوال شادی بیاه ۷ اراس اندر زمانی شاه وره

Page 38

جماعت کو حکم دیتا ہوں کہ تین سال تک کوئی احمدی کسی سنیما، سرکس تھیٹر وغیرہ غرض کہ کسی تماشہ میں بالکل نہ جائے....چھٹا شادی بیاہ کا معاملہ ہے.چونکہ یہ جذبات کا سوال ہے اور حالات کا سوال ہے اس لئے میں یہی بندی تو نہیں کر سکتا کہ اتنے جوڑے اور اتنے زیور سے زیادہ نہ ہوں.ہاں وہ اتنا مد نظر ر ہے کہ تین سال کے عرصہ میں یہ چیزیں کم دی جائیں ہوشخص اپنی لڑکی کو زیادہ دینا چاہیے و کچھ زیور کپڑا اور باقی نقد کی صورت میں دے دے.ساتواں مکانوں کی آرایش و زیبائش کا سوال ہے اس کے متعلق بھی کوئی طریق میرے ذہن میں نہیں آیا.ہاں عام حالات میں تبدیلی کے ساتھ اس میں خود بخود تبدیلی ہوسکتی ہے جب غذا اور لباس سادہ ہوگا تو اس میں بھی خود بخود لوگ کسی کرنے لگ جائیں گے پس میں اس عام نصیحت کے ساتھ کہ جو لوگ اس معاہدے میں شامل ہوں وہ آرایش و زیبائش پر خواہ خوان روپیہ ضائع نہ کریں، اس بات کو چھوڑتا ہوں....ہسٹھویں چیز تعلیمی اخراجات ہیں.اس کے متعلق کھانے پینے میں جو خرچ ہوتا ہے ، اس کا ذکر میں پہلے کر آیا ہوں.جو خرچ اس کے علاوہ ہیں یعنی فیس یا آلات اور اوزاروں یا سٹیشنری اور کتابوں وغیرہ پر جو خرچ ہوتا ہے، اس میں کمی کرنا ہمارے لئے مضر ہو گا.اس لئے نہ تو اس میں کمی کی نصیحت کرتا ہوں اور نہ ہی اس کی گنجائش ہے.پیپس عام اقتصادی عہ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ سادہ زندگی کی اس سکیم کا سب سے زیادہ اثر براہ راست قادیان کے دوکاندار پر پڑنے والا تھا.اس لئے حضور نے حسب ذیل تجاویز فرمائیں.(1) قادیان کے احمدی جہاں تک ہو سکے یہاں کے دکانداروں ہی سے سودا سلف خریدیں اور دکاندار زیادہ بکری پر تصویری منافع کا اصول پیش نظر رکھیں اور سمتنا سود ا خریدنے کی کوشش کیا کریں.(۲) بیرونی احمدی جو جلسہ سالانہ یا مجلس شوری پر آتے ہیں وہ بھی اگر ایسی چیزیں جو آسانی سے ساتھ لیجاسکیں یہاں سے خرید لیں یا کپڑے وغیرہ یہاں سے بنوالیا کریں تو قادیان کے دکانداروں کی بکری زیادہ ہوسکتی ہے.اس ضمن میں حضور نے خاص طور پر چوہدری نصراللہ خان صاحب کی مثال دیتے ہوئے فرمایا.چوہدری نصر اللہ خان صاحب مرحوم کئی دفعہ اپنے کپڑے یہاں سے بنوایا کرتے تھے کسی نے اُن سے کہا کہ آپ بہتے سیالکوٹ میں ہیں اور کپڑے یہاں سے بنواتے ہیں یہ کیا بات ہے، تو انہوں نے جواب دیا کہ اس سے دوہرا ثواب مجھے بہل جاتا ہے.اس سے قادیان میں روپیہ کے چلن میں زیادتی ہو جاتی ہے اور بھائی کو فائدہ بھی پہنچ جاتا ہے.میں سمجھتا ہوں.اگر چودھری صاحب جرم کے نقش قدم پر چلنے والے چند سود دوست بھی پیدا ہو جائیں تو قادیان کے دکانداروں کا نقصان ہی دور نہیں ہو سکتا بلکہ انہیں فائدہ بھی پہنچ سکتا ہے" (الفصل ۱ دسمبر تا ۳ صفحه (۵) لے جیسا کہ آمد مفصل ذکر آرہا ہے حضور نے بعد کو سنیما کی مستقل ممانعت فرما دی اور ارشاد فرمایا کہ " میں سمجھتا ہوں کہ میرا منع کرنا تو انگ رہا اگر میں ممانعت نہ کروں تو بھی مومن کی روح کو خود بخود اس کی بغاوت کرنی چاہیئے" (الفصل ۱۴ دسمبر و صفحه کالم ۳)

Page 39

حالات میں تغیر کیلئے میں ان آٹھ قربانیوں کا مطالبہ کرتا ہوں ے سے دوسرا مطالبہ دوسرا مطالبہ جو دراصل پہلے ہی مطالبہ پرمینی ہے یہ کرتا ہوں کہ جماعت کے مخلص افراد کی ایک جماعت ایسی نکلے جو اپنی آمد کالا سے یا حصہ تک سلسلہ کے مفاد کے لئے تین سال محمد بیت المال میں ہم جمع کرائے.اس کی صورت یہ ہو کہ جس قدر وہ مختلف چندوں میں دیتے ہیں یا دوسرے ثواب کے کاموں پر خروج کرتے ہیں یا دارالانوار کمیٹی کا حصہ یا حصے انہوں نے لئے ہیں (اختبارات وغیرہ کی قیمتوں کے علاوہ ) وہ سب رقم اس حصہ میں سے کاٹ لیں اور باقی رقم اس تحریک کی امانت میں صدر انجین احمدیہ کے پاس جمع کرا دیں.یہ ضروری شرط ہے کہ آنے اس میں نہیں لئے جائیں گے...تین سال کے بعد بید و پیہ نقد یا اتنی ہی جائداد کی صورت میں واپس کر دیا جائے گا جو کھیٹی میں اس رقم کی حفاظت کے لئے مقرر کروں گا اس کا قرض ہوگا کہ شخص پر ثابت کرے کہ اگر کسی کو جائداد کی صورت میں روپیہ واپس کیا جارہا ہے تو وہ بجا مداد فی الواقعہ اس رقم میں خرید کی گئی ہے.اس سب کمیٹی کے ممبر علاوہ میرے مندرجہ ذیل احباب ہوں گے (1) میرزا بشیر احمد صاحب (۲) چودھری ظفر اللہ خاں صاحب (۳) شیخ عبد الرحمن صاحب مصری (۴) مرزا حمد اشرف صاحب (۵) مرزا شریف احمد صاحب (4) ملک غلام محمد صاحب لاہور (۷) چودھری محمد شریف صاحب وکیل منتشگری (۸) چہدری محاکم علی صاحب سرگودھا اور چودھری فتح محمد صاحب میرا مطالبہ تیر امطالبہ میں یہ کرتا ہوں کہ دشمن کے مقابلہ کے لئے اس وقت بڑی ضرورت ہے کہ وہ جو گندہ لٹریچر ہمارے مقلات شائع کر رہا ہے اس کا جواب دیا جائے یا اپنا نقطہ نگاہ احسن خور پر لوگوں تک پہنچایا جائے اور وہ روکیں جو ہماری ترقی کی راہ میں پیدا کی بھارہی ہیں انہیں دور کیا جائے.اس کے لئے بھی خاص نظام کی ضرورت ہے، روپیہ کی ضرورت ہے ، آدمیوں کی ضرورت ہے اور کام کرنے کے له الفضل " ۲۹ نومبر در صفحه ۱۰ تا صفحه ۱۲ ء اس جگہ یہ بتانا ضروری ہے کہ حضور نے ان آٹھ قربانیوں کی نسبت ساتھ ہی یہ وصیت بھی فرما دی کہ ”جہاں یہ باتیں دوسرے گھروں کے لئے اختیاری ہیں وہاں ہمارے اپنے گھروں میں لازمی ہوں گی.قرآن کریم میں حکم ہے یا ایھا النبي قل لأزواجك ان كنتن تردن الحيوة الدنيا الآیت.پس اس حکم کے ماتحت ایک نبی کا خلیفہ ہونے کی حیثیت سے میں بھی اپنے بیوی بچوں کے لئے ان باتوں کو لازمی قرار دیتا ہوں " سے اس چندہ کا نام امانت تحریک جائداد رکھا گیا."الفضل در امور کے افضل ۲۹ نومبر ۱۳۶ در سن ۱۲-۰۱۳ اس سب کمیٹی نے فروری ام میں کام شروع کر دیا حتی مورای فخرالدین صاحب پیشتر متوطن گھوگھیٹ ضلع شاہ پور اس کے سیکرٹری مقرر ہوئے وافضل و یکی است کالم )

Page 40

نیز رسانی مطالبہ نو جو انا بات ، بانک لویال پایین از سنت گرد ی و آموزه مال لوگ را تمام کچھ اعداد کروانی سو مهران مطالبہ کی به کانوں کی اور قونی کامسولانی زندگی عار ہے ڈالی جائے.ایکے بعد دلہ جا نہیں وال ان کا سال - هدى تعالى تھرڈ کھونا.پھر ٹوڑنا قاویان کرد پر بارہ لو گو کو کو مار کو طرت ت کرنا ہے کہ ایان آپنے کلی فرقہ وہ ہے اور منظم کے کے کبھی است کا مشتقاه اله به قولی دوست شتان برانه و کشنده پوری نے اپنے

Page 41

تیاط کھو اوسان کرے پرواہ کر آئے ہے.کردن کرہی نینی شتاب سنگ موریتی افتر املا کران هیواد می شدیلی کرین کے لئے اوند نی کی اور حقیقت طلبیوی اس کار کردوں سے تعلق رکھتا انے میں میں اپنی کھانوں کہ او مر توجہ کرسی دانہ کے غور سے ستانی شاد ر کا لکھا ہے مگر تمام محور سینٹ اور یہ برتنوں کو بتا اصول کو بتانے کی اور یہ کو تر وہ امریکہ جاتا ہے انکا کا کیا فائیر اب اگر یہ ذرا توجہ کریں توبه بدید الله لا قدمت 2 بانی مجھے نمبر ناندان کے متعلق میں خدا د کی نثرت ایسر اردو میں بھی روک ہے.بانی به این قدر دور به خرما مهمان واکنش جعبه مربا و وقت یا قمر و بر یا سیان

Page 42

ها طریقوں کی ضرورت ہے...اس کام کے واسطے تین سال کے لئے پندرہ ہزار روپیہ کی ضرورت ہوگی فی المی پانچ ہزار روپیہ کام کے شروع کرنے کے لئے ضروری ہے.بعد میں دس ہزار کا مطالبہ کیا جائے گا.اور اگر اس سے زائد جمع ہو گیا تو اُسے اگلی مدات میں منتقل کر دیا جائے گا.اس کمیٹی کا مرکز لاہور میں ہو گا.اور اس کے تعمیر مندرجہ ذیل ہوں گے (۱) پیراکبر علی صاحب (۲) شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور (۳) چودھری اسد اللہ خان صاحب بیرسٹر لاہور (ہم ملک عبدالرحمن صاحب قصوری (ھ) ڈاکٹر عبد الحق صاب بھائی گیٹ لاہور (1) ملک خدا بخش صاحب لاہور (۷) چودھری محمد شریف صاحب وکیل منٹگمری (۸) شیخ جان محمد صاحب سیالکوٹ (۹) مرزا عبد الحق صاحب وکیل گورداسپور (۱۰) قاضی عبد الحمید صاحب وکیل امرتسر (۱۱) سید ولی اللہ شاہ صاحب (۱۲) شمس صاحب یا اگر وہ باہر جائیں تو مولوی اللہ و انا صاحب (۱۳) شیخ عبد الرزاق صاحب بریسٹر لائل پور (س) مولوی غلام حسین صاحب جھنگ (۱۴) صوفی عبد الغفور صاحب حال لاہور.اس کمیٹی کا کام یہ ہوگا کہ میری دی ہوئی ہدایات کے مطابق دشمن کے پروپیگنڈا کا بالمقابل پروپیگینڈا سے مقابلہ کرے مگر اس کمیٹی کا کام یہ ہوگا کہ تجارتی اصول پر کام کرے.مفت اشاعت کی قسم کا کام اس کے دائرہ عمل سے خارج ہو گا اتیکت چوتھا طالبہ : " قوم کو مصیبت کے وقت پھیلنے کی ضرورت ہوتی ہے.قرآن کریم میں السر فعالئے مسلمانوں کو کہتا ہے کہ مکہ میں اگر تمہارے خلاف جوش ہے تو کیوں باہر نکل کو دوسرے ملکوں میں نہیں کھیل جاتے.اگر باہر نکلو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری ترقی کے بہت سے راستے کھول دے گا.اس وقت ہم دیکھتے ہیں کہ حکومت میں بھی ایک حصہ ایسا ہے جو ہمیں کھلنا چاہتا ہے اور رعایا میں بھی ہمیں کیا معلوم ہے کہ ہماری مدنی زندگی کی ابتدا کہاں سے ہوتی ہے.قادیان بے شک ہمارا مذہبی مرکز ہے.مگر ہمیں کیا معلوم کہ ہماری شرکت و طاقت کا مرکز کہاں ہے.یہ ہندوستان کے کسی اور شہر میں بھی ہو سکتا ہے اور چین، جاپان ، فلپائن، سماٹرا، جاوا ، روس ، امریکہ ، غرض کہ دنیا کے کسی ملک میں ہو سکتا ہے.اس لئے جب ہمیں یہ معلوم ہو کہ لوگ بلا وجہ جماعت کو ذلیل کرنا چاہتے ہیں.کچھلنا چاہتے ہیں شه یعنی مولانا الجو العطاء صاحب (ناقل) سے نقل مطابق اصل • ے " الفضل“ ۲۹ نومبر و کالم ۳۰۲ اس چندہ کا نام ” پراپیگنڈا فنڈ“ رکھا گیا " الفضل " ۲۳ دسمبر و مستمر و کالم (1)

Page 43

14 تو ہمارا ضروری فرض ہو جاتا ہے کہ باہر جائیں اور تلاش کریں کہ ہماری مدنی زندگی کہاں سے شروع ہوتی ہے ہمیں کیا معلوم ہے کہ کونسی جگہ کے لوگ ایسے ہیں کہ وہ فوراً احمدیت کو قبول کر لیں گے.یونکہ ہمارا پہلا تجربہ بتاتا ہے کہ با قاعد ومشن کھولنا مہنگی چیز ہے.اس لئے پر اپنے اصول پرستے مشن نہیں کھولے جا سکتے.اس لئے میری تجویز ہے کہ دو دو آدمی تین نئے ممالک میں بھیجے جائیں.ان میں سے ایک ایک انگریزی دان ہو اور ایک ایک عربی دان سب سے پہلے تو ایسے لوگ تلاش کئے بھائیں کہ جو سب یا کچھ حصہ خروج کا دے کر حسب ہدایت جا کر کام کریں.مثلاً صرف کرایہ لے لیں آگے خرچ نہ مانگیں یا کرایہ خود ادا کردیں.خرج چھ سات ماہ کے لئے ہم سے لے لیں یا کسی قدر رقم اس کام کے لئے دے سکیں.اگر اس قسم کے آدمی حسب منشار نہ ملیں تو جن لوگوں نے پچھلے خطبہ کے ماتحت وقف کیا ہے اُن میں سے کچھ آدمی چن لئے بھائیں جن کو صرف کرایہ دیا جائے اور کچھ ماہ کے لئے معمولی خروج دیا جائے اس عرصہ میں وہ ان ملکوں کی زبانی سیکھ کر وہاں کوئی کام کریں اور ساتھ ساتھ تبلیغ بھی کریں اور سلسلہ کا لٹریچر اس ملک کی زبان میں ترجمہ کر کے اُسے اس ملک میں پھیلائیں اور اس ملک کے تاجروں اور احمدی جماعت کے تاجروں کے درمیان تعلق بھی قائم کرائیں.غرض مذہبی اور تمدنی طور پر اس ملک اور احمدی جماعت کے درمیان واسطہ نہیں.پس میں اس تحریک کے ماتحت ایک طرف تو ایسے نوجوانوں کا مطالبہ کرتا ہوں جو کچھ خرچ کا بوجھ خود اٹھائیں ورنہ وقت کرنے والوں میں سے اُن کو چن لیا جائے گا جو کرایہ اور کچھ ماہ کا شریچ لے کر ان ملکوں میں تبلیغ کے لئے جانے پر آمادہ ہوں گے جو ان کے لئے تجویز کئے جائیں گے.اس چھ ماہ کے عرصہ میں ان کا فرض ہوگا کہ علاوہ تبلیغ کے وہاں کی زبان بھی سیکھ لیں اور اپنے لئے کوئی کام بھی نکالیں جس سے آئندہ گزارہ کر سکیں.اس تحریک کے لئے خرچ کا اندازہ میں نے دس ہزار روپیہ کا لگایا ہے.اس دوسر امطالبہ اس تحریک کے ماتحت میرا یہ ہے کہ جماعت کے ذی ثروت لوگ جو سو سو روپید یا زیادہ روپیہ دے سکیں اس کے لئے رقوم دے کر ثواب حاصل کریں کیا ہے ایسے نوجوان با قاعدہ مبلغ نہیں ہوں گے مگر اس بات کے پابند ہوں گے کہ با قاعدہ رپوڑیں بھیجتے رہیں اور ہماری ہدایات کے ماتحت تبلیغ کریں ، لے لے له الفضل ۲۹ نومبر ۱۹۳۳ صفحه ۱۳ و ۱۴ + نام سے موسوم کی گئی ہے ے چندہ کی یہ تر و تبلیغ بیرون ہند کے

Page 44

14 پانچواں مطالبہ : " تبلیغ کی ایک سکیم میرے ذہن میں ہے جس پر سو روپیہ ماہوار خرچ ہوگا اور اس طرح ۱۲۰۰ روپیہ اس کے لئے درکار ہے.جو دوست اس میں بھی حصہ لے سکتے ہوں وہ لیں.اس میں بھی غرباء کو شامل کرنے کے لئے میں اجازت دیتا ہوں کہ وہ اس تھریک میں حصہ لینے کے لئے پانچ پانچ روپے دے سکتے ہیں " چھٹا مطالبہ:.میں چاہتا ہوں کہ وقف کنندگان میں سے پانچ افراد کو مقر کیا جائے کہ سائیکلوں پر سائے پنجاب کا دورہ کریں اور اشاعت سلسلہ کے امکانات کے متعلق مفصل رپورٹیں مرکز کو بھیجوائیں مثلاً یہ کہ کسی علاقہ کے لوگوں پر کس طرح اثر ڈالا جا سکتا ہے.کون کون سے با اثر لوگوں کو تبلیغ کی جائے تو احمدیت کی اشاعت میں خاص مدد مل سکتی ہے.کس کس جگہ کے لوگوں کی کس کس جگہ کے احمدیوں سے رشتہ داریاں ہیں کہ ان کو بھیج کر وہاں تبلیغ کرائی جائے.وغیرہ وغیرہ، پانچ آدمی جو سائیکلوں پر جائیں گے مولوی فاضل یا انٹرنس پاس ہونے چاہئیں.تین سال کے لئے وہ اپنے آپ کو وقف کریں گے.پندرہ روپیہ ماہوار اُن کو دیا جائے گا تبلیغ کا کام ان کا اصلی فرض نہیں ہوگا.اصل فرض تبلیغ کے لئے میدان تلاش کرنا ہوگا.وہ تبلیغی نقشے بتائیں گے.گویا جس طرح گورنمنٹ سروے (SURVEY) کراتی ہے وہ تبلیغی نقطہ نگاہ سے پنجاب کا سروے کریں گے.ان کی تنخواہ اور سائیکلوں وغیرہ کی مرمت کا خرچ ملا کر سو روپیہ ماہوار ہوگا.اور اس طرح گل رقم جس کا مطالبہ ہے ا ۲۷ ہزار بنتی ہے.مگر اس میں سے پا ۱۷ ہزار کی فوری ضرورت ہے.اللہ ساتواں مطالبہ ” تبلیغ کی وسعت کے لئے ایک نیا سلسہ مبتلقین کا ہونا چاہیئے اور وہ یہی ہے کہ سرکاری ملازم تین تین ماہ کی چھٹیاں لے کر اپنے آپ کو پیش کریں تاکہ ان کو وہاں بھیجدیا جائے جہاں ان کی ملازمت کا واسطہ اور تعلق نہ ہو.مثلاً گورداسپور کے ضلع میں ملازمت کرنے والا امر تسر کے ضلع میں بھیج دیا جائے، امرتسر کے ضلع میں ملازمت کرنے والا کانگڑھ یا ہوشیار پور کے ضلع میں کام کرے.گویا اپنی ملازمت کے علاقہ سے باہر ایسی جگہ کام کرے جہاں ابھی تک احمدیت کی اشاعت نہیں ہوئی.اور وہاں تین ماہ رہ کر تبلیغ کرے....ایسے اصحاب کا فرض ہوگا کہ جس طرح ملکانہ تحریک کے وقت ہوا، وہ اپنا خرچ آپ برداشت کریں.ہم اس بات کو مد نظر رکھیں گے کہ انہیں اتنی دور نہ بھیجا جائے کہ الفضل و بر تو میرا یہ تحریک سکیم خاص" کے نام سے موسوم ہوئی تے الفصل ہو تو میرا چندہ کی اس مذکو ” تبلیغی سروے" کا نام دیا گیا ؟ (افضل " ۲۳ دسمبر ) + کے یہ لفظ جیسا کہ سیاق و سباق سے ظاہر ہے، چھپنے سے رہ گیا ہے (مرتب) "

Page 45

۱۸ کے لئے سفر کے اخراجات برداشت کرنے مشکل ہوں.اور اگر کسی کو کسی دُور جگہ بھیجا گیا تو کسی قدر بولا ہے اخراجات سفر کا سلسلہ برداشت کرے گا.اور باقی اخراجات کھانے پینے پہننے کے وہ خود برداشت کریں.ان کو کوئی تنخواہ نہ دی جائے گی نہ کوئی کرایہ سوائے اس کے جسے بہت دُور بھیجا جائے ہے آٹھواں مطالبہ : " ایسے نوجوان اپنے آپ کو پیش کریں، بجو تین سال کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں “ نواں مطالبہ " جو لوگ تین ماہ سند نا دے سکیں....ایسے لوگ جو بھی موسمی چھٹیاں یا حق کے طور پر ملنے والی چھٹیاں ہوں انہیں وقف کر دیں.ان کو قریب کے علاقہ میں ہی کام پر لگا دیا جائے گا...زمینداروں کے لئے بھی چھٹی کا وقت ہوتا ہے.انہیں سرکار کی طرف سے چھٹی نہیں ملتی بلکہ خدا تعالے کی طرف سے ملتی ہے یعنی ایک موقعہ آتا ہے جو نہ کوئی فصل بونے کا ہوتا ہے اور نہ کاٹنے کا.اس وقت جو تھوڑا بہت کام ہو اُسے بیوی بچوں کے سپرد کر کے وہ اپنے آپ کو تبلیغ کے لئے پیش کر سکتے ہیں.ہم ان کی لیاقت کے مطابق اور ان کی طرز کا ہی کام انہیں بتادیں گے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کے اعلیٰ نتائج رونما ہوں گے مثلاً اُن سے پوچھیں گے کہ تمہاری کہاں کہاں رشتہ داریاں ہیں اور کہاں کے رشتہ دار احمدی نہیں.پھر کہیں گے جاؤ اُن کے ہاں مہمان تھیرو اور اُن کو تبلیغ کر دو سے دسواں مطالبہ : " اپنے عہدہ یا کسی علم وغیرہ کے لحاظ سے جو لوگ کوئی پوزیشن رکھتے ہوں ، یعنی ڈاکٹر ہوں، وکلا، ہوں ، یا اور ایسے معزز کاہوں پر یا ملازمتوں پر ہوں جن کو لوگ عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ایسے لوگ اپنے آپ کو پیش کریں تاکہ مختلف مقامات کے جلسوں میں مبلغوں کے سوائے اُن کو بھیجا جائے...ایسے نبقوں کے لوگ ہماری جماعت میں چار پانچ سو سے کم نہیں ہوں گے.گر اس وقت دو تین کے سوا باقی دینی مضامین کی طرف توجہ نہیں کرتے.اس وقت چودھری ظفر اللہ خانصاحب قاضی محمد اسلم صاحب اور ایک دو اور نوجوان ہیں.ایک دہلی کے عبدالمجید صاحب ہیں جنہوں نے ملازمت کے دوران میں ہی سولوی فاضل کا امتحان پاس کیا.وہ لیکچر بھی اچھا دے سکتے ہیں.سرحد میں قاضی محمد یوسف صاحب ہیں...میں سمجھتا ہوں اگر اچھی پوزیشن رکھنے والا ہر شخص اپنے حالات بیان کرے اور بتائے کہ.الفضل" و دسمبر ۳۳ صفحه ۰۵ 0 له العنا گہوارہ گیا ہے (ناقل) : ه الفضل " و ۳ صفحه.کے جیسا کہ سیاق و سباق سے ظاہر ہے یہ لفظ

Page 46

1q اُسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسّلام کو قبول کر کے کس قدر روحانی ترقی حاصل ہوئی اور کس طرح اس کی حالت میں انقلاب آیا.پھر ڈاکٹر یا وکیل یا بیرسٹر ہو کر قرآن اور حدیث کے معارفت بیان کرے تو سننے والوں پہ اس کا خاص اثر ہو سکتا ہے....یہ لوگ اگر لیکچروں کے معلومات حاصل کرنے اور نوٹ لکھنے کے لئے قادیان اگر آجائیں تو میں خود ان کو نوٹ لکھا سکتا ہوں یا دوسرے مبلغ لکھا دیا کریں گے.اس طرح ان کو سہارا بھی دیا جا سکتا ہے...پرانے دوستوں میں سے کام کرنے والے ایک میر حامد شاہ صاحب مرحوم بھی تھے.اُن کو خواجہ صاحب (خواجہ کمال الدین صاحب ناقل) سے بھی بہت پہلے لیکچر دینے کا جوش تھا.اور اُن کے ذریعہ بڑا فائدہ پہنچا.وہ ایک ذمہ دار عہدہ پر لگے ہوئے تھے.باوجود اس کے تبلیغ میں مصروف رہتے اور سیالکوٹ کی دیہاتی جماعت کا بڑا حصہ اُن کے ذریعہ احمدی ہوا لے گیارھواں مطالبہ " در اصل خلیفہ کا کام نئے سے نئے حملے کرنا اور اسلام کی اشاعت کے لئے نئے سے نئے اسنے کھولنا ہے مگر اس کے لئے بجٹ ہوتا ہی نہیں.سارا بجٹ انتظامی امور کے لئے یعنی سدر اتین کے لئے ہوتا ہے.نتیجہ یہ ہے کہ سلسلہ کی ترقی افتادی ہو رہی ہے اور کوئی نیا رستہ نہیں نکلتا....آج سے دس سال قبل میں نے ریز روفنڈ قائم کرنے کے لئے کہا تھا تا کہ اس کی آمد سے ہم ہنگامی کام کر سکیں.مگر افسوس جماعت نے اس کی اہمیت کو نہ سمجھا اور صرفت ۲۰ ہزار کی رقم جمع کی.اس میں سے کچھ رقم صدر امین احمدیہ نے ایک جائداد کی خرید پر لگا دی اور کچھ رقم کشمیر کے کام کے لئے قرض لے لی گئی اور بہت تھوڑی سی رقم باقی رہ گئی.یہ رقم اس قدر قلیل تھی کہ اس پر کسی ریز رو فن کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی تھی.ہنگامی کاموں کے لئے تو بہت بڑی رقم ہونی چاہیئے جس کی معقول آمدنی ہو.پھر اس آمدنی میں سے ہنگامی اخراجات کرنے کے بعد جو کچھ بچے اس کو اسی فنڈ کی مضبوطی کے لئے لگا دیا جائے.تاکہ جب ضرورت ہو اس سے کام لیا جا سکے.....جماعت کو یاد رکھنا چاہیئے کہ جب تک ہنگامی کاموں کے لئے بہت بڑی رقم خلیفہ کے ماتحت نہ ہو کبھی ایسے کام جو سلسلہ کی وسعت اور عظمت کو قائم کریں نہیں ہو سکتے تھے " بارھواں مطالبہ : " وہ جلیبیوں آدمی جو پیشن لیتے ہیں اور گھروں میں بیٹھے ہیں خدا نے اُن کو موقع دیا ہے کہ چھوٹی سرکار سے پنشن نہیں اور بڑی سرکار کا کام کریں یعنی دین کی خدمت کریں...تا ان سکیموں ل " الفضل" و دسمبر ۹۳۳ صفحه ۸ که ایضاً صفحہ و کالم ۰۲۱ او

Page 47

کے سلسلہ میں ان سے کام لیا جائے یا جو مناسب ہوں انہیں نگرانی کا کام سپرد کیا جائے “ لئے تیرھواں مطالبہ :- ”باہر کے دوست اپنے بچوں کو قادیان کے ہائی سکول یا مدرسہ احمدیہ میں سے جس میں چاہیں تعلیم کے لئے بھیجیں....میرا تجربہ یہ ہے کہ یہاں پڑھنے والے لڑکوں میں سے بعض معین کی پوری طرح اصلاح نہ ہوئی وہ بھی الا ماشاء اللہ جب قربانی کا موقعہ آیا تو یکدم دین کی خدمت کی طرف کوٹے اور اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش کر دیا.یہ ان کی قادیان کی رہائش کا ہی اثر ہوتا ہے....قادیان میں پرورش پانے والے بچوں میں ایسا بیج بویا جاتا ہے اور سلسلہ کی محبت اُن کے دلوں میں ایسی جاگزین ہو جاتی ہے کہ خواہ ان میں سے کسی کی حالت کیسی ہی ہو جب دین کی خدمت کے لئے آواز اٹھتی ہے تو اُن کے اندر سے لیک کی شہر پیدا ہو جاتی ہے الا ماشاء اللہ لیکن اس وقت میں ایک خاص مقصد سے یہ تحریک کہ رہا ہوں.ایسے لوگ اپنے بچوں کو پیش کریں جو اس بات کا اختیار دیں کہ ان بچوں کو ایک خاص رنگ اور خاص طرز میں رکھا جائے.اور دینی تربیت پر زور دینے کے لئے ہم میں رنگ میں اُن کو رکھنا چاہیں رکھ سکیں.اس کے ماتحت جو دوست اپنے لڑکے پیش کرنا چاہیں کریں.ان کے متعلق میں ناظر صاحب تعلیم و تربیت سے کہوں گا کہ انہیں تہجد پڑھانے کا خاص انتظام کریں.قرآن کریم کے درس اور مذہبی تربیت کا پورا انتظام کیا جائے اور اُن پر ایسا گہرا اثر ڈالا جائے کہ اگر ان کی ظاہری تعلیم کو نقصان بھی پہنچ جائے تو اس کی پروا نہ کی جائے.میرا یہ مطلب نہیں کہ ان کی ظاہری تعلیم کو ضرور نقصان پہنچے اور نہ بظاہر اس کا امکان ہے لیکن دینی ضرورت پر زور دینے کی غرض سے میں کہتا ہوں کہ اگر ان کی دینی تعلیم و تربیت پر وقت خرچ کرنے کی وجہ سے نقصان پہنچ بھی جائے تو اس کی پروانہ کی بجائے اس طرح ان کے لئے ایسا ماحول پیدا کیا جائے جو اُن میں نئی زندگی کی روح پیدا کرنے والا ہو“ ہے چودھواں مطالبہ : " بعض صاحب حیثیت لوگ ہیں جو اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانا چاہتے ہیں اُن سے میں کہوں گا کہ بجائے اس کے کہ بچوں کے منشار اور خواہش کے مطابق اُن کے متعلق فیصلہ کریں..وہ اپنے لڑکوں کے مستقبل کو سلسلہ کے لئے پیش کر دیں....موجودہ حالات میں جو احمدی اعلیٰ عہدوں کی تلاش کرتے ہیں وہ کسی نظام کے ماتحت نہیں کرتے اور نتیجہ یہ ہوا ہے کہ بعض میخوں میں احمدی زیادہ ہو گئے ہیں اور بعض بالکل خالی ہیں.پس میں چاہتا ہوں کہ اعلیٰ تعلیم ایک نظام کے ماتحت ہو.اور اس کے لئے الفضل " و دسمبر سال ٠١٠ لے ایضاً کالم ۲۰۱

Page 48

ایک ایسی کمیٹی مقرر کر دی جائے کہ جو لوگ اعلی تعلیم دلانا چاہیں وہ لڑکوں کے نام اس کمیٹی کے سامنے پیش کر دیں پھر وہ کمیٹی لڑکوں کی حیثیت، ان کی قابلیت اور ان کے رجحان کو دیکھ کر فیصلہ کرے کہ فلاں کو پولیس کے محکمہ کے لئے تیار کیا جائے.فلاں کو انجنئیرنگ کی تعلیم دلائی جائے.فلاں کو بجلی کے محکمہ میں کام سیکھنے کے لئے بھیجا جائے فلاں ڈاکٹری میں بجائے فلاں ریلوے میں جائے وغیرہ وغیرہ.یعنی ان کے لئے الگ الگ کام مقرر کریں تاکہ کوئی صیغہ ایسا نہ رہے جس میں احمدیوں کا کافی دخل نہ ہو جائے دوسرے صوبوں میں یہ کمیٹی اپنی ماتحت انجمنیں قائم کرے جو اپنے رسوخ اور کوشش سے نوجوانوں کو کامیاب بنائیں.اس کام کے لئے جو کمیٹی میں نے مقرر کی ہے اور جس کا کام ہوگا کہ اس بارے میں تحریک بھی کی ہے اور اس کام کو جاری کرے.اس کے فی الحال تین ممبر ہوں گے جن کے نام یہ ہیں (۱) چودھری ظفراللہ خاں صاحب (۲) خانصاحب فرزند علی صاحب (۳) میاں بشیر احمد صاحب“ کے پندرھواں مطالبہ " وہ نوجوان جو گھروں میں بیکار بیٹھے روٹیاں توڑتے ہیں اور ماں باپ کو مقروض بنا رہے ہیں.انہیں چاہیے کہ اپنے وطن چھوڑیں اور نکل جائیں....جو زیادہ دور نہ بنانا چاہیں.وہ ہندوستان میں ہی اپنی جگہ بدل لیں.مگر میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ بعض نوجوان ماں باپ کو اطلاع دیئے بغیر گھروں سے بھاگ بھاتے ہیں.یہ بہت بُری بات ہے جو جانا چاہیں اطلاع دے کر جائیں اور اپنی خیر و عافیت کی اطلاع دیتے رہیں " سلے سولھواں مطالبہ : - " جماعت کے دوست اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالیں.میں نے دیکھا ہے اکثر لوگ اپنے ہاتھ سے کام کرنا ذلت سمجھتے ہیں.حالانکہ یہ ذلت نہیں بلکہ عزت کی بات ہے.حضرت خلیفہ ربیع اول رضی اللہ عنہ میں بعض خوبیاں نہایت نمایاں تھیں بنضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ اس مسجد میں قرآن مجید کا درس دیا کرتے تھے.مجھے یاد ہے میں چھوٹا سا تھا.سات آٹھ سال کی عمر ہوگی ہم باہر کھیل رہے تھے کہ کوئی ہمارے گھر سے نکل کر کسی کو آواز دے رہا تھا کہ فلانے مینہ آ گیا ہے اوپہلے بھیگ جائیں گے جلدی آؤ اور اُن کو اندر ڈالو حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ درس دے کو ادھر سے بہار ہے تھے.انہوں نے اس آدمی سے کہا.کیا شور مچا رہے ہو ؟ اس نے کہا کہ کوئی آدمی نہیں ملتا جو او پہلے اندر ڈالے.آپ نے فرمایا تم مجھے آدمی نہیں سمجھتے.یہ کہہ کر آپ نے ٹوکری لے لی اور ست "الفضل" و دسمبر انه صفه - اکالم و سے ایضا صفحہ ۱۰-۱۱ و که مسجد اقصی قاریان (ناقل)

Page 49

۲۲ اس میں اوپلے ڈال کر اندر لے گئے.آپ کے ساتھ اور بہت سے لوگ بھی شامل ہو گئے اور جھٹ پٹ اوپلے ڈال دیئے گئے.اسی طرح اس مسجد کا ایک حصہ بھی حضرت خلیفہ المسیح اقول رضی اللہ عنہ نے بنوایا تھا.ایک کام میں نے بھی اسی قسم کا کیا تھا مگر اس پر بہت عرصہ گزر گیا.ئیں ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالنے کا جو مطالبہ کر رہا ہوں.اس کے لئے پہلے قادیان والوں کو لیتا ہوں.یہاں کے احمدی محلوں میں ہو اُونچے نیچے گڑھے پائے جاتے ہیں.گلیاں صاف نہیں.تالیاں گندی رہتی ہیں بلکہ بعض جگہ تالیاں موجود ہی نہیں ان کا انتظام کریں.وہ جواد در سیر ہیں وہ سروے کریں.اور جہاں جہاں گندہ پانی جمع رہتا ہے اور جو ارد گرد بسنے والے دس بیس کو بیمار کرنے کا موجب بنتا ہے اُسے نکالنے کی کوشش کریں اور ایک ایک دن مقرر کر کے سب مل کر محلوں کو درست کر لیں.اسی طرح جب کوئی سلسلہ کا کام ہو مثلاً لنگر خانہ یا مہمان خانہ کی کوئی اصلاح مطلوب ہو تو بجائے مزدور رہنے کے خود لگیں اور اپنے ہاتھ سے کام کر کے ثواب حاصل کریں.ایک بزرگ کے متعلق لکھا ہے کہ وہ جب قرآن پڑھتے تو تروف پر انگلی بھی پھیرتے جاتے.کسی نے اس کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے قرآن کے حروف آنکھ سے دیکھتا ہوں اور زبان سے پڑھتا ہوں اور انگلی کو بھی ثواب میں شریک کرنے کے لئے پھیرتا جاتا ہوں.پس جتنے عضو بھی ثواب کے کام میں شریک ہو سکیں اتنا ہی اچھا ہے.اور اس کے علاوہ مشقت کی عادت ہوگی....یہ تحریک میں قادیان سے پہلے شروع کرنا چاہتا ہوں اور باہر گاؤں کی احمدیہ جماعتوں کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ اپنی مساجد کی صفائی اور پائی وغیرہ خود کیا کریں اور اس طرح ثابت کریں کہ اپنے ہاتھ سے کام کیا وہ ماں نہیں سمجھتے شغل کے طور پر لوہار اشتہار اور معمار کے کام بھی مفید ہیں.رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ سے کام کیا کرتے تھے.ایک دفعہ خندق کھودتے ہوئے آپ نے پتھر توڑے اور مٹی ڈھوئی صحابہ کے متعلق آتا ہے کہ اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تو پسینہ آیا.بعض نے برکت کے لئے اُسے پونچھ لیا.یہ تربیت ، ثواب اور رعب کے لفظ سے بھی بہت مفید چیز ہے جو لوگ یہ دیکھیں گے کہ اُن کے بڑے بڑے بھی مٹی ڈھونا اور مشقت کے کام کرنا عار نہیں سمجھتے، ان پر خاص اثر ہو گا."" سترھواں مطالبہ : جو لوگ بیکار ہیں وہ بیکار نہ دیا اگر وہ اپنے وطنوں سے باہر نہیں جاتے تو چھوٹے سن و الفضل " و سه صفر ۰۱۱ 11.

Page 50

۳۳ سے چھوٹا جو کام بھی انہیں مل سکے وہ کر لیں.اخباریں اور کتابیں ہی بیچنے لگ جائیں.ریز رو فنڈ کے لئے روپیہ جمع کرنے کا کام شروع کر دیں.غرض کوئی شخص بیکار نہ رہے خواہ اسے مہینہ میں دو روپے کی ہی آمدنی ہوگی.اٹھارھواں مطالبہ : " قادیان میں مکان بنانے کی کوشش کریں.اس وقت تک خدا تعالیٰ کے فضل سے سینکڑوں لوگ مکان بنا چکے ہیں.مگر ابھی بہت گنجائش ہے.جوں جوں قادیان میں احمدیوں کی آبادی • بڑھے گی ہار مرکز ترقی کرے گا اور غیر عنصر کم ہوتا جائے گا....ہاں یاد رکھو کہ قادیان کوخدا تعالی نے سلسلہ احمدیہ کامرکز قرار دیا ہے.اس لئے اس کی آبادی انہی لائنوں پر چلتی چاہیے جو سلسلہ کے لئے مفید ثابت ہوں.اس موجودہ حالت کو مد نظر رکھتے ہوئے میری تاکید ہے کہ قادیان، بھینی اور منگل کے سوا سردست اور کسی گاؤں سے آبادی کے لئے زمین نہ خریدی جائے.ابھی ہمارے بڑھنے کے لئے بھینی اور منگل کی طرف کافی گنجائش ہے " تلے انیسواں مطالبہ : " دنیاوی سامان خواہ کس قدر کئے جائیں آخر دنیا وی سامان ہی ہیں.اور ہماری ترقی کا انحصار ان پر نہیں بلکہ ہماری ترقی خدائی سامان کے ذریعہ ہوگی اور یہ خانہ اگر چہ سب سے اہم ہے اور گھر سے میں نے آخر میں رکھا اور وہ دعا کا خانہ ہے.وہ لوگ جو ان مطالبات میں شریک نہ ہو سکیں.اُن کے مطابق کام نہ کر سکیں.وہ خاص طور پر دعا کریں کہ جو لوگ کام کر سکتے ہیں.خدا تعالیٰ انہیں کام کرنے کی توفیق دے اور اُن کے کاموں میں برکت دے....پس وہ ٹولے لنگڑے اور پانچ جو دوسروں.کے کھلانے سے کھاتے ہیں، جو دوسروں کی امداد سے پیشاب پاخانہ کرتے ہیں اور وہ بیمار اور مریض جو چار پائیوں پر پڑے ہیں اور کہتے ہیں کہ کاش ہمیں بھی طاقت ہوتی اور ہمیں بھی صحبت ہوتی تو ہم بھی اس وقت دین کی خدمت کرتے.ان سے میں کہتا ہوں کہ اُن کے لئے بھی خدا تعالیٰ نے دین کی خدمت کرنے کا موقعہ پیدا کر دیا ہے.وہ اپنی دعاؤں کے ذریعہ خدا تعالے کا دروازہ کھٹکھٹائیں اور چار پائیوں پر پڑے پڑے خدا تعالے کا عرش ہلائیں تاکہ کامیابی اور فتمندی آئے.پھر وہ جو ان پڑھ ہیں اور نہ صرف ان پڑھ ہیں بلکہ کند ذہن ہیں اور اپنی اپنی جگہ گڑھ رہے ہیں کہ کاش ہم بھی عالم ہوتے.کاش ہمارا بھی ذہن رسا ہوتا اور ہم بھی تبلیغ دین کے لئے نکلتے.اُن سے میں کہتا ہوں کہ اُن کا بھی خدا ہے جو اعلیٰ درجہ کی عبارت آرائیوں کو نہیں دیکھتا.اعلیٰ تقریروں کو نہیں دیکھتا بلکہ دل کو دیکھتا ہے " الفضل" و دسمبر ۱۹۳۷ صفحه ۱۱ کالم ۳ * که ایضاً صفحه ۱۲ ۰

Page 51

۲۴ وہ اپنے سیدھے سادے طریق سے دعا کریں خدا تعالے اُن کی دُعائنے گا اور ان کی مدد کرے گا لے تحریک جدید کے مندرجہ بالا انہیں مطالبات بیان کرتے وقت حضرت خلیفہ مسیح الثانی تے کے منظر گیارہ مصالح تھیں جن کی تفصیل بیان کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں ہے.کا پس منظر ہ میں نے اس سکیم کے متعلق مجموعی طور پر اس کی وہ تفصیلات جو موجودہ حالات میں ضروری تھیں، سب بیان کر دی ہیں.اور اس میں میں نے مندرجہ ذیل امور مد نظر رکھے ہیں..(1) یہ کہ جماعت کے اندر اور باہر ایسا ماحول پیدا ہو جائے کہ جس سے جماعت کی ذہنیت اور اقتصادی حالت اچھی ہو جائے....پس اس سکیم میں اول تو میرے مد نظر یہ بات ہے کہ ذہنیت میں ایسا تغیر کروں کہ جماعت خدمت دین کے لئے تیار ہو جائے اور آئندہ ہمیں جو قدم اُٹھانا پڑے.اُسے بوجھ نہ خیال کیا جائے بلکہ بشاشت کے ساتھ اُٹھایا جا سکے.دوسری بات تیرے مد نظر یہ ہے کہ ہر طبقہ کے لوگوں کو یہ احساس کرا دیا جائے کہ اب وقت بدل چکا ہے.اس سکیم کا اثر سب پر ہی پڑے گا جو شخص زیادہ کپڑے بنوانے کا عادی ہے جب وہ جا کر اب اور کپڑا شحمید نے لگے گا تو معاًاُ سے خیال آئے گا کہ اب ہماری حالت بدل گئی ہے جب بھی بیوی سبزی ترکاری کے لئے کہے گی اور دو تین کے بجائے صرف ایک ہی منگوانے کو کہے گی تو فوراً اُسے خیال آجائے گا کہ اب ہمارے لئے زیادہ قربانیاں کرنے کا وقت آگیا ہے “ (۳) تیری بات میں نے یہ مد نظر رکھی ہے کہ جس قدر اطراف سے سلسلہ پر حملہ ہورہا ہے سیبا وفیہ ہو.اب تک ہم نے بعض رہتے چن لئے تھے اور کچھ قلعے بنائے تھے مگر کئی حملے دشمن کے اس لئے چھو دیئے تھے کہ پہلے خلال کو دور کر لیں پھر اس طرف توجہ کریں گے.مگر اس سکیم میں اب میں نے یہ ی مد نظر رکھا ہے کہ حتی الوسع ہر پہلو کا دفعیہ کیا جائے.“ پر بھی بات میں نے یہ مد نظر رکھی ہے کہ سلسلہ کی طرف سے پہلے ہم نے ایک دو راستے مقرر کر رکھے تھے اور انہی راہوں سے دشمن پر حملہ کرتے تھے اور باقی کو یہ کہہ کر چھوڑ دیتے تھے کہ ابھی احد کی توفیق نہیں.مگر اب سکیم میں میں نے یہ بات مد نظر رکھی ہے کہ حملے وسیع ہوں اور بیسیوں ے اس خطبہ کے علاوہ حضور نے ہور کو سالانہ جلسہ کے موقع پر خاص طور پر اسی موضوع پر مفصل تقریر فرمائی جو اخبار و الفضل " فروری ، از فروری ، ۱۲ مارچ - ۱۴ مارچ ۹ہ میں بالاقساط شائع ہوئی.

Page 52

۲۵ جہات سے دشمن پر حملے کئے جائیں ہمارے کھلے ایک ہی محاذ پر محدود نہ ہوں بلکہ جیس طرح دفاع کے لئے ہم مختلف طریق اختیار کریں اسی طرح حملہ کے لئے بھی مختلف محاذ ہوں “ (۵) پانچویں بات یہ ہے کہ مغربیت کے بڑھتے ہوئے اثر کو جو دنیا کو کھائے جاتا ہے اور جو د بھال کے نظلیہ میں حملہ ہے اُسے دور کیا جائے....اور یوں بیوں وہ زائل ہوتا جائے گا اسلام کی محبت اور اس کا دخل بڑھتا جائے گا.اسی لئے میں نے ہاتھ سے کام کرنے اور ایک ہی سالن کھانے کی عادت ڈالنے کی ہدایت کی ہے.یہ دونوں باتیں مغربیت کے خلاف ہیں“ (4) چھٹی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کے لئے زیادہ جد و جہد کی جائے کیونکہ ہماری فتح اسی سے ہو سکتی ہے.اسی لئے دُعا کرنا میں نے اپنی سکیم کا ایک چیزوں کا ہے اس کی غرض یہی ہے کہ ہماری تمام ترقیات اسی سے وابستہ ہیں اور جب ہمارے اندر سے غرور تیکل بجائے اس وقت اللہ تعالے کا فضل نازل ہو سکتا ہے.اللہ تعالے کو یہی پسند ہے کہ امن کی بنیاد ایسے اصول پر قائم ہو کہ انسانیت کے لحاظ سے سب برابر ہوں.اس سکیم میں میں نے یہ بات بھی مد نظر رکھی ہے کہ امیر و غریب کا بعد دُور ہو " (6) ساتویں بات اس سکیم میں میرے مد نظر یہ ہے کہ جماعت کے زیادہ سے زیادہ افراد کو تبلیغ کے لئے تیار کیا جائے.پہلے سارے اس کے لئے تیار نہیں ہوتے اور جو ہوتے ہیں وہ ایسے رنگ میں ہوتے ہیں کہ مبلغ نہیں بن سکتے.اول تو عام طور پر سہاری سماعت میں تبلیغ کا انحصار مبلغوں پر ہی ہوتا ہے.وہ آئیں اور تقریریں کر جائیں.ان کے علاوہ انصاراللہ ہیں مگر وہ ارد گرد بجا کر تبلیغ کر آتے ہیں.اور وہ بھی ہفتہ میں ایک بات اس سے تبلیغ کی عادت پیدا نہیں ہو سکتی....پس اس سکیم میں یہ بھی منتظر ہے کہ تبلیغ کادائرہ زیادہ سے زیادہ وسیع کیا جائے اور ایسے مبلغ پیدا کئے جائیں جو بغیر معاوضہ کے تبلیغ کریں " آٹھویں بات اس سکیم میں میرے مد نظر یہ ہے کہ مرکز کو ایسا محفوظ کیا جائے کہ وہ بیرونی حملوں سے زیادہ سے زیادہ محفوظ ہو جائے.اس بات کو اچھی طرح سوچنا چاہیئے کہ ایک سپاہی اور جرنیل ہیں کتنا فرق ہے مگر یہ فرق ظاہر میں نظر نہیں آتا.مثال کے طور پر آنکھوں کو لے لو سپاہی اور جب نبیل کی آنکھ میں کیا فرق ہے سوائے اس کے کہ سپاہی کی نظر تیز ہوگی اور جرنیل بوجہ بڑھاپے کے اس قلاد

Page 53

۲۶ تیز نظر نہ رکھتا ہوگا.اسی طرح دونوں کے جسم میں کیا فرق ہے ؟ سوائے اس کے کہ سپاہی نوجوان اور مضبوط ہونے کی وجہ سے زیادہ بوجھ اُٹھا سکتا ہے اور جرنیل اس قدر نہیں اُٹھا سکتا یا سپا ہی زیادہ دیر تک بھوک برداشت کر سکتا ہے اور جرنیل ایسا نہیں کر سکتا.مگر با وجود اس کے جرنیل کی جان ہزاروں سپاہیوں سے زیادہ قیمتی ہوتی ہے اور بعض دفعہ ساری کی ساری فوج اُسے بچانے کے لئے تباہ ہو جاتی ہے.نپولین کو جب انگریزوں اور جرمنوں کی متحدہ فوج کے مقابل میں آخری شکست ہوئی تو اس وقت اس کی فوج کے ایک ایک سپاہی نے اسی خواہش میں جان دے دی کہ کسی طرح نیپولین کی جان کی جائے کیونکہ ہر ایک یہی سمجھتا تھا کہ اگر نپولین بچ گیا تو فرانس بھی بھی بھائے گا ورنہ رٹ جائے گا....تو بعض دفعہ بعض چیزوں کو ایسی اہمیت حاصل ہوتی ہے کہ اُن کے مٹنے کے بعد شان قائم نہیں رہ سکتی.پس قادیان اور باہر کی اینٹوں میں فرق ہے.اس مقام کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں اُسے عزت دیتا ہوں جس طرح بیت الحرم، بیت المقدس یا مدینہ و مگہ کو برکت دی ہے اور اب اگر ہماری غفلت کی وجہ سے اس کی تقدیس میں فرق آئے تو یہ امانت میں خیانت ہو گی.اس لئے یہاں کی اینٹیں بھی انسانی بہانوں سے زیادہ قیمتی ہیں اور یہاں کے مقدس مقامات کی حفاظت کے لئے اگر ہزاروں احمدیوں کی جانیں بھی چلی بھائیں تو پھر بھی ان کی اتنی حیثیت بھی نہ ہوگی جتنی ایک کروڑ پتی کے لئے ایک پیسہ کی ہوتی ہے.پس قادیان اور قادیان کے وقار کی حفاظت زیادہ سے زیادہ ذرائع سے کرتا ہمارا فرض ہے." (4) " نویں بات اس میں میرے مد نظر یہ ہے کہ جماعت کو ایسے مقام پر کھڑا کر دیا جائے کہ اگلا قدم اُٹھا نا سہل ہو.میں نے اس سکیم میں اس بات کو مد نظر رکھا ہے کہ اگر آئندہ اور قربانیوں کی ضرورت پڑے تو جماعت تیار ہو اور بغیر مزید جوش پیدا کرنے والی تحریکات کرنے کے جماعت آپ ہی آپ اس کے لئے آمادہ ہو " (10) دسویں بات اس میں میں نے یہ منظر دیکھی ہے کہ ہماری جماعت کا تعلق صرف ایک ہی حکومت سے نہ رہے.اب تک ہمارا تعلق صرف ایک ہی حکومت سے ہے سوائے افغانستان کے یہاں ہماری جماعت اپنے آپ کو ظاہر نہیں کر سکتی اور احمدی کام نہیں کر سکتے.باقی سب مقامات پر جہاں جہاں زیادہ اثر رکھنے والی جماعتیں ہیں مثلا ہندوستان ، نائیجیریا ، گولڈ کوسٹ ، مصر ، سیلون ، ماریشس و غیره

Page 54

۲۷ مقامات پر وہ صب برطانیہ کے اثر کے نیچے ہیں.دیگر حکومتوں سے ہمارا تعلق نہیں سوائے ڈچ حکومت کے مگر ڈچ بھی یورپین ہیں اور یورپینوں کا نقطہ نگاہ ایشیائی لوگوں کے بارہ میں جلدی نہیں بدلتا.ہمیں ایسی حکومتوں سے بھی لگاؤ پیدا کرنا چاہیئے جن کی حکومت میں ہم شریک ہوں یا جو ہم پر حکومت کرنے کے باوجود ہمیں بھائی سمجھیں.مشرقی خواہ حاکم ہو مگر وہ محکوم کو بھی اپنا بھائی سمجھے گا.اسی طرح جنوبی امریکہ کے لوگ ہیں.انہوں نے بھی چونکہ کبھی باہر حکومت نہیں کی اس لئے وہ بھی ایشیائی لوگوں کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں.پس اس سکیم میں میرے مد نظر ایک بات یہ بھی ہے کہ ہم باہر جائیں اور نئی حکومتوں سے بہمارے تعلقات پیدا ہوں تاکہ ہم کسی ایک ہی حکومت کے رحم پر نہ رہیں.یوں تو ہم خدا تعالیٰ کے ہی رقم پر ہیں.مگر جو حصہ تدبیر کا خدا نے مقدر کیا ہے اسے اختیار کرنا بھی ہمارا فرض ہے.اس لئے ہمارے تعلقات اس قدر وسیع ہونے چاہئیں کہ کسی حکومت یا رعایا کے ہمارے متعلق خیالات میں تغیر کے باوجود بھی جماعت ترقی کر سکے" (11) گیارھویں بات یہ مد نظر ہے کہ آئندہ نسلیں بھی اس درد میں ہماری شریک ہوسکیں.اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ ایک نعمت دی ہے کہ ہمارے دلوں میں درد پیدا کر دیا ہے.گورنمنٹ نے جو ہماری بہتک کی.احرار نے جو اذیت پہنچائی اس کا یہ فائدہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعہ ہمارے دلوں میں درد کی نعمت پیدا کر دی اور وہی بات ہوئی جو مولانا روم نے فرمائی ہے کہ سر بلا کین قوم را حق داده است زیر آن گنج کرم بنهاده است یعنی ہر آفت جو مسلمانوں پر آتی ہے اس کے نیچے ایک خزانہ مخفی ہوتا ہے.بس یقینا یہ بھی ایک خزانہ تھا.جو خدا تعالیٰ نے ہمیں دیا کہ جماعت کو بیدار کر دیا اور جو لوگ شست اور غافل تھے ان کو بھی چوکنا کر دیا.پس یہ ایک ایسا واقعہ تھا جو دنیوی نگاہ میں مصیبت تھا مگر خدا تعالیٰ کے نزدیک رحمت تھا.اور میں نے نہیں چاہا کہ اس سے صرف موجودہ نسل ہی حصہ لے بلکہ یہ چاہا ہے کہ آئندہ نسلیں بھی اس سے حصہ پائیں اور میں نے اس سکیم کو ایسا رنگ دیا ہے کہ آئندہ نسلیں بھی اس طریق پر نہیں جو شیعوں نے اختیار کیا بلکہ عقل سے اور اعلی طریق پر جو خدا کے پاک بندے اختیار کرتے آئے ہیں اُسے یادر رکھ سکیں اور اُس سے فائدہ اٹھا سکیں.

Page 55

اس کے علاوہ اور بھی فوائد مسکن ہے اس میں ہوں مگر یہ کم سے کم تھے جوئیں نے بیان کر دیتے ہیں.یا یوں کہو کہ یہ سکیم کا وہ حصہ ہے جو خدا تعالٰی نے اپنے فضل سے مجھے بتایا.تحریک تجدید جبری نہیں تحریک جدید میں شمولیت شروع ہی سے اختیاری تھی حضرت میر المومنین نے سب حالات جماعت کے سامنے رکھ دیئے اور ساتھ ہی اُن کا علاج بھی.اور یہ اختیاری حکیم ہے نہیں رکھا کہ جو حصہ نہ لے اُسے سزا دی جائے بلکہ ترا اور ثواب کو خدا تعالیٰ پر ہی چھوڑ دیا تا جو حصہ لے اُسے زیادہ ثواب ملے.اس اصول کے مطابق حضور نے کارکنان جماعت کو واضح ہدایات دیں کہ مردوں پہ زور نہ دیا جائے صرف وہی رقم بطور چندہ وصول کی جائے جو ہار جنوری ۶۳۵ یہ تک آجائے یا اُس کا وعدہ آ جائے.نیز کارکنوں کو خاص طور پر تاکید فرمائی کہ روپیہ کی کمی کا فکر نہ کریں.اللہ تعالیٰ جماعت کا امتحان کرنا چاہتا ہے.وہ غیور ہے اور کسی کے مال کا محتاج نہیں بچنا نچہ چھوڑ نے واضح طریق پر فرمایا :- تحریک کو چلانے والے مندرجہ ذیل باتوں کو مد نظر رکھیں :- مردوں پر زور نہ دیا جائے (را) یہ کہ وہ صرف میری تجاویز کو لوگوں تک پہنچا دیں.اس کے بعد مردوں پر اس میں شامل ہونے کے لئے زیادہ زور نہ دیں.ہاں عورتوں تک خبر چونکہ مشکل سے پہنچتی ہے اور باہر کی مشکلات سے اُن کو آگاہی بھی کم ہوتی ہے.اس لئے رسول کریم صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم مردوں میں تو چند کے لئے صرف اعلان ہی کر دیتے تھے کہ کون ہے جو اپنا گھر جنت میں بنائے مگر عورتوں سے اصرار کے ساتھ وصول فرماتے تھے بلکہ فرداً فرداً اجتماع کے مواقع میں انہیں تحریک کرتے تھے.ایک دفعہ ایک عورت نے ایک کٹا اُتار کو دے دیا تو آپ نے فرمایا دوسرا ہاتھ بھی دوزخ سے بچا.پس عورتوں کے معاملہ میں اجازت ہے کہ اُن میں زیادہ زور کے ساتھ تحریک کی بجائے مگر مجبور انہیں بھی نہ کیا جائے اور مردوں پر تو زور بالکل نہ دیا جائے.صرف ان تک میری تجاویزہ کو پہنچا دیا جائے اور جو اس میں شامل ہونے سے مدد کرے اُسے ترغیب نہ دی جائے کارکن تحریک مجھے دکھا کر اور اسے چھپوا کر کثرت سے شائع کرا دیں اور چونکہ ڈیکھن میں بعض اوقات چٹھیاں ضائع ہو جاتی ہیں اس لئے جہاں سے جواب نہ ملے دس پندرہ روزہ کے بعد پھر تحریک بھیج دیں اور پھر بھی جواب نہ آئے تو خاموش ہو جائیں.اسی طرح بیرونی جماعتوں کے سکس وڈیویں کا فرض ہے کہ وہ میرے خطبات جماعت کو سُنا دیں جو جمع ہوں انہیں یکجا اور جو جمع نہ ہوں اُن کے الفضل د دسمبر من صفر ، تامه د خطبه جمعه فرموده ، دسمبر (ه) *

Page 56

۲۹ گردی پر جا کر لیکن کسی پر شمولیت کے لئے زور نہ ڈالیں اور جو عقد کرے اسے مجبور نہ کریں" نیز فرمایا : تیسری بات یہ مد نظر رکھی جائے کہ ہندوستان کے احمدیوں کا چندہ پندرہ جنوری ۹۳۵ از تک وصول ہو جائے جو ۱۶ جنوری کو آئے یا جس کا ہار جنوری سے پہلے پہلے وعدہ نہ کیا جا چکا ہو اسے منظور نہ کریں.پہلے میں نے ایک ماہ کی مدت مقرر کی تھی مگر اب چونکہ لوگ اس مہینہ کی تنخواہیں لے کر خرچ کو چکے ہیں.اس لئے میں اس میعاد کو مار جنوری تک زیادہ کرتا ہوں.جو رقم ۱۵ جنوری تک آجائے یا نہیں کا وعدہ اس تاریخ تک آجائے وہی لی جائے.زمیندار دوست جو فصلوں پر چندہ دے سکتے ہیں یا ایسے دوست جو قسط وار روپیہ دینا چاہیں وہ ہار جنوری تک ادا کرنے سے مستثنی ہوں گے مگر وعدے اُن کی طرف سے بھی ۱۵ جنوری تک آجائے ضروری ہیں.جو رقم یا وعدہ ۱۶ جنوری کو آئے اُسے واپس کر دیا جائے.بہندوستان سے باہر کی جماعتوں کے لئے میعاد یکم اپریل تک ہے جن کی رقم یا وعدہ اس تاریخ تک آئے وہ لیا جائے.اس کے بعد آنے والا نہیں.اس صورت میں جو لوگ اس میں حصہ لینا چاہتے ہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ اپنے وعدے اس تاریخ کے اندر اندر بھیج دیں.رقم فروری مارچ اپریل میں آسکتی ہے یا جو دوست بڑی رقوم دس ہیں تمہیں چالیس کی ماہوار قسطوں میں ادا کرنا چاہیں یا اس سے زیادہ دینا چاہتے ہوں انہیں سال کی بھی مدت دی جاسکتی ہے.مگر ایسے لوگوں کے بھی وعدے عرصہ مقرہ کے اندر اندر آنے چاہئیں.اس میعاد کے بعد صرف انہی لوگوں کی رقم یا وعدہ لیا جائے گا جو حلفیہ بیان دین کہ انہیں وقت پر اطلاع نہیں مل سکی مثلاً جو ایسے نازک بیمار ہوں کہ جنہیں اطلاع نہ ہو سکے یا دور درا ملکوں میں ہوں.پس کارکنوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہئیے کہ اللہ تعالے کی طرف سے جماعتوں پر ایسے وقت بھی آتے ہیں کہ وہ امتیاز کرنا چاہتا ہے.اس کا منشار ہی ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کو ثواب سے محروم رکھا جائے.میں جن کو ندا اچھے رکھنا چاہتا ہے انہیں آگے کرنے کا ہمیں کوئی حق نہیں.اور ہم کون ہیں جو اس کی راہ میں کھڑے ہوں.بہارے مد نظر روپیہ نہیں بلکہ یہ ہونا چاہیئے کہ خدا کے دین کی شان کس طرح ظاہر ہوتی ہے.اللہ تعالے غیرت والا ہے وہ کسی کے مال کا محتاج نہیں.یہ مت خیال کرو کہ دین کی فتح اس پا ۲۷ ہزار روپیہ پر ہے اور کہ بعض لوگ اگر اس میں حصہ نہ لیں گے تو یہ رقم پوری کیسے ہوگی.جب اللہ تعالیٰ

Page 57

اس کام کو کرنا چاہتا ہے تو وہ ضرور کر دے گا.اگر اللہ تعالے کا یہی منشار ہے کہ روپیہ پورا نہ ہو تو وہ اس کے بغیر بھی کام کر دے گا.پس رقم کو پورا کرنے کے خیال سے زیادہ زورمت دو.کارکنوں کا کام صرف یہی ہے کہ تحریک دوسروں کو پہنچا دیں اور دس پندرہ دن کے بعد پھر یاد دہانی کر دیں.اسی طرح جماعتوں کے سکرٹری بھی احباب تک اس تحریک کو پہنچا دیں.یہ کسی کو نہ کہا جائے کہ اس میں حصہ ضرور نو جو کہتے ہیں ہمیں توفیق نہیں انہیں مت کہو کہ حصہ لیں.کیونکہ مخداتعالے نہیں چاہتا کہ جو باوجود توفیق کے اس میں حصہ نہیں لیتے ان کا حصہ اس پاک تحریک میں شامل ہو.اگر ایسا شخص دوسروں کے زور دینے پر حصہ لیگا تو وہ ہمارے پاک مال کو گندہ کرنے والا ہوگا.لپس ہمارے پاک مالوں میں اُن کے گندے مال شامل کر کے ان کی برکت کم نہ کرو بے ساڑھے تیرہ سو سال قبل کی تحریک ضرت علیہ الی الثانی نے ان سکیم کا نام تاریک جدید معین اس لئے رکھا تھا کہ بعض لوگوں کے لئے جدید چیز لذیذ ہوتی ہے.ورنہ اس تحریک کا مقصد دراصل مجماعت احمدیہ کو اسلام کے عہد اول میں ساڑھے تیرہ سو سال پیچھے لے جانا تھا.اس اعتبار سے یہ ایک ایسی قدیم تحریک تھی جس کا لفظ لفظ قرآن مجید سے ثابت کیا جا سکتا ہے.اسی لئے حضور نے اوائل ہی میں بتا دیا تھا کہ :- به سمت خیال کرو کہ تحریک بعدید میری طرف سے ہے.نہیں بلکہ اس کا ایک ایک لفظ میں قرآن کریم سے ثابت کر سکتا ہوں اور ایک ایک حکم رسول کریم کے ارشادات میں دکھا سکتا ہوں.مگر سوچنے والے دماغ اور ایمان لانے والے دل کی ضرورت ہے.پس یہ خیال مت کرو کہ جو میں نے کہا ہے وہ میری طرف سے ہے بلکہ یہ اس نے کہا ہے جس کے ہاتھ میں تمہاری بیان ہے.میں اگر مر بھی جاؤں تو وہ دوسرے سے یہی کہلوائے گا اور اُس کے کرنے کے بعد کسی اور سے.بہر حال چھوڑے گا نہیں جب تک تم سے اس کی پابندی نہ کرائے.یہ پہلا قدم ہے اور اس کے بعد اور بہت سے قدم ہیں.یہ سب باتیں قرآن مجید میں موجود ہیں.اور جب تم پہلی باتوں پر عمل کر لو گے تو پھر اور بتائی بھائیں گی" سے اسی مضمون کو دوسرے الفاظ میں یوں بیان فرمایا کہ تحریک جدید کوئی نئی تحریک نہیں ہے بلکہ یہ وہ قدیم تحریک ہے جو آج سے ساڑھے تیرہ سو سال پہلے دسمبر ۱۹۳۹ ل الفضل " ۱۳ دسمبر ۱۹۳۲ صفحه ۹۱۰۰۹ ه خطبه بیعه فرموده ۱۳ در مطبوعہ الفضل و دسمبر د سفر الکام

Page 58

I رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ جاری کی گئی تھی.انجیل کے محاورہ کے مطابق یہ ایک پرانی شراب ہے جو نئے برتنوں میں پیش کی جارہی ہے.مگر وہ شراب نہیں جو بد مست کر دے اور انسانی عقل پر پردہ ڈال دے بلکہ یہ وہ شراب ہے جس کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے لَا فِيهَا غَدَل وَلَا هُمْ عَنْهَا يُتزَفُونَ (الفت نے بیعنی اس شراب کے پینے سے نہ تو سر دکھینگا اور نہ بکو اس ہوگئی کیونکہ اس کا کرشمہ وہ الہی نور ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں لائے لے تحریک مریم کے کامیاب ہونے حضرت امیرالمومنین نے بھی تحریک جدید کے مطالبات سے تعلق خطبات کا سلسلہ جاری نہیں فرمایا تھا کہ حضور نے تحریک جدید کے کامیاب ہونے کی کی عظیم الشان پیشگوئی ماهی میگونی فرانی که واضح ا اگر تم سب کے سب بھی مجھے چھوڑ دو تب بھی خدا غیب سے سامان پیدا کر دے گا.لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ جو بات خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السّلام سے کہی اور حسین کا نقشہ اُس نے مجھے سمجھا دیا ہے وہ نہ ہو.وہ ضرور ہو کر رہے گی بخواہ دوست دشمن سب مجھے چھوڑ جائیں.خدا خود آسمان سے اثر سے گا اور اس مکان کی تعمیر کر کے چھوڑے گا " سلے -۲ باوجودیکہ ہم نہ تشدد کرینگے اور نہ رسول نافرمانی، با وجودیکہ ہم گورنمنٹ کے قانون کا احترام کرینگے، باوجود اس کے کہ ہم ان تمام ذمہ داریوں کو ادا کرینگے جو احمدیت نے ہم پر عائد کی ہیں اور با وجود اس کے کہ ہم ان تمام فرائض کو پورا کرینگے جو خدا اور اس کے رسول نے ہمارے لئے مقرر کئے، پھر بھی ہماری سکیم کامیاب ہو کے رہے گی گیشتی احمدیت کا کپتان اس مقدس کشتی کو پر خطر چٹانوں میں سے گزارتے ہوئے سلامتی کے ساتھ اُسے ساحل پر پہنچا دے گا.یہ میرا ایمان ہے اور میں اس پر مضبوطی سے قائم ہوں جن کے سپرو الہی سلسلہ کی قیادت کی جاتی ہے اُن کی عقلیں اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے تابع ہوتی ہیں اور وہ خدا تعالیٰ سے نور پاتے ہیں اور اُس کے فرشتے اُن کی حفاظت کرتے ہیں اور اُس کی رحمانی صفات سے وہ مرید ہوتے ہیں اور گو وہ دُنیا سے اُٹھ جائیں اور اپنے پیدا کرنے والے کے پاس چلے جائیں مگر اُن کے جاری کئے ہوئے کام نہیں رکھتے اور اللہ تعالیٰ انہیں مفلح اور منصور بناتا ہے " سے - له الفضل واجون و سلم (تقریر فرموده اسم جوئی ) سے افضل اور میری یہ صفحہ ہم کالم ۰۳ الفضل" در نومبر دو صفحه ۷۸الم ۷۲

Page 59

نیز فرمایا :- ۳۳ میں یقین رکھتا ہوں، عالی یقین نہیں بلکہ ایسا یقین جس کے ساتھ دلائل میں اور جس کی ہر ایک کڑی میرے ذہن میں ہے اور اس یقین کی بناء پر میں کہتا ہوں کہ گو جوشیلے لوگوں کو وہ سکیم پسند نہ آئے لیکن ہماری جماعت کے دوست اس کیم پر سچے طورپر میل کریں تو یقینا یقیناً فتح ان کی ہے " کمزور طبع احمدیوں کا اضطراب اور جماعت احمدیہ کے مخلصین نے اس تحریک پر کس شاندار طریق سے لبیک کہا.اس کا ذکر اگلی فصل میں آرہا ہے.اس جگہ ہم بتانا چاہتے حضرت امیر المومندی کا ایمان افروز جواب ہیں کہ منافقین پر اس تحریک کا کیا رد عمل ہوا.حضرت خلیفہ ایسے الی مینی اللہ عنہ فرماتے ہیں :- گئی نادان ہم میں ایسے بھی ہیں کہ جب تحریک بدید کے خطبات کا سلسلہ میں نے شروع کیا تو وہ اور قادیان کے بعض منافق کہنے لگ گئے کہ اب تو گورنمنٹ سے لڑائی شروع کر دی گئی ہے.بھلا گورنمنٹ کا اور ہمارا کیا مقابلہ ہے ان کی اتنی بات تو صحیح ہے کہ گورنمنٹ کا اور ہمارا کیا مقابلہ ہے مگر اس لحاظ سے نہیں کہ گورنمنٹ بڑی ہے اور ہم چھوٹے بلکہ اس لحاظ سے کہ ہم بڑے ہیں اور گورنمنٹ چھوٹی اگر ہم خدا تعالے کی طرف سے کھڑے کئے گئے ہیں اور یقیناً اسی کی طرف سے کھڑے کئے گئے ہیں تو پھر اگر ہم مر بھی جائیں تو ہماری موت موت نہیں بلکہ زندگی ہے....اللہ تعالے کی جماعتیں کبھی مرا نہیں کرتیں حکومتیں مٹ جاتی ہیں لیکن انہی سلسلے کبھی نہیں مٹتے حکومت زیادہ سے زیادہ یہی کرسکتی تھی کہ ہم میں سے بعض کو گرفتار کرلیتی یا بعض کو بعض الزامات میں پھانسی دے دیتی مگر کسی آدمی کے مارے جانے سے تو الہی سلسہ ختم نہیں ہوتا.بلکہ الہی سلسلوں میں سے اگر ایک کرتا ہے تو خدا تعالی اس کی جگہ دس قائم مقام پیدا کر دیتا ہے" سے تحریک بدید کی تفصیلات ” الفضل" کے ذریعہ منظر عام پر آئیں تو کئی غیر امریکی تحریک جدید کا اثر غیروں پر اصحاب حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسے بہت پسند کیا.اور بعض غیر احمدی امراء کے گھرانوں نے اس کے بعض مطالبات اپنے ہاں رائج بھی کر لئے.اسی طرح ہندوؤں اور سکھوں کے متعدد خطوط موصول ہوئے جن سے معلوم ہوتا تھا کہ یہ لوگ تحریک جدید سے بہت متاثر ہیں اور اس کے " نه تخلیه مینه فرموده هم جنوری ۱۱۳ مطبوعه الفضل در جنوری ۱۹۳ صفحه به کالم ۹۳ نے رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۷ صفحه ۲۱-۲۲ *

Page 60

ایک حصہ پرعمل پیرا ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں.لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سر جان ڈگلس بینگ نے اس تحریک کا ذکر سُن کر اُسے خوب سراہا.غرضکہ یہ تحریک اتنی مفید تھی کہ اختیار کو بھی اس کی خوبیاں نظر آئیں لیے تحریک جدید کا ذکر تحریک مدیر کی اس سکیم کا چر چا کی پریس میں بھی ہوا چنانچہ اختیار انقلاب کو اور ملگی پریس میں نے اور یہ راستہ کی اشاعت میں یہ نوٹ شائع کیا کہ احمدیوں کے امام نے اپنے پیروؤں کو حکم دیا ہے کہ وہ آئیندہ تین سال تک سنیما، تھیٹر، سرکس وغیرہ ہر گز نہ دیکھیں.کھانے اور پہننے میں انتہائی سادگی اختیار کریں بلا ضرورت نئے کپڑے نہ بنائیں بہا تک ہو سکے موجودہ کپڑوں میں ہی گزران کریں اور تبلیغ کے لئے چندہ دیں.عام مسلمانوں میں سے جن حضرات نے آجکل قادیانیوں کے خلاف مہم شروع کر رکھی ہے انہیں چاہیئے کہ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں اور عام مسلمانوں سے حلف لیں کہ وہ آئیندہ سنیمانہ دیکھیں گے تھیٹر نہ بھائیں گے.سرکس کا تماشہ نہ دیکھیں گے.نیا کپڑا انتہائی مجبوری کے سوانہ بنائیں گے.ایک وقت کے کھانے میں صرف ایک سالن پکا کے کھائیں گے اور تبلیغ اسلام کے لئے اتنا چندہ ہر مہینے ضرور دیں گے.مقابلہ اور مسابقہ اگر ایسے طریقے سے ہو کہ اس سے ملت کو فائدہ پہنچے تو سبحان اللہ کیا عجب ہے کہ جو مسلمان اپنے لیڈروں کے بہیم شور و غوغا کے باوجود اپنی اقتصادی اصلاح کی طرف متوجہ نہیں ہوئے وہ قادیانیوں کی ضد ہی سے اس طرف متوجہ ہو جائیں.لیکن ہمارے ہاں ضد دوسرے رستے پر بھی رواں ہو سکتی ہے ممکن ہے بعض ایسے حضرات بھی پیدا ہو جائیں جو قادیانیوں کے ترک سنیما کو بھی شیوہ احمدیت قرار دیں اور خود سنیما دیکھنا شروع کر دیں اور جو شخص سنیما دیکھنے سے انکار کرے اُسے قادیانی مشہور کر دیں کیونکہ مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ منهم اگر قادیانی ایک وقت میں ایک سالن کے ساتھ روٹی کھائیں تو ہر مسلمان کم سے کم دو قسم کا سالن پکائے ورنہ تشبیہ کی وجہ سے وہ بھی قادیانی سمجھا جائے گا.خدا کر ہے ایسی ضد پیدا نہ ہو جائے بلکہ اول الذکر مسابقت شروع ہوتا کہ مسلمانوں کو اقتصادی اعتبار سے فائدہ پہنچے" لکھا:.ہندو اخبار ملاپ“ نے لکھا :- "احمدی خلیفہ کا قابل تقلید محکم.قادیانی احمدیوں کے خلیفہ صاحب نے اپنے پیروؤں کے " له الفضل میر صفر ۴ کالم - الفصل ار جولائی ۳۹اد صفحه کالم ۳ و ۴ - الفضل ۱۶ اپرین ما و صفی له " انقلاب " لاہور ۴ دسمبر ۹۳ +

Page 61

WN نام ہے حکم جاری کیا ہے کہ وہ آئیندہ تین سال تک سنیما تھیٹر.سرکس وغیرہ ہرگز نہ دیکھیں اور کھانے پینے میں انتہائی سادگی اختیار کریں.بلا ضرورت کپڑے نہ بنائیں.جہانتک ہو سکے موجودہ کپڑوں میں ہی گذران کریں اور تبلیغ کے لئے چندہ دیں ، یہ حکم بلا شک و شبہ قابل تقلید ہے خصوصاً ہندوؤں کے لئے جو وید پر چار کو بالکل فراموش کر بیٹھے ہیں حالانکہ وید پر چار میں ہندوؤں کی زندگی ہے.کیا ہی اچھا ہو کہ ہندو بھی فیصلہ کر لیں کہ وہ اپنا روپیہ زیادہ تر وید پر چار ہی کے ذریعہ خرچ کریں گے " سے فصل سوم مطالبات تحریک جدید جماعت احمدی کیا ہے الا قائی انا استاه اور غیروں فیون کا خرای تنسین تحریک جدید کی سکیم اگرچہ انتہائی نا موافق اور از حد پر خطر حالات میں بھاری کی گئی تھی.مگر صورت حال مینی بزرک تھی اتنا ہی شاندار خیر مقدم اس کا جماعت احمدیہ کی طرف سے کیا گیا جیساکہ حضرت خلیفہ بیع الثانی نےارشاد فرمایا.جس جوش اور حسین جذبہ اور ایثار کے ساتھ جماعت کے دوستوں نے پہلے سال کے اعلان کو قبول کیا تھا اور حسن کم مائیگی اور گردوری کے ساتھ ہم نے یہ کام شروع کیا تھا وہ دونوں باتیں ایمان کی تاریخ میں ایک اہم حیثیت رکھتی ہیں....وہ اس بات کی شہادت دے رہی تھی کہ گذشتہ انبیاء کی جماعتوں کو ایسی مشکلات سے ہی دو چار ہونا پڑا ہے.پس وہ بے بسی ، بیکسی اور کم مائیگی بھی مومنوں کی بیماعت سے ہے وی جماعت کو ملاتی تھی اور وہ ہوش اور وہ جذبہ اور ایثار ہو جماعت نے دکھایا.وہ بھی ہمیں مومنوں کی معیت سے ملاقا تھا.گویا اد کا نومبر ایک نشان تھا سلسلہ احمدیہ کے مخالفوں کے لئے ، وہ ایک دلیل اور به روزنامه طلاب در دیگر اس نے یعنی کم مائیگی.دریا قالی

Page 62

۳۵ برسان تھا سوچنے اور غور کرنے والوں کے لئے کہ یہ جماعت خدا کی طرف سے ہے اور یہ ان ہی قدمون پر چل رہی ہے جن پر گذشتہ انبیاء کی جماعتیں چلتی چلی آئی ہیں" ہے جماعت احمدیہ کے حیرت انگیز جذبہ ایثار و قربانی کا اندازہ کرنے کے مالی مطالبات اور جماعت احمدیہ لئے ہم سب سے پہلے تحریک جدید کے مالی مطالبات کو لیتے ہیں.حضور نے پہلے سال کے لئے ساڑھے ستائیس ہزار چندہ کا مطالبہ فرمایا تھا مگر جماعت نے ڈیڑھ ماہ کے قبیل عرصہ میں ۳۲ ہزار روپیہ نقد اپنے امام کے قدموں میں ڈال دیا اور ایک لاکھ سے زائدہ کے وعدے پیش کر دیئے.چنانچہ ۲۴ جنوری ۱۹۳۶ء کو حضور نے اعلان فرمایا کہ: " الحمد للہ رب العلمین کہ جماعت احمدیہ کے مخلصین نے میری مالی تحریک کا جو جواب دیا ہے وہ مخالفوں کی آنکھیں کھولنے والا اور معاونوں کی ہمت بڑھانے والا ہے چونکہ سب نیکیوں کا مر یا الہ الفت کی ذات ہے اس لئے میں اُسی پاک ذات کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس نے ہمیں اپنی محبت کے اظہار کا ایک حقیر سا موقعہ دے کر ہماری حوصلہ افزائی فرمائی.چندوں کی تحریک ساڑھے ستائیں ہزارہ کی تھی اس کے متعلق اس وقت کی فقہ تینتیس ہزار رقم آپکی ہے اور پندرہ جنوری سے پہلے ارسال شدہ وعدے کی ایک اور چھینیں ہیں جو مطلوبہ رقم سے پونے چار گنے زیادہ ہیں اور ابھی بیرون ہند کے وعدے آرہے ہیں لیے امانت فنڈ امانت فنڈ کی تحریک بھی جماعت میں بہت مقبول ہوئی اور مخلصین نے اس میں بڑھ چڑھ کر مہ لیا.چنانچہ ۲۶ جنوری ۱۳ تک اس فنڈ میں پانچ ہزار کے قریب جمع ہوا.اور پھر جلد ہی ساڑھے پانچ ہزار روپیہ ماہوار کے قریب آمد ہونے لگی ھے # امانت فنڈ کا تذکرہ کرتے ہوئے ضمنا یہ بتانا ضروری ہے کہ امانت فنڈ کی تحریک نے احتدار اور + والفضل ۲ دسمبر ۱۹۲۹ء صفر ۳ کالم کے " " الفصل ۲۴ جنوری ۱۹۳۵ در صفحه با کالم ).سے مطالبہ امانت فنڈ کے علاوہ مالی مطالبات کی چار ملات میں پہلے سال تفصیل ذیل آمد ہوئی.گندے لٹریچر کا جواب (۳۷۵۰۰ روپے) ۲- تبلیغ بیرون ہند (۳۲۴۴۳ روپی) ۳- تبلیغ خاص (۲۲۹۶۱ روپے ) تبلیغ سروے سیکیم (۱۷۴۴۴ روپے) یہ چاروں ملیں حضور کے ارشاد پر چندہ تحریک عدید سے موسوم کی گئیں ، ر کتاب تحریک جدید کے پانچ داری مجاهدین مرتبه خود هری برکت علی خانی مندا) ۲۴ کے " الفضل امور جنوری ۹۳ : * هم " الفضل " ۳ دسمبر ۳۶ صفحه ،.

Page 63

۳۶ اس کے بعد دوسرے فتنوں کا سر کھلنے میں نمایاں حصہ لیا ہے.بچنا نچہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی فرماتے ہیں: امانت فنڈ کے ذریعہ احرار کو خطرناک شکست ہوئی ہے.اتنی خطر ناک شکست کہ میں سمجھتا ہوں کہ اُن کی شکست میں ۲۵ فیصدی حصہ امانت فنڈ کا ہے.لیکن باوجود اس قدر فائدہ حاصل ہونے کے دوستوں کا تمام روپیہ محفوظ ہے.“ غرض یہ تحریک ایسی اہم ہے کہ میں تو جب بھی تحریک جدید کے مطالبات پر غور کرتا ہوں اُن میں سے امانت فنڈ کی تحریک پر میں خود حیران ہو جایا کرتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ امانت فنڈ کی تحریک الہامی تحریک ہے کیو نکہ بغیر کسی بوجھ اور غیر معمولی چندہ کے اس فنڈ سے ایسے ایسے اہم کام ہوئے ہیں.کہ جاننے والے جانتے ہیں وہ انسان کی عقل کو حیرت میں ڈال دینے والے ہیں " سے حق یہ ہے کہ مالی مطالبات پر جماعتی اخلاص کا یہ غیر معمولی نمونہ حضرت خلیفہ ایسیح الثانی کی دعائیں حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی خاص دعاؤں کا نتیجہ تھا.چنانچہ حضور شود بھی فرماتے ہیں :.میں نے جب تحریک جدید بھاری کی تو میں نے جماعت کے دوستوں سے ۲۷ ہزار کا مطالبہ کیا تھا اور میں آپ لوگوں کو یقین دلاتا ہوں کہ میرا نفس اس وقت مجھے یہ کہتا تھا کہ ۲۷ ہزار روپیہ بہت زیادہ ہے یہ جمع نہیں ہو گا مگر میرا دل کہتا تھا کہ اس قدر روپیہ کے بغیر کام نہیں چل سکتا.چنانچہ گو میں یہی سمجھتا تھا کہ اتنا روپیہ جمع نہیں ہو سکتا ، دینی ضرورتوں کو دیکھتے ہوئے میں نے تحریک کہ دی اور ساتھ ہی دعائیں شروع کر دیں کہ خدا یا ضرورت تو اتنی ہے مگر جن سے میں مانگ رہا ہوں ان کی موجودہ حالت کو دیکھتے ہوئے میں امید نہیں کرتا کہ وہ اس قدر روپیہ جمع کر سکیں تو خود ہی اپنے فضل سے ان کے دلوں میں تحریک پیدا کر کہ وہ تیرے دین کی اس ضرورت کو پورا کریں.نتیجہ یہ ہوا کہ جماعت نے بجائے ستائیس ہزارہ کے ایک لاکھ دس ہزار کے وعدے پیش کر دیئے.پھر وصولی بھی ہو گئی " سے اور دعاؤں کی قبولیت کے اس نشان نے دشمنان احمدیت کو بھی ورطہ حیرت صدر مجلس احرار کا اقرار میں ڈال یا چنانچہ مولی حبیب ارمین صاحب لدھیانوی مد لب احرار " الفضل "مدار فروری ان صفحه و الفضل" بم دسمبر ۱۹۳۷ صفحه ۱۴+ نہ رپورٹ مجلس مشاورت " ۶۱۹۳۳ صفحه ۱۰۳ ۱ ۱۰۴ و اعر

Page 64

۳۷ نے ا پریل ۹۳۶ہ کو ایک تقریر کے دوران تحریک جدید کی کامیابی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا :- ہم میاں محمود کے دشمن ہیں وہاں ہم اس کی تعریف بھی کرتے ہیں.دیکھو اس نے اپنی ائس جماعت کو جو کہ ہندوستان میں ایک تنکے کی مانند ہے کہا کہ مجھے ساڑھے ستائیں ہزار روپیہ چاہیئے.جماعت نے ایک لاکھ دے دیا ہے.اس کے بعد گیارہ ہزار کا مطالبہ کیا تو اسے دگنا تگنا دے دیا سے مخلصین جماعت کی اس بے نظیر مالی قربانی میں خدا تعالے کا ایک عجیب تعریف کار فرما تھا.خدائی تصرف جس کی تفصیل خو حضور ہی کے الفاظ میں لکھنا ضروری ہے، حضور فرماتے ہیں.اس وقت ہماری مالی حالت اتنی کمزور تھی کہ تبلیغی ٹریکٹیوں کی اشاعت تک سے ہم عاجز تھے.ایسے حالات میں میں نے تحریک جدید جباری کی اور اس کا ایک حصہ ریمز رو فنڈ کا رکھا.جب تمیں نے اس کے لئے تحریک کی تو مجھے پتہ نہ تھا کہ میں کیا بول رہا ہوں.اس وقت میں نے جو تقریر کی اس کے الفاظ کچھ ایسے مہم تھے کہ جماعت نے سمجھا کہ تین سال کے لئے چندہ مانگ رہے ہیں.اور وہ اکٹھا دیتا ہے.نتیجہ یہ ہوا کہ مثلاً کسی کا ارادہ سور و پیر سال میں دینے کا تھا تو اس نے تین سال کا چندہ تین سو رو پیدا کٹھا دے دیا.ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے صحیح مفہوم سمجھا.مگر ایسے بھی تھے جنہوں نے غلط سمجھا اور اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل ہوا کہ ایک لاکھ سات ہزارہ کے وعدے ہوئے جب دوسرے سال کے لئے تحریک کی گئی تو بعض لوگ کہنے لگے ہم نے تو تین سال کا اکٹھا چندہ دے دیا تھا اب ہمیں کیا کرنا چاہیے.میں نے کہا یہ طوعی چندہ ہے آپ اب نہ دیں.مگر انہوں نے کہا ہم تکلیف اٹھائیں گے اور خواہ کچھ ہو اب بھی ضرور چندہ دیں گے.اسی طرح انہوں نے تین سال کے لئے ہو اکٹھا چندہ دیا تھا دوسرے سال اس سے زیادہ دیا کیونکہ وہ مجبور ہو گئے کہ اپنے اخلاص کو قائم رکھنے کے لئے چندہ پہلے سے بڑھا کر دیں.بعض مخلص ایسے بھی تھے جنہوں نے اپنا سارا کا سارا افضل 4 اپریل صفوی) کالم وہ جماعت احمیہ کی شاندار مالی قربانی کے مقابل عوام نے دس کرد مسلمانان ہندی مائندگی کے دو یا ایک ساتھ کیا سلوک کیا؟ اس کی فقط ایک مثال کافی ہے.ارنومبر ۹۳۵ار کو مولوی عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری امیر شریعت احرار نے مسجد خیر الدین امر تسر میں ایک تقریر کی.الفضل کے نامہ نگار خصوصی برای مطابق بخاری صاحب نے کہا.مسلمانو یا لیکن تم کو چھوڑنے کا نہیں ہوں.مرتے دم تک نہیں چھوڑوں گا بلکہ مر کر بھی نہیں چھوڑوں گا کیونکہ مرنے کے بعد میرا بیٹا تم سے چندہ لے گا جب میں تم کو نہ اس جہان میں چھوڑنے والا ہوں میں جہاں میں تو پھر انہیں چندہ دینے میں کوئی عندا نہیں ہوتا چاہیئے (یہ کہکر انہوں نے حاضرین کی طرف دیکھنا شروع کیا.مگر ان کے کاسہ گدائی میں کسی نے ریگ جبتہ تک نہ ڈال) پھر کہا بولتے کیوں نہیں چُپ کیوں ہو گئے.کیسے ڈھیلے کرد.لوگوں نے اٹھ کر جانا شروع کر دیا" (الفصل الار قومبر ۱۹۳۹ صفر و کالم ۴) "

Page 65

KA اندوختہ دے دیا تھا.ایک نے لکھا.دوسرے سال میں نے شرم کی وجہ سے بتایا نہیں تھا.میں نے اپنی کچھ اشیا بیچ کر چندہ دیا تھا.پھر میرے سال سب کچھ بیچ کر چندہ دے چکا ہوں.اب رقم کم کرنے پر مجبور ہوں.لیکن نویں سال میں لکھا کہ خدا تعالیٰ نے کچھ رقم جمع کرنے کی توفیق عطا کی اس لئے پہلے کی طرح ہر سال کا چندہ بڑھا کہ ادا کروں گا.در اصل جب میں تحریک جدید کے چندہ کا اعلان کر رہا تھا تھا.خدا تعالے ۲۵ لاکھ ریزرو فنڈ کی تحریک جو پہلے کی گئی تھی اسے کامیاب بنانے کی بنیاد رکھوا رہا تھا.میرا شروع سے ارادہ تھا کہ اس چندہ سے ریند و فنڈ قائم کیا جائے ہو تبلیغ اور سلسلہ کے دوسرے کاموں میں کام آئے.میں نے اس روپیہ سے زمین خریدی جو ساڑھے نو ہزار ایکڑ ہے اور تحریک جدید کی ملکیت ہے “ اے تحریک جدید کا خوشگوار اثر تحریک جدید کی ایک عجیب برکت یہ نازل ہوئی کہ جہاں اس سے پہلے مبیت صدر امین احمدیہ کے چندوں پر امیہ کے عام چندوں کی رفتا کچھ حصہ سے نبی است ہو چکی تھی اس پر میں ہیں.میں بھی تیزی پیدا ہوگئی بچنانچہ حضور فرماتے ہیں :.پر ” خدا تعالے کی قدرت ہے.اس سے پہلے صدرا نمین احمدیہ ہمیشہ مقروض رہا کرتی تھی اور اُسے اپنا بجٹ ہر سال کم کرنا پڑتا تھا جب میں نے اس تحریک کا اعلان کیا تو ناظروں نے میرے پاس آآکر شکایتیں کہیں کہ اس تحریک کے نتیجہ میں انہین کی حالت خراب ہو جائے گی.میں نے اُن سے کہا کہ تم عقد العالی پر توکل کرو اور انتظار کرو اور دیکھو کہ حالت سدھرتی ہے یا گرتی ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کریا تو صدر انجین احمدیہ کا بجٹ دو اڑھائی لاکھ روپیہ کا ہوا کرتا تھا اور یا اس تحریک کے دوران میں چار پانچ لاکھ روپیہ تک جاپہنچا.ادھر جماعت نے تحریک جدید کی قربانیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا شروع کر دیا اور خدا تعالیٰ کے فضل سے پہلے سال کے اندر ہی مطالبہ سے کئی گنا زیادہ رقم جمع ہو گئی.جب میں نے پہلے دن جماعت سے ۲۷ ہزار روپیہ کا مطالبہ کیا ہے تو واقعہ میں میں یہی ہو سمجھتا تھا کہ میرے مونہہ سے یہ رقم تو نکل گئی ہے مگر اس کا جمع ہونا بظاہر بڑا مشکل ہے.اللہ تعالے کا یہ کسی قدر عظیم الشان فضل ہے کہ ۲۷ ہزار کیا اب تک ۲۷ ہزار سے پچاس گئے سے بھی زیادہ رقم آچکی ہے" لکھے تقریر فرموده ۲۷ دسمبر (غیر معبود تقری شعبہ رو نویسی میں موجود ہے او سل العقل " سر فرودی و صفحه با به لیکن

Page 66

۳۹ مالی مطالبات پر سب پہلے حضت ما امینی ای ایم ای منی شا ہ کی آواز پر ایک کتے ہوئے جس جماعت نے نہایت ہی اعلیٰ نمونہ پیش کیا وہ قادیان کی جماعت تھی.لبیک کہنے والی جماعتیں چنانچہ حضور رضی اللہ عنہاس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں.سب سے زیادہ قربانی کی مثال اور اعلیٰ نمونہ قادیان کی جماعت نے دکھایا ہے یہاں کی احمدی آبادی سات ہزار کے قریب ہے.پنجاب میں احمدیوں کی آبادی سرکاری مردم شماری کے رو سے استہ میں ۵۶ ہزار تھی جو بہت کم ہے.لیکن اگر ہم اسی کو درست سمجھ کر آج.، ہزار بھی سمجھ لیں.تو گویا قادیان کی جماعت سارے پنجاب کا دسواں حصہ ہے.لیکن ۲۷ ہزار روپیہ کی تحریکات میں قادیان کی جماعت کی طرف سے پانچ ہزار روپیہ نقد اور وعدوں کی صورت میں آیا ہے اور ایسے ایسے لوگوں نے اس میں حصہ لیا ہے کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے.اگرچہ مجھے افسوس ہے کہ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو زیادہ حصہ لے سکتے تھے مگر کم لیا ہے.مگر ایک خاصی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جنہوں نے اپنی حیثیت اور طاقت سے زیادہ حصہ لیا ہے.بعض لوگ تو ایسے ہیں جنہوں نے اپنا سارا اندوختہ دے دیا ہے بعض ایسے ہیں جن کی چار چار پانچ پانچ روپیہ کی آمدنیاں ہیں اور انہوں نے کمیٹیاں ڈال کر اس میں حصہ لیا یا کوئی جائداد فروت کر کے تو کچھ جمع کیا ہوا تھا وہ سب کا سب دے دیا ہے.باہر کی جماعتوں میں سے بعض کے جواب آئے ہیں اور بعض کے ابھی نہیں آئے اور نہ ہی آسکتے تھے بر طا ہر حال معلوم ہوتا ہے کہ قادیان کی بہت بڑھ جاتی ہے خوشی ہے کہ قادیان کی جماعت نے حسب دستور اس موقعہ پر بھی اعلی درجہ کا نمونہ دکھایا ہے.باہر کی جماعتوں میںسے بھی بیش نے اخلاص کا عمدہ نمونہ دکھایا ہے اور بعض نے تو اتنی ہوشیاری سے کام لیا ہے کہ حیرانی ہوتی ہے مثلاً لاہور چھاؤنی کی جماعت کا وعدہ قادیان کی جماعت کے وعدہ کے ساتھ ہی پہنچ گیا تھا.کوئی دوست یہاں سے خطہ سن کر گیا اور اُس سے سُن کر دوست فوراً اکٹھے ہوئے اور تحریک میں شامل ہو گئے.اور جس وقت مجھے قادیان والوں کی رپورٹ ملی اسی وقت پھر چھاؤنی کی مل گئی....سرسری اندازہ یہ ہے کہ چودہ دن کے اندر اندر پندرہ ہزار کے قریب دھد سے اور نقد روپیہ آچکا ہے میں میں سے چار ہزار کے قریب نقد ہے اور ابھی جماعت کا بہت سا حصہ خصوصا وہ لوگ جن کی آمدنیاں زیادہ ہیں خموش ہے یا اس انتظار میں ہے کہ جماعت کے ساتھ وعدہ بھیجوائیں گے لیکن دوسری طرف متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے یا غرباء میں سے بعض ایسے ہیں کہ جن کے پاس پیسہ نہیں تھا اور انہوں نے چیزیں پیش کر دیں اور کہا

Page 67

م کہ ہمارا اثاثہ لے لیا جائے اگر چہ ہم نے لیا نہیں.کیونکہ میرے اصل مخاطب امرار تھے.مگر اس سے اتنا پتہ تو لگ سکتا ہے کہ جماعت میں ایسے مخلصین بھی ہیں جو اپنی ہر چیز قربان کر دینے کے لئے تیار ہیں.اس سلسلہ میں مجھے یہ شکایت پہنچی ہے کہ بعض جماعتوں کے عہدیدار لوگوں کو یہ کہ کر خموش کر رہے ہیں کہ جلدی نہ کرو پہلے غور کر لو.گویا اُن کے غور کا زمانہ ابھی باقی ہے.ڈیڑھ دو مہینہ سے میں خطبات پڑھ رہا ہوں اور تمام حالات وضاحت سے پیش کر چکا ہوں لیکن ابھی ان کے غور کا موقعہ ہی نہیں آیا.یہ مشورہ کوئی نیک مشورہ نہیں یا سادگی پر دلالت کرتا ہے یا شاید بعض خود قربانی سے ڈرتے ہوں اور دوسروں کو بھی اس سے روکنا چاہتے ہوں کہ ان کی شستی اور غفلت پر پردہ پڑا رہے.کیا رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بہار کے موقعہ پر پہلے غور کیا جاتا تھا اور یہ کہا جاتا تھا کہ جلدی نہ کرو خور کر لو.قرآن کریم میں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَاسْتَبِقُوا الخَيْرَاتِ یعنی دوسروں سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو.اور جلدی کی کوشش کرو...جماعتی لحاظ سے بعض مقامات سے مجھے اطلاع موصول ہوئی ہے کہ سماعتیں اپنی لسٹیں کھٹی بھجوائیں گی.گویا دیر اس وجہ سے ہے.ان جماعتوں پر یا ان کے افراد پر کوئی الزام نہیں.مگر ان میں سے بھی بعض مخلصین ایسے ہیں جنہوں نے اس دیر کو بھی برداشت نہیں کیا اور رقمیں بھیج دی ہیں اور جماعت کا انتظار بھی نہیں کیا.یہ گو معمولی باتیں ہیں.مگر روحانی دنیا میں یہی چیزیں ثواب بڑھا دینے کا باعث ہو بھایا کرتی ہیں" سے بیرونی ممالک سے تحریک جدید ) بیرونی مالک میں سب سے پہلے بلاد عربیہ کے احمدیوں نے تحریک جدید پر لبیک کہا اور نہ صرف چندہ کے وعدے بھیجوائے بلکہ اُن کا ایک حصہ نقد کے حق میں آواز بھی بھیجوا دیا.چنانچہ شروع فروری ۱۹۳۶ تک جماعت حیفا کی طرف سے چار سو شلنگ کے وعدے موصول ہوئے جن میں سے بہتر شلنگ کی رقم بھی پہنچ گئی.علاوہ انہیں مدرسہ احمد یہ کیا بیر حیفا) کے احمدی بچوں نے بھی آٹھ شلنگ چندہ بھیجوایا حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے جماعت احمدیہ حیفا کے افراد خصوصاً حیفا احمدی بچوں کا اخلاص اور قربانی کی بہت تعریف فرمائی اور دعا دی کہ اللہ تعالے ان بچوں کے اخلاص کو قبول کرے اور دنیا میں چپکنے والے ستارے بنائے کہ ان کی روشنی سے فلسطین ہی نہیں بلکہ سب دنیا روشن ہو اور یہ احمد میت کی مه خطبه جمعه فرموده ۱۴ دسمبر اس الله والفضل ۲۰ دسمبر ۱۹۳۷ صفحه ۰۶۰۵ سے اسی ضمن میں حضور نے حیفا کی انجمن طلبہ بر جماعت احمدیہ کا ایک خط بھی شائع فرمایا جس پر اسمعیل احمد ( پریذیڈنٹ) موسی اسعد (سیکرٹری) اور عبد الجلیل حسین (خر انجی کے دستخط تھے ،

Page 68

تعلیم پر صحیح طور پر عمل کر کے اللہ تعالے کا قرب پانے والے اور دوسروں کو خدا تعالیٰ کے قریب لانے والے ہوں.یہ بھی پوست کے بھائیوں کی طرح بضاعة مزجاة لائے ہیں.خدا تعالیٰ ان سے بھی وہی سلوک کرے اور انہیں اسلام کا یوسف گم گشتہ ملادے جسے یہ اپنے یعقوب (محمد صل اللہ علیہ وسلم ) کے پاس لاکر اپنی قوم کی گذشتہ کوتاہیوں کی تلافی کر سکیں.، بیرون ہند کی بعض اور مخلص جماعتیں جماعت احمدی حیفا کے معا بعد آبادان (ایران) عدن لنڈن ، بغداد ، کمپالہ ، زنجبار، دار السلام ، ٹانگا نیز بی سرپایا، جاوا ، کولمبو کی طرف سے نہ صرف اخلاص و ایثار سے لبریز خطوط حضرت خلیفہ ایسیح الثانی کے حضور پہنچے بلکہ چندہ کے وعده جات بھی ملے اور نقد رقوم بھی ہے جماعت احمدیہ نے تحریک جدید کے مالی جہاد میں پر جوش حصہ دوسرے مطالبات اور جماعت احمدیہ لینے کے علاوہ دوسرے مطالبات پر بھی شاندار طورپر لبیک کہا.سادہ زندگی مثلا تحریک جدید کا سب سے پہلا مطالبہ جو اسلامی تمدن کی عمارت میں بنیادی اینٹ کی حیثیت رکھتا ہے سادہ زندگی کا مطالبہ ہے.جماعت کے مخلصین نے اس مطالبہ کے مطابق کھانے الباس ، علاج اور سنیما وغیرہ کے بارہ میں اپنے پیارے امام کی ہدایات کی نہایت سختی سے پابندی کی.کھانے کے تکلفات یکسر ختم کر دیئے.بعض نے چند سے زیادہ لکھوا دیئے.اور دو دو تین تین سال تک کوئی کپڑے نہیں بنوائے سکے اکثر نوجوانوں نے سنیما، تھیٹر سرکس وغیرہ دیکھنا چھوڑ دیا اور بعض جو کثرت سے اس کے عادی تھے اس سے نفرت کرنے لگے معرض حضرت خلیفہ ایسی الثانی کی آواز نے جماعت میں دیکھتے ہی دیکھتے ایک زیر دست انقلاب برپا کر دیا.جو دوسرے لوگوں کی نگاہ میں ایک غیر معمولی چیز تھی.چنانچہ اخبار" رنگین (امرتسر) کے سکھ ایڈیٹر ارجن سنگھ عاجز نے لکھا کہ : احمدیوں کا خلیفہ اُن کی گھریلو زندگی پر بھی نگاہ رکھتا ہے اور وقتاً فوقتاً ایسے احکام صادر کرتا رہتا ہے جن پر عمل کرنے سے خوشی کی زندگی بسر ہو سکے.میں یہاں اُن کے خلیفہ کے چند احکام کا ذکر کرتا ہوں جن سے له افضل ، فروری ۱۹۳۵ او صفحه ۳ و ۰۴ ۲ " الفضل " ۱۲ مارچ ۱۹۳۵ : صفحہ ۸ بیرونی جماعتوں کے بعض غرباء نے اس موقعہ پر اخلاص و ایثار کے قابل تقلید نمونے دکھائے مثلا بیرون ہند کی ایک خاتون نے دو برس تک چکی پیس کر تحریک جدید کا وعدہ پورا کیا " الفضل ۱۷ مارچ ۱۹۳۶ از صفحه در کالم ۱-۲ سے افضل د دسمبر دار صفحه 1 ه الفضل " ارجون ۳ صفحه ۹ کالم ۲

Page 69

اندازہ ہو سکے گا کہ یہ جماعت کیوں ترقی کر رہی ہے.ا خلیفہ نے حال ہی میں جو پروگرام اپنے پیروؤں کے سامنے رکھا ہے ، ان میں ایک بات یہ بھی ہے کہ ہر بڑے یا چھوٹے امیر یا غریب کے دستر خوان پر ایک سے زیادہ کھانا نہ ہو.یہ حکم بتی اور اقتصادی پہلوؤں سے پرکھنے کے بعد شاندار نتائج کا ذمہ دار ثابت ہو سکتا ہے.یوں تو ہر ایک ریفاد مرا در عقلمند اپنے پیروڈی کی اس قسم کا حکم دے سکتا ہے لیکن کو نسار لغارمر ہے جو دعویٰ سے کہہ سکے کہ اس کے سو فیصدی مریلے اس کے ایسے حکم کی پوری پوری تعمیل کرنے کے لئے حاضر ہوں گے صرف خلیفہ قادیان کی یہ خصوصیت ہے کہ اس کے ایسے مریدوں نے جن کے دستر خوانی پر درجنوں کھانے ہوتے تھے اپنے خلیفہ کے حکم کے ماتحت اپنے رویہ میں فوری تبدیلی کرلی ہے اور آج کوئی شخص ثابت نہیں کر سکتا کہ کوئی احمدی اپنے خلیفہ کے اس آرڈر کی خلاف ورزی کر رہا ہے..خلیفہ کا حکم ہے کہ تین سال تک نئے زیور نہ بنوائے جائیں.بلا ضرورت کپڑا نہ خریدا جائے عورتیں • اپنے کپڑوں میں گوٹا ، لعیں ، فیتہ یا جھالر وغیرہ کا استعمال ترک کر دیں.حیرت ہے کہ اس حکم کے ماڈ ہوتے ہی تمام احمدی مرد اور عورت میں ہمہ تن گوش ہو جاتی ہیں اور اپنے خلیفہ کے اس اشارہ پر ان تمام چیزوں کو ترک کر دیتی ہیں.یہ اتنی بڑی قربانی ہے جس کا نتیجہ لازما یہ ہے کہ یہ گروہ ہند دوستان میں سب جماعتوں پر سبقت لے بھاوے گا جو لوگ بجذبات پر قابو پانے اور بھائنہ خواہشات کو بھی ترک کرنے پر قادر ہو سکتے ہیں وہ کبھی ناجائز خواہشات کا شکار نہیں ہو سکتے اور ظاہر ہے کہ خواہشات کی پیروی ہی انسان کے تنزل کا ذریعہ ہوتی ہے.پس احمدی اس بارہ میں بھی ممتاز حیثیت رکھتے ہیں.اور ترک خواہشات کی سپرٹ ان کے خلیفہ نے جس ترتبہ اور دانائی سے اُن کے اندر پھونک دی ہے وہ قابل صد ہزار تحسین و آفرین ہے اور مہندوستان میں آج صرف ایک خلیفہ قادیان ہی ہے جو سر بلند کر کے یہ کہہ سکتا ہے کہ اس کے لاکھوں مرید ایسے موجود ہیں جو اس کے محکم کی تعمیل کے لئے حاضر ہیں.اور احمدی نہایت فخر سے کہتے ہیں کہ اُن کا خلیفہ ایک نہایت معاملہ فہم ، دور اندیش اور ہمدرد بزرگ ہے میں نے کم از کم ان کی دنیاوی زندگی کو بہشتی زندگی بنا دیا ہے اور اس کے عالیشان مشورت پر عمل کرنے سے دنیا کی زندگی عزت و آبرو سے کٹ سکتی ہے " ہے لسے سات ادیان صفحه ۱۷-۲۰ ( از ارجن سنگھ حاجز، ایڈیٹر اختیار رنگین امرت سرما

Page 70

۴۳ تبلیغ کے لئے یک ماہی وقت لینے کے لئے یک ماہی وقت کے مطابہ کا جواب میں بہت ترشی تبلیغ تھا ستمبر تک تیرہ سو اصحاب نے اپنی چھٹیاں ملک میں سضا کارام تبلیغ کے لئے وقف کیں.اور شمالی اور وسطی ہند کے علاوہ جنوبی علاقہ مثلاً میسور، مدراس، کولمبو اور بمبئی میں بھی تبلیغی وفود نے کام کیا.ایسے اصحاب کو حضرت خلیفتہ اسی کی طرف سے تحریرات خوشنودی عطا کی بہاتی تھیں ہے تبلیغ کے لئے ایک ایک ماہ وقف کرنے والوں میں قادیان کے لوگ ساری جماعت میں اول رہے ہے سه ساله وقت مولوی فاضل ، بی.اے ، ایف اے اور انٹرنس پاس قریباً دو شو نو جوانوں نے اپنے آپ کو سہ سالہ وقف کے لئے پیش کیا ہے حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :- مهر یہ قربانی کی روح کہ تین سال کے لئے دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کیا جائے اسلام اور ایمان کی رو سے تو کچھ نہیں لیکن موجودہ زمانہ کی حالت کے لحاظ سے حیرت انگیز ہے.اس قسم کی مثال کسی ایک قوم میں بھی جو جماعت احمدیہ سے سینکڑوں گئے زیادہ ہو ملنی محال ہے یہ مکے کئی پیشتر حضرت خلیفہ ایسیح الثانی کے حکم کی تعمیل میں آگے آئے اور مرکز میں کام پیشتر اصحاب کی طرف کرنے لگے مثلاً خانصاحب فرزند علی صاحب ، بابو سراجدین صاحب ، خانصاحب سے بقیت زندگی وقف برکت ملی صاحب ، ملک مواکنش صاحب اور خان بیها در نام محمد صاحب گلگشتی وغیر ہم حضرت امیر المومنین نے اپنے ایک خطہ میں بھی ان کی خدمات کا خاص طور پر ذکر فرمایا.حضور کے اس مطالبہ کے تحت کہ بیکار نوجوان با ہر غیر ممالک میں نیکل بیکار نو جوانوں سے مطالبہ جائیں کئی نوجوان اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے اور نامساعد حالا یکے باوجود غیر مالک میں پہنچ گئے.چنانچہ حضرت خلیفہ اس نے شروع ہ میں بتایا کہ رنگوں سے ابھی ہماری جماعت کے دو دوستوں کا مجھے خط ملا ہے.ان میں سے ایک جالندھر کا اپنے والا ہے اور ایک اسی جگہ کے قریب کسی اور مقام کا.وہ لکھتے ہیں کہ ہم آپ کی اسی تحریک کے ماتحت گھر "الفضل" ۲۹ اگست ۳۲* نے " الفضل " ۲ ستمبر ا : ه " الفضل و اگست ۳۵ ئه صفحه ۳ " الفضل " - ا نومبر 1 و 4 اور الفصل" اور مارچ ۱۹۳۶ میں فہرستیں ملاحظہ ہوں ؟ له الفضل ۲۱ دسمبر 1 صفحه ۴ کالم ۴ دو صفحه د " له الفضل" و دسمبر ۱۳ صفر ۵ + " الفضل " ۲۲ بر الفضل جنوری ۹۳ صرف ۸ کالم ۳ *

Page 71

سے پیدل چل پڑے اور اب پیدل چلتے ہوئے رنگون پہنچے گئے ہیں اور آگے کی طرف بھا رہے ہیں.کیا.جالندھر کیا رنگون ، پندرہ سو میل کا سفر ہے.لیکن انہوں نے ہمت کی اور پہنچ گئے.راستہ میں بیمار بھی ہوئے لیکن دو ماہ بیمار رہنے کے بعد پھر چل پڑے.اب وہ سٹریٹ سیٹلمنٹس کے علاقہ کی طرف بڑھ رہے ہیں.تو ہمت کر کے کام کرنے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے کام کے راستے پیدا کئے ہوئے ہیں کے لئے نیز فرمایا :- ایک نوجوان نے گذشتہ سال میری تحریک کوشنا.وہ ضلع سرگودھا کا باشندہ ہے.وہ نوجوان بغیر پاسپورٹ کے ہی افغانستان جا پہنچا اور وہاں تبلیغ شروع کر دی.حکومت نے اُسے گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا تو وہاں قیدیوں اور افسروں کو تبلیغ کرنے لگا اور وہاں کے احمدیوں سے بھی وہیں واقفیت بہم پہنچائی اور بعض لوگوں پر اثر ڈال لیا.آخر افسروں نے رپورٹ کی کہ یہ تو قید خانہ میں بھی اثر پیدا کر رہا ہے.بلانوں نے قتل کا فتویٰ دیا.مگر وزیر نے کہا کہ یہ انگریزی رھایا ہے.اسے ہم قتل نہیں کر سکتے.آخر حکومت نے اپنی حفاظت میں اسے ہندوستان پہنچا دیا.اب وہ کئی ماہ کے بعد واپس آیا ہے.اس کی ہمت کا یہ حال ہے کہ میں نے اُسے کہا کہ تم نے غلطی کی اور بہت ممالک تھے جہاں تم جا سکتے تھے اور وہاں گرفتاری کے بغیر تبلیغ کر سکتے تھے تو وہ فوراً بول اُٹھا کہ اب آپ کوئی ملک بتا دیں میں وہاں چلا جاؤں گا.اس نوجوان کی والدہ زندہ ہے.لیکن وہ اس کے لئے بھی تیار تھا کہ بغیر والدہ کو ملے کسی دوسرے ملک کی طرف روانہ ہو جائے.مگر میرے کہنے پر وہ والدہ کو ملتے جارہا ہے.اگر دوسرے نوجوان بھی اس پنجابی کی طرح جو افغانستان سے آیا ہے ہمت کریں تو تھوڑے ہی عرصہ میں دنیا کی کایا پلٹ سکتی ہے.روپیہ کے ساتھ میشن قائم نہیں ہو سکتے.اس وقت جو ایک دوشن میں اُن پر ہی اس قدر روپیہ صرف ہو رہا ہے کہ اور کوئی مشین نہیں کھولا جا سکتا لیکن اگر ایسے چند نوجوان پیدا ہو جائیں تو ایک دو سال میں ہی اتنی تبلیغ ہو سکتی ہے کہ دنیا میں دھاک بیٹھے جائے اور دنیا سمجھ لے کہ یہ ایک ایسا سیلاب ہے جس کا رکنا محال ہے" کے ہاتھ سے کام کرنے کے مطالبہ پر جماعت کے افراد نے خاص توجہ دی.ہاتھ سے کام کرنے کا مطالبہ چنا نچہ اس ضمن میں مدرسہ احمدیہ کے اساتذہ اور طلبہ نے اولیت کا " + له ا الفضل " و در جنوری ۱۱۳ صبح کاظم ۲-۴- سے " الفضل" ۳ دسمبر ۱۹۳۵ صفحه ۸-۹ : ی

Page 72

۴۵ شرف حاصل کیا اور مادر سمبر سنہ کو قادیان کے اندرونی حصہ سے ایک ہزار شہتیریاں سالانہ جلسہ گاہ تک پہنچائیں.۹۳۶ لہ سے اس مطالبہ کے تحت اجتماعی وقار عمل“ کا سلسلہ بھاری کیا گیا جیسا کہ آگے ذکر آئے گا.جہانتک قادیان میں مکان بنانے کا تعلق تھا حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی قادیان میں تعمیر مکان کا مطالبہ نے جماعت کے طرز عمل پر اظہار خوشنودی کرتے ہوئے شروع شہر میں فرمایا.جماعت نے اس معاملہ میں بہت کچھ کام کیا ہے.چنانچہ اب دو سو مکان سالانہ خدا تعالیٰ کے فضل سے قادیان میں بن رہا ہے اور بہت سے دوست زمینیں بھی خرید رہے ہیں" ہے جماعت احمدیہ اگر چہ ہمیشہ غلبہ حق کے لئے دُعاؤں میں مصروف رہتی تھی مگر تحریک جدید کے مطالبہ دُعا مطالبات کے ضمن میں حضور رضی اللہ عنہ) نے جو خاص تحریک فرمائی اس کی بناء پر جماعت میں خاص جوش پیدا ہو گیا اور احباب جماعت نے خدا تعالیٰ کے سامنے جبین نیاز جھکانے میں خاص طور پر زور دینا شروع کیا اور نمازوں میں عاجزانہ دکھاؤں کا ذوق و شوق پہلے سے بہت بڑھ گیا اور جماعت میں ایک نئی روحانی زندگی پیدا ہوگئی.فصل چهارم خاندان مسیح موعود کی قربانیاں جس طرح دوسری احمدی جماعت میں قادر ان کی کی نجات نے جے کی جدید کے چندہ اور دوسرے مطالبات کی تکمیل میں سب سے عمدہ نمونہ دکھایا.اسی طرح قادیان کی جماعت میں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خاندان تحریک تجدید کی قربانیوں میں بالکل ممتاز اور منفرد تھا چنانچہ حضرت ام المومنین رضی الل عنها حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ، حضرت مرزا شریف احمد صاحب ، حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ اور صاحبزادی رسیده المتہ الحفیظ بیگم صاحبہ اور خاندان مسیح موعود کے دوسرے افراد نے قربانیوں کی قابل رشک یادگار قائم کی بیے " الفضل " ۵ار فروری ۱۹۳۶ صفحه ۶ کالم ۴ : له الفضل 14 دسمبر ۳ بر صفر ا کالم 1 " سے چندہ کی تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو کتاب "تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین ".

Page 73

خلیفه ای الثانی کا وجود خندان حضرت بی مولوں میں سب سے بڑھ کر میں شخصیت نے تھری جید کے مطالبات پر ٹور کی شان سے عمل کر کے دکھا یا وہ خود حضرت خلیفہ ایسی روانی محتم تحریک جدید بن گیا رضی اللہ عنہ تھے جن کی پوری زندگی تحریک جدید کو کامیاب بنانے میں صرف ہوئی جتنی کہ آپ کا مقدس وجود مجسم تحریک جدید بن گیا.تحریک جدید کے ابتدائی ایام میں حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی کی مصروفیات حضور کی مصروفیات کا یہ عالم تا کہ کبھی ایک بچے رات سے پہلے سو نہیں سکے اور بعض اوقات صبح تین چار بجے تک کام میں منہمک رہے حضور کی بے پناہ مصروفیت کی کسی قد تفصیل حضور کے اپنے ہی الفاظ میں ملاحظہ ہو: ۱۷ ار اکتوبر سالٹ سے لے کر آجتک سوائے چار پانچ راتوں کے میں کبھی ایک بجے سے پہلے نہیں سوسکا اور بعض اوقات دو تین چار بجے سوتا ہوں.بسا اوقات کام کرتے کرتے دماغ معطل ہو جاتا ہے.گر یکیں سمجھتا ہوں کہ جب اسلام کا باطل سے مقابلہ ہے تو میرا فرض ہے کہ اسی راہ میں جان دے دوں اور جس دن ہمارے دوستوں میں یہ بات پیدا ہو جائے وہی دن ہماری کامیابی کا ہو گا.کام جلدی جلدی کرنے کی عادت پیدا کرو.اُٹھو تو جلدی سے اٹھو.چلو تو چستی سے چلو کوئی کام کرنا ہو تو جلدی جلدی کرو اور اس طرح جو وقت بچے اسے خدا کی راہ میں صرف کرد.میرا تجربہ ہے کہ زیادہ تیزی سے کام کیا جا سکتا ہے میں نے ایک ایک دن میں سو سو صفحات لکھے ہیں اور اس میں گو بازوشل ہو گئے اور دماغ معطل ہو گیا.مگر میں نے کام کو ختم کر لیا.اور یہ تصنیف کا کام تھا جو سوچ کر کرنا پڑتا ہے.دوسرے کام اس سے آسان ہوتے ہیں.اسی ہفتہ میں میں نے اندازہ کیا ہے کہ میں نے دو ہزار کے قریب رقعے اور خطوط پڑھتے ہیں اور بہتوں پر جواب لکھے ہیں اور روزانہ تین چار گھنٹے ملاقاتوں اور مشوروں میں بھی صرف کرتا رہا ہوں.پھر کئی خطبات صحیح کئے ہیں.اور ایک کتاب کے بھی دو سو صفحات درست کئے ہیں بلکہ اس میں ایک کافی تعداد صفحات کی اپنے ہاتھ سے لکھی ہے" سے - گمیرا کام سپاہی کی حیثیت رکھتا ہے.میرا فرض یہی ہے کہ اپنے کام پر ناک کی سیدھ پھلتا جاؤں.اور اسی میں بھان دے دوں.میرا یہ کام نہیں کہ عمر دیکھوں.میرا کام یہی ہے کہ مقصود کو سامنے رکھوں "الفضل " ۱۲ فروری ۱۹۳۵ در صفحه ۸ کالم ۱+

Page 74

اور اُسے پورا کرنے کی کوشش میں لگا رہوں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں اس یقین سے کھڑا ہوں کہ یہ مقصود ضرور حاصل ہوگا اور یہ کام پورا ہو کے رہے گا.یہ رات دن میرے سامنے رہتا ہے اور بسا اوقی میرے دل میں اتنا جوش پیدا ہوتا ہے کہ اگر اللہ تعالے کا فضل نہ ہو تو میں دیوانہ ہو جاؤں.اس وقت ایک ہی چیز ہوتی ہے جو مجھے ڈھارس دیتی ہے اور وہ یہ کہ میری یہ سکیمیں سب خدا کے لئے ہیں اور میرا خدا مجھے ضائع نہیں کرے گا ورنہ کام کا اور فکر کا اس قدر بوجھ ہوتا ہے کہ یہ ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ عقل کا رشتہ ہاتھ سے چھوٹے بھائے گا اور میں مجنون ہو جاؤں گا مگر اللہ تعالے نفس پر قابو دیتا ہے.فکمت میں سے روشنی کی کرن نظر آنے لگتی ہے.اور چاروں طرف مایوسی ہی مایوسی کے معاملہ کو اللہ تعالی امید اور خوشی سے بدل دیتا ہے اور اللہ تعالے کا میرے ساتھ یہ معاملہ شروع سے ہے" سے یہ زمانہ ہمارے لئے نہایت نازک ہے.مجھ پر بیسیوں راتیں ایسی آتی ہیں کہ لیٹے لیٹے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جنون ہونے لگا ہے اور میں اٹھ کر ٹہلنے لگ جاتا ہوں.غرض یہی نہیں کہ واقعات نہایت خطر ناک پیش آرہے ہیں.بلکہ بعض باتیں ایسی ہیں جو ہم بیان نہیں کر سکتے.مجھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول یاد آتا ہے.کسی نے ان سے کہا خالد کو آپ نے کیوں معزول کر دیا.آپ نے فرمایا تم اس کی وجہ پوچھتے ہو.اگر میر سے دائن کو بھی پتہ لگ جائے کہ میں نے اُسے کیوں ہٹایا تو یکھیں دامن کو پھاڑ دوں.تو سلسلہ کے خلاف ایسے سامان پیدا ہو رہے ہیں کہ جو غیر کی ذات کے سوا کسی کو معلوم نہیں اور جو کچھ میں بتاتا ہوں وہ بھی بہت بڑا ہے اور اس سے بھی نیند حرام ہو جاتی ہے اور میں اپنے ساتھ کام کرنے والوں کی نیند حرام کر دیا کرتا ہوں...شریعت کہتی ہے کہ اپنے جسم کا بھی خیال رکھو مگر پھر بھی مصروفیت ایسی ہے کہ جسمانی تکلیف کی کوئی پروا نہیں کی جاسکتی “ ہے پھر فرمایا :- بعض لوگوں کو میں نے دیکھا ہے کہ تکلیف سے گھبرا جاتے ہیں یا کہیں زیادہ تنخواہ کی امید ہو تو پہلے جاتے ہیں.بعض کام سے جی چراتے ہیں.بعض کام کے عادی نہیں ہوتے حالانکہ وقف کے معنی یہ ہیں کہ سمجھ لیا جائے اب اسی کام میں موت ہوگی نہ دن کو آرام ہو نہ لة الفضل " الر فروری ۱۹۳۵ صفحه ۶ کالم ۳ + سے رپورٹ مجلس مشاورت ۱۳۶ه صفحه ۰۹۱۹۰

Page 75

PA رات کو نیند آئے.میرا ذاتی تجربہ ہے کہ حقیقی جوش سے کام کرنے والے کی نیند اکثر خراب ہو جایا کرتی ہے.میں نے دیکھا ہے کہ کئی دفعہ چار پائی پر لیٹ کر کئی کئی گھنٹے فکر سے نیند نہیں آتی اور سلسلہ کے کاموں کے متعلق سوچنے اور فکر کرنے میں دماغ لگا رہتا ہے.پس کام کرنے والے کے لئے نیند بھی نہیں ہوتی.قرآن کریم نے جو کہا ہے کہ مومن سوتے وقت بھی اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں اس کا یہی مطلب ہے کہ وہ خدا تعالے کے دین کی فکر میں ہی تھک کر سو جاتے ہیں.اس لئے نیند میں بھی اُن کا دماغ دین کے کام میں لگا رہتا ہے" لے اسی تعلق میں یہ بھی فرمایا :- یا د رکھو اس وقت ہم میدان جنگ میں ہیں اور میدانِ جنگ میں پھلنا پھرنا برداشت نہیں کیا جا سکتا بلکہ دوڑنا چاہیئے.اس وقت ضرورت تھی اس بات کی کہ جماعت احمدیہ کے بچے بچے کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی جاتی کہ ہم اسلام کے لئے قربان ہونے والی بھیڑ ہیں اور بکریاں ہیں اور ہم اس بات کے لئے تیار ہیں کہ ہماری گردنوں پر چھری چلا دی جائے.پھر انہیں رات اور دن یہ بتایا جاتا کہ مغرب کے مذبح پر اپنے آپ کو قربان نہیں کرنا بلکہ مغرب کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دروازہ پر لاکر ذبح کرتا ہے" سے اورحضو مالی اپنی لاکھ تحریک جدید کے ریکارڈ کے مطابق حضور نے کے امیرالمومنین اور نو کے المیت کابینظیر علی جہاد ترتیب خاص سے سال میں ایک کو انڈ ہزار چھ سو چھیاسی (۱۱۸۶۸۶) روپے چندہ تحریک جدید میں عطا فرمائے.علاوہ ازیں اپنی ایک قیمتی زمین تحریک جدید کو مرحمت فرمائی جو تحریک جدید نے ایک لاکھ باون ہزار سات سو (۲,۷۰۰ ۱٫۵ ) روپے میں فروخت کی اس طرح حضور کی طرف سے تحریک جدید کوکل دو لاکھ اکہتر ہزار تین سو چھیاسی (۲,۷۱۱۳۸۶) روپے آمد ہوئی ہے حضور کے اہلبیت نے بھی تحریک جدید میں سرگرم حصہ لیا جو حضور کے فیض تربیت اور روحانی توجہ کا نتیجہ تھا.حضرت امیرالمومنین ذاتی طور پر کتنی سختی سے مطالبات تحریک جدید پر کاربند دیگر مطالبات میں شعل راہ رہے، حضرت سیدہ نہ آیا صاحبہ حرم حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے درج ذیل " : الفضل در دسمبر ۱۹۳۵ و صفحه ۱۰ سے رپورٹ مجلس مشاورت ۱۳۲ در صفحه ۲۳-۷۷ سے " تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین ، صفحہ ۵۶ مرتبه چودهری برکت علی خان صاحبت شائع کرده تحریک جدید امین احمدیہ پاکستان ربوده جون ۱۹۵۹) کے " ایضاً " کیا

Page 76

بیان سے بخوبی لگ سکتا ہے.آپ تحریر فرماتی ہیں :- ڈلہوزی کا واقعہ ہے کہ آپ میز پر کھانا کھانے کے لئے تشریف لائے تھوڑی دیر میں کیا دیکھتی ہوں کہ آپ خاموشی سے بغیر کھانا کھائے اپنے کمرے میں پہلے گئے ہیں.میں کچھ نہ سمجھ سکی کہ آپ کی ناراضگی کی ذخیرہ کیا ہے ؟ سب حیران تھے کہ اب پھر تمام دن فاقہ سے رہیں گئے اور کام کی اس قدر بھرمار ہے کہیں آپ کو ضعف نہ ہو جائے.آخر میرے پوچھنے پر حضرت بڑی آپا جان رامی جان) نے بتایا کہ حضرت اقدس نے اپنے کمرہ میں بھا کر چٹ بھیجوائی ہے کہ میں نے تحریک جدید کے ماتحت رو کا ہوا ہے کہ میز پر صرف ایک ڈش ہوا کرے.آج میں نے ایک کی بجائے تین ڈش دیکھے ہیں.ایسا کیوں ہے ،ہیں کھانا ہر گز نہیں کھاؤں گا “ سے لباس کے بارے میں حضور نے یہانتک کفایت شعاری کی کہ چار سال کے عرصہ میں قمیصوں کے لئے کپڑا نہیں خریدا، اور تحریک جدید کے آغاز سے پہلے کی قمیصیں ہی سنبھال سنبھال کر کام چلایا.بطور تحفہ کوئی کپڑا آگیا تو اس سے چند قمیصیں بنوا کر گزارہ کر لیا.سکہ اس سے بڑھ کر یہ کہ اب انداز فکر میں یہ تبدیلی واقع ہو گئی کہ یہ خیال دامنگیر رہنے لگا کہ خوری کس طرح کم کریں.اسی طرح برفت کا استعمال شروع میں ترک کر دیا اور گرمیوں کی شدت کے باوجود سوڈے کی بوتل تک خرید کر پینا گوارا نہیں فرمایا.سکے علاوہ ازیں دوسروں سے آنے والے تحائف کی نسبت بھی آپ نے ہدایت دے دی کہ وہ غریبوں کو بھیجوا دیئے جایا کریں چنانچہ انہیں دنوں خود ہی بتایا :- "ہمارے گھر میں لوگ تحائف وغیرہ بھیج دیتے ہیں اور میں نے ہدایا کو استعمال کرنے کی اجازت دے رکھی ہے مگر جب وہ میرے سامنے لائے جاتے ہیں تو میں کہتا ہوں کہ ایک سے زیادہ چیزیں کیوں ہیں.کہا جاتا ہے کہ یہ کسی نے تختہ بھیج دیا تھا.تومیں کہتا ہوں کہ ہمارے ہے تعلقات تو ساری جماعت سے ہیں اس لئے ہو رہے ہاں تو ایسی چیزیں روز ہی آتی رہیں گی.اس لئے جب ایسی چیزیں له الفضل " ۲۶ مارچ در سفر ب کالم ۲-۶۳ حضرت سیدہ مہر آیا صاحبہ کا مزید کہنا ہے کہ ہم لوگ اس تحریک کے بعد ایک ہی ڈش دستر خوان پر رکھا کرتے تھے لیکن بعض اوقات یہ ڈش جب پسند نہ ہوتا کبھی نمک مرچ میں یا پکنے نہیں کمی بیشی رہ جاتی تو ہم لوگ صرف اس خیال سے احتیاطاً ایک کی بجائے دو ڈش حضرت اقدس کے لئے کر لیتے کہ اگر ایک چیز نا پسند ہوئی تو دوسری سامنے رکھ دیں گے.مقصد یہ تھا کہ حضور کچھ نہ کچھ کھا لیں" سے "افضل" ۲ دسمیر ۱۹ صفحه + + له الفضل " ۱۲ جون ۱۹۳۵ بر صفحه ۹ کالم ۲ +

Page 77

۵۰ آئیں تو کسی غریب بھائی کے ہاں بھیجدیا کرو.ضروری تو نہیں کہ سب تم ہی کھاؤ.اس سے غربار سے محبت کے تعلقات بھی پیدا ہو جائیں گے.اور ذہنوں میں ایک دوسرے سے اُنس ہوگا "اے پھر حضرت خلیفہ مسیح الثانی نے اپنے سب بچوں کو مستقل طور پر وقف فرما دیا اور اپنی جیب سے اُن کے تعلیمی اخراجات ادا فرمائے اور اس کے بعد اُن کو سلسلہ احمدیہ کے سپرد فرما دیا.چنانچہ حضور نے ایک بار فرمایا کہ " میں نے یہ اپنا ہر ایک بچہ خدا تعالیٰ کے دین کے لئے وقف کر رکھا ہے.میاں ناصر احمد وقف ہیں اور دین کا کام کر رہے ہیں.چھوٹا بھی وقف ہے اور میں سوچ رہا ہوں کہ اسے کس طرح دین کے کام پر لگایا جائے.اس سے چھوٹا ڈاکٹر ہے.وہ امتحان پاس کر چکا ہے اور اب ٹریننگ حاصل کر رہا ہے، تا سلسلہ کی خدمت کر سکے اس عرصہ میں دوسرے دونوں سلسلہ کے کام پر لگ چکے ہیں الحمدللہ باقی چھوٹے پڑھ رہے ہیں اور وہ سب بھی دین کے لئے پڑھ رہے ہیں.میرے تیرہ لڑکے ہیں اور تیرہ کے تیرہ دین کے لئے وقف ہیں" کے ہاتھ سے کام کرنے کا عمل نمونہ پیش کرنے کے لئے حضور نے وقار حمل“ کا نہایت پیارا طریق جاری فرمایا.اور اپنے ہاتھ سے مٹی کی ٹوکری اٹھا کر ایک عظیم الشان اُسوہ پیش کیا.حضور فرماتے ہیں کہ : جب پہلے دن میں نے کہی پکڑی اور مٹی کی ٹوکری اُٹھائی تو کئی مخلصین ایسے تھے جو کانپ رہے تھے اور وہ دوڑے دوڑنے آتے اور کہتے حضور تکلیف نہ کریں ہم کام کرتے ہیں اور میرے ہاتھ سے کہی اور ٹوکری لینے کی کوشش کرتے لیکن جب چند دن میں نے اُن کے ساتھ مل کر کام کیا تو پھر وہ عادی ہو گئے اور وہ سمجھنے لگے کہ یہ ایک مشترکہ کام ہے جو ہم بھی کر رہے ہیں اور یہ بھی کر رہے ہیں سے الغرض جماعت احمدیہ کے مقدس امام و قائد کی حیثیت سے حضور نے تحریک جدید کے احکام اپنی زندگی کے ہر شعبہ میں مکمل طور پر نافذ کر دکھائے جو سلسلہ احمدیہ کے لئے ہمیشہ مشعل راہ کا کام دیں گے؟ لة الفضل " ، ارجنوری ۱۳۵ از صفحه و کالم 1 + سے رپورٹ مجلس مشاورت ۱۱۲۴ صفحه ۹۷۵ مشاورت ۱۹۵۴ میں سنور نے مزید فرمایا "آخر میرے تیرہ بیٹوں نے زندگیاں وقف کی ہیں یا نہیں.....وہ جانتے ہیں کہ اگر انہوں نے نے مزید وقف چھوڑا تو میں نے ان کی شکل نہیں دیکھنی.میرے ساتھ اُن کا کوئی تعلق نہیں رہے گا.یہ درپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵ صفحه ۷۲) سے رپورٹ پیلس مشاورت کس ۱۹۳ صفحه ۲۱۷۴

Page 78

.فصل پنجم دفتر تھر کی ایک کا قیام اور اس ابتدائی ڈھانچہ تحریک جدید جیسی عظیم الشان اور عالمی تحریک کے دفتر کا آغاز نہایت مختصر صورت اور بظاہر معمولی حالت میں ہوا.شروع میں اس کے لئے کوئی مستقل عمارت نہیں تھی حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی منظوری سے دفتر پرائیویٹ سکوٹی قادیان کا ایک کمرہ مخصوص کر دیا گیا تھا.پہلے واقف زندگی کارکن تحریک جدید کے سب سے پہلے واقف زندگی کارکن مزاحم یعقوب حیات تھے جن کو حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے نو بیر نہ میں تحریک جدید مختلف مطالبات پر لبیک کہنے والوں اور وقت زندگی کرنے والوں کی فہرستیں تیار کرنے کا کام سپرد فرما دیا حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے ان کی نسبت اپنے قسم سے تحریر فرمایا " وہ سب سے پرانے کارکن ہیں؟ سکے ۲۰ جنوری شر کو حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے شیخ یوسف علی صاحب (پرائیویٹ سیکورٹی کو منظور شده واقفین کی نسبت ارشاد فرمایا :- وقف کنندگان سے کہیں کہ وقت کے صحیح معنوں کے مطابق انہیں دفتروں میں آجکل کام کرنا چاہئیے کہ آجکل کام بڑھا ہوا ہے مرزا محمد یعقوب صاحب تو پہلے ہی کام کرتے ہیں.دوسروں کو بھی چاہئیے" چونکہ تحریک جدید کے اعلان نے جماعت میں زبر دست بیداری پیدا کر دی تھی اور عام جوش و خروش کی وجہ سے بیرونی ڈاک میں بھی غیر معمولی اضافہ ہو گیا تھا اس لئے واقفین زندگی کے ہاتھ بٹانے کے باوجود دفتر پرائیویٹ لے (ولادت سنه ) آپ نے نومبر کایہ کو اپنے والد رزا عمر اشرف صاحب ( محاسب صدر انجین احمدیہ) کے توسط سے وقف زندگی کی درخواست پیش کی جو حضور نے قبول فرمالی اور نومبر ۱۹۳۷ء سے آپ نے دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں کام شروع کیا اور ۲۰ نومبر ۹۳ہ سے آپ تحریک تارہ کے با قاست کارکن قرار پائے.کہ حضور نے یہ الفاظ حافظ عبدالسلام صاحب حال وکیل المال ثانی کے ایک مکتوب محرہ ۲۲ جولائی سر پر رقم فرمائے.اصل خط وکالت دیوان کے ریکارڈ میں محفوظ ہے.

Page 79

۵۲ سیکرٹری کے عملہ کو رات کے وقت بھی مسلسل کام کرنا پڑتا تھا.چنانچہ شیخ یوسف علی صاحب اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ " یہ سارا کام دفتر میں ہی تھا جس کے سبب کام پہلے سے دگنا ہو گیا.با وجود بعض واقفین سے کام لینے کے دفتر کے کارکنان کو علاوہ دفتر ٹائم کے راتوں کو بیٹھ کر کام کرنا پڑا اور ڈاک کی بر وقت تعمیل میں پوری کوشش کی ہے فنانشل سیکرٹری کا تقرر جہانتک تحریک جدید کامل مطالبات سے تعلق کام کا تعلق تا به ندرت سیا امام نے ہوا اس حضرت امیر المومنین نے ۲۲ نومبر اس سے چودھری برکت علی خان صاحب کو سپرد رمائی اور انکو فاش کرو کمتر یا چودھری برکت علی صاحباس عہدہ پر قریباً بین سری تک فائو ر ہے.اور یکم اپریل ار کو ریٹائر ہوئے.بعد میں یہ عہدہ وکیل المال“ کے نام سے موسوم ہوا.اپنے زمانہ عمل میں حضرت چودھری صاحب نے اتنی محنت ، اخلاص اور فرض شناسی سے کام کیا کہ خود حضرت خلیفقہ السیح الثانی نے اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا :- ود هری برکت علی صاحب کو نہینوں رات کے ۱۲ بجے تک تحریک جدید کا کام کرنا پڑا، اسی طرح تحریک جدید کے دفتر کے کام کرنے کا وقت ۱۲ گھنٹے مقرر ہے.اس سے زیادہ ہو جائے تو ہو جائے کم نہیں کیونکہ یہ اقل مقدار ہے، کے پھر فرمایا :- چودھری برکت علی صاحب....ان چند اشخاص میں سے ہیں جو محنت ، کوشش اور اخلاص سے کام کرنے والے ہیں اور جن کے سپرد کوئی کام کر کے پھر انہیں یاد دہانی کی ضرورت نہیں ہوتی " نیز ارشاد فرمایا :- جہاں تک روپیہ جمع کرنے کا سوال ہے.میں چوہدری برکت علی نماں صاحب کے کام پر بہت ہی خوش ہوں.انہوں نے تحریک جدید میں حیرت انگیز طور پر روپیہ جمع کرنے کا کام کیا ہے " ھے ے رپورٹ سالانہ مینہ جات صدر امین احمد بہ یکم مئی ماه لغایت ۳۰ را پریل ۱۱۳۶ صفحه ۲۰۳ به نه اصحاب امیر مجله هفتم صفر ۲۳۲ مولفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم.اسے ناشر امیہ بکریو بود ضلع جنگ پاکستان طبع اول اگست شاد کے اس سلسلہ میں ناظر صاحب بیت المال کی طرف سے افضل اور دسمبر دو صفحہ ۲ کالم ۲ پر حسب ذیل اعلان شائع ہوا : حضرت ایرانی خلیفه ای الثانی ایاللہ تعالی کے مال کے خطبات میں جومالی مطالبات مختلف رنگوں میں احتیاب جماعت سے کئے گئے ہیں.ان کے متعلق تحریک اور خط و کتابت اور حساب کتاب رکھنے کا کام چوہدری برکت علی خان صاحب سرانجام دیں گے جو آڈیٹر صدر انجمن احمدیہ نہیں ہے کے رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۵ او صفحہ ۹۰-۹۱ - شے رپورٹ مجلس مشاورت و در Jero 11 صفحه ۹۵-۰۹۶

Page 80

۵۳ عرض کہ تحریک جدید کی تاریخ میں چودھری صاحب موصوف کی خدمات ناقابل فراموش ہیں.دفتر فنانشل سیکرٹری کے چودھری برکت علی صاحبہ کا بیان ہے کہ." ۲ نومبر کو حضور نے ایک خطبہ کے ذریعے تحریک جدید کا ابتدائی متفرق کوائف آغاز فرمایا اور اس کے دوسرے دن صبح ہی حضور لاہور تشریف لیجا ر ہے تھے احمید یوکی حضور کے انتظارمیں کھچا کھچ احباب کرام سے بھرا ہوا تھا کہ حضور مسجد مبارک کی چھوٹی سیڑھیوں جو دفتر محاسب کے قریب پگھلتی ہیں تشریف لائے.خاکسار دفتر محاسب کے دروازے کے سامنے کھڑا تھا.خاکسار نے السلام علیکم عرض کر کے مصافحہ کیا تو حضور نے مسکراتے ہوئے فرمایا.آپ تحریک کا کام شروع کر دیں اور ایک ہزار احباب کے پتے نکالیں.خاکسار نے دل میں آمنا و صدقنا کہا.حضور لاہور سے جمعرات کے دن واپس تشریف لائے تو فاکستانی ایک ہزار کی فہرست پیش کر دی.وو اس تحریک کے وعدوں کے خطوط آرہے تھے.حضور نے دفتر پرائیویٹ سکرٹری کو حکم دیا کہ وہ ان کا حساب بنا کر پیش کریں.مگر دفتر ہو حساب پیش کرتا وہ حضور کے اپنے ذہنی حساب سے نہ ملتا.اس پر ایک جمعرات کی نماز مغرب کے بعد خاکسار کو فرمایا کہ آپ وعدوں کے تمام خطوط دفتر سے لے کو اُن کا حساب بیتا کو گل دس بجے قبل جمعہ پیش کریں.میں اس بارہ میں اعلان کرنا چاہتا ہوں.میں اسی وقت دفتر پہنچا دیکھا تو میز پر خطوط پڑے تھے.دفتر والوں نے کہا یہی سارے خطہ ہیں آپ لے لیں ہیں نے گئے تو پانصد خطوط تھے میں اسی وقت پہلے محلہ دار الستہ گیا.وہاں میں نے خواجہ حسین الدین صاحب اور قاری محمد امین صاحب کو ڈیڑھ ڈیڑھ سو خطوط دے کر کہا کہ آج ساری رات کام کرتا تا صبیح ہی حساب بل جائے.انہوں نے خوشی سے کہا کہ جب تک ہم یہ کام ہو یا نہ کر لیں آرام نہ کریں گے اور دو سو خط میں نے اپنے واسطے رکھے صبح جب میں اُن کے پاس پہنچا تو دونوں نے حساب تیار کر لیا ہوا تھا.مجھے دے دیا...میں نے یکجائی حساب بنایا تو ساڑھے سولہ ہزار کے وعدے ہوئے.میں 4 بجے محلہ دارالفضل سے اپنے گھر سے شہر کو آرہا تھا میاں میر خان مصبا حضور کے باڈی گارڈ ملے.انہوں نے کہا کہ حضور آپ کو یاد فرماتے ہیں.میں نے پیش ہو کر عرض کیا کہ حضور ساٹھے سولہ ہزار وعدوں کی میزان ہے حضور نے فرمایا درست معلوم ہوتی ہے.میرے ذہنی حساب سے ملتی ہے.خاکسار نے عرض کیا کہ حضور نے مطالبہ ساڑھے سترہ ہزارہ کا فرمایا تھا.گل اور آج کی

Page 81

۵۴ ڈاک حضور کے پاس ہے اس میں ایک ہزار سے اوپر کے ہی وعدے ہوں گے.اس لئے ساڑھے سترہ ہزار کا اعلان فرمائیں.فرمایا میں نے جو حساب ابھی دیکھا نہیں اس کا اعلان کس طرح کر سکتا ہوں میں نے جو دیکھ لیا ہے اس کا ہی اعلان کیا جا سکتا ہے.جو دیکھا نہیں اس کا اعلان نہیں ہو سکتا.چنانچہ حضور نے خطبہ میں 14 ہزارہ کا ہی ذکر فرمایا " کی کو اللہ تعالے کا خاکسارہ پر کتنا بڑا فضل و احسان ہوا کہ مجھے ایک ساتھ چار کام کرنے کا موقعہ عطا فرمایا.کشمیر فنڈ اور دارالا نوار کے کام کے لئے مجھے دو مدد گار بھی مل گئے تھے.لیکن آڈیٹرا اور تحریک جدید کا کام خاکسار اکیلا ہی کر رہا تھا حضور کی خدمت میں روزانہ رپورٹ پیش کرنے کے لئے حسابات بنانے اور خطوط کی منظوری کی روزانہ اطلاع دینے اور تحریک جدید کی رپورٹ پیش کرنے کے بعد مزید تکمیل کے لئے دفتر کی پابندی کا سوال ہی نہ رہا اور نہ ہی میں نے سنہ سے نشہ اور پھر سنہ سے اب تک اس کا خیال کیا کہ دفتر کا وقت ختم ہو گیا چلو گھر ملیں.بلکہ یہ بات گھٹی میں پڑی ہوئی تھی کہ بہت تک روزانہ کا کام ختم نہ ہو وخت بند نہ ہو اگر ضرورت پڑے تو گھر لے جا کر روزانہ کام ختم کرو.پس میں نے دفتر کے وقت کا خیال نہیں رکھا بلکہ روزانہ کام ختم کرنا اصول بنایا.اتفاق کی بات ہے کہ تحریک جدید کا دفتر حضور کے قصر خلافت میں تھا.خاکسالہ تو رات کے دس بچے یا کبھی بارہ بجے تک کام کرتا مگر حضور ایک دو بجے تک عموماً اور بعض دقعہ ساری رات بھی کام کرتے اور نماز فجر پڑھانے کے لئے تشریف لے جاتے.جب خاکسار کا آقا ساری ساری رات کام کرتا تھا تو میرے لئے کیا عذر تھا کہ زیادہ وقت لگا کر کام پورا نہ کر وای حضور ایدہ اللہ تعالیٰ جہاں وعدوں کے ہر خط پر رقم اور جزاکم اللہ احسن الجزاء اپنی قلم سے ارقام فرماتے وہاں اس کے متعلق اور بھی کوئی بات ہوتی تو اُسے بھی خاکسار کی ہدایت اور راہنمائی کے لیئے لکھ دیتے تا خاکسار صحیح طریق اختیار کرین اسی طرح عام ڈاک میں بھی ہر خط پر حضور کا نوٹ دفتر پرائیویٹ سکوڑی کی ہدایت کے لئے ہوتا.تحریک جدید کے خطوط کے نوٹ تو میں نے نہایت احتیاط سے محفوظ رکھے تھے کیونکہ خاکسار نے پانچویں سال میں ہی ارادہ کر لیا تھا کہ حضور کے ارشادات کسی نہ کسی طرح ضرور شائع کروں گا.انشاء اللہ تعا لیے مگر عمر مرضی مولی از ہمہ اولی

Page 82

۵۵ وہ تمام ذخیرہ پاکستان آتے وقت ساتھ نہ لا سکا سوائے تحریک جدید کے رجسٹروں کے لئے پھر لکھتے ہیں :- مجھے خوب یاد ہے کہ پہلے سال کے وعدوں کی آخری میعاد پندرہ جنوری ۱۹۳۵، یعنی کل ڈیڑھ ماہ اور وعدوں کے خطوط ۲۳ جنوری تک آئے جن کی میزان ایک لاکھ دس ہزار ہوئی جو تحریک کے مطالبہ ۲۷ ہزار سے چار گنا تھی.ہے جماعت کے اخلاص اور حضور کی دعائوں کا نتیجہ تھا.خاکسار جو روزانہ تفصیلی رپورٹ دیتا تھا، ۲۳ جنوری کے بعد اُسے خاکسار نے بند کر دیا اور یہ خیال کیا کہ اب صدر انجمین احمدیہ کے قواعد کے مطابق ہفتہ وار رپورٹ پیش کیا کروں گا.تین دن متواتر رپورٹ نہ ملنے پر حضور نے خاکسار کو بیلا کو پوچھا کہ رپورٹ تین دی کیوں نہیں دی.خاکسار نے عرض کیا کہ اسب وعدے آپکے ہیں خاکسار آئیندہ بہ طریق صدر امین احمد ید ہفتہ وار رپورٹ پیش حضور کرے گا.اس پر فرمایا میرے ساتھ کام کرنے والے کو روزانہ رپورٹ مجھے پہنچا کر دفتر بند کرنا ہوگا.پس اُس دن سے آج کا دن ہے کہ خاکسار بلاناغہ تفصیلی رپورٹ روزانه به توفیق الہی حضور اقدس کی خدمت میں پیش کرتا رہا ہے فالحمد للہ اللہ نیز تقریر کرتے ہیں کہ :.جنوری ۳ہ کا ذکر ہے کہ تحریک جدید کے بارے میں ایک دوست کو میں نے خط لکھا.ایک لفظ مجھ سے نادانستہ ایسا لکھا گیا جس سے اس دوست نے میرے لہجہ کو حاکمانہ مجھ کو حضور کی خدمت میں میری شاعات کی.اس وقت تحریک کی ساری خط و کتابت حضور کی خدمت میں آتی تھی.بحضور نے خاکسار کو بلا کر پوچھا کہ کیا آپ نے کسی کو یہ لفظ لکھا تھا.میں نے معا عرض کیا کہ حضور یا لکھا تھا.اس پر حضور نے جو کچھ فرمایا اس کا مفہوم یہ تھا کہ : یہ تو حاکمانہ طریق ہے میرے ساتھ جس نے کام کرتا ہے اسے اسلامی شعار اختیار کرنا ہوگا کیونکہ میرا کام اسلام کا استحکام اور اس کا مضبوط کرتا ہے.پس اس دن سے میں نے حضور کے ارشادات کی روشنی میں تعمیل کرنا اپنا طریق بنایا " سے نے اصحاب احمد جلد ہفتم طبع اول صفحه ۲۳۲ تا صفحه ۲۳۶ و مؤلفه ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے ناشر احمدیہ سکھر پو ربوہ طبع اول اگست ۱۹۷۳ تے Pr Pr P $ صفحه ۲۳۵ صفحه ۲۳۵۰۲۳۴ > "

Page 83

۵۶ اسی طرح وہ بیان کرتے ہیں کہ میں تین ماہ سے اکیلا ہی کام کر رہا تھا کہ ایک دن حضور نے فرمایا....میں نے دیکھا ہے کہ آپ اکیلے ہی کام کرتے ہیں، آپ ایک کلرک رکھ لیں اُسے تنخواہ میں تحریک جدید سے دوں گا چنانچہ میں نے پٹیالہ کے ایک پوسٹل کلرک کو رکھ لیا وہ بڑے محنتی اور شوق سے کام کرنے والے تھے.میرے ساتھ بڑی رات تک کام کرتے تھے اور وہاں بجا کر بیمار ہو کر وفات پا گئے.انا للہ وانا الیہ راجعون....اس کے بعد میں نے چودھری عبدالرحیم صاحب تیمیہ کو پندرہ روپے ماہوار پر رکھا.ان کو اللہ تعالیٰ نے حافظہ ایسا عطا فرمایا ہے کہ وہ تحریک جدید کا دفتری کام اکثر یادداشت سے کرتے.بسا اوقات دوست دفتر میں آکر چوہدری صاحب سے اپنا حساب وعده و وصولی دریافت کرتے تو آپ زبانی ہی بتا دیتے اور اگر بعض اصرار کرتے کہ ریکارڈ دیکھ کر بتاؤ تو ان کو رجسٹر سے حساب دکھا کر مطمئن کر دیتے.بات یہ ہے کہ چوہدری صاحب نے اپنے ہاتھ سے سارا ریکارڈ رکھا ہوتا تھا اور پھر آمدہ خطوط کے وعدوں کی منظوری دی ہوتی تھی.اور وہ کام کو نہایت سرگرمی اور تندہی سے پورا کرتے.دفتر بند نہ ہو تا جب تک کام ختم نہ کر لیتے.اگر کام زائد ہوا تو گھر لے جا کہ پورا کرتے " کے صیغہ امانت جائیداد یہاں یہ بتا دینا ضروری ہے کہ تحریک جدید کے مطالبہ ملا کے مطابق تو قوم باہر سے آتی تھیں ان کا حساب اور خون کا انتظام صیغہ امانت جائیداد کا فرض تھا.اس صیغہ کے سکرٹری حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اور انچارج دفتر حضرت مولوی فخر الدین صاحب آف گھوگھیاٹ تھے.تحریک جدید کا پہلا بجٹ ۶۱۷۸۲/۲/۶ روپے کا متھائیں تحریک بدید کا پہلا بجٹ (خرج ) کی تفصیل صدر انجمن احمد یہ قادیان کے ریزولیوشن ۱۷۸ مورخہ م مئی ۱۹۳۵ء میں ملتی ہے.چنانچہ ملک لکھا ہے: پوسٹ ناظر اعلیٰ کہ حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے تحریک جدید کا بجٹ ارسال فرمایا ہے جو کہ مبلغ ۶۱۷۸۲/۲/۶ روپیہ کا ہے حضور کا ارشاد حسب ذیل ہے.تحریک عدیدہ کا بجٹ ارسال ہے.اسے صدر انجمن احمدیہ کے بجٹ کے ساتھ شامل کرلیں.اس کے نے تحریک جدید میں تقرری و مٹی شاہ له اصحاب احمد یاد رفتم صفحه ۲۳۵ - ۲۳۶ *

Page 84

مطابق رقم اس مدرسے خزانہ صدر انجین میں داخل ہوتی رہے گی.یہ بجٹ یکم مئی ۱۹۳۵ء سے ۳۰ اپریل ۱۹۳۷ تک کا ہے.اس کے بلوں کے پاس ہونے کا یہ طریق مقرر کیا جائے کہ بلوی پر انچارج تحریک جدید کے دستخط ہوں لیکن جیسے کہ زکوۃ کے پلوں کا قاعدہ ہے میرے تصدیقی دستخطوں کے ساتھ بل کو مکمل سمجھا جائے " تحریک بدید کے دفتر کا مستقل صورت میں قیام آنو جنوری ها پر میں ہوا جبکہ مستقل دفتر کا قیام اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے مولوی عبدالرحمن صاحب التور بوتانوی کو انچارج اس کے پہلے انچارج تحریک جدید مقر فرمایا اور قصر لافت قادیان کے ایک کمرہ میں جو چو بی سیڑھیوں سے ملحق تھا دفتر تحریک جدید قائم کیا گیا جو کئی سال تک دفتر پرائیویٹ سکوڑی کے اس کمرہ ہی میں رہا.بعد ازاں جب کام وسعت اختیار کر گیا تو حضرت سید ناصر شاہ صاحب کے ایک حصہ مکان میں بیرونی مشنوں اور تجارتی شعبہ کا دفتر کھول دیا گیا.مگر جب یہ جگہ بھی ناکافی ثابت ہوئی تو حضرت شاہ صاحب کے مکان سے متصل زمین میں پھر یک جدید کی اپنی مستقل عمارت تعمیر کی گئی جہاں شہ تک تحریک جدید کے مختلف شعبے مصروف عمل رہے.اپنی جناب مولوی عبد الرحمن صاحب اتور ۱۹۳۵ء سے ۹۲ و تک تحریک بدید کے انچارج رہے.”مولوی صحاب موصوف نے گیارہ بارہ سال سوائے وکالت مال کے کام کے سارا کام اکیلے کیا.وہ ابتدائی تنظیم کی حالت تھی کام میں توقع نہ تھا لیکن ذمہ داری کا کام تھا.اور مولوی صاحب نے اپنی استطاعت کے مطابق اچھا نبھایا " بجیسا کہ جلس تحریک جدید نے ۱۲ مارچ شاہ کو اپنی ایک مخصوص قرار داد ( ) میں آپ کی خدمات کا اقرار کیا ہے حضرت خلیفہ کی الثانی کی زمین برایات جناب برای عبدا من صاحب اور کا بیان ہے.مولوی عبدالرحمن جب جنوری ۹۳ مر میں حضور نے مجھے انجاج تحریک جدید مقر فرمایا تو حضور نے اپنے ساتھ کام کرنے کے ضمن میں بعض نہایت قیمتی ارشادات خود فرمائے جو میرے لئے اس سارے عرصہ میں مشعل راہ رہے.۱۹۳۵ ہ صدر ریکارڈ صدر رامین احمدیه ایزولیوشن کا مورقه در منی شده که این حضرت مولوی عبید اللہ صاحب بوت لوی من نے المحكم" جوبلی نمبر دسمبر سه صفر ۵۸ + ولادت ۳ منی : کے اس عبارت کے بعد جو اوپر متن میں وادین کے درمیان درج کی گئی ہے یہ الفاظ بھی تھے کہ " تحریک جدید مولوی صاحب کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دکھیتی ہے اور بطور اظہار تشکر ان کے لئے 20 روپے ماہوار پیش تا در مقدر کرتی ہے اور اس امر کا اظہار کرنا چاہتی ہے ار تحریک جدہ اور اس کے نام سے تعلق رکھنے والے تمام افراد ان کی خدمات کا اقرار کرتے ہیں :

Page 85

۵۸ - جب حضور کسی امر کے متعلق ہدایات دے رہے ہوں تو حضور کے کلام کو قطع نہ کیا جائے ، بلکہ جب ساری بات ختم ہو جائے تو پھر اگر کسی امر کی تشریح کی ضرورت محسوس ہو تو صرف اس صورت میں کوئی بات دریافت کی جائے..اگر میں پھیل رہا ہوں تو مجھ سے بات کرنے کی غرض سے میرے پھلنے میں رکاوٹ نہ پیدا کی جائے.کہ میرا راستہ روکا جاوے بلکہ ساتھ چلتے چلتے اپنی بات کی بھائے.طاقات کے لئے جس قدر وقت لیا جائے اس وقت میں کام کو ختم کرنے کی پوری کوشش کی حیائے اگر مزید وقت کی ضرورت ہو تو یا تو اس وقت خاص اجازت کی بجائے یا باقی کام کسی دوسرے وقت میں اجازت لے کر کیا جائے.ہم.جس کام کے متعلق ہیں کہ دوں کہ پھر پیش ہو تو اس کو جلدی ہی موقعہ حاصل کر کے پیش کر دیا جاے نہ یہ کہ دوبارہ پیش کرنے کے لئے ہفتے یا مہینے لگا دیئے جائیں.-۵- اگر میں کسی کام کے متعلق کوئی ہدایت دوں کہ یہ کام اس طور پر کیا جائے تو جو سمجھ میں آئے اس کے مطابق فوراً ہی اس کام کا خاکہ پیش کر دیا جائے تا کہ مجھے تسلی ہو کہ صحیح لانو پر یہ کام کیا جارہا ہے یا کچھ غلط فہمی ہے.اور اگر کوئی غلط فہمی ہو تو اس کی فوراً اصلاح کر دی جائے.- اگر ملاقات کے لمبا ہو جانے کی وجہ سے نماز کا وقت آجائے تو فوراً مجھے یاد دلا دیا جائے کیونکہ بعد میں مجھے اس احساس سے بہت تکلیف ہوتی ہے کہ احباب کو مسجد میں نماز کے لئے اس وجہ سے انتظار کرنا پڑا.ہے مولوی عبد الرحمن صاحب اثور کے بیان کے مطابق تحریک جدید کے اخراجات کے بنیادی اصول ابتدائی روم میں کئ سال تک یہی دستور رہا کہ کارکنان کسی کام کے عرصہ میں کئی سال تک یہی سرانجام پا بچانے کے بعد اس پر میں قدر اصل خریج ہوتا اُسے پیش کرتے تھے تا کہ قربانی کا جذبہ اور اماسیا، کچھ لئے کم از کم خوری کرنے کا جذبہ قائم رہے تھے تحریک جدید کے ابتدائی زمانہ میں حضور نے انور صاحب کو ، ارشاد فرمایا کہ تم یہ فکر نہ کرو کہ روپیہ کہاں سے آئے گا روپیہ تو اللہ کے فضل سے جس قدر ضرورت ہوگی نہتا ہو جائے گا.تم یہ بتاؤ کہ اس کو کیسی کیس کام پر " له " الفرقان" "حضرت فضل عمر نمبر دسمبر 1990 ه و جنوری 1 هه مه ۱۲۰۰۰ ید ماہنامه "خالد" اکتوبر ۱۹۶۷ : صفحه ۸۳۸

Page 86

d ۵۹ خرچ کرنے کی ضرورت ہے تو تجویز بہتر ہوا کرے اُسے پیش کر دیا کر دیے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے ایک بار خود ارشاد فرمایا کہ : در تین چار سال سے ہم اس کوشش میں رہتے ہیں کہ بجٹ بڑھتے نہ دیں.لیکن اس کے لئے پہلا قدم یہ ہے کہ ہم بجٹ کو مستقل حدود تک لے آئیں اور پھر مستقل خرچ کم رہے اور ہنگامی اخراجات کے لئے زیادہ رقوم رکھی بھائیں چنانچہ تحریک جدید کا اسی لئے میں نے الگ فنڈ رکھا ہے اور اس میں عارضی خرج زیادہ لیکن مستقل خرج کم رکھا ہے.اس کا فائدہ بڑا ہے کہ کئی ممالک میں نئے مشن کھل گئے ہیں" ابتدا میں نظام تحریک جدید کے تحت تین قسم کے واقفین تھے.و انفین تحریک جدید کی تین اقسام - دفتر تحریک تجدید کے عملہ میں کام کرنے والے ، واقفین کا ایک حصہ مدرسین کہلاتا تھا جن میں بعض مرکز سلسلہ میں متعین کئے گئے اور بعض بیرونی ممالک میں تبلیغ اسلام کے جہاد پر روانہ کئے گئے.اول الذکر میتین اندرون ہند کے نام سے اور دوسرے مبلغین بیرن ہند کے نام سے پکارے جاتے تھے ؛ ۳- سروے سکیم میں کام کرنے والے واقفین.اس کے بعد جوں جوں تحریک جدید کا نظام پھیلتا گیا واقفین کو مختلف شعبوں میں لگایا جانے لگا.بیرونی میشنوں کے سیکرٹری جب بیرونی ملک سے ان نوجوانوں کی تحریک جدید کے ابتدائی مشینوں کے قیام پر رپورٹیں آنا شروع ہوئیں اور انگریزی میں خط و کتابت کی ضرورت محسوس ہوئی تو حضور نے مولوی نورالدین صاحب مشیر کو سکرٹری فارن مشنز تجویز فرمایا.کے سیکرٹری تجارت و صنعت اسی طرح تجارتی اور صنعتی رپورٹوں کی آمد پر حضرت اقدس کی ہدایت پر حضرت مولوی ذو الفقار علی خال صاحب گوہر سکریڑی تجارت صنعت مد مقرر ہوئے اور بیرونی ممالک سے مختلف اشیاء درآمد کی جانے لگیں ہے سے ماہنامہ "خالد" ربوہ جولائی ۱۹۶۳ء صفحہ ۱۷-۱۷ +14-14 سے رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۷ ء صفحه ۰۶۸ سے ماہنامہ تحریک جدید ریوه اگست ۹۷۵، صفحه : کے ایضاً " صفر ۷-۸ :

Page 87

فصل ششم اندرون ملکیت تحریک جدید کی ابتدائی سرگرمیان تحریک جدید کے ابتدائی سے سالہ دور میں اندرون ملک متعدد عظیم الشان کام انجام پائے جن کا ذیل میں بالاختصار تذکرہ کیا جاتا ہے.اہم ٹریکٹیوں کی اشاعت اس دور میں تحریک جدید کی طرف سے سب سے سب سے پہلے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے مندرجہ ذیل رقم فرمودہ ٹریکٹ بڑی کثرت سے شائع کئے گئے :- ڈاکٹر سرمحمد اقبال اور احمدیہ جماعت زلزلہ کوئٹہ بانی سلہ احمدیہ کی سچائی کا نشان ہے ، مجلس اتوار کا مباہلہ کے متعلق نا پسندیدہ رویہ"." احترار خدا تعالیٰ کے خوف سے کام لیتے ہوئے مباھلہ کی شرائط طے کریں"."نہ ندہ خدا کے زندہ نشان" سید نا حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی نے لڑکیوں کی اشاعت کا یہ سلسلہ جاری کرنے سے قبل اخبار الفضل " میں حسب ذیل اہم اعلان شائع فرمایا :- برادران ! السلام عليكم ورحمة الله و بركاته میں اپنے ایک خطبہ میں اعلان کر چکا ہوں کہ چند اشتہارات موجودہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے عنقریب شائع کئے جائیں گے.احباب کو ان کی اشاعت خاص توجہ سے کرنی چاہیئے.پوسٹر عمدہ جگہوں پر لگانے چاہئیں اور چھوٹے اشتہار عقل اور سمجھ سے تقسیم کرنے چاہئیں چونکہ جلد یہ سلسلہ شروع ہونے والا ہے میں پھر اس اعلان کے ذریعہ جماعتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ فوراً مندرجہ ذیل امور کے متعلق انتظام کریں : وہ جلد دفتر تحریک جدید میں اطلاع دیں کہ انہیں کیسی کیسی قدر پوسٹروں اور اشتہاروی کی ضرورت ہوا کرے گی..اُن کی جماعت یا اگر فرد ہے تو وہ کس قدر رقم کے اشتہار قیمت پر منگوانا چاہتا ہے (اشتہار نے یہ ٹریکٹ اردو کے علاوہ بنگالی، سندھی ، انگریزی ، تامل اور ملیالم زبانوں میں شائع کیا گیا تھا اور بیرونی ممالک میں بھی اس کی اشاعت کی گئی تھی " الفضل " ۲ ستمبر ۱۹۳۵ در صفحه ۵ و " الفضل ۱۲۰ اکتوبر ۱۹۳۵ ) + ه

Page 88

۶۱ صرف لاگت پر ملیں گے کوئی نفع حکمہ ان سے نہیں لے گا، ہو سکتا ہے کہ اگر ضرورت زیادہ ہو اور جماعت پورے ترویج کی متحمل نہ ہو سکے تو کچھ حصہ قیمت پر اور کچھ مفت ارسال کیا جائے.بنگال، سندھ اور صوبہ سرحد کی جماعتوں کو چاہیے کہ بنگالی، سندھی اور پشتو میں ان اشتہاروں کے تراجم شائع کرنے کی کوشش کریں.اس میں ایک معقول صد تک دفتر تحریک جدید ان کی امداد کرے گا.مگر فیصلہ بذریعہ خط و کتابت ہونا چاہیئے.ہر جماعت یا فردان اشتہاروں کے چسپاں کرنے اور تقسیم کرنے کا انتظام فورا کر چھوڑے.ہر جماعت یا فرد کو اس امر کا انتظام رکھنا چاہئے کہ ہر اشتہار ایسے ہاتھ میں جائے جہاں اس کا فائدہ ہو اور اچھی جگہ پر پوسٹر چسپاں ہو.سارے پوسٹر ایک دن نہ لگائے جائیں کیونکہ بعض شدید دشمن انہیں پھاڑ دیتے ہیں بلکہ دو تین دن میں لگیں.تاکہ سب لوگ پڑھ سکیں.-4 اشتہاروں کی اشاعت کے بعد جماعت کے افراد ان کے اثر کا اندازہ لگاتے رہا کریں اور مرکز کو اس کی اطلاع دیتے رہا کریں تا کہ آئیندہ اشتہاروں میں اس تجربہ سے فائدہ اٹھایا جاسکے.سب اطلاعات میرے نام یا سکرٹری دفتر تحریک جدید کے نام ہوں.والسلام خاکسار میرزا محمود احمد خلیفہ ایسیح الثانی امام جماعت احمدیہ) نے جناب مولوی عبد الرحمن صاحب الورہ کا بیان ہے کہ حضور کی طرف سے ان اشتہارات کا مضمون جمعرات کے روز عصر کے بعد ملنا شروع ہوتا تھا جوں جوں حضور مضمون تحریر فرماتے دفتر تحریک جدید میں بھجوا دیتے اور ہدایت یہ تھی کہ ساتھ ہی ساتھ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب بھی اس کو دیکھ لیں اور پھر کا تب کو کتابت کے لئے دے دیا جائے.اس طرح رات کے بارہ ایک بجے تک کتابت ختم ہوتی.ایک کاپی اشتہار کی صورت میں لکھوائی جاتی اور دوسری کا پی پمفلٹ کے طور پرہ.ٹریکٹ راتوں رات چھاپ دیئے بھاتے اور صبح کی پہلی گاڑی سے خاص آدمی کے ذریعہ سے نمازہ جمعہ سے قبل بٹالہ ، امرتسر، لاہور اور لائلپور تک پہنچا دیئے جاتے تھے.رکیٹوں کی تقسیم حضرت خلیفہ ایسیح الثانی کی باقاعدہ ہدایات اور نگرانی کے ماتحت ہوتی تھی.چنانچہ حضورت نے خود بتایا کہ : "الفضل قادیان دارالامان ۲۹ جون ۱۹۳۵ئه صفحه ۲ ۰

Page 89

ЧУ تحریک جدید کا کام چونکہ براہ راست میرے ساتھ تعلق رکھتا ہے اس لئے میں اسی رنگ میں، اس کے کام کی نگرانی کرتا ہوں اور یہاں نقص واقع ہو اپنی توبہ کا بیشتر حصہ اس کی طرف صرف کر کے اُسے دُور کرنے کی کوشش کیا کرتا ہوں مثلاً ہم نے ٹیکیٹ بھیجوانے ہوں تو جن جماعتوں میں ٹریکٹیوں کی زیادہ ضرورت ہوگی وہاں زیادہ ٹیکیٹ بھیجوا دیئے جائیں گے اور جنہیں کم ضرورت ہوگی انہیں کم بھجوا دیئے جائیں گے.یہ نہیں ہو گا کہ سب کو یکساں بھیجوا دیئے بھائیں.اسی طرح اور امور میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ کون کونسی جماعت کمزور ہے پھر تو جماعت کمزور ہو اس کی کمزوری کو دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.مسلے کتابوں کی اشاعت تحریک جدید کے پہلے سہ سالہ دور میں اشتہارات کے علاوہ بعض کتا ہیں بھی " شائع کی گئیں مثلاً اسامہ میں مناظرہ بہت پور اور ان میں حضرت خلیفہ ایسے کے چھ خطبات اعمالِ صالحہ “ کے نام سے چھاپے گئے.تحریک جدید کے ان ابتدائی ایام میں تبلیغ احمدیت کا کام دور اشاعت احمدیت پر لیس کے ذریعہ سے انگریزی ، ایک اردو اور ایک سندھی اخبار کے ذریعہ سے لیا جاتا تھا، انگریزی اخبار " سن رائز “ اور ” مسلم ٹائمز " تھے جن کا تذکرہ کرتے ہوئے حضور نے ایک بار فرمایا.دو انگریزی اخبار ایک سن رائز لاہور سے اور ایک مسلم ٹائم لنڈن سے شائع ہوتے ہیں.ان میں سے بالخصوص سن رائز کی ضرورت اور اہمیت کو بہت محسوس کیا جا رہا ہے.اور یہ پرچہ اگرچہ ہمیں قریباً مفت ہی دینا پڑتا ہے مگر فائدہ بہت ہے.امریکہ سے نو مسلمین نے لکھا ہے کہ یہ اخبار بہت ضروری ہے اور اُسے پڑھ کر ہمیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم لوگ بھی جماعت کا ایک ہفتہ ہیں.خصوصاً اس میں جو خطبہ جمعہ کا ترجمہ ہوتا ہے وہ ہمارے لئے ایمانی ترقیات کا موجب ہے.پہلے ہم یوں سمجھتے تھے کہ جماعت سے کئے ہوئے الگ تھلگ ہیں مگر اب خطبہ پہنچ جاتا ہے اور ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہم بھی گویا بہت کا ایک حصہ ہیں " سے تحریک جدید کے انتظام کے ماتحت واقفین کے ذریعہ سے ملک کے آٹھ مقامات پر دینی نئی نئی درسگاہیں درسگاہیں قائم کردی گئیں جن میں بچوں اور بوڑھوں کو مفت تعلیم دی جاتی تھی بلے نے رپورٹ مجلس مشاورت ۹۴ ایر صفحه ۱۱۸ ه الفضل " ۲۹ اگست ١٩٣٥ و صفحه ه " الفصل ۱۱ دسمبر ۱۹۳۶ء صفحه ۳ : +

Page 90

۶۳ ینوری منہ سے لے کر نومبر ۱۳ از یک صوبہ کے پانچ اضلاع کا مکمل تبلیغی سروے یا گیا جو اپنی نوعیت کی جدید چیز تھی.سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی ہدایت پر قصبات اور دیہات کا جائزہ لینے کے لئے دو قسم کے فارم چھپوانے گئے قصبات کے کوائف معلوم کرنے کی غرض سے زرد رنگ کا دو ورقہ اور عام دیہات کے لئے صرف یک ورقہ.یہ کام سائیکلوں کے ذریعہ سے کیا جاتا تھا.ابتداء میں چار سائیکل سوار بھجوائے گئے ایک کے پاس اپنی ذاتی سائیکل تھی.دو سائیڈ میں بدیہ اور ایک سائیکل دفتر نے خرید کی تھی.اور جنوری ۹۳ار کو حضور نے تحریک فرمائی له کہ سولہ سائیکلوں کی فوری ضرورت ہے.اس پر جماعت نے اس کثرت سے سائیکلیں بھیجدیں کہ آئندہ سائیکل نہ بھیجوانے کی ہدایت کرنا پڑی.اس معاملہ میں جماعت احمدیہ دہلی سب جماعتوں پر سبقت لے گئی ہے اس تبلیغی سروے کی نوعیت و اہمیت کیا تھی ؟ اس کی تفصیل حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی زبان مبارک سے سنئے حضور فرماتے ہیں :- میں نے مختلف اضلاع کی سروے کرائی ہیں.اور میں چاہتا ہوں جن اضلاع کی سروے کرائی گئی ہے ان میں جو لوہار ترکھان یا پیشہ ور احمدی بیکار ہیں انہیں پھیلا دوں.تمام گاؤں کے نقشے ہمارے پاس موجو ہیں اور ہر مقام کی لسٹیں ہمارے پاس ہیں جن سے پتہ لگ سکتا ہے کہ ان گاؤں میں پیشہ وروں اور تاجروں کی کیا حالت ہے.اسی ذریعہ سے میں چاہتا ہوں کہ اپنی جماعت کے پیشہ ور بیکاروں کو ان علاقوں میں پھیلا دوں جہاں لوہار نہیں وہاں کا ہار بھجوا دیئے بھائیں جہاں معمار نہیں وہان معمار بیٹھا دیئے جائیں جہاں حکم نہیں وہاں حکیم بھجوا دیئے جائیں.اس سکیم کے ماتحت اگر ہماری جماعت مختلف علاقوں میں پھیل جائے تو یہاں ہمارے بہت سے تبلیغی مرکز ان علاقوں میں قائم ہو سکتے ہیں.وہاں لوگ بھی مجبور ہوں گے کہ احمدیوں سے کام لیں.اس طرح اُن کی بیکاری بھی دور ہوگی اور تبلیغی مرکز بھی قائم ہو جائیں گے.بلکہ لکھے پڑھے لوگ کئی گاؤں میں مدر سے بھی جاری کر سکتے ہیں چنانچہ ہمارے پاس ایسی بیسیوں ریسٹین موجود ہیں جہاں مدرسوں کی ضرورت ہے یا حکیموں کی ضرورت ہے یا کمپونڈروں کی ضرورت ہے مگر انہیں مدرس حکیم اور کمیونڈر نہیں ملتے.اسی طرح ہندوستان سے باہر بھی ہم لبعض پیشہ وروں کو بھیجنا چاہتے ہیں بہنا الفضل و نوبر ہ.اس عرصہ میں چھٹے ضلع کی ایک تحصیل کے ساٹھ گاؤں میں بھی جائزہ لیا جا چکا تھا ہے لله الفضل هم سر جنوری ۱۹۳۵ و صفحه ۵ کالم ۱-۲ : له ه " الفضل " ۱۴ فروری ۱۹۳۵ صفحه ۲ کالم ۹۳ " ١٩٣٥

Page 91

بعض کام عمدگی سے کئے جاسکتے ہیں...غرض دنیا کے ایسے حصے یہاں تجارتی کام اعلیٰ پیمانے پر کئے جا سکتے ہیں، ہم نے معلوم کئے ہیں اور ہر جگہ کے نقشے تیار کئے ہیں.ان علاقوں میں تھوڑی سی ہمت کر کے ہم بیکاروں کو کام پر لگا سکتے ہیں اور بہت سے تبلیغی سینٹر قائم کر سکتے ہیں اور یہ کام ایسا اعلی ہوا ہے کہ جس کی اہمیت ابھی جماعت کو معلوم نہیں اور گو یہ معلومات کا ذخیرہ ابھی صرف چند کاپیوں میں ہے لیکن اگر یورپ والوں کے سامنے یہ کا پیاں پیش کی جائیں تو وہ ان کے برلے لاکھوں روپے دینے کے لئے تیار ہو جائیں مگر افسوس ابھی ہماری جماعت نے اس کام کی اہمیت کو نہیں سمجھا، اسی طرح میں تجارتی طور پر مختلف مقامات کے نقشے بنوا رہا ہوں.اور اس امر کا پتہ لے رہا ہوں کہ سپین اور جاپان اور دوسر ممالک کے کیسی کیسی حصہ میں کون کونسی صنعت ہوتی ہے تاکہ ہم اپنی جماعت کے تاجروں یا ان لوگوں کو جو تجارت پیشہ خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں ان علاقوں میں پھیلا دیں ؟ لے تبلیغی جائزہ کی رپورٹیں موصول ہونے پر حضرت خلیفہ ایسیح الثانی نے تحریک جدید کے زیر انتظام میریان میشن اخروی امت میں پر بلی کا امارات میں میں ایران ولی ما با ارا اور وید اول میں بلی اراک کا میں ضلع ہوشیار ہوں پیروال و ضلع امرتسر) کے میشن بالخصوص قابل ذکر ہیں.مکیریاں میشن کا قیام مختار احمد صاحب ایاز ( پہلے امیر المجاہدین کی کوششوں سے ہوا.مرکز کے لئے ایک احمدی مولوی محمدعزیز الدین صاحب سٹیشن ماسٹر این حضرت مولوی محمد وزیر الدین صاحب (۳۱۳) نے اپنا مکان ہبہ کر دیا تھا.اس مشن کی ذیلی شاخیں حسب ذیل مقامات پر کھولی گئیں چھنیاں.بہتو وال.بہت پور سے مکیریاں شہر تو مخالفت کا گڑھ تھا.مگر ارد گرد علاقہ میں بھی مخالفین کی تکالیف بڑی صبر آزما تھیں حتی کہ جیبا که میان علی محمد صاحب ساکن گھسیٹ پور حلقہ مکیریاں کی روایت ہے کہ ایک بار احمدیوں کو زندہ جلا دینے کا منصوبہ تیار کیا گیا.واقعہ یہ ہوا کہ ایاز صاحب موضع ڈگریاں میں عید پڑھنے کے لئے گئے.اُن کے ساتھ حضرت بابو فقیر علی صاحب بھی تھے.ناگاہ انہیں پتہ چلا کہ جس مکان میں وہ جمع ہیں مخالفین اُسے آگ لگا دینے کی سازش کر رہے ہیں.ه تقریر فرموده ۲۶ دسمبر ۱۹۳۷ مطبوعه الفضل به ار مارچ ۱۹۳۲ء صفحه ۴* "افضل" ۲۹ اگست ۱۹۳۵ار صفحه ۸.ان مشنوں میں واقعین کو برائے نام گذارہ ملتا تھا اور باقی دوست بعض ایام وقف کر کے تشریف لے جاتے تھے (الفضل اور دسمبر را تحریک جدید کے پرانے ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مشن دھار یوال میں قائم کیا گیا تھا اور ایک کراچی میں بھی " سے علی محمد صاحب ساکن گھسیٹ پر حلقہ مکیریان حال احمد نگر کا بیان ہے کہ شروع میں وہ مجاھدین کا کھانا پکانے کے لئے روزانہ اپنے گاؤں سے آتے تھے ہے

Page 92

۶۵ اس پر سب احمدکی چپکے سے باہر نکل گئے.ایاز صاحب کے بعد کیپٹن ڈاکٹر سید محمدحسین صاحب اور حضرت چودھری غلام انگر صاحب ان کی اہم امیرالمجاهدین مقدر ہوئے اشد احد صاحب المال سپرنٹنڈنٹ وکالت مال اول کی ان کے معانی ذکر مات ایک گاؤں بھنگالا میں چھڑیوں سے زدو کوب کئے گئے.بائیکاٹ اتنا سخت تھا کہ احمدی پانی تک سے محروم کر دیے گئے اور ان کو ایک گوردوارہ سے پانی لینا پڑتا تھا میں علی محمد صاحب ساکن گھسیٹ پور تحصل مکیریاں کا بیان ہے کہ چود کار فضل دین صاحب ہو تہ گاؤں کے ایک احمدی تھے جن کی اعوان برادری نے ان کی فصل اُٹھانے کی ممانعت کر دی.یہ خبر مکبر بال پہنچی توڈاکٹر این صورت اور حضرت با به فقیر علی صاحب ، شیخ نورالدین صاحب سید لال شاه صاب (آئنیہ اور بعض دوسرے مجاہدین در انتیال ہے کہ اس گاؤں میں پہنچے اور فصل کاٹنا شروع کر دی.اعوان احمدی رضا کاروں کا یہ جذبہ اخوت و محبت دیکھ کر بہت متاثر ہوئے اور بائیکاٹ ختم کرا دیا تھ کچھ عرصہ بعد جب چودھری محمد شریف صاحب ایڈووکیٹ منٹگمری امیر المجاہدین مقترہ ہوئے تو نکیریاں شہر کے ذیلدار خوشحال محمد صاحب نے چودھری صاحب سے ربط ضبط کے باعث منادی کرادی کہ احمدیوں کو کوئی تکلیف نہ دے.اس پر وہاں امن ہو گیا اور عام مسلمانوں نے سودا سلف دینا شروع کر دیا.سنہ لے تحریک جدید کے پرانے ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ فروری ۱۹۳۵ء میں آپ امیر المجاہدین کے طور پر یہاں خدمات بھا لا ر ہے تھے ؟ ے آپ مارچ ۹۳۵ہ میں آمد کی ہوئے تھے مئی شائر میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے آپ کو غیر احمدی بچوں کو پڑھانے کے لئے مکیریاں بھیجوا دیا.ان دنوں مختار احمد صاحب ایاز امیر المجاہدین تھے چند روز بعد ایاز صاحب کی رخصت ختم ہو کہ نا سید محمدحسین صاحب جو وہاں موجود تھے امیر المجاہدین مقرر کئے گئے ؟ سے بیان میان علی محمد صاحب ساکن گھسیٹ پور تصل مکیریاں مال احمد نگر ضلع جھنگ * + شه کرم چودھری محمد صدیق صاحب ایم.اسے واقف زندگی انچارج خلافت لائیبریری ربوہ کا بیان ہے کر ۱۹۳۵ میں کمی یاں کے مشن میں مجھے بھی تبلیغ کا موقعہ ملا اور بہبو وال چھینیاں مقام تعین کیا گیا.عموماً جمعہ کے روز ہفتہ وار رپورٹ کے لئے بکریاں آنا پڑتا تھا.مکیریاں میں شروع شروع میں بڑی مخالفت تھی اور کنوؤں سے پانی بھرنا بھی بند کر دیا گیا تھا.اس لئے مشن ہاؤ) کے صحن میں ہی کنواں کھود لیا گیا تھا اور اسی سے پانی لیا جاتا تھا ایک دن مغرب کی نماز با جماعت ہورہی تھی کہ مخالفین نے باہر سے گوبر کی پا تھیوں کی بوچھاڑ شروع کر دی لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے سب نمازیوں کو بچا لیا جب مکیریاں میں سخت سیفات تھی تو اس وقت ایک ہمسایہ عورت مسماۃ کریم بی بی نے احمدی احباب کی ہر رنگ میں مدد کی اور ایک حد تک مخالفین کا مقابلہ بھی کیا.بعد میں اس کی اولاد میں سے ایک لڑکے دین محمد کو احمدیت کی قبولیت کی توفیق ملی اور وہ قادیان میں آگئے.تگیریان کا مشن ہائوس حضرت مولوی محمد وزیر الدین صاحب رضی اللہ عنہ کا تھا جو ۳۱۳ صحابہ میں سے تھے.میرے ہوں محمد عزیز الدین صاحب (این مولوی محمد وزیر الدین صاحب اسٹیشن ماسٹر نے اپنی وصیت ( جو کہ لیے کی تھی میں وہ مکان صدر انہیں (جو کولی ، احمدیہ قادیان کو دے دیا تھا اور اسی میں پیشن قائم کیا گیا تھا.

Page 93

۲۶ ۲۷ ۲۸ ستمبر سائہ کو بہت پور میں مولانا ابوالعطاء صاحب بجالندھری نے شیعہ عالم مرزا یوسف حسین صاحب سے مناظرہ کیا جس سے احمدیت کی دھاک بیٹھ گئی اور کئی لوگ حلقہ بگوش احمدیت ہوئے.اس میشن میں حضرت با یو فقیر علی صاحب ، ملک غلام نبی صاحب اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ انسپکٹر آن کیمبلپور نے بھی امیر المجاہدین کے فرائض انجام دیئے.مجاہدین تحریک جدید میں سے جن اصحاب نے یہاں کام کیا.ان میں مولوی روشن الدین احمد صاحب بالخصوص قابل ذکر ہیں جو بارہ سال تک پیغام حق پہنچاتے رہے مئی شہر میں آپ کویت جانے کے لئے قادیان آگئے اور مشین کا چارج مولوی حسام الدین صاحب نے سنبھالا.ویر و وال ضلع امرتسر میں بھی تحریک جدید کا مرکز قائم کیا گیا خواص پور، فتح آباد، میاں ونڈ ویر و وال مشن گوند دال اور جلال آباد میں اس مرکز کی شاخیں تھیں.ویر وال کے علاقہ میں مکیریاں کے مقابل بہت زیادہ مخالفت کا زور تھا.اسی لئے ابتدا میں بعض اوقات پندرہ سولہ مجاهد (یعنی تعطیلات وقف کرنے والے احمدی، یہاں بھیجوائے جاتے رہتے ہے.حلقہ ویر ووال میں یکے بعد دیگرے متعدد امیر المجاہدین مقرر کئے گئے جن میں سے شہور و ممتاز یہ ہیں : - ڈاکٹر اعظم علی صاحب گجرات - آپ بڑے معاملہ فہم تھے اور انکسار و فروتنی سے مخالفوں کے دل موہ لیتے تھے.۲ حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب.آپ کے تقویٰ اور نیکی کا غیروں پر بھی گہرا اثر تھا.حضرت میاں محمد یوسف خاں صاحب.آپ دن بھر کام کرتے اور روزانہ ذیلی مراکز کا دورہ کیا کرتے تھے..ڈاکٹر غلام مصطفی صاحب.عبد المجید خان صاحب آف ویر و ویل.آپ کو سات سال کے تھے تقسیم ہند تک امیر المجاہدین رہے.ویہ ووال میں مخالفین کا بہت زور تھا.امرتسر وغیرہ سے بدگو اور شعلہ مزاج خطیب و مقرر یہاں بڑی کثرت سے بلوائے بجائے جو زبر دست اشتعال پھیلاتے اور مقاطعہ جاری رکھنے کی تلقین کرتے رہتے تھے لیکن احمدی ے مکیریان مشن میں حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحب سیالکوئی ڈاکٹر بھائی محمود احمد صاحب حوال سرگودها بعضرت دادی امام الدین صاحب والد ماجد خالد احمدیت مولانا جلال الدین صاحب کمیشن کو بھی کام کرنے کا موقعہ ملا کے بعض مجاهدین : حضرت منشی سکندر علی صاحب ، حضرت حکیم قطب الدین صاحب ، بابو غلام محمد صاحب ، ڈاکٹر محمد انور صاحب جڑانوالہ ، ڈاکٹر عبد الحمید صاحب چین میڈیکل آفیسر ریلوے ، ڈاکٹر عبید اللہ صاحب آف لاہور (ہومیوں مرزا غلام رسول صاحب ریڈر جیت کشنر پشاور ، ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب ، مرزا منیر احمد صاحب ، چودھری انور حسین صاحب (حال الجبیر جماعت احمدیہ ضلع شیخو پوره ، پیر صلاح الدین صاحب (حال ایڈیشنل کمشنر ملتان )

Page 94

اطر تو جاری رقرار ملانہ - کوام المہ شہادت ہے خود اختیار کرے.میاں الحمد الله انال نہ ہے تو دین کی خدمت کے لیے وقت کردیتے.انبار و ان نمطا به تاریانا ہی نگاہ بنانے اور با درست انا مهمان

Page 95

نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی ایک یادگار تحریر متعلقہ صفحے بیرونی تبلیغ اور جماعتی تعلیم کے لئے مجاہدین تحریک جدید کا انتخاب ( مورخه یکم فروری ۱۹۴۵ء) عریف نما ایک بہنوں کا خود حاضر موت ہے مولوی رشید احمد قیتا ایران دو مولوی صدر الدین شیخ عبد الواحد - سین دو - کرے الہی.محمد انگار ساتی رایلی جرینی دو - انگستان شمالی امریکی انریکه ؟ سے شمالی امریکه براش گرامی دار راس میاں عطا و لاله همین موجود دارد

Page 96

سیاسی احمد پر رکنا و دارالا نوار قاریان بر کوی اور طلاق در مولوی شیشه ایرانی و الحمدان حافظ شیر وزیر آبادی آٹھ آدمی اپنے فہر تک وقت میں شرد مختلف حالت میں بظر ومبلغ بھیجنے کا فیصلہ صادر فرمایا.صالح کوئی وتھی ڈاکٹر حاجی خان سے

Page 97

سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی عطا فرمود سند مجاہد دین دفتر اول کو قاریان اعوذ بالد من الشيطن الرجيم نبوت کشته مش بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو انا جبی فی اللہ السلام عليكم ورحمة الله وبركاته - مجھے معلوم ہو اہے کہ اسر تھانے کے فضل و کرم ہے آپ نے تحریک جدید کے دور اول کے پہلے دس سال کا چندہ بہ تمام و کمال اوا کر دیا ہے جسکی تفصیل دفتر کے ریکار ڈ کے رو سے مندرجہ ذیل ہے.سال اول - سال دیے - سال سوم سال مبارہ سال و پنجم سال ششم سال ہفتے سال ہشتم سال نہیم و سال و ہم اسیر میں آپ کو مبارکباد دیتے ہوئے اللہ تعالے ایسے دیا.تا ہوں کہ وہ آپ کو جزائے خیر دے اب آپنے تبلیغ اسلام کی مستقل بنیا اور کھتے ہیں جو قربانی کی ہے اسمہ تعالے ایسے قبول فرمائے اور اسلام اور احمدیت کے لیے جن اہم قربانیوں کی آئندہ ضرورت پیش آئے اللہ تعالے ان میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی آپ کو توفیق بخشے.اللہ تعالے کا فضل ہمیشہ آپکے اور آپ کی نسل کے ساتھ رہے.آئین پر اسلام فاکسار كذا المحمود بلد خلیفة الجسیم البتانی

Page 98

46 مبلغین کی پے در پے تقاریر اور مجاہدین تحریک جدید کے صبر و استقلال، خوش خلقی اور دعاؤں کا نتیجہ یہ نکلا کہ خدا کے فضل سے کئی خوش قسمت داخل احمدیت ہو گئے جن میں مہر اللہ و نہ منہ اسب (حال لائلپور بھی تھے.اس علاقہ میں آریہ اور عیسائی جگہ جگہ پہنچی کہ اسلام کے خلاف زہر مکانی کرتے اور مسلمانوں کو نگراہ کرتے رہتے تھے عامتہ المسلمین اس یلغار سے کہتے ہوئے تھے جب احمدی مینوں کے ہاتھوں آریوں اور عیسائیوں کی شکرت اُٹھانا پڑی تو مسلمانوں کے حوصلے بھی بلند ہو گئے.احمدی نوجوانوں میں صنعت و حرفت کا شوق پیدا کرنے کے لئے (محلہ دار البرکات دار الصناعت قادیان میں) دارا الصناعت قائم کیا گیا جس کا افتتاح حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ۲ مارچ ۱۹۳۵ء کو فرمایا.اس موقعہ پر حضور نے زندہ لے کر خود اپنے دست مبارک سے لکڑی صاف کی ہے اور آری سے اس کے دو ٹکڑے کر کے معملا بتا دیا کہ اپنے ہاتھوں سے کوئی کام کرنا ذلت نہیں بلکہ عزت کا موجب ہے.دار الصناعت میں طلبہ کی تعلیم و تربیت اور رہائش کا انتظام تحریک جدید کے ذمہ تھا.ابتدائی مسائل لله اور عقائد کی زبانی تعلیم بھی دی جاتی تھی.اس کے تین شعبے (بخاری، آهنگری اور چرمی تھے تیر خلیفہ اسی خانی نے بائیو اکبر علی صاحب کو جو محکمہ ریلوے انسپکٹر آن در کس کی اسامی سے ریٹائر ہو کر آئے تھے، آخر یہ کی طور پر صنعتی کاموں کا نگران مقر فرمایاتی و صنعتی ادارہ شاہ تک بڑی کامیابی سے چلتا رہا.وسط ۹۳۵ اور میں بور ڈ نگ تحریک جدید کا قیام ہوا.اس بورڈنگ کا بنیادی بورڈنگ تحریک جدید مقصد حضرت علی ابیع الثانی کے الفاظ میں یہ تھا - خلیفہ اسلامی اخلاق کی تفاصیل بچوں کو سمبھائی بھائیں مثلا سچ کی تعریف.سچ بولنے میں کیا کیا مشکلات پیش آسکتی ہیں اور پھر شریعیت نے ان کے کیا کیا علاج رکھتے ہیں.یہ باتیں سکھائی بھانی چاہئیں لے سے یہ کارخانہ ٹھیکیدار عبد الرحمن صاحب کے مکان واقع داریا لبرکات میں جاری کیا گیا تھا اور مستری شیر محمد صاحب ڈسکوی لوہارا سکھانے اور مستری نذیر محمد صاحب لاہوری بڑھئی کا کام سکھانے کے لئے مقرر کئے گئے بشروع میں چھلڑ کے داخل کئے گئے تھے (الفضل هم مارچ ۱۹۳۶ صفحه ۲ کالم ۳ شود و " الفضل" در مارچ ۱۹۳۵ صفحه ۱۰ + یکه دار الصناعت کے بعض ابتدائی کارکن ، ناک میں میں نے حضرت مولوی محمد عبد الله صاحب بوتالوی سپرنٹنڈنٹ بورڈنگ ، چودھری نعمت علی صاحب.منشی فضل اپنی صاحب - ما سر جلال الدین صاحب قمر ملک احمد خانصاریان نه الفضل ، ار جولائی ۲ صفحہ ۱۰، بورڈنگ کی غرض کے سلسلہ ماہنامہ تحریک جدید که بره اگست 14 میں ملاحظہ ہو الفصل " ۲۵ دسمبر ۱۳ و صفحه 9 و

Page 99

ЧА حضور نے بورڈنگ کے قیام سے قبل مشاورت ۱۹۳۵ء میں اس بورڈنگ کے زیر غور اصولوں کی نسبت خاص طور پر وضاحت فرمانی که :- بعض احباب کو یہ غلطی لگی ہے کہ گویا تحریک جدید کے ماتحت کوئی علیحدہ سکول قائم کیا جارہا ہے.یہ نہیں بلکہ بورڈنگ قائم کیا گیا ہے.بعض نے اپنے بچوں کے متعلق یہ کہا ہے کہ انہیں قادیان میں تعلیم دلائیں خواہ ہائی سکول میں داخل کر دیں خواہ مدرسہ احمدیہ میں گر تحریک جدید کے ماتحت جدا گانہ انتظام ہے وہ سکول نہیں بلکہ بورڈنگ ہے جو خاص طور پر مقرر کیا گیا ہے.لڑکا چاہے مدرسہ احمدیہ میں پڑھے چاہے ہائی سکول میں پڑھے.مگر في الحال ہائی سکول میں پڑھنے والوں کے لئے یہ انتظام کیا گیا ہے.اس انتظام کے ماتحت اپنے لڑکوں کو دینے والوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ تحریک جدید کے دفتر میں یہ تحریر دیں کہ ہم نے اپنے فلاں بچہ کو اس تحریک کے ماتحت آپ کے سپرد کیا ہے.دوسری بات یہ ہے کہ بچہ کے متعلق تحریک جدید والوں کو کھلی اختیارات دیئے جائیں لینی تربیت کے متعلق بچہ کے والد یا سرپرست کو دخل اندازی کا کوئی حق نہیں ہوگا.ان سب بچوں کو ایک ہی قسم کا کھانا ملے گا سوائے اس کے کہ کوئی لڑکا ایسے علاقہ کا ہو جہاں روٹی کی بجائے چاول کھاتے ہیں اس کو چاول اور سائن دیں گے لیکن باقی سب کے لئے ایک ہی کھانا ہو گا اور نہیں ایک ہی رنگ میں رکھا جائے گا کوئی نمایاں امتیازہ اُن میں نہ ہونے دیا جائے گا تا کہ غریب، امیر اور چھوٹے اور بڑے کا امتیاز انہیں محسوس نہ ہو.میں ان کا لباس بھی اور کھانا بھی قریب قریب ایک جیسا ہو گا.پھر ان کی دینی تعلیم پر زیادہ زور دیا جائے گا.ہاں سکول میں پاس ہونے کے لئے سکول کی تعلیم بھی دلائی جائے گی.مگریہ تعلیم دلانا مقصد نہ ہوگا بلکہ اصل مقصد دینی تعلیم ہوگی.بڑی عمر کے لڑکوں کو تہجد بھی پڑھائی جائے گی اور کسی ماں باپ کی شکایت نہ سنی بھائے گی.یہ تو ہو سکے گا کہ لڑکے کو اس بورڈنگ سے خارج کر دیا جائے مگر یہ نہ سنا جائے گا کہ لڑکے کو یہ تکلیف ہے.اس کا یوں ازالہ کرنا چاہیے یا اس کے لئے یہ انتظام کیا جائے.اس بورڈنگ کے سپرنٹنڈنٹ سے سہارا عہد ہے کہ وہ ان بچوں میں باپ کی طرح رہے گا.اور اگر لڑکوں میں سے کوئی ناروا حرکت کرے گا تو اس کی سزا خود لڑکے ہی تجویز کریں گے.مثلاً یہ کہ فلاں نے جھوٹ بولا اُسے یہ سزا ملنی چاہیے.اس قسم کے اصول ہیں جو اس بورڈنگ کے لئے مقرر کئے گئے ہیں اور ابھی میں غور کر رہا ہوں میں

Page 100

4 جو دوست اس تحریک کے ماتحت اپنے بچوں کو داخل کرنا چاہیں وہ تحریہ دے بھائیں.صرف یہاں کے کسی مدرسہ میں داخل کرنا دینا کافی نہ ہوگا.اسی طرح انہیں بورڈنگ یا مدرسہ کے متعلق کوئی شکایت لکھنے کا حق نہ ہوگا.انہیں جو کچھ لکھنا ہو انچارج تحریک کو لکھیں.وہ اگر مناسب سمجھے گا تو ومضل دے گا " اے بور ٹانگ کے قیام پر ضور نے اس کی نسبت بعض اہم ہدایات دیں مشکو ا.طلباء کے جسمانی قوی اور حواس خمسہ کو ترقی دینے والی کھیلیں رائج کی بجائیں.- قصور وار طالب علم کی سزا لڑ کے ہی تجویز کریں.کھانے کا انتظام بھی لڑکوں کے ہاتھ میں دیا جائے.سلام طلباء کی اخلاقی تربیت کی طرف تو یہ دکی جائے.مثلاً انہیں بتایا جائے کہ بدظنی اور نگرانی میں کیا فرق ہے؟ اور اس کے نہ جاننے سے کیا نقصانات ہوتے ہیں: از کون کو اسلامی تاریخ سے آگاہ کیا جائے.ایک پہارٹ بنائے جائیں جن میں دکھایا جائے کہ پہلی صدی میں کہاں کہاں مسلمانوں کی حکومت قائم ہونی تھی.دوسری میں کہا نا کہاں.تیسری صدی میں اُسے کس قدر وسعت حاصل ہوئی بہتی کہ چودھویں صدی تک ساری کیفیت دکھائی جائے.اس طرح ہر طالب علم کے سینے میں ایک ایسا زخم لگے گا جو اسلام کی فتح سے ہی درست ہو گا.ی کی ہدایت دی کہ " طلباء کے ہر کمرہ میں اس قسم کے نقشے ہوں جن سے ہمارے لڑکے یہ سمجھ سکیں کہ سان پہلے کیا تھے اور آج کیا ہیں جب تک ہم اپنے بچوں کے سینوں میں ایک آگ نہ بھر دیں گے اور جب تک اُن کے دل ایسے زخمی نہ ہو جائیں گے جو یہ سنتے رہیں ہم کامیاب نہیں ہو سکتے.اسلام کی ترقی یہ چاہتی ہے کہ ایسی تاثیر پیدا ہو جو پرانی یاد کو تازہ رکھے اور پل بھر چین نہ لینے دے جب تک یہ نہیں ہوتا ہماری جدوجہد سخت کڑور رہے گی اور زیادہ شاندار نتائج پیدا نہیں ہوں گے.یہ چیزیں ہیں جو تحریک بدید کے مرکز اور بورڈنگ میں کام کرنے والوں کو مد نظر رکھنی چاہیں گے مولوی عبدالرحمن صاحب انور کا بیان ہے کہ حضرت امیر المومنین کی طرف سے بورڈنگ کے افسروں کو یہ ہدایت بھی کھتی کہ دو بچوں کی نسبت یہ ریکارڈ رکھیں کہ ان کی طبیعت کا رحجان کین امور کی طرف ہے.مہ جب وہ بورڈنگ سے فارغ ہوں تو ان کے والدین کو رپورٹ کی جائے کہ اُن کے رجحان طبع کی وجہ سے فلاں لائن کا انتخاب کرنا زیادہ مفید و مناسب ہوگا.14 رپورٹ مجلس مشاورت ۹۳ صفحه ۱۶ و ۱۷ و الفضل ۲۵ صفر و له الفضل المال الا صفحه ۳-۹۴

Page 101

شروع میں ہے سو طلبہ نے اور رہا.میں داخلی، بچوں کی دینی تعلیم کے لئے ایک مولوی فاضل استناد بطور ٹیوٹر مقرر کئے گئے طلبہ اپنے علمی فرائض کے ساتھ باقاعدہ نماز با جماعت بلکہ تہجد بھی پڑھتے تھے کھیتی باڑی کا کام سیکھنا بھی اُن کے لئے لازمی تھائیے مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء کے معا بعد اس بورڈنگ کا قیام عمل میں آگیا اور حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت صوفی غلام محمد صاحب کے کو اس کا سپر نٹنڈنٹ مقررفرمایا.حضرت صوفی صاحب ۲۸ جون ۱۹۳۵ء کو بی ٹی کرنے کیلئے علیگڑھ تشریف لے گئے تو قریباً دو سال ملک سعید احمد صاحب بی.اے شے پر حضرت ملک مولا بخش صاحب کو یہ خدمت سپرد ہوئی.ازاں بعد حضرت صوفی صاحب ہی ۱۹۴۶ ء تک یہ خدمت سر انجام دیتے رہے.بورڈنگ میں وقتا فوقتا مولوی عبد الخالق صاحب، ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے مولوی محمد اشرف صاحب چودھری فضل احمد صاحب ، چودھری فضل الرحمن صاحب ، چودھری عبد الواحد صاحب ، مولوی امام الدین صاحب ملتانی، موادی محمد احمد صاحب قبیل ، چودھری محمد اسمعیل صاحب خالد ، ملک محمد شریعت صاحب اور چودھری عصمت علی صاحب ٹیوٹر کے فرائض بجالاتے رہے.اس زمانہ میں چودھری فضل اسر صاحب اور منشی فضل الہی صاحب خادم طفلال مقرر تھے.حضرت خلیفہ ایسیح الثانی سال میں کئی بار خود بورڈنگ میں تشریف لے جاتے اور طلباء سے گفتگو کر کے اُن کے حالات دریافت فرماتے تھے.ایک دفعہ حضور ساتھ بھائی بھی لے گئے.بچوں کا ہجوم ہو گیا اور کارکنوں نے بچوں کو قطار میں کھڑا کرنا چاہا لیکن حضور نے فرمایا.بچوں کو اسی طرح آنے دو جس طرح وہ گھر میں اپنے والدین کے پاس آتے ہیں سکے یہ بورڈنگ سالہا سال تک تحریک جدید کی نگرانی میں جاری رہا ء سے اس کا انتظام نظارت تعلیم و تربیت در اخیر احمدیہ قادیان کے سپرد کر دی گی.اس بورڈنگ کی نسبت حضور کے بڑے عزائم تھے چنانچہ حضور له الفضل شما را پریل ۹۲ صفحه ۳ + سے " الفضل " یکم جولائی شدہ صفحہ کالم : سله الفضل وارجون شده ۵-۲: مزید تفصیل کیلئے سالانہ رپورٹس صدر انجمن احمد بیه قادیان ۱۹۳۵ تا ۱۹۴۶ء نه افتتاح کے بعد پہلی بار تصور ۲۵ جولائی شاہ کو باور ڈنگ میں تشریف لائے بچوں کو شرف مصافحہ بخشا مختصر امتحان لیا اور ان کی تعلیمی وجہ مانی ترقی کے لئے قیمتی ہدایات دیں (الفضل " ۲۰ جولائی ۱۹۳۵ صفحه ۲ ) : شه ماهنامه " خالد ریوه جنوری ۱۹۷۲ء صفحه ۲۲ به مطالبات تحریک جدید طبع چینارم صفحه ۱۱۰ مرتبه مولوی عبدالرحمن صاحب انور ناشر دفتر تحریک ، جد عله قادیان.تاریخ اشاعت شدہ حضور نے ایک بار اس منشا مبارک کا اظہار بھی فرمایا تھا کہ میرے مد نظر تعلیم الاسلام ہائی سکول، دسمبر + مدرسا حمید اور نصرت گرلز سکول تینوں کے ساتھ بورڈنگ تحریک جدید کا قیام بھی ہے (الفضل ۲۵ دکبیر را صفحہ و کالم ۱۲

Page 102

محمدی نے ۳ اگست ۱۹۳۶ کو تقریر فرمائی کہ برار کے موقع پر جب کفار نے اسلامی لشکر کا جائزہ لینے کے لئے آدمی بھیجے تو انہوں نے آکر کہا کہ سواریوں پر ہمیں آدمی نظر نہیں آتے بلکہ موتیں نظر آتی ہیں اُن سے نہیں لڑنا چاہیئے ورنہ ہماری خیر نہیں ہے جب نوجوانوں میں نہیں یہ روح نظر آجائے گی اور ہم دیکھیں گے کہ وہ اسلام کے لئے قربان ہونے کے منتظر بیٹھے ہیں اور پر تو لے ہوئے اس بات کے منتظر ہیں کہ گھر کی چڑیا آئے اور وہ اس پر جھپٹ پڑیں.اس دن ہم سمجھیں گے کہ تحریک جدید کا بورڈنگ بنانے کا جو مقصد تھا وہ حاصل ہو گیا سے تحریک جدید کے قومی سرمایہ سے (زینت محل لال کنواں دہلی میں " و یدک یونانی و یدک یونانی دواخانہ دہلی دواخانہ قائم کیا گیا.دواخانہ جاری کرنے سے پہلے حضرت امیرالمومنین نے چند واقفین کو یونانی طب کی تعلیم دلائی اور خود بھی ویدک اور یونانی ادویہ سے متعلق قیمتی مشورے دیئے بلے حکیم عبدالمجید صاحب الالپوری تحکیم محمد اسمعیل صاحب فاضل اس میں کام کرتے رہے.دواخانہ کے پہلے ناظم قریشی مختار احمد صاحب دہلوی اور دوسرے مولوی نورالدین صاحب منیر تھے یہ دواخانہ ۳ روز تک جاری رہا.تحریک بعدید کی طرف سے ایک مناسب رقم انگریزی ترجمہ القرآن کے لئے مخصوص قرآن مجید انگریزی ترجمہ کردی گئی اور اس کی ترتیب و تدوین کے لئے ۲۶ فروری کو حضرت مولوی ۱۹۳۶ء شیر علی صاحب انگلستان بھجوائے گئے.آپ 9 نومبر ۱۹ ء کو واپس قادیان میں تشریف لائے.لاکھ کاری روفن حضرت یہ ایسی الثانی نے فرمایاکہ:- ۲۵ ریزروفنڈ میں نے آج سے کچھ سال پہلے ۲۵ لاکھ ریزرو فنڈ کی تحریک کی تھی مگروہ تو ایسا خواب رہا جو تشنہ تعبیر ہی رہا مگر اللہ تعالیٰ نے تحریک بدید کے ذریعہ اب پھر ایسے ریزرو فنڈ کے جمع کرنے کا موقع بہم پہنچا دیا ہے اور ایسی جائدادوں پر یہ روپیہ لگایا جا چکا اور لگایا جارہا ہے جین کی مستقل آمد ۲۵-۲۰ ہزار روپیہ سالانہ ہوسکتی ہے تا تبلیغ کے کام کو بجٹ کی کمی کی وجہ سے کوئی نقصان نہ پہنچے " یہ جائیدادیں سندھ میں زید کی گئیں ہو حضور کاشاندار کارنامہ ہے جون شاہ سے محمد آباد سٹیٹ میں تحریک " الفضل" الدسمبر ۱۹ صفحه ۳ کالم ۱+ ة الفضل " ۱۳ اپریل ۹۷ به سفحه ۵ * له الفضل الدسمبر ۱۳/ صفحه ب كالم! " له الفضل " ۲۴ نومبر ۲ صفحه ۱ کالم ۶۲۰۱

Page 103

۷۲ جدید کی طرف سے با قاعدہ مرکزی دفتر کھول دیا گیا ہے فصل ختم بیرونی ممالک میں تقریب جدید کی ابتدائی سرگرمیاں تحریک جدید کا ایک اہم مقصد یہ تھا کہ احمدی تمام دنیا میں پھیل جائیں.تحریک جدید کا ایک اہم مقصد اور قریب سے قریب زمانہ میں دوسرے دور علاقوں میں جا کر مراکز احدیت اور قریب قائم کر دیں بچنا نچہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے انہی دنوں میں ارشاد فرمایا.چونکہ نشر و اشاعت کا زمانہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے تصور یہ مقدر ہو چکا ہے کہ وہ دنیا کے تمام ممالک میں مدیرت پھیلائے.اس لئے اگر خدا تعالیٰ یہ بتادینا کہ احمدیت کی اشاعت کے لئے فلاں ملک موزہ زن ہے توہم سارے وہاں جاکر کٹے ہو جاتے اور باقی ملک میں احمدیت پھیلانے سے غافل ہوجاتے اس شرح خداتعالی یہ چاہتا ہے کہ دنیا کے تمام ممالک میں ہم جھائیں اور دنیا میں گھوم کر وہ ملک تلاش کریں جو احمدیت کے لئے مشیل مدینہ کا کام دے اس مقصد کے ماتحت جب ہم دنیا کے تمام ممالک میں پھریں گئے تو ہر ملک میں احمدیت کا بیج ہوتے جائیں گے اس طرح خدا تعالی کا یہ متشار کبھی پورا ہو جائے گا کہ دنیا کے تمام ممالک میں احمدیت پھیلے اور آخر ہمیں وہ مقام بھی نظر آجائے گا جسے ہم تلاش کرنے کے لئے نکلے ہوں گے " لگے نیز ارشاد فرمایا : ردھانی جماعتوں کو ہمیشہ مختلف ملکوں میں اپنی تبلیغ کو پھیلا دینا چاہیے تا کہ اگر ایک جگہ مخالفت ہو تو دوسری جگہ اس کمی کو پورا کیا سیا رہا ہو نہیں طرح وہ آدمی زیادہ فائدہ میں رہتا ہے جس کے کئی ملکوں میں کھیت ہوں تا اگر ایک ملک میں ایک کھیت کو نقصان پہنچے تو دوسرے ملکوں کے کھیت اس کی تلافی کر دیں اور اس کے عضرر کو مٹادیں.اسی طرح وہی دینی جماعتیں فائدہ میں رہتی ہیں جو مختلف ممالک اور مختلف جگہوں میں سے امام محمد آباد اسٹیٹ کے بعض ابتدائی کارکن : سردار عبد الرحمن صاحب ملک گل محمد صاحب خوشاب با بو عنایت اللہ صاحب چوہدری رحمت علی صاحب کم.منشی بلال احمد صاحب چوہدری بشارت احمد صاحب مینشی سلطان احمد صاحب مینشی شیر جنگ صاحب موادی نظام صادق صاحب مدرس * ه خطیه مجعد فرموده ها زیر ) الفضل ۲۹ ماری ۲ ست کالم ۳

Page 104

۷۳ پھیلی ہوئی ہوں کیونکہ انہیں کبھی کچلا نہیں جا سکتا.پس اگر ہماری جماعت کے لوگ ساری دُنیا میں پھیل بھائیں گے تو وہ خود بھی ترقیات حاصل کریں گے اور اُن کی ترقیات سلسلہ پر بھی اثر انداز ہوں گی.اور جیں جماعت کی آوازہ ساری دُنیا سے اُٹھ سکتی ہو اس کی آواز سے لوگ ڈرا کرتے ہیں اور جس جماعت کے ہمدرد ساری دنیا میں موجود ہوں اس پر حملہ کرنے کی جرات آسانی سے نہیں کی جاسکتی.نہیں مت سمجھو که موجودہ خاموشی کے یہ معنی ہیں کہ تمہارے لئے فضاصاف ہو گئی.یہ خاموشی نہیں بلکہ آثار ایسے ہیں کہ پھر کئی شورشی پیدا ہونے والی ہیں.اس لئے موجودہ خاموشی کے یہ معنے ہر گز مت سمجھو کہ تمہارا کام ختم ہو گیا.یہ فتنہ تو تمہیں بیدار کرنے کے لئے پیدا کیا گیا تھا.اور اگر تم اب پھر سو گئے تویاد رکھی.کہ انگلی سزا پہلے سے بہت زیادہ سخت ہوگی.بعد اتعالئے چاہتا ہے کہ وہ تمہیں دنیا میں پھیلائے.اگر تم دنیا میں نہ پھیلے اور سو گئے تو وہ تمہیں گھسیٹ کر جگائے گا اور ہر دفعہ کا گھسیٹنا پہلے سے زیادہ سخت ہو گا.پس پھیل جاؤ دنیا میں پھیل جاؤ مشرق میں پھیل جاؤ مغرب میں ، پھیل جاؤ شمال میں پھیل بھاؤ جنوب میں پھیل بھاؤ یورپ میں پھیل جاؤ امریکہ میں ، پھیل جاؤا افریقہ میں پھیل جاؤ بین اثر میں پھیل جاؤ چین میں پھیل بھاؤ جاپان میں پھیل جاؤ دنیا کے کونہ کونہ میں، یہانتک کہ دنیا کا کوئی گوشہ ، دنیا کا کوئی ملک، دُنیا کا کوئی علاقہ ایسا نہ ہو جہاں تم نہ ہو.پس پھیل جاؤ جیسے صحابہ رضی اللہ عنہم پھیلے پھیل جاؤ جیسے قرون اولیٰ کے مسلمان پھیلے.تم جہاں جہاں بھاؤ اپنی عزت کے ساتھ سلسلہ کی عزت قائم کرو.جہاں پھر د اپنی ترقی کے ساتھ سلسلہ کی ترقی کے موجب بنو، پس قریب سے قریب زمانہ میں دور سے دور علاقوں میں جا کر مراکز احمدیت قائم کرنا تحریک جدید کا ایک مقصد ہے" سے تضور انور نے تحریک جدید کے اس بنیادی مقصد کے پیش نظر وقف کی درخواستیں پیش کرنے والے خوش قسمت اصحاب میں سے چند نوجوانوں کو بیرونی ممالک میں بھیجوانے کے لئے منتخب فرمایا.یہ مجاہدین (جن کو تحریک، جدید کا سہراول دستہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا، حسب ذیل تھے.مولوی غلام حسین صاحب ،ایاز ، سونی عبد الغفور صاحب ، چودھری محمد اسحاق صاحب سیالکوٹی ، صوفی عبد القدیر صاحب نیاز ، حافظ مولوی عبدالغفور صاحب جالندھری ، چودھری حاجی احمد خاں صاحب ایاز سے افضل " ۱۷ جنوری ۳ بر صفحه ۱۰-۰۱۱

Page 105

۷۴ محمد ابراہیم صاحب ناصر ملک محمد شریف صاحب آن گجرات - مولوی رمضان علی صاحب مولوی محمد دین صاحب ان نوجوانوں کے انتخاب کے دوران حضرت امیرالمومنین حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیال سے بھی کئی دن مشورہ فرماتے رہے.اور ریلوے کا تھرڈ کلاس کرایہ جہاز کا ڈیک کرایہ اور اُن کے لئے چھ ماہ کا الاؤنس منظور کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ چھ ماہ کے اندر اندر اپنے اخراجات تجارت یا کسی اور ذریعہ سے خود برداشت کرنے کی کوشش کی جائے.اس طرح واجبی اخراجات پر یہ مجاہدین تحریک مختلف ممالک کو روانہ ہو گئے جنہوں نے سنگا پور (ملایا ، ہانگ کانگ (چین)، جاپان ، ہنگری ، پولینڈ سپین ، اٹھی ، جنوبی امریکہ ، البانیہ اور یوگو سلاویہ میں نئے مشن قائم کر دیئے اور بعض پہلے مشنوں کے استحکام کا موجب بنے.اس انتخاب کے وقت جن امور کا خیال رکھا گیا ان کے متعلق حضرت خلیفہ اسیح الثانی فرماتے ہیں: تحریک جدید کے پہلے مبلغین کے انتخاب کے وقت صرف یہ دیکھا جاتا تھا کہ جرات کے ساتھے کام کرنے کا مادہ ہو.لیاقت کا زیادہ خیال نہیں رکھا گیا تھا.اس وقت ایسے آدمی کی ضرورت تھی جو دلیری کے ساتھ آگ میں اپنے آپ کو ڈال دینے والا ہو چنانچہ ایسے لوگوں کو منتخب کر کے ہم نے بھیج دیا اور وہ مقصد حاصل بھی ہو گیا.ان میں سے بعض دینی علوم اور عربی سے بھی اچھی طرح واقف نہ تھے بلکہ بعض کا تقویٰ کا معیار بھی اتنا بلند نہ تھا.مگر اس وقت ہمیں صرت آواز پہنچانی تھی اور دشمن کو یہ بتانا تھا کہ ہمارے پاس ایسے نوجوان ہیں جو اپنا آرام و آسائش ، اپنا وطن عزیز و اقارز بیوی بچوں، غرض کہ کسی چیز کی پروانہ کرتے ہوئے نکل جائیں گے.بھوکے پیاسے رہیں گے دین کی خدمت کریں گے ایسی قوم کو جس میں ایسے نوجوان ہوں مار دینا ناممکن ہوتا ہے.چنا نچہ ہم نے یہ دکھا دیا.بعض نوجوان برائے نام گذارے لے کو اور بعض یونہی باہر چلے گئے.اور اس طرح ہمارا خرج باردہ مشنوں پر قریباً ایک مشن کے برابر ہے" سے پھر فرمایا : جانی قربانی کے سلسلہ میں مبتلقین کا ایک جتھا مختلف ممالک میں جا چکا ہے لیکن وہ ایک منه ان مجاہدین کی ٹرینینگ بالکل محتقرنتی.پڑھائی مسجد مبارک میں ہوتی تھی و مولوی محمداحمد صاحب قبیل کے بیان کے مطابق) مفتی فضل الرحمن صاحب عبد سلسلہ میں طلب پڑھایا کرتے تھے.ازاں بعد حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ۲۶ مٹی اے کو جلیل صاحب کی نسبت ارشاد فرمایا کہ انہیں قرآن اور دینیات پڑھانے پر مقرر کر دیا جائے " ماہنامہ تحریک جدید و اگست 11 صفحہ ۷ کالم ۲) سے رپورٹ مجلس مشاورت ۱۲۸ و صفر ۰۰۶ +64

Page 106

ง ایسا جنھا تھا جس کی خاص طور پر تعلیم و تربیت نہیں کی گئی تھی.بہر حال اس کے ذریعہ ہمیں غیر مالک کا اچھا خاصہ تجربہ ہو گیا ہے.اس تیتھا کے افراد میں بعض کمزوریاں بھی معلوم ہوئی ہیں کیونکہ ان میں اکثر ایسے تھے جو دینی تعلیم سے پوری طرح واقف نہیں تھے.اور اگر کسی کو دینی تعلیم تھی تو دنیوی تعلیم کے لحاظ سے وہ کمزور تھا.لیکن بہر حال یہ ایک مظاہرہ تھا جماعتی قربانی کا اور یہ ایک مظاہرہ تھا اس بات کا کہ ہماری جماعت کے نوجوانوں میں خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ مادہ پایا جاتا ہے کہ جب بھی خدا تعالے کی آواز اُن کے کانوں میں آئے وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اعلاء کلمہ اسلام کے لئے نیکل کھڑے ہوتے ہیں.اس مظاہرہ کے ذریعہ دنیا کے سامنے ہماری جماعت کے نوجوانوں نے اپنے اخلاص کا نہایت شاندار نمونہ پیش کیا ہے " اے تحریک جدید کے دو مجاہدوں کی اس مقا پر ہم تحریک بی کے دور اول و دوم او و بینی ولی اون نگات اور عدالت خانصاحب کا ذکر کئے بغیر نہیں رہ سکتے جنہوں نے تبلیغ اسلام کی قابل رشک مظاہرہ راہ میں جام شہادت نوش کیا.چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا :- قریب ترین عرصہ میں ایک ایسا واقعہ ہوا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری جماعت کے نوجوانوں نے اپنے اخلاص کا نہایت قابل رشک مظاہرہ کیا ہے اور وہ یہ کہ ان پچھیں تمہیں نوجوانوں میں سے جنہوں نے اپنی زندگیاں وقفت کی تھیں، ایک نوجوان تھوڑا ہی عرصہ ہوا غالباً پندرہ میں دن یا نہینہ کی بات ہے کہ محض احمدیت کی تبلیغ کی وجہ سے اپنے علاقہ میں مارے گئے ہیں.اس نوجوان کا نام ولی داد خان تھا اور اس نے اپنی زندگی مخدمت دین کے لئے وقت کی ہوئی تھی.افغانیان کے علاقہ میں ہم نے انہیں تبلیغ کے لئے بھجوایا تھا.کچھ طلب بھی جانتے تھے اور معمولی امراض کے علاج کے لئے دوائیاں اپنے پاس رکھتے تھے.کچھ مدت تک ہم انہیں خرچ بھی دیتے رہے.مگر پھر ہم نے انہیں خرچ دینا بند کر دیا تھا.ان کی اپنی بھی یہی خواہش بھی اور میں نے بھی انہیں یہی مشورہ دیا تھا کہ اس علاقہ میں طلب شروع کر دیں اور آہستہ آہستہ جب لوگ مانوس ہو جائیں تو انہیں تبلیغ احمدیت کی جائے چنانچہ خدا تعالیٰ نے انہیں ایسے مواقع بہم پہنچا دیئے کہ انہوں نے اس علاقہ میں ے رپورٹ مجلس مشاورت " ۱۹۳۹ صفحه ۳-۴ ہے

Page 107

24 لوگو کی تبلیغ کرنی شروع کر دی کھٹکی تبلیغ سے تو ہم نے خود انہیں روکا ہوا تھا کیونکہ یہ وہاں قانون کے خلاف ہے.آہستہ آہستہ وہ تبلیغ کیا کرتے اور لوگوں کو نصیحت کیا کرتے کہ جب کبھی پنجاب میں جایا کرو ، تو قادیان بھی دیکھ آیا کرو.رفتہ رفتہ جب لوگوں کو معلوم ہو گیا کہ یہ احمدی ہے تو انہوں نے گھر والوں کی زور دینا شروع کر دیا کہ تمہیں اس فتنہ کے انسداد کا کوئی خیال نہیں.تمہارے گھر میں گھر پیدا ہوگیا ہے اور تم اس سے غافل ہو چنانچہ انہیں اس قدر بر انگیختہ کیا گیا کہ وہ قتل کے درپے ہو گئے.مولوی ولید ادخال چند دن پہلے ہندوستان میں بعض دوائیاں خریدنے کے لئے آئے ہوئے تھے جب دوائیاں خمید کہ اپنے علاقہ کی طرف گئے تو انہی کے چا زاد بھائی اور سالہ نے ان پر گولیوں کے متواتر تین چار فائر کر کے انہیں شہید کر دیا.اسی طرح ایک اور نوجوان جو اس تحریک کے تحت چین میں گئے تھے وہ بھی فوت ہو گئے ہیں اور گو اُن کی وفات طبیعی طور پر ہوئی ہے مگر ایسے رنگ میں ہوئی ہے کہ وہ تو بھی اپنے اندر شہادت کا رنگ رکھتی ہے چنانچہ تھوڑا ہی عرصہ ہوا مجھے ایسے حالات معلوم ہوئے جن سے پتہ لگتا ہے کہ قہ میں اس کی موت معمولی موت نہیں بلکہ شہادت کا رنگ لئے ہوئے ہے.اس نوجوان نے بھی ایسا اخلاص دکھایا جو نہایت قابل قدر ہے.سب سے پہلے کامرہ میں جب میں نے یہ تحریک کی اور اعلان کیا کہ نوجوانوں کو غیر ممالک میں نیکل جانا چاہئیے تو یہ تو جوان جو غالباً دینیات کی متفرق کلاس میں پڑھنا تھا اور عدالت خال اس کا نام تھا تحصیل خوشاب ضلع شاہ پور کا رہنے والا تھا.میری اس تحریک پر بغیر اطلاع دیئے کہیں چلا گیا.قادیان کے لوگوں نے خیال کر لیا کہ میں طرح طالب علم بعض دفعہ پڑھائی سے دل برداشتہ ہو کر بھاگ بھایا کرتے ہیں اسی طرح وہ بھی بھاگ گیا ہے.مگر دراصل وہ میری اس تحریک پر ہی باہر گیا تھا مگر اس کا اُس نے کسی سے ذکر تک نہ کیا.چونکہ ہمارے ہاں عام طور پر صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید اور دوسرے شہداء کا ذکر ہوتا رہتا ہے اس لئے اُسے یہی خیال آیا کہ میں بھی افغانستان جاؤں اور لوگوں کو تبلیغ کروں.اُسے یہ بھی علم نہیں تھا کہ غیر ملک میں جانے کے لئے پاسپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ اُسے پاسپورٹ مہیا کرنے کے ذرائع کا علم تھا.وہ بغیر پاسپورٹ لئے نکل کھڑا ہوا.اور افغانستان کی طرف پیپل پڑا جب افغانستان میں داخل ہوا تو چونکہ وہ بغیر پاسپورٹ سے اس واقعہ کا ذکر حضور نے "الفضل" اور دسمبر ۱۹۳۵ ارد صفحه ۹۰۸ پرچہ بھی فرمایا تھا " - A مرگ

Page 108

کے تھا اس لئے حکومت نے اسے گرفتار کر لیا اور پوچھا کہ پاسپورٹ کہاں ہے ؟ اس نے کہا کہ پاسپورٹ تو میرے پاس کوئی نہیں.انہوں نے اُسے قید کر دیا.مگر جیل خانہ میں بھی اس نے قیدیوں کو تبلیغ کرنی شروع کر دی.کوئی مہینہ بھر ہی وہاں رہا ہو گا کہ افسروں نے رپورٹ کی کہ اسے رہا کر دیا چاہیے ورنہ یہ قیدیوں کو احمدی بنالے گا چنانچہ انہوں نے اس کو ہندوستان کی سرحد پر لا کر چھوٹ دیا.جب وہ واپس آیا تو اس نے مجھے اطلاع دی کہ میں آپ کی تحریک پر افغانستان گیا تھا اور وہاں میر ساتھ یہ واقعہ پیش آیا.اب آپ بتائیں کہ میں کیا کروں میںنے اسے کہا کہ تم میں میں سے جا چنانچہ میں گیا اور اسے وقت اُس نے ایک اور لڑکے کو بھی جس کا نام محمد رفیق ہے اور ضلع ہوشیار پور کا رہنے والا ہے تحریک کی کہ وہ ساتھ پہلے چنانچہ وہ بھی ساتھ تیار ہو گیا.اس کے چونکہ رشتہ دار موجود تھے اور بعض ذرائع بھی اُسے میتر تھے اس لئے اُس نے کوشش کی اور اُسے پاسپورٹ بل گیا.جس وقت یہ دونوں کشمیر پہنچے تو محمد رفیق تو آگے چلا گیا مگر عدالت خاں کو پاسپورٹ کی وجہ سے روک لیا گیا اور بعد میں گاؤں والوں کی مخالفت اور راہداری کی تصدیق نہ ہو سکنے کی وجہ سے وہ کشمیر میں ہی رہ گیا اور وہاں اس انتظار میں بیٹھا رہا کہ اگر مجھے موقع ملے تو میں نظر بچا کر چین چلا جاؤں گا.مگر چونکہ سردیوں کا موسم تھا اور سامان اس کے پاس بہت کم تھا اس لئے کشمیر میں اسے ڈیل نمونیہ ہو گیا اور دو دن بعد فوت ہو گیا.ابھی کشمیر سے چند دوست آئے ہوئے تھے.انہوں نے عدالت خاں کا ایک عجیب واقعہ سُنایا جسے شنکر رشک پیدا ہوتا ہے کہ احمدیت کی صداقت کے متعلق اُسے کتنا یقین اور وثوق تھا.وہ ایک گاؤں میں بیمار ہوا تھا یہاں کوئی علاج میں مر نہ تھا.جب اس کی حالت بالکل خراب ہو گئی تو ان دوستوں نے سُنایا کہ وہ ہمیں کہنے لگا کسی غیر احمدی کو تیار کرو جو احمدیت کی صداقت کے متعلق مجھ سے مباہلہ کر لے.اگر کوئی ایسا غیر احمدی نہیں مل گیا تو میں بچ جاؤں گا اور اُسے تبلیغ بھی ہو جائیگی دور نہ میرے بیچنے کی اور کوئی صورت نہیں.شدید بیماری کی حالت میں یہ یقین اور وثوق بہت ہی کم لوگوں کو میتر ہوتا ہے کیونکہ نانوے فیصدی اس بیماری سے مر جاتے ہیں.اور بعض تو چند گھنٹوں کے اندر ہی وفات پا جاتے ہیں.....ایسی خطرناک حالت میں جبکہ اس کی یقینی موت کا ننانوے فیصدی یقین کیا جا سکتا تھا، اس نے اپنا علاج یہی سمجھا کہ کسی غیر احمدی سے مباہلہ ہو جائے

Page 109

اور اس نے کہا کہ اگر مباہلہ ہو گیا تو یقینا خدا مجھے شفا دے گا اور یہ ہو نہیں سکتا کہ لیکن اس مرض سے مر جاؤں.بہر حال اس واقعہ سے اس کا اخلاص ظاہر ہے.اسی طرح اُس کی دور اندیشی بھی ثابت ہے کیونکہ اس نے ایک اور نوجوان کو خود ہی تحریک کی کہ میرے ساتھ پھلو اور وہ تیار ہو گیا.اس طرح کو عدالت فان قوت ہو گیا ہے مگر اللہ تعالٰی نے اس کے بیج کو ضائع نہیں کیا بلکہ ایک دوسرے شخص نے بھے وہ اپنے ساتھ لے گیا تھا، احمدیت کے جھنڈے کو پکڑ کہ آگے بڑھنا شروع کر دیا اور مشرقی شہر کا شعر میں پہنچ گیا اور وہاں تبلیغ شروع کر دی نتیجہ یہ ہوا کہ وہاں کے ایک دوست کو اللہ تعالیٰ نے احمدیت میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرما دی بھاجی جنود اللہ صاحب ان کا نام ہے.وہ اسی تبلیغ کے نتیجہ میں قادیان آئے اور تحقیق کر کے احمدیت میں شامل ہو گئے.پھر کچھ عرصہ بعد حاجی نبود اللہ صاحب کی والدہ اور ہمشیر بھی احمدی ہوگئیں اور اب تو وہ قادیان ہی آئے ہوئے ہیں.تو عدالت خساں کی قربانی رائیگاں نہیں گئی بلکہ احمدیت کو اس علاقہ میں پھیلانے کا موجب بن گئی.ید ایسا علاقہ ہے جس میں احمدیت کی اشاعت کا خیال بھی نہیں کیا جا سکتا تھا.ایسے ایسے خطر کاپ اور دشوار گذار رستے ہیں کہ اُن کو عبور کرنا ہی بڑی ہمت کا کام ہے.حاجی جنود اللہ صاحب کی والدہ نے بتایا کہ رستہ میں ایک مقام پر وہ تین دن تک برف پر گھٹنوں کے بل ملتی رہیں.ایسے سخت ریستوں کو عبور کر کے ہماری جماعت کے ایک نوجوان کا اس علاقہ میں پہنچنا اور لوگوں کو تبلیغ کرنا بہت بڑی خوشی کی بات ہے.تو تحریک جدید کے ماتحت اللہ تعالیٰ نے عدالت حال کو پہلے یہ توفیق دی کہ وہ افغانستان جائے چنانچہ وہ افغانستان میں کچھ عرصہ رہا اور جب واپس آیا تو میری تحریک پر وہ چین کے لئے روانہ ہو گیا اور خود ہی ایک اور نوجوان کو اپنے ساتھ شامل کر لیا.راستہ میں عدالت خاں کو خدا تعالیٰ نے شہادت کی موت دے دی مگر اس کے دوسرے ساتھی کو اس امر کی توفیق عطا فرمائی کہ وہ آگے بڑھے اور مشرقی ترکستان میں جماعت احمدیہ قائم کر د ہے.یہ دو واقعات شہادت بتاتے ہیں کہ گو یہ اپنی جد و جہد میں کامیاب نہیں ہوئے مگر ان کی کوششیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقبول تھیں چنانچہ ان دو آدمیوں میں سے ایک کے تو اللہ تعالیٰ نے عملی انگ میں شہادت دے دی اور دوسرے کی وفات ایسے رنگ میں ہوئی جو شہادت کے ہمرنگ ہے" ے رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ صفحه ۶۸۴

Page 110

تحریک جدید کے پہلے تین سال دورے کے استید تا حضرت خلیفہ ربیع الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں.تحریک جدید کے پہلے دور میں احباب نے غیر معمولی کام شاندانست بیج برایانه کیا.اور ہم اُسے فخر کے ساتھ پیش کر سکتے ہیں.مورخ آئیں گے جو اس امر کا تذکرہ کریں گے کہ جماعت نے ایسی حیرت انگیز قربانی کی کہ جس کی مثال نہیں ملتی ہے حضرت امیر المومنین نے نے اس اجمال کی تفصیل مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان فرمائی :- مر کے آخر میں جماعت میں جو بیداری ہوئی اس کے نتیجہ میں جماعت نے ایسی غیر معمولی قربانی کی روح پیش کی جس کی نظیر اعلیٰ درجہ کی زندہ قوموں میں بھی مشکل سے مل سکتی ہے...تحریک جدید کے پہلے دور میں احباب نے غیر معمولی کام کیا اور ہم اسے فخر کے ساتھ پیش کر سکتے ہیں.مؤرخ آئیں گے جو اس امر کا تذکرہ کریں گے کہ جماعت نے ایسی حیرت انگیز قربانی کی کہ جس کی مثال نہیں ملتی اور اس کے نتائج بھی ظاہر ہیں.حکومت کے اس عنصر کو جو ہمیں مثانے کے درپے تھا متواتر ذلت ہوئی......اور احرار کو تو اللہ تعالیٰ نے ایسا ذلیل کیا ہے کہ اب وہ مسلمانوں کے سٹیج پر کھڑے ہونے کی جرات نہیں کر سکتے تو اللہ تعالیٰ نے ہمارے سب دشمنوں کو ایسی سخت شکست دی ہے کہ حکام نے خود اس کو تسلیم کیا ہے.." " اس کے علاوہ جو جماعت میں تبدیلی ہوئی وہ بہت ہی شاندار ہے.ہماری جماعت لاکھوں کی تعداد میں ہے جس میں امیر غریب ہر طبقہ کے لوگ ہیں.بعض ان میں سے ایسے ہیں جن کو سات سات اور آٹھ آٹھ کھانے کھانے کی عادت تھی اور جن کے دستر خوان پر ایک سرے سے دوسرے سرے تک کھانے ہی کھانے پڑے ہوتے تھے مگر تحریک بدید کے ماتحت سب نے ایک ہی کھانا کھانا شروع کر دیا اور نہ صرف احمدیوں نے بلکہ بیسیوں بلکہ سینکڑوں غیر احمدیوں نے بھی اس طریق کو اختیار کر لیا.میری ایک ہمشیرہ شملہ گئی تھیں انہوں نے بتایا کہ وہاں بہت سے رؤساء کی بیویوں نے مانگ مانگ کہ تحریک تجدید کی کاپیاں لیں اور کہا کہ کھانے کے متعلق اُن کی ہدایات بہت اعلیٰ ہیں.ہم انہیں اپنے گھروں میں رائج کریں گے.ایک نوجوان نے بتایا کہ وہ بعض غیر احمدیوں کے ساتھ ایک نہیں میں شریک تھے.تحریک جدید کے بعد جب انہوں نے دوسرا کھانا کھانے سے احتراز کیا اور دوسرے ساتھیوں " الفضل ۱۵ نومبر ۱۹۳۸ و صفحه ۲ :

Page 111

کے پوچھنے پر اس کی وجہ ان کو بتائی تو انہوں نے بھی وعدہ کیا کہ یہ بہت اچھی تحریک ہے ہم بھی آئینڈ اس پر عمل کریں گے.پھر میں نے سنیما کی ممانعت کی تھی.اس بات کو ہمارے زمیندار دوست نہیں سمجھ سکتے کہ شہریوں کے لئے اس ہدایت پر عمل کرنا کتنا مشکل ہے.شہر والے ہی اسے سمجھ سکتے ہیں.ان میں سے بعض کے لئے سنیما کو چھوڑنا ایسا ہی مشکل تھا جیسے موت قبول کرنا جن کو سنیما جانے کی عادت ہو جاتی ہے وہ اُسے زندگی کا جزو سمجھتے ہیں.مگر ادھر میں نے مطالبہ کیا کہ اسے چھوڑ دو اور اُدھر بنانے سے فیصد کی لوگوں نے اسے چھوڑ دیا اور پھر نہایت دیانتداری سے اس عہد کو نباہا اور عورت مرد سب نے اس پر ایسا عمل کیا کہ جو دنیا کے لئے رشک کا موجب ہے.اور میں سمجھتا ہوں اس سے لاکھوں روپیہ بھی گیا ہو گا....پھر اس سے جو وقت بچا اس کی قیمت کا اندازہ کرو.یہ مطالبہ معمولی نہ تھا.لیکن جماعت نے اُسے سنا اور پورا کر دیا اور اس سے فوائد بھی حاصل کئے.اس کے علاوہ کون نہیں جانتا کہ عورت کپڑوں پر کرتی ہے مگر ہزارہا عورتوں نے دیانتداری سے لباس میں سادگی پیدا کرنے کے حکم پر عمل کیا.اور یہ باتیں انفرادی قربانی اور قومی فتح کا ایک ایسا نشاندار نمونہ ہیں جس کی مثال کم ملتی ہے.یہ قربانی معمولی نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبہ کی قربانی ہے اور دیکھنے والی آنکھ کے لئے اس میں فتوحات کا لمبا سلسلہ ہے.پھر کتنے نئے ممالک میں احمدیت روشناس ہوئی.کم سے کم دس پندرہ ممالک ایسے ہیں کئی علاقوں میں گو احمدیت پہلے سے تھی مگر تحریک جدید کی جدوجہد کے نتیجہ میں اس کا اثر پہلے سے بہت وسیع ہو گیا ہے اس کے علاوہ ایک نتیجہ یہ نکلا کہ....دنیا نے محسوس کر لیا کہ جماعت احمدیہ صرف.مسلمانوں کے لشکر کا ایک بازو ہی نہیں ہے بلکہ وہ اپنی منفردانہ حیثیت بھی رکھتی ہے اور اللہ تعالٰے کے فضل سے خود اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکتی ہے.پہلے ہماری اس حیثیت سے دنیا واقف نہ تھی تحریک جدید کے نتیجہ میں ہی وہ اس سے آشنا ہوئی.مگر یہ سب فتوحات جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیں حاصل ہوئیں.ہمارا مقصد نہیں ہمارا مقصد اُن سے بہت بالا ہے اور اس میں کامیابی کے لئے ابھی بہت قربانیوں کی ضرورت ہے لہ " المفضل " ۱۵ نومبر ۳ : صفحه ۶ تا ۸ 4

Page 112

M بعض ابتدائی تلخ تجر بے عمران ان کا اتنی جرات بھی ہوئے نانا نے فرمایا: رو ہم نے کئی نئے تجربے کئے ہیں.کئی نئے میشن قائم کئے گئے.اور یہ نیا تجربہ تھا.ئیں نے تحریک کی تھی کہ نوجوان اپنی زندگیاں وقعت کریں اور باہر نکل جائیں اور یہ بھی نیا تجربہ تھا.دوست اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالیں اور یہ بھی نیا تجربہ تھا.پھر صنعتی اداروں کا اجرا بھی نیا تجربہ تھا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیں ان سب میں کم و بیش کا میابی ہوئی سینکڑوں نوجوانو نے اپنی زندگیاں وقف کیں اور بیسیوں باہر نکل گئے.کوئی کہیں چلا گیا کوئی کہیں.بعض تین تین سال سے بیٹی اور کراچی میں بیٹھے ہیں.وہ کسی بیرونی ملک میں بہانے کے ارادہ سے گھروں سے نکلے تھے.لیکن چونکہ اب تک کوئی صورت نہیں بن سکی اس لئے بھی تیکہ اسی کوشش میں لگے ہوئے ہیں.ان کے مالدین چٹھیاں لکھتے ہیں مجھ سے بھی سفارشیں کراتے ہیں.مگر وہ یہی التجا کرتے ہیں کہ جو ارادہ ایک وفعہ کر لیا.اب اسے پورا کرنے کی اجازت دی بجائے بعض ان میں سے اتنی چھوٹی عمر کے ہیں کہ ابھی داڑھی مونچھ تک نہیں نکلی مگر اس راہ میں وہ نوکری تک اُٹھاتے ہیں.پھر بعض نوجوان بیرونی ممالک میں پہنچ گئے ہیں اور وہاں بھی کئی نئے تجربے ہمیں حاصل ہوئے ہیں.آپ لوگوں کو معلوم ہوگا کہ میں نے کہا تھا کہ ہم نے اپنے لئے مانی طبع لوگوں کی تلاش کرنی ہے.بچنا نچہ اس سلسلہ میں اب تک مختلف ممالک میں قریباً پندرہ مین ہمارے قائم ہو چکے ہیں.امریکہ ، اٹلی ، ہنگری، پولینڈ، یوگوسلاویہ (یہ میشن البانیہ کے لئے ہے.لیکن چونکہ البانوی حکومت نے ہمارے مبلغ کو نکال دیا تھا ، وہ وہاں کام کر رہا ہے، فلسطین ، بجاوا ، سٹریٹ سیٹلمنٹ ، جاپان ، چین ، افریقہ ان میں کئی مبلغ ایسے ہیں جو ہمارے شوریج پر گئے ہیں.کئی اپنے خرچ پر گئے ہیں.بعض تجارتوں کے ذریعہ سے اچھے گزار سے کر رہے ہیں اور بہت خوش ہیں.بعض ابھی مشکلات میں ہیں اور مختلف ممالک کے متعلق بھی نہیں نئے تجربے ہوئے ہیں.مشرقی ممالک میں سوائے جاوا ، سماٹرا، اور سٹریٹ سیٹلمنٹ کے ہمیں ابھی کامیابی نہیں ہوئی.چین اور جاپان میں ابھی تک بالکل کامیابی نہیں ہوئی بلکہ تازہ اطلاع ہو آج ہی بذریعہ تار مجھے ملی ہے یہ ہے کہ بھا پانی گورنمنٹ نے صوفی عبد القدیر صاحب کو قید کو لیا ہے اور ضمناً میں ان کے لئے دعا کی تحریک بھی کرتا ہوں.اس کے متعلق ہم اب تحقیقات کرائیں گئے کہ ایسا کیوں ہوا ہے.لیکن بہر حال چوتھے سال کے ابتداء میں یہ واقعہ بھی اللہ تعالے

Page 113

۸۲ کی طرف سے ایک قسم کا اندار ہے کہ سب حالات پر غور کر کے نہیں سمجھ لینا چاہئیے کہ اس قسم کی مشکلات بھی تبلیغ کے رستہ میں حائل ہوں گی.مونی عبد القدیر صاحب تحریک جدید کے تجارتی صیغہ کے نمائندہ تھے.گویا وہ با قاعدہ مبلغ نہیں تھے اور ابھی زبان ہی سیکھ رہے تھے اور اب تو اُن کی واپسی کا حکم بھی جاری ہو چکا تھا کیونکہ دوسرے مبلغ یعنی مولوی عبد الغفور صاحب برادر مولوی ابو العطار صاحب وہاں جا چکے ہیں.تو تجارتی اغراض کے ماتحت بھانے والے ایک احمدی کے لئے جب اس قدر مشکلات ہیں تو تبلیغ کے لئے بھانے والوں کے لئے کس قدر ہوں گی جہانتک معلوم ہو سکا ہے.ان پر الزام یہ لگایا گیا ہے کہ وہ جاپانی گورنمنٹ کے مخالف ہیں.اور یہ بھی ہمارے لئے ایک نیا تجربہ ہے.انگریز نہیں کہتے ہیں کہ تم ہمارے خلاف ہو اور دوسری حکومتیں یہ کہتی ہیں کہ تم انگریزوں کے خیر خواہ ہو.بہر حال یہ سب نئے تھر بے ہیں جو ہمیں حاصل ہو رہے ہیں اور ان سے پتہ لگ سکتا ہے کہ کیس کہیں قسم کی رو کا وٹیمیں ہمارے رستہ میں پیدا ہونے والی ہیں.پھر ایک نیا تجربہ یہ ہوا ہے کہ امریکن گورنمنٹ نے ہمارے مبلغ محمد ابراہیم صاحب ناصر کو اس بناء پر داخل ہونے کی اجازت نہیں دی کہ وہ ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کے قائل ہیں تو ہمیں ان مبلغوں کے ذریعہ سے نئی نئی مشکلات کا علم ہوا ہے.ان کے علاوہ اور بھی کئی باتیں ہیں جن سے جماعت کے اندر بیداری پیدا ہوئی ہے.سادہ زندگی ہے، بینیما تھیٹروں وغیرہ کی مانعت ہے.اپنے ہاتھ سے کام کرنے کا حکم ہے.اس سے قوم میں نئی روح پیدا ہوتی ہے فصل شتم تحریک جدید کا دوسرا ہفت ساله) دور ۲۶ نومبر کو تحریک جدید کا دوسرا ہفت سالہ دور شروع ہوا جو ا پریل ماہ تک جاری رہا.۱۹۳۷ راه خطبه جمعه فرموده ۱۵ نومبر ۱۹۳۷ء مطبوعه الفضل " ۱۸ نومبر ۹۳ و صفحه ۵-۹۶

Page 114

AP پرونی سالہ دور اجراء سے شروع ہوا: اور دفتر اول کے نام سے موسوم کیا گیا، متعد د خصوصیات کا حال تھا مثلا چندہ تحریک جدید میں تخفیف نئے مطالبات کا اضافہ مستقل وقف زندگی کی تحریک ، واقفین کی باقاعدہ ٹریننگ سیما کی مستقل ممانعت ، دیہاتی مبلغین کی اہم سکیم، دنیا کی مشہور زبانوں میں اسلامی لٹریچر کی تیاری وقت زندگی کی وسیع تحریک ، تحریک وقف جائداد و غیره.تحریک جدید کا جب سه سالہ دور ختم ہوا تو حضرت خلیفہ اسیح الثانی القار الہی سے بن سالہ دور کا تقریر نے القاء الہی کے تحت اسے دس سال تک مسند فرما دیا.چنانچہ حضور فرماتے ہیں :- یہ عجیب بات ہے کہ متعدد دوستوں کی طرف سے مجھے جیٹھیاں آچکی ہیں کہ میں اس تحریک کو تین سال میں ختم کرنے کی بجائے دس سال تک بڑھا دوں میرا اپنا بھی خیال اس نئے سال سے اسی قسم کا اعلان کرنے کا تھا.پس ان تحریکوں کو جو بالکل میرے خیال سے توارد کھا گئیں.مجھے یقین ہوا کہ یہ انہی القاء ہے " کے حضور کے پیش نظر ہفت سالہ دور مقرر کرنے میں ایک بھاری هفت سالہ دور مقرر کرنے کی حکمت یک مدیریتی چنانچہ فرمایا.بعض پیشگوئیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہو یا نہ تک کا زمانہ ایسا ہے جس تک سلسلہ احمدیہ کی بعض موجودہ مشکلات بھاری رہیں گی.اس کے بعد اللہ تعالیٰ ایسے حالات پیدا کر دے گا کہ بعض قسم کے ابتلاء دور ہو جائیں گے اور اس وقت تک اللہ تعالے کی طرف سے ایسے نشانات ظاہر ہو جائیں گے کہ جن کے نتیجہ میں بعض مقامات کی تبلیغی روکیں دور ہو جائیں گی اور سلسلہ احمدیہ نہایت تیزی سے ترقی کرنے لگ جائے گا.پس میں نے چاہا کہ اس پیشگوئی کی جو آخری حد ہے یعنی کہ ، اس وقت تک تحریک بعدید کو لئے بھاؤں تا آئیندہ آنے والی مشکلات میں اُسے ثبات حاصل ہو ملک نے حضرت قیقہ آیح الثانی رضی اللہ عنہ نے یکم دسمبر کو ارشاد فرمایا : میرے نزدیک تحریک جدید کا دوسرا حصہ جس میں نئے حصہ لینے والے شامل ہوں اس کے لئے الگ رجسٹر کھولا جائے جس کا نام دفتر نانی رکھ دیا جائے.پہلے دس سالوں سے جو لوگ حصہ لیتے آ رہے ہوں ان کے نام میں رجسٹر میں درج ہوں اس کا نام دفتر اول رکھ دیا جائے" (الفضل بر دسمبر امر صفحہ ۳ کالم ۲ ) و الفضل ٢٠ دسمبر ای صفحه ۱۳ کالم ۴ : " الفصل ۱ جنوری باید به

Page 115

یہ پیشگوئی آئیندہ پھل کو کس شان سے پوری ہوئی اس کی نسبت کچھ کہنے کی ضرورت نہیں.نومبر دار کو حضرت خلیفہ ایسیح الثانی نے تحریک جدید کے دوسرے چندہ تحریک جدید میں تخف سات سالہ دور کا اعلان فرمایا اور اس دور کے لئے مالی قربانی کی نئی شرح تجویز کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ.اس سال کے لئے میری تحریک یہی ہے کہ جتنا کسی شخص نے اس تین سالہ دور کے پہلے سال چندہ دیا تھا اتناہی چندہ اس سال دے.پھر میری سکیم یہ ہے کہ ہر سال اس چندہ میں سے دس فیصد یا کم کرتے پہلے جائیں گے.یعنی جس نے اس سال سو روپیہ چندہ دیا ہے اس سے اگلے سال نو سے روپے لئے بھائیں گے پھر اس سے اگلے سال اسی روپے پھر تمیرے سال ستر روپے پھر چوتھے سال ساٹھ روپے پھر پانچویں سال پچاس روپے اور پھر یہ پچاس فیصدی چندہ باقی دو سال مسلسل چلتا چلا جائے گا.دسمبر یہ میں حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی نے پانچ مزید مطالبات مطالبات تحریک جدید میں اضافہ کے فرمائے تین سے مطالبات تحریک جدید کی تعداد جو ہمیں تک جا پہنچی.ان مطالبات کی تفصیل درج ذیل ہے :- بیسواں مطالبہ.اپنی جائداد میں سے عورتوں کو ان کا شرعی حصہ ادا کریں.اکیسواں مطالبہ.عورتوں کے حقوق و احساسات کا خیال رکھیں.با میسواں مطالبہ.ہر احمدی پورا پورا امین ہوگا اور کسی کی امانت میں خیانت نہیں کرے گا.تئیسواں مطالبہ مخلوق خدا کی خدمت کرو.اپنے ہاتھوں سے کام کرو اور خود محنت کر کے اپنے گاؤں وغیرہ کی صفائی کرو.چوبیسواں مطالبہ.ہر احمدی کو اپنے دل میں یہ اقرار کرنا چاہیئے کہ آئندہ وہ اپنا کوئی مقدمہ جس کے متعلق گورنمنٹ مجبور نہیں کرتی کہ اُسے سرکاری عدالت میں لے جایا جائے عدالت میں نہیں لے جائے گا بلکہ اپنے عدالتی بورڈ اور اپنے قاضی سے شریعت کے مطابق اس کا فیصلہ کرائیگا اور جو بھی وہ فیصلہ کرے گا اُسے شرح صدر کے ساتھ قبول کرے گا " سے الفضل هم دسمبر ۱۹۳۷ صفحه ۱۵ " له ايضا صفحه ۱۳ کالم له " انقلاب حقیقی » صفحه ۱۲۵ تا ۱۲۸ دلیپرستیدن حضرت خلیفہ المسیح الثانی بیاس سالانه ۱۳) ۳

Page 116

مطالبہ سادہ زندگی می مستقیات اس دور میں حضور نے مطالبہ سادہ زندگی میں کچھ سلفیات فرادی مثلاً حضور نے اجازت دے دی کہ عیدوں کی طرح جمعہ کو بھی دو کھانے کھائے جا سکتے ہیں.اسی طرح حضور نے یہ پابندی بھی اُٹھا دی کہ اگر اپنا ہی کوئی احمدی دوست مہمان ہو تو دسترخوان پر میزبان صرف ایک ہی کھانا کھائے اب حضور نے اجازت دے دی کہ اگر کوئی ایسا مہمان ہو جس کے لئے ایک سے زائد کھانے پکائے گئے ہوں تو اس صورت میں خود بھی دو کھانے کھانا جائز ہوں گے مگر شرط یہ ہے کہ کوئی غیر مہمان ہو.یہ نہ ہو کہ اپنے ہی رشتہ دار بغیر کسی خاص تقریب کے اکٹھے ہوں اور اُن کے لئے (جمعہ کے استثناء کے علاوہ) ایک سے زائد کھانے تیار کر لئے جائیں اور خود بھی دو دو کھانے کھالئے بھائیں.قبل ازیں رنے حضور ایک استثنار گذشتہ سالوں میں کر چکے تھے اور وہ یہ کہ رسمی اور حکام کی دعوتوں میں ایک سے زیادہ کھانے کھانا یا کھلانا جو ملک کے رواج کے مطابق ضروری ہوں جائز رکھے گئے بیلے مستقل وقف کی تحریک مجیسا کہ پہلے بیان ہوا ہےکہ حضورنے ابتدا فرار جرات کے سامنے صرف اتین سال کے وقف کرنے کی تحریک فرمائی تھی لیکن کام کی وسعت کے پیش نظر مار دسمبر ۱۹۳۶ ء کو مستقل وقف زندگی کی تحریک کی اور ساتھ ہی وضاحت فرمائی کہ آینده جو لوگ اپنے آپ کو وقف کریں وہ یہ سمجھ کر کریں کہ اپنے آپ کو فتنا سمجھیں گے اور جس کام پھر اُن کو لگایا جائے گا اس پر محنت ، اخلاص اور عقل وعلم سے کام کریں گے.عقل اور علم کا اندازہ کرنا تو ہمارا کام ہے مگر محنت ، اطاعت اور اخلاص سے کام کا ارادہ ان کو کرنا چاہیے اور دوسرے یہ بھی خیال کر لینا چاہیے کہ وقف کے یہ معنے نہیں کہ وہ خواہ کام کے لئے موزوں ثابت ہوں یا نہ ہوئی ہم ان کو علیحدہ نہیں کریں گے یا سزا نہیں دیں گے.صرف رہی اپنے آپ کو پیش کرے جو سرا کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہوں.جن قوموں کے افراد میں سزا برداشت کرنے کی طاقت نہیں ہوتی وہ ہمیشہ بلاک ہی ہوا کرتی ہیں.صحابہ کو دیکھو وہ بعض اوقات ضرورت سے زیادہ سزا برداشت کرتے تھے اور خود بخود کرتے تھے....پس وقت کرنے والوں کے لئے ان پانچوں اوصاف کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ سزا برداشت کرنے کے لئے تیار ہوں اور بعد میں یہ نہ کہیں کہ اُس وقت ہمیں نوکری مل سکتی تھی.پس وہی آگے آئے جس کی نیت یہ ہو کہ میں پوری کوشش ه " الفضل " ر فروری ۱۹۳۵ و صفحه ۲-۹۳

Page 117

Aч کروں گا.لیکن اگر نکا ثابت ہوں تو سزا بھی بخوشی برداشت کر لوں گا"." مجھے امید ہے کہ ہمارے نوجوان ان شرائط کے ماتحت جلد از جلد اپنے نام پیش کریں گے تا اس سکیم پر کام کر سکیں جو میرے مد نظر ہے.ہم آدمی تو تھوڑے ہی لیں گے مگر جو چند آدمی سینکڑوں میں سے بچنے جائیں گے وہ بہر حال ان سے بہتر ہوں گے جو پانچ سات میں سے مجھے جائیں.پچھلی مرتبہ قریباً دو سو نوجوانوں نے اپنے آپ کو پیش کیا تھا اور مجھے امید ہے کہ اب اس سے بھی زیادہ کریں گے جیہنوں نے پچھلی مرتبہ اپنے آپ کو پیش کیا تھا وہ اب بھی کر سکتے ہیں بلکہ جو کام پر لگے ہوئے ہیں وہ بھی چاہیں تو اپنے نام پیش کر سکتے ہیں کیونکہ ان کی تین سال کی مدت ختم ہو گئی ہے.بعض ان میں سے ایسے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ تین سال تو ہم جانتے نہیں جب ایک دفعہ اپنے آپ کو پیش کر دیا تو پھر پیچھے کیا ہٹنا ہے.اُن کو بھی قانون کے ماتحت پھر اپنے نام پیش کرنے چاہئیں.کیونکہ پہلے ہمارا مطالبہ صرف تین سال کے لئے تھا.اور جو بھی اپنے آپ کو پیش کریں پختہ عزم اور ارادہ کے ساتھ کریں لے مستقل واقعین کی ٹریننگ مندرج بالا ترکی کے تیل میں تحریک جدید کے دورانی کو عظیم خصوصیت حاصل ہوئی کہ کئی مخلص نوجوان مستقل طور پر اپنی زندگی وقف کر کے حضور کے قدموں میں آگئے اور حضور کی خصوصی توجہ اور تعلیم و تربیت اور دعاؤں نے نہایت قلیل گذارہ پانے والی مستقل واقفین کی ایثار پیشہ مخلص اور قربانی کرنے والے مجاہدوں کی ایک ایسی جماعت تیار کر دی جس نے آئندہ چل کر اسلام اور احدیت کی عظیم الشان اور ناقابل فراموش خدمات انجام دیں اور نہ صرف بیرونی دنیا میں میشن قائم کئے بلکہ مرکز میں نئے مبلغین اختیار کرنے میں ہر ممکن جد وجہد کی جو حضور کی قوت قدسی کی دلیل اور شاندار کارنامہ ہے جس کو جتنا بھی سراہا جائے بہت کم ہے.ان واقفین نے قناعت کا اعلیٰ نمونہ پیش کرتے ہوئے دین کو دکھیا پر مقدم کرنے کا عملی ثبوت پیش کیا حضرت امیر المومنین انہی جانفروش واقفین کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :- لا نہیں تحریک جدید کے دور ثانی میں مستقل کام کی داغ بیل ڈالنے کے لئے مالی تر تحریک کے علاوہ کہ وہ بھی مستقل ہے، ایک مستقل جماعت واقفین کی تیار کر رہا ہوں.دور اول میں میں نے کہا تھا کہ نوجوان تین سال کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں مگر دور ثانی میں وقف عمر بھر کے لئے له الفضل " ۲۲ دسمبر ۱۹۳۷ و صفحه ۷ کالم ۹۳ + r

Page 118

AZ ہے اور اب یہ واقفین کا ہر گز بھی نہیں کہ وہ خود بخود کام چھوڑ کر پہلے جائیں.ہاں ہمیں اس بات کا اختیار حاصل ہے کہ اگر ہم انہیں کام کے ناقابل دیکھیں تو انہیں الگ کر دیں.پس یہ سہ سالہ واقفین نہیں بلکہ میں طرح یہ دور ستقل ہے اسی طرح یہ وقف بھی مستقل ہے اور اس دور میں کام کی اہمیت کے پیش نظر میں نے یہ شرط بند کر دی ہے کہ صرف وہی نوجوان لئے جائیں گے جو یا تو گریجوایٹ ہوں یا مولوی فاضل ہوں.اور چونہ گریجوایٹ ہوں اور نہ مولوی فاضل ، انہیں نہیں لیا جائے گا.کیونکہ ان لوگوں نے علمی کام کرنے ہیں.اور اس کے لئے یا تو دینی علم کی ضرورت ہے یا دنیوی علم کی.اس دور میں تین چار آدمیوں کو منہا کر کے کہ وہ گریجوایٹ نہیں کیونکہ وہ پہلے دور کے بقیہ واقفین میں سے ہیں ، باقی سب یا تو گریجوایٹ ہیں یا مولوی فاضل ہیں.چنانچہ اس وقت پار گر یجوٹ ہیں اور بچا رہی مولوی فاضل ہیں.گل قالباً بارہ نوجوان ہیں.پیار ان میں سے غیر گریجوایٹ ہیں.مگر میں سب ایسے ہی جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے محنت سے کام کرنے والے اور سلسلہ سے محبت رکھنے والے ہیں..میرا منشاء ہے کہ النامیں سے بعض کو مرکز کے علاوہ باہر جا کر اعلی تعلیم دلوائی جائے اور علمی اور عملی لحاظ سے اس پایہ کے نوجوا پیدا کئے جائیں جو تبلیغ ، تعلیم اور تربیت کے کام میں دنیا کے بہترین نوجوانوں کا مقابلہ کر سکیں بلکہ اُن سے فائق ہوں.صرف انہیں مذہبی تعلیم دینا ہی میرے مدنظر نہیں.بلکہ میرا منشاء ہے کہ انہیں ہر قسم کی دنیوی معلومات بہم پہنچائی جائیں اور دنیا کے تمام علوم انہیں سکھائے جائیں تا دنیا کے ہر کام کو سنبھالنے کی اہلیت اُن کے اندر پیدا ہو جائے.ان نوجوانوں کے متعلق میری سکیم جیسا کہ میں گذشتہ مجلس شوری کے موقع پر بیان کر چکا ہوں ، یہ ہے کہ انہیں یورپین ممالک میں بھیج کر اعلیٰ سے اعلی تعلیم دلائی جائے.اور جب یہ ہر قسم کے علوم میں ماہر ہو جائیں تو انہیں تنخواہیں نہ دی بجائیں بلکہ صرف گزارے دیئے جائیں اور اُن کے گزارہ کی رقم کا انحصار علمی قابلیت کی بجائے گھر کے آدمیوں پر ہو جیسا کہ صحابیہ کے زمانہ میں ہوا کرتا تھا اور یوں انتظام ہو کہ جس کی بیوی ہوئی یا بچتے ہوئے اُسے زیادہ الائونس دے دیا.اور میں کے بیوی بچے نہ ہوئے اُسے کم گذارہ دے دیا.یا کسی نوجوان کی شادی ہونے لگی تو اُسے تھوڑی سی امداد دے دی ہے مجاهدی تحریک جدید کو اُن دنوں نہایت معمولی خروج دیا جاتا تھا جس کی تفصیل خود حضور کے الفاظ میں پیش الفضل ٢٠ ٢٧ نومبر ١٩٣٨اء صفحه ٠٩٠٨ -A

Page 119

کی جاتی ہے.حضور نے فرمایا :- میری کوشش یہ ہے کہ اس دور میں سو واقفین زندگی ایسے تیار ہو جائیں جو علاوہ مذہبی تعلیم رکھنے کے ظاہری علوم کے بھی ماہر ہوں اور سلسلہ کے تمام کاموں کو محزم و احتیاط سے کرنے والے اور قربانی کو ایثار کا نمونہ دکھانے والے ہوں.اس غرض کے لئے تعلیمی اخراجات کے علاوہ ہمیں ان لوگوں کو گزارے بھی دینے پڑیں گے اور یہ گزارہ پندرہ روپے فی کس مقرر ہے.اگر ایک گریجوایٹ بھی ہو تو اُسے بھی ہم پندرہ روپے ہی دیتے ہیں زیادہ نہیں اور یہ آنافیل گذارہ ہے کہ بعض بیتائی و مساکین کے وظائف اسی کے لگ بھگ ہیں، مگر با وجود اس کے کہ گزارہ انہیں آنا تھوڑا دیا جاتا ہے جتنا بعض بنائی اور سین کو بھی ملتا ہے وہ کام بھی کرتے ہیں اور انہوں نے اپنی تمام زندگی خدمت دین کے لئے وقت کی ہوئی ہے.سردست سہارا قانون یہ ہے کہ اگر ان میں سے کسی کی شادی ہو جائے تو اُسے نہیں روپے دیئے جائیں اور پھر بچے پیدا ہوں تو نی بچہ تین روپے زیادہ کئے جائیں اور اس طرح بچا نہ بچوں تک یہی نسبت قائم رہے.گویا ان کے گزارہ کی آخری حد بتیس روپے ہے مگر یہ بھی اس وقت ملیں گے جب ان کے گھروں میں چھ کھانے والے ہو جائیں.میں سمجھتا ہوں کہ یہ گزارہ کم ہے.اسی طرح بچوں کی حد بندی کرتی بھی درست نہیں اور اُسے جلد سے جلد دور کرنا چاہئیے مگر فی الحال ہماری مالی حالت چونکہ اس سے زیادہ گزارہ دینے کی متحمل نہیں اس لئے ہم اس سے زیادہ گزارہ نہیں دے سکتے.اور انہوں نے بھی خوشی سے اس گزارہ کو قبول کیا ہے." منتخب واقعین کی تعلیم و تربیت کے سلسلہ میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی اور دفتر منتخب واقفین کیلئے ہدایا تحریک جدید کی طرف سے جو ہدایات وقتاً فوقتاً بھاری کی بھاتی رہیں ان کا خلاصہ درج ذیل کیا جاتا ہے :.ا صحت صحت سے نہیں ہوتی بلکہ بشاشت سے ہوتی ہے.اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے رہنا چاہیئے اور جب اپنے آپ میں محسوس ہو کہ اب میں فرائض معاہدہ کو ادا نہیں کر سکتا تو اسے اسی وقت علیحدہ ہو جانا چاہیے.ترقی کرنے والی قومیں محض روز مرہ کے کام سے نہیں ترقی کرتیں کیونکہ اس کی عرض تو محض قومی زندگی قائم رکھنا ۱۹۳۸ به " الفصل "٢٧ نومبر ١٩٣٥ و صفحه ١٠.|-

Page 120

A4 ☑- -4 کے.ہوتی ہے اور یہ قلیل ترین چیز ہوتی ہے.ہمیں سوچنا چاہیئے کہ کونسے کام ایسے ہیں کہ جن کو ہم نے بعد میں کرتا ہے شمن کیا کر رہا ہے.دنیا کس طرح ترقی کر رہی ہے ، ہمیں ان کا مقابلہ کس طرح کرنا ہے.نوجوانوں میں یہ روح ہونی چاہیئے کہ بغیر روپے کے کام کرنا ہے.جب تک ہم نتیجہ کے ذمہ دار نہ نہیں، ترقی نہیں کر سکتے.لوگ اس مسئلہ سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں کہ " کام انسان کرتا ہے نتیجہ خدا پیدا کرتا ہے " كَلِمَةُ الْحِكْمَةِ اريد بِهِ الْبَاطِلُ.اسی طرح تو کل سے بھی لوگوں نے غلط مفہوم لیا ہے.انفرادی قربانی ضروری ہے تاکہ قوم مست نہ ہو شکست خوردہ جرنیل اپنے آپ کو گولی مارلیتا ہے.کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ میرا کام غلبہ حاصل کرتا ہے.شریعت میں بھی پیچھے ہٹنے کی سزا جہتم ہے یکمی تعداد اور معذوریوں کا کوئی سوال نہیں ہے.پس جو کامیاب نہیں ہوتا اسے سزا بھگتنی چاہیئے.اسی لئے یہ اصول رکھا گیا ہے کہ سمرا لینے کے لئے تیار رہنا چاہیئے.ہم صحیح طور پر اپنی ذمہ واری کا اندازہ نہیں لگاتے.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دماغ کام نہیں کرتا بلکہ بھاگنے کے راستے ڈھونڈتا ہے.ہر واقعہ زندگی کو یہ سمجھنا چاہیئے کہ خواہ حالات کس قدر سخت ہوں ناکامی کی ذمہ داری میری ہے.بہادر وہ ہے جو ہر قسم کی قربانی کر سکے نہ کہ وہ جو خاص قسم کی قربانی کر سکے لیکن دوسری قسم کی قربانی نہ کر سکے.- وقت کی قربانی اہم ترین چیزوں میں سے ہے اور اس سے زیادہ قربانی وہ ہے جسے دنیا WASTE OF TIME کہتی ہے.دنیا اسے گناہ سمجھتی ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ جب یہ قربانی کے مقام پر کی جائے تو یہ اعلی درجہ کی قربانی ہے.جیسے نمازی انتظار میں بھی نمازی ہے.بظاہر یہ وقت کا ضیاع ہے.اصل میں مقصود نماز کی عظمت کا اظہار ہے.پس مقصود کے لئے انتظار بڑی قربانی ہے.نہیں انتظار کا نام ضیاع وقت نہیں رکھنا چاہیے کیونکہ یہ اس کے علم کو بڑھانے والی بات ہے کیونکہ علم اپنی اہمیت سے آتا ہے.وقف سے ایک غرض یہ ہے کہ جھوٹ کو مٹایا جائے خواہ کس قدر چھوٹا سے چھوٹا ہو.کوئی بھی جھوٹ اگر ثابت ہوا تو سخت سے سخت سزادی جائے گی.وقف ٹوٹ سکتا ہے اور جماعت میں اعلان ہو سکتا ہے.خواہ دین کی خاطر ہی ہو.سچ بولنے سے انکار کیا جاسکتا ہے لیکن سچ کے خلاف بیان کرنے کی اجازت نہیں ہو سکتی.ہاں، اسلامی عدالت میں گواہی سے انکار نہیں ہو سکتا.سرکاری عدالت میں (شرع کے رُو سے) ایسا ہو سکتا ہے.اس صورت میں سرکاری سزا یہ داشت کرنے کے بھی اُسے تیار رہنا چاہیئے.

Page 121

4.واقفین کو بھی یہی کیریکٹر جماعت میں پیدا کرنا چاہیے کیونکہ سلسلہ کا فائدہ تھوٹ سے وابستہ نہیں.اسلام کی بنیاد قُولُوا قَوْلاً سَدِيدًا پر ہے.اس حد تک اس امر کا احساس ہونا چاہیئے کہ جو کبھی جھوٹ بولے وہ خود آ کر کہے کہ میں نے جھوٹ بولا ہے ، میرا وقف منسوخ کریں اور پھر سزا برداشت کرنے کے لئے تیار ہو بھانا چاہیئے.- عقل اُس وقت کمزور ہوتی ہے جب انسان مشکلات کے وقت اپنے دماغ پر پورا زور نہیں دیتا.اور عذر تلاش کرنے کے درپے ہو جاتا ہے.ورنہ اگر مشکلات کے وقت عقل سے کام لیا جائے اور دماغ پر زور ڈالا جائے تو اس کا صحیح حل بھلدی ہی مل سکتا ہے" اے واقفین نے اللہ تعالنے کی دی ہوئی توفیق سے مقدور بھر کوشش کی کہ حضرت حضرت خلیفتہ اسی الثانی و امیر المومنین کی ہدایات پر پوری طرح عمل پیرا ہوں چنانچہ حضور نے واقفین کی تے کا اظہار خوشنودی قوالی خلوص اور محنت شاقہ پر اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا.ضروری ہے کہ وہ نوجوان جو بغیر روپیہ کے کام کرنے کے لئے تیار ہوں وہ اپنی زندگیاں وقفت کریں.اللہ تعالے کا فضل ہے کہ اُس نے بعض نوجوان ہمیں ایسی ہی روح رکھنے والے دیئے ہوئے ہیں چنا نچران واقفین زندگی میں ایک وکیل ہیں.ان کے والد کئی مربعوں کے مالک ہیں اور وہ اپنے علاقہ کے رنگیں اور مرکزی ہمبلی کے ووٹروں میں سے ہیں.وہ شادی شدہ ہیں مگر ہم انہیں ہمیں روپے ہی دیتے ہیں اور وہ خوشی سے اُسے قبول کر لیتے ہیں.حالانکہ زمیندار ہونے کی وجہ سے اور اس وجہ سے کہ اپنے علاقہ میں انہیں رسوخ حاصل ہے.اگر وہ وکالت کرتے سو ڈیڑھ سو روپیہ ضرور کھا لیتے.بلکہ ہوشیار آدمی تو آجکل کے گرے ہوئے زمانہ میں بھی دو اڑھائی سو روپیہ کما لیتا ہے لیکن انہوں نے اپنے آپ کو وقف کیا اور قبیل گزارے پر ہی وقف کیا اور میں تو اس قسم کے وقت کو بغیر رو پیر کے کام کرتا ہی قرار دیتا ہوں، کیونکہ جو کچھ ہماری طرف سے دیا جاتا ہے وہ نہ دیئے جانے کے برابر ہے.اسی طرح اور کئی گریجوایٹ ہیں جو اپنی ذہانت کی وجہ سے اگر باہر کہیں کام کرتے تو بہت زیادہ کما لیتے مگر ان سب نے خوشی اور بشاشت کے ساتھ اپنی زندگی وقف کی ہے.پس گو تحریک جدید کے واقفین ایک قلبیل گزارہ لے رہے ہیں مگر عقلاً انہیں بغیر گزارہ کے ہی کام کرنے والے سمجھنا چاہیئے ے مطالبات تحریک جدید مرتبه مولوی عبد الرحمن صاحب اور وکیل الدیوان تحریک جدید قادیان طبع چهارم صفحه ۸۳-۲۸۶ یعنی چودهری مشتاق احمد صاحب با جوه (ناقل)

Page 122

۹۱ کیونکہ اُن کے گزارے اُن کی لیاقتوں اور ضرورتوں سے بہت کم ہیں.اے دور ثانی کے ان واقعین کی تعلیم کی تکمیل کے لئے ان کی قابلیتوں اور آئندہ ضرور توں نصاب کی تشکیل اور میں کو مد نظر رکھ کر نصاب تجویز کئے جاتے رہے حضور کا منشار مبارک در اصل شروع میں زیادہ لمبی تعلیم دلانے کانہ تھا بلکہ جلد یرونی مالک میں بھیجوانے کا تھا چنانچہ کئی ایک پاسپورٹ تیار کروائے گئے کہ اچانک دوسری عالمگیر جنگ شروع ہوگئی.اب حضور نے مناسب سمجھا کہ ان واقفین کی مختلف لائنوں میں تربیت کی جائے.حضور نے حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب کے ساتھ مشورہ کے بعد مختلف لانہیں مثلاً حدیث، فقہ، تغییر منطق وفلسفہ ، تصون مقر فرما دیں اور فرمایا کہ طلبہ کو کہیں کہ ہر ایک کو اختیار ہے کہ اپنی اپنی لائن منتخب کرلیں لیکن چونکہ عربی علوم کی کتب پڑھنے کے لئے بنیادی علم صرف و نحو کا حاصل کرنا ضروری تھا.اس لئے حضور نے اس علم کا حاصل کرنا ہر واقف کے لئے ضروری قرار دیا.چنانچہ صرف و نحو کی ابتدائی کتب سے لیکر انتہائی کتب تک سب واقفین کو پڑھنا پڑیں.لیکن اس کے لئے کلاستر نہیں بنائی گئیں بلکہ نصاب تجویز کر دیا گیا اور کہ دیا گیا کہ ہر واقف اساتذہ سے مدد لے کر اپنی اپنی ذہنی استعداد کے مطابق جلد سے جلد نصاب ختم کر سے بقیہ علوم کے لئے باقاعدہ کلاسز ہوتی رہیں.تے صرت میں قانونچہ کھیوالی مصنفہ مولوی خان ملک صاحب کا زبانی یاد کرنالازمی تھا.اسی طرح آخری کتاب فصول ابری کا امتحان پاس کرنا تھا تو میں نحو میر سے لے کر قافیہ تہذیب التوضیح اور شرح ملا جامی تک سب کتب در سا پڑھائی گئیں اور امتحان پاس کرنے کے لئے کڑی شرائط رکھی گئیں تا کہ ٹھوس بنیادوں پر کمی قابلیت پیدا ہو.دور ثانی کے واقفین کو وقتاً فوقتاً مندرجہ ذیل اساتذہ نے تعلیم دی :- واقفین کے اساتذہ ۱- حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب (جلالین بینادی اور سخی ۲- مولوی غلام احمد صاحب بعد وہی دن ہے.حدیث فقہ بخو کتب مسیح موعود ) ۳- مولوی عبد اللطیف صاحب بہاولپوری دصرت ونحو قانونچہ - فصول اکبری - کافیه شافیہ تہذیب التوضيح فقه و کنتر- قدوری- شرح وقایہ - ہدایہ ہم حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی (تصون) ۵ مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری ( علم معانی) با صاحبزادہ سید ابوالحسن صاحب قدسی (مقدمه این خلدون ، مولانا قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری ( فارسی ) ل الفصل ۲ نومبر ۵۳ و صفحه ۱۰ ۱۱ سے اصحاب احمد جلد پنجم حصد سوم صفحه ۱۴۷ سے چونکه قانونچہ پنجابی ۲۴ ١٠ میں تھا اس کے قوانین کا مختصر سا خلاصہ اردو میں لکھوایا گیا جو مکرم مولوی عبد اللطیف صاحب بہاولپوری نے مرتب کیا اور وہی کورس میں رکھا گیا :

Page 123

۹۲ مولوی از جمند خال صاحب (فقه) ۹ - شیخ عبد الخالق صاحب نو مسلم فاضل (ان سے) (( عیسائیت) ۱۰- قریشی محمد نذیر صاحب ملتانی (قرآن شریف صرف و نحو) - مولوی سکندر علی صاحب ہزاروی ( فقه اصول فقه ۱۲- پر عبد العزیز شاہ صاحب لکھیوال متصل ساہیوال ضلع سرگودها منطق و فلسفه - صرف و نخور ترمندی شریعت ۱۳- مولوی محمد ابراہیم صاحب قادیانی (صرف و نحو) ۱۴- مولوی محمد احمد صاحب جیسی جلیل (حدیث - ادب) ۱۵ - ملک سیف الرحمن صاحب ( قرآن کریم با ترجمه - فصول (اکبری) ۱۹ - خانصاحب.14 -14 ڈاکٹر عبد الله صاحب بیشتر مرحوم (طلب) ۱۷- پروفیسر محبوب عالم صاحب خالد (انگریزی) ۱۸ محمد سرور صاحب ایم اے (انگریزی ۱۹.مولوی محمد اسرائیل صاحب بالا کوٹ (غیر احمدی عالم) واقفین کی خصوصی تربیت و تعلیم کے لئے ۱۳ ء میں (بابو محمد سعید صاحب پوسٹماسٹر ا دار المجاهدین کے مکان واقعہ دارالفضل میں باقاعدہ دار المجاہدین کا قیام عمل میں آیا.جہاں کچھ عرصہ واقفین قیام پذیر رہے.ازاں بعد ماسٹر شیخ مبارک اسماعیل صاحب کی کو بھٹی میں اور پھر سنہ میں ڈاکٹرھا جی فنا صاحب کی کوٹھی واقع دارالا نوار مں منتقل ہوا جہاں واقفین کی رہائیش اور تعلیم دونوں کا انتظام تھا.میڈ ارالجات ہجرت کٹر تک قائم رہا.واقفین میں مجاہدانہ سپرٹ پیدا کرنے کے لئے مختلف اقدامات حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے کے نزدیک ہر واقف مجاہد تھا.اسی لئے حضور نے واقفین کی ٹریننگ میں خاص طور پر یہ امر ملحوظ رکھا.کہ مجاہدین تحریک جدید اپنا بلند مقام پہچانیں اور تحریک جدید کو مجاہدانہ معاہدہ سمجھتے ہوئے جہاد کی رُوح کے ساتھ زندگی بسر کریں بچنا نچہ حضور نے فرمایا :- ؟ له ہ سے آپ نے تعلیم دینا شروع کی : سے غیر احمدی عالم تھے جنہیں با قاعدہ تنخواہ پر اُستاد رکھا گیا تھاہ گے بیعت عشائر - قریباً ۲۴ سال تک پڑھاتے رہے ؟ کے وشہ آپ متعلم بھی تھے اور معلم بھی ہے نے والد ماجد میاں بشیر احمد صاحب سابق امیر جماعت کو شٹر کے حضور کے ارشاد کے ماتحت عملہ واقفین کے لئے ڈاکٹر غلام جیلانی صاحب کی کتاب ” مختزن حکمت " ہر دو جلد کا مطالعہ بھی لازمی قرار دیا گیا ؟ شه این کریم ڈاکٹر سید ولایت شاه صاحب آف افریقہ 22 " الفضل در دسمبر ۹۳ ارد صفحہ ۹ کالم ۲ سے معلوم ہوتا ہے کہ شیر کے اوائل سے واقفین کی پڑھائی شروع ہو چکی تھی : نے یہ مکان دارا الفصل میں چودھری غلام حسین صاحب مرحوم والد ماجد چودھری مشتاق احمد صاحب باتوں کے مکان کے جانب جنوب واقع تھا : سالہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کے بھیجے تھے.یہ کو بھی رہتی پھیلہ سے بھینی بانگر کی طرف بہانے والے راستہ پر واقع ہے.اس کو بھی میں صرف چند ماہ دار الواققین رہا ہے ؟

Page 124

۹۳ ہر واقف مجاہد ہے اور مجاہد پر اللہ تعالیٰ نے بہت ذمہ داریاں ڈالی ہیں.اُن کو پورا کرنے والا ہی مجاہدہ کہلانے کا مستحق ہو سکتا ہے.ہمارا مقابلہ تو ان قوموں سے ہے جن کے نوجوانوں نے چالیس پچالیس سال تک شادی نہیں کی اور اپنی زندگیاں لیبارٹریوں میں گزار دیں اور کام کرتے کرتے میز پر ہی کر گئے اور بہاتے ہوئے بعض نہایت مفید ایجا دیں اپنی قوم کو دے گئے مقابلہ تو ایسے لوگوں سے ہے کہ چین کے پاس گولہ بارود اور دوسرے لڑائی کے ہتھیار نہ رہے تو انہوں نے امریکہ سے روی شدہ بندوقیں منگوائیں اور انہی سے اپنے دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو گئے.انگلستان والوں نے کہا کہ بے شک جر من آجائے ہم اس سے سمندر میں لڑیں گے اگر سمندر میں لڑنے کے قابل نہ رہے تو پھر اس سے سمندر کے کناروں پر لڑیں گے اور اگر سمندر کے کناروں پر لڑنے کے قابل نہ رہے تو ہم اس سے شہروں کی گلیوں میں لڑیں گے اور اگر گلیوں میں لڑنے کے قابل نہ رہے تو ہم گھروں کے دروازوں تک مقابلہ کریں گے.اور اگر پھر بھی مقابلہ نہ کر سکے تو پھر کشتیوں میں بیٹھ کر امریکہ پہلے جائیں گے مگر اس سے جنگ کرنا ترک نہیں کریں گے.ہمارا مقابلہ تو ایسے لوگوں سے ہے....ہمیں تو ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے کہ جہاں ان کو کھڑا کیا جائے وہ وہاں سے ایک قدم بھی نہ ہلیں سوائے اس کے کہ اُن کی لاش ایک فٹ ہماری طرف گرے تو گرے لیکن زندہ انسان کا قدم ایک فٹ آگے پڑے پیچھے نہ آئے ہمیں تو ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے اور یہی لوگ ہیں جو قوموں کی بنیاد کا کام دیتے ہیں.اللہ تعالے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے متعلق فرماتا ہے کہ ان میں سے ہر آدمی کفن بر دوشش ہے مِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يُنتظر کہ اُن میں سے کچھ لوگوں نے اسلام کی راہ میں اپنی جانیں دے دی ہیں اور کچھ انتظار کر رہے ہیں.یہ وقف ہے جو دنیا میں تغیر پیدا کیا کرتا ہے.لے وانین میں مجاہدانہ روح اور سپاہیانہ انداز پیدا کرنے کے لئے حضور نے متعدد وسائل اختیار فرمان اول.واقفین کے لئے قطعی ہدایت تھی کہ وہ دارالواقفین میں رہیں.شادی شدہ واقفین کو ہفتہ میں صرف ایک بار یعنی جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب کو گھر جانے کی اجازت تھی اور مجرد واقفین تھوڑے سے وقت کے لئے ہفتہ میں دو بار گھر بجا سکتے تھے اور مہینہ میں ایک رخصت گھر گزار سکتے تھے.ل " الفضل ۲۰ جنوری ۱۹۴۶ صفر ۷-۸ ۰ 4 A-4

Page 125

۹۴ دوم واقفین روزانہ ڈائری لکھنے کے پابند تھے.ڈائری میں خاص طور پر یہ ذکر کیا جانا ضروری تھا کہ انہوں نے کتنی نمازیں باجماعت ادا کی ہیں اور کس مسجد میں ؟ نیز یہ کہ تلاوت قرآن مجید کتنے دنیا کی ہے؟ سوم - واقفین ہر پندرہ روز کے بعد عموماً ایک مرتبہ حضرت اقدس کی خدمت میں اجتماعی طور پر حاضر ہوتے تھے.ہیں طرح حضور کو براہ راست نگرانی کرنے اور طلبہ کو فیض حاصل کرنے کا موقعہ میسر آتا رہتا تھا بحضور وقتاً فوقتاً مختلف علوم وفنون میں واقفین کا خود بھی امتحان لیتے.چہارم.چونکہ وہ زمانہ واقفین کی عملی ٹینگ کا تھا اس لئے ان کی خاص توجہ سے نگہداشت کی جاتی تھی کیسی غلطی کو نظر انداز نہیں کیا جاتا تھا اور اس پر گرفت ہو کر سزا دی بھاتی تھی جیسے معین وقت کے لئے اعتکاف بیٹھنا ، مقاطعہ یا خروج کے بغیر لمبا پیدل سفر یا سب کے سامنے معافی مانگنا ہے حضور کا نظریہ اس بارہ میں یہ تھا کہ جب تک کسی قوم کے افراد کو سزا برداشت کرنے کی عادت نہ ہو.کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی.پنجم.حضور نے بار بار واقفین پر یہ حقیقت واضح فرمائی کہ وقف کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ جو کام سپرد ہو اُسے کیا جادے اُسے دین ہی دین سمجھیں“ شتم مجلس خدام الاحمدیہ نئی نئی قائم ہوئی تھی حضرت خلیفہ السیح الثانی من کی طرف سے اس مجلس کے کاموں میں واقفین کی شرکت لازمی قرار دی گئی تھی.نے نماز با جماعت کی پابندی واقفین کے لئے اس قدر ضروری تھی کہ حضور نے جامعہ احمدیہ کے بعض طلبہ کو نماز میں غفلت کے باعث وقت سے فارغ فرما دیا اور بعض طلبہ کا وقت اس وجہ سے قبول نہیں فرمایا کہ وہ نماز با جماعت میں شست پائے گئے دملا حظہ ہو ریکارڈ وکالت و یوان تحریک جدید دیوہ) مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ حضور واقفین زندگی کا اعزاز و اکرام نہیں فرماتے تھے.حق یہ ہے کہ حضور کا واقفین سے محبت شفقت کا سلوک اپنی مثال آپ تھا.حضور کی طرف سے دفتر تحریک جدید کو واضح ارشاد تھا کہ واقفین زندگی کو معزز الفاظ سے مخاطب کیا جائے.واققین کا جو اکرام و اعزار حضور فرماتے تھے وہ اس بات سے ظاہر ہے کہ ۱۹۴۴ء کے قریب حضور نے یہ اعلان فرمایا کہ میں آئیندہ صرف اپنے افراد خاندان ہی کا نکاح پڑھوں گا.مگر اس اعلان سے واقفین کو مستثنی رکھا چنانچہ حضور نے مولوی نور الحق صاحب ( ابو المنیر) واقف زندگی کا خطبہ نکاح پڑھتے ہوئے ار ا پریل شاہ کو ارشاد فرمایا :- کے "میں نے اعلان کیا ہوا ہے کہ میں سوائے اپنے عزیزوں کے اور کسی کا نکاح نہیں پڑھاؤں گا.مگر چونکہ یہ واقعت زندگی ہیں اور اس وجہ سے میرے عزیز وں میں شامل ہیں اس لئے میں اس نکاح کا اعلان کر رہا ہوں؟ الفضل " ۲۲ جون ۱۹۴۷ ، صفحه ۵ کالم ۴)

Page 126

۹۵ تم بحضور شعار اسلامی کی خاص طور پر پابندی کرنے کا ارشاد فرماتے تھے چنانچہ آپ نے واضح ہدایت دے رکھی تھی :- واقفین اپنے سر کے بال اس طرح رکھیں کہ اس کے کسی حصہ کے بال دوسرے حصہ کے بالوں سے چھوٹے بڑے بالکل نہ ہوں.خواہ سارہ سے بال چھوٹے ہوں خواہ سارے بال بڑے ہوں لیکن کیساں ہوں پھر فرمایا " داڑھی مومنوں والی ہو اور اس کی تشریح دوسرے موقعہ پر یوں فرمائی :- ایسی داڑھی ہو کہ دیکھنے والے کہیں کہ یہ داڑھی ہے.باقی رہا یہ کہ کتنی ہو اس کے متعلق کوئی پابندی نہیں....اصل چیز تو یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکموں کی اطاعت کی جائے.اور ایسے رنگ میں کی جائے کہ لوگوں کو نظر آئے کہ اطاعت کی ہے“ ہشتم حضرت خلیفہ ایسیح الثانی نے واقفین میں جفاکشی اور مشقت کی عادت پیدا کرنے کے لئے اگست ستمبر ۱۹۳۹ ء میں قادیان سے گلو تک پیدل سفر کر دیا.واقفین کو اپنا سامان (بستر کپڑے وغیرہ ) خود اٹھانے اور کھانا وغیرہ پکانے کا سب کام راستے میں اپنے ہاتھوں سے ہی سر انجام دینے کی ہدایت تھی.صرف راشن اور برتن اٹھانے کے لئے باربرداری کے انتظام کی اجازت تھی.اس سفر میں چودھری مشتاق احمد صاحب باجوہ امیر سفر تھے.اس کے بعد والفین نے زیر امارت مکرم مولوی غلام احمد صاحب بدوملہی شاید میں ڈلہوزی کی طرف اور اب میں چنبہ کی طرف پیدل سفر کیا.اگلے سال ۱۹۳۲ء میں مولوی غلام احمد صاحب مولویف افضل بد دولہوی ہی کی زیر قیادت مجاہدین کا قافلہ قادیان سے جموں تک بذریعہ ریل پہنچا جہاں سے پیدل چل کر ۲۰ اگست کو سرینگر پہنچا.سرینگر سے واپسی پر شدید بارش اور راستہ کی خرابی کے باوجود واقفین نے سرینگر سے جموں تک کا سفر دورات اور ڈیڑھ دن میں پیدل طے کیا.اے مجامع دین کی یہ پارٹی ، ستمبر سنہ کو واپس قادیان پہنچی رالفضل و ستمبر ۳۷ صفحه ۲ کالم ۳) لله يفضل " ستمبر 19 صفر + حاشیه ء میں کشمیر کا پیدل سفر کرنے والے واقفین : مرزا منور احمد صاحب - ملک سبیعت الرحمن صاحب - مولوی محمد صدیق صاحب - شیخ عبدالواحد صاحب بیچودھری غلام یسین صاحب شیخ ناصر احمد صاحب.میاں عبدالحی صاحب - مولوی محمد احمد صاحب جلیل - چودھری خلیل احمد صاحب ناصر حافظ قدرت الله صاحب چودھری محمد شریف صاحب ملک عطاء الر مین صاحب مولوی صدر الدین صاحب چودھری کرم الہی صاحب ظفر - چودھری عبد اللطیف صاحب اس سفر میں مجاہدین کے خوردو نوش کے سلمان اور برتنوں کی بار برداری کی خدمت میاں نظام الدین صاحب نے بخوشی سرانجام دی.

Page 127

۹۶ اسی طرح ۱ اور ۱۹۲۵ء میں بھی واقفین نے مکرم مولوی صاحب موصوف کی قیادت میں پھر ڈلہوزی کا پیدل - سفر کیا اور وہاں کچھ عرم قیام کیا یہاں تعلیم کے لئے اساتذہ کرام بھی تشریف لے گئے ہوئے تھے.ہے نہم یہ زمانہ چونکہ واقفین کی ٹرینگ اور تربیت کا تھا.اس لئے حضور نے جماعت کو اس کی اہمیت کی طرف تو تبہ دلاتے ہوئے فرمایا :- آج نوجوانوں کی ٹرینینگ اور اُن کی تربیت کا زمانہ ہے اور ٹریننگ کا زمانہ خاموشی کا زمانہ ہوتا ہے.لوگ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ کچھ نہیں ہو رہا.مگر جب قوم تو بیت پا کر عمل کے میدان میں نکل کھڑی ہوتی ہے تو دنیا انجام دیکھنے لگ جاتی ہے.در حقیقت ایک ایسی زندہ قوم جو ایک ہاتھ کے اُٹھنے پر اُٹھے اور ایک ہاتھ کے گرنے پر بیٹھے بجائے دنیا میں عظیم الشان تغیر پیدا کر دیا کرتی ہے اور یہ چیز ہماری جماعت میں ابھی پیدا نہیں ہوئی.ہماری جماعت میں قربانیوں کا مادہ بہت کچھ ہے مگر ابھی یہ جذبہ اُن کے اندر اپنے کمال کو نہیں پہنچا کہ جونہی ان کے کانوں میں خلیفہ وقت کی طرف سے کوئی آواز آئے اس وقت جماعت کو یہ محسوس نہ ہو کہ کوئی انسان بول رہا ہے بلکہ یوں محسوس ہو کہ فرشتوں نے اُن کو اٹھالیا ہے اور صور اسرافیل اُن کے سامنے پھونکا جارہا ہے.جب آواز آئے کہ بیٹھو تو اس وقت انہیں یہ معلوم نہ ہو کہ کوئی انسان بول رہا ہے بلکہ یوں محسوس ہو کہ فرشتوں کا تصرف اُن پر ہو رہا ہے اور وہ ایسی سواریاں ہیں جن پر فرشتے سوار ہیں جب وہ کہے بیٹھ جاؤ تو سب بیٹھ جائیں جب کہے کھڑے ہو جاؤ تو سب کھڑے ہو جائیں جس دن یہ رُوح ہماری جماعت میں پیدا ہو جائے گی اس دن جس طرح باز چڑیا پر حملہ کرتا اور اسے توڑ مروڑ کر رکھ دیتا ہے.اسی طرح احمدیت اپنے شکار پور گورگی اور تمام دنیا کے ممالک پیٹریا کی طرح اس کے پنجہ میں آجائیں گے اور دنیا میں اسلام کا پرچم پھر نئے سرے سے بہرا نے لگ بھائے گا " ہے حضور نے ابتدا میں سنیما کی مانعت تین سال کے لئے کی تھی مگر پھر اس کی سنیما کی مستقل ممانعت توسیع دس سال تک کر دی جس کے بعد سنیما کو مستقل طور پر ممنوع قرار دے دیا اور ارشاد فرمایا کہ :- ے ڈاہوری میں مولوی غلام احمد صاحب بدوملہی کے علاوہ حضرت مولانا غلام رسول صاحب را نیکی و مکرم مولوی عبد اللطيف صاحب بہاولپوری اور مکرم پیر عبد العزیز صاحب بھی واقفین کی تعلیم کے لئے تشریف لے گئے تھے ؟ 66 لے" الفضل دراپریل ها صفحه ، خطبه جمعه فرموده علر مارچ ۱۹۳۹ء

Page 128

96 بعض لوگوں کے منہ سے یہ بات بھی نکلی ہے کہ سنیما کی ممانعت وس سال کے لئے ہے.انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ بُرائی کا تعلق دس سال یا بیس سال سے نہیں ہو تا جس چیز میں کوئی خرابی ہو وہ کسی میعاد سے تعلق نہیں رکھتی.اس طرح سے تو میں نے صرف آپ لوگوں کی عادت چھڑا دی ہے.اگر میں پہلے ہی یہ کہ دیتا کہ اس کی ہمیشہ کے لئے ممانعت ہے تو بعض نوجوان مبین کے ایمان کمزور تھے.اس پر عمل کرنے میں تامل کرتے مگر اپ نے پہلے سال تین سال کے لئے ممانعت کی اور جب عادت ہٹ گئی تو پھر مزید سات سال کے لئے ممانعت کر دی اور اس کے بعد چونکہ عادت بالکل ہی نہیں روہینگی اس لئے دوست خود ہی آہیں گے کہ بہنم میں جائے سنیما، اس پر پیسے ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ پھر فرمایا : سنیما کے متعلق میرا خیال ہے کہ اس زمانہ کی بعد ترین لعنت ہے.اس نے سینکڑوں شریف گھرانے کے لوگوں کو گویا اور سینکڑوں شریف خاندانوں کی عورتوں کو تا چنے والی بنا دیا ہے.میں اوبی رسالے وغیرہ دیکھتا رہتا ہوں اور میں نے دیکھا ہے کہ سنیما کے شوقین اور اس سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے مضامین میں ایسا تمسخر ہوتا ہے اور اُن کا اخلاق اور اُن کا مذاق ایسا گندہ ہوتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے.سنیما والوں کی عرض تو روپیہ کمانا ہے نہ کہ اخلاق سکھانا.اور وہ روپیہ کمانے کے لئے ایسے لغو اور بیہودہ فسانے اور گانے پیش کرتے ہیں کہ جو اخلاق کو سخت خراب کرنے والے ہوتے ہیں اور شرفاء جب اُن میں جاتے ہیں تو ان کا مذاق بھی بگڑ جاتا ہے اور ان کے بچوں اور عورتوں کا بھی جون کو وہ بنیا دیکھنے کے لئے ساتھ لے جاتے ہیں اور سنیما ملک کے اخلاق پر الیسا تباہ کن اثر ڈال رہے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں میرا منع کرنا تو الگ رہا اگر میں ممانعت نہ کروں تو بھی مومن کی روح کو خود بخود اس سے بغاوت کرنی چاہئیے" ہے اپریل 1917ء میں حضور کے نوٹس میں یہ بات لائی گئی کہ بعض زجوان سمجھتے ہیں کہ حضرت امیر مومنین نے تاریخی تصاویہ دیکھنے کی اجازت دے رکھی ہے.اس پر حضور نے ارشاد فرمایا کہ بجو شخص کہتا ہے کہ میں تھے ہسٹار ایل پیکھ نہ دیکھنے کی اجازت دی ہے وہ کذاب ہے.میں نے ہرگز ایسا نہیں کہا...میں نے جو اجازت دی ہے وہ یہ ہے کہ علمی یا سینگی اداروں کی طرف سے سے رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء صفحه ۸۵ به جمعه فرموده ۸ دسمبر الفضل ۱۲ دسمبر ۱۹۲ صفحه ۵ کالم ۳۰۲ خطبه

Page 129

۹۸ جو خالص علمی پکچرز ہوتی ہیں مثلاً جنگلوں ، دریاؤں کے نقشے یا کارخانوں کے نقشے یا جنگ کی تصاویہ جو سچی ہوں اُن کے دیکھنے کی اجازت ہے کیونکہ وہ علم ہے ملے مزید فرمایا که جغرافیائی اور تاریخی فلم سے مراد سچی فلم ہے.جھوٹی فلم کی ہرگز اجازت نہیں دی گئی.تاریخی فلم ایسی ہے جیسے سان فرانسیسکو کے جاپان کے معاہدہ کی مجلس کی فلم ہوگی جغرافیائی سے مراد یہ ہے کہ پہاڑ پر جا کر یا مثلاً بھا واجا کر وہاں کے جنگوں زریاؤں کی قلم لے.جھوٹی فلم خواہ جغرافیائی ہو خواہ تاریخی تا انت ہے مثلاً نپولین کی جنگوں کی کوئی شخص فلم بنائے تو یہ بھوئی ہوگی.باوجود نام نہاد تاریخی فلم ہونے کے وہ نا جائز ہوگی لئے وقت زندگی براے سکیم دیہاتی مبین کی ہے وہ کے در در ایران میں نے یہ دیکھ کرم اتنے مبلغ تیار نہیں کر سکتے جو دنیا کی ضرورت کو پورا کر سکیں تو اللہ تعالیٰ نے حضور کے دل میں دیہاتی مبلغین کی سکیم ڈائی اور مصور نے ۲۹ جنوری سہ کو تیسری قسم کا وقت دہرائے دیہاتی مبلغین) جاری کرتے ہوئے اعلان فرمایا کہ یں نے فیصلہ کیا ہے کہ دو قسم کے مبلغ ہونے چاہئیں.ایک تو وہ جو بڑے بڑے شہروں اور قصبوں میں جا کر تبلیغ کر سکیں لیکچر اور مناظر سے وغیرہ کر سکیں.اپنے ماتحت مہنتوں کے کام کی نگرانی کر سکیں.اور ایک ان سے چھوٹے درجہ کے مبلغ وبہات میں تبلیغ کے لئے ہوں جیسے دیہات کے پرائمری سکونوں کے مدرس ہوتے ہیں ایسے مبلغ دیہات کے لوگوں میں سے ہی لئے جائیں.ایک سال تک ان کو تعلیم ہے کر موٹے موٹے مسائل سے آگاہ کر دیا جائے اور پھر ان کو دیہات میں پھیلا دیا جائے اور میں طرح پا کرتی سکے مدرس اپنے ارد گرد کے دیہات میں تعلیم کے ذمہ دار ہوتے ہیں اسی طرح یہ اپنے علاقہ میں تبلیغ کے ذمہ دار ہوں....انہیں ایک سال میں موٹے موٹے دینی مسائل مثلاً نکاح نماز روزہ حج زکوة جنازہ وغیرہ کے متعلق احکام سکھا دیے جائیں، قرآن شریف کا ترجمہ پڑھا دیا جائے، کچھ احادیث پڑھائی جائیں، سلسلہ کے ضروری مسائل پر نوٹ لکھا دیئے جائیں تعلیم و تربیت کے متعلق ان کو ضروری ہدیا دی جائیں اور انہیں سمجھا دیا جائے کہ بچوں کو کس قسم کے اخلاق اسکھانے چاہئیں اور اس غرض.م الفضل " که در ایریل سار صفحه ۲ کالم ۳ : الفصل ۲۰ جنوری ۱۹۲۶ صفر ۴ : + سے افضل" ۲۵ستمبر ۵نه صفحه ۲ کالم 1 ج *

Page 130

٩٩ انہیں ایک دو ماہ خدام الاحمدیہ میں کام کرنے کا موقع بہم پہنچا یا جائے اور یہ سارا کورس ایک سال یا سوا سال میں ختم کر اسکے انہیں دیہات میں پھیلا دیا جائے....پس میں جماعت کو توجہ دلانا ہوں کہ اس سکیم کو کامیاب بنانے کی کوشش کرے اور اپنے اپنے ہاں کے ایسے نوجوانوں کو جو پرائمری یا مڈل پاس ہوں اور اور پرائمر کا کے ہر سوں جتنا ہی گزارہ لے کر تبلیغ کا کام کرنے پر تیار ہوں فوراً بھیجوا دیں تا اُن کے لئے تعلیم کا کورس مقرر کر کے انہیں تبلیغ کے لئے تیار کیا جا سکتے " یونکہ جنگ کا زمانہ تھا اور گرانی بہت تھی اس لئے ابتداء میں صرف پندرہ واقفین منتخب کئے گئے جن کی ٹریننگ یا قاعدہ ایک کل اس کی شکل میں جنوری سال تک جاری رہی، انہیں علمائے سلسلہ کے علاوہ خود شید نا حضرت خلیفہ ربیع الثانی بھی تعلیم دیتے تھے چنانچہ تصور نے مجلس مشاورت منه قده ۲۰۷- ۱۹اپریل ) ربیع میں بتایا کہ " میں دیہاتی مبلغین کو آجکل تعلیم دے رہا ہوں.یہ لوگ مدرس بھی ہوں گے اور مبلغ بھی چھ نہیں تک یہ لوگ فارغ ہو جائیں گے.پندرہ بیس اُن کی تعداد ہے“ کے فارغ ٹریننگ کا دور ختم ہوا تو اُن میں سے چودہ کو فروری ۹۲۵ہ سے پنجاب کے مختلف دیہاتی علاقوں میں متعین کر دیا گیا.دیہاتی مبلغین کے وقت کی یہ سکیم بہت کامیاب رہی اور حضور نے دیہاتی مبلغین کی نسبت اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا :- "خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارا یہ تجربہ بہت کامیاب رہا ہے.کئی جماعتیں ایسی تھیں جو کہ چندوں نے دو الفضل" ہم فروری ۱۹۹۳ صفحه ۳.ار صفحه ۹۶ سالانه ۱۴۷ ے " الفصل " - سر جنوری با میر صفویم کالم سے رپورٹ "f ۲۱ پورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ صفحه ۲۳+ شه اولین دیہاتی مبلغین معہ حلقہ جات : ۱- مولوی عبد المجید صاحب منیب ( دھاریوال) ۲- مولوی غلام رسول صاحب (غازی کوٹ) ۳ حکیم احمد دین صاحب (بھینی میلوان) ہے.ماسٹر مہدی شاہ صاحب (اجناله) ۵- مولوی شیر محمد صاحب (مبادی نانو - مولوی عطاء اللہ صاحب (مینودالی) - خوابه خورشید احمد صاحب (مغلپور) مولوی رحیم بخش صاحب ریوڑہ ضلع لاہور) و سید محمدامین شاہ صاحب رکھو رائی) ۱۰ سید علی اصغر شاہ صاحب ( ہیلاں گجرات) 11 حافظ ابوذر صاحب وروڈہ سرگودھا) ۲- مولوی جمال الدین صاحب در چهار دان نگردی ۱۳ - حافظ بشیر الدین صاحب (امین آباد) ۱۴ مولوی شیخ محمد صاحب (دنیا پور ملتان) در پورٹ سالانه ۹۴۲ار صفر (۹۴)

Page 131

میں سست تھیں اب اُن میں بیداری پیدا ہو گئی.پہلے سال صرف پندرہ آدمی اس کلاس میں شامل ہوئے تھے اور پچھلے سال پچاس شامل ہوئے شہ دیہاتی مبلغین کی تغیری کلاس ۱۹۴۷ء میں کھولی گئی ہیں میں ۳ھ واقعین داخل کئے گئے.ابھی پڑھائی کا گویا آغاز ہی تھا کہ ملک فسادات کی پیٹ میں آگیا.نتیجہ یہ ہوا کہ اکثر طلبہ قادیان میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے رہ گئے اور صرف چھ پاکستان آئے جنہیں تکمیل تعلیم کے بعد تبلیغ پر لگا دیا گیا ہے اس کے بعد آئندہ کے لئے یہ شرط عاید کردی گئی کہ صرف غیر شادی شدہ لئے بھائیں گے نیز یہ کہ ان کو صرف دوران تعلیم میں وظیفہ دیا جائے گا اور تعلیم کے بعد دو برس تک کسی الاؤنس کے بغیر مفوضہ کام کرنا ہو گا چنانچہ ان شرائط کے مطابق چوکھٹی کلاس بدون حاشہ سے لاہور میں جاری کی گئی.اور جب واقفین دور تعلیم مکمل کر چکے تو وہ اپنے اپنے حلقوں میں بھجوا دیئے گئے.اس طرح دیہاتی مبلغین کے چار گروپ بن گئے جن کی تعداد ار میں میں دیہاتی بن اور میں تک جا پہنچی - ۲۸ مارچ شام کو سید نا حضرت الصلح الموعوانہ کے ارشاد پر مولانا الیا لعطاء صاحب اور میاں غلام محمد صاحب اختر پر مشتمل ایک بورڈ مقرر کیا گیا جس نے دیہاتی مبلغین کا امتحان لیا اور قابل مبلغین کا انتخاب کر کے نظارت اصلاح وارشاد صدر انجمن احمدیہ میں بطور معلم رکھ لیا گیا اور باقی فارغ کر دیئے گئے ہے وقف بجائیداد اور وقف آمد استید نا حضرت خلیفتہ ایسی الثانی نے مارچ 19ء کو جماعت سے وقفت جائیداد اور اس کے نہ ہونے کی صورت میں وقت آمد کا مطالبہ کی اہم تحریک فرمایا اور ساتھ ہی وضاحت بھی فرمائی کہ یہ وقت....اس صورت میں ہوگا کہ ان کی جائیداد اُن ہی کے پاس رہے گی اور آمد بھی مالک کی ہوگی اور وہی اس کا انتظام بھی کرے گا ہاں جب سلسلہ کے لئے ضرورت ہوگی ایسی ضرورت شه جو عام چندہ سے پوری نہ ہوسکے تو جتنی رقم کی ضرورت ہوگی اسے ان جائیدادوں پر بحصہ رسدی تقسیم کر دیا جائے گا “.شه خطیه جعبه فرموده ، از جنتوری کانیه ( مطبوعه الفصل ۱۳۰ جنوری شام اور صفحه یم کالم ۱ سے رپورٹ سالانہ صدر انجین احمدیہ پاکستان می ۱۹۳۷ صفحه به شه رپورٹ سالانہ صدر امین احکام سے رپورٹ سالانہ صدر انجمن پاکستان بابت سال ه ریکارڈ صور الحسین احمدیہ پاکستان کا میلہ نے حضور کا ارشاد تھا کہ : اگر وہ فارغ شده مبلغ چاہیں تو وہ دیہات میں امام بن سکتے ہیں.تبلیغ کریں تو دس روپے ماہوار الاؤنس مل سکتا ہے" الفضل " ٣١ ماريخ ۹۲ در صفحه ۵ کالم ۲-۳ + ك " الفضل " ۱۴ مارچ ۹۲۷ ایر صفحه ۱۲-۸۱۳ ھ ہو.

Page 132

اس مطالبہ کے اعلان سے قبل نہ صرف حضرت امیر المومنین نے اپنی جائیداد وقف فرما دی بلکہ حضور کا منشار مبار سے نہ نےاپنی فرما دی حضور انشادربار معلوم ہوتے ہی چودھری ظفر اللہ خان صاحب اور نواب مسعود احمد خان صاحب نے اپنی جائیدادیں اپنے آقا کے حضور پیش کر دیں جس کا ذکر خود حضور نے بایں الفاظ فرمایا :- میں سب سے پہلے اس غرض کے لئے اپنی جائیداد وقف کرتا ہوں.دوسر سے چودھری ظفر اللہ خان صاحب ہیں انہوں نے بھی اپنی بھائیداد میری اس تحریک پر دین کی خدمت کے لئے وقف کر دی ہے بلکہ انہوں نے مجھے کہا آپ جانتے ہیں آپ کی پہلے بھی یہی خواہش تھی اور ایک دفعہ آپ نے اپنی اس خواہش کا مجھے سے اظہار بھی کیا تھا کہ میری بجائیداد اس غرض کے لئے لے لی جائے.اب دوبارہ میں اس مقصد کے لئے اپنی بھائی داد پیش کرتا ہوں.تیسرے نمبر پر میرے بھانجے مسعود احمد خاں صاحب ہیں انہوں نے گل سُنا کہ میری یہ خواہش ہے تو فوراً مجھے لکھا کہ میری جس قدر جائیداد ہے اُسے میں بھی اسلام کی اشاعت کے لئے وقف کرتا ہوں " سے حضور نے اس وقف کے لئے ایک کمیٹی تشکیل فرمائی جس کے ذمہ یہ فیصلہ کرنا تھا کہ اس وقت فلاں ضرورت کے لئے وقت جائیدادوں سے کتنی رقم لی جائے.نومبر سا میک قریباً ایک کروڑ روپیہ مالیت کی جائیدادیں وقف ہوئیں ہے وقف زندگی کی وسیع تحریک حضرت ندی کی دور مین نگا نے قبل ازوقت دیکھ لیا تھاکہ جنگ کے اختتام پر ہمیں فوری طور پر تبلیغ اسلام کی طرف توجہ دینا پڑے گی.اس لئے حضور نے ۲۴ مارچ 19ء کو وقت زندگی کی پرزور تحریک فرمائی ہے اور ارشاد فرمایا کہ میرا اندازہ ہے کہ فی الحال دو سو علماء کی ہمیں ضرورت ہے تب موجودہ حالات کے مطابق جماعتی کا موں کو تنظیم کے ماتحت چلایا جاسکتا ہے لیکن اس وقت واقفین کی تعداد ۳۰-۳۵ ہے..اس کے علاوہ گریجویٹوں اور ایم اے پاس نوجوانوں کی بھی کالج کے لئے ضرورت ہے تا پروفیسر وغیرہ تیار کئے جاسکیں.ایسے ہی واقفین میں سے آئیندہ ناظروں کے قائم مقام بھی تیار کئے جاسکیں گے.آگے ایسے لوگ نظر نہیں آتے جنہیں نا دیگی قائم مقام بنایا جا سکے.میری تجویز ہے کہ قین نوجوانوں کو ایسے کاموں پر بھی لگایا جائے اور ایسے رنگ میں اُن کی تربیت کی جائے کہ وہ آئیندہ الفضل" از تاریخ ۲۳ صفر ۱۲ - ۱۳ * له او الفضل ۱۳ نومبر ۱۹۹۲ صفحه ۰۳ "العمل" ٣ بلد ۱۹۳۲ صفر ۵.

Page 133

۱۰۲ موجودہ ناظروں کے قائم مقام بھی ہو سکیں.پس ایم.اسے پاس نوجوانوں کی ہمیں ضرورت ہے“ لے و یونان امیر کا شانا اخلاص حضرت خلیفہ اسی الائی کی اس تحریک پر نوجوانان احمد بیت خدمت دین کے لئے دیوانہ وار آگے بڑھے اور اپنی زندگیاں وقف کیں انخلا محبت کا یہ ایسا شاندار نظارہ تھا کہ اس نے غیر مسلموں تک کو متاثر کیا.چنانچہ اخبار پرکاش جالندھر) نے لکھا:."آپ احمدیت اتحریک قادیان کی طرف دھیان دیں اور آنکھیں کھولیں.قادیان میں بڑے سے بڑے احمدی نے اپنے لخت جگروں کو احمدیت کی تبلیغ کے لئے وقف کر دیا ہے اور اس پیشہ کو بڑی اور کی درشٹی سے دیکھا جاتا ہے تحریک دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہی ہے کیونکہ اُن کے لیڈر عالم با عمل نہیں اور سپرٹ مخلصانہ ہے" سے غیر احدی نو جوانوں پر تحریک ا ا ا ا ا ا ا یک ا ا ا ا ا ا ا و ر ا ا ر ہوا، اس کا اندازہ لگانے کے لئے صرف ایک مکتوب درج کیا جاتا ہے.ایک غیر احمدی دوست اقبال احمد صاحب زبیری بی اے بی ٹی علیگ نے حضور کی خدمت میں لکھا یہ " حضرت امیر المومنین السلام علیکم.آپ کی جماعت میں ایک صاحب بنام مبارک احمد صاحب میرے ہم پیشہ دوست ہیں.میرا اور موصوف کا قریباً دو ڈھائی سال سے ساتھ ہے اور ہمارے درمیان بہت گہرے اور مخلصانہ تعلقات قائم ہیں....موصوف کے ساتھ دو جمیعہ کی نمازوں میں شریک ہوا جبکہ علاوہ وقتا فوقتا الفضل پڑھنے کے آپ کا دیا ہوا خطبہ میں نے شنا وہ خطبے جو میں نے سنے ان میں سے دو قابل ذکر ہیں.ایک جو ہندوستان اور برطانیہ کے مابین مصالحت کے متعلق تھا اور دوسرا جس میں آپ نے جماعت کے لوگوں سے زندگی وقف کر دینے له الفضل ۳۱ مارچ ایر صفر ۳ + اس پتریک کے مطابق دار دسمبر سر کو حضرت خلیفہ المسیح الثانی ۲۲ نے مندرجہ ذیل واقفین کا حسب ذیل دفتروں میں تقریر فرمایا : مولوی نورالدین صاحب متغیر بی اے (دفتر پرائیویٹ سکرٹی) مرزا بشیر احمد بیگ صاحب بی.اے ) دفتر و عوت و تبلیغ پیچوہدری عزیز احمر صاحب بی.اے (دفتر محاسب) ۴- چودھری عبدالباری صاحب بی.اے (دفتر بیت المال) مولوی برکات احمد صاحب بی می و دفتر اموری است -۶- چودھری عبد السلام صاحب اختر ایم.اے (دفتر تعلیم و تربیت ) (کالجوں اور سکولوں کے کام کے لئے) A سے پرکاش، و یکی جالندهر شهر ۳۰ ایمیل شواء بحواله الفضل ، ارمنی و صفحه ۳ کالم ۲ اور زعرت داختران درشتی انگاه و ها ها

Page 134

کے لئے خدا اور اس کے رسول کی راہ میں تاکید فرمائی ہے.مبارک احمد صاحب نے، تو آپ کی آواز پر فوراً لبیک کہا اور اُن کا خط اور درخواست غالباً اس وقت آپ کے زیر غور ہوگی.میں آپ کی جماعت کا با قاعدہ رکن تو اس وقت نہیں ہوں لیکن اللہ اور اس کے رسول کی خدمت کسی نظام کے ماتحت کنے میں مجھے معذرہ بھی نہیں " تحریک جدید کے ابتدائی دس سال ختم ہوئے تو سیدنا حضرت مجاہدین تحریک جدید کے لئے استاد خلیفہ ایسی الثانی نے دفتر اول کے مجاہدین کو اپنے دستخط سے مطبوعہ استاد عطا فرمائیں.دور ثانی میں تحریک جدید کی طرف سے مندرجہ ذیل لٹر پر شائع کیا گیا.اشاعت الر پھر حیرت بین تحقیقی اسلام احمدیت گم کا 2.THE 4.ALBUM IYYA TRUTH ABOUT THE SPLIT.” - انقلاب حقیقی PROGRESS OF SHOWING AHMAD- COMMUNITY OUTSIDE INDIA نظام تو (2) -4 (1939) تفسیر کبیر جلد سوم ) دسمبر ( شیر رومانی (ا) تحریک میہ کے دن سالہ دور پر ایک نظر سیتا اور این ای انانی تحریک جدید کے پہلے رش حضرت خلیفہ سالوں کی خدمات پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :- تحریک کے پہلے دور کی میعاد دس سال تھی...اس دور میں اللہ تعالیٰ نے جماعت کو جس قربانی کی توفیق دی ہے اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ اُس نے اس عرصہ میں جو چندہ اس تحریک میں دیا وہ تیرہ چودہ لاکھ روپیہ بنتا ہے اور اس روپیہ سے جہاں ہم نے اس دس سال کے مریم میں ضروری اخراجات کئے ہیں وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک ریز رو فنڈ بھی قائم کیا ہے اور اس ایند و فنڈ کی مقداد ۲۸۰ مربع زمین ہے.اس کے علاوہ ابھی ایک سو مر بعد ترین ایسی ہے جس میں ے یہ استاد چودھری انور احمد صاحب کا اہلوں حال مشرقی پاکستان نے کلکتہ میں تین رنگوں میں نہایت دیدہ زیب طبع کرائی تھیں شده ( بروایت سید منتم احسن صاحب کار کن دفتره کانت مالی دیوه )

Page 135

سے کچھ حصہ کے خریدنے کا ابھی وقت نہیں آیا.کچھ حصہ گو خریدا تو گیا ہے مگر اس پر ابھی قرض ہے.اُسے اگر شامل کر لیا جائے تو کل رقبہ ۲۸۰ مریعے ہو جاتا ہے.اس دوران میں تحریک جدید کے ماتحت ہمارے مبلغ جاپان میں گئے.تحریک جدید کے ماتحت چین میں مبلغ گئے ، سنگا پور میں گئے.اور اس تحریک کے ماتحت خدا تعالیٰ کے فضل سے پسین، اٹلی، ہنگری، پولینڈ، البانیہ ، یوگوسلاویہ اور امریکہ میں بھی مبلغ گئے اور ان میلفین کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہزاروں لوگ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے اور سلسلہ سے لاکھوں لوگ روشناس ہوئے " اے فصل نهم دفتر دوم سے لیکر دفتر سوم تک امنی ۱۹۴۴ متر تا نومبر (۱۹۶۵) منی کہ میں دفتر دوم شروع ہوا.حضور نے دفترد دم کے مجاہدین کے لئے تین شرائط دفتر دوم کا آغاز مقرر فرمائیں :- 1- پندہ ایک ماہ کی آمد کے برابہ ہو.وہ انہیں سال تک چنڈ دیئے جائیں اور آمد کے مطابق ہر سال اس میں اضافہ کریں.آمد کے بند ہو جانے یا ملازمت سے علیحدگی کی صورت میں فوراً دفتر تحریک جدید کو اطلاع دیں.دختران کے حالات کا جائزہ لے کر چندہ کی رقم مقرر کر دے گا ہے اس سلسلہ میں حضور نے دفتر ثانی کے ہر مجاہد کو ایک خاص ارشاد یہ فرمایا کہ " وہ عہد کرے کہ نہ صرفت آخر تک وہ خود پوری با قاعدگی کے ساتھ اس تحریک میں حصہ لیتا رہیگا سة الفضل ٢٨٠ نومبر ١٨٧ء صفحه ٢٠١ و " الفضل " وار اکتوبر ار صفحه ۱-۹۲ الفضل ۲۸ مئی ۲ ماه صفحه ۹۲

Page 136

۱۰۵ بلکہ کم سے کم ایک آدمی ایسا ضرور تیار کرے گا جو دفتر دوم میں حصہ ہے اور اگر وہ زیادہ آدمی تیا کر سکے تو یہ اور بھی اچھی بات ہے “ لے 2 ارٹی شاہ کو تحریک جدید کے سرمایہ سے قادیان میں فضل فضل محمد بیر جانسٹی ٹیوٹ کاقیام اریا ان میں سے تحقیقی ادارہ کی بنیاد رکھی گئی.اور اس کا افتتاح و ر ا پریل ۱۹۴۶ء کو ہندوستان کے مشہور سائنسدان سرشانتی سروپ بھٹناگرنے کیا.انسٹی ٹیوٹ نے تین سال کے قلیل عرصہ میں بیرونی مالک سے لیبارٹری کا قیمتی سامان فراہم کرنے کے علاوہ سانس کے مستند اور تازہ لٹریچر مشتمل ایک مثالی لائیبریری قائم کر دکھائی.اخبار انقلاب ها بود ) ۲۰ اپریل ۱۳۶ه ، روزنامه شیسمین و بی کلکتہ) (مئی ۱۹۴۷) اور لندن کے مشہور سائنسی رسالہ "NATURE " نے درجون لہ کی اشاعت میں فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے افتتاح پر نہایت زور دار تبصرے شائع کئے اور مذہب و سائنس کی ہم آہنگی کے لئے جماعت احمدیہ کی اس شاندار کوشش کو بہت سراہا ہے معلبة حلف الفضول" کا احیاء " ار جولائی کام کو حضور نے الہام الہی کی بنا پر معاہدہ سیلف الفضول کا امتیار فرمایا نیز بتایا کہ یہ ایک معاہدہ تھا جو حضرت رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بعثت سے قبل ہوا.جس میں زیادہ جوش کے ساتھ حصہ لینے والے تین فضل نام کے آدمی تھے.اس لئے اس کو حلف الفضول کہتے ہیں.اور اس معاہدہ کا مطلب یہ تھا کہ ہم مظلوموں کو ان کے حقوق دلوانے میں مدد کیا کرینگے اور اگر کوئی اُن پر ظلم کرے گا تو ہم اس کو روکیں گے.ہے الفضل " ۲۸ اگست وارد صفحه در خطبه فرموده ۲۸ اگست ۱۹۴۵) ہ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا مفصل ذکر ۹۴۶ ائر کے حالات میں آرہا ہے ؟ ے افسوس ہ کی تقسیم ملک سے حالات یکسر بدل گئے اور لیبارٹری اور لائیبریر کی دونوں جماعت سے چھن گئیں.تقسیم ملک کے بعد لاہور میں ماڈل ٹاؤن کے قریب ایک اُجڑا ہوا کارخانہ الاٹ کر واکر اسی میں ریسرچ کا کام جاری کیا گیا.کچھ عرصہ بعد ربوہ میں ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی اپنی مستقل عمارت بھی تعمیر ہوگئی "الفضل " ۲۲ جولائی ۱۹۳۳ صفرا : ھے حلف الفضول میں شمولیت کی ضروری شرائط " مطالبات تحریک جدید " طبع چہارم صفحه ۱۵۷ و ۱۵۸ پر موجود نہیں بے

Page 137

١٠ یکم ستمبر کو دوسری جنگ عظیم شروع ہو گئی ہو.اگست جنگ عظیم ثانی کا اثر تحریک جدید پر تک جارکا رہی.اس دوران میں چھ سال تک بیرونی ممالک میں کوئی نیا مشن قائم نہ کیا جا سکا.اور جو مشن جنگ سے پہلے قائم ہو چکے تھے وہ بھی اپنی سرگرمیاں محدود کرنے پر مجبور ہو گئے.مشہور زبانوں میں لڑ کر حضرت خلیفتہ ایسیح الثانی نے اس جنگی زمانہ میں اپنی پوری قوت تحریک جدید کی مشہور زبانوں میں تشریحی بنیادیں مضبوط کرنے اور تبلیغی لٹریچر کی تیاری میں صرت فرما دی.چنانچہ اس عرصہ میں دوسرے اہم امور کے علاوہ حضور نے دنیا کی مشہور زبانوں انگریزی ، روسی ، جرمن ، فرانسیسی اطالوی ڈچ ، ہسپانوی اور پرتگیزی میں قرآن مجید کا ترجمہ کرایا.انگریزی تفسیر القرآن کا کام تو قادیان میں ہو رہا تھا.باقی زبانوں کے تراجم مولانا جلال الدین صاحب شمس مبلغ انگلستان کی نگرانی میں لنڈن میں پناہ گزین غیر ملکی دوریوں نے مکمل کئے.حضور نے ۲۰ اکتوبر کو تراجم قرآن کریم کے ساتھ اور دوسرے تبلیغی لٹریچر کی اشاعت کی نہایت ہم سکیم رکھی اور اس غرض کے لئے باڑہ کتابوں کا سیٹ تجویز فرمایا جس کا دنیا کی آٹھ مشہور زبانوں میں ترجمہ ہونا ضروری تھا.ان بارہ کتابوں میں سے تویہ تھیں.اسلامی اصول کی فلاسفی مسیح ہندوستان میں اتریت یعنی حقیقی اسلام.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانحعمری حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی سوراخ ترجمہ احادیث پرانے اور نئے عہد نامہ میں سے رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم کے متعلق پیشگوئیاں.پرانے اور نے عہد نامہ کی روشنی میں توحید - نظام کو یہ سیٹ انگریزی ممالک کے لئے تھا.یہانتک عربی ممالک کا تعلق ہے حضور کا منشاء تھا کہ اور قسم کا سیٹ تجویز ہونا چاہئے.اس کے علاوہ حضور نے نو زبانوں میں چھوٹے چھوٹے ٹرکیٹوں اور اشتہاروں کی اشاعت کا پروگرام اس سکیم میں شامل کیا ہے اس عظیم الشان بجد وجہد کا واحد مقصد یہ تھا کہ جونہی ماڈی اور سیاسی جنگ بند ہو تبلیغی اور روحانی جنگ کا آغاز کر دیا جائے.چنانچہ حضور نے فرمایا :- " لڑائی کا اہل تو جب اللہ تعالے سچاہے گا بجے گا.پریڈ کا بگل بجا دیا گیا ہے اور بچاہیئے کہ له الفضل ٢٠ اكتوبر صفحه 1 سے ايضا

Page 138

اسلام کا درد رکھنے والوں میں یہ سنگل ایک غیر معمولی جوش پیدا کرنے کا موجب ہو.وقت آگیا ہے کہ مبین نوجوانوں نے اپنی زندگیاں وقف کی ہیں وہ جلد سے جلد علم حاصل کر کے اس قابل ہو جائیں کہ انہیں اسلام کی جنگ میں اسی طرح بھونکا جا سکے جس طرح تنور میں لکڑیاں جھونکی جاتی ہیں.اس جنگ میں رہی جرنیل کامیاب ہو سکتا ہے جو اس لڑائی کی آگ میں نوجوانوں کو جھونکتے میں ذرا رحم نہ محسوس کرے اور حبس طرح ایک بھر بھونجا چنے بھونتے وقت آموں اور دوسرے درختوں کے خشک پتے اپنے بھاڑ میں جھونکتا چلا جاتا ہے اور ایسا کرتے ہوئے اس کے دل میں ذرا بھی رحم پیدا نہیں ہوتا اسی طرح نو جوانوں کو اس جنگ میں جھونکتا چلا جائے اگر بھاڑ میں پتے بھونکنے کے بغیر چھنے بھی نہیں ٹھن سکتے تو اس قسم کی قربانی کے بغیر اسلام کی فتح کیسے ہو سکتی ہے؟ پس اس بیجنگ میں وہی جب تیل کامیابی کا منہ دیکھ سکے گا جو یہ خیال کئے بغیر کہ کس طرح ماؤں کے دلوں پر چھریاں پھیل رہی ہیں نوجوانوں کو قربانی کے لئے پیش کرتا جائے.موت اس کے دل میں کوئی رحم اور درد پیدا نہ کرے.اس کے سامنے ایک ہی مقصد ہو اور وہ یہ کہ اسلام کا جھنڈا اُس نے دنیا میں گاڑنا ہے اور سنگدل ہو کر اپنے کام کو کرتا جائے جس دن مائیں یہ مجھیں گی کہ اگر ہمارا بچہ دین کی راہ میں مارا جائے تو بهاران خاندان زندہ ہو جائے گا جس دن آپ یہ سمجھنے لگیں گے کہ اگر ہمارا بچہ شہید ہو گیا تو وہ حقیقی زندگی صل کر بجائے گا اور ہم بھی حقیقی زندگی پائیں گے وہ دن ہو گا جب محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو زندگی ملے گی لے بیرونی تبلیغ اور خصوصی تعلیم کے کم فروری کا ن تحریک جدید میںایک خاص اہمیت کا حامل ہے دن کیونکہ اس روز حضور نے دار الواقفین کے تمام مجاہدین کو قصر خلافت واتین کا اہم انتخاب میں شرف باریابی بخشا.ازاں بعد حضور نے بائیں واقفین کو بیرونی مالک میں بھجوانے اور تو واقفین کو تفسیر، حدیث، فقہ اور فلسفہ ومنطق کی اعلیٰ تعلیم دلانے کے لئے منتخب فرمایا تارہ شت سلسلہ کے بزرگ علماء کے قائم مقام بن سکیں.اس موقعہ پر حضور نے اپنے دست مبارک سے جو تحریر بطور یاد داشت ے لکھی وہ ایک نہایت قیمتی یاد گار ہے جس کا عکس بھی اس مقام پر دیا جارہا ہے.خطبہ جمعہ فرموده و مئی ۹ د مطبوعة الفضل " ۲۰ مئی ۱۹۴۷ایر صفحه ۳ و ۴ ۳ حضرت اقدس قبل از بین ۲۴ مارچ کو اپنی اس سکیم کا تذکرہ خطبہ جمعہ میں فرما چکے تھے ( افضل اور ماری اور صفحہ ۳) سے اصل تحریر حافظ قدرت اللہ صا مبالغ ہالینڈ کے پاس محفوظ ہے.

Page 139

حضور نے جن واقفین کو ممالک غیر کی تبلیغ کے لئے تجویز فرمایا ان کے نام یہ ہیں :- عرب ممالک) مولوی رشید احمد صاحب چغتائی مولوی نور احمد صاحب منیر چوہدری شریف احمد صاحب (ایران) مولوی صدر الدین صاحب شیخ عبدالواحد صاحب (سپین) مولوی کرم الہی صاحب ظفر، چوہدری محمد اسحاق صاحب ساتی (جنوبی امریکہ ) مولوی منور احمد صاحب، چودھری غلام رسول صاحب (اٹلی) مولوی محمد عثمان صاحب ، محمد ابراہیم صاحب خلیل (جرمنی) مولوی عبد اللطیف صاحب ، شیخ ناصر احمد صاحب مولوی غلام احمد صاحب بشیر (انگلستان) چودھری مشتاق احمد صاحب با جوه - پچودھری ظہور احمد صاحب باجوہ - حافظ قدرت اللہ صاحب ر شمالی امریکیه ، چودھری خلیل احمد صاحب ناصر، چودھری غلام نبیین صاحب.مرزا منور احمد صاحب (فرانس) ملک عطاء الرحمن صاحب ، مولوی الله د تا صاحب حصول تعلیم خاص کے لئے مندرجہ ذیل واقفین منتخب کئے گئے.مولوی نور الحق صاحب (تفسیر) ملک سیف الرحمن صاحب مولوی محمد صدیق صاحب ہے (فقه) (حدیث مولوی محمد احمد صاحب جبیل (حدیث) مولوی محمد احمد صاحب ثاقب ( فقه ) مولوی غلام باری صاحب شیفت (حدیث) حکیم محمد الجمیل صاحب ( منطق و فلسفه حافظ بشیر الدین عبدالله صاحب تفسیر ملک مبارک احمد صاحبات منطق و فلسفها ے یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ اس فیصلہ میں حضور نے بعد ازاں خفیف سی تبدیلیاں بھی کیں جیسا کہ موجودہ باب کی آخری فصل میں ذکر آئے گا، چودھری شریعیت احمد صاحب جن کا نام عرب ممالک کے لئے تجویز کیا گیا تھا ، باہر نہیں بھجوائے گئے تھے ؟ ملا ابو المنیر، نور الحق صاحب ابن منشی عبد الحق صاحب کاتب ولادت ، دسمبر شاید تاریخ قبولیت وقف درستمبر اور حال پروفیسر جامعہ محمدیہ ربوہ مینجنگ ڈائرکٹر ادارۃ المصنفین ریوم) کی ولادت ا نو بر شاه بیعت در تاریخ قبولیت وقف یکم ماری او نه FIGIN رسال پروفیسر جامعہ احمدیہ ریوه وقتی سلسلہ (مهدیه) کاله ولادت هر مارچ اور تاریخ قبولیت وقف ، جون شاه (سابق ن پروفیسر جامعه احمدیه ریوه محال انچارج خلافت لائیبریری ریوه به آپ یکم فروری کو بلاد عربیہ کے لئے منتخب ہوئے مگر حضور نے وہاں سے قلمزن کر کے بعد میں خصوصی تعلیم کی جماعت واقفین میں شامل فرما دیا : شه ولادت هر جولائی سالار، تاریخ قبولیت وقف 19 مئی الله ولادت ارمنی شاد ، تاریخ قبولیت وقف مئی ۱۳ رحال پر و فیسر جامعہ احمدیہ دیوه ) : که ولادت یکم اکتوبر سنشائه ، تاریخ قبولیت وقت استمبر شاه به شه و لا دست نشاه، تاریخ قبولیت وقف شه ولادت ۲۰ ستمبر له ، تاریخ قبولیت وقف ۲۶ مئی داره * از مالی ۱۹۸۷ له ، تاریخ وقف له * + ه ولادت ۱۲ ایران

Page 140

دائیں سے بائیں کرسیوں پر :- مولوی محمداحمد ثاقب ، مولوی ابوالمنیر نور الحق، مولوی عبد اللطیف صاحب بہاولپوری استاذ الواقفين بمولوی غلام احمد صاحب بدو ملی استاذ الواقفین ، مولوی محمد صدیق صاحب.کھڑے:.ملک مبارک احمد صاحب، مولوی خورشید احمد صاحب شاد، غلام باری صاحب سیف حکیم محمد اسماعیل صاحب حافظ بشیر الدین عبید اللہ صاحب.

Page 141

دفتر تحریک جدیدر بوه

Page 142

احمد یہ کور کا ایک نایاب فوٹو

Page 143

١٠٩ ازان بعد مولوی خورشید احمد صاحب شاد بھی اس زمرہ میں شامل کرلئے گئے اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے آپ کو حدیث شریعت کی خصوصی تعلیم کا ارشاد فرمایا.مندرجہ بالا واقفین مئی 19 ء میں فارغ التحصیل ہوئے جس کا ذکر خود حضرت خلیفہ مسیح الثانی نے ور جونی شدید کے خطبہ جمعہ میں کیا.چنانچہ فرمایا :- " مجھے کئی سال سے یہ فکر تھا کہ جماعت کے پرانے علماء اب ختم ہوتے جارہے ہیں.ایسا نہ ہو کہ جرات کو یکدم مصیبت کا سامنا کرنا پڑے اور جماعت کا علمی معیار قائم نہ رہ سکے.چنانچہ اس کے لئے میں نے آج سے تین چار سال قبل نے علماء کی تیاری شروع کر دی تھی.کچھ نوجوان تو میں نے مولوی صاحب دیعنی حضرت مولانا سید حمد سرور شاہ صاحب کے ناقل سے تعلیم حاصل کرنے کے لئے مولوی صاحب کے ساتھ لگا دیئے اور کچھ باہر بھجوا دیئے تاکہ وہ دیوبند وغیرہ کے علما سے ظاہری علوم سیکھ آئیں.یہ بھی الہ عالی کی مشیت اور قدرت کی بات ہے کہ ان علماء کو واپس آئے صرف ایک ہفتہ ہوا ہے.جب وہ واپس آگئے تو مولوی صاحب فوت ہو گئے " کے حضرت اقدس نے مرکز میں ان واقفین کی واپسی پر ان کو دوسرے واقفین کے پڑھانے پر مقرر فرما دیا.نیز ارشاد فرمایا کہ فقہ پڑھنے والے دوسروں کو فقہ کی اور حدیث پڑھنے والے دوسروں کو حدیث کی تعلیم دیں.چنانچہ یکم رمضان المبارک ۱۳۶۷ مطابق 19 جولائی ۱۹۴۷ تک تدریس کا یہ سلسلہ جاری رہا.اس کے بعد واقفین کو ایک ماہ کی رخصت دی گئی.اسی دوران میں ملک تقسیم ہو گیا اور ان کو ہجرت کر کے پاکستان آنا پڑا.له ولادت ۲۴ ستمبر شائه، تاریخ قبولیت وقف شاه (سابق پروفیسر جامعہ احمدیہ) کے مولوی نور الحق صاحب ( ابو المنیر) اور حافظ بشیر الدین عبیداللہ صاحب کی طرف اشارہ ہے (مرتب) گے جن اساتذہ سے ان واقفین نے تحصیل علم کیا ان کے نام یہ ہیں :- مولوی شریعت الله صاحب مدرس مدرسه فتحپوری داستان مسلم شریف ) شیخ الحدیث مولی محمد ابراهیم صاب بیانی فتحپوری دہلی (استاد بخاری ابدایه، اصول شامی مسلم الشیو مولوی مفتی محمد مسلم صاحب دیوبندی شیخ الحدیث جامعہ ڈائیمیل.مولوی حافظ مہر محمد صاحب صدر المعلمين المدرسة الحنفیہ اچھرہ لاہور (استاذ " ابو داؤد منطق و فلسفه) مولوی سید میرک شاہ صاحب کا شمیر کا لاہور (استاد مسلم شریف ، مولوی شہاب الدین صاحب خطیب مسجد چوبرجی کوارٹرز لاہور.مولوی رسول خان من گردی نہیں اور نیل کا لج حال شیخ التف و الفقر جامعہ اشرفیہ لاہور (استاذ حدیث و اصول فقه مولوی محمد بخش صاحب دیوبندی لاہور (استاذ حدیث) : " الفضل" ۱۱ جون ۱۹۴۷ء صفحه ۵ *

Page 144

١١٠ خاندانی وقت کی تحریک در جنوری کہ کوحضرت امیرالمومنین نے فرمایا.و تحریک جدید کے پہلے دور میں میں نے اس کی تمہید باندھی تھی.مگر اب دوسری تحریک کے موقعہ پر میں مستقل طور پر دعوت دیتا ہوں کہ میں طرح ہر احمدی اپنے اوپر چندہ دینا لازم کرتا ہے.اسی طرح ہر احمدی خاندان اپنے لئے لازم کرے کہ وہ کسی نہ کسی کو دین کے لیئے وقعت کرے گا " سے اپنے پیارے آقا کے اس ارشاد پر کئی مخلصین نے اپنے بچوں کو وقف کیا اور کہ رہے ہیں.فروری شام میں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے بیرونی ممالک کی تبلیغ تحریک بیٹے کے دائرہ عمل میں بیرون ہند کے مد میشی تحریک جدید کے سپرد 17 فرما دیے جس کے مطابق ہر فروری کو صدر انجمن قادیان نے حسب ذیل ریزولیوشن پاس کیا :- رپورٹ ناظر صاحب اعلیٰ کہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ارشاد فرمایا ہے که صدر انیمین احمدیه استخر یک کے مدارس اور مشن ہو ہندوستان میں ہیں اپنے انتظام میں لے لے اور فلسطین، انگلستان اور امریکہ کے مشن تحریک جدید کے سپرد کر دے "" اخراجات کی تقسیم کی یہ صورت ہو کہ صدر تضمین احمدیہ بیرون ہند کے مذکورہ بالا ستنوں کا منظید شده بجٹ بعد وضع اخراجات سکول روشن ہائے تحریک جو صدر انجمن کو ملیں گے نکلوا کر تحریک جدید کو دے دیا کرے.جوں جوں ان (فلسطین ، انگلستان و امریکہ کے علاقوں کی آمد بڑھتی جائے گی اس قدر انجمن ان اخراجات سے آزاد ہوتی جائے گی " تحریک وقف تجارت در اکتوری و حضورنے وقف تجارت کی تحریک فرمائی جس کا مقصد بتاتے.کو کے ذریعہ تبلیغی سنٹر قائم کرنا تھا.چنانچہ حضور نے فرمایا :- وہ نوجوان جو فوج سے فارغ ہوں گے اور وہ نوجوان جو نئے جوان ہوئے ہیں اور ابھی کوئی کام شروع نہیں کیا.میں اُن سے کہتا ہوں کہ اپنی زندگی وقف کریں.ایسے رنگ میں نہیں کہ ہمیں دین کے ے جہاں چاہیں بھیج دیں پہلے جائیں گے بلکہ ایسے رنگ میں کہ ہمیں جہاں بھیجوایا بجائے ہم وہاں چلے جائیں گے اور وہاں سلسلہ کی ہدایت کے ماتحت تجارت کریں گے.اس رنگ میں ہمارے نے ریکارڈ صدر انجین احمدیہ قادیان له : " الفصل" - ار جنوری ۹۲اند صفحه ۵ + +

Page 145

HE مبلغ سارے ہندوستان میں پھیل جائیں گے.وہ تجارت بھی کریں گے اور تبلیغ بھی ".وقف تجارت کے تحت واقفین تجارت کو مختلف مقامات پر متعین کیا گیا جہاں سے وہ دفتر کی ہدایات کے ماتحت تجارت کرتے اور اپنی باقاعدہ رپورٹیں بھجواتے تھے.اس وقفہ کے تحت اسرمایہ واقفین خود لگاتے تھے ان جنگ مجاهدی یاران ایران نے تین وقت میری " فرمائی تھی کہ ریک بدید کا اجرا و حین افرائض کے ماتحت الہی تعریف سے ہوا تھا اس کی وجہ سے میں سمجھنا تھا کہ تحریک تجدید کا پہلا دور جب ختم ہو گا تو خدا تعالیٰ ایسے سامان بہم پہنچائے گا کہ تشریک جدید کی اغراض کو پورا کرنے میں جورو کیں اور مواقع نہیں خدا تعالئے اُن کو دُور کر دے گا اور تبلیغ کو وسیع کرنے کے سامان بہم پہنچا دے گا اور چونکہ تبلیغ کے لئے یہ سامان بغیر جنگ کے خاتمہ کے معیتہ نہیں آسکتے اس لئے میں سمجھتا تھا کہ شاہ کے آخر یا شانہ کے شروع تک یہ جنگ ختم ہو جائے گی " کے سینا نچہ ۱۵ اگست شہداء کو جاپان نے ہتھیار ڈال دیئے اور جنگ ختم ہو گئی.اب چونکہ تبلیغی رستے بھی کھلنے شروع ہو گئے تھے اس لئے مجاہدین تحریک جدید بیرونی ممالک میں روانہ کئے جانے لگے چنانچہ اس سال سولہ مبلغین قادیان سے عازم ممالک پر یوں ہوئے جن میں سے تو مجاہدین دسمبر 1 میں ایک قافلہ کی صورت میں انگلستان بھجوائے گئے جنہوں نے لنڈن میں کچھ عرصہ ٹریننگ کے بعد یورپ کے اطراف وجوانب میں نئے مشن کھوئے یہ قافلہ مندرجہ ذیل مبلغین پر مشتمل تھا.چودھری ظہور احمد صائب باجوہ - حافظ قدرت اللہ صاحب - ملک عطاء الرحمن صاحب بچودھری الله و تا صاحب - چودهری کرم الہی صاحب ظفر چودھری محمد اسحاق صاحب ساقی مولوی محمد عثمان صاحب ماسٹر محمد ابراہیم صاحب خلیلی - مولوی غلام احمد صاحب بشیر - - ار اکتو براہ کو تحریک کی رجسٹریشن ہوئی اور اس تاریخ سے اس کا تحریک جدید کی رجسٹریشن میں نام تحریک جدید امین احمدی" رکھا گیا تحریک جدید کے آرٹیکلز پورا.سلة " الفضل اکتوبر ۲ صفحه 4 (خطبه جمع فرموره عمر اکتوبر تا نیز " الفضل ٢٠ اكتوبر نه و نو : ܀ ه القتل " ، نومبر دو صفحه به کالم ۴ سنه فارم واقعیت هایده وقف تجارت و صنعت کے لئے ملاحظہ ہو مطالبات تحریک جدید طبع بیمارم صفحه بند۸۹۰۸ مرتبه مولوی عبد الرمان صاحب انور انچارج تحریک جدید اشاعت دسمبر ست میز نیمه کتاب قرار الله " الفضي وار است تا صفحه ۲ به ه رله " الفضل" ۱۸ دسمبر ۹۳۵ بر صفحه ۱ ۰۲۰

Page 146

۱۱۲ اینڈ میمورنڈم جناب شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ نے مرتب کئے.بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ابتدائی ممبر یہ مقرر ہوئے :- ۱- مولوی عبد الرحمن صاحب اتور انچارج دفتر تحریک جدید قادیان.مولوی بہاؤ الحق صاحب ایم.اسے وکیل الصنعت والحرفت تحریک جدید قادیان.-۳- خواجہ عبد الکریم صاحب بی.انہیں سی وکیل التجارت تحریک تجدید قادیان.- حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل تعلیم الاسلام کا لج قادیان.۵.مولوی عبد المغنی صاحب وکیل التبشیر (برائے ممالک ایشیاء و افریقہ تحریک تجدید قادیان خان بہادر نوآب چودھری محمد دین صاحب ریٹائرڈ ڈپٹی کمشنر - شیخ بشیر احمد صاحب بی اے.ایل ایل بی ایڈووکیٹ لاہور.ازاں بعد کچھ وقفہ سے حضور کے ارشاد سے ان ڈائریکٹروں میں درج ذیل اصحاب کا اضافہ کیا گیا.در مولانا جلال الدین صاحب شمس وکیل التبشیر (برائے ممالک یورپ و امریکہ، تحریک جدید قادریان چودھری برکت علی خاں صاحب وکیل المال تحریک جدید قادیان حضرت مولوی ذوالفقار علی بہاں صاحب وکیل الطباعة تحریک جدید قادیان مجلس تحریک جدید کا قیام حضرت خلیفہ ایسیح الثانی کے حکم سے ، امٹی وار کو ٹلی تحریک جدید کا قیام عمل میں آیا جس کا کام تحریک جدید سے متعلق امور پر باہمی مشورہ سے فیصلے کرنے اور ان کو حضور کی خدمت میں منظوری کے لئے بھیجوانا تھا.۱۶ مارچ ۹۴۷ہ کو حضرت اقدس کے حکم سے اس مجلس تحریک پید انہیں احمدیہ کے صدر مولوی جلال الدین صاحب شمس اور سکرٹری مولوی عبد الرحمن صاحب انور تجویز کئے گئے.حضرت خلیفہ ایسیح الثانی نے ۳۰ اگست ۱۹۴۷ید کو تحریک جدید کے بعض خصوصی خصوصی ممبران کا تقریر مهران مقدر کرتے ہوئے ہدایت دی کہ کہ میں یکم مارچ شیر تک مولوی نورالحق صاحب ، چوہدری محمد شریف صاحب پلیڈر نشگیری ، مرزا منظفر احمد آئی سی ایس ، مولوی سیف الرحمن صاحب ، مولوی محمد صدیق صاحب فاضل ساکن قادیانی ه ریزولیوشن تحریک جدید ۱۶ ماریچ ته به که یعنی مولوی ابو المنیر نور الحق صاحب (حال) پروفیسر جامعه احمدید و مینجنگ ڈائریکٹر ادارۃ المصنفین ربوہ ناقل)

Page 147

١١٣ اور سر محمد ظفراللہ خاں صاحب کو تحریک جدید انجمن کے مبر مقرر کرتا ہوں.ان کے اختیارات دوسرے ممبروں کے مطابق ہوں گے اور ان کا کورم حقیقی کورم سمجھا جائے گا.خاکسار مز المحمود احمد م ٣٠ کا کا ۱۹۴۷۷ء میں جماعت کے کثیر حصہ کو مشرقی پنجاب سے ہجرت کر کے تقسیم ہند اور تحریک جدید پاکستان میں پناہ گزین ہونا پڑا.یہ زمانہ تحریک جدید کے لئے بہت صبر آزما تھا کیونکہ تقسیم ملک کی وجہ سے نظام درہم برہم ہو چکا تھا.ان حالات میں تحریک جدید کے دفا تر نہایت کس مپرسی کے عالم میں جو دعامل بلڈ نگ لاہور میں قائم کئے گئے تھے.آمد میں کا ایک کمی واقع ہو گئی.اور اخراجات بے تحاشہ بڑھ گئے اور بیرونی مشنوں کو امداد دینے کا سلسلہ بھی وقتی طور پر معطل ہوگیا مگر تحریک جدید کے مجاہدین نے اس موقعہ پر غیر معمولی صبر وتحمل اور وفا شعاری کا ثبوت دیا اور بیرونی مشن بھی جلد ہی اپنے پاؤں پر کھڑے ہو گئے.مجلس تحریک جدید کی طرف سے رجسٹریشن کے لئے رجسٹرار حسینہ تحریک جدید کی پاکستان میں رجسٹر ایشین صاحب جائنٹ ناک کینیہ مغربی پنجاب پاکستان کے کمپنیز نام ۱۴۷ فروری شاہ کو درخواست دی گئی جس کی منظوری ۱۹ فروری ۱۹۴۷ء کو موصول ہوئی اور مجلس تحریک جدید پاکستان میں بھی رجسٹرڈ ہو گئی جو شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور اور مولوی عبد الرحمن صاحب انور کی ہے کوششوں کا نتیجہ تھا.تقسیم ملک سے پہلے قادیان میں جامعہ احمدیہ ہی ایک ادارہ تھا جہاں سے مبلغین جامعتہ المبشرین کا قیام انارغ التحصیل ہو کر مختلف مشنوں میں متعین ہوتے تھے.پاکستان بنے پر ارد گبر کو جامعہ احمدیہ کے علاوہ جامعتہ المبشترین ریوہ کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا سٹان اکثر و بیشتر آن واقفین پرشتمل تھا جو نہ میں علوم اسلامیہ کی خصوصی تعلیم حاصل کر چکے تھے.اس ادارہ کا مقصد یہ تھا کہ جامعہ احمدیہ سے فارغ التحصیل ہونے والے نوجوانوں اور دیگر واقفین زندگی کی تعلیم کا انتظام کرے اور ان کو تبلیغی سے ان ایام میں چونکہ تحریک جدید کی مالی حالت مخدوش ہو گئی تھی اس لئے حضور نے ارشاد فرمایا کہ کسی واقف کو فارغ نہیں رہنا چاہیئے بلکہ کوئی نہ کوئی کام کر کے آمد پیدا کرنی چاہیئے خواہ چھنے اور آٹو ہی کیوں نہ فروخت کرنے پڑیں بچنا نچہ واقعین نے اس کی تعمیل کی کے محترم انور صاحب نومبر کی رو میں قادیان میں تھے کہ حضرت خلیفہ ربیع الثانی ہو نے ان کو پاکستان بلوایا اور ارشاد فرمایا کہ تحریک جدید کی رجسٹریشن اور دفاتر کا انتظام کریں ؟

Page 148

ٹریننگ دے جامعہ البیشترین سالہا سال تک مستقل ادارہ کی صورت میں قائم رہنے کے بعد، جولائی شد کو جامعہ احمدیہ میں مدغم کر دیا گیا.تحریک جدید کے مستقل شعبوں کیلئے ضروری منشور میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے اپنے قسیم مبارک سے تحریک بدید کے مختلف شعبوں کے لئے ایک حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کا دستور العمل مفصل دستور العمل تجویز فرمایا جس کی تفصیل خود حضور کے الفاظ میں درج ذیل کی جاتی ہے:.حضور نے تحریر فرمایا :- " تحریک جدید کے سردست مندرجہ ذیل وکلاء ہوں.وکالت مال (1) وکیل المال اقول (۲) وکیل المال ثانی (۳) وکالت جائیداد وکیل المال اول چوہدری برکت علی صاحب ، وکیل ثانی قریشی عبدالرشید صاحب ہوں گے، تیرا وکیل تجویز کیا جائے گا.اس کا کام بجٹ بنانا ، اس کی نگرانی کرنا ، روپیہ جمع کرنا ، مبادلہ زر کے ماہرین کے ذریعہ سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانا ، بھائیداد کی نگرانی ، امانت اور جائز بینکنگ کے طریقوں کا راہی کرنا.وکالت دیوان.اس وکالت کا اصل کام مجلس وکالت کے سکرٹری کا ہوگا مجلس بلواتا، اس کی کاروائی کا ریکارڈ کروانا، مختلف وکالتوں میں تعاون قائم رکھوانا اور ادارہ جاتی مجالس بلوانا.یعنی مجلس وکالت کے علاوہ جب ضرورت ہو ، جب کام خواب ہو رہا ہو ، تعاون میں کمی آئے یا ترقی کی تجاویز کا تقاضا ہو تو ایک سے زیادہ وکلاء کو بلوا کر کوئی ایسی سکیم تیار کو وانا جس میں ایک سے زیادہ وکلاء کی شمولیت کی ضرورت ہو.وکالتوں کے لئے عملہ کا فیصلہ کہ اتنا در کانہ ہو گا اور اتنے اتنے عرصہ کے بعد اس کے بدلنے کی ضرورت ہوگی وغیرہ وغیرہ اور حسب ضرورت نئے آدمی لینا اور ان کی تعلیم و تربیت (کرنا) اس وکالت کا ایک نائب وکیل الدیوان ہو گا میں کے سپرد کام کا ایک چھہ ہو گا.اس وکالت پر سر دست دو افسر ہوں گے (۱) مولوی عبد الرحمن صاحب اور پرانے تجربہ کی وجہ سے ورنہ میں علم کی اس میں ضرورت ہے وہ ان کو نہیں.دوسرا وکیل میں مقرر کروں گا.نائب وکیل محمد شریعت خالد صاحب.!

Page 149

۱۱۵ وکالت تعلیم.اس دکالت کا کام تعلیمی انتظام نصاب بنوانا کالج کی نگرانی وقتی تعلیمی کورس تیا کروانا تاکہ مبلغین کی تعلیم کی ترقی تا مر جاری رہے.اس وکالت کا کام یہ ہو گا کہ جلد سے جلد علماء سے مشورہ کر کے اول کالج کی تعلیم کا کورس اور اس کی جماعتوں کا انتظام کرے.(۲) دیہاتی مبلغین کی تعلیم کا کورس تیار کرے.(۳) انگریزی دان مبلغین کی تعلیم کا کورس تیار کرے.سے چند (۴) یہ فیصلہ کرے کہ مبلغین کو ساری عمر میں کتنے کورس پاس کروانے ضروری ہیں اور کس کس قسم کے یعنی علاوہ خالص تعلیمی کے انتظامی تحقیقی ، تبلیغی سیاسی وغیرہ اور پھر ان کے کورس تجویز کرے اور کورس بنوائے.ہر اک جماعت کا پہلے سے کورس تیا نہ ہونا چاہیے.(۵) دیہاتی مبلغوں کے لئے کو اس تجویز کرے اور کورس تیار کروائے اور شق اول کی طرح ان کی عمر بھر کی ترقی کے لئے کورس تیار کر وائے.اس کام پر میاں عبد الرحیم احمد صاحب مقرر ہونگے وکالت تجارت.اس کا کام (1) تجارتی مہارت کے آدمی تیار کرنا (۲) مبادلہ زار کے قواعد جمع کرنا (۳) در آمد و بر آمار اور تجارت کے قوانین بہتا کرنا اور سلسلہ کے لئے مفید معلومات کا جمع کرنا (ہم) جماعت (کی تجارت کی ترقی کی کوشش (ہ) سلسلہ کی تجارت کی نگرانی اور ترقی (4) تجارت کے ذریعہ سے سلسلہ کی آمد کو زیادہ سے زیادہ بڑھانا (۷) تمام دنیا کی جماعتوں کو تجارتی زنجیر میں متحد کرنا.غرض تجارتی طور پر دنیا بھر میں احمدیت کو فائق کرنا اس کا کام ہو گا.متعقل سکیم یہ ناظر ( وکلاء) بنائیں اور مجلس وکالت کے مشورہ کے بعد مجھ سے مشورہ ہیں.اس پر عباس احمد خان مقرر ہوں گے.وکالت صنعت.اس وکالت کا کام سلسلہ میں صنعت وحرفت کی ترقی ، نئے نئے صنعت کے ادار سے بھاری کہتا اور صنعت کے ماہرین پیدا کرنا ، تمام دنیا کی جماعت میں صنعتی تصادوت پیدا کرنا اور اشتہ ایک عمل کی تجاویز نکالنا.ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی نگرانی وغیرہ وغیرہ.اس واساسات اشتیایی پر مرزا مبارک احمد صاحب مقرر ہوں گے جب وہ فارغ ہوں گے.وکالت قانون.اس کا کام انکم ٹیکس کی نگرانی ، بیرونی جماعتوں کے لئے صحیح قانون عمل بنوانا

Page 150

114 تاسب جماعتیں ایک مقررہ نظام کے مطابق چلیں حسب ضرورت قانونی مشورہ دینا، مجلس کے تمام.کاموں کو صحیح قانونی طور پر چلانے کی ذمہ داری، قواعد اور قوانین کے الفاظ کی درستی.اس وکالت کا کام صدر انجمن کے اشتراک سے چوہدری غلام مرتضی صاحب اور چوہدری بہاؤ الحق صاحب کے سیر ہو گا.کو چوہدری غلام مرتضی صاحب ابھی باہر ہیں مگر چونکہ یہاں آتے رہتے ہیں انہیں ابھی سے اس وکالت پر مقالہ کی کے مقرر مجلس میں شامل کیا جائے.اس لئے گویا دو وکیل ہوں گے (1) پوری بہار الحق صاب (۲) چوہدری غلام مرتضی صاحب.وکالت تبشیر اس وکالت کے سپرد بیرونی مشقوں کا کام ہوگا.ان کے لئے کام کی سکیم، ان کے اداروں کی تنظیم کے قواعد بنانا اور ان کا تبادلہ اور کام پر لگوانا، لٹریچر مہیا کرنا ، لائیبریریاں مہیا کرتا، ان کے کام کی نگرانی کام کی وسعت کی سکیمیں بنانا ، نئے مشتوں کی سکیم ، بیرونی ملکوں میں مساجد کی تعمیر، سکولوں کی تعمیر اور اجواء ، سردست اس کے دودوکار ہوں گے یعنی ایک مولوی عبد المغنی خانصا اور ایک دوسرا.اصل میں اس کا ایک وکیل اور چار نائب وکیل ہوں گے جن کے سپرد (1) پاکستان کے مبلغوں کا کام (۳) افریقی اور عالم اسلامی کے مشن (۳) یورپ اور امریکہ کے مشن (۴) ایشیائی ممالک کے مشن کے کام ہوں گے.وکیل تبشیر نگران اعلیٰ ہوگا.اس محکمہ کے سپرد خط و کتابت کے ذریعہ تبلیغ کا کام کروانا اور لڑکچر کی مناسب تقسیم سے تبلیغ کا کام بھی ہو گا جو ہر علاقہ کے نائب کے سپرد اس کے علاقہ کے لئے ہو گا.وکالت اشاعت.اس کا کام رسالوں اخباروں کی نگرانی ، پرو گرام کے ماتحت شائع کرنا ، لٹریچر تیار کروانا، مہیا کرنا ، اس کی ضرورت اور اُسے آمد کا ذریعہ بنانا.اُسے ایک مصنفین کا عملہ ملے گا جو کام کی نوعیت کے لحاظ سے بدلتا بھی رہے گا اور تمام عملہ وکالت اس کام کے لئے اس کے ماتحت اس طرح ہوگا کہ وہ ہر ایک سے کچھ نہ کچھ تصنیف کا کام ہے.تمام وکالتوں کو دو ماہ کے اندر اندر اپنا اگلے سال کا پروگرام تیار کر لینا چاہیئے اور پھر اس سے اگلے تین ماہ میں اگلے تین سال کا پروگرام اور پھر سہ ماہی چارٹ بنا کر اپنے اپنے کمروں میں لگا لینا چاہیئے اور ہر سہ ماہ کے بعد رپورٹ کرنی چاہیے کہ کیا انہوں نے اپنا پروگرام تیار کرلیا ہے.ان امور کو تجلس وکالت ریزولیوشن کے ذریعہ سے پاس کرے اور یہ ریزولیوشن بھی کرے کہ آئیندہ :

Page 151

114 کوئی جرم بغیر سزا کے نہیں چھوڑا جائے گا.ہا ر کے متعلق مجلس وکالت یا اس کا مقدر کردہ کمیشن یہ فیصلہ کرے گا کہ غلطی ہوئی ہے یا نہیں اور اگر ہوئی ہے تو اس کی ضرور سزادی جائے گی جس کی مقدار ایک دن گزارہ کی نیلی سے لے کہ ایک ماہ تک کے گزارہ کی ضبطی تک ہوگی.اگر مالی نقصان کسی وکیل یا دو سر سے عملہ سے ہوگا تو اس نقصان کی حد تک رقم وصول کی جاسکے گی سنگین جرموں میں مقاطعہ اور منسوخی وقف کی سزا دی جائے گی.مگرہ بہر حال کسی غلطی کو بغیر سزا کے نہیں چھوڑا جائے گا.معانی کی درخواست خلیفہ وقت سے ہو سکتی ہے جو معاف کرنے کا حق رکھیں گے“ لے قبل ازین مجلس مشاورت میں صرف صد را تخمین احمدیہ کا بجٹ تحریک جدید کا بجٹ مجلس مشاورت میں پیش ہو نا تھا مگر ان سے تحریک جدید کامطبوعہ محبت بھی پیش کیا جانے لگا.وقت زندگی سے متعلق نئے اصول حضرت خلیفہ ایسے رانی نے شہر میں فیل فردی ک وقف الثانی فرمایا اصول اسی میں درد و دل میری نظر رکھنے چاہئیں.اول وقت ایک سے زیادہ اولاد والوں میں سے کسی ایک کا ہو.ہم دوسروں کا رستہ بند نہیں کرتے وہ بھی وقف کر سکتے ہیں مگر ایسے تو بعد ضرور ہونے چاہئیں کہ مجبوری کے وقت وہ آسانی سے فارغ کئے جا سکتے ہوں.(۲) وقت صرف بالغ مرد کا ہو.اکیس سال سے پہلے کے وقت آئیندہ نہ لئے جائیں اور گذشتہ وقفوں کو بھی فارغ کرنے کا راستہ کھلا رکھا جائے تاکہ وقت لڑکے کا ہو باپ کا نہ ہوا اور اس میں نمائش نہ ہو بالکل حقیقت ہو.(۳) اکیس سال سے پہلے بین کو وظائف دیئے جائیں جیسے جامعہ احمدیہ وغیرہ میں تعلیم پانے والو کو دیئے جاتے ہیں وہ بطور قرض ہوں جو وقف کی صورت میں وقت کے اندر مدغم ہو جائیں اور غیر وقف کی صورت میں وہ صرف قرضہ ہو جو حسب شرائط و معاہدہ وصول کر لیا جائے.، سابق واقفین مین کی تعلیم پر سلسلہ کا روپیہ خرچ ہوا ہے وہ بھی محکمہ کے قواعد کے مطابق رقم واپس کر کے فارغ ہو سکتے ہیں.سے نقل ریزولیوشن - م ۱۶ فروری تحریک جدید) "

Page 152

۱۱۸ (۵) جو والدین اپنے بچوں کو وقف کرنا چاہیں وہ امیدواران وقف کی ٹیسٹ میں رہیں جب وہ کہیں سال کے ہو جائیں تو اُن سے دوبارہ پوچھا جائے کہ آیا وہ اپنی زندگی اپنی مرضی سے وقف کرتے ہیں یا نہیں؟ اگر وہ وقت نہ ہونا چاہیں تو اُن کو فارغ کر دیا جائے اور اگر وقف ہونا چاہیں تو آئی کا وقعت قبول کر لیا جائے " اے ورینٹل اینڈ پی پی پی کا ایمانی ۲۰ اپریل ۱۵۲ کو حضرت خلیفہ مسیح ثانی کی ہدایت رہ اور منٹل اینڈ رییس پبلشنگ کمپنی کے نام سے یک اہم ادارہ قائم کیا گیا.اس کا واحد مقصد یہ تھا کہ عربی انگریزی اور دیگر زبانوں میں قرآن مجید اور دوسرے اسلامی لٹریچر کی اشاعت کی جائے چنانچہ اس ادارہ کے قیام سے تراجم قرآن مجید اور دوسرے اسلامی لٹریچر میں متد یہ اضافہ ہوا اور ہو رہا ہے.گئے ربوہ میں دفاتر تحریک جدید ربوہ میں سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالی عن نے اس مئی نشہ کو دفاتر تحریک جدید کی مستقل عمارت کی بنیاد رکھی.کی عمارت کی تعمیر ور ۱۹ نومبر سنہ کو اس کا افتتاح فرمایا.تحریک جدی میں شمولیت کی خاص تحریک اسلا یا میت کے وقت پر یہ اعلی الموت جلسر موقعہ پرستیدا لصلح نے نے ارشاد فرمایا کہ " تحریک جدید اب جس نازک دور میں سے گزر رہی ہے وہ اس امر کی مقتضی ہے کہ ہر مری یہ فیصلہ کرے کہ اس نے بہر حال اس تحریک میں حصہ لینا ہے حتی کہ کوئی جماعت بھی ایسی نہ ہو جین کے سارے کے سارے افراد تحریک میں شامل نہ ہوں ، شہ کتاب پانچ بزاری ماجدین کی اشاعت اور ای ای انا نے اس میں مالی فرمایا کہ " لے رپورٹ مجلس مشاورت" ۱۹۵۷ و صفحه ۵۰۰۴۹ سے مطبوعات کے لئے ملاحظہ ہو کمپنی کی مطبوعہ CATALOGUE رفضت ۲۲ صفحات).اس کمپنی میں واہ سے محترم حافظ عبدالسلام صاحب ملودی چیرمین کی حیثیت سے اور شملہ سے مولوی نورالدین صاحب منیر ( تائب وکیل التصنيف للتبشیر مینجنگ ڈائریکٹر کی حیثیت سے خدمات بجالا رہے ہیں.نشانہ سے اب تک ملک بشارت احمد صاحب کے ذمہ کمپنی کی مینجری کے فرائض ہیں.سلے " الفضل" مهرجون و صفرا ؟ شه روزنامه در بالصلاح به کراچی سور جنوری که صفحه ۰۴ له الفضل " ۲۷ نومبر ۵۳ صفحه

Page 153

۱۹ چونکہ تحریک جدید میں چندہ دینے والے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پانچ ہزار والی پیشگوئی کو پورا کرنے والے ہیں اس لئے ان کی قربانی کی یاد قائم رکھنے کے لئے یہ طریق اختیار کیا جائے گا کہ ا.ان فہرستوں کو ایک جگہ جمع کر کے اور ساتھ تحریک جدید کی مختصر سی تاریخ لکھ کر چھاپ دیا جائیگا.اور دفتر تحریک جدید تمام احمدیہ لائیبریریوں میں یہ کتاب مفت بھیجے گا.جب دس سال ختم ہو جائیں گے تو اس فنڈ کی آمد کا ایک معمولی حصہ چندہ دینے والوں کی طرف سے صدقہ کے طور پر سالانہ غربار پہ خرچ کیا جائے گا..مرکز میں ایک اہم لائیبریری قائم کی جائے گی اور اس کے ہال میں ان تمام لوگوں کے نام لکھ دیئے جائیں گے " ہے ور کے مدیران ارشاد کی تعیل میں چودھری برکت علی خان صاحب نے انتہائی محنت و عرقریزی کا ثبوت دیتے ہوئے جون شاہ میں پانچہزاری مجاہدین کی مکمل فہرست شائع کر دی.اس فہرست میں جو ۷۸۶ صفحات پرمشتمل ہے، بر صغیر پاک وہند کے علاوہ بالترتیب عدن ، انڈونیشیا، مشرقی و مغربی افریقہ ، ماریشیس ، فلسطین، شام، لبنان، عراق، مسقط ، چین ، ایران ، مصر، انگلستان، سپین ، جرمنی ، فرانس اور امریکہ وغیرہ ممالک کے جملہ مجاہدین اور ان کی ادا شدہ رقوم کا مفصل اندراج کیا گیا ہے.حضرت خلیفہ مسیح الثانی نے مجاہدین تحریک کے باند مقام کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا تھا:.مبارک ہیں وہ جو بڑھ چڑھ کر اس تحریک میں حصہ لیتے ہیں کیونکہ ان کا نام ادیب احترام سے اسلام کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا اور خدا تعالیٰ کے دربار میں یہ لوگ خاص عزت کا مقام پائیں گے کیونکہ انہوں نے تکلیف اُٹھا کر دین کی مضبوطی کے لئے کوشش کی اور اُن کی اولادوں کا خدا تعالے خود مستقل ہو گا اور آسمانی نور اُن کے سینوں سے ابل کر سکتا رہے گا اور دنیا کو روشن کرتا رہے گا " سے حضور نے شروع میں تحرک کے مالی بہا میں شرکت کے لئے اقل ترین شرح پانی اور یہ کی منی اقل ترین شرح وروانی منی گریا وار کو وضو کی منظوری سے کم سے کم شرح دل بیچنے قرار دے دی گئی.۱۹۳۸ ه الفضل " دسمبر اور صفحہ ہے کالم Iے اس کام میں چوہدری عبد الرحیم صاحب جیمیر ( وکالت حال، نے بھی پوری تندہی سے ان کا ہاتھ شاہا.* تحریک جدید کے پانچہزاری مجاہدین " صفحہ ۱۵ •

Page 154

۱۲۰ تفسیرالقرآن انگریزی کی تکمیل جولائی سنہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی منظوری سے تفسیر القرآن انگریزی کا کام مستقل طور پر تحریک جدید کے سپرد کر دیا گیا اور یہ اہم کام بخیروخوبی پای تکمیل تک پہنچا.چنانچہ قرالانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحبیت نے مشاورت ۱۹۶۲ء کے نمائندانی کو اطلاع دی کہ میں دوستوں کو بشارت دینا چاہتا ہوں کہ قرآن مجید کی انگریزی تفسیر جو آج سے کیس سال پہلے شروع ہوئی تھی اور جس کے ابتدائی حصہ میں مجھے بھی کچھ خدمت کا موقعہ ملا ہے اور حضرت مولوی شیر علی صاحب بھی اس کام کو کرتے رہے ہیں.درد صاحب مرحوم بھی یہ کام کرتے رہے ہیں.گو زیادہ کام ملک غلام فرید صاحب کے ذمہ رہا ہے اور اب تو گلیشہ ان کے ذنہ ہے.اس تفسیر کا آخری حصہ جو باقی تھا اب مکمل ہو کر آگیا ہے اور اس طرح خدا کے فضل سے یہ کام تکمیل کو پہنچ گیا ہے “ لے ی اگست شاہ سے مولوی نور محمد صاحب سیم سینی سابق ایمیل تبلیغ مغربی افریقیه ماہنامہ تحریک جدید کی ادارت می ماہنامہ تحریک جدید جاری ہو جو تحریک بدی کا مرکزی تریان اور اس کی سرگرمیوں کا آئینہ دار ہے.تحریک جدید کی مطبوعات اس دور می دفتر تحریک جدید کی طرف سے حسب زیلی لٹر پر شائع کیا گیا.-۱ اسلام کا اقتصادی نظام (۱۳) ۲- تفسیر کبیر جلد ششم جز و چهارم دفتر دوم میں حصہ اول (شاه) ۳- تفسیر کبیر حصہ دوم در ۴- تفسیر کبیر جلد اول جز اول دستگاه) ۵ - اسلام اور ملکیت زمین (شاه) ۶- تفسیر کبیر جلد ششم جز و چهارم حصہ سوم (شاه) کمیونزم اینڈ ڈیماکریسی ) COMMUNISM AND DEMOCRACY) پچار عدد ( م تشریح الزكوة (شاه) 1941 9.ARTICLES AND MEMORANDUM OF ASSOCIATION OF TAHRIK-1- JADID ANJUMAN AHMADIYYA PAKISTAN.(1959) وکالت مال کی مطبوعات :- ۱- خلاصه مطالبات تحریک جدید -- اکتافیت عالم میں تبلیغ اسلام (شار) ۳- تحریک نے رپورٹ لیس مشاورت " ۳ و متعقده ۲۷-۲۳ ۲۴ صفحه ۱۰۰۹ +

Page 155

۱۲۱ میدید کے کام پر ایک نظر (شاه) - افریقہ میں تبلیغ اسلام (ه) ۵ - تحریک جدید اور اس کے تقاضے (۹) - تحریک جدید کے کام کی وسعت اللہ ).ساده زندگی اش تحریک جدید دفتر سوم کے اجراء کے متعلق حضرت امیرالمومنین خلیفہ ایسیح الثالث کی زریں ہدایات () (1996) و مجاهده (د) ۱۰- تحریک جدید کے ذریعہ اکنان عالم میں اشاعت اسلام (2) تحریک تجدید کی برکات (مضمون حضرت مرزا بشیر احمد صاحب) (جولائی سات ۱۲- معاونین خاص -If الله) مسجد سوئٹزر لینڈ کے لئے کم از کم تین سو روپیہ دینے والوں کی فہرست (ماری ۱۹۹۳) ۱۳- اسلام اور عیسائیت ا تقریر یا سالانه ۹۲ به حضرت الصلح الموعود) (جون ) ۱۴- جاننے کی باتیں (متفرق ارشادات حضرت المتطلع الموعوف) والتقويري انگریزی ترجمه تقریر صاحبزاده میرزا ها JADID -١-TAHRIR مبارک احمد صاحب وکیل اعلیٰ ریبون شاه ۱۶ تحریک جدید کے مالی جہاد میں روح مسابقت کیوں ضروری ہے لہ) کا خشکی اور سمندر میں فساد اور اس کا علاج خطبہ حضرت الصلح الوعون (9) -۱۸ تحریک جدید کا دفتر سوم اور بلجنات اما ء اللہ کا فرض (مضمون حضرت صدر صاحب البند اما الله رکن یار جوانی کی حضرت خلیفہ ربیع الثالث ایدہ اللہ تعالے بنصر العزیز نے ۲۲ اپریل سید کو ؟ دفتر سوم کا اجرا تحریک جدید کے دفتر سوم کا اجراء فرمایا اور ساتھ ہی ارشاد فرمایا که به دفتر کم تو نباشد سے شمار کیا جائے.چنانچہ فرمایا :- ہ میں دفتر دوم کے بیس سال پورے ہو جاتے ہیں.اس وقت حضرت مصلح موعود بیمار تھے اور غالی بیماری کی وجہ سے ہی حضور کو اس طرف توجہ نہیں ہوئی....میں چاہتا ہوں کہ اب دفتر سوم کا اجراء کر دیا جائے لیکن اس کا اجرا یکم نومبر ۶۵ و سے شمار کیا جائے گا.کیونکہ تحریک جدید کا سال یکم نومبر سے شروع ہوتا ہے.اس طرح یکم نومبر سنہ سے ۳۱ اکتوبر ۶۶ رتک ایک سال بنے گا.میں اس لئے ایسا کر رہا ہوں تا کہ دفتر سوم بھی حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی خلافت کی طرف منسوب ہو....دوران سالی نو مبر کے بعد جو نئے لوگ تحریک جدید کے دفتر دوم میں شامل ہوئے ہیں ان سب کو دفتر سوم میں منتقل کر دینا چاہیے لے کو کیا دفتر سوم اور اس کے بعد شامل ہونے والے مجاہدین کو حضرت سیدنا مجاهدین دفتر سوم کو صحت ملی خلیفة المسیح الثانی نے ۱۹۴۷ اور میں نصیحت فرمائی :- " سے افضل " ۲۷ اپریل ۹۶ صفحه ۳ کالم ۱ +

Page 156

۱۲۴ " دفتر سوم والوں کا فرض ہے کہ وہ ایسا اچھا نمونہ دکھائیں جو دفتر چہارم دالوں کے لئے قابل شک ہو اور دفتر چہارم والوں کا فرض ہے کہ وہ ایسا اچھا نمونہ دکھائیں جو دفتر پنجم والوں کے لئے قابل رشک ہو اور یہ سلسلہ اسی طرح بھاری رہے یہانتک کہ قیامت تک یہ سلسلہ چلتا چلا جائے “ ہے زاں بعد 9 منہ میں ارشاد فرمایا :- دور اول تین لاکھ اسی ہزار تک پہنچا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر وہ اسے پانچ لاکھ تک پہنچا دیں تو پھر تیسرے دور والوں سے امید کی جاسکتی ہے کہ وہ اُسے آٹھ لاکھ تک پہنچا دیں گے اور اس سے اگلے دور والے اُسے دس بارہ لاکھ تک پہنچا دیں گے.اگر ایسا ہو جائے تو پھر یہ بات یقینی ہے کہ ہم بیرونی ممالک میں تبلیغ کا جال بچھا دیں گے اور اس کے ذریعہ اسلام کا قلعہ پر لک میں قائم کر دیں گے " فصل دهم تحریک جدید کے نظام کی موجودہ وسعت مخلصین احمدیت کی مالی ار جانی قربانیوں پر ایک نظر تبلیغ اسلام سے تعلق تحریک جدید کی عظیم الشان خدمات، غیروں کی آرا اور حرم سینے کا اندار المستقبل تحریک کا موجود مرکزی نظام تحرک جدید این امید کا مرکزی نظام اس وقت من به این شیون پیشتن ہے.وکالت کلیا.وکالت دیوان- وکالت تبشیر وکالت زراعت وکالت قانون وکالت تعلیم و صنعت وکالت مال صیغه امانت - دفتر آبادی - آڈیٹر ان " الفضل " کار دسمبر ۱۹ از صفحه ۵ کالم او خطبه جمعه فرموده ۲۸ نومبر الله له الفضل " ھر دسمبر ۹۲ بر صفحہ ۶ کالم ، و تقطیبه تیجه فرموده ۲۶ نومبر امده

Page 157

۱۲۳ وکالت عليا - چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ اور حافظ عبدالسلام صاحب وکیل اعلی رہ چکے ہیں.۱۹۶۲ء سے صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب اس منصب پر فائز ہیں.وکالت دیوان مولوی عبد الرحمن صاحب انور ، چوہدری فقیر محمد صاحب ریٹائرڈ ڈی ایس پی اور حافظ عبد السلام صاحب اس شعبہ کے نگران ریعنی وکیل الدیوان) رہ چکے ہیں.اب صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل الدیوان کے بھی فرائض انجام دے رہے ہیں.وکالت تبشیر ان دنوں وکالت تبشیر کا شعبہ بھی صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی نگرانی میں کام کر رہا ہے.صاحبزادہ صاحب سے قبل مولوی جلال الدین صاحب خمس د وکیل التبشير برا مالک یورپ و امریکہ مولوی عبد المغنی خانصاحب (وکیل التبشیر برائے افریشیائی ممالک) مولوی عبدالرحمن صاحب اتور وکیل التبشیر ثانی برائے عربی مالک و انڈونیشیا، مک عم علی صاحب کھوکھر میں وکیل التبشیر اور چوہدری مشتاق احمد صاحب با جوده روکیل بشیر) یہ خدمت بجا لاتے رہے ہیں.وکالت زراعت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صائب اور چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ کے بعد اب میاں عبد الرحیم احمد صاحب وکیل الزراعت ہیں.وکالت قانون شروع میں چوہدری بہاؤ الحق صاحب اور چوہدری سلام مرتضی صاحب دونوں اصحاب وکیل القانون مقرر کئے گئے تھے مگر اب سالہا سال سے چوہدری غلام مرتضی صاحب ہی اس عہدہ پر فائز ہیں.وکالت تعلیم اس وقت میاں عبد الرحیم احمد صاحب وکیل التعلیم ہیں حافظ قدرت اللہ صات اور چوہدری غلام مرتضی صاحب بھی یہ خدمت انجام دیتے رہے ہیں.وکالت صنعت -- حضرت خانصاحب ذو الفقار علی خاں صاحب اور مولوی بہاؤ الحق صاحب صاحب اس شعبہ کے نگران رہ چکے ہیں.وکالت مال اس شعبہ کے ابتدائی وکلاء کی فہرست یہ ہے :- چوہدری برکت علی صاحب (وکیل المال اول) ۲- قاضی محمد رشید صاحب (وکیل المال ثمانی) قریشی عبدالرشید صاحب (وکیل المال ثانی ۴ حافظ عبد السلام صاحب شملوی (وکیل المال اول) ے آپ نے یہ کام رضا کارانہ طور پر انجام دیا ہے +

Page 158

۱۴۴ ان دنوں چوہدری شبیر احمد صاحب (وکیل المال اول، اور حافظ عبدالسلام صاحب وکیل المان ثانی کے فرائض بجا لا رہے ہیں.ته صیغه امانت.اس صیغہ میں بالترتیب مندرجہ ذیل اصحاب نے کام کیا :- حضرت بابو فخر الدین صاحب (سکریٹری امانت ، چوہدری سلطان احمد صاحب بسرا سید محمدحسین شاہ صاحب ، حضرت ماسٹر فقیر اللہ صاحب.ان دنوں صاحبزادہ مرزا نعیم احمد صاحب اس صیغہ کے افسر ہیں.دفتر آبادی ملک محمد خورشید صاحب ریٹائرڈ ایس ڈی او ، چودھری عبداللطیف صاحب او در سیر ، چوہدری عطا محمد صاحب، قریشی عبدالرشید صاحب حسن محمود نصاحب عارفت از ملک بشارت احمد احمد صاحب سکوڑی تعمیر رہ چکے ہیں.ان دنوں حافظ عبد السلام صاحب سکرڑی کے فرائض ادا کر رہے ہیں.دفتر آڈیٹر چودھری برکت علی صاحب نانش سکوٹی تحریک جدید قریشی عبدالرشید صاحب ، ملک ولایت خاں صاحب کے بعد اب چودھری ناصرالدین صاحب آڈیٹر کے فرائض انجام دے رہے ہیں.قیام تحریک جدید سے لے کر اس دسمبر تک تحریک جدید کی مجموعی آمد تمین تحریک جدید کی مجموعی آمد روڈ چھیاسی لاکھ تہتر ہزار روپیہ ہے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے :- نام چنده چندہ تحریک جدید اندرون ملک رقم کیفیت چنده مساجد ممالک بیرون جور پاکستانی جماعتوں - ۱۰۱۲۳۰۰ اس چندہ میں لندن مسجد کا چندہ شامل نہیں جو نے پیش کیا آمد خالص از جائیداد و غیره اندرون ملک و و چند مسجات تحریک جدید و چنده عام و خیر بیرون ملک..۵۲۷۷۰۰۰ 498...۲ ۱۹۲۵ء میں صرف احمدی مستورات کے چند سے تعمیر کروائی رکر دائی گئی تھی.اس کا حساب دستیار نہیں ہو سکا.یہ رقم جو یہاں ظاہر کی گئی ہے.امریکہ ہالینڈ، جرمنی ، سوئٹزر لینڈ اور ڈنمارک کی سالید کی تعمیر کے لئے جمع ہوئی.اس میں بھی چار لاکھ رویہ احمدی مستورات کی طرف سے پیش کیا گیا ہے جن کے ذمہ ہالینڈ اور ڈنمارک کی مساجد کا خروج لگایا گیا تھا.شن با بیژن کی آمد ۴۶ - ۲۵ ء کے بجٹ سے تحریک جٹ آور خاص از جائیداد پریس تعلیمی ندارم به بیرون ملک میتوان رتین کروڑ چھیاسی لاکھ تہتر ہزار روپیسے ۰ - ۳۸۶۷۳۰۰۰ کو ملنی شروع ہوئی نے قائم مقام سکری ولادت مئی شته ، بیعت فروری شده، تولیت وقت یکم جنوری ، ولی سیالکوٹ سینے کاوان جوان نے سے آپ افسر تعمیرات کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں ؟ ه وکالت حال کے ریکارڈ سے ماخوذ)

Page 159

۱۲۵ تحریک جدید کی بدولت قائم ہونے والے بیرونی مشن تھی عید کے ذیعہ سے مندرجہ ذیل میشن قائم ہوئے :- سال قیام شن نمبر شمار نام ملک سال قیام میشین نمبر شمار نام ملک سنگا پور (طلایا) 16 ۱۹۳۵ لینان ۲۷ اگست ۹۴۹ ۱۹۵۵ " " " جرمنی سیلون ٹرینیڈاڈ بر ما سوئٹزرلینڈ (A 19 ۲۲ ڈنمارک ۲۴ لائبیریا ۲۵ ڈچ گی آنا فجی آئی لینڈ ایوری کوسٹ # " ۱۹۳۷ ۲۷ " 1417 ۲۰ گیمبیا ہانگ کانگ (چین) جاپان سپین ہنگری البانیہ یوگوسلاویہ ارجنٹائن اٹلی پولینڈ سیرالیون سپین # ۱۲ 14 عدان بورنیو ہالینڈ عمان (اردن) ۳ مارچ ۹۴ در تنزانیہ كينيا ٹوگو لینڈ " +1944 اس وقت تحریک جدید کے زیر انتظام مند بر دین سمالک میں مرکزی میشن چل رہے ہیں.یہاں قریباً سوا سو پاکستانی اور مقامی مبلغین تبلیغ اسلام میں..گرم عمل ہیں.ان مرکزی مشنوں کی آگے متعدد شاخیں موجود ہیں ہے ے یہ سطور اگسمت ۱۹۶۶ پر میں لکھی بھا رہی ہیں (مؤلف) :

Page 160

۱۲۶ یورپ : انگلستان سپین ، ہالینڈ ، سوئٹزرلینڈ - مغربی جرمنی.سکنڈے نیویا - امریکہ : د شمالی امریکہ مرکزی دار التبلیغ واشنگٹن.د یعقوبی (امریکہ) ٹرینیڈاڈ - برٹش گی آنا.له مغربی افریقہ نائیجیریا، خانا ، سیرالیون ، لائبیریا ، آئیوری کوسٹ ، گیمبیان مشرقی افریقہ :- یوگنڈا ، کینیا ، تنزانیہ.جنوبی افریقہ :- (جزائر) ماریشس مشرق وسطی فلسطین ، شام ، عدن.- مشرق بعید : انڈونیشیا ، سنگاپور ، ملائیشیا ، بورنیو ، نجی درج ذیل ممالک میں اگرچہ مشن قائم ہیں مگر ان دنوں مرکز کی طرف سے مبلغین متعین نہیں : لبنان ، جنوبی افریقہ ، برما ، سیلون ، جاپان ، فلپائن - ان کے علاوہ دنیا کے متعدد مقامات پر احمدی پائے جاتے ہیں مثلاً ایران ، کویت ، نو گو لینڈ ، مسقط ، بحرین ، ارجنٹائن ، سوڈان ، عراق ، مصر، دوبیٹی ہانگ کانگ ، کانگو ، قبرص ، آسٹریا ، آسٹریلیا ، ترکی سے یہ وہ ممالک ہیں مین سے خط و کتابت کا سلسلہ بھی جاری ہے ورنہ احمدی تو ( روس کے سوا ) دنیا کے قریباً ہر ایک خطہ میں پائے جاتے ہیں.بیرونی ممالک میں تبلیغ اسلام کا شرف اب ذیل میں ان واقفین تغیک جدید کی مکمل فہرست دی جاتی ہے جنہوں نے براہ راست تحریک جدید کے زیر انتظام پانے والے واقعین تحریک باید بیرونی ممالک میں تبلیغ اسلام کا فریضہ ادا کیا یا ادا کر رہے ہیں نوٹ : قیام تحریک جدید سے قبل یا صدر انجمن احدیہ کے کارکن کی حیثیت سے اعلائے کلمتہ اللہ کا شرف پانے والے مجاہدین اسلام کا مفصل ذکر بیرونی مشنوں کی مستقل تاریخ میں کیا جا چکا ہے.تقسیم میند کے علاوہ ازیں تو گولینڈ میں مشن قائم تھا جو بند ہے، سے یہ مشن ہو ۱۹۲۵ء سے تبلیغ اسلام کا فریضہ بجا لا رہا ہے تو لہ کے بعد براہ راست صدا امین احمدیہ قادیان (بھارت) کی نگرانی میں کام کر رہا ہے ، سے ہندوستان کی اہم کی ہی نہیں براہ راست مرکز احمدیت قادیان کے ماتحت تبلیغ اسلام کا فریضہ بھانا رہی ہیں : که مثلا حضرت چوبه ی شیخ محمد صاحب سیال نا شده باری حضرت قاضی محمد عبدالله صاحب الی است بی ٹی ( مبلغ انگلستان، حضرت مفتی محمد صادق صاح مبلغ انگلستان و امریکی) مولوی مبارک علی و بقیہ نئے صفحے پر ملاحظہ ہوں

Page 161

۱۲۷ A تاریخ تقرری کیفیت کالک جہاں تبلیغ اسلام کا فریضہ تاریخ ولادت تحریک حدید میں ؟ ادا کیا یا ادا کر رہے ہیں چوہدری محمد شریف صاحب ۱۰ اکتوبر ۱۳ شاه و جنوری ۱۹۳۵ فلسطین معد شام - گیمبیا - گیمبیا کے سے پہلے ملغ مولوی امام الدین صاحب ملتانی نومبر ۱۹۱۳ نه ۲۷ جنوری له سنگی بود - انڈونیشیا مولوی روشن دین احمد صاحب ۱۹۱۴ ۶ ر فروری ۱۹۳۵ء مسقط مشن کے پہلے مبلغ.کینیا.ملک محمد شریف صاحب گجراتی صوفی عبد الغفور صاحب ۴ فروری ۱۹۳۵ء سپین اور اٹلی میشن کے پہلے مبالغ ۶۱۹۲۵ چین مشن کے پہلے مبلغ.امریکہ چوہدری محمد اسحق صاحب سیالکوٹی ۵ ستمبر ۱۹۱۶ ء ۱۰ فروری ۱۹۳۵ | انگ کانگ مولوی غلام حسین صاحب ایاز مطابق یکم مئی ۱۹ ۲۰ فروری ۱۹۲۵ ء سنگا پورشن کے پہلے مبلغ.بورنیو جامعہ احمدیہ کے ریکارڈ کے میں دفن کئے گئے.شیخ عبد الواحد صاحب دار دسمبر ۱۹۱۵ ۶ پر مارچ ۱۹۳۵ء ہانگ کانگ - ایران - نجی.حافظ عبد الغفور صاحب ۱۳ مئی ۱۹۱۳ء ، مارچ ۱۹۳۵ء جاپان د تحریک جدید کے اس مشن کے ار در برادر خور د مولانا ابوالعطاء صاحب) پہلے مبلغ صوفی عبدالقدیر من نیاز بی اسے ہیں) ملک عزیز احمد صاحب کنجاہی ۱۲۳ ستمبر ۱۹۱۵ء ۷ - ۱۹۲۵ء انڈونیشیا.اسی ملک میں مزار ہے.بقیه حاشیه صفحه گذشته) صاحب بھی اسے بھی ٹی مبلغ انگلستان و جرمنی، حضرت الحاج مولوی عبد الرحیم صاحب زیر اور مبلغ انگلستان و مغربی افریقہ حضرت ملک غلام فرید صاحب ایم اے (مبلغ جو منی و انگلستان) حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب درد ایم اے ( مبلغ انگلستان) حضرت خانصاحب مولوی فرزند علی صالت حضرت مولانا شیر علی صاحب ، صوفی عبد القدیر صاحب نیاز بی اسے ، مولوی محمد یار صاحب عارف ( مبلغ انگلستانی حضرت مولانا جلال امین صاحب شمسی (مبلغ بلد عربیه و غربیه و انگلستان، تعلیم فضل الرحمن صاحت مستقل نائیجی با حضرت صوفی غلام محمد صاحبت و مبلغ باری حضرت حافظ عبیدالله صاحب امبلغ ماریشی حضرت مولوی حافظ جمال احمد صاحب مبلغ ماریس، حضرت مولوی محمد دین صاحب ( مبلغ امریکہ حضرت صوفی مطیع الرحمن صاحب بنگائی مبلغ مریم مولانا ظہور تین صاحب فاضل رو مبلغ روس حضرت شہزادہ عبد المجید صاحب مبلغ ایران) مولانا ابوالعفار صاحب ( مبلغ فلسطین نصر، مولانامحمد سلیم صاحب د بلخ فلسطین و مصر شیخ محمود احمد صاحب عرفانی و مبلغ مصر) مولانا رحمت علی صاحب ( مبلغ انڈونیشیا مولوی محمد صادق صاحب کا مبلغ انڈونیشیا شیخ مبارک احمد صاحب (مبلغ مشرقی افریقہ) سماری ہے یہ فہرست اگست شام میں مرتبہ ہوئی ہے حواشی متعلقه صفحه بذار سے مولوی غلام محمد صاحب فرسخ کے نزدیک آپ سے میں پیدا ہوئے المفضل ا فروری متحدہ کالم او

Page 162

۱۲۸ مالک جہاں تبلیغ اسلام کا فریقین داد نام تاریخ ولادت تاریخ تقرری تحریک جدید میں کیفیت کیا ہے ہیں مولوی رمضان علی صاحب ۱۲ اگست ۱۹۱۳ء هر مادری ۱۹۳۵ء ارجنٹائن میشن کے پہلے مبلغ ۱۲ مولوی محمد دین صاحب در مارچ ۱۹۳۵ء البانیہ اور یوگوسلاویہ یشن کے پہلے مبلغ افریقہ جاتے ہوئے رستہ میں شہادت پائی ۱۳- سید شاه محمد صاحب ۱۵ جولائی ۱۹۱۳ ء - لر مارچ ۱۹۳۵ء انڈونیشیا ۱۱۷- حاجی احمد خال صاحب ایاز و ارمنی ۱۹۲۵ ہنگری پولینڈ چیکوسلواکی من کیسے مبلغ -10 -14 مولوی نورالدین صاحب متیر ۶ار ستمبر شاشه یکم جولائی ۱۹۳۵ء مشرقی افریقہ محمد ابراہیم صاحب ناصر اکتوبر ۱۱۹۱۲ جولائی ۱۹۳۵ء ہنگری ولی داد خاں صاحب دسمبر ۱۹۲۵ء افغانستان میں شہید کر دیئے گئے -14 - IA -19 ار مئی ۱۹۰۴ء دسمبر ۱۹۳۵ء مولوی نذیر احمد صاحب میشر ها را گست ۱۹۰۹ ۲ فروری ۱۹۳۷ء جانا سرالیون چودھری خلیل احمد صاحب ناصر +1914 ۱۳ مارچ ۱۹۳۷ امریکہ ۲۰ مولوی عبد الخالق صاحب ۱۵ فروری ۱۹۱۰ اگست ۱۹۳۷ء غانا - ایران مشرقی افریقہ ۲۱ - ملک عطاء الرحمن صاحب ۲- مرزا منور احمد صاحب ۲۰ را پریل ۱۹۱۹ د (تاریخ بین فرانس جنوری ۱۹۳۸ء) امریکہ ( امریکہ میں فوت ہے وہیں مزار ہے) بہت ۲۱ ( تاریکی پیشکش چودھری کرم الہی صاحب ظفر ۳۰ دسمبر ۱۹۱۹ء یکم مئی ۱۹۳۸ دور جدید یں سپین مشن کے پہلے مبلغ میاں عبد الحی صاحب ۲۸ فروری ۱۹۲۰ء یکم مئی ۱۹۳۸ سنگا پور - انڈونیشیا -۲۵ مولوی میر صدیقی صاحب امرتسری ۱۵ جون ۱۹۱۵ ء دار تولائی ۱۹۳۸ د فلسطین: انگلستان سیرالیون انیبیریا سنگاپور چوہدری غلام نبیین صاحب یکم مارچ ۱۹۱۵ء ۱۷ اگست ۱۹۳۸ امریکه -۲۷ چوہدری مشتاق احمد صاحب با یوه | ۳۰ دسمبر ۱۹۱۱ء ۱۲ ستمبر ۱۹۳۸ : انگلستان سوئٹزرلینڈ شیخ ناصر احمد صاحب در مارچ ۱۹۱۹ء ۲۹- مولوی صدر الدین صاحب +191A ۱۲ جنوری ۱۹۳۹ء سوئٹزرلینڈ ۲۲ اکتوبر ۱۹۳۹ ایران چوہدری عبد اللطیف صفا بی اے میں عمر ۱۶ سال ۲۰ جنوری ۱۹۴۰ تحریک جدید کے جرمنی میشن کے پہلے مبلغ - حافظ قدرت اللہ صاحب | ۲۲ فروری شاه ۲۸ اپریل ۱۹۴۰ء ہالینڈ - انڈونیشیا.۲۲

Page 163

۱۲۹ نمی شمار نام تاریخ ولادت تاریخ تقرری اتحریک جدید کیفیت ۳۲- سوادی معظلام احمد حیات ب بشیر 191 ۲۲ جولائی ۱۹۴۲ء ہالینڈ رضا ۲۲ سولوی فضل اپنی صاحب بشیر تو میر سیال میں یکم اگست ۱۹۴۲ء مشرقی افریقه، ماریشیس ، فلسطین ۲۷ سال همر مولوی رشید احمد صاحب چغتائی ۲۷ جولائی شدند ۱۳ اپریل ۱۱۹۷۴ فلسطین، اردن، لبنان ملک احسان اللہ صاحب ۱۹ جنوری ۱۹۱۹ ء ۳۰ اپریل ۱۹۴۴ء مغربی و مشرقی افریقہ حافظ بشیر الدین عبیداللہ صاحب ۱۷ ستمبر ۱۹۲۰ء ۲۶ مئی ۱۹۴۴، ماریشس ، مشرقی افریقہ ، سیرالیون فرینی گنی (مغربی افرفته) ۲۷ اعطاء چوہدری عطا ء اللہ صاحب ۱۹۳۸ء میں ۲۳ سال عمر ۱۲۶ مئی ۱۹۴۴ء فرانس - غانا (مغربی افریقہ) دری احسن الہی صاحب جنجوعه ۱۵ فروری ۶۱۹۲۳ ۱۶ جون ۱۹۴۴، سیرالیون، نائیجیریا - غانا مولوی نور محمد صاحب تیم سیفی ۱۲ مئی ۱۹۱۷ء ۲۷ جولائی ۲۱۹۴۴ نائیجیریا ۴۰ - چوہدری محمد اسحاق صاحب بتاتی ۰۴۱ هر اگست ۱۹۴۴ء سپین (ٹرینیڈا رش کے پہلے مبلغ ) مولوی نوراختی صاحب اتوره ۲۰ دسمبر ۶۱۹۲۰ ۱۴ اگست ۱۹۴۴ء مشرقی افریقہ، امریکہ ، نجی ۴۲ | مولوی محمد عثمان صاحب ۶۱۹۲۳ ۴۳ صوفی محمد اسحاق صاحب یکم مارچ ۱۹۲۳ء ستمبر ۱۹۴۴ء اٹلی ، سیرالیون تمبر م ۱۹۴ و سیرالیون ، لائبیریا مشن کے پہلے مبلغ فانا.یوگنڈا کینیا.م مولوی عبدالحق صاحب ننگلی سیرالیون ، فانا ۴۵ مولوی نذیر اگر من رائے ونڈی ۴ ارا پریل ۱۹۲۶ ۲۳ نومبر ۱۹۴۴ء سیرالیون شیخ نور احمد صاحب متغیر ۱۹ اکتو به ۱۹۱۹ و در فروری ۱۹۴۵ء لبنان ، نائیجیریا- اسر محمدابرایم صاحب عقیل ۲۳ فروری ۱۹۰۲ م به ا فروری ۱۹۴۵، اٹلی ، سیرالیون (فری قانون) ۱۴ چوہدری ظہور احمد صاحب باجوه ۲۰ اپریل ۱۹۱۹ و ۳ اپریل ۲۱۹۴۵ انگلستان مولوی بشارت احمد صاحب نبشیر ۲۴ جنوری ۱۹۲۴ : هاراپریل ۲۱۹۴۵ غانا - سیرالیون مولوی بیش در تنها قد صاحب نسیم قریباً ۱۹۲۳ء اپریل ۱۹۴۵ د خانا - ملائیشیا -

Page 164

۱۳۰ نام تاریخ ولادت تاریخ تقرری کیفیت ا - مولوی محمد منور صاحب ۱۳ فروری ۶۱۹۲۳ ۸ ا ا گست ۱۹۴۵ء مشرقی افریقہ قریشی محمد افضل صاحب در اکتوبر ۱۹۱۴ء ۱۹۴۵ء نائیجیریا - خانا - آئیوری کوسٹ ۵۳ مولوی عبد الواحد صاحب کاری پر ستمبر ۱۹۷۵ انڈونیشیا عراق راء میں سماٹرا روان ہوئے اور شاہ سے تحریک جدید کے ا تحت کام شروع کیا) ۵۴- مولوی عبد القادر صاحب نبینیم ۲۲ ستمبر ۰۱۹۲۲ ۱۲ فروری ۱۱۹۴۶ | امریکه مولوی جلال الدین صاحب قمر در مئی ۱۹۲۳ء در تاریخ ۱۹۴۷ء مشرقی افریقه فلسطین ۵۶- سید ولی اللہ صاحب AL هر مارچ ۱۹۴۶ء مشرقی افریقیه عنایت اللہ صاحب خیلیل انداز ۱۹۱۴ء ۵ مارچ ۱۹۴۶ء مشرقی افریقہ حکیم محمد ابراهیم صاحب ۶۱۹۲۲ ۵۹ مولوی نذیر احمد صاحب علی ۱۰ فروری ۱۹۰۵ ء میر ضیاء اللہ صاحب ۲۱ مارچ ۲۱۹۴۶ مشرقی افریقہ غانا - سیرالیون مشن کے پہلے مبلغ سیرالیون میں مدفون ہیں ۲۹ را پیش ۱۹۴۶ ء مشرقی افریقہ (ت) بشیر احمد آرچوڈ صاحب آف ندرمئی ۱۹۴۶ء (انگلستان ، برٹش گی آنا ، عمل اسگو انگلستان چوہدری شکر الہی صاحب ۱۲۰ مارچ ۱۱۹۲۰ ۱۲ جون ۲۱۹۴۶ امریکیه -۶-۲- مولوی محمد سعید صاحب اقتصادی ۲۰ مارچ ۱۹۱۶ء ۱۵رتون ۱۹۴۶ء سنگا پور.انڈونیشیا - ملایا.۶ مولوی محمد زهدی صاحب ر آن ملایا ) مولوی عبد الکریم صاحبی مر نومبر ۱۹۱۸ و ۲۵ جون ۱۹۴۶ء انڈونیشیا.سنگا پور (قادیان سے امبولوی فاضل کا امتحان پاس کیا ا ۲۶ جوان ۱۱۹۴۶ سیرالیون نے یعنی تاجر مبلغ :

Page 165

١٣١ نمبر شمار نام تاریخ ولادت تاریخ تقرری سید احمد شاہ صاحب در اکتوبر شاه ۲۹ جون ۱۹۴۶م نائیجیریا - سیرالیون ۰ مولوی محمد صادق صاحب لاہوری ۱۵۱۹۲۴ جولائی ۱۹۴۷ء سیرالیون 10 (ت) قریشی مقبول احمد صاحب ۲۰ جون ۲۱۹۲۲ ۲۰ جولائی ۱۹۴۶ء لندن آئوری کوسٹ مشن کے پہلے در مبلغ امریکہ چوہدری عنایت اللہ صاحب یکم جنوری ۱۹۲۰ء جولائی ۱۹۴۶ء مشرقی افریقہ ۷۰ مولوی صالح محمد صاحب | ۱۲ فروری ۱۹۰۲ء ۱۵ ستمبر ۱۹۴۶ء غانا (ت) مولوی عبد الرحمن خان صاحب یکم جنوری ۱۹۱۵ء هار اکتوبر ۱۹۴۶ء لندن (ت) -41 مولوی عطاء اللہ صاحب تیم یکم اکتوبر ۱۱۹۲۲ ۱۲ دسمبر ۲۱۹۴۶ خانا ہے.مولوی غلام احمد صاحب منتشر ۱۹۲۶ ۲۱۹۴۶ عدن بیشن کے بانی مولوی عبد الکریم صاحب شرط ۲۶ جولائی ۱۹۱۹ء ۱۲۸ اگست ۱۹۴۷ء مشرقی افریقہ ۷۵- سید جواد علی صاحب -A.-AI ۱۹۲۴ و ۲ اکتوبر ۱۹۴۸ء امریکو شیخ نصیر الدین احمد صاحب ۱۵ مارچ ۱۹۲۳ و ۱۵ار جون ۱۹۴۹ء سیرالیون ، نائیجیریا - مولوی ابریمر ایوب صاحب ۱۳ اکتوبی ۱۹۰۸، جون ۱۹۵۰ء انڈونیشیا ، ہالینڈ پہلے صدر انجی حمدیہ کے تحت مقدمات بجا لاتے رہے) سید منیر احمد صاحب یا سری ۱۲ اگست ۱۹۷۹ و ۳۱ اکتوبر ۱۹۵۰ء برطا (تحریک تجدید کے برمامشن کے پہلے مبلغ ) مولوی محمد اسمایل صاحب منیر ۲۸ مارچ ۲۱۹۲۸ ۳۱ اکتوبر ۱۹۵۰ء سیلون مشن کے پہلے مبلغ ، ارشیو مشرقی افریقہ مولوی فضل الہی صاحب انوری ۱۶ اپریل ۱۹۲۷، یکم دسمبر ۱۹۵۰ء غانا - جرمنی (فرانکفورت) را.- مرزا محمد ادریس صاحب ۵ار اکتوبر ۲۱۹۲۹ ۱۵ار تاریخ ۱۹۵۲ بورنیو ، یوگنڈا هدار ۸۲- مولوی عبد القدیر صاحب شاہد ۱۹۲۵ یکم مئی ۱۹۵۲ د خانا ، سیرالیون سنگاپور، بھانا.قریشی فیروز محی الدین صاحب یکم مئی ۱۲ سنگا پور خان - نائیجیریا 2/11905

Page 166

نام تاریخ ولادت تاریخ تقرری عبد اللطیف صاحب پیرکی ۲۴ جون ۱۹۲۷ میکم مئی ۶۱۹۵۲ خانا ۸۴ ۰۸۵ مولوی کیفیت (ت) مولوی محمد صدیق صاحب کراسپوتین اکتوبر ۱۹۲۸ء مئی ۱۹۵۲ء سیرالیون ، غانا - مولوی مبارک احمد صاحب ساقی عمر دسمبر ۱۹۳۰ ء یکم مئی ۱۹۵۲ء نائیجیریا ، لائیبریا - | ۸۷ میر مسعود احمد صاحب یکم ستمبر ۱۹۲۷ ء یکم مئی ۱۹۵۲ء ڈنمارک صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب هر مارچ ۱۹۲۷ ء یکم جولائی ۱۹۵۲ م انڈونیشیا ۸۹ حکیم عبد الرشید صاحب ارشد ۱۲۱ اپریل ۱۹۲۱ نومبر ۱۹۵۰ء انڈونیشیا LAA ۹۰ ۰۹۲ ۰۹۳ مولود احمد خاں صاحب در مارچ ۱۹۲۵، یکم اپریل ۱۹۵۲ لندن ۹۱- چوہدری محمود احمد صاحب جیمیه در اگست ۱۹۲۸ء یکم اپریل ۱۹۵۳ء سیرالیون ، جرمنی قامتی مبارک احمد صاحب ۱۹ فروری ۱۹۳۲، یکم اپریل ۱۹۵۳ء سیرالیون ، خانا ، ٹوگو لینڈ بشیر احمد صاحب رقیق ۱۲ ستمبر ۱۹۳۱ء یکم دسمبر ۲۱۹۵۳ انگلستان خلیل احمد صاحب اختر ۱۸ اکتوبر ۱۱۹۳۱ در جون ۱۹۵۴ء غانا - سیرالیون -۹۵ عبد الشکور صاحب کنزے (جرمن ۱۵ ستمبر ۲۱۹۱۹ ۱۳ دسمبر ۱۹۵۴ء امریکہ ، بر معنی کے -۹- صالح الشیبی صاحب (جادی) نومبر ۱۹۲۱ء ۱۲ اپریل ۱۹۵۵ء انڈونیشیا (غیر ملکی) مولوی نظام الدین صاحب مہمان ۱۵ جولائی ۱۹۲۷ء یکم نومبر ۱۹۵۵ء سیرالیون -96 ۹۸ کمال یوسف صاحب یکم جنوری ۱۹۵۷ء ڈنمارک سیشن کے پہلے مبلغ ۹۹ مولوی محمد بشیر صاحب شاد ۱۳ دسمبر ۱۹۳۵/ ۲۶ فروری ۱۹۵۷ء سیرالیون ، نائیجیریا (مغربی افریقہ) ۱۰ رشید احمد صاحب اسحاق ۱۵ جون ۱۹۳۳ء ۲۶ فروری ۱۹۵۶ء | ڈیچ گی آنا ۲۵ اپریل ۹۵۶ ٹانگانیکا ( وفات یافته) 11 امری عبید کی صاحب ۱۰- منیر الدین احمد صاحب ۱۲ اگست ۱۹۲۸ء ۱۲ جون ۱۹۵۶ء کینیا (مشرقی افریقہ) ملک جمیل الرحمن صاحب رفیق و مارچ ۱۹۳۶ و در ستمبر ۱۹۵۶ء تنزانیا (مشرقی افریقہ) -1-F ۱۰۴ چوہدری ناصر احمد صاحب ۱۴ اکتوبر ۱۹۳۳ء ۲۹ اکتوبر ۱۹۵۷ء سیرالیون از ۱-۵- غلام نبی صاحب شاہد ۱۳۰ جنوری ۱۹۳۰ و ۲۸ نومبر ۱۹۵۶د سیرالیون ، غانا لے جماعت سے الگ ہو چکے ہیں

Page 167

نمبر شمار نام ۱۳۳ تاریخ ولادت تاریخ تقرری کیفیت ۱۰۲- منیر احمد صاحب عارف ۲ جنوری ۱۹۲۹ ۲۸ نومبر ۱۹۵۶ء برما ، نائیجیریا - -1-4 - 11.-١٢ مولوی عبدالرشید صاحب رازی مئی ۱۹۳۲ء ۲۸ نومبر ۱۹۵۶ء غانا ، تنزانیا.مولوی عبد الحکیم صاحب اکمل ۱۳۰ اکتوبر ۱۱۹۳۳ ۲۸ نومبر ۱۹۵۶ء ہالینڈ حافظ محمد سلیمان صاحب اپریل ۱۹۳۰ء ۲۸ نومبر ۱۹۵۶ء تنزانیا (مشرقی افریقہ) کینیا | سردار مقبول احمد صاحب ذبیح ۱۳۱ اگست ۶۱۹۳۱ ۲۰ نومبر ۱۹۵۶ء یوگنڈا (مشرقی افریقہ) محمد اسحاق صاحب قلیل ۱۲۸۰ جون ۱۹۳۵ء ۲۲ جنوری ۱۹۵۷ء نائیجیریا عبد الرحمن صاحب سیلونی ۱۲۲ اپریل ۱۹۳۰ء ۱۳ام فروری ۱۹۵۷ء سیلون آنزانیا ۱۱- محمد حنیف صاحب یعقوب یکم اکتوبر ۶۱۹۲۶ ۳ اکتوبر ۱۹۵۷, ٹرینیڈاڈ میر غلام احمد صاحب نیستیم ۱۵ اگست ۱۹۳۱ و ۶ اکتوبر ۱۹۵۷ د سیرالیون - گی آنا (جنوبی امریکہ) ۱۱۵ مولوی رشید احمد صاحب ترور ۱۲ اکتو به ۱۱۹۳۴۲ ۱۲ اکتوبر ۱۹۵۷ د تنزانیا ( مشرقی افریقہ) ۱۱۴- ۱۱- اقبال احمد صاحب غضنفر ۱۱۸ اپریل ۱۹۳۲ء بر اکتوبر ۱۹۵۷ء سیرالیون صلاح الدین خالص بنگالی دسمبر ۲۱۹۳۲ در اکتوبر ۱۹۵۷ء ہالینڈ شیخ نذیر احمد صاحب بشیر ۲۰ دسمبر ۱۰۱۹۳۲ ۲۸ نومبر ۲۱۹۵۷ لندن ١١٩ عبد العزیز صاحب همین بخش ۱۲ فروری ۱۹۳۵ء آن دریچی گی آنا ۱۹۵۷ء ڈچ گئی آتا بشیر احمد صاحب شمس گجراتی فروری ۱۱۹۳۵ ۲۰ اپریل ۱۹۵۸ نائیجیریا - برمنی ۱۲۱ امین الشر تقال صاحب سالک وہ مئی ۱۹۳۶ء ۲۰ اپریل ۸ الله ۱۲۲ ۲۰ ۶۱۹۵۸ مرز لطف الرحمن صاحب انور ها فروری ۱۹۲۹ء هدا جون ۱۹۵۸، جرمنی ، خانا ، ٹوگولینڈ میشن کے پہلے مبلغ -۱۲۳- منیر الدین صاحب کی فضلی ۳ جولائی ۱۹۳۶ء ۱۷ اگست ۱۹۵۹ جومنی | ۱۲ مولانا عظام العمر صاحب فاضل ۲۵ اکتوبر ۶۱۹۰۱ ۱۰ر دسمبر ۱۹۵۹ء گیبیا ( عارضی وقف) بدونی

Page 168

Imp ۱۲۵ نام تاریخ ولادت تاریخ تقریری محمود عبد الله شویی صاحب مدنی ۲۴ مئی ۶۱۹۲۴ ۴ فروری ۶۱۹۶۰ عدن ۱۲۶- موادی نصیر احمد خان صاحب ۱۰ر اپریل ۱۹۳۰ء ۱۷ر مٹی ۱۹۶۰ء لبنان ، غانا، سیرالیون عبد الوہاب بن آدم مصا آن افریقی ۱۸ جنوری ۱۹۳۸ د نیکم جون ۱۹۶۰ ۱۲۷ ۱۴۸- مسعود احمد صاحب جہلمی یکم اپریل ۱۹۳۴ء نهر جولائی ۱۵۶ء جرمنی ٠١٩١٣ ۱۲ ستمبر ۱۹۷۰ء امریکہ ( سه ساله وقف) ۱۲۹- میجر راجہ عبد الحمید صاحب ۱۳۰ بچوہدری رحمت خان صاحب اندانا ۱۸۹۹ء یکم اکتوبر ۱۹۶۰ء | انگلستان ( سه ساله وقف) ۱۳۱- مولوی عبد المالک خانصاحب فاضل ۲۵ نومبر ۱۹۱۱ ء جون ۱۹۷۱ و غانا صدر انجین احمدیہ سے آپ کی خدمات تین سال کے لیئے مستعار لی گئیں، ۱۳۲- چوہدری رشید الدین صاحب دسمبر ۱۹۳۲ م روانگی جون ۱۹۶۱ء نائیجیریا (۱۹۶۱ میں تحریک نے آپ کی خصلات Lira LIFE +1971 تین سال کیلئے صدر انجین کے متعار لیں ) نائیجیریا ( سه ساله وقفت) حاجی فیض الحق خال صاحب اور اکتوبر ۱۸۸۶ء دار نومبر ۱۹۶۱ء ۱۲ سید محمد باشم صاحب بخاری یکم جنوری ۱۸۹۷ و ۲۵ فروری ۱۹۶۲ جانا اور سیرالیون میں رہے اپیدا کشی سید و او د احمد صاحب انور ۱۶ اکتوبر ۱۹۳۶ء که جون ۱۹۹۲ء صحابی ہیں، رسہ سالہ وقف) خانا ۱۹۲۲ء کینیا (مشرقی افریقہ) سه سال وقف قاضی تقسیم الدین احمد صاحب دار جولائی ۱۹۴۰ یکم جولائی -۱۳۷ - چوہدری عبد الرحمن خان ها این گالی یکم دسمبر ۱۹۰۴ء یکم مارچ ۱۹۲۳ء بمریکہ ۱۳۸ قاضی عبدالسلام صاحب ۱۳۹ - مولوی عبد الحمید صاحب 19-1.ار ماری ۲۱۹۷۳ کینیا (مشرقی افریقہ) متی ١٩٩٣ء کراچی سے روانگی ) خانا مغربی افریقی) (سر ساتھ وقف) ۱۴ مولوی عبد الشکور صاحب دار نومبر ۱۹۳۵ ۲۹ جولائی ۱۹۶۳ء | سیرالیون 11- محمد عثمان صاحب چینی ۱۳ دسمبر ۱۹۲۵ء یکم نومبر ۱۹۶۴ء سنگاپور ۱۴۲- محمد عیسی صاحب خلف را پریل ۱۹۳۹ - ۱۲ جون ۱۹۶۵ء کینیا (مشرقی افریقہ) ۱۴ داود احمد صاحب جی ر فروری ۱۹۴۳ ۲ ۱۲ جون ۱۹۶۵ء سیرالیون ، گیمبیا ( مغربی افریقیه) ماریشیس، کیفیا (شہادت الاجانب کی ڈگری ۱۴۴ احمد شمشیر صاحب موکید آف ما ریشم مئی ۱۹۳۳ ۲۸ جولائی ۶۱۹۷۶ جامعہ احمد بعد ربوہ سے حاصل کی ؟

Page 169

۱۳۵ نمبر شمار نام تاریخ ولادت تاریخ تقرری ۱۴۵ قریشی مبارک احمد صاحب هر اپریل ۱۹۳۸ ۷ را گست ۱۹۶۷ خانا -۱۴ لئیق احمد صاحب طا ہر د اپریل ۱۹۷۳ء مرا گست ۱۹۹۷ء بندان کیفیت ۱۴۷ مولوی بشیر احمد صاحب آختر ۱۳ نومبر ۲۱۹۴۲ عراگست ۱۹۶۶ کینیا (مشرقی افریقہ) تحریک جدید کے طبی مشن چند سالوں سے افریقہ کے ممالک میں احمدی ڈسپنسریاں کھولی گئی ہیں جن میں مندرجہ ذیل واقعت زندگی ڈاکٹر کم کر چکے ہیں یا کر رہے ہیں.ڈاکٹر کرن محمد یون صاحب نائیجریا، ڈاکٹر نبیاء الدین صاحب (سیرالیون نائیجیریا) ڈاکٹر شاہنواز صاحب ( سیرالیون) ڈاکٹر محمد اکرم صاحب ورک (سیرالیون) مالک غیر میں اب تک ۵۷ سکول اور کالج قائم کئے جاچکے ہیں جن میں تحریک جدید کے بیرونی مدارس ہزاروں طلبہ ینی ودنیوی تعلیم حاصل کر رہے ہیں.یہ درسگاہیں زیادہ تر نیجیر با معانا و سیرالیون میں ہیں.اکثرسولوں میں مقامی اساتذہ کام کر رہے ہیں لیکن سیکنڈری سکولوں میں پاکستانی اساتذہ مقر ہیں.ان مدارس میں جین واقفین تحریک جدید کو کام کرنے کا موقعہ میسر آیا اس کی سماد یہ ہیں: سید سفیر الدین صاحب (غانا)، نذیر احمد صاحب ایم ایس سی (غانا) ، سمیع اللہ صاحب سیال (سیرالیون) ، مسعود احمد صاحب (غانا) ، چودھری محمود احمد صاحب ( یوگنڈا ) تحریک جدید کے ریکارڈ کے مطابق مندرجہ ذیل ممالک میں احمدیہ مساجد تعمیر ہو چکی ہیں :- بیرونی مساجد یورپ : انگلستان کا د مسجد فضل لنڈن ، جس کا سنگ بنیاد حضرت خلیفہ مسیح الثانی نے اپنے دست مبارک سے ۹۲۴ہ میں رکھا) ہالینڈ کو چودھری محمد ظفراللہ خان صاحب نے 4 دسمبر ۱۹۵۵ء کو اس کا افتتاح فرمایا، جرمنی با دایمبرگ میں کا افتتاح چودھری محمد ظفراللہ خاں صاحب نے ۲۲ جون ۱۹۵۷ء کو فرمایا ) فرانکفورٹ.لے عارضی واقعت جو سے ان کے علاوہ ماریش ، گی آنا ، فلسطین ، جزائر غرب الہند ، لائبیریا ، کینیا ، یوگنڈا ، انڈونیشیا اور تجھی میں بھی خال خال احمد یہ سکون پائے جاتے ہیں ،

Page 170

سوئٹزرلینڈ - مسجد محمود زیورچ جس کی بنیاد حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ نے ۲۵ اگست ۱۹۶۲ کو رکھی اور چودھری محمدظفر اللہ خاں صاحب نے ۲۲ جون ۱۹۶۳ء کو افتتاح فرمایا ) ڈنمارک ! - مسجد نصرت جہاں “ جس کا افتتاح حضرت خلیفة السيح الثالث ایده الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اللہ جولائی ۱۹۶۷ء کو فرمایا ) نوٹ : انگلستان ، ہالینڈ اور ڈنمارک کی مساجد خالصتہ احمدی مستورات کے چندہ سے تیار ہوئی ہیں.امریکہ :- ۳ افریقہ نائیجیریا ۲۵ میر المليون ۳۵ تھانا ۱۹۳ کینیا تنزانيا ۲ یوگنڈا گیمبیا مشرق وسطی فلسطین 1 مشرق بعید انڈونیشیا ۵۱ ایشیاء (باستثناء بر صغیر پاک و ہند) به ما ۱ تحریک جدید کے زیر انتظام بیرونی ممالک میں مندرجہ ذیل رسائل واختبارات بیرونی رسائل و جرائد جاری ہیں :- اشیار احمدیہ (ماہوار ، دار السلام مشرقی افریقہ) اختبار احمدیہ (ہفت روزه ، لنڈن) د زیوری جرمنی د کوپن ہیگن، ڈنمارک انگریزی (نائیجیریا) انگریزی بو - سیرالیون انگریزی (نیروبی) (ٹرینیڈاؤ) سنہالیز.انگریزی (کولمبو ) انگریزی (جی سائن) ید کارتا.انڈونیشیا) انگریزی اکستان جنوبی افریقہ الاسلام عربی ( عدن) البشري (برما 2 5 Der Islam 4 Aktiv Islam.5.The Truth : The African Crescent East African Times 8.Ahmadiyyat S.The Massage to.The Peace Sinar Islam ALAst za Al Bushra 74 Al- Islam A) Hushira

Page 171

۱۳۷ انگریزی (لندن) نجین، انگریزی (فحی) انگریزی ( برٹش گی آنا ) ڈی ہیگ ، ہالینڈا انگریزی ماہنامہ (سالٹ پانڈ، غانا ) یوگنڈا فینٹی لوگنڈی (مشرقی افریقہ) سوتیلی (دارالسلام مشرقی افریقہ) (کولمبو) 16.Muslim Herald 1.Islam 18.Ahmadiyyat 19.Islam 20.Guidance 21.Voice of Islam 22.Ma Peazi Ya Mungu 23.Satya Daothan تبلیغ اسلام کی عالمگیر ہم میں شریچر کو غیر مونی اہمیت حاصل ہے اور بیرونی وکالت تمشیر کی اہم مطبوعات بتنین کو میدان جہاد میں ہرجگہ لٹریچر کی ضرورت پڑتی ہے کچھ تو وہ اپنے میشنوں ہی میں تیار کرتے ہیں لیکن اس کا بیشتر حصہ مرکز میں تیار کیا جاتا ہے.میشنوں کے شائع شدہ لٹریچر کا ذکر تو ان کے حالات میں باتفصیل کیا جارہا ہے.اس جگہ تحریک جدید کے مرکزی شعبه وکالت تبشیر کی مطبوعات درج کی جاتی ہیں.عربی لٹریچر کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسّلام مكْتُوبِ أَحْمَد موَاهِبُ الرَّحْمنِ حَمَامَةُ الْبُشْرِى تحفة بغداد الخطاب الجليل الاستفتاء الإسلام التعليم کتب حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ لَمَ أَعْتَقِدُ بِالْإِسْلَامِ ؟ کتب دیگر بندگان سلسله الْإِسْلَامُ وَالْأَدْيَانُ الْأُخْرَى حَيَاتِ احمد از حضرت قمر الانبیاء مرزا بشیر احمد صاحب) مومِسُ العَمَلعَةِ الْأَحْمَدِيَّةِ وَالْإِنكليز (از حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب درود - ترجمه حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ) المودودي في الميزان ) السید منیر الحصنی امیر جماعت احمدیہ مشق) الْقَوْلُ القَديمُ فِي ظُهُور المهدي والمسيح (مولانا نذیر احمد صاحب مبشر )

Page 172

اُردو لٹر پھر تحریک جدید کے بیرونی میشن و تقریر صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب جلسہ سالانه ۱۹۵۵) اشاعت اسلام اور ہماری ذمہ داریاں" " (4926 " موجودہ زمانہ ایک روحانی مصلح کا متقاضی ہے" " جماعت احمدیہ کا بہترواں جلسہ سالانہ..مختصر کوائف فارسی لریچر پیام احمدیت از حضرت خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ) ) $1942 انگریزی لٹریچر (ENGLISH :) Al Quran The Holy Quran with English translation and commentary The Holy Quran with English Translation Forty gems of Beauty Teachings of Islam Islamic Teachings on the Moral Conditions of Man Favours of the Beneificent A Misunder standing removed A review of Christianity Our Teachings The will A Review of Christianity Jesus in India Fountain of Christianity How to get rid of the bondage of sin The Truth About the Split Ahmadiyyat or the True Islam Invitation to Ahmadiyyat The Real Revolution The new World order of Islam Why I Believe in Islam What is Ahmadiyyat Muhammad, The Librator of woman The Economic Structure of Islamic Society

Page 173

IP4 Ahmadiyya Movement Life of Muhammad Introduction to the study of the Holy Quran Communism and Democracy Seerat-i-Tayyaba Scattered Pearls Moral and Spirtual Training Two Pillars of Spirituality Future of Ahmadiyya Movement Islam and communism Truth About Khatm-i-Nabuwwat Durr-i-Maknoon Mirror of Charm and Beauty Islam on the March Our Foreign Missions Islam in Africa The Propagation of Islam Attitude of Islam Towards Communism The Preaching of Islam The Christian Doctrine of Atonement The Existence of God Where Did Jesus Die? Tahrik-i-Jadid (Illustrated) Babee and Bahaee Religion Jesus in Kashmir Primer of Islam An Interpretation of Islam Meaning of Khatamun Nabiyyin The Tomb of Jesus A Christian Woman's View on Islam SAWAHILEE : Kuondoa Kosa Moja Uislamu Na Dini Nyingine GERMAN: The Holy Quran with German Translation

Page 174

۱۴۰ DUTCH: The Holy Quran with Dutch Translation FRENCH: Philosophy of the Teachings of Islam CHINA: Philosophy of the Teachings of Islam تحریک جدید کے شائد اتبلیغی کارنامہ پر اپنوں اور بیگانوں نے بہت کچھ لکھنا غیروں کی آرا و تحریک جدید ہے مگر چونکہ تحریک جدید کے قائم ہونے والے مشنوں کے تفصیلی کی تبلیغی مساعی سے متعلق حالات پر آئندہ اپنے اپنے مقام پر روشنی ڈالی جارہی ہے اور ان آزاد کا اصل موقعہ وہی مقامات ہیں.لہذا اس جگہ بطور نمونہ صرف چند اقتباسات پر اکتفاء کرنا مناسب ہو گا.عسکری الحاج عبد الوہا سیلوی | الحاج عبدالوہاب عسکری ایڈیٹر السلام البغداديه " اپنی کتاب " مُشَاهَدَاتِي تَحْتَ سَمَاءِ الشَّرْقِ میں جماعت احمدیہ کی نسبت لکھتے ہیں :- وَخِدْمَاتُهُمْ لِلدِّينِ الْإِسْلَاعِي مِنْ رِجْهَةِ التَّبْشِيْرِ فِي جَمِيعِ الْأَقْطَارِ كَثِيرَةُ وان لَهُمْ دَوَائِرَ مُنْتَظمَةً يُدِيرُهَا اَسَاتِذَهُ وَعُلَمَاءُ....وَهُمْ يَجْتَهِدُونَ بِكُلِ الْوَسَائِلِ المُمْلَكَةِ الفَلَا كَلِمَةِ الدَيْنِ وَ مِنْ أَعْمَالِهِمْ الْجَبَّارَةِ الْعُشْعُ البَشِية وَالْمَسَاجِدُ الَّتِي اسسُوهَا فِي مُدَنِ أَمْرِيكَا وَافْرِيقِيَا وَأُورُبَا فَهِيَ أَلْسِنَةُ نَاطِقَةً مِمَّا قَامُوا وَيَقُومُونَ بِهِ مِنْ خِدَمَاتٍ وَلَا شَكَ إِنَّ لِلْإِسْلَامِ مُسْتَقْبِلُ يَا حَرُ عَلَى يَدِهِمْ (ترجمہ) دین اسلام کیلئے ان کی تبلیغی خدمات بہت زیادہ ہیں اور اُن کے ہاں بہت سے انتظامی شعبے ہیں.جہتیں بڑے بڑے ماہرین اور علماء دین چلاتے ہیں.اور وہ دین اسلام کی سربلندی کیلئے تمام مسکن ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے کوشاں ہیں اور اُن کے عظیم الشان کارناموں میں سے ایک عظیم کام یورپ، امریکہ اور افریقہ کے مختلف شہروں میں تبلیغی مراکز اور مساجد کا قیام ہے اور یہ مراکز و مساجد ان کی اُن عظیم خدمات کی منہ بولتی تصویر ہیں جو وہ پہلے اور اب بجا لا رہے ہیں.اور اس امر ل نقل مطابق اصل "مستقبلاً باهراً " چاہئیے : له " مشاهداتي تحت سماء الشرق" تاليف الدكتور الحاج عبد الوهاب العسكري صاحب جريدة السلام البغدادية مطبوعه ۱۹۵۱ م مطابق ۱۳۷۰هـ دار الحديث للطباعة والنشر والتاليف : + |

Page 175

۱۴۱ میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ ان کے ہاتھوں اسلام کا ایک تابناک مستقبل مقدر ہو چکا ہے.انسائیکلو پیڈیا آف بریٹین کا " مطبوعہ ۱۹۴۷ء کے صفحہ ۱ - ۷۱۲ انسائیکلو پیڈیا آف برٹینیکا بار جماعت احمدیہ کے معاملگی تبلیغی نظام کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے :- 811 "Both these sections of the community succeeded in enlisting the services of devoted, self-sacrificing men, who as propagandists, controversialists are unceasingly active extensive missionary and pamphleteers.They control activity, not only in India, West Africa, Mauritius and Java (where their efforts are mainly directed towards persuad - ing their co-religionists to join the Ahmadiyya sect), but Their missionaries also in Berlin, Chicago and have devoted special efforts to winning European converts considerable measure of success.and have achieved a London.In their literature they give such a presentation of Islam as they consider calculated to attract persons who have received an education on modern lines, and thus not only attract non- Mäslims, and rebut the attacks made on Islam by Christian controversialists, but win back to the faith Muslims who have come under agnostic or rationalist influences.' (The Encyclopaedia Britannica, Fourteenth Edition, Volume 12, pages 711-712) (ترجمہ احمدیہ جماعت کے دونوں گروہ نہایت مخلص اور ایثار پیشہ لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کرنے میں کامیاب رہے، یہ لوگ اشتہارات ، رسائل اور مناظرات کے ذریعہ مسلسل اشاعت کا کام کرلی ہے ہیں ان کا ایک وسیع تبلیغی نظام ہے.نہ صرف ہندوستان میں بلکہ مغربی افریقہ ، ماریشس اور بھاوا میں بھی (جہاں ان کی کوششیں بالخصوص اس غرض کے لئے وقف ہیں کہ ان کے ہم مذہب لوگ سلسلہ احمدیہ میں شامل ہو جائیں) اس کے علاوہ برلن ، شکاگو اور لندن میں بھی ان کے تبلیغی مشن قائم ہیں ان کے مبلغین نے خاص جد و جہد کی ہے کہ یورپ کے لوگ اسلام قبول کریں اور اس میں انہیں معتقدیر کامیابی بھی ہوئی ہے.اُن کے لڑ پھر میں اسلام کو اس شکل میں پیش کیا جاتا ہے کہ جدید تعلیمیافتہ لوگوں کے لئے باعث کشش ہے اور اس طریق پر نہ صرف غیر مسلم ہی ان کی طرف

Page 176

کھنے آتے ہیں بلکہ ان مسلمانوں کے لئے بھی یہ تعلیمات کشش کا موجب ہیں جو مذہب سے بیگانہ ہیں یا عقلیات کی رو میں بہہ گئے ہیں.اُن کے مبلغین ان حملوں کا بھی دفاع کرتے ہیں جو عیسائی مناظرین نے اسلام پر کئے ہیں.جامعه از بر کا ترجمان المرکز جامع الازہر کے ترجمان "الانہ میں نے جولائی ۱۹۵۸ء کے شمده جامعه از بر کا ترجمان الامر میں مغربی افریقہ میں تحریک جدید کی سرگرمیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا._ : وَلَهُمْ نَشَاطُ بَارِزُ نِي كَافَةِ الشَّوَارِيَ وَمَدَارِسُهُمْ نَاجِحَةُ بِالرَّعْيمِ مِنْ أَنَّ تلَامِيذَ هَا لا بَدِينُونَ جَمِيعًا بِمَذْهَبِهِمْ " ینی جماعت احمدیہ کی سرگرمیاں تمام امور میں انتہائی طور پر کامیاب ہیں.ان کے مدارس بھی کامیابی سے چل رہے ہیں یا وجود یکہ ان کے مدارس کے تمام طلباء اُن کی جماعت سے تعلق نہیں رکھتے سوئٹزرلینڈ کا روز نامہ برنز گیلٹ (BERNERTRGBLATT) روز نامہ بر رنگیلٹ سیٹزرلینڈ "1 نے اپنی اور جون ۱۹۶۱ء کی اشاعت میں لکھا :.اس دوران میں یہ جماعت (احمدیہ) دنیا کے اور بہت سے حصوں میں بھی پھیل گئی ہے جہانتک یورپ کا تعلق ہے لندن ، ہمبرگ ، فرانکفورٹ ، میڈرڈ ، زیور بچی اور سٹاک کالم میں اب اس جماعت کے باقاعد تبلیغی مشن قائم ہیں.امریکہ کے شہروں میں سے واشنگٹن ، لاس اینجیلیز، نیو یارک، پٹسبرگ اور شکاگو میں بھی اس کی شاخیں موجود ہیں.اس سے آگے گر نیا ڈا ، ٹینیڈاڈ اور ڈر گیانا میں بھی یہ لوگ مصروف کار ہیں.افریقی ممالک میں سے سیرالیون ، گھانا ، نائیجیریا ، لائیبیریا اور اور مشرقی افریقہ میں بھی ان کی خاصی جمعیت ہے.مشرق وسطی اور ایشیا میں سے مسقط، مشق بیروت ، مادیش، برطانوی شمالی یورنیو ، کولبو ، رنگون ،سنگا پور اور انڈونیشیا میں اُن کے تبلیغی میشن کام کر رہے ہیں.دوسری عالمگیر جنگ سے قبل ہی قرآن کا دنیا کی سات مختلف زبانوں میں ترجمہ کرنے کا منصوبہ تیار کیا گیا تھا چنانچہ اب تک ڈرچ ، بومن اور انگریزی میں پورے قرآن مجید کے تراجم عربی متن کے ساتھ شائع ہو چکے ہیں.اسی طرح عنقریب روسی ترجمہ بھی منظر عام پر آنے وال ے کو الہ " الفضل " ۱۶ار فروری شارب ہے اور زائر غرب الہند کا ایک جوابیده ( موفقیت) یو

Page 177

ہے.اس جماعت کا نصب العین بہت بلند ہے یعنی یہ کہ روئے زمین پر بسنے والے تمام بنی نوع انسان کو ایک ہی مذہب کا پابند بنا کر انہیں باہم متحد کر دیا جائے.وہ مذہب احمدیت یعنی تحقیقی اسلام ہے اس کے ذریعہ یہ لوگ پوری انسانیت کو اسلامی اخوت کے رشتے میں منسلک کر کے دنیا میں حقیقی اور پائیدار امن قائم کرنا چاہتے ہیں.انہیں توقع ہے کہ بالآخر تمام بنی نوع انسان اسلام کی آغوش میں آکر مسلمان ہو جائیں گے.یہ جماعت خود اور اس کا مولد و مسکن سے نکل کر پوری دنیا پر اس قدر مضبوطی سے پھیل جانا نوع انسان کی روحانی تاریخ کے عجیب و غریب واقعات میں سے ایک عجیب و غریب واقعہ اور نشان ہے “ امریکہ کی ریاست پنسلوانیہ میں ولکیز کا لج مریکایی پی این ایموجی است و این کالا امریکی WILKES COLLEGE) کے شعبہ فلسفہ کے صدر پروفیسر سٹین کو ایم دوجيكا ( STANKO MUJIKA ) نے انگلستان کے جریدہ ایسٹرن ورلڈ " ( TERN WORLD EASTERN ) میں لکھا :- قادیان گروپ کو آج بھی اسی نام سے یاد کیا جاتا ہے.تقسیم برصغیر کے بعد سے ربوہ اس گروپ کا ثانوی مرکز ہے جو مغربی پاکستان میں واقع ہے.اس گروپ کی قیادت شہر سے بانی سلسلہ احمدیہ کے فرزند مرزا بشیرالدین (محمود احمد) کے ہاتھ میں ہے.بالعموم آپ کے پیرو آپ کو احتراماً " حضرت صاحب" کے نام سے یاد کرتے ہیں.آپ ہمیشہ ہی ایک اولو العزم لیڈر اور زرخیز و مارغ مصنف واقع ہوئے ہیں.اپنے والد کی طرح آپ کو بھی دعوی ہے کہ آپ تعلق باللہ کے ایک خاص مقام پر فائز ہیں.مثال کے طور پر آپ نے ایک جگہ اپنے متعلق ذیل کی عبارت لکھی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ہو کچھ لکھا ہے سنجیدگی اور اخلاص کے ساتھ لکھا ہے.آپ لکھتے ہیں :- عد اتعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو میرے ذریعہ سے دنیا بھر میں پھیلا دیا.اور بیسیوں موقعوں پر اپنے تازہ کلام سے مجھے مشترف فرمایا....دنیا کا کوئی علم نہیں جو اسلام کے خلاف آواز اُٹھاتا ہوا اور اس کا جواب ضد العالے مجھے قسم آن شریف سے ہی نہ سمجھا دیتا ہو " (دیا جو تفسیر القرآن انگریزی) سے بحوالہ ماہنامہ انصار الله" فروری ۱۹۶۲ء صفحه ۶-۰۷

Page 178

۱۴۷۴۷ ربوہ میں سب سے زیادہ سرگرمی کا مظاہرہ بیرونی مشنوں کو کنٹرول کرنے والے دفتر دوکالت تبشیر میں دیکھنے میں آتا ہے.احمدیوں نے اپنے آپ کو اسلام کے پیغام کو دنیا بھر میں پھیلانے کے مقصد کے لئے دل و جان کے ساتھ وقف کر رکھا ہے.اسلام کی اشاعت کو وہ ہر مسلمان کا بنیادی فرض تصور کرتے ہیں.ربوہ میں باقاعدہ ایک مشنری کا لج (جامعہ احمدیہ) ہے جو بیرونی ممالک کے لئے مبلغین تیار کرتا ہے اور اسی طرح بیرونی ممالک سے آنے والے نو سامری کو اسلامی علوم سے بہرہ ور کرتا ہے.بیرونی مشنوں کو کنٹرول کرنے والا دفتر نشر و اشاعت کے میدان میں بھی انتہائی طور پر سرگرم واقع ہوا ہے.انگریزی ماہنامہ " دی ریویو آف ریلیجنز کے علاوہ جیسے اس کے باقاعدہ اور مستقل آرگن کی حیثیت حاصل ہے، یہ اس قدر کثیر تعداد میں کہتا ہیں' چھوٹے چھوٹے رسالے اور پمفلٹ شائع کرتا ہے کہ نہیں دیکھ کر حیرت آتی ہے.یہ تمام لٹریچر اسلامی دنیا اور غیر اسلامی دنیا دونوں کے نقطۂ نظر سے شائع کیا جاتا ہے اور مقصد اس کی اشاعت سے یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو احمدیت کا حلقہ بگوش بنایا جائے“ احمدیوں کا یہ مطمع نظر کہ وہ مغرب کی عیسائی دنیا کو اپنے مخصوص اسلام کا حلقہ بگوش بنا کر ہی دم لیں گے بظاہر ایک دیوانے کی بڑ نظر آتا ہے.مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی تنظیم جس کا مرکز پاکستان میں ہے اور جو اپنے محدود وسائل سے کام لے کر مغرب کے متمول اور ذی ثروت ممالک میں تبلیغ اسلام کی انتہائی گراں بار ذمہ داری کو نبھانے میں کوشاں ہے اس کی اس قسم کی توقعات بط ہر مایوس کن دکھائی دیتی ہیں.بایں ہمہ یہ اس زیر دست یقین اور جذبہ و جوش کی آئینہ دار ضرور ہیں، جس سے یہ لوگ مالامال ہیں.اس مقصد کے حصول میں ابھی انہیں ایک معتدل حد تک کامیابی ہوئی ہے اور وہ یہ کہ دنیا کے مختلف حصوں میں ان کے تبلیغی مراکز قائم ہو چکے ہیں.امریکہ کے علاوہ یورپ میں بھی انگلستان، فرانس، اٹلی ، سپین ، ہالینڈ، جرمنی ، ناروے اور سویڈن میں ان کے باقاعدہ مشن ہیں.جنوبی امریکہ کے ممالک میں سے یہ لوگ ٹرینیڈاڈ ، برازیل اور کا ٹاریکا میں موجود ہیں.اسی طرح ایشیائی ممالک میں سے سیلون ، برطا ، ملایا ، فلپائن، انڈونیشیا، ایران ، عراق اور شام میں بھی ان کے مبلغ مصروف کار ہیں.افریقی ممالک میں سے عصرا زنجباً نٹال، سیرالیون ، گھانا، نائیجیریا، مراکش اور ماریشس میں بھی ان کی جماعتیں قائم ہیں.

Page 179

۱۴۵ "سیرالیون کی نئی جمہوریہ مغربی افریقہ میں احمدیہ تحریک کے لئے ایک منتخب خطہ کی حیثیت رکھتی ہے اپنے پاکستانی مرکز کی رہنمائی میں اس کشریک نے اس چھوٹی سی مملکت کے اندر خاصا اثر و نفوذ اصل کر لیا ہے.احمدیت اپنے آپ کو زمانہ جدید کی ایک اسلامی تحریک کے طور پر پیش کرتی ہے اور اس امر کی دعویدار ہے کہ وہ دنیا کے ہر حصے میں نبرد آزما ہوتے ہوئے اسلام کے ایک نئے علمبردار کی حیثیت رکھتی ہے.یہ فیصلہ کرنا کہ اب تک اس تحریک میں کتنے لوگ داخل ہوچکے ہیں ہمشکل ہے.تاہم احمدیوں کے اپنے اندازہ کے مطابق پاکستان اور ہندوستان میں ہی اُن کی تعدا.پانچ لاکھ سے زیادہ ہے.ایک مذہبی فرقے کے لئے بلحاظ تعداد اس کے افراد کا کم ہونا یا اس کے معتقدات کی مخصوص نوعیت جو دوسروں کے لئے پورے طور پر قابل فہم نہ ہو، نقصان کا موجب نہیں ہوا کرتی.ایسے فرقے صدیوں تک زمانے کے حالات سے نبرد آزما رہنے کے انداز سے بہرہ ور ہوتے ہیں.مذاہب کی تاریخ ایسے چھوٹے چھوٹے فرقوں کی مثالوں سے بھری ہوئی ہے جنہوں نے زمانہ کے اتار چڑھاؤ اور اکثریت کے دباؤ کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی ہستی کو بر قرار رکھا.اس بات کا امکان ہے کہ احمد میت بھی مستقبل میں اس طرح نمایاں طور پر پھلے پھو نے.ایک ایسے وقت میں جبکہ اسلامی دنیا مغرب کی لا دینی ثقافت کے زیبا تہ آجانے کے باعث ادھر اُدھر بھٹک رہی ہے.احمدیوں کا دعویٰ یہ ہے کہ اُن کی تحریک اسلام کو اس طور سے پیش کرتی ہے کہ جو دنیائے جدید کے تقاضوں کے عین مطابق ہے.پھر وہ اسلام کی آخری فتح کے بارے میں نہایت درجہ پر اعتماد ہیں.ایسی صورت میں احمدیت اُن نئی نسلوں کے لئے دلکش اور جاذب نظر ثابت ہو سکتی ہے جو اصلاح حال کے پیش نظر نئے انداز فکر کی تلاش میں سرگردان ہیں.“ (ترجمہ) له گیمبیا کے ایک اخبار دی وین گارڈ" ( VAN اخبار دی وین گارڈ گیمبیا ) نے اپنے ایک اوریہ میں لکھا :-..GUARD ) THE اس فرقہ کے بانی حضرت مرزا غلام احمد صاحب علیہ السلام ) نے اس فرقہ کی بنیاد قادیان میں لے بحوالہ ماہنامہ " انصار الله " بابت ماہ فروری ۱۹۶۲ و صفحه ۴۲ - ۴۴ به

Page 180

104 ۱۸۸۹ء میں رکھی تھی اس وقت سے لیکر اب تک یہ فرقہ ساری دنیا میں پھیل چکا ہے اور اسلام کی ترقی کے لئے تبلیغی اور تعلیمی کوششوں میں پہلے سے بہت زیادہ مصروف ہے “ اپنے گھر کے پاس نگاہ دوڑا کر دیکھئے.سیرالیون ، غانا اور نائیجیریا میں یہ فرقہ مضبوطی کے ساتھ قائم ہو چکا ہے جہاں اس کے تعلیمی ادارے باقاعدگی کے ساتھ ہزاروں مسلمانوں کو انگریزی اور عربی کی تعلیم دے رہے ہیں " سے کتاب مذهبی تحریکات ہند کے مؤلف مسٹرایم جے آغا، مسٹرایم جے آغا آن جنجہ مشرقی افریق آنا ( M.J.AGHA ) آف پنجہ مشرقی افریقہ لکھتے ہیں احمدی جماعت کے موجودہ سربراہ میاں محمود صاحب نے دیگر ممالک میں بھی مشن قائم کئے.اور احمدی مخلصین نے غیر ممالک میں اشاعت اسلام کے نام پر دل کھول کو مالی قربانیاں پیش کیں جس کا تیجہ یہ ہوا کہ جماعت نے اپنی تبلیغی سرگرمیاں تیز تر کر دیں.چنانچہ گذشتہ پچاس سال کے عرصہ میں دنیا کے مختلف ممالک میں ان کے مشن عیسائی مبلغین کے مقابلے میں محدود ذرائع کے باو جودا اچھا کام کر رہے ہیں.ان کے مقابلے میں اہلسنت والجماعت کے لوگ سواد اعظم کی حیثیت سے پچاس کروڑ کی تعد اد میں ہیں، وسیع ذرائع اور وسائل کے باوجود ان کے دل میں تبلیغ اسلام کا کبھی خیال نہیں آیا " مسٹر ایم جے آنا تحریک جدید کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :.اس شعبہ میں ایسے تعلیم یافتہ نوجوان شامل ہیں جو مروجہ علوم کے علاوہ دینی تعلیم کی بھی واقفیت رکھتے ہیں اور مغربی ممالک میں عیسائیت کے مقابلے میں اسلام کو بحیثیت دین پیش کرتے ہیں.واقعی یہ بڑا کٹھی اور صبر آزما کام ہے جس کے لئے جانی اور مالی قربانیوں کی ضرورت ہے.لیکن احمدی لوگ بڑی توجیہ اور جذبہ کے ساتھ اس فریضہ کی ادائیگی میں حصہ لیتے ہیں جیسی سے بیرونی ممالک میں مسجدیں ، مدر سے اور تبلیغی مرکز قائم کئے جاتے ہیں اور قر آن مجید کے تراجم مختلف زبانوں میں شائع کر کے تقسیم کئے جاتے ہیں.عیسائی مبلغین کے مقابلے میں احد یہ فرقہ کی تبلیغی مہماعی قابل داد ہیں کیونکہ ان کے ذرائع عیسائیوں کے مقابلے میں بہت کم اور بالکل محدود ہیں مسلمانوں میں سوائے مصری اور چند ایک دیگر تبلیغی جماعتیں شاد بجوانه رساله " تحریک جدید " بابت مستمبر ۱۹۶۵ء صفحه ۱۴ +

Page 181

۱۴۷ کے اشاعت اسلام کا کام بہت کم ادارے انجام دے رہے ہیں اور جو کہ رہے ہیں.ان میں اسیری جماعت پلیش پلیش ہے" لے مدیر ہفت روزہ " المنبر لائل پور لکھتے ہیں :- اختبار المنبر لائل پور پہلا اقتباس تحریک جدید نام ہے ایک نظم جد وجہد کا جوآج سے اٹھائیس سال پہلے مرزامحمود احمد صاحب نے قادیان سے شروع کی تھی.اس تحریک کے پہلے سال پنجاب میں تین اہم مراکز قائم کئے تھے جن میں قادیانی وکلاء ، ڈاکٹر ، علماء، طبیب اور عام کاروباری حضرات ہفتے اور نہینے وقف کر کے مسلمانوں کو قادیانی بنانے کی سر توڑ کوشش کیا کرتے تھے.یہ تحریک ابتداء ایک محدود مدت کے لئے شروع ہوئی تھی جب اس کے ۹ یا ۱۰ برس ختم ہو گئے تو مرزا محمود صاحب نے اعلان کر دیا کہ اب یہ تحریک دائمی ہوگی چنانچہ اب اٹھائیسویں برس کا افتتاح ربوہ میں جماعت انصار اللہ کے اجتماع میں کیا گیا.اس تحریک کے تحت پاکستان ، ہندوستان ، جرمنی ، افریقہ اور دوسرے مسلم و غیر مسلم ممالک میں قادیانی مراکز قائم ہیں اور وہ رات دن اس کوشش میں مصروف ہیں کہ عیسائیوں ، مسلمانوں اور دوسری اقوام کو قادیانی بنائیں.یہ لوگ اس کام کے لئے زندگیاں وقف کرتے ہیں.اپنی اولادیں وقف کرتے ہیں.کتابیں چھاپتے ہیں.ٹریکٹ شائع کرتے ہیں.جلسے کرتے ہیں.قریہ قریہ بستی بستی گھوم پھر کو قادیانیت کی تبلیغ کرتے ہیں.ہیں ذاتی طور پر علم ہے کہ سر میں جب ہائیکورٹ میں پنجاب کے فسادات کی انکوائری ہو رہی تھی تو مامان جماعتیں اور افراد قادیانیوں کوغیرمسلم اقلیت ثابت کرنے کے لئے مرزا غلام احمدصاحب کی کتابیں تخلیفہ محمود صاحب کی تحریروں سے قادیانیوں کے غیر مسلم اقلیت ہونے کے ثبوت پیش کر رہے تھے.ٹھیک انہی دنوں قادیانی جماعت کے دفتہ دار حضرات نے ہائیکورٹ اور انکوائری عدالت کے سربراہ جسٹس محمد منیر صاحب اور اس وقت کے گورنر جنرل مسٹر غلام محمد مرحوم کی خدمت میں قر آن مجید کا ے مذہبی تحریکات ہند" شائع کردہ پاکستان ایسوسی ایشن پوسٹ کس ۱۳ نیروبی کیفیا- انجمن اسلامیہ دارالسلام - انجمن حمایت اسلام نیروبی ( تاریخ اشاعت دسمبر (1) پاکستان میں یہ کتاب تبلیغی مرکز ریلوے روڈ سے مل سکتی ہے ؟

Page 182

۱۴۸ جرمنی یا ڈچ ترجمہ پیش کیا تھا جو اس زمانہ میں شائع ہوا تھا اور اس بناء پر مسٹر محمد منیر صاحب بار بار مسلمانوں کے نمائندوں سے سوال کیا کرتے کہ آپ لوگوں نے قرآن مجید کے کتنے تراجم غیر ملکی زبانوں میں کئے ہیں.اور آپ کا نظم غیرمسلم اقوام کو اسلام سے آشنا کرنے کے لئے کیا کچھ کو رہا ہے ؟ یہ ٹھیک ہے کہ قادیانی حضرات پر اسپیگنڈے کے بڑے ماہر ہیں.یہ بھی درست ہے کہ مرزا غلام احمد سے قادیان کے وکیل المال تک ہر شخص مبالغے سے اپنی کوششوں کا ذکر کرتا ہے اور یہ بھی واقعہ ہے که قادیانی جماعت کا اندرونی نظم شدید انتشار کا شکار ہے.لیکن کیا اس سچی حقیقت کا انکار ممکن ہے که قادیانی جماعت کا بجٹ لاکھوں کا ہوتا ہے اور ابھی جو آپ نے ملاحظہ کیا کہ ربوہ میں انصار اللہ کے اجتماع میں چند گھنٹوں میں ۸۸۱۹۱ کی خطیر رقم کے وعدے ہوئے اور یہ ساری رقم صرف ہوگی عیسائیوں اور مسلمانوں کو قادیانی بنانے پر.آپ کہ سکتے ہیں کہ تبلیغی جماعت ہر سال سینکڑوں افراد کو غیر مسلم مالک میں بھیجتی ہے اور ابھی جیتے اسلامی کے سربراہ کار مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب نے افریقہ جانے کا عزم ظاہر کیا تھا مگر حکومت نے انہیں جانے کی اجازت نہ دی.یہ ٹھیک ہے کہ ایسا ہوا لیکن ذرا سوچیے ! اس ملک میں مسلمانوں کی تعداد سوا آٹھ کروڑ.اور قادیانیوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ دو تین لاکھ ہوگی.اگر اس جماعت کے شعبہ کے لئے چند گھنٹوں میں نوے ہزار کے قریب روپے کے وعدے ہو جاتے ہیں تو اس کے بالمقابل دوسوگنا اکثریت کا بجٹ اشاعت اور دعوت اسلام کے لئے کتنا ہونا اپنے اور یہ واضح رہے کہ یہ بجٹ صرف تحریک بعدید کا ہے.قادیانیوں کی مرکزی جماعت کا بجٹ تقریباً لاکھ روپے کا ہوتا ہے “ سے (دوسرا اقتباس) قبل ازیں مدیر المنیر ایک اور اشاعت میں لکھتے ہیں :- " قادیانیت میں نفع رسانی کے جو جو ہر موجود ہیں ان میں اولین اہمیت اس جدو جہد کو حاصل ہے جو اسلام کے نام پر وہ غیر مسلم ممالک میں جاری رکھے ہوئے ہیں.یہ لوگ قرآن مجید کو غیر ملکی زبانوں میں پیش کرتے ہیں.تثلیث کو باطل ثابت کرتے ہیں.سید المرسلین کی سیرت طیبہ کو پیش کرتے ہیں.ان ممالک میں مساجد بنواتے ہیں اور جہاں کہیں ممکن ہو اسلام کو امن و سلامتی کے مذہب کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں " " لے ہفت روزه " المنبر " لائلپور ۲۳ نومبر ۹۶ از صفحه 11 و ه " المنير" لائلپور ۲ مارچ ۰۶۱۹۵۶

Page 183

۱۴۹ تیسرا اقتباس) مدیہ المنبر" مزید لکھتے ہیں : تحریک جدید حبس کا آغاز ۳ نہ میں اس سے ہوا تھا کہ مرزا محمود نے ساڑھے ستائیس ہزار روپے (تقریباً 9 ہزار سالانہ ) کا مطالبہ جماعت سے کیا تھا.اس کے جواب میں قادیانی امت نے تین سال کے عرصے میں تین لاکھ ترین ہزار روپے پیش کئے.ابتداء میں یہ تحریک دس سال کے لئے تھی براہ میں مزید نو سال کے لئے اس تحریک کو وسیع کر دیا گیا.لیکن انہ میں جب " اینٹی قادیانی تحریک " کا دور بیت چکا تو مرزا محمود نے نئے ولولوں کے ساتھ اعلان کیا ” میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں تحریک جدید کو اس وقت تک جاری رکھوں گا جب تک تمہارا سانس قائم ہے" المصلح اور نومبر.چنانچہ اس تحریک کا گذشتہ سال کا بیٹ اڑتیس لاکھ روپے سے بھی زائد ہے.اس تحریک میں چندہ دینے والوں کی تعداد بائیس ہزار کے قریب ہے جو مستقل سالانہ چند ادا کرتے ہیں اور خواہ کتنے ہنگامی اور وقتی چندے انہیں دینا پڑیں تحریک جدید کا چندہ اس سے متاثر نہیں ہوتا اس تحریک میں فی کس چندہ کی مقدار میں تمیں سے سو ڈیڑھ سو روپے تک سالانہ ہے " کہ (چوتھا اقتباس، یہی اخبار لکھتا ہے کہ : " قادیانی مالیاتی نظام تین حصوں پر مشتمل ہے.1- وقتی اور ہنگامی چندے مستقل چندے وقت بھاندا دیں - وقتی اور ہنگامی چندوں کا سلسلہ لامتناہی اور طویل سے طویل تر ہے.مساجد کی تعمیر، مختلف ممالک کے دار التبلیغ ، کسی خاص سفر کے لئے چندہ کسی ملکی مسئلے کے لئے خاص فنڈ ، بعض تعلیمی اسکیموں کے لیئے خاص رقوم ، تراجم قرآن مجید کے نام پر اپیل ، الغرض ہر مسئلہ ، ہر عنوان پر تحریک ہوتی ہے.اور جماعت اس پر لبیک کہتی ہے.ان وقتی چندوں کی مقدار چند ہزار سے لاکھوں تک ہوتی ہے اور یہ تحریکات تقریباً سال بھر کسی نہ کسی عنوان سے بھاری رہتی ہیں.ایک ختم تو دوسری شروع ، دوسری جاری ہے تو تمسیری کا آغاز ، اس سے ہفت روزہ " المنبر" لائل پور در اگست ۱۹۷۷ء صفحه ۸ *

Page 184

۱۵۰ ضمن میں یہ بات خصوصیت سے قابل ذکر ہے کہ مرزا محمود آنجہانی نے جو نفسیاتی محرکات ان تحریکات کے لئے تجویز کئے وہ بے حد کامیاب رہے.مثلاً کسی ملک کی مسجد کے لئے اعلان کر دیا کہ اس کا تمام بار صرف عورتوں پر پڑے گا.اور بعض اوقات تین چار لاکھ کی رقم سب کی سب عورتوں نے مہیا کی.بعض تحریکات صرف کسانوں اور زمینداروں کے لئے ، بعض مالی مطالبات صرفت تاجروں سے، اور بعض کا تقاضا صرفت ملازمین سے وغیرہ " یہ ہے وہ نظام تحریک جدید جس کا آغاز احراری مخالفت کے تیز و تند طوفانوں میں ایک نہایت کمزور سے بیچ کی شکل میں ہوا.اور جو اب خدا کے فضل و کرم سے ایک تناور درخت بن چکا ہے اور جس کی شاخیں نہایت تیزی سے دنیا کے کناروں تک پھیلتی نظر آرہی ہیں.حق جوئی کے پرندے اس کے سائے تلے آرام کرتے اور اس کے شیریں اثمار سے مستفید ہو رہے ہیں.پہلے سلطنت برطانیہ کے متعلق کہا جاتا تھا کہ اس پر سورج غروب نہیں ہوتا مگر اب جماعت احمدیہ بھی خدا کے فضل سے مشرق و مغرب کے دُور دراز علاقوں میں پھیل رہی ہے اور اب اس کے متعلق بھی ہم کہ سکتے ہیں کہ جماعت احمدیہ پر سُورج غروب نہیں ہوتا.وذالك فضل الله يؤتيه من يشاء فالحمد لله على ذالك - تحریک جدید کے ان حیرت انگیز نتائج کے باوجود ہمیں یہ ایک اور تحریک بدید دائمی قربانیوں تر کی کہتے ہیں ذرہ بھر تامل نہیں کہ اس وقت تک جو کچھ بھی انجام پاچکا ہے وہ ایک خوشکن بنیاد سے بڑھ کر کوئی حیثیت نہیں رکھتا کیونکہ جیسا کہ سید نا حضرت مصلح موعود نے ایک بار فرمایا تھا Q ہے ساعت سعد آئی اسلام کی جنگوں کی آغاز تو میں کردوں انحہ مام خدا جانے بھی ان کوششوں سے کفر و اسلام کی بیٹنگ کا آغاز ہوا ہے اور دنیا کو روحانی طور پر فتح کرنے کے لئے جماعت کو بے شمار قربانیاں پیش کرنا مقدر ہے ہیں کہ حضرت خلیفہ ایسی الثانی نے شروع ہی سے جماعت کو اس حقیقت سے بخوبی آگاہ کر دیا تھا.چنانچہ حضور نے فرمایا :- : ہفت روزہ "المنیر لائلپور ا ا ا گست ۹۶ صفحه ۷

Page 185

ادا اس تحریک کی عرض عارضی نہیں ہے وہ وقت آرہا ہے جب ہمیں ساری دنیا کے دشمنوں سے لڑنا پڑیگا.دنیا سے میری مراد یہ نہیں کہ ہر فرد سے لڑنا پڑے گا کیونکہ ہر قوم اور ہر ملک میں شریف لوگ بھی ہوتے ہیں.میرا مطلب یہ ہے کہ تمام ممالک میں ہمارے لئے رستے بند کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں.اس ہماری جنگ ہندوستان تک محدود نہ رہے گی بلکہ دوسرے ملکوں میں بھی ہمیں اپنے پیدا کرنے والے اور حقیقی بادشاہ کی طرف سے جنگ کرنی ہوگی.اگر تو احمدیت کوئی سوسائٹی ہوتی.تو ہم یہ کہ کر معلمئن ہو سکتے تھے کہ ہم اپنے حلقہ اثر کو محدود کر لیں گے اور جہاں جہاں احمدی ہیں وہ سمٹ کر بیٹھ جائیں گے مگر مشکل یہ ہے کہ ہمیں اللہ تعالے کی طرف سے حکم ہے کہ جو بات اس کی طرف سے آئی ہے اُسے ساری دنیا میں پہنچائیں اور ہم نے اُسے پہنچانا ہے.ہمارا پروگرام وہ نہیں جو ہم خود تجویز کریں بلکہ ہمارا پروگرام ہمارے پیدا کرنے والے نے بنایا ہے پھر فرمایا : La " تحریک جدید تو ایک قطرہ ہے اس سمندر کا جو قربانیوں کا تمہارے سامنے آنے والا ہے جو شخص قطرہ سے ڈرتا ہے وہ سمندر میں کپ کو دے گا “ سے جماعت کو انتباہ اسی طرح حضور نے جماعت کے مین کو تنبیہ کرتے ہوئے واضح لفظوں میں بتایا کہ : → جس دن ہم میں وہ لوگ پیدا ہو گئے جنہوں نے کہا دو یہ اول بھی گزر گیا ، دور دوم بھی گزر گیا، دور سوم بھی گزر گیا ، دور چهارم بھی گزر گیا ، دور پنجم بھی گزر گیا ، دور ششم بھی گزر گیا ، دور هفتم بھی گزر گیا ، اب ہم کب تک اس قسم کی قربانیاں کرتے چلے جائیں گے آخر کہیں نہ کہیں اس کو ختم بھی تو کرنا چاہیئے.وہ اقرار ہو گا ان لوگوں کا کہ اب ہماری روحانیت سرد ہو چکی ہے اور ہمار سے ایمان کمزور ہو گئے ہیں " کیا ہم تو امید رکھتے ہیں کہ تحریک جدید کے یہ دور غیر محدود دو کہ ہوں گے اور جس طرح آسمان کے ستارے گنتے نہیں بجاتے اسی طرح تحریک تجدید کے دور بھی نہیں گنے جائیں گے جس طرح اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم سے کہا کہ تیری نسل گئی نہیں جائے گی اور حضرت ابراہیم کی نسل نے دین کا بہت " الفصل " دسمبر ٣٥ امید صفحه ۳ کالم ۲." الفضل " جولائی ۱۹۳۷ صفر ۱۰ کالم 1

Page 186

۱۵۲ کام کیا یہی حال تحریک جدید کا ہے.تحریک جدید کا دور چونکہ آدمیوں کا نہیں بلکہ دین کے لئے قربانی کرنے کے سامانوں کا مجموعہ ہے.اس لئے اس کے دور بھی اگر نہ گھنے بائیں تو یہ ایک عظیم الشان بنیاد اسلام اور احمدیت کی مضبوطی کی ہوگی “ لے حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے محض اسی پر اکتفا نہیں کی بلکہ آپ نے قربانیوں کی ابدی ضرور ت پر دائی قربانیوں کی اہمیت نمایاں کرتے ہوئے یہانتک فرمایا کہ :- حر امیرالمومنین کا پر شوکت فرمان یہ یاد رکھو کہ آم کی زیادتی کے ہرگز یہ معنی نہیں کہ کسی وقت تم اپنے چندوں سے آزاد ہو جاؤ گے.یا کوئی وقت جماعت پر ایسا بھی آئے گا جب تم سے قربانی کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا.میں ایک انسان ہوں اور آخر ایک دن ایسا آئیگا جب میں مر جاؤں گا اور پھر اور لوگ اس جماعت کے مخلفاء ہوں گے.میں نہیں جانتا اس وقت کیا حالات ہوں گے اس لئے ابھی سے تم کو نصیحت کرتا ہوں تا کہ تمہیں اور تمہاری اولادوں کو ٹھوکر نہ لگے.اگر کوئی خلیفہ ایسا آیا میں نے سمجھ لیا کہ جماعت کو زمینوں سے اس قدر آمد ہو رہی ہے ، تجارتوں سے اس قدر آمد ہو رہی ہے ، صنعت و حرفت سے اس قدر آمد ہو رہی ہے تو پھر اب جماعت سے کسی اور قربانی کی کیا ضرورت ہے.اس قدر روپیہ آنے کے بعد ضروری ہے کہ جماعت کی مالی قربانیوں میں کمی کر دی جائے تو تم یہ سمجھ لو وہ خلیفہ خلیفہ نہیں ہو گا بلکہ اس کے یہ معنیٰ ہوں گے کہ خلافت ختم ہو گئی اور کوئی اسلام کا دشمن پیدا ہو گیا جس دن تمہاری تسلی اس بات پر ہو جائے گی کہ رو پیر آنے لگ گیا ہے اب قربانی کی کیا ضرورت ہے.اس دن تم سمجھ لو کہ جماعت کی ترقی بھی ختم ہوگئی.میں نے بتایا ہے کہ جماعت روپیہ سے نہیں بنتی بلکہ آدمیوں سے بنتی ہے اور آدمی بغیر قربانی کے تیار نہیں ہو سکتے.اگر دس ارب روپیہ آنا شروع ہو جائے تب بھی ضروری ہوگا کہ ہر زمانہ میں جاتا سے اس طرح قربانیوں کا مطالبہ کیا جائے جس طرح آج کیا جاتا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ کیا بھائے.کیونکہ ابھی بڑی بڑی قربانیاں جماعت کے سامنے نہیں آئیں.نہیں چاہیے کہ اگر ایک ارب پونڈ خزانہ میں آجائے تب بھی خلیفہ وقت کا فرض ہوگا کہ ایک غریب کی جیب سے جس میں ایک پیسہ ہے دین کے لئے پیسہ نکال ہے اور ایک امیر کی جیب میں سے جس میں دس ہزار روپیہ موجود ہے دین کے لئے دس ہزار نکالے کیونکہ اس کے بغیر دل صاف نہیں ہو سکتے.اور " الفضل بیکم مارچ ۱۹۴۶ء صفحه ۳ کالم " خطبه بعد فرموده ۲۲ فروری ۶۱۹۳۵ )

Page 187

۱۵۳ بغیر دل صاف ہونے کے جماعت نہیں بنتی اور بغیر جماعت کے بننے کے خدا تعالیٰ کی رحمت اور برکت نازل نہیں ہوتی.وہ روپیہ جو بغیر دل صاف ہونے کے آئے وہ انسان کے لئے رحمت نہیں بلکہ لعنت کا موجب ہوتا ہے.وہی روپیہ رحمت کا موجب ہو سکتا ہے میں کے ساتھ انسان کا دل بھی صاف ہو اور دنیوی آلائشوں سے مبرا ہو.پس مت سمجھو کہ اگر کثرت سے روپیہ آنے لگا تو تم قربانیوں سے آزاد ہو جاؤ گے.اگر کثرت سے روپیہ آگیا تو ہمارے ذمہ کام بھی تو بہت بڑا ہے.اس کے لئے اربوں روپیہ کی ضرورت ہے.بلکہ اگر اریوں ارب روپیہ اجائے تو پھر بھی یہ کام ختم نہیں ہو سکتا.روپیہ ختم ہو سکتا ہے مگر یہ کام ہمیشہ بڑھتا چلا جائے گا.پس کسی وقت ہیجماعت میں اس احساس کا پیدا ہو نا کہ اب کثرت سے روپیہ آنا شروع ہو گیا ہے قربانیوں کی کیا ضرورت ہے ، اب چندے کم کر دیئے جائیں اس سے زیادہ کسی جماعت کی موت کی اور کوئی علامت نہیں ہو سکتی.یہ ایسا ہی ہے کہ کوئی شخص اپنی موت کے فتوے پر دستخط کر دے پس مت سمجھو کہ ان زمینوں اور بھائیدادوں وغیرہ کی آمد کے بعد چندے کم کر دیئے بھائیں گے.اگریه رو پید ہماری ضرورت کے لئے کافی ہو جائے تب پھر تمہارے اندر ایمان پیدا کرنے کے لئے تمہارے اندر اخلاص پیدا کرنے کے لئے، تمہارے اندر زندگی پیدا کرنے کے لئے، تمہارے اندر روحانیت پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ تم سے قربانیوں کا مطالبہ کیا جائے اور ہمیشہ اور ہر آن کیا جائے اگر قربانیوں کا مطالبہ ترک کر دیا جائے تو یہ تم پر فسلم ہو گا ، یہ سلسلہ پرظلم ہوگا.یہ تقویٰ اور ایمان پر علم ہوگا " ہے حضور نے نہ صرف جماعت کو قربانی کی طرف متوجہ کیا بلکہ آئندہ آنے والے خلفاء کو : خلفاء کو وصیت وصیت فرمائی کہ - جب تک دنیا کے چپہ چپہ میں اسلام نہ پھیل جائے اور دنیا کے تمام لوگ اسلام قبول نہ کرلیں اُس وقت تک اسلام کی تبلیغ میں وہ کبھی کو تا ہی سے کام نہ لیں خصوصاً اپنی اولاد کو میری یہ وصیت ہے کہ وہ قیامت تک اسلام کے جھنڈے کو بلند رکھیں اور اپنی اولاد در اولاد کو نصیحت کرتے لے" الفضل" ۷ را پریل ۱۹۴۷ صفحه ۷ کالم ۰۳

Page 188

۱۵۴ چلے جائیں کہ انہوں نے اسلام کی تبلیغ کو کبھی نہیں چھوڑنا اور مرتے دم تک اسلام کے بھنڈ سے کوبلند رکھتا ہے" سے تحریک جدید کا شاندار مستقبل اسای کایا گیاکر ایک بڑا بحر ذخار کی طرح دریا ہے جوسانپ کی طرح پیچ کھاتا ہو مشرشر له کو جا رہا ہے اور پھر دیکھتے دیکھتے سمت بدل کر مشرق سے مغرب کو الٹا بہنے لگا ہے" سے یہ در اصل اس عظیم الشان روحانی انقلاب کا ایک منظر ہے جومستقبل میں جلد یا بدیر تحریک جدید کے ذریعہ سے ا رونما ہونے والا ہے اور جس کے نتیجہ میں تحریک جدید کی پانچ ہزاری فوج کا لاکھوں تک پہنچنا اور پھر دنیا کے مغربی نالی کی جگہ اسلام کے نظام نو کی تعمیر مقدر ہے.چنانچہ حضرت خلیفہ ایسیح الثانی نے ایک بار بالصراحت فرمایا تھا.جب ہم نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ ہم محمدرسول اللہ صل اللہ علیہ سلم کے نام کو دنیا میں پھیلائیں گے اور اسلام کے بھلال اور اس کی نشان کے اظہار کے لئے اپنی ہر چیز قربان کردیں گے تو ہمیں ان تبلیغی سکیموں کے لئے جس قدرہ روپیہ کی ضرورت ہوگی اس کو پورا کرنا بھی ہماری جماعت کا ہی فرض ہے حقیقت یہ ہے کہ ساری دنیا میں صحیح طور پر تبلیغ اسلام کرنے کے لئے ہمیں لاکھوں مبلغوں اور کروڑوں روپیہ کی ضرورت ہے جب میں رات کو اپنے بستر پر لیٹتا ہوں تو کیسا اوقات سارے جہان میں تبلیغ کو وسیع کرنے کے لئے میں مختلف رنگوں میں اندازے لگاتا ہوں کبھی کہتا ہوں ہمیں اتنے مبلغ چاہئیں اور کبھی کہتا ہوں اتنے مبلغوں سے کام نہیں بن سکتا اس سے بھی زیادہ مبلغ چاہئیں.یہانتک کہ بعض دفعہ میں نہیں لاکھ تک مبلغین کی تعداد پہنچا کہ میں سو جایا کرتا ہوں.میرے اس وقت کے خیالات کو اگر دیکار ڈ کیا جائے تو شاید دنیا یہ خیال کرنے کہ سب سے بڑا شیخ چلتی میں ہوں.مگر مجھے اپنے خیالات اور اندازوں میں اتنا مزہ آتا ہے کہ سارے دن کی کوفت دور ہو جاتی ہے.میں کبھی سوچتا ہوں کر پا نچ ہزار ملتے کافی ہوں گے پھر کہتا ہوں پانچ ہزار سے کیا بن سکتا ہے دس ہزار کی ضرورت ہے.پھر کہتا ہوں دس ہزار بھی کچھ چیز نہیں جاوا میں اتنے مبلغوں کی ضرورت ہے ، سماٹرا میں اتنے مبلغوں کی ضرورت ہے ، چین اور جاپان میں اتنے مبلغوں کی ضرورت ہے.پھر میں ہر ملک کی آبادی کا حساب لگاتا ہوں اور پھر کہتا ہوں یہ مبلغ بھی تھوڑے ہیں اس سے بھی زیادہ مبلغوں کی ضرورت ہے یہاں تک کہ بیں ہیں لاکھ تک مبلغوں کی تعداد پہنچ جاتی ہے.اپنے ان مزے کی گھڑیوں میں میں نے ہمیں میں لاکھ مبلغ تجویز کیا ہے.دنیا کے نے دیک ل الفضل "ما فروری ماره صفحه ۲ بد سے " الحکم " ، ار ا پریل ۳ صفحه ، سنا کر تا طبع دوم |

Page 189

۱۵۵ میرسے یہ خیالات ایک واہمہ سے بڑھ کر کوئی حقیقت نہیں رکھتے مگر اللہ تعالے کا یہ قانون ہے کہ جو چیز ایک دفعہ پیدا ہو جائے وہ مرتی نہیں جب تک اپنے مقصد کو پورا نہ کرے.لوگ بیشک مجھے شیخ چلی کہہ لیں مگر میں بھانتا ہوں کہ میرے ان خیالات کا خدا تعالے کی پید کردہ فضا میں ریکار ڈ ہوتا پہلا جا رہا ہے اور وہ دن دور نہیں جب اللہ تعالیٰ میرے ان خیالات کو عملی رنگ میں پورا کرنا شروع کر دے گا.آج نہیں تو آج سے ساٹھ یا سو سال کے بعد اگر خدا تعالے کا کوئی بندہ ایسا ہوا جو میرے ان ریکارڈوں کو پڑھ سکا اور اُسے توفیق ہوئی تو وہ ایک لاکھ مبلغ تیار کر دے گا.پھر اللہ پہلے کسی اور بندے کو کھڑا کر دے گا جو مبلغوں کی دو لاکھ تک پہنچا دے گا.پھر کوئی اور بندہ کھڑا ہو جائے گا جو میرے اس ریکارڈ کو دیکھ کر مبلغوں کو تین لاکھ تک پہنچا دے گا.اس طرح قدم بقدم اللہ تعالے وہ وقت بھی لے آئے گا جب ساری دنیا میں ہمارے بین لاکھ مبلغ کام کر رہے ہوں گے.اللہ تعالیٰ کے حضور ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے.اس سے پہلے کسی چیز کے متعلق امید رکھنا بے وقوفی ہوتی ہے.میرے یہ خیال بھی اب ریکارڈ میں محفوظ ہو چکے ہیں اور زمانہ سے میٹ نہیں سکتے.آج نہیں تو کل اور کل نہیں تو پر یوں میرے یہ خیالات عملی شکل اختیار کرتے والے ہیں لہ "الفضل " ۲۸ اگست شششتر صفه ۶- ( تقریر فرموده ۲۸ اگست ۱۹۴۵ ه ) :

Page 190

104 دوسرا باب عراق میں شیخ احمد فرقانی کی شہاد سے لیکر سات نمبر ۹۳۵ پیر تک ۲۲ رفت ثانیہ کا بائیسوال سال رمضان المبارک ۱۳۵۳ محمد شوال ۱۳۵۴ تا جنوری ۱۹۳۵ء دسمبر ۱۹۳۵ فصل اول تحریک جدید کے کارناموں پر طائرانہ نگاہ ڈالنے کے بعد اب ہم واقعاتی ترتیب کے پیش نظر ۱۹۳۵ء کی طرف پلٹتے ہیں عراق میں شیخ احمد فرقانی کی المناک شہادت جنوری شہر کے وسط میں عراق کے ایک نہایت مخلص احمدی حضرت شیخ احمد فرقانی کا سانحہ شہادت پیش آیا جس کی اطلاع ایک احمدی عرب نوجوان الحاج عبد اللہ صاحب کی طرف سے حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی خدمت میں پہنچی.چنانچہ انہوں نے.ارتوال ۱۳۵۳ (مطابق ۱۶ جنوری ۹۳۵نہ) کو عریضہ لکھا کہ آج بغداد سے ایک خط موصول ہوا ہے جس میں لکھا ہے کہ شیخ احمد فرقانی جو عرصہ دس سال سے احمدیت کی وجہ سے مخالفین کے تاریخ احمدیت جلد ہفتم میں در اصل خلافت ثانیہ کے اکیسویں سال تک کے حالات محفوظ کئے جاچکے ہیں لیکن اس جلد کے صفحہ پر عنوان خلافت ثانیہ کا بیسواں سال درج ہونے سے رہ گیا ہے اور صفحہ ۱۵۱ سے اگر چہ اکیسویں سال کے حالات شروع ہوتے ہیں مگر عنوان میں اکیسویں سال " کی بجائے بیسواں سال لکھا گیا ہے جو سہو ہے یہ (مرتب) سے یہ نوجوان ایک لمبا عرصہ قادیان میں علم دین سیکھنے کے بعد اُن دنوں اپنے وطن میں مصروف تبلیغ تھے ؟

Page 191

۱۵۷ ظلم وستم برداشت کرتے آرہے تھے اور جن کا عراقیوں نے بائیکاٹ کو رکھا تھا، شہید کر دیئے گئے ہیں.انا للہ د انا اليهِ رَاجِعُون.آپ بغداد سے قریباً دو سو میل کے فاصلہ پر لواء کر لوک گاؤں میں بود و باش رکھتے تھے جب میں بغداد میں تھا تو وہ کئی ہفتے میرے پاس آکر رہے تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بیحد محبت اور اخلاص رکھتے تھے.حضور کے فارسی وعربی اشعار شنکر وجد میں آجاتے اور زار و قطار رونے لگتے تھے بلے حضرت امیر المونین کا سفر گورداسپور اس سال کے بہ قابل فراموش واقعات میں سے سیدنا اور اخلاص و فدائیت کے ایمان افروز منظرحضرت امیر امینی خلیفہ ربیع الثانی کے وہ دوسر ر ہیں جو حضور نے مولوی سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری کے مقدمہ میں شہادت کے لئے مارچ ۹۳۵لہ کے آخری ایام میں اختیار فرمائے تھے.ان تاریخی سفروں کے تفصیلی مالات اخبار الحکم ( قادیان کے نامہ نگار کے الفاظ میں درج ذیل کئے جاتے ہیں :- پہلا سفر : عطاء اللہ بخاری کے مقدمہ میں حضرت امیرالمومنین خلیفہ اسی ایدہ اللہ کے نام بھی بطور گواہ صفائی سمن تقسیم کیا گیا تھا جو حضور کے بلند مقام کو دیکھتے ہوئے خود ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس مقیم قادیان نے بمع انچارج صاحب چوکی قادیان تقسیم کیا.حضور کی روانگی کی خبر معلوم ہونے پر قادیان اور نواح کے احمدیوں میں اس امر کا شدید جوش موجزن تھا کہ وہ اپنے امام کے ساتھ جائیں اور انہیں اندیشہ تھا کہ منتظمین ان کو روک نہ دیں.اس لئے لوگ بار بار پوچھتے تھے کہ کیا ہم کو بجانے دیا جائے گا یا نہیں.لوگوں کے اس جوش کا احساس کرتے ہوئے ذمہ وار افسروں نے احباب محجبات کو روکنا پسند نہیں کیا.جانے والوں کی کثرت دیکھ کر نیشنل لیگ نے ۸۰۰۰ آدمیوں کے لئے سپیشل ٹرین ریزرو کرانے کا انتظام کیا.۲۳ کی صبح قادیان میں ایک غیر معمولی صبح تھی چونکہ حضرت اقدس نے موٹر کار کے ذریعہ جانا تھا اس لئے نوجوانوں کی ایک بڑی جماعت نے حضور کی کار کی حفاظت کے لئے سائیکلوں پر جانے کی خواہش کی جو منظور کر کی گئی.الفضل ۱۴ فروری ۳۵ صفحہ : حضرت احمد الفرقانی رحمہ اللہ علیہ نے مَصَائِبُ الْأَنْبِيَاءِ وَالْأَبْرَارِ عَلَى أَيْدِي السَّفَلَة والاشرارِ" کے نام سے ایک کتاب تصنیف کی تھی جو چھپ نہ سکی.اس کتاب کا ایک قیمتی اقتباس مولانا ابو العطاء صاحب نے اپنے رسالہ البشرى " ربیع الثانی شکر یو مطابق جولائی ۹۳۵لہ صفحہ ۲۶-۲۷ ) میں شائع کر دیا تھا :

Page 192

ISA سائیکلسٹوں کی پندرہ پارٹیاں ترتیب دی گئیں جو حضور کی کار کے ساتھ تھیں.ڈیڑھ سو کے قریب یہ نوجوان تھے صبح در بجے حضور کی کا رشاندار طریق سے روانہ ہوئی.بائیسکل سوار آگے اور پیچھے دائیں اور بائیں حضور کی کار کو گھیرے ہوئے تھے.سپیشل ٹرین ، بجکر ہم منٹ پر روانہ ہونے والی تھی ، ہزارہا کی تعداد میں احمدی اس وقت اسٹیشن کے اندر باہر کھڑے تھے.ہر شخص کے چہرے پر اس امر کی خوشی اور مسرت جھلک رہی تھی کہ اس کو اپنے آقا کی معیت کا شرف حاصل ہوگا.چونکہ نیشنل لیگ نے بحیثیت مجموعی گاڑی کا کرایہ ادا کر دیا تھا اور ہر محلہ کیلئے ایک خاص ٹکٹ جاری کر دیئے تھے جن پر نظارت امور عامہ کی مہر تھی اور اُن پر نمبر لکھ دیئے گئے تھے تاکہ ریلوے والوں کو مسافروں کی گنتی میں کسی قسم کی دقت نہ ہو سکے.گاڑی ٹھیک سات بج کہ ۴۵ منٹ پر روانہ ہوئی.گاڑی میں اس قدر بھیڑ تھی کہ بہت سے لوگ گورداسپو تک کھڑے کھڑے اور بہت سے اوپر تختوں پر بیٹھ کر گئے.گاڑیاں کھچا کھچ بھری ہوئی تھیں.روانگی کے وقت پر ایک کمرے میں لوگوں نے رقت سے دُعائیں کیں.الغرض دُعاؤں کے ساتھ گاڑی روانہ ہوئی.قادیان سے چل کر بٹالہ ٹیشن پر گاڑی کھڑی ہوئی.پولیس نے ریلوے لائن پر گاڑی کی حفاظت کیلئے باوردی سپاہی کھڑے کئے ہوئے تھے سٹیشن پر سب انسپکٹران پولیس کے علاوہ رائی صاحب پنڈت جواہر لال صاحب ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ خود با وردی موجود تھے.بٹالہ میں گاڑی کے انجن کا رخ تبدیل کیا گیا اور گاڑی گورداسپور روانہ ہوئی جہاں گاڑی 4 بجکر ۴۵ منٹ پر پہنچ گئی.جماعت کا یہ بے پناہ ہجوم نہایت پر امن طریق سے جلوس کی شکل میں نکلا.پہلے اس سٹرک کی طرف گیا جہاں سے حضرت اقدس نے تشریف لانا تھا.جلوس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے پرانے صحابی اور بڑے بڑے بوڑھے اور بعض تا بانا لوگ بھی موجود تھے.اُن کے اخلاص کی اس حالت کو دیکھ کر میرے دل میں ایک قسم کی رقت پیدا ہوتی تھی.اس جلوس کو سینکڑوں لوگ اپنے اپنے گھروں کی چھتوں پر چڑھ کر دیکھ رہے تھے جلوس مختلف سڑکوں سے گذر کی اس جگہ پہنچا.جہاں سے حضرت کی موٹر گذرنے والی تھی مگر افسوس ہے کہ موٹر دو چار منٹ پہلے گزرگئی.آخرش یه مبلوس چودھری شیخ محمد تصیب صاحب کی کوٹھی پر پہنچا جہاں حضرت اقدس قیام فرما تھے.ناظر صاحب ضیافت جناب میر محمد اسحاق صاحب دو دن پہلے سے بمع اپنے ایک خاص سٹاف کے یہاں

Page 193

۱۵۹ موجود تھے.ان کے انتظام نے گورداسپور میں سالانہ جلسہ کی جھلک دکھا دی.میر صاحب خاص قابلیتوں اور خوبیوں کے آدمی ہیں.انتظامی معاملات کو وہ اس حسن و خوبی سے سرانجام دیتے ہیں کہ دیکھنے والے کو معلوم ہوتا ہے کہ کام بالکل ہلکا اور آسان ہے.میر صاحب نے ان تمام مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے جو ایسے موقعوں پر اور ایسی معاندانہ حالتوں میں پیش آجایا کرتی ہیں ، سارا سامان لنگر بخانہ قادیان سے گورداسپور بھجوا دیا تھا.اشتی دیگیں اور سینکڑوں بالٹیاں ، لوٹے، آبخورے، چٹائیاں ، تھالیاں ، پیالے، رکا بیان رکابیاں نیمیں ، پانی کے حمام ، الغرض ہر قسم کا سامان با فراط مہیا کر دیا گیا تھا.کوٹھی کے وسیع میدان میں دریاں اور چٹائیاں بچھا کر اس پر دستر خوان بچھا دیئے گئے تھے.کوٹھی کے سامنے کی طرف ایک چاندنی کا پردہ لگا دیا گیا تھا اور کئی ہزار آدمیوں کے بیٹھنے کے لئے چاندنیاں تان دی گئی تھیں کوٹھی کے گرد نوجوان لڑکوں کا پہرہ اس لئے لگا دیا گیا تھا تاکہ کوئی سامان وغیرہ پیرا نہ سکے جو با فرا ہر جگہ پھیلا پڑا تھا.احباب کے پہنچنے سے پہلے کھانا پک کر تیار ہو چکا تھا.کھانے میں صرف پیلاؤ پکوایا گیا تھا جو ہر طرح سے عمدہ اور مرغوب الطبع تھا.میر صاحب کے سٹاف میں مولوی عبد الرحمن صاحب مولوی فاضل ، مولوی ارجمند خان صاحب مولوی فاضل اور مفتی فضل الرحمن صاحب خاص طور پر قابل ذکر ہیں.والنٹیئر اور معاونین نہایت اخلاص سے کھانا کھاتے تھے اور سب مہمانوں سے شریفانہ برتاؤ کرتے تھے.اس سارے سٹاف کی نگرانی میر صاحب خود کر رہے تھے.اس تقریب پر بہت دُور دُور سے مہمان آئے تھے.بٹالہ ، امرتسر ، لاہور شیخوپورہ ، گجرات ، فیروز پور گوجرانوالہ، ملتان کے علاوہ کشمیر اور سرحد تک کے لوگ موجود تھے.فخر قوم چودھری ظفر اللہ خاں صاحب ، پیراکبر علی صاحب قبر کو نسل ، خان بہادر شیخ رحمت اللہ خان صائب ، چودھری عبداللہ تعالی صاحب ، چودھری اسد اللہ خان صاحب ، چودھری شکر اللہ خال صاحب استید انعام اللہ شاہ صاحب مالک و ایڈیٹر دور جایڈ سید دلاور شاہ صاحب سابق ایڈیٹر مسلم آؤٹ لک ، خال عبداللہ خاں صاحب آف مالیر کوٹلہ لفٹینٹ سردار ندار سین صاحب امستری حاجی موسی صاحب نیله گفتید ، شیخ محمد سین صاحب ملتان ، خان بہادر غلام محمد خان صاحب آن گلگت ، خواجہ محمد شان صاحب آف سرینگر ، مسٹر غلام محمد صاحب اختر آف لاہور وغیره وغیر قابل ذکر احباب موجود کھتے.سے چاندنی : شامیانہ ، سائبان (جامع اللغات)

Page 194

14.قادیان سے تو سات آٹھ سو احباب گئے مین میں چند احباب کا ذکر خاص طور پر کر دینا مناسب ہو گا.چودھری فتح محمد صاحب سیال ایم.اسے ناظر اعلی ، حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے حضرت مرزا شریعت احمد صاحب ، مرزا گل محمد صاحب ، خانصاحب فرزند علی خان صاحب ناظر امور عامه اجناب میر محمد اسحاق صاحب ناظر ضیافت ، جناب شیخ یوسف علی صاحب اسسٹنٹ ناظر امور عامه ، مولانا شمس صاحب اسسٹنٹ ناظر تبلیغ ، مولوی عبد المغنی صاحب ناظر بیت المال، خانصاحب برکت علی خان صاحب ، میرزا عبدالغنی صاحب گورنمنٹ پیشتر کینیا کالونی ، مرزا محمد شفیع صاحب محاسب صد را امین احمدید ، مولانا شیر علی صاحب بی.اے ، ملک غلام فرید صاحب ایم.اے ایڈیٹر ریویو ، جناب میر قاسم علی صاحب ایڈیٹر " فاروق" جناب خواجہ غلام نبی صاحب ایڈیٹر الفضل شیخ محمود احمد عرفانی ایڈیٹر ” الحکم " ، مولانا نیر صاحب ، مولانا محمد الدین صاحب ہیڈ ماسٹر، چودھری غلام محمد صا پریذیڈنٹ سمال ٹاؤن کمیٹی ، ہیڈ ماسٹر صاحب مدرسہ احمدیہ ، ڈاکٹر حشمت اللہ خانصاحب میڈیکل آفیسر قادیان ، پریزیڈنٹ صاحب نیشنل لینگ قادیان ، مولوی غلام مجتبی صاحب پریزیڈنٹ لوکل کمیٹی قادیان ، مولوی فضل الدین با ملک عبدالرحمن صاحب خادم..صاحبزادہ ابوالحسن صاحب قدسی آٹھ سو احباب موجود تھے..، مهاشه فضل حسین صاحب وغیره وغیره گورداسپور میں اس موقع کے لئے حکومت نے لاہور اور امرتسر سے بہت سی ایڈیشنل پولیس منگوائی ہوئی تھی جس نے کچھری کو چاروں طرف سے گھیرا ہوا تھا اور کچہری کے ایک خاص حصے پر جس طرف حضرت اقدس کی موٹر نے کھڑا ہونا تھا کسی شخص کو سجانے نہیں دیتی تھی.احمدیہ پالک کو یہ شنگر سخت مایوسی ہوئی کہ پولیس نے لوگوں کو کچہری کے کیپونڈ میں جمع ہونے سے روک دیا ہے.باوجود اس کے ہزارہ انسان سٹیشن سے کچہری آنے والی سڑک پر کھڑے تھے میرے دل پر ایک رقت آئیز حالت طاری ہوئی جبکہ میں نے اس زمرے میں بعض نابینا اور سخت کمزور بڑھوں کو دیکھا جو فرط محبت سے چلے آئے تھے اور اپنے آقا کے انتظار میں کھڑے تھے.حضرت اقدس ٹھیک وقت مقررہ پر کچہری کے کمپونڈ میں پہنچ گئے تھے جب اُن کی موٹر جا کر رک گئی تو اس وقت پولیس نے فوراً اس طرف کے راستے روک دیئے.پولیس کے چند سپاہی کچہری کے احاطہ میں پھر رہے تھے اور اگر کسی جگہ کوئی اجتماع ہو جاتا تو اُسے روک دیتے اور منتشر کر دیتے تھے.

Page 195

141 سی آئی ڈی کے آدمی بھی نمایاں طور پر نظر آتے تھے خصوصاً آغار شید صاحب سب انسپکٹر سی.آئی ، ڈی بہت واضح طور پر سپیکر کاٹ رہے تھے.احرار کے متعلق معلوم ہوا کہ ۲۲ مارچ کو بروز تبعہ مولوی عطاء اللہ بخاری نے خطبہ جمعہ گورداسپور میں پڑھا اور کہا کہ اگر میں زندہ بیچ کر آگیا تومیں تم کو تمہارے مکانوں میں آکر ملوں گا.تمہارے لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے مدرسے بناؤں گا اور یہ کروں گا اور وہ کروں گا.احراریوں کی طرف سے کئی ایک مولانے آئے ہوئے تھے.جن میں مولوی جیب الرحمن لدھیانوی اور مولوی کرم الدین صاحب ساکن بھیں ضلع جہلم بھی تھے.مولوی کرم الدین نے اس مقدمہ میں آکر حضرت خلیفہ ایسی ایدہ اللہ کی حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کے ساتھ ایک اور مماثلت پوری کر دی اور وہ یہ کہ جس طرح کرم الدین کے مقدمہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عزت سے نوازا اور ہزاروں آدمیوں کے سامنے کرم الدین کو ذلیل کیا حالانکہ وہ آپ کی ذلت دیکھنے کا متمنی تھا اسی طرح خدا تعالیٰ نے ان لوگوں کو بتا دیا کہ وہ سلسلہ اب کس طرح بڑھا اور پھلا پھولا ہے اور کس طرح آج اُس دن کی نسبت بلیسیوں گنا زیادہ لوگ جمع ہیں جس طرح کرم الدین نے آکر ہم پر یہ ثابت کر دیا کہ وہ اور عطاء اللہ ایک ہی ہیں اسی طرح مسیح موعود اور تخلیقہ ایسے ایک ہی ہیں.احمدیوں کو جب معلوم ہوا تو وہ جوق در جوق اس شخص کو دیکھنے جاتے تھے سبس کے سبب خدا کے برگزیدہ سیج کی صداقت کے بیسیوں نشان ظاہر ہوئے اور خدا تعالیٰ کے مامور و مُرسل کے شمنوں کی صفت اول میں لڑا اور ناکام و نامرد ہوا.مولانا انور صاحب بوتالوی نے اس کی تصویر بھی لی.تاکہ آئندہ نسلوں کے لئے باعث عبرت ہو.اخواری کہلانے والوں میں ایک طبقہ ایسے لفنگوں کا تھا جو کوشش کرتا تھا کہ کسی نہ کسی طرح احمدیوں کے گلے پڑے مگر پولیس نے انہیں کامیاب نہ ہونے دیا.ہندوؤں اور سکھ معتر زمین کی ایک بڑی جماعت حضرت امیر المومنین کو دیکھنے کے لئے بیقرار تھی اور وہ پوری بیقراری سے کئی گھنٹے انتظار میں کھڑی رہی.بحضرت امیرالمومنین جب عدالت کے کمرے میں داخل ہوئے ، دیوان سکھ انند صاحب سپیشل مجسٹریٹ نے حضور کا پورا احترام کیا اور حضور کو کرسی پیش کی جضور کے ساتھ حسب ذیل حضرات کو اندر جانے کا شرف حاصل ہوا جناب چودھری ظفر اللہ خان صاحب ، چودھری اسد الله خال صاحب ، پیر اکبر علی صاحب محمد کونسل ، شیخ بشیر احمد صاحب ، مرزا عبد الحق صاحب بی.اے وکیل چودھری نصیر الحق صاحب بی.اے وکیل ایڈری صاحب الفضل ، ملک عبد الرحمن صاحب خادم.نه محترم ملک صلاح الدین صاحب ایم اے نے اصحاب حمد جلد اول ص پر یہ تصویر شائع کر دی ہے.

Page 196

۱۶۲ حضور کا عدالت سے نکلنا تھا کہ ہزاروں انسانوں کا جم غفیر جو عدالت کے سامنے جمع تھا ، پروانہ وار اپنے آقا و مرشد کی موٹر کے گرد جمع ہو گیا اور وہ دیوانہ وار حضور کی موٹر کے ساتھ دوڑنے لگا.عدالت سے لیکر شیخ محمد نصیب کی کوٹھی تک تقریباً پون میل کا فاصلہ ہو گا.وہ تمام خدام سے بھرا ہوا تھا.ان لوگوں کی اپنے امام کو دیکھ کر یہ حالت ہو رہی تھی کہ وہ بے اختیار مسرت اور خوشی سے بھر جاتے تھے.اُن کے چہروں پر سینکڑوں عیدوں کی خوشی ظاہر ہو رہی تھی.ہر شخص بڑھ بڑھ کر السلام علیکم کا ہدیہ پیش کر رہا تھا حضور اپنے تقدام کو دیکھ کر مسرت کا اظہار فرماتے اور بار بار وعلیکم السلام فرماتے.کیمپ میں داخل ہو کر حضور نے کھانا تناول فرمایا اور پر نماز با جماعت ادا فرمائی.کوٹھی کا وسیع پنڈال نمازیوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور سب کے سب لوگ اپنے آق کے ساتھ اپنے مالک حقیقی کے حضور سربسجود ہو گئے.نماز کے بعد پھر حضور عدالت کو تشریف لے گئے.کیمپ میں ناظر صاحب دعوة وتبلیغ نے حاضرین کے وقت کو مفید کام میں لگانے اور تبلیغی اغراض کیلئے ایک مجلس منعقد کیا جس میں منتقد نظموں کے علاوہ مولانا جلال الدین صاحب شمس نے ایک عالمانہ تقریر کی جس میں ہزار ہا کی حاضری تھی اور سامعین نے مولانا کی تقریر کو بہت تو سقیہ سے سنا اور فائدہ حاصل کیا.اثرار گورداسپور کی وسعت اخلاق کا اس سے پتہ لگتا ہے کہ انہوں نے گورداسپور کے سقوں کو پانی بہم پہنچانے سے روک دیا اور وہ ایسے وقت میں پانی سے انکار کر کے چلے گئے جبکہ بہتیرے لوگ ابھی کھانا کھا رہے تھے اور ہزار ہا بندگان خدا نے ابھی وضو کرنا تھا.مگر منتظمین کی جواں ہمتی قابل داد ہے کہ انہوں نے بیسیوں والنٹیر لگا کہ پولیس لائن کے کنوئیں سے پانی بھر لیا.حضور نے دوبارہ پانچ بجے عدالت سے واپس آنا تھا.پانچ بجے سے پیشتر ہی احباب جوق در جوق عدالت کی طرف جانے لگ گئے اور پہلے کی طرح حضور کی موٹر کے ساتھ ہزارسا مشتاقان بدوڑتے ہوئے کیمپ تک آئے حضور نے کیمپ میں داخل ہو کر اپنے خدام میں تقریر فرمائی اور پیش آمدہ مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :- مومنوں کو مشکلات سے گھبرانا نہیں چاہیے کیونکہ ہم دنیا پر غالب آئیں گے.قرآن مجید میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ نبی کے ماننے والوں پر زلزلے آئیں گے.اگر کہا جاتا کہ نبی کے ماننے والوں کے لئے پھولوں کی سیج بچھائی جائے گی تب تو کہا جاسکتا تھا کہ ہمیں مشکلات کیوں پیش آتی ہیں جبکہ اللہ اسی کی سنت یہ ہے کہ وہ انبیاء کی جماعتوں کو کانٹوں پر گزارتا ہے تو ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ ہم پر بھی مشکلات

Page 197

۱۶۳ آئیں گی، مصائب آئیں گے مگر آخر کامیابی ہمارے لئے ہے.آپ لوگ عبادتیں کریں، دعائیں مانگیں.اور خدا تعالے کی محبت اپنے دل میں پیدا کریں.“ آخر میں اس موقعہ پر آنے والے احباب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا.تیں سب دوستوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں انکا بھی جو آج کے اکا بھی جو برای یکے میں تمام سفر میں دعا کرتا آیا ہوں کہ خدا تعالے ان تمام دوستوں پر جو آج آئے اپنے خاص خاص فضل نازل فرمائے اور ان پر بھی منسل نازل کرے جو پرسوں آئیں گے " تریکے کے بعد سپیشل ٹرین قادیان کو روانہ ہوئی اور حضور بذریعہ موثرة وران تشریف لائے جس مرک سے موٹر گذری وہاں جاتے اور آتے ہوئے پولیس کا انتظام تھا.دوسرا سفر 2" مقدمہ کی دوسری تاریخ ۲۵ مارچ تھی.دشمنان سلسلہ کا خیال تھا کہ پہلے دن تو احمدی سپیشل ٹرین لے کر آگئے ہیں.اب کہاں آئیں گے اور حضرت امیرالمومنین کو شاید اس دفعہ تنہا آنا پڑے گا.مگر جماعت میں اس قدر جوش تھا کہ لوگ یہ کہتے تھے کہ اگر ایک ماہ تک بھی ہم کو اسی طرح آنا پڑے گا تو ہمارے اخلاص و محبت میں کمی نہیں آئے گی.جماعت کے اس اخلاص کو دیکھ کر اور پر زور مطالبہ کوٹ کر نیشنل لیگ کو ریلوے کو پھر تار دینی پڑی کہ گاڑی بیچی جائے.چونکہ گاڑی کے متعلق مشہور تھا کہ وہ ساڑھے چھ بجے روانہ ہوگی اس لئے جماعت کے افراد اور قریب قریب کی جماعتوں کے سینکڑوں آدمی علی الصباح سٹیشن پر پہنچ گئے تھے.سٹیشن کا نظارہ بڑا دلفریب تھا سینکڑوں آدمیوں کا اجتماع سٹیشن پر...سالانہ جلسہ کی شان کا منتظر پیدا کر رہا تھا.الفضل فروخت کرنے والے لڑکوں کی آوازیں ساکنین قادیان کے کانوں کو بھی معلوم ہوتی تھیں.یہ وہ بستی تھی جہاں کسی زمانہ میں معمولی خورد و نوش کی اشیار تک میسر نہ آتی تھیں.آج یہ حالت ہے کر قادیان ہفتہ وار اخباروں کے علاوہ روزانہ اخبار کی اشاعت کا مرکز بنا ہوا ہے اور دیگر شہروں کی طرح ہم سن رہے ہیں کہ لڑکے شور مچارہے ہیں ” آج کا تازہ پر چہ الفضل “ ہماری یہ کامیابیاں دشمنوں کی آنکھوں میں خار بن کر کھٹک رہی تھیں.دور دور تک لوگوں کی قطاریں افواج در افواج اور جوق در جوق سٹیشن کی طرف آرہی تھیں.ن " الحکم " ۲۸ مارچ - ایمیل ۱۹۳ صفحه ۷۵ بد

Page 198

روانگی کا جب وقت آیا تو عازمین گورداسپور نے دعاؤں کے لئے ہاتھ اٹھائے اور نہایت خشوع اور خضوع سے بارگاہ ایزدی میں گڑ گڑانے لگے.ڈھا کے ساتھ خدایان کولے کر یہ گاڑی گورداسپور کو پوتے آٹھ بجے روانہ ہوئی گاڑی اس قدر کھچا کھچ بھری ہوئی تھی بہت سے لوگوں کوگورداسپور تک بیٹھنے کی جگہ نہ ملی.بٹالہ میں پہنچ کر گاڑی نے انجن کا رخ بدلنا تھا.اس لئے چند منٹ کا گاڑی کو قیام کرنا تھا.اس لئے سینکڑوں کی تعداد میں احباب گاڑی سے اتر کر ٹہلنے لگے جس سے تمام سٹیشن بھر گیا.اس نظارہ کو دیکھنے کے لئے بہت سے غیر احمدی بھی سٹیشن پر جمع ہو گئے تھے جو پلیٹ فارم کے باہر سے دیکھ رہے تھے.حسب معمول اس دفعہ بھی جلوس کی شکل میں یہ قافلہ گورداسپور میں داخل ہوا.اور کیمپ میں جا کر اور کھانا کھا کر لوگ جوق در جوقی عدالت کی طرف چل دیئے اور اس وقت تک وہیں کھڑے رہے.بجیتک امیر المومنین واپس تشریف نہیں لائے حضور کی واپسی پر آج بھی مشتاقان زیارت موٹر کے ساتھ دوڑے اور حضور کے دیکھنے سے سب کے چہروں پر خوشی اور مسرت کی لہریں چمکتی ہوئی نظر آتی تھیں.حضور نے کیمپ میں آکر کھانا تناول فرمایا اور ہزارہا آدمیوں کو ساتھ لے کر نماز پڑھی حضور دو بجے پھر تشریف لیے گئے.آج بھی حضور کے جانے کے بعد ناظر صاحب دعوۃ و تبلیغ کی زیر صدارت حسب معمول مجلسہ ہوا جس میں مولانا جلال الدین صاحب شمس اور مولانا ظہور حسین صاحب نے تقریریں کیں.مولانا شمش نے حضرت مسیح موعود کی میسہ ناصری سے مماثلت پیش کرتے ہوئے بتلایا کہ پہلے میسج پر متوازی حکومت قائم کرنے کا الزام تھا.جیسے وہ الزام غلط تھا ویسے ہی یہ الزام غلط ہے.مگر اس الزام نے ایک اور مماثلت کو ثابت کر دیا.حضور کی واپسی کے وقت تک تمام مشتاقان دی پھر عدالت سے لے کر کیمپ تک جمع ہو گئے اور حضور پرورش طریق سے استقبال کر رہے تھے.حضور نے والیسی پر چند الفاظ میں تقریر فرمائی جس کا خلاصہ حسب ذیل ہے.حضور نے فرمایا کہ : آج شہادت تو ختم ہو چکی ہے مگر پھر پرسوں کی تاریخ جرح کے لئے مقرر ہوئی ہے.احباب کو اس تکلیف سے گھبرانا نہیں چاہیے.کیونکہ ان کے مقابلہ میں جو انعامات اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے مقرر فرمائے ہیں وہ کہیں زیادہ ہیں، اگر وہ انعامات انسان کے سامنے رکھ دیئے جائیں تو انسان یہی کہے گا کہ ہے میرے رب میری تو صرف یہی خواہش ہے کہ میں زندہ کیا جاؤں اور پھر تیری راہ میں مارا جاؤں.پھر زندہ کیا جاؤں اور پھر تیری راہ میں مارا جاؤں اور یہ سلسلہ ہمیشہ کے لئے جاری رہے.

Page 199

140 تقریر کے بعد آپ نے احباب کو مصافحہ کا شرف بخشا اور پھر فرمایا کہ چونکہ اب گاڑی کا وقت بہت تنگ ہو چکا ہے اس لئے میں سب دوستوں کو بجانے کی اجازت دیتا ہوں.اس کے بعد حضور بذریعہ موٹر واپس تشریف لے گئے اور سائیکل سوار والنٹیرز آگے اور پیچھے تھے اور شہدام بذرایہ ریل واپس آگئے.چونکہ ۲۷ مارچ کو حضور نے سرکاری وکیل کی مکر ترجموح کے لئے تشریعیت لانا تھا اس لئے احباب ۲۷ کو حضور کی معیت میں گورداسپور آنے اور حضور کے ساتھ رہنے کے لئے پر جوش جذبہ لے کر واپس آئے " سے تغیر اسفر از تعمیری مرتبہ حضور ۲۷ مارچ کو شہادت کے لئے تشریف لے گئے.اس سفر کے حالات بھی بالکل سفروں جیسے تھے مگر ان میں حسب ذیل اضافہ کیا جاتا ہے.فائیان احمدیت کی عزت افزائی آج کے روز حضرت اقدس نے اپنے خدام کی عزت افزائی کیلئے بذریعہ نیل جانا منظور فرمایا حضور بھی تھرڈ کلاس کے ڈبے میں سوار تھے اور اس طرح تمام احمد ی مسافروں کی جو تیرے درجے کا سفر کرتے ہیں عزت کو بڑھا دیا اور اب ہماری جماعت کے کسی غریب مسافر کو افسوس نہ ہوگا کہ وہ کیوں تیسرے درجے میں سفر کرتا ہے.کیونکہ اُسے معلوم ہو گا کہ اس کے سید و مولیٰ اپنے فدائیوں کے ساتھ تیسرے ڈر ھے میں سفر فرما چکے ہیں حضور خدام کے اس زیر دست جلوس میں گورداسپور کے سٹیشن سے کیمپ میں وارد ہوئے جہاں تھوڑی دیر قیام فرما کر تضور عدالت میں تشریف لے گئے.آج پہلے ہی وقت میں حضور فارغ ہو گئے.جلسه نماز ظہر کے بعد ۳ بجے کوٹھی کے وسیع احاطہ میں زیر صدارت ناظر صاحب تبلیغ جلسہ ہوا.اس جلسہ کا پروگرام جناب مرزا عبد الحق صاحب نے صدر انجمن احمدی گورداسپور کی طرف سے چھاپ کر شائع کر دیا ہوا تھا اس پروگرام کے ماتحت مولوی محمد ند ی صاحب مولوی فاضل نے پیشگوئیوں پر اعتراضات کے اصولی جواب اور مولانا شمس صاحب نے حبیب الرحمن لدھیانوی کے اُن اعتراضات کا جواب دیا جو ایک روز قبل گورداسپور میں اپنی ایک تقریر کے دوران میں سلسلہ احمدیہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام (پر) کئے تھے.بجے حضرت امیر المومنین مجلسہ گاہ میں تشریف لائے اور ایک عظیم الشان تقریر سال آتی عَلَی الإِنْسَانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُن شَيْئًا مذكورًا ، پر (حقایق و معارف سے پُر فرماتے ہوئے احمدیت کی سچائی کو ایسے طریق سے پیش کیا جو ه الحكم ۲۸ مارچ - ۷ر اپریل ۹۳۵اد صفحه ۷ به

Page 200

144 بہ شخص کے ذہن نشین ہو گیا.آج کے سب میں گورداسپور کے ہندو، سکھ، عیسائی معززین کثرت سے شریک ہوئے بچے حضور نے تقریر ختم فرمائی اور دعا پر جب ختم ہوا.بیعت کرنے والے ان تین ایام میں.و اشخاص داخل سلسلہ حقہ ہوئے.اللهم فرح (آمين) ریلوے میں نظامات امور عامہ کے ٹکٹ اور چیکہ انظارت امور عامر نے تین روز تک اپنی طرف سے ٹکٹ جاری کئے جن پر نمبر دے دیئے تھے تا کہ معلوم ہو سکے کہ کس قدر آدمی سفر کر رہے ہیں اور اس امر کے معلوم کرنے کیلئے کہ کوئی بغیر ٹکٹ سفر نہ کر یہ خاص طور پر ٹکٹ چیک کرنے کے لئے آدمی مقرر کر رکھے تھے.اس طرح یہ سفر نباتات خیر و خوبی سے ۲۷ مارچ کی شام کو ختم ہو گیا.احرار یا ان کے معاونین نے جو سہ ازش سلسلہ کے خلاف کی تھی بعدالت لے کے فضل سے اُن کو اس میں منہ کی کھانی پڑی.الدُ للهِ رَبِّ الْعلمين " لے سفر گورو اس سے متعلق حضرت خلیفہ میں ان کے مندرجہ بالا را روایت کی صداقت کا زبردست نشان تھے غیروں کے تاثرات جسے سے دیکھ کر سنجید طالب اور روشن خیال غیر احمدی بلکہ غیر مسلم اصحابی بنبان حال و قال سیاه اُٹھے کہ احرار نے جس جماعت کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کا ادعا کو رکھا ہے وہ پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہو چکی ہے اور احرار کی مخالفت اس کی قوت و شوکت میں اضافہ ہی کا موجب بنتی ہے.اس تعلق میں بعض تاثرات کا ذکر کیا جانا مناسب معلوم ہوتا ہے.-1 " راد یہ سمجھتے ہیں یا کم از کم دوسروں پر یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ اتحادیت کو بہت جلد فنا کر دیں گے چنانچہ وہ اسی قسم کے اعلانات شائع کر کے مسلمانوں سے کافی رویہ جمع کر رہے ہیں.پچھلے دنوں قادیان میں جو احرار کا نفرنس ہوئی اس کا مقصد بھی یہی ظاہر کیا جاتا تھا اور عوام کو یہ بتلایا جاتا تھا کہ قادیان میں احرار کی ایک کانفرنس ہوتے ہی احمدی قادیان کو چھوڑ کر گیا جائیں گے اور ہندوستان ہے احمدیت کا قلع قمع ہو جائے گا.لیکن بقول شخصے.ما در چه خیالیم و فلک در چه خیال احترار کے تمام منصوبے بگڑ گئے.اتوار کا نفرنس کے صدر امیر شریعت پنجاب ، شیر خلافت مینم کانگریس بانی احرار کا نفرنس مولوی عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری کے مخلاف حکومت نے دو گروہوں کے درمیان نے حکم ۲۸ مارچ اپریل ۲۵ در صفحه ،

Page 201

146 منافرت پھیلانے کے الزام میں مقدمہ چلایا.مولوی صاحب موصوف پر فرد جرم عائدہ ہو گیا.انہوں نے میرزا صاحب قادیان والہ کو صفائی کی شہادت میں پیش کیا.تین دن تک خلیفہ صاحب کی گواہی ہوتی رہی اور تینوں دن گورداسپور میں احمدیوں کا کثیر اثر دھام رہا.شہر میں، کچہری میں اسٹرکوں پر جس دھر دیکھو احمدی ہی احمدی نظر آتے تھے.احمدیوں کے مخالفوں میں سے کئی خلیفہ صاحب کی زیارت کے لئے آتے رہے اور اُن کی نورانی شکل دیکھ کر محو حیرت ہو جاتے تھے.احمدیوں کے انتظامات، اُن کی تنظیم اور باہمی اتحاد کے نظارے دیکھ کر اکثر لوگ بیحد متاثر ہوئے.شہر اور مضافات میں خلیفہ صاحب کی گواہی اور ان کے اعلیٰ اخلاق کے متعلق گفتگو ہوتی رہی.ہم نے خود گورداسپور پہنچ کر تمام حالات کا بچشم خود مطالعہ کیا اور دیکھا کہ غیر احمدی مسلمان خلیفہ صاحب سے اُن کے مریدوں کی عقیدت دیکھ کر بی رمتاثر ہو رہے تھے اور ہر طرف احمدیوں کی تنظیم، استاد ، خلوص اور دینداری کا تذکرہ تھا.خلیفہ صاحب ہر روز گواہی سے فارغ ہو کر شیخ محمد نصیب صاحب کی کوٹھی کے احاطہ میں ایک مختصر سالیکچر دیتے رہے.آخری دن کی گواہی کے بعد علیہ نہایت شاندار تھا.ہزاروں احمدیوں کے علاوہ جل گاہ میں غیر احمدی مسلمان ہندو اور سکھ صاحبان بھی موجود تھے جہاں میرزا صاحب نے ایک شاندار تقریر فرمائی.غرض مسلمانوں کے خیالات میں احمدیوں کے متعلق بڑی حد تک تبدیلی واقع ہوگئی اور احرار نے احمدیوں کے خلاف مسلمانوں کے دلوں میں جو نفرت پیدا کر رکھی تھی وہ بڑی حد تک رفع ہو گئی.چنانچہ اکثر لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ احمدیوں کے متعلق احراری پراپیگنڈا کی تہہ میں کچھ ذاتی اغراض ہیں ورنہ یہ لوگ با قاعدہ نمازیں پڑھتے ہیں.شکل وصورت سے پکے مسلمان دکھائی دیتے ہیں.آپس میں محبت جو مسلمانوں کی خصوصیت ہے.ان لوگوں میں نظر آتی ہے در آنحالیکہ دوسر مسلمان اس نعمت سے بڑی حد تک محروم ہو چکے ہیں.الغرض یہ تمام باتیں ہم نے اپنے کانوں سے مشینیں اور ہم اس نتیجہ پر پہنچے کہ احرار نے قادیان میں جلسہ کر کے اور پھر مولوی عطاء اللہ شاہ صاحب نے خلیفہ صاحب کو شہادت میں طلب کر کے آکھدیوں کو بہت زیادہ تقویت پہنچائی ہے.احمدیوں کے متعلق پڑھے لکھنے مسلمانوں کی رائے پہلے کی نسبت بہت اچھی ہوچکی ہے اور اکثر تعلیمیافتہ نوجوان احمدیت کے متعلق ریسرچ میں لگ گئے ہیں.

Page 202

19A سب سے بڑی بات یہ ہے کہ شہادت کے تینوں دنوں میں کوئی ایک سو کے قریب غیر احمدی مسلمانوں نے بیعت کی.احمدیوں کو اس کامیابی پر بہت فخر ہے.چنانچہ چندا احمدیوں نے بخاری صاحب کو امر تسر دیوے اسٹیشن پر صاف صاف کہہ دیا کہ آپ کی مساعی ہمارے لئے عمدہ پھیل لا رہی ہیں اور ہم آپ کے شکر گذار ہیں جس کے جواب میں مولوی صاحب نے فرمایا.ہمیں بھی سلسلہ احمدیہ سے کوئی عداوت نہیں ، ہاں ہم جہاد کے متعلق مرزا صاحب کی تعلیم کو سخت نا پسند کرتے ہیں.اگر خلیفہ صاحب اس میں ترمیم کر دیں.تو باقی باتوں کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے یہ سنہ اخبار " احسان " (لاہور) نے ۲۵ مارچ شانہ کی اشاعت میں لکھا :- اختبار احسان کا نوٹ خلیفہ قادیان کے ایک ہزار مرید سپیشل ٹرین میں آئے.اور چار ہزار کے قریب اشخاص ادھر ادھر سے جمع ہو گئے سب سے زیادہ تعداد لاہور سے آئی.مرزائی کیمپ میں کھانے کا وسیع پیمانہ پر انتظام تھا " سے บ ایک سیکھ صحافی کا تیر اسرار ارجن کو ایڈیٹر تیار نین نے اپنی کتاب مخلیفہ قادیان میں خلیفہ قادیان کا استقبال کے زیر عنوان لکھا :- یہ بات تو ظاہر ہے کہ مولوی عطاء اللہ شاہ صاحب کا دعوی ہے کہ وہ آٹھ کروڑ مہندوستانی مسلمانوں کے نمائندہ ہیں.برخلاف اس کے خلیفہ قادیان کے تابعدار ایک لاکھ کے قریب ہوں گے.مگر ناظرین پر منکر حیران ہوں گے کہ ان تاریخوں پر جبکہ خلیفہ صاحب شہادت دینے کے لئے آتے رہے گور و سایر میں احمدیوں کی تعداد دس ہزار کے قریب ہوتی تھی جبکہ دوسرے مسلمان شاید ایک سو بھی موجود نہ ہوتے تھے.اس سے خلیفہ صاحب اور مولوی صاحب کے اثر کا موازنہ ہو سکتا ہے کہ ایسی جماعت جس کے ارکان سارے پنجاب میں پچپن ہزار بیان کئے جاتے ہیں اپنے خلیفہ کے درشنوں کے لئے دس ہزار کی تعداد میں حاضر ہوتے ہیں اور اس جماعت کے جس کے ارکان صرف گورداسپور میں ہی دس ہزار سے زائد ہمیں ایک سو بھی جمع نہیں ہوئے.حالانکہ مقدم الذکر صرف گواہ کی حیثیت میں آتے ہیں اور دوسرے بزرگ پر مقدمہ بھی پھیل رہا ہے.اس سے صاحت واضح ہوتا ہے کہ مولوی صاحب کا دعوئے حقیقت سے کوسوں دور ہے اور خلیفہ صاحب کے مرید اُن کے حقیقی بھان نثار اور سچے دل سے شه "افضل" قادیان مورخه ه ر ا پریل ها صفحه ۱۰ : ۲ بحواله الفضل ۲۱ مارج ۱۳ صفحه ۶ کالم ۳.

Page 203

199 وفادار ہیں.یہ منظر سبق آموز تھا اس منظر کے دیکھنے سے دل پر ایک خاص اثر ہوتا تھا.میں خود آخری روز وہاں موجود تھا.مجھے رہ رہ کر خیال آتا تھا کہ آخراس شخص نے پہلی جون میں کون سے ایسے کرم کئے ہیں جن کے صلہ میں اسے یہ عقل کو حیران کرنے والا عروج حاصل ہوا ہے.میں ہی اس نظارہ کو دیکھ کر حیران نہ تھا.بلکہ میں نے دیکھا کہ غیر احمدی مسلمان بھی (یہ) اثر لے رہے تھے میں نے بازار میں لوگوں کو باتیں کرتے شنا کوئی ظاہر شان و شوکت کی تعریف کرتا تھا کوئی مریدوں کی عقیدت کو سراہ رہا تھا.کوئی جماعت کی تنظیم کی داد دیتا تھا.کوئی کہتا تھا آخر یہ گروہ عبادت میں اور اس کے احکام کی پیروی میں امتیاز رکھتا ہے.العرض میں نے دیکھا کہ غیر احمدی مسلمانوں میں سے بہت سے تعریفیں کر رہے تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان کے دلوں پر خاص اثر ہو رہا ہے.آخر یہ کیوں میں حیران تھا کہ اپنے جیسے انسان کا درشن پانے کے لئے یہ ہزار ہا انسان تو سرگردان پھر رہے ہیں کیا یہ تمام غلطی یا جعل سازی کا شکار ہو رہے ہیں جبکہ ان کی اکثریت تعلیمیافتہ ہے اور ان میں بڑے بڑے تجربہ کار اور جہاندیدہ بزرگ بھی موجود ہیں.میں سوچتا تھا کہ کیا تجھوٹ اور فریب سالہا سال تک پھیل لاسکتا ہے پچاس سال سے زائد عرصہ ہوا سیبکہ اس فرقہ کے بانی نے اپنے آپ کو دنیا کے سامنے پیش کیا.اگر وہ محض فریب کار تھا تو کیا غریب میں یہ طاقت ہے کہ وہ نصف صدی تک بڑھتا اور پھولتا چلا جائے یقیناً دھوکا بازی اور فریکا کی کی تو صرف اتنی ہی حیثیت ہوتی ہے کہ 2 اگر ماند شبے ماند شبے دیگر نمی ماند لیکن یہاں یہ حالت ہے کہ تیسرا دور آتا ہے اور ہر دور میں پہلے سے زیادہ قوت وطاقت کے ساتھ یہ گروہ بڑھتا اور پھولتا جارہا ہے.اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس جماعت کے دھاوی میں ضرور سچائی ہے اور اس گروہ کو بالضرور و انگور وجی کی شکتی حاصل ہے " " اسرار غور کریں ارادہی بھی ایک نے ہی جماعت ہیں.ان کا بھی ایک امیر شریعت ہے جس کے ہاتھ پر لوگ اسی

Page 204

12.طرح بیعت کرتے ہیں جس طرح خلیفہ قادیان کے ہاتھ پر.پھر احرار اپنے آپ کو سچائی کے پاسبان سمجھتے ہیں اور قادیانی جماعت کو غلط راہ پر قرار دیتے ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ احراری امیر کے ہاتھ پر جیت کرنے والوں کے دلوں میں اپنے امیر کے لئے نہ وہ قربانی کا جذبہ ہے اور نہ ہی وہ عقیدت ہے جو خلیفہ قادیان کے مریدوں کے دلوں میں ہے.کیا کبھی احرار نے غور کیا ہے کہ اس کا کیا کارن ہے کہ ان کی سچائی ریسے وہ خود سچائی قرار دیتے ہیں، وہ رنگ نہیں لا رہی ہو بقول احرار خلیفہ قادیان کا وجبل و فریب رنگ لا رہا ہے.کیا آجکل ایشور نے اپنا اصول بدل دیا ہے؟ اور کیا سے صداقت آمد و باطل روان شد طلوع شمس شد شتر نہاں شد کا کلیہ بدل گیا ہے، ہرگز نہیں.واہگوردوجی کے نیم اٹل ہیں.خدا کے قاعدے کبھی نہیں بلہ لیتے اور میں تو میرزا جی کی اس کتھا کی تائید کرتا ہوں کہ.ܚܘ کبھی نصرت نہیں بلتی در مولا سے گندوں کو کبھی ضائع نہیں کرتا وہ اپنے نیک بندوں کو اس لئے اس حقیقت سے انکار نہیں ہو سکتا کہ احمدی تعلیم کے اندر کچھ ایسی کشش ضرور موجود ہے جس کی وجہ سے لوگ اس کی طرف کھینچے آرہے ہیں اور خلیفہ قادیان میں کوئی ایسے تو ہر یقینا ہیں جو لوگوں کو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں اور پھر لطف یہ ہے کہ جو شخص ایک مرتبہ اس جماعت میں شامل ہو جاتا ہے وہ دیوانہ ہو جاتا ہے یہانتک کہ جن لوگوں کو خلیفہ صاحب کے مذہبی عقائد سے اختلات ہے وہ بھی آپ کی سیاسی رہنمائی کو ضروری خیال کرتے ہیں چنا نچہ مسلمانوں کے بڑے بڑے لیڈر مثلا خواجہ سن نظامی جو مسلمانوں کے سیاسی رہنما ہی نہیں بلکہ مذہبی گو رو بھی ہیں خلیفہ صاحب سے سیاسی بل ورتن کے سبق میں ہیں.اسی طرح میاں سر فضل حسین وغیرہ بہت سے اسلامی سیاستدان احمدیوں سے تعاون کر رہے ہیں مگر احراریوں سے کو اپریشن کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں چنانچہ احمدی مسلمانوں کی سب سے بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ کا نفرنس کے ممبر ہیں.اور یہ جماعت بھی مسلم لیگ کانفرنس کے اصولوں کی حامی ہونے کے علاوہ ہر قسم کی مدد کرتی رہتی ہے.الغرض سوائے جماعت احرار کے تمام مسلمان سیاستدان احمدیوں سے مذہبی عقیدوں میں اختلاف رکھنے کے باوجود ان سے

Page 205

ง انجمن تعاون کے حق میں ہیں اور خلیفہ قادیان بیشک مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے مسلمانوں کے اندر اس قدر رسوخ پیدا کر لیا ہے " سے انجمن حمایت اسلام (لاہور) ایک مشہور قومی ادارہ ہے جس کی بنیا انجم حمایت اسلام اور جماعت احمدیم جمادی الاول ستاد مطابق ماری اور میں بھی کیا اس قومی ادارہ سے جماعت احمدیہ کے بزرگوں کا ابتداء ہی سے بڑا گہرا تعلق رہا ہے جیسا کہ تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحہ ۱۰۴ - ۱۰۶ میں تفصیل آچکی ہے.خلافت ثانیہ کے اوائل سے ۹۳۵ مر تک انجمن سے احمدیوں کے مراسم بر ابر قائم رہے اور وہ اس کے پلیٹ فارم پر قومی تعلیمی تقدمات بجالاتے چلے آرہے تھے مگر شاید میں احراری تحریک کے زیر اثر انجمن حمایت اسلام کی مستقل پالیسی میں یہ تغیر واقع ہوا کہ اس خالص تعلیمی امین کے سٹیج پر اختلافی مسائل کا چرچا کرکے چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کے خلاف ریزولیوشن پاس کیا گیا یہ واقعہ کسی افسوسناک ماحول اور ایرانی ه خلیفه قادیان" صفحه ۲۰ تا ۲۴ به انجمن حمایت اسلام کے اغراض و مقاصد یہ تھے کہ: ا معترضین اصول مذہب مقدس اسلام کے جواب تحریری یا تقریری تہذیب کے ساتھ دیتے اور اس مقدس مدیر کے مول کی حمایت اور اشاعت کرنی.مسلمان لڑکوں اور لڑکیوں کی دینی اور دنیوی تعلیم کا انتظام کرنا تا کہ غیر مذہب والوں کی تعلیم کے اثر سے محفوظ رہیں - لاوارث مفلس نیتیم مسلمان بچوں کی پرورش اور تربیت کا انتظام کرنا اور فلس مسلمان بچوں کی تعلیم میں حتی الوسع امداد دینا تا کہ وہ غیر مذہب والوں کے پنجے میں پڑکر دین اور ایمان سے ہاتھ دھو کو عذاب آخرت کے مستحق نہ بنیں.اہل اسلام کو اصلاح مطرز معاشرت و تہذیب اخلاق اور تحصیل علوم دینی و دنیوی اور باہمی اتفاق اور اتحاد کا شوق دلانا اور ان کی بہتری اور ترقی کے وسائل کو پیدا کرنا اور تقویت دینا.اہل اسلام کو گورنمنٹ کی وفاداری اور نمک حقانی کے فوائد سے آگاہ کرنا.ان مقاصد کی تکمیل کے واسطے واعظوں کے تقرر اور رسالے کے اجراء وغیرہ وسائل کو عمل میں لانا.اس انجمن کے قواعد میں سر فہرست یہ قاعدہ تھا کہ و اہل اسلام کے ہر فرقے کا آدمی خواہ وہ کہیں ہو اس انجمین کا ممبر ہو سکتا ہے" ماہواری رسالہ انجمن حمایت اسلام لاہور مطابق اپریل، مئی وجون شما سرورق صفحه ۲) سے دور میں فرقہ پرستی اور تعصب کا جو زہر پھیلایا گیا اس کا نتیجہ اگلے ہی سال 197 ء میں ) انجمن حمایت اسلام کی رکنیت سے احمدیونی کے اخراج کی صورت میں نمودار ہوا (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو اخبار پیغام صلح امور ۱۲۰ جنوری ۱۳۵۷ در صفحه ۱۳۰۳ فروری * صفحه ۱ ار فروری ۱۹۳۷ صفحه ۲ ) - انجمن حمایت اسلام کی جنرل کونسل کے ایک سرگرم نمبر نے کسی زمانہ میں واقعی ٹھیک کہا تھا کہ یہی ایک نرالی انیق ہے جہاں اُس کے خادموں کو ٹیوں بے قدری اور ذلت سے نکالا جانا تجویز کیا جاتا ہے“ (ماہوار رسالها همین حمایت اسلام بابت ماه محرم الحرام ۳۳ اید مطابق جنوری تاشا در صفحه ۲۱)

Page 206

14F کے ہنگامہ میں ہوا.اس کی تفصیل مشہور معاند احمدیت مولوی ثناء اللہ صاحب کے قلم سے پڑھتے.لکھتے ہیں :- در همین حمایت اسلام لاہور کا جلسہ ہمیشہ امن و امان سے ہوتا تھا کیونکہ اس میں اسلام کے امور عامہ پر تقریریں ہوتی تھیں.مگر اس دفعہ پروگرام میں خلاف معمول مضامین مخصوصہ پر تقریریں بھی درج تھیں مثلا ختم نبوت وغیرہ ہم جانتے ہیں کہ مسئلہ ختم نبوت بھی اسلام کے امور عامہ میں سے ہے.مگر چونکہ پنجاب میں فرقہ قادیانیہ ختم نبوت کا قائل نہیں اس لئے لازم تھا کہ تقریر میں اس فریق کا ذکر یا اشارہ ہوتا چنانچہ ایسا ہی ہوا خیر یہ تو ایک معمولی بات تھی جو آئی گئی ہو گئی.خاص قابل ذکر بات جو ہوئی وہ یہ ہوئی ہے کہ....مسلمانوں نے آواز سے کتنے شروع کر دیے کہ وائسرائے کی اگر کٹو کونسل میں چودھری ظفر اللہ ان احمدی کے نمبر ہونے کے خلاف جلسہ انجمن میں رزلیوشن پاس کیا جائے لیکن کارکنان انجین مذکور اپنے اصول کے ماتحت اس سے انکاری رہے.حاضرین جلسہ (مسلمانوں) کا جم غفیر اس امر پر مصر تھا.۲۲ اپریل کو بعد دو پر مغرب تک جلسے میں یہی شور محشر رہا.آخر کار وہی جماعت مولوی ظفر علیخان آف زمیندار کوئے آئی اور سٹیج پر تقریر کرا کر اپنے حسب منشاء رزولیوشن پاس کرا لیا.کیا یہ رزولیوشن انجمین کا ہوگایا پالک کا اس کا فیصلہ انجمن کی روئداد کرے گی " اے اخبار سیاست ( ۱۴ مئی ۱۹۳۵) نے اس افسوسناک کارروائی کی ذمہ واری صدر انجمن حمایت اسلام علامہ ڈاکٹر سرمحمد اقبال صاحب پر ڈالی اور یہ رائے دی کہ :- علامہ سرڈاکٹر محمد اقبال صاحب امت مرحومہ کے ایسے فرد ہیں جن کے وجود پر ہر سلمان فخرو ناز کر سکتا ہے لیکن افسوس ہے کہ کچھ عرصہ سے احتیاج اور اس سے زیادہ حاشیہ نشینوں کے گمراہ مشورہ نے سر موضوت کو ایسے راستہ پر لگا دیا ہے جو ڈاکٹر صاحب کو کعبہ مفاد ملت کے خلاف لے جارہا ہے.آپ انشین کے صدر ہیں چاہیئے یہ تھا کہ مجلسہ انجمن کی یہ بادی سے آپ آزردہ خاطر ہوتے اور جین لوگوں نے یہ حماقت کی تھی اُن کو ڈانٹ بتاتے اور یوں طلبت مرحومہ پر واضح کر دیتے کہ آپ احرار کی فتنہ آرائی کو معیوب سمجھتے ہیں.اور آپ کو انجمن کی عزت کا لحاظ ہے.آپ سے خصوصا یہ توقع اس وجہ سے بیجا نہ تھی کہ آپ بحیثیت صدر یہ کر سکتے تھے کہ اجمیر کی شمارتوں کے مظاہرہ اوّل کے بعد فی الفور امین کی کونسل کا جلسہ بگلا کو ارکان انجمن سے کہدیتے کہ ہماری رائے میں ارادہ کا مطالبہ جائز ہے.آپ اس قسم کا ریزولیوشن لے ہفت روزہ " اہلحدیث امرتسر سرمئی ۱۹۳۵ صفحه.

Page 207

قبول کر لیں اور غرور پیش کر دیں.یوں سر اقبال بہ یک وقت مسلمانوں کی سب سے بڑی انجمین کی مناسب بہنمائی بھی کرتے اور فتنہ و فساد بھی بند ہو جاتا.لیکن افسوس ہے کہ علامہ اقبال نے اس جرات سے کام نہ لیا.اور منہ میں گھنگھیتیاں ڈالے انھین کی رسوائی کا تماشہ دیکھا کئے جلسہ کے بعد جب یہ سوال پیش ہوا کہ مولانا ظفر علی صاحب کی تحریک پر جو قرار داد انجین کے پلیٹ فارم سے چودھری ظفر اللہ خان کے خلاف منظور ہوئی ہے.اس کی تائید یا تردید کی بجائے تو ڈاکٹر صاحب نے پھر اپنی اخلاقی کمزوری کا مظاہرہ کیا اور دلیری سے یہ کہنا مناسب نہ جانا کہ احرار کی حرکت مناسب تھی یا غیر مناسب بلکہ خود خاموش رہنا پسند کیا اور ارکان امین کو خاموش رہنے کا مشورہ دیا.میں کہتا ہوں اور ڈنکے کی چوٹ کہتا ہوں کہ علامہ اقبال کی شخصیت و اہمیت کے رہنما کا فرض تھا کہ وہ قوم کی علی رؤوس باشا رہنمائی کرتا اور اگر احوالہ کی تحریک صحیح تھی تو اسکی تائید کرتا اور اگر معیوب بھی تو اس کی مخالفت کرتا لیکن علامہ اقبال نے ایسا نہ کیا " اے مجلس مشاورت میں حضرت امیر المومنین کا اس سال ۲۰۱۹، ۲۱ ریال ته کوف ادیان میں مجلس مشاورت کا انعقاد ہوا.اس مجلس کی ایک خصوصیت احمدی نوجوانوں اور احمدی بچوں کہ لینا یعنی کہ حضرت میر یونین نے اپنی اختتامی تقریریں تھی یہ وضاحت فرمائی کہ : اس وقت ہم جنگ کے میدان میں کھڑے ہیں اور جنگ کے میدان میں اگر سپا ہی لڑتے لڑتے سو جائے تو مر جاتا ہے.ہمارے سامنے نہایت شاندار مثال ان صحابیہ کی ہے جن کے مثیل ہونے کے ہم مدعی ہیں.ایک دفعہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ، یہ جھنڈا وہ لے جو اس کا حق ادا کرے.ایک صحابی نے کہا یا رسول اللہ مجھے دیں.آپ نے اس کو دے دیا.جنگ میں جب اس کا ہاتھ کاٹا گیا جس سے اُس نے جھنڈا تھاما ہوا تھا تو اس نے دوسرے ہاتھ سے تھام لیا اور جب دوسرا ہاتھ بھی کٹ گیا تو راتوں میں لے لیا.اور جب ٹانگیں کاٹی گئیں تو منہ میں پکڑ لیا.آخر جب اس کی گردن دشمن اڑانے لگا تو اس نے آواز دی، دیکھیے مسلمانو اسلامی جھنڈے کی لاج رکھنا اور اُسے گرنے نہ دینا.چنانچہ دوسرا اصحابی آگیا.اور اس نے جھنڈا پکڑ لیا.آج ہمارے جھنڈے کو گرانے کی بھی دشمن پوری کوشش کر رہا ہے اور رساط له الفضل " مدارس ۱۹ صفحه ۹۰۸ کالم ۲-۴ : قادیان

Page 208

۱۷۴ زور لگارہا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں جو جھنڈا دے گئے ہیں، اُسے گرا دے.اب ہمارا فرض ہے کہ اُسے اپنے ہاتھوں میں پکڑے رہیں اور اگر ہاتھ کٹ جائیں تو پاؤں میں پکڑلیں اور اگر اس فرض کی ادائیگی میں ایک کی جان چلی جائے تو دوسرا کھڑا ہو جائے اور اس جھنڈے کو پکڑے.میں ان نمائندوں کو چھوڑ کر ان بچوں اور نوجوانوں سے جو اوپر بیٹھے سُن رہے ہیں ، کہتا ہوں ممکن ہے یہ جنگ ہماری زندگی میں ختم نہ ہو گو اس وقت لوہے کی تلوار نہیں چل رہی.لیکن واقعات کی ، زمانہ کی اور موت کی تلوار تو کھڑی ہے ممکن ہے یہ چل جائے.تو کیا تم اس بات کے لئے تیار ہو کہ اس جھنڈے کو گرنے نہ دو گے ؟ راس پر سب نے بیک آواز لبیک کہا) ہمارے زمانہ کو خدا اور اس کے رسولوں نے آخری زمانہ قرار دیا ہے.اس لئے ہماری قربانیاں بھی آخری ہونی چاہئیں.ہمیں خدا تعالیٰ نے دنیا کی اصلاح کے لئے چنا ہے.اور ہم خدا ت لی کی چیدہ جماعت ہیں.ہمیں دنیا سے ممتاز اور علیحدہ رنگ میں رنگین ہونا چاہیئے صحابہ ہمارے ادب کی جگہ ہیں.مگر عشق میں رشک پیاروں سے بھی ہوتا ہے.پس ہمارا مقابلہ اُن سے ہے جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دوش بدوش جنگیں کیں اور اپنی جانیں قربان کیں.ہم اُن کی بجد عزت رتے اور توقیر کرتے ہیں.لیکن کوئی وجہ نہیں کہ اُن کی قربانیوں پر رشک نہ کریں اور اُن سے بڑھنے کی کوشش نہ کریں “ فصل دوم سالانہ جلسه انجمن حمایت اسلام کی ہنگامہ آرائی کے چند روز بعد ڈاکٹر ڈاکٹر محمد اقبال صاحب کا بیان - معمار اقبال صاحب نے مری کو ایک طویل بیان دیا جو اخبار جماعت احمدیہ کی نسبت "زمیندار" اور احسان" میں شائع ہوا.اس بیان میں آپ نے مطالبہ کیا کہ حکومت جماعت احمدیہ کو ایک غیرمسلم اقلیت قرار دے.اس عجیب و غریب مطالبہ کی معقولیت ثابت کرنے کے لئے مسئلہ ختم نبوت کی خود ساختہ فلسفیانہ تشریح کا سہارا لیکر اپنا یہ خیال ظاہر کیا کہ : ه گورت مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء سفر ۹۲-۹۲ کے اقبال صاحب کے تصور ختم نبوت پر انہی دنوں جناب حقانی صاحب اہم ہے پروفیسر علامہ سید عبد القادر صاحب بھاگلپوری اور جناب امیر عالم صاحب پٹیالوی نے نہایت قابل قدر معرکۃ الآراء اور (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پیہ)

Page 209

140 میرے نزدیک....بہائیت قادیانیت سے کہیں زیادہ مخلص ہے کیونکہ وہ کھلے طور پر اسلام سے باغی ہے" نے نیز لکھا :- ”ہندوستان میں حالات بہت غیر معمولی ہیں.اس ملک کی بیشمار مذہبی جماعتوں کی بقاء اپنے استحکام کے ساتھ وابستہ ہے.کیونکہ جو مغربی قوم یہاں حکمران ہے اس کے لئے اس کے سوا چارہ نہیں کہ مذہب کے معاملہ میں عدم مداخلت سے کام لے.اس پالیسی نے ہندوستان ایسے ملک پر بدقسمتی سے بہت برا اثر ڈالا ہے.جہانتک اسلام کا تعلق ہے یہ کہنا مبالغہ نہ ہو گا کہ مسلم جماعت کا استحکام اس سے کہیں کم ہے جتنا حضرت مسیح کے زمانہ میں یہودی جماعت کا رومن کے ماتحت تھا.ہندوستان میں کوئی مذہبی سٹے باز اپنی اغراض کی خاطر ایک نئی جماعت کھڑی کر سکتا ہے اور یہ بقی حاشیه صفحه گذشته - استانہ مضامین لکھے تھے جو افضل (۳۵) میں شائع ہوئے.اسی طرح ریویو ان ریلیجن انگریزی جون ۳ اد میں بھی ایک اہم مقالہ شائع ہوا.سید ابوالا مسلئے صاحب مودودی ڈاکٹر سر محمد اقبال اور ان کے ہمنواؤں نظریہ ختم نبوت کی تخلیط کرتے ہوئے لکھتے ہیں:." جو لوگ ختم نبوت کی یہ توجیہ کرتے ہیں کہ انسانی شعور کو اس کی ضرورت نہیں رہی تو وہ در اصل سلسلہ نبوت کی تو ہین اور اس پر حملہ کرتے ہیں.اس تعبیر کے معنی یہ ہیں کہ صرف ایک خاص شعوری حالت تک ہی اس ہدایت کی ضرورت ہے جو نبی لاتے ہیں.اس کے بعد انسان نبوت کی رہنمائی سے بے نیاز ہو گیا ہے" در ساله ترجمان القرآن " لاہور بابت ستمبر ۹۵ در صفحه ۴۳۳۱ جلد ۴۲ نمبر ۱۶) حاشیه متعلقه صفحه بندا نے سرمحمد اقبال صاحب کا دعوی ہے کہ اسلامی حقائق و معارف میں نے مولانا رومی سے حاصل کئے ہیں مگر انہوں نے ختم نبوت کے میں فلسفیانہ تخیل کی بناء پر قادیانیت کو بہائیت کے مقابل اسلام کا بانی قرار دیادہ تخیل مولانا رومی کے نقطہ نگاہ سے بالکل مختلف ہے.مولانا روم نے تو ختم نبوت کی تفسیر ہی یہ فرمائی ہے کہ :.ختم ہائے کا نبیا بگذاشتند.آن بدین احمدی برداشتند + قفل پائے تا کشاده مانده بود - از كف انا فتحنا بر کشور + بهر این خانم شدست او که بود ، مثل او نے بود نے خواهند بوده چونکه درصنعت برد استاد دست - نے تو کوئی ختیم صنعت بر تو هست مثنوی دفتر ششم علامہ سید عاشق حسین صاحب سیماب اکبر آبادی نے ان اشعار کو اُردو نظم میں یوں ڈھالا ہے :- سه تا پہلے گو راہ ختم رسلان - ٹوٹ جائے لب کی یہ شہر گواں : اگلے نبیوں نے جو شہریں چھوڑ دیں.دین احمد نے وہ مہریں توڑ دیں ؟ بے کھٹے تھے تضلی مدت سے پڑے.اب وہ سب اِنا فَتَمنا سے کھلے ختم یوں پیغمبری اُن پر ہوئی.کوئی اُن سا تھا نہ پھر ہو گا کوئی کرتا ہے اُستاد جب صنعت کوئی.کہتے ہیں بس ختم ہے صنعت گری: الهام منظوم ترجمہ اردو شنوی مولانا روم رحمت الله علیه دفتر ششم، علامه سید عاشق حسین صاحب سیماب اکبر آبادی صفحه ۱۹ - ناشران ملک دین محمد اینڈ ستر اشاعت منزل لاہور )

Page 210

124 لبرل حکومت اس جماعت کی وحدت کی ذرہ بھر پروا نہیں کرتی بشر طیکہ یہ مدعی اسے اپنی اطاعت اور وفاداری کا یقین دلا دے اور اس کے پیر و حکومت کے محصول ادا کرتے رہیں " سلہ اخبار سیاست کا اداریہ حسب ذیل اداریہ لکھا :- ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کے اس بیان پر مسلم پنجاب کے مقتدر اور با اشهر اخبار سیاست نے ۱۴- ۱۵ مئی ۹۳۵ہ کی اشاعتوں میں سرا قبال اگر چاہتے توجو زبان انہوں نے استعمال کی ہے اس سے بہتر زبان استعمال کر سکتے تھے لیکن خیر یہ دان کے اختیار کی بات ہے کہ وہ اظہار جذبات میں اعتدال سے کام لیں یا نہ لیں ، مجھے اور دوسرے مسلمانوں کو صرف یہ دیکھتا ہے کہ علامہ اقبال کا استدلال کہا تک حق بجانب ہے.لامہ مروح کے اس بیان میں ختم نبوت کے متعلق جو کچھ موجود ہے ،سیاست اس کا مؤید ہے اور اس کو آپ زر سے لکھنے کے قابل سمجھتا ہے.علامہ ممدوح نے اس بیان میں حضرت مسیح علیہ السلام کی بعثت ثانیہ اور حضرت محمدی علیہ السلام کے ظہور کا انکار کیا ہے اور اس کو مجوسیوں یہودیوں اور نصرانیوں کا خیال ظاہر کر کے لکھا ہے کہ جاہل مولویوں نے ان عقائد کو اعتبار سے لے کر عام کر دیا حسیں کی وجہ سے اسلام میں فتنے پیدا ہو چکے اور ہو رہے ہیں.سیاست نے اس پر لکھا کہ اگر علامہ اقبال علمائے احنات وغیرہ کو بلا کہ اُن کے روبرو اپنا نظریہ پیش کریں اور علماء کا اس بات پر اتفاق ہو جائے کہ نزول مسیح و ظہور مہدی محض ڈھکوسلہ ہی ڈھکوسلہ ہے تو اس سے تحریک قادیان کو اس قدر ضرر پہنچے گا کہ احرار کی فتنہ آرائی ، افتراق پروری ، نفاق انگیزی، چنده بازی، اور دشنام طرازی سے ہرگز نہیں پہنچ سکتا.تعجب ہے کہ سالہا سال سے احمدیوں اور غیر احمدیوں میں جنگ عقائد جاری ہے.لیکن علامہ اقبال سے آج تک یہ بن نہیں پڑا کہ وہ ایک رسالہ یا مضمون لکھتے یا لیکچر ہی دے کر یہ کہتے کر مسیح موعود و مہدی کی آمد کا خیال ہی شریعت حصہ سے بیگانہ ہے لیکن اب بھی کچھ زیادہ نقصان نہیں ہوا.میں 1.لے حرف اقبال" صفحہ ۱۱۶- ۱۱۷ مؤلفہ لطیف احمد شروانی ایم اے ناشر ایم ثناء اللہ خان ۲۶.ریلوے روڈ لاہور.ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب برطانوی حکومت کی تعریف و توصیف اور اطاعت و وفاداری جس جذبہ شوق اور جوش و خروش سے فرماتے رہے اس کے بکثرت نمونے " باقیات اقبالی" در تیر سید عبد الواحد صاحب معینی ایم.اے آکسن) میں ملتے ہیں.اس کتاب میں ملکہ وکٹوریہ (صفحہ ۷۲) سر میکورتھ بینگ لیفٹیننٹ گورنر پنجاب (صفحہ ۹۷) جارج پنجم (صفحه ۲۰۰۶) سرمائیکل اوڈوائر گورنر پنجاب (صفحہ ۲۱۷) جشن فتح جنگ عظیم اوّل صفحه ، (۲۳) سائمن کمیشن (صفحہ ۲۲۰) کی نسبت شاعر مشرق کے خیالات و افکار اور مراثی و قصائد خاص طور پہ ذیل مطالعہ ہیں.ان کے چند نمونے تاریخ احمد بہت جلد کے صفحہ ۴۰۵ تا ۲۰۰۷ پر بھی درج ہیں :

Page 211

166 علامہ اقبال سے بمبنت عرض کروں گا کہ دو ملت، مرحومہ کے دل سے اس خیال باطل کو نکالنے کے لئے عملی تدابیر اختیا فرما کر عنداللہ ماجور وعند الناس مشکور ہوں.علامہ اقبال نے اپنی تحریر زیر بحث میں حکومت پر مرزائیت نوازی کا الزام لگایا ہے.سیاست تحکومت سے مطالبہ کر چکا ہے اور اس مطالبہ کی اب تجدید کرتا ہے کہ وہ اس خیال کی تردید یا تصدیق کرے اس لئے کہ علامہ مدرج کی اسلے حیثیت کے مسلمان کی طرف سے ایسا الزام لگنے کے بعد حکومت کی خاموشی مجرمانہ ہوگی علامہ مدوح نے اپنے بیان میں رائج الوقت آزادی عقائد کو مضر بتایا ہے.لہذا سیاست نے آپ سے یہ ادب التجا کی ہے کہ آپ براہ نوازش فرمائیں کہ آپ انگریزوں سے کیا توقع رکھتے ہیں کہ وہ آزادی عقائد پر کون کونسی پابندیاں عائد کریں تاکہ مرانی فرقہ کی طرح کے مختلف گروہ پیدا ہی نہ ہوسکیں.تاہم سیاست نے بہ ادب علامہ اقبال کو اس حقیقت کی طرف متوجہ کیا تھا کہ سیکڑالوی اور مرزائی فرقہ کے علاوہ ملت میں جس قدر فرقے نمودار ہوئے وہ سب ہندوستان سے اور انگریزوں کی حکومت کے حلقہ اثر سے باہر پیدا ہوئے بہذا حکومت حاضرہ کی روش کو افتراق بین السلمین کا سبب قرار دینا کچھ صحیح نظر نہیں آتا.علامہ اقبال نے اس بیان میں احرارہ کی موجودہ شرارت کے جواز کی دلیل یہ پیش کی ہے کہ ختم نبوت سے انکار کی وجہ سے مسلمانوں میں جو ان تلاوت پیدا ہوا ہے یہ ہر پہلے اختلاف سے بدتر ہے اگر چہ شیعہ اور ستی ، حنفی اور وہابی اور دوسرے ایسے جھگڑوں کے متعلق ڈاکٹر صاحب کی رائے سے مجھے اختلاف ہے اور میں آپ سے عرض کر سکتا ہوں کہ شیعہ اور سستی اور حنفی اور وہابی اسی طرح یکجانماز نہیں پڑھتے اور ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات ازدواج قائم نہیں کرتے جیسے احمدی اور غیر احمدی.تاہم اس دلیل کو ترک کر کے میں علامہ حمد روح سے استصوا کرنے کی جرات کرتا ہوں کہ کیوں چودھری ظفر اللہ خاں کے تقرر کے بعد اُن کی محبت ختم رسل (فداہ ابی و اتی ہیں جوش آیا اور کیوں اس سے پہلے وہ اس میدان میں نہ اُترے حالانکہ اس فتنہ کی عمر کشمیر کمیٹی اور چودھری صاحب کے تقرر سے کوئی تمیش سال کے قریب زیادہ ہے.کیا وجہ ہے کہ چودھری صاحب کے رکن پنجاب کو نسل منتخب ہونے کے وقت یا ان کے سائمن کمیٹی کا حمد منتخب ہونے پر یا ان کے اول مرتبہ سر فضل حسین کی جگہ مقرر ہونے پر یا مزانیوں کی متعدد دیگر تحریکات کے زمانہ میں آپ نے اس گروہ کے خلاف علم جہاد بلند نہ کیا ؟ علامہ اقبال کا مطالعہ بہت وسیع ہے.وہ مرزائیوں کی سیاسی مخالفت کے جواز میں اتحاد ملت کی تربیت پر زور دیتے ہیں.اگر بالفرض اس بات سے قطع نظر بھی کر لی جائے کہ احمدیوں کے سیاسی لحاظ سے علیحدہ ہونے

Page 212

16A کے بعد پنجاب کی وہ مسلم اکثریت جس کے لئے ہم گذشتہ دس سال سے لڑرہے ہیں برباد ہو جائے گی اور اس کے بعد شیعہ علیحدہ نیابت کے اس مطالبہ کو جو وہ گذشتہ پانچ سال سے پیش کر رہے ہیں، زیادہ قوت سے پیش کر کے ملت کی صف میں مزید انتشار کا باعث ہو جائیں گے.میں علامہ ممدوح سے یہ پونچھنے کی جرات کرتا ہوں کہ وہ تاریخ عالم میں سے مجھے ایک مثال ایسی بتا دیں جس سے یہ ثابت ہو کہ جب کسی امت میں ایک دفعہ عقیدہ کا اختلاف پیدا ہو چکا ہو تو پھر وہ تبلیغ یا بحث یا مقاطعہ یا مجادلہ یا تشدد سے مٹ گیا ہو.مجھے یقین ہے کہ وہ اس کی ایک مثال بھی پیش نہیں کر سکیں گے.بلکہ دنیا جانتی ہے کہ بدھ مت والوں اور برہمنوں نے ہندوستان میں اور رومن کیتھولک اور پراٹسٹنٹ عیسائیوں نے یورپ میں اور خوارج اور شیعہ اور سنی مسلمانوں نے شام، عرق اور عرب میں اختلاف عقائد کی وجہ سے ایک دوسرے کو قتل کرنے، برباد کرنے اور زندہ جلا دینے کے بعد اگر کسی اصول پر مسلح کی تودہ اصول یہی تھا کہ انہوں نے اختلاف عقاید کو گوارا کر لیا.اگر تاریخ کا یہ سبق ناق بل انکار ہے تو کیا یہ حقیقت اندوہناک نہیں کہ علامہ اقبال کا سا بلند پایہ مسلمان ملت کو مجادلہ مقاطعہ کا سبق دیتا ہے اور یہ نہیں کہتا کہ اختلاف عقیدہ کو بحث و مباحثہ کے لئے ترک کر کے سیاسی لحاظ سے متحد ہو جاؤ.اور لطف یہ کہ علامہ محمدوح مسلمانوں کو افتراق کی دعوت دیتے ہوئے خود مرزائیوں سے سیاسی طور پر اتحاد پیدا کر رہے ہیں.چونکہ مقالہ امروزہ طویل ہوگیا ہے لہذا میں اس بحث کو اشاعت فردا میں مکمل کروں گا.وبالله التوفيق اخبار سیاست نے اپنے دوسرے اداریہ میں لکھا کہ :- " مجھے اس حقیقت کو الم نشرح کرنا ہے کہ یہانتک مرزائیوں کی تکفیر کا تعلق ہے کوئی غیر مرزائی مسلمان ایسا نہیں جو علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال سے متفق نہ ہو.میں اپنی کتاب ”تحریک قادیان میں صاف لکھ چکا ہوں اور مقدمہ گورداسپور میں مرزائی جماعت کے موجودہ خلیفہ صاحب نے صاف کہدیا ہے کہ وہ غیر مرزائی مسلمانوں کو کافر سمجھتے ہیں اور شرع اسلام کی وجہ سے جو شخص کسی مسلمان کو کافر کہے وہ خود کافر ہوتا ہے.لہذا مرزائی جماعت کے کافر ہونے میں نہ کوئی شک ہو سکتا ہے اور نہ شبہ اور نہ کوئی شک وشبہ موجود ہی ہے.اور اس معاملہ میں مجھے ڈاکٹر صاحب کی ہمنوائی کا فخر حاصل ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس تکفیر کا مسلمانوں کے باہمی تمدنی معاشرتی اور اخلاقی تعلقات پر کیا اثر ہونا چاہیے.کیا ہمیں مرزائیوں سے وہی سلوک کرنا چاہیے جو ہم عیسائیوں اور ہندو لو اور ه اخبار سیاست " لاہور بحوالہ روز نامہ الفضل " قادیان مورخه ۸ ارمئی ۱۹۳۵ به صفحه ؟ در ۱۹

Page 213

129 اور سکھوں سے کرتے ہیں یا مزائی اور عام مسلمانوں میں جو قضیہ تکفیر موجود ہے اس کو وہی حیثیت دینا چاہیئے جو شیعه مینی جعفی، وہابی، مقلد، غیر مقلد ، بریلوی ، بدایونی ، دیوبندی اور چکڑالوی وغیرہ کے باہمی شغل تکفیر کو اصل ہے.علامہ اقبال احرار کی موجودہ فتنہ پروری کی آج حمایت کر رہے ہیں لیکن جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں.مرزائیت کم و بیش گذشته تین سال سے موجود ہے اور اس طویل عرصہ میں.ہر که رمز مصطفی فهمیده است شرک را در خون مضمر دیده است کا نعرہ لگانے والے علامہ اقبال کا طرز عمل وہی رہا ہے جس کی تائید و حمایت کی وجہ سے آج میرے ایسے مسلمان مورد طعن ہو رہے ہیں.کوئی عطاء اللہ شاہ بخاری ، کوئی حبیب الرمن ، کوئی افضل حق یا کوئی مظہر علی اگر اس روش کے حامیوں کو مرزائی کہدے یا اگر ایسا نہ کر سکے تو وظیفہ خوار قادیان کہہ کر بد نام کرے تو وہ قابل معافی ہے اس لئے کہ اُسے روٹی کما کر کھانا ہے.اس کی ہر دلعزیزی کا اساس عوام کی گمراہی ہے.وہ رسوائی کو شہر سمجھے کہ اس پر مرتا ہے اور اس کی تعلیم اور اس کا اخلاق بلند نہیں.لیکن علامہ اقبال کی شخصیت علمیت، ہر دلعزیزی، شرافت ، نجابت ، قابلیت اور بلند اخلاق و شہرت کا حامل اگروہ بات کہے جو ملت کے لئے برباد کن ہو تو یقینا ہمیں حق حاصل ہوتا ہے کہ ہم ملت کے مستقبل کا ماتم کریں اور نوحہ کریں کہ جین سے امید ہدایت تھی وہی ملت کو گمراہ کر کے تباہی و بربادی کی طرف لے جا رہے ہیں.یہ حقیقت که تین سال کی طویل میعاد تک علامہ اقبال کا مسلک مرزائیوں کے متعلق وہی رہا جو آج ہم نے اختیار کر رکھا ہے، نا قابل انکار ہے.علامہ صاحب نے آج سے پہلے کبھی یہ اعلان نہیں کیا.کہ مرزائی ختم نبوت کے دشمن ہیں لہذا یا معاشر المسلمین تم اُن سے آگاہ رہو بلکہ اس کے برعکس سیاسی علمی، تمدنی اور معاشرتی مجالس میں ان کے ساتھ مل کر کام کرتے رہے ہیں.ڈاکٹر یعقوب بیگ اور علامہ اقبال یکساں بطور مسلمان انجمن حمایت اسلام کے رکن رہے اور علامہ نے کبھی اس پر اعتراض نہیں کیا مسلم لیگ مسلم کا نفرنس میں چودھری ظفر اللہ خال اور علامہ اقبال یکسال بطور مسلمان ممبر بنے رہے.علامہ صاحب نے اس پر اعتراض نہیں کیا.چودھری صاحب مسلم لیگ کے صدر ہوئے عوام میں سے بعض نے اعتراض بھی کیا.علامہ صاحب نے نہ صرف کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ معترضین کی تائید بھی نہیں کی اور خود چودھری صاحب کے تحت لیگ کے ممبر رہنے رہے.علامہ محمدوح لیگ اور کا نفرنس کے تعدد رہے لیکن آپ

Page 214

IA.نے کبھی اس بات پر اعتراض نہیں کیا کہ ان مجالس میں قادیانی بھی بطور مسلمان شامل ہوتے ہیں.قادیان سے اِن جماعتوں کو علامہ صاحب کی صدارت میں مالی اعداد ملی مگر علامہ صاحب نے اس پر اعتراض نہیں کیا.پنجاب کونسل میں چودھری ظفر اللہ خاں اور علامہ اقبال دونوں مسلمانوں کے نمائندوں کی حیثیت سے پہلو بہ پہلو کام کرتے رہے اور سائمن کمیٹی کے لئے جب چودھری صاحب کو بطور مسلمان میر منتخب کیا گیا تو علامہ صاحب نے کوئی اعتراض نہیں کیا.اور انتہا یہ ہے کہ جب حکومت نے گول میز کا نفرنس میں مسلمانوں کی نیابت کے لئے علامہ اقبال اور چودھری ظفر اللہ خان صاحب کو بہ حیثیت مسلمان بچنا تو نہ صرف علامہ اقبال نے کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ وہ لندن میں چودھری صاحب کے دوش بدوش کام کرتے رہے.حال ہی میں چودھری صاحب کے بھائی مسلمانان سیالکوٹ کی طرف سے کونسل کے رکن منتخب ہوئے ہیں.سیالکوٹ، علامہ اقبال کا وطن ہے لیکن علامہ ممدوح نے ہرگز کوئی سعی اس بات کی نہیں کی کہ وہاں کے مسلمان اسبداللہ نعال جیسے غیر مسلم کو اپنا نمائندہ منتخب نہ کریں.لیکن شاید کہا جائے گا کہ گذشتہ را صلوۃ آئندہ را احتیاط ، جو کچھ ہوا وہ غلط تھا.آئندہ علامہ صاحب ایسا نہ کریں گے.اول تو ممدوح کی حیثیت کے بلند فرد کے متعلق یہ عدد ہر گز عذر معقول نہیں کہلا سکتا.تاہم اگر بغرض دلیل اس کو صحیح بھی تسلی کر دی جائےتو علامہ اقبال کے پاس اس بات کا کیا جواب ہے کہ حال ہی میں نندن میں جولی کے موقعہ پر جو جماعت اس غرض سے قائم ہوئی ہے کہ برطانیہ اور دنیائے اسلام کے تعلقات بہتر ہوتے چلے جائیں اس میں علامہ اقبال اور چودھری ظفر اللہ خاں دونوں بطور مسلمان شامل ہیں.یہ لیگ کی خبر رائٹر نے دس مئی کو دی اور وہ گیارہ مئی کے اخبارات میں شائع ہوئی.اس کے تمبر یا برطانیہ کے لارڈ ہو سکتے ہیں اور یا مسلمان کوئی غیر مسلم غیر انگریز اس کا رکن نہیں ہو سکتا.اس میں جو لوگ بحیثیت مسلمان شامل ہیں اُن کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں :- (1) سر آغا خان (شیعہ) (۲) امیر عبد اللہ والی شرق اردن (سنی) (۳) سابق ولیه چند ایران (شیعہ) (۴) نواب چھتاری (حنفی (۵) سر عزیز الدین احمد دشتی) (۶) سر محمد اقبال (سنتی) (6) سر عبد الصمد خال (شیعہ) (۸) چودھری ظفر اللہ خاں (قادیانی) (۹) سر سلطان احمد (شیعه) (۱۰) سر ر عبد القادر و شتی ) (11) حاجی عبداللہ ہارون (آغا خانی)

Page 215

IMI (۱۲) کر حشمت الله (ستی) (۱۳) نواب لوہارو دستی) (۱۲) حاجی علی رضا دشتی) سوال یہ ہے کہ اس انجمن میں چودھری ظفر اللہ خان کس حیثیت سے شامل ہوئے ؟ وہ انگریز ہونے کے مرگی نہیں ہیں کہ انگریز ہو سکتے ہیں نہ انگریز ہیں اور اس انجمن میں کوئی شخص جو انگریز نہ ہو شامل ہو نہیں سکتا جب تک کہ وہ مسلمان نہ ہو چو دھری صاحب اگر مسلمان نہیں ہیں تو علامہ صاحب نے ان کے ساتھ ممبر بنا کیوں قبول کیا.اور اگر آپ نا واقفیت کا عذر بنائیں تو آپ دش مئی سے لے کر آج تک اس جماعت سے علیحد کیوں نہیں ہو گئے.میں کہتا ہوں کہ چودھری صاحب کی معیت میں اس جماعت کی رکنیت قبول کر کے علاقہ صاحب نے تسلیم کر لیا ہے کہ باہمی نزاع تکفیر کے باوجود جس طرح عام مفاد ملت کی خاطر ستی ، شیعہ جنفی، وپایی، بریلوی ، دیوبندی مل کر کام کرنے پر تیار ہیں.اسی طرح مرزائی اور غیر مرزائی مسلمان بھی استاد عمل پر آمادہ ہیں اور یہی وہ بات ہے جو ہم چاہتے ہیں کہ مسلمان قبول کریں اور اپنا اصول عمل بنائیں.علامہ صاحب سے تکفیر مرزائیت میں اتفاق کرنے کے بعد میں ایک عرض کرنا چاہتا ہوں جہلاء خود غرض اشخاص اس دلیل کو رد کر دیں تو اور بات ہے.مگر مجھے امید ہے کہ علامہ صاحب کی علمیت کا سچا مسلمان اس دلیل پر غور کرے گا.میرا استدلال یہ ہے کہ نبوت کو لاکھ بڑھائیں.پھر بھی توحید باری سے بالا تر نہیں نے جا سکتے.اگر ایسا کریں تو اللہ تعالے کی توحید کے علمبردار اول جناب محمد مصطفے خداہ ابی و اتی ہم سے خفا ہو جائیں گے اور اگر تو حید رسالت سے بالا تر ہے تو علامہ اقبال خدائی کے دعویدار آغا خاں کے ساتھ اتحاد مل کرتے ہوئے کس طرح مرزائیوں سے اتحاد عمل کو ناروا قرار دے سکتے ہیں " سے اخبار سیاست کے علاوہ روزنامہ ”حق " لکھنو نے روزنامہ حق لکھنو کا ادارتی نوٹ شائع کیا :- " ۲۷ جون سنہ کی اشاعت میں حسب ذیل لیڈنگ آرٹیکل فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں کیا زمانہ میں پہنچنے کی یہی باتیں ہیں؟ مسلمانوں کا مائی صد ناز شاعر اب سے کچھ دن قبل مسلمانوں کا نیر اقبال بن کر مطلع پنجاب پر چہ کار اور مسلمانوں کو جو تعلیم دی وہ شر مندرجہ عنوان میں پیش کی گئی ہے.وہی اقبال تو فرقہ بندی کو مہلک اور ذات پات کے امتیاز کو موت سمجھتا تھا ، آج کچھ اور کہہ رہا ہے.ایک طرف اس کا مندرجہ بالا شعر ہے اور دوسری طرف اس کا وہ بیان ہو نه بجواله " الفضل قادیان ۲۲ مئی ۱۹۳۵ صفحه ۳ به

Page 216

۱۸۲ حال ہی میں اس نے جماعت احمدیہ قادیان کے متعلق اخبارات کو دیا ہے.ان دونوں پیغاموں میں جو اجتماع مندین ہے اس کو دیکھ کہ ہم حیران ہیں کہ اس شعر کہنے والے اقبال کو اقبال سمجھیں یا اس بیان دینے والے اقبال کو اقبال.شاعر اقبال نے اپنے شعر میں ہم کو پنپنے کے لئے فرقہ بندی اور ذات پات کے امتیاز سے مجتنب رہنے کا مشورہ دیا ہے.اور اب لیڈر ا قبال نے ہم کو یہ سیاسی مشورہ دیا ہے کہ ہم قادیان کی جماعت احمدیہ کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھیں اور حکومت پر زور ڈالیں کہ وہ قانونی حیثیت سے بھی احمدیوں کو مسلمان نہ سمجھے.ہم کو ڈاکٹر سر محمد اقبال سے اس حد تک پورا پورا اتفاق ہے کہ عام مسلمانوں اور احمدیوں میں اعتقادات کا بہت بڑا اختلاف ہے اور اگر اس اختلاف کو شدت پسندی کی نظر سے دیکھا جائے تو بعض صورتوں میں مذہبی اعتبار سے احمدی جماعت اور عام مسلمانوں کے درمیان اتحاد عمل ناممکن سا نظر آتا ہے.لیکن سوال یہ ہے کہ احمدیوں کو قطع نظر کر کے کیا اسی قسم کے اختلاف اہلِ سنت اور اہل تشیع میں کار فرما نہیں ہے ؟ کیا یہی تضاد السنت کی مختلف العقیدہ جماعتوں میں نہیں ہے.وہابی اور منفی ، بریلوی اور دیوبندی ، اسی طرح مختلف اسکول ہر ہر جماعت میں موجود ہیں.ان میں کی ہر شاخ دوسری شاخ کو اپنے نقطۂ نظر سے مرتد اور کافرگردانتی ہے اور بقول مدترین فرنگ کے یہ تو مسلمانوں کا ایک عام مسئلہ ہے کہ ان میں کا ہر فرد دوسرے کو نہایت آسانی کے ساتھ کافر کہ دیتا ہے.خیر یہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ کون مومن ہے اور کون کافر.لیکن اس تمام اختلاف کو دیکھتے ہوئے سب سے زیادہ محفوظ صورت یہی ہے کہ ہم ہر کلمہ گو کو مسلمان سمجھیں جو خدا کو ایک اور محمد رسول اللہ صل للہ علیہ وسلم کو اس کا معیوب اور رسول سمجھتا ہو.اگر مسلمان کی تعریف صرف یہی تسلیم کر لی جائے تو جیس طرح ایک منفی کو، ایک وہابی کو ایک مقلد کو، ایک غیر مقلد کو ، ایک دیوبندی کو اور ایک بریلوی کو مسلمان کہا جاسکتا ہے اسی طرح احمدیوں کو بھی دائرہ اسلام سے خارج قرار نہیں دیا جا سکتا.اور کسی کوغیر مسلم کہنے کا ہم کو حق ہی کیا ہے جب وہ خود اس پر مصر ہو کہ ہم مسلمان ہیں.اگر ہم اس کو مسلمان نہ بھی سمجھیں تو ہمارے اس نہ سمجھنے سے کیا ہو سکتا ہے اس کا مذہب خود اس کے قول سے تسلیم کیا جائے گا.بہر حال ہم اس تمام بحث کو ان کے دلائل کے ساتھ پیش کرنے کی بجائے اس کے محض سیاسی پہلو کو نمایاں کرنا چاہتے ہیں.کہ مسلمانوں کے لئے یہ کتر و بیونت کس حد تک مفید یا مضرت رساں ہے.ہماری ملکی سیاسیات کا موجودہ دور وہ اہم اور نازک دور ہے کہ ہر جماعت خواہ وہ اکثریت میں ہو یا اقلیت میں، اپنی شیرازہ بندی اپنی تنظیم اور اپنے تحفظ کی فکر میں ہمہ تن مصروف ہے.ہندو ہیں کہ اچھوتوں کو اپنے میں ملانے کی کوشش

Page 217

IAN کر رہے ہیں.وہ جانتے ہیں کہ اچھوت ان میں سے نہیں.ان کو اس کا بھی احساس ہے کہ اچھوتوں سے ملنا دھرم کو مٹی میں ملاتا ہے.مگر آج ضرورت نے اسی حرام کو حلال کر دیا ہے اور وہ اچھوت جن کا سایہ تک ناپاک سمجھا جاتا تھا اور جن کو دیکھ کر ایک کر بہت سی ہوتی تھی آج ہندوؤں کی سر آنکھوں پر جگہ پا رہے ہیں.اور وہی ہندو جوان نا پاک اچھوتوں کو دیکھ کر حقارت اور تنفر کے ساتھ اچھی چھی چھی " کہا کرتے تھے، آج ان کو اپنے سر چڑھا رہے ہیں.ان کو اپنی برادریوں میں برابر کی جگہ دے رہے ہیں.ان کے ساتھ کھا رہے ہیں.ان سے روٹی بیٹی" کے تعلقات پیدا کرنے کے لئے کوشاں ہیں بحالانکہ ان کو اس کی ضرورت نہیں ہے.وہ بغیر اچھوتوں کو ملائے ہوئے اکثریت میں ہیں.مگر اس کے باوجود وہ اپنے اس فرض سے غافل نہیں ہیں کہ اگر اس وقت انہوں نے اچھوتوں کو چھوڑ دیا تو ممکن ہے کہ ان کو مسلمان یا کوئی اور اقلیت اپنا لے اور ان کو ملا کر اکثریت بن جائے.ایک طرف تو یہ احتیاط ہے اور دوسری طرف مسلمانوں کی یہ لا پروائی بلکہ سیاسی بد بختی ہے کہ ان میں بجائے تنظیم کے ایک پھوٹ پڑی ہوئی ہے.عام مسلمانوں کا کیا سوال جبکہ مسلمانوں کے لیڈران کو باہمی تفرقہ سازی کا سبق پڑھا رہے ہیں.گر ہمیں مکتب و ہمیں ملا کار طفلان تمام خواهد شد احمدیوں کو مسلمان نہ سمجھنے اور قانونی حیثیت سے اُن کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیئے بجانے کی تحریک ہی کو دیکھ لیجئے کہ یہ سیاسی اعتبار سے کس قدر نا بھی ، عاقبت نا اندیشی اور تد تور کے منافی تحریک ہے.اور اسی تحریک سے مسلمانوں کے سیاسی فقدان کا پتہ چلتا ہے.یہ ایک موٹی سی بات ہے کہ احمدیوں کو اپنے سے علیحدہ نہ کر کے ہم بہر حال کسی نقصان میں نہیں بلکہ فائدے میں ہیں.اول تو ہماری تعداد بڑھی ہوئی ہے.دوسرے اُن کے ووٹروں سے ہم فائدہ اُٹھاتے ہیں.تیسرے سب سے بڑی بات یہ کہ اس کا فیصلہ بالکل ہماری مرضی پچر ہے کہ ہم کسی احمدی کو کسی مجلس قانون ساز میں منتخب ہونے دیں یا نہ ہونے دیں.لیکن احمدیوں کو اپنے حلقہ سے جدا کرنے کے بعد ہم کو سب سے پہلا نقصان تو یہ پہنچے گا کہ ہماری جماعت کا ایک عنصر گویا ہم سے علیحدہ ہو گیا.ہماری اقلیت اور بھی اقل ہو کر رہ جائے گی.اور گویا ہم خود اپنے دوٹواں کو اپنے ہاتھ سے دیں گے.اس کے علاوہ احمدیوں کے علیحدہ ہو جانے کے بعد ان کی نشستیں بالکل صلیحدہ ہو جائیں گی اور وہ مجالس قانون ساز میں بغیر روک ٹوک کے جاسکیں گے.آج اگر وہ جانا چاہیں تو ان کو آپ کی مدد کی ضرورت ہوگی لیکن علیحدگی کی صورت میں وہ بلاشرکت غیرے اپنی نشستوں کے مالک ہوں گے.اور ان کو مجالس قانون ساز

Page 218

IAP میں جانے سے کوئی بھی نہ روک سکے گا صرف پنجاب ہی کے صوبہ کو لے لیجئے جہاں سے یہ تحریک اکھٹی ہے اور اس کے بعد اندازہ کیجئے کہ یہ تحریک کس قدر بے محل اور غلط ہے.پنجاب میں آبادی کے تناسب کے اعتبار سے مسلم اکثریت ہے اور مسلمانوں نے حکومت کو اس بات پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ پنجاب کی مسلم اکثریت کو آئینی طور پر تسلیم کرے.چنانچہ حکومت نے ایک نشست کی زیادتی سے مسلم اکثریت تسلیم کرلی ہے.ہندو اور سکھ متفقہ طور پر مسلم اکثریت قبول کرنے سے انکار کر رہے ہیں.چنانچہ راجندر پرشاد اور مسٹر جناح کی گفتگوئے مصالحت بھی ہندوؤں اور سکھوں کی طرف سے اسی بناء پر بیکار قرار دی گئی اور اس سمجھوتہ کو اسی وجہ سے مسترد کیا گیا.لیکن اب مسلمانوں کی طرف سے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ احمدیوں کو ان سے علیحدہ کر کے ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا جائے.حالانکہ اُن کو معلوم ہے کہ پنجاب کے مسلمان جو ۵۶ فیصدی ہیں صرف اسی صورت میں اکثریت کا دعوی کر سکتے ہیں جب احمدی بھی ان میں شامل رہیں ورنہ دس فیصدی پنجاب کے احمدی اگر شکل گئے تو مسلمان صرف ۴۶ فیصدی رہ جاتے ہیں.اور پھر سکھ ، ہندو اور احمدی مل کر اکثریت میں آجاتے ہیں.ان اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے کیا مسلمان اپنے پیر پر خود کلہاڑی نہیں مار رہے ہیں کہ اچھے خاصے اکثریت میں ہوتے ہوئے اپنے کو اقلیت میں ڈال رہے ہیں اور اپنی اس کوشش پر خود ہی پانی پھیر رہے ہیں جو سالہا سال سے جاری تھی حکومت نے جدید اصلاحات کے ماتحت اہ نشستیں مسلمانوں کی رکھی ہیں.ان میں سے نوشستیں احمدیوں کو ضرور مل جائیں گی اور کسی رقت ان کی جماعت کا وزیر ہو جانا بھی بعید از امکان نہیں ہے گویا اس طرح احمدی تو نہایت فائدہ میں رہیں گے.البتہ اگر نقصان پہنچے گا تو اُن کو ہی جو آج اپنے لئے یہ تنہا ہی کے سامان نہیا کر رہے ہیں.یہ واقعہ ہے کہ احمدیوں اور عام مسلمانوں میں مذہبی طور پر استحاد عمل ناممکن ہے.لیکن سیاسی طور جس طرح ایک منفی ، ایک شیعہ کو انگیز کر سکتا ہے، جس طرح ایک دیو بندی ایک بریلوی کو برداشت کر سکتا ہے کیا احمدی جماعت سے سیاسی تعلقات بھی اسی طرح نہیں رہ سکتے ہم کو امید ہے کہ مسلمان اس تحریک پر ٹھنڈے دل سے غور کریں گے " بے حضرت امیر المومنین کا بصیرت افروز استید تاحضرت خلیفہ البیع الثانی مینی الہ عنہ نے ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کے حیرت انگیز بیان پر ۲۴ مئی ۳۵ ئہ کے خطبہ تبصور خطبہ جمعہ میں) جمعہ میں نہایت بصیرت افروز تبصرہ کیا.چنانچہ حضور نے فرمایا : " الفضل " یکم جولائی ۱۹۳۵ و صفحه ۸ +

Page 219

۱۸۵ - ڈاکٹر سہ اقبال کا بیان...پڑھ کر مجھے سخت حیرت ہوئی.کیونکہ یہ وہی ہیں جنہوں نے ایڈ میں جب کشمیر کمیٹی کا آغاز ہوا، شملہ میں زور دے کر مجھے اس کمیٹی کا پریذیڈنٹ مقرر کیا جو کشمیریوں کی آئینی اعداد کے لئے قائم کی گئی تھی.حالانکہ وہ خالص اسلامی کام تھا.پس اُس وقت تو ہم مسلمان تھے.لیکن آج کہا جاتا ہے کہ جماعت احمدیہ اسلامی جماعت ہی نہیں.اگر جماعت احمدیہ اسلامی جماعت نہیں تو کیوں اسلام میں سر اقبال نے زور دے کر مجھے ایک اسلامی کمیٹی کا پریذیڈنٹ مقرر کیا.کیا اسلام میں مجھے پریذیڈنٹ بنانے والے انگریزوں کے ایجنٹ تھے جو آج کہا جاتا ہے کہ انگریزوں کی حمایت کی وجہ سے یہ سلسلہ ترقی کر رہا ہے ؟ اُس وقت میری پریذیڈنٹی پر زور دینے والے دو ہی شخص تھے، ایک خواجہ حسن نظامی صاحب اور دو سگر ڈاکٹر سراقبال ب خواجہ صاحب تو اس موقع پر ہماری جماعت کے خلاف بولے نہیں.اس لئے ان کے متعلق میں کچھ نہیں کہتا.لیکن ڈاکٹر سر اقبال چونکہ ہمارے خلاف بیان دے چکے ہیں اس لئے ان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ یہ میں انہوں نے کیوں ایک اسلامی کمیٹی کا مجھے پریذیڈنٹ بنایا ؟ اب کہا جاتا ہے کہ جماعت احمدیہ کو عام مسلمانوں میں اثر و اقتدار کشمیر کمیٹی میں کام کرنے کی وجہ سے ہی حاصل ہوا حالانکہ اس کمیٹی کی صدارت ڈاکٹر صاحب کے زور دینے کی وجہ سے مجھے ملی.پس کیوں ۹۳۱ م میں انہوں نے احمدیوں کو مسلمان سمجھا ؟ اور کیوں اب آکر انہیں محسوس ہوا کہ جماعت احمدیہ کو مسلمانوں میں سے الگ کر دینا چاہئیے ؟ یا تو انہیں یہ تسلیم کرنا چاہیئے کہ اس وقت ہاری حمایت کے لئے گورنمنٹ کی طرف سے وہ روپے لے کر آئے تھے جو ان کی جیب میں اچھیل رہے تركرنا تھے اور وہ چاہتے تھے کہ احمدیوں کو مسلمانوں میں شامل کر کے اُن کی طاقت کو توڑ دیں اوریاتی لیکن چاہیے کہ وہ اس وقت احمدیوں کو مسلمان سمجھتے تھے اور اب جو کہہ رہے ہیں کہ انگریزوں نے احمدیوں کو قوات دی تو غلط کہہ رہے ہیں.آخر ہمارے عقائد بدلے تو نہیں کہ ڈاکٹر سر اقبال کو اپنی رائے بدلنے کی ضرورت محسوس ہوئی.بلکہ وہی عقائد ہم اب رکھتے ہیں جو اس میں اور اس سے پہلے تھے.مگر اس میں تو ہم ڈاکٹر سر اقبال کے نزدیک مسلمانوں کے لیڈر ، اُن کے نمائندہ اور اُن کے راہ نما ہو سکتے تھے اور ڈاکٹر اقبال میری صدارت پر زور دے سکتے اور میر کی صدارت میں کام کر سکتے تھے.لیکن اب ہمیں سیاسی طور پر مسلمانوں میں شامل رکھنے تک کے لئے تیار نہیں.اس میں تو ہار سے اسلام

Page 220

!AY ڈاکٹر اقبال صاحب کو یہانتک یقین تھا کہ جب یہ سوال پیش ہوا کہ وہ کمیٹی جو انتظام کے لئے بنائی جائیگی اس کے کچھ اور ممبر بھی ہونے چاہئیں اور نمبروں کے انتخاب کے متعلق بعض قواعد وضع کر لینے چاہئیں تو ڈاکٹر سر اقبال نے کہا کوئی قوانین بنانے کی ضرورت نہیں ہمیں صدر صاحب پر پورا پورا اعتماد ہے.اور ہمیں چاہیے کہ ہم عمروں کے انتخاب کا معاملہ ان کی مرضی پر چھوڑ دیں.وہ جیسے چاہیں رکھیں جیسے چاہیں نہ رکھیں.پھر ہنس کر کہا میں تو نہیں کہتا لیکن اگر سارے ممبر آپ نے احمدی ہی رکھ لئے تو مسلمانوں میں سے کچھ لوگ اعتراض کریں گے کہ ان لوگوں نے کمیٹی کے تمام ممبر احمدی بنالئے.اس لئے آپ ممبر بناتے وقت احتیاط کریں اور کچھ دوسرے مسلمانوں میں سے بھی لے لیں اور سارے میر احمدی نہ بنائیں.لیکن آج سرا قبال کو یہ نظر آتا ہے کہ احمدی مسلمان ہی نہیں حالانکہ اس عرصہ میں کوئی نئی بات ہمارے اندر پیدا نہیں ہوئی.پھر مجھے تعجب ہے کہ ہماری مخالفت میں اس حد تک یہ لوگ بڑھ گئے ہیں کہ ڈاکٹر سر اقبال جیسے انسان جو مسلمانوں کی ایک جماعت کے لیڈر، فلاسفر، شاعر اور نہایت عقلمند انسان سمجھے جاتے ہیں.انگریزی حکومت پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اس نے احمدیوں کو کیوں پہنچنے دیا ؟ شروع میں ہی اس ے سر محمد اقبال جن مسلمانوں سے جماعت احمدیہ کو الگ کر کے اقلیت قرار دینا چاہتے تھے ان کی نسبت موصوف کا عقیدہ یہ تھا کہ (1) " اگر نبی کریم بھی دوبارہ پیدا ہو وہ اس ملک میں اسلام کی تعلیم دیں تو خالیا (اس) ملک کے لوگ...حقائق اسلامیہ کو نہ سمجھ سکیں ؟ (مکاتیب اقبال صفحه ۵۳ بحوالہ اقبالیات کا تنقیدی معائنہ اک صفر ۱۳۹۶ نہ مؤلفہ قاضی احمد میاں اختر جونا گڑھی ) (۲) ہندوستان کے مسلمان کئی صدیوں سے ایرانی تاثرات کے اثر میں ہیں.ان کو عربی اسلام سے اور اس کے نصب العین اور غرض ودعایت سے آشنائی نہیں ؟ د مکاتیب اقبال حصہ اول صفحه ۲۳ - ۲۴ کجواله اقبال کا تنقیدی جائزہ “ صفحه ۱۲۰ - ۱۲۱ ) (۳) ہندوستان کے مسلمان اس عربی اسلام کو بہت کچھ فراموش کر چکے ہیں اور کبھی اسلام ہی کو سب کچھ سمجھ رکھا ہے.( " روزگار فقیر جلد دوم صفحه ۱۶۲ ) ) علامہ اقبال نے اسلام سے نا آشنا مسلمانوں کیلئے یہ دعا بھی کی کہ " کاش کہ مولانا نظامی کی دعا اس زمانے میں مقبول ہو اور رسول اللہ مسلم پھر تشریف لائیں اور پسندی مسلمانوں پر اپنا دین بے نقاب کریں.د اقبال نامه حصہ اول صفحه ۲۷۱ مرتبه شیخ عطاء اللہ صاحب ایم.اے )

Page 221

IAL تحریک کو کیوں کچل نہ دیا ؟ کیونکہ ان کے نزدیک اگر نئی تحریکات کا مقابلہ نہ کیا جائے تو اس طرح اکثریت کو نقصان پہنچتا ہے.پس ان کے نزدیک حکومت کا فرض تھا کہ احمدیت کو کچل دیتی.بلکہ انہیں شکوہ ہے کہ انگریزوں نے تو اتنی بھی عقلمندی نہ دکھائی جتنی روحا کی حکومت نے حضرت مسیح ناصری کے وقت میں دکھائی تھی.انہوں نے اتنا تو کیا کہ حضرت مسیح ناصری کو صلیب پر لٹکا دیا.گوید دوسری بات ہے کہ خدا نے اپنے فضل سے انہیں بچا لیا.اس فقرہ کے سوائے اس کے اور کوئی معنی نہیں کہ رومی حکومت نے جب حضرت مسیح ناصری کو صلیب پر لٹکایا تو اس نے ایک جائزہ مستحسن اور قابل تعریف فعل کیا اور اچھا کیا جو یہودیوں کے شور و غوغا کوشنکر عیسائیت کے بانی پر ہاتھ اُٹھایا.یا تو ان لوگوں کو اتنا غصہ آتا ہے کہ اگر ہم حضرت میسح ناصری کو وفات یافتہ کہدیں تو اُن کے تن بدن میں آگ سی لگ جاتی ہے یا اب احمدیت کی مخالفت میں عقل اس قدر ماری گئی ہے کہ کہا جاتا ہے حضرت میسج ناصری کو صلیب پر لٹکانے کا فعل جو رومیوں نے کیا وہ بہت اچھا تھا گو پورا اچھا کام نہیں کیا کیونکہ وہ بیچ رہے.ان کا فرض تھا کہ اگر حضرت مسیح ناصری آسمان پر چلے گئے تھے تو رومی انہیں آسمان سے کھینچ لاتے اور اگر کشمیر چلے گئے تھے تو وہاں سے پکڑ لاتے اور اُن کے سلسلہ کا خاتمہ کر دیتے.تاکہ یہود کے اتحاد ملت میں فرق نہ آتا.مگر انگریزوں سے تو بہر حال وہ زیادہ عقلمند تھے کہ انہوں نے اپنی طرف سے انہیں صلیب پر لٹکا دیا اور اب ڈاکٹر سر اقبال کو شکوہ ہے کہ انگریزوں نے اتنی جرات بھی نہ دکھائی اور بناوٹی طور پر بھی حضرت مرزا صاحب کو سزا نہ دی.تو یہ بیان ہے جو ڈاکٹر سر اقبال نے دیا اور مسلمان خوش ہیں کہ کیا اچھا بیان ہے.حالانکہ اس فقرہ کے ے ڈاکٹر صاحہ نے اپنے ایک اور مضمون میں یہ بھی لکھا کہ چونکہ ایمسٹرڈم میں یہودی بے انتہا اقلیت میں تھے اس لئے وہ سیانورا کو محرک انتشار اور قوم میں موجب اختلاف تصور کرتے تھے علی ہذا القیاس ہندوستانی مسلمان بھی تحریک قادیانیت کو جو تمام دنیائے اسلام کو کافر سمجھتی ہے اور انکی معاشرتی بائیکاٹ کر رہی ہے سپائنتوزا کی مابعد الطبیعات کے مقابلہ میں ہزار ہا درجہ زیاد و خطر ناک اور مہلک خیال کرتی ہے.ایک سیاسی نیر نے اس نظریہ پر یہ دلچسپ تبصرہ کیا کہ " ڈاکٹر اقبال اور ان سے میدانوں کو یہود سے یہ خود تجویز کردہ مقامات مبارک ہو.مگر سوال یہ ہے کہ کیا ڈاکٹر اقبال اور ان کے ہم خیال مسلمان روئے زمین کے تمام مذاہب کے پیروؤں کو کافر نہیں کہتے اور ان سے معاشرتی بائیکاٹ نہیں ہوئے، اگر ایسا ہی ہے تو کیا غیرمسلموں کو یہ حق حاصل ہے کہ اسلام کو دنیا میں انتشار پیدا کرنے کا موجب اور ڈاکٹر اقبال اور ان کے ہم خیالوں کو اس کا مجرم قرار دیں" و"الفضل ۲۰ فروری ۹۳ صفحه ۵ کالم ۴)

Page 222

IAA سوائے اس کے اور کوئی معنی نہیں ہو سکتے کہ جیسے رومیوں نے حضرت مسیح ناصری سے سلوک کیا تھا دیا ہی سلوک انگریزوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسّلام سے کرنا چاہیے تھا.اگر اس فقرہ سے ہزارواں حصہ کم بھی کسی احمدی کے منہ سے نکل جانا تو ایک طوفان مخالفت برپا ہو جاتا اور احراری شور مچانے لگ جاتے کہ مسیح ناصری کی توہین کر دی گئی لیکن اب چونکہ یہ الفاظ اس شخص نے کہے ہیں جو ان کا لیڈر ہے اس لئے اگر وہ رومیوں کے مظالم کی تعریف بھی کر بجائیں تو کہا جاتا ہے واہ وا ! کیا خوب بات کہی !! احمدی رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم کی تعریف کریں تو آپ کی ہتک کرنے والے قرار پائیں.اور یہ حضرت مسیح کی کھلی کھلی توہین کریں تو آپ کی عزت کرنے والے سمجھے جائیں.یہ باتیں بتاتی ہیں کہ مسلمانوں کا ایک حصہ ایسے مقام پر پہنچ گیا ہے جہاں نجات اس کے لئے ناممکن ہو گئی ہے.وہ ہماری دشمنی میں ہر چیز کو توڑنے کے لئے تیار ہیں.وہ ہماری عداوت میں اسلام پر تیر چلانے ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت پر تبر چلانے اور پہلے انبیاء کی عزتوں پر تیر چلانے کے لئے بھی تیار ہیں اور صرف اس ایک مقصد میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کھیل دی جائے لیکن جیسے اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور پہلے انبسیار پر جو تبر لائے جائیں گے وہ رائیگاں جائیں گے.اسی طرح پہ وہ تب جو جماعت احمدیہ پر چلایا جائے گا.آخر چکر کھا کر انہی کے پاؤں پر پڑے گا اور جماعت احمدیہ کو ایک ذرہ بھر بھی نقصان نہیں پہنچا سکے گا." ہے حضرت امیر المومنین کا بصیرت افروزاستیدا حضرت خلیفہ بیع الثانی نے خطبہ جمعہ میں تصور کرنے کے بعد ڈاکٹر سر محمداقبال اور احمدیہ جماعت“ کے عنوان سے ایک تبصرہ (مضمون کی صورت میں ) نہایت محققانہ مضمون بھی تحریر فرمایا جو " الفضل " مار جولائی ۱۹۳۵ یں چھینے کے علاوہ ٹیکٹ کی شکل میں بھی شائع ہوا.اس قیمتی مضمون کا مکمل متن درج ذیل کیا جاتا ہے.أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تحدة وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيم کا خدا کے فضل اور پریم کے ساتھ کیا ٹور اصر ڈاکٹر سر محمد اقبال اور احمدیہ جماعت سر محمد اقبال صاحب کو کچھ عرصہ سے میری ذات سے خصوصا اور جماعت احمدیہ سے عموماً بغض پیدا ہو گیا ة " الفضل".۳ مئی ۹۳۵ از صفحه ۴ و ۵ د خطبه جمعه فرموده ۲۴ مئی ۱۲ه)

Page 223

شاعر مشرق ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کی طرف سے سیدنا حضرت مسیح موعود کو خراج عقیدت.رسالہ انڈین اینٹی کو سری ۱۹۰۰ء میں موصوف کے شائع شدہ مقالہ کا ایک ورق ALE OF ABSOLUTE UNITY or Fun House, eins it jenom (Nasdemñsteurs rude goes three (1 11.Bare first ta plug is yet tye from all manustationsshile the third St # akirin of the thermoss or as Hope sushi git the bi 2e sphere of temps Muh (40), here the darkness of Barr-Beans s the fruth Atsunday has thin the utan greep this name which, in the third stage of ske bash and rutoined Hinn At the glous of the Atwitlubs Reing.- the absolute Development the feringhans was thei walang hat in his case the process of development sest be the reverse, bane hi die Absolute balus and undergonessentially a process of desand.In a ponerens he medians of the name, undies nature on which it in malad into the state Autriber and muỡ, chiri” mage te tają 1kg It is that uses the god-mau; bis ere becomes the rate int n maps how stockings ded the nostring 込

Page 224

THE 39 INDIAN ANTIQUARY, A JOURNAL OF ORIENTAL RESEARCH avr VERSITY UNIV IN **HORE LAWARY ARCHEOLOGY, EPIGRAPHY, ETHNOLOGY, GEOGRAPHY, HISTORY, FOLKLORE, LANGUAGES, LITERATURE, NUMISMATICS, PHILOSOPHY, RELIGION, &c., &¤« EDITED BY RICHARD CARNAC TEMPLE.C.LE..LIENT.COLONEL INDIAN STAFF CORPS.VOL.XXIX.- 1900.INTAL COLLEGE LISRASY AHORE BOMBAY : PRINTED AND Published at tHE EDUCATION SOCIETY S PRESS, BYCULLA, LONDON KEGAN PAUL TRENCH.TRUBNER & Oo.LONDON: LUZAC & Co.LEIPZIG OTTO HARRASSOWITИ BOMBAY EDUCATION SOCIETY'S PRESS.NEW YORK WESTERMANN & Co.CHICAGO S D.PEET Ezq..PH D.PARIS E.LEROUX.BERLIN A.ASHER & C..VIENNA A.HOADER & Co

Page 225

ہے اور اب ان کی حالت یہ ہے کہ یا تو کبھی وہ انہی عقائد کی موجودگی میں جو ہماری جماعت کے اب ہیں جماعت احمدیہ سے تعلق موانست اور مواخات رکھنا برا نہیں سمجھتے تھے یا اب کچھ عرصہ سے وہ اس کے خلات خلوت اور جلوت میں آواز اُٹھاتے رہتے ہیں.ہمیں ان وجوہ کے اظہار کی ضرورت محسوس نہیں کرتا جو اس تبدیلی کا سبب ہوئے ہیں جس نے سائلہ کے اقبال کو جو علیگڑھ کالج میں مسلمان طلباء کو تعلیم دے را تھا کہ پنجاب میں اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ اس جماعت کی شکل میں ظاہر ہوا ہے جسے فرقہ قادیانی کہتے ہیں کہ میں ایک دوسرے اقبال کی صورت میں بدل دیا جو یہ کہ رہا ہے کہ "8 میرے نزدیک قادیانیت سے بہائیت زیادہ ایماندارانہ ہے کیونکہ بہائیت نے اسلام سے اپنی علیحدگی کا اعلان واشگاف طور پر کر دیا.لیکن قادیانیت نے اپنے چہرے سے منافقت کی نقاب الٹ دینے کے بجائے اپنے آپ کو محض نمائشی طور پر جو اسلام قرار دیا اور بانی طور پر اسلام کی روح اور اسلام کے تخیل کو تباہ و برباد کرنے کی پوری پوری کوشش کی " (زمیندار هرمئی ۱۹۳۵) یعنے سنہ کی احمدیہ جماعت آج ہی کے عقائد کے ساتھ صحابہ کا خاص نمونہ تھی لیکن شاہ کی احمدیت بہائیت سے بھی بدتر ہے.اس بہائیت سے جو صاف لفظوں میں قرآن کریم کو منسوخ کہتی ہے.جو واضح عبادتوں میں بہاء اللہ کو ظہور الہی قرار دیتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ان کو فضیلت دیتی ہے گویا ڈاکٹرسر محمد اقبال صاحب کے نزدیک اگر ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو منسوخ قرار دیتا، قرآن کریم سے بڑھ کر تعلیم لانے کا مدعی ہوتا ، نمازوں کو تبدیل کر دیتا اور قبلہ کو بدل دیتا ہے اور نیا کلمہ بناتا اور اپنے لئے خدائی کا دعوی کرتا ہے سہتی کہ اس کی قبر یہ سجدہ کیا جاتا ہے تو بھی اس کا وجود ایسا برا نہیں مگر جو شخص رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کو ختم النبیین قرار دیتا، آپ کی تعلیم کو آخری تعلیم بتاتا، قرآن کریم کے ایک ایک لفظ ایک ایک حرکت کو آخر تک خدا تعالے کی حفاظت میں سمجھتا ہے.اسلامی تعلیم کے ہر حکم پر عمل کرنے کو ضروری قرار دیتا ہے اور آئندہ کے لئے سب ڈوھانی توقیت کو رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری اور غلامی میں محصور سمجھتا ہے وہ بڑا اور بائیکاٹ کرنے کے قابل ہے.یاد رہے علامہ اقبال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں حضور کو جدید ہندی مسلمانوں میں سب سے بڑا دینی نظر بھی سمجھتے تھے (ملاحظہ ہو رسالہ انڈین اینٹی کویری جلد ۲۹ ستمبر سنتشار صفحه ۲۳۹ جس کا عکس اس کتاب میں موجود ہے )

Page 226

19- دوسرے لفظوں میں سر محمد اقبال صاحب مسلمانوں سے یہ منوانا چاہتے ہیں کہ جو شخص رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو منسوخ کرنے قرآن کریم کے بعد ایک نئی کتاب لانے کا مدعی ہو.اپنے لئے خدائی کا مقام تجویز کرے اور اپنے سامنے سجدہ کرنے کو جائز قرار دے جیس کے خلیفہ کی بیعت فارم میں صاف لفظوں میں لکھا ہو کہ وہ خدا کا بیٹا ہے ، وہ پانی سلسلہ احمدیہ سے اچھا ہے جو اپنے آپ کو مخادم رسول اکرم صلے اللہ علیہ وسلم قرار دیتے ہیں.اور قرآن کریم کی اطاعت کو اپنے لئے ضروری قرار دیتے ہیں اور کعبہ کو بیت اللہ اور کلمہ کو مدار نجات سمجھتے ہیں.کیونکہ بہائی تو رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی ذات پر اور قرآن کریم پر حملہ کرتے ہیں.لیکن احمدی سر محمد اقبال اور ان کے ہمنواؤں کو روحانی بیمار قرار دے کہ انہیں اپنے علاج کی طرف توجہ دلاتے ہیں اور ان کے ایمان کی کمزوریوں کو اُن پر ظاہر کرتے ہیں.یہ میں تفاوت رہ از کجاست تا به کجا.محمد اقبال مسترس مدد کی پناہ نہیں لے سکتے کہ میرا صرف مطلب یہ ہے کہ بہائی منافق نہیں اور احمدی منافق ہیں.کیونکہ اول تو یہ غلط ہے کہ بہائی کھلے بندوں اپنے مذہب کی تلقین کرتے ہیں.اگر سر محمد اقبال یہ دعویٰ کریں تو اس کے صرف یہ معنی ہوں گے کہ بیسویں صدی کا یہ مشہور فلسفی ان فلسفی تحریکات تک سے آگاہ نہیں جن سے اس وقت کے معمولی نوشت خواند والے لوگ آگاہ ہیں.سر محمد اقبال کو معلوم ہونا چاہئیے کہ بہائی اپنی کتب عام طور پر لوگوں کو نہیں دیتے بلکہ انہیں چھپاتے ہیں.وہ ہر ملک میں الگ الگ عقائد کا اظہار کرتے ہیں.وہ امریکہ میں صاف لفظوں میں بہاء اللہ کو خدا کے طور پر پیش کرتے ہیں.لیکن اسلامی ممالک میں اس کی حیثیت ایک کامل ظہور کی بتاتے ہیں.وہ اسلامی ممالک میں مسلمانوں کے ساتھ مل کو نمازیں پڑھ لیتے ہیں.ویسا ہی وضو کرتے ہیں اور اتنی ہی رکھتیں پڑھتے ہیں جتنی کہ مسلمان.لیکن الگ طور پر دو صرف تین نمازوں کے قائل ہیں اور ان کے ہاں نماز پڑھنے کا طریق بھی اسلام سے مختلف ہے.پھر یہ بھی درست نہیں کہ احمدی منافق ہیں اور لوگوں سے اپنے عقائد چھپاتے ہیں.اگر احمدی مداہنت سے کام لیتے تو آج سر محمد اقبال کو اس قدر اظہار غصہ کی ضرورت ہی کیوں ہوتی

Page 227

191 احمدی ہندوستان کے ہر گوشے میں رہتے ہیں.دوسرے فرقوں کے لاکھوں کروڑوں مسلمان ان کے حالات سے واقف ہیں.وہ گواہی دے سکتے ہیں کہ وہ قر آن کریم کی تعلیم پر مسل کرنے والے ، رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی نماز کے مطابق نماز پڑھنے والے، روزے رکھنے والے، حج کرنے والے اور زکوۃ دینے والے ہیں.وہ کون سی بات ہے جو احمدی چھپاتے ہیں اور سہ محمد اقبال کے پاس وہ کو نسا ذریعہ ہے جس سے انہوں نے یہ علوم کیا کہ احمدیوں کے دل میں کچھ اور ہے مگر ہر وہ کچھ اور کرتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو اس قدر محتاط تھے کہ جب ایک صحابی نے ایک شخص کو جس نے جنگ میں عین اس وقت کلمہ پڑھا تھا جب وہ اُسے قتل کرنے لگے تھے قتل کر دیا.اور حذر یہ رکھا کہ اس نے ڈر سے کلمہ پڑھا ہے تو آپ نے فرمایا کہ هَلْ شَعَمْتَ قَلبہ کیا تو نے اس کا دل پھاڑ کر دیکھا ہے، لیکن ڈاکٹر سہ محمد اقبال صاحب آج دنیا کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ وہ قوم جس کے افراد نے افغانستان میں اپنے عقائد چھپانے پسند نہ کئے لیکن جان دے دی ، ساری کی ساری منافق ہے اور ظاہر کچھ اور کرتی ہے اور اس کے دل میں کچھ اور ہے.اگر یہ الزام کوئی ایسا شخص لگاتا جسے احمدیوں سے واسطہ نہ پڑا ہوتا تو میں اُسے معذور سمجھ لیتا.لیکن سر محمد اقبال معذور نہیں کہلا سکتے.اُن کے والد صاحب مرحوم احمدی تھے.اُن کے بڑے بھائی صاحب شیخ عطا محمد صاحب احمدی ہیں.ان کے اکلوتے بھتیجے شیخ محمد اعجاز احمد صاحب سب بیج احمدی ہیں.اسی طرح ان کے خاندان کے اور کئی افراد احمدی ہیں.ان کے بڑے بھائی صاحب حال ہی میں کئی ماہ اُن کے پاس رہے ہیں.بلکہ جس وقت انہوں نے یہ اعلان شائع کیا ہے اس وقت بھی سر محمد اقبال صاحب کی کوٹھی وہ تعمیر کرا رہے تھے.کیا کہ محمد اقبال صاحب نے اُن کی رہائش کے ایام میں انہیں منافق پایا تھا یا خود اپنی زندگی سے زیادہ پاک زندگی ان کی پائی تھی.ان کے سگے بھتیجے شیخ اعجاز احمد صاحب ایسے نیک ے ملاحظہ ہو " ذکر ، قبال " (از سالک) " روزگار فقیر" (از فقیر سید وحید الدین) یاد رہے علامہ اقبال نے اپنے نابالغ بچوں کے اولیا کے بارے میں جو وصیت نامہ لکھا اس میں شیخ اعجاز احمد صات کا نام بھی بطور ولی لکھا (روزگار فقیر جلد ۲ صفحه ۱۵۶

Page 228

۱۹۲ نوجوان ہیں کہ اگر سر محمد اقبال غور کریں تو یقینا انہیں ماننا پڑے گا کہ ان کی اپنی جوانی اس نوجوان کی زندگی سے سینکڑوں سبق لے سکتی ہے.پھر ان شواہد کی موجودگی میں ان کا کہنا کہ احمدی منافق ہیں اور وہ ظاہر میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم سے محبت کا اظہار کرتے ہیں.لیکن دل سے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے دین کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں کہاں تک درست ہو سکتا ہے ؟ میں تمام ان شریف مسلمانوں سے جو اسلام کی محبت رکھتے ہیں، درخواست کرتا ہوں کہ وہ ٹھنڈ دل سے اس صورت حالات پر غور کریں جو ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کے اعلان نے پیدا کر دی ہے اور دیکھیں کہ کیا اس قسم کے غیظ و غضب کے بھرے ہوئے اعلان مسلمانوں کی حالت کو بہتر بنائیں گے یا خواب کریں گے اور سوچیں کہ ایک شخص جو اپنے احمدی بھائی کو بلوا کر اس سے اپنی کو بھی بنواتا ہے دوسرے مسلمانوں کو اُن کے بائیکاٹ کی تعلیم دیتا ہے کہا تک لوگوں کے لئے راہنما بن سکتا ہے اور اسی طرح وہ شخص جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر کھلا حملہ کرنے والے کو اچھا قرار دیتا ہے اور اپنے ایمان پر اعتراض کرنے والے کو نا قابل معافی قرار دیتا ہے کہانتک مسلمانوں کا خیر خواہ قرار دیا جا سکتا ہے.کاش سر محمد اقبال اس عمر میں ان امور کی طرف توجہ کرنے کی بجائے ذکر الہی اور احکام اسلام کی بجا آوری کی طرف توجہ کرتے اور پیشتر اس کے کہ تو بہ کا دروازہ بند ہوتا، اپنے نفس کی اصلاح کرتے تا خدا تعالٰی اُن کو موت سے پہلے صداقت کے سمجھنے کی توفیق دیتا اور وہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے سچے متبع کے طور پر اپنے رب کے حضور میں پیش ہو سکتے.وَ اخْرُدَعُونَنَا آنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمين " الفضل قادیان ۱۸ جولائی ۱۹۳۵ : والسلام خاکسار مرزا محمود احمد امام جماعت احمدید جناب عبد الحکیم صاحب شملوی کا بیان ہے کہ وہ اد کا واقعہ ہے.مولانا شوکت علی نواب صاحب بھوپال کے مہمان تھے اور نہان ہاؤس شملہ میں تو اپ صاحب کے کیمپ میں مقیم تھے.میں اُن سے ملنے گیا.وہاں مولانا کی ملاقات کے لئے سر محمد اقبال بھی تشریف (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر )

Page 229

197 کرسر محمد اقبال صاحب کی رو عمل حضرت ام المومین رضیاللہعنہ کے مالا مضمون اور آپ کے بیان فرمودہ حقائق کے رد میں ڈاکٹر صاحب موصوف کو آنمردم تک قسم اٹھانے کی خیرات نہ ہو سکی.البتہ انہوں نے اپنے فلسفیانہ انداز میں احمدیت پر تنقید ضرور جاری رکھی.خصوصا پنڈت جواہر لال نہر سکے تو مضامین کے جواب میں (جو کلکتہ کے رسالہ ماڈرن ریویو" میں شائع ہوئے تھے) بقيه حاشیکار صفی گذشته لائے.مولانا چونکہ وہاں موجود نہ تھے کہ محمد اقبال سے میری باتیں ہوتی رہیں.دوران گفتگو میں میرے نے دریافت کرنے پر انہوں نے کہا.فی الحقیقت اگر آج کوئی قدمت اسلام کر رہا ہے تو وہ صرف جماعت احمدیہ ہے.اور یہی لوگ ہیں جو حق رکھتے ہیں کہ مسلمان کہلائیں.ان میں میں سب باتیں قرون اولی کے مسلمانوں کی پاتا ہوں غیور اور پکے مسلمان ہیں.آپس میں نیت اور ایثار سے کام لیتے ہیں.اس پر میں نے اُنہیں بتایا کہ ایک دفعہ مولانا محمد علی نے فرمایا تھا.اگر مجھے دس آرمنی احمدیوں کا سا اخلاص اور سچائی رکھنے والے مل جائیں تو میں ہندوستان کے مسلمانوں کی تنظیم کر سکتا ہوں.افسوس یہ ہے کہ جس کے سپرد ہم کوئی کام کرتے ہیں وہ خود مختار بن کر بیٹھ جاتا ہے.اس پر سر اقبال نے کہا.مولانا نے صحیح کہا ہے.یہی حال آج مسلمانوں کا ہے.وہ اس قدر خود سر ہیں کہ دوسرے کی بات مانتے کو ہرگز تیار نہیں.یہی وجہ ہے کہ مسلمان روز بروز اپنی اس خود سری کے باعث انحطاط کی طرف جا رہے ہیں.یہ تو ایک ملاقات کا ذکر ہے.ورنہ یہ اقبال کو میں جب بھی ملا انہیں احمدیت کا بے انتہا ملاح پایا.چونکہ سر اقبال کا لڑکا آفتاب احمد میرا ہم جماعت تھا.میں نے اس کا حال پوچھا تو کہنے لگے میں نے اُسے قادیان پڑھنے کے لئے بھیجا تھا تا دین سیکھ لے مگر وہ وہاں نہ رہا.جو شخص اپنے بچے کو قادیان تربیت کے لئے بھیجتا ہے از گا وہ دل میں احمدیت کی قیمت جانتا ہے.اب احزار یوں کے دباؤ یا اپنے لئے مسلمانوں کے اندر کوئی جگہ بنانے کے لئے مخالفت پر آمادہ ہو جائے تو اور بات ہے.والفضل قادیان ۲۰ اگست ۹۲۵ ایر صفحه ۱۴ عاشی تعلقہ صفحہ ہذا : نے پنڈت جی نے ڈاکٹر صدر اسب موصورت کے پہلے بیان پر تنقید کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اگر اسلام کے ایک بنیادی مقید ختم نبوت کے انکار سے قادیانی خارج از اسلام ہو گئے ہیں تو آغاخاں کو مسلمان قرار دینے کی وجہ کیا ہے ؟ پنڈت جی سوشلسٹ خیال کے سیاسی لیڈر تھے.جماعت احمدیہ کے مذہبی یا سیاسی اذکار سے تو ان کو کوئی ہمدردی تھی نہیں ہاں دوستانہ تعلقات کے اعتبار سے وہ ڈاکٹر یا حب سے زیادہ قریب تھے.ستید رئیس احمد جعفری لکھتے ہیں.قبال بھی جواہر بال کے بارے میں بڑی اچھی رائے رکھتے تھے.کشمیر بیت کہ اشتراک سے قطع نظر وہ اُن کے اخلاص، بے باکی ، جوش کار ، حب وطن ، ذہانت، قابلیت ، فرامت ، ہر چیز کے معترف تھے " اقبال اور سیاست ملی » صفحه.و بقیه باشید اگلے صفحہ پر)

Page 230

۱۹۴ انہوں نے احمدیت پر زبر دست نکتہ چینی کی.یہاں ضمنا یہ بتانا شاید غیر مناسب نہ ہوگا کہ ڈاکٹر سر محمد اقبال شعر و سخن اور فلسفہ دانی ایک ضمنی بات ا میں ایک بلند پایہ شخصیت کے حامل تھے مگر جہانتک اسلامی نظریات و مبادیات کو تحلق ہے.انہیں خود مسلم تھا کہ ”میری مذہبی معلومات کا دائرہ نہایت محدود ہے.میری عمر زیادہ تر مغربی فلسفہ کے مطالعہ میں گذری ہے اور یہ نقطہ خیال ایک حد تک طبیعت ثانیہ بن گیا ہے.دانستہ یا نادانستہ میں اسی نقطہ خیال سے حقائق اسلام کا مطالعہ کرتا ہوں “ لے ۱۹۳ بقیه حاشیه صفحه گذشته : خود علامہ اقبال نے اور نومبر ۱۹۳۳ء کو بیان دیا کہ "میں پنڈت جواہر لال نہرو کے خلوص اور صاف گوئی کی ہمیشہ سے قدر کرتارہا ہوں " " اقبال اور سیاست ملی " ناشر اقبال اکیڈیمی کراچی ، صفحہ ۲۸۱ ) ڈاکٹر صاحب ابتدائی زندگی میں وطنیت اور قومیت متحدہ کے زبر دست مراح اور علمبردار تھے (اقبال اور سیاست تھی صفحه ۳۸۰ از مولانا رئیس احمد جعفری).دوسرے احمدیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ کانگریس کی آلہ کار جماعت احرار نے کر رکھا تھا اور ڈاکٹر صاحب اس کی تائید فرما رہے تھے.ڈاکٹر محمد اقبال صاحب نے ۲۱ جون ۹ہ کو پنڈت جی کے نام ایک خط میں تحریر فرمایا کہ میر سے محترم پنڈت جواہر لال.آپ کے خط کا جو مجھے کئی ملا بہت بہت شکریہ.آپ کے مقالات پڑھ کر آپ کے مسلمان عقیدتمند خاصے پریشان ہوئے.اُن کو یہ خیال گذرا کہ احمدی تحریک سے آپ کو ہمدردی ہے.بہر حال مجھے خوشی ہے کہ میرا تاثر غلط ثابت ہوا.مجھ کو خود دینیات “ سے کچھ زیادہ دلچسپی نہیں ہے مگر احمدیوں سے خود انہی کے دائرہ فکر میں پیٹنے کی غرض سے مجھے بھی دینیات" سے کسی قدر جی پہلانا پڑا.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں نے یہ مقالہ اسلام اور سہندوستان کے ساتھ بہترین نیتوں اور نیک ترین ارادوں میں ڈوب کر لکھا.میں اس باب میں کوئی شک وشبہ اپنے دل میں نہیں رکھتا کہ یہ احمدی اسلام اور ہندوستان دونوں کے مذاکرہ ہیں.لاہور میں آپ سے ملنے کا جو موقعہ میں نے کھویا اس کا سخت افسوس ہے....آپ مجھے ضرور مطلع فرمائیں کہ آپ پھر پنجاب کب تشریف لا رہے ہیں.شہری آزادیوں کی انجمن کے بارے میں آپ کی جو تجویز ہے اس سے متعلق خط آپ کو ملایا نہیں..آپ کا مخلص محمد اقبال “ کچھ پرانے خط حصہ اوّل مرتبہ جواہر لال نہرو صفحه ۲۹۳ ناشر مکتبہ جامعہ لمیٹڈ نئی دہلی ) اس خط سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے احمدیوں کے خلاف جو کچھ لکھا اس کی حیثیت دینیات“ سے دل بہلاوا " کی تھی اور پنڈت نہروی کے مضمون کا اصلی مقصد دراصل احمدیوں کی تائید کرنا ہرگز نہیں تھا.جیسا کہ ڈاکٹر صاحب نے خود لکھا ہے.(بقیہ حاشیہ انگلے صفحہ پر ) سے مکتوب بنام پروفیسر صوفی غلام مصطفی صاحب تمیم اقبال نامہ حصہ اول صفحه ۴۶ - ۴۷ - ناشر شیخ محمد اشرف تاجر کتب کشمیری بازار لاہور )

Page 231

140 اسی تعلق میں ایک بار انہوں نے اپنی چھوٹی ہمشیرہ کو خط میں لکھا :- میں جو اپنی گذشتہ زندگی پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے بہت افسوس ہوتا ہے کہ میں نے اپنی عمر یورپ کا فلسفہ وغیرہ پڑھنے میں گنوائی.خدا تعالیٰ نے مجھ کو توہے کافی بہت اچھے عطا فرمائے تھے.اگر ؟ قومی دینی علوم کے پڑھنے میں صرف ہوتے تو آج خدا کے رسول کی میں کوئی خدمت کر سکتا لہ اس کے مقابل جہانتک عمل کا تعلق ہے، اُن کا اپنا اعتراف ہے کہ " اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے گفتار کا یہ غازی تو بنا کردار کا غازی بن نہ سکا کے اسی طرح ایک بار انہوں نے اپنی عملی زندگی کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ میں تو قوآل ہوں میں گاتا ہوں تم ناچتے ہو.کیا تم چاہتے ہو کہ میں بھی تمہارے ساتھ نا چنا شروع کردوں سے انہوں نے ایک اور موقعہ پر یہ بھی اعتراف کیا کہ "اگر میں اپنی پیش کردہ تعلیمات پر عمل بھی کرتا تو شاعر نہ ہوتا بلکہ مہدی ہوتا " کے بقیه حاشیه صفحه گذشته : اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر پنڈت جی کا جماعت احمدیہ کے حق میں لکھنے کی درپردہ اعراض کیا تھیں سو اس کا جواب یہ ہے کہ پنڈت جی ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتے تھے.وہ مسلمانوں میں بالواسطہ طور پر یہ تاثر قائم کرنا چاہتے تھے کہ احمدیوں کے خلاف مجلس احرار کی تحریک سے کانگرس کو کوئی ویسی نہیں حالانکہ یہ تحریک کانگریس ہی کے اشارہ پر اُٹھائی گئی تھی بھیا کہ جلد ہفتم میں تفصیلاً بتایا جا چکا ہے.۲.پنڈت جی مسلم لیگ کی آئینی و مالی حیثیت کو کمزور کرنا چاہتے تھے کہ اگر احمدی غیر مسلم ہیں تو مسلمانوں کے لیڈر آغا خاں بھی علامہ اقبال کے فلسفہ ختم نبوت کی رُو سے یقیناً دائرہ اسلام سے خارج ہیں اس لئے اُن کو بھی ملت سے باہر کر دینا چاہئیے.اس کے بعد اگلا قدم شاید قائد اعظم محمد علی جناح کے خلاف اٹھایا جاتا.اسماعیلی فرقہ کے مقالہ کی تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو ڈا کٹر زاہد علی کی کتاب " ہمارے اسماعیلی مذہب کی حقیقت " اس کتاب میں یہانتک لکھا ہے کہ اسما عیلیوں کے ساتویں امام مولانا محمد بن اسماعیل سابع المين ، خاتم الائمه ، قائم الانتماء ، سابع الوسن سابع النطقاء کہے جاتے ہیں.آپ کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے شریعت محمدی کے ظاہری معطل کر دیا.آپ نے محمد المصطفے کے دور کو پورا کیا اور آپ سے ساتواں دور شروع ہوا.(مفہوم مقدمہ صفحہ ۴ ) سه روزگار فقیر جلد دوم صفیر مدار مولفه فقیر وحید الدین، طابع و ناشر طبع اول تو بر ) له بانگ درا" صفحه ۳۳۶ : سے اقبالیات کا تنقیدی جائزه صفحه ۱۱۷ - ۱۱۸- موتلفه قاضی احمد میاں اختر جوناگڑھی ناشر اقبال اکیڈیمی کراچی - اقبال مرحوم -.کا ایک شعر ہے " " لوگ کہتے ہیں مجھے راگ کو چھوڑو اقبال ، راگ ہے دین میرا راگ ہے ایمان میرا باقیات اقبال من) ه " فکر اقبال" صفحه ۲۵۸ (مؤلفه مولانا عبد المجید سالک) اس نقطہ نگاہ سے اقبالیات کے مطالعہ کا شوق رکھنے والوں -

Page 232

194 علامہ احسان اللہ خان تاجور نے اپنے رسالہ شاہر کار“ میں لکھا ہے کہ علامہ اقبال...میں کمال قاطعیت کے ساتھ طاقت گفتار کی بہ نسبت روح کردار بہت کم ہے " ہے بلکہ امیر شریعیت احرار مولوی عطاء اللہ شاہ بخاری تو صاف کہا کرتے تھے کہ "اقبال کا قلم تمام عمر صحیح رہا اور قدم اکثر و بیشتر غلط " بقی حاشیه صفحه گذشته - له کو باقیات اقبال کا گہری نظر سے مطالعہ کرنا چاہیے.اس سے ان کو اس عظیم فلسفی شاعر کا نفسیاتی تجزیہ کرنے میں بھی بڑی مدد ملے گی.مولوی ظفر علی خاں صاحب کا کہنا ہے کہ 2 مانگ کر احباب سے رجعت پسندی کی کدال + قبر آزادی کی کھودی کس نے سر اقبال نے کہہ رہے تھے ڈاکٹر عالم یہ افضل حق سے ! قوم کی لٹیا ڈبو دی کس نے سر اقبال نے ".ظفر علی خان نمه ۱۹۷ از شورش ) 192 “ ڈاکٹر محمد اقبال صاحب نے ۳۰ دسمبر کو لاہور سے مہاراجہ کشن پرشاد شاد (وزیر اعظم ریاست حیدر آباد ) کے نام ایک مکتوب لکھا تھا جس سے علامہ موصوف کی افتاد طبع کا خوب پتہ چلتا ہے.فرماتے ہیں :- لندن میں ایک انگریز نے مجھ سے پوچھا تم مسلمان ہو ؟ میں نے کہا ہاں.تیسرا حصہ مسلمان ہوں.وہ حیران ہو کر بولے، کس طرح ؟ میں نے عرض کیا کہ رسول اکرم فرماتے ہیں.مجھے تمہاری دنیا سے تین چیزیں پسند ہیں.نماز ، خوشبو اور عورت.مجھے ان تینوں میں سے صرف ایک پسند ہے.مگر اس تخیل کی داد دینی چاہیے کہ نبی کریم نے عورت کا ذکر دو لطیف ترین چیزوں کے ساتھ کیا ہے حقیقت یہ ہے کہ عورت نظام عالم کی خوشبو ہے اور قلب کی نماز - ایک معصومہ پنجاب میں رہتی ہے.میں نے کبھی اُسے دیکھا نہیں مگر سُنا جاتا ہے کہ حسن میں لاجواب ہے اور اپنے گذشتہ اعمال سے تائب ہو کر پردہ نشینی کی زندگی بسر کرتی ہے.چند روز ہوئے اس کا خط مجھے موصول ہوا کہ مجھ سے نکاح کر لو تمہاری نظم کی وجہ سے تم سے غائبانہ پیار رکھتی ہوں اور میری تو بہ کو ٹھکانے لگا دو.دل تو یہی چاہتا تھا کہ اس کارخیر میں حصہ لوں مگر کمر میں طاقت ہی بری کافی نہیں اس کے لئے دیگر وسائل بھی ضروری ہیں.مجبوراً مہذبانہ انکار کرنا پڑا.اب بتائیے کہ آپ کا نسخہ کیسے استعمال میں آئے ؟ مگر میں آپ کی ولایت کا قائل ہوں کہ آپ نے ایسے وقت میں یہ نسخہ تجویز فرمایا کہ مرین کی طبیعت خود بخود ادھر مائل تھی.نسخہ مجھے دل سے پسند ہے مگر اس کو کسی اور وقت پر استعمال میں لاؤں گا جب حالات زیادہ مسلمہ ہوں.فی الحال سرکار کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور دُعا کرتا ہوں کہ وہ قادر و توانا سرکار کی تقلید کی توفیق عطا فرمائے کہ شاہ کے مریدوں میں داخل ہو کر تشکیشی مذہب کو خیر باد کہہ کر بنده درگاه - محمد اقبال " پنجتنی ہو جاؤں.رسہ ماہی رسالہ" اردو " شمارہ اپریل شاد کراچی جوالہ ہفت روزہ " لاہور ۲۸ است شمات یہ تو ایام شباب کی بات ہے جہانتک جناب موصوف کے آخری دور حیات کا تعلق ہے، اقبال کے بڑے عقیدت مند ایل تسلم جناب شورش کا شمیری صاحب مدیر چٹان " کی کتاب " نورتن " (صفحہ ۵۱ ۵۲ ۵۳ ) کا مطالعہ کافی ہوگا بہ " " ج ے شاہکار " ۳۶ و صفحه ۱۰ که هفت روزه "عادل" ۲۳ مارچ نوار سفر ۲.ان حقائق کے با وجود بعض صفحہ معلقوں نے غالباً کسی خاص منصوبہ اور مصلحت کے تحت اقبال کے معاملے میں ادھر غلو سے کام لینا شروع کر دیا ہے.اور ان کو (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر ) i

Page 233

194 ڈاکٹر ماہ کے بعض محبت غیر نظل ما اول کی ای دارای کیفیت این است که در امان نمای کی ی ختم نبوت اور اسلام کا باغی ثابت کرنے کے لئے پنڈت نہرو کے جواب میں بعض ایسے نظریات پیش کر دیئے جن کی تغلیط بعد کو خود اُن کے مداحوں کو کرنا پڑی مثلاً انہوں نے یہ نظریہ اختراع کیا کہ غلام قوموں کے انحطاط کے نتیجہ میں الہام جنم لیتا ہے.اسی خیال کو انہوں نے اپنے ایک شعر میں یوں باندھا ہے.محکوم کے الہام سے اللہ بچائے غارت گر اقوام ہے وہ صورت چنگیز بقه جاشی صفحه گذشته فیکشن " " رسول چین " هفت روزه قندیل نه پری کو ریا کاری بین کلیم وقت گفتنی و نا گفتنی صفحه ۲۳۲) پیغمبر پیغمبر ا کر حق" "نبی" " محمد موسی کفت" (اقبال ایرانیوں کی نظر میں" اور خدا جانے کیا کیا القاب و خطابات دینے لگے ہیں.آغا عبدالکریم شورش کا شمیری نے بجا لکھا ہے کہ " علامہ اقبال کو مسلمانوں کی بے پناہ عقیدت لے ڈوبی ہفت روزہ "عادل" لاہور ۲۳ مارچ : صفحہ ۲) اس بے پناہ عقیدت کا نتیجہ کس رنگ میں برآمد ہوا ہے.اس کا جواب پر وفیسر یوسف سلیم مشینی کے الفاظ میں یہ ہے کہ " اقبال کو اپنے ذاتی مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ بنا رکھا ہے.جیسے دیکھو آلات جراحی لئے مرحوم کے کلام کا پوسٹ مارٹم کر رہا ہے.مسلمانوں نے اقبال کے کلام کو ذہنی تفریح اور دماغی ورزش کا ذریعہ بنالیا ہے" اشرح بال جبریل صفحه ۲۴۳ ناشر عشرت پبلشنگ ہاؤس ہسپتال روڈ لاہور ) بقول شورش کا شمیری ” مسلمانوں نے علامہ اقبال سے ہو عقیدت استوار کی ہے اس کا رشتہ دماغی نہیں قلی ہے اور ظاہر ہے کہ دل کی محبت ہمیشہ اندھی ہوتی ہے مسلمان اقبال کے نام سے محبت کرتے ہیں لیکن اقبال کے کلام کو صرف گا تے یا گواتے ہیں.ہم مرا یاراں غزل خوا نے ثمراند " "عادل" ۲۳ مارچ بر صفر ۲ ) نیز یارلوگوں نے اقبال کو اپنے مقاصد و اراضی کا محور بنا لیا ہے....جن لوگوں نے یہاں اپنے آپ کو اقبال کا اجارہ دار بنانا چاہا...اُن کی اکثریت جھوٹی ہے.یہ لوگ اقبال کا مطالعہ کئے بغیر اقبال پر گفتگو کرتے ہیں " "شان" مني 19 صفحه ۱۵ کالم ۲۰۱) در اصل به صب نتایہ غلو کے نتیجہ میں پیدا ہو رہے ہیں.ڈاکٹر سر محمد اقبال نے جب مئی ۱۹۳ ء میں احمدیت کے خلاف پہلا بیان دیا تو اخبار الفضل (قادیان) نے واضح الفاظ میں لکھا جو لوگ سر موصوف کے حالات سے تھوڑی بہت بھی واقفیت رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ شعر و شاعری کے لحاظ سے تو ان کی قدر کی جا سکتی ہے لیکن مذہب کے بارے میں اُن کی رائے قطعا کوئی حقیقت نہیں رکھتی " "الفضل " ارمنی صفحه العالم ) اور اب تو نوبت یہانتک آپہنچی ہے کہ اقبال کی شاعری ناقدین کی زد میں ہے.ملاحظہ ہو " اقبالیات کا تنقیدی جائزہ مؤلفہ قاضی احمد میاں اختر جونا گڑھی اقبال کی شاعری مؤلفہ مولانا عبد المالک صاحب آردی مطبوعہ نظامی پریس بدایوں ) " اقبال اس کی شاعری اور یہ تمام گر مولفہ شیخ اکبر علی ایڈو کیٹ ، ناشر کمال پیش ر ز ما مال روڈ لاہور، اقبال نئی تشکیل (مولفہ ابوظفر حیدرآبادی) مان استید رئیس احمد صا حب ساری نے شور علامہ اکر سہی، اقبال صاحب کی شان محکومیت کا نقشہ نہایت واضح الفاظ میں کھینچا ہے.فرماتے ہیں :- اس دور میں اس طوفان نیز ، ہنگامہ آخری دور میں اقبال کا کیا حال تھا.وہ کیا کر رہے تھے وہ کس طرف تھے.آزادی کے شیدائیوں اور ملت کے اندروں کے ہاتھ یا قوم کے ہمنوں یا ملک کے غداروں کے ساتھ.واقعات حقائق بڑے بے مروت اور غیر جانبدار ہوتے ہیں.وہ کسی کے ساتھ رعایت نہیں کرتے سچی اور کھری بات کہتے ہیں حقائق کی زبان سے واقعات کا بیان یہ ہے کہ اقبال نہ صرف تحریک خلافت کے ساتھ نہیں تھے بلکہ اس سے اصولی اختلاف رکھتے تھے اور اس لئے اس سے اسی طرح الگ اور غیر متعلق تھے جس طرح ایک مخالف ہو سکتا ہے.یہی نہیں عین اس زمانہ میں جب لوگ ملازمتوں پر لات مار رہے تھے سرکاری اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کا بائیکاٹ کر رہے تھے سرکاری عدالتوںکی مقاطع کر رہے تھے بکری خطابتا (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر)

Page 234

14A جناب حافظ اسلم صاحب جیراجپوری نے اس شعر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :- یہ خالص شاعرانہ استدلال ہے.غالب کی طرح جس نے کہا ہے کیوں رو قدح کرے ہے زاہد ئے ہے یہ مگس کی قے نہیں ہے جس طرح مکس کی تے کہ دینے سے شہد کی لطافت اور شیرینی میں فرق نہیں آسکتا.اسی طرح حکومت کی نسبت سے الہام بھی اگر حق ہو تو غارت گر اقوام نہیں ہو سکتا.خود حضرت عیسی علیہ السلام رومی سلطنت کے محکوم تھے جن کی نسبت ڈاکٹر صاحب نے فرمایا ہے..فرنگیوں کو عطا خاک سوریا نے کیا نبی عفت و غمخواری و کم آزاری Q بلکہ اکثر انبیاء کرام علیہم السلام محکوم اقوام ہی میں مبعوث کئے گئے جس کے خاص اسباب و علل.در اصل نبوت کی صداقت کا معیار حاکمیت یا محکومیت پر نہیں ہے.بلکہ خود الہام کی نوعیت پر ہے" سے علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کے اس جوابی مضمون میں سے بطور نمونہ یہ صرف ایک مثال پیش کی گئی ہے ورنہ انہوں نے اس نوع کی لغزشیں کھائی ہیں کہ عقل انسانی دنگ رہ بھاتی ہے.اس واضح حقیقت کا تفصیلی جائزہ لینے کے لئے اخبار الفضل قادیان) کا چودہ قسطوں پر مشتمل سلسلہ مضامین مطالعہ کرنا ضروری ہے." بقید حاشیه صفحه گذشته : واپس کر رہے تھے، اقبال کو سر کا خطاب دیا گیا.اور انہوں نے اُسے قبول بھی کر لیا جس پر کسی دل جلے نے یوں فقرہ چست کیا.له " نوادرات " صفحه ۱۲۳ - ۱۲۴ سرکار کی دہلیز پہ سر ہو گئے اقبال “ 4 ر اقبال اور سیاست علی صفحه ۲۷۳ - ۲۷۴) سے ملاحظہ ہو " الفضل " ۲۰ فروری ، ۲۵ فروری ، ۲۷ فروری ، ۲۸ فروری ، ۱۵ مارچ ، ۱۹ مارچ ، ۱۲۲ مارچ ۲۲ مارچ ، ایمیل ، و منی ، اور مئی ، پر جون ، ۱۶ جون ، ۲۳ جون ۱۹۳۶ ۰ علاوہ ازیں " ریونیو آف ریلیجنتر " انگریزی مارچ ۱۹۳۳نہ کے شمارہ خصوصی پر • "DR.MOHAMMAD IQBAL AND THE AHMADIYYA MOVEMENT" کے زیر عنوان ایک معرکۃ الآراء مضمون شائع ہوا.

Page 235

194 جو ۱۹۳۶نہ کے وسط اول میں ڈاکٹر صاحب موصوف کے جواب میں شائع کیا گیا اور حبس میں اُن کے بیان پر اس خوبی ، جامعیت اور مدلل رنگ میں روشنی ڈالی گئی کہ بیس دن ہی چڑھ گیا.اور سر محمد اقبال اور اُن کے مداحوں پر ہمیشہ کے لئے حجت تمام ہو گئی.مسئلہ وفات مسیح کی بالآخر یہ بتانا از بس ضروری ہے کہ ڈاکٹر اقبال نے جہاں جماعت احمدیہ کے ملالی بہت سے فلسفیانہ اعتراضات کئے ہیں وہاں آپ جماعت احمدیہ کے بنیادی معقولیت واضح اقرار عقیدہ وفات مسیح کے بارے میں تسلیم کرنے پرمجبور ہو گئے کہ :.جہانتک میں اس تحریک کا مفہوم سمجھ سکا ہوں وہ یہ ہے کہ مرزائیوں کا یہ عقیدہ کہ حضرت عیسی علیہ السلام ایک فانی انسان کی مانند جام مرگ نوش فرما چکے ہیں نیز یہ کہ اُن کے دوبارہ ظہور کا مقصد یہ ہے کہ روحانی اعتبار سے ان کا ایک میل پیدا ہو گا کسی حد تک معقولیت کا پہلو لئے ہوئے ہے.والے الثانی کا اظہار مسرت اس واضح قاری کے علاوہ ڈاکٹر صاحب موصوف نے ایک تر خلیفہ اسیح الثانی کا اظہار مسرت نہایت اہم اور قیمتی نکتہ بھی بیان فرمایا جو ان کے اپنے الفاظ ڈاکٹر سر محمد اقبال کے ایک خیال پسر میں یہ ہے کہ بانی احمدیت کے الہامات کی اگر دقیق النظری سے تحلیل کی جائے تو یہ ایک ایسا موثر طریقہ ہوگا جس کے ذریعہ سے ہم اس کی شخصیت اور اندرونی زندگی کا تجربہ کر سکیں گے اور مجھے امید ہے کہ کسی دن نفسیات جدید کا کوئی متعلم اس کا سنجیدگی سے مطالعہ کرے گا نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی کو اس خیال پر از حد خوشی ہوئی اور حضور نے ایک بار اس تجویز کا پر جوش شیر مقدم اے مرزائیت کے متعلق پنڈت جواہر لال نہرو کے جواب میں شاعر اسلام مفکر مشرق علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال مدظلہ العالی کا بغیر افروز بیان صفر ۲۴- ناشر سکوٹری شعبہ اشاعت تبلیغ مسجد مبارک برانڈر تھے روڈ لاہور، کار فروری ۳ لے حرف اقبال " صفحه ۱۷۱ ۱۷۲ ۰ •

Page 236

۲۰۰ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ مجھے اس حوالہ کو پڑھ کر بہت خوش ہوئی کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ جب کوئی ماہر نفسیات بانی سلسلہ احمدیہ کے الہامات کا تجزیہ قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں کرے گا اور صحیح تجزیہ کرے گا تو وہ لازماً احمدیت کی صداقت کا قائل ہو جائیگا پس پر نصیحت علامہ اقبال مرحوم کی ہمارے لئے نہایت ہی مفید ہے.اگر کوئی شخص غلط تجزیہ کرے گا تو ہماری زبان اور قلم سلامت ہیں.ہم جواب دیں گے اور بتائیں گے کہ یہ تجزیہ تمہارا غلط ہے....ہم تو کہیں گے کاش بہت سے ایسے لوگ کھڑے ہوں.اگر ایسے لوگ کھڑے ہوں گے تو وہ یقیناً احمدی جماعت کی تائید کرنے والے ہوں گے اور ہماری ترقی کا موجب ہوں گے.اور اگر وہ تعصب سے کام لیں گے تو پھر بھی ہمارے لئے کامیابی ہی کی صورت نکلے گی.کیونکہ ہم اُن کی کمزوریاں ظاہر کریں گے اور دنیا کو پتہ لگ جائے گا کہ ہمارا مقابلہ کرنے والا خواہ کسی رنگ میں بھی پیش ہو وہ صداقت سے دور ہوتا ہے اور تین سیادی کمزوریوں میں مبتلا ہوتا ہے...میرے نزدیک...جو باتیں ایک رنگ میں ہمارے فائدہ کی ہوں ان پر خدا تعالے کا شکر ادا کرنا چاہیئے.اور ایسے لوگوں کا ممنون ہونا چاہیے جو کہ دانستہ یا نادانستہ سچائی کے معلوم کرنے کے لئے ایک رستہ کھولتے ہیں " سے " الفضل » ۱۳ جنوری ۱۹۵۳ئه صفحه ۳ : | ļ

Page 237

فصل سوم مجاہدین تحریک جدید کا بیرقی ملک از رئی شاندار کا دن تاریخ احمدیت میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے.کیونکہ اس روز تحریک جدید کے ماتحت بیرنی میں جانے والا پہلا قافلہ ممالک میں جانے والے مجاہدین کا پہلا قافلہ جو مندرجہ ذیل مبلغین پر مشتمل تھا قادیان سے روانہ ہوا :- ۱- مولوی غلام حسین صاحب ایا زه (سنگاپور) ۲- صوفی عبد الغفور صاحب (چین) - صوفی عبد القدیر صاحب نیاز (جاپان) ہے.سے دارالتبلیغ ٹریس سیٹیلینٹ سید نا حضرت ایرالمونین خلیفہ اسی نشانی نے سنگاپور، ملاکا اور بنیانگ ربیع کی ریاستوں میں تبلیغ اسلامہ کیلئے مولانا غلام حسین صاحب ایاز کو روانہ فرمایا.ردانگی کے وقت آپ کو صرف اخراجات سفر دیئے گئے.آپ ایک لمبے عرصہ تک خود آمد پیدا کر کے گذارہ کرتے اور مشین چلاتے رہے ایاز صاحب نے سنگا پور میں پہنچتے ہی اس خطہ زمین کے مذہبی اور تجارتی حالات کا جائزہ لیا اور ساتھ ہی دیوانہ وار تبلیغ اسلام و احمدیت میں مصروف ہو گئے.یہاں آپ کو شدید مخالفت کا سامنا ہوا مگر آپ مجنونانہ رنگ میں مصروف جہاد رہتے.آپ کی کوششوں کا پہلا ثمرہ حاجی جعفر صاحب بن حاجی دانتا را صاحب تھے جو جنوری ۱۳۷ ارد له الفضل در مئی ۱۹۳۵ صفحه ا کالم ۳ - الفضل ۱۶ رمئی ۱۹۳۵ء صفحہ ۲ کالم : ے.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قدیم صحابی حضرت میاں غلام قادر صاحب (بیت ۱۸۹ء) کے فرزند اکبر اور مولانا غلام احمد صاحب فرخ مربی سلسلہ احمدیہ حیدر آباد کے بڑے بھائی.ہے.ملاحظہ ہو آپ کا مضمون مطبوعہ الفضل و رجون ۱۹۳۵ء ص - شے.وفات 1977 ء بعمر ، سال (الفصل ۱۳ فروری ۱۶ م کالم نمبر ۲) له الفضل در فروری ع روحت.اگر چہ اس سے قبل بھی چار پانچ اشخاص بیعت کر چکے تھے مگر طائی قوم میں بعیت کا اولین شرف آپ ہی کو نصیب ہوا.

Page 238

٢٠٢ میں آپ کی تبلیغ سے متاثر ہو کر حلقہ بگوش احمدیت ہوئے.مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری سابق انجاج سنگا پوریشن کا بیان ہے کہ :.سنگا پور میں قیام جماعت کے ابتدائی ایام میں مکرم حاجی صاحب مرحوم نے حضرت مولوی غلام حسین صاحب ایازہ کی معیت میں سلسلہ کی خاطر بہت تکلیفیں اٹھائیں.دو تین مرتبہ بعض معاندین کی طرف سے زدو کوب اور ماریں بھی کھائیں مگر خدا کے فضل سے ہمیشہ ثابت قدم رہے.ایک مرتبہ بعض مخالف لوگوں کی انگیخت پر دو اڑھائی سو سطح افراد نے آپ کے مکان کا محاصرہ کر لیا.اور اپنے ایک عالم کو ساتھ لا کہ حاجی صاحب مرحوم سے اسی وقت احمدیت سے منحرف ہونے کا مطالبہ کیا اور بصورت دیگر ان کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دینے کی دھمکی دی.حاجی صاحب مرحوم نے اُسی وقت اونچی آواز سے تشہد پڑھ کر اعلان کیا کہ میں کس بات سے تو بہ کروں.میں تو پہلے ہی خدا کے فضل سے ایک سچا مسلمان ہوں.اور اگر میں نے کسی گناہ سے تو یہ کرتی بھی ہو تو بندوں کے سامنے نہیں بلکہ میں اللہ کے سامنے اپنے سب گناہوں کی معافی مانگتا ہوا اسے ملتی ہوں کہ وہ مجھے معاف کرے.جب اس کے باوجود مجمع مستقل رہا.اور مکان میں گھس کر جانی نقصان پہنچانے کی دھمکیاں دیتا رہا.تو مرحوم مومنانہ جرات اور ہمت سے ایک بچھڑا ہاتھ میں لے کر اپنے مکان کی حدود میں اپنا دروازہ روک کر کھڑے ہو گئے اور ببانگ دہل یہ اعلان کر دیا کہ مرنا تو ہر ایک تے ایک ہی مرتبہ ہے.کیوں نہ سچائی کی خاطر بازی لگا دی جائے.اب اگر تم میں سے کسی باپ کے بیٹے میں جرات ہے کہ بری نیت سے میرے مکان میں گھسنے کی کوشش کرے تو آگے بڑھ کر دیکھ لے.کہ اس کا کیا حشر ہوگا.مکان کی دوسری سمت سے حاجی صاحب مرحوم کی بہادر لڑ کی باہر نکل آئی.اور ہاتھوں میں ایک مضبوط ملائی تلوار نہایت جرات سے گھماتے ہوئے اس نے بھی سارے مجمع کو یہ کہتے ہوئے چیلنج کیا کہ میرے والد جب سے احمدی ہوتے ہیں.میں نے ان میں کوئی خلاف شریع یا غیر اسلامی بات نہیں دیکھی.بلکہ ایمان اور عملی ہر لحاظ سے وہ پہلے سے زیادہ پکتے مسلمان اور اسلام کے شیدائی معلوم ہوتے ہیں.اسلئے تمہارا یہ خیال غلط

Page 239

ہے کہ احمدیت نے انہیں اسلام سے مرتد کر دیا ہے.پس اگر آپ لوگوں میں سے کسی نے میرے باپ پر حملہ کرنے کی جرات کی یا نا جائز طور پر ہمارے گھر کے اندر گھسنے کی کوشش کی تو وہ جان لے کہ اس کی خیر نہیں.اگر چہ میں عورت ہوں.تاہم تم یا درکھو کہ خطے کی صورت میں میں اس تلوار سے تین چار کو مار گرانے سے پہلے نہیں مردونگی.اب جسکا جی چاہیے آگے بڑھ کر اپنی قسمت آزما لے.اس پر الہ تعالی نے اپنے فضل سے اُس مشتعل مجمع پر ایسا کر عب طاری کیا کہ با وجود اسکے کہ لوکل بائی پولیس کے بعض افراد وہاں کھڑے قیام امن کے بہانے مخالفین احمدیت کی کھلی تائید کر رہے تھے.پھر بھی مجمع میں ہے کسی فرد کو بھی مکرم حاجی صاحب کے گھر میں گھنے یا حملہ کرنے کی جرأت نہ ہوئی.آنر جوب کافی وقت گئے تک وہ لوگ منتشر نہ ہوئے تو حاجی صاحب مرحوم نے ان کو مخاطب کر کے کہا.کہ میں خدا کے فضل سے احمدیت میں داخل ہونے سے پہلے بھی مسلمان تھا اور قبول احمدیت کے بعد تو زیادہ پکے طور پر مسلمان ہو گیا ہوں کیونکہ احمدیت اسلام ہی کا دوسرا نام ہے.اس پر مخالفین شرمندہ ہو کہ آہستہ آہستہ منتشر ہو.ایاز صاحب ۱۴ مارچ ستارہ کو سنگا پور سے ملایا کی ریاست جو ہر میں تشریف لے گئے.اور جوہر دارالسلطنت منگم - پینتیان کھیل.باتو پاہٹ.مائرہ کو تا تینگی نبوت وغیرہ شہروں کا تبلیغی دورہ کیا اور انگریزی اور ملائی زبان میں ٹریکٹ تقسیم کئے.دس روز بعد آپ نے ریا ست طلا کا میں قدم رکھا.اور اس کے بعض مشہور شہروں مثلاً جاستین آلور گلها مرتمون - ستا میتین اور تنجونگ تک پیغام احمدیت پہنچایا.۳۱ را اپریل کو آپ خلا کا سے روانہ ہو کہ " نگری کمبلین " کے شہر سرمبان FB AN میں پہنچے ۲۴۰ اپریل کو الیف ایم ایس کے مرکز کو الا لمصور تشریف لے گئے تھے سنگا پور میں احمدیت کا بیج دیا جا چکا تھا جو آہستہ آہستہ بڑھ رہا تھا اور سید رو میں کھینچی آکر ہی تھیں.کامیابی کے یہ ابتدائی آثار دیکھ کر وسط ۱۹۳۶ میں ملایا میں مخالفت کا بازار گرم ہو گیا.پہلے ایک پندرہ روزہ اخبار " ورست لایا نے کھلم کھلا مخالفت کی کی پھر علاقہ کے علماء نے آپ کی نسبت واجد القبل ہونے کا فتویٰ دیدیا.اس ضمن میں مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری کا بیان ہے کہ :.الفضل ۱۳ فرور ی ۱۹ء ص - له الفضل ارمی و حت له الفضل النوم الله من -

Page 240

لہ دیا ۱۳ ء میں سنگاپور کی جامع مسجد میں (جسے مسجد سلطان کہا جاتا ہے ) ایک عالم کا ہماری جماعت کے خلافت لیکچر تھا مکرم مولوی غلام حسین صاحب ایان......بھی یہاں تشریف لے گئے.مولوی عبد العلیم صاحب صدیقی نے دوران تقریر میں کہاکہ مرزائیوں کا قرآن اور ہے.وہ نہیں ہے جو کہ حضرت سیدنا محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر اترا تھا.اسپر مکرم مولانا غلام حسین صاحب ایاز نے بڑی جرات سے کھڑے ہو کر سب کے سامنے اپنے بیگ سے قرآن کریم نکالا اور صدیقی صاحب کو چیلنج کیا کہ دیکھو یہ ہے ہمارا قرآن آپ اپنا قرآن نکال کر مقابلہ و موازنہ کر لیں اگر وزه بر زیر زبر کا بھی فرق ہو تو بیشک ہمیں ملزم یا کافر قرار دے لیں ورنہ اس قسم کی غلط بیانیاں کرتے ہوئے خدا کا خوف کریں.اس مولوی نے مجمع کو ہمارے خلاف پہلے ہی مشتعل کر رکھا تھا.بجائے پھیلنج قبول کرنے کے ار نے پبلک کو ہمارے خلاف مزید اشتعال دلایا اور کہا کہ یہ شخص کا فرمرتد ہے اس کی سزا اسلام میں قتل ہے.کوئی ہے جو کہ مسلمانوں کو اسے نجات دلائے.اس پر مجمع میں سے بعض لوگوں نے مکرم مولوی غلام حسین صاحب ایاز کو سخت مارا اور گھسیٹ کر مسجد سے باہر نیچے پھینک دیا وہ مسجد او پر ہے اور نیچے تہ خانہ یا کمرے وغیرہ ہیں.چنانچہ مولوی صاحب مرحوم کو سخت چوٹیں آئیں.کمر پر شدید چوٹ آئی اور سر پر بھی جسی آپ نیچے گرتے ہی بے ہوش ہو گئے.آپ کے ساتھ ایک احمدی دوست محمد علی صاحب تھے انہوں نے بھاگ کر پولیس کو اطلاع دی.چنانچہ پولیس مولوی صاحب کو کوئی آدھ گھنٹہ کے بعد وہاں سے اٹھا کر ہسپتال لے گئی.جہاں پر آپ کو کئی گھنٹوں کے بعد ہوش آیا اور ہفتہ عشرہ ہسپتال میں رہنا پڑا.اسی طرح ایک مرتبہ آپ کو مخالفت کی وجہ سے بعض دشمنوں نے چلتی بس سے دھکا دیکر با ہر بازار میں پھینک دیا تھا جسے آپ کے منہ اور سر پر شدید چوٹیں آئیں مگر پھر بھی اللہ تعالے نے آپ کو بچا لیا " یارستمی الیہ کو آپ لویا کی ایک ریاست سانگور میں تشریف لئے گئے.اور پہلے کوالالمپور اور پھر کانگ میں ٹھہرے.کانگ میں پانچ اشخاص (جن میں حافظ عبدالرزاق بھی تھے، مشرف با حمایت ہوئے مکتوب مورند یکم جولائی ۱۹۶۳مه د از مقام احد یه کم مشن ۱۱۱/۱۶ اون روڈ (OMAN ROAD) سنگاپور ) ہے.الفضل ، در نومبر تیر ها ریاست سلانگور سنگاپور سے قریباً تین سو میل کے فاصلہ پر

Page 241

۲۰۵ جنوری او تک یہاں پندہ احمدیوں پر مشتمل ایک جماعت پیدا ہوگئی لیه ، یکم سب اللہ کو دوسری جنگ عظیم چھڑ گئی تو جاپان نے دو تین ماہ کے اندر اندر مانچو کو اور شمالی پین کے علاوہ فلپائن.ہند سپینی، تھائی لینڈ لایا اسنگا پور، بھاوا، بورنیو ریلیز نیوگنی اور حر الکاہل کے بہت سے جزیوں کو اپنے زیر اقتدار کر لیا.یہ ایام سنگا پورشن اور مولوی ایاز صاحت کے لئے انتہائی صبر آزما تھے خصوصا جاپانیوں کے خلاف پراپیگینڈا کر نے کی وجہ سے آپ پر بہت سختیاں کی گئیں اور خرابی صحت کے باعث سر اور ڈاڑھی کے بال قریبا سفید ہو گئے بلکہ آپ اس دور کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کرتے تھے کہ اس زمانہ میں بڑی رقت اور گرانی سے دعائیں کرتا تھا اور اللہ تعالے کا مجھ سے یہ سلوک تھا کہ اکثر و فعہ بذریعہ کشف اور الہام دعا کی قبولیت اور آئندہ کامیابی کے متعلق مجھے بشارات مل جاتی تھیں اور یہ سب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طفیل اور حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی توجہ کی برکت تھی یہ کہ اس زمانہ میں آپ نے سرفروشانہ جہاد تبلیغ اور خدمت خلق کا جو نہایت اعلی اور قابل رشک نمونہ دکھا یا اسکا کسی قدر اندازہ لگانے کے لئے ذیل میں تین چشم دید شہادتیں درج کی جاتی ہیں.پہلی شہادت : پہلی شہادت محمد نصیب صاحب عارف کی ہے جو سنگا پور میں جنگی قیدی رہے.عارف صاحب نے ہندوستان واپس اگر اپنے مشاہدات الفضل وار دسمبر شہد میں شائع کر آئے جنہیں لکھا: آکر اور دی سنگا پور کے مبلغ مولوی غلام حسین ایاز بھی ان پر جوش مجاہدین میں سے ایک ہیں جن کا قابل رشک اخلاص اور تبلیغی انہماک ایک والہانہ رنگ رکھتا ہے.جاپان کے گذشتہ ساڑھے تین سالہ ملایا پر قبضہ کی وجہ سے جناب مولوی صاحب کی مساعی جمیلہ جماعت کے سامنے نہیں آسکیں.....مولوی صاب موصوف گذشتہ دس سال سے اعلائے کلمتہ اللہ کیلئے سنگاپورمیں مقیم ہیںاور تحریک جدید کے ابتدائی مجاہدوں میں سے ہیں.اور تبلیغ کے ساتھ اپنے اخراجات کیلئے بھی آپ صورت پیدا کرتے ہیں.صرف پہلے چھ ماہ کا خرچ دفتر تحریک جدید نے دیا تھا.مارچ ۱۹۲۷ء میں جب یہ عاجز سنگا پور پہنچا.تو چند دوستوں کے ساتھ دارالتبلیغ میں گیا.ہے.اخبار فاروق ۳ از فروری ۱۲ او د ملا - الفضل ۱۲۳ نومی مرمت کالم ۲ - ۳ الفضل ۲۰ فروبونی من بروقت کالم ۲ - ۲.اس سلسلہ میں آپ کا ایک مضمون الفصل ۳ ر جنوری مشاء میں شائع شدہ ہے.۱۹۴۵

Page 242

مولوی صاحب نے اپنی تبلیغی مساعی کا ذکر میں رنگ میں کیا.وہ انگشت بدنداں کر دینے والا تھا.کسی طرح انکو احمد سیت کی تبلیغ کیلئے تکالیف سہنی پڑیں.مخالفین نے دارالتبلیغ پر خشت باری کر نا شروع کر دی جب کے نتیجہ میں مولوی صاحب کو کئی کئی دن مکان کے اندر بند رہنا اور خوراک اور دیگر ضروریات کیلئے تنگ ہونا بہت تکالیف کا باعث ہوا.چند ماہ بعد جب یہ عاجز ملایا میں کو ان پور کے مقام میں تھا.ایک دن اپنے ڈپو کا چندہ حکیم دین صاحب اکو نٹنٹ کو دینے گیا.تو آپ نے بتایا.اس مخالفت کے نتیجہ میں پولیس نے گورنمنٹ کے ریکار ڈ میں لبیک شیٹ میں آپ کا نام رہے اوپر رکھوایا ہوا تھا.کس قدر افسوسناک بات تھی.کہ احمدیت کا ایک مجاہد اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے اپنے وطن سے بے وطن ہو کر جن لوگوں کی اصلاح کیلئے ان کے پاس جاتا ہے وہ اُسے انتہائی تکالیف پہنچانے کے درپے ہو گئے.ان مخالفین کا کیا حشر ہوگا.وہ مولوی صاحب خود بیان کیا کرتے تھے.کہ سنگا پور مفتوح ہونے پر ایسے تمام لوگ جو میرے مخالف شرا در فتنہ و فساد پر آمادہ رہتے تھے ایک ایک کر کے مختلف مجرموں کی پاداش میں جاپانیوں کے ہاتھوں سزا یاب ہوئے.سنگا پور میں لڑائی کے دوران میں مولوی صاحب کیلئے خدا تعالیٰ نے ایک خاص نشان دکھا یا.گولہ باری کے ایام میں مولوی صاحب نے لوگوں سے کہدیا کہ آپ میرے گھر میں بمباری کے وقت آنجایا کریں.حیرت انگیز امر یہ ہے کہ اس نظرناک وقت میں مولوی صاحب کے ارد گرد کے مکانات کو کافی نقصان پہنچا.اور کافی لوگوں کی اموات ہوئیں.مگر آپ کا گر محفوظ رہا.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی یہ پیشکونی - تمر آگ ہماری علام بلکہ ہمارے غلاموں کی غلام ہے.برابر پوری ہوتی ہے.پھر ایک اور تائید در خدائی مدازان وئی کہ ایک جاپانی افسر مولوی صاحب کے مکان کے سامنے موٹر سائیکل سے گر گیا.اس کو شدید ضربات آئیں.سناب مولوی صاحب اُس کو اٹھا کر اپنے مکان میں لے گئے.تیمارداری اور مرہم پٹی کی.اور اس کو اس کے کیمپ میں پہنچانے کا بند ست کیا.اس پر وہ جاپانی افسر مولوی صاحب کو اپنی طرف سے پر روانہ دے گیا کہ آپ سنگا پور میں میں طرح چاہیں رہیں.آپ کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو گی.خدا تعالیٰ کی قدرت کا یہ عجیب کرشمہ تھا.کہ جاپانی حکومت کے قبضہ کے دوران میں کسی مخالف کو سراٹھانے کی جرات نہ ہو سکی.حالات کے شدھر جانے سے آپکو اپنی مالی حالت درست کرنے کا بھی موقعہ مل گیا.اور اوائل شہر میں آپ نے تین بادبانی کشتیاں تجارت کیلئے خرید لیں.جن کا نام احمد نور اور

Page 243

مجمود " رکھا.ان سے مولوی صاحب کو کافی مدد حاصل ہوئی.مگر چونکہ جنگ کی وجہ سے ملک کی اقتصاد کیا حالت پر اثر پڑ رہا تھا.یہ کام زیادہ دیر تک جاری نہ رہ سکا یہ کہو اور ہے جو مولوی صاحبیت کے لئے مالی لحاظ سے بہت کٹھن تھے.اس موصہ میں جہاں ملک میں اشیاء خوردنوش کی کمی واقع ہوگئی تھی سیمولوی صاحب کو بھی کافی حد تک ان تکالیف میں سے گزرنا پڑا.مگر آپ نے نہایت صیر اور تحمل سے یہ عرصہ گزارا.بلکہ تبلیغی در تنظیم کاموں میں زیادہ وقت دنیا شروع کر دیا..19 ء میں مولوی صاحب کی حالت تعدا تعالیٰ کے فضل سے پھر بہتر ہونی شروع ہوگئی.ہم لوگ نظر بندی کی حالت میں ان کے حالات سے اتنے آگاہ نہیں تھے مگر خدا تعالیٰ کی غیبی امداد سے انہوں نے تمام احمدی مبنی قیدیوں کی مدد کیلئے مختلف کیمپوں میں تقسیم کرنے کیلئے ۲۰۰۰ ہزار ڈالر کی رقم روانہ فرمائی.اس وقت واقعی ہم لوگوں کو یہ کی بڑی ضرورت تھی کہ وہ روپیہ ہم کو پہنچنے نہ پایا تھا.اور ہم اس کے خیال میں بھی اپنی مشکلات کا حل سوچ رہے تھے کہ صلح ہوگئی.اور وہ کہ تم مولوی صاحب کو واپس لوٹا گیئں.جدا ہم اللہ احسن الجزاء في الدارين خبيراً ب جناب مولوی صاحب نے اس عرصہ میں اپنی تبلیغ جاری رکھی اور جماعت کی تنظیم کا کام بھی کرتے رہے.سینکڑوں طلائی اس وقت احدیت کی آغوش میں آچکے ہیں.آپ کی انتھک کوششیں احمدیت کا نام حض خدا تعالیٰ کے فضل سے اور حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزہ کی دعاؤں کے طفیل پھیلا رہی ہیں.جناب مولوی صاحب کو ایک عرصہ گھر سے بھدا ہوئے ہو گیا ہے مگر چلتے وقت جب ہم نے اُن سے کہا کہ مولوی صاحب آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں.تو آپ نے فرمایا." حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اجازت کے بغیر ایک قدم بھی یہاں سے ہلانا اپنے لئے معصیت سمجھتا ہوں.آپ نے احمدی دوستوں کی واپسی پر انہیں اتنابھی نہ کہا کہ میرا لای پیغام میرے گھروالوں کو پہنچا دیا.بلکہ کہا تو یہ کہا کہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کو میرا سلام دنیا اور یہاں کی میری تبلیغی مساعی کے لئے دعا کی درخواست کرنا نه دوسری شہادت : دوسری شہادت محمد یونس صاحب فاروق کی ہے جو اور بجنوری تو کو کرم مولوی غلام حسین صاحب ایمانہ کے ذریعہ سے احمدیت سے مشرف ہوئے اور تقریبا پانچ ماہ سنگا پور میں رہنے کے بعد واپس ہندوستان آئے اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے نام ایک مفصل مکتوب میں لکھا کہ: ه الفضل 9 وكمبر ۱۲ء مث ۲ جلد نمبر ۳۳ - الفضل نمبر ۲۹

Page 244

۲۰۸ جب میں رخصت سے واپس کوٹا تو خوش نصیبی سے میرا یونٹ سنگا پور چلا گیا تھا.اس وجہ سے مجھے بھی سنگا پور آنے کا موقع مل گیا.اور بالکل حسین اتفاق سے ایک روز جبکہ میں اونان روڈ پر ٹہل رہا تھا اور ملایا کے مسلمانوں کی حالت پر افسوس کر رہا تھا.یکا یک میری نظر ایک بورڈ پر پڑی جس پر لکھا تھا.جماعت احمدیہ قادیان سنگا پور - اندر گیا.تو دیکھا جناب مولوی غلام حسین صاحب ایاز بیٹھے تلاوت کر رہے تھے اس پر میری خوشی کی انتہا نہ رہی.فوراً مولوی صاحب سے ملا.اپنے حالات سنائے ان کے حالات پونچھے اور اس کے بعد تقریبا ہ روزانہ وہاں جانا شروع کر دیا.اور وہاں سے سلسلہ کی کتابیں لیکر پڑھنے لگا.بہت ہی جلد اللہ تعالیٰ نے تو فیق عطاء فرمائی اور خادم نے اپنے آقا کے ہاتھ اپنے آپ کو بیچ کر دیا.- اور اب نہ صرف اپنی زندگی بلکہ ہر چیز جو اس عاجبہ سے متعلق ہے احمدیت کیلئے وقف ہے......جناب مولوی غلام حسین صاحب ایا که مبلغ سنگا پور کی جدوجہد کا میرے دل میں بہت اثر ہوا موصوف نے خدمت دین میں اتنی محنت اٹھائی ہے کہ قبل از وقت بوڑھے ہو گئے ہیں.جب مجھے آنجناب کی اصل عمر کا پتہ چلا.تومیں متحیر ہو گیا.کیونکہ ظاہری حالت سے آپ ۵۵ سال سے کم عمر کے نہیں معلوم ہوتے.اور ہمیشہ بیمار رہنے کے باوجود تلبینی مصروفیت کا یہ عالم ہے کہ صبح نو بجے سے لے کو رات کے گیارہ بارہ بج جاتے ہیں.اس عرصہ میں موصوف کو گھڑی بھر کی بھی فرصت نہیں ملتی.کہ ذرا آرام کر لیں.دن بھر کبھی توسلسلہ کے لٹریچر کا ملائی زبان میں ترجمہ ہو رہا ہے کبھی مضمون تیار ہو گا ہے.اس کے علاوہ دن بھر سوالات اور اعتراضات کرنے والوں کا تانتا بندھا رہتا ہے.اور ان کو سمجھانے میں گھنٹوں مغز زنی کرنی پڑتی ہے.ملایا کے احمدی بچوں کی تعلیم و تربیت بھی خود ہی کر تے ہیں.ان کے علاوہ لوگوں کے گھروں میں بجا کہ بھی تبلیغ کی جاتی ہے.یہاں احمدیت کے خلاف بہت سخت پروپیگنڈا کیا گیا.اور اکثر لوگ ایسے سخت دشمن ہیں کہ جنگ سے پہلے کے زمانہ میں اکثر اوقات وعظ کیلئے اپنی مسجد یا اپنے گھر پر بلاک مولوی صاحب کو بڑی بے رحمی سے زدو کوب بھی کرتے تھے.مگر اللہ تعالیٰ نے چین چین کہ جاپانیوں کے ہاتھوں سب کو ٹھکانے لگا دیا.اور احمدیت کی تبلیغ کے لئے راستہ صاف کر دیا.مولوی صاحب کے بجاپانی قبضہ کے زمانہ کے کارنامے معجزات سے کم نہیں.میری ایک غیر احمدی حکیم سے شہر میں ملاقات ہوئی.احدیت کا مخالف ہونے کے باوجود مواد اعصاب

Page 245

۲۰۹ کی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکا.وہ کہتا تھا.جاپانیوں کے زمانہ میں جبکہ کسی کی ہمت نہیں ہوتی تھی.کہ جاپانیوں کے خلاف اپنے گرمی بھی کسی قسم کی بات کرے.ایسے خطرناک وقت میں مولوی صاحب...3 کے کیمپ میں جا کہ جاپانیوں کے خلاف کاروائیاں کرتے.دنیا حیران ہے کہ مولوی صاحب سجاپانیوں کے ہاتھ سے بیچ کیسے گئے ؟ حالانکہ جاپانیوں کی عادت ہی نہیں تھی کہ کسی معاملہ کی تحقیقات کرتے.ان کے پاس تو رپورٹ پہنچنے کی دیر ہوتی.کہ فوراً گرفتاری عمل میں آتی اور بلا پرسش سرکاٹ کر شارع عام پر کھے سے لٹکا دیا جاتا.اسی طرح احمدیت کے اشد مخالفین کا صفایا ہوا.اور ایسے ہی حالات میں مولوی صاحب کے خلاف ہر روز رپورٹیں پہنچتی رہتی تھیں.اور ہر وقت جاپان ملڑی پولیس اور 2.3.0 مولوی صاحب کے پیچھے لگی رہتی.مگر جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے مولوی صاحب کو قبل از وقت اطمینان دلا دیا تھا.کہ وہ پکڑے نہیں جائیں گئے اور مولوی صاحب نے اکثر لوگوں سے جن میں غیر احمدی بھی ہیں کہدیا تھا.کہ اللہ تعالیٰ مجھے گرفتاری سے بچا ئیگا.اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا کیا.اور اکثر لوگ جو احمدیت کے مخالف تھے احمدیت کی صداقت کے قائل ہو گئے.خصوصا مولوی صاحب کے بہت معتقد ہو گئے.اور بعضوں نے بعیت بھی کرتی.ملایا کے عام مسلمانوں کی حالت دیکھ کر بڑا افسوس ہوتا ہے.یہ لوگ دین سے اتنی دور جا پڑے ہیں.کہ بظاہر حالت درست ہونے کی امید نہیں.مذہب کی موٹی سے موٹی بات بھی انہیں معلوم نہیں.جو لوگ کچھ تھوڑا بہت جانتے ہیں.اس پر عمل نہیں کرتے.عیاشی کی یہ حالت ہے.کہ شاید یورپ بھی مات کھا جائے سنیما کے ایسے شوقین کہ گھر میں کھانے کو کچھ نہ ہو.تو پروا نہیں.سینیما ضرور دیکھیں گے.طرفہ یہ کہ عورتیں مردوں سے بہت آگے بڑھی ہوئی ہیں.اور خدا جاتے مردوں کی غیرت کہاں چلی گئی ہے.کہ اپنی آنکھوں کے سامنے سب کچھ ہوتا دیکھتے ہیں.اور چپ رہتے ہیں.نہ صرف چوپ رہتے ہیں.بلکہ نوش ہوتے ہیں.غریب عورتیں پیٹ کی خاطر اپنا سب کچھ بیچتی ہیں.اور جو آسودہ ہیں وہ عیاشی کی خاطر.بہر حال میں تو کبھی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا.کہ کوئی مسلمان کہلانے والی خطر زمین سارے کا سارا اسلام سے اتنی دور جا سکتا اور اتنا غافل ہو سکتا ہے.وہ سارا مذہب اسی بات میں سمجھتے ہیں.کہ احمدیت کی مخالفت کی بھائے اور لیں.ان حالات میں مولوی غلام حسین صاحب ایا نہ کی تبلیغی سرگرمیاں دیکھ کر تعجب ہوتا ہے.کہ

Page 246

۲۱۰ سخت سے سخت حالات میں بھی مولوی صاحب مایوس نہیں ہوئے.اور جناب مولوی صاحب کی نتھنک کوششوں کا نتیجہ دیکھکر ماننا پڑتا ہے.کہ یہ بھی ایک احمدیت کا معجزہ ہے.ایسے مانوں میں سر لوگوں کا احمدیت قبول کرنا.اور پھر مخلص احمدی بنا تقولٰی اور طہارت میں ایک مثال قائم کر دنیا ، بلکہ فرشتہ حصلت انسان بن جانا اور دین کے لئے بڑی بڑی جانی اور مالی قربانیاں کرنا یہ معجزہ نہیں تو اور کیا ہے.مولوی صاحبچے نہ صرف یہ کہ یہاں جماعت قائم کی.بلکہ اس کی تنظیم اور تربیت میں بھی کمال کر دیا ہے.اس کے علاوہ جب ہندوستانی فوجیں یہاں آئیں.تو مولوی صاحب کو اپنے فوجی دوستوں کی تربیت کا بھی خیال پیدا ہوا.چنانچہ آپ نے اخبارات میں اشتہارات وغیرہ دیکہ تمام احمدی فوجی دوستون سے تعلق قائم کیا.اور ہر اتوار کو سب کی میٹنگ مقرر کی جس میں سوائے ان لوگوں کے جن کی ڈیوٹی ہوتی.باقی سب دار التبلیغ میں جمع ہو جاتے اور مختلف پہلوؤں سے احمدیت پر روشنی ڈالی جاتی.اور کوشش کی جاتی.کہ ہر احدی ضرور کچھ نہ کچھ تقریہ کرے.اس سے نہ صرف یہ کہ سب کو تقریر کرنے کی مشق ہوتی.بلکہ ہمارے ایمان میں بھی ترقی ہوتی یہ لے تیسری شہادت :- تیسری شہادت ایک غیر از جماعت دوست جناب کیپٹن سید ضمیر احمد صاب جعفری ہی.اسے سول نائن جہلم کی ہے.آپ نے جون کر دیں جماعت اوریہ کو مخلصانہ مشورہ دیتے ہوئے ایک خط لکھا کہ :.یں حال ہی میں مشرق بعید سے آیا ہوں لایا جادا وغیرہ میں آپکے سلسلہ کی طرف سے مولوی عالم میں صاحب ایا نہ تبلیغ کا کام کر رہے ہیں.۱۹۳۵ء میں جب اتحادی فوجوں کے ساتھ ہم مایا میں پہونچے.تو مولوی صاحب نائبا تنہا تھے.مور وراءمیں مولوی عبدالحی اور شاید دو ایک اور کارکن بھی پہنچ گئے تھے.جہانتک مولوی غلام حسین ما ایاز کی ذات کا تعلق ہے.ان کے خلاف میں ایک بات بھی نہیں کہہ سکتا.اپنے منصب کو وہ انتہائی ایثار و خلوص اور خاصے سلیقہ کے ساتھ انجام دے رہے ہیں.بلکہ بین دشواریوں اور نامساعد حالات میں سے وہ گزر رہے تھے.اگر اس پر غور کیا جائے تو ان کے استقلال حوصلہ اور بہت پر حیرت ہوتی ہے.واقعہ یہ ہے کہ وہ اس کام کو ایک فریضیہ ایمانی مجھ کر کہ رہے ہیں.میں جس طرف سلسلہ کی تقصیر بطور خاص دولانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ دوسرے ملکوں میں صرف ایسے مبلغین بھیجے جائیں جو علوم دینی کے ه الفضل ارجون داد ۱۲۰ رحبت کو جلد ۳۲ مشت - الفضل نمین آمار :

Page 247

۲۱۱ ساتھ ساتھ جدید علم و کمالات سے بھی بہرہ اندوز ہوں.تاکروہ دوسرے ملکوں کی مخصوص فضاء میں اپنے لئے دائرہ کار پیدا کر سکیں.اور اپنے مقصد میں زیادہ موثر و کامیاب ثابت ہوں.علاوہ ازیں جو مشن بھی دوسرے ملکوں میں کھولا جائے اُسے مالی لحاظ سے مفلوک الحال نہ رکھا جائے.......مبلغین یا جماعت کے بیرنی نمائندوں کیلئے علم جدید کی ضرورت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ تقسیم پنجاب کے زمانہ میں جب مولوی غلام حسین صاحب ایاز مشرق بعید میں قادیان کے متعلق وہاں کی رائے عامہ کو متاثر کر نا چاہتے تھے.تو ان بے چاروں کو محض اسلئے کہ انہیں انگریزی میں زیادہ دسترس نہ تھی (یہ ان کے لئے باعث تو میں نہیں) یا ان کے سٹاف میں کوئی اس ڈھب کا شخص موجود نہ تھا.بڑی دشواری کا سامنا کرنا پڑا.وہ تو حسن اتفاق سمجھے کہ اُن دنوں اتحادی فوجوں کے ساتھ بہت سے پاکستانی مسلمان افسر بھی وہاں تھے.ان میں سے چند ایک احمدی دوست بھی تھے جن کی امداد سے مشرق بعید میں قادیان کا بہت کچھ چر چا ہو بھی گیا.ورنہ بڑا مشکل تھا...ضمنائیں یہاں ایک ذاتی تاثر کا ذکر کردوں.جس پر مجھے اب بے اختیار نہیں آتی ہے.ممکن ہے آپکے قارئین بھی اسے دلچسپی کا موجب پائیں.بیژن ملک جانے سے پیشتر احدی کے متعلق کوئی خیال آتے ہی میں اکثر سوچا کرتا تھا.کہ ان کے مبلغین کیلئے تو مزے ہی مزے ہیں.دیس دیس کی سیر اور فارغ البالی کی زندگی.آدمی کو یہ دو چیزیں لی جائیں تو اور کیا چاہیے.مگر ٹا یا مں مولوی غلام حسین ایانہ کو دیکھکر میری اس خوش فہمی کو سخت دھکا لگا ہے.میں نے دیکھا ہے کہ یہ لوگ خاص محنت و مشقت کی زندگی گذار رہے تھے.اتنی مشقت اگر وہ اپنے وطن میں کریں تو کہیں بہتر گذر بسر کر سکتے ہیں " خون اسید نا حضرت امیرالمومنین خلیفہ اسی الثانی نے مولانا لیند ریح الثانی کا اظہار و سنوردی غلام حسین صاحب آیا نہ کی عظیم الشان قربانیوں اور ائن کے شاندار نتائج کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :- ایسے علاقوں میں بھی احمدیت پھیلینی شروع ہو گئی ہے جہاں پہلے باوجود کوشش کے ہمیں کامیابی نہیں ہوئی تھی.مایا میںیا تو یہ حالت تھی کہ مولوی نظام حسین صاحب ایاز کو ایک دفعہ لوگوں نے رات کو ماله مالہ کہ گلی میں پھینک دیا اور کئے اُن کو چاہتے رہے اور یا اب جو لوگ مایا سے واپس آئے ہیں انہوں نے بتایا ہے کہ اچھے اچھے مال دار ہوٹلوں کے مالک اور معززہ طبقہ کے ستر اسی کے قریب دوست ل - الفصل ۲ جولائی ۱۹۲۰ء ص :

Page 248

۲۱۳ احمدی ہو چکے ہیں اور یہ سلسلہ روز بروز ترقی کر رہا ہے یا له..190 مولوی غلام حسین صاحب ایاز مولانا نام مین صاحب از جر به رمی مختار کو قادیان سے کی دوبارہ روانگی روانہ ہوئے تھے بندہ برس بعد او نو د کور بود میں تشریف ۲۴ نومی اللہ ہے.اسکی بعد آپ مر را کتوبر ستاد کو دو بارسنگا پور میں اعلائے کلمتہ الحق کے لئے بھجوائے گئے ہے کچھ عرصہ سنگا پور میںمقیم رہنے کے بعد بور نیومیں متعین کئے گئے.مولانا غلام حسین صاحب ایاز ذیا بطیس کے مریض تھے.یہ بیماری یہاں آکر اکتو بر شکار کے دوسرے ہفتہ میں ایکا ایک بڑھ گئی.14 اکتوبر یاد کی رات کو بخیریت تھے.صرف معمولی وفات سی تھکاوٹ کی شکایت تھی.آدھی رات کے بعد جب حسب معمول نمانہ تہجد کے لئے بھار پائی سے اُٹھے تو دھڑام سے زمین پر گر پڑے.آپ کی اہلیہ صاحبہ جو ساتھ کے کمرے میں سورہی تھیں آواز سنکر دہ فوراً اٹھیں اور اگر دیکھا کہ زمین پر پڑے ہیں.انہوں نے ساتھ کے ہمسایہ کو آواز دی جو احدی تھا.انے آکر چار پائی پر ڈالا.اور اسکے بعد جلد ایمبولینس منگورا کہ ہسپتال پہونچایا.اتفاق سے ڈاکٹر ا رہی تھا.جن کو آپ تبلیغ کیا کرتے تھے.اپنی بڑی محبت، ہمدردی اور تندہی سے علاج کیا.مگر افاقہ نہ ہوا.اور تقریبا 4 گھنٹے بیہوش رہنے کے بعد ہے اکتو بر شلوار کی درمیانی شب کو اپنے مولا کے ہاں پہونچ گئے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ موں سنگا پر میں کام کرنیوالے دوسری اور نا نام حسین صاحب آیاز کے قیام سنگاپور کے دوران پورمیں مندرجہ ذیل مجاہدین بغرض تبلیغ بھجوائے گئے:.مجاہدین احمدیت کی خدمات دا، مولوی عنایت الله ماه باند را با درمولانا ابوالعطاء هنا باند شرای له الفضل ۲۲ جنوری تا ۱۳ - الفضل ۱۶ مئی ۱۹۴۶ء ص پر نئے سالکین کی فہرست بھی ملا حظہ ہو.ه - الفضل ۳ رده گیر نشود و صلہ کالم - مولانا غلام احمد صاحب فرخ تحریر فرماتے ہیں.کہ سنگا پور سے پندرہ سال کے بعد جب واپس کوہ آئے تو اپنی آمد کی معین تاریخ اور وقت کی کسی کو بھی اطلاع نہ دی بلکہ کراچی میں جہاز سے اتر کر گاڑی پر سوار ہو گئے اور جمعہ کے روز ربوہ میں اس وقت پہنچے جب حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی خطبہ ارشاد فرما رہے تھے آپ مسجد میں پہنچے اس وقت چونکہ سادہ قسم کا لائی لباس آپ کے قریب نہ تھا اسلئے اکثر کمہار نے آپ کو پہنچانا بھی نہیں ای خر معلوم ہوا کہ آپ نام حسین از مبلغ سنگا پور ملایا میں جب آپ کی بات کیا گیا کہ آپ نے اطلاع کیوں نزدی تو جواب دیا.کہ میں نے پسند نہ کیا کہ دوست میری خاطر تکلیف اٹھا کر اسٹیشن پر جمع ہوں.(الفضل : ۲ خوری شار مت) ه - الفصل در اکتوبر بارات - ه - المفضل ۳۰ اکتوبر ر - شاه محترمه امته الرفيق صاحہ ہے الفضل ۳۰ /اکتوبر ۱۹۵۹ء صفحه ۳ I

Page 249

۲۱۳ دردانگی ها را برای گشت اشاره ۲ به مولوی شاه محمد صاحب ہزاروی د روانگی در اپریل ، آپ چند ماہ تک سنگاپور میں تبلیغی فرائض بجالانے کے بعد شاہ میں جاوا منتقل ہو گئے سے مولوی امام الدین صاحب ملتانی - آپ 17 جون شکر کو قادیان سے روانہ ہو کہ در جولائی کو سنگا پور پہنچے.ٹرانسپورٹ کی مشکلات کی وجہ سے ان دنوں اپنے ایک نیوی فلیگ شپ نما بلا نامی میں بطور دھو بی ملازم ہو کہ کام کیا اور سنگا پور پہنچے گئے.چونکہ جنگ نئی نئی ختم ہوئی تھی اور سنگا پور میں ابھی بیشمار جاپانی قیدی ہونے کی وجہ سے افراتفری اور نظام درہم برہم تھا.اس وجہ سے وہاں ان دنوں تبلیغی حالات اچھے نہ تھے.مرکز کے ساتھ خط و کتابت اور مالی امداد با قاعدہ نہیں تھی اسلئے لوکل طور پر ہی او سر او سر کے کام کر کے ضروریات زندگی پوری کرنی پڑاتی رہیں.اور ساتھ ساتھ تبلیغ کا کام بھی جاری رکھا گیا.وہاں کے بعض احدی ملانہ مین کی مدد سے مالا باری ہندوستانیوں میں تبلیغ سے پھارا افراد نے بیت کی.جو بہت مخلص ہیں.آپ شہہ سے لیکر دیر تک مولوی غلام حسین صاحب آیاز کی قیادت میں جماعتی امور سرانجام دیتے رہے.اور اسکے بعد حضرت خلیفہ مسیح الثانی کے ارشاد کے ماتحت آپ سنگاپور سے شروع جنوری نشر میں پاڈانگ دانڈونیشیا) روانہ ہو کہ ار ضروری منشور کو جاکارتا پہنچے اور انڈونیشیا مشن میں منتقل ہو گئے.لم چو ہدری محمد احمد صاحب (ستمبر ۱۹۳۶ و تا جنوری ۱۹۳۶ء) مولوی محمد سعید صاحب انصاری (۱۳ دسمبر شده تا مارچ ۱۹۳۵ء - جنوری ۱۹۷ء تا جون ۱۹۶۲مه) ۲۲ - 4 - میاں عبدالحي صاحب - مولانا مولانامحمد صادق صاح کے کار ہاہے..وہ احمد صادق صاحب ده ر دسمبر کشنده تا مارچ په مارچ درد سمیه تامه را داد اراک له الفضل ۲۱ اپریل ۳۶ را اصلا کالم ۱ - ۵۲ الفضل ۲۱ اپریل ۲۶ شراء ما - ٣ الفضل دار تمبر رصد میں آپکا ایک مضمون موجود ہے جیسے معلوم ہوتا ہے کہ تصویر کا منشا مبارک یہ تھا کہ صرف چند ہفتے تک سنگا پور قیام پذیر رہیں.سہ ماہنامہ الفرقان در بوه تم له صدا - خالد جنوری له م - م م ر فروری شادی کو سنگاپور سے ۳۲ ه ملایا.(کوالا لمپور میں تبدیل کئے گئے.

Page 250

۲۱۴ آپ کے ابتدائی زمانہ قیام میں سنگا پور اور طلایا میں سخت مخالفت اللہ کھڑی ہوئی.جس پر آپ نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے ارشاد پر سنگا پور سے پنانگ تک کا وسیع تبلیغی دورہ کیا اور قریباً ایک سو علماء سے ملاقات کی.آپ کا بیان ہے کہ میں نے دیکھا کہ تقریبا نوے فیصدی علماء نے اقرار کیا کہ ہم احمدیوں کو سلمان سمجھتے ہیں.خادم اسلام یقین کرتے ہیں اور انہیں کا فر کہنے کیلئے تیار نہیں نہیں پہلے احمدیت کے عقائد کے متعلق دھوکہ دیا گیا تھا.جن کی وضاحت اب ہم پر ہو چکی ہے نیے مکرم مولوی صاحب موصوف کا ۲۳ جولائی اشارہ کو ریاست سلانگور کے ہشام الدین عالم شاہ کی موجودگی میں علماء ریاست سے باقاعدہ ڈھائی گھنٹہ تک مباحثہ ہوا.اس اہم مباحثہ کی روداد مکرم مولوی محمد صادق صاحب کے قلم سے درج کی جاتی ہے :.جرام SERAM (ریاست سلانگور میں جماعت قائم ہونے کی وجہ سے ریاست میںکافی مخالفت ابھر چکی تھی اور چونکہ نکاح کرانا.مقبرہ میں دفن کرنے کی اجازت دنیا بڑے افسروں کے اختیار میں ہوتا ہے اس لیے ہم نے سلطان سلانگور سے اپنے عقائد بیان کرتے ہوئے درخواست کی وہ ہماری جماعت کو اسلامی قرائہ دیکھ لوگوں کے فتنہ کا سد باب کریں.سلطان موصوف نے اس درخواست کو درخور اعتناء جانا، اور ہمیں احمدی دوستوں کو دعوتی خط بھی کر بلایا اور مجھے بھی بذریعہ تار رام پہنچنے کاحکم جاری کر دیا.وہاں پہنچنے پرمعلوم ہوا کہ ریاست کے تمام بڑے بڑے علماء کو بلایا جا چکا ہے.دس بجھے تو سلطان نے سلسلہ کام شروع کرتے ہوئے فرمایا.کہ آج ہم ایک نئے مذہب کی تحقیق کیلئے جمع ہوئے ہیں اور ہم چاہتے ہیں.کہ خود ہی اس کی تحقیق کریں.سلطان کے ارشاد پر میں نے اپنی ابتدائی تقریر میں حاضرین کو بتا یا کہ احمدیت کوئی نیا مذہب نہیں ہے.بلکہ وہ حقیقی اسلام ہی ہے.پھر سلطان نے علماء کے اشارے پر یہ ارشاد کیا کہ میں اپنے عقائد ذر التفصیل سے بیان کردی.میں نے بیانی کیا.کہ جماعت احمدیہ حضرت عیسی علیہ السلام کو وفات یا فتنہ مانتی ہے.۲.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد غیر تشریعی نبی آ سکتا ہے اور جماعت احمد یہ مانتی ہے کہ امت محمدیہ کے مسیح موعود حضرت میرزا غلام احمد علی اسلام ہیں.اس پر ایک عالم نے اٹھ کر کہاکہ آخر صل اللہ علیہ والہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا.کیونکہ نبی اکرم صلی الہ علیہ والہ وسلم خاتم النبیین ہیں.میں نے جواباً عرض کیا کہ اگر اس کا مطلب کسی نبی کا نہ آسکتا ہے تو پھر ان سے دریافت فرمائیں کہ یہ لوگ نبی اللہ علی کے آنے کے لے ماہنامہ الفرقان بوه دسمبر ۹۶ درد و جنوری ست اور منہ کالم ۲

Page 251

۲۱۵ قائل ہیں یا نہیں.علماء نے کہا حضرت علی علیہ السلام کے متعلق نبی الہ کا لفظ دکھایا جائے.میں نے مشکواۃ سے مطلوبہ حوالہ دکھا دیا.اور علماء نے اُسے دیکھ کر سلیم بھی کرلیا.اگر قاضی القضاء کو اصرار تھا.کہ نبی ال آنے والا عیسی ہی ہوگا.کوئی دوسرا نبی نہیں آئے گا.یہ بحث ختم ہوئی تو مجھے کہاگیا کہمیں غیر شرعی نبی کے آسکنے کے دلائل قرآن کریم سے پیش کروں برسے پہلے میں نے الیواقیت والجواہر ہے خاتم النبیین کے معنے بیان کئے.کہ آپ تمام تشریعی انبیاء کو ختم کرنے والے ہیں.مجھے دوسرے علماء نے بھی تسلیم کیا.پھر تھوڑی بحث و تمحیص کے بعد جب بھی قرآنی دلائل کا سلسلہ شروع بھی نہ ہوا تھا.شیخ الاسلام نے کہا کہ ہمیں تاریخ مرزا صاحب - عقاید.دوسروں کے اختلافات.دعاوی اور معجزات کے متعلق پر پھر مکھکر بھیج دیا جائے.تاکہ ہم اس پر مزید غور کر سکیں.اس کیلئے ۳۰ جولائی سے ۱۴ دن تک کا وقت مقرر کیا گیا.اور اس پر چودہ دن کا عرصہ تنقید کیلئے مقرر ہوا.اس کے بعد علماء نے سلطان سے درخواست کی کہ وہ ہمیں نماز جمعہ بڑی مسجد میں دوسرے مسلمانوں کے ساتھ بڑھنے انکم صادر فرمائیں.میں نے جواباً عرض کیا کہ یہ لوگ ہمارے حضرت مسیح موعود علی السلام کو کا فرادار جھوٹا کہتے ہیں.اگر یہ انہیں سچا مان لیں تو ہم بخوشی اس کے لئے تیار ہیں.اور چونکہ آپنے اب احمدیت کے متعلق تحقیق شروع کی ہے.اسلئے مناسب ہے کہ فی الحال اس سوال کو نہ اٹھایا جائے.اس پر ڈائرکٹرنذ سہیات نے کچھ جرح قدح کی لیکن سلطان نے یہی حکم دیا.جب تک فیصلہ نہیں ہو جاتا جماعت بدستور عمل د عبادت میں مشغول رہے.اسکے بعد سلطان کے ساتھ سب علماء نے بشمول ہمارے کھانا کھایا.اور ۲ بجے کے قریب ہم رخصت ہوئے.مطلوبہ پر چہ کھکر مراگشت کو شیخ الاسلام کی خدمت میں ارسال کر دیا گیا.یہ پرچہ بیس صفحات پر مشتمل تھا.لیکن افسوس کہ علماء کی طرف سے تا حال اس کا جواب موصول نہیں ہوا ) لے ۲۵۰۲۳ ستمبر کو مکرم مولوی محمد صادق صاحب نے ایک پر اسسٹنٹ پادری میںتھیو فیلے (MATHEW FINLAY) سے مسئلہ الوہیت مسیح اور مسئلہ کفارہ پر مناظرہ کیا.خداتعالی کے فضل سے اس مباحثہ میں اسلام کو ایسی شاندار کامیابی نصیب ہوئی کہ ایک مشہور مصنف شیخ علوی بن شیخ الہادی (عرب) نے اختیار میں لکھا کہ میں ستر برس کا ہو چکا ہوں مجھے معلوم نہیں کہ مسلمانوں له الفضل ۲۰ مئی ۱۹۵۲ء ص - اخبار نمین المره - روست

Page 252

۲۱۹ نے کبھی اس طرح عیسائیوں کو مباحثہ میں شکست فاش دی ہو.یہی نہیں عیسائی مناظر پادری تھیوفیلے نے جماعت احمدیہ سنگا پور کے پریذیڈنٹ عبد الحمید صاحب سالکین سے درخواست کی کہ یہ مباحثہ شائع نہ کیا جائے.پھر یو نیورسٹی آف ملایا کے مسلم طلبہ نے اس مباحثہ کے ریکارڈ لئے بیلہ موں نا محمد صادق صاحب کی طرف سے بنیادی لٹریچر تیار کیا گیا.چنانچہ آپ نے سنگا پور اور لایا میں مندرجہ ذیل کتابیں تصانیف کیں جو شائع ہو چکی ہیں :- - ترجمه قرآن مجید غیرمطبوعه، زبان انڈونیشیا، یہ اہم کامتبلیغ تعلیم اور مضامین لکھنے کے ساتھ ساتھ 1405 ایک سیال د نومبر تا ۲۲ رد کر سر میں پایہ تکمیل تک پہنچا.۲.سچائی - قریبا ۱۲۰ صفحات کی کتاب.تبیان احمدیت " شہداء میں لایا اور سنگا پور میں احمدیت کے خلاف یکے بعد دیگرے تین چار کتب شائع ہوئیں جن کے جواب میں آپ نے یہ کتاب شائع کی جس میں اختلافی مسائل پر سیر کن بحث کرنے کے علاوہ سینکڑوں اعتراضات کے جواب بھی دیئے.پورے ۲۰۰ صفحات پر مشتمل ہے.ارکان ایمان - ۲۷ صفحات فلسکیپ سائمہ - ا.اسلامی نمازیں تھیں تمام اسلامی نمائندوں کا مفصل ذکر درج ہے.قریباً ۸۰ صفحات فلسکی پائی.مولانا صاحب کے ذریعہ انڈونیشیا اور بلایا میں سینکڑوں نفوس کو ہدایت نصیب ہوئی جن میں انکو ملیل بن عبدالرحمن صاحب ساکن جو ہو کہ جو شاہی خاندان کے چشم و چراغ میں خاص طور پر قابل ذکر ہیں کیے قریشی فیروز محی الدین صاحب دا ارجنوری داد تا ۱۲۱ را دریچ دوست مجاہدین کی سرگرمیاں ان.قریشی صاد نے اپنے سرہ سالہ قیام میں ملک کے بعض 1407 کثیرالاشاعت انگریزی اخبارات میں مضامین لکھکر اسلام کی ترجمانی کی.اس خدمت کا ملک کے مسلمان اہل علم.طبقہ پر اچھا اثر ہوا.۹ - مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری (۳ مئی سه د تا ۹ ستمبر - مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری ساڑھے چار سال تک انچارج مشری کے فرائض بجاں تے.اس عرصہ میں آپ نے کئی مقابلے کئے کی نگاہ رہ کرشن مشن کے میوزیم میں سلام کی نمائندگی کی میشد ہے - ہے مورد خود ه له - ماخوذ از مکتوب مولانا محمد صادق صاحب محوره مورخه ۲۶ را پریل شاید.ه - الفضل ۱۲ جون شال ۳ - ه الفضل ۱۲ جون ۱۹۶۵ء ص ٣ -

Page 253

۲۱۷ سلام کیا اور کارای ما نیز مندرجہ ذیل بادشاہوں ور دیگر نامور شخصیتوں کو قبول اسلام کی دعوت دی.اور پیغام حق پہنچا کہ قرآن کریم انگریزی اور دیگر اسلامی شریر پیش کیا.۱- پرنس فلپ آف انگلینڈ - ۲.تھائی لینڈ کے شاہ بیان ہیں اور ان کی ملکہ.بیلجیم کے شاہ ہاؤ ڈوین (اول).انگلینڈ کے ڈیوک آف گلاسٹر چرچ آف انگلینڈ کے سربراہ آرچ بشپ آف کنٹر بری.1.سیکم کے بادشاہ اور ان کی رانی..جاپان کے شاہنشاہ.آسٹریلیا کے وزیر اعظم.۱۰ نیوزی لینڈ کے وزیر اعظم.4 ملایا کے شاہنشاہ یا سلطان اعظم نیت ہی اگونگ ا.طیشیا کے وزیر اعظم تنکو عبد الرحمن - سنگاپور کے وزیر اعظم اور دیگر سب وزراء - ۱۳- الحاج امین الحسینی چیف مفتی آن فلسطین - -۱- پرنس سہا نوک سیٹ آف کیمبوڈیا سٹیٹ ہے.فروری تشہد میں ملائیشیا کے ایک جامعہ انہ ہر کے تعلیمیافتہ لائی عالم استاد فروزی نے ایک کتاب بعنوان ذاہب عالم" شائع کی جس میں صریح افترا پردازی سے کام لیتے ہوئے جماعت احمدیہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف بہت زہر اگلا.اس کتا کے جواب میں مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری مبلغ انچارج سنگا پور نے ایک خط شائع کیا جس میں استاد فروزی کے تمام الزامات کا مسکت جواب دینے کے علاوہ ان کو متنازعہ فیہ امور اور اختلافی مسائل پر مناظرہ کا چیلنج بھی دیا گیا اور یہ بھی پیشکش کی گئی کہ ہمارے خلاف اپنے دعادی ثابت کرنے کی صورت میں انہیں ۱۰۰۰ ہزارہ ڈالر انعام کے طور پر پیش کیا.جائیگا اور پانچ علماء کے ساتھ سنگا پور آنے جانے اور رہائش کے خرچ کی ادائیگی کی ذمہ داری بھی لی گئی مگر باوجود کئی تحریر ی یاد دہانیوں کے وہ مقابل پر نہ آئے.مولوی محمد صدیق صاحب کے بعد مولوی محد عثمان صاحب چینی تاء میں بھجوائے گئے ہیں.جو اب تک سنگاپور میں مصروف تبلیغ ہیں.لے تجدید مسجد کے لئے احمد حسن علاؤ الدین صاحب نے ۳۲۰ ڈالر دیئے.والفضل ۲۲ جون ۹۵ دارم ، ایک اور مخلص احمدی و ار تم بن مارتھانے تقریبا ڈیڑھ ہزارہ عطائی ڈالر کا اند دختر جوانہوں نے فریقیہ حج کی ادائیگی کیلئے جمع کر رکھا تھا مسجد کی تجدید کیلئے پیش کر ویلا الفضل دار ایچ ستاره ها - که ملا خطر جو الفضل ۲۹ جنوری ۹۲۳اء - المفضل ۱۲۰ شوری الفضل ار جنوری شاد - الفضل ۲۷ رجول دارد - الفصل ۲۹ ر ا پریل ملت شود 1940, +

Page 254

۲۱۸ دارالتبلیغ ملا پانیوں کی نظمیں تنقید اور نے علی وقتی طور پر اب تک سنگاپور کو ستار کیا ہے ؟ اس کا جواب ما یا یونیورسٹی کے مشہور پر وفیسر زین العابدین بن احمد کی مندرجہ ذیل رپورٹ سے باآسانی اخذ کیا جا سکتا ہے.انہوں نے کہا :- "آج سے تیس سال قبل جماعت احمدیہ کے اصول و عقائد زیر بحث آئے اور ملایا کے پرکیس میں من کی مذمت کی گئی.لیکن اب طلایا کے تعلیم یافتہ مسلمان ان سنجیدہ نظریات و تشریحات سے کم تعصب روا رکھتے ہیں.جو اعتدال پسند احمدیوں کی طرف سے پیش کئے جاتے ہیں.وہ احمدیوں کے خیالات اور نظریات کو اپنا یہ ہے ہیں.مگر احمدی کہلانے سے گریز کرتے ہیں ا تر جمہ ) - کان هر صوفی عبد القدیر صاحب نیاز مربون سوار کو کیوبا د جاپان میں پہنچنے سے دارا بیع جاپان قیام صوفی صاحب کا شروع میں بہت سا وقت جاپانی زبان سیکھنے میں صرف ہوا مگر آہستہ آہستہ آپ ملک کے مختلف حلقوں میں اثر و نفوذ پیدا کر نے میں کامیاب ہو گئے.کیوبا کا لج آف کامرس - کینیڈین اکیڈیمی ، اوساکا انگلش سپیکنگ سوسائیٹی اور بعض دوسری سوسائیٹیوں میں آپ کے لیکچر ہوئے اور کئی جاپانی شخصیتوں سے تعارت پیدا کیا لیے اور آپ کے ذریعہ ایک تعلیم یافتہ جاپانی بھی داخل احمدیت ہوتا ہے حکومت جاپان کو آپ کی نسبت شروع سے بعض سیاسی نوعیت کے شکوک تھے.جاپانی پولیس کی طرف سے آپ کی کڑی نگرانی کی گئی.آپ زیر حراست لے لئے گئے.لیکن تحقیقات مکمل ہونے لئے پر آپ آزاد کر دئے گئے تھے قیام جاپان کے دوران آپ نے آنحضرت صلی علہ علیہ وسلم کی سوانح اور اسلامی تعلیمات و عبادات اور اس کی حکمتوں پرمشتمل ایک کتاب بھی تصنیف کرنی شروع کی جب کسی قریبا تیرہ سو صفحات کا جاپانی میں سرف تر جمبر بھی ہو چکا تھا اور ایک پلیٹر کے ساتھ حق تصنیف کی فروخت سے متعلق بات چیت بھی ہو رہی تھی.کہ آپ کو واپس بلایا گیا ہے اور آپ ۲ در جولائی راء کو قادیان پہنچے گئے ہے - صوفی عبد القدیر صاحب نیاز جاپان میں ہی مصروف تبلیغ تھے کہ حضرت خلیفہ ایسی اشانی نے ارجنوی کی داد Colloquiom on isLAMIC CULTURE" SEPT 1953 PAGE 30 - الفضل ، رتون شراء صحت کالم ۱ - ۴۳ - رپورٹ سالانہ صیغہ حیات صدر انجمن احمد یه تیم می شده ادعایت ۳۰ را پرین شور ما تا ۱۳۰ - سه ر شه ر پورٹ سالانہ صیفہ جات صدر انجمن احد یہ یکم مئی ۱۹۳۷ اد لغایت ۳۰ را پریل دارد ۱۳۵-۱۳۶ - ه ایضا طالت ۱۳۴ - کے - الفضل سوار جولائی ۲ لاء مسلہ کالم ۱ - شه - الفصل ۱۲ جنوری ۲۶ شراء ص ۲.شه - +

Page 255

٢١٩ کو مولوی عبدالغفور صاحب.برادر خورد مولانا ابو العطاء صاحب فاضل کو روانہ فرمایا اور ان کو اپنے قلم مبارک سے مندرجہ ذیل ہدایات سکھکر دیں :- ا.سب سے پہلے آپ کو یا درکھنا چاہیئے کہ آپ تحریک جدید کے ماتحت جارہے ہیں جب کسی مبلغوں کا اقرالہ یہ ہے کہ وہ ہر تنگی تریشی برداشت کر کے خدمت اسلام کا کام کر دیں گے.تنخواہ دار کارکن نہیں ہوں گے.بلکہ کوشش کریں گے کہ جلد سے جلد خود کہا کہ اسلام کی خدمت کرنے کے قابل ہوں.اس وقت جو مبلغ وہاں ہیں وہ تحریک جدید کے مبلغ نہیں بلکہ انہیں عارضی طور پر دعوة وتبلیغ سے لیا گیا ہے.اسلئے اس بارہ میں آپ کا معاملہ اُن سے مختلف ہے.آپ کیلئے سردست ایک گزارہ کا انتظام کیا جائے گا.جیسا کہ چین ، سپین ، ہنگری وغیرہ کے مبلغوں کا انتظام کیا جاتا ہے.لیکن آپ کو بھی کوشش کرنی چاہیئے اور ہم بھی کوشش کریں گے کہ آپ وہاں سے اپنے گزارہ کے قابل خو در قم پیدا کر سکیں.اور اس کا آسان طریق یہ ہے کہ جاپان اور ہندوستان میں تحریک جدید کی معرفت کوئی تجارتی سلسلہ قائم کیا جائے مگر اس سے بھی پہلے آپ کو جاپانی زبان سیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے.آپ کے سامنے ہنگری اور سپین کے مبلغوں کا شاندار کام رہنا چاہیے.جنہوں نے آپ کی نسبت زیادہ مشکلات میں اور اُن ممالک کے لحاظ سے کم خرچ پر وہاں نہایت اعلیٰ کام کیا ہے اور پر اعلیٰ طبقہ میں احمدیت پھیلائی ہے.- آپ کو الہ تعالی پر توکل رکھنا چاہیے جس سے سب نصرت آتی ہے اور قرآن کا مطالعہ اور اس کے مضامین پر غور پر مداومت اختیار کرنی چاہیئے.اسی طرح کتب سلسلہ اور اخبارات سلسلہ کا مطالعہ کرتے رہنا چاہیے.۳.باہر جانے والوں کو اپنا کام دکھانے کیلئے بعض دفعہ تصنع کی طرف رغبت ہو جاتی ہے اسے بچنا چاہیئے اللہ تعالٰی کی خوشنودی ہمیشہ مد نظر ر ہے.م نیک عمل نیک قول سے بہتر ہے اور علمی تبلیغ قولی تبلیغ سے بہتر ہے اور نیک ارادہ ان دونوں امور میں انسان کا محمد ہوتا ہے.نماز کی پابندی اور جہاں تک ہو سکے باجماعت اور تہجد جب بھی میسر ہو.انسان کے ایمان اورا اور اسکے عمل کو مضبوط اور قوی کرتے ہیں.

Page 256

۲۲۰ -- الله نُورُ السَّموا ANWALA AND ADNAN ہے ہمیں محبت اپنی کو سب کا میا بیوی کی کلید سمجھنا چاہیئے جو خدا تعالیٰ سے والہانہ محبت رکھتا ہے وہ کبھی ہلاک نہیں ہوتا.میرا خیالی محبت نفع نہیں دیتی محبت وہی ہے جو دل کو پکڑے.ے.اسلام کے لئے ترقی مقدر ہے.اگر ہم اس میں کامیاب نہیں ہوتے تو یہ ہمارا قصور ہے.یہ کہنا کہ یہاں کے لوگ ایسے ہیں اور دیے ہیں صرف نفس کو دھوکا دینا ہوتا ہے.تبلیغ میں سادگی ہو.اسلام ایک سادہ مذہب ہے خواہ مخواہ فلسفوں ہی نہیں لکھنا چاہیئے..ضروری نہیں کہ جو پہنے وہ حق پر ہو یا عقلمند ہو.بہت باتیں جن پر پہلے ہنسا جاتا ہے بعد میں سننے والے کے دل کو مسخر کر لیتی ہیں.پیس جدید علوم کے ماہروں کے تمسخر پر گھبرانا نہیں چاہیئے.اور نہ ہر بات کو اس لئے رد کر دنیا چاہیئے کہ ہمارے آباء نے ایسا نہیں لکھا.سچائی کے ضامن آباء نہیں.قرآن کریم ہی ہے.پس سر مرکز قرآن کریم پر عرض کرنا چاہیئے.دعا ایک ہتھیار ہے جس غافل نہیں رہنا چاہیئے.سپاہی بغیر سمتیار کے کامیاب نہیں ہو سکتا.۱۱.غریبوں کی خدمت اور رفاہ عام کے کاموں کی طرف توجہ مومن کے فرائض میں داخل ہے.۱۳ - مبلغ سلسلہ کا نمائندہ ہے.اسلئے اس ملک کے سب حالات سے سلسلہ کو واقف رکھنا چاہیے.خواہ تمدنی ہوں علمی ہوں ،سیاسی ہوں ، مذہبی ہوں.حسین ملک میں جائے وہاں کے حالات کا گہرا مطالعہ کرے اور لوگوں کے اخلاق اور طبائع سے واقفیت بہم پہنچائے.یہ تبلیغ میں کامیابی کے لئے ضروری ہے.۱۴.رپورٹ باقاعدہ بھجوا ناخود کام کا حصہ ہے.جو شخص اس میں شستی کہتا ہے.وہ در حقیقت کام ہی نہیں کر سکتا.۱۵ - نظام کی پابندی اور احکام کی فرمانبرداری اور خطاب میں آداب اسلام کا حصہ ہے.اور ان کو بھولنا اسلام کو بھولنا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور سفر میں کامیاب کرے.خیریت سے جائیں اور خیریت سے ائیں اور بعد اتعالے کو خوش کر دیں " سے له الفضل ۲ ستمبر ١٩٣٦ء، ص ٣ +

Page 257

۲۲۱ مولوی عبدالغفور صاحب پونے پانچ سال تک فریضہ تبلیخ بجالانے کے بعد ۳۰ اکتوبر کو واپس قادیان تشریف لے آئے.ار تبلیغ ہانگ کانگ مین کا قیام چین میں پہلا احد یہ مشن صوفی عبد الغفور صاحب بھیڑی نے قائم کیا جو قیام وری شدہ کو ہانگ کانگہ پہنچے اور متعدد سال تک فریفیه وارا LEUNG- تبلیغ بجالانے کے بعد واپس قادیان تشریف لے آئے.آپ کے زمانہ میں جماعت احمد یہ چین کی داغ بیل پڑی رہے پہلے چینی احمدی رئیس کی اطلاع مرکز میں پہنچی لی اورنگ کنگ فنگ KING FUNG تھے جو قصبہ KAWAL SHOW ضلع SAN TAK صوبہ KLANTEENG کے باشندہ تھے.اے صوفی صاحب موصوف نے دوران قیام میں اسلامی اصول کی فلاسفی کو چھینی ترجمہ کرایا جس کی اشاعت احمدیت میں پہلے سے زیادہ آسانی پیدا ہو گئی.صوفی صاحب کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے حکم سے ۱۶ جنوری در کو شیخ عبدالواحد صاحب فاضل چین کوانہ ہوگئے.شیخ صاحب نے اسلامی اصول کی فلاسفی کے چھینی ترجمہ کی اشاعت کے علاوہ بعض تبلیغی پمفلٹ بھی بکثرت شائع کئے لیے آپ کے ذریعہ بھی کئی سعید رو میں حلقہ بگوش احمدیت ہوئیں بیتہ آپ 4 مارچ شراء کو واپس مرکز میں پہنچے.شیخ عبدالواحد صاحب ابھی چین میں اشاعت احمدیت کا فرض ادا کر رہے تھے کہ حضر خلیفہ البیع الثانی نے چوہدری محمد اسحاق صاحب سیا سکوٹی کو ہرشاہ ستمبر دار کو چین روانہ فرمایا اور اپنے قلم سے مندرجہ ذیل نصائح لکھ کر دیں : طعه البم شائع کردہ تحریک جدید در محضر فی لیف اسی انسان نے خطہ جمعہ فرمودہ اس منی رو داری ان کے پہنچنے کا ذکر فرمایا 19r9, 14rb تھا.والفضا یہ رجون ۱۹۲۵ م کالم ۲ ۲۲۰ - الفضل ۱۳در تمبر ش با صیت کالم ۲ که حضرت خلیفہ المسیح الشافی نے اپنے خطبہ جمعہ فرموده ۱۵ نومبت کشمیر میں خود اس کا ذکر فرمایا.(الفضل ۱۹ نومبر شاہ وصت ا کالم ۳) الفضل ۱۸ جنوری له ما : ه الفضل ۲۳ فروری ۲۸له منا + ہے.بلین میں اشاعت اسلام سے متعلق آپ کا ایک معلومات افزا مقاله ریویو آن ریجنز اردو (جولائی و اکتور پر شود میں شائع شدہ ہے : ه - الفضل در مارچ ۱۹۳۷ء ص ۲ + شه الفضل ۲۹ ستمبر ۱۹۳۷ء ص ۲ +

Page 258

۲۲۳ أعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بسم الله الرّحمن الرّحيم : محمد ، ونصلى على رَسُولِ الكَرم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هواله سامير اللہ تعالیٰ کی محبت سب اصول سے بڑا اصل ہے.اسی میں سب برکت اور سب خیر جمع ہے.جو سیتی محبت اللہ تعالی کی پیدا کرے وہ کبھی نا کام نہیں رہتا اور کبھی ٹھوکر نہیں کھاتا.نمازوں کو دل لگا کر پڑھنا اور باقاعدگی سے پڑھنا.ذکر الہی.روزہ - مراقبہ یعنی اپنے نفس کی حالت کا مطالعہ کرتے رہنا سونا کم کھاناکم دین کے معاملات میں ہی نہ کرنانہ سننا مخلوق خدا کی خدمت نظام کا ادب و احترام اور ایسی ایسی وابستگی کہ جان جائے اس میں کمی نہ آئے.اسلام کے اعلیٰ ڈھول ہیں.قرآن کریم کا غور سے مطالبہ علم کو بڑھاتا ہے اور دل کو پاک کرتا ہے اور دماغ کو نور بخشتا ہے.سلسلہ کی کتب اور اخبارات کا مطالعہ ضروری ہے.تمدا کے رسول اور مسیح موعود اس کے خادم کی محبت خدا تعالیٰ کی محبت کا ہی جہد ہے.نہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسا کوئی نبی گزرا ہے.نہ مسیح موعود جیسا نائب صلی اللہ علیہما دستم تقوی اللہ ایک اہم شے ہے.مگر بہت لوگ اس کے مضمون کو نہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں نہ اس پر عمل کرتے ہیں.سلسلہ کے مفاد کو مردم سامنے رکھنا بند نظرکھنا مطوبیت سے انکار اور غلبہ اسلام اور حریت کے لئے کوشش ہماری زندگی کا نصب العین ہونے چاہئیں.لے نها کسار مرزا محمود احمد " چوڑ کی محمد احمق صاحب قریبا ساڑھے تین سال تک چھین میں احدیت کا نور پھیلاتے رہے اور اپریل سلام اللہ کو قادیان آگئے.سید نا حضرت امیر المومنین رضا نے اراضیات سندھ کے معائنہ یرالمومنین نده کی غرض سے پہلا سفر ۱۹۳۵ ء میں کیا.حضور استار مئی ۱۳۵ داد کو بعد نماز عصر قادیان سے روانہ ہوئے.حضور کے عہد خلافت میں یہ پہلا موقعہ تھا کہ حضور سندھ سه - الفضل قادیان ۳۰ ستمبر سر و صدا که - الفضل ار ا پریل شراء به سه - الفضل الارمئی را صدا کالم ابد

Page 259

۲۲۳ کی طرف تشریف لے گئے.اس سفر میں حضرت امیر المومنین ان کے ہمراہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اسے ناظر تعلیم و تربیت - حضرت چوہڑ کی فتح حمد صاحب سیال ناظر اعلی حضرت مولوی عبدالغنی خانصاحب ناظر بیت المال حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب اور شیخ یوسف علی صاحب پرائیویٹ سیکریٹری تھے.حضرت مرزا محمد اشرف صاحب ناظم جائیداد پہلے ہی سندھ پہنچ گئے تھے لیا حضرت امیر المومنین اور مئی ۱۹۳۵ء کو ڈھائی بجے (بعد دو پرنا تجھڈو اسٹیشن پر اتر ہے.اور تھوڑی دیر آرام فرمانے کے بعد اسٹیشن کی انتظار گاہ میں ظہر و عصر کی نمازیں پڑھائیں اور شام کے 4 بجے حضور کا قافلہ دو پارٹیوں میں احمد آباد اسٹیٹ کی طرف روانہ ہوا.حضور نے گھوڑے پر سوار ہونا پسند فرمایا.گھوڑوں پر حضور کے ہمراہ چوہدری غلام احد صاحب مینیجر احمد آباد اسٹیٹ ، حضرت چوہڑی فتح محمد صاحب سیال - حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب اور بعض اور اصحا تھے.ایک پارٹی جو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت مولوی عبد المغنی خالی صاحب ، پچودھری محمد سعید دهستان خلف الرشید خان بها در حضرت نواب چودھری محمد دین صاحب ، حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی اور شیخ یوسف علی صاحب پرائیویٹ سیکرٹری پرمشتمل تھی ، موڑ کار میں بیٹی.ایک جگہ موٹر ٹھہراکر حضور سے عرض کی گئی کہ اگر اجازت ہو تو احمد آباد پہلے پہنچ کر منتظر احباب کو اطلاع کر دی جائے کہ حضور گھوڑے پر تشریف لا رہے ہیں حضور نے اجازت تو دے دی لیکن حضور موٹرسے پہلے پہنچے گئے.احمد آباد اسٹیٹ کے دوستوں نے خوبصورت گیٹ بنایا ہوا اور راستہ سجایا ہوا تھا.حضور جو نہی احمد آباد میں پہنچے احباب نے اللہ اکبر کے نعروں سے حضور کا استقبال کیا ہے حضور نے اس سفر میں اراضیات سندھ کا معائنہ فرمایا - ارمنی ۱۹۳۵ء کو حیدر آباد میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا اور سینیٹ ہال میں پبلک لیکچر دیا.حضرت خلیفہ ایسی الثانی بڑی رواں تقریر فرماتے تھے لیکن حیدر آباد میں حضور نے جو لیکچر دیا اس کے دوران دو ایک سیکنڈ کے لئے حضور کی زبان مبارک میں عجیب طرح لکنت ظاہر ہوئی جسے سب سندھی احمدیوں نے محسوس کیا ہیکہ الفضل درمئی شام صدا کالم احضرت ڈاکٹر صاحب کا نام اس حال میں موجود نہیں ہم جیساکہ اگلی در دور سے ظاہر ہے.آپ کو بھی اس سفر میں حضور کا ہر کاب ہونے کا شرف حاصل ہوا ہ کے جھڈو اسٹیشن سے 14 میل دورہ سے الفضل مدارسی شد اوص و ہے.ڈاکٹر عبد العزیز صا خود سندھی حال میڈیکل امیر فضل عمرہسپتال کہو کے مضمون شائع شدہ الفضل ، جون دار ما سر ملخصات

Page 260

سندھ سے واپس قادیان تشریف لے جاتے ہوئے بین احمدی جماعتوں نے حضور کا استقبال کیا ان میں سے سلسلہ احمدیہ کے مطبوعہ ریکارڈ میں صرف جماعت احمدیہ ضلع ملتان کا ذکر ملتا ہے.چنانچہ اخبار الفضل ۲۴ مئی ۱۹۳۵ء میں لکھا ہے :.ار مئی بروز اتوار ایک بجے دن حضرت امیر المؤمنین خلیفہ المسیح انشانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا علاقہ سندھ سے قادیان دارالامان کی واپسی پر ملتان سے گزر ہوا.جماعت احمدیہ ملتان کے چھوٹے بڑے.بچے بوڑھے اور جو ان تمام شوق زیارت کیلئے ملتان بچھاؤنی سٹیشن پر جمع تھے بعض بیرونی جماعتوں کے دوست بھی آئے ہوئے تھے.اخوند محمد افضل خانصاحب پریزیڈنٹ انجمن احمدیہ ڈیرہ نماز یجان با وجود پیرانہ سالی اور علامت اور ضعف کے ایک روز پیشتر ہی آگئے تھے.احمدی احبا کے علاوہ عمان کے ہندو.عیسائی اور مسلم اکا بربھی شرف طاقات حاصل کرنے کیلئے کا فی تعداد میں جمع تھے.ان میں اکثر وکلاء - پروفیسران تھے.گاڑی ٹھیک وقت پر پہنچی اور حضرت امیر المومنین ایده ال تعالی پرنگاہ پڑتے ہی اللہ اکبر کے نعرے فضاء میں گونج اُٹھے.حضرت خلیفتہ اسی الثانی از راہ شفقت گاڑی کے دروازہ میں آکر کھڑے ہو گئے جس رعب و تمکنت اور جلال کے ساتھ آپ رونق افروز ہوئے اسکی کیفیت صرف تصور میں آسکتی ہے.حضور نے اپنے غلاموں کو شرف مصافحہ بخشا.اور اس امر کی اطلاع ملنے پر کہ بعض غیر احمدی اور مہند و معززین بھی شرف دیدار کے منتظر ہیں.آپ سینکنڈ کلاس کے و ٹینگ دم میں تشریف لے آئے.جہاں سب کا آپ سے باری باری تعارف کر دیا گیا..کلام میں سے غلام قادر خال صاحب رحیم بخش صاحب آزاد - پیر زاده عطاء محمد صاحب - محمد ابراہیم صاحب شمی.لالہ را چند ر صاحب.مسٹر آرتھر اسے اور پروفیسر صاحبان میں سے چودھری صادق محمد صاحب ایم.ہے.مسٹر مبارک احمد صاحب ایم ہے.گوپال داس صاحب کھنہ ایم.ہے.مسٹر و لیسراج صاحب پوری ایم.ہے قابل ذکر ہیں یا در رام پر تاپ صاحب ہے.ایس آئی ڈبلیو بھی تھے.ان کے علاوہ دیگر شرفاء بھی تھے جنہیں ذوق دیدار و ملاقات سٹیشن پر کشاں کشاں کھینچ لایا تھا.احبابنے پھولوں کے ہار حضور کے گلے میں ڈالے.آپ اور آپکے رفقاء سفر کی برف اور بوتلوں سے تواضع کی.چونکہ گاڑی یہاں دس منٹ کیلئے ٹھہرتی ہے.اسلئے یہ قلیل وقت صانحوں اور تعارف میں صرف ہو گیا.گاڑی نعروں کے درمیان روانہ ہوئی.ہجوم بفضلہ اچھا خاصہ تھا.اور دوستوں نے جس بے تابانہ اخلاص ، کمال شرق اور کیف اور

Page 261

۲۲۵ |- وارفتگی و شفتگی کا مظاہرہ کیا.وہ تحریرہ می نہیں آسکتا.بعض احب نے خانیوال تک معیت کی سعادت سے بہرہ اندوز ہونے اور چلتی گاڑی میں کھانا کھانے کی غرض سے جو پہلے سے تیار تھا.ٹکٹ لے لئے تھے.جن میں اخوند محمد فضل خانصاحب شیخ فضل الرحمن صاحب اختر پریذیڈنٹ.چوہدری اعظم علی صاحب سب بیج شیخ محمدحسین صاحب دائس پریزیڈنٹ.ملک شیر محمد صاحب - خان بہادر ڈاکٹر سید محمد حسین صاحب پروفیسر عبد القادر صاحب ایم ہے میاں قادر نیش صاحب - میاں الله د تا صاحب.مسٹر بشیر احمد صاحب ٹکٹ کلکٹر قابل ذکر ہیں حضر امیرالمومنین کے افراد کو گاڑی میں کھاناکھایا گیا.قریب ایک گھنٹہ کی مسافت کے بعد کراچی میں خانیوال پہنچی.جہاں مقامی اور محمود آباد اسٹیٹ کے احمدی احباب کا جم غفیر تھا.اللہ اکبر کے نعروں کے درمیان گاڑی پلیٹ فارم پر کھڑی ہوئی حضور نے اول احباب کو شرف مصافحہ بخشا.پھر گفتگو فرماتے رہے لیمان سے جو خدام ہمراہ آئے تھے انہیں الوداعی مصافحہ کی عزت بخشی.چند منٹ کے بعد گاڑی روانہ ہوئی.نعرہ ہائے تکبیر بند ہوئے.یہ امر نوٹ کر لینے کے قابل ہے کہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالے کے بائیس سالہ عبد خلافت میں یہ پہلا موقعہ ہے کہ حضور کا اس لائن سے گزر ہوا.اے ا حضرت امیر المومنین ۱۹ مئی ۱۳۵ بوقت دس بجے شب بخیر و عافیت قادیان قادیان میں درود دار الامان واپس تشریف لائے.مقامی جماعت بنے قادیان سے باہر استقبال کیا اور حضور نے اپنے خدام کو شرف مصافحہ بخشا ئیله کوٹ یا این کار را نشان داری کو اپنے کورٹ میں جون کازلزلہ و مصیبت زدگان میں بے صبح کے وقت کورٹ کے فن کے زاد کی کی وسیع پیمانے پر امداد صورت میں نظامی خوا جانے زیادہ بہار کوبھی مات زلزلہ تین کر دیا.جیسا کہ اخبار" پر تاپ " لاہور (۶ جون ۱۳۵ء) نے سکھا." دیا کی تاریخ میں مہیب ترین ہے.اپریل سندہ میں دھرم مسالہ جو زلزلہ آیا اتنی بھی بہت تباہی مچائی تھی شمار میں بہار میں زلزلہ آیا.بہار کا مسلہ بڑا ہولناک تھا اور اسکی حالات پر محکر ہم حیران ہوتے تھے لیکن کو شٹر کے زلزلہ نے انہیں مات کر دیا ہے.سے اء نے لکھا.یہ ز لزوار نہ صرف بلوچستان بلکہ ہندوستان سید نا حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی نے ۳ جون داد کو ایک اہم مضمون لکھا جس میں جام تمدید سه - الفصل ۲۳ مئی ۱۹۳۵ جلد ۲۲ - الفضل نمبر صفحہ نمبر ۲ : له الفضل ۲۱ مئی ۳۵ را صدا کالم میرا سے بحوالہ الفضل 9 جون ۱۳۵ام صدا کالم نمیرا ؟

Page 262

۲۲۶ کو فوری توجہ دلائی کہ کوئٹہ کے مصیبت زدگان کی امداد کے سلسلہ میں اُن پر کیا کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.چنانچہ حضور نے تحریر فرمایا :- " احباب اخبارات میں پڑھ چکے ہوں گے کہ کو ٹرمیں ایک شدید زلزار آیا ہے.جس قریبا اسی فیصد ی آبادی تباہ ہوگئی ہے.یہ ایک تازہ نشان ہے حضرت میں موعود علیہ الصلوة د اسلام کی صداقت کا جنہوانی بوضاحت شدید زلزلوں کی خبر دیگر دنیا کو پہلے سے جگا دیا تھا.مگر افسوس کہ لوگ اب تک نہیں جاگے لیکن جہاں یہ زلزلہ ایک نشان ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی صداقت کا.وہاں اس کی صدمہ احمد سے بچنے والے لوگوں کی ہمدردی اور ان کی خدمت کی اہم ذمہ داری بھی جماعت احمدیہ پر پڑتی ہے.ہمارا فرض ہے کہ ہم مصیبت زدوں کی غیر معمولی خدمت کر کے دنیا پر ثابت کر دیں کہ ہم دنیا کی ہر بھی اور اُس کی خیر خواہی کو اپنا ذاتی فرض سمجھتے ہیں.اور اللہ تعالیٰ کی عائد کردہ ذمہ داری کو نہ صرف سمجھتے ہیں بلکہ اُسے پورا کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں.میں نے اس وقت خدمت کرنے کے لئے ایک ڈاکٹر.دو کمیونڈرا اور ایک سکرٹری کو کوئٹہ روانہ کر دیا ہے.اور ان کے ساتھ بہت سا سانتا مرہم بیٹھی وغیرہ کا بھی بھیجا گیا ہے.اور ان لوگوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ نہ صرف جماعت احمدیہ کے حاجتمند احیاب کی مدد کریں.بلکہ تمام مذاہب ملت کے لوگوں کی حتی الوسع امداد کریں.اسی سلسلہ میں میں احباب جماعت کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ چین رنگ میں بھی اس کام میں امداد کر سکتے ہیں.امداد سے دریغ نہ کریں.بیور ڈاکٹر موقت وہاں پہنچ سکتے ہوں سلسلہ کے نظام کے تحت یہاں پہنچکر کام کریں.جو سپنسراور یکپا ڈنڈ ر وقت دے سکتے ہوں وہ بھی اپنے آپکو پیش کی اور جولوگ مزدوری غیره کاکام کر سکتے ہیں بھی اپنے آپکو پیش کریں کیونکہ یہ میرا ٹھان کا بھی بہت بڑا کام کر یمکن براس کوشش سے بھی کئی جانیں بچ جائیں.گذشتہ تجربہ بتا تا ہے کہ بعض لوگ دو.دو ہفتہ بعد بھی ملبوں کے نیچے سے زندہ نکل آئے ہیں.ان لوگوں کے سودا ہجو کام کے لئے وہاں جاسکتے ہوں دوسرے احبا ہے میں یہ خواہش کر تا ہوں کہ وہ دل کھول کر چندہ دیں " کے جماعت احدیہ نے اپنے پیار سے امام کی آواز پر پو ر سے خلوص سے لبیک کہا اور ہند دوستان اور بیرونی مالک کے احمدیوں نے مصیبت زدگان کی اعداد کے لئے ہزاروں روپے پیش کر دیتے.پیش کر یہاں اس خدائی تعریف کی طرف اشارہ کہ نا ضروری ہے کہ جہاں اس زلزلہ کے نتیجہ میں کوئٹہ کی آبادی کا استی یا نوے فی صدی حصہ لقمہ اجل ہوا وہاں خدا کے خاص فضل و عنایت سے جماعت احمدیہ کو ٹر سط - الفضل داروی ۱۳۵ دو نمبر ۱۸ جلد ۲۲ ص بن ه - تفصیلی فہرستین الفضل شاد میں چھپ گئی تھیں + |

Page 263

۲۲۷ کا نقصان صرف ۱۲ فی صدی کے قریب تھا.اور اکٹر احمدی گھرانے بالکل محفوظ و متعشون رہے.خدا تعات کی طرف سے احمدیوں کی یہ خصوصی حفاظت ایک خارق عادت بات تھی اور عقل و بصیرت رکھنے والوں کے لئے ایک عظیم الشان نشان بید ہے مُسل ہ میں امام مسجد لنڈن مولانا عبدالرحیم صاحب درد نے "دی لنڈن مسلم ٹائمز کا اجراء مسلم ٹائمز کے نام سے ایک انگریزی اخبار جاری کیا.یہ اخبار تیس کا پہلا پرچہ در جوین ۹۳۵ارہ کو شائع ہوا.انگلستان میں یہ پہلا اسلامی اخبار تھا جو جاری کیا گیا.دسیدنا حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایدہ اللہ تعالے) اور لنڈن سے رسالہ صاحبزادہ مرزا مظفر احد صاحہ نے یورپ کو اسلامی تعلیم سے روشناس الا سلام (انگریزی) کا اجرا کرانے اور اس کی غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کیلئے " الاسلام" کے نام سے ایک سہ ماہی انگریزی رسالہ لنڈن کے سے جاری فرمایا.اس رسالہ کی زبان فصیح اور شستہ اور ظاہری صورت نہایت عمدہ تھی.اور رسالہ صوری و معنوی دونوں اعتبار سے معیاری تھا.الاسلام کا پہلا شمارہ جون شراء میں چھپا جس میں اسلامی جنگوں کی نسبت ایک سیر حاصل مضمون شائع ہوا اسلیے دوسرے نمبر میں مسئلہ نبوت پر مبسوط اور مدلل رنگ میں روشنی ڈالی گئی شعیہ رسالہ نشہ تک جاری ہا.حجاز کے ولیعہ اور جولائی اتوار کو مجاز کے ولیعہد شہزادہ میر سعود میرفضل لندن.میں تشریف لائے.امام مسجد لندن حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب درد مسجد فضل لنڈن میں نے آپ کے اعزاز میں ایک دعوت استقبالیہ دی جس میں امریکہ برازیل، میکسیکو اور عرب کے سفراء کے علاوہ سرعبد القادر اور پرو فیر راب جیسی نامور شخصیتیں بھی شامل ہوئیں.امیر سعود دو گھنٹے تک مسجد میں موجود رہے اور کہ یہ نو مسلموں سے عربی نہبان میں نمازہ شنکر اور ان کی دستی تحریریں دیکھ کر بہت خوش ہوئے پیشہ اس تقری کا برطانوی پولیس کے علاوہ عربی اور ہندوستانی اخبارات میں بھی چرچا ہوا.اس طرح تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو خانصاحب ڈاکٹر عمرعبداللہ صاحب سابق امیر جماعت حمدیہ کوئٹہ کا مفصل مضمون مطبوعہ الفضل سور جولائی ام جراء مدہ.اس کے علاوہ مستونگ کے ایک احمدی خاندان کے بچنے کا واقع الفضل ، ا و سیٹ پر مذکور ہے.یاد رہے کے ان دونوں چھدی احمد جان شان امیر جماعت کو نہ تھے پے تھے.افضل ہو جولائی ے وار سے ہے کہ الاسلام کے ایک پر چہ کی صاب ۳۵ قیمت پانچ نہیں تھی اور اسکی اشاعت کا پتہ یہ تھا.NDON ه الفضل ۲۱ مایع ۱۲۵ ء م کالم ٣- الفضل مرتب ملا ء کے ایضا الفضل سے نومی و ملا وله الفضل ۱۶ جوال الامل +LONDON MOSQUE 63M ALROSE ROAD S.W.18.LONDON -

Page 264

۲۲۸ مسجد کے افتتاح کے موقعہ پر ان کے نہ آنے کا عمدگی کے ساتھ اضافہ ہو گیا ہے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے دعوی پر ایک صاحب میں نیا ماشہ صاحب دیا کہ جناب ضیاء (مالک سوپ فیکٹری لاہور) نے حضرت امیر المومنین رض سے حضرت امیر المومنین کی حلفیہ شہادت حضرت مسیح موعود کے دعونی بر صفر شہادت دینے ا مطالبہ کیا.نہیں پر حضور نے تحریر فرما یا کہ : رای اسلام علیکم و رحمت اللہ وبر کاتہ.میں آپ کے خط کے جواب میں حلفیہ تحریر کر تا ہوں کہ وہ خدا جب نجی مجھے پیدا کیا ہے اور جب کسی قبضہ میں میری جان ہے اور جو دلوں کا بھید جانتا ہے میں اس کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میرے نزدیک وہ نبوت میں کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دعوتی ہے اسلام کے لئے یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کے لئے بہتک کا موجب نہیں بلکہ اسلام کی مضبوطی کا موجب ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت بڑھانے کا.اور میں قسم کھا کہ کہتا ہوں کہ ایسی نبوت نہ صرف قرآن کریم اور حدیث شریف سے ثابت ہے بلکہ مجھے خود اللہ تعالے نے بذریعہ رویا ، و کشوف اس پر یقین دلایا ہے.والسلام خاکسار مرزا محمود الحماده ۱۵ سعودی حکومت کا غیر مسلم کمینی در امارت شان داد کو جلالت الملک سلطان عبد العزیز این نبود غیر رسم اور اُن کے ولی عہد پر طواف کعبہ کے دوران بعص بینی عمریوں سے معاہد اور حضر خلیفہ مسیح نے قاتلانہ حل کردیا جس پر شاہ کے حفاظتی دستہ نے جو دوروں حل الثانی کا بغیر افروز بیان کو گولیوں سے ہلاک کر دیا.اس پربعض ملا اخبان نے یوم پاک ہے.یہاں یہ بتانا کیسی سے خالی نہ ہو گاکہ ایک بار الفضل کے ایک سیاسی نامہ نگار نے جلالت الملک ابن سعود سے مکہ معظمہ میں ملاقات کی تو انہوں نے جماعت احمدیہ کی نسبت فرمایا کہ تبلیغ اسلم میں درد دنیا ہمارا کام ہے.سلطان نے سورت کے ایک اہلحدیث کی شکایت پر کہ احمدی ایک اور نبی کے ماننے والے ہیں، صاف جوابد یا کہ یہ شرک فی النبوة کرتے ہوں گے.مگر یہاں تو شرک فی التوحید کے نوالے بھی آتے ہیں ؟ پھر احدیوں کو تم سے نکالنے کی تجویز پر کہا کہ کیا یہ عبدالعزیہ کے بانکے گھر ہے جس سے میں نکال دوں یہ خدا کا گھر ہے.(الفضل ۲۴ جولائی راحت کالم ہے : ه - الفضل ۲۸ را گست ره صد کالم ۲ : مه ولادت نومبر تششده - دقات ۱۹ نور ہے.سوانح حیات سلطان ابن سعود " صفحه ۲۱۷ - ۲۱۸) (مرتبه سردار محمد حسنی بی.اے.ناشر نیجر سلسله مشاہیر السلام جالندھر شہر !

Page 265

۲۲۹ میں عربوں کے قتل پر سخت احتجاج کیا.اور اسے " سرزمین حجاز میں یزیدیت سے تعبیر کیایہ مخالفت پورے زوروں پر تھی کہ خبر آئی کہ حوالت اللہ نے ایک غیرمسلم کمیٹی کو پٹرول وغیرہ کا ٹھیکہ دینے کیلئے ایک معاہدہ طے کر لیا ہے.اگرچہ یہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا معاہدہ نہیں تھا کو خصوصا مجلس احرار نے سلطان المعظم اور انکی حکومت کے خلاف مسلمانوں کو مشتعل کرنے کیلئے جلسے کئے اور اخباروں میں بدگوئی سے کام لیتے ہوئے سخت زہریلا پراپیگنڈا گیا اور بالآ خر اسے ایک خالص مذہبی مسئلہ قرار دیکر مخالفت کا ایک وسیع محاذ کھول دیا.جسکی اصل وجہ یہ تھی کہ احرار لیڈر شریف حسین دالی مکہ کے شکست کھا جانے کے بعد سعودی حکومت کے بھی مخالف تھے.اور ابن سعود کو سرمایہ دارانہ ماحول کا پر درش یا فتہ بتا کر بدنام کر تے رہتے تھے یہ ٩٣٧راء شیعه انهار مجربه تیم چون شراء بجواله الحدیث امرتسر، جون ۱۳۵ داده ها ے.دی سودین عریبین مائیکنگ سنڈیکیٹ لمیٹڈ ز ان کار پوری ٹران انگلینڈ ه - اخبار کورتران گزٹ دوہلی نے دار جنوری مشکل کی اشاعت میں حمید یہ حجاز ریلوے کے زیر عنوان یہ خبر شائع کی : حمید یہ تجاز ریلوے لین کمیٹی نے فرانس د بلجیم و جرمنی کے مشہور تاجروں کو معدنیات کا اجارہ دینے کا قصد کیا ہے.حجاز ریو سے سکہ راستے ہیں معدنیات ملتی ہیں.چونکہ اسوقت اور کوئی نکالنے والا نہیں اس سب ہے شاید اہل یورپکے اجارہ دینا پڑ نے من نے ہے.اہلحدیث ار د ملا کالم اپنے شے.مجاہد ۴ ارمئی ۱۹۳۶ء بحوالہ اہلحدیث ۲۹ مئی ء ص : تھے.چوہدری افضل حق " تاریخ احرار میں لکھتے ہیں.ابن سعود کا سارے عرب میں طوطی بولنے لگا خشک قسم کا وہابی تھا اسکے مدینے میں قدم رکھا تو بھونچال لے آیا.قبوں کو گرا کر ہموار کر دیا......ہم شریف حسین کے دیں بدر ہونے پر خوش تھے کہ غدار اپنے انجام کو پہنچا.مگر تھے گرانے کے متعلق متذبذب تھے......یہ سب تھے اور مقبرے سرمایہ داروں کی سنگدلی کا نتیجہ ہیں.اگر نبی کریم کی قبر اصل حال میں ہوتی تو اس زیارت سے سرمایہ داروں کے خلاف مسلمانوں کی نفرت قائم رہتی.اب جبکہ مسلمان عوام کی دل و دماغ کی ساخت سرمایه داری مشین میں تیرہ سو برس ڈھل کر بدل گئی تو ابن مسعود کا ظہور ہوا....بیچارہ ابن سعود بھی سرمایہ دارانہ ماحول کا پر ورکش، یافتہ تھا اُسے خود اسلام کا منشاء معلوم نہ تھا.اس نے چند قبے گرائے جگہ خود شاہانہ بسر اوقات کرنے لگا." (ص۲۲ تا ۲۲۰) یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ مفکر احرار نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرمبارک کے پختہ مقبرہ کو سرمایہ داری کی سنگ دلی کا نتیجہ قرار دینے میں حقائق کی صریح تغلیط کی ہے تاریخ اسلام سے ثابت ہے کہ مقبرہ بنانے کی اصل وجہ یہ ہے کہ سنہ دورمیں عیسائیوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جسد اطہر کو نکال کر اس کی بے حرمتی کرنے کی سازش کی تھی

Page 266

۲۳۰ احدار کی اس افسوسناک روش کی نسبت کلکتہ کے مسلم روز نامہ اخبار ہند نے حسب ذیل مضمون شائع کیا :.یہ واقع ہے کہ مولانا اسمعیل غزنوی سالہا سال سے شاہ ابن سعود کے ہاں آمد ورفت رکھتے ہیں.ہمیں معلوم ہوا ہے کہ مولا نا غزنوی کے اسی تعلق کی وجہ سے ان کے بعض رفیقوں کو مخصوص ذاتی شکائتیں پیدا ہو گئی ہیں.اور چونکہ ان کی شکائت میں ڈوبہ نہ ہو سکیں.اور چونکہ وہ مجلس احرار میں بہت رسوخ رکھتے ہیں.اس لئے انہوں نے مولانا اسمعیل غزنوی اور حکومت حجاز سے انتقام لینے کی یہ صورت نکالی ہے کہ مجلس احرار ملک بھر میں حکومت حجازہ کے خلاف ایجی ٹیشن کرے اور اسطرح حکومت حجاز کو مجبور کر دے کہ وہ مذکورہ بالا شکا متیں دور کرنے پر آمادہ ہو جائے.اپنی اس اطلاع کا ذکر ہم نے اشارہ پچھلے مضمون میں کیا تھا.مگر اس پر زور نہیں دیا تھا کیونکر ہیں اس پر پورا یقین نہیں تھا.لیکن اب مجاہد' کا افتاحی دیھکہ ہمیں بڑی حد تک اپنی اطلاع کی صحت پر بھروسہ ہو گیا ہے.کیونکہ مجاہد نے اپنے اس افتتاحیہ میں حد درجہ تدفین تلبیس سے کام لیا ہے جو اس گیا.بات کی دلیل ہے کہ پس پردہ کوئی اور ہی حقیقت موجود ہے.مجاہد کے افتتاحیہ کالب لباب یہ ہے کہ مجلس احرار اب تک جزیرۃ العرب کی حقیقی صورت حال سے واقف نہ تھی.لیکن اب اسے یقین سے معلوم ہو گیا ہے کہ شاہ ابن سعود انگریزوں کے زیر انتہ ہیں اور یہ کہ عرب کے خارجی معاملات پر برطانیہ کا قبضہ ہے اور انگریز مدیر سلطان کو معاہدں کے جال میں پھنا کہ داخلی مسائل پر قابض ہو رہے ہیں.اور یہ کہ جنگ یمین و نجد برطانیہ ہی کے انتشارے سے ہوئی تھی.اور شاہ ابن سعود کی فتح محض برطانیہ کی قوت سے ہوئی.اور یہ کہ امام میں انگریزوں کے یا اٹلی کے یا کسی اور اجنبی قوت کے زیر اثر نہیں ہیں وغیرہ وغیرہ الزامات.لیکن سوال یہ ہے کہ مجلس احرار اور اسکی آرگن" مجاہد" کے پاس اپنے ان دعووں کی تائید میں کوئی دلیل بھی ہے یا نہیں ؟ اگر دلیل ہے تو پیش کرنا چاہیے.اس افتتاحیہ میں تو ان تمام الزاموں کی بنیاد اسی معاہدے کو بتایا گیا ہے جو کان کنی کے ٹھیکہ سے متعلق حکومت حجازہ نے کیا ہے نگر ہیں یہ بھی تو بتایا جائے کہ اس معاہدے میں کونسی دفو ایسی ہے جس کی بنا پہ یہ تمام الزام تراش لئے گئے ہیں.بقیه حاشیه : جس پر سلطان نور الدین نے اسکے ارد گر دگہری خندق کھدوا کے اس میں سیسہ پگھلا کر ڈال دیا.اور محض تحفظ کے خیال سے اس پر گنبد تعمیر کیا گیا ملاحظہ ہو کتاب" مرة الحرمين "جلد اول تالیف ابراہیم نفت پاشا ص ۲۳۷۳ طبع اول ۱۳۴۴ - ۱۹۲۵ مطبع دار الكتب المصريه بالقاهره :

Page 267

۲۳۱ ہم مجلس احرار اور اسکے آرگن کو چیلنج دیتے ہیں کہ وہ اس معاہدے میں کوئی ایسا لفظ بھی دیکھا دے جس سے جمانہ کی آزادی کو ذرا بھی خطرہ لاحق ہوتا ہو یا سے شہر بھی ہو سکے کہ شاہ ابن سعود انگریزوں کے زیر اثر آگئے ہیں.مجاہد کے افتتاحیہ نے ہمیں یقین دلا دیا ہے کہ اس کو اور مجلس احرار کو عرس کے معاملات اور شاہ ابن سعود کی تاریخ سے کچھ بھی واقفیت نہیں ہے.کیونکہ اگر واقفیت ہوتی تو اس قسم کی بہکی بہکی باتیں نہ کہی جاتیں نہ لے سعودی مملکت کے خلاف پراپیگنڈا کرنے والوں کا مقصد کیا تھا ؟ اس امر کی وضاحت کرتے ہوئے مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے اخبار المحد بیت " میں لکھا :- رنج اس لئے ہے کہ سر کے پہاڑوں سے اگر یہ چیزیں مل گئیں تو حکومت نجدیہ کو " بڑی قوت حاصل ہوگی جو ان پر اور ان اسلام کو ناگوار ہے.تے مرکز اسلام کے سربراہ کی نسبت اشتعال انگیزیوں کا یہ افسوسناک طریق و کیکر سید نا حضرامیرالمومنین خلیفہ مسیح انسانی کو سخت صدمہ پہنچا اور حضور نے ۳۰ اگست ۱۹۳۶ء کے خطبہ جمعہ میں سلطان ابن سعود کے معاہدہ کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :- آج سے کئی سال پہلے جب لارڈ چیمسفورڈ ہندوستان کے دائسرائے تھے.مسلمانوں میں شوہر پیدا ہوا کہ انگریز بعض عرب رؤسا کو مالی مدد دیکر انہیں اپنے زیر اثر لانا چاہتے ہیں.یہ شور جب زیادہ بلند ہوا تو حکومت ہند کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ ہم عرب رڈ ساکو کوئی مالی مرد نہیں دیتے.مسلمان اس بات پر خوش ہو گئے کہ چلو خر کی تہ دید ہوگئی.لیکن نہیں نے واقعات کی تحقیقات کی تو مجھے معلوم ہوا کہ گو ہندستان کی حکومت بعض عرب مرد سا کی مالی مدد نہیں دیتی مرا حکومت برطانیہ اس قسم کی مدد ضرور دیتی ہے.چنانچہ ساٹھ ہزار پونڈ ابن سعود کو لا کرتے تھے اور کچھ رقم شریف حسین کو ملتی تھی جب مجھے اس کا علم ہوا تو میں نے لارڈ چیمسفورڈ کو کھا کہ گو لفظی طور پر آپ کا اعلان صحیح ہے مگر حقیقی طور پر مجھے نہیں.کیونکہ حکومت برطانیہ کی طرف سے ابن سعود اور شریف حسین کو اس قدر مالی مدد ملتی ہے اور اس میں ذرہ بھر بھی شبہ کی گنجائش نہیں کہ سلمان عرب پر انگریزی حکومت کا تسلط کسی رنگ میں بھی پسند نہیں کر سکتے.ان کا جواب میں مجھے غلط آیا وہ بہت ہی شریعت طبیعت رکھتے تھے کہ یہ واقعہ صحیح ہے.مگر اس کا ے.بحوالہ الفضل قادیان مورخه ۲۲ دسمبر ۹۳۵ و سط به سے اہلحدیث امرتسر ۳ راگست ۳۵ داء صطا - کالم ۲ : "

Page 268

۲۳۲ کیا فائدہ کہ اس قسم کا اعلان کر کے فساد پھیلایا جائے.ہاں ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ گورنمنٹ انگریزی کا یہ ہرگز منشاء نہیں کہ عرب کو اپنے زیر اثر لائے.کے پس ہم ہمیشہ ور کے معاملات میں دلچسپی لیتے ہیں.جب ترک عرب پر حاکم تھے تو اس وقت ہم نے ترکوں کا ساتھ دیا.جب شریف حسین حاکم ہو اتو لوگوں نے اس کی سخت مخالفت کی.مگر ہم نے کہا اب فتنہ و فساد کو پھیلا نا مناسب نہیں ہیں شخص کو خدا نے حاکم بنا دیا ہے اس کی حکومت کو لینا چاہیے.تاکہ عرب میں نت نئے فسادات کا رونما ہونا بند ہو جائے.اس کے بعد ا تجدیوں نے حکومت سے لی تو با وجود اسکی کہ لوگوں نے شور مچایا کہ انہوں نے مجھے گرا دئے اور شعار کی بنک کی ہے اور باوجود اس کی ہمارے رسے بڑے دشمن المحدیث ہی ہیں پہلے سلطان این سعود کی تائید کی.صرف اسلئے کہ مکہ مکرمہ میں روز روز کی لڑائیاں پسندیدہ نہیں حالانکہ وہاں ہمارےے آدمیوں کو دُکھ دیا گیا.حج کیلئے احمدی گئے تو انہیں مارا پیٹا گیا.مگر ہم نے اپنے حقوق کے لئے بھی اس لئے صدائے احتجاج کبھی بند نہیں کی کہ ہم نہیں چاہتے ان علاقوں میں فساد ہوں.مجھے یا د ہے مولانامحمد علی صاحب جب مکہ مکرمہ کی مؤتمر سے واپس آئے تو وہ ابن سعود سے سخت نالاں تھے.شملہ میں ایک دعوت کے موقع پر ہم سب اکٹھے ہوئے تو انہوں نے تین گھنٹے اس امر پر محیت جاری رکھی وہ بار بار میری طرف متوجہ ہوتے اور میں انہیں کہتا کہ مولانا آپ کتنے ہی ان کے فلم بیان کریں جب ایک شخص کو خدا تعالیٰ نے حجاز کا بادشاہ بنا دیا ہے تومیں تو یہی کہوں گا کہ ہم کی کوششیں اب اس امر پر صرف ہونی چاہئیں کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی گلیوں میں فساد اور لڑائی نہ ہو.اور جو شورش اس وقت جاری ہے وہ دب جائے اور امن قائم ہو جائے تاکہ ان مقدس مقامات کے امن میں خلل واقع نہ ہو.ابھی ایک عہد نامہ ایک انگریز کمپنی اور ابن سعود کے درمیان ہوا ہے.سلطان ابن سعود ایک سمجھدار بادشاہ ہیں.مگر لوجہ اسکی کہ وہ یورپین تاریخ سے اتنی واقفیت نہیں رکھتے.وہ یورپین اصطلاحات کو صحیح طور پر نہیں سمجھتے.ایک دفعہ پہلے جب وہ اٹلی سے معاہدہ کرنے لگے تو ایک شخص کو جو ان کے ملنے والوں میں سے تھے میں نے کہا کہ تم سے اگر ہو سکے تو میری طرف سے سلطان این بود که یہ پیغام پہنچا دیا کہ معاہدہ کرتے وقت بہت احتیاط سے کام لیں.یورپین قوموں کی عادت ہے کہ وہ الفاظ نہایت نرم اختیار کرتی ہیں مگر ان کے مطالب شده مولانا محمد علی صاحب جو ہر مراد ہیں.(ناقل)

Page 269

۲۳۳ نہایت سخت ہوتے ہیں.اب وہ معاہدہ جو انگریزوں سے ہو ا شائع ہوا ہے اور اس کے خلاف بعض ہنڈیانی اخبارات مضامین لکھ رہے ہیں میں نے وہ معاہدہ پڑھا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس میں بعض غلطیاں ہو گئی ہیں اور اس معاہدہ کی شرائط کی رو سے بعض موقعوں پر بعض بیرونی حکومتیں یقینا عرب میں دخل دے سکتی ہیں اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ اس کو پڑھ کر میرے دل کو سخت رنج پہنچا.حالانکہ انگریزوں نے ہما را تعاون ہے اور ہم اس کا ذکر کرنے سے کبھی ڈرے نہیں سوائے حکومت پنجچا ہے کہ اسی دو تین سال سے خود ہمارے تعاون کو ٹھکرا دیا ہے.باقی انگریزی حکومت سے ہم نے ہمیشہ تعاون کیا ہے اور ہمیشہ تعاون کرتے رہیں گے جب تک وہ خود حکومت پنجاب کی طرح ہمیں دھتکار نہ دے.بنگر با وجود اسکے کہ ہم انگریزوں سے تعاون رکھتے ہیں اور باوجود اسکی کہ میں انگریزی حکومت کے ڈھانچہ کو دنیا کیلئے مفید ترین ریز حکومت سمجھتا ہوں جس میں اصلاح کی گنجائش ضرور ہے مگر وہ توڑنے کے قابل شے نہیں ہے.پھر بھی انگریز ہوں یا کوئی اور حکومت عرب کے محاطہ میں ہم کسی کا لحاظ نہیں کہ سکتے.اس معاہدہ میں ایسی احتیاطیں کی جا سکتی تھیں کہ جن کے بعد عرب کیلئے کسی قسم کا خطرہ باقی نہ رہتا میگر و بعد است کی کہ سلطان ابن سعود یوروپین اصطلاحات اور بین الاقوامی معاملات سے پوری واقفیت نہیں رکھتے.انہوں نے الفاظ میں احتیاط سے کام نہیں لیا اور اس میں انہوں نے عام مسلمانوں کا طریق اختیار کیا ہے مسلمان ہمیشہ دوسروں پر اعتبار کرنے کا عادی ہے حالانکہ معاہدات میں کبھی اعتبار سے کام نہیں لینا چاہیے بلکہ سوچ سمجھ کر اور کامل غور وفکر کے بعد الفاظ تجویز کرنے چاہیں گوئیں سمجھتا ہوں یہ معاہدہ بعض انگریزی فرموں سے ہے.حکومت سے نہیں.اور ممکن ہے جس فرم نے یہ معاہد کیا ہے اس کے دل میں بھی دھوکا بازی یا غداری کا کوئی خیال نہ ہو.اگر الفاظ ایسے ہیں کہ اگر اس فرم کی کسی وقت نیت بدل جائے تو وہ سلطان ابن مسعود کو مشکلات میں ڈال سکتی ہے.مگر یہ سمجھنے کے باوجود ہم نے اس پر شور مچانا مناسب نہیں سمجھا.کیونکہ ہم نے خیال کیا کہ اب سلطان کو بدنام کرنے سے کیا فائدہ.اس سے سلطان ابن سعود کی طاقت کمزور ہوگی اور جب ان کی طاقت کمزور ہو گی تو عرب کی طاقت بھی کمزور ہو جائے گی.اب ہمارا کام یہ ہے کہ دعاؤں کے ذریعہ سے سلطان کی مدد کریں اور اسلامی رائے کو ایسا منظم کریں کہ کوئی طاقت سلطان کی کمزور ہی سے فائدہ اٹھانے کی جمات نہ کر سکے یہ اے شه - الفضل قادیان ۱۳ ستمبر ۳۵ ملتا ہے

Page 270

۲۳۴ مقبولین الہی کی دل سے نکلی ہوئی دعائیں اور آہیں عرش کو ہلادیتی ہیں اور خطرات کے منڈی تھے ہوئے سیاہ بادل چھٹ جاتے ہیں اور مطلع صاف ہو جاتا ہے.یہی صورت یہاں ہوئی اللہ تا نے محض اپنے فضل سے سرزمین عرب کو نہ صرف اس معاہدہ کے بد اثرات سے بچا لیا بلکہ ملک عرب کی کانوں سے اس کثرت کے ساتھ معدنیات بر آمد ہوئیں کہ ملک مالا مال ہو گیا.اس حقیقت کی کسی قدر رو داد مولانامحی الدین بلوائی ایم.اسے الازہر کی کتاب تغرب دنیا میں موجود ہے.فصل چهارم احرار کا احمدیت پر جب احرار نے دیکھا کہ خدا تعالیٰ نے ان کی حقیقت کو ظاہر کر کے انہیں مسلمانوں کی نظروں میں گرا دیا ہے تو انہوں نے دوبارہ مقبول ہونے کیلئے احمدیت وبارہ حملہ اور ناکامی پر ایک بار پر حل کرنے کا فیصلہ کیا.چنانچہ اخبار مجاہد نے لکھا.مسلمانو ! اگر اپنے دشمن قادیانی کو یہ باد کرنا ہے تو تمام اختلافات مٹا کہ مرزائیت کی بربادی کے لئے متحد ہو جاؤ " نیز سکھا :.”ہندوستان کی نگی قوم مسلم کے لئے مجلس احمد د اسلام ایک رحمت کی چھانہ رہے......واقعات لاہور کے چند غرض مند دیوانوں نے شور مچا دیا کہ چادر تو چھلنی ہو چکی مسلمانوں کے ایک طبقہ نے ایک لقمہ غریب کھایا اور سمجھے کہ ہم نے بھی چادر میں سوراخوں کو دیکھا ہے اور سب نے مل کر شور کیا کہ چادر کو پھاڑ ڈالو...مسلمانوں کا ہنگامی جوش اور جذبات کے زیر اللہ ہو کر چھوٹے چھوٹے مفروضہ سوراخوں میں اسے تبدیل کرنا کہاں کی اسلام دوستی ہے.نئی تو مل نہیں سکتی اور پرانی کو بھی پھاڑ ڈالو.افسوس اس عقل اور فہم تیرے اب احرار نے اپنے مقصد کی تکمیل کیلئے بہتان تراشی کا نیا سلسلہ دو جھوٹے الزام کی تشہیر شروع کیا اور دو الزامات کی خاص طور پر تشہیر کی.اوّل یہ کہ احمدی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہتک کرتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے درجہ کو بانی سلسلہ احمدیہ کے درجہ سے (نعوذ باللہ) اونی سمجھتے ہیں.دوسرے یہ کہ احمدیوں کے نزدیک قادیان کی بیستی مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سے افضل ہے.ہ مجاہد کی ہور ار گشت کالم ۲-۳-۲ : ۳ ایضاحت کالم ۲ : راگ + |

Page 271

۲۳۵ چنانچہ شیخ حسام الدین صاحب نے مصوری میں مولوی عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری کی صدارت میں تقریر کرتے ہوئے کہا." اگر خانہ کعبہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے تو مرزائی لوگ اسکی کوئی پروا نہ کریں گے.بلکہ خوش ہوں گئے پہلے سید نا حضرت امیر المومنین خلیفہ ایسیح الثانی نے ان الزامات رت امیرالمومنین کار شوکت جواب سے جواب کی ، اوراست شکار کو یک ترگال خطبہ جمعہ دریا میں میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جماعت احمدیہ کی محبت و شیدائیت کا واضح ثبوت دیتے ہوئے فرمایا :- ہمارے عقائد بالکل واضح ہیں اور ہماری کتابیں بھی چھپی ہوئی موجود ہیں ان کو پڑھو کہ کون ہے ہو یہ کہ سکے کہ ہم نفوذ باشد من ذالک برسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مہک کرتے ہیں ناں دشمن یہ کہ سکتا ہے کہ کو الفاظ میں یہ لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت کرتے ہیں مگر ان کے دلوں میں آپ کا ادب نہیں.مگر اس صورت میں ہمارا یہ پور چھنے کا حق ہو گا کہ وہ کونسے ذرائع ہیں جھی سے کام لیکر انہوں نے ہمارہ سے دلوں کو پھاڑ کر دیکھ لیا اور معلوم کر لیا کہ ان میں حقیقی ا ر سول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہتک کے جذبات ہیں....اگر احمدی با لغرض عام مسلمانوں کے سامنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرنے سے اس خیال سے بچتے ہیں کہ اس طرح مسلمان ناراض ہو جائیں گے تو ہندوؤں سیکھوں اور عیسائیوں کے سامنے تو وہ نڈر ہو کر سول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نعوذ باللہ نہ کرتے ہوں گے...پس میں کہتا ہوں تصفیہ کا آسان طریق یہ ہے کہ ہندوؤں دیکھوں اور عیسائیوں میں سے ایک ہزار آدمی چنا جائے اور وہ موکد بعذاب خلف اٹھا کہ بتائیں کہ احمدی عام مسلمانوں سے رول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و عظمت کی متعلق نہ زیادہ جوش رکھتے ہیں یا کم.اگر ایک ہزار سارے کا سارا یا اس کا بیشتر حصہ.کیونکہ ایک دجھوٹ اختیارہ زمیندار شاد سے تعلیم ہوتا ہے کہ شیخ صاحبنے ان دنوں اتراء پردازیوں کی خاص مہم جاری کر رکھی تھی.بطور ثبوت صرف ایک جلسہ کی رپورٹ ملاحظہ ہو سیکھا ہے ۳۰ جولائی (شاد) کو بر ز چہارشتہ ساڑھے نو بجے شام ام ال ای د امرتسر میں حرار امر مرنے ایک طلبہ کیا.ادا میں سے شیخ حسام الدین بی نے تقریر کی تقریر کا بھی افترا و ایران کا ایک انوکھا مجموعہ تھا.احرار اگراپنا کھویا ہو او قار قائم کرنے کی فکر میں ہیں تو اس کیلئے انہیں اس قسم کی کذب آفرینی نہیں کرنی چاہیئے.کیونکہ اس سے تو ان کے وقار کو اور بھی دھکا لگے گا.شیخ حسام الدین پر واضح رہنا چاہیئے کہ شیشہ کے مکان میں بیٹھ کر دوسروں پر پھر پھینکنا نہایت ہی غلط قدم ہے.زمینداری پوریم را گست ۳۶ دار صت بعنوان امرتسرین (حوالہ کی خفتنہ پردازی ) سے الفصل ۲ ستمبر اصلا کالم ٢ :

Page 272

٢٣٩ بھی بول سکتے ہیں.یہ گواہی دے کہ انسی احمدیوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کرنے والا اور آپکے نام کو دنیا میں بلند کرنے والا پایا تو اس سم کا اعتراض کرنے والوں کو اپنے فعل پر شرمانا چاہیئے.میں سمجھتا ہوں وہ لوگ جو ہمارے متعلق یہ کہتے ہیں کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تیک کرتے ہیں وہ بار بار ہمارے متعلق اس اتہام کو دوہرا کہ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرتے ہیں.کیونکہ کسی کو گالی دینے کا ایک طریق یہ بھی ہوا کرتا ہے کہ دوسرے کی طرف گانی منسوب کر کے اس کا فہ کر کیا جائے....پس اگر یہ تصفیہ کا طریق حجر مکی نے بیان کیا ہے.اس پر مخالف عمل نہ کریں تو میں کہوں گا ایسے اعتراض کو نیوالے در حقیقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خود مہتک کرتے ہیں گو اپنے منہ سے نہیں بلکہ ہماری طرف ایک غلط بات منسوب کر کے لے جہاں تک مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی نسبت احمدیوں کے عقیدہ کا تعلق ہے حضور نے واضح لفظوں میں اعلان فرمایا کہ: وه خانہ کعبہ کی اینٹ سے اینٹ بجا نا تو الگ رہی ہم تو یہ بھی پسند نہیں کر سکتے کہ خانہ کعبہ کی کسی اینٹ کو کوئی شخص بدنیتی سے اپنی انگلی بھی لگائے اور ہمارے مکانات کھڑے رہیں...بیک ہمیں قادیان محبوب ہے، اور بے شک ہم قادیان کی حفاظت کیلئے ہر ممکن قربانی کرنے کیلئے تیار ہیں مگر خدا شاہد ہے نمانہ کعبہ ہمیں قادیان سے بدرجہا زیادہ محبوب ہے.ہم اللہ تعالیٰ سے اس کی پناہ چاہتے ہیں.اور ہم سمجھتے ہیں کہ خدا وہ دن نہیں لا سکتا.لیکن اگر خدا نخواستہ کبھی وہ دن آئے کہ خانہ کسی بھی خطہ میں ہو اور قادیانی بھی خطہ میں میرا درد دنوں میں سے ایک کو بچایا جا سکتا ہو تو ہم ایک منٹ بھی اس مسئلہ پر غور نہیں کریں گے کہ کسی کو بچایا جائے بلکہ بغیر سوچے کہدیں گے کہ خانہ کعبہ کو بچانا ہمارا اولین فرض ہے.کہیں قادیان کو ہمیں خدا تعالی کے حوالہ کر دینا چاہیے " ہم سمجھتے ہیں کہ ملکہ وہ مقدس مقام ہے جس میں وہ گھر ہے جسے خدا نے اپنا گھر قرار دیا اور مدینہ وہ بابرکت مقام ہے جس میں محمدصلی اللہ علیہ دو کہ دوستم کا آخری گھر بنا جس کی گلیوں میں آپ چلے پھرے اور جس کی مسجد میں اس مقدس نبی نے جو سب نبیوں سے کامل نبی تھا اور سب نبیلوں سے زیادہ خدا کا محبوب تھا.نمازیں پڑھیں اور اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کیں.اور قادیان وہ مقدس مقام ہے جس میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صفات مقدسہ کا خدا تعالیٰ نے دوبارہ حضرت مرزا صاحب کی ه الفضل / ستمبر ۱۹۳۵ء ۵-۶ +

Page 273

۲۳۷ صورت میں نزول کیا.یہ مقدس ہے باقی سب دنیا سے مگر تابع ہے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے.پس وہ شخص جو یہ کہتا ہے کہ اگر خانہ کعبہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی بجائے تو احمدی خوش ہوں گے وہ جھوٹ بولتا ہے وہ افتراء کرتا ہے اور وہ ظلم اور تعدی سے کام لے کر ہماری طرف وہ بات منسوب کرتا ہے جو ہمارے عقائد میں داخل نہیں اور ہم اس شخص سے کہتے ہیں لعنة اللہ علی الکاذبین" ہم تو سمجھتے ہیں کہ عرش سے خلا مکہ اور مدینہ کی حفاظت کر رہا ہے.کوئی انسان ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا.ان ظاہری طور پر ہو سکتا ہے کہ اگر کوئی دشمن ان مقدس مقامات پر حملہ کرے تو اسوقت قات انی کو بھی موت کیسے بڑھایا ہے لیکن اگر خدانخواستہ کبھی ایسا موقعہ آئے تو اس وقت دنیا کو معلوم ہو جائے گا.کہ حفاظت کے متعلق جو ذمہ داری خدا تعالیٰ نے انسانوں پر عائد کی ہے اس کی ماتحت جماعت احدیہ کی طرح سب لوگوں سے زیادہ قربانی کرتی ہے.ہم ان مقامات کو مقدس ترین مقامات سمجھتے ہیں.ہم ان مقامات کو خدا تعالیٰ کے جلال کے ظہور کی جگہ سمجھتے ہیں.اور ہم اپنی عزیز ترین چیزوں کو ان کی حفاظت کیلئے قربان کر نا سعادت دارین سمجھتے ہیں.اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ جو شخص توقیعی نگاہ سے مکہ کی طرف ایک دفعہ بھی دیکھے گا خدا اس شخص کو اندھا کر دے گا.اور اگر خدا تعالے نے کبھی یہ کام انسانوں سے لیا تو جو ہا تھ اس بد میں آنکھ کو پھوڑنے کے لئے آگے بڑھیں گے ان میں ہمارا ہا تھ خد اتعالیٰ کے فضل سے ے سب سے آگے ہوگا اے حرار کو تباہی کا چینی " حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ان الزامات کی تردید پر اکتفا نہ کرتے ہوئے اخزانہ کو ہر دو امور کے تصفیہ کے لئے مباہلہ کا چیلنج بھی دیا.چنانچہ فرمایا.دوسرا طریق یہ ہے کہ ان مخالفین میں سے وہ علماء جنہوں نے سلسلہ احمدیہ کی کتب کا مطالعہ کیا ہوا ہو پانچ سو یا ہزار میدان میں نکلیں ہم میں سے بھی پانچ سو یا ہزارہ میدان میں نکل آئیں گے.دونوں مباہل کریں اور دعا کریں کہ وہ فریق جو حق پر نہیں خدا تعالیٰ اسے اپنے عذاب سے طالب کر سے ہم دعا کریں گے کہ اے خدا تو جو ہمارے سینوں کے رازوں سے واقف ہے.اگر تو جانتا ہے کہ ہمارے دلوں میں واقعی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و محبت نہیں.اور ہم آچھ سات سے انبیاء سے افضل یہ تو یقین نہیں کرتے اور نہ آپ کی غلامی میں نجات سمجھتے ہیں اور حضرت مسیح موعود یہ السلام کوہ آپ کا ایک خادم اور غلام نہیں جانتے.بلکہ درجہ میں آپ کو رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم الفضل ۲ ستمبر د مه قامه : 1

Page 274

۲۳۸ سے بلند سمجھتے ہیں.تو اے خدا ہمیں اور ہمارے بیوی بچوں کہ اس جہاں میں ذلیل و رسوا کرہ اور ہمیں اپنے غذا سے ہلاک کر اسکی مقابلے میں وہ دعا کریں کہ اسے بعد اہم کامل یقین رکھتے ہیں کہ احمدی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نیک کرتے آپ کی تحقیر و تذلیل پر خوش ہوتے اور آپ کے درجہ کو گرانے اور کم کرنے کی ہر وقت کوشش کرتے رہتے ہیں.اسے خدا اگر ہمارا یہ یقین غلط ہے تو تو اس دنیا میں ہیں اور ہمارے بیوی بچوں کو ذیل در سوا کر اور اپنے عذاب سے ہمیں ہلاک کہ یہ معاملہ ہے جو ہمارے ساتھ کر لیں اور خدا پر معاملہ پھوڑ دیں.پانچ سو یا ہزار کی تعداد میں ایسے علماء کا اکٹھا کہ نا جو ہمارے سلسلہ کی کتا ہے واقفیت رکھتے ہوں.آٹھ کروڑ مسلمانان ہند کے نمائندہ کہلانے والوں کے لئے کوئی مشکل نہیں.بلکہ معمولی بات ہے اور ہم تو ان کو بہت تھوڑے ہیں.مگر پھر بھی ہم تیار ہیں کہ پانچ سویا ہزار کی تعداد میں اپنے آدمی پیش کریں.شرط صرف یہ ہے کہ جن لوگوں کو وہ اپنی طرف سے پیش کریں وہ ایسے ہوں جو حقیقت میں اُن کے نمائندہ ہوں اگر وہ جاہل اور بے ہودہ اخلاق دانوں کو اپنی طرف سے پیش کر دیں تو ہمیں اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہوگا.بشرطیکہ وہی تسلیم کر لیں کہ وہ ان کی طرف سے نمائندہ ہیں.ہاں احرار کے سرداروں کیلئے ضروری ہو گا کہ وہ اس میں شامل ہوں.مثلاً مولوی عطاء اللہ شاہ صاحب شامل ہوں.مولوی حبیب الرحمن صاحب شامل ہوں.چودھری افضل حق صاحب شامل ہوں.مولوی داؤ د غزنوی صاحب شامل ہوں.اور ان کے علاوہ اور لوگ جن کو وہ منتخب کریں شامل ہوئیں.پھر کسی ایسے شہر ہی میں پر فریقین کا اتفاق ہو.یہ مباہلہ ہو جائے.مثلا گورداسپور میں ہی یہ مباہلہ ہو سکتا ہے.جس مقام پر انہیں خاص طور پر نانہ ہے یا لاہور میں اس قسم کا اجتماع ہو سکتا ہے.ہم قسم کھا کہ کہیں گے کہ ہم پر اور ہمارے بیوی بچوں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہو اگر ہم رسول کریم صل اللہ علیکم پر کامل یقین نہ رکھتے ہوں.آپ کو خاتم النبیین ہ سمجھتے ہوں آپ کو افضل الوسل یقین نہ کرتے ہوں اور قرآن کریم کو تمام دنیا کی ہدایت و راہنمائی کے لئے آخری شریعیت نہ سمجھتے ہوں.اسکے مقابلے میں وہ قسم کھاکر کہیں کہ ہم یقین اور وثوق سے کہتے ہیں کہ احمد رسول کریم صل اللہ علیہ کم پر ایمان نہیں رکھتے نہ آپ کو دل سے خاتم النبیین سمجھتے ہیں اور آپ کی فضیلت اور بزرگی کے قائل نہیں بلکہ آپ کی توہین کرنے والے ہیں.اے خدا اگر ہمارا یہ یقین غلط ہے تو ہم پر

Page 275

۲۳۹ اور ہما رے ہوئی بچوں پر عذاب نازل کر.اسکے بعد اللہ تعالی کی طرف سے خود بخود فیصلہ ہو جائیگا کہ کون سا فریق اپنے دعوئی میں سچا ہے.کون رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حقیقی عشق رکھتا ہے اور کون دوسرے پر جھوٹا الزام لگاتا ہے.مگر شرط یہ ہوگی کہ عذاب انسانی ہاتھوں سے نہ ہو بلکہ اللہ تعالی کی طرف سے ہو اور ایسے سامانوں سے ہو جو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کئے جا سکیں " اے خانہ کعید کی حرمت و عظمت کا فیصلہ کرنے کے لئے بھی حضور نے دعوت مباہلہ دی چنانچہ فرمایا:- اس لئے بھی وہی جو یہ پیش کرتا ہوں جو پہلے امر کے متعلق پیش کر چکا ہوں کہ اس قسم کا اعتراض کرنے والے آئیں اور ہم سے مباہلہ کرلیں ہم کہیں گے کہ اسے بعد مکہ اور مدینہ کی عظمت ہمارے دلوں میں قادیان سے بھی زیادہ ہے ہم ان مقامات کو مقدس سمجھتے اور ان کی حفاظت کے لئے اپنی ہر چیز قربان کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن اسے خدا اگر ہم دل سے یہ نہ کہتے ہوں بلکہ تھوٹ اور منافقت سے کام لیکر کہتے ہوں اور ہمارا صل عقیدہ یہ ہو کہ مکہ اور مدینہ کی کوئی عزت نہیں یا قادیان سے کم ہے تو تو ہم پر اور ہمارے بیوی بچوں پر عذاب نازل کر اسکی مقابلہ میں احرار اٹھیں اور وہ یہ قسم کھا کر کہیں کہ نہیں یقین ہے کہ احمدی مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے دشمن ہیں.اور ان مقامات کا گہنا اور ان کی اینٹ سے اینٹ بجائی جانا احمدیوں کو پسند ہے.پس اے خدا اگر ہمارا یہ یقین غلط ہے اور احمدی مکہ و مدینہ کی عزت کرنے والے ہیں تو تو ہم پرادر ہما رے بیوی بچوں پر عذاب نازل گر.وہ اس طریق فیصلہ کی طرف آئیں اور دیکھیں کہ خدا اس معاملہ میں اپنی قدرت کا کیا ہاتھ دکھا تا ہے لیکن اگر وہ اس کے لئے تیار نہ ہوں تو یا درکھیں جھوٹ اور افترا دنیا میں کبھی کامیاب نہیں کر سکتا ہے اس چیلنج کے شائع ہونے پر اگر چہ بعض احراری مقرر حضر ت مینہ بیع الثانی کی طرف سے قادیان اگر تقریر کہ گئے کہ ہم مباہلہ کرنے کیلئے تیار ہیں.نمائندگان کا تقر اور چیلینج کی مزید ضاعت تو خود مجلس احرار کے لیڈروں نے کوئی اور قدم نہیں اٹھایا.تب حضور نے اس خیال سے کہ شاید احرار کو یہ برا معلوم ہوا ہو کہ اخبار میں اعلان کر دیا گیا ہے اور ہمیں تحریر مخاطب نہیں کیا گیا و تمبر یہ کے خطبہ جمعہ میں اپنی طرف سے شیخ بشیر احمد صاحب ه الفضل در تمر من له الفضل ۳ ستمبر 19 مرمت کا لم ۳ وہم ہے 14 ÷

Page 276

۲۳۰ ایڈوکیٹ ہائی کورٹ ،چوہدری اسد اللہ خانصاحب بیر سٹرا : در مولوی غلام احمد صاحب مو لو یا قتل مبلغ جماعت احمدیہ کو اپنا نمائندہ مقرر کر دیا کہ ان سے احرار کے نمائندے ضروری امور کا تصفیہ کر لیں اور تصفیہ شرائط کے پندرہ روز کے بعد مباہلہ ہو جائے.تا مباہلہ کرنے والوں کو بروقت اطلاع دی جا سکے لیے نمائندگان کے تقرر کے ساتھ ہی حضور نے یہ وضاحت بھی فرمائی کہ : میری طرف سے چیلنچ بالکل واضح ہے اور اس میں کوئی ایسی بات نہیں جسے کوئی معقول آدمی رو کرکے ان کا مرکز لاہور ہے اور میں نے تسلیم کر لی ہے کہ ہم وہاں آجائیں گے گورداسپور پر انہیں بہت فخر ہے اور میں نے کہدیا ہے کہ ہم وہاں آجائیں گے.پھر ہم نے ان پر دوسری مسلمانوں میں سے کسی شخاص شخصیت کو پیش کرنے کی قید نہیں لگائی.جماعت احمدیہ کا امام مباہلہ میں شامل ہو گا.اس کے بھائی ہوں گے.صدر انجمن کے ناظر ہوں گے اور تمام بڑے بڑے ارکان ہوں گے ان کے علاوہ پانسویا ہزار دو سر مزنہ افراد جماعت بھی ہوں گے.احرار کے متعلق میں نے صرف یہ کہا ہے کہ احرار کے پانچ لیڈریعنی مولوی مظہر علی صاحب اظہر - چودھری افضل حق صاحب ، مولوی عطاء اللہ صاحب ، مولوی داؤد غزنوی صاحب اور مولوی حبیب الرحمن صاحب ہوں گے گویا ہم ان سے جو مطالبہ کرتے ہیں.اس کے زیادہ پابندی اپنے اوپر لگاتے ہیں.ان میں خلیفہ کوئی نہیں اور نہ ہی کوئی خلافت باقی ہے.لیکن جماعت احمدیہ کی طرف سے خلیفہ ہوگا اور ذمہ دار ارکان ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کے مرد ممبر ہوں گے اور اسکے مقابلہ میں ان کے صرف پانچ لیڈر میں نے ضروری رکھتے ہیں.باقی جن کو بھی وہ اپنا نمائندہ بنا کر لائیں گے.ہم ان کو مان لیں گئے.اس میال میں تقریریں کا بھی اتنا سوال نہیں.کیونکہ یہ کوئی مسئلہ نہیں بلکہ واقعات ہیں اور صرف پندرہ منٹ اپنے عقیدہ کے بیان کے لئے کافی ہیں.پندرہ منٹ میں ہم اپنا عقیدہ بیان کر دیں گے اور اتنے ہی عرصہ میں وہ کہہ سکتے ہیں کہ جو یہ کہتے ہیں غلط ہے.حقیقتاً یہ ایسا نہیں مانتے اس میں دلائل وغیرہ کی بھی ضرورت نہیں یہی تفصیلات کی ضرورت مسائل میں ہوتی ہے.لیکن یہ مباہلہ واقعہ کے متعلق ہے.وہ کہتے ہیں احمدی رسول کریم صلی علہ علیہ وسلم کی مہک کرتے ہیں اور مکہ مکرمہ کی عزت نہیں کرتے.اور ہم کہتے ہیں یہ غلط ہے.باقی رہے مباہلہ میں شامل ہونے والے آدمی سو ہم نے کسی چھوٹی موٹی جماعت کو چیلنج نہیں دیا بلکہ آٹھ کر دو مسلمانان ہند کی واحد نمائندہ جماعت کو دیا ہے.Jaro الفصل 19 رستم مد *

Page 277

۲۴۱ اور اتنی با اثر جماعت پانسو یا ہزار آدمی ایک محلہ سے جمع کر سکتی ہے.ہاں اپنی جماعت کے دوستوں کی سہولت کے لئے میں یہ کہتا ہوں کہ مباہلہ کے دن کے فیصلہ کا اعلان پندرہ روز پہلے ضرور ہور بھانا چاہیے کیونکہ ہماری جماعت کے دوست دُور دُور سے اس میں شامل ہو نیکی خواہش کر یں گے اس لئے جس وقت ان کا آدمی ہمارے آدمی سے گفتگو کرے اور ضروری امور کا تصفیہ ہو جائے اس کے پندرہ روز بعد مباہلہ ہو نے لے شرائط مباہلہ میں حضرت امیر المومنین چون دل سے چاہتے تھے کہ کسی طرح احرار میدان مباہلہ تغیر تبدیل کی پیشکش میں آجائیں اور مک میں فیصلہ کی سائبر ہو جائے.لہذا آپ نے مباہلہ کی اپنی شرائط پر اصرار کرنے کی بجائے اعلان کر دیا کہ :- میں ہر گنہ اس بات کا مدعی نہیں کہ جو شرعیں مباہلہ کے متعلق میری طرف سے پیش کی گئی ہیں ان میں رد و بدل نہیں ہو سکتا.میرے نزدیک دوسرے فریق کو کامل حق ہے کہ وہ اعتراض کہ کے مثلاً ثابت کر دے کہ فلاں شرط شریعیت کے خلاف ہے یا فلاں شرط نا من العمل ہے یا فلاں شرط جو پیش کی گئی ہے اسے بہتر فلاں شرط ہو سکتی ہے.یہ تینوں حق احرار کو حاصل ہیں اور اگر وہ کسی وقت بھی ثابت کر دیں کہ میری پیش کردہ شرائط شریعت کے خلاف ہیں یا عملی لحاظ سے ناممکن ہیں یا ان سے بہتر شرائط فلاں فلاں ہیں تو میں ہر وقت ان شرائط میں تغیر و تبدل کرنے کے لئے تیار ہوں" سے مسائلہ ٹالنے کے لئے حضرت خلیفہ ایسی انسانی کا پینج جماعت احمدیہ کی طرف سے بڑے بڑے پوسٹروں اور پمفلٹوں کی صورت میں بکثرت شائع کیا جارہا تھا کہ احرار کھانا پسندیدہ رویہ اور حضور کے نمائندگان محلوں پر خط اتوار لیڈروں کے نام سکھ رہے تھے مگر احرار لیڈر مباہلہ پر آمادگی کا پراپیگنڈا کرنے کے باوجود تصفیہ شرائط کے بارے میں بالکل چُپ سادھے بیٹھے تھے.ہاں یہ ضرور تھا کہ وہ گاہے گا ہے کسی مولوی کے نام کے ساتھ لیے پوڑے القاب درج کر کے اُسے قادیان بھجوا دیتے جو مسجد ارائیاں میں ساٹھ ستر افراد کے درمیان کھڑے ہو کر کہہ جاتا کہ مرزائی فرار کر گئے.حالانکہ نہ شرائط کا تصفیہ کیا نہ تاریخ مباہلہ کی تعیین ہوئی اور نہ نمائندگان جماعت کو کوئی تحریر کی جواب دیا گیا.شہ له - الفضل اس نمبر ۳ م ج له الفضل پور وکتور پر اس دار وحدت کالم موت ہے.ایضاحت کے ه الفضل در اکتوبر ر و ه - الفضل در اکتو بر اره مست کالم ۲-۳ +

Page 278

جماعت احمدیہ کی طرف سے جب احرار کو بار بار تصفیہ شرائط کر کے میدان مباہلہ میں آنے کیلئے شکارا گیا تو انہوں نے ماہرہ سے گریز کیلئے پہلا قدم یہ اٹھایا کہ حضرت خلیفہ اسیع کی واضح تصریحات کے با وجود ) ایک تو یہ مشہور کہ دیا کہ امام جماعت احمد یہ دوسرے احمدیوں کو تو پیش کرتے ہیں مگر خود مباہلہ کرنے پر آمادہ نہیں.دوسرے یہ کہا کہ مباحثہ کے لئے قادیان کی بجائے لاہور یا گورداسپور کی تعیین کیوں کی جاتی ہے ؟ حضرت خلیفہ مسیح الثانی چونکہ احرار کو بھاگنے کا کوئی موقعہ نہیں دینا چاہتے تھے.اس لئے حضور نے صاف لفظوں میں اعلان کر دیا کہ :.مباہلہ میں شامل ہونے والا اول وجود میرا ہو گا اور رہے پہلا مخاطب میں اس دعوت مباہلہ کا اپنے آپ کو ہی سمجھتا ہوں اور نہ صرف میں خود مباہلہ میں شامل ہوں گا.بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تمام بالغ اولاد جو آسانی سے جمع ہو سکتی ہے اس مباہلہ میں شام ہوگی.پس اس معاملہ میں یہ کہنا کہ ہمیں اپنے آپ کو الگ رکھتا ہوں لوگوں کو دھوکہ و فریب میں مبتلا کرنا ہے.میرا د جود سب سے مقدم ہے اور میں سب سے پہلے اس مباہلہ میں شامل ہوں گا یہ ہے.باقی رہا قادیان میں مباہلہ کئے بجانے کا احراری مطالبہ تو حضور نے پوری فراخدلی سے یہ اجازت دے دی کہ :.میرا اس میں کوئی حرج نہیں بے شک وہ قادیان اگر ہم سے مباہلہ کرلیں.سکے بکہ یہ بھی فرمایا کہ.اگر قادیان میں مباہلہ کرنے کا شوق ہو تو وہ خوشی سے قادیان تشریف لے آئیں بلکہ ہماری زیادہ خواہش یہ ہے کہ وہ ہمارے ہی مہمان نہیں ہم ان کی خدمت کہیں گے انہیں کھانا کھلائیں گے ان کے آرام اور سہولت کا خیال رکھیں گے اور پھر اُن کے سارے بوجھ اٹھا کہ انشاء اللہ ان سے مباہلہ بھی کریں گے " سے احرار لیڈروں کا مطالبہ احرار لیڈروں کا ایک مطالبہ یہ بھی تھاکہ وہ اپنی تقریر سالامیں حضرت کا اور اس کا جواب سیح موعود عليه الصلوۃ والسلام کی وہ تحریرات پڑھیں گے جن میں ان کے نزدیک رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہتک کیگئی ہے.ه الفضل و اکتوبر ٣ ٣٥ : نه ایضاحت کالم ہے سے ایضا حت کالم ۴ * / +

Page 279

۲۴۳ " اور پھر قسم کھا کر کہیں گے کہ ان سے اگر رسول کریم صلی الہ علیہ والہ وسلم کی بہنک ثابت نہیں ہو تی تو ان پیر عذاب ناندل ہے.حضرت امیر المومنین نے اس مطالبہ کی معقولیت کو تسلیم کرتے ہوئے فرمایا :- میرے نزدیک یہ بالکل درست بات ہے اور ان کا حق ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی اس قسم کی تحریریں پڑھیں.بیس پچیس منٹ میں وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایسی تحریرات پڑھ سکتے ہیں جن سے ان کے خیال میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک ثابت ہوتی ہے.ہم بیس پچیس منٹ میں ان تحریروں کا جواب دیدیں گے یا ایسی تحریریں پڑھ دیں گے جن سے ان کی پیش کردہ تحریروں کی تشریح ہوتی ہو.پس یہ ان کا حق ہے جسے ہم تسلیم کرتے ہیں.وہ اپنی تحریریں کو سامنے رکھ کر مگر ان کے سیاق و سباق کو ساتھ مل کر مؤکد بعذاب قسم کھا سکتے ہیں.مگر یہ ضروری ہے کہ تحریریں صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی ہوں کسی اور احمدی کی نہ ہوں.کیونکہ اور احمدیوں سے بعض دفعہ غلطی بھی ہو جاتی ہے اور پھر ان غلطیوں کی اصلاح بھی ہو جاتی ہے لیکن ہر حال دوسروں کی تحریہ محبت نہیں ہو سکتی صرف وہی تحریریں پیش ہونی چاہئیں جو حضرت میسج موعود علیہ السلام کی ذاتی ہوں.کیونکہ ان کے متعلق ایک لحظہ کے لئے بھی ہمیں یہ خیال نہیں آسکتا کہ انمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ی بنک کی گئی ہے.ہم نے حضرت میں موعود علیہ الصلوة داستام کی باتیں خود اپنے کانوں سے سنیں.آپ کے طریق عمل کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور آپ کی پاکیزہ زندگی کا روز و شب مشاہدہ کیا.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات پڑھی جائیں.یا نہ پڑھی جائیں.ہم تو ہر تحریر کو مد نظر رکھتے ہوئے ملک حضرت سیح موعود علیہ اسلام کے ان خیالات کو مد نظر رکھتے ہوئے جن کو ظاہر ہونے کا موقعہ نہیں ملا ہر وقت قسم کھانے کیلئے تیار ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ و السلام نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین نہیں کی.بھلا ان آنکھوں سے دیکھنے کے بعد بھی کوئی شہ رہ سکتا ہے.منشی روڑے خان صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشہور صحابی گذر ہے ی کپور تھل میں تیار تھے.ایک دو کا ذکر ہے مولوی شا اللہ اب کپور تھلہ یا کسی قریر کے مقام پر گئے توا کے دوست انہیں بھی مولوی صاحب کی تقریر سنانے لے گئے.مولوی ثناء اللہ صاحب نے اپنی تقریر میں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر اعتراضات کئے تو منشی کوڑے خاں صاحب کے ساتھی بہت خوش ہوئے اور انہوں نے بعد میں انہیں کہا آپنے دیکھا مرزا صاحب پر کیسے کیسے اعتراض پڑتے ہیں منشی صاحب

Page 280

کہنے لگے تم ساری عمر اعتراض کرتے رہوئیں نے تو اپنی آنکھوں سے مرزا صاحب کو دیکھا ہے انہیں دیکھنے کے بعد اور ان کی سچائی کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرنے کے بعد میں کس طرح تمہاری باتیں مان سکتا ہوں.ہماری جماعت میں ابھی تک سینکڑوں نہیں ہزاروں وہ لوگ زندہ ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اپنی آنکھوں سے دیکھا.سینکڑوں نہیں ہزار دن وہ لوگ زندہ ہیں جنہوں نے آپ کی باتیں اپنے کانوں سے سنیں سینکڑوں نہیں ہزاروں وہ لوگ زندہ ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے اس عشق کا معائنہ کیا جو آپ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ آپ وسلم کے ذات سے تھا.سینکڑوں نہیں ہزاروں وہ لوگ زندہ ہیں جن کے دلوں میں سول کریم صلی الہ علیہ وسلم سے محبت اور عشق کی لہریں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام اور آپ کی قوت قدسیہ سے پیدا ہوئیں.اس کے بعد اگر ساری دنیا بھی متفق ہو کہ یہ کہتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواة د السلام نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کی تو بجز اس کی ہمارا کوئی جواب نہیں ہو سکتا کہ لعنه الله علی الکاذبین.اور ہم ہر وقت ہر میدان میں یہ قسم کھانے کے لئے تیار ہیں کہ خدا تعالٰی کی شدید سے شدید لعنت ہم پر اور ہمارے بیوی بچوں پر ناندل ہو.اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواة والسلام نے شہر بھر بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کی ہو یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہتک کو کبھی برداشت کیا ہو یا حضرت مسیح موعود علیہ السّلام سے بڑھہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وستم کا کوئی عاشق اس امت میں پیدا ہوا ہو.پس اس کے لئے ہمیں کسی قسم کی شرط کی ضرورت نہیں.یہی بخشیں کرنے کی حاجت نہیں.اگر وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالے پر معنا چاہتے ہیں تو بیس پچیس منٹ اس کے لئے کافی ہیں اور اتنا وقت انہیں دیدیا جائیگا.اور اتنے ہی وقت میں ہم جواب دیدیں گے اور اگر وہ زیادہ وقت کی خواہش کریں تو جس قدر مناسب وقت کی ضرورت ہو اُن کو دے دیا جائے گا اور اسی قدر وقت میں ہم جواب دے دیں گے لے مباہلہ میں شرکت کے لئے احمدیوں کی طر سے بالا میں شریک ہونے کا جو بے پناہ ذوق و مباہلہ کا احمدیوں کا جوش و خروش شرق دیکھنے میں آیا وہ ایک فقید المثال مظاہرہ تھا.مخلصین جماعت کے کانوں تک جو نہی حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی آواز ه روز نامه الفضل قادیان مور خود را کتوبر ۳۵ د ملات

Page 281

۲۴۵ الان مباہلہ کی نسبت پہنچی.انہوں نے دیوانہ وار تار دیئے کہ ہیں اس مباہلہ میں شریک ہونے کی فر در سعادت بخشی جائے یہ اکتو بر دار کے آخری ہفتہ تک قریبا ایک ہزار احمدیوں کی درخواستیں حضرت امیرالمومنین کی نفرتیں پہنچ چکی تھیں جن میں نہایت ہی اخلاص ملکہ لجاجت سے درخواست کی گئی تھی کہ مباہلین میں ان کو بھی شرکت کا موقعہ عطا کیا جائے.درخواست کر نیوالے ۱۵۲۷ احمدیوں کی ابتدائی فہرستیں انہی دنوں اختبار الفضل میں شائع کر دی گئی تھیں یکے احرار کا صداقت مسیح موعود پر اتوار لیڈروں نے جماعت احمدیہ کا یہ ولولہ اور تجزیہ دیکھا تو بہت پریشان خاطر ہوئے اور انہوں نے ادر کا کیا کہ وه مسالہ کا چیلنج اور اس کی منظوری صداقت مسیح موعود پر بھی باہر کریں گے حضرت خلیفہ ہیں مباہلہ ایچ الثانی نے احرار کا یہ چیلنج بھی نظور کرلیا.اور نہایت تحدی کے ساتھ اعلان فرمایا کہ :- یہ مباہلہ بھی ضرور ہو مگر اس سے علیحدہ ہو وہ اس کے لئے دو سر پا نسور آدمی لائیں.اور ہم بھی ایسا ہی کریں گے.ہاں لیڈر وہی ہوں.ان کے وہی پانچوں لیڈر ایک مباہلہ میں شامل ہوں اور وہی دوسرے میں.اوہر کئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے مرد حبر اور ناظر دونوں میں شریک ہوں گے اور پانچ پانچ سو آدمی دونوں کے لئے علیحدہ علیحدہ ہوں گے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کوئی ایسی چیز نہیں جس پر مباہلہ کرنے سے ہمیں گریز جو.ہم آپ کی صداقت پر جہاں وہ چاہیں قسم کھانے کو تیار ہیں.بلکہ حضرت سیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ہی ہم نے اسلام کی صداقت سمجھی ہے.ورنہ میں رنگ میں یہ مولوی اسلام کو پیش کرتے ہیں اس رنگ میں کون معقول شخص مان سکتا ہے.جو نا معقول یہ کہتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پھوپھی زاد بہن کو دیکھا اور نعوذ باللہ اس پر عاشق ہو گئے.ایسے بیوقوفوں کے بتائے ہوئے اسلام کو کون مان سکتا ہے.خدا تعالی کا بتایا ہوا السلام تو وہ ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عصمت کو ثابت کرتا ہے جو صحیح احادیث میں ہے مگر کون ہے جو ہمیں قرآن کریم کی طرف لایا.صحیح احادیث کی طرف لایا.یا تازہ نشانات کی طرف لایا.یہ سب کچھ ہمیں مسیح موعود علیہ الصلواة و السلام کے ذریعہ سے ملا.اور اس کے بعد کون کہہ سکتا ہے کہ ہم آپ کی صداقت کے متعلق مباہلہ کر نے سے ایک منٹ کے لئے بھی پس و پیش کر سکتے ہیں.ہم اس کے لئے تیار ہیں اور - الفضل بر اکتوبر ۳۵ مک کالم ۲-۳ بیے ملاحظہ ہوالفضل ۲۴ اکتوبر ۱۹ نومبر ۱۹۳۵ء تا۱۶

Page 282

Ky ہر میدان میں تیار ہیں.لیکن احرار اس کے لئے علیحدہ پانسو آدمی لائیں.ہم بھی علیحدہ لائیں گے اور اسطرح دو مباہلے ہوں تالِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ كا نظارہ دنیا دیکھ کے.انہیں یا د رکھنا چاہیے کہ خالی مسجد ارائیاں میں تقریہ کہنے سے کام نہیں چل سکتا وہ با قاعدہ شرائط طے کریں.بلکہ میں نے تو یہاں تک کہدیا تھا کہ مجھے اپنی پیش کردہ شرائط پر اصرار نہیں.انہیں اگر کوئی شرط بو جھیل معلوم ہوتی ہو تو ا سے پیش کریں.میں چھوڑنے کو تیار ہوں.مگر پر ضرور ہے کہ مباہلہ ہو ایسے رنگ میں کہ اللہ تعالیٰ کا زندہ نشان دُنیا کو نظر آجائے.اس کے بعد اللہ تعالی فرماتا ہے.ان اللہ کسیح علیہ اس میں بتایا ہے کہ جب بھی مومن اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کریں گے وہ ضرور ان کی دعاؤں کو سُنے گا.پس میں اعداد کو پھر ایک دفعہ توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس پیالہ کو ٹالنے کی کوشش نہ کریں.شرائط طے کر لیں.کسی شرط پر انہیں اگر اعتراض ہو تو اُسے پیش کریں اور اس طرح فیصلہ کر کے مسائلہ کر لیں لے تصفیہ شرائط کئے بغیر حضرت خلیفہ اسی انسانی کے بار بار تصی شرایط پر زور دینے کا رد عمل یہ ہوا کہ احرار نے یکطرفہ کا روائی کر کے تصفیہ شرائط کئے تاریخ مباہلہ کا تقریر بخیر تاریخ مباہلہ مقررہ کر لی.چنانچہ مولوی مظہر علی صاحب اظہر سیکوری ور نمائندہ مجلس احرارہ کی طرف سے نم در اکتو بر شداد کو حضور کے نام سیا لکوٹ سے تار آیا کہ مجلس احرار کی جانب سے مباہلہ کی تاریخ ۲۳ نومبر مقرر کی گئی ہے لیے حضور کو اس تار سے بہت تعجب ہوا کہ خطوط کا جواب تک نہیں دیا جاتا، شرائط کے متعلق کچھ لکھا نہیں جاتا اور ایک ماہ سے زائد عرصہ کے بعد تین کام کی تاریخ مقرر کی جاتی ہے اس کی اطلاع بذریعہ تار دی جاتی ہے.حالانکہ یہ اطلاع ایک ریٹری خط کے ذریعہ سے بھی آسکتی تھی.حضرت لیفہ مسیح انسانی کی ضرت خلیفہ المسیح الثانی نے فریق ثانی کی جملہ گری اور ٹال مٹول کے با وجود ان پر اتمام حجت کی غرض سے مناسب سمجھا کہ ان سے طرف سے احرار پر اتمام محبت نہ بارہ پوچھ لیا جائے کہ تصفیہ شرائط کے بارے میں آپ نے کچھ نہیں لکھا ہے.چنانچہ ناظر دعوت و تبلیغ کی طرف سے سر امام علی صاب اظہر کو جواب بھجوایا گیا کہ اگر آپ مباہلہ پر واقعی تیار ہیں تو پہلے شرائط کا تصفیہ کر لیں.اخبار الفضل کے جن پر چوں ه - هست.الفضل قادیان مورخه در راکتوبر ۳۵ کار است : سه - الفضل ۱۷ اکتوبر ۳ رد صلي

Page 283

۲۴۷ میں ان ہماری مجوزہ شرائط کا ذکر ہے وہ آپ کی مزید واقفیت کے لئے آپ کو بھجوائے جارہے ہیں.انہیں ملاحظہ فرما کہ اپنی رائے سے ہمارے مقرر کردہ نمائندگان کو مطلع فرمائیں.شرائط و تاریخ و مقام مباہلہ وغیرہ کا تعین ہمیشہ فریقین کی رضا مندی سے ہوتا ہے.پس آپ اگر ہماری پیش کردہ شرائط کو بھی مانتے ہیں تو بھی اور اگر کسی میں ترمیم کے خواہشمند ہیں تو پھر بھی جماعت احمدیہ کے مقرر کردہ نمائندگان سے گفت و شنید کرکے فیصلہ کا صحیح طریق اختیار فرمائیں محض اپنی طرف سے ایک تاریخ مقرہ کر کے تار دے دنیا کوئی نتیجہ نہیں پیدا کر سکتا " اے اب بظا ہر خیال کیا جاتا تھا کہ اس مکتوں کے بعد احرار کوئی اعتراض نہیں اٹھائیں گے لیکن ہوا یہ کہ اگرچہ اخبار مجاہد" میں مجمل طور پہ یہ ضرور شائع کر دیا گیا کہ ہمیں سب شرطیں منظور ہیں اور ہم ضرور مباہلہ ہیں گے.لیکن اس گول مولی اعلان کے بادہ خود مجلس احرار نے اب بھی باقاعدہ تحریر کی جواب سے بالکل پہلو تہی اختیار کی جسے مباہلہ جیسے انتہائی ذمہ داری کے معاملہ میں کوئی سنجیدہ کوشش کی بجائے محض ایک مذاق یا استہزاء کا نام دنیا زیادہ مناسب ہو گا خصوصا ا سلئے کہ اس اعلان سے حضرت خلیفہ مسیح الثانی کی پیش فرمودہ ہر اہم شرط بالکل مہم مشکوک اور مشتبہ ہو کے رہ گئی مثلاً اقول:.اس اخباری اعلان سے اس پر کوئی روشنی نہیں پھرتی تھی کہ جماعت احمدیہ پانچ سو افراد تیار کرے یا ہزارہ نیز احرار کے مباہلین کی تعداد کتنی ہو گی ؟ دوم :.اس مجمل اعلان میں اس بات کی بھی کوئی وضاحت نہیں تھی کہ مقام مباہلہ کو فنا ہو گا؟ لاہور ، گورداسپور یا قادیان - سوم :.مباہلہ کے وقت کا بھی کچھ پتہ نہیں چلتا.چہارم :- ایک اہم بات یہ تھی کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے شرائط مباہلہ میں یہ درج تھا کہ طرفین کے نمائندے جب ضروری امور کا تصفیہ کر لیں گے تو تاریخ مباہلہ مقرہ کی جائے گی حجر اس تصفیہ کے پنڑہ دن بعد کی ہونی چاہیئے.اسکی دو ہی معنے بنتے تھے یا یہ کہ تاریخ مباہلہ خود حضرت خلیفہ انسیس مقرر کریں گے بل طرفین کی منظوری سے اس کا تعین ہوگا.لیکن احرار کی ستم ظریفی ه - الفضل ، راکتو بر اصل کالم ۲۳ : ے.مولوی شاء اللہ صاحب امرتسری نے لکھا.کچھ شک نہیں کر سیاہ ہیں چونکہ عاجزی کیسا تھا اس فیصلہ طلب کیا ماتا ہے اسلئے کسی فریق کو مبادی میں الجھنا مناسب نہیں ہوتا اور نہایت صبر وسکون کے ساتھ محض دعا کی جاتی ہے کہ دا الحدیث نومبر له (ص)

Page 284

احظہ ہوں کہ ایک طرف مسٹر مظہر علی صاحب اظہر نے یہ اعلان کیا کہ سب شرایط منظور ہیں مگر دور کی طرف از خود تاریخ مباهله معین کر دی.ای امداد کی یہ ناقابل فہم روش و کلینکر حضرت خلیفہ ایک اشانی لینت ربیع الثانی کا لفی بیان نے سو اکتو بر شکار کو ایک مفلٹ لکھا جس میں ۳۰ مسلمانان ہند کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ "یکی امید کرتا ہوں کہ سب بھی پسند احباب اب معاملہ کو سمجھ گئے ہوں گے اور وہ احرار پر زور دیں گے کہ مباہلہ کی تفصیلی شرائط جماعت احمدیہ کے نمائندوں سے طے کر کے تاریخ کی تعین کریں اور اس طرح خالی اخباری گھوڑے سے روڈہا کہ اس نہایت اہم امر کو ہنسی مذاق میں نہ لگائیں.اے یہی نہیں حضور نے اسی پمفلٹ میں احرار کے جواب کا انتظار کئے بغیر سندرجہ ذیل علیہ اعلان شائع فرمانه یا کہ: ر میں اس خدائے قہار وجبار - مالک دمختار معتر در ذیل تھی اور حمیت کی قسم کھا کر کہتا ہوں جینی مجھے پیدا کیا ہے اور جس سے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میرا اور سب جماعت احمدیہ بالیقیت جماعت یہ عقیدہ ہے اور اگر کوئی دوسرا شخص اس کے خلاف کہتا ہے تو وہ مردود ہے ہم میں سے نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم افضل الرسل اور سید ولد آدم تھے.یہی تعلیم نہیں بانئی سلسلہ احمدیہ علیہ الصلواۃ والسلام نے دلی ہے اور اسی پر ہم قائم ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت اپنے آپ کو جانتے ہیں اور سب عزتوں سے زیادہ اس عزت کو سمجھتے ہیں.بیشک ہم بانی سلسلہ احمدیہ کو خدا کا نامور اور مرسل اور دنیا کے لئے ہادی سمجھتے ہیں.لیکن ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ آپ کو جو کچھ علادہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے طفیل.اور آپ کی شاگردی سے ملا تھا.اور آپ کی بعثت کا مقصد صرف اسلام کی اشاعت اور قرآن کریم کی عظمت کا قیام اور رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم کے فیضان کو جاری کرنا تھا اور جیسا کہ آپ نے خود فرمایا ہے.این چشمه ر دال که مخلق من داد هم یک قطره نه بحر کمال محید است و این آتشم زه آتش میر محمدی است و این آب من زرآب زلال محمد است آپ جونور دنیا میں پھیلاتے تھے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کا ایک شعلہ تھا اور بس.۱۹۲۵ ه الفضل دار نومبر ۳۵ مت :

Page 285

۲۴۹ آپ رسول کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جدا نہ تھے اور نہ ان کے مد مقابل اور اسی طرح یه که مکه مکره را در مدینه منور دنیا کے دوسرے سب مقامات سے جن میں قادیان سبھی شامل ہے افضل اور اعلی ہیں اور ہم احمدی بحیثیت جماعت ان دونوں مقامات کی گہری عززت اپنے دلوں میں رکھتے ہیں اور انکی عزت پر اپنی عزت کو قربان کرتے ہیں اور آئندہ کرنے کیلئے تیار ہیں اور میں خدائے واحد و قہار کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اس اعلان میں کوئی بوٹ نہیں بوئی رہا.میرادل سے یہی ایمان ہے اور اگر میں جھوٹ سے یا اخفاء یا دھوکہ سے کام لے رہا ہوں تو میں اللہ تعالیٰ سے عاجزانہ دعا کرتا ہوں کہ اسے خدا ! ایک جماعت کا امام ہونے کے لحاظ سے اس قسم کا دھوکا دنیا نہایت خطرناک فساد پیدا کر سکتا ہے.پس اگر میں نے اوپر کا اعلان کرنے میں جھوٹ ، دھو کے یا چالبازی سے کام لیا ہے تو مجھے پرا اور میرے بیوی بچوں پر لعنت کر.لیکن اگر اسے خدا میں نے یہ اعلان سچے دل سے اور نیک نیتی سے کیا ہے تو پھر اے میرے رب یہ جھوٹ جو بانی سلسلہ احمدیہ کی نسبت میری نسبت اور سب جماعت احمدیہ کی نسبت بولا جاتا ہے تو اس کے ازالہ کی خود ہی کوئی تدبیر کا اور اس ذلیل دشمن کو جو ایسا گندہ الزام ہم پر لگا تا ہے یا تو ہدایت دے یا پھر اسے ایسی مزاد ے کہ وہ دوسروں کیلئے عبرت کا موجب ہو.اور جماعت احمدیہ کو اس تکلیف کے بدلے میں جو صرف سچائی کو قبول کرنے کی وجہ سے دیجاتی ہے عزت کامیابی اور غیر معمولی نصرت عطا کہ کہ تو ارحم الراحمین ہے اور مظلوموں کی فریاد کو سنے والا ہو اکہ ہم امین اسے کتنے دالو سنو کہ میں نے اپنی طف سے قسم کھائی ہے اورقسم کھا کہ اس عیب سے کا اعلان کر دیا جس پر میں اول دن سے قائم ہوں.اب احمرار یہ نہیں کہ سکتے کہ میں مباہلہ سے گریز کرتا ہوں.ی اللہ تعالیٰ سے امید کرتا ہوں کہ مباہلہ ہو یا نہ ہو.اللہ تعالیٰ کی نصرت اس میری قسم کی وجہ سے یا کی وجہ جماعت احمدیہ کو نصیب ہوگی اور پیش آمدہ استبلاؤں یا آئندہ آنیوالے انتہاؤں سے انکو نقصان نہ پہنچے گا بلکہ انہیں زیادہ سے زیادہ کامیابی حاصل ہوگی.بیشک ابتلا خدا تعالی کی قائم کردہ جماعتوں کیلئے ضروری ہیں مگر اصل شے نتیجہ ہے جو ہمیشہ ان کے حق میں اچھا اور ان کے دشمن کے حق میں برا ہوتا ہے.اور اب بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ سے یہی سلوک ہو گا نا لے نافراد دعوت تبلیغ گویند نمایندگی اا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ال ادا کر دیا تھا اور احتداری لیڈروں کے لئے راہ فرار اختیار کرنے کی کوئی ه الفضل ا نومی ۱۹۳۵ مٹ :

Page 286

۲۵۰ گنجائش باقی نہ رہی.تاہم حضرت امیرالمومنین شرایط مساجد کے تصفیہ کا معاملہ فی الفور کے کرنے کیلئے اپنی طرف ناظر و قوت و تبلیغ کو سند نمائندگی کھدی.چنانچہ لکھا :- ماعي " مکرمی ناظر صاحب دعوت و تبلیغ السلام علیکم ورحمته اله و برکان...آپ میری طرف سے اس غرض کیلئے نمائندے ہیں.آپ جلد سے جلد احرار کے نائندہ سے را کے کرکے باہر کی تاریخ کا اعلانکی دین اسلام خاکسار مرز امحمود احمد خلیفة المسیح الثانی به یہ سند ناظر صاحب دعوت و تبلیغ نے سر نومبر کو سکوٹری صاحب مجلس احرار کو بھی بھجوا دی اور ساتھ ہی اُن کے نام مفصل سمیٹی تھی جب کے آخرمیں تحریر کیا کہ - اگر آپ سبابہ سے گریز نہیں کہ رہے اور سنجیدگی سے مباہلہ کرنے کے خواہاں ہیں تو آپ وقت اور مقام مقرر کر کے مجھے اطلاع دیں جہاں پر میں آپ سے شرائط کے کرنے کیلئے حاضر ہو جاؤں اور پھر شرائط ضبط تحریر میں لا کہ اس پر فریقین کے نمائندوں کے دستخط ہو جائیں اور پھر متفقہ طور پر مباہلہ کے انعقاد کی تاریخ مقرر کر کے اعلان کر دیا جائے " ہے اقرار کی طرف سے تحریف ور مباہلہ کے اس خط کے جواب می می سارا نے اپنے گذشتہ رویہ اس مجلس کو اور بھی ناخوش گوار بنالیا اور بجائے صحیح طریق اختیار کرنے کے تحریف سے کام لینا شروع کر دیا چنانچہ مٹر مظہر کی ام قادیان میں ہنگامہ کھنکار کر صاحب اظہر (جنرل سیکوری ایران نے چنیوٹ ضلع جھنگ نہیں بیان کیا کہ میں نے قادیان جاکر کہا تھا کہ مبابطہ قادیان میں ہونا چاہیئے اور مرزا صاحب کی صداقت پر ہونا چاہیئے.اور مرزا محمد نے تسلیم کردیا ہے؟ اسی طرح سید فیض الحسن صاحب سجادہ نشیں آلو مہار صدر مجلس احرار پنچا اپنے بھی اپنی تقریر مینوٹ میں کہا کہ مرزا محمود نے مجلس احرار کو چیلنج دیا ہے کہ آؤ مجھ سے مزنہ ا کی نبوت پر قادیان آگرہ مباہلہ کرو زعمائے احمرار نے مرزا محمود کے اس چیلنج کو قبول کر لیا ہے " ہے ظاہر ہے کہ یہ دونوں بیانات واقعہ کے صریحا خلاف اور غلط بیانیوں پر مبنی تھے.کیونکہ ۱- حضرت خلیفہ ایسیح الثانی نے چیلنج اس امر کا دیا تھا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی - الفضل در نومبر ۹۳۵ مرد صب : - اور در له الفضل ۱۷ نومبر ۱۹۳۵ در ۲ : اختبار مجاہد " (لاہور 4 نومبر ۱۱۳ دمت بحوالہ الفصل ۱ نومبر ۳۵ درصد کالم ہے

Page 287

۲۵۱ محبت کا فیصلہ کرنے کے لئے لاہور یا گورداسپور میں مباہلہ کر لیں.۲.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کے دعوی سے متعلق مباہلہ کے چیلنج کو حضرت خلیفہ ایسیح کی طرف منسوب کیا.حالانکہ یہ چیلنج خود احرار کی طرف سے تھا.۳- صدر مجلس نے کہا کہ مرزا محمود نے قادیان اگر مباہلہ کرنے کا چیلنج دیا.حالانکہ یہ تجو یا حراس کی تھی حضرت خلیفہ مسیح اشانی نے تو احرار کے اصرار پر قادیان کو مقام مباہلہ قرار پانے کی اجازت دی تھی.جنرل سیکرٹری صاحب احرار کے فقرہ سے یہ مترشح ہوتا تھا کہ گویا حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے تسلیم کر لیا ہے کہ مباہلہ قادیان میں ہی ہونا چاہیئے.اور بانی سلسلہ احمدیہ کی صداقت کے متعلق ہی ہونا چاہیئے نہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بہتا کے الزام کے متعلق بیس کا مطلب یہ تھا کہ گو یا حضور نے مصل بنائے مباہلہ کو ترک کر دیا ہے.حالانکہ یہ بالکل غلط تھا.حضور نے کبھی بنائے سائل کو نظر انداز نہیں ہونے دیا بلکہ اس کے برعکس یہ واضح اعلان فرمایا کہ ہم احرار سے صداقت مسیح موعود پر بھی مباہلہ کرنے کو تیار ہیں بیشتر میکہ یہ مباہلہ پہلے مباہلہ سے الگ ہو اور اس کے لئے الگ پانچ وہ آدمیوں کی تعداد دونوں فریقوں کی طرف سے پیش کی جائے لے احرار کی یہ حرکت بہت افسوسناک تھی.مگران خدا نا نیں لوگوں نے مزید ظلم وستم یہ کیا کہ مباہلہ کے نام پر قادیان میں ہنگامہ بر پا کرنے کی تیاریاں شروع کردیں اور تصفیہ شرائط سے گریز کر کے ملک بھرمیں یہ عام تحریک کرنے لگے کہ لوگ ۲۳ نومیت شدید کو ہزاروں کی تعداد میں قادیان پہنچیں اور تو اور خود صدر مجلس احرارہ پنچا نے چنیوٹ کا نفرنس میں بیان دیا : ۲۳ نومبرکو زعمائے احرار اور ہزاروں مسلمان قادیان کے میدان سابلہ میں پہنچ جائیں گئے.اس اعلان سے یہ بات واضح طور پر کھل گئی کہ احرار مباہلہ نہیں مہنگامہ کی تجویزیں سوچ رہے تھے.اس خیال کی مزید تائید مسٹر مظہر کی صفات اظہر کے مندرجہ ذیں بیان سے بھی ہو گئی کہ " پانچ سو اور ہزالہ کی شرط خود مرزا صاحب کی عائد کردہ ہے ہمارے نمائندے ہزار سے بھی بہت زیادہ ہوں گے " کے میناب مظہر علی صاحب اظہر نے محض نمائندوں کی غیر معین اور کثیر تعداد کا ذکر کرنے کے علاوہ اپنے اس بیان میں مباہلہ کی درپردہ اغراض خود اپنے قلم سے بے نقاب کر ڈالیں.چنانچہ انہوں نے لکھا: ۱۹۳۵ ے.مضمون حضرت خلیفہ اسح اخانی ( الفضل ۱۰ار نومبر ۱۹۳۵ ، ص ۲ : انجبار تجاہد اور نومی رحت الجواله ޅ بفضل ارنوبی شامل ہے.اخبار مجاہدہ نومبر ۱۳۵ رمٹ بحوالہ الفضل ، ارنومبر و صلہ کالم ہے

Page 288

۳۵۵۲ " مجلس مباہلہ کا انتظام جس طرح مرز امحمود فرمائیں ہمیں منظور ہو گا فقط یہ احتیاط چاہیئے.کہ مسائلین کو دیکھنے والے لوگوں کی راہ میں رکاوٹ نہ ڈالی بھائے کہ لے نظارہ بینوں کیلئے روک نہ ہونے کے مطالبہ سے بھی معلوم ہوتا تھا کہ احرالہ کے مد نظر مباہلہ نہیں زیادہ ہے.ورنہ مباہلہ میںنہ کوئی لمبی چوڑی تقریہ ہونی تھی اور نہ میدان مباہلہ کوئی تماشہ گاہ ہے کہ اس کے منے کیلئے لوگوں کو تحریک کی جائے.چنانچہ امیر مجلس احرار قادیان کی طرف سے انہی دنوں قادیان کے نواحی علاقہ میں ایک اشتہار شائع کیا گیا جس میں سکھا : - 13 پچھلے سال قادیان میں جو کا نفرنس ہوئی تھی اس نہیں نصف لاکھ کے قریب سلمان جمع ہوئے تھے حالانکہ کانفرنس کا پہلا سال تھا.اس سالن انشاء اللہ لکھوں کی تعداد میں مسلمان قادیان میں جمع ہونے والے ہیں " سے اس اشتہار نے جو مین مسائل کی گفتگو کے دوران تقسیم کیا گیا.حقیقت پوری طرح واضح کر دی ، کہ احرار کا قادیان میں آنا مباہلہ کے لئے نہیں محض ہنگامہ بپا کرنے کے لئے ہے احراری کاروائی کا پس منظر اب ہم یہ بتاتے ہیں کہ احرار کے اس قسم کے ٹال مٹول سے مطلب کیا تھا.در اصل بات یہ تھی کہ حکومت پنجاب نے احمدی اور اسراری کشیدگی کے پیش نظر اپنے سرکار غیر بی ام و امین امین بی مورخہ ہار جولائی شلوار کے ذریعہ احمدار کو شہ ء میں قادیان کا نفرنس کرنے سے روک دیا تھا.لیکن جب انہوں نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا چیلنج پڑھا تو انہوں نے سوچا کہ مباہلہ تو خیردیکھا جائیگا اس موقعہ سے فائدہ اٹھا کہ ہم حکومت سے بر سر پیکار ہوئے بغیر قادیان میں کا نفرنس کہ میں گئے.کیونکہ مباہلہ کا چیلنج جماعت احمدیہ کی طرف سے ہے اور ہم اُن کے بلائے پھر بھائیں گے اسلئے حکومت بھی ہم کو روکے گی نہیں.چنانچہ یہ امر دل میں رکھکر انہوں نے فیصلہ کیا کہ بغیر اس کے کہ شرائط تحریر میں آئیں ہم مسائلہ کو منظور کر لیں.جب شرائط طے نہ ہوئی ہوں گی تو کئی باتیں میں موقعہ پر ایسی نکل آئیں گی جن کی بناء پر مباہلہ سے انگانہ کیا جا سکے گا.ہاں اس بہانہ سے قادیان میں کا نفرنس کا موقعہ مل جائے گا.- اخبار مجاہد رنویر سه دسته - بحوالہ ۱۰؍ نومبر الفصل ۱۹۳۵ م کالم ۳۰ : ے.بحوالہ الفضل در نومبر ۳۵ درصد کالم ۳ : ۵۳ الفضل ۲۱ نومبر ۳۵ہ مل :

Page 289

۲۵۳ تا ریخ مباہلہ سے متعلق اس قدر عرصہ پہلے اعلان کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اگر وہ حضرت خلیفہ المسیح کی ہے شرط مانتے کہ شرطیں کے ہونے کے بعد تاریخ مقرر کی جائے تو اس صورت میں انہیں ہنگامہ اور کا نفرنس کیلئے لوگوں کو جمع کرنا مشکل ہوتا.اب انہوں نے قریبا ڈیڑھ ماہ پہلے آپ ہی تاریخ مقرر کردی تا اس عرصہ میں لوگوں کو آمادہ کر کے کانفرنس کی تیاری مکمل کر لیں یہ مگر گو حضرت خلیفہ المسیح الثانی سنہ کی نگاہ دور میں شروع ہی سے معاملہ کی تہہ تک پہنچ چکی تھی.مگر اب تو احرار کے در پرندہ عزائم اُن کی زبانوں اور قلموں پر آگئے تھے.لہذا اب جبکہ اصل معامل کھل کر سامنے آگیا حضور یہ کبھی گوارا نہیں کر سکتے تھے کہ آپ کی مخلصانہ دعوت مباہلہ کو ہنگامہ آرائی کا ذریعہ بنالیا جائے یا اس کے نام پر کانفرنس کی طرح ڈالی جائے.چنانچہ حضور نے ارنومبر کس شہد کو مفصل کو الف و حالات سے پبلک کو آگاہ کر دیا اور حکومت اور افزار دونوں کے لئے غیر مبہم الفاظ میں اعلان کر دیا کہ:.میں صاف لفظوں میں کہ دنیا چاہتا ہوں کہ ہم تقادیان میں مباہلہ کے لئے تیار ہیں.مگر کانفرنس کے لئے نہیں.اگر احرار کوفی الواقع مباہلہ منظور ہے تو 1- شرائط طے کر لیں.۲.پھر ایک تاریخ بتراضی طرفین مقرر ہو جائے یہیں کی اطلاع حکومت کو بغرض انتظام دے دی بھائے گی..اگر وہ قادیان میں مباہلہ کرنا چاہتے ہیں تو لوگوں کو جو عام دعوت انہوں نے دی ہے اس کو عام اعلان کے ذریعہ سے واپس لیں.مجلس احرار ہمیں یہ تحریری وعدہ دے کہ مباہلہ کے دن اور اسی چار دن پہلے اور بھار دن بعد کوئی اور عطیہ یا کانفرنس سواتے اس مجلس کے جو مباہلہ کے دن بغرض مباہلہ منعقد ہوگی.وہ منعقد نہیں کریں گے.اور نہ جلوس نکالیں گے.اور نہ کوئی تقریر کریں گے.اور یہ تحریر مجاہدہ میں بھی شائع کر دی جائے.۵.یہ کہ ان کی طرف سے مباہلہ کرنے والوں کے سوا جن کی فہرست ان کو پندرہ دن پہلے دینی ہوگی کوئی شخص باہر سے نہ تحریری نہ زبانی بلایا جائیگا.نہ وہ اس صورت میں کو انہیں ہماری ضیافت منظور لے.الفضل ار نو میر ا صل ہے

Page 290

۲۵۴ نہ ہوں کسی کی رہائش کا یا خوراک کا جماعتی حیثیت میں یا منفردانہ حیثیت میں مذکورہ بالانو ایام میں انتظام کریں گے " لے ہے.مسائل کی جگہ پر مسافر کرنیوالوں او منتظمین اور پولیس کے سوا اور کسی کو جانے کی اجازت نہ ہوگی.اگر درہ مذکورہ بال باتوں پرپیل کرنے کیلئے تیار نہ ہوں.تو ہر حق پسند شخص تسلیم کر لیا کہ اتوار کی نیت مباہلہ کی نہیں.بلکہ اس بہانے سے قادیان میں کانفرنس کر نے کی ہے.س کی یہ واضع طور پر کہ دینا چاہتا ہوں.کہ اس صورت میں ہم قادیان میں نہیں بلکہ گورداسپوریا لاہور میں مباہلہ کریں گے.وہاں وہ بے شک جسقدر آدمیوں کو چا ہیں بلائیں.گو اس صورت میں بھی مباہلہ کرنے والوں علاوہ دوسرے آدمیوں کو میدان مباہلہ میں آنے کی اجازت نہ ہوگی.میر اس اعلان کے بعد بغیر شر اکھٹے کئے کے اور بغیر ایسی تاریخ کے مقرر کئے کے جو دونوں فریق کی رضامندی سے ہو اگر احرار ۲۳ نومبر یا اور کسی تاریخ کو قادیان آئیں تو اس کی غرض محض کا نفرنس ہوگی.نہ کہ مباہلہ اور اس صورت میں اس کی ذمہ داری یا تو حکومت پر ہوگی یا احترار پر.جماعت احمدیہ پر اس کی کوئی ذمہ داری نہ ہوگی " سے اس اعلان کا بھی احرار نے کوئی جواب نہ دیا مگر اپنی گذشتہ روایات کے مطابق عوام کو قادیان میں ا ا جمع کرنے کا پراپیگینڈا سینے جائیں.اس سلسلہ میں انہوں نے صدر آل انڈیا نیشنل لیگ کے نام سے اخبارات میں یہ اعلان بھی کرایا کہ انہیں حضرت امام جماعت احمدیہ کی طرف سے تار موصول ہوا ہے جسمیں ۲۳ نومبر کو قادیان میں سالہ ہونے کی اطلاع دیگئی ہے.حالانکہ اس قسم کا کوئی تار صدر کو قادیان سے نہیں بھیجا گیا اور نہ اس وقت تک سبابہ منعقد ہو سکتا تھا جب تک احرار شرائط کا تصفیہ نہ کرلیں سمجھ لئے و قطعی طور پر تیار نہیں تھے.یہ جعلی تار اصل میں پرو پیگنڈا کی کڑی تھا جو ان کی طرف سے لوگوں کو قادیان میں جمع کرنے کیلئے کیا جار ہا تھا.۳ اعلان پر اعلان جاری رکھے کہ مسلما کثیر تعداد میں ۱۳ نومبر اسلام کو قادیان ۱۹۳۵ در نومب راء کا واقعہ ہے کہ موادی عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری اور مولوی حبیب الرحمن صاحب ہوڑہ ایکسپریس پر امرتسر آرہے تھے.بھو ماں وڈالہ ضلع امرتسر کے ایک احمدی محمد عبد الحق صاحب مجاہد ۱۹۳۵ ۱۰۰ نوید الفضل ۱۲ و ۲۳ کالم ہوا کے الفصل ما تو میرٹ اور منہ کالم : - ۱ ہے.حال گنج مغلپورہ لاہورہ بینہ

Page 291

YAA ۱۹۳۵ نے جو انہی کے کرہ میں بیٹھے تھے بخاری صاحب سے دریافت کیا کہ مباہلہ کے لئے کونسا وقت مقریہ ہوا ہے ؟.انہوں نے جواب دیا " بے وقت ہی مسائلہ ہوگا اور سارا دن ہو گا کہ مجاہد صاحب نے دوبارہ پو چھا کہ مباہلہ کے شرائط کے ہو چکے ہیں یہ بخاری صاحب نے بتایا کہ ہے شرط مباہلہ ہو گیا ہے لے اس پرائیویٹ مجلس کے چند روز بعد بخاری صاحب نے ، ار نومبر شاره که مسیر خیر الدین امر تسر میں فیض الحسن صاحب سجادہ نشین آلو مہار شریف کی صدارت میں تقریر کی جس میں کیا لوگ پوچھتے ہیں کہ مباہلہ ہوگا یا نہیں میاں سنو! ہمیں مباہا ہے کیا.ہو یا نہ ہو.میں تو صرف کہتا ہوں کہ تم قادیان چلو اور کچھ نہ پوچھو.وہاں جمعہ پڑھیں گے.کھائیں گئے ٹینٹوں میں بیٹھیں گے.گائیں گے.سوئیں گے.جلسہ کریں کے تقریریں کریں گے.مرزا محمود کی دعوت کھائیں گے.مرزائی گندے، نجس پلید ہیں ان سے گھن آتی ہے.بدبو آتی ہے (اس پر کسی منچلے نے سوال کیا " جب مرزائی اتنے نجس ہیں تو پھر ان کی دعوت کیسے کھائے گئے اس پر بخاری صاحب نے کہا، میاں تم سیاسیات کو نہیں سمجھتے ابھی کچے تھے.مرزا محمود نے ہمیں مباہلہ کی دعوت تو دی ہے مگر دیکھو ہم اُسے کیسا خراب کریں گے.شرائط شرائط کہتا ہے.شرائط کیا بلا ہوتی ہیں.ہم شرائط کو نہیں جانتے ہم نے اگر مباہلہ کیا تو بے شرائط کریں گے اب تم ہمیں کرد ہیں کرو ہم تم کو تھوڑ نے کے نہیں.رضا کار تیار ہو جائیں.با در دی جائیں جمعرات تک پہنچ جاؤ.والنٹیر اور رضا کار تیار ہو جائیں.جمعہ قادیان جاپڑھو.مباہلہ ہو یا نہ ہو اس غرض نہ رکھو.شرائط کی کوئی ضرورت نہیں ہے......مرزائیوں کے اب آخری دن ہیں.مباہلہ کریں یا ز کریں ہم ان کو مٹا دیں گے.پچاس سال انہوں نے موجیں کرلی ہیں " سے مندرجہ بالا تفصیلات سے ظاہر ہے کہ احرار کی زعماء کی طرف سے بے شرائط مباہلہ کا اعلان احمدیت کی شاندار فتح تھی جس کی انعقاد مباہلہ کے بغیر ہی حق وباطل میں فیصلہ ہو گیا.۱۹۲۵ چنانچہ حضرت امیر المومنین نے ۱۵ نومبر ۱۵ء کو فرمایا : انہیں لالا لالی پرانا یقین ہو تاکہ مجھے ہم سچے ہیں اور مسالہ کر سکتے ہیں تو جس طرح میں نے قسم کھا کہ مباہلہ کہ ہی دیا ہے.یہ لوگ بھی اسی طرح کیوں نہ کر دیتے.وہ اخباروں میں اعلان کر رہے ہیں کہ احمدی مساللہ سے ڈر گئے.حالی بحر میں نے پہلے ہی قسم کھائی تھی اور کیا ڈرنے والا پہلے ہی قسم کھا لیا کرتا ہے.جو الزام دہ لگاتے تھے ان کو مد نظر رکھتے ہوئے اور ان کے مطابق الفاظ میں میں - الفضل ۲۱ نومبر شد و من کالم ۲ تا ۳-۴ : ے.الفضل نومیر ۲۵ حث :

Page 292

۲۵۶ نے قسم شارع کر دی ہے.تاکوئی یہ نہ کہ سکے کہ ماہ سے ڈر گئے ہیں.اسی طرح اگر وہ یقین رکھتے ہیں کہ حضرت سیح موعود علیہ السلام اپنے آپ کو عوز باللہ من ذلک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل سمجھتے تھے.بلکہ آپ پر ایمان نہ رکھتے تھے اور مکہ مکرمہ اور مدینہ سورہ کی عظمت آپ کے دل میں نہ تھی اور آپ چاہتے تھے کر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی نعوذ باللہ من ذالک اینٹ سے اینٹ بج بجائے (نصیب دشمناں، اور یہ کہ جماعت احمدیہ کا بھی یہی عقیدہ ہے تو کیوں احرار کے لیڈروں نے میرے الفاظ کے مترادف الفاظ میں بہا مقابل قسم شائع نہیں کر دی.اگر وہ بھی قسم کھاتے تولوگوں کو پتہ مل جاتا کہ وہ بھی سیاہ کیلئے تیار ہیں.یا پھر پیش کردہ شرائط ہی شائع کر دیتے اور لکھ دیتے کہ ہمیں یہ منظور نہیں لے حکومت پنجاب کا نوٹس وا ت ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا اور کہا کہ ہمیں خود اہم بات احمدیہ نے قادیان آنے کی دعوت دی ہے اس ہمارے قادیان جانے میں کوئی روک نہیں ہونی چاہیے احرار کے حق میں تھے اور اس قضیہ میں غیر جانبدار رہنا چاہتے تھے مگر جب حضرت خلیفہ مسیح الثانی نمونے خود احرار کے اشتہارات سے ثابت کر دکھایا کہ احرار مباہلہ کا نام ہے کہ در پردہ کا نفرنس اور ہنگامہ آرائی کے لئے آرہے ہیں تب اُن کا نظریہ بھی بدل گیا اور حکومت پنجاب حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی گرفت پر اپنے بنائے ہوئے قانون کے احترام پر مجبور ہو گئی.اور اس نے ۱۶ نومبر کو ایک نوٹس جاری کر دیا جس میں ۲ جولائی منشاء کے فیصلہ کی روشنی میں ۲۴-۲۳ نومبر کو قادیان میں اجتماع پر بھی پابندی لگادی اور لکھا کہ اگر مجلس احرارا در احمدیہ جماعت کے نمائندے حکومت کو بصورت تحریر یقین دلا دیں کہ اجتماع کی غرض و غایت کی نوعیت پر فریقین کا اتفاق ہوچکا ہے تو اس صورت میں حکومت اپنے فیصلہ پر نظر ثانی کرسکتی ہے.احترار کی درخواست یہ نوٹس لے پر چناب مظہر علی صاحب اظہر جنرل سیکرٹری احرار نے چیف سیکرٹری صاحب پنجاب کو ایک درخواست بھیجی جس میں یہ عذر تراشا کہ ہم لوگ قادیان اور حکومت کا جواب میں جمعہ پڑھنے کیلئے جانا چاہتے ہیں.حالانکہ قادیان میں جمعہ پڑھنے کی کوئی خاص و جہ احرار کے لئے نہ تھی مخصوصا ایسے لیڈروں کیلئے جن میں سے بعض تارک نماز مشہور تھے.تاہم سٹر اظہر نے اپنی درخواست میں لکھا کہ مجلس احرار کی یہ منشاء نہیں ہے کہ قادیان میں کسی مرض کے پیش نظر کوئی ے.الفضل ۱۸ر د کبری ۱۳ درصد کالم ۲-۳ الفضل ۱۹ نومبر لامہ صابن کے.الفضل ۲۱ نومبر ۳۵ 19 منٹ کالم ملتا ہے

Page 293

۲۵۷ کانفرنس منعقد کی جائے.سر دست اُس کا مقصد وحید یہ ہے کہ نماز جمعہ قادیان میں ادا کی جائے جس کے بعد دہ پر امن طریق سے واپس ہو جائیں گے.ہاں اگر احرار کو پھر مباہلہ کی دعوت دیگئی اور اسکے متعلق فریقین نے شرائط طے کر لیں تو اس صورت میں میال بھی کر لیا جائیگا یہ مگر حکومت پنجا نے جمعہ کو روکنے کیلئے نہیں بلکہ فساد سے بچنے کیلئے دو ٹوک جواب دیا کہ مجوزہ صورت میں بھی امن عامہ میں خلل واقع ہونے کا اندیشہ ہے.اس لئے حکومت اس اجتماع سے متعلق اپنی پالیسی تبدیل نہیں کر سکتی ہے اجتماع کی ممانعت کے باعث اگرچہ احرابہ کے ارمان دلی ہی میں رہ گئے رکن داره اخبار احسان کو مگر انہوں نے مباہلہ سے چھٹکارا پا جانے پر سکھ کا سانس لیا اور وہ پیالہ کا ایک نوٹ سے دو ٹانے کیلئے عجیب غریب عذرات کا سہارا لیتے رہے تھے حکومت پنجاب کی مہربانی سے مل گیا.پہچ ہے جان بھی لاکھوں پائے.اخبار احسان لاہور کے ادارہ تحریر کے ایک رکن ابو العلاء صاحب چشتی نے احرار کی باطنی کیفیت کا نقشہ بڑے جامع الفاظ میں کھنچا تھا انہوں نے لکھا : میں مرزا بشیرالدین محمود نہیں جیسے مباہلہ کرنے کا نام شنکر رہنمایا یا احرار کے ** بدن پر رعشہ طاری ہو جاتا ہے." مولوی ثناء اللہ صاحب عالم الحدیث جناب مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے بھی اپنے اخبار اہلحدیث میں احرار کے طرز عمل پر ایک نہایت دلچسپ تبصرہ کیا تھا.جو امرتسری کا دلچسپ تبصرہ انہی کے الفاظ میں سرچ کی جاتا ہے :- حراری اب کھلے لفظوں میں کہتے ہیں کہ قادیانی گزرہ کے ساتھ مسائل کا فیصلہ علماء کی طرف سے ہو چکا ہمارا مقابلہ اُن کے ساتھ سیاسی رنگ میں ہے......پس احرار اور قادیان کا اختلاف بالکل ایسا ہی ہے.جیسا کہ مسلم لیگ اور ہندو مہا سبھا کا ہے.اسلئے تحسب اصول تقسیم کار اوزار کو دوسری تبلیغی انجمنوں کو اپنا کام ممتاز کر لینا چاہیے یعنی معقولی مباحثے اور مباہلے دوسری انجمنوں اور اشخاص کے سپرد کر دیں.احرار ان باتوں میں دخل نہ دیں جیسے مسلم لیگ کے مبر ہندوؤں سے تناسخ وغیرہ مضامین پر بحث نہیں کرتے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ احترامہ اہل قادیان کے دھوکے میں آ جاتے ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو مباہلے کی دعوت قبول نہ کرتے.خیر گذشته را صلواۃ آئندہ را احتیاط سے - الفصل ا تو میرا من له - احسان یکم نومبر الہ (حواله الفضل ، نومبر لاء مران الحديث امرتسر ۱۲۹ نومبر ۱۹۳۵ ۱۳۰ :

Page 294

۲۵۸ مولوی عناصہ بنے اہلحدیث کی ایک اور اشاعت میں یہ نوٹ دیا کہ : " قادیان می اہلہ اور ان کے متعلق ہم نے اپنی رائے محفوظ رکھی تھی آج ہم اسے ظاہر کرتے ہیں ہم دیکھتے تھے کہ جو شرطیں قادیانیوں نے پیش کی تھیں وہ تو معمولی تھیں.ان کے علاوہ بعض اور شروط ضروری تھیں جو احرار کی طرف سے ہونی چاہیئے تھیں " اے احرار کا احتجاجا جمعہ اتار نے کس طرح میدان ساہل سے فرار اختیار کیا؟ اس کی تفصیل تو بیان ہوچکی مباہلہ ہے.گز بالآخر یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ حکومت نے جب محض امن عامہ کے نہ پڑھنے کا اعلان خیال سے جمعہ کے اجتماع پر احراری لیڈروں کے قادیان جانے پر پابندی لگا ولی تو اتار نے اس سرکاری نوٹس کی بناء پر اعلان کر دیا کہ وہ نمازہ جمعہ اور ہی نہیں کریں گے اور ۲۲ نومبر ۱۹۳۶ء کو قادیان کی مسجد احرا میں نمازہ جمعہ نہیں پڑھی گئی.اس عجیب و غریب احتجاج پر بھی کوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے ایک نوٹ شائع کیا جو لائق مطالعہ ہے.آپ نے لکھا:.شہر امرتسر میں عام طور پر شہرت ہے کہ قادیان کے مسلمانوں کو نماز جمعہ ( صور و ۲۲ تن میرا ادا کر نے سے حکومت نے روک دیا ہے.ہم نے اشتہار مندرجہ پر چہ ہذا عصفور(1) قادیان میں تقسیم کرنے کو دوادمی بھیجے تھے انہوں نے اسی روز واپس اگر بتایا کہ اسلامی مسجد میں نماز جمعہ پڑھنے کو اس قدر لوگ آئے ہوئے تھے کہ ان کی تعداد مرزائیوں کی نسبت بہت زیادہ تھی.پولیس کا انتظام کافی تھا کسی نے نماز جمعہ پڑھنے سے منع نہیں کیا.صرف مولوی عنایت اللہ صاحب امام مسجد نے چند کلمات شکایت متعلقہ حکومت کہکر اعلان کر دیا کہ چونکہ ہمارے بزرگ خصوصا امیر شریعیت کو قادیان میں آنے سے روکا گیا ہے.اس لئے ہم بطور احتجاج نماز جمعہ نہیں پڑھتے تم لوگ (حاضرین) اکیلے اکیلے نماز ظہر پڑھ لو.چنانچہ سب نے اپنی اپنی نماز ظہر پڑھ لی.مذہبی تعلیم کے لحاظ سے یہ واقع ہم نے تعجب سے سُنار ہمیں شبہ ہوا کہ ہمارے مخبروں کو شاید حقیقت حالی کا علم نہ ہوا ہو.ہم اسی شش و پنج میں تھے کہ احرامہ کا اخبار مجاہد مور خر۲۴ نومبر دیکھنے میں آیا تو اس میں بھی مندرجہ ذیل اقتباس ملا : - حسب دستور مسلمان اپنی مسجد میں جمع ہوئے مگر آج پیش آمدہ حالات کی بناء پر بالاتفاق یہ قراہ پایا کہ حکومت کی منشہ ورانہ پالیسی نے چوٹو نماز جمعہ کیلئے اس کی شرط کو معقود کر دیا.اسلئے فریضہ جمعہ ادا نہیں ہو سکتا.چنانچہ ہر ایک مسلمان نے علیحدہ علیحدہ نماز ظہر • ے.اہلحدیث ۳ اردو نمبر ۱۹۳۵ مورد بحث کا لم ۲ ہے

Page 295

ادا کی.۲۵۹ یہ فقرات پڑھو کہ ہمیں اصل حقیقت منکشف ہوگئی.کہ نماز جیو کا ترک حکومت کے منع کر نہیں ہوا.جبکہ حکومت نے جو بند انکا یہ احرار کو قادیان میں جانے سے روک دیا تھا.اس جنگ میں نماز جمعہ کو ترک کیا گیا.اس لئے ہم اپنے قصورعلم کا اعتراف کرتے ہوئے اس فعل (ترک نماز جمعہ) سے برأت کا اعلان کہتے ہیں کہ یہ فعل شرعی ہدایت کے ماتحت نہیں ہوا چونکہ اقدار سیاسی جماعت ہے ان کے خیال میں سیاست کے رُو سے شاید بجائزہ ہو.اہم غفرانا " کے » مولوی عبد الغفار صاحب غزنوی نے فتوی دے رکھا تھا کہ کسی خاص جگہ زنده خدا کا زندہ نشان نما نہ پڑھنا ضروری نہیں.لیکن جب اس جگہ پر پابندی عائد کر دی جائے تو نماز پڑھنا ضروری ہو جاتا ہے اسلئے ہر سلمان کا فرض ہے کہ قادیان میں جا کہ نماز جمعہ ادا کر تے.سنہ اس فتوی کی تعمیل میں امیر شریعت احرار » مولوی عطاء اللہ شاہ صاب بخاری اور دسمبر سر کا جمعہ " پڑھنے کیلئے قادیان روانہ ہوئے مگر حکم امتناعی کو توڑنے کے سبب جینتی پورہ اسٹیشن پر گرفتار کر لئے گئے.اور عدالت گورداسپور سے چار ماہ قید کی سزا پائی.سکے یہ واقعہ بظاہر ایک معمولی واقعہ تھا گو جیسا کہ حضرت خلیفتہ ایسیح الثانی رضانے اور دسمبر دار کے ایک مضمون میں بالتفصیل بتایا.اسے احمدیت کی صداقت پر زندہ خدا کا ایک زندہ نشان قرار دینا چاہیئے.و یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ و السلام کو عالم رویاء میں امیر شریعیت احرار کے دو بار حمل اور پھر چار ماہ کیلئے قید ہونے کا نظارہ وسط نومبر سنہ میں دکھایا گیا تھا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.ایک مقام پر میں کھڑا ہوں تو ایک شخص آکر چیل کی طرح جھپٹا مار کہ میرے سر سے ٹوپی لے گیا پھر دوسری بار حملہ کر کے آیا کہ میرا عمامہ بے جا دے.مگر میں اپنے دل میں مطمئن ہوں کہ یہ نہیں لے جا سکتا.اتنے میں ایک مخیف الوجود شخص نے اسے پکڑ لیا.مگر میرا قلب شہادت دیتا تھا کہ یہ شخصی دل کا صاف نہیں ہے اتنے میں ایک اور شخص آگیا جو قادیان کا رہنے والا تھا اُس نے بھی اُسے پکڑ لیا.میں جانتا تھا کہ مؤخر الذکر ایک مومن منتفی ہے.پھر اُسے عدالت میں لے گئے تو حاکم نے اُسے جاتے ہی ۴ یا ۶ یا ۱۹۳۵ ہے.اہلحدیث امرتسر ۲۹ نومبر ۳۵ رد ص۱۲۰۲ : " ه اخبار پرتاپ در دکبر شراء بحواله اخبار الفضل ۲۰ دسمبر لاء صبا کالم سے ہے گے.اخبار اہلحدیث امرت سر ۱۳ دو نمبر ۳ اور منا کالم ۲۲۰ +

Page 296

۲۶۰ 9 ماہ کی قید کا حکم دے دیا گے بلے نظر بندی سیاسی لیڈروں کی لیڈری چمکانے کا ہمیشہ ایک موثر ذریعہ رہا ہے.مگر امیر شریعیت احرار کے معاملہ میں نتیجہ بالکل بر مکس نکلا.چنانچہ بشیر احد صاحب جنرل سیکرٹی تحفظ مساجد و اوقات امرتسر نے ایک ٹریکٹ میں صاف صاف لکھا کہ : " یہ صرفہ احرار دوستوں کی ایک شطرنج کی چالی ہے کہ اپنے آپ کو گر فتار کیا کہ قوم کے سامنے ایک نئی ایجی ٹیشن کی صورت پیدا کر کے چندہ جمع کیا جائے.کیونکہ آجکل چندہ کی کمی ہو چکی ہے اور دوسرے مسجد شہید گنج کے بارہ میں اسرار کا وقار قوم کے دلوں سے اٹھ چکا ہے اب چندہ آئے تو کس طرح.اب مسلمان اتنے سادہ لوح نہیں ہیں وہ اپنے لیڈر اور غیرلیڈر میں تمیز کہ سکتے ہیں.امیر شریعیت " کو یہ مسئلہ معلوم نہیں کہ جمعہ کی نمانہ قصبہ میں نہیں ہو سکتی جبکہ شہر کی جامع مسجد افضل و بہتر ہے.بار بار قادیان قادیان کی رٹ لگانا اور ایجی ٹیشن پیدا کر کے غریب اور جاہل مسلمانوں کو قربانی کا بکرا بنانا اور گورنمنٹ کو تنگ کرنا یہ کسی عقلمند لیڈر کا کام نہیں محض قادیان میں فساد پیدا کرنا اور پالک کو اپنی طرف متوجہ کرنا تا کہ جو شخص مسجد شہید گنج کے محاطہ میں بہت سے پارٹ ادا کر چکا ہے اس کی دندارت کے لئے رائے عامہ کو متوجہ کیا جائے اور الیکشن میں کامیاب کر دیا جائے.بس یہ سے احرامہ کا اصل مقصد و مدعا سے ہے 14- البد که مورخ ۲۸ نومبرد دارد کبر نشود من - تذکره طبع دوم متے.یا د رہے کہ مشہور عبر حضرت ابن سیرین کے نزدیک ٹوپی اتارنے کی تعبیر یہ ہے کہ مفارقة لرئیسہ یعنی حاکم وقت سے کشیدگی تعلقات اور پگڑی کی تعبیر میں لکھتے ہیں." قوة الرجل وتاجه وولانيه " یعنی اس آدمی کی طاقت اور اسکی بادشاہت و حکومت مراد ہوتی ہے تعبیر نا مہ حضرت محمد بن سیری بر حاشیه کتاب تعطیر الا نام جلد اول ۱۴۰۰ :

Page 297

۲۹۱ فصل پنجه حبشہ ( ابی سینیا) میں ڈاکٹر اسلام کی تورانی مائیں بہ اعظم افریقہ کے میں خطہ پر سب سے پہلے پڑیں وہ حبشہ رابی سینیان کا ملک ہے.عہد نبوی کے لگی دور میں جب نذیراحمد صاحب کی تبلیغی خد ا ا ا ا ا ا ا ا ا ام ام ایمان کا لالی انتہا کو پہنچ گئیں اور قریش کے مظالم ناقابل برداشت ہو گئے تو آنحضرت صلیاللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سلمان حبشہ کی طرف ہجرت کرجائیں، نیز فرمایاکہ حبشہ کا شاہ عادل منصف ہے.اسکی حکومت میں کسی نظلم نہیں ہوتا یہ چپٹ نچھ اس ارشاد نبوی کے مطابق ماہ رجب شده و مطابق نومبر دسمبر میں گیارہ صحابہ اور چار صحابیات جهش کی طرف ہجرت کر گئے.ان مظلوم مہاجرین میں حضرت عثمان بن عفان اور ان کی حرم حضرت رقیہ کا بنت الرسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عبد الرحمن بن عوف - حضرت زبیر بن العوام ، حضرت ابو حذیفہ بن عقبہ حضرت عثمان بن ملعون حضرت مصعب بن عمیر حضرت ابوسلم بن عبدالاسد اور ان کی زوجہ حضرت ام سلمہ منی اله عنہم کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں کہ حبشہ کی حکومت نے مہاجرین کو پورا پورا امن دیا اور انا شیخ سے ته صرف نجاشی مسلمان ہو گیا بلکہ بعض عمائد مملکت بھی اسلام لے آئے.حکومت بشہ کا یہ ایسا عظیم الشان احسان ہے کہ ملت اسلامیہ اسے قیامت تک فراموش نہیں کر سکتی.سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی نہ نے اسی جذبہ شکر سے لبریز ہوکر است شام میں ڈاکٹر نذیر احمدیت ابن حضرت ماسٹر عبد الرحمن صاحب سابق مہر سنگھ) کو حبشہ جانے اور اہل معیشہ کی خدمت کرنے کا ارشاد فرمایا.یہ وہ ایام تھے جبکہ امی اور حبشہ کے درمیان جنگ چھڑی ہوئی تھی.اہل حبشہ بری طرح پسپا ہو رہے تھے اور انٹی جنگی امداد کے علاوہ طبعی امداد کی بھی بہت ضرورت تھی.ڈاکٹر نذیر احمد صاحب اپنے آقا کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اے ابن ہشام و طبری و سیرت خاتم النبيين حصہ اول من الموقف قمرالانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ، حبشہ کا ملک ہو انگریزی میں ایتھوپیا یا ایسینیا کہلاتا ہے.براعظم افریقہ کے شمال مشرق میں واقع ہے.آنحضرت کے زمانہ میں حبشہ میں ایک مضبوط عیسائی حکومت قائم تھی جس کا بادشاہ نجاشی کہلاتا تھا اور جہد نبوی کے بجاشی کا ذاتی نام محمد تھا.ه ابن سعد - ابن هشام زرقانی بحوالہ سیرت خاتم النبیین حققه اول ۱۹ -

Page 298

اپنے خرچ پر ابی سینیا گئے.اور اپنی جان کو جوکھوں میں ڈال کر انسانی ہمدردی اور خدمت خلق کا بہترین ثبوت دیا.اور ایک لمبا عرصہ تک نہ صرف طبی بلکہ تبلیغی خدمات بھی بجا لایا ہے.چنانچہ ذیل میں ڈاکٹر صاحب ہی کے تے الفاظ میں اُن کے زمانہ قیام کی تفصیلات درج کی جاتی ہیں.آپ تحریر فرماتے ہیں کہ :- حضرت امیرالمؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے خاکسار کو تحریک جدید کے ماتحت وقف کرنے پر علی گڑھ خط لکھا کہ ابی بنیاد حبشہ ہیں جاکر طبی خدمات سرانجام دینے اور تبلیغ کرنے کے لئے روانہ ہو جائیں.اگست ۱۹۳۵ ء میں خاکسار قادیان پہنچ کر حضور سے فیضیاب ملاقات ہوا.حضور کے ضروری ارشاد گرامی یہ تھے.ریڈ کراس ہسپتالوں میں جو جنگ کے میدان میں ابی سینیا میں کام کر رہے ہیں اپنے آپ کو پیش کریں.رسول کریمصلی اللہ علیہ کے زمانہ میں صحابہ کرام کی ہر ایسے مینیا کے ملک میں ہوئی تھی.اہل حبشہ کے آباؤ اجداد کے اس نیک سلوک کیوجہ سے عالم اسلامی انکا ممنون رہا ہے.اس کے عوض ہمیں اس مصیبت کے وقت اُن کے بیمار اور زخمیوں کی مدد کرنی چاہیئے.۱- خاکسار عادیس ابابا اپنے خرچ پر پہنچا.خاکسار کی بیوی بھی حضور سے خط لکھوا کر میرے نام لے آئیں کہ آپ کی اہلیہ ساتھ جانا چاہتی ہیں انکو ساتھ لے جائیں.اگر جنگ شروع ہو جائے اور یہ سنا تھا نہ جا سکیں تو انہیں سمالی لینڈ یا عدن رہنے کا انتظام کرا دیں سو ایسا ہی کیا گیا.جنگ شروع ہوئی.اٹلی کے فوجیوں کے ہوائی حملوں سے بے اندازہ نقصان جانی و مالی ہوا.مسٹرڈ گیس MUSTARD GAS پھینکی گئی.گولہ باری کے ذریعہ بیدردی سے جانیں تلف کی گئیں.خاکسار عین میدان شمالی محاذ پر متعین تھا.روزانہ کئی سو زخمیوں کی مرسیم پٹی کرنا پڑتی تھی.دیکھتے دیکھتے جائیں تلف ہوتی تھیں.قیامت کا منظر سامنے تھا.قرآن کریم کی پیشنگوئیاں اور حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی پیشنگوئیاں فوج میں بیان کرکے واضح کیا جاتا رہا کہ مسیح موعود کا ظہور ہو چکا اور سچائی ثابت ہو چکی ہے.لوگوں کو اس طرف توجہ کرنی چاہیئے.۱۹۳۵۳۶ء میں جنگ جاری رہی.عالمی ریڈ کراس سوسائٹی INTERNATIONAL کی طرحت سے اخباروں میں خاکسار کا نام RED Cross, Society) الفضل و راکتوبر ۱۹۳۵ء صدا کالم ۲ - ہے اس ضمن میں ڈاکٹر صاحب کی ایک رپورٹ مطبوعہ افضل وار مئی راہ میں قابل مطالعہ ہے.

Page 299

۲۶۳ ڈاکٹر احمد آف انڈیا کے نام سے شائع ہوتا رہا.اخبار ہندوستان ٹائمز میں میرا نوٹ بھی چھپا تھا.اور قادیان کا نام بھی.ہندوستان کی طرف سے صرف خاکسار ہی ایک ڈاکٹر تھا.جو ملک حبشہ میں جنگ کے دوران کام کے لئے بھیجا گیا.اسے سیفیا کا بادشاہ ہیلی سلاسی یکم مئی شاہ کو فرار ہوکر انگلستان چلا گیا.اٹلی کے ملک حبشہ پر قبضہ کرنے پر مزید 4 ماہ خاکسار وہاں مقیم رہ کر ادیس ابابا کی مساجد میں تبلیغ کرتا رہا.مساجد میں جمعہ کے روز خاکسار لکچھ کرتا اور پیغام احمدیت و اسلام عربی زبان میں پہنچاتا.بسا اوقات خاکسار کو مساجد ہی سے بزور نکال باہرکیا جاتا رہا.ایک فاضل رکن جامعہ الازہر شیخ محمد بریلوی مصری جو حکومت مصر کی طرف سے عدلیں ابا با جامعہ میں مقرر تھا.چند روب کے بحث مباحثہ کے بعد اور میرے کہنے پر استخارہ کرنے کے بعد حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کی بیعت تحریری سے مشرف ہوا.اُس نے خواب میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسیح موعود کو رگرسیوں پر بیٹھے دیکھا اور سول کریم کواپنی طرف مخاطب ہوکرشنا کہ مسیح موعود کو قبول کر لو.اس دوران میں السید عبدالحمید ابراہیم مصری (جو جامعہ الازہر کے فارغ التحصیل ہیں) کے ساتھ مقابلہ ہوتا.تو شیخ محمد بریلوی صاحب مجھے بلا لیا کرتے تھے.خطبہ الہامیہ میری طرف سے دئے بجانے پر انہوں نے بھی دعویٰ مسیح موعود کو قبول کر لیا.۱۹۳۶ء کے بعد ۱۹۳۶ء میں مصر بجا کر بیعت کا خط مولوی محمد سلیم صاحب کو لکھ دیا.اور داخل جماعت احمدیہ ہو گئے ؟ نیز اسید عبدالحمید بعد میں قادیان اور ربوہ آکر حضرت صاحب کی ملاقا سے مشرف ہوئے.- ستمبر انہیں خاکسار ایسے سینیا سے چلا گیا اور فلسطین اور مصر و شام کے ممالک میں تبلیغ ۱۹۳۷ اور سیاحت اور پریکٹس کیلئے چلا گیا.چند ماہ وہاں رہ کر پھر اس لاء میں حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے مجھے کینیا جانے کیلئے ارشاد فرما یا کہ وہاں جاکر میڈیکل سروس میں داخل ہو جاؤں سو ۱۹۳۹ ۶ ایک خاکسار وہاں رہا.ائیر میں خاکسار کو حاجیوں کے پہاز ایس ایس رحمانی ہیں میڈیکل آفیسر مقررکیا گیا.بھئی.جدہ - کراچی وغیرہ کئی بار آنا جانا پڑا.حج کرنے کا بھی موقعہ اللہ تعہ نے اپنے فضل سے عنایت کیا.عربی میں مہارت کافی ہوگئی.مکہ معظمہ میں اور عرفات، منی ، مزدلفہ کہ معظمہ جدہ.غرضیکہ ہر جگہ عربوں اور دیگر علماء کو تبلیغ کرنے کا موقعہ بہ کثرت ملتا رہا.اور علاج معالجہ

Page 300

۲۶۴ کا موقعہ ملتا رہا.خاکسار کا طریق اگر یہی رہا کہ قرآن کریم کی آیات پرمسئله را در کتب عربی حضرت مسیح موعود کی تشریحات اکثر بیان کرنے پر مداومت اختیار کرتا تھا جس کا بہت جلداثر دیکھا جاتا رہا.ڈلہوزی میں ۴ - ۱۹۲۱ء سے ۹۴۳ ٹریک خاکسار پریکٹس کرتا رہا.یہاں حضور نے ایک روز سیر پر جاتے ہوئے فرمایا.ایسے سینیا کے بادشاہ کو کھو کہ میں نے دوران جنگ ایسے سینیا یں کام کیا ہے.اسلئے تم مجھے کوئی عہدہ ہوتا کہ میں دوبارہ مریضوں کو ایسے سینا کے ہسپتالوں میں مقرر ہونے پر خدمت کر سکوں سو خاکسار حضور سے بشارات لیکرد و بارہ عدن اور حبشہ چلا گیا.میں اللہ میں سرکاری ملازمت سیل ہسپتال میں کرتا رہا.وہاں بھی مساجد میں جب وب علماء کا درس ہوتا تھا نا کسار وہاں جا کر بیٹھ جایا کر تا تھا اور سوال و جواب کا سلسلہ جاری کر دیتا.کئی موقعہ پر کافر ملعون، قادیانی کذا کے خطا سے یاد کیا جاتا اور کئی دفعہ وہاں کی مساجد سے نکالا جاتا.ایک دن کثرت سے عربوں یا در سومالیوں نے مسجد کو گھیرے میں لے لیا.تاکہ خاکسار کو کالعدم کر دیا جائے.اسی اثناء میں سی آئی ڈی کا آدمی میسے پاس آکر کھڑا ہو گیا اور انگریزی میں نے گا ہ ہم کو حکم ہوا ہے کہ آپکو اپنے گھر سلامتی کے ساتھ پہرے کے اندر پہنچادیں کیونکہ پبلک مسجد کے اندر اور باہر نڈے اور چا تو لیکر کھڑی ہے ان کی نیت آج آپکے متعلق خطرناک ہے" یں نے کہا کہ گورنمنٹ کی حکم عدولی نہیں نہیں کر سکتا بہت اچھا.سو وہ مجھے پہرے کے اندر میرے گھڑے آیا.نو آبادیات محمیات عدن میں دورہ کرنے کیلئے مجھے بھیجا گیا جہاں بیماریاں اور موتیں بکثرت ہو رہی تھیں.وہاں جاکر گاؤں گاؤں میں ظہور سیح موعود پر عربی زبان میں تقریریں کرتارہا.حضرت میمو لالالالالای ملی خیر کثرت مشہور ہوگئی حسب معمول تصنیفات حضرت مسیح موعود بکثر تقسیم کرنا تھا پر مخالفت کا بازارگرمان مینا کارگردان کوبھیجی کہ ڈاکٹر نذیر احمد کو میڈیکل سروس سے نکال دیا جائے.نوجوانوں پر قادیانیت کا اثر ہورہا ہو بسلطان شبوطی میرا ڈسپنسر تھا.وہ احمدیت کی طرف مائل ہو گیا.بعدمیں مولوی غلام احمد صاحب مبشر کے آنے پر سلطان شنبوطی اور عبداللہ محمد شبوطی دونوں احمدی ہو گئے.فَالْحَمدُ لِلهِ عَلى ذلِكَ - عدن میں ڈاکٹر محمد احمد صاحب نے میری سرگرمیاں دیکھ کرمجھے مبارکباد دی کہ آپنے تبلیغ کا حق ادا کر دیا.عدن میں جب مجھے ملازمت سے علیحدہ کر دیا گیا تو خواب دیکھا کہ میں حضرت صاحب کے ارشاد پر

Page 301

۲۶۵ یسے سینیار بوقریب ہی ایکروز کے راستہ پر تھا جارہا ہوں حضور نے میری خواب پڑھ کر ارشاد فرمایاکہ ہاں جلدی ایسے سیدنیا پہلے بائیں.چنانچہ خاکسار ا ء میں دوبارہ ایسے سینیا چلا گیا اور حضرت صاحب a LiActing CIVIL NG کی بات پوری کی کہ خاکسار کو ایکٹنگ سول سرجن دیده URCE عہدہ پر کئی سال متعین کیا گیا.وہاں پہنچنے پر ہیلی اسلامی شاہ حبشہ سے کئی بار ملاقات ہوئی.اس کے محل میں اس کو کتب دے کر تبلیغ اسلام انگریزی زبان میں کی گئی اور پرانا تعلق ہجرت صحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان کرکے یا دولا یا گیا.۱۹۴۵ء سے ۱۹۵۲ء تک 4 سال برابر سینکڑوں مباحثات کئے اور دس ہزار کے قریب اشتہار كتب رسائل ، کتب حضرت مسیح موعود عربی (مثلاً اعجاز الي بحتة البير حمامة المبشري تحفر بغداد التبليغ ر قرآن انگریزی اور قرآن کریم کی تفیری گریزی بڑے سائز کی تقسیم کی گئی.اگر گفت دی گئیں.سکولوں اور کالجوںمیں تب کر تبلیغ کی گئی یا ور سکول کے لڑکوں نے میرے ہاں برابر ہسپتال میں آنا شروع کیا.ور جنوری او کو ڈاکٹر صاحب نے پہلی بار شاہ ای ہے سینیا میں مسلاسی سے ملاقات کی اور حضرت مسیح موعود کے ظہور کی خوشخبری اُن تک پہنچائی.(الفضل ۲۰ فرور دو صفحہ کالم ) لے ڈاکٹر نذیر احد صاحب نے جو اُن دنوں شمال مغربی ایسے سینا کے دارالسلات گوادر مقام پر تھے، عیدالفطر کے موقعہ پر مسلمانان حبشہ کے سامنے حضرت مسیح موعود کی آمد اور حضور کے نشانات پر لیکچر دیا.نیز بتا یا کہ اس علاقہ میں جو جھیل تا نا کے قریب واقعہ ہے اور دریائے نیل ارزق کا منبع ہے جس کی پچھلے زمانوں میں کسی کو یہ نہیں تھی یا برتنی یاد و نادر کسی کو اسے دیکھنے کا قصہ ملا ہوگا.لیکن اللہ تعالیٰ نے یہاں بھی اپنا نشان ظاہر کیا کہ پانچ آدمیوں ک جن میں عرب اور حبشی مسلمان شامل ہیں خوابوں میں دکھا یا کہ میچ مہدی ہندوستان کی زمین میں ظاہر ہو گیا ہے.ان لوگوں کے نام جنہیں خوابیں آئی ہیں یہ ہیں:- (1) اشیخ عمر حسین سوڈانی حبشی عربی کے اچھے عالم ہیں.(۲) علی حکیم عبدہ نوجوان حبشی مسلمان نہایت مخلص عربی کے عالم اور تاجر ہیں.(۳) السید حسین المراضی عرب تاجر ہیں.(۴) السعید اسماعیل موٹر ڈرائیور (۵ سراج عبد اشد خدا میں مختلف اوقات میں مختلف رنگوں میں آئیں.مثلاً کثرت سے لوگ خوشیاں منارہے ہیں.باغ اور وسیع زرخیز زمین ہے.عیسائی اور مسلمان ہر دو کہہ رہے ہیں کہ احمد للہ ہماری زندگی میں سے مہدی ظاہر ہوگیا.ایک نے دیکھا کہ بادشا پاتے پہیلی سال اسی کا دربار ہو اور وسیع میدان میں کثر سے لوگ جمع ہیں.ہمیں دو سفید گھوڑیوں کی گاڑی پر سوار ہوں اور کہہ رہا ہوں.تظهر المهدى ظهر المهدى من شاء فليومن ومن شاء فليكفر رافضل ار جنوری او لا کالم سم ۱۲ را

Page 302

MY چالیس آدمیوانی بو مختلف گاؤں کے رہنے والے تھے ایک دن بیعت کی اور سلسلہ احمدیہ یا شامل ہوئے حبشہ میں ڈرائیو ان کے شہر کے ایک لڑکے رضوان عبد اللہ احمدی کو میں نے واقعت زندگی کے طور پر رتبہ تعلیم کیلئے ہوائی جہاز پر بھیجا جو وہ مںتعلیمی اور عربی اور دینی ماحول میں بہت مقبول ہو گئے لیکن بد قسمتی سے ۲-۳ سال تعلیم جامعہ احمدیہ میں حاصل کرتے ہوئے دریائے چناب میں لڑکوں کے ساتھ پینو له کرتے ہوئے پاؤں کے پھسل جانے سے غرق آب ہو کر شہید ہوئے مقبرہ بہشتی ہیں انکی قبری ہوتی ہے.ایک رمضان بی ریا ایران شہر کا موسم میں جاکر یں نے تبلیغ شروع کردی.سوال وجواب کا سلسلہ شروع ہوا.ساری مسجد بھر گئی.وہاں کے عربی ملاں نے لوگوں کو اکسایا اور خاکسار پر انہ کیاگیا اور یکدم دوگروہ بن گئے.ایک گروہ میری تائیدیں اور دوسرا میرے بالمقابل آخر مجھے سجدیں سے نکلنا پڑا.قتل قتل کے نعرے لگے.بازار تک مجھے جھکیلتے ہوئے لے گئے عربی میں آوازے کستے رہے کہ آج اس ہندی قادیانی کا خاتمہ اور خون بہا دیا جائے گا.ساری رات میرے ایک دوست کا مکان جس میں مجھے پناہ لینے پر مجبور کیا گیا تھا.گھیرے میں رکھا گیا.دوسر روز یکی مصلحتی لباس بدل کر واپس شیشن پر پہنچا اور ٹکٹ لیکر واپس اپنی ڈیوٹی پر نے بیعت کرنے والوں میں ہر شہر کے تین دوست بھی تھے جو جنوری شہداء میں داخل سلسلہ ہوئے.ڈاکٹر نذیر احمد صاحد با ان اصحاب کی بیعت کی مرکزہ ہیں، اطلاع دیتے ہوئے یہ رپورٹ بھی بھیجوائی کہ چند روز کا یہ اقعہ ہے کہ ہمارے مذکورہ بالا تین تو مبایعین غلطی سے غیر احمدی لوگوں کی جامع مسجد میں نماز جمعہ ادا کرنے پہلے گئے.میں نے انہیں پیغام بھیجا کہ میراحمدی کے پیچھے نماز جائز نہیں.وہ سنتے ہی میرے پاس پہلے آئے.اس سے ہمارے مخالفین میں اشتعال پیدا ہو گیا اور مجھ پر محکم قضا میں یہ مقدمہ دائر کیا گیا کہ میں نے اُنکے دو ہرری مسلمان چرا لئے ہیں اور کہ اُن کی نماز کی ہتک کی ہے.آخر مجھے بلایا گیا اور لوگوں کے سامنے تحقیقات شروع ہوئی.جب ہمارے خلاف مبالغہ آمیز اور جھوٹی شہادتیں ہوئیں تو حاضرین میں سے ہی دو عرب بول اٹھے اور قاضی اور حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم لوگ عیسی کو آسمان پر زندہ مانتے ہو جو سول له صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہتک سے واقعی آپ لوگوں کے پیچھے نماز جائز نہیں (الفضل ، مارچ ها و صفحہ ہم کالم ۳ و ۴) اوائل ا ء کا واقعہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے ذریہ سے قید خانہ میں دنش آدمی بیعت کر کے حلقہ بگوش احمدیت ہوئے جو بیعت کے دوسرے روز ہی رہا ہو گئے.(الفضل در مئی سے مایہ صفحہ ۲ کالم ۳) ه تاریخ وفات ۲۶ اگست ۱۹۵۳ - " ۱۹۴

Page 303

ڈ برابرہان پہنچ گیا.میںاپنے گھر بن کر گیا تھا کہ چند روز موجب ارشاد حضرت صاحب تبلیغ کیلئے بیرونی مقام پر جاتا ہوں جو مخالفت کا گڑھ ہے وہاں قتل بھی کردیا کرتے ہیں.اگر میں وہاں خدا نخواستہ قتل بھی ہوگیا تو تم کواللہ تعالی ہاجرہ جیسی عربیت قرب الہی میں بنے گا.گھرانے کی کوئی بات نہیں.4-4 سال کے بعد حضرت امیر المومنین خلیفہ آسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے کار ڈلکھا کہ صرف ایک ماہ کے لئے پاکستان چھٹی پر تم کو آنے کی اجازت ہے سوفہ دری اور میں خاکسار پہلی با رتبہ آیا.حضور نے فرمایا کہ واپس ایسے سینیا جاؤ.شاہ حبشہ کو ہمارا لٹریچر پہنچے گا تم اسے پہنچانے کا بند بست ہمارالٹر کرنا.جولائی میں وہاں کے پادریوں نے شکایات کیں کہ احمدیت کا نفوذ پڑھ رہا ہے.اس ڈاکٹر کو ملک سے باہر نکال دیا جائے.سو مجھے حضرت امیر المومنین نے تارونی ) PROCEED TO NAIROBI - BETTER کہ نیرہ ہی چلے جاؤ.خاکسار سال میں نیروی پہنچا.اور تر میں وہاں سے ولایت مزید تعلیم کے لئے چلا گیا.جس کے حصول کے بعد کامیاب ہو کر جلسہ سالانہ قادیان و ربوہ شاء میں پہنچا ها ۱۹۶ء انشادرمانی ۲۰ ستمبر ۱۹۳۵ء کا دن جماعت احمدیہ کے لئے نوشی اور شادمانی کا تھا.حضرت امیر المومنین کی شادی ان کا ان کا کیونکہ اس روز حضرت امیرالمومنین خلیفة المسیح الثانی من کا عقد ر حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب سول سرجن کی دختر نیک اختر ) سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ کے ساتھ ایک ہزار روپیہ مہ پر والی اعلان نکاح حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے کیا ہے حضرت امیر المومنین کی طرف سے ۱۲ اکتوبر ۱۹۳۵ء کو بوقت 11 بجے دن قادیان اور مضافات کے عض دیہات کے قریباً ڈیڑھ ہزار اصحاب کو مسجد اقصی میں دعوت ولیمہ دی گئی.جس کیلئے دعوت نامہ حضرت ڈاکٹر محمد طفیل خان صاحت نے جاری کیا ہو ایک چھوٹے سے دبیزی کا غذ پر ك ۶۱۹۳۵ الحکم اور ستمبر 19 یہ صفحہ ۳ اے غیر مطبوعہ مکتوب سے ماخوذ سه پوره خطبه الفضل ۱۲ اکتوبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۱ و۲ پر چھپ چکا ہے.له الفضل ۴۳ اکتوبر ۱۹۳۵ ۶ صفحه ۲ کالم ۲ -

Page 304

۲۶۸ دیدہ زیب مگر سادہ طریق پر چھپا ہوا تھا.اس دعوت نامہ کا پھر یہ ذیل میں دیا جاتا ہے :- سم استقرار من الرحيم السلام عليكم و رحمة الله وبركاته حضرت امیر المومنین امام جماعت احمد خلیف است عالی اید اللہ مبصرہ کی دعوت ولیمہ میں شرکت کے لئے ا را کتوبر سر بروزبدھ بوقت اور بجے دن کے مسجد اقعے میں تشریف لا کر محنون فرما دیں اور یہ دعوتی کارڈ ہمراہ لیتے آویں : به الله ای خاکسار ڈاکٹر محمر طفیل فان می شود حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الثانی نے دار نومبر ۶۱۹۳۵ نئے مہمان خانہکی بنیاد ر ا ا ا ا ا ا ا ا ن ا ایران کی پرانی عادت کے ساتھ نئے مہمان خانہ کا سنگ بنیاد ر کھائی حضرت بابو سراج دین صاحب نے جو ان دنوں نظارت ضیافت میں آنریری کا رکن تھے.اس جہان خانہ کیلئے ایک ہزار روپیہ کا عطیہ دیا جس کا ذکر خود حضرت امیرالمومنین نے مجلس مشاورت میں فر گایا.آل انڈیا نیشنل لیگ کو را نیشنل لیگ کو کا مختصر ذکر تاریخ احمدیت جعلی علم صفری (۱۵) میں قادیان کی ابتدائی سرگریں کیا جاتا ہے الایا اور رانا ہو گا اور میں قائم ہونیوالی چکا اس نے احمدیہ کور کی بنیادوں پر استوار کیا گیا تھا اور آل انڈیا نیشنل لیگ کورسی ذیلی تنظیم کی حیثیت رکھتا تھا.بحفاظت مرکز کی نہایت عمدہ خدمات انجام دیں.مثلاً وسط تو مبراء میں جب احزار مباہلہ کے بہانہ سے قادیان میں آنا چاہتے تھے نیشنل لیگ کولر الفضل ، نور صفرا کالم سے رپورٹ مجلس مشاور سر و صفحه ۱۳۲ - سه ملاحظه و تاریخ احمرمت جلد هفتم مال ہے جیسا کہ تاریخ احمدیت جلد ہفتہ صفحہ ۵۲۲ میں مذکور ہے نیشنل لیگ کے اولین صدر محترم شیخ بشیر احمد صاحب بی اے یڈووکیٹ نے قادیان نیشنل لیگ کے صدر شیخ محمود احمد صاحب عرفانی اور پہلے سیکر یٹری موادی اظفر محمد صاحب بوی فاقتل اور دو سرے چو ہدری ظہور احمد صاحب تھے.!

Page 305

۲۶۹ کے سپر د مقامات مقدسہ اور تمام شعائر اللہکی حفاظت کا کام کیا گیا.بر نظام قریباً چار دن تک جاری رہا.اور اس میں کور کے تمام افسر اور رضا کار دونوں شب روز مصروف رہے جس پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی سن نے اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا کہ پچھلے چار دنوں میں جو کام آپ لوگوں کو مرکز سلسلہ کی حفاظت کیلئے کرنا پڑا ہے میں اسکے متعلق...خوشنودی کا اظہار کرنا چاہتا ہوں اور اللہ تعالٰی سے دعا کرتا ہوں کہ جین نیت اور فرض کے ما تحت آپ لوگوں نے یہ کام کیا ہے.اسی نیت اور غرض کے مطابق اللہ تعالیٰ آپسے نیک سلوک فرمائے لیے علاوہ ازیں والنٹیر کور نے ۲ دسمبر شراء سے جمعہ کے دوران حضرت امیر المومنین کے پہرہ کا انتظام بیاہ راست اپنے ذمہ لے لیا جو سالہا سال تک باقاعدگی سے جاری رہا.۲۳؍ دسمبر ۱۹۳۵ء کو فیصلہ کیا گیا کہ سالانہ جلسہ پر کور کے رضا کار، مسجد مبارک ، قصر خلافت، بہشتی مقبرہ، مردانه جالسه گاه زنانه جلسه گاه اور خلیفہ وقت کی حفاظت کے لئے مقرر کئے جائیں.رضا کاروں نے یہ خدمات اتنے خلوص اور جانفشانی سے ادا کی کہ حضرت امیر المومنین نے نے ۳۰ دسمبر راء کو اسپر مبارکباد دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اس میں کوئی شبہ نہیںکہ کور کا کام قریب ترین عرصہ میں شروع ہوا ہے.اتنے قریب کے وقت میں شروع ہوا کہ اتنے عرصہ میں ایک پاہی کو بندوق پکڑنے کے قابل بھی نہیں سمجھا جاتا.کجا یہ کہ اسے کسی خدمت پر مقرر کیا جائے.اگر با وجود اسکے اس موقعہ پر جس محنت، جس جانفشانی اور جس سرگرمی سے میل لنگ کر کے مہروں نے کام کیا ہے.چھوٹوں اور بڑوں نے کیا ہے.افسروں اور ہاتھوں نے کیا ہے.وہ اس قابل ہو کہ کور کو مبارکباد دیجائے.اور کو ر اس بات کی مستحق ہو کہ جماعت اسکے لئے ڈھا رہے.میں نے دیکھا ہو کہ اس تنظیم کے ماتحت کی مشن کا پوری را کور کا بھی موقعہ نہیں مالی سال کے موقعہ پر کور کے تھوڑے سے آدمیوں نے اتنا کام کرکے دکھایا ہے جو کہ پہلے بہت سے لوگ نہ کرسکتے تھے.جلسہ گاہ میں میرے جانے کے وقت رستہ کو صاف رکھنا اور نجوم کو روکنا قریباً نا قابل حل سوال ہو چکا تھا.مگر اسکے والنٹیٹرز کورنے ایسی عمدگی سے اسے حل کیا ہے کہ کسی ایک موقعہ یہ بھی شکایت پیدا نہیں ہوئی.اور شکایت کا پیدا ہو نا تو الگ رہا.شکایت کا امکان بھی پیدا نہیں ہوا.اس موقعہ پر چین نوعیت کا کام تھا اسکے لحاظ سے کور اس قدر بوجھ پڑا جو انتہائی تھا.لیکن میں خوش ہوں کہ اس موقعہ پر کور نے ہمت ، دیانت اور استقلال سے کام کیا..کور کا یہ سین انتظام جس کی میں نے تعریف کی ہے اور جو تعریف کے قابل ہے.اس میں بڑی بات یہی ہے کہ کور کے ممبروں کو محسوس کرا دیا گیا ہے کہ افسر کی اطاعت ضرور کی ہے....آخر میں میں الفضل ۲۷ نومبر ۱۹۳۵ و صفحها

Page 306

پھر خوشنودی کا اظہار کرتا ہوں کہ کورنے اعلی درجہ کا کام کیا.اور دعاکرتاہوں کہ خدا تعالی اسے اور نہ یادی خوبی سے کام کرنے کی توفیق دے لے دے ار نومبر و ای کو مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ کے طلباء نے احمدیہ مبلغین کو اہم ہدایات کا ایک ایسوسی ایشن لاہور کے مہبروں کو جامعہ احمدیہ کے صحن میں دعوت دی.جس میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی ہونے مبلغین کو نہایت اہم ہدایات دیں.چنانچہ حضور نے فرمایا کہ: قرآن کریم سے صراحتا معلوم ہوتا ہے کہ ایک خاص جماعت کو دین کی خدمت کا ذختہ دار قرار دیا گیا ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَلتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةً يَدْعُونَ إِلَى الْخَيرُ وَ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ ويَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرَ وأَوَلَيْكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ» (سوره آل عمران ) اور دوسری طرف فرماتا كُنتُم خَيْرٌ أُمَّةٍ اخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ سارے مومنوں کا فرض ہو کہ دعوت الی الخیر کریں تو ایک خاص جماعت کا ہونا ضروری ہے اور یہ لازمی چیز ہے.کوئی فوج اسوقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک اس کا ایک حصہ خاص کام کیلئے مخصوص نہ ہو اور تمام نیچر میں یہی بات نظر آتی ہے کہ ایک ذرہ مرکزی ہوتا ہے.مذہبی تبلیغ کیلئے بھی ایک ایسا مرکز ہونا چاہیے جو اپنے ارد گرد کو متاثر کر سکے اور دوسروں سے صحیح طور پر کام لے سکے.یہی غرض مبلغین کی ہے.لیکن عام طور پر خود میلعین نے بھی ابھی تک اس بات کو نہیں سمجھا.بیجھتے ہیں کہ وہ اسماری کے سپاہی ہیں اور کام انہیں خود کرتا ہے.مگر جو یہ بھتا ہے وہ سلسلہ کے کام کو محدود کرتا ہے ہم خدمت دین کیلئے کسی قدر مبلغ رکھ سکتے ہیں.اس وقت ساٹھ ستر کے قریب کام کر رہے ہیں جن کا جماعت پر الفضل ۲ جنوری ۶۱۹۳۶ صفحه ۵ - یادر ہے کہ ۱۳ نومبر شہداء سے 9 دسمبر ۱۹۳۵ء تک حاجی احمد خاں صاحب ایاز (مبلغ سنگری اور یوگو سلامہ یہ ہوتے سالار حیش کی حیثیت سے کام کیا.اور اردسمبر شہداء کو مرزا گل محمد صاحب سالار جیش اور سید احمد صاحب افسر جیش بنائے گئے.حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے اور دسمبر ۱۹۳۵ء کے خطبہ جمعہ میں مابعی احمد خان صاحب ایاز کی فرض شناسی کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا : " ہماری مساجد کے سائے پریذیڈنٹوں کو نیشنل لیگ کے ایک سال از جیش نے شکست دیدی اور ساتھ ہی اس احمدی لڑکے نے ثابت کر دیا ہے کہ جماعت میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسے نوجوان موجود ہیں کہ جب کام کا وقت آئے تو خواہ حالات کچھ ہوں وہ کام پورا کر کے دکھا سکتے ہیں مجھے اس امر کا خیال کر کے کہ ہمارے نوجوانوں میں وہا روح موجود ہے کہ اگر اسے ابھارا جائے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُن میں ایسے افراد موجود ہیں جو ہر قربانی کرکے کام کو پورا کر دینگے.اس قدر خوشی ہوتی ہے کہ جیسے کہتے ہیں.فلاش شخص کو بادشاہت مل گئی این رالفضل ۱۲ر دسمبر ۱۹۳۵ در صفحه ۶ کالم ۲)

Page 307

٢١ بہت بڑا بوجھ ہے اور چندے کا بہت بڑا حصہ ان پر خرچ کرنا پڑتا ہے مگر وہ کام کیا کرتے ہیں.اگر کام کرنیو الے صرف وہی ہوں تو سلسلہ کی ترقی بند ہو جائے.ان کے ذریعہ سال میں مرے دو تین کے قریب لوگ بیعت کرتے ہیں.اور باقی جن کی تعداد کا اندازہ دس بارہ ہزار کے قریب سے جماعت کے لوگوں کے ذریعہ احمدیت میں داخل ہوتے ہیں.رہے مباحثات جو مبلغین کو کرنے پڑتے ہیں.یہ اُسی وقت تک ہیں جبتک ہمارے ملک کے لوگوں کے اخلاق کی اصلاح نہیں ہوتی.مباحثات پبلک کے اخلاق کی خرابی کیوجہ سے کرنے پڑتے ہیں.ہمارایہ مقصد نہیں کہ علماء مباحثات کیلئے پیدا کریں بلکہ علماء کی غرض یہ ہے کہ وہ آفیسرز کی طرح ہوں جو اپنے اردگرد فوج جمع کریں اور اس سے کام نہیں.یا اس گڈریے کی طرح جسکے ذمہ ایک گلے کی حفاظت کرنا ہوتی ہے اور یہ کام دس میں مبلغ بھی لنگی سے کر سکتے ہیں.جب تک ہمارے مبلغ یہ نہ جھیں.اسوقت تک ہمارا مقصد پورا نہیں ہوسکتا.مبلغ کے معنے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ غیروں کو مخاطب کرنیوالا مگر صرف یہ معنی نہیں.بلکہ اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ غیروں کو مخاطب کرانے والا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کون مبلغ ہوسکتا ہے؟ مگر آپ کس طرح تبلیغ کیا کرتے تھے ؟ اس طرح کہ شاگردوں سے کراتے تھے.صحابہ میں آپ نے ایسی روح پھونک دی کہ انہیں اُسوقت تک آرام نہ آتا تھا جبتک خدا تعالی کی باتیں لوگوں میں نہ پھیلا لیں.پھر صحابہ نے دوسروں میں یہ روح پھونکی اور انہوں نے اوروں میں اور اس طرح یہ سلسلہ جاری رہا حتی کہ مسلمانوں نے اس بات کو بھلا دیا.تب خدا تعالیٰ نے اُس روج کو دوبارہ پیدا کرنے کیلئے حضرت سیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا.اس طرح اب سول کریم صلی الہ علیہ وسلم ہی تبلیغ کر رہے ہیں پس علماء کا کام یہ ہے کہ وہ ایسے لوگ پیدا کریں جود و سروں کو تبلیغ کرنے کے قابل ہوں.وہ خدمتگذاری اور شفقت علی الناس کا خود نمو ہوں.اور دوسروں میں یہ بات پیدا کریں.مگر عام طور پر مل لیکچر نے دینا یا مباحثہ کر لینا اپنا کام دینا یا سمجھتے ہیں اور خیال کر لیتے ہیں کہ اُن کا کام ختم ہوگیا.اسکی ایک نتیجہ تو یہ ہو رہا ہے کہ لوگ شکایت کرتے ہیں کہ علماء بیکار رہتے ہیں.بات اصل میں یہ ہے کہ تقریر کرنے یا مباحثہ کرنے کے بعد مبلغ کو اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ کچھ آرام کرے، کیونکہ بولنے کا کام مسلسل بہت دیر تک نہیں کیا جاسکتا.بولتے ہیں زور لگتا ہے اولیوریہ کے بعد انسان نڈھال ہو جاتا ہے.

Page 308

مبلغ سے یہ توقع رکھنا کہ وہ ہر روز کئی کئی گھنٹے تقریر کرے.اگر کوئی ایسا کرے تو چند ماہ کے بعد اُسے سیل ہو جائے گی اور وہ مر جائے گا.پھر روزانہ کہاں اس قدر لوگ مل سکتے ہیں جو اپنا کام کاج چھوڑ کر تقریریں سنے کیلئے جمع ہوں پس یہ کام چونکہ ایسا نہیں جو سلسل جاری رہکے اسلئے لوگوں کو شکایت پیدا ہوتی ہے کہ مبلغ فارغ رہتے ہیں حالانکہ ان حالات میں ان کا فارغ رہنا قدرتی امر ہے.دراصل انہوں نے اپنے فرض کو سمجھا نہیں.وہ کہو دیتے ہیں کہ جب ہمارے پاس کوئی آیا ہی نہیں تو ہم مجھائیں کسے ، اس وجہ سے ہم فارغ رہتے ہیں.لیکن اگر وہ اپنا یہ فرض سمجھتے کہ ان کا کام صرف تقریر کرنا ہی نہیں بلکہ لوگوں کے اخلاق کی تربیت کرنا ہے.انہیں تبلیغ کرنے کے قابل بنانا ہے.اور کیپر وہ اپنا تصنیف کا شغل ساتھ رکھیں.جہاں جائیں لکھنے پڑھنے میں مصروف رہیں.کوئی ادبی مضمون لکھیں کیسی مسئلے کے متعلق تحقیقات کریں.ضروری والے نکالیں.تاریخی امور جمع کریں.تو پھر انکے متعلق یہ نہ سمجھا جائے کہ وہ فارغ رہتے ہیں.یہ تاریخی مختلف کام ہیں جن کی طرف ہمارے مبلغین کو توجہ کرنے کی ضرورت ہے.اگر کوئی مبلغ کہیں جاتا اور وہاں تصنیف کا شغل بھی جاری رکھتا.تو لوگ یہ نہ کہتے وہ فارغ رہا.بلکہ یہی کہتے کہ لکھنے میں مصروف رہا.مگر مبلغین کو اس طرف توجہ نہیں.اور یہی وجہ ہے کہ تصنیف کا کام نہیں ہورہا.ممکن ہے اسوقت بھی یہاں بعض مبلغ ہوں مگر دعوت چونکہ ان کی طرف سے ہے جو آئندہ مبلغ بننے والے ہیں.اس لئے میں انہیں نصیحت کرتا ہوں کہ وے دو ہی طریق اختیار نہ کریں جو اُن سے پہلوں نے کیا اور جس کیوجہ سے نو حصے کام ضائع ہوا اور صرف ایک حصہ ہورہا ہے.اس طرح جماعت کی ترقی نہیں ہوسکتی کیونکہ جو مبلغ اپنے اوقات کی حفاظت نہیں کرتے اور انہیں مجھے طور پر صرف نہیں کرتے وہ جماعت کیلئے ترقی کا موجب نہیں بن سکتے.جو لوگ آئندہ مبلغ بننے والے ہیں وہ اپنے اوقات کی پوری طرح حفاظت کرنے کا تہیہ کریں.ان کا کام صرف اپنے منہ سے تبلیغ کرنا نہیں بلکہ دوسروں کو دینی مسائل سے آگاہ کرنا.اُن کے اخلاق کی تربیت کرنا.اُن کو دین کی تعلیم دینا.اُن کے سامنے نمونہ بین کہ قربانی اور ابشار سکھانا اور انہیں تبلیغ کیلئے تیار کرتا ہے گویا

Page 309

۲۷۳ ہمارا ہر ایک مبلغ جہاں جائے وہاں دینی اور اخلاقی تعلیم کا کالج کھل جائے کچھ دیر تقریر کرنے اور لیکچر دینے کے بعد اور کام کئے جاسکتے ہیں.گرمتواتر بولا نہیں جا سکتا کیونکہ گلے سے زیادہ کام نہیں لیا جا سکتا.مگر باقی قدمی سے کام لے سکتے ہیں.میں تقریر کرنے کے بعد لکھنے پڑھنے کا کام سارا دن جاری رکھتا ہوں....پس میں مبلغین کو نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے اپنا کام اب جو سمجھا ہوا ہے.وہ اُن کا کام نہیں ہے.یہ بہت چھوٹا اور محدود کام ہے.افسر کا کام یہ نہیں ہوتا کہ سپاہی کی جگہ بندوق یا تلوار لے کر خود لڑے.بلکہ اُس کا کام یہ ہوتا ہے کہ سپاہیوں کو لڑائے.اسی طرح مبلغ کا کام یہ ھو کہ جماعت کو تبلیغ کا کام کرنے کے لئے تیار کرے اور ان سے تبلیغ کا کام کرائے.اسطح خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت کی ترقی ہو سکتی ہے پہلے سے کئی گنا زیادہ بڑھ سکتی ہے.اسی طرح جماعت کی تربیت کی طرف مبلغین کو تو بند کرنی چاہیے.جماعت کے بیکاروں کے متعلق تجاویز سوچنی چاہئیں.بیاہ شادیوں کی مشکلات کو حل کرنے کیلئے جد و جہد کرنی چاہئیے بغرض جس طرح باپ کو اپنی اولاد کے متعلق ہر بات کا خیال ہوتا ہے.اسی طرح مبلغین کو جماعت سے متعلق ہر بات کا خیال ہونا چاہیے.کیونکہ وہ جماعت کے لئے باپ یا بڑے بھائی کا درجہ رکھتے ہیں، تے ۱۹۳۵ء میں سترہ جلیل القدر صحابہ انتقال بعض جلیل القدر صحابہ کا انتقال فرماگئے.جن کے نام یہ ہیں.۱- حضرت پیر سراج الحق سلاح بن سمساوی نعمانی دوفات ۳ جنوری ۱۹۳۵) بعمر اسی سال نہایت مخلص اور قدیم صحابہ میں سے تھے.تذکرۃ المهدي (حصته اول و دوم مخمس" علم القرآن".قاعدہ عربی " پیر مہر علی شاہ گوٹھ وہی سے فیصلہ کا ایک طریق " سراج الحق (حصہ اول.پنجم) آپ کی علمی یادگاریں ہیں.لے روز نامه الفضل قادیان اور نومبر ۱۹۳۵ و ده دا ۱۹۳۵ ء ه ل ٣ الفصل 4 جنوری ۱۹۳۵ء صفحه ۱ : ا ::

Page 310

۲۷۴ ۲- حضرت ملک الطاف خان صاحب نے روفات ۱۵-۱۶ار جنوری ۱۹۳۵ را متوطن موضع ترناب تحصیل بچارسدہ ضلع پشاور شہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال سے قبل شرف بیعت حاصل کیا.صاحب کشف و الہام بزرگ تھے.احمدیت کی خاطر بہت تکلیفیں اٹھائیں.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی رضا نے ان کی وفات پر لکھا کہ ہمارے سلسلہ کا ایک ولی چیل تنہا -۳- حضرت مولوی احمد الدین صاحب متوطن ہوام تحصیل چکوال ضلع جہلم - مولوی صاحب موصوف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی ہونے کے علاوہ سلسلہ حمادیہ کے سرگرم کارکن اور عالم باعمل اور اشاعت احمدیت کیلئے حقیقی تڑپ رکھنے والے تھے و تاریخ وفات ۲۷ مارچ ۱۹۳۵ 1910 4 سے م حضرت راسٹر ہدایت اللہ صاحب والد ماجد حضرت میاں محمد یوسف صاحب لاہور ( تاریخ وفات ۲۳ فروری ۹۳۵اء بعمره ۷ سال) قدیم صحابہ میں سے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت تعلیفہ اسیح الثانی رض سے ان کا اخلاص قابل رشک تھا.-۵ حضرت ملک محمد حسین صاحب بیرسٹر نیروبی ( تاریخ وفات سم را بریل ۳ (۶) غالباً شامل ہیں رہتاس ضلع جہلم میں پیدا ہوئے.ابتدائی تعلیم قادیان میں حاصل کی حضرت سیدنا المصلح الموعورت کے ہم مکتب تھے.انداز اس یو میں افریقہ تشریف لے گئے.ان کاشمار نیروبی کے ممتاز ترین بیرسٹروں میں ہوتا تھا او میں لیجسلیٹو کونسل کے مہبر نامزد ہوئے اور میونسپل کمشنر کی حیثیت سے قوم و ملت کی هو شاندار خدمات انجام دیں شیه حضرت سید معراج الدین صاحب نیره بی تاریخ وفات ۱۵ را پریل ۹۳۵ یه ۳۵ را م میں احمدیت قبول کی 194 ء میں افریقہ تشریف لے گئے برا 119 میں حج سے مشرف ہوئے.مالی مشکلات کے با وجو د محصورت خلیفہ اسیح الثانی من کی ہر تحریک پر بڑے خلوص کے ساتھ لبیک کہنے اور مالی قربانیوں میں مقامی جماعت کی ہر فرد سے بڑھ کر حصہ لیتے تھے یہ حضرت میاں دوست محمد صاحب نیروبی (مئی ۶۹۳) - حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب نے 1478 ا الفضل هر جنوری ۱۹۳ ء صفحه 4 ے الفصل ۱۳- اپریل ۹۳۵اء صفحہ ۴ کالم 1 و الحکم ۲۱ جنوری ۱۹۳۵ ار صفحه 1 الفضل ۲۶ فروری ۱۹۳۵ء صفحه ۲ : هم الفضل ۱۹ جون ۱۹۳۵ بر صفح ۸ کالم ، و۳ له الفضل + 1 مئی ۱۹۳۵ صفحه ۶ :

Page 311

۲۷۵ آپ کی وفات پر لکھا.آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر پروانہ وار فدا تھے.....آپ کافی عرصہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت بابرکت میں حاضر رہے.آپ اُس وقت بھی حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی معیت میں تھے جبکہ لیکھرام پشاور نے صور کو بار بار اگر سلام کیا اور حضور نے جواب نہ دیا.مجھے جب کبھی اس بزرگ بھائی کی محبت میں بیٹھنے کا موقعہ ملتا.ایک خاص لطف اور سرور حاصل ہوتا " 1 ١١- - چوہدری سرد از خالی صاحب ساکن چک چور کا اضلع شیخو پوره تاریخ وفات ، ارمنی ۱۹۳۵ ریالی - رحیم ۹ - حضرت مولوی رحیم بخش صاحب ساکن تلونڈی جھنگاں د تاریخ وفات ۲ ستمبر ۱۹۳۵ء کے آپ اُن جلیل القدر صحابہ میں سے تھے جن کو زمانہ دعوئی ماموریت سے بھی قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت و طاقات کے کئی قیمتی مواقع میسر آئے.بیعت سے قبل حضرت مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی کے مرید تھے.ا - نضرت میاں میران بخش صاحب ساکن شیخ پر ضلع گجرات ( تاریخ وفات ۲۳ را گست ۱۳۵) - پچاسی سال زندگی پائی.ہے حضرت چوہدری مہرالدین صاحب ( ساکن موضع بویک (متر) ظفر وال ضلع سیالکوٹ تاریخ و اساسی تاریخ وفات ستمبر ۶۱۵) آپ ۱۹۰۳ء میں داخلی احمدیت ہوئے مخالفین نے آپ کو بہت تکالیف پہنچائیں.تبلیغ کی خاص حصن تھی.ویر کا نارووال ریلوے لائن کھلنے سے پہلے آپ اکثر سال میں دو تین بار پیدل چل کر قادیان جایا کرتے تھے.دعاؤں سے خاص شغف تھا اور اولاد کی تربیت کا بہت خیال رکھتے تھے کیے ۱۲ شیخ عبدالرزاق صاحب بیرسٹر امیر جماعت احمدیہ لائل پور تاریخ وفات ام راکتو بر ۱۹۳۵) حضرت یح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے مگر خلافت ثانیہ کی بیعت دسمبر ۱۹۳۳ء میں کی.بیعت کرنے کے بعد آپ کی له الفضل ۲۵ فروری ۱۹۳۶ ء صفحه ۸ : ٣ ء محمد الفضل مستمر ۱۹ شمہ - صفحہ ۹ - ۱۱) میں حضرت مولوی صاحب کے خود نوشت سوانح شائع شدہ ہیں.(۱۱۹) آپ کے لڑ کے محمد عبد اللہ صاحب ، عبدالرحیم صاحب ، ڈاکٹر عبدالقدوس صاحب اور عبد القدیر صاحب ہیں جو الفضل ۲۵ مئی ۱۹۳۵ ۶ صفحه ۲ کالم ۴ ان دنوں نواب شاہ (سندھ) میں رہتے ہیں : که الفضل ۲۶ ستمبر ۱۹۳۵ صفحه ۱ : الفضل ۱۴ دسمبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۷.آپ کے لڑکے کیپٹن ڈاکٹر بشیر احمد صاحب سابق در پیش قادیان رحال ریوه چوہدری نذیر احمد صاحب ( مرحوم - وفات 4 ستمبر ۱۹۳۵ ۶) چوہدری محمد احمد صاحب واقف زندگی ( دفتر محاسب (اوہ).لیفٹیننٹ اور احمد صاحب - چوہدری ظہور احمد صاحب سی ایم اے کو اچھی و

Page 312

نہ ندگی میں ایک ایساز بر دست تغیر اور حیرت انگیز تبدیلی پیدا ہوگئی کہ اگر آپ کو ابدال کہا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا.مرکز کی طرف سے آنے والے ہر ملغ یا کارکن کی جہان نوازی اور آرام پہنچانے میں کوئی دقیقہ فرد گذاشت نہیں کرتے تھے بلے ۱۳- حضرت شیخ غلام احمد صاحب واعظ تاریخ وفات ۱۲ اکتوبر شده و بعمره ۷ سال) مرحوم نومسلم تھے تاہ میں حضرت مسیح موعود کی بیعت کی.نہایت خوش بیان واعظ ، عابد و زاہرام مستجاب الدعوات تھے.آپ کی عمر کا بیشتر حصہ تبلیغ احمدیت کے لئے وقف رہا ہے.۱۴ حضرت منشی فیاض علی صاحب ( تاریخ وفات ۱۷ اکتوبر ما وراء بعمر ۹۰ سال متوطن سر و ضلع میں ٹھ ۱۳ ۱۳۱ صحابہ کبار میں شمولیت کا فخر حاصل تھا.رویاء صالحہ اور رکشوں سے مشرف تھے.دہلی میں انتقال کیا.اور بہشتی مقبرہ قادیان کے قطعہ صحابہ میں دفن کئے گئے سکے ۱۹۳ ۱۵- حضرت مرزا اسماعیل بیگ صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیم خدام میں سے تھے.د تاریخ وفات ۱۲۰ اکتوبر ۱۹۳۵ ایران ۱۶- حضرت شیخ عبدالرحمن صاحب بن مسکین فرید آبادی د تاریخ وفات ۳ در دسمبر ۳۵ در اشته حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی حضرت امیر امینی الی الی المانی من و راکتور ساده المومنین خلیفة کے خطبہ جمعہ کے بعد فرمایا اور پچھلے عشرہ میں جماعت احمدیہ کے زبان مبارک سے ذکر خیر بعض اچھے مخلص فوت ہو گئے ہیں.جن میں زیادہ تر حضرت کے موعود عليه الصلوۃ والسلام کے صحابہ ہیں.ایک ہمارے شیخ غلام احمد صاحب واعظ تھے جن کا انتقال اسی ہفتہ ہوا.پھر شیخ عبدالرزاق صاحب بیرسٹرلائل پور کا انتقال ہوا ہے.انہیں مبایعین کی جماعت میں داخل ہوئے گو ابھی ڈیڑھ سال ہی ہوا تھا مگر وہ بھی صحابی تھے.اور بیعت خلافت کے بعد انہوں نے حیرت انگیز تبدیلی پیدا کر لی تھی اور جماعت کے کاموں میں بہت قربانی کرنے لگ گئے تھے اور روزانہ اخلاص میں بڑھتے چلے جا رہے تھے.له الفضل ۱۲۰ اکتوبر ۱۹۳۵ء صفحره به له افضل ۱۵ اکتوبر ۱۹۳۵ء صفحه ۲ - حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی موتے ان مردم راکتور اور پیر اکتوب میں آپ کی مفصل سوانح شائع کردی تھی یہ سلم الفضل ۱۲۰ اکتو بر ۱۹۱۳ ء صفحه ۱۲ ه الفضل ۲۹ اکتوبر ۱۹۳۵ و صفحه ا کالم ).ه الفضل ۷ اردسمبر ١٩٣٥ ء صفحه الكالم + ملاحظہ ہو الفصل ۲۴ اکتوبر ۱۹۳۵ رو صفحه ۱۰ I

Page 313

خان بہادر شیخ محمدحسین صاحب بھی وفات پاگئے ہیں.وہ تو صحابی نہیں تھے بلکہ حضرت خلیفہ اسے اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد خلافت میں انہوں نے بیعت کی مگر نہایت مخلص تھے اور ہمیشہ جماعت کے کاموں میں حصہ لیتے تھے.ایک حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی صحابی سید محمد علی شاہ صاحب مرحوم کی اہلیہ صاحبہ بھی وفات پاگئی ہیں.وہ بھی سلسلہ سے گہرا اخلاص رکھتی تھیں.اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنے جوار رحمت میں جگہ ہے.اور پسماندگان پر اپنے فضل کا ہاتھ رکھے.منشی فیاض علی صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے اور ۳۱۳ میں ان کا نام تھا.فوت ہو گئے ہیں....ران موتوں کے ساتھ ساتھ یہ خیال شخص کے نزل میں اٹھنا چاہیئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ روز بروز کم ہوتے جارہے ہیں.نوجوانوں کو چاہیئے کہ وہ کوشش کریں کہ وہ اُسی رنگ میں رنگین ہو جائیں جس رنگ میں یہ لوگ رنگین تھے.ویسلسلہ کے لئے قربانیاں کریں اور اللہ تعالیٰ کی طرف ایسے انابت اور توجہ کریں کہ اس انابت کے نتیجہ میں انہیں اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو جائے.اور ان کا ایمان صرف خشک ایمان نہ رہے بلکہ حضرت یح موعود علیہ السلام کے صحابہ کی طرح اُنہیں نہ ایمان حاصل ہو نے احمدیت اور سیاسیات عالم فنی ۲۷/۲۶/۲۵ دسمبر ۱۹۳۵ ء میں جماعت احمدیہ کا سالانہ جلسہ قادیان میں منعقد ہوا جس میں حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی نے مردانہ جلسہ گاہ میں تشریف لاکر تین بار خطاب فرمایا.(۱) اپنی افتتاحی تقریر یں اسلام او احمدی کے عالمگیر غلبہ کی پیشگوئی کا تذکرہ فرمایا.(۲) کوس کے دن کی تقریب میں تحر یک جدید کے مقاصد پر تفصیل روشنی ڈالی سیر تیسرے دن کے افتتاحی خطاب میں بڑی شرح وبسط سے بیان فرما یا کہ احمدیت دنیا کی سیاسیات میں گیا تغییر پیدا کرنا چاہتی ہ ہے اس مضمون کی اہمیت بیان کرتے ہوئے مصور نے فرمایا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا العام ہے کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے بہت ڈھونڈیں گے.اس کے مطابق ہمیں یقین ہے یہ له ان ۲۳ اکتو بوصفه الانم او له اش در مشهد کے لفض ۲۹ دسمبر وار صفحه ۲۰۱ أدم

Page 314

بادشاہ احمدیت میں داخل ہونگے.لیکن جب وہ بادشاہ آئیں گے تو انہیں کون بتائے گا تمہارے کیا فرائض ہیں.اگر آج ہم قرآنی تعلیم سے اخذ کرکے دہ فرائض اپنی کتابوں میں نہیں لکھ دیں گے ہو بادشاہوں اور حکومتوں کے ہیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ دنیوی بادشاہوں کی نقل کریں گے.اور اُس کا نتیجہ بجز تباہی کے اور کچھ نہیں ہوگا.پس آپ لوگوں میں سے ہر ایک کو معلوم ہونا چاہیئے کہ احمدیت کس قسم کی بادشاہت دنیا میں قائم کرنا چاہتی ہے.تاجب بادشاہت آئے اور اس وقت کے بادشاہ کسی اور رنگ میں کام کرنا چاہیں تو فورا ان کو بتا دیا جائے کہ یوں حکومت کرو.ہم تمہیں وہ باتیں قرآن مجید سے اخذ کر کے بتاتے ہیں جن کے ماتحت تمہارے لئے کام کر ناضروری ہے.اس تفصیل کے بعد حضور نے لیگ آف نیشنز اور اسکی ناکامی کے اسباب بتائے اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں امن عامہ کے ذرائع پر سیرت اصل روشنی ڈالی اور آخر میں اسلامی لیگ آف نیشنز کا خاکہ رکھنے کے بعد نصیحت فرمائی کہ وہ یہ خیالات دنیا میں پھیلائیں تا اسلام اور احمدیت کی برتری ثابت ہوئے ۹۳۵ار کی عید الفطر اور حضرت اء کے سالانہ اس کے مابعد دسمبر کو یر اعظم امیرالمومنین کی بعیت افروز خطبہ منای گئی قادیان میلے کا امام کا عالم تھاکہ عیدگاہ کے نہایت خلقت وسیع میدان کے علاوہ دور دور تک احمدی ہی احمدی نظر آتے تھے.الفطر اس موقعہ پر شہر سے دور مقام پر لاؤڈ سپیکر کا انتظام ممکن نہیں تھا اس لئے حضرت خلیفہ المسیح الثانی ہو نے خطبہ کے الفاظ و مستوں تک پہنچانے کیلئے سلسلہ احمدیہ کے نو جید علماء حسب ذیل نقشہ کے مطابق متعین فرمائے ہیں قریشی محمد نذیر صاحب حقانی مولوی دال محمد صاحب جنوب خواتین کا مجمع ضرت امیر المؤمنين مولوی محمد سلیم صاحبی ملک عبد الرحمن صاحب خادم شمال ی که دوه مولوی اور ان صاحب میر گر مولوی محمد اعظم صاحب بوتادی مولوی محمد عبد اللہ صاحب اعجاز ١٩٣٥ مولوی عبد الرحمن صاحب بیشتر چوہدری محمد شریف صاحب ) له الفضل ۲۹ دسمبر ۱۹۳۵ء صفر ہے ملے اس پر معارف تقریر کا ملخص الفصل ۲۹ دسمبر ۹۳۵اء صفحہ ۲۱ پر موجود ہے جسکے سرسری مطالعہ سے بآسانی اندازہ ہو جاتا ہے کہ اصل تقریر کس شان کی ہوگی : ۳ الفضل ۲ جنوری ۱۹۳۶ صفحه ۴ :

Page 315

۲۷۹ حضرت امیر المومنین جو فقرہ ارشاد فرماتے.وہ مولوی موسلیم صاحب بلند آواز سے وہ ہرانے اور روہ ان سے سن کر مولوی دل محمد صاحب - قریشی محمد نذیر صاحب - مولوی محمد عبد اللہ صاحب اعجاز - مولوی محمد اعظم صاحب اور مولوی احمد خان صاحب بیم بآواز بلند کہتے اور ان کے بعد ملک عبدالرحمن صاحب خادم اور مولوی محمد شریف صاحب دوہرا تے.اس طرح حضور کی تقریر تمام مجمع میں گونج جاتی.حضرت امیر المومنین من نے قریباً نصف گھنٹہ تک خطاب فرمایا اور جماعت کو نصیحت فرمائی کہ الہ تعالیٰ سے تعلقات کی بنیاد محبت پر رکھو یہ اس پر معارف خطبہ کی جذب و تاثیر کا یہ عالم تھا کہ بیسیوں اصحاب کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے.اور مجمع پر رقت کی کیفیت طاری تھی.سلے 1970 فصل ششم ۱۹۳۵ء کے بعض متفرق مگر ہم واقعت | خاندان سیخ موجود میں ترقی - اناشید اما کے گھرمیں ایک بھی پیدا ہوئی ہے صاحب در جولائی ۱۹۳۷ ء کی درمیانی شب حضرت خلیفه ام کے حرم ایلی میں صاحبزادہ مرزا رفیق احمد صاحب کی ولادت ہوئی.ہے ۳ - ۲۱ اگست شام کو حضرت مرزا شریف احدات المادا الا الیدگی کی ولادت ہوئی.۴- استمراء کو صاحبزاده هرز منصور احمد صاحب کے ہاں محترمہ سیدہ ناصرہ بیگم صاحبہ کے بطن مبارک سے صاحبزادی امتہ المرؤوف پیدا ہوئیں جو حضرت امیر المو منین کی پہلی تو اسی حضرت مرزاعله لعین احمد صاحب کی پہلی ہوئی اور حضرت ام المومنین کی پہلی پڑپوتی تصوریت ۱۹-۰۵ اکتو بر اشیاء کو حضرت نواب محمدعبدالله خان صاحب انا او ملی ما با شما را انتصاب لے طلبہ کا مکمل متن الفضلی پر جنوری 197 ء میں شائع شدہ ہے جدا که انفصل ۲ جنوری شاء صفحه ۲ الفضل، ۲۰ جنوری ۱۹۳۵ ء صفحه : له الفضل ۲۸ جولائی ۱۹۳۵ء صفحہ ۲ کالم ۳ الفضل ستمبر ۶ وصل کالم ، نه الحكم الاستمبر ۱۹۳۵ء صدا و افضل ، ۲ ستمبر ۱۹۳۵ ء صفحه ۱۲ کالم ۴

Page 316

PA.پیدا ہوئے.اے -۲ نومبر ۱۹۳۵ء کی درمیانی شب کو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے ہاں امتہ اللطیف بیگم صاحبہ کی ولادت ہوئی.ہے سنگ بنیاد اس سال سید نا حضرت خلیفہ ایسیح الثانی سنہ نے اپنے دست مبارک سے مندرجہ ذیل انتخاب کے مکانات کا سنگ بنیاد رکھا :- مرزا عبد الغنی صاحب پنشنر کینیا - ۲۰۱ ر بنوری شامله - محلہ دار البرکات کے 1970 مسجد دار البركات.( ۱۸ر فریدی ۵۲۶۱۹۳۵ - گرد لطان احمد صاحب مهاجر - ۱۸۱ر ضروری شله - دار البرکات ۲۵ له حکیم فضل الرحمن صاحب مبلغ افریقہ (۱۸) فروری ۳۵ را ۶ - دار الفضل) حضرت سید عزیز اللہ شاہ صاحب ( ا ار مارچ ۱۹۳۵ - دار الانوار) کے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب - ( ۱۲ را پریل ۹۳۵ ه - دار الانوار) سے ڈاکٹر سید ظہور احمد شاہ صاب - ( ۲ مئی ۱۹۳۵ - دار البرکات ) (۶) وٹرنری اسسٹنٹ سرجن پاکیپٹن (حال واقف زندگی تحریک تجدید ربوہ ) میاں اللہ : تہ صاحب مایل پوری سپاہی پیشتر (۶ مئی ۱۹۳۵ اره - دار البرکات) 2 مکان ڈاکٹر سید رشید احمد صاحب زاهدان (۱۲ جون ۶۱۹۳۵ - دار البرکات) مسجد دار السعة ال (۳۰ ستمبر ۶۹۳۵) اے مکان با بوالله بخش صاحب ثم آفیسر پشایر - (۲۱ نومبر ۱۹۳۵ - دار الرحمت) له ان الحلم ۲۱-۲۰ الیه برنا ، و صفحه ۹ ۱۲ الفضل بر نومبر ۱۹۳۵ء صفحه ۲ کالم ۳ - ( تاریخ احمدیت جلد سوم ) میں آپ کی تاریخ ولادت در نوبه له درون است جو ہو ہے) سے الفصل ۲۴ جنوری ار سفح ا کالم ان الفضل اور فروری 19ء صفحہ الالم ان شا الفضل در مارچ ۱۹۳۵ مهر صفحه : کالم شها المفضل ۱۲ را بپریل ۹۳۵اره صفحه ۱ : 2 الفضل در مئی ۱۹۳۵ء صفحه ۱ کالم ۴۲ ا الفضل به رجون ۱۹۳۵ء صفحه اکالم : 21 الفصل ۳ اکتوبر ۹۳۵ رو صفحه ۹ کالم ا الفضل اور نومبر ۹۳۵ صفحه ۴ کالم ۴

Page 317

PAI گوردوارہ پنہ صاحب حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی من کی طرف ہر ایک وفد نے جو پاسٹر اخبار نور" کی تعمیر کے لئے امداد و سردار محمد یوسف صاحب ا ا ا ا ا اور اورمولانا جلال الدین صاب شمس پر مشتمل تھا یه ۲۲ فروری ۱۳۵ درد کو کرنال سرد دار گلبه نوره هتاب سنگر سردار ڈایری و سیکرٹری گوردواره مینه صاحب بیٹی کو مبلغ پانسور و پیہ کی رقم گوردوارہ پین صاحب کی تعمیر کے لئے دی.لے " اخبار پرتاپ ( ۲۷ فروری ۱۳۵) نے اس واقعہ کی خبر درج ذیل الفاظ میں شائع کی :- پٹیالہ ۲۳ فروری ۰ ۲۲ فروری کو امام جماعت احمدیہ قادیان کی طرف سے ایک ڈیٹویٹ نے کرنل سردار رگھیرے گھر صاحب سیکرٹری گوردوارہ کمیٹی سے ملاقات کی اور گوردوارہ کی تعمیر کے لئے روپیہ چندہ دیا.چندہ و منظور کرتے ہوئے کرنل رگبر سنگھ نے کہا کہ اس رقم کی امداد سر ستوں اور احمدیوں کے تعلقات جو پہلے ہی خوشگوار ہیں زیادہ بہتر ہو جائیں گے.ڈیپوٹیشن نے ہز ہائینس شری مہاراجہ صاحب بہادر آف پٹیالہ سے بھی جو کمیٹی کے پریذیڈنٹ ہیں ملاقات کی.انہوں نے احمدیہ جماعت کی اس سپرٹ کی بہت تعریف کی.اور کہا کہ آجکل کے فرقہ دارانہ کشیدگی کے دنوں میں اس قسم کی ہمدردانہ امداد بد اعتمادی اور شکوک کوجو مختلف جماعتوں میں پائے جاتے ہیں دور کر دیتی ہے امداد به اس خبر پر سکھ اختیار مشیر پنجاب نے یہ تبصرہ کیا کہ :- جولوگ احمدیوں کی تنظیم، ان کی سرگرمیوں او مختلف تحریکوں سے دلچسپی رکھتے ہیں وہ سب انی یعنی حضرت خلیفہ اسی الثانی کی ناقل) قوت عظیم ، اسلامی لٹریچر سے نہایت وسیع واقفیت ، علم و فضل اور اپنی جماعت کی قیادت کے لئے غیر معمولی تدید دانشمندی کے قائل ہیں اور سکھوں کے ایک نہایت تبرک و مقدس گوردوارہ کی عمارت کی تعمیرکے لئے پانچسو روپیہ چندہ کی یہ رقم جہاں غیرمسلم ہمسایو سے آپکے خلاص اور رواداری کا ایک ثبوت سمجھا جائیگا.وہاں اس میں آپ کی مسلمہ معاملہ فہمی اور دانشمندی کا را از بھی مضمر ہے.ہم اس فیاضانہ چندہ کیلئے آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور آپکو یقین دلاتے ہیں کہ خالصہ فیتھ آپ کے اس اخلاص کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے.اور جب کوئی موقعہ آیا سکھ بھی احسان کا بدلہ احسان اور نیکی کا بدلہ نیکی میں دیں گے “ ه الفضل در مارچ ۱۹۳۵ء صفحه ۲ : ۹۲ بحوالہ اخبار نور قادیان در مارپه صفحه کالم ct بحواله الفضل د مارچ ۱۹۳۵ صفحه ۲ : F

Page 318

۲۸۲ مارچ ا ا راء میں مولا نا احمد خان صاحب تیم حال ایڈ یشنل ناظر اصلاح و مامشن کا قیام ارشاد تبلیغ حدیت کے لئے برما تشریف لے گئے حضرت امیر مومنین خلیفہ آیا قیام الثانی ہو نے اُن کو روانگی کے وقت نصیحت فرمائی کہ وہ زیادہ تر تبلیغ میں تو جو یہ آبادی لوگوں کیطرف ریں لیے چنانچہ آپ نے اس بارے میں خاص طور پر جدوجہد فرمائی اور اللہ تعالیٰ نے بھی آپکی کوششوں میں غیر معمولی برکت ڈالی اور کامیابی بخشی.جب آپ ابتدا میں برما پہنچے تھے.زیر آبادیوں میں صرف تین یا چار احمدی موجود تھے.مگر ۱۹۳۶ ء میں یہ تعداد سو سے بھی زیادہ ہوگئی.اور میدن اور بین میں بڑی بڑی جماعتیں قائم ہوگئیں.شامل احدیت ہونے والوں میں عربی عالمہ، انگریزی دان اور زیر آبادی قوم کے ایڈر بھی تھے لیک موچلین شہر میں آپ نے ایک مناظرہ کیا جس کے بعد ۱۸ افراد افضل احمدیت ہوئے.اسی طرح بلبیدن میں چند دنوں میں ہی ساٹھ آدمیوں نے بیعت کولی، قیام برما کے دوران آپ نے برمی زبان میں ایک کتاب فیصلہ آسمانی " کے نام سے شائع کی، جو تبلیغی لحاظ سے بہت مفید ثابت ہوئی.برما میں آپ کو اپنی تبلیغی مہمات میں جن مخلص احمدیوں کا خاص طور پر تعاون حاصل رہا.اُن کے نام یہ ہیں.(۱) عبد القادر کٹی مالا باری (۳) ایم محمود صاحب نمیدن (۳) ڈاکٹر غلام قادر صاحب حال چک چه در غلیاں ملا ضلع شیخو پورہ (۴) ٹی پی محمد صاحب (۵) ڈاکٹر محمد صدیق صاحب (۲) شیخ محمد سعید عماب بی اسے ایل ایل بی ابن میاں محمد ابراہیم صاحب چنیوٹی کانپور (۷) میاں محمد افضل صاحب گوجرانوا • (۸) اسے کے این پیر محمد صاحب (۹) ایم ایل مرے کا ر صاحب (۱۰) برکت علی خان صاحب کنٹریکٹر کوٹی (۱۱) کوکو لے صاحب (۱۲) کوکو جی صاحب (۱۳) محمدا بر اسلیم صاحب برمی (۱۴۳) عید الفتی (۱۵) ماسٹر عاشق علی صاحب سے محترم نسیم صاحب دسمبر الہ میں برما سے واپس قادیان آگئے.له شاه شجاع با دشاہ افغانستان کے عہد حکومت (۱۸۰۳ ء تا ۱۸۱۶ء ۱۸۳۹ء تا ۱۸۴۱ء) کے دوران جو مسلمان برما میں آباد ہوئے ان کو برما میں زیر آباد کہتے ہیں.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نہ کی طرف سے آپ کو برما میں جاتے ہی سب سے پہلی اور اہم ہدایت یہ موصول ہوئی.کہ رپورٹ یا قاعدہ آنی چاہئے.چنانچہ آپنے اس کی تعمیل کی بڑھی احمدیوں کے چندوں کی نسبت حضور نے نشستیم صاحب کو یہ ہدایت فرمائی که در نتیس فیصدی چنده بر ما میں خرچ کر سکتے ہیں.باقی رقم مرکز میں بھیجی جائے.سلے مثلاً مونکوا لے القاسم جن کے مضامین اخبارات سلسلہ میں بھی شائع ہوتے رہے ہیں.ے رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمد یہ قادیان ۳۸ ۱۹۳۹ صفحه ۱۵۱ - ۱۵۵

Page 319

اس کے علاوہ دو اور کتابیں بھی آپ نے شائع کیں جن میں سے فیصلہ قرآنی بہت مشہور ہوئی.اس کتاب نے مخالفین پر احمدیت کا رعب بٹھا دیا.یہ کتاب ایک تامل اختبار کے اعتراضات کے جواب میں لکھی گئی تھی.اور اس کا ترجمہ کر اسکے تامل زبان میں شائع کی گئی تھی لیکے آپ کے بعد مولوی محمد سلیم صاحب برما بھجوائے گئے.مولوی صاحب موصوف ۱۳ را پریل من ایر سے لیکر دسمبر تک بر ما مشن کے انچارج مبلغ رہے.سن سے اخبار البشرى حیدرآبادسند کا اجراء اسلامی ایشیا میں سندھ کو جو اہمیت حاصل ہے کہ کسی سلمان سے پوشیدہ نہیں.اس سر زمین کو نیاء احمدیت سے منور کرنے کے لئے ڈاکٹر عبد العزیز صاحب اخوند نے سندھی زبان میں حیدر آباد سندھ ے البشری نامی ایک پندرہ روزہ اخبار نکالنا شروع کیا جس کا پہلا پرچہ یکمی سایر کو شائع ہوا.اخبار کے روح رواں ڈاکٹر صاحب موصوف ہی تھے.مگر سرکاری ملازم ہونے کے باعث اُن کی بجائے مرزا امیر احد صاحب کا نام بطور پیر لکھا جاتا تھا.البشری اگر چه صرف چودہ تک جاری رہ سکا.مگر اس نے تھوڑے عرصہ میں سندھی صحافت اور عوام دونوں پر گہرا اثر ڈالا اور اس کے مضامین کو خاصی اہمیت دی جانے لگی تھی.لکھنو میں احمدیہ دار التبليغ ) ور اگست ۱۹۳۵ء کو جماعت احمدیہ لکھنو کے دارالتبليغ اور دارالمطالعہ کا افتتاح کیا گیا.اس تقریب پر مولوی محمد عثمان اور احمدی دارالمطالعہ کا انفتاح صاحب لکھنوی کی صدارت میں بارہ بجے شام ایک جلسہ بھی منعقد ہوا.شو ہ اشتہار کے مالک کا نام ایمیم اسے کریم غلام ) GHULAM MA.KARIM ) تھا.ه محترم نسیم صاحب تامل زبان نہیں جانتے تھے.اس لئے پہلے آپ نے ایک تامل جاننے والے سے اخبار کے مضمون کا انگریزی ترجمہ کرایا.پھر اسے پیش نظر گھر کر مسودہ تیار کر کے ایک دو سر دوست پیسے ایسے ناسل میں منتقل کر ایا : اس رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ (۱۹۲۰۳ء صفحہ ۱۱ و ۱۲ جون ۱۹۵۶ء میں مجاہد تحر یک جدید سید منیر احمد صاحب باہرکی نے برمامشن کا احیاء کیا جس کی تفصیل 90ء کے واقعات میں آئے گی ، شے منتوطن مٹیاری تعلقه حاله ضلع حیدر آباد سندھ حال فضل عمر ہسپتال ریوه : له الفضل مر مئی ۹۳۵اء صفحه : کے ڈاکٹر عبدالعزیز صاحب کا بیان ہے کہ تحریک جدید نے دو سو روپے دئے.لیکن خریداری کے نہ ہونے کے سبب اخبار بند ہوگیایت کے الفصل ۴ در اگست ۳۹ وله ما کالم ۱۳

Page 320

۲۸۴ " جماعت احمدیہ سرگودھا کے زیر انتظام سوار اکتوبر کی شام سرگودھا میں مذہبی کا ایسا کیا کیا یا اس کا استاد ہوا جس میں ہرطبقہ کے لوگ شامل ہوئے.اور احمدی نمائندہ کے علاوہ شیعہ سناتن دھرم، سکھ، آریہ سماج کے مقررین نے کامل انسان نے کیلئے میرا مذہب کی راہ نمائی کرتا ہے کے موضوع پر تقریریں کیں.سامعین کی تعداد دو ہزار کے قریب ہوگی.کانفرنس توقع سے بڑھ کر کامیاب ہوئی.اے ۲۸ اکتوبر ۱۹۳۵ء کو آبد یہ سماج کی طرف سے فرید کوٹ میں بھی ایک رید کوٹ میں ذمی کافر ا ا ا ا ا مذہبی کا نفرنس منعقد ہوئی جس میں مختلف مذاہدہ کے نمائندوں نے مجھے میرا مذہب کیوں پیارا ہے" کے مضمون پر لیکھر دئے.کانفرنس میں مولانا جلال الدین صاحب میں نے جماعت احمدیہ کے نمائندہ کی حیثیت سے اسلام کی خوبیاں بیان کیں.اگرچہ وقت بہت تھوڑا تھا مگر حضرت مولوی صاحب نے نہایت عمدگی سے اپنے موضوع پر روشنی ڈالی.تمام مسلمان دوران تقریر بار بار سبحان اللہ کہتے رہے اور تقریر کے خاتمہ پر نعرہ تکبیر بلند کیا.لے ۱۹۳۵ء کی نئی مطبوعت اس سال مندرجہ ذیل کتب اسلام محمدی کی طرف سے شائع ہوئیں اور جن سے احمد می لٹریچر میں قابل قدر اضافہ ہوا : ا.اسلام اور غلامی SLAYERY ۳- مرزا بشیر احمد صاحب) SLAM AND از مولفہ حضرت صاحبزاده حدیث HADETH THE HADETH د از حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب تو ایم.امام مسجد ندان) ابنائے فارس - ( تالین صوفی عبد القدیر صاحب) مفتاح القرآن ( شائع کردہ کتاب گھر قادیان) - تحفة النصارى ہ - حضرت مسیح موعود کے انعامی چیلنج (مرتبہ مولانا عبد الرحمن صاحب انور ) --بستان احمد حضرت بی موعود علیه السلام او منفور کے خاندان کی پر معارف نظاموں کا دلکش مجموع) -۸- عقائد احمدیة و مرتبه سید لبشارت احمد صاحب وکیل ہائی کورٹ حیدر آباد دکن) - احمدیت کا پیغام لیکر چو ہد کی مد ظلہ اللہ خان صاحب) افض isre به سنده صفحه کاله ܀ الفضل در نوامبر ۱۹۳۵ زره صفحه به کانم ۴ از

Page 321

۲۸۵ ۱۹۳۵ ز ہ میں جماعت احمدیہ کے مبلغین کو متعدد مقامات اندرون ملک کے مشہور مناظرے رامات سلمان اورغیرمسلموں سے مناظرے کرنا غیر پڑے.جن میں سے بعض کا تذکرہ کیا جاتا ہے :..۱- مباحثہ تارو علاقہ بنگال- یہاں اور فروری شوراء کو مولانا محمد سلیم صاحب فاضل اور مولانا ظل الرحمن صاحب بنگالی نے غیر احمدی علماء سے مباحثہ کیا جس کے بعد تیرہ افراد احمدی ہو گئے.اے -۲- مباحثہ دہلی - ۹ر مارچ شہ کو انجمن سیف الاسلام دہلی کے سالانہ جلسہ پر مولانا جلال الدین صاحب شمش نہ کا مولوی سعد اللہ صاحب سے مناظرہ ہوا.موضوع بحث یہ تھا کہ اہل سنت و الجماعت کے موجودہ عقائد کی رو سے حضرت نبی کریم صلی الہ علیہ و آلہ وسلم کی فضیلت ثابت ہوتی ہے یا حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی یہ مناظرہ اس درجہ کامیاب تھا کہ دوسرے دن سید عطاء اللہ شاہ صاب بخاری کو اپنی تقریر میں کہنا پڑا کہ آئیندہ قادیانیوں کے ساتھ ہرگز مناظر سے نہ کئے جائیں لیے مباحثہ تصویور (متصل ٹانڈہ ضلع ہوشیار پور ) اس مقام پر چوہدری محمد شریف صاحب فاضل حال مبلغ گیمبیا نے مولوی نور حسن صاحب گرجا گھی سے تینوں ! اختلافی مسائل پر مناظرہ کیا.سامعین نے دلائل کی رو سے احمدیت کی فتح تسلیم کی سہلے -۴- مباحثہ مشرقی بنگال - ۱۸ ۱۹ مارچ ا یہ کہ مشرقی بنگال میں مولانامحم سلیم صاحب فاضل اور برہمن بڑیہ کے مدرسہ عربیہ کے صدر المدرسین مولوی تاج الاسلام کے مابین قریباً چودہ گھنٹے تک عربی زبان میں مناظرہ ہوا.غیر احمدی علم چونکہ چند جلے کہہ کر بیٹھ جاتے تھے.اس لئے اکثر وقت احمدی مناظر ہی کو بولنا پڑا.دوران مباحثہ مولوی تاج الاسلام صاحب نے کہا کہ مجھے کوئی جواب نہیں دینے گئے.مگر غیر احمدی صدر صاحبنے اقرار کیا کہ جو اب تو آگیا ہے.ہاں آپ کی سمجھ میں نہ آئے تو یہ اور بات ہے کیے -۵- مباحثہ نواں شہر دو آبد - انجمن اسلامید نواں شہر و گریام کا سالانہ جلسہ پیار اپریل سیارو کو منعقد ہوا جس میں غیر احمدکی علماء نے سخت بد زبانی کی.جلسہ کے اختتام پر جماعت احمدیہ کی طرف چوہدری محمد شریف صاحب فاضل اور احرار کی طرف سے مولوی محمد علی صاحب جالندھری نے مناظرہ باب الفضل ۲۱ فروری ۱۹۳۵ ایر صفحه ۲ کالم ۲۳ سال الی ۱۹ تاریخ ۱۹۳۵ ۶ صفحه ۱۰ ܀ الفضل اور را پریل ۳۵ راء صفحہ کالم : ۵۳ المحکم ۲۱ مارچ ۱۹۳۵ء صفر ۲ : ۱

Page 322

۲۸۶ کیا.شرفاء نے احراری مناظر کے لاجواب ہونے اور بد اخلاق ہونے کا برملا اقرار کیا.اور ایک دوست: اخل سلسلہ احمدیہ بھی ہوئے ہے -4- مباحثہ کو ہاٹ.مولا نا چراغ دین صاحب مبلغ سلسلہ احمدیہ نے یہ مٹی ۱۹۳۵ م کو اسٹر نظام الدین صاحب کو ہائی کے ساتھ مسئلہ وفات و حیات مسیح پر مباحثہ کیا جس کا پبلک پراچھا اثر ہوا ایسے ے مباحثہ لبستان افغاناں.چوہدری محمد شریف صاحب فاضل نے ۲۶ مئی ۱۹۳۵ء کو باغ موضع مصطفی پور میں مولوی محمد شفیع صاحب کھتری سے صداقت مسیح موعود و پر مناظرہ کیا.سکھ اور ہندو دوستوں اور منصف مزاج مسلمانوں نے احمد می مناظر کے دلائل کی داد دی.سلے مباحة سمرال ضلع لصيانه - نادر اگست کو احمدی عالم مولوی غلام مصطفے صحبت فاضل نے مولوی عبد القادر صاحب رو پڑی سے تینوں اختلافی مسائل پر مناظرہ کیا.سنجید طبقہ نے بر ملا تسلیم کیا کہ احمدی مولوی صاحب ایک جید عالم ہیں.اور روپڑی صاحب تو کوئی نئی اور ٹھوس بات پیش ہی نہیں کر سکے اور محض تضیع اوقات کرتے رہے ہیں ہے -- مباحثه اجنالہ (ضلع سرگودھا، یہاں ۷ ار اگست ۱۹۳۵ء کو احرار کی حمایت میں پادری میلا رام صاحب نے "حیات مسیح پر لیکچر دیا.اور بعد میں مولانا قاضی محمد نذیر صاحب سے مناظرہ کیا جس میں عیسائیوں کو سخت ناکامی ہوئی.یہ صورت دیکھ کر احرار نے احمدیوں پر حملہ کردیاہے -9- مباحثہ لائل پور اجنالہ میں مباحثہ کے دو سے دن ( دار اگست کو) پادری میلا رام لائل پور آگئے اور انہوں نے احراریوں کے زیر انتظام منعقدہ جلسہ میں الوہیت مسیح، کفارہ ، اور تثلیث کے موضوع پر تقریریں کیں.اور حضرت مسیح موعود پر اعتراضات کئے.جن کی حقیقت مولانا قاضی محمد نذیر صاحب نے واضح کی.اگلے دن پھر پادری صاحب ک لیکچر ہوا.جس کا مسکت مدل جواب جناب قاضی صاحب نے دیا.مناظرہ ختم ہوا.تو احترالیوں نے دھکے دینے اور پتھر پھینکنے شروع کر دئے.24 ا الفضل و در اپریل ۹۳۵ ه و صفحه و کالم : الفضل اور مئی ۳ شراء صفحہ ، کالم ا الفضل رجون رجون ۱۹۳۵ صفحه کالم ۳ : ۲ الفضل ، ار ا گست شراء صفحہ و کالم ۲ في الفضل ۱۲ ستمبر ۱۳اء صفحہ کالم : به الفضل ۲۳ ار ستمبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۰ کالم ۳۰۲ ه

Page 323

۲۸۷ ۱۰- مباحثہ بیگو سرائے ضلع میں گھیر.اگست راء میں مولوی نصیر الدین صاحب ہے وکیل پریذیڈنٹ انجمن احمدیہ بیگو سرائے کا مولوی نظام الدین صاحب مبلغ سلسله امارت شرعیه و لواری (بہار) سے مسئلہ حیات و وفات مسیح پر ایک مناظرہ ہوا.مولوی نظام الدین صاحب احمدی عالم کی پیش کردہ دلیل وفات مسیح کا رڈ کرنے سے بالکل قاصر رہے.جس پر سامعین میں سے مولوی عبد العزیز صاحب مدرس مدرسه در بهنگه، مولوی کیٹی صاحب مدرس مدرسہ دار السلام اور مولوی محمد سافق صاحب کے ریس لکھینہ کھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ ہمارے مناظر صہ اس نے کافی تردید نہیں کی.اسلئے ہم لوگوں کو جواب دینے کی اجازت کیجائے.لیکن غیر احمدی صدر مولوی منظور احسن صاحب نے شرائط مباحثہ کی بناء پر صاف کہہ دیا کہ اس جلسہ میں آپ لوگوں کی طرف سے صرف مولوی نظام الدین صاحت بین ناظر کو گفتگو کرنے کا حق ہے.اس پر جلسہ میں برہمی پیدا ہوگئی اور مباحثہ ختم کر دیا گیا.ہے ۱۱- مباحثہ مجیٹھے (ضلع امرتسر ) ۲۸ ستمبر یاء کو موضوع مجیٹھ میں آریہ سماج سے مناظرہ ہوا.مسلمانوں کی طرف سے جہالہ محمد عمر صاح فاضل اور آریوں کی طرف سے پنڈت بدھ دیو جی میر پوری پیش ہوئے.موضوع یہ تھا کہ کیا یدالنشوری گیان ہے ؟ مبلغ اسلام جب سنسکرت زبان میں وید پڑھتا تو لوگ حیرت و استعجاب سے ہمہ تن گوش ہو کر سنتے اور سرد منتے تھے.بعض کہتے قادیان میں ہر ایک علم اور زبان کی تعلیم دی جاتی ہے.مرزا صاحب نے علوم وفنون کے دریا بہا دیئے ہیں.مبلغ اسلام کی قابلیت.متانت اور سنجیدگی کی سب نے تعریف کی.بعض غیر احمدی معززین نے یہاں تک کہا عرصہ سے آریوں نے ہمیں تنگ کر رکھا تھا.ہمارے مولوی تو آپس کی تکفیر بازی میں مشغول رہتے تھے.آج خدا نے آپ کو بھیج کر ہماری امداد کی ہے اور اسلام کو فتح عظیم بخشی ہے.کے ۱۲- مباحنه حمید - چار اکتوبر سوار کو مولوی غلام مصطفی صاحب فاضل کا سائیں لال حسین صاحب اختر سے مسئلہ حیات و وفات مسیح اور صداقت حضرت مسیح موعود کے موضوع پر مناظرہ ہوا.جمعہ کے بعض غیر مسلم اور مسلم معتز ترین مثلا لالہ سوہن لال صاحب اور لالہ بنسی لعل صاحب ، مرزا رحیم بیگ صاحب اور مسٹر غلام محی الدین صاحب نے تحریری طور پر اعتراف کیا کہ احمدی مناظر اور جولائی 1924ء کو آپک انتقال ہوا.آپ کے فرزند حمید نور عالم صاحب ایم اے کلکتہ نے آپ کے مختصر حالات زندگی اخبار "بدر" (قادیان) بایت ۲۱ جولائی ۱۹۶۷ء میں شائع کر دئے ہیں : ه الفضل ۱۵ ستمبر ۱۹۳۵ رو صفحه ۵ کالم ۱ - ۵۳ الفضل مرا کتوبر ۱۹۳۵ء صفحہ و کالم سو :

Page 324

۱۹۳۰ کامیاب رہا ہے ۱۳ - مباحثہ شیخوپوره - ۲۷ اکتوبر شاید کو شیخو پورہ میں ایک اہم مناظرہ ہوا جس میں مولوی محمد سلیم صاحب نے مولوی نور حسین صاحب گر با کبھی سے اور ملک عبد الرحمن صاحب خادم گجراتی نے مولوی احمد الدین صاحب گا گھڑ دی سے کامیاب بحث کی مخالفین نے اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کیلئے مناظرہ کے بعد احمدیوں پر کنکر اورٹی کے ایسے پھینکے جس پر مخالف پارٹی کے پریزیڈنٹ مولوی امین الحق صاحب نے خود اگر اس بداخلاقی کے مظاہرہ پر معافی مانگی اور اس ناواجب سلوک پر سخت ندامت اور شرمندگی کا اظہار کیا.ہے ڑے ان مباحثات کے علاوہ ۲۹ ستمبر ۱۹۳۵ ء کو جماعت احمدیہ وزیہ آباد کے ایک وفد نے جس کے امیر ر جماعت و زیر آباد کے سیکرٹری چوہدری شاہ محمد صاحب تھے.کرم آباد میں مولوی ظفر علی خاں صاحب ایڈیٹر "زمیندار" سے دلچسپ گفتگو کی.اور اُن کو زیہ بیست دلائل سے بالکل لاجواب کرد یا.بر گفتگو چو ہدری شاہ محمد صاحب نے کی تھی.جس کی تفصیل خود چو ہدری صاحب نے ( الفصل ۱۵ اکتوبر ) میں بھی شائع کرا دی تھی.۱۹۳۵ء میں بیعت کرنے والوں کی تعداد سواء کے مقابل کہیں زیادہ تھی جس کی نو مبالعین یک وجبر بھی تھی کہ اس سال سات سو و آنریری مسلمین کے ایک اسے سمول میں جبکہ مخالفین نے خطر ناک اشتعال پیدا کر دیا تھا، دیوانہ وار تبلیغ کا فریضہ ادا کیا.اس سال کے همت از نو مبایعین میں سے ضلع ملتان کے رئیس ملک عمر علی صاحب کو گھر بھی تھے سیکیے جن کا ذکر خود حضرت میشه الفضل دار نومبر دوره صفور سے افضل بار نومبر ۱۹۳۵ء صفحه کالم : سے افضل وار نومبر ۱۹۳۵ء ۹۰۸ لادت بگم شروری کہ وفات - ارمئی سہ.کھو کھر خاندان کے چشم و چراغ تھے میرا نہ ٹھاٹھ باٹھ کے باوجود زمان یا علمی ہی سے نہایت متواضع مہمان نواز علم نواز اور پابند صوم میلوں تھے.احمدی ہونے کے بعد یہ معات اور بھی نمایاں ہو گئیں.فاریا کے محلہ دارالا نوار میں اپنی شاندار کو بھی بنوائی حضرت خلیفہ المسیح الثانی آپ پر بہت شفقت فرماتے.حضور کے ماموں حضرت میر محمد اسحق صاحب کی بیٹی محترمہ سعیدہ بیگم صاحبہ اُن سے بیاہی گئیں.ملک صاحب موصوف کچھ عرصہ تک وکیل التبشیر بھی رہے اور اپنے ذاتی خرچ پر یورپ کا تبلیغی دورہ بھی کیا.سالہا سال تک ضلع ملتان کے امیر جماعت رہے.اپنے علاقہ میں اکیلئے احمدی تھے اور ضلع بنان میں احدیت کے ایک ستون کی حیثیت رکھتے تھے مبلغین سلسلہ کو بہت عزت و احترام گاہ سے دیکھتے تھے.علمی کتب جمع کرنے کا شوق جنون کی حد تک پہنچا ہوا تھا.ذاتی مطالعہ نہایت وسیع تھا.بڑے بڑے افسروں کو بے دھڑک تبلیغ کر لیتے تھے.صاحب رو یاد بھی تھے.چنانچہ بتا یا کرتے تھے کہ 1 ء میں جبکہ میں کلکتہ میں تھا.مجھے خواب آیا کہ حضرت خلیفہ ثانی کا مقام بلند ہو گیا ہے.میں فوراً قادیان ، انہیں پہنچا اور حضور کی زبان سے وہ ا سلمان شتاء

Page 325

۲۸۹ خلیفہ اسیح الثانی نے اپنے خطبہ جمعہ پر جنوری 19ء میں کیا.اور ان کا نام بتائے بغیر فرمایا.ہمارہ کی جماعت میں کبھی بیسیوں لوگ ایسے داخل ہوئے ہیں.جو محض دشمنوں کی کتابیں پڑھ کر احمدیت کی طرف مائل ہو جاتے ہیں.....ابھی مجھے ایک شخص کا خط آیا ہے.میں اُن کا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتا.وہ ایک رئیس ہیں.انہوں نے بھی یہی لکھا ہے کہ میں ہمیشہ اخبار " زمیں ندا ر پڑھا کرتا تھا.اس کے متواتر پڑھنے کے نتیجہ میں مجھے خیال آیا کہ اگر احمدی اتنے برے ہیں تو ان کی کتابیں بھی تو مزید معلومات کے لئے دیکھنی چاہیگیں.اس پر جب میں نے سلسلہ کی کتابیں پڑھیں تو ہدایت مل گئی.میں نے دیکھا ہے.ہفتہ دو ہفتہ میں ایک دو آدمی ضرور دشمنوں کی وجہ سے ہمارے سلسلہ میں داخل ہو جاتے ہیں.اے علاوہ ازیں حضور نے ایک دوسرے موقعہ پر فرمایا : صوبہ سرحد میں ہر سو احمد وں میں سے ایک دو ایسے ہیں.جو چوٹی کے خاندانوں میں سے ہیں.پنجاب میں تو کوئی ایک دو ہوں گے.جیسے نواب محمد علی خان صاحب یا ملک عمر علی صاحب سے بق یا جس میں حضور نے اپنے مصلح موعود ہونے کا انکشاف فرما یا تھا.اسی طرح انہیں قبل از وقت بتایا گیا کہ محمد ایوب خان پاکستان کے صدر بنیں گے.اور ایسا ہی ہوا.تفصیل کیلئے افضل 10 مئی ۱۹۶۳ ء م ؟ بار چون در صفحه ۲۴-۲- اور اور نہ میر ارد صفحه ۴ ملاحظہ ہیں) له الفضل کے درجنوری ۱۹۳۵ء محب کا لم ۳ له الفضل اور دسمبر ۹۴ رایو صفحه ۲ کالم ۰۲

Page 326

+4- تمیسلا بات ہنگری، پولینڈ چیکوسلواکیہ اسپین الی البانیا و یوگوسلاوی احمدی مشنوں کا قیام اور ۱۹۳۶ء کے دیگر ضروری واقعت خلافت ثانیہ کا مینیسواں سال شوال ۱۳۵۳ جنوری با ۱۹۳ G شوال ۱۳۵۵ هـ دار التبليغ تحریک جدید کے زیر انتظام یورپ میںسب سے پہلا میشین ہنگری، پولینڈ چیکوسلواکیہ اس سال کے آنا میں جنگی میں قائم ہوا.آغاز ہنگری مشن کے پہلے مبلغ چودھری حاجی احمد خاں صاحب ایاز بی اسے ایل ایل بی تھے.جو حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے حکم سے 4ار جنوری شوراء کو قادیان سے روانہ ہوئے اور اور فروری 12ء کو بوڈاپیسٹ (دارالحکومت ہنگری) میں پہنچے تھے وہ انگلی سے ایک روز قبل سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے ایاز صاحب کو اپنے قلم مبارک سے مندرجہ ذیل الفاظ لکم کر دیئے.اسع عليكم ورحمة الله وبركاتة انور کھائے آپ کا کام میں برکت دے اور عزیز نکر دریا ته ماصور آپ میں مقصد یعنے بکنے وا کئے جار ہے ہیں.انہیں خاص کا پتا ہی عطائی ہائے.اور آپکو و سی ملک منی رسوم اور محمد یع ہ پھیلانے کا ذریعہ بنا کے اور حافظ و ناصر ہو و السلام قایدی که سن الحر و الحمد 1536 ما افضل بدار جنوری دارد در حمام سنگی و مولفه حاجی احمد خان صاحب ایار با نسخه ۲۲ - شائع کرده

Page 327

٢٩١ " عزیزم مکرم ایاز صاحب - استسلام علیکم ورحمه الله و برکانده اللہ تعالی آپکے کام میں برکت دے اور آپ جس مقصد یعنی تبلیغ کے لئے جارہے ہیں.اس میں خاص کامیابی عطا فرمائے.اور آپ کو اس ملک میں اسلام اور احمدیت کے پھیلا نے کا ذریعہ بنائے.اور حافظ و ناصر ہو.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد باشد اللہ تعالیٰ نے اپنے مقدس و محبوب خلیفہ کی ان دعاؤں کو شرف قبولیت بخشا.چنانچہ خود حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرمایا کہ: "آپ کی تبلیغی سرگرمیاں بہت خوشکن ہیں.خدا تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ کی بلند ہمتی میں اور اضافہ کرے اور خدمت دین کیلئے بیش از پیش خدمات کا موقعہ دے " اے خدا تعالے کی طرف سے تائید و نصرت یہ بھی ہوئی.کہ ہنگری کے پریس نے آپ کی آمد پر طویل مضامین اور زور دار نوٹ شائع کرکے ملک کے گوشہ گوشہ تک یہ دھوم مچادی کہ جماعت احمد یہ کے یہ مبلغ ہمارے ملک S ZEKCLYSEG نے ا مسلمان کرنے کا عزم لئے ہوئے آئے ہیں.ہنگری کے پولیس میں جب اسلام کا بار بار ذکر آیا تو رسالہ مسلم ڈیلی گیٹ کے نام کھلی چھٹی شائع کی جس میں لکھا کہ ہم کو منہ سے کوئی سرو کار نہیں اور ہم اسلامی پروپیگنڈا کا اتنا شور برداشت نہیں کر سکتے " اسپر ایاز خاں صاحب نے ہنگری کے تین لیڈروں سے اس رسالہ کے ایڈیٹر کے نام چٹھیاں لکھوائیں اور اپنے مضامین کی چند کاپیاں اور اخباریں بھی بھیج دیں.مگر رسالہ کے ایڈیٹر نے اپنا نمائیندہ بھیجا کہ ایاز خان سے کہہ دے کہ ہم صرف آپ کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانا چاہتے تھے ورنہ ہم بھی اسلام کے دوست ہیں بلکہ حاجی احمد خاں صاحب ایاز نے ہنگری کے طول و عرض میں پیغام اسلام پہنچانے کیلئے دریا ہے قائم کر نبی کے علاوہ) مندرجہ ذیل ذرائع بھی اختیار کئے.لیکچرز - انفرادی ملاقاتیں.لٹریچر کی اشاعت.دعوتیں اور مباحثات.حضرت خلیفہ المسیح الثانی نہ کی دعاؤں کی برکت سے ایک نہایت قلیل عرصہ کے اندر ہنگری میں بقیه حاشیه : شیخ الہی بخش رحیم بخش احمدیان بک سیلوز و پبلشرز نگرات طبع اول شراءه ه افضل اور جنوری ۳۶ ور ا و صفحه کالم ٣ الفصل ۳۱ور جنوری ۱۹۳۶ء صفحه در کالم ۹۴ :::

Page 328

ایک مسلم جماعت پیدا ہو گئی.ہنگری کے رہنے پہلے احمدی ڈاکٹر SLULUIS AVAR (کیتھولک عیسائی) تھے جنہوں نے ارا پریل ۱۹۳۶ء کو اپنا بعت نامہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی سن کی خدمت میں بھیجوایا اور اُن کا اسلامی نام محمد احمد ظفر رکھا گیا.اے Toxan Unit ڈاکٹر جولیس ایوار کے بعد ایک سال کے اندراندر پینتیس سے زائد افراد جماعت ایستید یہ میں داخل ہوئے.جن میں محمد قاسم ابن الجوزی ومشقی العرب فوج کے ایک افسر ، خالد سٹیفن پر نگور شیری انجمن احمدیہ بوڈاپیسٹ) مسٹر FOYTA ISTIAN ملک ہنگری کی سب سے منظم سوسائیٹی ہو زیارت کے جنرل سیکرٹری معہ اہل و نکیال ، میڈیم ARAMLNA KOLAJ TA بوسینیا اور ہر نو گونیا کے ایک سابق گورنر کی بیٹی ہے KOSTYAL کونٹ خاندان کے ایک فرد ، لیفٹنٹ NAGY LADOS كم کو اپریٹو سوسائٹی کے انسپکٹر، لیفٹنٹ ORBAN BALA - NAGY HASSAN (اسلامی نام مصطفی ایک پُر جوش نوسلم نے مولوی محمد اسماعیل صاحب ( نائب مفتی مسلمانان ہنگری مسٹر KALLA (فرانس میں گورنمنٹ ہنگری کے سابق ریڈیو ڈائر یکٹر ہے سید گل آغا احمد صاحب تاج - آورینج عبد اللہ صاحب سود اگر لیڈر مسلمانان ہنگری خاص طور KALLA ISTRAN HABIBE پر قابل ذکر ہیں.حاجی احمد خان صاحب ابھی مہنگری میں ہی مقیم تھے کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانیہ کے حکم سے کرم محمد ابراہیم صاحب ناصرا جو قادیان سے امریکہ میں تبلیغ اسلام کے لئے روانہ ہوئے تھے.مگر امریکی حکومت نے اُن کے داخلہ پر پابندی لگادی تھی، سور جنوری و لنڈ کو لنڈن سے روانہ ہو کہ بوڈاپیسٹ پہنچے اور ا ار فروری یو کو بوڈا پیسٹ مشن کا چارج لے لیا.اور حاجی احمد خان صاحب پولینڈ چلے گئے.اے ان الفضل امور مئی یہ صفحہ ۳ کالم.قبل ازیں آپ ٹیونس میں ایک فرانسیسی ہسپتال میں کام کر چکے تھے اور متعدد زبانوں (مثلاً جرمن - فرانسیسی - اطالوی.لاطینی اور ہنگری کے ماہر تھے.الفضل ، در جولائی شاء مت؟ الفضل ، ارجولائی ۳۶ شراء صفحه : ۵۳ الفضل ۳۰ را گست ۱۹۳۶ء صفحه ۹: الفضل ، استمبر ۶۱۹۳۶ صفحہ، کالم اول به الفضل ، ستمبر السماء صفحه، کالم ۳۲ : 1 افضل ۱۲۰ اکتوبر ۳ و صفحه که لافضل یکم دسمبر و صفحه کالم ۰۲ شه الفضل ۲۲ جنوری شاه با کالم : افضل ۲۸ جنوری یه مشت کا لم ۳ ۱۹۳۷ ار از الفضل اور فروری دمہ کالم و الے جماعت احمدیہ بوڈا لپیٹ کے حالات کی تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو ا جی استان سا ایاز کی کتاب "ماجد ہنگری صفحه ۱۸ - ۱۲۱ یا الله الفضل ۲۴ جنوری ۲ صفحه 4 کالم ا ب سلات الفضل ۳ را پر مل براون او ماته کافر

Page 329

۲۹۳ اس ملک کا انتخاب کرنے کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ یو لوینا پولینڈ کے مفتی اعظم ڈاکٹر یعقوب ہے شنگیفتش جب مارچ ۱۹۳۷ء میں ہندوستان کے دورہ پر آئے تو انہوں نے قادیان پہنچ کر حضرت خلیفہ المسیح الثانی نہ کے حضور مسلمانان پولینڈ کے حالات بھی رکھتے جس پر حضور نے حاجی احمد خاں صاحب کو ہنگری سے پولینڈ روانہ ہونے کی ہدایت بھیجوائی ہے حاجی احمد خاں صاحب بوڈاپیسٹ سے روانہ ہو کر ۲۲ اپریل ۳ راء کو پولینڈ کے دارالسلطنت وارسا میں وارد ہوئے جہاں آپ تین دن ہوٹل میں رہے مگر کوئی موزون مکان کرایہ پر نہ ملا.آخر و ارسا سے سات میں پر ایک نئی بستی میں ایک کمرہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے.سے پولینڈ میں آپ کے ذریعہ پر وفیسر احمد نے سب سے پہلے احمدیت قبول کی.آے آپ کی آمد کا یہاں بھی خوب چرچا ہوا.چنانچہ ملک کے سب سے مشہور اور ہر دلعزیز روز نامہ KURDER کی وارمئی ۱۳ ء کی اشاعت میں آپ کا مفصل بیان شائع ہوا OZER MOIVY باقی اخبار وں نے مجاہد اسلام کی وارسا میں آمادگی خیر اسی نامی اختیار سے اخذ کر کے شائع کی اور اخبار" گرچہ پورینی اور وارسا کے مشہور روز نامہ EXPRESS PORANNY نے اپنی ۱۲ اگست شاہ کی اشاعت میں نوٹ بھی لکھے تے دارسا میں اٹھارہ افراد نے احمدیت قبول کی مگر پولینڈ کے پادریوں کی انگیخت کے باعث آپ کو پولینڈ چھوڑ کر جنوری شہداء میں چیکوسلواکیہ میں آنا پڑا جہاں آپ نے تبلیغ کرنا شروع کر دی.لیکن چونکہ حکومت نے ویزا میں توسیع کرنے سے انکار کر دیا.اسلئے آپ ۲۶ جولائی ۱۹۳۶ ایو خه کو واپس قادیان آگئے - ہم اوپر ذکر کر آئے ہیں کہ سماجی احمد خان صاحب ایاز کے بعد مکرم محمد ابراہیم صاحب ناصر نے دار التبلیغ بوڈاپیسٹ کا چارج سنبھالا.له ، الخضر ۲۳ مارچ ۳۶ بر صفحه اکالم ہے مجاہد ہنگری صفحه ۱۲۲ ، سبل المفضل و رئیس و کالم : : کی الجیریا کے باشندے اور چار سال سے پولینڈ میں عربی کے پروفیسر تھے جرمنی، فرانسیسی اور پولش زبانوں کے ماہر ہیں.الفضل ۱۲ مئی شاء صفحہ و کالم ہم سے بیان کا ترجمہ الفضل ۲۹ جون دو صفحوں پر چھپ چکا ہے ت الفضل ، را گست ۱۳۷ او صفحه ۲ کالم ا ء کے اہم شائع کردہ تحر یک جدید ( ۲۱۹۳۹) شه الفضل ۲۹ جولائی ۱۹۳۰ ء صفحه ۲ کالم ۱و۲ :

Page 330

۴۹۴۴ کرم محمد ابراہیم صاحب ناصر نے اپنے زمانہ قیام میں جماعت احمر یہ بوڈاپیسٹ کی تربیت و استحکام کے ساتھ ساتھ اس کی ترقی و وسعت کیلئے پوری جد وجہد کی.جماعت کے ہفتہ وار اجلاس میں قرآن کریم اور دویت شریف کا درس جاری کیا.نو مسلموں کیلئے قرآن مجید ناظرہ پڑھانے کا بندوبست کیا.بکثرت تبلیغی خطوط لکھے ملک کی مختلف سوسائیٹیوں میں شرکت کی، انفرادی ملاقاتیں کیں.بوڈاپیسٹ آنے والے سیاحوں تک پیغام حق پہنچایا اور ان کو اسلامی لٹریچر دیا.تبلیغی جلسے منعقد کئے.اور تبلیغی لکیروں کا سلسلہ جاری کرنے کے علاوہ یوم التبلیغ منانے کا اہتمام کیا.الہ تعالی نے آپ کی کو ششوں میں بہت برکت ڈالی اور آپ کے ذریعہ سے کئی سعید روحیں داخل احمدیت ہوئیں مثلاً ابراهیم در انتو پہلی جنگ میں محترز عہدہ پر ممتاز افسر) ڈ ریچ عاطف بوسینیا اور ان کے بھائی ٹینو سر جارج بود با نی بیگوا و مع اہلیہ مریم اور انکی تبلیغ سے یا سچ اور حسن بہادر اور عباس عبدالله تبریز کی.پروفیسر اندرے خو در ازرائیل فزیکل ٹرینگ کالج در فوج ہی کہتا ہے پنے اپنے زمانہ قیام میں ایک ماہر مترجم سے سلسلہ احمدیہ کے مندرجہ ذیل لٹریچر کا ہنگری زبان میں ترجمہ بھی کر آیا " اسلامی اصول کی فلاسفی - لیکچر لاہور تفسیر پاره اول متحفه شهزاده ویلز احمدیت یعنی حقیقی اسلام Mohammad the librator of women " مولوی محمد ابراہیم صاحب ناصر قریباً پونے دو برس تک تبلیغ کے فرائض ادا کرنے کے بعد ۲۲ تومیر اے کو واپس مرکز احمدیت میں تشریف لائے شہے فصل دوم شمالی امریکہ میں جماعت احمدیہ کا مشن بنارہ سے قائم تھا اور جماعت احمدی کے سے قائم تھا دار التبليغ ارجنٹائن م ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا اسلام کی میں میت ا مخلص اور ایثار پیشہ مبلغین وہاں اشاعت اسلام کی مہم تیز کرنے میں مصروف تھے.(جنوبی امریکہ) مگر اس کے برعکس جنوبی امریکہ کا وسیع و عریض خطہ تبلیغی لحاظ سے بالکل خالی پڑا تھا.جہاں اب تک کسی احمدی مبلغ نے قدم تک نہیں رکھا تھا.اس سال ۱۹۳۶ ء میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی اے تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۱۳ را پریل ۱۹۳۶ء صفحه و ۷ - الفضل ۲۸ اپریل ۱۳۵۶ راه صفحه ۱۰۰۹ - الفضل ۱۲ مئی صفحه ۸۷ - ۴۳ اور فروری ۱۹۳۶ء کو آپنے انچار ج مشن کے طور پر کام کرنا شروع کیا اور فروری کے اختتام تک است افراد نے احمدیت قبول کرئی.(الفصل ۱۴ اپریل ۱۹۳۶ ء صفحه ۶ کالم ۱) سله الفضل ۱۴۲ را پریل ۳۶ وراء هده الی نام ارمنی ۶ مدار صفحه و به ارجون ماسه ها و صفحہ ، کالم ۳-۲۲ تراجم کے سلسلہ میں سید محمود اللہ شاہ صاحب نے نیرویی سے خاص اعلا دی رقوم بھیجو کی تھیں، شه الفضل ۲۵ نومبر دو صفحها کالم ان ۱۹۳۷ء

Page 331

۲۹۵ نے یہاں بھی اسلام و احدیت کا جھنڈا گاڑانے کا فیصلہ کیا اور اسکی تکمیل کیلیے مولوی رمضان علی صاحب کو منتخب فرمایا.مولوی صاحب موصوف در تار نوری ۱۹۲۶ء کو قادیان سے روانہ ہوئے.اور شب روز تبلیغ میں منہمک رہ ہے.نتیجہ یہ ہوا کہ خدا کے فضل سے شاء تک ارجنٹائن ہی مقیم میں شامی آپ کے ذریعہ مسلہ بگوش احمدیت ہوگئے.اس کے بعد جنگ چھڑ گئی اور تبلیغی سرگرمیاں محدود کر نا پڑیں.جنگ کے بعد ۱۹۳۵ء میں آپنے جنوبی امریکہ کے مغربی علاقوں یعنی مندوزا اور سمان جوان شہروں اور ان کے ماحول میں تبلیغی دورہ کیا اور لوگوں کو احمدی سے متعارف کیا.اُن کا یہ دورہ بہت کامیاب رہا جسپر مندوزا نامی شہر کے مشہور اخبار حریت LALIBORTAD نے مسلم مبلغ صوبہ کے دروازہ پر کے عنوان سے ایک مفصل نوٹ لکھا ایک مولوی رمضان علی صاحب کو اب تحریک جاریہ کے مبلغ نہیں مگر اب بھی اپنے ذاتی کاروبار کے ساتھ ساتھ پیغام احمدیت پہنچانے میں کوشاں رہتے ہیں.فصل سوم 611 مسلمانوں نے دئے تا ۱۳۹۳ ) قریباً آٹھ سو برس تک نہایت و اس دار التبليغ ستين الا شان و شوکت سے حکومت کی.مگر بادشاہ فرڈینینڈ اور ملکہ از بیلہ کے اس مشتر کہ فرمان کے بعد کہ کوئی مسلمان اسپین میں نہیں رہ سکتا.ہسپانوی مسلمان نہایت بے دردی اور سفاکی سے ختم کر دئے گئے.حضرت خلیفہ المسیح الثانی ہو نے اسپین کی اس سر زمین پر از سر نو لو ا ئے اسلام لہرانے کے لئے یکم فروری ۱۹۳ یو کو ملک محمد شریف صاحب گجراتی کو قادیان سے روانہ فرمایا کہ ملک صاحب ار مارچ ۱۹۳۶ء کو سپین کے دارالسلطنت میڈرڈ میں وارد ہوئے.ملک صاحب نے زبان سیکھنے کے ساتھ ساتھ میڈرڈ کے مختلف انتخاص تک پی ایم من پہنچانا شروع کر دیا.۵ار مئی شہداء کو آپ نے صدرجمہوریہ سپین کو انکی کامیابی پر مبارکباد کا خط لکھا جس میں حضرت مسیح موعود کی آمد کا بھی ذکر کر دیا.تے ازاں بعد جلد ہی ملکی حالا نیچے یکا یک پلٹا کھایا اور اسپین میں بدامنی ا الفضل ۲۰ جنوری ۱۹۳۶ء صفحہ ا کالم اب سے آپ کی تبلیغی سرگرمیوں کا پہلا مرکز بونس آئرز تھا.کے اہم شائع کردہ تحریک جدید (۱۹۳۶ (۶) ارجنٹائن کی ابتدائی رپورٹوں کے لئے ملاحظہ ہو افضل سارا پریل یہ صفحہ ہے اس نوٹ کا ترجمہ الفضل اور دسمبر 3 او صفحہ اکالم ۳ وہم میں شائع شدہ ہے." الفضل کار فروری ۳ الفضل د را گست ۱۹۳۶ ۶ صفحه ۲۱

Page 332

494 کا دور دورہ شروع ہوگیا.مگر آپ بدستور تبلیغ اسلام میں مصروف رہے اور چند ماہ کے اندرہی سپین میں احمدیت کا بیج بونے میں کامیاب ہو گئے یعنی بعض سعید رو میں حلقہ بگوش اسلام ہوگئیں لیے چنانچہ سب سے پہلے کونٹ غلام احمد صاحب اور پھر مرزا آغا عزیز صاحب نے احمدیت قبول کرلی سے نومبر ۱۹ ء میں اسپین قیامت خیز جنگ کا میدان بن گیا اور بمباری اور توپوں کے گولوں نے سر بفلک عمارتیں کھنڈرات میں تبدیل کر دیں.ملک صاحب جس مکان میں رہتے تھے اُس کے اردگرد اکثر مکانات پیوند خاک ہو گئے.اور لوگ اپنا مال و متاع چھوڑ کر بھاگ نکلے.مگر خدا نے احمدی مجاہد کو بالکل محفوظ رکھا.جب حمالات خطر ناک صورت اختیار کر گئے.تو بر طانوی سفیر نے آپ کو سفارت خانہ میں بلایا اور دو دن گزار نے کے بعد دوسری برٹش رعایا کے ساتھ آپ بھی حکماً میڈرڈ سے لنڈن بھیج دیئے گئے.قریباً ایک ہفتہ لنڈن میں گزارنے کے بعد بھری جہاز سے جبرالٹر روانہ ہوئے.مگر جبرالٹر اترتے ہی حکومت کی خاص پابندیوں کے باعث اُسی جہاز میں واپس ہونا اور فرانس کی ایک بندر گاہ میں اترنا پڑا.جہاں آپ نے قریباً ایک ماہ تک قیام کیا اور اعلائے کلمۃ اللہ میں مصروف رہے.اسی دوران حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی طرعت سر اٹلی پہلے جانے کا ارشاء موصول ہوا.جس پر ملک صاحب ٹولوں سے بذریعہ گاڑی اٹلی کے دارالسلطنت روما میں تشریف لے گئے.روما سے آپ کی سب سے پہلی رپورٹ جو مرکز میں پہنچی.وہ ۲۵ جنوری لاء کی لکھی ہوئی تھی میلہ حجا پرسین املی کے دار التبلیغ میں اور دارالتبلیغ امی کے محلہ ابتدائی واقعات لکھنے کے کے بعد اب ہم ملک محمد شریف صاحب مجاہد سپین اٹلی کے قلم سے ان مارک میں تبلیغ اسلام و احمدیت کے ایمان افروز حالات درج کرتے ہیں.ملک صاحب خود نوشت حالات تبلید تحریر فرماتے ہیں :.سپین کی خانہ جنگی شروع ہونے سے پہلے میڈرڈ شہر کی تھیو فیکل سوسائیٹی کے میر صاحبان کے علاوہ انفرادی طور پر جن چیدہ چیدہ انسانوں تک پیغام احمدیت پہنچانے کی توفیق الہ تعالیٰ نے بخشی.اُن میں سے قابل ذکر یونان کی ایک بہت بڑی شخصیت COUNT ANTONIO LOGO THE TE الفضل ۲ نومبر ۱۹۳۶ء ۹ اور ۲ نومبر من : د افضل ۲۹ دسمبر سه است - تاریخ بیعت آنا صاحب ۲۱ ستمبر ۱۹۳۶ تفصیلی رپورٹ الفضل ۱۶ مروری سه تار و صفحہ ہ دو پر شائع شدہ ہے ؟

Page 333

نامی تھے.آپ کا نام حضرت مسیح موعود کے نام پر ہی کونٹ غلام احمد رکھا گیا.آپ میڈرڈ شہر کی بار ایسوسی ایشین کے صدر اور یونانی شہریت رکھتے تھے.آپکی اہلیہ کو بھی اللہ تعالے نئے نعمتِ ایمان سے مالا مال کیا.آپ کا اسلامی نام آمنہ رکھا گیا ، خانہ جنگی کے دوران کمیونسٹ خیال کے اکابرین ہر اس انسان کی تلاش میں تھے جو کسی نہ کسی طریق پر خدا پر ایمان رکھتا ہو.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میڈرڈ شہر میں آباد خدا پر ایمان رکھنے والے انسانوں کو تکالیف کا سامنا کرنا پڑا اور مجبورا کونٹ غلام احمد صاحب کو سپین سے نکلنا پڑا عرصہ کے بعد البانیہ پہنچے جہاں اپنی عمر کا باقی ماندہ حصہ بسر کر کے عین اُس وقت آپکی وفات ہوئی جبکہ میں جنگ عالمگیر ثانی کے دوران ہیمن کے قیدی کیمیوں میں بے کسی کے ساتھ زندگی بسر کر رہا تھا.آپکی اہلیہ آمنہ کو میڈرڈ کی پولیس نے گرفتار کر کے ہر روز ڈراؤ دھمکاؤ کے ساتھ گولی سے اُڑا دینے کی دھمکیاں دیں.اور یہی بتایا جاتا ہے کہ اگل صبح آپکو گولی مارکر اڑا دیا جائیگا.مگر خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ غیر متوقع زنگ میں آپ کو رہا کر دیا گیا.میڈرڈ شہرمیں بمباری اس شدت سے ہوتی تھی کہ لوگ ہر لمحہ آہ و زاری ہی کرتے سنائی دیتے تھے.اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے اُسی کے حضور سوز و گداز کے ساتھ دُعاؤں کا سلسلہ جاری تھا چنانچہ دو مرتبہ اللہ تعالیٰ نے خارق عادت طور پر موت کے منہ سے بچایا اور اعلائے کلمتہ اللہ کو جاری رکھنے کی توفیق بخشی.جوں جوں بمباری کیادہ خطر ناک صورت اختیار کرتی چلی جارہی تھی ہر کسی کی گھبراہٹ اور تشویش میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا.انگریزی سفیر نیم میڈرڈ نے حالات کی حد درجہ نزاکت کے پیش نظر مجھے سفارت خانہ میں بلا کر اس بات کا مشورہ دیا کہ میں جان کی حفاظت کی خاطر سپین چھوڑ کر کسی دوسرے ملک میں چلا جاؤں.مگر میں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا.اور آپ سے دریافت کیا کہ آپ خود ایسے درد ناک حالات کے پیش نظر اس ملک کو چھوڑ کر کیوں نہیں پہلے جاتے ؟ اسپر جواب ملا کہ وہ انگریزی حکومت کے حکم کے بغیر کوئی عملی قدم نہیں اُٹھا سکتے.میں نے جوابا بتا یا کہ جب آپ چند پونٹوں کے لالچ سے اپنی جان کو مصیبت میں ڈالنے کے لئے تیار نہیں تو مجھے اتنا ہی ذلیل سمجھتے ہیں کہ میں موت کے ڈر سے اس پاک سے چلا جاؤں.بعینہ اس حالت میں جبکہ یہاں آیا ہی مرنے کیلئے ہوں.اسپیر آپ نے میری عمر پوچھی.اور یہ معلوم کر کے کہ تیس سال کی عمر میں اتنی قربانی کی روح موجود ہے.مزید پوچھا کہ یہ روح آپ کے اندر کس نے پیدا کی ہے.میں نے نہایت عاجزی سے بتایا کہ اسلام

Page 334

۴۹۸ اور احمدیت نے.میڈرڈ کی صورت حالات جب حد درجہ نازک ہوگئی.تو برطانوی حکومت نے حکماً ہر فرد کو سپین سے نکال کر جنگی بحری جہازوں کے ذریعہ فرانس اور دیگر ممالک میں بھیج دیا.چنا نچہ مجھے بھی فرانس کی بندرگاہ مارسیلز پر آکر پناہ لینی پڑی جہاں سے لنڈن گیا اور لنڈن سے سمندر کے راسته حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد کے مطابق ۲۱ جنوری سے بڑ کو اٹلی کے دارالسلطنت روما میں پہنچا.روہم شہر میں میری طلاقات کو نٹ غلام احمد صاحب سے ہوئی.آپ باوجود ضعیف العمری کے میرے مکان پر آیا کرتے جو چھٹی منزل پر واقع تھا سپین کی مسلسل اور خطرناک بمباری کے دوران میرے پاؤں میں ہم کے ٹکڑے ایسے موجود تھے جنہیں نکلوانے کے لئے کئی ماہ ہسپتال میں زیر علاج رہنا پڑا.جونہی اللہ تعالیٰ نے شفاء بخشی.زبان سیکھنے اور تبلیغ احمدیت کے کام کی طرف متوجہ ہوا ین ۱۹ ء تک ہر قسم کے صبر آزما حالات کا مقابلہ کر کے اور چند با و قارا در خلیق انسانوں کو حلقہ بگوش احمدیت کرنے کے بعد جنگ عالمگیر ثانی کے نتیجہ میں یمن کے قیدی کیمپوں میں ایام زندگی ۱۹۴۲ء تک گزار نے پر مجبور ہوا.روما کے معزز اور باوقار احمد می دوستوں میں سے خود گونٹ غلام احمد صاحب.پروفیسر یقین صاحب اور ڈاکٹر انور صاحب کے والد بشیر احمد صاحب جوام اور خود ڈاکٹر انور صاحب قابل ذکر ہیں جو اپنے اخلاص اور محبت کیوجہ سے اس قابل ہیں کہ تاریخ احمدیت میں اُن کے نام محفوظ رہیں.دشمن کے قیدی کیمپ میں جانے سے پہلے ایطالیہ میں تیر کے قریب انسانوں نے احمدیت قبول کی تھی مگر قید کے چہار سالہ عرصہ میں ہر کسی پر طرح طرح کے مصائب آئے.جنگ عالمگیر ثانی کی دردناک تکالیف اور ایک دوسے سے دوری نے رہی سہی تنظیم کو نقصان پہنچایا.تاہم جہاں کہیں بھی احمدی موجود تھے اور ایمان کی چنگاری ہمیشہ ان کے اندر روشن رہی قید کے چار سالہ عرصہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے تبلیغ احمدیت کا کام جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائی.چنانچہ میری پہلی بیوی سلیمہ خاتون کے علاوہ یوگوسلاویہ کے تین افراد کو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی کہ وہ احمدیت قبول کریں.ان میں برادرم توفیق caicic صاحب خاص طور پر اپنے اخلاص اور ایثار کی وجہ سے قابل ذکر ہیں.قیدی کیمپ میں بھی اللہ تعالیٰ نے بے شمار احسانات مجمد عاجز پر گئے.چنانچہ پندرہ مختلف اقوام کی نمائندگی کے فرائض سرانجام دئے اور آخر کار حسن سلوک اور احسانات کے سلسلہ کو جاری رکھتے ہوئے اپنی ہر دلعزیزی کے نتیجہ میں سینکڑوں مصیبت زدہ قیدی ساتھیوں کی

Page 335

۲۹۹ جانیں بچانے کی توفیق ملی.اتحادی اقوام کے سپاہیوں کے البطالوی شہر فلارنس میں داخلہ کے موقعہ پر انہوں نے ہندوستانی کمانڈ تک مجھے پہنچایا.میری احمدی بیوی سلیم ہی خاتون نے بھی قید کی خطرناک گھڑیوں میں ہمیشہ میرا ساتھ دیا.اور ہرقسم کے عموم و ہجوم میں شریک حال رہی.ہندوستانی افواج کی بہتری و بہبودی کے کاموں میں نمایاں طور پر حصہ لینے کی توفیق اللہ تعالیٰ نے دی.چنانچہ انڈین آرمی ایجو کیش کے طور پر انکے ساتھ فرانس یونیوسٹی میں کام کرتا رہا.اسی اثناء میں جماعت کے بعض اکابرین نے خدا کی دی ہوئی توفیق سے میری خبر گیری کی اور حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز زنگ میرے حالات پہنچائے.ہندوستانی افواج کے ہمراہ جنگ میں کام آئے ہوئے سپاہیوں کی لاشیں جگہ بہ جگہ سے حاصل کر کے انہیں رفتانے کے کام میں مصروف تھا تو دائیں آنکھ پر سخت چوٹ آئی اور سر میں گہرا زخم ہو گیا.اس کے نتیجہ میں دائیں آنکھ ہمیشہ کے لئے کمزور ہوگئی.ایطالیہ مں ایک اتحادی کمیشن اس وقت موجود تھا.اس کے ساتھ اپریل ۱۹۴۶ء تک با حسن وجوہ نہایت کامیابی کے ساتھ کام کیا.اسی اثناء میں حضرت امیر المومنین خلیفتی الثانی ایدہ اللہتعالیٰ بنصرہ العزیزہ نے دو مجاہدین (یعنی مسٹر محمد ابراہیم صاحب خلیل اور مولوی محمد عثمان صاب فاضل کو ایطانیہ کے لئے نامزد کر کے خاکسار کو از سرند ایطالیہ کے لئے امیر مقرر کیا.ایطالبہ کے حالات کے پیش نظر سسلی کے علاقہ میں تبلیغ احمدیت کی غرض سے ان ہر دو مجاہدین کے ME S S IN A کے شہر میں بھیجا.تا اُس حصہ زمین کے اُن انسانوں تک یہ پیغام پہنچایا جا سکے جو ایک وقت میں مسلمان تھے.اور پالیرمو نامی شہر اسلامی تہذیب مرکز تھا.اللہ تعالی نے محض اپنے فضل سے ہم سب کو اس بات کی توفیق بخشی کہ فریضہ تبلیغ کو حتی المقدور بجالائیں.MESSIA شہر کے دورہ کے موقعہ پر جبکہ وہاں کی مقامی حکومت نے رد و مبلغین کو ۲ گھنٹوں کے اندر ملک چھوڑ دینے کا حکم دیدیا تھا امامی بالائی حکام سے مل کر اور انہیں گذشته اسلامی شوکت اور شان کی یاد دلا کر اور ان کے اس رنگ میں اپنے ساتھ رشتہ کے تصور کے نتیجہ میں محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے حکم کی تنسیخ کے کام میں کامیابی ہوگئی.اس موقعہ پر دو ایمان افروز واقعات قابل ذکر ہیں.ایک تو یہ ہے کہ مسینہ کی بندرگاہ کے قریب ایک پرانے زمانے کی یادگار کے سامنے جو ایک مسجد سے مشابہت رکھتی تھی.میں نے کھڑے ہو کر اسلامی دور کی یاد تازہ کرتے ہوئے سوز و گداز سے دعا کی تو ایک بھاری جمع کو وہاں پر کھڑے پایا.میں نے ایطالوی زبان میں ہی حاضرین سے پوچھا کہ یہ کیا یاد گار ہے.تو انہوں نے بتا یا کہ یہ پرانے زمانے کی ایک مسجد ہے.اسپر وقت کے ساتھ میں نے

Page 336

حاضرین کو بتایا کہ وہ دور ایک مبارک دور تھا.اور آپ میں سے غالباً اب کسی کو بھی یاد نہیں کہ آپ کے آباؤ اجدا مسلمان تھے.کاش آپ میں سے کوئی ایک ہی اُس زمانہ کی یاد تازہ کر کے اسلام کی طرف متوجہ ہو ؟ اس پر ایک نوجوان آگے بڑھا اور کہنے لگا کہ میں اس بات کے لئے تیار ہوں.چنانچہ اُسے سلسلہ کے عقائد اور اسلام کی ترقی کے حالات سے واقف کیا گیا تو اس نے اسلام قبول کر کے اپنا نام محمود" رکھنا پسند کیا.دوسرے نوجوانوں پر اس کا گہرا اثر تھا اور اس نوجوان کے ذریعہ وہاں پر ہماری تبلیغ کے انتظامات ہوتے رہے.MESSIANA شہر کی میونسل کمیٹی کے قریب پہنچے تو وہاں پر ایک فوٹو گرافر کی دوکان تھی.جس کے اندر جا کر دریافت کیا کہ فوٹو تیار کر کے جلدی دید بینگے.اسپر یہ فوٹو گرافر ایک عجیب انداز میں کشکی لگائے کھڑا ہوگیا اور میے بار بار اصرار پر کہ فوٹو لے لیں حرکت میں نہ آیا.آخر کار کہنے لگا.فوٹو بعد میں لے لینگے مجھے آپ سے کچھ دریافت کرنا ہے.عرصہ ہوائیس نے اور میری بوڑھی والدہ نے ایک ہی رات ایک ہی خواب دیکھی.جس میں ایک جلیل القدر انسان حاضرین سے مخاطب ہو کر اسلام کی خوبیاں بتا رہے تھے.آپ کے اردگرد اکثر اشخاص موجود تھے مگر اُن میں سے دو کی شکلیں مجھے اچھی طرح یاد ہیں.ایک کا چہرہ گولی اور موٹے نقش تھے اور ہوس سے انسان کا چہرہ بہت نورانی تھا.اور ان ہر سہ اشخاص کے قریب چوتھے مقام پر آپ موجود تھے.باتوں باتوں میں اس جلیل القدر انسان نے آپکی طرف اشارہ کر کے یہ کہا کہ اگر ایطالیہ میں آپ لوگوں کو اسلام سمجھنے کی ضرورت ہوتو اس شخص سے اپنا رابطہ قائم کرلیں.آپ چاہیں تو میں اپنی والدہ صاحبہ کو بھی یہیں بلا لیتا ہوں تا ہم بھی اس خواب کی تصدیق کر دیں.چنانچہ آپکی والدہ صاب بھی ہیں پہنچ گئیں اور اس طریق پر آپنے بھی اسی بات کی تصدیق کی جو فوٹو گرافر صاحب نے بتائی تھی.میں نے سلسلہ کا البم کھول کر سب سے پہلے انہیں حضرت مسیح موعود کا فوٹو دکھایا جس کے بارہ میں انہوں نے یہ بتایا کہ یہی و جلیل القدر انسان تھے.بعد ازاں میں نے حضرت خلیفہ اول رضی الہ عنہ کا فوٹو دکھایا تو اس بات کی تصدیق ہوئی کہ آپ ہی گول چہرے والے اور موٹے نقشوں والے ہیں.اسکے بعد حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی کی فوٹو دیکھ کر انہو نے بتایا کہ یہی وہ انسان ہیں.جن کا چہرہ بہت نورانی تھا.بعد ازاں جلد ہی اٹلی کا مشن بند کر دیا گیا اور ہر دو مجاہدین کو واپس مرکز میں بلالیا گیا.گو یونی پاستور اٹلی میں اپنی رہائش جاری رکھی.اور روزی کے ذرائع پیدا کر کے ۱۹۴۹ء میں ہوائی جہاز کے ذریعہ پاکستان

Page 337

پہنچا.جہاں ایک سال ٹھیرنے کے بعد حضرت خلیفہ مسیح المصالح الموجود سے از سر نو طلاقات کر کے اور ہدایات لیکر واپس ایطالیہ پہنچا.جہاں با وجود مشکل اور ناموافق حالات کے ۱۹۵۵ء تک فریضہ تبلیغ کو بجا لاتا رہا...اس دس سالہ عرصہ میں امان اللہ خان سابق بادشاہ افغانستان، شام ایران، ملکہ الزبیتھا اور اُن کے خاوند پرنس فلپ اور ڈاکٹر احمد سکار نو تک بیغام احمدیت پہنچانے کا موقعہ ملا.اسی طرح الطالوی جمہوریت کے رہنے پہلے صدر انیر یکو دے تکولا صاحب سے.اور چند سال بعد دوسرے صدر گرو کی صاب سے بھی ملاقات ہوئی.نیز امریکہ.انگلستان - مراکو - لیبیا.سومالیہ.مشرقی افریقہ.آسٹریلیا.جنوبی افریقہ - مینیگال - ماریشن سپین - لڑکی - ایران - البانیہ - یوگوسلاویہ.ہنگری اور سوئٹزرلینڈ کے زائرین تک جماعتی اور انفرادی نہنگ میں ملاقاتیں کر کے پیغام احمدیت پہنچانے کی توفیق ملتی رہی.الحمد لہ علی ذالک فصل چهارم حضرت مولانا شیر علی صاحت کا اس سال کے اوائل کا ایک اہم واقعہ یہ ہے کہ حضرت مولوی شیری حیات ور فروری تنہا اپنے کو انگلستان تشریف لے گئے اور ساڑھے نہیں سفر انگلستان سال تک قیام فرما رہنے کے بعد ہر نومبر کو قادیان میر واپس تشریف لائے.حضرت مولانا شیر علی صاحب نے بڑھاپے کے با وجود یہ لمبا سفر صرف ترجمة القرآن انگریزی کی تکمیل کے لئے اختیار فرمایا.جیسا کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے بھی فرمایا کہ مولوی شہر علی صاحب اس مرض کے لئے ولایت جارہے ہیں تاکہ وہاں جا کر وہ قرآن کریم کے ترجمہ کی انگریزی زبان کے لحاظ سے مزید نگرانی کر سکیں.اس بات کی قرآن مجید کے نوٹوں کیلئے بھی ضرورت ہے.مگر ترجمہ کے لئے زیادہ ضرورت ہے.کیونکہ ترجمہ میں یہ شکل پیش آتی ہے کہ اگر تحت اللفانز جمہ کیا جائے تو زبان بگڑ جاتی ہے.اور اگر زیادہ واضح کیا جائے تو وہ ترجمہ کی حد سے نکل کر تفسیر بن جاتا ہے.نہیں ضروری ہے کہ ماہر اہل زبان صحاب سے اس بارے میں مشورہ لے لیا جائے.ہو سکتا ہے کہ وہ ترجمہ دیکھ کر کسی جگہ کوئی ایک ہی لفظ ایسا بتا دیں جو ایک فقرہ کا قائم مقام ہو سکے اور اس طرح ترجمہ مختصر ہونے کے باوجود زیادہ مطالب پر حاوی ہو جائے یا کوئی زبان کی غلطی ہو تو اسے دور کریں.یہ کام جس وقت ہو جائے گا.اس کے بعد ا الفضل ۲۸ فروری یه صفحه ۲ کالم : له الفضل اور نومبر ۱۹۳۹ صفحه ا

Page 338

٣٠٢ بقیہ کام ہمارے لئے سہل ہو جائے گا " اس کام کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا یہ کام...اپنے اندر بہت بڑی ذمہ داری رکھتا ہے.دنیا میں قرآن کریم کے ترجمے ہمیشہ ہوتے رہتے ہیںلیکن ان کی عرض تعلیم ہوا کرتی ہے.مگر میں ایک زائد غرض بھی ہے اور وہ یہ کہ اپنے مستقبل کو خطرات سے بچایا جائے.ورنہ اگر مغربی ممالک میں اسلام پھیلتا چلا جائے اور اس کے مسائل مشتبہ ہوتے جائیں تو ڈر ہے کہ اسلام میں داخل ہونیوالے عیسائی اسی طرح اسلام کو بگاڑ دیں جس طرح انہوں نے عیسائیت کو بگاڑا.پس ضرورت ہے کہ مغربیت اور اسلام کے درمیان ایسی دیوار حائل کر دی جائے جیسے ذوالقرنین نے دیوار بنائی کہ جس کے اوپر سے چڑھ کر کوئی مخالف نہ آسکے.ہاں اس کے دروازوں سے اجازت لیکر صحیح راستہ سے آنا چاہے تو آ جائے.یعنی مغرب کا کوئی شخص اسلامی احکام سے بغاوت نہ کر سکے اور نہ اُس کے احکام کو بگاڑ سکے.بلکہ اسلام کے متعلق جو کچھ کہے اور جس تعلیم کو وہ قرآن کریم کی طرف منسوب کرے.اس کے کہنے اور منسوب کرنے کی شریعت اُسے اجازت دیتی ہو.اس اہم کام کیلئے مولوی صاحب جائے ہے ہیں.فروری ء کا واقعہ ہے کہ ایک احمدی بھائی بشیر احد صاحب در بیانوی شد ایک احمدی خاتون کی سینٹری اسپکٹر لیہ ضلع مظفر گڑھ کی عدم موجودگی میں دو مسلح ڈاکوئوں نے بے نظیر بہادر کی رات کے وقت اُن کے مکان میں گھس کر مال و اسباب لوٹنا چاہا.اور تلوار دکھا کہ ان کی اہلیہ صاحبہ اور اُن کے بچوں کو قتل کی دھمکی دی.مگر اُن کی اہلیہ صاحبہ نے نہایت بہادری سے ڈاکوؤں کا مقابلہ کیا اور اُن کی سازش اکام بنادی ہے بھائی بشیر احمد صاحب کی طرف سے حضرت خلیفہ اسیح الثانی نہ کی خدمت میں جب اس واقعہ کی اطلاع پہنچی تو حضور نے اسپر اپنے قلم سے تحریر فرمایا.گو یہ خطرہ تھا.مگر آپکی اہلیہ نے جس بہادری سے اور عقلمندی سے کام کیا ہے.وہ اس واقعہ کو ایک مبارک واقعہ بنا دیتا ہے میری طرف سے بھی انہیں مبارک باد دے دیں سے شد.ا الفضل و ہر قاری شاء صفحہ والے واقعہ کی تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو الفضل و ماپنے کالم ۲۱ الفضل ار مارچ ۱۹۲۶ - اس واقعہ کا ذکر مارک کے بند مسلم پرنہیں میں بھی نہایت قابل تعریف رنگ میں کیا گیا.اور خاتون موصوفہ کی بہادری کی داد دی گئی.اخبار بندے ماترم کے مارچ سلہ) نے اس واقعہ کی تفصیلات اس عنوان سے شائع کی کہ البتہ میں ایک عورت کی بے نظیر بہادری.ڈاکوؤں سے مقابلہ سخت زخمی ہو جانے پر بھی خنجر NAY

Page 339

سلام سلام فصل پنجم حضرت خلیفة المسیح الثانی میں شروع خلافت سے اس جہاد میں فضا جائزہ اور پرامن ذرائع سے صحیح اسلامی پوری قوت سے سرگرم عمل تھے کہ جن حالات میں حکومت وقت حکومت کے قیام کا ارشاد مبارک اجازت دیتی ہےان میں اسلامی تعلیم اور اسلامی نظام جاری ان کیا جائے.اس سلسلہ میں غیروں کی نگاہ میں کئی دفعہ بد نام کئے گئے اور آپ کے خلاف یہ جھوٹا پراپیگنڈا کیا گیا کہ یہ اپنی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں.مگر حضور نے اس طعنے کی ذرہ بھی پروا نہ کی اور برابر اپنے کام میں مصروف رہے.یہ امر چونکہ جماعت احمدیہ کے بنیادی اغراض و مقاصد میں شامل تھا.اسلئے حضور نے ۱۳ مارچ ۱۹۳۷ء کو خاص اسی موضوع پر نہایت پُر جوش خطبہ ارشاد فرما یا جس میں واضح اعلان رمایا کہ : ہم مکمل طور پر کہتے ہیں کہ ہم اسلامی حکومت دنیا پر قائم کر کے رہیں گے انشاء اللہ تعالی ہم جس چیز کا انکار کرتے ہیں.وہ یہ ہے کہ تلوار اور فتنہ وفساد کے زور سے ہم اسلامی حکومت قائم نہیں کریں گے بلکہ دلوں کو فتح کر کے اسلامی حکومت قائم کریں گے.کیا کوئی خیال کر سکتا ہے کہ اگر آج میرے بس میں یہ ہو کہ میں انگلستان کے تمام لوگوں کو مسلمان بنادوں ، وہاں کے وزراء کو اسلام میں داخل کردوں اور پارلیمنٹ کے ممبروں کو میں مسلمان بنا کر وہاں اسلامی حکومت قائم کر دوں.تو میں اپنے اس اختیار سے کام لینے سے انکار کروں گا.میں تو ایک منٹ کی دیر بھی نہیں لگاؤں گا.اور کوشش کروں گاکہ فورا ا لوگوں کو مسلمان بن کر انگلستان میں اسلامی حکومت قائم کردوں لیکن چونکہ پیسے بس کی بات نہیں اس لئے میں کو نہیں کر سکتا.ورنہ میں اس بات سے انکار تو نہیں کرتا کہ میرے دل میں یہ خیال ہے اور یقیناً میرے دل کی خواہش ہے کہ ہمارے بادشاہ بھی مسلمان ہو جائیں.وزراء بھی مسلمان ہو جائیں.پارلیمنٹ کے ممبر بھی مسلمان ہو جائیں.اور برطانیہ کے تمام باشندے بھی مسلمان ہو جائیں.اس میں اگر دیر ہے تو اس لئے نہیں کہ میری یہ خواہش نہیں کہ وہ مسلمان ہوں.بلکہ اس لئے زیرہ ہے کہ اُن کو مسلمان کرنا میرے اختیار میں نہیں.اور اس وجہ سے وہاں اسلامی حکومت ہاتھ سے چھوٹا حوالہ افضل در مارچ شاہ صفحہ ہو کالم ہی پنجاب پولیس نے بہادری کے اعتراف میں سیکنڈ کلاس سرٹیفکیٹ اور پچاس روپے نقد بطور انعام کئے.نیز شیخ بشیر احمد صاحب آزاد جرنلسٹ مرید کے نے جماعت احمدیہ مرید کے کی طرف سے چاند کی کا ایک خوبصورت میڈل بطور انعام دیا ( افضل ۳۰ ستمبر 2 وارو صفحه سوم

Page 340

هم ۴۳۰ قائم نہیں کی جاسکتی.دورنہ اسلامی حکومت قائم کرنے کے لئے میرے دل میں تو اتنی زبردست خواہش ہو کہ اسکا کوئی اندازہ ہی نہیں لگا سکتا.اور اپنی اس خواہش کا میں نے کبھی انکار نہیں کیا.اور اگر میں انکار کروں اور میرے دل میں اسلامی حکومت کے قائم کرنے کی خواہش نہ ہو تو اسلام کے احکام کے حصے پورے کسی طرح ہو سکتے ہیں جن کے لئے ایک نظام کی ضرورت ہے.کیا کوئی شخص پسند کرے گا کہ اسکا گھر اُدھورا ر ہے ؟ اگر کوئی شخص اپنے مکان کے متعلق یہ پسند نہیں کر سکتا کہ وہ اُدھورا رہے تو خدا تعالے کے گھر کے متعلق کہ یہ امرکب پسند کرے گا.اس میں کیا شک ہے کہ جب تک تمام دنیا مسلمان نہیں ہوتی اور خود حکومت اسلامی حکومت نہیں ہو جاتی.اس وقت تک اسلام کی عمارت کانی رہتی ہے.اور اپنی عمارت کا کانا ہوناکون پسند کر سکتا ہے ؟ جب ہر شخص اپنی عمارت کو مکمل دیکھنا چاہتا ہے توکب کوئی عقلمند ہم سے یہ امید رکھ سکتا ہے کہ ہم اسلام کی عمارت کو کانار کھت پسند کریں گے.اگر انگریز علیسائی ہی رہیں.یہور کی یہودی ہی رہیں.ہندو ہندو ہی رہیں.تو اسلامی حکومت دنیا میں قائم نہیں ہوسکتی.ہاں اس کے قائم کرنے کا ایک طریق ہے اور اس طریق کے ذریعہ ہی دنیا میں ہمیشہ کام ہوا کرتے ہیں.اگر کوئی شخص کا نا ہو.اور وہ کسی دوسرے سو جا کھے کی آنکھ نکال کر اپنے کالے پن کو دور کرنا چاہے تو سارے لوگ اُسے بیوقوف ہی سمجھیں گے.کیونکہ دوسے کی آنکھ نکال کر اس کا کا نا پن دور نہیں ہو سکتا.اسی طرح اگر کوئی بے وقوف یہ سمجھے کہ چند انگریزوں کو بنا کر یا فتنہ و فساد پیدا کر کے وہ اسلامی حکومت قائم کر سکے گا.تو وہ حماقت کا ارتکاب کرتا ہے.پس یہ طریق بالکل نا درست ہے اور لیکن ہمیشہ اس کی مخالفت کرتا رہا ہوں.لیکن جائز اور پر امن طریق سے اسلامی حکومت قائم کرنا ہمار ی دلی خواہش ہے.اور یکن سمجھتا ہوں ہم میں سے ہر ایک کے دل میں یہ آگ ہونی چاہیئے کہ ہم موجودہ طرز حکومت کی بجائے حکومت اسلامی قائم کریں.یہ طبعی خواہش ہے اور میرے دل میں ہر وقت موجود رہتی ہے.اور میں نے اس خواہش سے کبھی انکار نہیں کیا.ہاں میرے اور عام لوگوں کے ذرائع میں اختلاف ہے.میں اسلامی حکومت کے قیام کے لئے تبلیغی اور پرامن ذرائع اختیار کرتا ہوں.اور وہ کہتے ہیں کہ اس کے قائم کرنے کا طریق مار پیٹ اور تمبر وتشدد ہے.بہر حال یہ خواہش تو جب پوری ہوگی ہوگی اور یقینا ایک دن گوری ہوگی.دنیا کی مخالفتیں اور دشمنوں کی

Page 341

۳۰۵ روکیں مل کر بھی اس میں حائل نہیں ہو سکتیں یہ قادیان کے محلہ دیتی چھلہ (دار الفتوح) کی مسجد جس کی تعمیر مسجد محلہ رہنی جھلہ قادیان ۱۹۳۵ء میں حکام کی جنبہ داری کے باعث رکی ہوئی تھی.کا افتتاح اس سال (حضرت قاضی عبد الرحیم صاحب کی زیر نگرانی) پائیہ تکمیل کو پہنچ گئی.اور حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ہم اور مارچ سال ہو کو کسی نماز عصر برپا کر مسجد کا افتتاح فرمایا.ہے قادیان میں اجتماعی وقار عمل حضرت خلیفہ المسیح الثانی بن نے تحریک جدید کا السلمان رض کرتے ہوئے سولہواں مطالبہ یہ فرمایا تھا کہ احمدی اپنے کے بابرکت سلسلہ کا آغاز ہاتھ سے کام کریں اور سے پہلے ہی قادیان پر پیام داری ڈالی کہ وہ محلوں اور گلیوں کو درست کر کے ثواب حاصل کریں.اس عظیم الشان مقصد کے پیش نظر قادیان میں اجتماعی وقار عمل کے اہم سلسلہ کا آغاز ہوا جود تقسیم ہند تک جاری رہا.اس ضمن میں سے پہلا اجتماعی و ار ال جی میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے بنفس نفیس شمولیت فرمائی ۲۸ مارچ نے کور بوقت پانچ بجے شام احد یہ سپلائی کمپنی اور سٹار ہوزری کے اس قریبی رستہ پر منایا گیا جو میرا نے اڈہ کو جاتا ہے اور جب کسی قرب وجوار میں زیادہ آبادی ہنڈوں اور غیر احمدیوں کی تھی اور جہاں ایک کافی گہرا اور خاصہ لمبا چوڑا گڑھا تھا.جس میں قریباً سارا سارا سال پانی بھرا رہتا تھا.اور فضا سخت متعفن ہو جاتی تھی.حضرت در المومنین آخر وقت تک ایک ہے سے لیکر دوسرے سرے تک گشت کر کے نہ صرف زیادہ سرگرمی اور زیادہ مستعدی کے ساتھ کام کرنے کی ہدایات دیتے رہے بلکہ حضور نے متعدد بار خود کدال لیکر مٹی کھو دی.ٹوکریوں میں بھری اور پھر مٹی کی بھری ہوئی ٹوکری کافی فاصلہ سے اٹھا کرگڑھے ہیں ڈالی.اگر چہ کام کے لئے وقت بہت تھوڑا اور سامان ناکافی تھا.لیکن حضور کی موجودگی اور پھر کام میں خدام کے ساتھ شمولیت نے بڑوں ہی میں نہیں چھوٹے بچوں میں بھی خاص ہمت اور جوش پیدا کر دیا.اور وہ اپنی جھولیوں میں مٹی ڈال ڈال کر لئے جاتے رہے.مٹی ڈھونے کا طریق ه روزنامه افضل ۸ار بار ۱۹۳۷ و صفحه ۳ ۳ : ۵۲ الفضل ۲۶ مارچ ۱۹۳۶ یو صفحه ۲ *

Page 342

یہ تھا کہ کام کرنے والوں کو گڑھے سے لیکر جو ہر تک تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر دو قطاروں میں کھڑا کیا گیا.ایک قطار بھری ہوئی ٹوکریاں ہا تھوں ہاتھ گڑھے تک پہنچاتی اور دوسری قطار خالی ٹوکریاں اُسی طرح واپس پھیر دیتی جنہیں فورا بھر کر پھر روانہ کردیا جاتا.نے اس پہلے وقار حمل کے بعد جب اپنے عہد صحابہ کی سادہ زندگی اور سادہ معاشرت کی یاد تازہ کر دی.اس اجتماعی مظاہرہ کا ایک سلسلہ جاری کر دیا گیا.جو تقسیم ہند ت ال ہو تک پوری شان سے چلتا رہا.ابتداء میں یہ کام صدر انجمن احمدیہ کی لوکل انجمن کی نگرانی میں ہوتا تھا مگر بعد کو اسے مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے زیر انتظام کر دیا گیا.جسکے نتیجہ میں پہلے سے زیادہ جوش و خروش اور دلچسپی پیدا ہوگئی.اور کام میں نظم وضبط اور باقاعدگی کا ایک خاص رنگ پیدا ہوگیا اور قادیان کی متعدد سڑکیں درست طور پر بن گئیں.حضرت خلیفہ المسیح الثانی بن حضرت امیر المومنین نے مجلس مشاورت اجلاس اول دمنتقد ۱۰ ۱۱ ۱۲ را پریل شاہ) میں جماعت کو صنعت و حرفت کیطرف کا ایک ولولہ انگیز ارشادہ متوجہ کرتے ہوئے یہ ولولہ متوجہ کرتے ہوئے یہ ولولہ انگیز بیان دیا کہ " میں نہیں جانتا.کہ ولولہ دو کے دوستوں کا کیا حال ہے لیکن میں تو جب ریل گاڑی میں بیٹھتا ہوں.میرے دل میں حسرت ہوتی ہے کہ کاش یہ ریل گاڑی احمدیوں کی بنائی ہوئی ہو.اور اس کی کمپنی کے وہ مالک ہوں.اور جب میں جہاز میں بیٹھتا ہوں تو کہتا ہوں.کاش یہ جہاز احمدیوں کے بنائے ہوئے ہوں اور وہ ان کمپنیوں کے مالک ہوں.میں پچھلے دنوں کراچی گیا.تو اپنے دوستوں سے کہا.کا کسش کوئی دوست جہاز نہیں توکشتی بنا کر ہی سمندر میں چلانے لگے.اور میری یہ حسرت پوری کر دے اور میں اس میں بیٹھ کر کہ سکوں کہ آزاد سمندر میں یہ احمدیوں کی کشتی پھر رہی ہے.دوستوں سے میں نے یہ بھی کہا.کاش کوئی دس گز کا ہی جزیرہ ہو جس میں احمدی ہی احمدی ہوں اور ہم کر سکیں که بری احمدیوں کا ملک ہے کہ بڑے کاموں کی ابتداء چھوٹی ہی بچیزوں سے ہوتی ہے.یہ ہیں میرے ارا دے.اور یہ ہیں میری تمنائیں.ان کو پورا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم کا م شروع کریں گر یہ کام ترقی نہیں کر سکتا جب تک کہ ان جذبات کی لہریں میرا ایک احمدی کے دل میں پیدا نہ ۶۱۹۳۶ الفصل یکم اپریل ۹۳ صفر ۲ + کو

Page 343

سم ہنوں اور اس کے لئے جس قربانی کی ضرورت ہے وہ نہ کی جائے.دنیا چو نکر صنعت و حرفت میں بہت ترقی کر چکی ہے.اسلئے احمدی جو اشیاء اب بنائیں گے وہ شروع میں مہنگی پڑیں گی مگر با وجود اسکے جماعت کا فرض ہے کہ انہیں خریدے " لے اس سال حضور نے مبلغین احمدیت کو مختلف مواقع افضائح مبلغین کو نہایت اہم نصائح ا فرمائیں.چنانچہ مجلس مشاورت ۱۹۱۳ء میں ارشاد فرمایا کہ اور مبلغ ایسے ہونے چاہئیں جن میں دین کی روح دوسروں کی نسبت زیادہ قوی اور طاقتور ہو.اور وہ دین کے لئے ہر وقت قربان ہونے کے لئے تیار ہوں.وہ ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک لٹوں کی طرح چکر لگائیں...ہمیں وہ تیز طرار مبلغ نہیں جچا ہیں جو خم ٹھونگے میدان مباحثہ میں نکل آئیں اور کہیں کہ آؤ ہم سے مقابلہ کرلو.ایسے مبلغ آریوں اور عیسائیوں کو یہی مبارک ہوں.ہمیں تو وہ چاہئیں جن کی نظریں بیچی ہوں.بو شرم و حیاء کے پتلے ہوں.جو اپنے دل میں خوف خدا رکھتے ہوں لوگ جنہیں دیکھ کو کہیں یہ کیا جواب دے سکیں گے.ہمیں اُن مبلغوں کی ضرورت نہیں جو مباحثوں میں حجیت جائیں.بلکہ ان خادمان دین کی ضرورت ہے.جو سجدوں میں جیت کر آئیں.اگر وہ مباحثوں میں ہار جائیں تو سو دفعہ ہار جائیں.ہمیں اسکی کیا ضرورت ہے کہ زبانیں چیچارہ ہیں مگر ہمارے حصہ میں کچھ نہ آئے.سر جنبش کریں اور ہم محروم رہیں.میں مانتا ہوں کہ اس میں بیرونی جماعتوں کا بھی قصور ہے.وہ لکھتی ہیں کہ خلا مبلغ کو بھیجی جائے.خلال کا آنا کافی نہیں.کیونکہ وہ چٹخارے دار زبان میں بات نہیں کر سکتا.یہ میچ ہے.یہ صحیح ہے.مگر لیڈر وہ ہوتا ہے جو لوگوں کو پیچھے چلائے.نہ کہ لوگ بعد ھر چاہیں اُسے لے جائیں.جو شخص تقوی وطہارت پیدا کرتا ہے.جو قلوب کی اصلاح کرتا ہے وہی حقیقی مبلغ ہے جو یہ سمجھے کہ میں نوکر ہوں اور جو وہاں جائے جہاں ایسے حکم دیا جائے.ایسے مبلغ کو ہم نے کیا کرنا ہے.جسے اگر کہیں اس سے اچھی نوکری مل گئی تو وہاں چلا جائے گا.ہمیں وہ مبلغ چاہئیں جو اپنے آپکو ملازم لازم نہ مجھیں بلکہ خداتعالی کیلئے کام کریں اور اسی سے اجر کے متمنی ہوں.جو ایسا نہیں کرتا.وہ ہمارا مبلغ نہیں.بلکہ ہمارے دشمن کا مبلغ ہے.ے رپورٹ مجلس مشاورت مل۱۹۳ ء صفحہ ۲۶

Page 344

دہ شیطان کا مبلغ ہے کیونکہ اس کو تقویت دے رہا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت موسی علیہ السلام نے حضرت عیسی علیہ السلام نے کونسے مبلغ رکھے ہوئے تھے.یہ تو گندگی اور نجاست ہے جسے زمانہ کی اس مجبوری کیوجہ سے کہ آریوں اور عیسائیوں نے اس قسم کے لوگ رکھے ہوئے ہیں.جن کا مقصد اسلام کو نقصان پہنچانا ہے.اُن کے مقابلہ کے لئے رکھے ہوئے ہیں.کیا کوئی کہ سکتا ہے.کہ جس وقت کوئی شخص پاخانہ میں جا کر بیٹھتا ہے تو وہ اُس کا بہترین وقت ہوتا ہے.وہ تو مجبوری کا وقت ہوتا ہے.اسی طرح تبلیغ کے لئے ایسا انتظام تو ایک مصیبت ہے اور ایک مجبوری ہے.پس مبلغوں کو اس حقیقت کو سمجھا چاہئے کہ گذار لینے میں عیب نہیں مگر گزارہ کیلئے کام کرنا عجیب ہے.مبلغ یہ ہے کہ اُسے کچھ لے یا نہ ملے.اس کا فرض ہے کہ تبلیغ کا کام کرے.پرانے مبلغ مثلا مولوی غلام رسول صاحب و زیر آبادی مولوی غلام رسول صاحب را جیکی مولوی محمدا با نیمی صاحب براہیم بقا پوری.انہوں نے ایسے وقتوں میں کام کیا جب ان کی کئی مرد نہ کی جاتی تھی اوراس کام کی وجہ سے اُن کی کوئی آمد نہ تھی.اس طرح انہوں نے قربانی کا عملی ثبوت پیش کر کے بتادیا کہ وہ دین کی خدمت بغیر کسی معاوضہ کے کر سکتے ہیں.ایسے لوگوں کو اگر ان کی آخری عمر میں گذارے دیئے جائیں تو اس سے اُن کی خدمات حقیر نہیں ہو جائیں.بلکہ گزارہ کو اُن کے مقابلہ میں حقیر سمجھا جاتا ہے.کیونکہ جس قدر انکی امداد کرنی چاہیئے.اتنی ہم نہیں کر رہے.یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہر بالغ اپنے آپکو خلیفہ بھتا ہے.اور خیال کرتا ہے کہ یہ اس کا حق ہے.جوائس کے جی میں آئے سنائے.اور جونہ چاہیے نہ سنائے حالانکہ کا بانسری ہے.جس کا کام یہ ہے کہ جو آواز اس میں ڈالی جائے اسے باہر پہنچائے.اگر مبلغ یہ سمجھتے کہ وہ ہتھیار ہیں میرا.نہ کہ دماغ ہیں جماعت کا.تو وہ میرے خطبات لیتے اور جماعت میں اُن کے مطابق تبلیغ کرتے.اور اس طرح اس وقت تک عظیم الشان تغیر پیدا ہو چکا ہوتا...مبلغین کا کام یہ ہے که خلافت کو ہر آواز کو خود نہیں اور مجھیں.پھر ہر جگہ ایسے پہنچائیں " لے رپورٹ مجلس مشاورت ۳۶ دار و صفحه ۲۲ تا ۲۷

Page 345

فصل ششم البانیہ میں آپ کا ایک آزاد ملک ہے جس کے اکثر باشند سے منفی دارالتبليغ البانی و یوگوسلاویہ مسلمان ہیں حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے اس ریاست میں اشاعت احمد آیت کے لئے مولوی محمد الدین صاحب کو د اپریل پیر کو قادیان سے روانہ فرما بایت مولوی صاحب موصوف بجما عتی پروگرام کے مطابق مختلف ممالک میں ٹھہرتے ہوئے دوماہ کے لیے سفر کے بعد البانیہ کے : ارالسلطنت ٹیرانیہ میں پہنچے.البانیہ میں آپکو تین ماہ تک قیام کرنے کا موقعہ ملا.اس عرصہ میں آپ نے احمدیت کا پیغام پہنچایا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام یہاں پہلے ہی اخباروں، رسالوں اور کتابوں کے ذریعہ پہنچ چکا تھا لیکن لوگ پوری حقیقت سے اچھی طرح آگاہ نہ تھے.جن لوگوں کو احمدیہ لٹریچر کے مطالعہ کا کہ موقعہ ملا.ان میں سے ایک البانوی خاندان مولوی صاحب کے ذریعہ سے حلقہ بگوش احمدیت ہو گیا.اس طرح البانیہ میں احمد تیت کی داغ بیل پڑ گئی.نیز احمدیت کے کئی مکان پیدا ہو گئے لیے آپ کو تین ماہ کے بعد مقامی ملاؤں کی شرارت کے باعث مجبورا ملک چھوڑنا پڑا.آپ مرکز کی ہدایت پر بلگراد (یوگوسلاویہ تشریف لے گئے تا وہاں سے البانیہ کے سرحدی ملحقہ علاقوں پر اثر و نفوذ ڈال سکیں.چنانچہ آپ نے یہاں اگر پیغام حق پہنچانا شروع کر دیا.جولائی کہ یہ میں آپ علاقہ کوسواً میں گئے جو البانیہ کے ساتھ ملتا ہے مگر یوگوسلاویہ کے ماتحت تھا.اس سفر میں بوڈا لپسٹ کے مخلص سفر احمدی شریف د تسا صاحب بھی آپ کے ساتھ تھے.آپ نے سر سے پہلے اُن کے گاؤں مترو ویسلا ئیں قیام کرکے تبلیغ کی یہ یوگو سلاویہ میں خدا کے فضل و کرم سے تیس نفوس نے احمدیت قبول کی شہ ܀ A.ه الفضل ۲۱ را پریل ۱۹۳۶ء صفحہ کالم 1 مسلے " لویه آن پیجز آرد و جولائی انشاء صفحه ۵۰ : ۳ البم شائع کرده تحریک تجدید صفحه ۲ : ۵۲ الفضل ۱۲ ستمبر ۱۹۳۵ء صفی ، دو کے بلگراڈ میں سب سے پہلے خوش قسمت جن کو قبول احمدیت کی توفیق علی.وہ ایک ذی ثروت و وجاہت دوست انور نامی تھے تو البانین ، ٹمر کی ، جرمن ، فریخ ، اطالین اور گریس، نہ بان جانتے تھے.آپ کے بعد دوسرے نمبر پر ایک ترک نجم دین صاحب نے بیعت کی جوٹر کی فوج کے ایک بہت بڑے عہدہ پر رہ چکے تھے اور ان دنوں لکڑی کے ایک بہت بڑے کارخانے میں کام کرتے تھے : الفضل اور فروری ۱۳۶ ۶ صفحه ۲ : ۶ الیم شائع کردہ تحر یک حدید شراء - ابتدائی تین ماہ میں دو اشخاص نے بیعت کی اور عجیب ہارت ہے کہ دونوں پر صداقت احمدیت بذریعہ خواب منکشف ہوئی تھی.(الفضل ، ار فروری ۱۹۳۶ء صفحہ ۵)

Page 346

٣١٠ یہ سلسلہ اشاعت حق جاری تھا کہ آپ کو یوگوسلاویہ سے بھی نکلنا پڑا.اور آپ درجون و کو بلغاریہ میں آگئے اور صوفیہ میں ایک ماہ تک احمدیت کی منادی کرتے رہے.بعد ازاں اٹلی کے صدر مقام تروما میں پہنچے سے اسی دوران میں دوسری جنگ عظیم چھڑ گئی اور آپ کو اٹلی سے مصر میں آنا پڑا.جہاں کچھ عرصہ اعلائے کلمتہ اللہ کا فریضہ بجا لانے کے بعد مارمارچ ۱۹۳۷ء کو واپس قادیان تشریف لے آئے.ملک مولوی محمد الدین صاحب کےمزیت تبلیغی مولوی محمد الدین صاحب کے برادر اکبر ک مستقیم حالات اور دردناک شہاد کا واقعہ صاحب بی اسے ایل ایل بی ایڈووکیٹ ساہیوال رقمطراز سیاسی ہیں کہ : مولوی محمد الدین صاحب ابن ڈاکٹر محمد ابراہیم صاحب اُس پہلی صف کے مجاہدین میں سے تھے.جنہوں نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی من کی راہ کی آواز پر لبیک کہا اور تین سال کیلئے غیر مالک میں تبلیغ کے لئے پیش کیا.شرط حضور کی یہ تھی کہ مجاہدین خود غیر ممالک میں اخرا جا سکے کفیل ہوں گے.مولوی محمد الدین صاحب کے لئے ملک البانیہ تجویز کیاگیا جس کا فرمانروا اس وقت ایک نوجوان احمد و تھا.اُس کی تربیت مغربی طرز پر ہوئی تھی.اس لئے اُس کے خیالات کچھ آزاد تھے اور منہ ہی واقفیت کم تھی.لوگ سرحدی علاقہ کے پٹھانوں کی مانند تھے.اور تمام ملک پہاڑی ہے.کچھ حقہ میدانی ہے.اس لئے باوجود مسلمانوں کے جفاکش ہونے کے علم دین کی طرف توجہ نہیں تھی.یور میں ملک ہونے کے لحاظ سے بھی ذرائع سفر سڑک و سواری کا لعدم تھے.اء میں مولوی صاحب سلسلہ کی کتب کا ایک بیس جو ہم مجاہد کے سپرد کیا جاتا تھا.تاکہ ہر بلاک میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا لٹریچر پہنچ کر محفوظ ہو جائے لیکر البانیہ کے دارالخلافہ ٹیرانہ میں پہنچے.اور ایک مقامی ہوٹل TIRANA میں قیام کیا.حالات کا جائزہ لیا.اور رفتہ رفتہ تبلیغی مہمات پر جانا شروع کیا.جب مولوی صاحب نے مساجد و ملاقات میں سلسلہ گفتگو شروع کیا اور مباحثات اور مناظرات کے پہلو سے گریز کیا.تو اولین سوائن گذاب اسلام کی زندگی کے لئے تبلیغ اسلام ضروری ہے، پر لوگوں نے و ۲ الفضل ٢٢ ستمبر ٩٣ ا ء صفحه ١٠ : الفضل - ار مادح ۱۹۳۱ یه صفحه ۲ ارما

Page 347

الاسم بز و شمشیر فتقع اسلام کا نعرہ بلند کیا، مولوی صاد نے مشیر قبلہ اور قرآن پر زور دیا.جو ان کی منگو بیعت کے مناسب نہ تھا.اختلاف پیدا ہوا.اور بعض نے پولیس میں جا کہ رپورٹ کر دی کہ نو وارد مسلمان تو ضرور ہے لیکن جہاد سیف کا قائل نہیں.اور لوگوں میں اس کے خلاف خیالات کا اظہار کرتا ہے.اچانک ایک روز پولیس نے مولوی صاحب کو تمام ایک طویل گفتگو کی اور نقل و حرکت پر پابندی لگا دی اور کہا کہ افسران بالا کے احکام کا انتظار کریں.چند دنوں بعد پولیس نے مولوی صاحب کو البانیہ سے یوگوسلاویہ کی سرحد میں داخل کردیا.مولوی صاحب کچھ کہتا ہیں اور کیڑے لے جاسکے.اب مولوی صاحب نے یوگوسلاویہ کے دارالخلافہ بگاڑ کا رخ کیا.وہاں پہنچ کرحضرت صاحبت کی خدمت میں اطلاع بھیجوائی اور عزیز و اقارب کو بھی خطوط لکھے.مرکز سے ہدایت بھجوائی گئی.کہ آپ اب سرحد کے قریب بیعنی البانیہ اور یوگوسلاویہ کے خط جہل کے علاقہ میں تبلیغ کی کوشش کریں.یہاں مولوی صاحب کا قیام قدرے لمبا ہوا.بیلگراڈ کے خطوط اُمید افزا ہوتے اور یقین سے پر.کہ احمدیت کا ایک دن جھنڈا اس ملک میں ضرور ہرائے گا.یہ علاقہ مدتوں تک مسلمان حکمرانوں کے زیر اثر رہا ہے اورمسلمانوں کی آبادی بھی کافی ہے.مساجد بھی ہیں.اس میر امن ماحول سے فائدہ اُٹھا کر مولوی صاحب نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب کشتی نوح اور پیغام صلح کا ترجمہ شائع کر کے بر سر بازار فروخت کے لئے پیش کیا.قیمت کچھ مقدر نہ کی.جولینے والا چاہے ادا کرے اور بینک مفت لے جائے گر کسی نے ایک بھی نسخہ بلاقیت نہ اٹھایا.اور اس قدر رغم وصول ہوئی کہ مولوی صاحب نے ایک احمدی دوست جن کا نام شریف و سا تھا، کے مشورہ سے ایک نیک نام شخص کے ساتھ چائے کی دوکان میں شرکت کرلی جس سے یہ فائدہ ہو کہ مولوی صاحب اپنے ملاقاتیوں کو اکثر یہاں ملتے، اور چائے سے خاطر تواضع کرتے اور تبلیغ بھی کرتے شریف و تسا صاحب بیلگراڈ میونسپل کمیٹی کے نمبر تھے اور اُن کا چھوٹا بھائی فوج میں لفٹیننٹ تھا.یہ پہلا احمد می مخلص خاندان تھا جس کی مولوی صاحب کو صحبت و رفاقت حاصل ہوئی.اب مولوی صاحب نے دورے شروع کر دئے.مرکز - دس دس دن باہر گزارتے.مساجد میں شب باش ہوتے.کم کھاتے اور عبادت و ریاضت میں اکثر وقت صرف ہوتا.چنانچہ ایک مرگی والے مریض کو شہد دینے سے بہت حد تک شفا ہوئی جس سے مولوی صاحب کی شہرت ہونے ابھی.اور لوگ مولوی صامر سے دھکرانے آتے.یہ لوگ بھی بڑے تو قیم

Page 348

پرست ہیں.تعویذ گنڈا.دھاگا.دم.جادو وغیرہ کے قائل ہیں.ماہ رمضان میں پو را در مسجد میں اعتکاف کی وجہ سے لوگوں سے واقفیت کا میدان پھیل گیا.اور لوگ تو جہ سے وعظ سُفنے اور اسلام کی ترقی کی خوشخبری پر انکے پہرے دمک اٹھتے.سالات نے یکدم ہوں پلٹا کھا یا کہ البانیہ کی بولی کے کاغذ مینگراڈ پولیس کے پاس پہنچ گئے مولوی نے ہوں صاحب اُسوقت مرکز سے باہر تھے.پولیس کو شبہ کی تقویت گنجائش نکل آئی اور انہوں نے بار بار چکر لگانے شروع کئے.اور جب مولوی صاحب کو یوگوسلاویہ کی پری نے کس ۲۴ گھنٹے کے اندر نکلنے کا واش یا تو دوستوں کو بہت افسوس ہوا.شریف و تسا صاحب اور ان کا بھائی اس سیاسی معامہ میں کچھ مدد نہ کر سکتے تھے.چنانچہ مولوی صاحب نے اُن کو الگ رہنے کی ہدایت کی.اور صرف یہ کہا کہ اگر آپ میرے شریک کار سے میری رقم نکلوا دیں تو سر کی آسانی رہے گی.ہوا یہ کہ شخص پولیس کی آمد دیکھ کر سب کچھ فروخت کر کے دوکان بند کر کے بھاگ گیا.وقت ختم ہو رہا تھا.مولوی صاحب نے بازارمیں کھڑے ہو کر سوائے ایک اوور کوٹ OVER COAT کے سب اشیاء مملوکہ فروخت کردیں اور اپنی بھائے رہائش پر آگئے.۲۴ گھنٹے گزر گئے.پولیس نے مولوی صاحب کو ہمراہ لیکر یونان کی سرحد میں داخل کرنے یا.اور واپس آگئی.اس طرح مولوی صاحب بلا کسی خرچ کے یونان میں منتقل کر دئے گئے.اُس وقت ایک جہانہ اٹلی جانے کے لئے بندر گاہ میں لنگر انداز تھا.یہاں سے مولوی صار بنے جہاز کے عملہ والوں سے گفت و شنید کے ذریعہ کم کرایہ پر کٹ خریدا اور اٹلی چلے گئے.وہاں حمدی کے مبلغ ملک محمد شریف صاحب پہلے سے مقیم تھے.ان سے ملاقات ہوگئی اور سابقہ کوفت دور ہوئی اور نئی سرگذشت کا آغاز ہوا.ان تمام حالات سے قادیان میں حضرت صاحب کو باخبر کیا.اسی اثناء میں شریف و تسا صاحب روم میں مولوی صاحب کو خطرہ.کہ وہ سیر کیلئے رہے ہیں.جب وہ آئے تو ایک معقول رقم ہمراہ لائے جو انہوں نے مولوی صاحب کے شریک کار سے وصول کی تھی.مولوی صاحب نے مجھے لکھا کہ رقم اس ترقی کہ مجھ پر فرض ہوگیا.اور میں نے عزم بہت اللہ کر لیا.اس سالی حکومت اٹلی نے ایک جہاز میں حاجیوں کیلئے یہ سہولت بہم پہنچائی.کہ انہیں ارض تجاوز میں بلا کرایہ پہنچایا جائے گا.اس طرح زیارت مکہ مکرمہ کا بندوبست ہو گیا.اور مولوی صاحب حج سے تین ماہ قبل حتجاز میں وارد ہوئے.مکہ مکرمہ میں ایک معمولی مکان کرایہ پر لیکر بیت اللہ کے فیوض سے اپنے دو انج

Page 349

سم اسم گر بیابان کو بھرنا شروع کردیا.ماہ رمضان کا سارا وقت.اور اعتکاف مسجد حرام میں گوشہ نشین رہے.ایام حج میں حلالہ الملک شاہ سعود کے ہندوستانی ملانا نیوں کے ترجمان کے فرائض ادا کئے اور شاہ ملح نے ایک مجبہ عطاء کیا.جو مولوی صاحب اکثر وہاں پہنتے اور اس کی تصویر مجھے روانہ کی.سج کے بعد مولوی صاحب نے اپنے واقفوں، شناساؤں اور ملنے والوں سے گفتگو شروع کی.وعظ نصیحت ہوتی رہی.ایک روز کسی نے پولیس کو اطلاع دیدی کو ہندی اور عرب لوگ اکثر اس ہندی مولوی کے پاس آتے ہیں.یہ انگریزوں کا جاسوس معلوم ہوتا ہے.پھر کیا تھا.پولیس نے فورا مولوی صاحب کو گرفتار کرکے میں میں ڈال دیا.یہ جیل حیوانوں کے لئے بھی موزوں نہ تھی بچہ جائیکہ اس میں انسانوں کی بسر اوقات ہوتی تھی.کھانا کم اور بردی ملنا تھا.اور وہ بھی بے قاعدہ.جیل کے قیدیوں کو کوڑے بھی ننگے بدن پر مارے جاتے تھے.اور لوگوں کے چلانے کی آواز جھیل کے کونوں تک سنائی دیتی تھی.مولوی صاحب نے لکھا اللہ تعالیٰ نے اپنے تصرف سے اس بار اور یہ مہنگی سے محفوظ رکھا.ایک ہفتہ کے بعد ہندوستانی وائس تو نصل سید لال شاہ صاحب مقیم جدہ کی طرف سے کوشش پر رہائی حاصل ہوئی اور مونوی صاحب واپس قادیان تشریف لائے.بڑے مطمئن تھے اور کبھی شکوۂ روزگار نہ کیا.اور دوبارہ باہر جانے کے لئے اپنے تئیں پیش کیا.قادیان آنے کے بعد اُن کی شادی ہوئی اور اُن کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے اس کا نام جمال الدین رکھا.ہے دار نومبر ۱۹۲۳ء کو مولوی صاحب نے دوبارہ بحری سفر اختیار کیا.انہیں سلسلہ کی طرف سے ڈرین جنوبی افریقہ میں بھیجا گیا تھا.یہ اٹالین جہاز " تلاوا" بیٹی کی بندرگاہ سے مار نومبر ۹ہ روانہ ہوگا.اُس زمانہ میں جرمن آبدوزیں بر مسند اور بحریہ ہم میں بکثرت گشت کر رہی تھیں.آنے جانے والے جہازوں پر حملہ کرتی تھیں.جہاز خواہ مسافروں کا ہو.یا مال سے ندا ہو.بلا تمیز جوائن کی زدمیں آتا تھا.تارپیڈو سے تباہ کر دیا جاتا تھا.انگریز وں کا اسقدر نقصان ہوا تھا کہ انہوں نے امریکہ کو امداد کے لئے پکارا اور جنگی امداد کے زراجہ جنات کو جاری رکھا.تین روزہ کے سفر کی ایک رات اچانک جرمن آبدوز سطح پر نمودار ہوئی اور تارپیڈو اُس به از بچه دار جیسی جہاز وسط سے دوہرا ہو گیا.اور پھر غرق ہو گیا.بہت تھوڑے مسافر بچائے جاسکے لے پیچھے اب بالغ ہے اور کراچی میں جہازوں کے محکمہ میں بجلی کی ٹریننگ حاصل کر رہا ہے.سہ آپ کی قادیان سے روانگی ار نومبر کو ہوئی.( الفضل ۱۸/ نومبر ۱۹۹) ار

Page 350

لیکن مولوی صاحب کا کچھ پتہ نہ چلا.انالله وانا اليه راجعون، لے حضرت امام جماعت احمد کا پیغام امام 191.وسط ابو میں لکھنو کے مقام پر ایک ماہ میں کافران معتقد ہوئی.جس میں حضرت خلیفہ آسیح الثانی کو نے اپنے قلم مبارک سے مذہبی کا نفرنس لکھنو کے لئے امت امام مانای وایا جس میں بتایاکہ اسلام اعمال کا یا مختصر جامع بھجوایا خدا مذہب ہے.اور اس میں سب قوموں کی بہتری کا سامان ہے.سے مسجد شہید گنج کے معاملہ میں اسلامی مفاد کو پامال کرنے کے بعد اخترار احمدیوں کو ہندوستانی مسلمانان ہند کی وطن میں رہے تھے اور ساتھ ہی احدیت کو نے کارہ نکالنے کا منصوبہ سارا طلسم جو اُن لوگوں نے جمہور مسلمانوں پر کر رکھا تھا.دھواں بن کر اُڑ چکا تھا.اس ناکامی سے عبرت حاصل کرنے کی بجائے احراری اصحاب احمدیت کی مخالفت میں اور زیادہ تیز ہو گئے.چنانچہ مولوی حبیب الرحمن صاحب (صدر مجلس احرار نے ہار جون اسراء کو لاہور کے ایک پبلک جلسہ میں دجو اندرون موچی دروازہ چوک نواب صاحب میں منعقد ہوا، یہانتک کہہ ڈالا کہ :- "مسلمانو ! مسجد شہید گنج کا خیال چھوڑ دو.وہ تمہیں موجودہ حالات میں نہیں مل سکتی.ہمارے رسول ۱۳ سال تک مکہ میں رہے اور اپنی آنکھوں سے خانہ خدا کی بے حرمتی دیکھا گئے لیکن آپ نے کبھی کافروں سے یہ نہ کہا کہ مجھے اس میں نماز پڑھنے دو.یا اس کو بتوں سے پاک کردو.کیونکہ آپ سیاست سمجھتے تھے.تم میں اسوقت طاقت نہیں کریزور حاصل کر سکو.اس لئے انتظار کرو.کہ وہ وقت آجائے جب تم طاقتور ہو جاؤ گے اور حکومت حاصل کرلو گے.تو ایک شہید گنج کیا ہزاروں شہید گنج تمہارے قبضے میں آجائینگے.مرزائیوں کو ہندوستان نکال دو.پھر دیکھو ملک میں کیسا امن ہوتا ہے.اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کیلئے کیا کیا سازشیںکی گئیں؟ انکی تفصیل کے بیان کرنے کا یہ موقعہ نہیں.حضر میبا حبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاب حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا نا صراحی صاحب جو مبر 19ء کو ولایت تشریف لے گئے تھے.اس سال کی ولایہ سے تشریف آوری او مراجعت ان سے روانہ ہوکر با جوانی شادی کی بیٹی اور لنڈن سے گر کو.ر جولائی 1937ء کو قادیان میں تشریف لائے.حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الثانی رض اور حضرت ه غیر مطبوعہ مکتوب دیکم اکتوبر شده که پیغام کا متن الفضل ، سرمئی 12، صفحہ ۳ میں شائع شدہ ہے.۱۹۳۶ ء صفحہ ۲: اس منصوبہ کی تکمیل کیلئے احراء نے بعد میں ۱۴۶ تک کا عرصہ مین کیا.(ملاحظہ ہو خیانت اور اسرویس الفضل ۱۹ جون ۶ 19 مرتبہ شورش صاحب کا شیری طبیع اول مارت وام

Page 351

نما سبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اس روز صبح سویرے ہی بذریعہ موٹر امرتسر تشریف نے گئے.اور امرتسر اسٹیشن پر آپ کا استقبال کیا.اور اسی گاڑھی قادیان پہنچے.جہاں مقامی جماعت کی طرف سے پر خلوص استقبال کیا گیا اور حضرت صاحبزادہ صاحب کو ہار پہنائے گئے.اے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایدہ اللہ الحمد ، ڈھائی ماہ قادیان میں قیام پذیر رہنے کے بعد ار ستمبر کو دوبارہ ولا بہت روانہ ہو گئے.لے جبکہ میاں فضل حسین صاحب کی ایک ایسے وقت میں یہ مسلمانان پنجاب نہایت ہیں صاحب نازک مرحلوں میں سے گزر رہے تھے اور ہندو ستان میں نیا المناک وفات سیاسی در شروع ہونے والا تھا.ملک سر میاں فضل حسین صاب ایسے مخلص اور مک تیغ سیاسی لیڈر سے محروم ہوگیا.میاں صاحب موصوف عرصہ سے بیمار چلے آرہے تھے.مگر انہوں نے مسلمانان پنجاب کو منظم کرنے اور دیگر اقوام کا تعاون حاصل کرنے میں اپنی صحت کی کوئی پروا نہ کی.نتیجہ یہ ہوا کہ آخر اور جولائی ۹۳ار کی رات کے ساڑھے دس بجے ہندوستان کے اسی تجلیل القد تسلم مد تیر اور سیاستدان کا انتقال ہوگیا.نئے سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی همرنے ، در جولائی ۱۹۳۶ء کو خطبہ جمعہ ارشاد فرمانے سے قبل مختصر تقریر کی جس میں سرمیاں فضل حسین صاحب کی وفات کو الہی نشان قرار دیتے ہوئے بتایا کہ:- مدت تو سر زیاں فضل حسین صاحب کی جولائی میں مقدر مخفی اور پہلے عہدہ سے علیحدگی کے بعد ان کے لئے بظاہر کوئی پھانسی اور موقع ایسا نہ تھا میں ہیں وہ پھر کوئی عربات حاصل کر سکتے مگر ان کے دشمنوں نے چونکہ انہیں مرزائیت نو از کہہ کہکر ذلیل کرنا چاہا.اس لئے اللہ تعالی نے اس اعتراض کی غیرت میں انہیں حرکت دی اور عزت دینے کے بعد ا نہیں وفات دی.اس کیلئے خدا تعالیٰ نے کتنے ہیں غیر معمولی سامان پیدا کئے.چنانچہ بنا کے وزیر تعلیم سر فیروز خان نون کے انگلستان جانے کا بظاہر کوئی موقع نہ تھا.اور جن کو اندرونی حالات کا علم ہے وہ جانتے ہیں کہ آخری وقت تک سر فیروز خاں صاحب نون کے ولایت جانے کے متعلق کوئی یقینی اطلاع نہ تھی بعض اور لوگوں کیلئے گورنمنٹ آف انڈیا اور ولایتی گورنمنٹ بھی کوشش کر رہی تھی.اور اگر سر فیروز خان پنجاب میں ہی رہتے ا الفضل ، جولائی ۳۶ : ۲۲ الفضل و ا ستمبر ۱۹۳۶ به صفحه ۱ : سله الفضل ۱۲ جولائی ۳۶ داء صفر ۲ کالم ۳

Page 352

تو اب سر فضل حسین صاحب بغیر کسی عہدہ کے حاصل کرنے کے دنیا سے رخصت ہو جاتے لیکن اللہ تعالیٰ بتانا چاہتا تھا کہ جو شخص احمدیت کی خاطر اپنے اوپر کوئی اعتراض لیتا ہے.ہم اُسے بھی بغیر عزت دئے نیت نہیں ہونے دیتے.پس غیر معمولی حالات میں سر فیروز خاں صاحب نون ولایت گئے اور سرمیاں فضل حسین صاحب وزیر تعلیم مقر ہو گئے.اور چند دنوں کے بعد ہی وفات پاگئے.۸ ارجون کو وہ پنجاب کے وزیر تعلیم مقرر ہوئے تھے.اور وہ جولائی کو فوت ہو گئے.گویا صرف تین ہفتے وہ راس عہدہ پر فائز رہے.میرے نزدیک یہ بھی خدائی حکمت اور خدائی فکر تھا جو دشمنوں کو یہ بتانے کیلئے اختیار کیا گیا کہ تم تو اسکے دشمن ہوا اور چاہتے ہو کہ اسے ذلیل کرد لیکن ہم اس کو بھی ذلیل نہیں ہونے دیں گے جو گو احمدی نہیں مگر احمدیت کی وجہ سے وہ لوگوں کے مطاعن کا ہدف بنا ہوا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں برسر اقتدار کیا اور اس قدر غربت دی کہ ان کی وفات سے چند دن پہلے ہی ایک ہند و اخبار نے اس بات پر مضمون لکھا تھا کہ ہندوستان میں اس وقت کون حکومت کر رہا ہے اُس نے لکھا کہ گو بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ انگریز حکومت کر رہے ہیں یا وائسرائے حکومت کر رہا ہے یا گورنہ حکومت کر رہا ہے.مگر یہ درست نہیں.اصل میں تمام ہندوستان پر سر میاں فضل حسین حکومت کر رہے ہیں.یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب تھا اُن لوگوں کو جو کہتے تھے کہ میاں سر فضل حسین نے چونکہ گورنمنٹ ہند میں ایک احمدی کو وزارت پر مقرر کرایا ہے.اور وہ مرزائیت نواز ہیں.اس لئے ہم انہیں ذلیل کریں گے.اللہ تعالیٰ نے انہیں بتا دیا.جو شخص احمدیت کی خاطر پنے نفس پر کوئی تکلیف برداشت کرے گا.وہ گو احمدی نہ ہو.ہم اُسے بھی ذلیل نہیں ہونے دینگے لیے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو طالبعلمی کے مجلس انصار سلطان القلم کا قیام حضرت صاحبین زمانہ ہی سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسّلام کے پاکیزہ علم کلام اور مقدس لڑیچر سے گہری شیفتگی اور وابستگی رہی ہے.اسی طبعی جوش اور فطری جذبہ کے تحت آپ نے ۲ ستمبر سلہء کو مولانا ابو العطاء صاحب شیخ محبوب عالم صاحب خالہ اور بعض دو سے اہل قلم احمدی دوستوں کو اپنی کو ٹھی النصرة میں مدعو کیا اور ایک تبارک تجویز پیش کی.آپنے فرمایا.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کےپاکرہ علم کلام کی بکثرت اشاعت کرنا مغربی فلاسفرون الفضل در جولائی ۱۹۳۶ در صفحه ۲ کالم ۱-۲-۳*

Page 353

کے اعتراضات کے جواب لکھنا اور مختلف مذاہب کی پوری تحقیق کرنا اور اسلامی اصول کو علمی روشنی نہیں نیا کے سامنے پیش کرنا ہمارا اہم ترین فرض ہے.ہمیں چاہئیے کہ اس بارہ میں تحقیقات پر مبنی اور ٹھونس معلومات پر مشتمل لیڑ پھر احمدیت کے نقطہ نگاہ سے مہیا کریں اور اس کو اکناف عالم میں پھیلائیں.اس مبارک اور قیمتی تجویز پر تمام حاضرین نے لبیک کہا اور اس کی تکمیل کے لئے ایک مجلس انصار سلطان اعلمہ کے نام سے قائم کی گئی جب کے صدر مولانا ابو العطاء صاحب فاضل اور سیکر ٹری شیخ محبوب عالم صاحب خالد بی اے (آنرز) منتخب ہوئے.مجلس کے معرض وجود میں آنے کے بعد عام اجلاس میں قرار پایا کہ اس کا ہر عمر کم از کم ہر ماہ ایک مضمون اختبار الفضل کے لئے لکھے.نیز فیصلہ کیا گیا کہ علمی اور دینی سوالات کے مختصر جوابات اخبارات میں بھجوائے جایا کریں.یہ مجلس غالباً دو تک مفید کام کرتی رہی.حضرت مرزا شریف احمد صاحب پر حملہ کا زخم ابھی تازہ ہی حضرت امیر المومنین کی کار راه های ایران ایران نی نی لایه ای استانی کی کار پر ایک بدقماش نے حملہ کر دیا.اس المناک حادثہ کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی و اپنے لخت جگر حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو اسٹیشن پر الوداع کہو کہ سات بجے شام کے قریب جب بزریعہ موٹر اپنے گھر تشریف لا رہے تھے تو حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کی گلی میں جب منظر پہنچی تو کسی بر باطن معاہد نے ایک پتھر میرے حضور کی کا پر پھینکا اور ال تعال کے فضل و کرم سے پھرور کی چھت پر لگا.میٹر فورا ٹھہرائی گئی.اور چند منٹ تک ادھر اُدھر حملہ آور کی تلاش کی گئی مگر کوئی دکھائی نہ دیا.اس کے بعد حضور میٹر پر ہی سوار ہو کرگھر تشریف لے گئے.یہ واقعہ اگرچہ نہایت درجہ اہم اور روح فرسا تھا.مگر بطور احتجاج تھانہ میں اس کی کوئی اطلاع نہ دی گئی.کیونکہ ان دنوں حکومت پنجاب کے افسروں کی آنکھیں بدلی ہوئی تھیں.اور پولیس کے بہرے کانوں پر جماعت کی مسلسل چیخ و پکار کا کوئی اثر نہ تھا.اور نہ وہ اقتدار کی بڑھتی ہوئی شرارتوں اور انکی انتہائی کمینہ حرکات کا کوئی مناسب تدارک کرتی تھی.ٹے اس واقعہ پر قدرتی طور پر پوری جماعت احمدیہ میں زیر دست جوش و خروش پیدا ہوگیا اخلامیں نے ا :: الفصل ۲۵ نومبر ۱۳ و صفحه ۲ که افضل و ستمبر ، صفر و کالم اب

Page 354

۳۱۸ حضور کی خدمت میں متواتر خطوط اور تاروں سے اپنے بے پناہ جذبات عقیدت و فدائیت کا ثبوت دیا ہے.اقعہ کی تقصیر حضرت علی ربیع الثانی یا حضرت خلیفہ اسی نانی نے وہ ستر سال کے خطبہ جمعہ میں اس واقعہ پر بالتفصیل روشنی ڈالتے ہوئے کے مقدس الفاظ میں بتا یا کہ.: " جبکہ ہم شیشن سے واپس آرہے تھے تو اُس گلی میں جو شیخ یعقوب علی صاحب کی گلی کہلاتی ہے اُن کے گھر کے قریب جب موٹر گزر رہا تھا تو اس کی چھت پر قریباً اسی جگہ جہاں میں بیٹھا تھا اگر ذرا بائیں طرف بائیں کندھے کے اوپر کے قریب کوئی چیز زور سے گری.اسکے اندر اچھی ترور کی طاقت بھی کیونکہ موٹر کی چھت پر کپڑا ہوتا ہے.اور اسکے اور لکڑی کے درمیان فاصلہ ہوتا ہے.مگر یہ چیز اسی نور سے گرمی کہ کپڑے سمیت چھت سے آلگی.اور چھت کا نہی اور میں معلوم ہوا کہ اس میں سے کچھ ذرے بھی گرے ہیں.حالانکہ اس کے نیچے بھی کپڑا ہوتا ہے.اس کے گرنے پر کیس نے ڈرائیور سے کہا.وہ موٹر ٹھیرائے.تا دیکھا جائے کہ کیا بات ہے.مگر چونکہ موٹر کی رفتار تیز ہوتی ہے اور موٹر چھلنا نے والا ارادہ کے باوجود اسے یک دم نہیں روک سکتا.اسلئے اُسے موٹر کو روکنے میں کچھ دیر لگی.تب میں نے دوبارہ اُسے کہا کہ موٹر کو جلدی کھڑا کر دی.چنانچہ اس نے موٹر کو کھڑا کیا.مگریہ اندازا دنی پندرہ گز کے فاصلہ پر جا کر کھڑی ہوئی.اور جس جگہ وہ ٹھہری و ہاں میاں فیروز الدین صاحب بینواری کا مکان ہے.وہ باہر رہتے ہیں مگر اُن کا گھر یہیں ہے لیکن وقوعہ اس مکان سے دس یا پندرہ یا میں گز پرے کا ہونا چاہیئے یا اس سے کم و بیش.کیونکہ چلتی ہوئی موٹر کے فاصلہ کا اندازہ کرنا شکل ہوتا ہے.لیکن بہر حال یہ فاصلہ پانچ دس گز سے پندرہ بیس گز تک ہو سکتا ہے.موٹر کے ٹھہر جانے پر میں نے اُس کے پائدان پر کھڑے ہو کر چھت کو دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ جو چیز گری تھی اس کا اس حصہ چھت پر کوئی نشان نہ تھا.جس کے متعلق مجھے خیال تھا کہ اس پر کوئی چیز پھینکی گئی ہے.البتہ اسکے اگلے حصہ پر جو بالکل قریب زمانہ میں مرمت کرا یا گیا تھا.تین چار یا پانچے میں تسبیح نہیں کر سکتا گر متعدد جگہ سے کپڑا پھٹا ہوا تھا.مگر ڈرائیور نے مجھے بتایا کہ عزیزم ناصر احمد دو تین ہفتہ پہلے جب اپنی پھوپھی سے ملنے کے لئے ڈلہوزی گئے تھے تو وہاں سے واپسی یہ پہاڑ سے کچھ پھر گرے تھے.له کہ کپڑا ان پتھروں سے پھٹا تھا.اور یہ نشان اُن ہی پتھروں کے ہیں.پس پیشانات پھینکی ہوئی چیز کیطرف ان الفضل ۳ ۱ اکتوبر ۱۹۳۶ ایر صفحه ۳ : ۵۲ یعنی حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب بارتابل)

Page 355

۳۱۹ منسوب نہیں کئے جا سکتے تھے.بعد میں میں نے بعض دوستوں سے کہا تھا کہ وہ دیکھ لیں کہ آیا یہ سارے نشانات بھی پرانے ہیں یا اُن میں سے کوئی نیا نشان بھی ہے.انہوں نے خود تو مجھے اپنی تحقیق کی اطلاع نہیں دی لیکن میں نے سنا ہے کہ دیکھنے پر وہ سب نشانات پرانے ہی معلوم ہوئے ہیں.بہر حال وہ نشان اس وقت کے خیال کے مطابق زیر بحث نہیں آسکتے.اس امر کا اندازہ کہ جو چیز پھینکی گئی تھی وہ کس زور سے گری تھی.اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب میں نے موٹر کے روکنے کے لئے کہا کہ دیکھیں کیا چیز موٹر پر پھینکی گئی ہے.تو اس وقت ہمراہیوں میں سے ایک نے کہا کہ ٹائر برسٹ ہوا ہے.جن لوگوں نے ٹائر برسٹ ہوتے سُنا ہے وہ جانتے ہیں کہ اسکی اچھی بلند آوہ از ہوتی ہے.خیر میٹر کے کھڑا ہونے پر بعض دوست اتر کر اس گھر کے اندر گھس گئے جس کے آگے کار ٹھہری تھی.اور اس کی چھت پر چڑھ کر حملہ آور کو دیکھنے لگے.حالانکہ بھت پر پڑھتے پڑھتے حملہ آور دور تک نکل جاسکتا ہے.پہلے مجھے شبہ ہوا کہ ان دوستوں نے یہ خیال کیا ہے کہ اسی گھر سے چیز پڑی ہے.اور اسپر کیں نے دوسرے دوستوں سے کہا کہ یہ انکی غلطی ہے.موٹر تو آگے آچکی ہے لیکن بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ وہ اس کی چھت پر چڑھ کر یہ دیکھنے گئے تھے کہ شاید اس چیز کا پھینکنے والا نظر آجائے.اس کے بعد چاروں طرف تلاش کی گئی مگر چیز پھینکنے والے کا کوئی پتہ نہ لگا.یہ چیز ایک تو بائیں طرف کی گلی سے پھینکی جا سکتی تھی یا اس سے پہلے ایک کھولہ ہے وہاں سے پھینکی جا سکتی تھی.اور ایک مکان ہے جو مفضل ہے اس مفضل مکان سے بھی چیز پھینکی جا سکتی تھی بشر طیکہ یہ سازش ہو.کیونکہ جو لوگ جرائم کی حقیقت سے واقف ہیں ، جانتے ہیں کہ مجرموں کو گھروں میں داخل کر کے باہر سے تالا لگا دیا جاتا ہے، اور اس طرح جرم کا سراغ لگنا مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ تحقیق کرنے والے جب وہاں سے گذرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اس جگہ ہو تو یہ جرم نہیں ہوسکتا.کیونکہ یہاں قفل لگا ہوا ہو.پھر جب وہ پتہ لگانے سے مایوس ہو جاتے ہیں تو گھنٹہ دو گھنٹے کے بعد لوگ آتے ہیں اور تالا کھول کر مجرم کو نکال لے جاتے ہیں.اگر یہ فعل کسی سازش کا نتیجہ تھا تو ممکن ہے کہ اس فعل کا ارتکاب اس مقفل گھر ہی سے ہوا ہو.لیکن مقفل گھر کو کھولنا قانون کے خلاف ہے.اور پولیس ہی ایسا کر سکتی تھی جو وہاں موجود نہ تھی.تلاش کے وقت بھی میں نے اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ ممکن ہے.اس گھر سے چیز پھینکی گئی ہو.بہر حال جب لوگ تلاش کر چکے اور انہیں کوئی آدمی نظر نہ آیا تو کسی

Page 356

۳۲۰ ہمارے دوست نے کہا کہ تلاش تو کرو کہ وہ چیز ہو گری ہے کیا اور کہاں ہے ؟ اس وقت تک سب لوگ اسے یقینی طور پر پتھر سمجھ رہے تھے.اور مجھے بھی اس وقت تک یہ خیال نہیں آیا تھا کہ اگر پتھر ہوتا تو نشان چھت پر لگ جاتا.اس لئے غالباً یہ کوئی اور شئے ہے.گو بعض صورتوں میں نشان نہیں بھی ہو سکتا لیکن تو میں سے ننانوے دفعہ پتھر کا نشان ہونا چاہئیے ، اس لئے میں نے بھی اُس دوست کی تائید کی.ا اور کہا کہ اس چیز کو تلاش کرو.مگر چونکہ مغرب کا وقت ہو چکا تھا.اس لئے ایک آدھ منٹ کے بعد ہی میں نے کہہ دیا کہ اب چلو.ہاں ایک بات گئی جو یہ کہ میرے پیچھے جو سائیکلسٹ آرہے تھے.اُن سے جب میں نے دریافت کیا کہ تم کو معلوم ہے وہ چیز کس طرف سے آئی تھی تو انہوں نے دائیں طرف سے اس کا آنا بتا یاد یعنی شمال سے آتے ہوئے جو دائیں طرف سے یعنی مغرب کی سمت.ہم جو موٹر میں تھے.دھما کے سے ہمارا بھی یہی اندازہ تھا کہ وہ چیز شمال مغربی سمت سے آگری ہے.اسکی تصدیق سائیکلسٹوں نے بھی کی جنہوں نے یہ بیان کیا کہ انہوں نے خود ادھر سے ایک چیز آتی ہوئی دیکھی ہے جسے وہ ایک ہاتھ کے برابر پتھر سمجھتے تھے.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے.چونکہ مغرب کا وقت ہو گیا تھا.میں دوستوں کو ساتھ لے کر موٹر میں سوار ہو گیا اور مزید تحقیق ترک کر دی گئی میری غرض وہاں ٹھہرنے سے صرف اتنی تھی کہ اگر کوئی شخص ایسا پایا جائے تو ہمیں علم ہو جائے کہ وہ کون شخص ہے اور دوسرے نہیں اُسے نصیحت بھی کروں کہ ایسی فضول باتوں سے کچھ فائدہ نہیں ہوسکتا.اس قسم کے واقعات در حقیقت انبیاء کی جماعتوں سے ہونے لازمی ہیں اور ہوتے رہتے ہیں....اُسی دن کا جس دن یہ وقوعہ ہوا.یہ بھی واقعہ ہے جس کی رپورٹ مجھے پہنچی کہ وہی صنیف " جس نے میاں شریف احمد صاحب پر لاٹھی سے وار کیا تھا.اس سے ایک گھنٹہ یا ڈیڑھ گھنٹہ پہلے ایک شخص نے معانقہ کیا.اور میاں شریف احمد صاحب پر حملہ کے واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا.آپ نے نہایت اعلیٰ کام کیا ہے.سب مسلمان آپ کو غازی سمجھتے ہیں.اس واقعہ کو اگر موٹر کے وقوعہ سے ملایا جائے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ بعض لوگ ایسی حرکت کے لئے دوسروں کو تیار کرنے کی کوششیں کر رہے تھے.کیونکہ جب ایسے کاموں کی تعریف کی بجائے اور کہا جائے.کہ آپ تو اس کام کی وجہ سے غازی بن گئے ہیں.توکئی نوجوانوں کو خیال آ جاتا ہے کہ ہم بھی غازی بنے کی کوشش کریں.وہ یہ نہیں سمجھتے کہ پہلا غازی تو چھپتا پھرتا تھا اور پھر پولیس اسکی نگرانی کرتی رہی

Page 357

۳۲۱ اور اب بھی اس وقوعہ کے بعد پولیس اُسکے ساتھ لگی ہوئی ہے.کیونکہ پولیس کو اگر حفاظت کی ضرورت نظر آتی ہے تو صرف اس غازی کی.اُس سے گورنمنٹ کو کچھ ایسی محبت ہے کہ وہ عشق کے درجہ تک پہنچی ہوئی ہے.اور یہاں کی پولیس کا تو اس سے لیلی مجنوں والا تعلق ہے.جب بھی کوئی واقعہ ہو روڈ کر وہ اسکے گرد جمع ہو جاتی ہے کہ ہمارے اس محبوب کو کوئی نقصان نہ پہنچا وے.حالانکہ معلمی را احمدی کی تو جوتی بھی اکسپر پڑنے سے شرمائے گی.ایسے ذلیل آدمی کا مقابلہ کرکے کسی نے کیا لینا ہے.آخر یہ بھی تو انسان کو دیکھنا پڑتا ہے کہ میرے مقابلہ میں ہے کون لے فصل ہفتم بعض جلیل القدر صحابہ کا انتقال انتشار می یمن درجه ای جلیل القدرصحابہ کا انتقال ہوا.مندرجہ ا حضرت سید ناصر شاہ صاحب قادیانی تاریخ وفات یکم جنوری ۳ ایک نہایت مخلص صحابی جن کا تذکرہ حضرت بی موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آسمانی نشان کے گواہ کی حیثیت سے تم حقیقہ الوی کے صفحہ ۱۵۷ ۱۵۸ پر فرمایا ہے.تزول مسیح کی طباعت روپیہ نہ ہونے کی وجہ سے معرض القوار میں تھی.آپ کو خواب میں تحریک ہوئی.چنانچہ رخصت لیکر قاریان آئے اور ۲۵۰ روپے حضرت مسیح موعود کی خدمت اقدس میں پیش کر دیئے اور درخواست کی کہ اس کتاب کی اشاعت کے جملہ اخراجات میں ادا کروں گا.ان کی یہ درخواست حضور نے منظور فرمائی.۷۳ حضرت شیخ نور احمد صاحب سابق مختار عام حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ ر تاریخ وفات ۲۹ جنوری ۶۸۹۳) که ۳- ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ، صاحب آنریری جنرل سکرٹری انجمن اشاعت اسلام لاہور تاریخ وفات ۱۲ر فروری شه شه حضرت خلیفة المسیح الثانی نے مرحوم کے برادر زادہ مرزا مسعود بیگ ے افضل اور اکتوبر او مانا له الفضل بهم جنوری کند و صفحه ۱۲ ان احکم اور جنوری ماه صفحریه اور الحکم ۲۰ جنوری دو میں لکھا ہے کہ حضرت شاہ صاحب نے نے ہزار یا ڈیڑھ ہزار کی رقم حضور اقدس کی خدمت میں پیش کی تھی.صفحہ ا کالم.مزید حالات کے لئے ما، حظہ ہور الفصل ، ہر جنوری حمله صفحه ۶) : له الفضل اور جنوری د و صفرا کالم ای شو اخبار پیغام صالح لاہور ۱۵ار فروری ۱۹۳۶ ۶ صفحه ۲ :

Page 358

صاحب کو حسب ذیل تعزیت نامہ لکھا :.در عزیزم مکرم مرزا مسعود بیگ صاحب المکم اللہ تعالی السلام علیکم ورحمة الله وبركاته آپ کا خط ملا.میں سندھ گیا ہوا تھا.ویسی خط پھرتا پھرانا کوئی آٹھ دس دن بعد ملا.ڈاکٹر صاحب کی وفات کا بہت افسوس ہوا.انا للہ وانا الیہ راجعون.میری طرف سے اپنی والدہ صاحبہ اور دیگر عزیزوں کو بھی ہمدردی کا پیغام پہنچا دیں.مجھے آپ سب لوگوں کے صدمہ سے دلی ہمدردی ہے.اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ مرحوم پر اپنا فضل فرمائے.اور پسماندگان کو بھی اپنی رحمت کے سایہ تلے رکھے.مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے دعوے کے ابتداء میں ایمان لائے تھے.اس لئے جب سے ہوش سنبھالا انہیں جانتا تھا اتنے لمبے تعلق کی وجہ سے افسوس کا حساس اور بھی بڑھ جاتا ہے.یوں بھی با وجود اختلاف کے انہوں نے تعلق رکھا.اور ہمیشہ ملتے رہتے تھے.مگر سوائے اللہ تعالے کی رضا پر راضی ہونے کے اور کیا بیچارہ ہے " ۴ - چودھری مولا بخش صاحب نمبردار چیک ۳۵ جنوبی ضلع سرگوده در تاریخ وفات درمانی شده امینی آپ کو شو میں حضرت مسیح موعود کے دست مبارک پر بیعت کرنی کا شرف نصیب ہوا.بڑے عاید انسان تھی.۵ - عصمت اللہ صاحب والد بزرگوار ڈاکٹر محمد اشرف صاب، بل ضلع جہلم تاریخ وقت ، بنی اسرایی 4 - بابو محمد عبداللہ صاحب ٹھیکیدار بھٹہ قادیان ( تاریخ وفات ۱۲ مئی ۳۶ ۶۹ ۷۵ ے.حاجی محمد یوسف صاحب زرگر امام الصلوۃ جماعت احمدیہ پنڈی پیری و تاریخ وفات ۲۸ مئی اپنے علاقہ میں احمدیت کا ایک چلتا پھرتا نمونہ تھے.24 به حضرت سید عزیز الرحمن صاحب بریلوی مها بهر قادیان تاریخ وفات ، ار جولائی ۶۱۹۳۶ ۵۴ ۹ - چوہدری غلام رسول صاحب گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ ( تاریخ وفات ۸ را گست دام ۵۰ ۱۹ار صفحه و صلح ۱۵ فروری الفضل در مارچ صفویہ کالم - مزید حال کے لئے ملا ہوا رونمایی و یا مالی در را اور من الفضل 10 مارچ شراء صفحہ کالم : سلم الفضل ، ۲ جون ۳ صفحوں کالم ۳٫۳ : ۳ افضل اور جون اداره نه کانم كه الفضل ، در جولائی ۱۹۳۶ء صفرا : له الفضل ، مارچ ۳۶ اومده که افضل ؟ در جولائی ۱۹۳۶ یو صفحه کالم :- مفصل حالات الحلم ۱۲-۲۱ نومبر تا صفحه و ، - الحکم، دسمبر ر ا ء صفحہ ۶ پر شائع شدہ ہیں یا الفضل ۶ ستمبر 1 صفحه ۸ کالم : "

Page 359

۳۲۳ ۱۰ حضرت جایی احمد مکی صاحب داتہ ہزارہ تاریخ وفات راگست ۱۹۳۶ - ۱۹۰۶ ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کی.تہجد گزار اور عابد و زاہد بزرگ تھے.اپنے مکان کے ساتھ ہی مسجد تعمیر کی.چندوں کی ادائیگی میں خاص التزام فرماتے تھے.اے.میرزا یوسف علی خان صاحب پشاوری ( تاریخ وفات ۱۲۸ ستمبر ۱۹۳۷) تبلیغ احمدیت کا ا بے حد جوش ولولہ اور شوق تھا.بہت نڈر فیور اور دلیر احمدی تھے.حضرت خلیفہ المسیح الثانی ض کے ہم جماعت ہونے کا شرف بھی حاصل تھا.24 ۱۲.لیفٹنٹ سردار محمد ایو جہاں بہادر او بی ای اے ڈی سی پیشتر ممبر ڈسٹرکٹ بورڈ مراد آباد متوطن شاہیجیانپور (تاریخ وفات ۵ در اکتوبر ۱۹۳۶) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پارو میں بیعت کا شرف حاصل کیا تھا.۷۳ ۱۳ حاجی عبد العزیز صاحب سیالکوئی والد ماجد ڈاکٹر عطاء اللہ صاحب بیٹ پر نسپل طبیہ کالج علی گڑ ھے.تاریخ وفات اور نومبر ۶۱۳ ۸۹ یو میں حضرت مسیح موعود کے حلقہ غلامی میں آئے.ہے تداء ۱۲ بابا الله و ار صاحب متوطن مدرسہ چٹھے ضلع گوجرانوال ( تاریخ وفات تا نومبر ۶۹ ۲۵ ۱۵- میاں امام الدین صاحب ساکن دھرم کو بگه تاریخ وفات در دسمبر ۶۳) ان بزرگ صحابہ کے علاوہ اس سال حسب ذیل مخلصین احمدیت نے بھی وفات پائی :.(۱) خان بہادر شیخ آصف زمان خانصاحب ڈپٹی کھکر گوندھ شاہجہانپور ، مولوی عبد القادر صاحب کی مالا باری آن کنا اور (۳) شیخ غلام قاد صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ پٹھانکوٹ شام، حافظ سید عبدلمجید لت احمد به منصوری (۵) شیخ جان محمد صاحب امیر جماعت احمد یہ سیالکوٹ ایله اه افضل در ستمبر در صفحه و در گیر شاء صفحہ ۱۰: سے مفصل حالات حضرت قاضی محمد یوسف صاحب آن ہوتی مردان نے و ۲ واسع 19 الفنل راکتوریز شمار، صفحہ 1 پر شائع کر دئے تھے سے انفض ۲ اکتوبر شاہ حمد کا مر من الفضل بار نومبر را و صفحه ا کالم له الفضل تقویم براء صفحه الالم ابا الفضل ابراء صفحا سے والد ماجد بر مصارف زمان خانسا تابان ناظر امور خارجه تاریخ وفات ۲۰ مئی داء الفضل ۳ جون ۱۹۳۶ء صفحہ ۲) سے تاریخ وفات جون ۱۹۳۶ - مالا بار کہ پہلے احمدی تھے.آپ اور میں اخل سلسلہ ہوئے.مگر زندگی میں حضرت مسیح محمدی کی زیارت نہ کرے ( الفضل ۲۸ جون شراء منہ کالم ۳ والدها بعد عبد الميم ملابس الي - عبد الرؤون صاحب ساتر و عبد الجلیل صاحب عشرت تاریخ و خانه در جولائی شاہ آپکے فرزند جناب عبدالجمیل صاحب عشرت آپکے مختصر سوانح الفضل ار جولائی استاد صفحہ ہو اور الفضل ا ستمبر 19 صفحہ پر شائع کر چکے ہیں: ا تاریخ وفات ۲۸ اگست ۱۳۲ ان حالات کے لئے ملاحظہ ہو افضل ۳۰ را گست بر صفر با کالم - الفضل در ستمبر انشاء صفحه ۲ کالم ) له تاریخ وفات یکم ستمبر ۳۶ ام الفضل در نمبر ۳ رو صفر ) ١٩٢-

Page 360

فصل شتمه مشتر کہ دعائیں کرنے کا فرمانا کیا ان میں مات اداری کو مانیںکرنے کی تحریک فرماتے رہتے تھے.اور دسمبر کو جمعہ کا مبارک دن اور رمضان کا پچیسواں روزہ تھا.اس روز حضور کے ل میں یہ تحریک پیدا ہوئی کہ رمضان کے مبارک ایام اب قریب الاختتام ہیں.ہمیں ان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی صورت یہ اختیار کرنی چاہئیے کہ آج اور کل کی دو راتوں میں ایسی دعائیں کی جائیں جو مشتر کہ ہوں.چنانچہ حضور نے خطبہ جمعہ میں جماعت کو اس امر کی طرف زورد ار طریق پر توجہ دلائی اور دو دانوں کے لئے مندرجہ ذیل دومشترکہ دعائیں تجویز فرمائیں :- پہلی دعا.الہی تیرا عفو تام اور تو یہ نصوح ہمیں میسر ہو.اور ن صرف ہمیں میسر ہو بلکہ ہمارے خاندان کو ہمارے ہمسایوں کو ، ہمارے دوستوں کو ، ہمارے عزیزوں کو اور رشتہ داروں کو اور ہماری تمام جماعت کو ، ہ میرا جائے.خدا یاد ہم تیرے عابر و خطا کار اور گنہگار بندے ہیں.ہم سخت کمزور اور ناتواں ہیں.بالوں اور پھندوں میں ہم نے اپنے آپ کو پھنسا رکھا ہے.انمیں سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں اور ہماری نجات کی کوئی صورت نہیں سوائے اسکے کہ تیرا عفو نام ہم پر چھا جائے.اور آئندہ کے لئے وہ تو بہ نصوح ہمیں حاصل ہو جائے جس کے بعد کوئی ذلت اور کوئی تنزل نہیں ہے " اے دوسری دُعا.اے خدا تو کامل ہے.ہر تعریف سے مستغنی ہے.ہر عرات سے مستغنی ہے.ہر شہرت سے مستغنی ہے.تجھے اس بات کی کوئی حاجت نہیں کہ تیرے بندے تجھ پر ایمان لاتے ہیں یا نہیں.ان کے مان لینے سے تیری شان میں کو ئی ترقی نہیں ہو سکتی.اور ان کے نہ مانے سے تیری شان میں کوئی کمی نہیں آسکتی میرے ہاے رب ! گو تو محتاج نہیں لیکن دنیا تیرے نور کی محتاج ہے اور ہم تجھ سے درخواست کرتے ہیں کہ تیری صفات دنیا پر جلوہ گر 3.پنے لئے نہیں بلکہ اپنے غریب بندوں کی خاطر دنیا پر حم فرما اپنی حالی کے ظہار کیلئے نہیں کہ مخلوق پر ترتم اور شفقت کرنے کیلئے انہیں وہ راستہ دیکھا.ہوا نہیں تیرے قرب تک پہنچانے والا ہو.اور جس کے نتیجہ میں تیری بادشاہت دنیا پر قائم ہو جائے.تا بنی نوع انسان تیرے نور سے منور ہو جائیں.اُن کے دل روشن ہو جائیں، ام الفضل ٣ دسمبر ١٩٣٧ ء صفحه + كالم.

Page 361

۳۲۵ اُن کی آنکھیں ملک اٹھیں اور ان کے بہن تیز ہو جائیں؟ اے حضور نے مندرجہ بالا دعاؤں کا تذکرہ کرتے ہوئے احباب جماعت کو یہ بھی تلقین فرمائی کرے :- ہ سال میں سے کم از کم ایک دن تم خدا تعالے کے سامنے اپنے گناہوں پر روڈ اور خوشی کی چیز اس سے کوئی نہ مانگو.اُس سے روپیہ نہ مانگو.اس سے پیسہ نہ مانگو.اس سے دولت نہ مانگو.اس سے صحت نہ مانگو.اُس سے فرضوں کا دور ہونا نہ مانگو.اس سے اعزاز نہ مانگو.اس سے اکرام نہ مانگو پھر ہی مانگو کہ خدایا تیرا فوتام ہمیں حاصل ہو.اور تو بہ تصوح ہمارے لئے میسر ہو جائے.اس کا کو مختلف رنگوں میں مانگو.مختلف طریقوں سے مانگو.مختلف الفاظ میں مانگو.اپنے لئے مانگو.اپنی بیویوں کے لئے مانگو.اپنے بچوں کیلئے مانگو.اپنے دوستوں کیلئے مانگو.اپنے ہمسائیوں کیلئے مانگو.اپنے شہر والوں کے لئے مانگو.اور پھر ساری جماعت کے لئے مانگی.اگر چیز ایک ہو.بات ایک ہو.رنگ ایک ہو کر ایک ہو.تال ایک ہو.اور جو کہو اس کا خلاصہ یہ ہو.ہم تیرا عضو تجھ سے ہی چاہتے ہیں.یہیں اس حضو سے مانگو.اس خضار سے مانگو.اُس ستار سے مانگو.اس تو اب سے مانگو.اور اگر تم اس سے رحمانیت مانگو.تواسی لئے کہ انہیں اپنا عفو نام اور توبہ نصوح ہے.او راگر جمعیت مانگو تو بھی اسی لئے کہ وہ نہیں اپنا حقوق تام اور توبہ نصوح دے یا لے ایڈورڈ ہشتم کی تخت شاہی دستبرداری یا شاہ ای اور ہشتم نے سیم تاجپوشی کی تقریب پر مذہبی ایڈورڈ سوم کی ادائیگی سے انکار کر دیا تھا جسپر آرچ بشد آن رسوم حضرت امیر المومنین کے تاثرات کٹر بری اور مذہب سے دلچسپی رکھنے والے برطانیہ کے بعض دوسے مذہبی خیال کے وزراء بھی اس تقریب میں شمولیت سے دستکش ہو گئے.بشپ بریڈ فورڈ نے کہا کہ بادشاہ کو مذہب کی طرف زیادہ تو تب کرنی چاہیے.یہ اندرونی کشمکش اندر ہی اند ر جاری تھی کہ بادشا معظم نے ایک مطلقہ خاتون مسٹر سمپسن سے شادی کرنا چاہتی تو برطانوی نظام کلیسا میں سخت زلزلہ برپا ہوگیا.اور پادریوں نے شور مچا دیا کہ بادشاہ کا فعل ہم برداشت نہیں کر سکتے کیونکہ جس عورت کا پہلا خاوند زندہ ہو وہ ہماری ملکہ کیونکر ہوسکتی ہے.بعض نادانوں نے تو یہانتک کہا کہ بادشاہ چاہیں تو پرائیویٹ تعلقات اس خوریت سے رکھ سکتے ہیں.لیکن شادی کر کے مطلقہ عورت کو عزت بخشنا اُن کے لئے بھائز نہیں.در اصل یاد شاہ کو یہ یقین ہو چکا تھا کہ اگر تخت پر رہتے ہوئے میں نے شادی کی تو ملک میں فساد ضرور ہوگا.ه الفضل ۱۳ر دسمبر سماء صفحه ، کالم ۲۰۳ به ۵۴ الفضل مودار و کمبر دو صفحہ ہ کا ظلم و در وسیم نے

Page 362

۳۲۶ کو اکثریت نہ رے ساتھ ہوگی لیکن پھر بھی ایک زبر دست اقلیت مقابلہ پر کھڑی ہو جائے گی.اور اسی طرح بعض تو آبادیاں بھی شورش پر آمادہ ہو جائیں گی.بادشاہ نے آخری جد و جہد مید کی کہ وہ راجہ سے کہ دیا کہ آپ لوگوں کو ایک مطلقہ عورت کے بلکہ ہونے پر ہی اعتراض ہو سکتا ہے.سو میں اس کیلئے بھی تیار ہوں کہ ایک خاص قانون بنا دیا جائے کہ میری بیوی ملکہ نہ ہو گی.لیکن وزار نے اس سے بھی انکار کیا.پس صورتِ حالات یہ پیدا ہو گئی کہ ایک طرف تو اس مشکل کا واحد حل کہ بادشاہ کی بیوی ملکہ نہ ہو.وزارت نے مہیا کرنے سے انکار کردیا.دوسری طرف بادشاہ دیکھ رہے تھے کہمیرے سامنے دو چیز ہیں ہیں.ایک طرف ملک نہیں بلکہ ملک کی ایک اقلیت کی خواہش کہ ایک مطلقہ عورت سے شادی نہیں کرنی چاہیئے.اور دوسری طرف یہ سوال کہ ایک عورت جو مجھ سے شادی کیلئے تیار ہوا ورجب سے شادی کا ئیں وعدہ بھی کرچکا ہوں.اس کو اس جیسے چھوڑ دوں کہ چونکہ تو مطلقہ ہے اس لئے میرے ساتھ شادی کے قابل نہیں.ایک طرف ایک اقلیت ہے جسے قانون کوئی حق نہیں دیتا.اور دوسری طرف ایک ایسے وجود کو زیر الزام لاکر چھوڑنا ہے جسے قانون شادی کا حق بخشتا ہے.یقیناً ایسی صورت میں بادشاہ کے لئے ایک ہی راستہ کھلا تھا کہ وہ اُس کا ساتھ دیتے جس کے ساتھ قانون تھا لیکن چونکہ ایسا کرنے میں ملک میں فساد کا اندیشہ تھا.انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ یکیں اُس عورت کی بے عزتی نہیں ہونے دوں گا جب سے میں نے وعدہ کیا ہے.اور مکیں ملک میں فساد بھی نہیں ہونے دوں گا.پس ان دونوں صورتوں کے پیدا کرنے کے لئے میں وہ قدم اٹھاؤں گا جس کے اُٹھانے کے لئے غالباً بہت سے لوگ تیار ہو نگے.یعنی میں بادشاہت سے الگ ہو کر ملک کو فساد سے اور اپنی ہونے والی بیوی کو ذرکت سے بچائوں گا.اور انہوں نے ایسا ہی کیا.برطانوی بادشاہ ملکی قانون و آئین کے اعتبار سے محافظ عیسائیت (DEFENDER OF FAITH) تسلیم کیا جاتا ہے.لہذا تابعدار برطانیہ کی دستبرداری کے اس واقعہ سے اردسمبر کو ہونا نہ صرف انگلستان میں بلکہ دنیا بھر کی برطانوی مقبوضات میں ایک تہلکہ مچ گیا اور آپ پہ بشپ آف کنٹر شہری نے اس اے چنانچہ آرچ بشپ آف کنٹر بری نے ایڈ در ڈہشتم کی دستبرداری کو اصول کی بجائے محض ذاتی خوشی کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہا.ایڈورڈ ہشتم کو خدا کی طرف سے ایک اعلیٰ اور مقدس امانت لی تھی.مگر انہوں نے پیا مانت دوسروں کے حوالہ کر دینے کے لئے اپنی مخصوص صاف بیانی سے کام لیا.وہ ہر اقدام ذاتی خوشی کے حصول کے لئے کر رہے تھے.یہ امر افسوسناک اور حیرت انگیز ہے کہ انہوں نے اس قسم کے مقصد کے پیش نظر اتنی بڑی امانت کو چھوڑ دیا.آپ کس قدر افسوس ہے.آہ کس قدرا فسوس ہے یہ

Page 363

۳۲۷ حقائق پر پردہ ڈالنے کیلئے اسے محض عورت سے محبت ہی کار یہ عمل بتایا جس سے متاثر ہو کر اخبار الفضل نے 19 دسمبر ہ میں ایک افتتاحیہ بھی شائع کر دیا.مگر چونکہ اصل حقائق یہ نہیں تھے.اسلئے حضرت خلیفة المسیح الثانی نے حکومت برطانیہ کے اس تازہ انقلاب کا حقیقی پس منظر بتا نے کیلئے ایک مفصل مضمون ۲۰ دسمبر ۹۳۶ائر کو لکھا جو الفضل ۲۲ دسمبر ۱۹۳۷ء میں شائع ہوا.مضمون کے آخر میں حضور نے تحریر فرمایا کہ :.اس واقعہ سے ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشگوئی پوری ہوئی ہے.اور آپ پر لگائے جانے والے اعتراضوں میں سے ایک اعتراض دور ہوا ہے.پیشنگوئی تو یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علی الصلوة و السلام کے زمانہ میں عیسائیت آپ ہی آپ چھلنی شروع ہو جائے گی.اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہوگا کہ مسیحیت کی نمائندہ حکومت میں یعنی دنیا کی اس واحد حکومت ہیں جس کے بادشاہ کو محافظ عیسائیت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے.ایسے تغیرات پیدا ہورہے ہیں کہ اس کے ایک نہایت مقبول بادشاہ نے مسیحیت کی بعض رسوم ادا کرنے سے اس وجہ سے انکار کر دیا کہ وہ ان میں یقین نہیں رکھتا.اور اعتراض جس کا ازالہ ہوا ہے یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ عليه واله وسلّم نے طلاق کو جائز قرار دیا.اور مطلقہ عورتوں سے شادی کی کیونکہ دنیا نے دیکھ لیا کہ طلاق کی ضرورت اب اس شدت سے تسلیم کی جاتی ہے.اور مطلقہ عورت کی عزت کو جبکہ دما اخلاقی الزام سے منتہی نہ ہو اس صفائی سے تسلیم کیا جاتا ہے کہ بادشاہ اس سوال کو حل کرنے کے لئے اپنی بادشاہت تک کو ترک کرنے کے لئے تیار ہو رہے ہیں.ایک برطانوی مسلمان کا دل اسوقت کس طرح خوشی سے اچھل رہا تھا جبکہ وہ گذشتہ واقعات کو پڑھتے ہوئے یہ دیکھتا تھا کہ عیسائی کے خلاف وہی نہیں بلکہ اس کا بادشاہ بھی لڑ رہا ہے.اوراسلام کے کمینہ دشمن کے اعتراض کو وہی دور نہیں کر رہا بلکہ اس کا مسیحی کہلانے والا بادشاہ بھی اس اعتراش کی لغویت ثابت کرنے کے لئے اپنے تخت کو چھوڑنے کو تیار ہے.پادری سمجھتے ہیں کہ وہ اس جنگ میں کامیاب رہے ہیں لیکن ایڈورڈ کی قربانی ضائع نہیں جائینگی کیونکہ وہ پیشگوئیوں کے ماتحت ہوئی.یہ بیج بڑھے گا.اور ایک دن آئے گا کہ انگلستان نہ صرف اسلامی تعلیم کے مطابق طلاق کو جائز قرار ے گا بلکہ دوسرے مسائل کے متعلق بھی وہ اسلامی تعلیم کے مطابق قانون

Page 364

۳۲۸ جاری کرنے پر مجبور ہوگا.بادشاہ آخر کیا ہوتا ہے ؟ ملک اور قوم کا خادم - اور خادم اپنے آقا کیلئے جان دی اہی کرتے ہیں.ایڈورڈ نے اپنی قربانی دیکر آئندہ عمارت کی پہلی اینٹ مہیا کی ہے.اسکے بعد دوسری اینٹیں آئیں گی.اور ایک نئی عمارت تیار ہو گی جسپر انگلستان بجا طور پر فخر کر سکیگا.خدا تعالی بہتر جانتا ہے کہ شاہ ایڈورڈ کے آخری ایام حکومت میں اُن کے خیالات کی کہ وکس طرف کو ہار رہی تھی لیکن جو کچھ ، اقعات سے سمجھا جا سکتا ہے.وہ یہی ہے کہ وہ خیال کرتے تھے کہ مجھے اپنے ملک کے مذہب ہے پوری طر یا جزوی طور پر اختلا ہے.بعض بڑے پادریوں کو مجھ سے شدید اختلاف پیدا ہوچکا ہے.جب وہ ایک ایسے امر سے مجھے روک رہے ہیں جس کی قانون اجازت دیتا ہے تو کل وہ مجھ سے اور کیا کچھ مطالبہ نہ کریں گے.اس وقت ملک میں کے ساتھ ہے.ممکن ہے کل کوئی ایسا سوال پیدا ہو کہ ملک بھی میر ہے خلاف ہو.پھر ان حالات میں کیوں ملک کی ایک اقلیت کی خاطر میں اپنے وعدہ کو ترک کر دں اور ایک عورت کو دنیا بھر میں اس الزام سے مطعون کروں کہ دیکھو یہ عورت ہے جس سے ایڈورڈ نے اس وجہ سے شادی نہ کی.کہ وہ مطلقہ تھی.پس کیوں نہیں اس جھگڑے کا آج ہی خاتمہ کر دوں اور ملک کو آئندہ فساد سے بچائوں.اس کے برخلاف وہ پادری جو سابق بادشاہ کی مخالفت کر رہے تھے ان کے خیالات کی کہ وہ علوم ہوتی ہے که بادشاہ مذہب عیسویت سے متنفر معلوم ہوتا ہے.آج موقعہ ہے.آئرلینڈا اور کینیڈا کیتھول کپ مذہب کے زور کی دہر سے مسئلہ طلاق میں تعصب رکھتے ہیں.اگر اس وجہ سے ہم بادشاہ کا مقابلہ کریں جن دو نتائج کے نکلنے کا امکان ہے.دونوں ہمارے حق میں مفید ہونگے.اگر بادشاہ دب گئے تو آئندہ کو ہمارا رعب قائم ہو جائے گا.اور اگر بادشاہ تخت سے الگ ہو گئے.تو ہمارے راستہ سے ایک روگ دُور ہو جائے گی.خیالات کی ان دونوں کروؤں کا مقابلہ کر لو.اور پر سوچ لوکہ کیا یہ کہنا درست ہے کہ آہ ایڈورا بہت پر) کس قدر افسوس ہے.آہ کسی قدر افسوس ہے یا یہ کہنا درست ہے کہ ان پادریوں پر جنہوں نے ایسے حالات پیدا کرد ئے کہ ایک خادم قوم اور مخلص بادشاہ کو با وجود اسکے کہ قانون اس کے حق میں تھا، تخت سے علیحدہ ہونا پڑا.افسوس ہے.آہ کس قدر افسوس ہے.خلاصہ یہ کہ بادشاہ کے ساتھ بعض لوگوں کا انگلستان کا نہیں، جھگڑانہ نہیں تھا جو بعض ناواقف لوگ سمجھتے ہیں بلکہ مذہب اور قانون کے احترام کا جھگڑا تھا.بادشاہ اپنے منفرد مذہب پر

Page 365

اصرار کرتے تھے.اور پادری قومی مذہب پرہ.حالانکہ قومی مذہب مذہب نہیں.سیاست ہے، جبکہ اس کا اثر اصولی مسائل پر بھی پڑتا ہوں اور بادشاہ قانون کا احترام کرتے ہوئے قانون پر عمل کرنے کو تیار تھے لیکن اُن کے مخالفوں کا یہ اصرار تھا کہ یہ قانون دکھاوے کیلئے ہے عمل کرنے کے لئے نہیں.قانون طلاق کی اجازت دیتا ہے مگر مذ ہب نہیں.بادشاہ چونکہ مسیحیت کے گلی طور پر بائیز وی طور پر قائل نہ رہے تھے.انہوں نے قانون پر زور دیا.جو اُن کی ضمیر کی آواز کی تصدیق کرتا تھا.اور آخر ملک کو فساد سے بچانے کے لئے تخت سے دست برداری دے دی.بعض احباب جو ایک حد تک واقعات کی تہ کو پہنچے ہیں.ان حالات کو دیکھتے ہوئے کہتے ہیں.زندہ باد ایڈورڈ.یہ بھی درست ہوگا گر میں تو ان حالات کے محرکات کو دیکھتے ہوئے یہی کہتا ہوں.محمد زنده باد ! زندہ باد محمد (صلی اللہ علیہ وسلم " لے مولوی محمد علی صاحب کے مباحثہ کی ناب برای محمد علی صاحب میرا نام ام دی اشاعت اسلام مولوی احمد لاہور) نے اخبار پیغام صلح ( 19 نومبر ۱۹۳۶ء میں اس خواہش کا ۱۹۱ واضح دعوت اور ان کا گرین ایا اور ایمان لایا اسی انانی نه ناقل خوداپنی وقتہ داری کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک فیصلہ کن بحث کے لئے قدم اُٹھائیں" اس پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے مولانا ابوالعطا صاحبت ارشاد فرمایا کہ: میری طرف سے اعلان کر دیں کہ میں خود مولوی محمد علی صاحب سے نبوت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق بحث کروں گا.انہیں چاہیئے کہ اس کے لئے فریقین کے حق میں مساوی شروط کا تصفیہ کرلیں.بحث یکیں خود کروں گا.انشاء اللہ مولانا ابو العطاء صاحب نے اور دسمبر شاہ کو حضور کا یہ اعلان ایک مفصل نوٹ اور علی فلم کے ساتھ الفضل میں شائع کرا دیا.اس کے چند روز بعد حضرت امیر المومنین نے اپنے قلم سے مزید وضاحتی تقریر لکھدی کہ: یکی تصدیق کرتا ہوں کہ میں نے مولوی ابو العطاء صراحت سے کہا تھا کہ میں مسئلہ نبوت میں مولوی محمد علی صاحب سے خود مباحثہ کرنے کو تیار ہوں.آپ ان سے شرطیں لئے کریں.سو معقول شرائط جن میں کوئی لغویت یا ه الفصل ۲ دسمبر ۹۳۷ دو صفحہ ۴۲ و۵.اس عنوان کے تحت مندرج سب حمالات الفضل دسمبر 11ء سے ماخوذ ہیں :

Page 366

کھیں کا پہلونہ ہو.جب بھی طے ہو جائیں تو مجھے مولوی صاحب سے مباحثہ کرتے ہیں کوئی عذر نہیں.الا آن يشاء الله مباحثہ کی غرض اگر ایک جماعت تک حقی کی آواز کا پہنچانا ہو تو اس میں مجھے عذر ہی کیا ہوسکتا ہے عذر تو اسی صورت میں ہوتا ہے جب مباحثہ کو کھیل یا فساد کا ذریعہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد یا اے مولوی محمد علی صاحب جنہوں نے خود ہی فیصلہ کن بحث کی خواہش ظاہر فرمائی منی مسئلہ نبوت پر گفتگو کرنے سے یہ کہکر گریز اختیار کیاکراو بحث مسئلہ تکفیر المسلمین پر ہونی چاہئے.کیونکہ دونوں جماعتوں کا اختلات اسی مسئلہ پر شروع ہوا تھا.تکفیر اختلاف کی اصل ہے.اور مسئلہ نبوت اس کی فرع یہ ہے انہ تکفیر کو ابال لیا ہے.اور مسئلہ نبوت کو اس کے بعد.سل نیز کہا کہ دونوں جماعتوں میں جوبہ اختلاف ہوا تو جرہ مسئلہ کفر و اسلام ہے یا یاد رہے کہ یہ وہی مولوی محرمعلی عام تھے جو 1910ء سے متواتر یہ کہتے آرہے تھے کہ :- " ہمارے درمیان جو اختلافی مسائل ہے.اس کی اصل جڑا مسئلہ نبوت ہے.اگر ہجائے احباب محض اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی اور سلسلہ کی خیر خواہی کو مد نظر رکھ کر اس کا فیصلہ کرنا چاہیں تو سکی راہ نہایت آسان ہے یا ک یہی نہیں.انہوں نے حلفیہ اعلان بھی کیا کہ :- میں تم کو خدا کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ آؤ سب سے پہلے ایک بات کا فیصلہ کر لو اور جب تک وہ فیصلہ نہ ہو جائے.دوسرے معاملات کو ملتوی رکھو.اصل جڑ سارے اختلاف کی صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قسم نبوت کا مسئلہ ہے؟ شے مولوی محمد علی صاحب کے اس جدید موقف پر کہ جو مسئلہ کفر السلام سے مولوی شاء اللہ صاحب مرتسری ایسے معاند احمدیت کو اپنے اخبار اہلحدیث (۵ار جنوری اداروں میں لکھنا پڑا کہ - اتنا ضرور کہتے ہیں کہ ان دونوں مضمونوں میں سے مسئلہ نبوت اصل ہے اور تکفیر اسکی فرع ہے...خلیفہ قادیان اصولی بات کرتا ہے.اور لاہوری امیر صاحب کو مخفی غرض سے اس کو ٹال رہے ہیں.اصل بات یہی ہے کہ کفر مرتب ہے انکار نبوت پر.پس بحث کا اصل مدار نبوت پر ہونا چاہیے.اس لئے ہم مناظرانہ حیثیت سے ه الفضل ۲۰ دسمبر ۱۹۳۷ و صفحه ۳ * له "پیغام صلح ۵ در دسمبر ۱۹۳۶ء صفحه ۶ کالم ۳۶۲ پیغام صلح دار دسمبر ۹۳ ابو صفویه کالم ۳ : ۲۲ پیغام صلح ۲۳ دسمبر ۹۳۷ ر : ۲۵ اٹریکٹ مسئلہ نبوت کا ملہ تامر اور جبر کی نبوت میں ترقی صفورا ہے

Page 367

۳۳۱ مولوی محمد علی صاحب کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اس موقع کو غنیمت سمجھیں اور نبوت مرزا پر بحث کو ٹال نہ دیں گے مگر جناب مولوی محمد علی صاحب آخر دم تک اپنے انکار پر اصرار کرتے رہے !! فصل نهم ۱۹۳۶ء کے متفرق مگر اہم واقت خاندان حضرت موجود مینی کی اریا روشی ر مئی ۹۳۶ اسد کو بعد نماز عصر حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے قرز ندارجمند میاں محمد احمد خان صاحب کا عقد حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے کی دختر نیک اختر امتہ الحمید بیگم صاحبہ کے ساتھ پندرہ ہزار روپیہ مہر پر ہوا.خطبہ نکاح حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ارشاد فرمایا.لے حیدر آباد دکن کے ایک معزنہ نواب میجر ممتا زیاد و الدوله ۱۲۸ فروی میجر ممتاز یا ور الدولہ بہادر ۱۹۳۷ که مولوی سید ابشارت احمد صاحب امیر جماعت احمدی حیدر آباد دکن قادیان میں کے ساتھ قادیان تشریف لائے.حضرت امیر المومنین کی ملاقات اور قادیان کے مرکزی اداروں سے بہت متاثر ہوئے.اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ یہاں کے عملہ کاروبار میں اخلاص و ایثار و للہیت کار فرما ہے" سے هر مارچ ۱۹۳۶ء کو آریہ سماج جمتوں کے زیر انتظام ایک مذہبی امی افراس من محمد بن کا نفرنس کا انعقاد ہوا جس میں ماشہ محمد عمر صاحب نے مسلم مولوی فضل نے بھی تقریہ کی جو بہت پسند کی گئی.موضوع یہ تھا " مجھے میرا دمحرم کیوں پیارا ہے ہے حضرت خلیفة المسیح الثانی زہونے مجلس مشاورت سائر میں مرکزی دفاتر تحقیقاتی کمیش با تقوایا (۱) حضرت میر محمد اسماعیل صاحب صدر (سول سرجن گوجرانوالہ (۲) راجہ علی محمد صاحب (افسر مال لاہور ).لے ہفت روزہ الحدیث امرتسردار جنوری ها و صفحوه کال ۱۳۰۷ عن الفضل، ارمى سواء صفورا کالم - خطبه نكاح الفضل " ار می داره صفوی تاو پر شائع ہو چکا ہے سے افضل ہم مارچ ۱۹۳۶ و صفر ۲ و : افضل ۳ در مایه ها و ملا ۱۴ 1414

Page 368

۳۳۲ (س) پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب ایم اسے دگورنمنٹ کالج لاہور) ( شیخ عبد الحمید صاحب آڈیٹر لاہور.(۵) ملک غلام محمد صاحب رئیس لاہور.(۶) چودھری عطا محمد صاحب نائب تحصیلدار ہوشیار پور.(۷) میاں غلام محمد صاحب اختر سیکوٹری (سٹاف وارڈن لاہور) نے | اس کمیشن نے سالہا سال تک بڑی محنت و کاوش سے کام کیا اور بہت مفید خدمات انجام دیں.سری رام کرشن جی کی صد سالہ سالگرہ کے موقعہ پر اڑیسہ کے ہندوؤں نے ل اولیه لیبر کانفرنس ۱۱ ۱۲ ر ا پریل ۱۹۳۶ ء کو ایک مذہبی کا نفرنس منعقد کی.جس میں مولانا ظہور حسین صاف نے اسلام کی کامیاب نمائندگی کی اور اسلام حامگیر نذیر ہے، کے عنوان پر نہایت عمدہ لیکچر دیا ہے شری رام کرشنا مشن بمبئی نے ۹۱۸۷۷ پارلیمینٹ آف الینز بھی ایک پارلیمنٹ آف ریلیجینز کا انعقاد کیا.جس میں مسلمانوں کی طرف سے مولوی محمد یار صاحب عارف نے حصہ لیا.اوراسلام کو احمدی فقط نگاہ سے پیش کیا.تقریر کے خاتمہ پر صدر جلسہ جیا کار نے کہا یہ آج ہمیں کئی ایسی باتوں کا علم ہوا ہے جو اس سے پہلے ہمیں معلوم نہیں تھیں.تحریک احمدیت کے فاضل لیکچرار نے اسلام کی و تعلیم پیش کی ہے.اس کی اسوقت تمام دنیا کو ضرورت ہے.یعنی باہمی رواداری اور مذہبی اختلافات کو برداشت کرنا.کیا ہی اچھا ہو اگر ایک ایسی پارلیمنٹ کی مستقل طور پر تشکیل کی جاسکے.اور پبلک نہایت شریفانہ طور پر ایک دوسرے کے مذہبی خیالات سنے اور اس سے فائدہ اٹھائے.۳ جون وارد میں تبلیغ کمیٹی کے زیر اہتمام ہانسی میں ایک نہ ہی کانفرنس ہانسی مذہبی کانفرنس منہ بولی میںمیں عبدالرحمن صاحب نعقد ہوئی جس میں ملک عبد الرحمن صاحب خادم - گیانی واحد حسین صاب اور دو دیو بندی علماء نے تقریریں کیں محترم ملک صاحب کی تقریر خاص طور پر پسند کی گئی ہے حکیم محمد عبد اللطیف صاحب گھبراتی نے مولانا ابو العطاء صاحب کی رسالہ تعلیم الدین کا اجرا کا اجرا نگرانی ہیں، جولائی 917 انٹر سے ایک ماہوار رسالہ تعلیم الدین کے نام سے جاری کیا جس کا مقصد احمدی بچوں، خواتین نئے احمدیوں اور نومسلموں کو علوم دین سے آگاہ کرنا تھا.یہ رسالہ جو نہایت محنت سے مرتب ہوتا تھا.نومبر ۱۹۳۷ء تک جاری رہا : ا الفضل ۱۸ اپریل ۳۷ شماره صفحه ۲ کالم : س الفضل ۲۲ اپریل ۱۹۳۶ ه ش کالم : : سل الفضل ۲۱ مئی ۳۶ اردو و صفحہ ۱ کالم اول که الفضل ۱۶ جون ۱۹۳۶ ایر صفحه ۲ کالم ۲ به ا ۲۰۱ و در بود

Page 369

سم اسم اسم تربیت طرف قادیان مین و خاص رسول ا اجرا نظارت ملی موری کی رک قادیان میں عدم سے لیکر مین و رسول اس ۵ ستمبر ۱۹۳۶ء تک درس قرآن اور درس عربی صرف و نحو کا خاص قرآن مجید کے امتحان میں انتظام کیا گیا.یہ سب درس مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری مسجد اقصی میں دیتے تھے یہ با قاعدہ شامل ہونے والوں کی تعدا د ۲۳ تھی.درس کے اختتام پر امتحان بھی لیا گیا.مولوی محمد عظم من ابو نانی اورچو دری فقیر محمد صاحب قادیان اور صرف دسحر میں ملک سعید احمد صاحب بی اسے ابن حضرت ملک مولا بخش صاحب) اول آئے ہے مسجد احمدیه بر یمن بڑی بنگال ا ا اور زمان با در ابو الہاشم خان صاحب امیر پراونشل انجمن حمده بنگال نے اور اکتو به ره که به من بید میں مسجدا تمدید کا سنگ کا سنگ بنیاد بنیاد رکھا.مسجد کے لئے حضرت مولانا سید عبد الواحد صاحب کے ور شاہ نے مفت جگہ پیش کی، سے کوچه چابک سواراں لاہور کی متنازع ) عرصہ تین چار سال سے مسجد کو چہ چابک سواراں لاہور کا مقدمہ احمدیوں اور غیر احمدیوں کے درمیان ماتحت عدالتوں مسجد کی نسبت ہائیکورٹ کا فیصلہ میں چل رہا تھا سٹی کورٹ نے فیصلہ کیا کہ احمدی اس مسجد میں باجماعت نماز ادا نہیں کر سکتے.اس کے خلاف ہائیکورٹ میں اپیل کی گئی.جماعت احمدیہ نظر سے شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ ہائیکورٹ نے آدھے گھنٹہ تک نہایت قابلیت سے ثبوت ھوئی میں اپنے دلائل پیش کئے آخر بار نومبر 123ء کو ہائیکورٹ نے احمدیوں کے حق میں ڈگری دے دی.اور یہ متنازع مسجد بالآخر احمدیوں کو مل گئی.اور اس کے امام ستاد دلاور شاہ صاحب بخاری مقرر کئے گئے ہے قادیان میں بلیوں کا افتتاح قادیان میں ٹیلیفون لگانے کا کام اور دسمبر کو مکمل ہوگیا.کا تلیفون اور حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ نے آنریبل چودھری محمد ظفراللہ خان صاحب سے گفتگو کے ساتھ اس کا افتتاح فرمایا.شہ ا الفضل ، ر ا گست ۱۹۳۶ ء صفویه - و الفضل ۸ ار ا گست ۱۳۷۶ د و صفحه اکالم و مفضل ه در تمبر دو صفحہ کالم 1 : له الفضل ٢٣ رستم بر اهداء صفحه ۱ : ٣ الفصل ١٣ / اکتوبر ۱۹۳۷ ء صفحه ۲ كالم ۲ الفضل ۱۵/ نومبر ۱۹۳۶ ۶ صفحه ۲ کالم ۱ : ۵۵ الفضل ۱۶ر دسمبر ۱۹۳۶ ۶ صفحه ۲ :

Page 370

۳۳۴ پیغام مبالغین سلسلہ کی بی تی اس سال اس میں اندر این بیرون ملک میں یا من پہنچانے کے لئے بھجوائے گئے جن مجاہدین کے اسماء یہ ہیں :.ممالک کو روانگی رام مولوی محمد سلیم صاحب فلسطین تاریخ روانی هم جنوری ۱۹۳۶ ایران (۲) مولوی عبدالواحد صاحب سماٹر ( تاریخ روانگی و ار جنوری ۱۹۳۶) (۳) مولوی شیخ عبد الواحد صاحب پھین ار جنوری ۹۳ (۲) حاجی احمد خان صاحب ای ان ہنگری ۱۶ جنوری ۶۹۳ - (۵) مولوی محمد رمضان صاحب ارجنٹائن ۲۵ جنوری ۱۹۱۳ روسیه ره) مولانا جلال الدین صاحب شمشن لندن روانگی بیکم فروری سایر ۱۹۳۶) '(4) -) (4) مولوی نذیر احمد صاحب د مغربی افریقی - تاریخ روانگی یکم فروری د مغربی افریقہ تاریخ روانگی میکم فروری شاه - (۴) مولوی نذیر احمد صاب میشود مغربی افریقہ تاریخ روانگی یکم فروری شاری ، ملک محمد شریف صاحب بین یکم فرد می کند (۱۰) ملک عزیز احمد صاحب به جاوا- یکم فروری ۶ - ۲۱) مولوی محمد الدین صاحب البانی - تاریخ روانی ۱۸ اپریل ۶۳ - (۱۲) مولوی عنایت الله صاحب جالندهری (سنگا پور تاریخ روانگی مارا اپریل ۱۹۳۶) (۱۳) مولوی سید شاه محمد صاحب رسنگاپور- جاوا سماڑیا - تاریخ روانگی ۱۸ را پریل ۱۹۳۶ ی شه (۱۴) صوفی مطیع الرحمن صاحب بنگالی (امریکہ تاریخ روانگی ۲۱ اکتوبر ۳۶ ملی - (۱۵) مولوی محمد ابراہیم صاحب نانسر ( امریکہ - ہنگری " مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری مبشر بلاد عربیه ۴ ۱۲ فرو ری بیرونی مبلغین کی واپسیانی 23 ا ء کوایک اور مولانا رحمت علی فضا مبلغ جاوا ۳ در دسمبر ۱۹۳۶ء کو قادیان میں واپس تشریف لائے ث فلسطین مشن.وسط ۱۹۳۶ء میں فلسطین کے حالات بیرونی مشنوں کے بعض اہم واقع نہایت محدود ہوگئے.اور عربوں اور یہودیوں اورسول " اور فوجی پولیس کے درمیان بار بار تصادم ہوا.اور کبھی ہڑتال جاری رہی جس کے نتیجہ میں فسادات له الفضل ، جنوری ۱۹۳۶ ۶ صفحها : ٢٢ الفضل دار جنوری ۱۹۳۶ء صفحه الالم : ٥٣ الفضل ۲۸ جنوبی ۱۹۳۶ء صفحہ ا کالم ان سے آپ کے سفر مغربی افریقہ کے حالات ریویو آن ریلیجز" اُردو مارچ 12 ء میں شائع شدہ ہیں : ۲۵ الفضل ۴ فروری ۱۹۳۶ء صفحہ ا کالم 1 : 2 الفضل او را پریل ۳۶ ۹ و صفحه الكالم 1 : 2 الفصل ٢٣ اكتوبر و صفویہ کالم ۲.آپ کو حکومت امریکہ کی طرف سے ملک میں داخلہ کی اجازت نہ لی.اس لئے حضرت امیر المومنین کو کی طرف سے بذریعہ تار لندن میں حکم ملا کہ بوڈا پیسٹ چلے جائیں (الفضل 14 جنوری ۳۶ ها و صفحه و الفصل ۲۴ جنوری ساله او صفحه : شه الفضل هر دسمبر ۱۹۳۶ء صفحه الالم ٠٢ 2 الفضل ۲۶ فروری ۱۹۳۶ در صفحه ۲ کالم ۲* ۹ اء

Page 371

بڑھ گئے.اور کئی لوگ قتل یا مجروح ہوئے.اس موقعہ پر جما عتہائے احمدیت فلسطین نے ہنگامی چندہ جمع کر کے مستحقین کی حتی الوسع مالی امداد کی.اے انگلستان مشن.ورلڈ فیلوشپ آف فیتھس کے زیر اہتمام قبل از میں شکاگو اور نیو یارک ہیں پہلی مذہبی کا نفرنس ۱۹۳۳ء میں.دوسری ۱۹۳۲ء میں اور تیسری کا نفرنس جولائی 1914ء میں المقام الندن منعقد ہوئی جس میں مولانا عبد الرحیم صاحب در و امام مسجد لنڈن نے دعا کرانے کے علاوہ عیسائی مذہب کے نمائیندہ کے مضمون سے متعلق بحث کا افتتاح بھی فرمایا ہے مولانا جلال الدین صاحب شمس نے بھی اسکی متعد د نشستوں میں شرکت کی اور مہا راجہ بڑودہ ، سر ہر برٹ سیمیوئل، سر آرنلڈ سٹیور اور حافظ و ہبہ فصل حکومت سعودیہ سے ملاقات کی.اس موقعہ پر احمدیوں نے دو سو کے قریب اشتہارات اور ٹریکٹ تقسیم کئے ہے مغربی افریقہ مشن - حکیم فضل الرحمن صاحب مبلغ مغربی افریقہ نے اپریل میں ایک لمبیا تبلیغی دورہ کیا جو کم و بیش سات سومیل پرشتمل تھا ہے ت اِس سال شائع ہونے والے اہم لٹر پھر کی تفصیل یہ ہے:.۱۹۳۶ء کی نئی مطبوعت اس ا محامد خاتم النبيين " حضرت مسیح میخود علیہ السلام کی مقدس اور اثر انگیز تحریرات کا روح پر ور مجموعہ مرتبہ حضرت مولانا محمد اسماعیل صاحب ہلال پوری) نبراس المؤمِنينَ : با ترجمه رسو احادیث العینی در ترجمه از مولانا ابو العطاء صاحب فاضل) کند می ترجمه قرآن مجید و از جناب شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر اخبار نور قادیان.اس ترجمہ کے پورے اخراجات سلطان دکن اعلحضرت نواب میر عثمان علی خان آصف سابع نے ریاست حیدر آباد کی طرف سے عطاء کئے ہے پوتر جیون (آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی گورمکھی زبان میں سیرت طیبہ - مولفہ شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر اخبار" نور " قادیان) له له الفضل ارجون شاه صفون کالم : له الفضل و راگست ۱۹۳۶ء صفحه : ۵۳ الفضل و راگست ۱۹۳۶ و صفحه ۹: نے کالم ان سے "حیات عثمانی صفحہ ۱۳۰۸ ۳۰۹ ۱ از حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی، الفقة في ٢ ستمبر ١٩٣۶ ایڈیٹر سالار بھٹی و سیات بلاد تربیه و غربیه ، مطبوعہ حید ر آباد نیش گیانی پہیرا سنگھ صاحب ورنہ ایڈیٹر ” پھلواڑی نے اپنے رسالہ (شمارہ اگست ۱۹۳۶ء) میں اسپر بولیو کرتے ہوئے لکھا.ایڈیٹر صاحب کور کی تیار کردہ شہری حضرت محمد صاحب جی رصلی اللہ علیہ وسلم) کی سیرت عالیہ کو میں نے پڑھا ہے اور اس کی اکثر باتوں نے میرے دل پر بہت گہرا اثر کیا ہے.اور میرے +

Page 372

۳۳۶ مناظرہ بہت پور - تحریر کی مناظرہ جو مولانا ابو العطاء صاحب فاضل اور مرزا یوسف حسین جناب کے درمیان ہوں ).عاقبتہ المكذبين مقصد اقل (افغانستان میں مظلوم احمدیوں پر مظالم کی درد انگیزد استان، اور اس کے عبرتناک نتائج.تالیف حضرت قاضی محمد یوسف صاحب ہوتی مردان) - ذکر حبیب.حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے قلم سے زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایمان افروز حالات پر مشتمل ایک نہایت اہم تالیف).بائیبل کی بشارات بحق سرور کائنات (مؤلفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب ) - ۹ - " جماعت احمدیہ و احراری و تالیف ڈاکٹر عبد الرحمن صاحب آف موگا - مباحثہ ہو وال چھینیاں مکیریاں ضلع ہوشیار پور.یہاں ۳۰ و اندرون ملک کے مشہورنیا شہور نظری سے اسر جنوری شملہ کو تینوں مسائل پر جماعت احمدیہ کا اہلسنت المجمعات سے مناظرہ ہوا.احمدیوں کی طرف سے مولوی عبد الرحمن صاحب بیشر اور خیر احمدیوں کی طرف سے حافظ عبدالعزیز صاحب مناظر تھے.شرفا ء نے جماعت احمدیہ کے دلائل کی برتری تسلیم کی ہے مباحثہ تا رو آربنگال) اس مقام پر قریشی محمد حنیف صاحب اقر میر پوری سائیکل سیاح) کا مونوری تاج الاسلام صاحب سے مناظرہ ہوا.جو بہت کامیاب رہا ہے مباحثہ کو ٹلی ضلع میر پور کشمیر کو ٹلی میں احمدی مبلغ مولوی محمد حسین صاح بنی ۲۸ ۲۹ ارایشی کو ہر سہ متنازعہ مسائل پر ایک عالم اہلحدیث سے مناظرہ کیا.جس کے بعد ہنار و اصحاب نے کہا کہ صداقت احمدیوں کے پاس ہے.دوسرے لوگ محض ہٹ دھرمی سے کام لے رہے ہیں سے بقی یا کئی ایک شکوک دُور ہو گئے ہیں.اس کتاب میں مصنف نے جو حضرت محمد صاحب جی رصلی اللہ علیہ وسلم کے ازواج مطہرات اور آپ کے اخلاق حسنہ کے متعلق لکھا ہے.وہ حصہ بہت ہی دلچسپ اور بنی نوع انسان کے لئے قیمتی ہدایات سے لبریز ہے.میری رائے میں اس قابل قدر کتاب کو جو بھی غور سے اور خالی الذہن ہو کر پڑھے گا.اس کے دل میں یقیناً حشری حضرت محمد صاحب بی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے لئے ادب، احترام اور محبت کا تجزیہ پیدا ہوئے بغیر نہیں رہے گا.اور وہ نہ صرف حضرت محمد صاحب جی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اُسوہ حسنہ اور مقدس تعلیم ہی کی تعریف کرے گا.بلکہ بنی نوع انسان کی خیر خواہی اور ہمدردی کے متعلق اسلامی اصولوں سے واقف ہو کر مسلمانوں سے محبت ، رفاقت اور دوستی پیدا کرنے کا آرزو مند رہے گا.گورمکھی سے ترجمہ) (بحوالہ اخبار نور ، ارا اگست ۱۹۳۶ایر صفحه اول ) الفضل ، فروری صفورہ کالم ۱ ۲ : ۵۲ الفضل و ارا پرپل لاء منا کالم م ر ب ام الفضل را بپریل ماه صفر، کالم ادم

Page 373

۳۳۷ مباحثہ موضع پدین دار علاقه کشک ۱۳ اپریل ۱۹۳۷ء کو مولوی ظہور حسین صاحب فاضل نے کئی غیر احمدی علماء سے مناظرہ کیا.متعد د غیر احمدی اصحابے واضح لفظوں میں اقرار کیا کہ احمدیوں کے پیش کردہ دلائل کا جواب ہمارے مولوی نہیں دے سکے لے مباحثہ ہیرو مشرقی (ضلع ڈیرہ غازیخاں) ۲۶ اپریل شاہ کو ہیرو شرقی میں آٹھ گھنٹہ کے قریب نہایت کامیاب مناظرہ ہوا.احمدیوں کی طرف سے مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری مناظر تھے.اور غیر احمدیوں کی طرف سے سائیں لال حسین صاحب اختری دوسرے دن مباہلہ بھی کیا گیا.سلے مباحثہ گوجرانوالہ مولانا ابو العطاء صاحب نے ۲۰ رجون ۱۹۳۶ء کو عبداللہ معمار صاحب سے مولوی ثناء اللہ صاحت کے ساتھ آخری فیصلہ' کے موضوع پر شاندار مناظرہ کیا.مخالفین احمدیت نے بھی احمدی مناظر کی شرافت و نجابت، علمیت، سنجیدی اور وی و مالی کا ارا اور آ پ کا کام خوشی کا ظہار کیات مباحثہ بھرت (ضلع لائل پور ) - موضع بھرت چک ۴۳۱۷ میں مولانا قاضی محمد نذیر صادر فاضل نے مولوی و شفیع صاحب نکھری سے حیات وفات مسیح اور مسئلہ صدق مسیح موعود پر دو مناظرے کئے.تیسرا مناظرہ ختم نبوی تر تھا مگر مولوی مرشفیع صاحب کو میدان میں آنے کی جرأت نہ ہوسکی.شہ مناظرہ بہت پور (ضلع ہوشیار پور) ۱۹۳۵ء کا مشہور تحریری مناظرہ بہت پور میں احمدیوں اور شیعوں کے مابین ہوا، جو یکم اکتوبر سے لیکر ہر اکتوبر را یار یار در ایران احمد مناظر مولانا الا اعلا صاحب جالنہ بھری تھے اور مناظر انجمن اثنا عشریہ جناب مرزا یوسف آسین صاحب.موضوع بحث حسب ذیل تھے.را) صداقت دعوئی حضرت مرزا غلام احمد صاحب مہدی موعود (۲) متعة النساء - (۱۳) ختم نبوت - (۲) تعزیہ داری.یہ یادگار مناظرہ دسمبر ۱۹۳۶ء میں جماعت احمدیہ اور شیعہ اثنا عشریہ بہت پور کے مشترکہ خرج پر شائع کر دیا گیا ہے اس مناظرہ میں نمائندگان فرقہ اثنا عشریہ حسب ذیل تھے :.سید احمد علی شاہ صاحب - فداحسین صاحب - عطا محمد صاحب پریزیڈنٹ اثنا عشری.نمائندگان جماعت احمدیہ کے نام یہ ہیں :.مولوی عبد الرحمن صاحب انور انچارج تحریک جدید ربوہ - ولوی محمد اسماعیل صاحب ذیح.چوہدری کمال الدین صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ محبت پور - جہ راه افضل ۳۹ را پریل ۱۹۳۶ بر صفر م: له الفضل یکم مئی ۱۳ صفحه ۲ کالم ۲: سه تفصیل افضل ۱۰ مئی ۹۳۶ راء صفحه به وه پر مندر جا ہے ؟ که الفضل ۱۲۰ جون ۱۹۳۶ صفحه ۹ : شه الفضل ۲۹ جولائی یا د صفحیہ کالم ان کے پرچے صاف نہ پڑھے جا سکتے تھے لیکن چوہدری خلیل احمد صاحب را تربی اسے سیالکوئی، حافظ سلیم احمد صاحب انا وی اور فریش محمد نذیر صاحب علمانی کی محنت و کاوش کے نتیجہ میں سب پر چھے نقل مطابق اصل شائع ہو گئے :

Page 374

۳۳۸ اس مناظرہ کے بعد موافق و مخالف سب کی زبان پر یہی چرچا تھا کہ احماری مناظر غالب آگئے.اور یہ کہ شیعہ مناظر صاب اپنے مذہب ہی سے ناواقف ہیں.اے مباحثہ ممبئی.بھٹی میں 14 ستمبر سے سر اکتو بہ تک جماعت احمدیہ کا آریہ سماج سے تحریر کی مناظرہ ہوا.جماعت احمدیہ کی طرف سے مولوی محمد یار صاحب تارف نے.اور آریہ سماج کی طرف سے پنڈت ایدھیا پرشاد صاحب بنے پر چے لکھے.مناظرہ کے دو موضوع تھے.اول حدوث روح و مادہ دو عالمگیران با سلام پہر یا و یدک دھرم ؟ شه بعض استان دھرمی ہندوؤں نے کھلم کھلا کہا کہ پنڈت صاحب کے مقابل احمدی مناظر نے اپنی الہامی کتاب کی زیادہ خوبیاں بیان کی ہیں.اس لئے یہ غالب رہا ہے.انہیں خیالات کا اظہار بعض آر یہ صاحبان نے بھی کیا.سے مباحنه گوکھو وال (ضلع لائل پور - اور اکتوبر کو گوکھو وال میں تینوں اختلافی مسائل پر احمدیوں اور سنیوں کے مابین ایک معرکۃ الآراء مناظرہ ہوا.جماعت احمدیہ کی طرف سے قریشی محمد نذیر صاحب طنانی ، مولوی دل محمد صاحب اور ملک عبدالرحمن صاحب خادم مناظر تھے.اہلسنت و الجماعت کی طروت مولوی محمد شفیع صاحب نکهتر وی اور سائیں لال حسین صاحب اختر نے بحث کی.مناظرہ میں ناکام رہنے کے بعد غیر احمدی اصحابنے عیسائیوں کو انگیخت کی کہ وہ احمدیوں کو مناظرہ کا چیلنج دیں.چنانچہ انہوں نے مناظرہ کا چیلنج دیا.جو فوراً منظور کر لیا گیا.اور اگلے روز ۱۲ اکتوبر کو صدقات مسیح موعود اور الوہیت سیح ناصری پر مناظرہ ہوا.پہلے موضوع میں مولوی غلام احمد صاحب بدو نہیں، اور دوسے میں مولانا قاضی محمد نذیر صاحب امیر جماعت احمدیہ لائل پور مناظر تھے.عیسائیوں کی طرف سے پادری میلا رام پیش ہوئے.اس مناظرہ کے بعد ایک صاحب ( منشی محمد دین صاحب جو غیر احمدیوں کے بانی مناظرہ کے چھا اور اُن کے سرگرم عمر تھے جماعت احمدیہ میں داخل ہو گئے.ہے مباحثه سنگرور ریاست جیند ۵ ر نومبر شاہ کو سنگر ور میں جماعت احمد یا غیر با لین کے ساتھ ایک نہایت کامیاب مناظرہ ہوا.زیر بحث موضوع یہ تھے (1) کیا قرآن مجید اور احادیث نبوید صلی اللہ علیہ وسلم کی رو سے آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا سلسلہ جاری ہے ؟ (۲) کیا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ السلام نے نبوت کا دعویٰ کیا ؟.جماعت احمدیہ کی طرف سے ملک الفضل ، اکتوبر ها و صفحه ۲ کالم ۲ له الفضل ۲۹ ستمبر ۱۹۳۲ صفحه ۲ کالم او به سله الفضل ۵ ار اکتوبر ۱۹۳۶ صفحه با کالم ان ٣ الفصل یکم نومبر ۳۶ صفحه :

Page 375

۳۳۹ عبد الرحمن کہ احب خادم نے اور غیر مبالعین کی طرف سے مولومی شعر الہ دین صاحب شملوی نے نمائندگی کی.اس مناظرہ میں مولوی عمر الدین صاحب شملوی کی بدھو اسمی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ دوران مناظرہ ہیں ایک معزز خیر احمدی مولوی ظفر احسن صاحب نے کہا کہ مولوی عمرالدین صاحب شملوی معقول آدمی تھا آج معلوم نہیں کیا ہوگیا ہے کہ الٹی سیدھی باتیں کر رہا ہے.مناظر میں بعض دوا ہے غیر مبالغ مبلغ بھی مولوی صاحب موصوف کے دائیں بائیں بیٹھے تھے.جو بعض اوقات انکی بے علمی پر بے اختیار ہنس پڑتے تھے.اے با سیف الرحمن ضنا کی بعیت ۱۹۳ میں جن خوش قسمت افراد کو قبول حق کی توفیق ملی.اُن میں سلسلہ احمدیہ کے موجودہ مفتی مولانا ملک سیف الرحمن صاحب خاص طور پر قابل ذکر ہیں.ذیل میں ہم ملک صاحب موصوف کے ایک منو ہے کا ایک اقتباس درج کرنا ضروری سمجھتے ہیں جسے آپکے حلقہ بگوش احمدیت ہونے کے واقعات پر تفصیلی روشنی پڑتی ہے.اپنے لکھا :- خاکسار اپنے علاقہ کے ایک معزز نقشبندی خاندان کا رکن ہے....خاکسار پچھلے سالوں میں بغرض تعلیم لاہور میں مقیم رہا.اثنائے قیام میں احمدیت کی مخالفت کا اتفاق ہوا.اس غرض کے لئے حلقہ نیلہ گنبد لاہور میں ایک انجمن سیف الاسلام نامی بنائی گئی جس کی سیکرٹری شپ کی خدمات خاکسار کے سپرد کی گئیں.چونکہ اس وقت احترار نے احمدیت کے خلاف بہت کچھ شور مچارکھا تھا.اور اس شور و غوغا کے آغاز کی وجہ سے لوگوں کی توجہ اس طرف مبذول تھی.اس لئے اس موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے انجمن کے ماتحت جلسے اور ٹریکٹ وغیرہ شائع کر کے احمدیت کے خلاف لوگوں کو مشتعل کرنے کی ناکام کوشش کی گئی.نبیلہ گنبد کے بعض احمدیوں کو حلقہ کے لوگوں نے تنگ کرنا شروع کیا.اگر احمدی مسجد کے سامنے والے گراؤنڈ میں کوئی تبلیغی جلسہ کرنا چاہتے تو انجمن کی طرف سے اُسے درہم برہم کرنے کی ہر جائز و ناجائز کوشش کی جاتی.اس اثناء میں بعض احمدی : دوستوں نے خاکسار کو احمدیت کے اصول میں غور و فکر کرنے کی ترغیب دی.چونکہ خاکسار کے لئے اس صورت میں احمدیت کی مخالفت کا یہ پہلا موقع تھا.اس لئے اس ترغیب پر خاکسار نے کسی قدر گہری نظر سے عقائد احمدیت اور اسکی ترقی اور احراری کوشش کے مفید یا غیر مفید نتائج کے متعلق غور و خوض شروع ان الفضل ۲۰ نومبر به صفحه ۹ و ۱۰ و الفضل ۲۱ نومبر او صفحه ۱۱ ۱۲ : تک ملک صاحب به شهدا حضرت خلیفہ البیع الثانی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خدمت میں دار اپریل راء کو لکھا تھا کے خوا ہی خیار زید اس لا ہور م م ر اگر کر مرنے کا کم ہے.

Page 376

۳۳۰ کر دیا.احرار کا نفرنس منعقدہ قادیان میں شمولیت کی تیاری کی گئی اور اس طرح قادیان اور اس کی ترقی کو پہلی دفعہ اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا اتفاق ہوا.بہشتی مقبرہ اور لوگوں کے پھیلائے ہوئے اتہامات کو دیکھا اور کسی قدر تعجب آیا.مگر پھر حالات مملکت خویش خسروال دانند کے پیش نظر اپنے دل کو جہالت کا طعنہ دیگر حامیان دین و مفتیان شرع متین کی صداقت کا معتقد رہنے پر مجبور کیا مگر تا ہے ! دل متاثر ہوئے بغیر نہ رہا.اس حالت میں حضرت مسیح موجود علیہ الصلوۃ والسلام کے مزار مبارک پر جاکر عجز و انکسار کے ساتھ دربار خداوندی ہیں.بدہ پر نم سے اس طرح دعا شروع کی خُدا! تو جو علیم وخبیر ہے اور دلوں کے ہر سربستہ راز کو جانتا ہے اور اپنے بندوں کی دعاؤں کو سکتا ہے.ہدایت کا بلا شرکت غیرے مالک ہے.آج تیرا ایک گنہگار بندہ بھی مجھ سے ایک خواست کرنے کی جرات کرتا ہے.رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنَّا إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ، اے خدائے قدوس ! شخص جس کے قائم کردہ سلسلہ کو مٹانے کے لئے آج ہم قادیان کی سر زمین میں آئے ہیں.اس کے متعلق دو ہی باتیں منصور ہو سکتی ہیں.اگر یہ سچا ہے تو اس زمانہ میں تیر اس سے پیارا اور سب سے زیادہ محبوب ہے.پس میرے گناہوں کی پاداش میں اس کے فیوض سے مجھے محروم نہ رکھیں.اوراگر یہ جھوٹا ہے.تو ومَن أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللهِ الْكَذِبَ کی وعید خدا و نادری کی رو سے اس زمانہ کا خاکم بدمین، بدترین شخص اور سب سے بڑا ظالم ہے.سو اس کے شرور سے مامون و محفوظ رکھیو.سُبحَانَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَمْتَنَا إِنَّكَ أَنتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُه آنکھیں پر اشک ہو گئیں.دوستوں سے نظر بچا کر آنسو پونچھ دئے اور بات کو ادھر ادھر ملا دیا.دعاء کے بعد جلسہ گاہ میں واپس آیا اور علماء کرام کی پر معارف تقریریں سنیں.رات گزاری.i اور دوسرے دن لوگوں کے ساتھ فتح کے شادیانے بجاتے ہوئے واپس لاہور چلا آیا.دن دنوں کے بعد ہفتے ، ہفتوں کے بعد مہینے گزرتے گئے.امیر شریعت صد را احرار کا نفرنس پر سرکار کی طرف سے مقدمہ چلائے جانے کی افواہیں ادھر اُدھر مشہور ہونے لگیں.آخر ایک صبح اخبار میں بدیں عنوان "مولانا کی گرفتاری کی خبر پڑھی." امیر شریعت حضرت مولنا....الخ منصوری سے گرفتار کرلئے گئے.سرکار کی قادیانیت نواز پالیسی پر اظہار غیظ و غضب کے لئے بعد نماز عشاء بیرون دبل دروازه ایک عظیم الشان جلسے کے انعقاد کا اعلان کیا گیا.جلسے کی

Page 377

المسلم کاروائی دیکھنے کے لئے لوگ جوق در جوق آنے شروع ہوئے.خاکسار بھی اسلام کی فتح کی دعائیں کرتا ہوا شامل جلسہ ہوا " علماء اسلام و رہنمایان احترار ا نے لوگوں کو تسلیاں دیں.اسلام کی فتح اور کفر کی شکست کی پیشگوئیاں کی گئیں.مقدمہ لڑنے کا ریزولیوشن پاس کیا.مقدمہ کے اخراجات کے پیش نظر چندہ کی اپیل کی گئی.انجمن سیف الاسلام کی طرف سے بھی ہر جمعہ مسجد نیلہ گنبد میں اس اپیل کی یاد دہانی کرائی جاتی اور چندہ اکٹھا کرکے جو کبھی میں روپیہ اور کبھی نہیں روپیہ ہوتا دختر مجلس احرار میں بھیج دیا جاتا.حضرت امیر شریعت ضمانت پر رہا ہو کر لاہور تشریف لائے.اہالیان شہر نے مجاہد اسلام کا شاندار استقبال کیا.جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے "حضرت" نے بڑے زور سے پیشگوئی کی کہ لوگو! اب قادیانیت کے آخری سانس ہیں.اس کا جنازہ میرے کندھوں پر اٹھے گا.اس کا آسمان پر فیصلہ ہوچکا ہے عنقریب قادیانیت کا قلعہ پاش پاش ہو جائیگا.گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں.اصول جنگ سے واقفیت رکھنے والے جرنیل اسلام" کے ان بلند بانگ دعاوی سے کسی قدر منتخب ہوئے.مگر پھر دل کو سمجھایا اور امیر شریعت کی ہر زبان مبارک سے لکھتے ہوئے کلمات کے حرف بحرف پورا ہونے کی دُعائیں کرتے ہوئے گھر واپس آئے.رمضان مبارک کا مہینہ تھا.جمعتہ الوداع کو تاریخ مقدمہ تھی.جلسوں اور اخبارات کے ذریعہ انہیں کی گئی کہ لوگ کثرت کے ساتھ جمعتہ الوداع کے موقع پر گورداسپور پہنچیں اور اپنے مجاہد کی شان و شوکت کے اظہار کے لئے زبردست مظاہر کریں.بہاولپور سے مقدمہ بہاولپور کے بیانات کی نقلیں لیکر جامعہ عباسیہ کے ایک پر و فیسر صاحب بھی آئے.چونکہ خاکسار اُن کا شاگرد رہ چکا تھا اس لئے وہ مجھے بھی اپنے ہمراہ گورداسپور لے گئے.تاریخ مذکورہ محترمی جناب.تواجہ غلام نبی صاحب ایڈیٹر الفضل نے بطور گواہ پیش ہونا تھا.چونکہ وقت بہت تھوڑا تھا اور ابھی اعتراضات کا مستورہ پوری طرح تیار نہیں ہوا تھا.اس لئے کرایہ پر لائے ہوئے علماء کرام کو کہا گیا کہ رات کے اندر اندر سورہ مکمل کر دیا جائے.خاکسار نے بھی اختر انسات کے جمع کرانے میں اپنی قدر و طاقت کے مطابق حصہ لیا.غرض رات بھر بیدار رہ کر اعتراضات کا مسودہ تیار کر لیا گیا.گار غفلت شعار وکیل نے شستی کی اور وہ مسودہ کا مطالعہ نہ کرسکا.اس لئے دوسرے دن مجسٹریٹ کی عدالت میں گواہ پر وہ اعتراضات نہ ہو سکے اور آئیں بائیں

Page 378

سلام سلام میں وقت ختم ہو گیا.جمعتہ الوداع کے عظیم الشان اجتماع پر لوگوں سے امیر شریعت تسلیم کرنے کی بیعت لی گئی جس کی ضرورت ان الفاظ میں بیان کی گئی کہ خلیفہ محمود اپنے مریدوں کے بل بوتے پر سرکار کو مرعوب کئے ہوئے ہے تم بھی میرے مرید بن سجاؤ.تاکہ میں اپنے آپ کو عدالت میں ممتاز صورت میں پیش کر سکوں.یہاں صرف دستی بیعت کر جاؤ.گھر جاکر خدا کی راہ میں تین پیسے (نر) کی قربانی کر کے بذریعہ کارڈ بیعت کی اطلاع بھیج دینا.بڑے زور شور سے بار بار اس کے لئے وعدے لئے گئے.وعدہ وفائی کے اجر اور بے وفائی کے زجر کا زبر دست وعظ کیا گیا.چونکہ خاکسار کو امیر شریعت کی ہمراہی کا پہلی دفعہ اتفاق ہوا تھا.اس لئے اپنے آپکو سعادت مند سمجھتے ہوئے شہیدہ کے بود مانند دیدہ کے خیال سے اس موقع سے متمتع ہونے کا ارادہ کیا.تا کہ اشتغال امیر کو حرز جان بن کر ان پر عمل کرنے کی سعادت حاصل کی جائے.آنکھوں نے کچھ دیکھا.دل نے جو عقیدت کے پر پہنچے جال میں اسیر ہو چکا تھا.آنکھوں کو دھو کا خوردہ قرار دیا اور وجد کے عالم میں جھوم جھوم کر گانے لگا.ہے بجے سجادہ رنگیں کن گرت پیر مغاں گوید کہ سالک بے خبر نبود به راه و رسم منزال ها بعد فراغت کسی قدر تذبذب کی حالت میں واپس لاہور آیا اور تحر یک احرار کے نتائج کا بڑی بے صبری کے ساتھ انتظار کرنے لگا.امیر شریعت کے بلند بانگ دعاوی ایک خاص اُمید کے ساتھ اخبارات کے کالم دیکھنے پر مجبور کرتے.نظریں عاشق بے تاب کی طرح جو اپنے گم شدہ محبوب کی تلاش میں نہایت بے صبری کے ساتھ جلدی جلدی نظر جما جما کر ادھر اُدھر مجنونانہ وار یکھتا ہے اسلام کی فتح اور گھر کی شکست کی خبریں تلاش کرتیں.مگر یہاں کوئی ہوئی تو نظر آتی.بڑے بڑے زبر دست قادیانیت شکن ، عنوان میراند طبل بلند بانگ کا نظارہ - آخر ایک پریشانی اور اضطراب کے عالم میں يَنْقَلِبُ اِلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِ وَهُوَ حَسِیره کی حالت طاری ہو کر آئندہ کی اُمید میں اخبار کا ورق ہاتھ سے گر پڑتا.اور لَا تَقْنَطُو مِنْ رَحْمَةِ الله کی یاد پریشانی کو مستقل به مسترت کر دیتی.

Page 379

۳۳ راس اثناء میں ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ دفاتر پنجاب یونیورسٹی کے احاطہ میں ایک مسجد تھی جس میں اِدھر اُدھر سے احمدی جمع ہو کر نماز جمعہ ادا کرتے تھے.دفاتر کے غیر احمدی ملازمین نے احرار کے شور و غوغا سے متاثر ہو کر انجمن کے دفتر میں ایک آدمی بھیجا کہ جمعہ پڑھانے کے لئے ہمیں ایک آدمی دیا جائے جو احمدیت کے عقائد کی تردید بھی کر سکے.اور ساتھ ہی چند آدمی جمعہ کے موقعہ پر ہمراہ لے آئے.تاکہ احمدی اگر فساد کرنا چاہیں تو موقعہ پر کام آئیں.چنانچہ خاکسار حسب تجویز جمعہ پڑھانے کے لئے گیا.احمار کی جب جمعہ پڑھنے کے لئے آئے تو وہ خاموش ہو کر سامنے بجھے گراسی پلاٹ میں چلے گئے.اور انتظار کرنے لگے کہ جب غیر احمدی جمعہ پڑھ لیں تو پھر ہم بھی مسجد میں پڑھ لیں گے.لیکن اختتام جمعہ کے بعد بعض شرارت پسند ملازمین نے کہا کہ مولوی صاحب! ابھی احمدی با ہر انتظار میں بیٹھے ہیں اس لئے آپ وحفظ شروع کر دیں تاکہ وہ نا امید ہو کر پہلے جائیں.چنانچہ ایسا ہی کیا گیا.غرض اِس طرح متواتر خاکسار جمعہ پڑھا نے سہاتا رہا.اور اس طرح احمدیوں کو وہاں جمعہ پڑھانے سے روک دیا گیا.لیکن اس کا ایک اثر یہ ہوا کہ چونکہ شما کسار کو ہر جمعہ تقریرہ کرنی پڑتی اور راہ ہدایت کی بڑے زور شور سے تلقین کی جاتی مگر آہستہ آہستہ اندر ہی اندر ضمیر نے ملامت کرنی شروع کی.آخر کار حالت یہانتک پہنچی کہ تقریر کرتے کرتے آیا یهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ ، كَبُرَ مَقْتًا عِندَ اللهِ أَن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ ، کا مضمون آنکھوں کے سامنے پھرنے لگتا.اور عالم اضطراب میں تقریر رک جاتی اور ایک لفظ تک کہنا محال ہو جاتا.اس حالت کو دوسے بھی محسوس کرتے اور کہتے آپ پہلے تو بہت اچھی تقریر کرتے تھے مگر اب یہ کیا رکاوٹ ہیں! ہو جاتی ہے.اس اثر کے پیش نظر خدا کسار نے عملی حالت کے شدھار کی جانب توجہ کی مگر اس دشوار گزار وادی میں داخل ہوتے ہی گھبراہٹ اور اضطراپنے قدم پکڑ لئے اور ایک قدم آگے بڑھانا محال ہو گیا دہریت کے خیالات مردار خوار گروہ کی طرح سر پر منڈلانے لگے.اپنی طاقت اور رسائی کے مطابق اپنے ہم عقیدہ بدرقہ اور رہنما کی تلاش کی مگر ہر طرف سے یہی جواب آیا کہ اس پر فتن زمانہ کے شرور سے محفوظ رہنے کیلئے اولیاء الل نے کنج گمنامی اختیار کرلیا ہے.ایک احمدی دوست نے مشورہ دیا کہ چنا شروط ان ملک صلاح الدي صاحب اکیر.اسے مراد ہیں.دن قبل ؟

Page 380

کے ساتھ حضرت امیر المومنین کی خدمت اقدس میں دعا کے لئے عریضہ تحریر کرو چنانچہ اسکی تجویز کردہ شرائط کے ساتھ گو وہ خاکسار کو نا پسند تھیں ایک عریضہ حضور کی خدمت میں تحریر کر دیا.جس کا جواب سیکرٹری صاحب کی طرف سے یہ آیا کہ حضور نے بعد ملاحظہ عریضہ ارشاد فرمایا ہے کہ یہ طریق نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے اور نہ ہمارا.اس کے لئے آپ کسی اور کو تلاش کریں ، یہ جواب پاکر ایک زبر دست نکتہ سمجھ میں آیا مگر اس کے ساتھ اپنی باقیمتی پر رنج بھی ہوا.کیونکہ بعض قسمت والوں کی خطا بھی اُن کی سعادت اور کامیابی کا موجب بن جاتی ہے.اگرچہ یہ جواب بعد میں ایک زبردست پیشگوئی ثابت ہوا.کیونکہ آسمان پر ان شرائط کے خلاف فیصلہ ہو چکا تھا جیسا کہ بعد میں ظہور میں آیا.اگر دعاء کی جاتی تو اسکے یہ معنے ہوتے کہ خدا کے بندوں کی دُعائیں تعوذ باللہ لغو بھی ہوتی ہیں.انہی دنوں خاکسار نے تعلیم کو ملتوی کر کے لاہور میں ایک متوسط درجہ کا ہوٹل جاری کیا.انتظامی نقص کی وجہ سے قریباً ہزار روپیہ بندہ پر قرض ہو گیا اور سارہ پاک مجبورا اس کو بند کرنا پڑا.اس طرح مزید پریشانی کا ایک اور سبب پیدا ہوگیا.ادھر یہ حالات رونماتھے اور مسجد شہید گنج کا شاخسانہ مشروع ہو گیا.اصحاب فیل کی طرح احرا کی تمام کوششیں هباء منثورا ہوگئیں.اتنی عزت کے بعد یکلخت انتہائی ذلت.آنکھیں رکھنے والوں کیلئے سرمہ عبرت ثابت ہوئی.کہاں احمدیت کو فنا کرنے کے دعاوی اور کہاں یہ انتہائی ناکامی سمجھنے والے اس راز کو سمجھ گئے.احترا نے لاکھ ہاتھ پاؤں مارے گر ہوا یہی جس کا فیصلہ ہو چکا تھا.ہر مین کیا مگہ بگڑی بات بنائے نہ بنی.صاف سامان نظر آنے لگا.قادر کے کاروبار نمودار ہو گئے کا فر جو کہتے تھے وہ گرفتار ہو گئے جب جماعت احمدیہ کے سالانہ اجتماع شراء کی تیاریاں شروع ہوئیں اور اشتہارات کے ذریعے تاریخ اتفاق کا اعلان کیا گیا تو مذکورہ بالا احمدی دوسری نے خاکسار کو بھی اس مبارک تقریب سے مستفید ہونے کی ترغیب دی.چنانچہ جلسہ میں شامل ہونے کیلئے تاریخ مقرہ پر خاکسار قادریان پہنچ گیا.جلسہ کی کارگزاری دعاوں کے رقت انگیز نظارے حضور کی پر اثر تقریری اور عیدالاضحیہ کا پر معارف خطبہ ایسے امور نہ تھے جو متلاشی مینی کیلئے کفایت نہ کرتے.دل میں صداقت کا اور چمکا اور بعداز نماز ظهر مسجد مبارک میں حضور کے دست مبارک پر گذشتہ گنا ہوں سے توب اور آئندہ دو سے بنے کی کوشش کا اقرار کرتے ہوئے جماعت احمدیہ میں شمولیت کی سعادت حاصل کی.بلے ے پر یکم جنوری شام کا دین تھا.ین اصل خط محفوظ ہے

Page 381

Pra چوتھا باب عالمگیر جنگ کے خوفناک کار ایسے بچنے کیلئے دعاؤں خاص تحریک سے لیکر احیا شرعیت سینے پر بلال اعلان تک ۲ خلافت ثانیہ کا پولیوائی سال شوال ۱۳۵۵ تا شوال ۱۳۵۶ جنوری ۱۹۳۷ دسمبر ۶۱۹۳۷ فصل اول ۳۷ دایہ کا آغاز جمعہ کے مبارک دن سے ہوا.اس روز سیدنا حضرت حضرت امیر المومنین کا نئے سال اور امیرا يرالمومنين خليفة السيح الثانی نے اپنے پر معارف خطبہ جمعہ میں جماعت کے لئے اہم پیغام احمدیہ کے نام ایک اہم پیغام دیا جس میں حضور نے فرمایا :- جماعت احمدیہ کا فرض ہے کہ وہ قرآن کریم کے تمام مطالب اور اس کی تمام تعلیمات کو زندہ کرے خواہ وہ مذہب اور عقیدہ کے متعلق ہوں یا اخلاق کے متعلق ہوں یا اصول نندن اور سیاسیا کے متعلق ہوں یا اقتصادیات اور معاملات کے متعلق ہوں.کیونکہ دنیا ان سارے امور کے لئے پیاسی ہے اور بغیر اس معرفت کے پانی کے وہ زندہ نہیں رہ سکتی.خدا نے اسی موت کو دیکھ کر اپنا مامور بھیجا ہے اور وہ امید رکھتا ہے کہ اس مامور کی جماعت زندگی کے ہر شعبہ میں اسلامی تعلیم کو قائم کرے گی اور جس حد تک اسے عمل کرنے کا موقعہ ہے وہ خود عمل کرے گی اور جن امور پر اُسے

Page 382

ابھی قبضہ اور تصرف حاصل نہیں اُن کو اپنے اختیار میں لانے کی سعی اور کوشش کرے گی.یاد رکھو کہ سیاسیات اور اقتصادیات اور تمدنی امور حکومت کے ساتھ وابستہ ہیں.پس جب تک ہم اپنے نظام کو مضبوط نہ کریں....ہم اسلام کی ساری تعلیموں کو جاری نہیں کر سکتے ہیں اس پر خوش مت ہو کہ تلوار سے جہاد آجکل جائز نہیں یا یہ کہ دینی لڑائیاں بند کر دی گئی ہیں.لڑائیاں بند نہیں کی گئیں.لڑائی کا طریقہ بدلا گیا ہے.اور شاید موجودہ طریقہ پہلے طریق سے زیادہ مشکل ہے کیونکہ تلوار سے ملک کا فتح کرنا آسان ہے.لیکن دلیل سے دل کا فتح کرنامشکل ہے.نہیں آرام سے مت بیٹھو کہ تمہاری منزل بہت دور ہے اور تمہارا کام بہت مشکل ہے اور تمہاری ذمہ داریاں بہت بھار کیا ہیں.آپ لوگوں کو خدا تعالے کا حکم ہے کہ قسمہ آن کی تلوار لے کر دنیا کی تمام حکومتوں پر ایک ہی وقت میں حملہ کر دیں اور یا اس میدان میں بھان دے دیں یا ان ملکون کو خدا اور اس کے رسول کے لئے فتح کریں.اس چھوٹی پھوٹی باتوں کی طرف مت دیکھو اور اپنے مقصود کو اپنی نظروں کے سامنے رکھو اور ہر احمدی خواہ کسی شعبہ زندگی میں اپنے آپ کو مشغول پاتا ہو.اس کو اپنی کوششوں اور مستیوں کا مرجع صرف ایک ہی نقطہ رکھنا چاہیئے کہ اُس نے دنیا کو اسلام کے لئے فتح کرنا ہے" ہے ایک خوفناک عالمگیر جنگ کی خبر اور اعہ کا زمانہ سیاسی اعتبارست پوری دنیا کے لئے سخت سیاسی خلفشار اور تشویش و اضطراب کا زمانہ سمجھا جاتا ہے.جماعت احمدیہ دکھاوں کی خاص تحریک صفت در اورد لیگ آف نیشنز کا بین الاقوامی ادارہ اپنے مقصد کی تکمیل میں ناکام ہوچکا تھا.جرمنی، اٹلی اور جاپان دنیا بھر میں چھا جانے کا خواب دیکھ رہے تھے.ان حالات میں سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے جماعت احمدیہ کو قبل از وقت انتباہ بھی کیا اور دعاؤں کی خاص تحریک بھی کی بچنا نچہ حضور نے در جینوری علیہ کے خطبہ جمعہ میں جانی سیاسیات کا بجائزہ لیتے ہوئے فرمایا :- " اس زمانہ میں پھر دنیا میں شدید تغیرات پیدا ہو رہے ہیں اور عنقریب شدید لڑائی لڑی جانے والی ہے جو انگریزوں اور جرمنوں کی گذشتہ جنگ سے بھی سخت ہوگی.یہ اس وقت تک اس وجہ سے لرکی ہوئی ہے کہ انگریز ابھی تیار نہیں....حالات ایسے ہیں کہ انگریز اس جنگ سے باہر نہیں رہ سکتے.اه " الفصل " درجنوری ۱۹۳۷ء صفحه ۲۵۴

Page 383

چین اور افغانستان وغیرہ ممالک ممکن ہے بچ جائیں مگر انگلستان کا ان اثرات سے محفوظ رہنا محال ہے.اس لئے دوستوں کو خصوصیت سے دعائیں کرنی چاہئیں کہ آئندہ جو سامان لڑائی یا فتنہ کے ہوں.اللہ تعالیٰ ہمارے لئے اور ہمارے ساتھ تعلق رکھنے والی اقوام کے لئے ان سے بچنے کے سامان بھی کر دے.بے شک تم مسولینی کی طرح گھونسہ نہیں دکھا سکتے.ہٹلر کی طرح تلوار نہیں چپکا سکتے مگر دعائیں تو کر سکتے ہو اور پھر اپنے آپ کو منظم کر سکتے ہو کیونکہ منظم قوم کو ہر ایک اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرتا ہے.اس میں شبہ نہیں کہ انگریزوں کے بعض افراد سے ہمیں شکوہ ہے اور جب تک ازالہ نہ ہو جائے وہ دور نہیں ہو سکتا.مگر اس میں بھی شبہ نہیں کہ انگریز قوم کے ساتھ ہمارے تعلقات ایسے ہیں کہ اس کی تباہی کے بعد ہم نقصان سے نہیں بچ سکتے.اس لئے یہ بھی دعا کرنی چاہئیے کہ اسد تعالی انگریزوں کو ایسے رستہ پر چلائے جو انہیں تباہی کی طرف نہ لے جانے والا ہو." اے فرانس نے شام کے بعض علاقے (اسکندرون وغیرہ) ترکی سے سہتھیا لئے ہوئے ترکی اور فرانس کا تنازعہ تھے ترکینے یصلہ کیا کہ اگر فرنس اس کے علاقے واپس نہیں کرے گا، یا لیگ آفت بیشتر کی معرفت کوئی مناسب سمجھوتہ نہ ہوا تو ہم بزور شمشیر علاقے لے لیں گے.سید نا حضرت خلیفتہ اہسیح الثانی نے اس مرحلہ پر ترکی حکومت سے اپنی ہمدردیوں کا اظہار کرتے ہوئے اعلان فرمایا :- ترک ایک ایسی قوم ہے جس نے اسلام کے کئی پہلوؤں کو ترک کر دیا ہے مگر باوجود اس کے لا الہ الا اللہ کی صدائیں اب بھی اُن کی مسجدوں سے آتی ہیں.اب بھی اُن کی نمازوں میں خدا تعالیٰ کا کلام پڑھا جاتا ہے.اب بھی وہ سُبْحَانَ اللهِ ، اَلْحَمْدُ لِلَّهِ ، إِنْشَاء الله اور لا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ الا اللہ کہتے ہیں.اگر بعض باتوں میں وہ غلطی پر ہیں تو اسلام کی بعض باتوں پر وہ نائم بھی ہیں.اس لئے اُن کے دکھوں کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے.تمام اختلافات کے باوجود یہ ہو نہیں سکتا کہ ترک دُکھ میں ہوں اور ایک مسلمان کہلانے والا تکلیف محسوس نہ کرے.اس لئے ہمیں یہ بھی دعا کرنی چاہیے کہ اگر تورک بہر حال لڑائی پر ہی آمادہ ہوں تو اللہ تعالے اُن کی مدد کرے اور انہیں طاقت دے.ان کی مثال یورپین حکومتوں میں ایسی ہی ہے جیسے بنتیں دانتوں میں زبان کی اور ایک بالشتئے کی جو پہلوان سے لڑائی پر آمادہ ہو.اس لئے ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالئے اول تو اُن کو لڑائی سے بچائے اور اگر وہ له " الفضل ۲۳ جنوری ۱۹۳ صفحه ۲۰۶

Page 384

MNA لڑائی پر ہی آمدہ ہوں تو اُن کی مدد کرے.ایک فرانسیسی محمد رسول اللہ کا منکر ہے اور ٹرک قائل بے شک ترک کی حکومت سے عمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پوری حکومت قائم نہ ہو لیکن ادھوری حکومت بھی بالکل نہ ہونے سے بہتر ہے.پس ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ اگر لڑائی سے انہیں نقصان پہنچنا ہو تو اللہ تعالے اس سے اُن کو بچا لے اور اگر اسی طرح ان کے حقوق حاصل ہو سکتے ہوں تو انہیں ہمت دے.اور نہیں تو ہم اُن کی دُعا سے تو مدد کر سکتے ہیں.اس کے علاوہ ضرورت کے موقعہ پر چندے وغیرہ بھی دے سکتے ہیں ، سٹہ ہمیں ترکوں کے لئے بھی دعا کرنی چاہیئے.آخر وہ اسلام کے نام لیوا ہیں.اگر لڑتا ان کے لئے مضر ہو.تو اللہ تعالے انہیں لڑائی سے بچالے اور اگر مفید ہو تو اُن کے ہاتھوں میں طاقت وقوت عطا کرے.اور اُن کے دشمنوں کے ہاتھوں کو شل کر دے تا یہ بہادر قوم جو سینکڑوں سال سے مسیحی دنیا کے تعصب کا شکار ہو رہی ہے.اسلام کے نام کی وجہ سے مصیبت میں مبتلا نہ ہو نہ سکے اللہ تعالیٰ نے حضرت خلیفہ ایسیح الثانی کی دُعا کو شرف قبولیت بخشا اور مخالف حالات کے با وجود اس علاقہ کے متعلق تمر کی اور فرانس میں معاہدہ ہو گیا کہ اسے ایک خود مختار حکومت کی تیثیت سے داخلی امور میں کابل آزادی دی جائے گی.سیہ سنسکرت سیکھنے کے بعد مولوی ناصرالدین عبداللہ صاحب آفت بگول جامعہ احمد مولوی ناصرالدین عبداللہ صاحب کی واپسی کے فارغ التحصیل مولوی فاضل تھے.ایک بار اُن کے سامنے کسی آرید نے احمدی مبلغین سے یہ مطالبہ کیا کہ تم پہلے وید پڑھ کر سناؤ.پھر آریہ دھرم پر اعتراض کرو.اس پر انہوں نے مصمم ارادہ کر لیا کہ جس طرح بھی ہو یا تو دید پڑھنے کی قابلیت حاصل کروں گا یا اسی راہ میں جان دے دوں گا مولوی صاحب موصوفت یہ عزم کر کے بنارس گئے پہلے ہندی سیکھی.پھوڈیڑھ سال میں پر کھتی اور مد عماد و امتحان دیئے.پہلے امتحان میں سب سے اول آئے اور دوسرے میں سیکنڈ ڈویژن لے کر پاس ہوئے.گویا صرف تین برس میں ہندی بھی سیکھی اور ساتھ ہی سنسکرت کے تینوں امتحان کلکتہ یونیورسٹی سے پاس کر کے کا یہ تیرتھ کی سند حاصل کی.اس کے بعد شنل یونیورسٹی بنارس میں جس کا نام و دریا پیٹھ ہے دیدک کا ا " الفصل " ۲۳ جنوری ۱۹۳۷ ده صفحه ۷-۲۸ "افضل" ۳۱ جنوری ۹۳ ه صفحه ۰۹ سة "الفضل" وارجون ۱۹۳۷ صفحه ۲ کالم ۱+ +1

Page 385

۳۴۹ لڑ پر پڑھنے کے لئے داخل ہوئے اور مزید تین سال پنڈت کردر دیو شاستری وید شرومنی سے پڑھ کر " دید بھوشن کی سند حاصل کی.اس کے بعد اپنے طور پر ویدک دھرم کا بہت سالٹ پھر مثلاً براہمن گرنتھ ، دھرم سوتر ، ثروت شوتر ، اور دھرم شاستر وغیرہ پڑھا.اور ستیارتھ پرکاش ہم اسمول اس کے جواب میں آسمانی پر کاش"، "وید مقدس اور قرآن کریم دو کتابیں لکھیں مولوی صاحب موصوف ساڑھے سات سال تک محنت شاقہ کرتے رہتے اور آخر سنسکرت کی اعلی ڈگریا حاصل کر کے مئی ماہ میں قادیان واپس تشریف لے آئے ہے حضرت امیرالمؤمنین خلیفہ اسیح الثانی نے مولوی صاحب کے اس جذبہ ایمانی اور خدمت دینی کی بہت تعریف کی اور فرمایا :- انہوں نے اپنے ہم عمروں اور ہمجولیوں کے لئے ایک نہایت ہی عمدہ مثال قائم کی ہے.اگر ہمارے دوسرے نوجوان بھی اس بات کو مد نظر رکھیں کہ آرام طلبی اور باتیں بنانے سے کچھ نہیں بنتا بلکہ کام کرنے سے حقیقی عزت حاصل ہوتی ہے.تو میں سمجھتا ہوں کہ ہماری جماعت میں مختلف زبانوں کے ماہر نہایت سہولت کے ساتھ نہیتا ہو سکتے ہیں" کے اس ضمن میں مزید فرمایا :- یکیں جماعت کے نوجوانوں کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ جو جوش اور ولولہ مولوی عبداللہ صاحب نے سنسکرت کی تعلیم کے حصول کے لئے دکھایا ہے، اُسے وہ بھی اپنے اندر پیدا کریں.پھر میں یہ دعا بھی کرتا ہوں کہ مولوی عبد اللہ صاحب نے نہایت کمزور صحت کی حالت میں جو تعلیم حاصل کی ہے وہ دوسروں کے لئے بھی مفید ہو اور صدقہ جاریہ کا کام دے.“ شہ مولوی ناصرالدین عبد اللہ صاحب سالہا سال تک جامعہ احمدیہ کی سنسکرت کلاس کو پڑھاتے رہے.اور آخر اور دسمبر کار کو انتقال فرما گئے شہ مٹی عنہ کو شکار پور (سندھ) میں شدید سند و مسلم فساد رو نما ہو ایرانی شکار پور سندھ میں فساد کیا.فساد کی وجہ یہ ہوئی کر بعض ہندوؤں نے ایک مسجد میں گھس کر له وسه " الفصل " ، مئی ۱۹۳۷ء سے " الفضل " م مئی ۳۷ہ صفحہ اکالم ۲ : که شه تقریر فرموده ، ارجون ۱۹۳۶ مطبوعہ الفضل " ۲۳ جون ۱۹۳۷ صفحه ۴ : + "الفضل " ۲۴ جنوری ۱۹۴۸ئه صفحه ۴ *

Page 386

۳۵۰ قرآن کریم کے اوراق جلا دیئے چونکہ ہندوؤں کا یہ فعل سخت اشتعال انگیز تھا اس لئے فرقہ دار فساد کی آگ بھڑک اٹھی بھیس میں ایک ہندو ہلاک اور متعدد مجروح ہوئے حضرت امیرالمومنین خلیفہ اسیح الثانی نے جو ان دنوں نید یا آب ہوا کی غرض سے کراچی میں تشریف رکھتے تھے، اس فساد کے متعلق مفصل بیان دیا جس میں فرمایا کہ اس قسم کے حادثات ہر سوسائٹی کے لئے خواہ اس کا معیار تمدن کچھ بھی ہو ، سخت افسوس ناک ہیں.اگر کسی ہندو نے قرآن کریم کو بلایا ہے تو یہ بہت رنجیدہ امر ہے لیکن اگر کوئی مسلمان فرقہ دار فساد بر پا کرنے کی غرض سے ایسی حرکت کا ارتکاب کرتا تو یہ اور بھی زیادہ قابل مذقمت بات ہوتی.اس قسم کے فرقه دار تصادم کو بنظر غور دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے حالات میں ایک عجیب تطابق پایا جاتا ہے اور یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ ایسے تمام واقعات کی نہر میں ایک ہی نفسیاتی کیفیت کام کر رہی ہے.بنا بریں اس مرض کا علاج معلوم کرنا چنداں مشکل نہیں.بیان جاری رکھتے ہوئے حضور نے فرمایا :- ایک مذہبی انسان کی حیثیت سے میرے نزدیک سب سے اہم چیز اس مسئلہ کا اخلاقی پہلو ہے.اگر سینڈ اور سلم عوام پر یہ بات پوری طرح واضح کر دی جائے کہ اس قسم کے جرم کا ارتکاب افراد ہی کرتے ہیں اور اگر بعض حالات میں سزا کی ضرورت محسوس ہو تو بجرم کا ارتکاب کرنے والا ہی سزا کا مستحق سمجھا جائے نہ کہ اس کی قوم کے سارے افراد، تو مجھے یقین ہے کہ اس قسم کے فسادات میں بہت کچھ کمی واقع ہو جائے گی.اس طرح قدرتی طور پر ایک طرف مجرمانہ ذہنیت رکھنے والوں کو جو لوگوں کو برانگیختہ کر کے فسادات بر پا کرنے کے درپے رہتے ہیں.اپنی مفسدانہ حرکات کا موقعہ نہ ملے گا اور دوسری طرف عوام زیادہ ہشیار اور بیدار ہو جائیں گے اور سجائے اس کے کہ جرم کا ارتکاب کرنے والے کے ہم مذہبوں کے خلاف اپنے جوش ناراضگی کا اظہار کر کے اپنے آپ کو تسکین دیں ، وہ حقیقی مجرم کی تلاش کی طرف زیادہ توجہ دیں گے لے " الفضل ۲۵ مئی ۹۳ ایر صفحه ۱-۲ *

Page 387

۳۵۵۱ فصل دوم مولانا عبدالرحمن صاح فاضل ان صاحہ میں ایک عرص سے قادیان کے پرانے قبرستان کا مقدمہ چل رہا تھا.اور جوان کی اسیری اور رہائی کوشن جی گورداسپور نے اس کا فیصلہ سنایا.جس میں مولانا عبدالرحمن صاحب مدرس مدرسہ احمدیہ کو چار ماہ قید سخت یا ایک سور و پیر جرمانہ کی سزادی مولانا صاحب نے جرمانہ ادا کرنے کی بجائے جیل خانہ میں جانے کو ترجیح دی اور آپ قید کر دیئے گئے.مگر و جولائی سائرہ کو جب جرمانہ بذریعہ قرقی وصول کر دیا گیا تو آپ اسی روز جیل سے رہا ہو کر ساڑھے پانچ بجے شام کی ٹرین سے قادیان گئے جہاں سید نا حضرت خلیفہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ اور دوسرے احباب جماعت نے آپ کا استقبال کیا ہے سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے مولانا صاحب کی اس قربانی کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا :- میرے نزدیک ہماری جماعت میں ہی نہیں بلکہ ہندوستان میں یہ پہلا موقعہ ہے کہ اس حالت کے خلاف پروٹسٹ کرتے ہوئے جو بد قسمتی سے نظام حکومت میں پیدا ہو گئی ہے ، ہماری جماعت کا ایک خروجی خانہ گیا.میں نے اس بات کو مد نظر رکھ کر قبرستان کے مقدمہ میں جو ملزم تھے، ان کو مشورہ دیا تھا کہ اگر بطور منرا جرمانہ ہو تو ادا نہ کریں اور قید قبول کریں.ہاں اگر حکام خود جرمانہ لے لیں تو اور بات ہے.خدا تعالیٰ کے منشا کے ماتحت باقی سارے ملزمین تو رہا ہو گئے اور صرف مولوی عبدالرحمن صاحب باقی رہ گئے جن کو موقعہ مل گیا کہ جیل میں پہلے جائیں.....رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کی خواہشات سے منع فرمایا ہے.اس لئے ہم یہ تو نہیں کہیں گے کہ احمدی جیل خانہ میں جائیں لیکن یہ بنا دینا چاہتے ہیں کہ اگر موقعہ ملے تو ڈرتا نہیں چاہیئے.اور میں سمجھتا ہوں کہ نقش ثانی بہتر ہو گا نقش اول سے.جوں جوں اُس کے موقعے پیش آتے رہیں بلا اپنی کسی خواہش اور تمنا کے جو کوئی مصیبت میں گھر جائے اُسے بجائے بزدلی دکھانے کے ایسی بہادری دکھانی چاہیئے کہ لوگ سمجھ لیں احمدی بزدل نہیں ہوتے.ایسے ہی موقعے جرات اور بہادری دکھانے کے ہوتے ہیں" سے " الفضل" در جون ۱۹۳۰ء صفحه ۲ کالم ۲ * له الفضل " ۱۱ جولائی ۱۳۷ از صفحه ۲ کالم ۲ * " سے " الفضل" ۳۱ جولائی ۹۳۷ہ صفحہ ۳-۴ :

Page 388

۳۵۲ اخبار احسان " (لاہور) نے اپنے ایک مفتر یانہ نوٹ میں یہ ادعا کیا تھا.کہ کھلا چیلنج قادیانی دعوی حب رسول میں بھوٹے ہیں.اس پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے اخبار احسان کو اخبالہ " احسان کو کھلا چیلنج دیا کہ اگر وہ سچے دل سے یہ سمجھتے ہیں کہ اُن کے دلوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہم سے زیادہ عزت ہے تو میں انہیں چیلنج کرتا ہوں کہ وہ اپنے علماء کو تیار کریں اور تراضی فریقین سے ایک تاریخ مقرر کر کے وہ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت پر مضامین لکھیں اور ایک مضمون رسول کریم صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عظمت پر نہیں بھی لکھوں گا.پھر دینی خود بخود دیکھ لے گی کہ اُن کے دس ہیں لکھے ہوئے رمضان میرے ایک مضمون کے مقابلہ میں کیا حقیقت رکھتے ہیں اور رسول کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل اور آپ کے محاسن میں بیان کرتا ہوں یا وہ مولوی بیان کرتے ہیں" سے اخیار " احسان“ اور اُن کے ہم مشرب علماء کو یہ چیلنج قبول کر کے مرد میدان بننے کی جرات نہ ہو سکی.گیسٹ ہاؤس کی تعمیر قادیان دارالامان میں پچھلے کئی سالوں سے نامور مسلمانوں اور حکومت کے افسروں کی آمد و رفت کا سلسلہ خاص طور پر جاری ہو گیا تھا.اس لئے حضرت امیر المومنین نے ، ہ مٹی سہ کو ہدایت فرمائی ، کہ آنے والے مہمانوں کے لئے ایک گیسٹ ہاؤس کا انتظام ہونا چاہیئے نیز فرمایا.فی الحال کسی نہ مایہ دار سے انجمن کی اراضی واقعہ دارالا نوار) میں عمارت تیار کرا کے اس کا کرایہ ادا کیا جائے اور جب انجمن کو ضرورت ہو تو یہ عمارت فک کرالی جائے کہ عمارت کے ابتدائی انتظام مکمل ہو گئے تو حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے گیسٹ ہاؤس کا سنگ بنیاد ۲ ستمبر شده کو رکھا.سگے گیسٹ ہاؤس سورہ کے شروع میں پایہ تکمیل کو پہنچ گیا.اس کی نگرانی کے فرائض بابو سراجدین صاحب معاون ناظر ضیافت اور سید سردار حسین شاہ صاحب افسر تعمیر صدرا نمین احمدیہ نے انجام دیئے ہے اور تعمیر عمارت کے لئے مندرجہ ذیل مخلصین نے قرض دیا.1.میاں اللہ رکھا صاحب ریٹائر ڈ ریلوے ڈرائیور وزیر آباد - ۲- چودھری بشارت علی صاحب پوسٹماسٹر جالندھر - - ماسٹر خیر الدین صاحب ہیڈ ماسٹر امراوتی ملک برار له الفضل ۲۰ اگست ۱۹۳۷ و صفحه ۱۴ کالم : : کے ریکارڈ صدر انجمین احمدیہ ۱۹۳۲ صفحه ۴ ۳ " الفضل " ستمبر یہ صفحہ ۲ کالم ۱ + کے ریکارڈ صدر انجمین احمدیہ قادیان ۱۹۳۷ از صفحه ۴۸ ایر شد ریکارڈ صدر انجمن " ۱۹۳۷ + احمدیہ قادیان ۱۹۳۸

Page 389

۳۵۳ فصل سوم مخالف احمدیت تحریکیں جو احراری شورش کے زمانہ میں بری طرح ناکام و نامر ایک اندرونی فتنہ کا خروج اور پسپا ہو چکی تھیں.۱۹۳۷ میں دوبارہ پور کی قوت وطاقت کے ساتھ جمع ہو گئیں اور انہوں نے قادیان میں ایک اندرونی فتنہ کھڑا کر کے براہ راست سلسلہ احمدیہ کے نظام خلافت پر حملہ کرنے کی کوشش کی.یہ ایک بہت بڑا دور ابنتظار تھا.جس میں کہ ، سٹہ اور ۳۵-۱۹۳۴ء میں اُٹھنے والے سب فتنے متحد ہوکر ایک نئی شکل میں جماعت احمدیہ کے خلاف برسر پیکار ہو گئے تھے.اسی فتنہ کا بانی اور اسکے اس اندرونی فتنہ کی بنیا د شیخ عبدالرحمن صاحب (سابق لالہ شنکر داس کے ذریعہ سے رکھی گئی.یہ صاحب مشاہرہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر کے داخل ابتدائی حالات احمدیت ہوئے اور جیسا کہ انہوں نے ۲۴ اگست ۱۹۳۵ کو حلفیہ شہادت دی.وہ حضر مسیح موعود علیہ السلام کی تقاریر و تحریرات اور جماعت احمدیہ کے متفقہ عقیدہ کے مطابق حضور کو دوسرے تمام نیوں کی طرح نبی یقین کرتے تھے.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نبوت سے متعلق شیخ صاحب موصوف کی حلفیہ شہادت مندرجہ ذیل ہے :- میں حضرت صاحب یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسّلام کے زمانہ کا احمدی ہوں یعنی شنشلہ میں بیعت کی تھی.میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اسی طرح کا نبی یقین کرتا تھا اور کرتا ہوں میں طرح خدا کے دیگر نبیوں اور رسولوں کو یقین کرتا ہوں.نفس نبوت میں میں نہ اس وقت کوئی فرق کرتا تھا اور نہ اب کرتا ہوں.لفظ استعارہ اور مجاتہ اس وقت میرے کانوں میں کبھی نہیں پڑے تھے.بعد میں حضور علیہ الصلوۃ واسلام کی کتب میں یہ الفاظ جن معنوں میں استعمال ہوتے ہوئے دیکھے ہیں وہ میرے عقیدہ کے منافی نہیں.ان معنوں میں میں اب بھی حضور علیہ الصلوۃ والسّلام کو علی سبیل المجاز ہی نبی سمجھتا ہوں یعنی بغیر شریعت جدید کے نبی اور نبی کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی بدولت اور حضور کی اطاعت میں فنا ہو کر حضور کا کامل بروز ہو کہ مقام نبوت کو حاصل کرنے والانبی.میرے اس عقیدہ کی بنیاد حضرت

Page 390

م ۳۵ میسیج موعود علیہ الصلوۃ والسّلام کی تقاریرہ و تحریرات اور جماعت احمدیہ کا متفقہ عقیدہ تھا.عبد الرحمن مصری ہیڈ ماسٹر مدرسہ احمدیہ ۱۲۴ اگست سره ملف " شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کی حلیفہ شہادت کا عکس میں حضرت حاسب نینی خوت بین دو و میلاد الطوری کسی کی زبانه کانونی است نے 20 سپر بیعت کی تھی سی خوف ہے اور علم العلوم کو ہم کو سی بی کا نیا پیش کرتا تھا اور کرتا ہوں مطرح خدا و دیگر بنیوں اور رسولوں کو یقین کرتا ہوکر نفس بہوت میں میں نہ اس وقت کوئی فرق کرتا تھا اور نہ اب کرتا ہو تلفظ استفاده اور جان ہونت کے کانوں میں لکھی نہیں پڑے تھے بعد میں حضور على المطورة واس نے کی کتب سر یہ الفاظ جن معنوں میرے لئے استمال ہوتے ہوتے اور کتے اسدے پر اپھا کے رہ رت سے عقیدہ کے نانی نہیں ان معنوں میںمیں آپ بھی طور علم العلوان مد سیم کو علی پہلی اعجاز ہائی سمجھتی ہوں کیپنی بغفر تربیت جدید کے بھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی بدولت اور خود کی اطاعت میں فنا تصویر چطور جا می ملی برن ہو کر مقام نبوت کو حاصل کر ہی ایرانی سیر اس عقیدہ کی بنیاد خو تاسیح موعود علیہ العلورا واسعے کی شکار پر مقدماتی اور جماعت احمدیہ کا نتفق عقیدہ تھا.زلمی - عبد الرحمان کوی پیوٹر وسیم احمد به تم که ۲۴ راشت هیرونی !

Page 391

۳۵۵ ۲۶ جولائی ان کو شیخ صاحب حضرت سیدنا محمود کی ذاتی جد و جہد اور آپ کی تحریک انصار اللہ " کے خرچ پر حصول تعلیم کے لئے مصر بھیجے گئے.مصر میں قیام کے عرصہ میں حضرت خلیفہ المسیح الاول نے شیخ صاحب کو ایک مکتوب میں یہ تحریر فرمایا کہ "تمہیں وہاں سے کسی شخص سے قرآن پڑھنے کی ضرورت نہیں جب تم واپس قادیان آؤ گے تو ہمارا علم قرآن پہلے سے بھی انشاء اللہ تعالیٰ بڑھا ہوا ہوگا.اور اگر ہم نہ ہوئے تو میاں محمود سے قرآن پڑھ لینا لاد ازین تو شیخ صاحب بھی اس یقین پر قائم تھے کہ حضرت خلیفہ المسیح الاول " کے بعد پوری جماعت میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمد احمد صاحب ہی کی مقدس شخصیت ہر اعتبار سے ممتاز و منفرد حیثیت رکھتی ہے.چنانچہ انہوں نے قیام مصر کے دوران حضرت سیدنا محمود کے حضور ایک مکتوب میں لکھا کہ - جس طرف حضرت خلیفہ مسیح یا آپ مجھے لگائیں گے میں تو وہی کام کروں گا.میں نے اپنا معامہ اپنی مرضی پر نہیں رکھا ہوا.دین اسلام کی خدمت کرنا میری غرض ہے.اس غرض کے مناسب کام کو تجویز کرنا میں نے اپنی عقل اور فکر پر نہیں چھوڑا ہوا بلکہ آپ کے سپرد ہے کیونکہ میں کامل یقین پر پہنچا ہوا ہوں ہمیں کام پہ آپ لگائیں گے وہ دینی خدمت ہے.دین کا جوش اور غم جو آپ کو ہے اور کسی کو نہیں اور نہ ہی میں آپ کے سوا کسی کو اس کا اہل پاتا ہوں.اس لئے میں نے آپ کے ساتھ مل کر کام کرنا ہے اور جہانتک میری مقدرت میں ہے انشاء اللہ تعالئے آپ کا ہاتھ بٹاؤں گا.میں نے مدرسہ احمدیہ میں اس واسطے کام نہیں شروع کیا تھا کہ روپیہ کماؤں بلکہ ایک دینی خدمت تھی اور یہ دیتی خدمت بھی تب تک ہی دینی خدمت ہے جب تک کہ آپ کا وجود باجود اس مدرسہ میں ہے کیونکہ یہ تو ظاہر ہے کہ اگر آپ کا تعلق اس مدرسہ سے نہو تو کیا امین اس مدرسہ کی طرف توجہ کرلے گی جیسی کہ اب کرتی ہے.انجمین کو تو اس مدرسہ کی ضرورت ہی نہیں محسوس ہوتی.یہ تو آپ کی وجہ سے قائم ہے اور اگر آپ کسی وجہ سے اپنا تعلق اس سے ہٹائیں اور اسی غرض کو کسی اور ذریعہ سے پورا کرنا چاہیں تو پھر کیا میں اس حالت میں جبکہ پانچ سال کے لئے اپنے آپ کو قید میں ڈال چکا ہوں گا ، اپنے آپ کو آپ کی خدمت میں پیش کر سکتا ہوں اور آپ کے ساتھ مل کر کام کر سکتا ه به خط " الفضل " یکم اپریل ۱۹۱۲ صفحہ ۲۱ کالم میں شائع شدہ ہے.

Page 392

۳۵۶ ہوں.باقی رہا یہ کہ انہیں اس صورت میں مدد دینے سے انکار کر دے گی، تو پھر میں تو انجمن کے حکم سے یہاں آیا نہیں اور نہ انجمن کے لئے یہ سفر میں نے اختیار کیا ہے اور نہ انہین کے لئے علم پڑھ رہا ہوں.71.شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کے مکتوب کا چیر پہ بلکہ جطرف خوت خلیفة الح را آپ مجھے لگا ئینگے میں تو وہی کام کرونگا نے اپنا معاملہ اپنی مرضی پر نہیں دو کھا ہوا دین اسلام کی خدمت کرنا میری عرض سے اس عرضی پر مناسب کام کو پر کرنا ہے آپنی عقل اور فکر پر نہیں چھوڑا ہوا بلکہ آئے سپر ھے کیونکہ میں کامل یقین پر پہنچا ہوا ہوں جس کام پر آپ لگا کہیئے وہ دینی خدمت سے دین کا جوشی اور غم جو آپکو ہے اور کسی کو نہیں اور نہیں میں ان کے کی صور کسی کو اسکا اصل پاتا ہوں اسلئے میں نے جو آپکے ساتھ مل کر کام کرنا ہے اور جہانتک میری مقدرت میں ہے انشاء اللہ تعالٰی آپکا کا نہ بتاؤنگا مدرسہ احمدیہ میں اور اسے کام ہو شروع کیا تھا کہ روسیہ کماؤں بلکہ ایک دینی خدمت تھی دی بجو اور یہ دنئی خدمت بھی تب تک ہی دہی خدمت ه جنیک که آینده وجوده با وجود اس مدرسہ میں ھے کیونکہ یہ تو ظاہر ہے کہ اگر آپکا تعلق اس مدرسہ سے نہ ہو تو کیا انجمن اس ادویہ کی طرف اسی طرح کوم گی جیسی کہ اب کرتی ہے انجمن کو تو اس دل کی ضرورت ہی نہیں محسوس ہوتی ہو تو آپکی وجہ سے قائم ہے اور اگر آپ کی وجہ سے اپنا تعلق ابھی سے ہے ہیں اور اسی غرض کو کسی اور ذریعہ سے پورا کرنا چاہیں تو پھر د میں اس حالت میں جبکہ پانچ سال کے لئے آپنے آپکو قید سے ڈال چکا ہونگے آنے آپ کو آپکی خدمت میں پیش کر سته سوگ

Page 393

۳۵۷ اور اسکے سایہ ملکر کام کر سکتا ہوں باقی رہا یہ عبدالحمين الصورت میں مدد دینے سے انکار کرد یکی تو پھر سی تو انجمن مرحکم سے یہاں آپا ہیں اور نہ انجمن کے لئے ہر سفر نے اختیار کار ھے اور نہ انجمن کے لئے علم پڑھ رہا ہوں شیخ صاحب موصوف مصر میں ہی تھے کہ ۱۳ مارچ شیخ مصری صاحب کی سبعیت خلافت ثانیه الا ان الاول من الان انتقال فرما گئے اور کار مارچ نہ کو خلافت ثانیہ کا قیام عمل میں آیا جس پر شیخ صاحب نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی خدمت میں مندرجہ ذیل بیعیت نامہ لکھا :- " بسم الله الرحمن الرحیم تحمدہ ونصلی لئے رسولہ الکریم و البر مع التسليم سیدی و مرشدی ! السّلام علیکم ورحمتہ اللہ وبركاته ہمارے پیارے محسن خلیفہ المسیح الاوّل کی وفاۃ کا صدمہ جو احمدی قوم کے دلوں پر ہوا وہ تو واقعی بیان سے باہر ہے خصوصاً ہم دور افتادوں کے لئے تو ہمیشہ افسوس ہی رہے گا کہ پھر زندگی میں زیارت بھی نصیب نہ ہوئی.سوائے انا للہ وانا الیہ راجعون کے کیا کہ سکتے ہیں.اللهم اعلیٰ مقامه واكرم مثواه والحقه بالرفيق الأعلى أمين.اللہ تعالیٰ ہم سب کو فتنہ سے محفوظ رکھے اور قوم کو اپنے محض فضل وکرم سے اپنی پناہ میں لے کر اس ابتلا سے پار اُتار دے جو کہ بعض نادانوں نے قوم کے راستے میں لاڈالا ہے.اللہ تعالے آپ کے عہد کو مبارک عہد ثابت کرے اور انہی نصرتوں اور رحمتوں اور برکتوں کا عہد ہو.آمین.آپ کے دشمنوں کو ذلیل اور خوار کرے اور آپ کو کا میابی کے اگلی اوج پر پہنچائے میں اس امر کے اظہار سے رک نہیں سکتا کہ واقعی اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے اور اپنی خاص عنایت سے یہ خلعت خلافت آپ کو پہنائی ہے ورنہ دشمنوں نے تو ناخنوں تک زور لگایا تھا کہ کسی طرح یہ ٹل سجا دے.ان کی مدت مدید کی کوششوں کو خدا نے ملیا میٹ کر دیا.اور آخر خدائی زاده ای غائب آیا.بھلا خالق کے آگے خلق کی کیا پیش جاتی ہے.اللہ کریم ہمیشہ فتح اور نصرة

Page 394

۳۵۸ اور کامیابی کو آپ کا حلیف بنا دیوے ، آمین.میں اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس وقت کے آنے سے پہلے ہی میرے دل میں آپ کے ساتھ ایسی ہی ارادتمندی ڈال دی تھی جس کا آج میں کھلے طور پر اظہار کرتا ہوں نہیں نے آپ کی فرمانبرداری کو پہلے سے ہی اپنا شعار بنایا ہوا تھا.اللہ تعالے مجھے اس پہ تا موت قائم رکھے.اور میں بیعت کا اقرار آپ کے ہاتھ پر آج کرنے لگا ہوں ، اللہ تعالے اس پر استقامت عطا فرمادے اور وفاداری کے اعلیٰ مقام پر پہنچا دے.امید ہے کہ عاجز کی بیعت کو قبولیت کا شرف بخشیں گے.بیعت کے الفاظ کو یہاں دوسرا دیتا ہوں...الخ " عکس بعیت نامه شیخ عبدالرحمن صاحب مصری ہم اللہ الرحمن الرحیم محمد الفل ملے وہ انکر نے والد سے استسلام سیدی و مرشدی با اسلام علیکم ورحمة الله وبركاته ، ہمارے پیارے محسن خلیفہ در مسیح الاول کی وفات کا صدمہ جو محمدی قوم کے دلوں پر ہیواوے تو واقعی بیان کے با ہر ھے خصوصاً ہم دور افتادوں کے لئے تو ہمیشہ افسونس بہی رہیگا که پھر زندگی میں زیارت ہی نصیب نہ ہوئی ہوے انا للہ وانا الیہ راحیوں کے کیا کہہ سکتے ہیں اللهم اعلی مقامه واكرم مشوره والحقه بالرفيق الد على آسين ؟ ا لله تعالی ہم سبکو فتنہ سے محفوظ رکھے اور قوم کو اپنے محض فضل محرم اپنی پناہ میں لیکر اس ابتلا ولے پار اتار دے جو کہ بعض دانوں نے قوم کے راستے میں لاڈ لانے اسے تعالٰی آپکے عہد کو مبارک عید ثابت کرے اور الہی نفرتوں اور رحمتوں اور برکتوں کا عہد ہو زمین و آپ کے دشمنوں کو ڈیل بعد خوار کرے اور کیو کا میابی کے ابھی آوج پر پہنچائے.

Page 395

۳۵۹ نہیں اس اور کے اظہار سے اک نہیں سکتا کہ واقعی اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل درام سے اور اپنی خاص عنایت سے یہ خلقت خلافت آپکو پہنائی ہے ورنہ دشمنوں نے تو ناخنوں تک زور لگایا تھا کہ کسی طرت پر ٹل جاوے انکی مدت مدید کی کوششوں کو خدا نے ملیا میٹ کر دیا اور خر خدائی ارادہ ہی غالب آیا پھیلا خالق کے آگے خلق کی کچھ پیشین جاتی ھے است کر بھی ہمیشہ فتح اور نفرت اور کامیابی کو اپنا حلیف بنا دہوئے اپنے میں اللہ تعالٰی کا لاکھ لاکھ شکر کرتا ہوں کہ اللہ تعالٰی نے اسوقت کے آنے سے پہلے ہی سر و ل میں آپکے ساہتیہ ایسی ہی ارادتمندی ڈال دی تھی جسکا آج میں کھلے طور کے اظہار کرتا ہوں.ہے تو یکی فرمانبردار ہی کو پہلے سے ہی اپنات کا ربنا با یاد تھا اللہ تعالی ہی مجھے اس پر تا مدت قائم رکھے اور جن بہت کا اقرار آپ کے ہاتہم پر.آج کرنے لگا ہوں اللہ تعالی اس پر استقامت عطافرما دی اور وفاداران کے اعلی مقام پر نیا است ، سہوے کہ ماجر کی بیعت کو قبولیت کا خروت عطا زندگی بہت کم الفاظ کو یہاں دو ہرا دیتا ہوں اشہد ان لا اله الا الله واشهد ان محمدا عبده ورسوله

Page 396

اشهد ان لا الہ الا اللہ واشہد ان محمد عبده درسونه آج میں سلسلہ احمدیہ میں محمود کے ہاتہ ہر تمام کرتا ہوں سے توبہ کرتا ہوں اور خدا کی توفیق سے آئندہ بھی ہر قسم کے گنا ہوں سے بچنے کی کوشش کرونگا شرک نہیں کرونگا و بن کو دینا پر مقدم رکھونگا اسلام کے تمام احکام بجالا نیکی کوشش کرونگا جو تم نیک کام بتلاؤ گے انہیں شماری ، طاعت کرونگا ول النحضرت صل اللہ علیہ وسلم کو خاتم البنين مانو نگاہ (۲) مسیح موعود کے تمام دعاوی پر دل و جان سے ایمان رکھونگا (۳) اسی لئے اسلام میں حتی الوسع کو نشان رہونگا استغفر الله ربي من كل ذنب واتوب الله استغفر اللہ ربی میں کل یونیت و اتوب الیہ ، رب انی ظلمت نفسي ظلما مشيراً واعترفت بذنبي فاغفر لي ذنوبي أنه لا يغفر الذنوب الا انت 40 میرے رب نے اپنی جان پر ظلم کیا اور بہت ظلم کیا میں اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہوں تیرے سوا کوئی گناہ نہیں بخش سکتا تو میرے گناہوں کو مستبدے آمین + پر الفا تا ہے الفضل سے نقل کرتے ہیں اگر ان کے علاوہ کچھ اور بھی ہو تو اسمیں شامل ھے اور میں اسکا اقرار کرتا ہوں اللہ تھا ان سیب کو پورا کر نیکی توفیق دے وما توفیقی الا با الله ای پیارے آنا اور بیشک اسوقت آپکے مشاغل و

Page 397

میت میرا ھو گئے ہیں مگر ہم نمازوں کو مت بھلا کیسے اپنی یاد رکھا ہے کسے ضرور متجمیع فرمار تھے رہا کیجیئے کے تبلیغ کا سلسلہ جاری یا ایک آدمی بہت کچھ مان چکا ھے صرف اس بات پر اڑا ہوا ہے کہ میں قادیان میں خود جا کر دیا ہیں داخل ہونگا ہو ٹریکٹ مہ متعلق نیچے گذشتہ بھی کسی خط میں عرضی کہا تھا کہ اختبار والوں نے شائع نہیں کیا اگر اجازے ت فرما رہیں تو عام خود پر ایم کردی ہ وسے خروج اسوقت تک قریب پونڈ کے ہو چکا ہے ھے سوت ام المومنین اور دیگر امن بات کو سلام علیکم الرد عام سرد عارض مع در سالی خاکسمار شیخ عبد الرحمن ۱۹ء میں جب شیخ عبد الرحمن صاحب " مصری حضرت خلیفہ ایسی الثانی پرایمانی انسان بن کر اس نے ا و ر ی این دیانا مگر یہ ویا خبر دی گئی کہ شیخ صاحب کا خیال رکھنا یہ مرتد ہوجائیں گے چنانچہ اسی بناء پر حضور نے صدر انجین احمدیہ کو توجہ دلائی کہ ان کا خاص خیال رکھا جائے ہے نے اس خواب کے گواہ حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب کے علاوہ اڑیسہ کے ایک احمدی نیز ماسٹر چراغ الدین صاحب مدرس فارسی گورنمنٹ ہائی سکول قلعہ شیخو پورہ بھی تھے جنہوں نے 100ء میں خود حضور سے یہ خواب شنی "الفضل و نو بار منفی و کالم نیز الفصل یکم دسمبر دو صفحه ۳ کال ۳ سے تقریر سید نا حضرت خلیفة أسيح الثاني مطبو الفضل ، ۱۴ اگست او صفحه ۴ کالم ۰۲ +

Page 398

۳۶۲ مگر اس آسمانی انکشاف مجھے با وجود جس طرح حضرت مسیح موعود علی اسلام کو میر عباس علی صاحب سے متعلق اليام" أصلها ثابِتُ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ " کے ساتھ ان کے ارتداد کی یہ تو قبل اطلاع دی گئی، مگر حضور نے اُن سے اُس وقت تک اپنا مخلصانہ تعلق قائم رکھا جبتک کہ وہ خود کھلم کھلا معاندین سلسلہ کی صف میں نہیں چلے گئے.اسی طرح حضرت خلیفہ اسیح الثانی بھی شیخ صاحب کو سلسلہ سے وابستہ رکھنے کے لئے سلسلہ کی خدمات کے مواقع بہم پہنچاتے رہے حتی کہ دوسرے فرائض کے علاوہ ایک لمبے عرصہ تک مدرسہ احمدیہ کی ہیڈ ماسٹری بھی اُن کے سپرد رہی.مصری صاحب اور غیرم اس دوران میں انہوں نے بار بار اپنی تقریر وں اور تحریروں میں حضرت خلیفہ ایسیح الثانی کے خلیفہ برحق ہونے اور حضور کی برکت سے قادیان کے پاکیزہ اور روحانیت سے لبریز ماحول کی شہادت دی مثلاً ۹۲ار میں مولوی محمد علی صاحب ایم ، اے امیر احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کو مخاطب کرتے ہوئے کہا :- (1) قربان جاؤں اس موٹی کریم کے جس نے باوجود کسی اہم ضرورت کے پیش نہ آنے کے محض اپنے ایک پیارے کی جیسے اس نے اپنے ہاتھ سے خلیفہ بنایا عزت رکھنے اور اس کے مقابلہ میں اس کے دشمن رمولوی محمد علی صاحب کو اسے اس خالات اصول حملہ میں بھی ناکام و نامرادی کا منہ دکھانے کے لئے احمدی لٹریچر میں پہلے سے ہی سامان رکھ دیا ہوا ہے “ کے (ب) آپ حضرت مسیح موعود کے اس شعر کا غور سے مطالعہ کریں سے غرض رکتے نہیں ہرگز خدا کے کام بندوں سے بھلا خالق کے آگے معلق کی کچھ پیش جاتی ہے اور مجھیں کہ جس کو عدا عزت دیتا ہے اس کو بندے ہرگز نہیں گرا سکتے.پس آپ جو حضرت خلیفہ ہیں ثانی کی عزت کو گھٹانے میں ہمیشہ ناکامی کا منہ دیکھتے رہے ہیں اس سے آپ سمجھ لیں کہ یہ عزت خدا کی طرف سے ملی ہے اور مقابلہ سے توبہ کر کے حضور کے دامن سے وابستہ ہو جائیں.تاکہ آپ سے ترجمہ اس کی جڑ زمین میں محکم ہے اور اس کی شاخیں آسمان تک پہنچی ہیں" (مکتوبات احمدیہ جلد اول صفحہ ۴ ، متذکره طبع دوم صفحه ۲۰ و ۱۲۲ + ے مکتوبات احمدیہ جلد اول صفحه 1 64, 64, a سے " الفضل" ۲۷ فروری و ۲ مارچ ۸۱۹۲۲ صفحه ۳ +

Page 399

بھی ان برکات سے حصہ لے سکیں جو حضور کے شامل حال ہیں" له اسی طرح انہوں نے ۹۳۵ہ میں قادیان کے ایک پبلک جلسہ میں لیکچر دیا کہ یاد رکھو دونیا میں ہر وہ قریہ جس میں کوئی نبی بھیجا جاتا ہے ام القریٰ ہوتا ہے.کیونکہ اور تمام لبستیوں نے اس کی چھاتیوں سے علم و عرفان کا دودھ پینا ہوتا ہے.پس قادیان میں بچوں کو بھیجنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ قادیان سلسلہ کا مرکز ہے اور اُسے خدا نے دنیا کے لئے ام القری قرار دیا ہے چونکہ ان بچوں نے قادیان رہ کر احمدیت کی چھاتیوں سے دودھ پیا ہو گا.اس لئے الا ماشاء اللہ ہر طالب علم بیرونی طالب علموں کے مقابلہ میں خدمت دین کے لئے زیادہ جوش و خروش رکھے گا.یہاں ماحول نہایت پاکیزہ ہے اور فضا دینی رنگ میں رنگین ہے.پھر یہاں جو طالب علم آتے ہیں وہ حضر امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی صحبت سے فیض حاصل کر سکتے ہیں حضور کے خطبات سُن سکتے ہیں.درسوں میں شامل ہو سکتے ہیں.دیگر ممالک میں جانے والے مبلغین کی روانگی اور آمد کی تقریبوں میں شریک ہوتے ہیں اور اس طرح اُن کے دلوں میں یہ جوش پیدا ہوتا ہے کہ وہ بھی قدرت سلسلہ کریں.یہ سب چیزیں باہر مفقود ہیں.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے صحابہ کی ایک کثیر جماعت یہاں موجود ہے.بیرونی جماعتوں میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ ہیں مگر وہ پھیلے ہوئے ہیں اور اُن سے رُوحانی فوائد حاصل کرنا مشکل ہے.مگر قادیان میں مجموعی طور پر ایک ایسی جماعت موجود ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھا اور آپ سے براہِ راست فیضان حاصل کیا.پس جو طالب علم یہاں آئیں گے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ سے بھی فائدہ اُٹھا سکتے ہیں " سے یہ طویل اقتباسات نقل کرنے سے یہ بتانا مقصود ہے کہ مصری عقیدمیں مصری صاحب کے بنیادی عقید میں تبدیلی ایک ایسے شخص کی نسبت جو سر سے ۱۹۳۵ء تک حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے کے منجانب اللہ خلعت خلافت عطا کئے جانے اور قادیان کے پاکیزہ اور بعد انما ماتقول کا چرچا کرتا آرہا ہو کسی کے واہمہ میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ وہ خلیفہ وقت اور مرکز سلسلہ سے برگشتہ ہو سکتا ہے.مگر فدائی نوشتے پورے ہو کر رہتے ہیں.آخر وہی ہوا جس کی خبر حضرت خلیفہ اسیح الثانی کو یہ میں " الفضل " ۲ جون ۱۹۳۶ و صفحه ۵ کالم ۲-۳ : " الفضل " ۲۱ دسمبر ۱۹۲۳

Page 400

" دی گئی تھی یعنی مصری صاحب پر میکایک یہ راز کھلا کہ انبیاء اور مشائخ کی وفات کے بعد صرف پہلا خلیفہ ہی مخدائی انتخاب ہوتا ہے.باقی منتخب شدہ خلفاء آیتہ استخلاف کے ماتحت نہیں آتے اور متنازعہ فیہ خلافت پہلی خلافت نہیں ہے بلکہ دوسری خلافت ہے اور اس لئے یہ آیتہ استخلاف کے ماتحت نہیں آسکتی اور جب یہ اه خلافت آیت استخلات کے ماتحت نہیں ہوتی تو اس کا انتخاب بھی اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا ہے ا، ۱۹۳ء مصری صاحب کے سب و شتم اس نظریہ پر بنیاد رکھ کر انہوں نے ۱۰ ، ۱۴ اور ۲۲ جون عامر کو سیدنا صادرک تم اس حضرت خلیفہ اسیح الثانی کو سب وشتم سے بھرے ہوئے پے در پے تین سے لبریز تین خطوط خطوط لکھے جن میں دیگر ناشائستہ اور نا علائم باتوں کے ساتھ یہ بھی لکھا کہ میں آپ سے الگ ہو سکتا ہوں لیکن جماعت سے علیحدہ نہیں ہو سکتا کہ کہ بدعات سے علیحدگی ہلاکت بھی موجب ہونے کی وجہ سے ممنوع ہے اور چونکہ دنیا میں کوئی ایسی جماعت نہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسّلام کے لائے ہوئے صحیح عقائد و تعلیم پرت تم ہو بجز اس جماعت کے جس نے آپ خلیفہ تسلیم کیا ہوا ہے اس لئے میں دو راہوں میں سے ایک کو ہی اختیار کر سکتا ہوں.یا تو میں سماعت کو آپ کی صحیح حالت سے آگاہ کر کے آپ کو خلافت سے معزول کرا کر نئے خلیفہ کا انتخاب کراؤں.اور یہ راہ پر از خطرات ہے اور یا جماعت میں آپ کے ساتھ مل کر اس طرح رہوں جس طرح میں نے اُوپر بیان کیا ہے" پس اگر آپ تو بہ کرنے کے لئے تیار نہیں تو مجھے آپ اپنی بیعت سے علیحدہ سمجھ لیں کیونکہ میں ایسے آدمی کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ نہیں دے سکتا.....ہاں....میں جماعت کا باقاعدہ فرد ہوں.سماعت سے میں الگ نہیں ہو سکتا.آپ کی بیعت کا جوا اپنی گردن سے اُتارنے کی یہ بھی وجہ ہے کہ میں آزاد ہو کر جماعت کو دوسرے خلیفہ کے انتخاب کی طرفت معلوہ توجہ دلا سکوں اگر آپ اس تو یہ پر راضی ہوں تو میں آپ کا خادم ہوں اور انشاء اللہ تعالے رہوں گا.ورنہ جیسا کہ میں نے اُوپر ذکر کیا ہے.ہمیں آپ کے ساتھ قطعا نہیں رہ سکتا.سے سے پمفلٹ " کیا تمام خلیفے خدا ہی بناتا ہے صفحہ ۲ (از شیخ عبدالرحمن صاحب مصری) کے پمفلٹ " جماعت کو خطاب " صفحه ۲ (از شیخ عبد الرحمن صاحب مصری )

Page 401

۳۶۵ ح خلیفہ ایسیح الثانی کا حضرت خلیفہ الی الان یا اللہ تعالی عنہ نے مصری صاحب کی بیٹیوں کا مندی ذیل جواب ارسال فرمایا :- ایمان افروز جواب اعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنَصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمُ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ مکرم شیخ صاحب السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ آپ کے تین خط ملے.پہلے خواہ کا مضمون اس قدر گندہ اور گالیوں سے پر تھا کہ اس کے بعد آپ کی نسبت یہ خیال کرنا کہ آپ بیعت میں شامل ہیں اور جماعت احمدیہ میں داخل ہیں بالکل مفادات عقل تھا.پس میں اس فکر میں تھا کہ آپ کو توجہ دلاؤں کہ آپ خدا تعالٰی سے استخارہ کریں کہ اس عرصہ میں آپ کا دوسرا حفظ ملاحبس میں فخر الدین ملتانی صاحب کی طرف سے معافی نامہ بھجوانے کا ذکر تھا.میں اس معافی نامہ کی انتظار میں رہا مگر وہ ایک غلطی کی وجہ سے میری نظر سے نہیں گذرا.اور کل دس گیارہ بجے ے اس خط کا پہلا ہی فقرہ یہ تھا کہ " الفتْنَةُ نَائِمَةُ لَعَنَ اللهُ مَنْ القَطهَا ، یعنی فقہ سو رہا ہے خدا کی لعنت ہو اس پر جو جگاتا ہے.اس فقرہ میں فتنہ کو جگانے والے کے الفاظ میں حضر سے خلیفہ ایسیح الثانی کی طرف اشارہ تھا.پر جو شخص خط کو شروع ہی لعنت سے کرتا ہے، اس کے پورے خط میں کیا مضمون ہوگا اس کا اندازہ کرنا چنداں مشکل نہیں ہے.ان صاحب کو سرت خلیق اسم النانی نے یا انہیں کے خلاف بد زبانی کرنے سے باریاں روکا مگر نہ صرف دہ باز نہ آئے بلکہ نام نما اور نظام سلسلہ کے خلاف اندر ہی اندر منافرت پھیلانا شروع کر دی تحقیقات پر تحریم ثابت ہوا، اور مشروع جنون کہ میں جماعت سے خارج کر دیئے گئے "اغتسل وجون 19 ، صفحہ (۱).لیکن اعلان اخراج کے بعد انہوں نے حضور کی خدمت میں اپنا معافی نامہ لکھا جو " الفضل " ۲۶ ستون مه صفحه ۳- م میں بھی شائع کر دیا گیا.اس معافی نامہ میں انہوں نے اپنی سرکشانہ لغزشوں اور بے بیا ۹۳۷۰ انہاہوں کا اقرار اور اپنے متمردانہ افعال پر ندامت و خجالت کا اظہار کرتے ہوئے غیروں سے تعلق رکھنے کو بے غیرتی اور دیونی قرار دیا اور لکھا کہ اُسے ایک رڈیا ہوا ہے جس میں اُسے بتایا گیا کہ وہ غلطی پر ہے اور اسے اپنے افعال شنیعہ سے تو یہ کرنی چاہئیے.یہ رویا اتنا واضح تھا کہ خود ان کے اقرار کے مطابق ان کی کایا پلٹ کر رکھ دی اور کبر و غرور توڑ دیا.اور شیخ قلب اور انشران صدر حاصل ہو گیا مگر اس رویا کے باد بود اور اللہ تعالے کی طرف سے متنبہ کئے جانے کے باو بو اور یہ سمجھنے کے باوجود کہ اس پاک سلسلہ کے علمبردار کے مقابلہ میں ناپاک مخالفین کی امداد کرنے والے کے ایمان اور دین پر نعت ہے.پھر بھی انہوں نے مصری صاحب سے گٹھ جوڑ کی وجہ سے ناپاک اور اشتعال انگیز اشتہاروں اور پمفلٹوں کا ایک طویل سلسلہ جاری کر دیا میں میں حضرت خلیفہ مسیح الثانی اور نظام سلسلہ کے غلات و بقیه حاشیہ اسکے مصقو بچہ ؟

Page 402

اس کا علم ہوا.اور اسی وقت ان کو اس کی اطلاع کر دی گئی.اس کے چند گھنٹہ بعد آپ کا تیسرا خط ملا کہ اگر چوبیس گھنٹہ تک آپ کی تسلی نہ کی گئی تو آپ جماعت سے علیحدہ ہو جائیں گے سوئیں اس کا جواب بعد استخارہ لکھ رہا ہوں کہ آپ کا جماعت سے علیحدہ ہونا بے معنی ہے جب سے آپ کے دل میں وہ گند پیدا ہوا ہے جو آپ نے اپنے خطوں میں لکھا ہے.آپ خدا تعالے کی نگاہ میں جماعت سے خاریج میں.خدا تعالیٰ اب بھی آپ کو توبہ کی توفیق دے.پھر جب سے آپ نے میرے خط میں ان خیالات کا اظہار کیا ہے.اسی وقت سے آپ جماعت سے میری انگاہ میں بھی الگ ہیں.لیکن اگر آپ کو میری تحریر کی ہی ضرورت ہے.تو میں آپ کو اطلاع دیتا ہوں کہ آپ خدا تعالیٰ کے نزدیک تو ان خیالات کے پیدا ہونے کے دن سے ہی جماعت احمدیہ سے خارج ہیں اور ان خطوط کے بعد جو حال میں آپ نے مجھے لکھے ہیں ہمیں بھی آپ کو جماعت سے خارج سمجھتا ہوں اور اس کا اعلان کرتا ہوں.آپ نے مجھے بہت سی دھمکیاں دی ہیں.میں ان کا جواب کچھ نہیں دیتا.میرا معاملہ خدا کے سپرد ہے اگر میں اُس کا بنایا ہوا خلیفہ ہوں.اگر وہ الہامات جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو میرے بارہ میں ہوئے ہیں اور وہ بیسیوں خوا ہیں جو اس بارہ میں مجھے آئی ہیں اور وہ سینکڑوں خواہیں جو دوسروں کو آئی ہیں درست ہیں تو خدا تعالے باوجود آپ کے ادعار شوخ و اثر کے آپ کو نا کام کرے گا.وَما توفيقي إلا الله العلي العظيم خاکسار مرزا محمد و احمد ) ۲۴ جون ۱۹۳۷ ) بقید حاشیه نفر گذشتہ مفروضہ مظالم کی داستانیں پھیلا کر ادیان اور اس کے ماحول میں خاص طور پر ایک خرنا مظالم اور اس ام کشیدگی کی فضا پیدا کردی.ملتانی صاحب نے انہیں دنوں ایک قلمی اشتہار " فحش کا مرکز " بورڈ پر چسپاں کیا جس میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی کو شرمناک گالیاں دی گئی تھیں.اس اشتہار سے مشتعل ہو کر قادیان کے ایک قلعی گرمیاں عزیز اتنی اگر تے کو ملتانی صاحب کہ چھا تو سے زخمی کر دیا اور جیسا کہ انہوں نے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ صاحب گورداسپور کی عدالت میں بیان دیا.اُن کی نیت قاتلانہ حملہ کی نہ تھی.بلکہ اس سے غرض یہ تھی کہ وہ ایسے گندے اشتہار شائع کرنے سے بازو یہ ہے (بقیہ اشیا گلے محمد پور حاشیه متعلق صفحه بلا سے افضل ۱۹۳۷ میں اکثر خود میں چھپ گئی تھیں جن کے پڑھنے سے خدا تعالیٰ کا حیرت انگیز تصرف " نظر آتا ہے کہ ان دنوں جبکہ مصری صاحب اپنے اخلاص و فدائیت کا بظا ہر نمونہ سمجھے جاتے تھے اور جماعت میں ان کو یہ جگہ عزت و احترام سے دیکھا جاتا تھا ، خدا تعالے کی طرف سے قبل از وقت بکثرت یا کھائی گئیں کہ مصری صاحب خلافت سے الگ ہونے والے " يفضل" ۲۶ جون ۱۹۳۰ء صفحه ۱ * ہیں کا i

Page 403

جماعت احمدیہ کے خلاف حضرت امیر المومنین خلیفة البیع الثانی کا یہ کتاب الفضل اور جوان الہ کے صفحہ پر شائع ہوا جس کے بعد مصری صاد بنے ، ہر جولائی ۹۷ہ کو اپنی جعلی نخود ساختہ اور نام نہاد امارت کا ڈھونگ رچ کر مصری صا کی شفق فرمینوں کی طرح ایک خفیہ تنظیم جماعت کے خلاف قائم کرلی جس کا ذکر حضرت مسیح موعود کے ایک الہام میں ملتا ہے که فریمی بین مسلط نہیں کئے جائیں گے تا اس کو ہلاک کریں.مصری صاحب نے خفیہ تنظیم کی تشکیل کے بعد مخالف اشتہاروں اور پوسٹروں کی وسیع پیمانہ پر اشاعت شروع کر دی.اس موقعہ سے دشمنانِ احمدیت نے خوب فائدہ اُٹھایا اور ہر رنگ میں مں ختنہ کی پشت پناہی کی بخصوصاً غیر مبائع اصحاب نے مصری صاحب کے عائد کردہ فحش اور ناپاک الزامات بقیه حاشیه شتر گذشته - لیکن بد قسمتی سے چاقو کا خم کاری ثابت ہوا، اور ملتانی صاحب ۱۳ اگست کو دارفانی سے کوچ کرگئے.شاہ دپیغام صلح مار است در صفحه ۱۰۰ اور میاں عزیز حمایتی گر بھی مچون حتہ کو پھانسی دے دیا گیا.میاں عزیز احمد کی نعش قادیا میں آئی تو اگرچہ حضور نے دوسروں کو اس کا جنازہ پڑھنے کی اجازت دے دی، مگر ساتھ ہی فرمایا :- اگر قانون اجازت دے تو شریعت اس میں ہرگز روک نہیں کیونکہ گنہ کے بعد اول توبہ دودم مرا دی یا قانونی اگیا اے تو ایسے شخص کا جنازہ پڑھنا منع نہیں ہے.ہاں چونکہ میاں عزیز احمد صاحب کا فعل یہ مہر حال گندہ ہے، جنازہ کی کوئی ایسی صورت پیدا نہیں ہونی چاہیئے کہ اُسے قومی رنگ دیا جائے " نا حاشیہ متعلقہ فخر ہذا "الحکم اکتوبر در صفحه "تذکره طبع دوم صفحه ۱۴۲۴ سے مصری صاحب اور ان کے ساتھی اوتھا تویہ کرتے تھے کہ وہ احمدی ہیں.مگر ان لوگوں کی احمدیت یعنی یہانتک پہنچ چکی تھی کہ فخرالدین صاحب ملتانی کی طرف سے احمدیت کے مخالف اخبار" "زمیندار" میں قادیان میں نیا امیرالمومنین منتخب کر لیا گیا خلیفہ بشر کو تخت سلطنت سے علیحدہ ہو جانے کا حکم " کے پورے صفحہ کے عنوان سے ایک لمبا تار شائع کر دیا کہ قادیان ۲۸ جولائی مجلس احمدیہ مرزائیوں کی اس جماعت کا نام ہے جنہوں نے قادیان کے موجودہ خلیفہ (موسیوبیشی کے ساتھ رشتہ وفا توڑ دیا ہے.اس جماعت نے ، جولائی کو ایک غیر معمولی اجلاس منعقد کر کے فیصلہ کیا کہ شیخ عبد الرحمن مصری امیر جماعت کی امارت کو جملہ ارکان نے قبول کر لیا ہے اس لئے اُن کے امیر ہونے کا اعلان کر دیا بھائے مجلس امیر جماعت کے اس مطالبہ کی تائید کرتی ہے کہ حضرت امیر نے مرزا بشیر کے خلاف جو اتر استان عائد کئے ہیں....ان کی جانچ پڑتال اور تفتیش کی غرض کے پیش نظر ایک آزاد کمیشن کا تقرر فی الفور عمل میں لے آیا جائے.اگر یہ الزامات صحیح ہوں تو.نیا خلیفہ منتخب کر لیا جائے.اور جب بعد یاد خلیفہ کا انتخاب اس میں آجائے تو میں امید کو توڑ دیا جائے.یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ جو حضرات خفیہ طور پر مجلس احمدیہ کے دائرہ رکنیت میں شامل ہوں ان کے اسماء گرامی صیغہ راز میں رکھے جائیں" د زمیندار مورخہ ۲۹ جولائی ۹۳۷ه کولله الفضل" جولائی صفر).اس تار کا خلاصہ بڑے طمطراق سے اخبار پیغام صلح ہور نے سر جولائی 2ء کے الیشوع میں بھی شائع کیا.

Page 404

کی تشہیر میں خاص طور پر حصہ لیا بلکہ پیغام صلح " مصری صاحب کے فتنہ کو ہوا دینے کے لئے تو وقف ہی ہوگیا.اگرچہ مشہور غیر مبالعین میں سے قریباً سب نے مصری صاحب مولوی محمد علی صاحب کی پشت پناہی کی ای می مانی کے راوی ابری با این موادی مد علی صاحب نے اخبار پیغام صلح " میں لمبے لمبے مکتوب شائع کئے جن میں ایک وہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی شان میں دل آزار طریق پر دل کھول کر حملے کئے اور دوسری طرف مصری صاحب کے تقدس اور شرافت بزرگی کا ڈھنڈورہ پیٹتے ہوئے ان کے اس تازہ کارنامے کی بیحد داد دی حتی کہ خلیفہ قادیان کی افسوسناک جسارتوں کا عبرت انگیز انجام “ ”میاں صاحب حسن بن صباح کے نقش قدم پڑ کے دوہرے عنوان سے لکھا.شیخ صاحب اس بارے میں واقعی مستحق مبارکبا د یں ہے پھر لکھا : پیر پرستی کے بت کو توڑنے والے ہماری ہمدردی کے مستحق ہے اخبار پیغام ملے" نے جہاں مصری صاحب کی نسبت یہ سرٹیفکیٹ دیا کہ ” اُن کا زہد وانتظار مسلمہ ہے وہاں مولوی محمد علی صاحب نے یہانتک لکھ ڈالا کہ شیخ نبی با من صاحب مصری مجھ سے ملے ہیں.بار بار ملتے رہتے ہیں بہت قریب رہے ہیں اور رہتے ہیں.میں نے اُن میں اس قدر شرافت دیکھی ہے جس کے نمونے دنیا میں کم نظر آتے ہیں“ شوته بطور نمونہ پیغام مسلح " کے صرف چند عنوانات ملاحظہ ہوں : "قادیانی خلیفہ محمد رسول اللہ صلعم کا بدترین دشمن ہے " قادیانی خلافت کے بازار تقدس میں کھوٹے سکے " ، "قل لا مظلوم نما " ، "قادیانی جذبہ خون آشامی کا نیا رخ " ، تخلیفہ قادیان کی تعلیاں اور اُن کے مریدوں کی اشتعال انگیزیاں (پیغام صلح" مورخہ ۱۳ اگست شرفی، ور اگست ۱۹۳۶ نفر ۱۸ اگست ۱۹۳۶ در صفحه ۳ ، ۳۰ را اگست ۱۹۳۷ صفحه ۳، ۸ اکتوبر ۳۷ و صفحه ۳ ) ، W ے پیغام مصلح در اگست و غیره کانم ماه ته پیغام صلح " ۱۸ اگست ۱۹۳۷ صفر ۱۵ که "پیغام صلح" ۲۱ تولائی ۹۳۷ نہ صفحہ ۳ کالم ۳۰ : هے "پیغام صلح " 4 اگست ۱۹۴۷ صفحه ۶ کالم لا ؟ نے یہاں یہ لکھنا ضروری ہے کہ مولوی محمد علی صاحب نے ایک بار خطبہ جمعہ میں یہ کہا کہ " قادیان میں جو کچھ خلیفہ صاحب کے متعلق کہا جاتا ہے بیو اندرونی الزامات خود مریدوں کی طرف سے شائع ہوئے ہیں، ہم نے کبھی ان کو شائع نہیں کیا پیغام صلح ۲۸ اپریل و صفحه اکالم مٹ ) یہ خطبہ شنکر خان بہا در میاں محمد صادق صاحب ریٹائرڈ ایس پی سابقی آنزیمہ کی جنرل سکر ڈی احمدیہ انجین اشاعت اسلام کا ہو ر نے مولوی صاحب موصوف کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا:- بقیه باشید اگلے صفحہ پر )

Page 405

۳۶۹ جناب مصری صاحب کی تعلیاں اس تفصیل سے یہ اندازہ کر نا شکل نہیں ہے کہ مصری صاحت نیا نہیں تھے بلکہ جناب مصری صاحب کی تعلمیاں سب مخالفین احمدیت خصوصاً غیر مبالعین ان کی پشت پر تھے.اسی لئے اور بلند بانگ دعاوی مصری صاحب کو بھی اپنے ہمدردوں اور مددگاروں کے بل بوتے پر یقین کامل تھا کہ جماعت احمدیہ کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کا وہ کام جو احرار سے نہ ہو سکا ان کے ہاتھوں ضرور سر انجام پا جائے گا.اور انہوں نے جماعت سے الگ ہوتے ہی بڑی بڑی تعلیان اور دعوے کرنا شروع کر دیئے چنانچہ کہا.مستریوں کے متعلق تو اس قسم کے عذر گھڑ لئے گئے تھے کہ اُن کے خلاف مقدمہ کا فیصلہ کیا تھا یا اُن کی لڑکی پر سوت کے لانے کا مشورہ دیا تھا.مگر یہاں اس قسم کا کوئی عذر بھی نہیں بن سکتا.اس کے اخلاص میں کوئی دھبہ نہیں لگایا جا سکتا.اس کی بات کو جماعت مستربوں کی طرح رو نہیں کرے گی.بلکہ اس پر اُسے کان دھرنا پڑے گا اور وہ ضرور دھرے گی “ سے اسی طرح لکھا :- اور مجھے اللہ تعالٰی کے فضلوں اور اس کے احسانوں سے کامل یقین ہے کہ وہ آپ کے مقابلہ میں میری ضرور مدد فرمانے گا اور وہ دن ضرور لائے گا جس میں اس تمام چھوٹے پراپیگنڈے کے پردے چاک کر دے گا.جو میرے خلاف کیا جا رہا ہے اور جماعت پر روشن کر دے گا کہ میں جو آپ کے خلاف اُٹھا ہوں محض نیک نیتی اور محض سندا تعالیٰ کے لئے اُٹھا ہوں.....یاد رکھیں اَلْحَقُّ يَعلُوا وَلا يُحلى وہ دن آئے گا اور انشاء اللہ ضرور آئے گا جب جماعت جَاءَ الْحَقُّ وَمَن هَقَ الْبَاطِلُ کہتی ہوئی اس حقیقت پر قائم ہو جائے گی بہو شریعت اسلامی نے خلفاء کے مقام اور ان کے اور امت کے اختیارات اور حقوق کے متعلق بتائی ہے اور یہ کہ آپ خلافت کے اہل نہیں اور حسین حقیقت کو آشکارا کرنے کے نے اللہ تعالٰی نے محض اپنے فضل و کرم سے مجھے کھڑا ہونے کی توفیق عطا فرمائی ہے تھے یقیه هاش صفر گذشتہ " آپ نے خلیفہ صاحب قادیان کے خلاف الزامات کی تشہیر میں ہمیشہ اخلاقی اور مالی مدد کی ہے.رقم تفصیل سے جو بارد حکیم عبد العزیز کو آپ کی طرف سے اس کام کے لئے دی جاتی رہی اس سے آپ خلفا کبھی انکار نہیں کر سکتے.اس کے مقابل اعلانات میں آپ جھوٹ بولتے ہیں کہ آپ نے کبھی ایسا نہیں کیا چنانچہ اسی پیغام صلح ۲۸۱ اپریل میں بھی آپ نے پھر وہی جھوٹ بولا ہے.کیا کسی منتقی اور شریف آدمی کے لئے مناسب ہے (رسالہ " فرقان " قادیان منی ۱۹۷۳ صفحه ۱۳۳ سلہ اشتہار ” جماعت کو خطاب" صفحه ۲ از شیخ عبد الرحمن صاحب مصری) کے پمفلٹ " بڑا بول صفویه که دارت تشیع عبد الرحمن صاحب مصری :

Page 406

پھر لکھا :- ۳۷۰ یمیں نے جو قدم اُٹھایا ہے محض خدا کے لئے اُٹھایا ہے اور جماعت کے اندر ایک بہت بڑا بیگار مشاہد کر کے جو بہت سے لوگوں کو دہریت کی طرف لے جاچکا ہے اور بہتوں کو لے جانے والا ہے.اس کی اصلاح کی ضرورت محسوس کر کے بلکہ اس کو ضروری بیان کر اُٹھایا ہے.میری آوازہ آج نہیں تو گل ، گل نہیں توپر سوں سنی جاوے گی.اور ضرور سُنی جاوے گی انشاء اللہ تعالے کیونکہ وہ آواز اپنے اندر حق رکھتی ہے اور حق کبھی دبایا نہیں جاسکتا.اس سے قبل بھی لوگ اُٹھے اور ناکام رہے لیکن مجھے اپنی کامیابی پر خدا تعالے کی مدد اور نصرت اور تائید کے ساتھ پورا یقین ہے کیونکہ میں اس کی ذات پر بھروسہ کر کے اسی کے پیارے مسیح موعود کی لائی ہوئی تعلیم اور اس کی بنائی ہوئی مقدس جماعت میں جو بگاڑ پیدا ہو کر اسے تباہی کے گڑھے کی طرف لے جانے والا ہے.اس کی اصلاح کے لئے کھڑا ہوا ہوں“ ر مصلح» بیسویں صدی کا یہ عجیب و غریب "مصلح " تھا جو کل تک عجیب و غریب اور نام نہاد سے غیر مسائلین کو " خوارج " کے نام سے موسوم کرتا آرہا تھا، اب خلافت ثانیہ سے وابستہ احمدیوں کو ان کے عقائد تعلیم کو صحیح مجھنے کے باوجود بھی خوارج قرار دینے اور اس کے کثیر حصہ کو دہریہ بھی ثابت کرنے لگا.بایں ہمہ مصری صاحب ایک طرف غیر مبائین سے ملے ہوئے سے پمفلٹ " جماعت احمدیہ کی خدمت میں ایک درہ مندانہ اپیل " مجھ ۲ (از شیخ عبد الرحمن صاحب مصری) نے شیخ مصری صاحب نے مولوی محمد علی صاحب کو خطاب کرتے ہوئے لکھا ” حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ایک گروہ خوارج کا نکلا.جس نے خلفاء کی بیعت کا یہ کہتے ہوئے کہ الطَّاعَةُ لِلَّهِ وَالْأَمْرُ شُورَى بَيْنَنَا انکار کر دیا اسی طرح آنجناب صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بروز کے بعد آپ نے اس کے خلیفہ کی بیعت سے یہی کہہ کر انکار کر دیا.والفضل ۱۳۰ جنوری ۱۹۲۳ صفحه ۱۹ اس عقیدہ کے برعکس مصری صاحب نے نظام خلافت سے بغاوت کے بعد ینگ اسلام " دیکم فروری سن از صفحه ۱۷ میں لکھا." میں اس بات کو دیکھ کی ہمیشہ دریائے حیرت میں فرق رہتا ہوں کہ کس طرح وہ جماعت جسے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام اپ نے بعد اس لئے چھوڑ گئے تھے کہ وہ اسلام کو از سر نو زندہ کرے....کس طرح بجائے حقیقی مسلمانوں کی اقتداء کرنے کے خوارج کے نقش قدم پر چل رہی ہے " ( اس تعلق میں مولانا سید احمد علی صاحب کا مضمون شائع شدہ فاروق " ع را پریل ر صفر و قابل مطالعہ ہے اور جیسا کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا " بہت ہی لطیف ہے" اور "جماعت کے دوستوں کو چاہیے کہ وہ حوالوں کو یاد رکھیں " " فاروق ۳۸ اپریل سنی اور صفحه ۸ کالم ۳۰ به

Page 407

تھے اور دوسری طرف خوارج “ اور ”دہریہ لوگوں سے نہ صرف خلیفہ وقت کے خلاف تحقیقاتی کمیشن بٹھانے کا مطالبہ کر رہے تھے بلکہ اُن کو انصاف کے ساتھ فیصل مسالہ کرنے کی بھی تلقین کر رہے تھے چنا نچھ انہوں نے اپنے پمفلٹ "جماعت کو خطاب “ کے صفحہ ہم پر لکھا :- دوستو اٹھو اور خون کی چادر اتار کر مومنانہ دلیری سے کام لیتے ہوئے تحقیق شروع کر دو خلیفہ کی بجاز کی اس میں قطعاً ضرورت نہیں بخلیفہ اور خاکسار کا مقدمہ جماعت کے سامنے پیش ہے.جماعت کا فرض ہے کہ وہ فریقین کے بیانات شنکر انصاف کے ساتھ اپنا فیصلہ دے“ مصری صاحب نے اپنے ناپاک مقاصد کی تکمیل کے لئے الزام مصری صاحب کیا کیا کیا کیا کہ ان سے جانے نہیں دیا حتی کہ انہوں نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے خلاف اعانت قتل تک کے مقدمات اور استغاثے تک دائر کئے ہے پہلے ایک ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں مقدمہ دائر کیا جو خارج کر دیا گیا.پھر اس کی اپیل عدالت مشن میں کی.جسے عدالت کمشن نے بھی خارج کر دیا اور لکھا کہ مستغیث کو چونکہ مرزا صاحب سے دشمنی ہے اتنے عرصہ میں و چھوٹے گواہ تیار کر سکتا ہے.اس کے بعد انہوں نے استغاثہ مجسٹریٹ علاقہ کی عدالت میں دائر کیا جو وہ بھی خارج کر دیا گیا جبکہ مصری صاحب کی اشتعال انگیزیوں کے نتیجہ میں فریقین مصری صاحب کے مقدمات میں ارائی کی ضمانتیں ہوئیں مصری صاحب کے مقدمات میں واری اور غیر مبائع و کار کی امانت ہو خیر مبائی دکھا نے ان کی پوری پوری اعانت کی جھیا اور وکلاء که مولوی محمد علی صاحب امیر غیر مبائعین کے مندرجہ ذیل مکتوب سے ثابت ہے جو مولوی صاحب موصوف نے ڈلہوزی سے ۱۲۶ اگست ۱۹۳۷ء کو حافظ محمد حسن صاحب جیمیہ وکیل گجرات کے نام تحریر کیا.(مکتوب انگلے صفحہ پر ملاحظہ فرمائیں) ے اس مطالبہ کی شرعی حیثیت کے تعلق میں "افضل" مراگست 19 صفحہ 10-11 میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا ایک اہم مضمون قابل دید ہے.ہو 2 مقدمات کی روداد کے سلسلہ میں ملاحظہ ہو اخبار" الفضل نو میری ۹۳ فروری ۱۹۳۸ سے " الفصل ۱۸ مارچ ۳۰ صفحه ۵ کالم * +

Page 408

۳۷۲ Dar-us-Salam.DALHOUSIE 26.8.1937 اتویم کرم حافظ صاحب ہو چکی ہیں.اب ۲.السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبر کا بته آپ کو قادیان کے حالات کا کم و بیش علم تو ہوگا.شیخ عبد الرحمن صاحب مصری پر ضمانت کا مقدمہ ہے.یعنی دونوں طرف کے چار چار آدمیوں سے ضمانت طلب کی گئی ہے.اور دو پیشیاں ۲ ستمبر کو پیشی ہے.ان کا کام اس وقت احراری وکیل شریف حسین کر رہا ہے.ہماری جماعت کی طرف سے اگر ان کی امداد اس موقعہ پر ہو جائے تو نہایت موزوں ہے اگر در تاریخ کو بحث کی کارروائی کی امید ہوئی تو وہ آپ کے پاس اپنا کیس سمجھانے کے لئے یکم ستمبر کو پہنچ جائیں گے اور پھر آپ ۳ ستمبر کو ان کی پیشی کرائیں.یہ لوگ سخت بیکسی کی حالت میں ایک زبردست طاقت کا مقابلہ کر رہے ہیں اور ان پر جو ظلم ہوتا ہے اور تیس طرح ان پر عرصہ حیات تنگ کیا جارہا ہے.وہ خود آپ سے ملیں گے تو بیان کرینگے ان حالات میں ان مظلومین کی امداد کار ثواب ہے.جواب سے ہوا لیسی اطلاع دیں.و مولوی محمد علی صاحب کے اصل مکتوب کا چہر یہ اگلے صفحات پر دیا گیا ہے ) والسلام محمد علی نے اسماء مبا تعیین جن کی ضمانتیں طلب کی گئیں : حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب ، حضرت خالصائب مولوی فرزند علی افتاب حضرت میر محمد الحق صاحب ، مولانا ابو العطاء صاحب ، I

Page 409

۳۷۳ 193.7.193.مولوی محمد علی صاحب امیر غیر مبائین کے مکتوب کا چربہ Dar-.- Salan DALHOUSIE 268 تقدیم کرم سافر السري وارحم البه ورقات راب کرنا وبارنامه مالیات کا کم وبیش علم تو ہوگا شیخ عبد الحمر مورد سر امانت کا مقدمہ سیرین دورا کر موٹ کا چار چار تورد میوں کے حوانت علی کو گراست انگاکان الوقت اداری و میل شدید حمید گرد هم به بهاری ماست به حضرت دیگر تر رنگ به مادر است حالا میر بر پای تو مقامی موزونات اگر ۳ تاریخ کو (بقیہ حربہ اگلے صفحہ پر ملاحظہ فرمائیں )

Page 410

و بقیه چه به صفحه گذشته ) بت دهی بود داشت که بعیدی نی نموده ای پسر پاکشیر سمجھائے دئے ہیم حمید بحث ہے کر نیم و بیش 20 اور یہ آپ کا تم کو الگ پیشی به مرگ سخته بگیر هدایت میر و یک ز بر دوست عافیت کا متقابل علم دربر می پرسه جموع الشنا پر عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا دے خو دا پانی کے بین کریم ہے.ان حالات میران عفو بین - امداد کار ثواب امیر کر رہے بغیر اور ان پر نے جواب سے بوریسی ( 4 ) ار دولار

Page 411

۳۷۵ حضر خلیفہ اسیح الثانی کیلوں سے آرم مولوی عبدار کسی صاحب بصری نے خدا تعالی سے ہائی ہے عورت کو کس نے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کے خلاف عداوت اور شمنی کی حد کر دی مگر حضور ر شوکت حلفیہ بیان نے ان کی تسلی کے لیے سموں کا اعلان کر کے ان پر پرنگ میں وقت نام کردی چنانچہ حضور نے ۱۲ نومبر ۹۷ نر کے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا :- وہ مجھے کہتے ہیں کہ اگر وہ الزامات جو وہ مجھ پر لگاتے ہیں، جھوٹے ہیں تو میں مؤکد بعذاب قسم کھاؤں حالانکہ مستریوں کے مقابلہ میں بھی میں نے کہا تھا اور اب بھی میں کہتا ہوں کہ میرا یہ عقیدہ ہے کہ اس قسم کے امور کے لئے جن کے متعلق حدود مقرر ہیں اور گواہی کے خاص طریق بنائے گئے ہیں، قسموں وغیرہ کا مطالبہ جائز نہیں.بلکہ ایسے مطالبہ پر قسم کھانا بھی اس حکمت کو باطل کر دیتا ہے جس کے لئے خدا تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے ہاں جس پر الزام لگایا گیا ہو حضرت سیح موعود علیہ السلام کی تحریرات سے معلوم ہوتا ہے کہ اُسے اختیار ہے کہ جب وہ مناسب مجھے الزام لگانے والے کو مباہلہ کا چیلنج دے لیکن چونکہ وساوس و شبہات میں مبتلا رہنے والا انسان خیال کر سکتا ہے کہ شاید میں نے قسم سے بچنے کے لئے اس قسم کا عقیدہ تراش لیا ہے اس لیے کم سے کہ اس شخص کی تسلی کے لئے جو جانتا ہے کہ جھوٹی قسم کھا کر کوئی شخص اللہ تعالے کی گرفت سے بچ نہیں سکتا.یک کہتا ہوں کہ میں اس خدائے قدور و توانا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے اور جس کی چھوٹی قسم کھا کر شدید لعنتوں کا انسان مورد بن جاتا ہے کہ میرا یہ یقین ہے کہ قرآن کریم کی اس بارہ میں وہی تعلیم ہے جوئیں نے بیان کی ہے.اور اگر میں اس بات میں جھوٹا ہوں تو اللہ دینے کی مجھ پر لعنت ہو.ے یہاں حضرت خلیفت مسیح الثانی کی ایک رویا لکھنا مناسب ہوگا.حضور نے فرمایا." میں نے خواب میں دیکھا کہ مولوی عبد الامین صاحب مصری کا ذکر آیا ہے اور میرے دل میں ان کے لئے دعا کی تحریک بڑے زور سے ہوئی ہمیں اس وقت چار پائی پر قبلہ رخ بیٹھا تھا، فورا مجھے میں گر گیا اور نہایت عاجزانہ طور پر اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ انہیں ہدایت دے.اس دُعا کے بعد مجھے یقین ہو گیا کہ دعا قبول ہو گئی ہے.اس پر میں نے سجدہ سے سر اٹھایا اور میرے دل میں یقین تھا کہ اب شیخ صاحب کچھے ہوئے وہاں پہنچ گئے ہوں گے نہیں نے دائیں اور بائیں دیکھا لیکن وہ نظر نہیں آئے میں ٹہل رہا ہوں کہ اتنے میں شیخ صاحب وہاں آگئے اور عقیدت کے ساتھ مجھ سے مصافحہ کیا اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ تائب ہو گئے ہیں" (الفضل اور مارچ ۱۲ صفحه ۲ کالم ۱-۲ ) قطع نظر اس کے کہ اس خواب کی اصل تعبیر کیا ہے ، یہ حقیقت بالکل نمایاں ہے کہ حضرت امیرالمومنین خلیفہ اسیح الثانی کے قلب صافی میں مصری ص کے لیے زاتی طورپر ہمیشہ محبت کے جذبات موجزن رہے.ولعل الله يحدث بعد ذالك امراء * 4 * * *

Page 412

پھر ایک اور سوال ہے جو شیخ عبد الآمن مصری کی طرف سے کیا گیا تھا اور آج بھی کیا جارہا ہے کہ خلیفہ محزون ہو سکتا ہے اور وہ اس بناء پر مجھ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ تجھے خلافت سے الگ ہو جانا چاہیئے یا یہ کہ با ت کو چاہیے کہ مجھے اس عہدہ سے الگ کر دے.میں اس دعوی کے جواب میں بھی اسی قادر و توان خدا کی قسم کھاکر کہتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کام ہے کہ میرا یہ عقیدہ ہے کہ باوجود ایک سخت کمزور انسان ہونے کے مجھے خدا تعالیٰ نے ہی خلیفہ بنایا ہے اور میں اُسی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس نے آج سے ۲۳۰۲۲ سال پہلے مجھے رڈیا کے ذریعہ یہ بتا دیا تھا کہ تیرے سامنے ایسی مشکلات پیش آئیں گی کہ بعض دفعہ تیرے دل میں بھی یہ خیال پیدا ہوگا کہ اگر یہ بوجھ علیحدہ ہو سکتا ہو تو اسے علیحدہ کر دیا جائے مگر تو اس بوجھ کو ہٹا نہیں سکیگا اوریہ کام تھے ہر حال بنانا پڑے گا اگر میں اس بیان میں جھوٹا ہوں تو اللہ تعالے کی مجھ پر لعنت ہو.میں بھی خدا تعالے کی قسم کا کر کہو چکا ہوں کہ مں اس کا قائم کر دہ خلیفہ ہوں، وہ بھی ایسی ہی قسم لکھ کر شائع کر دیں پھر خود بخود فیصلہ ہو جائے گا کہ کون حق پرشیا در کون ناحق پر.میں پہلے بھی کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں اور اب پھر اللہ تعالیٰ کے وعید لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الكَاذِبین کے ماتحت کہتا ہوں کہ جیسا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے، میں اُس کا قائم کردہ خلیفہ ہوں اور میرے لئے عزل ہرگز جھاڑی نہیں اگر حوادث میرے سامنے آئیں.جیسا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئیوں سے پتہ چلتا ہے کہ میرے لئے بعض اندھیرے مقدر ہیں.اوراگر وہ ساری کی ساری جماعت کو بھی مجھ سے برگشتہ کر لیں.توئیں یقین رکھتا ہوںکہ اللہ تعالیٰ مجھے موت نہیں دے گا جب تک وہ پھر ایک زبر دست جماعت میرے ساتھ پیدا نہ کر دے.دنیا میں فریب کاریاں بھی ہوتی ہیں.دُنیا میں دھو کے بھی ہوتے ہیں.دنیا میں وسوسہ اندازیاں بھی ہوتی ہیں.دنیا میں ابتلاء بھی آتے ہیں.اور ان تمام چیزوں کے ذریعہ لوگ ٹھوکریں کھاتے اور حق سے منحرف ہوتے ہیں.مگر مجھے بندوں پر یقین نہیں.مجھے اپنے خدا پر یقین ہے.اس خدا نے اس وقت جبکہ مجھے خلافت کا خیال تک بھی نہ تھا، مجھے خبر دی تھی.رات الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ القِيَامَةِ کہ وہ لوگ جو تیرے متبع ہیں وہ تیرے منکروں پر قیامت تک غالب رہیں گے.پس یہ صرف آج کی بات نہیں بلکہ جو شخص میری بیعت کا اقرار کرے گا وہ قیامت تک میرے منکروں پر غائب رہے گا یہ خدا کی پیشگوئی ہے جو پوری ہوئی اور پوری ہوتی رہے گی.اگر اس الہام کے سنانے میں میں جھوٹ بولتا ہوں تو خدا کی مجھ پر لعنت.میری خلافت کے بارہ میں ایک بار نہیں.دو بار نہیں.اتنی بار خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے کہ جس کی کوئی حد نہیں.اب بھی جب یہ فتنہ اُٹھا تو میں نے جلدی نہیں

Page 413

کی بلکہ اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کیں.اور خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دی کہ میں تیری مشکلات کو دور کروں گا اور تھوڑے ہی نه دنوں میں تیرے دشمنوں کو تباہ کر دوں گا “ تھے اسی تعلق میں یہ بھی بتایا کہ :.اُن کے بعض دوستوں نے مجھے پیٹھیاں کبھی ہیں جن میں سے ایک نے مجھ سے دریافت کیا ہے کہ جو سلوک آپ ہم سے کر رہے ہیں کیا یہ بلیوں والا سلوک ہے یا غیر نبیوں والا.ان کی مراد اس سلوک سے جہانتک میں سمجھتا ہوں وہ مقاطعہ ہے جو اُن کا کیا گیا ہے.میں اس سوال کے جواب میں پوری دیانت داری کے ساتھ اس علم کی بناء پر جو خدا تعالے کی طرف سے مجھے حاصل ہے ، یہ کہتا ہوں کہ جو سلوک میں نے اُن سے کیا ہے وہ نبیوں والا سلوک ہے ، غیر نبیوں والا نہیں.میں نے اُن کا کوئی بائیکاٹ نہیں کیا بلکہ ان کی ضرورتوں کے پھرا کئے جانے کا حکم دے دیا تھا.چنانچہ میری یہ ہدایت تھی کہ جو ضروریات زندگی سکھوں ، ہندوؤں اور غیر احمدی دکانداروں سے میسر نہ آسکتی ہوں وہ احمدی دکانداروں کی طرف سے دے دی جائیں.لیکن چونکہ بعد میں انہوں نے بغیر ثبوت کے جماعت احمدیہ کی طرف مظالم منسوب کرنے شروع کر دیئے.اور اس سے یہ خدشہ پیدا ہونے لگا کہ اگر کسی احمدی دکاندار سے وہ مثلا درد ہے جائیں اور اس سے اتفاقا اُن کے کسی بچہ کو قراقر ہو جائے یا مٹھائی سے پیٹ درد ہو جائے تو وہ یہ شور مچانا شروع کر دیں کہ ہمیں زہر ملا کر دیا گیا ہے اور اس طرح سماعت کے افراد کو بعض الزامات کے نیچے لائیں اس لئے میں نے اور عاصمہ کو حکم دیا ہے کہ ایسے دکاندار مقر کر دیئے جائیں جن سے وہ سودا لے سکیں لیکن خود انہوں نے اس حکم سے فائدہ نہیں اُٹھایا.اور میں آج بھی اس امر کے لئے تیار ہوں کہ اُن کی ہر قسم کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے دکاندار مقدر کردون....اس احتیاط کی اس لئے بھی ضرورت تھی کہ انہوں نے شروع سے ہی یہ طریقہ رکھا ہوا تھا کہ مخفی طور پر لوگوں پر اثر ڈالنے کی کوشش کرتے تھے اور آخر میں تو انہوں نے اختیارات میں بھی یہ اعلان کر دیا تھا کہ وہ مخفی طور پر لوگوں کو اپنے ساتھ ملائیں گے اور اُن کے نام صیغہ راز میں رکھے جائیں گے.پھر صرف اعلان پر اس نہیں.وہ مخفی طور پر لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے کی کوششیں اب تک کو رہے ہیں.اور اس کے یقینی ثبوت ہمارے پاس موجود ہیں.اور وہ ایسے واضح ثبوت ہیں کہ جب ان کو ظاہر کیا گیا.تو اُن کے لئے ان باتوں کا انکار کرنا بہت مشکل ہو گا.ایسی صورت میں ہمارا فرض تھا کہ ہم ان سے بول چال اور لین دین وغیرہ کے تعلقات رکھنے کے راستہ کو ایک قاعدہ کے ماتحت لا کر اس فتنہ کو دور کرتے.یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ احتیاطیں مخفی پروپیگنڈا کے متعلق تھیں.له "افضل" ۳۰ جولائی کرو له الفضل ۲۰ نومبر ۹۳ و صفحه ۲۸۰

Page 414

ور نظا ہر پراپیگینڈا سے اگر شرافت کی سند کے اندر ہوئیں نے کبھی نہیں روکا.چنانچہ جو اشتہارات وہ بورڈوں پر پس پاس کرتے رہے ہیں ان کے متعلق کیا میں نے کبھی یہ اعلان کیا ہے کہ لوگ انہیں نہ پڑھیں ، بلکہ ایک دفعہ انہوں نے بورڈ پر اشتہار لگایا تو غالباً مولوی ابوالعطاء صاحب کی بیٹی مجھے آئی کہ لوگ اُسے پڑھنے کے لئے بہت جمع ہو گئے.اور وہ اسے پڑھ کر غیظ و غضب سے بھر گئے جس سے فساد کا خطرہ ہے.مناسب ہے کہ ایک اعلان کے ذریعہ لوگوں کو اس قسم کے اشتہارات پڑھنے سے روک دیا جائے مگر میں نے اس کا یہی جواب دیا کہ اس قسم کی مانعت میں پسند نہیں کرتا کیونکہ اس کے یہ معنی لئے جائیں گے کہ میں لوگوں کو تحقیق سے روکتا ہوں.نہیں دلائل اور صحیح طریق تبلیغ کا مخالف نہیں ہوں.میں تو خود ہمیشہ ہی حق کا متلاشی رہا ہوں اور دہی میری روح کی غذا ہے.اگر وہ دلائل سے.مجھ پر غالب آ سکتے ہیں تو شوق سے آجائیں مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا.میرا اعتراض یہ ہے کہ وہ نا جائز کاروائیاں کرتے ہیں جو کیسی مذہب میں بھی بھائی نہیں.اور چونکہ وہ تہذیب اور شرافت اور اسلامی احکام سے تجاوز کر کے ایسی حرکات کے مرتکب ہیں.اس لئے ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی جماعت کے احباب کو اُن کے ایسے تعلقات سے روکیں جو فساد کا موجب ہو سکیں.یہی وجہ ہے کہ آج تک جس قدر احکام سلسلہ کی طرف سے اس قسم کے نافذ کئے گئے جن میں دوسروں سے بول چال کی ممانعت تھی تو وہ ایسے ہی لوگوں کے متعلق تھے جن کے افعال میں سازش کا رنگ پایا جاتا تھا.ورنہ اگر کسی کے افعال میں سازش نہ ہو اور وہ علی الاعلان ہم سے الگ ہو کر کسی اور گروہ میں شامل ہو جائے تو ہم اس سے کبھی بولنا منع نہیں کرتے.غیر مبائین میں ہی آجکل کئی ایسے لوگ ہیں جو پہلے ہماری جماعت میں تھے مگر پھر بعد میں ان کے ساتھ شامل ہو گئے لیکن ہم نے ان کے متعلق یہ اعلان نہیں کیا کہ ان سے کوئی شخص گفتگو نہ کرے.ڈاکٹر سید محمد طفیل صاحب ، میاں غلام مصطفے صاحب ، مولوی محمد یعقوب صاحب ایڈیٹر.میں لائٹ، یہ پہلے میری جیت میں شامل تھے مگر پھر غیر مب لعین کی طرف چلے گئے اور ہم نے ان کے مقاطعہ کا کوئی اعلان نہیں کیا.بلکہ میں خود ان میں سے بعض سے ملتا رہا ہوں.اسی طرح اور بھی کئی آدمی ہیں جو پہلے ہمارے ساتھ تھے پھر ادھر شامل ہو گئے.مگر ہم نے کبھی لوگوں کو اُن سے ملنے سے نہیں روکا.ہم صرف انہی سے تعلقات رکھنے ممنوع قرار دیتے ہیں جو سلسلہ کے نکات خفیہ سازشیں کرتے ہیں.پنانچہ شیخ عبد الرحمن صاحب مصری نے اپنے خط میں تسلیم کیا ہے کہ وہ دو سال سے خفیہ تحقیق میرے خلاف کر رہے تھے اور اس بارہ میں لوگوں سے گفتگو کیا کرتے تھے.اگر جس دن انہیں میرے متعلق شبہ پیدا ہوا تھا اور میرے خلاف انہیں کوئی بات پہنچی تھی اس دن وہ میرے پاس آتے اور کہتے کہ میرے دل میں آپ کے متعلق یہ شبہ پیدا ہو گیا ہے تو میں یقینا انہیں جواب دیتا

Page 415

اور اپنی طرف سے ان کو اطمینان دلانے اور اُن کے شکوک کو دور کرنے کی پوری کوشش کرتا.چنانچہ ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ بعض لوگ میرے پاس آئے اور انہوں نے دیانت داری سے اپنے شکوک پیش کر کے ان کا ازالہ کرنا چھانا اور میں ان پر ناراض نہیں ہوا.بلکہ میں نے ٹھنڈے دل سے اُن کی بات کو مشٹنا اور آرام سے انہیں سمجھانے کی کوشش کی...اگر پہلے دن ہی جب انہوں نے میرے متعلق کوئی بات سُستی تھی میرے پاس آتے اور مجھے سے کہتے کہ میں نے فلاں بات سُنتی ہے مجھے اس کے متعلق سمجھایا جائے.تو جس رنگ میں بھی ممکن ہوتا میں انہیں سمجھانے کی کوشش کرتا.اور گو تسلی دینا خدا کا کام ہے میرا نہیں.مگر اپنی طرف سے میں انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کرتا.لیکن انہوں نے تقویٰ کے خلاف طریق اختیار کیا اور پھر ہر قدم تو انہوں نے اُٹھایا وہ تقوی کے خلاف اٹھایا.چنانچہ جب انہوں نے یہ شور مچانا شروع کر دیا کہ مجھ پر جماعت کی طرف سے کئی قسم کے مظالم کئے بیا رہے ہیں.تو اس کی تحقیق کے لئے ایک کمیشن مقرر کیا.جس کے ممبر مرزا عبدالحق صاحب اور میاں عطاء اللہ صاحب پلیڈر تھے.مرزا عبد الحق صاحب شیخ عبد الرحمن صاحب مصری کے گہرے دوست تھے مگر انہوں نے مرزا عبدالحق صاحب کے متعلق کہ دیا کہ یہ خلیفہ کے اپنے آدمی ہیں.اور انہیں چونکہ جماعت کی طرف سے مقدمات ملتے ہیں اس لئے فیصلہ میں وہ خلیفہ کی طرفداری کریں گے.اور میاں عطا ء اللہ صاحب پلیڈر کہ وہ بھی ان کے دوستوں میں سے تھے، ان کے متعلق انہوں نے یہ کہا کہ مجھے ان کے فیصلہ پر اس لئے تسلی نہیں کہ ان کی مرزا گل محمد صاحب نے جو خلیفہ کے چچا کے بیٹے ہیں، ایک ضمانت دی ہوئی ہے.اب اگر احمدیوں کے ایمان اتنے کمزور ہیں کہ ان میں سے کوئی اس لئے صحیح فیصلہ نہ کرے کہ مجھے جماعت کی طرف سے مقدمات ملتے ہیں ، اگر میں نے جماعت کے خلاف فیصلہ کیا تو مقدمات ملنے بند ہو جائیں گے.اور کوئی اس لئے صحیح فیصلہ نہ کرے کہ میرے بچا کے بیٹے نے ان کی ایک ضمانت دی ہوئی ہے تو ایسے لوگوں کے اندر شامل رہنے سے فائدہ کیا ہے.میں نے تو بہتات دیانت داری سے ان دونوں کو ان کا دوست سمجھے کہ اس فیصلہ کے لئے مقرر کیا تھا.مگر انہوں نے اس کمیشن کے سامنے اس لئے اپنے مطالبات پیش کرنے سے انکار کر دیا کہ یہ دونوں ہمارے زیر اثہ ہیں...مصری صاحب کے اسی ساتھی نے نہیں کے خط کا ئیں اُوپر ذکر کر آیا ہوں، یہ بھی لکھا ہے کہ آپ نے سازش کر کے مستریوں پر کمانہ کروایا تھا.پھر آپ نے سازش کر کے محمد امین کو قتل کروایا اور اب فخر الدین کو مروا دیا ہے اور اس کے بعد آپ ہمیں مروانے کی فکر میں ہیں.مجھے اس قسم کے اعتراض کا جواب دینے کی ضرورت نہیں تھی.کیونکہ ہر غلط النترام کا جواب دینے کی نہ ضرورت ہوتی ہے اور نہ اس کا فائدہ ہوتا ہے.لیکن چونکہ خط لکھنے والے نے آیندہ

Page 416

۳۸۰ کا شبہ بھی ظاہر کیا ہے اور میں کسی کو قلق اور اضطراب میں رکھنا نہیں چاہتا ہوں اس لئے میں ان کے وسوسہ کو دور کرنے اور اُن کے خدشات کو مٹانے کے لئے وہ بات کہتا ہوں جس کی مجھے عام حالات میں ضرورت نہیں تھی اور میں اس خدا کی قسم کھاکر کہتا ہوں جس کی بھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے کہ میں نے کسی کو پٹوانا اور قتل کروانا تو الگ رہا آج تک سازش سے کسی کو چپیڑ بھی نہیں لگوائی کسی پر انگلی بھی نہیں اُٹھوائی.اور نہ میرے قلب کے کسی گوشہ میں یہ بات آئی ہے کہ میں خدانخواستہ آئندہ کسی کو بھی قتل کرواؤں یا قتل تو الگ رہا نا جائز طور پر بیٹھا ہی دوں.اگر میں اس قسم میں چھوٹا ہوں تو اللہ تعالے کی لعنت مجھ پر اور میری اولاد پر ہو.ان لوگوں نے میری صحبت میں ایک لمبا عرصہ گزارا ہے.اگر یہ لوگ تعصب سے بالکل ہی عقل نہ کھو چکے ہوتے تو یہ ان باتوں سے شک میں پڑنے کی بجائے خود ہی ان باتوں کو رد کر دیتے.خدا تعالیٰ نے مجھے ظالم نہیں بنایا.اس نے مجھے ایک ہمدرد دل دیا ہے جو ساری عمر دنیا کے غموں میں گھلتا رہا ہے اور گھل رہا ہے.ایک محبت کرنے والا دل یس میں سب دنیا کی خیر خواہی ہے.ایک ایسا دل جس کی بڑی خواہش ہی یہ ہے کہ وہ اور اس کی اولاد اللہ تعال کے عشق کے بعد اس کے بندوں کی خدمت میں اپنی زندگی بسر کریں.ان امور میں مجبوریوں یا غلطیوں کی وجہ سے کوئی کمی آجائے تو آجائے مگر اس کے ارادہ میں اس بارہ میں کبھی کمی نہیں آتی " اس خطبہ کے آخر میں ارشاد فرمایا کہ :- یمیں پھر شیخ صاحب سے اخلاص اور خیر خواہی سے کہتا ہوں کہ جس جس رنگ میں خدا تعالے کی قسم کھانا میرے نئے ممکن تھا میں نے قسمیں کھائی ہیں اور ان کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ تو یہ کریں اور اللہ تعالیٰ سے اپنے گنا ہوں کی معافی طلب کریں ہمیں نے ان کی باتوں کو شناور صبر کیا کہ دوسرے لوگ اس حد تک صبر نہیں کرسکتے مگر وہ یقین رکھیں اور اگر وہ یقین نہیں کریں گے تو زمانہ اُن کو یقین دلا دے گا.اور اگر انہیں اس دنیا میں یقین نہ آیا تو مرنے کے بعد انہیں اس بات کا یقین آجائے گا کہ انہوں نے مجھ پر وہ بدترین اسلیم کیا ہے جو زیادہ سے زیادہ انسان دنیا میں کسی پر کر سکتا ہے.انہوں نے ان حریوں کو استعمال کیا ہے جن تربوں کے استعمال کی اسلام اور قرآن اجازت نہیں دیتا.میں نے آجتک خدا تعالیٰ کے فضل سے کبھی دیدہ دانستہ دو سر سے پالم نہیں کیا، اور اگر کسی ایسے شخص کا مقدمہ میرے پاس آجائے جس سے مجھے کوئی ذاتی بخش ہو تو میرا طریق یہ ہے کہ میں ہر وقت یہ دعا کرتا رہتا ہوں کہ الہی یہ میرے امتحان کا وقت ہے تو اپنا فضل میرے شامل حال رکھے.ایسا نہ ہو کہ میں فیل ہو جاؤں.ایسا نہ ہو کہ میرے دل کی کوئی رنجش اس فیصلہ پر اثر انداز ہو جائے اور میں انصاف کے خلاف فیصلہ

Page 417

کر دوں.پس میں ہمیشہ دعا کرتا رہتا ہوں تا خدا تعالئے مجھے انصاف کی توفیق دے.اور میں یقیناً کہا سکتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے مجھے ہمیشہ انصاف کی توفیق دی ہے.میں نے شدید سے شدید دشمنوں کی بھی کبھی بدخواہی نہیں کی.میں نے کسی کے خلاف اُس وقت تک قدم نہیں اُٹھایا جب تک شریعیت مجھے اس قدم کے اٹھانے کی اجازت نہیں دیتی.پس وہ تمام الزامات جو وہ مجھ پیر مار پیٹ اور قتل وغیرہ کے سلسلہ میں عائد کرتے ہیں ، سب غلط اور بے بنیا ہیں.بلکہ بیسیوں دفعہ ایسا ہوا ہے کہ جب بعض لوگوں نے مجھے کہا کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانا کرتے توئیں نے اُن کو ڈانٹا اور کہا کہ یہ شریعت کے خلاف فعل ہے.ان باتوں کا کبھی دل میں خیال بھی نہ لانا چا ہیئے.اگر اس قدر یقین دلانے کے باوجود بھی وہ اپنی باتوں پر قائم رہتے ہیں تو میرے پاس ان کے اعتراضات کا کوئی جواب نہیں اور میں خدا تعالے سے ہی اپیل کرتا ہوں کہ اے خدا ! اگر تو نے مجھے عہدہ خلافت پر قائم کیا ہے اور تو نے ہی میرے ہاتھوں اور میری زبان کو بند کیا ہوا ہے تو پھر تو آپ ان مظالم کا جواب دینے کے لئے آسمان سے اتر ، نہ میرے لئے بلکہ اپنی ذات کے لئے ، نہ میرے لئے بلکہ اپنے سلسلہ کے لئے لے مصری صاحب کی ناکامی اور نظام خلافت کی ان سے کیا یا را ایا ایک ریاست کا آغاز ہواتھا اور میری کامیابی کی عظیم شان پیشگوئی صاحب اوران کے ساتھی اور نگار ہے دوست کر رہے تھے کہ وہ مددگار کہ این کار یک میل کر کے دین کے جرت خلیفہ ایسی انسان نے کی متواتر بشارتوں کے تحت کھلے لفظوں میں پیشگوئی فرمائی کہ ہم ہی کامیاب ہوں گے اور ہمارا دشمن ذلیل و خوار ہوگا چنانچہ ۲۵ چون ۱۹۳۷نہ کے خطبہ جمعہ میں فرمایا :- تجو ایمان خدا تعالیٰ نے مجھے عطا فرمایا ہے اور جو خبریں خدا تعالیٰ نے مجھے دیں اور اپنے وقت پر پوری ہوئیں ، اُن کو دیکھتے ہوئے میں ایک لمحہ کے لئے بھی اس امر میں شک نہیں کر سکتا کہ کسی میدان میں خدا تعالیٰ کے فضل سے مجھے شکست نہیں ہوسکتی “ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں معلمین ہوں اور ہر شخص جو تم میں سے سچا ایمان رکھتا ہے وہ دیکھے گا بلکہ ابھی تم میں سے اکثر لوگ زندہ ہوں گے کہ تم ان تمام فتنوں کو خس وخاشاک کی طرح اُڑتے دیکھوگے اور اللہ تعالیٰ کے جلالی اور اس کے جہال کی مد سے سلسلہ احمدیہ ایک مضبوط چٹان پر کوکی قائم ہو جائے گا سکے له الفضل ۲۰ نومبر ۱۹۳۳ در صفحه ۷ تا ۰۱۲ 1 " الفضل" و جولائی ۱۹۳۷ صفحه ۸ + شگاه "الفضل " بعد لائی تم صفحہ کالم ۲ و ۳ جولائی شید صفر ۱۹:

Page 418

1 ۳۸۲ مولوی محمد علی حیا کو منوی انتبا فقوں میں پیشگوئی فرمائی کہ نه پنی کامیابی کی خبر دینے کے علاوہ حضور نے فتنہ پردازوں کی نسبت بتایا کہ انکے لئے ذلت و رسوائی مقدر ہے خصوصا مولوی محمد علی صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے صریح ”مولوی صاحب نے اپنے طریق کو نہ بدلا ت میں انہیں کہ دینا چاہتا ہوں کہ وہ نصر اللہ تعالیٰ کو انے اور ناراض کرنے کے سامان پیدا کر رہے ہیں، لوگ خداتعالی کو خوش کرنے کی تدابی کرتے ہیں اور وہ اس کو ناراض کرنے کے پیلے ڈھونڈ رہے ہیں اور اگر وہ اس طریق سے بازنہیں آئینگے تواللہ عالی ان کی ذلت کے مان کر گیا ہے مصری صاحب کی نظریاتی اور اخلاقی کا ایک ایف بی این زبان ملک سے منی و انارپر مشتمل جو خبریں میں شدید مخالفت کے ایام میں دی تھیں.وہ لفظ لفظ پوری ہوئیں.اور جیسا کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے پیشگوئی فرائی تھی اللہ تعالیٰ نے حضور کو واپس نہیں بنایا جب تک ایک ایسی زیر دست جماعت آپ کے ساتھ پیدا نہیں کر دی جو آج خلافت کے زیر سایہ اسلام کا جھنڈا بلند کئے ہوئے دنیا کے چیہ چیتہ میں تبلیغ دین کر رہی ہے اور یہ سب برکات اسی خلافت کے طفیل نازل ہو رہی ہیں جس کو صفحہ ہستی سے معدوم کر دینے کے لئے مصری صاحب اور اُن کے ساتھی ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہے اور بالآخر نا کامی کے بعد شہد میں کھلم کھلا منکرین خلافت میں بھاہے.پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا غیر سیالعین میں شامل ہونے کے بعد انہوں نے یہ اعلان کر دیا کہ جماعت احمدیہ اور خود وہ اس غلطی میں میرا پہلے سمجھے آرہے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نبی تھے.حضور کا اصل مقام نبوت کا نہیں بلکہ محدثیت کا ہے بالفاظ دیگر انہو نے بالواسطہ طور پرتسلیم کر لیا کہ انکا پہلے خلیفہ کو معزول کر کے نئے خلیفہ کے انتخاب کا ہنگامہ کھڑا کر ناسراسر باطل تھا کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام (ان کے نئے عقیدہ کے مطابق نہ نبی تھے اور نہ آپ کے بعد کسی خلافت کی ضرورت تھی.ے چنانچہ حضور نے ۲۳ جولائی ان کے خطبہ جمعہ میں فرمایا " جس قسم کے گندے اعتراض وہ کر رہے ہیں اور تیس قسم کے ناپاک جملوں کے کرنے کی اُن کی طرف سے اور اُن کے ساتھیوں کی طرف سے اطلاعیں آرہی ہیں ، اگر وہ اُن پر مصر رہے اور اگر انہوں نے اور اُن کے ساتھیوں نے تو یہ نہ کی تو میں کہتا ہوں احمدیت کیا اگر اُن کے خاندانوں میں جیسا بھی باقی رہی تو وہ مجھے کہیں.بلکہ میں اس سے بھی واضح الفاظ میں یہ کہتا ہوں کہ جس قسم کے خلاف اخلاق اور غلات حیا وہ حملے کر رہے ہیں اس کے نتیجہ میں اگر اُن کے خاندان فحش کا مرکز بن جائیں تو اُ سے بعید از عقل نہ جھو" والفضل تم اگست صفحه ال كالم ما ) : " الفضل " دسمبر ۱۹۳۶ صفحه ۵ : که مختصا در تقریر مولوی شیخ عبد الرحمن صاحب مصری مطبوعہ ”پیغام صلح" در جنوری و صفحه ۵ کالم من *

Page 419

اس نظریاتی شکست کے علاوہ مصری صاحب کی بعد رسوائی کچھ کم باعث عبرت نہیں ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود کی مبشر اولاد اور آپ کے خاندان کو بدنام کرنے کے لئے اُٹھے تھے مگر خود ان ہی کی اولاد اُن کے لئے موجب نصیحت بن گئی بسید نا حضرت خلیفہ مسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے سچ فرمایا تھا کہ "محمود سیح موعود کا بیٹا ہے.اس پر جو زبان تیز کرے گا وہ یاد رکھے کہ محمد حسین نے ایسا کیا اور اس کی اولاد گندی ہو گئی ہے باقی رہے جناب مولوی محمد علی صاحب (جو مصری صاحب کی شرافت مولوی محمد علی صاح کا عبرتناک انجام انسان کو بے مثل قراردیتےہوئے ان کی تعریف و توصیف می زمین آسیان کے قلابے ملایا کرتے تھے اور تین کو مصری صاحب حدیث کے موعود "منصور" قرار دیتے تھے) سو وہ اس دنیا سے رخصت نہیں ہوئے جب تک خود مصری صاحب نے اُن کے خلاف وہی حربے استعمال نہیں کئے جو وہ سیدنا مصر خلیفہ ربیع الثانی کے خلاف استعمال کیا کرتے تھے چنانچہ خود موادی محمد علی صاحب نے ہر جولائی سے ائر کے ایک سے کر میں لکھا.تجب سے میں گذشتہ بیماری کے حملہ سے اُٹھا ہوں اس وقت سے یہ دونوں بزرگ اور شیخ مصری میرے خان پراپیگنڈا میں اپنی پوری قوت صرف کر رہے ہیں اور ہر ایک تنکے کو ایک پہاڑا بنا کر جماعت میں ایک فتنہ پیدا کو نا شروع کیا ہوا ہے.اور نہ صرف وہ میری بیماری سے پورا فائدہ اُٹھا رہے ہیں بلکہ ان امور کے متعلق مجھے تسلم اُٹھانے پر مجبور کر کے میری بیماری کو بڑھا رہے ہیں.اور یہ امر واقع ہے کہ میری بیماری پھر ان احباب کی مہربانی سے بڑھ گئی ہے؟ نیز لکھا :- جماعت کے بنیادی نظام پر کلہاڑی چلائی گئی ہے.اور امیر جماعت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا گیا ہے." اس سر کلو کے بعد مولوی صاحب موصوف نے ۱۳ اگست شاہ کو اپنے ” رکھوں کی داستان “ لکھی جس میں اپنے خلاف باغیانہ تحریک کی تفصیلات پر با تفصیل روشنی ڈالنے کے بعد لکھا کہ ایک طرف دن رات میرے خلاف مشورے ہوتے رہتے ہیں اور احمد یہ بلڈ ٹنگس سے یہ پراپیگنڈا ان تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو مصری صاحب کے ایک رشتہ دار چودھری عنایت اللہ صاحب مبلغ مشرقی افریقہ کا مضمون مطبوعه اخبار "بدر" قادیان 4 اگست ۹۶۴ه و رساله " الفرقان" ربوہ مئی و جون ۱۶ صفحه ۹۸-۱۰۰ : " الفضل قادیان ۱۸ اپریل ۱۹۱۷ به صفحه ۳ :

Page 420

ہوتا رہتا ہے کہ میں کیا کیا قواعد کی خلاف ورزیاں کر رہا ہوں.اور میری وجہ سے یہ جماعت نکتی ہو چکی ہے.اور ان کے دلوں میں کوئی دینی جذبہ نہیں رہا.دوسری طرف میں کوئی بات کہوں تو اس کے ماننے سے انکار کیا جاتا ہے" مصری صاحب کی یہ مخالفت مولوی محمد علی صاحب کے لئے بالآخر جان لیوا ثابت ہوئی اور آپ اپنے دکھوں کی داستان لکھنے کے ٹھیک دو ماہ بعد ۱۳ اکتو برا لنڈ کو اس جہان فانی سے میل جیسے چنانچہ اُن کی بیگم صاحبہ نے ۲۹ نومبر را د کو اپنی ایک چھٹی میں لکھا :- " مفسدوں نے مخالفت کا طوفان برپا کر دیا اور....طرح طرح کے بیہودہ الزام لگائے یہاں تک بکو اس کی کہ آپ نے احمدیت سے انکار کر دیا ہے اور انمین کا مال غصب کر لیا ہے " " ان تفکرات نے آپ کی جان لے لی سب ڈاکٹر یہی کہتے تھے کہ اس غم کی وجہ سے حضرت مولوی صاحب کی جان گئی " ایک وصیت لکھ کر شیخ میاں محمد صاحب کو بھیجدی کہ یہ سات آدمی جو اس فتنہ کے بانی ہیں اور جن کے دستخط سے یہ سرکلر نکلے تھے اور جین کا سرغنہ مولوی صدر دین ہے، میرے جنازہ کو ہاتھ نہ لگائیں اور نہ ہی نماز جنازہ پڑھائیں چنانچہ اس پر عمل ہوا" "حضرت عثمان کی طرح آپ قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے اپنے رب سے جاملے" اسلام کی تاریخ یہی ہے کہ کلمہ گومسلمانوں نے ہی اپنے محسنوں اور لیڈروں کو قتل کیا ہے“ " یہ سچ ہے کہ موت کا وقت مقرر ہوتا ہے.مگر جو قتل کرے وہ تو قاتل کہلاتا ہے جس طرح لیاقت علی کا وقت مقرر تھا مگر مارنے والا قاتل کہلایا " - لے حضرت امیر مرحوم کے دُکھوں کی داستان" صفحہ ۱۶ - ناشر مولوی عبدالوہاب احمدیہ بلڈنگ برانڈرتھ روڈی ہوں یہ تھے بحوالہ رسالہ ”میاں محمد صاحب کی کھلی چھٹی کے جواب میں ناشر ناظر اصلاح و ارشاد ربوہ ہے +

Page 421

LABORE (Piston! حضر اجمیری روح آپنے ہی میں اور تم کو اسی وقت جیسے سارا کساری کیسے " انون اور مرتے دم تک میں حرکات دے کر آئی فتنہ نیم داروں نے صرف میری جانی کا نظریہ فتن بر یا گیا ورنہ حقیقت یہ بھی جانتے ہیں.ری کرتا ہے مگر جو قتل کر کے نور کا بل کھاتا ہے.جس طرح لیاقت علی کا وقت مقر را اگر با بالا یت کا اہم الیکا میاره و در آیا تو تمام جماعت جو باہر سے اٹی تھی اما میرا کاریوں سے اس کی پانی کی کے دور سے لوگ بہتے پھرتے تھے.اب اگر یہ موی سر تمام اختیارات الحاج شیخ میاں کم ہے کے گرد ہوئے ہیں لے جو حضرت اور مرحوم شورت اپنے آخری چند اتمام مہر ایک قریر کی ہے سوال کیوں لاکی کا کرے جنرل کونسل سے مجھے اس کو دی جائے.انکو ملی کی ایک نقلی ہیں اؤ گی ونکا بھی منزل کے حل پر بنی ہوگا.میرا بیوی سے انکا یہ عباسی کیا ہے جو کہت.میرا کا نا حق ہے مگر یہ لو گیا اس کی بھی وقت انار می خواست کر رہے دعا کریں لوگوں کو ایک جماعت ہے اسی T ساعت کاکام کا پودہ جو حضرت ایرا نظام تم جن کو وہ کر دیں ترکی لے گئے تاوقات نام می یا سالکی بواری کل ہو جائے گا.مگر ایون می به افت شروع 15 الی صحت کرنی ما ہو میں ہوا کر ان کے دستور پر قبضہ کر نا ہا ہیں کی تکلیف شروع ہوگئی.آپنے جنگل وہ مر کر بھی ہوا کو ہی میرا شرارتیں کے رہوئیں.آخر ان تفکرات نے آگئی جان ملی.ڈالرز میں رکھتے تھے.نم کی وہ حضرت مالک کی جاناگی کے و شمار کو ہے یہ نقصان کیا.انکو مرتے دم تک میں طور کہ ہر ایک کام کو مد باران برنج پانی تک ہوا کہ آپنے ایک رات لکھ کر آسانی کی سم موروں کے نے کے بے بانیت لینے ولی پول قرون پرست کر لی تو یہ دیا اور سکند یا نہ بھولی کونسا امیری ی مجلس ہو سیدہ کمرے مجھے معلوم ہوگا محترمہ بیگم صاحبہ مولوی محمد علی مرحوم کے ایک اہم مکتوب کا عکس متعلقہ مولوی صدرالدین صاحب اور شیخ عبدالرحمن صاحب مصری وغیرہ)

Page 422

سیدنا حضرت حافظ صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب طلباء درجہ ثانیہ جامعہ احمدیہ قادیان کے ہمراہ ( ۴۰ ۱۹۳۹ء ) کرسیوں پر دائیں سے بائیں :.مولوی نورالحق صاحب انور.ملک محمد حسین صاحب خوشابی.حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب.حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب مولوی محمد اسمعیل صاحب اگر پوری.مولوی عبد الصمد صاحب جالندھری درمیانی قطار دائیں سے بائیں.مولوی شمس الدین صاحب سیال.مولوی عبد الرحمن صاحب بھٹی.مولوی احمد علی صاحب رانجھا.مولوی محمد احمد صاحب نعیم.مولوی بشیر احمد صاحب سیال.مولوی رشید احمد صاحب چغتائی.چھلی انظار دائیں سے بائیں.چوہدری صدیق الرحمن صاحب بنگالی.مولوی بشیر احمد صاحب را جوری.مولوی عمر خطاب صاحب ہزاروی.حافظ کرم الہی صاحب

Page 423

۳۸۵ فصل چهارم التبلي سيراليون سیرالیون مغربی افریقہ کا ایک اہم ملا ہے، جہاں احمدیت کی آوانہ (بذریعہ ٹریچر شام میں پہنچی اور رس سے پہلے امام موسیٰ کا ہر (G ABBER) کو قبول حق کی سعادت نصیب ہوئی.اسکے بعد یہاں فروری است شہد میں حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب نیر کے ہاتھوں دوبارہ احمدیت کا بیج بویا گیا.مولوی نذیر احمد علی صاحب نے اس بیچ کی اپنے خون سے آبیاری کی اور مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری اور اُن کے بعد سر مجاہدین تحریک جدید اُسکی نشو و نما کیلئے مصروف سعی و جد و جہد رہے.نت مولوی عبدالرحیمی انانی برای ورود بداریم حضرت صاحب نیتر ۱۹ر فروری ۲ مہ کو لندن سے سیرا لیون پہنچے.اور اہ فروری کو سیرالیون سے گولڈ کوسٹ تشریف لے گئے.اپنے مختصر قیام کے دوران آپنے سیرالیون میں بڑی جرات سے پیغام کا صمدیت پہنچایا جس کی تفصیل خود حضرت مولانا صاحب کے قلم سے درج کی جاتی ہے.فرماتے ہیں :.جہاز ایٹی پر رعبر الڈرڈ میٹرائن کے بہترین جہازوں میں سے ایک ہے) آکہ ہے تار پیام رسانی موجود تھا.اس خدمت گار مبلغ اسلام سے کام لیکہ جہاں عاجز نے حضرت امام المتقین کے حضور دعا کی درخواست بھیجی وہاں ایک پیغام مسٹر خیر الدین افسر علی مسلمانان سیرالیون کے نام بھی ارسال کر دیا سر موصوف نے اس پیغام کی حتی الوسع اشاعت کی اور مختلف اقوام کے سردار و امام ایک درجن کی تعداد میں اپنے زرق برق لباس اور عباد عمامے پہنے ایک وزنی نقرئی ڈھول گلے میں ڈالے ہوئے) سیم اپنی میں تختہ بہانہ پر اس غریب کے استقبال کے واسطے آگئے.علیک سلیک.اکھلا.پہلا مرحبا کم عربی میں ہوئی اور الحمد للہ کہ تختہ جہا نہ پر سوڈانی وطرا لبس مسافروں کے ساتھ بیان فرقان میں گفتگو کا اتفاق ہونے کے باعث عربی میں کلام کرنے کی مشق ہو گئی تھی.اسلئے کوئی وقت پیش نہ آئی اور خدائے میسج کا ایک نشان یہ بھی ہے.کہ وہ مختلف زبانوں میں کلام کریں گے.اسکی مطابق اس نے

Page 424

۳۸۶ مجھے ایسی توفیق دی.کہیں اس پر خود حیران تھا.کنارہ بور پر موٹریں موجود تھیں.ان میں سوار کہا جلوس نکال مجھے ایک خوبصورت مسجدمیں پہنچا یا گیا ، جہاں پندرہ اہزادہ سلمانوں کے قائمقام موجود تھے.میں نے اپنے مشن کی اغراض زبان انگریزی میں بیان کیں.استقبال کا شکریہ ادا کیا.اور اخویم خیر الدین نے اس کا مقامی انگریزی میں (جو) کبوتر انگریزی PiCERN ENGLISH کہلاتی ہے ترجمہ کر کے حاضرین کو میرا مطلب سمجھایا اس کی جواب میں چیف القائیتی بوڑھے خاص امام نے میری آمد کو رسول اللہ کے بعد صلحین و مجددین کی آمد کے وعدہ سے مطابقت دیکر میرا شکریہ ادا کیا.یہ 19 فروری کی صبح تھی.ایک عالیشان انگریزی وضع کی فرودگاہ میں مجھے اتارا گیا.اور ہرقسم کے آرام کا سامان بہم پہنچایا گیا ۲۰ فروری کو تقریروں کا انتظام کیا گیا.اور اس کے لئے اطلاعات شائع کی گئیں.مساجد آراستہ کی گئیں.سرکارہ کی اسلامی مدارس میں بھنڈیاں وغیرہ لگا کہ ان کو مزین کیا گیا.اور اپنے رنگ میں مسلمانوں نے اظہار خوشی کیا.پہلے ایک مسجد میں 4 بجے پھر دوسرے مدرسہ میں بارہ بجے اور پھر شام کو تیرے مدرسہ میں 4 بجے تین تقریریں کی گئیں پہلے دو میں اوریم خیر الدین ترجمان رہے.اور مرد و عورتوں نے ادب و احترام و محبت سے ان تقاریر کو شباه تقریر سے اول ایک نوجوان نے نہایت سریلی آواز سے نعتیہ اشعار عربی میں پڑھے.ہر چارہ استعارہ کے بعد ایک مصرع سب حاضرین ایک آواز سے پڑھتے تھے.مجیب سماں تھا.ان مجالس میں رکشا کی سواری پر جانا ہوا.سرخ عباء والے امام رکشا کے آگے اور سفید عبا پوش لوگ کشا کے پیچھے اور جوان طلباء دورویہ صف بستہ کھڑے نظر آتے تھے.میں نے اپنی تقریروں میں برابر سے پاک کی آمد کا ذکر کیا.اور آمنا کے سوا کوئی آواز مخالف نہیں سنی.مالکی امام کو علیحدہ تبلیغ کی.اس نے اقرار ایمان کیا.شام کی تقریہ سیمی لوگوں کے لئے تھی.اور وہ تو جہ سے سنی گئی.چونکہ سیرالیون میں دو مسیحی کالچ ہیں.و بشپ رہتے ہیں.اور ۱۱۸ پادری قیام رکھتے ہیں.اس سے مسیحی مجمع تعلیمیافتہ افریقیوں کا تھا.تقریہ کے بعد سلسلہ سوالات و جوایات شروع ہوا.اور مسلمان خوش اور سیمی منتظا کہ نظر آئے ۱۲۱۰ فروری کسی حکام سے ملاقات کر کے مسلمانوں کی تعلیمی حالت کی طرف سرکا ر کو توجہ دلائی اور میں خوشی ہے اس امر کا اظہار کر تا ہوں.کہ حکام بالا دوست نے میری حوصلہ افزائی کی...مسلمانان سیرالیون کی خواہش تھی کہ میں اور ٹھہروں مگر جہانہ اور تاریخ کو تیسرے پہر روانہ ہونا تھا.اسلئے ٹھہر ناممکن نہ تھا جہانوران کمپنی کے منیجر نے پوری کوشش سے جہاز پر وٹو فسٹ کلاس میں انتظام کر دیا.اور میرے

Page 425

میزبان سلمانان سیرالیون کی ایک جماعت مجھے تختہ جہاز پر چھوڑنے آئی.یہ اہم اللہ.میری روانگی سے قبل القدیم خیر الدین نے جو کئی بررسی سلسلہ کا لٹریچر مطالعہ کرتے رہے ہیں.مگر بیعت نہ کی تھی.سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح ثانی کی بیعت کا شرف حاصل کیا.اور اسطرح سیرالیون کا واحد اعلی تعلیمیافتہ سمان احمد نی ہو گیا کہ اے حضرت نیز صاحب تو اس سفر کے بعد پھر کبھی سیرالیون تشریف نہیں لے گئے البتہ حکم منضار من است تین بار یہاں آئے اور کئی لوگ ان بزرگوں کے ذریعہ سے احمدی ہوئے.جن میں سے بعض نائیجیریا پہلے گئے.بعض فوت ہو گئے اور بعض الگ ہو گئے.حتی کہ 1954ء میں سیرالیون میں اُس زمانہ کے صرف دو احمدی رہ گئے اور غیر مبائعین کے پراپیگنڈہ کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ کے خلاف سیرالیون کی فضا بہت مکدر ہو گئی.امیون در تبلیغ ماوالا ان حالات میں حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ہم نے ء کے وسط میں دار التبلیغ گولڈ کوسٹ کو ہدایت فرمائی کہ مغربی افریقہ کے دوستر مالک میں بھی تبلیغی مراکز کھولے جائیں اور سالٹ پانڈ گولڈ کوسٹ) سے اُن کی نگرانی کی جائے.اس پر اسے پہلے سیٹ الیون کی طرف متوجہ ہونے کا فیصلہ کیا گیا.صلہ کے مطابق مولوی نذیر احمد صاحب مبلغ انچارج مغربی افریقہ اس مولوی نذیر احمدرضا کی روانگی نے دارالتبلیغ گولڈ کوسٹ کا کام مولوی نذیراحمد صاحب مبشر کو سپرد کر کے اکتوبر د کوروانہ ہوئے اور ۱۳ اکتو بر تشدد کو سیرالیون کے دارالحکومت فری ٹاؤن میں پہنچے اور اس ملک میں دار التبلیغ کی بنیاد رکھی.تبلیغ کے ابتدائی حالات مولوی نذیر احمد اس کا بیان ہے کہ اس یہاں پہنچ کر مجھے معلوم ہوا کہ غیر مسائعین کے پراپیگنڈا کے اثر کے ماتحت فری ٹاؤن کے غیر حدیوں نے 4 پونڈ جمع کر کے اس مرض سے لاہور بھیجے ہوئے ہیں کہ وہاں سے ایک مبلغ ان کی امداد کے لئے بھیجا جائے.میں نے یہاں آتے ہی پرائیویٹ ملاقاتوں کے ذریعہ جملہ غلط فہمیوں کو جو ہمارے خلاف پیدا کی گئی تھیں دور کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجہ میں بعض لوگ جماعت میں داخل ہونے شروع ہو گئے.مخالفین کے حوصلے اس قدر بڑھے ہوئے تھے کہ له - الفضل ۱۸ اپریل ۹۲۷ ره مه ہے.الفضل مدار جنوری اور مرگ به

Page 426

خود بخود ان کی طرف سے لوکل اخبارات میں ختم نبوت کے متعلق مضامین شائع ہونے شروع ہو گئے.ہماری طرف سے نہایت تفصیل سے جواب دیئے گئے.......مخالفین نے جماعت کی ترتی دیکھیکہ لوگوں کو یہ کہکر بد دل کرنا چاہا کہ اگر احمدیت میں صداقت ہے تو آئی مسلم کانگرس کے علماء کو پہلے قائل کیا جائے میں نے اس موقعہ کو غنیمت سمجھکہ کانگریس کے ایک جلسہ میں احمدیت کے متعلق لیکچر کے لئے وقت مانگا.اگر چہ علماء نہ چاہتے تھے کہ حق ظاہر ہو.مگر ان کے لئے انکار کر نا مشکل تھا.چنانچہ میرے لئے ایک دن مقرہ کہ دیا گیا.بفضلہ تعالی جملہ ما فی اُس دن جمع ہو گئے.اور میں نے نہایت تفصیل سے دفات مسیح اور صداقت مسیح موعوداً پر بڑا گھنٹہ تک لیکچر دیا.بدیں یہ لیکچر مرتب کر کے ایک اخبار میں بھی شائع کرا دیا گیا.اس میں پیغامی فتنہ کا بھی تفصیل سے ذکر تھا.-.......اب مخالفت اور بائیکاٹ کا ہتھیار استعمال ہونے لگا.لیکن ہم نے ایک احمدی کے مکان پر ہفتہ وار لیکچروں کا سلسلہ جاری کر دیا اور پوسٹروں اور لوکل اخبارات کے ذریعہ لیکچروں کا اعلان کرتے رہے اور انفراد کی تبلیغ بھی بدستور ہوتی رہی - WiLBERFORCE MEMORIAL ہال میں بھی جو فری ٹاؤن کا سب سے بڑا اور شہو رہاں ہے.چار لیکچر دیئے گئے.اور دو دفعہ لوکل BROADCASTING سٹیشن کے ذریعہ ان لیکچر نیکی اعلان کر دیا گیا.اسی طرح ایک عیسائی دوست کے مکان پر بھی ہفتہ وار لیکچروں کا سلسلہ جاری رہا.علاوہ افریقین لوگوں کے شامی لوگ بھی بعض لیکچروں میں کثرت سے آتے.اور سوالات کا جواب حاصل کرتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ و السلام کی کتاب استفتاء شاہی اصحاب کو پڑھنے کے لئے دی گئی.اور سات کاپیاں فروخت بھی ہوئیں.اسطرح احدیت حقیقی اسلام در تمد شهزاده ریز نهایت کرت سے فروخت کی گئیں.اور پڑھنے کے لئے مارتیا دی گئیں.حکومت کے اعلیٰ حکام کو شہزادہ ولیز کی پسند کا پیاں تحفہ دی گئیں، یہاں سے بعض لوگوں نے ہمارے مضامین جواب کے لئے لاہور بھیجے وہاں سے دو مضمون آئے.اور لوکل اخبارات میں شائع ہوئے.جن کا جواب ہماری طرف سے فوراً شائع کر دیا گیا ، غیر مبائع مولوی غلام نبی مسلم ہیں.اے.منشی فاضل 14 فروری مشاء کو یہاں پہنچے تھے.مگر فضاء اپنے خلاف دیکھ کر اس قدر پریشان ہوئے کہ ۲۶ار مارچ مرد کو لاہور کر اجازت لئے بغیر بھی یہاں سے قرضہ لیکر ہندوستان واپس چلے گئے.ہمارے پاس سانشاء سے لیکر تک کے انگریزی ریویو موجود تھے.جن کے ذریعہ پیغامی منافقت طشت از بام ہو گئی حضرت

Page 427

ی مودی کی کتب موجود تھیں.ان کو کہاں چھپا سکتے تھے.مجھے کہنے لگے کہ ابیاری منظر بند کرد.....ایک تقریب ان کی فوری واپسی کی یہ بھی ہوئی.کہ لوکل غیر احمدیوں سے وہ عربی میں بالکل گفتگو نہ کر سکتے تھے.گویا جنہیں اسلام سکھلانے کیلئے آئے تھے.علوم دینیہ میں ان سے کمتر ثابت ہوئے.آخر بی.اسے تک عربی لی ہوئی تھی.ایک دو فقرے تو بولتے گراتي مُهِينَ مَنْ أَرَادَاهَا نَتَكَ اور وَ جَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا کے اہل قانون نہ ٹوٹ سکتے تھے نہ ٹوٹے ہیں موادی صاحب کی ان تبلیغی سرگرمیوں کے نتیجہ میں پہلے ہی سال احمدیوں کی تعداد رڈ سے بڑھو کہ تیشن تک پہنچ گئی سه یر غیر معمولی تائید و نصرت دیکھ کہ آپ نے شمالی صوبہ کے دورے شروع کر دیئے اور لیکچروں، ملاقاتوں اور لٹریچر کی تقسیم سے جہاں میدان تبلیغ میں وسعت پیدا ہوگئی وہاں جماعت میں روز بروز اضافہ ہونے لگا کیے جون شہد سے آپ نے سیرالیون کے جنوبی صوبہ میں بھی تبلیغ واحدیت کا آغاز کر دیا.اس سلسہ میں آپ پہلے صوبہ کے ایک درالحکومت ہوں میں تشریف لے گئے اور پھر دیکھو بو دئے.دو لیکچر مساجد میں ، ایک عربک سکول میں اور تین مقامی چیف کی عدالت ہیں.ان لیکچروں میں آپ نے اسلام در احدیت کی صداقت اور عیسائیت کا بطلان واضح کیا.پر لیکچر کے بعد پہلا گئے سوالات کا موقعہ دیا گیا.پبلک جلسوں کے علاوہ سلم زعماء کو پرائیویٹ ملاقاتوں میں اور عوام کو مساجد میں قبول احدیت کی دعوت دی نیز انگریز ڈسٹرکٹ کمشنر اور پراونشل کمشنر سے ملاقات کر کے انکو جماعت احمدیہ سے متعارف کرایا.تو سے پائیں میں کے فاصلہ پر باؤ کا ہوں نامی ایک قصبہ ہے جو سونے کی کانوں کیلئے بہت مشہور ہے اور دور دراز علاقوں کے ہزاروں لوگ یہاں کانوں میں کام کرتے ہیں.آپ نے اس قصبہ میں دوماہ تک تبلیغ کی.اور خدا تعالیٰ کے فضل سے منوا کے قریب احمدیوں پر مشتمل ایک جماعت پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے.تھر اور باد ما ہوں کے علاوہ آپ نے گورا ما ، وانڈو.سمبارو اور بلاما نامی ریاستوں کا بھی تبلیغی دورہ کیا.اور کئی رڈ سام اور چیف حلقہ بگوش احمدیت ہوئے اور اشاعت اسلام کے کام میں مولوی صاحب کی مدد کرنے لگے.ان رؤساء میں سے پیرامون چیف صلاح الدین.وئے محمد پیرامونٹ چیف بائیو.پیرامونٹ چیف سار سار انڈو پاک ٹیمیں پیرامونٹ چیف خلیل گا مانگا.پیرایہ نٹ یف لھائے جانیاں لا ہائے بایاں.خاص طور پر قابل ذکر تھے یہ سکے " ااااااااااااه ۵۵ رپورٹ سالانہ صیفی جات صدر انجمن احمدی - کم می شاه لغایت ۱۰ اپریل شده ۵۳۰ تا هم به اینا ص ۵۵ - اراد ردم که فضل به امارع مره من به

Page 428

چونکہ دو ستر افریقی ممالک کی طرح یہاں بھی عیسائی سکول مسلمانوں میں کفر وارتداد پھیلانے کا موثر ذریعہ بنے ہوئے تھے اور مسلمانوں کا مستقبل اپنے مدارس نہ ہونے کی وجہ سے سراسر تاریک ہو رہا تھا اس لئے مولوی نذیر احمد صامو نے ۱۳ میں روکھ پر یں پہلاں احمدیہ سلم سکول قائم کیا جو بہت جلد ترقی کر گیا.را بس شاندار کامیابی سے عیسائی لوگ بوکھلا اُٹھے اور انہوں نے اس کی مخالفت میں ایمر کی چھوٹی کا زور لگایا.مگر اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل فرمایا کہ نہ صرف اس سکول کی عمارت بھی بن گئی.بلکہ عمائد مملکت نے اس کی گرانٹ کی بھی منظوری نہ سے دی لیے دوسرا اہم کام جماعت کے استحکام کے لئے یہ انجام پذیر ہوا کہ ابتدامی احمدی مستقین پر یہ پابندی تھی کہ وہ جہاز سے اترنے سے پہلے 4 پونڈ بطور ضمانت پولیس کے پاس تبع کرائیں.مولوی صاحب کی کوشش سے سیرالیون کے گورنر ما دینے بہت جلد یہ پابندی اٹھا دی.اس طرح حکومت سیرالیون نے جماعت احمدیہ کی مستقل حیثیت تسلیم کر لی.سے سیرالیون کے مقامی باشندوں میں اشاعت احمدیت کے لئے مقامی مبلغین تیار کئے مقامی مبلین پیر بجانے ضروری تھے.اس اہم ضرورت کی طرف بھی مولوی نذیر احمد صاحب نے ابتدا ہی سے تو جو شروع کر دی تھی.چنانچہ آپ نے خندہ میں شیخ مر گناہ کو مارچ شدہ میں الفا ابراہیم زکی کو اپریل سن شہد میں سر عقیل تیجان کو ستمبر الہ میں مٹر محمد کمانڈ الیہ نے کو.فروری سارہ میں الفا سرار شاہ مینگورا اور اور ستارو میں الفا فوڈ سے تھا لھو کو لو کل مبلغ مقرر کیا.شے ے.رپورٹ سال انه صدر انجمن احمدیه تیم سی شاره دعایت ۳۰ را پریل شرحه و الفضل و راگست اور ملا کالم به تھے.کے.اب فوت ہو چکے ہیں : ہے.تبلیغ کے سلسلہ میں آپ نے بہت سی مشکلات اور مصائب برداشت کیں.یعنی کہ ایک بار قیر بھی ہوئے.مگر نہایت اخلاص کا نمونہ دکھایا.آج کل اپنا کاروبار کہتے ہیں : ہے.اب شینگے احمدیہ سکول کے ہیڈ ماسٹر ہیں.23 - الحاج موں نا نذیر احمد علی صاحت کیے ساتھ بطور ترجمان کام کرتے رہے.ان دنوں فری ٹاؤن پرائمری سکول کے ہیڈ ما سٹرا در جماعت احمدیہ سیرالیون کے جنرل سیکرٹری ہیں ہے.اب تک تبلیغ سلسلہ میں نہایت اخلاص سے مصروف ہیں : شه - صدر انجین احمدیہ قادیان کی ایک مطبوعہ رپورٹ ہایت یکم مئی 9 لغایت ۱۳۰ اپریل ۱۹۳۷ در ۳ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دنوں شیخ علی بانسری، اور مسٹر جید السیاری نامی احمدی افریقین بھی تبلیغ پر مقرر تھے موشور اند که رو کو پر سکول کے ہیڈ ما سٹر بھی رہتے ہیں ہے

Page 429

۳۹۱ ران ابتدائی مخلص مبلغوں کے بعد مندرجہ ذیل لوکل مبلغ وقتا فوقتا خدمت دین کیلئے میدان عمل میں آئے.القاموسی سووا (9) - الفاعباس کمارا ( ) - الفارو او د انکما را دی التا ابراهیم با (2) - الغافر دامے کو سرمہ (۱۳) سیرالیون کی دینی تعلیمی ضروریات کے پیش نظر مولوی محمد صدیق صحب امرتسری کا دور حضرت علیہ اسی انسان کے ارشاد کے اخت مولوی محمد صدیقی صاحب امرتسری لنڈن سے د مارچ شہداء کو یہاں پہنچے.اور آتے ہی مولوی نذیر احمد علی صاحب کے دوش بدوش تبلیغ احمدیت کرنے لگے.مرکزی مبلغین کا تبلیغ احدیت کے اس سلسل میں یہ دنوں مجاہد پہلی بار مار مارچ سنگ در کوفری ڈوی سے تبلیغی دورہ پر روانہ ہوئے اور رو کو پر.روہاتھ کا میا ، روسینوا ٹوٹی ، میں پہلا اجتماعی دوره پیغام احدیت پہنچانے کے بعد سور اپریل نگار کو روکو پیسے واپس فری ڈون ۳ پہنچے.جہاں اپنے چند روزہ قیام میں بعض اہم تعلیمی فرائض انجام دینے کے بعد ۲۳ را پریل ن ا د کور جنوبی مینڈے (AENDE) پر اونس کی طرف روانہ ہوئے.سب سے پہلے صوبہ کے مرکز بو میں انفرادی تبلیغ کی.پھر ایک گاؤں ڈانبار میں گئے جہاں صرف چار روزہ تبلیغ سے چودہ نفوس پرمشتمل نئی جماعت قائم ہوگئی.ڈانسہارا سے مویا جو آئے یہاں اور بیٹے فو کے باشندوں تک پیغام حق پہنچایا.کے دریاست گورامہ کے مرکزی قصبہ ٹونگے میں جب جماعت کا قیام ہوا تو وہاں کے مسلمان علماء اور عیسائی پادریوں نے مل کر جون تو کو احمدیوں کو تنگ کرنا شروع کر دیا جس پر یہ دونوں مبلغ بیماری کی حالت میں 14 میل پیدل پہاڑی سفر کر کے وہاں پہنچے.مولوی نذیر احمد صاحب نے ایک امریکن عیسائی پادری مسٹریڈنر (MR LEADER) سے ایسا نه به دست مناظرہ کیا کہ وہ میدان مباحثہ سے بھاگ نکلے.باؤ باتوں کے ذیلی مرکز کی سیرالیون میں اب تک جو جماعتیں قائم ہو چکی تھیں ان سب میں باد کا ہوں کی جماعت باقی سب جماعتوں کی نسبت زیادہ مضبوط اور مضبوطی اور عیسائیوں کی پسپائی مخلص تھی لیکن باہر سے جا کر آباد ہونے کی وجہ سے انہیں قانو اوہ حقوق حاصل نہیں تھے جو اس ریاست کے ان باشندوں کو حاصل تھے.ریاست کا اما مقام پیرامونٹ یه - آپ ۲۴ فروری کشور کو لندن سے عازم سیرالیون ہوئے.رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمرینہ حکیم می شن در عنایت ۳۰ را پریل شکار ماہ کے قبیلہ اور زبان کا نام سکے.الفضل و راگست شام

Page 430

چیف عبدار میں احمدیت کا شدید مخالف تھا.جو احمدیوں کو مختلف طریق سے پریشان کرتا رہتا تھا.کبھی بلاوجہ کسی احمدی کو جرمانہ کردیا اور کبھی احمدی مبلغ کے اخراج کے لئے حکومت سے ساز بیانہ کرتا جس کے پیچھے دراصل عیسائیوں اور غیر حدیوں کی منظم سازش کار فرما تھی.کہ اسکی با وجود چیف کو گورنمنٹ کے فیصلہ کے سامنے تجھکنا پڑا.اور انسی بالا خر احمدیہ دار التبلیغ اور احمدیہ سکول کے لئے ۲۰۰ × ۲۰۰ فٹ زمین ایک پونڈ سالانہ کرایہ پر دے دی اور ہ میں رہ کو یہ اس ریاست کے قصبہ باد کا ہوں میں دوسرا احمدیہ سکول کھول دیا گیا.اور مسٹرعمر جاہ جماعتی تبلیغ در تربیت کے علاوہ سکول میں کام کر نے پر مقررہ کر دیئے گئے.اگر چہ سکول قائم ہو چکا تھا مگر ریاست بونیاں (LUNYA) کے پیرامونٹ چیف کی مخالفت بدستور قائم رہی.اور مسٹر گا مینارا ڈسٹرکٹ کمشنر نے احدی میبلین سے منا طورپر کہ دیا کہ اگر ریاست کے مقامی حکام احمدیت کو پسند نہیں کرتے تو احمدیوں کو باڈتا ہوں سے اپنا مرکز اٹھانا پڑیگا.مگر مبلغین احمدیت نے اس دھمکی کی ذرہ بھر پیدا نہ کی اور اپنا کام جاری رکھا.چنانچہ مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری کئی ماہ تک یہاں مقیم رہے اور آپ نے احمدیہ مسجد اور احمدیہ سکول کی پہلی عمارتوں کو گرا کمر نئی اور زیادہ وسیع عمارتیں تیار کرائیں.نتیجہ یہ ہوا کہ عیسائی میشن سکوں جو وہاں دس سال سے چل رہا تھا مقابلہ کی تاب نہ لا کر بند ہو گیا.اور یونائیٹڈ بریدون مشن - UNITED BRETHREN) missions ناکام ہو گیا.لہ مولوی نذیر احمد صاحب کو سید نا حضرت خلیفہ ربیع الثانی رضی اللہ تعالی سیرالیون مالک میر طبیعی مرد کی طرف سے بھی ایک چھٹی بی میں ہی حضور نے اظہار افسوس کرتے بھی ملی میں ہوئے فرمایا کہ سیرالیون میں جماعت کی ترقی کی رفتار بہت دھیمی ہے.اگر صحیح طریق سے کوشش کی جائے تو بہت جلد سارہ سے سیرالیون میں احمدیت پھیل سکتی ہے.مولوی صاحب کو حضور کا یہ ارشاد پڑھکر بہت ہی فکر اور تلق ہوا.مولوی محمد صدیق صاحب اس وقت ضلع کینما کے قصبہ باما BLAMA میں مقیم تھے.آپ فورا تو اسے بلا کا مشورہ کے لئے تشریف لائے اور فرمایا کہ حضور ہمارے کام سے من معلوم نہیں ہوتے اور مجھے بھی محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے کام کی موجودہ رفتار ملک میں کوئی مذہبی ہل چل پیدا نہیں کہ یہ ہی حالانکہ سچائی کا بیج بونے کیلئے ایک تہلکہ اور ہنگامہ بر پا کر دینے کی ہ رپورٹ سالانہ صیفہ جات صدر انجمین احمدیہ - یکم مئی نشده نهایت ۱۳۰ را پریل ۱۳۱۶ مرد هر ۳ - ۲۳ به ے.الفضل ۲۵ نومبر ر ملنگ کا تم سایت

Page 431

۳۹۳ ضرورت ہے.مگر ہم چند ایک جگہ جماعتیں قائم کر کے سمجھ بیٹھے ہیں کہ بہت کام ہو چکا ہے.اور اس طرح ہم کو تا ہی کے مرتکب ہو رہے ہیں.مولوی محمد صدیق صاحب نے عرض کیا جو آپ فرمائیں میں حاضر ہوں.چنانچہ اسی ہفتہ جماعت کے دس پندرہ مخلصین کو بلا کر ایک میٹنگ کی گئی اور جملہ حالات کا جائزہ لیا گیا.بالآخر علاوہ دیگر تجاویز کے ایک تجویز یہ قرالہ پائی کہ سر دست دونوں مبلغین میں سے کوئی بھی ایک مقام پر لمبا عرصہ قیام نہ کرے اور کسی جگہ کو اپنا مرکز نہ بنائے.بلکہ کچھ عرصہ کے لئے سارے سے سیرالیون کو سرد ہے اور EXPLORE کر کے ایسے علاقے ڈھونڈے جائیں جو احمدیت کے لئے زرخیز ثابت ہوں.چنانچہ اس کے بعد حضور کو مفصل رپورٹ اور دُعا کے لئے کھکر یہ پروگرام بنایا گیا کہ مولوی نذیر احمد صاحب سیرالیون کے شمالی سرے سے جنوبی سرے تک اور مولوی محمد صدیق صاحب مشرقی سرے سے مغربی سرے تک سارے ملک کا ایسے طور پر دورہ کریں کہ ہر قصبہ اور ہر بڑے گاؤں میں ٹھہر کر تبلیغ کی جائے.چنانچہ اگلے چھ سات ماہ ان مجاہدین نے درود و افریقین طالبعلموں کے ساتھ متواتر لیے دوروں میں گزارے جس کے نتیجہ میں محض خدا کے فضل وکرم سے ملک کے مختلف جھوں میں آٹھ دس نئی جماعتیں قائم ہو گئیں جو ساتی پذیر ہیں.چنانچہ علاقہ ہو گیا rowain اور اسکی اردگرد کی مخلص جماعتیں انہیں مبارک ایام کی یادگار ہیں لیے ماگور کا اور ٹوئیں مخالفت کے باؤنا ہوں سے میشن کے اٹھائے جانے کے عظیم خور کے پیش نظر مبلغین سیرالیون نے اس دوران ما گبور کا اور ہوئیں با وجود ذیلی مراکز کا قیام علی الترتیب نمی اور مینڈے قوموں کیلئے مراکز قائم کرنے کی بھی جدو جہد کی تھی.مگر چونکہ باد کا ہوں میں احمدیت کے مقابلہ میں عیسائیت کو سخت ہر سمیت اٹھانا پڑی تھی اور عیسائیوں کے ٹوبی میشن کو اپنا میشن اور سکول بند کر دینا پڑا تھا اسلئے عیسائی مشنریوانی انتہائی کوشش کر کے مالک زمین اور پیرامونٹ چیف کو اس بات پر رضامند کر لیا کہ نا گہور کامی احمدیوں کے قدم نہ جتنے پائیں.لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری حکمت عملی سے نہ صرف زمین حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے.بلکہ خود کوشش کر کے احمدی اور غیر احمدی دوستوں سے دو سو تیس پونڈ کے قریب جمع کر کے احمدیہ مسجد اور احمدیہ دار التبليغ مہ مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری کے خود نوشت حالات سے ماخوذ ہے

Page 432

۳۹۴ کی جمانہ تین مکمل کر دیں سیه جنوبی صوبہ کے دارالخلافہ ہو میں مرکز قائم کرنے میں بھی سخت مشکلات کا سامنا کر نا پڑا.یہاں بھی سب عیسائی فرقے احمدیوں کی مخالفت میں متحد ہو گئے اور بو کے پیرا مونٹ چیف اور ریاستی حکام جو احمدیہ مرکز کے لئے ایک سیع قطعہ کی پیشکش کر چکے تھے زمین دینے سے بالکل مکر گئے.تے مولوی نذیر احمد صاحب نے ایک قطعہ زمین حاصل کرنے کیلئے ڈسٹرکٹ کمشنر کی طرف رجوع کیا.کمشنر صاحب کے سامنے بھی چیف اور اُس کے ساتھیوں نے اجارہ نامہ رکھنے سے انکار کر دیا.اور دعیسائی، چین نے تویہ بھی تسلیم کیا کہ پادریوں نے اسے خفیہ طور پر کہا ہے کہ احمدیت.عیسائیت کا رد کرتی ہے اس لئے احمدیوں کو زمین نہ دو.ڈسٹرکٹ کمشنر کے سمجھانے پر یہ لوگ اجارہ نامہ لکھنے پر آمادہ ہو گئے.لیکن ایک مخالف نے شرارت سے کہدیا کہ نقشہ میں احمدی مبلغ نے اصل زمین سے نہ اندر زمین شامل کرتی ہے.ڈسٹرکٹ کمشنر نےحکم دیا کہ طرفین موقع پر جاکر پر کال کریں.آخر ایک عرصہ کے بعد یکم مئی 1947 ء کو چیف کے نمائندے اور زمین کے مالکوں نے زمین اجارہ پر دینا منظور کرلی مگر جب ڈسٹرکٹ کمشنر کے پیش ہوئے تو چیف نے کہدیا کہ ہم آدھی زمین دیں گئے.اور ساتھ ہی مالکان زمین نے بھی یہ تھوٹ بول دیا کہ ہم نے تو صرف آدھی زمین دنیا منظور کیا تھا.ڈسٹرکٹ کمشنر نے چیف کو دو دن کی مہلت دی.جس پر چیف نے اسی روز سارے قطعہ کی منظوری دید تھی.اور ۱۹۲۳ء میں احمدیہ سکول اور دار التبلیغ تعمیر کر دیئے گئے.یہ دونوں عمارتیں اور نہ مین شہر سے دور ہونے کی وجہ سے مسجد کے لئے موزوں نہیں تھیں اسلئے مسجد کے لئے شہر کے اندر کوئی مناسب قطعہ حاصل کرنے کی کوشش کی گئی.لیکن پیرامونٹ چیف کو اصرالہ تھا کہ مسجد شہر سے دور بنائی جائے تا شہر میں احدیت نہ پھیل سکے.آخر آنریل سیف الحاج الماحی سوری کی کوشش سے یہ عقدہ حل ہوا.اور تو کے پیرامونٹ چیف نے شہر کے اندر زمین دے دی.مولوی نذیر احمد صاحب نے مسجد کا نقشہ تیار کر کے محکمہ صحت سے تعمیر مسجد کی منظوری حاصل کر لی مسجد له الفضل ۲۵ نومبر س ماء من دار التبلیغ کی تعمیر کے دنور میں مانگبور کا میں مخالفت کا ز دور پڑھ گیا مٹی کہ ایک دانے ایک بدبخت نے مولوی محمد صدیق صاحب پر حملہ کر کے ان کی آنکھیں ضائع کرنا چاہیں.لیکن ناکام رہا.ر افضل دارمئی ۲۳ مت ) گئے.الفضل - استمبر وارد صدا کالم ٣٣.تھے.الفضل ۲۵ نومبر س ص : +

Page 433

۳۹۵ کے ساتھ ہی ایک غیر احمدی عالم کا مکان تھا جی نے مسجد کی مخالفت کی تاہم چیف نے مسجد کی اجازت دیدی.لیکن اجازت ملنے کے بعد مسجد کی بنیاد رکھنے پر ازسرنو جھگڑا کھڑا کر دیا گیا.چنانچہ مولوی محمد صدیق صاحب کا بیان ہے کہ :." مسجد احد یہ ہو کی بنیاد رکھی گئی جس پر ٹو کے پیرا مونٹ چیف نے بہت جھگڑا کیا.اور چھی اس بہانے پر کہ مسجد کی تعمیر شروع کرتے وقت ہم نے اسکی اجازت نہیں لی.اور کہ احمدی اسکی اور اسکے خیر احمدی علماء کی عزت نہیں کرتے.اور کہ با وجود اسکے حکم کے احمدیوں نے گزشتہ عیار کی نمازہ غیر اصدیوں سے علیحدہ پڑھی.وہ اس قصبہ میں کسی احمد یہ عمارت کی اجازت نہیں دے سکتا اور اس طرح اپنی پولیس کے چند آدمی بھیجا کہ میں اُس وقت جبکہ ہم بنیادیں کھود کر لکڑی کی دیوا نہیں کھڑی کر رہے تھے ہم کو لگا رہا مسجد تعمیر کرنے سے منع کر دیا.اس پر میں چندا مدیون کمیت استی گفتگو کرنے کیلئے گیا.چونکہ اللہ تعالیٰ نے چیف کو اور ہمارے دیگر دشمنوں کو نا کامی کا مونہ کھانا تھا.اسلئے مسجد کا وہ نقشہ جو ہلتھ آفیسر اور ڈی سی اور خود چیف کا پاس کردہ تھا اور سب کے اس پر دستخط تھے ہمارے پاس موجود تھا.اور جب کافی بحث وغیرہ کے بعد چیف نے مسجد کی اجازت نہ دی تو میں نے بھری مجلس میں نقشہ نکال کر سامنے رکھتے ہوئے کہا.کہ آپ اپنے ہاتھ سے ہم کو تحریر ی طور پر اس نقشے پر دستخط کر کے اجازت دے چکے ہیں.اور دوسرے افسروں کے بھی قانونی طور پر دستخط موجود ہیں.اب کیوں انکار کیا جاتا ہے.پہلے تو وہ کہنے لگا کہ مجھے اس نقشہ کا علم ہی نہیں اور کہ ہم نے تھوٹے طور پر بنا لیا ہے.پھر کہا اچھا صبح وہ اپنے کلرک سے پوچھے گا.اور اگر یہ نقشہ واقعی اصلی ہوا تو ہم سجد بنانے کی اجازت دیدیں گے.چنانچہ دوسرے دن صبح آٹھ بجے ہی اسی اجازت دیدی.اور ہم نے اُسی دن مسجد تعمیر کرنا شروع کر دی - جمله احمدی مرد، مور میں اور بچے ہر جمعہ اور بعض دفعہ دو گردنوں میں بھی کام کرتے رہے.مکرم چوہدری محمد احسان الہی صاحب نے اللہ تعالیٰ کی اس عبادت گاہ کی تیاری میں خاص جانفشانی اور غیر معمولی محنت سے کام لیا محرا کے اندرونی جھتے کو ہندستانی طرز کا بنانے میں اور پھر مسجد کے باہر کی چھوٹی چار دیواری کھڑی کرنے میں انہوں نے خاص مہارت سے کام کیا.مسٹر علی مصطفے اور دیگر احباب نے بھی متواتر خوب اور مشقت سے کام کیا ہے ه الفضل ۲۹ جون ۱۹۳۵ ص ۳ کالم ملتا ہے

Page 434

اس طرح خدا کے فضل سے بہور کا دور ہو میں شاندار احمدیہ مراکز کی تکمیل سے احمدی کے قدم سیرالیون میں مضبوطی سے قائم ہو گئے اور ملک میں احمدیت کے وسیلے اثر و نفوذ کی راہیں کھل گئیں.بو احمدیہ سکول کیلئے کیسے مناسب موقع پر عمدہ زمین میسر آگئی ؟ یہ بھی ایک ایمان افروز واقعہ ہے جسکی تفصیل مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری کے قلم سے لکھی جاتی ہے.فرماتے ہیں :.جب الحاج مولوی نذیر احمد علی صاحب رضی اللہ عنہ ہو میں سیرالیون میں تشریف لائے.اس زمانہ میں رد یہ حال تھا.کہ اسی جو شہر میں میں کمرے میں ہم رہتے تھے اس کی لمبائی چوڑائی ک.ا سے زیادہ نہیں تھی اور سارا شہر کیا عیسائی اور کیا مسلمان کیا چھوٹے اور کیا بڑے سب ہمارے مخالف تھے عیسائی اور انکی مسلمان اس شہر کے چیف کو اکثر اکساتے رہتے تھے.کہ ہمیں وہ اپنے شہر یعنی بو میں جگہ نہ دے.لیکن خدا تعالیٰ نے احمدیت کے قدموں کو سیرالیوں میں جانا تھا.استی خود ہی ایسے سامان پیدا کر دیئے.کہ ان مخالفین نے شہر کے چیف سے مل کہ ایک دن مقرر کیا.یہیں میں احمدیوں کا غیر احمدیوں اور عیسائیوں کے ساتھ فیصلہ کن مباحثہ ہو.اور اگر احمدی ہار جائیں تو انہیں اس شہر سے نکال دیا جائے.اور کوئی جگہ نہ دی جائے.دراصل یہ ایک سکیم تھی جو احمدیت کے خلاف بنائی گئی.لیکن مَكَرُوا اللَّهَ وَاللَّهُ خَيْرُ الماکرین کے مطابق یہ سکیم مخالفین احمدیت ہی کے خلاف ہو گئی.جب مباحثہ کا دن آیا.لوکل پین نے محترم الحاج نذیر احد صاحب علی کو بتلا دیا تھاکہ اگر تم جیت گئے تو تمہیں جگہ دوں گا ورنہ تمہیں کوئی جگہ نہیں مل سکے گی.اور تم ني ده اس شہر سے نکال دیئے جاؤ گے.چنانچہ ہم دعائیں اور تیاری کرنی شروع کی جس جگہ مباحثہ ہونا تھا یہاں کی نیٹو (NATIVE) عدالت تھی.وقت مقررہ پر ہم نے اپنی عربی - انگریزی کتب اور بڑی بڑی حدیثی اور تفسیریں لے جا کر عدالت کے ایک طرف اپنی میزیں لگا کر رکھ دیں.جب سب لوگ جمع ہوئے تو ہمارے مخالف جو یہ سمجھ رہے تھے.کہ ہم بھی شاید دوسرے علماء کی طرح صرف روپیہ کمانے اور اکٹھا کرنے کے لئے آئے ہیں.اور روپیہ اکٹھا کرکے چلے جائیں گے.گھبرا گئے.اور از حد خوفزدہ اور مرعوب ہو گئے.اتنے خائف ہوئے کہ چیف نے بھری کورٹ میں اُن سے ایک ایک کرکے پوچھنا شروع کیا کہ تمہیں احمدیوں کے خلاف کیا شکایات ہیں.تو یکے بعد دیگرے انہوں نے اُٹھ اُٹھ کر کہنا شروع کر دیا.کہ ہیں احمدیت کے خلاف کوئی شکایت نہیں.وہ ہمارے بھائی اور دوست ہیں.سب سے پہلے یہاں کے ایک پادری ونسن نے اٹھکر کہا کہ مجھے حاجی نذیر احمد کے خلاف کوئی شکایت نہیں.بلکہ در حقیقت حاجی صاب

Page 435

۳۹۷ میرے گہرے اور ذاتی دوست ہیں.حالانکہ در حقیقت وہ ہمارا اسخت مخالف تھا.اور ایڑی چوٹی کا زور لگار ہے تھا کہ کسی طرح ہمارے قدم یہاں نہ جمھیں.اسکے بعد ایک مسلمان عالم میں کا نام سیدی ابراہیم تھا.اس نے اٹھ کر کہا کہ ہم تومسلمان ہیں اور یہ بھی سلمان بلکہ یہ تو سلام کی تبلیغ اور اشاعت کے لئے یہاں آئے ہوئے ہیں.ہمیں ان کے خلاف کیا شکایت ہو سکتی ہے.میں نے ہی تو ان کو شہر نے کی جگہ دی ہوئی ہے اور میرے ہی ہاں یہ رہتے ہیں.اگر مجھے کوئی شکایت ہوتی تو ایسا کیوں کرتا.اس پر چیف کو بہت غصہ آیا.اور اس نے بر سرعام اٹھ کہ کہا کہ تم لوگوں نے مجھے احمدیوں کے خلاف اکسایا اور تم روزانہ میرے کان بھرتے رہے کہ یہ ایسے ہیں ویسے ہیں.اُنہیں یہاں اس شہر میں جگہ نہ دی جائے.اور ان کے قدم نہ جمنے پائیں.اور تمہارے ہی کہنے پر میں نے آج مباحثہ کی صورت پیدا کی تاکہ مجھ پر حقیقت حال کھل جائے اور احمدیوں کہ جب تم شکست دیدو گے تو انہیں جگہ نہ دینے کیلئے میرے پاس ایک عذر ہو جائیگا.لیکن جب وقت آیا تو تم سب چُپ ہو گئے ہو.تم نے مجھے آج اس قدر شرمندہ کیا ہے کہ میں منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہا - اسلئے آج ہی اس مقام پر کھڑے کھڑے یہ اعلان کرتا ہوں کہ میں احمدیوں کو خود اپنی زمین میں سے اپنے شہر میں بہترین جگہ دوں گا.اور اب کوئی چیز بھی مجھے ایسی نہیں روک سکتی.چنانچہ اپنے ہمیں موجودہ احد یہ سنٹرل سکول کی زمین دی.جو اب واقعہ میں شہر کا سنٹر بنتا جارہا ہے.اور بہت بڑی زمین ہے.اس وقت سے خدا تعالیٰ نے اس شہر کے لوگوں کو ایسا نہ یہ کیا ہے.کہ اب تک کسی مخالف کو بالمقابل سر اٹھانے کا موقعہ نہیں مل سکا.اور خدا تعالیٰ نے ہماری پوزیشن مضبوط ترین بنادی ہے.اور اب موجودہ وقت میں ہمارے پاس اس شہر میں ایک زمین کی بجائے دو زمینیں ہیں.جن میں ہمارا سکول میشن ہاؤس احمدیہ مسجد - لائبریری اور پرنٹنگ پریس کی عمارات کھڑی ہیں.اے الفضل ۶ تاريخ ۱۹۵، ص۳-۳ : مگو کا میں بھی مخالفت کے دوران خدائی نصرت کا ایک عجیب نظارہ دیکھنے میں آیا یہ درد کی بات ہے.کہ :- ایک شامی ھر اپنے اس بات پر بگڑ کہ کہ اس کے لڑکے کے ساتھ جو احمدیہ سکول میں پڑھتا ہے.افریقین کالے لڑکوں کے مقابلہ میں امتیازی سلوک کیوں نہیں کیا جاتا.مخالفت شروع کر دی.ہمارے مبلغ نے اُسے بتایا کہ یہ ہم سے نہیں ہو سکتا کہ سفید اور کالے میں فرق کیا جائے.مگر اس نے اپنے لڑکے سکول سے نکال لئے اور بعض دوسرے شامیوں سے بھی ایسا ہی کرا یاد در مخالفت شروع کر دی.ایک دفعہ انکی ہمارے مبلغین کو سر بانارہ گالیاں دیں.اور حمد کرنے کی دھمکی بھی دی.مگر ا نہوں نے صبر سے کام لیا اور خدا تعالیٰ سے دعا کرتے رہے.ایک دن ارنی شامیوں کی ایک مجلس میں کہا کہ اب ہم ایک قلیل عرصہ میں احمدیت کو یہاں سے نکال دیں گے اور اس سکول کو برباد کر دیں گے.مگر احمدی احباب ان

Page 436

سیرالیون کے احمدیوں ابھی گور کا اور ٹوکے مراکز زیر تیری تھے.کہ اکتوری شکل دینی جماعت میں ہائے ہانگا ، پوئے ہوں.مانو کوٹو ہوں ، ٹونگیا اور کوریا کو اُنکے چینیوں پر مظالم کا پہلا دور اور موکل نمبرداروں کی طرف سے سخت اذیت پہنچانی شروع کر دی گئی.تقریباً آٹھ احمدیوں کو ٹونگیا میں صرف احمدیت کی وجہ سے آٹھ پونڈ جرمانہ کیا گیا اور دو دن قید میں رکھا گیا.ایک دن ان احمدی روزہ داروں کو روزہ کی حالت میں صبح سے شام تک سورج کی تپش میں رکھ کہ سمرا دی گئی اور آئندہ کے لئے قانون بنا دیا گیا کہ کوئی احمدی مسجد یا گھرمیں نماز ادا نہ کرے.اسی طرح ایک افریقن احدی مبلغ کو تین پونڈ جرمانہ کرنے کے علاوہ ان کو بالکل برہنہ کر دیاگیا اور ہاتھ پاؤں باندھ کر ساری رات قید رکھا گیا.ہانگا اور پوٹے سون میں بھی نماندہ کی ممانعت کے علاوہ 1 پونڈ جرمانہ کیا گیا.ٹونگیا کے امام اور دیگر مخلصین کی آنکھوں میں پسی ہوئی مرچیں ڈالی گئیں بعض کو رمضان میں بحالیت روزہ کئی کئی گھنٹے تپتی ہوئی دھوپ میں کھڑا رکھا گیا.پانگو ما " DANGUNA کے بعض احمد یوں کی گھٹنوں تک زمین میں گاڑہ کہ ان سے احمدیت سے تو یہ کہ انے کی کوشش کی جاتی رہی.بعض سے بیگار کے کام اور شدید محنت کے اور ادنی درجہ کے کام کئی روز تک لئے جاتے رہے.بعض احباب کو نا قابل ادا اور ، جرمانے کئے گئے.بعض کی بیویاں ان سے چھین لی گئیں.بعض کو اُن کے آبائی گاؤں سے نکال کر اُنکی جائداد پر قبضہ کیا گیا.بعض کو لوکل عہدوں سے ہٹا کر ذلت آمیز سلوک کیا جاتا رہا.بقیہ لایا : لوگوں کے مقابل میں کمز ور تھے.اور مخالفین کا بڑا اجتھا تھا.مگراللہ تعالیٰ کی آخرت اپنے بندوں کیلئے ظاہر چھوٹی اس کی غیرت نے جوش مارا اور وہ شخص جو مدت سے بڑے دعوے کہتا تھا خدا تعالی کی گرفت کا شکار ہو گیا.اس کا وہی لڑکا جو ائنی احد یہ سکول سے اُٹھا لیا تھا تپ محرقہ کا شکارہ ہو کہ مر گیا.اور اس کا بڑاٹ کا سرکار کی مال کی چوری کے الزام میں پکڑا گیا.اور اُسے بچانے کی تگ درد کے سلسلہ میں اُسے قریبا ایک ہزار پونڈ صرف کر نا پڑا مگر پھر بھی اُسے تیرہ ماہ قید سخت اور رہا ہونے کے بعد اخراج از ملک کی سزا ہوئی.ایک موقع پر ایک شامی نے سفارش کی کہ اس کی رہے چھوٹے لڑکے کو پھر سکول میں داخل کر لیا جائے مگر امدی مبلغین نے یہ شرط پیش کی کہ وہ خود اپنی غلطی کا اعتراف کرے.اس بات سے بگڑ کر ائشی ریلوے سٹیشن گبور کا پر پھر احمدیوں کو برا بھلا کہا اور بد زبانی کی.مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے غریب بندی کے لئے اس قدر غیر دکھائی کہ وہ فری ٹاؤن پہنچتے ہی جہاں وہ جارہا تھا بغیر لائسنس کے سونا فروخت کرنے کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا.اور اٹھارہ تولہ سونا بھی جو اس کی قبضہ میں تھا ضبط کر لیا گیا.عدالت میں مقدمہ چلا جہاں سے سونے کی ضبطی کے علاوہ اُسے جو بیانہ کی سزا ہوئی.اس کے بعد امر پر نا جائز ذخیرہ اندوزی کے جرم میں بھی مقدمہ چلایا گیا اور اب اس کا سٹور بھی ضبط کر لیا گیا ہے ه : الفضل ۲۰ دسمبر ۱۹۲۳ در مدت کالم علت ۲ ہے +

Page 437

۳۹۹ مولوی نذیر احمد صاحب نے ایک طرف حضور کی خدمت میں ۲۱ اکتوبر سکسی مرد کو بذریعہ تالہ دعا کی درخواست کی اور دوسری طرف مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری کو کینیا ڈی سی اور چینیوں کے پاس ان ظالمانہ کاروائیوں کے انسداد و غیرہ کیلئے روانہ کیا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ مہم کامیاب رہی.اور دسمبر سایہ کے آخر میں تمام احمدی قیدی نہ صرف آزاد ہوئے اور آزادانہ طور پر حریت پر عمل کر نے لگے.بلکہ تمام جرمانے بھی حکومت نے واپس دلا دیئے ہیں اگر چہ ان تکالیف کا تو ازالہ ہو گیا مگر اگلے سال دسی اردو میں مظالم سیرالیون کے احمدیوں کا دوسرا دور شروع ہوا.چنانچہ مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری اور میر دوسرا پر مظالم کا دو ادور نے سیرالیوں سے رپورٹ بھجواتے ہوئے لکھا:.سیر الیون کی بعض احمدی جماعتوں کو ان علاقوں کے پیرا مونٹ چیف بہت تنگ کر رہے ہیں ہر ممکن کوشش سے اپنے علاقے کے جملہ احمدیوں کو احمدیت چھوڑنے پر مجبور کر رہے ہیں.ایک علاقہ کے احمدیوں کو طرح طرح کے جھوٹے الزامات اور جھوٹی گواہیوں کے ذریعہ نہ صرف ضلع کے حکام کے سامنے بدنام کیا جارہا ہے.بلکہ قید بھی کیا جارہا ہے.میر وہاں مقرر کردہ امام العائم سنوسی پر یہ جھوٹا الزام لگا کہ کہ استمی چیف اور اسکی علاقہ کے ایک بت کی جس کی وہ پوجا کرتے ہیں.اور ہر طرح سے اسے ڈرتے بھی ہیں.احمدیہ مسجد میں وعظ کے دوران میں بہتک کی ہے.ان کو دو ہفتہ تک ننگا کر کے اور پاؤں میں بیڑیاں ڈال کر قید میں رکھا گیا.جب میں نے ڈی سی صاحب کے ہاں شکایت کی تو جھوٹ اور دیگر بہانوں سے اور ادنی ملازموں کو رشوت دیگر مقدمے کی نوعیت بدل دی.اور ڈی سی کو وہاں کی جماعت اور ان کے امام سے بدظن کر دیا.تاکہ ڈی سی.انہیں زیادہ سختی کرنے کا اختیار دے.میں نے ڈی سی کے ہاں اپیل کی ہے.اور تمام حالات سے انہیں دوبارہ آگاہ کیا ہے.لیکن چیف بھی اپنے طور پر کوشش کر رہا ہے کہ احمدیت کو اپنی چینڈم سے نکال دے.اور اس نے ڈی سی کو درخواست دی ہے.کہ وہ ہر گز احمدیت اپنے علاقہ میں نہیں چاہتا.اور کہ اسکی آدمی یا تو احمدیت سے انکار کر دیں یادہ ان کو وہاں سے نکال دیگا.اور احمدیوں کا مشن ہاؤس اپنے قبضہ میں کرلے گا.ڈی سی نے یہ جواب دیا کہ وہ با قاعدہ ایک درخواست بنا کر اور تمام وجوہ اس امر کی لکھ بھیجے.پھر وہ اپنی رائے لکھنے کے بعد ڈویژنل کمشنر کی منظوری کیلئے الفضل ۲۸ ر تمبر ۹۲۳ ص به

Page 438

۴۰۰ اور بھیج دیا.چیف اور اسکے لوگوں نے اپنے بہت جس کو وہ شیطان (oaviL) کہتے ہیں کے سامنے شراب پی کر وعدہ کیا ہے.کہ وہ احمدیت کو وہاں سے نکال دیگا.اور یہ قانون بنا دیا جائے کہ آئندہ اس کی چینڈم کا جو شخص بھی یہ کہے گا.کہ لوکل شراب حرام ہے یا کہ میں اب شراب نہیں پی نگا.اسے پانچ شلنگ جرما نہ کیا جائیگا.ان معاملات کو میں ایک دفعہ ڈویژنل کمشنر کے سامنے بھی تفصیل سے پیش کر چکا ہوں.مگر انہوں نے کوئی خاص توجہ نہیں کی.اب دوبارہ پیش کر رہا ہوں.اسی طرح ایک او چینڈم میں وہاں کا چیف وہاں کے نئے احمدیوں کو نہایت سخت اذیت پہنچا ر ہا ہے.باوجود اس کے کہ اس علاقہ کے ڈی سی صادر نے احمدیوں اور سیف کے درمیان ایک مقدمے کا فیصلہ احمدیوں کے حق میں دیا.اور آئندہ چیف کو ہدایت کی کہ ان کے مذہب میں مداخلت نہ کرے.پھر بھی اسی کوئی پرواہ نہ کی.اور اب دوسرے کھیلوں سے تنگ کر رہا ہے.اگر احمدی ایک دفعہ گاؤں میں اپنے طریق پر باجماعت نماز پڑھیں تو پھر شلنگ جرمانہ کرنے کے علاوہ سزا بھی دیتا ہے را در پیف کے خلاف کوئی گواہی دنیا نا پسند کرتا ہے اور نہ جمائت کرتا ہے.اسلئے جب بھی ان تکالیف کی رپورٹ احمدی میرے ذریعے یا بذات خود وہاں کے ڈی سی سے کرتے ہیں.تو وہ فورا کہ دیتا ہے یہ سب کھوٹ ہے.اور کہ نہ ان سے اچھا سلوک کرتا ہے.اور چونکہ ڈی سی کو چیغیوں کی عزت قائم رکھنے کا ہمیشہ نیال رہتا ہے.اسلئے چیف کی بات کا بغیر تحقیق کے اعتبار کر لیا جاتا ہے.اب یہ چیف ایسی تکلیفیں دے رہا ہے.چونکہ وہاں کے احمدی نئے تھے.ان میں سے سات آٹھ نے بظا ہر تکالیف اور مشکلات سے ڈر کر احدیت سے انکار کر دیا ہے.لیکن بعض اب تک صبر و تحمل کے برداشت کر رہے ہیں.اس بارے میں میں تین بار خود اس علاقہ میں جا چکا ہوں.حالانکہ میر ہیڈ کوارٹر سے بہت دور ہے.اور ڈویژنل کمشنر صاحب کو بہ تفصیل تو جہ دلا چکا ہوں.مگر اب تک ہمارے یہ بھائی تکالیف میں پہلے آتے ہیں.میں نے ڈرتیری کمشنر صاحب کو کہا تھا کہ احمدیوں کو مذہبی آزادی دلانے کے علاوہ انہیں اپنی مسجد بنانے کے لئے چھوٹی سی جگہ دوائی کھائے.کیونکہ ان کی تعداد پہلے میر کے قریب تھی.اور وہ کسی کمرے میں اکٹھے نمانہ نہ پڑھ سکتے تھے.انہوں نے چیف کو سکھدیا کہ احمدیوں کو گاؤں سے ایک میل دور مشن یا مسجد بنانے کیلئے جگہ دی جائے تا کہ احمدیوں اور غیر حدید میں جھگڑا نہ ہو سکے.چیفہ نے ایسا ہی کیا.لیکن چونکہ جگہ ڈورا در جنگل میں تھی.اور مسجد کیلئے نامناسب

Page 439

۴۰۱ اس لئے ہمارے آدمی بیچارے بے بس ہو کر رہ گئے.چیف کی طرف سے تکالیف اسی طرح جاری ہیں.اب یہ معاملہ بھی ایک دفعہ پھر ڈو تیری کمشنر صاحب کے ہاں اپیل کے رنگ میں پیش کر رہا ہوں.اور انہوں نے اگر کوئی مناسب کاروائی نہ کی.تو آگے اپیل کروں گا.ہمیں آجکل یہاں جملہ عمار میں جو شروع کر رکھی ہیں کی وجہ سے سخت مالی مشکلات ہیں اور میشن تقریباً ۱۲۰ پونڈ کا مقروض ہے.اس کے علاوہ سکولوں کے بارے میں مخلص کارکن شیخلاص ٹیچروں اور مخلص لوکل مبلغوں کی کمی ہمارے کام میں آج کل سخت رخنہ اندازہ ہے یا اے " راسی ضمن میں موادی صاحب کی ایک دوسری رپورٹ ملاحظہ ہو.آپ نے لکھا کہ :- عرصہ زیر رپورٹ میں تین پیرامونٹ چیغیوں کی طرف سے جماعتوں کو احدیت کی وجہ سے تکالیف پہنچائی گئیں.باڈر کی جماع کو عید الفطر کے موقع پران کے جینی نے غیر احد امام کے پیچھے نمازاد کرنیکا حکم دیا.مگر انہوں نے انکار کر دیا.جبیں پر چیف نے بعض کو قید کی سزادی اور بعض کو جرمانہ کر دیا.اسی طرح بو کے چیف نے میں امی با حرکت کر نی چاہی اور عید الفط کے موقعہ پر غیر احدی امام کے پیچھے نماز ادانہ کرنے پر احمدیوں کو قید کرنا چاہا.مگر احمدیوں نے فورا ڈی سی کو اطلاع کر دی اور ڈی سی صاحب نے چیف کو پیغام بھیجا کہ دہ مذہبی امور میں جماعت کو کسی امر پر تنبور نہ کرے.اسی طرح باد کا معاملہ بھی خاکسار نے اُس ضلع کے ڈی سی کے ہاں پیش کیا.اُس نے گو فیصلہ احمدیوں کے حق میں دیا.مگر ایسے رنگ میں کہ احمدی چینی سے دیے رہیں.اور چیف کی ظاہری پوزیشن پر کوئی حرف نہ تے میں کا نتیجہ یہ ہوا کہ چند دن بعد پھر اسی چیف نے احمدی امام کو پکڑ کر چودہ دن جیل میں ڈالے رکھا.میں نے پھر ڈی سی کے ہاں رپورسٹ کی مگر ڈی سی نے عمداً کوئی توجہ نہ کی.میں نے پھر کھوا، در یاد دہانی کرائی مگر انہوں نے کوئی جواب صاحب نہ دیا.اب سہ بارہ یہ معاملہ ڈو تیمل کمر کے ہاں پیش کیا گیا ہے.جن کا فیصلہ ابھی نہیں ہوا.اسی طرح ناتور کی با تمدی جماعت کو بھی ابھی تک سخت تکالیف دی جارہی ہیں.بذریعہ قید اور مہمانوں اور دوسر کئی طریقوں سے احمدیوں کو احمدیت چھوڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے.مگر سوائے چند ایک کے باقی بفضلہ تعالیٰ اب تک احمدیت پر قائم ہیں اور صبر سے سب کچھ برداشت کر رہے ہیں.کے ا حساب جماعت کو الک میکنین کی کی در بینی و مینی کام کو دوسیر کرنے کے لئے شعار میں مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری نے ایرانیوں کے مخلص احمدیوں کو تبلیغ کیلئے تبلیغی ۱۹۴۵ نہ وقف اراضی کی تحریک ایک ایک ماہ وقت کرنے کی تحریک شروع کیا میں پہلے سال تین حصوں پر نے لبیک کہا.اس کے بعد یہ تعداد ہر سال بڑھتی رہی.چنانچہ سندھ میں سیرالیون کے بھپتیں احمدیوں نے کے العدل ۲ در مئی ۳۵ و مردم کالم راو۳۱۳ به ۲۰۲ روز تامر افضل قلوبان اورالامان ۱۳ اگست ۱۹۳۵

Page 440

۴۰۳ 14DY.نہایت جوش د اخلاص سے حصہ لیا.اور ان کے ذریعہ اس سال اکتیس افراد بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہوئے جن پر سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے اظہار خوشنودی فرمایا.اگلے سال ۱۹۵۷ء میں قریبا استی احمدیوں نے ایک ایک ماہ وقف کیا ہے یه تبلیغی خصوصیت سارے مغربی افریقہ میں تنہا سیرالیون کے احمدیوں کو حاصل ہے کہ وہاں شا و سی اب تک وقف عارضی کا یہ سلسلہ برابر جاری ہے اور بہت مفید نتائج پیدا کر رہا ہے.مولوی نذیر احمد علی تمام موادی نذیر احمد صاحب سیرالیون میشن کا چارج مولوی محمد صدیق مصاب امرتسری علی کی المناک وفات کو دیکہ واپس قادیان کو روانہ ہو گئے.آپ کے بعد ایک عرصہ تک مولوی محمد صدیق صاحب انچارج مبلغ کے فرائض بجالاتے رہے.مولوی نذیر احمد صاب ۱۲ فروری ۳۵ کو قادیان پہنچے.جہاں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے آپ کو پورے مغربی افریقہ کا رئيس التبلیغ نامزد کر کے اعلان فرما یا کہ آئندہ ان کا نام مولوی نذیر احمدعلی ہو گا.حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کی ہدایت پر مولوی صاحب موصوت ۱۳۶ نومبر ۱۴۵ء کو قادیان سے پھر عازم مغربی افریقہ ہوئے.آپ کے ہمراہ قریشی محمد افضل صاحب، صوفی محمد الحق صاحب اور مولوی عبدالحق صاحب تنگلی بھی تھے سے مبلغین کا یہ وفده ۱۲ فروردی ء کو فری ٹاؤن پہنچ گیا ہے مولوی نذیر احمد علی صاحب دوسرے مبلغین کو سیرالیون میں متعین کر کے خود پورے مغربی افریقہ کی تبلیغی مہمات پر کنٹروں کرنے کے لئے 19 ستمبر دار کو گولڈ کوسٹ تشریف لے گئے.اسکی بعد آپ ریدہ سے تشرہ میں آخری بار سیرالیون آئے اور ایک لمبی بیماری کے بعد سیرالیون کے شہر تو ہمیں وار ٹی شہداء کو رحلت فرما گئے.انا للہ وانا الیہ راجعون.آپ مغربی افریقہ کی سرزمین کے پہلے بھاں نشار مبلغ تھے جو میدان تبلیغ میں شہید ہوئے.سرگز نمیرد آنکه دلش زنده شد بعشق و ثبت است بر جریده عالم دوام ما مولوی صاحب رضی اللہ عنہا کی سیہ الیون میں شہادت کے ضمن میں یہ امرخصوصی طور پر قابل ذکر ہے کہ اپنے نومبر کو قادیان سے مغربی افریقہ روانہ ہوتے ہوئے ایک ایڈری کسی جواب میں فرمایا تھا.له الفضل بر فروری شراء مست کالم ملتا ہے منہ کالم مکت ہے گئے.آپ پاکستان میں پہلی با استمر شداد کو تشریف لائے نہ الفضل در فروری ۱۹۲۵ء ص ۲ به که - الفضل ۲۷ نومبر ۲۵ ا م ص ۲ کالم مرا به شه الفضل در جون مراد مت کالم علے بے لے - مرض الموت کے کوائف اور سیرالیون میشن کے دیگر حالات کی تفصیل کے لئے ملا حظہ ہے.تابعین اصحاب احمد جلد چهارم و مولفه جناب ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے) ہے

Page 441

۴۰۳ آج ہم خداتعالی کیلئے جہاد کرنے اور اسلام کو مغربی افریقہ میں پھیلانے کے لئے جار ہے ہیں.......ہم میں سے اگر کوئی فوت ہو جائے تو آپ لوگ یہ سمجھیں کہ دنیا کا کوئی دور درانہ حصہ ہے.جہاں تھوڑی سی زمین احمدیت کی ملکیت ہے.احمدی نوجوانوں کا فرض ہے کہ اس تک پہنچیں اور اُس مقصد کو پورا کریں جسکی خاطر اس زمین پہ ہم نے قبروں کی شکل میں قبضہ کیا ہو گا.پس ہماری قبروں کی طرف سے یہی مطالبہ ہو گا کہ اپنے بچوں کو ایسے رنگ میں ٹریننگ دیں کہ میں مقصد کے لئے ہماری جانیں صرف ہو ئیں اُسے وہ پورا کریں کہ در تبلیغ سیرالیون و محی اداری اما این ها را داده ای دارد در این سی وان مولوی کے او نے حکم دیا کہ مبلغ سال میں ایک دو دفعہ ضرور کسی ملک میں مجمع صاحب کے عہد امارت میں ہو کر مجلس شوری منعقد کیا کریں.اس ارشاد کی تعمیل میں پہلی مجلس شوری سرمئی شملہ کو بو میں مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری امیر دانچارج میشن سیرالیون کی صدارت میں منعقد ہوئی جس میں جماعت احمدیہ کی تعلیمی تربیتی ترقی کے ذرائع میشن کی آمد بڑھانے اور اخراجات سے متعلق ایک معین طریق کار طے کیا گیا.اس پہلی شوری میں یہ بھی قرارپا یا کہ مینوں کو اہم مقامات پر متعین کیا جائے.اور ہر کچھ ماہ کے بعد اُن کی تبدیلی کی جائے.چنانچہ چو ہد ری احسان الہی صحاب جنجوعہ کے سپرد جماعتوں کا دورہ کیا گیا اور صوفی محمد اسحق صاحب ہے.مولوی عبدالحق صاحب ننگلی اور چو ہدری نذیر احمد صاحہ سے رائے ونڈی بالترتیب علاقہ فری ٹاؤن ، رو کو پیر ، بو سے بیل ہوئی اور بوئیدو، مگبور کا، مٹوٹو گا ، میشن اور انواع میکینی اور کو تکویلی کے حلقوں میں متعین کئے گئے تے عیسائیت کے خلاف مجالدین احمد نیت کی سرگرمیاں یکایک اتنی تیز ہو گئیں کہ امریکن میشن کے پادری مسٹر ڈیوڈ کا رنے انہیں دنوں ه الفضل ۲ نومبر ۳۵ در ۲۰ - مولوی نذیر احد علی صاحب کی وفات کے بعد حضرت خلیفہ ایسیح الثانی رض نے نسیم سیتی مساب کو مغربی افریقہ کا رئيس البيغ مقرر فرمایا.آپ رز تک اس منصب پر فائز رہے اور میں پاکستان واپسی تشریف لائے : ہے چوہد کی صاحب ۱۶ جون ی صاحب ۱۶ جون سم کو قادیان سے روانہ ہو کر دور کر دیں سیرالیون پہنچے پھر چون ساله ہ کہ میں نائیجیر پا منتقل کر دیئے گئے.واست ۹۲ میں آپکا تبادلہ گولڈ کوسٹ میں کر دیا گیا.شاہ میں آپ دبارہ سیرالیون بھیج دیئے گئے.جہاں کچھ عرہ بلیغی خد تا بجالانے کے بعد نیروبی اور یوگنڈا مشرقی افریقہ سے ہوتے ہوئے نو مبرا اور میں ہو گئے ہے ۲۸ فروری دار کو سیاسیون تشریف یہ ہے.یہاں آپ فریبی ٹاؤن مشن کے انچارج بنائے گئے اور ہم دینی خودتا ہوا کہ تھے کے بعد ا ار زوری سرود کو روانہ ہجر کہا ا ا پریل شار کو دائیں بوہ میں پہنچے : سه - سیرالیون میں آمد ۲۸ فردری نا ہو نے بعد جھے ۲۱۰ اکتو بر شاہی اور کو سیرا لیوں میں پہنچے.اور سہ میں واپس پاکستان میں آئے.له الفضل ۲۸ جوی ۲۶ شماره صلب A

Page 442

انجبار در سیسینٹ افریقین (بابت ضروری شام میں لکھا :- موجودہ حالات میں یہ بہتر ہو گا کہ ان لوں دینی سیرالیون کے باشندوں کو، اسلام کی طرف جھکاؤ کے باعث اپ چھوڑ دیا جائے.کیونکہ یہ پہلے سے اسلام کی طرف میلان رکھتے ہیں.اسلام نے ایک اعلی ضابطہ پیش کیا ہے.اور اخلاقی اعتبار سے کوئی معقول وجہ نظر نہیں آتی کہ عیسائیت اسلام کی مضبوط بنیا دوں کے خلاف کیوں دائمی مسکن نتیجہ کا کام جنگ جاری رکھے.اس نوعیت کی جنگ اب تک جاری ہے اور دونوں طرف سے تعلیماتی جدو جہد کا باد انتہائی درجہ پر ہے.کیونکہ کچھ عرصہ سے جماعت احمدیہ کے ذریعہ جو اسلامی ملک یہاں پہنچی ہے.رو کو پر کے نو بھی علاقہ میں اس جماعت کی مضبوط مورچہ بندی ہوگئی ہے.اور اس عیسائیت کے مقابلہ پر تمام تو کامیابی اسلام کو نصیب ہو رہی ہے.مثال کے طور پر اس مقابلہ کی صف آرائی کے نتیجہ میں تھوڑا عرصہ ہوا کہ کا مبیا میں امریکن دعیسائی مشن کو بند کرنا پڑا ہے." عیسائی مشنوں کھا پانچ ستارہ کے جگ جگ میر ایوان کے ایک امریکی پیش کی جسے ان دنوں لگ سیرالیون U.B.C.Mission کہا جاتا تھا اور آجکل E...B.Mission کہلاتا ہے، ایک کتابچہ CHRISTIAN CATECHISM کا دوسرا ایڈیشن بکثرت شائع کیا.اس کتا بچہ میں اسلام کے متعلق شدید زہر افشانی اور غلط بیانیاں کی گئیں تھیں اور آنحضرت صل اللہ علیہ وسم کے متعلق نہایت ناز نبا اور دل آزار الفاظ استعمال کئے گئے تھے.احمدی مجاہدین نے سیرالیون کے تمام مسلمان فرقوں کو اس دل آزار کتابچہ کے نقصانات سے بر وقت آگاہ کیا.مگر انہوں نے تو صرف حکومت کے سامنے اس کتے بچہ کی ضبطی کا سوال اٹھایا.لیکن سیرالیون میشن کے مبلغ انچارج مولوی محمدصدیق صاب امر تسری نے فوری طور پر مرکز سے مشورہ کے بعد ایک مدلل جواب بعنوان - A CHALLENGE" تیار کیا.جو چھپوا کر ملک کے طول و عرض میں کئی مہران کی تعداد میں ہر طبقہ To U.B.C.Mission" میں شائع کیا گیا.اس رسالہ میں نہ صرف یو پی سی مشین کو بلکہ سیرالیون میں اس وقت موجودہ تمام عیسائی مشفون سر برا ہوں کو چیلنج کیا گیا کہ وہ یا تو ایسی دل آزار کتب کی اشاعت سے بادہ ہیں اور یا پھر جماعت احمدیہ کے نمائندگان سے ایک فیصد کی پلک مناظرہ اسلام اور عیسائیت کے مواز نہ پہ کر لیں تاکہ پبلک پھر خود فیصلہ کر سکے که در حقیقت کونسا مذہب کا لگران بہتا ہے.لیکن کی عیسائی مشن کے سربراہ یا نما ئندہ کو نہ صرف یہ ملخ له الفضل ، اکتو بر نشادر دست دوم بیدی امن باحمد جلد چہارم من +

Page 443

۴۰۵ قبول کرنے کی جرات نہ ہوئی.بلکہ یو.پی سی میشن نے اپنے کتابچہ کی آئندہ اشاعت کا خود ہی بالکل بند کر دی.فروری سلاد میں چرچ آف انگلینڈ کے سربراہ اعلیٰ ڈاکٹر نشر آرچ بشپ آف کینٹربری ( DR FISHER) آرچ بشپ آف کینٹر بری چرچ آف انگلینڈ کو دعوت مت اللہ کے بلر مشنوں اور چرچوں کے معائنہ کے لئے سیرالیون آئے تو دارا تبلیغ سیرالیون کی طرف سے انہیں بھی قرآن کریم انگریزی اور دیگر اسلامی کتب تحفتہ دینے کے علاوہ ایک کھیلے خط کے ذرید تضمینی طور پر اسلام کی تبلیغ کی گئی.اورسید نا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہا کا ایک چیلنج بنام سر به ایران مذاہب عالم مطبوعه در دیباچه قرآن کریم پیش کر کے انہیں اور اُن کے گیارہ ہماہی اور پین پادریوں کو اس چیلنج کو قبول کرنے اور مقابلہ کے لئے نکلنے کی دعوت و ترغیب دی گئی.آرچ بشپ صاحب کے نام یہ عمل خط بعد میں چھپوا کر بھی سارے مغربی افریقہ میں کئی سال تک تقسیم کیا جاتا رہا.مگر کسی عیسائی پادری کو اسلام کے مقابل پر آکر اپنے مذہب کی حقانیت ثابت کر نیکی جرات نہ ہوئی.حضر جلیقه ای اشانی نے سیرالیون میں اسلام اور عیسائیت کی تبلیغی سیرالیون مین بلیغی جہاد جنگ کو فیصد گی مراحل تک پہنچانے کیلئے یہاں ہے در پئے متین کر نیوالے دوسرے مبلغین بھجوائے جن کے نام یہ ہیں :- (۱) مولوی بشارت احمد صاحب بشیر سندگی - (۲) مولوی محمد صادق صاحب لاہوری - د مولوی محمد یا ایم صاحب نہیں.(۲) مولوی محمد خان صاحب ہے.(۱۵) مولوی عبدالکریم صاحت (۷) مولوی محمد صدیقی صاحب گور ایرانی + ه ۲۰ اکتوبر شداد کو سیرالیون پہنچے.فروری شکار میں گولڈ کوسٹ منتقل کئے گئے.دوبارہ جون روی مرکز سے سیرالیون بھیجے گئے اور جماعت احمدیہ سیرالیون کے امیر اور انچارج مبلغ کے فرائض انجام دینے کے بعد کو واپس بڑ آئے ہو له - بجون شام میں سیرالیون پہنچے اور بلا ار تک جماعتی نظام کے تحت مشن کے تجارتی شعبہ کے انچا سرآ کر ہے یا ہے.۳ مارچ شاہ کو فری ٹاؤن پہنچے اور یکم مارچ شہد کو مرکز میں آئے دوبارہ اکتو برین شاہ کو روانہ کئے گئے اور ۲۲ رو کمر انشاء کو بیوہ میں پہنچے.والفضل در فریدی اشیاء مث الفضل ۲۵ رسی مواد مور کالم کا لفضل در استاد صبا کالم لے ہے ۴۲ - در جنوری ۱۳۷ و یا لیلی و میں وارد ہوئے.افضل در فروری ۹۲ مرمت و ایسی اور تمبر رہ کر ہوتی ہے شد - روانگی ۲۹ اکتوبه شه و ( الفضل ۲۹ اکتوبر سنتور واپسی یکم فروری شاد نے - پہلی بار روانگی دا راکتوری - واپسی ۲۲ رو نمبر مطار دوباره روانگی و رد میر شه شاید - واپسی ۲۲ دسمبر.آپ میرا ایون مشن کے امیر اور انچارج مبلغ کے عہدہ ہم بھی متانہ رہے :

Page 444

(۷) مولوی محمود احمد صاحب حمید - (۸) ملک خلیل احمد صاحب اختر (۹) قاضی مبارک احمد صاحب ہے.ملک غلام نبی صاحب ہے.(1) مولوی محمد بشیر صاحب کے شاد - (۱۲) مولوی محمد اسحاق صاحب خیلی با 2 (۱۳) قریشی محمد افضل صاحب ہے - (۱۴) سید احمد شاہ صاحب به - (۱۵) مولوی مبارک احمد مصاب ساقی به له (۱) شیخ نصیر الدین احمد صاحب به (۱۷) میر غلام احمد صاحب نیستیم کلیه (۱۸) مولوی عبد الفت دیر صاح ہے.(14) ۹ شاه - مولوی اقتبالی احمد صاحت ہے.حضرت خلیفہ آسیح الثانی شانے حیر الیون کی احدیہ کا نفرنسوں سیرالیون کی سالانہ احمدیہ کا نو ا کے لئے اپنی زندگی میں میں اہم پیغام بھجوائے جینے سے لئے حضرت میر المومنین کے خصوصی پیناتا اس کے متقین اور دوسرے احمدیوں کی درج عمل میں بہت اضافہ ہوا.اور ان کی تبلیغی سرگرمیاں پہلے سے بھی بڑھ گئیں.جماعت احمدیہ سیرالیون کی تیسری سالانہ کا نفرنس ۱۳ تا 14 دسمبر لاء کو منعقد ہوئی.اس پہلا پیغام کا نفرنس کے لئے حضور نے مندرجہ ذیل پیغام بذریعہ تار ارسال فرما یا :- "بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم برادران جماعت احمدیہ ملک سیرانیون السلام علیکم ودر حمد الشد و به کانتره یہ پیغام میں آپکے تار میش کے جلسہ سالانہ کے لئے بھجوا رہا ہوں.آپ کے ملک میں مغربی افریقہ + 1401 کے ممالک میں سے آخر میں تبلیغ شروع ہوئی ہے.لیکن آپکے ملک چار نظر ف سے ایسے علاقوں سے گھرا 1466 1495 شده روانگی ۲۷ جنوری شان اور افضل ۲۹ جنوری شنه ما وا پسی دارد بر مرد به سه رو انگلی ۲۷ جنوری ۱۵۵ رد الفضل (۲۹ جنوری ۵۵ ( صل) واپسی ، در اکتوبر شام : له روانگی ۲۷ جنوری شهداء والفضل ۱۲۹ جنوری شاء ما واپسی ۲۳ جولائی شکار ہے ہے.پہلی بار روانگی ۲۳ دسمبر تا واپسی اور فروری دوسری بار روانگی ۲۰ مارچ ۶ - واپسی ور نے ر به شه - روانگی اور فروری راد شد.دائیسی در جون : له روانگی ۲۱ ر ضروری ۵ مرد - شه - روانگی در ا پریل شاره واپسی 4 فروری مرد به شه روانگی ۱۲ را پریل ماد واپسی ۲۷ فروری نه - شه - روانگی در ستمبر م و واپسی اور مارچ ر ہے ہے.اکتو بر شراء میں نائیجیریا سے سیرالیون پہنچے بارہ تک سیرالیون میں مصروف تبلیغ رہے : ".روانگی و ر نو بر شده واپسی اور دو بر اشارہ ہے - به مردانگی ۱۸ رحمان ته واپسی ۲ دسمبر اور بے ہے.پہلی بار روانگی ۲۰ جولائی متشدد واپسی اور ستمبر 1446 - ۱۲ خود دوباره روانگی : مراکتور.۹۶ - |

Page 445

ہوا ہے.جو کہ احمدیت سے نا آشنا ہیں.پس آپ کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے.اور آپ کے لئے کام کے مواقع بھی بہت پیدا ہو جاتے ہیں.پس آپ لوگ اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے اپنی محنت اور اپنی کوشش کو بڑھائیں اور نہ صرف اپنے علاقہ میں احمدیت کو پھیلا نے کی کوشش کریں.بلکہ نائبیریا اور فرنچ افریقین علاقوں میں بھی تبلیغ کا کام اپنے ذمہ لیں.مجھے یقین ہے کہ اگر آپ لوگ اپنے فرائض کو اد کریں گے تو آپ کیلئے آخرت میں بہت ثواب جمع ہو جائے گا.اور اس دنیا میں آپ شمالی افریقہ کے رہنما بن جائیں گے.اللہ تعالی آپ کے ساتھ ہو اور آپ کو اسلام کی تعلیم پر سچے طور پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے.اور اخلاص اور قربانی اور اتحاد اور نظام کے احترام کا مادہ آپ میں پیدا کر سے یہ خاکسار (و ستخط) مرزا محمود احمد تخلیفہ ایسیح الثانی ۵۱ ۲۰۹۰۵ دسمبر کو پانچویں سالانہ کانفرنس کا انعقاد ہوا جس کیلئے حضرت خلیفہ المسیح دوسرا پیغام الثانی تو نے یہ مختصر مگر جامع پیغام بھیجا کہ : ** UNITE AND WORK, GOD With You > اندی " یعنی متحد ہو کہ کام کرد.خدا تعانے تمہارے ساتھ ہو.تے یر میں حضور نے تیسرا روح پہ در پیغام بھیجا جس کا تنی حسب ذیل ہے :.درپیغام تیرا پیغام برادران جماعت احمدیہ سیرالیون السلام علیکم ورحمه الله و به کا تها میں نے سنا ہے کہ آپ کی کانفرنس منعقد ہورہی ہے.احباب تو چاروں طرف سے آئیں گے ہی میر خالی احباب کا جمع ہونا مفید نہیں ہوتا جبتک ان کے اندر للہیت اور اخلاص پیدا نہ ہو.پس آپ لوگ اس کا انتظام کریں کہ مبلغین اخلاص اور لیگیت کے پیدا کرنے کی تلقین کریں.اور جماعت جس جوش کے ساتھ آئے اُس سے سینکڑوں گنا زیادہ جوش کے ساتھ واپس جائے تاکہ ملک کے چپہ چپہ میں احمدیت پھیل جائے.آپکے ملک بہت وسیع ہے.ابھی اس میں اشاعت حق کی بہت ضرورت ہے.جلدی اس طرف تو بجر کریں اور ملک کو اپنا ہم خیالی بنانے کی کوشش کریں تا کہ آپ لوگ اسلامی دنیا میں ایک سفید منصر ثابت ہو سکیں.خالی سیرالیون اسلامی دنیا میں کوئی نقش نہیں چھوڑ سکتا جبکہ پہلے وہ ایک عقیدہ پر قائم نہ ہو.اور پھر باقی مسلمانوں ه الفضل ۳ را پریل ۱۹۵۲ حمل کالم عم : سے اصلاح اور فروری و کالم سے +

Page 446

۲۰۸ کو اپنے ساتھ مل کر اسلام کی خدمت کہ ہے.پن اس مقصد کو آپ کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہیئے.اور اُس کیلئے جدو جہد کرتے رہنا چاہیئے.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.آمین.والسلام خاکسار - مرزا محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی.یکم دنمبر شمال کے جیسا کہ ان پیغامات سے بھی واضح ہے حضرت خلیفہ ایسے انسانی کی توجہ سیرالیون کی طرف ہمیشہ خاص طور پر رہی اور آپ اُس دن کو دیکھنے کے متمنی تھے جبکہ سیرالیون کے باشندوں کی اکثریت احمدیت کی آغوش میں آجائیگی چنانچہ حضور نے مولوی محمد صدیق صاحب گورداسپوری کی ایک چھٹی دمرتومه ۲۹ مارچ (ه) پر ارشاد فرمایا تبلیغ کو وسیع کریں بہت سست رفتا ر ہے.اب تک پانچ سات لاکھ آدمی وہاں ہو جانا چاہیئے تھا.ان ملکوں کی حالت عرب کی طرح ہے پاکستان کی طرح نہیں.اسی طرح مولوی محمد صدیق صاحب کی ایک اور رپورٹ پر ارشاد فرمایا.” ہم تو خواہش کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ جلد از جلد سارا سیریون احمدی ہو جائے.دخط 14 رمئی شملہ، بنام مولوی محمد صدیق صاحب گورداسپوری ) اس ارشاد کے چند ماہ بعد مولوی صاحب موصوف کی ایک تبلیغی رپورٹ حضور نے ملاحظہ فرمائی اور حضور نے در اکتو بشار کو تحریر فرمایا.تقریروں کی اطوار تو آ جاتی ہے.یہ کی اطلاع آئے گی کہ سیرالیون کے اکثر آدمی احمد ی ہو گئے ہیں.ماہنامہ افریقین کر سینٹ کا اجرا مین اور جان ہند کے دور مین و تبلیغ یاسین کی تاریخ جولائی میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں.کیونکر می شو اور نذیر مسلم پریس کا قیام میں مشن کی طرف سے مودی محمدصدیق صاحب امرتسری کی ادارت میں ماہنامہ "دی افریقین کر لینٹ (THE AFRICAN CRESCET) بھارتی کیا گیا تھا اتیک Crescet) ه - الفضل ۲۰ فروری مه من کالم ۲۱۲ : ے.اخبار کے اجراء پر سیرالیون گورنمنٹ کے وزیر مواصلات در سل در مسائل آن میل ایم ایس مصطفی سنوسی نے اسکے ایڈیٹر کے نام حسب ذیل پیغام بھیجا." میں آپ کو اور آپ کے احمدیہ مشن کو اس شاندا را در عظیم انقدر کام پر جسکا بیٹا آپ نے.مغربی افریقہ میں عموماً اور سیرالیون میں خوشا اٹھایا ہے.ہدیہ مبارکباد پیش کرتے ہوئے دلی خوشی محسوس کرتا ہوں.افریقین کر لینٹ کا اجراء آپ کے کام میں جو آپ تعلیمی اور نہ ہی میدان میں سر انجام دے رہے ہیں ایک کا انقدر اضافہ کا موجب ہوا ہے.اور سیرالیون کے ایک گردہ تنظیم کی دیرینہ خواہش اور ضرورت کی تکمیل کا پیش خیمہ ہے.اس اخبار کا مقصد ہوا کہ محض اشاعت اسلام اور اس کی مجھے اور اصل تعلیم سے لوگوں کو آشنا کرنا اور ملک کی عام خدمت ہے لہذا مجھے

Page 447

۴۰۹ جاری ہے اور مغربی افریقہ کے مسلمانوں میں بیداری کا موثر ذریعہ ثابت ہو رہا ہے.جولائی شام کو حضرت خلیفہ صیح الثانی کی مبارک خواہش کی تعمیل اور موادی نذیر احمد علی صاحب رضی اللہ عنہ کی یادگارہ میں بور کے مقام پر نذیر سلم پریس "فرید کیا گیا لیے اور سیرالیون کے ایک مخلص اور مخیر دوست الحاج سید علی رو جز صاب نے اپنا ایک عالیشان مکان جو اس وقت ایک ہزار پونڈ سے بھی زیادہ مالیت کا تھا.پریس کیلئے وقف سے کر دیا.رو جز صاحب قبل ازیں پریس کیلئے گیارہ سو پونڈ کا گرانقدر عظمیہ بھی پیش کر چکے تھے ہکے پریس کا قیام ایک غیر معمولی نشان کی حیثیت رکھتا ہے.جس کی تفصیل حضرت خلیفہ البیع الثانی کی زبان مبارک سے تحریر کہ نا زیادہ مناسب ہو گا.حضور فرماتے ہیں:."سیرالیون میں ہمارا ایک اخبار کھتا ہے.اسکی متعلق ہمارے مبلغ مھ نے لکھا کہ چونکہ ہمارے پاس کوئی پریس نہیں تھا اسلئے عیسائیوں کے پریس میں وہ اخبار پھپنا شروع ہوا.دو چارہ پرچوں تک تو وہ برداشت کرتے چلے گئے لیکن جب یہ سلسلہ آگے بڑھا تو پادریوں کا ایک وفد اس پولیس کے مالک کے پاس گیا، اور انہوں نے کہا تمہیں شرم نہیں آتی کہ تم اپنے پریس میں ایک احمدی اخبار شائع کر رہے ہو جب نبی عیسائیوں کی جڑوں پر تبر یہ کھا ہوا ہے.چنانچہ اسے غیرت آئی اور اتنی کہ دیا کہ آئندہ میں تمہارا اخبار اپنے پریس میں نہیں چھاپوں گا.کیونکہ پادری برا مناتے ہیں.چنانچہ اخبار چھپنا بند ہو گیا تو عیسائیوں کہ اسکی بڑی خوشی ہوئی اور انہونی ہیں جواب دینے کے علاوہ اپنے اخبارمیں بھی ایک نوٹ ملا کہ ہم ہے تو احمدوں کا اخبار کھانا بند کردیا ہے اب ہم دیکھیں گے کہ اسلام کا اعلان کے لئے کیا سامان پیدا کرتا ہے.یعنی پہلے ان کا اخبار ہمارے پڑئیں میں چھپ جایا کرتا تھا.اب چونکہ ہم نے انکار کر دیا ہے اور ان کے پاس اپنا کوئی پولیس نہیں اس لئے اب ہم دیکھیں گے کہ یہ جو سینے کے مقابر میں اپنا خدا پیش کیا کرتے ہیں اس کی کیا طاقت ہے.اگر اس میں کوئی قدرت ہے بقیہ حاشیہ : امید واثق ہے کہ یہ اخباری دنیا میں اور عوام کی نظروں میں قدرکی نگاہ سے دیکھا جائے گا.خدا تعالیٰ آپ کے اس نئے خلفیہ میں جس کی ذمہ داری آپنے اٹھائی ہے.برکت ڈالے اور متلاشی حق دالوں کے ولی آپ کی اخلاقی اور مالی امداد کیلئے کھول ہے.خدا تعالیٰ آپ کو تو فیق عطا فرمائے کہ آپ اسے استقلال اور عداوت سے جاری رکھ سکیں.دوستخط ایم ایس مصطفے) (ترجمہ منقول از اخبار الفضل ماده ۱۶ نومبر دار ) :..1400 ÷ (1461, ه - الفضل ۱۵ نومبر ۱۵۰ ست به سه - الفصل ۲ د کبر در ست کالم ۳.ان کی قربانی اور اخلاصم کا اندازہ اسے لگایا جا سکتا ہے کہ جب انہوں نے یہ مکان وقف کیا تو اس وقت ان کی اپنی رہائش کے لئے کوئی دوسری رہائش گاہ موجود نہیں تھی.مگر اس کے بعد خدا تعالیٰ نے انہیں ایک نیا مکان بنا نے کی توفیق عطا فرما دی ہے له الفضل در تخمیر رو صدا کالم ۳ : مولوی محمد صدیق هنا امر کی تین انچارج مراد ہیں.

Page 448

۴۱۰ تو وہ ان کے لئے خود سامان پیدا کر رہے.وہ مبلغ لکھتے ہیں کہ جب میں نے یہ پڑھا تو میرے دل کو سخت تکلیف محسوس ہوئی.میں نے اپنی جماعت کو تحریک کی کہ وہ چندہ کر کے اتنی رقم تجمع کردیں کہ ہم اپنا پلیس خرید سکیں.اس سلسلہ میں میں نے لاری کا ٹکٹ لیا اور پونے تین سو میل پر ایک احمد فی کے پاس گیا تا کہ اسے تحریک کروں کہ وہ اس کام میں حصہ ہے.میں اس کی طرف جارہا تھا کہ خدا تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ ابھی اس کا گاؤں آٹھ میں پیرسے تھا کہ وہ مجھے ایک دوسری طاری میں بیٹھا ہوا انظر آگیا.اور اسی بھی مجھے دیکھ لیا وہ مجھے دیکھتے ہی لاری سے اتر پڑا اور کہنے لگا.آپ کس طرح تشریف لائے ہیں.میں نے کہا اس اس طرح ایک عیسائی اختیار نے لکھا ہے کہ ہم نے تو ان کا اخبار چھاپنا بند کر دیا ہے.اگر مسیح کے مقابلہ میں ان کے خدا میں بھی کوئی طاقت ہے تو وہ کوئی معجزہ دکھا دے.وہ کہنے لگا آپ یہیں بیٹھیں میں ابھی گاؤں سے ہو کر آتا ہوں چنانچہ وہ گیا اور تھوڑی دیر کے بعد ہی اسی پانچ سو پونڈہ کر مجھے دیدیئے.پانچ سو پونڈ وہ اس پہلے دے چکا تھا.گویا تیرہ ہزار روپیہ کے قریب اتنی رقم دیدی اور کہا میری خواہش ہے کہ آپ پر لیں کا جلدی انتظام کریں تاکہ ہم عیسائیوں کو جواب دے سکیں کہ اگر تم نے ہمارا اخبار چھاپنے سے انکار کر دیا تھا تو اب ہمارے خدا نے بھی ہمیں اپنا پر میں دیدیا ہے.جماعت کے دوسر دوستوں نے بھی اس تحریک میں حصتریا ہے اور اس وقت تک اٹھارہ سو پونڈ سے زیادہ رقم جمع ہو چکی ہے اور انگلینڈ میں ایک احمدی دوست کے ذریعہ پولیس کیلئے آرڈر دیدیا گیا ہے.یہ شخص جب کسی پاس ہمارا مبلغ گیا کسی نا ن میں احمدیت کا شدید مخالف ہوا کرتا تھا اتنا سخت مخالف کہ ایک دفعہ کوئی احمدی اس کے ساتھ دریا کے کنارے جار ہا تھا کہ اس احمدی نے اُسے تبلیغ شروع کر دی وہ دریا کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگا کہ دیکھو یہ دریا ادھر سے اُدہر بہہ رہا ہے.اگر یہ دریا یکدم اپنا رخ بدل لے اور نیچے سے اوپر کی طرف اُلٹا بہنا شروع کردے تو یہ ممکن ہے.لیکن میرا احمدی ہونا ناممکن ہے.مگر کچھ دنوں کے بعد ایسا اتفاق ہوا کہ کوئی بیڑا عالم فاضل نہیں بلکہ ایک لوکل افریقین احمدی استکی ملا اور چند دن اس سے باتیں کیں تو وہ احدی ہو یا پھراللہ تعالیٰ نے بھی اس کی مدد کی اور اُس کی مالی حالت پہلے سے بہت اچھی ہو گئی " سے یسائی پادری کی ایک ایلیا ضروری شاہ کے شروع میں انگلینڈ سے عیسائی پادریوں کا ایک وفد سیرالیون آیا.وفد نے فری ٹاؤن میں دعوی کیا کہ وہ لنگڑے لولے اور اندھے لوگوں کو یسوع مسیح کے طفیل تندرست کر سکتے ہیں.بعض لوگوں نے جو اندرونی طو پہ اُن سے ملے ہوئے لے حضرت خلیفہ تاریخ الثانی فی الہ تعالی کا انصاراللہ سے خطاب مورخہ ۲۷ اکتو پیار سوزنار فصل یو مورد ار ما رچ به

Page 449

۴۱۱ تھے اعلان بھی کر دیا کہ انہیں اُن پادریوں کی دعاؤں کی وجہ سے معجزانہ طور پر شفاعی ہے.احمدیہ مشن سیرالیون کی طرف سے ایک پمفلٹ میں وفد کے لیڈر پادری سکادران کو چیلنج کیا گیا کہ اگر وہ اپنے دعوئی میں نیچے ہیں تو ہم ان کے سامنے ہیں لنگڑے ٹولے اور اندھے پیش کرتے ہیں.وہ اُن کو تندرست کر کے دکھائیں مگر پادری صاحب جواب دینے کی بجائے پمفلٹ شائع ہونے کے اگلے روز ہی سیرالیون کو خیر باد کہ گئے پہلے کا سیرالیو ہے جس آزادی میں شیخ بشیراحمدرضا سیرالیون کا تقریبا ۱۰ سال تک برطانوی تاج کیک کے ماتحت رہنے کے بعد ۲۷ اپریل سالہ کو سابق حج ہائیکورٹ لاہور) کی شمولیت آنزا د ہوا.اس تقریب پر حکومت سیرالیون نے جہاں دوسری مذہبی جماعتوں اور مشنوں کے نمائندوں کو مدعو کیا.وہاں جماعت احمدیہ کے مرکزہ ربوہ میں بھی ایک خاص نمائندہ بھیجوانے کا دعوت نامہ ارسال کیا جس پر مرکز احمدیت کی طرف سے مکرم جناب شیخ بشیر احمد صاحب ہی ہے.ایل ایل بی (سابق حج ہائیکورٹ لاہور بطور نمائندہ سیرالیوں تشریف لے گئے اور تقریبات آزادی میں شامل ہوئے.کے شیخ صاحب موصوت ۲۲ را پریل شدہ کو فری ٹاؤن پہنچے اور ۱۲۳ را پریل دو کو آپکی ملاقات سیرالیون مسلم کانگریس کے جبران سیکرٹری الحاج جبرئیل کیسے سے ہوئی اور اسلام و احدیت کے موضوع پر تبادر خیالات کیا.وہ آپ کی گفتگو سے بہت متاثر ہوئے.اسی روز آپ نے سیرالیون کے نائی نذیر اعظم اور وزیر خزانہ انر میبل مصطفے سنوسی سے طے - ۲۲ اپریل انشاد کو میٹر آف ذبی ٹاؤن - MR AF) زیر اعظم پیرایوں اور ان میل کا ڈورے منسٹر آن در کس اور ریل مسٹروائی ڈی پیسے RAH MAN) اور آنریل پیرامونٹ چیف ہو اور پارلیمنٹ کے دوسرے ممبروں سے ملاقات کا موقعہ ملا.ہر ایک نے احمدیہ جماعت اور احمدی مجاہدین کی انتھک کوششوں کی تعریف کی اور شیخ صاحب کی گفتگو سے بہت متاثر ہوئے.۲۵ / اپریل شاہ کو سیرالیون کے چیف جسٹس MR JUSTICE S.A.SANKA COKERS نے آپ کو ایک پارٹی میں مدعو کیا.اس پارٹی میں آپنے سیرالیون کے جھوٹ اور بیرونی ممالک کے جوں سے تبادلہ خیالات کیا ہے ، ۲ را پریل شہر کو اپنے حکومت سیرالیوں کے تمام وزراء اور بیرونی نمائندی رحین میں ایک روسی نمائندے بھی شامل تھے ) سے ملاقات کی.شیخ صاحب نے نصف گھنٹہ ه الفضل ۳۰ اگست دارد تا کالم ۲۲ + ه - الفضل د ارجون الورد صد کالم ہے ه - الفضل دارتون د صاب

Page 450

۴۱۲ تک اشتراکیت اور اسلامی اصولوں پر گفتگو کی - ۲۸ اپریل انتشار کو آپ نے مسلمانوں کے نام ایک پیغام ری کارند که ایا جو اسی شام نشر ہوا.اسی روز فری ٹاؤن میشن کی طرف سے آپ کے اعزانہ میں ایک پارٹی دیگئی.جس میں مسلم کانگریس کے صدر الحارج بخاری اور بعض دوسرے معززین شریک ہوئے.محترم شیخ مصعب کافی دیر تک اُن سے تبادلہ خیالات کرتے رہے اور سوالوں کے جوابات دیتے رہے.یکم مئی ستارہ کو آپ نے برٹش کونس ہال میں تبلیغی بیچ دیا.اس اہم پیکچر کی خبر یڈیو سیرالیوں پر نشر ہوئی اور اخبار ڈیلی میل" میں بھی اس پر ایک نوٹ شائع ہوا.ا رمئی اللہ کو آپنے وزیر اعظم سیرالیون سے ملاقات کی اور تعلیمی ومذہبی امور پر بات چیت کی.اس گفتگو کے بعد آپ کےملاقات گورز جنرل سیرالیو سے ہوئی.گورنر جنرل آپ کی باتوں سے بہت متاثر ہوئے.غرضیکہ شیخ بشیر احمد صاحب نے اپنے قیام سیرالیون کے دوران حکومت کے اعلیٰ طبقوں تک حق کی آواز پہنچانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا.شیخ بشیر احمد صاحب دینی و تبلیغی خدمات بحال نے کے بعد ہم رمئی 19ء کو سیرالیون سے بذریعہ ہوائی جہاز روانہ ہوئے.اور حج بیت اللہ کے بیلہ اور رسمی کو لاہور تشریف لے آئے.دار الجی سرالیوں کی تاریخ پ روشنی ڈالئے کے یہ ہم اسکی بعض دوسرے اہم کی الف مشن ہاؤس بیان کرتے ہیں.سیرالیون میں دو مقامات پرمیشن ہاؤس قائم ہیں.(1) بجو.(۲) فری ٹاؤن (دو میشن ہاؤس ہیں ایک مسجد سے ملحق اور ایک نیا ماڈل ٹاؤن میں - جس کا سنگ بنیاد صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صا حب نے ۱۶۵ء میں رکھا.سیرالیونی احمدیوں کی تعدا ان تازہ اعداد و شمار کے مطابق سیرالیون میں احمدیوں کی تعداد ۱۰ ہزار کے قریب ہے.منظم جماعتوں کی تعداد اور اُن کے نام یہ ہیں : - فری ٹاؤن بو - روکو پر مگور کا ہواہے ہو.باؤد - قالہ - بلاما - سیرالو.والیہ ہوں.کیوما - ماجد - جمی یا فو باندا جمتہ سودا - پوٹے ہوں.مانو کو ٹو ہوں کہنا.بوا ہو.ٹا نیک ہوں.بونگو.مونگیر ہے.بیچاؤن.موسمیاٹونگیا.پانگو کا موینڈو باباؤماں.باڈتا ہوں.جالہ.مینڈ سے وا تیا یا.لاہ گیر پابند رائے ہو.کو نیا.ہانگا.موٹی.یونگورہ.باؤہاں میاؤں.پنگورہ نال.ٹونگو نیلڈ - گیہوں.بائیسما.سلیماں.ڈارو - بمباؤں کا مہما کامارو - مانووا - ٹو مبرما - میکر پیار بالا ہوں جامعہ نیمی - ڈانڈا ابو - ٹو بانڈہ یونی پاتا.

Page 451

۱۳ کمرا ہائی.مانو ٹو گا.مکالو - مکالی - ماستنگی پہیلیے شنیگی.روٹی فونک کبالہ - ماہوما " احمدیہ مساجد سیرالیون کے مندرجہ دی مقامات پراحمدیہ مسجد تعمیر ہو چکی ہیں.فری ٹون - ہو - بادوو - فال - بالا ہوں.میرا لبر.پوٹے ہوں.مانو کوٹو ہوں.بوا ہو.ٹا نپتاؤن یونگوڈو ہوں.بلاما - پورا جے بعد اور لیٹر تعلیمی اولا آجکل سیرالیون میں مندرجہ ذیل احمد یہ سکول کامیابی سے چل رہے ہیں :.1- بواحمدیہ پرائمری سکوں.یہ سکول در دمیں مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری کے ذریعہ مباری ہوا - STD II تک اس میں تعلیم دی جاتی ہے.- نگبور کا سکول.یہ بھی مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری کے ذریعہ شروع ہوا.STD VI تک اس 1404 میں تعلیم دی جاتی ہے.- روکو پر مودی پرامری سکول یا الحاج مولوی نذیر احد علمنا مرحوم کے ذریعہ مندر میں شروع ہوا.اور STD EI تک اس میں تعلیم دی جاتی ہے.ہم.فری ٹاؤن پرائمری سکول - مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری کے ذریعہ ء میں شروع ہوا.اور اور اس میں تھے 870 تک بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے.۵ - مکا عثمانی پرائمری سکوں.یہ ملک غلام نبی صاحب کے ذریعہ سے شیر سے شروع ہوا.اور STDE تک اس میں تعلیم دی بھاتی ہے..یاؤ کا ہوں پرائمری دوبارہ مولوی مبارک احمد صاحب ساتھی کے ذریعہ شہر میں شروع ہوا.ے بجاج نیز پرائمری سکول یہ مولوی شیخ نصیر الدین احمد صاحب کے ذریعہ منہ میں شروع ہوا.- تونسہ پرائمری سکول تشدد میں شیخ نصیر الدین احمد صاحب کے وقت شروع ہوا.میں کی پرائمری سکول.یہ درد میں شیخ نصیر الدین احمد صاحب کے وقت شروع ہوا.- م ۱۰- مسلائی سو کوہ پرائمر کی مکمل دارد سو - -11 کیا کہ باول مولوی عبد القدیر صاحب بہار کے ذریعہ قائم ہوا.۱۳ - سرکولی پرائمری سکول - ملک غلام نبی صاحت کے ذریعہ اللہ میں شروع ہوا.رکن بعد یه پا مری سکول ادی مولوی بشارت احد صاحب بشیر امیر انچارج سیرالیون کے ذریعہ شروع ہوا.ہے.اس مقام کا انگریزی میں کام کیا ہے ہم ALTE ہے.

Page 452

۱۴ روسین احمدیہ پرائمری سکول سداد میں مولوی بشارت احمد من التبشیر کے ذریعہ شروع ہوا.۱۵ - بلا ما - احمدیہ پرائمری سکول ۱۶.ٹیناؤں احمدیہ پرائمری سکول 144- " ۱۷- فری ٹاؤن احمدیہ سیکنڈری سکول سداد میں مولوی بشار احمد ای یار امیر مین اناج کے ذریعہ قائم ۱۸ - بر احمدیہ سیکنڈری سکول نشر می شیخ نصیر الدین احمد صاحب کے ذریعہ قائم ہوا.اور اسوقت سے لے کہ جولائی ء تک میں خود ہی پرنسپل رہے.اس کے بعد بجولائی رہ سے ستمبر اء تک چوہدری سمیع اللہ سیال صاحب ایم ہے پرنسپل رہے.آپ کے بعد تمبر ست شاد سے عمر تک مرزا صیف احمد صاحب ہے ہی ہے.ایل ایل بیٹی کی زیر قیادت چلتا رہا.اس سکول میں محترم صاحبزادہ مرزا فیق احمد صاحب کے علاوہ جناب منور احمد صاحب ایم.ائیں.سی.جناب حمید اللہ ظفر صاحب ایم.ہے.جناب مرنا ناصر احمد صاحب بی.اے بی ایڈ.جناب رشید احمد صاحب ایم.ہے.اور مبارک احمد علی صاحب بی ایس سی اور سجاد حیدر صاحب بھی کام کہ یہ ہے ہیں یا کہ چکے ہیں.سيراليون العض مخلصين کے بعض مخلص ارد میں باؤ موہوں میں احمدیت قبول کی.۳.الحاج علی رو جز آف ہو.ہم.پاہ سعید بنگو را آف ہو.- السید امین خلیل سکیکی پیلی.سیرالیون مشن کی ابتدائی مشکلات اور تنگی کے وقت انہوں نے سلسلہ کی ہزاروں روپیہ کے ساتھ مدد کی.ہر وقت ان کو اسلام کی مدد کے لئے تیار پایا.خدا تعالیٰ ان کو غریق رحمت کرے - آمین - 4 - استید مصطفے مدرج آف پہیلی ہے.پاہ کالی سانکو آف نگبور کا سر مصطفے آدم آف مگبور کا ۹ - پیرامونٹ چیف الحارج المامی مسعوری آف مکالی - ۱۰ - پاه سنفا آدم آن گبور کا (1- پیراموت چیف ناصر الدین کا مانگا آف بو رہتے ہو.- - پاتا.ٹی بی کو لہکا آف باڈر.۱۳ - چیف.وی.دی کالوں یہ وہ چیف ہیں جنہوں نے قرآن مجید کا مینڈے زبان میں ترجمہ کیا ہے.۱۴.پاہ علی ما نمیر آف فری لون.جماعت سیرالیون کے مخلص ترین احمدیوں کے نام درج ذیل ہیں :.ا پاہ ساتنگی بکرے آف رو کو پر ضلع کا بیا.۲.السید حسن حمد ابرا ہیم - -16- ۱۵- پاه عما را کانو فری ٹاؤن - 14 - بائی ٹور سے فری ٹاؤن - ۱۷- امام عبد اللہ کول - ۱۸.مسٹر محمد بشیر آف فری ٹون - 19 - مسٹرایم - انیس دین آن فری لوڈن - ۲۰ - الفاهما را اور لیس آفت کہا جو - ۲۱ - میٹر ه - روانگی از ربوه ۲۴ اکتو برنده و والپسی یکم جولائی ر ہے ہے.پہلی بار روانگی از ربوده کے یاد کا لفظ احترامہ سیرالیون میں جنا ہے معنوں میں استعمال ہوتا ہے :

Page 453

۴۱۵ عبدل گا مانگا آف ہوا جے ہو -۲۲ - الفا الحسینی فیکا امام آف میرا ج ۲۳ - محمد عبد الله امام ہاؤد - ۲۴۲ حاجی پیسے آن پون بانا - ۲۵ - الفا یحی کما را آف رودکو پر.۲۶ - پاہ وانٹڈی کروا پاہ صاحو کرنے پاه سنسی کما رہا.میڈم کو گیار رار التبلیغ سیرالیون کی طرف سے مینڈ سے زبان میں مندرجہ ذیل لٹریچر طبع ہو چکا ہے :.لٹریچر ، فالف آن محمد - تالیف حکیم فضل ارحمن مات مرحوم (۳) یکی اسلام کو کیوں ماتا ہوں ترجمہ مینڈسے مضمون سید نا خلیفہ المسیح الثانی (ن).(۳).نماز - ترجمہ پارہ اول قرآن مجید - اسکی علادہ انگریزی نہ مان میں مندرجہ ذیل پمفلٹ بھی شائع ہوئے :- (1) ACHALLENGE TOUB..MiSSION (مولوی محمد صدیق صاحب امرت سری ) Letter To THE ARCHBishop_(t) "7 CANTERBUAY of " A Complimentary (مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری) " " ) مولوی محمد ابراہیم صاحب خلیل ) " ) Do You Want To Know (T) "WHAT is iSLAM () "Muslim CatECHISM" (D) اسلامی " مولوی بشارت احمد صاحب تبشیر نے مستشار میں ایک بک شاپ اسلامک بکنڈ یو کے نام سے جانہ کی کی ضروری کتب موجو د رہتی ہیں.جس میں سٹیشنری.سکول کی کتابوں کے علاوہ سلسلہ کی فروغ احمد دی کے اسباب میں ملک سیرالیون میں احمدیت کی اشاعت و فروغ کے اسباب تخدامی نشانات کا نمایاں حصہ محرکات میں مبلغین احمدیت کی مجاہدانہ بعد و تبید احمدیان سیرالیون کی قربانیاں اور مصائب و مشکلات کا مردانہ وار اور مومنانہ رح سے مقابلہ، ان کا فراتی کردار اور نمونہ اور جماعت کی تعلیمی درسگاہوں کو خدا کے فضل سے بہت عمل دخل ہے.اے.بین جماعتوں نے احمدیت کی خاطر بہت مصائب اور مشکلات برداشت کیں اُن کے نام درج ذیل ہیں :.۱- جماعت ماندو وا ضلع کیلا ہوں : ۲.جماعت پوٹے ہوں ضلع کینما : ۳.سماعت مانو کو ٹو ہوں ضلع کینما ؟ تم یہ ہوئی کیا ہے.بارو 4 تیار 4 - بو البوانا نیناؤں بوا در باد ما ہیں ضلع جو نہ "

Page 454

مگر اس ملک میں احمدیت کی ترقی میں شروع ہی سے قبولیت دکھا.رویاء د شورت کا نمایاں ہفتہ رہا ہے.ان آسمانی نشانات کا سلسلہ حیرت انگیز طور پر وسیع ہے.اور اب تک جاری ہے.بطور نمونہ چند ایمان افروز واقعات کا بیان کر نا خالی از فائدہ نہ ہوگا.• مولوی نذیبا حمد علی صاحب امداد کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :.پہلا واقعہ باؤ کا ہوں سے ہم میں کے فاصلہ پر پہاڑی علاقہ میں ایک ریاست واقع ہے.جسے گورانا کہتے ہیں.ریاست کے رئیس اعلیٰ یعنی PAR AMOUNT CHIEF ٹونگے نامی گاؤں میں رہتے ہیں.اور اس لحاظ سے ٹونگے کو ریاست کا صدر مقام کہا جاتا ہے.ستمبر کے مہینہ میں خاکسار با درا ہوں.سے چار مزدوروں کے ہمراہ جنہوں نے میرا سامان اٹھایا ہوا تھا.پیدل ٹونگے پہنچا.باد ما ہوں کے چند مخلصین بھی میرے ہمراہ تھے.چیف کا نام بائیو (BAY0) ہے.جو پہلے مشرک اور نیم عیسائی تھا اور دس سال کے رصہ سے یہ سائی مبلغین اس کے ہاں کام کر رہے تھے.یہ چیف ایک نہایت پرانی اور خطر ناک بیماری میں مقبول تھا جس کے علاج پر دھہ ہزاروں روپیہ برباد کر چکا تھا.میں نے یہاں آکر بہت سے لیکچر دیئے.لیکن چیف ہمیشہ اپنی تیاری کا قصہ چھیڑ دیا اور اس ملک کے علماء کے طریق کے مطابق مجھ سے کسی موثر تعویز کا مطالبہ کرتا اور کہتا کہ ہمیں قدر بھی خرچ ہو وہ ادا کرنے کیلئے تیارہ ہے.میں نے اسے احمدیت کی دعوت دی اور حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کو دعا کیلئے کھنے کا وعدہ کیا چنانچہ اس نے نہایت اخلاص سے احمدیت قبول کی اور ابھی ہمارا خط حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں پہنچا بھی نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے غیر معمولی فضل سے نہایت معمولی سی دوا کے ذریعہ جو میرے پاس موجود تھی اسے شفاء عطاء کر دی.فالحمد للہ علی ذالک ہے.دو سرا واقعہ موادی محمدصدیق صاحب امرتسری تحریر فرماتے ہیں :- و یہ دو میں سیرالیون معرفی افریقہ کے ایک عیسائی نوجوان K GAMANGA تور بہو کہ اپنی ریاست کے شاہی خاندان کے فرد تھے.اسلام قبول کر کے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہوتے.درد میں ان کی ریاست کے نواب یعنی اس نوجوان کے چچا کے فوت ہونے پر وہ خود اس عہدہ کے حصول کیلئے بطور امید دار کھڑے ہوئے اور مجھ سے اپنی کامیابی کیلئے دگنا کرنے کی درخواست کی.میں نے انہیں کہا کہ ہم اس شرط پورسید نا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت عالیہ میں دعا کیلئے عرض کریں گئے اور خود بھی ہے.اخبار الفضل ۲۲ ستمبر رد ص ۲

Page 455

الم عاکریں گے کہ آپ پختہ عہد کریں کہ آپ گذشتہ نوابوں کے تب میں چار سے زیادہ ایک وقت میں بیویاں نہیں کھیں گے اور اپنے علاقہ کے عیسائیوں کا مقابلہ کر کے اسلام پھیلانے اور مضبوط کرنے میں ہماری مدد کریں گے.اور اپنے قصبہ میں مسجد اور اسلامیہ سکوئی یا اس کے خرچ پر تعمیر کریں گے.چنانچہ اُن کے یہ شرطیں قبول کر لینے پر خاکسار نے تصویر پر نور کی خدمت میں مفصل طور پر عرض کیا کہ حضور ان کی کامیابی کیلئے دعا فرمائیں.نیز لوکل احباب میں بھی دعا کی تحریک کی حضور کی طرف سے الیکشن کے ایک ہفتہ قبل جواب ملا کہ ہم نے دعا کی ہے اللہ تعالی انہیں کا میاب کریگا انشاءاللہ تعالی.میں نے گا مانگا صاحب کو قبل از وقت اطلاع دیدی اور انکی تسلی کیلئے حضور کی طرف سے آمدہ چھٹی بھی دکھا دی.چنانچہ الہ تعالی کے فضل وکرم سے باوجود سخت مخالف حالات کے وہ سات امیدواروں کو شکست دیکر اپنی ریاست کے نواب یا پیف منتخب ہو گئے یہ ہے رود کو پر کے ایک احمدی دردست الفار احمد کما را کا بیان ہے کہ " " تیسرا واقعہ شاور میں جگہیں کہ پر سے نقل ہوکر و نو بونای گاو میں ہائش رکھتا تھا.ای کا زمانہ تہجد کے بعد کچھ دیر کیلئے لیٹ گیا اس حالت میں کیا دیکھتا ہوں کہ دار شخص سفید ریش لے لیے چو خوں میں ملبوس جنکے سروں پر عمامے ہیں.میرے پاس آئے ہیں اور کہتےہیں کہ ہم مشرق سے آئے ہیں اور تمہیں یہ بشارت جیتے ہیں کہ تس بندی کا دیر سے انتظامہ تھا وہ ظاہر ہو چکا ہے.سو اٹھ اور اپنے اس گاؤں میں جا کر لوگوں کو یہ خوشخبری سنا اور انہیں نماز کی پابندی کی تلقین کی.اگر دونوں نے اس بات پر کان دھرا تو وہ تعدائی سزا کے مستوجب ہونگے اس پر صاحب میری آنکھ کی گئی اس اقدہ کے چار سال بعد الحاج مولوی نذیر ا م م م م م م تشریف نے نہیں دکھتے ہی القا مینا امام مسجد نے کہا کہ میر احمد آپکی خواب پوری ہوگئی.کیونکہ الحاج مولوی نذیر احمد صاحب مرحوم کا لباس پیغام معینہ دہی ہے جو مجھے خواب میں کھا یا گیا.اس موقعہ پر نہ صرف خاکسار کو بلکہ ایک کثیر تعداد کو ہدایت نصیب ہوئی اور خداتعالی نے قبل از وقت اس عاجز کو مہدی علیہ اسلام کے ظہورکی جیسے نواز کر ایک ران راسان کیا احمد علی علی ذالک کے نگور کا کے ایک احمدی دوست پاسانفاتوں پر عجیب رنگ میں روبار کے ذریعہ احمدیت کی پو تھا واقعہ صداقت کا انکشاف ہوا.چنانچہ ان کا بیان ہے.کہ یک موتور جبکہ میں باورمان نامی گاوں کی کمائش کا تھا میں نے اب میں دیکھا کہ میں ان کی مالک یہ ہے ے.آجکل مذکورہ بالا چیف آزربیل ناصر الدین کے گاما نگا تے پی ایم بیای سیرالیون پارلیمنٹ کے مبرا در سیرالیون کی - AL - AND MARKEtting Board PLO.NE کے ڈائر یکٹر ہیں اور جماعت جدید سیرالیوں پر ڈیڈ نٹ بھی آپ خدا کے فضل سے نہایت مخلص نوجوان ہیں.ناصر الدین ان کا نام حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے نے ہی رکھا تھا.ه - الفصل الدر جولانی شده هر کالم ملتا ہے

Page 456

۳۷۱۸ ار و گرد سے گھاس اکھاڑ رہا ہوں اور کچھ دیر کے بعد کچھ تھکان محسوس کرنے پر میں مسجد کے قریب ہی ایک پام کے درخت تلے کچھ سستانے کے لئے کھڑا ہوگیا.اسی اثنا میں کیا دیکھتا ہوں کہ میرے سامنے کی جان ہے ایک سفید رنگ کے اجنبی دوست ہا تھ میں قرآن کریم اور بانٹیل کچڑے میری طرف آرہے ائیں.میرے قریب پہنچ کر سب سے پہلے ہدیہ السّلام علیکم پیش کیا.اور پھر مجھ سے دریافت کیا کہ میں مسجد کے ارد گردے میں گھاس صاف کر رہا تھا اس کا امام کون ہے لیکن اُسے ملنا چاہتا ہوں.اس پر میں نے آپ سے چند منٹ کی رخصت کی اور امام کو بلانے کے لئے پہلا گیا جس کا نام الھا تھا.ہماری دونوں کی واپسی پر ہم یہ دیکھ کہ محنت متعجب ہوئے کہ مسجد کے باہر ایک سایہ دار کھڑ کی تیار ہو چکی ہے اور وہ انہی شخص خود امام کی جگہ پر محراب میں کھڑا ہے.ہمیں دیکھتے ہی اس نے حکم دیا کہ ہم اس سایہ دار جگہ میں بیٹھ کہ اُسے قرآن کریم سنائیں.اس کے بعد ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کہ وہ اجنبی دوست مسجد سے نکل کہ ہمارے پاس آئے اور امام سے مخاطب ہو کہ کہا کہ میں تمہیں صحیح طریق نماز سے آگاہ کرنے آیا ہوں.اس پر میری آنکھ کھل گئی اور صبح ہوتے ہی میں نے اس کا ذکر اپنے مسلمان دوستوں سے کر دیا.دیہاں یہ امرقابل ذکر ہے کہ سیرالیون میں تمام ماسکی مسلمان ہاتھ چھوڑ کر نماند دا کرتے ہیں.جیسے ہمارے ملک میں شیعہ صاحبان پڑھتے ہیں، اس خواب کے قریباً ایک ہفتہ بعد صبح کے وقت میں نے اپنا کال لیا اور اپنی مالکی مسجد کا گرد ونواح صاف کرنے لگا.قریبا نصف گھنٹہ کے کام کے بعد نہیں نے کچھ تھکان محسوس کی اور قریب ہی ایک پام کے درخت کے نیچے آرام کرنے کیلئے کھڑا ہوگیا.ابھی چند ہی منٹ گزرے تھے کہ کیا دیکھتا ہوں کہ سامنے سے الحاج مولوی نذیر احمد صاحب علی مرحوم تشریف لا ہے ہیں.آپنے قریب آنے پر مجھے اسلام علیکم کہی اور رہائش کیلئے جگر وغیرہ دریافت کی.میرے لئے یہ ایک نہایت ہی تعجب انگیز بات تھی کہ جو خواب میں ابھی چند یوم پہلے دیکھ چکا تھا بعینہ آج پوری ہورہی تھی یعنی الحاج مولوی نذیر احمد علی صاحب مرحوم ہی وہ دوست تھے جو مجھے خواب میں دکھائے گئے تھے.سو میرے لئے ایسے مہمان کی خدمت ایک خوش قسمتی تھی.لہذا میں نے آپ کو کسی اور کے پاس جانے کی اجازت نہ دی.بلکہ اپنا گھر خالی کر کے رہائش کیلئے پیش کر دیا.اسکی بعد میں اپنے مسلمان دوستوں کے پاس گیا اور انہیں بنا یا.کہ جو کچھ میں نے خواب میں دیکھا تھا وہ پورا ہو گیا ہے یعنی وہ دوست تشریف سے آئے ہیں.اور میرے گھر میں تشریف رکھتے ہیں.اسکے بعد میری اور الحاج مولوی نذیر احمد علی صاحب مرحوم کی تبلیغ پر

Page 457

۴۱۹ اس گاؤں کے اکثر مسلمانوں کو احمدیت قبول کرنے کی سعادت نصیب ہوئی.اور اُس وقت سے بفضل تیارا امدی ہوں نے پانچواں واقعہ موضع بلاما (BLAMA) کے ایک احمدی الفافو ڈ سے موسی کہ و ما تحر یہ کرتے ہیں:.is جبکہ میں ابھی عین جوانی کی حالت میں تھا اور پنڈ میبو (PEN DEM BU) نامی گاؤں میں رہائش رکھتا تھا.ایک روزدوپہر کے وقت جبکہ میں قیلولہ کر رہا تھا کیا دیکھتا ہوں کہ ایک نہایت وجیہہ شکل فرشته صورت انسان میرے پاس آئے ہیں.اور کہتے ہیں کہ میں ہی وہ مہدی ہوں جس کی فی زمانہ مسلمانوں کو انتظار ہے.اس پر میں نے سوال کیا کہ کیا آپ فی الواقعہ صحیح کہ رہے ہیں کہ آپ ہنی موعود مہدی ہیں.جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہاں میں پنچ کہتا ہوں کہ میں ہی مہدی موعود ہوں.پھر میں نے کہا کہ ہم نے اپنے علماء سے سُنا ہوا ہے کہ مہدی علیہ السلام کے وقت مسلمانوں اور کفار کے درمیان جنگ ہوگی سعود آج سے میں آپ کے سپاہیوں میں شامل ہوتا ہوں.اور اس راستہ میں اگر میرا باپ بھی حائل ہوا تو اسکی بھی کوئی پرواہ نہیں کروں گا.میرے اس اقرار پر حضرت مہدی علیہ السلام نے سوال کیا کہ کیا تم نے صدق دل سے یہ اقرار مجھ سے کیا ہے ؟ جس کا جواب میں نے اثبات میں دیا اور اسکے بعد میری آنکھ کھل گئی.اس ردیاء پر ایک کافی لبا عرصہ گزر گیا.مگر مہدی کے ظہور کی کوئی خبر موصول نہ ہوئی یعنی کہ آہستہ آہستہ یہ خواب بھی میرے ذہن سے محو ہو گئی.کچھ مدت کے بعد میں پنڈ میون منتقل ہو کہ بنانا چلا آیا اور وہاں کے پیرامونٹ چیف کے کمپاؤنڈ میں رہائش اختیار کر لی.اس گاؤں میں میری رہائش پر ابھی چند ہی سال گزرے تھے کہ الحاج مولوی نذیر احمد صاحب علی اور مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری بلا ما تشریف لائے اور لوگوں کو ظہور مہدی علیہ السلام کی بشارت دی.یکی اُس وقت وہاں موجود نہیں تھا.بلکہ چند یوم کے لئے کسی ذاتی کام کے ضمن میں بو کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں میں تقسیم تھا.جب یہ مبشرین بلانا پہنچے وہاں سے الفاموسی کمار نے فوراً میری ایک بیوی میرے پاس بھیجی تا کہ مجھے تمام حالات سے آگاہ کر سکے.چنانچہ میری بیوی نے مکمل واقعات سے مجھے مطلع کیا ادھر ہی لیا اسلام کے ظہور کی خبر سنتے ہیں میں نے بجائے بلا ما جانے کے وہاں ہی خدا تعالیٰ کے حضور دعا شروع کر دی کہ اسے خدا وند تعالیٰ تیری ذات عالم الغیب ہے.سو اگر ان لوگوں کا پیغام واقعی صداقت پر مبنی ہے.اور مہدی علیہ السلام فی الواقع ظہور فرما چکے ہیں.جیساکہ ان کا کہنا ہے تو تو تو ہی میری راہنمائی فرما.تاکہ ایسانہ ہوکہ له الفضل اار جولائی تارد ست و نعت کالم ۴-۱ ہے

Page 458

۴۲۰ یکیں اس سعادت سے محروم رہ کر منکرین میں داخل ہو جاؤں.چند یوم متواترہ میں نے یہ دعا کی.اس پر ایک رات کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص کے ہا تھ لیے لیے ہیں اور براؤن رنگ کا پہو نہ پہنے ہوئے.میرے پاس آئے اور میرا ہاتھ اپنے ہا تھ میں لیتے ہوئے کہنے لگے.میں مہدی ہوں اور تم اپنی پہلی خواب کو یاد کرو جبکہ تم نے صدق دل سے میرے ساتھ عہد کیا تھا کہ آج سے تم میرے سپاہیوں میں داخل ہو رہے ہو.سو اس وعدے کو مت بھولو.اسکے بعد اس شخص کے ہاتھ کیسے ہوتے چلے گئے اور نہیں اُن سے دور ہوتا چلا گیا.اور آخر اُن میں اور مجھ میں کافی فاصلہ ہو گیا مگر اُن کا ہاتھ ابھی تک میرے ہاتھ میں تھا.اسکی بعد میری آنکھ کھل گئی.اس کی بعد مجھے کامل انشراح صدر حاصل ہو گیا.اور مزید تحقیق کی ضرورت پیش نہ آئی.اور صبح ہوتے ہی سید صابل تا گیا اور الحاج مولوی نذیر احمد صاحب علی اور مولوی محمد صدیق صاحب سے مل کر احدیت قبول کرنے کی سعادت حاصل کی یہ ہے شد دار تلی سیرالیون کی اسلامی ما دارای ایران نے امام کا تیری خاکی رہے گی گرم یہاں خر یہ نہ بتائیں کہ احمدیہ دار تبلیغ سیرالیون کی شاندار دینی و منی دوسروں کی نظر میں خدمات اور اسکے عظیم انسان مذہبی اور علمی انقلاب کی نسبت دوسروں کے تاثرات کیا ہیں ؟.اس ضمن میں ضروری آراء بطور نمونہ درج کی جاتی ہیں.ا آنریبل ایم ایس مصطفے وزیر زراعت و معدنیات نے بیان دیا کہ : گوئیں ماسکی سکول آف تھاٹ کا مسلمان ہوئی اور احمدی نہیں جموں.مگر ان احمدی مبتلقین کی ساعی کو دیکھکر اور ان کی بے لوث قربانیوں کی وجہ سے ہمیشہ ان کا مداح رہا ہوں - اور بھی رنگ میں بھی نہیں ان کے اس مقدس کام میں ان کا ہاتھ بٹا سکتا ہوں بڑاتا رہا ہوں.افسوس ہے مسلمان سیرالیون کے اس سیکشن کے.راستہ میں مخالفانہ روڑے اٹکاتے ہیں.یہ وہ نوجوان ہیں جنہوں نے اس خطہ سیرالیون میں اسلامی نور کی شعاعوں کو تیز تمیہ ، کر کے ہمیں جگا دیا ہے.یہ لوگ تقریبا عرصہ ۲۰ سال سے مصائب و مشکلات برداشت کرتے ہوئے اس ملک کی دینی اور تعلیمی حالت کو بہتر بنانے میں مشغول ہیں.آپ نے فرمایا پھر یہ امر بھی قابل قدر دستائش ہے که این توجہ ان مشنریوں کی انتھک خدمات صرف مسلمانوں کے لئے ہی نہیں اور انہیں تک محدود نہیں بلکہ یہ لوگ ہر ایک کا بھلا چاہتے اور خدمت خلق کا جذبہ ان کے ہر کام اور سکیم میں نمایاں نظر آتا ہے.له الفضل حكم أو بير لامرد مست و بست

Page 459

۴۲۱ تعلیمی لحاظ سے اس ملک کے سینکڑوں بچے ان کے سکول میں پڑھکر اور ان کے زیر تربیت نہ کہ بہترین شہری بن چکے ہیں.اور مل کے ہر شعیہ اور حکم میں پائے جاتے ہیں یہ لئے - پیرامونٹ چیف آف بونے سیرالیون کی احمدیہ کا نفرنس منعقده ۱۳ تا ه ار دسمبر عطر) کو خطاب کرتے ہوئے کہا :- آپ سب لوگ اس امر کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں ایک کیتھولک چرچ کا عیسائی نمبر ہوں.مگر اسکی با وجود وہ کونسی چیز ہے جو مجھے اکثر اوقات جماعت احمدیہ کے مختلف اجتماعوں میں رواں دواں کھینچ لئے آتی ہے.یہ چیز سوائے اسکی دکھائی نہیں کہ آپ لوگ ایک فعال جماعت ہیں اور جو کہتے ہیں دہ کرتے ہیں.اور میں ایک ایسا انسان ہوں جو قول سے زیادہ عمل کو حیثیت اور وقعت دیتا ہوں.....میں خوش ہوں کہ یہ جماعت یعنی جماعت احمدیہ میرے شہر اور میری چینڈم میں کرتی کر رہی ہے.احمدیہ مبلقیس کا میں اس وجہ سے بہت احترام کرتا ہوں کہ دو عربی اور انگریزی دونوں زبانوں میں بہترین استاد ثابت ہوتے ہیں اور ان کے ذریعہ یہ دونوں زبانیں ہمارے ملک میں رہ یہ تمہرتی ہیں.سے ۳.سیرالیون گورنمنٹ کے وزیر آباد کاری اور سپبلک ورکس آخرمیں حیف کا نڈے بورے.ہر وہ انسان جو کسی دور دراز کے ملک سے کسی دُور دراز ملک میں جاتا ہے اسکی مد نظر کچھ وجوہ اور مقاصد ضرور ہوتے ہیں.بلکہ ہر اجنبی جو کسی دوسرے مقام سے آتا ہے.اس کی آمد کے لئے کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے.یہ احمدیہ مشنری جنہیں آج ہم اپنے درمیان دیکھ رہے ہیں.یہ بھی ایک خاص عرض اور خاص مقصد کے پیش نظر یہاں آئے.وہ غرض اور مقصد کیا تھی ؟ وہ اسلام کی اس ملک میں ڈگمگاتی ہوئی کشتی کی ناخدائی تھی.دیکھنے اور سننے والوں نے دیکھا اور شنا.بعض نے ان پر ہنسنا شروع کر دیا.اور شدید مخالفت کی.بعض نے ایک حد تک تو جو بھی دی.لیکن محض سننے کی حد تک اور بعض نے سنجیدگی سے سوچنا شروع کر دیا.کیونکہ اس وقت کہ جب ان کے پہلے احمدیہ مشنری الحاج نذیر احمد علی صاحب مرحوم نے سر زمین سیرالیون پر قدم رکھا.یہ زمین عیسائیت سے انتہائی طور پر متاثہ تھی اور لوگ سمجھتے تھے کہ اسلام کو عیسائیت کے مقابل پر دیکھنا یا کھڑا کرنا اب ناممکن اور محال ہے.لیکن چند اسلام کے محبتوں نے اس مبلغ کی دعوت پر توجہ دی.اور لبیک کی صدا بلند کی.آج کچھ بہت عرصہ نہیں گزرا کہ یہ ہی احمدیت یا حقیقی اسلام عرب کے متعلق اس وقت معینی آج سے تقریباً بیس سال ه بحواله الفضل ۳۰ اکتو بر ماده ۳-۳ ه نام حیف ہوٹا لگوا.÷ ه - الفضل ۱۲ ر ما سرچ ۱۹ ص۳۳ نے

Page 460

۴۲۲ قبل یہ سمجھا جاتا تھا.کہ ایک چھوٹا سا پودا ہے.ہو چند یوم کے بعد اپنی موت خود در جائے گا.وہی پودا آج پنپ رہا ہے.اور اپنی بیڑوں کو اس مضبوطی سے سرزمین سیرالیون میں پیوست کر چکا ہے.کہ اب خطر ناک سے خطرناک آندھی بھی اس کو اُکھاڑنے کی متحمل نہیں ہو سکتی.آپنے فرمایا.احمدیت نے ان چند سالوں میں با وجود مخالفت کی آندھیوں اور نامساعد حالات کے جو غیر معمولی اور حیرت انگیز ترقی کی ہے.یہ اس امر کا پیش خیمہ ہے.کہ ایک بڑا انقلاب جلدی احدیت کے ذریعہ اس ملک کی کایا پلٹ دینے والا ہے.اور وہ وقت کوئی بہت دُور نہیں جب سیرالیون کا ہر فرد اد ا ئے احدیت کے نیچے کھڑا ہو کہ اسلام اور توحید کا نعرہ بلند کر رہا ہو گا.گو آج اس دعوی کو مجنون کی بڑ ہی سمجھا جائیگا.اور اس پر طاقتور کو عیسائی میشن منسی اُڑائیں گے کہ اے میں عام احمدیوں کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا.مگر میرے ذریعہ میرے خاندان اور قبیلے کے کئی آدمی احمدی ہوئے ہیں.میرے قبیلے کے ان لوگوں میں احمدیت نے جو اخلاقی تبدیلی اورنہ ہی دلچسپی پیدا کی ہے وہ یقیناً حیرت انگیز ہے.میں نے کئی ہالہ عام مجالسی میں استند، امرکا ذکر کیا ہے.حتی کہ بعض عام معیسویں میں جہاں کہ بعض نے احمدیت کے خلاف بھی تقریریں کیں.میں نے اس بات کو احمدیت کی صداقت میں پیش کرتے ہوئے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ احمدی کوئی بڑا کام تو نہیں کر رہے ہیں.آخر تم میں سے جو چند لوگ نکل کر کے ان سے مل گئے ہیں.دہ چورہ.ڈاکو.جھوٹے تو نہیں بن گئے.ان کی اخلاقی حالت تو پہلے سے اچھی نظر کر ہی ہے.جو لوگ ان سے معاملہ کر تے ہیں وہ گواہی دے سکتے ہیں کہ ان کا معامل منصفانہ اور نیکیوں والا ہے.اگر احمدی حضرت مرزا صاحب کو نبی کہتے ہیں تو ہمارا کیا بگاڑتے ہیں.آخر ہمارے لوگوں کی حالت کو سدھارتے ہی ہیں.آپ کو معلوم ہے کہ فریون کے احمدیوں کی اکثریت منی لوگوں کی ہے دلیعنی ان کے اپنے قبیلہ کے لوگ اور یہ عجیب بات ہے.کہ میری کورٹ میں ہر قسم کے لوگوں کے خلاف مقدمات پیش ہوتے ہیں.مگر اب تک کہ مجھے آپ لوگوں کا چیف بنے تیرہ سال سے زائدہ عرصہ ہو چکا ہے.میرے پاس کبھی کسی کنی احمدی کے خلاف کوئی مقدمہ آج تک نہیں آیا.حالانکہ بطور منی میری چیف کورٹ میں میرے اور میرے در زار کے پاس سینکڑوں مقدمات پیش ہوئے ہیں کیا اس کا صاف یہ مطلب نہیں کہ احمدی چونکہ قانون کی خلاف ورزی نہیں کرتے.اور نہ کسی پر زیادتی کرتے ہیں.اسلئے انہیں کورٹ میں نہیں لایا جاتا.آخر اگر دوسرے ٹمنی لوگوں میں سے کئی چوریاں کرتے ڈالئے پاتے ه الفضل ۱۹ جنوری ۱۹۵۷ء ص بن

Page 461

۴۲۳ جھوٹ بولتے.سحرام مال کھاتے.بیویوں سے بدسلوکی کرتے اور دوسروں کے حقوق غصب کرتے ہیں تو احمدیہ جماعت کے افراد کیوں ان باتوں میں عورت نہیں ہوتے.یہ امر واضح کر کے ہمیشہ احمدیت کی مخالفت کرنیوالوں کہتا ہوں کہ اگر تم احدی نہیں ہونا چاہتے تو نہ موٹر تمہیں چاہیے کہ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں کیونکہ تمہیں ان سے کوئی خطرہ نہیں ہے.جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ عمل تمہاری مدد ہے.اور وہ تمہارے لوگوں کی عملی اصلاح کہ رہے ہیں.انسان کا انجام بخیر اس کے اعمال نے کرتا ہے مسلمان کے اس اسلام کا کیا فائدہ جو دن رات احمدیوں کی مخالفت کرتا ہے.لیکن اعمال اسکی کافروں سے بھی بدتر ہوں.ہمارا مخالفت کرنا تب ہی ہمیں فائدہ دے سکتا ہے جبکہ ہم اپنے آپ کو اپنے مال اور اخلاق کے لحاظ سے بھی احمدیوں سے بالا تر ثابت کر سکیں مگر معاملہ بالکل اس کے برعکس ہے.اور اخلاقی لحاظ سے ہم میں اور ان میں بہت فرق ہے " لے -۴- وزیر خزانه آنریل مصطفی استوسی جبرئیل کیسے صدر اسلم ریفارمیشن سوسائٹی :- جماعت احمد یہ دنیا میں اسلام کی ترقی اور اس کے غلبہ کی علمبردار ہے.اور خاص طور پر سیرالیون میں جاعت احمدیہ نے جو خدمات سلمانوں میں دینی روح اور تعلیم کو فروغ دینے کے سلسلہ میں سرانجام دی ہیں ان کی وجہ سے میں عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ احمدیہ سماعت کے ساتھ پورا پورا تعاون کریں 1 سے "سیرالیون کے لوگوں پر جماعت احمدیہ کے لٹریچر کے ذریعہ ہی اسلام کی حقیقت روشن ہوئی ہے اس لئے یہاں کے لوگ احمدیہ مشن کے بیحد شکر گزار ہیں.کے ۲۵ آنریل مصطفے سنوسی.سابق ڈپٹی پرائم منسٹر سیرالیون نے دوبارہ اپنے ایک بیان میں کہا.احمدیت کے ذریعہ ہی درحقیقت یہاں پر اسلام کی بنیادیں مضبوط ہوئی ہیں.حضرت مولانا نیر صاب جیسے اسلام کے نڈر سپاہیوں نے عیسائیت کو شکست فاش دی.میں اس حقیقت کے برملا اظہار سے نہیں رک سکتا کہ پاکستانی احمدی متقین نے باوجود تکالیف اور مصائ کے اسلام کی خاطر عظیم الشان قربانیاں کی ہیں.ہمارے یہ پاکستانی بھائی ہندوستانی تاجروں کی طرح کسی تجارت اور دولت کی غرض سے نہیں آئے.انہوں نے قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ اور دیگر دینی لٹریچر مہیا کرکے نہیں حقیقی اسلام روشناس کرایا ہے یہ سکے - سیسل نارتھے کاٹ (CECIL NORTH COTT ) کا ایک مقالہ اخبار پاکستانی با مزه دارد سمیت کشمیر میں شائع ہوا جن کا ترجمہ حسب ذیل ہے :.مغربی افریقہ کے ممالک کی آزادی نے ساحلی علاقوں میں اسلام کے حق میں ترقی کی ایک نئی روح پیدا کردی معه الفضل و تنور کا شاد سب سے افضل ۱۲ رد کمبر اور سب سے افضل اور ضروری اور صلہ ہے ۶

Page 462

لم ہے.اسلام افریقین لوگوں کے لئے ایک پیغام ہے.کیونکہ افریقہ میں یہ اس طرح پیش کیا گیا ہے.کہ گویا یہ افر فقیہ کی کالی اقوام کا ہی مذہب ہے.عیسائیت کے برخلاف اسلام انسانی کمزوریوں کا لحاظ رکھتے ہوئے ہر نئے آنیوالے کو سہو سے اپنے اندر سمو لیتا ہے.کیونکہ اسلام کی سادہ تعلیم کے پیش نظر اس کو رسمی قیامتوں سے دو چار نہیں ہونا پڑتا.اس ضمن میں سیرالیون اور مغربی نائیجیر یا دو اہم علاقے ہیں.سیرالیون بھی اگلے اپریل میں آزاد ملکوں کی برادری میں شامل ہو جائے گا.مغربی نائیجیر یا وہ علاقہ ہے جہاں عیسائیت کا ماضی نہایت شاندار روایات کا حامل رہا ہے.لیکن اب انہی دو علاقوں میں اسلام کو نمایاں تہ تی حاصل ہو رہی ہے.اور معلوم ہوتا ہے کہ سیرالیوں تو احمدی مسلمانوں کی منتخب سرزمین ہے.جہاں وہ پاکستان سے آئے ہوئے منظم مشینوں کے ماتحت نہایت مضبوط حیثیت میں سرگرم عمل ہیں.احمدیہ جماعت اس مقصد کو لے کہ کھڑی ہوئی ہے کہ اسلام کہ عیسائیت کے مقابلہ میں موجودہ دنیا کی راہ نمائی کے لئے پیش کرے.اور یہ عیسائیت کے لئے ایک چیلنج ہے.اور اب تو انہوں نے سیرالیون میں با قاعدہ ڈاکٹری میشن کھو لنے کا بھی عزم کہ لیا ہے.اور وہاں احمدیہ سکولوں کی تعداد بھی بندر بیچ بڑھ رہی ہے.باوثوق ذرائع سے آمدہ اطلاعات کے مطابق مغربی افریقہ کے ساحلی علاقوں میں اسلام عیسائیت کے مقابلہ میں دس گنا زیادہ ترقی کر رہا ہے.نائیجیریا کا وسیع شمالی علاقہ اسلام کا گڑھ بن چکا ہے.جو بدبو د عیسائی مشنوں کی سالہا سال کی کوششوں کے مذہبی اعتبار سے ناقابل تسخیر اسلامی ملک ثابت ہوا ہے.بلکہ خود جنوں کے جنگلاتی علاقہ میں جہاں عیسائی مشنز نہایت مضبوط ہیں.دونوں بھیج کہ اسلامی اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے اور اب نائیجیریا کے آزاد ہو جانے پر ان دونوں بڑے مذاہب کے ایسے تصادم کا امکان ہے.جو ابتک کہیں اور رونما نہیں ہوا ہے.کیو نکہ یہاں اسلام اور عیسائیت نہایت جوش خروش کے ساتھ ایک دوسرے کے مقابلہ میں کمربستہ ہیں.تاکہ ان قبائل کو اپنے زیر اثر ائیں جوکسی منہ سے وابستہ نہیں بلکہ تو مہاتی شرکت میں مبتلا ہیں.اس مقابلہ کے نتیجہ پر ہی افریقہ کے مستقبل کا انحصا ہے.لے ، مسٹر عبداللہ بیٹ سیرالیون نے کہا :- " مجھے وہ وقت خوب یا د ہے کہ حبیب حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیز مرحوم کا مبارک قدم سرزمین سیرالیون میں پڑا.اس وقت یہ اندازہ لگانا محال امر تھا کہ ایک دن احمدیت یہاں پر اتنی مضبوط ہو جائینگی انہوں نے بتایا کہ مولانا نیز صاحب مرحوم کے ساتھ ان کے دوستانہ مراسم ہو گئے مگر ان کا قیام بہت ه الفضل ۲۳ رو نمبر شاہ وقت ہے

Page 463

۴۲۵ جب جبکہ یا اہمیت کایہ لیکر آئے جنکے در کرمان این میم مرحوم نے اس بچے کی آبیاری کی مگراس ملک میں حکیم الحاج نذیر احد صاحب علی مرحوم کی یاد ہمیشہ زندہ رہے گی.کیون کو ہی پہلے مبلغ ہیں جنہوں نے یہاں پر ستقل قیام کیا.انہوں نے احمدیت کی خاطر بہت مصائب مشکلات برداشت کیں.حتی کہ اسکی خاطر اپنی جہان بھی اس ملک میں قربان کر کے تبلیغ کے میدان میں شہادت کا رتبہ حاصل کیا.ان احمدی مبلغین نے یہاں آکر عیسائیت کو دلکارا.اور انہیں لائل کے میدان میں شکست فاش دی.اس سے قبل ہمارے دل میں کبھی وہم بھی نہ گزر سکتا تھا کہ یسائیت کے خلاف کوئی مسلمان بھی بولنے کی جرات رکھتا ہے مسلمانوں ہیں اکثر عیسائیت کی طرف مائل ہوتے جارہے تھے.یہانتک کہ احمدی مبلغین کی آمد سے حالات میں تبدیلی ہوئی اور عیسائیت کو شکست ہونے لگی.اور اسلام ہر میدان میں کامیاب ہوتا چلا گیا.میری دعا ہے کہ اللہ تعالی اس جماعت کو زیادہ زیادہ قوت اور طاقت عطا فر مانده تا که علا عابد اسلم کی برتری دو ستر ادیان پر ثابت ہو " اے ورلڈ کر سچن ڈائجسٹ" (WORLD CHRISTIAN DicEST) میں ایک مضمون شائع ہوا جس کا عنوان تھا ISLAM PROGRESS IN WEST AFRICA یعنی مغربی افریقیه میں اسلام کی ترقی " مضمون نگار نے لکھا کہ:.عیسائی مشنریوں نے مغربی افریقہ کے وسیع وعری ساحلی علاقہ میں اپنی جدو جہد کو جان کی رکھا مگر سوال یہ ہے کہ کیا آج چاچ نے اس علاقے میں آگے بڑھنے اور پھلنے پھولنے سے انکار کر دیا ہے ؟.کیا تیز تر مشربی جدو جہد نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکتی اور کیا اس علاقے میں عیسائیت کو زندہ رکھنے کیلئے اس جد جہد سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا ؟ کیا اسلام کی روز افزوں ترقی اور اس سارے علاقے کو بہت جلد اپنی لپیٹ میں لے لینے کے اسلامی چیلنج کا ہما کے پاس کوئی مرثیہ اور موزوں جواب ہے ؟ یہ وہ سوالات ہیں جو پوسے غور فکر در سوچ بچار کے محتاج ہیں.اور ضروری ہے کہ حقائق کی روشنی میں ان کا جواب معلوم کیا جائے.بیس دن مجھے سیرالیون روانہ ہونا تھا.عین اُسی روز وہاں اسلام کا پہلا میڈیکل مشتری وارد ہوا.اخبارات میں اسکی آمد کی خبر کو جگہ دی گئی اور اس طرح ملک بھر میں اسکی آمد کا بہت چرچا ہوا.اس ملک میں اسلام کے پہلے میڈیکل مشنری کی آمد نتیجہ ہے اس دور رس پالیسی کا جو اسلام کو سر بلند کرنے اور پھیلانے کے سلسلہ میں جماعت احمدیہ نے اختیار کر رکھی ہے.جماعت احمدیہ ایک تبلیغی جماعت ہے اور اس کی کوششوں کے نتیجے میں وہاں اسلام ترقی کر رہا ہے.سیرالیون ایک عجیب و غریب له - الفضل ۳ مارچ ٩ ص :

Page 464

مالک ہے.اسمیں اسلام اور عیسائیت کے علاوہ PAGANISM کے پیر بھی پائے جاتے ہیں.اندرون ملک میں بسنے والے قبائل زیادہ تر مسلمان ہیں.کرسچین کونسل کا اندازہ ہے کہ اس ملک میں عیسائی پانچ فیصد سے بھی کم ہیں.کیا آزاد سیرالیون میں مغربی افریقہ کے دو سر آزاد مکوں کی طرح اسلام کی آغوش میں چلا جائے گا ؟...را سی طرح گھانا میں بھی جماعت احمدیہ سرگرم عمل ہے.مگر سیرالیون میں اسکی کوشش زیادہ نمایاں ہے.گھانا کے شمالی علاقے کے لوگ نہیں ہیں اسلئے وہاں تھوڑی سی کوشش بھی اسلام کو وسیع پیمانے پر پھیلا نیکا و جیب ہو سکتی ہے.نائیجیریا میں اسلام کی طاقت زیادہ ہے اور وہاں اسلام بڑی تیزی سے ترقی کر رہا ہے.یورڈ بہ نسل کے لوگ جنہوں نے ایک صدی قبل عیسائیت کو خوش آمدید کہا تھا.اب بڑی تیزی سے اسلام میں داخل ہو رہے ہیں.صرف ابادان ، شہر میں ہی تقریبا چھ مد مساعد پائی جاتی ہیں.شمالی نائیجیریا میں چہ پینا کی انتہائی کوشش کے باوجود اسلام کی طاقت ناقابل تسخیر دکھائی دیتی ہے.کہا جاتا ہے کہ فریج مغربی افریقہ سیرالیون اور مغربی نائیجیریا میں اسلام عیسائیت کے مقابلے میں دس گنا زیادہ ترقی کر رہا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام ہمہ گیر اجتماعیت کا حامی ہے.اور افریقین لوگ اس قسم کی اجتماعیت کے شدت سے دلدادہ ہیں.اسلامی تعلیم میں اخوت کو ایک خاص مقام حاصل ہے.رنگ ونسل کی کوئی تمیز نہیں.علاوہ ازیں اسلام تعدد ازدواج کی بھی اجازت دیتا ہے.لہذا لوگ اس کو پسند کرتے ہیں.اور بڑی آسانی سے اس کی آغوش میں پہلے جاتے ہیں.اسلام کے نزدیک امیر و غریب اور ایک متمدن شہری اور بادیہ نشین میں کوئی فرق نہیں بحیثیت انسان سب ایک ہیں اور یکساں سلوک کے مستحق.یر تخلاف اس کے عیسائیت ان چیزوں کو پیش تو کرتی ہے لیکن عمل اس کا ان کے بالکل برعکس ہے.برطانوی دور حکومت میں یہ باور کیا جاتا تھا کہ افریقہ آہستہ آہستہ عیسائیت کی آغوش میں آجائیگا.مگر اب افریقن باشندے اپنے خیالات انداز فکر اور اندانی ترسیت کے لحاظ سے بالکل آنداد ہیں.اب وہ جو مذہب چاہی اختیار کر سکتے ہیں.ان حالات میں افریقہ میں عیسائیت کے پہنچنے کے امکانات بہت کم ہیں.سوائے اس کے کہ خود افریقہ کے باشندے اپنی ہمت سے چرچ کو سنبھال لیں.لے ۹ - نائب وزیر اعظم سیرالیون کی ایک تقریہ :- " جماعت احمدیہ کا وجود اس ملک میں اسلام کے لئے ایک بہت بڑی طاقت کا موجب ہے.اس جماعت نے اسلام کی جس طرح خدمت کی ہے.صدیوں سے کسی نے نہیں کی.جماعت کا لٹریچر اسلام سے بحوالہ رسالہ انصار الله ربوہ جولائی ۱۶ء ص ۲-۲۳ ہے

Page 465

۴۳۷ ہے.کی صحیح تصویر پیش کرتا ہے.اور ایک معمولی لکھا پڑا آدمی اسی بہت فائدہ اُٹھا سکتا ہے.اس ملک میں اسلام صدیوں سے ہے.مگر اسلام کو ایسی شکل میں پیش کیا گیا جو نا قابل مل نہیں تو کم از کم مشکل ضرور نظر آتا ہے.مگر جماعت احمدیہ نے اسلام کی صحیح تصویر پیش کر کے ملک وملت کی بہت خدمت کی مجھے یاد ہے جب میں فری ٹاؤن کے ایک سکول میں طالب علم تھا.تو یاعت احمدیہ کا مبلغ فری ٹاؤن میں آیا.لوگوں نے اس کی مخالفت کی.مگر اس کے علم وفضل کی اس قدر دھاک بیٹھ گئی کہ لوگ اس کے علم وفضل کا اقرارہ بر طا کرنے لگے.اسکی ایک ہا تھ میں قرآن تھا تو دوسرے میں بائیں.ادیر وہ دونوں کا مقابلہ کر کے قرآن کی فضیلت اس طرح ثابت کرتا تھا کہ کوئی عیسائی پادری اسکا جو انت دے سکتا تھا.احمدیہ میشن نے اسلام پر نیا لٹریچر پیدا کرنے کے علاوہ قرآن کریم کے تراجم کر کے دنیا پر خصوصا مسلمانوں پر احسان عظیم کیا ہے.ہم نوجوان جنہوں نے انگریزی تعلیم حاصل کی ہے.اور وہ بھی عیسائی سلوگوں میں.ہمارے لئے اسلام کا سمجھنا بہت ہی مشکل تھا.اگر ہمیں اسلام کے بارے میں واقفیت حاصل ہوئی ہے تو وہ صرف جماعت احمدیہ کے لٹریچر سے ہوئی ہے.اور آج ہم بڑے سے بڑے اسلام دشمن کو اسلام کی صداقت کے بارہ میں چیلنج کر سکتے ہیں.مجھے یاد ہے کہ جب میں طالب علم تھا ایک عیسائی نے اختبارہ میں ایک مضمون لکھا جس میں اسلام پر ناروا حملے کئے گئے تھے.نہیں نے چیلنج کو قبول کیا.اور بھجواب دینے کی تیاری میں مشغول ہوا.کا مکمل جواب حمدیہ موجود تھا میں نے مشن کی کا ال دل کا منہ توڑ جواب دیا اس کو مشن کی اسلامی خدمات کول و جان سے ہوئی اور یہاں بھی مجھے بجانے کا اتفاق ہوا.میں نے اس کا اعتراف کیا ہے اور جہاں بھی گیا ہوئی احمد یہ مشن کو خدمت دین کرتے ہوئے پایا ہے.امریکہ.جرمنی.اٹلی.انگلینڈ ٹانا.نائیجیریا وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں.میں مشن کو یقین دلاتا ہوں کہ جو بھی امکانی مرد مجھے سے ہو سکی میں کروں گا.کیونکہ یہ مشن اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور حفاظت کیلئے لڑ رہا ہے.آپ لوگوں کے سامنے کام کرنیکا وسیع میدان ہے آپ کو چاہئے کہ ایسے پورا پورا فائدہ اٹھائیں آپ لوگوں کو زیادہ زیادہ قربانیاں کر کے میشن کی مدد کرنی چاہیئے.تا اسلام کا بول بالا ہو.حضرت خدیجہ کا نمونہ عورتوں کے سامنے ہے.بچوں کی صحیح رنگ میں تربیت کر کے عورتیں بہت بڑا کام کر سکتی ہیں.نہیں اپنا نمونہ آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں.میرا کہ میں سکولوں میںتعلیم پانے کے باوجود تہ دل سے مسلمان بہنا صرف

Page 466

۴۲۸ اس وجہ سے ہے کہ میری والدہ نے میری صحیح رنگ میں اور دینی ماحول میں تربیت کی ہے.دیکھا گیا ہے.کہ مسلمان بچے جب سیکنڈری سکولوں میں پہنچتے ہیں.تو وہ اپنا مذہب تبدیل کر لیتے ہیں.اسکی وجہ یہی ہے کہ ان کی بچپن میں صحیح رنگ میں تربیت نہیں ہوتی.اس سرزمین میں اسلام گذشتہ صدی میں بڑے سے نانزک دور سے گزرا.ایک گورنر نے مسلمانوں کو بہت تکلیفیں پہنچائیں.اور بعض مسلمان قبیلوں کو فری ٹاؤن کے باہر ھانے کا حکم صادر کیا انہیں ایل کی مکروہ نہ کی گئی اور کون رانی کی اور ویران ہوگیا.جب اسکی جگہ پر دوسرا گورنر آیا تو ایسی کہا اسلام ایک اچھا نہ رہی ہے.اور اسطرح کو نسل نے اپنا فیصلہ منسوخ کر دیا.یہی وجہ ہے کہ فری ٹاؤن میں تاحال مسلمان بڑی تعداد میںموجود ہیں.اب آپ آسانی سے تبلیغ کر سکتے ہیں.مگر مجھے وہ وقت یاد ہے جبکہ تیغ کی اجازت نہ تھی اورسلمان کہانا بھی مشکل تھا.دو ماہ ہے یو نائیجیریا میں عیسائیوں کی ایک بہت بڑی میٹنگ ہوئی جسمیں یہ سوالی بھی زیر بحث آیا کہ مغربی افریقہ میں اسلام کیوں تر قی کررہا ہے.بڑی بحث کے بعد سینگ کے تمبراس نتیجہ پر پہنچے کہ احدی مبلغین سیاست میں نہیں الجھتے اور اپنی سرکہ بیو کو لائیں.مذہبی امور ک محدود رکھتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ وہ بخوبی اپنا کام سرانجام دے رہے ہیں.آپ نانا کی مثال لیجئے جہاں کی سیاسی حالت مختلف ہے.مگر وہاں پر بھی حمدی بڑے آرام سے اپنا کام کرتے جارہے ہیں میں نے تمام غانا کا سفر کیا ہے اور دیکھا ہے کہ احمدی مبلغین اپنے کام میں شب روز مشغول ہیں سالٹ پانڈ میں حدیہ مسجد اور اسکے مقابلہ میں خرچ بھی ہے.مجھے بڑی خوشی ہوئی ہے کہ ہمارے درمیان ایران من احدی بیٹھا ہوا ہے.جو سن قوم بڑی ہوشیار ہے.انہوں نے سائنس میں بہت ترقی کی ہے.ان کا اسلام کی طرف مائل ہونا بھی سلام کی حقانیت کی دلیل ہے.احمدیہ مشن مسلمانوں کیلئے لڑ رہا ہے اور انکو جو گراہ ہو چکے ہیں راہ راست پر لانے کی دن رات کوشش میں ہے.نہیں آپ لوگوں سے اپیل کرتا ہوں کہ آپ اس کار خیر میں میشن کا ہا تھو ٹا ئیں اسلام میں نجات ہے.آپ پوری طرح مسلمان بن جائیں.اور اپنی اولادوں کی تربیت اس رنگ میں کریں کہ پر سلمان رہیں.تعلیم کے میدان میں احمد یہ مشن نہایت ہی اچھا کام کر رہا ہے.آپ کو چا ہیئے کہ انکی امداد کریں.اوہ آپکے بچوں کو اسلامی تعلیم سے مزین کر سکیں احمدیوں کی دیکھادیکھی اب بھی دوسرے لوگ بھی مجالس منعقد کر رہے ہیں.اور سکول بھی کھولنے کی کوشش میں ہیں.مگر حقیقت یہ ہے کہ احمدیہ مشن ران سب کا پیشرو ہے " ہے الفضل ( ربوه) ۲ فروری ۱۹۶۳ صفحه ۴-۵ [

Page 467

۴۲۹ فصل نچ حضرت امیر المومنین کا حضرت امیر المومنین خلیفہ اسی الثانی کے گلے میں لگاتار لیبی تقاریر کرنے اور سفر سندھ و بمبئی ، خطبات دینے کی وجہ سے مزمن تکلیف ہوگئی تھی اور سالہا سال سے کاسٹک استعمال کرنا یا جارہا تھا.ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ کاسٹنگ لگانا چھوڑ دیا جائے.ورنہ گلے کا گوشت بالکل جل جائیگا.ڈاکٹری رائے میں چونکہ اس مرض کے لئے سمندر کا سفر خاص طور پر مفید ہوتا ہے.اس لئے حضور اس سال بھی تشریف لے گئے.چنانچہ حضور سارا کتوبر کو قادیان سے بذریعہ موٹر لاہور پہنچے ہیں جہانی شنل لیگ کے ایک اجتماع سے خطاب فرمایایہ اور دوسرے روز م ر اکتو بہ کو صبح ساڑھے نو بجے کراچی میل کے ذریعہ سندھ روانہ ہوئے ہے راکتو برسات کو ناصرآباد اسٹیٹ سے روانہ ہوکرہ اراک تو بہ کو بے صبح کراچی پہنچے اور 4 بجے شام ایسی لونا" نامی بحری جہانہ سے روانہ ہوکر یا اکتوبر کی صبح کو بمبئی میں وارد ہوئے ہے ممبئی میں حضور ڈیڑھ ہفتہ کے قریب فروکش رہے.اور ۲۹ اکتوبر کو سناوتی جہاز پر سوار ہوکر صبح نو بجے کراچی پہنچے.ہے اور سور نومبر ۹ہ کو سفر سے واپس قادیان تشریف لے آئے.شہ اس سفر میں پہلے تو گلے کی تکلیف بڑھ گئی.مگر بعد میں نمایاں فائدہ ہوگا.اور روزانہ دوائیں لگانے کی جو ضرورت محسوس ہوتی تھی.اس میں بہت کمی آگئی.شے سلسلہ احمدیہ کے قیام کو اور میں اڑتالیس سال اور حضرت سیح موعود علی الصلوة کروایات صحابہ فوظ کرنے اسلام کے والا ایک انیس سال کا وہ یہی کہا تھا.اس لیے روکے کی اہم تحریک ، دوران حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے کثیر التعداد اما به علت فرماگئے اور اس تشویش انگیز صورت حال کو دیکھ کر حضرت خلیفہ اسی الثانی نے جماعت کو اور نومبر لاء کے خطبہ جمعہ میں اه سیر روحانی و تقریر حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الثانی ۲۸ دیمه یه صفحه و هم طبع اول اپریل ۹۳ سه طبع دوم صفحه اول * ل الفصل اکتوبر ۱۹۳۶ یو صفحه ۲ کالم اینا صفحه ۱- ۵ راکتو برای صفحه ان من الفضل به اکتوبر ۹۳ ارم کا لمراب ۵۵ الفضل ۱۲۰ اکتوبر را ء صفحه ۲ کالم ۱ : له الفضل سور نومبر ۱۹۳۷ و صفحه ۲ کالم شد الفضل در نومبر ماء سل کالم ) شه سیر و جانی جلد اول صفحه د طبع اول، پریل ۱۹۳۶ کے حضور نے سالانہ جلسہ ۱۹۳۶ یو پر دو باره یه تحریک فرمائی در پورت سالانه صدر انجمن احمدیہ قادیان یکم مئی ۱۳ اثر تا ۳۰ را پریل ۱۹۳۶ و صفحه ۲۳۰) ہے ما سارا

Page 468

سم هوم باقیماندہ صحابہ کی روایات کے محفوظ کرنے کی خاص تحریک فرمائی چنانچہ فرمایا :- حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات تشلہ کی ابتداء میں ہوئی ہے.اور اس وقت جن لوگوں کی عمر پندرہ سال کی سمجھی جائے.کیونکہ یہی کم سے کم عمر ہے جس میں بچہ سمجھ رکھتا ہے تو ایسے لوگوں کی کم بھی اب ۴۴ سال ہوگی جس کے معنے یہ ہیں کہ ایسے لوگ بھی زیادہ سے زیادہ پندرہ ہمیں سال اور جماعت ہیں رہ سکتے ہیں.اور بظاہر آج سے ۲۰ - ۲۵ سال بعد شائد ہی کوئی صحابی جماعت کو مل سکے.ایسا صحابی جس نے حضور کی باتوں کو سنا اور سمجھا ہو.میں کھتا ہوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور سیران کے حالات کی کتابیں اور سنا دی گرمی کی موقع تین چار سو ضخیم جلدیں تیار ہو سکتی ہیں جن میں سے ہر ایک جلد پانسو صفحات کی ہوگی اگر ایسی تین سو جلدیں بھی ہوں تو یہ ڈیڑھ لاکھ صفحات ہوں گے.فرض صحابہ کرام نے اتنا ذخیرہ چھوڑا ہے کہ آج ہمیں بہت ہی کم یہ خیال آسکتا ہے کہ کاش رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم کی فلاں بات ہیں معلوم ہوتی مگر حضرت سیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے حالات و اقوال اور واردات کا بہت ہی کم حصہ محفوظ ہوا ہے.میں نے بارہا دوستوں کو تو یہ دلائی ہے کہ جو بات کسی اور کو معلوم ہو.وہ لکھا دے اور دوسروں کو شنادے مگر افسوس کہ اس کی طرف بہت کم توجہ کی گئی ہے.اور اگر کس نے توجہ کی بھی ہے تو ایسی طرز یہ کہ اس کا نتیجہ صفر کے برابر ہے.پس....یکی دوستوں بالخصوص نظارت تالیف تصنیف اور تعلیم کو توجہ دلاتاہوں کہ یہ اس قسم کا کام ہے کہ اس میں سے بہت سا ہم ضائع کر چکے ہیں اور اسکے لئے ہم خدا کے حضور کوئی جواب نہیں دے سکتے.اب جو باقی ہے ایسے ہی محفوظ کرنے کا انتظام کیا جائے.ہمارا سالانہ بجٹ تین لاکھ کا ہوتا ہے.مگر اس میں ایک ایسا آدمی نہیں رکھا گیا.جو ان لیکچروں اور تقریروں کو وصی باشد کریں قلمبند کرتا جائے.اب بھی اگر ایسا انتظام کر دیا جائے تو جو کچھ محفوظ ہوسکتا ہے اسے کیا جاسکتا ہے.اور اس میں سے سال دو سال کے بعد ہر جمع ہو شائع ہوتا رہ ہے.اور باقی لائبریریوں میں لوگوں کے پاس بھی محفوظ رہ ہے.کیں سمجھتا ہوں.اب بھی جو لوگ باقی ہیں.وہ اتنے ہیں کہ ان سے چالیس پچاس نصیب ہی باتیں محفوظ ہو سکتی ہیں.اس کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسّلام ایک بہت بڑے مصنف بھی تھے.اس سے آپ کی کتابوں میں بھی بہت کچھ آچکا ہے.لیکن جو باقی صحابہ کو معلوم نہیں گرا کو محفوظ کریانہ کی انتظام نہ کیا گیا تو ہم ایک ایسی لے حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے نزدیک صحابی کی تعریف یہ جس شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہا تھو یہ بیعت کی ہو.اور پھر ارتداد نہیں کیا.خواہ درمیان میں کسی قدر کمزور ہو گیا ہو.وہ یقینا صحابی ہے.اس میں کوئی شک نہیں ؟ الفضل ۲۴ فروری ۱۹۳۶ و صفحه ۲ کالم ۱)

Page 469

قیمتی چیز کھو بیٹھیں گے جو پھر کسی صورت میں بھی ہاتھ نہ آسکے گی.میں کئی سال سے اس امر کی طرف توجہ دلا رہا ہوں گر افسوس ہے کہ ابھی تک اس کی اہمیت کو نہیں سمجھا گیا " اے حضور کے اس فرمان مبارک پر حضرت مرزا شریف احمد صاحب ناظر تالیف و تصنیف نے حافظ ابشر اعصاب مولوی فاضل بجالندھری کا انتخاب روایات صحابہ جمع کرنے کے لئے کیا.لیکن حافظ صاحب ابھی اس کا م کا چارچ لینے نہ پائے تھے کہ سرمئی 14ء کو اچانک انتقال کر گئے اور عارضی طور پر یہ کام مل محمد عبداله ت ب مولوی فضل کے سپرد کیا گیا.ملک صاحب آخر اگست ۹ دیر تک یہ کام سرانجام دیتے رہے.انہوں نے صحابہ کرام - روایات حاصل کر کے ان کو اخبار الفضل میں شائع بھی کرانے کا اہتمام کیا اور تبرکات حضرت بی موعود علیہ اسلام کی فہرست بھی مرتب کی اسی اثناء میں حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی نے قادیان کے نام درجات کا بار بار دورہ کر کے صحابہ حضرت مسیح مدیہ علیہ اسلام کی اسم وار فہرست سن بیعت کے لحاظ سے مرتب کی بیلے ملک محمد عبد اللہ صاحب کے بعد شیخ عبد القادر صاحب ( سابق سود اگرمل مبلغ کراچی نے ستمبر سا ہے اس اہم کام کا چارج لیا.اور اس کیلئے اپنے سب اوقات وقت کر دئے.اور نہ صرف بذریعہ ڈاک ہی روایات منگوائیں بلکہ بٹالہ.امرتسر لاہور اور سیالکوٹ وغیرہ علاقوں کے دورے کر کے روایات کا ایک نہایت قیمتی ذخیرہ فراہم کر کے اُن کو رجسٹروں کی صورت میں نقل کرانا شروع کردیا اور اصل کے ساتھ ساتھ مقابلہ بھی جاری رکھا.اس کے ساتھ ہی شیخ صاحب موصوف تبرکات مسیح موعود کی فہرستوں کو زیادہ سے زیادہ متحمل کر کے اختبار الفضل میں شائع کرنے لگے.پہلے جناب شیخ عبد القادر صاحب ۲ جون شایع تک یہ قومی خدمت بجالاتے رہے.اس عرصہ میں آپنے سینکڑوں صحابہ کی روایات تیرہ رجسٹروں کی صورت میں محفوظ کر لی ہے شیخ صاحت کے بعد م جوان اور کو دوبارہ مل محمد عبداللہ صاحب والد فاضل نے اس کام کا چارج لیا.پنے قریباً ڈھائی کا کام کیا اور 2 صفحات پر تمل روایات حاصل کرکے درج رجسٹر کی ازان بوده در گرین برای کو به فریضه باشه های فضل حسین صاحب مہاجر کے سپرد کیا گیا ہے ١٩٣٤ افضل ۲ نومبر و صفحه ۳:۲: سے یہ فہرست جو خلافت لائبریری ربوہ میں محفوظ ہے.ضمیر کتاب میں شامل کردی گئی ہے : مل رپورٹ سالانہ صدر انجمن احد یہ یکم مئی شاء لغایت ۳ را پریل شکشته و صفحه ۲۳۰ - ۲۳۲ : سکے جن صواب کی روایات محفوظ کی گئیں اُن کی مکمل فہرست ضمیمہ کتاب میں موجود ہے یہ جاتا ہے ملاحظہ ہو رجسٹر کروایات صحابہ جلد ۱۳ به ان رجسٹروں کے مجموعی صفحات ۳۸۱۳ ہیں :

Page 470

۴۴۳۲ مہاشہ صاحب نے پہلے سالوں کی جمع شدہ روایات پر نظر ثانی اور مناسب تحقیق کے بعد لگن میں سے بعض الفضل، الحلم، رسالہ ریویو آف ریلیجنز اور مصباح میں شائع کریا کے سلسلہ احمدیہ کے لٹر پر میں محفوظ کر دیں.حضرت امیر المومنین کیطرف سے احیاء شریعت خدا تعالی کے قائم کرد خلفاء اپنے آسمانی آقا کے وعدوں اور بشارتوں پر غیر متزلزل اور میان رکھتے، سنت میں سرگرم ہو جانے کا پر جلا الان رانا نے والی روایت کرتے ہوئے کیوں نہی کو پھر کیا پنے کا اور عالمگیر اسلامی انقلاب کی بشارت لہراتے ہوئے آگے میں آگے بڑھنے چلے جاتے ہیں.اس حقیقت و صداقت کا ایک روح پرور نظارہ سالانہ جلسہ یو پر دیکھنے میں آیا.ان ایام میں مصر کی فتنہ " پورے عروج پر تھا.مگر خدا تعالیٰ کے موعود و برحق خلیفہ سیدنا محمود نے سالانہ جلسہ پر جمع ہونے والے احمدیوں کی احیاء سنت کے لئے سرگرم عمل ہونے کا حکم دیتے ہوئے یہ خوشخبری سنائی کہ احدیت کے ذریعہ سے مستقبل میں عالمگیر اسلامی انقلاب بر یا ہونا مقدر ہے اور دنیا کی حکومتیں اور بادشاہتیں احمد کیوں کو عطا ہونے والی ہیں.به عظیم الشان بشارت حضرت امیر المومنین خلیفه ای را ارارا اور اپنے اندر الہامی رنگ رکھنے والی پر شوکت تقریر کے آخرمیں سنائی جو انقلاب حقیقی کے اہم موضوع پرتھی اورجب کی ابتداء میں حضورنے دنیا کی مشہور تمدنی اور مذہبی تحریکات کی خصوصیات پر بالتفصیل روشنی ڈالنے کے بعد اعلان فرمایا نہ اب وقت آگیا ہے کہ ہماری جماعت اپنی ذمہ داری کو مجھے اور احیاء سنت و شریعت کے لئے سرگرم عمل ہوجائے.کے ملاحظہ اور پوسٹ سالانہ میرات در این امر به یکی ا و اسلامی را داد اما در یکی می داد امارات ۱۳۰ اپریل ۱۹۳۳ در و صفحه ۲۵۰۲۳ سے یعنی مصری پارٹی کا فتنہ جس کی تفصیلات پر حضور نے ، ۲ دسمبر ۳۷ او کی تقریر میں بڑی شرح و + ، اور بسط سے روشنی ڈالی اور اسکی نسبت حضرت مسیح موعود کے متعد دالہاما بیان رائے اور بتایاکہ الہام الہی میں خارج کا ایک گروہ پیدا ہونے ی خبر موجود تھی جو پوری ہوگئی.اس وضاحت کے بعد حضور نے خوارج کی فتنہ انگیزیوں کی تفصیل بتائی.اور مخارج اور مصری پارٹی میں قائد کے لحاظ سے تیرہ زبر دست مشابہتیں اور تاریخی لحاظ سے پانچ مشابہتیں بیان فرمائیں.حضرت امیر المومنین کی اس معرکۃ الآراء تقریر نے اس فتنہ کا تار و پود بکھیر کے رکھ دیا.اور جماعت احمدیہ پہلے سے بھی زیادہ عقیدت و الفت کے ساتھ یقین کی امس مستحکم میان پر قائم ہوگئی کہ لیفہ خدا بناتا ہے.اور دنیاکی کوئی بڑی سے بڑی طاقت اسے محدود نہیں کر سکتی.مفصل تقریر کے لئے ملاحظہ ہو.الفضل ا ر ا گست ۱۹۶۲ در صفحه ۱۳ تا ۲۳ را گست ۱۹۶۲ شد.- ۱۴ حضرت خلیفہ المسیح الثانی ہم نے کتاب انقلا حقیقی کی نسبت فرمایا کہ اس کتاب کے بعض حصے ایسے ہیں جو اپنے اندر الہامی رنگ رکھتے ہیں؟ ( افضل سور جنوری ۹۴ اید صفحه کالم بشه یعنی آرین تحریک - رومن تحریک - ایرانی تحریک - بانی تحریک مغربی تحریک به حضرت آدم حضرت نوح حضرت ابراہیم حضرت موسی ، حضرت علی علیهم السلام اور حضرت حوصلے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور مذہبی ہے که به ܀

Page 471

سم جب تک میں نے اعلان نہ کیا تھا.لوگوں کے لئے کوئی گناہ نہیں تھا.مگر اب جبکہ امام اعلان کرتا ہے کہ حیا سنت شریعت کا وقت آگیا ہے کسی کو پیچھے رہنا جائز نہیں ہوگا.اور اب اگر ستی ہوئی تو کبھی بھی کچھ نہ ہو گا آج کو صحابہ کی تعداد ہم میں قلیل ہوگئی ہے.مگر پھر بھی یہ کام صحابہ کی زندگی میں ہی ہو سکتا ہے.اور اگر صحابہ نہ رہے.تو پھر یاد رکھو کہ یہ کام کبھی نہیں ہوگا.اے اس اعلان کے بعد حضور نے اسلامی تمدن کے متعلق بطور نمونہ دس احکام بیان فرمائے اور احمدیوں سے عہد لیا کہ وہ اپنی جائیداد سے اپنی لڑکیوں اور دوسری رشتہ دار عورتوں کو وہ حصہ دے گا.جو خدا اور اس کے رسول نے مقرر کیا ہے ۲ اسکے علاوہ حضور نے احیاء شریعت و سنت کے پہلے مرحلہ کے طور پر عورتوں کے حقوق، امانت ، خدمت خلق اور احمدی دارالقضاء کی طرف رجوع کرنے کے متعلق تاکید کی ہدایات دیں اور فرمایا :- بے شک آج ہم وہ کام نہیں کر سکتے ہو حکومت اور بادشاہت کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں مگر دما باتیں جو ہمارے اختیار میں ہیں.اُن پر آج سے ہی عمل شروع ہو جانا چاہیئے یہ سے حضور نے تقریر کے آخر میں یہ بشارت دی کہ :- دنیا میں انسان جب ایک سبق یاد کر لیا کرتا ہے یہ استاد اُسے دُوسرا سبق دیتا ہے.میں امید کرتا ہوں کہ جب تم اس سبق کو یاد کر لو گے تو اللہ تعالئے دنیا کی حکومتیں اور بادشاہ ہمیں تمہارے قدموں میں ڈال دے گا.اور کہے گا جب تم نے ان تمام احکام اسلام کو جاری کر دیا.جن کے لئے حاکمیت کی ضرورت نہیں تھی.تو آہ آپ میں حکومتیں بھی تمہارے سپرد کرتا ہوں.تا جو چند احکام شریعت کے باقی ہیں ان کا بھی عالم میں نفاذ ہو.اور اسلامی تمدن کی چاروں دیواریں پائیہ تکمیل کو پہنچ جائیں پس اگر تم میری ان باتوں پر سیل شروع کردو تو اللہ تعالیٰ حکومتوں کو بھی تمہارے سپرد کر دے گا.اور جو حکومتیں اسکے لئے تیار نہیں ہونگی لہ تعالی انہیں تباہ کرے گا وہ اپنے فرشتوںکو حکم دے گا ر جاؤ اور ان کا تختہ الٹ کر حکومت کی باگ ڈور اُن کے ہاتھ میں دو.جو میرے اسلام کو دُنیا میں رائج کر رہے ہیں " ہے موگو له " انقل تحقیقی طبع اول صفحه ۱۱۳ : ایضا صفحہ ۱۲۵ حضرت امیرالمومنین نے 199 ء کے سالانہ جلسہ پر اس عہد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا " بعض زمینداروں نے شاندار نمونہ دکھایا ہے مگرلا کھوں کی جماعت میں یہ شالیں بہت کم ہیں.الفضل ار جنوری اور صفحہ ، کالم ) ایضا الفضل ۱۲ فروری ۱۹۳۷ صفحه ۳ کالم ۲ سه انقلاب حقیقی - صفحه ۲۱۳۹ ۳ كمه القلم حقيقي طبع اول صفحه ۱۳۱ ۱۳۲۰ - حضرت امیر المومنین کا لیکچر دوبارہ کتابی شکل میں شائع کیا جا چکا ہے والفضل سر جنوری ما صفحه (۲)

Page 472

هم ۴۳ بعض جلیل القدر صحابہ کا انتقال 1ء میں جو بزرگ صحابہ انتقال فرما گئے.ان کے نام نامی کا در بین یہ ہیں :.(1) شیخ نواب الدین صاحب سیکرٹری جماعت احمدیہ چھانگڑیاں ضلع سیالکوٹ ( تاریخ وفات (ار جنوری ۱۹۳۶ به بعمر ۷۵ سال) لے (۲) حضرت منشی عبدالرحمن صاحب کپور تھلوی ( تاریخ وفات ۲۰۲۰ جنوری ۱۹۱۳ به بهره ۹ سال فریبا قدیم ترین صحابہ میں سے تھے بیعت اولی کے موقعہ پہ پہلے ہی دن حضرت سیح موعود علیہ السلام کی بیعت سے مشرف ہوئے.(۳) حضرت ماسٹر نواب الدین صاحب بی اے بی ٹی در تاریخ وفات ۲۰ فروری ساره بی نهایت مخلص اور پر خوش بزرگ تھے.(۳) حکیم مرزا خدا بخش صاحب غیر بائع مولف محل مصفی ( تاریخ وفات در اپریل تسلیم شده (۵) حضرت با با میرا اسلام صاحب افغان ( تاریخ وفات یا مئی ۱۹۳ و بعمر ۱۰ سال) 22 (4) حصرت ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب ( تاریخ وفات ۲۳ جون ۱۹۳۳) - آپ کا شمار جماعت احمدیہ کے ممتاز اہل کشف و الہام میں ہوتا ہے لشکر میں بیعت سے موجود سے مشرف ہوئے.۲۵ برس تک رعیہ ضلع سیالکوٹ میں سینٹر سب اسسٹنٹ ہر جن کے عہدہ پر ملازم رہے.نہ میں پیش لینے کے بعد قادیان آگئے اور مستقل طور پر رہائش اختیار کرلی یه حضرت مولوی شیر علی صاحب نے آپ کی وفات پر آپکے بیٹے حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کو ایک تعزیت نامہ لکھا.جس میں تحریر فرمایا کہ وہ ایک نہایت ہی پاک نفس انسان تھے جن کا وجود سراسر برکت تھا.ایسے وجود دُنیا میں بہت کم نظر آتے ہیں.....وہ ہر ایک کے محسن اور سر کے خیر خواہ تھے.اُن کی پر آپ سے اور انکی دعاؤں سے ایک نیا فیض حاصل کر رہی تھی باشد.(6) حضرت مولوی نور احمد صاحب لودی انگل د تاریخ وفات ۲۲ جون ۱۳ م ) - بیعت کرنے کا عجیب له الفضل در جنوری ۱۹۳ به صفحه من الفضل ۲۸ جنوری ۱۹۳۷ء صفحہ ا کالم ان سے ملاحظہ ہو بیان حضرت منشی ظفر احمد صاحب کیپور تھلوی مطبوعه تاریخ احمدیت جلد دوم طبع دوم صفحه ۱۷۲) مزید حالات کے لئے ملاحظہ ہو افضل ، جولائی ۱۹۳ صفحه : یک الفضل ۲۳ فروری ۹۳ صفحه الالم به الفضل ۱۲ مارچ 1 ء میں اُن کے ایک مباحثہ کے کوائف درج ہیں جو انہوں نے ۲۴-۱۹۲۳ ء میں غیر مبالعین سے کیا.اور حسین سے اُن کے گہرے مطالعہ، حاضر جوابی اور حکمت عملی کا پتہ چلتا ہے ؟ شه اخبار پیغام صلح را پریل ۱۹۳۷ صفحه هم کالم 1 = الفضل ۲۲ رمئی ۳۶ ۹ یه صفحه اکانم باشه الفضل ۱۲۵ جون ۹۲۶ یه صفحه ۲ کالم ۲ به شه الفضل ۱۲۰ جولائی ۹۳۷ صفحه مو *

Page 473

۲۷۳۵ واقعہ سنایا کرتے تھے فرماتے ہیں نے دیکھا کہ ایک آدمی عطر فروخت کر رہا ہے.میں نے بھی ایک پیکٹ لیا.جب کھولا.تو اس میں ایک اور بیکیٹ تھا.حتی کہ کئی ایک پیکٹ کھولنے کے بعد ایک شیشی نکلی جس کے کھولنے سے سارا جہان معطر ہوگیا.جب پڑھا تو شیشی پر مرقوم تھا یا براہین احمدیہ اس لطیف خواب پر آپ سے مری خودا کی غلامی میں آگئے.بہت متبحر عالم تھے.کہتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک دفعہ کسی حدیث کی ضرورت پڑی.اس پر حضور نے ایک کسانڈنی سوار گورداسپور سے لودی نگل بھیجا کہ اُن کو لے آؤ.قاصد جو نہی اُن کے پاس پہنچا اور آپ اُسی وقت چل دئے.عصر کی نماز گاؤں سے باہر ادا کی اور آدھی رات کے بعد آپ گورداسپور پہنچے.اور حضرت کی موعود علیہ اسلام کی خدمت میں حاضر ہو کر مطلوبہ حدیث پیش کردی.حضرت مولوی صاحب کے ذریعہ لودی منگل، نتیجہ کلاں، کھو کھر اور پھر بال میں احمدی جماعتیں قائم ہوئیں.آپ تینتالیس برس تک تبلیغ احمدیت میں منہمک رہے.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں پر آپ کو بہت عبور حاصل تھا.سطروں کی سطریں زبانی سنا دیتے تھے.کوئی کام دُعا کے بغیر شروع نہ کرتے.بہت مستجاب الدعوات بزرگ تھے.لے (۸) حضرت میاں شادیخان صاحب کی شکل با غبانان متصل قادیان تاریخ وفات ۲۲ جون و مهره مارال (۹) حضرت با با محمد کریم صاحب متوطن علاقه خوست ( تاریخ وفات ۲۶ جولائی ۱۹۳۴ ء بعمر ۶۰ سال به (1) کپتان اللہ داد خان صاحب آن کھاریاں ( تاریخ وفات ۲۱ اگست ۱۹۳۶) ۸۰ منہ میں پیدا ہوئے.حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی دعا کے طفیل معمولی سپاہی سے ترقی کرتے کرتے کپتان کے عہد تک پہنچے ہیں (۱۱) میاں محمد اسماعیل صاحب مالیر کوٹلوی (تاریخ و فانت ۱۲۹ اگست ۱۹۳۷ شه لعمر ۸۰ سال) شه مندرجہ بالا صحابہ کے علاوہ یہ مندرجہ ذیل مخلصین سلسلہ کا بھی : صال ہوا ا سیٹھ غلام محمد ابراہیم صاحب ( تاریخ وفات ، ارا پریل ۹۶ به ته میر مہدی حسین صاحب مالک احمدیہ فرنیچر سٹور دہلی.( تاریخ وفات ۲۹ را پر مل ۲۱۹۳۶) شه ZA ه افضل ۲ ستمبر ۱۹۳۵ء صفحه ۵۰۸ : له افضل ۲۹ جون شاهد و صفحه ۱ ب له الفضل ۲۸ جولائی ۱۹۳۶ یہ صفحہ ا کالم نو ه الفضل ۲ اگست ۱۹۳۶ صفحه ۹ کالم ۳ : شه الفضل ۲۶ ۱ اگست ۱۹۳۷ء صحرا کالم : له حضرت سلیم عبدالله الدین صاب کے ماموں شاہ کے قریب داخل احمدیت ہوئے بہت ہی مخلص تھے، تہجد گزار در سلسلہ کے خدائیوں میں سے تھے 6 سال کی عمر میں انتقال کیا.والفضل ۳۰ را پریل ۱۹۳۶ء صفحه ۱۲ ك الفضل لاني یہ صفحہ ا کالم ا.جماعت دہلی کے مخلص اور جوشیلے احمدی تھے.انکے والد میر احمد حسن صاحب اصحابی حضرت مسیح موعود اپنے مولوی احمد رضا خان صاحب پر یوری کے مریدوں کے ہاتھوں بہت تکالیف اٹھائیں.کئی بار ماریں کھائیں ( الفضل ، سٹی سر و صفحه ۹) ۹۳

Page 474

۴۳۶ س حکیم محمد احمد ابوطاہر صاحب امیر جماعت احد به کلکن ( تاریخ وفات ۲ ستمبر سے فصل ششم بعض متفرق مگراهم واقعت خاندان حضرت مسیح موعود ہیں اور ایس او کو حجت اشد حضرت نواب محمدعلی خان صاحبت آت مالیر کوٹلہ کے فرزند صا حبزادہ میاں محمد احمد خاں صاحب کے خوشی اور مسرت کی تقاریب مشکل سے معلی میں میان حامد احد ان کی ولادت ہوئی.لے مشکوئے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کے ہاں اور اپریل بروز ہفتہ دو بجے دوپہر مرزا انس احمد صاحب کی ولادت با سعادت ہوئی میں اس تقریب پر حضرت خان ذوالفقار علی خاں صاحب گوہر نے ایک قصیدہ لکھا.جس کے چند اشعار یہ تھے :.ے اک شگوفہ سے نیا بارغ مسیحا میں کھلا جس کی خوشبو سے معطر ہے دماغ گردوں ابن ناصر کی ولادت ہے عجب مردہ خبر برکات اس کی زمین کے لئے ہیں گونا گوں حق نے اب حضرت محمود کو پوتا بخشا میں بھی یہ ہدیہ تبریک نہ کیوں پیش کروں ہو یہ فرزند سعید اور خدا کا محبوب اس سے لے عقل و خرد آگے ہر اک افلاطون تو یہ اسلام کو پھیلائے یہ دنیا بھر میں عاشق احمد کا ہو محمود کا ہو یہ مجنوں نورا علم توحید کا گنجینہ ہو اس کا سینہ دل ہو عرفان الہی سے لبالب مسیحوں کی صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب د خلف الرشید حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب) کے ہاں ار مارچ ء کو میاں اور لیس احمد صاحب پیدا ہوئے.ہے 1 ه الفضل و ستمبر ا وصفہ و کالم - مرحوم اور تر شکار میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نیکی بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں اخل ہوئے.سلسلہ کے ساتھ محبت اور خدمات کے اعتبار سے آپ مخلصین کی صف اول میں تھے.کئی بار قادیان تشریف لا کر کافی رصہ قیام کرتے رہے.ہر تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے لیے اور اخلاص و عقیدت رکھتے تھے.(الفضل ار ستمبر ها و صفحه ۲ کالم۳) له الفضل ۲ را پریل ۳۶ او صفحوا له الفضل + ۲۰ را اپریل ۳ ا و صفر ۲ کالم - الفصل ۲۵ اپریل سماء صفح العالم ابن له الفضل ۲۷ اپریل ۳ و صفحه ب له الفضل ۱ مارچ ۱۹۳۶ و صفحه با کالم :

Page 475

۴۳۷ ر اکتوبر ۳ لایه کی درمیانی شب کو مرزا رشید احمد صاحب (خلف الصدق حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب رضی اللہ عنہ) کے ہاں فرزند تولد ہوا.اے اسی طرح صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب آئی سی ایس کے امتحان میں ساتویں نمبر پر پاس ہوئے.نامزدگی کے موقعہ پر جو سات مسلمان امید وا ا نتہ کئے گئے ان میں آپ کا تیسرا درجہ تھا.کل نمبر حاصل کئے لے صاحبزادہ مرز اظفر احمد صاحب بی اے بیرسٹر ایٹ لاء ( ابن حضرت مرز ا شریف احمد صاحب) چار سال انگلستان رہ کر بار ایٹ لاء BAR AT LAW) کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد اور دسمبر ۱۹۳۷ پیر کو ساڑھے نو بجے صبح کی گاڑی سے واپس تشریف لائے.اس موقعہ پر استقبال کیلئے خاندان حضرت سیح موعود اور مقامی جماعت کے علاوہ خود حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضہ بھی اسٹیشن پر رونق افروز تھے بلکہ مسٹر عبد المنعم نمائندہ سلطان مستقط هر جنوری ۱۳۷ دارو مانند سلطان مسقط قادیان میں کرتا دیاں تشریف لائے ہیں اور مارچ کو اڑیسہ پراونش انجمن احمدیہ کا پہلا تنظیمیں جلسہ لک میں منعقد ہوا.جس میں مرکز سے مولوی ظہور سین صاحب نے ایا اڑیسہ پراونشل انجمن احمدید کا پہلا جار کیرنگ، کند را پاڈا، پوری نگویا ، بالسر، سری پار، سیر لو خوردہ سے عہدیداران پراونشل اور دیگر مہمان الہ کی تعداد میں شریک ہوئے.اس کانفرنس میں ایک سکیم بھی مرتب کی گئ اور نہ دان کے فرائض واضح کئے گئے یہ پروفیسر کلارک آرجوجه بیل ( YALE) یونیورسٹی امریکہ بطور نمائندہ شرکت فرمائی.اڑیسہ کے مختلف مقامات مثلاً سونگڑہ ، پروفیسر جان کلارک آچر قادیان میں یہ واہ واہ کے پردیس سے اور ان دنوں چناب میں تھے اور آئے ہوئے تھے ، ارجون ۱۹۳۶ء کو قادیان آئے.حضرت امیر المومنین خلیفہ ایسیح الثانی کرنے شرف ملاقات بخشا اور اُن سے مختلف اسلامی مسائل پرگفتگو فرمائی.پر وفیسر صاحب دفاتر دیکھنے کے بعد شام کی گاڑی سے واپس چلے گئے.01 الفضل هادر اکتوبر ۱۹۳۵ء صفحہ کالم ۲ : ۵۲ الفضل در جولائی ۱۹۳۷ و صفحه ۲ کالم ان له الفضل در دسمبر ایده صفحہ و کالم ان له الفضل، جنوری ۱۹۳۶ و صفحه به شه الفضل به را پریل شود و صفحه و کالم ابن له الفضل و ارجون کہ اکالم اس پر وفیسر مذکور نے ۱۳ بجولائی ۹۳ار کو ناظر اعلیٰ صاحب کے نام شکریہ کا ایک مکتوب لکھا جو الفضل ۲۳ جولائی ۱۹۳۷ دو صفحہ ، پر شائع ہو چکا ہے.۱۹۳۷ خه صفحه ۱

Page 476

سنگ بنیاد حضرت امیر المومنین خلیفہ اسی انسانی نے یکم اکتو برای او و یا ایراد صاحب کو کارکن نظارت عوت و تبلیغ کے مکان کی محلہ دار الانوار میں بنیاد رکھی.ہے مذاہب عالم کا نفر نسوں میں بیٹی :- آل فیتیس لیگ (ALL FAITHS LEAGUE) بیٹی کا پہلا اجلاس ناسک میں 194 ء میں.اور دوسرا اس سال ۲۴، ۲۶۲۵ تا ۱۹۳۳ء احمدی مبلغوں کی تقریریں ہیں سارے بھی میں معقد کیا جس میں اپریل بمبئی ہوا.۱۹۳۶ء مبلغ اسلام حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب نیر نے انگریزی میں اسلام ایک احمدی کے نقطہ نگاہ ہے کے موضوع پر تقریر فرمائی جو بہت پسند کی گئی اور تعلیم یافتہ طبقہ نے یہاں تک کہا کہ ہم نے پہلی مرتبہ اسلام سے متعلق ایسی تقریر سنی ہے.حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیتر لیگ کی سب جیکٹ کمیٹی کے ممبر منتخب کئے گئے.اور آپ کے دو ریزولیوشن بھی کانفرنس میں بالاتفاق رائے پاس ہوئے.پہلے ریزولیوشن کا مفہوم یہ تھا کہ تمام مذاہب کے نمائندے اپنے وعظوں کو صرف اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرنے تک محمد و دکر دیں اور دوسرے مذاہب پر ہرگز حملہ نہ کریں.حضرت نیر صاحب نے دوسرا ریزولیوشن یہ پیش کیا کہ ہند و اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرۃ کے جلسوں میں اور مسلمان دوست بانیان مذاہب کے جلسوں میں شرکت کر کے صلح و محبت کا ماحول پیدا کریں.ہے سرگودها : ۲۵۰ اپریل ۱۳۶ به کوه سناتن دھرم سیا سرگودھا کے زیر انتظام بھی ایک ہی کانفرنسکا انعقاد ہوا جس میں جماعت احمدیہ کی طرف سے (ابو البشارت) مولوی عبد الغفور صاحب فاضل نے مقره موضوع " انسانی زندگی کا مدعا کیا ہے؟ پر اپنا مضمون پڑھا.۷۳ سہارنپور : - ۲۲ اکتوبیر یا شام کو آر به سماج سول لائن سہارنپور کی طرف سے ایک مذاہب کا نفرنس کا انعقاد ہوا جس میں جماعت احمدیہ کی طرف سے ماسٹر محمد یسن صاحب آسان دہلوی اور جہالہ محمد عمر صاحب فاضل نے اسلام کی خوبیاں بیان کیں جن سے پبلک بہت متاثر ہوئی.و چھو والی لاہور : سناتن دھرم سبھا وچھو والی لاہور نے ۲۶ نومبر ۱۹۱۳ ء کو ایک ماہر کا نفرنس کا انتظام کیا جس میں نمائندہ جماعت احمدیہ موادی ابوالعطاء صاحب فاضل نے تقریر فرمائی.22 ۱ ان : الفضل مارا تو به الله و صفرا له الفضل یکم مئی ۲۹۳۶ بر صفحه ۲ کالم : ۳ه الفضل ۲ رمئی ۱۹۳۶ رد صفحه ۲ کالم ۲ * سكه الفضل اور نومبر ۱۹۳۶ یه صفحه کالم ۳ - اخبار الفضل میں آستان کی بجائے احسان چھپ گیا ہے.جو کہو ہے کے الطفل در دسمبر ابر صفحه ۹ به " ۳۶

Page 477

۱۳۹ جماعت احمدیہ کے دو مخلص کارکن حضرت مولوی غلام رسول صاف با زیرآبادی مخلصین کی عبادت اور کا فضل حسین صاحب مینجر احمد یہ بکڈپو تالیف و اشاعت قادریان بعد رفضه خالج بیمار تھے.حضرت خلیفتہ ایسیح الثانی مهار جون ۱۹۳۶ء کو حضرت مولوی صاحب کی عیادت کے لئے نور ہسپتال میں اور اور جون عملہ کو ملک صاحب کے مکان (واقع محلہ دار الفضل) پر تشریف لے گئے یہ اس سال مندرجہ ذیل مبلغین بیرونی ممالک میں مبلغین احمدیت کی بیٹری مالک روانگی روانہ کئے گئے :- - مولوی عبدالغفور صاحب ( تاریخ روانگی اور جنوری یہ برائے جاپان) ۲- مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری د تاریخ روانگی نئی شاہ برائے حیفا -۳- مولانا رحمت علی صاحب ( تاریخ روانگی ۲۷ ستمبر ۳ رو برائے جاتا ہے ۴- بو دهری محمد اسحاق صاحب ( تاریخ روانگی ۲۷ ستمبر یہ برائے چین ہے بلاد بر پیشن مولوی محمد سلیم صاحب مشر بلاد اسلامیہ بیرونی مشنوں کے بعض اہم واقت نے اوائل ماہ فروری ۹۳۶ہ میں ڈاکٹر نذیر احمد صاحب، دو شرق اردن اور دکھ اور احمدی دوستوں کی رفاقت میں شرق اردن کا تبلیغی سفر کیا.سفر کے دوران امیر عبداللہ وا لئے مشرق اردن سے نمونہ کے مقام پر ملاقات کی.نیز عمان میں احدیت کا پیغام پہنچایا.اور واپسی پر بیت المقدس میں مسلمانوں اور عیسائیوں سے دلچسپ بحث کی لیے مغربی افریقہ مشن : سالٹ پانڈر مغربی افریقی میں پندرہ ہزار روپیہ سے حمدیہ ار التبلیغ کی تعمیر ہوئی جس کا افتتاح مولوی نذیر احمد صاحب مبشر نے ۱۸ر ضروری اللہ کو فرمایا.دارالتبلیغ کی شاندار عمارت زیادہ ترمیم فضل الرحمن صاحب کی کوششوں کا نتیجہ تھی.نشے ا جاوامش : جماعت احمد یہ برانچ بیٹا یہ نے ۲۰۰ گلٹر خرچ کر کے اپنے سرمایہ سے ایک مسجد اور ے الفضل ، ارجون ۱۹۳۶ء صفحه ۲ کالم : له الفضل ۱۲۳ جون ۱۹۳۶ صفحه ا کالم ان له الفضل ۱۲ جنوری ۶۱۹۳۶ و : صفحه ۲ - آپ دار مارچ ۹۳۶ہ کو کو لیے (جاپان میں پہنچ گئے (الفضل ، مارچ ۱۹۳۷ صفحه ۲ : ۲۲ افضل به بینی ۱۹۳۷ء صفحہ ا کالم : ۵۵ اپنے قادیان سے حیفا تک کے حالات الفضل در جون ۱۹۳۶ به صفحه ، پر شائع و کرادئے تھے.21 الفصل ۲۹ ستمبر ۱۹۳۶امہ صفحہ ۲ کالم این که الفضل و ۲ ستمبر شده و صفحه ۲ کالم ! کے بیت المقدس سے عمان کی راہ میں واقع ہے ؟ 2 الفضل یکم اپریل ۱۹۳۷ صفحه تا به به نه افضل اور اپریل ا صفحہ ، کالم

Page 478

بمهم کلب ہاؤس تعمیر کیا جس سے تبلیغی جلسوں میں بہت آسانیاں ہو گئیں.حضرت امیر المؤمنین نے مسجد کا مسجد الہدایت تجویز فرمایا ہے نام مولوی عبدالواحد صاحب سماٹری نے ۱۲ جولائی ۹۳۷ایر کو جماعت گامت (جاوا) کی مسجد کا سنگ بنیاد رکهایت اگست ۱۹۳۶ ء میں اسلامی اصول کی فلاسفی کا ملایا زبان کا ترجمہ اشاعت پذیر ہوا سے جماعت احمدیہ پاڈانگ کے ایک مخلص رکن ڈمنگ صاحب ڈاٹو مواجہ ۳ار نومبرت ایزو کو 4 سال کی عمر میں انتقال فرما گئے.مرحوم مولوی رحمت علی صاحب کے ہاتھ پر داخل احمدیت ہوئے تھے اور سماٹرا میں سابقون میں شمار کئے گئے.اخلاص کی جس سے جماعت سماٹرا میں نہایت عزت اور وقعت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے.حضرت خلیفہ المسیح الثانی سے سے غایت درجہ عقیدت و محبت تھی یہ ملہ میں اپنے اہل و عیال سمیت مولانا رحمت علی صاحب کے ہمراہ قادیان تشریف لائے.اور جب حضرت خلیفہ آسیج الثانی نہ کی اجازت سے مگر شریف گئے اور حکومت ملکہ نے اُن کو جیل میں ڈال دیا.تو اس وقت آپ نے ایمان کی مضبوطی اور پختگی کا شاندار نمونہ پیش کیا.جماعت پاڈانگ کئی سال سے متفقہ طور پر آپکو پریذیڈنٹ بنانے کی کوشش کرتی مگر آپ یہی چاہتے کہ کوئی دوسرا پریذیڈنٹ ہو لیکنی عمر میں جب حضرت میر اونین کی طرف سے آپ کا تقر ہوا تو سر تسلیم خم کر لیا مگر اس انتخاب پر ایک سا بھی نہیں گذرا تھا کہ آ انتقال کر گے کہے جاد امیں ایک شہر چانجر ہے جس سے پندرہ میل کے فاصلہ پر ایک قصبہ بچت “ نامی ہے.جہاں کے لوگ اپنے آپ کو محققین کہتے تھے اور اُن کے لیڈر کا نام پر ابو بکر تھا.ملک عزیز احمد صاحب مبلغ باوا کو شروع ر میں ابو بکر کے ایک معتمد مریدہ مسٹر ویراتا سے ملاقات کا موقعہ ملا جنہوں نے دوران گفتگومیں کہا کہ جو کچھ آپ بتاتے ہیں بالکل درست ہے، اور میرے پیر صاحب نے 1990ء میں ایک رات ا بجے کے قریب سے خاص طور پر یاد فرمایا اور کہا کہ سنو یہ علم جو ہم پڑے ہوئے ہمیں اصل نہیں ہے.اصل علم جو تمام امت اسلام کیلئے ہے وہ امام مہدی لائے گا.اور امام مہدی ہندوستان میں لاہور کے قریب آچکا ہے اس کا نام احمد ہے.لوگ اُن کے مُریدوں کی بہت مخالفت کر ہے ہیں.ان کی جماعت ہم سے یہاں لے گی اور وہ سیتی سماعت ہوگی.اے ۱۳۷ امید کی نئی مطبوعات ا ا ا ا ا ا د د د دنیا پر پریشان کیا گیا.دا بشارت احمد رپر و فیسر محمد الیاس صاحب این ناظم دارالترجمه عما نبودی ا الفضل ۲ رمئی ۱۹۳۷ به صفحه : له الفضل ۲۹ جولائی ۱۹۳۶ء صفحہ ۸ کالم ۲ و ۵۳ افضل ۲۵ ستمبر ۹۲ در صفحه ۸ کالم ۳ من المفضل و در دیر شده و صفحه کالم ابن الفضل مهد را پریل ۱۹۳۶ به صفحه ۱۲ کال ۲ :

Page 479

۴۴۱ کتاب قادیانی مذہب کا مرتل ومفصل جواب جو سید بشارت احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ حیدرآباد دکن نے شائع کیا) (۲) مباحثہ راولپنڈی مابین جماعت احمدیہ و غیر مبالعین) (۳) اہل پیغام کے بعض خاص کارنامے تالیف منیف حضرت مولوی محمد اسماعیل صا بالاپور " پرفیسر مریم (۴) و بد مقدس اور قرآن کریم ( تالیف مولوی ناصرالدین عبد الله صاحب فاضل سنسکرت) (۵) آسمانی پر کاش بجواب " ستیارتھ پرکاش از مولوی ناصرالدین عبداللہ صاحب ) (۱) تحقیق جدید متعلقہ تبریح حضرت مفتی محمد صادق صاحبہ کی سر مسیح پر ایک فاضلانہ تصنیف) " ( (4) پہلا پارہ جامع صحیح مسند بخاری ( ترجمه و شرح حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ) ام أحمد يا المر د شائع کرد و حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب ایم کا نام میداندن اکتی نہایت عمدا اور جاذب نظر تصویریں پر مشتمل پہلا مطبوعہ احمدیہ الیم) اندرون ملک کے بعض مشہور مناظرے ۱- مباحثہ خانقاہ ڈوگراں.شروع ۳۶ الیہ میں یہاں سماعت احمدیہ کا شیعہ اصحا سے مناظرہ ہوا.پہلا مناظرہ اصحاب ثلاثہ کے مومن ہونے اور ان کی خلافت پر تھا.جماعت احمدیہ کی طرف سے ماسٹر غلام احمد صاحب آپو کی اور شیعوں کی طرف سے سید عبدالغنی صاحد مناظر تھے.ماسٹر صاحہ نے تیئیس ثبوت قرآن مجید سے پیش کئے شیعہ مناظر نے چند اعتراض کئے جن کا جواب دیا گیا.شیعہ مناظر صاحب نے اپنے موقف کی تائید میں صرف دو ثبوت پیش کئے جنہیں احمدی مناظر نے قرآن مجید ہی سے غلط ثابت کر دکھا یا شیعہ مناظر صاحب چونکہ صرف پانچ منٹ بول کر بیٹھ جاتے تھے اسلئے پبلک کے اصرار پر ان کا بقیہ وقت ماسٹر صاحب کو دے دیا جاتا.دو گھنٹے کے اس مناظرہ کے بعد صداقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام پر میں گھنٹہ مناظرہ مقرر تھا.لیکن شیعہ مناظر پندرہ منٹ کی پہلی اور دس منٹ کی دوسری تقریر کے دلائل کی تاب نہ لاکر اپنے ہمجولیوں سمیت میدان مناظرہ سے بھاگ نکلے.مناظرہ کے بعد بہت سے لوگوں نے احمدیوں کو مبارکباد دی اور ایک گریجوئیٹ نے تو یہ بھی کہا کہ میں نے ایسے واضح دلائل آجتک نہیں ہے.پہلے میں کچھ مذبذب تھا گر آج تو یقین ہو گیاکہ خلفا الان واقعی خدا کے فر کردہ اور اسکے برگر لیے تھے -۲- سیاستہ دہلی - در مارچ ۱۹۱۳ ء کو مولوی ابو العطاء صاحب کا ختم نبوت کے موضوع پر انجمن سیف الاسلام دہلی کے ایک عالم کے ساتھ مناظرہ ہوا.مولوی صاحب موصوف کی فصاحت و بلاغت سے لبریز مدل تقاریر کا پیکاکے بہت عمدہ اثر تھا.مولوی ابوالا فاش ہم ہانپوری نے مناظرہ میں ناکامی دیکھ کر مولوی ابوالعطاء صاحب اور دوسر ل الفضل مدار فروری ۶۱۹۳۶ صفحه :

Page 480

احباب جماعت پر لاٹھیوں سے حملہ کرا دیا.کئی احمدیوں کو شدید ضربیں آئیں اور لاٹھیاں تو اکثردہ ستوں اور علما اسلسلہ کے بھی لگیں مشرفائے دہلی نے احمدیوں کے صبر و تحمل کی بہت تعریف کی.اور انجمن سیف الاسلام والوں کو لعنت علامت را کے وقت سناتن دھرمیوں کا انجمن والوں سے مناظرہ تھا.مگر انہوں نے کہہ دیا کہ جہاں ایسے اخلاق کا مظاہرہ ہو وہاں ہم جانا نہیں چاہتے.اے -۳- مباحثہ کراچی.کراچی میں مولوی ابوالعطاء صاحب نے ۲۰ - ۱۲۹ مارچ ۱۹۳۷ء کو پنڈت رامچند رقصاب آریہ مناظر سے مسئلہ تناسخ اور حدوث روح مادہ پر مناظرہ کیا مسلمانوں کے علاوہ ہندوؤں ، آریوں اور سکھونی بھی احمدی مناظر کے زور دار دلائل کی از حد تعریف کیاور کھلم کھلا اقرار کیاکہ پنڈت صاحب موصوف مولوی صاحب موصوف کے اعتراضات کا جواب نہیں دے سکے اور نہ دے سکتے تھے کیونکہ وہ ایسے مسائل کی حمایت میں کھڑے تھے جوغیر فطری تھے اورسلیم الفطرت انسان کا کانشنس یہ خلاف ما عاد قبول کرنے کیلئے بھی تیارنہیں ہوسکتا؟ ضلع ڈیرہ غازیخان.مارچ 4 لیر میں احمدی مناظرین (چوہدری محمد شریف صاحب ، مولوی ظفر محمد صاحب ، مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر اور ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب موگا نے سائیں الحسین صاحب اختر سے ڈیرہ غازیخاں، بستی بزدار اور جام پور میں کامیاب مناظرے کئے.سے مباحثہ ملتان.ملتان شہر میں ہو ا پریل ۳۶ رو کو صبح سے لیکر ظہر تک جماعت احمدیہ اور جمعیتہ احسان ملتان کے درمیان جمعیتہ کی جلسہ گاہ میں صداقت حضرت مسیح موعود پر مناظرہ ہوا.جماعت احمدیہ کی طرف سے مولوی ابو العطاء صاحب مناظر تھے.اور جمعیتہ احناف کی طرف سے سائیں لال حسین صاحب اختر اب حسب قاعدہ مدعی ہونے کے باعث احمدی مناظر کی پہلی اور آخری تقریر تھی.اسی طرح دوسرے شرائط مناظرہ میں ایک شرط تہذیب و متانت کی تھی.مولوی ابوالعطاء صاحب نے اپنی پہلی تقریر میں قرآن مجید، احادیث اور دیگر معقول اور ٹھوس دلائل سے سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت و اصح کی اور آخر وقت تک نہایت یکی سنجیدگی ، متانت اور فاضلانہ پیرایہ میں اپنا مضمون نبھاتے رہے.مگر فریق ثانی قرآنی معیاروں کی طرف آنے کی بجائے دروغ بیانی، تحریف و تلبیس، بد زبانی اور اشتعال انگیزی پر اتر آیا اور گالیاں دینے میں حد کردی.اور جب احمدی مناظر کی آخری تقریر کا وقت آیا.تو فریق مخالف کے پریذیڈنٹ صاحب اور اُن کے ساتھی اُٹھ کھڑے ہوئے.اور محفل مناظرہ درہم برہم ہوگئی.احمدیوں نے اس خلاف ورزی کی جانب توجہ دلائی گھر کوئی سله !.١٩٣ الفضل در مارچ ۱۹۳۶ صفحه ۲ : کہ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو افضل ۱۳ را پریل ۱۹۳۶ به صفحه ۸ کالم ۴۰۳ 4.ه الفضل بیکم اپریل ۱۹۳۶ صفحه ۹.

Page 481

شنوائی نہ ہوئی.آخر بعض پولیس افسروں کے کہنے پر اجر کی اصحاب جلسہ گاہ سے باہر آ گئے.اس مناظرہ میں حاضرین کی تعداد قریباً دو تین ہزار ہوگی.لے 4 - مباحثہ لائل پور.قاضی محمد نذیر صاحب فاضل نے لائل پورمیں ۱۱ ۱۲ اپریل ء کو پادری میلارام صاحب سے صداقت مسیح موعود اور الوہیت سیم ناصری پر مناظرے کئے.غیر احمدی اصحاب نے احمدی مناظر کو مبارک باد پیش کی اور اُن کے گلے میں ہار ڈالے.۷۲ مباحثہ جھنگ مگھیانہ - بیا را پریل ۱۹۳۶ء کی درمیانی شب کو آریہ سماج لنگھیانہ کے چیلنج پر میونسپل کمیٹی جھنگ مگھیانہ کے باغ میں آریہ سماج اور جماعت احمدیہ کے درمیان ایک معرکۃ الآراء مناظرہ ہوا.زیر کاشت موضوع مسئلہ تناسخ تھا.احمدیوں کی طرف سے قاضی محمد نذیر صاحب فاضل مناظر تھے اور آریہ سماج کیطرف پنڈت پر بھی لال صاحب پر یکم.مناظرہ سوا نو بجے شر سے سوا بارہ بجے شریک نہایت پرسکون ماحول میں جاری رہا.مناظرہ کے خاتمہ پر مسلمانوں نے احمدی مناظر کو مبارک باد دی.سے ہ مباحثہ جہلم - جہلم میں جماعت احمدیہ اور آریہ سماج کے درمیان را پریل مسئلہ کو تین مناظر سے ہوئے.پہلے مناظرہ میں جماعت احمدیہ کی نمائندگی مہاتہ محمد عمر صاحب فاضل نے اور آریوں کی نمائندگی پنڈت ست دیو صاحب بنے کی.موضوع یہ تھا کہ کیا و ید الہامی کتا ہے.جہا شد صاحب کی طرفہ گفتگو اور سنسکرت کی علمی قابلیت نے سامعین کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا.دوسرا مناظرہ کیا قرآن مجید کامل الہامی کتاب ہے" کے مضمون پر تھا.ہو مولوی ابو العطاء صاحب نے کیا.آپنے اپنے دعوئی کے ثبوت میں یہ لامل قرآن مجید سے پیش کئے.آریہ مناظر صاحب کو ان میں سے ایک دلیل بھی توڑنے کی جرأت نہ ہوسکی مناظروں کے اختتام پر مسلمان، ہندو، اور سکھ سب کی زبان پر احمدی مناظر کی کامیابی اور آریہ مناظر کی کھلی شکست کے پر چھے تھے یعنی کہ خود آریہ صاحبان نے اپنے مناظر کی کمزوری اور احمدی مناظر کی کامیابی کا اقرار کیا.پنڈت است دیو صاحب آریہ مناظر چونکہ دونوں مناظروں میں نہک اُٹھا چکے تھے اسلئے آرکیوں نے اپنا خاص قاصد لاہور بھیجا جو پنڈت پر کبھی لال صاحب کو بلا لائے جنہوں نے "مسئلہ تناسخ پر مناظرہ کیا.جماعت احمدیہ کی رو سے مولوی ابو العطاء صاحب نے نظریہ تناسخ کے رد میں قریباً چالیس عقلی اور علمی دلائل پیش کئے.ان مناظر وی میں سامعین ی تعداد قریب ہو ہزار تک رہی.مناظروںکے خاتمہ پر اسلام کی تا اور راوی کی شکست پر سلمانوں کی رو سے بہت خوشی اور مسرت کا اظہار کیا گیا.بعض مسلمان معززین نے یہانتک اقرار کیا کہ ان کے دل میں حضرت مرزا صاحب کی عریت گھر گئی ہے ہم تسلیم کرتے ہیں کہ یہ انکار پر اس مجرہ ملکہ انکے پیرو مخالفین اسلام کی کھلیاں ھونے میں مصروف ہیں اور له الفضل و راپریل سال در صفحه ۱۲ : له الفضل ۳ در اپریل ۱۹۱۳ ء صفحه با کالم : سل الفضل ۲۷ اپریل ۶۱۹۳۶ صفحه به 6

Page 482

۴۴ ہر میدان میں فتح حاصل کر رہے ہیں.اے -- مباحثہ راولپنڈی ما :- راولپنڈی کے غیر مبائعین کا ایک جلسہ ۱-۲ رمٹی سائٹ کو منعقد ہوا.بارشی که میر مدثر شاہ صاحب پشاوری نے تقریر کی جس میں حضرت مسیح موعود کی نشانہ سے قبل کی تحریرات پیش کرتے ہوئے کہا کہ حضرت اقدس نے اپنے تئیں مجازی نبی اور امتی نبی قرار دیا ہے جس سے مراد یہ ہے کہ آپ محدث ہیں.تقریر کے بعد ایک گھنٹہ سوال وجوہ کے لئے تھا.جماعت احمد یہ راولپنڈی کی طرف سے اس موقعہ پر قاضی محمد نذیر امور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وضع تحریرات کی روشنی میں مدثر شاہ صاحب کی تقریر پر متحد داعتراضات کئے جنہیں سنگزنی مدت شاہ صاحب حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی شان میں گستاخی اور تمسخر پر اتر آئے اور احراریوں کو اپنے ساتھ ملانے اور اُن کی ہمدردی حاصل کرنے کیلئے عجیب قسم کی حرکات کرنے گے اور بینک نے پورے طور پرمسوس کر لیاکہ میرصاحب جماعت امریکی مطالبات کا جواب دینے سے سراسر اصر رہے ہی لیا ۱۰- مباحثہ راولپنڈی :- راولپنڈی میں پہلے زبانی مباحثہ کے بعد غیر مالکین سے ۲۰ جون سے لیکر ۱۲۶ جون ۱۹۳۶ء تک ایک فیصلہ کن تحریر کی مناظرہ بھی ہوا.یہ مناظرہ ماسٹر دیوان چند صاحب سیکرٹری برہمو سماج کے ہال میں منعقد ہوا او را کمیں مولوی ابوالعطاء صاحب تناضل نے جماعت احمدیہ کی طرف ہے اور مولوی اختر حسین صاحب گیلانی اور مولوی عمر الدین صاحب شملوی نے غیر مبا تعین کی جانب سے بطور مناظر شرکت کی مناظرہ کے دوران قاضی محمد نذیر صاحب فاضل نے جماعت احمدیہ راولپنڈی کی رو سے پریذیڈنٹ کے فرائض انجام دئے.آپکے علاوہ حضرت ولی محمد اسمعیل صاحب کو خیر احمدیہ ، مولوی میر صادق صاحب مبلغ سماٹرا اور چودھری خلیل احد صاحب ناصر بھی بطورمعاون موجود ہے مضامین زیر کشت یتھے را پیشگوئی مصلح موعود (۲) مسئلہ خلافت و انجمن (۳) مسئلہ نبوت حضرت مسیح موعود علیہ السلام وام مسکا کفر و اسلام روزانہ تمام دن پرچے لکھے جاتے اور رات کے وقت نو بجے سنائے جاتے تھے.ہے یہ عظیم الشان مناظره بعد کو مشترکہ اخراجات پر مباحثہ راولپنڈی کے نام سے شائع کر دیا گیا.۱۱- مباحثه سنگروری سنگر در میں ، ادم او د جولائی کو تینوں اختلافی مسائل پر مناظرے ہوئے جن میں جماعت احمدیہ کیطر سے مولوی محمد یار صاحب عارف سابق مبلغ انگلستانی اور اہلسنت الجماعت کی طرف سے سائیں دال میں صاحب اختر نے بحث کی.بہت سے غیر احمدی معززین اور غیر مسلم شرفاء نے جماعت احمدیہ کے فاضل مناظر کی فاضلانہ تقریریں کئی اردی.اور فریق ثانی کی بد اخلاقی اور بد زبانی کا کھلا اعتراف کیا.ہے ا افضل با مشی ها و صفحه ۱ سه قاضی محمد نذیر صاحب کے اعتراضات کی تفصیل اخبار الفضل در مئی اور مادہ پر چھپی ہوئی موجود ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے: سے مسئلہ نبوت پر مناظرہ آپنے کیا تھاہ ہے اس مناظرہ کی ستائیس مشرائط تھیں جن پر عنایت اللہ صاحب سیکرٹری تبلیغ جماعت احمدیہ اور مرزا غلام ربانی صاحب سیکرٹری احمدیہ انجمن اشاعت اسلام راولپنڈی نے دستخط کئے تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو مباحثہ راولپنڈی صفحه ( ج): همه الفضل ۲۵ ۱ جولائی ۱۹۳۴ صفحہ ۱۰ : )

Page 483

۴۴۵ پانچواں باب مجلس خدام الاحمدیہ کی بنیاد سے سیر روحانی کے پر معارف لیکچروں کے آغاز تک خلافت ثانیہ کا پھیواں سال شوال جنوری ۶۹۳ فصل اوّل رم ۱۳۵ھ زی شماره میر شد حضرت امیر مومنین خلیفہ اسی نشانی نے ان تعالی کی میت خاص تخدام الاحمدیہ کا قیا کے تحت مانگیر غلبہ اسلام کے لئے میں عظیم مشان تحریکات کی اور اسکی ابتدائی دس سالہ مختصر تاریخ بیاد رکھی ان ہی کے اندر نہایت اہم اور مستقبل کے اعتبار سے میں نہایت دور رس نتائج کی حامل تحریک مجس خدام الاحمدیہ ہے جس کا قیام شاہ کے آغاز میں ہوا.حضور کو اپنے عہد خلافت کی ابتداء ہی سے احمدی نوجوانوں کی تنظیم وتربیت کی طرف ہمیشہ توجہ رہی کیونکہ قیامت تک اعلائے کلمتہ الہ اور غلبہ اسلام کے لئے ضروری تھا کہ ہر نسل پہلی نسل کی پوری قائم مقام و در جانی و مالی قربانیوں مں پہلو کے نقش قدم پر چلنے والی ہو اور ہر زمانے میں جماعت احمدیہ کے نوجوانوں کی تربیت اس طور پر ہوتی رہے کہ وہ اسلام کا جھنڈا بلند رکھیں.حضرت امیرالمومنین نے اس مقصد کی تشکیل کے نئے وقتا فوقت مختلف نہیں قائم فرمائیں گا سب ترکوین کی جاہ خصوصیات مکمل طور پر مجلس خدام الاحمدیہ کی صورت میں جلوہ گر ہوئیں اور حضرت امیر المومنین کی براہ راست قیادت غیر معمولی توجہ اور حیرت انگیز توت قدمی کی بدولت مجلس خدام الاحمد بریں تربیت پانے کے نتیجد یں جماعت احمدیہ کو

Page 484

ایسے مخلص اور ایثار پیشیر اور درد مند دل رکھنے والے اور انتظامی قالینیں اور صلاحتیں رکھنے والے مدبر دماغ اور والےاور میسر آگئے جنہو نے آگے چل کر سلسلہ احمدیہ کی عظیم ذمہ داریوں کا بوجھ نہایت خوش اسلونی اور کامیابی سے اپنے کانوں پر اٹھایا اور امداد بھی هم خدا تعالٰی سے یہی امید رکھتے ہیں کہ اللہ تھانے پر نسل میں ایسے لوگ پیدا کرتا چلا جائے گا.انشاء اللہ العزیز حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے اس مجلس کی بنیاد رکھتے ہوئے پیشنگوئی فرمائی تھی کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ ہماری طرف سے روشمن کے ان حملوں کا کیا جواب دیا جائیگا.ایک ایک چیز کا اجمالی علم میرے ذہن میں موجود ہے اور اسی کا ایک حصہ خدام الاحمدیہ ہیں اور در حقیق یه روحانی ٹرینینگ اور روحانی تعلیم و تربیت ہے.بے شک وہ لوگ جو ان باتوں سے واقف نہیں وہ میری ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتے کیونکہ ہر شخص قبل از وقت ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتا.یہ اللہ تعلی کی دین ہے جو وہ اپنے کسی بندے (کو) دیتا ہے......آج نوجوانوں کی ٹرینینگ کا زمانہ ہے اور ان کی تربیت کا زمانہ ہے اور ٹرینینگ کا زمانہ خاموشی کا زمانہ ہوتا ہے.لوگ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ کچھ نہیں ہو رہا.مگر جب قوم تربیت پاکر عمل کے میدان میں نکل کھڑی ہوتی ہے تو دنیا انجام دیکھنے لگ جاتی ہے.درحقیقت ایک نہیں زندہ قوم جو ایک ہاتھ کے اُٹھنے پر اٹھے اور ایک ہاتھ کے گرنے پر بیٹھ جائے دنیا میں عظیم الشان تغیر پیدا کر دیا کرتی ہے.حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے مجلس خدام الاحمدیہ کی تاسیس کے زمانہ میں واضح لفظوں خدام الاحمدیہ کے قیام میں اس کی غرض و غایت یہ بیان فرما دی تھی.کی بنیادی تعرض میری غرض اس مجلس کے قیام سے یہ ہے کہ جو تعلیم ہمارے دلوں میں دفن ہے اُسے ہوا نہ لگ جائے بلکہ وہ اسی طرح نسلاً بعد نسل دنوں میں دفن ہوتی چلی جائے آج وہ ہمارے دلوں میں دفن ہے تو کل وہ ہماری اولادوں کے دلوں میں رشن ہو اور پرسوں اُن کی اولادوں کے دلوں میں.یہاں تک کہ یہ تعلیم ہم سے وابستہ ہو جائے.ہمارے دلوں کے ساتھ چھوٹ جائے اور ایسی صورت اختیار کرے جو دنیا کے لئے مفید اور بابرکت ہو.اگر ایک یا دو نسلوں تک اه ناقل ه الفضل ، را پریل ۱۹۳۵ ، صفحہ ، کالم ۳

Page 485

۴۴۷ ی تعلیم محدود رہی تو کبھی ایسا اختر رنگ نہ دیگی میں کی اس سے توقع کی جاتی ہے." K مجلس خدام واحمدیہ کی داغ می می دادم و یک امام کی تقریر کا یہ ہے کہ سر نمی ماند و حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی خصوصی اجازت اور شیخ محبوب عالم صاحب ایم اے کی بعیت پر قادیان کے مندرجہ ذیل دن نوجوان ان کے مکان (متصل بورڈنگ، مدرسہ احمدیہ) پر جمع ہوئے.دا، مولوی تمر الدین صاحب (۲) حافظ بشیر احمد صاحب (۳) مولانا ظہور حسین صاحب - و م)، مولوی غلام احمد صاحب فرخ (۵) موادی محمد صدیق صاحب (۶) سید احمد علی صاحب (6) حافظ قدرت اللہ صاحب (۸) مولوی محمد یوسف صاحب (۹) مولوی محمد احمد صاحب جلبیل (۱۰) چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر ان احباب نے صدارت کے لئے موادی قمر الدین صاحب کا اور سیکرٹری کے لئے شیخ محبوب عالم صاحب خالد کا انتخاب کیا.ان نوجوانوں نے خدا تعالٰی کے فضل ونصرت پر بھروسہ رکھتے ہوئے تائید خلافت میں کوشاں رہنے اور اس کے خلاف اٹھنے والے ہر فتنہ کے خلاف سینہ سپر ہونے کا عزم کیا.اس مجلس کی بنیاد چونکہ حضرت امیرالمومنین کی اجازت سے رکھی جا رہی تھی اس لئے حضور ہی سے اس کا نام رکھنے کی درخواست کی گئی.حضور نے مہر فروری ان کو اس تنظیم کو مجلس خدام الاحمدیہ کے نام سے موسوم فرمایا اور ضروری اور مارچ میں ناریان کے مختلف حلقوں میں اس کی شاخیں قائم کر دی گئیں نا دوران میں مجلس کا کام یہ تھا کہ اس کے ارکان قرآن و حدیث تاریخ.فقہ اور احمدیت و اسلام کے متعلق کتب وغیر کا مطالعہ کرتے اور مخالف احمدیت و خلافت تنوں کے جواب میں تحقیق و تدقیق کرتے.ان دادن شیخ عبد الرحمن صاحب مصری کا فتنہ برپا تھا.چنانچہ میں نے یکے بعد دیگرے دو ٹریکٹ شیخ مصری صاور بے اشتہار ہے کے رد میں لکھے جو بہت مقبول ہوئے.پہلا ٹریکٹ شیخ مصری صاحب کا صحیح طریق فیصلہ سے فرار کے عنوان سے شائع ہوا.دوسرے کا عنوان روھانی خلفاء کبھی معزول نہیں ہو سکتے “ تھا.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ارکان مجلس کی ان ابتدائی علمی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا :- کے انفضل دار فروری ۱۹۳۷ و صفحه ۳ کانم ۱-۲

Page 486

۴۴۸ اگرد دست چاہتے ہیں کہ وہ تحریک جدید کو کامیاب بنائیں تو ان کے لئے ضروری ہے کہ جس طرح ہر جگہ نجمات الماء اللہ قائم ہیں اسی طرح ہر جگہ نوجوانوں کی انجمنیں قائم کریں.قادیان میں بعض نوجوانوں کے دل میں اس قسم کا خیال پیدا ہوا تو انہوں نے مجھ سے اجازت حاصل کرتے ہوئے ایک معلم خدام الا جمیہ کے نام سے قائم کر دی ہے...میں نے خاص طور پر انہیں یہ ہدایت دی ہے کہ جن لوگوں کی شخصیتیں نمایاں ہو چکی ہیں ان کو اپنے اندر شامل نہ کیا جائے گا انہیں خود کام کرنے کا موقعہ ملے ہاں دوسرے درجہ یا تیرے درجہ کے لوگوں کو شامل کیا جاسکتا ہے تا انہیں خود کام کرنے کی مشق ہو اور قومی کاموں کو سمجھ سکیں اور انہیں سنبھال سکیں.چنانچہ میں نے دیکھا ہے کہ اس دشت تک نہوں نے جو کام کیا ہے اچھا کیا ہے اور محنت سے کیا ہے......شروع میں وہ بہت گھبرا انہوں نے ادھر ادھر سے کتابیں ہیں اور پڑھیں اور لوگوں سے دریافت کیا کہ فلاں بات کا کیا جواب دیں مضمون لکھے اور بار بار کاٹے مگر جب مضمون تیار ہوگئے اور انہوں نے شائع کئے تو وہ نہایت اعلی درجہ کے تھے میلے " " اپریل ء میں حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الثانی نے مسلسل خطبات کے ذریعہ قادیان اور باہر کی جماعتوں میں اس مجلس کے قیام کا ارشاد فرمایا.قبل ازیں مجلس کا کام صرف علمی حد تک تھا.مگر اب اس کا پروگرام مندرجہ ذیل تجویز ہوا.ا.اپنے ہا تھ سے روزانہ اجتماعی صورت میں آدھے گھنٹڈ کام کرنا.-۲- درس و تدریس - - تلقین پابندی نماز ہم بیوگان معذوروں اور مریضوں کی خبر گیری.۵ تکفین و تدفین اور تقاریب میں امداد و غیره اس بنیادی پروگرام کے ساتھ ساتھ حضرت امیر المومنین نے جماعت کے نوجوانوں کو انسداد آوارہ گردی اور فریضہ تبلیغ کی ادائیگی کی طرف بھی متوجہ فرمایات ١٩٣٨ ه الفضل ا ر ا پریل ۱۳۷ و صفحه ۵ - ار

Page 487

ان ابتدائی مراحل سے گھورنے کے بعدی اور خدام الاحمدیہ کا متقل الحد عمل حسب ذیل قرار پایا اور اسی کے مطابق کا ذیل مجلس کا کام بھی مختلف شعبوں میں تقسیم کیا گیا.ا سلسلہ عالیہ احمدیہ کے نوجوانوں کی تنظیم.۲.سلسلہ عالیہ احمدیہ کے نوجوانوں میں قومی روح اور ایثار پیدا کرنا.۳ - اسلامی تعلیم کی ترویج واشاعت.۴- نوجوانوں میں ہاتھ سے کام کرنے اور صاف ماحول میں رہنے کی عادت پیدا کرنا.نوجوانوں میں مستقل مزاجی پیدا کرنے کی کوشش کرنا.۵ 4 - نوجوانوں کی ذہانت کو تیز کرنا.L - نوجوانوں کو قومی بوجھ اٹھانے کے قابل بنانے کیلئے ان کی ورزش جسمانی کا اہتمام.A - نوجوانوں کو اسلامی اخلاق میں رنگین کرنا (مثلا) سچ.ریاست اور پانباری نماز و غیره ) ۹ - قوم کے بچوں کی اس رنگ میں تربیت اور نگرانی کہ ان کی آئندہ زندگیاں قوم کے لئے مفید ثابت ہوسکیں.۱۰ - نوجوانوں کو مساعد کے کاموں میں زیادہ سے زیادہ دلچسپی لینے کی ترغیب و تحریص.11.نوجوانوں میں خادمرت خلق کا جذید ۱۲ - نوجوانان سلسلہ کی بہتری کے لئے حتی الوسع ہر مفید بات کو جامد عمل پہنانا.جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے پہلے سال کی صدارت کے لئے مولانا قمر الدین صاحب اور سیکرٹری شپ کے نئے شیخ محبوب عالم صاحب خالد کا انتخاب ہوا اور چند باربی خلیل احمد صاحب ناصر نائب سیکرٹری مقرر ہوئے.نوبر ۱۹۳۷ ء میں سیکرٹری شپ کے فرائض چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر کے سپرد ہوئے اور اسسٹنٹ سیکرٹری سید مختار احمد صاحب ہاشمی منتخب ہوئے اور رضا کارانہ طور پر شتری فرائض بجالانے لگے.عهده دار این مرکز بید دوسرے سال انتخاب میں حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب کے نام صدارت کا قرعہ پڑا.اور چو ہدری خلیل احمد صاحب ناصر سکریٹری تجویز کئے گئے.قادیان میں مجلس خدام الاحمدیہ کا پہلا مرکزی دستر چو ہدر ی علی محمد صاحب کے مکان میں ( متصل رہتی پھیلہ)

Page 488

۴۵۰ قائم کیا گیا.اس کے بعد کچھ عرصہ کے لئے بڑے بازار میں سید محمد اسماعیل صاحو ہے ( برادر حضرت ڈاکٹر ستید غلام غوث صاحب) کی کانوں کے جو بارہ میں اور پھر قصر خلافت کی طرف جانے والی گلی کے کونہ میں واقع منور بلڈنگ کے جو بارہ میں بھی رہا.اور ازاں بعد اسے گیسٹ ہاؤس (دارالانوار) میں منتقل کر دیا گیا.سید مختار احمد صاحب ہاشمی کا بیان ہے کہ خدام الاحمدیہ کے ابتدائی ایام میں حضور نے ہدایت دے رکھی تھی کہ جب بھی ہمیں کسی معامہ میں کوئی وقت پیش آئے تو ہم حضور سے مل سکتے ہیں اور راہنمائی حاصل کر سکتے ہیں.چنا نچہ حضور کی اس اجازت سے کئی مرتبہ استفادہ کر کے ہدایات حاصل کی جاتی رہیں.ایک مرتبہ حضور نے نصیحت فرمائی کہ نوجوانوں کو غلط قیاس آرائی سے بچایا جائے.مثلاً اگر حکم دیا جائے کہ خدام فلاں جگہ جمع ہو جائیں مگر وقت مقررہ پر آندھی آجائے یا بارش ہونے لگے تو کوئی خادم یہ قیاس نہ کرے کہ اس آندھی یا بارش میں کون آئیگا ؟ بہر حال خواہ کچھ موخادم کو وقت مقرہ پر ضرور پہنچ جانا چاہیئے اور اگر وہاں اس کے سوا کوئی نہیں آئے تب بھی خادم مقررہ وقت تک وہاں ٹھہرا رہے اس طرح نوجوان غلط اجتہاد سے بچ جائیں گے.شروع شروع میں دفتری ذمہ داریاں اکثر و بیشتر سید مختار احمد صاحب ہاشمی کے سپرد تھیں اور آپ انہیں نہایت محنت و عرق ریزی سے نبھاتے آرہے تھے مگر ایک سال کے بعد کام استصدر وسیع ہو گیا کہ مرکزی دفتر کے لئے ار مارچ او کو ایک باتنخواہ مصر کی اسامی کےلئے قرار داد پاس کی گئی.جس پر سید عبدا بانشاط صاحب ار ارچ ۱۹۳۵ء کو دفتر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ سے وابستہ ہوئے جو اپنی منت خلوش استقلال کی بد دلت یکم فریدری شہ کو معتمد تجویز ہوئے اور ہار دسمبر کو نائب معمار مقرر کئے گئے اور اٹھائیں برس تک مجلس کی اہم خدمات بجالاتے رہے.آپ کے علاوہ اس جولائی ۱۹۳۳ء کو ایک نئے کارکن ملک فضل دین صاحب کا اضافہ ہوا جو آج تک دفتری کام کر رہے ہیں.شمال نج کے کنٹریٹ ہی کم ضور ایران را ستند بطرت احمد یہ چوک جنوب ے آپ کی ولادت حضرت خلیفہ اسی اول کے عہد خلافت میں ۲۰ جوانی سب کو چوٹی دید ما را استارت اور لمبا مرسد سیایسانہ کی خدمت کرنے کے بعد ۲۳ را پریل در گرو فوت ہوئے اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں سپرد خاک کئے گئے

Page 489

۴۵۱ راس دوران میں ملس عاملہ مزید نے دو ملین کی محنت سے اپنا دستور اساسی و قواعد و ضوابط دستور اساسی تیار کی جسے سید ناحضرت خلیفہ بیع الثانی نے ہے اسیح شرف منظوری عطا فرمایا اور مجلس کا نظم و ضبط انہیں قواعد و ضوابط کی بنیادوں پر استوار کیا گیا.ان قواعد کے لحاظ سے ہر سال دسمبر کے پہلے ہفتہ میں مجالس عاملہ حلقہ ہائے قادیان اور مجلس عاملہ مرکزیہ کے اراکین صدر و جنرل سیکرٹری کے لئے دو دو ناموں کی تعیین کی جانے لگی.اور ان اسماء کو مجلس کے سالانہ اجتماع میں تمام اراکین کے سامنے پیش کیا جاتا جو کثرت رائے سے صدر و جنرل سیکرٹری کا انتخاب کرنے مجلس کا انتخاب حضرت امیر المومنین کی خدمت میں پیش کیا جاتا.حضور کی منظوری کے بعد صدر مجلس مختلف شعبہ جات کے لئے مہتم خود تا مزد کرتے جس سے مجلس عاملہ مرکزیہ کی تشکیل ہوئی.چنانچہ سید نا حضرت امیر المومند الثانی کی راہنمائی سے خام الحد یہ کام کو نیکی ذیلی شعبوںمیں تقسیم کیا گیا اور ہر شعبہ کے چلانے کے لئے ایک مہتم مقرر ہوتا رہا:.شعبه و قادر عمل - شعبه خدمت خلق - شعبه تبلیغ - شعبه تربیت و اصلاح - شعبہ تعلیم - شعبد اطفال - شعبہ صحت جسمانی - شعبه تجنید بنعبد مال - شعیر اشاعت - شعبه اعتماد ہے حفر صا حبزادہ مرزا ناصر احمد صاحت کیے حضرت صاجزاده محافظ مرزا ناصر احمد صاب فروری ۱۳۷ سے لے کر اکتوری ۱۹۴۹ء تک صدر مجلس اور بعد ازاں ابتدائی عہد صدارت میں کام کرنے واے مہتممین نومبر ۱۹۵۳ و تک نائب صدر را منتخب کئے گئے.آپ نے اپنے زمانہ صدارت کے ابتدائی دس سالوں میں ۱۹۴۷ ء تک وقتا فوقتا جن خدام کو مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کا عہدیدار مقرر فرمایا ان کی قریبت یہ ہے :- اے مجلس کے آئین دستور الماسی کا ایک حصہ الفضل در نوبر ۱۹۳۹ ء میں شائع شدہ ہے.سے رپورٹ مجلس خدام الاحمد یہ سال اول دروم سے ملخصاً حضرت امیرالمومنین خلیفة المسیح الثانی نے سالانہ اجتماع اور پر اعلان فرمایا کہ آئندہ عکس کا مصدر میں خود ہوں گا.

Page 490

۴۵۲ به شمار نام عماره 1 - M تاب صدر حاوی ضرور حسین حساب مان قهرمان های مالی میرا نصیر احمد شاب مرزا مسعود و احمد واب مرزا منصور احمد صاب مرزا منصور احمد صاب اور خلیل احمد صاب پھر اس کی مشتاق احمد ما اجودا خلیل احمد صاحب ناصر خلیل احمد یاسین ناصر ناهر خلیل احمد ب ناصر انک عطاء مل عطاء الرحمن حافظ قدرت الدرهما احمد صاب فاروقی مولوی محمد صدات حساب شیخ ناصر احمد صاب مرزا رفیع احمد صاب ۲ محمد رسم اشاعت وب میر مختار احمد جهان باستمی تم زیست و اصلاح ه استمر مال ملک و علی صاحب جو مشتاق احمد ما یا جو سید انور الحق شاب انور مووی ظهور حسین جناب مرزا منور احمد صاحب ایک عطاء الرحمن ها سنگ عطاء الرحمن قصاب A - Q H ستم اما ستقول مهتم و هانت صحبت میمانی خدمت خلق مواد و فار عمل اطفال بلیغ و اصلاح موساد ه عمومی 4 IN ۱۵ 12 محاسب ۱۸ نگران امین انا الام امام در ایران 1 - - - گاز چه مدرسی معزیز احمد کا صاحبزاده هر یا مبارک احمد متناسب هوانا مرز امور احمد صایب در را منور احمد قاب چو مهدی عبد الباری ها، چوہدری عزیز احتمار صاحب زامور میرمهدی ماه مولوی قمر الدین شهاب ماسٹر محمد ابن سید شهاب مرزا مبارک احمد صاب چودند ولی محمد قاب مولانی هرالدین محمود های صوتی بشارت الرضا جودی محمد علی جواب مشتاق احمد صواب صاحب چوہدری ظهیر یوی غلام همان در منصور احمد صابا وجود کا غلام ایسینها را اعلام این من بی غل و این ها مرزا منصور احمد هان سید فضل احمد شهاب مرزا مبارک احمد فات ی ری سیف الرحمن باب شیخ ناصر احمد جناب ملک سیف الرحمن عصاب ار مشتاق احمد ابان شیخ ناصر احمد جالب منا منور احمد صاحب شیخ ناصر احمد قلاب مرزا در مورد منگ عطاء الرحمن صاب مان حمار قال احمد صدها با جاده ملک عطاء الرحمن صواب اجر اور ملی محمد شریف والا یا جوه محبوب عالم کتاب خالد موزه مبارک را - حافظ ثارت الله ها موادی محمدصدیق مالی اموات نامی اکرم را مورد حمامات ڈاکٹر میرا امیر احمد صاب منو جویان ظهور احمد مالی ار صاحب شیخ ناصر احمد صاحب خود ظہور احمد مالی محبوب الله مناوب خالد شتاق احمد ما با جوا جو مہدی محمد علی قصاب محبوب عالم ما خانه حافظ قدرت نهایی ظهور احمد کتاب مرزا بشیر احمد سنگ های مرزا مبارگ احمد صاحب میان عباس احمد خاها اب مرزا منور احمد صاب مرزا رفیع احمد صاحب مجبور عالم جناب خالد ملک عطاء الرحمن حباب چوری یا غلام این تمام چوہدری عبد الباری صاحب غلام احمد صاب بشیر ملک عزیز الرحمن عصاب حدها مشتاق احمد صاب با جودا صوفی بشارت الرحمن مرند ماسٹر محمدابراہیم صاب مرد مبارک احمد صا عبد الرحمن صاحب ناصر چوبدار یا عزیز احمد ها $

Page 491

ارکان مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ مرکز یہ قادیان (۱۹۴۵-۱۹۴۶ء) کرسیوں پر دائیں سے بائیں:.ا.مرزا منور احمد صاحب فاضل ۲.پروفیسر محبوب عالم صاحب خالد ۳.صاحبزادہ عباس احمد خان صاحب ۴.سید نا حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب - ۵- ملک عطاء الرحمن صاحب.۶.چوہدری خلیل احمد صاحب ناصرے.صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب.کرسیوں سے پیچھے پہلی قطار میں.صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب ۲ مولوی غلام احمد صاحب شیر.۳.صاحبزادہ مرزار فیع احمد صاحب.۴.حافظ قدرت اللہ صاحب.۵.چوہدری ظہور احمد صاحب.۶.سیٹھ معین الدین صاحب حیدر آبادی.دوسری قطار..چوہدری عبد اللطیف صاحب.۲.چوہدری ظہور احمد صاحب بی اے.۳.صوفی بشارت الرحمن صاحب

Page 492

سالانہ اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ قادیان کا ایک منظر ۱۹۴۴ء انداز “

Page 493

سیدنا حضرت خلیفہ مسیح الثانی کے ارشادات کے ماتحت شعبہ خدمت خلق کو شروع ہی سے خدمت خلق مجلس خدام الاحمدیہ کے لائحہ عمل میں کلیاری اور بنیادی حیثیت دی جاتی تھی.کیونکہ جماعت احمد کے قیام کی ایک اہم عرض بنی نوع انسان کی خدمت تھی.قادیان اور بیرون قادیان کے خدام کی افرادی اور اجتماعی مساعی مختلف الاقسام تھیں جن کی تفصیل بہت زیادہ طویل ہو جائیگی مختصر یہ کہ مقامی اور بیرونی مجالس اس زمانہ میں جو کام کرتی تھیں ان کو حسب ذیل ہوئی موٹی شقوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے :- A - بلا تفریق غصب دمت ناداروں معذوروں.بیواؤں اور غربار کی نقدی - سامان خور و نوش اور عبورتا وغیرہ سے امداد -.بیواؤں بیماروں اور ان احباب کی جو چلنے پھرنے سے عاری ہوں خبر گیری.اُن کو سودا سلف لاکر دنیا اور حتی المقدر در خدمت کرنا.۳.مسافروں کی راہنمائی.انکے لئے ریزگاری مہیا کرتا.ان کا سامان اٹھا کہ منزل مقصود تک لے جانا.۴- انسداد امراض کے لئے تدابیر کرتا.مثلاً عام گذرگاہوں اور نالیوں کی صفائی.مکھی بجھتر تلف کرنے کی کوشش.- غربار کے لئے محفوں سے آٹا اکٹھا کرکے اُن کی امداد کرنا.4 - جلسہ سالا ند اور مجلس مشاورت پر مہمانوں کی خدمت کھانا کھلانا اور حتی المقدور دوسری ضروریات پہنچانا..شادی بیاہ کی تقاریب کے انتظامات.آتش زدگیوں کے مواقع پر اپنی خدمات پیش کرنا..بچوں کی گمشدگی پر ان کی مکن ذرائع سے تلاش.۱۰ تجہیز و تکفین کے انتظامات میں امداد ناداروں کیلئے گئی وغیرہ مہیا کرنا او پس ماندگان کی اداد غیر مذاہب کی سوسائٹیوں اور جلسوں میں رضا کارانہ اپنی خدمات پیش کرنا.۱۲ اپنی جماعت کے جلسوں وغیرہ میں انتظامات کرنا اور دوسرے کاموں میں امداد دینا.مجلس کا بیچ آغاز کار ہی میں اراکین مجلس خدام الاحمدیہ کے لئے ایک امتیاز می پیج بنوایا گیا جسکی |

Page 494

۴۵۴ زمین سیاہ تھی اور اس کے نقوش میں سارہ المسیح تھا.جس کے اوپر ایک جھنڈا لہرا رہا تھا جس پر کمر طلبہ مندرج تھا.ساتھ ہیں ہلال کے ستارے کے نشان ثبت تھے.ہلال کے ساتھ واستبقوا الخيرات کے الفاظ نقش تھے بینچ پر رکن مجلس خدام الاحمدیہ بھی لکھا ہوا تھا.مجلس کا پہلا شہید | حافظ بشیر احمد صاحب جالن ہری مجلس خدام الاحمدیہ کے بالکل ابتدائی ارکان میں سے تھے اور نہایت جوش اور اخلاص کے ساتھ مجلس کے پروگرام حافظ بشیر احمد صاب جالندهری کے لئے کوشاں رہتے تھے.حلقہ وار مجالس کے قیام کے بعد آپ مجلس خدام الاحمدیہ دارالرحمت کے زعیم مقرر ہوئے.آپ نے نہایت ہی جوش اور اخلاص کے ساتھ مکس کے لئے انتھک محنت کی اور اس سرگرمی کے دوران ۲ مئی ۱۹۳۸ء کو خدام الاحمدیہ کا اجتماعی کام کرتے ہوئے دماغ کی رگ پھٹ جانے سے وفات پاگئے.انا للہ وانا اليه راجعون حافظ صاحب مجلس خدام الاحمدیہ کے پہلے شہید تھے جنہوں نے اپنے خون سے نوجوانان احمدیت کی اس تنظیم کی آبیاری کی.چنانچہ حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی نے اس سانحہ کا مندرجہ ذیل الفاظ میں تذکرہ فرمایا حافظ بشیر احمد حافظ قرآن ، جامعہ کے تاریخ انتصیل، وقف کننده ، مقدام الاحمدیہ کے مخلص کارکن اور اُن نوجوانوں میں سے تھے جن کے مستقبل کی طرف سے نہایت اچھی خوشبو ه حافظ صاحب مرحوم مه را پریل کو صوفی علیمحمد صاحب پریزیڈنٹ انجن احمدیہ لاہور چھاونی کے ہاں پیدا ہوئے.آپ کی والدہ ماجدہ حضرت خان صاحب موادی فرزند علی صاحب ناظر بہت انسان کی چھوٹی ہمشیرہ تھیں.آپنے بچپن میں ہی قرآن مجید حفظ کیا.۱۹ میں مدرسہ احمدیہ میں داخلہ لیا اور ۱۹۳۳ء میں مولوی فاضل کا امتحان پاس کر کے مبلغین کلاس میں ۱۹۲۳ 1914 شامل ہوگئے اور یکم اگست کو مبلغ کے فرائض سرانجام دینے لگے.ونا سے صرف دو روز قبل آپ ایک تبلیغی دورے سے واپس آئے.ہوائی شر کی صبح کو قریباً چار بجے بیدار ہوئے.نماز فجر ادا کی.بعد ازاں خدام الاحمدیہ کے دیگر مہروں کے ساتھ نائیوں کی درستی کا کام شروع کر دیا.اسی اثناء میں درد سر کی شکایت ہوئی جو لحظہ لحظہ شدت اختیار کرتی گئی حتی کہ بیہوشی طاری ہو گئی.امپر آپ کو فورا ہسپتال سے جایا گیا.یہاں ہرممکن تدابیر کے باوجود ہونے او کے آپ کی روح

Page 495

۴۵۵ آرہی تھی مگر اللہ تعالی کی مشیت کچھ اور تھی.اُس نے انہیں خدام الاحمدیہ کے لئے ایک مثال اور نمونہ بنانا تھا.جس جماعت کے بنتے ہی اس کے کارکنوں کو شہادت کا موقعہ مل جائے.اُس کے مستقبل کے شاندار ہونے میں کوئی شک نہیں رہنا اور اس کے عزت مند افراد اپنی روایات قائم رکھنے کے نے ہمیشہ جدوجہد کرتے رہتے ہیں.پس یہ موت تکلیف دہ تو ہے لیکن اس کے پیچھے خدا تعالیٰ کی ایک حکمت کام کرتی نظر آ رہی ہے ہے.خدام الاحمدیہ کا عہد نامہ اس کے ابتدائی دور میں حضرت خیر ایسی انانی نے حامی نوجوانوں کے لئے ایک عہد تجویز فرما دیا تھا جس کے الفاظ یہ تھے :- شْهَدَاتِ وَإِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ (ایک مرتبہ) میں اقرار کرتا ہوں کہ قومی اور علمی مفاد کی خاطر اپنی جان مال اور عزت کی قربانی کی پروا نہیں کروں گا.دتین بار " جون ۱۹ ء میں حضور نے عہد نامہ کے اردو الفاظ میں حسب ذیل ترمیم فرمائی : - میں اقرار کرتا ہوں کہ قومی اور یکی مفاد کی خاطر میں اپنی جان مال اور عزت کو قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہوں گا ہے " اس کے بعد حضور نے اور اکتوبر ۱۹۵۷ کوعہد نامہ میں کچھ ترمیم کی اور اس کی آخری صورت یہ تھی - اشهد ان لا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ } واشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ: مین اقرار کرتا ہوں کہ دینی ، قومی اور تلی مفاد کی خاطر میں اپنی جان ، مال ، وقت اور عزت کو قربان کرنے کے لئے ہر دم تیار رہوں گا.راسی طرح خلافت احمدیہ کے قائم رکھنے کی خاطر ہر قربانی کے لئے تیار ہونگا.از خلیفه وقت جو بھی معروف فیصلہ فرمائیں گے اس کی پابندی کرنی ضروری سمجھوں گا مینے ، رپورٹ خدام الاحمدیه سال اول صفر ۳۸ الفضل ا د ر اکتوبر ۱۹۵۶ در صفحه کالم ۳ در الفضل ، رجون ۱۹۴۲ صفحہ ۲ کالم ۲ آن حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا ۲ ارجون ائر کا منظور شده دستور اساسی مجلس خدام الاحمدید

Page 496

۴۵۶ سالانہ ۲۵ 141 پہلا سالانہ اجتماع اور مجلس خدام الاحمدیہ کا پہلا سانت استماع اور دسمبر ۱۹۲۳ کو تم مجھے اور بعد دو پر مسجد نور میں منعقد ہوا جس میں صرف حضرت خلیفہ اسیح الثانی ہے حضرت امیر مومنین کی نصائح اور یارمند ہی نے خطاب فرمایا.اور اقدام کو نہایت ہی تم نے پندو نصائح فرمائیں.جن کا ملخص یہ تھا کہ :.قومی ترقی کا تمام تر انحصار نوجوانوں پر ہوتا ہے اگر کسی قوم کے نوجوان ان روایات کے صحیح طور پر حال ہوں جو اس قوم میں چلی آتی ہوں تو وہ قوم ایک لمبے عرصہ تک زندہ رہ سکتی ہے.لیکن اگر آئندہ پود بکتی ہو تو قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی بلکہ جو ترقی حاصل ہو چکی ہو وہ بھی تنزل سے بدل جاتی ہے.اس ضمن میں حضور نے نظام سلسلہ کی کامل پابندی کی طرف اور ان امور مشقیہ کی طرف نوجوانوں کو توجہ دلائی جن کا خدام الاحمدیہ کے لائحہ عمل میں ذکر ہے.اور نوجوانوں کو نصیحت فرمائی کہ (ا) احمدیت کے متعلق اپنے دلوں میں جذید احترام پیدا کریں (۲) استقلال کا مادہ پیدا کریں (۳) محنت کی عادت ڈالیں (۴) اجتہادات اور قیاسات سے کام لینے سے اجتناب کریں.(۵) وسعت نظر پیدا کریں اور حالات حاضرہ سے گہری واقفیت حاصل کریں ، دیانت کی روح پیدا کی جائے دے) خدمت خلق کے کاموں میں حصہ لیا جائے (۸) سچائی کو اختیار کیا جائے (۹) اپنے مقصود کو ہر وقت اپنے سامنے رکھا جائے.(10) اپنے آپ کو کام کے نتائج کا ذمہ دار قرار دیا جائے.(۱) اگر کوئی قصور ہو جائے تو سرا برداشت کرنے کے لئے تیار رہیں (۱۲) اس امر کو سمجھا جائے کہ جو شخص قوم کے لئے بنا ہوتا ہے وہ فنا نہیں ہوتا اور یہ کہ جب تک قوم زندہ ہے اس وقت تک ہی حقیقی زندگی باقی ہے.پس قومی زندگی کے قیام کے مقابلہ میں انفرادی قربانی کوئی حقیقت نہیں رکھتی (۱۳) صرف اپنی اصلاح نہ کی جائے بلکہ اپنے ماحول کی بھی اصلاح کی جائے.رسمی عقل سے کام لیا جائے (۵) اطاعت کا مادہ اپنے اندر پیدا کیا جائے (14) ہمیشہ یہ خیال رکھا جائے کہ جماعت کا قدم ترقی کی طرف ہی بڑھنے لیے نے یاد رہے کہ پہلے یہفیصلہ کیا گیا تھا کہ یہ اجتماع ہر اکتوبر کو کیا جائے مگر چونکہ اس کے دو ایک دن بعد ماہ رمضان شروع ہونے والا تھا اس لئے یہ اجتماع سالانہ جلسہ پر کرنا پڑا.را بر شیر اور صفحہ ۲ کاظم سے روز نامه انفضل قادیان ۲۷ دسمبر ۱۹۳ - /

Page 497

۴۵۷ ۱۹۳۹ء کے نصف اول میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی گنے خدام الاحمدیہ سے متعلق حضرت خدام الاحمدیہ کی اہمیت و ضرورت اور خدام کے فرائض کے امیرالمومنین کا اہم سلسلہ خطبات متعلق خطبات جمعہ کا ایک نہایت اہم اورخصوصی سلسلہ جاری فرمایا اور مندرجہ ذیل تاریخوں کو خطبات جمعہ ارشاد فرمائے :- ۱۳ فروری ۱۹۳۵ ۰ ۱۰ر فروری ۱۹۳۵ - دار فروری ۱۹۳۵ روی ۲۲۰ فروری ۱۳۹۵ رای ار - / شد ۱۹۳۹ مرد ۳ مارچ ۹۳ و ار ار چ ۱۹۳۹ ۱۷ مارچ ۱۹۳۵ روسیه - یہ سب خطبات مجلس خدام الاحمدیہ کی اہمیت و ضرورت کو واضح کرتے ہیں اور جماعت کیلئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں.ذیل میں بطور نمونہ ۱۳ فروری ۱۹۳ ء کے خطبہ جمعہ کا صرف ایک اقتباس درج کیا جاتا ہے :- قوموں کی کامیابی کے لئے کسی ایک نسل کی درستی کافی نہیں ہوتی جو پروگرام بہت ہے ہوتے ہیں وہ اسی وقت کامیاب ہو سکتے ہیں جبکہ متواتر کئی نسلیں ان کو پورا کرنے میں لگی رہیں.جتنا وقت اُن کو پورا کرنے کے لئے ضروری ہو اگر اتنا وقت اُن کو پورا کرنے کیلئے نہ دیا جائے تو ظاہر ہے کہ وہ کسی صورت میں مکمل نہیں ہو سکتے اور اگر وہ مکمل نہ ہوں تو اس کے معنے یہ ہونگے کو پہلوں نے اس پروگرام کی تکمیل کے لئے جو نخستین کوششیں اور قربانیاں کی ہیں ، بھی سب رائگاں گئیں..اس نئے میں نے جماعت میں مجلس خدام الاحمدیہ کی بنیاد رکھی ہے.“ شہ وقار عمل فرمایا اس میں : وہ سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے اپریل ۱۹۳۸ء میں مجلس کیلئے جو پروگرام تجویز ایک اہم امر یہ تھا کہ ہر احمدی اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈائے اور کسی کام کو حقیر نہ سمجھے.اس بات کے پیش نظر حضور نے سر فروری ۱۹۳۵ء کے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا کہ ه مشبوعه الفضل ، ار فروری ۹۳ مطبوعه الفضل ۱۵ و مادرج.نفضل الر مارچ الفضل اپریل 1979 مطبوعه الفضل ار مارچ ١٩٣٩ء من ه مطبوعه الفضل ، ار مارچ ۱۹ ۳۵ ت مطبوعہ الفضل ۲۸ مارچ ۱۹۳۹ء صا ته الفضل کار فروری ۱۹۳۵ عمو او ۳

Page 498

۴۵۸ مجلس خدام الاحمدیہ کو چاہیے کہ وہ مہینہ دو مہینہ میں ایک دن ایسا مقرر کر دیں جس میں ساری جماعت مل کر اپنے ہاتھ سے اجتماعی کام کرنے کے خدام الاحمدیہ نے اس اجتماعی کام کی شکل کو وقار عمل کے نام سے موسوم کیا.اگر جیہ و تار عمل کا مبارک سلسلہ جس میں حضور انور بھی یہ نفس نفیس شمولیت فرماتے تھے پہلے سے جاری تھا مگر حضور کے ارشاد کی تعمیل میں وقار عمل کو عروج تک پہنچانے کا سہرا خدام الاحمدیہ کے سر ہے.اس س ماہ میں مجلس خدام الاحمدیہ کے تحت ۳۰ مارچ شام کو قادیان میں پہلا اجتماعی وقار عمل ہوا جو دارالرحمت اور دار العلوم کی سڑک کے درمیان منایا گیا جس کے بعد ہر دو ماہ کے بعد اس کا با قاعدہ انتظام جاری کر دیا گیا.ہے شروع شروع میں مجلس کو کام کرانے کے لئے مختلف محلوں سے گائیں اور ٹوکریاں جمع کرنی پڑیں جیسا کہ مجلس کے دوسرے صدر حضرت حافظ صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب (خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ابتداء میں خدام الاحمدیہ کے پاس سامان نہیں ہوتا تھا ہم محلے میں مختلف دوستوں سے کرائیں جو گریان وغیرہ جمع کرتے اور ان پر نشانی لگا لیتے اور وتار عمل کے بعد پھر انہیں واپس پہنچا دیتے تھے اس لئے وقار عمل کے بعد کئی گھنٹے تک مجھے وہاں ٹھہرنا پڑتا تھا تاکہ کوئی چیز ضائع نہ ہو.اس سے عزت اور اعتماد قائم رہتا ہے اگر کوئی چیز ضائع ہو جاتی یا ٹوٹ جاتی تو ہم اُس کی قیمت ادا کر دیتے تھے.پھر آہستہ آہستہ خدا تعالیٰ نے یہ توفیق بخشی کہ کئی سو گرائیں اور کئی سوٹوکریاں جو وقار عمل کے لئے ضروری تھیں خدام الاحمدیہ نے خود خرما ہیں کیے ، ان دونوں مجلس خدام الاحمدیہ کے ارکان میں وقار عملی منانے کا جو بے پناہ جذبہ موجزن تھا وہ اپنی شامل آپ تھا جس کا نقش تمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے اپنی مشہور تائیف سلسلہ احمدیہ میں بایں الفاظ کھینچا :- حضرت خلیفہ المسیح کی ہدایت یہ ہے کہ خدام الاحمدیہ ہر دوسرے مہینہ ایک دن ایسا منا یا کرے جس میں قادیان کے سارے احمدی مردہ (یعنی بچے.جوان اور بوڑھے) بلا امتیاز حیثیت اکٹھے ہو کمر کسی قسم کے رفاہ عام کے کام میں اپنے ہاتھ سے مزدوروں کی طرح کام کیا کریں.اور اس وقت ان الفضل ، امر فروری ۱۹۳۹ در صفحه ۸ کالم ۳ الفضل دار باد رچ ۱۹۶۶ در صفحه به کانما مطبو عو ر پورٹ خدام الاحمدیه سال اول و دوم منتحر ے

Page 499

۴۵۹ پر غریب و امیر افسر و ما تحت اور ذکر آتا اور خورد گلاں اپنے سارے امتیازات کو ایک نظر رکھ کر مزدور کے لباس میں حاضر ہو جایا کرے.چنانچہ یہ دن باقاعدہ بنایا جاتا ہے اور اس دن کا نظارہ بہت ہی روح پرور ہوتا ہے.کیونکہ اس دن صوب لوگ بلا امتیازہ اور بلا تفریق ایک ہی کام میں ہاتھ ڈال کر اسلامی مساوات کی روح کو زندہ کرتے ہیں.اگر آقا کے ہاتھ میں ٹوکری ہوتی ہے تو نوکر کسی سے مٹی کھودتا ہے.اور اگر آقائی کھودتا ہے تو نوکر ٹوکری اٹھائے پھرتا ہے اور غریب اور امیر اور افسر و ما تحت سب مٹی کے اندر کت پست نظر آتے ہیں.یہ سلسلہ کئی گھنٹہ تک جاری رہتا ہے اور پھر اس عمل محبت کو روحانیت کا خمیر دینے کے لئے ایک گھنٹی بجتی ہے اور سب لوگ کام سے ہاتھ کھینچ کر خدا کے دربار میں دُعا کے لئے اکٹھے ہو جاتے ہیں.اور یہاں پھر ہی محتاج وغنی کی مساوات اپنا رنگ دکھاتی ہے.یہ سلسلہ کئی لحاظ سے بہت مفید ثابت ہو رہا ہے.تول.اس طرح ہر شخص کو ہاتھ سے کام کرنے کی عادت پیدا ہوتی ہے.اور مغرور انسان اس مکروہ جذبہ سے رہائی پاتا ہے کہ بعض کام میری شان سے نیچے ہیں.دوم.آپس میں اخوت و مساوات اور اختلاط کی روح ترقی کرتی ہے اور سوسائٹی کے مختلف طبقات میں کسی قسم کی ناگوار خلیج حائل ہونے نہیں پاتی.سوم بعض مفید قومی یا شہری کام آنریزی طریق پر بغیر کسی خرج کے سرانجام پا جاتے ہیں اور پھر جب کبھی خود حضرت خلیفہ مسیح اس مبارک تقریب میں شریک ہو جاتے ہیں اور گرد و غبار سے ڈھکے ہوئے ادھر اُدھر ٹوکری اُٹھائے پھرتے نظر آتے ہیں تو پھر تو یہ وقار عمل کا سبق دنیا کے سارے سیلقوں میں سے زیادہ گہرا اور زیادہ دیر پا نقش پیدا کر دیتا ہے ہے ، ابتدا میں و تا عمل کا طریق اگرچہ قادیان میں جاری ہوا گھر جلد ہی ملک کی دوسری مجانس نے بھی اس کی طرحت جوش و خروش سے توجہ دینا شروع کر دی.خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی نے مجلس خدام الاحمدیہ دہلی کے و قاد عمل اور خواجہ حسن نظامی دہلوی ایک اجتماعی ، ناریل کا ذکر کرتے ہوئے لکھا.دخار سلسلہ احمدیہ مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد صا وت اے ایم.اے معمر ۴۲۵ - ۴۲۶

Page 500

آج دہلی کی قادیانی جماعت کے چائینش افراد خدمت خلق کے لئے آئے تھے مجھ سے پوچھا.کہیں کا راستہ صاف کرنا ہو تو بتا دیجیے.لیکن نے اپنے مسافر خانہ کا راستہ خود جا کر بتایا.اور این لوگوں نے مزدوروں کی طرح پھاوڑے لے کر راستہ صاف کیا.ان میں وکیل بھی تھے اور بڑے بڑے عہدوں کے سرکاری نوکر بھی تھے.اور مرزا صاحب کے قرابت دار بھی تھے.ان کے اس مظاہرے کا درگاہ کے زائرین اور حاضرین پر بہت اثر ہوا.ایک صاحب نے کہا کہ پراپیگنڈا کے لئے یہ کام کر رہے ہیں.میں نے کہا حضرت سلطان المشائخ نے فرمایا ہے.جو شخص ظاہر داری کے لئے خدمت کرتا ہے اس کو ایک اجر ملتا ہے اور جو محض خدا کی رضاء کے لئے خدمت خلق کرتا ہے اس کو دو اجر عتے ہیں.یہ گاہوں سے اعتقاد رکھنے والے اپنی ذات کے لئے مجاہدے کرتے ہیں.اس قسم کے مجاہدے جن کا تعلق عوام کی آسائش سے ہو بہت کم دیکھے جاتے ہیں." (منادی 4 ستمبر (۱۹۳) ١٩٣ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے 19 ء کے شروع میں ملبس خدام الاحمدیہ تعلیم نا خواندگان کا انتظا کا خاندان کا شکر کے ایران کی ایک کا انتظام کرنے کا حکم :- دیا.چنانچہ مجلس نے دو دو تین تین افراد کی جماعتیں بنا کر حسب لیاقت مختلف اوقات میں کلا سر ترتیب دیں.مجلس کو شروع شروع میں معلمین کے حصول میں بہت دقتیں پیش آئیں.اور جب معلمین مل جاتے تو اکثر متعلمین عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے پڑھنے سے احتراز کرتے اور پڑھانے والوں کو سنین کے کھیتوں اور ان کے کام کی جگہوں میں پہنچکر پڑھانا ہوتا.ناداروں کے لئے قاعدے تختیاں تلمیں اور دوائیں تک مہیا کی گئیں.محلہ دارا نصحت قادیان کے ان پڑھوں کے لئے اعزاز می اور رضا کار استادوں کے علاوہ با تنخواہ معلم کا تقر بھی کیا گیا.بعض ایسے متعلمین بھی تھے جو نہایت ذوق و شوق اور محنت کے ساتھ خود اساتذ کے پاس پہنچکر اسباق لیتے مگر پیرانہ سالی کے باعث وہ جلدی بھول جاتے اور دوسرے دن پھر وہی سبق پڑھانا پڑتا.قادیان کی مقامی مجالس کے علاوہ انبالہ کیرنگ - برہمن برید - نواب شاہ سندھ.دہلی.لودھراں ام مواد رپورٹ خدام الاحمدیه سال چهار هر صفحه ۱۲ تا ۱۳ الفضل ۲۹ اپریل ۱۹۳۹ رد صفحه 1 قادیان کے نو مسلم خاکروبوں کے محلہ کا نام.-

Page 501

جمشید پور - عارف والا.ملتان کرام اور جیل میں بھی تعلیم ناخواندگان کا سلسلہ جاری کیا گیا جو دوسری جاس تک آہستہ آہستہ مند ہوتا چلا گیا مجلس خدام الاحمدیہ کا نظام چونکہ روز بروز دست پکڑتا جا رہا حضر صد میں کے بیرونی دورے امان تھا اس لئے ملک بھر کی مجالس کو منظم اور انکی نگرانی کرنے کے لئے ضرورت تھی کہ صدر محترم بیرونی مقامات پر تشریف نے جائیں.چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اکتوبر تار کو بہ نفس نفیس کا ٹھ گرام تشریف لے گئے.پھر ا ء میں بعض مجانس کا دورہ فرمایا جس سے این مجالس میں خاطر خواہ بیداری پیدا ہوگئی ہے دوسرا سالانہ اجتماع لجس کا دوسرا سالانہ اجتماع بھی ۲۵ دسمبر ۱۹۳۹ ء کو سمجد نور سے متصل میاران میں منعقد ہوا جس کے پہلے اجلاس میں چوہدری حاجی احمد خان کتاب ایاز چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ بی.اے ایل ایل بی.پیر صلاح الدین صاحب بی.اے.ایل ایل بی.اور مولوی قمر الدین صاحب نے تقاریر کیں اور حضرت صدر محترم نے بھی تقریریں فرمائیں.دوسرے اجلاس میں حضرت خلیفہ ایسیح الثانی نے ایک بصیرت افروز خطاب فرمایا جس کا ملخص یہ تھا کہ گر کوئی کام کرنا چاہتے ہو تو واقعات کی دنیا میں قیاسات سے کام لینا چھوڑ دو.جیسے کوئی کام سپرد کیا جائے وہ جب تک خود نہ دیکھ لے کہ ہو گیا ہے.یا جس نے خود کیا ہے دہ نہ بتا دے کہ وہ خود کر آیا ہے تسلی پالینا اول درجہ کی نالائنتی اور حماقت ہے.کام کی نگرانی ایسے رنگ میں کرنی چاہیئے کہ اس کے ساتھ دلی تعلق اور محبت ظاہر ہو.دیکھو بچہ جب ماں کی آنکھوں سے اوجھل ہو تو اس کے دل میں طرح طرح کے وسوسے پیدا ہوتے رہتے ہیں.اور یہ اس کی انتہائی محبت کا تقاضا ہوتا ہے.اسی طرح تمہارے وقہ نے مطبوعہ رپورٹ فرام احمدیه سال تول در صفحه ۱- ۱۲- شا کرده ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا د درد را در این ناخوانده ای سے متعلق کے ریکارڈ کا ایک حصہ دفتر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزی ربوہ میں محفوظ ہے.الفضل در اکتوبر ۱۹۳۵ صفحه ۹ الفضل وارد سمبر ۹۳ صفحه ۲ - سے رپورٹ خدام الاحمدیه سال چهارم صفحه ۴۴- ۴۵ 00 مطبوعہ رپورٹ سال اول و دوم صفحه ۲۸ ۲۹۰

Page 502

۶۲ کام جود کام کیا جائے اس کے متعلق تمہیں اس وقت تک اطمینان نہیں ہونا چاہیئے جب تک اس کو تکمیل تک نہ پہنچانو.پھر کسی بات کے متعلق یہ خیال نہ گرد کہ ہو نہیں سکتی.کام تجویز کرنے سے پہلے یہ دیکھ لو کہ یہ ناممکن تو نہیں.اور طاقت سے زیادہ بوجھ تو نہیں ڈال رہے.اور جب ایک انہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کر لو کہ فلاں کام مفید ہے اور اسے کرنا ضروری ہے تو پھر یہ خیال مت کرو کہ کوئی اور کریگا یا نہیں.کوئی تمہارے ساتھ چلے گا یا نہیں.تم یہ تہیہ کر لو کہ اسے ضرور کرنا ہے.یہ جو کہا جاتا ہے کہ لوگ فلاں بات مانتے نہیں یہ اول درجہ کی بزدلی ہے.تمہیں لوگوں سے گیا واسطہ.اگر وہ کام اچھا ہے تو تم اکیلے ہی اس کو شروع کر دو.یہ صحیح توکل ہے اور اس کے بغیر کامیابی نہیں ہو سکتی.پس ہمارے نوجوان اس تو کل سے کام میں کہ جب کام اچھا ہے تو ہم نے اسے ضرور کرنا ہے.خواہ کوئی ہمارے ساتھ ملے یا نہ ملے.نہیں کام سے پہلے پوری احتیاط سے سوچ لو اور وہ کام اپنے یا کسی دوسرے کے ذمہ نہ لگاؤ جو جانتے ہو کہ نہیں ہو سکتا لیکن جب اطمینان کر لو کہ کام اچھا ہے اور ہو سکتا ہے تو پھر دوسروں پر نگاہ نہ رکھو.اسی طرح جب دیکھو کہ کوئی کام ضروری ہے اور اچھا ہے نیکن نفس کہتا ہے کہ تم اسے نہیں کر سکتے تو اُسے کہو کہ تو جھوٹا ہے اور اس کام میں لگ جاؤ.خدا تمہاری مدد کے لئے دوسروں کے دلوں میں اظہام کرے گا.اور تم ضرور کامیاب ہو کر رہو گے لیے ، نوائے خدام الاحمدیہ کی جیسا کہچھٹے باب میں تفصیلی ذکر آرہا ہے سلسلہ احمدیہ کے بجاش عالم تیاری اور پرچم کشائی قیام اور خلافت ثانیہ پر پچیس سال مکمل ہونے پر جس ر ا ان پر ۱۹۳۹ء جلسہ تیاری اور پرچم کشانی خلافت جوبلی منائی گئی.اس تقریب سعید پر جہاں نوائے احمدیت بنانے اور اس کے بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا وہاں مجلس خدام الاحمدیہ نے بھی فیصلہ کیا کہ لیئے احمدیت کے ساتھ ساتھ خدام الاحمدیہ کی تنظیم کے نشان کے طور پر کوائے خدام الاحمدیہ بھی تیار کیا جائے اور اسے بند کیا جائے.جس کے متعلق جملہ مساعی مجلس کے مخلص اور محنتی کارکن ملک عطاء الرحمن صاحب ۲۵ مجاہد تحریک جدید کی مرحون منت تھیں.یہ ایک لمبا مرحلہ تھا جس کی ہر منزل دقت طلب تھی.ه الفضل ۲۰ دسمبر ۱۹۳۹ در صفحه ا او پچاس

Page 503

۶۳ وائے خدام الاحمدیہ کا ڈیزائن مجلس عاملہ مرکزیہ نے پاس کیا جس کی ڈرائینگ ملک صاحب موصوف نے کی.سب سے مشکل معاملہ کپڑے پر ہر دو طرف یکساں نقوش چھپوانے کا تھا.ہندوستان کے مختلف کپڑا بنانے والے کارخانوں کو لکھا گیا.مگر کوئی بھی اس کام کے لئے تیار نہ ہوا.آخر ملک صاحب نے لاہور کی ایک فیسکوڑی میں اپنی نگرانی میں یہ کام کرایا.نوائے خدام الاحمدیہ ، افٹ لمبا اور نوفٹ چوڑا تھا.جس کے ایک تہائی حصہ میں لوائے احمدیت کے نقوش تھے بقیہ حصہ تیر و سیاہ وسفید دھاریوں پرمشتمل تھا.ہرانے کی تقریب کے لئے 24 فٹ لمبا جیل کے پر وہ تیکن درختوں کا ڈنڈا تیار کروایا گیا.اور اس کو بھی سیاہ و سفید دھاریوں میں ردفن کیا گیا.نوائے خدام الاحمدیہ کے نے جلسہ سالانہ کی سٹیج کے بائیں طرف نوائے احمدیت سے ذرا پیچھے موٹے کو پلیٹ فارم تیار کرایا گیا.نوجوانان احمدیت کے تجوب مقدس رہنا حضرت سیدنا فضل عمر نے بوائے احمدیت کے بعد لائے خدام الا امید کے بلند کرنے اور ہرانے کی رسم ادا فرمائی کہ خدام الاحمدیہ بھی ایک ایسی تنظیم ہے جو امسٹ ہے جو احمدیت کے ساتھ ساتھ انشاء اللہ قائم رہے گی.اور نوجوانوں کو ہمیشہ ہی نظام و اطاعت ایشتار و استقلال - مکارم اخلاق اور ادائیگی حقوق اللہ حقوق العباد کا سبق دیتی رہے گی.اس موقعہ پر خدام الاحمدیہ نے بھی ایک عہدہ دو ہرایا جن کا مسودہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر ملبس خدام الاحمدیہ نے تیار فرمایا.اس عہد نامہ کے الفاظ دہرانے کا شرف چوہدی خلیل احمد صاحب ناصر مجاہد تحریک جدید کو حاصل ہوا.جس کے ساتھ ساتھ تمام اراکین بھی اس کے الفاظ دہراتے گئے.عہد کی عبادت حسب ذیل ہے :- اشهد ان لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ و اشهد ان مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوله ، تیں اقرار کرتا ہوں کہ قومی اور تقی مفاد کی خاطر اپنی جان مال اور عزت کی پر انہیں کروں گا.میں اقرار کرتا ہوں کہ اپنی جان مال اور عزت کو قربان کر دونگا اور اس صداقت کی عزت کو قائم رکھونگا میں کے ظاہری نشان کے طور پر یہ جھنڈا اس وقت حضور ایده الله تعالی بحر العزیز نصب کر رہے ہیں.اور جو علامت ہے ان تمام خوبیوں کی جو حضور خدام الاحمدیہ کے زینہ خدام میں پیدا کرنا چاہتے ہیں.اور میں ہرممکن کوشش کرنے لگا کہ یہ جھنڈا سب دنیا کے جھنڈوں کے اوپر لہراتا رہے اور کبھی اسے شکست نہ دیکھنی پڑے.

Page 504

سهم الوهم حضرت امیر المومنین نے نوائے احمدیت اور لوائے خدام الاحمدیہ کے لہرانے کے بعد یہ اعلان حفاظت کرائے احمدیت اورایا کہ ایسا کیا کریں اور رات که ازم بود قدام اس کے پہرہ پر ہیں حضور نے چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر کو خدام کے پہلے گروہ کے انتخاب کا ارشاد فرمایا.چنا نچر حدیب ذیل اراکین کا تقریر وائے احمدیت کے پہلے محافظین کے طور پر ہوا :- - ا جنون المنصور احمد صاحب ۲ - میرزا داد و احمد صاحب ۳ - میرزا منور احمد صاحب میاں عباس احمد خانصاحب - ۵ سیٹھ محمد عظیم صاحب حیدرآبادی.سیٹھ محمد معین الدین صاحب حیدر آبادی ور داد مشتاق احمد صاب باجوه - ۸ - سعید احمد صاحب فاروقی - ۹ - مولوی دل محمد صاحب مبلغ ۱۰ مولوی محمد عبد الله انا اعجاز از شیخ ناصر احمد صاحب و ملک عمر علی صاحب والا ا م ا ه های اف ۱۳ - مولوی عبد الکریم صاحب شرما ۱۵ - مولوی محبوب عالم صاحب خالد - 14 - حافظ قدرت اللہ صاب ۱۷ لو جو پوری تفلیل احمد صاحب ناصر ہے صدر محترم حضرت حافظ میرزا ناصر حمد صاحب اور چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر نے پہرہ کی نگرانی کی.اسکے بعد اراکین کا انتخاب کر کے ہر چار گھنٹہ کے لئے علیحدہ علیحدہ گروپ بنا دیئے گئے.اس پہرہ کے دوران میں ایک ایسا وقت بھی آیا جب لوائے احمدیت کے اردگرد پہرہ دینے والے محافظین کے منانے ان میں موجود کے درخشندہ و تابندہ گرم تھے جن کی فہرست حسب ذیل ہے :- ا میرزا مبارک احمد صاحب ۲ - میرزا منور احمد صاحب ۰۳ میرزا مظفر احمد صاحب مه ۴- میرزا حمید احمد صاحب ۰۵ میرزا نیر احمد صاحب ۶ میرزا بشیر احمد صاحب ۶ - میرزا بشیر احمد صاحب ے.میرزا اجبار احمد صاحب - میرزا ظفر احمد صاحب ۹ - میرا منصور احمد صاحب - ۱۰ میان مسعود احمد خان صاحب - ۱۱ - میاں عباس احمد خان صاحب ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا اما با این میرزا عیار احمد صاب نگران حضرت صاحبزاده میرزا ناصر احمد صاحب سلمه اله متالی صدر مجلس خدام الاحمديد صاحبزادگان خاندان حضرت مسیح موعود کی اس فہرست میں میرزا و او د احمد صاحب اور میاں محمد احمد خان صاحب کا نام نہیں ہے کیونکہ بارہ کی تعداد پوری ہوگئی تھی مگر وہ اور دوسرے صاحبزادگان دوسرے اوقات میں بھی پہرہ دیتے رہے.بلکہ مہرہ کے شروع سے لیکر آخر تک خاندان مسیح موعود کا کوئی نہ کوئی فرد محافظین کی قیادت کے فرائض نے جناب سیٹھ محمد عظم صاحب حیدر آبادی کے بیان کے مطابق.

Page 505

۴۵ ادا کرتا رہا.یہ گویا اس امر سے عبارت تھاکہ وہ مقدر پیارا بانت جو ابنائے تارس کے مسرود کیا گیا ہے انشاء اللہ وہ اس کے پوری طرح حال رہیں گے.ہاں وہی خزینہ ایمان، هرفان جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تم پیار سے لائے تھے.یہ اس کے بی نظین ہیں اور قیامت تک اس نعمت ایمان کو صفحہ ارض پر توفیق از دومی قائم راسخ رکھینگے.انشا اشد دوسرے دن نماز جمعہ کے بعد کوئے احمدیت حضرت امیر المومنین خلیفه ای انسانی کی زیر ہدایت صدر انجمن احمدیه کے دو ناظروں (خانصاحب مولوی فرزند علی صاحب ناظر بیت المال در سید زین العابدین ولی الله شاه میان ناظر ایوار) کے سپرد کر کے رسید لے لی گئی.جو حضور کی قدرت میں چوہدری تعمیل احمد صاحب ناصر نے اسی دن بیش کی حضور نے فرمایا.میں نے دیکھ لی ہے اپ دفتر خدام الاحمدیہ میں بطور سند رکھنی جائے." رسید حسب ذیل تھی :- بسم الله الرحمن الرحيم آج بروز جمعه تاریخ ۱۲ دسمبر ۱۹۶۱ با صلح مجری منشی ہم نے حضرت امیرالمومنین خلیفہ ایسی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد کے ماتحت صدر انجمن احمدیہ کے ریزولیوشن کے مطابق صدور مجلس خدام الاحمدیہ سے لائے احمدیت تین بج کر پینتیس منٹ پر دھول پایا.دستخط - دسید زین العابدین ولی الله شاه) ناظر امور حاصه هرش ۱۳۱۸ / ۱۲ / ۲۹ دستخط : دخان صاحب فرزند علی عفی عند ناظر بیت المال هوش ۱۳۱۸ / ۱۲ / ۲۹ اد كاتب محمد اعظم حیدر آباد دیکھن میشه خلافت جوبی کی مبارک تقریب پرمجلس خدام الاحمدیہ نے ایک انعامی علم بھی تیار العام علم خدام الاحمدي ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا کی تیاری کروایا.یہ علم ہر سال اس مجلس کو دیا جاتا ہے جس کا کام سب مجانس سے ممتاز ہوتا ہے.۹۴۶ ار یک جن مجانس کو حضرت امیرالمومنین خلیفہ المسیح الثانی نے اپنے دست مبارک سے یہ یاد گار جھنڈا مرحمت فرمایا ان کے نام یہ ہیں :- مجلس کیرنگ اریه در مجلس گوجرانواله د ۱۹ او مجلس چک شمالی سروده ها در شور و مس دار الرحم قلاویان دست پوسٹ کیس ندام الاحمدیه سال اول و دم ۴ فروری ۱۹۳۷ بر تا فروری است ۱۹۳۰ و صفحه ام تا ۳۳ مجلس حضرت خلیفہ ایسی انسانی اور میرا کو اپنی تقریر سے قبل مجلس دارالرحیم کے زیم با امام حسین نیب کو علم انعامی عطا کرتے ہوئے رمایا کہ میں محلہ کی ای خدا اور یہ کومبارکباد دیتاہوں کہ وہ کام میں اول رہی ہے مری امید کرتا ہوں کہ اس مجلس کے نمبر ای جھنڈے کے احترام کو بر قرار رکھنے کی پوری کوشش کرینگے اور اپنی زندگیوں کو احمدیت کے مطابق بنا کر یہ ثابت کر دینگے کہ صورتی اس انعامی جھنڈے کے مستحق تھے اور انتخاب غلط نہ تھا." والفضل دار فروری ۱۹۳۵ و صفحه به کانم ۴ )

Page 506

1981 AM, جنس لا وارد ی دارا برکات قادیان در مجلس عقد مسجد مبارک بیس کراچی در امارات اسی جھنڈہ کی نسبت حضرت صابزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ اور ملک عطاء الامین مقام مہتم بوائے خدام الاحمدیہ نے اپنے دستخط سے مندر جہ ذیل ہدایات جاری کیں :- یہ تنا ا د خلافت جو علی علم التاهی پر ان سب سے پیش پیش رہنے والی مجلس حاصل کر سکے گی.جو مجلس یہ جنڈا انعام کے طور پر حاصل کریگی اس کے لئے لازمی ہوگا کہ ہار نو جب تک اس کو مرکزمیں پہنچا دے.جھنڈے کی حفاظت کی تمامتر و مداری اس عرصہ کے لئے جب تک یہ جھنڈا اس کے پاس رہے گا اس ٹھیس پہ ہوگی جو اس کو انعام کے طور پر حاصل کرے گی..جو نئیں قیام کے طور پر اس جھنڈے کو حاصل کر یگی اس جھنڈے کو لے جائے بعد اس مرکز میں پہنچانے کے تمام اخراجات کی متحمل ہوگی.تعلم انعامی پراس کو حاصل کرنے والی مجلس کا نام چاندی کی ایک تخت پر کھا کر گایا جا ہیں جس کے اخراجات اس مجلس کے ذمہ ہونگے.4 - جھنڈے کو کسی عمارت پر نہ لگایا جائے.اس طرح اس کے خراب ہونے کا احتمال ہے.ے.جب کبھی جھنڈے کو بلند کیا جائے سب خدام کا اس موقعہ پر کھڑے ہو کر عہد دہرانا ضروری ہے.جھنڈے کو ہر تین ماہ کے بعد نہایت احتیاط کے ساتھ کسی خادم سے دھلوا کر دھوپ میں سکھایا جائے ہے ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا نا امید به مرکز به ملک عطاء : زمین مہتمم نوائے خدام الاحمدیہ A هش 7" کتب حضرت مسیح موعود تقدام الاحمدیہ کے تیسرے سال میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی کا امتحان پر معارف کتب کے امتحان کا سلسلہ بھی جاری کر دیا گیا.ابتداء میں مندرجہ ذیل کتب کے امتحانات لئے گئے :- کشتی نوح - ضرورة الامام لیکچر سیالکوٹ کی فتح اسلام ، توضیح مرام - لیکچرا اور میشه تجلیات الہیہ - بركات الدعا.شہادت القرآن - سراج نمیر ضیاء الحق کی 190 ے کو اللہ خدام کی ذمہ داریاں مطبوعہ دسمبر ۶۹ سے رپورٹ قدام الا جمی ہر سال سوم محمد ها کے رپورٹ خدام الاحمدیه سال چهارم صفحہ ۱۷ لئے رپورٹ خدام الاحمدیه سال نیم صفحه 14

Page 507

خدام الاحمدی اور اطفال الاحمد ۲۶ جولائی شاہ کو حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ارشاد فرمایا کہ آج سے قادیان میں خدام الاحمدیہ کا کام طلوعی نہیں بلکہ جبری ہو گا.ہر وہ احمدی جیسکی کی لازمی تجنید بنارہ سے چالیس سال تک عمر ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ پندرہ AL دن کے اندر اندر خدام الاحمدیہ میںاپنا نام لکھا ہے.نیز اعلان فرمایا کہ ایک مہین کے اندر اندر خدام الاحمدیہ آٹھ سے پندرہ برس کی عمر تک کے بچوں کو منظم کرلیں اور اطفال الاحمدیہ کے نام سے اُن کی جماعت بنائی جائے " حضور کی ہدایت تھی کہ خدام کی تجنید کے لئے احباب سے زبر دستی فارم پر نہ کروائے جائیں بلکہ صرف اطلاع پہنچانے تک ہی اکتفاء کیا جائے.اس ارشاد کی تعمیل میں مجلس مرکزیہ کے نمائنارے ہر محلہ کی مسجد میں ایک معین وقت میں رجن کا اعلان نمازوں کے وقت میں کر دیا جاتا) حاضر رہتے اور اگر چہ حضور کی طرف سے ایک فوری بھرتی کے لئے پندرہ دن کی میعاد مقرر تھی لیکن ایک تقلیل تعداد کے سوا بقیہ سب نوجوان ابتدائی دو تین روز ہی میں مجلس کے رکن بن گئے ہے ایه ازین محلیس نے اطفال الاحمدیہ کی تنظیم کے لئے قادیان کے ۸۴ بچوں کے ۷۵ گروپ بنائے.اُن پر مانیٹر مقرر کئے اور انہیں مربوں کے سپرد کیا جس نے اطفال کے متعلق ذیلی قواعد کا تفصیلی ڈھانچہ بھی تیار کیا اور بچوں کے لئے تربیتی نصاب بھی.نیز خدام کی طرح اطفال الاحمدیہ کا بیج یعنی امتیازی نشان بھی تیار کرایا.جس پر نقوش تو وہی تھے جو خدام الاحمدیہ کے بیچ کے تھے گر یہ ذرا چھوٹا اور بیضوی شکل کا بنایا گیا تھا.اور اس پھ امید دار رکن میں قدام الاحمدیہ کے الفاظ کندہ تھے.پہلے سال قادیان سے یا ہر مندرجہ ذیل مقامات پر بھی مجالس اطفال قائم ہو گئیں: بھیرہ سیالکوٹ چھاؤنی وشہر جہلم سید والا.لائل پور - ملتان - لودھراں - آریام کاٹھ کڑھ شملہ کیرنگ - یادگیردکن محمود آباد ضلع جہلم - کنری سندھ لاہور شکار ا چھیاں.دھلی.یگیر بر می برید - شاہ پور مر گڑھ انگلی امرتسر، گوجرانوالہ نیروبی و شرقی افریقی کیه بین 140.کے افضل یکم اگست ۱۹۳۰ و صفحه کال ۳ سے افضل یکم اگست ۱۹ صفحر کا لم ۲.یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے خطبہ جمع فرمودہ ہارا پریل شمار کے مطابق ۱۲ را اپریل ۲ اس سے مجلس قدام الحمید من احمدی بچوں کی شارخ کھیل چکی تھی.اور یہ کے ابتداء میں مندرجہ ذیل مجالس اطفال قائم ہوئیں.دادا رحمت - دار افضل مسجد مبارک اور تعلیم دار البرکات قادیان وزیر آباد فیروز پور - آریام، سرگودها - نیروانی رشعبہ اطفال کے پہلے قواعد الفضل اور مین گیٹ پر شائع شدہ ملے رپورٹ سال سوم و مطبوعہ متحدہ آ پلٹ قدام بالا هم یه سال دوم صفحه ۷۰ و الا -

Page 508

مجلس خدام الاحمدیہ کی قانونی و شہید کے ایک دوست کی طرف سے اور تمبر دار کو حضرت خلیفہ مسیح ا ا الثانی کی خدمت میں استفسار کیا گیا کہ کیا امیر جماعت خدام الاحمدیہ سے دستوری حیثیت نظام جما میں کوئی کام نہیں لے سکتا ؟ حضرت امیرالمومنین نام کے جواب میںارشاد فرمایاکہ ان یہ درست ہے مجلس خدام الاحمدیہ کا نظام میں نے الگ بنا دیا ہے اور ان کا الگ مرکز قائم ہے.میں چاہتا ہوں کہ نوجوان اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں.اُن میں خود کام کرنے کی اور اپنی ذمہ داری محسوس کرنے کی عادت پیدا ہو جائے.امیر جماعت مجلس کے نظام میں دخل نہیں دے سکتا.اگر وہ کوئی خاصی دیکھے تو مجس کے مرکز میں پورٹ کر سکتا ہے.اگر اسے کوئی کام لینا ہو تو مجلس کو حکم نہیں دے سکتا.البتہ جماعتی کاموں (شاہ جیسے وغیر کے متعلق مجلس کو Request یعنی گذارش کر سکتا ہے.اور مجلس خدام الاحمدیہ کو ایسے کاموں میں تعاون کرنا چاہیے کیونکہ وہ بنائی ہی اس غرض کے لئے ہے.اگر وہ تعاون نہ کرے گی تو اپنے فرض کی ادائیگی میں کوتاہی کریگی نیز امیر کسی فرد جماعت سے بحیثیت فرد ہونے کے کام لے سکتا ہے نہ بحیثیت رکن ہونے کے.ایک شخص جماعت کا سیکوٹری ہے اورمجلس خدام الاحمدیہ کا رکن بھی ہے.جب جماعتی کام ہوگا اسے بہر حال منس کے کام پر جماعتی کام کو مقدم رکھنا ہوگا.اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک مشخص گورنمنٹ کا ملازم ہو تو اسے بہر حال پہلے گورنمنٹ کا کام کرتا ہوگیا ہے ، ایک اور موقعہ پر فرمایا : " ہر احمدی جو چالیس سال سے کم عمر کا ہے وہ خدام الاحمدیہ کا نمبر ہے.ہر احمدی جو چالیس سال سے اوپر ہے وہ انصار اللہ کا نمبر ہے.اور ہر احمد می جو چالیس سال سے نیچے یا چالیس سال سے اوپر ہے وہ مقامی انجمن کا بھی نمبر ہے اس سے کوئی علیحدہ چیز نہیں.میں خدام الاحمدیہ کے یہ معنے نہیں کہ وہ جماعت احمدیہ کے مقامی مہبرنہیں ہیں بلکہ خدام الاحمدیہ اور انصاراللہ کے چھوٹے کا نام مقامی انجن ہے لیے " جہانی ایک خدام الاحمدیہ کے پروگرام کا تعلق ہے سید نا حضرت ابیرالمومنین نے مجلس کے ابتدائی ایام میں ہیں یہ ہدایت فرمائی تھی کہ کوئی نیا پروگرام بنانا تمہارے لئے جائز نہیں.پروگرام تحریک جدید کا ہی ہو گا اور تم تحریک جدید کے انٹیٹر ہو گے.تمہارا فرض ہو گا کہ تم اپنے ہاتھ سے کام کرو.تم سادہ زندگی بسر کرو.تم دین کی تعلیم دے.تم نمانوں کی پابندی کی نوجوانوں میں عادت پیدا کرد - تم تبلیغ کے لئے اوقات وقف کر دیے " 1980 نے روزنامه الفضل قادریان ۲۵ ستمبر ۱۹۲ و صفحه ۲ سے افضل ۱۳۰ جولائی ۱۹۳۵ منقحمه ۱۳ کالم ۳۰۱ الفضل اور پروین شد و صفحه ها کالم ۳

Page 509

۴۶۹ جہ رسام نہ تو نے جلسہ گاہ کے سامنے مجلس مرکز یہ کا ایک ذیلی دفتر بھی کھونا انہ علیہ پر ذیلی دفتر جانے لگا.اس دفتر سے جیلس پر آنے والے احباب سے براہ راست رابطہ ممکن ہوگیا ہے تیسرا سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ کا تیسرا سالانہ اجتماع ہے ضروری امد فر کو مسجد اقضی میں منعقد ہوا.بد ناحضرت خلیفہ مسیح الثانی نے بعض وقتوں کے باعث یہ فیصلہ فرمایا تھا کہ خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع کے لئے جلسہ سالانہ کے علاوہ کوئی اور دن تقریر کئے جائیں.اس اجتماع میں مندرجہ ذیل مقامات کے خدام نے شرکت کی ہے.سیالکوٹ شہر گوجرانوالہ فیروز و شہر صوبہ سرحد، شملہ ملتان امرتسر بھی.جوں جالندہر بہالپور گجرات جہلم.شاہ پورے ہوشیار پور سیالکوٹ چھاونی - داتر زیر کا.نوشہرہ چھاؤنی کا ٹھر گڑھ.بٹالہ.بنگہ تہاں وضلع گور) - دوالمیال ضلع جہلم.فیروز پور چھاؤنی پشاور شہر کیمبل پور نرائن گڑھ.شام اره - نیروبی - ر فروری 9ائد کو صبح ساڑھے نو بجے سالانہ اجتماع کا پہلا اجلاس ہوا جس میں تین مقامی مقردین رشیخ رحمت اللہ صاحب شاری موادی دل محمد صاحب موادی فاضل اور ایل ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ایرانی یا یک تان تان دین کرم پر صلاح الدین صاحب قائد ملی فیروز پور میاں محمد حمد صاحب تا میلی اور سید مبایل شاه ما قادر میں امرتسری نے تقاریر کیں ان تقاریر میں مجلس کے لالو عمل کے مختلف حصص پر روشنی ڈالی گئی.سالانہ کارگذاری کے جستہ جستن واقعات کی رپورٹ بھی پیش کی گئی.صدر اجلاس حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر تفلیس خدام الاحمدیہ نے آخر میں ایک بصیرت افروز اور ولولہ انگیز تقریر فرمائی جس میں خامہ کو انکی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کیا.نماز ظہر کے بعد دوسرا اجلاس منعقد ہوا جس میں سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی نے تقریباً سوا دو گھنٹے یک نہایت ہی ایمان افروز اور پر معارون، تقریر فرمائی.اور غلام کو مفید اور قیمتی ہدایات سے مستفید فرمایا.تیسرا اجلاس رات کو بعد نماز عشاء منعقد ہوا جس میں اراکین مجلس سے خدام الاحمدیہ کے کاموں مں پیش آنیوالی دوستوں کے متعلق مشورے کئے گئے.یہ اپنی طرز کا پہلا اجتماع تھا.اراکین نے تلی کے ساتھ اپنی آرا کا اظہار کی اور خام الامیر کے لائحہ عمل کو کامیاب تر بنانے کے لئے مفید مشورے دیئے.دوسرے دن صبح نو بجے سے بارہ بجے تک خدام الاحمدیہ کے ورزشی مقابلے ہوئے.یہ خدام الاحمدیہ کی تاریخ میں پہلا موقعہ تھا جب کہ یا ہر کے نمائندگان ورزشی اجتماع میں شریک ہوئے.حضرت سیدنا امیر مومنین خلیلی ایسی انلاین کا ھے پورٹ میلس خدام الاحمدیر سال سوده صفحه ۳۲

Page 510

۴۷۰ یی از راہ حوصلہ افزائی شرکت فرمائی حضور انور نے مختلف کھیلوں میں تول ، دوم، سوم رہنے والے کھلاڑیوں کو انتانا تقسیم فرمائے بے ه ر جون ۱۹۳۳ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے خدام الاحمدیہ اور انصار الله دکانوں کی نگرانی کا فرض ا کو یہ زمہ داری سونپی کہ وہ قادیان میں اس امر کی نگرانی رکھیں کہ نماز کے اوقات میں کوئی دوکان کھلی نہ رہے لچھے چوتھا سالانہ اجتماع اور میں خودام الاتصمیم کا چوتھا سالانہ اجتماع ۱۷ در اکتوبر را شاد کو منعقد ہوا.اس اجتماع کے لئے حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے کی میل اور ایک نام کا قابل تعریف ایک ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ر ر رای میدان انتخاب کیا گیا.کوٹھی کے شمالی جانب واقع دارالشکریہ دار الشکر کے مقام اجتماع میں تمام رہائشی نیسے اور دفاتر نصب کئے گئے.معین وسط میں چھتیس چھتیس فٹ کی دوسر کی ایک ناسری ہیں ہیں کو قطع کرتی ہوئی بنائی گئیں جن کے مرکز میں نوائے قدام الاحمدیہ نہرا رکھا تھا.چوک کے قریبی بلاکوں پر ہسپتال.دفتر سپلائی سٹور دختر خوراک اور مرکزی کارکنوں کے جیسے تھے.مقام اجتماع میں داخلہ کے لئے مشرق کی طرف دروازہ بنایا گیا جس کے دونوں طرف خدام الاحمدیہ کے لائحہ عمل سے متعلق حضرت امیر المومنین ایادہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشادات کپڑے کے موزدن بورڈوں پر لکھے ہوئے آویزاں کئے گئے.اس دروازہ کے قریب ہی مرکزی دفتر خدام الاحمدیہ اور انکواری آنس کے خیمے نصب تھے.مقام اجتماع کے ارد گرد خدام کے پہرہ کا چومیں گھنٹے باقاعدہ انتظام رہا.دفتر مرکزیہ کے ساتھ قدام کو وقت سے مطلع کرتے رہنے کیلئے گھنٹہ بھی نصب کیا گیا.چہر ہر نصف گھنٹہ کے بعد وقت کا اعلان ہوتا ہے اس دفعہ کھانے کا انتظام خدام الاحمدیہ نے اس صورت میں کیا کہ قادیان کے ہر خادم کے گھر سے وقت مصورہ پر مجلس اطفال الاحمدیہ کے اراکین خادم اور اس کے ایک مہمان کا کھانا لے آتے.قادیان کی تمام مجالس میں باہر سے آنے والی مجاس کو ان کی میزبانی کے لئے باقاعد تقسیم کر دیا گیا تھا.انتظام کو سہولت سے چلانے کیلئے اطفال الاحمدیہ کے خیمے بھی مقام اجتماع میں ہی نصب تھے.اس اجتماع میں مندرجہ ذیل مقامات سے خدام شریک ہوئے :- بگول سیکھوال - ونجواں.پھیر پیچی.دھرم کوٹ بگر - لونڈی بھنگاں.ہر سیاں - اور منی منگل - پیرو شاہ خان فتح یار نور الطوال کے قدام الاحمدیہ کی رپورٹ سال موم صفحہ ۲۸-۲۹ مرد تفصیل کے لئے حافظہ ہو الفضل، ن و افضل ، رودی رو صفورہ کا نما نے متحدہ نظرا ا مهر فروری ۱۹۴۲ بر صغیر او

Page 511

تیجه کلان شکار یا چھیاں سیالکوٹ شہر دانہ زید کا گٹھیالیاں.امرتسر لاہور جانا ہر گریام ہوشیار پور کی یہاں.گوجرانوالہ گجرات.لائل پور - دنیا پور ضلع مان - حیدرآباد دکن ، کراچی رہی.خیر اور سند در شملہ سید والا پہلول پور ضلع لائلپور ڈلہوزی بمبئی.پشاور بریلی سے میں اجتماع کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ اس میں شامل ہونے والے خدام میں سے مجلس خدام الاحمدیہ لاہور کے ایک رکن مرزا محمد سعید بیگ صاحب ولد مرز امحمد شریف بیگ صاحب نے لاہور سے قادیان آتے ہوئے مجلس کے جھنڈا کی حفاظت کے لئے شجاعت و بہادری کاستاندار نمونہ دکھایا.اور دوسرے خدام بھائیوں کے سامنے شعائر اللہ کے تحفظ کی قابل تقلید مثال قائم کی.اس اجمال کی تفصیل خود حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے الفاظ میں درج کی جاتی ہے.حضور نے ۲۳ اکتوبر ۱۹۴ء کے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا :- واقعہ یہ ہے کہ لاہور کے خدام جب جلسہ میں شمولیت کے لئے آرہے تھے تو اس وقت جب کہ ریل سٹیشن سے نکل چکی تھی اور کافی تیز ہوگئی تھی ایک لڑکے سے جس کے پاس جھنڈا تھا ایک دوسرے خادم نے جھنڈا ما نگا.وہ لڑکا جس نے اس وقت جھنڈا پکڑا ہوا تھا ایک چھوٹا بچہ تھا.اس نے دوسرے کو جھنڈا دے دیا اور یہ سمجھ لیا کہ اس نے جھنڈا پکڑ لیا ہے.گر واقعہ یہ تھا کہ اس نے ابھی جھنڈے کو نہیں پکڑا تھا.اس قسم کے واقعات ہو جاتے ہیں.گھروں میں بعض دفعہ دوسرے کو کہا جاتا ہے کہ پہائی یا گلاس پکڑا اور اور دوسرا برتن اٹھا کر دے دیتا ہے اور یہ خیال کرلیتا ہے کہ اس نے پانی یا گلاس کو پکڑ لیا ہوگا.مگر اس نے ابھی ہاتھ نہیں ڈالا ہوتا.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہر تین گر جاتا ہے.اسی طرح جب اُس سے جھنڈا مانگا گیا اور اُس نے جھنڈا دوسرے کو دینے کے لئے آگے بڑھا دیا تو اُس نے خیال کیا کہ دوسرے نے جھنڈا پکڑ لیا ہوگا.مگر اس نے ابھی پکڑا نہیں تھا.نتیجہ یہ ہوا کہ جھنڈا ریل سے باہر جا پڑا.مجھے بتایا گیا ہے کہ وہ چھوٹا لڑکا جس کے ہاتھ سے جھنڈا گرا تھا فورا نیچے کودنے لگا.مگیر وہ دوسرا لڑکا جس نے جھنڈا مانگا تھا اسے اسے فورا روک لیا اور خود نیچے چھلانگ لگا دی.لاہور کے خدام کہتے ہیں ہم نے اُسے اُوندھے گرے ہوئے دیکھ کر سمجھا کہ وہ مرگیا ہے.گر فورا ہی اٹھا اور جھنڈے کو پکڑ لیا.اور پھر دیل کے پیچھے دوڑ پڑا.یہ تو وہ کیا پڑ سکتا تھا.بعد میں کسی دوسری سواری میں بیٹھ کر اپنے قافلہ سے آیا.میں سمجھتا ہوں اس کا یہ فل نہایت ہی اچھا ہے اور اسقابل ہے کہ اس کی تعریف کی جائے.امام احمد شیر اس لیے مام مقر کا تھا ا تجویز کیا تھا کہ اسے ایک تمغہ دیا جائے.مگر اس وقت یہ روایت میرے پاس غلط طور پر پہنچی i مامه الفضل اور اکتوبر ۱۹۳۳ء صفحده.

Page 512

۴۷۲ تھی اس نئے میں نے وہ انعام اسے نہ دیا.بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ صحیح بات یہ ہے کہ جھنڈا اس کے ہاتھ سے نہیں گیرا تھا.بلکہ دوسرے کے ہاتھ سے گرا تھا.پہلے مجھے یہ بتایا گیا تھا کہ اسی کے ہاتھ سے جھنڈا گرا تھا.بہر حال یہ ایک نایت ہی قابل تعریف فعل ہے.خدام الاحمدیہ سے ہمیشہ اس بات کا اقرار لیا جاتا ہے کہ دہ شعائر اللہ کا ادب و احترام کریں گے.اسی طرح قومی شمار کو عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھیں گے.اس اقرار کو پورا کرنے میں لاہور کے اس نوجوان نے نمایاں حصہ لیا ہے.اور میں اس کے اس فعل کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا اس نوجوان کا نام مرزا سعید احمد ہے، اور اس کے والد کا نام مرزا شریف احمد ہے.بظاہر یہ سمجھا جائیگا کو اس نوجوان نے اپنی جان کو خطرہ میں ڈالا گر جہاں قومی شعار کی حفاظت کا سوال ہو وہاں اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی اور در حقیقت یہی لوگ عزت کے مستحق سمجھے جاتے ہیں جو اپنی جان کو خطرہ میں ڈالنے کے لئے تیار رہتے ہیں.وہ لوگ جو اپنی جان کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں انہی کی جانیں دنیا میں سب سے زیادہ سستی اور بے حقیقت سمجھی جاتی ہیں.آخر غلام قومیں کون ہوتی ہیں؟ یہی لوگ غلام بنتے ہیں جو اپنی جانوں کو قربان کرنے سے ڈرتے ہیں اور کہتے ہیں ہم مر نہ جائیں.وہ ایک وقت کی موت قبول نہیں کرتے تو خدا تعالیٰ ، نہیں بعض دفعہ صدیوں کی موت دے دیتا ہے.اختلافی مسائل کے لئے وسط شہر سے مجلس خدام الاحمدیہ اور اس انصار الد کی مشتر کہ ساحلی سے احباب جماعت کو اختلافی مسائل سے آگاہ کرنے کے لئے تعلیم تلقین کے خاص ہفتہ تعلیم و تلقین "d سرام ہفتے منانے کا انتظام شروع ہوا.اس سلسلہ میں پہلا ہفتہ مسائہ نبوت کے لئے کہ مرضی سے ۳۰ سٹی نہیں اور دوسرا ہفتہ ۲۲ تا ۲۸ نومبر میں منایا گیا جو مسئلہ خلافت کی تعلیم و تلقین کے لئے مخصوص تھا.اس کے بعد 9 نومبر کو تیسرا ہفتہ منایا گیا جس کا موضوع تلقین پیشگوئی مصلح موعود تھا ہے ۱۹۲۳ء کے ہفتہ تعلیم وتلقین کے حسب ذیل موضوع تھے (1) اقتدار نماز غیر احمدیان (۳) رشته ناطر غیر احمدیان دس جنازہ بغیر احمدیاں میں دفتر مجلس مرکزیہ کی بنیاد در کور کر لی ایسی انانی نے بعد نماز هر دارای نوار کوحضرت عصر دارالانوار ی بی را در مرکز که را رکابی میں مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ کے دفتر کی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا ہے الفضل اور اکتوبر و صفحه و وه کی رپورٹ خدام الاحمدید سال چهارم صفحه پرورش اندام ای حدید سال چی مهم به روز نامه افضل ۲۶ جنوری دو صفحہ کالم کے رپورٹ خدام الاحمدیه سال پنجم ما و الفضل در اکتوبر را 1

Page 513

.س کے نام عمارت کے لئے حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب نے آٹھ کنال کا قطعہ زمین بطور عطیہ دیا.جس کی قیمت ان دنوں ڈھائی ہزار کے لگ بھگ ہوگی لیے نقشہ کی تیاری کے سلسلہ میں قاضی عبدالحمید صاحب اور قاضی محمد رفیق صادر نے گہری بچسپی کی یہ یہ عمارت مکمل ہوگئی تو بلیس کا دفتر جو گیسٹ ہاؤس میں کھلا ہوا تھا اس میں منتقل کر دیا گیا جو قادیان سے ہجرت دستہ تک قائم رہا.۱۹۳۲ ء میں ملک عطلوال چین صاحب بنگالی بھجوائے گئے.آپنے ڈیڑھ ماہ مہتمین کے دوروں کا آغاز ! ا تک تمام بڑی بڑی جماعتوں کا دورہ کر کے مجالس خدام الاحمدیہ کا قیام اور سابقہ مجاس کا احیاء کیا.اسی سال چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ اور چوہدری فضیل احمد صاحب ناصر نے.اسی احمد سندھ کی مجالس کا معائنہ اور احیا ر کیا ہیں حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے الہام حسن بیان سے تفادل کے ساتھ.سالانہ بریم حسن بیان کا قیام د و پریز هم حین بیان کا افتتاح کیا گیا.یہ بزم تقریری مشق کے لئے قائم کی گئی تھی بیت الطارق کا اجراء جنوری ۱۹۳۵ء سے مجلس خدام الاحمدیہ کی طرف سے الطارق" کے نام سے لڑکیوں کا ایک سلسلہ جاری کیا گیا جس کی حیثیت مجلس کے گزٹ کی سی تھی جس میں صدر مجلس اور مہتمین مرکزنیہ کی طرف سے ضروری ہدایات و اطلاعات شائع ہوتی تھیں.یہ سلسلہ پانچ نمبروں کی اشاعت کے بعد بند کر دیا گیا یہ ا مجلس احرار کے اخبار زمزم ۲۳ / جنوری ی این است این امیلی ها را دید کو خراج تحسین از اگر تم مجھے رپورٹ خدام الاحدید سال چهارم صفحہ ۳۷ - تعمیر دفتر میں نمایاں حصہ لینے والوں کے نام : سیٹھ عبد اللہ الدین شاپ چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب شیخ محمود الحسن صاحب آئی سی.ایس سیٹھ محمد اعظم صاحب د سیٹھ معین الدین صاب خانصاحب نعمت اللہ صاحب - ملک عبد الرحمن صاحب قصور - محمد الدین صاحب پال سیالکوٹ.رپورٹ خدام الاحمدیه سال پنجمیم صفحه ۱۵ ه تذکره طبع دوم مثال والحكم جلد نمبر ۱۷ مورخه ۲۴ مئی ۲ ۲۵ انفضل ۲۶ جنوری ۱۹۳۵ء صفحه ی کالم او ۲ انقضای یکم فروری ۱۹۳۵ و صفحه به کالم ۳ یہ قیاسا لکھا گیا ہے کیو نکہ دفتر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے ریکارڈ میں الطارق کا پانچواں ٹریکٹ ہی موجود ہے.

Page 514

۴۷۴ لکھا کہ بات یک ہم ہیں کہ ہماری کوئی بھی تنظیم نہیں اور ایک وہ ہیں کہ جن کی تنظیم در تنظیم کی نظمیں ہیں.ایک ہم ہیں که آواره منتشر اور پریشان ہیں.ایک وہ ہیں کہ حلقہ در حلقہ محدود محصور اور مضبوط اور منظم ہیں.ایک حلقہ احمدیت کے اس میں چھوٹا بڑا ، زن ومرد بچہ بوڑھا ہر احمدی مرکز بوت پر مرکوز مجتمع ہے مگرتنظیم کی ضرورت اور برکات کا علم و احساس ملاحظہ ہو کہ اس جامع و مانع تنظیم پریس نہیں.اس وسیع حلقہ کے اندر متعدد چھوٹے چھوٹے حلقے او بنا کر ہر فرد کو اس طرح جکڑ دیا گیا ہے کہ ہل نہ سکے.عورتوں کی مستقل جماعت لجنہ اماءاللہ ہے.اس کا مستقل نظام ہے سالانہ جلسہ کے موقعہ پر اس کا جدا گانہ سالانہ جلسہ ہوتا ہے.خدام الاحمدیہ نوجوانوں کا جدا نظام ہے.پندرہ تا چالیس سال کے ہر فر د جماعت کا خدام الاحمدیہ میں شامل ہونا ضروری ہے.افضل ل ا - چالیس سال سے - ۲۱ اوپر والوں کا ستقل ایک اور حلقہ ہے.انصار اللہ جس میں چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان تک شامل ہیں.میں ان واقعات اور حالات میں مسلمانوں سے صرف استقدر دریافت کرتا ہوں کہ کیا ابھی تمہارے جاگنے اور اٹھنے کا وقت نہیں آیا ؟ تم نے ان متحدہ مورچوں کے مقابلہ میں کوئی ایک بھی مورچہ لگایا ؟ حریت نے عورتوں تک کو میدان جہاد میں لاکھڑا کیا.....میرے نزدیک ہماری ذلت و رسوائی اور میدان کشاکش میں شکست و پانی کا ایک بہت بڑا سبب یہی غلط معیار شرافت ہے ہے.۹۴۵ کے دلائل میں مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے شعبہ تعلیم کے زیر اہتمام پہلی دینیات کلاس میٹرک کا امتحان دینے والے طلباء کے لئے قادیان میں دینیات کواس کھوئی گئی جو ۰ ۲ اپریل ۱۹۳۵ء سے لے کرہ ارمئی ۹۲۵ یہ تک جاری رہی.کلاس کے منتظیم مونی بشارت الرحمن صاحب ایم.اے تھے اور نائب مولوی صدر الدین صاحب مولوی فاضل.پڑہائی آٹھ بجے سے لیکر بارہ بجے تک تعلیم الاسلام کالج میں ہوتی تھی اور عام لکچر بعدنماز عصر سجد اقصی میں ہوتے تھے.مولانا قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری.مولوی نور الحق صاحب انور سلور موادی بشارت احمد صاحب سندھی نے قرآن مجید - صرف و نحو اور حدیث پڑھائی.دینیات کلاس کے طلباء کو بعض دوسرے فاضل اصحاب کے علاوہ مندرجہ ذیل بزرگوں نے بھی خطاب فرمایا.حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب ہیما چوری حضرت مولوی خیر الدین صاحب سیکھوائی حضرت سردار عبد الحمن صاحت سابق در نگاه حضرت مولوی شیر علی صاحب به اله زمینه معضل قادیان ما را بپریل ۱۹۴۵ و صفحه مه کانم ۳ - ۴

Page 515

۴۷۵ طلبا و ظہر سے عصر تک کا وقت مسجد مبارک میں گزارتے اور مرکزی لائبریری سے کتابیں لے کر پڑھتے.شریک کلاس ہونے والے طلباء کی تعداد پچیں تھی اور ان کی رہائش کا انتظام مہمان خانہ میں کیا گیا تھا.آخری روز استی حضرت امیرالمومنین خلیفہ المسیح الثانی نے طلباء کو بعد نماز عصر مسجد مبارک میں شرف ملاقات بخشا اور قیمتی نصائح کیں.اور ارشاد فرمایا کہ ان طلبا کے لئے ۲۴ گھنٹوں کا پروگرام ہونا چاہیے تھا جس میں ہر کا م اوقات مقرر ہوتے.ان ایام میں ان طلباء کو سخت اور سلسل محنت کرنے کی مشق کرائی جانی چاہیے تھی.اس سلسلہ میں حضور نے تفصیلی ہدایات دیں.اسی طرح فرمایا کہ باہر سے آنے والوں کی تعداد بہت کم ہے.کم از کم مو طالب علم باہر سے آنا چاہیئے تھا.آئندہ سال بہت پہلے تحریک شروع ہونی چاہیئے یہ سب طلبہار ایک جگہ ہیں.تین چار نگران پردخت کس کیساتھ ہمیںاور اپنے عمل سے ان پر نیک اثر ڈالیں لیے این پہلی کلاس کے بعد خدام الاحمدیہ مرکزی مستقل طور پر تعلیم و تربیت کا یہ اہم طریق رائج کر دیا جواب تک بدستور جاری ہے.ہی تعلیم القرآن کلاس صورت خیر بنته لمسیح الثانی کے ارشاد پر دینیات کلاس کے بعد مجیک خدام الاحمدیه مرکز ید اور نظارت تعلیم و تربیت کے اشتراک سے ۹۴۵ ار میں پہلی تعلیم القرآن کلاس بھی شروع کی گئی جو ہ ۲ راگست سے ۲۵ ستمبر تک جاری رہی.نمائندگان کی تعداد ۷۳ تھی جو حسب استعداد دو جماعتوں میں تقسیم کر دیئے گئے.ہر ایک جماعت تعداد کے لحاظ سے دون فریقوں میں منقسم تھی اور قرار پایا کہ جماعت اول کو پانچ سپارے تک ترجمہ پڑھایا جائے اور جماعت دوم کو دس پارے تک.کلاس کے طلباء کو مولوی تاج الدین صاحب فاضل لائلپوری مولوی محمد ابراهیم هنا بقا پوری قاضی محمد نذیر صاحب فاضل و کیلوری اور قریشی محمد نذیر صاحب ملتانی نے قرآن کریم کا ترجمہ پڑھا یا اور کرفت دو کی تعلیم مولوی خل ارحمان صاحب بنگالی، مولوی محمد ابراہیم صاحب قادیانی در ورودی شرعی احمد صاحب امینی نے دی.اور طبی خدمات کے لئے خانصاحب ڈاکٹر محمد عبد اللہ صاحب میڈیکل انچارج تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کی خدمات حاصل کی گئیں.تعلیم القرآن کیٹی کے سیکرٹری چوہدری عبد السلام صاحب اختر تھے.اور نمائندگان کی رہائش اور دیگر متعلقہ امور کی نگرانی کے فرائض مولوی شریف احمد صاحب معینی نے انجام دیئے.الفضل ۲۶ مئی ۱۹۳۵ ۶ صفحه ۵

Page 516

حضور کی خدمت میں جب تعلیم القرآن کلاس کے انتظامات اور روزانہ اسباق کی رپورٹ پیش ہوئی تو حضور نے اپنے قلم مبارک سے تحریر فرمایا کہ جزاکم اللہ تعالیٰ یہ انتظام بہت مناسب ہے اور ہر سال ہونا چاہیئے اور بڑھاتے جانا چاہیے نے میں چونکہ میں خدام الاحمدیہ اپنی ندگی کے سات سال حضرت امیر مومنین کی طرف سے مل کر کی تھی اس لئے حضرت خلیفہ اسی انانی نے اس سال نئے مفت سالہ دور کا پروگرام کے سالانہ اجتماع پر اس کے گذشتہ ہفت سالہ دور کا جائزہ لینے کے بعد آئندہ کے سات سالوں کے لئے ایک جامع مانع او تفصیلی پروگرام پیش فرما یا جس کا خلاصہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے الفاظ میں درج ذیل کیا جاتا ہے.وقار عمل : 1 - قادیان کی عدم صفائی اور محلوں کے گند کو دور کرنے کی طرف توجہ دے کر ہمیں اس بات کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہیئے کہ قادیان ایک نہایت صاف ستھرا مقام بن جائے.اس کی سڑکیں ہموار ہوں اور گھروں کا کوڑا کرکٹ سڑکوں پر پھینکا ہوا نظر نہ آئے رجس سے لکھی اور مچھر کثرت سے پیارا ہوتے ہیں جن سے وبائی امراض پھیلتے ہیں.) ۲ - یہ ضروری ہے کہ روزانہ کام کرنے کی عادت پیدا کی جائے یہ کام عمل اجتماعی کے رنگ میں ہو.خواه دو دو تین تین خدام مل گرم کریں.مگر کریں روزانہ.اس عمل اجتماعی کا بیشتر حصہ وقار عمل کی نوعیت کا ہو.محامہ کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کر دیا جائے.خدام محلہ محلہ کی صفائی کے ذمہ دار ہوں اور جو مجالس اس کام میں سبقت لے جائیں انہیں انعام دیا جائے اور مقابلہ کی شرح پیدا کی جائے.- قادیان میں برسات کے پانی کے نکاس کی طرف توجہ دی جائے.اور سیروں سے مشورہ کر کے ایک تفصیلی پروگرام بنایا جائے جس کے مطابق کام ہو.⋅.ایسے کام اس غرض کے مد نظر کئے جائیں کہ کسی خادم میں تکبر کا شائیر باقی نہ رہے اور اس کا نفس مر جائے اور وہ اللہ تعالیٰ کے لئے ہر ایک کام کرنے کے لئے تیار ہو جائے.ه الفضل در ستمبر ۱۹۳۵ صفحه ۶ -

Page 517

- خدمت خلق : تیامی - بیوگان.اور مساکین کی خبر گیری خدام و اطفال اپنا اولین فرض قرار دین مادر یارد و در ویران کر دینا.ضرورت مند احباب کے مکانوں کی لپائی وغیرہ کرنا اور ایسے گھرانوں میں جس کے مرد کام کاج کے لئے یا ہر گئے ہوئے ہوں سودا سلف لا کر دنیا خدام و اطفال کی ذمہ داریوں میں سے ہے اور خدام کو چاہیئے کہ قومی کاموں کے علاوہ جہاں تک ہو سکے انفرادی کام بھی کریں اور غر میں مقیموں اور بیواؤں کے کام کرنے میں نارمحسوس نہ کریں.A اور تربیت و اصلاح : نماز با جماعت کی سختی سے نگرانی کی جائے.ے.جو خلاصہ نماز با جماعت کے عادی نہ ہوں انہیں پہلے خدام کے عہدہ دار سمجھائیں.پھر محلہ کے پریزیڈنٹ اور دوسرے دوست نہیں سمجھائیں اور پھر مرکز کی وساطت سے حضور کے سامنے ان کے نام پیش کئے جائیں..خدام و اطفال کے سامنے وقتاً فوقتاً اخلاق کے متعلق بحث آتی رہنی چاہیئے اور انہیں بتانا چاہیے کہ کون کون سے اعمال ہیں جو آجکل عام ہیں.اور درحقیقت اسلامی نقطہ نگاہ سے بڑے ہیں اور کونسے اعمال میں جو تیرے سمجھے جاتے ہیں اور وہ در حقیقت اسلامی نقطہ نگاہ کے مطابق ہیں..اسلامی اخلاق پر چھوٹی چھوٹی کتا ہیں اور رسالے تصنیف کئے جائیں جن میں اصول اخلاق پر بحث ہو.1 - خلام و اطفال کو یہ کتابیں اور رسائے بار بار پڑھائے جائیں تا یہ باتیں انکے ذہن نشین ہو جائیں.ایسی اخلاقی کمزوری جس سے دوسروں کو بھی نقصان پہنچتا ہو اور اسکے نقصان کا دائرہ وسیع ہو تو اس کے انداد کے متعلق شریعت کا حکم ہے کہ اُسے فورا رد کا جائے.اور اس کے کرنے والے کو سزا دی جائے.۱۲ - بجائس قدام الاحمدیہ اپنے حلقوں میں اخلاقی نگرانی کا کام کسی مقامی عہدہ دار کے سپرے کریں.۱۳ تبلیغ: مجالس میں تبلیغی سیکرٹری مقرر کئے جائیں جو خدام کو تبلیغ کی طرف متوجہ رکھیں اور انہیں تحریک کریں کہ وہ تبلیغ کے لئے کچھ نہ کچھ وقت دیا کریں.۱۴- تبلیغ کرنے والوں سے دریافت کیا جائے کہ وہ رشتہ داروں میں تبلیغ کرنا چاہتے ہیں یا دوسرے لوگوں میں اس دوسری صورت میں اُن سے معلوم کیا جائے کہ انہیں ہندنوں میں تبلیغ کرنے کا شوق ہے یا سکھوں میں یا ہو دیوں میں یا عیسائیوں میں اور ہر گروہ کو اُن کے مناسب حال معلومات بہم پہنچائی جائیں اور دلائل وغیرہ نوٹ کروا دیئے جائیں.۱۵ - جو نوجوان تبلیغ کے لئے جائیں اُن پر جس قسم کے اعتراضات ہوں خواہ وہ معقول ہوں یا غیر معقول.منطقی ہوں یا چاہا نہ ان کو تبلیغی رجسٹروں میں درج کیا جائے.۱۶.قباد میں ان اعتراضات کو ہر تین ماہ کے بعد مرکزہ میں بھیجوا دیں.۱۷ - مرکز ان اعتراضات کے جوابات شائع کرنے کا انتظام کرے.یہ کام اس طریق پر کیا جائے کہ ہرمضمون کے متعلق پاکٹ ٹیکیں بن جائیں اور لوگوں کے معتد بہ حصہ کے مرضوں کی تشخیص ہو جائے اور اس بات کا علم ہوتا رہے کہ آجکل دشمن کس پہلو سے حملہ کرنا چاہتا ہے.

Page 518

ور تعلیم.خدام و اطفال تعظیم کی طرف خاص توجہ دیں.-۲۰ - مجالس اپنے حلقوں میں ایک ایک سیکرٹری مقرر کریں جو اس سال سے بیس سال کے فقدام : اطفال کی فہرست تیار کرے اور نوٹ کرے کہ اُن میں سے کتنے تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور کتنے تعلیم حاصل نہیں کر رہے.اس عمر کے جو خدام و اطفال تعلیم حاصل نہ کر رہے ہوں اُن کے والدین کو توجہ دلائی جائے وہ اپنے بچوں کو تعلیم دلائیں.بوقت ضرورت مرکز سے بھی ایسے والدین پر دباؤ ڈلوایا جا.طلبہ خدام : اطفال کی نگرانی کی جائے کہ سٹڈی کے وقت گلیوں میں نہ پھریں.۲۲ 1 - اس نگرانی کے لئے کچھے خادم ہر روز مقرر کئے جائیں جو سٹڈی کے وقت گلیوں میں پھرنے والے طلبه خدام و اطفال سے پوچھیں کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں ؟ د اس سے طلبہ میں آوارگی کی عادت نہ رہے گی.اور وہ پڑھائی میں بھی زیادہ پچ پی لیں گے.) ۲۳.سنڈی کے وقت آوارگی کرنے والوں سے باز پرس کی جائے.۲۴ - گوادر سے جاری کر نا خدام الاحمدیہ کا کام نہیں مگر تعلیم کو عام کرنے کی کوشش کرنا اُن کا فرض ہے پس مجالس نوجوانوں اور بچوں کی تعلیم و تربیت کا خیال رکھیں.عام تعلیم کے ساتھ دلچسپی پیدا کرنے اور عام طور پر نوجوانوں کے اندر دینی تعلیم کا شوق پیدا کرنے کی انتہائی کوشش کریں.حضور ایدہ اللہ تالے سمجھتے ہیں کہ اگر خدام الاحمدیہ پوری محنت اور کوشش سے کام کریں تو دو تین سال میں تعلیم حاصل کرنے والوں کی تعداد پہلے کی نسبت دگنی تخمینی ہو سکتی ہے.۲۵ - مجالس ایسے طریق سوچتی رہیں جن کی وجہ سے خدام میں تعلیم کا شوق ہمیشہ رو بہ ترقی رہے.۲.یہ سائیں کی ترقی کا زمانہ ہے اس لئے خدام الاحمدیہ کو یہ کوشش کرنی چاہئیے کی ہماری جماعت کا ہر فرد سائیں کے اتارائی اصولوں سے واقف ہو جائے.اور ابتدائی اصول اس کثرت کے ساتھ جماعت کے سامنے دہرائے جائیں کہ ہمارے نائی اور دھوبی بھی یہ بات جانتے ہوں کہ پانی دو گیسوں آکسیجن اور ہائیڈروجن سے بنا ہوا ہے.یا یہ کہ آگ آکسیجن نیتی اور کاربن چھوڑتی ہے.اور اگر اسے آکسیجن نہ ملے تو مجھے جاتی ہے.پس یہ ضروری ہے کہ جہاں ہمارے دوست دینی علوم سے واقف ہوں وہاں انہیں کچھ نہ کچھ سائینس کے ابتدائی اصول سے بھی واقفیت ہو.۲۷ - ذہانت و صحت جسمانی : نوجوانوں کی صحتوں کو درست کرنے کی انتہائی کوشش کی جانی چاہیئے.یہ نہ ہو کہ جوانی آنے سے پہلے ہی اُن پر بڑھاپے کا زمانہ آجائے.بڑھاپے کے زمانہ میں بھی وہ نوجوانوں والی صحت رکھتے ہوں.صحت کی درستی کے لئے عام ورزشوں کے علاوہ ایسے کام تجویز کئے جائیں جو محنت کشی کے ہوں.جن سے ان کی ورزش ہو اور اُن کے جسم میں طاقت پیدا ہو.مثلا تا ئیکل چلانا اور اس کی مرمت وغیرہ کرنا.مور چلانا جاننا اور موٹر کی مرمت وغیرہ گھوڑے کی سواری وغیرہ وغیرہ.

Page 519

YA ۲۸ - خدام کو یہ ذہنیت اپنے اندر پیدا کرنی چاہیے کہ یہ مشینوں کا زمانہ ہے اور آجکل مشینوں میں اللہ تعالٰی نے بہت برکت دی ہے.پس انہیں مشینری کی طرف توجہ دینی چاہیئے.۲۹.اسی طرح خدام الاحمدیہ کو لوہارا.ترکھانا اور بھٹی وغیرہ کا کام کبھی بطور ایک شغل ( Holly) سیکھنا چاہئیے.۳۰ بچوں کو انجنئیر نگ کی طرف اہل کرنے والی کھیلیں کھلائی جائیں.مثلاً لوہے کے چھوٹے چھوٹے پرزوں سے چھوٹی چھوٹی مشینیں بنانا اور پل وغیرہ بنانا.عام ہدایات کوشش کرنی چاہئے کہ ہر کام کے نتائج کسی بھی صورت میں ہمارے سامنے آسکیں.اس کے لئے گی بیشتر ریکارڈ کا حفوظ رکھنا ضروری ہے جس سے یہ اندازہ ہو سکے کہ پچھلے سال سے اس سال نمازوں میں کتنے فی صدی ترقی ہوئی تلی میں کتنے فیصدی ترقی ہوئی.اخلا میں کتنے کی صدی ترقی ہوئی.کتنے تمام کھلے سال باہر کی اس سے سا نہ اجماع میں شمولیت کے لئے آئے اور کتنے اس سال آئے.۳۲ - قیادتوں میں بھی انیسا ریکارڈ رکھا جائے جس کی رپورٹ اجتماع کے موقعہ پر سنی جائے..تمام مجالس کا آپس میں مقابلہ کیا جائے کہ تبلیغی طورپر کونسی مجلس اول ہے تعلیم میں کونسی.وقار عمل میں کونسی وغیرہ وغیرہ جو مجالس رو بہ ترقی نہ ہوں اُن کی مرض کی تشخیص کر کے اُس کا کوئی علاج سوچا جائے.۳۴- حضور ایدہ اللہ تعالے آئندہ ایسے نتائج دیکھا کریں گے.۳۵ - بے کاروں کو کام پر لگانے کی کوشش کی جائے اور بہترین کام 2 ہے جو وقوف کے ماتحت ہو.وقفہ تجارت وقت ہی کی ایک قسم ہے جو ہمہ فرما دہمہ ثواب کا مصداق ہے.۲۶.اپنے ہاتھ سے کام کرنا ہمارا طرہ امتیاز ہونا چاہیئے نے مجلس کا شائع کردہ: مجلس خدام الاحمدیہ نے ۱۹۳۵ء سے لے کر منہ تک حسب ذیل دس سالہ لٹریچر سالہ ٹریچر شائع کیا ہے.تحریک تیام خدام الاحمدید - دستور اساسی و قواعد و ضوابط مشعل راد الام الاحمدیہ کے کے سات سالہ دور کا پرو گرام صفر ۱۳۰ تا ۱۳ ناشر نشرو اشاعت قادیان - پوسٹر رپورٹ فارم پر چہ جات اور سندات وغیرہ اس کے علاوہ تھیں.

Page 520

۴۸۰ له پورٹ ہائے خدام ا حمدیہ سال اول تا پنجم - ہدایات تعلیم - قوانین صحت - اخلاق احمد احمد - شمائل احمد - ہمار کالام محمد صدیق صاحب ثاقب زیدی) - ہمارا نظام.ہمارا کام - ذرائع اصلاح - دور شهروی د کلام محمدصدیق ماینی تاتب زیدی.قدام الاحمدیہ کے نئے سات سالہ دور کا پروگرام دنفر رسید نا المصلح الموعود فرموده ام راکتور اسلام یہ ہے ایک مختصر سا خاکہ مجلس خدام الاحمدیہ کی اُن دس سالہ سنہری خدمات کا جو احمد می نوجوانوں کی اس عالمی تنظیم نے تقسیم ہند سے قبل انجام دیں.اور جو آزادگی ملک کے بعد مجلس کی نشاۃ ثانیہ، تنظیم اور موجودہ عروج و ارتقاء کے منازل تک پہنچانے کا پیش خیمہ ثابت ہوئیں.قیام پاکستان کے بعد یہ مجلس کن مراحل میں سے گذری اور آج اسے دنیا کے موجودہ دینی اور اخلاقی نقشہ میں کتنی اہمیت دوسعت حاصل ہو چکی ہے ، اس کی تفصیات اور پاکستان کی تاریخ میں آرہی ہیں.ے یہ دونوں کتنا بچے جو حضرت مسیح موعود کی میر کے ایمان افروز حالت پشتمل تھے مشتبہ اطفال کی طروب مشائع کئے گئے.سے اس مرکز می لٹریچر کے علاوہ مجلس خدام الاحمدیہ لائل پور کے سیکرٹری ملک حسن محمد صاحب نے اسلام کی پیار می اور در یا تعلیم کے نام سے ایک دو در قد ریکیٹ بھی شائع کیا تھا.

Page 521

فصل دوم قادیان سے ہوتے کی نسبت اور اپریل ان کا واقعہ ہے کہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمد صاحبت ۹ہ ر تذکرہ " کا مطالعہ کرتے ہوئے اس نتیجہ پر پہنچے کہ جماعت احمدیہ کو ایک اہم خوا د کتابت کسمیات میانی چھوڑنا پڑے گا.اس انکشاف پر آپ نے سید اعتر قادیان خلیفہ اسیح الثانی نے کی خدمت میں مندرجہ ذیل خط لکھا :- سيدنا بسم الله الرحمن الرحیم السلام عليكم ورحمته الله وبركاته آج کل میں تذکرہ کا کسی قدر بغور مطالعہ کر رہا ہوں.مجھے بعض الہامات وغیرہ سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاید جماعت احمدیہ پر یہ وقت آنے والا ہے کہ اُسے عارضی طور پر مرکز سلسلہ سے نکلنا پڑے.اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ صورت حال غالباً گورنمنٹ کی طرف سے پیدا کی جائے گی.اگر میرا یہ خیال درست ہو تو اس وقت کے پیش نظر ہمیں کچھ تیاری کرنی چاہیے مثلاً مذہبی اور قومی یادگاروں اور شعائر اللہ کی حفاظت کا انتظام وغیرہ تاکہ اگر ایسا وقت مقدر ہے تو جماعت کے پیچھے ان کی حفاظت رہے.نشانات محفوظ رہیں.اسی طرح دوسری باتیں سوچ رکھنی چاہئیں.فقط والسلام (دستخط) خاکساز مرزا بشیر احمد ۲۶ اور ا خوا پر حضرت امیرالمومنین خلیفه ای الثانی نے اپنے قلم مبارک سے حسب ذیل نوٹ تحریر فرمایا.عزیزم مکرم السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ میں تو میں سال سے یہ بات کہہ رہا ہوں.حق یہ ہے کہ جماعت اب تک اپنی پوزیشن کو نہیں سمجھی.ابھی ایک ماہ ہوا میں اس سوال پر غور کر رہا تھا کہ مسجد اقصی وغیرہ کے لئے گہرے زمین دوز نشان لگائے جائیں جن سے دوبارہ مسجد تعمیر ہو سکے.اسی طرح چاروں کونوں پر دور دور مقامات پر ه بحواله الفضل" ۲۵ مئی ۱۹۴۷ و صفحه ۳ به

Page 522

۴۸۲ مستقل زمین دوز نشانات رکھے جائیں جن کا راز مختلف ممالک میں محفوظ کر دیا جائے تاکہ اگر ان مقامات پر شیمن حملہ کرے تو ان کو از سر کو اپنی اصل جگہ پر تعمیر کیا جاسکے.پاسپورٹوں کا سوال بھی اسی پر مبنی تھا (دستخط) مرزا محمود احمد (خلیفه امسیح) اس میں جو یہ فقرہ ہے کہ پاسپورٹوں کا سوال بھی اسی پر مبنی تھا.اس کا اشارہ اس طرف ہے کہ انہی پیشگوئیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے حکم دیا تھا کہ تمام خاندان کے اور سلسلہ کے بڑے بڑے کارکنوں کے غیر ممالک کے پاسپورٹ ہر وقت تیار رہنے چاہئیں تا کہ جب ہجرت کا وقت آئے پاسپورٹ بنوانے پر وقت نہ لگے.اسی طرح اسی وقت سے میں نے یہ حکم دیا ہوا تھا کہ ایک ایک سٹ سلسلہ کی کتب کا سات آٹھ مختلف ملکوں میں بھیجوا کر سلسلہ کا لٹریچر محفوظ کر لیا جائے.دستخط) مرزا محمود احمد (خلیفه (سی) ۲۲ مئی ۹۳ کا سفر سندھ حسب سابق اس سال بھی سیدنا حضرت خلیفہ مسیح الثانی نے سفر سندھ اختیار کیا حضور ۲۷ اپریل سنہ کو قادیان سے بذریعہ ٹرین اور صداقت احمدیت عجیب نشان روانہ ہوئے اور ایک ماہ کے بعد ٹیم کو بوقت + ۱۲ بجے شب واپس قادیان میں تشریف لائے.سفر سندھ سے واپس آتے ہوئے احمدیت کی صداقت کا ایک عجیب آسمانی نشان ظاہر ہوا.اور وہ یہ کہ تب حضور کی گاڑی کراچی میں) لودھراں کے اسٹیشن پر پہنچی تو دوسرے اسٹیشنوں کی طرح یہاں بھی حضور کی زیارت کے لئے بہت سے احمدی موجود تھے جو گاڑی کے پہنچنے پر مصافحہ کرنے لگے.اسی دوران گاڑی میں سوار ملتان کے ایک ہند و ر میں لالہ کلیان داس صاحب نے حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب سے (جو اس وقت حضرت امیرالمومنین کے کمپارٹمنٹ میں دریچہ کے قریب کھڑے تھے حضور سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی حضور کی اجازت پر یہ صاحب گاڑی کے اندر تشریف لائے اور گفتگو کرنے کی بجائے دیر تک خاموش رہے.ڈاکٹر صاحب کی نگاہ پڑی تو دیکھا کہ آنکھوں سے آنسو جاری ہیں.روتے روتے ان کی ہچکی بندھ گئی.کچھ دیر تک تو رقت کی یہ کیفیت طاری بحواله الفضل " ۲۵ مئی ۱۹۴۷ء صفحه ۳ کالم ۲۰ ہے له الفضل" ۲۹ اپریل ۹۳۶ه صفحه ۲ کالم ما به سے " الفضل" یکم جون حار صفحه ۲ کالم ما :

Page 523

۴۸۳ ی اگر آخر انہو نے تفصیل کے ساتھ اپنا ایک کشتی واقعہ بیان کیا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ میں چار سال ہوئے کربلا معلی نفت انتر کونہ کاظمین اور بغداد شریف وغیرہ زیارتوں پر گیا تھا.بغداد شریف میں حضرت سلمان فارسی کی درگاہ میں پہنا تو مجھے بہت شانتی نصیب ہوئی اور مہینے کھڑے ہوکر اور آنکھیں بندکر کے دعا کی تو مجھے حضرت سلمان فارسی کی زیارت نصیب ہوئی.اس کے بعد میں نے ایرانا بلوچستان اور ہندوستان کا چپہ چپہ دیکھا مگر مجھے اس میسی یا اس سے ملتی جلتی کوئی شکل نظر نہیں آئی مگر آج جو میں نحضور کو نا پورشن میں دیکھا تو مجھے حضرت سلمان فارسی کی زیارت کا واقعہ یاد آ گیا.حضور کی شکل بالکل ویسی ہے جیسی مجھے سلمان فارسی کے مزار کچھ نظر آئی تھی.اس بیان کے بعد لالہ کلیان داس صاحب نے اگلے سٹیشن پر حضور سے رخصت چاہی حضور نے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا مگر وہ ہاتھ کی بجائے پاؤں کی طرف مجھکے اور حضور کے منع کرتے کرتے پاؤں چوم لئے اور کہا کہ ہاتھ تو اوروں کے لئے ہے، میرے لئے تو پاؤں ہے اور یہ کہ کو گاڑی سے اُتر گئے ہے لالہ صاحب اس واقعہ کے قریباً ایک ماہ بعد ۲۷ جولائی تار کو قادیان بھی گئے اور حضر ڈاکٹر محشمت اللہ خالم صاحب کے ہاں قیام کیا اور حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی کی ملاقات سے بھی مشرف ہوئے.قادیان کی روحانی فضا نے اُن پر گہرا اثر ڈالا.چنانچہ انہوں نے خود تسلیم کیا کہ قادیان میں میں نے جو کچھ دیکھا اس کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ یہ ایک پاک بستی ہے.لوگ محبت کرنے والے اور تخلیق ہیں.بہر طرف نیکی کا ہی سیر چاہے " ہے سید نا حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی نے ارجون منہ کے خطبہ جمعہ نگمار سلسلہ کے فرائض میں رو میں علماء سلسلہ احمدیہ کو ان کے فرائض کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا :- ایک طرف یہ علماء کا فرض ہے کہ اسلام نے دنیوی معاملات کے متعلق جو وسطی تعظیم پیش کی ہوئی ہے اُسے جماعت کے دوستوں پر اچھی طرح واضح کریں.صرف وفات مسیح یا ختم نبوت یا صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مسائل پر تقریریں کر دیتا ان کے لئے کافی نہیں.بلکہ ان کا یہ بھی کام ہے کہ وہ اسلام کے تمدنی اور اقتصادی احکام کا مطالعہ کریں.ان پر غور کریں اور سیما محبت کے دوستوں تک انہیں پہنچائیں اور جماعت کا یہ کام ہے کہ وہ ان مسائل کو سمجھنے کی کوشش کرے مثلاً مجلس خدام الاحمدیہ کے جو ممبر "الفض" ، جولائی ۳ دو صفحه ۴ - ۰۵ سے " الفضل» ۳۰ جولائی ۹۳ یہ صفحہ ہے کالم مش لالہ صاحب نے اپنے سفر قادیان کے تاثرات و مشاہدات قلمبند کرکے قادیان بھیجوا دیئے تھے ہو " الفضل ۲۲ اگست ۳۶ او صفحه ۵ پر شائع شدہ ہیں ؟

Page 524

ہیں وہ اگر چاہیں تو اس سلسلہ میں بہت مفید کام کر سکتے ہیں.انہیں چاہئیے کہ وہ تحریک جدید کے مطالبا کو اور ان تمام مسائل کو جو ان مطالبات کی بنیاد ہیں اچھی طرح سمجھ لیں اور پھر انہیں لوگوں کے سامنے پیش کرنا شروع کر دیں.اسی طرح اسلام کے جو مسائل تفقہ سے تعلق رکھتے ہیں، ان کا مطالعہ کریں اور انہیں پھیلائیں.خالی یہ مسائل نہیں کہ وضومیں اتنی بار ہا تھ دھونا چاہئیے یا اتنی بار کلی کرنی چاہیئے.بلکہ وہ مسائل جن کا تعلق تفقہ سے، ہے انہیں نکالیں اور لوگوں کے سامنے بیان کریں.اسی طرح اسلام کے جو اقتصادی احکام ہیں ان کا پہلے خود مطالعہ کریں.پھر یہ سوچیں کہ دیگر مذاہب کے احکام پر اسلام کے ان حکموں کو کیا کیا فضیلتیں حاصل ہیں.اور جب وہ اپنے معلومات کو مکمل کر لیں تو لوگوں کہ ان مسائل سے آگاہ کریں اور مختلف جگہوں میں لیکچر دے کر بہر احمدی کو اس سے واقف کریں اور اسے بتائیں کہ اسلام میں کیسی اعلیٰ تعلیم موجود ہے، اگر وہ اس رنگ میں جد وجہد کر کے تمام جماعت کو اسلامی مسائل سے آگاہ کر دیں تو یقیناً جماعت کا ایک کثیر حصہ ان پر عمل کرنے کے لئے تیار ہو جائے گا کیونکہ میرا تجربہ جماعت کے متعلق یہ ہے کہ اس میں ایمان کی روح کی کمی نہیں.بیس چیز کی کمی ہے وہ یہ ہے کہ چونکہ بہت سے لوگ عربی نہیں جانتے اور اسلامی تعلیم کا بیشتر حصہ عربی میں ہے اس لئے وہ اسلام کی تعلیم سے ناواقف رہتے ہیں.اگر انہیں معلوم ہو جائے کہ اسلام کی ان امور کے متعلق کیا تعلیم ہے تو میں یقین رکھتا ہوں کہ سو میں سے پچانوے نقصان اُٹھا کر بھی اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے کے لئے کھڑے ہو جائیں گے.کیونکہ ایمان اللہ تعالیٰ کے فضل سے موجود ہے جس چیز کی کمی ہے وہ علم ہے" سے اس سال کا ایک مشہور واقعہ یہ ہے کہ حضرت خلیفہ سی نشانی صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کا سفر مصر نے اور یوں ان کو اپنے ان جگر صاحبزادہ مرا ملاک امد ۲۹ جون لخت سائب کو عربی اور زرعی تعلیم میں ترقی کے لئے مصر روانہ فرمایا.صورت الفاظ میں اس اہم سفر کی غرض و غایت یہ تھی کہ "عربی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ چونکہ انگریزی تعلیم میں لگ گئے.اس لئے میں چاہتا ہوں کہ اب پھر عربی کا میلان تازہ ہو جائے میاں ناصر احمد بھی جو اپنی عربی کی تعلیم کے بعد انگریزی تعلیم کی تکمیل کے لئے انگلستان گئے تھے واپس آرہے ہیں اور وہ بھی عربی کے ساتھ دوبارہ ہنس پیدا کرنے کے لئے مصر میں ٹھینگے " الفضل ۷ ارجون ۹۳ ایر صفحه ۸-۱۹ الفضل " یکم جولائی ۹۳ صفحه ۲ کالم +

Page 525

۴۸۵ اور میاں مبارک احمد صاحب بھی وہاں جارہے ہیں.دونوں بھائی وہاں آپس میں بھی عربی میں بات چیت کریں گے وہاں کے علمی مذاق کے لوگوں سے بھی ملیں گے.لائیبریریوں کو دیکھنے کا موقعہ بھی ان کو ملے گا.اور اس طرح زبانِ عربی کے ساتھ مس اور ذوق پھر تازہ ہو جائے گا.اس کے علاوہ مصر میں کاٹن انڈسٹری کے ماہرین موجود ہیں اور وہاں کپاس خاص طور پر کاشت کی جاتی ہے.میں چاہتا ہوں کہ یہ اس کا بھی مطالعہ کریں" سے حضرت امیر المومنین خلیفتہ اسیح الثانی نے صاحبزادہ صاحب کو اپنے قم مبارک حضر امیر المومنین کی تریں نصائح سے جو زریں نصائح لکھ کر دیں وہ آب زر سے لکھے جانے کے لائق میں حضور نے تحریر فرمایا کہ عزیزم مبارک احمد سلمک اللہ تعالے السلام عليكم ورحمة الله وبركاته اللہ تعالے خیریت سے لے جائے اور خیریت سے لانے اور اپنی رضامندی کی راہ پر چلنے کی توفیق دے.تمہارا سفر تو عربی اور زراعت کی تعلیم اور ترقی کے لئے ہے لیکن چھوٹے سفر میں اس بڑے سفر کو نہیں بھولنا چاہیے جو مہر انسان کو درپیش ہے.جو نیل جرنیلوں کے املیہ مدبروں کے ، بادشاہ بادشاہوں کے حالات پڑھتے رہتے ہیں تاکہ اپنے پیش روؤں کے حالات سے فائدہ اُٹھا ئیں.اگر تم لوگ اہلبیت نبوتی کے حالات کا مطالعہ رکھو تو بہت سی ٹھوکروں سے محفوظ ہو جاؤ.انسان کا بدلہ اس کی قربانیوں کے مطابق ہوتا ہے.رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں، یہ نہ ہو گا کہ لوگ تو قیامت کے دن اپنے عمل لے کر آئیں اور تم وہ غنیمت کا مال جو تم نے دنیا کا حاصل کیا ہے.اسے میرے صحابہ تم کو بھی اپنے اعمال ہی لا کر بندا کے سامنے پیش کرنے ہوں گے اہلبیت نبوی کو جو عزت آج حاصل ہے وہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی اولاد ہونے کے سبب سے نہیں بلکہ اپنی ذمداری کو سمجھ کر جو قربانیاں کی ہیں ، ان کی وجہ سے ہے.تم اب بالغ جوان مرد ہو.میرا یہ کہنا کہ نماز میں باقاعدگی چاہیئے ایک فضول سی بات ہو گی جو خدا تعالے کی نہیں مانتا وہ بندہ کی کب سُنتا ہے.پس اگر تم میں پہلے سے باقاعدگی ہے تو میری نصیحت صرف ایک زائد ثواب کا رنگ رکھے گی اور اگر نہیں تو وہ ایک صدا بصحرا ہے.مگر پھر بھی میں کہنے سے نہیں رک سکتا.که نماند دین کا ستون ہے جو ایک وقت بھی نماز کو قضا کرتا ہے دین کو کھو دیتا ہے.اور نماز پڑھنے کے نه "افضل" کار جولائی ۱۹۳۸ صفحه ۴ * +

Page 526

۴۸۶ یہ معنے ہیں کہ باجماعت ادا کی جائے.اچھی طرح وضو کر کے ادا کی جائے، ٹھہر کر سوچ کے اور معنوں پر غور کرتے ہوئے ادا کی جائے.اور اس طرح ادا کی جائے کہ توجہ کلی طور پر نماز میں ہو اور یوں معلوم ہو کہ بندہ بندا کو دیکھ رہا ہے یا کم سے کم یہ کہ خدا سے دیکھ رہا ہے.جہاں دو مسلمان بھی ہوں اُن کا فرض ہے کہ یا جماعت نمازہ ادا کریں بلکہ جمعہ بھی ادا کریں.اور نماز سے قبل اور بعد ذکر کرنا نماز کا حصہ ہے.جو اس کا تارک ہو وہ نمازہ کو اچھی طرح پکڑ نہیں سکتا اور اس کا دل نمازہ میں نہیں لگ سکتا.رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نمازوںکے بعد سنتیں ہنستین دفعہ سُبحان اللہ اور احمد للہ پڑھا احمدللہ جائے اور پوتین دفعہ اللہ اکبر.یہ شو دفعہ ہوا.اگرتم کو بعض دفعہ اپنے بڑے نماز کے بعد اٹھ کر جاتے نظر آئیں تو اس کے یہ معنی نہیں بلکہ وہ ضرورتاً اُٹھتے ہیں اور ذکر دل میں کرتے جاتے ہیں الاماشاء اللہ تعجب غیر ضروری نماز نہیں.نہایت ضروری نمانہ ہے.جب میری صحت اچھی تھی اور میں عمر کے تم اب ہو اس سے کئی سال پہلے سے خدا تعالیٰ کے فضل سے گھنٹوں تہجد ادا کرنا تھا.تین تین چار چار گھنٹہ تک اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی اس سنت کو اکثر مد نظر رکھتا تھا کہ آپ کے پاؤں کھڑے کھڑے شوج جاتے تھے.رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو مسجد میں نماز کا انتظار کرتا اور ذکر الہی میں وقت گزارتا ہے وہ ایسا ہے جیسے جہاد کی تیاری کرنے والا.اللہ تعالے کسی کا رشتہ دار نہیں.وہ لَیلِدْ وَلَمْ يُولَدُ ہے.اس کا تعلق ہر ایک سے اُس احساس کے مطابق ہوتا ہے جو اس کے بندے کو اس کے متعلق ہو جو اس سے سچی محبت رکھتا ہے وہ اُس کے لئے اپنے نشانات دکھاتا ہے اور اپنی قدرت ظاہر کرتا ہے.دنیا کا کوئی قلعہ کوئی فوج انسان کو ایسا محفوظ نہیں کر سکتا جس قدر کہ اللہ تعالے کی حفاظت اور اس کی امداد کوئی سامان ہر وقت میسر نہیں آسکتا لیکن اللہ تعالے کی حفاظت ہر وقت میسر آتی ہے.پس اسی کی جستجو انسان کو ہوئی بہانے جسے وہ بل گئی اُسے سب کچھ مل گیا.جسے وہ نہ ملی اُسے کچھ بھی نہ ملا.زیادہ گفتگو دل پر زنگ لگا دیتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مجلس میں بیٹھتے ستر دفعہ استغفار پڑھتے.اسی وجہ سے کہ مجلس میں لغو باتیں بھی ہو جاتی ہیں اور یہ آپ کا فعل امت کی ہدایت کے لئے تھا نہ کہ اپنی ضرورت کے لئے.جب آپ اس قدر احتیاط اس مجلس کے متعلق کرتے

Page 527

NAL تھے جو اکثر ذکر الہی پرمشتمل ہوتی تھی تو اس مجلس کا کیا حال ہو گا جس میں اکثر فضول باتیں ہوتی ہوں.بید امور عادت سے تعلق رکھتے ہیں.میں دیکھتا ہوں ہمارے بچے جب بیٹھتے ہیں لغو اور فضول باتیں کرتے ہیں.ہم لوگ اکثر سلسلہ کے مسائل پر گفتگو کیا کرتے تھے اس وجہ سے بغیر پڑھے ہمیں سب کچھ آتا تھا.انسان کی مجلس ایسی ہونی چاہیے کہ اس میں شامل ہونے والا جب وہاں سے اُٹھے تو اس کا علم پہلے سے زیادہ ہو نہ یہ کہ جو علم وہ لے کر آیا ہو اُ سے بھی کھو کر چلا جائے.م حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی یا اسلام کی تبلیغ کرتا دوسروں کا ہی کام نہیں ہمارا بھی کام ہے اور دوسروں سے بڑھ کر کام ہے.پس سفر میں حضر میں تبلیغ سے غافل نہ ہوں.رسول کریم فداه جسمی و روحی فرماتے ہیں.تیرے ذریعہ سے ایک آدمی کو ہدایت کا ملنا اس سے بڑھ کر ہے کہ ایک وادی کے برابر تجھ کو مال مل جائے.بنیادی نیکیوں میں سے سچائی ہے جس کو سچ بل گیا اُسے سب کچھ مل گیا.جیسے سچ نہ ملا اس کے ہاتھوں سے سب نیکیاں کھوئی بھاتی ہیں.انسان کی عزت اس کے واقفوں میں اس کے سچے کی عادت کے برابر ہوتی ہے.ورنہ جو لوگ سامنے تعریف کرتے ہیں پس پشت گالیاں دیتے ہیں اور جس وقت وہ بات کر رہا ہوتا ہے لوگوں کے منہ اس کی تصدیق کرتے ہیں لیکن دل تکذیب کر رہے ہوتے ہیں.اور اس سے زیادہ برا حال کیسی ہوگا کہ اس کا دشمن تو اُس کی بات کو رد کرتا ہی ہے مگر اس کا دوست بھی اس کی بات ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتا.اس سے زیادہ قابل رحم حالت کس کی ہوگی.اس کے بر خان نیچے آدمی کا یہ حال ہوتا ہے کہ اس کے دوست اس کی بات مانتے ہیں اور اس کے دشمن خواہ منہ سے کذیب کریں لیکن اُن کے دل تصدیق کر رہے ہوتے ہیں.انسانی شرافت کا معیار اس کے استغناء کا معیار ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لا تمدن عينيكَ إِلى مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِنْهُمْ کبھی دوسرے کی دولت پر نگہ نہ رکھے اور کبھی کسی کا حسد نہ کرے.جو ایک دفعہ اپنے درجہ سے اُوپر نگہ اُٹھاتا ہے اس کا قدم کہیں نہیں ٹکتا.اگلے جہانتا میں تو اُسے جہتم ملے گی ہی وہ اس جہان میں بھی جہنم میں رہتا ہے.یعنی حسد کی آگ میں جلتا ہے یا سوال کی غلاظت میں لوٹتا ہے.کیسا ذلیل وجود ہے وہ کہ اکیلا ہوتا ہے تو حسد اس کے دل کو جلاتا ہے اور لوگوں میں جاتا ہے تو سوال اس کا منہ کالا کرتا ہے.انسان اپنے نچلوں کو دیکھے کہ وہ کس طرح

Page 528

YAN اس سے تھوڑا رکھ کر قناعت سے گزارہ کر رہے ہیں اور اس پر شکر کرے تو خدا تعالیٰ نے اُسے دیا ہے اور اس کی خواہش نہ کرے جو اُسے نہیں ملا.اس کے شکر کرنے سے اس کا مال ضائع تو نہیں ہوتا.ہاں اُسے دل کا سکون اور اطمینان حاصل ہوتا ہے.اور طمع کرنے سے دوسرے کا مال اُسے نہیں مل جاتا صرف اس کا دل جلتا اور عذاب پاتا ہے جس طرح بچہ بڑوں کی طرح چلے تو گرتا اور زخمی ہوتا ہے اسی طرح جو شخص اپنے سے زیادہ سامان رکھنے والوں کی نقل کرتا اور گرتا اور زخمی ہوتا ہے اور چندوں کی جھوٹے دوستوں کی واہ واہ کے بعد ساری عمر کی طاقت اس کے حصہ میں آتی ہے.اور انسان کو ہمیشہ اپنے ذرائع سے کم خرچ کرنے کی عادت ڈالنی چاہیئے کیونکہ اس کے ذمہ دوسرے بنی نوع انسان کی ہمدردی اور امداد بھی ہے.ان کا حصہ خرچ کرنے کا اسے کوئی اختیار نہیں اور پھر کون کہہ سکتا ہے کہ کل کو اس کا حال کیا ہوگا ؟ اور جفا کشی اور محنت ایسے جو ہر ہیں کہ اُن کے بغیر انسان کی اندرونی خوبیاں ظاہر نہیں ہوتیں.1 جو شخص اس دنیا میں آئے اور اپنا خزانہ مدفون کا مدفون چھوڑ کر چلا جائے اس سے زیادہ بد قسمت کون ہو گا ؟ - شخص جو باہر جاتا ہے اس کے ملک اور اس کے مذہب کی عزت اس کے پاس امانت ہوتی ہے.اگر وہ اچھی طرح معاملہ نہ کرے تو اس کی عزت نہیں بلکہ اس کے ملک اور مذہب کی عزت پر جاد ہوتی ہے.لوگ اُسے بھول جاتے ہیں لیکن عرصہ دراز تک وہ یہ کہتے رہتے ہیں کہ ہم نے ہندوستانی دیکھے ہوئے ہیں.وہ ایسے خراب ہوتے ہیں ہم نے احمدی دیکھے ہوئے ہیں وہ ایسے خراب ہوتے ہیں.مسافر کو جھگڑے سے بہت بچنا چاہیئے.اس سے زیادہ حماقت کیا ہوگی کہ دوسرا شخص تو جھگڑا کر کے اپنے گھر چلا جاتا ہے اور یہ ہوٹلوں میں جھگڑے کے تصفیہ کا انتظار کرتا ہے.مسافر تو اگر جنتیا تب بھی ہارا.اور اگر ہارا تب بھی ہا ہا.جا.غیر ملکوں کے احمدی ہزاروں بار دل میں خواہش کرتے ہیں کہ کاش ہمیں بھی قادیان جانے کی توفیق ملے کہ وہاں کے بزرگوں کے تقویٰ اور اچھے نمونہ سے فائدہ اُٹھائیں اور خصوصاً اہلبیت کے ساتھ ان کی بہت سی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں.وہ اپنے گھروں کو ایمان کے حصول کے لئے چھوڑنا چاہتے ہیں اور ہمارے پاس آنا چاہتے ہیں سخت ظلم ہوگا اگر ہم ان کے پاس جا کر اُن کے ایمانوں کو ضائع کریں.i

Page 529

اور ان کی امیدوں کو سراب ثابت کریں.ہمارا عمل ایسا ہونا چاہئیے کہ وہ سمجھیں کہ ہماری امید سے بڑھ کر ہمیں ملا نہ یہ کہ ہماری امید ضائع ہو گئی.بر جماعت میں کچھ نگر در لوگ ہوتے ہیں.وہ ایک دوسرے کی چغلیاں کرتے ہیں.مومن کو چغلی سننے سے پر تیز چاہیے اورسن کر یقین کرنے سے تو نکلی اجتناب واجب ہے جو دوسرے کی نسبت عیب بغیر ثبوت کے تسلیم کر لیتا ہے ، خدا تعالئے اس پہ ایسے لوگ مسلط کرتا ہے جو اس کی خوبیوں کو بھی عیب بتاتے ہیں، مگر چاہیئے کہ چینی کرنے والے کو بھی ڈانٹے نہیں بلکہ محبت سے نصیحت کرے کہ اگر آپ کا خیال غلط ہے تو باطنی کے گناہ سے آپ کو بچنا چاہیے.اور اگر درست ہے تو اپنے دوست کے لئے دعا کریں تا اُسے بھی فائدہ ہو اور آپ کو بھی.اور عفو سے کام لو کہ خدا تمہارے گناہ بھی معاف کرے.تم کو مصر فلسطین اور شام کے احمدیوں سے ملنا ہو گا.ان علاقوں میں احمدیت ابھی کمزور ہے.کوشش کرو کہ جب تم لوگ ان ممالک کو چھوڑو تو احمدی بلحاظ تعداد کے زیادہ اور بلحاظ نظام کے پہلے سے بہتر ہوں اور تم لوگوں کا نام ہمیشہ دھار کے ساتھ لیں اور کہیں کہ ہم کمزور تھے اور کم تھے.فلاں لوگ آئے اور ہم طاقتور بھی ہو گئے اور زیادہ بھی ہو گئے اور ان پر رحم کرے اور انہیں جزائے خیر دے مومن کی مخلصاً دعا ہزاروں خزانوں سے قیمتی ہوتی ہے.۱۳- جمعہ کی پابندی جماعت کے ساتھ خواہ کس قدرہتی تکلیف کیوں نہ ہو ادا کرنے کی اور دن میں کم سے کم ایک نماز اجتماعی جگہ پر پڑھنے کی اگر وہ دور ہو ورنہ جس قدر زیادہ توفیق مل سکے گوشش کرنی چاہئیے اور جماعتوں میں جمعہ کی اور ہفتہ واری اجلاسوں اور نماز با جماعت کی خاص تلقین کرنی چاہیئے.۱۴.رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم پر اجتماع کے موقعہ پر دعا فرماتے تھے اللهُم رَبَّ السَّمَواتِ السبْعِ وَمَا أَظْلَلْنَ وَرَبَّ الأَرْضِينَ السَّيْمِ وَمَا اقْلَلْنَ وَرَبَّ الشَّيَاطِينِ وَمَا امللن وربَّ الرِّيَامِ وَمَا ذَرَيْنَ فَإِنَّا نَسْتَلكَ خَيْرَ هَذِهِ الْقَرْيَةِ وَخَيْرَ أهْلِهَا وَخَيْرَ مَا فِيْهَا وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ هَذِهِ الْقَرْيَةِ وَشَرِّ اهْلَهَا وَ شَرِّ مَا فِيهَا اللهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِيهَا وَارْزُقْنَا جَنَاهَا وَحَتِبْنَا إِلَى أَهْلِهَا وَ حيب صالحی اَهْلِهَا الينا، یعنی اے ساتوں آسمانوں کے رب اور جن چیزوں پر آسمانوں نے سایہ کیا ہوا ہے اور اے ، توں زمینوں کے رب اور جن کو انہوں نے اٹھایا ہوا ہے اور اے

Page 530

شیطانوں کے رب اور جن کو وہ گمراہ کرتے ہیں اور ہواؤں کے رب اور جن چیزوں کو وہ کہیں سے کہیں اُڑا کر لے جاتی ہیں.ہم تجھ سے اس بستی کی اچھی چیزوں اور اس کے بسنے والوں کے حسن سلوک اور و چیز بھی اس میں ہے اُس کے فوائد طلب کرتے ہیں اور اس بستی کی بدیوں اور اس کے رہنے والوں کی بدسلوکیوں اور اس میں جو کچھ بھی ہے اس کے نقصانات سے پناہ طلب کرتے ہیں.اے اللہ ہمارے لئے اس لیستی کی رہائیش کو با برکت کردے اور اس کی خوشحالی سے ہمیں حصہ دے اور اس کے باشندوں کے دل میں ہماری محبت پیدا کہ اور ہمارے دل میں اس کے نیک بندوں کی محبت پیدا کی.آمین یہ دُعا نہایت جامع اور ضروری ہے.ریل میں داخل ہوتے وقت کسی شہر میں داخل ہوتے وقت، جہاز میں بیٹھتے اور اس سے اتر تے وقت خلوص دل سے یہ دعا کرلینی چاہیے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر شرارت سے حفاظت کا موجب ہوتی ہے.۱۵- مصرمیں انگریزی اور فرانسیسی کا عام رواج ہے.مگر تم عربی سیکھنے جارہے ہوں، پورا عہد کرو کہ عرب سے سوائے عربی کے اور کچھ نہیں بولنا خواہ کچھ ہی تکلیف کیوں نہ ہو.ورنہ سفر بہ کار جائیگا.ہاں وہاں کی خواب عربی سیکھنے کی ضرورت نہیں.اگر غیر تعلیمیافتہ طبقہ سے زراعت کی اغراض یا اور کسی غرض سے گفتگو کی ضرورت ہو تو خود بولنے کی ضرورت نہیں.ساتھ ترجمان رکھ لیا.عربی پڑھ تو پکے ہی ہو.تھوڑی سی محنت سے زبان تازہ ہو جائے گی.۱.اپنے ساتھ قرآن کریم ، اس کے نوٹ ہو درس تم نے لکھے ہیں اور میری شائع شدہ تفسیر رکھ نو کام آئے گی.یہ علوم دنیا میں اور کہیں نہیں ملتے.بڑے سے بڑا اہم ان کی برتری کو تسلیم کرے گا اور انشاء اللہ احمدیت کے علوم کا مصدق ہو گا.-14 ایک منجد ، کتاب الصرف اور کتاب النحو ساتھ رکھو اور جہاز میں مطالعہ کرتے جاؤ کیونکہ لمبے عرصہ تک مطالعہ نہ رکھنے کی وجہ سے زبان میں بہت نقص آجاتا ہے.هرا شریعیت کا حکم ہے جہاں بھی ایک سے زیادہ آدمی رہیں اپنے میں سے ایک کو امیر مقرر کریں تافتنہ کا سدباب ہو.استودعك اللهَ وَكَانَ اللَّهُ مَعَكَ أَيْنَمَا كُنتَ.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد

Page 531

۴۹۱ فصل بوم صاحبها حافظ مرزا نام احمدرضا حضرت علیہ ربیع الثانی نے یورپ کے حالات اور ماترین یورپ کے انکار کی نانگلستان سے روانگی خیالات کا قریبی مطالعہ کرنے کے لئے اپنے فرزند اکبر حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب کو انگلستان بھجوایا تھا جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا اور بلاد میں قیام ہے آپ پہلی بار استمبر ۱۹۳۷ء کو لنڈن تشریف لے گئے اور ہم جولائی شید کومومی منتوں پر قادیان آئے اور دوبارہ ستمبر کو عازم ولایت ہوئے اور اپنے دینی مقاصد میں ہر طرح کا امین کامران ہونے کے علاوہ آکسفورڈ یونیورسٹی سے بی اے آنرز کا امتحان پاس کرنے کے بعد ۲۱ جولائی منہ کو لنڈن سے روانہ ہوئے.جماعت احمدیہ انگلستان نے آپ کی روانگی سے دو روز قبل آپ کے اعزاز میں الوداعی ڈنر پارٹی دی جس میں مسٹر محمد بھارت نے حسب ذیل ایڈریس پڑھا :- فزار مخلصانہ ایڈریس حضرت مرزا ناصر احمد صاحب السلام عليكم و رحمة الله و بر کانت رنج واندوہ اور مسرت و انبساط کے مشترکہ جذبات کے ساتھ ہم ممبران جماعت احمدیہ برطانیہ آپ کی ہندوستان کو روانگی کے موقعہ پر آپ کی خدمت میں الوداعی ایڈریس پیش کرتے ہیں یہ موقعہ ہمارے لئے اس دو تہ سے موجب خوشی ہے کہ آپ جس مقصد کے حصول کے لئے یہاں آئے تھے اُسے حاصل کرنے کے بعد کامیاب و کامران اپنے وطن جا رہے ہیں.آپ یہاں اس لئے آئے تھے کہ مغرب کے بہترین دماغوں کے خیالات و افکار کا براہ راست علم حاصل کریں اور برطانیہ کی اول درجہ کی یونیورسٹیوں میں سے ایک میں چار سال تک مطالعہ کر کے اس مقصد کے حصول کے لئے آپ نے اس موقعہ سے پورا پورا فائدہ اُٹھایا ہے جہاں آپ کو مغرب کے فضلاء کے ساتھ براہ راست میل جول کے مواقع اکثر ملتے رہے ہیں.الفضل عمر اگست ماہ صفحہ ۳ کالم علامہ قیام انگلستان کے دوران آپ جرمنی اور ناروے بھی تشریف لے گئے.

Page 532

۴۹۲ تعلیمی ترقی لیکن ہم جانتے ہیں کہ آپ نے اپنے مطالعہ کو یونیورسٹی تک ہی محدود نہیں رکھابلکہ دوست ممالک اور مغرب کے دوسرے تعلیمی مراکز کی سیاحت کا جو بھی آپ کو موقعہ ملا اس سے پورا پورا فائدہ اُٹھا کر اپنے دامن علم کو ملا مال کرنے کی کوشش کی ہے اور اس طرح آپ نے مغرب کے سوشل ، پولیٹیکل ، اقتصادی اور مذہبی سوالات کا گہرا مطالعہ کیا ہے.مغربی زندگی کے مختلف پہلوؤں کے متعلق آپ نے جو وسیع معلومات حاصل کی ہیں اور مغربی اقوام کے مخصوص کر کیٹر کے متعلق جو وسعت نظر آپ نے پیدا کی ہے اور ان کی مجاریس وغیرہ کے متعلق جو واقعیت بہم پہنچائی ہے وہ ہمیں یقین ہے کہ ان عظیم الشان فرائض کی بجا آوری میں آپ کے لئے بہت ممد و معاون ہوگی جو مستقبل قریب میں آپ کے سپرد ہونے والے ہیں.جرمن زبان کا مطالعہ علاوہ ازیں اس موقعہ سے آپ نے ایک اور فائدہ بھی اٹھایا ہے یعنی انگریزی میں پرافیشنسی حاصل کرنے کے علاوہ آپ نے یورپ میں ایک اور اہم زبان یعنی جرمن کا بھی خاص طور پر مطالعہ کیا ہے جو نہ صرف یہ کہ آپ کے معلومات میں مغرب کے بڑے بڑے لیڈروں کے آراء و افکار کے اضافہ کا موجب ہوگی بلکہ آپ کو ان لوگوں سے ان کی اپنی زبان میں اپیل کرنے کے قابل بنا دیگی.وقت کا صحیح استعمال ہمیں یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ہے کہ آپ نے یہاں پر قیام کے دوران میں اپنے وقت کا صحیح استعمال کیا ہے اور دور حاضرہ کی تمام دنیا کے رہنما حضرت احمد سلیہ الصلوۃ والسلام کے ایک قابل قدر فرزند کی حیثیت سے آپ کے سامنے بنو عظیم الشان کام ہے اس کے لئے بخوبی تیار ہو کر واپس جارہے ہیں.ہمیں علم ہے کہ آپ یہاں کسی نئی صداقت کی تلاش میں نہیں آئے تھے بلکہ اس غرض سے مغرب کا مطالعہ کرنے آئے تھے تاکہ ان لوگوں کو صداقت کے سرچشمہ کی طرفف لانے کے طریق اور ذرائع معلوم کر سکیں.ہم یورپ میں آپ کی آمد کو یہاں کے لوگوں کے لئے ایک نیک خال سمجھتے ہیں.ان ممالک میں آپ کی آمد بناتی ہے کہ مغربی اقوام کے لئے اللہ تعالے کی طرف سے خیر مقدر ہے.اللہ تعالے ان لوگوں کی بھلائی چاہتا ہے.اور اس لئے اس نے اپنے مقدس پیغمبر کے موجود فرزندوں میں سے ایک کو ان لوگوں کی برائیوں اور ان کے عوارض کے مطالعہ کے لئے بھیجا تا جب موقعہ آئے تو وہ اُن کے لئے صحیح علاج تجویز کر سکے.سچے احمدی کا نمونہ آپ کی یہاں آمد سے ایک اور بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ آپ نے ہمارے سامنے ایک پتے احمدی کا نمونہ پیش کیا ہے.ہم میں سے جن کو حضرت احمد علیہ الصلوۃ والسلام با حضور کے بلند تربیت

Page 533

۴۹۳ پینے یعنی جماعت کے موجودہ امام کو دیکھنے کی سعادت حاصل نہیں ہوئی.آپ نے ان کے سامنے ایک ایسا نمونہ رکھ دیا ہے کہ جس سے وہ اصل کا صحیح تصور کر سکتے ہیں.بجدائی کا صدمہ اب کہ آپ ہم سے رخصت ہو رہے ہیں ہمیں آپ کی بھلائی کا سخت صدمہ ہوگا کیا کہ اب ہم اس وجود کو جو ہمارے لئے اللہ تعالے کی ایک رحمت تھی اپنے درمیان نہ پائیں گے.آپ کی محبت آمیز یاد ہمارے دلوں میں تازہ رہے گی.اور اگر ہم آپ کے کیریکٹر کے نہایت نمایاں خوبصورت خذ و شمال کی نقل کرنے میں کامیاب ہو سکیں تو اُسے اپنی خوش بختی سمجھیں گے.ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ آپ کچھ عرصہ ہم میں رہے اور یقین رکھتے ہیں کہ اس سے آپ کو جماعت احمدیہ کے برطانوی حلقہ کے ساتھ خاص دلچسپی پیدا ہوگئی ہوگی اور اس وجہ سے ہمیشہ اس کی خیر خواہی کا آپ کو خیال رہے گا اور اس کی روحانی ترقی کے لئے آپ ہمیشہ دعا فرماتے رہیں گے.اگر مغرب اس وجہ سے خوش قسمت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پوتا ایک لمبے عرصے تک وہاں رہا تو گریٹ بریٹن کو اس سے تین خصوصیت حاصل ہے.دعا اب جبکہ آپ ہم سے رخصت ہو رہے ہیں ہم غمگین مگر پرخلوص قلوب کے ساتھ آپ کو الوداع کہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتے ہیں کہ آپ کو اسلام کی تاریخ میں زری اور نمایاں خدمات کی توفیق دے.ہم میں آپ کے مخلص ممبران جماعت احمدیہ گریٹ بریٹین 2" ایڈریس کے جواب میں حضرت صاحبزادہ صاحب نے موزون الفاظ میں شکریہ ادا کرتے ہوئے نہایت اختصار کے ساتھ اپنے جذبات و تاثرات کا اظہار فرمایا.آپ کے بعد چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب اور مولانا عبدالرحیم صا درد نے بھی مختصر تقریریں کیں بلے حضرت صاحبزادہ صاحب کو اور جولائی مسلہ کو گیارہ بجے وکٹوریہ ایشین دلندن پر اپنی دعاؤں سے الوداع کیا اور آپ ۲۸ جولائی مسلئہ کو قاہرہ تشریف لائے ہے جماعت احمدیہ مصر کی طرف سے آپ کا اور صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کا قاہرہ اسٹیشن پر شاندار استقبال کیا گیا.بلکہ السیداحمد علمی اور السید محی الدین المصنی اور بعض دوسرے مخلصین تو پورٹ سعید میں جہاز پر بھی تشریف "الفضل" اگست ۱۹۳۸ و صفه ۳-۴ < افضل" ، راگست ۱۹ صفحه ۳ بن "افضل" ۳ جولائی 9 صفحہ ) کالم 1 :

Page 534

بم و لے گئے.صاحبزادگان والانتبار نے اقامت مصر کے دوران جماعت احمدیہ کی تربیت اور زیر تبلیغ دوستوں تک پیغام حق پہنچانے کے علاوہ مشہور مصری زعماء سے بھی ملاقاتیں کیں.چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے شیخ الازهر مصطفے امراضی سے ملاقات کی اور ان کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کا ذکر کر کے ایمان لانے کی ترغیب دی اور حضور کے صدق پر قرآن مجید سے واضح دلائل و براہین دیئے لیکن افسوس شیخ صاحب نے بجائے علمی رنگ میں جواب دینے کے یہ کہ کر پیچھا چھڑایا کہ آپ مجھی ہیں اور ہم " صَوَاحِبُ لُغَةِ القُدان" ہیں.قرآن ہماری زبان میں اُترا ہے.اس لئے ہم اس کے معنے بہتر سمجھتے ہیں.حضرت صاحبزادہ صاحب نے اپنی ملاقات میں جماعت احمدیہ کی عالمگیر تبلیغی مساعی اور اُن کے شاندار نتائج پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ " آج اسلام اگر ترقی کر سکتا ہے تو اس کا ذریعہ صرف یہ ہے کہ دنیا کو اسلام کا پیغام پہنچایا جائے اور ہر مسلمان والہانہ طور پر سر غیر مسلم کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جھنڈے تلے لانے کی کوشش کرے، اس کے بعد اُن سے پوچھا کہ آپ نے غیر مسلموں میں تبلیغ کا کیا پروگرام بنایا ہے وہ جوابا کہنے لگے کہ سید جمال الدین افغانی مریم مصر کے ایک مشہور عالم) سے کسی نے سوال کیا کہ تم چین و جاپا کے لوگوں کو جن کی تعداد دنیا کے اکثر حصوں سے زیادہ ہے، کیوں جاکر تبلیغ نہیں کرتے اور کیوں انہیں مسلمان نہیں بنا لیتے تو سید جمال الدین صاحب نے جواب دیا کہ میں ان میں جا کر انہیں کیا کہوں کیس چیز کی طمع دلاؤں جو ان کے پاس نہیں ہے اور اسلام قبول کرنے سے انہیں کیا مل بھائے گا.اگر انہیں یہ کہوں کہ اسلام قبول کرو تم تعداد میں ترقی کرو گے ، مال میں ترقی کرو گے یا سیاست میں ترقی کرو گے یا تم ایک آزاد مستقل امت ہونے کا انعام پاؤ گے یا تمہارا علم زیادہ ہوگا اور عقل تیز ہوگی تو چونکہ یہ سب چیزیں اُن کو اب بھی حاصل ہیں.اس لئے وہ مجھے جواب دے سکتے ہیں کہ جن چیزوں کی خاطر تم ہمیں اسلام کی دعوت دیتے ہو وہ ہمارے پاس پہلے سے ہی موجود ہیں.ہمیں ان کی ضرورت نہیں.لہذا اگر میں بنا پان چین میں جا کر تبلیغ کروں تو کوئی نتیجہ نہیں کیا بلکہ وہ بالکس کہہ سکتے ہیں.اگر اسلام امتوں کو آزاد کراتا ہے اور ترقی و علم و برتری عطا کرتا ہے تو کیوں تم مسلمان اس طرح ذلیل حالت میں ہوتے.اس کے بعد کہنے لگے یہی جواب ہمارا آج ہے.اگر ہم یورپ میں جا کر تبلیغ کریں تو وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں سب کچھ عبد اللہ بغیر اسلام حاصل ہے ہمیں اسلام کی ضرورت نہیں ہے؟

Page 535

۴۹۵ سیدی حضرت صاحبزادہ صاحب نے جواباً فرمایا اسلام کا مقصد صرف یہ عارضی ترقی نہیں بلکہ اسلام تو ابدی زندگی پیش کرتا ہے.جو دنیا میں بھی ابدی ہے اور عالم ثانی میں بھی ابدی جن ترقیات روحانی کو اسلام پیش کرتا ہے.یہ دنیاوی معمولی ترقیات اُن کے عشر عشیر بھی نہیں ہیں.پھر نہایت واضح صورت میں اسلامی انعامات بیان کرنے کے بعد فرمایا.اگر آپ کا یہ نظری تسلیم بھی کرلیا جائے تو اسلامی تاریخ اس سے موافقت نہیں کرتی کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعت کے زمانے میں بھی مثلا روم اور عجم کی قومیں بہت ترقی یافتہ اور تقل آزاد حکومتیں تھیں پھراُن کو کیوں صحابہ کرام نے اسلام کا پیغام پہنچایا ؟ ے اس ملاقات کا ذکر مصر کے تقریباً تمام بڑے بڑے روزناموں نے کیا حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اور صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی آمد اور قاہرہ میں اقامت کے دوران مصری احمدیوں نے انتہائی اخلاص، محبت اور خوشی کا ایمان افروز مظاہرہ کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ المتطورة والسلام کے پوتوں سے فائدہ اُٹھانے کے لئے ہر مسکن جد و جہد کی.صاحبزادگان قریباً تین ماہ تک مصر میں قیام فرما رہے اور جماعت قاہرہ کو سیدنا حضرت مسیح موعود کی ذریت مقدسہ اور سید ناخلیفتہ اسیح الثانی کے جلیل القدر فرزند یکی باور است قری سے دیکھنے کی سعادت میسر آئی جس سے اُن کے اندر نہایت اعلیٰ تبدیلی پیدا ہوئی اور سلسلہ سے اخلاص و محبت میں اور بھی ترقی کر گئے.اگر چہ اہل فلسطین کی بھی دلی خواہش تھی کہ وہ ان بزرگ وجودوں کی زیارت کر سکیں مگر نا مساعد حالات کے باعث وہ محروم رہے بے ہندوستان کو روانگی کوردانگی مصر میں تین ماہ تک مقیم رہنے اور بلاد اسلامیہ کے حالات کا جائزہ لینے کے بعد حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب اور مرزا مبارک احمد صاحب پورٹ سعید سے بذریعہ بحری جہاز عازم بمبیٹی ہوئے.اسی جہاز میں حضرت مولوی شیر علی صاحب ، مولوی عبدالرحیم صاحب درد اور صاحبزادہ میرزا ه مظفر احمد صاحب بھی انگلستان سے واپس تشریف لا رہے تھے.پانچ بزرگوں پر مشتمل یہ مقدس قافلہ کے نومبر شد کو ساحل بیٹی پر وارد ہوا.اور بیٹی سے بذریعہ ریل و نومبر کو بٹالہ سٹیشن پر پہنچا جہاں اس کا شاندار استقبال کیا گیا.حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ نفس نفیس بذریعہ کار ساڑھے آٹھ بجے کے قریب ریلوے اسٹیشن بٹالہ پر ه الفضل" ، اکتوبر ۹۳۵ امیر صفحه ۵-۶ ۱۳۰ اپریل ۱۹۳۹ در صفحه ۷۶ : ٹو رپورٹ سالانہ مخرجات صدا امین احمدیہ یکم مئی را از نایت الفضل دور تولیت ۱۹۳۷ و صفحه ۲ ١٩٣١

Page 536

تشریف لے گئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اسے احضرت مولوی عبد المغنی خاں صاحب ناظر دعوة وتبلیغ اور بہت سے دیگر اصحاب قادیان سے پہنچ گئے تھے نیز بٹالہ اور اس کے قرب جوار کے دیہات سام پور، اٹھوال ، لودی جنگل دھر مکوٹ بگہ ، دنجوان ، پارووال، لنگروال، تیجہ کلاں کھوکھر، قادریان راجپوتاں ، دیال گڑھ.تنے غلام نبی ، مہیل چک فیض اللہ چک ، کچھچھ یالہ ، وڈالہ بانگر ، فال فتاح، شاہ پور کے احمدی احباب صبح ہی صبح اپنے معزز مہمانوں کے استقبال کے لئے آگئے تھے.ان میں سے بعض جماعتیں بارہ بارہ ، پودہ چودہ میل کے فاصلہ پر سے آئیں اور اس طرح ایک بہت بڑا اجتماع ہو گیا.گاڑی ٹھیک وقت پر پہنچی جس کے پہنچنے پر نفسہ ہائے تکبیر حضرت امیر المومنین، حضرت مولوی شیر علی صاحب ، مولانا در و صاحب اور صاحبزادگان زندہ باد کے نعرے بلند کئے گئے.گاڑی میں سے سب سے پہلے حضرت مولوی شیر علی صاحب اور آپ کے بعد بالترتیب حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب درد ، صاحبزادہ مرزا مظفراحمد ماء حضرت صاجزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اور صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب اتر سے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے سب کے ساتھ معانقہ فرمایا اور ہر ایک کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے.حضور کے بعد جناب مولوی عبد المغنی صاحب ناظر دعوۃ تبلیغ نے سب کے ساتھ معانقہ فرمایا.اور حضرت امیر المومنین مینی اللہ کی اور قافلہ کے جملہ ممبران کو ہار پہنائے.اس کے بعد اہل قافلہ نے تمام اصحاب کے ساتھ مصافحہ کیا اور پھر حضرت امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ ، حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور جناب ناظر صاحب دعوة و تبلیغ گاڑی میں سوار ہو گئے.گاڑی جب قادیان اسٹیشن پر پہنچی تو نعہ ہائے تکبیر بلند کئے گئے.حضرت امیر المومنین کے گاڑی سے اُترنے کے بعد ارکان قافلہ اسی ترتیب سے اُترے جس سے بٹالہ اسٹیشن پر اُترے تھے حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ناظر اعلیٰ حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ناظر امور عامہ اور حضرت نواب عبد اللہ خاں صاحب نے اُن کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے اور پلیٹ فارم پر موجود بہت سے اصحاب سے مصافحہ کرنے کے بعد باہر تشریف لائے جہاں سب اصحاب نے مصافحہ کیا تھا کے ختم ہونے تک حضرت امیر المومنین پلیٹ فارم پر یہی رونق افروز رہے.پھر حضور کے ہمراہ ارکان قافلہ قصبہ میں آگئے اور مسجد مبارک میں نفل ادا کرنے کے بعد بہشتی مقبرہ میں تشریف لے گئے جہاں حضر مسیح موعو علیہ السلام کے مزار مبارک پر دھیا کی بپھر اپنے گھروں کو تشریف لے گئے.سے سے "افضل" نومبر ۱۹۳۷ و صفرا کالم ۱ تا ۳ :

Page 537

896 ولایت آنے والے قافلہ کے اعزاز میں اور ارشاد کو جامه احمدیه مدارس اتحادیه او تعلیم الاسلام ہائی سکول کے اساتذہ اور طلبہ نے ولایت سے آنے والے دعوت اور حضرت امیر المومنین کا خطاب قافلہ کو چائے کی دعوت دی جس میں حضرت خلیفہ مسیح الثانی نے ایک مسود تقریر رمائی اور احباب جماعت کو میلفین سلسلہ سے متعلق فرائض کی طرف توجہ دلانے کے علاوہ اپنی پیاری اولاد کو نہایت قیمتی نصائح فرمائیں چنانچہ حضور نے فرمایا :- مولوی شیر علی صاحب دو اڑھائی سال کام کرنے کے بعد واپس آئے ہیں.مولوی صاحب ایسے کام کے لئے باہر بھیجے گئے تھے جو اس وقت جماعت کے لئے بہت ضروری ہے.اس کام کا مشکل حقہ یعنی ترجمہ کا کام پورا ہوچکا ہے.اب دوسرا کام نوٹوں کا ہے جو لکھے جارہے ہیں.گذشتہ دنوں یورپ میں جنگ کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا.اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ مولوی صاحب کو واپس بلا لیا بجائے تاکہ وہ یہاں آکر کام کریں.ایسا نہ ہو کہ سینگ کی صورت میں رستے بند ہو جائیں.پس دوستوں کی بہترین دعوت تو یہ ہے کہ مولوی صاحب جلد سے جلد اس کام کو ختم کریں تاکہ یہ ایک ہی اعتراض جو مخالفین کی طرف سے جماعت پر کیا جاتا ہے کہ اس جماعت نے ابھی تک ایک بھی قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ شائع نہیں کیا دُور ہو جائے اور ہماری انگریزی تفسیر شائع ہو جائے.درد صاحب ایک لمبے عرصہ کے بعد واپس آئے ہیں.۱۹۳۳ء کے شروع میں وہ گئے تھے اور اب شاہ کے آخر میں واپس آئے ہیں.ان دو نو سالوں کا درمیانی فاصلہ پونے چھ سال کا بنتا ہے اور پونے چھ سال کا عرصہ انسانی زندگی میں بہت بڑے تغیرات پیدا کر دیتا ہے.بعض دفعہ باپ کی عدم موجودگی میں اولاد کی تربیت میں نقص پیدا ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے اُن کے اخلاق پر بڑا اثر پڑ جاتا ہے.بعض دفعہ گھر سے ایسی تشویشناک خبریں موصول ہوتی ہیں جو انسان کے لئے ناقابل برداشت ہوتی ہیں.عام لوگ ان مشکلات کو نہیں سمجھتے ہو ایک مبلغ کو پیش آتی ہیں.بسا اوقات مبلغ کو ایسی قربانیاں کرنی پڑتی ہیں جو عام لوگ نہیں کر سکتے.بلکہ اکثر اوقات اُسے ایسی قربانیاں کرنی پڑتی ہیں تو دوسروں کے لئے ناممکن ہوتی ہیں.سماعت کے کئی آدمی ان قربانیوں کی حقیقت کو نہیں سمجھتے.اور وہ گھر میں بیٹھے بیٹھے اعتراض کر دیتے ہیں.اگر وہ ان قربانیوں کی حقیقت کا اندازہ لگائیں تو وہ مبلغوں کے ممنون ہوں ،

Page 538

۴۹۸ غرض ہمارے مبلغ جو خدمت دین کے لئے باہر جاتے ہیں ، اُن کا جماعت پر بہت بڑا حق ہے.نادان ہے جماعت کا وہ حصہ جو ان کے حقوق کو نہیں سمجھتا.یورپ کے لوگ ایسے لوگوں کو بیش بہا تنخواہیں دیتے اور اُن کیلئے ہر قسم کے آرام و آسائیش کے سامان مہیا کرتے ہیں.جب ان کے ڈپلومیٹ یعنی سیاسی حکام اپنے ملکوں میں واپس آتے ہیں تو ملک ان کی تعریفوں میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتا ہے.فرانس کے AMBASSADOR کی تنخواہ وزیر اعظم کی تنخواہ سے زیادہ ہوتی ہے.مگر جب وہ اپنے ملک میں آتا ہے تو اہل ملک اُس کی قربانیوں کی اس قدر تعریف کرتے ہیں اور اس کے اس قدر ممنون ہوتے ہیں کہ گویا وہ فاقے کرتا رہا ہے اور بڑی مشکلات برداشت کرنے کے بعد واپس آیا ہے.اور دور جانے کی کیا ضرورت ہے، ہندوستان کے وائسران کو دیکھو کہ اس کے کھانے اور آرام و آسائش کے اخراجات خود گورنمنٹ برداشت کرتی ہے اور میں ہزار اور روپیہ ماہوار جیب خرچ کے طور پر اُسے ملتے ہیں.وہ پانچ سال کا عرصہ ہندوستان میں گذارتا ہے.اس عرصہ میں بارہ لاکھ روپیہ لے کر چلا جاتا ہے.صرف لباس پر اس کو اپنا خرچ کرنا پڑتا ہے یا اگر کسی جگہ کوئی چندہ وغیرہ دیتا ہو تو دے دیتا ہے ورنہ باقی تمام اخراجات گورنمنٹ برداشت کرتی ہے لیکن با وجود اس کے جب وہ اپنے ملک کو واپس جاتا ہے تو اس کی قربانیوں کی تعریف میں ملک گونج اٹھتا ہے اور ہر دل جزیر تشکر ہنستان سے مصور ہوتا ہے.اور یہ جذبہ ان میں اس قدر زیادہ ہوتاہے کہ گویا ان کے جذبات کا پیالہ پل کا ک چھلکا.بھی رہے قومی ترقی کا جب کسی قوم میں کوئی فرد ایک عزیم لیکر کھڑا ہوتا ہے تواس کو یقین ہوتا ہے کہ میری قوم میری قدر کریگی.بیشک دینی خدمتگذاروں کو اس کی پروانہیں ہوتی لیکن اگر اس کی قوم اس کی قربانیوں کی پروانہیں کرتی تو یہ اس قوم کی غلطی ہے.بیشک ایک مومن کے دل میں یہ خیال پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہونا چاہیئے اور پھر ایک ایسی قوم کا نمائندہ جو اپنے آپ کو نیک کہتی ہے وہ تو ان خیالات سے بالکل الگ ہوتا ہے.اس کو صرف ہوتی ہی ذمہ داریوں کا احساس ہوتا ہے مگر اسلام نے جہاں فرد پر ذمہ واریاں رکھی ہیں، وہاں قوم پر بھی ذمہ واریاں رکھی ہیں جس طرح کسی فرد کا حق نہیں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کی پروا نہ کرے اسی طرح قوم کا بھی حق نہیں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کی پروا نہ کرے.قوم کے فرد کو یہ حق حاصل نہیں کہ اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ قوم نے میری قربانیوں کی پیدا نہیں کی.اور اگر وہ یہ خیال اپنے دل میں لایا ہے تو دوسرے الفاظ میں وہ یہ کہتا ہے کہ میں نے تمہارے لئے یہ کام کیا ہے خدا تعالیٰ کے لئے نہیں کیا.پس مرد کے i

Page 539

۴۹۹ دل کے کسی گوشے میں بھی یہ خیال نہیں ہونا چاہیئے اور نہ فیسکر کے کسی حصہ میں کہ قوم نے میری قربانیوں کی پروا نہیں کی یا جیسا کہ میری خدمت کرنے کا حق تھا وہ اس نے ادا نہیں کیا.ایسا آدمی اپنے کئے کرائے پر پانی پھیر دیتا ہے.مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرد پر ذمہ داریاں عائد کی ہیں اسی طرح قوم پر بھی ذمہ داریاں رکھی ہیں اور وہ یہ کہ قوم اس فرد کی خدمات اور قربانیوں کی قدر کرے کیونکہ قوم بھی ویسے ہی اللہ تعالیٰ کے حضور جوابدہ ہے جیسے فرد " له 是 جماعت کو اُن کے فرائض منصبی کی طرف توجہ دلانے کے بعد صاحبزادگان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :- ہماری سب عزتیں احمدی ہونے کی وجہ سے ہیں اور کوئی امتیاز ہم میں نہیں بعض کا موں کی مجبوریوں کے لحاظ سے ایک افسر بنا دیا جاتا ہے اور دوسرا ما تحت دور نہ حقیقی امتیاز ہم میں کوئی نہیں.حقیقی بڑائی خدمت کرنے سے حاصل ہوتی ہے..حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان میں سے ہونا یا میرا بیٹا ہوتا یہ تو مانگا ہوا چوغہ ہے.تمہارا فرض ہے کہ تم خود اپنے لئے لباس مہیا کرو.وہ لباس جیسے قرآن مجید نے پیش کیا ہے یعنی لباس التقوى ذلِكَ خَيْر تقویٰ کا لباس سب لباسوں سے بہتر ہے.اللہ تعالیٰ نے تمہارے گھر سے وہ آواز اُٹھائی جس کے سننے کے لئے تیرہ سو سال سے مسلمانوں کے کان ترس رہے تھے اور وہ فرشتے نازل ہوئے جن کے نزول کے لئے جیلانی استرالی، اور ابن العربی کے دل للچاتے رہے مگر اُن پر نازل نہ ہوئے.گو بیشک یہ بہت بڑی عزت ہے مگر اس کو اپنی طرف منسوب کرنا صرف ایک طفیلی چیز ہے.دنیا کے بادشاہوں کی اولاد اپنے باپ دادوں کی عریبکو کو اپنی عزت کہتے ہیں.حالانکہ در اصل وہ اُن کے لئے عزت نہیں ہوتی بلکہ لعنت ہوتی ہے.رسول کریم صلے تھے علیہ وسلم سے کسی نے پو چھا کہ کون لوگ زیادہ اشرف ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو تمہارے اندر اشرت ہیں بشرطیکہ ان میں تقوی ہو.رسول کریم صل اللہ علیہ وسلمنے بھی پہلی قسم کی عزت کوتسلیم فرمایا ہے مگر حقیقی عزت رہتی تسلیم فرمائی ہے جس میں ذاتی جوہر بھی مل جائے.پس تم اپنے اندر ذاتی جوہر سیدا کردو جماعت احمدیہ کے ہر فرد کا خیال رکھو.خاندان حضرت مسیح ویو عليه الصلوۃ والسّلام کا فرد ہونے کی وجہ سے تمہیں کوئی امتیاز نہیں.امتیاز خدمت کرنے میں ہے.حضرت سیح موعود علیہ الصلوۃ والسّلام نے خدمت کی.اللہ تعالیٰ نے آپ پر فضل نازل فرمایا تم بھی اگر الفضل را بیل و متحیر یم کالم ۱-۲-۳ :

Page 540

۵۰ خدمت کرو گے تواللہ تعالے تم پر بھی اپنا افضل نازل کرے گا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.منه از بهر ما گریسی که ماموریم مقدمت برا یعنی میرے لئے گرمی مت رکھو کہ میں دنیا میں خدمت کے لئے پیدا کیا گیا ہوں.اسی طرح تم بھی کرسیوں پر بیٹھنے کے متمنی نہ بنو بلکہ ہر سکین اور غریب سے ملو اور اگر تمہیں کسی غریب آدمی کے پاؤں سے زمین پر بیٹھ کر کانٹا بھی نکالنا پڑے تو تم اسے اپنے لئے فخر مجھو نبود تقویٰ حاصل کرو اور جماعت کے دوستوں سے مل کر ان کو فائدہ پہنچاؤ.اور جو علم تم نے سیکھا ہے وہ ان کو کبھی سکھاؤ.پس میں تم کو مل کر تربیت کرنے کے لئے کہتا ہوں.جماعت میں بعض کمزور دوست بھی ہوتے ہیں.اُن میں اسلام کی تحقیقی روح کا پیدا کرنا بہت ہی ضروری کام ہے.جماعت کو علوم دینیہ سے واقف کرنا ، عرفان الہی کی منازل سے آگاہ کرنا ، مندمت خلق، محبت الہی اور اسلام کی حکمتوں کا بیان کرنا بہت بڑا کام ہے.اسی طرح جماعت میں ایثار اور قربانی کی روح پیدا کرنا بھی ایک ضروری کام ہے.میر ایسے کام ہیں جن سے تم لوگوں کی نظروں میں معزز ہو جاؤ گے.جماعت میں کئی آدمی اخلاق کے لحاظ سے کمزور میں ان کو اخلاق کی درستی کی تعلیم دو.اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق ہو تحریک جماعت میں ہوتی ہے اس کو کامیاب بنانے کی کوشش کرے..اگر تم اللہ تعالیٰ کے سلسلہ کی خدمت کر گئے تو اللہ تعالے کی طرف سے تم دوہرے اجر کے مستحق ہو گے.قرآن مجیدمیں اللہ تعالیٰ نے یہود کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اگر تم اس دین کو قبول کر لو تو تم کو دوہرا اجر ملے گا اور اگر اعراض کرو گے تو پھر عذاب بھی دوہرا ہے.پس تمہارا تعلیم کے بعد واپس آنا تم پر بہت بڑی ذمہ داریاں عائد کرتا ہے.تم لوگوں کو احمدیت کی تعلیم سے روشناس کرانے کی کوشش کرو اور لوگوں کو سچائی کی تلقین کرو اور جماعت سے جہالت دور کرو اور اپنے فرائض کی طرف جلد سے جلد توجہ کرو.میں اللہ تعالیٰ کے حضور تمہارے کسی کام نہیں آسکتہ ار سرین خدا کا رحم ہی ہے جو میرے کام بھی آسکتا ہے اور تمہارے کام میسی آپ کرتا ہے " ماه حر صاحبزاده حافظ مرزا ناصر احمد صا حضرت خلیفہ ربیع الثانی نے حضرت صاحبزادہ حافظا ر ا نا مر حوارات کی انگلستان سے واپسی کے بعد ان کو جامعہ احمدیہ کے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کے اہم کام پر مقرب فرمایا اور آپ ۲۷ نومبر سر سے جامعہ احمدیہ کے سٹاف میں ه الفضل و الريال من الوصفة الامر عدة

Page 541

جامعہ احمدیہ کے سٹان میں شامل ہو گئے یہ و تقریباً پانچ ماہ بعد حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ کی ریٹائرمنٹ پر یکم مئی کو اس مرکزی درسگاہ کے پرنسپل مقرر کئے گئے جہاں آپ اپریل کہ ایک اس عہدہ پرف ٹور ہے.آپ کے زمانہ میں جامعہ احمدیہ نے ہر لحاظ سے نمایاں ترقی کی.آپ کے تربیت یافتہ بہت سے جامعی شاگرد اس وقت سلسلہ احمدیہ کی اہم خدمات دینیہ بجا لا رہے ہیں.احرار کے پاؤں تلے سے زمین ) جماعت احمدیہ کے خلان شانہ کی ازاری شورش اور اس کے عبرتناک انجام کی تفصیل بعد فتم میں آچکی ہے.اس مقام پر اس کا اعادہ کئے بغیر نکل جانے کا حیرت انگیز اعتراف صرف یہ بتانا ہے کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے ۲۴ مئی ۹۳ یہ کو یہ پر جلال پیشگوئی فرمائی تھی کہ زمین ہمارے دشمنوں کے پاؤں سے نکل رہی ہے" اس اہم آسمانی خبر کا پہلا ظہور شانہ کے حادثہ شہید گنج میں اور دوسرا ۱۹۳۷ء کے انتخابات میں ہوا جس کے بعد بھی متعدد ایسے حالات پیش آئے کہ ۱۹۳۳ء میں احرار کے موافق اور مخالف حلقے برملا پکار اٹھے کہ احرار کے پاؤں تلے سے واقعی زمین نکل چکی ہے چنانچہ اخبار" احسان (لاہور) نے اپنے د اکتوبر 9انہ کے شمارہ میں لکھا :- پنجاب والوں نے کانگریس کی تجاویزہ کا نہایت کامیابی کے ساتھ مقابلہ کیا.شہید گنج کی تحریک جیسے احرار نے جو کانگریس کے اشاروں پر ناچتے ہیں، چھلایا تھا.کچھ عرصہ تک ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سکندری وزارت کی جوڑ میں کھوکھلی کردے گی.لیکن سر سکندر نے انہیں انہی کے داؤں پہ مارا.وہ ایک دلیرانہ بیان نے کر قوم کے سامنے آنے میں سے اتراریوں کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی اور یہ ایسی تدبیر تھی کہ جس پر کانگریسی لیڈروں نے بھی انہیں مبارکباد کے تار بھیجے " شه اگلے سال شاہ میں ایک غیر مسلم صحافی ارجن سنگھ عاجز نے اشتہار دیا کہ تھوڑا عرصہ ہوا کہ مرزا بشیر الدین محمود امام جماعت مرزائیہ نے پیشینگوئی کی تھی کہ میں دیکھتا ہوں.کہ استواریوں کے پاؤں تلے سے زمین نکلتی جارہی ہے" یہ پیشین گوئی آج بالکل پوری ہو رہی ہے.مخالفین الفضل ۲۹ نومبر ٩٣۶ او صفحه اکالم.+ " ه " الفصل سرمئی ۹۳۹ه صفه ۰۲ + ے اس عرصہ میں آپ حضرت مولوی محمد الدین صاحب بی.اے کے ریٹائر ہونے کے بعد ۳۰۱ اکتوبریانہ تک تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر بھی رہے (الفضل دار نومبر کاله وصفه (۵) سے تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت " جلد ہفتم صفح ۵۳۷ کالم - ١٩٣٨م ھے اختیار " احسان " لاہور در اکتوبر ۱۳ بحواله" الفضل ۲۱ اکتوبر ۹۳ او صفر ۱

Page 542

۵۰۲ غور سے توجہ فرما دیں.بھرتی کے سلسلہ میں سارے ہندوستان کے خلاف احرار نے مخالفت کا جو بیڑا اٹھایا تھا.اس پر جب حکومت نے ایکشن لیا اور چند احراری لیڈروں کو گرفتار کر کے ان کے خلاف مقدمہ چلایا تو حواریوں کی یہ حالت ہوئی کہ " سچ مچ اُن کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی سری قمیضیں اتر کر پھاڑ کر نالیوں میں پھینک دی گئیں اور آگ میں بھی ملا دی گئیں.چنانچہ آج امر تسر میں ایک بھی شرخ قیں نظر نہیں آتی.کئی گرفتار شدہ احراریوں نے تحریری معافی مانگ کو رسائی حاصل کی.اور کئی جن کی پولیس تلاش کر رہی ہے، مغرور ہیں.چوہدری افضل حق صاحب کی گرفتاری پر ہڑتال کا اعلان کیا گیا لیکن ایک دوکان بھی بند نہ ہوئی.یہ ہے اتوار کی کامیابی کا ایک نمونہ.اب یوں نظر آتا ہے کہ شہر امرت سر میں کبھی کوئی احراری تھا ہی نہیں اور نہ کوئی لال قمیص" المشتہر ارمین سنگھ عاجز ایڈیٹر اختبار زنگین امرتسر مٹی سے فصل چهارم ۱۹۳۸نہ کو یہ بھاری خصوصیت حاصل ہے کہ اس سال سے قادیان اور اُس قادیان کے ماحول میں سے مضافات میں تبلیغ پر خاص توجہ دی جانے لگی اور اس کے لئے چودھری کے زیر دست تبلیغی مهم انتم محمد صاحب سیال ناظرالے کی زیر نگرانی ضلع گورداسپور میں وسیع پیمانہ پر سر گرمیاں شروع کر دی گئیں.اس سلسلہ میں سب سے پہلا تیلیغی مرکز سٹھیا لی اور دوسرا کلانوں اور تیسرا چودھر یوالہ میں قائم کیا گیا ہے اس کے بعد جگہ جگہ مراکز قائم کر دیئے گئے اور نگران اعلیٰ چودھری فتح محمد صاحب سیال کے ساتھ مولانا احمد خان صاحب نسیم تحصیل بٹالہ کے اور مولوی دل محمد صاحب تحصیل گورداسپور کے انچارج بنائے گئے.اور دیہاتی مبلغین کے علاوہ جامعہ احمدیہ اور تعلیم الاسلام ہائی سکول کے اساتذہ اور طلبیہ ملے کجواله "الفضل" ١٧ اکتوبر ۳ صفحه ۸ : ے" الفضل" ۲ مئی ۹۳اء صفحه ۶ : رپورٹ سالانہ صدر انجین احمدی ۱۳۷۳ اره صفحه ۶ :

Page 543

اور قادیان کے دوسرے مخلص اور سرگرم احمدی بڑی کثرت سے تشریف لے جانے اور گاؤں گاؤں میں پیغام ہو ریت پہنچانے لگے.اس مہم میں آنزیری خدمت دین کرنے والوں میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت مرزا شریف احمد صاحب ، حضرت میر محمد الحق صاحب ، حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ له رکزیہ چودھری محمد ظفران را صاحب میاں نواب عباس احمدخان صاحب تم تبلیغ خدام الاحمدید اور چودھری نذیر احمد صاحب بھنگوان شناص طور پر قابل ذکر ہیں.حضرت سائبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب جو ان دنوں صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ تھے ، نہ صرف ضلع گورداسپور کے اکثر دیہات کے مجلسوں میں شرکت فرماتے تھے بلکہ دوسرے احمدیوں کوبھی باہر جانے کی مخصوصی تحریک کرتے تھے چنانچہ تبلیغ مقامی کی رپورٹ ۱۹۴۴ء کے مطابق اس سال آپ کی تحریک پر ۳۳ مجاہدین تبلیغ کے لیئے روانہ ہوئے.تبلیغ مقامی کی توسیع کے لئے حضرت خلیفہ المسیح الثانی ، حضرت مرزا بشیر احمد صاحب حضرت مرزا شریف احمد صاحب ، چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب ، نواب محمد الدین صاحب سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب سکندر آباد دکن ، میرزا مظفر احمد صاحب ، پیر اکبر علی صاحب ، شیخ اعجاز احمد صاحب سب بیج سیٹھ محمد اعظم صاحب ، نواب اکبر یار جنگ 19ء میں قادیان کی تبلیغ مقامی میں میں مبلغین مصروف عمل تھے.بعض مقامی مبلغین کے نام.مولوی احمد خان صاحب مولوی سید احمد علی صاحب ، مولوی عبدالرحیم صاحب عارف ، مولوی غلام احمد صاحب ارشد ، مولوی محمد منشی خان صاحب مولوی میر ولی صاحب ہزاروی ، حکیم اللہ بخش صاحب ، مولوی عبدالعزیز صاحب ، ماسٹر محمد رمضان صاحب، سید احمد شاه حوالہ رپورٹ صدر تضمین احمدیہ ۱۹۲۲۰۴ : صفحه (۵) : صاحب - نے رپورٹ سالانہ صبیحہ حیات صدر را نمین احمدیہ یکم مئی ۲ ماه لغایت ۳۰ اپریل ۱۹۳۷ از صفحه ۵۰۴ به کے شیخ یعقوب علی صاحب عرف نی نے اپنی کتاب سیرت ام المومنین حصہ دوم میں لکھا ہے کہ " صاحبزادہ عباس احمد خان سلم اللہ تعالے علاقہ سری گوبند پور میں تبلیغ کے لئے گئے ہوئے تھے.ان کا ہیڈ کوارٹر ماڑی بچیاں نامی گاؤں میں تھا.دیکھنے والوں نے دیکھا کہ یہ امیر ابن امیر کا نو نہال جو ناز و نعمت کے گہوارے میں پرورش پائے ہوئے تھا.دھوپ کی بھی پروانہ کرتا ہوا گاؤں گاؤں شوق تبلیغ میں پھرتا رہتا تھا.اور کبھی اگر کھانا نہ ملا تو صرف چنے چبا کر گزارہ کر لیا کرتا تھا.یہ بات ایک ایسے گھرانے کے نونہال میں جو ہمیشہ متنعمانہ زندگی بسر کرنے کا عادی ہو نہیں پیدا ہو سکتی جب تک وہ خاندان اور خصوصا والدین ایک پاکیزہ زندگی گذارنے کے عادی نہ ہوں.میاں عباس احمد کا یہ جذبہ اور یہ شوق خان محمد عبد اللہ خاں صاحب اور صاحبزادی امتہ الحفیظ صاحبہ کی اپنی ذاتی پاکیزگی اور دینداری کا نتیجہ ہے " له الفضل" جولائی ۱۹۳۵ء صفحه ۵ ؟ کالم دسیرت ام المومنین حصہ دوم صفحه ۴۹) رپورٹ سالانہ صدر انجین احمدیہ یکم مئی سنگه تا ۳۰ اپریل سالید و صفحه ۴ به

Page 544

۵۰۴ بہادر، چودھری فقیر محمد صاحب ، ڈاکٹر میجر غلام احمد صاحب ، مرزا منصور احمد صاحب ، خانصاحب مولوی فرزند علی صاحب ، نما نصاحب غشی برکت علی صاحب ، چودھری نعمت اللہ خان صاحب بیگم پور، اخوند محمد اکبر صاحب اور دوسرے مخلصین باقاعدگی سے مالی امداد فرماتے رہے.ان سب مخلصانہ کوششوں کے بہت شاندار نتائج برآمد ہوئے.کئی مقامات پر نئی جماعتیں قائم ہوگئیں.اور جہاں احمدیوں کی تعداد کم تھی وہاں بکثرت احمدی ہونے لگے.اور يَدْخُلُونَ فِی دِینِ اللَّهِ أَزْوَاجًا کی ایک ابتدائی جھلک نظر آنے لگی جیسا کہ پانچ برسوں کی درج ذیل مختصر کارگذاری سے عیاں ہو سکتا ہے.سال مئی ۱۹۳۸ じ خلاصه مساعی ۲۱) دیہات میں دورہ کیا گیا.چار اشتہارات اور پانچ ٹیکٹوں کی اشاعت ۳۰ اپریل شانہ کی گئی.20 جلسے منعقد کئے گئے.۵۰۰ کے قریب احباب نے قبول یکم مئی ۱۹۳۹ تا ۳۰ اپریل ۱۹۴۰ یکم مئی ۹ اید تا ۳۰ اپریل ۹۴ 1 یکم مئی به تا ۳۰ اپریل ۱۹۴۷ یکم مئی سه تا احمدیت کی اور ۲۵ نئی جماعتیں قائم ہوئیں.قادیان کے ۱۰۸ احباب نے تبلیغ کے لئے پندرہ پندرہ روز وقف کئے.چار ابتدائی مدارس جاری کئے گئے.چارہ ٹریکٹ بارہ ہزار کی تعداد میں شائع کئے گئے.چالیس نئی جماعتیں قائم ہوئیں اور ساڑھے پانچ سو افراد نے بیعت کی.اس سال ایک ہزار پانچ سو پچاس افراد احمدیت میں شامل ہوئے پچھیں نئی جماعتیں قائم ہوئیں.اور تو جماعتوں کی تعداد پہلے سے دو چند ہو گئی.IA اس سال پندرہ سو چوالیس دوست حلقہ بگوش احمدیت ہوئے.اس سال کے نو مبائعین کی تعداد بہ مہ تھی.صیغہ مقامی تبلیغ نے اب اپنی ۳۰ اپریل ۱۹۴۳ء سرگرمیاں قریبی اضلاع مثلاً امرتسر سیالکوٹ ، جالندھر، ہوشیار پور اور اور کپورتھلہ میں بھی شروع کر دیں ۱۹۲۶ء کے قریب مقامی تبلیغ کے انچارج مولانا احمد خاں صاحب نستیم بنائے گئے مگر آپ کو اپنے فرائض کی بجا آوری میں تھوڑا عرصہ ہی ہوا تھا کہ پورا مشرقی پنجاب فسادات کے شعلوں کی لپیٹ میں آگیا اور آپ

Page 545

۲۹ ستمبر ائر کو زیر دفعہ ۳۹۶ - ۳۹۷ آئی پی سی گرفتار کر لئے گئے اور نظر بندی کی مسلسل نا قابل بیان اور دردناک تکالیف برداشت کرنے کے بعد بالآخر اور اپریل ملالہ کو رہا کئے گئے ہے وجوان علماء کو حضرت امیرالمومنین کی قیمتی نصائح جماعت حمدیہ کے یک مشہور و معروف اور متاز عالم دین نے "الفصل ۲۱ جون و ۲۷ اگست ۱۹۳۷ میں مسئلہ قتل انبیاء کے متعلق مضمون لکھے جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ حضرت یحی علی السلام شہید نہیں کئے گئے.یہ مسلک چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے عقیدہ و مسلک کے بالکل بخلاف تھا.اس لئے سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے ۲۶ اگست ستمبر اور ستمبر کو تین مفصل خطبات جمعہ دئے جن میں تاریخ ، انجیل ، اقوام عالم اور احادیث کی متفقہ شہادت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نظریہ کی تائید میں پیش کی اور نوجوان معلمار کو نصیحت فرمائی کہ صحابیہ کی موجودگی میں نئے علماء کو یہ ہرگز کوئی حق نہیں کہ وہ اپنی طرف سے استنباط اور اجتہاد کریں، اگر دنیا نے اپنے استنباط اور اجتہاد سے یہ کام لینا تھا تو کسی نبی کے آنے کی کیا ضرورت تھی.یہ ہمارا حق ہے کہ اگر کوئی اختلاف ہو تو ہم اس کو نپٹائیں اور صحیح طریق جماعت کے سامنے پیش کریں.اور نے علماء کا بھی یہ فرض ہے کہ جب کوئی اختلافی مسئلہ سامنے آجائے تو وہ اُسے مجلس صحابہ کے سامنے پیش کریں.بیشک وہ خود اس امر کا اختیار نہیں رکھتے کہ صحابہ کی ایک مجلس قائم کریں مگر وہ سلسلہ کی وطعت سے ایسا کر سکتے ہیں.اُن کا فرض ہے کہ وہ اختلافی مسئلہ میرے سامنے رکھیں.اگر میں اس کے متعلق ضرورت سمجھوں گا توخود بخود صحابہ کو جمع کرلوں گا.اور اس طرح جو بات طے ہوگی وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منشاء کے عین مطابق ہوگی.اگر ہم یہ طریق اختیار کریں تو آئندہ کے لئے بالکل امن ہو جائے گا.کوئی ایسا اختلاف پیدا نہیں ہوگا.جو جماعت کی گمراہی کا موجب ہو.لیکن اگر ہر شخص اپنے طور پر ایسے مسائل پر رائے زنی کرنا شروع کر دے مین کے متعلق حضرت کی موعود علیہ السلام کے کھلے حوالے موجود ہوئی اور ایسا استدلال پیش کرے ہو اُن کو رد کرتا ہو تو آئندہ نسلوں کے لئے بڑی مشکل پیش آئیگی اور وہ حیران ہوں گی کہ ہم کو نسا مسلک اختیار کریں.لیکن اگر نئے مسائل یا اختلافی مسائل ہمارے " QADIAN DIARY " مؤلفہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے " الفضل " ۱۳ اپریل ۹۴۷ائد سے مفصل خطبات کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۲ ستمبر ۱۹۳۷ ، ۱۰ ستمبر ۱۸۱۹۳۵ صفحه با کالم : است بر ۱۹

Page 546

۵۰۶ سامنے پیش کئے جائیں اور ہم اس بارہ میں اپنا فیصلہ نافذ کریں.تو اگلے لوگ بہت سی گمراہیوں سے نچ بھائیں گے کیونکہ ان کے سامنے وہ فیصلے ہوں گے جو صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متفقہ ہوں گے یا ایسے فیصلے ہوں گے جین پر صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اکثریت کا اتفاق ہوگا.اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں سے کوئی مسئلہ صاف ہو جائے تو پھر صحابہ کے فیصلوں کی ضرورت نہیں لیکن اگر کتابوں میں کوئی بات وضاحت سے نہ ملے.یا اختلاف ہو جائے.تو پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کی روایات اور ان کے ان تاثرات کو دیکھنا پڑے گا.جو وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ سے رکھتے چلے آرہے ہیں اور جو سنت کے قائم مقام ہیں " سے پھر فرمایا :- " حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ و السلام کی عادت تھی کہ آپ دن کو جو کچھ لکھتے ، دن اور شام کی مجلس میں آکر بیان کر دیتے.اس لئے آپ کی تمام کتا ہیں ہم کو فظ ہیں.اور ہم ان مطالب کے خوب سمجھتے ہیں.جو حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے منشاء اور آپ کی تعلیم کے مطابق ہوں.بیشک لبعض باتیں ایسی بھی ہیں جو صرف اشارہ کے طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابوں میں پائی جاتی ہیں.تفصیلات کا اُن میں ذکر نہیں.اور اُن باتوں کے متعلق ہمیں ان دوسرے لوگوں سے پوچھنا پڑتا ہے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت اُٹھائی ہے.اور اگر اُن سے بھی کسی بات کا علم حاصل نہیں ہوتا تو پھر ہم قیاس کرتے اور اس علم سے کام لیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں بخشتا ہے.مگر باوجود اس کے میرا اپنا طریق یہی ہے کہ اگر مجھے کسی بات کے متعلق یہ معلوم ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کی کوئی تحریہ اس کے خلاف ہے تو میں فوراً اپنی بات کو رو کر دیتا ہوں.اسی مسجد میں نہ یا شلہ کے درس القرآن کے موقع پر میں نے عرش کے متعلق ایک نوٹ دوستوں کی لکھوایا.جو اچھا خاصہ لیا تھا.مگر جب میں وہ تمام نوٹ لکھوا چکا تو شیخ یعقوب علی صاحب عرف یا حافظ روشن علی صاحب مرحوم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک حوالہ نکال کر میرے سامنے پیش کیا اور کہا کہ آپ نے تو یوں لکھوایا ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یوں فرمایا ہے.میں نے اس حوالہ کو دیکھ کہ اسی وقت دوستوں سے کہدیا کہ میں نے عرش کے متعلق آپ لوگوں کو ہو کچھ لکھوایا ہے وہ غلط ہے اور اُسے اپنی کا پہیوں میں سے کاٹ ڈالیں، چنانچہ جو لوگ اس وقت الفضول ستمبر ۳۷ ۶ صفحه ۱۵۰ کالم ۲-۳ :

Page 547

۵۰۷ میرے درس میں شامل تھے وہ گواہی دے سکتے ہیں.اور اگر ان کے پاس اس وقت کی کا پہیاں موجود ہوں تو وہ دیکھ سکتے ہیں کہ میں نے عرش کے متعلق نوٹ لکھوا کر بعد میں جب مجھے معلوم ہوا کہ حضر مسیح موعود علیہ السلام کا عقیدہ اس کے خلاف ہے.اسے کاپیوں سے کٹوا دیا اور کہا کہ ان اوراق کو پھاڑ ڈا لو کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کے خلاف لکھا ہے.اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرمان کے مقابلہ میں بھی ہم اپنی رائے پر اڑے رہیں اور کہیں کہ جو کچھ ہم کہتے ہیں وہی صحیح ہے اور اپنے نفس کی عزت کا خیال رکھیں تو اس طرح تو دین اور ایمان کا کچھ بھی باقی نہیں رہ سکتا.پس یاد رکھو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حکم ، عدل ہیں.اور آپ کے فیصلوں کے خلاف ایک لفظ کہنا بھی کسی صورت میں جائز نہیں.ہم آپ کے بتائے ہوئے معارف کو قائم رکھتے ہوئے قرآن کریم کی آیات کے دوسرے معانی کر سکتے ہیں.مگر اسی صورت میں کہ ان میں اور ہمارے معانی میں تناقض نہ ہو “ لے فصل پنجم ۱۹۳ کا ایک نہایت اہم اور ناقابل فراموش واقعہ سید نا حضرت امیرالمونین با خرید آباد کن خلیفہ اسیح الثانی کا سفر حیدر آباد ہے.حضور کا یہ مبارک سفر ایک رؤیا کی بناء پر تھا.اور اس کی غرض و غایت یہ تھی کہ ریاست حیدر آباد جو مغلیہ سلطنت کے خاتمہ کے بعد مسلمانان ہند کی تہذیب و تمدن اور علم وفن کا سب سے بڑا مرکز تھی.وہاں کے حالات کاجائزہ لیا جائےاور عام مسلمانوں کی بہبود اورجات احمدی کی تبلیغی سرگرمیوں میں اضافہ کی عملی تاپ سوچی ہیں حرم امیر المومنین کا مکتوب حضرت میرالمومنین خلیفہ اسیح الثانی قادیان سے یکم اکتوبر کو روانہ ہوے اور روانگی سے قبل ، ۲ ستمبر ۹۲ مہ کو سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب امیر جماعت سك ** الافضل " مستمر ۱۹۳۸ در صفحه ۱۷ - ۱۷: سے اس سفر من حضر یا خوب میاد که یک مصاحبه حضرت سیده در متین حمام صاحبزادی بہتہ القیوم صاحہ نور کے ہم انھیں ملک صلاح الدین کا ایم اے (موقف اصحاب احکام پرائیویٹ سیکرٹری کی حیثیت سے شامل سفر تھے اور خان بریا صاحب میاں عطا محد ما انگلی پر دار کے طور پر پیٹی سے حیدر آباد تک کے سفر اور وہاں کے قیام میں موانا ابو العطاء صاحب مبلغ بیٹی بھی تصور ساتھ ہے.

Page 548

هور قادیان ضلع گورداسپور پنجاب 4 مکرمی سیٹھ صاحب السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاته مدت سے میرا ارادہ حیدر آباد آنے کا تھا.کیونکہ میرے نزدیک کسی جگہ کو دیکھنے کے بعد وہاں کے کام کی اہمیت کا زیادہ اثر ہوتا ہے.لیکن کچھ تو کم فرصتی کی وجہ سے اور کچھ وہاں کے سیاسی حالات کی وجہ سے اور کچھ اس خیال سے کہ وہ علاقہ دور ہے.اخراجات زیادہ ہوں گے.میں آنے سے رکا رہا.لیکن اب حالات اس طرف کے ایسے ہو گئے ہیں.شاید مجھے ان علاقوں کی طرف زیادہ توجہ کرنی پڑے....میں نے یہ ارادہ کیا ہے کہ اگر اللہ تعالے چاہے تو اس دفعہ سندھ سے اگر یں حیدر آباد ہوتا آؤں.مجھے اس کا زیادہ خیال اس لئے بھی ہوا ہے کہ جو رویاء میں نے حیدر آباد کے تعلق دیکھی تھی اس میں ایک حصہ یہ تھا کہ میں پہلے حیدر آباد کا معائنہ کرنے گیا ہوں اور پھر میں نے آکر فوج کو حملہ کا حکم دیا ہے.اس سے میں سمجھتا ہوں کہ پہلے ایک سرسری معائنہ حیدر آباد کا ضروری ہے.اس لئے اگر ہو سکا توئیں انشاء اللہ سندھ سے حیدر آباد کی طرف روانہ ہوں گا.پروگرام یہ ہے - پندرہ بیبینی ورود ۱۷ - ۱۷-۱۸ - ۱۹ مبنی تیام ، 19 کو ہوائی جہاز کے ذریعہ سے حیدر آباد، ساڑھے چھ بجے ورود حیدر آباد ۰ ۲۰-۲۱-۲۲ حیدرآباد قیام ۲۲ر کی شام کو سات بجے دہلی جانے والی گاڑی سے پنجاب کی طرف رجوع.میرے ساتھ ایک میری بیوی مریم صدیقہ لڑکی امتہ القیوم اور ہمشیرہ مبارکہ بیگم ہونگی چھ سات دو سر ہمراہی ہونگے یہ لوگ ریل سے سفر کر کے بیٹی سے حیدر آباد پہنچیں گے.میں یہ چاہتا ہوں کہ یہ ہمارا سفر صرف غیر رسمی رہے یعنی کوئی لیکچر وغیرہ یا شور نہ ہو.اگر یہ خاص آدمیوں سے ملاقات کی ضرورت سمجھی گئی تو جماعت کے مشورہ سے میں ان کو ملنے کا موقعہ دے دوں گا.اس سے زیادہ نہیں.

Page 549

۵۰۹ میرا پروگرام یہ ہو گا جس کے متعلق آپ مذکورہ دوستوں سے مشورہ کر کے تفصیلات طے کرلیں.(1) حیدر آباد کا موٹر میں ایک عام چکر میں سے اس کی عظمت اس کے علاقہ کی وسعت، آبادی کی طرز وغیرہ کا علم ہو جائے (۲) علمی اداروں کا دیکھنا (۳) تاریخی یادگاروں کا دیکھنا (ہم، موجودہ ترقی یا جد وجہد کا معائد.آپ اس مشورہ میں اگر چاہیں تو نواب اکبر یار جنگ صاحب کو بھی شامل کر سکتے ہیں.ایک مجلس الیسی رکھی جا سکتی ہے جس میں سب جماعت کے دوست جمع ہوں اور میں انہیں مختصر ہدایات دوں مجمعہ کا دن اس دوران میں آئے گا.وہ لازما میں مسجد میں پڑھوں گا اور جماعت سے ملاقات ہو جائے گی....چونکہ مجھے مردوں کے ساتھ پھرنا ہو گا اس لئے عورتوں کی سیر کا الگ انتظام کر دیا جائے.یعنی روزانہ پر وگرام طے ہو کر پہلے بتا دیا جائے کہ عورتیں اپنا وقت اس طرح خرچ کریں گی.اور میرا پروگرام اس اس طرح ہو گا.تحریک جدید نے جہاں کھانے کے متعلق سادگی پیدا کر دی ہے وہاں میرے جیسے بیمار کے لئے مشکلات بھی پیدا کردی ہیں ایک کھانے کی وجہ سے سوائے خاص حالات کے چاول میں نہیں کھا سکتا روٹی کھاتا ہوں کیونکہ چاول کم پچھتے ہیں.اگر ایک سالن ہماری پنجابی طرز کا پک سکے اور تنور کی یا تو ہے کی چپاتی مل سکے تو مجھے سہولت رہیگی.حیدر آباد کی طرف پیاز کی کثرت اور میٹھا اور کھٹا کھانے میں میلا دیتے ہیں جو میرے معدے کے لئے سخت مضر ہوتا ہے اور مجھے بہت جلد ایسے کھانوں سے بیجار ہو جاتا ہے.گو مجھے کھانے کے متعلق یہ ہدایت دینے سے شرم محسوس ہوتی ہے مگر چونکہ میری صحت سخت کمزور ہے اور میری زندگی در حقیقت ایسی ہے جیسے ربڑ کی گڑیا میں پھونک مار کر بٹھا دیتے ہیں اس طرح اللہ تعالے کی پھونک ہی کچھ زندہ رکھے جاتی ہے اس وجہ سے مجھے باوجود حیا کے یہ امرکھنا پڑا.میں پرسوں سندھے جارہا ہوں.اس بارے میں اگر کوئی اور بابت آپ نے پو چھنی ہو تو ناصر آباد نجیجی ضلع میر پور خاص سندھ کے پتہ پر خط لکھیں.بھٹی ہم جہاز کے ذریعہ سے آئیں گے ، میرے ساتھ پرائیویٹ سکرٹی کے علاوہ صرف پسند معادن کار ہوں گے شائد کوئی دوست قادیان سے میری ہدایت کے مطابق آجائیں.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد ه اصل کتاب حضرت ولی عبداللہ الہ دین صاحب کے دربار کے پاس محفوظ ہے "

Page 550

۵۱۰ قادیان سے مبئی تک حضرت اقدس ادیان سے بدید این راکتور کون پہنچے اور انجانده کا معائنہ فرمانے اور ضروری ہدایات دینے کے بعد ۱۲۳ اکتوبر تار کو لاہور میل سے کراچی وارد ہوئے اور اسی روز بحری جہاز سے روانہ ہو کہ 9 اکتوبر کو بھی اپنے بندگی این احمدیہ بیٹی نے اپنے ایرر سلیم النخیل آدم صاحب اور مقامی مبلغ مولانا ابو العطار صاحب کی قیادت میں حضور کا پر تپاک خیر مقدم کیا.بمبئی میں اس وقت امیر جماعت حضرت کینہ اسمعیل آدم صاحب تھے اور انہوں نے ہی ایک محلہ میں رہائش کے لئے ایک بالاخانہ کرایہ پر حاصل کیا تھا حضور پہلے روز بارہ بجے رات تک مجلس میں نماز مغرب و عشار جمع کرنے کے بعد گفتگو فرماتے رہے.اس میں ایک سابق گورنر پنجاب سرا میرسن کا واقعہ بھی بیان فرمایا تھا جو کہ حضور کے وصال کے بعد اخبار بدر میں ملک صلاح الدین صاحب ایم اے کے ایک مضمون میں شائع ہو چکا ہے.وہاں حضرت سیٹھ صاحب نے اپنے مکان پر حضور اور حضور کے رفقاء کی دعوت بھی فرمائی تھی.حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب کی بھتیجی بھٹی میں ہی مقیم تھیں.ان کے خاندان نے دعوت کی.جائے قیام سے غالباً دس بارہ میل دور ان کی جائے رہائش تھی.وہ موٹروں میں سلسلے قافلہ کو اپنے ہاں لے گئے.جناب ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے کا بیان ہے کہ ہملٹی میں حضور نے ایک بار خود ہی ایک ہوائی جہاز کے پانچ ٹکٹ خرید کئے پچار اپنے خاندان کے لئے اور ایک میرے لئے.وہاں ایسے ہوائی جہاز کا انتظام غالباً کسی کمپنی کی طرف سے تھا جو مختصر وقت میں کمیٹی کی سیر کراتی تھی.صرف پانچ ہی سیٹیں اس میں تھیں.میں ہوا باز کے پاس کی سیٹ پر تھا اور حضور اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ پیچھے تشریف فرما تھے.تیو صد پچاس فٹ تک جہاز نے اڑان کی تھی اور نصف گھنٹہ کے قریب صرف ہوا تھا ہوئی اڈہ تک اور واپسی پر کرم شیخ محمود احمد صاحب عرفانی اور مکرم مولوی ابو العطاء صاحب (جو اس وقت بھیٹی کے مبلغ تھے ساتھ تھے " ہے حضور چند دن تک بیٹی میں فروکش رہنے کے بعد بذریعہ ریل ۱۹ اکتوبر حید آباد دکن میں آمد اور مصروفیات ہ کو بوقت دو پر روانہ ہوکر ۱۲۰ اکتوبر ۱۹۳۵مه بروز پنجشنبه الفضل" هر اکتوبر انه صفر ۲ کالم را.کے الفصل 14 اکتوبر ۱۹۳۵ء صفحه ۲ کالم ها به ے" الفضل و در اکتوبر سه صفحه ا کالم او +1 کان مکتوب ملک صلاح الدین صاحب ایم اسے بنام مولف بحرہ 10 جولائی تا ہے +

Page 551

سید نا حضرت خلیفہ امسیح الثانی کا حیدرآباد کے مضافاتی ریلوے اسٹیشن بیگم پیٹھ پر ورود مسعود ناموں کی تفصیل ضمیمہ میں ملاحظہ ہو )

Page 552

سیدنا حضرت خلیفہ السیح الثانی خان بہادر احمدالدین نواب احمد نواز جنگ بہادر کی کوٹھی میں رونق افروز ہیں.( ناموں کی تفصیل ضمیمہ میں درج ہے )

Page 553

سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی مشہور تاریخی مسجد نواب خان دوران خان دہلی میں پہلی قطار دائیں سے بائیں.۱.چوہدری نصیر احمد پرسنل اسٹنٹ سر ظفر اللہ خان صاحب.۲.سید اشتیاق احمد چشتی عرف چشتی ناتھ..مسز سروجنی نائیڈ و ۴.سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی.۵.شمس العلماء خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی.۶.چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب.۷.شیخ اعجاز احمد کمر شل حج.۸.ڈاکٹر لطیف صاحب

Page 554

سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایک دعوت ولیمہ میں ۲ دسمبر ۱۹۳۸ء دائیں سے بائیں:.۱...۲۲.ڈاکٹر محمد عمر صاحب لکھنوی.۳.سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ۲.بابو عبدالمجید صاحب.۵ حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب غیر مبلغ انگلستان و نایجیریا.۶.بابو عبدالحمید صاحب ریلوے آڈیٹر محلہ دار الرحمت شریف منزل قادیان بیرونی ممالک کے لئے چھ مبلغین کی روانگی ( یکم فروری ۱۹۳۶ء)

Page 555

۵۱۱ بجے حیدر آباد کے مضافاتی ریلوے اسٹیشن بیگم پیٹھ پر رونق افروز ہوئے.جماعت احمدیہ حیدرآباد نے حضرت خلیفہ مسیح الثانی کی آمد کے سلسلہ میں نہایت وسیع پیمانے پر ریاستی روایات کے تحت شاندار انتظامات حضرت سیٹھ محمد غوث صاحب کے زیر انتظام کئے تھے حضور کے مکتوب موصولہ حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب کی ہدایات کی روشنی میں اس امر کو پیش نظر کھا گیا تھا کہ سارے شہر کی سیر ہو جائے میں سے حضور کو حیدر آباد کے تاریخی و اسلامی شہر کی عظمت اور اس کی وسعت کا ایک اندازہ ہو جائے اور اس کے علاوہ حیدر آباد کے علمی اداروں اور تاریخی یادگاروں اور عالیہ منعتی ترقی کے معاینہ کا بھی موقعہ مل جائے بحضور کی اس سیر کا انتظام سیٹھ محمد اعظم صاحب کے سپرد تھا اور حضور کی اس ہدایت پر کہ حضور کے ساتھ جو خواتین تھیں ان کی سیر کا علیحدہ انتظام کیا جائے اس کے انچارج سیٹھ محمد معین الدین صاحب مقرر کئے گئے تھے بحضرت سیٹھ عبد اللہ بھائی صاحب کے چھوٹے بھائی خان بہادر احمد الہ دین صائب المخاطب نواب احمد نواز جنگ بہادر جو اگرچہ سلسلہ بیعت میں شامل نہ تھے لیکن حضور سے سجد عقیدت رکھتے تھے انہوں نے حضور کے قیام بمبئی کے دوران تحریری طور پر درخواست کی تھی کہ حضور سکندرآباد میں جو حیدر آباد ہی کا ایک حصہ ہے اُن کی کوٹھی پر اُن کے معزز مہمان کے طور پر قیام فرما دیں جس کو حضور نے قبول فرما لیا تھا.حضور کے درد مسعود کی اطلاع ریاست حیدر آباد کے اضلاع کے احباب کو دے دی گئی تھی اور وہ کثیر تعداد میں حیدر آباد پہنچ گئے تھے.۱۲۰ اکتوبر شاہ کو جب حضور حیدر آباد کے مضافاتی ریلوے سٹیشن بیگم پیٹھ پر رونق افروز ہوئے تو وہاں جماعت ہائے احمدیہ کے صرف نمائندہ اصحاب نیز حیدر آباد و سکندر آباد کے بعض اور مخصوص احباب موجود تھے جن میں سے بعض حضور کے خویش و اقارب تھے.حضور کے ریل سے اُترتے ہی احمدیہ گروپ نے سلامی دی اور نعرہ تکبیر سے سال سٹیشن گونج اُٹھا.اس کے بعد مولوی سید بشارت احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ حیدر آباد نے حضور کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے اور اسی رنگ میں اظہایہ اخلاص مقامی خواتین نے ان خواتین محترم کے ساتھ کیا تو حضور کی معیت میں تشریف لائی تھیں.احباب جماعت پلیٹ فارم پر خط مستقیم کی صورت میں استادہ تھے.حضور بکمال شفقت و مہربانی ہر ایک سے مصافحہ کرتے گئے ساتھ ساتھ مولوی سید بشارت احمد صاحب امیر محجبات احمدیہ جب دور آباد ہر ایک کا مختصر تعارف بھی کراتے گئے.اسٹیشن کا بیرونی احاطہ موڑوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا یہ مقصد تخدام میں جب حضور سیشن سے باہر تشریف لائے تو اس موقعہ کا فوٹو لیا گیا حضور اہلبیت اور کارکنوں کی معیت میں موٹروں میں سوار ہو کہ نواب احمد نواز جنگ بہادر کی کو بھی موسومہ الہ دین بلڈنگ سکندر آباد تشریف لائے جہاں حضور نے پچار روز قیام فرمایا.ے فرزند حضرت سیٹھ محمد فوت صاحب مرحوم

Page 556

۵۱۲ پہلے روز کی مصروفیات پہلے اور حضور کی مصروفیات میں شہر کی وسعت کا معائنہ اور آپ کی قیام گاہ پر معززین کی ملاقات رہی شام کو حضور نے جناب عبداللہ الہ دین صاحب امیر جماعت احمدیہ سکندر آباد کے تعمیرہ ای پی یو بل الواقع فضل گنج میں جماعت ہائے احمدیہ سلطنت اصفیہ کے دوستو سے زائد احباب جماعت سے ملاقات فرمائی.بعد ادائے نماز مغرب و عشا ر سید حسین صاحب ذوقی نے نہایت رقت آمیز لہجہ میں ایک سلام منظوم حضور کی خدمت میں عرض کیا.اس کے بعد حضور نے جماعت کے ساتھ مبی دعا فرمائی اور مجلس برخاست ہوئی.یہاں سے حضور مع خدام جناب سیٹھ محمد غوث صائب سکرڑی بیت المال کے شہر والے مکان پر دعوت طعام میں تشریف لے گئے جہاں اپنے مقام سے عام ملکی حالات پر تبادلۂ خیال فرماتے رہے اور پھر حضور المہر دین بلڈنگ سکندر آباد تشریف لے گئے.دوسرے روز دوپہر تک عام ملاقاتیں ہوتی رہیں.پھر ایک بجے زبدة المسما حکیم دوسر روز کی مصروفیات امیر سعادت علی صاحب کے مکان چوک اسپان پر تھوڑی دیر کے لئے تشریف لے گئے.اس کے بعد مولوی سید بشارت احمد صاحب کے ہاں بشارت منزل پر حضور تشریف لے گئے جہاں جماعت کی جانب سے حضور کی دعوت کا انتظام کیا گیا تھا.اور ی میں علاوہ بلاک کے اضلاع کی جماعتوں کے احباب بھی شریک تھے.اثنائے تناول طعام میں جناب سید حسین صاحب ذوقی نے نظم " خوش آمدید سنائی جناب ہرمز صاحب ایک حیدر آبادی شاعر نے قطعات مدحیہ عرض کئے جس میں حضور کی اس دعوت میں شرکت کی برجسته تاریخ حیدر آباد کے سرکاری سال (فصلی) کی می آمد کی.مصرع تاریخ ہے :- مکان بشارت میں محمود مہماں " ر فصلی دعوت طعام کے بعد حضور کا فو تو عہدہ داران جماعت کے ساتھ لیا گیا جس کے بعد منصور معه و نکاح نماز جمعہ کے لئے مکان انجمن موسوعہ احمدیہ لیکچر ہال" واقع بی بی بازار تشریف لیگئے.اه ملک صلاح الدین صاحب ایم اے کا بیان ہے کہ الہ دین بینک میں پہنچنے کے بعد حضور نے دو کاروں میں حیدر آباد دکن کے شہر کا چکر لگایا ہمیشہ وہاں حضور والی کار میں حضرت سید بشارت احمد صاحب وکیل ، حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی اور حضرت سیٹھ عبد اللہ الہ دین صاحب اور سیٹھ محمد اعظم صاحب لازما ساتھ ہوتے تھے.شہر کے چکر میں خاکسانہ اور دیگر بعض احباب دوسری کار میں تھے.حضور نے ایک دفعہ رویا دیکھی تھی کہ حضور نے اس شہر کا چکر لگایا ہے اور معائنہ کیا ہے اس بتاو پر حضور نے یہ پیکر لگایا تھا ہے سے یہ نظم حکم " کار اپریل اور صفحہ پر چھپ گئی تھی ؟ +

Page 557

۵۱۳ جہاں ایک ہزار مردوں اور عورتوں کا مجمع تھا.احباب جماعت کے علاوہ شہر کے رؤساء ، نواب ، جاگیر دار و دیگر معززین بصد شوق و اخلاص تشریف لائے حضور نے ایک دل ہلا دینے والا حقائق و معارف سے لبریز خطبہ مجمہ ارشاد فرمایا جس میں صحابر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان نثاریوں، قربانیوں کا نقشہ نہایت دلکش در انگیز پیرایہ میں کھینچا اور اس جذبہ کو کامیابی وکامران کی گنجی قرار دیا.اس کے بعد اپیل کی کہ اب بھی محب رسول کے جذبہ کی ضرورت ہے.اپنے اعمال کو ہمیشہ دیکھ لیا کرو کہ آیا وہ رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے مطابق ہیں یا نہیں.کچھ اس انداز میں یہ خطبہ ارشاد ہوا کہ سامعین بے تاب ہو گئے اور بعض کی چیخین نکل گئیں.اور وہ زار و قطار رونے لگے.نماز جمعہ و عصر جمع کرائی گئیں.اس کے بعد حضور نے تین اصحاب کے نکاحوں کا ایک مشترکہ خطبہ پڑھا جس میں پھر خطبہ جمعہ کے خیالات کا عکس جلوہ گر ہوا.آپ نے تبلیغ کے متعلق اس قدر پراثر پیرایہ میں سامعین کو مخاطب فرمایا کہ اس سے بڑھ کر متصور نہیں ہو سکتا.آپ نے گمراہ مخلوق کو خدا تعالیٰ کے گمشدہ بچے قرار دیا اور فرمایا کہ یہ واقعہ مجھے سب سے بڑھ کر متاثر کرتا ہے جب میں سنتا ہوں کہ کسی کا بچہ گم ہو گیا.اگر کسی کا بچہ فوت ہو جائے تو ہو سکتا ہے کہ اُسے چند دن کے بعد صبر آ جائے.لیکن بچہ گم ہو جانے کا واقعہ اس قدر درد ناک ہوتا ہے کہ ہمیشہ تازہ رہتا ہے.یہ خیالات سامنے ہوتے ہیں کہ نہ معلوم وہ کس بیدرد کے ہاتھ لگ گیا.معلوم نہیں وہ کس درجہ مصیبت و آفت میں مبتلا ہو گا.شاید وہ مارکھا رہا ہو یا بیمار ہو.اس کی سیکیسی پر کسی دم نہ ماں کو نہیں آتا ہے نہ باپ کو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس سے بڑھ کر فلق خدا لانے کو اپنے بچھڑے ہوئے بندوں کے متعلق ہوتا ہے جب گمشدہ بچہ ماں باپ کو مل جاتا ہے تو اُن کی خوشی کا کیا کہنا.اس سے بہت بڑھ کر خوشی خدا تعالے کو ہوتی ہے جب اُس کا ایک بندہ اُس سے آکر ملتا ہے.محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی تعلیم خدا سے ملنے کا ذریعہ ہے جو اس تعلیم سے آلگا وہ خدا سے ملا.نیں تم اکٹھی ، بیدار ہو ، کوشش کرو کہ خدا کی بھٹکی ہوئی مخلوق کو اس کے آستانہ پر لاڈالو اور خداوند تعالے کی خوشنودی کے دارث نور اس خطبہ کے آخر میں حضور نے تحریک فرمائی کہ احباب جماعت ایک ایک ماہ کے لئے اپنے اوقات وقف کریں اور یہ واقفین ریاست کے مختلف اضلاع میں پہنچیں اور حضور کے خطبہ کی روشنی میں تبلیغ کریں اور سب سے زیادہ زورہ اتحاد بین المسلمین پر دیں.اس اثر انگیز تنطلبہ کے دوران ہر شخص نے جان لیا کہ یہی نصب العین اس کے لمحات زندگی کا بہترین سرمایہ ہے.جن غیر احمدی کا ہیر نے ان خطبات کو شنای بیساختہ کہہ اُٹھے کہ ہمیں بڑا مغالطہ تھا.احمدیوں کی زبان سوائے آنحضر

Page 558

۵۱۴ صلے اللہ علیہ وسلم کے ذکر کے کیسی اور کا گن گاتی ہی نہیں ہم باور نہ کریں گے کہ یہ جماعت اسلام سے ہٹی ہوئی ہے.بلکہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ دین اسلام ہے.ان باتوں کا پرچا وہ اپنے اور دوست احباب سے بھی کرنے لگے.اور ایک عام خوشگوار رو چل پڑی.حضور نے خطبہ نکاح کے بعد درجن سے زائد زیر تبلیغ اصحاب کی بیعت لی.ان کے علاوہ اس بعیت میں وہ اصحاب بھی شامل ہوئے جنہیں حضور کے ہاتھ پر بیعت کا شرف اب تک حاصل نہیں ہوا تھا.احمدیہ ہال رنگا رنگ کی جھنڈیوں سے مزین تھا اور ایک سُرخ رنگ کے کپڑے پر " آسے آمدنت باعث آبادی ما " و "اهلا وسهلا و مرحبا کے الفاظ لکھے تھے.نواب اکر یار جنگ بہادر کیطرف عمران ان سے نا ہونے کے دونوب کی یا جنگ بہادر ما کی بیرون شہر کو بھی واقع عنبر پھٹر پر حضور تشریف لے گئے جہاں حضور کے اعزاز میں نہایت وسیع پیمانہ پر پر تکلف عصرانہ دیا گیا اور شب میں دعوت طعام بھی تھی.احمدی لیکچر ہاں سے حضور کے تشریف لے جانے کے بعد اسی مقام پر ایک اور عصرانہ کا انتظام تھا جس میں جبکہ احمدی مستورات نے حضور کے اہل بیت کا پُر خلوص خیر مقدم کیا.جناب حکیم میر سعادت علی صاحب کی اہلیہ صاحبہ نے ایک مدحیہ نظم سنائی جسے فریم میں مزین کر کے پیش کیا گیا.عمائدین حیدر آباد کا اجتماع نواب اکر یا جنگ بہادر کی طرف سے دی گئی دعوت میں عمائدین سلطنت و حیدرآباد عہدہ داران ذی شان و مراد جاگیر داران و دیگر معززین و وکلائے ہائیکورٹ وغیرہ کی کثیر تعداد مدعو تھی جن میں قابل ذکر یہ ہیں :- (1) سریمین السلطنت مہاراجہ کشن پرشاد بہادر (۲) نواب فخر یار جنگ بہادر صدر المهام فنانس (۳) نواب کاظم یار جنگ بہا در چیف سکری پیشی اعلحضرت حضور نظام (۴) نواب رحمت یار جنگ بہادر کمشنر پولیں.(۵) نواب محمد یار جنگ بہادر معتمد فوج (۲) نواب عسکر نواز جنگ بہادر معتمد و مشیر قانونی سر کار عالی - (۷) رائے بہادر بشیر نا تھ صاحب بھی ہائیکورٹ (۸) نواب ناظر یار جنگ بہا در حج ہائیکورٹ (۹) دیوان بہار کشٹما چاری سابق مشیر نونی (1) نواب بہادر یار جنگ بہادر صدر مجلس اتحاد السلمین (۱۱) نواب دوست محمد خان صاحب جاگیردار (۱۲) مولوی سید ابوانسن صاحب قیصر مددگار صدارت العالیہ (۱۳) سید معراج الحسن صاحب ترندی وکیل ہائیکورٹ (۱۴) مولوی ابوالحسن سید علی صاحب معتمد مجلس اتحاد المسلمين اه خسر جنرل اعظم خان (پاکستان ) : (۱۵)

Page 559

۵۱۵ محمد یا مین صاحب زبیری ایڈووکیٹ (۱۶) اکبر علی صاحب اخبار صحیفہ دکن و غیر تم.ان اصحاب سے ہندوستان کے سیاسی و معاشی و زرعی مسائل پر حضور کی گفتگو ہوتی رہی.ہر مسئلہ پر حضور کی وسیع معلومات ، اصابت رائے ، انوکھے طرز استدلالی و بر محل لطائف و ظرائف سے حاضرین مجلس ششد رو حیران ہوئے کئی گھنٹوں کی مصروفیت کے بعد مجلس برخاست ہوئی اور حضور اپنی فرودگاہ کو تشریف لے جاتے ہوئے سیٹھ محمد غوث صاحب کی بیرون شہر کی کو بھی پر تشریف لے گئے اور وہاں سے چائے نوشی کے بعد گیارہ بجے شب والپس الہ دین بلڈنگ پہنچے.تیسرے روز کی مصروفیات تیسرے روزحضورنے اپنے شتہاروں میں انا کافی وقت صرف فرمایا حیدر آباد اسکندر آباد کے اطراف و جوانب کے مقامات ملاحظہ فرمائے حضور نے حیدر آباد کے صنعتی علاقے اور عثمانیہ یونیورسٹی کی زیر تعمیر عمارات بھی دیکھیں.اس کے بعد حضور اپنے عزیز ان میرزا حسین احمد بیگ صاحب اور نواب مرزا مقصود احمد خاں صاحب کے ہاں تشریف لے گئے.وہاں سے واپسی پر حضور سیٹھ مومن حسین صاحب سکوڑی امور خارجہ کے مکان واقع سعید آباد پر چند منٹ ٹھہرے.یہاں سے حضور نواب اکبر یار جنگ بہادر کی کو بھی پر تشریف لائے حضور نے سیٹھ محمد اعظم حصان کو ارشاد فرمایا تھا کہ وہ نواب رحمت یار جنگ بہادر کمشنر پولیس سے حضور کی ملاقات کا انتظام کریں چنانچہ سیٹھ صاحب موصوف نے اس ملاقات کا انتظام کیا تھا اور نواب رحمت یار جنگ بہادر نواب اکبر یار جنگ بہادر کی کوٹھی پر آکر حضور سے ملے حضور نے اُن سے ریاست کے حالات سے واقفیت حاصل کی اور مسلمانوں کی فلاح وبہبود کے مسائل پرتخلیہ میں اُن سے گفتگو فرمائی اور مشورے دیئے.دوپہر کا کھانا جناب مکرم فداحسین خاں صاحب شاہجہان پوری کی انفورمنزل واقع کاچی گوڑہ پر تناول فرمایا.جہاں بہت سے معززین اور تمام اقربا حضور مدعو تھے.اختتام طعام کے بعد مولوی غلام یزدانی صاحب ناظم آثار قدیمہ و جناب مرزا مقصود احمد خان صاحب و نواب اکبر یار جنگ بہادر و مرزا فرحت اللہ بیگ صاحب انسپکٹر جنرل عدالتہائے حکومت نظام سے حضور مصروف گفتگو رہے.طبقات الارض ، خواص زرعی ، نسلوں کے ارتقاء ، شاعری کے حسن و قبح وغیر ہ نقادانہ بحث رہی.اس کے بعد حضور نے فدا حسین خاں صاحب کے ایک اور مکان دارالارشاد کو ملاحظہ فرمایا جس کو صاحب موصوت سلسلہ کے لئے وقف کر چکے تھے.مرزا فرحت اللہ بیگ صاحب کی طرف سے دعوت حضور چار بجے جائے نوشی کے لئے ملک کے مستان

Page 560

۵۱۶ ادیب جناب مرزا فرحت اللہ بیگ صاحب انسپکٹر جنرل عدالت ہائے حکومت نظام کے ہاں تشریف لیگئے حترام المونین کی طرف سے منور کے رشتہ میں بعض ماموں حیدرآباد میں معزز عہدوں پر فائز تھے مثلا مرزا فرحت اللہ بیگ صاحب مرحوم جو اس وقت انسپکٹر جنرل عدالتہائے حکومت نظام تھے اور بعد میں وہ حج ہائیکورٹ ہو کہ میشن یاب ہوئے.مرزا فرحت اللہ بیگ صاحب نثر نگار ہونے کے علاوہ اعلیٰ شاعر بھی تھے.ان کے ہاں دعوت کے موقعہ پر انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اپنی ایک نعت خود خوش الحانی سے سُنائی.اس کے بعد حضور کے ارشاد پر عطا محمد صاحب (پہریدار) خادم نے حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کی مشہور نعت "عَلَيْكَ الصَّلوةُ عَلَيْكَ السلام خوش الحانی سے سُنائی " سے چوتھے رو علی الصبح بعد نماز فر قبل ناشتہ آپ سے متعلقین وخدام تاریخی مفات چوتھے روز کی مصروفیات کے معانہ کے لئے روانہ ہوئے لو گو کند وشابان قطب شاہی کے مقبرے قلعہ و ملاحظہ فرمائے بسلطان قلی قطب شاہ کے مزار پر فاتحہ پڑھی.اس کے بعد حضور بالا حصار (قلعہ کی انتہائی مبتدی) پر چڑھ گئے.ار موجود الوقت خدام کے ساتھ لمبی دعا کی.قلعہ کے محل وقوع، مضبوطی و بر محل موزون فوجی ضروریات کا اس کی تعمیر میں جو لحاظ رکھا گیا ہے اس کے معائنہ سے حضور بہت متاثر ہوئے.اس معائنہ سے فارغ ہو کر حضور عثمان ساگر تشریف لے گئے جو شہر حیدر آباد سے گیارہ میل کے فاصلہ پر واقع ہے.یہاں حضور کے میزبان جناب خان بهادر احمد الہ دین المخاطب نواب احمد نواز صاحب او بی.اسی کی جانب سے ضیافت کا اعلی پیمانہ پر اہتمام تھا.بعد معائنہ تالاب آپ اپنی قیام گاہ پر تشریف لائے جہاں احباب بکثرت ملاقات کے منتظر تھے.ملاقاتوں سے فارغ ہو کر آپ نے مدرسہ آصفیہ ملک پیٹھ کا معائنہ فرمایا جس کے بانی نواب ممتاز یاد الدولہ بہادر ہیں.ایک مرتبہ قادیان شریف بھی تشریف لے گئے تھے حضور نے مدرسہ کی عمارات اور اس کے محل وقوع و طالب علموں کی آسائش کے انتظامات ملاحظہ فری کر نائی پسندیدگی کا اظہار فرمایا اور مدرسہ کی وز میر زیک میں تعریفی کلمات بھی تحریر فرمائے.دوپہر کے وقت والدہ نو اسب منظور جنگ بہادر کی دعوت طعام سے فراغت حاصل کر کے واپس ہوئے.اه مکتوب محرره ۵ار جولائی شامه تک صلاح الدین صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ ” وہاں قلعہ گولکنڈہ وغیرہ کے دیکھنے کے وقت اور ایک تالاب کے پاس تفریح کے وقت بلکہ ایسے تمام مواقع پر ہم ساتھ ہوتے تھے.قلعہ گولکنڈہ کی سیر کے موقعہ پر مکرم مولوی محمد اسمعیل صاحب وکیل یا دیگر جو درحمه احمدیہ کے تعلیم یافتہ تھے گلے میں پانی کی چھا گل لئے ہر وقت خدمت کے لئے ساتھ ہوتے تھے ؟

Page 561

۵۱۷ زنانہ میں بعض خواتین کی حضور نے بیعت لی پھر خان بہادر جناب احمد الہ دین صاحب اور بی.اکا کا کارخان..برف سازی اور اس کی مشینری کو ملاحظہ فرمایا.اس کے بعد بعض حاضر الوقت خدام کی معیت میں حضور کا فوٹو لیا گیا.بعد نماز مغرب حضور عازم سیشن نامیلی رحیدر آباد ہوئے.والپیسی ت دنیای این نامی اضلاع کے میر حجاب وجود تھے بعض دوست ریاست میسور سے بھی حیدر آباد پہنچ گئے تھے.ان کے علاوہ بغیر از جماعت مسلمانوں کا خاصہ مجمع بھی جوش و خروش کے ساتھ حضور کی ملاقات کے لئے بیتاب تھا مصافحہ کے لئے ایک پر ایک سبقت کر رہا تھا جب مجمع بے قابو ہونے کے درجہ تک پہنچنے لگا تو مولوی سیار بشارت احمد صاحب کی درخواست پر کنور نے ڈھا کے لئے ہاتھ اُٹھائے اور دیر تک مصروف دگا ر ہے.اس کے بعد جناب اعظم علی خاں صاحب کو کمیل و معتمد نجمین اتحاد اسلمین ضلع پڑھنی نے جنہوں نے حضور کے اسٹیشن میں داخلہ کے وقت مسلمانان حیدر آباد کی جانب سے حضور کو پھولوں کے ہار زیب گلو گئے تھے خواہش کی کہ حضور اپنے مقام ومرتبہ کے لحاظ سے مسلمانان حیدر آباد کے نام کوئی پیغام دیں.حضرت امیر المومنین کا پی ام ا اس پر نور نے اپیل مین حیدر آباد پر ایک اہم پیغام دیا جو کا پیغام اس حضورنے اپیل میش وحید آباد پر اہم پیغام دیا حیدر آباد دکن کے تمام روزناموں میں بھی چھپ گیا تھا.اخبار" رہبر مسلمانان حیدر آباد دکن کے نام ابن دو اکتو بر نے اس کا متن درج ذیل الفاظ میںشائع کیا.۹۳ہ حضور نے فرمایا : یں آج اس بلدہ سے جا رہا ہوں.ایک صاحب نے مجھ سے خواہش کی ہے کہ میں اس وقعہ پر کوئی پیغام مسلمانان حسیبٹ آباد کے نام دوں.اس مختصر سے وقت میں میں ایک ضروری بات کی طرف تمام احباب کو توجہ دلاتا ہوں.بہندوستان میں مسلمانوں کی حالت ایسی ہے جیسے نہیں دانتوں میں زبان ہوتی ہے.اس جگہ کی حالت میں نے نمود کسی قدر دیکھی ہے اور بہت سے لوگوں کی زبان سے سنا ہے جس سے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ وہ کام جو ہمارے آباؤ اجداد نے اشاعت اسلام کے بارہ میں کیا تھا ، آج مسلمان اس سے غافل ہیں بلکہ اختلافات کا شکار ہورہے ہیں.آج مسلمان قلمت میں ہیں.اُن کے پاس اسباب نہایت محدود ہیں.اور اُن کا مقابلہ کی لوگوں سے ہے جو بہت بڑی اکثریت رکھتے ہیں اور جن کی تعظیم نہایت اچھی ہے.اگر ان حالات میں کبھی مسلمان یک جہتی سے کھڑے نہ ہوئے تو قریب زمانہ ہیں ان کی تباہی کے

Page 562

۵۱۸ آثار نظر آتے ہیں.اس لئے اپنی جماعت سے بھی اور دوسرے فرقہ والے دوستوں سے بھی میں یہ چاہتا ہوں کہ وہ ان حالات میں اتحاد و اتفاق کی قیمت کو سمجھیں اور اختلافات کو اپنی تباہی کا ذریعہ نہ بنائیں.میں دیکھتا ہوں کہ مسلمان ایسے حالات میں سے گزر رہے ہیں جن میں جانور بھی اکٹھے ہو جاتے ہیں اور لڑائی جھگڑے چھوڑ دیتے ہیں.آپ نے دیکھا ہو گا کہ چڑیاں آپس میں لڑتی ہیں لیکن جب کوئی بچہ انہیں پکڑنا چاہتا ہے تو لڑائی چھوڑ کر الگ الگ اُڑ جاتی ہیں.اگر پڑیاں خطرہ کی صورت میں اختلاف کو بھول جاتی ہیں تو کیا انسان اشرف المخلوقات ہو کر خطرات کے وقت اپنے تفرقہ و اختلاف کو نظراندا نہیں کر سکتا ؟ مجھے افسوس ہے کہ مسلمانوں میں موجودہ وقت میں یہ احساس بہت کم پایا جاتا ہے.اسلام حسین کی عظمت کو اس کے دشمن بھی تسلیم کرتے ہیں اور حیس کی تعلیم کے ارفع و اسلئے ہونے کو مخالف بھی مانتے ہیں اس کی اشاعت و نصرت سے مونہ پھیر کر ذاتی اختلافات میں وقت ضائع کرنا کوئی دانشمندی نہیں ہے.موجودہ خطرات اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ مسلمان با هیمی اختلاف کو ایسا رنگ دیں جس سے اسلام کے غلبہ اور اس کی ترقی میں روک پیدا ہو سب مسلمانوں کا فرض ہے کہ پر چم اسلام کو بلند رکھنے کے لئے ہرقسم کی قربانی کریں جنوبی ہند میں ہمارے بزرگوں نے اسلام کی شوکت کو قائم کیا.اس زمانہ میں ہمارا فرض ہے کہ اس عظمت کو دوبارہ قائم کریں اور اس کے لئے تمام مسلمانوں کی متحدہ کوشش نہایت ضروری ہے.نہیں اس موقعہ سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے میں تحریک کرتا ہوں کہ ہندوستان کے جنوب میں مرکز اسلام کی حفاظت کیلئے جملہ مسلمان مل کر کوشش کریں.اللہ تعالئے ان کے ساتھ ہوا سے حضور انور کا یہ پیغام عام طور پر گہری دلچسپی سے پڑھا گیا.جہد آبادی مسلمانوں کی ایک سیاسی انجین کے نوج رواں نے یہ خیال ظاہر کیا کہ مسلمانوں کی آج کی مصیبت میں اگر کوئی کام دے سکتے ہیں تو وہ احمدی ہیں جو امام جماعت احمدیہ کے تحت پورے منظم اور حالات سے باخبر ہیں.اس پیغام کے بعد ریل نے سیٹی دی.حضور "اللہ اکبر" و "امیرالمونین زندہ باد کے فلک بوسی نعروں میں براستہ بلہار شاہ آگرہ کے لئے روانہ ہوئے.بعض احتباب دور ایک جنکشن قاضی بیٹھ تک الوداع کہنے کے لئے آئے تھے.جہاں حضور نے نماز مغرب و عشاء جمع کروا کر پڑھائیں.ه الفضل دار نومبر ۹۳ در صفحه +

Page 563

019 خصوصی خدمت بجالانے والے مخلص ودوران تیام میں حضور کے ہمراہ مولوی سید بشارت احمد مصاب امیر جماعت احمدیہ حیدر آباد سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب امیر جماعت احمدیہ سکندر آباد حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ، شیخ محمود احمد صاحب عرفانی سیٹھ محمد اعظم صاحب، سیٹھ معین الدین صاحب نیز مختلف مواقع پر دیگر خدام میں سے سیٹھ محمد غوث صاحب سکرٹری بیت المال، نواب اکبر یار جنگ بہادر ، مولوی فضل سمی خان صاحب ناظم عدالت ضلع ، نواب غلام احمد خان صاحب وکیل ہائیکورٹ ، عبد القادر صاحب صدیقی سکرٹری دعوت و تبلیغ ، مولوی حیدر علی صاحب سکوڑی تالیف و تصنیف، مولوی محمد لقمان صاحب اور جنات کے میر عادت علی صاحب بھی ساتھ رہے.حضور کے استقبال و انتظامات آمد و رفت کے لئے خدام الاحمدیہ کے بہن کا رو خدام الاحمدیہ کے رضاکار ہی اتنام زیگران ولایت مولانا صاحب رحال لائل پور کیا گیا تھا.ان خدام کے ذمہ یہ بھی ڈیوٹی تھی کہ شب و روز حضور کی قیامگاہ پر باری باری پہرہ دیں.ڈاکٹر میر احمد سعید صاحب سالار احمدیہ کور نے باور دی حضور کے باڈی گارڈ کے فرائض انجام دیئے.ابو حامد صاحب ان کے مددگار تھے یے بعیسا کر پیچھے ذکر کیا جا چکا ہے.ریاست حیدر آباد کو ایک یہ خصوصیت حاصل ہے کہ حضرت ام المومنین اللہ عنہا کے کئی ایک رشتہ دار دہلی اور لوہارو سے ہجرت کر کے ریاست حیدر آباد کی ایک اہم خصوص یہ وہاں آباد ہو گئے ہیں اور جہاں وہ اعلی سرکاری عہدوں پرف تر ہیں.ان میں سے مرزا فرحت اللہ بیگ صاحب انسپکٹر جرای عدالتہاب نے حکومت حیدر آباد) نواب منظور جنگ بہادر (کلکٹر نواب مرزا مقصود احمد خان صاحب گورنمنٹ کنٹریکی به مرز منصور احمد میاں صاحب مرزاحسین احمد بیگ صاحب جمع ہائیکورٹ ، مرزا سلیم بیگ صاحب مرزا رفیق بیگ صاحب اور فداحسین نمال صاحب سے ملاقات کے لئے حضور اُن کے مکانوں پر تشریف نے گئے، اور ان سب لوگوں نے حضور کے اعزاز میں پر تکلف دعوتمیں دیں.ان کے علاوہ ڈاکٹر غلام یزدانی صاحب ناظم آثار قدیم تو بین الاقوامی شہرت رکھتے تھے.اور مرزا نصیر احمد بیگ صاحب بھی حضور کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے تھے.ان میں سے سوائے فرانسین خان صاحب کے دوسرے تمام اصحاب جماعت احمدیہ سے تعلق نہیں رکھتے تھے.حضور کا پروگرام حیدر آباد میں تین دن ٹھہرنے کا تھا.چنانچہ میرے دن شام کی ٹرین سے روانگی کیلئے سیٹوں ه الفضل و ۲ نومبر ابر صفحه و تا به او سلیٹی محمد اعظم صاحب حیدر آبادی کی یاد داشتوں سے ماخوذ و -

Page 564

۵۲۰ کی ریزرویشن ہو چکی تھی اس لئے مرزا سلیم بیگ صاحب کی دعوت کے لئے کوئی وقت نہ تھا.اس پر مرزا سلیم بیگ صاب نے حضور سے عرض کیا کہ بزرگوں سے سنا تھا کہ آپ ہمارے رشتہ دار ہیں.اگر یہ بات صحیح ہے تو پھر آپ کو اپنے ایک عزیز کی دعوت قبول کرنا ہو گی خواہ اس کے لئے ایک دن اور قیام کرنا پڑے.اس پر حضور نے نہایت خوشی سے اپنے قیام کی مدت میں ایک دن کا اضافہ کر کے اور ریزرویشن منسوخ کرو کہ مرزا سلیم بیگ صاحب کی دعوت کو منظور فرمایا اس طرح منصور نے اپنے ننھیالی رشتہ داروں کے جذبات و احساسات کا خاص خیال رکھا اور دوسروں کے لئے نمونہ قائم فرمایا.حضور نے حیدر آباد کے قیام کے دوران میں حیدر قباد کی تہذیب وتمدن ، وہاں کے لوگوں کے اخلاق ، شائستگی مہمان نوازی اور رواداری ، اُن کے لباس ، رہن سہن، نفاست و صفائی اور شہر حبید یہ آباد ی عمارتوں کی خوبصورتی کی جو اسلامی فو تغیر کا بہترین نمونہ ہے، بڑی تعریف فرمائی.اس راکتو بر سر کو جمعہ کا دن تھا.اس دن نماز جمعہ کے وقت حضور شہر کی مرکزی مسجد (مکہ مسجد ) کے آگے سے گزرے اور وہاں سینکڑوں موٹر کاروں کو کھڑے دیکھ کر اور بی علوم کو کے کہ میدان لوگوں کی کاریں ہیں جو نماز جمعہ ادا کرنے آئے ہیں بڑی خوشی کا اظہار فرمایا اور کہا کہ امراء اورصاحب حیثیت لوگوں میں نماز جمعہ کی ادائیگی کا یہ شوق بہت قابل تعریف ہے.حیدر آباد سے آگرہ تک حیدر آباد سے رخصت ہو کر حضرت امیرالمومنین آگرہ کی طرف روانہ ہوئے ملک صلاح الدین صاحب ایم اے کا بیان ہے کہ آگرہ سے ایک دو شیشن قبل حضور نے فرمایا که چونکه تاج محل کو چاندنی میں دیکھنا ہی اس دیکھنا ہوتا ہے اس لئے بہت جلد سکیسی کا انتظام کرنا چاہیئے چنانچہ وہاں اتر تے ہیں خاکسار نے انتظام کر دیا.حضور سح مخاندان تاریخ محمل کو تشریف لے گئے اور خاکسار ایک ہوٹل میں سامان لے گیا اور حضور کے ارشاد کے مطابق کھانے کا آرڈر دیا اور پھر تاج محل پہنچ گیا.پھر وہاں سے حضور قلعہ دیکھنے تشریف لے گئے.وہاں اتفاقاً بشیر احمد صاحب سکھر دی جو وہاں کاروبار کرتے تھے اور قادیا میں تعلیم پائی تھی) اور حضرت با بوراکبر علی صاحب انسپکٹر ورکس ( والد کرنل ڈاکٹر عطاء اللہ صاحب کو علم ہوگیا اور وہ اور مکرم سیٹھ اللہ جو یا صاحب آگرہ (جو آجکل ملتان میں کہا جر ہیں، قلعہ میں آگئے اور قلعہ کے دیکھنے تک ساتھ رہے.پھر ہوٹل سے کھانا لیا اور حضور مع تمام قافلہ فتح پور سیکری ٹیکسیوں پر گئے.اور ایک مسلمان بھی ساتھ لیا جو اس دوران میں ان لوگوں کے معمول کے مطابق ہر طرح کے قصے بیان کرتا رہا.وہاں دیوان خاص وغیرہ کی عمارت کے اوپر ہی کھانا کھایا گیا حضور نے حضرت سلیم چشتی کے مزار پر دعا فرمائی اور مزارہ سے باہر نکل کر حضور کے فرمان پر ان مجاوروں کو چند روپے خاکسار نے دیئے.وہاں سے فارغ ہو کر حضور ہوٹل میں تشریف لائے ظہر وعصر

Page 565

۵۲۱ کی نمازیں پڑھائیں جس میں مقامی احباب بھی شامل ہوئے اور ایک یا دو احباب نے بعیتیں بھی کیں.مجھے ارشاد فرمایا کہ پہلے بھاکر حضور اور حضور کے خاندان کے لئے سیکنڈ کلاس میں سیٹیں دہلی کے لئے ریزرو کوالوں.اسٹنٹ سٹیشن ماسٹر نے جو مسلمان تھا وعدہ کیا اور گاڑی آنے پر حضور کے حسب منشار انتظام کر دیا.حضرت امیر المومنین آگرہ سے روانہ ہو کر ۲۵ اکتوبریار کو بوقت چار بجے شب دهلی وعلی میں آمد تشریف لائے جماعت احمدیہ و علی و شملہ نے نئی دہلی کے سٹیشن پر حضور پر نور کا استعمال کیا.حضور نے گاڑی سے اتر کر تمام احباب کو جو ایک لمبی قطار میں کھڑے تھے ، شرف مصافحہ بخشا اور پھر ان بیل چودھری ظفر اللہ خان صاحب کی معیت میں ڈاکٹر ہیں.اسے لطیف صاحب کی کوٹھی پر تشریف لے گئے جہاں ڈاکٹر صاحب موصوف نے حضور پُر نور کی دعوت طعام کا انتظام کر رکھا تھا.اس دعوت میں پچاس کے قریب غیر احمدی معززین شہر اور اتنی تعداد میں احمدی بھی مدعو تھے.یہاں حضور نے نواح دھلی کے سرسپور گاؤں کے پچلیں آدمیوں کی دمعہ اہل وعیال بیعت کی.حضور نے اس موقعہ پر بیعت کرنے والوں کو نماز سمجھ کہ ادا کرنے کی تاکید فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ تھوٹ کسی حالت میں بھی نہیں بولنا چاہیے.یہ خطر ناک بیماری ہے.بعد ازاں حضور اپنے قیام کے لئے آنریل چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی کوٹھی پر تشریف لے گئے ملے ۱۲ اکتوبر ۱۳ پر کو حضور نے نماز جمعہ پڑھائی.اسی روز شام کو خواجہ حسن نظامی صاحب کے ہاں دعوت مکتوب محرره ۱۵ جولائی شد سے نذیر احمد صاحب ہو نیو گنگا پور چک ۵۲۷ اپنے مکتوب مورخہ ہر جنوری شاہ میں لکھتے ہیں : " خاک و وضع سر سمور صوبہ دہلی کا مہاجر ہے اور میں نے ۳۴ اور میں بیعت کی تھی.اسی وقت سے مخالفت شروع ہو گئی اور میرے گھر والوں نے یر کسی یہ روبیہ دیئے گھر سے الگ کر دیا تھا.خاکسار نے مزدوری یا پھیری وغیرہ کر کے اپنا گزارہ کیا اور گھر والوں کو تبلیغ کرتا رہا.چار سال کی قربانی اور دعاؤں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے گھر والوں کے دلوں میں احمدیت کی سچائی ظاہر کر دی.اور جس وقت حضور دہلی آئے.۹۳۸ ه...کے موقع پر میرے والد صاحب اور میرے بھائیوں نے اور بھائیوں کی بیویوں رشتہ داروں نے حضور کے ہاتھ پر دہلی پہنچ کر ڈاکٹر عبد اللطیف صاحب کی کو بھی میں بیعت کرنے کی اللہ تعالیٰ سے توفیق پائی.اس وقت حضور کھانا کھا چکے تھے.مگر اس وقت تک کھانے کے برتن اٹھائے نہیں تھے.دہلی کے بڑے بڑے امراء اور عہدیدار دعوت میں شامل تھے اور سب کی موجودگی میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے بیعت لی تھی " گه " الفضل " ۳۰ اکتوبر ۹۳۸ به صفحه ا کالم :

Page 566

۵۲۲ ہوئی اور درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء کے قریب مسجد نواب خال دوران میں حضور کا ایک گروپ فوٹو بھی کھینچی گیا جس میں حضور کے ہمراہ چودھری محمد ظفراللہ خاں صاحب ، شمس العلماء، خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی ، بند سروجنی نیڈ و وغیرہ عمائد و معززین موجود تھے.خواجہ حسن نظامی صاحب کے بعد خان بہادر اکبر علی صاحب کے ہاں دعوت تھی جس میں بہت سے معہ زین شہر مدعو تھے.حضور کی ان ملاقاتوں کا دہلی کے معززین پر خاص اثر ہوا.اور کئی لوگ سلسلہ احمدیہ میں بھی داخل ہوئے ملے ۱۲۸ اکتوبر نہ کی شب کو حضور فرنیٹر میل سے روانہ ہوئے.اسٹیشن پر الوداع کہنے کے دھلی سے روانگی امور لئے چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب ، خان بہادر محمد سلیمان صاحب ، خان صاحب ایس سی حسنین ، شیخ رحمت اللہ صاحب انجنیر ، جناب جوش ملیح آبادی ، خان بہادر کے ایم محسن ، مشیخ اعجاز احمد صاحب سب حج ، چودھری بشیر احمد صاحب سب بحج ، چودھری نصیر احمد صاحب بی اسے ایل ایل بی ڈاکٹر ایس.اسے لطیف صاحب اور احباب جماعت دعلی و شملہ محاضر تھے کہے قادیان میں تشریف آوری حضر امیرمومنین ولی سے روانہ ہوکر اگلے روز ۲۹ اکتو برسانے کوسے میں لیے خدام بخیریت دارالامان تشریف لائے ہے یہ سفر دور خلافت ثانیہ کے ان تمام مشہور اور کامیاب سفروں میں نمایاں اور تبلیغی نقطه نگاهت منفردشان رکھتا ہے جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانہ سفر کے تاثرات خلافت کے دوران اندرون ملک میں اختیار کئے.اور جن کے دائمی نقوش تبلیغی اور علمی دونوں اعتبار سے حضور کے قلب و دماغ پر زندگی بھر قائم رہے.چنانچہ حضرت خلیفہ اسی الثانی رضی اللہ عنہ نے تبلیغی نقطۂ نگاہ سے سفر حیدر آباد و دہلی کی نسبت حسب ذیل تاثرات کا اظہار فرمایا :- ” میرے دل پر ان گالیوں کی وجہ سے ایک ناخوشگوار اثر تھا جو احرار ایجی ٹیشن کی وجہ سے ہمیں ملتی رہی ہیں اور اب بھی مل رہی ہیں.کیونکہ گالیاں فتح اور شکست سے تعلق نہیں رکھتیں.بلکہ گرا ہوا آدمی زیادہ گالیاں دیا کرتا ہے.بہر حال میری طبیعت پر یہ اثر تھا کہ مسلمانوں نے اس موقعہ پر ہمارے الفصل یکم نومبر ۱۹۳۹ ، صفحہ 1 کالم 1 ايضاً سے ايضا

Page 567

۵۲۳ ساتھ اچھا معاملہ نہیں کیا اور مجھے اُن کی طرف سے رنج تھا.شاید میرا گذشتہ سفر اللہ تعالے کی حکمت کے ماتحت اسی غرض کے لئے تھا کہ تا میری طبیعت پر جو اثر ہے وہ دُور ہو جائے.میں نے اس سفر میں یہ اندازہ لگایا ہے کہ میرا وہ اثر کہ مسلمان شرفاء بھی اس گند میں مبتلاء ہیں اس حد تک صحیح نہیں جین حد تک میرے دل پر اثر تھا.مجھے اس سفر میں ملک کا ایک لمبا دورہ کرنے کا موقع ملا ہے.پہلے میں بندھ گیا.وہاں سے بمبئی گیا.بمبئی سے تیدرآباد چلا گیا اور پھر حیدر آباد سے واپسی پر دلی سے ہوتے ہوئے قادیان آگیا.اس طرح گویا نصف ملک کا دورہ ہو جاتا ہے.اس سفر کے دوران میں شعر فار کے طبقہ کے اندر میں نے جو بات دیکھی ہے.اُس سے جو میرے دل میں مسلمانوں کے متعلق رینج تھا وہ بہت کچھ دور ہو گیا ہے.اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ شریف طبقہ اب بھی وہی شرافت رکھتا ہے جو شرافت وہ پہلے رکھا کرتا تھا اور ان خیالات سے جو احرار نے پیدا کرنے چاہیے تھے وہ متاثر نہیں بلکہ ان کی گالیوں کی وجہ سے وہ ہم سے بہت کچھ ہمدردی رکھتا ہے.اگر مجھے یہ سفر پیش نہ آتا تو شاید یہ اثر دیتک میرے ول پر رہتا.اور میں سمجھتا ہوں یہ اللہ تعالے کا احسان ہے کہ اُس نے مجھے اس سفر کا موقع دیا اور وہ اثر جو میرے دل پر تھا کہ اتنے گند میں مسلمانوں کا شریف طبقہ کس طرح شامل ہو گیا وہ اس سفر کی وجہ سے دُور ہو گیا.حیدر آباد میں میں نے دیکھا کہ جس قدر بھی بڑے آدمی تھے الا ماشاء اللہ.تھوڑے سے باہر بھی رہے ہوں گے.وہ اُن پارٹیوں میں شامل ہوتے رہے جو میرے اعزاز میں وہاں دی گئیں.ان لوگوں میں وزراء بھی تھے ، امراء بھی تھے اور نواب بھی تھے.چنانچہ نواب اکبر یار جنگ صاحب بہادر نے جو پارٹی دی اس میں بہت سے تو اب شامل ہوئے اور سارے سو دو سو کے قریب معززین ہوں گے جو اُن کی ٹی پارٹی میں شامل ہوئے.اسی طرح دوسری جگہوں میں بھی میں نے دیکھا کہ شرفاء ، آفیسر نہ جھیز اور بڑے بڑے امراء ان دعوتوں میں شریک ہوتے رہے اور میں دیکھتا رہا کہ اُن کے دلوں میں یہ احساس ہے کہ احرار کی طرف سے ہم پر سخت مظالم توڑے گئے ہیں بلکہ بہتوں نے بیان بھی کیا کہ ہم تسلیم کرتے ہیں جماعت احمدیہ مسلمانوں کی خیر خواہی کے لئے بہت کچھ کر رہی ہے.اسی طرح دہلی میں جو ایک دو تقریبات ہوئیں اُن میں میں نے دیکھا کہ شہر کے ہر طبقہ کے لوگ اور بڑے بڑے رؤساء شامل ہوتے رہے مسلمانوں میں سے زیادہ اور ہندوؤں اور سکھوں میں سے قلیل.اور یہ قدرتی بات ہے کہ جس شخص کے اعزاز میں کوئی تقریب پیدا کی بجائے گی اس میں وہی لوگ زیادہ بلائے

Page 568

۵۲۴ جائیں گے جو اُس کے ہم مذہب ہوں گے.پس ان دعوتوں میں ہر طبقہ کے لوگ شامل ہوئے اور اُن کی باتوں سے میں نے معلوم کیا کہ در حقیقت احرار کا یہ دعوی کہ اُن کا مسلمانوں پر بہت بڑا اثر ہے اور یہ کہ وہ گند جسے شرافت برداشت بھی نہیں کر سکتی مسلمانوں کے دلوں میں گھر کر چکا ہے یہ بائل غلط ہے.اور اس طرح میرے ان خیالات کا ازالہ ہوا جو شرفاء کے متعلق میرے دل میں پیدا ہو چکے تھے اور میں نے سمجھا کہ اگر ان ایام میں مسلمان خاموش رہے تھے تو محض مخالفت کی مہیبت کی وجہ سے.نہ اس و یہ ہے کہ احرار کا اُن کے دلوں پر کوئی اثر ہے اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے مجھے باطنی کے گناہ سے بچا لیا.مجھے پریوں اتر سوں ہی حیدر آباد سے ایک معزز آدمی کا خط ملا ہے.وہ لکھتا ہے میں خود آپ سے ملنا چاہتا تھا کہ دیکھوں تو جس شخص کی اس قدر تعریف اور اس قدر مذمت ہوتی ہے وہ ہیں کیسے.خیالات ہرشخص کے مختلف ہوتے ہیں.اس کے لحاظ سے جو چاہے آپ کے متعلق کہہ لیا جائے.مگر اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ آپ کے اخلاق اور آپ کی محبت نا قابل اعتراض اور قابل تقلید ہے یہی اثر میں سمجھتا ہوں عام طور پر دوسرے لوگوں کے دلوں پر بھی تھا اور بجائے اس کے کہ وہ اس گند سے متاثر ہوتے سوائے چند لوگوں کے باقی تمام شرفاء صورت حالات کو حیرت سے دیکھتے تھے.اور خواہش رکھتے تھے کہ ہم معلوم کریں یہ کیسی جماعت ہے اور اس کا امام کیسا شخص ہے.پس اقرار کے گند سے مسلمانوں کے شریف طبقہ میں صرف تجسس پیدا ہوا.ایک رو تحقیق کی پیدا ہوئی.اس سے زیادہ انہوں نے کوئی اثر قبول نہیں کیا.اسی طرح میرے یہاں پہنچنے پر دو چار دن کے بعد ایک مشہور مسلمان لیڈر نے جنہیں گورنمنٹ کی طرف سے سر کا خطاب بھی ملا ہوا ہے مجھے لکھا کہ میں آپ کے سفر کے حالات اختیار میں نور سے پڑھتا رہا ہوں اور میں اس دورہ کی کامیابی پر آپ کو مبارکباد دیتا ہوں حالانکہ اُن کا اس سفر سے کوئی واسطہ نہ تھا.نہ وہ ان شہروں میں سے کسی ایک میں رہتے تھے جہاں میں گیا.نہ وہ اُن علاقوں کے باشندے ہین.ایک دُور دراز کے علاقہ میں وہ رہتے ہیں اور مسلمانوں کے مشہور لیڈر ہیں.مگر انہوں نے بھی اس دورہ کی کامیابی پر مبارکباد کا خط لکھنا ضروری سمجھا نہیں سے معلوم ہوتا ہے کہ شہر فار کے دلوں میں ایک گریدر تھی اور بجائے اس گند سے متاثر ہونے کے شریف طبقہ ایک تجسس کی نگاہ سے تمام حالات کو دیکھ رہا تھا اور اندرونی طور پر وہ ہم سے ہمدردی رکھتا تھا.میں سمجھتا ہوں ان حالات میں مسلمانوں کے متعلق میری بطنی گناہ کا موجب تھی اور میں اللہ تعالے کا شکرادا کرتا 1

Page 569

۵۲۵ ہوں کہ اُس نے مجھے اس سفر کا موقع دے دیا تا وہ خیال جو ایک شکوہ کے رنگ میں مسلمان شہر فارسے متعلق میرے دل میں پیدا ہو چکا تھا کہ انہوں نے وہ اُمید پوری نہیں کی جو اُن پر مجھے تھی وہ دُور ہو جائے.چنانچہ مجھے پھر اس سفر نے یہ ثابت کر دیا کہ میرا پہلا خیال غلط تھا اور در حقیقت اُن کی خاموشی صرف ہیبت کی وجہ سے تھی ورنہ شریعت دل میں شریف ہی تھے اور وہ اس گند کو پسند نہیں کرتے تھے جو احرار کی طرف سے اُچھالا گیا " ہے جہاں تک علمی پہلو کا تعلق ہے اس سفر کو یہ خصوصیت حاصل ہوئی کہ حیدر آباد مادی یادگاروں سے دکن اور آگرہ کی قدیم تاریخی یادگاروں اور عمارتوں کا مشاہدہ کرنے کے بعد جب عالمی روحانی کا انکشاف حضور نے حویلی میں غیاثالدین تعلق کا تعمیر کره قلعه ملاحظه فرمایا تصور کروم بوده کی طرح عالم روحانی کے انکشاف کی ایسی زیر دست تجلتی ہوئی کہ آپ کی زبان پر بیساختہ جاری ہو گیا." میں نے پالیا.میں نے پالیا " اس ایمان افروز واقعہ کی تفصیلات خود حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے مبارک الفاظ میں درج کرنا ضروری ہے بحضور فرماتے ہیں :.حیدرآباد میں میں نے بعض نہایت ہی اہم تاریخی یادگاریں دیکھیں جن میں سے ایک گولکنڈہ کا قلعہ بھی ہے.یہ قلعہ ایک پہاڑ کی نہایت اُونچی چوٹی پر بسا ہوا ہے اور اس کے گرد عالمگیر کی لشکر کشی کے آنانہ اور اہم قابل دید اشیاء ہیں.یہاں کسی زمانہ میں قطب شاہی حکومت ہوا کرتی تھی اور اس کا دارالله گولکنڈہ تھا.یہ قلعہ حیدر آباد سے میل ڈیڑھ میل کے فاصلہ پر واقع ہے.ایک نہایت اُونچی چوٹی پر بڑا وسیع قلعہ بنا ہوا ہے.یہ قلعہ اتنی بلند چوٹی پر واقعہ ہے کہ جب ہم اس کو دیکھنے کے لئے آگے بڑھتے چلے گئے توحیدر آباد کے وہ دوست جو ہمیں یہ قلعہ دکھانے کے لئے اپنے ہمراہ لائے تھے اورجو گورنمنٹ کی طرف سے ایسے محکموں کے افسر اور ہمارے ایک احمدی بھائی کے عزیز ہیں انہوں نے کہا کہ اب آپ نے اسے کافی دیکھ لیا ہے آگے نہ جائیے.اگر آپ گئے تو آپ کو تکلیف ہوگی.چنانچہ خود تو انہوں نے شریفے لئے اور وہیں کھانے بیٹھ گئے.مگر ہم اس قلعہ کی چوٹی پر پہنچ گئے.جب میں واپس آیا تو میں نے دریافت کیا کہ مستورات کہاں ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ وہ بھی اُو پر گئی ہیں.خیر تھوڑی دیر کے بعد وہ واپس آگئیں.نہیں نے اُن سے کہا کہ تم کیوں کئی تھیں ؟ وہ کہنے لگیں.انہوں نے ہمیں روکا تو تھا " الفصل ۲۴ نومبر ۱۹۳۶ صفحه ۵۰۴ +

Page 570

۵۲۶ اور کہا تھا کہ اوپر مت جاؤ اور حیدر آبادی زبان میں کوئی ایسا لفظ بھی استعمال کیا تھا حسین کا مفہوم یہ تھا کہ اوپر گئے تو بڑی تکلیف ہوگی مگر ہمیں تو کوئی تکلیف نہیں ہوئی.شاید حیدر آبادی دوستوں کو تکلیف ہوتی ہو تو خیر ہم وہاں سے پھر پھرا کر واپس آگئے.یہ قلعہ نہایت اونچی جگہ پر ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نہایت شاندار اور اسلامی شان و شوکت کا ایک پر شوکت نشان ہے.اس قلعہ کی چوٹی پر میں نے ایک عجیب بات یکھی اور وہ یہ کہ وہاں ہزاروں چھوٹی چھوٹی مسجدیں بنی ہوئی ہیں.ان میں سے ایک ایک مسجد اس سٹیج کے جو تھے یا پانچویں حصہ کے برابر بھی پہلے تومیں نے سمجھا کہ یہ مقبرے ہیں.مگر جب میں نے کسی سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ یہ سب مسجدیں ہیں اور اس نے کہا کہ جب عالمگیر نے اس جگہ حملہ کیا ہے تو اُسے ریاست کو فتح کرنے کے لئے کئی سال لگ گئے اور مسلسل کئی سال تک لشکر کو یہاں قیام کرنا پڑا.اس وجہ سے اس نے نمازیوں کے لئے تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر ہزاروں مسجدیں بنا دیں.مجھے جب یہ معلوم ہوا تو میرا دل بہت ہی متاثر ہوا اور میں نے سوچا کہ اس وقت کے مسلمان کس قدر باجماعت نماز ادا کرنے کے پابند تھے کہ وہ ایک ریاست پر حملہ کرنے کے لئے آتے ہیں مگر جہاں ٹھہرتے ہیں وہاں ہزاروں مسجدیں بنا دیتے ہیں تا کہ نماز باجماعت کی ادائیگی میں کوئی کوتا ہی نہ ہو.اسی طرح آگرہ اسلامی دنیا کے عظیم الشان آثار کا مقام ہے.وہاں کا تاج محل دنیا کے سات عجائبات میں سے ایک عجوبہ سمجھا جاتا ہے.وہاں کا قلعہ فتح پور سیکری اور سلیم پیشتی صاحب جو خواجہ فرید الدین صاحب گنج شکر پاکپٹن کی اولاد میں سے تھے ، اُن کا مقبرہ عالم ماضی کی کیف انگیز یادگاریں ہیں.میں نے اُن میں سے ایک ایک چیز دیکھی اور جہاں ہمیں یہ دیکھ کر مسرت ہوئی کہ اسلامی بادشاہ نہایت شوکت عظمت کے ساتھ دنیا پر حکومت کرتے رہے ہیں وہاں یہ دیکھ کر رینج اور افسوس بھی ہوا کہ آج مسلمان نہیں ہو رہے ہیں اور کوئی اُن کا پرسان حال نہیں.فتح پور سیکری کا قلعہ در حقیقت مغلیہ خاندان کے عروج کی ایک حیرت انگیز مثال ہے پچند سال کے اندر اقتدا کبر کا اس قدر زیر دست قلعہ اور شہر تیار کر دینا جیس کے آثار کو اب تک امتداد زمانہ نہیں میٹا سکا، بہت بڑی طاقت اور سامانوں کی فراوانی پر دلالت کرتا ہے.یہ اتنا وسیع قلعہ ہے کہ دور بین سے ہی اس کی حدوں کو دیکھا جا سکتا ہے.خالی نظر سے انسان اس کی حدوں کو اچھی طرح نہیں دیکھ سکتا اور اب تک اس کے بعض حصے بڑے محفوظ اور عمدگی سے قائم ہیں.یہ باتیں بتاتی ہیں کہ مسلمانوں کو بہت i

Page 571

۵۲۷ بڑی طاقت اور سامانوں کی فراوانی حاصل تھی ورنہ چند سالوں کے اندر اندر اکبر اس قدر وسیع شہر اور اتنا وسیع قلعہ ہرگز نہ بناسکتا مغلیہ خاندان کے جو قلعے میں نے دیکھے ہیں اُن میں سے در حقیقت یہی قلعہ کہتے کا مستحق ہے ورنہ آگرہ کا قلعہ اور دلی کا قلعہ صرف محل ہیں.قلعہ کا نام انہیں اعزازی طور پر دیا گیا ہے.قلعہ کی اغراض کو دکن کے قلعے زیادہ پورا کرتے ہیں اور یا پھر فتح پور سیکری کے قلعہ میں جنگی ضرورتوں 7 کو مد نظر رکھا گیا ہے.دہلی میں میں نے جامع مسجد دیکھی.دہلی کا قلعہ دیکھا خوایر نظام الدین صاحب اولیاء کا مزار دیکھا منصور اور ہمایوں کے مقابر دیکھے.قطب صاحب کی لاٹ دیکھی.حوض خاص دیکھا پڑتا قلعہ دیکھا بجنتر منتر دیکھا تعلق آباد اور اوکھلا بند دیکھا.ہم نے ان سب چیزوں کو دیکھا اور عبرت حاصل کی.اچھے کاموں کی تعریف کی اور لغو کاموں پر افسوس کا اظہار کیا مسلمانوں کی ترقی کا خیال کر کے دل میں ولولہ پیدا ہوتا تھا اور ان کی تباہی کو دیکھ کر رنج اور افسوس پیدا ہوتا تھا جن لوگوں نے ہمت سے کام لیا اُن کے لئے دل سے آفرین نکلتی تھی اور جنہوں نے آثار قدیمہ کی تحقیق کی بعض گڑی ہوئی عماد توں کو کھودا پرانے سیکوں کو نکالا اور جو آثار پہلے انہیں محفوظ کر دیا.اُن کے کاموں کی ہم تعریف کرتے تھے.ان میں سے بعض مقامات میرے پہلے بھی دیکھے ہوئے تھے جیسے دہلی اور آگرہ کے تاریخی مقامات ہیں.مگر بعض اس دفعہ نے دیکھے اور یہ ایک مقام سے اپنے اپنے ظرف کے مطابق ہم نے لطف اُٹھایا، میں نے اپنے ظرف کے مطابق.میرے ساتھیوں نے اپنے ظرف کے مطابق ، اور مستورات نے اپنے ظرف کے مطابق.یوں تو ہر جگہ میری طبیعت ان نشانات کو دیکھ دیکھ کر ماضی میں گم ہو جاتی تھی.میں مسلمانوں کے ماضی کو دیکھتا اور حیران رہ جاتا کہ انہوں نے کتنے بڑے بڑے قلعے بنائے اور وہ کس طرح ان قلعوں پر کھڑے ہو کر دنیا کو چیلنج کیا کرتے تھے کہ کوئی ہے جو ہمارا مقابلہ کر سکے مگر آج مسلمانوں کو کوئی پوچھتا بھی نہیں.پھر میں اُن کے حال کو دیکھتا اور افسردہ ہو جاتا تھا.لیکن تغلق آباد کے قلعے کو دیکھ کر جو کیفیت میرے قلب کی ہوئی وہ بیان سے باہر ہے.یہ قلعہ غیاث الدین تغلق کا بنایا ہوا ہے اور اس کے پاس ہی غیاث الدین تغلق کا مقبرہ بھی ہے.یہ قلعہ ایک بلند جگہ پر واقع ہے خاصہ او پر پڑھ کر اس میں داخل ہونا پڑتا ہے جہا نک ٹوٹے پھوٹے آثار سے میں سمجھ سکا ہوں اس کی تین فصیلیں ہیں.اور ہر فضیل کے بعد زمین اور اُونچی ہو جاتی ہے.جب ہم اس پر چڑھے تو میرے ساتھ میری بڑی ہمشیرہ بھی تھیں جن کے متعلق حضرت مسیح موعود

Page 572

AYA علی الصلوۃ والسلام کا الہام ہے کہ نواب مبارک بیگم اسی طرح میری چھوٹی بیوی اور متالی مروجہ کے بطن سے جو میری بڑی لڑکی ہے وہ بھی میرے ہمراہ تھیں.ہمشیرہ تو تھک کر پیچھے رہ گئیں.مگر میں، میری ہمراہی بیوی اور لڑکی ہم تینوں اوپر چڑھے اور آخر ایک عمارت کی زمین پر پہنچے جو ایک بلند ٹیکرسے پر بنی ہوئی تھی.یہاں سے ساری دہلی نظر آتی تھی.اس کا قطمینا، اُس کا پرانا قلعہ انٹی اور پرانی دہلی اور ہزاروں عمارات اور کھنڈر بھاروں طرف سے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اُسے دیکھ رہے تھے اور قلعہ اُن کی طرف گھور رہا تھا.میں اس جگہ پہنچ کر کھڑا ہو گیا.اور پہلے تو اس عبرتناک نظار پر غور کرتا رہا کہ یہ بلند ترین عمارت جو تمام و علی پر بطور پہرہ دار کھڑی ہے اس کے بنانے والے کہاں چلے گئے.وہ کس قدر اولوالعزم، کس قدر با ہمت اور کس قدر طاقت و قوت رکھنے والے بادشاہ تھے جنہوں نے ایسی عظیم انسان یادگاریں قائم کیں.وہ کس شان کے ساتھ ہندوستان میں آئے اور کس شان کے ساتھ یہاں مرے.مگر آج اُن کی اولادوں کا کیا حال ہے.کوئی اُن میں سے بڑھی ہے، کوئی لوہار ہے، کوئی معمار ہے، کوئی موچی ہے اور کوئی میراتی ہے.میں انہی خیالات میں تھا کہ میرے خیالات میرے قابو سے باہر نکل گئے اور میں کہیں کا کہیں جا پہنچا.سب بجائبات جو سفر میں میں نے دیکھے تھے میری آنکھوں کے سامنے سے گزر گئے.دہلی کا یہ وسیع نظارہ جو میری آنکھوں کے سامنے تھا، میری آنکھوں کے سامنے سے غائب ہو گیا.اور آگرہ اور حیدر آباد اور سمندر کے نظارے ایک ایک کر کے سامنے سے گزرنے لگے.آخر وہ سب ایک اور نظارہ کی طرف اشارہ کر کے خود غائب ہو گئے.میں اس محویت کے عالم میں کھڑا رہا ، کھڑا رہا اور کھڑا رہا اور میرے ساتھی حیران تھے کہ اُس کو کیا ہو گیا یہانتک کہ مجھے اپنے پیچھے سے اپنی لڑکی کی آواز آئی کہ ابا جان دیر ہو گئی ہے.میں اس آواز کوشنکر پھر اسی مادی دنیا میں آگیا.مگر میرا دل اس وقت رقت انگیز جذبات سے پر تھا نہیں وہ خون ہو رہا تھا اور خون کے قطرے اُس سے ٹپک رہے تھے مگر اس زخم میں ایک لذت بھی تھی اور وہ غم سرور سے ملا ہوا تھا میں نے افسوس سے اس دنیا کو دیکھا اور کہا کہ میں نے پا لیا ہمیں نے پالیا ! جب میں نے کہا "یکن نے پالیا.میں نے پا لیا تو اس وقت میری وہی کیفیت تھی.

Page 573

۵۲۹ جیس طرح آج سے دو ہزار سال پہلے گیا کے پاس ایک بانس کے درخت کے نیچے گوتم بدھ کی تھی.جبکہ وہ خدا تعالے کا قرب اور اُس کا وصال حاصل کرنے کے لئے بیٹھا اور وہ بیٹھا رہا اور بیٹھا رہا.یہانتک کہ بدھ مذہب کی روایات میں لکھا ہے کہ بانس کا درخت اُس کے نیچے سے نکلا اور ائس کے سر کے پار ہوگیا مگر محویت کی وجہ سے اُس کو اس کا کچھ پتہ نہ چلا.یہ تو ایک قصہ ہے جو بعد میں لوگوں نے بنالیا.اصل بات یہ ہے کہ بڑھ ایک بانس کے درخت کے نیچے بیٹھا اور وہ دنیا کے راز کو سوچنے لگا.یہانتک کہ خدا نے اُس پر یہ راز کھول دیا.تب گوتم بدھ نے یک دم اپنی آنکھیں کھولیں اور کہا ”میں نے پالیا.میں نے پا لیا " میری کیفیت بھی اُس وقت یہی معنی جب میں اس مادی دنیا کی طرف واپس لوٹا تو بے اختیار میں نے کہا.میں نے پا لیا.میں نے پالیا" اُس وقت میرے پیچھے میری لڑکی امتہ القیوم بیگم چلی آرہی تھی.اُس نے کہا.ابا جان! آپ نے کیا پا لیا ؟ میں نے کہا میں نے بہت کچھ پالیا.مگر میں اس وقت تم کو نہیں بتا سکتا.میں اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو جلسہ سالانہ پر بتاؤں گا کہ میں نے کیا پایا.اسی وقت تم بھی سن لینا ہے فصل ششم حضور انور نے اپنے وعدہ کے مطابق اسی سال کسی رومانی سیر روحانی کے پر معارف کے عنوان سے سالانہ جل شانہ پر لی لیکچروں کے ایک اور علمی لیکچروں کا آغاز میرک سلسلہ کا آغاز فرما دیا جو ان میں پانی کمی کو پنچا مبارک دیا اور بعد ازاں کتابی صورت میں چھپ کر اپنوں اور بیگانوں میں بیحد مقبول ہوا یہ ه " سیر روحانی جلد اول طبع اوّل صفحہ ۸ تا ۱۲ (نیا اڈیشن صفحه ۲ تا ۶ تقریر طبه سالانه ۲۸ دسمبر له : کے حضور کے یہ یاد گار لیکچرتین جلدوں میں شائع ہوئے پہلی جلد میں ۱۹۳۸ء ، ۱۹۴۰ اور ۱۹۴۱ء کے لیکچر شامل تھے جن میں عالم روحانی کے آثار قدیمہ اجنتر منتر، سمندر، مساجد، قلعے ، مقبرے ، مینا بازار کا لطیف نقشہ کھینچا گیا تھا.دوسری جلسہ ۱۹۴۸ء و ۱۹۵۰ داؤ ۱۹۵۱ء کی تقریروں پرمشتمل تھی اور اس میں دنیا ئے روحانیت کے مینار، دیوان عام اور دیوان خاص کی سیر کرائی گئی تھی.تیسری جلد میں مندر جہ ذیل مضامین پر روشنی ڈالی گئی تھی.عالم روحانی کا تو بت خانہ ( تقریر کار عالم روحانی کے وفاتہ (تقری شان، عالم روحانی کی نہریں تقریر شده قرآنی باغات ( تقریر الشام عالم روحانی کے لنگر خانے (تقریختہ، روحانی عالم کے کتب خانے (تقریری )

Page 574

۵۳۰ حضور نے اس سلسلہ کے پہلے لیکچر کی ابتداء میں فرمایا.نے دیکھا.آج میں آپ لوگوں کو بتاتا ہوں کہ میں نے وہاں کیا پایا اور وہ کیا تھا جسے میری اندرونی آنکھ یں یہ نہیں کہ سکتا کہ جو کچھ میں نے اس وقت وہاں دیکھا وہ وہی تھا جوئیں آج بیان کرونگا.اس وقت میری آنکھوں کے سامنے سے جو نظار بے گذرے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو راز مجھ پرکھول گیا گو و تفصیل کے لحاظ سے بہت بڑی چیز ہے اور کئی گھنٹوں میں بھی بیان نہیں ہو سکتی مگر چونکہ فیکر میں انسان جلدی سفر طے کر لیتا ہے، اس لئے اس وقت تو اس پر چند منٹ شاید دس یا پندرہ ہی خرچ ہوئے تھے.پس جو انکشاف اس وقت ہوا وہ بطور بیج کے تھا اور جو کچھ میں بیان کروں گا وہ اپنے الفاظ میں اس کی ترجمانی ہوگی اور اس کی شاخیں اور اس کے پتے اور اس کے پھیل بھی اپنی اپنی جگہ پر پیش کئے جائیں گے.اب میں قدم بقدم آپ کو بھی اپنے اس وقت کے خیالات کے ساتھ لے جانے کی کوشش کرتا ہوں“ اے اس وضاحت کے بعد حضور نے بتایا کہ میں نے اس سفر میں سولہ چیزیں دیکھی ہیں (1) قلعے ، (۲) مقایر، (۳) مساجد، (۴) مینار ، (۵) نوبت خانے ، (۶) باخات ، (۷) دیوان عام ) (۸) دیوان خاص ، (۹) نہریں ، (10) لنگر خانے ، (11) دفاتر ، (۱۲) کتب خانے ، (۱۳) مینا بازار ، (۱۴) جنتر منتر (۱۵) سمندر ، (۱۷) محکمہ آثار قدیمیه حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ان مادی اشیاء میں سے ایک ایک چیز کو لیا اور پھر قرآن مجید کے عالم روحانی میں اس کے مشابہ اور متماثل امور کو نہایت و بعد آخرین طریق اور اثر انگیز پیرایہ سے بیان فرمایا اور ثابت کیا کہ حضور پر کھلنے والی نئی دنیا کے عظیم الشان آثار قدیمہ اس سفر میں دکھائی دینے والے آثار قدیمہ سے بہت زیادہ شاندار ہیں.اُس روحانی دنیا کے جنتر منتر انسانی طاقت سے بالا ، اس کی روحانی نہریں عدیم المثال، اُس کے سمندر بے کنار ، اس کے محلات عالیشان ، اس کے لنگر خانے جاری ، اس کے دیوان عام، دیوان خلص بازار کتب خانے اور دفاتر عدیم النظیر، اس کے مینار بے انتہا بلند اور پر شکوہ ، اس کی مساجد غیر محدود اور وسیع و عریض ، اس کے مقبرے دلوں کو ہلا دینے والے اور اُس کے قرآنی نوبت خانے دنیوی نوبت خانوں سے زیادہ شاندار ہیں جن سے پانچوں وقت خدائے واحد کی بادشاہت کا پر مصیبت اور پر جلال اعلان کیا جاتا ہے.به سیر روحانی" طبع اول صفحه ۱۲-۱۳ (طبع ثانی صفحه ۷) به

Page 575

۵۳۱ سید نا حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے سیر روحانی “ کی علمی تقریروں میں ایسے ایسے قرآنی حقائق و معارف کے دریا بہا دیئے اتنے بے شمار نکات معرفت بیان فرمائے کہ عقل انسانی دنگ رہ جاتی ہے اور دل اس یقین سے لبریز ہو جاتا ہے کہ بندا نے علوم ظاہری و باطنی کے پر کئے جانے کی جو پیشگوئی اپنے مقدس مسیح موعود کو عطا فرمائی تھی، وہ پوری شان و شوکت سے پوری ہوئی.سیر روحانی کے بیشمار کمالات میں سے یہ تھا کہ سلطان البیان حضرت خلیفتہ السیح الثانی نے جہاں خدا کی دی ہوئی توفیق سے تفسیر قرآن اور تاریخ اسلام کے امتزاج سے اسلامی حقائق بالکل نئے اور اچھوتے رنگ میں پیش فرمائے وہاں اپنی شان خطابت سے اُن حقائق کے ذریعہ جماعت احمدیہ کے سامنے ایک بلند نصب العین رکھا اور اُن میں روحانی زندگی کی ایک نئی روح پھونک دی.اس حقیقت کے ثبوت میں " سیر روحانی" کا صرف ایک اقتباس درج کرنا کافی ہو گا.حضور نے ۲۰ دسمبر ۹ہ کو عالم روحانی کے نوبت خانہ کا بالتفصیل تذکرہ کرنے کے بعد پر جلال لب و لہجہ میں ارشاد فرمایا :- " اس نوبت خانہ سے جو یہ نوبت بھی ، یہ کیا شاندار نوبت ہے.پھر کیسی معقول نوبت ہے وہاں ایک طرف بینڈ بج رہے ہیں.ٹوں ، ٹوٹی ، ٹوں ٹیں ٹیں ہیں.اور یہ کہتا ہے.اللهُ أَكْبَرْ - اَللهُ أَكْبَرُ : أَشْهَدُ أن لا إلَهَ إِلَّا اللَّهُ : اشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ حَيَّ عَلَى الصَّلوةِ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ کیا معقول باتیں ہیں.کیسی سمجھ دار آدمیوں کی باتیں ہیں.بچہ بھی سنے تو وعد کرنے لگ جائے اور اُن کے متعلق کوئی بڑا آدمی سوچے تو شرمانے لگ جائے.بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ ٹوں ، ٹوں ، ٹوں.ٹیں ٹیں ہیں.مگر افسوس ! کہ اس نوبت خانہ کو آخر مسلمانوں نے خاموش کر دیا.یہ نوبت خانہ حکومت کی آواز کی جگہ چند مرثیہ خوانوں کی آواز بن کر رہ گیا.اور اس نوبت کے بجنے پر جو سپاہی جمع ہوا کرتے تھے وہ کروڑوں سے دسیوں پر آگئے اور اُن میں سے بھی ننانوے فیصدی صرف رسما اُٹھک بیٹھک کر کے چلے جاتے ہیں.تب اس نوبت خانہ کی آواز کا رعب جاتا رہا.اسلام کا سایہ کھیچنے لگ گیا.خدا کی حکومت پھر آسمان پر چلی گئی.اور دنیا پھر شیطان کے قبضہ میں آگئی.

Page 576

۵۳۲ اب خدا کی قوبت جوش میں آئی ہے.اور تم کو ، ہاں تم کو ، ہاں تم کو ، خداتعالی نے پھر اس نوبت خامنہ کی ضرب سپرد کی ہے.اسے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو! اسے آسمانی بادشاہت کے موسیقار ولا اسے آسمانی باد سیاست کے موسیقارو !! ایک دفعہ پھر اس نوبت کو اس زور سے بجاؤ کہ دنیا کے کان پھٹ جائیں.ایک دفعہ پھر اپنے دل کے خون اس قسرنا میں بھر دو.ایک دفعہ پھر اپنے دل کے خون اس قسر نا میں بھر دو کہ عرش کے پائے بھی لرز بھائیمیں اور فرشتے بھی کانپ اُٹھیں تا کہ تمہاری دروناک آوازیں اور تمہارے نعرہ ہائے تکبیر اور نعرہ ہائے شہادت توحید کی وجہ سے خدا تعالے زمین پر آجائے اور پھر خدا تعالے کی بادشاہت اس زمین پر قائم ہو جائے.اسی غرض کے لئے میں نے تحریک جدید کو جاری کیا ہے اور اسی غرض کے لئے میں تمہیں وقف کی تعلیم دیتا ہوں سیدھے آؤا اور خدا کے سپاہیوں میں داخل ہو جاؤ، محمد رسول اللہ کا تخت آج مسیح نے چھینا ہوا ہے.تم نے مسیح سے چھین کر پھر وہ تخت مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ کو دینا ہے اور محمد رسول اللہ نے وہ سخت خدا کے آگے پیش کرتا ہے.اور خدا تعالنے کی بادشاہت دُنیا میں قائم ہوتی ہے.پس میری سنو ! اور میری بات سکے پیچھے چلو کہ میں توکچھ کہ رہا ہوں وہ خدا کہہ رہا ہے.میری آواز نہیں.میں خدا کی آواز تم کو پہنچا رہا ہوں.تم میری مانو.خدا تمہارے ساتھ ہو! خدا تمہارے ساتھ تم ہو! خدا تمہارے ساتھ ہو اور تم دنیا میں بھی عورت پاؤ اور آخرت میں بھی مرمت پاوه به سیر روحانی جلد سوم صفحه ۲۸۵ تا ۲۸۷ ( تقریر سید نا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ بر مواقع جا سیال ۱۲۸۰ دسمبر (2)

Page 577

۵۳۳ فصل هفتم ۱۹۳ء میں مندرجہ ذیل بزرگ داغ مفارقت دے گئے :- جلیل القدر صحابہ کا انتقال.مصون محمد دوست صاحب مون مالیر کومله رجعت نو بر شده وفات ر فروری ۹۳ ۲ حضرت حاجی محمد خان صاحبت ساکن بستی و ریام ملان ربیعیت دسمبر ستشاهد وفات ۳۰ مارچ ۳ مرحوم فارسی کے عالم تھے اور اپنے علاقہ میں امانت و دیانت اور حق گوئی میں مشہور تھے.آپ کانیک نمایند دیکھ کر آپ کی برادری کے اکثر لوگ داخیل احمدیت ہوئے اور جھنگ کے ضلع میں بستی دریام کیلانہ احمدیوں کی بستی سمجھی جانے لگی ہیے سموسے حضرت مولوی عبدالحمید صاحب امیر جماعت احمدی کندر آباد دکن رونان اپریل نام شیخ جان محمد صاحب زیر آبادی روفات ۲۰ را پریل اه اه - حضرت حسین بی بی مایه والده ما جاده چو ہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب ربیعت سایر وفات ۱۲ مئی تاوان نہایت عایده - زاینده اور مہمند خاتون تھیں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ان کے مزار کی کتب اپنے قلم سے تحریر فرمایا جو یہ ہے :- ب الله الرحمن الرحيم شهر را انت على وصوله الكريم حسین بی بی بیت چوہدری الہی بخش صاحب مرحوم زوجه حاجی چوہدری نصر اللہ خان صاحب مرحوم سال پیداکنش شد سال بعیت ۱۹۰۴ تاریخ وفات ۱۶ رمئی ۱۹۳ سر بروز شنبه چوہدری نصراللہ خان صاحب مرحوم کی زوجہ - عزیزم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب سلمہ اللہ تعالٰی کی والدہ صاحبہ کشت و رویاء تھیں.رویا ء کے ذریعہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شناخت نصیب ہوئی اور اپنے مرحوم شوہر سے پہلے بیعت کی.پھر رڈیار کے ذریعہ ہی سے خلافت ثانیہ کی شناخت کی اور مرحوم خاد نار سے پہلے بیعت خلافت کی.دین کی غیرت بادرجہ کمال ١٩٣٨ الفضل در فروری دو صفحہ کالم 1.یاد رہے کہ اس مضمون میں صوفی صاحب کی بیعت کا سن یہ لکھا ہے مگر یہ درست نہیں کیونکہ آپ نے لیکچر دھیانہ نومبر 19ء کے موقعہ پر بیعت کی تھی.ہے وار سے افضل مو را پروین گفت کالم ۱-۲ الفضل ارابي الفضل مارس ۱۹ من -

Page 578

مهم ۵۲۳ تھی.اور کلام حق کے پہنچانے میں نڈر تھیں.غرباء کی خبر گیری کی صفت سے متصف اور غریبیانہ زندگی بسر کرنے کی عادی - نیک اور دُرُود والدہ تھیں.اللہ تعالیٰ انہیں اور ان کے شوہر کو جو نہایت مورب مخلص خادم سلسلہ تھے اپنے انعامات سے حصہ دے اور اپنے قرب میں جگہ دے اور ان کی ادلانہ کو اپنی حفاظت میں رکھتے.آمین مرزا بشیر الدین محمود احمد نے حضرت صوفی رحت اللہ صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیه گنج مغلپوره را مورد وفات ۲ جوان ۹۳ - نرجان صاحبته تائی صاحبه مرز اسلام افتار بیگ صاحیبه زوفات مهر جون اور مالی میان بینی بخش هاست سان بالہ دوفات اور جولائی ۹۳ و بعمر سال و چوهدری دین محمد صاحب کیونڈر شفاخانه و زیر آباد 11 - - كم روفات در جولائی که بعمر 4 سال ہے ۱۰ - حضرت مولوی محمد ابوالحسن صاحب بز دارد تاریخ و فاست اکتوبر ۱۹ - چراغ بی بی صاحبہ اہلیہ محترمہ حضرت ڈاکٹر کرم الہی صاحب امرتسری (وفات ، نو بیرته حضرت پیر شمس الدین صاحب گولی کی ضلع گجرات ربیعت غائباً وفات ارد بمیرد و عمر تو سال، گولیکی گولیکی کے خاندان پیر زادگان میں سب سے معمر بزرگ جن کو قبول احمدیت کی سعادت نصیب ہوئی شیشے ۱۳ سید گل حن مصاب ستربین پنج بریان تحصیل کھاریاں ضلع گجرات روفات دسمبر ۹۶ - ۱۴ حضرت حکیم احمد دین صاحب شاہدرہ - موجد طب جدید وفات ۲۲ دسمبر ۱۹۳۸ ء اسی سال حضرت حکیم مولانا عبید اللہ نکل نے انتقال کیا.تاریخ وفات ۲۹ ستمبر ۱۹۳۸ء) عمر ۱۰۰ سال ان کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مرزا غلام محی الدین صاحب کی بیٹی مرزا احمد بیگ سناب ہو شیار پوری کی اہلیہ اور محمدی بیگم صاحبہ کی والله سمانی عبد المجید صاحب پریزیڈنٹ جماعت احمدیہ منصوری سے چوہدری شیخ احمد صاحو است ۱۹۲ و ا ن اصحاب الحمار جلد یازدهم مولفه صلاح الدین ماه هلک ایم با تازیان دسمبر الماء قادیان دسمبر ۵۲۳ نفضل هر جون ۱۹۳۵ الصفحه ۲ کالم - افضل کار جوان ها کالم ۱۳ افضل هو جولائی شما کالم له الفضل در جولائی شش سب کالم : - حالات زندگی الحکم ۱۴۰ فروری ۱۹۳۸ء تا ۷ مارچ ۱۹۳۹ ء الفضل 10 نومبر مت کا کام شه حضر قاضی ظہور الدین صاحب اکمل نے الفضل نے جنوری ۱۹۳۹ و دشت میں حضرت پیر صاحب کے سوانح شائع کرا دیے تھے کے نفل اور مصر پیر بغض صفحہ میں آپ کے جانا زندگی چھپ چکے ہیں.ان الفضل ۲۷ رو کشمیر کا کالم ال الحکم ۱۴۷ نومبر ۱۹۳۸ تا مئی ۱۹۳۹ء ( مفصل حالات) تاریخ سن بیعت ۱۹۲۱ در سن وصیت ۱۳۸۱ تاریخ و تا دور جنوری با آپکے حالات کیلئے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا مضموان من الفضل ۱۹۲۰ را نفضل اگر فروری افات را بریله و الفضل اور ایل ارما کالم ) حافظ سياد المجيد صاحب منصوری مرحوم کے چھوٹے بھا، میر فضل الرحمن ۹۳ فی گوش پارس مسعودی نے دیکھے حالات زندگی اخبار المفضل ۲۱-۲۳ - ۲۴-۲۸ جوان کی ۳ اور میں شائع کرا دیئے تھے.جولائی تا عضی

Page 579

۵۳۵ خان سیکرٹری تعلیم و تبری شمله یه خانصاحب فقیر محمد صاحب ایگی ن چار ساده به خان بهادر محمد علی ها احمدنگر ضلع کوہاٹ اور ڈاکٹر غلام علی صاحب سان جور ضلع لائل پور نے بھی اسی سال وفات پائی.حضرت امیر المومنین کی طرف سے اس عجیب بات ہے کہ اس سال مئی میں یکے بعد دیگرے کئی اصحاب یہ انتقال کر گئے خیموں کے اس اجتماع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے بعض وفات یافتگان کا ذکر خیر ایک مضمون تحریر فرمایا میں میں کھا _: یوں تو مئی کا مہینہ ہمارے لئے ہمیشہ ہی ایک بڑے رنج و غم کی یاد کو تازہ کر دیتا ہے لیکن اس سال کی مٹی میں یہ خصوصیت ہے کہ اس میں غم پشتل تازہ واقعات کا بھی اجتماع ہو گیا ہے.....جن مرحومین کا میں نے ذکر کیا ہے اُن میں سے ہر ایک خاص رنگ رکھتا تھا.چیری عبد القادر حساب مرحوم.....چوہدری عبد القادر صاحب لیڈر ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتے تھے جس کے بڑے افراد سلسلہ کے سخت مخالف تھے اور میں نو جوانی میں احمدی ہوئے اور سب مخالفتوں کا خاموش مقابلہ کرتے ہوئے اپنے پختہ ایمان کا ثبوت دیا.باوجود ایک مکروہ چشمہ سے تعلق رکھنے کے ایک نیک اور سعید نوجوان تھے.اللہ تعالے اُن کی روح کو بخشش سے ڈھانپ ہے.خان فقیر محمد خان صاحب مرحوم ا...خان صاحب فقیر محمد خان صاحب مرحوم رہی ہیں جنونی آنچ し اتصال پہلے سے ہی میں کہا تھا کہ ہماری دو والدہ تھیں اور ہر ایک سے دو دو بیٹے ہیں ہم نے انصاب ے کام کیا ہے اور ہر ایک والدہ کا ایک ایک بیٹیا احمدیوں کو دے دیا ہے اور ایک ایک بٹیا سنیوں کو.گویا رو پے میں سے آٹھ آٹھ آنے ہم نے دونوںمیں تقسیم کر دیتے ہیں.اور میں نے اس پر انہیں جواب دیا تھا کہ خلائی سلسلے ہیں تقسیم پر خوش نہیں ہوتے بلکہ وہ تو درا ہی لیا کرتے ہیں.وہ اس وقت اپنے اہل وعیال سمیت ولایت جاہے تھے ان کو خدا نے انگلستان میں ہی ہدایت دی اور وہیں سے صحیت کا خط لکھ دیا اور کھا.آپ کی بات کس قدر جلد پوری ہوگئی میں تیسری چونی آپ کے پاس بیعت کے لئے آتا ہوں.دعا کریں چوتھی ہوتی یعنی بقیہ بھائی بھی احمدی مه وفات په راپریل ۹ ای ای زندگی کیلئے ملاحظہ ہو افضل ۲۶ اپریل و مت کے وفات مرئی اور افضل رہی مٹی کو ہاٹ کے ایک میں افغان خاندان بنگشن سےتعلق رکھتے تھے.محمد یں اکٹر انسٹنٹ کٹر کے عہد پر فائزہ ہے.بہت سمنکسرالمزاج تھے اورمعمولی سے معمولی احمدی کو دیکھکر ان کا دل باغ باغ ہو جاتا تھا آپ کی خاص یاد گار مسجد احمدیہ کوہاٹ ہے جس کیلئے اپنی زمین ہیں اور ایک متونی مٹی کے زیور فروخت کرکے پر یہ مہیا کیا اور ایک کی قسم تقدیمی اس مضمون میں جو حضور ہے مقتل غیر په حافظ بشیر احمد صاحب جالند سری کا ذکر فرمایا تھا.اس مین میں حضور نے جو کلمات تحریر فرمائے وہ کھلیں خدام الاحمدیہ کے حالات میں درج کئے.

Page 580

۵۳۶ ہو جائے.انہوں نے پہلا چندہ اُسی دن بھجوایا.اور پھر نہایت استقلال سے دینی خدمت میں حصہ لیتے رہے.گذشتہ سال اُن کے اکلوتے لڑکے عزیز کیپٹن ڈاکٹر نثار احمد کا لڑائی میں گولی لگنے سے انتقال ہو گیا.اب ایک سال کے بعد وہ چھت کے گرنے کی وجہ سے وفات پاگئے.انا للہ وانا الیہ راجعون.ہمارا لاؤڈ سپیکر عرصہ تک انکی روح کے لئے ثواب کا ذریعہ بنا رہے گا اور اسکی گونج میں اُن کی آواز ہمیں اُن کی یاد دلاتی رہے گی.جوار محمد ظفراللہ خان صاب کی والد صاحبہ کی وفات ( آخر میں عزیزم چو ہندی سر ظفر اللہ خان صاحب کی والد کی وفات کی خبر آئی ہے.مرحومہ کا اخلاص | اس میں کوئی شک نہیں کہ مرحومہ کے خاوند چوہدری نصراشد خان صاحب مرحوم ایک نہایت مخلص اور قابل قدر احمدی تھے اور انہوں نے سرسے پہلے میری آواز پر لبیک کہی.اور اپنی زندگی وقف کی اور قادیان اگر میرا ہاتھ بٹانے لگے.اس لئے اُن کے تعلق کی بنار پر اُن کی اہلیہ کا مجھے پر اور میری وساطت سے جماعت پر ایک حق تھا.پھر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ عزیزم چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحب جنہوں نے اپنی عمر کے ابتدائی حصہ سے ہی رشد و سعادت کے جوہر دکھائے ہیں اور شروع ایام خلافت سے ہی مجھ سے اپنی محبت اور اخلاص کا اظہار کرتے چلے آئے ہیں.مرحومہ اُن کی والدہ تھیں اور اس تعلق کی بنا پر بھی ان کا مجھے پر حق تھا لیکن باوجود اس کے کہ اکثر عورتوں کا تعلق تفصیلی ہوتا ہے یعنی اپنے باپ یا بیٹے یا بھائی کے سبب سے ہوتا ہے مرحومہ ان مستثنی عورتوں میں سے تھیں جن کا تعلق براہ راست اور بلا کسی واسطہ کے ہوتا ہے.وہ اپنے مرحوم خاوند سے پہلے سلسلہ میں داخل ہوئیں.اُن سے پہلے انہوں نے بیعت خلافت کی اور ہمیشہ غیرت و حمیت کا ثبوت دیا.چندنوں میں بڑھ بڑھ کر حصہ لینا غرباء کی امداد کا خیال رکھنا ان کا خاص امتیاز تھا.دھاری کی کثرت اور اس کے نتیجہ میں سچی خوابوں کی کثرت سے خدا تعالیٰ نے ان کو عزت بخشی تھی.انہوں نے خوابو سے ہی احمدیت قبول کی اور خوابوں سے ہی خلافت ثانیہ کی بعیت کی پہنے قادیان میں ۱۹۳۰ ء کی عید الفطر دور و بر کو عید الا ر ی حضرت خلیفه ای اسلامی من نے قادیان میں نماز عید حسب معمول عید گاہ میں پڑھائی.چونکہ دس ہزار کے قریب مجمع تھا اس لئے حضور نے اس دفعہ بھی خطبہ ارشاد فرمانے سے قبل حسب ذیل خاکہ کے مطابق بعض احباب کو مقرر فرما دیا جو باری باری مجمع تک گوانہ پہنچاتے تھے ہے.شه روزنامه الفضل نقویان ۱۲۲ مسی در مدت ۲ ه منفضل ۲۷۰ نومبر ۱۹۳۶ در شهر ۲ کانم ۲۰۱

Page 581

شمال ۵۳۷ مردوں کا اجتماع وجود در خلیل احمد صاب نامه مولوی عبدالغفور صا مولوی محمد صدیق صاحب tite خواتین کا اجتماع جنوب مولوی محمد عبد اللہ صاحب اعجاز اگلے سال (۱۹۳۵) سے عیدگاہ میں بھی لاؤڈ سپیکر نصب کیا جائے گا اور آئندہ کیئے ماضی انتظام کی ضرور نہ رہی سالانہ جلسہ قادیان | ایک سکھ سردار دهرم انت سنگھ صاحب پرنسپل خالصه بر چارک و دیاله تر نتاران ۳۶ ۹۳۷ مہر کے دو سالانہ جلسوں پر قادیان آئے.اور حضرا امیرالمومنین ایک سکھ و دوان کی نظر میں کی تقریر اور زیارت سے بہت محظوظ ہوئے اور اپنے خیالات کا اظہائی درجہ ذیل الفاظ میں کیا :- اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ مختصر الفاظ میں انسانی زندگی کا مقصد کیا ہے تو میرا جواب یہ ہوگا کہ نیک بننا اور نیکوں کی زیارت کرنا.ہر مولی نس مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب آن قادیان اُن خوش قسمت اور بند ہستیوں میں سے ہیں جو اپنی زندگی میں اس اصول پر عمل کرتے ہیں حضرت مرزا صاحب کی زیارت کرنا اور آپ کے ارشادات کو شتنا ایک سعادت ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بعض مخصوص لوگوں کو حاصل ہوتی ہے.کرسمس کے ایام میں جبکہ لوگ بکثرت دریاؤں پہاڑوں عمارتوں دوسری بے جان چیزوں اور بے معنی نظاروں کو دیکھنے پر اپنا وقت پیسہ اور قوت عمل ضائع کرتے ہیں خدا تعالے کے بعض مخصوص بندے قادیان کو بھاگتے ہیں تا ان با برکت مسرتوں سے لطف اندور ہوسکیں جو تمام مذاہب کے نیک اور مخلص لوگوں کے لئے آئندہ زندگی میں مقدر ہیں.میں نے جماعت احمدیہ کے دو سالانہ میلے یعنی کہ اس کے دیکھتے ہیں.وہاں میں نے خوبی ہی خوبی دیکھی ہے.میں نے کسی کو تمباکو نوشی کرتے.فضول بکواس کرتے لڑتے جھگڑتے بھیک مانگتے عورتوں پر آوازے کستے.دھوکا بازی کرتے لوٹتے اور نغ طور پر پہنتے نہیں دیکھا.شرابی جواری جبیب تراش.اس قسم کے بدمعاش لوگ قادیان کی احمدی

Page 582

۵۳۸ آبادی میں قطعا مفقود ہیں.یہ کوئی معمولی اور نظر انداز کرنے کے قابل خصوصیت نہیں.کیا یہ بات اس وسیع براعظم کے کسی اور مقدس شہر میںنظر آسکتی ہے ، یقینا نہیں.میں بہت مقامات پر پھرا ہوں اور پورے زور کے ساتھ ہر جگہ یہ بات کہنے کو تیار ہوں کہ بجلی کے زبردست جینسر ٹیو کی طرح قادیان کا مقدس وجود اپنے پیچھے متبعین کے قلوب کو پاکیزہ علوم سے منور کرتا ہے اور قادیان میں احمدیوں کی قابل تقلید زندگی اور کامیابی کا راز یہی ہے.حضرت مرزا صاحب ایسی روانی کے ساتھ پانچ سے نوگھنٹوں تک بولتے ہیں کہ ہند بستان یا اس سے باہر اس کی مثال نہیں مل سکتی.دسمبر ہ میں میں نے مرزا صاحب کی تقریر سنی.جو آپ نے کھڑے ہو کر گھنٹہ کی.اور سامعین جن میں میں خود بھی شامل تھا بت بنے سنتے رہے اور نہایت غور کے ساتھ آپ کے مسکراتے ہوئے چہرہ مبارک کو دیکھتے رہے.جلسہ کی تمام تقریریں مذہبی ہوتی ہیں جن کا استدلال قرآن مجید سے کیا جاتا ہے لیکن اُن میں کوئی ایسی بات نہیں ہوتی جو بالواسطہ یا بلا واسطہ کسی دوسرے کے لئے ولآزار ہو.اسلام کا بول بالا ہوتا ہے مگر دوسرے مذاہب کی تحقیر کرکے نہیں.حضرت مرزا صاحب اور آپ کے خدام کی مہمان نوازی.باقاعدگی اخلاص اور دوسری خوبیاں یقیناً بے نظیر ہیں.جتنا عرصہ میں قادیان میں رہا.میرے دل میں وہی جذبات پیدا ہوتے رہے جو ہمارے روحانی پیشوا نے ان الفاظ میں بیان فرمائے ہیں کہ ہی واحد لا شریک سب میں موجود ہے.نانک اُسے دیکھتا اور خوش ہوتا ہے.ملے فصل ششتم ۱۹۳ ء کے بعض متفرق گراہم واقعات مصر کے پہلے احمدی السید عبد الحمید خورشید ۱۳ جنوری دارد استید عبد الحمید خورشید قادیان میں کر تاریان در ایران تشریف رائے ہے اور قریب یہ مانگ مرکز احمدیت کی برکات سے مستفیار جو گیر ۱۳ فروری شر کو اپنے وطن روانہ ہو گئے ہیں ه و روزنامه الفضل ۲۸ جنوری ۱۹۳ صفحریم روزنامه الفضیل ۱۵ار فروری ۱۹۳۸ در صفحه اکالم ۱ - و ڈیڑھ ن روزنامه افضل بر جنوری ۱۹۳۰ اور صفحه کانما

Page 583

۵۳۹ مسجد اقصٰی میں لاؤڈ سپیکر آلہ نشر الصوت) کی تنصیب حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے نمازیوں کی تعداد میں اضافہ کے پیش نظر ر دسمبر ۱۹۳۷ء کو مسجد اقصٰی میں لاؤڈ سپیکر لگانے کی تاکید فرمائی جس پر صوبہ سرحد کے خان صاحب فقیر محمد خان صاحہ نے اپنے آقا کا منشاء مبارک اپنے فریج سے پورا کر دیا.اور حضور نے پہلی بار مجبوری شام کو اس آلدہ کے ذریعہ خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس میں ثابت کیا کہ آلہ انشر الصوت اپنے عقیدہ شرک پر کاری ضرب لگائی ہے لیئے حضرت ماسٹر عبد الرحمن صاحب حضرت اش را با این صاحب و سلم سابق سنگھ نے سکھ لڑ پر کی روشنی میں صداقت اسلام پر کئی کتابیں لکھی تھی اس سلسلہ میں نوسلم کی قید اور سنائی.آپ نے ایک تبلیغی ٹریکٹ ، بیا ان میمه شده میگه دین در هرم بھی لکھا جس کی بناء پر آپ کو سکھ مجسٹریٹ علاقہ بھائی جسونت سنگھ نے ۲۴ جنوری ۱۹۳ کو زیر د تعد ۱۸- ایکٹ سے چھ ماہ قید بامشقت اور ایک سو روپیہ جرمانہ عدم ادائیگی کی صورت میں ڈیڑھ ماہ مزید سخت قید کی سزادی.سزا کا حکم حضرت ماسٹر صاحب نے نہایت بشاشت اور خوشی کے ساتھ شناس اور جب ہتھکڑی پہنائی گئی تو انہوں نے اسے چوما اور جیل خانہ جاتے ہوئے نوجوانان احمدیت کو پیغام دیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت بابا نانک رحمہ اللہ علیہ کے مسلمان ہونے کی جو صداقت پیش کی ہے.وہ دنیا کے سامنے پیش کرتے رہیں کیے حضرت ماسٹر صاحب اس کے بعد پہلے گورداسپور جیل میں رہے پھر میانوالی جیلی کی طرف منتقل کر دیئے گئے.جسٹریٹ علاقہ کا یہ فصیل اس درجہ اہم اور غیر معقول تھا کہ سکے فرار کے حلقوں اختیار ریاست کا نوٹ میں مجھ سے حیرت و استعجاب کی نظر سے دیکھا گیا.چنانچہ مشہور سکھ صحافی سردار دیوان سنگھ صاحب مفتون نے اپنے جریدہ "ریاست د ر جنوری ۱۹۳۷ء میں گورو نانک کو مسلمان کہنا جرم ہے ؟" کے عنوان سے حسب ذیل لیڈنگ آرٹیکل لکھا :.گورو نانگ ایک ایسی مقدس شخصیت اور صلح کی پالیسی کے بزرگ تھے کہ ہندو اُن کو ہندہ کہتے ہیں.اور مسلمان اپنا بزرگ تسلیم کرتے ہیں.چنانچہ یہ تاریخی واقعہ ہے کہ گورو نانک صاحب کے انتقال پر ے فضل اور جنوری ۹۳ در صفحه ۲ کالم ! روز نامه الفضل ۱۴۳ جنوری ۱۹۳۷ و صفحه ۲ - الفضل ۳ در جنوری ۱۹۳۰ ه صفحه ۱- ۴

Page 584

۵۴۰ ہنہ ڈان اور مسلمانوں کے درمیان جھگڑ ایس یا ہو گی ہندو آپ کے جسم کو جلانا چاہتے تھے اور مسلمان اسلامی طریقہ کے ساتھ دفن کرنا.آخر آپ کے جسم کی چادر کے کپڑے کو آدھا مسلمانوں نے لیا اور آدھا بنا نوں نے اور دونوں نے اپنے رسم ورواج کے مطابق دفن کیا.اور جلایا.گورو نانک کی اس ہر دل عزیز پوزیشن میں جبکہ ہندو اور مسلمان دونوں ہی آپ کو اپنا سمجھتے ہیں.ٹالہ ضلع گورداسپور کے ایک مجسٹریٹ کا فیصلہ تحجب اور حیرانی کے ساتھ پڑھا جائے گا جس میں اس مجسٹریٹ نے ایک مسلمان ماسٹر عبد الرحمن کو چھ ماہ قید کی سزا اس جرم میں دی ہے کہ آپ نے ایک پمفلٹ " بابا نانک رحمت اللہ علیہ کا دین دھرم میں گورو نانک کو مسلمان ظاہر کیا تھا.اس فیصلہ کی نقل ہمارے پاس موجود نہیں اور ہم نہیں کہ سکتے کہ اس سزا کی تائیار میں مجسٹریٹ نے کیا دلائل دی ہیں مگر اس صورت میں کہ الزام وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا تو اس مجسٹریٹ کی کو نہ نظری میں کسی شک کی گنجائش نہیں.اور اس کا مطلب یہ ہے کہ آج وہ پادری بھی این مسلمان ملزم کی طرح ہی مجرم ہیں جو مہاتما گاندھی کو انتہائی نیک اور پارسا ہونے کے باعث عیسائیوں سے تشبیہہ دیتے ہیں.کیونکہ اس مقدمہ کے ملزم ماسٹر عبدالرحمن نے بھی اگر گورو نانک کو سلمان کہا تو اس لئے کہ آپ اسلام کو حق وصداقت کا کرشمہ سمجھتے ہیں اور آپ کے خیال میں گورو نانک انتہائی نیک اور مقدس ہونے کے باعث مسلمانوں کی صفات رکھتے ہوئے مسلمان تھے.اگر ماسٹر عبد الرحمن نے اپنے خیال کے مطابق گورنہ نانک کو مسلمان لکھا تو آپ نے گورو نانک کی تو مین نہیں کی بلکہ مسلمانوں کے دلوں میں بھی عزت و احترام پیدا کرنے کی کوشش کی.اور ہماری سمجھ میں نہیں آتا کن اس صورت میں ماسٹر عبدالر مین گورد تانک کی تو میں کرنے کے کیونکر مجرم ہوئے ہم چاہتے ہیں کہ ماسٹر عبد الرحمن اس فیصلہ کی اپیل کریں اور صحیح پوزیشن بتاتے ہوئے اعلیٰ عدالت سے بری ہوں.کیونکہ قانونا اور اصول ماسٹر عبد الرحمن کو مجرم قرار دینا ایک تمسخر انگیز فیصلہ ہے اور اس فیصلہ کے مطابق ہر وہ شخص جو دوسری اقوام کے بزرگوں کو بزرگ سمجھے مجرم قرار دیا جا سکتا ہے." اخبار المحدیث کا تبصرہ اسی طرح جناب مولوی ثناء امت صاحب امرتسری نے اخبار المحدیث میں لکھا: قادیان کے ایک مصنف کو سٹرائے قیار اور جرمانہ : - قادیان میں ایک صاحب ماسٹر عبد ال جی نوکم ہیں جنہوں نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام بابا نانک کا دین ددھرم ہے.چونکہ مصنف مذکور اس سے پہلے

Page 585

۵۴۱ سکھ قوم میں سے تھا اس لئے اس نے اپنی تحقیق کے ماتحت بابا نانک کو مسلمان لکھ دیا.ہم ان کی تحقیق پر تنقید نہیں کرتے صرف اتنا کہتے ہیں کہ انہوں نے جو کچھ لکھا ہے وہ در اصل مرزا صاحب کی تصنیفات پر سینی ہے.عرصہ ہوا مرزا صاحب قادیانی نے بصورت رسالہ ست بچن " یہی آواز اٹھائی تھی.مرزا صاحب سے جو کچھ بن پڑا انہوں نے اپنے ھوٹی پر اس رسالے میں دلائل دیئے ہیں جن کو آپ گورو نانک جی کے مسلمان ہونے کے ثبوت میں کافی سمجھتے تھے.اس وقت حکومت کی طرف سے اُن کو کوئی باز پرس نہیں ہوئی اور نہ وہ کتاب ضبطہ ہوئی.اب جو رسالہ دین دھرم شائع ہوا تو مصنف مذکور پر مقدمہ چلایا گیا جس کے میجر یں مصنف مذکور کو چھ ماہ قید سخت اور شور روپیہ جرمانہ ہوا.یہ بات ہماری سمجھ سے بالا تر ہے کہ گورنمنٹ نے مصنف مذکور پر مقدمہ کیوں چلایا.ایک تو یہ کہ اس مضمون کہیے اصل موجد مرزا صا حب قادیانی تھے جن سے کوئی تعرض نہیں کیا گیا.دوسری بات یہ ہے کہ مصنف مذکور نے بابا نانک جی کی ہتک نہیں کی بلکہ اپنے عندیہ میں اُن کی بڑی عزت کی ہے کیو نکہ اُن کے نزدیک اسلام ایک معزز مذہب ہے.اس کی تائیدیں ہم ایک اقتباس آرید مسافران ہور سے نقل کر کے گورنمنٹ کے سامنے رکھتے ہیں جو یہ ہے :.حضرت محمد صاحب نے آریہ برہم چاریوں کی طرح جو میں سال کی عمر میں شادی کی x x حضرت صاحب کا جیون (سوانح عمری، آریہ برہمنوں کی مانند نہایت سادہ اور فقیرانہ تھا." کیا گورنمنٹ ایسا لکھنے والے پر بھی مقدمہ چلائے گی ؟ جہاں تک ہمارا خیال ہے.نہیں تو پھر اس میں.اور اُس میں کیا فرق ہے ؟ اس لئے ہم اس منا کو کسی صحیح قانون پر سنی نہیں مجھے.امید ہے کہ محمکہ اہل اس پر غور کر کے ہمیں راہ راست دکھلا ئیگا..یا است اس مقدمہ کی اپیل سشن حج صاحب گورداسپور کی عدالت میں دائر کی گئی بیس کی اپیل کا فیصلہ اور رہائی E فیصلہ آنا پارچ شیر کو سنا دیا گیا.فاضل جج نے قید کی اسی قدر سزا کافی قرار دی تو حضرت ماسٹر صاحب بھگت چکے تھے اور جا نہ ھو کی جائے پچاس روپے کر دیا.چنانچہ جرمانہ کی روانگی کے بعد آپ رہا کر دیئے گئے اور ۲۲ مارچ شہر کو تازیان تشریف نے آئے ہیں حضرت مالٹر صاحہ نے امیری کا زمانہ کس قدر میرا استقلال اور جوش ایمانی کے رنگ میں گذارا اس کا اندازہ ایسے بخوبی لگ سکتا ہے کہ انہوں نے اپنے ایک بیٹے کو جو طاقت کیلئے میانوالی میں گئے تھے یہ نام دیا اگر کسی احمدی کو میری تیار وہبند کے باعث اشتعال آئے تو وہ گور کبھی سیکھ کر تبلیغ احمدیت کرکے اپنا غصہ ٹھنڈا کرلے.ے اہلحدیث ها کالم امور خد اور جنوری ۱۹۳۷ ۱ ۵۲ الفضیل در در ماه در مارچ الفضل ۲۴ مارچ ۱۹۳۸ صفحود کالم - ۱۹۳۸ بہ صفحہ بہ کالم ۳۰۳

Page 586

صاحبزادہ مرزا سعید احمد صاب صاحبزاده مرا سید احمد مرحوم حضر مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پڑپوتے اور حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب کے بہت معید الفطرت، شریف مراج کی وفات کا المناک حادثہ ہوشیار اور ہو نہار فرزند تھے.آپ پر ستمبر ۱۹۳۳ء کو حضرت صاحبزادہ مرا ناصر احمد صاحب کی رفاقت میں اعلیٰ تعلیم کے لئے انگلستان گئے جہاں انہوں نے سٹار میں لنڈن یونیورسٹی سے بی.اے کی سند حاصل کرنے کے علاوہ آئی سی.ایس کا امتحان بھی دیا اور اچھے نمبروں پر پاس ہو گئے.بعد ازاں بیرسٹری کے متعدد متخانات پاس کئے مگر عمر نے وفا نہ کی اور آپ لندن میں ہیں جنوری شیر کی درمیانی شب کو انتقال کرگئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ مرا سعید احمد صاحب کی تشویش ناک علالت کی اطلاع ملنے پر حضرت صاحبزادہ مرزا عزیزاحمد صاحب زیادہ ہوائی جہا ار خودی شاہ کو لندن پہنچے اور ہسپتال میں اپنے لخت جگر کے پاس تشریف لے گئے.مرزا سعید احمد صاحب پر غنودگی سی طاری تھی.اسی حالت میں انہوں نے اپنے پیارے ابا جان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر چوما اور کہا.ابا جی فکر نہ کرنا ہیں یہی آخری الفاظ تھے پہلے مرحوم کا تابوت در فروری ۱۹۳۷ء کو صور آٹھ بجے شب کی گاڑی سے قلیان پہنچا.اگلے رو پونے دس بجے صبح کے قریب حضرت امیرالمومنین خلیفتہ السیح الثانی نے بورڈنگ مدرسہ احمدیہ کے وسیع صحن میں نماز جنازہ پڑھائی اور مرحوم بچوں کے قبرستان کے محقہ قلعہ میں سپرد خاک کر دیئے گئے ، اللهم الدخلاء في جنات النعيم - حضرت امیر المومنین کا خطاب | صور قیدی شاہ کو احمدیہ انٹرکا بیسٹ ایسوسی ایشن کے چینی فروری طلباء قادیان آئے.اس موقعہ پر ایسوسی ایشن مختلف کالجوں احمدیہ انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن کو کے کے غیر احمدی طلبہ کو بھی ساتھ لائی.چار فروری کو اس تنظیم کی ٹیموں نے کرکیٹ سو فٹ بال کے میچ کھیلے.اور ضروری ۱۹۳۰ء کو حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ان کو ایک خطاب فرمایا جوتین گفتٹہ تک جاری رہا.یہ وفداسی روز شام کی گاڑی واپس لاہور چلا گیا.ان دنوں اس ایسوسی ایشن کے سیکریڑی صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب تھے بیٹے ے مرحوم کے تفصیلی حالات فردا بیا حضرت مرزا بشیر صد صاحب اور مامان را با رایا اور اپنے قلم سے کیا کرتے تھے جو ✓ فضل و در جنیدی دوره ارفروری میں شائع شدہ ہیں.اگریہ وسلم مل جل کے تاثرات کیلئے ملاحظہ ہو افضل صدر اور شم اور مست الفضل ۲۵۰ر جنوری ما کالم له الفضل دار فروری ۳ ۱۳ الفضیل در فروری ۱۹۳ در صفحه ۲ کالم را

Page 587

۵۴۳ 1 سنگ بنیاد این سال حضور نے دو مکانات کی بنیاد اپنے دست مبارک سے رکھی.ا ار ار م وکو شیخ یوسف علی صاحب بی.اے نائب ناظر اور عمرہ کے مکان کی دار العلوم می لی اور (۲) ۷ مرجوان ۱۹۳۰ء کو میاں عبدالرحیم صاحب زرگر کے مکان کی بنیاد ملد دارالرحمت میں ہے احمدیہ دار التبلیغ کلکتہ میں کلکتہ میں مشاعت احمدیت کو فروغ دینے کے لئے ناب اکر بار جنگ میں بہا در حیدر آباد دکن نے در مارچ شاہ کو احمدیہ دارا تبلیغ کا افتتاح انگرسی بیدر سرت چند بو کا سیر کیا.اس تقریب پر شری بیت سنت کمار رائے صاحب چو دھری میٹر آن کلکتہ کی زیر صدارت البرٹ ہال میں ایک جلسہ منعقد ہوا جس میں نواب صاحب موصوف کے علاوہ مسٹر آپڈ شیرین شان را رد کرد تی پرو فیسران همکاری اورخان بهادر چودهری ابوالہاشم خان صاحب امیر بنگال پراونشل احمدیہ ایسوسی ایشن نے بھی تقریریں کیں اور روزنامہ امرت بازار پسر کا مجریہ و مارچ ۱۹۳۷) نے افتتاح کی کاروائی شائع کی ہیں اگلے روز اور تاریخ کو باب سبھاش چندر بوس مصدر آل انڈیا کانگریس کے بھائی مسٹر سرت چندر بوس نے انگریزی میںلیکچر دیتے ہوئے کہا :- تیرے لئے یہ بات بہت بڑے فخر اور عزت کا موجب ہے کہ آپ نے مجھے اس جلسہ کی صدارت کی دعوت دی اور جہاں میں اس کے لئے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں ہاں جو قائل یہ بھی کہ دینا چاہتا ہوں کہ میں آپکے سامنے تقریر کرتے ہوئے بہت بڑی جھجک محسوس کر رہا ہوں.جماعت احمدیہ میں بکثرت ایسے اہل علم.قربانی کو فیوانے اور ایثار میشید اصحاب موجود ہیں.جن کی متواتر سرگرمیوں کے باعث آپ کی جماعت کے بانی کی تبلیغ زمین کی آخری کناروں تک پہنچ چکی ہے.....آپ کی جماعت کے بانی حضرت مرزا غلام احمد علی الصلوة والسلام) نے متواتر مذہبی اتحاد کی تلقین فرمائی.میرے نزدیک اس ہمہ گیر و سعت خیال اور تلاشی حق کے لئے اس آمادگی کی سب سے بہترین مثال آپ کی وہ تعلیم ہے جس میں آپ نے اس امر پر زور دیا ہے کہ ہر زمانہ اور دنیا کی قوم کو الہام الہی سے نوازا گیا ہے.آپ نے اسلامی عقیدہ کی تشریح کرتے ہوئے اس امر کو واضح فرمایا کہ قرآن کریم الہام کے متعلق کسی قسم کی قید کوتسلیم نہیں کرتا.نہ وقت کی قید کو اور نہ اس فرد کی قومیت کی قید کو جسے خدا تعالٰی اپنے مکالمہ کے لئے منتخب کرے.پس آپ کا نظریہ یہ تھا کہ تمام لوگوں پر نے روزنامه الفضل ۹ ۱ رماد له منا کالم سے انفضل ورجون ۹۳ اند من کالم ؟ ه الفضل ۱ مارچ ۱۹۳۸ محرم کانم ۲

Page 588

۵۴۴ کسی نہ کسی زمانہ میں الہام الہی کے دروازے کھولے گئے جماعت احمدیہ کے عقائد کی وسعت نظر اور ہر گیری کی ایک اور مثال اسلامی مسئلہ جہاد کے متعلق آپ کے بانی علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم میں ملتی ہے.ہم غیر مسلموں کے لئے یہ معامہ دارالحرب اور دارالاسلام کی یہ تقسیم مسلموں اور غیر مسلموں کے در میان مستقل تنازعہ کا یہ تصویر ہمیشہ سے ناقابل فہم اور پریشان کن رہا ہے.بہار و مذہب اپنے اندر ایک ہمہ گیر اور وسیع اہل رکھتا ہے.یہ روحانی صداقت کو کسی ایک فرقہ یا قوم کے اجارہ میں منصور نہیں کرتا.ہمارے نزدیک تمام انسان یکساں حیثیت رکھتے ہیں.لیکن میں رنگ میں ہندوستان کی دوسری سب سے بڑی مذہبی جماعت کے لوگ یعنی مسلمان مسئلہ جہاد کو پیش کرتے ہیں.اس سے ہمیں ہمیشہ تعجب ہوتا ہے.لیکن آپ کی جماعت کے بانی علیہ الصلوۃ والسلام ) نے جو کہ صلح اور اشتی کی تعلیم پر بہت زیادہ زور دیتے رہے ہیں جہاد کو ایک اعلیٰ اخلاقی سطح پر پہنچا دیا.چنانچہ آپ نے اس امر کی اشاعت فرمائی کہ جہاد جیسے دوسرے مسلمان غیر مسلموں سے جنگ کرنے کے مترادف سمجھتے ہیں وہ فی الحقیقت اس کوشش کا نام ہے جو حق و انصاف کے لئے کی جائے اور اس سے مراد و سعی اور جنگ ہے جو ہر قسم کی برائی کے خلاف عمل میں لائی جائے.جہاد کی اس تشریح سے آپ نے دار الحرب یعنی جنگ و جدال کی دنیا کے اندوہناک تصویر کا خاتمہ کر دیا ہے اور تمام دنیا کو دار السلام و صلح و آشتی کی دنیا ) میں تبدیل کر دیا ہے.فی الحقیقت جماعت احمدیہ کی تعلیم اپنی نوعیت میں دور حاضرہ کے لئے نہایت ہی ضروری ہے.بانی جماعت احمدیہ نے جب یہ دعوی کیا کہ وہ گذشتہ پیشگوئیوں کے مطابق مبعوث ہوئے ہیں اور یہی مہدی معہود اور مسیح موعود نیز علی زماں ہیں تو میرے خیال میں اس سے آپ کی مراد یہ تھی کہ ہر زمانہ کے لئے ایک نبی ہونا چاہیے جو صداقت ازلی کو اس زمانہ کی ضروریات کی روشنی میں دوبارہ دنیا کے سامنے واضح کرے اور اسے اس فریسیا نہ تنگ ظرفی سے پاک کر دے جو مرور زمانہ سے تمام مذاہب کے اندر پیدا ہو جاتی ہے اس نقطہ نگاہ سے وہ لوگ بھی جو خوہ آپ کی جماعت کے احکام پر پوری طرح عمل پیرا نہ ہوں مجھاتے احمدیہ کے بانی کو دل سے ایک سچا اور بہت بڑ اپنی تسلیم کر سکتے ہیں.بہر حال خالص دنیوی اور تاریخی بانی اور زاویہ نگاہ سے یہ امر تمام دنیا کو ستم ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد (علیہ الصلوۃ والسلام) کی تحریک دور حاضرہ میں اسلام کی ایک بہت بڑی اصلاحی تحریک ہے جس میں خیر و برکت کی لا انتہاء قوتیں

Page 589

۵۴۵ پنہاں ہیں.ہم صدق دل سے اس کی ترقی کے خواہاں ہیں." ہے..چونکہ قادیان کی آبادی ہر سال تیزی سے بڑھ رہی تھی.اسلئے حضر خلیفہ آسیح مسجد اقصی کی توسیع الثانی نے مسجد اقصی کی توسیع کی ہدایت فرمائی اور ۱۲ را پریل ۹۳۷ہ کو دنش شاه بجے صبح جنوبی جانب کے نئے حصہ کی بنیاد رکھی.اس تقریب کی خبر اخبار الفضل نے مندرجہ ذیل الفاظ میں شائع کی: حضور سوا نو بجے ہی تشریف لے آئے اور توسیع مسجد کا نقشہ ملاحظہ فرمانے کے بعد دیر تک حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سے گفتگو فرماتے رہے.حضرت میر محمد اسحق صاحب.جناب مولوی عبد المغنی خان صاحب اور جناب سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب بھی ہمراہ تھے.مقامی احباب کثیر تعداد میں اس مبارک تقریب پر جمع تھے.دس بجے کے قریب حضور نے مغربی کو نہ میں خشت بنیاد رکھی.بنیاد کے لئے چند چھوٹی اینٹیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ مبارک کی تھیں مسجد اقصی کی چھت کی ایک پر بھی....لائی گئی تھیں بنیاد رکھنے کے وقت حضور کے ارشاد سے حافظ محمد رمضان صاحب نے باآواز بلند قرآن کریم کی وہ دعائیں بار بار دہرائیں جو حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے خانہ کعبہ کی بنیاد رکھتے وقت اللہ تعالٰی سے کیں.اس کے بعد حضور نے مجمع سمیت یہی دعا فرمائی ایٹ مئی شہداء کو ایک زرتشتی ایرانی ستیاری منوچهر مران کا ایک نشتی ستیار قادیان میں تریان ما در این راه یافته و بازنه مرکز احمدیت دیکھنے کے لئے قادیان آئے ہیں اور مرکز احمدیت کے خالص اسلامی ماحول سے متاثر ہو کر اسلام قبول کرنے کا اعلان کر دیا ہے دو عیسائی مشتری قادیان میں اور جوانی و و و در پاری سر پی ایم اے اور سر فرانس جو بالترتیب ہسپانیہ اور علیم کے اصل باشندے تھے قادیان کی زیارت کے لئے آئے اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی سے مشرف طلاقات حاصل کیا ہے که روزنامه الفضل قادریان ۲۳ مارچ ۱۹۳۷ ۶ صفحه ۳ ۵۲ روز نامه افضل قادریان ۳ در ایران ۱۹۳۷ از صفحه ۲ مر روزنامه ۱۳ الفضل درمئی ۱۹۳ ء صفحہ و کالم ۲ ہے اس ضمن میں ان کا فارسی مکتوب الفضل نے رائی ۳ او خطر ہو کالم م پر شائع شدہ ہے.۵ه الفضل ۲۹ جولائی ۱۹۳۸ ء صفحہ ۲۳

Page 590

۵۴۶ مذہبی کا نفرنس کراچی اور ر ستمبر کو آریہ سماج کو اچھی کی نہ ہی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں مولینا غلام احمد صاحب شیخ نے محاسن اسلام پر تقریر کی.کانفرنس کے صدر رائل پھر کے مشہور مندہ کیل تھے جنہوں نے دربار آپ کا شکریہ او آگیا.اور کہا احمدی بھائیوں کی یہ کوشش ایک نہ ایک دن ضرور ہندو ستان میں خوشگوار فضاء پیدا کر دیگی ساله حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے مادر جون کو ارشاد فرمایا کہ تبری کا اعلان یورپ میں کی اور دوسرے کوں میں ہم ایک اشتہار شائع کرنا چاہتے ہیں جو یورپ بہت ہی مختصر ایک چھوٹے سے صفحے کا ہو تا کہ سب اُسے پڑھ لیں.اس کا مضمون اتنا ہی ہو کہ مسیح کی قبر سری نگر کشمیر میں ہے جو واقعات صحیحہ کی بناء پر ثابت ہو گئی ہے.اس کے متعلق مزید حالات اور واقعیت اگر کوئی معلوم کرنا چاہے تو ہم سے کرے.اس قسم کا اشتہار ہو جوبہت کثرت سے چھپوا کر شائع کیا جائے میلہ امام الزمان علیہ الصلوة والسلام کی اس دیرینہ خواہش کی کھیل میں مولانا جلال الدین صاحب شمس نام مسجد لنڈن نے این سال مسیح کی قبر ہندوستان میں لڑکے عنوان سے ایک اشتہار شائع کیا جس میں مقبر مسیح کا فوٹو بھی دیا.اس اشتہار کی دار است بلیغ لنڈن کی طرف سے وسیع پیمانہ پر اشاعت کی گئی ہے مرزا فرحت اللہ بیگ حساب قادیان میں مر ا رات اداری ما بر درد کی نام کو قادیان آئے اور حضرت خلیفہ ربیع الثانی نے آپ کو دعوت طعام دی - - اگلے روز دوپہر کا کھانا حضرت ڈاکٹر یہ محمد اصیل صاحب کے ہاں تناول فرمایا اور نواب محمد عبد اللہ خان صاحب نے دعوت عصرانہ دی.آپ مواچھے بجے شام کی ٹرین سے واپس روانہ ہوئے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب احضرت می محمد امیل صاحب اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر حمد صاحب اور دوسرے کئی احباب الوداع کے لئے اسٹیشن پر تشریف فرما تھے شے الفضل دار تمبر ۹ در صفحه ۲ کالم نه الحکم در جولائی ۱۹ رو صفحوم - ملفوظات جلد سوم منفور ۰۲۹۲ ے اشتہار کا متن انفضل یکم جنوری ۱۹۳۹ ء میں شائع شدہ ہے.کے اشتہار کی اشاعت کے بعض معاونین خاص :- میان فلام محمد صاحب اختر شیخ مسعود احمد صاحب.این ڈی اوربھا سیٹھ محمد اعظم صاحب حیدر آباد دکن حضرت یہ محمد اسٹیل صاحب بیٹائرڈ سول سرجن نادیا.ڈاکٹر محمد الدین صاحب خون بینشی عبد العزیز صاحب قادریان - حضرت نواب محمد عبد الشفا تصاحب - صاجزادہ مرزا ظفر احمد صاحب الفضل ۳ ر خودی مس کالم م و به ر جنوری اور میکالم او در خود می ما کانام کی مفصل و رد گیر اور صفورا کالم والتفضل ۲۳ دسمبر ۱۹۱۳ بود عفو و کالم ۳ ہو

Page 591

۵۴۷ خاندان میں موجود میں خوشی کی تقاریب اور رات کو اور ایف ای امان نے ماجرا این نظر کر دیگر حضرت خلیفہ ایسیح الثانی صاحبزادہ احمد صاحب اور صاحبزادہ مرزا مبارک احمد مات کے نکا جوں کا اعلان فرمایات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی بابو عبد الحمید صاحب آڈیٹر نے دعوت ولیمہ میں شمولیت | اور دسمبر کو اپنے لڑ کے میاب عبد الحمید صاحب کی دعوت ولیمہ کا اہتمام کیا جس رامین سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے بھی شمولیت فرمائی ہے ار کمر کو کمال ڈیڑھ ضلع نواب شاہ سندھ میں احمدیوں اور مبائلہ کمال ڈیڑھ سندھ فرامویوں کے درمیان باہر ہوتا جس کا نتیجہ ایک سال کے اندر اندر یہ مباہلہ نکلا کہ فریق مخالف کے دل مباہلین کسی نہ کسی مصیبت کا شکار ہو گئے.ایک شخص جو مخالفت میں بہت سرگرم اور نمایاں حصہ لیتا تھا مر گیا.باقیوں کو جانی، مالی اور عزت وآبرو کے لحاظ سے غیر معمولی حوادث پیش آئے.اس کے مقابل مباہلہ کرنے والے سب احمدی زندہ و سلامت رہے اور غیر احمدی رئیس نے جو دوران مباہلہ میں فریقین کے صدر تھے احمدیت قبول کرلی.اور اس کے علاوہ تین اور احمدی ہو گئے.اس طرح سندھ میں احمدیت کی صداقت کا ایک چمکتا ہوا نشان ظاہر ہوا کیلئے میں مندرجہ ذیل مستقلین بیرونی ممالک کو روانہ کئے گئے.مبلغین احمدیت کی روانگی اور آمد تر می مولوی محمد صادق صاحب بلا ما را در این روانگی اور باری مالی مولوی محمد شریف صاحب بمبلغ بلد عربیه تاریخ روانگی در تبری اس سال حسب ذیل میلین تبلیغ اسلام کا فریہ کا یکے بعد مرکز احمدیت میں واپس تشریف لائے :- اموالی محمد کیم صاحب بیل با عربی تاریخ آمده ار ان الان انا ار ای (مار ما در الفضل ابر ه انفصل مو دور و برش ها و صفحه کالم سے مباہلہ میں شامل ہونے والے احمدیوں کے نام : ماسٹر محمد پرویل صاحب محمد شفیع صاحب - عمر الدین صاحب شمس الدین صاحب - شما خان همان بر هل خان صحاب علام محمد صاحب - حاجی دنی محمد صاحب.اللہ ڈنہ صاحب محمد موسهیل صاحب - غیر احمدی مبالین :- لا دوس محمد صاحب محرم صاحب محمد عثمان صاحب محمد بریل صاحب غلام حسین صاحب - غلام محمد صاحب الله بخش صاحب نبی بخش صاحب عطا محمد صاحب محمد الیاس صاحب الفضل ا تفصل بردار جنوری ۱۹۳۷ در صفحه ۵ کالم ۴۳) ۱۳ اتفضیل به در جنوزی حت کالم ۳-۳۴ ۵۵ الفضل مو د مارچ د امت کا ایم و الفضل در تبر بدعت کا بر ۳ الفضل و در ماه ریچ ۳ مد کاظم ۲-۳ شه الفضل مودار جوں کی ۹۳ در مثل ما تم ۲ - ١٩٣٨

Page 592

۵۴۸ - حاجی احمد خان صاحب ایاز مبلغ هنگری دیوگو سلاویر تاریخ آمده در جولائی ۱۳ ساسان نئی مطبوعات جماعت احمدیہ کی طرف سے ا م میں شائع ہونے والی مطبوعات کی فرست یہ ہے.۱- قواعد و ضوابط صد را حین احمدیہ قادیان دمرتنیه حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد مصابات حضرت میر شکار اتاق ها به مرز محمد شفیع صاحب) - امام المتقین دمنظوم پنجابی تالیف ڈاکٹر مولوی منظور احمد صاحب خلف الرشید میری حاجی محمد این زیرا اب بهیر بام میری والدہ چوہدری محمد ظفراله خان صاحب کے قلم سے انکی والدہ ماجد حسین بی بی صاحبہ کے ایمان افروز حالات) سلسلہ عالیه احمدی (مولفه مولوی محمد شریف صاحب فاضل بلخ بلاد عربیه ) دوسرا پاره جامع سند صحیح بخاری ( ترجمه و شرح حضرت سید زین العابدین علی اللہ شاہ صاحب ) 4 - تفہیمات مثنوی معنوی (مولفه منشی گلاب الدین صاحب پنشنرز کلانوری) تاثرات قادیان (مرتبہ ملک ہماشہ فضل حسین صاحب) اندرون ملک کے مشہور مناظرے منہ میں مناظروں کی تعدا گذشتہ سالوں کی نسبت کم رہی.اس سال کے چند مشہور کامیاب مناظرے مندرجہ ذیل مقامات پر ہوئے :- مباحش دھلی : دہلی میں مولوی ابو العطاء صاحب جالندھری نے ہارا اپریل ۹۳۷ مہ کی شام کو ایک آریہ سماجی پنڈت سے ضرورت قرآن مجیدہ پر مناظرہ کیا ہے ایک محنز غیر احمدی نے مناظرہ کی کامیابی چہ مدادی صاحب کو تحریری مبارکباد بھیجی.اور اپنے مکتوب میں لکھا کہ : جناب کا مناظرہ آریہ سماج سے بمقام نہ ہلی جلسہ میں ہوا تھا جس میں بندہ بھی شامل تھا.یعنی جلس گاہ میں بعرض سمارع مناظرہ حاضر ہوا تھا.خدا کا شکر ہے کہ جناب نے دلائل قاطعہ اور براہین ساطعہ سے اعداء اسلام کو مرعوب کیا اور دنیا پر یہ روشن اور واضح کر دیا کہ قرآن کریم ہی ایک ایسی کتاب سنترال من اللہ ہے کہ جو ہر ضرورت انسانی کی ملتی اور ضامن ہے.میں جناب کو اس کامیابی پر تو دل سے ہدیہ مبارکباد پیش کئے بغیر نہیں رہ سکتا.افسوس کہ میں حاضر خدمت دہلی میں نہ ہو سکا.اگر زندگی نے وفا کیا تو ممکن ہے کہ جناب کی زیارت اور خیالات سے میں مستفید ہو سکوں له الفضل ۲۸ جولائی ۹۳ارے صفحہ ان کا نظام میں مجھے اتفضل در اپریل ۱۹۳۸ مدحت کالم جٹ ا

Page 593

Org في الحال اتنا عرض کرنا ضروری ہے کہ میں فی الحال آپ کے خیالات کا جو بہ نسبت مرزا قا ن ہیں مخالف ہوں جس کے متعلق تبادلہ خیالات کا متمنی اور متقاضی ہوں.علاوہ ازیں جو ضرورت قرآن کریم پر آپ نے دلائل قائم کئے تھے کیا وہ آپ مجھے ارسال فرما کر ممنون فرمائیں گے؟ 0" مباحثہ کراچی : ―; کراچی میں اس سال بھی ۱۷-۱۸ / اپریل ۹۳۱ہ کو جماعت احمدیہ کا آریہ سماج سے دو موضوع پر مناظرہ ہوا.وانی کیا دید دھرم عالمگیر ہے دیا مین باشد معمار عمر صاحب فاضل د پنڈت رام چنڈ صاحب) کیا اسلام عالمگیر مذہب ہے " (موادی جو انتظار صاحب فاضل ونڈت رام چنڈ صاحب) آریہ سماجی مناظر کو ان مناظروں میں شکست فاش ہوئی.جس کی شفت پر پردہ ڈالنے کے لئے آریوں نے احمدیوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں کے موضوع پر مناظرہ کا چیلنج دے دیا.اس پر مولوی ابو العطاء صاحب نے اعلان فرمایا کہ ہاں ہم ہر وقت تیار ہیں.آپ آج ہی اسی وقت اور اسی پنڈال میں کر لیجیئے.اور پنڈت دیکھرام سے متعلق بحث کے لئے بھی تیار رہیے ہے مگر آریوں کو مرد میدان بننے کی جرات نہ ہوسکی.مباحث الكهنو : جون شاہ میں مولوی عبد المالک خان صاحب اور پنڈت و زیانید صاحب آن کانشی کا چھاؤنی لکھنو میں مناظرہ ہوا.موضوع بحث تھا.کیا دید کے دھرم اشوری دھرم ہے ؟ مولوی شما نے ثابت کیا کہ آریہ دھرم اب ایک بجھا ہوا چراغ اگر کھایا ہوا پھول اور اجڑا ہوا ابستان ہے جس کی پیروی میں اب خدا سے شرف مکالمہ و مخاطبہ پا نا ممکن نہیں.آریہ مناظر صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر لا تعلق اور بے بنیاد اعتراضات شروع کر دیئے جس پر مسلمانوں نے پر کہا کہ وہ اس طرح مسلمانوں میں افتراق و انتشار پیدا کرنے کی کوشش صرف اس لئے ه روزنامه الفضل تادیان ۴۳ در اپریل ۱۹۳۹ ۶ صفحریه ۱۲ افضل ۲۶ ۱ اپریل ۹۳۷ د منفجر ۹ کالم ۲۰۱ ۱۳۹۶ را ماده

Page 594

۵۵۰ کر رہے ہیں کہ ان کے پاس فاضل احمدی مقرر کے دلائل کا کوئی جواب نہیں.بالآخر مجمع کے پیر نور مالیہ پر پنڈت جی نے اپنے لاجواب ہونے کا اقرار کیا اور دوگ ردو گھنٹہ بعد مناظرہ ختم ہوا.اور سلمان جناب مولوی صاحب کو نہایت عزت و تکریم سے ایک مکان پر لے گئے جہاں آپ کی شربت وغیرہ سے تواضع کی اور آپ کا شکریہ ادا کیا ہے مباحثہ نبی سر روڈ سنده :- ۲۲۲ جولائی ۹۳ مہ کو بمقام نبی سر روڈ (سندھ، ضلع تھر یاد کہ جمعیۃ العلماء تھر پارکر اور جماعت احمدیہ احمد آباد کے درمیان مناظرہ ہوا.اور جولائی شاہ کو مولوی عبد القادر صاحب فاضل نو مسلم نے " نے وفات مسیح پر اور ۲۲ جولائی شد کو قریشی محمد نذیر صاحب فاضل نے صداقت مسیح موعود " پر مناظرہ کیا.جمعیتہ العلماء کی طرف سے مولوی عبداللہ صاحب معمار امرتسری پیش ہوئے.معمار صاحب نے دو ان مباحثہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شان مبارک میں نہایت گستاخانہ کلمات کہے گر چیلنج دیتے با وجود احمدی مناظر کے قرآنی دلائل کا رد نہ کر سکے پہلے مباحثہ شماله ستمبر ۱۹۳۷ میں مودی ابو العطاء صاحب نے قدامت روح و مادہ اور پیشگوئی متعلقہ سکھرم کی نسبت پنڈت رام چندر دہلوی اور پنڈت پر نچی لال پریم سے بحث کی.تمام پبلک بلکہ خود آریہ سماجیوں نے مولانا صاحب کی متقافت اور شائستگی کا کھلے بندوں اقرار کیا.دوسرا مضمون نازک تھا.کہاں حکمت سے انہوں نے ساری بات کہہ دی لیکن ایسے الفاظ میں کہ دل آزاری نہ ہونے پائے سے مباحثه اله مومني : لائد موسی میں ۲۴-۲۵ ستمبر ۱۹۳۵ء کو تین اختلافی مسائل پر مناظرے ہوئے.ایک مناظرہ له الفضل اور جون ۱۹۳۸ صفحه ۸ کاله ۳ ه الفضل د را گست ۹ و صفحه ۷ در در ا تفضل به در نمبر ۱۹۳۷ به صفحه ۲ کالم ۲

Page 595

۵۵۱ میں جماعت احمدیہ کی طرف سے مولوی محمد سلیم صاحب فاضل اور غیر احمدیوں کی طر جیسے موادی ظہور احمد صاحب پیش ہوئے.دوسرا مناظرہ ملک عبدالرحمن صاحب خادم گجراتی نے کیا.مد مقابل سے مولوی محمد شفیع صاحب نے بحث کی.تیسرا مناظرہ مولوی محمد سلیم صاحب نے کیا.ران مناظروں کا غیر احمدی پبلک پر بہت اچھا اثر تھا.کئی لوگوں نے تسلیم کیا کہ ہمارے مولولوں کے پاس ٹھٹھے اور مخول کے سوا کچھ نہیں ہے.مناظرہ کے آخر میں غیر احمدی مولویوں نے ایک خیر احمدی کو کھڑا کر دیا کہ تم کہو میں محدویت سے توبہ کرتا ہوں.حالانکہ وہ شخص احمدی ہی نہیں تھا.نہ اُس نے کبھی بیعت کی تھی ہے : ; - مباحثه دیرو دال : اکتوبر ۱۹۳۵ میں دیرہ وال میں مولوی محمد سلیم صاحب نے مسئلہ فات وحیات مسیح علیہ السلام اور آخری فیصلہ مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کے موضوع پر اور مولوی دل محمد صاحب نے مسئلہ نبوت اور صداقت مسیح موعود علیہ السلام پر مناظرے کئے.غیر احمدیوں کے مناظر عبد اللہ صاحب معمار امرتسری تھے.غیر احمدیوں اور غیر مسلموں دونوں نے مناظرہ میں فتح پر احمدیوں کو مبارک باد دی.بالخصوص شیعہ اصحاب نے نہایت واضح الفاظ میں احمدیوں کی کامیابی کا اقرار کیا ہے مباحثه مند هر :- صوبہ سندھ کے مبلغ قریشی محمد نذیر صاحب ملتانی نے صوبہ بھر میں کثرت لیکچر دیے تھے اور اس کے نتیجہ میں سندھ کی احمدیہ جماعتیں بھی تبلیغ میں سرگرم عمل ہو گئی تھیں.یہ بیداری دیکھ کر غیر احمدیوں نے جماعت احمد یہ سندھ سے مناظرہ کی طرح پانی اور باہر سے متعدد علماء بلائے.چنانچہ یکے بعد دیگرے دو مناظر سے ہوئے.له در الفضل پور اکتوبر ست ۱۹۳ د متحده الفضل و راکتوبر ۱۳ نفره کالم ۴

Page 596

۵۵۲ ان مناظروں میںاللہ تعا نے نے جماعت احمدیہ کو نمایاں کامیابی عطافرمائی جس میں واضح اقرار شیعہ حضرات نے بھی کیا.مخالفین احمدیت نے فساد برپا کرنے کی ہر چند کوشش کی گر کوئی موقعہ میسر نہیں آیا.یہ دیکھ کر غیر احمدی علمای ماهیان خود آپس میں الجھ پڑے اور جمعیتہ العلماء کے میں چائیں علماء را توی صدات واپس تشریف نے گئے ہے غرض اللہ تعالے نے حق کا بول بالا کیا اور إِلى مَهِينَ مَنْ اَرَادَ اهَا نَتَكَ کا نظارہ ایک بار پھر آنکھوں کے سامنے پھر گیا.ے رپورٹ سالانہ صیحه جات صدر انجمن احمد بره نشست ۱۹۳۹ اندر صفحه ۳۸

Page 597

B شہزادہ امیر فیصل صاحب (حال شاہ فیصل اور دیگر عربی نمائندوں کے اعزاز میں دعوت استقبالیہ فروری ۱۹۳۹ء مولانا جلال الدین صاحب شمس امام مسجد لندن کے دائیں جانب امیر فیصل تشریف فرما ہیں.سعودی عرب کے ایک وزیر امیر فیصل کی طرف سے جوابی تقریر کر رہے ہیں.

Page 598

سیدنا حضرت خلیفہ اسی الثانی جلسہ ۱۹۳۹ کی تقریب پر اپنے خدام کے ہمراہ پہلی قطار دائیں سے بائیں) عبدالرشید صاحب، سردار کرم دادخان صاحب، حضرت مولاناسید محمد سرور شاہ صاحب، چوہدری اسد اللہ خان صاحب، سیدناحضرت خلیفتہ اسیح الثانی ، خان میر صاحب، مولوی نور الحق انور صاحب سید ولی اللہ صاحب ( مبلغ افریقہ ) منیر احمد صاحب ومنس حضور کے پیچھے (دائیں سے بائیں ) صاحبزادہ سید محمد طیب صاحب ، ملک صلاح الدین صاحب ایم اے.

Page 599

Dor چھٹا باب قضیہ فلسطین میں عربوں کی پرزور حمایت سے لیکر خلافت جوبلی کے جلست تک خلافت ثانیہ کا چھبیسواں سال ذی قعده ۱۳۵۷ تا ذی قعده ۱۳۵۸ جنوری ۱۹۳۹ ء دسمبر ۶۱۹۳۹ م فلسطین کا پس منظر فلسطین کو یہودیت کا مرکز بنانے کی موجودہ تحریک انیسویں صدی کے آخر شد کا پس منظر میں شروع ہوئی.اس سال ہر زل نے عالمی صیہونی انجن کی بنیاد ڈالی.اور بیل کے مقام پر طے پایا کہ فلسطین میں یہودیوں کا ایک وطن بنایا جائے میہونی تحریک کے لیڈروں نے پہلے تو سلمان ترکی کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ یہودی وطن کے قیام کی اجازت دی جائے مگر ترکی حکومت نے انکار کردیا.سادہ میں حکومت برطانیہ نے تجویز پیش کی کہ یہودی کینیا (افریقہ کو اپناوطن بنالیں.لیکن یہودی رضامند نہ ہوئے.۱۹۱ ء میں جب پہلی عالمگیر جنگ چھڑی تو یہودیوں نے جرمنی اور برطانیہ دونوں سے جوڑ توڑ شروع کردئے.جنگ عظیم کے دوران حالات نے پلٹا کھایا.ترک جنگ میں اتحادیوں کے خلاف جرمنی کا ساتھ دے رہے تھے.ادھر برطانیہ کو عربوں کی جو اس وقت ترکی حکومت سے مطمئن نہ تھے ) ضرورت محسوس ہوئی.انگریزی نے حسین شریف مکہ کو پیغام بھیجا کہ اگر فلسطین کے عربوں نے جنگ میں ان کا ساتھ دیا.تو ترکوں کے عربی مقوفات آزاد کر دیئے جائیں گے.ان مقبوضات میں فلسطین بھی شامل تھا.عرب برطانیہ کے داؤ میں آگئے اور انہوں نے اسے منظور کرلیا.اور جنگ میں ترکوں کے خلاف برسر پیکار ہو گئے.کرنل لارنس کی زیر ہدایت اور عربوں کی مادرد سے جنرل این بی نے دو میں ترکوں کو شکست دیکر یروشلم پر قبضہ کر یا میہونی تحریک کے لیڈر بھی خاموش نہیں بیٹھے تھے.فلسطین کو اپنا قومی گھر بنانے کی پرانی خوامش از مسیر تو تازہ ہو گئی.اور مرجنگ کے مصارف کی وجہ سے انگریزوں کو یہودی سرمایہ کی سخت ضرورت تھی.نتیجہ یہ ہوا کہ اسی سال برطانوی وزیر امورخارجه LARD) اور یہودی لیڈر لارڈ رو سچائیلڈ (D لارڈ بالفور ( RD BAL FOUR CHILD), (LORD ROTH S

Page 600

م ۵۵ کے مابین ایک خفیہ معاہدہ ہوا جس ذریعہ کے پا یاکہ یہودی جنگ میں برطانیہ کی مدرکریں.اسکے عودی برطانیہ انتقام جنگ پر فلسطین کو یہودیوں کا دل بنا دیگا.یہ معاہدہ نشده یعنی اختتام جنگ کے ایک سال بعد تک خفیہ رکھا گیا.جنگ کے بعد تھوڑے عرصہ تک سکون رہا.نارہ میں فلسطین کی باگ دور مجلس اقوام کی زیر نگرانی برطانیہ کے سپرد ہوئی.عربوں کو کال یقین تھا کہ عنقریب فلسطین ایک آزاد مک دین کے سپرد کر دیا جائیگا.مگر میں نہیں پہلی با محسوس ہوا کہ برطانیہ کسی صورت میں بھی ان کو فلسطین کا اقتدار سونپنے کیلئے آمادہ نہیں ہے.اس عرصہ میں یہودی وگ کافی تعدادمیں فلسطین پہنچ چکے تھے اور وقت سے لاعلاقہ میں شروع ہوگئی تھی.یہودی علانیہ طور پر فلسطین کو اپنا ملک بنانے پر مٹھر تھے.عرب جو پہلے ہی مضطرب بیٹھے تھے اور بھڑک گئے.یہودیوں کی پرھنتی ہوئی درآمد نے انکی آنکھیں کھول دیں.اور ملک میں فسادات کا دور دورہ شروع ہو گیا.ارد میں حالات انتہائی نازک حالت تک پہنچ گئے.بغاوت فر کر نے کیلئے انگریز و میں منگائی گئیں اور وقتی طور پر ہنگاموں پر قابو پالیاگیامگر سار ا ور ت میں دوبارہ شدید فسادات اٹھ کھڑے ہوئے.بہت کچھ ر مالی و جانی نقصان ہوا.برطانوی مدبرین کا خیال تھا کہ کچھ عرصہ کے بعد عرب اور یہودی شیر وشکر ہو جائیں گے.لیکن اختلاف کی خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی گئی.پندرہ سال کے گشت وخون کے بعد جب حالات قابو سے باہر ظر آنے لگی تو برطانیہ نے نومبر سال میں لارڈ پیل (LLARD PEEL کی صدارت میں ایک شاہی کمیشن نامرد کر دیا.نجی حالات کا مطالعہ کر کے بوائی شہر میں اپنی رپورٹ اور اپنی سفارشات پیش کر دیں.پہیل کمیشن نے اعتراف کیا.کہ عرب اور یہودی دونوں سے وعدہ خلافی اور نا انصافی کی گئی ہے.جس کا حل اس نے یہ پیش کیا کہ ملک کے حصے بخرے کردئے بھائیں.ایک علاقہ جو سبے زرخیز اور تجارتی مرکز تھا اور جس میں وہاں کی صرف ایک ہی کار آمد بندرگاہ حیفا بھی شامل تھی یہودیوں کے حوالے کر دیا جائے اور فلسطین کا بیشتر حصہ جو عمو کارتیں صحرا اور بنجر ہے عربوں کو دیدیا جائے.نیز سفارش کی کہ باقی مقامات مقدسه یروشلم اور درمیانی لاقہ پر انگریزی حکومت کی عملداری رہے.عرب اور یہود دونوں نے اس تجویز کی سخت مذمت کی.اور فلسطینی میں یا ایک فریقین کی طرف سے ملک برادر منظم سادت اٹھ کھڑے ہوئے عربوں کا نشانہ پہلے تو یہودی ہوا کرتے تھے بیگ پر انگریزی فوجوں پر یورش شروع کر دی گئی.متعدد بر طانوی فوجی بیڑے حیفا اور جانا پہونچ گئے.اور ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا گیا.حریت پسند عرب لیڈر گرفتار کئے گئے.مجلسیں توڑ دی گئیں.اور عرب

Page 601

۵۵۵ دیہات نہ صرف تعزیری چوکیوں سے زیر بار کردیئے گئے.بلکہ ہوائی جہازوں سے ان پر گولہ باری کی گئی.ران حالات نے صورت حال بدل دی.ملک کے حصے بخرے کرنے کی سکیمیں وقتی طور پر معرض التوا میں پٹر گئیں.اور پیل کمیشن کی رپورٹ پر غور کرنے کیلئے ایک اور کمیشن روڈ پر کمیشن مقرر ہوا.مگر عرب ز مطمئن ہو سکتے تھے نہ ہوئے.اب برطانوی حکومت نے مفاہمت کے لئے ایک نئی تجویز سوچی اور وہ یہ کہ لنڈن میں عربوں اور یہودیوں کی ایک مشترکہ کا نفرنس کا فیصلہ کیا گیا.یہ کانفرنس فروری سہ میں بمقام لندن منعقد ہوئی جس میں سعودی عرب ، مرا در عراق کے مندوبین نے شرکت کی بیگ یہ بھی نا کام ہوگئی.مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو انسائیکلو پیڈیا آف برٹینیکا.زیر لفظ (ZIONISM) - قضیہ فلسطین اور جماعت احمدیہ قضیہ فلطین کے پس منظر روشنی ڈالنے کے بعداب ہم بتاتے ہیں کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی اور حضور کی قیادت میں احمدیہ پر ایسان میشہ نہ احمدیہ کے مبلغین بلاد عربیہ و غربیہ کی تمام ہمدردیاں شروع سے ہی مسئلہ فلسطین کے بارے میں مسلمانان عالم کے ساتھ تھیں اور وہ یہودیوں کے ناپاک عزائم کو سخت نفرت و حقارت سے دیکھتے اور ان کی سازشوں کو اسلام اور سلمانوں کے لئے سخت خطرہ سمجھتے اور عرب مفادات اور مطالبات کی ترجمانی کا کوئی موقعہ فروگذاشت نہیں کرتے تھے.اس جوری شدہ کو عیدالاضحیہ کی تقریب تھی.اس موقعہ پر امام مسجد النڈن مولوی جلال الدین صاحب شمسی نے ایک جلسہ کو خطاب کرتے ہوئے فلسطین میں یہودیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر سخت تشویش کا اظہار کیا بلکہ اس اہم طلبہ کی رپورٹ لندن کے ایک با اثر اور مقتدر اخبار ساؤتھ ویسٹرن سٹار نے اپنی اور فروری ۱۹۳۹ء کی اشاعت میں یہ لکھی کہ :- عید الاضحی کی تقریب پر جو عید قربان ہے مسجد احد یہ لنڈن میں ایک جلسہ ہوا.لیفٹنٹ کرنل سر فرانس بینگ ہسبنڈ کے سی ایس آئی کے ہیں.آئی.امی صدر تھے.امام مسجد مولوی جلال الدین متن نے قیام امن کی کوشش کے لئے وزیر اعظم برطانیہ کو خراج تحسین ادا کیا.نیز مسئلہ فلسطین برای اپنے خیالات کا اظہار کیا.آپ نے کہا.اپنی تعداد کے لحاظ سے یہودیوں کا معربوں سے بڑھ بھانے اور بطور نمونه الفضل ، ربون ، ما اور الفصل ، راکتور کار مد - الفضل ۳۰ تمت دو کے نوٹ ملاحظہ ہوئی ہے ے.یاد رہے کر سکا اور میں فلسطینی یہودی آبادی صرف نوے ہزار تھی مگر اشارہ سے تشہد تک کے عرصہ میں جو یہودی سالہ بیرونی ممالک سے یہاں آکر آباد ہوئے ان کی تعداد قریبا دوں کھ اسی ہزار تھی.انسائیکلو پیڈیا افت برنینگا زیر لفظ (ZION SM)

Page 602

۵۵۶ اس طرح ان پر چھا جانے کا خیال عربوں کے لئے نہایت خوفناک ہے.اور وہ اسے کبھی برداشت نہیں کر سکتے.جو نمائندے یہاں آئے ہوئے ہیں.ان کو اور حکومت کو چاہیے کہ اس مسئلہ پر اخلاص اور غیر جانبدارانہ تنگ میں غور کریں.اور اس کا کوئی حل تلاش کریں.کیونکہ اگر آج اس کا کوئی حل نہ ملا تو پھر کبھی نہیں ملے گا.اس موقعہ پر بہت سے معززین جمع تھے مسلمان.ہندو.عیسائی.غرض کہ ہر قوم کے مرد و عورتیں موجود تھیں.حاضرین میں سے سرٹیلفورڈ واڈ اور سرفنڈ لیٹر سٹوارٹ میجر جنرل جے ایچ بیتھے.سر آمر تھر دا د کوپ (سابق ہائی کمشنر فلسطین کا ؤنٹس کارلائل - ریورنڈ ایس ایکسن - ریو رینڈ سٹر سٹیونس ڈاکٹر دوس ہا تھ لی اور کیپٹن عطاء اللہ آئی ایم ایس شامل تھے.لے ب احمدیہ انٹڈ میں شہزادہ امینی امید کے بند و بعد برطانوی حکم نے ماہ فروری کشور مسجد لندن ی میں قضیہ فلسطین کے تعلق میں جب عربی ممالک کی ایک (مملکت کے موجودہ سربراہ) اور دیگر عرب نمائندہ کانفرنس کا انعقاد کیا تو وہ نا جلال الدین صاحب موں ممالک کے نمائندوں کی تشریف آور کی شمس امام مسجد لنڈن نے اس اجتماع کو غنیمت سمجھتے ہوئے مکہ مکرمہ کے وائسرائے اور فلسطین - عراق - یمین کے نمائندوں کے اعزاز میں ایک پارٹی دی مہمیں شہزادہ امیر فیصل اور شیخ ابراہیم سلیمان رئيس النيابة العامہ اور شیخ حافظ وہیہ اور عونی بیک الہادی اور القاضی علی العمری اور القاضی محمد الشامی وغیرہ مندوبین کا نفرنس کے علاوہ لنڈن کے اکابر اور ریٹائرڈ افسران مختلف ممالک کے کچھ سفراء اور پارلیمینٹ کے ممبر اور نائٹ جو نیل میچر.اور بڑے بڑے عہدیدار اور اہل منصب اور معزز ہندوستانیوں میں ہائی کمشنر فار انڈیا.سردار بہادر موہن سنگھ آف رحمہ کونسل فار انڈیا ، وغیرہ دو سو کے قریم بنانے شامل ہوئے.اس تقریب پر حضرت امیرالمومنین نی نے امیر فیصل اور دو سر غرب نمائندگان کے نام بذریعہ تاریه تی مندرجہ ذیل پیغام بھیجا.دہو ہوں نا شتی صاحب نے عربی اور انگریزی دونوں زبانوں میں سنایا.را ولپنڈی رحمہ میری طرف سے ہر رائل نیس امیر فصیل اور فلسطین کا نفرنس کے ڈیلیگیٹوں کو خوش آمدید کہیں اور ان کو بتا دیں کہ جماعت احمدیہ کامل طور پر ان کے ساتھ ہے.اور دعا کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو کامیابی عطا کرے.اور تمام عرب ممالک کو کامیابی کی راہ پر چلائے.اور ان کو مسلم ورلڈ کی لیڈر نہ ٹھاکر ہے.تر می خواله الفضل به مادر ۱۹۳۹ء ص :

Page 603

۵۵۰ دو لیڈرشپ جو ان کو اسلام کی پہلی صدیوں میں حاصل تھی.سعودی عرب کے وزیر نے ایر فصل کی طرف سے جوابی تقریر کی اور پور عالم سلام کی می گفت در تجاویز در بیانیه امیر فصل اور دوسرے نمائندوں نے اس موقعہ پر نومسلموں سے قرآن مجید سنا حبس دہ بہت متاثر ہوئے.امیری میل نے فرمایا.میرا خیال تھاکہ چھوٹی سی مسجد ہوگی.اور یہ بعد میں بڑی کی گئی ہے.مولانا شمسی صاحب نے بتایا کہ الہ تعالیٰ کے فضل سے یہ ابتداء ہی سے اتنی بڑی بنائی گئی تھی.عرب نمائند ے دار التبلیغ دیکھ کر بھی خوش ہوئے مولا بخش صاحب نے امیر تفصیل کوحضرت میں موعود علیہ السلام کی تالیفات میں سے من الرحمن اور تالیغ اور بعض اپنی عربی کتب مثل توضیح مرام میزان اقوام اور دین السیمین خوبصورت جلدی بنا کر بطور بد در پیش کیں.جو انہوں نے شکریہ اور مسرت کی تو قبول کیں.اور جاتے ہوئے وزٹنگ ٹیک میں سنے قلم کر یہ الفاظ لکھ گئے.لا تُبَاتِ عِنْدِيَّتِي وَ شُكرِى لِحَضْرَةِ الْإِمَامِ وَالْجَابِي بِذَكَائِهِ فيصل اس شاندار تقریر کے فوٹوگرافرز نے متعدد فوٹو لئے جو سنڈے ایکسپر نہیں اور سورتھ ویسٹرن سٹا را دور ومبلڈن برونو نر اور ونڈز ورتھ با دو نیوز میں بھی شائع ہوگئے.قضیہ فلسطین کو آئندہ چل کر کن مراحل میں سے گزرنا پڑا اور حضرت خلیفہ ایسی الثانی اور تھنو کی قیادت میں جماعت احمدیہ نے مسلمانان فلسطین کی تائید میں کس طرح آواز بلند کی اس کی تفصیل اگلی جلدوں میں آئے گی.مگر یہاں ضمنا یہ بتانا ضروری ہے کہ جہاں جماعت احمدیہ یہودی سرگرمیوں کو عالم اسلام کے لئے ہمیشہ خطر عظیم سمجھتی رہی ہے وہاں مجلس احرار اسلام کے عمائد کا بر کا اور میں یہ واضح نظر یہ تھا کہ ہم خطرات کے شمار کے قائل نہیں ہیں.ہمارے نزدیک مسلمانوں کیلئے اور اسلام کے لئے کوئی خطرہ نہیں ا سلام خدا کا پسندیدہ دین ہے.وہ اس لئے دنیا میں آیا ہے کہ تمام دنیا کے مذاہب پر غالب ہو رسول للہ صلی اللہ علی وسلم کی بعثت کا مقصد اسلام کا یہ مجموعی تھا.یہ علیہ اپنی قدرتی رفتار کے ساتھ جاری ہے.اس رفتار کونہ کوئی شخص روک سکتا ہے اور نہ وہ رکھنے والی ہے.اسلئے اسلام کی زندگی.کہ سامنے نو ایک خطرہ ہے نہ خطرے.اسی طرح ملت اسلامیہ بھی زندہ رہنے اور نہ صرف زندہ رہنے بلکہ غالب ہو کر رہنے کے لئے پیدا ہوئی ہے.ہو سکتا ہے کہ افراد میں رد و بدل ہو.ہوسکتا ہے کہ قبائل واقوام میں تغیر و انقلاب ہو.لیکن بلت بحیثیت مجموعی خیر امت ہے.اور وہ باقی.بہ قرانہ اور قائم رہے گی جس طرح بنی امیہ کے زوال نے بنی عباس کو جگہ دی.بنی عباس نے فاطمیین کو جانشین بنایا اور فاطین کا علم له الفضل ا ما رح ۳۹ دست : ه پورت سالانه صد ر انجمن احمدیه ۱۳۸۳ ورود ۷۵ه به

Page 604

DAN عثمانیوں نے سنبھال لیا.اسی طرح ملت میں بھی مختلف قومیں اٹھتی اور بیٹھتی رہیں گی.اس لئے نہ اسلام کو خطرہ ہے نہ مسلمانوں کو.لیکن اگر ان حضرات کے طرز استدلال کو قبول کر لیا جائے جو خدا کی دو مغضوب قوموں سے خدا کے پسندیدہ دین اور خدا کی مسلم علی قوم کے لئے خطروں کے سوا اور کچھ نہیں دیکھتے تو ہم عرض کریں گے کہ خطرہ نہ یہود سے ہے نہ ہنور سے جگہ خطرہ خود ان نیک دل اور سادہ لورچ " تیمارداروں سے ہے جو ملت اسلامیہ کے مرد بیار کے مداوا کیلئے مسلم لیگ اور اسکی رہنماؤں کی جد و جہاد اور محل پروگرام میں آس لگائے بیٹھے ہیں.اے ولیداد خانصاح کی شہادت افانستان کی تاریخ میں ابتدا ہی سے شہدائے احدی کے خون سے لالہ زوالہ منبتی آر ہی تھی.چنانچہ اس سال بھی دار فروری شداد کو مجاہد تحریک عدید ولیداد خانصاح نے اپنے خون سے اس ملک کی آبیاری کی.ولیداد خان صاحب ایک لمبا عرصہ دار الامان میں تعلیم حاصل کرتے رہے.پھر وہ تحریک جدید کے سلسلہ میں حضرت امیر المومنین خلیفہ ایسی الثانی فی الہ تعالی منہ کے ارشاد پر اپنے گاؤں د واقع علاقہ خوست میں (جود اُن دنوں برطانوی اور افغانی گورنمنٹ کے حد فاصل پہاڑ کی چوٹی پر واقع اور بالکل آزاد علاقہ تھا، تشریف لے گئے.جہاں آپنے اپنے چچا زاد بھائی خالید او خان کی لڑکی سے نکاح کیا.اور خدا تعالیٰ نے ایک بچہ بھی دیا.لڑکے کی عمر ابھی ڈیڑھ ماہ کی ہوئی تھی کہ ان کے برادران نسبتی نے اس ننھے معصوم بچہ کو جس کا نام فضل داد تھا قتل کر دیا.اور پھر ان کو بھی غالبا چوتھے دن ار فروری ۳ - د کو نہایت بیدردی اور بے رحمی سے تین گولیوں کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا.انا لله و انا الیه راجعون - مرحوم تین دن تک بے گور و کفن رہے.اس کے بعد ظالموں نے انکی نعش مبارک کہیں پھینک دی بیله فروری شملہ میں احمدی بچیوں کے لئے ” مجلس ناصرات الاحمدیہ کے مجلس ناصر الاحمدیہ کا قیام نام سے ایک انجمن کا قیام عمل میں آیا جس کی صدر محترمہ استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ ، سیکرٹری صاحبزادی امته الرشید صاحبه دنبت حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی اور اسسٹنٹ سیکرٹری طاہرہ بیگم صاحبہ مقدمہ ہوئیں کے مجلس احرار اور سلم لیگ "مؤلفه شیخ نظام الدین صاحب نائب صدر مجلس احرار حلقه باغبانپورہ لاہور ہے تھے - الفضل و از تاریخ ٣ ٢ : ه الفضل دار جولائی ۹۳ رد صلا کالم ہے - صی i

Page 605

۵۵۹ مجلس احرات الاحمدیہ کا قیام صاحبزادی امتنا الرشید مصاحبہ کی تحریک پر ہوتا.چنانچہ صاحبزادی صاحبہ کا بیان ہے کہ جب میں دینیات کلاس میں پڑھتی تھی.میرے ذہن میں یہ تجویز ایک جس طرح خواتین کی تعلیم وتربیت کے لئے لبناء القت قائم ہے.اسی طرح لڑکیوںکے لئے بھی کوئی مجلس ہونی چاہئے.چنانچہ کم محترم ملک سیف الرحمن صاحب کی بیگم صاحبہ اور مکرم محترم حافظ بشیر الدین صاحب کی بیگم صاحبہ اور اسی طرح اپنی کلاس کی بعض اور بہنوں سے اس خواہش کا اظہار کیا.اور ہم سب نے مل کر لڑکیوں کی ایک انجمن بنائی جس کا نام حضرت اقدس ایده الله نصرہ العزیز کی منظوری سے ناصرات الاحمدیہ رکھا گیا.شروع میں تو اس کے اجلاس بھی ہمارے اسکول میں ہی ہوتے رہے.اور اسکول کی طالبات ہی اسکی مہرہ ہیں.لیکن میر بیا شادی کے بعد جیب میں سندھ چلی گئی.تو اس مجلس کا انتظام لجنہ اماءاللہ نے سنبھال لیا.اور اس کے زیر از نظام اس مجلس کے امور سر انجام پاتے رہے یا یرالمومنین کی طرف سے حضرت امیرالمومنین اپنے زمان خلافت کے ابتدا ہی سے حضرت امیرا مسلم لیگ کو مسلمانان ہند کی واحد نمائندہ سیاسی جماعت سمجھتے آل انما سلم لیگ کی زبر دست تائید تھے اور اس کی بات کانگریس سے وابستگی سلم مفادات سے لیا بے اعتنائی کے مترادف قرار دیتے تھے.چنانچہ جولائی 14ء کا واقعہ ہے کہ منڈی بوریوالہ ضلع مانستان کے ایک دوست چوہدری محمد اکبر صاد نے ۱۲ جولائی ۲۷ مرد کو حضرت خلیفہ ایسیح الثانی کی خدمت میں تحریر کیا.کہ ہمارے علاقہ میں یقین کیا جاتا ہے کہ مسلم لیگ کی قوت دوتا نوں اور نگر یانوں کی قوت کے مترادف ہے.جبتک ان کو شکست نہ ہو ہم آباد کار اٹھ نہیں سکتے.اگر یہاں ہم نے کانگرس کو تقویت بودم اگر ہونے دی اور کانگریں کامیاب ہو گئی تو یقینا کا نگری ہمارے مفاد کا خیال رکھے گی اور اگر یہاں کانگریس فیل بھی ہو گی پھر بھی دوستانوں کو ہماری قدر کرنی پڑیگی اور اگر ہم الگ الگ ہے تو میں کوئی بھی نہیں پوچھے گا یہ ہے سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے اس خط پر اپنے قلم مبارک سے جو الفاظ رقم فرمائے وہ احمدیت اور مسلم لیگ دونوں کی تاریخ میں آب زر سے لکھے جانے کے لائق ہیں.حضور نے تحریہ فرمایا کہ:- " مجھے آپکے متعلق ذاتی واقعیت نہیں.بہتر ہوتا آپ کسی واقف محمدی سے لکھواتے یہ سوال ه خطا صاحہ اوی دسته الرشید صاحیہ بیگم می داریم مرات - مکتوب محره ۲ جولائی تا ہے

Page 606

۵۲۰ مجھے تو مسلمانوں کے فائدہ سے ہمدردی ہے کسی خاص پارٹی سے نہیں لیکن یقینی ہے کہ کانگریس مسلمانوں کی دشمن ہے.اگرچھوٹے فائدوں کیلئے مسلمان کانگریس سے ملیں گے تو قومی طور پر ذلیل ہو جائیں گے ہم نے کانگر ی سے خط و کتابت کر کے دیکھا ہے.کانگریس کا ارادہ مسلمانوں کے حق میں ہر گز اچھا معلوم نہیں دیتا.اس صورت میں اسے ملنا اچھا نہیں.ہاں آپ مقامی مسلم لیگ بنائیں اس میں اپنے معمر زیادہ کر لیں.آپ کو کوئی نہیں روک سکتا.اس مسلم لیگ کی طرف سے بیشک مسلمان کھڑے ہوں مسلمان اکٹھے بھی رہیں گے اور کانگریس کو بھی طاقت حاصل نہ ہوگی اس صورت میں بھی مالدامر لوگ آپ کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے" حضرت خلیفهای انا یا کالای ایران این کالا اس کی نیست کے رسول شقی دارم و تقویت میں بہتر شد تا اسمور مجھے و شرقت الشروں سے بعد کرتے.یہ ہر حال مجھے تو مسلمانوں کے ناسک سے ہمدردی ہے کیا خاص یا گیا کے نہا لیکن یہ یقین ہے کہ جانگ میں مسلمانوئی کا دکھتی ہے اگر چھوٹے کانوں ن تھا.سلمان کا گر کس سے مین ہے تو قوی طور پر ڈیلی سو یا شمع ہم کے اند اس کے شکار کرتا ہے کر کے دیکھا ہے کہ ترکی کا ارادہ مسلمانوں کے خوی برگزار لها ممنوع شیار ها - ایسی صورت یہ کیا اس سے ملنا بقاشتا ہاں ہو مونهای اسلم فرنگی کا اکیل رہنے سے یا وہ کرسی او کو نولا شما روی کتا اس ہائش کا طرت سے سینک مسلما نا کر کے ہوں ان اکٹھے بھی رشتے آمد کانر سی

Page 607

۵۶۱ ر بھی طاقت حاصل نہ سلام اس صورت میں ہی مالدباب رک آسوکا کھنکار شاستے چمبہ ایک چھوٹی سی پہاڑی ریاست ہے جو ریاست جموں کے جنوب مغرب مسلمانان میبہ پر مظالم میں واقع ہے.اس ریاست میں بند لوگ بھاری اکثریت میں آباد تھے.اور کے خلاف احتجاج مسلمانوں کی آبادی سات فیصدی کے قریب تھی جو اہل کشمیر کی طرح ہمیشہ غیر زراعت پیشہ متصور ہوتے تھے اور وہ خاص اجازت کے سوا ) جو عام طور پر نہیں دی جاتی تھی زمین خریدنے کے بھی مجاز نہیں تھے.حتی کہ مسلمان کسی مسلمان سے بھی سرکاری اجازت نامہ کے بغیر زمین کی خرید و فروخت نہیں کر سکتے تھے اور ہندو سے زمین کا مل جانا تو قریباً ناممکن تھا.اس کے بر ٹیکس ہند ولو گہ مسلمانوں سے قانونا خرید سکتے تھے.اور اس کیلئے کسی اجازت کی ضرورت نہیں تھی.ایک اور پابندی یہ تھی کہ حد دریاست میں کوئی شخص قبول اسلام نہیں کر سکتا تھا.حد یہ ہے کہ جہاں ہرا چھوت کیلئے ہندو دھرم قبول کرنے یا عیسائی بنے کے دروازے ہر وقت کھلے تھے مگر اسے حدود ریاست میں اسلام لانے کی اجازت نہ تھی.غرضیکہ غریب مسلمان ظلم وستم کا نشانہ بنے ہوئے تھے.اور خصوصا احمدیان جمبہ کہ بہت تکالیف پہنچائی جا رہی تھیں.سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی خدمت میں یہ حالات پہنچے تو حضور نے چوہدری غلام احمد صاحب بی.ہے.ایل ایل بی مشیر قانونی اور مولودی ظہور الحسن صاحب فاضل کو پہیہ بھجوا یا یہ دور باشندگان جہیہ کو مشورہ دیا کہ وہ ریذیڈنٹ کو اپنی شکایات و مطالبات بھجوائیں اور خاص طور پر مندرجہ ذیل مطالبات اس میں شامل کریں کہ ا شہر تمیہ میں میونسپل کمیٹی قائم کی جائے.-- زمینداروں کو زمین کا مالک قرار دیا جائے.زمینداروں کو ان کی زمین پر سیاست درخت کاٹنے اور فرقت کرنے کی اجازت دی ہے.سیاسی قیدی شیخ غلام نبی صاحب کو رہا کیا جائے.۵- ایک غیر جانبدار تحقیقاتی کمیٹی جس میں غیرسہ کاری میروں کی اکثریت ہو قائم کی جائے جو رعایا کی شکایات شنکر اُن کے تدارک کیلئے تجاویز پیش کرے.ے.رپورٹ سالانہ صدر انجمن احدید است ۳۹ مراد ہے

Page 608

۵۹۲ مسلمانان حمید نے حضور کی ان ہدایات کی روشنی میں اپنے مطالبات مرتب کر کے ریزیڈنٹ کو بھجوا دیئے جو ریذیڈنٹ نے مطالعہ کے بعد حکام ریاست کے پاس ارسال کر دئے.حکام ریاست مطالبات پڑھ کر غضبناک ہو گئے اور انہوں نے مسلمانوں پر نا جائز رعب ڈال کر میموریل کے خلاف اور اپنے حق میں دستخط کروانے کی ہم شروع کر دی جسپر نام احمد صاحب ہی ہے.ایل ایل بی نے ریذیڈنٹ کو تار دینے کے علاوہ حکومت ہند کے پولیٹیکل ڈیپارٹمنٹ کو اطلاع دی اور اخبارات سے درخواست کی کہ وہ حکام چینی کے خلاف اوانہ اٹھائیں اور جمہ کے مسلمانوں کو کھا کہ وہ احتیاطی اپنی شکایات کے ثبوت مہیا کریں.چنانچہ جماعت احمدیہ کا آرگن روز نامہ الفضل نے کئی بار اس فلم کے خلاف آواز بندگی اور سخت احتجاج کیا.راس مرحلہ پر حضرت نظیفہ مسیح الثانی جواد انعام حصر صاحب کو ہدایت فرمائی کہ میرے نزدیک خاموشی مناسب نہیں.ہندوؤں سے ان شکایات کا ذکر ضرور کر دینا چاہیے.اے حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی تبدیلی آب و ہوا کیلئے بذریعہ کار ر است شہد کو دھرم سالہ تشریف لے گئے بیلجہاں سے ۱۳ ار اگست نارہ کو منالی گئے بے در بھی اور اگست کو را پس محرم سالہ پہنچے لیا اور پھر چند روز قیام فرما اپنے کے بعد ۲۹ اگست کو قادیان و ارزان مان میں رونق افروز ہوئے لیے منالی میںاللہ تعالی کے فضل کا ایک ایمان افروز نشان کا اگر میں قبولیت دعا کا پہلانستان ان الدار سے درج کی جاتی ہے.فرمایا : - عزیزم مرزا ناصر احمد صاحب منائی جارہے تھے.ہم بھی دھر مسالہ سے انہیں کے لئے دوسرے موٹر میں گئے.جب پالم پور تک انہیں چھوڑ کر واپس آرہے تھے.راستہ میں موٹر خراب ہوگئی.اور ڈرائیور ے بتایا کہ پڑوں ہو جانیوالی ملکی نہیں میں سے ٹوٹ گئی ہے.بارش تیز ہورہی تھی.اور ساتھ مستورات تھیں.قریبا شام کا وقت تھا.اور منزل سے قریبا ۲۶ میل دور تھے.اور وہ بھی پہاڑی سفر کہ جو مرد بھی دو میل فی گھنٹہ مشکل سے چل سکے.اور آدھ آدمو میل کی کوئی ایسی جگہ نہ تھی.یہاں آبادی ہو.میں نے سامنے ہے.غلام احمد صاحب بی ایل ایل بی کے مکتوبات مرتونه ارگ و دراگ ۹۳ اسی ما خود ه - الفضل دراگست ارد صحت کالم ہے ه - الفضل ۱۵ را گست شش اور منہ کالم را ہے ه ۲۹ اگست رو به شه و در ۱ و با گست

Page 609

۵۶۳ دیکھا.تو ایک جھونپڑی سی نظر آئی جو بعد میںمعلوم ہوا کہ دوکان ہے.میں نے دل میں دعا کی کہ وہاں تک ہی پہنچ جائیں.شاید وہاں سے کوئی صورت پیدا ہو سکے.میں نے ڈھائی کہ یا الہی یہ حالت ہے.ہم تو چل بھی سکتے ہیں.باہر بھی موسکتے ہیں مگر ساتھ پردہ وارمستورات ہیں.توکوئی صورت پیدا کر دی ہے.اس سامنے کے مکان تک پہونچ جائیں.اتنے میں موٹر میں اصلاح ہوگئی اور وہ پھل پڑی اور ہم دل میں بہت خوش ہوئے.لیکن نہیں اس دوکان کے سامنے جا کر دو پھر کھڑی ہوگئی.جن تک پہنچنے کیلئے میں نے دعا کی تھی میں نے ساتھیوں سے کہا کہ دیکھو خدا تعالیٰ نے کسی طرح عین اس جگہ لاکر کھڑا کردیا ہے.جہاں کے متعلق میں نے دل میں دعا کی تھی.یہ عجیب بات ہے کہ ہماری موٹر جا کہ ایسی جگہ کی کہ جو اس دوکان کے درواندہ کے دونوں سیرون کے عین درمیان تھی.نہ ایک فٹ اور ہر نہ ایک فٹ اُدھر.ساتھ ہی اللہ تعالی نے یہ سامان بھی کر دیا.کہ وہاں ہم نے دیکھا.کہ ایک لاری بھی کھڑی ہے.حالانکہ وہ جنگل تھا.ہم نے دریافت کیا تو نادی والے نے بتایا کہ ہم پر قدم رہے اور جواہد ہی کیلئے اس کے پاس جارہے ہیں.مالک گاؤں میں گیا ہوا ہے.اوردہ اس کا منتظر ہے.ہم نے اسے کچھ امید دلائی اور کچھ لالچ دیا کہ اگر ہماری مو ٹھیک نہ ہو.تو داری کیساتھ باندھ کر ہمیں گر پہنچا دے.یا کم سے کم کسی قصبہ تک جہاں موٹر ٹھیک ہو سکے.اور اگر ٹھیک ہو جائے تو اختیاط ساتھ پہلے.کہ پھر موٹر کے دوبارہ خراب ہونے کی صورت میں ہماری بدو کر رہے.اقول تو وہ نہ مانا.لیکن قریباً ایک گھنٹہ تک مرمت کرنے کے بعد جب موٹر درست ہوا.تو وہ ڈرائیور بھی ساتھ چلنے پر رضامند ہو گیا.وہ علاقہ کچھ میدانی تھا.اور چڑھائی کم تھی.لیکن جب ہم اسجگہ پہنچے.جہاں سے دھرم سالہ کی پڑھائی شروع ہوتی ہے.اور تیرہ میل سفر باقی رہ گیا.تو سنی آگے جانے سے انکار کر دیا ہم نے اسے بہت امید دلائی.انعام کالا نے دیا.بالک کی ناراضگی کی صورت میں اسکی پاس سفارش کرنے کو کہا.مگر وہ آمادہ نہ ہوا.وہ کہنے لگا.کہ آپ کی موٹر ٹھیک چل رہی ہے.اب کیا حرج ہے.آپ اکیلے پچھلے جائیں.میں نے پھر دعا کی کہ یا الہی پر جنگل کا جنگل ہی رہا.رات کا وقت تھا.اور اگر موٹر خراب ہو گئی.تو دور کر سواری ملنے کی امید بھی نہیں کیونکہ وہاں رات کے وقت موروں اور لاریوں کا چلنا منع ہے.میں نے دعا کی.اور میرے یہی الفاظ تھے.کہ اب انسانی عدت ختم ہو گئی.اپنے ہی اپنے فضا انتظام فرا یہ وڈا کر کے میں سوار ہونے کا اشار کیا، قریب کی جو وہاں کو رد مراسلہ بھی جو اس میں تھی جہاں اور ٹھیک چلتی رہی بیٹے کو ھر مسالہ پہونچے تومیں نے طره رزم مرزا مظفر احمد صاحب سے جو میرے ساتھ تھے.کہا کہ چلو دیکھیں شاید کوئی دوسری موٹر مل جائے.تو

Page 610

۵۶۴ اُسے ساتھ لے چلیں.وہاں موٹر وغیرہ نہیں ہوتے مگر جب گئے تو دیکھا.کہ اتفاق سے وہاں ایک موٹر مو بود ہے.اور معلوم ہوا کہ صبح اس میں کوئی سواری لے جاتی ہے.اسلئے پٹھانکوٹ سے آئی ہے.ہم نے اس سے پوچھا تو ڈرائیور نے کہا کہ بہت اچھا ئیں اپر دھر مسالہ تک چھوڑ آتا ہوں.اس وقت دوسری موٹر کے لینے کا خیالی اسلیے ہوا کہ ہماری موٹر پر سواری یا زیادہ تھیں.خیال تھا.کہ سواریاں کم ہو جائیں گی.تو ہماری موٹی کا خطرہ دور ہو جائیگا.مگر جب سواریاں تقسیم کر کے چلنے لگے.تو معلوم ہوا کہ مور کا وہ روزہ تو تکلیف دے رہا تھا پھ پھر ٹوٹ گیا ہے.اور اب ہماری موٹر کے پچھنے کی کوئی صورت نہیں.اس پر سب سواریاں کرایہ کی موٹر پر سوار ہوگئیں اور ہم آرام سے گھر پہونچ گئے.یہ خدا تعالی کا کتنا بڑا فضل تھا کہ میں اسوقت آکر موٹر خراب ہوئی.جب دوسری سواری تیر آگئی.اورایسی خراب ہوئی کہ دوتین دن میں جاکر درست ہوئی مگر ہم بخیریت گھر پہنچ گئے تو دیکھو کر ایک باہو تو اسے اتفاق کہہ سکتے ہیں.مگر اس کو کس طرح اتفاق کیا جاسکتا ہے.کہ پہلے عین اس جگہ پر پہونچا کر موٹر خراب ہوتی ہے جس کیلئے نہیں نے دعا کی تھی.اور وہالی جنگل میں ایک لاری بھی کھڑی ہوئی کلجاتی ہے.جیسے ساتھ لے کر یم بقیہ سفر و یا کرنے کیلئے چل کھڑے ہوتے ہیں.پھر جب وہ لاری والا ہمیں جواب دیتا ہے اور اصل چڑھائی شروع ہوتی ہے.میں پھر ڈھاکہتا ہوں.اور نہایت سخت چڑھائی پر موٹر بالکل آرام سے چڑھ جاتی ہے.لیکن جب راستہ میں ایک اور شہر آتا ہے تو وہاں غیر متوقع طور پر پھر ایک موٹریل بھاتی ہے.اور اس موٹو کے مل جانے پر پھر ہماری موٹر ٹر ی طرح خراب ہو جاتی ہے.لیکن ہم تکلیف سے بچ جاتے ہیں.اور دوسری موٹرمیں سوارہ ہو کر گھر پہونچ جاتے ہیں.عرض مومن تو دعاؤں کی قبولیت کے نشان پروز دیکھتا ہے ؟ اگست اور میں قبولیت دعا کا ایک اور نشان بھی ظاہر ہوگا.قبولیت دعا کا دوسرانشان امیری جبر کا ذکر سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفہ اسیح الثانی نے حسب ذیل الفاظ میں فرمایا :- نماز استسقاء احمدیوں نے ادا کی.اللہ تعالیٰ نے فضل کیا.اور کچھ بارش ہوئی.اسکے بعد دوسروں نے بھی ہند کی وجہ سے نماز پڑھنا چاہی مگر چونکہ انہوں نے یہ کہا کہ ہم احمدیوں کے مقابلہ کیلئے کرتے ہیں انکی نہ سنی گئی.اگر وہ ایسا نہ کہتے.تو ممکن ہے اللہ تعالی ان کی دعا بھی سن لیتا.مجھے بعض اصدیوں کی طرف سے بھی ایسے خطوط ہے کہ غیر اصدیوں نے دُعا کی ہے.اور ہندوں نے بھی جنگ وغیرہ کیا ہے.دُعا کریں اللہ تعالی ان کی دعا نہ سنے.مجھے ایسے تکلیف ہوئی.اور جب مجھے غیر احمدیوں اور ہندوؤں کی نسبت یہ له الفضل اور ستمبر ساء ما : ے.قادیانی کے بعد یوی کی طرف اشارہ ہے (ناقل)

Page 611

040 معلوم ہوگا.کہ وہ کہتے ہیں.کہ اب احمدی تو دعا کر چکے.اب ہم دعا کریں گے.اور ہماری دعاؤں سے بارش ہوگی.تو مجھے اس سے بھی تکلیف ہوئی.اور میں نے دل میں کہا.کہ افسوس یہ لوگ اللہ تعالٰی کی دینی نعمد سے تو محروم تھے ہی.مگر دنیوی نعمتوں کا دروازہ کھلا تھا.جیسے انہوں نے اس طرح بند کر لیا.جب مجھے اس کی اطلاع ہوئی تو میں نے کہا.کہ چونکہ انہوں نے مقابلہ کا رنگ اختیار کیا ہے.اس لئے اب انکی دعا نہیں سنی جائے گی.اور تین روز تک تو بارش نہیں ہوگی.تب میں واپس آیا.تو رستہ میں مجھے مولوی ابو العطاء صاح ہے.میں نے دریافت کیا.کہ احرار نے ۲۶ ر تاریخ کو دعا کی تھی.اب تک بارش تو نہیں ہوئی.انہوں نے کہا.نہیں ہوئی.میں نے کہا.خیر اب تین دن گزر گئے ہیں.مولوی صاحب نے کہا.کہ آپ کا انتظار تھا.اب ہو بھائے گی.میں نے اسی وقت آسمان کی طرف نگاہ کر کے دُعائی.کہ اپنی تیرا بارش کا قانون تو عام ہے.وہ خاص بندوں سے تعلق نہیں رکھتا.مگر بعض اوقات دل میں اُمید پیدا ہو جاتی ہے.جو اگر پوری نہ ہو.تو بعض اوقات ابتلاء پیدا ہوتا ہے.اور اگر پوری ہو جا تو تقویت ایمان کا موجب ہوتا ہے.اور میں نے دُعا کی.کہ ہر گھنٹے کے اندر اندر بارش ہو.رات کو میں نے انتظار کیا صبح دس بجے کے قریب میں اندر بیٹھا تھا.کہ روشندانوں پر چھینٹے پڑنے کی آواز آئی.بالکل معمولی توشیح تھا.میں نے دعا کی.خدایا ایسی بارش تو کافی نہیں.مخلوق کو تو ایسی بارش کی ضرورت ہے جس سے لوگ میاب ہوں.اس کے کچھ وعدہ بعد ا ا ا ا ا ا ا ر و ر کر دی صفائی کر رہے تھے انہیں دیکھو کہ کام ختم کر چکے ہیں یا نہیں.میں نے دُور ایک چھوٹی سی بدلی دیکھی اور دُعا کی.کہ خدایا اسے بڑھانےسے اور پھیلا دے.اور پندرہ منٹ کے بعد میں نے دیکھا کہ بارش شروع ہو گئی.اور پانی بہنے لگا.تو یر ایک نشان ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے لے اب تک ترکستان کے علاقہ میں احمدیت کی آواز نہ پہنچی تھی مگر مجاہدتحریک لبید ترکستان کے پہلے محمد رفیق تعالی تبلیغ سے شہ میں احمدیت کا بیج بویا گیا اور اس سے پہلے کی احمدی خاندانی ہجرت کا شہر کے ایک نوجوان حاجی بنود الله ماست حلقہ بگوش احدیت ہوئے.جو پنے وطن سے چل کر عینی ترکستان اور کشمیر کے برفانی اور دشوار گذارہ کو ہستانی علاقے کے کرتے ہوئے الفضل و ستمبر ٣ م : ہے.عمایی جنود اللہ صاحب کا شعر کے ایک ایسے مقتدر خاندان سے تعلق رکھتے تھے جبر کا شمار وہاں کے چوٹی کے مربہ کردہ اور معزز خاندانوں میں ہوتا تھا.مگر کمیونزم کے اثر و اقتدار کیوجہ سے جہاں دستر مسلمان تباہ حال ہوئے.وہاں اس خاندان کی ظاہری شان و شوکت بھی خاک میں مل گئی.>

Page 612

۵۶۶ بر ہ دیں وارد قادیان ہوئے.اور حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی کے دست مبارک پر بعیت کر کے احمدیت میں داخل ہونے کا شرف حاصل کیا.حاجی صاحب موصوف کی اپنے وطن سے روانگی ایسے موسم میں ہوئی.جب برف پگھلنی شروع ہوگئی تھی.آپ پیدل چلتے ہوئے کئی بار گلے تک بہت میں دھنس گئے.ان خطرات اور مصار کے علاوہ کئی ماہ کے اس لمبے سفر کے اخراجات اور براہداری اور پاسپوٹ کے ملنے میں تکالیف کو برداشت کر کے اللہتعالیٰ کے رحم و کرم سے آخر منزل مقصود تک پہنچے گے عابھی صاحب کے ساتھ ان کی معر والدہ اور ہمشیرہ بھی آنا چاہتی تھیں لیکن پاسپورٹ دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے لوگ گئیں.حاجی صاحب کے وارد قادیان ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا.اور حضرت امیر المومنین کی دعاؤں کی برکت سے ان کو بھی پاسپورٹ مل گیا.اور وہ بھی مر اکتوبر کو ایک دوسرے قافلہ کے ہمراہ قادیان کیلئے روانہ ہوگئیں.اور بذریعہ تر اپنی روانگی کی اطلاع حاجی صاحب کو دی.اس پر ھا جی صاحب قادیان سے براہ کشمیر گلگت کی طرف روانہ ہو گئے.حاجی صاحب قادیان سے گلگت تک چودہ پندرہ روز کا سفر آٹھ نوروز میں طے کر کے پہنچے.تو معلوم ہوا کہ آپ کی والدہ و ہمشیرہ کہ ایر کشوں کی سستی اور غفلت کے باعث ترکستان سے آنیوالے پہلے قافلہ سے رہ گئی ہیں.اس بات کے معلوم ہونے پر آپ گلگت سے روانہ ہو گئے.تیسری منزل طے کر رہے تھے کہ راستہ میں آپ کو وہ دوسرا قافلہ کا جس میں آپ کی والدہ اور ہمشیرہ سفر کر رہی تھیں.حاجی صاح بیان کرتے ہیں.کہ جس وقت اس قافلہ کوئیں نے دیکھا تو خیال کیا کہ ممکن ہے.یہ وہی قافلہ ہو یوں کہیے ہمراہ میری والدہ اور ہمشیرہ آرہی ہیں.اور جب آپنے قافلہ کے افراد پر نگاہ ڈالی.تو پہاڑ کی چوٹی پہ دو سیاہ برقعہ پوش سوار نظر آئے.جن کے گھوڑوں کی نگا میں دو کرا یہ کشوں نے تھامی ہوئی تھیں.قافلہ کے نزدیک پہنچنے پر جب انہوں نے دریافت کیا.تو معلوم ہوا کہ واقعی ان کی والدہ اور ہمشیرہ ہی ہیں.یہ میر درد کی تاریخ اور عید الفطر ا مبارک دن تھا.مگر جب آپ گلگت پہنچے تومعلوم ہوا کہ کشمیر کی طرف جانے کا راستہ برف باری کی وجہ سے بند ہو چکا ہے.اپنے گلگت میں دس روز تمام کیا اور ال بعد اپنی والدہ و ہمیشہ و کولے کو گیارہ دن میں چترال پہنچے.یہ تمام سفر بھی گھوڑوں پر کیا گیا.چترال میں پانچ چھ روز ٹھہرنے کے بعد بذریعہ لاری مالا کنڈا اور ڈرگئی کی طرف چل پڑے.اور عجب اشرت نام ایک پڑاؤ تک پہنچے تو پشاور کی طرف سے آنیوالے ایک سرکاری افسر سے معلوم

Page 613

۵۶۷ ہوا کہ برف باری کی وجہ سے دیر اور ڈرگئی کا راستہ سخت خطر ناک اور نا قابل عبور ہے.نیز اس افسر نے کہا.کہ میں ایک سو قتلی کے ساتھ بڑی مشکل سے پہنچا ہوں.آپکے قافلہ میں تو چھوٹے چھوٹے بچے بھی ہیں ستہ میں پچیس پچیس فٹ برف پڑی ہے.اور پیدل پھلنے کے سوا چارہ نہیں.اسلئے آپ واپس دردش چلیں.وہاں سے آپ کے جانے کے لئے جلال آباد والے راستہ سے انتظام کر دیا جائیگا.آخر پیش میں واپس ہو کہ دروش نامی پراؤ میں آٹھہرے لیکن پندرہ روز تک انتظار کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ کسی دو ستر راستہ سے جانے کا امکان نہیں.اور بہر صورت واپسی والے راستہ ہی کو سٹے کرنا پڑے گا.آخر اسی راستہ پر دوبارہ چل کھڑے ہوئے اور پہلے اسرات.اور پھر پھر میل کا سفر پیدل برف پر ملے کر کے شام زیارت نامی پراڈ پر پہنچے.اگلے دن کا سفر نہایت ہی مشکل تھا.کیونکہ چھ سات میل کی پڑھائی تھی.اور برف نے راستہ کو زیادہ دشوار گزارہ بنا دیا تھا لیکن سوائے اس کی کوئی چارہ بھی نہ تھا.آخر علی الصبح تین قلیوں اور حاجی صاحب کی مدد سے ان کی والدہ اور ہمشیرہ نے پہاڑہ پر پڑھنا شروع کیا.دو سر افراد قافلہ کے ساتھ بھی ہیں بائیں قلی تھے.برف بہت گہری تھی.بعد مشکل صبح سے لیکر ظہر تک پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے.راستہ میں حاجی صاحب کی والدہ کئی دفعہ برف سے پھسل کر گر پڑیں.انکی ہمشیرہ بھی اور خود حاجی صاحب بھی.لیکن اس خطرہ کے پیش نظر کہ کہیں موسم زیادہ خراب نہ ہوجائے اور مزید برفباری نه شروع ہو جائے.یہ مسافت طے کی.حاجی جنود اللہ صاحب کا بیان ہے کہ اسے زیادہ سخت دن ہم پر کم آیا ہو گا.آخر پہاڑ کی چوٹی پر پہن کر کچھ دیر آرام کیا.دراگ جو کر گرمی حال کی.پھر تمام قافلہ نوشی کی اترائی کی طرف روانہ ہوا.جسطرح پڑھائی سخت مشکل تھی.اسی طرح برف پر جوڈھلوان تھی راہ میں اتر را اسے بھی زیادہ مشکل تھا.حاجی صاحب کی والدہ صاحبہ اب چھلنے سے بالکل عاجز آگئیں اس لئے قلیوں نے اس کو اٹھا اٹھا کہ اتارنا شروع کیا.جوں جوں رات قریب ہوتی جاتی تھی.خطرہ بڑھتا جاتا تھا.آخر توں توں کر کے بخیریت عافیت رات کو اگلی منزل گو جر بیداد پہنچ گئے.لیکن راست کو سماجی صاحب کی والدہ کو سر کی بجد تکلیف کی وجہ سے.بخار.سردی اور تمام بدن میں دردیں شروع ہو گئیں.اور بعد کا سفر مشکل نظر آنے لگا.حاجی صاحب رات بھر اپنی والدہ صاحبہ کی تیمار داری میں مصروف رہے.صبح تک انکی طبیعت قدرے

Page 614

AYA بحال ہوگئی.اور وہ تھوڑا بہت سفر کر نے کے قابل ہو گئیں.گوجر پڑا ؤ سے چل کر دو تین میل کے فاصلہ پر گھوڑے کی سواری مل گئی.جس پر حاجی صاحب کی والدہ صوار ہوگئیں اور اسکے بعد تھوڑی دور جانے پر ہمشیرہ کے لئے بھی سواری کا انتظام ہو گیا.سامان وغیرہ قلیوں نے اٹھایا ہوا تھا.اس روز کا سفر نسبتا آرام سے ہوا.اور عصر کے وقت یہ قافلہ ریاست دبیر میں پہنچا.یہاں رات آرام سے بسر کر کے صبح ۱۲ جنوری و لاری پر ڈر گئی پہنچ گئے.وہاں سے ریل پر سوار ہو کر ۱۳ جنوری کو امرت سر آپہنچے.اور ہم ار جنوری کی صبح قادیان دارالامان میں وارد ہوئے میلہ اس کے بعد ستمبر کو اجی صاد کے بڑے بھائی حکیم سید آل احد صاحب اور حکیم صاحب کے بیٹے امان الله خان بھی انہی دشوار گزار رستوں سے گزرتے ہوئے قادیان آپہنچے.اور حضرت خلیفہ مسیح کے دست مبارک پر بعیت کرلی.اور پھر یہ خاندان قادیان میں ہی رہائش پذیر ہوگیا.مگر ۱۹۳۷ء کے فسادات میں اسے دوسرے احمدیوں کے ساتھ ہی پاکستان میں پناہ گزین ہو نا پڑا.پاکستان آکر باجی جنود اللہ احد نے سرگودھا میں بودوباش اختیار کرلی.اور حکیم سید آل احمد صاحب مسجد حد یہ راولپنڈی (واقع مری روڈی کے ایک کمرہ میں مقیم ہو گئے.جہاں آپ کا، د دسمبر دو کو انتقال ہوا.اور موصی نہ ہونے کے با وجود محض اپنے تقوئی پر بہیز گاری اور دین داری کے سبب حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی اجاز سے بہشتی مقبرہ میں دفن کئے گئے ملے قریشی محمد نذیر اح اف ملتانی پر احمدآباد کا یادوں کی حد یہ جماعت تین نفوس پر ملی تھی.جن میں شیخ رحمت اللہ صاحب کا ٹھگڑھی رہے پرانے اور غریب احمدی قاتلانہ حملہ او معجزانہ شفایابی تھے.اسکے مقابل قصب میں اٹھارہ ہزار سرحدی پیمان بود باش رکھتے تھے.جن کے ملاؤں نے احمدیوں کو کا فرادر واجب القتل قرار دیکر قصبہ میں سخت اشتعال پیدا کر دیا.ان کا فر گروں نے ایک بار حکیم شیخ رحمت اللہ ماء سے کہا کہ یا تو بہ کردیا ہمارے ساتھ مباحثہ کرلو.حکیم صاح نے قادیان میں اطلاع دی جس تیپ مرکز کی طرف سے قریشی محمد نذیر صاحب فاضل ملتانی روانہ کرئے گئے.جو ا ر نزیہ شاہ کو احمد آباد پہنچے.اور ہ ا نومبر شاہ کو شوکت میدان میں مناظرہ قرار پایا.مگر سارن روزنامه المفضل قاديار -- تجمل ٣ D...ه مب ے.آپ جلد ہی ایک قافلہ کے ہمراہ واپس پہنے گئے نے ه - الفضل ۱۲۰ اکتوبر ۱۹۵۹ء ص ۲

Page 615

۵۶۹ قریشی صاحب جب مقررہ وقت پر شوکت میدان کے ہوئی میں پہنچے تو ایک شخص نے آپ کے پیٹ میں چا تو گھونپ دیا.اور ناف کے قریب بائیں جانب چھ اپنی گہرانہ خم ہو گیا.آپ خود ہی بھاگے ہوئے شرکت میدان سے تھانہ میں گئے.جہاں سے آپ ہسپتال پہنچا دئے گئے.پہلے پٹی باندھی گئی پھر اپریشن کیا گیا.تین روز تک حالت سخت تشویشناک رہی.قادیان سے ایک تو حکومت بمبئی اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ احمد آباد کو توجہ دلائی گئی.دوسر قادیان سے ملک عبدالعزیز صاحب اور حکیم فیروز دین صاحب مولوی صاحب کی تیمارداری کے لئے احمد آباد بھیجے گئے.یہ اصحاب ۷ار نومبر کو احمد آباد پہنچے اور اطلاع دی کہ اگرچہ پہلے تین روز زندگی کی کوئی اُمید نہیں تھی.مگر حضرت خلیفہ المسیح الثانی اور دوسرے بزرگوں کی دعاؤں کا نتیجہ ہے کہ الہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی حالت خطرہ سے باہر ہے یہ قریشی صاحب موصوف اکیس روز تک سول ہسپتال میں صاحب فراش رہنے کے بعد در سر کو قادیان تشریف لے آئے.جہاں آپ کے زخم خدا کے فضل وکرم سے جلد جدار مندل ہونے لگے.اور آپ شفایاب ہو کر بدستور خدمت سلسلہ میں مصروف ہو گئے.پیشوایان مذاہب حضرت خلیفہ ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ن نے دنیا میں عموما در این داستان میں خصوصا مذہبی نفرت و حقارت اور کشیدگی کم کرنے کیلئے م۲۵ مرد اور کی بنیاد میں سیرت النبی کے مبارک جلسوں کی بنیاد رکھی تھی.جو عوامی فضا کو ه - اخبار الفضل (۲۳ نومبر ۱۱۳ ص ۲ کالم : ) پر اس حادثہ کی تفصیلات نہیں لکھا ہے.کہ معلوم ہوا ہے ایک پٹھان کا اس واردات میں ہاتھ ہے.اور اس واردات کا منصوبہ ان لوگوں نے پہلے باندھا ہوا تھا.حکیم رحمت اللہ صاحب کو بھی انہوں نے یہ کہ کہ کہ منظر میں ہم حقیقت معلوم کر کے تمہارے ساتھ ہو جائیں گے.دھو کر دیا.اس دھو کے میں آکر حکیم صاحب نے مناظرہ کا ارادہ کیا.اور شوکت میدان میں مناظرہ مراد پایا.پاس کے ایک ہوٹل میں سب کا نام بسم اللہ ہے.اسکے متعلق بات چیت ایک ہندوستانی مولوی سے ہو رہی تھی کہ چند میٹھاں وہاں پہنچے.مولوی محمدند بر او نے پوچھا.مناظرہ کی اجازت لی گئی ہے یا نہیں؟ اور کیا حفظ امن کا انتقام کیا گیا ہے.اس کا جواب یہ دیا گیا کہ ہیں اس کی ضرورت نہیں.ہجوم نزیادہ ہونے پر سب لوگ ہوٹل سے باہر آ گئے.اور باہر آنے پر یہ حادثہ ہو گیا.حملہ آور ایک گجراتی نوجوان ہے.یہاں حکیم صاحب کے علاوہ صرف دو اور احمدی ہیں.نیکو قتل کی دھمکی دی گئی ہے.یہ 1474 کے الفصل ۲۴ نومبر ۱۹۳۹ء ص : ه الفضل ۱۵ دسمبر ۱۹۳۹ مس کالم مرا به

Page 616

۵۷۰ درست کرنے اور سم و غیرمسلم حلقوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں بہت ممد و معاون ثابت ہوئی.اس سلسلہ میں حضور نے دوسرا قدم قیام امن و اتحاد عالم کے لئے یہ اُٹھایا کہ اپریل ۳ ایو کی جماعتی مجلس شوری میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک دیرینہ خواہش کے مار نظر آئندہ کیلئے پیشوایان ناب کی سیرت بیان کرنے کے لئے بھی سال میں ایک دن مقرر فرما دیا.اور ہدایت فرمائی کہ اس دن کر تمام لوگوں کو دعوت دی جائے کہ وہ اپنے اپنے مذہب کی خوبیاں یا اپنے بانی مذہب کے حالات اس موقع پر بیان کریں.اے اس فیصلہ کی تعمیل میں جماعت احمدیہ کی طرف سے دنیا بھر میں پہل یوم پیشوایان مذاہب نہایت جوش و خروش سے سر دبیر اللہ کو منایا گیا ہے اور بہت سے غیر مسلم معززین نے ان جلسوں میں شمولیت کی.اور بعض جگہ تو خود غیر مسلموں نے جلسوں کا انتظام کیا.اور اشتہار وغیرہ شائع کرائے.اور حضرت امام جماعت احمدیہ کا شکریہ ادا کیا.کہ انہوں نے اس جلسہ کی بناء رکھ کر ہم پر بہت بڑا احسان کیا ہے سیکھے غرض یہ جیسے ہر طرح کامیاب رہے اور آئندہ کے لئے بندہ سیرت النبی " کی طرح ہر سال با قاعدگی کے ساتھ ان کا انعقاد ہونے لگا.جواب تک کامیابی سے جاری ہے.جلیل القدر صحابہ کا انتقال شاید میں وفات پانے والے جلیل القدر صحابہ کے نام یہ ہیں.ا.حضرت میاں محمد سعید صاحب سعدی خلف الصدق حضرت میابی چراغ الدین صاحب یہ نہیں لاہور.(وفات ۱۳ جنوری ۱۹۳۷) ۵۳ چوہدری محمد حیات خان صاحب تیم متوطن حافظ آباد ضلع گوجرانواله بیعت فردری سلمہ بمقام سیالکوٹ ١٩٣٩ تاریخ وفات ، جنوری ۱۳ ه بعمر ، سال)- شه ے.رپورٹ مجلس مشاورت ، م - منعقده ۷-۸-۱۹ اپریل ۱۹۳۷) : ے.اس تقریب پر ماہنامہ " ریویوز آف ریلیجز " اردو کا ایک خامی نمبر بھی شائع کیا گیا.جو بہت بلند پایہ مضامین پر مشتمل تھا :ے سے رپورٹ سال نہ سیفہ جات صدر انجمن احمدیه ۱۹۴۰-۳۱اء مثلا : ه - الفضل ۲۲ جنوری ۹۳ ار و صد کالم ۲ نے بیکار در شتی تر آن فرزنده های بارون رشید ها شد (۲) محمد بدری بشارت حیات صاحب - (۱۳۸) میجر محمد اسلم حیات صاحب - (۴۷) چه بدری خالد رشید صا حبیب به

Page 617

- حضرت اخونا محمدافضل خاں صاحب پریزیڈنٹ انجین احمدیہ ڈیرہ غازی خان - تاریخ بعیت اکتوبر ورد تاریخ وفات (۲ جنوری ۹۳ رد له یا کریم بخش صاحب ساکن دھرم کوٹ بگه ( تاریخ وفات ۲۳۵ جنوری شده و بعمر ۸۵ سال) - ۵۲ - حضرت فشی امام الدین صاحب (والد با جد جد پدری ظہور احمد صاحب آڈیٹر صدر انجمن حمدیہ اور برادر نسبتی حضرت منشی عبد العزیز صاحب (د جلوی) - ولادت و قبول احمدیت شد - وفات ۱۲ جولائی مالاریه اللہ تعالیٰ کے فضل اور آپ کی تبلیغ اور کوشش سے ضلع گورداسپور میں تین نئی جماعتیں قائم ہوئیں.(1) تلونڈی جنگلاں.(۲) لوہ چپ (۳) قلعہ گرانوالی.ان جماعتوں میں سے تلونڈی جهنگلاں (ضلع گورداسپور کی جماعت خاص طور پر قابل ذکر ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عہد مبارک میں ایک اشاعتی ادارہ انجمن اشاعریت اسلام کے نام سے قائم ہوا تھا جو کسی سرمه است حضرت اقدس علیہ السّلام ، پریزیڈنٹ حضرت مولانا نورالدین میا خلیفه ای لاوان اور وائس پریذیڈنٹ حضرت مولانا عبدالکریم صاحب تھے.اس ادارہ کے حص خرید نے والوں میں آپ بھی شامل تھے.دا حکم 4 اپریل اشارہ صحت کالم ۳۱ سطر ۹-۱۰) حضرت مفتی صاحب ایک عظیم الشان نشان کے گو ایسی تھے انان را بیا و جاده مرا ابشر محرومیت 10-1 نے سیرۃ المہدی حصہ سوم صلہ پر مندرجہ ذیل روایت درج فرمائی ہے :- عشی امام الدین صاحب سابق پٹواری نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی خمد حسین صاحب بٹالوی والے مقدمہ زیردند کی پیشی دھاریوال من مقرر ہوئی تھی.اس موقع پر میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا ک حضور مد خیش تھانیدار کہتا ہے.کہ آگے تو منہا مقدمات سے بچ کر نکل جاتا رہا ہے.اب میرا ہاتھ دیکھے گا.حضرت صاحہ نے فرمایا.میان امام الدین ، اسکا ہاتھ کاٹا جائے گا.اسکی بعد میں نے دیکھا کہ اس کے ہا تھ کی ہتھیلی میں سخت درد شروع ہو گئی.اور وہ اس درد سے تڑپتا تھا.اور آخر اسی نا معلوم بمباری میں وہ دنیا سے گزر گیا.حضرت مولوی محمد عثمان صاحب سابق امیر جماعت احمدیہ ڈیرہ غازیخاں نے انکی سوانح الفضل اراج داده پر شائع کردی تھیں بے ه - الفضل ۱۵ جنوری ۹۳ و صدا کالم : ه - الفضل ۲۸ جولائی د صحت کالم ہے (چوہدری ظہور احمد صاحب نے آپ کے حالات الفصل ، رنویر ۳ اور مت میں شائع کر دئے تھے.مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہوں اصحاب احمد جلد اول ( مؤلفہ ملک صلاح الدین اب ایم اے) :

Page 618

را حیراکبر خان صاحب (متوطن بلانی ضلع گجرات - تاریخ وفات ۲ در اگست ۱۳ - نہایت متواضع اور منکسر المزاج بزرگ تھے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان مبارک میں بے ادبی کا لفظ قطعا نہیں سن سکتے تھے.مخالفین میں احمدیت کا ذکر بڑی دلیری سے کہتے تھے.ایک خواب کی بناء پر اپنے ہاتھ سے ماہوار چند ادا کیا اور کہا یہ میرا آخری چندہ ہے اسکی بعد میں اپنے ہاتھ سے چندہ نہیں دے سکوں گا.اپنے اکلوتے بچے محمد شریف صاحب) کیلئے وصیت کی کہ اسے پڑھنے کے لئے قادیاں بھیج دنیا نے ما به میان مولابخش صاحب دار الرحمت قادیان (سن بعیت دارد - تاریخ وفات ۱۲۲ ستمبر اند و بعمر ۲۵ سال - تبلیغ احمدیت کا بہت جوش رکھتے اور نہایت احسن طرز پر پیغام حق پہنچاتے تھے.- حکیم حاجی عبدالخالق صاحب متوطن ڈیرہ غازی خان تاریخ وفات در ویبراتور، مولانا ابو الامارات کے الفاظ میں.جماعت ڈیرہ غازی خاں کے روح رواں ، عبادت گزار ، ملنسار ، تبلیغ کے لئے سرگرم احمدی تھے.سے با با بین در ۹ با با شراکت علی صاحب بھاگلپوری دحضرت خلیفہ الی الثانی رض کی ڈیوڑھی کے دربان - تاریخ وفات ایای ایا ایا ایک اکیڈیمی کے دربان - تاریخ وفات ور نومبر ا بعمر 40 سال کی علاوہ انہیں صحابیات حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں سے والدہ مولانا غلام احمد صاحب فرخ د تاریخ وفات ۱۵ جنوری ۹۳ روپ کے اور --- خوفیت اولی کے مبائین میں سے موسوی شیخ علی قصد صاحب ساکن شام اور اسی ضلع ہوشیار اور کا بھی اس سال وصال ہوا.طه الفضل ستمبر م : زندگی کے لئے ملاحظ ہو الفضل ۲۰ دسمبر اور ملا ہے له - الفضل ۲۸ ستمبر اور خدا کالم برا تفصیلی حالات سكته الفصل 1 نومبر رد صلا کالم : له الفضل 11 نومبر ١٣ ص كالم ما ے.الفضل ۱۴۳ فروری شهر صد کالم ہے - در تقريبا - (الفضل ۱۲ اکتوبر اصل ) ہے + تاریخ وفات ۸ در همون ۱۹۳۹ در بعمر مد سال

Page 619

فصل دوم چو ہدری محمدظفر اللہ خاں صاحب کی طرف سے سیدنا حضرت خیلی ایسی الثانی کی اجازت سے چوہدری خلافت ہوبلی منانے کی تحریک متر خطر شد خان انا اپنے سالار جانے سے ہو کے موقعہ پر محمد صاحب احتباب جماعت کے سامنے یہ تحریک رکھی کہ شاء میں سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے مبارک عہد خلافت پر پچیس سال کا عرصہ ہو جائے گا جو خدا تعالیٰ کا جماعت احمدیہ پر ایک بہت بڑا احسان ہے جس کی شکر گذاری کا عملی ثبوت دینے کے لئے ہمیں اپنے پیارے امام بنام اور محبوب آن کے خون میں نا کہ میری اہم بلور سکرانہ پیش کرنی چاہئیے.جسے حضور جہاں پسند فرمائیں خرچ کریں لیے چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے خلافت بوہلی سے متعلق یہ اہم تحریک مندرجہ ذیل الفاظ میں پیش فرمائی :- قریباً دو سال کا عرصہ گزرا.میرے دل میں یہ تحریک ہوئی.کہ جس طرح دنیا وی نظام رکھنے والے لوگ اپنے نظام پر ایک عرصہ گزرجانے کے بعد خوشی اور مسرت کے اظہار کی کوئی صورت پیدا کرتے ہیں.ہمیں بھی چاہیئے کہ ہم بھی کامیاب دینی نظام پر ایک عرصہ گزارنے پر اللہتعالی کے شکر کا اظہار کریں.اس وقت شہنشاہ جارج پنچم کی جوبلی کا موقع تھا.اسکے بعد حضور نظام حیدرآباد اور سر آغا خان کی جوبلی آئی.میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ بیشک بادشاہ بھی اور حکومتیں بھی اگر وہ عمدہ طریق پر چلائی جارہی ہوں نعمت ہوتی ہیں اور اعلی لیڈر بھی نعمت ہوتے ہیں.لیکن ہمیں سب سے بڑھ کر قیمتی نعمت ملی ہوئی ہے.اس کے لئے ہمیں بھی خدا تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہیے.اس نعمت کہ عطا ہونے پچیس سال ہونے کو آئے ہیں.اور وہ نعمت خلافت ثانیہ ہے.خلافت ثانیہ کالہ میں خداتعالی نے قائم کی.اور مارچ منہ کو اسپر پچیس سال پورے ہو جائیں گے.اس خیال سے میرے لن میں جوش پیدا ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے حضور نمونہ کے طور پر اور اس نعمت کے شکریہ کے طور پر ہماری طرف سے بھی نذرانہ پیش ہونا چاہیئے.اس وقت عالی رنگ میں میرے ذہن نے ایک تجویز سوچیں.اور وہ یہ تھی کہ ها اے یہاں یہ ذکر کرتا دلچسپی کا موجب ہوگا.کہ غیر مبائع انجبار پیغام صلح نے ابتداء میں تو چوہدری صاحب کی اس تحریک کو قادیانی پیر پرستی کا نیا کارنامہ ا سے تعبیر کیا.(پیغام صلح در جنوری ۱۹۳۰ء صفحره) مگر اگلے مہینے خود امیر نیز با این جنایت لوی محمد علی صاحب ایم اے نے ج۲ فروری شے کو اپنی خود ساختہ انجمن کی سلور جوبلی منانے اعلان کرد ی ر پیغام مصلح مار مایع داد صفحہ) اور پھر یہ جو بھی اسی سال دسمبر 9 اور میں بڑی دھوم دھام سے منطقی :

Page 620

۵۷۴ جماعت میں اس کے متعلق ایک تحریک کی جائے.میں نے اُس وقت یہ تحریک اپنے بعض دوستوں کیچندت میں پیش کی.تاکہ وہ اس میں خصوصیت کے ساتھ حصہ ہیں.وہ تحریک یہ ہے کہ ہم ایک ایسی رقم جمع کریں جو کم ازکم پہلے ایک وقت میں جماعت نے جمع نہ کی ہو.اور وہ رقم مار چ شو میں یا اسکے قریب کسی مناسب مہقع پر مثلا اس سال کی مجلس مشاورت پر حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں چین کی جائے اور حضور سے درخواست کی جائے کہ یہ جماعت کی طرف سے اللہ تعالیٰ کے حضورت کر کا اظہالہ ہے.حضور اس کو خطی پسند فرمائیں خرچ کریں.رقم کا اندازہ میں نے تین لاکھ روپیہ کیا ہے.میںنے اس رقم کو دو حصوں میںقسیم کیا ہو ایک حصہ میں نے اپنے دوستوں کے لئے چھوڑا ہے اور اس کی مقدار ایک لاکھ روپیہ ہے.دوسرا حصہ یہ ہے کہ ایک عام تحریک کر کے جماعت کے دوسر احبا سے دو لاکھ روسی جع کیا گیا.پہلاحصہ تو اسی وقت شروع کر دیا گیا تھا.اور دوستوں نے توقع سے بڑھ کر اس میں حصہ لیا.اور بعض نے مجھے لکھا کہ اُن کے ذہن میں بھی یہ بات موجود تھی کہ کسی رنگ میں خلافت ثانیہ کی نعمت کے متعلق اظہارت کر کیا جائے لیکن اُنکے ذہن میں کوئی تجویز نہیں آئی تھی کہ کسی رنگ میں اظہار تشکر کیا جائے.جب میں نے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالی کی خدمت میں عرض کیا.کیونکہ میں مجھتا ہوں کہ اس قسم کی کوئی تحریک منصور کی اجازت کے بغیر نہیں ہونی چاہیئے جس میں جماعت مخاطب ہو تو حضور نے میری درخواست قبول کرتے ہوئے مجھے اس امر کی اجازت دی کہ میں اسے جماعت کے سامنے پیش کردوں.اور میں اسکے متعلق محرز در خوشی محسوس کرتا ہوں کہ اس قسم کی تحریک کو جماعت کی خدمت میں پیش کرنے کی مجھے سعادت حاصل ہوئی.تحریک کے پہلے حصہ کے متعلق مشرط یہ ہے کہ جو دوست کم سے کم ایک ہزار روپیہ کی رقم اپنے فقہ نہیں اور وعدہ کریں کہ وہ اتنے عرصہ کے اندرا دا کر دیں گے.وہ شریک ہوں.اس کے بعد آہستہ آہستہ مارچ ماہ تک اس کی ادائیگی ہوتی رہے.کیونکہ میں جانتا ہوں کہ جماعت کی طرف سے ان پر او بھی بہت سی مالی ذمہ داریاں ہیں.اور خصوصا دہ تحر یک جو خود حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے جاری فرمائی ہے.اُس کا پورا کرنا جماعت کا فرض اولین ہے.یہی وجہ ہے کہ میں اس تحریک کو قبل از وقت پیش کر رہا ہوں.تاکہ سہولت سے رقم فراہم کی جاسکے.جن لوگوں نے پہلے سال وعدے کئے تھے.گرہ گذشتہ دو سالوں میں ادائیگی کرتے رہے ہیں.اور جو احباب آپ وعدہ کریں.یو باقی ماندہ عرصہ میں انہیں پورا کریں گے.پہلی

Page 621

۵۷۵ ریک پر ہم ہزار کے وعدے آچکے ہیں اور کچھ رقم ادا بھی کی گئی ہے.یہ رقم خزانہ صدر انجمن احمدیہ می داخل ہوتی رہی ہے.کیونکہ میں نے تحریک کی تھی کہ روپیہ یہاں ہی بھیجا جائے.میرا ارادہ تھا کہ میں فصیل کے ساتھ اس کے متعلق بیان کرتا.لیکن اب میں مختصراً پہلے حصہ کے متعلق تحریک کرتا ہوں کہ جن اصحاب کو خدا تعالیٰ توفیق ہے.وہ ایک ہزار کی رقم اپنے ذمہ لیں اور بیت المال میں مارچ ۱۹۳۷ء تک یعنی پندرہ ماہ کے عرصہ میں بھجوا دیں.تحریک کا دوسرا حصہ عام ہے اور وہ دو لاکھ روپیہ کی فراہمی سے تعلق رکھتا ہے.اس وقت اس کو بھی یکی پیش کرتا ہوں.تاکہ احباب جماعت مارچ ۱۹۳۵ء تک اس رنگ میں جو عشقیہ رنگ ہے، اور جس میں وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے جو عظیم الشان نعمت انہیں دی ہے اسپر ہ کے مارچ میں پورے پچیس سال ہو جائیں گے.اپنی طرف سے اللہ تعالیٰ کے حصیر شکر کے طور پر دولاکھ روپیہ کی رقم پیش کریں.بے شک باقی تحریکوں کا بوجھ بھی ہے جن کا پورا کرنا ان کے لیئے لازمی ہے.لیکن احمدی جماعت جیسے اس نعمت کا احساس ہے.اور اس محبت کو مد نظر رکھتے ہوئے جو اسے خلافت سے ہے.اگر اس تحریک پر لبیک کہے.تو پندرہ ماہ میں اس رقم کا جمع کرنا کوئی مشکل بات نہیں ہے.پس جو احباب وعدہ لکھائیں.یہ دفتر محاسب میں اقساط ادا کریں وہیں اب کھا جائیگا.احباب انفرادی حیثیت میں بھی اور جماعتی طور پر بھی اسمیں حصہ لے سکتے ہیں.جماعتوں کے جو نمائندے یہاں موجود ہیں.انہیں چاہیئے کہ وہ جماعتوں میں جا کر اس کی تحریک کریں یا اے اسکے بعد ام را پریل شاہ کو چو دھری صاحب موصوف نے اس تحریک کی خصوصیت و اہمیہ، پر تقریر کرتے ہوئے مزید بتایا کہ " خلافت جوبلی منڈ کو چونکہ میکے نام سے ایک گونہ تعلق ہے.خصوصا اسلئے کہ حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بصرہ العزیز نے اس تحریک کو جماعت کے سامنے پیش کرنے کی مجھے اجازت مرحمت فرمائی تھی.لہذا اسکے متعلق میں ایک دو باتیں خصوصیت سے بیان کر دیتا ہوں.یہ عجیب اتفاق ہے اور یہ خدا تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ آئندہ سال ہمیں وہ تین نوع کی خوشیوں کی موقع عطا فرمانے والا ہے.دو تو پہلے بھی میرے ذہن میں تھیں.لیکن تیسری نوع کی خوشی کا بعد میں علم ہوا.پہلی خوشی تو یہ ہے کہ خلافت ثانیہ کا عہد مبارک آستارہ مارچ یعنی لاء میں پچیس سال کا ہوگا انشاءاللہ تعالی..دوسری یه که حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایده اند تعالی کی عمر کے بچاس سال بھی آئندہ سال پورے ہوتے.کیونکہ وار جنوری مشورہ آپکی پیدائش کا دن ہے.اور پچاس سال بھی جوبلی کا موقع ہوتا ہے.اس کے ن الفضل ٢٩ دسمبر ۶۱۹۳۶ صفحه ۲۹٫۲۸ :

Page 622

044 علاوہ ایک تیسری بات بھی ہے.جس کی طرف مولوی جلال الدین صاحب شمس نے اپنے ایک مضمون میں جو افضل میں شائع ہو چکا ہے.تو جہ دلائی ہے اور وہ یہ ہے کہ آئندہ سال خود سلسلہ کے قیام پر بھی پھانش سال پورے ہو جائیں گے.ہمارے ذہن میں تو پچیس سالہ بہ بلی ہی تھی.لیکن یہ حسن اتفاق ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمار اخلاص کی قبولیت اور اسکے متعلق خوشنودی کا اظہار ہو کہ ہمارے لئے ایک کی بجائے تین جو بلیاں آنیوالی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیعت کے لئے جو پہلا اشتہار دیا.اس کی تاریخ وار جوری شمار ہے.اور اسے ایک رنگ میں سلسلہ کی ابتداء سمجھنا چاہیئے.اور یہ بھی نجیب اتفاق ہے کہ جس روز حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیعت کے لئے پہلا اشتہار شائع فرمایا.عینی در جنوری شهر او کو.اسی روز حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بصرہ العزیز کی پیدائش ہوئی.غرض ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہ تین مواقع خوشی کے عطا فرمائے ہیں.ان کے شکرانہ کے طور پر ہی کم ازکم تین لاکھ روپیہ جمع کرکے حضرت امیرالامینین ایدہ اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرنا چاہئیے " اے ہو بلی فنڈ کی اس تحریک پر مخلصین جماعت نے خلاف سے عقیدت و محبت مخلصین کی شاندار قربانی اور ایشیاد و قربانی کا ایسا شاندار نمونہ دکھا یا کہ اغیار می عش عش کر اتھے.دنیا بھر کی احمدی جماعتوں میں سے قادیان کی مقامی احمدی جماعت نے اور افراد جماعت میں رہے زیادہ چند خود چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے دیا.ہے یہ تو خلافت ہے بلی فنڈ کے جمع کئے جانے کا ذکر ہے.جہاں تک جو بلی کی جوبلی منانے کیلئے مشورہ کن ستور تقریب کے انعقاد کا تعلق ہے.اس کی تفصیلات طے کرنے میں بڑی حزم و احتیاط اور بار یک نظری سے کام لیا گیا.تنا اس موقعہ پر جذبات تشکر و امتنان اظہار کا طریق خالو سنی ہو.اس اہم مقصد کے پیش نظر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے 14 فروری 1913ء کے الفم میں ایک مفصل مضمون شائع کیا.جس میں احباب جماع سے یہ مشورہ طلب کیا گیا کہ خلافت ہوبلی کب اور کسی رنگ میں منائی جائے ؟.اس مضمون پر احمدی دوستوں نے کثرت کے ساتھ اپنے مشورے اور ا الفضل یکم مئی ۹۳ صفحه ۵ : ۲ے ملاقت ہو بلی ٹھنڈ میں حصہ لینے والے مخلصین کی فہرستیں اخبار" الفضل قادیان کے مندرجہ ذیل شماروں میں شائع شدہ ہیں: ۲۱ ۱ اپریل ۱۹۳۷ ۶ - ۱۲۹ اپریل ۹۲ه - ۵ ارجون ۱۹۳۹ - ۱۹ جولائی ۱۹۳۸ بر صغیره و به نیز ۲۵ ر باره ۱۹۳۹ یو

Page 623

۵۷ تجاویز مرکز میں بھیجوائیں.پہلا مرحلہ بخیر و خوبی طے ہو چکا.تو ۲ ۱۲ مارچ ۱۹۳۷ء کو سی کمیٹی تکمیل پروگرام جوبلی کی تشکیل ہی میں مجلس خلافت جوبلی کے پروگرام کی تشکیل کمیل کیلئے ایک سب کمیٹی میں میں ایک مقرر کی گئی.جس کے صدر حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب اور مبر حضرت مرند البشیر احمد صاحب.صاحبزا حافظ مرزا ناصر احمد صاحب اور حضرت مولوی عبد المغنی خان صاحب نظر دعوت وتبلیغ اورسیکٹری مولاناعبدالرحیم صاحتے تھے.جو تجاویز احباب کی طرف سے موصول ہوئی تھیں.وہ سب کمیٹی کے سپرد کر دی گئیں.ر اس کمیٹی نے ۲۹ مارچ شہداء کو اپنا پہلا اجلاس کیا.بالآخر ۲۵ تجاویز پاس کیں جو شار له میں نظارت علیا کی سب کمیٹی کے سامنے رکھی گئیں..۱۹۳۹ ۱۹۳۹ مجلس مشاور نہ میں سب کمیٹی نظارت علماء نے کچھ ترمیم کے ساتھ ان بھی تجاویز میں سے اکیس تجاوبند کی سفارش کرتے ہوئے مجلس مشاورت میں مشاورات السنة سکیلیٹی نظارت ملی کی رہوے میانی ریپور حسب ذیل رپورٹ پیش کی :- کی: سب کمیٹی کے سامنے ایک دوسری رپورٹ رپورٹ سب کمیٹی تکمیل پر وگرام جو بلی کے زیر پر جوبلی عنوان پیش ہوئی.جو ایک سب کمیٹی کی مرتب کردہ ہے.جو ۲۹ مارچ ۱۹۳۵ء کو منعقد ہوئی اور جب کسے صادیہ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب.سیکرٹری مولوی عبد الرحیم صاحب قرد ایم اے.اور میران حضہ میں سجنزاده مرزا بشیر احمد صاحب - حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب اور مولوی عبد المغنی خاں صاحب تھے.اس سے لیٹی نے اس امر کے متعلق تجاویز پیش کی ہیں کہ خلافت ہو بلی کو کب اور کس طرح منایا جائے.اس رپورٹ پر بھی ہماری سب کمیٹی نے شروع سے آخر تک پورا غور کیا.اور اس میں مناسب تغیر و تبدل کے ساتھ کمیٹی ہذا مندرجہ ذیل تجاویز عرض کرتی ہے :- دام جلسہ سالانہ ء کو تو بلی کے لئے مخصوص کر دیا جائے.تا جماعت دو سفروں کی تکلیف اور دوہرے اخراجات کے بوجھ سے بچ جائے.اور زمیندار احباب اور ملازمت پیشہ اصحاب ہر دو کو سہولت بھی رہے.(۲) جوبلی کا جلسہ قادیان میں نہایت شاندار اور وسیع پیمانے پر ہونا چاہیئے اور اس میں شرکت کے لئے ہندوستان کے مختلف حصوں سے بلکہ ممکن ہو تو بیرونی مان سے بھی کثیر تعداد میں غیر احمدی و غیر تسلیم اصحاب اور نمائندگان پر یس کو قادیان آنے کی دعوت دی جائے، اور بھی کوشش

Page 624

کی جائے کہ احمدی احباب اس جلسے میں زیادہ سے زیادہ شریک ہوں.اس کیلئے یہ بھی مناسب ہوگا کہ ہندوستان میں کسی اور جگہ اس تقریب پر جلسہ وغیرہ نہ کیا جائے.(۳) اس تقریب پر الفضل" کا ایک خاص جوبلی نمبر بھی نکالا جائے جس میں خلافت سے تعلق رکھنے والے مسائل پر بحث ہو.اور خلافت ثانیہ کی برکات پر بھی مناسب مضامین ہوں اور کچھ حصہ سلسلے کے تعلق عام تبلی اور ملی مضامین کا بھی ہو.اور اگر منی ہوتی اس مجوبلی نمبرز میں مناسب تصاویر بھی درج کی جائیں.(۴) صدر انجمین احمدیہ سے سفارش کی جائے کہ اس جلسہ سے قبل حضرت سیح موعود علیہ الصلوة والسلام اور حضرت اميرالمومنين خليفة السي الثاني ايده ال تعالى تصنيفات جو تصنيفات اسوقت نایاب ہوں انہیں دوبارہ طبع کرا کر شائع کیا جائے.تا کہ اس قیمتی خزانہ میں سے کوئی حصہ تا باب نہ رہے.اور سلسلہ کی تبلیغ میں ایک نئی جان پیدا ہو جائے.اور تقطیع مقرر کر دی جائے.جسکے مطابق آئندہ تمام کتب چھپ کریں.(۵) قادیان میں ایک مکمل لائبریری کا ہونا نہایت ضروری ہے.صادق لائبریری یں کچھ قیمتی تا بی موجود تو ہیں لیکن ان کو حفاظت سے رکھنے اور انکو استعمال کرنے کی جگہ کا مناسب انتظام نہیں ہے اور سائنس فلسفہ.اقتصادیات اور مغربی تحریکات اور اخبارات اور رسائل نہ ہونے کے برابر ہیں.اسلئے اسکی ترقی اور توسیع نہایت ضروری ہے.کیونکہ قادیان ایک بہت بڑا علمی مرکز ہے حضرت مرزا ناصر احمد صاحب نے اس ضمن میں ایک تجویز کی ہے جسے صدر انجمن احادیہ منظور کر چکی ہے.اگر وہ اسی سال اس کام کو شروع کر سکیں تو بہت مناسب ہو گا.یعنی لائبریری کی اپنی عمارت کا سنگ بنیاد اس موقعہ پر رکھ دیا جائے.(4) سلسلہ عالیہ حمدیہ کی پچاس سالہ ترقیات کا ایک چارٹ نظارت دعوت و تبلیغ کو تیار کرانا چاہیئے.تاکہ ایک طرف تو سلسلہ کا ریکارڈ محفوظ ہو.اور دوسری طرف سعید روحیں سلسلہ کی ترقیات پر یکجائی نظر ڈال سکیں اور اس طرف کھیچی آئیں.یہ چارٹ اگر بہتر رنگا ہو.تو بہت اچھا ہوگا.یعنی ایک رنگ حضرت مسیح موعود علی الصلوۃ والسلام کی ترقیات کو دکھائے، دوسرا حضرت خلیفہ المسیح اول رضی اللہ عنہ کے زمانے کو.اور تیسرا خلافت ثانیہ کی برکات کو.(4) جماعت احمدیہ کو کوئی مناسب جھنڈا مقرر کیا جائے.جیسے باقاعدہ طور پر جلسہ جوبلی کے موقع پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایده الله بنصرہ العزیز سے نصب کرانے کی درخواست کی جائے.(۸) اس تقریب پر ایک پاکیزہ مشاعرہ بھی منعقد کیا جائے.جس میں سلسلہ کے چید شعر اور سلسلہ احمدیہ ، اور..حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور خلافت کی برکات کے متعلق اپنے اشعار پڑھ کر سنائیں.اس کی بیٹی تیار کندہ خلافت بربل پروگرام ک ایک تجویز یہ ہےکہ اس موقع پر قادیان میں اک عظیم الشان

Page 625

۵۰۹ جلوس بھی نکالا جائے.جس میں ہر جماعت کا علیحدہ علیحدہ دستہ ہو.اور ہر دستے کا علیحدہ علیحدہ جھنڈا ہو.جس پر مناسب عبارت لکھی ہوئی ہو.اور اس جلوس میں حمد اور مدح کے گیت گائے جائیں.اور مناسب موقعوں پر مختصر تقریریں بھی ہوں.اور جلوس کسی مناسب جگہ اور مناسب رنگ میں حضرت اقدس کے سامنے سے گزرے.گر کمیٹی ہذا کے خیال میں جلوس والے حصہ تجویز میں بعض عملی دقتیں ہیں.اس لئے کمیٹی ہذا یہ تو بیو کرتی ہے کہ بیرونی جماعتیں اپنے اپنے مقام سے ہی محتی الامکان جنوس کی صورت میں روانہ ہوں اور قادیان میں ریلوس میشن مرکز کی طرف سے استقبال کے لئے کوئی ایسا انتظام کیا جائے کہ ریلوے اسٹیشن سے کسی مخصوص مقام تک احباب جلوس کی صورت میں ہی آئیں.علاوہ ازیں کیٹی ہذا یہ بھی تجویز کرتی ہے کہ اگر ممکن ہو تو رہتی، پشاور اور ملتان، وغیرہ مقامات سے سپیشل گاڑیاں چلوائی جائیں.جو کہ براہ راست قادیان تک آئیں.اور راستہ میں آنے والی جماعتیں ان سپیشل گاڑیوں پر سوار ہوں.(۱۰) اس تقریب پر ایک رات معین کرکے قادیان کی تمام مساعد منارة أمسیح.بہشتی مقبره قصر خلافت اور سلسلے کی دیگر پبلک عمارات پر چراغاں کیا جائے.اور پبلک بھی اپنے اپنے گھروں میں چراغاں کرے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں بھی بعض خوشی کے مواقع پر ہوا ہے.یہ چراغاں خوشی کے طبیعی اظہار کے علاوہ تصویر کی زبان میں اس بات کی بھی علامت ہوگا کہ جماعت کی دلی خواہش اور کوشش ہو کہ اللہ تعالٰی سلسلے کے نور کو بہتر سے بہتر صورت میں اور جلد سے جلد دنیا کے اقسام کناروں تک پہنچائے.(1) مرکزی لجنہ اماءاللہ بھی اپنا ایک جلسہ منعقد کرے اور اس کے ساتھ صنعتی نمائش بھی ہو.(۱۲) حضرت امیرالمؤمنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی سالانہ دو تقریروں کے علاوہ باقی تقریریں مندرجہ ذیل مضامین پر ہوں.اور ہر ایک تقریر کا جدا جدا مضمون ہو :- نشان محمود - نظام خلافت - برکات خلافت سلسلہ عالیہ احمدیہ - - (۱۳) ہر ایک جماعت کو چاہیے کہ اپنا اپنا جھنڈا یعنی ماٹو تیار کر کے اپنے ہمراہ لائے.تا تمام اطراف عالم میں تبلیغ ہو.اور سلسلے کا تنظیمی رعب قائم ہو.(۲) اس تقریب پر جلسے سے پہلے یا بعد وقار سلسلہ کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر کوئی جسمانی کھیلوں کی نمائش یا ورزشی مقابلے بعض ادارے اپنی طرف سے کرنا چاہیں تو انہیں روکا نہ جائے.(۱۵) ہو سکے تو جلسہ اور جلوس وغیرہ کی ایک مناسب علم تیار کروائی جائے کہ تبلیغی لحاظ سے مفید ہو سکے.

Page 626

۵۸۰ لیکن اسپر ہماری طرف سے کچھ خرچ نہ ہو بلکہ کسی بیرونی کمپنی وغیرہ کو دعوت دیر کوئی انتظام کر دیا جائے.(4) کوشش کی جائے کہ اس تقریب پر قادیان سے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی ایک مختصر تقر یہ ساری دنیا میں ریڈیو کے ذریعہ براڈ کاسٹ کروائی بھائے.(۱۷) اس تقریب پر حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ نصرہ العزیز کی خدمت میں مندرجہ ذیل ایڈریس پیش کئے جائیں.ا تمام جماعتہائے احمدیہ ہندوستان کیطرف (ب) لجنہ اماءاللہ کیطرف سے ربعی صدرانجمن احمدیہ کی طرف ہے.) خدام الاحمدیہ نیشنل لیگ کی طرف سے (1) بلاد عربیہ کی طرف سے دو) بلاد عجم کی طرف سے رز) یورپ و امریکہ کی طرف سے (۳) مشرقی افریقہ کی طرف سے (ط) مغربی افریقہ کیطر سے ہی جزائر شرق الہند کیطرف ہے.(نوٹ) یہ ضروری ہوگا کہ ایڈرین پڑھنے والا اسی ملک احمدی ہو جس کی طرف سے ایڈریس پیش کیا جائے.(۱۸) خلافت جوبلی فنڈ کے جمع شدہ روپے کا چیک حضور کی خدمت میں پیش کیا جائے.کہ حضور اس روپے کو جس مصرف اور جس رنگ میں پسند ہو.خرچ فرمائیں.(۱۹) اُوپر کے تمام اور دیگر انتظامات متعلقہ جوبلی کے سر انجام دینے کے لئے ایک سب کمیٹی مقرر کی جائے جس کے ممبر حسب ذیل اصحاب ہوں :.(۱ محرم چوہدری محمد ظفراله خان صاحب صدر (۲) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب - (۳) ناظر دعوة و تبلیغ (حضرت مولوی عبدالمغنی خان صاحب ناقل) (۴) ناظر ضیافت ( حضرت میر محمد اسحاق صاحب ناقل (۵) مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم اے سیکرٹری.(۲۰) اوپر کی سب کمیٹی کا بجٹ مندرجہ ذیل ہونا چاہیئے :.چراغاں ۳۰۰ رو بیه- جلوس ۱۰۰ روپیہ - کاشک ایڈریس ۲۰۰ روپیہ.پروگرام وغیر ۲۰۰ روپیہ جھنڈا ۱۰۰ روپیہ - متفرق ۲۵۰ روپیہ - میزان = ۱۱۵۰ روپے (۲۱) اس رقم کی فراہمی کے لئے خاص اپیل کی جائے.مجلس مشاورت میں رپورٹ پیش ہونے پر لی الان کار ارشاد امصر "" نین خلیفہ اسیح الثانی نے فرمایا :- جو تجاویز اس وقت سب کمیٹی کی طرف سے پیش ہوئی ہیں.اُن میں سے بعض سفارشات کا رنگ رکھتی ہیں.بعض ایسی میں جن کا تعلق شورتی سے نہیں ہے.اُنکے متعلق شوری سے مشورہ لینا فائدہ مند نہیں.

Page 627

۵۸۱ و تو محکموں کو بھجوا دینی چاہئیں مشکل الفضل کا خاص نمبر یا یہ کہ تصنیفات شائع کی جائیں " یا " قادیان میں ایک آپ ٹوڈیٹ، لائبریری ہویا اس تجویز کی صدرانجمن احمدیہ پہلے منظوری دے چکی ہے.ہم نے اگر یہاں اس کو پاس کر دیا.تو صدرانجمن کی طرف سے بھٹ اس کا بجٹ آجائیگا.اسلئے اسکو سفارش تک محدود کیا جائے.پچاس سالہ ترقیات کے چارٹ کی تجویز.یہ بھی صدر انجمن بنوائے.لجنہ اماءاللہ کا جلسہ اور صنعتی نمائش کی تجویز پر بحث کی ضرورت نہیں.اسی طرح تجویز ۱۴-۱۷ - ۱۹- ایسی ہیں کہ یہ مشورہ یا سفارش تک تعلق رکھتی ہیں.پس یہ کہ دیا جائے کہ یہ سفارشات شور کی پیش کرتی ہے یا کہیں پہلے صرف انکو لیتا ہوں جو سفارش کا رنگ رکھتی ہیں.شوری کو انکے فیصلہ سے تعلق نہیں.میں پھر بتا دیتا ہوں کہ وہ تجاویز یہ ہیں:.(1) الفضل کا خاص نمبر.(۲) نایاب کتب کی اشاعت کا انتظام (۳) پچاس سالہ ترقیات کا چارٹ (۴۲) تمام احباب کی رہائش کا انتظام نظارت کرے دہ اشاعرہ ( لجنہ اماءاللہ کا جلسہ ہورے، ہر جماعت کا جھنڈا ہو اس کو میں نے کاٹ دیا ہے).(۸) جسمانی کھیلیں یا اے اس وضاحت کے بعد حضرت امیر المومنین خلیفہ مسیح نے خلافت لوائے احمدیہ سے متعلق جوبلی سے متعلق سب کمیٹی کی ہر ضروری تجویز پر خدام سے مشورہ کر کے فیصلے تجویز کی منظوری، فرمائے.چنانچہ احمدیت کے جھنڈے کی نسبت فرمایا :- یہ تو ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا قائم رکھا جاتا تھا.بعض لوگ تو کہتے ہیں کہ اب تک ترکوں کے پاس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا موجود ہے.یہ صحیح ہو یا نہ ہو.بہر حال ایک لمبے عرصہ تک مسلمانوں کے پاس جھنڈا قائم رہا.اِس لئے اس زمانہ میں بھی جو ابھی احمدیت کا ابتدائی زمانہ ہے.ایسے جھنڈے کا بنایا جانا اور قومی نشان قرار دینا جماعت کے اندر خاص قومی بجوش کے پیدا کرنے کا موجب ہو سکتا ہے.....میرا خیال ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ سے پیسہ پیسہ یا دھیلہ دھیلہ کر کے مخصوص صحابہ سے ایک مختصر سی رقم لیکر اس سے روٹی خرید کی جائے اور صحابیات کو دیا جائے کہ وہ اس کو کاتیں اور اُس شوت سے صحابی درازی کپڑا تیار کریں.اسی طرح صحابہ ہی اچھی سی لکڑی تراش کر لائیں.پھر اُس کو باندھنے کے بعد جماعت کے نمائندوں کے سپرد کر دیا جائے کہ یہ ہمارا پہلا قومی جھنڈا ہے.پھر آئندہ اس کی نقل کروالی جائے.اس طرح جماعت کی روایات اُسے اس طرح والبستہ ہو جائیں گی.کہ آئندہ آنے والے لوگ اس کیلئے ہر قربانی کے لئے تیار ہونگے لے اے رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ ء صفحہ ۵۱۲۴۶ : که رپورٹ مجلس مشاورت ۹۳۹اره صفحه ۶۳ :

Page 628

مشاعرہ کی ممانعت سب کمیٹی نظارت گلیاء نے خلافت جوبلی پر مشاعرہ کی سفارش کی تھی.جس کی اجازت حضور نے نہیں دی.چنانچہ فرمایا :- موجودہ حالات میں میری رائے یہی ہے کہ مشاعروں میں تکلف زیادہ پایا جاتا ہے اور اس لئے بھائے اس کے عام نفر یک کر دینی چاہئیے کہ دوست شعر کہیں، اور اسی رنگ میں اعلان کر دینا چاہیئے.اور اس طرح جو نظمیں آئیں اُن کو تقریر وں کے دوران میں ہی پڑھنے کا موقعہ دے دیا جائے.ان نظموں کو پہلے دیکھ بھی لینا چاہیئے کہ بلا وجہ میں نہ ہوں.خلاف ادب مضامین اُن میں نہ ہوں.خلاف علم نہ ہوں.اور صرف دیہی نظمیں پڑھنے کی اجازت دی جائے جو دینی جوش کے ماتحت کہی گئی ہوں اے حضرت امیر المومنین نے خلافت جو بلی“ پر چراغاں کی اجازت رانا کی مشروط منظوری دیتے دیتے ہوئے فیصلہ صادر فرمایا :- "میری خلافت کی جو بلی جو منائی جا رہی ہے.یہ کوئی انفرادی تقریب نہیں.بلکہ اس لئے ہے.کہ ئیں نظام سلسلہ کی ایک کڑی ہوں.اور میرے خلیفہ ہونے کی وجہ سے ہے.اور یہ مجلس بھی جماعت کی نمائند ہے.اس لئے روپیہ ایسے طور پر خرچ کرنا چاہئے کہ ضائع نہ ہو.اور اس بات کا خیال رکھا جائے.کہ حیوانی جذبات پورے کرنے کا سامان نہ ہو.بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو اپنے اندرکشش رکھتی ہیں.اور چراغانی بھی ایسی ہی چیزوں میں سے ایک ہے.شادی بیاہ کے مواقع پر لوگ چراغاں کرتے ہیں اور اس موقعہ پر اس کی ضرورت بھی ہوتی ہے.مہمان آئے ہوتے ہیں.سامان بکھرا ہوا ہوتا ہے.اس لئے اس موقعہ پر اس کا فائدہ بھی ہوسکتا مگر اس تقریب پر اس کا کوئی خاص فائدہ نہیں.اس لئے اس تحریک کو یوں بدل دیا جائے کہ منارہ پر روشنی کا انتظام کر دیا جائے.منارہ پر جو بڑے لیمپ ہیں وہ روشن کر دیئے جائیں.اور ان کے نیچے چھوٹے لیمپ لگا دیئے جائیں.تا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نشان بھی پورا ہو.اس طرح فضول خرچی بھی نہیں ہوگی ایک ایسی تقریب جو اپنی نوعیت کی پہلی تقریب ہے.ہمیں ایسے رنگ میں منانی چاہئیے کہ آئیں کوئی بات فضول نہ ہو.اگر چہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے.بعض اوقات عبث کام بھی کرنا پڑتا ہے کیونکہ مصلحت کا تقاضا ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شاہی جو بلیوں کے مواقع پر چراغاں کیا ہے.کیونکہ سارے ملک میں یہ کیا گیا تھا.اور اس وقت اگر آپ ایسا نہ کرتے.تو سیاسی رنگ میں یہ قابل اعتراض بات ہوتی.پس ضرورت کے موقعہ پر بے شک جائز ہے.اُس وقت چونکہ ضرورت تھی.آپ نے ایسا کر دیا.اے رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ ۶ صفحه ۶۷ ۶۸ * ہے.

Page 629

۵۰۳ پس میں میں فیصلہ کرتا ہوں کہ منارہ اسی پر روشنی کا نظام کر دیا جائے.تا اللہ تعالیٰ نے احمدیت کی روشنی کو جو بڑھایا ہے.اس کا ظاہری طور پر بھی اظہار ہو جائے.باقی اس موقعہ پر صدقہ خیرات کر دیا جائے.اور چونکہ قادیان کے غریب احمدی تو لنگر خانہ سے کھانا کھائیں گے ہی.اس لئے یہاں جو صدقہ کیا جائے وہ غیر احمد یوں بلکہ ہندوؤں اور سکھوں کو بھی دیا جائے لے حضور نے مندرجہ ذیل الفاظ میں جلوس کی اجازت مرحمت فرمائی : جلوس کی نسبت فیصلہ "میرا خیال ہے مبلوس کا سوال حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کے سامنے بھی آیا ہے.اور آپ نے اسے پسند فرمایا ہے.کہ اس سے لوگ یہ سمجھیں گے.کہ ہزاروں احمدی ہو چکے ہیں.اس طرح کے جلوس صحابہ سے بھی ثابت ہیں کہ ہجوم کر کے بعض موقعہ پر پلتے تھے.عید کے متعلق ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ایک رستہ سے جاؤ اور دوسرے سے آؤ.اس سے بھی ایک جلوس کی صورت ہو جاتی ہے.کیونکہ آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جہاں تک ہو سکے.اکٹھے آؤ.جاؤ.اس سے دشمنوں پر رعب ہوتا ہے.اور ان کو یہ دیکھنے کا موقعہ ملتا ہے کہ سلسلہ کو کتنی ترقی ہو چکی ہے.اور ویسے جلوس کا ثبوت احادیث سے ملتا ہے.مگر ہمارے ہاں جلوس کا طریق غلط ہے.اسے تماشا بنالیا جاتا ہے.بجائے سنجیدہ بنانے کے، میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ ہجوم اپنے طور پر چلتا جائے اور شخص اپنی پسند کے مطابق شعر پڑھے یا سنے.بناوٹ اور تصنع کی کوئی ضرورت نہیں." مپس میں سب کمیٹی کی تجویز کو اس شرط پر منظور کرتا ہوں کہ وقار اسلامی کو مد نظر رکھا جائے.ایسا طریقہ اختیار کیا جائے جس سے احمدیت کی شوکت کا اظہار ہو.اور ایسانہ ہوجس سے اسکے وقار کو صدمہ پہنچے سے جہاں تک اس سفارش کا تعلق تھا کہ جلسہ خلافت جو بلی پر کسی فلم مینی کو فلم بنانے کے خلاف فیصلہ دی جائے علم کی فلم نے دعوت دی جائے کہ وہ جلسہ کی فلم ہے.حضور نے یہ سفارش بالکل مسترد کردی.مگر ساتھ ہی فرمایا:." اس تجویز کو میں رد کرتا ہوں.مگر اسکے باوجو د میں بعض باتیں کہنا چاہتا ہوں.میرا یہ فیصلہ اس بنیاد پر ہے کہ فلم لئے جانے کی کوئی چیز ہی اس تقریب میں نہ ہوگی.پھر اگر ہو بھی.تو کسی کمپنی کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ آکر اس جماعت کی کسی تقریب کی فلم تیار کرے.جس نے جا کر اس کو دیکھنا ہی نہیں.فلم کمپنیوں کا قاعدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اصل کھیل سے پہلے کوئی حصہ علمی یا اخباری رکھ دیتے ہیں.اور اُس وقت بعض لوگ سیگریٹ پیتے اور چاکلیٹ کھاتے ہیں.اور کچھ اُسے دیکھ بھی لیتے ہیں جن کو اس سے نے رپورٹ مجلس مشاورت له صفحه ۷۵ ۶ : سه رپورٹ مجلس مشاورت ۳۹ لیہ صفحہ ۷۱۷۰

Page 630

۵۸۴ کوئی پیسی ہوں.اگر تو احمدیوں نے جا کر دیکھنا ہو تو کوئی کمپنی فلم تیار کرسکتی ہے.وہ مجھے گی.کہ کیا ہوا.اگر ہزار روپیہ خرچ ہوگیا.تو ہزارہا کی آمد بھی تو ہوگی.مگر ہم نے جب دیکھنا ہی نہیں.تو کیا ہم کس سر کہیں گے کہ آپ تشریف لائیں اور فلم تیار کریں مگر ہم دیکھیں گے نہیں.بلکہ دوسروں کو بھی نصیحت کریں گے.کہ آپ کے پاس نہ پھٹکیں.یہ تو ایسا ہی ہے کہ جیسے کوئی انشورنس کمپنی قادیان میں آکر اپنا دفتر کھول دے.اس لئے یہ بات ہی غلط ہے کہ کوئی کمپنی آگر فلم تیار کرے گی لے خلافت جوبلی کمیٹی نے دوران سال میں اپنے متعد دا اجلاس کئے.اور کیسے کیل پروگرام ہر امر پر پورے غور و مشورہ کے بعد جملہ امور کا انتظام کیا.مکرم چوہدری کی زبر دست جد و جہد محمد ظفراللہ خان صاحب چونکہ قادیان سے بلکہ ہندوستان سے بھی باہر تشریف لے گئے تھے.اس لئے ہو تمام اجلاسوں میں شریک نہیں ہو سکے مگر اُن کے منشاء کے ماتحت انکی عدم موجودگی میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب صدارت کے فرائض نہایت عمدگی سے سرانجام دیتے رہے حضرت امیر المومنین نے بعد میں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کو بھی اس کمیٹی کا نمبر مقر فرما دیا تھا.کمیٹی کے سامنے جو کام در پیش تھے.ان میں سب سے اہم لوائے احمدیت لوائے احمدیت کا اہتمام کو تیار کیا تا کے تدریسی و قابل خو تھے.ایک بندے کے ڈیا اسی یعنی شکل کا فیصلہ.دوم صحابہ اور صحابیات حضرت مسیح موعود اسے اسکے اخراجات کیلئے جزء ہ وصول کرنا.سوم ان سے کپڑا تیار کرانا.چہارم جھنڈے کی لمبائ چوڑائی وغیر کافیصلہ کرے اس کو بنانا ہے تم کو تیار کرانا.جھنڈے کا نصب کرنا.مقام اس کا ہرانا چونکہ ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا کے کیک کے لیے بالکل نئی قسم کا تھا.اسلئے ہر مرحلہ پر اور آخر وقت تک کمیٹی کو مختلف قسم کی مشکلات کا سامنا ہا جس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں.اس سلسلہ میں حضرت امیر المومنین خلیفہ اسی الثانی نے ایک کمیٹی مقر فرما دی تھی جسے ممبران حضرت مرزا بشیر احمد صاحب حضرت میر محمد اسحاق صاحب اور حضرت حافظ صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب تھے.اس کمیٹی نے نومبر میں اپنی رپورٹ تیار کر کے بھیجی.جو حضور کی خدمت مبارک میں پیش کی گئی.اور بالآخر حضور نے جھنڈے کی ایک معین شکل منظور فرمائی.حضرت امیر المومنین خلیفہ مسیح کے فیصلہ مشاورت کی تعمل میں کمیٹی نے صحابہ کرام سے چندہ کی پہل کی اور اس فنڈ میں دفتر محاسب کے پاس تیس روپے آٹھ آنے تین پیسے جمع ہوئے.لیکن یہ محسوس کیا گیا کہ اخراجات ے رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ ء صفحه ۸۵ :

Page 631

۵۸۵ اس سے بہت زیادہ ہونگے.نیز معلوم ہوا کہ جب صحابہ کو غلط فہمی ہوگئی ہے کہ ایک پیسہ سے زیادہ چندہ نہیں لیا جائے گا.اسلئے مزید روپے کے لئے دوبارہ اپیل شائع کی گئی.اور ایک خاص محصل کے ذریعہ کوشش کی.اور قادیان اور اسکے اردگرد کے علاقہ میں اُن دنوں جو صحابہ موجود تھے.اُن سے خاص طور پر چار آنے تک کی رقم فراہم کی.اور بعض نے اس سے بھی زیادہ رقم عطا فرمائی.اس طرح ایک سو تیس روپے کے قریب جمع ہوگیا.روٹی کی خرید کے متعلق حضرت خلیفہ المسیح الثانی کو یہ خیال پیدا ہوا.کہ اگر ایسی کپاس مل جائے، جسے صحابیوں نے کاشت کیا ہو.توبہت اچھا ہو.چنانچہ حضور کو اطلاع ملی کہ سندھ میں اس قسم کی کپاس موجود ہے.گو وہاں سے تو ایسی کپاس نہ مل سکی.مگر اللہ تعالیٰ نے حضور کی اس مبارک خواہش کو اور طرح پورا فرما دیا.اور نہ اس طرح کہ میاں فقیر محمد صاحب امیر جماعت احمدیت و نجوان ضلع گورداسپور و صحابی ہیں قادیان تشریف لائے.اور کچھ سوت حضرت ام المومنین کی خدمت میں پیش کیا.اور عرض کیا کہ کہیں نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے ارشاد کی تعمیل میں اپنے ہاتھ سے بیج بویا اور پانی دیتا رہا اور پھر چنا اور صحابیوں سے دھوایا اور اپنے گھر میں اسکو کھوایا ہے.یہ سوت پہنچنے پر مولانا عبد الرحیم صاح بے کے سیکرٹری خلافت کمیٹی نے امیر جماعت احدیہ و نجوں کو پیغام بھیجی کہ ان کے پاس اگر ان کی کاشت کی ہوئی روٹی میں سے کچھ اور ہو تو وہ بھی بھجوا دیں.جسپر حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کے ذریعے مزید آٹھ دس سیر روٹی قادیان پہنچ گئی جو مولانا ر د صاحب نے حضرت سیدہ ام طاہر صاحب جنرل سیکرٹری جند اماءاللہ کی خدمت میں اس درخواست کے ساتھ بھیجدی کہ وہ صحابیات کے ذریعہ حضرت اقدس کے ارشاد کے ما تخت اس روٹی کا سوت طیار کروالیں.چنانچہ انہوں نے نہایت مستعدی کے ساتھ دار مسیح موعود ہمیں صحابیات سے سوت کروادیا.جسے صحابی بافندگان کے کے ذریعے قادیان اور تلونڈی میں کپڑا بنوایا گیا.بھنڈے کا سائز کیا ہو ؟ اس امر کی نسبت کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا کہ کپڑا اٹھارہ فٹ لمبا اور 4 فٹ چوڑا ہو.ر اس فیصلہ کے مطابق تیار شدہ کپڑے کو مطلوبہ سائز میں بدلنے میں صحابی درزیوں کی خدمات حاصل کی گئیں.گرا بھی اس کپڑے کے اوپر جھنڈے کی شکل نفت کروانا باقی تھا.اس اہم کام کیلئے ملک عطاء الرمان ما مجاہد تحریک جدید نے بہت دوڑ دھوپ کی.اور شاہدرہ سے اس کام کو تکمیل تک پہنچایا.نیز حضر صاجزادہ افظ مرزا ناصر احد صاحب مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے مجلسی اور ذاتی دونوں لحاظ سے بہت پھیپی لی.جھنڈے کے پول کے معاملہ میں ممبران کمیٹی کو بہت غور و خوض کرنا پڑا.ایک لمبی بحث کے بعد سے ان میں سے ایک بزرگ میاں خیر الدین صاحب دری بات تھے.جو وفات پاچکے ہیں ؟

Page 632

۵۸۶ ۶۲ آخری فیصلہ کرنا پڑا کہ پائپ کرائے پر لیکر کام چلایا جائے کیونکہ لکڑی بہ نٹ میں خوبصورت اور سیدھی ملنا مشکل تھی.اور اس کے کھڑے کرنے کا سوال بہت ٹیڑھا تھا.گو وقت بہت تھوڑا تھا.لیکن با بو کبر علی صاحب کی کوشش سے کام خیر وخوبی سے انجام پا گیا.فالحمد لہ علی ذالک لیے فصل سوم خلافت جو بلی سے متعلق ابتدائی تجاویز اور ان کے عملی جامہ پہنانے کی تفصیلات پر روشنی ڈالنے کے بعد اب ہم یہ بیان کرتے ہیں کہ جلسہ خلافت جوبلی کی تقریب کسی طرح شاندار طریق سے مگر سادہ، پُر وقار اور خالص اسلامی ماحول میں منائی گئی.خلافت جوبلی کی تقریب کی خوشی میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالی منارہ اسی پر چراغاں نے صرف اتنا ہی پراناں کرنے کی اجازت دی تھی.اس لئے منارة السی کو چوٹی سے لیکر پہلی منزل تک بجلی کے قمقموں سے مرصع کیا گیا.اور گور دوسرے ایام میں بھی تھوڑے تھوڑے وقت کے لئے یہ قمقمے روشن کئے جاتے رہے.لیکن ۲۷ دسمبر کو رات بھر مینار جنگم گاتا رہا جس نے قادیان کی فضاء کو بیچ بیچ بقعہ نور بنا دیا.جماعت دار جلسہ گاہ میں جانے کا نظارہ درد بھر شادی کی صبح سے خلافت جوبلی کی مبارک تقریکا پروگرام شروع ہوا.تمام جماعتیں ساڑھے نوبجے پی اپنی فرودگاه سے جلسہ گاہ کی طرف آنے لگیں.ہر جماعت کے ساتھ اُس کا جھنڈا تھا جسے دو آدمی اُٹھائے ہوئے تھے، در سیر اس جماعت کا نام اور بعض دعائیہ فقرات لکھے تھے.اس طرح مختلف علاقوں اور مختلف ممالک کی جماعتیں درثمین کے اشعار پڑھتی اور خدا تعالیٰ کی حمد کے گیت گاتی ہوئی جلسہ گاہ میں پہنچیں.تمام جھنڈے جلسہ گاہ کی گیلریوں کے اُوپر کے حصہ میں کھڑے کر دیئے گئے.ایسے جھنڈوں کی تعداد ڈیڑھ سو کے قریقی.ا بجکر ۵۰ منٹ پر حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی مو سٹیج پر جو سیدناحضرت سیح موعود علیہ السلام کے وقت کی جلسہ گاہ کے برابر تھام تشریف لائے.اُس وقت سیٹیج کا سائبان اتار دیا گیا.تاکہ تمام مجمع ا کرو نیدا و جلسه خلافت جو علی مرتبہ مولانا عبد الرحیم صاحب درد ایم اسے سیکرٹری خلافت جوبلی.ناشر منیجر بیک ڈیو تالیف و اشاعت تازیان و له الفضل ۲۴ دسمبر ۱۹۲۹ ۶ صفحه ۲ کالم : / میشه

Page 633

مینارہ مسیح پر چراغاں ( ۲۷ دسمبر ۱۹۳۹ء ) سیدنا حضرت خلیفہ اسی الثانی جلسہ خلافت جو بلی میں تقریرفرمارہے ہیں ( ۲۸ دسمبر ۱۹۳۹ء)

Page 634

سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے حضور چو ہدری مد ظفر اللہ خان صاحب چیک پیش کر رہے ہیں.چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب خلافت جو بلی فنڈ میں نمایاں حصہ لینے والوں کے نام سنارہے ہیں.

Page 635

۵۸۷ آسانی سے اس موقعہ کا نظارہ ا سکے حضرت صوفی غلام محمد صاحب سابق مبلغ ماریشیس نے تلاوت قرآن کریم کی.اور حافظ شفیق احمد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مشہور نظم امین کا ایک حصہ خوش الحانی سے پڑھ کر سنایا.اسکے بعد حضور کی خدمت میں ایڈریس پیش کئے گئے.جناب چودھری بشیر احمد صاحب سپاس نامے اس جان لیتے اور ہوکر اسب ج نام لیتے.اور ایڈریس پڑھنے والے صاحب حضور کی خدمت میں پیش ہو کر ایڈریس پڑھتے.اس موقعہ پر حسب ذیل اصحاب نے اپنے اپنے حلقہ کی طرف سے اپنے پیار سے امام کے حضور نہایت ہی مخلصانہ جذبات کا اظہار کیا.(۱) حضرت چو دھری فتح محمد صاحب بیاں ایم کے ناظر اعلی نے صدر انجمن احمدی کی طرف سے اردو میں ایڈریس پیش کیا.(۲) آنریبل چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے جماعتہائے ہندوستان کی طرف سے تھا ارد و میں ایڈریس پیش کیا.( جناب پروفیسر عطاء الرحمن صاحب ایم اے اس ا ا ا ا ا ا آسام نے جماعتہائے آسام کی طرف سے انگریزی میں ایڈریس میں کیا.(م، خان بہادر چودھری ابوالہاشم خان صاحب ایم اے نے جماعتہائے احمد یہ بنگال کی طرف سے انگریز کی میں ایڈریس پیش کیا.دہ حضرت حکیم خلیل احمد صاحب جو گھیری نے جماعتہائے صوبیہ بہار کیطرف سے اردو میں ایڈریس پیش کیا.4) حضرت قاضی محمد یوسف صاحب نے جماعتہائے صوبہ سرحد کی طرف سے اُردو میں - (٤) جناب مولوی عبد المنان صاحب عمر خلف حضرت خلیفہ ابیع الاول رضی اللہ نے مسلم یونیوسٹی علی گڑھ کے خوابوں کی رات انگریز کی ہیں.(۸) جناب شیخ محمود احمد صاحب عرفانی سیکر یٹری آل انڈیا نیشنل لیگ نے لیگ کی ر ہے اُردو میں.چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر بی اے جنرل سیکرٹری مجلس خدام الاحمدیہ نے خدام الاحمدیہ کبر سے اُردو میں.(1) السید عبدالعزیز دمشقی نے بلاد عربیہ کی جماعتوں کی طرف سے عربی میں.(۱۱) مسٹر غلام حسین افریقی نے جماعتہائے مشرقی افریقہ کی طرف سے سو اصلی ہیں.(۱۲) حاجی منو داللہ صاحب ترکستانی نے چینی ترکستان کی طرف سے ترکستانی ہیں.(۱۳) مسٹر محمد ازہری صاحب سنگاپوری نے جماعتہائے سنگا پور اور ملایا کی طرف سے ملایا میں.(۱۴) مولوی احمد سدوسی صاحب سمائری نے جزائر شرق الہند کی طرف سے سماٹری میں ایڈریس پیش کیا.اے الفضلی در جنوری ۱۹۴۰ ۶ صفحه ۸

Page 636

۵۸۸ مو به سر حدا احمدیوں کا سپاستان به تمام ایڈریس روئیداد جلسہ خلافت جو بلی میں شائع شدہ ہیں.جن کا نقل کرنا غیر ضروری بھی ہے اور باعث طوالت بھی.اس لئے بطور نمونہ صوبہ سرحد اور مہندوستان کے احمدیوں کے ایڈریس درج کرنے پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے."بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ * نَحْمَدُهُ وَنَصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِمُ والسلام على أحمد المسيح الموعود سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفة المسیح ایک اللہ بنصرہ العزیز - ہم احمدیان صوبہ سرحد (بجو ہندوستان کے شمال مغرب میں رہتے ہیں، آج اس جگہ حاضر ہو کر حضور کی خلافت جوبلی یا خلافت ثانیہ پر پچیس سال کا زمانہ دراز گزارنے پر جو کامیابی اور کامرانی سے گذرا.خدا کا شکر بجالاتے ہیں.اور حضور کو نہ دل سے مبارکبا د عرض کرتے ہیں یہ بے شک وہ قابل ستائش ہے جس نے حضور کو اس دوران میں نہ صرف سلسلہ کے اندرونی فتنوں اور سازشوں کی سرکوبی کا موقعہ بخشا.بلکہ سلسلہ کے باہر دنیا میں بھی اسکی عزت اور وقار کو قائم کیا.اور حضرت احمد کے نام اور پیغام کو زمین کے کناروں تک پہنچانے میں با مُراد کیا.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ ل ر اس تقریب پر ہندوستان کے احمدیوں کی طرف سے خلافت جمعت احمدیہ بند توان کا پاکستان و بل کے محرک حضرت چو ہدری محمد ظفراشد خان صاحب نے جو چوہدری الدخان مندرجہ ذیل سپاس نامہ پڑھ کر سنایا :- "بسم الله الرحمن الرحيم : نحمده ونصلى على رسوله الكريم ایڈریس بخدمت حضرت امیر المومنین خلیفه اسبح ثانی ایده الله بنصرہ العزیز منجانب جماعت تہا ئے احمد یہ مہند وستان تقریب خلافت جو بلی انسان سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفه وبرکاته یہ خاکسار حضور کی خدمت میں اس نہایت مبارک اور پر از مسترت تقریب پر جب کہ حضور اپنے ہی خلافت کے پچیس سال پورے فرما رہے ہیں.جماعتہائے احمدیہ ہندوستان کیطرف سے دلی مبارکباد پیش کرتا ہے.سید نا ؟ ہمارے لئے یہ خوشی کا دن حقیقت ایک عید کا دن ہے.کیونکہ جس طرح اسلام کی عیدیں عبادتوں اور ولی قربانیوں کے بعد منائی جاتی ہیں.اسی طرح حضور کی خلافت کے پچیس سالہ زمانہ نے جو خدا کی نصرتوں اور ا سکے نے روئیداد جلسه جوبلی ۲۶۰

Page 637

نشانوں اور حضور کی قیادت میں جماعت کی قربانیاں اور دینی سرگرمیوں سے معمور ہے.ہمارے لئے خوشی کی عید کو مکن اور جائز کر دیا ہے.یہ خوشی حقیقتاً حضور کی خوشی ہے.کیونکہ اس پچیس سالہ دور میں جو شاندار ترقیات جماعت کو نصیب ہوئی ہیں.اور جو خدمت حضور نے رضائے انہی اور اعلائے کلمۃ اللہ کی سر انجام دی ہے.حقیقتاً حضور ہی کے انفاس قدسیہ کی برکت سے ہے.گر خادم اپنے آقا سے الگ نہیں.ور در اصل آقا کی عید بھی زیادم کی حقیقی عید ہوتی ہے.سید نا حضور کی تربیت کے ماتحت ہمارے دلوں میں اس بات کا پورا پورا احساس ہے کہ اسلامی عید دو پہلو رکھتی ہے.ایک یہ کہ بندہ اس توفیق پر جو خدا تعالٰی نے اُسے ماضی میں خدمت اور قربانی کی عطاء فرمائی.اپنے دل میں ایک غیر معمولی خوشی محسوس کرتا ہے.اور دوسرے یہ کہ وہ اس احساس کو آئندہ کی خدمات اور قربانیوں کے لئے اپنے دل میں ایک بیج کے طور پر جگہ دیتا ہے.اور یہ بیج اس طرح سے ایک عہد کا رنگ رکھتا ہے کہ وہ آئندہ اپنے خالق و مالک کے رستہ میں بیش از پیش قربانی اور خدمت کا نمونہ دکھا ئیگا پس جہاں ہم گذشتہ پر حضور کی خدمت میں مبارکباد عرض کرتے ہیں.وہاں آئندہ کے متعلق حضور سے یہ درخواست بھی کرتے ہیں کہ حضور دعا فرمائیں کہ جماعت کی تاریخ کا ابتدائی پچاس سالہ دور اور حضور کی خلافت کا پچیس سالہ زمانہ جماعت کی آئندہ قربانیوں اور ترقیات کیلئے بطور ایک بیج کے ہو جائے اور آئندہ ترقیات کے ساتھ اسکی وہی نسبت ہو.جو ایک چھوٹے سے بیج کو ایک شاندار درخت کے ساتھ ہوا کرتی ہے.ستید ناب اس مبارک تقریب پر جو جذبات عشق و وفا ہمارے دلوں میں اس وقت موجون میں ہم الفاظ میں اُنکے اظہار کی طاقت نہیں پاتے.2 قلم را آن زبان نبود که ستر عشق گوید باز : درائے محمد تقریر است شرح آرزومندی لیکن ہمارے قلوب کی کیفیت کا اندازہ مشخص کر سکتا ہے کہ جس کی آنکھوں کے سامنے ایک طرف اُس حالت کی تصویر موجود ہو.جو آج سے پچیس سال قبل جماعت کی تھی.اور دوسری طرف اُسکے سامنے اس حالت کی تصویر بھی موجود ہو.جو خدا کے فضل سے آج جماعت کی ہے.اور وہ ان خطرا سے بھی واقف ہور ہو اس عرصہ میں جماعت کو پے در پے پیش آتے رہے ہیں.اور ان دعاؤں اور قربانیوں سے بھی آگاہی رکھتا ہو.جو حضور نے اعلائے کلمتہ اللہ کے لئے اور احمدی کے مزار نازک پودے کی حفاظت اور آبپاشی کی خاط فرمائیں.سیدنا ان پچیس سالہ دور میں کوئی دن بلکہ کوئی لحظہ جماعت پر ایسا نہیں گزرا.کہ جس میں وہ حضور کی قیات

Page 638

۵۹۰ کی برکات سے متمتع نہ ہوئی ہو.بلکہ حق تو یہ ہے کہ خود جماعت بھی پورے طور پر ان خطرات کی حقیقت سے آگاہ نہیں.جن سے حضور نے جماعت کی حفاظت کا انتظام فرمایا.اور نہ ہی وہ پورے طور پر ان برکتوں اور متوں پر آگاہی کی ہے.جو حضور کی خلافت کے دوران اسے حاصل ہوئی.سید نا حضور کی خلافت صرف تبلیغی اور تربیتی برکات سے ہی مزین نہیں بلکہ اللہ تعالٰی نے اسے ہر رنگ کی برکات اور ہر میدان کے فضائل اور حسنات سے نوازا ہے.ہم اس بات کے اظہار کی طاقت نہیں پاتے.کہ ہمارے والوں میں کس قدرا انبساط و امتنان کی لہریں موجزن ہوتی ہیں.جب ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا سردار اللہ تعالیٰ کی نصرت اور تائید کے ساتھ زیاد کے ہر میدان کا شہسوار ہے.وہ معرفت الہی اور تقوی اللہ کا ایک زبر دست مجود ہے.وہ نور قرآن اور علوم دین کا ایک وسیع سمندر ہے.وہ انکا بہ اسلام اور شریعت کی باریک در باریک حکمتوں کا ایک کامل استاد ہے.اور انسان یوں محسوس کرتا ہے کہ گویا اس ماند میں یہ شعر اسی کے لئے کہا گیا ہے کہ ہے از رموز شروع و حکمت با هزاران انتختلاف نکتہ ہرگز نہ شد فوت از دل دانا ئے تو سید نا ! ابتدائے ایام خلافت سے ہی حضور نے نظام جماعت کی بنیاد ایسے اسلوب پر رکھی.جو اعلی سے اعلی دماغوں کیلئے باعث رشک عبرت اور وابستگان خلافت کیلئے باعث ناز و فخر ہے.سیاسیات دیلی اور ملکیہ میں حضور نے ہر موقعہ پر نہ صرف جماعت کی.بلکہ تمام ملک کی وہ رہنمائی فرمائی.جن پر اغیار بھی صدق دل سے شاہر ہیں.حق تو یہ ہے کہ اگر دنیوی میدان میں بھی مدبران اور سیاست وان ان اصولوں پر کار بند ہوتے.جن کی حضور نے آج سے ۱۵ سال قبل تلقین فرمائی تھی.تو دنیا اس خطر ناک مصیبت میں گرفتار ہونے سے بیچ بھاتی.جس کا رو آن شکار بن رہی ہے.غرض ہندستان حیات انسان کو کوئی قطعہ ایسا نہیں جس کی آب پاشی کا سامان الہ تعالی نے اس زمانہ میں اپنے فضل ور رحم کے ساتھ حضور کے ذریعہ نہ فرمایا ہو.وہ لوگ جو خدا تعالیٰ سے محبت کرتے اور اُس کے قرب کی تڑپ اپنے دل میں رکھتے ہیں.وہ اس چشمہ سے سیراب ہورہے ہیں.اندر اس چشمہ کی دعوت نامہ ہے کہ تو چاہے آئے.اور اپنی پیاس کو بجھائے.اور ہم اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین رکھتے ہیں کہ دنیا کی وہ قومیں بھی جو ابھی تک پاس چشمہ کے حیات بخش پانی سے محروم ہیں.جلد یا بدیر اس سے شادابی حاصل کریں گی.سید نا ہماری نظریں وہ وسعت نہیں.اور نہ ہی سے قلم میں وہ طاقت ہے کہ حضور کے فضائل

Page 639

۵۹۱ کے کسی پہلو کو بھی پورے طور پر بیان کر سکیں.کیونکہ.دامان نگه تنگ و گل حسن تو بسیار :: گل چین بہار تو بداماں گله دارد کر ہمہ اس مبارک موقعہ پر حضور کی اس حسین روحانی تصویر کو جو ہمارے دلوں کی گہرائیوں میں جنگیں ہے.اپنی آنکھوں کے سامنے لانے کی تڑپ بھی رکھتے ہیں.اس لئے ہم ان پیار سے الفاظ کو اس جگہ ہرانے کی اجازت چاہتے ہیں جو خدا وند علیم وخبیر نے اپنے برگزیدہ شیخ کی زبان پر حضور کی نسبت حنوکی ولادت سے بھی پہلے جاری فرمائے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے فرمایا:- " تجھے بشارت ہو.کہ ایک وجیہہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا.ایک زکی غلام تجھے میگا.ده صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا.وہ دنیا میں آئے گا.اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا.وہ کلمہ اللہ ہے.کیونکہ خدا کی رحمت اور غیور کی نے اُسے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے.سخت ذہین و فہیم اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری وباطنی سے پر کیا جائے گا..فرزند دلبند گرامی ارجمند - مَظْهَرُ الأَوَّلِ وَالأَخِرَ - مَظهَرُ الحَقِّ وَالعُلاَ كَانَ الله نَزَلَ مِنَ السَّمَاء - جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الہی کے ظہور کا موجب ہوگا.نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے خطر سے مشوح کیا ہے.ہم اس میں اپنی زوج ڈائیں گے.اور خدا کا مایہ اُس کے سر یہ ہوگا.وہ جلد جلد بڑھے گا.اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا.اور زمین کے کناروں تک شہرت پائیگا اور قومیں اس سے برکت پائینی اولوالعزم ہوگیا اویس احسان میں تیرا نظیر ہوگا.سے...اس نخجیر رسل قرب تو معلوم شد به دیر آمدم ز راه دور آمدیم " آخر میں ہم پھر حضور کی خدمت میں اپنی دلی مبارکباد عرض کرتے ہیں.اور حضور سے درخواست کرتے ہیں کہ حضور ہمارے لئے دعا فرمائیں کہ لہ تعالی ہماری کمزوریوں کو دور فرمائے.اور ہمیں اپنی رضاء کے رستوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.اور ہم سے وہ کام لے جو اسکی خوشی کا موجب ہوا اور پھروہی ہم پر ایسا ہم حضور کیلئے دعا کرتے ہیںکہ استاد عالی حضور کی ایک مہی اور بامراد زندگی عطا کرے.بیش از پیش ترقیات دکھائے.اور حضور کے آنے والے زمانہ کو گزرے ہوئے زمانہ کی نسبت بھی زیادہ مقبول اور زیادہ مبارک اور زیادہ شاندار بنا ئے.امین اللهم آمین.ہم میں حضور کے خادمان جماعتہا ئے احمدیہ ہند وستان ۲۸ دسمبر ۹۳۹اء له اه رو میداد جلسه خلافت بو بلی صفحه ۳۹ تا ۴۲ :

Page 640

۵۹۲ مقامی ہندوؤں کا اظہار اخلاص ا اس موقعہ پر قادیان کے باشندہ لالہ و انا رامہ صاحب سیٹھ این املا واصل صاحب نے اپنے خاندان کی طرف سے حضور کے پچیس سالہ عہد خلافت کے متعلق مبارکباد پیش کی.اور سیٹھ وزیر چند صاحب آف پیارے دی بہتی صرافان قادیان نے اپنے خاندان کی طرف سے حضرت امیر المومنین بند کی خدمت میں مبارکباد عرض کرتے ہوئے چاندی کی خوشنما پلیٹ میں ایک چاندی کی انگوٹھی جبہ حضرت مسیح موجود علیه السلام کا امام البين الله كان عبدة بالها بطور تحفہ پیش کی.انہوں نے یہی تحفہ جناب چودھری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب کو بھی دیا.عربی.افریقی.ملائی.سماٹری اور ترکستانی نمائندگان اپنے اپنے وطنی لباسوں میں ملبوس تھے.اور اس طرح مختلف ممالک اور مختلف تمدن کے لوگوں کا حضرت امیر المومنین نے کے حضور نذر عقیدت پیش کرنا نہایت رُوح پرور نظارہ تھا.بیرونی جماعتوں کیطر سے اس کے بعد حسب ذیل بیرونی جماعتوں کی طرف سے مبارک باد کے تار سُنائے گئے:.مبارک باد کے تار (1) مولوی جلال الدین ساخت بشی امام مسجد احمد به انسان کا تار جماعت احمدیہ لنڈن کی طرف سے.(۲) صوفی مطیع الرحمان صاحب ایم اے کا تار امریکہ کی احمد کی جماعتوں کی طرف سے.(۳) حکیم فضل الرحمان صاحب کا تار جما عنہا ئے احمدیہ نائیجیریا کی طرح ہے.(۴) جناب عبد الغفور صاحب کڑک کا تار جماعت احمدیہ زنجبار کی طرف سے.(۵) جماعتہائے مشرقی افریقہ کا تارہ (4) ڈاکٹر حمد الدین صاحب کا تارجماعت ٹانگا نیکا کی طرف سے.(۷) جماعت احمدیہ سیلون کا تار - (۸) جماعت احمدیہ ڈج ایسٹ انڈیا کانار - (۹) جماعت احمدیہ یوگنڈا کا تار - (۱۰) جماعت احمدیہ قاہرہ (مصر) کا تار - (۱۱) جماعت احمدیہ پیر کا کا تار ہے اس کے بعد ۱۲ بجو ۴۰ منٹ سے ایک.بھکر سپاسناموں اب میری ایرانی ۳۰ منٹ تک سید نا حضرت امیر المومنین نے اُن ایڈریسوں کے جواب میں ایک نہایت ایمان افروز اور روح پرور تقریر فرمائی جس کی مکمل متن درج ذیل کیا جاتا ہے حضور نے سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- میں جب سے تقریر کے میدان میں آیا ہوں اور جب سے مجھے تقریر کرنے یا بولنے کا موقعہ ملا ہے ا المقتل سار جنوری ۱۹۹۰ ایر صفحه

Page 641

۵۹۳ NERVOUS میں نے شروع دن سے یہ بات محسوس کی ہے کہ ذاتی بناوٹ کے لحاظ سے تقریر کرنا میرے لئے بڑا ہی شکل ہوتا ہے اور میری کیفیت ایسی ہو جاتی ہو جسے اردو میں گھبرا جانا کہتے ہیں.اور انگریزی میں ہو جانا کہتے ہیں.میں نے ہمیشہ یہ محسوس کیا ہے کہ اپنی دماغی کیفیت کے لحاظ سے میں ہمیشہ نرویس ہو جاتا ہوں یا گھبرا جاتا ہوں.مجھے یاد ہے.جب میں نے پہلی تقریر کی اور اس کے لئے کھڑا ہوا.تو آنکھوں کے آگے اندھیرا آگیا.اور کچھ دیر تک تو حاضرین مجھے نظر نہ آتے تھے.اور یہ کیفیت تو پھر کبھی پیدا نہیں ہوئی.لیکن یہ ضرور ہوتا ہے کہ ایک خاص وقت میں جس کی تفصیل میں آگے چل کر بیان کروں گا.میرے دل میں اضطراب سا پیدا ہو جاتا ہے.لیکن وہ حالت اُس وقت تک ہوتی ہے سبب تک کہ بجلی کا دُہ کنکشن قائم نہیں ہوتا.جو شروع دن سے کسی بالا طاقت کے ساتھ میرے دماغ کا ہو جایا کرتا ہے.اور جب یہ دور آجاتا ہے.تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے تمام بڑے بڑے مقرر اور لستان جو اپنی اپن و بانوں کے داہر ہیں.میرے سامنے بالکل نہیچ ہیں اور میرے ہا تھوں میں کھلونے کی طرح ہیں.جب میں پہلے پہل تقریر کے لئے کھڑا ہوا.اور قرآن کریم سے آیات پڑھنے لگا.تو مجھے الفاظ نظر نہ آتے تھے.اور چونکہ وہ آیات مجھے یاد تھیں.میں نے پڑھ دیں.لیکن قرآن کو میرے سامنے تھا.مگر اس کے الفاظ مجھے نظر نہ آتے تھے.اور جب میں نے آہستہ آہستہ تقریر شروع کی.تو لوگ میری نظروں کے سامنے سے بالکل غائب تھے.اس کے بعد یکدمہ یوں معلوم ہوا کہ کسی بالا طاقہ کے ساتھ ہیر سے دماغ کا اتصال ہو گیا ہے.یہاں تک کہ جب میں نے تقریر ختم کی تو حضرت خلیفہ مسیح اقول رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور فرمایا.کہ یہ تقریر سن کر مجھے بہت خوشی ہوئی.اور انہوں نے قرآن کریم کے جو معارف بیان کئے ہیں.باوجود اسکے کہ میں نے بڑی بڑی تفاسیر پڑھی ہیں.اور میری لائبریہ کی میں بعض نایاب نظامیہ موجود ہیں.منظر یہ تعارف نہ مجھے پہلے معلوم تھے اور نہ میں نے کہیں پڑھے ہیں.سو جب دوران تقریریں وہ کیفیت مجھ پر طاری ہوتی ہے.تو میں محسوس کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے دو کل دبائی گئی ہے.اور اب اللہ تعالیٰ میرے دماغ میں ایسے معارف نازل کرے گا.کہ جو میرے علم میں نہیں ہیں.اور بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ قرآن شریف پڑھاتے ہوئے بھی وہ کیفیت پیدا ہو جاتی ہے.آج بھی وہ کیفیت شروع ہوئی تھی.مگر اس وقت جو ایڈریس پڑھے گئے ہیں.انکو شنکر وہ دور ہوگئی.ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر تشریف لائے تو دو شخص آپس میں اڑ

Page 642

۵۹۴ ا رہے تھے.آپ نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالٰی نے لیانۃ القدر کے متعلق بتایا تھا کہ وہ کونسی رات ہے.مگر ان کی لڑائی کو دیکھ کر مجھے بھول گئی.اس طرح مجھ پر بھی وہ کیفیت طاری ہوئی تھی.مگر اس کے بعد ایڈریس شروع ہوئے.ان میں سے بعض ایسی زبانوں میں تھے کہ نہ میں کچھ مجھ سکا اور نہ آپ لوگ.اور میں نے محسوس کیا کہ یہ بناوٹ ہے اور منتظمین دنیا کو دکھانا چاہتے ہیں کہ ہم میں ایسی ایسی زبانیں جاننے والے لوگ موجود ہیں.اور اس ظاہرداری کو دیکھ کر میری طبیعت پر ایسا برا اثر ہوا.کہ وہ کیفیت جاتی رہی.ہم لوگ تو اپنے جذبات کو دبانے کے عادی ہیں.اور جن لوگوں نے بڑے کام کرنے ہوتے ہیں.اُن کو یہ مشق کرنی پڑتی ہے.عمر کاری افسروں کو دیکھ لو.مثلاً تحصیل ہار اور تھانیدار وغیرہ ہیں.سب قسم کے لوگ ان کے پاس آتے اور باتیں کرتے ہیں.اور وہ سب کی باتیں سنتے جاتے ہیں لیکن اس مجلس میں ایسے لوگ بھی تھے.جو جذبات کو دہانے کے عادی نہیں.اس لئے ان میں ایک بے چینی ہی تھی.اور وہ بھاگ رہے تھے.اور یہ نظارہ میرے لئے تکلیف دہ تھا.اور اس وجہ سے وہ کیفیت دور ہوگئی.گو اب میں اگر اس مضمون کو بیان کرنا شروع.دُجا کر دوں.تو وہ مین پھر دب جائے گا.مگر پہلے یہ کچھ میرے ذہن میں تھا.وہ اب یاد نہیں آسکتا.بہرحال مجھے کچھ کہنا چاہیے.اور اس کاروائی کے متعلق جہاں تک دنیوی عقل کا تعلق ہے.میں اب بھی بیان کر سکتا ہوں.مجھے بتایا گیا ہے کہ ہر ایک نمائندہ نے وعدہ کیا تھا کہ تین منٹ کے اندراندر اپنا ایڈریس ختم کر دے گا لیکن سوائے اُس ایڈریس کے یہ مرشد کی جماعتوں کی طرف سے پیش کیا گیا.اور کسی نے یہ وعدہ پورا نہیں کیا.پھر وہ جس طرح پیش کیا گیا ہے.اس میں حقیقی اسلامی سادگی کا نمونہ نظر آتا ہے.اور اس لئے ہیں انہیں مبارکباد دیتا ہوں.محض چھاپ لینے کو میں سادگی کے خلاف نہیں سمجھتا.باقی ہجو ایڈریس پیش کئے گئے ہیں.اُن میں سادگی کو ملحوظ نہیں رکھا گیا.حقیقی سادگی وہ ہوتی ہے جسے انسان ہر جگہ اور ہمیشہ نا سکے.اور اس کی قدر دانی کے طور پر پئیں ان سے وعدہ کرتا ہوں کہ ان کا سارا ایر لیں پڑھوں گا.جب سے یہ خلافتہ جوئی کی تحریک شروع ہوئی ہے.میر کی طبیعت میں ہمیشہ ایک پہلو سے انقباض سا رہتا آیا ہے اور میں سوچتا رہا ہوں کہ جبہم خود یہ تحریک منائیں تو پھر جولوگ برتھ ڈے یا ایسی ہی دیگر تقاریب مناتے ہیں.انہیں کس طرح روک سکیں گے.اب تک اسکے لئے کوئی دلیل میری سمجھ میں نہیں آسکی.اور یکں ڈرتا ہوں کہ اس کے نتیجہ میں ایسی رسوم جماعت میں پیدا نہ ہو جائیں جن کو مٹانے کے لئے احمدیت ه رسید و خلافت جویلی" میں سرحد کی بجائے غلطی سے " ہندوستان" کا لفظ شائع ہو گیا تھا.والفضلی، ربجنوری را ۱۹۳ در صفحه ۵ کالم ۳)

Page 643

۵۹۵ از آئی ہے.ہماری کامیابی اور فتح یہی ہے کہ ہم دین کو اسی طرح دوبارہ قائم کر دیں جس طرح رسول کریم صلی اله علیہ وسلم ایسے لائے تھے.اور ایسے رنگ میں قائم کر دیں کہ شیطان اسپر محمد نہ کر سکے.اور کوئی گکھڑ کی اور کوئی روشندان اور کوئی در اسکے لئے کھلا نہ رہنے دیں.اور جب سے یہ تقریب منانے کی تحریک شروع ہوئی ہے.میں یہی سوچتا رہا ہوں کہ ایسا کرتے ہوئے ہم کوئی ایسا روشندان تو نہیں کھول رہے کہ جس سے شیطان کو حملہ کا موقعہ مل سکے.اور اس لحاظ سے مجھے شروع سے ہی ایک قسم کا انقباض سارہا ہے کہ میں نے اسکی اجازت کیوں دی.اور اسکے متعلق سب سے پہلے انشرح صدر مجھے مولوی جلال الدین صاحبت شمس کا ایک مضمون الفضل میں میں پڑھ کر ہوا.جس میں لکھا تھا کہ اس وقت گویا ایک اور تقریب بھی ہے اور وہ یہ کہ سلسلہ کی عمر پچاس سال پوری ہوتی ہے.تب میں نے سمجھا کہ یہ تقریب کسی انسان کی بجائے سلسلہ سے منسوب ہو سکتی ہے.اور اس وجہ سے مجھے خود بھی اس خوشی میں شریک ہونا چاہیے.دوسرا انشراح مجھے اُس وقت پیدا ہوا.جب در شمین سے وہ نظم پڑھی گئی جو کام دین کہلاتی ہے.اسکو سنکر مجھے خیال آیا کہ به تقریب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک پیش گوئی کو بھی پورا کرنے کا ذریعہ ہے.جو اس میں بیان کی گئی ہے.اور اس کا منانا اس لحاظ سے نہیں کہ یہ میری ۲۵ سالہ خلافت کے شکریہ کا اظہار ہے.بلکہ اس لئے کہ خدا تعالیٰ کی بات کے پورا ہونے کا ذریعہ ہے.نامناسب نہیں.اور اس خوشی میں میں بھی شریک ہو سکتا ہوں.اور میں نے سمجھا کہ جو اپنی ذات کیلئے اسکے منائے جانے کے متعلق مجھے النشراح نہ تھا.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشنگوئی کے پورا ہونے کے لحاظ سے انشراح ہوگیا.یہ ایسی ہی بات ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ایک صحابی کے متعلق فرمایا تھا کہ میں نے دیکھا ہے کہ اسکے ہاتھ میں کسری کے کڑے ہیں.چنانچہ جب ایران فتح ہوا.اور وہ کڑے جو کسر کی دربار کے موقعہ پر پہنا کرتا تھا.عنیمت میں آئے.تو حضرت عمر یہ نے اُس صحابی کو بلایا اور باوجودیکہ اسلام میں کردوں کیلئے سوٹ پہنتا ممنوع ہے.آپنے اُسے فرمایا کہ یہ کڑے پہنو.حالانکہ خلفاء کا کام قیام شریعت ہوتا ہے نہ کہ اُسے مٹانا.مگر جب اس میں نبی نے یہ کہا کہ سونا پہنا کردوں کیلئے جائز نہیں.تو آپنے فرمایا کہ یہ پہنو.در فر میں کوڑے لگاؤں گا.اس طرح میں نے یہ خیال کیا کہ گو یہ کڑے مجھے ہی پہنائے گئے ہیں.گر چونکہ اس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی پوری ہوتی ہے.اس لئے اسکے منانے میں کوئی حرج نہیں.اور اس لئے میرے دل میں جو انقباض تھا.وہ دُور ہوگیا.اور میری نظریں اس مجلس سے اٹھ کر خدا تعالٰی

Page 644

044 کی طرف چلی گئیں اور میں نے کہا.ہمارا خدا بھی کیسا نا خدا ہے.مجھے یاد آیا کہ جب یہ پیشگوئی کی گئی.اُس وقت میری ہستی ہی کیا تھی.پھر وہ نظارہ میری آنکھوں کے سامنے پھر گیا جب ہمارے نانا جان نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس شکایت کی کہ آپ کو پتہ ہی نہیں.یہ لڑ کا ایسا نالائی ہے.پڑھتا لکھنا کچھ نہیں.اس کا لفظ ایسا خراب ہے بعضر بی مورد علی اسلام نے مجھے بابا کی رات اور کانپتا ہوا گیا کہ بیتہ نہیں کیا فرمائیں گے.آپ نے مجھے ایک خط دیا کہ اسے نقل کرو.میں نے وہ نقل کر کے دیا.تو آپ نے حضرت خلیفہ اول کو بج کے طور پر نا یا.اور فرمایا.میر صاحب نے شکایت کی ہے کہ یہ پڑھتا لکھنا نہیں.اور کہ اس کا خط بہت خراب ہے.میں نے اس کا امتحان لیا ہے.آپ بتائیں کیا رائے ہے.لیکن جیسا امتحان لینے والا نرم دل تھا.ویسا ہی پاس کرنے والا بھی تھی.حضرت خلیفہ اول ہو نے عرض کیا کہ حضوری سے خیال میں تو اچھا لکھا ہے.حضور نے فرمایا.کہ ہاں اس کا خط کچھ میرے خط سے ملتا جلتا ہی ہے.اور ایس ہم اپس ہم ہو گئے.ماسٹر فقیر اللہ صاحب جو اب پیغامیوں میں شامل ہیں.ہمارے استاد تھے اور ہمیں حساب پڑھایا کرتے تھے جس سے مجھے نفرت تھی.میری دماغی کیفیت کچھ ایسی تھی.ہو غالباً میری صحت کی خرابی کا نتیجہ تھا.کہ مجھے حساب نہیں آتا تھا.ورنہ اب تو اچھا آتا ہے.ماسٹر صاحب ایک دن بہت ناراض ہوئے اور کہا کہ میں تمہاری شکایت کروں گا.کہ تم حساب نہیں پڑھتے اور جاکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہہ بھی زیاد نیکی بھی چپ کر کے کمرہ میں کھڑا رہا حضور اسنے یا سنٹر صاحب کی شکایت سن کر فرمایا کہ اس نے دین کا کام ہیں کرنا ہے.اس نے کونسی کسی دفتر میں نوکری کرنی ہے.مسلمانوں کے لئے جمع تفریق کا جاننا ہی کافی ہے.کا اسے آتا ہے یا نہیں.اسٹر ساس نے کہا.وہ تو آتا ہے.اس سے پہلے تو میں حساب کی گھنٹیوں میں بیٹھتا اور مجھنے کی کوشش کرتا تھا.مگر اس کے بعد میں نے دکھ بھی پھوڑ دیا.اور خیال کو لیا کہ ساب جتنا آنا چاہیے تھا مجھے آگیا.تو یہ میری حالت تھی.جب یہ امین لکھی گئی.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا تعالے سے دعائیں کیں.کہ اسے دین کی خدمت کی توفیق عطا کر دنیا میں یہ قاعدہ ہے کہ سب بی اے اور ایم اے لائق نہیں ہوتے.لیکن جو وگ لائی ہو تے ہیں.وہ اپنی میں سے ہوتے ہیں.سارے وکیل لائی نہیں ہوتے.مگر جو ہوتے ہیں.وہ انہی میں سے ہو سکتے ہیں.سب ڈاکٹرن اتعالیٰ کی صفت شافی کے مظہر نہیں ہوتے مگر بہترین ڈاکٹر انہی میں سے ہوتے ہیں جنہوں نے ڈاکٹری کے امتحان پاس کئے ہوں.بہر زمیندار سٹی سے سونا نہیں بتا سکتا.مگر جو بناتے ہیں وہ انہی میں سے ہی ہوتے ہیں.ترکھانوں میں سے نہیں.ہر تہ کھان اچھی عمارت ے حضرت یا مسٹر صاحب نے ، ار ماریچ راء کو بیعت خلافت ثانیہ کرولی ( ناقل)

Page 645

046 نہیں بنا سکتا.مگر جو بناتے ہیں وہ ترکھانوں میں سے ہی ہوتے ہیں.لوہاروں میں سے نہیں.پھر ہر انجینئر ماہر فن نہیں.مگر جو ہوتا ہے وہ انہی میں سے ہوتا ہے.ہر مار دیتی اور لاہور کی شاہی مساجد اور تاج محل " نہیں بنا سکتا.مگر ان کے بنانے والے بھی معماروں میں سے ہوتے ہیں.کپڑا بننے والوں میں سے نہیں ہوتے.پس ہرفن کیا جانے والا ماہر نہیں ہوتا.گر جو باہر نکلتے ہیں.وہ انہیں میں سے ہوتے ہیں.مگر جب حضرت بی موعود علیہ السلام نے یہ دعاکی.اس وقت میں ظاہری حالات کے لحاظ سے اپنے اندر کوئی بھی اہمیت نہ رکھتا تھا لیکن اس وقت اس امین کو سُن کر میں نے کہا.کہ خدا تعالیٰ نے آپ کی دعائیں رکن ہیں.جب یہ دعائیں کی گئیں.میں معمولی ریڈریں بھی نہیں پڑھ سکتا تھا.مگر اب خدا تعالٰی کا ایسا افضل ہے کہ میں کسی علم کی کیوں نہ ہو.انگریزی کی مشکل سے مشکل کتاب پڑھ سکتا ہوں اور سمجھ سکتا ہوں.اور گوئیں انگریزی لکھ نہیں سکتا.مگر بی اے اور ایم اے پاس شدہ لوگوں کی غلطیاں خوب نکال سکتا ہوں.دینی علوم میں میں نے قرآن کریم کا ترجمہ حضرت خلیفہ اول سے پڑھا ہے اور اس طرح پڑھا ہے کہ اور کوئی اس طرح پڑھے تو کچھ بھی نہ سیکھ سکے.پہلے تو ایک ماہ میں آپنے مجھے دو تین سیپارے آہستہ آہستہ پڑھائے ، اور پھر فرمایا.میاں آپ بیمار رہتے ہیں.میری اپنی صحت کا بھی کوئی اعتبار نہیں.آپ کیوں نہ ختم کر دیں.اور مہینہ بھر میں سارا قرآن کریم مجھے تم کرا دیا اور ان تعالی کا فضل تھا.پھر کچھ ان کی نیت اور کچھ میری نیت ایسی مبارک گھڑی میں ملیں.کہ دہ تعلیم ایک ایسا ہی ثابت ہوا.جو برابر بڑھتا جارہا ہے.اس طرح بخاری آپ نے مجھے تین ماہ میں پڑھائی اور ایسی جلدی جلدی پڑھاتے کہ باہر کے بعض دوست کہتے کہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا.میں اگر کوئی سوال کرتا.تو آپ فرماتے پڑھتے جاؤ.اللہ تعالی خود سب کچھ سمجھا دے گا.حافظ روشن علی صاحب مرحوم کو کریدنے کی بہت عادت تھی.اور ان کا دماغ بھی منطقی تھا.وہ درس میں شامل تو نہیں تھے.مگر جب مجھے پڑھتے دیکھا تو اگر بیٹھنے لگے اور سوالات دریافت کرتے.اُن کو دیکھ کر مجھے بھی جوش آیا اور میں نے اسی طرح سوالات پوچھنے شروع کر دیئے.ایک دو دن تو آپ نے جواب دیا.اور پھر فرمایا.تم بھی حافظ صاحب کی نقل کرنے لگے ہو.مجھے جو کچھ آتا ہے وہ خود بنا دوں گا.بخل نہیں کرونگا.اور باقی الا عالی خود بجھا دیا.اور میں بھتا ہوں.سہ ہے زیادہ فائدہ مجھے اسی نصیحت نے دیا ہے کہ للہ تعالی خود با دیگا یہ ایک بھی نہ ختم ہونے والا خاندانی میرے ہاتھ آگیا ہے.اوراللہ تعالٰی نے ایسا سمجھایا ہے کہ میں غرور تو نہیں کرتا مگر خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ حالت ہوں.کہ میں کوئی کتاب یاکوئی تفسیر پڑھ کر مرعوب نہیں ہوتا.کیونکہ میں سمجھتاہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو کچھ مجھے دارے

Page 646

۵۹۸ ان کو نہیں طلال بنیں بہنیں جلدوں کی تفسیر میں ہیں.مگر میں نے کبھی ان کو بالاستیعاب دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی.اور ان کے مطالعہ میں مجھے کبھی لذت محسوس نہیں ہوئی.اللہ تعالیٰ مجھے قرآن کریم کے چھوٹے سے لفظ میں ایسے مطالب پیکھا دیتا ہے کہ میں سمجھتا ہوں میں ان کتابوں کے مطالعہ میں کیوں وقت ضائع کروں.او کبھی کوئی مسئلہ وغیرہ دیکھنے کے لئے اُن کو دیکھتا ہوں.تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ اس مقام کو بہت دور کھڑے ہیں جواللہ تعالیٰ نے مجھے عطاء کیا ہے.اور یہ سب اُس کا فضل ہے.ورنہ بظاہر میں نے دنیا میں کوئی علم حاصل نہیں کیا.سمتی کہ اپنی زبان تک بھی بھی نہیں سیکھی.یہ اللہ تعالی کا احسان اور فضول ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کو قبول کر کے اس نے مجھے ایک ایسا گر بتا دیا کہ جس سے مجھے ہر موقعہ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصرت حاصل ہو جاتی ہے.لیکن ہمیشہ یہی کہا کرتا ہوں کہ میں تو خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک ہتھیار کی مانند ہوں.اور میں نے کبھی محسوس نہیں کیا کہ کوئی چیز چاہیئے اور اس نے مجھے نہ دی ہو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعا کی تھی کہ اس سے براندھیرا در ہو.دشمنوں کی طرف سے مجھ پر کی حملے کئے گئے.اعتراضات کئے گئے اور کہا کہ ہم خلافت کو مٹادینگے اور یہی وہ اندھیرا تھا.جسے اللہ تعالی نے ڈور کردیا.اور خلافت جوبلی کی تقریب منانے کے متعلق میرے دل میںجو انقباض تھا.وہ اس وقت یہ نظم سنکر دور ہوگیا.اور میں نے سمجھا کہ آج حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کی پیش گوئی کے پورا ہونے کا اظہار ہو رہا ہے.دشمنوں نے کہا کہ ہم جماعت کو چھ لینگے مگراللہ تعالی نے فرمایاکہ ہم اور بھی زیادہ لوگوں کو ائیں گے.اورجب ہم روشنی کرنا چاہیں توکوئی اندھیرارہ نہیں سکتا اور اس طرح اس تقریب کے متعلق میرے دل میں جو انقباض تھا.وہ یہ نظارہ دیکر دور ہوگیا.ورنہ مجھے تو شرم آتی ہو کہ میری طرف یہ تقریب منسوب ہو.مگر ہمارے سب کام اللہ تعالی کیلئے ہیں.اور اسکے ذریعہ چونکہ الہ تعالی کی باتیں پوری ہوتی ہیں.اسلئے اسکے منانے میں کوئی حرج نہیں.یہ سب کام اللہ تعالے کے ہیں.اگر وہ نہ کرتا.تو مجھ میں طاقت تھی اور نہ آپ میں نہ میرے علم نے کوئی کام کیا اورنہ آپکی قربانی نے.جو کچھ ہوا.خدا کے فضل سے ہوا.اور ہم خوش ہیںکہ اللہ تعالی نے ایک اور نشان دکھا یا.دنیا نے چاہا.کہ ہمیں مٹا دیں مگر خدا تعالی نے نہ مٹایا.اور یہ نظارہ دیکھ کر میرے دل میں جو انقباض تھا.وہ سب دُور ہو گیا.اس لئے جن دوستوں نے اس تقریب پر اپنی انجمنوں کی طرف سے ایڈریس پڑھتے ہیں.مثلاً کچو ہدری سر م ظفراله خان صاحب پروفیسر عطاء الرحمن صاحب محکیم خلیل احمد صاحب چو ہدری ابوالہاشم خان صاب حانی جنود اللہ صاحب اسی طرح دمشق - جاوا - سماٹرا اور علی گڑھ اور بعض دوسری جگہوں کے دوستوں نے

Page 647

۵۹۹ اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے.پھر حض ہند و صاحبان نے بھی اس موقعہ پر خوشی کا اظہار کیا ہے.میں ان سب کا شکریہ اداکرتا ہوں.اور ان سب کو جزاکم اللہ احسن اجزاء کہتا ہوں اور یہ ایسی دعا ہے کہ جس میں سائے ہی شکریئے آجاتے ہیں.نہں میں ان دوستوں کا اور ان کے ذریعہ ان کی تمام جماعتوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور جزاكم الله احسن الجزاء کہتا ہوں.اور دعا کرتا ہوں کہ میری زندگی کے اور جو زبان باقی ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں دین کی خدمت.اسلام کی تائید اور اس کے غلبہ اور مضبوطی کے لئے صرف کرنے کی توفیق عطا فرمائے.تا جب اس کے حضور پیش ہونے کا موقعہ ملے تو شرمندہ نہ ہوں اور کہا سکوں کہ تو نے جو خدمت میرے سپرد ی تھی.تیری ہی توفیق سے میں نے اسے ادا کر دیا.پھریں دعا کرتا ہوں کہ الہ تعالی ہم سب پر اپنے فضل نازل کرے اور نیک اعمال کی توفیق عطاء فرمائے اور ہم میں سے جس کے دل میں بھی کوئی کمزوری ہوا سے دور کرے.اخلاص میں مضبوط کرے.اور ہماری زندگیوں کو اپنے لئے وقف کر دے.ہماری زندگیوں کو بھی خوشگوار بنائے.اور ہماری موتوں کو بھی.تا جب جنتی سنیں تو خوش ہوں کہ اور پاکیزہ اردو میں بیمار ساتھ شامل ہونے کے لئے آرہی ہیں.حضرت میر محمد الحق صاحب کی مصور کی تقریر کے بعد حضرت میر محمد اسحاق صاحب سٹیج پر تشریف لائے اور کہا کہ پروگرام میں اس وقت میری کوئی تقریر ایک مختصر تقریر نہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظر امین کے جو ابھی موعود جوابھی پڑھی گئی ہے.ایک شعر کے متعلق میں مختصہ کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں.اس وقت جماعت کی طرف سے حضرت امیر المومنین خلیفہ اسی الان ایده ال تعال کی رات میں ایک حقیر سی رقم پیش کی جانے والی ہو جب سے حضور کی دُہ دُعا.کہ " دے اس کو عمر و دولت کی قبولیت بھی ظاہر ہوگئی.آج ہم حضور کی خلافت کہ ۲۵ سال گذرنے پر حضور کی خدمت میں حقیر سی رقم پیش کرتے ہیں.اور میں آنریبل چودھری سر محمد ظفر الدخان صاحب کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ وہ تشریف لاکر یہ رقم حضور کی خدمت میں پیش کریں.جو مندر کی محمد خلف الله زمان نام لیے اس کے بعد جناب چوہدری صاحبے چیک کی صورت میں ظفر صا یہ رقم پیش کی.اور عرض کیا کہ حضور اسے قبول فرمائیں.اور جس رنگ میں کی طرف سے چیک دیا جاتا، است فرمائیں اس استعمال کریں اور حضور مجھے اجازت دیں کہ پسند میں دوستوں کے نام پڑھ کر سنادوں.جنہوں نے اس فنڈ میں نمایاں حصہ لیا ہے.تا حضور خصوصیت سے لے یہ رقم دو لاکھ ستر ہزار کے قریب تھی.رپورٹ مجلس مشاورت ۹۵۲ ایر صفحه - ۱۰ - ۱۰۷) *

Page 648

اُن کیلئے دعافرمائیں اور حضور کی اجازت سے جناب چو ہدر بی صاحہ نے کہ نام پڑھ کر سنائے.بعد حضور نے فرمایا : خلیفہ اسیح الثانی بن کی دوسری تقریر میں نے جو کہا تھا.کہ جس وقت آئین پڑھی جا رہی تھی.میرے دل میں ایک تحریک ہوئی تھی.وہ در اصل یہی مصرعہ تھا.جس کا ذکر میر صاحب نے کیا ہے.مگر چونکہ ابھی تک وہ رقم مجھے نہ دی گئی تھی.اس لئے میں نے مناسب نہ سمجھا کہ پہلے ہی اس کا ذکر کروں اسکے لئے میں سبکا شکریہ اد ا کرتا ہوں.اور یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہماری حقیقی دولت تو دین ہی ہے.دین کے بغیر دلت کوئی چیز نہیں.اور اگر دین ہو.اور دولت نہ ہو توبھی ہم خوش نصیب ہیں.مجھے یہ علم پہلے سے تھا کہ یہ رقم مجھے اس موقعہ پر پیش کی جائے گی.اور اس دوران میں میں یہ غور بھی کرتا رہا ہوں کہ اسے زچ کس طرح کیا جائے.لیکن بعض دوست بہت جلد باز ہوتے ہیں.اور وہ اس عرصہ میں مجھے کئی مشورے دیتے رہے کہ اسے یوں خرچ کیا جائے.او فلان کام پر صرف کیا جائے.یہ بات مجھے بہت بری لگتی تھی کیونکرمیں دیکھتاتھا کہ ایک طرف تو اس کا نام تحفہ، کھا جاتا ہے.اور دو سری طرف اس کے خرچ کرنے کے متعلق مجھے شور سے جیتنے جا رہے ہیں.اگر یہ تحفہ ہے تو اسے مجھے اتنی تو خوشی حاصل ہونی چاہیئے.کہ میں نے اسے اپنی مرضی سے خرچ کیا ہے.بہر حال میں اس امر پر غور کرتا رہا ہوں.کہ اسے کس طرح نوچ کیا جائے.اور اللہ تعالے نے میرے دل میں یہ بات ڈالی.کہ اسے برکات خلافت کے اظہار کا کام لیا جائے.یہ امرتا ہے کہ درد دل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء اس کام کے کرنے والے تھے جو آپ کے اپنے کام تھے.یعنی يَتْلُوا عليهم آياته وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلّمُهُمُ الكِتَابَ وَالْحِكمة - قرآن کریم میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پچار کام بیان کئے گئے ہیں.کہ وہ اللہ تعالی کے نشان بیان کرتا ہے.ان کا تزکیہ کرتا.ان کو کتاب پڑھاتا اور حکمت سکھاتا ہے.کتاب کے معنے کتاب اور تحریر کے بھی ہیں اور حکمت کے معنی سائنس کے بھی ہیں.اور قرآن کریم کے حقائق و معارف اور مسائل فقہ کے بھی ہیں.پھر میں نے خیال کیا کہ خلیفہ کا کام استحکام جماعت بھی ہے اس لئے اس روپیہ سے یہ کام بھی کرنا چاہیے.بیشک بعض کام جماعت کر بھی رہی ہے.انگر یہ چونکہ نئی چیز ہے.اس سے نئے کام ہونے چاہئیں اور اس پر غور کرنے کے بعدمیں نے سوچا کہ ابھی کچھ کام اس سلسلہ میں ایسے ہیں کہ جو نہیں ہور سے ملا ہی نہیں ہو رہا کہ غیر مسلموں کے آگے اسلام کو ایسے رنگ میں پیش کیا جائے کہ وہ اس طرف متوجہ ہوں.چنانچہ میں نے ارادہ کیا کہ I

Page 649

۶۰۱ یہ سلسلہ پہلے ہندوستان میں اور پھر بیرونی ممالک میں شروع کیا جائے.اور اس غرض سے ایک تھا ریا آٹھ صفحہ کا ٹریٹ لکھا جائے جسے لاکھوں کی تعداد میں ہندوستان کی مختلف زبانوں میں چھپوا کر شائع کیا جائے.اس وقت تک ان زبانوں میں تبلیغی لٹریچر کافی تعداد میں شائع نہیں ہوا.اردو کے بعد میرا خیال ہے.رہے زیادہ اس ٹریکیٹ کی اشاعت ہند میں ہونی چاہیئے.ابھی تک یہ سکیم میں نے مل نہیں کی.فوری طور پر اس کا خاکہ ہی میرے ذہن میں آیا ہے.میں چاہتا ہوں.کہ کم سے کم ایک لاکھ اشتہار یا مینڈیل دیر اذان اور نمازہ کی حقیقت اور فضیلت پر شائع کئے جائیں.تاہندوؤں کو سمجھایا جا سکے.کہ جس وقت آپ لوگ مساجد کے سامنے سے باجہ بجاتے ہوئے گزرتے ہیں.تو مسلمان یہ کہہ رہے ہوتے ہیں.یہ بات معقول رنگ میں ان کے سامنے پیش کی جائے.کہ مسلمان تو یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ اللہ سب سے بڑا ہے.اور آپ اس وقت ڈھول کے ساتھ ڈم ڈم کا شور کرتے ہیں.آپ سوچیں کہ کیا یہ وقت اس طرح شور کرنے کے لئے مناسب ہوتا ہے.جب یہ آواز بلند ہو رہی ہو.کہ خدا تعالیٰ سب سے بڑا ہے.تو اس وقت چپ ہو جانا چاہئے یا ڈھول اور باجہ کے ساتھ شور مچانا چاہیئے.تو ان کو ضرور سمجھ آ جائے گی.مگر ان کی صد بے جا ہے.اور اس طرح استی ہندو مسلمانوں میں صلح واتحاد کا دروازہ بھی کھل جائے گا تعلیم یافتہ غیرمسلم اب بھی ان باتوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں.اس طرح میں نے جلسہ ہائے سیرت کی جو تحریک شروع کی ہوتی ہے.اُسے بھی وسعت دینی چاہئیے.یہ بھی بہت سفید تحریک ہے.اور سیاسی لیڈر بھی اسے تسلیم کرتے ہیں.بابو بینین چندر پال کانگرس کے بہت بڑے لیڈروں میں سے ہیں.انہوں نے ان جلسوں کے متعلق کہا تھا.کہ ہندومسلم اتحاد کے لئے بہترین تجویز ہے.اور میں ان ملبوں کو سیاسی جلسے کہتا ہوں.اسلئے کہ ان کے نتیجہ میں ہندو مسلم ایک ہو جائیں گے.اور اس طرح دونوں قوموں میں اتحاد کا درد از مکمل جائے گا.میرا ارادہ ہے.کہ ایسے اشتہار ایک لاکھ مہندی ہیں.ایک لاکھ گورمکھی میں پچاس ہزار تامل میں.اور اسی طرح مختلف زبانوں میں بکثرت شائع کئے جائیں.اور ملک کے ایک سیر سے دوسرے گہرے تک اسلام سنکے موٹے موٹے مسائل غیرمسلموں تک پہنچا دیئے جائیں.اشتہار ایک صفحہ در صفحه یا زیادہ سے زیادہ چار صفحہ کا ہو.اور کوشش کی جائے.کہ ہر شخص تک اسے پہنچا دیا جائے.اور زیادہ نہیں تو ہندوستان کے ۳۳ کر در باشندوں میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں ایک ایک اشتہار پہنچ جائے.یہ اسلام کی بہت بڑی خدمت ہوگی راسی طرح میرا ارادہ ہے.کہ ایک چھوٹا سا مضمون چار یا آٹھ صفحات کا مسلمانوں کیلئے لکھ کر ایک لاکھ

Page 650

شائع کیا جائے.جن میں مسلمانوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد اور آپ کے دعاوی سے آگاہ کیا جائے.اور بتایا جائے کہ آپ نے آکر کیا پیش کیا ہے.تالوگ غور کر سکیں.پہلے یہ کام چھوٹے پیمانہ پر ہوں.مگر کوشش کی جائے کہ آہستہ آہستہ ان کو وسیع کیا جائے میں چاہتا ہوں کہ اس رقم کو ایسے طور پر خرچ کیا جائے.کہ اس کی آمد میں سے خرچ ہوتا ہے.اور سرمایہ محفوظ رہے جیسے تحریک جدید کے فنڈ کے متعلق میں کوشش کر رہا ہوں تاکسی سے پھر چندہ مانگنے کی ضرورت نہ پیش آئے.اس میں بنی تعلیم جو خلفاء کا کام ہے.وہ بھی آجا.تھا.پھر رٹ اور سانس کی تین زیر بابا کی تعلیم و ترقی بھی خلفاء کا اہم کام ہے.ہماری جماعت کے غرباء کی علی علیم کے لئے فی الحال انتظامات نہیں ہیں.جس کا نتیجہ یہ ہے کہ کند بہن لڑکے جن کے ماں باپ استطاعت رکھتے ہیں تو پڑھتے جاتے ہیں.مگر ذہین لوجہ غربت کے رہ جاتے ہیں.اس کا نتیجہ ایک یہ بھی ہے کہ ملک کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے.اسلئے میں چاہتا ہوں کو اس رقم سے اس کا بھی انتظام کیا جائے.اور میں نے تجویز کی ہے کہ اس کی آمد سے شروع میں فی الحال ہر سال ایک ایک وظیفہ مستحق طلباء کو دیا جائے.پہلے سال مڈل سے شروع کیا جائے.مقابلہ کا امتحان ہو.اور جو لڑکا اول رہے.اور کم سے کم ستر فی صدی نمبر حاصل کرے.اُسے انٹرنس تک بارہ روپیہ ماہوار وظیفہ دیا جائے.اور پھر انٹرنس میں اول دوم اور سوم رہنے والوں کو تئیس رو پیر یا ہوا.جو ایف اے میں یہ امتیاز حاصل کریں.انہیں ۴۵ روپے ماہوار.اور پھر جو بی اے میں اول آئے.اُسے 40 روپے ماہوار دیا جائے.اور تین سال کے بعد جب اس فنڈ سے آمد شروع ہو جائے.تو حمدی نوجوانوں کا مقابلہ کا امتحان ہو.اور پھر والا کا قتل کئے.جسے انگلستان یا امریکہ میں جاکر تعلیم حاصل کرنے کے لئے اڑھائی سور و پیہ ماہوار تین سال کے لئے امداد دی جائے.اس طرح غرباء کی تعلیم کا انتظام ہو جائے گا.اور جوں جوں آمار بڑ معنی جائے گی.ان وظائف کو ہم بڑھاتے رہیں گے.کئی نفر باد اس لئے محنت نہیں کرتے کہ وہ سمجھتے ہیں.ہم آگے تو پڑھ نہیں سکتے.خواہ مخواہ کیوں مشقت اٹھائیں.لیکن اس طرح جب اُن کے لئے ترقی کا امکان ہوگا.تو وہ محنت سے تعلیم حاصل کریں گے.مڈل میں اول رہنے والوں کے لئے جو وظیفہ مقرر ہے.وہ صرف تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کے طلباء کیلئے ہی مخصوص ہوگا.کیونکہ سب جگہ مڈل میں پڑھنے والے احمدی طلباء میں مقابلہ کے امتحان کا انتظام ہم نہیں کرسکتے.یونیوسٹی کے امتحان میں امتیاز حاصل کرنے والا خواہ کسی یونیورسٹی کا ہو.وظیفہ حاصل کر سکے گا.ہم صرف زیادہ نمبر

Page 651

دیکھیں گے کسی یونیورسٹی کا نسٹ سیکنڈ اور تھرڈ رہنے والا طالب علم بھی اسے حاصل کرسکے گا.اوراگر کسی کی یونیورسٹی کا کوئی احمدی طالب علم یہ امتیاز حاصل نہ کر سکے.تو جس کے بھی سب سے زیادہ نمبر ہوں.اُسے یہ وظیفہ دے دیا جائے گا.انگلستان با امریکہ میں حصول تعلیم کے لئے ہو وظیفہ مقدر ہے.اس کے لئے ہم سارے ملک میں اعلان کر کے جو بھی مقابلہ میں شامل ہونا چا ہیں.ان کا امتحان لیں گے.اور ہو بھی کسٹ رہے گا.اُسے یہ وظیفہ دیا جائے گا.یزکیھنڈ کے ایک معنے ادای حالت سے اعلیٰ کی طرف لے جانے کے بھی ہیں.اور اس طرح اس میں اقتصادی ترقی بھی شامل ہے.اس کی فی الحال کوئی سیکیم میرے ذہن میں نہیں.مگر میرا ارادہ ہے کہ انڈسٹریل تعلیم کا کوئی معقول انتظام بھی کیا جائے.تا پیشہ وروں کی حالت بھی بہتر ہو سکے.اسی طرح ایگری کلیوں تعلیم کا بھی ہو.تاز میداروں کی حالت بھی درست ہو سکے.خلفاء کا ایک کام میں سمجھتا ہوں.اس شہد کا استحکام بھی ہے.میری خلافت پر شروع سے ہی پیغامیوں کا صلہ چلا آ تا ہے.مگر ہم نے اس کے مقابلہ ے لئے کماحقہ توجہ نہیں کی.شروع میں اسے تعلق کچھ لٹریچرمیدا کیا تھا.مگراب وہ ختم ہوچکا ہے.پس اس فنڈ سے اس قوم کی ہدایت کے لئے بھی جدوجہد کی جانی چاہیئے.اور اسکے لئے بھی کوئی سکیم میں تجویز کروں گا.ہماری جماعت میں بعض لوگ اچھا لکھتے ہیں.میں نے الفضل میں ان کے مضامین پڑھتے ہیں.ان سے فائدہ اٹھانے کی کوئی صورت کی جائے گی.پس یہ خلفاء کے چار کام ہیں.اور انہی پر یہ روپیہ خرچ کیا جائیگا.پہلے اسے کسی نفع مند کام میں نگا کریم اسی آمد کی صورت پیدا کریں گے.اور پھر اس آمد سے یہ کام شروع کریں گے.ایک تو ایسا اصولی لٹریچر شائع کریں گے کہ جب سے ہندو سکھ اسلامی اصول سے آگاہی حاصل کر سکیں.اب تک ہم نے ان کی طرف پوری طرح توجہ نہیں کی.حالانکہ حضرت سیح موعود علیہ السلام کے بعض الہامات سے پتہ لگتا ہے کہ ان لوگوں کے لئے بھی ہدایت مقدر ہے.مثلاً آپ کا ایک الہام ہے.تراریوں کا بادشاہ " ایک ہے.جے سنگھ بہا در اسے ڈوگر گوپال تیری مہم گیت میں ہے.مگر ہم نے ابھی تک ان کی طرف کوئی توجہ نہیں کی پس اب ان کیلئے لٹریچر شائع کر نا چاہیئے.میں چاہتا ہوں کہ یہ اتنا مختصر ہو.کہ اسے لاکھوں کی تعداد میں شائع کر سکیں.پھر ایک حصہ مسلمانوں میں تبلیغ پر خرچ کیا جائے.ایک آرٹ.سائنس انڈسٹری حضر نظام اور زراعت و غیرہ کی تعلیم پر اور سلسل پر دشمنوں کے محلہ کے مقابلہ کیلئے.آیت آہستہ کوشش وغیرہ پر کی جائے.کہ اس کی آمد میں اضافہ ہوتا رہے.اور پھر اس آمد سے یہ کام چلائے جائیں.اس روپیہ کو خرچ

Page 652

مهم کرنے کے لئے یہ تجویزیں ہیں.اس کے بعد میں جھنڈے کے نصب کرنے کا اعلان کرتا ہوں منتظمین اس کیلئے ساما لے آئیں.جھنڈا نصب کرنے کے متعلق بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ کانگرس کی رسم ہے.لیکن اس طرح تو بہت ہی رسمیں کانگریس کی نقل قرار دینی پڑیں گی.کانگریسی جلسے بھی کرتے ہیں.اس لئے یہ جلسہ بھی کانگریس کی نقل ہوگی.گاندھی جی دودھ پیتے تھے.دودھ پینا بھی ان کی نقل ہوگی.اور اس اصل کو پھیلاتے پھیلاتے یہاں تک پھیلانا پڑیگا کہ مسلمان بہت سی اچھی باتوں سے محروم رہ جائیں گے حقیقت یہ ہے کہ یہ کانگریس کی نقل نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود جھنڈا باندھا.اور فرمایا کہ یہ میں اسے دوں گا.جو اس کا حق ادا کرے گا.پس یہ کہنا کہ بہ بدعت ہے.تاریخ اسلام سے ناواقفیت کی دلیل ہے.جھنڈا لہرانا ناجائز نہیں.ہاں البتہ اس ساری تقریب میں میں ایک بات کو برداشت نہیں کر سکا.اور وہ ایڈریسیوں کا چاندی کے خولوں وغیرہ میں پیش کرنا ہے.اور چاہے آپ لوگوں کو تکلیف ہو.میں حکم دیتا ہوں کہ ان سب کو بیچ کر قیمت جو بلی فنڈ میں دے دیجائے.پس جھنڈا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے.اور لڑائی وغیرہ کے مواقع پر اس کی ضرورت ہوتی ہے.کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے تو جہاد سے ہی منع کر دیا ہے.پھر جھنڈے کی کیا ضرورت ہے.مگر میں کہوں گا.کہ اگر لوہے کی تلوار کے ساتھ بہاد کرنے والوں کے لئے جھنڈا ضروری ہے.تو قرآن کی تلوار سے لڑنے والوں کے لئے کیوں نہیں ؟ اگر اب ہم لوگ کوئی جھنڈا معتین نہ کریں گئے.تو بعد میں آنے والے ناراض ہونگے.اور کہیں گے کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ ہی جھنڈا بنا جاتے توکیا اچھا ہوتا.میں نے حضرت سیح موعود علیہ السلام کے منہ سے ایک مجلس مین یہ سُنا ہے کہ ہمارا ایک جھنڈا ہونا چاہیئے.جھنڈا لوگوں کے جمع ہونے کی ظاہر کی علامت ہے.اور اس سے نوجوانوں کے دلوں میں ایک ولولہ پیدا ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علی اسلام نے فرمایا ہے کہ " لوائے یا پتہ ہر سعید خواهد بود " یعنی میرے جھنڈے کی پناہ بہر سعید کو حاصل ہوگی.اور اس لحاظ سے بھی ضروری ہے کہ ہم اپنا جھنڈا نصب کریں.تا سعید روحیں اس کے نیچے آکر پناہ لیں.یہ ظاہری نشان بھی بہت اہم چیزیں ہوتی ہیں.جنگ جمل میں حضرت عائشہ رضہ ایک اونٹ پر سوار تھیں.دشمن نے فیصلہ کیا کہ اونٹ کی ٹانگیں کاٹ دیجائیں تا آپ نیچے گر جائیں.اور آپ کے ساتھی لڑائی بند کر دیں لیکن جب آپ کے ساتھ والے صحابہ نے دیکھا.کہ اس طرح آپ گر جائیں گی.تو گو آپ دین کا ستون نہ تھیں مگر بہر حال رسول کریم

Page 653

4-0.ادر صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی منظم تھیں.اسلئے صحابہؓ نے اپنی جانوں سے اُن کے اُونٹ کی حفاظت کی.اور تین گھنٹہ کے اندر اندر ستر جلیل القدر صحابی کٹ کر گر گئے.قربانی کی ایسی مثالیں دلوں میں جوش پیدا کرتی ہیں.میں جھنڈا نہایت ضروری ہے.اور بجائے اس کے کہ بعد میں آکر کوئی بادشاہ اسے بنائے یہ زیادہ است ہے کہ یہ صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھوں اور میخوردہ خلافت کے زمانہ میں بن جائے.اگر اب کوئی جھنڈا نہ بنے.تو بعد میں کوئی جھنڈا کسی کے لئے سند نہیں ہو سکتی.چینی کہیں گے ہم اپنا جھنڈا اپناتے ہیں.اور جاپانی کہیں گے اپنا.اور اس طرح ہر قوم اپنا اپنا جھنڈا ہی آگے کرے گی.آج یہاں عرب.سماٹر کی.انگریز سب قوموں کے نمائندے موجود ہیں.ایک انگریز نو مسلمہ آئی ہوئی ہیں اور انہوں نے ایڈریس بھی تیپیش کیا ہے.جاوا.سماٹرا کے نمائندے بھی ہیں.افریقہ کے بھی ہیں.انگریز گویا یورپ اور ایشیا کے نمائندے ہیں.افریقہ کا نمائندہ بھی ہے.امریکہ دالوں کی طرف سے بھی تار آگیا ہے.اور اس لئے جو جھنڈا آج نصب ہو گا.اس میں سب قومیں شامل سمجھی جائیں گی.اور ذکا جماعت کی شوکت کا نشان ہوگا.اور یہی مناسب تھا کہ جھنڈا ابھی بن جاتا.تا بعد میں اس کے متعلق کوئی اختلاف پیدا نہ ہوں.پھر یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی ہے.حضرت سیح موعود علیہ اسلام کے ایک شعر کو بھی پورا کرتا ہے.رسول کریم صلی الہ علیہ حکم نے فرمایا تھا.کہ مسیح دمشق کے منارہ مشرقی پر اترے گا.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہزاروں روپیہ خرچ کر کے وہ منارہ بنوایا.تا رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم کی بات ظاہری رنگ میں بھی پوری ہو.اور میدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ اُس نے ہمیں یہ جھنڈا بنانے کی توفیق دی.کہ جس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک شعر ظاہری رنگ میں بھی پورا ہوتا ہے اور اس وجہ سے گہ ہم لوگل کو باطن کا بھی خیال رہے.اور یہ محض ظاہری رسم ہی مندر ہے.میں نے ایک اقرار نام تجویز کیا ہے.پہلے میں ایسے پڑھ کر سنا دیتا ہوں.اس کے بعد میں کہتا جاؤں گا.اور دوست اسے دہراتے جائیں.اقرار نامہ یہ ہے :- میں اقرار کرتا ہوں کہ جہاں تک میری طاقت اور سمجھ ہے.اسلام اور احمدیت کے قیام اسکی مضبوطی اور اس کی اشاعت کے لئے آخر دم تک کوشش کرتا رہوں گا.اور اللہ تعالیٰ کی مدد سے اس امر کے لئے ہر ممکن

Page 654

قربانی پیش کروں گا.کہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام دوسے سب دینوں اور سلسلوں پر غالب رہے.اور اس کا جھنڈا کبھی سرنگوں نہ ہو.بلکہ دوسرے سب جھنڈوں سے اُونچا اٹر تالے ہے اسے اللهم آمين - اللهم امين اللهم امين.ربنا تقبلُ مِنَّا إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمة اس کے بعد پروگرام کا وہ حصہ شروع ہوا.جو سلسلہ کی لوائے احمدیت بلند کیا گیا.تاریخ میں نہایت اہمیت رکھتا ہے.اور جماعت احمدیہ میں....جوش اور ولولہ پیدا کرنے کا خاص ذریعہ ہے.یعنی جماعت احمدیہ کے جھنڈے کو بلند کرنا جیسا کہ پہلے تفصیل ذکر آچکا ہے.بھنڈا سیاہ رنگ کے کپڑے کا تھا.جس کے درمیان منارة المسیح.ایک طرف بذر ، اور دوسری طرف ہلال کی شکل سفید نہن میں بنائی گئی تھی.کپڑے کا طول اٹھارہ فٹ اور عرض تو فٹ تھا.اور اسے بلند کرنے کے لئے سٹیج کے شمال مشرقی کونہ کے ساتھ باسٹھ فٹ بلند آہنی پول پایے فٹ اونچا چبوترہ بنا کر نصب کیا گیا تھا.منضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی نہ سٹیج سے اتر کر با محکوم منٹ پر اس جیپوترہ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا.تمام احباب رَبَّنا تقبل منا ہم اِنَّكَ اَنتَ السَّمِيعُ الْعَلیم کی دُعا پڑھتے رہیں.یہ دُعا پڑھتے ہوئے اور اس نظارہ سے متاثر ہو کر بہتوں کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے.اور تمام جمع پر رقت طاری ہوگئی حضرت میر المو منین نے بھی رقت انگیز آواز میں ربَّنَا تَقَبَّلُ مِنَّا إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيم بأواز بلند پڑھ رہے تھے.لیٹے ہوئے پھر یہ ہے کے کھلنے کے بعد حضور نے نعرہ ہائے تکبیر کے درمیان جھنڈے کی رسی کو کھینچا اور جھنڈا اوپر کو بلند ہونا شروع ہوا.اور نعرہ ہائے تکبیر کے دوران میں توری بلندی سے پہنچ گیا.جھنڈے کے بلند ہوتے وقت ہوا بالکل ساکن تھی قدرت الہی کا ایک عجیب کرشمہ اور رجھنڈا اوپر تک اس طرح لیٹا ہوا گیا.کہ اسکے نقوش نظر نہ آ سکتے تھے.لیکن اسکے اوپر پہنچتے ہی ہوا کا ایک ایسا جھونکا آیا کہ تمام جھنڈا اٹھل کو لہرانے لگا.روئیداد جلسه خلافت جویلی صفحه ۹ تا ۲۴ :

Page 655

سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے دست مبارک سے لوائے احمدیت کی پر چم کشائی.

Page 656

سید نا حضرت امیر المومنین خلیفہ اسی الثانی لوائے خدام الاحمدیہ لہرا رہے ہیں سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی جلسہ خلافت جوبلی کے اختتام پر واپس تشریف لے جارہے ہیں.

Page 657

اور تھوڑی دیر کے بعد جب تمام مجمع نے اچھی طرح دیکھ لیا.تو ہوا پھر تھم گئی.اس تقریب کی تکمیل کے بعد حضور احکاری لائے احمدیت بلند کرنیکے بعدجماع سے اقرار سعی بر تشریف لائے اور اسباب پر جماعت سے وہ اقرار نا مہ لیا.جس کا ذکر پہلے آچکا ہے.اے استخدام الاحمدیہ کا جھنڈا از ان بین صورت ۱۲ بجگر ۱۲ منٹ پر مجلس خدام الاحمدیہ کا بھنڈا بلند فرمایا.اس کے لئے بھی سٹیج کے شمال مغربی کونہ کے ساتھ لکڑی کا پول چبوترہ بنا کر کھڑا کیا گیا تھا.یہ جھنڈا سیاہ رنگ کے کپڑے کا تھا.جسپر چھے سفید دھاریاں ہیں.درمیان میں منارة المسیح.ایک طرف بدر.اور دوسری طرف ہلال کا نشان تھا تھا.اس کے بعد حضور نے فرمایا.اس وقت سے اس جھنڈے کی مخالفت احمدیہ جھنڈے کی کے لئے مجلس خدام الاحمدیہ بارہ آدمیوں کا پہرہ مقرر کرے.اور کل نمابر حفاظت کا انتظام جمعہ کے بعد ایسے دو ناظروں کے سپرد کردے.جو اس کی حفاظت کے ذفتنہ دار ہوں گے.وہ نہایت مضبوط تالہ میں رکھیں جس کی دو چابیاں ہوں اور وہ دونوں ملکر اسے کھول سکیں.بجاکر ۲۵ منٹ پر اس اجلاس کی کارروائی اختتام پذیر ہوئی.لے حضرت امیر المؤمنین مردانہ جلسہ میں لوائے احمدیت اور لوائے خدام الاحمدیہ نہر اپنے کے بعد زمانہ جامعہ گاہ میں تشریف لائے اور دُعا کرتے ہوئے خواتین جماعت احمدیہ کا بھنڈا اپنے دست مبارک سے لہرایا.جھنڈے کا بانس ۳۵ فٹ لمبا اور اس کا کپڑا پونے چار گز لمبا اور سوا دوگر چوڑا تھا.جس پر لوائے احمدیت کے علاوہ کھجور کے تین درخت بھی تھے.جن کے نیچے چشمہ تھا.اس جھنڈے کے نقوش ریشم کے مختلف رنگ کے دھاگوں کے تھے.جو مشین سے کاڑھے ان حضرت خلیفہ مسیح الثانی ہونے والے احمدیت اپنے دست مبارک سے 4 بجکر دس منٹ پر رتی سے باندھا.دیو بھکر گیارہ منٹ پر بلند کرنا شروع کیا اور حضور کے ہاتھوں کی تین مرتبہ کی جنبش سے دو بجکر بارہ منٹ پر جھنڈا پول کی اُونچائی تک پہ اس دوران میں حضور رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنَّا إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ پڑھتے رہے اور عام مجھ کو پڑھتے رہنے کا ارشاد فرمایا.اور دو بجکر 3 منٹ پر حضور نے جھنڈے کی رسی کو ستون یا ند ھنا شروع کیا اور ہ بھیرہ منٹ پر باندھ چکے لیے الفضل میں تمہیں لکھا گیا ہے.اصل میں تین معلوم ہوتا ہے.ان الفضل در جنوری را و صفحه ۲ کالم ہے الفضل ۲ جنوری ۱۹۴۰ صفحہ ۸-۹ ۳ یہ جھنڈا افسوس اپریل ۱۹۴۸ء میں لاہور سے ربوہ کے درمیان گاڑی میں کہیں کھو گیا نقشہ جو سید عبد الباسط صاحب نے بنوا کر دیا تھا حضرت سیدہ ام متین صاحبہ کے پاس محفوظ ہے اور ضمیمہ ۵۶ پر بھی موجود ہے.دوم :

Page 658

۶۰۸ گئے تھے.کپڑا اسیاہ ساٹن کا تھا.اے 1979 جماعت احمدیہ کو نظام خلاف ہے وابستہ رہنے حضرت امیرالمونین نے سامان بین مشاور پر نوائے احمدیت کی پرچم کشائی کے علاوہ ۲۸.۱۲۹ اور اس کے لئے دعائیں کرنے کی وصیت پر اشارہ کو خلافت راشدہ کے عنوان پر دسمبر او ایک محرکة الآراء تقریر فرمائی جو ہیں اسلامی نظام خلافت پر نہایت شرح و بسط سے روشنی ڈالی.اور اسپر وارد کئے جانے والے اعتراضات کے مفصل اور مسکت جوابات دینے کے بعد جماعت احمدیہ کو نظام خلافت کی قدر کرنے اور اس کے دائمی طور پر قائم رہنے کی ہمیشہ دعائیں کرتے رہنے کی وصیت فرمائی.چنانچہ حضور نے فرمایا : جہاں تنگ خلافت کا تعلق میرے ساتھہ ہے.اور جہانتک اس خلافت کا اُن خلفاء کے ساتھ تعلق ہے.جو فوت ہو چکے ہیں.ان دونوں میں ایک امتیاز اور فرق ہے.اُن کے ساتھ تو خلافت کی بحث کا علمی تعلق ہے.اور میرے ساتھ نشانات خلافت کا معجزاتی تعلق ہے.پس میرے لئے اس بحث سے کوئی حقیقت نہیں.کہ کوئی آیت میری خلافت پر چسپاں ہوتی ہے یا نہیں.میرے لئے خدا تعالیٰ کے تازہ بتازہ نشانات اور اُس کے زندہ معجزات اِس بات کا کافی ثبوت ہیں کہ مجھے خُدا نے خلیفہ بنایا ہے.اور کوئی شخص نہیں جو میرا مقابلہ کر سکے.اگر تم میں کوئی ماں کا بیٹا ایسا موجود ہے جو میرا مقابلہ کرنے کا شوق اپنے دل میں رکھتا ہو تو وہ اب میرے مقابلہ میں اُٹھ کر دیکھ لے.خدا اُس کو ذلیل اور رسوا کرے گا.بلکہ اُسے ہی نہیں.اگر دنیا جہان کی تمام طاقتیں مل کر بھی میری خلافت کو نابود کرنا چاہیں گی.تو خدا ان کو مچھر کی طرح مسل دیگا.اور ہر ایک جو میرے مقابلہ میں اُٹھے گا.گرا یا جائے گا.جو میرے خلاف بولے گا.خاموش کرایا جائیگا.اور جو مجھے ذلیل کرنے کی کوشش کریگا.وہ خود ذلیل و رسوا ہو گا.پس اسے مومنوں کی جماعت ! اور اسے عمل صالح کرنے والو ! میں تم سے یہ کہتا ہوں.کہ الفضل ٣ جنوری 19 صفحه ۲ کالم

Page 659

4-4 خلافت خدا تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے.اس کی قدر کرو.جب تک تم لوگوں کی اکثریت ایمان اور عمل صالح پر قائم رہے گی.خدا اس نعمت کو نازل کرتا چلا جائے گا.لیکن اگر تمہاری اکثریت ایمان اور عمل صالح سے محروم ہوگئی.تو پھر یہ امر اس کی مرضی پر موقوف ہے.کہ چاہے تو اس انعام کو جاری رکھے.چاہے تو بند کردے.پس خلیفہ کے بگڑنے کا سوال نہیں.خلافت اس وقت چھینی جائے گی جب تم بگڑ جاؤ گے.پس اللہ تعالے کی اس نعمت کی ناشکری مت کرو.اور خدا تعالیٰ کے الہامات کو تحقیر کی نگاہ سے مت دیکھو.بلکہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے.تم دعاؤں میں لگے رہو.تا قدرت ثانیہ کا پے در پے تم میں ظہور ہوتا ہے.تم اُن نا کاموں اور نامراد وں اور بے علموں کی طرح مت بنو.جنہوں نے خلافت کو رد کر دیا.بلکہ تم ہر وقت ان دعاؤں میں مشغول رہو.کہ خدا قدرت ثانیہ کے مظاہر تم میں ہمیشہ کھڑے کرتا ہے.تا اُس کا دین مضبوط بنیا دوں پہ قائم ہو جائے اور شیطان اُس میں رخنہ اندازی کرنے سے ہمیشہ کے لئے مایوس ہو جائے " قدرت ثانیہ کے نزول کیلئے تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ حضر می موعود علیہ اسلام نے قدرت ثانیہ کے لئے دعاؤں کی جو شرط لگائی ہے.وہ کسی ایک ہمیشہ دعاؤں میں مشغول رہو.زمانہ کے لئے نہیں، بلکہ ہمیشہ کے لئے ہے.حضرت میں موجود علی الصلوۃ والسلام کی زندگی میں اس ارشاد کا یہ مطلب تھا.کہ میرے زمانہ میں تم یہ ڈھا کرو کہ تمہیں پہلی بار خلافت نصیب ہو.اور پہلی خلافت کے زمانہ میں اس دعا کا یہ مطلب تھا کہ الہی اس کے بعد ہمیں وسری خلافت ملے.اور دوسری خلافت میں اِس دُعا کے یہ معنے ہیں کہ تمہیں تیسری خلافت ملے.اور تیسری خلافت میں اس دعا کے یہ معنی ہیں کہ تمہیں چوتھی مخلافت ملے.ایسا نہ ہو.کہ تمہاری شامت اعمال سے اس نعمت کا در شانزہ تم پر بند ہو جائے.پس ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حضور دعاؤں میں مشغول رہو.اور اس امر کو اچھی طرح یاد رکھو کہ جب تک تم میں خلافت رہے گی.دنیا کی کوئی قوم تم پر غالب نہیں آسکے گی.اور ہر میدان میں تم مظفر و منصور رہو گے.کیونکہ خدا کا وعدہ ہے.جو اس نے ان الفاظ

Page 660

41.ین میں کیا.کہ وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمَلُوا الصَّلِحَتِ لِيَسْتَخْلِفَتُهُم في الأرضِ - اگر اس کو بھی یاد رکھو کہ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ خدا تمہارے ساتھ ہو.اور ابد الآباد تک تم اُس کی برگزیدہ جماعت رہو یا ہے آنحضرت صلی الہ علیہ والہ وسلم کی حضرت علیہ اسی انسانی کے خلاف جوبلی کے اس تاریخی جلسہ نے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ آخری وصیت بڑی کثر سے علی ایک اہم وصیت کی توسیع اشاعران والصلوة والسلام داده ای داتی و رومی جنانی اسنے مجتہ الوداع کے موقع پر ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ کے مجمع میں فرمائی تھی اور ارشاد فرمایا تھا که هر مسلمان دوسرے مسلمان بھائی تک یہ فرمان پہنچا دے.چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضہ نے اس کی تعمیل میں ایک پمفلٹ شائع کیا.جس میں تحریر فرمایا کہ :- " وَصِيَّةُ الرَّسُول برادرم! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ - سول کریم صل اللہ علیہ وسلم نے مجتہ الوداع میں جب کہ آپ کی وفات قریب آگئی بطور وصیت سب مسلمانوں کو جمع کرکے فرمایا.اِن دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالكُر (اور ابی بکرہ کی حدیث میں ہے.وَأَعْرَاضَكُمْ حَرَام عَلَيْكُمْ كَحُرُمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا فِي بلَدَ كُهُ هذا - اِس شہر میں اِس مہینہ میں اس دن کو اللہ تعالیٰ نے جو حفاظت بخشی ہو.رحج کے ایام کی بات ہے) وہی تمہاری جانوں اور تمہارے مالوں (اور ابی بکر کی روایت کے مطابق تمہاری عزتوں کو خدا تعالیٰ نے حفاظت بخشی ہے.یعنی جس طرح مکہ میں حج کے مہینہ اور حج کے وقت کو اللہ تعالے نے ہر طرح پر امن بنایا ہے.اسی طرح مومن کی جان اور مال اور عزت کی سب کو حفاظت کرنی چاہئیے.جو اپنے بھائی کی جان.مال اور عزت کو نقصان پہنچاتا ہے.گویا وہ ایسا ہی ہے جیسے حج کے ایام اور مقامات کی بے حرمتی کرے.پھر آپ نے دو دفعہ فرمایا.کہ جو یہ حدیث سنے.آگے دوسروں تک پہنچا دے.میں اه " خلاقیت را شد » صفحه ۲۶۶ تا ۲۰۰ تقریر دلپذیر حضرت خلیفة المسیح الثانی رو بر موقعه جلسه سالانه ۲۰-۲۹ ر د سمبر رو به قام قادیان - ناشر : اللہ کی الاسلامیہ لمیٹیڈ ویوه :

Page 661

411 راس حکم کے ماتحت یہ حدیث آپ تک پہنچانا ہوں.آپ کو چاہیے کہ اس حکم کے ماتخت آپ آگے دوسرے بھائیوں تک مناسب موقع پر یہ حدیث پہنچادیں.اور انہیں سمجھادیں کہ ہر شخص جو یہ حدیث سنے.اُسے حکم ہو کہ وہ آگے دوسرے مسلمان بھائی تک اسکو پہنچاتا چلا جائے.واسلام خاکستر : مرزا محمود احمد خليفة المسيح" له " جلسہ خلافت جو بلی کے انتظامات حسب ذیل تین مقامات い جلات خلافت جوبلی کے انتظامات کئے گئے :.(1) اندرون قصبہ (۲) محلہ دار العلوم پر اور (۳) محلہ دار الفضل میں.دارالعلوم کے کچن سے حسب معمول محلہ دارالرحمت کے مہمانوں کیلئے.اور دارالفضل کے کچن سے محلہ دار البرکات کے مہمانوں کو کھانا دیا جاتا رہا.اندرون قصبہ کے لنگر خانہ ہیں ۳۷ دارالعلوم میں ۱۵۰ ۵۰ اور دارالفضل میں ۲۶ تنوروں پر دن رات روٹیاں پکائی جائیں.ان انتظار امت کے علاوہ محلہ دار الانوار میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کے ما تخت خاص انتظام بھی تھا.عام انتظامات کی صورت یہ تھی کہ افسر جلس سیپانا نہ حضرت میر محمد اسحاق صاحب تھے.ان کے اتحت ہرسہ مقامات پر تین ناظم تھے.یعنی اندرون قصبہ حضرت ماسٹر محمد طفیل خان صاحب.دار العلوم میں حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب اور دار الفضل میں مکرم ماسٹر علی محمد صاحب.ان کے ساتھ متعدد نائب اور پھر ان کے معاون تھے.پہرہ کا انتظامہ نیشنل لیگ کور کے سپرد تھا.مقامی نیشنل لیگ کو ر کے والنٹیئرز اپنے سالار اعظم چو ہدری اسد اللہ خان صاحب بیرسٹرایٹ لاء اور سالار جیش جناب مرزا گل محمد صاحب کے ماتحت کام کرتے تھے مختلف راستوں پر آنے جانے والے مہمانوں کو راستہ بنانا.جلسگاہ میں بھانے کیلئے مستورات اور مردوں کیلئے علیحدہ علیحدہ راستے مقرر کرنا.اور حضرت امیر المومنین کے جلسہ گاہ میں تشریف لے جانے اور واپس آنے کے وقت پہرہ کا انتظام اُنکے سپرد تھا.انکوائری آفس ہرسہ مقامات پر علیحدہ علیحدہ تھے.جو چوبیس گھنٹے کھلے رہتے.اور مہمانوں کو ہر قسم کی معلومات بہم پہنچاتے.گم شدہ اشیاء اور بچوں کی نگہداشت رکھتے.نیز پرائیویٹ مکانات میں مہمانوں کو پہنچاتے تھے.الے بر الفضل سر جنوری ۱۹۳ ۶ صفحه ::

Page 662

۶۱۲ طبیقی انتظام - حسب دستور نور مہسپتال کے علاوہ مدرستہ احدید.بورڈ نگ تعلیم الاسلام ہائی سکیل.اور محلہ دار افضل میں طبی امداد کا انتظام تھا.سخت گرانی اور مالی مشکلات کے باوجود اس مقدس تقریب پر مہمانوں مہمانوں کی تعداد کی تعداد سال گذشتہ کی نسبت بہت زیادہ تھی ہمسایہ میں مہمانوں کی تعداد میں ہزار کے قریب تھی جو جلسہ جوہی پر قریباً چالیس ہزار تک پہنچ گئی : فصل چهارم جلسہ خلافت جوبلی پیر جلسئہ خلافت جوبلی کی مفصل روداد بیان کی جاچکی ہے.اب ہمیں یہ بتانا ہے کہ ملک کے غیر احمدی اور غیر مسلم حلقوں کی طرف سے اس کا برملا کے پیغامات تقریب پر کیا روز حمل بنوا ؟ اس ضمن میں سب سے پہلے ہم ذیل میں بعض معززین و اکا بر قوم و ملت کے وہ پیغامات درج کرتے ہیں جو ان کی طرف سے جشن جوبلی پر پہنچے :- ا آنریبل خان بہادر شیخ عبد القادر صاحباء مبر گورنمنٹ ہند دہلی نے پیغام دیا :- میں جماعت احمدیہ کی خدمت میں اُن کے موجودہ ذی شان عہدہ میں پچیپ سال کامیابی سے گزرنے کی تقریب پر دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں.مجھے امام جماعت احمدیہ کے ساتھ مسلمانوں کے عام مفاد کے سلسلہ میں تعلق کا موقع ملتا رہا ہے.مسلمانوں کی عام بعبودی اور ترقی کے سوال سے آپ کی گہری دلچسپی کا میرے دل پر بہت بھاری اثر ہے.۲ میجر نواب ممتاز باور الدولہ بہادر آف حیدر آباد دکن نے پیغام دیا کہ: " امام جماعت احمدیہ قادیان کی سلور جوبلی پر میں اپنی طرف سے دلی پر خلوص مبارکباد پیش کرتا ہوں " -۳- جناب خان بہادر سیٹھ احمد الہ دین صاحب آف سکندر آباد نے پیغام دیا کہ:

Page 663

۶۱۳ "میں نے مسلمانوں کی مختلف فرقہ داری اختلافات سے ہمیشہ اپنے آپکو الگ رکھا اور ہمیشہ سے یہ خیال رہا ہے.کہ مسلمانوں کے لئے توحید ، رسالت اور قرآن کے مشترکہ مسائل میں سب کچھ ہے.لیکن احمدی جماعت اور اسکی کوششوں سے احمدی نہ ہونے کے باوجود مجھے ابتداء سے ہمدردی رہی ہے.خود میرے بڑے بھائی سیٹھ عبداللہ الہ دین، اللہ ان کی عمریں برکت دے، احمدیت کے ایک عملی مبلغ ہیں.میں اس جماعت کی اشاعت و تبلیغ کی مسائل کو دیکھ کر خصوصیت کے ساتھ بہت پسند کرتا ہوں اور اس میں حتی الامکان امداد کرتا رہتا ہوں.جناب مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی مجھ پر خاص توجہ اور عنایت ہے.اور ان کی عملی زندگی، وسیع النظری اور خدا پرستی نے مجھے ہمیشہ متاثر کیا.اپنے والد کے منصب خلافت کو ادا کرتے ہوئے پچیس سال کی تکمیل میں اُن کو اور جماعت احمدیہ کو دل سے مبارک باد دیتا ہوں " -۴- سرڈگلس ینگ بالقا بہ چیف جسٹس ہائی کورٹ لاہور نے پیغام دیا کہ :.یکی حضرت امام جماعت احمدیہ کو انکی خلافت پر پھیویں سال گزرنے کی تقریب پر دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں.میں جماعت احمدیہ کے افراد کو جوڈیشل محکمہ میں ملازم رکھتے ہوئے ہمیشہ خوشی محسوس کرتا ہوں.کیونکہ مجھے اُن کی دیانت داری کے خلاف کبھی کسی کی طرف سے اشاره وکنایہ بھی شکایت نہیں پہنچی " ۵- آنریبل کنور سر جدایش پرشاد بہادر ایجوکیشنل مبر گورنمنٹ آف انڈیا دہلی : سرجنگ نے پیغام دیا کہ : - " میں جماعت احمدیہ کے ذمی شان امام کی جوبلی کی تقریب پر نیک دعاؤں اور تمناؤں کا ہادیہ پیش کرتا ہوں لے شمس العلماء خواجہ حسن نظامی جلسہ خلافت ولی کا انعقاد کی بھی تیاریاں ہو رہی تھیں کے کہ شمس العلماء خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی نے ۲۲؍ دسمبر اور خلافت جوبلی 1939ء کے اخبار "منادی میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی ہے اردو کے شام کے مشہور سفر دہلی کا گروپ فوٹو شائع کیا.اور اس کے نیچے یہ نوٹ شائع کیا :- ه الحکم ۲۸ دسمبر ۱۹۳۹ در صفحه ۲ : لو

Page 664

۶۱۴ به تصویر در گاه حضرت مواجه نظام الدین اولیا ء کے قریب مسجد نواب جہاں دوران خان میں گزشتہ سال کی گئی تھی جس میں قادیانی جماعت کے خلیفہ صاحب اور بچوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب اور بلبل ہندوستان سروجنی نائیڈ و صاحبہ شریک ہوئی تھیں.سامنے نواب خیال دوراں کا مزار ہے جو نادر شاہ ایرانی کی لڑائی میں مقام پانی پت شہید ہوئے تھے اور جن کے پوتے حضرت خواجہ میر درد کی اولاد میں وہ خاتون ہیں جو جناب مرزا بشیر الدین محمود احمد کی والدہ ہیں.آجکل مرنا صاحب کی خلافت کی پچیس سالہ جوبلی قادیان میں ہو رہی ہے.اور یکں اپنے تعلقات کی یادگار میں جو حضرت مرزا غلام احمد صاحب سے میرے تھے.اور اُن کے فرزند اور خلیفہ حضرت مرزا البشیر الدین محمود احمد سے ہیں اور مرزا صاحب نے اپنی خلافت کے پچیس سالہ ایام میں اسلام کی اور مسلمانوں کی بڑی بڑی خدمات انجام دی ہیں.اور سر محمد ظفر اللہ خان جیسے خادم اسلام اور مسلمین افراد تیار کئے ہیں.اس لئے یکن یہ تصویر اپنی جماعت اور ناظرین منادی کی معلومات کے لئے اور جوبلی کی خوشی میں دل سے شریک ہونے کے لئے شائع کرتا ہوں.حسن نظامی اے خلافت جوبلی کی روح پرور تقریب پر احمدیوں کے علاوہ جلسہ خلافت جو بلی کا ذکر غیر شائع، غیر احمدی اور غیر مسلم معززین کی ایک کثیر تعداد ملکی پریس میں ، نے شرکت کی.اور حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی حیرت انگیز قیادت اور احمدیوں کی اپنے محبوب امام سے بے نظیر فدائیت و عقیدت کے نظارے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کئے.اس سلسلہ میں بعض اخبارات کے تاثرات درج ذیل کئے بجاتے ہیں :- (1) اخبار "پارس" ( از جنوری ۹۳) نے لکھا: در گو تعصب کے باعث ملک کے مسلم اور غیر مسلم اخبارات نے قادیان کے ا بحواله الفضل در جنوری ۱۹۳۰ء صفحه ۲ : مثلاً حضرت مولوی غلام حسن خان صاحب پیشاوری جنہوں نے جنوری ۱۹۴۰ء میں بیعت خلافت کر لی.جیسا کہ اگلی جلد میں آرہا ہے.مرزا معصوم بیگ صاحب : ۳ مثلاً ابو ظفر ناز شش صاحب صفوی ڈاکٹر مرزا محمد یعقوب بیگ صاحب ڈویژنل آفیسر بر ما ریلویز -.فقیر محمدان رشید صاحب ڈراے ایل ایل بی ضلع جھنگ.سید اقبال حسین صاحب ایڈووکیٹ لکھنو.اور

Page 665

۶۱۵ گذشتہ عظیم الشان اجتماع اور جماعت احمدیہ کی سرگرمیوں کا کوئی فکر نہیں کیا.لیکن جنہوں نے اس سالانہ تقریب کو بچشم خود دیکھتا ہے.اُن کا بیان ہے کہ جماعت احمدیہ کی تنظیم، اپنے پیشوا میں اسکی عقیدت اور مذہبی اصولوں پر عمل قابل رشک ہے " اے (۲) اخبار " اہلحدیث اور تیسر نے ۱۲ جنوری ۱۹۲ء کی اشاعت میں بعنوان " قادیان میں سالانہ جلسہ اور سلور جوبلی حسب ذیل نوٹ دیا :." قادیان میں اس دفعہ جلسہ بڑی دھوم دھام سے ہوا.جس کی تیاری بڑے زور شور سے ہو رہی تھی.روپیہ بھی کافی جمع ہوا.آدمی بھی.یہ تعداد پر جہاں لنگر خانہ " القول خلیفہ صاحب ۲۶ ہزار کا شمار تھا.اس کی ترمیں یہ راز ہے.کہ قادیان سے تاکید پر تاکید شائع ہوئی تھی.کہ ہر احمدی اپنے پاس سے بھی کرایہ دیکر ایک دو مسلمانوں کو ساتھ لائے.بچنا نچہ ایسا ہی ہوا.جلسہ سے واپسی کے وقت حسب معمول دور دراز کے مرزائی صاحبان دفتر المحدیث میں تشریف لاتے رہے.جن سے معلوم ہوا کہ مسلمان دغیر مرید مرزا) جلسہ میں کثرت سے آئے تھے.ان کو مریدان مرزا اپنے خروج سے لائے تھے تا کہ دو اچھا اثر لیکر جائیں اور ساتھ میں طلبہ میں شامل ہونے والوں کی تعداد بھی زیادہ ہو جائے " سے افریقہ کے ایک غیر احمدی اس تاریخی جلسہ میں دوسرے غیر احمدی دوستوں کے ساتھ افریقہ کے ایک غیر احمدی دوست شیدا صاحب بھی شامل دوست کے تاثرات، ہوئے تھے جنہوں نے جوبلی دیکھنے کے بعد اپنے دلی خیالات و جذبات کا اظہار حسب ذیل الفاظ میں کیا :- چند احمدی دوستوں کی ایماء پر میں جلسہ خلافت جو بلی میں شرکت کی غرض سے ۲۷ دسمبر کی شام کو قادیان پہنچا.اس وقت حضرت امیر جماعت جلسہ میں تقریر فرما سید خورشید حسن صاحب ریٹائر ڈاج لکھنی - ڈاکٹر اے.اس ملک آف کراچی.ملک محمد خاں صاحب نمائندہ جناب پیر لال بادشاہ صاحب آف مکھڈ کے سردار پر یتیم سنگھ صاحب ایم اے.بھائی د هر مانند رجی - پرنسپل خالصہ کالج تو ندارن - S.SCHRYPT.آف سنگھا پور.ڈاکٹر جیون و اس آف امرتسر - بھائی پرتاب سنگھ صاحب امر تسر ( الفصل ۳- جنوری ۹۳ به صفحه ۱۰) اے بحوالہ افضل اور جنوری ۳ بر صفحه و کالم ان له المحدیث امرتسر ۱۲ جنوری ایر صفحه ۱۶ کالم ۲

Page 666

رہے تھے.میں پنڈال میں اختتام تقریر تک موجود رہا - - ۲۸ ۲۹ دسمبر کو بھی تقریروں سے محفوظ ہوتا رہا.حضرت امیر سلسلہ کی تقاریر سننے کا خاص طور پر آرزو مند تھا.کیونکہ میں ان کی ایک شاندار تقریر سے جوں ہور بریڈل ہال میں آپ نے شاید شش میں فرمائی تھی.مسرور ہو چکا تھا.جو بین الاقوامی اتحادی کمیٹی تھی.اور پسند خاص عام تھی.۲۰ء کی شام کی ٹرین سے میں لاہور واپس آگیا.تمام اجلاس خدا کے فضل و کرم سے حد درجہ کامیاب اور پُرشکوہ تھے.انتظام کے لحاظ سے بھی ہر چیز قابل داد تھی.میں ایک غیر احمدی ہوں.مدت سے افریقہ میں رہتا ہوں.ہاں میرے احمدی احباب کا حلقہ بہت وسیع ہے.قادیان سے واپسی پر میں اپنے دل میں جماعت احمدیہ کی تنظیم اور اس کی اسلامی خدمات خصوصا حضرت امیر سلسلہ کی تبلیغی سرگرمیوں کی نسبت اور اس راہ بہت سے تاثرات لیکر آیا ہوں.اسی سلسلہ میں جشن خلافت جو بلی پر میں نے چند اشعار کہے ہیں.جو درج ذیل کرتا ہوں :- دو روز قادیاں میں رہا ہے میرا قیام دیکھا رو پہلی جوبلی کا خوب اہتمام اس جشن جوبلی کے لئے آئے شوق سے بر صوبہ و دیار کے افراد خاص و عام عیسائی ہندو سکھ و مسلمان پشتمل ہر فرقہ و عقیدہ کا مجمع تھا لا کلام جلسے میں یوں تو سارے مقرر تھے باخبر لیکن امیر سلسلہ کرتے تھے دل کو رام روحانیت کے پھول بکھرتے تھے ہر طرف ہوتے تھے اہل طلبہ سے چندم وہ ہم کلام لیے اور نے بحوالہ افضل اور جنوری ۱۹۴۰ بر صفحہ و کالم ۲

Page 667

414 فصل پیجمہ یو کے بعض متفرق مگر اہم واقعا خاندان مسیح و عود میں ۱- صاحبزادہ مرزائی ایک صاحب کی تقریب شادی کونشی دارد اسلام احمد قادیان میں ۲۲ جنوری ۱۹۱ء کو بعد نماز عصر مل میں آئی یہ آپکا نکاح صاحبزادی پُر مسرت تقاریر طیبه بیگم صاحبه دوختر نیک اختر حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب سے ہوا تھا.حضرت امیر المومنین خلیفہ البیع الثانی نے ۱۲۵ جنوری اشیاء کو اپنے قرمز مدار جہند کی دعوت دیمروی.اس دعوت میں تیرہ سو کے قریب نفوس شامل ہوئے.(1) قادیان کے تمام وہ اصحاب مدعو تھے جنہیں حضرت مسیح موعود علی الصلوۃ والسلام کے صحابہ ہونے کا شرف حاصل تھا.(۳۲) مدرسہ احمدیہ تعلیم ان اسلام ہائی سکول اور جامعہ احمدیہ کے سٹاف (۳) وفاتہ کے اکثر کارکن - (۴) واقفین تحریک جدید - ده محمد الافضل سے پانی یا محمد دار رحمت سے پچاس محلہ مسجد مبارک سے پرہائشی محلہ دار البرکات سے تنی بیمارداری علوم سے نہیں.محمد رہتی پھلہ سے ہیں.محلہ مسجد فضل سے بینشی محمد مسجد اقصی سے دیں.دارای انوار سے پانچ دار السعتہ سے پانچ.ناصر آباد سے دس اصحاب مدعو تھے.ان کے علاوہ تمام محلوں کے غربا ء اور مساکین نیز دارالصحت کے کچھ نو مسلم بھی بلائے گئے تھے.(۶) مہمان خانہ کے بہت سے جہان.(4) مقامی سرکاری اداروں کے ملازمین - (۸ بھینی - نگل قادر آباد -احمد آباد اور کھارا کے بعض اصحاب.(۹) بعض غیر احمدی اصحاب - دعوت کا انتظام حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی کی کو بھی داعر الحمد کے صحن میں کیا گیا تھا کھانا کھلانے کا انتظام نہایت اعلیٰ تھا.حضرت امیر المومنین خلیفتہ اسیح الثانی نے بھی اپنے خدام میں بیٹھنکہ کھانا تنادا فرمایا.کھانے کے بعد دعا کی گئی.اس کے بعد یہ مبارک تقریب ختم ہوئی.دھو کے ناظم اعلی حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب فاضل (جٹ ) تھے.۲ له الفضل ۲۴ جنوری ۳ ده مت نه له - روزنامه الفضل قادیان دارالامان مورخه ۱۲۰ جنوری شی او حت کالم سے ہے

Page 668

۱۵ را پریل شدہ کو حضرت خلیفہ ایسیح الثانی نے حضرت میر محمد اسمعیل صاحب کی دشتر نیک اختر ما جدائی امت اللہ بیگم صاحبہ کا نکاح پیر صلاح الدین صاحب د خلف الرشید پیراکبر علی صاحب) کے ساتھ اڑھائی ہزارہ روپیہ مہر پر پڑھا.اگلے روز (۱۶۹ را پریل شاہ کو تقریب رخسانہ عمل میں آئی.لے ۳- ارمنی اشارہ کیا مرت امیر المومنین نے بعد نماز عصر حداقلی میں صاحبزادہ مرزا ظفر احد صاحب نکاح سیدہ نصیرہ بیگم صاحبہ (دنیت حضرت مرزا عزیز احمد صاحب) کے ساتھ ایک ہزار معر یہ ہر پر پڑھا در نهایت پر معارف خطبہ ارشاد فرمایا.۳ ۲۰-۴ دسمبر درد کو حضور نے مسجد نور میں مندرجہ ذیل نکالوں کا اعلان فرمایا :- ا صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب کا نکاح صاحبزادی محمودہ بیگم صاحبه بت تجته الشر حضرت نواب محمد علی خان صاحت کے ساتھ گیارہ نورد پیر مہر ہے.- صا حبزاده مرند منیر احمد صاب این فال انبیا حضرت مرند البشیراحمدصاحب کا نکاح صاحب ای اہرہ بیگم صاحبہ نیت حضرت نوا محمدعبد اللہ خان صاحب کے ساتھ گیارہ سو روپیہ ہر پر.۱۳ - صاحبزاده مرند ادارو د احمد صاحب ابن حضرت مرید ا شریف احمد صاحب کا نکاح صاحبزادی زکیہ بیگم صاحبہ بنت حضرت نواب محم عبد اللہ انا کے ساتھ پانچہزار روپیہ ہر چیت ۴ - خان مسعود احمد خان صاحب ابن حضرت نواب محمد علی خان صاحب کا نکاح صاحبزادی طیبہ بیگم صاحبہ بنت حضرت ڈاکٹر میر محمد معیل صاحب کے ساتھ بعوض پندرہ ہزار مہ پیر مہر یہ - 2 اس سال ۲۹ جنوری دو کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے محلہ دار العلوم میں ڈاکٹر احمد دین سنگ بنیاد صاحب آفت ٹانگانیکا کے مکان کی اور در مارچ م کو محلہ در ادبیات میں ڈاکٹر جم مایع صاحب ویٹرنری اسسٹنٹ کے مکان کی بنیاد رکھی.تے مسجد فضل لنڈن میں یہ رجوری شتش در کو سجد احمدیہ لندن میں سر فیروز خان نون کے سی آئی اس کائی مذاہب کانفرنس کمشنر ف انڈیا کے زیرصدارت ایک مذہبی کانفرنس منعقد ہوئی ہیں ہی اسلام عیسائیت اور یہودیت کے نمائندوں نے معزہ اور تعلیم یافتہ انگریزوں کے ه الفضل ۱۸ را پریل ۳۹اء صلا کالم عطا ہے ہے : له الفضل ١٣ متى شاء من ٢ - الفضل سر بخوری سردست ہے مفصل خطبه الفضل سرمئی اور جس پر شائع شده ه الفضل امار جنوری کارد ها کالم نہ بنے - - الفضل در مارچ ۱۹۳۷ رد صلا کالم دا ہے صیت B i

Page 669

414 ایک بہت بڑے مجمع میں امن عالم کے موضوع پر مقالے پڑھے.اسلام کی نمائندگی مولوی جلال الدین صاحب شتن امام مسجد الندان نے فرمائی اور امن عالم اور اسلام کے موضوع پر ایک پر مغز مقالہ پڑھائیے اس کا نفرنس کا ذکر دلایت اور ہندوستان کے مقتدر اور با اثر اخبارات نے بھی کیا.اور بعض نے تقریر وں کی تفصیل شائع کی ہے سید محمد غوت تا حضرت خلیفہ ایسیح الثانی نے اور اپریل کو کو سیٹھ محمد فوت صاحب حیدر آباد دکن ؟ ء غوث ی دختراسته الحفظ بیگم صاحبہ کا نکاح چودھری خلیل احمد صا حب نا مربی - مجاہد تحریک جدید کی دختر کا نکاح کی سے پڑھا.اور خطبہ نکاح میں ادث در فرمایا - کو سیٹھ محمد غوث صاحب پرانے احمدی ہیں.ان کے تعلقات میرے ساتھ نہایت مخلصانہ ہیں.ان کے بچوں کے تعلقات بھی بہت اخلاص پر مبنی ہیں.ان کی بچیوں کے تعلقات میری بچیوں سے نہایت گہرے ہیں.غرض ان کے تعلقات ہمارے خاندان سے ایسے ہیں کہ گویا وہ ہمارے ہی خاندان کا حصہ ہیں.ان کی بچیوں کو میں اپنی بچیاں سمجھتا ہوں.اس لئے نکاح گویا ہمارے ہی خاندان میں ہے.کے قادیان میں روسی ترک عالم مولی بالا و یا ایا اور میں اسلام کے دو شہر عام قادیان کی شہرت شنکہ مرکز احمدیت میں تشریف لائے.اور الاستاذ عبد العزیز ادیب وسط ا - حاجی موسی جار الله - ہے می رابطہ اسلامیہ کی تشریف آوری است اداری اور میرا انها الا الامین داشت - العزیز ماہنامه رابطه علامہ موسی جار اللہ نہ صرف قادیان کے مقامی اداروں اور بالخصوص مرکزی لائبریری میں نایاب کتابیں کھکر بہت خوش ہو گئے.بلکہ آپ پر جماعت احمدیہ کے عقائد علما کا بھی گہرا اثر ہوا.جس کا پتہ اسے چلتا ہے کہ آپ نے تین سال بعد فروری ہو میں کتاب حروف اوائل النور" شائع فرمائی جسمی آیت وآخرين منهم ر الجمعو ع ) کی یہ تفسیر لکھی کہ :- ۳-۱ - مقال کا ترجمه ریویو آف ریلیجنز اردو اگست شاء الام قلات میں موجود ہے : الحکم ۲۱ را پریل شت ده ست کالم ستا ہے کے سید میر احمد جفری جیسے مایہ نانا در مورخ نے آپ کو ه ایک روسی عالم قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ علامہ موسی جار الشور و سی ان ارباب فضل و کمال اصحاب زہد و تقوی اسند نشان هم و فضل میں سے تھے جن پر نہ صرف روس کو بلکہ عالم اسلام و ناز تھا.دید و شنید ما مولفه رئیس احمد جعفری ناشر کتاب منزل کشمیری بازار را چند بار اقل شش کر رہا ہے - الفصل ۲ اپریل ۳ :

Page 670

۶۲۰ " وَمَعْنَى هَذِهِ الْآيَةِ الكَرِيمَةِ الثَّالِثَةِ هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنَ الأمين وبعثَ فِي أَخَرِينَ رُسُلًا مِنْ آخِرِينَ فَكُلُّ أُمَّةٍ لَهَا رَسُولُ مِنْ نَفْسِهَا وَهُؤلاء الرسل هُمْ رُسُلُ الإِسلام في الأُمَمِ.مِثْلُ انْبِيَاء بَنِي إِسْرَائِيلَ هُمْ رُسُلُ التَّوْرَاتِه فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ له یعنی اس تیسری آیت کہ میہ کے معنے یہ ہیں کہ وہ خدا جس سی امتیوں میں سے رسول بھیجا.آخرین میں سے بھی اپنے پیغمبر مبعوث فرمائے گا.کیونکہ ہرات کے رسول اس میں سے بہ پا ہوتے ہیں.اور یہ رسول جن کی یہاں پیش گوئی کی گئی ہے وہ اسلام کے رسول ہیں جو امت مسلمہ میں مبعوث ہوں گے.جیسا کہ بنی اسرائیل کے انبیاء تھے.جو بنی اسرائیل میں قیام تورات کی خاطر بھیجے گئے تھے.این طرح علامہ موسی جار اللہ نے اس کتاب کے صفحہ ۱۲۱ پر جماعت احمدیہ کے نظریہ معراج کی تائید کرتے ہوئے لکھا:.كل ذلِكَ فِي الْوَاقِعَةِ فِي الْيَقْظَةِ فِي عَالَمِ الْمَثَالِ فِي أُوسَعِ عَالَةٍ مِّنْ عَوَالِمِ اللهِ يَقُولُ الصُّونِيَّةُ فِي تَحْقِيقِ الْمِعْرَاحِ تَجَسَدَتْ كَمَا لَاتُهُ الْإِنْسَانِيَةُ عَلَى شكل بدنه وَتَجَتَدَتْ كَمَا لَاتُهُ الرُّوحِيَةُ الْحَيويَّةُ عَلَى شَكْلِ الْبُرَاتِ فَكَانَ كُل ما كان فِي الْيَقظَةِ وَاقِعَةً وَاعْظَمُ مَا كَانَ هُوَ مِعْرَاجُهُ الرُّوحَانِي فَإِنَّ طَى الْمَسَافَة شَيء سَهُلَ طَبْعِى قَدْ وَقَعَ لِأَخْرَادٍ - أَمَّا قَطْعُ كُلّ دَرَجَاتِ النُّبُوَة : كل مدارِج الكَمَالَاتِ الإِنسَانِيَّةِ وَالْمَلَكِيَّةِ فِي زَمَن يَسِيرِ فَلَمْ يَكُن إلا يصاحِبِ الْقُرْآنِ الْكَرِيمِ تَقَدَّمَ فِيهِ النَّبِيُّ نَبِيُّ الْإِسْلَامِ عَلَى كُلِ أَنْبِيَاءِ كل الأمم وَأَمَّهُمْ فِي الصَّلوة وَقَامَ فِي الْوَسْطِ مُتَقَابِلِينَ كُلِّ تَرَى جَهَ الأخير وكَانَ الْإِسْرَاهُ تَمْثِيْلًا لِمَا سَيَقَعُ فِي مُسْتَقْبَلِ الأَيَّامِ مِنْ اجْتِمَاعِ كُلِ الأَمَم تحت لواء نبي الْإِسْلَامِ وَ رَسُولِ السَّلَامِ " ترجمہ : یعنی اسراء کا پورا واقعہ بیداری میں اللہ تعالی کے پیدا کردہ جہانوں میں رہے وسیع مثالی جہات میں ہوا.صوفیاء کرام کی معراج کے بارے میں یہ تحقیق ہے.کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انسانی کمالات ضور کے بدن کی صورت میں اور روحانی کمالات براق کی شکل میں تجسیم ہوئے.اور یہ سارا واقعہ بیداری کتاب فی حروف اوائل السور ناشری مورد بیت الحکمه، فروری ۲۲ مرد مل ب ته - ایضا ص ۱۲ به 1

Page 671

۶۲۱ یں ہوا.اور اہم ترین بات یہ ہے کہ حضور کا یہ معراج روحانی تھا.کیو نکہ مسافت کا طے کرنا نہایت ہی آسان بات اور کئی افراد کا تجربہ شدہ امر ہے.لیکن جملہ مقامات نبوت کا طے کر لینا اور سب انسانی کمالات کا تھوڑے سے عرصہ مین پالیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سواکسی اور کو حاصل نہیں ہو سکا حضور مسام استوں کے انبیاء پر سبقت لے گئے اور نماز میں ان کے امام بنے اور وسط میں اس طور پر کھڑے ہوتے کہ اُن میں سے ہر ایک دوسرے کا چہرہ دیکھ سکتا تھا.تمثیل اسراء کے ذریعہ سے مستقبل میں پیش آنیوالے واقعات سب بتا دئے گئے.اور خبر دی گئی کہ دنیا کی مام قومی بالا خرنبی کریم صلی الہ علیہ والہ وسلم کے پرچم تھے مجھے ہو جائیں گی.لاہور ہائیکورٹ کے چیف ٹس اور ہائیکورٹ کے جیف سیشی سر جان ڈگلس رنگ جو پنجاب سکاؤٹس کے ہائی کمشنر بھی تھے.پنجاب کا دورہ کرتے ہوئے * کا قادیان میں رود برای را پریل داد کو قادیان تشریف لائے.حضرت خلیفتہ السیح الثانی سنانے صاحب تو صوفہ سے چودھری ظفر اللہ خاں صاحب کی کونٹی بیت الظفر میں ملاقات فرمائی.اس موقع پر چوہدری محمد ظفراله خان صاحب کی قائم مقامی میں چودھری اسد اللہ خان صاحب بیرسٹرایٹ لاء نے ضیافت کا انتظام کیا.جس میں حضرت خلیفہ مسیح الثانی نے بھی شرکت فرمائی.صاحب موصوف قادیان کے بعض مقامات اور ادارہ دیکھنے کے بعد اسی روزہ دو بجے بعد دو پر واپس تشریف ے گئے.لے علامه موی اراده الاستاذ عبد العزیز اور تین جسم کے ا ا و و و و شتی یا سال ایران کی جوانی آمد و در میون کی ت میں آئیں ان میں ترکی کے مشہور ہوا بار لیفٹنٹ سیف الدین ہے اور ترکی فوج کے محمد سلیم ہے بھی تھے.بود در نومبر د کو قادیان تشریف لائے.سے نومبر کی شام کو حضرت خلیفہ مسیح الثانی نے ان مہمانوں کو دعوت طعام دی - سے مبلغین احمدیت کی بیرونی ممالک اس سال مون ناشیخ مبارک احد صاحب سه جوان را وارد کو عازم مشرقی افریقہ ہوئے ہیں.اور شیخ عبدالی صد سامب فاضل مربع کو روانگی اور مراجعت اگر این تعیلی فرائض بنانے کے بعد ہر بار ان کا تشدد کو اور یانگ کانگ اور 1414 : له الفضل ۱۲ اپریل ۳ راه ما به له الفضل نومبر ما کالم عن بن الفضل میں نور مهتاب ر - الفصل ۱۲ فروری ۱۹۳۶ صحت کالم عيد - الفضل در مارچ سال اردو میلے کالم سے ہے

Page 672

۶۲۲ مولوی رحمت علی صاحب مجاہد جاوا اور دسمبر دو کو واپس تشریف لائے.سلے..پریذیڈنٹ بیرونی مشینوں کے بعض اہم واقعا - ماریشم من اماز اند برایم اما تا بینین نٹ بجماعت اسد نیه ماریشی حج بیت اللہ شریف سے مشرف ہونے کے بعد سر فروری شیر کو قادیان میں تشریف لائے.اور برکات مرکز سے فیضیاب ہونے کے بعد شروع پانچ ستور میں ڈاکٹر حمد حسان صاحب کو جو قبل ازیں ایک عرصہ تک ماریسی ی ی ی ی ی طور پر تین احمدی کا فریضہ کامیابی کر جاتے رہے تھے ، اپنے ہمراہ لیکر ماریشس کیلئے روانہ ہو گئے.وہاں پہنچ کر ڈاکٹر صاحب کے سپرد پورٹ لوئیس کی بندرگاہ پر درس و تدریس اور دیگر تبلیغی کام کئے گئے.اسی اثنا میں آپ کو اپنے والد حکیم مہربان علی صاحب کے انتقال پر ملال کی اطلاع پہنچی.اور آپ کو مجبوراً اپنے وطن واپس آنا پڑا ہے جماعت احمدیہ ماریشیس نے آپ کی روانگی پر ایڈریس پیش کیا جس میں اپنے جذبات د تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا :- "جناب ڈاکٹر صاحب آپ نے تبلیغ کا حق اداکر دیا.چھوٹے بڑے ہندو، سکھ اسلم وغیرہ سے ملاقاتیں کر کے آپ نے اپنا ستی ادا کیا.اسکے علاوہ جس سے آپ آئے ہیں.آپنے پر کئی میں جمعہ کی نماز پڑھائی ہے.ان تمام کاموں میں جو اور زیادہ قابل تحسین ہے وہ یہ کہ آپ اپنی گرہ سے کرایہ خرچ کر کے تبہ پڑھانے کے لئے جاتے رہے.نیز ہم مسنون ہیں کہ آپ نے خدام الاحمدیہ کے نمبروں میں ایک نئی روح پھونک دی اور اپنے فرائض کے آگاہ کیا.جماعت احمدیہ ماریشیس آپکی مساعی تبیلہ پر آپ کو مبارکباد دیتی ہے.ے ایک غیر امدی عالم موی عبدالعلیم صاحب میریٹی نے ماریشس میں احمدیت کے خلاف بہت بدزبانی کی اور کہا کہ میں نے ہندوستان میں ڈاکٹر سرمحمد اقبال اور الیاس برنی سے مل کر احمدیت مٹا ڈالی ہے اور اب کوئی شخص اس جماعت میں داخل نہیں ہوتا.اور اُن کا خلیفہ (معاذاللہ ہوتا پھرتا ہے.مولوی صاحب کی تعلمیاں دیکھ کر ان کے ایک مالدار ذی اثر عقیدتمند نے ایک جلسہ اور جلوس کا انتظام کیا جس میں گورنر کو بھی دعوت دی.مگر جب سارے انتظامات مکمل ہو گئے تو جوس کی روانگی سے چند منٹ پہلے خبر آگئی کہ جلسہ کا بانی مبانی ملک عدم کو روانہ ہوچکا ہے.اس پر - له الفضل ۲۰ فروری اور صحت کالم : الفضل مبر - صبا کالم : کی ولادت در اکتوری تنش در مقام مادھورا ضلع انبالہ - ڈاکٹر صاحب پہلی بار غائبا نہ میں انیس تشریف لے گئے جہاں آپ پنے بھی فرائض اداکرنے کے عادہ حضرت صوفی غلام محمد صاحب اور حضرت مولوی عبیداللہ صاحب ہاتھ بٹاتے آپ انداز این سال تک تبلیغ دتربیت کا کام بھی کرتے رہے.اور د ر ا پریل شارہ کو واپس ہندوستان آگئے نے شهر تاریخ دالیسی - ار تحول شده و + ہے.انگریزی سے ترجمود الفضل دراگست سے کام کیا ہے.4

Page 673

۶۲۳ ام وای وای لیموں کے رت امیرالمومنین کے متعلق کذب بیانی کی تھی خداتعالی کی طرہ ہے ان کے کمیت تمام مجمع کو رلایا گیا.جو ماریشیس میں احمدیت کی صداقت کا ایک واضح نشان تھا.جاوا میشن:.اس سال سے احمدیت کا بت (جاوا) اور ارد گرد کے دیہات میں بڑی تیزی سے ترقی کرنے لگی.خاص طور پر نقش بندی فرقہ کے متعدد لوگ داخل احدمیت ہوئے جن کے ذریعہ مبلغ حیاد امولوی عبدالواحد صاحب سماٹری کو معلوم ہجرا کہ مقبول مشائخ اہل طریقہ سلطان الاولیاء حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمت اللہ علیہ نے اپنے مریدوں کو ۲۰ مراقبے بطور وصیت لکھ کر دیتے ہیں جن کو یاد کر نے اور ہمیشہ اپنے پاس رکھنے کی تاکید کر گئے.پھر انہوں نے وہ تمام مراقبے تفصیل کے ساتھ بتا دیئے.تیرھواں مراقبہ یہ بیان کیا کہ: المَرَاقَبَةُ الْمَحْبُوبِيَّةُ الثَّانِيَّةُ وَهِيَ حَقيقَةُ المُحمَّدِيَّةِ - اور اس کی دلیل میں وَمَا مُحَمَّدُ إِلا رَسُول والی قرآنی آیت لکھی ہے.اور چودھواں مراقبہ الا راقبة المحبودِيَّةُ الصورية وَهِيَ حقيقة الاحمدية ہے.اور اس کی دلیل مین رمش ابر سُولٍ يَأْتِي اور أبرسُولِ ين ابحيائى اسمه أحمد والی قرآنی آیت لکھی ہے.جب وہ تمام مراقبے بیان کر چکے.تو مونونی عبد الواحد صاحب نے ان سے کہا.کہ آپ تمام انسان اہل طریقہ کو ہماری مسجد میں جمع کریں کہیں ران مراقبوں سے احمدیت کی صداقت واضح کروں گا.چنانچہ تمام اہل طریقہ مسجد احمد یہ میں جمع ہوئے اور مولوی صاحب موصوف نے تین گھنٹہ تک بذریعہ لیکچران مراقبوں کی تشریح کی.اور ان کی روشنی میں احمدیت کی صداقت کو بیان کیا اور بتایا کہ کوئی شخص طریقہ المحمدیہ پر چلنے کا دعوی نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ وفات مسیح کا قائل نہ ہو.کیونکہ اس مراقبہ کی دلیل وَمَا عَمَّدَ إِلا رَسُولُ، قَدْ خَلَتْ مِنْ قبله الرسل، بتائی گئی ہے.جس میں بلا استثناء آنحضرت صلی الہ علیہ وآلہ سلم سے قبل تمام انبیاء کے فوت ہونے کی خبر دی گئی ہے.اور اس مراقبہ کو نمبر پر رکھ کر تیرھویں صدی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جبکہ حیات مسیح کا عقیدہ مسلمانوں کی گمراہی کا خصوصیت سے موجب ہوگا.پھر اس گمراہی سے بچنے کے لئے چود حوال مراقبہ وہ رکھا جس کا نام الطريقة الاحمدية ہے اور اس میں بتایا کہ چودھویں صد کہ میں ایک غیر تشریعی نبی احمد (علیہ سلام مبعوث ہوگا.جو لوگوں کی اصلاح کریگا.کیونکہ مراقبہ کی صداقت میں آیت ہم شیر پر سُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ الحمد کو پیش کیا گیا ہے.شه الفضل ۶ رنگست ۹۳۹ رصہ کالم ت ہے

Page 674

غرض مولوی عبدالواحد صاحب نے بالترتیب تمام مراقبوں سے سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت واضح کی.اس وقت قریبا چار پانچ صد اصحاب کا مجمع تھا.تقریر کے اختتام پر ۲۵ اشخاص نے بہ جیت کی.اور اسکے بعد ہر جمعہ کو تین چانہ آدمی اس فرقہ کے داخل سلسلہ ہونے لگے.نے.گارت کے علاوہ وسطی جہاد میں بھی احمدیت کی ترقی ہوئی اور مجاہد تحریک جدید شاہ محمد صاحب کے ذریعہ پور د کر تو کے مقام پر ایک مخلص بنا عمت کا قیام عمل میں آیا.ہے مغربی افریقہ مشن :- مغربی افریقہ کے احمدی مبلغین نے عہد میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نزلازل سے متعلق پیشگوئیاں بذریعہ اشتہار شائع کی تھیں اندران کو ملک میں بکثرت تقسیم کیا تھا.اس انذار کے کچھ عرصہ بعد وسط مئی 1915ء میں ایک حاجی صاحب مغربی افریقہ میں وارد ہوئے جنہوں نے گاؤں گاؤں چھوکر پراپیگنڈ کیا کہ اگر امام مہدی آگیا ہے تو الہند کیوں نہیں آتا باخدا کی قدرت ۲۲ بودن ۹۳ د کو ساٹھ سے سات بجے شام کو گولڈ کوسٹ میں ایک خوفناک زلزلہ آیا جسے جانی اور مالی لحاظ سے بھاری نقصان ہوا.زلزلہ کے بعد گولڈ کوسٹ کے عیسائیوں بلکہ مشرکوں کو بھی اقرار کر نا پڑا کہ جماعت احمدیہ نے قبل از وقت بذریعہ اشتہار زار ہے کی خبر دی تھی اور عوام کو احد یہ لٹریچر سے خاص طور پر دیسپی پیدا ہو گئی.کہ امریکی مشن - صوفی مطیع الرحمن صاحب بنگالی ایم.اے نے کنساس کا تبلیغی دورہ کیا.اس شہر یں اور مٹی سے ۱۳ جون شاء تک روزانہ لیکچر ہوئے جو غیر مسلموں میں بھی بہت مقبول ہوئے.کے مصر میشن : - (1) مصر میں ایک عرصہ سے احدیت کی نسبت نبود اور تعطل کی سی کیفیت جاری تھی.کہ اس سال ایک ایسا واقعہ پیش آیا اسکی وجوہست، مصری پریس نے احمدیوں کی مخالفت یا موافقت میں لکھنا شروع کر دیا ہے واقعہ یہ ہوا کہ ان دنوں البانوی طالب علم ہین کا تعلق فریق لاہور سے تھا ، الازہر میں داخل تھے دودران تعلیم انہوں نے تَعَالَيْمُ الأَحْمَدِيَّةِ اور الأَحْمَدِيَّة كَمَا عَرَفْنَا هَا" کے نام سے دو رسانے شائع کردے میں پیشی امیرمحمد مصطفی الراعی نے احمدیوں سے متعلق ایک تحقیقاتی کمیٹی مقر کردی کی صدر شیخ عبد المجيد اللبان تعمیر کلیہ اصول دین قرار پائے.اور شیخ ابراہیم الجبالی، شیخ محمد فتاح المنان، ماه روز نامی به قتل ۱۳ اگست ۱۳ اور جنت کانم ۳۴ : سے افضل ۴ را پریل ۹۳۶ صدا کام ملتا ہے الفضل د را گست ۹۳۶ ده مدا کام - مولوی نذیر احمد صاحب بیشر کے قلم سے اس واقعہ کی تفصیل بریان راستی اسولف مولوی عبد الرحمن صاحب متشر فاضل کے ۱۳۷۰ تا من پر بھی درج ہے ہے ه الفضل د را گست هست : ه الفضل ۲۸ اکتوبر مادر ملت ہے !

Page 675

۶۲۵ شیخ محمود آئی اور شیخ محمدالحد دی.یہ چار علماء رکن مقرر ہوئے.یہ اطلاع ہندوستان میں پہنچی تو پروفیسر حمد الیاس برنی صاحب صدر شعبہ معاشیات جامو عثمانیہ حیدر آباد دکن نے کمیٹی کے علماء کے علاوہ اخبار الفتح کے مالک و مدیر سید محب الدین الخلیہ سے رابطہ قائم کر کے احمدیت کے خلاف مواد عربی میں ترجمہ کر کے بھیجا.نتیجہ یہ ہوا.کہ مصری اخبارات (الفتح - الدستور ) میں احمدیت کے خلاف بحث چل نکلی تحقیقاتی کمیٹی رنجتہ الحقیق نے کیا فتوی صادر فرمایا ؟ اس کی نسبت پر و فیسر محمد الیاس برنی صاحب تحریر کرتے ہیں :- الانہ اتحقیق نے ہر طرح خوب تحقیق کی.اور حقیقی پختہ ہو جانے پر دونوں قادیانی البانوی طلبہ کو کلیرا مول دین سے خارج کر دیا کہ سلمانوں کے سوا اور کوئی اس کلیتہ میں تعلیم نہیں پاسکتے.اس فیصلہ کے بہت جلد بجد شیخ انداز ہرمحمد مصطفی اس دنیا سے رخصت ہو گئے.- احمد افندی علی جو جماعت احمدیہ مصر کے ابتدائی مخلف ارکان میں سے تھے اور سنت میں داخل احدیت ہوئے تھے خلیفہ وقت کی زیارت کے لئے ہر راگست شہد کو قاہرہ سے قادیان تشریف لائے کیے اور حضرت خلیفہ المسیح الثانی اور دستر بزرگان سلسلہ سے ملاقات کرنے اور مرکز احدیت کی فیوض سے متمتع ہونے کے بعد ۲۶ اگست شادو کو عازم مصر ہو گئے.احمد علی کا یہ سفران کے اندر ایک تغیر عظیم پیدا کرنیکا موجب ہو ا.اور وہ جماعتی کاموں میں پہلے سے بھی زیادہ دلچسپی لینے لگے.ان کی والدہ ایک اعلی پایہ کی تعلیم انتخاتون تھیں اور ہمیشہ احمدی مبلغوں کے ساتھ بحث و مباحثہ کرتی رہتی تھیں.مگر اب صرف ان کے اندر غیر معمولی تبدیلی دیکھیکہ کسی بحث و مباحثہ کے بغیر از خود داخل احمدیت ہو گئیں.ہے فلسطین میشن:.اس سال فلسطین کے دہشت انگیزوں (نوار) نے بعض فلسطینی احمدیوں کے قتل کا فتوی جاری کر دیا.مگر چند ایام ہی گزرے تھے کہ ان ظالموں کا لیڈر قتل کر دیا گیا.شے د میں خلافت جوابی کے باعث متعد دنٹی علمی کتا بیں شائع کی گئیں ۱۹۳۹ء کی تنی مطبوعات جن سے احمدیہ لٹریچر میں شاندار اضافہ ہوا.اس سالی کی رہے نمایاں کتاب سلسلہ احمدیہ تھی جو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحت نے تصنیف فرمائی جس میں آپ نے اختصار مگر نہایت جامعیت سے سلسلہ احمدیہ کی پچاس سالہ تاریخ کے علاوہ اسکے الفضل دراگ با کالم را که الفضل ۲۹ را سرد را کالم مرا ے رپورٹ سالانه صیغه جات صدر انجمن احمدیه - از یکم مئی و در نهایت ۳۰ ر ا پریل شارد تا به ه الفضل ۲۸ اکتوبر ۳ اره ملت ملخصاً بن ہے

Page 676

۶۲۶ مخصوص عقائد اور اس کی غرض وغایت پرست معلومات کا ایک بیش بہا ذخیرہ جمع کر دیا.اس اہم تصنیف نے جماعت کی ایک بہت بڑی ضرورت کو پورا کیا.خصوصا غیر احمدی اور غیرمسلم محققین اور نو اصدیوں اور نو عمر پیدائشی احمدیوں کو تحریک احمدیت سے روشناس کرانے میں بہت مفید ثابت ہوئی.سلسلہ احمدیہ کے علاوہ 1999ء میں مندرجہ ذیل کتب بھی شائع ہوئیں : خلافت حقه و تصنیف لطیف حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب ).(۳) فضل عمر کے زریں کا رنا ہے و مؤلفه مولوی ظفر اسلام صاحت) - (۱۳) فصل عمرد انگریزی مؤلفه صوفی عبد القدیر صاحب سابق مبلغ جاپان) دام اسیرت سید الانبیاء از مولوی عبد القادر صاحب فاضل نومسلم (سابق سوداگری ) - (۵) انخطبات النکاح جلد اول - جلد دوم رسید نا حضرت خلیفتہ البیع الثانی کے روح پرور خطبات مرتبه ملک فضل حسین مهنا ) " خطبات عیدین جلد اول اسید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے ایمان افروز خطبات مرتبه ملک فضل حسین صاحب) تمدن اسلام " (ملک محمدعبداللہ صاحب فاضل) - (۸) انتشارات رمانیه جلداول مرتبه مولوی عبیدار من منا میری (۹) ایک عزیز کے نام خط از چندی خوف راشد خانصاحب حدیده ام انگریزی شائع کرده تحریک جدید قادیانی ا خلیل احمد مولف مولوی محمد الخیل صاحب فاضل دیاں گڑھی ) - (۱۳) حفاظت ریش حضرت میرمحمد امین مصاب) ۱۳ تا ثرات قادیان مولفه ملک فضل حسین منا) - (۱۳) شایان اسلام کی رواداریاں مولفہ باب فضل حسین منایا.(۱۵) نجات المسلمین - (۱۶) تفسیر سوره کوثر (پمفلٹ مرتبہ مولانا ابو العطا وصاحب ) - (۱۷) احمدیت کی پہلی کتاب مولف مارمحمد شفیع صاحب السم سابق امیرالمجاہدین علاقہ ملکانه - (۱۸) ٹریکٹ آسمانی دوانزه د مرتبه مولوی عبد الرحمن صاحب میٹر.اخبلات ورسائل کے خاص نمبر بندہ بلا شریک کے علاوہ مرکی حدیت سے نکلنے والے جملہ لٹریچر اختیارات در سائل نے بلکہ رسالہ نینیز ایا منگو مشرقی افریقہ) نے بھی خلافت جو بلی کی خوشی میں نہایت قیمتی مضامین پر تمل نمبر شائع کئے.جن سے سلسلہ احمدیہ کی ترقیات اور خلافت کی برکات و فتوحات کا نہایت دلکش نقشہ اپنوں اور بیگانوں کی آنکھوں کے سامنے آگیا.اس سال مندرجہ ذیل مقامات پر اہم مناظرے ہوئے جنہیں خدا اعلائے کے فضل سے احمدیہ علم کلام کو فتح نصیب ہوئی.۱- مباحثہ پو نچھ.9 اپریل اور کو پونچھ میں صدیوں اور اہل حدیث کا مسئلہ وفات سیتے تھے - : ہے.اس ٹریکٹ کا اردو کے علاوہ انگریزی، سندھی اور بنگالی میں بھی تم جمہ کیا گیا.

Page 677

ایک مناظرہ ہوا.جماعت احمدیہ کی طرف سے مولوی محمد حسین صاحب مبلغ تھے اور غیر احمدیوں کی طرف سے مولوی محمد بخش صاحب - غیر احمدی اور غیر مسلم شرفاء نے مولوی محمد بخش صاحب کی شکست کا اعتراف کیا ہے نہ مباحثہ ڈیریوالد : - ۱۲ ر اپریل مرد کو مولوی غلام احمد صاحب ارشد نے موضع ڈیر یو اللہ ضلع گورداسپور میں ایک اسراری مولوی صاحب (محمد حیات نامی سے ختم نبوت اور صداقت مسیح موعود پر مناظرہ کیا.احمدی مناظر کے پیش کردہ دلائل فریق ثانی آخر تک نہ توڑ سکا.تے به مباحثه انبالہ : ۲۹ رمئی ۱۳۶ درد کو مولوی ابوالعطاء صاحہ نے پادری عبدالحق صاحب سے مسجد احمد یہ انبالہ میں مناظرہ کیا.آپ نے دوران بحث بائیبل سے حضرت مسیح علیہ السلام کی صلیبی موت کے عینی گواہوں کا مطالبہ کیا.اور بائیبل سے حضرت مسیح کی صلیبی موت سے نجات اور کفارہ کی عدم ضرورت پر اس قدر عقلی محالات دارد کئے کہ پادری صاحب پوری بحث میں صرف چند سطحی باتوں میں محصور ہو کر رہ گئے.ایک غیر احدی دوست نے اس مباحثہ کی نسبت یہ رائے قائم کی.کہ پادری عبدالحق صاحب مولوی البو العطار صاحب کے مطالبہ عینی گواہاں برصلیبی موت مسیح کو آخر وقت تک پورا نہ کر سکا.اور دیگر سوالات کا بھی معقول جواب نہ دے سکا اسلئے کامیابی کا سہرا مولودی ابو العطاء اللہ دتا صاحب کے سر بندھان سے م - مباحثہ لودھراں:.قریش محمد نذیر صاحب عثمانی نے ۱۸ اگست شہداء کو احرار کا نفرنس لودھراں کے موقع پر غیر احمدی علماء سے دو گھنٹے تک متبادلہ خیالات کیا جس میں غیر احمدی علماء کی طرف سے بہت بد تہذیبی کا مظاہرہ کیا گیا.اور کئی غیر احمدی معززین نے اس بات کا عین مجمع میں اقرار کیا کہ احمدی نہایت شرافت سے گفتگو کرتے ہیں.مناظرہ کے خاتمہ پر ایک سرکاری افسر نے احتداری علماء کی نسبت کہا کہ ان لوگوں نے آج اسلام کو بہت بدنام کیا ہے.اور بہت گندی باتیں منہ سے نکالی ہیں.یہ لوگ ہماری مستورات کی موجودگی میں ناشائستہ حرکات کرتے رہے.کیا ہم ان سے یہ اسلام سیکھنے آئے تھے.ہمارے لئے احمدی جماعت ہی قابل عزت ہے.اور ہم ایسے علماء پر احمدیوں کو ترجیح دیتے ہیں.ایک احراری مولوی صاحب کے یہ کہنے پر کہ ابتداء احمدیوں نے کی ہے صاحب موصوف نے کہا کہ ہر گز نہیں ابتداء اور انجام سب تمہاری طرف سے ہوا.کے ے.الفضل ۲۰ اپریل ۳ ا حت کالم ۳ مٹ : - العضل ۱۶ را پریل ۱۹۳۹ م ص کالم : ه - الفضل ورجون الرومٹ کالم سا ہے ہے.الفضل در تمبر ی امت نے ف ملا ٣

Page 678

۶۲۸ مباحثہ منڈی ملوٹ (ضلع فیروز پور) ۲۸-۲۹ ستمبر کو مولوی ابوالعطاء صاح بے سائیں لال حسین صاحب اختر سے تینوں اختلافی (وفات مسیح اسئله نبوت اور صداقت مسیح موعودی) مسائل پر مناظرہ کیا.مناظرہ کے دوران غیر احمدی مناظر اور صدر نے گالیاں دینے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا بھی کہ ہندوؤں نے بآواز بلند کہا.کہ غیر احدی مولوی گالیوں پر اتر آئے ہیں آپ ان کی گالیوں کا جواب کیوں نہیں دیتے ؟ اگر احمدی مناظر نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم کے عین مطابق آخر وقت تک متانت و شائستگی سے بحث جاری رکھی.لے 2ء میں بہت سے افراد داخل احمدیت ہوئے.خصوصا جلسہ خلافت جوبلی کے نئے مبائعین موقعہ پر سینکڑوں اصحاب حضرت خلیفہ المسیح الثانی بن کے دست مبارک پر بعیت کر کے سلسلہ احمدیہ سے وابستہ ہو ئے.جو حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی قوت قدسی اور روحانی جذب کشش کا واضح نتیجہ اور سلسلہ احمدیہ کی حقانیت کا بھاری ثبوت تھا بے فصل ۱۹۳۹ 19ء میں سلسلہ احمدیہ سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے قیام خلافت ثانیہ کے بالکل ابتدائی ایام میں دجبکہ انجین کا خزانہ خالی تھا.اور منکرین خلافت نظام کا مرکزی نظام خلافت کو صفحہ ہستی سے مٹانے پر تلے ہوئے تھے اور اپریل کا شد کو پیش گوئی فرمائی تھی کہ : " خدا ہی کے حضور سے سب کچھ آویگا.میرا خدا قادر ہے جس نے یہ کام میرے سپرد کیا ہے.وہی مجھے اس سے عہدہ برآ ہونے کی توفیق اور طاقت دیگا.کیونکہ ساری طاقتوں کا مالک تو وہ آپ ہی ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اس مقصد کے لئے بہت روپیہ کی ضرورت ہے بہت آدمیوں کی ضرورت ہے.مگر اُس کے خزانوں میں کس چیز کی کمی ہے ؟ کیا اس نے به الفضل ۲۴ اکتوبر و مت ١٩٣ فہرست کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۱۳ار فروری مرمت - ۱۵ر فروری ۱۲ اور ۲ - ۲۳ فروری ۱۹۲ ، صحت بنے

Page 679

۶۲۹ پہلے ہم اس کے عجائبات قدرت کے تماشے دیکھ نہیں چلے ، یہ جگہ جی کو کوئی جانتا بھی نہیں تھا اس کے مامور کے باعث دنیا میں شہرت یافتہ ہے اور جس طرح پر خدا نے اسی وعدہ کیا تھا ہزاروں نہیں لکھوں لاکھ روپیہ اس کے کاموں کی تکمیل کے لئے اس نے آپ بھیجد یا اس نے وعدہ کیا تھا - يَنْصَرُكَ رِجَالَ نُوحِي إِلَيْهِم تیری مدد ایسے لوگ کریں گے جن کو ہم خود دمی کریں گے.پس میں جبکہ جانتا ہوں کہ جو کام میرے سپرد ہوا ہے یہ اسی کا کام ہے اور میں نے یہ کام خود اسی طلب نہیں کیا.خدا نے خود دیا ہے.تو وہ انہی رجال کو وحی کرے گا جو مسیح موعود کے وقت وحی کیا کرتا تھا.پس میرے دوستو! اروہ پیر کے معاملہ میں گھرانے اور فکر کرنے کی کوئی بات نہیں.وہ آپ سامان کرے گا.آپ اپنی سعادتمند روحوں کو میرے پاس لائے گا جو ان کاموں میں میری مددگار ہوں گی یہ لے یہ خدائی بشارت خلافت ثانیہ کی پہلی ربع صدی میں انتہائی مخالف حالات کے باوجود جس شان و شوکت سے پوری ہوئی اس کا کسی قدر اندازہ اسے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ سلسلہ احمدیہ کا مرکزی نظام جو ضیافت ثانیہ کے آغاز میں منفر پیمانہ میں بھاری تھا بعد اتعالیٰ کے فضل وکرم سے خلافت ثانیہ کے پہلے پچیس سالہ عہد خلافت میں ہی حیرت انگیز طور پر وسعت پکڑ گیا.جس کا کسی قدر اندازہ شہر کے مرکزی نظام : صدر انجمن حمدیہ اور تحریک جدید) کے مختلف شعبوں پر ایک نظر ڈالنے سے بآسانی ہو سکے گا.میں صدر انجمن حمر یہ قادیان کی ہندوستان میں ۶۸۷ شاخیں موجود تھیں اور اسکی صدر انجمن حمادیہ حسب ذیل مرکزی صیغے قائم تھے - حسب ا نظارت ملیا ہے ناظر علی حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال) نظارت دعوة وتسلیغ به ناظر حضرت مولوی عبد المغنی خال صاحت ) ۲- -- وتر - نظارت تعلیم و تربیت ا را بر این بود مرا این امارات ے منصب خلافت مشت طبع اول ( تقریر حضرت خلیفہ ثانی فرموده ۱۳ را پریل سندر بمقام قادیا ہے.نائب ناظر حضرت خانصاحب منشی برکت علی صاحب - ہیڈ کلرک : - قاضی عبد الرحمن صاحب سپرنٹنڈنٹ درستید محمد اسمعیل صاحب بے سہ - معاون ناظر - مرزا عبد الغنی صاحب انچارج شعبہ نشر و اشاعت و ترقی اسلام : حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب نیران - مہتم نشر و اشاعت: گیانی عباداللہ صاحب و خلیفہ صلاح الدین صاحب (مرحوم) ہیڈ کلر کی پر خلیل احمد صاحب (مرحوم) به سے انسپکٹر نسیم و تر بیت - مولوی قمرالدین صاحب فاضل - سینڈ کر رک نظارت تعلیم و تربیت :- بچوہدری ظہور احمد صاحب نے

Page 680

- نظارت بیت المال به ناظر حضرت خانصاحب مولوی خرنه ند علی صاحب سیکرٹری مجلس کار پرداز بہشتی مقبره : - (حضرت مولانا سید حمد سرور شاہ صاحب ) 4 - نظارت تالیف تصنیف:- ناظر حضرت صاحبزاده مرزا شریف حمامات به نظارت امور خارجه - ناظر حضرت سید زین العابدین ولی الله شاه صاحب) - نظارت امور عامه - د ناظر حضرت سید زین العابدین ولی الله شاه صاحب) - نظارت ضیافت ہے ( ناظر - حضرت میر محمد الحق صاحب ) ۱۰.صفحہ پرائیویٹ سیکرٹری ہے.(ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے ) ۱۱ صیغه محاسب : - (محاسب مرزا محمد شفیع صاحب ریٹائرڈ انسپکٹر ڈاکخانہ جات) ۱۲- صیغہ آوٹیٹر : (افسر چہ پدری برکت علی خاں صاحب ) ۱۳ - صیغه امانت دا فسر خان صاحب منشی برکت علی خان صا حیف شملومی) ۱۴ محکم قضاء : ( انچارج مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل ) قاضی صاحبان حضرت میر محمد الحق صاحب مولانا ارجمند خاں صاحب - مولانا ظہور حسین صاحب حضرت صوفی غلام محد صاحب به مبلغ ماریشیس - مولانا تاج الدین صاحب - مرزا عبدالحق فضایی ، ایل ایل.بی.مرزا برکت علی صاحب - ۱۵ صیغه افتاء : ( انچارج حضرت مولانا سید محد سر در شاه صاحب دوستی سلسلہ حضرت بودن احمد امین صاحب نے ہلال پوری).-14 - نظامت جائیداد ہے.ناظم ملک مولا بخش صاحب نے ریٹائر ڈ کلارک آف کورٹ) نائب ناظر بیت المال : حضرت منشی برکت علی صاحب معاون ناظر بیت المال : - بالجو عبد العزیز صاحب.ہیڈ کلرک بیت المال، منشی عبدالرحیم جناب نومسلم : ہے.بیڈ کا کہ تغارت امور خانه ۱- قریشی رشید احد صاحب ارشد احمدی کینی انڈین ٹیرٹری فورس کے افسر مرزہ اور اور احمد صاحب : سے - معادن ناظرا - شیخ یوسف علی صاحب ہیں.اسے (مرحوم) بیڈ کلرک : منشی کنیم از من صاحب - نگران شعبه مفید : خیال حامد حسین خان صاحب ، نگران شعبه رشته ناطر - باب نقی علی ها انچا موج کا ر خاص : مولوی نذیر احمد صاحب د مشیر قانونی مولوی فضل الدین منارکین : سه پرسنل اسٹنٹ : - حاجی سراج الدین صاحب ریٹائر ڈاسٹیشن ماسٹر ہے ھے.معادن - ملک محمد عبد الله صاحب فاضل بن نه مختار عام :- منشی محمد الدین صاحب ملتانی - افسر تعمیر است: سید سردار حسین صاحب (مرحوم) : جوال رپورٹ سالانہ صدر انجمن احد یه مستند) -

Page 681

۶۳۱ تحریک جدید صدر انجین کے بعد اب ذرا تحریک جدید کی وسعت پر ایک نظر ڈرائے.تاریک تحریک جدید کے مندرجہ ذیل شعبے قائم ہو چکے تھے :- ا دفتر تحریک تجدید :- ( انچارج مولوی عبد الرحمن صاحب انور ) -۲- دفتر فنانشنل سیکرٹری : دفنا نشغل سیکرٹری چوہدری برکت علی خاں صاحب ) ۳- صیغہ امانت جائیداد تحریک جدید دیگری قرالانبیا و حضرت مرزا بشیر احمد صاحب) اور اناج دفتر - مولوی بابو فخر الدین صاحب).-۴- دفتر تجارت -: (حضرت خانصاحب ذوالفقار علی خاں صاحب گوہر ا.بورڈنگ تحریک جدید :- وار ڈرن خانصاحب ڈاکٹر مجد عبد اللہ صاحب.سپرنٹنڈنٹ صوفی غلام محمد صاحب بی.ایس سی) - - دار الصف است : - دنگران - بابو اکبرعلی صاحب ریٹائرڈ انسپکٹر آف در کس )..بورڈنگ دار الصناعت :- دسپر نٹنڈنٹ مولوی محمد عبد اللہ صاحب پورتالوی) سے خلافت ثانیہ کے پہلے خلافت ثانیہ کے قیام کے وقت غیر مبائع اصحاب خزانہ قریباً پچیس سالہ عہد میں اموال کی ترقی خالی چھوڑ کر گئے تھے.کار است کار می شد انجن کی اہانہ آمد تین لاکھ اٹھائیس ہزار دو صد ستاسی تھی.جس کی تفصیل ۲۵ ذیل ہے: با مگر گوشواره آمد ۳۰ ۱۹۳۹ و نظاربیت المال قادیان (باستثناء صیغہ جات تجارتی) مدات بجٹ آمد کمی بیشی چندہ عام چنده مستورات ۹۶۲۸۳۱۰۴۰۰۰ 144A ۲۵۰۰ ہے.الحکم و رد میر شدہ میٹ سے ملنا ہے تو تحریک جدید، خدام الحديقة انصار الله به لجنہ اماءاللہ وغیرہ معظیم الشان تنظیموں کی آمد اس میں شامل نہیں ہے.

Page 682

بیشی T ۱۲۰۴ ! 1 ۶۳۲ مارات بجٹ حصر آمار ۱۲۵۰۰۰ - ۱۳۶۳۵۵ ١٢٣٤٢١٦٠۲۳۱۵ ۵۱۰ ۱۰۷۵۴ q • 10..میزان حصد جائیداد بہشتی مقبرہ اشاعت اسلام جلسه سالانه زكواة صدقات D ۶۱۲۴ ۷۸۳۴ ۵۲۷۹۵ ۶۰۶۲۹ ۲۹۲۶۰ دیگر چندے میزان چند خاصی توسیع مساجد غیره توسیع مساجد) میزان جلد چند تا سه چند خاص ۳۲۷۱۲۹ ۲۹۶۶۸۸ - ۳۰۲۲۱ A.A ۱۹۰۰ l 141 ۱۳۰۵۷ ۱۵۵۴ ۱۵۵ 1416.۳۱۵ 6.4 ۱۰۲۴ ۱۳۳۲ ۳۱۵۹۹ لے واپسی قرضہ گرانٹ سرکاری متفرق میزان آمد صیغه جات ۳۲۸۳۱ میزان کل آمد چنده و آمد صیغه جات - ۳۱۹۷۳ ۳۲۸۲۸۷۳۵۹۹۹۰ ہے.رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمدیه ۹۳ سد مانا

Page 683

۶۳۳ سیدنا حضرت خلیفہ البیع الثانی مادر مادر مرد کو مسند خلافت پر تمکن ہوئے تھے.اور اس طرح ۱۳ مارچ ہو کہ آپ کی خلافت پر..یان کامیاب و کامران مظفر و منصور مبارک مسعود، شاہد و شہود عناصر و معمور خلافت پر پچیس سال کا عرصہ پورا ہو گیا.صداقت اور خدمت کی شان عرصوں اور زمانوں کی قید سے بالا ہے.اور شہید امت سلطان فتح علی ٹیپو رحمتہ اللہ علیہ کے بقول گیڈر کی صد سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی اچھی ہے.ایسے مگر ان پھلپین برسوں کا کیا کہنا میں کے ایک ایک دن کی ایک ایک ساعت اسلام و احدیت کی خدمت ، بنی نوع انسان کی ہمدردی اور حق و صداقت کی اشاعت کے لئے وقف رہی.یہ ایک نہایت مبارک دور تھا.جب کئی پہلے سال جماعت احمدیہ انشقاق و افتراق اور تشتت اور ادبار کی پر خطر اور عمیق وادیوں میں گھری ہوئی پائی گئی.مگر جس کے پچیسویں سال میں وہ عظمت و شوکت کے بلند اور پُر شکوہ مینار تک جا پہنچی.اور یہ سب کامیابیاں ، کامرانیاں اور فتوحات خدا کے فضل اور رحم کیساتھ اس کمزور نحیف اور بیمار انسان کو نصیب ہوئیں.جو خود اپنے ہی بعض ساتھیوں کی نگاہ میں تغیر اور نا چیز کھا جاتا تھا.اور جمہوریت کے دلدادہ مغربیت کے خوگر بھی غیروں میں مقبول ہونی کی خاطر اسے بچہ کہکر اس کا مذاق اڑایا کرتے تھے مگر اس بچہ کے ہاتھوں پر جہاندیدہ اور ہر تجربہ کار کو شکست فاش ہوئی.فرزانے ہار گئے اور دیوانوں کی جیت ہوئی.کوئی دقیقہ اُس کو ناکام بنانے کیلئے اٹھا نہیں رکھا گیا اور کوئی حد نہیں جو اُس کے بڑھتے ہوئے قدم کو روکنے کی خاطر نہیں کیا گیا.مگر جونہی دشمن خدا کے اس بندہ کو شکست دینے کا یقین کر لیتا آسمان سے اس کی فتح کے شادیانے بجا دیے جاتے اور نصرتوں کی فوج اس کی مدد کیلئے اتر آتی.اور یہ اس لئے ہوا تا دنیا کو یقین ہو کہ فضل عمر کی خلافت.خلافت حقہ ہے.جس کا محافظ خود ترکش کا خدا ہے.کوئی نہیں جو ائی کی مقدس قبا پر ہاتھ ڈال سکے.کوئی نہیں جو اس کی تقدیوں کو بدل نے.اور یہی وہ اٹل حقیقت تھی جس کا اعلان حضرت خلیفتہ اسیح الثانی شانے اوائل خلافت میں ہی کر دیا تھا.چنانچہ حضور نے اور مارچ ء کو ایک ٹریکیٹ شائع کیا جس میں تحریر فرمایا : ه تاریخ سلطنت خداداد میسور ۳۳۰ (مؤلفه محمد مینگوری ناشر پبلیشرز یو نائیٹیڈ چوک انار کلی لاہور طبع سوم ) ہے

Page 684

۶۳۴ یں خدا علی قسم کھا کر تا ہو کہ ہم نے بھی انسان سے خلافت کی تمنا ہیں کی اور یہی نہیں بلکہ خدا تعالٰی سے بھی کبھی یہ خواہش نہیں کی کہ وہ مجھے خلیفہ بنائے.یہ اس کا اپنا فعل ہے.یہ میری درخواست نہ تھی.میری درخواست کے بغیر یہ کام میرے سپرد کیا گیا ہے اور یہ خدا تعالیٰ کا فعل ہے کہ اسی اکثروں کی گردنیں میرے سامنے مجھ کا دیں.ہمیں کیونکر تمہاری خاطر خداتعالی کے حکم کو رو کردوں.مجھے اس نے اسی طرح خلیفہ بنایا میں طرح پہلوں کو بنایا تھا.گو میں حیران ہوں کہ میرے جیسا نالائق انسان اسے کو کو پسند آگیا.لیکن جو کچھ بھی ہو اس نے مجھے پسند کر لیا اور اب کوئی انسان اس کرتہ کو مجھ سے نہیں اتار سکتا جو اس نے مجھے پہنایا ہے.یہ خدا کی دین ہے.اور کو نسا انسان ہے جو خدا کے عطیہ کو مجھ سے چھین لے.خدا تعالیٰ میرا مددگار ہو گا نیکی ضعیف ہوں مگر میرا مالک بڑا طاقتور ہے.میں کمزور ہوں مگر میرا آقا بر توانا ہے.میں بلا اسباب ہوں مگر میرا بادشاہ تمام اسبابوں کا خالق ہے.میں بے مددگار ہوں مگر میرا رب فرشتوں کو میری مدد کے لئے نازل فرمائے گا انشاء الشرہ میں بے پناہ ہوں مگر میرا محافظ وہ ہے جس کے ہوتے ہوئے کسی پناہ کی ضرورت نہیں : اے واخرة عُونَا آنِ الْحَمدُ للهِ رَبِّ العلمين.ا خدائے عز وجل کی دی ہوئی توفیق اور محض اُس کے فضل و عنایت سے جماعت احمدیہ کے پہلے پچاس سالہ دور کی تاریخ بخیروخوبی اختام پذیر ہوئی ے.پھلٹ کون ہے جو خدا کے کام کودک سکتے ملت مورخه او را در مطبوع الله بخش سیم پلیس قادیان +

Page 685

۶۳۵ نیمر ۱ - ۱۹۳۰ء کے پہلے وقف زندگی نارم کا نمونہ موجودہ فارم معاہد بے وقعت زندگی کا نمونہ - مجاہدین بیرون ہند کے لئے ضروری ہدایات کی نقل -۴- نقل فارم وقف جائیداد و آمد ۵ - نقل معاهده وقف آمد (صفحه ) و صفحه ۲) ر صفحه (۳) ( صفحه ۵) (#) -4 چو به مکتوب سید نا حضرت خلیفہ اسی الثانی به نام چو ہدری برکت علی صاحب چوبه فنانشل سیکرٹری تحریک جدید ۷.غیر ملکی طلباء کی فہرست.رجسٹر ” روایات صحابہ کے راویوں کی فہرست ۹.قادیان کے صحابہ کی فہرست ۱۰.نمونہ لوائے احمدیت 11.نمونہ لوا کے خدام الاحمدیہ ۱۲ - نمونہ لوائے لجنہ اماء الله (صفحه (۶) صفحه ۸ ( صفحه ۱۰) ( صفحه ۳۴) (صفحه (۵۵) (صفحه(۵۶) ( / )

Page 686

: (ضیاء الاسلام پولیس (نیوه)

Page 687

بِسْمِ الله الرحمن الرحيم خیر تاریخ احمدت خانم تاریخ احمدیت جلد هشتم استاد کے پہلے فارم وقف زندگی کا نمونہ بسم الله الرحمن الرحیم تح و نصلی علی رسولہ الکریم وعلى عبده أمسيح الموعود فارم معاہدہ وقف زندگی میں اپنی ساری زندگی برضاء در رغبت اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل کر نے کے لئے بغیر کسی تقسیم کی شرط کے وقف کرتا ہوں.اور دفتر تحریک جدید سے مندرجہ ذیل عہد کرتا ہوں :- 1.اس عرصہ میں اگر میرے گزارہ کے لئے کوئی رقم مقرر کی جائے گی تو ا سے انعام شمار کرتے ہوئے قبول کروں گا.اور کسی رقم کو بطور اپنے حق کے شمارہ نہیں کروں گا..اس عرصہ میں جو صورت میری ٹریننگ کے لئے دفتر تحریک جدید کی طرف سے تجویزہ کی جائیگی اس کی پورے طور پر پابندی کردوں گا..کسی ادنیٰ سے ادنی کام سے بھی جو میرے لئے تجویز کیا جا دیگا رو گردانی نہ کرونگا.بلکہ نہایت خندہ پیشانی اور اپنی پوری کوشش سے سرانجام دوں گا.-۴- اگر میرے لئے بیرون ہند کوئی کام سپرد کیا جائے تو بخوشی اسے سر انجام دوں گا.- اگر میرے وقف کردہ عرصہ کے اندر دفتر تحریک جدید مجھے علیحدہ کر دے تو اس میں مجھے کوئی اعتراض نہ ہو گا.لیکن مجھے یہ اختیار نہ ہو گا کہ عرصہ معہودہ میں اپنی مرضی سے اپنے آپ کو ان فرائض سے علیحدہ کو سکوں جو میرے سپرد کئے گئے ہوں.4 - جس شخص کے ماتحت تجھے کام کرنے کے لئے کہا جائیگا اسکی کامل تابعداری کروں گا.تاریخ - دستخط نام مکمل پشته

Page 688

تمین نخ احمدیت جواد شیم میرے کو الف حسب ذیل ہیں :- تعلیم دنیوی و دینی - کون کونسی زبانوں سے واقف ہیں اعدان زبانوں کی حریر و تقریرمیں کسی حد تک مہارت ہے ؟ م شادی شدہ ہیں یا بغیر شادی شدہ.۵- کیا اپنے حالات کے ماتحت مستقل طور پر کسی بیرون ہند ملک میں رہائش کر سکتے ہیں ؟ ۶ دیگر متفرق ضروری حلات - نوٹ.نہ انکا امور کو فارم ہذا کی پشت پر بھی درج کیا جا سکتا ہے.-۲- موجودہ فارم معاہدہ وقف زندگی کا نمونہ تحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم اللہ بخش سٹیم پریس قادیان وعلى بعيدة المسيح الموجود قسم اللہ الرحمن الرحیم میں اپنی ساری زندگی برضا و رغبت محض اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے بغیر کسی قسم کی شرط کے وقف کرتا ہوں.(1) میں ہر قسم کی خدمت کو جو میرے لئے تجویز کی جائے گی بغیر کسی معاوضہ کے ان ہدایات کے مطابق بجا لاؤں گا جو میرے لئے تجویز ہوں گی.(۳) میں کسی وقت بھی نظام سلسلہ کے خلاف عملا یا توں کوئی حرکت نہیں کروں گا.بلکہ ہمیشہ حملہ ہدایات مرکزہ یہ کی پابندی کروں گا.اسی طرح نظام وقف تحریک جدید کا بھی پورا احترام کروں گا.اور لفظا اور معنا اس کی اتباع کروں گا.(۳) اگر میرے لئے یا میرے اہل و عیال کے گزارہ کے لئے کوئی رقم دفتر تحریک جدید کی طرف سے منظور کی جائے گی تو اسے بطور اپنے حق کے شمار نہیں کروں گا.بلکہ اسے انعام سمجھتے ہوئے قبول کرونگا.(۳) جو صورت میری تعلیم یا تربیت کے لئے تجویز کی جائے گی اس کی پور سے طور پر پابندی کر دوں گا.(0) کسی اونی اسے اونی انجام سے بھی بھو میرے لئے تجویز کیا جائے گار دگردانی نہیں کروں گا.بلکہ نہایت خندہ پیشانی اور پوری کوشش سے سر انجام دوں گا.(4) اگر میرے لئے کسی وقت کوئی سزا تجویز کی جائے گی تو بلا چون و چرا اور بلا عذر اسے برداشت کر دونگا.(۷) جب مجھے تحریک جدید کی طرف سے خواہ اندرون پاکستان یا بیرون پاکستان جہاں بھی مقرر کیا.جائیگا وہاں بخوشی دفتر کی ہدایات کے مطابق کام کر دوں گا.(۸) اگر کسی وقت مجھے کسی وجہ سے وقف سے علیحدہ کیا جائے گا تو اس میں مجھے کوئی اعتراض نہیں

Page 689

یمتر تاریخ احمدیت جلد هشتم ہو گا.لیکن مجھے یہ اختیار نہ ہو گا کہ کسی وقت بھی اپنی مرضی سے اپنے آپ کو ان فرائض سے علیحدہ کر سکویی جو میرے سپرد کئے گئے ہوں گے.(۹) میں ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار ہوں.خواہ وہ مالی ہو یا جانی ہو.عزت کی ہو یا جذبات کی ہو.(۱۰) جس شخص کے ماتحت مجھے کام کرنے کیلئے کہا جائیگا اسکی کامل تا بعدانہ می کردی گا.(11) میں نے فارم معاہدہ وقف زندگی کی جملہ شرائط کو خوب سوچ کر اور ان کی پابندی کا پورا عزم کر کے پر کیا ہے.نام دستخط تاریخ مکمل پتہ نام اور مشکل پیشہ :.۲ تاریخ پیدائش :- ۳- والد صاحب کا نام اور مکمل پتہ.۴- سر پرست کا نام اور مکمل پتہ - فارم کوائف: ۵.تعلیم کیا ہے ؟ کون کون سے امتحان کنی مضامین میں ، کیس کیس ڈویژن میں پاس کئے ہیں.تمبر حاصل کر وہ اگر تعلیم جاری ہے تو کس کلاس میں پڑھ رہے ہیں........کس سکول یا کالج میں.کن مضامین میں زیادہ دلچسپی ہے.- دینی معلومات کس قدر ہیں - دنیات اور سلسلہ کی کون کونسی کتب پڑھی ہیں.- -4 کیا پیدائشی احمدی ہیں ؟...اگر نہیں تو تاریخ بیعت لکھیں.۱۰ - مجرد ہیں یا شادی شده ؟ ۱۱ - اگر شادی شدہ ہیں تو کتنے بچے ہیں.ان کی عمریں کیا کیا ہیں.-11 ۱۲- پیشہ کیا ہے ؟ -1 ۱۳- اصل وطن کونسا ہے ؟ -۱۴ موجوده مستقل رہائش کہاں ہے اور کتنے عرصہ سے.۱۵ - گزارہ کی موجودہ صورت کیا ہے.اپنی والد یا سرپرست کی.14 - والد یا سرپرست کی ماہوار آمد کتنی ہے ؟

Page 690

ضمیر تاریخ احمدیت جلد ششم ۱۷- اگر خود در مسیر روزگار میں تو ماہوار آمد کتنی ہے ؟ ملازمت کی صورت میں کس قسم کے کام کا تجربہ ہے ؟ -IA ملازمت کے علاوہ کس کام کا تجربہ ہے.صنعت کا روبار وغیرہ تفصیل لکھیں) ۲۰.کیا کبھی تقریر کرنے کا موقع ملا ہے ؟ طبیعت کا ذاتی رحمان کسی طرف ہے.جیسے زمینداری تبلیغی - دفتری کام - تجارت وغیرہ.کس مجلس اقدام الاحمدیہ یا انصار اللہ سے تعلق ہے ہے ۲۳.کیا کسی مجلس کا کوئی عہدہ آپ کے سپرد تھا ؟ ۳۲.عام صحت کیسی رہتی ہے ؟ ۲- امیر جماعت یا پریزیڈنٹ کا مکمل پتہ - اپنے خاندان کے چند معروف احمدی احباب کے نام دستہ تھیں.ان سے کیا رشتہ ہے ؟.کیا کبھی قادیان یا ربوہ میں قیام رہا ہے ؟ (3) کب اور کتنے عرصے کے لئے.(ب) کیس سلسلہ میں - ۲۸ - انگریزی عربی یا کوئی غیر ملکی زبان جانتے ہیں ؟ کس حد تک.۲۹ - کیا مضامین لکھتے رہے ہیں.کس زبان میں کس قسم کے موضو عے پہ ؟ - کیا کبھی کسی غیر ملک میں قیام رہا ہے.کتنا عرصہ......کس غرض کے لئے ؟ ۳۱ - کوئی خاص قابل ذکہ امر دستخط نام و شکل پسته " تاریخ -- مجاہدین بیرون ہند کے لئے ضروری ہدایات کی نقل ہفتہ دار مکمل رپورٹ ڈائری کی صورت میں بنانا نہ بھیجا کریں کہ یہ بھی ان کے فریضہ کا ایک ضروری حصہ ہے.ہر روز سونے سے پیشتر صبح سے شام تک کے حالات کو اپنی ڈائری میں درج کر لیا کریں.ڈائرکی اور پوری با قاعدہ نہ بھیجنے سے اُس کا نام واقعین کی ٹیسٹ سے کاٹا بھی بھا سکتا ہے.ہر قسم کی معلومات دینی ہوں دنیوی ہوں.سیاسی ہوں.اقتصادی ہوں.مرکز کو بھجواتے رہیں.تبلیغ کے قیمتی مواقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیں.جو لوگ احمدی ہوں ان کا تعلق مرکز سے مضبوط کیا جاد ہے.اور اُن کو باقاعدہ اور با شرح چنده دینے والا بنایا جائے.

Page 691

یم در تاریخ اور تیلی داشتیم -۵- شائع شدہ لٹریچر کو نہایت احتیاط سے تقسیم کیا جائے اور مضامین کی ترتیب کو ملحوظ رکھا جائے.- ہندوستان کے احمدیوں اور مقامی احمدیوں میں باہمی تجارتی تعلقات کو قائم کیا جائے.کوشش کریں کہ جلد از جلد اپنے اخراجات کا بوجھ خود اٹھانے کے قابل ہو جائیں.تاکہ مرکز آن کے خرچ سے بے نیاز ہو کہ دوسرے ممالک میں مشن قائم کر سکے اور کام کو اور وسیع کیا جائے.ہ جس قدر رقم چندوں میں وصول ہو.اس کا یہ مقامی اخراجات پر با قاعدہ طریق پر خرچ ہو سکے گا جس کے لئے مرکز سے بجٹ کی منظوری حاصل کرنی ضروری ہوگی.باقی ہے حصہ مرکز میں بھجوانا ضروری ہوگا.تا کہ اس ملک کے لوگ دوسرے ممالک میں تبلیغ کے وسیع کام میں شامل ہو کہ ثواب حاصل کر سکیں ہے د مطالبات تحریک جدید صفحہ نمبر ۵۶۵ م نقل فارم وقف جائیداد و آمد ائیں اپنی جائیدا در اسلام اور احمدیت کی ضرورت کے لئے وقف.معاہدہ وقف جائیداد اترتا ہوں.اور عہد کرتا ہوں کہ مطالبہ کے وقت وقف شدہ جائیداد میں سے جو جائیداد موجود ہو گی.اس پر جو خفته درسری مطلوبہ رقم موجب ہدایات دفتر تحریک جدید - میرے ذمہ ڈالی جائے گی اُسے ادا کر دونگا.میری وقف شدہ جائیداد کی موجودہ قیمت اند اندا.........روپے ہے.نوٹ :.مکان اور زمین کی صورت میں یہ بھی تھیں کہ کہاں واقع ہے.زیور کی صورت میں داران بھی لکھیں.تفصیل جائیداد وقف شده ر مطالبات تحریک تجدید ص ۱۵۲) ۵- نقل معابده وقت آمد معاہدہ وقف آمد میں اپنی ماہ کی آید اسلام اور احمدیت کی ضرورت کے لئے وقف کہتا ہوں.اور عہد کرتا ہوں کہ مطالبہ کے وقت ہوتا ہوا ر آمد ہوگی اس کے حساب سے جو حصہ رسری مطلوبہ نہ تم ہو حسب ہدایت دفتر تحریک جدید میرے ذمہ ڈالی جائے گی.میں اُسے ادا کر دوں گا.میری موجودہ ماہوار آمد بعد وضع وصیت و ٹیکس.

Page 692

ضمیمه تاریخ احمدیت جلد شتم تاریخ روپے ہے.نوٹ:.دو ماہ سے زائد آمد کا وقف قبول نہیں کیا جائے گا.دستخط باتی تفصیل فارم کی پشت پر رکھیں.نام مع ولدیت : موجودہ پتہ : مستقل بنده ( مطالبات تحریک جدید ص۵۳) (چری) سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا ایک مکتوب گرامی دمور خرم توانی شد بنام چو باری برکت علی صاحب فنانشل سیکرٹری تحریک جدید از و مهمترین کرکے چیر پدر بنی برکت علی کان مناصحة السلام عليكم درجة التدوير وانه - قريبه على الله ستان کا کر نیوالوں کو خواہ مرکزی ہوں یا مختلف جماعتوں والود تمام این ایما سو کو جہنوں نے میری تحریک کو پر ملکر یا سنکر اپنے چندہ کو وقت پر ادا کر سکا اپنے کام تعقلوں سے حصہ دے اور جو

Page 693

ضمیمه تاریخ احمدیت بالا داشتم باقی سی انہی میں فضل فرما کر دی اور ای او اگر نیکی وقتی دے اس اپنے فضل کے حصہ لینے کی توفیق بخشے 10 دیر کے رپورٹ پیشانی کہ کلی وعدے گیار ھو ہیں dee اول مال و متاع اسید پر مجھ قرآن 10 ا سوقت کہتے ہیں.رجمہ 10 کا اندازہ کا موقعہ ہے.مجاہد اسی اسد بریتین اور بفردی افریقہ ت وعدے کر جہ Gara بیان کی جماعت سی سال ہونا / علوی اس پولد ثامن با قاعت منظم امی کوشش کر بس بعد افراد کے زبان سیار ٹریوں سے کام لینے کی کوشش کریں الحمد للہ کہ 1990 وصول ہو گیا ہے اب ضرورت ہے کہ جوله تمامی تمنا پو را کرنیکی کوشش کیا جائے در سه کاره

Page 694

ضمیمه تاریخ احمدیت جلد شتم پیشر چوہدری برکت بھی دیا ہے کائنانشل ایک بڑی تحریک پدیده تحریک بدید کے زیر انتظام مرکز سلا ا محمد زیدی A نام کاریاں.ضلع گوردا نور ایام فهرست • ل کرنیوالے غیر ملکی طلباء ملک تاریخ الله تاریخ فراغت کیفیت ملا یا ۱۳۰۵-۲۳ ۲۱-۴-۲۴ مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا محمد عبد الله پاش مالا بار عبد الشکور کرے جرمنی رشید احمد امریکہ ابراہیم عباس سوڈان احمد پر جا بھاوا رضوان عبد الله جبشه صالح شبیبی جاوا چین -- العلم الله - د - الدله ۲۱۰۶ - ۵۱ 1--1-04 ۱۹ - ۳ - ۵۳ ۲۴-۱۲-۲۹ 14-r-act-r-o- ۲-۵-۵۰ - " " " " " " عثمان چلینی ۱۰ ابراہیم چینی اور لیس چینی علی چینی

Page 695

میمیره تاریخ احمدیت جلد هشتم نمبر تخار نام ملک تاریخ آمد تاریخ فراغت کیفیت ۱۳ ۱۳ بختیار ذکریا سمارا عارف نعیم سائپرس ۱۳۰۳۰۵۳ ۲۲-۷-۵۲ 16-4-04 - 11 - DI ۱۵ زیر السلام انگلستان محمد سلیم انجانی شام K علی امین فایل سيراليون ۲-۲-۵۳۲۲-۳-۵۲ ۱۸-۸-۵۶ ۱۵-۳ - ۵۲ IA محی الدین شاہ سماٹرا ۲۰ رحیم بخش 19 محمود عبد الله شبوطی ۲| مسٹرلی.اسی - وکھ.ایم امیل سرما ۲۲ محمد ابراہیم چینی ۲۳ چین منصور احمد انڈونیشین انڈونیشیا عدن برٹش گی آنا 14-7-0449-0-07 ۸ -۱۲ ۰۵۴ |r1-11-s]YA-^-Ar ۲۴ اور یس احمد چینی ۲۵ عبد الوهاب بن آدم الفريقير ۲۶ تبشير بن صالح Y4 على صالح پورا افریقہ 11-11-04 TA یوسف عثمان ۲۹ محمد عبد الله شبوطی ٣٠ ٣٣ عدن 31-11-04 ١٠٥٠-١٢٣ محمد ابراہیم سنگاپوری سنگاپور ۶۰ - ۱۲ ۱۰ ۲۲-۱۰-۱۲ آترش ۶۱-۲-۱۰ ظفر احمد ولیم خامنہ میں ہیں.تعلیم جاری ہے مولوی فاضل دیتا ہے اے.ایس دادن سير البيوبي افریقہ ۶۲-۵- ۶/۲۳-۱-۱۰ شہادت الاجانب " ٣٣ احمد شمیر سوکیه ۳۴ عبد الغنی کریم ماریشس یا ڈانگ انڈونیشیا ۶۳ - ۱۳۱۰ ربوہ میں تعلیم پار ہے ہے ہیں.۳۵ ٣٦ سفتی ظفر احمد انڈونیشیا " حسن نصری را عبد القاهر ۳۸ یوسف پاسن ترکستان کاسی - نمانا عبد الواحد بن دا ڈر نما نا.افریقہ خارج شد تعلیم پار ہے ہیں فراد

Page 696

ضمیمه تاریخ احمدیت جلد ہشتم نمبر شماره نام ۳۰ احمد پو شید ا حنا پانی ملک تاریخ آمد تاریخ فراغت کیفیت جاپان ۲-۳-۶۵ ام عبد المالک افریقی نمانا - افریقہ ۶۵-۹-۱۲ ۲۲ لقمان : دریس جاکارتا.انڈونیشیا ۶۶-۶۷۱۹۰۵-۲-۱۰ ۴۳ ذوالکفلی نویس " تعلیم ادھوری چھوڑ کر چلے گئے پڑھ رہے ہیں.خود چھوڑ کر پہلے گئے پڑھ رہے ہیں.۲۴ سید طی عزیه ۴۵ گوگ محمد عبدی رو بلے تنزانیہ - افریقہ ۱۰۶ ۲۶ حسن بصرى لوگوں.انڈو انڈونیشیا سماٹرا نام سفتی ظفر احمد مام عبد الرؤف بھی فمي لوگو را مرة (4-11-17 " " صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلاة والسلام فہرست دینی ان صحابہ کو ان کے اسما و جن کی روایات حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی خاص تحریک پر جمع کی گئیں.اور جو چودہ رجسٹروں کی صورت میں خلافت لائیر محمد کی وجوہ میں محفوظ ہیں).نمبر شماره نام صحابی صفور میرا نمبر شماره نام صحابی رجسٹر نمبرا 4 A ا شیخ عبد الکریم صاحب کراچی محمد اکبر صاحب محله قدیم آباد در مانستان ملک رسول بخش ها به سبا ودر سیر دیر نماز خانم شیخ ماجد این حساب سیکر کرتی تبلیغ گوجرانوالہ به جہد کی بد دین صاحب مبلغ قادیان منشی میکنند ارسالی قلاب بعینی با نگر متصل قادیان ۱۶ N ۱۳ شده چندی غلام حسین ها با چک ضلع سرگودہا ۲۱ مخدوم محمد صدیق صاحب گھوگھیات دنیات ۳ ۱۹ ۲۴ حاجی غلام احمد صاحب که یام ضلع جالندھر حافظ ملک محمد صاحب احمدیہ مسجد لاہور ۳۱ ڈاکٹر محمد عبد الله نصاب میڈیکل پریکٹیشنر سنگھ ضلع سیا لکور سیالکوٹ سلسل حکیم احمد الدین گنا شاید موجود طاب جدید شاہدرہ

Page 697

قیمه تاریخ احمدیت جلد هشتم IF نام صحابی صفور میرا نمبر شماره نام صحابی FA شیر خان صاحب شہر سیالکوٹ مولوی مهر دین های تالار موسی ضلع گجرات ۳۹ فضل احمد صاحب پٹواری حلقہ گورو اس منگل ۳۹ عنایت اللہ صاحب " ۱۵ شیخ قدرت اللہ صاحب نابعہ سٹیٹ ۴۰ نور محمد صاحب امیر پور ضلع ملتان ڈاکٹر محمد الدین صاحب اناج ہاسپٹل نہوں ۵۳ JA 14 ۲۱ سلطان علی صاحب پھیر بھی ضلع گورداسپور ۱۳ ۱۵۲ چو ہد ری فتح حمد صاحب کنه بهینی با نگر متصل قادری ۵۵ میاں نظام الدین صاحب نظام اینڈ کو سیالکوٹ شہر مستری فقیر محمد صاحب قادر آباد منتقل قادیان ۵۸۰ ۲۳ محمد علی صاحب شاہ عالمی دروازہ لاہور ۱۵۷ ہونگے روڑا صاحب نخوا بعد غلام نبی صاحب چکوال ۴۵ میاں محمد یوسف صاحب مزنگ لاہور شیخ محمد حسین صاحب اسلامیه پارک لاپیدور ۲۱ میاں عطاء اللہ صاحب پھمبیاں ضلع ہوشیار پور ۶۳ ۳۶ شیخ عطاء اللہ صاحب شیخ ڈاکٹر احمد الدین صاحب و ڈالہ بانگر حال ۶۵ 14- ۱۶۲ شیخ محب الرحمن صاحب دہلی دروازه تیم ۱۶۹ محمود آباد سندھ ۲۸ سید ولایت شاہ صاحب تا میان افریقہ ۱۷۳ ۲۳ حاجی محمد عبد اللہ خانصاب شکار یا چھیا ضلع گورد سوم 44 ۲۹ ڈاکٹر عمر الدین جناب اگجرات ماندم افریقہ چند کی علیمحمد صاب گوندل چک ضلع کر دیا 19 ۵۰ قریشی شیر محمد صاب این جماعت احمدیه نیز بی افریقیه ۲۴ to " ۲۶ " " مر گیا غلام رسول صاحب میاں خان صاحب فورم الم الحي دي 61 LY ۷۳ 0.ا میاں محمد علی محراب دادگا مے خان شکار را پچھیاں ضلع امرتسر LAD ۱۹۰ میان عزیز وین صناب چانگر ملل ضلع سیالکوٹ ۱۹۲ ۵۳ مولوی عبد الرحمن صاحب کیپور تھلہ ۵۳ منشی خدا بخش صاحب بھا گو ارائیں 196 MA > ۲۷ غلام محمد صا حب نظام الدین صاحب سب پوسٹما ٹر نبی پور 00 چیدہ کی عوام شرر صاحب چیک دی ۳۰ مولوی غلام محمد صاحب پھیر چھپی ضلع گورداسپور ۸۳ ۵۰ حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلہ شیخ زین العابدین صاب برادر شیخ حامد علی مناسب ۵۶ مولوی علی شیر صاحب زیره AL مقصد غلام نبی ضلع گورداسپور ۵۰ شیخ محمد حیات صاحب موگر ۳ مرندا دین محمد صاحب نگیر دال حکم الله و ته صاحب شاہ پور ضلع گورداسپور ۳۴ میر عنایت علی صاحب لدھیانہ ۳۵امله دار را با محه مه د شاه و ملی در روسیه ۳۶ چو ہدر ی باغ ۹۳ 1-4 ۱۲۸ گلاب خانصاحب مشتر شہر سیالکوٹ ۱۳۳ ۳۲۰ ۵۸ میاں جی عبد الرحمن صاحب جالندھر چھاؤنی ۲۲۵ r رجسٹر نمبر ۲ بقیہ روایات حضرت منشی ظفر احمد مینا کپور تھلہ 1 چو ہد کی اللہ بخش صاحب کٹڑہ خزانہ بازار سورج کنڈ امرتسر

Page 698

ضمیمه تاریخ احمدیت جلد هشتم نمبر شمار نام صحابی ۱۲ نام صحابی مولوی عبید اللہ صاحب بھونے والی ضلع 19 ڈاکٹر عبد اللہ صاحب مشرقی افریقہ امرتسر حالی لائل پور چونڈ کی غلام احمد خانصاحب ایڈووکیٹ میونسپل ختر در خدیجه بگیم مصاحبه نت میان جمال الدین کمشز و امیر جماعت احمدیہ پاک پٹن صاحب سیکھانی میاں شیر محمد صاب تلونڈی جھینگان ضلع گورداسپور میاں رحمت اللہ صاحب با نما نوالہ بنگلہ ۲۹ 1-2 ۱۳ ۲۱ حافظ مولوی عبد السین صاحب امرد ہی ۱۲۱ سیاں جمال الدین صاحب فیض اللہ چک ضلع گوره نه اسپور میاں نظام دین صاحب نیگری تحصیل اندرون شہر ۲۳ عطاء اللہ صاحب چک ۱۶ ملتان ضلع جالندھر ڈاکٹر سلطان علی صاحب ممباسہ افریقہ میاں عبد العزیز صاحب گلی آسا ملتانیاں گوجر انوالہ چو ہد کی بشیر احمد صاحب ایڈ یشیل بھی مطالبہ تخفیفہ دہلی منوطان چوبہ کا ہوائی تحصیل پسر شد ضلع سیالکوٹ حکم دین محمد صاب او را رحمت عالی کراچی ۱۲خان زادہ امیر اللہ خانصاحب موضع المصیلہ -14 In سب آفس کالوخان ضلع مردان چوہدری کرم دین صاحب کھاریاں دوالد حاجی احمد فانها ایانه بی.اے ایل ایل بی مولاداد مصابا بیشتر سار چور ضلع ہوشیار پور نیاز اللہ خان حنا شاہجہان پور حال فیض آباد میاں غلام حسین صاحب نمبر دار سیا کوئی عارف والا ضلع ناشکری قاضی قمر الدین صاحب سیکرٹری تعلیم و تربیت جماعت احمد تیر شکار کھانہ دھا ر رودان ضلع گورداسپوری میان محور می افته خانه با نتیجه کالای محال امرتسر سٹیشن را ئی ہوٹل دکان نمبر ۲ Ti TA A.Xx 40 1.A عبد المجید خان صاحب پیشتر پالم پور ۲۵ میاں عبداللہ صاحب جنڈو ساہی r تحصیل ڈسکہ ضلع سیالکوٹ رجسٹر نمبر ۳ جناب برکت علی صاحب مرزا پنجاب سپورٹ امین آباد لکھنور U میاں غلام رسول صاحب که میان چرا ندین صاحب گوجرانوالہ قاضی عبد القادر صاحب ولد قاضی اور علی صاحب خواجہ محمد شریف صاب ڈھینگرہ ہاؤس گو رو ندیدن میابی اللہ بخش صاحب کلرک ڈاکخانہ را ولپنڈی ڈن شین گوبر انوالہ میاں میران بخش صاحب محله احمد پوره سردار کرم داد خان صاحب دوالمیال بقیہ روایات حضرت منشی ظفر احمد صاحب ۱۳۵ ۱۳۷ ۱۳ سلام میاں نوایشان خان ہر انا تحصیل پنڈی کیپ میار فضل کریم صاحب درزی اندردن دروازہ تھا کہ سنگھ گوجر انوالہ منشی احمد دین صاحب محله کشمیری سیا سکوٹ ۳۸

Page 699

خمیر تاریخ احمدیت جلد ہشتم نمبر شمار نام صحابی صفحہ رجسٹر نمبر شمار نام صحابی صفحہ ریٹا سید سیف اللہ شاہ صاحب ساکن اه ۳۵ مرزا اکبر بیگ صبا نگر والی ضلع گورو اسپور گورداسپور الم ۱۳ بیچ بیاره تحصیل و ضلع اسلام آباد کشمیر ۸۹ خانصاحب سید ضیاء الحق صاحب ضلع ۱۴ میاں رحمت اللہ صاحب سنگر در ۱۵ ریاست جنید میان الشده و تا تاب تر گرامی ضلع گوجرانواله حامد حسین خانصاحب مراد آیا در محمد عبد اللہ صاحب رامداس ضلع شاہ پور ۵۶ ba ។ ۶۳ HA حکیم الل د تا صاحب موضع شاہ پورا مر گڑھ 119 چوہدری عبد الحکیم صاحب گھا کر چیماری تحتین وزیر آباد ١٢١ میاں محمد اکبر صاحب نمازی ڈیرہ غازی خان چوہد کی فضل داد صاحب کا اکھیوں ضلع لائلپور میاں عبداللہ صاحب گولاں والی گور دا سیور ام میاں محمد یحیی خانصاحب شاه آنها و ضلع ہردوئی ۱۳۴ میاں تصدق حسین مات ہو جن ضلع شاہ پور ۱۲۰ IA مولوی فتح علی صاحب دوالمیال ضلع جملم ۷۲ ۴۳ پیر فیض احمد صاحب رنمل ضلع گجرات ۱۳۲ ۱۹ میاں فضلدین صاحب تیجہ کلام ضلع گورد پوری ۴ ۴۴ حافظ عبد العلی صاحب ضلع شاہ پور ۱۳۴ ٢٠ ۲۱ مستری علی احمد صاحب نائی والا ضلع سیالکوٹ 44 ۴۵ فہرست صحابه کرام جماعت احمدیہ سیالکوٹ شہر ۱۳۸ 10- شیخ قدرت اللہ صاحب سکر کی تخمین حدیث بھا و میاں عبد العزيية صاحب المغل بمبارك منزل التو دلت خان صاحب میری ضلع گورداسپور منشی عبد اللہ صاحب اسلام آبا د سیالکوٹ ۱۵۲ AA 104 " دولیدا دخان صاحب مراره تحصیل ناره وال ۸۴ ۳۸ مولوی الف وین صاحب در ۲۴ میاں عبداللہ صاحب بھوانی گڑھ پیالہ ۴۹ مہر غلام حسین مناسب اراضی یعقوب میاں نورالدین صاحب کھاریاں گجرات ۵۰ مستر بی غلام قادر صاحب شہر ماسٹر محمد پریل صاحب کمال ڈیرہ سندھ ۹۲ ۵۱ میاں مراد بخش مناب را چوت چوہان احمد نگر میاں نظام دین صاحب وکھو کی تحصیل پسرور میاں عبد الرحمن صاحب معلم صدره بانه از محله ۲۲ جالندھر Fy میان غلام محمد صاحب تلونڈی بنگلادی ضلع گورداسپور ۹۴ ۲۸ میاں احمد دین صاحب ڈنگہ ضلع گجرات ۹۵ ۲۹ میاں عظیم صاحب حاجی کا نا ضلع ڈیرہ نماز یاں میاں نظام صاحب " نظام اینڈ کو سیالکوٹ ۹۸ میاں عبد العزیز صاحب جلال پور سرگودہا 104 11- میاں فضل دین مصاب نمبر داره پروشا ضلع گرده ایم ۲۰ سیلانی نظام رسول صاب پر انگریان تحصیل سیالکوٹ ۱۱۱ - بیان شکر النبی صاحب نبی پور ضلع گورداسپور ها ۱۱۳ میاں غلام محمد صاب پر ہلا مہاراں.سیالکوٹ ۵۵ منشی سر بلند تقال صاحب ہیڈ منشی دفتر نہر ڈویژن مظفر گڑھ ۵۶ سیابی امیر دین صاحب گجراتی ۵۷ سیاں الله و تا صاحب بستی زندان ضلع ڈیرہ نمازیچاں IDA 141 ۱۹۴ ١٩٣

Page 700

۱۳ ۱۰۵ 1.4 "A ١٢٠ ضمیمه تاریخ احمدیت جلد هشتم ۱۳ نام صحابی صفحہ میٹر نمبر شمار نام صحابی شیخ محمدشفیع صاب سیٹھی محله خواجگان جہلم ۱۹۶ چودری عبد الحکیم صاحب له چوہدری شرف این صفات میاں علی حمد صاحب کھانوالی ضلع سیالکوٹ ۲۰۲ سکته موضع عادل گرده تحصیل خیر آباد ضلع گو جرانوان چو ہد کی عبد العزیز صاحب نے شہرہ گئے زیاں ضلع سیالکوٹ ۹۱ روایات مولودی به همان دین صاحب جہلمی راد ۲۱۳ 1 ۲۲۰ دار البرکات قادیان مند در خانصاب درد را به فتح محمد خان صاحب سکنه باڑی پورہ کشمیر حال انسپکٹر بیت المالی قادیان ۶۲ ملک نیاز محمد صاحب را ہوں ضلع جالندھر حالی محله دارالفضل قادیان رحسیبہ نمبر امیاں محمد فضل خان صاحب له قائم دین مناب محمد خان صاحب قائم ^ محلہ دار الفضل قادیان ۲۲۶ علاؤ الدین صاحب زرگر والد میانی معراج دین فضا قمر کی ہویر - حال قادیان محمد یعقوب صاحب والد محمد اکبر صاحب سکنہ بیانه حال دار الرحمت قادیان ۱۳ متری اللہ دتا صاحب لد صدر دین صاحب بھانبڑی حال مارا الفضل قادیان ڈاکٹر نعمت خانصاحب در امان خان صاحب ۱۵ سید بهادی شاه صاب ولد سید شیر محمد هاب سکته ریاست ناردن دار الفضل قادیان ۲ سکنہ کو والی ضلع انباله حال دار الفضل قادیان مولوی محمدعبد العزیز مصاب آن بینی شر قبور والد مولوی محمد عبد الله صاحب صحابی دار الریانت قادیان سید محمد د عالم صناب و لا سید تبارک حسین صبا ۲۵ حال خزانچی صد را تخمین احمدیہ قادیان مولوی عبد الرحمن صاحب جٹ والشیخ برکت علی اب سکز فیض اله یک حالی مازیار با ابواب قادیان ۳۴۳ IA دین محمد صاحب ولد میران بخش صاحب سکنه کو مالی تحصیل رو پر ضلع انبالہ عال الفض الادیان حافظ محمد ابراہیم صاحب و داد تا در علی صاحب سکنه مو دال - حال قادیان خلیل الر حمن صاحب پھیر ولد نیک عالم صاحب ساکن پنجیڑی تحصیل بھمبر ریاست جموں ) میاں الله د تا صاحب ولد میاں گھن خانصاب 19 حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی دلد ۴۹ حافظ محمد حسین صاحب وزیرا باد حال قادیان مایل پورہ ضلع ہوشیار پور حال قادیان چراغ دین صاحبت اله میان صدر دینی فضا قا دیانا ۵۵۰ مرز امحمد شفیع صاحب ولد حمید مرزا صاحب کند جب حکیم اللہ بخش مصاب ولد شاہ دین صاحب دہلی محاسب صدر انجمن احمدیہ قادیان دربان ڈیوڑھی حضرت ام المومنین صاحبہ ۶۰ ۲۱ خانصاحب منشی برکت علی صاحب اله محمد فاضل سکنہ بے حالی دار البرکات قادیان حافظ محمد این همان والد میان علم الدین فضا سکنه نکو در ضلع کیمل پور حمله ناصر آبا و قادیان YA صاب جو ائنٹ ناظر بیت المال قادیان محمد اسمعیل صاحب دلار مولوی جمال الدين صاحب سکنہ سیکھویں حال قادیان

Page 701

۲۳ ۱۵ ضمیمه تاریخ احمدیت جلد ہشتم نام صحابی صفور با نمبر شمار نام صحابی ابو بکر یوسف صاحب ولد محمد جمال یوسف صاحب سکنہ پٹن ریاست بڑے وہ حال قادیان خدا بخش مناسب و در چه داری پیر بخش مصاحب محمد ابراهیم هنا ولا در بخش مات دار العلوم قادریان هم البو البشارت مولوی عبدالغفور صا مبلغ سلسله قادیان سکنہ سیالکوٹ صدر بازار حالی قادیان ۲۵ قریشی ولی محمد با قرخانی والا ولد شاه محمد مجیب ۲۶ ۲۸ تمام سطر حلقه مسجد فضل قادیان ۱۶۳ محمد شریف حتا د د میران بخش منا ریتی پھیلا قادریان ماسٹر محمدعلی نصاب اظهر لد غلام قادر صاحب سکنه لهم لا ملسیان ضلع جالند بهر شيخ الصفر على صاحب الد شيخ بدر الدین صاحب 1 چراغ محمد صاب ودرد چه بدی امیر بخش حتا تھا.سکنه ایمین آباد ضلع گوجرانوالہ ۱۹۵ مہر دین صاحب ولد رحیم بخش همین سکنہ قادیان سے مرزا قدرت الله مصاب وار مولوی ہدایت الله رمضان کوچه چابک سوار ان امور مال دارالفضل قادیان عبداللہ خانصاب ولد عبد المنقار صاحب سکنہ سید گاه خوست - عمال قادیان ڈاکٹر مرزا محمود بیگ ولد مرزا محمد بیگ ها سکن قادیان محمد علی صاحب داد نظام الدین صاحب بنگال خود حالی سکنہ قادیان 14A A ره عبد الله اصاب بهامی ڈومیلی ریاست کی چند تصله حال دارالرحمت قادیان امام محمد صاب از دیگر دالمحمد قاسم صاحب سکنه بیگووال تسلیم سیالکوٹ مرزا عبد الکریم صاحب ولد مولوی محمد اسمعیل فضا مرحوم سکنہ تر گڑی ضلع گوجرانوالہ ڈاکٹر سید غلام غوث صاب و لوبی بخش هاب سکنه بیجا ضلع در میانه حامل قادیان مرزا مہتاب بیگ صاحب لها مرزا محمد علی صنا بیگ محمدعلی فنان محلہ کشمیری سیالکوٹ حکیم عبد الرحمن حساب ولد عبدالله فضل دین ۱۳ عمر دین ها به حجام والد احمد یار خان سکنه صاحب.قادیان مرزا احمد بیگ صاحب ولد مرزا بڑھا بیگ صاحب - نادیان ۳۴ عبد القادر صاحب مہتہ ابن بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی مسکنه قاریان دارالامان رجسٹر نمبشر سردار کرم داد تهای این دانی داد خانصاب ساکن بمالی بلو های ضلع شاه یورال الفضل تا دیار A It jai IAP ۱۵ H ۱۵ 14 IA باسم حال قادیان علی گوہر صاحب ندمیان منگل صاحب سکنه کو مٹی ڈور شاه صنایع ، مرتبه سال قادیان کریم الدین صاحب ٹیچر گورنمنٹ سکور بلوچو ہد کی امیر کبش صاحب سکنہ سیالکوٹ نظیر احمد صاحب کار مولوی محمد دلپذیر صاحب بمیره حال قادیان صوفی نبی بخش صاحب در بیان عبد الصمد صمصاصات عبدالصمد محلہ میاں قطب دین را ولپنڈی عالی قادیانت ۳۵ ra +4 ام

Page 702

ضمیمه تاریخ احمدیت جلد ششم نمبر شمار نام صحابی صفحہ میٹر نمبر شمار نام صحابی صفها ۱۷ محمد قاسم صاب و در عطر دین صاحب دردانه ہا تھی کہ یہ حاجی امرتسر.قادیان ۴۴ محمد یسین خالی شیر را سر یاد خدا بخش گوجرانواله ۹۷ عبد الحق صاحب الد عبد الله فضلدین قادیان ۱۰۴ نظام الدین صاحب ٹیلر و در میاں محمد علی ۳۲ عبد اللہ صاحب کہ چنڈو.قادیان محله مامان فیلم حال قادیان 19 اللہ یار صاحب دلد گلاب دین ملہو والی ضلع گورداسپور حال قادیان ۲۰ امام دین صاحب ولد محمد صدیق صاحبه سیکھواں ضلع گورداسپور ۲۱ منشی عبد العزیز صاحب پرگزاری داد میاں ۴۵ ۵۰ ۵۴ ۱۰۵ میان بابو صاحب ولد همین سکنه مایل پور ضلع 1.7 ہوشیار پور ۳۵ ماسٹر علی محمد صاحب بی.اے بی ٹی قادیان ۱۰۷ ۳۶ سید علی احمد صاحب ولد سید نیا نه احمد صاحب ضلع انباله 1+4 خیر الدین صاحب ولد سراج دین صاب سکته کوٹ ڈسکہ ضلع سیالکوٹ حال قادیان 11- ۲۲ ۲۳ امام دین صاحب از جمله ضلع گورداسپور 79 ملک نا در های صاحب ولد ملک جہان خان ۱۳۸ غلام نبی صاحب دار محکم دین صاحب موضع موضع سر کال که ضلع جہلم بھاوڑیاں ( پٹیالہ ) حکیم رحمت الله صاحب العظیم محمد بش ۳۹ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی و لد شیخ محمد علی جاگودال جبائی ضلع گورداسپور صاحب قادیان ۲۴ لال دین صاحب ولد شیخ امام الدین صاحب ۳۰ مفتی محمد صادق صاحب: لا مفتی عنایت اللہ صاحب محله شبه سیا کوٹ عمال قادیان 3 ۲۵ نور محمد صاحب ولد غشی فتح محمد هاب بیشتر ام خواجه عبد الرحمن صاب کارکن نفت الفضل قادیان رحمت خانصاحب ولد بچہ پادری کو اپنے خان چه صاحب سکنہ سروعه حال قادیان موچی پورہ ضلع ملتان 4 ۲۶ شاه محمد صاحب قریشی ولد غلام قادر صاب ما كم مسجد فضل قادیان ۴۳ غلام حیدر صاحب والد میاں خدابخش صاب ملک نمای بادشاه و لد گل بادشاہ سکنه (درگئی) خوبست تحکیم قطب الدین صاحب اله غلام حسین صاحب ۸۲ سکنہ احمد نگر ضلع گوجرانوالہ هم را لرحمت قادیان ۲۲ قریشی امیر احمد صاب ولد حکیم سردار محمد صاحب ۴۴ سکنہ بھیرہ 三 ۱۱۴ 110 (۱۱۷ ن ٨٣ سکنه چند در ضلع گوجر انواله عالی قادریان ۳۵ محمد شریف خان صاحب در عبد القادر خانه اسب عبدالرزاق منا دل میں رحیم بخش صفا سیالکوٹ سکنہ الدھیانہ ۱۳ حال قادیان KA یت الله بخش نهاد ما این هانا سکنه بجنون ۹۴ عمیر علی صاحب ولد محمد علی صاحب مسجد اقصی قادیان

Page 703

H ۲۳ ۳۲ I A ١٠ 0 قیم تاریخ احمدیت جلو د شتم 14 نام صحابی صفحہ رجسٹر نمبر شمار نام صحابی صفحہ میٹر A Ar ۴۷ محمد حمید الدین مناسب احمدی داند با او فضل دین ۲۸ سکنه مگیری ضلع شاہ پور - قادیان ۱۳۳ احمد نور صاحب کا بلی ولد اللہ نور کابلی قادیان ۱۳۵ ۴۹ ڈیپا نظام دین صاب ریٹائر ڈ پوسٹ ماسٹر ولد ة ۵۱ دوست علی بنی پور ضلع گور در پیور - قادیان محمد وارث صاحبت که پیر بخش صاحب سکنه IF4 ۱۴۱ بھڑی شاہ رحمن حال حلقہ مسجد فضل قادیان - عبد الله مناسب و د حاکم دین مسجد فضل قادیان ۱۴۲ تا بتواند و " ۵۲ پیران مصاب والدین پیراندانه مناسب والد دین محمد حلقه مسجد اقصی ۱۴۳ ۵۳ محمد ابراهیم صاحب ولد نظام دین سکنه سروعہ ضلع ہوشیار پور محال قادیان ۵۲ نظام دین و لاد کریم بخش عرف میاں کالجو ا سکتہ سرد عہ ضلع ہوشیار پور بحال قادیان ۱۴۵ ۱۴۶ ۵۵ محمد شریف خانصاحب ٹیوٹر محمد دارالعلوم ۱۴۷ سکند به علی صاحب والد چوه باری و لیدا و صاحب نمبر دار مکھن کلان حال بهینی بانگر.قادیان عبدالکریم احمدی بیانوی مہاجر قادیان ۱۴۸ ۶۴ محمد صادق صاحب جہلمی ولد میاں نظام الدین صاحب سکنہ جہلم عالی قادیان قاضی محمد ظہور دین صاحب اکمل ولد قاضی امام دین صاحب فیض سنه و یکی ضلع نگر تاحال قاری از دین جبر نمیبہ چوہدری اللہ بخش صاحب والد چوہدری فضل دین حواجب سکنہ سین دال اتلے ضلع سیالکوٹ فقیر علی صاحبث لد شیخ سلطان بخشیش مصاب سکنه فیض اللہ چیک ضلع گورو اسپوند مرزا عمر بیگ صاب والد مرزا امیر بیگ سکنه قادریان نهو راجپوت و لردگان را اتو له مسجد فضل " خلقه فضل الهی صاب ولد مولوی کریم دین که احمد آباد معلم نور محمد صاحب الد غلام دین مبنا قادر آباد متصل قادیان میان بیان محمد صاحب ولد میاں عبد العزنيه سکنه بیلان مضلع گجرات محمد شاہ صاحب ولد عبد اللہ شاہ صاحب ۱۵۵ A سکنه عثمان پورریاست جیند تحصیل سنگر در ۵۸ عبد العزیز صاحب احمدی مبلغ علا قر بیت بیاس ۱۵۸ فلوڑی کلاں ضلع لدھیانہ 04 محمد رحیم الدین سکنہ حبیب والا تحصیل را پور ۶۲ ضلع بجنور حال دارا الرحمت قادیان عطاء محمد صاحب ولد چوہدری تھے خانصا سکتے بھوڑ ڈاکخانہ خاص در حیات حال قادیان | 14- เรง غلام حم عناب و در میان محمد بخش صاحب سکنه رسول پور تحصیل کھاریاں ضلع گجرات حال قادیان (۱۶۹ محمد جمیل صاحب و نه میان میران بخش صاحب ننگل باغباناں.قادیان ۱۰ غلام رسول صاحب ولد حاجی محمد صاحب متوطن درگئی علاقه خوست }} مولوی امام دین مصاحبه با الدین مولوی امام دین صاحب فیض دلار به الدین صاحب گرنے کی ضلع گجرات چودری بیداری مهاباد در سر دار چند سنگی سانا ۱۲ رحیم دین صاحب ولد جمال دین صاحب سکنه صاحب سکنه سور سنگی ضلع را بجودر حالی قادیان Isp مالیر کوٹہ

Page 704

ضمیمه تاریخ احمدیت بعد شتم نمبر شمار نام صحابی نام صحابی ۱۳ چراغدین صاحب الد محمدبخش سکنه قادر آباد : منتقل قادیان ۱۳ علی احمد ولد چوہدری رحیم بخش صاحب کره خزانه امر تسر រ ។ محمد دین صاحب داده چراغ دین مرحوم سکنہ پھر مالٹا نے ہوشیار پور عالی قادیان عبید اللہ صاحب ولد حکیم عمر خیش صاحب سکتے بقا پور ضلع گوجرانوالہ محمد رحیم الدین صاحب ٣٣ ولد كريم الدين صاحب حبیب والا ضلع بجنور ۴۲ ۴۳ PA منشی عبد الخالق صاحب ولد مولوی محمد حسین عناب وه صحابی ۳۱۳ سکنه پریم جیت پوره کیپور تھلہ قطب الدین صنادلد حامد علی صاحب طلعه مسجد فضل قادیان مولوی عبدالرحیم جناب در دایم کے سابق مبلغ الستان شیخ محمد اسمعیل صاحب داد شیخ مسیتا صاحب سر ساده ضلع سہانپور - حال قادیان ۶۳ 16 ។ ។ چوہدری امیر احمد صاحب ریٹائرڈ سب انسپکٹر اشتمال اراضی در چه پادری سکندر خانتها حسب سکنه 49 ایرانه تحصیل و ضلع ہوشیار بود حال قادیان فیروز دین ولد مرند ا امام دین نکته قادیان ۲۴ ۳۳ عبد الرحیم صاحب ولد قادر بخش صاحب ۱۹ شیر محمد صاحب داد دیتے جہاں سکنہ خان فتا ضلع گورداسپور ۴۵ محمدی ولد بھا گر قادر آباد منتقل قادیان ۴۷ الله و تا صاحب ولد میران بخش صاحب سکنه منگل باغبانان متصل قادیان ۴۸ ۲۵ بوت میکنه در جوار سانه - قادیان غلام صاحب ولد محمد نامدار مناسب سکته کرن کلان کلاتور رگورداسپور عبد است ایران و نه بداند که کو سوال ضلع گورد اوکه دیانت خانصاحب کدامان خان صاحب سکنه ۳۷ مرزا محمد شریف صاحب له مر زا دین محمد صاحب سکتے سنگر دال ضلع گورداسپور - قادیان ۳۲ ۲۳ نا دون ضلع کانگڑہ حالی قادیان نور محمد صاب ولد عبدالله موضع بهتر یا قادیان ۴۹ محمد اسمعیل صاحب ولد جمال دین صاب سکنه کاٹھ گڑھ ضلع ہوشیار پور عبدالحق ما با دو سر را عملی کند میانی بهره های ایران ۲۵ ممتاز علی حناب صدیقی والد خان صاحب حضرت مولوی ذوالفقار علی خانصاحب سکنه را مپور سٹیٹ ضلع مراد آباد خالی قادیان مسترقی دین محمد ناب داد متری امام دین همان سکنه کھٹا نے تحصیل دسوہہ ضلع ہوشیار پویر ۵۰ ۵۱ ۵۳ ۳۸ مرزا عبد الله بیگ هاست دلار مرزن پورا بیگ صاحب سکنه قادیان عبد الله صاحب المعروف (عبدل) دل گایی سکنه قادیان امین اللہ صاحب ولد محمد بخش سکنہ ہمیاں ضلع امرت سر حال دار الرحمت قادیان امیر دین صاحب داد بہاری صاحب سکنه ام محمد ابراہیم صاحب ولد میاں محمد اکبر صاحب بها در حسین ضلع گورد اسپوره سکنه شاله حال قادیان 14A 14 A

Page 705

ضیه تاریخ احمدیت جلد میشه نمبر شماره نام صحابی صفور میرا نمبر شماره نام صحابی ۴۵ مرزا محمد افضل صاب والد مرزها محمد جلال الدین حساب ۵ سید من شاه ها دارد فضل شاه صاحب ساکن سکنر بلانی ضلع گجرات میاں بھاگ حساب ولد محم بخش صاحب کمہار سکنہ حلقہ مسجد اقصی قادیان محمد یوسف مهتاب باید احمد دین صاحب سکته ولدا مالیر کومله - حال دار الرحمت تا دیان چه داری نظام الدین صاحب ولد میاں نبی بخش جناب سکنه دیره با با نانگ مال دارا رحمت قادیانی tre DA ۲۲۹ ۲۳۰ مولوی محمود احمد صاحب عرفانی قادیان ۲۳۵ محمد عبد الله صاحب جلد سانه ولد محمد المفصیل مالیر کوٹله - قادیان ۳۸ مولوی جلال الدین صاب تمبر امام تختفصیل لندن ۵۰ Or ولد مولوی امام الدین صاحب سیکھوانی ( قادیان) چوند کی ظفر اللہ خان صاحب دار چوہدری نصر اللہ خانصاحب.سیالکوٹ خان محمد علی خالصا حب له خان غلام محمد خان صاحب رئمیں مالیر کوٹلہ.قادیان فضل احمد صاحب والد شیخ علی بخش مناسب سکنه شبانه ضلع گورداسپور نورا محمد خانصاحب دلار چه داری بد برخی صاحب نوراحمد قوم راجپوت سروعه - قادیان محمد رمشید خان مهمند گی دیر نگو گر جمر الغاله حال دار الرحمت قادیان موضع مدینہ ضلع گجرات عالی قادیان ۲۸۷ علی گو ہر صاحب در کاندار ہوا.قادیان ۲۸۹ سید محمود عالم صاحب موضع سر ساڈا کھاتہ جہاں آباد ضلع گیا.حالی تازیان و عطا محمد صاحب دل میرا خیش صاحب سکنه شرقپور ضلع شیخو پوره ۶۰ ۶۳ ۲۳۶ ۶۵ ۳۴۳ ۲۴۴ ۲ ۲۷۱ ماسٹر عبد الر دن بھری پیشتر (قادیان) ۲۰۶ چوہدری غلام محمد صاحب موضع ڈھیٹی ڈاکخانہ ۲۹۲ حافظ نبی بخش صاحب فیض اللہ چک ضلع گورداسپور ۲۹۷ چوہدری سلطان بخش حساب نمبر دار بیگا ضلع امرتسم ۳۰۵ فضل الہی مناسب ریٹائر ڈ پوسٹ مین قادیان ۳۱۱ سراج بی بی صاحبہ المیه بعد الدین احمد بن منشی فرزند علی خان صاحب سیٹھی غلام نبی صاحب - قادیان formed from J مولولی ذو الفقار علی خانصاحب ولد عبد العلي نعام ٣٣٤ ریاست رام پور حال قادیان نمیشه پیر افتخار احمد صاحب ولاد صوفی احمد جان اصابه لدھیانوی میاں فضل دین صاحب دل میاں محمد بخش صاحب سکتہ کالا افغاناں ضلع گورداسپور خیر الدین صاحب ولد محمد بخش صاحب قادر آباد منتقل قادیان じ ۳۷۹ احمد دین حنا روند ها ناصحاب قادر آباد متصل قادیان ۲۵ جلال الدین صاب و در کالیه حساب کوٹلی لوہاراں ضلع سیالکوٹ حال ہیڈ ماسٹر ۲۸۶ فصل الدين هنا ولد میرا هاب گرینز سکول - قادیان بر این گفتار در فضل الدین صفات ✔ فراد " ۲۷ ۲۸ ۲۹

Page 706

خمیر تاریخ احمدیت موجود داشتم نمبر شمار نام صحابی نام صحابی برکت علی صاب ودود ما ناصات قادر آباد متصل قادیان ۳۰ ۲۵ محمد لطیف صاحب ولد چوہدری محمد حسین صاحب محمدحسین صاب انتخا صاحب و در دین محمد صاحب کھیر اعصاب ولد بھا گو صاحب گوئی ۳۱ It ۳۲ V سب حج ریٹائرڈ.۲ مستری عبدالسبحان صاب ولد چوہار کی رجمون میر صاحب محله سمیان لاہور حال قادیان ۸۵ AY A ۱۵ 14 جان محمد صاحب دلد عبد الغفار صاحب ڈسکوی محلو دار البرکات قادیان میاں محمد الدین صاحب والد میاں نور الدین صاحب وسلم کھانی یا ضلع گجرات حلقه مسجد مبارک قادیان ۲۳ ۱ احمد دین صاحب ولد حیات محمد صاحب گولیکی ضلع گجرات - دار البرکات تازیان جو اتنا درد نامدار را انجام مال دارای نوار قادیان منشی محمد حسین صاحب کا تب دار میان نبی بخش صاحب قادیان - مولوی قمر الدین صاحب والد میاں خیر الدین فضان سیکھوانی مرزا غلام اللہ صاحب - قادیان ماسٹر نذیر حسین صاحب ولد حکیم محمدحسین مهاب مریم عیسی را نشاندہ 19 صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب ولد مرندا سلطان احمد صاحب قادیان A.01 ۵۲ 64 YA i I ۳۲ DA LL ۲۰ جناب شیر محمد صاب ساکن خان خسته - قادیان ۸۰ ۲۱ پیر رشید احمد صاحب ارشد ولد پر محمد رمضان صاحب گولے کی ضلع گجرات - کی رحمت اللہ صابن شاکر دار حافظ نور محمد صاحب سکنہ فیض اللہ چک حالت مار محمد دین تا داده ای ها با داوای یارومهای ایرانی ۲۳ دین محمد صاحب ولد میاں عمر دین صاحب تلونڈی عنایت خالی ضلع سیالکوٹ At AD مستری عبدالحکیم صاصب ولد مستری هر بخش صاحب ساکن سیالکوٹ حال قادیان چوہد کی نبی بخش صاب ولد چھوڑ کی زد لو صاحب بعینی با نگر متصل قادیان ماسٹر عبد الرؤف صاحب ولد غلام محمد صاحب ساکن بهره حال قادیان میان محمد حسین صاحب در میان محمد بخش من بابا AA " ۹۵ چند کی بدر الدین صاحب وند چیڈ کی کند و خانه ای ا ہوں ضلع جالندهر حال کارکن نظارت و مورد تبلیغ ۹۸ قادیان عبدارحمن جناب نومسلم وداد انگر ها بر یاست ٹونک را جوتا نه ۳) چوبد کی نور احمد خانه به داد چویدری بدرد بخش صاب ساکن شروع ضلع ہوشیار پور مالی دار الفضل قادیان ۳۳) مرزا مبارک بیگ صاب ولد مرزا اکبر بیگ صاحب کلانور ضلع گورداسپور حال دارالرحمت قادیان ۳۵ ومصاب چوہدری ماسر محمداله دار ما بودند چو ن کی حمد بیش صاحب سابق نگران تحمیل نگر گردو ضلع گورد و او را ارتقا دیانی حکیم عبدالرشید هاب قریشی دارد گم شهاب الدین حنان سابق لار صعے کی سمتہ قصور تحصیل و ضلع لائل پور میاں عبداله احمد مناسب دار حاجی غلام محمد صاحب شباوی حال دار الفضل قادیان 1.A 三

Page 707

نیمه تاریخ احمدیت جلد هشتم نمبر شمار نام صحابی صفحہ میٹر نمبر شمار نام صحابی چوہدری غلام قادر شاه در چه وری فخرالدین فضا سابق سیا لکوٹ حال دار الفضل قادیان محمد عبد الله صاب ولد مولوی رحیم بخش منا سابق ١١٢ تلونڈی جهنگلای - حال دار الرحمت قادیان ۱۳۹ مرزا منظور احدهما والد مرزا غلام الله منا قا دیانی وی 110 117 ۵۳ جناب محمد اسمعیل صاحب ولد فخر الدین صا سابق سیالکوٹ.مال دار الفضل قادیان ۱۳۳ ۲۱ چوہدری غلام مجتبی صاحب ولد محمد بخش صاحب ۵۴ میاں نبی بخشیش صاحب دار میاں جھنڈا اصاب ساکن ۴۳ ۴۴ رسولو تحصیل کھار یا ضلع گجرات معاون ناظر اور عامه 114 حکیم قریشی محمد فرد زمین های دو نیم قریشی چراغ علی صاحب علی پور تحصیل کبیر والا ضلع ملتان ۱۱۸ پور ماسٹر اشر و تہ صاحب ہیڈ ماسٹر ول یا با استان صاحب سابق قلعه دیدار سنگر ضلع گوجرانوالہ ۱۱۹ حال دارالرحمت قادیان نظام الدین حساب ولد فضل الدین صاحب لاہور حال محلہ دار العلوم قادیان ۲۵ خیر الدین صاحب ولد نظام الدین صاحب سابق تھہ غلام نبی ضلع گوره و اسپویر فرمان علی صاحب ولد پر بخش صاحب سکنه رتاسر ضلع جہلم حال محله دارالرحمت قادیان ڈاکٹر محمد بخش صاحب ولد میاں کا بجاں صاحب حمت کٹر انوائی یاست کپور تھر حال محله دار است قادیان ۲۸ مستری رحیم بخش ناب و دستری صدر الدین فضان بھانبڑی ضلع گورد و پودر حال وارا رحمت قادیان ۴۹ میاں محمد یعقوب صاب والد میان سراج الدین صاحب میاں سابق لامور حال دا را در سمت قادیان ۵۰ میاں عبد السميع صناب داد منشی عبد الرحمن هنا سابق ریاست کپور تحصله - حال محلہ دار الفضل قادیان ا الحاج مولوی بچون کی تمام حسین نماد در میان گل محمد ۱۲۳ ۱۲۴ ۱۲۸ ۱۳۹ 40 یگر وال ضلع امرتسر حال حلقه مسجد اقصی قادیان مرزا محمد حسین صاحب درد مولوی محمد اسمعیل صاحب تر گڑی ضلع گوجرانوالہ حال دا را ارحمت قادیان ڈاکٹر احسان علی صاحب والد ڈاکٹر فیض علی صاحب - صابه - قادیان میاں رحیم بخش صاحب ولد محمد ولایت صاحب پنا نوالہ ضلع گورد سپور حال وارا ترحمت قادیان جناب نبی بخش صاب در توانا قادر آباد تصل قادیان مرزا نذیر علی صاحب ولد مرزا احمد علی صاحب حلقه مسجد اقصیٰ قادیان جناب محمد رمضان صاحب داد عید خان صاحب موضع جانگر یا ضلع سیالکوٹ جائی دارالفضل قادیان ۱۳۷ iFq ۱۴۰ ۱۴۱ 후 ۱۳۳ سید ولایت شاه صاب ولد سید حسین علی شاه هاست کوٹلی نکلی متصل گرداسپور - حال دار الرحمن قادریان ۱۴۳ جناب محمد رمضان صاحب ولد بڈھا حساب سابق تر گڑی ضلع گوجرانوالہ - حال قادیان ماسٹرمون بخش مناسب در عمر بخش مناسب سابق موضع میں تحصیل در ضلع انباله در ایران نوار قادیان جناب عبد الله صاحب ولد الله بخش حساب سابق نهینی ضلع رشک حالی دار الرحمت قادیان ناموں خانصاب دارد کالو خانصاب سابق با پیواڑہ اه سابق پی ای این نیز جان مال دار القص ادیان ۱۳۱ تحسین مرا از ضلع در عین حال حلقه مسجد اقصی قادیان ۱۳۵

Page 708

ضمیر تاریخ احمدیت جلب شتم نمبر شمار ۷۲ ۷۳ نام صحابی میابی اللہ رکھا صاحب ولد میاں امیر بخش منا سابقون نارد وال ضلع سیالکوٹ حال دارا مرحمت قادیان جناب عبد اللہ صاحب اور غلام الدین صاحب سابق گو گھر وال ضلع لیا کہوٹہ جالی سیتی پھلہ قادیان جناب خیر الدین صاحب ولد مستقیم صاحب سابق د و بعد دال ضلع امر تسر حال ناصر آباده قادیان ایک حسن محمد صاحب ولد ملک امیر بخش صاحب سابق ممبریان ضلع سیالکوٹ حال قادیان جناب نور الہی صاحب ولد احمد دین صاحب سابق بھیرہ حال قادیان ملک شادی خانصاحب دار ملک امیر بخش صاحب ۲۲ A.۱۵۱ ۱۵۲ 사 نام صحابی صفحہ جیٹی میان نظام حسن مصابا سیکرٹری تعلیم و تر بیت محمد و آبا د تحصیل مسلم چو ہد کی محمد عالم صاحب جہلم مستری کریم اپنی صاحب محمود آباد تیل مہلم ۸۳ میاں عبد الرحمن صاحب ^ ۱۵۳ ۱۶۵ سید اختر الدین احمد صاحب کشکی حملہ کو بھی اختر احمد حمله سونگھڑا.ضلع کٹک اڑیسہ ٣١٠ ه میان معراج الدین جناب پہلوان محلہ پر لگائی ہو ۲۱۵ حافظ عبد العلی صاب ولد مولوی نظام الدین قنات AY AL 171 14- 14 ۱۸۰ منوط اور در ضلع شاہ پور حال مقیم سرگودہا شیخ محمد فضل مصاب نزد سبزی منڈی پٹیالہ حاجی محمد صدیق صاحب پٹیالوی حال دانسر سے ہاتہ سی نئی دہلی سید ناظر حسین صاحب سانس کا بو د الی سیدان ضلع سیالکوٹ جناب سلطان علی صاحب قریشی، گودی کی ضلع گجرات سکنہ ۲۱۷ PIA ۲۳۵ ۲۲۷ محمد فاضل صاب ولد نورمحمد اب کنه کبیر ان ایا این ۲۳۸ حکیم محمدعبدالجلیل صابه بمیری حال قلعه شیخو پوره ۲۴۳ 49 سابق سیکھواں حال دارالرحمت قادیان جناب بدرالدین صاحب داد گل محمد منا سابق مالیر کو نا حلال دارد الرجمت قادیان حکیم عطا محمد مناسب و در حافظ غلام محمد صاحب صوتی با نزار یا بد در حالی مسجد فضل قادیان میاں جمال الدین صاحب سیکھوانی جناب نظام الدین صاحب سابق موضع نبی پور متصل ضلع گورو اسپویر ۱۸۶ ۹۳ ڈاکٹر عطر دین صاحب وٹرنری انسپکٹر بھیٹی لا ۲۳۴ اب عبد الرشید نا ولا نواب سابق کانی خورم ۹۴ متری نظام دین صاحب بیانگر یاں ضلع سیالکوٹ ۲۴۷ تیل ویلی کیم کو کھا تو پھر حال مالاکنڈ ایجنسی چھ قاضی محمد یوسف صاب ولد قاضی محمد صدیق صاب ہوتی مردن حال مقیم شہر پشا دور د کو چھ گلباشا علاقہ جہانگیر پورہ) ماسٹر عبد العزیز مصاب ساکن نوشہرہ تحصیل پسر در ضلع سیالکوٹ 9 منشی نو را حمد صاحب فیلم ۹۵ ۱۹۲ منشی تنظیم الرحمن صاب و در منشی شیخ عبد الرحمن صاحب حاجی پورہ ریاست کپور محله ۱۹۳ ۹۶ با بود اکبر علی صاحب ریٹائرڈ انسپکٹر آف بابو ۲۰۴ ور کس اکبر منزل قادیان شیخ عبد الوہاب صاحب نو مسلم ۹۸ چند می حکم دین صاب در چه ند ی نبی بخش صاحب سابق دیا گڑھ حال دارالرحمت قادیان För ۲۹۴

Page 709

۲۳ نیمه تاریخ احمدیت جلد ہشتم نمبر شمار نام صحابی صفحہ رجسٹر نمبر شمار نام صحابی صفحور جیر حافظ صوفی غلام محمد مناسب و در میا دل محمد منا سابق مچھرا تحمیل نشانه ضلع شیخو پور حال دار الرحم قادریان ۱۰۰ احمد اللہ خانصاحب ولد قدرت اللہ خانصاحب سابق شاہجہان پور - حال قادیان 10 میاں اللہ دین صاحب دلار میاں احمد دین صاب ٤٠٣ ۱۰۴ سابق شاہدرہ - حال قادیان ۳۲۹ جناب حکیم ہدایت الله صاب پنڈ دی کنگور سٹڑیاں ضلع ہوشیار پور رحمت علی شاہ صاحب ولد فتح علی شاہ صاحب بھینی بانگر ضلع گورداسپور +ya ۱۱۳ ملک عزین احمد صابت دار الفضل قادیان ۳۷۱ 11 خطوط اسیدنا مسیح الموعود بنام سید نادرشاه امانی سلطان احمد صاحب ولد چھہار کی نور علی صاحب ۱۱۶ محمد رشید خانصاحب اسٹیشن ما ن ماسٹر شکتی سابق بیاد تحصیل ضلع گورداسپور حال در ابر کا ادیان رشید منزل دار ا رحمت قادیان ٣٨١ شیخ غلام مرتضی صاحب ولد شیخ عمر بخش صاحب ۱۱۷ جناب الله و ته صاحب ہیڈ ماسٹر تازیان ۳۹۷ سابق دوالہ بانگر تحصیل و ضلع گورداسپور ۳۳۶ ۱۱۸ ڈاکٹر قاضی عمل دین صاحب پیشتر سابق ہو یا کہیے حال دار العلوم قادیان حالی قادیان محمد اسمعیل صاحب ولد محمداکبر مصاب سابق بٹالہ ۱۱۹ میر مهدی حسین صاحب - قادیان حال حلقہ مسجد اقصی قادیان ۱۰۵ مولوی برکت علی صاحب والد میای امیر بخش صفات سابق ۳۴۱ ۲۰۵ ۴۰۸ ۱۳۰ میاں نظام الدین صابی ٹیلر ماسٹر جیلی - قادیان ۴۱۰ میاں امام الدین صاحب سیکھوانی قادیان ۲۲۰ بھیو ال ضلع مہوشیار پور جالی دار الفضل قادیان ۳۲۷ ۱۳۲ میاں نور محمد صاحب سابق کوئٹہ بلوچستان ۴۳۳ نور 19 والده قاضی بشیر احمد ناب بھٹی ولد عبد الرحیم ۱۲۳ میر مہد کی حسین صاحب.قادیان PA صاحب بھٹی کوٹ قاضی ما بی حساب و در محمدی صاحب منگل باغبانان ۳۵۱ جے فضل الى صاحب دلار محمد بخش مناسبه قادر آباد متصل قادیبان 109 محمد محسن صاحب تاج و در مولوی تاج محمد صاب سابق الدمعیانه حمال دار الرحمت قادیان حامد حسین خان صاحب لد محمد حسین صاحب سابق مراد آباد حمالی قادیان جناب حاکم علی صاحب سابق چک پینیار roy ۳۵۴ ۴۳۶ ۱۳۴ ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب قادیان ( ۳۳۹ ۱۲۵ مفتی فضل الرحمن صاحب ۱۲۶ ۴۴۳ ملک غلام حسین حنانه متناسی در ارحمت قادیان ۴۶۰ رجی نمیشه مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پو ری - قادیان ۱ تا ۷۵ ہ میاں رحمت اللہ صاحب سابق طفل والا حال والاعطال ریتی پھلہ قادیان 40 قاضی نور محمد صاحب دارالرحمت قادیان ۷۶ ضلع گجرات و چک را شمالی سرگودہا ۳۶۲ ۲ بھائی محمود احمد صاحب حال قادیان وی امام محمد ان ہی ہیں یا بیٹی پڑھائی کو قادیان A.

Page 710

۳۴ نام صحابی ن ۲۵ رحمت اللہ صاحب دامن دار البرکات قادیا ۱۶۹ چوند کی مولا بخش دور حاسب ننگل با غبانان منتقل قادریان بھائی شیر محمد صاحب تاجه قادیان با یو فقیر علی صاحبہ کیا ٹو ڈاسٹیشن ماسٹر دار البرکات قادیان ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب پیانوی انچارج نور ہسپتال قادیان 16.\A) JAY ۳۰ میاں فضل الدین عبدالله محام قادیان ۲۰۳ مرزا افضل بیگ صاحب ساکن قصور ضلع 글 الا ہو.حالی محلہ دار الرحمت قادیان میر مہدی حسین مناسب ساکن موضع سید کھڑی ۲۰۹ ۲۱۴ تحصیل را جورده علاقه دریاست پٹیالہ ۸۴ AA ۹۳ 40 خیمه تاریخ احمدیت جلد ہشتم نمبر شمار نام صحابی سید شاہ عالم صاحب قادیان با با محمد حسن صاحب میابی روشن دین صاحب در و ملک غلام حسین همان که بتهای قادیان سید حسن شاہ صاحب ناصر آباد قادیان ، گر گئی میابی وزیر محمد صاحب سکند رہتاس حال ۱۰۳ علی محمد صاحب کو کھو وال ضلع لائل پور در ۱۰۴ حال رہتی پھلہ قادیان " ۱۰۵ ماہی کمہار صاحب حلقہ مسجد فضل قادیان 1.1 " ۱۰۸ IF 1 ۱۳ میاں بڑھا صاحب v ۱۵ میان صدر الدین صاحب ر ۱۶ شیخ احمد دین صاحب نگرمی حال ۱۸ خان بهادر غلام محمد صاحب بھیروی حال ۳۳ چو ہدری حاکم دین صاحب شادیوال ضلع حلقه مسجد فضل قادیان 11- حجرات حال دار الفضل قادیان ملک نور خانصاحب سکنہ سروالا حال کارکن ۳۳ مرزا عمر دین صاحب ٹو بہ ٹیک سنگھ حال دختر بیت المال قادیان 110 19 مفتی فضل الرحمن حساب بھیری - قادیان ۱۲۱ مستری بعد انبخش صاحب عرف مومن بھی پیانوی دار الرحمت قادیان حلقہ مسجد اقصی قادیان ۳۵ میاں محمد شفیع صاحب اوور سیر پی ڈبلیو ڈی ڈیرہ اسمعیل خان متوطن او بیله متصل گور در سپرور ۳۶ میاں عبد الرحیم صاحب قادیان ۲۱ مولوی محمد جی صاحب سکنہ کو کھنگ ضلع ۳۷ مولوی فخر الدین صاحب گھر گھیاٹ سیکرٹری ایبٹ آباد حال دار الفضل قادیان ۲۲ میاں فضل محمد صاحب ساکنہ ہر ضلع گورداسپور حالی قادیان ڈاکٹر فیضی علی صاحب صابر قادیان ما ۱۳۹ امانت جائیداد تحریک جدید - قادیان ۲۱۸ ۲۱۹ ۲۲۱ ۲۲۲ ۲۳۳ میاں محمد یسین صاحب موٹوڈرائیور حضرت میابی سلطان احمد صاحب گھور گھیاٹ ضلع شاہ پور ۱۳۹ قاری نظام پیشین صاحب سکند رسول پو و تحصیل کھاریاں ضلع گجرات حال دارالعہ قادیان میان گوهردین صاحب قادر آباد منتقل قادیان نواب محمد علی تعالی سکنہ گوہد پور ضلع ۱۹۸ ام شیخ مهردین صاحت دار الصا سیالکوٹ حالی دار العلوم قادیان ۲۳۷ ۲۳۸ ۲۴۹ ۲۵۱ } میاں حشمت الله خان سکنہ بدایود مال العلوم قادریان ۲۵۳

Page 711

۲۵ ضمیمه تاریخ احمدیت جلد ہشتم نمبر شمار نام صحابی صفحہ حسین نمبر شمار نام صحابی ۴۳ منشی محمد اسمعیل صاب سابق ملہیاں ضلع امرتسر بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی متون کنجرور ۲۵۵۱ حال محله دارالرحمت قادیان مولوی کرم الہی مناسب سکنه کها را متصل قادیان (۲۵۷ م علیم عبد الغنی صاحب سابق دو موسه ضلع دام ہوشیار پودر حال کارکن نظارت بیت المال شادیان زنان تحصیل شکر را در ضلع گوڈا ایک سال قادیان جبر نم ا مفتی چراغ دین صاحب بٹالہ ۲۹۶ 1-7-10 ۲۶ میاں کرم اپنی صاحب کند بھی محال قادیان ۲۲۶۳ میاں عبد العزیز صاحب والمورو مغل لاہور ) ۴۸ ۵۰ میاں محمد اکبر علی صاحب سکنہ بہا در ضلع گورداسپور حال دار الرحمت قادیان ۲۶۶ حال دار الرحمت قادیان ملک فضل الدین صاحب کند دو دھرم کوٹ لگا ضلع گورداسپور در حال حلقه مسجد فضل قادیان مولوی غلام احمد صاحب فانسل بر دیہی محله دار الرحمت قادیان چوہد کی کریم بخش صاحب کنہ پنجگرائیں تھیں پسرور ضلع سیالکوٹ ا جو بدری برکت علی خانصاحب گروه شنه مضلع ۵۲ 679 Fu میاں خیر الدین سراح صاحب کنته بودھیا نه میاں عبد اللہ خان صاحب سکنہ مالو کے بھگت ۵۸ تضلع سیالکوٹ ۶۴ ملک خدا بخش صاحب لاہور روایات با بو غلام محمد صاحب ثانی.لاہور محمد از همین صاحب کپور تقوی را پوره میر مسعود احمد صاحب سیالکوٹ 9 قاضی محبوب عالم صاحب لاہور وشیار بود در فنانشل سیکرٹری تحریک بعد در ادیان ۲۰۷ با بو فقیر الله صاحب اور منشی غلام محمد صاحب بیشتر ۵ امته العزیز بیگم صاحبه بود حلیم دین محمد صاحب مرحوم سابق امیر جماعت احمدیہ گوجر انو از حال محلہ دار العلوم قادیان ۵۳ جیون بی بی صاحبہ آف گوجرانواله حال ۵۵ نواں پینڈ ا حمد آباد قادیان ۵ میاں غلام حید ر صاحب ساکن ترگڑی ۲۸۰ ۲۸۲ ٢٨٣ میاں محمد شریف صاحب ریٹائرڈ ای آسیا قاضی عبد الغفور صاب ساکن بھا نسی ای او پنڈی الف ٣١٠٠ AN 49 firreir ۲۲۰,۲۰ ۱۳۱ ۱۳ 144 میاں معراج الدین صاحب عمر لاہور 144 ۱۳ میان اللہ یار صاحب ٹھیکیدا به متوطن جهود الی ضلع گورها سجود در حال قادیان 14 • ضلع گوجرانوالہ - حال دارالفضل قادیان ۱۵ روایات سید محمد شاه صاحب شاه مسکن ۲۲۰ مولوی حکیم انوار حسین صاحب شاه آبادی (۳۸۳ مولوی فخر الدین صاحب پیشتر گھر گھیات عمال محل دار الفضل قادیان ۱۹ روایات حکیم محمد حسین صاحب مریم معینی ۱۷ سید محمد اشرف صاحب لاہور دیا ۲۹۵ ۱ مرزا محمد صادق صاحب لاہور میاں محمد اسمعيل هنا سا کوئی محل و الفضل قادریات لاہور Y

Page 712

ضمیمه تاریخ احمدیت جلد منشتم نمبر شمار نام صحابی I ٣٩ نام صحابی صفحہ میٹر رحسبہ نمبت ۲۱ منشی میم جدید رهاب قادیانی گیا اسلام این که برانی ۲۲ میاں فیروز الدین صاحب سیالکوٹ مولانا غلام رسول صاحب فاضل را جیکی میان چه شد ۲۳ میاں محمد عبد اللہ صاحب محلہ کو پھر حسین شاہ شيخ عبد الغفور صاحب تاجر کتب گجرات میابی ہاشم خان صاحب گجرات.نہ میاں شرف الدین صاحب کراچی کے ضلع گجرات یرا در مولانا غلام رسول صاحب را جیکی) الم ڈاکٹر علم الدین صاحب کر دیا نوالہ ضلع گجرات ۴۱ ملک برکت علی صاحب گجرات (والد ماجد ملک عبد الرحمن صاحب خادم میاں امیر الدین صاحب باخنده گجرات ۶۰ چونڈ کی احمد دین صاحب وکیل ملک عطاء اللہ صاحب گجرات ۱۰ میاں رحیم بخش صاحب گجرات 10 ۶۶ " میاں غلام محمد صاحب بافنده محله باغبانپوره 49 AY ۲۴ ۲۵ سیالکوٹ میاں گلاب الدین صاحب محلہ حکیم حسام الدین سیالکوٹ میاں الله وته صاحب اور میابی قمر الدین شرک حملہ حکیم حسام الدین سیالکوٹ میان شیخ مہرالدین ان تمام حکیم حسام الدین سیالکوٹ ۲۷ میاں محمد نوانہ تھا نصاب ساکن ڈیرہ اسمعیل تھاں حال سیالکوٹ ۱۲۵ ۱۳۴ IFY ۱۳۷ حافظ محمد شفیع صاحب محلہ جنڈ انوالہ سیالکوٹ ۱۴۴ حب ۲۹ ميا عبد العزيز مضا محله حكم حسام الدين ۳۰ میاں نبی بخش صاحب ۳۱ متری محمد الدین صاحب گوجرانوالہ ۱۰۳ ۳۲ میاں عمر الدین صاحب محلہ اراضی یعقوب ، تعظیفہ نظام الدین صاحب سیا کوئی مال گوجرانوان ۱۰۴ ۳۳ میاں مہر عمر الدین صاب سیاں کرم الہی صاحب جراح گوجرانوالہ " ۱۴ شیخ صاحب دین صاحب ڈھینگرا چوند کی عبدالعزیز جناب گلی اس ملتانیان در 14 شیخ محمد الجمیل صاحب میاں محمد ابراہیم صاحب.خواجه محمد شریف صاحب ولد شیخ صاحب صاحب گلی آساملتانیاں گوجرانوالہ 19 میاں میران بخش صاحب شیار ما سر گلی آسا ملتانیان گوجرانوالہ ۲ حکیم عید از بین صاحب گلی ساعت نیان ۱۰۵ میاں میران بخش صاب الرقم ۳۵ حاجی عبد العظيم مناسب ۳۶ 1-4 ۳۷ 1-4 114 114 چھید کی محمد الدین صاحب ٹیلیٹ ایسٹر در مہر غلام حسین صاحب ۳۸ منشی احمد دین صاحب گراف گوگو " " " ۱۳۹ حسین بی بی مصاحبه نه وجه مستری غلام قادر رفتن سیا لکوئی محلہ اراحتی یعقوب سیا لکوٹ میاں محمد شریف فضا گوندنی زرگر ۱۵۱ ۱۵۲ Ibr ۱۵۶ IAL 141 ۱۶۲ ۱۶۷ 144 14A 144 " " ام میاں محمد امام الدین صاحب موضوع پکا گڑھا تحصیل سیالکوٹ IA.

Page 713

نام صحابی صور میرا نمبر شمار نام صحابی قیمه تاریخ احمدیت جلد هشتم ۳۲ میان تیم کشیش صاب چونڈہ ضلع سیالکوٹ ۴۳ عالم بی بی صاحبہ بنت مستری کرم الہی صاحب چونڈہ ضلع سیالکوٹ ۴۴ چوہد کی حسن محمد صاحب ۱۸۳ ۱۹۳ ۶۵ چو ہد کی اللہ بخش صاحب منگو نے ضلع سیالکوٹ ۶۶ میاں سیف اللہ صاحب چندر کے " فضل الدین صاحب منگولے امحمد اسحق صاحب 49 خانصاحب ر نصر اللہ خان صاحب نمیر شانه درد " " مرة ۲۶۲ ۲۶۵ ۲۶۶ ۲۹۷ " چوہدری حاکم دین صاحب میانوالی خانانوالی ضلع سیالکوٹ چوہدکی عبداللہ خانصاب دانا زیادہ کا ۲۶۸ ٢٠ ۲۵ ۴۶ در رسول بخش صاحب ر نبی بخش صاحب ۴۷ میاں امام الدین صاحب ۳۸ پوند کی رحمت خانصاحب المراة " ۶۸۱۱۱۹۴ " 190 L 1-1 لمدار مولود ۲۰۵ " ۲۰۶ " " ۷۲ ۳۹ سردار بیگم صاحبه زوجه چوهدری مدرسین صاحب سکنہ تلونڈی عنایت خان ضلع سیالکوٹ ۲۰۰ ۵۰ ۵۱ میاں اللہ رکھا صاحب نوشہرہ ککے زئباں رکھا کے ضلع سیالکوٹ ۲۱۴ میان عید اثر ناب موضع کھیرا ۵۲ موسیٰ خانصاحب " ۲۱۵ س ۵ و جلال الدین صاحب ۵۲ مولوی محمد عبد الله صائب ۲۱۷ 31 〃 " " ۵۵) چوہد کی نورالدین حساب مایو بھنڈیاں غلام حسین حساب گھٹیالیاں ۲۷۴ " میاں محمد رشید صاحب سکنہ ڈالہ حال گھنو کے ضلع سیالکوٹ سیا طالب دین صاحب " دے چونڈ کی جیون خانصاحب به قرار LA چوہد بقیه روایات میاں فضل احمد صاحب پٹواری حلقہ گورداس منگل میاں اللہ یار صاحب ٹھیکیدار چوہد کی محمد دین حساب قلعه صو با سنگر ضلع کیا کوشت محمدی صاحب گھٹیالیاں ۳۳۵ ۷۹ ، عبدالرحیم صاحب هستید ندیم همین صاحب کوئی " م الله " ۲۳۷ " For 49 A.یا کوکو دیوان شاہ صاحب ڈوگر یا جودہ منتقمل نار و دال عالی قلعه صود با سنگھ ضلع سیالکوٹ ۲۷ PLA ۲۸۰ ۲۸۹ ۲۹۰ ۱۲۵۴ نشی نور محمد صاحب ہر سیانی ضلع گورداسپور ۲۹۱ ۵۸ حسین کا تشہیر کی صاحب چوند کی جہاب الدین صاحب T شاہ محمد صاحب ۱ میاں گلاب الدین صاحب ۶۲ جدید کی حیات محمد صاحب ۶۳ میان بدرالدین صاحب " حمد " تحریم ۲۵۵۱ " 1 شندر حسین صاحب کمہار سکنہ چنے کے ضلع سیالکوٹ حضرت مولانا محمد اسمعیل صاب فاضل پروفیسر جامعہ احمدیہ قادیان.ہلالی پور تحصیل بھلوال ۸۲۵۷ ماسٹر عبد الرؤف صاحب بھیر دی سابق.۲۵۸ ۲۶۱ ۸۵ ۲۹۲ ۲۹۴ سی گھر کی تعلیم الاسلام ہائی سکول قادریان حضرت مولانا شیر علی صاحب قادیان ۲۹۷ ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب قادیان ۳۰۷

Page 714

نیمه تاریخ احمدیت جلد هشتم نمبر شمار نام صحابی صفحہ جبر نمبر شمار نام صحابی صفحہ میٹر میاں فتح دین مصاب ساکن ستور کے ضلع لاہور ۳۰۹ سید مهدی حسین صاحب قادیان " A میابی عبیدالرشید صاب والد میاں چراند ین نام An 41 ملک غلام حسین ها از متناسی در ارحمت قادیان میاد خدا بخش صاحب مومن جی پٹیالوی دار الرحمت قادیان ۳۴۴۴ لاہور چیف ڈرافٹمین پی ڈبلیو.ڈی سنٹرل در کشاپ امرتسر میاں عبد الغفار مصاب بجراج بازار قلو هنگیان امرتسر PA شیخ محمد اسمعیل صاحب سرسادی قادیان (۱۳۴۵ ۱۰ میاں محمد سمیل ها انجام بازار کیان امرتسر ترس ۳۳۴ شیخ عطاء محمد صاحب سابق پٹواری و نجوان محمد ضلع گورداسپور ۳۵۵ ڈاکٹر غلام مصطفے صاحب الد شیخ غلام قادر صاحب کنہ بٹالہ حالی امرتسر کوٹ لے زیاں ۴۵ میای شرف الدین صاحب سکنہ نوشہرہ پنواں حال کٹرہ خزانہ گلی مسجد والی امرتسر ۴۶ ڈاکٹر حشمت اله الا اب انچارج اور سیستانی قادیانی حضرت مولانا سرور شاہ صاحب ۲۵۹ ۹۳ مولوی حکیم نظام الدین صاحب باكن موضع شیخ زین العابدین من عصر غلام نبی ضلع گورداسپور ۴۷ کھیر انوالی متصل کپور تھلہ 90 میاں جمانی الدین صاحب سیکھوانی سٹر نمبر رجسٹر با با تیم بخش صاحب کی تقصیر سندر محله بیوان در ایان درمیان غربی ڈیوڈ بھی حصہ شیخ مشتاق حسین صاحب لاہور ۳۳ ۱۵ 790 ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب قادیان 10 ملک غلام حسین صاحب بستاسی قادیان میاں محمد دین صاحب دلد میاں نور الدین صاحب ضلع گجرات سید زین العابدین ولی الله شاه حسن قادریان مرزا برکت علی صاحب متوطن ہیٹی ضلع لاہور حالی قادیان ،، 2- ۱۴۴ میان امام الدین صاحب سیکھوانی محله 19 اللہ بخش صاحب دند حاجی نبی بخش حساب قادیان ۱۴۵ دار الرحمت قادیان ۲۰ ماسٹر محمد طفیل صاحب محلہ دار الفضل حاجی محمد موسی صاحب نیلہ گفتباری بود ستری اللہ رکھا صاحب تر گڑی ضلع گوجرانوالہ حال نابوده ۲۱ ماسر عبدالرحمن صاحب سابق میر سنگر مکنده ڈومیلی تحصیل پھگواڑہ ریات کیٹونی تعلم ان را اعلام میان عبد الرزاق صاحب سیا کوئی حال قادیان (۱۵۸ مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری ۱۶۵ چوہدری عبد القادر صاحب سکنہ سمجھ والی ۲ شیخ محمد اسمعیل صاحب سر سادی تحصیل گڑھو شنکر ضلع ہوشیا در پودر اسٹرو رہا وے خان صاب شریف پور ۲۵ مولوی عالی ملک صاحب کھیوالی ضلع امرت جہلم

Page 715

۲۹ قیمه تاریخ احمدیت جلد هشتم نام صحابی خامه حمت ن صفور جیرا نمبر شمار نام صحابی صفور جیٹا و tar ۵۰ میر مهدی حسین صاحب قادیان ملک غلام حسین صاحب رہنا سی قادیان ۲۰۸ 14- " 140 bi ۲۷ چوہدری عبدالرحیم صاحب محله دارا ازرحمت میاں وزیر محمد خان صاحب سنی پور آسام ۱۷۹ ۲۹ ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب ۱۸۲ شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر نور 196 الیڈ میٹر ۱۹۷ ۵۲ میرحسین صاحب قریشی ۵۳ ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب ۵۴ چوہدری عبد الرحیم صاحب " " چوہدری نعمت اللہ خان صاحب گو شہر سکنہ ۵۵ صوفی نبی بخش صاحب دار الرحمت در پیشور ضلع در میانه ۲۰۱ ۳۲) ڈاکٹر محمد ابراہیم صاحب صوفی عطاء محمد صاحب انہوں ضلع جالندھر ۲۰۷ میاں محمد حسین صاحب آفت و تریم ساله ۲۱۲ ۳۵ مولوی عزیز دین صاحب پٹی ضلع نا ہو ۲۱۳ رسید محمد قاسم صاحب نکنه شاہجہان پور ۲۷۰ حکم چراغذدین صاحب کو چھوڑا ضلع گجرات 14 تا اختان کو مسلم معلوم مسلم دای امیر مولوی نورالحق صاحب کے داد امان امان مرزا غلام نبی صاحب کہنہ پنڈی لالا تحصیل پھالیہ ضلع گجرات ڈاکٹر غلام مصطفے صاحب کھاریاں ۲۲۷ ۲۰ میاں محمد اسحق صاحب کہ کھر پیٹر ضلع لاہور ۲۲۸ 07 AL on 09 บ ۶۳ ۹۳ ۳۰۵ " منشی امام الدین صاحب بیداری » شیخ مشتاق حسین صاحب کند گوجر انواله حال لاہور حکیم محمد شاء اللہ صاحب نظامی سکنہ پھلور شاء الله ضلع جالندھر محلہ قاضیاں قادیان میاں غلام قادر صاحب متوطن سنگه و عه ضلع ) بھا اندر مبارک علی حساب قریشی سکنہ لو میاں ضلع ۳۱۵ ۳۳۹ " حکیم شیخ محمد صاحب که دسر انه اله دارد دنیای ۳۲۰ حافظ عبدالعلی بنا بر ا در حضرت مولانا شیر علی صاحب سر گنده ها چوہدری فقیر محد منا سکنه محمود آباد ضلع جہلم میاں فتح دین صاحب بے کنہ رہنے والا ضلع ۶۴۲۲۹ ۶۴ میاں محمد ظہور الدین صاب سکنہ ولی کہار آگره ۲۳۱ میاں فتح محمد صاحب که سرشت پور ضلع ہوشیار پور ۴۳ میاں نور محمد صاحب کنه و تجوال حال امرتسر ۱۲۳۲ نورمحمد صاحب تیس میان محمد دین صاحب کند سید ال ضلع شیخوید ۳۳۳ خانصاحب سید غلام حسین صاحب سید وٹرنری ڈاکٹر بھیرہ ضلع شاہ پور میاں امام الدین صاحب ملک پور جٹاں میاں عبد العزيز صاب المعروف مغل لامور - ۲۳۴ تحصیل کھانے یاں ضلع گجرات ۴۶ حافظ غلام رسول شاب وزیر آبادی - قادریان ۲۳۶ مولوی عبد الرحیم صاحب نیز قادریان مولوی فضل التي صاحب دارالرحمت قادیان (۲۵۹ ۲۹ شیخ غلام قادر تن سکنه نه اعلام بی حال I رجسٹر نمب حافظ نجی بخش صاحب متوطن فیض اللہ چک حال دار الفضل قاديان ۳۴۸ ۳۵۰ ۳۷۳

Page 716

i همه تاریخ احمدیت جلد هشتم نمبر شمار نام صحابی صفحہ رجسٹر نمبر شمار نام صحابی حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب مفتی ۲۱ موں نا محمد ابو الحسن صاحب سکنہ کان ماٹر سلسلہ عالیہ احمدیہ جدیدی محمد عبدالله صاحب کند کو گھر دل ضلع میو ۵ کوہ سلیمان ضلع ڈیرہ غاندی خال میاں جان محمد صاحب المعروف جند و دا ฯ ۱۲ ةة شیخ نورالدین صاحب تاجر کتب قادیان دستوطن و حرم کوٹ کر نڈھا وا ) مولوی عبد الرحیم صاحب نیتر حکیم عبد الصمد خان صاحب دہلوی میاں خیر الدین صاحب کینہ ڈھاڈا یوال متصل اجتناله میان تعلام محمد صاحب کن بٹالہ شیخ عبدالرشید صاحب بٹالوی سید دلاور شاہ صاحب آف لاہور چوہد کی بڑھیا صناب سکنہ رجوعہ تحصیل پھالیہ ضلع گجرات میاں محمد اسمعیل صاحب سیکھوانی ڈاکٹر محمد منیر صاحب آن امرتسر ۱۳ حضرت خلیفہ نورالدین صاحب جمونی ڈاکٹر عبد المجید خان صاحب شاہجہانپوری میاں غلام حسین صاحب بھٹی سکنہ نتا کپور تحصیل كبير والا ضلع ملتان IA J میاں ڈاکٹر محمد اشرف صاحب سرجن سکنه علی والی ضلع گجرات شیخ عبد الكريم صاحب ولد شیخ غلام محمد صا جلد سانه - کراچی میان محمد شریف صاحب کشمیری مسکنه پکھی والی ضلع گورو اسپوند صاحب سکته بیستی بنر دار تحصیل سنگھ دو ضلع ڈیرہ غازی خان ۲۳ میابی اللہ بخش صاحب بیستی بزورا نہ ضلع ڈیرہ غمانه ی خان میاں الله د تا صاحب سکنہ تر گڑی ضلع گوجرانوالہ ۱۳ ۲۳ ۲۵ ۲۵ ۲۸-۲۴ با توحید العزیز صاحب اور سیر گلی آسا ملتانیان گوجر انوالہ ۴۹-۲۶ ۲۶ بابومحمد عبد الله صاحب سگنیار سکنه فیض اللہ چاک ضلع گورداسپور a ره ۲۸ ۵۳ ۵۸ AA ۹۲ 4 بقیه روایات حضرت مولانا راجیکی صاحب منشی سلطان عالم صاحب کند گور ہریالہ تحصیل کھاریاں ضلع گجرات ۱۲۷ ۱۲۸ ۱۳۵ ۱۳ ۱۳۳ ۱۴۷ ۱۵۶ چوہدری حاکم علی صاحب چک پنیا ضلع گجرات میاں قطب الدین صابه بودی مشکل ندان گورد آیه ۱۳۸ ا میابی حیات محمد صاحب کنه دبیر والہ تحصیل ڈسکہ ضلع سیالکوٹ نر سید محمد حسن شاہ صاحب سکنه سرانوالی ضلع سیالکوٹ ۳۳ سید تاج حسین صاحب بخاری میڈیا ٹر ۱۱۵ ۳۵ ۲۰ میابی محمد صدیق صاحب پیانوی حال در لی ۱۲۲ نے نما تاج سب سکول براسته گوجه ضلع نا کپور گه میاں الہی بخش صاحب سابق بھٹی رسان گنڈا سنگھ والا حضرت حافظ غلام رسولی صاحب وزیر آبادی 109 ۱۵۰ ۱۵۲ ام خدا IDA

Page 717

I ضمیمه تاریخ احمدیت جلد ہشتم نمبر شمار } نام صحابی میان عبد العزیز صاحب الدمیان عدل الدين فضا ۵۵ نام صحابی صفحہ میٹر میان عبد العزیز صاحب سکنه چک سکند در ۲۹۲ سابق شکار ما چھپیاں ضلع گورداسپور حال محله ۱۶۸ ڈاکخانہ کھاریاں ضلع گجرات دار العلوم قادیان مولوی محمد اسمعیل اب که نوگرای ضلع گوجرانواله 14A ۵۶ صاحب شیخ عطاء اللہ صاحب نو مسلم اسلامیہ پارک پر کچھ روڈ مزنگ لاہور ۲۹۶ ۳۸ میاں صوبہ صاحب روایات میاں سوہنے خانصاحب کہ میانہ ڈا کیا نہ راجے پور ضلع ہوشیار پور 197 ۵۷ DA میاں عبد المجید صاحب که قصبه آنور ضلع بانشین مین خانزادہ امیر اللہ خان صاحب کند اسماعیلیہ تحصیل صوابی ضلع مردان ۲۰ شیخ غلام حسین صاحب بو ده یانوی سکرٹری مولوی فضل الہی صاحب ارابرات قادیان ۴۱ مال دہلی میان جان محمد صاحب سکنہ علاقہ تیراه ۲۰۹ مائی کا کو صاحبہ سکنہ سیکھوان ڈاکٹر عبد الغنی صاب کرک با زیاد کا مال افریقی ۲۱۱ یا بوشاد عالم صاحب سکنہ جہلم ۲۵ میاں محمد حنیف صاحب منلود ار نہر محبوب منزل امرت سر ۳۶ حکیم نواب علی صاحب فاروقی ۲۲۹ ۲۳۱ رجسٹر نمب ۱۳ چوہدری غلام محمد صاحب سکنہ گھٹیا لیان ضلع سیالکوٹ چندری غلام احمد صاحب کنه چک نمیده چکنے ۳۱۵ ڈاکخانہ فقیروالی ضلع بہاول نگر اصل سکونت ۳ تلونڈی جنگلاں نسلع گورداسپور میاں مول بخش صاحب لوہار سکنہ بھیرہ ۲ ۳۷ بابو عبد الرحمن مناسب امیر جماعت احمدیہ انباله ۲۳۷ مسماة طالع بی بی اہلیہ مشتری کرم الدین ۴۸ ۲۰ میاں عبد الرحیم صاحب سکنه انباله دیر اور حقیقی با لبو عبد الرحمن صاحب انبالو می ۲۶۲ انبالوی) ۲۹ مرزا قدرت اللہ صاحب دارالفضل قادیان ۲۹۵ ۲۹۱ ۵ صاحب بھیرہ مولوی امیر الدین صاحب کند گجرات مرزا محمد کریم بیگ صاحب ولد میرزا ۵۰ مولوی جلال الدین صاحب گھر بیٹر ضلع لاہور ۲۷۰ جیون بیگ صاحب 2 منشی محبوب عالم صاحب لاہور میاں عبدالحمید صدا به انبالوی دپسر باید ۵۳ عبد الرحمن ست تا ۱۳۸۳ A ملک عطاء محمد صاحب گجراتی مستری علی احمد صاحب سکنہ کھیوں والی ضلع گوجرانوالہ ۱۲ و مولوی عبید اللہ صاحب قریشی سکته حاجی میران بخش صاحب انبالوی تاجر چرم بازار سبزی منڈی انبالہ شہر جب میاں کریم بخش مناقصه مینه یکیشون یاست پیالی ۲۸۹ ۴ میاد کیا 1.لائل پور حکیم عبد العزیز صاحب کند و چهره In ۱۵-۱۳

Page 718

قیمت تاریخ احمدیت جلد هشتم نمبر شماره نام صحابی صفحہ رجسٹر نمبر شمار نام صحابی حکم دین محمد صاب کونٹ ملٹری کو ٹی سی اینٹ متوطن ، انہوں ضلع جالند معمال محله دارالفن فادینی میاں محمد دین صاحب کنه نه غلام نبی ضلع گور اسپور ( برادر را صفر حافظ حامد علی صاحب) میاں علی بخش صناب سکنہ رہتا اس ضلع جہلم ۱۴ مولوی محمد اسمیل ها سکنہ بھڈال ضلع سیا کون 10 r ۱۹ چند رسی کردم اپنی صاحب کنه تلونڈی کھجور والی ضلع گور محمد انوالہ አል 4- ۲۷ ۲۸ شیخ نیازه محمد خان صاحب انسپکٹر پولیس سندها دار محمد بخش کن گوجرانواله مالی در ارتریت اوریان میاں غلام حسن صاحب کنه محمود آباد ضلع جیم میاں میاں خانصاحب سکنہ چیک 99 شمالی ضلع سرگودہا منشی نور احمد صاتب کنه محمد آباد ضلع جہلم ۳۱ میاں نور محمد صاحب کنه و دوالمیال " سم در علی حید ر صاحب " حضرت محافظ سید مختار احمد حنا شاہجہانپوری ۹۲ ۳۳ ساحلی غلام محمد صاحب چوہڑ کی عبداللہ خان صاحب نکنہ پہلو پور ۳۴ میاں کرم الدین صاحب سکنہ چکوال ضلع لائل پور ۳۵ ر احمد علی صاحب کنه دوالمیال ۹۵ ۱۳۲ 1 " ۱۳۵ " ول ۱۳۷ ۱۳۸ " ۱۳۹ میاں محمد اکلیل ناب سکنہ پر تھی پوریه است ۳۶ حضرت مفتی محمد صادق صاحب کپور محلہ حال چک پور میرا والا ضلع نواب شاه ۱۰۴ ملک علی حید ر صاحب کند دوالمیال ضلع جہلم چوہدری غلام سردار صاحب کنه چک پشت میاں جیوا صاحب سکنہ مانگا ضلع سیالکوٹ حال ریاست بہاول پور ۱۰۵ تحصیل اوکاڑہ ضلع ساہی دال میان پیر بخش صاحب کنه نیستی که نادان ۳۹ میر عنایت علی شاہ صاحب کنه محمد صوفیاں ۱۴۲ ۲۰ بیرته ضلع ڈیرہ غاندی نمای ۲۱ حسن رہتا سی صاحب میان الله و تا صاحب کنه بستنی به ندان ضلع میان محمد عظیم تا این موضع حاجی کمال 19 1-4 1.A لا دھیانہ ۲۰ میاں محمد سلطان صابت نکنه او د هران ضلع ملتان ڈیرہ غازی خاں الم میان عنایت الله صاحب بسکه تار دوال ضلع ڈیر مازنجان 주류 ضلع سیالکوٹ 100 حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب ۱۵۷ ۲۲ میان حسن الدین صاحب سکنہ بوچھال کلاں ۴۳ ملک عبد الرحمن صاحب سگنہ پر کوٹ ثانی ۲۵ ضاع جہلم میں غوث محمد منا سکنہ ہر سیانی ضلع گورد اسپور ۲۶ چوہدری بھنبے تھاں صاحب کتہ سروعہ ضلع ہوشیار پور ضلع گوجرانوالہ ۳۳۰ مولوی احمد دین صاحب کنه مناره ضلع جہلم مولوی محمد عظیم صاحب کنه حاجی کمال ۴۵ DF ۱۱۴ ضلع ڈیرہ غمانہ نجان ۱۹۰ ۱۹۵ 14A

Page 719

t سم ضمیمه تاریخ احمدیت جلد ششم نام صحابی صفور جیبی نمبر شمار نام صحابی صفحہ میٹر ۳۸ حضرت بھائی عبد الرحیم صاحب نو مسلم محلہ دار الرحمت قادیان میان احمد خان صاب داد میان باند خانصاحب سکنہ ڈیر یوال ضلع گورداسپور 44 174 14- چو بارانی احمدی نمبردار ڈیر یوال ضلع گھیرا پور ۱۷۲ ی افضا میان خیر الدین صاحب دربی بافت مرحوم ادویات ۶۲ مرزا اسمعیل بیگ صاحب مرحوم 旗 ۶۵ مرزا عبد اللہ بیگ صاحب قادیان (۴۳۹ چوہدری فتح محمد صاحب ایم ۲۰ سیال میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی ۳۲۰ ۴۹ ملک برکت علی صاحب دلار ملک ندیم علی مناسب رجسٹر نمبر 1 ۵۰ اه قویم را چوت کھو کھر مستری فقیر محمد صاحب قادر آباد مستقل قادیان عبد المجيد انتصاب ولد غلام حسین خان قوم پٹھانی ساکن قصیه آنو ضلع بانس بریلی ۵۲ حاجی محمد الدین صاحب سکنہ تبال تحصیل کھاریاں ضلع گجرات ملک محمد خانصار سکس بسیار تحصیل مردان سرد ضلع پشاور ۱۷۳ 147 149 JAY IAD AA ۵۳ حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلہ قریشی شیخ محمد صاحب چھٹی سان قادیان ۳۹۲ ۵۶ ۵۸ صاحب ۳۴۰۰ قاضی محمد عالم صاحب کنہ کوٹ قاضی ضلع گوجرانوس چوہدری حاکم علی صاحب ، قادیان ۴۰۸ بقیه روایات میانی خیر الدین صاحب سیکر رانی حاجی محمد عبد اللہ صاحب شکار یا پھیاں ضلع گور در اسپوند محمد بخش صاحب ساکن پنھناں والا چوہدری ہے.چو ہد کی غلام محمد صاحب بی.اے ہیڈ ماسٹر نصرت گرلز ہائی سکول قادریان میاں عطاء اللہ صاحب ساکن بھجیاں ہوشیار پور حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ناظر امور عامه و تخاره بعد قادیان حضرت مولانا سید سر در شاه صاحب سابق چمن خان صاحب کنه بیگم گرد و ضلع گورگای ۳۱۱ پر نسپل جامعہ احمدیہ قادیان موضع وہ نظام الدین صاحب ریٹائر ڈ پوسٹماسٹر ریٹائر ۶۳ سکنه شی پور ضلع گورداسپور میاں محمد صاحب احمدی بہبل چک ۴۱۳ ضلع گورداسپور ۴۱۰ سلطان سیدانی عرف گھنڈی پیران ضلع مظفر آباد ریاست کشمیر چوہدری محمد عظیم مناسب نائب تحصیلدار شخو بوده متوطن تلونڈی عنایت اللہ خان ضلع سیالکوٹ خان صاحب عبد اللہ خان صاحب 9 منشی محمد الدین صاحب و اصل باقی نوین رہا نہ ضلع ہوشیار پور منشی عبدالسمیع صاحب مسکنه امرو پر ضلع مراد آباد ۲۲۲ ۲۲۵ کھاریان - حال قادیان ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب ساکن کوٹ رندھارا - حال قادیان ۳۵ ۳۷ I ۳۹ ۵۵ ۱۳۷

Page 720

ضمیمه تاریخ ابجدیت بلاده هاشم ۳۴ نام صحابی صفحہ رجسٹر نمبر شمار نام صحابی حضرت علامہ حافظ روشن علی صاحب بهتری قطب الدین صاحب پیردی ۲۳۳ ۳۵۲ ۲۰ با با فضل محمد صاب ہر سیانوالے قادیان ۲۷۵ پیر حاجی احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ ہوشیار پور ۱۳ میاں عطاء اللہ صاحب ساکن بڑہانوں تحصیل را جور می صوبہ جموں کشمیر ۱۳ ملک غلام محمد صاحب ولد ملک بیست و صاحب لاہور ۱۵ میر مهدی حسین صاحب قا دیان ۲۳۸ ۲۴۲ ۲۴۴ ۲۴۵ ۲۱ مسماۃ پڑھو ساکن دھرم کوٹ اگر ضلع گورداسپور ۲۲ مولوی محمد عثمان صاحب ساکن قصبه ما در ضلع ہردوئی حامل ریسمت منزل احاطہ خام 14- فقیر محمد خان لکھنو پیرمحمد عبد الله صاحب گولیکی - گجرات ۲۹۱ شہابت خان صاحب ساکن نا دون سال قادیان ۲۹۶ ۲۵ منشی عبد السميع صاحب امروچه ٢٩٩ ۱۶ ۱۷ 14 ڈاکٹر عطر دین صاحب امیر جماعت احمدیہ بھٹی ڈاکٹر انوار حسین صاحب میونسپل که طلب گڑھ ضلع گوڑ گاؤں لملک عبد العزیز صاحب ساکن اڑہا ضلع مونگیر قادیان ۲۷ ۲۴۹ ۲۵۲ ۲۵۳ منشی محمد اسلم صاحب کلارک قادیان ۳۰۶ حکیم موسوی قطب الدین صاحب " میانی وزیر خان صاحب فوری باب گڑھ حال قادیان ۲۹) مرزا غلام رسول صاحب ایڈر جو ایش کشتی پیشاور ۳۰ منشی محمد علی صاحب پٹواری سنور، پیالہ منشی عبد الرحمن صاحب سنور قادیان کے صحابہ کی فہرست حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد رضا کی نگرانی میں حضر بھائی عبدالرحمن صا قادیانی نے مرتی ہائی اسماء گرامی الف سيدنا اميرالمومنين حضر الد خليفة السيح الثاني میرزا البشیر الدین محمود احمد صاحب ب صاحبزادہ حضرت میرزا بشیر احمد صاحب ایم ہے ولدیت منوطن من بعيت من زیارت

Page 721

نمیر شمار اسماء گرامی ra ضیر تاریخ احمعیت بلود شیر ولدیت متوطن من بعیت این زیارت > صاحبزادہ حضرت میرزا شریف احمد صاحب جناب میرزا عزیز احمد صاحب ایم.اے خان بہادر مرزا سلطان احمدرضا قادریان ضلع گورد و ماده لا جناب میر نداره شید احمد صاحب حضرت ڈاکٹر ی محمد امیل صاحب تقر میر نا صرفاب صاحب ز حضرت میر محمد اسحاق صاحب حضرت نواب محمد علی فعال صاحب ط حضرت نواب عبد الرحمن خان صاحب ی حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب ب حضرت نواب عبد الرحیم خان صاحب ل حضرت مولوی شیر علی صاحب بی.اے حضرت مولوی عبد الرحیم شتاب در و امام مسجد لندن حضر مودی جلال الدین صاحب نائب " دہلی حال قادیان 1444 19 14.0 پیاسی احمدی پیدائشی احمدی سال کی عمر میں - پیدائش JA4- A فرند اگل محمد صاحب اسماء گرامی میرزا نظام الدین صاحب قادیان ولدیت توطن من بعیت من زیارت دیمیر ملا دیا دیمیر نہ دیا ا ا ا ا ا او دارا حضرت مفتی محمد صادق صاحب مفتی عنایت اله ما مردم بمیر ضلع شاه پر مال قادریا دا رمان ماه جوری باشه دو جنوری کامیار ن چاند کی پوکت علی خان صاحب جوید کی میران بخش صاحب محل کو مد در میانه گرد و شنکر ضلع ہوشیار پو حال آڈیٹر مصد را تخمین محمدیہ قادریان 19 جوید کی امیر محمد خان صاحب چوہدری سکندر خانصاب ابرانه تحصیل و ضلع ہوشیار پور سال ۱۹۲ ۳واد معادن آڈیٹر صد را انجمن احمدیه ادیان مرزا محمد شفیع صاحب حمید مرزا صاحب دہلی حال محاسب صد رالي احمدية قادریان اشاره دار پیر جی منظری صاحب فنظر المقاصد پیر جی افتخار احمد جناب قادیان را را انکار کر دفتر هماسب مند انجنی پیدائشی مسدار شعراء نادیار را کو خترهای سید محمود عالم صاحب سید مبارک حسین صاحب موضوع رشته نگانه جهان آباد پرگنه با دشتی ضلع گیا.یہ مال کار کن هنر ایلی مند انجیان رود محمد ید الدین صاحب با بو فضل الدین صاحب میر کا ضلع ہوشیار پر ان کاکی در این که بنا شده ناشی عبید ارحیم یا نو مسلم مسابق هذا انجمن الحرية م جبوری 19.6 - پنڈت کشن لعل پنڈت ریما رام سحاب نیوڈا کار خاصی شمار حال کار کی سا سواد نظارت بیت المال صدرا في الحمدية

Page 722

ضمیمه تاریخ احمدیت جلد هشتم نمبر شمار اسماء گرامی دادت ٣٦ I متوطن اسن بعیت من یارت منشی شیخ تنظیم الرحمن صاحب منشی شیخ باب من مندرا حاجی پور کی نا گوارہ کپور تھا حال کارکن پیدا شی بیت المال صدر انجمن احمدیه قادیان دارد ملک نورخان صاحب ملک فتح خان صاحب مرا در این نه تحصیل وسیع کیلو حال کارکن فقر بیت المال صدر را نمین احمدیہ قادیان JA44.19.7 1494 حکیم عبد الغنی صاحب سید عظیم شاہ صاحب قعود دو ضلع وشیار پورا کر بیت المال شده نشاء جب قادریان ۹۰۳ارد نشده ی انتار ۱۳ مولوی فخر الدین صاحب مولوی قط اله بین نام گر گیا ضلع شاہ اور سکریر الدین ۱۳ میاں سلطان احمد صاحب مولوی قطب الدین صاب کھو گیا ضلع شاہ پور مفتی عبدالسمیع صاحب نشی عبدالرحمن صاحب کوره تصله ریاست حال تادیا ابا الفضل بالا فضل احمد خان صاحب شیخ علی بخش صاحب باله ضلع گور اور عالی کارکن فر تک میری احمد آباد سنڈیکیٹ قادیان ។ JAA 1A4A چر کی بلند الدین صاحب جدیدی کند و خانصاب ارای ضلع جاند همال کاری دفتر دارد و این هشدار نشده حضرت مولوی محمد سرور شاه هانا سید مدرسن شاه صاحب سلطان سیدان عرف گھنڈی چاری آنا ناگوری تحصیل و ضلع مظفر آباد حال نویس جالو احمدی د سیکوری مجله کار پرداز مصالح قبرستان قادیان ۱۸۹۳ میان عبد الرحیم صاحب بوٹ میکر میاں قادری صاحب نالی کو ٹکر دریاست حال قادیان نمی رشته داریی شارد دار الانان محل دار الرحمت کی ہر یا بیعت نہ و بررسی اثر کرنے دی تھی 19 مولوی عبداری صاحب فاضل شیخ برکت ملی صاحب فیض اللہ چک ضلع گورداسپور حال جنرل پیدا کنشی احمدی ۲۲ جنرل پریزیڈنٹ قادیان پریذیڈنٹ قادیان IME ڈاکٹر محمد امین صاحب مولوی حکیم قطب الدین صاحب جگی کو تحلیل وزیر آباد ضلع گوجر خوار مالی پیدائشی احمدی مالک احمدیہ نیشنل میڈیکل ہال قادیان بھائی شیر محمد صاحب میران بخش صاحب دھرم کو دن نهاد اضلع گورد و مال اور دریا نشود قاری غلام مجتبے صاحب مولوی در بخش منا مرحوم رسولپور تحصیل کنار یا ضلع گجر اتعامل معاون ناظر امور عامه سیاه مارینا به احمدیه قادیان 14.4 14.0 ڈاکٹر سید غلام غوث در اب اسید نبی نبش مصاحب بیمه تحصیل مقاله در یا مال دار نامان قاریان اشاره نشده له ۲۳ شیخ اللہ بخش صاحب شیخ مراد بخش مناسب جنون صوبہ سرحد حال دار الرحمت قادیان ۲۵ بالا فقير على صاحب میان شادی صاحب کو ٹلہ چالان ضلع گورداسپور حال ریٹائرڈ سٹیشن ماسٹر دار البرکات قادیان in

Page 723

نمبر شمار اسماء گرامی ولدین نیمه تاریخ احمدیت جلد ہشتم مستوطن سین تبعیت اس زیارت ۲۷ مود محمد اسمعیل صاب فاضل مولوی محمد بخش صاحب بہلا پرو ضلع شاہ پوال پر میری امور احمد ادریانا مشاهده نشده ماسٹر مولا بخش صاحب عمر بخش صاحب میں تحصیل کو پر ضلع انبالہ حال ریٹائرڈمدرس مدرسه احمد به محله دارالا نواره قاریان ۱۹۰۵ ۲۸ مشاهده نشد حاجی ابوبکر یوسف صاحب محمد جمال یوسفت مین ریاست برود ده حال قادیان دارالامان ۹ بھائی مدد خان صاحب فتح محمد خانصاحب بازی پور یا کشمیان انسیک بیت المال قادریان ڈاکٹر حشمت اللہ خانصاحب رحیم بخش صاحب پیالہ یا حال نان خور ہسپتال فیملی ڈاکٹر خاندان میں اور خود کار یا اوراب 14-1 صوفی محمد یعقوب صاحب غلام نوری شاه حساب کٹڑی افغانانی گور پر مال نور پستان نادریان ۱۹۰۴ قادیان 19-0 14.0 14.5 ۳۳ فضلدین عبد الله حجام محمد بخش صاحب شیخ نظام قادر خانصاحب شیخ الہی بخش صاحب تحت نام بی ضلع گورا پوران قادری کا رکن نگران اشاره ده ۳ میاں عبد الرحیم مناسب با در چه میاں محمد بخش صاحب قادیان ١٨٩٣ ۳۵ منشی عبد الخالق صاحب مولوی محمدرسین کتاب ارجحیت پور کی فقر و یا تعالی کار کن ضیافت نشاء شراء عبدالخالق بار پدر کشور کی ۳۶ میاں محمد الدین صاحب میاں نور الدین صاحب کھاریاں ضلع گجرات حال قادیان ۹۲ شهداء مرزا محمد اشرف صاحب غشی جلال الدین صاحب بلانی ضلع گجرات حال قادیان ۱۸۹۳ 1494 محمد وزیر خان صاحب الفال محمد خان صاحب طلب گڑھ ضلع دہلی جانی قادیان در این مان شده ۳۹ شیخ نور الدین صاحب شیخ میران بخش صاحب د حرم کوٹ مرد اور ضلع گورا پوران داریان داده شده ۲۰ شیخ محمد الجمیل صاحب سرساوی شیخ مسیتا صاحب سرماده ضلع سہارنپور حال قادیان اشاره داره ۱ ڈاکٹر محمد افضل صاحب مرزا افضل برگ صاحب قصور ضلع لاہور مال دارالامان قادری محمد در رایت شود شراء چوہار کی علی احمد صاحب چولہ کی رحیم بخش صاب کٹر خزانه امر تسر حال ۴۳ سید حسن شاہ صاحب سید فضل شاه صاحب مدینه گجرات حال مهاجر ناصر آبا در قادیان نارد شارد ۲۲ مستری لال دین صاحب شیخ امام الدین صاحب شہر سیا کو حمل به شمال محوریتی پھیلہ 14.7.احمدی ! ۱۹۰۵ ۲۵ چو ن کی خدا بخش صاب یا کوئی بچہ کی پیر بخش صاحب صدر بازار سیا لکوٹ ۴۶ ملک حسن محمد صاحب ملک امیر بخش صاحب سمبڑیاں ضلع سیالکوٹ عالی حلقہ مسجد مبارک و شاره ۳۷ میاں عبد العزیز صاحب میان امام الدین مصاب اوریا متصل گوڈا سپو کمال " میر مهدی حسین صاحب میر فرنزند علی صاحب سید کھیڑی او را وہ دریا بیٹیا ل جمال ا سداد منشارد ۲۹ مولوی قطب الدین صاحب مولوی غلام حسن حساب چند ھر تحصیل و ضلع گوجرانوالہ مہاجر قادیا ۱۹۹۲ ۱۸۹۳ء دار الامان بعیت بڑہلہی سیا لکوٹ سے

Page 724

قیمت تاریخ احمدیت جلد داشتم نمبر شمار اسماء گرامی ولدیت ۳۸ متوطن سن بیعت سن زیارت ١٨٩٨ شیخ احمد دین صاحب شیخ علی محمد صاحب مرحوم دیگر ضلع گجرات المهاجر قادریان دادرسان شراء ا مفتی فضل الرحمن صاحب مفتی شیخ عبد الله منا بھی ضلع شاه پودر حال در (A4) ١٩٠٣ مولوی محمد جی صاب فاضل میر محمد همان خانصاب دانه ضلع ہزاره حالی در الفضل قادیان شده و ۵۳ مرزا مہتاب بیگ صاحب مرزا محمد علی صاحب شہر سیا لکوٹ محلہ کشمیر کی محال قادیانی حلقہ مسجد اقصی ۵۴ سید محمد علی شاہ صاحب سید امیر علی شاہ نام کا ٹھ گڑھ ضلع ہوشیار پودر حال انسپکٹر بیت المالی قادیان محله دارد البرکات ۵۵ قریشی امیر احمد صاحب قریش حکیم سردار محمدا به رمیانی ضلع شاه پو های خود را ارکان اش شده 어 ۵۸ ۶۲ شی فتح محمد هاب نمیشه نور محمد صاحب صاحبه تحصیلدار سوچی پور ڈاکی کہروڑ پکا ضلع ملتان موضع جمیلن ضلع گوجرانوالہ قادیان حکیم محمد فیروز الدین قریشی عظیم چراغ علی قریشی موضوع علی پور تحصیل کبیران ضلع مقام بال قادیات کا رکن انسپکٹر بیت المال ۶۳ ۶۴ ار جنوری ۲۲ / دو نمبر 19-19.0 کارکن انسیکٹر بیت المال خانه حسب منشی برکت علی نام محمد فاضل صاحب بتہ سابق ملازم دفتر ڈائریکٹر جمال الدین شاد شاد و - میڈیکل سرس شمله حال قائمقام ناظریت لی شارا عالیه احمدیه قادیان ارالامان استعمال ای مالی و الدین اکمل ا ا ا ا ا ا ا ا ا ایران این ته اسان و یکی ضلع بها المال مولا نا امام الدین حساب فیض مولانا بدر الدین صاحب " " افتخار احمد صاحب احمد جان صاحب سابق در میانه عالی قاضی نور محمد عن الحب قاضی علی محمد مايبي میاحی در " موش " " قادریان دارالامان حمت 1446 JA 45 19.r نظام الدین ٹیلہ میاں محمد ولی صاب ته سابق میل محله ما ما حال این ماده دار شد A 140 اء عبدارحمن وسلم ڈاکٹرو کا یہ انگر یا سب لوک یا ت ا و انه حال اوینا له الفضل ما شاء ۹۵ محمد عبد الله جلد سان محمد اسمعیل مهنا جلد رسانه سیاست مالیر کو شعله ارمنی اه اپریل ایم خان بیا د درد و اعلام محمد صاب سیانی خدا بخش صاحب بغیر ضلع شاہ پور ملک غلام فرید صابی ایم ہے ملک نورالدین صاحب کنجا ضلع گجرات حال ایڈیٹر ریویو آف ریلیجینز انگریزی قادیان ۶۸ با با محمد حسن صاحب چوند کی کرم دین صاب او جرم متصل گوڈا پور حال قادیان اران ماندن ماسٹر عبدالرؤف صاحب غلام محمد صاحب بھیرہ ضلع شاہ پور " " ۱۸۹۵ ۱۹۰۵ JA40

Page 725

۳۹ نمبر شمار اسماء گرامی ولدیت * مستوطن من بعیت سین زیارت ۱۸۹۱ تحریری ملک غلام حسین صاحب بہت سی ملک کریم بخش صاحب در تاس العالم ما این مواد را راحت مولوی کرم الہی صاحب امیر صاحب کھارا متصل قادیان شیخ غلام مر تضی صاحب شیخ عمر بخش حساب سابق سکنہ و ڈالہ بانگر تحصیل و ضلع گورد ستاره عالی منتظر یو یہ فاعلی گنگا پرائیویٹ سکرٹری حضرت خلیفہ اسیح الثانی قادیان 14..غلام محمد صابا بی ایس سی بیٹی میاں محمد الدین صاحب موضع حقایقہ کھاریاں ضلع گجرات پیدائشی پیدائش ی تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان سپرنٹنڈنٹ بورڈنگ تحریک میں حال قادیان ۱۸۹۲ ۹ در اکتوبر نداری قادری شاء میں تعلیم پاتا رہا محمدیحیی خان صاحب مولوی نوار حسین بھائی من شاه آباد ضلع ہر ولی حال کار کن دفتر پیدا کنشی احمدی کارکن پرائیویٹ سیکر ڈی.قادیان نور احمد خان صاحب جوید کی بدر بخش صاحب موضع سروی ضلع ہوشیار پور حال محله ۱۹۰۳ دار الفضل قادریا د کار کند تر بهشتی منفیر ۱۹۰۳ عطا محمد صاحب کا رکن چوڑی تھے خالی ساکن مشہور ڈاکخانہ خاص ضلع در میانہ حال کارکن دفتر بهشتی تغیرہ قادیان دفتر بہشتی مقبره مولوی غلام نبی صاحب محکم دین صاحب ریاست پیالہ تحصیل مرید تھا لکھا نوین موضوع پھاؤڑیاں حال محل دار الفضل قادیان عمر بیک 19.6 زاری ایرانی را برای ما قادیان - حلو مسجد اقفلی صاحب کو چو ہد کی فتح حمد خانتنا سیال ایم ما چوند کی نظام الدین صحیح جوڑہ قصور یا ہو حال قادیان مجله دارانی شاره سید محمداسمعیل سپر نٹنڈنٹ سید نبی بخش صاحب بیجہ ڈاکا نہ کھنہ تحصیل بحوالہ.لویانہ کھانہ مع دفاتر صدر انجمن احمدية حالی شہر قاریان دارالامان اء A 1441 14.1 قاری غلام سین صاحب محمد بخش صاحب رسولپور عقیل کا بنا بر اعمال السلام شاد شاد حکیم عطاء محمد صاحب حافظ غلام محمد صاحب صوتی بازا را اور حال قادیان ملقو سید فضل ۸۳ مولوئی نظام الدین صاحب عبد الکریم صاحب کپورتھلہ ریاست کھیرا انوالی موضع حال قادیان حلقه مسجد مبارک ۸۵ 14.1 14.5 محمد بن نصاب سید المحور احمد بخش صباحه گوجرانوالہ عالی قادیان محل دار ترجمت ما شاء چوپ کی کریم الدین صاحب چوہدری امیر بخش صاب ٹیچر گورنمنٹ ہائی سکول سیالکوٹ اسلام مرحوم پور ریل گورنٹ پیش حال تو را دارا است

Page 726

نمبر شمار اسماء گرامی ولدیت تقیمه ت به یخ احمدیت جلد هشتم متوطن سن معیت سین زیارت A AL AA 1444 شی کرم علی صاحبات حکیمای کرم الہی صاحب میانوالی ضلع وتحصیل گوجرانوال حالات ایران شد محله دارد البرکات شرقی علیکم رحمت اللہ صاحب حکیم محمد بخش صاحب اور گودال بیان ضلع گورڈ پر ڈالا Irw ر مولوی امام سول نماز یکی میاں کرم الدین اب ایک ضلع برا عمل بلع ا ا ا ا ا بھائی محمود احمد صاحب حکیم پیر بخش صاحب ڈنگر ضلع گجرات حال دار الرحمت " ۹۰ حاجی نفتی گلزار محمد صاحب مفتی محمد بخش صاحب بالہ محلہ مفتیاں حال 41 چوہڑی حکم الدین صاحب چونک کی نبی بخش صاحب و یا اگر ھو.بال گور اس کے در ۹۲ میانی نام الدین است جوانی میاں محمد صدیق صاحب سیکھواں ضلع سیکھوانی نام میاں محمد گرافی ۹۳ یک تا در خانصاب دوکاندار ملک جہان خانصاحب امسال کسر ضلع جہلم حال " خدا بخش مشترکی (موسی جی) مستری کورم بخش صاحب پٹیالہ ریاست ارا ۹۵ با یو غلام حید ر صاحب پنشنز میاں خدا بخش صاحب احمد نگر ضلع گوجرانوالہ ۹۶ مرزا مبارک بیگ صاحب مرزا اکبر بیگ صاحب علوم کلا نور ضلع گورداسپور ۹۷ ماسٹر مورسن ها به تاج مولوی تارج مجد صاحب الد میانه حالی دار الرحمت 44 الدرمیانہ را ۹۸ ڈاکٹر محمد ابراہیم صاحب نظام الدین صاحب سر و در ضلع ہوشیار پو 99 ماسٹر اللہ نہ صاحب میاں عبد الستار صاب قلم دیدار سنگر ضلع گوجرانواله ڈاکٹر محمد بخش مصاحب بیاں کالیمان صاحب کیرانوالی ریاست کیو تصله رو و 10 منشی محمد امیل تمنا تھا نہر میاں محمد بخش صاحب یا ڈاکخانہ جنڈیالہ گر مقطع ار سرود " لوار 好 " " ١٩٠٣ 14- 1^41 18-1 ۱۹۰۴ 1741 " 14-- ١٩٠٢ 14-0 19ء 14-7 ۱۰ میاں خیر الدین منا در میانی غلام قادر صاحب در میاز عملہ ھو لیران حال در از همت در شده ۱۱۳ 14." ✔ ۱۰۳ بابومحمد ایوب احمد صاحب مولوی محمد علی فضا مرحوم بد علی ضلع سیالکوٹ ید ولایت شاہ صاحب سید حسین علی شاہ انسان کو ٹلی مشکل مشغول و ضلع گوردی پور ۱۰۳ ۱۰۵ ۱۰۹ یم های ملی " می سراج الدین نام مهم لا ہو.مال دار الرحمت میان تاجدالدین جمنا میان عمر الدین صاحب لاہور حال دار العلوم ۱۰۷ حکیم مشتاق احمد صاحب علی محمد صاحب توت نکا ضلع کمیل پوکھالی را رحمت ۱۹۰۴ 14.H " " ۱۹۰۵ ۱۰۸ ماسٹر عبد العزیز خان مناسب نبی بخش صاحب ایمن آباد محلہ کے زیاں ضلع گوجرانوالہ نشاء شارد مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان سال دار الفضل قادیان ۱۰۹ محمدہ چھرا شیخوپورہ حافظ صوفی غلام محمد اب ولی محمد صاحب محجر از تحصیل ننکانہ ضلع شیخو پوره حال هشدار داد دار الرحمت قادیان

Page 727

قیمت تاریخ احمدیت جلد هشتم نمبر شمار اسکاء گرامی متوطن من بعیت من زیارت ماسٹر محمد الدین حنا ہیڈ ماسٹر گھسیٹا نھا حسب لا ہویہ.سمال در روانہ لاہویہ - حال دار الفضل قادیان بر ماسٹر تعلیم الا سلام باقی سکول سید منظور علی شاده احب سید محمد علی شاه ماهی قادیان مطلقه مسجد فضل گڑھ حمت پیدائشی احمدی ۹۳ ماسٹر مجد الله واد صاحب چوہدری محمد بخش صاحب کا گران تحصیل شکرگیری ضلع گور ر و مال دار نار ۱۱۳ ماسٹر محمانی صاحب اظہر مدرس مولوی غلام قادر صاحب ملسیان ضلع جالندهر حال تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان دار الرحمت قادیان 14-415 19⑈ 14-4 ۱۱۴ مختن کو : میاں فضل محمد ساب پرسیاں سندھی خانصاحب پسر یا ضلع گورا پو حال اور الفضل قادیان در تار دو دار A 炉 14-1 JABL 19.6 محمد فضل خان صاحب قائم دین صاحب چنگا نگیل تحصیل گو جر خان ضلع راولپنڈی رد شده حال دار الفضل قادیان ریری دستی رایت مرد جولائی سنشار شفاء تمری شاه دستی و میر قاسم علی صاحب میر عصمت اللہ صاحب دہلی حال دار الفضل قادیان 11 تعلیم عبد الصمد صاحب حکیم عبد الغنی صاحب مولوی ابو البشات عبد الغفور میانی فضل محمد صاحب ہر سیاں ضلع گورداسپور حال پیدا کسی احمدی صائب فاضل دار الفضل قادیان پیدائش شده 14.0 چی کی غلام محمد صابی نے چوہدری محمد یوان صاب ڈھیٹی ڈاکا نہ کوٹلی لوہارا ضلع سیا ما شاء حالی دار الفضل قادیان ہیڈ ما سٹرفیت گرین ہائی سکولی میاں عبد الرزاق منا کیا کوئی میاں رحیم بخش صاحب شہر سیالکوٹ حال دار الفضل قادریان ۱۳۱ چیز کی غلام حسین منڈ یا یہ میاں گل مجد صاحب تھنگ مال دار الفضل قادیان ڈسٹرکٹ انسپکٹر آف کویز زیارت ۱۹۰۷ ١٩٠٨ 19-0 ن بوده است سلے کی تفصیل ۱۳۴ ۱۲۳ مستری عبدالحکیم جناب یا کوئی مستری هر بخش صاحب سیالکوٹ شہر حال V ✓ میں کو میتی علیه درجت سعه مراز داندانه بھی نہیں بنا سکے ولادی محمد شاء اله صاب ہو تالوی مولوی محمد الدین صاحب بو تالر سردار جھنڈ اسنگی تحصیل فضلع گوجرانوار است دو حال سپر نٹنڈنٹ پوڈ نگ دار الصناعت ۱۸۹۲ ۱۳۳ صوفی نبی بخش صاحب میاں عبد الصمد صاحب شہر لینڈ ی حل میا قلب من را بركات چھڑی عبد الحکیم مب ریباری چودی شرف الدین ما کار بیمار تھیں زیر آبا دوام و بر فعال شد حالی دار البرکات متصل سٹیشن قادیان ۱۲۵ سٹیشن ماسٹر ۱۳ مرد برایم صاحب بقا توی صدر الدین ما مرحوم نقالی ضلع گجرانواز سالاد والفضل سلام "' $14.0 دستی ست مر قامت اللہ صاحب اور حافظ اور بعد مصاعب اخیرا در یک فیل گورڈ میں مالش کلام زیارت " بشار حافظ محمد احب و حال المعلوم"

Page 728

نیم تاریخ احدیت جلد هشتم نمبر شمارہ اسماء گرامی ولدیت متوطن سن بعیت من زیارت ۱۹۰۲ بھائی مرزا برکت ملی در جب مرزا انا مر علی مناسب اسی میٹھا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ء مرزا ملی ناصر ۱۳۹ قاضی رشید احدار شد پیر محمد معنان صاحب اطول یکی ضلع گجرات مال دار الرحمت قادیان ۲۵ مینی هشدار ۱۳۰ با واحمد ابراہیم صاحب بیٹائرڈ محمد بخش صاحب گوہد پور ضلع سیالکیٹ حال دارالعلوم در سر پور قادیان کارک میپلائی ٹرانسپورٹ ڈاکٹر محمد طفیل نخان منشی محمد علی خانصاحب باله نور منزل دار الفضل قادیان متشدد ۱۳۱ ۱۳۲ چرا ندین چراغ دین کا چیڑ اسی دوسر حمدیہ صدر الدین صاحب قادیان 14..14 14:5 ۱۳۳ غلام رسول صاحب افغان حاجی محمد صاحب در گئی.خوست حال قا دیا دارالامان شار و تحریری ۶۱۹۳ ۱۳۴ یا محمد عبدارحمن حسب ٹھیکید اسم میاں محمد بخش صاحب سیالکوٹ شہر دارا برکات قادیان دار ** ۱۹۰۴ " ۱۸۹۲ ۱۳۵ حاجی عبید اللہ صاحب نو مسلم میلا سنگھ ڈومیلی ریاست کودر تال مان در امارات شاه ما ۱۳۶ ڈاکٹر احسان علی صاحب ڈاکٹر فیض علی صاحب قادیان محل دار العلوم پیدائشی احمدی ری پخش صاحب جیوا متابه ہ منی قادیان میں قادر آباد منتقل قادیان (نوان مینڈ) مشاوره ۱۳۸ عبد الله ما انصاحب افغان عبد الغفار خانصاحب سید گاه - علاقه خوست دیه گازی مهر افغان شہید مرحوم کا گاؤں کے صاجزادہ تحریر کی عبد اللطيف صاحب ) عالی تادان دارد السمات ۱۹۰۳ دستی ۱۳۹ مولوی عبد العزیز صاحب حکیم شہاب الدین حبیب الر میکے تحصیل و ضلع لاہور مال و محل داران را نشانه یا ۱۳۰ پیر جی منظور محمد صاحب حاجی منش اد با اصاب مردم در میانه میدان ال ای ای داران مان در فر در ساده ۱۳۱ مولوی اللہ بخش صاب دربان میا شاہدین صاحب سے بائی ضلع گورداسپور متصل گورداسپور 120 حال قادیان - دربان ڈیوڑھی حضرت ۱۳۳ ام المونسين فى الله تعالى هنية 1A AD ۱۸۹۲ ند یا رست 14.0 زمان تصانیف براہین احمدية شیخ دفتر علی صاحب دربان شیخ سلطان علی صاحب قادیان دربان ڈیوڑھی حضرت اشاره ۱۳ ای جاستیده ام مرزا ناصر احمد صاحب 14.4 14-A ۱۳ مولوی قمر الدین صاب فاضل مولوی خیر الدین حساب سیکھوں ضلع کور او مال دار استاد ی ی ی ی ی ی ۱۴۴ سید زین العابدین کی اللہ حضرت ڈاکٹر سید رعیہ ضلع سیالکوٹ سہارہ ضلع سن وارد شده انشاه صاحب تا نظر امور عامه و خارجه عبداستار شاه صاحب راولپنڈی مالی دار الانوار قادیان ۱۳۵ تحکیم شیخ عبد الرحمن صاحب لاله نرائن داس اب شیر اور تحصیل مرالہ ضلع از میانه اشاره افشار از رگر لدھیانوی حال قادیان حلقه مسجد اقصی

Page 729

نمبر شمار اسماء گرامی ولدیت ۱۳۹ کلرک آف کورٹ ۴۳ قیر تاریخ کا خوری بله شم متوطن من سبعیت من زیارت 14-1 1901ء ملک مولا بخش صاحب بیائید کا سامان بخش مصاب امرتسر کو چود کیا کرو میں سنگ شده و حال دار الفضل قادیان سید الکی مشهد اول پیدائشی احمدی ۱۹۳ ۱۴۷ میان تیم بخش بانوان بخش محمد ولائت صاحب اپنا نوالہ ضلع گوا او مال دار است تا دینا ۱۳۸ میاں نذیر محمد قصاب دیا فیملی میاں غلام محمد صاحب نامد حالی دار الفضل قادیان ۱۳۹ حافظ امجد این صاحب میاں علم دین صاحب کو دو ڈاکخانہ فتح جنگ ضلع کملیون شاه شار کو دو حالی ناصر آباد قادیان محمد جانب گرفته ۱۵۰ میاد خیردین کشمیری میان نظام وین تیری تو نیم بی ضلع گوراس و حال استانی تار ۱۵۱ میان نبی بخش صاحب کہاں میاں جھنڈ ا صاحب بہٹر بال ضلع امرتسال علقو مسجد تھی 14-0 ۱۵۳ میان دین محمد مد ا کر بار دکاندار میان معمر دین صاحب ه حالی دار الرحمت قادیانی نشد " کو گھر 14-0 14- 1AA4 14-- ۱۵۳ بانو ع الواحد وانا نیکی یا سماجی غلام محمد صاحب بٹالہ مال دار الفضل میل اللہ یا صاب ٹھیکیدار کلاب دین جانی اموال منقل میوالی ضلع گورا سپور شده یم ۱۵ 100 107 106 100 حال حلقه مسجد فضل قادیان وا 14.4 14 40 میاں سید الدین بابا میانه میان میر بخش صاحب قادیان و ما جمود کا نظام الدین نباشید به نبی بخش صناب داری با بانان ضلع کورد استاندار را دارای مشاوره چہر ی حاکم دین شتاب و واندا چوند کی احمد دین ما شادیوال ضلع گجرات مال می کند و تحریری شده حتی بخورم فصل مستری اللہ نہ کھا نہ سب بیکر میاں امیر بخش مناسب نارد وال مضلع سیا سکو گان از است و چو ہدری علی محمد در اب امیر چود روی تمام دین حساب به کیر وال ضلع گورداسپور دلائل پور پیدائشی احمدی شلوم H اد علق ریتی چھل مرحوم حال مستقر مجدرتی پھلہ قادیان او تخمیناً لاہور بھائی چوہدی عبد الرتیم مناسب سردار چند سنگر شاب فرنگی مضلع لاہور ان اور رحمت قادیانی شه ستاره شیخ فرمان علی سا " جب شیخ پیر بخش صاحب رہتاس ضلع جہلم مونیا اور میل ماریا کو چودای نغز الدین صاحب سیالکوٹ شہر حال دور الفضل ست شد مرزا محمدرسین جناب چوٹی سریع موادی محو اسمعیل صاحب سکه کری صلان گوجر انوالرمان استان وارد نشده صدای مرحوم چھٹی میسیج دار الرحمت قادیان پیدائشی احمدی دستی بیوت ۱۳ پیوند کی نبی بخش صناب چپڑاسی چه یه کی زد لو صاحب بینی با نگر متصل قا دیا ان ۱۹۵ مرنه امید الکریم صاحب مولوی محمد اسمعیل صاحب سکنه توگڑی ضلع گوجرانواله حالی دارد 11 147 دوا ساز مرحوم کیٹی بسیج محل دار العلوم قادیان 14-1 بھائی نظام قادر صاحب فخر الدین صاحب سیالکوٹ عالی قادیان دار الفضل ۱۳۹۳

Page 730

ضمیمه تاریخ احمدیت جلد هشتم نمبر شماره اسماء گرامی واریته متدین سن بیعت سیارت میان مہر دین صاحب کمہار میاں رحیم بخش صاحب قادیان حلقہ مسجد فضل اماتب جھنڈو سیان عبد اللہ بڑی مہ 114 بابو محمد میل صاحب میاں میرانی بخش این مرسوم انگلی باغبانان متصل قادیان 1.16) 14.M 14.A 1941 با بو فتح محمد صاحب شره ولوی کریم اپنی کتاب چوکی ان گوجرانوا بحال اور جنرل پوست پیدائشی احمدی شد آنسو کر اچھی میرا شر شرار کردم داد خانصاحب ولیداد خا صاحب جمالی اونها العشا او خلال العمل اولاد شد ۱۷۳ ساعت علی شاہ صاحب فتح علی شاہ صاحب سرور ضلع ہوشیار پر حال یعنی با مهر ۱۳۹۲ منقل قادیان و مال دار یار سرار محمد یوسف نماید می رفتم مرداد بست سنگ در اب ضلع امر تب مال دار الفضل قادیانی شاد شاه ۱۷۲ میاں خیر الدین صاحب میاں محمد بخش عاب قادر آباد مستقل قادیانی اور شراب چونک شور چوہے کی سلطان احمد ناب چوہد کی تھی تھی جب است و میل 164 مستری اللہ دانہ صاحب میان سندن دین را به در نبرای نفع در حال دار الخض ۱۷۷ مولوی عبید الا مصاب بحمل لا تظهر حال اتنينه امجد علی اورت مرحوم به تخفیف میرا امام علی شاه همرا با 182 14A در ابعت دستی 14-5 هور اگر هم مرزا قدرت اللہ صاحب مزید ہدایت الند صاحب محمد چابک سعر ال سی را دارا را نادید ا ا ا ا ا ا ایرانی امارات ۱۰۹ محمد رمضان صاحب عید سے خان صاحب چانڑیاں ضلع سیالکوٹ 1A- جوگو کی گئی حافظ محمد ابراہیم صاحب میاں نادر علی صاب کو دلال منع النباله در نے کار ۱۸۱ منشی غلام محمد صاحب مدرس محمد امدادہ صاحب کو ای کیانور گوتی پور انه سخنان JAY مکمل در ستید خدشاه صاحب عبد الله شاه صاحب الی اعلامی ضلع در میانه محمد حسن صاحب رہتای منشی گلاب کا نصاب رہتہ اسی ضلع ملیم " ایران برای زلا " " کے گر فردا کوئی ۱۸۴ شیخ اصغر علی صاحب نمیشن شیخ عبد الدین حاب الیمین آباد ضلع گوجرانواله ده بعد ۱۸۵ میاں جان محمد صاحب میاں عبد العزیز صاحب بیان ضلع گجرات." ۱۸۶ سردار محمد خان صاحب و لیدا درهای صاحب جانی بلوری المضلع شاه پور ۱۸۷ اری را چوہدری غلام حسن کا چوہدی صو بے خانصاحب بچک یا علیا آیا د جنگ بر اینچ خدا جود نام شر و توری به زیارت و دستی بیت ۲۹ مایسی شاد شد 있고 $1 JARL " تورییه کیا چیستی نه یاد است ضلع لائل پور حال دار التحصیل قادریان سن 14 ده مو لطیف ها یار کی چادری و حسین و یا اینا یا ان پر نیا ایالات پایانی نشده

Page 731

قیمت تاریخی حمایت باند هشتم نمبر شمار اسمان گرامی ولدیت متوطن من بعیت سین به یارت 19-1 اور انتطورا تاره را مرزا غلام الله باب مرحوم قادیان حلقہ مسجد اقصیٰ ۲۸ اکتوبر یا مداد ابرو ارد دستی بهشت ۶۱۸۹۲ پیدائشی اندوری ۱۹۰ شیخ محمود احمد ما به عرفانی شیخ یعقوب علی فضای خانی قادیان دارالامان 11 شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی شیخ محمد علی صاحب ۱۹۲ مستری دین محمد صاحب امام الدین صاحب کھٹا نے تحصیل دوسوم ضلع ہوشیار پو 122 حال محلہ رہتی پھلہ قادیان " ١٩٠٣ 14-1 ۱۹۳ میاں بہا الدین حساب مالیر کوٹی گل محمد صاحب مالیر کوٹلر ریاست مال دار ا رحمت قاریان مستشار ستاره ۱۹۴ میاں محمد یوسف صاب احمد دین صاحب ۱۹۵ متری عبد السیمان مهتاب رحمان میر صاحب محلہ سمیاں نا ہو حال قادیان ۱۹۰۳ ۱۹۳ 194 مولوی عبد الستار متآب عبد اللہ مصائب سویل ضلع گورا ہو حال علوم سجاد فی ١٨٩ء 194 چود کا محمد المسلمین صاحب چوہے کی جمال الدین نام کا مصر مضلع ہوشیار تو حان الافضل 10 ۱۹۸ سید با دل شاہ صاحب سیاه شیر مادر صاحب کو مالی تحصیل و ضلع انباله سیال دین محمدمه ان رسولی میرا نبخش صاحب r..۱۸۹۷ 14.حال دارا برگا ۱۹۲ ۱۹۰۳ 1141 منشو دیانت خانصاحب مان خانصاحب نادون ضلع کانگڑہ دار الفضل ۹۶ چون کی اللہ بخش صاحب چوہد کی فضل دین صاحب میں دال اتنے نارووال ضلع میا کوٹ حال دارالفضل قادیان ۳۰۳ ہماری شاہ صاحب میاں بیو ا صاحب رانا عامه شار ١٦ ه تحریری رو قادر آباد د نواں پینٹ منتقل قادیان رو ۱۹۰۵ ۲۰۵ عريمي فقہ مل دین - فضل النبي صاحب ۲۰۶ به کیست علی ۲۰۷ | چراغ دین صاحب مان صاحب فضل دین صاحب کالو مر حوم صاحب " جم " 4 " پیدائشی احمدی کر کہ حدائق خاره " 14..۱۸۹۳ ۲۰۸ جلال الدین ماه ۲۰۹ محمد دین د هندری بسته عبدا سقه شاهی قادیان دانران با و F!.نا 14.0 ۱۹۰۵ وچھٹی ضلع گورڈ اپکو گالی قادریا داران این باره شارد فضل دین دیکھا، جیوا صاحب ارایی ت قادیان سایش شده دالتی احدی من و تمام مسلم سیمین غسل الرحمن صاحب میاں ابراہیم ماه مرحوم براهیم مشابه مرحوم جہلم پنڈوری مال دار الرحمت قادیان ۱۳ جان محمد (چھٹی رسان) میاں نبی بخش صاحب قادیان حلقہ مسجد اقصٰی ۲۱۳ پیار تھے پیر عبدالمجید صاحب پیراکبر علی شاہ صاحب کوئی پیار تین بار ملا جون و مامایی در ۱۳ رادار الى القران

Page 732

ضمیمه تاریخ احمدیت جلد داشتم نمبر شمار اسماء گرامی ولدیت متوطن سن سعیت سن زیارت 14-0 میان او نہ گھسیٹا انا میرا نیا انا لا انا انا ما قا دریا ان قادیان ۲۱۵ منشی امام الدین صاحب محکم الدین صاحب قلم درشن نگر ضلع گور اور حال کشید د را لرحمت قادیا 14-5 ۲۱۶ محمد الدین گھڑی ساز مستری چراغ الدین چھری کھانے ضلع پوشید و حال عقد مسجد ۱۹ ۱۹۳ ۲۱۷ مرزا نذیر علی صاحب مرزا محمد علی صاحب دام قادیان خیال حلقه مسجد ٢١٨ ۲۲۱ احمد " اقعی قادیان " فضل " بد شی احمدی | ١٩٠٢ مد دائش پیدائشی امری ۹۳ ۱۸۹۰ 141 ۱۹۰۴ ۱۹۰۸۰ مرزدا سلام اللہ صاحب مرزا غلام اللہ صاحب ۲۱۹ قریشی شاه محمد صاحب قریشی غلام قادر صاحب ۲۲۰ منشی امیر محمد صاحب بیٹھے خانصاحب کھلا مستقل قادیان حالی كار ان الفضل مولوی میر حسین حسابه اجرای مبلغ میں محمدبخش صاحت بٹالہ حالی دار الرحمت قادیان ۲۲۲ منشی محمد حسین صاحب تب میاں نبی بخش صاحب قادیان حال قادیان دار الامان ۲۲۳ ڈاکٹر منظور احمد صاحب مولوی محمد دلپذیر مان بھی ضلع شاه پر مال دار العلوم قادیان مشهد شاہ ۲۲۳ مرزا محمد شریف صاحب مرنه ادین محمد صاحب سنگر دال ضلع گورداسپور ا ۲۲۵ چوہد کی عبد الرحیم صاحب قاضی ضیا الدین نامی کوئی قاضی کو ضلع گران در حال نوری مهارت دنا پیدا نشین احمدی دارد ۲۲۶ سید محمد عبد الله صاحب سید عزیز الرحمن نا محروم بده یلی حال دار الفضل قادیان میدانستی احمدی 192ء ماسٹرنو رانی منا ڈرافٹنگ سٹر میاں احمد دین صاب بھی ضلع شاہ کو حال دار الفضل قادیان ١٩ ۲۲۷ ۲۴۳ ممتاز علی صاحب صدیقی ذوالفقار علی خانصاب را پوریات مراد آباد ما را ارحمت.فری ۲۳۴ میاں خیر دین صاحب میاں سراج الدین هنا ڈسکہ ضلع سیا کوٹ علا الان.حشمت اللہ خانصاحب نعمت اللہ خانصاحب بدایون - سال دار العلوم قادیان - هشامه ۲۴۹ ماسٹر نعمت اللہ خانصا گوہر تھے خان صاحب کشور تحصیل جگاؤں ضلع لدھیانہ ۲۴۵ حال دار ابرکات قادیان ۲۳۷ با بار تیم خیش ها اب سنوری اسلام مخانصاحب سفور - ریاست پیاله حال اند عرفت کریم بخش) ۲۳۸ گوہر دین صاحب مستری بھاگو قادیان دارالامان (نور ہسپتال) 14-0 JAAч.AAL قادر آباد دنوں پنڈام متصل قادیان ۱۸۹۳ ۱۸۹۳ حال دارالامان قادیان ۳۳۹ عبد الله صاحب میاں خدابخش گلان والی ضلع گورداسپور تشکر 14-- 14-0 ۲۵۰ میاں احمد دین من اب نیادی غلام مصطفی شاید ضلع شیخوپودر ال عورت میر قادیانی شاید شش

Page 733

نمبر شمار اسماء گرامی ولدت الم قیر تاریخ احمدیت جلد ہشتم متوطن من بعیت من زیارت ۲۵۱ میاں محمد حیات صاحب امیاں نظام الدین صا چاک بجانی تحصیل پنڈ دادن خان ۱۸۱۳ پیشرانه مدار ضلع جہلم تحریری +19-5 ۲ ۲۵ محمد دین صاحب جمال دین صاحب قلم مو به سنگی تحصیل پسر در ضلع ساده سیالکوٹ حال بد و ملی ضلع سیالکوٹ دریدن ١٩٠٣ دستی در جون ١٩٠٣ ۲۵۳ میاں روشن دین صاحب بیاں مطیع اللہ صاحب چند کے منگولے ضلع سیا لکو شمال ۱۹۲ ۱۹۳ دار الرحمت قادیانی ۲۵۳ ملک شادی نیما نصاحب ملک امیر کیش سیکھوں ضلع گورا پیٹو حمة り ۲۵۵ ہد ر ماسٹر علی محمد مسا نہیں ہے بیٹی کو موڑ تھے خانصاب سمہور ضلع در عین حال الفضل.کارکن نظارت تعلیم 19.0 it ۲۵۶ میاں بھاگ صاحب کمہار میاں محمدبخش کمہار ادیان قال حلقہ مسجد اقصی قادیان ششده ۲۵۷ بڑھا تیلی صاحب نتا صاحب ۲۵۸ قطب الدین صاحب محامد علی صاحب " فضل ۱۸۹۲ ۱۸۹۳ ۲۵۹ منشی عبدالکریم صاحب یوسف علی صاحب سنگر دور عثمان یو بخشش و تحریری ۱۹۰۲ ۲۰ سید علی احمد صاحب سید نیاز احمد صاحب رجا ولی ضلع انباله حال دار العلوم پیش و دارا دار الفضل - قادیان امر 14-1 ۳۶۱ مولوی خیر دین صاحب میان تقسیم صاحب دو وجود دال ضلع امرتهران مهرآباد قادیان شده اشاره نظام الدین صاحب مشکل خورد متصل قادیان ۲۶۳ محمد علی صاحب ۲۶۳ عبدالله صاحب و کجا ندار میاں محمد بخش صاحب قادیان مالی قادیان حلقه مسجد اقعی شده شده ۲۶۲ منشی محمد اسمعیل صاحب یا محمد اکبر تاب مرحوم باله ۲۶۵ میاں محمد وارث صاحب پر بخش صاحب بھری شاه مین جبال ۲۲۷ ۲۶۸ قادیان علی 14-4 14 بید کی احمدی 14.6 14.6 14.6 ۱۹۰۵ میاں غلام محمد صاب زندگی میاں محمد قاسم صاحب بیگودال ضلع سیالکوٹ حال قادیان ڈاکٹر فضل کریم صاحب چھیڑی بوٹے خانصاحب ا می تحصیل شکر گڑد در ضلع گورداسپور ۱۳۹۳ با ماہی کمہار صاحب عمر انکمہار صاحب قادیان حلال ۲۶۹ میان غیر الدین صاحب سکھوانی میاں محمد صدیق صاحب سیکھوں گور اور حالی از ارتقا دیان شد بهمن ۲۷۰ میان بابا صاحب چھمن صاحب مامانی په ضلع پویشیار تو حال حمد با متصل 1 پر " ۲۷۱ میاں عبداللہ صاحب الی میاں حکم دین قادیان مال قادیان حلق مسجد فضل شاد حلا حمت ۲۷ مستری فضل دین صاحب نہال دینہ کا اعلان ضلع گورد سوال ادارات تا ان شاء 14-8 JAAT

Page 734

خمیر تاریخ احمدیت جلد شتم نمبر شمار اسماء گرامی ولدیت متوف من بعیت سن یاست ۲۷۳ علمین با منشی سکند بیلی صاب نیستند چویدری و لیدا و صاحب کمین کلان ضلع گونه اسپورهای بینی با نگر ا ر ا داء مدرسین در رشته شیم ان سان اهم متصل قادیان ۲۷۴ ناسر یا مون خانصاحب سیاہ کا لو ما نصاب کا چھیاره ضلع در میان مال قادیان حلقه ۱۰۳ مسجد اقصی | تحریر می ۲۰۵ 14-1 دستی ملک عبدالحق صاحب ملک غلام رسول صاحب کنج مضلع گجر اعمال ناصر آباد قادریان اشاره شده ۲۷۶ قاضی دین محمد صاحب قاضی علی محمد صاحب قادیان حال قادیان حلقہ مسجد تھی عشاء عشاء چراغ دین صاحب محمد بخش صاحب قادر آباد د نواں پنڈ منتقل قادیان ۲۷۷ چراغ دین صاحب ۹۵ احمدی پیدائی ۲۸ مرز اضمر على صاحب مرزا محمد علی صاحب قادیان حلال قادیان علاقہ مسجد اقصی یدائش ندارد ۲۷ سریز عمر دین صاحب مریدا بوٹا بیگ صاحب امام الدین میں اپنے فروش پیراند تر عامر " " " " 14.14.5 شده شده 14-1 14.۲۸۱ خواجه عبد الرحمن صاحب خواجہ محمد شاد نیا نصا سیالکوٹ حالی ناصر آباد قادیان میز با اکبر بیگ صاحب مرزا دین محمد صاحب ننگر وال ضلع گورداسپور ۲۸۲ عبد الحق صاحب دوکاندار عبدالله فضلاین هدد قادیان ۲۸۳ محمد رمضان سابق دوکاندار بڑھا مناسب تر گڑی ضلع گور اپر سمال قادریان بخشن عمال لازم حفره میر محمد محل مصاب حریری 14-0 14- ۲۸۴ یا عامه هندوستانی میاں اللہ بخش صاب معینی ضلع روہتک خالی دار رحمت شاد شده تا دیات پیدائشی احمدی ٩٠ام ٹولی فروش فرینی ای محمد بیکی با قر خانی قریشی شاه محمد صاحب قادیان حلقه مسی قفس سید مش حشر ۲۸۶ عبد المجید خان صاحب ندارم سین خانصاحب قصبه آنولر ضلع بانس بریلی حال ۱۹۰۴ علقہ مسجود فضل قادیان میان پراند ته نیابت کمہار میان دین محمد صاحب قادیان حلقه مسجد اقصی قادیان شارد ۲۸۷ ترند ۲۸۸ پیدائشی بال محمد عبداللہ صاحب مولوی رحیم بخش صاحب توندی جهنگلان ضلع گورداسپور پید انتی احمدی نشده پیدانش فروری اودرسیر حال دار الرحمت قادیان 14.) با بالحمد فضل خالصہ جب میں قائم الدین خانصاب چنگا بنگیال ضلع راولپنڈی حال شاد ی داری معضل قادیا تحریری صاحب دستی ۲۸۹ مولوی غلام احمد صاحب مولوی عبد الحور در اب بد و علی ضلع سیالکوٹ حامل پیدائشی احمدی رد مولوی مولوی فاضل 14 دار الرحمت قادیان پیدائش شاد

Page 735

نمبر شمار اسماء گرامی ولدیت ضمیمه تاریخ احمدیت جلد هشتم متوطن من بعت من زیارت ۳۹۰ مولوی عبدالحق صاحب میاں امام الدین ضنا محرم بعد در ملی ضلع سیالکوٹ ۲۹۱ مولوی غلام رسول صاحب فراز السلام ۲۹۳ چوہدری رحمت خان صاحب چوہد کی سوہنے خائفضا سروعہ ضلع ہوشیار پور رحال سن شاہ دار الفضل قادیان تحریری " نگاره دستی ۲۹۳ قریشی عبدالحق صاحب قریشی سردار علی حساب میانی بھیرہ ضلع شاہ پو حال دار الرحمت رو شار پیدائشی احمدی ۲۹۵ ماسٹر محمد شریف نما نصاحب الوسی عبدالقادها در قیام الدميانه - سمال دار الرحمت قادیان می همراه را ۲۹۶ مستری رحیم بخش صاحب صدر دین صاحب با تیری ضلع گور اور ۲۹۷) با بو اکبر علی صاحب ریٹائرڈ چوہدری امیر علی صاحب اپنی سائنسی ضلع گجرانوالہ حالی دار العلوم قادیان 14.2 14.14.0 14.١٩٠٢ درک انسپیکٹر یونیز ۲۹۸ مولوی فضل الدین صاحب میاں الہ دین صاحب نون ضلع گجرات مالی دارای رحمت ۲۹۹ مستری عمر دین بھا گو صاحب قادر آباد انواں پینڈا متصل قادیان ۱۹۰۴ء ۱۹۰۴ء سال دار الفضل قادیان می ة مجرى ۳۰۰ حافظ نبی بخش صاحب شیخ کریم بخش صاحب فیض اللہ چک حال دار المعضل قادریان ۳۰۰ میاں فضل دین همان دکاندار میابی عید صاحب دھرم کوٹ نگر ضلع گورداسپور حال شده حلق منسجد فضل قادیان ١٩٠٢ ۰۲ محمد شرافت او د خواجه کشمیری میان میران بخش صاحب قادیان - حال حلقوریتی پچھلہ قادیان پید انتی احمدی تو دوکاندار سبزی ۳۰۳ محمد عبد العز نیز صاحب مولوی محمد عبداله های قوم اور کھوکھر اک بینی و کم تر را یاد شد العزنيه صحابی حضرت مسیح مود و السلام ضلع شیخو پور حال مهاجر محله دارا ارحمت نادیا ۳۰۴ محمد قاسم احمد صاحب عطر الدین صاحب امرتسر دروازہ ہاتھی کو چہ مکل حاجی ۱۹۲ ۱۹۳ حال قادیان محلہ دار الرحمت ۳۰۵ حافظ غلام سل من وزیر بالا حافظ محمدحسین صاحب وزیر آباد ضلع گوجرانوا رجال العلوم قادریا شده انشاء ۲۰ مستری امین اللہ صاحب محمد بخش صاحب احمدی لیسیان ضلع امرتسر حالی ار الرحمت " ۳۰۷ احمد نور صاحب کا بلی اللہ نور صاحب کابلی قرم پیوست اریوب قلعه جدوان شماره ۶۹۳ حال دارالامان قادیان ۳۰۸ میاں میارم می ناباورچی را بیان جمال الدین صاحب مالیر کو کہ حال قادیان دار العلوم نے یا نہ دیا میان نور محمد صاحب.غلام دین صاحب قادر آباد دنوں پنڈا متصل قادیان شد ۱۳ 14.F 14-r

Page 736

ضمیره تاریخ احمدیت جلد شیم نمبر شمار اسماء گرامی دادیت متوطن است بعت من بعیت اسن زیارت ٣١٠ منشی عبد الحق صاحب کاتب حکیم چراغ الدین صاحب جوڑه کر نالہ ضلع گجرات مال دار العلوم قادیان شد ۳۱۱) ڈاکٹر فیض علی صاحب صابر مولوی عبد الغني صاحب امرتسر مال دار العلوم قادیان فیض عام میڈیکل ہال نو مسلم مرحوم قادیان ۳۱۲ محمد یسین صاب موٹر ڈرائیوم با او محمدابراہیم صاحب گوہد پور ضلع سیالکوٹ حالی دار العلوم حضرت نواب صاحب دانشی احمدی ۱۳۱۳ میاں محمد اسمعیل معنا سیکیوان میں جمال الدین نا لیوں سیکھواں ضلع گورداسپور سی دی ۳۱۲ خانصاب حامد مین خانصاحب خانصاب محمد مین خانمها حال دار الرحمت قادیان ۳۱۵ مرزا فیروز الدین صاحب مرزا امام الدین حساب قادیان حلقہ مسجد اقصی قادیان پیدا کنشی احمدی ۲۱۹ منشی فیض احمد صاحب بھٹی چونڈی محمد الدین صاحب مہاراج کے چھٹے ضلع گجرانوالہ حالی پیدائشی احمدی ۱۹۳ دو كاتب الفضل بھٹی دار البرکات قادریان و مادر ۳۱۷ میاں احمد دین صاحب میں حیات محمد ضنا مرحوم کو اس کی ضلع گجرات مال N ۳۱۸ میاں علاؤ الدین صاب جیور میاں معراج الدین فضا لاہور مال دار الرحمت قادیان سپیدائشی احمدی ۳ حمار تحمينا میاں فیملی ۱۹۰ ۱۹ ڈاکٹر نعمت خانصاب پیشنز امان خان صاحب نارین ضلع کانگرہ حال دا الفضل قادری ام اس ۳۲۰ میاں محمد شفیع هنا او در سیر میاں عبد العزیز صاب او مجله متصل گودا کو حال قادیان ده شارد ۳۲۱ با با شیر محمد صاحب دتے خان صاحب خانی فاضلع گورو اسپور، دار العلوم قادیم ۳۲۲ مولوی فضل الہی صاحب مولوی کرم دین صاحب پنڈ دادنخان ضلع جملم مالی دارا برکات ti ۹۳اد ۱۸۹۴ پیدائشی زندی ۳۳۳ کرم اپنی صاحب میاں محمد الدین صاحب بھیرہ ضلع شاہ پور جای دار العلوم ۳۲۴ ملک خان با دشاه مهاجمه گل بادشاه همان در گئی نوست حال قادیان ڈاکٹر مرزا محمود بیگ صاحب مرزا محمد بیگ ملوب جام قادیان ۳۲۵ ۳۲۶) جدید کی مبارک احمد صاحب تجوید کی امان اللہ خان بہلول پور ضلع سیالکوٹ عالی ہیڈ کلرک فرایجنسی سر و شالی سکنہ بہلول پور ضلع وزیرستان میرام شاہ سیالکوٹ میرام شاه 101.1440 قاضی تاج الدین صاحب مولوی غلام رسول شما در حوالی ضلع گو ا ا ا ا ا ا ا ا ن اور ایران در ۱۵ ۳۲۸ میاں نور محمد صاحب عبداللہ صاحب بسرا - متصل قادیان رسی بی) 14.6 ۳۲۹) میان مخصوص اب راجپوت گل دراجپوت قادیان حلقه مسجد فضل قادیان شنگام شناء

Page 737

یمه تاریخ احدیت اور شم نمبر شماره اسماء گرامی دادیت ۳۳۰ متولمن سن بیت سن زیارت 14-4 مولوی عبید الله ما رانجھا حکیم عمر بخش منا المران ساکن چنڈیاں تحصیل ضلع لاہور ڈاکخانه شده نگار عمر الدین قوم جٹ انجها جلو حالی دار الفضل قادیان ۳۳۱ مستری مهروین صاحب مستری گوهر دین جناب قادر آباد متصل قاوات مال دار الفضل قادریان ۳۳۲ منشی محمد ابراہیم صاحب میا محمد اکبر صاحب مرحوم بشار ضلع گوڈا پور مال حلقه مسجد علی به ۳۳۳ مرنا صالح ملی صاحب مرزا صفر بیگ صاب مالیر کوٹلہ حالی ۳۳۳ مرزا احمد بیگ صاحب مرزا بڑھا بیگ مرحوم قادیان دارالامان rra حال دار البرکات قادیان حسین واحدی عشره " ۳۳۵ منشی رحمت الله صاب واق منشی کرده علی قضا کاتب داشت علی ۱۳۹ سینا محمد صادق صاب مالی میان نظام الدین صاحاب جہلم ، دار الفضل پیدائشی احمدی حکیم عبد الرحمن صاحب یا عبدالله فضا این فضا قادیان دار الامان ١٩٠١ ا مرد سات چھٹی سان میاں غلام قادر قاب ، حقہ مسجد اقصی قادیان اشاره شده پیدائشی احمدی میا شیخ مایه ۳۳۹ ڈاکٹر چوہد کی عید از کسی قاب چونڈی عبدالرحیم تمام قادیان ۳۳۰ مہتہ عبد القادر ها، قادر انه عبد الرحمن قاه قاه امام همان ۳۲۱ چونڈی شریف احمد صاحب چوہدری محمد ابراہیم صاحب کو بد پر ضلع سیا کوٹا حال دارالعلوم قال یا سیاسی احمدی ۳۲۳ ۰ عبدالرحمن صاب کشمیری ره شادی من کشمیری قادیان - حلقہ مسجد اقصی ١٩١٠ 1440 ۱۳۴۳ محمد رحیم الدین احمد صاحب کریم الدین صاحب ضلع بجنور عبید الله جمالی دارالرحمت ۱۹ مین کے تیرہ میں ۳۰۲ قادیان جون تحریه ی 14.5 ۳۲۲ حکیم الله و ته صاحب نظام الدین صاحب موضع شاه پر سر گر در ضلع گور اسپور دوستی اشاره نداره ۳۲۵ فضلورین با هر جا میری نظام الدین دفعداره رقم قادیان معلقہ مسجد اقصیٰ ۳۳۶ محد يعقوب صاحب محمد اکبر صاحب مرحومہ بالہ ضلع گورا سکہ حال قادریان دارا ریت سیاسی امری ا لمحمد سپورت ۳۳۷ ماسٹر عبد الر حمن صاحب سفارشیخ سن راستگو میان دو میلی - ضلع جالندهر مالی دار الفضل بی.اسے (میر سنگھ ) قادیان مراکشی را ۱۳۸ مولوی عبدار تیم شتاب به مولوی اور حکم و مامان کونہ ضلع برائی ۲۲۹ مرزا محمد افضل صاحب انا محمد مال الدین این تیم برانی فیله مبرات حالی دارارات تلویان ۱۹۰۳ ۱۹۳ نسل ۳۵۰ ماسٹر خلیل الرحمن صاحب نیک عالم صاحب پنجیری به استہ جہلم ریاست جونا حال و ار ا لرحمت قادیان ۳۵ ذو الفقار علی خان صاحب عبد العلی خان صاحب ریاست رام پور ساکن حال استشاء نشاء قادیان دارالامان

Page 738

ضمینه تاریخ احمدیت جلد شیم نمبر شمار اسماء گرامی ولدیت ۵۲ متوطن من بعیت سن زیارت ۳۵۲ عبد الرحمن های تازیانی مہتہ گورا ند ته می گفتا کنجر در دستان - ضلع گورداسپور ۱۱ و ۱۳۲ + وصیت ۱۳۹۵ فهرست ۲۱۲ می ۱۰ (-) موسیان نمبرات الجد اراکین خاندان مسیح موعود ومتعلقین حمال قادیان دارالامان ۱۸۹۵ ۱۸۹۵ غلطی سے دو نمبر مثلاً ۲۸۱ نمبر دو مرتبہ ہے.اور (۱۵) دو مرتبہ درج ہوا.۱۵ پر بھی یہی نام ہے اور ۲۸۹ پر بھی رہی.اس طرح ایک نمبر کم ہو گیا.کل نمبر ۳۶۷ ہوئے ہیں نہ ۳۶۸ سید شاہ عالم صاحب حافظ سید مونی | به یلی حال قادیان داران مان پیدائشی احمدی شنشله و حب محمد سین ها هر توم ارش ۳۳ اکتوبر ۳۶۹) مولوی جان محمد صاحب مولوی عبدالغفار صابت در ضلع کیا اور حال دریان را برای ما می انداران داده شده رستاس ضلع جہلم ۳۷۰ میاں وزیر محمد صاحب ۳۷۱ بابو مولا بخش صاحب چوہدری بڑھا صاب تنگل با غباناں ۳۷۲ محمد اکبر علی صاحب مولوی محمد علی صاحب موضع بہادر ضلع گورداسپور محمد حال قادیان محله دارالرحمت ۳۷۳ کپتان محمد دین صاحب خانصا امام الدین خانم بٹالہ حالی کھارہ منتقل قادیان پیدائشی تینا " ١٩٦ ۳۷۴ شیخ مهر دین صاحب شیخ فضل الہی صاحب سیالکوٹ شہر قادیان دار الصفات ١٩٦ ٩ کالا نور تحریک جدید ۳۷۵ سید محمود شاہ صب الحب ۳۷۶ ماسٹر نذیر حسین صاحب تعلیم محمد حسین صاحب سابق - لاہو بیرون دہلی دروازہ پیدائشی احمدی منتشره مریم سیوان ہوں محال مجلر دار العلوم غربی برلب سڑک پیدائش قادیان 스 ۳۷۷ گلزار محمد صاحب شیخ عطاء محمد صاحب چنیوٹ ضلع جھنگ حال معرفت ۱۹۰۸ و شنگاره مرحوم میاں شمس دین نیرو زدین صاحب جنوری ۳۵۸ میاں عبد العزیز صاحب میاں پر اندین صاحب لاہور لینگے منڈی بیرون دہلی دروازه شاء انشاء ٣٨٠ المعروف مغل خان بہادر شیخ رحمت الله شیخ امرالله صاحب صاحب ریٹائرڈ لاہور سیالکوٹ حال دارالعلوم قادیانی شاد ندارد شیخ احمد اللہ صاحب شیخ الہی بخش صاحب چھاؤنی سیالکوٹ

Page 739

نمبر شمار اسماء گرامی ولدیت ۵۳ فیر تاریخ احمدیت جلد هشتم متوطن سن بیت سن زیارت ملک نور الدین صاحب ملک الہی بخش صاحب کنجاہ ضلع گجرات مال دار المفضل قادرات عشاء عشاء ۳۸۳ مرز احمد ابراہیم صاحب مرزا عبداللہ بیگ صاب معلمان حال دار العلوم ۳۸۳ بجو صاحب نامداره صاحب قادیان - دار الانوار " ۱۹۰۳ ۳۸۳ میاں خیر وین صاحب سیال وزیر صاحب ننگل با غبانان حال قادیان ستاره دارد 1444 14-- 14.0 ۳۸۵ حضرت چوہدری سر محمد حضرت چوہدری ڈسکہ ضلع سیالکوٹ حال قادیان شده یا نشده ظفر اللہ خان صاحب نصر اللہ خانصاحب حلقہ دارالانوالہ قادیان ۱۳۸۶ چند کی بشیر احمد صاحب چھری غلام احمد منا چور کا ہوں تحصیل پسر در ضلع سیالکوٹ مرحوم حال ایڈیشنل جج مطالبہ دہلی ۳۸۷ امی چو ہدری علی حسن صاحب میاں محمد بخش صاحب سنوره ریاست پٹیالہ - حال پیدائشی احدی ساده مرحوم دارالامان قادیان JAN.میاں محمد اسد اللہ صاحب مولوی عزیز بخش مناسب نتیجه کانی تحصیل بٹالہ حال دارا تحت سن شا ءء می بیش نانه ۳۸۹ اخوند محمد اکبر صاحب نون میم ایش انتصاب محمد مسجد فضل ۳۹۰ شیخ محمد من هنا قانونگو بیشتر شیخ غلام حیدر صاحب شیخ محمد یسین قادریان IAAD 14.۱۹۰ ۳۹۱ میاں عبد العزیز صاحب میاں عدل الدین قاب شکار ماچھیاں ضلع گورداسپور حال ان له شارد صاحب محلہ دار العلوم قادیان 14:5 ۳۹۲ میان محمد وارث صاحب میں پیر بخش صاحب بھڑی شاہ رحمان ضلع گجرانواله ۱۹۲ ۹۳اره حال قادیان دارالامان ۱۸۹۵ ۱۳۹۳ حکیم محمد جمال الدین صاحب عبد الکریم صاحب جوڑ کر نا نہ ضلع گجرات محال محله اسناد و استشاره تها تک ہمارا علم ہے یہ جہاں تک ہمارا علم ہے یہ فہرست مکمل ہے.تكات حضرت مرزا شریف احمد ۳ دارم وار العلوم قادیان بمقام جہلم نوٹ ا حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے الفاظ میں صحابی کی تعریف یہ ہے کہ جس شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بعیت کی ہولنا پھر ارتداد نہیں کیا خواہ درمیان میں کسی قدر کمزور کیوں نہ ہو گیا.ہو.وہ یقینا صحابی ہے.اس میں کوئی شک نہیں.د الفضل دار فروری دارد تا ) مندرجه بالا بر می صحابہ کرام کے دستخط بھی موجود ہیں (ناقل) 30/3/45

Page 740

۵۴ سیدنا حضرت خلیفہ مسیح الثانی کے سفر حیدر آباد کے گروپ فوٹو ا خان بہاد را حمدا له الدين المخاطب نواب احمد فواز جنگ بہادر صاحب کی کو بھی.گریسیوں پر (دائیں سے بائیں ، نور محلال الدین صاحب غیر احمدی )۰(۲) خانصاحب دوست محمداله الدین صاب غیر احمدی) - (۱۳) نواب محمد نواز جنگ بہادر غیر احمدی - (۴) استید نا حضرت خلیفہ مسیح الثانی (2) حضرت سید عبداللہ ھائی انسان (۶) مولوی سیر بشارت احمد صاحب امیر جماعت احمدید حیدر آباد - (۷) خدا مین خانصاحب (۸) غلام دستگیر صاحب (خیر احمدی) سیٹھ علی محم عبد الله الہ الدین حضور کے قدموں میں بیٹھے ہوئے حضرات ردائیں سے بائیں ، (1) میاں عبداری ما (۳) حضرت حافظ ملک محمد صاحب (۳) عبدالجلیل صاحب فیض.(۲) محمد عبد اللہ صاحب ہیں.ایسی ہی.(ہ) پر و فیسر حبیب اللہ خان صاحب..- سیٹھ محمد اعظم صاحب.(4) حضر شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی (ه) عبد الغفور صاحب - (۹) عبدالقادر صاحب پرمعنا - (۱۰) سید منیر الدین صاحب - (حضرت خلیفہ این اے کی پشت پہ بحکم میر سعادت علی صاحب اور اُن کے دائیں باز و مولوی عبدالقادر صاحب صدیقی کھڑے ہیں.ان کے علاوہ اس تصویر میں اور جو لوگ ہیں ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں.10 سیٹو سید جعفر صا (۲) سید محمد علی صاحب.(۱۳) سید محمد علی صاحب رو کوری ، شیخ علی صاحب ظہیر آبادی - (۵) حیدر علی صاحب.(۶) اسید فاضل الہ الدین صاحب - (6) ڈاکٹر میراحمد سعید صاحب فوجی لباس میں.(۸) ایک صلاح الدین صاحب ایم.ہے پرائیویٹ سیکر ٹری.(4) عطا محمد صاحب پره دار حضرت صاحب (۱۰) حمد یعقوب جناب عثمان آباد (۱۱) مولوی محمد عمان مینا - (۱۲) نذیر احمد صاب بنگلوری بد حیدر آباد کے مضافاتی ریلوے اسٹیشن بیگم پیٹھ پر.(4)- حضرت خلیفہ ایسی رند کے دائیں طرف ایستاده چند اصحاب : - (1) مولوی سید بشارت احمد صاحب امیر جماعت احد یه حمد آباد - (۲) حضرت سیٹھ عبداللہ بھائی الا الدین صاحب.(۳) سیٹھ محد فوت صاحب (۳) سید محد مقبل مناسب - (۵) مولوی مومن حسین صاحب (ترکی ٹوپی اور سفید ڈاڑھی.حضور کے بائیں جانب.(۱) نواب احمد نواز جنگ بہادر صاحب ۲۰۰ در شیخ یعقوب علی صاب عرفانی من (۳) نواب اکبر یار جنگ بہادر صاحب دمینک اور ترکی ٹوپی پہنے اور ان کے پشت پر عینک لگائے ہوئے مولوی فضل حق خان صاحب ناظم عدالت.اور اُن کے دائیں جانب نواب غلام احمد خانصاحب ایڈووکیٹ.اس تصویر یں اور جو حضرات موجود ہیں ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں.( محترم شیخ محمود احمد صاحب عرفانی - (۲) سیٹھ محمد اعظم صاحب - (۱۳) پروفیسر حبیب اللہ خان صاحب (۱۴ میاں عبدالرحیم صاحب - (۵) بشیر علی صاحب گنجا ہی.(4) محمد عبد القادر صاحب صدیقی.(6) حلیم میر سعادت علی صاحب ، (۸) عبد الحی صاحب مچھلی بندان - (۹) عبد الغفور صاحب - (۱۰) شیخ علی صاحب ظہیر آبادی (11) سیٹھو فاضل بال الدین صاحب - (۱۲) احمد حسین صاحب سعید تمہا پوری.(۱۳) نواب سید محمد بر قومی صاحب (۱۴) سیٹھ غلام قادر صاحب شرق - (۱۵) سید علی محمد صاب - (۱۹) مرزا سلیم بیگ منا (16) حیدر علی صاحب - (۱۸) محترم یوسف عرفانی صاحب نے

Page 741

۵۵ لوائے احمدیت لوائے نا پسند ہر سعید خواہد بود : ندائے فتح نمایاں بنام ما باشد انات LAZ IAI

Page 742

قیمه تاریخ احمدیت جلد هشتم لوائے خدام الاحمدیہ لوائے لجنہ اماء الله لوا ینیجنگ ڈائریکٹر ادارۃ المصنفین ربوہ نے ضیا والی اسلام پر یس بودھ سے پھپوا کر شائع کیا.طبع اول - دسمبر ۱۹۹

Page 742