Language: UR
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی قیادت میں جماعت احمدیہ کے عظیم الشان دینی، اصلاحی اور ملی کارنامے (عمومی واقعات 1928ء سے لے 1931ء) اور تحریک آزادی کشمیر میں جماعت احمدیہ کی سنہری خدمات(از 1914ء تا 1964ء)۔<span class="ufont-small">(پرانے ایڈیشن کے مطابق جلد 6)</span>
تاریخ احمدیت جلد پنجم مید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی اید واللہ تعالی کی قیادت میں جماعت احمدیہ کے عظیم الشان دینی اصلاحی اور ملی کارنامے عمومی واقعات ۱۹۲۸ء سے لے کر ۱۹۳۱ء) اور تحریک آزادی کشمیر میں جماعت احمدیہ کی سنہری خدمات از ۱۹۱۴ء تا ۱۹۶۴ء) مؤلّف دوست محمد مشاہد
تاریخ احمدیت جلد پنجم مولا نا دوست محمد شاہد 2007 2000 نظارت نشر و اشاعت قادیان پرنٹ ویل امرتسر نام کتاب مرتبہ طباعت موجودہ ایڈیشن تعداد شائع کرده مطبع ISBN - 81-7912-112-7 TAAREEKHE-AHMADIYYAT (History of Ahmadiyyat Vol-5 (Urdu) By: Dost Mohammad Shahid Present Edition : 2007 Published by: Nazarat Nashro Ishaat Qadian-143516 Distt.Gurdaspur (Punjab) INDIA Printed at: Printwell Amritsar ISBN 81-7912-112-7
بسم اللہ الرحمن الرحیم پیش لفظ اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں داخل فرماتے ہوئے اس زمانہ کے مصلح امام مہدی و مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے کی توفیق عطا کی.قرونِ اولیٰ میں مسلمانوں نے کس طرح دُنیا کی کایا پلٹ دی اس کا تذکرہ تاریخ اسلام میں جا بجا پڑھنے کو ملتا ہے.تاریخ اسلام پر بہت سے مؤرخین نے قلم اٹھایا ہے.کسی بھی قوم کے زندہ رہنے کیلئے اُن کی آنے والی نسلوں کو گذشتہ لوگوں کی قربانیوں کو یا درکھنا ضروری ہوا کرتا ہے تا وہ یہ دیکھیں کہ اُن کے بزرگوں نے کس کسی موقعہ پر کیسی کیسی دین کی خاطر قربانیاں کی ہیں.احمدیت کی تاریخ بہت پرانی تو نہیں ہے لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے الہی ثمرات سے لدی ہوئی ہے.آنے والی نسلیں اپنے بزرگوں کی قربانیوں کو ہمیشہ یادرکھ سکیں اور اُن کے نقش قدم پر چل کر وہ بھی قربانیوں میں آگے بڑھ سکیں اس غرض کے مدنظر ترقی کرنے والی قومیں ہمیشہ اپنی تاریخ کو مرتب کرتی ہیں.احمدیت کی بنیاد آج سے ایک سو اٹھارہ سال قبل پڑی.احمدیت کی تاریخ مرتب کرنے کی تحریک اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل میں پیدا فرمائی.اس غرض کیلئے حضور انور رضی اللہ عنہ نے محترم مولا نا دوست محمد صاحب شاہد کو اس اہم فریضہ کی ذمہ داری سونپی جب اس پر کچھ کام ہو گیا تو حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی اشاعت کی ذمہ داری ادارۃ المصنفین پر ڈالی جس کے نگران محترم مولانا ابوالمنیر نور الحق صاحب تھے.بہت سی جلدیں اس ادارہ کے تحت شائع ہوئی ہیں بعد میں دفتر اشاعت ربوہ نے تاریخ احمدیت کی اشاعت کی ذمہ داری سنبھال لی.جس کی اب تک 19 جلدیں شائع ہو چکی ہیں.ابتدائی جلدوں پر پھر سے کام شروع ہوا اس کو کمپوز کر کے اور غلطیوں کی درستی کے بعد دفتر اشاعت ربوہ نے
اس کی دوبارہ اشاعت شروع کی ہے.نئے ایڈیشن میں جلد نمبر ۶ کوجلد نمبر ۵ بنایا گیا ہے.حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے قادیان سفر کے دوران تاریخ احمدیت کی تمام جلدوں کو ہندوستان سے بھی شائع کرنے کا ارشاد فرمایا چنانچہ حضور انور ایدہ اللہ کے ارشاد پر نظارت نشر و اشاعت قادیان بھی تاریخ احمدیت کے مکمل سیٹ کو شائع کر رہی ہے ایڈیشن اول کی تمام جلدوں میں جو غلطیاں سامنے آئی تھیں ان کی بھی تصحیح کر دی گئی ہے.موجودہ جلد پہلے سے شائع شدہ جلد کا عکس لیکر شائع کی گئی ہے چونکہ پہلی اشاعت میں بعض جگہوں پر طباعت کے لحاظ سے عبارتیں بہت خستہ تھیں اُن کو حتی الوسع ہاتھ سے درست کرنے کی کوشش کی گئی ہے.تاہم اگر کوئی خستہ عبارت درست ہونے سے رہ گئی ہو تو ادارہ معذرت خواہ ہے.اس وقت جو جلد آپ کے ہاتھ میں ہے یہ جلد پنجم کے طور پر پیش ہے.دُعا کریں کہ خدا تعالیٰ اس اشاعت کو جماعت احمد یہ عالمگیر کیلئے ہر لحاظ سے مبارک اور با برکت کرے.آمین.خاکسار برہان احمد ظفر درانی (ناظر نشر و اشاعت قادیان)
بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود امروز قوم من نه شناسد مقام من روز نے نگر یہ یاد کند وقت خوشترم.رقم فرمودہ حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ مدظلها العالی ) یہ تاریخ احمدیت کی چھٹی اجلد ہے.گذشتہ سال حضرت خلیفہ اس سے پانی کی حیات کا پہلا حصہ شائع ہوا.جو آپ کی مبارک زندگی کے حالات اور خلافت کے متعلق تھا.یہ جلد ان کارناموں پر مشتمل ہے جو آپ نے مسلمانوں کے لئے سر انجام دیئے اور ہر موقعہ پر رہنمائی فرمائی اور جہاں اور جس جگہ جس پہلو سے مسلمانوں کو کمزور دیکھا، مظلوم دیکھا، غلطی خوردہ دیکھا ، آپ اپنی جانب سے اپنے ذاتی درد کے جوش سے جو آپ تمام اہل اسلام کے لئے دل میں بھرارکھتے تھے مدد کے لئے کھڑے ہو گئے.کسی کے پکارنے اور امدادطلبی کی ضرورت نہ تھی.کیونکہ آپ میں فطرنا مسلمانوں کی خدمت کا جذبہ اور محبت ، ہمدردی ، بدرجہ اتم موجود تھی.جو بھی جماعت احمدیہ کے ساتھ کسی کا سلوک رہا ہو، آپ نے کبھی اس کو یاد نہیں رکھا.کبھی مسلمانوں کے مفاد سے بے پرواہ نہیں ہوئے.کہ اگر مسلمانوں نے اس جماعت اور اس تاز دسر سبز شمر خیز شاخ اسلام کی قدر نہیں جانی.تو ہم پر ان کی حالت پر افسوس کرنا اور رحم کھا ناہی واجب ہے.گونا دانی اور کم منہجی سے بعض نادانوں کے غلط پروپیگنڈہ سے یا کم علمی و تا واقعی سے انہوں نے حق کو نہ پہچانا.اور قدرنہ کی.مگر ہمارا کام تو ہر وقت ہر موقعہ پر ان کی خیر خواہی اور ہر رنگ میں ان کی مدد کرتا ہے.ہمیں وہ عزیز ہیں.ان کا سکھ ہمارا سکھ اور ان کا دکھ ہمارا دکھ ہے.ان کی عزت ہماری عزت، ان کی ذلت ہماری ذلت ہے.غرض ہر ضرورت کے وقت اپنے خاص اہم کاموں میں بھی التوا کی پرواہ نہ کرتے ہوئے آپ ترپ کر اسلام کے نام پر آگے بڑھے.کہ ے موجودہ ایڈیشن کی پانچھ میں جلد آخر کنند دعوی حُبّ پیمبرم
اللہ تعالیٰ کی رحمتیں آپ پر نازل ہوتی رہیں.اور اپنے آقا ﷺ کے قدموں میں بلند سے بلند درجات حاصل ہوتے چلے جائیں.آمین.مبارکه ( دوشنبه ۶ ؍دسمبر ۱۹۶۵ء )
بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود پیش لفظ بار اول تاریخ احمدیت کی پانچویں اجلد سے خلافت ثانیہ کے مبارک دور کی تاریخ کی ابتدا ہوئی تھی جلد ششم.اس دور کی دوسری جلد ہے اس جلد کا ہر ہر لفظ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ بابرکت وجود جس کے اس دنیا میں آنے سے پہلے یہ کہا گیا تھا کہ وہ اسیروں کا رستگار ہو گا کس شان سے یہ خدا تعالیٰ کا کلام پورا ہوا.اس جلد میں ان تمام کارناموں کا مبسوط طور پر ذکر کیا گیا ہے جو سید نا حضرت امیر المومنین الصلح الموعود رضی اللہ عنہ نے متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں کے سیاسی حقوق کی حفاظت کے لئے سر انجام دیئے.اور کانگریس کے ہندو لیڈروں کی زبر دست مخالفت اور مزاحمت کے باوجود مسلمانوں کو ایک بلند مقام پر لاکھڑا کیا.جہاں سے وہ اپنی منزل مقصود کو بخوبی دیکھ سکتے تھے اسی طرح حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مظلوم اہالیان کشمیر کے لئے جو میر العقول جد و جہد کی اس کا بھی مفصل ذکر اس کتاب میں آ رہا ہے.نہایت عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ ہم پوری کوشش میں تھے کہ وہ دن جلد آئے کہ یہ کتاب مکمل ہو اور مجلد کر کے سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی خدمت بابرکت میں پیش کی جائے.لیکن اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا.ے نومبر ۱۹۶۵ء کی شام کو مکرم مولوی دوست محمد صاحب شاہد نے کتاب کا مسودہ مکمل کیا اور کتاب میں لگائی جانے والی تصاویر کے متعلق لاہور سے یہ اطلاع ملی کہ وہ تیار ہو چکی ہیں.اس طرح کتاب کا بیشتر حصہ چھپ چکا تھا.لیکن چند ساعات کے بعد دل ہلانے والی اطلاع می.کہ حضور رضی اللہ عنہ انتقال فرما گئے ہیں.انا للہ وانا اليه راجعون.اور ہماری آرزوئیں اور تمنائیں دل میں ہی رہ گئیں چونکہ مضمون سے نومبر تک مکمل ہو چکا تھا اس لئے ہم نے ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے الفاظ جو حضور کے نام کے ساتھ لکھے جارہے تھے اسی طرح رہنے دیئے گئے.اور بدل کر رضی اللہ عنہ کے الفاظ نہیں کئے گئے.تاریخ احمدیت کے لکھے جانے کا پروگرام حضور نے ہی تجویز کیا تھا.اور مکرم مولوی دوست محمد صاحب شاہد کو اس غرض کے لئے حضور نے ہی مقر فر مایا تھا.اور قصر خلافت میں بلا کر یہ عظیم ذمہ داری مجھے ا موجوده جلد چهارم موجود و جند با دیدم
ناچیز پر ڈالی تھی.کہ جس قدر جلد ہو سکے تاریخ احمدیت کو محفوظ کر لیا جائے.تا کہ آنیوالی نسلیں اس کو مشعل راہ بنا کر خدمت دین کا جذبہ اپنے اندر پیدا کرتی چلی جائیں.اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ آج اس کی چھٹی اجلد مکمل ہو رہی ہے اور وہ پودا جو حضور رضی اللہ عنہ کے مقدس ہاتھوں نے لگایا تھا.آج تناور درخت بن چکا ہے.اور جماعت کے افراد اس کے پھلوں سے لذت اٹھارہے ہیں.اس کتاب کو یہ اولیت حاصل ہے کہ یہ سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے زمانہ خلافت کے پہلے سالانہ جلسہ پر شائع ہورہی ہے اور اس تاریخی جلسہ کی ایک تاریخی اور علمی یادگار ہونے کا فخر ا سے حاصل ہو رہا ہے.ہم امید رکھتے ہیں کہ حضور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز اس ناچیز ہدیہ کو قبول فرما دیں گے اور کتاب کے مولف، ناشر اور دیگر معاونین اور کارکنان ادارۃ المصنفین کے لئے دعا فرمائیں گے کہ اللہ تعالٰی ہماری اس محنت کو قبول فرمائے اور ہماری نجات کا ذریعہ بنائے.اور آئندہ بڑھ چڑھ کر خدمت دین کی توفیق عطا فرمائے.آمین اس موقعہ پر ادارۃ المصنفین ان تمام اصحاب کا دلی شکر یہ ادا کرنا ضروری سمجھتا ہے جنہوں نے اس کتاب کی تیاری میں پر خلوص تعاون فرمایا.درج ذیل اصحاب نے اپنے قیمتی وقت کو صرف کر کے جستہ جستہ مقامات پر نہایت محنت سے نظر ثانی فرمائی.مجز اہم اللہ احسن الجزاء (۱) حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب مختار شاہجہانپوری (۲) مولانا جلال الدین صاحب شمس ناظر اصلاح و ارشاد (۳) مکرم چوہدری محمد شریف صاحب فاضل مبلغ بلا وعربی افریقہ (۴) محترم و مکرم جناب شیخ بشیر احمد صاحب سابق حج ہائیکورٹ مغربی پاکستان.(۵) مکرم چوہدری محمد صدیق صاحب ایم.اے انچارج خلافت لائبریری ربوہ (۲) جناب چوہدری ظہور احمد صاحب اڈیٹر صدر انجمن احمد یہ پاکستان و فنانشل سیکرٹری مر ریلیف فنڈ ر بوه - (۷) جناب چوہدری عبد الواحد صاحب نائب ناظر بیت المال آمدر بوہ.خاکسار کو بھی اللہ تعالٰی نے توفیق دی کہ اول سے آخر تک اس کتاب کے مسودہ کو اس لحاظ سے دیکھا کہ اس کا ہر گوشہ مکمل نظر آئے فالحمد للہ علی ذالک اسی طرح درج ذیل اصحاب بھی ہمارے شکریہ کے مستحق ہیں.جنہوں نے مولف تاریخ احمدیت موجودہ جلد پنجم
کو اس کتاب کے لئے مواد بھجوایا : مکرم مولوی عبد الرحمن صاحب انور پرائیویٹ سیکرٹری.مکرم سید داؤ داحمد صاحب پر نسپل جامعہ احمدیہ مکرم قریشی محمد اسد اللہ صاحب فاضل مربی سلسلہ مکرم شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ وامیر جماعت احمد یہ لائلپور.مکرم ملک فضل حسین صاحب - مکرم ملک مبارک احمد صاحب قائد خدام الاحمدیہ کراچی.مکرم داؤ د احمد صاحب قائد مجلس خدام الاحمد یہ راولپنڈی.مکرم مرزا عبدالحق صاحب ناظم تعلیم راولپنڈی.مکرم بابو قاسم الدین صاحب امیر جماعت احمد یہ سیالکوٹ.مکرم ڈاکٹر محمد احسان صاحب سیکرٹری اصلاح و ارشاد سیا لکوٹ.مکرم سید اعجاز احمد شاہ صاحب انسپکٹر بیت المال.مکرم مبارک احمد خاں صاحب ایمن آبادی مدیر رفتار زمانہ لاہور.مکرم جمیل الرحمن صاحب بی ایس سی مبلغ افریقہ.مکرم حکیم سید پیر محمد صاحب سیالکوٹ.مکرم صوبیدار میجر سلیم اللہ صاحب نوشہرہ نیز مکرم راجہ محمد یعقوب صاحب مولوی فاضل اور محمد اکرم صاحب کارکنان خلافت لائبریری بھی شکریہ کے مستحق ہیں کیونکہ انہوں نے مکرم مولوی دوست محمد صاحب سے کتاب کی تیاری کے دوران ہر ضروری کتاب کی فراہمی میں پورا تعاون فرمایا.مکرم سید محمد باقر صاحب نے نہایت ہمت اور شوق سے اس کتاب کی کتابت کی اور مکرم خواجہ عبد الرحمن صاحب اور دیگر کارکنان ضیاء الاسلام پریس نے نہایت توجہ سے طباعت کا کام کیا.مکرم قاضی منیر احمد صاحب کارکن ادارۃ المصنفین نے اس کتاب کی طباعت کے جملہ انتظامات کے سلسلہ میں بہت جدو جہد کی اللہ تعالیٰ سب کی محنت کو قبول فرمائے اور فضلوں سے نوازے.آمین.بالاخر تمام احباب جماعت سے درخواست ہے کہ وہ اولین فرصت میں سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ عنہ کے عہد مبارک کے ضروری واقعات کو الف بذریعہ تحریر کرم مولوی دوست محمد صاحب شاہد کو ارسال فرمائیں اور حضور کے قیمتی خطوط اور تاریخی تصاویر بھی.تا یہ قومی امانتیں تاریخ احمدیت میں محفوظ ہو جائیں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں جلد از جلد تاریخ احمدیت کو مکمل کر نیکی تو فیق عطا فرمائے.آمین
1 عنوان پہلا باب خلافت ثانیہ کا پندرھواں سال فصل اول فہرست تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحه حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے اخلاق عالیہ کا ایک یادگار واقعہ عنوان صفحه حضرت مولوی ذوالفقار علی خاں صاحب گوہر کا جوش دینی اور حرارت ایمانی IA ۱۸ جامعہ احمدیہ ( عربی کالج ) کا قیام کمیٹی کی رپورٹ جامعہ احمدیہ کے اساتذہ جمعہ احمدیہ کا افتات اور حضرت خلیفہ المسح الانی سائمن کمیشن کی آمد اور جماعت احمدیہ کی اسلامی کی قیمتی نصائح خدمات مسلمانوں کو صحیح طریق عمل اختیار کرنے کی دعوت حافظ روشن علی صاحب کی تبلیغ حق مرکزی اور بیرونی درسگاہیں A ۹ ام جامعہ احمدیہ کا دور اول دور اول میں تعلیم پانے والے علما ، جامعہ احمدیہ کا دور ثانی دور ثانی میں تعلیم پانے والے علماء پردہ سے متعلق حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا ایک با معہ احمدیہ کے دور ثالث کا آغاز مکتوب گھروں میں درس جاری کرنے کی تحریک احمدیت کا حال اور مستقبل تعلیم نسواں کے لئے خاص تحریک پہلے تحقیقاتی کمیشن کا تقرر سیٹھ علی محمد صاحب کی کامیابی سے متعلق آسمانی بشارت جماعت کو حفاظت اسلام کے لئے اور زیادہ چوکس ہو جانے کا ارشاد | f ۱۲ ۱۴ ها سفر ا ہوں فصل دوم سیرت النبی کے با برکت جلسوں کا انعقاد 14 ۲۰ ۲۲ N ۲۷ ۲۷ ۲۷ > مجالس سیرت النبی کی تجویز اور اس کا پس منظر ۲۹ وسیع سیکیم لیکچراروں کی فراہمی کا مسئلہ لیکچراروں کی راہنمائی کے لئے مفصل تونس کی طباعت اور الفضل کے خاتم النبیین نمبر کی اشاعت ۳۲
صفحه ۵۶ ۵۶ ۵۷ ۵۸ ۵۹ ۵۹ ۵۹ ۵۹ ۲۰ ۶۰ ۶۰ ۶۲ ۶۲ ۶۲ ۶۳ ۶۴ 2 عنوان صفحه عنوان تحریک سے متعلق عجیب و غریب غلط فہمیاں مخالف اخبارات سے متعلق حضرت خلیفہ اسیح پھیلانے کی کوشش الثانی کا ایک اصولی ارشاد سیرت النبی کے کامیاب جلسوں کا روح پرور نظارہ | ۳۴ پیغام صلح کا پیغام جنگ اور حضرت خلیفہ امسیح جلسوں کی کامیابی پر تبصرے اخبار مشرق FY.الثانی کا اہم فرمان شرفاء سے دردمندانہ اپیل اخبار مخبر (اودھ) اخبار سلطان کلکتہ اخبار کشمیری لاہور ۳۷ ہائیکورٹ کا انتظام اردواخبار ناگپور اخبار پیشوا‘ دہلی ۳۷ ۳۸ ۳۹ فصل چهارم حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا درس القرآن ۱۸ مراگست تا ۸ ار ستمبر ۱۹۲۸ء کے مبارک ایام حضور کی غیر معمولی محنت و کاوش جلسوں کے عظیم الشان فوائد قادیان میں جلسہ سیرت النبی حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی تقریر M دوستوں کا قادیان میں اجتماع درس نوٹ کرنے والے علماء اور زود نویس مسجلین کا تقرر انعامات لینے والے غیر مسلم سهام سهام درس القرآن سننے والوں سے خطاب آنحضرت کے خاتم النبیین ہونے پر حضرت دارا بیچ میں دعوت طعام هم هم الوداعی تقریر اور خطبہ جمعہ ۴۷ है درس کا فوٹو دوبارہ اجتماعی دعا،صدقہ اور تقسیم انعامات عورتوں کی عزت کے قیام کے لئے خطبہ جمعہ خلیفہ اسیح الثانی کا حلفیہ بیان ۱۹۲۹ء کے ایک اشتہار کا نمونہ فصل سوم سفر ڈلہوزی اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا دار التبلیغ لنڈن کے لئے خواتین احمد بیت کی مزید پہلی بار امیر مقامی مقرر ہوتا وم قربانی جہاد بالقرآن کی اہم تحریک سوم ۵ فصل پنجم چندہ خاص کی تحریک ۵۴ نہرو رپورٹ پر مفصل تبصره
عنوان فصل ششم صفحہ ۸۵ ۸۹ ۹۴ ۹۴ ۹۶ ☑ لا قادیان کی ترقی کا نیا دور مسلم حکومتوں کو اختیاہ 3 امرتسر قادیان ریلوے کا افتتاح اور گاڑی پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا مع خدام سفر حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کا اعلان احمدیت سالانہ جلسه ۱۹۲۸ء ۱۹۲۸ء میں رحلت پانے والے بزرگ فصل هفتم ۱۹۲۸ء کے بعض متفرق مگر اہم واقعات.خاندان مسیح موعود میں ترقی امتحان کتب مسیح موعود " میں نمایاں کامیابی پر عنوان کانگریس نواز حلقوں کی طرف سے نہرو رپورٹ کی تائید نہرو رپورٹ کے مخالف مسلمانوں کا طبقہ حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کی طرف سے مدلل اور مسکت تبصره تبصرہ کے مضامین پر طائرانہ نظر مسلمانوں کو بر وقت اختباہ مسلمانوں کے لئے آئندہ طریق عمل کی راہنمائی تبصرہ کی وسیع اشاعت اور مقبولیت مسلمانان ہند کی طرف سے رپورٹ کے خلاف کامیاب احتجاج صفحہ ۶۵ 76 YA ۶۹ 41 ۷۲ ۷۳ ایک اہم مکتوب جماعت احمدیہ کے خلاف ہندوؤں کی سازش بنگالی مسلمانوں کی بیداری کے لئے ملک غلام فرید انعامات صاحب ایم.اے کا دورہ تحریک وقف زندگی لا لا آل مسلم کا نفرنس چند کی طرف سے حضرت خلیفہ حج بیت اللہ کی طرف جماعت احمدیہ کی خاص توجہ ۹۸ ۹۸ ۹۸ ۹۸ ۹۸ کتابوں کی اشاعت کے متعلق اہم فیصلہ اخبار لائٹ“ کا مقدمہ اور اس کی پیروی دستکاری کی نمائش اور انعام خطبات نکاح بیرونی مشنوں کے بعض واقعات مبلغین احمدیت کی ممالک غیر کو روانگی اور واپسی ۷۵ 42 ZA AL المسیح الثانی کے مطالبات کی تائید آل انڈیا مسلم لیگ اور نہرو رپورٹ کلکتہ میں آل پارٹیز کنوینشن کا انعقاد آل انڈیا مسلم کانفرنس دہلی اور نہرو رپورٹ
4 عنوان مصنفین سلسلہ کی بنی مطبوعات اندرون ملک کے مشہور مباحثے حواش دوسرا باب خلافت ثانیہ کا سولہواں سال سفر الے ہور فصل اول انقلاب افغانستان پر تبصرہ اور راہنمائی مذاہب کانفرنس کلکتہ طلبہ میں تقسیم انعامات کا مشتر کہ جلسہ گورنر پنجاب کی خدمت میں ایڈریس مسلم خبر رساں ایجنسی کے قیام کی تحریک صفحہ ۱۰۴ ۱۲۵ ۱۲۷ ۱۳۷ ۱۲۸ عنوان حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا سر کشمیر سفہ کشمیر کے دوسرے قابل ذکر واقعات فصل سوم عبد الکریم ثانی حضرت حافظ روشن علی صاحب کی وفات حضرت حافظ صاحب کے جانشین جواب بابان مد قادیان کے انہدام کا واقعہ پنجاب سائمن کمیٹی کی رپورٹ پر تبصرہ مسلمانان فلسطین پر یہودی یورش کے خلاف احتجاج شار دھابل اور حضرت خلیفہ امسیح الثانی فصل چهارم صفحه 31 IM المراة ۱۴۷ ۱۳۸ ۱۴۹ ۱۵۰ ۱۵۲ ۱۵۲ ۱۵۳ ۱۵۳ ۱۵۳ 100 100 اشاعت لٹریچر سے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے اہم ارشادات دیلی میں انجمن احمدیہ کا سالانہ جلسہ جناح لیگ اور شفیع لیگ کے الحاق کی کوشش اور کامیابی راجپال کو قتل اور اسمبلی میں بم کا واقعہ فصل دوم ۱۳۸ ۱۲۸ ۱۲۹ جلسہ سیرت النبی اور افضل کا " خاتم النبیین نمبر ۱۳۵ ابوالاثر حفیظ صاحب جالندھری قادیان میں ١٣٩ سلطنت برطانیہ کے آثار زوال میاں علم دین کی لاش اور حکومت کا غیر دانشمندانہ روید سالانہ جلسہ کے لئے چندہ کی تحریک دیوانہ وار تبلیغ کرنے کا ارشاد مبلغین کو خاص ہدایت ذچ مشنری پادری کریمر قادیان میں چھپن فیصدی کمیٹی کا وفد قادیان میں
5 عنوان کانگریس کا اجلاس لاہور اور مجلس احرار اسلام کی بنیاد امیر شریعت احرار کی رائے جنرل سیکرٹری مجلس احرار کا بیان مجلس احرار کے اخبار آزاد کی رائے امریکہ کے ایک مشہور مصنف کی رائے جلیل القدر صحابہ کا انتقال فصل پنجم متفرق واہم واقعات خاندان حضرت مسیح موعود میں ترقی مدیر مشرق کی وفات حیدر آباد دکن میں انجمن ترقی اسلام کی بنیاد مقدمہ شاہجہانپور کا فیصلہ عربی امتحان میں احمدی خواتین کی کامیابی پشاور میں ایک احمدی پر قاتلانہ حملہ بیرونی مشعلوں کے بعض ضروری واقعات مبلغین احمدیت کی روانگی اور واپسی نی مطبوعات اندرون ملک کے بعض مشہور مباحثے خان بہادر نواب محمد دین صاحب کی بیعت حواشی صفحہ ۱۵۶ 14+ 14.M F M ۱۶۲ ۱۶۲ ۱۶۳ ۶۱۴ ۱۹۴ ۱۶۴ عنوان تیسرا باب خلافت ثانیہ کا سترھواں سال فصل اول نظام جماعت سے متعلق ایک اصولی ہدایت ”ندائے ایمان سے تبلیغی اشتہارات کا اجراء مبلغین جماعت کو نصائح کپورتھلہ میں ایک مسجد کی تعمیر مولانا ابوالعطاء صاحب کا سفر مانگرول حضرت مصلح موعود کے خطوط رسالہ " جامعہ احمدیہ کا اجراء اور حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا نصیحت آمیز مضمون تعلیم الاسلام ہائی سکول میگزین کا اجراء اور حضور کا پیغام ایک ذرچ کونسل قادیان میں فتند اخبار مباہلہ اور حادثہ بنالہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی طرف سے روزوں کی تحریک اور اس کا نتیجہ منصب خلافت سے متعلق پر شوکت اعلان خود حفاظتی کی تلقین احمد یہ یونیورسٹی کی داغ بیل صفحه ۱۷۷ KA IZA ง ۱۸۰ lar ۱۸۳ ۱۸۵ ۱۸۵ ۱۸۷ AL IAA ۱۸۹
۲۲۱ ۲۲۲ ۲۲۲ ۲۲۳ ۲۲۳ ۲۲۵ ۲۲۶ ۲۲۶ ۲۲۷ ۲۲۷ صفحہ ۲۱۳ 6 عنوان فصل دوم ملکی شورش میں کانگریس اور حکومت کے رویہ پر تنقید اور صحیح طریق عمل کی راہنمائی حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا مکتوب وائسرائے ہند کے نام 191 ۱۹۴ عنوان سائمن کمیشن رپورٹ پر تبصرہ اور ہندوستان کے سیاسی مسئله کامل کتاب ”ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا حل پر مزید تبصرے فصل پنجم جماعت احمدیہ کی طرف سے مسلم پریس کی حضرت مصلح موعود کے حضور چوہدری محمد ظفر اللہ حفاظت کے لئے پیشکش سیاسیات میں دخل دینے کی وجہ فصل سوم حضرت خلیفہ اسی ایدہ اللہ تعالی کی نسبت اخبار ٹریبیون کی ایک مفتری نہ خبر اور اس کا رد عمل ۱۹۹ کانگریسی لیڈر مسٹر نائیڈو کی رہائی کے لئے اپیل ۲۰۵ نہر و کمیٹی کی تقہ رپورٹ پر تبصرہ فصل چهارم سفر شملہ اور آل مسلم پارٹیز کانفرنس میں شرکت ۲۰۵ ۲۰۷ خاں صاحب کا ایک مکتوب گول میز کانفرنس اور محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی سنہری خدمات مکتوب از لاهور۳۰ راگست ۱۹۳۰ء اب از لنڈن ۱۲ نومبر ۱۹۳۰ء رب از لندن ۱۹ نومبر ۱۹۳۰ء زب از لندن ۲۵ دسمبر ۱۹۳۰ء ب از لندن ۲ جنوری ۱۹۳۱ء مکتوب از لنڈن ۲۵ ستمبر ۱۹۳۱ء اب از لنڈن ۱۷ار نومبر ۱۹۳۲ء قادیان میں درس و تدریس سے متعلق ایک مکتوب از لندن ۲۶ مئی ۱۹۳۳ء اعلان مسلمان ریاستوں کی اصلاح و ترقی کا خیال ۲۱۰ ۲۰۱ مکتوب از لنڈن ۲۷ / جولائی ۱۹۳۴ء چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کو مسلمانان ہند | ڈھا کہ اور ضلع حصار کے مسلمانوں پر مظالم اور کی طرف سے خراج تحسین ۲۱۱ =1 ۲۱۲ احمد یوں کو عملی امداد کی ہدایت شعار اسلامی کی پابندی کا تاکیدی ارشاد
7 عنوان فصل ششم ایک جرمن سیاح قادیان میں انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا میں احمدیت کا ذکر حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کی بیت جلیل القدر صحابہ کا انتقال فصل هفتم صفحه سلام ۳۳۷ ۲۳۹ حواشی عنوان چوتھا باب خلافت ثانیہ کا اٹھارہواں سال فصل اول انصار اللہ کا احیاء اور اس کی تبلیغی خدمات قومی نقائص کی اصلاح کے لئے جد و جہد ۱۹۳۰ء کے اہم واقعات.خاندان مسیح موعود میں با قاعدہ انتظام ترقی مولانا شوکت علی خاں صاحب قادیان میں امتہ النجی لائبریری کا قیام حضرت مرز ا عزیز احمد صاحب کا دوسرا نکاح ریز روفنڈ میں نمایاں حصہ انگلستان مشن کا احتجاج مبلغین احمدیت کی بیرونی ممالک کو روانگی اور وایسی قاہرہ سے اخبار ” اسلامی دنیا کا اجراء ۲۴۰ ۲۴۰ ۲۴۰ ۲۴۰ ۲۴۱ ۲۴۱ ۲۴۱ ۲۴۲ احمدی مشن ایک حیدر آبادی سیاح کی نظر میں ۲۴۲ حضرت خلیفہ اسیح کے لئے پہرے کا مستقل اور جماعت احمدیہ کی ادبی خدمات رسالہ ادبی دنیا میں پہلا مضمون مسلمانان کانپور پر ہولناک مظالم انگریزی حکومت کی غفلت شعاری اور حضور کا اعلان تحفہ لارڈ ارون فصل دوم تحاد المسلمین کے لئے تحریک مسلمانوں کے لئے نازک وقت اور جماعت احمدیہ کو نصیحت سیٹھ ابوبکر صاحب سماعری کی طرف سے الوداعی صنعت و حرفت کی طرف توجہ تقریب اندرون ملک کے مشہور مباحثات ۲۴۲ ناظروں کے دوروں سے متعلق حضرت خلیفہ ثانی خلق حضرت.کی ہدایت صفى ۲۴ ۲۵۵ ۲۵۶ ۲۵۷ ۲۵۸ ۲۶۱ ۲۶۶ ۲۶۹ ۲۷۰ ۲۷۲ ۲۷۲ ۲۴۵ ۱۹۳۰ء کی دو اہم تصادف
8 عنوان نمائندگان مشاورت کو زریں نصیحت خواتین میں بہادری پیدا کرنے کی تحریک سفر منصوری صد را انجمن احمد یہ کے قواعد وضوابط کی تشکیل ۲۷۳ عنوان صفحہ امیر اہلحدیث کا مباہلہ کے لئے چیلنج اور فرار ۲۹۲ ۲۷۳ حضرت مسیح موعود کی طرز تحریر اختیار کرنے کی ۲۷۳ تحریک فصل پنجم جماعت احمدیہ کے ہر فرد کو بیدار و ہوشیار ہونے کا دار التبلیغ سیلون کا قیام ارشاد ٢٩٣ ۲۹۵ ۲۹۸ ۲۹۹ ٣٠٩ ۳۱۱ ۳۱۲ ٣١٢ ۳۱۲ دفاتر صدر انجمن احمدیہ کے لئے جدید عمارت اور اس کا افتتاح سیرت النبی کے جلسے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کا ایک اہم مکتو بے ( مورخه اردسمبر ۱۹۳۱ء) بحضور سید نا حضرت ۱۰ خلیفہ اسیح الثانی مسلم لیگ کا اجلاس دہلی اور چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کا خطبہ صدارت جلیل القدر صحابہ کا انتقال ۱۹۳۱ء اندرون ملک کے مبلغین احمدیت فصل ششم ۲۷۷ IZA PAI ۲۸۲ PAP ۲۸۴ FAN پہلا برٹش احمدی قادیان میں فصل سوم قاضی محمد علی صاحب نوشہروی کا وصال قرآن مجید کی طباعت میں غیر مسلموں کے دخل پر انتقاد اور احتجاج فصل چهارم جماعت احمدیہ کا چہل سالہ دور نجمن شباب المسلمین بٹالہ کا جلسہ زمینداروں کی اقتصادی مشکلات کا حل امام جماعت احمدیہ کی مذہبی نصیحت خاندان حضرت مسیح موعود میں ایک مبارک مولا نا محمد علی جوہر کا انتقال پر ملال خاندان مسیح موعود میں ترقی بنگال کی امارت نکاحوں سے متعلق ایک ضروری اعلان ۱۹۳۱ء کی مردم شماری اور قادیان کی آبادی ایک افغانی سیاح قادیان میں ۲۸۵ PAY TAA ۲۸۸ تقریب حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کا انتقال اردو کا ایک پھلایا ہوا اہل قلم جناب فقیر سید وحید الدین صاحب کا قابل قدر نوٹ
سلام سلام سلام ۳۴۷ ۳۴۷ 9 عنوان قادیان میں عورتوں کے لئے اعلیٰ انگریز می تعلیم کا اجراء بیرونی مشکلوں کے بعض واقعات صفحہ Fir ٣٣١٣ عنوان فصل پنجم اسرائیلی قبائل کا کشمیر میں داخلہ فصل ششم حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت مریم ، کشمیر مبلغین اسلام کی آمد وروانگی ۱۹۳۱ء کی مطبوعات سلسلہ مباحثات بالاکوٹ و پھگلہ اندرون ملک کے دیگر مشہور مباحثات بعض نو مبائعین حواش حصہ دوم تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد میر پہلا باب فصل اول ریاست کے جغرافیائی و تمدنی حالات قدیم تاریخ کشمیر بدھ مت کا دور فصل دوم فصل سوم فصل چهارم کشان قوم کا قبضہ سلام السلام میں بند ولٹریچر کی شہادت ۳۱۷ ۳۱۸ ۳۲۹ هم سلام سلام بدھ مذہب کے لٹریچر کی شہادت عیسائی لٹریچر کی شہادت مسلم لٹریچر کی شہادت فصل ہفتم کشمیر میں اسلام کی تبلیغ واشاعت فصل هشتم کشمیر سکھ عہد حکومت میں فصل نهم کشمیر میں ڈوگرہ راج حضرت خلیفہ اول پر ایک انکشاف مہاراجہ کشمیر کی طرف سے مسلمانوں کو مرتد کرنے کا پروگرام کشمیر سے افغانستان تک ہندو راج قائم کرنے کی سازش حواشی ۳۵۵ ۳۵۸ ΚΑΛ
صفحہ ۳۸۲ ۳۸۴ ۳۸۵ FAY ۳۹۹ 10 صفحه عنوان دوسرا باب فصل اول تحریک آزادی کشمیر کا پہلا دور پنجاب کے مسلم پریس کا احتجاج اہل کشمیر کے تحفظ کے لئے انجمنوں کا قیام ٣٧٠ عنوان حکام ریاست کا منصو بہ اور یعقوب علی صاحب کی ایمانی حمدات سرایلیبین کے بیان کی تائید میں جماعت احمدیہ کا جلسه الفضل میں مسلمانان کشمیر کے مطالبات اور فصل چهارم ان کی تائید فصل دوم تحریک آزادی کا دوسرا دور کشمیر میں تعلیم بالغاں کی بنیاد ۳۷۲ ۳۷۴ تحریک آزادی کا چوتھا دور ( ۱۹۲۹ ء ۱۹۳۰ء) حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کا تیسر اسفرکشمیر راجوری کے مسلمانوں کی تنظیم مسٹر شارپ اور کشمیری وحد ۳۷۵ ۳۷۴ سرینگر میں ریڈنگ روم پارٹی کا قیام فصل پنجم فصل سوم تحریک آزادی کا تیسرا دور حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا دوسرا سفہ کشمیر ۱۹۲۴ء میں ڈوگرہ راج کے مظالم رشی نگر میں آتشزدگی ہندو ریاستوں سے انصاف پروری کی اپیل کشمیر اور جموں میں تعلیمی جدوجہد مسلمان زمینداروں کی تنظیم ۳۷۸ تحریک آزادی کے پانچویں دور کا آغاز (اپریل ۱۹۳۱ء تا مئی ۱۹۳۳ء ) مذہبی مداخلت اور توہین قرآن مجید کے ناگوار واقعات آزادی کشمیر سے متعلق حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی طرف سے مضامین کا آغاز ۳۷۸ آزادی کشمیر میں دلچسپی لینے کی فوری وجوہات ۳۷۹ ارجون کے تاریخی مضمون کی بازگشت خلیفہ عبدالرحیم صاحب آف جموں کی خدمات جنرل سیکرنری مسلم کشمیری کا نفرنس کا مکتوب آزادی کشمیر سے متعلق دوسرا مضمون آزادی کشمیر سے متعلق تیسر امضمون ٣٨٠ اور بیز جی کا لرزہ خیز بیان
صفحہ ۱۹م ۴۲۲ ۴۳۱ مم ۴۳۸ 11 عنوان عنوان حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی طرف سے مظلومین فہرست ممبران آل الٹڈ یا کشمیر کمیٹی کشمیر کی فوری اعانت خانقاہ معنی ( سرینگر) میں مسلمانوں کا عظیم الشان اجتماع مقدمہ عبد القدیر خان اور مہاراجہ جموں وکشمیر کا اعلان ۱۳ جولائی ۱۹۳۱ء کا المناک دن اور سرینگر کے مسلمانوں پر گولیوں کی بوچھاڑ مسلمانان سرینگر پر مظالم سے متعلق چشم دید شہادت تحریک آزادی کے لیڈروں کی گرفتاری ہند و پریس کا ظالمانہ رویہ ۴۰۱ ۴۰۲ ۴۰۵ ۴۱۱ حواشی تهرا باب فصل اول ( ۲۵ جولائی ۱۹۳۱ء تا ۱۲ نومبر ۱۹۳۱ء) اصولی اور آئینی تحریک مسلمانان ہند کو متحد پلیٹ فارم پر لانے کی جدو جہد پلیسی کمیٹی آل انڈ یا کشمیر کمیٹی کا اندرونی نظم ونسق کشمیر ریلیف فنڈ حضرت خلیفہ امسیح الثانی کا وائسرائے ہند کے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے اجلاس برطانوی ہند کے احمدی اور تحریک آزادی تحریک آزادی کشمیر کا بیرونی مرکز قادیان ۴۱۱ ۱۳ نام تار مجروحین و مظلومین کی فوری امداد کشمیر کانفرنس کی اطلاع اور دوسرے اہم اندرون ریاست کے احمد کی اور تحریک آزادی اقدامات جناب خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی کی طرف سے اشتراک عمل و تعاون کی آواز بیرونی مما کے احمدی اور تحریک آزادی فصل دوم مسلمانان ریاست کی تنظیم حضور کی طرف سے خواجہ حسن نظامی صاحب کی شیخ محمد عبد اللہ صاحب کی صدر کشمیر کمیٹی سے پہلی تجویز کا جواب ۴۱۵ سلام سلام سلام ۴۴۵ ملاقات اور تنظیم کے سنہری دور کا آغاز شملہ میں مسلم زعما کی کانفرنس اور آل انڈیا کشمیر اندرون کشمیر کام کرنے والے بعض پر جوش کارکن ۴۴۹ کمیتی کا قیام دا
۴۸۵ MAY ۳۸۷ ۴۸۸ ۴۸ ۴۸۹ ۵۰۴ ٥٠ ۵۰۷ 12 عنوان برادران کشمیر کے لئے مطبوعہ خطوط فصل سوم حکومت ہند اور حکومت کشمیر سے رابطہ اور خط و کتابت فصل چهارم یوم کشمیر سے عظیم الشان جلسے اور ان کا ردعمل فصل پنجم عالمی پراپیگنڈے کا آغاز مہا راجہ کشمیر کی سازش اور اس کی ناکامی کشمیر کمیٹی کے جلسہ پوسنگباری فصل ششم مظلومین ریاست کو طبی اور مالی امداد فصل ہفتم معاہدہ صلح اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا مخلصانہ مشوره فصل هشتم ۴۵۰ ۴۵۲ ۴۵۷ ۴۶۳ ۴۶۵ عنوان مسلمانان سرینگر و اسلام آباد پر فوج کے مظالم تحریک آزادی کے لئے مسلسل قربانی کی تحریک فصل نهم مہاراجہ صاحب کی طرف سے ابتدائی حقوق دیئے جانے کا اعلان حضرت خلیفہ امسیح کا ایک اہم اعلان مہاراجہ کے سامنے مسلم وقد کے مطالبات حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا تار مہاراجہ کشمیر کے نام مہاراجہ کی طرف سے ابتدائی حقوق دیئے جانے کا اصولی اعلان اور پتھر مسجد کی واگزاری مہاراجہ صاحب کشمیر کا قابل تعریف اعلان رعایا کو ضروری حقوق دینے کا اقرار حواشی چوتھا باب فصل اول کمیشن میں کام کرنے والے مخلص کارکن حکام ریاست اور ہندوؤں کا شر انگیز منصوبہ ، تبدیلی مذہب اور گاؤ کشی سے متعلق قوانین کی جماعت احمدیہ کے خلاف مہم.آل انڈیا کشمیر فراہمی کمیٹی کا اجلاس سیالکوٹ اور ریاست میں حضرت امام جماعت احمدیہ کی خدم مسلمانوں کا قتل عام ۴۸۰ میں زعمائے کشمیر
13 عنوان کمیشن جموں میں صفحه ۵۰۸ عنوان مسٹر لا تھر سے سید زین العابدین ولی اللہ شاہ جموں کے لیڈر سردار گوہر رحمان صاحب کے خطوط (۵۰۸ صاحب کی ملاقات ملک فضل حسین صاحب کی دو تصانیف گلانی کمیشن کے مسودہ اصلاحات پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی نظر ثانی پایین کمیشن کی رپورنیں ۵۱۰ ۵۱۲ ۵۱۲ صفحه وزیر اعظم ہری کشن کول صاحب کی برطرفی ہری کشن کول صاحب سے متعلق اہم واقعات ۵۲۴ مہاجرین علاقہ میر پور کے خوردونوش اور بازیابی کے لئے جد و جہد گلانی کمیشن کی رپورٹ اور مسلمانان کشمیر کے مظلومین پونچھ کی امداد کے لئے سید ولی اللہ شاہ حقوق و مطالبات پر مہر تصدیق حضرت امام جماعت احمدیہ کی طرف سے گلانسی اور زعماء کشمیر کو مبارکباد ۵۱۳ ۵۱۵ صاحب کی مساعی جمیلہ سید ولی اللہ شاہ صاحب کی خدمات پر شکریہ سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کا دورہ کشمیر ۵۱۵ اہل کشمیر سے خطاب وزیر اعظم سے کشمیر کمیٹی کے وفد کی ملاقات فصل دوم سید ولی اللہ شاہ صاحب کی جدو جہد اور مجرموں حضرت امام جماعت احمدیہ کی طرف سے اہل کی سزایابی کشمیر کے لئے مالی و جانی قربانیوں کی پر زور فصل چهارم تحریک اور اہل کشمیر سے ایک اہم وعدہ فصل سوم عاد مظلومین کشمیر کے مقدمات کی شاندار وکالت اور اور بے نظیر کامیابی ۵۲۸ ۵۳۱ Am ۵۳۲ ۵۳۵ فسادات اور ان کی روک تھام، زعماء کشمیر کی رہائی شیخ بشیر احمد صاحب ہیں.اسے ایل ایل بی ایڈووکیٹ کے لئے کامیاب جد و جہد اور مجرموں کی - زایابی ۵۲۰ سول نافرمانی کی تحریک ۵۲۱ چوہدری عصمت اللہ صاحب وکیل شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ چیف جسٹس کشمیر کے نام میموریل شیخ محمد عبد اللہ صاحب اور دوسرے زعماء کشمیر کی ۵۲۲ arm ۵۳۸ ۵۳۹ لله گرفتاری پر احتجاج اور ان کی رہائی ریاست کشمیر کا مقابلہ کرنے کے لئے نیا پروگرام قاضی عبد الحمید صاحب امرتسری چوہدری عزیز احمد صاحب بی اے.ایل ایل بی ۵۴۷
صفحه ۶۲۹ ۶۳۲ ۶۴۷ ۶۴۸ ۶۴۸ ۲۵۰ ۲۵۰ 14 عنوان مز میر محمد بخش صاحب ایڈووکیٹ ۵۴۸ عنوان مسلم کا نفرنس کا پہلا تاریخی اجلاس چوہدری اسد اللہ خاں صاحب بیرسٹر ایٹ لاء حضرت امام جماعت احمدیہ کے نام شیخ محمد لاہور وکلاء کی خدمات پر خراج تحسین جناب اللہ رکھا صاحب ساغر کا بیان شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ صاحب کا بیان عتیق اللہ صاحب کشمیری کا بیان صاحب دین صاحب میر پور کا بیان فصل پنجم بر اور ان کشمیر کے نام حضرت امام جماعت احمدیہ کے پیغامات حقیقت حال 00° مسلم کانفرنس کا سیاسی اثر عبد اللہ صاحب کا مکتوب اده مسلم کا نفرنس کے دوسرے اجلاس کانفرنسی لیڈروں کی طرف سے اتحاد کی اپیل حواشی پانچواں باب فصل اول ۵۵۲ ۵۵۴ ۵۵۴ ۵۵۵ 040 تحریک آزادی کے چھٹے دور کا آغاز حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا صدارت سے استعفیٰ کشمیر ایجی ٹیشن ۱۹۳۸ء کے متعلق چند خیالات اور اس کا رد عمل ۶۱۱ = سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے بعض نہایت میر احمد اللہ صاحب ہمدانی میر واعظ سرینگر 44 مسلمانان سرینگر مسلمانان جموں مسلمانان علاقہ سماہنی (ریاست جموں ) مسلمانان میر پور اہم غیر مطبوعہ مکتوبات عارضی معاہدہ کی شرائط فصل ششم ل جموں و کشمیر مسلم پولیٹیکل کا نفرنس کی بنیاد ۶۲۷ مسلم ایسوسی ایشن پونچھ شیخ محمد عبد اللہ صاحب کی ایک درخواست NPA مسلمانان تھکیالہ پڑاوه سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اور مولوی مسلمانان گلگت عبدالرحیم صاحب درد کے ہاتھوں کا نفرنس کے مسلم پریس کا تبصرہ انتظامات ۶۲۸
15 عنوان ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کا استعفیٰ اور اخبار ریاست 6 ۶۵۱ عنوان فصل پنجم صفحہ چوہدری عبد الواحد صاحب کی قومی وملی خدمات ۶۷۳ قدیم کشمیر کمیٹی کے خاتمہ کا اعلان اور جدید کشمیر کشمیر کے مسلم پریس کی تنظیم کمیٹی کی تشکیل جدید کشمیر کمیٹی کا انجام دوا ہم بیانات فصل دوم آل انڈیا کشمیر ایسوسی ایشن کی شکل میں " کشمیر کمیٹی کا احیا حضرت امام جماعت احمدیہ کا شکریہ میاں احمد یار وکیل صدر مسلم کا نفرنس کا بیان فہرست ممبران آل انڈیا کشمیر ایسوسی ایشن فصل سوم اخبار اصلاح“ کا اجراء اختبار اصلاح اہل کشمیر کی نظر میں اخبار اصلاح کے مدلل اداریے ۲۵۴ ۶۵۵ ۲۵۶ ۶۵۹ ۶۶۲ ۶۶۲ ۶۶۴ ۶۶۵ YYA کشمیر ایسوسی ایشن کو خراج تحسین شیخ محمد عبد اللہ صاحب کے قابل قدر ارشادات اور اسلامیان کشمیر کا فرض فصل ششم ۱۹۳۸ء کی ایجی ٹیشن میں حضرت خلیفہ امسیح الثانی کی رہنمائی اور مسلم کانفرنس کا احیاء سرینگر میں مسلمانوں کے جلوس پر لاٹھی چارج کشمیر ایجی ٹیشن سے متعلق چند خیالات جماعت احمد یہ اور نیشنل کانفرنس مسلمانان کشمیر کو کشمیری پنڈتوں کے عزائم سے چوکس اور ہوشیار کرنے کی مہم مسلم کانفرنس کا احیاء مسلم ویلفیئر ایسوسی ایشن کا قیام فصل ہفتم 924 ۶۷۹ MAI ۶۸۱ ۲۸۲ اخبار اصلاح کا عملہ فصل چهارم شاہی تحقیقاتی کمیشن کے سامنے خواجہ غلام نبی کشمیر کی پہلی اسمبلی کا قیام اور مسلم کانفرنس کی سو صاحب گلکار، چوہدری عبدالواحد صاحب اور فیصدی کامیابی شیخ محمد عبداللہ کے اہم مکتوبات قادیان میں مجلس کشامرہ کی بنیاد ۶۶۹ خواجہ عبد الرحمان صاحب ڈار کے بیانات مولوی عبد اللہ ناصر الدین صاحب کا بیان کشمیر چھوڑ دو YAM YAM YAM
6.6 ۷۰۸ ZIF مان ذاك عنوان فاتح الدین حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کا خطاب اور ایک اہم اعلان فرقان بٹالین کے کارناموں پر بغیروں کا خراج محبين فرقان بٹالین سے نظم ونسق پر ایک طائرانہ نظر حضور کی محاذ پر آمد جناب شیر ولی صاحب فصل یاز دہم جنوری ۱۹۴۹ء کی جنگ بندی تحریک کشمیر کے لئے متحد العمل ہونے کی درد مندانہ تحریک جماعت احمدیہ کو جہاد کے لئے تیار رہنے کی ہدایت آزادی کشمیر کے لیے دعا مستقبل سے متعلق ایک آسمانی انکشاف آزادی کشمیر کے لئے دعاؤں کی تحریک خاص سید نا المصلح الموعود کا عہد اور دعائیہ کلمات سیدنا حواشی تاریخ احمدیت جلد پنجم پر ہفت روزہ "انصاف" راولپنڈی کا تبصرہ 16 صفحہ عنوان ۲۸۵ ۲۹۳ ۶۹۵ ۶۹۶ ۲۹۹ ५.१० ۷۰۳ فصل هشتم آزاد کشمیر حکومت کی بنیاد، حضرت امام جماعت احمدیہ کی اقوام متحدہ سے متعلق ایک نصیحت ڈاکٹر بشیر محمود وانی شہید کشمیر اور حیدر آباد کو فوری طور پر متوازی سطح پر حل کرنے کا بر وقت مشورہ مجاہدین کشمیر کی اعانت کے لئے اپیل انجمن مہاجرین جموں و کشمیر مسلم کا نفرنس کا قیام فصل تم اہان کشمیر کی طرف سے چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کی سلامتی کونسل میں نمائندگی یو.این.او پر اعتماد نہ کرنے کی نصیحت فصل دہم احمدنی کمپنی معراجکے کے محاذ پر فرقان بنالین کا قیام فرقان بنائین کے دوسالہ مجاہدانہ کارنامے فرقان بنالین کے مجاہدوں پر ایک نظر فرقان بٹالین کے شہداء فرقان بنالین کی تقریب سبکدوشی کمانڈر انچیف پاکستان کا پیغام مجاہد جن کا پر جوش استقبال
حصہ اول ۱۹۲۸ء ۳ ۱۹۳۱ء
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 1 خلافت ثانیہ کا پندرھواں سال پہلا باب جلسہ ہائے سیرت النبی" کی تجویز وانعقاد سے لے کر تقریر فضائل القرآن تک
تاریخ احمدیت - جلد 2 2 بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم وعلی عبدہ المسیح الموعود پہلا باب (فصل اول) خلافت عثمانیہ کا پندرھواں سال جلسہ ہائے سیرت النبی کی تجویز و انعقاد سے لے کر تقریر ”فضائل القرآن" تک خلافت ثانیہ کا پندرھواں سال (جنوری ۱۹۲۸ء تادسمبر ۱۹۲۸ء بمطابق رجب ۱۳۴۶ھ تارجب ۱۳۴۷ھ ) الحمد للہ کہ ہم کو اس جلد سے خلافت ثانیہ کے ایک نئے دور میں داخل خلافت ثانیہ کا نیا دور ہونے کی توفیق عطا ہوئی ہے یہ نیا دور ۱۹۲۸ء سے شروع ہوتا ہے جس میں ایک طرف تحفظ ناموس رسول کی وہ تحریک خاص جو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۱۹۲۷ء سے جاری کر رکھی تھی."سیرت النبی" کے عالمگیر جلسوں کی صورت میں نقطہ عروج تک پہنچ گئی اور دوسری طرف جماعت احمدیہ نے ہندوستان کے سیاسی حقوق سے متعلق برطانوی حکومت کے مقرر کردہ - - سائمن کمیشن سے تعاون کر کے مسلمانان ہند کے قومی وسیاسی مطالبات کی تحمیل کے لئے ایک نئے رنگ کی آئینی جد وجہد کا آغاز کر دیا." حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان بیرونی تحریکات میں راہ نمائی کا فرض ادا کرنے کے ساتھ ساتھ جماعت کی اندرونی اصلاح و تربیت کی طرف بھی خصوصی توجہ مبذول فرمائی.چنانچہ آپ نے ۱۹۲۸ء ہی میں احمدیوں میں قرآن مجید کا ذوق و شوق پیدا کرنے کے لئے ۱۹۱۷ء اور ۱۹۳۶ ء کے درسوں کی طرح مسلسل ایک ماہ تک قادیان میں درس قرآن دیا یہ وہی معرکتہ الآراء درس تھا جو بعد کو تفسیر کبیر جلد سوم کی صورت میں شائع ہوا اور جس نے دنیائے تفسیر میں ایک انقلاب عظیم برپا کر دیا..
تاریخ احمدیت جلد ۵ 3 خلافت عثمانیہ کا پندرھواں سال مسلمانان عالم خصوصاً مسلمانان ہند اس زمانے میں بڑے نازک دور میں سے گذر رہے تھے.اور حضور ایدہ اللہ تعالٰی جماعت احمدیہ کی قیادت ہی اس رنگ میں فرمارہے تھے کہ پوری جماعت مسلمانوں کے عمومی مفاد کے لئے زندہ اور متحرک مرکز بن جائے اس غرض کے لئے آپ نے بے ۱۹۲ء میں ۲۵لاکھ کا ایک ریز رو فنڈ قائم کرنے کی تحریک فرمائی- I تا سلسلہ کے عام بجٹ پر بوجھ ڈالے بغیر ہی دیگر مسلمانوں کی ترقی و یہود کا فرض بخوبی ادا ہو تار ہے اور اخراجات کی کمی کے باعث مفید اور اہم تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کی رفتار ست نہ ہو جائے.چنانچہ اس سال یعنی ۱۹۲۸ء میں حضور نے جماعت احمدیہ کے سامنے جو سالانہ پروگرام رکھا اس میں تیسرے نمبر پر ریز روفنڈ کو بھی شامل فرمایا.ان خصوصیات کے علاوہ ۱۹۲۸ء کو کئی اور پہلوؤں سے بھی خاص اہمیت حاصل ہے.مثلاً اسی سال جامعہ احمدیہ کا افتتاح ہوا.حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب (خلف اکبر سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام) نے قبول احمدیت کا اعلان کیا.قادیان میں ریل آئی.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی بنصرہ العزیز کے قلم سے نہرو رپورٹ پر تبصرہ شائع ہوا.اور فضائل القرآن" کے موضوع پر سالانہ جلسہ میں تقاریر کا ایمان افروز سلسلہ جاری کیا گیا.۱۹۲۸ء کے واقعات کا سرسری جائزہ لینے کے بعد اب ہم اس سال کے حالات پر بالتفصیل روشنی ڈالتے ہیں.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے اخلاق عالیہ کا ایک یاد گار واقعہ خلفاء تاریخ اسلام راشدین رضوان الله علیم کی اسلامی مساوات کے واقعات سے بھری پڑی ہے.چونکہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بھی سلسلہ خلافت کے ایک ممتاز اور مبارک فرد ہیں اس لئے آپ کی سیرت مقدسہ بھی عہد اول کی یاد تازہ کر دیتی ہے اور آپ کی ذات میں ان مقدس بزرگوں کے اخلاق محمدی کی جھلک نمایاں نظر آتی ہے.۲۷ جنوری ۱۹۲۸ء کا واقعہ ہے کہ چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم.اے کے ہاں دعوت ولیمہ تھی جس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی اور جماعت کے بہت سے معززین مدعو تھے.جس کمرے میں بیٹھنے کا انتظام تھا وہاں لکڑی کے دو تخت بچھے تھے جن پر حضور کے لئے نشست گاہ بنائی گئی تھی.اور چونکہ وہ کافی لمبے چوڑے تھے اس لئے حضور کے ساتھ اور بھی کئی اصحاب بیٹھ سکتے تھے.باقی کمرہ میں دیگر اصحاب کے بیٹھنے کے لئے فرش پر ہی انتظام کیا گیا تھا.لیکن حضور جب کمرہ میں تشریف لائے اور اس جگہ رونق افروز ہونے کی درخواست کی گئی تو حضور نے اس وجہ سے کہ وہ جگہ کمرے کے دوسرے فرش سے کسی قدر اونچی ہے وہاں بیٹھنا گوارا نہ کیا اور فرمایا کہ اور دوست نیچے بیٹھیں تو
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 4 خلافت ثانیہ کا پندر میں اوپر کیسے بیٹھ سکتا ہوں اور آپ نیچے فرش پر بیٹھ گئے.ساتھ ہی یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اور دوست وہاں بیٹھ جائیں مگر کسی خادم کو یہ جرات نہ ہوئی کہ ایسی حالت میں جبکہ اس کا پیارا آقا نیچے فرش پر بیٹھا ہے اونچے حصہ پر جابیٹھے.لیکن جب یہ کمرہ بھر گیا اور جگہ تنگ ہو گئی اور بارش کی وجہ سے کوئی اور انتظام بھی ممکن نہ ہو سکا تو اس جگہ چھوٹے بچے بٹھا دیئے گئے اس پر حضور نے از راہ مزاح فرمایا ان بچوں کی نگرانی کے لئے چند بڑے بھی ان کے ساتھ بیٹھ جائیں.چونکہ بچوں کو اس جگہ بٹھا دینے کے باوجود جگہ کی قلت دور نہیں ہوئی تھی اس لئے بعض اور اصحاب نے بھی وہاں بیٹھ کر کھانا کھایا." تاریخ احمدیت" کی سائمن کمیشن کی آمد اور جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات جلد پنجم میں سرسری طور پر یہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ برطانوی پارلیمنٹ نے ہندوستان کو مزید سیاسی حقوق دینے اور دوسرے اہم ملکی مسائل کا جائزہ لینے کے لئے ۱۹۲۷ء کے آخر میں ایک کمیشن بھجوانے کا اعلان کیا تھا جس کے پریذیڈنٹ انگلستان کے بیرسٹر سرجان سائمن مقرر کئے گئے.کمیشن کے فرائض میں یہ داخل تھا کہ وہ ہندوستان آکر مرکزی اور صوبائی قانون ساز اسمبلیوں اور کونسل آف سٹیٹ کے نمائندوں اور حکومت کے افسروں سے مشورے کرنے کے علاوہ مختلف ہندوستانی جماعتوں کے خیالات بھی دریافت کرے اور مختلف شہادتوں کو قلمبند کر کے اور متعلقہ امور کی تحقیقات کر کے دو سال تک اپنی رپورٹ برطانوی پارلیمینٹ کے سامنے پیش کر دے تا آئندہ دستور اساسی کی تیاری میں اس سے مدد مل سکے.کمیشن کا اعلان ہوتے ہی آل انڈیا نیشنل کانگریس نے اس بناء پر کہ کمیشن میں کوئی ہندوستانی ممبر شامل نہیں کیا گیا.اس کے بائیکاٹ کا فیصلہ کر لیا.A اور مسلمانوں کے بعض قوم پر ور اور ذہین لیڈر اور صف اول کے سیاستدان جیسے جناب محمد علی جناح ، سر عبدالرحیم اور مولانا محمد علی جو ہر بھی اس فیصلہ کی تائید میں ہو گئے.سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ اس نازک ترین موقعہ پر مسلمانوں کی قیادت کے لئے پھر میدان عمل میں آئے اور آپ نے مسلمانوں کو بتایا کہ کمیشن کا بائیکاٹ ہندوؤں کی ایک خطرناک چال ہے انہوں نے انگریزوں سے تعلقات قائم کر کے انہیں اپنے مطالبات کی معقولیت منوانے کی مہم سالہا سال سے جاری کر رکھی ہے.اور انگلستان کے بااثر لیڈروں سے ان کے گہرے تعلقات ہیں اس کے مقابل مسلمانوں میں بہت ہی کم انگریز لیڈروں کے روشناس ہیں نتیجہ یہ ہے کہ انگریز ہندوستان کے مطالبات وہی سمجھتے ہیں جو ہندوؤں کی طرف سے پیش کئے جاتے ہیں.اب ہندو یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے لئے اپنے مطالبات پیش کرنے کا جو موقعہ پیدا ہوا ہے وہ بھی ان کے بائیکاٹ
جلد ۵ خلافت عثمانیہ کا پند میں شامل ہو کر ضائع کر دیں.ان حالات میں مسلمانوں کا بھی کمیشن کے بائیکاٹ میں شریک ہو نا مسلم مفاد کے سراسر خلاف اور سخت ضرر رساں اور ملک ثابت ہو گا.لہذا آپ نے تمام مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ اس اہم موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے حقوق کو بالوضاحت کمیشن کے سامنے پیش کریں اس سلسلہ میں حضور نے مندرجہ ذیل اہم مسائل کی تیاری کا مشورہ دیا.اول : انگریزوں کے نزدیک اقلیتوں کی حفاظت کا سوال چنداں اہمیت نہیں رکھتا.کیونکہ وہاں پارٹیوں کی بنیاد سیاسی خیالات پر ہے جو بدلتے رہتے ہیں مگر ہندوستان کی پارٹیوں کی بنیاد مذ ہب ہے جو بہت کم بدلتا ہے پس انگلستان اور ہندوستان کے فرق کو سمجھا کر کمیشن کے پرانے تعصب کو جسے ہندوؤں کے بیانات نے اور بھی بڑھا دیا ہے.دور کرنا چاہیئے اور اقلیتوں کے تحفظ حقوق کے متعلق اپنے مطالبات اور دلائل کا ذخیرہ جمع کر لینا چاہیئے.دوم : اس وقت تک ہندوؤں کو مسلمانوں پر غلبہ ادنیٰ اقوام کی وجہ سے ہے ہندو لوگ چوہڑوں وغیرہ کو حق تو کوئی نہیں دیتے لیکن انہیں ہندو قرار دے کر ان کے بدلہ میں خود اپنے لئے سیاسی حقوق لے لیتے ہیں مسلمانوں کا فرض ہے کہ انہیں ابھار میں ان کی تنظیم میں مدد دیں اور کمیشن کے سامنے ان کے معاملہ کو پیش کرنے میں مدد دیں.سوم بہندوستان کے مخصوص حالات میں مسلمانوں کے جداگانہ انتخاب کی سخت ضرورت ہے پس اس امر پر زور دینا چاہیئے کہ اس حق کو ہندوستان کے اساسی قانون میں داخل کیا جائے اور جب تک مسلمان قوم بہ حیثیت قوم راضی نہ ہو اس میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے.چهارم : پنجاب اور بنگال اور جو آئندہ مسلم اکثریت کے صوبے بنیں ان میں مسلمانوں کو اس قدر حقوق دیئے جائیں کہ ان کی کثرت قلت میں نہ بدل جائے اس وقت بنگال کے چھپن فیصدی مسلمانوں کو چالیس فیصدی حق ملا ہوا ہے اور پنجاب کے پچپن فیصدی کو قریباً پینتالیس فیصدی اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلمان کسی صوبے کو بھی اپنا نہیں کہہ سکتے اور آزاد ترقی کے لئے کوئی بھی راستہ کھلا نجم صوبہ سرحد میں اصلاحی طریق حکومت کے لئے کوشش ہونی چاہیئے.اور سندھ کے متعلق یہ کوشش ہونی چاہیئے کہ وہ بمبئی سے الگ ایک مستقل صوبہ قرار دیا جائے.اس امر کو اساسی قانون میں داخل کرنا چاہیئے کہ کوئی دوسری قوم آزادی کے کسی مرتبہ پر بھی کسی ایسے امر کو جو کسی دوسری قوم کی مذہبی آزادی سے تعلق رکھتا ہو محدود نہیں کر سکے گی- خواه براه راست مذہبی اصلاح کے نام سے خواہ تمدنی اور اقتصادی اصلاح کے نام سے
تاریخ احمدیت جلد ۵ 6 خلافت عثمانیہ کا بند رھواں سال تبلیغ ہر وقت اور ہر زمانہ میں قیود سے آزاد رہے گی.ہشتم : زبان کا سوال کسی قوم کی ترقی کے لئے اہم سوال ہو تا ہے پس یہ فیصلہ ہونا چاہیے.کہ مسلمانوں کو اردو زبان میں تعلیم حاصل کرنے کی پوری اجازت ہو گی.اور جن صوبوں میں اردو رائج ہے ان میں اردو زبان قانونی زبان کی حیثیت سے ہمیشہ کے لئے قائم رہے گی.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ نقطہ نگاہ رسالہ "مسلمانان ہند کے امتحان کا وقت کی صورت میں اردو اور انگریزی زبان میں شائع فرما دیا اور اسے وسیع پیمانہ پر پھیلا کر ہندوستان کے ایک سرے سے لے کر دو سرے سرے تک اس تنظیم و کثرت کے ساتھ پہنچادیا کہ مسلمانوں کا کثیر طبقہ جو کانگریس کی تحریک مقاطعہ سے متفق ہو چکا تھا کمیشن سے تعاون کو ضروری سمجھنے لگا.A اور گو جناب محمد علی جناح بدستور بائیکاٹ کی پالیسی پر دیانتداری سے ڈٹے رہے.مگر مسلم لیگ میں شامل مسلمانوں کے ایک بہت بڑے طبقے نے سر شفیع کی قیادت میں اپنی الگ تنظیم قائم کر کے کمیشن سے تعاون کا فیصلہ کر لیا.اس نئی لیگ کے صدر سر شفیع صاحب بنے اور سیکرٹری ڈاکٹر سر محمد اقبال.جنہوں نے کمیشن کے بائیکاٹ کی پر زور مخالفت کی.IT: حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی اس بر وقت رہنمائی ہی کا نتیجہ تھا کہ ۳/ فروری ۱۹۲۸ء کو سائمن کمیشن ساحل بمبئی پر وارد ہوا تو کانگریس کے احتجاجی مظاہروں اور اس کی کوششوں کے باوجود مسلمانوں نے عموماً اس کمیشن سے تعاون ہی کو ترجیح دی چنانچہ کلکتہ ، دہلی اور بمبئی میں مسلمانوں کی اکثریت ہر تالیوں سے الگ رہی.شمالی ہندوستان میں جہاں مسلم اکثریت کو بائیکاٹ میں شامل کرنے کے لئے کانگریسی خیال کے علماء مثلاً مولوی ظفر علی خان صاحب ایڈیٹر ”زمیندار " بہت زور لگا رہے تھے "."انقلاب" جیسا اخبار پشت پناہی کرنے لگا تھا اور مولانا محمد علی صاحب جو ہر ابو الکلام صاحب آزاد ، ڈاکٹر انصاری صاحب اور لالہ لاجپت رائے جیسے لیڈر صوبہ کا دورہ کر رہے تھے اور بڑی جو شیلی تقریروں سے لوگوں کو بائیکاٹ پر اکسا رہے تھے.مگر یہاں بھی کانگریسی پروگرام ناکام رہا.اور دار السلطنت لاہور میں تو اسے عبرتناک ناکامی ہوئی چنانچہ ہندو اخبار "لاپ " لاہور (۵ / فروری ۱۹۲۸ء) نے اقرار کیا کہ صرف چند دکانیں بند تھیں جو انگلیوں پر شمار کی جاسکتی ہیں".اور ممکن ہے یہ چند دکانین بھی دکانداروں کی کسی مصروفیت یا بیماری کی وجہ سے ہی بند ہوں.اخبار " ملاپ " نے اس ناکامی کی وجہ یہ بتائی کہ لوگوں کو اپنے لیڈروں پر اعتماد نہیں رہا.چنانچہ اس کے الفاظ یہ تھے ”لاہور کے ہندو بھی اور مسلمان بھی ایسے لیڈروں سے بہت بیزار ہو چکے ہیں ".A جناب عبدالمجید صاحب سالک نے سائمن کمیشن کے خلاف بائیکاٹ کی مہم کا ذکر کرنے کے بعد لکھا "
تاریخ احمدیت جلد ۵ 7 خلافت کہ بائیکاٹ ہوا بھی اور نہ بھی ہوا جن لوگوں کو اس کمیشن کے سامنے شہادتیں دینی تھیں.وہ دے بھی آئے اور سنا ہے کہ خود کانگریس نے بھی نہرو رپورٹ کی ایک کاپی خفیہ طور پر کمیشن کو بھیج دی تھی.تا کہ مبادا کمیشن کانگریس کے نقطہ نگاہ سے بے خبر رہے ".پنجاب کو نسل کے ممبروں نے بھی کمیشن سے تعاون کیا اور کمیشن سے تعاون کے لئے سات افراد پر مشتمل ایک کمیٹی مقرر کی.کمیٹی کے مسلمان ممبروں میں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب بھی شامل تھے.جنہوں نے حسب سابق قومی اور ملی مطالبات کو کمیشن تک پہنچانے اور شہادتوں پر جرح کرنے میں نمایاں حصہ لیا.چنانچہ لاہور کے انگریزی اخبار ”سول اینڈ ملٹری گزٹ" (۵ / نومبر ۱۹۲۸ء) نے لکھا.”ہمارا سیاسی نمائندہ جو سائمن کمیشن کے ساتھ ہے ہندوستانی ممبروں کی مختلف النوع شخصیتوں سے بہت ہی متاثر ہوا ہے سر شنکرن نائر و جاہت اور علیحدگی پسند ہیں سر سکندر حیات خان صاحب خوش گفتار اور اپنی طرف مائل کر لینے والے ہیں.مسٹر راجہ اچھوت اقوام کے نمائندے ہیں.مسٹر ارون را برٹس ہوشیار اور چوکس ہیں سر ذوالفقار علی خاں صاحب فاضل ہیں اور دل نشین طرز میں گفتگو کرنے والے ہیں شہادت دینے والوں پر جرح کرنے کے باب میں ایک نمایاں شخصیت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی ہے آپ داڑھی رکھے ہوئے ہیں.آپ کوئی دور از کار بات نہیں کرتے بلکہ ہمیشہ مطلب کی بات کہتے ہیں اور اس لحاظ سے آپ سر آرتھر فروم سے مشابہ ہیں یعنی آپ کی آواز پرشوکت ہے اور نہایت برجستہ تقریر کرنے والے ہیں".اگر چہ پنجاب کو نسل کی پہلی سائمن کمیٹی میں ہندوؤں کی ہوشیاری اور بعض مسلمانوں کی خود IA غرضی کے باعث مسلمانوں کو جو صوبہ میں پچپن فی صدی تھے تمہیں فیصدی سے بھی کم نمائندگی ملی جس کے خلاف حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے بھی احتجاجا آواز بلند فرمائی.تاہم کمیٹی کی اکثریت نے ( جو چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کپتان سردار حیات خان - رائے صاحب چوہدری چھوٹو رام اور مسٹر رابرٹس پر مشتمل تھی) آئندہ اصلاحات سے متعلق اس نے سفارش کی کہ کونسل کے تمام ممبر منتخب شدہ ہوں جداگانہ حلقہ ہائے انتخاب قائم رہیں.اور تمام صوبے اپنے اندرونی معالمات میں خود مختار ہوں.وغیرہ وغیرہ.کمیشن کے سامنے دو دفعہ جماعت احمدیہ کا وفد بھی پیش ہوا.ایک بار گورداسپور میں دوسری بار لاہور میں گورداسپور کے وفد میں ضلع کے بعض معزز ممبروں کے علاوہ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب، حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب بھی تھے.لاہور کے وفد میں پنجاب کے مختلف حصوں سے ۶ نمائندے شامل ہوئے جن کے نام یہ ہیں.حضرت
تهر بیت - جلد ۵ 8 خلافت ثانیہ کا پند را صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب، حضرت نواب محمد علی خان صاحب - سردار امیر محمد خان صاحب تمندار کوٹ قیصرانی.جنرل اوصاف علی خان صاحب مالیر کوٹلہ.کپتان غلام محمد صاحب دوالمیال.لیفٹینٹ تاج محمد خان صاحب اسماعیلیہ (مردان) چوہدری ظفر اللہ خان صاحب بیرسٹر ممبر لیجسلیٹو کونسل پنجاب، قاضی محمد شفیق صاحب ایم.اے ایل ایل بی.چار سدہ چوہدری سلطان احمد صاحب ذیلدار گجرات چوہدری غلام حسین صاحب سفید پوش لائل پور ، حضرت مولوی ذوالفقار علی خان صاحب ناظر اعلیٰ حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم.اے ، حضرت مفتی محمد صادق صاحب - اس وفد نے احمد کی نقطہ خیال سے سیاسی امور پر اپنی رائے کا اظہار کیا.اور تمام ممبران کمیشن کو سلسلہ کی کتابیں دی گئیں اور سیاسی امور سے قبل سلسلہ کے حالات اختصار اسنائے.صدر کمیشن نے کہا کہ وہ سلسلہ احمدیہ کی اہمیت کے قائل ہیں اور رائے دہی اور تعاون کے شکر گزار.وفد نے اپنا میموریل ۵ لاکھ دستخطوں کے ساتھ پیش کیا.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایده مسلمانوں کو صحیح طریق عمل اختیار کرنے کی دعوت اللہ تعالیٰ ہمیشہ جماعت کی کامیابی کے ذرائع پر غور و فکر فرماتے رہتے تھے.اس ضمن میں حضور نے ۱۰ فروری ۱۹۲۸ء کو ایک خطبہ جمعہ دیا جس میں بتایا کہ دوسرے مسلمان قربانیاں بھی کرتے ہیں مگر ان کے اعلیٰ نتائج نہیں نکلتے اس کے مقابل جماعت احمدیہ میں نصرت اور تائید الہی کا عجیب نظارہ نظر آتا ہے جس کی صرف یہی وجہ ہے کہ صحیح راستہ اختیار کئے بغیر کامیابی نہیں ہو سکتی.اس خطبہ پر اخبار " تنظیم" (۲۸/ فروری ۱۹۲۸ ء نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا".صاحبو! مرزا صاحب کی تقریر کا ایک ایک لفظ صحیح ہے اگر مجھ سے پوچھو تو میں عرض کروں گا کہ اس وقت مسلمانوں میں نیک نیت مجاہد ایثار پیشہ کار گذار اور مقاصد کو سمجھنے والے تو ہزاروں موجود ہیں مگر " طریق کار " مرتب کرنے والے بہت کم ہیں.ہم جس قدر عمل و خدمت اور ایثار و قربانی کر رہے ہیں اسی قدر اسلام اور مسلمانوں کی بیخ کنی کی ہے اور ہماری انجمنیں اور اخبار جس قدر تیز دوڑ رہے ہیں اسی قدر قوم اپنے نصب العین سے دور جارہی ہے اس لئے کہ راستہ صحیح نہیں.احمد یہ جماعت نے ہم سے بہت پیچھے اپنا سفر شروع کیا ہے.لیکن آج ہم اس جماعت کی گرد کو بھی نہیں پاسکتے دنیا کے ہر گوشہ میں اس جماعت کے نام اور کام کی دھوم ہے ہم بھی کام کے مدعی ہیں لیکن اے غافل مسلمانو ! سوچو کہ ہم نے عملی طور پر کیا کیا ؟ ".
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 9 یا نیہ کا پندرھوا فروری ۱۹۲۸ء میں حضرت حافظ روشن علی صاحب حافظ روشن علی صاحب کی تبلیغ حق حضرت مولوی ذوالفقار علی خاں صاحب کے فرزند رشید) (پروفیسر) حبیب اللہ خان صاحب کی برات کے ساتھ میرٹھ تشریف لے گئے.اس سفر کے لئے حضرت خان صاحب ہی نے تحریک فرمائی تھی آپ کا منشا یہ تھا کہ اس موقعہ پر جناب محمد علی صاحب جو ہر شریک ہوں گے حضرت حافظ صاحب کے ذریعہ ان کو تبلیغ کا موقعہ مل سکے گا.اعلائے کلمہ حق کی خاطر حضرت حافظ صاحب نے یہ بات منظور فرمائی تھی اور آپ کا یہ سفر بہت بابرکت ثابت ہوا.جناب محمد علی صاحب جو ہر آپ کے تبحر علمی سے بہت متاثر ہوئے.نیز دوسرے افراد خاندان نے سلسلہ احمدیہ کی عظمت کا اقرار کیا.0 ۲۵۱ ۱۹۲۸ء میں نظارت تعلیم و تربیت قادیان کے تحت مندرجہ مرکزی اور بیرونی درسگاہیں ذیل مرکزی درسگاہیں قائم تھیں.مدرسہ احمدیہ قادیان- مبلغین کلاس قادیان ، تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان - مدرسه البنات قادیان- مدرسه خواتین قادیان متفرق کلاس قادیان- درزی خانه قادیان- احمد یہ ہوٹل لاہور - 2 ان آٹھ با قاعدہ درسگاہوں کے علاوہ جن کے اخراجات کی ذمہ داری صدرانجمن احمد یہ قادیان پر تھی.بعض درسگاہیں مقامی جماعتوں نے اپنے طور پر بھی جاری کر رکھی تھیں.ان میں دو احمد یہ مڈل سکول تھے ایک گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ میں اور دو سرا کاٹھ گڑھ ضلع ہوشیار پور میں گھٹیالیاں کا سکول مقامی جماعت نے اخراجات کی مشکلات کے باعث ان دنوں ڈسٹرکٹ بورڈ ضلع سیالکوٹ کے سپرد کر دیا تھا.اور کاٹھ گڑھ کا سکول چوہدری عبد السلام خان صاحب کی محنت ، توجہ اور مساعی سے مالی تنگی کے باوجو د بھی کامیابی سے چل رہا تھا.اس کے علاوہ سیکھواں ونجواں فیض اللہ چک (ضلع گورداسپور) کتھو والی بھدرک (کشمیر) اجمیر (ہوشیار پور ) سهارنپور وغیرہ میں مردانہ پرائمری سکول اور سیکھواں، کاٹھ گڑھ ، علی پور بنگہ اور سیالکوٹ میں زنانہ مدارس قائم تھے.موخر الذکر سکول کا قیام لجنہ اماء اللہ سیالکوٹ اور بابو روشن دین صاحب (سیکرٹری تعلیم و تربیت) کا خصوصاً اور میر عبد السلام صاحب بابو قاسم الدین صاحب اور مستری نظام الدین صاحب کی مساعی کا عمومی نتیجہ تھا.یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ سیالکوٹ شہر انگریزی عہد اقتدار کے زمانہ میں پادریوں کا بھاری مرکز رہا ہے جہاں عیسائیوں نے مسلمان بچوں اور بچیوں کو اسلام سے برگشتہ کرنے کے لئے
ت - جلد ۵ 10 ب کا پندرھواں سال شروع ہی سے کئی سکول کھول رکھے تھے.جماعت احمد یہ سیالکوٹ نے مسلمان بچیوں کو ان کے اثر سے بچانے کے لئے آنریری استانیوں کی خدمات حاصل کر کے ایک گرلز سکول کی بنیاد رکھی.یہ سکول ابتداء ایک عارضی عمارت میں کھولا گیا.مگر لجنہ اماءاللہ سیالکوٹ کی کوشش اور جماعت احمد یہ سیالکوٹ کے تعاون سے احمد یہ مسجد کبوتراں والی کے شمالی جانب مدرسہ کی مستقل عمارت تعمیر کی گئی جو شہر بھر میں مسلمانوں کی پہلی درسگاہ تھی.۱۹ / فروری ۱۹۲۸ء کو اس درسگاہ کا افتتاح نظارت تعلیم و تربیت قادیان کے نمائندہ خصوصی حضرت الحاج مولوی عبدالرحیم صاحب نیر ( سابق مبلغ انگلستان و افریقہ) نے فرمایا.۲۹ یہ درسگاہ ترقی کر کے ہائی سکول تک پہنچ گئی اور اب بابو قاسم الدین صاحب (امیر جماعت احمدیہ ضلع سیالکوٹ) کی نگرانی میں چل رہی ہے.سیالکوٹ کی مسلمان بچیوں کو زیور علم سے آراستہ کرنے میں اس کی کو ششیں نا قابل فراموش ہیں.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا ایک مکتوب پردہ سے متعلق ایک صاحب نے حضرت خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ " تعالی کی خدمت میں ۲۳ فروری ۱۹۲۸ء کو پردہ سے متعلق بذریعہ خط استفسار کیا جس میں حضور نے ایک مفصل مکتوب تحریر فرمایا جس میں قرآن و حدیث کی روشنی میں صحیح اسلامی پر دہ کی وضاحت کرتے ہوئے یہ معتدل مسلک پیش فرمایا کہ : پر دے کا قرآن کریم نے ایک اصل بتایا ہے اور وہ یہ ہے کہ عورت کے لئے پردہ ضروری ہے الا ما ظهر منها العنی سوائے اس کے جو آپ ہی آپ ظاہر ہو) آپ ہی آپ ظاہر ہونے والی موٹی چیزیں تو دو ہیں یعنی قد اور جسم لیکن عقلایہ بات ظاہر ہے کہ عورت کے کام کے لحاظ سے یا وقت کے لحاظ سے جو چیز آپ ہی آپ ظاہر ہو وہ پر دے میں داخل نہیں..چنانچہ اسی حکم کے ماتحت طبیب عورتوں کی نبض دیکھتا ہے بیماری مجبور کرتی ہے کہ اس چیز کو ظاہر کر دیا جائے اگر منہ پر کوئی جلدی بیماری ہے تو طبیب منہ بھی دیکھے گا.اگر اندرونی بیماری ہے تو زبان دیکھے گا.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ایک جنگ میں ہم پانی پلاتی تھیں.اور ہماری پنڈلیاں تنگی ہو جاتی تھیں.اس وقت پنڈلیوں کا ننگا ہونا قرآن کریم کے خلاف نہ تھا بلکہ اس قرآنی حکم کے مطابق تھا.جنگی ضرورت کے لحاظ سے ضروری تھا کہ عورتیں کام کرتیں.اس اصل کے ماتحت اگر کسی گھرانے کے شغل ایسے ہوں کہ عورتوں کو باہر کھیتوں پر یا میدانوں میں کام کرنا پڑے تو ان کے لئے آنکھوں اور ان کے ارد گرد کا علاقہ کھلا ہونا نہایت ضروری ہو گا.پس الا ما ظهر منھا کے تحت ماتھے سے لے کر منہ تک کا حصہ کھولنا ان کے لئے
د - جلد ۵ 11 بالکل جائز ہو گا اور پردہ کے حکم کے مطابق بغیر اس کے کھولنے کے وہ کام نہیں کر سکتیں اور جو حصہ ضروریات زندگی کے لئے اور ضروریات مصیبت کے لئے کھولنا پڑتا ہے بشرطیکہ وہ مصیبت جائز ہو اس کا کھولنا پر دے کے حکم میں شامل ہی ہے.لیکن جس عورت کے کام اسے مجبور نہیں کرتے کہ وہ کھلے میدانوں میں نکل کر کام کرے اس کا منہ اس کے پر دے میں شامل ہے ".معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں مختلف حلقوں میں اسلامی پر وہ کا سوال زیادہ زور کے ساتھ اٹھا ہوا تھا چنانچہ انہی دنوں شیخ عبد الغفور صاحب میڈیکل سٹوڈنٹ نے (۲۹ / جون ۱۹۲۸ء کو) اور جناب مشرف حسین صاحب ایم.اے دہلوی انسپکٹر ڈا کھانہ جات نے (۶ / جولائی ۱۹۲۸ء کو) حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر خاص طور پر اسلامی پردہ کی نسبت آپ کی رائے دریافت کی.جس پر حضور کو پردہ کی مزید تشریح و توضیح کرنا پڑی.گھروں میں درس جاری کرنے کی تحریک حضرت خلیفہ المحی الثانی ایده ایدہ اللہ تعالیٰ نے سالانہ جلسہ ۱۹۲۷ء پر جماعت کے دوستوں سے ارشاد فرمایا کہ وہ قرآن مجید حدیث شریف اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا درس جاری کریں اور جہاں روزانہ درس نہ ہو سکے.وہاں ہفتہ میں دو بار یا کم از کم ہفتہ میں ایک ہی بار درس کا انتظام کر دیا جائے جس پر اس سال بہت سی نئی جگہوں میں درس جاری ہو گئے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی حضور کے ارشاد پر وسط مارچ ۱۹۲۸ء میں ناظر تعلیم و تربیت کی حیثیت سے عہدیداران جماعت کو مزید توجہ دلائی کہ جہاں جہاں ابھی تک سلسلہ درس شروع نہیں ہوا اس کی طرف فورا توجہ دیں.نیز گھروں میں بھی درس جاری کرنے کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا : ”ہمارے احباب کو چاہیے کہ علاوہ مقامی درس کے اپنے گھروں میں بھی قرآن شریف اور حدیث اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا درس جاری کریں.اور یہ درس خاندان کے بزرگ کی طرف سے دیا جانا چاہیئے.اس کے لئے بہترین وقت صبح کی نماز کے بعد کا ہے لیکن اگر وہ مناسب نہ ہو تو جس وقت بھی مناسب سمجھا جائے اس کا انتظام کیا جائے.اس درس کے موقعہ پر گھر کے سب لوگ مرد عور تیں لڑکے لڑکیاں بلکہ گھر کی خدمت گاریں بھی شریک ہوں اور بالکل عام فہم سادہ طریق پر دیا جائے.اور درس کا وقت بھی پندرہ بیس منٹ سے زیادہ نہ ہو تا کہ طبائع میں ملال نہ پیدا ہو.اگر ممکن ہو تو کتاب کے پڑھنے کے لئے گھر کے بچوں اور ان کی ماں یا دوسری بڑی مستورات کو باری باری مقرر کیا جائے اور اس کی تشریح یا ترجمہ وغیرہ گھر کے بزرگ کی طرف سے ہو میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس قسم
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 12 خلافت عثمانیہ کا پندرھواں سال کے خانگی درس ہماری جماعت کے گھروں میں جاری ہو جائیں.تو علاوہ علمی ترقی کے یہ سلسلہ اخلاق اور روحانیت کی اصلاح کے لئے بھی بہت مفید و با برکت ہو سکتا ہے ".احمدیت کا حال اور مستقبل ۱۶ اپریل ۱۹۲۸ء کو جمعہ تھا اس روز احباب مجلس مشاورت کے سلسلہ میں کثرت سے قادیان آئے ہوئے تھے.حضرت خلیفتہ المسح الثانی ایدہ اللہ تعالی نے مسجد نوبر کے متصل بڑ کے درخت کے نیچے ایک ولولہ انگیز خطبہ دیا جس میں فرمایا کہ : ہم بڑ کے درخت کے نیچے یہ مشورے کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں کہ دنیا کس طرح فتح کی جائے..یادرکھیں آج جو سر گوشیاں ہو رہی ہیں ان کا ایسا نتیجہ نکلے گا کہ ساری دنیا پر احمدیت کا جھنڈ الہرائے گا.لیکن آج کے منظر کی تصویر اگر لے لی جائے اور اسے کوئی آج سے چھ سات سو سال بعد شائع کرے تو اس وقت کے لوگ انکار کریں گے کہ یہ ہمارے بڑوں کی حالت کی تصویر ہے وہ کہیں گے ہم نہیں مان سکتے کہ وہ ایسے کمزور تھے.اس پر یقین کرنے کے لئے ایک تیز قوت واہمہ کی ضرورت ہوگی.مگر میں جماعت سے کہتا ہوں ان وعدوں کا مستحق بننے کی کوشش کرنی چاہیئے.اور اس کے لئے دعاؤں پر بہت زور دینا چاہیئے.معاملات میں صفائی رکھنی چاہیئے ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیئے.اپنے نفسوں کو قابو میں رکھنا چاہیئے.آپس میں محبت اور اتحاد کا سلوک کرنا چاہیئے".ہم نسواں کے لئے خاص تحریک حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کو آغاز خلافت ہی سے احمدی خواتین کی تعلیمی ترقی و بهبود کا خیال رہا ہے مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء کے موقعہ پر حضور نے نمائندگان جماعت کے سامنے تعلیم نسواں کے لئے خاص تحریک کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : ” میرے نزدیک عورتوں کی تعلیم ایسا اہم سوال ہے کہ کم از کم میں تو اس پر غور کرتے وقت حیران رہ جاتا ہوں ایک طرف اس بات کی اہمیت اتنی بڑھتی چلی جارہی ہے کہ دنیا میں جو تغیرات ہو رہے ہیں یا آئندہ ہوں گے جن کی قرآن سے خبر معلوم ہوتی ہے ان کی وجہ سے وہ خیال مٹ رہا ہے جو عورت کے متعلق تھا کہ عورت شغل کے طور پر پیدا کی گئی ہے...دو سری طرف اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عورت کا میدان عمل مرد کے میدان سے بالکل علیحدہ ہے...پس ایک طرف عورتوں کی تعلیم کی اہمیت اور دوسری طرف یہ حالت کہ ان کا میدان عمل جدا گانہ ہے یہ ایسے امور ہیں جن پر غور کرتے ہوئے نہایت احتیاط کی ضرورت ہے.ہمیں خدا تعالیٰ نے دوسروں کا نقال نہیں
تاریخ احمد بیت ، جلد ۵ 13 خلافت عثمانیہ کا نہ بنایا.بلکہ دنیا کے لئے راہ نما بنایا ہے.ہمیں خدا تعالیٰ نے اس لئے کھڑا کیا ہے کہ ہم دنیا کی راہ نمائی کریں نہ یہ کہ دوسروں کی نقل کریں.اس لئے ضروری ہے کہ ہم غور کریں عورتوں کو کیسی تعلیم کی ضرورت ہے ہمیں ہر قدم پر سوچنا اور احتیاط سے کام لینا چاہیئے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کچھ کرنا ہی نہیں چاہیے کرنا چاہیئے اور ضرور کرنا چاہیئے مگر غور اور فکر سے کام لینا چاہیئے.اب تک ہماری طرف سے سستی ہوئی ہے ہمیں اب سے بہت پہلے غور کرنا چاہیئے تھا.اور اس کے لئے پروگرام تیار کرنا چاہیئے تھا گو وہ پروگرام مکمل نہ ہوتا اور مکمل تو یکانت قرآن شریف بھی نہیں، ہو گیا تھا پس یکلخت تو قدم اوپر نہیں جا سکتا مگر قدم رکھنا ضرور چاہیئے تھا.میں اس بات کی زیادہ ضرورت محسوس کرتا ہوں کہ پہلے اس بات پر غور ہونا چاہیئے.کہ عورتوں کو تعلیم کیسی دینی چاہیئے مختلف زبانیں سکھانا تو ضروری بات ہے باقی امور میں ضروری نہیں کہ عورتوں کو اس رستے پر لے جائیں جس پر دو سرے لوگ لے جا رہے ہیں اعلیٰ تعلیم وہی نہیں جو یورپ دے رہا ہے مسلمانوں میں بھی اعلیٰ تعلیم نے مسلمان عورتیں بھی پڑھتی پڑھاتی تھیں".عورتوں کی تعلیم کا جس قدر جلد سے جلد مکمل انتظام کیا جائے گا.اتنا ہی مفید ہو گا.مسلمانوں نے اس بات کو مد نظر نہیں رکھا اور بہت نقصان اٹھا رہے ہیں عورتوں کی تعلیم کئی لحاظ سے فائدہ پہنچاتی ہے اور اس کے نہ ہونے کی وجہ سے مسلمانوں نے بڑا نقصان اٹھایا ہے میں نے شملہ میں محسوس کیا کہ ہندوؤں کے اثر اور رسوخ کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ انگریز عورتوں سے ہندو عورتوں کا تعلق ہے مگر مسلمان عورتوں کا کوئی تعلق نہیں ہو تا ایک زنانہ دعوت میں میری ایک بیوی شامل ہو ئیں میں نے ان سے مسلمان عورتوں کے حالات پوچھے وہ یہی کہتیں کہ ہر بات میں مسلمان عورتیں پیچھے ہی رہتی تھیں اور کسی کام میں دخل نہ دیتی تھیں.میری بیوی انگریزی میں گفتگو نہ کر سکتی تھیں ایک انگریز عورت نے ان سے گفتگو کرنے کی خواہش بھی کی مگر وہ نہ کر سکیں غرض مسلمانوں کا سوشل اثر اسی لئے بہت کم ہے کہ مسلمان عورتیں تعلیم یافتہ نہیں ہیں اور ان کے تعلقات بڑے سرکاری عہدیداران کی بیویوں سے نہیں ہیں اور یہ کہنا غلط ہے کہ حکومت میں عورتوں کا دخل نہیں ہے بہت بڑا دخل ہے اور جن عورتوں کا آپس میں تعلق ہو ان کے مردوں کا خود بخود ہو جاتا ہے اس طرح مسلمانوں کو بہت سا سیاسی نقصان پہنچ رہا ہے جس کی طرف توجہ کرنی چاہیئے.پھر تبلیغ کے لحاظ سے بھی عورتوں کی تعلیم نہایت ضروری ہے ہندو اور عیسائی عورتیں تعلیم میں بہت بڑھ رہی ہیں ہماری عورتیں تعلیم حاصل کر کے نہ صرف ان کے حملوں سے بچ سکتی ہیں بلکہ ان کو تبلیغ بھی کر سکتی ہیں ".
تاریخ احمدیت.جلده 14 خلافت ثانیہ کا پندرھواں سال پہلے تحقیقاتی کمیشن کا تقرر یکم جنوری ۱۹۱۹ء میں نظار توں کا قیام عمل میں آیا تھا.اس وقت سے لے کر اب تک اگر چہ نظار میں اپنے ماتحت دفاتر کی نگرانی کے فرائض انجام دے رہی تھیں لیکن (خلیفہ وقت کے علاوہ خود نظارتوں کے کام کی نگرانی کرنے والا کوئی ادارہ نہ تھا.اس لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپریل ۱۹۲۸ ء میں پہلی بار ایک تحقیقاتی کمیشن مقرر فرمایا.جو چوہدری نعمت اللہ خان صاحب سب حج دہلی.پیراکبر علی صاحب وکیل فیروز پور اور چوہدری غلام حسین صاحب ڈسٹرکٹ انسپکٹر مدارس کرنال پر مشتمل تھا.اور اس کے ذمہ یہ کام کیا کہ وہ سارے دفاتر کا معائنہ کر کے رپورٹ کرے کہ ” دفاتر کا عملہ کم ہے اور کام زیادہ ہے یا عملہ زیادہ اور کام کم ہے نظارتوں کے فرائض پورے طور پر ادا ہوتے ہیں یا نہیں ؟ اور ارشاد فرمایا کہ " یہ دوست معائنہ کرنے کے لئے اپنی فرصت اور سہولت کو مد نظر رکھتے ہوئے خود تاریخ مقرر کرلیں.اور اس کی اطلاع نظارتوں کو دے دیں.چوہدری نعمت اللہ خان صاحب کو اس کمیٹی کا پریذیڈنٹ مقرر کیا جاتا ہے وہ مناسب موقع پر دوسروں کو جمع کر لیں لیکن جب کسی دفتر کا معائنہ کرنا ہو تو اسے لکھ دیں.تاکہ وہ تیاری کرے".سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے فرمان مبارک کے مطابق اس کمیشن کو جنوری ۱۹۲۹ء کے آخر میں ایک ہفتہ معائنہ کر کے رپورٹ پیش کر دینا چاہیے تھی مگر کمیشن نے اس پر کوئی کارروائی نہ کی.لہذا حضور نے ۱۹۲۹ء میں دوبارہ کمیشن مقرر فرمایا.اور پہلے ممبران ہی کو اس کا رکن تجویز فرمایا.تاوہ اپنی کو تاہی کا کفارہ کر سکیں.اور اسے معائنہ کے لئے پانچ اہم ہدایات دیں.کمیشن تحقیقات کرے کہ ناظر اپنے مقررہ فرائض کے منظور شدہ رقم میں پوری طرح ادا کر سکتے ہیں یا نہیں؟ وم کیا نظار تیں ان قواعد کی جو پاس کرتی ہیں اور ان ہدایتوں کی جو انہیں دی جاتی ہیں پابندی کرتی اور کراتی ہیں یا نہیں ؟ کیا نظار میں مجلس شوری کے فیصلوں کو نافذ کرنے کی کوشش کرتی ہیں یا نہیں؟ انجمن کے کارکن اپنے اختیارات ایسے طور پر تو استعمال نہیں کرتے کہ لوگوں کے حقوقی ضائع ہوں؟ - کوئی صیغہ اخراجات کے بارے میں اسراف سے تو کام نہیں لے رہا.چنانچہ ارکان کمیشن نے اس کام میں کافی وقت صرف کیا وہ دربار محض اسی غرض کے لئے قادیان آئے جہاں انہوں نے لمبی لمبی شہادتیں لیں جو ہزار صفحات سے بھی متجاوز تھیں اور بالآخر بہت چھان
تاریخ احمدیت جلد ۵ 15 خلافت ثانیہ کا پندرھواں مین اور بڑے غور و فکر کے بعد ایک مفصل اور ضخیم رپورٹ لکھی جس میں ۲۷ سفارشات پیش کیں.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس رپورٹ کی بعض اغلاط اور نقائص کے باوجو د مشاورت ۱۹۳۰ء کے سامنے کمیٹی کی محنت و کاوش پر خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا : جو کام انہوں نے کیا ہے اسے مد نظر رکھتے ہوئے اور یہ دیکھتے ہوئے کہ پہلی دفعہ یہ کام کیا گیا ہے جس کے لئے انہوں نے پوری محنت کی ہے کافی وقت صرف کیا ہے اور ایک لمبی رپورٹ مرتب کی ہے جماعت کے شکریہ کے مستحق ہیں اور دوسروں کے لئے نمونہ ہیں.غرض کمیشن نے بہت قابل تعریف اور مفید کام کیا ہے اور کسی ممبر کی غلطی سے اس کام پر پانی نہیں پھیرا جا سکتا.کمیشن کا کام باعث خوشی ہے اور میں اس پر خوشی اور امتنان کا اظہار کرتا ہوں"." اس کے ساتھ ہی حضور نے صاف لفظوں میں یہ وضاحت فرما دی: ی....کمیشن مجلس شوریٰ کا قائم مقام نہیں ہے بعض لوگوں کو غلطی لگی ہے اور خود کمیشن کے بعض ممبروں کو بھی غلط فہمی ہوئی ہے کہ انہوں نے کمیشن کو مجلس شوری کا قائمقام سمجھا ہے.حالانکہ مجلس شوری اپنی ذات میں کوئی حق نہیں رکھتی وہ میرے بلانے پر آتی اور آکر مشورہ دیتی ہے اور ہمیشہ خلیفہ کے بلانے پر آئے گی اور اسے مشورہ دے گی.ورنہ وہ اپنی ذات میں کوئی حق نہیں رکھتی.کہ مشورہ دے.اور کمیشن خلیفہ نے مقرر کیا ہے تاکہ وہ اس کام کا معائنہ کرے جو کارکن کر رہے ہیں.اور جس کی نگرانی خلیفہ کا کام ہے خلیفہ چونکہ اس قدر فرصت نہیں رکھتا کہ خود تمام کاموں کی نگرانی کر سکے اس لئے اس نے اپنی تسلی کے لئے کمیشن مقرر کیا تاکہ وہ دیکھے کہ کارکنوں کے سپرد جو کام ہے اسے وہ کس طرح کر رہے ہیں ؟".سیٹھ علی محمد صاحب کی کامیابی سے متعلق آسمانی بشارت حضرت سیٹھ عبداللہ اللہ دین صاحب سکندر آباد کا بیان ہے کہ "حضرت امیر المومنین کے ارشاد کے مطابق میں نے اپنے لڑکے علی محمد صاحب کو آئی.سی.ایس 11.0.8 کے لئے لندن روانہ کیا.وہاں ان کو پہلے ایم.اے کی ڈگری حاصل کرنی ضروری تھی.مگرایم.اے میں اس قدر دیر ہو گئی کہ آئی سی ایس کے لئے موقعہ نہ رہا.ایم.اے کے سات مضامین میں سے چھ تو انہوں نے پاس کر لئے مگر آخری مضمون (Constitutional Law) (قوانین آئین سازی) اور (Consitutional History) ( تاریخ آئین سازی) میں متواتر لیل ہوتے گئے اس لئے وہ نا امید ہو کر واپس چلے آنا چاہتے تھے ان کو سات سال کا عرصہ ہو تا تھا اس لئے میں نے حضرت امیرالمومنین سے ان کو واپس بلا لینے کی اجازت چاہی مگر حضور نے فرمایا کہ میں نے
تاریخ احمدیت - جلد ۵ 16 خلافت ما خواب میں ان کا نام پاس ہونے والوں کی فہرست میں دیکھا ہے اس لئے انشاء اللہ وہ یقینا پاس ہو کر آئیں گے.اس لئے میں نے ان کو یہ کیفیت لکھی اور پھر کوشش کرنے کو کہا.انہوں نے پھر ایک بار کوشش کی مگر پھر بھی فیل ہو گئے یہ پریشان حالی میں تھے کہ اب آئندہ کیا کیا جائے.ان کے استاد کو جب معلوم ہوا کہ پھر فیل ہو گئے تو اس نے تحقیق کی.معلوم نہیں خدا تعالیٰ کا وہاں کیا کرشمہ ہوا کہ ایک دو روز میں ان کو (ایڈنبرا) یونیورسٹی کی طرف سے اطلاع ملی کہ آپ کے فیل ہونے کی خبر غلط تھی آپ پاس ہو گئے ہیں.یہ بہت خوش ہوئے اور سمجھ گئے یہ محض خدا تعالیٰ نے اپنے خلیفہ کا خواب پورا کرنے کے لئے ان پر فضل کیا ہے.انہوں نے خدا تعالیٰ کا بہت بہت شکریہ ادا کیا...رج کا موقعہ تھا اس لئے واپس ہوتے ہوئے حج کر کے الحاج علی محمد ایم.اے بن کر ہم کو آملے الحمد لله ثم الحمد لله.امتحان میں کامیابی کا یہ ایمان افروزواقعہ اوائل ۱۹۲۸ء کا ہے.سیدنا حضرت مسیح جماعت کو حفاظت اسلام کیلئے اور زیادہ چوکس ہو جانے کا ارشاد موعود عليه الصلواة والسلام کی طرح حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کو بھی اسلام کی مشکلات کا غم ستائے جار ہا تھا اور ان نازک ایام میں جماعت کو بیدار اور ہوشیار کرنے کی ہرلمحہ فکر رہتی تھی اگر چہ ۱۹۲۷ء میں جماعت کو اپنی ذمہ داری کا زبر دست احساس پیدا ہو چکا تھا تا ہم حضور نے مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء کے موقعہ پر نمائندگان مشاورت سے خطاب کرتے ہوئے انہیں اپنے فرائض منصبی کی طرف خاص توجہ دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا : اس وقت اسلام ایسی مشکلات میں گھرا ہوا ہے کہ ہم ان مشکلات کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے.اور جب جزوی طور پر اندازہ کرتے ہیں تو اس کا ایسا اثر دماغ پر پڑتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کا فضل شامل حال نہ ہو تو جنون ہو جائے اس حالت میں صرف اس بات سے آرام حاصل ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا کلام کہتا ہے کہ ان مشکلات کا انجام برا نہیں ہو گا.اور تم کامیاب ہو جاؤ گے.....سوائے اس کے کوئی سہارا نہیں نہ ہمارے پاس مال ہے نہ تربیت ہے نہ تعداد کے لحاظ سے دنیا کا مقابلہ کر سکتے ہیں جب یہ حالت ہے تو سوچ لو کہ کس قدر خشیت اور ڈرنے کا مقام ہے اور پھر کس قدر کو شش کتنے ایثار اور کیسے تو کل کی ضرورت ہے "." صرف ہندوستان میں اسلام کے متعلق اگر کسی کو جوش اور تڑپ کا دعویٰ ہے تو وہ ہماری جماعت ہے ایسی خطرناک حالت میں اگر ہماری جماعت کی سی کمزور جماعت بھی پوری توجہ اسلام کی حفاظت کے لئے نہ کرے تو بتاؤ پھر اسلام کی حفاظت کا اور کیا ذریعہ ہے اس میں شبہ نہیں کہ ہدایت خدا
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 17 تعالی ہی پھیلاتا ہے مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ہدایت پھیلانے کے لئے آسمان سے فرمھتے نہیں آیا کرتے انسان ہی یہ کام کیا کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بدر کی جنگ کے موقعہ پر رسول کریم ﷺ نے یہ دعا کی تھی کہ مسلمان مٹھی بھر ہیں اگر یہ تباہ ہو گئے تو پھر اسلام کا کیا بنے گا پس اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہماری کوئی طاقت نہیں ہے مگر خد اتعالیٰ انسانوں سے ہی اپنے دین کی اشاعت کراتا ہے اگر ہم بھی توجہ نہ کریں تو پھر اسلام کی خدمت کرنے والا کوئی نہ ہو گا جہاں کوئی اور بھی کام کرنے والا ہو وہاں کوئی ستی بھی کر سکتا ہے لیکن جہاں ایک ہی کام کرنے والا ہو اس کی سستی کا نتیجہ سوائے تباہی کے کچھ نہیں ہو تا اس وقت یہ موقعہ نہیں ہے کہ مختلف جماعتیں اسلام کا کام کر رہی ہیں اسلام کی ترقی کا انحصار صرف احمدیہ جماعت پر ہے اور حالات نازک سے نازک تر ہوتے جارہے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام ہے " آگ ہماری غلام بلکہ ہمارے غلاموں کی غلام ہے ".ایک معنی اس کے یہ ہیں کہ مصائب اور آفات آپ کی جماعت کو تباہ نہ کریں گئے مگر اس کے ایک اور معنی بھی ہیں.آگ کا لفظ مختلف معنی رکھتا ہے آگ مصائب کے معنوں میں استعمال ہوتی ہے اور محبت کے معنوں میں بھی.پس اس الہام میں یہ بتایا گیا ہے کہ دنیا کی مصائب ہمارا کچھ نہیں بگار سکتے.آگ ہمارا کام کر رہی ہے یعنی عشق الہی کی آگ ہماری کمزوریوں کو جلا رہی ہے اور جب دلوں میں عشق الہی کی آگ جل جاتی ہے.تو پھر اس کی علامات مونہوں سے بھی ظاہر ہونے لگتی ہیں پس ہماری جماعت کے ہر فرد کے دل میں محبت الہی کا ایسا شعلہ ہو کہ مونہہ سے بھی نکلتا ہو اور ہر احمد ہی اس آگ کو اس طرح بھڑ گائے کہ اس کا چہرہ دیکھ کر لوگ سمجھے جائیں کہ یہ اسلام کا سچا عاشق ہے جو اسلام کے لئے جان بھی دے دے گا.مگر قدم پیچھے نہ بنائے گا.میں نے دیکھا ہے کہ پچھلی مجلس مشاورت سے احباب نے ہر رنگ میں ترقی کی ہے اور مالی اور دوسری مشکلات کے متعلق کسی قدر تسلی ہوئی ہے اور اس وجہ سے چند راتیں میں نے بھی آرام سے بسر کی ہیں.مگر اتنی ترقی کافی نہیں ہے ہمیں اپنے تمام کاموں میں استقلال دکھانا چاہیئے.پس میں اپنی جماعت کے لوگوں سے کہتا ہوں کہ اب بھی بیدار ہوں اور پچھلی دفعہ جو عہد کیا گیا تھا اسے پھر یاد دلاتا ہوں.RO جو دوست پچھلے سال نہ آئے تھے وہ آج سے عہد کریں کہ واپس جاکر ان لوگوں کا اخلاص بڑھا ئیں گے جن میں اخلاص ہے.اور جن میں نہیں ان میں پیدا کریں گے اسلام کی محبت پھیلانے اور اسلام کی اشاعت کرنے میں لگ جائیں اور قرآن کریم کی روشنی جو مٹ رہی ہے اسے قائم کریں میں نے بتایا ہے دوستوں میں پہلے کی نسبت بہت تغیر ہے اور یہ بہت خوشی کی بات ہے مگر ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنا محاسبہ کرتے رہیں.اور دیکھیں ہر روز ہمارا قدم آگے بڑھ رہا ہے یا نہیں پس میں
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 18 خلافت ثانیہ کا پندرھواں سال دوستوں سے ایک بات تو یہ کہتا ہوں کہ ہر روز قدم آگے بڑھا ئیں.اخلاص و محبت بڑھا ئیں اور دوسرے بھائیوں میں بھی پیدا کریں ".حضرت مولوی ذوالفقار علی خان صاحب رئیس الاحرار مولانا محمد علی جو ہر کی دختر کے نکاح گوہر کا جوش دینی و حرارت ایمانی کی تقریب مئی ۱۹۲۸ء کے دوسرے ہفتہ میں ہوئی جس میں شمولیت کے لئے مولانا جو ہر کے برادر اکبر حضرت خان ذو الفقار علی خاں ایک ہفتہ کی رخصت لے کر قادیان سے دہلی تشریف لے گئے".دہلی میں آپ کو تبلیغ اسلام کا ایک موقعہ ملا جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ نے اس درجہ جوش دینی اور حرارت ایمانی کا ثبوت دیا کہ مشہور مسلم لیڈر جناب عبد المساجد صاحب دریا بادی مدیر "مصدق" لکھنو نے آپ کی وفات پر " صدق جدید " میں لکھا کہ "مئی ۱۹۲۸ء کا ذکر ہے کہ مولانامحمد علی کی منجملی صاحبزادی کا عقد دہلی میں تھا.اس تقریب میں یہ بھی آئے ہوئے تھے.ایک روز دو پسر کی تنہائی میں دو معزز مہمانوں نے مسائل اسلامی پر کچھ طنز و تمسخر شروع کیا (دونوں بیرسٹر تھے اور لامذ ہب نہیں بلکہ اچھے خاصے مسلمان اور ایک صاحب ماشاء اللہ ابھی موجود ہیں) مخاطب " سچ " (سابق صدق) کا ایڈیٹر تھا لیکن قبل اس کے کہ وہ کچھ بھی بول سکے ایک اور صاحب نے جو اس وسیع کرے کے کسی گوشے میں لیٹے ہوئے تھے کڑک کر ایک ایک اعتراض کا جواب دینا شروع کر دیا اور وہ جوابات اتنے کافی بلکہ شانی نکلے کہ مخاطب اصلی کو بولنے کی ضرورت ہی نہ پڑی.یہ نصرت اسلام میں تقریر کر ڈالنے والے بھی ذوالفقار علی خان تھے اس جوش دینی و حرارت ایمانی رکھنے والے سے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ نرمی اور رافت ہی کا معاملہ فرمائیں اور اس کی لغزشوں کو سرے سے در گزر فرمائیں.(صدق جدید نا حنو) CA جامعہ احمدیہ (عربی کالج) کا قیام حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو شروع خلافت سے یہ خیال تھا کہ جماعت احمدیہ کی عالمگیر تبلیغی ضروریات کے لئے مدرسہ احمدیہ کو ترقی دے کر اسے ایک عربی کالج تک پہنچانا ضروری ہے اس مقصد کی تکمیل کے لئے حضور نے 1919ء میں پہلا قدم یہ اٹھایا کہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے ، حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب ، حضرت میر محمد اسحاق صاحب ، حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب ، حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب در دایم.اے ، حضرت مولوی محمد دین صاحب ،ماسٹر نواب دین صاحب اور شیخ عبد الرحمن صاحب مصری پر مشتمل ایک کمیٹی مقرر فرمائی جس نے مختلف پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد
تاریخ احمدیت.جلد ۵ ایک سکیم تیار کی.19 خلافت عثمانیہ کا پندر اس اہم کمیٹی اور اس کی سکیم کا ذکر صد را مجمن احمدیہ کی رپورٹ ۲۰-۱۹۱۹ء کمیٹی کی رپورٹ میں ان الفاظ میں آتا ہے کہ امسال مدرسہ احمدیہ میں بہت بڑا تغیر واقع ہوا ہے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ نے جماعت کی ضرورت کو مد نظر رکھتے اور یہ محسوس کرتے ہوئے کہ ان ضروریات کو سوائے مدرسہ احمدیہ کے اور کوئی انسٹی ٹیوشن پورا نہیں کر سکتی اس کی طرف خاص توجہ فرمائی اور اس مدرسہ کی موجودہ حالت کو ترقی دینے اور اس کو جماعت کے لئے ایک نہایت کار آمد وجود بنانے کے لئے اس کی پہلی سکیم پر غور کرنے کے لئے ایک کمیٹی بنادی ( آگے ممبران کمیٹی کے نام دینے کے بعد لکھا ہے.ناقل ) اور اس کمیٹی کو حکم دیا کہ وہ اس کی سکیم پر پورا غور کرے اور اس میں مناسب تغیر و تبدل کر کے اس کو ایسی لائنوں پر چلائے جن پر چل کر مدرسہ ایسے طالب علم نکال سکے جو صرف ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ تمام بیرونی ممالک ولایت وغیرہ میں بھی تبلیغ کر سکیں اور تعلیم مدرسہ تک ہی محدود نہ رکھی جائے.بلکہ اس کے ساتھ ایک کالج بھی کھول دیا جائے چنانچہ حضور کی ہدایت کے مطابق اس کمیٹی نے کامل دو ماہ غور کرنے کے بعد ایک سکیم تیار کر کے حضور کی خدمت میں پیش کر دی اور حضور نے اس میں مناسب اصلاح کر کے اسے جاری کرنے کا حکم دے دیا.اور وہ سکیم اس سال مدرسہ احمدیہ میں جاری کر دی گئی.لیکن چونکہ اس سکیم اور پرانی سکیم میں بہت فرق تھا.اگر یہ سارے مدرسہ میں جاری کر دی جاتی تو پہلے طالب علموں کی تعلیم میں بہت نقص دارد ہونے کا اندیشہ تھا.اس لئے فی الحال یہ صرف پہلی تین جماعتوں میں رائج کی گئی.اور گویا اب مدرسہ میں دو سکیمیں کام کر رہی ہیں.پہلی تین جماعتیں نئی سکیم کے مطابق تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور آخری چار جماعتیں پرانی سکیم کے مطابق اور اس کے علاوہ ایک جماعت مدرسہ احمدیہ کے ساتھ اور بھی ہے جو مولوی فاضل کلاس کہلاتی ہے اس کا کورس یونیورسٹی کے کورس کے مطابق ہے.حضور نے اس سکیم کے مطابق ۱۹۲۴ء میں صدر انجمن احمدیہ کو ہدایت فرمائی کہ وہ مدرسہ کو کالج تک ترقی دینے کے لئے عملی اقدام کرے.چنانچہ کئی مراحل طے ہونے کے بعد صد را انجمن احمدیہ نے ۱۵ / اپریل ۱۹۲۸ء کو جامعہ احمدیہ کے نام سے ایک مستقل ادارہ کے قیام کا فیصلہ کر دیا جس کے مطابق مدرسہ احمدیہ کی مولوی فاضل کلاس اس عربی کالج کی پہلی دو جماعتیں قرار دے دی گئی.اور جماعت مبلغین (جس کے واحد انچارج یا پروفیسر حضرت علامہ حافظ روشن علی صاحب ہی تھے ).دو جماعتوں میں تقسیم کر کے جامعہ کے ساتھ ملحق کردی گئی اس طرح ابتداء میں جامعہ احمدیہ کی چار جماعتیں کھولی گئیں درجہ جامعہ احمدیہ کے انتظام کا فیصلہ ar ۵۰
تاریخ احمدیت - جلد ۵ 20 خلافت ثانیہ کا پند اولی و درجہ ثانیہ مدرسہ احمدیہ کی مولوی فا مثل کلاس C اور درجہ ثالثه د رابعه (جماعت مبلغین) نئی درسگاہ کی عمارت کے لئے تعلیم الاسلام ہائی سکول کے احاطہ کی وہ کو ٹھی مخصوص کی گئی.جو گیسٹ ہاؤس کے طور پر بھی استعمال ہوتی تھی.اور جس میں خلافت ثانیہ کے اوائل تک جناب مولوی محمد علی صاحب ایم.اے (سیکرٹری صدر انجمن احمدیہ قادیان) قیام رکھتے تھے.جامعہ احمدیہ کے بور ڈر طلباء کا انتظام کسی موزوں عمارت کے نہ ہونے کی وجہ سے عارضی طور پر مدرسہ احمدیہ کے بورڈنگ ہی میں رہا.جامعہ احمدیہ کی جماعتوں کے لئے مدرسہ احمدیہ کا وہ سامان جو اس وقت تک عملا مدرسہ کی مولوی فاضل کلاس کے استعمال میں تھا.جامعہ احمدیہ میں منتقل کر دیا گیا اور دیگر ضروری ابتدائی سامان کے لئے مبلغ ایک سو روپیہ کی منظوری دی گئی.اور سائز کا باقی بجٹ حصہ رسدی مدرسہ اور جامعہ میں تقسیم کر کے جامعہ احمدیہ کو اس کا دسواں حصہ (رہا کے کی کسر چھوڑ کر) بطور پیشگی حاصل کرنے کا حق دیا گیا.اس سلسلہ میں سب سے اہم مسئلہ جامعہ احمدیہ کے سٹاف کا تھا.سو جامعہ احمدیہ کے اساتذہ اس کے پہلے پر نسل حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب اور پروفیسر حضرت حافظ روشن علی صاحب ، حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب حلال پوری اور حضرت میر ۵۵ محمد اسحاق صاحب مقرر کئے گئے.جامعہ احمدیہ کے ان اولین قدیم ترین پروفیسروں کے بعد ۱۹۴۷ء یعنی تقسیم ہند تک مندرجہ ذیل اساتذہ وقتا فوقتا اس دینی درسگاہ میں تعلیمی فرائض بجانا تے رہے.مولوی ارجمند خان صاحب مولوی محمد یار صاحب عارف - حافظ مبارک احمد صاحب حضرت مولوی محمد جی صاحب ہزاروی - EI سردار مصباح الدین صاحب سابق مبلغ انگلستان مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل - مولوی علی محمد صاحب اجمیری - صاحبزادہ مولوی سید ابوالحسن صاحب قدسی (خلف الصدق حضرت صاجزادہ مولوی سید عبد اللطیف صاحب شہید ) مولوی غلام احمد صاحب بد و مهدی - شیخ محبوب عالم صاحب خالد - مولوی ناصرالدین عبداللہ صاحب فاضل سنسکرت- حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایم.اے.مرزا احمد شفیع صاحب میولانا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل لائلپوری.ماسٹر علی محمد صاحب بی.اے بی ٹی.ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے.مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری - مولوی عبد المنان صاحب عمر - مولوی ظفر محمد صاحب مولوی عطاء الرحمن صاحب طالب (جون |10] - (419M 2
تاریخ احمد بیت - جلد ۵ 21 خلافت ثانیہ کا پندر جامعہ احمدیہ کا افتتاح اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی قیمتی نصائح اساتذہ کرام کی فہرست دیتے ہوئے ہم ۷ ۱۹۴ء کے آخر تک پہنچ گئے تھے اب پھر ضروری ابتدائی حالات کی طرف آتے ہیں.جامعہ احمدیہ کی داغ بیل پڑنے کے بعد جب اس نئی درسگاہ کے ابتدائی انتظامات پایہ تکمیل کو پہنچ گئے تو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۲۰/ مئی ۱۹۲۸ء کو اس کا افتتاح فرمایا.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس تقریب پر جو تقریر فرمائی وہ الفضل ۱۴- اگست ۱۹۲۸ء میں شائع ہو چکی ہے.حضور نے تقریر میں اس نئے ادارہ کی غرض وغایت پر روشنی ڈالتے ہوئے ارشاد فرمایا: "خد اتعالیٰ کے مامور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد اور ہدایت کے ماتحت مدرسہ احمدیہ قائم کیا گیا تا کہ اس میں ایسے لوگ تیار ہوں جو و لتكن منكم امة يدعون الى الخير الخ کے منشاء کو پورا کرنے والے لوگ ہوں.بے شک اس مدرسہ سے نکلنے والے بعض نوکریاں بھی کرتے ہیں مگر اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر ایک شخص ایک ہی کام کا اہل نہیں ہوتا.انگریزوں میں سے بہت سے لوگ قانون پڑھتے ہیں مگر لاء کالج سے نکل کر سارے کے سارے بیرسٹری کا کام نہیں کرتے بلکہ کئی ایک اور کاروبار کرتے ہیں تو اس مدرسہ سے پڑھ کر نکلنے والے کئی ایسے ہوتے ہیں جو ملازمتیں کرتے ہیں.مگر یہ اس لئے نہیں بتایا گیا کہ اس سے تعلیم حاصل کرنے والے نوکریاں کریں بلکہ اصل مقصد یہی ہے کہ مبلغ بنیں اب یہ دوسری کڑی ہے کہ ہم اس مدرسہ کو کالج کی صورت میں دیکھ رہے ہیں.تبلیغ کے لحاظ سے یہ کالج ایسا ہونا چاہیئے کہ اس میں نہ صرف دینی علوم پڑھائے جا ئیں بلکہ دوسری زبانیں بھی پڑھانی ضروری ہیں ہمارے جامعہ میں بعض کو انگریزی بعض کو جر منی بعض کو سنسکرت بعض کو فارسی بعض کو روی بعض کو سپینش وغیرہ زبانوں کی اعلیٰ تعلیم دینی چاہیئے.کیونکہ جن ملکوں میں مبلغوں کو بھیجا جائے ان کی زبان جاننا ضروری ہے بظا ہر یہ باتیں خواب و خیال نظر آتی ہیں.مگر ہم اس قسم کی خوابوں کا پورا ہونا اتنی بار دیکھ چکے ہیں کہ دوسرے لوگوں کو ظاہری باتوں کے پورے ہونے پر جس قدر اعتماد ہو تا ہے اس سے بڑھ کر ہمیں ان خوابوں کے پورے ہونے پر یقین ہے.ابھی تو ہم اس کی بنیاد رکھ رہے ہیں.مدرسہ احمدیہ کے ساتھ بھی مبلغین کی کل اس تھی مگر اس میں شبہ نہیں کہ ہر چیز اپنی زمین میں ہی ترقی کرتی ہے جس طرح بڑے درخت کے نیچے چھونے پودے ترقی نہیں کرتے اسی طرح کوئی نئی تجویز دیرینہ انتظام کے ساتھ ترقی نہیں کر سکتی.اس وجہ سے جامعہ کے لئے ضروری تھا کہ اسے علیحدہ کیا جائے.اس سے متعلق میں نے ۱۹۲۴ ء میں صدر انجمن احمدیہ کو لکھا تھا کہ کان کی کلاسوں کو علیحدہ کیا جائے.اور اسے موقعہ دیا جائے کہ اپنے ماحول کے مطابق ترقی کرے.آج وہ خیال پورا ہو رہا
تاریخ احمدیت ، جلد ۵ 22 ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید ہے کہ یہی چھوٹی سی بنیاد ترقی کر کے دنیا کے سب سے بڑے کالجوں میں شمار ہوگی.نیز طلباء جامعہ کو ان کی اہم ذمہ داری کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ہدایت فرمائی کہ : وہ اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں ان کے سامنے عظیم الشان کام اور بہت بڑا مستقبل ہے وہ عظیم الشان عمارت کی پہلی اینٹیں ہیں اور پہلی اینٹوں پر ہی بہت کچھ انحصار ہو تا ہے ایک شاعر نے کہا خشت اول چون نهد معمار کج تا ثریا می رود دیوار سچ اگر معمار پہلی اینٹ ٹیڑھی رکھے تو ثریا تک دیوار ٹیڑھی ہی رہے گی.جتنی اونچی دیوار کرتے جائیں اتنی ہی زیادہ ٹیڑھی ہوگی گو کالج میں داخل ہونے والے طالب علم ہیں اور نظام کے لحاظ سے ان کی ہستی ما تحت ہستی ہے.لیکن نتائج کے لحاظ سے اس جامعہ کی کامیابی یا ناکامی میں ان کا بہت بڑا دخل ہے یہ تو ہم یقین رکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے سلسلہ کے کام ترقی کرتے جائیں گے.مگر ان طلباء کا ان میں بڑا دخل ہو گا.اس لئے انہیں چاہیئے کہ اپنے جوش اپنے اعمال اور اپنی قربانیوں سے ایسی بنیاد رکھیں کہ آئندہ جو عمارت تعمیر ہو اس کی دیواریں سیدھی ہوں ان میں کجی نہ ہو ان کے سامنے ایک ہی مقصد اور ایک ہی غایت ہو اور وہ یہ کہ اسلام کا اعلاء ہو....اور ان کا یہی موٹو ہونا چاہیئے.كن ولتكن منكم امة يدعون الى الخير ويامرون بالمعروف وينهون عن المنكر و اولئك هم المفلحون أورو ما كان المئومنون لينفروا كافة فلولا نفر من كل فرقة منهم طائفة ليتفقهوا في الدين ولينذروا قومهم اذا رجعوا اليهم لعلهم يحذرون میرے نزدیک ان آیتوں کو لکھ کر کالج میں لٹکا دینا چاہیئے.تاکہ طالب علموں کی توجہ ان کی طرف رہے اور انہیں معلوم رہے کہ ان کا مقصد اور مدعا کیا ہے.KET جامعہ احمدیہ کا دور اول جامعہ احمدیہ کا ابتدائی دور کئی قسم کی مشکلات میں سے گذرا.پہلے سال کے شروع میں ہی جامعہ احمدیہ کے اولین استاد اور جماعت مبلغین کے شفیق استاد حضرت علامہ حافظ روشن علی صاحب تشویشناک طور پر بیمار ہو گئے اور پھر اچانک ۲۹/ دسمبر ۱۹۲۸ء کو آپ پر فالج کا حملہ ہوا.اور بالآخر آپ ۲۳/ جون ۱۹۲۹ء کو اپنے مالک حقیقی جاملے II حضرت حافظ صاحب کے انتقال سے نہ صرف جماعت احمد یہ اپنے ایک جلیل القدر و عظیم المرتبت عالم بے بدل فاضل اجل سے محروم ہو گئی بلکہ جامعہ احمدیہ کو بھی بہت بڑا نقصان پہنچا.اس کے علاوہ حضرت مولانا میر محمد اسحاق صاحب کی لمبی بیماری نے بھی تعلیم پر ناگوار اثر ڈالا.اسی
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 23 خلافت ثانیہ کا پندرھواں سال طرح شروع شروع میں متعدد وقتوں اور دشواریوں سے دو چار ہونا پڑا.طلباء جامعہ احمدیہ کی عمارت بھی ناقص تھی.اور اس کا علیحدہ ہوسٹل نہ ہونے کی وجہ سے اس کے بعض طلباء مدرسہ احمدیہ کے بورڈنگ میں رہتے تھے اور بعض ہائی سکول کے بورڈنگ میں اور بعض نے اپنے قیام کا پرائیویٹ انتظام کر رکھا تھا.|YA جامعہ احمدیہ کے ابتدائی کو الف اس کے اساتذہ اور افتتاح کا عمومی تذکرہ کرنے کے بعد اب ہم اس درسگاہ کے بعض دوسرے حالات پر روشنی ڈالتے ہیں.۱۹۲۹ء میں جامعہ احمدیہ کا پنجاب یونیورسٹی سے الحاق ہوا.۱۹۳۰ء میں جامعہ کے طلباء کی ورزش کے لئے گراؤنڈ کا انتظام ہوا.اپریل ۱۹۳۰ء میں ایک سہ ماہی رسالہ ”جامعہ احمدیہ " جاری ہوا.جامعہ احمدیہ کے پاس اپنی کوئی لائبریری نہ تھی اور طلباء کو مرکزی لائبریری میں جو اندرون شہر واقع تھی.جانا پڑتا تھا.۳۱-۱۹۳۰ء میں بعض کتب منگوانے کا انتظام شروع ہوا.چنانچہ ۱۹۴۷ء تک جامعہ احمدیہ کی ایک اچھی خاصی لائبریری تیار ہو گئی تھی.۱۹۳۲ء میں قادیان علوم شرقیہ کے امتحان کا سنٹر منظور ہوا.اسی سال جامعہ کے اندرونی انتظام کو با قاعدہ بنانے کے لئے اس کے سٹاف کی ایک کو نسل بنائی گئی جس کے صدر حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب اور سیکرٹری حضرت مولانا میر محمد اسحاق صاحب مقرر ہوئے اور چہار شنبہ کو ہفتہ وار اجلاس منعقد ہونا قرار پایا.نومبر ۱۹۳۲ء میں جامعہ احمدیہ کے ایک وفد نے جو انتیس افراد پر مشتمل تھا مولوی ارجمند خان صاحب کی قیادت میں ہندوستان کے متعدد شہروں کا ایک کامیاب تبلیغی و تفریحی دورہ کیا.اسی زمانہ میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی کے ایک ارشاد کی روشنی میں یہ قاعدہ بنا دیا گیا کہ جامعہ احمدیہ میں صرف وہی طلباء داخل کئے جائیں گے جو مدرسہ احمدیہ کے فارغ التحصیل ہوں گے ان کے سوا کوئی طالب علم جامعہ میں داخل نہیں ہو سکے گا.البتہ جہاں تک جامعہ احمدیہ کی مولوی فاضل کلاس کا تعلق ہے صدر انجمن احمدیہ کی خاص اجازت سے استثنائی طور پر مدرسہ احمدیہ کے فارغ التحصیل طلباء کے علاوہ دوسرے بھی داخل ہو سکیں گے.مگر ضروری ہو گا کہ انجمن اپنے فیصلہ میں استثناء کی وجوہ بیان کر کے منظوری دے اور مبلغین کلاس میں بہر صورت کوئی دوسرا مطالب علم داخل نہیں ہو سکے گا.اس قاعدے سے مولوی فاضل کا امتحان دینے والے دوسرے احمدی طلباء کو جامعہ میں داخلہ کی صورت میسر آگئی بلکہ کئی غیر احمدی طلباء بھی استفادہ کرتے رہے اور مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا.
تاریخ احمدیت جلد ۵ 24 خلافت ثانیہ کا پندرھو > طلباء جامعہ احمدیہ پر تعلیمی و اخلاقی لحاظ سے بہت زیادہ اثر انداز ہونے والی وقت یہ تھی کہ ان کے لئے کوئی الگ ہوسٹل نہیں تھا.آخر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کی دو سالہ توجہ سے ۱۹۳۴ء میں یہ پیچیدہ معاملہ بھی حل ہو گیا اور بورڈنگ تعلیم الاسلام ہائی سکول کے جنوبی جانب ایک عمارت میں جہاں پہلے پرائمری کے طلباء تعلیم پاتے تھے جامعہ احمدیہ کا دار الاقامہ (ہوسٹل) قائم ہوا.اور ۲۰/ نومبر ۱۹۳۴ء کو حضور ایدہ اللہ تعالٰی نے اس کا افتتاح فرمایا.اس تقریب پر حضور نے فرمایا : جامعہ کی کامیابی کے لئے اس کا قیام ضروری ہے تا صحیح اخلاق اور دینی خدمت کے لئے جوش پیدا ہو اور نوجوان ایمان و ایقان میں اور قربانی و ایثار کی روح میں دوسروں سے بڑھ کر ہوں ان کی نماز میں اور دعائیں دوسروں کی نمازوں اور دعاؤں سے فرق رکھتی ہوں.ایسے برگزیدہ لوگوں کو اللہ تعالی خود علم سکھلاتا ہے نئے نئے جواب سکھاتا ہے".الخ جب مولوی ناصرالدین عبد اللہ صاحب بنارس وغیرہ سے سنسکرت کی اعلیٰ ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد واپس آئے تو مئی ۱۹۳۹ء سے جامعہ احمدیہ میں سنسکرت کلاس بھی کھول دی گئی جو د سمبر ۱۹۴۴ء تک جاری رہی.اس کے بعد پروفیسر ناصر الدین نظارت تألیف و تصنیف میں منتقل ہو گئے.دور اول میں تعلیم پانے والے علماء حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب اپریل ۱۹۳۹ء تک جامعہ احمدیہ کے پرنسپل رہے اور آپ کی قیادت میں جامعہ احمدیہ نے ایک مثالی درسگاہ کی حیثیت سے بہت ترقی کی اور مسلمہ طور پر بڑا عروج پایا.اور آپ کے زمانہ میں اس چشمہ علم و حکمت سے متعدد فاضل و محقق واعظ و مبلغ ، صحافی و مصنف اور مناظر و مقرر پیدا ہوئے.جامعہ احمدیہ میں دور اول کے تعلیم پانے والوں کی فہرست بہت طویل ہے بعض ممتاز نام درج ذیل کئے جاتے ہیں.مگر یہ نام فارغ التحصیل ہونے کے لحاظ سے نہیں بلکہ صرف داخلہ کی ترتیب سے درج کئے گئے ہیں لہذا یہ خیال کرنا ہر گز صحیح نہیں ہو گا کہ ان حضرات نے مولوی فاضل یا مبلغین کلاس بھی اسی ترتیب سے پاس کی ہوگی.( تواریخ ولادت جامعہ احمدیہ کے ریکارڈ سے ماخوذ ہیں) مولوی محمد ابراہیم صاحب قادیانی ( تاریخ ولادت ۷ / دسمبر ۱۹۰۲ء) مولوی محمد یعقوب صاحب ظاہر ( تاریخ ولادت ۱۵ / اپریل ۱۹۰۸ء) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ( تاریخ ولادت یکم نومبر ۱۹۰۹ء) ( مولوی ظفر محمد صاحب ( تاریخ ولادت ۹ / اپریل ۱۹۰۸ء) مولوی غلام حسین صاحب ایاز ( تاریخ ولادت یکم مئی ۱۹۰۵ء) LA
تاریخ احمدیت - جلد ۵ 25 خلافت ثانیہ کا پند ۱۹۲۸ء ۶۱۹۲۹ ۱۹۳۰ ١٩٣١ء قریشی محمد نذیر صاحب ( تاریخ ولادت یکم جولائی ۱۹۱۰ء) مولوی احمد خاں صاحب نسیم ( تاریخ ولادت ۱۸/ مئی ۱۹۰۸ء) مولوی ابوبکر ایوب صاحب سماٹری ( تاریخ ولادت ۱۳ / اکتوبر ۱۹۰۸ء) مولوی احمد نور الدین صاحب سماٹری ( تاریخ ولادت ۶ / مئی ۱۹۰۶ء) مولوی ولیداد خان صاحب شهید افغانستان (تاریخ ولادت ۱۷/ مئی ۱۹۰۴ء) مولوی زین العابدین ذینی دہلان سمائری ( تاریخ ولادت ۱۴ جون ۱۹۰۵ء) مولوی محمد صادق صاحب چغتائی ( تاریخ ولادت ۴ / اپریل ۱۹۰۹ء) مولوی عطاء الرحمن صاحب طالب ( تاریخ ولادت ۱۵ / جون ۱۹۱۱ء) مولوی نذیر احمد صاحب مبشر ( تاریخ ولادت ۱۵ / اگست ۱۹۰۹ء) شیخ مبارک احمد صاحب ( تاریخ ولادت یکم مارچ ۱۹۱۱ء) مهاشه محمد عمر صاحب ( تاریخ ولادت ۱۷/ نومبر ۱۹۰۴ء) مولوی غیر الواحد صاحب ناسنور کشمیر ( تاریخ ولادت ( مولوی عبد الرحمن صاحب انور بو تالوی ( تاریخ ولادت ۲۷ / مئی ۱۹۰۸ء) مولوی چراغ الدین صاحب ( تاریخ ولادت ۴ / اکتوبر ۶۱۹۹۶ ) مولوی عبدالغفور صاحب جالندھری ( تاریخ ولادت ۱۳ / مئی ۱۹۱۳ء) شیخ محبوب عالم صاحب خالد ( تاریخ ولادت ۱۳ / اپریل ۱۹۰۹ء) شیخ عبد القادر صاحب ( تاریخ ولادت ۱۰ / اگست ۱۹۰۹ء) ملک صلاح الدین صاحب ( تاریخ ولادت ۲۰ مارچ ۱۹۱۵ء) ۳ مولوی محمد سلیم صاحب ( تاریخ ولادت ۱۲ / دسمبر ۶۱۹۱۰ ) چوہدری محمد شریف صاحب ( تاریخ ولادت ۱۰ / اکتوبر ۱۹۱۳ء) شیخ عبد الواحد صاحب ( تاریخ ولادت ۱۵ / اگست ۱۹۱۳ء) مولوی محمد احمد صاحب جلیل ( تاریخ ولادت ۵ / جولائی ۱۹۱۱ء) مولوی عبد الواحد صاحب سماٹری ( تاریخ ولادت ۶ / ستمبر ۱۹۰۸ء) مولوی عبدالرحیم صاحب عارف ( تاریخ ولادت ۸ / اگست ۱۹۰۸ء) مولوی امام الدین صاحب ( تاریخ ولادت ۹ / جون ۱۹۱۲ء) مولوی محمد اسماعیل صاحب یادگیری ( تاریخ ولادت ۸ / اپریل ۱۹۱۴ء)
تاریخ احمدیت جلد ۵ ۶۱۹۳۲ ۶۱۹۳۳ ما ۱۹۳۵ء ۱۹۳۷ء 26 خلافت عثمانیہ کا پند صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب ( تاریخ ولادت ۹ / مئی ۱۹۱۴ء) مولوی محمد اسماعیل صاحب دیاں گڑھی ( تاریخ ولادت ۱۵ / اپریل ۱۹۱۳ء) مولوی عبد الخالق صاحب ( تاریخ ولادت ۱۵ / فروری ۱۹۱۰ء) مولوی رمضان علی صاحب ( تاریخ ولادت ۱۲ / اگست (۱۹۱۳ء) ۳۳۱ مولوی عبد المالک خان صاحب ( تاریخ ولادت ۲۵ نومبر ۱۹۱۱ ) سید احمد علی صاحب ( تاریخ ولادت ۹ / دسمبر ۱۹۱۱ء) قریشی محمد افضل صاحب ( تاریخ ولادت ۵ / اکتوبر ۶۱۹۱۴ چوہدری محمد صدیق صاحب ( تاریخ ولادت ۵ / مارچ ۱۹۱۷ء) مولوی روشن دین صاحب ( تاریخ ولادت ۷ / اپریل ۱۹۱۳ء) حافظ محمد رمضان صاحب ( تاریخ ولادت ۱۰ / اگست ۱۹۱۰ء) مولوی غلام احمد صاحب فرخ ( تاریخ ولادت ۱۲ / اپریل ۱۹۱۷ء) مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری ( تاریخ ولادت ۱۲ / اکتوبر ۱۹۱۵) مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر ( تاریخ ولادت ۵ / فروری ۱۹۱۳ء) مولوی شریف احمد صاحب امینی ( تاریخ ولادت ۱۹/ نومبر ۱۹۱۷ء) مولوی (ابو المنیر ) نور الحق صاحب ( تاریخ ولادت ۱۷/ دسمبر ۱۹۱۸ء) Ar مرزا منور احمد صاحب شهید امریکہ ( تاریخ ولادت ۲۰ / اپریل ۱۹۷۹ء) مولوی صدر الدین صاحب ( تاریخ ولادت ۱۲ / جون ۱۹۱۷ء) مولوی عنایت اللہ صاحب خلیل ( تاریخ ولادت ۲۵ / جولائی ۱۹۱۴ء) سید اعجاز احمد صاحب بنگالی ( تاریخ ولادت قریباً ۱۹۱۶ء) حافظ قدرت اللہ صاحب ( تاریخ ولادت ۲۲ / فروری ۱۹۱۷ء) مولوی محمد حفیظ صاحب بقا پوری ( تاریخ ولادت ۱۴ / اگست ۱۹۲۰ء) عبد الغفار صاحب ڈار ( تاریخ ولادت مارچ ۱۹۱۲ء) مولوی محمد احمد صاحب ثاقب ( تاریخ ولادت ۱۵ / مئی ۱۹۱۸ء) مولوی نور الحق صاحب انور ( تاریخ ولادت دسمبر ۱۹۲۰ء) مولوی رشید احمد صاحب چغتائی ( تاریخ ولادت ۲۷ / جولائی ۱۹۱۹ء) شیخ نور احمد صاحب منیر ( تاریخ ولادت ۸ / اکتوبر ۱۹۱۹ء) ۳ AM
تاریخ احمدیت جلد 27 خلافت ثانیہ کا چند رھواں سال حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب کے بعد مئی ۱۹۳۹ء میں جامعہ احمدیہ کادور ثانی حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایم.اے پر نسپل مقرر ہوئے اور جامعہ کا دوسرا دور شروع ہوا.آپ کے زمانہ میں بھی امتحان مولوی فاضل کے نتائج بہت اچھے رہے مگر لوگوں کے اس عام رجحان کی وجہ سے کہ دینی تعلیم پر دنیاوی تعلیم کو فوقیت حاصل ہے مبلغین کلاس میں داخل ہونے والے طلباء کی تعداد میں کمی آگئی.آپ کے دور میں جامعہ کے اندرونی نظام میں بعض اصلاحات بھی ہو ئیں مثلاً تقریروں کی مشق کے لئے ایک مجلس طلباء بنائی گئی.لائبریری جامعہ احمدیہ کی کتابیں از سر نو مرتب کر کے دو حصوں میں تقسیم کی گئیں.ایک حصہ میں نصاب کی کتابیں اور دوسرے میں کتب سلسلہ کے لئے دوسرا علمی اور ادبی لٹریچر رکھا گیا.اس کے علاوہ دار الاقامہ میں بھی ایک لائبریری قائم ہوئی.10 دور ثانی میں تعلیم پانے والے علماء آپ کے زمانہ میں جن علماء و مبلغین نے اکتاب علم ۱۹۴۱ء ۶۱۹۴۳ کیا ان میں سے بعض قابل ذکر یہ ہیں مولوی غلام باری صاحب سیف ( تاریخ ولادت یکم اکتوبر ۱۹۲۰ء) مولوی جلال الدین صاحب قمر ( تاریخ ولادت ۵ / مئی ۱۹۲۳ء) شیخ نصیر الدین احمد صاحب ( تاریخ ولادت ۱۵ / مارچ ۱۹۲۳ء) حافظ بشیر الدین صاحب ( تاریخ ولادت ۴ / اکتوبر ۱۹۲۲ء) مولوی محمد منور صاحب ( تاریخ ولادت ۱۳ / فروری ۱۹۲۳ء) ملک مبارک احمد صاحب ( تاریخ ولادت (۱۹۲۲ء) مولوی خورشید احمد صاحب شاد ( تاریخ ولادت ۲۴ / ستمبر ۱۹۲۰ء) مولوی محمد عثمان صاحب ( تاریخ ولادت ۱۰ / جون ۱۹۲۲ء) مولوی بشارت احمد صاحب امروہوی ( تاریخ ولادت ۸ / اگست ۱۹۱۷ء) مولوی بشارت احمد صاحب بشیر ( تاریخ ولادت ۱۰ جون ۱۹۲۳ء) مولوی محمد زہدی صاحب ( تاریخ ولادت ۷ / نومبر ۱۹۱۸ء) صوفی محمد اسحاق صاحب ( تاریخ ولادت یکم مارچ ۱۹۲۳ء) صاجزادہ مرزا ناصر احمد صاحب مئی ۱۹۴۴ء میں تعلیم جامعہ احمدیہ کے دور ثالث کا آغاز الاسلام کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے اور ۲۴ مئی ۱۹۴۴ء کو مولانا ابو العطاء صاحب فاضل جالندھری نے جامعہ احمدیہ کا چارج سنبھال لیا.اس طرح
تاریخ احمدیت جلد ۵ 28 خلافت ثانیہ کا پندرھواں سال جامعہ احمدیہ کی زندگی کے تیسرے دور کا آغاز ہوا.اوائل ۱۹۴۴ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے بھی جامعہ احمدیہ کی طرف خاص توجہ فرمائی اور جماعت کو وقف زندگی کی تحریک کی.جس پر کئی مخلص نوجوانوں نے لبیک کہا.اور میٹرک پاس طلباء کے لئے جامعہ احمدیہ میں ایک سپیشل کلاس جاری کی گئی.اس کے علاوہ دوسرے طلباء میں بھی اضافہ ہوا.اور جامعہ احمدیہ میں زندگی کی ایک نئی روح پیدا ہوئی.جامعہ احمدیہ اور اس کا ہوسٹل محلہ دارالا نوار کے نئے گیسٹ ہاؤس میں منتقل کر دیا گیا.اور طلباء کو رہائش کی سہولتیں میسر آئیں.یہ ادارہ ترقی کی منازل طے کر رہا تھا کہ تقسیم ہند کا سانحہ پیش آگیا.اور اس کے اساتذہ و طلباء • انو مبر ۱۹۴۷ء کو کانوائے کے ذریعہ قادیان سے لاہور آگئے.ا جہاں نئی صورت حال کے پیش نظر مدرسہ احمد یہ اور جامعہ احمدیہ کا مخلوط ادارہ جاری ہوا.جس کے پرنسپل بھی آپ ہی مقرر ہوئے.اور یکم جولائی ۱۹۵۳ء تک اس ادارہ کو کامیابی سے چلانے کے بعد پر نپل کی حیثیت سے جامعتہ المبشرین میں منتقل ہو گئے.جامعہ احمدیہ کے دور ثالث اور اس سے نکلنے والے علماء و مبلغین کا مفصل تذکرہ تو انشاء اللہ اپنے مقام پر آئے گا.مگر یہاں یہ بتانا مناسب ہو گا کہ اس دور کے تعلیم پانے والوں میں صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب ، صاحبزادہ مرزا او سیم احمد صاحب سید مسعود احمد صاحب اور سید محمود احمد صاحب ناصر بھی شامل ہیں.سفر لاہور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی جون ۱۹۲۸ء کے پہلے ہفتہ میں لاہور تشریف لے گئے.آپ کے حرم ثالث حضرت سارہ بیگم صاحبہ بنت حضرت مولانا عبد الماجد صاحب بھاگلپوری، صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اور صاحبزادہ عبد السلام صاحب (ابن حضرت خلیفہ اول) ادیب فاضل وغیرہ کا امتحان دے رہے تھے اور یہ سفر اسی سلسلہ میں تھا.
تاریخ احمدیت جلد ۵ 29 خلافت تا می ماند رواں سال (فصل دوم) مسیرت النبی" کے بابرکت جلسوں کا انعقاد ۱۹۲۸ء کا نہایت مہتم بالشان اور مجالس سیرت النبی کی تجویز اور اس کا پس منظر تاریخ عالم میں سنہری حروف سے " لکھے جانے کے لائق واقعہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ہاتھوں سیرت النبی کے جلسوں کی بنیاد ہے جس نے بر صغیر ہند و پاک کی مذہبی تاریخ پر خصوصاً اور دنیا بھر میں عموماً بہت گہرا اثر ڈالا ہے.اور جواب ایک عالمگیر تحریک کی صورت اختیار کرتی جارہی ہے.اللہ تعالی نے اس اہم تحریک کی تجویز حضور کے دل میں ۱۹۲۷ء کے آخر میں اس وقت القا فرمائی.جبکہ ہندوؤں کی طرف سے کتاب ”رنگیلا رسول اور رسالہ " ورتمان" میں آنحضرت کی شان مبارک کے خلاف گستاخیاں انتہا کو پہنچ گئیں.اور ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی نہایت خطر ناک شکل اختیار کر گئی.حضور نے اس مرحلہ پر آنحضرت ا کی ناموس و حرمت کی حفاظت کے لئے ملکی سطح پر جو کامیاب مہم شروع فرمائی.اس کی تفصیل پچھلی جلد میں گذر چکی ہے.یہ مہم اسلامی دفاع کا ایک شاندار نمونہ تھی.جس نے نہ صرف مخالفین اسلام کی چیرہ دستیوں کا سد باب کرنے میں مضبوط دیوار کا کام دیا.بلکہ نبی کریم ﷺ کے نام لیواؤں کو عشق رسول کے عظیم الشان جذبہ سے ایک پلیٹ فارم پر مجتمع کر دیا.مگر حضور کے مضطرب اور درد آشنا دل نے اسی پر قناعت کرنا گوارا نہ کیا.اور آپ سب و شتم کی گرم بازاری کو دیکھ کر اس نتیجہ پر پہنچے کہ جب تک آنحضرت ا کی مقدس زندگی کے حالات اور آپ کے عالمگیر احسانات کے تذکروں سے ہر ملک کا گوشہ گوشہ گونج نہیں اٹھے گا.اس وقت تک مخالفین اسلام کی قلعہ محمدی پر موجودہ یورش بدستور جاری رہے گی.اور دراصل یہی خیال تھا.جس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے آپ نے "سیرت النبی کے جلسوں کی تجویز فرمائی.چنانچہ خود ہی ارشاد فرماتے ہیں: لوگوں کو آپ پر (یعنی آنحضرت رسول کریم ﷺ پر ناقل) حملہ کرنے کی جرات اسی لئے ہوتی ہے.کہ وہ آپ کی زندگی کے صحیح حالات سے ناواقف ہیں.یا اسی لئے کہ وہ سمجھتے ہیں دوسرے
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 30 لوگ ناواقف ہیں اور اس کا ایک ہی علاج ہے.جو یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کی سوانح پر اس کثرت سے اور اس قدر زور کے ساتھ لیکچر دئیے جائیں کہ ہندوستان کا بچہ بچہ آپ کے حالات زندگی اور آپ کی پاکیزگی سے آگاہ ہو جائے.اور کسی کو آپ کے متعلق زبان درازی کرنے کی جرات نہ رہے جب کوئی حملہ کرتا ہے تو یہی سمجھ کر کہ دفاع کرنے والا کوئی نہ ہو گا.واقف کے سامنے اس لئے کوئی حملہ نہیں کر تاکہ وہ دفاع کر دے گا.پس سارے ہندوستان کے مسلمانوں اور غیر مسلموں کو رسول کریم کی پاکیزہ زندگی سے واقف کرنا ہمارا فرض ہے اور اس کے لئے بہترین طریق یہی ہے کہ رسول کریم ﷺ کی زندگی کے اہم شعبوں کو لے لیا جائے.اور ہر سال خاص انتظام کے ماتحت سارے ہندوستان میں ایک ہی دن ان پر روشنی ڈالی جائے.تاکہ سارے ملک میں شور مچ جائے اور غافل لوگ بیدار ہو جائیں ".نیز فرمایا : "آنحضرت ﷺ ان وجودوں میں سے ہیں جن کے متعلق کسی شاعر نے کہا ہے کہ ع آفتاب آمد دلیل آفتاب سورج کے چڑھنے کی دلیل کیا ہے ؟ یہ کہ سورج چڑھا ہوا ہے کوئی پوچھے اس بات کی کیا دلیل ہے کہ سورج چڑھا ہوا ہے تو اسے کہا جائے گا.دیکھ لو سورج چڑھا ہوا ہے.تو کئی ایسے وجود ہوتے ہیں کہ ان کی ذات ہی ان کا ثبوت ہوتی ہے اور رسول کریم ﷺ کی ذات ستودہ صفات انہی وجودوں میں سے ہے بلکہ یہ کہنا چاہیئے کہ اس وقت تک جو انسان پیدا ہوئے یا آئندہ پیدا ہوں گے وہ سب کے سب رسول کریم ان سے نیچے ہیں اور آپ سب پر فوقیت رکھتے ہیں ایسے انسان کی زندگی پر اگر کوئی اعتراض کرتا ہے تو اس کی زندگی کو بگاڑ کر ہی کر سکتا ہے اور بگاڑے ہوئے حالات سے وہی متاثر ہو سکتا ہے جسے صحیح حالات کا علم نہ ہو.رسول کریم ﷺ کی ذات پر اسی طرح حملے کئے جاتے ہیں.....ایسے حملوں کے اندفاع کا بہترین طریق یہ نہیں ہے کہ ان کا جواب دیا جائے بلکہ یہ ہے کہ ہم لوگوں کو توجہ دلائیں کہ وہ رسول کریم ﷺ کے حالات خود پڑھیں اور ان سے صحیح طور پر واقفیت حاصل کریں.جب وہ آپ کے حالات پڑھیں گے تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ آپ کی ذات نور ہی نور ہے اور اس ذات پر اعتراض کرنے والا خود اندھا ہے " - 1 وسیع سیکیم اس اہم قومی ولی مقصد کی تکمیل کے لئے آپ نے ایک وسیع پروگرام تجویز فرمایا جس کے اہم پہلو مندرجہ ذیل تھے : اول : ہر سال آنحضرت ﷺ کی مقدس سوانح میں سے بعض اہم پہلوؤں کو منتخب کر کے ان
تاریخ احمدیت.31 خلافت پر خاص طور سے روشنی ڈالی جائے.۱۹۲۸ء کے پہلے "سیرت النبی کے جلسے کے لئے آپ نے تین عنوانات تجویز فرمائے.(۱) رسول کریم ﷺ کی بنی نوع انسان کے لئے قربانیاں.(۲) رسول کریم کی پاکیزہ زندگی (۳) رسول کریم ﷺ کے دنیا پر احسانات دوم : ان مضامین پر لیکچر دینے کے لئے آپ نے سالانہ جلسہ ۱۹۲۷ء پر ایسے ایک ہزار فدائیوں کا مطالبہ کیا.جو لیکچر دینے کے لئے آگے آئیں تا انہیں مضامین کی تیاری کے لئے ہدایات دی جاسکیں اور وہ لیکچروں کے لئے تیار کئے جاسکیں.جلسوں کے اثرات سے قطع نظر صرف یہی بہت بڑا اور غیر معمولی کام تھا کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی سیرت پر روشنی ڈالنے والے ہزار لیکچرار تیار کر دیئے جائیں.سوم : سیرت النبی پر تقریر کرنے کے لئے آپ نے مسلمان ہونے کی شرط اڑا دی اور فرمایا رسول کریم اللہ کے احسانات سب دنیا پر ہیں اس لئے مسلمانوں کے علاوہ وہ لوگ جن کو ابھی تک یہ توفیق تو نہیں ملی کہ وہ رسول کریم ﷺ کے اس تعلق کو محسوس کر سکیں.جو آپ کو خداتعالی کے ساتھ تھا.مگر وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ آپ نے اپنی قربانیوں سے بنی نوع انسان پر بہت احسان کئے ہیں وہ بھی اپنے آپ کو پیش کر سکتے ہیں ان کی زبانی رسول کریم ال کے احسانات کا ذکر زیادہ دلچسپ اور زیادہ پیارا معلوم ہو گا.پس اگر غیر مسلموں میں سے بھی کوئی اپنے آپ کو اس کام کے لئے پیش کریں گے تو انہیں شکریہ کے ساتھ قبول کیا جائے گا اور ان کی اس خدمت کی قدر کی جائے گی.چهارم : غیر مسلموں کو سیرت رسول" کے موضوع سے وابستگی کا شوق پیدا کرنے کے لئے یہ اعلان کیا گیا کہ جو غیر مسلم اصحاب ان جلسوں میں تقریریں کرنے کی تیاری کریں گے اور اپنے مضامین ارسال کریں گے ان میں سے اول دوم اور سوم پوزیشن حاصل کرنے والوں کو علی الترتیب سو پچاس اور پچیس روپے کے نقد انعامات بھی دیے جائیں گے.پیجم : حضور کے سامنے چونکہ "میلاد النبی" کے معروف رسمی اور بے اثر اور محدود جلسوں کے مخصوص اغراض کی بجائے "سیرت النبی" کے خالص علمی اور ہمہ گیر جلسوں کا تصور تھا اس لئے آپ نے ان کے انعقاد کے لئے ۱۲ / ربیع الاول کے دن کی بجائے ( جو عموماً ولادت نبوی کی تاریخ تسلیم کی جاتی ہے) دوسرے دنوں کو زیادہ مناسب قرار دیا.چنانچہ ۱۹۲۸ء میں آپ نے یکم محرم ۱۳۴۷ھ بمطابق ۱۲۰ جون کو یوم سیرت منانے کا اعلان کیا.جسے شیعہ فرقہ کے مسلمانوں کی بآسانی شمولیت کے پیش نظر۱۷/ جون میں تبدیل کر دیا.حضور نے اس عظیم الشان پروگرام کے شایان شان جماعت احمدیہ اور دوسرے مسلمانوں کو
تاریخ احمدیت جلد ۵ 32 لافت ثانیہ کا پندرھواں سال تیاری کرنے کی طرف بار بار توجہ دلائی اور اس بارے میں کئی اہم مشورے دیئے مثلا اصل جلسوں کی اہمیت بتانے کے لئے مختلف موقعوں پر مختلف محلوں میں جلسے کریں ، جلسہ کی صدارت کے لئے بار سوخ اور سر بر آوردہ لوگ منتخب کئے جائیں جلسہ گاہ کا ابھی سے مناسب انتظام کرلیں.اسی طرح جلسہ کے لئے منادی اور اعلان کے متعلق ابھی سے تیاری شروع کر دیں.اور یہ ذمہ اٹھا ئیں کہ وہ اپنے ماحول میں دو دو تین تین گاؤں میں جلسے منعقد کرائیں گے.لیکچراروں کی فراہمی کا مسئلہ اس ضمن میں مشکل ترین کام یہ تھا کہ ملک کے عرض و طول : میں تقریر کرنے والے ایک ہزار لیکچرار کیا اور تیار کئے RA جائیں.شروع شروع میں یہ کام حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کے سپرد فرمایا مگر ۱۴/ مارچ ۱۹۲۸ء کو اس کی نگرانی صیغہ ترقی اسلام کے سیکرٹری چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم.اے کے سپرد فرما دی.حضرت چوہدری صاحب نے مالکانہ تحریک کی طرح اس معاملہ میں بھی انتہائی مستعدی فرض شناسی اور فدائیت کا ثبوت دیا اور زبر دست سعی وجد وجہد سے ہزار سے زیادہ یعنی چودہ سو انیس لیکچرار فراہم ہو گئے یہ لیکچرار وہ تھے.جن کے نام رجسٹر میں درج تھے ورنہ ۱۷ / جون کے مقررین تعداد میں اس سے بھی بہت زیادہ.یہاں زیادہ مناسب ہو گا.کہ چوہدری صاحب کے قلم سے ان مخلصانہ مسائی کا نقشہ پیش کر دیا جائے.فرماتے ہیں : 1 / مارچ کو میں نے یہ کام اپنے ہاتھ میں لے کر مبلغین میں سے ایک صاحب کو اس کام کے لئے فارغ کر دیا.جس کے ساتھ عملہ دفتر دعوۃ و تبلیغ بھی بطور معاون کام کرتا رہا.لیکچرار مہیا کرنے کے لئے اسلامی انجمنوں ، اسلامیہ سکولوں ائمہ مساجد علماء و سجادہ نشینان ممبران ترقی اسلام ایڈیٹران اخبارات ، ممبران لیجسلیٹو کونسلز و اسمبلی اور ہندو معززین و تھیو سائیکل سوسائٹیوں سے خط وکتابت کی گئی اور اس کے علاوہ متعدد اسلامی اخبارات میں پے در پے تحریکات شائع کرنے کے ساتھ صوبجات بنگال، مدراس اور بمبئی کی انگریزی اخبارات میں لیکچرار مہیا کرنے کے لئے اجرت پر اشتہارات دیئے گئے.ہندوستان کے علاوہ ممالک خارجہ انگلینڈ نائجیریا گولڈ کوسٹ نیروبی و دیگر حصص افریقہ اور شام ، ماریشس ، ایران ، سماٹرا، آسٹریلیا میں بھی مبلغین اور بعض دیگر احباب کو بھی خطوط لکھے گئے.۱۷ جون کے جلسہ سے چند دن قبل حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا رقم فرمودہ ایک پوسٹر ۱۵ ہزار کی تعداد میں چھپوا کر ہندوستان کے تمام حصوں میں بھیجا گیا جس میں مسلمانوں کو ہر جگہ ۱۷ جون کے دن جلسہ کرنے کی تحریک کی گئی.ہمارا مطالبہ تمام ہندوستان سے ایک ہزار لیکچرار مہیا کرنے کا تھا.لیکن اللہ تعالی کے
تاریخ احمدیت جلد ۵ 33 خلافت ثانیہ کا پندرھواں سال فضل سے ۱۶ / جون کو ممالک خارجہ اور ہندوستان کے لیکچراروں کی تعداد درج رجسٹر ۱۴۱۹ تھی.منویا مطالبہ سے ۴۱۹ زیادہ لیکچرار تھے.اور پھر خصوصیت اس میں یہ تھی کہ مختلف علاقوں سے ہمیں ۲۵ غیر مسلم لیکچرار اصحاب کے نام ملے.اگر چہ ۱۷ / جون کے دن غیر مسلم لیکچراروں کی تعداد اس سے بہت زیادہ تھی جو بر وقت مقامی طور پر جلسوں میں بخوشی حصہ لینے کے لئے تیار ہو گئے.غرض لیکچراروں کے حصول میں ہمیں امید سے بڑھ کر کامیابی ہوئی " 44- لیکچراروں کی رہنمائی کے لئے جہاں تک لیکچراروں کو مواد فراہم کرنے کا تعلق مفصل نوٹوں کی طباعت اور الفضل تھا اس کے لئے حضرت چوہدری صاحب نے یہ انتظام فرمایا کہ مجوزہ مضامین کے متعلق مفصل کے "خاتم النبیین نمبر کی اشاعت نوٹ تیار کرائے اور وہ پانچ ہزار کی تعداد میں طبع کرا کے لیکچراروں کو بھیجوا دئیے.جس سے ان کو بہت مدد ملی.علاوہ بریں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر ادارہ " الفضل " نے پانچ روز قبل ۱۲/ جون ۱۹۲۸ء کو ۷۲ صفحات پر مشتمل نهایت شاندار.خاتم انسین نمبر " شائع کیا جس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی اور دوسرے ممتاز بزرگان احمدیت و علماء سلسلہ اور احمدی مستورات 7 کے علاوہ بعض مشہور غیر احمد کی زعماء اور غیر مسلم اصحاب کے نہایت بلند پایہ مضامین تھے.آنحضر الله کی شان اقدس میں متعدد نعتیں بھی شامل اشاعت تھیں جن میں سے حضرت میر محمد اسماعیل صاحب کا ” سلام بحضور سید الا نام " اور حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی نظم بعنوان "پاک محمد مصطفیٰ نبیوں کا سردار " کو اپنوں اور بیگانوں میں بے حد مقبولیت حاصل ہوئی." خاتم التنسین نمبر سات ہزار چھاپا گیا.جو چند روز میں ختم ہو گیا اور دوستوں کے اشتیاق پر دوبارہ شائع کیا گیا.یہ تحریک تمام اقوام تحریک سے متعلق عجیب و غریب غلط فہمیاں پھیلانے کی کوشش ہار کے لئے مون عالم عموماً اور مسلمانوں کے لئے نہایت مفید و با برکت تحریک تھی.لیکن تعجب اور افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض مسلم حلقوں میں شروع ہی سے اس کی مخالفت میں آواز اٹھائی گئی اور اس کے متعلق عجیب و غریب اعتراضات کئے گئے مثلاً بعض نے کہا یہ تحریک حکومت کے منشاء کے تحت اور حکومت سے تعاون کرنے کی تلقین کے لئے کی گئی ہے.یہ بھی کہا گیا کہ ان جلسوں میں چندہ جمع کیا جائے گا.بعض نے کہا کہ احمدی اس طرح اپنے عقائد کی تبلیغ کرنا چاہتے ہیں اور یہ تحریک خود غرضی پر مبنی ہے.ایک سوال یہ اٹھایا گیا کہ مذہبی معاملہ میں غیر مسلم کیوں شریک کئے گئے.
تاریخ احمدیت - مجلد ۵ 34 لافت عثمانیہ کا بندر مخالفت کرنے والی جماعتوں میں سے احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور ، خلافت کمیٹی اور مسلم اخبارات میں سے اخبار ”پیغام صلح اور اخبار ”زمیندار“ نے تحریک کو ناکام بنانے کی ہر ممکن کوشش کی خلافت کمیٹی کے ساتھ تعلق رکھنے والے لوگوں نے تو آخر ملک اور عام پبلک کارجحان اس تحریک کی طرف دیکھ کر اس سے عدم تعاون کی پالیسی ترک کر دی (سوائے چند جگہوں کے) لیکن احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے امیر اور اخبار "پیغام صلح و "زمیندار" نے آخر دم تک مخالفت جاری رکھی.حتی کہ ۱۷ جون سے پہلے اور عین اس دن اکثر مقامات پر اس قسم کی تحریریں چھپوا کر شائع کیں جن کا نہایت برا اثر پڑ سکتا تھا.لیکن اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سیرت النبی کے کامیاب جلسوں کا روح پرور نظارہ اس عظیم الشان ہم کے پیچھے کام کر رہی تھی اس لئے یہ تمام کوششیں اکارت گئیں اور ہندوستان کے عرض و طول میں ۱۷/ جون کو نهایت تزک و احتشام سے یوم سیرت النبی منایا گیا.اور نہایت شاندار جلسے منعقد کئے گئے.اور ایک ہی سٹیج پر ہر فرقہ کے مسلمانوں نے سیرت رسول پر اپنے دلی جذبات عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے تقریریں کیں.چنانچہ متعدد مقامی احمدیوں نے لیکچر دیے مرکز سے قریباً پچاس کے قریب لیکچرار ملک کے مختلف جلسوں میں شامل ہوئے.بعض ممتاز احمدی مقررین کے نام یہ ہیں: حضرت میر محمد اسحاق صاحب مولوی ابو العطاء صاحب جالندھری - III مولوی محمد یار صاحب عارف چوہدری ظفر اللہ خان صاحب حضرت حافظ روشن علی صاحب شیخ محمود احمد صاحب عرفانی، قریشی محمد نذیر صاحب ملتانی - ملک عبدالرحمن صاحب خادم حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیر حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق پروفیسر عبد القادر صاحب ایم.اے اسلامیہ کالج کلکتہ.شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہو ر - حضرت میر قاسم علی صاحب ایڈیٹر " فاروق " قادیان - مرزا عبد الحق صاحب پلیڈ ر گورداسپور مولوی محمد صادق صاحب مولوی کرم داد صاحب دوالمیال - مولوی غلام احمد صاحب مولوی فاضل - مولوی ظل الرحمن صاحب بنگالی.قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری، حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب ، حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہجہانپوری.مولوی ابو البشارت عبد الغفور صاحب مولوی فاضل - ڈاکٹر شفیع احمد ایڈیٹر اخبار " زلزلہ " دہلی.حضرت پیر حراج الحق صاحب نعمانی - مولوی ظہور حسین صاحب حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم.مولوی محمد یعقوب صاحب طاہر.قریشی محمد حنیف صاحب اڑیسہ دوسرے مسلمانوں میں سے تقریر کرنے والوں یا نظم پڑھنے والوں یا صدارت کرنے والوں میں
خلافت ثانیہ کا پند ربیت - جلد ۵ 35 کئی نمایاں شخصیتیں شامل تھیں.مثلاً ابو الاثر حفیظ صاحب جالندھری، مولوی مرزا احمد علی صاحب امرت سری ، مولوی عبدالمجید صاحب قرشی اسٹنٹ ایڈیٹر " تنظیم " امرت سر مولوی صبغتہ اللہ صاحب فرنگی محل لکھنو.شاہ سلیمان صاحب پھلواری - شمس العلماء سید سبط حسن صاحب- سید حبیب صاحب مدیر ”سیاست " لاہور - مولوی محمد بخش صاحب مسلم بی.اے لاہور - سید معین الدین صاحب صدر الصدور امور مذہبی سرکار آصفیه حیدر آباد دکن.شیخ عبد القادر صاحب ایم.اے: خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی.نواب ذوالقدر جنگ بہادر ہوم سیکرٹری ریاست حیدر آباد دکن - خان بهادر مخدوم سید صدرالدین صاحب ملتان.نواب سر عمر حیات خاں صاحب ٹوانہ - نواب صدر یار جنگ ناظم امور مذهبیه ریاست حیدر آباد - خواجہ سجاد حسین صاحب بی.اے (خلف شمس العلماء مولوی الطاف حسین صاحب حالی) مسٹر محمود سهروردی صاحب ممبر کو نسل آف اسٹیٹ دہلی.مسلمانوں کے علاوہ ہندو، سکھ، عیسائی، جینی اصحاب نے بھی آنحضرت ا کی پاکیزہ سیرت بیش بہا قربانیوں اور عدیم النظیر احسانات کا ذکر کیا.اور نہ صرف ان جلسوں میں بخوشی شامل ہوئے بلکہ کئی مقامات پر انہوں نے ان کے انعقاد میں بڑی مدد بھی دی.جلسہ گاہ کے لئے اپنے مکانات دیئے، ضروری سامان مہیا کیا سامعین کی شربت وغیرہ سے خدمت کی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بڑے بڑے معزز اور مشہور لیڈروں نے جلسوں میں شامل ہو کر تقریریں کیں چنانچہ لاہور کے جلسہ میں لالہ بهاری لال صاحب انند ایم اے پروفیسر دیال سنگھ کالج اور لالہ امرنا تھ صاحب چوپڑہ بی.اے ایل ایل.بی نے دہلی کے جلسہ میں رائے بہادر لالہ پارس داس آنریری مجسٹریٹ اور لالہ گردھاری لال صاحب نے انبالہ میں مشہور کا نگریسی لیڈر لالہ دنی چند صاحب بی.اے.ایل ایل بی نے تقاریر کیں مسٹرایس کے بھٹہ چارجی نے سید پور (بنگال) کے جلسہ کی اور مشہور لیڈر مسٹرایس جے ہر دیال ناگ نے چاند پور کے جلسوں کی صدارت کی.بابو بنکا چند رسین صاحب بابو یمیتار سینا بھوش صاحب ، بابو للت موہن صاحبان برہمن بڑیہ کے جلسہ میں شریک ہوئے.بنگال کے معزز لیڈر سرپی سی رائے صاحب کلکتہ کے جلسہ کے صدر تھے.اور ڈاکٹر ایچ ڈبلیو بی مانرو (یا مورنیو) صاحب اینگلو انڈین کمیونٹی کے مشہور لیڈر بنگال کے لیڈ ر بابو بین چند ریال صاحب ID مشہور بنگالی مقرر مسز نیرا بھر د بھا چکر اور تی صاحب نے کلکتہ کے جلسہ میں بہت دلچسپ تقریریں کیں.رنگپور کے جلسہ میں بد ہن را نجھر لاہری ایم.اے بی ایل صاحب ( مشہور اور بنگالی لیکچرار) نے ایک فصیح تقریر کی.مدراس میں وہاں کے مشہور اخبار جسٹس کے قابل ایڈیٹر صاحب نے جلسہ کی صدارت کی اور نہایت پر زور تقریر کی.بانکی پور کے سٹرپی کے سین صاحب بیرسٹر سابق حج ہائیکورٹ پٹنہ اور بابو بلد یو سمائے صاحب ممبر لیجسلیٹو کونسل نے
تاریخ احمدیت.جلده 36 خلافت ثانیہ کا پندرھواں سال تقریریں کیں.بھاگلپور میں مشہور ہندو لیڈر بابو اننت پر شار صاحب وکیل نے جلسہ کی صدارت کی.امراؤ تی میں آنریبل سرجی ایس کھپارڈے صاحب ممبر کو نسل آف ٹیسٹ کی صدارت میں جلسہ منعقد ہوا.بنگلور میں مسٹر کے سیمپت گری راؤ صاحب ایم اے نے تقریر کی.حیدر آباد دکن کے جلسہ کے لئے راجہ سرکرشن پر شاد صاحب نے نعتیں بھیجیں ، بہاؤ نگر کاٹھیاواڑ کے جلسہ میں جناب کیپل رائے صاحب بی.اے بی ٹی نے تقریر کی جو کاٹھیاواڑ میں ایک ممتاز علمی حیثیت رکھتے تھے.ان کے علاوہ سینکڑوں غیر مسلم معززین اور غیر مسلم تعلیم یافتہ خواتین بھی جلسوں میں شریک ہوئیں.اور دنیا کے سب سے بڑے محسن سب سے بڑے پاکباز اور سب سے بڑے ہمدرد کے متعلق اپنی عقیدت اور اخلاص کا اظہار کیا.یہ ایسا روح پر در نظارہ تھا جو اس سے قبل کبھی دیکھنے میں نہیں آیا.اور جس کی یاد دیکھنے والوں کے ذہن میں آج بھی تازہ ہے.ہندوستان کے علاوہ سماٹرا، آسٹریلیا، سیلون، ماریشس ، ایران، عراق، عرب، دمشق (شام) حیفا (فلسطین) گولڈ کوسٹ (غانا) نائجیریا ، جنجہ ممباسہ (مشرقی افریقہ) اور لندن میں بھی سیرت النبی کے جلسے ہوئے.اس طرح خدا کے فضل سے عالمگیر پلیٹ فارم سے آنحضرت ﷺ کی شان میں محبت و عقیدت کے ترانے گائے گئے اور چین کے مشہور صوفی حضرت محی الدین ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ کی اس پیشگوئی کا ایک پہلو کہ آنحضرت کے مقام محمود کا ظہور حضرت امام مہدی کے ذریعہ سے ہوگا.امام مہدی کے خلیفہ بر حق کے زمانہ میں (جس کا نام خدائے ذو العرش نے محمود رکھا تھا) پوری ہو گئی و لعل الله يحدث بعد ذالك امراء 112 جلسوں کی کامیابی پر تبصرے DON مجالس سیرت النبی" کی کامیابی ایسے شاندار رنگ میں ہوئی کہ بڑے بڑے لیڈر دنگ رہ گئے اور اخباروں نے اس پر بڑے عمدہ تبصرے شائع کئے.اور اس کی غیر معمولی کامیابی پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کو مبارکباد دی مثلا: اخبار مشرق - اخبار مشرق گورکھپور (۲۱ / جون ۱۹۲۸ء) نے لکھا: ”ہندوستان میں یہ تاریخ ہمیشہ زندہ رہے گی.اس لئے کہ اس تاریخ میں اعلیٰ حضرت آقائے دو جہاں سردار کون و مکان محمد رسول اللہ اللہ کا ذکر خیر کسی نہ کسی پیرایہ میں مسلمانوں کے ہر فرقہ نے کیا.اور ہر شہر میں یہ کوشش کی گئی کہ اول درجے پر ہمار اشہر رہے جن اصحاب نے اس موقعہ پر تفرقه و فتنه پردازی کے لئے پوسٹر لکھے اور تقریریں لکھ کر ہمارے پاس بھیجیں وہ بہت احمق ہیں جو ہمارے عقیدے سے واقف نہیں ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ جو شخص لا اله الا الله محمد رسول اللہ پر
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 37 خلافت عثمانیہ کا پندرھواں سال ایمان رکھے وہ ناجی ہے بہر حال ۱۷ جون کو جلسے کی کامیابی پر ہم امام جماعت احمد یہ جناب مرزا محمود احمد کو مبارکباد دیتے ہیں اگر شیعہ و سنی اور احمدی اسی طرح سال بھر میں دود چار مرتبہ ایک جگہ جمع ہو جایا کریں گے تو پھر کوئی قوت اسلام کا مقابلہ اس ملک میں نہیں کر سکتی ".اخبار "مخبر" (اودھ) ۲ " مخبر " اودھ نے انسان اعظم حضرت رسول اکرم ﷺ کی سیرت پر شاندار لیکچر " اور " ہندوستان میں جلسے " کے دوہرے عنوان سے ایک مفصل مضمون شائع کیا.جس میں لکھا : دور حاضرہ کے مسلمانوں میں جماعت احمدیہ ایک پر جوش جماعت ہے جس کے زبردست لیکچروں کی آواز یورپ سے امریکہ تک گونج رہی ہے اور یہ ہر موقع پر معترضین اسلام کی تسلی کرنے کو آمادہ رہی ہے اس طبقہ نے بحث و مباحثہ کے ضمن میں بہترین خدمات انجام دیئے ہیں اور علم کلام میں جو عظیم الشان تبدیلیاں پیدا کی ہیں ان سے کسی انصاف پسند کو انکار نہیں.کچھ دنوں سے غیر اقوام کے مقررین اور جرائد و رسائل نے یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ وہ حضرت نبی کریم ﷺ کے متعلق اپنے جلسوں میں ایسے حالات بیان کرتے ہیں جن کا مستند تواریخ میں پتہ نہیں اور اپنے اخبارات میں ان غلط روایات پر الٹی سیدھی رائے زنی کرتے ہیں جن سے سیرت نبوی کا لٹریچر نا آشنا ہے جماعت احمدیہ نے اس بات کا بیڑہ اٹھایا کہ ۱۷ / جون کو ہندوستان کے ہر حصہ میں مسلمانوں کے عام جلسے کئے جائیں.جن میں آنحضرت کی سیرت مبارک پر شاندار لیکچروں کا سلسلہ شروع ہوا اور اس میں نہ صرف ہر فرقہ اسلامیہ کے ممتاز افراد شریک ہوں بلکہ غیر مذاہب کے اشخاص کو بھی دعوت دی جائے.......۱۷ جون کو ہندوستان کے مشہور مقامات پر جماعت احمدیہ کے زیر اہتمام شاندار جلسے ہوئے کلکتہ کے جلسہ میں اینگلو انڈین طبقہ کے معزز ممبر ڈاکٹر موریو صاحب نے شریک ہو کر اس کے اغراض پر شادمانی کا اظہار کیا.بابو بین چند رپال نے بھی اپنی تقریر میں اس کے مقاصد کو بہترین قرار دیا اور وعدہ کیا کہ وہ اسے کامیاب بنانے میں کوشاں ہوں گے.لاہور میں سر عبد القادر صاحب کے زیر صدارت جلسہ ہوا جس میں پروفیسر بہاری لال اور لالہ امرنا تھ صاحب ایڈووکیٹ نے آنحضرت کی خوبیاں بیان کیں.اگر برادران وطن ای طرح اسلامی جلسوں میں پیغمبر اسلام کے کمالات اور پاک زندگی کی فضیلت ظاہر کرتے رہے تو جملہ مذاہب میں لگا نگت پیدا ہو جائے گی " اخبار "سلطان" کلکته - کلکتہ کے ایک بنگالی اخبار " سلطان " (۲۱ / جون نے لکھا: جماعت احمدیہ نے ۱۷ / جون کو رسول کریم ﷺ کی سیرت بیان کرنے کے لئے ہندوستان بھر
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 38 خلافت ماشیہ کا پند میں جلسے منعقد کئے ہمیں اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ تقریباً سب جگہ کامیاب جلسے ہوئے اور یہ تو ایک حقیقت ہے کہ اس نواح میں احمدیوں کو ایسی عظیم الشان کامیابی ہوئی ہے کہ اس سے قبل کبھی نہیں ہوئی اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت احمد یہ روز بروز طاقتور ہو رہی ہے.اور لوگوں کے دنوں میں جگہ حاصل کر رہی ہے ہم خود بھی ان کی طاقت کا اعتراف کرتے ہیں اور ان کی کامیابی کے متمنی ہیں ".اخبار "کشمیری لاہور -۴- اخبار "کشمیری " لاہور (۲۸ / جون ۱۹۲۸ء) نے " ۱۷ / جون کی شام" کے عنوان سے یہ تبصرہ شائع کیا: مرزا بشیر الدین محمود احمد جماعت احمدیہ قادیان کے خلیفتہ المسیح کی یہ تجویز کہ ۱۷ جون کو انحضرت ﷺ کی پاک سیرت پر ہندوستان کے گوشہ گوشہ میں لیکچر اور وعظ کئے جائیں باوجود اختلافات عقائد کے نہ صرف مسلمانوں میں مقبول ہوئی بلکہ بے تعصب امن پسند صلح جو غیر مسلم اصحاب نے ۱۷/ جون کے جلسوں میں عملی طور پر حصہ لے کر اپنی پسندیدگی کا اظہار فرمایا.۱۷ جون کی شام کیسی مبارک شام تھی کہ ہندوستان کے ایک ہزار سے زیادہ مقامات پر به یک وقت و به یک ساعت ہمارے برگزیدہ رسول کی حیات اقدس ان کی عظمت ان کے احسانات و اخلاق اور ان کی سبق آموز تعلیم پر ہندو مسلمان اور سکھ اپنے اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے.اگر اس قسم کے لیکچروں کا سلسلہ برابر جاری رکھا جائے تو مذہبی تنازعات و فسادات کا فوراً انسداد ہو جائے.۱۷ جون کی شام صاحبان بصیرت و بصارت کے لئے اتحاد بین الا قوام کا بنیادی پتھر تھی ہندو اور سکھ مسلمانوں کے پیارے نبی کے اخلاق بیان کر کے ان کو ایک عظیم الشان ہستی اور کامل انسان ثابت کر رہے تھے.بلکہ بعض ہندو لیکچرار تو بعض منہ پھٹ معترضین کے اعتراضات کا جواب بھی بدلائل قاطع دے رہے تھے.آریہ صاحبان عام طور پر نفاق و فساد کے بانی بتائے جاتے ہیں اور سب سے زیادہ یہی گروہ آنحضرت ا کی مقدس زندگی پر اعتراض کیا کرتا ہے.لیکن ۱۷ / جون کی شام کو پانی پت انبالہ اور بعض اور مقامات میں چند ایک آریہ اصحاب نے ہی حضور کی پاک زندگی کے مقدس مقاصد پر دل نشین تقریریں کر کے بتا دیا.کہ اس فرقہ میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو دو سرے مذاہب کے بزرگوں کا ادب و احترام اور ان کی تعلیمات کے فوائد کا اعتراف کر کے اپنی بے تعصبی اور امن پسندی کا ثبوت دے سکتے ہیں.۱۷ جون کی مبارک شام کو جن مقامات پر ہندو اور سکھ اصحاب نے ہمارے رسول پاک ایلاتی
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 39 خلافت عثمانیہ کا پندرھو کی شان میں نعتیں پڑھیں یا جلسوں کی صدارت کی یا اہل جلسہ کے لئے شربت کی سبیلیں لگا ئیں یا اپنی تقریروں میں آنحضرت ﷺ کو ان کی پاکیزہ تعلیم اور ان کے اعلیٰ اخلاق و فضائل کی وجہ سے دنیا کا سب سے بڑا محسن ظاہر کیا.ان میں مقامات ذیل خاص طور پر قابل ذکر ہیں.مردان پانی پت ، بہاؤ نگر مونگیر، حیدر آباد دکن ، لاہور امرت سر دہلی کبیر والا (ملتان)) قلعه شب قدر (سرحد) میانی ، ڈیرہ et دون بانکی پور - سرام گورداسپور کھاریاں امراوتی دھرگ (سیالکوٹ) دھرم کوٹ بگه " "اردو اخبار ناگپور ۵- "اردو اخبار " ناگپور (۵ / جولائی ۱۹۲۸ء) نے " جماعت احمدیہ کی قابل قدر خدمات " کی سرخی دے کر مندرجہ ذیل نوٹ لکھا : جماعت احمد یہ ایک عرصہ سے جس سرگرمی سے اسلامی خدمات بجالا رہی ہے وہ اپنے زریں کارناموں کی بدولت محتاج بیان نہیں ہے یورپ کے اکثر ممالک میں جس عمدگی کے ساتھ اس نے تبلیغی خدمات انجام دیں اور دے رہی ہے سچ یہ ہے کہ یہ اسی کا کام ہے پچھلے دنوں جبکہ یکایک شدھی کا ایک طوفان عظیم امنڈ آیا تھا.اور جس نے ایک دو آدمیوں کو نہیں بلکہ گاؤں کے گاؤں مسلمانوں کو متاثر بنا کر مرتد کر لیا تھا.یہی ایک جماعت تھی جس نے سب سے پہلے سینہ سپر ہو کر اس کا مقابلہ کیا اور وہ کچھ خدمات انجام دیں اور کامیابی حاصل کی کہ دشمنان اسلام انگشت بدنداں رہ گئے.اور ان کے بڑھے ہوئے حوصلے پست ہو گئے.یہ مبالغہ نہیں بلکہ واقع ہے کہ جس ایثار و انہماک سے یہ مختصری جماعت اسلام کی خدمت انجام دے رہی ہے وہ اپنی نظیر آپ ہے اور بلاشبہ اس کے یہ تمام کارنامے تاریخی صفحات پر آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں پچھلے دنوں اس کی یہ تحریک کہ حضور سرور کائنات ال کی سیرت پر ۱۷ جون کو ہندوستان کے ہر مقام پر عام مجمع میں جس میں مسلم و غیر مسلم دونوں شامل ہوں تقریریں کی جائیں اور جس کے لئے اس نے صرف تحریک ہی پیش نہیں کی بلکہ صد ہارو پے بھی خرچ کر کے مقررین کے لئے ہزارہا کی تعداد میں لیکچر ز طبع کرا کر مفت تقسیم کئے.اور جس کا اثر یہ ہوا کہ 17- جون کو مسلم اور غیر مسلم دونوں جماعتوں نے شاندار جلسے کر کے سیرت نبوی پر کمال حسن و خوبی سے اظہار خیالات کئے ہمارا تو خیال ہے کہ اگر اس تحریک پر آئندہ بھی برابر عمل کیا گیا تو یقیناوہ ناپاک حملے جو آج برابر غیر مسلم اقوام ذات فخر موجودات پر کرتی رہتی ہیں ہمیشہ کے لئے مٹ جائیں گے.اور وہ ناگوار واقعات جو آئے دن پیش آتے رہتے ہیں اس مبارک تحریک کی بدولت نیست و نابود ہو جائیں گے...ہم اس شاندار کامیابی پر حضرت امام جماعت احمدیہ مد ظلہ کی خدمت میں دلی مبارکباد پیش کرتے ہیں.اور یقین دلاتے ہیں کہ آپ کی اس مبارک تحریک نے مسلمانوں کے قدیم فرقوں کو ایک مرکز پر کھڑا کر کے اتحاد کا عجیب و غریب سبق دیا ہے "
40 A تاریخ اخبار ” پیشوا" دہلی - اخبار پیشوا دیلی (۸ / جولائی ۱۹۲۸ء) نے ۱۷ / جون کے جلسوں کی کامیابی پر خوشی اور اس کے مخالفین پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لکھا: ۱۷ جون کو قادیانی جماعت کے زیر اہتمام تمام ہندوستان میں فخر کائنات کی سیرت پر ہندوستان کے ہر خیال اور ہر طبقہ کے باشندوں نے لیکچر دئیے اور خوشی کا مقام ہے کہ مسلمان اخبارات نے سوائے زمیندار اور الجمعیت اور الانصار کے متفقہ طور سے ان جلسوں کی کامیابی میں حصہ لیا.مگر افسوس کہ علماء دیوبند نے ذکر رسول کی مخالفت اس لئے کی کہ ان کو قادیانی عقائد سے اختلاف ہے".۱۲۵ " حالانکہ مجھے ذاتی طور سے علم ہے کہ جناب مولانا کفایت اللہ صاحب سے (جو دیوبندی علماء میں بہت سمجھدار عالم مانے جاتے ہیں) جب ایک قادیانی بھائی نے دہلی کے جلسہ کی صدارت کے لئے درخواست کی اور مولانا نے انکار کیا تو انہی قادیانی بھائی نے عرض کیا کہ جناب ہم کو کافر سمجھ کر جلسہ کی صدارت اس طرح قبول کیجئے.کہ اپنے معتقدات کے خلاف کسی کو بولنے کی اجازت نہ دیجئے.کیا اس جلسہ میں جو ذکر رسالت پناہ کے لئے کوئی غیر مسلم کرے شریک نہ ہوں گے ؟ اس معقول درخواست کا جواب مفتی صاحب نے یہ دیا کہ میں آپ سے بحث نہیں کرنی چاہتا.اور نہ میں آپ کے جلسہ میں کسی حال میں شریک ہوں گا " - 1 " مجھے بے حد افسوس ہے کہ زمانہ نے ابھی علماء کی آنکھیں نہیں کھولیں اور ان کی تنگ نظری کی ذہنیت ابھی تبدیل نہیں ہوئی.قادیانی عقائد کا جہاں تک تعلق ہے میں ان کے ایک ایک حرف سے اختلاف رکھتا ہوں مگر کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا ہے کہ مسلمان سناتن دھرم ، جین دھرم بدھ دھرم اور خد ا معلوم کیا کیامت کے پیروؤں کو ہندو مسلھن کی تحریک میں جو خالص آریہ سماجی تحریک ہے مدغم دیکھ کر اپنے بھولے ہوئے سبق اتحاد بین المسلمین کو یاد کرنے کے لئے واعتصموا بحبل اللہ اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑیں.اور جزوی اختلافات کو پس پشت ڈال کر دشمنوں کو ناخوش اور دوستوں کو خوش کرنے کے لئے نہیں بلکہ عزت کی زندگی بسر کرنے کے لئے متحد ہو جائیں میرا خیال ہے کہ تعلیم یافتہ مسلمان معتقدات کی جزئیات سے آزاد ہو کر اتحاد اسلام کے لئے تیار ہیں مگر ملت اسلام کی اس زیر دست تنظیم میں خود پرست اور غرض مند ملا اسلام کی آڑ لے کر حارج ہوتے ہیں جن کو اسلامی تعلیم سے ذرہ برابر واسطہ نہیں اس لئے ضرورت ہے کہ غرض مند ملاؤں سے مسلمانوں کو بچایا جائے".
تاریخ احمدیت جلد ۵ 41 خلافت ثانیہ کا پندر جلسوں کے عظیم الشان فوائد سیرت النبی کے جلسوں نے ملک کے عرض و طول میں ایک اتحاد و اتفاق اور محبت و آشتی کی ایک نئی روح پھونک دی اور اس سے ملک کو کئی فوائد حاصل ہوئے.چنانچہ پہلا فائدہ : یہ ہوا کہ ہندوستان کے مختلف گوشوں کے ہزار ہا افراد نے وہ لٹریچر پڑھا جو آنحضرت کے مقدس حالات پر شائع کیا گیا تھا.دوسرا فائدہ : یہ ہوا کہ ممتاز غیر مسلموں نے جن میں ہندو سکھ عیسائی سب شامل تھے آنحضرت ﷺ کی خوبیوں کا علی الاعلان اقرار کیا.اور آپ کو محسن اعظم تسلیم کیا.تیسرا فائدہ یہ ہوا کہ بعض ہندو لیڈروں نے آنحضرت ا کی صرف تعریف و توصیف ہی نہیں کی.بلکہ ان پر آپ کے حالات سن کر اتنا اثر ہوا.کہ انہوں نے کہا ہم آپ کو نہ صرف خدا کا پیارا سمجھتے ہیں بلکہ سب سے بڑھ کر اعلیٰ انسان یقین کرتے ہیں کیونکہ آپ کی زندگی کا ایک ایک واقعہ محفوظ ہے مگر دوسرے مذہبی راہنماؤں کی زندگی کا کوئی پتہ نہیں لگتا.چوتھا فائدہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کے مختلف فرقوں کو ایک مشترک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کا موقعہ مل گیا اور ہر فرقہ کے لوگوں نے نہایت اخلاص اور جوش سے متحدہ طور پر ان جلسوں کو کامیاب بنانے کی کوشش کی.خصوصاً شیعہ اصحاب نے ہر جگہ اور ہر مقام پر جس طرح اتحاد عمل کا ثبوت دیا.وہ نہایت ہی قابل تعریف تھا.اہلسنت و الجماعت مسلمانوں نے بھی حتی الامکان پوری امداد دی اہلحدیث نے بھی ان کو کامیاب بنانے کی کوشش کی.سنی علماء میں سے فرنگی محل لکھنو کے علماء خاص طور پر قابل ذکر تھے.اگر چہ بعض مقامات پر بعض غلط فہمیوں کی وجہ سے مخالفت بھی ہوئی.لیکن اکثر مسلمانوں نے بہت شاندار خدمات سرانجام دیں.اور بعض جگہ تو ان کی مساعی اس قدر بڑھی ہوئی تھیں.کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہاں انہوں نے احمدیوں سے بھی زیادہ کام کیا.مثلاً امرت سر ، لکھنو، مدراس ، پٹنہ وغیرہ مقامات میں دوسرے فرقوں کے مسلمانوں نے جلسوں کو کامیاب بنانے میں نہایت قابل تعریف کام کیا.اور دہلی لاہور اور پشاور و غیرہ مقامات میں بھی بڑی امداد دی.پانچواں فائدہ : یہ ہوا کہ پبلک پر یہ بات کھل گئی کہ ہندوؤں کا ایک بڑا طبقہ بانی اسلام کے خلاف نا پاک لٹریچر کو سخت نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے.اور بانی اسلام کو دنیا کا بہت بڑا مصلح تسلیم کرتا ہے.چھٹا فائدہ یہ ہوا کہ بعض مقامات کے لوگوں نے لیکچروں کو اتنا مفید اور موثر پایا کہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ آئندہ پندرہ روزہ یا ماہواریا سہ ماہی یا ششماہی ایسے جلسے ہوا کریں.ایک جگہ ایک مسلمان
تاریخ احمدیت جلد ۵ 42 خلافت ثانیہ کا پندر رئیس نے کہا کہ آج تک ہم مسلمانوں کا ایمان رسول اللہ ا ی کی نسبت و ر ر ہ کا تھا اب آپ کے حالات زندگی سن کر ایمان کامل حاصل ہوا.بعض غیر مسلم اصحاب نے بھی کہا کہ " ہمیں علم نہ تھا کہ بانی اسلام میں ایسے کمالات ہیں اب معلوم ہوا ہے کہ وہ بے نظیر انسان تھے ".ساتواں فائدہ : ان جلسوں کا یہ ہوا کہ اس سے ملکی اتحاد پر نہایت خوشگوار اثر پڑا.اور یہ ایسی واضح حقیقت تھی کہ بعض مشہور مسلم و غیر مسلم لیڈروں نے اس کا اقرار کیا.چنانچہ سر شیخ عبد القادر صاحب نے لاہور کے جلسہ کی صدارتی تقریر میں حضرت امام جماعت احمد یہ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا حاضرین کی طرف سے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا.” یہ مبارک تحریک نہایت مفید ہے جس سے ہندوستان کی مختلف اقوام میں رواداری پیدا ہو کر باہمی دوستانہ تعلقات پیدا ہوں گے اور ملک میں امن و اتحاد پیدا کرنے کا ذریعہ بنیں گے.کلکتہ میں سرپی سی رائے صاحب نے بحیثیت صدر تقریر کرتے ہوئے کہا ایسے جلسے جیسا کہ یہ جلسہ ہے ہندوستان کی مختلف اقوام میں محبت اور اتحاد پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں.اسی طرح اینگلو انڈین کمیونٹی کے مشہور لیڈر ڈاکٹر ایچ بی مانروا صاحب نے کہا.” میں نے بار جود اپنی بے حد مصروفیتوں کے اس جلسہ میں آنا ضروری سمجھا کیونکہ اس قسم کے جلسے ہی اس اہم سوال کو جو اس وقت ہندوستان کے سامنے ہے (یعنی ملک کی مختلف اقوام میں اتحاد) صحیح طور پر حل کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں اور اسلام میں متحد کرنے کی طاقت ایک تاریخی بات ہے غرضکہ ہندو مسلم اور عیسائی لیڈروں نے تسلیم کیا کہ اقوام ہند میں اتحاد پیدا کرنے کے لئے اس قسم کے جلسے نہایت مفید ہیں.IPA- سیرت النبی کے شاندار جلسوں کی تفصیلات پر روشنی ڈالنے کے بعد مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بعض دوسرے امور کو جن کا ذکر ابھی تک اجمالی صورت میں آیا ہے مزید وضاحت کے ساتھ کر دیا جائے.قادیان میں جلسہ سیرت النبی اللہ " جماعت احمدیہ کا مرکز ہونے کی وجہ سے قادیان کا جلسہ اپنے اندر مرکزی شان رکھتا تھا.جس میں احمد ہی اصحاب کے علاوہ غیر احمدی مسلمان، ہندو، سکھ اور عیسائی لوگ بڑی کثرت سے شامل ہوئے جلسہ گاہ تعلیم الاسلام ہائی سکول کے سامنے کھلے میدان میں شامیانے نصب کر کے بنائی گئی.جس میں دلاویز قطعات آویزاں تھے اور جسے اچھی طرح سجایا گیا تھا عورتوں کے لئے تعلیم الاسلام ہائی سکول میں جلسہ کا علیحدہ انتظام تھا.جو حضرت امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کی صدارت میں بڑی کامیابی سے ہوا.شائع شدہ پروگرام کے مطابق صبح ایک جلوس مرتب کیا گیا جو قریبا دس پارٹیوں پر مشتمل تھا.غیر احمدی مسلمانوں کی الگ پارٹیاں تھیں اور.
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 43 خلافت مانیہ کا بند کر ایک پارٹی جاوی اور سماٹری طلبہ کی تھی جو حضرت مسیح موعود کا عربی نعتیہ کلام پڑھ رہی تھی باقی بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اردو نظمیں اور ہندو شعراء کی نعتیں پڑھ رہی تھیں.یہ شاندار جلوس ، بجے کے قریب تعلیم الاسلام ہائی سکول کے میدان سے روانہ ہوا.اور حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کی کوٹھی کے سامنے سے گذر کر دار العلوم کی سڑک پر سے ہو تا ہوا ہند و بازار میں آیا.اور چوک سے غربی جانب مڑکر اور دوسرے بازار سے ہوتا ہوا احمد یہ بازار میں پہنچا جلوس کی پارٹیاں نعتیہ اشعار اور درود خوش الحانی اور بلند آواز سے پڑھ رہی تھیں اس جلوس کا انتظام حضرت صاجزادہ مرزا شریف احمد صاحب کے زیر نگرانی مقامی سیکرٹری تبلیغ ملک فضل حسین صاحب مہاجر کے سپرد تھا.اور خاندان حضرت مسیح موعود کے دوسرے افراد اور بزرگ اس میں شامل تھے.جلوس محلہ دار الفضل والی سڑک کے راستہ جلسہ گاہ میں پہنچ کر ختم ہو گیا.جلسہ گاہ میں سب سے پہلے بچوں کا اجلاس ہوا جس کا صدر بھی ایک چھوٹا لڑ کا مقرر ہوا.اور جس میں پریذیڈنٹ کے علاوہ میں طلباء نے آنحضرت ﷺ کے وہ احسانات بیان کئے جو براہ راست بچوں سے تعلق رکھتے ہیں.بعض بچوں کی تقریروں سے خوش ہو کر حکیم محمد عمر صاحب نے نقد انعامات دیئے ایک بچہ نے جسے دو روپے انعام ملا تھا انعام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے یہ روپے ترقی اسلام کی مد میں دے دیئے.اس پر اسے ایک روپیہ اور انعام دیا گیا مگر اس نے وہ بھی اشاعت اسلام میں دے دیا.بچوں کے اجلاس کے بعد چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم.اے کی صدارت میں جامعہ احمدیہ مدرسہ احمدیہ اور ہائی سکول کے بڑے طلباء کی تقریریں ہوئیں.اور اجلاس کھانے اور نماز کے لئے برخاست ہوا.نماز ظہر کے بعد پھر اجلاس ہوا.جس میں جامعہ احمدیہ اور ہائی سکول کے ایک ایک طالب علم کی تقریروں کے بعد مشاعرہ ہوا.اور مقامی شعراء کی سات نظموں کے علاوہ ہندو شعراء کی دو نعتیں بھی خوش الحانی سے پڑھی گئیں مشاعرہ کے اختتام پر پہلے ڈاکٹر گور بخش سنگھ صاحب ممبر سمال ٹاؤن کمیٹی قاریان نے آنحضرت ا کی سیرت پر روشنی ڈالی اور پھر چوہدری فتح محمد صاحب سیال نے حضور کی سیرت مقدسہ کی خصوصیات بیان کیں اور اجلاس نماز عصر کے لئے ملتوی کر دیا گیا.ساڑھے پانچ بجے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی تقریر معارف تقریر " دنیا کا محسن" کے عنوان سے شروع ال ہوئی.اس تقریر میں حضور نے آنحضرت ا کی پاکیزہ سیرت ، بیش بہا احسانات اور عدیم المثال قربانیوں کا نہایت ہی مدلل پاکیزہ اور اچھوتے طرز میں ذکر فرمایا.اور دلائل و واقعات کی بناء پر ان
ریت - جلد 44 خلافت ثانیہ کا پندرھواں سال اعتراضوں کا بھی اصولی رنگ میں جواب دیا.جو حضور کی مقدس زندگی پر کئے جاتے ہیں.یہ تقریر آٹھ بجے ختم ہوئی.اور حضور نے دعا کے بعد جلسہ کا اختتام فرمایا.حضور کا یہ لیکچر بہت مقبول ہوا اور اس کا پہلا ایڈیشن جو پانچ ہزار کی تعداد میں شائع کیا گیا بہت جلد ختم ہو گیا اور اسے دوبارہ چھپوانا پڑا.ملک غلام فرید صاحب ایم.اے نے اس لیکچر کا انگریزی میں ترجمہ کیا جو ریویو آف ریلیجہ (انگریزی) میں بھی شائع ہو گیا.اوپر ذکر آچکا ہے کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ انعامات لینے والے غیر مسلم نے ارشاد کے مطابق اعلان کیا گیا تا کہ جوغیرمسلم سیرت النبی پر مضمون بھیجیں گے ان میں سے درجہ اول و دوم و سوم کو انعامات تقسیم کئے جائیں گے.اس وعدہ کے مطابق درجہ اول کا انعام رائے بہادر لالہ پارس داس صاحب آنریری مجسٹریٹ ریلی کو درجہ دوم کا انعام بھائی گیانی کرتا دینگھ صاحب ساکن کھاریاں ضلع گجرات کو اور درجہ سوم کا انعام لالہ بھگت رام صاحب جیودیا پر چارک چھاؤنی فیروز پور نے حاصل کیا.2 در اصل انعام کا اعلان کرتے ہوئے یہ خیال کیا گیا تھا کہ غریب طبقہ کے لوگ اس تحریک میں حصہ لیں گے اس لئے انعام کی رقم بھی مقرر کردی تھی مگر خدا کے فضل سے اس تحریک میں دس بڑے بڑے معزز لوگوں نے حصہ لیا اور سب سے اول انعام جسے ملاوہ آنریری مجسٹریٹ اور بہت معزز آدمی تھے اس لئے اس رقم کو تحفہ کی صورت میں بدلنا پڑا.آنحضرت کے خاتم النبین ہونے پر سلیم اخبارات نے سیرت النبی کے جلسوں کے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کا حلفیہ بیان مخالفین پر سخت تنقید کی تھی.مگر یہ اصحاب اپنی روش کو بدلنے یہ آمادہ نہ ہوئے اور انہوں نے اپنے تئیں حق بجانب ثابت کرنے کے لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی اور جماعت احمدیہ کے خلاف اپنا یہ الزام پھر دہرایا کہ دراصل آپ ختم نبوت پر ایمان نہیں رکھتے.لہذا ان کا یوم خاتم النبین منانا دنیا کو دھوکہ دینا ہے.اس افسوسناک غلط فہمی کے پھیلانے پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایده اللہ تعالیٰ نے ۳/ اگست ۱۹۲۸ء کے الفضل میں مفصل مضمون شائع کیا.جس میں آنحضرت اوی کے خاتم النبیین ہونے پر مندرجہ ذیل حلفیہ بیان شائع فرمایا.میں رسول کریم ﷺ کو خاتم النسین یقین کرتا ہوں اور اس پر میرا ایمان ہے قرآن شریف کے ایک ایک شوشہ کو میں صحیح سمجھتا ہوں اور میرا یقین ہے کہ اس میں کسی قسم کا تغیر نا ممکن ہے.جو لوگ قرآن شریف کو منسوخ قرار دیں یا اس کی تعلیم کو منسوخ قرار دیں میں انہیں کافر سمجھتا ہوں
تاریخ احمدیت جلد ۵ 45 خلافت ثانیہ کا پند میرے نزدیک رسول کریم اے خاتم انسین ہیں جیسا کہ قرآن مجید میں لکھا ہے اور جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے میرا یہی عقیدہ ہے اور انشاء اللہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ موت تک اس عقیدہ پر قائم رہوں گا اور اللہ تعالیٰ مجھے محمد رسول اللہ ا کے خدام کے زمرہ میں کھڑا کرے گا اور میں اس دعویٰ پر اللہ تعالیٰ کی غلیظ سے غلیظ قسم کھاتا ہوں اور اعلان کرتا ہوں کہ اگر میں دل میں یا ظاہر میں رسول کریم ﷺ کے خاتم انسین ہونے کا منکر ہوں اور لوگوں کو دکھانے کے لئے اور انہیں دھوکہ دینے کے لئے ختم نبوت پر ایمان ظاہر کرتا ہوں تو اللہ تعالیٰ کی لعنت مجھ پر اور میری اولاد پر ہو اور اللہ تعالیٰ اس کام کو جو میں نے شروع کیا ہوا ہے تباہ و برباد کر دے.میں یہ اعلان آج نہیں کر تا بلکہ ہمیشہ میں نے اس عقیدہ کا اعلان کیا ہے اور سب سے بڑا ثبوت اس کا یہ ہے کہ میں بیعت کے وقت ہر مبائع سے اقرار لیتا ہوں کہ وہ رسول کریم اللہ ﷺ کو خاتم انسین یقین کرے گا.مولوی صاحب یہ نہیں کہہ سکتے کہ چونکہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نبی مانتا ہوں اس لئے ثابت ہوا کہ میں رسول کریم اللہ کے خاتم انسین ہونے کا منکر ہوں کیونکہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایسا نبی ہرگز نہیں مانتا کہ ان کے آنے سے رسول کریم اے کی نبوت ختم ہو گئی ہو.اور آپ کی شریعت منسوخ ہو گئی ہو بلکہ میرا یہ عقیدہ ہے اور ہر ایک جس نے میری کتب کو پڑھا ہے یا میرے عقیدہ کے متعلق مجھ سے زبانی گفتگو کی ہے جانتا ہے کہ میں حضرت مرزا صاحب علیہ السلام کو رسول کریم ﷺ کا ایک امتی مانتا ہوں اور آپ کو رسول کریم ﷺ کی شریعت اور آپ " کے احکامات کے ایسا ہی ماتحت مانتا ہوں جیسا کہ اپنے آپ کو یا کسی اور مسلمان کو بلکہ میرا یہ یقین ہے کہ مرزا صاحب رسول کریم کے احکامات کے جس قدر تابع اور فرمانبردار تھے اس کا ہزارواں حصہ اطاعت بھی دوسرے لوگوں میں نہیں ہے اور آپ کی نبوت علی اور تابع نبوت تھی.جو آپ کو امتی ہونے سے ہر گز باہر نہیں نکالتی تھی.اور میں یہ بھی مانتا ہوں کہ آپ کو جو کچھ ملا تھا وہ رسول کریم کے ذریعہ اور آپ کے فیض سے ملا تھا.پس باوجود اس عقیدہ کے میری نسبت یہ کہنا کہ میں چونکہ مرزا صاحب کو نبی مانتا ہوں اس لئے گومنہ سے کہوں کہ رسول کریم اے خاتم انسین ہیں میں جھوٹا اور دھوکہ باز ہوں.خود ایک دھوکہ ہے.حضور نے اپنے اس مضمون کے آخر میں لکھا: حق یہ ہے کہ گو ہم میں سے ہر ایک کا یہ حق ہے کہ وہ دوسرے کی نسبت یہ کہہ دے کہ اس کا عقیدہ حقیقت ختم نبوت کے منافی ہے لیکن جو شخص کہتا ہے کہ مسلمانوں میں سے کوئی فرقہ بھی ایسا ہے کہ وہ ختم نبوت کا ایسے رنگ میں منکر ہے کہ اس کا حق ہی نہیں کہ وہ دوسرے مسلمانوں سے مل کر
تاریخ احمدیت جلد ۵ 46 خلافت عثمانیہ کا پندرھواں سال رسول کریم اللہ کی عظمت کے قیام کے لئے کوشش کر سکے وہ.....اسلام اور مسلمانوں کی تباہی کا ذمہ دار ہے.یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ مولوی محمد علی صاحب کا یہ عقیدہ تھا کہ غیر احمدی اصحاب ختم نبوت کے منکر ہیں.اور یہ کہ نئے اور پرانے نبی کی آمد کے عقیدوں میں نتیجہ کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں چنانچہ مولوی صاحب نے اپنے رسالہ " دعوۃ عمل " میں لکھا تھا." قرآن شریف تو نبوت کو آنحضرت ا پر ختم کرتا ہے مگر مسلمانوں نے اس اصولی عقیدہ کے بالمقابل یہ خیال کر لیا کہ ابھی آنحضرت ا کے بعد حضرت عیسی جو نبی ہیں.وہ آئیں گے اور یہ بھی نہ سوچا کہ جب نبوت کا کام تکمیل کو پہنچ چکا اور اسی لئے نبوت ختم ہو چکی تو اب آنحضرت کے بعد کوئی نبی کس طرح آ سکتا ہے خواہ پر انا ہو یا نیا.نبی جب آئے گا نبوت کے کام کے لئے رانا آئے گا.اور جب نبوت کا کام ختم ہو گیا تو نبی بھی نہیں آسکتا پر انے اور نئے سے کچھ فرق نہیں پڑتا پھر لکھا: "مسلمانوں نے عقیدہ بنالیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام جنہوں نے آنحضرت ا سے نہیں بلکہ براہ راست اللہ تعالیٰ سے تعلیم حاصل کی ہے.وہ اس امت کے معلم بنیں گے اور یوں آنحضرت کی شاگردی سے یہ امت نکل جائے گی.( دعوت عمل " صفحه ۱۲- ۱۳ شائع کردہ احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور) حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے یہ اقتباس درج کرنے کے بعد مندرجہ بالا مضمون میں تحریر فرمایا : اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ اول مولوی صاحب کے نزدیک عام مسلمانوں کا عقیدہ ختم نبوت کے عقیدہ کے مقابل پر ہے یعنی متضاد اور مخالف ہے دوم مولوی صاحب کے نزدیک یہ عقیدہ کہ کوئی پرانا نبی دوبارہ دنیا میں آئے گا اور یہ عقیدہ رکھنا کہ کوئی نیا نبی آئے گا دونوں میں کچھ فرق نہیں یہ دونوں عقید نے عمل ختم نبوت کے عقیدہ کو رد کرنے والے ہیں سوم مسلمانوں کے عقیدہ نزول مسیح کے رو سے امت محمدیہ امت محمدیہ نہ رہے گی.یعنی رسول کریم ﷺ کی نبوت ختم ہو جائے گی...کیا یہ غضب نہیں کہ ابھی کچھ عرصہ پہلے تو مولوی صاحب کے نزدیک تمام مسلمان ختم نبوت کے منکر تھے.اور ان کے عقائد امت محمدیہ کو آنحضرت کی امت سے نکال رہے تھے لیکن ۱۷ جون کے جلسہ کی تحریک کا ہو نا تھا کہ انہیں معلوم ہو گیا کہ سب مسلمان تو ختم نبوت کے قائل ہیں اور یہ مبائع احمد کی ختم نبوت کے منکر ہیں ".
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 47 خلافت ثانیہ کا پندرھواں سال ۱۹۲۹ء کے ایک اشتہار کا نمونہ دنیا کا محسن کسی اہل بصیرت مسلمان سے پوشیدہ نہیں کہ فی زمانہ کچھ ہماری غفلتوں اور علمی و عملی کمزوریوں کے باعث اور کچھ مخالف کے خلاف واقعہ طرز عمل کے ماتحت امام المتقین سید المعصومین حضرت محمد رسول اللہ ہی کی پاک سیرت نہ صرف دوسرے اہل مذہب بلکہ خود مسلمانوں کی آنکھوں سے بھی اوجھل ہو چکی ہے.اس لئے اشد ضرورت اس بات کی ہے.کہ حضور سرور عالم کی سیرت صحیحہ سے دنیا جہان والوں کو آگاہ کیا جاوے.تاکہ وہ حقیقت کو پا کر اتباع ظن کے گناہ اور اس کے زہر سے محفوظ ہو جاویں.اسی غرض کو مد نظر رکھتے ہوئے گزشتہ سال حضرت امام جماعت احمدیہ نے یہ مبارک تحریک کی تھی.کہ ایک ہی تاریخ مقررہ پر ہندوستان کے گوشے گوشے میں جلسے منعقد کر کے آنحضرت کی پاکیزہ زندگی حضور" کے دنیا پر احسانات اور آپ کی قربانیاں قرآن کریم اور صحیح تاریخ سے بیان کی جائیں.چنانچہ یہ تحریک بڑی حد تک کامیاب اور مفید ثابت ہوئی.تو کل کرتے ہوئے امسال یہ ایک مزید تجویز کی گئی ہے.کہ نہ صرف ہندوستان بلکہ ممالک غیر یورپ امریکہ - افریقہ وغیرہ وغیرہ میں بھی ۲ / جون ۱۹۲۹ء کو ایسے جلسے منعقد کئے جائیں اسی دن تمام دنیا میں مختلف زبانوں میں آنحضرت کی پاک سیرت پر لیکچر ہوں.پس اسی اصول پر انتظام کیا گیا ہے.کہ جہلم میں ۲ / جون ۱۹۲۹ء کو بوقت پانچ بجے شام ہمقام حویلی گھاٹ ایک جلسہ زیر صدارت جناب میجر نواب ملک طالب مهدی خان صاحب بہادر ڈپٹی کمشنر منعقد ہو گا.جس میں مسلم اور غیر مسلم اصحاب دو مضامین یعنی (1) "رسول کریم کا غیر مذاہب سے عالمہ بلحاظ تعلیم و تعامل".(۲) تو حید باری تعالٰی کے متعلق رسول کریم کی تعلیم " پر لیکچر دیں گے.امید ہے کہ رواداری اور وسیع النظری سے کام لے کر ہر علمی مذاق کا شائق طبقہ جلسہ میں شامل ہو کر اپنی بہتری اور بہبود کے ذرائع پر غور کرے گا.ان جلسوں کی غرض و غایت یہ ہے کہ لیکچروں اور خوش آئند تقریروں کے ذریعہ لاکھوں ان پڑھ یا غفلت اور ستی کی وجہ سے خود مطالعہ سے معذور مسلمان اس دن تھوڑا سا وقت صرف کر کے رسول کریم کی ذات والا صفات کے متعلق کافی واقفیت حاصل کرلیں گے.اور ضمنا غیر مسلم صاحبان پر جب
تاریخ احمدیت جلده 48 خلافت عثمانیہ کا پندرھواں سا آنحضرت کے صحیح حالات واضح ہوں گے تو سلیم الفطرت اور شریف الطبع اصحاب اپنے ایسے ہم مذہبوں کو جو تعصب سے اندھے ہو رہے ہیں گالیاں دینے سے روکیں گے.اسی طرح بعض مفسد جو رسول کریم کی شان میں خلاف واقعہ اور گندے مضامین لکھ لکھ کر آئے دن ملک کا امن برباد کر رہے ہیں.اپنے کئے پر پشیمان ہو کر آئندہ کے لئے اصلاح پا جائیں گے.اور ہندو مسلم اتحاد کے راستہ سے جس کے بغیر ملک کی ترقی سرا سر محال ہے.ایک بڑی رکاوٹ دور ہو جائے گی.المشترين " مولوی محمد اکرم خان بیرسٹرایٹ لاء د گورنمنٹ ایڈووکیٹ جہلم "مستری عبد الرحمن میونسپل کمشنرو پریذیڈنٹ اہلحدیث جہلم " چوہدری " ذکاء اللہ خان ایم اے.ایل ایل بی پلیڈ ر جہلم شیخ عمر بخش متولی مسجد خانساماں جہلم پنڈت "عبد القادر بی.اے آخر زبیر سٹرایٹ لاء جہلم " شیخ محمد حسین میونسپل کمشنر جہلم چوہدری فیروزالدین بی.اے ایل ایل بی پلیڈ ر جہلم حکیم جمشید علی خان پریذیڈنٹ انجمن امامیہ جہلم شیخ محمد شفیع بی اے ایل ایل بی پلیڈ ر جہلم ڈاکٹر نذر محمد میڈیکل پریکٹیشنر و پریذیڈنٹ خلافت کمیٹی جہلم شیخ بشیر علی بی.اے ایل ایل بی پلیڈ ر جہلم وو حافظ نور محمد میونسپل کمشنرو پریذیڈنٹ اہل السنت والجماعت جسلم
ریخ احمدیت.جلد ۵ 49 خلافت عثمانیہ کا پندرھواں.فصل سوم سفر ڈلہوزی اور حضرت مرزا بشیر احمد سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی بحالی صحت کے صاحب کا پہلی بار امیر مقامی مقرر ہونا لئے عموماً ہر سال کسی صحت افزا مقام کی طرف تشریف لے جایا کرتے تھے.چنانچہ اس سال بھی حضور ۲۱ / جون ۱۹۲۸ء کو ڈلہوزی تشریف لے گئے اور حضور نے اپنے بعد پہلی بار حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو امیر مقامی مقرر فرمایا.اس موقعہ پر حضرت میاں صاحب نے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ ” میں اپنی بہت سی کمزوریوں کی وجہ سے اس عہدہ کا اہل نہیں ہوں مگر حضور نے اپنے فیصلہ میں تبدیلی مناسب نہ سمجھی اور یہ بار آپ ہی کو اٹھانا پڑا.اپنے زمانہ امارت میں آپ کو بعض احباب کی طرف سے ایسی درخواستیں موصول ہو ئیں کہ فلاں ناظر صاحب نے یہ فیصلہ کیا ہے اسے منسوخ کیا جائے یا مجلس معتمدین کا فلاں ریزولیوشن قابل منسوخی ہے یا یہ کہ فلاں معاملہ میں یہ حکم جاری کیا جائے حالانکہ وہ ایسا معاملہ تھا جس میں صرف ناظر متعلقہ یا مجلس یا خلیفہ وقت ہی حکم صادر فرما سکتے تھے.اس قسم کی باتوں سے آپ اس نتیجہ پر پہنچے کہ ابھی تک جماعت کو مقامی امیر کی پوزیشن کا صحیح علم نہیں ہے لہذا آپ نے ایک مفصل اعلان شائع کیا جس میں احباب کی اس غلط فہمی کا ازالہ کر کے پوری وضاحت فرمائی کہ مقامی امیر اگر چہ اپنے حلقہ میں حضرت امام کا قائم مقام ہو تا ہے.مگر اس کی پوزیشن ایسی ہے ، جیسے کہ دوسرے مقامات کے مقامی امیروں کی ہوتی ہے.گو مرکز کی اہمیت کی وجہ سے اس کی ذمہ داری دوسرے امراء سے زیادہ ہے لیکن بہر حال وہ ایک مقامی امیر ہے جو ناظران سلسلہ ہی کے ماتحت ہو تا ہے اس کا حلقہ امارت صرف مرکزی جماعت تک ہے دوسری جماعتوں کے ساتھ اس کا کوئی انتظامی تعلق نہیں ہو تا.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ۱۹۲۸ء کے بعد بھی کئی بار امیر مقامی مقرر ہوئے اور آپ نے نہ صرف اپنے زمانہ امارت میں بلکہ پوری زندگی میں ہمیشہ اطاعت امام کا ایک بے مثال نمونہ دکھایا.چنانچہ آپ کے سوانح نگار محترم شیخ عبد القادر صاحب مربی سلسلہ احمدیہ نے اپنی تالیف ”حیات بشیر" کے تیسرے باب میں آپ کی مقدس زندگی کے متعدد واقعات درج کئے ہیں جن سے قطعی طور پر
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 50 خلافت ثانیہ کا پندرھواں سال یہ شہادت ملتی ہے.کہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی کو وابستگی خلافت اور اطاعت امام کے لحاظ سے جو بلند مقام خلافت اولی میں حاصل تھا وہ خلافت ثانیہ میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور متابعت کے رنگ میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو نصیب ہوا.اس سلسلہ میں مکرم مرزا مظفر احمد صاحب کا مندرجہ ذیل بیان خاص طور پر اہمیت رکھتا ہے.فرماتے ہیں: " ابا جان حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ سے بھی بے حد محبت کرتے تھے.اور حضور کے خلافت پر فائز ہونے کے بعد اپنا جسمانی رشتہ اپنے نئے روحانی رشتہ کے ہمیشہ تابع رکھا دینی معاملات کا تو خیر سوال ہی کیا تھا دنیاوی امور میں بھی یہی کوشش فرماتے تھے کہ حضور کی مرضی کے خلاف کوئی بات نہ حضور کی تکریم کے علاوہ کمال درجہ کی اطاعت اور فرمانبرداری کا نمونہ پیش کرتے تھے.میں نے اس کی جھلکیاں بہت قریب سے گھریلو ماحول میں دیکھی ہیں آپ کی اطاعت و فرمانبرداری کا رنگ بالکل ایسا ہی تھا جیسا کہ نبض دل کے تابع ہو عمر بھر اس تعلق کو کمال وفاداری سے نبھایا اور اس کیفیت میں کبھی کوئی رخنہ پیدا نہ ہونے دیا......حضور کا سلوک بھی ابا جان سے بہت شفقت کا تھا اور ہمیشہ خاص خیال رکھتے تھے اور اہم معاملات میں مشورہ بھی لیتے تھے.ضروری تحریرات خصوصاً جو گورنمنٹ کو جانی ہوتی تھیں ان کے مسودات ابا جان کو بھی دکھاتے تھے.اور اس کے علاوہ اہم فیصلہ جات اور سکیم پر عمل در آمد کا کام اکثرا با جان کے سپرد کرتے تھے.اور اس بات پر مطمئن ہوتے تھے کہ یہ کام حسب منشاء اور خوش اسلوبی سے ہو ہو.جائے گا ".حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی اطاعت امام سے متعلق ایک مختصر نوٹ دینے کے بعد.اب ہم سفر ڈلہوزی کی طرف آتے ہیں.یہ سفر جو بظا ہر آب و ہوا کی تبدیلی کی غرض سے حسب معمول گوناگوں مصروفیات میں گزرا.اوسطاً ڈیڑھ دو سو خطوط کا روزانہ پڑھنا اور اس کا جواب لکھوانا.سلسلہ کے انتظامات و معاملات کی نسبت ہدایات جاری کرنا ، خطبات جمعہ علمی تحقیق کا کام غرضکہ جس پہلو سے بھی دیکھا جائے یہ زمانہ علمی سرگرمیوں کا زمانہ تھا.اس سلسلہ میں بعض اہم واقعات کا ذکر کرنا مناسب ہو گا.۳۰/ جون ۱۹۲۸ء کو حضور نے پہلی دفعہ ۴۵ کے قریب عربی اشعار کہے.۶ / جولائی ۱۹۲۸ء کو اخبار ٹائمز آف انڈیا کے نام ایک چٹھی لکھوائی جس میں اخبار کے ایک الازار فقرہ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے معذرت شائع کرنے اور آئندہ ازواج النبی ﷺ کی نسبت احتیاط سے قلم اٹھانے کی تاکید
فرمائی.51 خلافت ثانیہ کا بند رهوار جولائی ۱۹۲۸ء کو ایک انگریز مسٹر مردین نے حضور سے ملاقات کی.مسٹر مردین نے پوچھا کہ کیا لندن مسجد میں دو سرے مذاہب کے لوگ بھی داخل ہو سکتے ہیں حضور نے فرمایا.یہ اعلان تو ہم نے افتتاح مسجد کے موقعہ ہی پر کر دیا تھا کہ مسجد کا دروازہ سبھی کے لئے کھلا ہے اس ضمن میں حضور نے تاریخ اسلام کا یہ مشہور واقعہ بھی بیان فرمایا کہ کس طرح آنحضرت نے وھ میں نجران کے ساتھ عیسائیوں کو مسجد نبوی میں اتارا.ان سے گفتگو فرمائی اور ان کو مسجد ہی میں عبادت کرنے کی اجازت عطا فرمائی.چنانچہ ان لوگوں نے مشرق کی طرف منہ کر کے اپنی نماز ادا کی.۹/ جولائی ۱۹۲۸ء کو بابو شیخ محمد صاحب وکیل گورداسپور ملاقات کے لئے آئے.جن سے تحصیل شکر گڑھ کے مسلمانوں کی تعلیمی حالت اور اچھوت اقوام میں تبلیغ سے متعلق گفتگو ہوئی ان رکاوٹوں کا ذکر کیا جو کچھ عرصہ ہوا احمدی مبلغوں کو امن علاقہ کی اچھوت اقوام میں تبلیغ کرتے وقت خود مسلمانوں کی طرف سے پیش آئی تھیں.10+ اسی روز مشرف حسین صاحب ایم اے دہلوی انسپکٹر ڈاک خانہ جات سے دہلی کے شاہی خاندانوں کی تباہی اور پرانے اہل علم گھرانوں کی نسبت بہت گفتگو ہوئی.اس ضمن میں حضور نے اسلامی پردہ کی وضاحت بھی فرمائی.11 جولائی ۱۹۲۸ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے مسٹراے.اے لین را برٹس ڈپٹی کمشنر صاحب ضلع گورداسپور اور مسٹر انڈرسن سشن جج صاحب گورداسپور کو اپنی کو تھی پر چائے کی دعوت دی اور ایک گھنٹہ کے قریب سلسلہ احمدیہ کے معاملات سے متعلق انگریزی میں گفتگو فرمائی.۱۲ جولائی ۱۹۲۸ء کو جنرل لک صاحب افسر افواج کے اعزاز میں سردار مکھن سنگھ صاحب رئیس نے ایک پارٹی سٹفل ہوٹل میں دی.جس میں معززین شہر کے ساتھ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی (مع حضرت مفتی محمد صادق صاحب و شیخ یوسف علی صاحب) بھی مدعو تھے.اس پارٹی میں کئی ایک ہندوستانی شرفاء اور انگریز حکام سے سلسلہ احمدیہ اور دیگر امور پر گفتگو ہوتی رہی.پارٹی کے بعد میاں حق نواز صاحب بیر سٹرایٹ لاءولا ہو ر اور ڈاکٹر شفاعت احمد صاحب ممبر یو.پی کونسل حضور کی ملاقات کے لئے تشریف لائے.ان اصحاب نے احمدیہ مشن لندن کی تبلیغی مساعی کی بہت تعریف کی اور پھر سیاسیات ہند کی نسبت حضور سے گفتگو کی.اسی روز سردار ہر چند سنگھ صاحب جے جی رئیس و جاگیردار ریاست پٹیالہ بھی حضور کی ملاقات کے لئے آئے.۱۳ جولائی ۱۹۲۸ء کو ایک سکھ سردار شکه فتح جنگ صاحب آف سدھو وال آئے.اور بہت دیر
تاریخ احمدیت - جلد ۵ 52 خلافت ثانیہ کا پندرھواں سال تک حضور سے گفتگو کرتے رہے انہوں نے پوچھا.آپ تو ہر سال خوب سفر کرتے ہوں گے.حضور نے فرمایا.ہماری جماعت کا انتظام دوسرے لوگوں کی طرح نہیں ہے.ہر کام کے صیغے مقرر ہیں.دفتری کاموں سے متعلق کار کن مجھ سے مشورہ لیتے ہیں.اس وجہ سے زیادہ دیر تک مرکز سے باہر رہنا مشکل ہوتا ہے اسی طرح بیرونی جماعتیں نہ صرف جماعتی کاموں سے متعلق بلکہ اپنے پرائیویٹ معاملات کے متعلق بھی مشورے لیتی ہیں ڈیڑھ دو سو کے قریب روزانہ خطوط آتے ہیں ان حالات میں بمشکل دو ایک ماہ تبدیلی آب و ہوا کے لئے باہر رہ سکتا ہوں.باہر سے بھی ضروری کاموں کے متعلق ہدایات دیتا رہتا ہوں اور ضروری کاغذات یہاں بھی آتے ہیں.ٹکہ صاحب نے حضور سے مختلف نوعیت کے مذہبی و سیاسی سوالات کئے.مثلاً احمدیوں اور غیر احمدیوں میں کیا فرق ہے ؟ ہندو مسلمانوں میں اتحاد کیونکر ہو سکتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ.حضور نے ان کے مفصل جوابات دیئے.اسی روز نماز عصر کے بعد سردار حبیب اللہ صاحب بیرسٹر ایٹ لاء کو چائے کی دعوت پر بلایا گیا تھا.حضور نے مسلم اتحاد کی نسبت اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا جب تک مسلمانوں کے اتحاد کی بنیاد اس بات پر رکھی جائے گی کہ ان سے (جبرا) کچھ باتیں چھڑائی جائیں اور سب کو ایک جیسے عقائد پر جمع کیا جائے اس وقت تک اتحاد نہ ہو گا.اتحاد کی واحد صورت یہ ہے کہ رواداری سے کام لیا جائے.کسی کے مذہبی عقائد سے تعرض نہ کیا جائے اور مشترکہ مسائل میں مل کر کام کیا جائے.۱۵/ جولائی ۱۹۲۸ء کو بابو ابو سعید صاحب احمدی ریڈرشن بج گورداسپور نے حضور کے اعزاز میں حضور ہی کے جائے قیام پر چائے کی دعوت دی.دعوت میں ۲۰-۲۵ کے قریب معززین شامل تھے.جن سے حضور نے پروہ ترکوں کا اسلام سے تعلق ، شاہ کابل کا سفر یورپ اور دیگر ممالک میں تبلیغ اسلام وغیرہ مسائل پر گفتگو فرمائی.۱۷ / جولائی ۱۹۲۸ء کو چوہدری سر شهاب الدین صاحب پریذیڈنٹ لیجسلیٹو کو نسل پنجاب نے حضور کو مع رفقاء اپنی کو ٹھی میں دعوت دی جس میں بعض اور معززین بھی مدعو تھے.حضور چوہدری شہاب الدین صاحب شیخ اصغر علی صاحب کمشنر ملتان سے مسلمانوں کی موجودہ حالت اور اس کی اصلاح کے متعلق گفتگو فرماتے رہے.۱۸ جولائی ۱۹۲۸ء کو ایک کشمیری پیر حضور سے ملنے کے لئے تشریف لائے جو پہاڑی ریاستوں میں مسلمانوں کی افسوسناک حالت اور ریاستوں کے مظالم کا ذکر کرتے رہے اور عرض کیا کہ اسلام کو اس زمانہ میں سب سے زیادہ نقصان خود علماء پہنچارہے ہیں.آپ ہی کی جماعت ہے جو اس وقت مسلمانوں کو بچا سکتی ہے.آپ ضرور ان علاقوں کے مسلمانوں کے لئے بھی کوئی انتظام فرما ئیں.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے فرمایا.ہم مسلمانوں کی ہر طرح امداد کرنے کے لئے تیار ہیں مگر مشکل یہ ہے کہ ان
(۱) مولوی ابوبکر ایوب صاحب (۲) ابوبکر صاحب بکنڈ و مہاراجو (۳) حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ (۴) اور لیس ڈمنگ دا تو صاحب (۵) مولانا رحمت علی صاحب مبلغ سماٹرا
جامعہ احمدیہ کے پہلے تین پرنسپل (دائیں ) مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل جالندھری سابق مبلغ بلا د عربیہ ( وسط ) حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب (بائیں) حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ( مئی 1947 ء)
سٹاف جامعہ احمدیہ غالباً 1930ء - 1931ء (دائیں سے بائیں ) ا مولوی علی محمد صاحب اجمیری ۲ - سردار مصباح الدین صاحب سابق مربی انگلستان حضرت مولوی ارجمند خان صاحب ۴ نینم احمدیت حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب (پرنسپل) ۵.حضرت سید میر محمد اسحاق صاحب -۶.حضرت مولانا محمد اسماعیل حلالپوری صاحب ے.حضرت مولانا حافظ مبارک احمد صاحب ( پیچھے کھڑے ) جامعہ احمدیہ کے ایک کارکن
جامعہ احمدیہ سے 1930ء کے فارغ التحصیل مولوی عبد الرحمن صاحب انور.مولوی چراغ دین صاحب مولوی محمد صادق صاحب سماٹری.مولوی عبدالواحد صاحب مبلغ
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 53 خلافت ثانیہ کا پندرھواں سال علاقوں میں اگر کوئی مبلغ بھیجا جائے.تو حکام اسے نکال دیتے ہیں.تھوڑا ہی عرصہ ہوا.ہم نے اپنا ایک مبلغ ایک علاقہ میں بھیجا.اسے ایک بڑے ریاستی افسر نے کہا تم یہاں سے چلے جاؤ مبلغ نے مجھے لکھا کہ کیا کرنا چاہئے.میں نے جواب دیا آپ تحریری حکم ما نگیں اور جب تک تحریری طور پر نکلنے کے لئے نہ کہا جائے نہ نکلیں جب یہ بات اس مبلغ نے اس حاکم سے کمی تو اس نے کہا جس غرض سے تم تحریر مانگتے ہو وہ ہم بھی جانتے ہیں تحریر کوئی نہیں دی جاسکتی.اگر تم نہ نکلو گے تو کسی اور الزام میں گرفتار کر کے قید میں ڈال دیا جائے گا.ایسی حالت میں اس مبلغ کو واپس آجانا پڑا.ان علاقوں کے مسلمانوں کی اصلاح کی ایک صورت ہے اور وہ یہ کہ وہاں کے ہو شیار اور ذہین طلباء کو تعلیم دی جائے اور پھر وہ اپنے علاقہ میں مسلمانوں کی اصلاح کریں.وہ چونکہ اسی جگہ کے باشندے ہوں گے ان کو حکام نہیں نکال سکیں گے.اگر آپ ایسے لڑکے بھجوا ئیں تو ہم ان کی تعلیم و تربیت کا انتظام کر دیں گے.۱۹ جولائی ۱۹۲۸ء کو حضور کی طرف سے میاں فیملی باغبانپورہ کے ان اصحاب کو جو ڈلہوزی میں تھے چائے کی دعوت دی جس میں میاں شاہنواز صاحب بیرسٹرایٹ لاء ممبر اسمبلی میاں بشیر احمد صاحب بی اے بیرسٹرایٹ لاء عمیاں رفیع احمد صاحب خلف سرمیاں محمد شفیع صاحب اور میاں افتخار احمد صاحب شریک ہوئے.جماعت احمدیہ کی تبلیغی خدمات ہندوستان کی ادنی اقوام میں تبلیغ اسلام اور مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے متعلق گفتگو ہوتی رہی جس میں سب اصحاب نے بہت دلچسپی لی.۲۲ / جولائی ۱۹۲۸ء کو افواج علاقہ جالندھر چھاؤنی کے کمانڈنگ افسر صاحب بریگیڈیر جنرل ٹوس صاحب نے حضور سے ملاقات کی اور دو گھنٹہ تک مختلف امور پر حضور سے گفتگو کرتے رہے.اور سلسلہ کے حالات حضور کے سفر شام، مصر اور یورپ کے حالات سنتے رہے حضور کی وسیع معلومات اور صائب رائے کا اثر کمانڈنگ آفیسر صاحب کے چہرہ سے اثنائے گفتگو میں نمایاں ہو رہا تھا.اسی دن شیخ اصغر علی صاحب کمشنر ملتان سے حضور نے اسلامی ممالک کے حالات اور بعض دوسرے امور کے متعلق گفتگو فرمائی.۲۳ جولائی ۱۹۲۸ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی حرم محترمہ نے مختلف اقوام و مذاہب کی خواتین کو چائے کی دعوت دی.۲۴ / جولائی ۱۹۲۸ء کو مسٹر کار نیلیس اسٹنٹ کمشنر گورداسپور حضور کی ملاقات کے لئے آئے.۲۹/ جولائی ۱۹۲۸ء کو حضور نے صوفی عبد القدیر صاحب نیاز بی.اے کو انگلستان روانہ کرنے سے قبل لمبی دعا کے بعد رخصت کیا اور احباب دور تک انہیں الوداع کہنے کے لئے ان کے ساتھ گئے.حضور ۵ / اگست ۱۹۲۸ء کو واپس قادیان تشریف لائے.-
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 54 خلافت ثانیہ کا پندرھواں سال جہاد بالقرآن کی اہم تحریک سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثنی ایدہ اللہ تعالی نصرہ العزیز نے جولائی ۱۹۲۸ء کے پہلے ہفتہ میں مسلمانان عالم کو اس طرف توجہ دلائی کہ ان کی ترقی و سربلندی کا اصل راز قرآن مجید کے سمجھنے اور اس پر کار بند ہونے میں مضمر ہے چنانچہ حضور نے ۶/ جولائی ۱۹۲۸ء کو خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا.ہر مسلمان کو چاہیے کہ قرآن کریم کو پڑھے.اگر عربی نہ جانتا ہو تو اردو ترجمہ اور تفسیر ساتھ پڑھے عربی جاننے والوں پر قرآن کے بڑے بڑے مطالب کھلتے ہیں مگر یہ مشہور بات ہے کہ جو ساری چیز نہ حاصل کر سکے اسے تھوڑی نہیں چھوڑ دینی چاہیئے.کیا ایک شخص جو جنگل میں بھو کا پڑا ہوا سے ایک روٹی ملے تو اسے اس لئے چھوڑ دینی چاہیئے کہ اس سے اس کی ساری بھوک دور نہ ہوگی.پس جتنا کوئی پڑھ سکتا ہو پڑھ لے.اور اگر خود نہ پڑھ سکتا ہو تو محلہ میں جو قرآن جانتا ہو اس سے پڑھ لینا چاہیئے.جب ایک شخص بار بار قرآن پڑھے گا اور اس پر غور کرے گا تو اس میں قرآن کریم کے سمجھنے کا ملکہ پیدا ہو جائے گا.پس مسلمانوں کی ترقی کار از قرآن کریم کے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے میں ہے جب تک مسلمان اس کے سمجھنے کی کوشش نہ کریں گے کامیاب نہ ہوں گے.کہا جاتا ہے دوسری قومیں جو قرآن کو نہیں مانتیں وہ ترقی کر رہی ہیں پھر مسلمان کیوں ترقی نہیں کر سکتے.بے شک عیسائی اور ہندو اور دوسری قومیں ترقی کر سکتی ہیں لیکن مسلمان قرآن کو چھوڑ کر ہر گز نہیں کرسکتے.اگر کوئی اس بات پر ذرا بھی غور کرے تو اسے اس کی وجہ معلوم ہو سکتی ہے اگر یہ صحیح ہے کہ قرآن کریم خد اتعالیٰ کی کتاب ہے اور اگر یہ صحیح ہے کہ ہمیشہ دنیا کو ہدایت دینے کے لئے قائم رہے گی تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اگر قرآن کو خدا کی کتاب ماننے والے بھی اس کو چھوڑ کر ترقی کر سکیں تو پھر کوئی قرآن کو نہ مانے گا پس قرآن کی طرف مسلمانوں کو توجہ رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ان کی ترقی کا انحصار قرآن کریم ہو".چندہ خاص کی دوسری تحریک جماعت احمد یہ کے لئے یہ زمانہ مالی لحاظ سے بڑی تنگی کا زمانہ تھا.اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو بار بار مالی مطالبات پر زور دینا پڑتا تھا چنانچہ ۱۹۲۷ء میں حضور نے چندہ خاص کی تحریک فرمائی جس پر مخلصین جماعت کو خدا تعالیٰ نے ایسی توفیق بخشی کہ نہ صرف پچھلا بہت سا قرضہ اتر گیا بلکہ اگلے سال کا بجٹ پورا کرنے کے لئے بھی خاصی رقم جمع ہو گئی لیکن سلسلہ احمدیہ کا خزانہ چونکہ ابھی خطرہ سے پوری طرح باہر نہیں تھا.اور جماعت کے لئے ضروری تھا کہ جب تک یہ نازک صورت حال ختم نہ ہو جائے معمولی چندوں کے علاوہ چندہ خاص بھی دیا کریں تا معمولی چندوں کی کمی اس سے پوری ہو جائے.اور سلسلہ کے کاموں میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ ہو.
55 خلافت ثانیہ کا پندرھواں سال چنانچہ حضور نے اس ضرورت کے پیش نظر صد را انجمن احمدیہ کے نئے مالی سال کے شروع ہونے پر احباب جماعت کے نام چندہ خاص کی دوسری تحریک فرمائی.یہ اپیل ۱۷ / جولائی ۱۹۲۸ء کے اخبار الفضل میں شائع ہوئی اور اس کا عنوان تھا.”اے عباد اللہ میری طرف آؤ".چنانچہ حضور نے اعلان فرمایا کہ: اس سال بھی حسب معمول تمام دوست اپنی آمد میں سے ایک معین رقم چندہ خاص میں ادا کریں.اور چاہیئے کہ وہ رقم ستمبر کے آخر تک پوری کی پوری وصول ہو جائے.اور یہ بھی کوشش رہے کہ اس کا اثر چندہ عام پر ہر گز نہ پڑے.بلکہ چندہ عام پچھلے سال سے بھی زیادہ ہو.کیونکہ مومن کا قدم ہر سال آگے ہی آگے پڑتا ہے اور وہ ایک جگہ پر ٹھہر نا پسند نہیں کرتا".اپنے اعلان کے آخر میں حضور نے جماعت کے دوستوں کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : ”اے میرے پیارے دوستو! میں کس طرح آپ لوگوں کو یقین دلاؤں کہ خداتعالی دنیا میں عظیم الشان تغیر پیدا کرنے والا ہے.پس پہلے سے تیار ہو جاؤ تا موقعہ ہاتھ سے کھو نہ بیٹھو.یاد رکھو.کہ خدا تعالیٰ کے کام اچانک ہوا کرتے ہیں اور جس طرح اس کے عذاب یکدم آتے ہیں اس کے فضل بھی یکدم آتے ہیں.پس بیدار ہو جاؤ اور آنکھیں کھول کر اس کے افعال کی طرف نگاہ رکھو کہ اس کا غیب غیر معمولی امور کو پوشیدہ کئے ہوئے ہے جو ظاہر ہو کر رہیں گے اور دنیا ان کو چھپانے میں ہرگز کامیاب نہیں ہو سکے گی آپ لوگ اس کے فضل کے وارث ہو کر رہیں گے خواہ دنیا اسے پسند کرے یا نہ کرے".پھر فرمایا : ” میں اس امر کی طرف بھی آپ کی توجہ پھرانی چاہتا ہوں کہ اس سال بعض اضلاع میں گیہوں کی فصل خراب ہو گئی ہے اور اس کا اثر چندوں پر پڑتا بعید نہیں.پس چاہیئے کہ احباب اس امر کا بھی خیال رکھیں اور اس کو پورا کرنے کی بھی کوشش کریں.اور ان اضلاع کے دوستوں کو بھی جہاں نقصان ہوا ہے میں کہتا ہوں کہ لا تخش عن ذى العرش افلا سا خدا تعالیٰ سے کمی کا خوف نہ کرو اور اس کے دین کی راہ میں قربانی سے نہ گھبراؤ کہ خدا تعالیٰ اس کا بدلہ آپ کو آئندہ موسم میں دے دے گا.اور آپ کی ترقی کے بیسیوں سامان پیدا کر دے گا".خلیفہ وقت کے اس ارشاد پر مخلصین نے لبیک کہا اور کئی جماعتوں نے اپنے وعدے پورے کر دیئے ۱۵۹ te ۱۵۸
تاریخ احمدیت جلد ۵ 56 حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا ایک اصولی حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی نے مسلم ارشاد مخالف اخبارات سے متعلق اتحاد کو ترقی دینے کے لئے قبل ازیں یہ تحریک فرما رکھی تھی کہ مسلمان متحدہ مسائل میں مل کر کام کریں.اور مسلم پریس ایسی باتوں کی اشاعت سے احتراز کرے جو باہمی منافرت کا موجب ہوں اور اسی وجہ سے احمد یہ پریس نے ایک عرصہ سے مسلمان اخبارات کے خلاف لکھنا ترک کر دیا تھا.مگر افسوس حضور کی ذات اور احمدیوں کے خلاف "زمیندار" وغیرہ اخبارات نے اپنی روش میں کوئی تبدیلی نہ کی اور سراسر بے بنیاد پر اپیگینڈا جاری رکھا.اس لئے ناظر صاحب دعوۃ و تبلیغ (چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم.اے) نے ۱۲ / جولائی ۱۹۲۸ء کو حضور کی خدمت میں لکھا کہ حضور اجازت مرحمت فرمائیں کہ ایسے الزامات اور جگر سوز تحریروں کا معقولیت کے ساتھ جواب دیا جائے.اس درخواست پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ارشاد فرمایا کہ میں آپ سے متفق ہوں کہ ہماری خاموشی سے سلسلہ کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں نے ناجائز فائدہ اٹھایا ہے اور باوجو د بار بار توجہ دلانے کے کہ ہم صرف اسلام کی خاطر خاموش ہیں انہوں نے نصیحت حاصل نہیں کی.اور محض ذاتی بغض پر اسلام کے فوائد کو قربان کر دیا ہے.اب یہ ذاتی عداوت ایسا رنگ اختیار کر رہی ہے کہ اس کا نقصان اسلام اور مسلمانوں کو پہنچنے کا خطرہ ہے.اور وہ تحریک اتحاد جسے میں نے بصد کوشش جاری کیا تھا اس سے متاثر ہونے کے خطرہ میں ہے پس اسلام اور مسلمانوں کے فوائد کو مد نظر رکھتے ہوئے میں اس امر کی اجازت دیتا ہوں اور بادل نخواستہ دیتا ہوں کہ صاحبان جرائد اور مصنفین سلسلہ کو اجازت دی جائے کہ وہ ایسے اعتراضات کے جواب دے دیا کریں جن کا اسلام یا سلسلہ کے کاموں پر بد اثر پڑنے کا اندیشہ ہو.لیکن سخت الفاظ کے استعمال سے پر ہیز کیا کریں.اور جہاں تک ممکن ہو سکے ذاتیات کی بحثوں میں نہ پڑا کریں کہ ان بحثوں میں پڑنے سے فساد کے بند ہو جانے کا احتمال بہت کمزور ہو جاتا ہے".”پیغام صلح کا پیام جنگ اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا اہم فرمان تی پیغام صلح" نے ۱۷ جولائی ۱۹۲۸ء کی اشاعت میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا.ان کا اختیار ہے کہ وہ جو چاہیں کریں صلح کریں یا جنگ کریں ہم دونوں حالتوں میں ان کے عقائد کے خلاف جو اسلام میں خطر ناک تفرقہ پیدا کرنے والے ہیں ہر حال میں جنگ کریں گے' حضور نے اس پر ۱۸/ جولائی ۱۹۲۸ء کو ایک مفصل مضمون سپرد قلم فرمایا.جس میں احباب جماعت
تاریخ احمدیت جلد ۵ 57 خلافت ثانیہ کا پندرھواں سال کو ہوشیار کرتے ہوئے لکھا : حضرت خلیفہ اول الہ نے ایک دفعہ تحریر فرمایا تھا کہ پیغام صلح نہیں وہ پیغام جنگ ہے اور آج کھلے لفظوں میں پیغام صلح نے ہمیں پیغام جنگ دیا ہے اور صرف اس بات پر چڑ کر کہ کیوں ہم نے رسول کریم کی حفاظت کے لئے اور آپ کے خلاف گالیوں کا سد باب کرنے کے لئے ہندوستان اور ہندوستان سے باہر ایک ہی دن سینکڑوں جلسوں کا انعقاد کیا ہے.میں اس جرم کا مجرم بے شک ہوں اور اس جرم کے بدلہ میں ہر ایک سزا خوشی سے برداشت کرنے کے لئے تیار ہوں اور چونکہ اس اعلان جنگ کا موجب ہمارے عقائد نہیں کیونکہ انہی عقائد کے معتقد خود مولوی محمد علی صاحب بھی رہے ہیں اور سب فرقہ ہائے اسلام ان کے معتقد ہیں بلکہ ہماری خدمات اسلام ہیں اس لئے میں اس چیلنج کو خوشی سے منظور کرتا ہوں اور اپنی جماعت کے لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے دماغوں پر اس اعلان جنگ کو لکھ لیں.”پیغام " ہم سے آخری دم تک جنگ کرنے کا اعلان کرتا ہے اب ان کا بھی فرض ہے کہ وہ اس جنگ کی دفاع کے لئے تیار ہو جائیں.جیسا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے یہ لوگ دنیا میں قائم رکھے جائیں گے تاکہ آپ لوگ ہمیشہ ہوشیار رہیں.لیکن جیسا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے یہ بھی بتایا ہے کہ آپ لوگ اس کے فضل سے ان پر غالب رہیں گے اور وہ ہمیشہ آپ کی مدد کرے گا.پس خدا تعالیٰ کے لئے نہ کہ اپنے نفسوں کے لئے ان صداقتوں کے پھیلانے کے لئے مستعد ہو جاؤ.جو خدا تعالیٰ نے آپ کو دی ہیں اور اس بغض اور کینہ کو انصاف اور عدل کے ساتھ مٹانے کی کوشش کرو جس کی بنیاد ان لوگوں نے رکھی ہے اور اس فتنہ اور لڑائی کا سد باب کرو جس کا دروازہ انہوں نے کھولا ہے اور کوشش کرد.کہ مسلمانوں کے اندر اس صحیح اتحاد کی بنیاد پڑ جائے.جس کے بغیر آج مسلمانوں کا بچاؤ مشکل ہے اور جسے صرف اپنی ذاتی اغراض کے قیام کے لئے یہ لوگ روکنا چاہتے ہیں اور کوشش کرد کہ ان میں انصاف پسند رو میں اپنی غلطی کو محسوس کر کے آپ لوگوں میں آشامل ہوں تاکہ جس قدر بھی ہو سکے اس اختلاف کی شدت کو کم کیا جاسکے اللہ تعالٰی آپ کے ساتھ ہو "- CD شرفاء سے دردمندانہ اپیل جہاں تک غیر مبایعین کے ذاتی حملوں کا تعلق تھا.حضور نے نہایت درد بھرے الفاظ میں شریف و متین طبقوں سے اپیل کی.کہ وہ اس جنگ میں فریقین کے طرز عمل اور رویے کا فرق ملحوظ رکھیں.اور اس پر گواہ رہیں.چنانچہ حضور نے لکھا : میں یقین رکھتا ہوں کہ ہر فرقہ اور ہر مذہب کے شریف لوگ جو ہمارے لٹریچر کو اخباری یا علمی ضرورتوں کی وجہ سے پڑھتے ہیں اس امر پر گواہی دیں گے کہ بلاوجہ اور متواتر مجھ پر ظلم کیا گیا ہے.
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 58 خلافت همانیه کا پندر میرے خلاف اتہامات لگائے گئے ہیں اور مجھ پر حملے کئے گئے ہیں آج میری زندگی میں شاید معاصرت کی وجہ سے لوگ اس فرق کو اس قدر محسوس نہ کریں.اور شاید گواہی دینا غیر ضروری سمجھیں یا اس کے بیان کرنے سے ہچکچائیں لیکن دنیا کا کوئی شخص بھی خالد اور ہمیشہ زندہ رہنے والا نہیں.نہ معلوم چند دن کو نہ معلوم چند ماہ کو نہ معلوم چند سال کو جب میں اس دنیا سے رخصت ہو جاؤں گا.جب لوگ میرے کاموں کی نسبت ٹھنڈے دل سے غور کر سکیں گے.جب سخت سے سخت دل انسان بھی جو اپنے دل میں شرافت کی گرمی محسوس کرتا ہو گا.ماضی پر نگاہ ڈالے گا.جب وہ زندگی کی ناپائیداری کو دیکھے گا اور اس کا دل ایک نیک اور پاک افسردگی کی کیفیت سے لبریز ہو جائے گا اس وقت وہ یقینا محسوس کرے گا کہ مجھ پر ظلم پر ظلم کیا گیا اور میں نے صبر سے کام لیا.حملہ پر حملہ کیا گیا لیکن میں نے شرافت کو ہاتھ سے نہیں چھوڑا.اور اگر اپنی زندگی میں مجھے اس شہادت کے سنے کا موقعہ میسر نہ آیا تو میرے مرنے کے بعد بھی یہ گواہی میرے لئے کم لذیذ نہ ہوگی یہ بہترین بدلہ ہو گا جو آنے والا زمانہ اور جو آنے والی نسلیں میری طرف سے ان لوگوں کو دیں گی اور ایک قابل قدر انعام ہو گا.جو اس صورت میں مجھے ملے گاپس میں بجائے اس کے کہ ان لوگوں کے حملہ کا جواب سختی سے دوں بجائے اس کے کہ گالی کے بدلہ میں گالی دوں تمام ان شریف الطبع لوگوں کی شرافت اور انسانیت سے اپیل کرتا ہوں جو اس جنگ سے آگاہ ہیں کہ وہ اس اختلاف کے گواہ رہیں وہ اس فرق کو مد نظر رکھیں اور اگر سب دنیا بھی میری دشمن ہو جائے تو بھی ان لوگوں کی نیک ظنی جو خواہ کسی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں لیکن ایک غیر متعصب دل ان کے سینہ میں ہو ان بہترین انعاموں میں ہو گا.جن کی کوئی شخص امید کر سکتا ہے - 11 مسلمان ان دنوں ہندوؤں کے فرقہ وارانہ تعصب کا ہر جگہ شکار ہو رہے ہائی کورٹ کا انتظام تھے.حتی کہ پنجاب ہائی کورٹ کی انتظامیہ میں بھی ان کے حقوق پامال ہونے لگے.جس پر ابتداء اخبار "مسلم آؤٹ لک" نے پھر اخبار "زمیندار" نے احتجاج کیا.اور گوان اخبارات نے جلسہ ہائے سیرت النبی کے سلسلہ میں عدم تعاون کا مظاہرہ کیا تھا مگر چونکہ یہ معاملہ مسلمانوں کے تحفظ حقوق کا تھا.اس لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اس کے حق میں آواز بلند کی.اور لکھا: ”ہم مسلمانوں کی جس طرح مناسب سمجھیں گے حفاظت کریں گے اور انشاء اللہ کسی کی مخالفت کے خیال سے اس میں کو تاہی نہیں کریں گے اور نہ یہ دیکھیں گے کہ ایک مفید تحریک کرنے والا ہمارا دشمن ہے بلکہ اگر کوئی مفید تحریک ہوگی تو خواہ وہ "زمیندار" ہی کی طرف سے کیوں نہ ہو.جس نے ہماری مخالفت کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے.تب بھی ہم اس کی تائید سے اور پر زور تائید سے انشاء اللہ دریغ نہیں کریں گے اور اس بات سے نہیں شرمائیں گے کہ اس تحریک کا سرا "زمیندار" کے سر بندھتا ہے.DA
59 خلافت عثمانیہ کا پندرھواں فصل چهارم حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کادرس القرآن قرآنی علوم و معارف اور اسرار و ۸/ اگست تا ۸ / ستمبر ۱۹۲۸ء کے مبارک ایام نکات کی اشاعت کے لحاظ سے ۱۸ اگست ۱۹۲۸ء تا ۸ / ستمبر ۱۹۲۸ء کے مبارک ایام ہمیشہ یاد گار رہیں گے کیونکہ ان میں سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسجد اقصیٰ میں سورہ یونس سے سورہ کہف تک پانچ پاروں کا روح پرور درس دیا.HD حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کو نا سازی طبع کے باوجود بہت محنت حضور کی غیر معمولی محنت و کاوش و مشقت کرنا پڑی.درس القرآن کو علمی اور تحقیقی پہلو سے مکمل کرنے کے لئے حضور گرمی کے تکلیف دہ موسم میں رات کے بارہ بارہ بجے تک کتب کا مطالعہ کر کے نوٹ تیار کرنے میں مصروف رہتے اور پھر دن میں سلسلہ کے اہم اور ضروری معاملات کی سر انجام دہی کے علاوہ روزانہ چار پانچ گھنٹہ تک سینکڑوں کے اجتماع میں بلند آواز سے درس دیتے.جس قدروقت میسر آسکا اسے کلام اللہ پر غور کرنے اور اس کے حقائق و معارف بیان کرنے میں صرف فرماتے.حضور کے اس عظیم مجاہدہ کا ذکر کرنے کے بعد جو آپ نے محض اشاعت علوم قرآن کی خاطر اختیار فرمایا.اب ہم درس القرآن کے دو سرے اہم کو الف بیان کرتے ہیں.یہ درس چونکہ ایک خاص اہمیت رکھتا تھا.اس لئے احباب دوستوں کا قادیان میں اجتماع جماعت کو متعدد بار تحریک کی گئی EC کہ اس موقعہ سے نہ صرف خود پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہیئے بلکہ دوسرے اہل علم مسلمانوں بلکہ غیر مسلموں کو بھی لانے کی کوشش کریں.چنانچہ ۷ / اگست ۱۹۲۸ء تک بہت سے دوست مرکز احمدیت قادیان میں جمع ہو گئے.درس کے پہلے ہفتہ میں بیرونی احباب کی تعداد قریباً ڈیڑھ سو تک پہنچ گئی.ان احباب کی اکثریت گرایجوایٹ وکلاء کالجوں کے طلباء اور حکومت کے معزز عہدیداروں اور رؤساء پر مشتمل تھی.اور ان کے قیام کا انتظام مدرسہ احمدیہ میں کیا گیا تھا.
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 60 خلافت ثانیہ کا بند رھوا پروگرام کے مطابق ۸ / اگست ۱۹۲۸ء کو مسجد اقصی میں نماز ظہر کے بعد درس کا آغاز ہوا.درس محفوظ کرنے کے لئے حضور نے درس نوٹ کرنے والے علماء اور زود نویس پہلے دن سے سلسلہ کے جید علماء اور زود نویسوں کی ایک جماعت متعین فرما دی تھی جو مندرجہ ذیل اصحاب پر مشتمل تھی حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب، مولوی عبد الرحمن صاحب جٹ - مولوی ارجمند خان صاحب ، مولوی غلام احمد صاحب بدو طهوی، مولوی ظهور حسین صاحب مولوی ابو العطاء صاحب جالند نھری بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی ابو البشارت مولوی عبد الغفور صاحب، مولوی محمد یار صاحب عارف مولوی عبد الرحمن صاحب ،مصری ، مولوی ظفر الاسلام صاحب سردار مصباح الدین صاحب، مولوی علی محمد صاحب اجمیری ، شیخ چراغ الدین صاحب ان کے علاوہ سامعین میں سے (جن کی تعداد بعض اوقات پانچ سو سے بھی زیادہ ہو مستقلین کا تقرر جاتی اور جن میں مقامی احباب بھی شامل تھے ) ۸۱ کے قریب اصحاب کا نام ایک رجسٹر میں درج کر لیا گیا اور ان کا نام مجلین رکھا جنہیں حضور کے قریب جگہ دی جاتی تھی.اور ان کی روزانہ درس سے قبل حاضری ہوتی تھی اور ۱۲ / اگست سے تو ان کا امتحان بھی لیا جانے لگا.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی درس شروع کرنے سے پیشتر سوالات لکھوا دیتے اور پھر جواب لکھنے کے بعد پرچے لے لیتے.اور دوسرے دن نتیجے کا اعلان فرما دیتے پہلے امتحان میں بابو محمد امیر صاحب امیر جماعت کوئٹہ اول صوفی صالح محمد صاحب قصور دوم اور مولوی محمد ابراہیم صاحب قادیان سوم رہے.اس کے بعد نتائج میں پانچ درجوں تک کا اعلان ہو تا تھا جب مجلین کی تعداد ایک سو سات تک پہنچ گئی تو مسجد میں ان کی نشستیں مقرر کر دی گئیں.تا ان کو بیٹھنے میں آسانی ہو.درس القرآن کے عام اوقات اڑھائی بجے سے پانچ بجے تک اور پھر نماز عصر کے بعد 4 بجے سے ے بجے تک مقرر تھے.لیکن عام طور پر اس سے زیادہ وقت صرف کیا جاتا.۳۱ / اگست ۱۹۲۸ء کو حضور نے خطبہ جمعہ میں درس القرآن سننے والوں سے خطاب درس القرآن سننے والوں سے خطاب کرتے ہوئے انہیں نصیحت فرمائی کہ : درس جب انہوں نے تکلیف اٹھا کر بنا ہے تو اس سے فائدہ بھی اٹھا ئیں اور وہ اس طرح کہ قرآن کریم کو دنیا تک پہنچائیں.قرآن دنیا میں غلافوں میں رکھنے یا جھوٹی قسمیں کھانے کے لئے نہیں آیا.بلکہ اس لئے آیا ہے کہ منبروں پر سنایا جائے.مناروں پر اس کی منادی کی جائے اور بازاروں میں
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 61 خلافت ثانیہ کا پندرھواں سال اس کا وعظ کیا جائے.وہ اس لئے آیا ہے کہ پڑھا جائے اور سنایا جائے.پھر پڑھا جائے اور سنایا جائے.پھر پڑھا جائے اور سنایا جائے.خدا تعالیٰ نے اس کا نام پانی رکھا ہے اور پانی جب پہاڑوں پر گرتا ہے تو ان میں بھی غاریں پیدا کر دیتا ہے وہ نرم چیز ہے مگر گرتے گرتے سخت سے سخت پتھروں پر بھی نشان بنا دیتا ہے.اور اگر جسمانی پانی اس قدر اثر رکھتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ خدا تعالی کا نازل کیا ہوا روحانی پانی دلوں پر اثر نہ کرے.مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ اسے بار بار سنایا جائے اور اپنے عمل سے نیک نمونہ پیش کیا جائے ".ستمبر سے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مجوزہ درس بروقت ختم کرنے کے لئے صبح آٹھ بجے سے 122- قریباً ساڑھے گیارہ بجے تک اور پھر ظہر کے بعد عصر تک دینا شروع فرما دیا.۶ ستمبر کو حضور نے درس میں شامل ہونے والے دار مسیح موعود میں دعوت طعام اصحاب کو دار مسیح موعود علیہ السلام میں دعوت طعام دی جس میں بہت سے مقامی اصحاب کو بھی شمولیت کا فخر بخشا.اخبار الفضل نے اس دعوت پر یہ نوٹ لکھا.اس دعوت کی قدر و قیمت وہی اصحاب جانتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لنگر خانہ کے سوکھے ٹکڑے بطور تبرک لے جاتے ہیں اور اپنے عزیزوں میں بطور تحفہ تقسیم کرتے ہیں.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی دعوت دینے والے ہوں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اور خاندان مسیح موعود علیہ السلام کے دوسرے نو نہال دعوت کھلانے والوں میں ہوں اور دار مسیح موعود میں بیٹھ کر دعوت کھانے کا موقعہ نصیب ہو.اس سے بڑھ کر ایک احمدی کے لئے کیا خوش قسمتی ہو سکتی ہے مبارک ہو ان اصحاب کو جنہیں یہ موقعہ میسر آیا اور خوش قسمت ہیں وہ انسان جنہیں روحانی مائدہ کے ساتھ اس دعوت میں بھی شریک ہونے کا فخر حاصل ہوا".چونکہ کئی اصحاب کو بعض مجبوریوں کے باعث واپس جانا الوداعی تقریر اور خطبہ جمعہ ضروری تھا اس لئے حضور نے اگلے روزے / ستمبر کو گیارہ بجے تک درس دینے کے بعد جانے والے اصحاب کے لئے ایک مختصری الوداعی تقریر فرمائی جس میں تبلیغ اسلام کرنے ، قرآن مجید کے حقائق و معارف پھیلانے اور قلمی جہاد کرنے کی نصیحت کرنے کے بعد حاضرین سمیت نهایت خشوع خضوع سے لمبی دعا فرمائی دوران دعا گریہ و بکا سے مسجد میں گونج پیدا ہو گئی.خود حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے.ای روز آپ نے خطبہ جمعہ میں بیرونی احباب کو نصیحت فرمائی کہ وہ اپنے اپنے مقام پر جاکر جماعتوں کو سنبھالنے اور چست بنانے کی کوشش کریں.اور ان میں زندگی کی روح پیدا کریں اور انہیں -
تاریخ احمدیت جلد ۵ 62 خلافت ثانیہ کا پندرھواں سال بتائیں کہ ان کا معیار آگے والے کی طرف دیکھنا ہوتا ہے.دنیا دار قربانی کرتے وقت پیچھے کی طرف دیکھتا ہے اور شکریہ کے وقت آگے کی طرف پھر ارشاد فرمایا کہ " آپ لوگوں نے قرآن کریم کا جو حصہ پڑھا ہے.اسے ضبط کریں اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں.اور دوسروں سے عمل کرانے کی کوشش کریں تاکہ جو مشکلات دین پر آرہی ہیں وہ دور ہوں اور خداتعالی اپنے فضل سے دین کی ترقی کے سامان پیدا کرے اور ہماری کمزوریوں کی وجہ سے اس کے دین کو نقصان نہ پہنچے ".IAL درس کافوٹو جمعه و عصر کے بعد پھر درس ہوا اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی کی معیت میں پورے مجمع کا فوٹو لیا گیا.۸ / ستمبر درس القرآن کا آخری دن تھا اس روز صبح سے درس شروع ہوا جو دو بجے دوپہر تک مسلسل جاری رہا.دوبارہ اجتماعی دعا صد قہ اور تقسیم انعامات درس کے خاتمہ پر حضور نے دوبارہ اجتماعی دعا کرائی اور ماسٹر فقیر اللہ صاحب ڈسٹرکٹ انسپکٹر مدارس کی طرف سے حاضرین میں مٹھائی تقسیم کی گئی.اس موقعہ پر حضور نے فرمایا کہ چونکہ رسول کریم ال کے متعلق آتا ہے کہ حضور علیہ السلام رمضان کے دنوں میں جبکہ قرآن نازل ہو تا تھا بہت صدقہ دیا کرتے تھے اس لئے میں بھی اس موقعہ پر اپنی طرف سے دس روپے بطور صدقہ دیتا ہوں اور بھی جن دوستوں کو توفیق ہو قادیان کے غرباء کے لئے صدقہ دیں اس پر قریبا دو سو روپے اس وقت جمع ہو گئے.JAP آخر میں حضور نے اپنے دست مبارک سے درس کے سب امتحانات میں نتائج کے لحاظ سے اعلیٰ پوزیشن حاصل کرنے والوں کو انعامات عطا فرمائے.اول انعام حافظ عبد السلام صاحب شملوی نے دو سرا صالح محمد صاحب قصور نے.تیسرا نذیر احمد صاحب متعلم ہی.ایس سی نے اور چوتھا فقیر محمد صاحب کورٹ انسپکٹر نے اور پانچواں شیخ عبد القادر صاحب طالب علم مدرسہ احمدیہ (حال مربی سلسلہ احمدیہ) نے حاصل کیا.تقسیم انعامات کے بعد یہ مقدس و مبارک تقریب اختتام پذیر ہوئی.عورتوں کی عزت کے قیام کے لئے خطبہ جمعہ حضرت خلیفہ الی الثانی ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز نے ۲۸ / ستمبر ۱۹۲۸ء کو ایک اہم خطبہ جمعہ دیا.جس میں جماعت کو ہدایت فرمائی کہ عورتوں کی عزت کی حفاظت کرو.خواہ تمہارے دشمنوں کی عورتیں ہیں.چنانچہ حضور نے فرمایا.عورت کی عزت کی حفاظت خواہ وہ دشمن کی ہو.انسانیت کا ادنی فرض ہے.اور بہادر آدمی کا کام ہے کہ کسی ادنیٰ سے ادنی درجہ کی عورت کی عزت کی حفاظت کے لئے خواہ وہ کسی مذہب سے تعلق
63 خلافت ثانیہ کا پندرھواں سال رکھتی ہو اگر اسے جان بھی دینی پڑے تو قطعا دریغ نہ کرے پس تم بہادر بنو اور عورت کی عزت کی حفاظت کرو.عورت کی عزت کو خدا نے قائم کیا ہے اور شعائر اللہ میں سے ہے.|IAN دار التبلیغ لنڈن کے لئے خواتین احمدیت کی مزید قربانی مجھے لندن کی ظہیر کے بعد مسجد تعمیر انگلستان میں تبلیغ اسلام کا کام روز بروز بڑھ رہا تھا چنانچہ مبلغ انگلستان خان صاحب فرزند علی صاحب کی طرف سے حضرت امیر المومنین کی خدمت میں یہ درخواست پہنچی کہ کام زیادہ ہے اور عملہ بڑھانے کی ضرورت ہے اس کی تائید حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے بھی ولایت کے دوران قیام میں کی تھی.اس لئے حضور نے فیصلہ صادر فرمایا کہ ایک مبلغ کا وہاں اضافہ کر دیا جائے اور بجائے ہندوستان سے کوئی نیا مبلغ بھیجنے کے خود انگلستان کے کسی نو مسلم کو اس کام پر مقرر کیا جائے.صدرانجمن کے بجٹ میں چونکہ اس کی گنجائش نہیں تھی اور احمدی خواتین کو بھی تبلیغی کاموں میں مناسب حصہ لینا چاہیئے.خصوصاً اس لئے بھی کہ یہ مسجد انہی کے چندوں سے بنی ہے.لہذا حضور نے خواتین احمدیت کو تحریک فرمائی کہ وہ مشن کا زائد خرچ اٹھا ئیں اور جو کچھ دیں اپنے پاس سے دیں نہ کہ مردوں کی جیب سے لے کر - D چنانچہ احمدی مستورات نے حسب سابق حضور کے اس مطالبہ پر پورے اخلاص سے لبیک کہا.اور قادیان- II امرت سر لدھیانہ کراچی ، گوجرانوالہ سنتوکر اس ، سیالکوٹ ، کیمبل پور لاہور ، فیروز پور لالہ موسی گھٹیالیاں ، میلی ، ملتان ، میرٹھ ، دہلی، نوشہرہ چھاؤنی ایبٹ آباد ، فیض اللہ چک ضلع گورداسپور ضلع محبوب نگر ، ڈیرہ غازی خاں ، جہلم بھیرہ ، چکوال کھو والی چک ۳۱۲ کو ہاٹ اور راولپنڈی وغیرہ مقامات کی مستورات نے اس مالی قربانی میں نہایت اخلاص سے حصہ لیا.بیرونی ممالک میں سے ماریشس کی احمدی عورتوں نے بھی چندہ دے کر اپنے اخلاص کا ثبوت دیا - HD الألم IAA] IAD
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 64 فصل پنجم شہرو رپورٹ " پر مفصل تبصدد اور اس کے خلاف زبردست احتجاج نہرو کمیٹی کا قیام اور مسلم حقوق کی پامالی سائمن کمیشن کی تحقیقات ابھی ابتدائی مرحلہ پر تھیں کہ مسٹر بروکن ہیڈ (وزیر ہند) نے ایک بیان دیا کہ ہندوستانی اس درجہ منقسم مختلف اور ایک دوسرے سے بیزار ہیں کہ وہ ایک متحدہ دستور اساسی بھی نہیں بنا سکتے.اور کہا کہ اگر وہ حکومت کے مقرر کردہ کمیشن کا بائیکاٹ کرتے ہیں تو خود ہی ہندوستان کے لئے ایک مناسب دستور کا خاکہ تیار کر کے دکھا دیں.کانگریس نے جو شروع سے سائمن کمیشن کا بائیکاٹ کئے ہوئے تھی.اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے ۱۹ مئی ۱۹۲۸ء کو آل پارٹیز کانفرنس کا ایک اجلاس بمبئی میں منعقد کیا.جس میں ہندوستان کا دستور اساسی تشکیل کرنے کے لئے مندرجہ ذیل اصحاب کی ایک سب کمیٹی مقرر کی.(۱) پنڈت موتی لال نہرو (۲) مسٹر سبھاش چندر بوس (نمائندہ کانگریس) (۳) مسٹر اینی (۴) مسٹر جیاکار (نمائندہ ہند و مهاسبها (۵) سرتیج بہادر سپرو نمائندہ لیبرل فیڈریشن (۲) مسٹر پر دھان (غیر برہمنوں کے نمائندہ ) (۷) سر علی امام (۸) مسٹر شعیب قریشی (نمائندہ مسلمانان ہند) (۹) سردار منگل سنگھ (سکھ لیگ کے نمائندہ) (۱۰) مسٹر جوشی ( مزدوروں کی طرف سے ) بالفاظ دیگر دس ممبروں میں سے صرف دو مسلمان مسلم نقطہ نگاہ کے اظہار کے لئے نامزد ہوئے جن میں سے سر علی امام بوجہ بیماری صرف ایک اجلاس میں شریک ہو سکے.اور گو جناب شعیب قریشی نے شرکت جاری رکھی.لیکن اسی اثناء میں انہیں یہ معلوم کر کے بہت مایوسی ہوئی کہ ایک ایسا دستور وضع کیا جارہا ہے جس میں ہندو اکثریت کو سب کچھ مل جائے گا.اور مسلم اقلیت بالکل محروم رہ جائے گی حتی کہ مسلم لیگ کے وہ مطالبات جنہیں کانگریس منظور کر چکی تھی.پنڈت موتی لال نہرو نے رد کر دئیے اور کمیٹی نے خود کانگریس کی طے شدہ پالیسی پر خط تنسیخ کھینچ دیا.یہ رنگ دیکھ کر جناب شعیب قریشی صاحب الگ ہو کر بیٹھ رہے اور انہوں نے رپورٹ پر دستخط تک نہیں کئے.m پنڈت موتی لال 142
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 65 صاحب نہرو نے ان کی جگہ چوہدری خلیق الزماں صاحب اور تصدق احمد خان صاحب شروانی لے لیئے.یہ تھی نہرو رپورٹ جو آل پارٹیز کانفرنس لکھنو میں پاس کی گئی اور جسے کانگریس کی طرف سے ۱۲/ اگست ۱۹۲۸ء کو سارے ہندوستان کے نمائندہ دستور کی حیثیت سے شائع کیا گیا.حق یہ ہے کہ نہرو رپورٹ صرف اور صرف ہندوؤں کی نیابت کرتی تھی.چند آدمی اپنی مرضی سے ایک جگہ جمع ہو گئے جن میں کئی لوگ ایسے تھے.کہ جنہوں نے اپنے تئیں خود ہی لیڈر قرار دے لیا تھا نہ مسلمان سیاسی جماعتوں کی نمائندگی اس میں ہوئی نہ مختلف صوبوں کی نمائندگی.حالانکہ جن مسائل میں اختلاف زیادہ بھیانک صورت میں نمایاں ہو تا تھا وہ صوبائی مسائل تھے نہ کہ آل انڈیا مسائل.پھر جہاں تک مسلم مطالبات کا تعلق تھا وہ تقریباً نظر انداز کر دیئے گئے.اور جو باقی رکھے گئے ان پر ایسے پیرا یہ بیان میں بحث کی گئی جو نہایت حوصلہ شکن تھا.اور صاف طور پر بیان کیا گیا کہ مطالبات فرقہ دارانہ ہیں اور مفاہمت ممکن نہیں.نیز بنگال و پنجاب کی مسلم اکثریت کو بھی خطرہ میں ڈال دیا اور محمد امین زبیری مارہروی کے الفاظ میں " رپورٹ دراصل اس خطرہ کی گھنٹی تھی کہ ہندوستان میں دو ہری حکومت قائم ہو.جس میں فوجی اور خارجی اختیار انگریزوں کے ہاتھ میں رہے اور ملکی و انتظامی اختیارات ہندو اکثریت کے ہاتھ میں آجائیں تا بر طانوی سنگینوں سے مسلمانوں کو غلام بنالیا جائے اور بقول مولانا محمد علی جو ہر کہ "جب ایسٹ انڈیا کمپنی کے عہد میں منادی کی جاتی تھی تو منادیکارتا تھا کہ خلقت خدا کی ملک بادشاہ کا حکم کمپنی بہادر کا لیکن نہرو رپورٹ کا ملخص یہ ہے کہ خلقت خدا کی ملک وائسرائے یا پارلیمنٹ کا اور حکم مہاسبھا کا ".ہندوؤں کو تو اس کانگریس نواز حلقوں کی طرف سے نہرو رپورٹ کی تائید امپورٹ کا حامی ہونا چاہیئے تھا لیکن حیرت یہ ہے کہ خود مسلمانوں میں بھی ایک خاصہ بارسوخ طبقہ اس کی بے سوچے تائید میں اٹھ کھڑا ہوا.اور مولوی ابو الکلام صاحب آزاد اس کے سرخیل تھے جنہوں نے شروع ہی سے مسلمانوں کو یہ دلا سا دینے کی کوشش کی تھی کہ ہندو اکثریت کا خطرہ محض " شیطانی وسوسہ " ہے.انہیں مسلم تھا کہ ”ہندوؤں کا جماعتی وصف تنگ دلی اور کو تاہ دستی ہے.وہ چیز جسے دل کا کھلا ہونا اور طبیعت کی فیاضی کہتے ہیں ہمارے ہندو بھائیوں میں پیدا نہ ہو سکی.بایں ہمہ وہ مسلمانوں کو یہ مشورہ دے رہے تھے کہ وہ بے اعتمادی کا مظاہرہ کر کے چند نشستوں " اور " نام نہاد ضمانتوں " کو جو " گناہ بے لذت " سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں اور جنہیں ہندو " خاص رعایت سے " تعبیر کر سکتے ہیں چھوڑ دینا چاہئے.اور ان کا کہنا تھا کہ " یہ باتیں خاص رعایت نہ تھیں اگر دوسری جماعت میں "
تاریخ احمدیت جلد ۵ 66 خلافت ثانیه کاند فیاضی اور کشادہ دلی کی اسپرٹ موجود ہوتی مگر جب موجود نہیں ہے اور ہمارے تحفظ کے لئے یہ باتیں کوئی قیمت بھی نہیں رکھتیں تو پھر یقینا ہماری خود داری اور غیرت کا تقاضا یہی ہونا چاہیئے کہ اس قسم کے مطالبوں سے خود ہی دستبردار ہو جائیں اور اپنے مستقبل کا دامن غیرت اپنے تنگ دل بھائیوں کے منت کرم داشتن سے آلودہ نہ ہونے دیں".یہی نہیں ان کا نعرہ ہمیشہ یہ رہا کہ "اگر ایسے مسلمان دماغ موجود ہیں جو چاہتے ہیں کہ اپنی گزری ہوئی تہذیب و معاشرت کو پھر تازہ کریں جو وہ ایک ہزار برس پہلے ایران اور وسط ایشیا سے لائے تھے تو میں ان سے یہ بھی کہوں گا کہ اس خواب سے جس قدر جلد بیدار ہو جا ئیں بہتر ہے کیونکہ یہ ایک قدرتی تخیل ہے اور حقیقت کی سرزمین میں ایسے خیالات اگ نہیں سکتے.در اصل مولوی ابو الکلام صاحب آزاد کے اس مسلک کے پیچھے صرف ایک جذ بہ سب سے نمایاں کار فرما تھا یعنی گاندھی جی کی اطاعت.چنانچہ انہوں نے کہا." ہماری کامیابیوں کا دار و مدار تین چیزوں پر ہے اتحاد- ڈسپلن (Discipline) اور مہاتما گاندھی کی راہنمائی پر اعتماد یہی ایک راہنمائی ہے جس نے ہماری تحریک کا شاندار ماضی تیار کیا.اور صرف اس سے ہم ایک فتح مند مستقبل کی توقع کر سکتے ہیں.| F•A مولوی ابو الکلام صاحب آزاد (جن کی پشت پر کانگریس اور ہندوؤں کی طاقت و ثروت تھی) کے ہمنواؤں کی کثیر تعداد نہرو رپورٹ کی سرگرم موید تھی جو ہندوستان میں ہر جگہ پھیلے ہوئے تھے حتی کہ پنجاب میں بھی جو مسلم اکثریت کا صوبہ ہونے کی وجہ سے فرقہ وارانہ مسائل کا بنگال سے بڑھ کر آماجگاہ بنا ہوا تھا.خلافت کمیٹی کے سابق ارکان (مثلاً چودھری افضل حق صاحب سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری اور مولوی حبیب الرحمٰن صاحب لدھیانوی وغیرہ) جنہوں نے دسمبر ۱۹۲۹ء میں مجلس احرار اسلام کی بنیاد رکھی.نہرو رپورٹ کی حمایت کر رہے تھے.چنانچہ چوہدری افضل حق صاحب کی نسبت ( جنہیں اس مجلس کے دماغ کی حیثیت حاصل تھی.II اور جنہیں بعد کو قائد و مفکر اور مصلح و مجدد کے نام سے بھی پکارا گیا.ان کے رفقاء کا کہنا ہے کہ ۱۹۲۸ء میں نہرو رپورٹ مرتب ہوئی تو اس سکیم کی حمایت کی قصر برطانیہ کے وہ ستون جنہوں نے چند سنہری سکوں کی جھلک کی خاطر ضمیر فروشی کر رکھی تھی آپ کے خلاف ہو گئے.ان حضرت کا اس بارے میں غلو د تشد د جس انتہا تک پہنچ گیا اس کا کسی قدر اندازہ مندرجہ عبارت سے ہو سکتا ہے کہ وہ رپورٹ پر تنقید کرنے والوں کو برطانوی ایجنٹ تک قرار دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے.خود چوہدری افضل حق صاحب نے اپنی کتاب " تاریخ احرار " میں محتاط الفاظ میں اقرار کیا ہے کہ احرار نے نہرو رپورٹ کو مسلمانوں میں مقبول بنانے کے لئے
تاریخ احمدیت جلد ۵ 67 خلافت ثانیہ کا پندرھواں زبردست جدوجہد کی اور اس کے لئے قربانیاں دیں.TIP احرار پنجاب کے دوش بدوش مولوی ظفر علی خاں صاحب ایڈیٹر ”زمیندار“ لاہور بھی رپورٹ کی تعریف میں رطب اللسان تھے.اور ان کا اخبار اس کی حمایت میں وقف تھا.بلکہ انہوں نے آگے چل کر مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ لکھنو میں ایک ریزولیوشن بھی پیش کیا جس میں اس کے اصول کو پسند کرتے ہوئے اس کے مرتب کرنے والوں کی محنت و کاوش کا شکریہ ادا کیا گیا تھا.اور جزئیات کو طے کرنے کے لئے ایک سب کمیٹی بنانے کی رائے دی گئی تھی.مذہبی لیڈروں میں سے مولوی ثناء اللہ صاحب امرت سری اور ان کے متعد در فقاء بھی حق میں تھے.نہرو رپورٹ کے مخالف مسلمانوں کا طبقہ ان تفصیلات سے ظاہر ہے کہ ہندوستان خصوصاً پنجاب میں خود مسلمانوں کا ایک حصہ نہرو رپورٹ کی حمایت میں وقف اور اس کی تبلیغ کر رہا تھا.اس کے مقابل بلاشبہ کئی درد مند دل رکھنے والے مسلمانوں کو جن میں سر محمد شفیع ، مولانا محمد علی جو ہر سر محمد اقبال جیسے مسلمان لیڈر بھی شامل تھے.اس رپورٹ سے سخت اختلاف تھا مگر وہ اپنے اختلاف کے ساتھ ایسے وزنی اور واقعاتی دلائل نہ پیش کرتے تھے.جو دو سرے مسلمانوں کو رپورٹ کی مضرتوں سے آگاہ کر کے اس کی کھلی مخالفت پر آمادہ کر دیں اور نہ یہ حضرات کسی منظم رنگ میں نہرو رپورٹ میں بے نقاب کرنے کی جد و جہد کر رہے تھے بلکہ ڈاکٹر سر محمد اقبال تو مایوس ہو کر پنجاب کو نسل میں اس نظریہ کا اظہار کر چکے تھے کہ ”ہندوستان میں حکومت کے لائق نہ مسلمان ہیں نہ ہندو اور یہ کہ میں ہندو مسلم افسران کی بجائے انگریز افسروں کا خیر مقدم کروں گا " - 1 ان حالات میں مسلمانان ہند کو ایک ایسے قائد و راہ نما کی ضرورت تھی جو میدان عمل میں آئے اور نہ صرف شہرو رپورٹ کا علمی و عملی رنگ میں تجزیہ کر کے انہیں اس کی مخالفت میں مضبوط چٹان پر TIA PIZ- کھڑا کر دے.تاوہ اکثریت کے ناپاک عزائم سے محفوظ رہ کر اپنی قومی زندگی کو محفوظ کر سکیں.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی طرف سے مدلل مسکت تبصرہ جیسا کہ اوپر ذکر آپکا ہے کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی ۸ / اگست ۱۹۲۸ء سے ۱۸ ستمبر ۱۹۲۸ء تک درس القرآن میں مصروف تھے.اس کے بعد چند دن گذشتہ ماہ کے جمع شدہ کام کے نکالنے میں لگے جب فارغ ہوئے تو نہرو رپورٹ کی تلاش کی.لیکن تلاش کے باوجود اس کی کوئی کاپی میسر نہ آئی اور آخری اطلاع لاہور سے یہی پہنچی کہ تیسرا ایڈیشن چھپنے پر ہی یہ کتاب دستیاب ہو سکے گی چونکہ پہلے ہی کافی دیر ہو چکی تھی.آپ کو اس کا بہت
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 68 خلافت عثمانیہ کا پندرھواں سال افسوس ہوا.اسی اثناء میں آپ کے اہل و عیال شملہ سے واپس آئے تو آپ انہیں لینے کے لئے امرت سر تشریف لے گئے.جہاں آپ کو اسٹیشن کے بک سٹال سے اس کے دو نسخے مل گئے اس طرح ۱۲۱ ستمبر کو یہ رپورٹ فراہم ہوئی اور اسی وقت سے آپ نے اس کا مطالعہ شروع کر دیا.اور چونکہ پہلے ہی دیر ہو چکی تھی اس لئے آپ نے الفضل کے ذریعہ اس کے متعلق اپنی رائے کا باقساط اظہار شروع کر دیا.جو نہرو رپورٹ اور مسلمانوں کے مصالح" کے عنوان سے ۲/ اکتوبر ۱۹۲۸ء سے ۲/ نومبر ۱۹۲۸ء تک سات قسطوں میں مکمل ہوا." تبصرہ کے مضامین پر طائرانہ نظر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے تبصرہ کے آغاز میں رپورٹ کی اندرونی شہادتوں سے ثابت کرنے کے بعد کہ نہرو کمیٹی کسی صورت میں بھی ہندوستان کی نمائندہ نہیں کہلا سکتی.سب سے پہلے مسلمانوں کے اصولی مطالبات پر روشنی ڈالی جو یہ تھے.-1 حکومت کا طریق فیڈرل یا اتحادی ہو یعنی تمام صوبوں کو اندرونی طور پر کامل خود مختاری حاصل ہو.نیابت سے متعلق یہ اصل تسلیم کیا جائے کہ جن صوبوں میں کسی قوم کی اقلیت کمزور ہے اسے اپنے حق سے زیادہ ممبریاں دی جائیں لیکن جن میں اقلیت والی قوم یا اقوام مضبوط ہوں وہاں ان کی اصلی تعداد کے مطابق ہی حق نیابت حاصل ہو.جب تک ہندوؤں اور مسلمانوں میں باہمی اعتماد قائم نہ ہو جائے اس وقت تک سب صوبوں میں اور کم سے کم پنجاب اور بنگال میں جداگانہ طریق انتخاب جاری رہے.صوبہ سرحد اور صوبہ بلوچستان کو دوسرے صوبوں کی طرح نیابتی حکومت دی جائے اور سندھ کو الگ صوبہ بنا کر اسے بھی نیا بتی اختیارات تفویض کئے جائیں.کسی صوبہ میں بھی اکثریت کو اقلیت کی زبان یا اس کے طرز تحریر میں مداخلت کا حق حاصل نہ ہو.حکومت نذہب یا مذ ہب کی تبلیغ میں دخل دینے کی مجاز نہ ہو.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی طرف سے) ساتواں مطالبہ یہ بھی پیش ہو رہا تھا کہ ان حقوق کو قانون اساسی میں داخل کیا جائے اور قانون اساسی اس وقت تک نہ بدلا جا سکے جب تک کہ منتخب شدہ ممبروں میں سے ۲/۳ اس کے بدلنے کی رائے نہ دیں.اور تین دفعہ کی متواتر منتخب شدہ مجالس آئینی پے در ۲/۳ رائے سے اس کے بدلنے کا فیصلہ کریں اور قانون اساسی کا جو حصہ کسی خاص قوم کے حقوق
تاریخ احمد بیت - جلد ۵ 69 خلافت ثانیہ کا پندرھواں سال کے متعلق ہو وہ اس وقت تک تبدیل نہ کیا جائے جب تک اس شرط کے ساتھ کہ اس قوم کے ۲/۳ ممبر اس کے بدلنے کے حق میں نہ ہوں اور جب تک تین متواتر طور پر منتخب شدہ کو نسلوں میں وہ اس تبدیلی کے حق میں ووٹ نہ دیں اسے پاس نہ سمجھا جائے.اکثر و بیشتر یہ ان مطالبات کا خلاصہ تھا جو عموماً شفیع لیگ کی طرف سے پیش کئے گئے.اس کے مقابل کلکتہ لیگ کے مطالبات تھے جس کے بانی صدر اور روح رواں جناب محمد علی جناح تھا.مگر اول تو انہیں خود اقرار تھا.کہ اس زمانے میں مسلمانوں کی اکثریت ان کی تائید میں نہیں تھی.دوسرے شفیع لیگ سے ان کا اصولی اختلاف اس مرحلے پر بنیادی حیثیت سے دو ایک امور پر تھا.جن کی وضاحت حضور نے فرمائی اور اس کے بعد مسلمانوں کا ایک ایک مطالبہ بیان کر کے نہرو رپورٹ کی روشنی میں ثابت کیا کہ اس نے مسلم مطالبات کو پورا کرنا تو رہا ایک طرف ان کے موجودہ حاصل شدہ حقوق بھی غصب کرنے کی کوشش کی ہے اتحادی طریق حکومت (Federal System) کی بجائے اس نے ایک قسم کی وحدانی طرز حکومت (Unitary System کی تجویز کی.اقلیتوں کی نسبت اس نے فیصلہ دیا کہ انہیں کسی جگہ زائد حق نہ دیا جائے.جداگانہ انتخاب کا مطالبہ اس نے پورا کرنے سے انکار کر دیا.اگر چہ صوبہ سرحد کے لئے نیابتی حکومت قبول کرلی.مگر بلوچستان کو مشتبہ چھوڑ دیا اور سندھ کو الگ صوبہ بنانے کے لئے غیر معقولی شرطیں لگا دیں.زبان کا معاملہ نظر انداز کر دیا.مذہبی اور اقتصادی دست اندازی سے روکنے کے مطالبہ کی اہمیت و وسعت لفظوں کے ہیر پھیر میں دبا دی گئی.اسی طرح جہاں تک اقلیتوں کی حفاظت کی دفعات کا ایسے رنگ میں قانون اساسی میں شامل کرنے کا تعلق تھا.کہ ان کا بدلنا آسان کام نہ ہو.اسے بھی نہر کمیٹی نے نظر انداز کر دیا.مسلمانوں کو بروقت انتباہ مسلمانوں کے مطالبات اور نہرو رپورٹ پر تفصیلی نظر ڈالتے ہوئے آپ نے پہلے مسلمانوں کو خاص حفاظت کی ضرورت کے سات اہم وجوہ بیان فرمائے.اور پھر مسلمانوں کے ہر مطالبہ کی معقولیت روز روشن کی طرح ثابت کر دکھائی اور مسلمانوں کو بروقت انتباہ کیا کہ وہ یہ خیال چھوڑ دیں کہ اب جو کچھ بھی فیصلہ ہو جائے بعد میں اگر اس میں نقص معلوم ہو گا تو اسے بدل دیا جائے گا کیونکہ معاملہ اس کے بالکل بر عکس ہے آج انہیں اپنے مطالبات کا منوانا زیادہ آسان ہے لیکن سوراج کے ملنے کے بعد ان کا منوانا بالکل ناممکن ہو گا اس وقت مرکزی حکومت پر ہندو اکثریت چھائی ہوئی ہو گی اس لئے مسلمان اسمبلیوں میں بھی حق نہ حاصل کر سکیں گے.پھر مسلمان اقلیت کے قوت و طاقت سے اپنے حقوق بزور منوانے کا امکان نہیں ہے اور نہ بیرونی طاقتوں اور ملکوں پر انحصار کرنا صحیح ہو سکتا ہے لہذا ملک میں اپنے مستقبل کو محفوظ کرنے کی
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 70 خلافت عثمانیہ کا پندرھواں سا واحد صورت یہی ہے کہ ہندوستان کو خود مختار حکومت ملنے سے پہلے مسلم اقلیت اپنے حقوق منوالے چنانچہ آپ نے کانگریسی مسلمانوں کے نقطہ نگاہ سے شدید اختلاف کرتے ہوئے مسلمانوں کو صاف صاف بتا دیا.میں یہ نہیں کہتا کہ ہندوستان کی آزادی کے لئے کوشش نہ کرو اب جبکہ انگلستان نے خود فیصلہ کر دیا ہے کہ ہندوستان کو نیابتی حکومت کا حق ہے اس کے لئے جو جائز کوشش کی جائے میں اس میں اپنے دوسرے بھائیوں کے ساتھ شریک ہوں مگر جو چیز مجھ پر گراں ہے اور میرے دل کو بٹھائے دیتی ہے.وہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے حقوق کی حفاظت کئے بغیر آئندہ طریق حکومت پر راضی ہو جا ئیں.اس کے نتائج نہایت تلخ اور نہایت خطرناک نکلیں گے اور مسلمانوں کو چاہئے کہ جب تک کہ دونوں مسلم لیگز کی پیش کردہ تجاویز کو قبول نہ کر لیا جائے.اس وقت تک وہ کسی صورت میں بھی سمجھوتے پر راضی نہ ہوں ورنہ جو خطرناک صورت پیدا ہوگی اس کا تصور کر کے بھی دل کانپتا ہے.- مسلمانوں کے لئے آئندہ طریق عمل کی راہنمائی تبصرہ کے آخر میں حضور نے مسلمانوں کے سامنے طریق عمل رکھا کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہئے.چنانچہ اس سلسلہ میں حضور نے مندرجہ ذیل تجاویز پیش فرما ئیں: اول : مسلمان اپنے مطالبات میں بعض اہم باتوں کو نظر انداز کر رہے ہیں جن پر انہیں اسلامی نقطہ نگاہ سے غور کرنا ضروری ہے.مثلا رائے دہندگی میں عورتوں کا حق ، خارجی معاملات احترام جمعتہ المبارک ، اہلی اور عائلی معاملات میں اسلامی قانون کے نفاذ پر زور ہائیکورٹوں کے جوں کا تقرر صوبوں کی طرف سے تقرر ریاستوں کا سوال خلاصہ یہ کہ انہیں نہرو کمیٹی پر مزید غور کرنا چاہئے اور اس کے لئے اول تو ایک آل پارٹیز مسلم کانفرنس منعقد ہو جس پر ہر خیال کے مسلمانوں کو اظہار خیال کا موقعہ دیا جائے اور اصولی غور کرنے کے بعد ایک سب کمیٹی بنائی جائے جو نہرو کمیٹی پر تفصیلی اور باریک نگاہ ڈالے اور اس کی خامیوں کو دور اور اس کی کمیوں میں اضافہ کر کے ایک مکمل قانون اساسی پیش کرے.دوم : نہرو کمیٹی گورنمنٹ کے حلقوں میں ایک خاص جنبش پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے اس لئے ضروری ہے کہ ہر شہر اور ہر قصبے میں جلسے کر کے یہ ریزولیوشن پاس کئے جائیں کہ ہم نہر د کمیٹی کی رپورٹ سے متفق نہیں اور ان جلسوں کی رپورٹیں گورنمنٹ کے پاس بھی بھیجی جائیں.سوم : جمہور مسلمانوں کو نہرو رپورٹ کی خرابیوں سے آگاہ کیا جائے اور ہر شہر ہر قصبے اور ہر گاؤں میں اس کے لئے جلسے منعقد ہوں اس تحریک کی کامیابی کے لئے جمہور کا پشت پر ہونا ضروری ہے.
تاریخ احمدیت - بلد ۵ 71 خلافت عثمانیہ کا بندر چهارم : انگلستان کی رائے عامہ پر بھی اثر ڈالنے کی کوشش کرنی چاہئے.تا اسے معلوم ہو کہ نہرورپورٹ لکھنے والے فرقہ وارانہ تعصب سے بالا نہیں رہ سکے.حضور نے یہ بھی وعدہ فرمایا کہ " میں اور احمد یہ جماعت اس معاملہ میں باقی تمام مسلمان فرقوں کے ساتھ مل کر ہر قسم کی جدوجہد کرنے کے لئے تیار ہیں اور میں احمدیہ جماعت کے وسیع اور مضبوط نظام کو اس اسلامی کام کی اعانت کے لئے تمام جائز صورتوں میں لگا دینے کا وعدہ کرتا ہوں".a تبصرہ کی وسیع اشاعت اور مقبولیت حضرت خلیفہ اسی الثانی ایدہ اللہ تعالی کا یہ بے نظیر تبصرہ "مسلمانوں کے حقوق اور نہرو رپورٹ" کے ۲۲۴ نام سے معا بعد کتابی شکل میں شائع کر دیا گیا اور کلکتہ اور دہلی میں (جو ان دنوں سیاسی سرگرمیوں کے مرکز تھے اور جہاں کانگریس ، مسلم لیگ ، مجلس خلافت اور دوسری جماعتوں کے اجلاس منعقد ہو رہے تھے ) اس کی خاص طور پر اشاعت کی گئی.حضور کی اس بروقت رہنمائی سے مسلمانوں کے اونچے طبقے بہت ممنون ہوئے اور مسلمانوں کے سیاسی حلقوں میں اسے نہایت پسند کیا گیا.اور بڑے بڑے مسلم لیڈروں نے تعریفی الفاظ میں اسے سراہا اور شکریہ ادا کیا کہ حضرت امام جماعت احمدیہ نے مسلمانوں کی نہایت ضرورت کے وقت دستگیری کی ہے.چنانچہ کئی اصحاب نے حضرت مفتی محمد صادق صاحب سے کہا کہ ”اصلی اور عملی کام تو آپ کی جماعت ہی کر رہی ہے اور جو تنظیم آپ کی جماعت میں ہے وہ اور کہیں نہیں دیکھی جاتی".کلکتہ کے مخلص احمدی مسٹر دولت احمد خاں صاحب بی.اے ایل ایل بی جائنٹ ایڈیٹر اخبار "سلطان" نے تبصرہ کو بنگالی میں ترجمہ کر کے اور ایک چھوٹی سی خوبصورت کتاب کی شکل میں ترتیب دے کر شائع کیا اور اہل بنگال میں اس کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی.ایک معزز تعلیم یافتہ غیر احمدی نہرو رپورٹ پر تبصرہ کا مطالعہ کرنے کے بعد اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے سیکرٹری ترقی اسلام کے نام ایک خط میں لکھا." میری طبیعت بہت چاہتی ہے کہ حضرت خلیفہ صاحب کو دیکھوں اور ان کی زیارت کروں.کیونکہ میرے دل میں ان کی بہت وقعت.....آپ براہ مہربانی حضرت صاحب کی خدمت میں اس احقر کا سلام عرض کر دیجئے اور یہ بھی کہہ دیجئے کہ ایک خادم کی طرف سے مبارکباد منظور فرما ئیں کہ آپ نہایت خوش اسلوبی سے ایسے خطر ناک حالات میں جن سے اسلام اس وقت گزر رہا ہے اس کو بچارہے ہیں اور نہ صرف مذہبی خبر گیری کر رہے ہیں بلکہ سیاسی معاملات میں بھی مسلمانوں کی رہنمائی فرما رہے ہیں.میں نے جناب والا کے خیالات کو نہرو رپورٹ کے متعلق پڑھا جس نے آپ کی وقعت کو میری آنکھوں میں اور بھی بڑھا دیا.اور میں جہاں آپ کو ایک زبردست مذہبی عالم سمجھتا ہوں اس کے ساتھ ہی ایک ماہر سیاست دان بھی سمجھنے لگا
تاریخ احمدیت.جلد ن ہوں " - Ho 72 خلافت ماشیہ کا پندرھواں سا برطانوی پارلیمنٹ کے ممبروں اور انگلستان کے اہل الرائے طبقہ تک مسلم نقطہ نگاہ پہنچانے کے لئے اس کا انگریزی ترجمہ بھی شائع کر کے بھیجا گیا.حضرت خلیفتہ مسلمانان ہند کی طرف سے رپورٹ کے خلاف کامیاب احتجاج المسیح الثانی ایده اللہ تعالیٰ نے مسلمانان ہند سے ملی و قومی مفاد کی خاطر پورے نظام جماعت کو مصروف عمل کرنے کا جو ا وعدہ فرمایا.وہ آپ نے پورا کر دیا.چنانچہ حضور نے ۵/ اکتوبر ۱۹۲۸ء کے خطبہ جمعہ میں ہندوستان کے تمام احمدیوں کو حکم دیا کہ وہ ہر شہر ہر قصبہ اور ہر گاؤں میں دوسرے لوگوں سے مل کر جلد سے جلد ایسی کمیٹیاں بنا ئیں جو نہرو کمیٹی کے خلاف جلسے کر کے لوگوں کو اس کی پیش کردہ تجاویز کے بد اثرات سے آگاہ کریں اور ریزولیوشن پاس کر کے ان کی نقول لاہور اور کلکتہ کی مسلم لیگوں ، مقامی حکومت حکومت ہند سائمن کمیشن اور تمام سیاسی انجمنوں اور پریس کو بھیجیں اور حکومت کو آگاہ کر دیا جائے کہ نہرو رپورٹ میں ہمارے حقوق کو نظر انداز کر دیا گیا ہے اور یہ تحریک اس وقت تک جاری رہنی چاہئے.جب تک ان باتوں کا فیصلہ نہ ہو جائے.نیز فرمایا: " خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمار انظام ہے اس لئے ایک جگہ سے جو آواز اٹھتی ہے وہی پشاور سے لے کر آسام تک اور منصوری سے لے کر ر اس کماری تک ہر جگہ سے بلند ہوتی ہے.اور سارے ملک میں شور بپا ہو جاتا ہے ایسا نظام اگر انسان خود پیدا کرنے کی کوشش کریں تو سینکڑوں سالوں میں بھی نہیں کر سکتے.لیکن اللہ تعالٰی نے مامور بھیج کر ہم پر احسان کیا کہ ایساز بر دست نظام منٹوں میں پیدا کر دیا.اور جو کام کروڑوں مسلمان سالہا سال میں نہیں کر سکتے تھے وہ خدا کے فضل سے ہم نے کئے ہیں...پیس میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ اس نظام کو کام میں لا کر تحریک کریں تاکہ اس رپورٹ کے بداثرات سے مسلمانوں اور گورنمنٹ کو متنبہ کیا جاسکے اور تھوڑے عرصہ میں ہی ایسا مطلع پیدا کر دیا جائے جو اس غبار سے جو اس وقت اٹھ رہا ہے پاک وصاف ہو " - 21 چنانچہ جماعتوں نے حضور کے اس ارشاد کی تعمیل میں مسلمانوں کو بیدار کر دیا اور ملک کے چپہ چپہ ا میں احتجاجی جلسے کئے.اور ہندوستان کے مسلمان ایک بار پھر اسی جوش و خروش سے ایک پلیٹ ارم پر جمع ہو گئے جس طرح حضرت امام جماعت احمدیہ کی سرفروشانہ جد وجہد نے انہیں ۱۹۲۷ء میں ، تحفظ ناموس رسول میں متحد و منسلک کر دیا تھا.YEA بالا خر گاندھی جی جیسے کانگریسی راہنما کو اجلاس منعقدہ الہ آباد میں نہایت صاف گوئی سے اقرار
73 اور میری امید کا چھ کرنا پڑا کہ " ہم یہ کبھی فراموش نہیں کر سکتے.کہ نہرو رپورٹ کو ردی کے کاغذ کے برابر بھی وقعت نہیں دی گئی".ایک اہم مکتوب ہندوؤں کی سازش جماعت احمدیہ کے خلاف احمدی وکیل فضل کریم صاحب نے حضور کی خدمت میں لکھا کہ : سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاته حضور کو قبل اس کے ہندوؤں کی مخالفت اور بغض کے متعلق کافی علم ہے.مگر کل ہی مجھے ایک مسلمان وکیل دوست سے ایک ایسے امر کے متعلق علم ہوا کہ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب ہندوؤں نے Organized ہمارا مقابلہ کرنے کا ارادہ کر لیا ہے اور اس کی طرف اپنے عوام کو بھی توجہ دلا دلا کر تیار کر رہے ہیں.خصوصیت سے گزشتہ ایک دو سال اور موجود ہندو رپورٹ کی ہماری طرف سے مخالفت نے آگ لگادی ہے.اس دوست نے مجھے بتلایا کہ ایک ہندو نے مجھے بتلایا ہے کہ احمدی ملکی ترقی میں ایک زبر دست روک ہیں اس لئے ہم انہیں Crush کر کے چھوڑیں گے اور سارے ملک کے ہندوؤں نے یہ ٹھان لیا ہے اور اس کے لئے روپیہ کا بھی انتظام کیا جائے گا.میں نے دوست سے دریافت کیا کہ وہ کس حیثیت کا انسان ہے تو انہوں نے بتایا کہ معمولی سا آدمی ہے.جس سے یہ ظاہر ہے کہ عوام میں بھی ہماری مخالفت اور مقابلہ کی روح پھونکی جارہی ہے.میں انشاء اللہ العزیز مزید معلومات حاصل کرنے کی کوشش کروں گا مجھے تو یہ سن کر ایک پہلو سے خوشی ہوئی اور ایک پہلو سے فکر پیدا ہوئی خوشی تو اس لئے کہ ملک کی ایک زبر دست قوم بھی سلسلہ کی طاقت کو مان گئی اور روز افزوں ترقی سے گھبرا رہی ہے فکر اپنی کمزوریوں کا ہے کہ مقابلہ کی طاقت نہیں اللہ تعالیٰ ہی قوت عطا کرے گا.خادم کو دعاؤں میں یاد فرمائیں.خاکسار فضل کریم بنگالی مسلمانوں کی بیداری کے لئے بنگال اگر چہ مسلم اکثریت کا صوبہ تھا مگر پورے ملک غلام فرید صاحب ایم.اے کا دورہ بنگال پر ہندو سرمایہ دار چھائے ہوئے تھے اور وہی زیادہ تر تعلیم یافتہ بھی تھے اس
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 74 خلافت عثمانیہ کا پندرھواں سال نازک صورت حال کے پیش نظر سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی نے اکتوبر ۱۹۲۸ء میں ملک غلام فرید صاحب ایم.اے (سابق مبلغ جر منی و انگلستان) کو بنگال میں بھجوایا اور ارشاد فرمایا کہ نہرو رپورٹ کے خلاف بنگالی مسلمانوں میں تحریک پیدا کر دیں.ملک صاحب نے کلکتہ ، چانگام اکھوڑہ ، برہمن، بڑیہ بوگرہ رنگپورہ جلپاگوری، کاکوره ، مالده جمشید پور وغیرہ مشہور مقامات کا دورہ کیا اور کئی مقامات پر زور دار لیکچر دیئے.چنانچہ اکھوڑہ میں " حالات حاضرہ اور ان کا علاج" کے موضوع پر انگریزی زبان میں تقریر کی جو بہت پسند کی گئی بوگرہ میں آپ نے مقامی اخبارات کے لئے نہرو رپورٹ کے متعلق مضامین لکھے.جن کو مقامی پریس کے علاوہ بنگال کے دوسرے اخبارات نے بھی شائع کیا.رنگپورہ میں آپ نے ایک مقامی رئیس کی صدارت میں نہرو رپورٹ پر لیکچر دیا.جلسہ میں قرار داد میں پاس ہو ئیں جو کلکتہ کے مشہور اخبارات فارورڈ اور انگلش مین میں بھی شائع ہو گئیں.علاوہ ازیں فری پریس کو بھی تار دیا گیا.اس لحاظ سے یہ میٹنگ بہت کامیاب ہوئی.یہاں آپ نے بعض رؤساء سے انفرادی ملاقاتیں بھی کیں.اور مسلمانوں کی اقتصادی و تعلیمی پستی کے متعلق تبادلہ خیالات کیا.جلپا گوری میں بھی نہرو رپورٹ پر آپ کا لیکچر ہوا.یہ مقام چونکہ کمشنری کا ہیڈ کوارٹر تھا اس لئے تعلیم یافتہ اصحاب بڑی کثرت سے شامل اجلاس ہوئے.خان بہادر ڈاکٹر عبد العزیز صاحب صدر جلسہ تھے.یہاں بھی ریزولیوشن پاس کر کے اخبارات کو بھیجے گئے لوگوں پر آپ کی تقریر کا بہت اچھا اثر ہوا.ملک غلام فرید صاحب ایم.اے کا خود نوشت بیان ہے کہ : میں اکتوبر ۱۹۲۸ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے حکم سے بنگال کے دورہ پر گیا.چلتے وقت حضور نے خصوصیت سے مجھے فرمایا کہ آپ نے صرف سیاسی تقریریں کرنی ہیں.مذہبی تقریروں کی ضرورت نہیں.میں نے وہاں برہمن بڑیہ کلکتہ نا ٹانگر ، رنگپور، جلیپا گوری بوگرہ وغیرہ میں نہرو رپورٹ کے خلاف حضور کے تحریر کردہ دلائل کو اپنی زبان میں پیش کیا.میرے وہ لیکچر بہت ہی مقبول ہوئے.وہ میرے کیا لیکچر تھے زبان میری تھی دلائل حضور کے تھے میں اب ان لوگوں کے نام تو نہیں جانتا.کہ یہ ۳۷ سال پہلے کی بات ہے.لیکن بوگرہ میں کئی خان بہادروں نے مجھے کہا کہ ہمارے تو وہم میں بھی یہ دلا کل نہ آئے تھے.اور ہم نہیں سمجھ سکتے تھے کہ نہرو رپورٹ کا کیسے مقابلہ کریں.آپ نے یہ دلائل کہاں سے سیکھے.میری عمر اس وقت چھوٹی تھی وہ حیران تھے کہ ایک نوجوان ہندوستان کے اہم ترین سیاسی مسئلہ پر اس قابلیت سے کیسے اظہار کر رہا ہے اور کس قابلیت سے اس نے نہرو رپورٹ کے نیچے او نیٹ دیئے ہیں جس کے مقابلہ میں ہم عاجز تھے.میں نے انہیں کہا کہ یہ دلائل تو احمد یہ جماعت
تاریخ احمدیت جلده 75 خلافت عثمانیہ کا پندرھواں سال کے امام کے دیئے ہوئے ہیں میں تو ان کا ایک خادم ہوں.مجھے یاد پڑتا ہے کہ جلپا گوری میں میری مولوی تمیز الدین صاحب سے ملاقات ہوئی اور غالبا وہاں انہوں نے ہی میرے لیکچر کا انتظام کیا.مجھے ابھی تک ان کی مشترکہ انتخاب کے خلاف اور ہندوؤں کے خلاف شدید غضب کا احساس ہے جس شدت سے میں نے مشترکہ انتخاب کی مخالفت اور جداگانہ انتخاب کی تائید کی اس سے کہیں زیادہ اس بارے میں مولوی تمیز الدین صاحب متشدد تھے.انہوں نے میرے سامنے ہندوؤں کو گالیاں بھی دیں.اور کہا کہ یہ مسلمانوں کے سخت دشمن ہیں مجھے اس وقت سے یہ احساس ہے کہ مولوی صاحب ہندوؤں کی مسلمانوں کے خلاف چالوں کو خوب جانتے تھے.اور ان کے سخت دشمن تھے اور ہندوؤں کی نظر میں بھی وہ ایک کانٹے کی طرح کھٹکتے تھے.ٹاٹا نگر میں میں نے ایک بڑے ہندوؤں اور مسلمانوں کے اجتماع میں جس میں ہندوؤں کی بہت زیادہ کثرت تھی اسلام کے صلح کل مذہب ہونے پر تقریر کی.اس تقریر کے صدر بہار کے ایک بہت بڑے کا نگریسی لیڈر تھے جن کا نام اس وقت پورا تو مجھے یاد نہیں.لیکن ان کے نام کا ایک حصہ کنٹھ تھا.میری اس تقریر کو بہت پسند کیا گیا اور مسٹر کنٹھ نے تو بڑے تعجب اور بڑی خوشی کا اظہار کیا کہ ہمیں معلوم نہ تھا کہ اسلام اس محبت صلح اور آشتی کے پیغام کو لے کر دنیا میں آیا ہے.سب بڑے بڑے شہروں میں میں نے تقریریں کیں اور میری ان تقاریر کی رپورٹیں کلکتہ کے اخبارات انگلش مین (English Man) اور سٹیٹسمین (Statesman) میں چھپتی رہیں.سٹیٹسمین (Statesman) ان دنوں کلکتہ سے نکلتا تھا.میں ان رپورٹوں کی نقول حضرت صاحب کو بھجواتا رہا.جب میں واپس قادیان پہنچا تو حضرت صاحب میرے اس دورہ سے بہت خوش تھے.جب میں نے اپنی رپورٹ عرض کرنی چاہی تو آپ نے بہت خوشی سے فرمایا.کہ ہمیں آپ کی تقریروں کی سب رپورٹیں Tri پہنچ چکی ہیں ".in ہیں" الغرض یہ دورہ بہت کامیاب رہا اور مسلمانان بنگال بھی نہرو رپورٹ کی نقصان دہ سکیم سے واقف ہو کر اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے.آل مسلم کانفرنس پٹنہ کی طرف سے حضرت نہرو رپورٹ پر غور کرنے کے لئے مولانا محمد علی صاحب جو ہر کی زیر صدارت پہلی آل مسلم خلیفتہ المسیح الثانی کے مطالبات کی تائید کانفرنس پٹنہ میں منعقد ہوئی کانفرنس میں اگر چہ نمائندہ کان کی ایک بڑی تعداد کسی صورت میں بھی مخلوط انتخاب کو منظور کرنے کے لئے تیار نہ تھی.لیکن کثرت آراء کی تائید سے مخلوط انتخاب کو شرائط کے ماتحت منظور کر لینے کی قرار داد پاس کی گئی.آں مسلم کانفرنس نے مسلمانوں کی طرف سے مخلوط انتخابات تسلیم کرنے کے لئے جو آٹھ مطالبات پیش
تاریخ احمدیت ، جلد ۵ 76 خلافت ثمانیہ کا بند رھواں سال کئے ان کا بڑا حصہ انہی امور پر مشتمل تھا جو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے نہرورپورٹ کے تبصرہ میں درج فرمائے تھے.چنانچہ حضور نے پہلا مطالبہ یہ فرمایا کہ حکومت کا طریق فیڈرل یا اتحادی ہو یعنی تمام صوبہ trr- جات کامل طور پر خود مختار سمجھے جائیں.آل مسلم کانفرنس نے فیصلہ کیا.صوبہ جاتی حکومتیں تمام اندرونی معاملات میں آزاد ہوں".دوسرا مطالبہ حضور کا یہ تھا کہ ”جن صوبوں میں کسی قوم کی اقلیت کمزور ہے ان میں اس کے ہر قسم کے خیالات کے لوگوں اور ہر قسم کے فوائد کی نیابت کا راستہ کھولنے کے لئے جس قدر ممبریوں کا اسے حق ہو اس سے زیادہ ممبریاں اسے دے دی جائیں.لیکن جن صوبوں میں کہ اقلیت والی قوم یا اقوام مضبوط ہوں وہاں انہیں ان کی اصلی تعداد کے مطابق حق نیابت دیا جائے.کیونکہ ان صوبوں میں اگر اقلیت کو زیادہ حقوق دیئے گئے تو اکثریت اقلیت میں تبدیل ہو جائے گی.کانفرنس نے اس سلسلہ میں یہ تجویز منظور کی.” بہار اور اڑیسہ کے مسلمانوں کے لئے مرکزی اور صوبہ جاتی دونوں مجالس قانون ساز میں ۲۵ فیصدی نیابت مخصوص کی جائے اور اسی طرح دوسرے صوبہ جات کی مسلم اور غیر مسلم اقلیت کو بھی جس کا تناسب آبادی ۱۵ فیصدی سے زیادہ نہ ہو تناسب آبادی سے زیادہ نشستیں دی جائیں لیکن شرط یہ ہے کہ کوئی اکثریت اقلیت میں منتقل نہ ہو جائے“." حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے تیسرا مطالبہ یہ پیش فرمایا تھا کہ "چونکہ کل ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد صرف پچیس فیصدی ہے اس لئے انہیں مرکزی حکومت میں کم سے کم ۳۳ فیصدی نیابت کا حق دیا جائے.چنانچہ آل مسلم کانفرنس نے فیصلہ کیا کہ " مرکزی مجلس قانون ساز میں مسلمانوں کو کم از کم ۳/ نشستیں دی جائیں".چوتھا مطالبہ یہ تھا کہ " صوبہ سرحد اور بلوچستان کو دوسرے صوبوں کی طرح نیابتی حکومت دی جائے اور سندھ کو الگ صوبہ بنا کر اسے بھی نیابتی حکومت دی جائے “.اس بارہ میں کا نفرنس کا فیصلہ یہ تھا."سندھ کو حقیقی معنوں میں علیحدہ صوبہ بنا دیا جائے.صوبہ شمال مغربی سرحد اور بلوچستان میں مکمل اصلاحات نافذ کی جائیں".پانچواں مطالبہ یہ تھا کہ ” قانون اساسی کا جو حصہ کسی خاص قوم کے حقوق کے متعلق ہو اس کے متعلق یہ شرط ہو کہ جب تک اس قوم کے ۲/۳ ممبر جس کے حقوق کی حفاظت اس قانون میں تھی اس کے بدلنے کے حق میں نہ ہوں اسے پاس نہ سمجھا جائے".
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 77 خابافت تانیہ کا پندرھوار آل مسلم کانفرنس نے اس بارے میں یہ قرارداد پاس کی کہ ”اگر کسی قوم کے ۳/۴ ارکان اپنی قوم کے مفاد کے منافی سمجھ کر کسی مسودہ قانون یا قانون یا اس کا کوئی جزو یا ترمیم یا قرار داد کی مخالفت کریں تو ایسا مسودہ قانون یا قانون یا اس کا کوئی جزو یا ترمیم یا قرار داد مجلس وضع قوانین میں پیش نہ ہو سکے نہ اس پر بحث کی جائے اور نہ یہ منظوری حاصل کر سکے.اس مختصر سے نقابل سے ظاہر ہے کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے سیاسی حقوق اور ان کے مفادات کی حفاظت کے لئے جو مطالبات ضروری سمجھے اور جنہیں اچھی طرح واضح فرمایا ان کی اہمیت کو آل مسلم کانفرنس پٹنہ نے بھی تسلیم کیا.اور اسی طرح ان مطالبات کو ان مسلمانوں کی تائید حاصل ہو گئی جو اپنے قومی حقوق کی ہر حال میں حفاظت کرنا ضروری سمجھتے اور ہندو سیاست کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنتا اپنی قومی موت کے مترادف یقین کرتے اور مسلمانوں کو فروخت کرنا قومی غداری قرار دیتے تھے - BRO حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے نہرو رپورٹ پر تبصرہ آل انڈیا مسلم لیگ اور نہرو رپورٹ نے مسلمانان ہند میں ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک زبر دست جنبش پیدا کر دی.مگر افسوس کانگریسی علماء ہندوؤں کا آلہ کار ہونے کی وجہ سے اور مخلص مسلم لیگی زعماء اپنی خوش فہمی کے باعث ابھی تک اس کی پورے زور سے حمایت کئے جارہے تھے.چنانچہ مسلم لیگ کے مورخ جناب سید رئیس احمد صاحب جعفری لکھتے ہیں: " دسمبر ۱۹۲۸ء میں کلکتہ قومی اجتماعات کا مرکز قرار پایا.کانگریس مسلم لیگ مجلس خلافت سب کے سالانہ اجلاس نہیں ہو رہے تھے انہی اجلاسوں میں نہرو رپورٹ کے ردو قبول کا مسئلہ طے ہوتا تھا.اب مسٹر جناح بھی واپس آچکے تھے وہ دیکھ رہے تھے اس رپورٹ نے ان کے چودہ نکات کا قتل عام کر دیا ہے.پھر بھی وہ نہرو رپورٹ کی مخالفت نہیں کر رہے تھے بلکہ حوصلہ افزائی کر رہے تھے.مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کے لئے مولانا محمد علی کا نام مولانا شوکت علی نے مسلم لیگ کو نسل میں پیش کیا لیکن جناح نے راجہ صاحب محمود آباد سر علی محمد خان کے نام کی حمایت کی اس لئے نہیں کہ وہ محمد علی کے مخالف تھے.اور علی محمد کے دوست تھے.اس لئے کہ محمد علی نہرو رپورٹ کے علانیہ مخالف تھے اور علی محمد نہرو رپورٹ کے علانیہ حامی تھے جناح نہرو رپورٹ کے مخالف کو لیگ کے اجلاس کا صدر نہیں بنانا چاہتے تھے وہ چاہتے تھے کہ نہرو رپورٹ کا حامی مسلم لیگ کی صدارت کرے اور رپورٹ پر آخری غور و فکر کے لئے کانگریس کی طرف سے جو کنوینشن منعقد ہونے والی ہے اس میں دوستانہ اور مخلصانہ طور پر چند معمولی ترمیمات منظور کرا کے مسلمانوں کو نہرو رپورٹ منظور کر لینے پر آمادہ کرے تاکہ حکومت
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 78 خلافت ثانیہ کا پندرھواں سال برطانیہ کے سامنے ہندوستان اپنا متحدہ مطالبہ پیش کر سکے.متحدہ مطالبہ متحدہ محاذ متحدہ دستور جناح کو اس قدر عزیز تھا کہ انہوں نے چودہ نکات سے بھی دست برداری اختیار کرلی.اب وہ صرف چند مطالبات کانگریس سے منظور کرانا چاہتے تھے اور اس کے بعد پوری قوت کے ساتھ نہرو رپورٹ کی تبلیغ و حمایت کے لئے وقف ہو جانا چاہتے تھے " - al کلکتہ میں آل پارٹیز کنوینشن کا انعقاد حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی مسلسل جدوجہد اور دوسرے مسلمانوں کی پیم چیخ پکار کا نتیجہ یہ نکلا کہ پنڈت موتی لال نہرو صدر کانگریس نے اعلان کر دیا.کہ ایک نیشنل کنوینشن بلائی جائے گی.چنانچہ اس اعلان کے مطابق ۲۸/ دسمبر ۱۹۲۸ء کو کلکتہ میں ایک آل پارٹیز کانفرنس نہرو رپورٹ پر غور کرنے ، ترمیمیں پیش کرنے اور آخری فیصلہ کرنے کے لئے منعقد ہوئی جس میں ہندوستان کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے نمائندوں کو دعوت دی گئی.چنانچہ اجلاس میں آزاد خیال معتدل کانگریسی ، سوراجی، ترک موالات کے علمبردار اور حامی موالات غرضکہ ہر خیال و مسلک کے لوگ شامل ہوئے.خلافت کمیٹی اور جمعیتہ العلماء ہند نے متفقہ طور پر اپنا نمائندہ مولانا محمد علی جو ہر کو نامزد کیا.اور وہ اس میں شرکت کے لئے آئے.مسلم لیگ کی طرف سے جناب محمد علی صاحب جناح (۲۲) نامور مسلم لیگی نمائندوں سمیت) تشریف لائے اور جماعت احمدیہ کی طرف سے حضرت مفتی محمد صادق صاحب (ناظر امور خارجہ ) اور مسٹر دولت احمد خان صاحب بی.اے.ایل ایل بی جائنٹ ایڈیٹر اخبار " سلطان " کلکتہ نے شمولیت فرمائی.کنوینشن میں مباحثہ کا آغاز ہوا.اور غالبا سب سے پہلے یہ نکتہ زیر بحث آیا.کہ کانگریس ہندوستان کے لئے درجہ نو آبادیات چاہتی ہے یا کامل آزادی کا مطالبہ کرتی ہے.مولانا محمد علی صاحب جو ہر نے درجہ نو آبادیات کے مطالبہ کی مخالفت میں تقریر شروع کی.اس دوران میں ان کے منہ سے یہ بھی نکل گیا.کہ جو لوگ آزادی کامل کے مخالف اور درجہ مستعمرات کے حامی ہیں وہ ملک کے بہادر فرزند نہیں ہیں بلکہ بزدل ہیں.اس لفظ کا منہ سے نکلنا تھا کہ ایک ہنگامہ برپا ہو گیا اور مطالبہ کیا گیا کہ بیٹھ جاؤ ہم نہیں سننا چاہتے."مسلمانان ہند کی حیات سیاسی " کے مولف جناب محمد مرزا صاحب دہلوی اس واقعہ کی تفصیل میں لکھتے ہیں." اس بحث کے دوران میں کانگریس کے ہندو ممبروں کی ذہنیت کا جو مظاہرہ ہوا اس نے مولانا محمد علی مرحوم کو بد دل کر دیا تھا.اور وہ کنوینشن کے اجلاس سے اٹھ کر چلے آئے تھے.یہ ذہنیت کیا تھی.عقیدہ رکھا جائے آزادی کامل کا.لیکن اگر حکومت کی طرف سے ڈومینین اسٹینس کا ابتدائی درجہ بھی مل جائے تو اسے قبول کر لیا جائے.
تاریخ احمدیت - جلد ۵ 79 خلافت عثمانیہ کا پندر مولانا محمد علی صاحب جو ہر کا یہ موقف کہاں تک درست تھا اس کا تجزیہ کرتے ہوئے محمد مرزا دہلوی لکھتے ہیں.کانگریس نے آزادی کامل کا عقیدہ قبول کرلینے کے بعد بھی حکومت سے نہرو رپورٹ کے ذریعہ جس طرز حکومت کا مطالبہ کیا تھا اور اس کی جو تاویل صاحب رپورٹ نے کانگریس کے اجلاس میں پیش کی تھی وہ یہ تھی کہ عقیدہ تو بے شک ہمارا آزادی کامل ہی ہے لیکن اس تک پہنچنے کے لئے ابتدائی سیڑھیاں بھی ہمیں طے کرنے کی ضرورت ہے اور نہرو رپورٹ ان ابتدائی سیڑھیوں میں سے ایک ہے اس تاویل کے صاف معنی یہ ہیں کہ کانگریس نے آزادی کامل کا عقیدہ تو قبول کر لیا ہے لیکن ملک ابھی اس کے لئے تیار نہیں ہے.اور فی الحقیقت اس وقت کے حالات کے اعتبار سے یہ بہت صحیح رائے تھی لیکن بعض انتہا پسند اور جوشیلے افراد جن میں ہندو کم اور مسلمان زیادہ تھے کانگریس کے ساتھ محض اس لئے ہو گئے تھے کہ آزادی کامل اس کا مطمح نظر ہے اور اس کی سیاسی جدوجہد کا مفہوم صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ کسی طرح ملک سے بدیشی حکومت کو نکال باہر کرے حالانکہ بدیشی حکومت کو فی الفور ہندوستان سے باہر کر دینے کا اس وقت تک کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا تھا.جب تک ہندوستانی حکومت کے ہر شعبہ کو چلانے اور بیرونی حملوں سے ملک کی مدافعت کرنے کے قابل نہ ہو جائیں اور یہ قابلیت ان میں سیاسی بصیرت اور متواتر تجربوں ہی سے آسکتی تھی.اور اس قسم کا موقع انہیں اس وقت مل سکتا تھا جب ہندوستان کی ساری قومیں اس پر متحد ہو جائیں".یہ ضمنی بحث ختم کر کے ہم پہلے مضمون کی طرف آتے ہیں.ہم بتا چکے ہیں کہ مولانا محمد علی صاحب جو ہر درجہ نو آبادیات سے متعلق ابتدائی بحث ہی میں کنوینشن سے اٹھ کر چلے آئے تھے.جس پر بعد کو بڑی شد و مد سے تنقید کی گئی.کہ انہیں کنوینشن میں اپنے مطالبات پیش ضرور کرنے چاہئے تھے.اگر وہ ایسا کرتے تو بہت بڑی امید تھی کہ مطالبات منظور ہو جاتے اور یہ اختلاف و افتراق و ہیں ختم ہو جاتا.مگر چونکہ انہوں نے دوبارہ شرکت نہیں کی اس لئے اختلاف کی خلیج اور زیادہ وسیع ہوتی گئی.ان کے سیرت نگار سید رئیس احمد صاحب جعفری نے اس اعتراض کا خاص طور پر ذکر کر کے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ بادی النظر میں یہ اعتراض وزنی معلوم ہوتا ہے لیکن یہ تامل خفیف یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ محمد علی نے جو کچھ کیا وہی اچھا تھا ڈومینین اسٹیٹس میں ان کے ساتھ جو طرز عمل اختیار کیا گیا وہ ایسا نہیں تھا کہ کوئی خوشگوار امید قائم کرنے میں مدد دیتا.اس کے علاوہ اختلافات کے آغاز سے اس وقت تک ہندو زعماء کا جو بے نیا ز انہ طرز عمل ہو گیا تھا.وہ بھی ایک خود دار اور شریف آدمی کو " طواف کوئے ملامت " کی اجازت نہیں دے سکتا تھا".کنوینشن سے بائیکاٹ کی یہ دونوں وجوہ کس درجہ معقولیت کا پہلو لئے ہوئے ہیں اس کا فیصلہ
یت - جلد د 80 خلافت ثانیہ کا پندرھواں سال ال پر ہم کنوینشن کی بقیہ روداد پر روشنی ڈالتے ہیں.مولانا محمد علی جو ہر کے چلے جانے پر کے بعد مسلم لیگی لیڈر مسٹر محمد علی صاحب جناح نے حالات کی نزاکت ہندو مسلم اتحاد کی اہمیت آزادی و حریت کی قدر و قیمت اور مسلم مطالبات کی معقولیت پر ایک شستہ اور منجھی ہوئی تقریر کی اور اپیل کی کہ محبت واخوت کے جذبات کے ساتھ ان تجاویز پر غور کیجئے اور انہیں منظور کر کے اختلافات کا خاتمہ کر دیجئے کہ اس وقت قوم کی ضروریات کا تقاضا ئی ہے.مسٹر جناح کی تقریر پر نہرو کمیٹی کے ممبر سر تیج بہادر سپرو نے کہا.”ہم یہاں صرف ایک تمنالے کر آئے ہیں کہ جس طرح ہو آپس میں سمجھوتہ ہو جائے.اگر آپ اعداد و شمار کا تجزیہ کریں تو آپ کا تناسب ۲۷ فیصدی ہے اور مسٹر جناح ۳۳ فیصدی مطالبہ کر رہے ہیں.میں نہ جناب صدر کا غیر وفادار ہوں نہ نہرو رپورٹ کا لیکن میں یہ محسوس کر رہا ہوں کہ اس مرحلہ پر ہمیں مفاہمت سے اعراض نہیں کرنا چاہئے.میں اپنی ہر دلعزیزی کو خطرہ میں ڈال کر بھی یہ کہوں گا کہ ہر قیمت پر ہمیں سمجھوتہ کر لینا چاہئے.یہی اس کانفرنس کا مقصد ہے ".سر سپرد کی مدلل تقریر نے حاضرین پر ایک حد تک اثر کیا لیکن مشہور مہا سبھائی لیڈر مسٹر جیکر نے کھڑے ہو کر یہ طلسم توڑ دیا.انہوں نے کہا: ” ہمارے ساتھ مولانا ابو الکلام آزاد، ڈاکٹر انصاری، سر علی امام راجہ صاحب محمود آباد اور ڈاکٹر کچلو جیسے محب وطن موجود ہیں.یہ سب حضرات نہرو رپورٹ سے بالکلیہ متفق ہیں خود مسلم لیگ کے بہت سے ممبر نہرو رپورٹ کے حامی ہیں اب اگر مسٹر جناح کسی کی نمائندگی کرتے ہیں تو صرف چند لوگوں کی.یہ بھی یاد رکھئے مسٹر جناح کا مطالبہ مسلم قوم کا مطالبہ نہیں ہے ایک بڑی تعداد مسلمانوں کی سر شفیع کے ساتھ ہے جو مخلوط انتخاب کے مخالف ہیں ایک دوسرا طبقہ مسلمانوں کا مسٹر فضل ابراہیم رحمت اللہ کے ساتھ ہے جو دہلی میں ایک مسلم کانفرنس (زیر صدارت آغا خاں) کر رہے ہیں.مسٹر جناح کا مطالبہ نہ مسلم قوم کا مطالبہ ہے نہ مسلم اکثریت کا.اس تقریر کے بعد ووٹ لئے گئے تو کنوینشن نے مسٹر جیکر کے حق میں فیصلہ صادر کر دیا اور مسلم لیگ کے مطالبات جو پہلے ہی مختصر سے تھے رد کر دیئے گئے.مسٹر چھا گلہ (حج ہائیکورٹ ہمیئیں.مسلم لیگ کے ایک سرگرم کار کن) نے اس واقعہ شکست کی نسبت ۸ / جنوری ۱۹۲۹ء کو ایسوسی ایٹڈ پریس کو ۱۲۴۵- بیان دیتے ہوئے کہا: کنوینشن کے اجلاس کے سامنے لیگ کی نمائندگی اس لئے کی گئی تھی کہ مسلمان چند ضروری ترمیمات کے بعد نہرو رپورٹ کو منظور کر سکیں گے.میں نہایت افسوس کے ساتھ اس امر کا اعادہ کرتا
تاریخ احمدیت.جلدن 81 خلافت ثانیہ کا بندر ہوں کہ کنوینشن کو مسلم مطالبات پر نہایت فراخ دلی سے غور کرنا چاہئے تھا بجائے اس کے وہ ہندو مہاسبھا کے زیر اثر اور اس کی دھمکی میں آکر یہ صورت اختیار کرتا.میں یہ امر ظاہر کر دینا چاہتا ہوں کہ مسلم لیگ کے نمائندوں کی اکثریت کنوینشن کے اجلاس میں شریک ہوئی تھی.اور جنہوں نے مسلمانوں کے جائز مطالبات کو پیش کیا تھا.نہرو رپورٹ کے حامیوں میں سے تھے اور یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے نہ صرف اپنی ملت کے ساتھ جنگ کی بلکہ اپنی جماعت (مسلم لیگ) محض نہرو رپورٹ کی تائید کرنے کے سلسلہ میں برائی حاصل کی.اگر کنوینشن ان ۳۳ منتخب نمائندوں کے ساتھ کسی امر پر گفتگو کرنے سے قاصر ہے تو سمجھنا چاہئے کہ وہ ہندوستان کے کسی مسلمان سے بھی فیصلہ کرنے کی قابلیت نہیں رکھتا.اگر ان ۳۳ نمائندوں کو فرقہ پرست سمجھ کر ان کے ساتھ یہ رویہ اختیار کیا گیا تو سمجھ لو کہ ہندوستان میں ایک بھی مسلم قوم پر در موجود نہیں " اس صورت حال کے بعد مسٹر محمد علی جناح کانگریس اور اس کے لیڈروں سے بالکل دل برداشتہ ہو گئے اور آخر مسلم لیگ نے بھی ۳۰ / مارچ ۱۹۲۹ء کو روشن تھیٹر دہلی میں مسٹر جناح کی زیر صدارت یہ فیصلہ کیا کہ "چونکہ پنڈت نہرو نے مسلم لیگ کے مطالبات تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے لہذا مسلم لیگ بھی نہرو رپورٹ منظور کرنے سے قاصر ہے ".کلکتہ کنوینشن میں جہاں مسلم لیگی نمائندے نہرو رپورٹ کے حامی کی صورت میں آئے وہاں حضرت مفتی محمد صادق صاحب ( ناظر امور خارجہ نمائندہ جماعت احمدیہ ) نے اپنی تقریر میں واضح کیا کہ ہم نہرو رپورٹ کے مخالف ہیں اور اس کے خلاف ہمارے رسالے اور مضامین شائع ہوئے لیکچر دیے گئے ، مجالس قائم کی گئیں مگر اس کے باوجود ہم نے کنوینشن کی دعوت قبول کی اور اس میں شامل ہوئے کیونکہ ہم بائیکاٹ کے قائل نہیں ہماری رائے ہے کہ سب سے ملنا چاہئے پھر خواہ ہماری بات تسلیم ہو.یا رد کر دی جائے لیکن سب کے خیالات کو سن لینا ضروری ہے.نہرو رپورٹ میں ترمیم کے لئے احمدی نمائندہ نے دس ریزولیوشن پیش کئے جن کو ایجنڈا میں شائع کیا گیا اور وہ سب اپنے اپنے موقعہ پر پیش ہوئے اور ان کے موافق و مخالف تقریر میں بھی ہو ئیں لیکن جس کنوینشن میں مسلم لیگی مطالبات کو کانگریسی زہنیت کے سامنے شکست اٹھانا پڑی وہاں احمدی نمائندے کیونکر کامیاب ہو سکتے تھے.تاہم یہ فائدہ ضرور ہوا کہ کنوینشن کے سب حلقوں کے سامنے جماعت احمدیہ کے سیاسی خیالات خوب واضح ہو گئے.۲۴۸ کانگریس کی منعقدہ کنوینشن میں آل انڈیا مسلم کانفرنس دہلی اور نہرو رپورٹ مسلم مطالبات کی پامالی دیکھ کر
i تاریخ احمدیت جلد ۵ 82 خلافت ثانیہ کا پندر مسلمانوں کی تمام مشہور نہ ہبی وسیاسی جماعتوں کے نمائندے دہلی میں جمع ہوئے اور ۳۱ / دسمبر ۱۹۲۸ء سے ۲/ جنوری ۱۹۲۹ء تک آل انڈیا مسلم کانفرنس کا انعقاد کیا گیا.یہ کانفرنس جو سر آغا خاں کی صدارت میں شروع ہوئی مسلمانان ہند کی اپنی نوعیت کی پہلی کانفرنس تھی جس میں کونسلوں اسمبلی اور کونسل آف اسٹیٹ کے علاوہ مسلم لیگ ، خلافت کمیٹی اور جمعیتہ العلماء ہند کے نمائندے اور سر بر آوردہ ارکان بھی شامل تھے.سر شفیع کے الفاظ میں یہ کانفرنس مسلمانان ہند کی پوری نمائندہ تھی.اور برصغیر پاک وہند کے صحافی جناب عبد المجید صاحب سالک کا 120 جو اس کا نفرنس میں موجود تھے بیان ہے کہ : میں اس کا نفرنس کو ہندوستانی مسلمانوں کی تاریخ میں بے نظیر سمجھتا ہوں.مسلمانوں کی جس قدر زیادہ نمائندگی اس کانفرنس میں مہیا ہوئی اتنی اور کسی اجتماع میں دکھائی نہیں دی یہاں تک کہ اس کانفرنس میں میں قادیانی ممبر بھی شامل کر لئے گئے تھے تاکہ اس جماعت کو بھی نقصان نیابت کی شکایت نہ ہو " - Ro سے ہے جیسا کہ سالک صاحب نے اشارہ کیا ہے متعد د احمدی مختلف صوبوں سے منتخب ہو کر کانفرنس میں شامل ہوئے تھے.مثلا بنگال سے جناب حکیم ابو طاہر محمود احمد صاحب امیر جماعت احمد یہ کلکتہ بہار سے جناب حکیم خلیل احمد صاحب مو نگھیری، پنجاب سے چودھری ظفر اللہ خاں صاحب دہلی نے بابو عباز حسین صاحب پریذیڈنٹ انجمن احمد یہ دہلی اور مرکز کی طرف سے حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب.کانفرنس کے آغاز میں سر شفیع نے ایک پر جوش تقریر کے ساتھ کانفرنس کا اصل ریزولیوشن پیش کیا جو اکثرو بیشتر ان خطوط پر مرتب کیا گیا تھا جو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے نہرو رپورٹ کے تبصرہ میں تجویز فرمائے تھے.اس قرارداد کی تائید میں مسٹراے کے غزنوی ، مولوی شفیع داؤدی ، ڈاکٹر سر محمد اقبال ، مسٹر شرف الدینی.اما حافظ ہدایت حسین کا پور ، مولوی محمد یعقوب صاحب ڈپٹی پریذیڈنٹ اسمبلی دہلی.مسٹر عبد العزیز پشاوری، ڈاکٹر شفاعت احمد خاں، داؤد صالح بھائی، حاجی عبداللہ ہارون، مونوی عبد الماجد بدایونی، مولوی کفایت اللہ مولوی آزاد سبحانی اور مولانا محمد علی صاحب جو ہر نے بالترتیب تقریریں کیں اور یہ قرار داد پر زور تائید سے منظور ہوئی.یہی وہ اہم قرار داد تھی جس پر آئندہ چل کر مسٹر محمد علی جناح نے اپنے مشہور چودہ نکات تجویز کئے.چنانچہ جناب عبد المجید صاحب سالک اپنی کتاب "ذکر اقبال " میں لکھتے ہیں: اس کانفرنس میں مسلمانوں کے تمام سیاسی مطالبات کے متعلق ایک قرار داد منظور ہوئی جس کا
یخ احمدیت جلد شا 83 چر چاہندوستان کے گوشہ گوشہ میں ہوا اور بعد میں مسٹر محمد علی جناح نے بھی اپنے چودہ نکات اسی قرار داد کے اصول پر مرتب کئے ".اسی طرح محمد مرزاد بلوی مسلم لیگ کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں: مسلم کانفرنس کے اس اجلاس کے بعد مارچ ۱۹۲۹ء میں مسلمانوں کے مطالبات کو منظم صورت میں حکومت اور کانگریس کے آگے پیش کرنے کے لئے دہلی میں مسلم لیگ کا اجلاس ہوا...اس اجلاس میں جناب محمد علی جناح نے نہرو رپورٹ پر نہایت سخت تنقید کی اور اسے مسلم تجاویز دہلی کے مقابلہ میں ہندو تجاویز سے تعبیر کیا.اس کے ساتھ مسلمانوں کے بنیادی حقوق پر بڑی تفصیل اور جامعیت سے روشنی ڈالی اور مستقبل کے ہندوستان میں مسلم انفرادیت کے تحفظ کے لئے ایک طویل تجویز میں وہ مشہور چودہ نکات پیش کئے جو آج تک مسلمانوں کے قومی مطالبات سمجھے جاتے ہیں “.۲۵۴ اس کانفرنس میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی دو تقریر میں ہو ئیں ایک سبجیکٹ کمیٹی میں اور دوسری کھلے اجلاس میں.آپ نے اپنی تقریروں میں واضح کیا کہ کس طرح نہرو رپورٹ میں مسلمانوں کے حقوق تلف کرنے کی کوشش کی گئی ہے اس سلسلہ میں آپ نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے تبصرہ رپورٹ کا تذکرہ بھی کیا.جس میں رپورٹ کی خامیوں پر مدلل بحث تھی.آپ نے مولانا شوکت علی کے ایک ریزولیوشن کی تائید کرتے ہوئے فرمایا.مسلمانوں کو خصوصیت سے علم حاصل کرنے کی طرف توجہ کرنا چاہئے.مسئلہ گاؤ کشی کے ذکر پر آپ نے بتایا کہ حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام نے سب سے پہلے اس بات کو ہندوؤں کے سامنے پیش کیا تھا کہ اگر ہندو اس وجہ سے ناراض ہیں کہ مسلمان گائے کا گوشت کھاتے ہیں تو ہم ان کی خاطر ایک جائز اور حلال چیز کو چھوڑنے کے لئے تیار ہیں بشرطیکہ وہ بھی ہماری خاطر ایک چھوٹی سی قربانی کریں اور وہ یہ ہے کہ پاکوں کے سردار حضرت محمد مصطفیٰ کو خدا کا سچا نبی مان لیں اور آپ کے خلاف بد زبانی سے باز آجا ئیں.کانفرنس کے تمام ممبروں نے اس تجویز سے اتفاق کیا اس موقعہ پر اکثر مسلم زعماء حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی بروقت سیاسی رہنمائی ، جماعت احمدیہ کی زبر دست تنظیم اور اس کے عظیم الشان کارناموں کے مداح پائے گئے.١٢٥٥- بالآخر یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ کانفرنس مسلمانان ہند کی سیاست میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے چنانچہ جناب عبد المجید صاحب سالک نے اس کے ملک گیر اثر و نفوذ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے اب سار ا مسلم پریس ، تمام مسلم ادارات اور جماعتیں ان مطالبات کی حمایت کر رہی تھیں.جو
تاریخ احمدیت جلد ۵ 84 خلافت ماشیہ کا پندرھواں سال دہلی مسلم کانفرنس میں پیش کئے گئے تھے.تمام مخالف جماعتیں دب گئی تھیں اور حقیقت میں اس قرار داد کا مخالف کوئی بھی نہ تھا خود کانگرسی مسلمان بھی اس کی کامیابی کے خواہاں تھے گوڈر کے مارے زبان سے اقرار نہ کرتے ہوں " - 1 ٢٥٢٠
تاریخ احمدیت.جلد ۵ فصل ششم 85 جیسا کہ " تاریخ احمدیت " کی دوسری جلد کے قادیان کی ترقی کا نیا دور اور ریل کی آمد شروع میں ہم بتا چکے ہیں کہ جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا سے حکم پا کر دعوئی ماموریت فرمایا تھا.قادیان ایک بہت چھوٹا سا گمنام گاؤں تھا اس وقت قادیان کی آبادی دو ہزار نفوس سے زیادہ نہ ہوگی.اس کے اکثر گھر ویران نظر آتے تھے.اور ضروری استعمال کی معمولی معمولی چیزوں کی خرید کے لئے بھی باہر جانا پڑتا تھا.اسی طرح اس وقت قادیان کی بستی تار اور ریل وغیرہ سے بھی محروم تھی.اور دنیا سے بالکل منقطع حالت میں بڑی تھی.قادیان کا ریلوے سٹیشن بٹالہ تھا.جو قادیان سے ۱۲ میل مغرب کی طرف واقع ہے.اس کے اور قادیان کے درمیان ایک ٹوٹی پھوٹی کچی سڑک تھی.جس پر نہ صرف پیدل چلنے والے تھک کر چور چور ہو جاتے تھے بلکہ یکے میں سفر کرنے والوں کو بھی بہت تکلیف اٹھانا پڑتی تھی.چنانچہ حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی اور بعض دوسرے بزرگوں کے چشم دید واقعات معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی دور میں سب سے پہلی مشکل تو اس بستی کی گمنامی کی وجہ سے اس کی تلاش تھی اور دوسرا بڑا بھاری مرحلہ قادیان پہنچنے کا تھا.آمد و رفت کے ذرائع کی اتنی کمی تھی کہ سواری بڑی مشکل سے ملتی تھی اور اس زمانے کی سواریاں بھی کیا تھیں.بیل گاڑی ڈیڑ ھو گڑا اور سب سے بڑھ کر دقیانوسی یکہ چلنے میں جھٹکوں کی کثرت سے پسلیاں دکھ جایا کرتیں، پیٹ میں درد اٹھنے لگتا اور جسم ایسا ہو جاتا کہ گویا کوٹا گیا ہے.یکہ مل جانے کے بعد دوسری مشکل یہ ہوا کرتی تھی کہ یکہ بان غائب ہو جاتا.وہ نہار لینے چلا جایا کرتا.اور جب تک کئی مسافر ہاتھ نہ آجاتے اس کی نہاری تیار نہ ہو سکتی اور اس طرح بہت سانتیمتی وقت ضائع ہو جایا کرتا.سڑک کی کیفیت لکھنے کی تو ضرورت نہیں کیونکہ اس کی تفصیل خود خداوند عالم الغیب نے فج عمیق کے کلام میں فرما دی ہے.اس کی خرابی تو روز بروز بڑھتی رہتی مگر مرمت کی نوبت مدتوں تک نہ آتی.چونکہ غلہ اور دوسری تمام ضروری چیزیں گڑوں ہی کے ذریعہ سے آتی جاتی رہتی تھیں اس لئے سڑک اور بھی خستہ و خراب رہتی تھی.یکہ کی ایت ترکیبی کچھ ایسی واقع ہوئی تھی کہ اچھے خاصے تازے گھوڑے کا حال بھی چند ہی رو ز جو تے جانے ایسا پتلا ہو جاتا کہ دیکھنے والوں کے دل رحم سے بھر جاتے.(کبھی یکہ سواریوں کو لے کر چلاتا اور کبھی سواریاں یکہ کو لے کر.حضرت مولانا انوار حسین خان رئیس شاه آباد ضلع ہردوئی جو سابقون
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 86 خلافت ثانیہ کا پندرھواں الاولون میں سے تھے.یکہ تو کرایہ پر لے لیتے مگر صرف بستر اس کے پیچھے بندھوا دیتے.اور دو سرے لوگوں کو بٹھا دیتے اور خود تمام راستہ پیدل ہی طے فرما کر قادیان پہنچتے.یکہ میں بیٹھ کر سفر کا کوئی حصہ تو شاید ہی کبھی آپ نے طے کیا ہو.سفر کا زیادہ حصہ تو اور حضرات کو بھی پیدل ہی طے کرنا پڑتا تھا اور برسات کے موسم میں تو خدا کی پناہ.بعض اوقات سارا سارا دن چلنے پر بھی قادیان پہنچ جانا ممکن نہ تھا.یکے دلدل میں پھنس جانے پر تو ایسی مصیبت پیش آتی جو برداشت سے باہر ہو جاتی.سامان مزدوروں کے سر پر آتا اور سواریاں بدقت پیدل چل کر 11 یکہ بان مجبور ہو کر گھوڑا اپنے ساتھ لے آتا اور یکہ سڑک پر کھڑا رہ جاتا.قادیان کی بستی نشیب میں واقع ہے.برسات میں چاروں طرف سے پانی کا سیلاب آیا کر، تاجس سے گاؤں کے اردگرد کی ڈھا میں کھائیاں اور خندقیں پانی سے بھر جایا کر تھیں اور زائد پانی قریباً ڈیڑھ میل تک بٹالہ قادیان کی سڑک میں سے ہی گذرا کرتا جو بعض اوقات اتنا گہرا اور تیز رو ہو جاتا کہ اس میں سے سلامت گذر جانا بہت ہی دشوار ہو جاتا اور گاؤں صحیح معنوں میں ایک جزیرہ بن جایا کرتا.یہ تھے وہ حالات جن میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سلسلہ کی ترقی اور قادیان کی ترقی کے بارے میں بشارتیں دی گئیں.چنانچہ ۱۹۰۲ء میں آپ کو عالم کشف میں دکھایا گیا کہ قادیان ایک بڑا عظیم الشان شہر بن گیا اور انتہائے نظر سے بھی پرے تک بازار نکل گئے الخ.پھر اپریل ۱۹۰۵ء میں حضور نے رویا میں دیکھا کہ ”میں قادیان کے بازار میں ہوں اور ایک گاڑی پر سوار ہوں جیسے کہ ریل گاڑی ہوتی ہے".قادیان میں ریل گاڑی کے پہنچنے کی نسبت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی ایک مشہور پیشگوئی ہے.کئی صحابہ نے اسے خود حضور کی زبان مبارک سے سنا تھا حتی کہ انہیں حضور نے یہ بھی بتا دیا تھا کہ قادیان کی ریلوے لائن نواں پنڈ اور بسراواں کی طرف سے ہو کر پہنچے گی.چنانچہ روایات صحابہ میں مرزا قدرت اللہ صاحب ساکن محلہ چابک سواراں لاہور شاہ محمد صاحب ساکن قادیان اور میاں چراغ دین صاحب ولد میاں صدر الدین صاحب قادیان کی شہادتیں ملتی ہیں.ان غیبی خبروں کے پورا ہونے کا بظا ہر کوئی سامان نظر نہیں آتا تھا بلکہ حکومت کی بے اعتنائی کا تو یہ عالم تھا کہ ریلوے لائن بچھوانے کا تو کیا ذکر صرف اتنی بات کی منظوری کے لئے کہ قادیان سے بٹالہ تک سڑک پختہ کر دی جائے اور اس کے لئے سالہا سال کوشش بھی جاری رکھی گئی تھی حکام وقت نے عملاً انکار کر دیا تھا بحا لیکہ دوسرے راستے اور سڑکیں آئے دن درست ہوتی رہتی تھیں لیکن اگر آخر تک بھی نوبت نہ آئی تو اس چھوٹے سے ٹکڑے کی جو بٹالہ اور قادیان کے درمیان تھا.اور جیسا کہ
تاریخ احمد بیت - جلد ۵ 87 حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے اپنی مشہور کتاب " سلسلہ احمدیہ " میں تحریر فرمایا ہے ہرگز امید نہ تھی کہ قادیان میں اس قدر جلد ریل آجائے گی.لیکن خدا نے ایسا تصرف فرمایا کہ جماعتی کوشش کے بغیر اچانک یہ بات معلوم ہوئی کہ ریلوے بورڈ کے زیر غور بٹالہ اور بیاس کے درمیان ایک برانچ لائن کی تجویز ہے.مگر پھر پتہ چلا کہ محکمہ ریل کے ذمہ دار افسروں کو یہ خیال ہوا کہ یہ ریلوے جسے بعد کو بٹالہ بوٹاری ریلوے کا نام دیا گیا ۱۹۳۰ء تک بھی تیار نہیں ہو سکتی.مگر چونکہ خدا کی مشیت میں اب وقت آچکا تھا.کہ قادیان کا مرکز احمدیت ریل کے ذریعہ پورے ملک سے ملا دیا جائے اس لئے ریلوے بورڈنے کے ۱۹۲ء کے آخر میں قادیان بوٹاری ریلوے کی منظوری دے دی اور شروع ۱۹۲۸ء میں محکمہ اطلاعات حکومت پنجاب کی طرف سے سرکاری طور پر یہ اعلان کر دیا گیا کہ ریلوے بورڈ نے نارتھ ویسٹرن ریلوے کے زیر انتظام پانچ فٹ چھ انچ پیسٹری کی بٹالہ سے بوٹاری تک ۴۲ میل لمبی ریلوے لائن بنانے کی منظوری دے دی ہے اس منصوبہ کا نام بٹالہ بوٹاری ریلوے ہو گا ساتھ ہی گورنمنٹ گزٹ میں اعلان ہوا کہ سروے ہو چکا ہے اور لائن بچھانے کا کام جلد شروع ہونے والا ہے.چنانچہ عملاً یہ کام نہایت تیزی سے جاری ہو گیا.اور شب و روز کی زبردست کوشش کے بعد بالآخر ۱۴/ نومبر ۱۹۲۸ء کو ریل کی پنسری قادیان کی حد میں پہنچ گئی.اس دن سکولوں اور دفتروں میں تعطیل عام کر دی گئی اور لوگ جوق در جوق ریلوے لائن دیکھنے کے لئے جاتے رہے.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ارشاد فرمایا کہ نئے راستے کھلنے پر کئی قسم کی مکروہات کا بھی خدشہ ہوتا ہے.اس لئے ساری جماعت اور مرکز سلسلہ کے لئے ریل کے مفید اور بابرکت ہونے کے لئے دعائیں کرنی چاہئیں اور صدقہ دینا چاہئے.چنانچہ قادیان کی تمام مساجد میں دعائیں کی گئیں اور غرباء و مساکین میں صدقہ تقسیم کیا گیا.۱۶/ نومبر ۱۹۲۸ء کو ریلوے لائن قادیان کے سٹیشن تک عین اس وقت پہنچی جبکہ جمعہ کی نماز ہو رہی تھی.نماز کے بعد مرد عور تیں اور بچے اسٹیشن پر جمع ہونے شروع ہو گئے اور قریباً دو اڑھائی ہزار کا مجمع ہو گیا.ریلوے کے مزدوروں اور ملازمین کے کام ختم کرنے پر ان میں مٹھائی تقسیم کی گئی.جس کا انتظام مقامی چندہ سے کیا گیا تھا.اب صرف اسٹیشن کی تعمیر اور ریلوے لائن کی تکمیل کا کام باقی تھا.جو دن رات ایک کر کے مکمل کر دیا گیا.قادیان کے سب سے پہلے اسٹیشن ماسٹر بابو فقیر علی صاحب مقرر ہوئے.اور اسٹیشن کا نام ” قادیان مغلاں " تجویز کیا گیا.پہلے بتایا جا چکا ہے کہ لائن کے بوٹاری تک جانے کا فیصلہ ہوا تھا مگر ابھی لائن قادیان کے حدود تک نہیں پہنچی تھی کہ ریلوے حکام نے قادیان سے آگے لائن بچھانے کا فیصلہ ملتوی کر دیا.اور نہ صرف اگلے حصہ کی تعمیر رک گئی بلکہ آگے بچھی ہوئی ریلوے لائن اکھاڑ +21 MA
تاریخ احمدیت جلد ۵ 88 خلافت ثانیہ کا پندرھواں سال بھی دی گئی.اور جو اراضی اس کے لئے مختلف مالکوں سے خریدی گئی تھیں وہ اخیر میں نیلام عام کے ذریعہ فروخت کر دی گئی.ان حالات سے ظاہر ہے کہ یہ لائن خالص خدائی تصرف کے تحت محض قادیان کے لئے تیار ہوئی.منشی محمد دین صاحب سابق مختار عام ( والد ماجد شیخ مبارک احمد صاحب سابق رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ) کا بیان ہے کہ جب ریلوے لائن بچھ گئی.تو متعلقہ یورپین ریلوے افسر کی پر تکلف دعوت حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کی کو ٹھی میں کی گئی.سروے کا عملہ بھی شامل تھا.اور جماعت کے کئی معززین بھی شامل تھے.اس موقعہ پر اس یورپین افسر نے یہ بات ظاہر کی کہ میرے اندر کوئی ایسی طاقت پیدا ہو گئی تھی جو مجھے چین نہیں لینے دیتی تھی.اور یہی تحریک ہوتی تھی کہ جلد لائن مکمل ہو.بالآخر یہ بتانا ضروری ہے کہ سلسلہ کے مفاد قادیان کی ترقی اور بہشتی مقبرہ کی حفاظت کے لحاظ سے ضروری تھا کہ لائن قادیان کے شمال کی طرف سے ہو کر گزرے مگر ریلوے حکام اور علاقہ کی غیر احمدی اور غیر مسلم آبادی اسے جنوب سے گزارے جانے کے لئے انتہائی جوش اور پوری سرگرمی سے کوشش کر رہی تھی.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنی فراست و بصیرت سے اس صورت حال کو پہلے سے معلوم کر لیا اور اس کی روک تھام کے لئے ابتدا ہی میں خاص انتظام سے ایک زبر دست مہم شروع کرادی یہ مہم کیا تھی اس میں کن بزرگوں نے حصہ لیا.اور کس طرح کامیابی ہوئی اس کی تفصیل شیخ محمد دین صاحب سابق مختار عام کے بیان کے مطابق درج ذیل ہے فرماتے ہیں: غالبا ۱۹۲۸ء کی ابتداء یا ۱۹۲۷ء کے آخر کا واقعہ ہے کہ کسی اخبار میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ نے ایک سرکاری اعلان پڑھا جس میں اس قسم کا کوئی ذکر تھا کہ ریلوے امرت سمر سے بیاس تک مائی جائے اس حضور نے فورا مولوی عبد المغنی خان صاحب کو ناظر خاص مقرر فرمایا، حکام سے رابطہ کے لئے حضرت مفتی محمد صادق صاحب جو اس وقت ناظر امور خارجہ تھے مقرر کئے گئے.میں اور منشی امام الدین صاحب (والد ماجد چوہدری ظہور احمد صاحب آڈیٹر صد را انجمن احمدیہ ) ان دونوں بزرگوں کے لئے بطور معاون تجویز ہوئے.ہماری تجویز یہ تھی کہ یہ ریلوے بٹالہ کے شمال کی طرف سے آئے اور قادیان کے شمالی جانب سے ہوتی ہوئی سری گوبند پور پہنچے.مگر محکمہ ریلوے اور علاقہ کے غیر مسلموں اور دوسرے مخالفین کی تجویز یہ تھی کہ ریل بٹالہ کے جنوب سے ہوتی ہوئی قادیان کے جنوب مقبرہ بہشتی کی طرف جائے وہاں سے سری گوبند پور سے ہوتی ہوئی بیاس تک پہنچائی جائے.ہماری طرف سے حکام کو بتایا گیا کہ بٹالہ کے جنوب کی اراضیات زیادہ زرخیز اور قیمتی ہیں اور شمالی جانب کی اراضیات کم
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 89 خلافت عثمانیہ کا پندرھواں سا قیمت کی ہیں.چنانچہ ریلوے نے ہماری یہ تجویز مان لی.اور سمردے شروع ہو گیا.ریلوے نے اس ٹکڑہ پر ریلوے لائن بچھانے کے لئے ایک یورپین افسر مقرر کیا تھا جو بہت ہو شیار نوجوان تھا.سروے کرنے والا سارا عملہ مسلمان تھا اور اس عملہ کے افسر معراج دین صاحب اوور سیر تھے.میری یہ ڈیوٹی تھی کہ میں اس عملہ کے ساتھ دن رات رہوں اور جماعتی مفاد کے مطابق اوور سیر معراج دین صاحب کو بتاؤں کہ ریلوے لائن بٹالہ کے شمال سے ہوتی ہوئی اس اس طریق سے آئے.چنانچہ جب سروے لائن نہر قتلے والی کے قریب پہنچ گئی تو مخالف عصر نے جس میں قادیان کے مسلمان اور سکھ وغیرہ بھی شامل تھے پھر زور لگایا کہ ریلوے لائن قادیان کی جنوبی جانب سے پہنچے اس مرحلہ پر یورپین افسر نے حکم دیا کہ سروے کر کے معلوم کیا جائے کہ شمالی اور جنوبی جانب سے خرچ میں کس قدر تفاوت ہو گا.بظا ہر حالات شمالی جانب خرچ قریب لا کھ ڈیڑھ لاکھ زیادہ تھا.مگر ریلوے اوور سیر نے جب شمالی اور جنوبی جانب کا خرچ پیش کیا تو معلوم ہوا کہ دونوں میں فرق خفیف سا ہے (جس کی ایک وجہ غالبا یہ تھی کہ قادیان کی جنوبی جانب پست تھی اور سیلاب کا پانی وہاں جمع رہتا تھا.جس سے بچاؤ کے لئے بھرتی ڈال کر لائن بچھانے کے اخراجات بھی اس میں شامل کرنے پڑتے تھے.مولف) بنا بریں یورپین افسر نے ریلوے کے افسران بالا سے بھی یہی منظوری لے لی کہ لائن قادیان کے شمال ہی کی طرف سے گزاری جائے.چنانچہ لائن قادیان کے شمالی جانب سے تعمیر کی گئی.بلکہ اسی خسرہ نمبر سے آئی اور اسی مجوزہ جگہ پر اسٹیشن بنا جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب پہلے سے تجویز فرما چکے تھے.المختصر سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی زبان مبارک سے نکلی ہوئی یہ بات پوری ہوئی کہ قادیان میں لائن نواں پنڈ اور بسراواں کی طرف سے ہو کر پہنچے گی اور اس طرح قادیان میں گاڑی کا آنا سلسلہ احمدیہ کی صداقت کا ایک چمکتا ہوا نشان بن گیا.اور قادیان کے ریلوے نظام سے وابستہ ہونے کے بعد سلسلہ کی ترقی کا میدان وسیع سے وسیع تر ہو تا گیا.فالحمد لله على ذلك.مسلم حکومتوں کو انتباہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۶/ نومبر ۱۹۲۸ء کو ایک اہم خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا.جس میں مسلمان حکومتوں کو ان کی دین سے بے اعتنائی پر انتباہ کیا اور بتایا کہ ترک یورپین اثر سے آزاد ہوئے تو ہر مسلمان کو اس پر خوشی تھی.مگر تھوڑے ہی دنوں بعد انہوں نے آہستہ آہستہ مذہب اور حکومت کے تعلق کو تو ڑنا شروع کیا.پھر عربی حروف چھوڑ کر ترکی الفاظ کو انگریزی الفاظ میں لکھنا شروع کیا.جس کا نتیجہ یہی ہو گا.کہ جس آسانی سے وہ پہلے قرآن شریف پڑھ سکتے تھے اب نہیں پڑھ سکیں گے.اور اسلام سے تعلق کم ہو تا جائے گا.ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ان کی یہ حرکت محض نقل سے زیادہ کچھ نہیں اب یہ مرض دو سرے ممالک میں
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 90 خلافت ثانیہ کا پندرھواں سا بھی پھیلنا شروع ہو گیا ہے.افغانستان میں ہیٹ اور انگریزی لباس پہننے اور داڑھی منڈانے کا حکم دیا گیا ہے اب ایران میں بھی حکومت اس قسم کے قواعد بنارہی ہے جس سے افسروں کے لئے انگریزی لباس پہننا ضروری ہو گا.اور جو نہ پہنے وہ سزا کا مستحق ہوگا.اسی طرح یہ سکیم بھی زیر غور ہے کہ قدیم ایرانی حروف اختیار کرلئے جائیں.نہ معلوم عربی نے کیا قصور کیا ہے.حالانکہ ان کے آباء کا سار الٹریچراسی زبان میں ہے قوموں کی ترقی ان کے آباء کی روایتوں پر منحصر ہوتی ہے ان کی کتابیں عربی حروف میں لکھی ہوئی ہیں اب اگر عربی حروف کو مٹادیا گیا.تو آئندہ نسلیں ان کتابوں کو نہیں پڑھ سکیں گی اور اس " طرح قرآن کریم سے وابستگی بھی کم ہو جائے گی.اس سلسلہ میں حضور نے یہ بھی فرمایا کہ : میں نے پہلے امور کو دیکھا تو خیال کیا کہ یہ ترکوں پر مخالفین کے حملے ہیں.مگر جب تصدیق ہوئی تو پھر میں سمجھا کہ شاید یہ وباء ترکوں تک ہی محدود رہے مگر اب دوسروں تک اس کے اثر کو دیکھ کر میں نے مناسب سمجھا کہ اپنی رائے اس کے متعلق بیان کر دوں اور جہاں جہاں تک ہماری آواز سنی جائے ہم بتا دیں.کہ یہ راستے ترقی کے نہیں.ترقی کے لئے اسلام کی طرف توجہ کی ضرورت ہے اور اسلام میں جو ظاہری اتحاد ہے اسے مٹانا کسی مسلمان حکومت کے لئے مفید نہیں ہو سکتا.اس وقت اسلامی حکومتوں میں سے سوائے نجد کے کہیں اسلام نظر نہیں آتا.میں نجدیوں کے مقابر کو گرانے یا دوسرے مظالم کو کٹر حنفیوں کی طرح ہی حقارت کی نظر سے دیکھتا ہوں مگر بہر حال سنت اسلام کو قائم اور برقرار رکھنے کے لئے ان کی کوشش ضرور قابل قدر ہے مخالفین نہیں رہے ہیں کہ مسلمانوں نے قرآن کے معنوں پر عمل تو پہلے ہی چھوڑ رکھا تھا اب اس کے الفاظ کو بھی چھوڑ رہے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں توفیق دے کہ وہ اپنی غلطیوں کو سمجھ سکیں اور ان کے بد نتائج سے محفوظ رہ سکیں ".امرتسر قادیان ریلوے کا افتتاح اور گاڑی پر ریلوے پروگرام کے مطابق چونکہ ۱۹/ دسمبر ۱۹۲۸ء کو امرت سر سے قادیان جانے والی پہلی حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا مع خدام سفر ریل گاڑی روانہ ہوئی تھی.اس لئے قادیان سے بہت سے مرد عورتیں اور بچے اس تاریخ کو امرت سر پہنچ گئے.نیز حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایده اللہ تعالیٰ بنفس نفیس ۳ بجے بعد دو پر امرت سر تشریف لے آئے.تا قادیان ریلوے کے افتتاح کی تقریب پر اس خدائے قدوس کے آگے دست دعا بلند کریں.جس نے محض اپنے فضل و کرم سے موجودہ زمانے کی اہم ایجاد کو خدام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آرام و آسائش کے لئے مرکز احمدیت تک پہنچا دیا.حضور کے امرت سراسٹیشن پر تشریف لاتے ہی ہجوم بہت زیادہ ہو گیا کیونکہ قادیان کے دوستوں
تاریخ احمدیت جلد ۵ 91 خلافت عثمانیہ کا پندرھواں کے علاوہ گوجرانوالہ ، لاہور امرت سر اور بعض دور دراز مقامات کے احباب بھی آگئے اور گاڑی روانہ ہونے سے قبل قادیان جانے والوں کی اتنی کثرت ہو گئی کہ ریلوے والوں کو پہلی تجویز کردہ گاڑیوں میں اور ڈبوں کا اضافہ کرنا پڑا.گاڑی کے پاس ہی اذان کئی گئی اور حضور نے ظہر و عصر کی نمازیں ایک بہت بڑے مجمع کو باجماعت " پڑھا ئیں اس کے بعد حضور نے احباب کو شرف مصافحہ بخشا.پھر حضور گاڑی کے دروازہ میں کھڑے ہو گئے اور فرمایا دوست دعا کریں کہ اللہ تعالی ریل کا قادیان میں آنا مبارک کرے.یہ کہہ کر حضور نے مجمع سمیت چند منٹ تک نہایت توجہ اور الحاج سے دعا کرائی اور پھر سب احباب گاڑیوں میں سوار ہو گئے.ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب نے ریل گاڑی کے جاری ہونے سے متعلق چار صفحہ کا ایک بہت عمدہ اور موثر ٹریکٹ تیار کر کے گاڑی چلنے کے موقعہ پر تقسیم کر دیا.جس میں سیدنا حضرت مسیح موعود کے اوائل زمانہ کی مشکلات کا نقشہ کھینچتے ہوئے ثابت کیا کہ ریل کا کسی حصہ ملک میں جاری ہو جانا معمولی بات ہے مگر قادیان کی ریل خاص تائید الہی میں سے ہے اور اس کی تقدیر خاص کے ماتحت تیار ہوئی ہے اور ان عظیم الشان نشانوں میں سے ہے جو اللہ تعالیٰ انبیاء کی تائید کے لئے ظاہر فرماتا ہے.LL حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے رونق افروز ہونے کے بعد جتنی دیر تک گاڑی اسٹیشن پر کھڑی رہی.مدرسہ احمدیہ کے سکاؤٹس نہایت خوش الحانی سے اردو اور پنجابی نظمیں پڑھتے رہے اور انہوں نے چند آیات و الہامات سے جو سرخ رنگ کے کپڑوں پر چسپاں تھیں گاڑی بھی خوب سجائی اور جاذب نظر بنائی تھی.ان میں سے بعض درج ذیل ہیں: الا ان روح الله قريب الا ان نصر الله قريب ياتون من كل فج عميق ياتيك من كل فج عميق (۲) واذا العشار عطلت واذا النفوس زوجت (۳) دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اسے قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.(۴) اهلا و سهلا و مرحبا (۵) خوش آمدید (۱) غلام احمد کی ہے.(۷) یہ میرے رب سے میرے لئے اک گواہ ہے یہ میرے صدق دعویٰ پر مہر الہ ہے گاڑی نے اپنے مقررہ وقت ۳ بج کر ۴۲ منٹ پر حرکت کی اور ساتھ ہی اللہ اکبر کا نہایت بلند اور پر زور نعرہ بلند ہوا جو گاڑی کے ریلوے یارڈ سے نکلنے تک برابر بلند ہوتا رہا.گاڑی دیکھنے کے لئے آدمیوں کے گذرنے کے پل پر بڑا ہجوم تھا.اللہ اکبر اور غلام احمد کی جے " کے نعرے راستہ کے ہر
تاریخ احمدیت جلد ۵ 92 خلافت مانسیه کانند سر گاؤں اور اسٹیشن پر بلند ہوتے آئے اگر چہ گاڑی امرتسری سے بالکل پر ہو گئی تھی اور ہر ایک درجہ میں بہت کثرت سے آدمی بیٹھے تھے.لیکن بٹالہ اسٹیشن پر تو ایسا اثر دحام ہو گیا تھا کہ بہت لوگ گاڑی میں بیٹھ نہ سکے اور بہت سے بمشکل پائدانوں پر کھڑے ہو سکے.کچھ قادیان سے پہلے اسٹیشن و ڈالہ گر نتھیاں پر بھی جہاں ارد گرد کے بہت سے احمدی مرد و عورتیں جمع تھیں چند ہی اصحاب بدقت بیٹھ سکے.آخر گاڑی اپنے وقت پر 4 بجے شام کو قادیان کے پلیٹ فارم پر پہنچی یہاں بھی قرب و جوار کے بہت سے دوستوں کا ہجوم تھا سٹیشن جھنڈیوں اور گملوں سے خوب آراستہ تھا.فضا بہت دیر تک اللہ اکبر اور "غلام احمد کی جے" کے پر جوش نعروں سے خوب گو نجتی رہی.کچھ عجیب ہی شان نظر آرہی تھی.گذشتہ سال انہی ایام میں کسی کو وہم و گمان بھی نہ تھا کہ اس مقام پر اتنی رونق اور ایسی چہل پہل ہو سکتی ہے لیکن اللہ تعالی نے قلیل ہی عرصہ میں ایسے سامان پیدا کر دیے کہ بالکل نیا نقشہ آنکھوں کے سامنے آگیا.فالحمد لله على ذالك.اس سفر میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی اور حضور کے اہل بیت کے علاوہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے کئی نونہال بھی اس گاڑی میں تشریف لائے تھے.اور حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب ، حضرت مولانا مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب، حضرت مولانا مولوی شیر علی صاحب ، حضرت عرفانی کبیر شیخ یعقوب علی صاحب ایڈیٹر الحکم، حضرت مولوی میر قاسم علی صاحب ایڈیٹر "فاروق" حضرت مولوی عبد المغنی خان صاحب ناظر بیت المال، حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد اور کئی اور مقامی بزرگوں کو بھی اس گاڑی میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی معیت کا شرف حاصل ہوا.|TA='PLA| حضرت مرز اسلطان احمد صاحب کا اعلان احمدیت اس سال کے اہم واقعات میں سے حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کا اعلان احمدیت ہے.جیسا کہ متعدد واقعات و شواہد سے یہ امر پایہ ثبوت تک پہنچتا ہے.حضرت صاحبزادہ صاحب کو دراصل شروع ہی سے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے ساتھ بے حد عقیدت و شیفتگی تھی اور آپ حضرت اقدس علیہ السلام کو بے مثال عاشق رسول اللہ ا سمجھتے اور آپ کے دعادی کو برحق تسلیم کرتے تھے.اور آپ کی روح تحریک احمدیت کو قبول کر چکی تھی مگر آپ کو اس کے اظہار و اعلان میں بہت تامل تھا اور اس بات کا علم حضرت خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو بھی تھا.اور حضور ہمیشہ ان کے حلقہ بگوش احمدیت ہونے
تاریخ احمدیت ، جلد ۵ 93 کے لئے دعائیں کرتے رہتے تھے.چنانچہ جون ۱۹۲۴ ء میں حضور نے ان کے فرزند مرزا رشید احمد صاحب کا خطبہ نکاح پڑھا تو ایجاب و قبول کے بعد ارشاد فرمایا: TAK - ان کے خاندان میں اب ایک ہی وجود ایسا ہے جس نے ابھی تک اس ہدایت کو قبول نہیں کیا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لائے ان کے لئے بھی دعا کریں کہ خدا تعالیٰ ان کو ہدایت دے.....جب سے میں نے ہوش سنبھالی ہے میں برابر ان کے لئے دعا کر تا رہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ان کو ہدایت دے میں سنتا رہتا ہوں کہ وہ احمدیت کو ہدایت کی راہ ہی خیال کرتے ہیں مگر کوئی روک ہے جس کے لئے دعا کرنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ اس روک کو ہٹا دے.آمین ".الحمد للہ خدا کے خلیفہ برحق کی دعا درگاہ عالی میں مقبول ہوئی اور آخر اکتو بر ۱۹۲۸ء کے پہلے ہفتہ میں حضرت مرزا سلطان احمد نے اعلان احمدیت کر دیا اور اس سلسلے میں مندرجہ ذیل بیان الفضل میں شائع کرایا.تمام احباب کی اطلاع کے لئے میں یہ چند سطور شائع کرتا ہوں کہ میں حضرت مرزا صاحب علیہ السلام کے سب دعوؤں پر ایمان رکھتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ وہ اپنے دعویٰ میں صادق اور راستباز تھے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور تھے جیسا کہ میرے ان مضامین سے آپ لوگوں پر ظاہر ہو چکا ہو گا.جو سلسلہ احمدیہ کی خدمات کے متعلق میں شائع کرتا رہا ہوں مگر اس وقت تک بوجہ بیماری اور ضعف کے میں ان مسائل کے متعلق پورا غور نہیں کر سکا.جن کے بارے میں قادیان اور لاہوری احمدیوں میں اختلاف ہے اور اسی وجہ سے اب تک اپنی احمدیت کا اعلان نہیں کر سکا.مگر اب میں نے سوچا ہے کہ زندگی کا کوئی اعتبار نہیں اس لئے میں اس امر کا سردست اعلان کر دوں کہ میں دل سے احمدی ہوں جب مجھے اللہ توفیق دے گا تو میں اختلافی مسائل پر غور کر کے اس امر کا بھی فیصلہ کر سکوں گا.کہ میں دونوں جماعتوں میں سے کس کو حق پر سمجھتا ہوں.پس سر دست اپنے احمدی ہونے کا اعلان ان چند سطور کے ذریعہ سے کر کے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے دو سرے سوال کے متعلق بھی اپنے پاس سے ہدایت فرمائے او روہ راہ دکھائے جو اس کے نزدیک درست ہو.آمین.FAT (خان بهادر ) مرز اسلطان احمد ( خلف اکبر حضرت مسیح موعود علیہ السلام) اس اعلان کے علاوہ آپ نے ایک ٹریکٹ "الصلح خیر" نامی شائع کیا جس میں تحریر فرمایا : " میری عقیدت حضرت مسیح موعود کے ساتھ نہ صرف اس وقت سے ہے جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسیحیت کا دعویٰ کیا بلکہ ان ایام سے میں عقیدت رکھتا ہوں کہ جبکہ میری عمر بارہ تیرہ برس کی تھی.میں تصدیق کرتا ہوں اور صدق دل سے مانتا ہوں کہ میرے والد صاحب مرحوم کی
تاریخ ادیت شدند 94 ہستی ایسی عظیم الشان تھی جو اسلام کے واسطے ایک قدرتی انعام تھا.میں اپنے والد صاحب مرحوم مرزا غلام احمد صاحب کو ایک سچا انسان اور پکا مسلمان الموسوم مسیح موعود علیہ السلام سمجھتا ہوں.اور ان کی حقانیت پر ایمان رکھتا ہوں اور میں اپنے آپ کو اس رنگ میں ایک احمدی سمجھتا ہوں.آپ مجھ سے پوچھیں گے کہ کیوں حضرت مولوی نور الدین صاحب یا میاں محمود احمد صاحب یا مولوی محمد علی صاحب کی بیعت نہیں کی.اس کا جواب یہ ہے میں نے کبھی اپنی زندگی میں باوجود اس کے کہ میرے والد صاحب مرحوم میری بعض کمزوریوں کی وجہ سے میرے فائدہ کے لئے مجھ پر ناراض بھی تھے.اور میں اب صدق دل سے یہ اعتراف بھی کرتا ہوں کہ ان کی ناراضگی واجبی اور حق تھی.باوجود ان کی نار اختگی کے بھی میں نے کبھی اخیر تک بھی ان کے دعاوی اور ان کی صداقت اور سچائی کی نسبت کبھی کوئی مخالفانہ حصہ نہیں لیا.جس کو میرے احمدی اور غیر احمد کی دوست بخوبی جانتے ہیں جو قریباً ۳۰ سال سے میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اس سے زیادہ اور کیا میری صداقت ہوگی اور بائیں حالات کون کہہ سکتا ہے کہ میں ان کا مخالف یا ان کے دعادی کا منکر ہوں.جب یہ حالت ہے تو مجھے کوئی یہ الزام نہیں دے سکتا کہ میں ان کا منکر تھایا ہوں...بیعت کیا چیز ہے ایک یقین اور صداقت کے ساتھ ایک مقدس انسان کے ہاتھ میں ہاتھ دینا اور اس کے ساتھ ہی صدق دل سے خدا کو اس امر پر شاہد کرنا.پس میں اب تک اپنے والد صاحب مرحوم کو سچا مسیح موعود مانتا ہوں اور میرا خدا اس پر شاہد ہے میں اعلان اور اظہار کو بیعت یقین کرتا ہوں".قبول احمدیت کا اعلان کر دینے کے بعد بیعت خلافت کا جو نازک ترین مرحلہ باقی تھاوہ بفضلہ تعالی ۲۵/ دسمبر ۱۹۳۰ء کو بخیر و خوبی طے ہوا.جیسا کہ آگے بالتفصیل ذکر آئے گا.سالانہ جلسہ ۲۶۶۱۹۲۸ / دسمبر سے شروع ہو کر ۲۸ / دسمبر ۱۹۲۸ء کو بخیر و سالانہ جلسه ۱۹۲۸ء خوبی ختم ہوا.ریل کے جاری ہونے کی وجہ سے اس سال مہمانوں کی تعداد میں پہلے کی نسبت غیر معمولی اضافہ ہوا.مہمانوں کی ایک خاصی تعداد حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی معیت میں 19 / دسمبر کو جبکہ پہلی گاڑی قادیان پہنچی مرکز میں آگئے اور ۲۳ / دسمبر کے بعد قادیان آنے والوں کی کثرت کا یہ عالم تھا کہ محکمہ ریلوے کو معمول کے مطابق گاڑیوں کے علاوہ ایک اسپیشل ٹرین روزانہ چلانا پڑی جو ۲۸/ دسمبر تک جاری رہی.اس دفعہ نہ صرف بہت سی عورتیں بچے اور بہت سے ضعیف اور کمزور لوگ شامل جلسہ ہوئے جو پہلے نہ آسکے تھے.بلکہ بہت سے غیر مبائع ، غیر احمدی اور غیر مسلم اصحاب بھی دور در از متقامات سے تشریف لائے.ضعیف العمر لوگوں میں سے چنگا بنگیال ضلع جہلم کی ایک خاتون بھی تھیں جن کی عمر سو
تاریخ احمدنیت، جلد ۵ 95 خلافت ثانیہ کا پندر سال سے زیادہ تھی.اور جو اپنی وضع کی اتنی پابند تھیں کہ انہوں نے اپنے گھر کے سوا کبھی کسی دوسری جگہ رات بسر نہیں کی تھی اور پہلی باری ریل گاڑی دیکھی تھی.جس میں وہ قادیان آئی تھیں.پنجاب کے تمام اضلاع اور ہندوستان کے مختلف حصوں کے علاوہ مالا بار کابل اور ماریشس سے بھی کچھ احباب تشریف لائے تھے.غیر احمدی اصحاب جن میں بڑے بڑے سرکاری عہدیدار مجسٹریٹ ، وکلاء بیرسٹرز رؤساء علی گڑھ اور اسلامیہ کالج لاہور کے پروفیسر شامل تھے.بڑی کثیر تعداد میں آئے.مثلا شمس العلماء مولانا الطاف حسین حالی پانی پتی کے فرزند ارجمند خواجہ سجاد حسین صاحب بی.اے اور خان بهادر چوہدری (نواب) محمد دین صاحب ریٹائرڈ ڈپٹی کمشنر غیر مسلموں میں بنارس یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کے راج قابل ذکر تھے.جلسہ کے منتظم اعلیٰ اور ناظر ضیافت حضرت میر محمد اسحاق صاحب تھے.آپ کے زیر انتظام اندرون قصبه حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب اور بیرون قصبہ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب اور حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب انچارج تھے.اور حسب معمول ہر اہم صیغہ کے علیحدہ علیحدہ انچارج اور ان کے مددگار مقرر تھے.جلسہ پر قریباً تین سو مردوں نے بیعت کی.بیعت ہونے والی مستورات کی تعداد مزید برآں تھی.PAL حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا ابتداء خلافت ”فضائل القرآن" پر سلسلہ تقاریر کا آغاز سے یہ دستور رہا ہے کہ حضور سالانہ جلسہ کے موقعہ پر ہمیشہ ایک خالص علمی موضوع پر تقریر فرمایا کرتے ہیں.چنانچہ ۱۹۲۸ء کے جلسہ پر حضور نے " فضائل القرآن " کے عنوان پر ایک اہم سلسلہ تقاریر کا آغاز فرمایا.جو (۱۹۳۳ء تا ۱۹۳۵ء کو مستی کر کے (۱۹۳۶ ء کے جلسہ تک جاری رہا.حضور کا نشاء مبارک در اصل یہ تھا کہ قرآن کریم کی فضیلت سے متعلق سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے براہین احمدیہ میں جو تین سو د لا کل لکھنے کا وعدہ فرمایا تھا وہ اگر چہ حضور ہی کی دوسری تصنیفات میں پایہ تکمیل تک پہنچ گیا.ملارد ، نظام کی طور پر بھی پورا کر دیا جائے.مگر مشیت ایزدی کے مطابق صرف چھ لیکچر ہو کے." فضائل القرآن" کے لیکچروں کے اس بیش بہا مجموعہ میں جو ۴۴۴ صفحات پر مشتمل ہے.حضور نے قرآن مجید کے دوسرے مذاہب کی الہامی کتابوں پر فضیات کے متعدد دار ٹل جیتے ہیں اور قرآن مجید کے بہت سے مشکل مقامات کو نہایت خوبی نفاست سے قتل کیا.ہے ، مستر فین کے اعتراضات کا ایسے موثر رنگ میں جواب دیا ہے کہ انسان عش عش کئے بغیر نہیں رہ سکتا.اس سلسلہ کی چھٹی تقریر حضور کے ایک ایسے چیلنج پر ختم ہوتی ہے جس کو قبول کرنے کی جرات
--- تاریخ احمدیت.جلد ۵ 96 خلافت عثمانیہ کا پندرھواں سال آج تک کسی غیر مسلم مفکر کو نہیں ہوئی.یہ چیلنج ان الفاظ میں تھا: " قرآن کریم کو وہ عظمت حاصل ہے جو دنیا کی کسی اور کتاب کو حاصل نہیں اور اگر کسی کا یہ دعوئی ہو کہ اس کی مذہبی کتاب بھی اس فضیلت کی حامل ہے تو میں چیلنج دیتا ہوں کہ وہ میرے سامنے آئے.اگر کوئی دید کا پیرو ہے تو وہ میرے سامنے آئے.اگر کوئی تو ریت کا پیرو ہے تو وہ میرے سامنے آئے اگر کوئی انجیل کا پیرو ہے تو میرے سامنے آئے اور قرآن کریم کا کوئی استعارہ میرے سامنے رکھ دے جس کو میں استعارہ سمجھوں پھر میں اس کا حل قرآن کریم سے ہی پیش نہ کر دوں تو وہ بے شک مجھے اس دعوی میں جھوٹا سمجھے لیکن اگر پیش کر دوں تو اسے ماننا پڑے گا کہ واقعہ میں قرآن کریم کے سوا دنیا کی اور کوئی کتاب اس خصوصیت کی حامل نہیں ".۱۹۲۸ء میں رحلت پانے والے بزرگ سلسلہ احمدیہ کے قدیم بزرگ اب بڑی تیزی سے رخصت ہوتے جا رہے تھے.چنانچہ اس 741 سال مندرجہ ذیل بزرگوں کا انتقال ہوا.(۱) حضرت صوفی مولا بخش صاحب ( تاریخ وفات ۱۴ فروری ۱۹۲۸ء) (۲) حضرت شهزاده عبد المجید صاحب لدھیانوی مبلغ ایران تاریخ وفات ۲۳ فروری ۱۹۲۸ء) (۳) حضرت شیخ نوراحمد صاحب مالک مطبع ریاض ہند امرت سر ( تاریخ وفات /٨ / جون ۱۹۲۸ء) (۴) حضرت میاں سراج الدین صاحب ( تاریخ وفات ۲۷ / جولائی ۱۹۲۸ء) (۵) حضرت ڈاکٹر کرم الہی صاحب امرت سری ( تاریخ وفات ۱۰ اگست ۶۱۹۲۸ ) ) (۲) حضرت حافظ نور احمد صاحب لدھیانوی ( تاریخ وفات (۲۸/ اکتوبر ۱۹۲۸ء) ان صحابہ کے علاوہ حضرت سیٹھ عبد اللہ الہ دین صاحب کے ماموں حضرت سیٹھ الہ دین بھائی ابراہیم صاحب سکندر آباد دکن بھی پچاس سال کی عمر میں ) تاریخ ۲۰/ فروری ۱۹۲۸ء وفات پاگئے اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ " احمد یہ جماعتیں ان کا جنازہ پڑھیں اور دعاء مغفرت کریں ".ES بیرون ملک بھی بعض ممتاز احمدیوں کا انتقال ہوا.مثلا نائجیریا میں سلسلہ احمدیہ کے ایک قدیم فدائی امام محمد بینا ڈوبری چیف امام شہر لیگوس قریب ستر برس کی عمر میں وفات پاگئے.III آپ ۶ / جون ۱۹۲۱ء کو اپنے چالیس ساتھیوں سمیت مولانا عبد الرحیم صاحب نیر کے ذریعہ بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے تھے.بیعت کے بعد ان پر بہت ابتلاء آئے گالیاں دی گئیں مقدمات کئے گئے مگر ان کے استقلال میں ڈرا فرق نہ آیا.
تاریخ احمدیت احمد بیت - جلد ۵ 97 خلافت ثانیہ کا بندر فصل ہفتم ۱۹۲۸ء کے بعض متفرق مگر اہم واقعات خاندان مسیح موعود میں ترقی سید نا حضرت خلیفتہ المسح الثانی ایدہ اللہ تعالی کے ہاں (۱۸/ دسمبر ۱۹۲۸ء کو) مرزا طاہر احمد صاحب اور حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کے ہاں (۱۷/ اکتوبر ۱۹۲۸ء کو ) امتہ الباری صاحبہ کی ولادت ہوئی.حضرت سارہ بیگم صاحبہ نے پنجاب یونیورسٹی سے ادیب کا امتحان امتحان میں نمایاں کامیابی پاس کیا.آپ صوبہ بھر کی خواتین میں اول آئیں اور یونیورسٹی میں چوتھی پوزیشن حاصل کی.اس کامیابی میں موصوفہ کی محنت اور کوشش کے علاوہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی تعلیم خواتین میں دلچسپی کا بھی دخل تھا.حضور کے پیش نظر خواتین کی تعلیم کے انتظام کو زیادہ بہتر بنانے کی جو تجاویز تھیں ان کو کامیاب بنانے کے لئے حضور کی نظر انتخاب حضرت امتہ الحئی صاحبہ کے بعد حضرت سارہ بیگم صاحبہ پرہی تھی.آپ کے علاوہ حضرت ام داؤد صالحہ بی صاحبہ (اہلیہ محترمہ حضرت میر محمد اسحاق صاحب پنجاب یونیورسٹی کے امتحان مولوی میں اول رہیں.مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء کے موقعہ پر سیدنا حضرت امتحان کتب مسیح موعود میں انعام خلیفہ المسیح الثانی نے اپنے دست مبارک سے ملک عزیز احمد صاحب راولپنڈی کو امتحان کتب حضرت مسیح موعود میں اول آنے پر ”حقیقتہ الوحی" بطور انعام مرحمت فرمائی.سلسلہ کی تبلیغی جد وجہد کو وسیع سے وسیع تر کرنے کے لئے حضور نے تحریک وقف زندگی دسمبر ۱۹۱۷ء میں پہلی بار وقف زندگی کی تحریک فرمائی تھی.اور اس سال آپ نے ۴ / مئی ۱۹۲۸ء کو جماعت کے نوجوانوں سے دوسری بار وقف زندگی کا مطالبہ فرمایا.جس پر مدرسہ احمدیہ کے بیس سے زیادہ طالب علموں نے لبیک کہا.
أريخ حمر نیت ، جلد ۵ 98 اس زمانہ کی ایک اہم خصوصیت حج بیت اللہ کی طرف جماعت احمدیہ کی خاص توجہ یہ ہے کہ اس میں جماعت احمدیہ کی توجہ فریضہ حج کی طرف بڑھ گئی.چنانچہ ۱۹۲۷ء میں پچاس ساٹھ کے قریب احمدی حج بیت اللہ سے شرف ہوئے.اور ۱۹۲۸ء میں بھی یہ رجحان ترقی پذیر رہا.کتابوں کی اشاعت کے متعلق اہم فیصلہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی منظوری سے مجلس معتمدین صد را انجمن احمد یہ قادیان نے یہ فیصلہ کیا کہ آئندہ سلسلہ کی طرف سے کوئی کتاب ٹریکٹ یا رسالہ و غیره نظارت تألیف و تصنیف کی منظوری کے بغیر نہ چھپ سکتی ہے نہ شائع ہو سکتی ہے.۲۸ / اگست ۱۹۲۸ء کو اس فیصلہ کا الفضل میں با ضابطہ اعلان کر دیا گیا مسودات کی نگرانی کا کام شروع شروع میں زیادہ تر مولوی فضل الدین صاحب پلیڈر کرتے تھے جو ان دنوں نظارت تالیف و تصنیف کی مرکزی لائبریری کے نگران اور نظارت امور عامہ کے قانونی مشیر تھے.اخبار لائٹ " کا مقدمہ اور اس کی پیروی مولوی محمد یعقوب خاں صاحب ایڈیٹر اخبار لائٹ لاہور نے اخبار الفضل کے ایڈیٹر (خواجہ غلام نبی صاحب اور پرنٹر (حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی) پر ازالہ حیثیت کا مقدمہ دائر کیا.BIR اس مقدمہ کی پیروی میں چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے خاص توجہ فرمائی.مولوی فضل الدین صاحب وکیل اس کے انتظام اور ضروری تیاری میں مصروف رہے.دستکاری کی نمائش اور انعام بلند اماءاللہ مرکزی کی زیر نگرانی ۱۹ء سے سالانہ جلسہ کے موقعہ پر دستکاری کی نمائش کا انتظام جاری تھا جس میں اصل لاگت لجنات کو واپس کر دی جاتی تھی اور منافع اشاعت اسلام میں جمع کر دیا جاتا تھا.دستکاری کے کام کو زیادہ کامیاب بنانے کے لئے ۱۹۲۸ء میں ایک انعامی تمنے کا اعلان کیا گیا.جو اہلیہ صاحبہ ماسٹر محمد حسن صاحب آسان دہلوی کو ملا - BD ۳۱۵ سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مندرجہ ذیل اصحاب خطبات نکاح کے نکاح کا اعلان کرتے ہوئے پر معارف خطبات نکاح ارشاد فرمائے: (۱) چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم.اے (مورخہ ۲/ جنوری ۱۹۲۸ء) ۱ (۲) صوفی غلام محمد ۱ صاحب بی.اے مبلغ ماریشس (مورخه ۱۴ / مارچ ۱۹۲۸ء) (۳) صاحبزادہ عبد السلام صاحب عمر خلف سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الاول ان (مورخه ۱۴/ اگست ۱۹۲۸ء)
تاریخ ار 99 خلافت عثمانیہ کا پندرھو سید نا حضرت فضل عمر کو اللہ تعالیٰ نے وہ علوم و معارف عطا فرمائے کہ ایک بار حضور نے فرمایا.میں نے دیکھا ہے جب میں خطبہ نکاح کے لئے کھڑا ہوا ہوں نئے سے نیا نکتہ سوجھا ہے اگر کوئی غور کرنے والا ہو تو یہی معجزہ اسلام کی سچائی کے لئے زبردست ثبوت ہے تین آیتیں رسول کریم نے تجویز فرمائیں.اور ان تینوں آیتوں کی تفسیر ختم نہیں ہو سکتی ".ملک فضل حسین صاحب نے حضور کے خطبات النکاح کی دو جلدیں عرصہ ہوا شائع کر دی ہیں جن کو دیکھ کر اس علمی نشان کا پتہ چلتا ہے جن کے متعلق حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی ولادت سے قبل ہی خدا تعالیٰ کی طرف سے وعدہ تھا کہ وہ علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا.بیرونی مشنوں کے بعض واقعات نائیجیریا.لیگوس میں مدرسہ تعلیم الاسلام ہائی سکول کی شاندار عمارت مکمل ہوئی اور اس کا افتتاح ۱۰ / جنوری ۱۹۲۸ء کو یورپین اور افریقن آبادی کے بہترین نمائندوں کی موجودگی میں بڑی شان کے ساتھ ہوا.تقریر کرنے والوں میں مسٹر گر اترایم.اے ڈائریکٹر محکمہ تعلیم اور مسٹر ہنری کار ایم.اے.بی.سی.ایل ریذیڈنٹ لیگوس تھے ان کے علاوہ یورپین مسیحی مشنری اور مدارس کے پرنسپل بھی موجود تھے.تمام مقررین نے نہایت عزت کے الفاظ میں سلسلہ عالیہ احمدیہ اور مبلغ سلسلہ مولوی عبدالرحیم صاحب نیر کا ذکر کیا.مسٹر ہنری کار نے لیگوس میں اشاعت اسلام اور مسلمانوں کی تعلیمی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ با قاعدہ طور پر تعلیم کے لئے کچھ بھی نہیں ہو سکا.جب تک کہ احمدی جماعت نے مولوی عبدالرحیم صاحب نیر کے زیر ہدایت اپنا مدرسہ لیگوس میں نہیں کھولا - BA گولڈ کوسٹ - اپریل ۱۹۲۸ء میں گولڈ کوسٹ مشن کے شہر کالی میں حکیم فضل الرحمن صاحب اور غیر احمدی علماء میں مناظرہ ہوا.جس میں اللہ تعالیٰ نے احمدیت کو نمایاں فتح دی.اس مناظرہ کی خصوصیت یہ تھی کہ حکومت کے اعلیٰ افسر حتی کہ پراونشل کمشنر بھی اس میں موجود تھے.مشرقی افریقہ - ملک محمد حسین صاحب بیر سٹرو ممبر میونسپل کونسل نیروبی کی کونسل سے مسجد احمدیہ نیروبی کی تعمیر کے لئے میونسپل کارپوریشن کی طرف سے تین چار ایکڑ کا ایک با موقعہ قطعہ منت ملا.جس پر جماعت احمدیہ نیروبی نے اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے مندرجہ ذیل احباب پر مشتمل ایک کمیٹی مقرر کر دی.ملک احمد حسین صاحب چیئرمین مسجد کمیٹی عبد الحکیم صاحب جان سیکرٹری بیٹھ محمد عثمان یعقوب صاحب ڈاکٹر عمر دین صاحب سید معراج دین صاحب - HD کاٹرا.جماعت احمدیہ پاؤ انگ سماٹرا نے مارچ ۱۹۲۸ء سے تبلیغی ٹریکٹوں کا ایک سلسلہ شروع کیا جو
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 100 خلافت ثانیہ کا پندرھواں سال مفت تقسیم ہوتے تھے اور تاپا تو ان میں بھی بھیجے جاتے تھے.شام و فلسطین - شامی علماء و مشائخ کا ایک وفد شام کی فرانسیسی حکومت کے رئیس الوزراء شیخ تاج الدین صاحب کے پاس پہنچا کہ احمدی مبلغ کو دمشق سے نکال دینا چاہئے.چنانچہ فرانسیسی حکومت نے تاریخ ۹ / مارچ ۱۹۲۸ء علامہ جلال الدین صاحب شمس کو ۲۴ گھنٹے کے اندر اندر شام سے نکل جانے کا حکم دے دیا.جس پر آپ نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت میں تار بھیجا کہ اب کیا کرنا چاہئے.حضور نے جواباً ارشاد فرمایا کہ حیفا چلے جائیں.اس ارشاد عالی کی تعمیل میں آپ نے تاریخ ۱۵ ر مارچ ۱۹۲۸ء السید منیر المعنی صاحب کو دمشق میں اپنا قائم مقام بنایا اور ۱۷/ مارچ کو حیفا تشریف لے گئے.اور فلسطین مشن کی بنیاد رکھی.مولانا شمس صاحب ۳ / جون ۱۹۲۸ء کو فلسطین کی دادی اسیاح میں تشریف لے گئے.اتفا قاشیخ محمد المغربی الطرابلسی سے ملاقات ہو گئی معلوم ہوا کہ یہ بزرگ در پرده ۲۳ سال سے حضرت مسیح موعود کی بیعت کر چکے ہیں.اس ملاقات کے بعد آپ اپنے شاگردوں سمیت علانیہ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو گئے.آسٹریلیا.آسٹریلیا میں ۲۸ / دسمبر ۱۹۲۸ء کو جماعت احمدیہ کا پہلا جلسہ منعقد ہوا جس میں احمدیوں کے علاوہ دوسرے مسلمان بھی شامل ہوئے.صوفی محمد حسن موسیٰ خاں صاحب آنریری مبلغ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعاوی اور سلسلہ کے حالات سنائے جس کا خدا کے فضل سے اچھا اثر ہوا.یہ جلسہ احمدیت کے لئے آسٹریلیا میں آئندہ جلسوں کے سنگ بنیاد کی حیثیت رکھتا تھا.مبلغین احمدیت کی ممالک غیر کو روانگی اور واپسی 1- خان صاحب فرزند علی خاں صاحب (۲۲- اپریل ۱۹۲۸ء کو) اور صوفی عبد القدیر صاحب نیاز (۳/ اگست ۱۹۲۸ء کو) انگلستان میں اور صوفی مطیع الرحمن صاحب بنگالی ۲۱ مئی (۱۹۲۸ء) E کو امریکہ میں تبلیغ اسلام کے لئے قادیان سے روانہ ہوئے.-۲- ملک غلام فرید صاحب ایم.اے اور مولوی عبد الرحیم صاحب درد انگلستان میں کئی سال تک تبلیغ اسلام کا فریضہ سرانجام دینے کے بعد بالترتیب ۸/ جولائی ۱۹۲۸ء اور ۲۲ / اکتوبر ۱۹۲۸ء کو واپس تشریف لے آئے.ان مبلغین نے واپسی پر سمرنا ، قسطنطنیہ ، دمشق بغداد میں بھی پیغام حق پہنچایا.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی درد صاحب کے استقبال کے لئے دوسرے احباب قادیان کے ساتھ پا پیادہ شہر سے قریباً اڑھائی تین میل یا ہر بٹالہ کی سڑک کے موڑ پر تشریف لے گئے.اور معانقہ کیا.
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 101 خلافت ثانیہ کا بند رھواں سال مصنفین سلسلہ کی نئی مطبوعات ہیرت مسیح موعود حصہ سوم ( از حضرت شیخ یعقوب مسیح علی صاحب عرفانی) رساله "درود شریف" (از حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب حلال پوری) نور ہدایت از سید عبدالمجید صاحب منصوری) "احسانات مسیح موعود (لیکچر مولوی حکیم خلیل احمد صاحب مونگهیری) اصل طبی بیاض حصہ اول (حکیم الامت حضرت مولانا حافظ حکیم نور الدین خلیفتہ المسیح الاول کی طبی بیاض جسے زیادہ عام فہم اور مفید بنانے کے لئے حضرت مولانا حکیم عبید اللہ صاحب بسمل کی خدمات حاصل کی گئیں اور جسے صاحبزادہ السلام صاحب عمر نے شائع کیا." بخار دل " ( حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل کی عارفانہ نظموں کا مجموعہ جو شیخ محمد اسماعیل صاحب مینجر حالی بک ڈپو پانی پت نے شائع کیا) Frr " برگزیدہ رسول غیروں میں مقبول " ( از ملک فضل حسین صاحب) " نیر صداقت " از ملک عبد الرحمن صاحب خادم) قول سدید " ( ختم نبوت سے متعلق ایک رسالہ جو ڈاکٹر سید شفیع احمد صاحب پی.ایچ.ڈی.محقق دہلوی نے شائع کیا.اور جس کی خریداری کی خود حضرت خلیفۃ ا الثانی نے سفارش فرمائی.اندرون ملک کے مشہور میانے مباحثہ گجرات - یہ مباحثہ مولانا ابو العطاء صاحب فاضل جالندھری اور ملک عبدالرحمن صاحب خادم گجراتی کا پادری عبد الحق صاحب سے چار دن تک ہو تا رہا تھا.موضوع بحث یہ تھے.باطل مذہب کلام ٣٣٨ الٹی ، تحریف بائبل- مسیح کی آمد ثانی) مباحثہ رائے کوٹ.(مابین مولوی غلام احمد صاحب بد ولهوی و پادری عبدالحق صاحب) pro مباحثہ دینا نگر - (ضلع گورداسپور) مابین مولانا ابو العطاء صاحب فاضل و پنڈت و محرم بھکشو ) مباحثہ دہلی.یہ مباحثہ ماسٹر محمد حسن صاحب آسان نے آریہ سماج کے سالانہ جلسہ کے موقع پر آریہ مناظر بنات جگد مبا پر شاد لکھنوی سے نجات کے موضوع پر کیا.مباحثہ گھر ینڈا متصل بھڈیار ضلع امرت سر.اس مباحثہ کے مناظر مولوی قمر الدین صاحب مولوی فاضل اور امرت سر کے ایک غیر احمدی عالم صاحب تھے - 271 مباحثه شیخوپورہ - مولوی محمد یار صاحب عارف اور اہلحدیث مولوی نور حسین صاحب گر جاکھی کے درمیان )Haa
تاریخ احمدیت جلد ۵ 102 خلافت مباحثہ ڈ چکوٹ ضلع لائلپور - مابین حضرت مولوی میر قاسم علی صاحب ایڈیٹر فاروق اور ستیہ دیو اپریشک آریہ پرتی ندھا سبھا) مباحثہ ہریال تحصیل شکر گڑھ.یہ مباحثہ دو مضمونوں پر تھا پہلا مضمون ”کیا وید الهامی کتاب ہے " اور دوسرا مضمون "کیا قرآن مجید الہامی کتاب ہے".تھا پہلے مضمون میں مہاشہ محمد عمر صاحب اور دوسرے میں ملک عبد الرحمن صاحب خادم مناظر تھے.آریہ سماج کی طرف سے پنڈت ستیہ دیو آریہ سماجی پیش ہوئے.RO مباحثه مومیونوال ضلع جالندھر- مولوی محمد یار صاحب عارف نے ختم نبوت کے موضوع پر مباحثہ کیا.مباحثہ پاک ٹین - (احمدی مناظر غلام احمد خاں ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ پاک ٹین اور غیر احمدی مناظر حکیم عبد العزیز صاحب تھے اور مسئلہ زیر بحث حیات و وفات مسیح ناصری علیہ السلام) ۳۴۷ مباحثہ لائل پور - (مابین مولانا ابو العطاء صاحب فاضل و پنڈت کالی چرن صاحب و مهاشه A چرنجی لال صاحب پریم! مباحثہ امرال ضلع سیالکوٹ (مابین مولوی ظهور حسین صاحب و مولوی محمد شفیع صاحب موضوع بحث وفات مسیح اور صداقت مسیح موعود تھے).20 مباحثہ امرت سر.اس مباحثہ کے دو موضوع تھے."کیا وید ایشور کا گیان ہے ".دوسرا " کیا قرآن شریف اللہ تعالی کا کلام ہے".پہلے میں مولوی مہاشہ محمد عمر صاحب اور پنڈت دھرم کا بھکشو مناظر تھے.دوسرے میں مولوی علی محمد یا حسب اجمیر کی اور پنڈت محترم بھکشو صاحب.صاحب.مباحثہ ماڑی بچیاں ضلع گورداسپور - (مولانا ابو العطاء صاحب فاضل اور مولوی محمد امین صاحب واعظ کے درمیان ہوا.موضوع بحث یہ تھا.کیا حضرت مرزا صاحب نے حضرت عیسی کو یوسف نجار کا بیٹا قرار دیا ہے).مباحثہ گوجرانوالہ - مابین مولانا ابو العطاء صاحب فاضل اور مولوی نور حسین صاحب اہلحدیث گر جا کی زیر صدارت حضرت میر محمد اسحاق صاحب ) مباحثہ پٹھانکوٹ.اس مباحثہ کا موضوع صداقت مسیح موعود تھا جو ۲۴-۲۵ نومبر ۱۹۴۸ء کو چار اجلاسوں میں تھا.پہلے اجلاس میں مولانا غلام رسول صاحب را جیکی اور مولوی کرم دین صاحب ساکن ھیں مناظر تھے.دوسرے اجلاس میں مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری اور حافظ محمد شفیع صاحب
تاریخ احمدیت جلد ۵ 103 خلافت ثمانیہ کا پندر تیسرے اور چوتھے اجلاس میں بھی مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری مناظر رہے.مگر غیر احمدیوں کی طرف سے مولوی ثناء اللہ صاحب امرت سرخی پھر مولوی کرم دین صاحب ساکن ھیں پیش ہوئے Par مباحثہ گجرات (ملک عبدالرحمن صاحب خادم اور آریہ سماجی مناظر پنڈت کالی چون صاحب کے درمیان - HD
: تاریخ احمدیت جلده 104 خلافت ثانیہ کا پندرھواں سال -+ حواشی (پہلاباب) اس سلسلہ میں ابتدائی تعارف کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحہ ۶۲۵-۷۲۶ تاریخ احمدیت جلد پ نیم صفحه ۶۳۰ الفضل ۳۱/ جنوری ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ کالم نمبر ۲۰۱.تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحه ۶۲۶۰۶۳۵ اسی بناء پر سیاسی لیڈروں نے یہاں تک کہا کہ کمیشن میں کسی ہندوستانی کو شامل نہ کر کے ہندوستانیوں کی ہتک کی گئی ہے حالانکہ جب کمیشن صرف برطانوی حکومت کی پارلیمنٹ کے ممبروں پر مشتمل تھا تو کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ برطانیہ نے اپنے ارکان کا نام اس سے الگ کر کے اپنے ارکان کی توہین کا ارتکاب کیا ہے.پنجاب کے کانگریسی لیڈر لالہ لاجپت رائے نے مرکزی اسمبلی میں ان دنوں بائیکاٹ کی تائید میں ایک ہنگامہ خیز تقریر کی جس سے ہندو قوم کی سیاست کا تجزیہ کرنے میں آسانی ہوگی.انہوں نے ایک طرف تو کہا کہ " ہندوستان کے مسائل اتنے وسیع اور پیچیدہ ہیں کہ اگر دیو تا لوگ بھی سورگ (بہشت) سے اتر کر یہاں آئیں تو وہ انہیں سمجھ نہیں سکیں گے.".دوسری طرف کہا " اگر انگریز ہندوستان سے چلے جائیں تو میرے خیال میں موجودہ قانون سے زیادہ انار کی د فساد- خرابی پیدا نہیں ہوگی".تیسری طرف کہا " میں اعلان کر دینا چاہتا ہوں کہ ہندوستان کا سوال ایسا نہیں کہ جس کا فیصلہ ایک کمیشن کر سکتا ہے بلکہ اس کا فیصلہ گفتگوئے مصالحت اور سمجھوتہ سے ہو سکتا ہے".(اہل حدیث ۲۴/ جنوری ۱۹۲۸ء صفحہ (۱۳) اس رویہ کا اس کے سوا کیا مقصد ہو سکتا تھا کہ انگریز اس ملک کی باگ ڈور ہندو اکثریت کو دے کر رخصت ہو جائیں.اور اگر وہ ان مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں تو کانگریس سے مصالحت اور سمجھوتہ کر کے حل کر سکتے ہیں اسے کمیشن کے ذریعہ ہندوستان کی تمام جماعتوں اور افراد سے رابطہ قائم کرنے کی ضرورت نہیں.ے.یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ جماعت احمدیہ نے متحدہ ہندوستان میں ہمیشہ ہی مخلوط انتخاب کی مخالفت کی ہے.اور جداگانہ انتخاب کو مسلمانوں کی قومی زندگی کے لئے ضروری قرار دیا ہے.چنانچہ بمبئی کے اخبار " خلافت " نے اسے ایک کارنامہ قرار دیتے ہوئے لکھا تھا کہ " قادیانیوں کو خواہ کافر کہا جائے خواہ مرتد اور سچی بات یہ ہے کہ عام مسلمانوں کو ان سے اصولی اختلافات بھی ہیں لیکن ان کو اس بات کا کریڈٹ ملنا چاہئے کہ ان عام اور مشہور اختلافات کے باوجود انہوں نے یہ کبھی نہیں کیا کہ تخصیص نشست چاہی ہو یا مشترک انتخاب کا مطالبہ کیا ہو.حالانکہ اگر وہ چاہتے تو اپنے سرکاری اثر و نفوذ کے سبب ایسا کر سکتے تھے.ان کا یہ کارنامہ تاریخ اپنے اندر محفوظ رکھے گی.اور انہیں ہمیشہ اچھے الفاظ میں یاد کرے گی " (اہل حدیث ۲۹/ جون ۱۹۳۴ء صفحہ ۱۵) گرد " مسلمانان ہند کے امتحان کل وقت " الفضل ۱۶/ دسمبر۱۹۲۷ء صفحه ۸ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء میں صیغہ ترقی اسلام کی رپورٹ میں اس کی تفصیلات بایں الفاظ ملتی ہیں " مجھے اس ٹریکٹ کا ذکر خاص طور پر کر دینا چاہئے جو سائمن کمیشن کے درود ہندوستان سے قبل مسلمانان ہند کے مفاد کے لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی نے لکھا.اور صیغہ ترقی اسلام نے پندرہ ہزار کی تعداد میں اردو میں ہندوستان کے تمام حصوں میں بکثرت شائع کیا.اور علاوہ ازیں دو ہزار کی تعداد میں یہی مضمون چھپوا کر وائسرائے ، تمام صوبوں کے گورنروں چیف کمشنروں اور ڈپٹی کمشنروں کے علاوہ افسران پولیس ، اعلیٰ عہدیداران میڈیکل ڈیپارٹمنٹ انجینئر نگ ڈیپارٹمنٹ وغیرہ غرض حکومت کے ہر طبقہ کے اعلیٰ افسروں کے نام بھیجا گیا.اسی رسالہ کا اثر تھا کہ سائمن کمیشن کے درود ہندوستان پر مسلمانان ہند نے ہڑتال نہ کی.(صفحہ ۲۱۲ - ۲۱۳) مسلمانان ہند کی حیات سیاسی صفحه ۱۸ از محمد مرزا دبلوی ذکر اقبال صفحه ۱۳۷ از عبد المجید سالک) مولوی ظفر علی خان صاحب سائمن کمیشن سے بائیکاٹ کرنے کے خیال میں جس قدر مقشد داور خالی ہو گئے تھے اس کا اندازہ آپ کی
105 خلافت ماشیہ کا پندرھواں سے تاریخ احمدیت.جلد ۵ ایک تقریر سے با آسانی لگایا جا سکتا ہے جو آپ نے ایک تبلیغی کا نفرنس میں کی.اخبار تیج (دہلی) کا نامہ نگار لکھتا ہے." آپ تقریر کر رہے تھے جس میں آپ نے سائمن کمیشن کے مقاطعہ کا دو مرتبہ تذکرہ کیا.اور دونوں مرتبہ صدر نے آپ کو ٹو کا آپ سے کہا گیا کہ تبلیغی کا نفرنس کا سیاسیات سے کوئی واسطہ نہیں ہے اس پر مولانا نے طنزا کہا کہ ایک غلام ملک میں کوئی تبلیغ نہیں ہو سکتی ہے صاحب صدر نے دوسری مرتبہ مداخلت کی تو مولانا نے حاضرین سے درخواست کی کہ وہ پنڈال کو خالی کردیں " اخبار "انقلاب" نے اس رپورٹ پر پر لکھا اس کا مطلب یہ ہے کہ انگریزی حکومت کے تسلط کے بعد سے اب تک تبلیغ کی جتنی انجمنیں بنیں اور انہوں نے جو کام کیا وہ از سر تا پا غلط تھا.مولانا محی الدین احمد قصوری اور مولانا محمد عبد اللہ صاحب کی جمعیت دعوۃ کو تبلیغ عبث ہے مولانا محمد علی صاحب ایم.اے کینٹ تاجر چرم بمبئی نے اپنی کمائی میں سے جو ستر اسی ہزار روپیہ اس کام پر صرف کیا وہ بالکل لا حاصل ضائع ہوا.میر غلام بھیک صاحب نیرنگ گذشتہ چار پانچ سال سے جو محنت و مشقت برداشت کرتے رہے اور کر رہے ہیں وہ بیکار تھی اس لئے کہ یہ سب کچھ ایک غلام ملک میں ہوا.پھر قادیانی احمدیوں کی انجمن لاہوری احمدیوں کی انجمن دوسری صد ہا تبلیغی انجمنیں خواجہ کمال الدین ورکنگ مشن غرض تمام ادارے اور نظام فضول تھے.فضول ہیں اور انہیں جلد سے جلد بند کر دینا چاہئے.(انقلاب ۲۶ فروری ۱۹۲۸ء صفحه (۳) عبد المجید سالک " سرگزشت" میں لکھتے ہیں.اس مقاطعہ کو موثر بنانے کے لئے کانگریس کی پوری مشینری حرکت میں آگئی.انقلاب کا رویہ یہ تھا کہ سائمن کمیشن سے مقاطعہ بالکل مناسب ہے ".( صفحہ ۲۴۷) ۱۴ بحواله الفضل ۱۰ / فروری ۱۹۲۸ء صفحہ ۴ کالم امزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۱۴ / فروری ۱۹۲۸ء صفحہ ۳.۴) ۱۵ ايضا "سرگزشت "صفحه ۲۴۹ بحواله الفضل ۹/ نومبر ۱۹۲۸ء صفحه ا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اس حق تلفی پر الفضل ۲۹ مئی ۱۹۲۸ء میں ایک اہم مضمون بھی سپرد قلم فرمایا تھا.اور مسلمانوں کو اس کے تدارک کے لئے قیمتی مشورے دیتے تھے جسے اخبار انقلاب نے بھی ۱۲ جون ۱۹۲۸ء کو شائع کیا.حضور نے تجویز پیش فرمائی تھی کہ اس صورت حال پر غور کرنے کے لئے مختلف الخیال لوگوں کا ایک جلسہ کیا جائے جس میں کو نسل اور مقتدر اسلامی اخبارات کے نمائندے بھی شامل ہوں.اخبار انقلاب (۸/ جون ۱۹۳۸ء) نے اس سے اتفاق رائے کرتے ہوئے لکھا." مرزا صاحب کو چاہئے کہ وہ خود اپنے اثر ورسوخ سے فائدہ اٹھا کر ایسا جلسہ جلد سے جلد منعقد کرنے کی سعی فرمائیں".١٩ الفضل ۲۹/ جون ۱۹۲۹ء صفحه ۳ الفضل ۲۰ مارچ ۱۹۲۸ء صفحه ۱ الفضل ۲۳ / مارچ ۱۹۲۸ء صف صفحها ۲۲ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸۴ء صفحه ۲۹۹ ٢٣.الفضل ۱۷ / فروری ۱۹۲۸ء صفحه ۵-۶ ۲۴ اخبار " تنظیم (امرت سر ۲۸ فروری ۱۹۳۸ء بحواله الفضل ۸/ مئی ۱۹۲۸ء صفحه ۸ ۲۵- "فرقان" دسمبر ۱۹۶۰ء صفحه ۵۵ مضمون مولوی عبد المالک خان صاحب مربی سلسلہ احمدیہ مقیم کراچی) ۰۲۶ رپورت مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء صفحه ۲۲۹ ۲۷.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء صفحه ۲۵۳ ۲۸ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء صفحه ۲۵۴۰۲۵۳ الفضل ۱۶ مارچ ۱۹۲۸ء صفحه ۹ ۳۰ سورة نورخ ۴ آیت ۳۱ اخبار " مصباح ( قادیان) یکم اپریل ۱۹۲۸ء صفحه ۱۵-۱۶ ۳۲.تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۶ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۵۰۴ " الفضل " الجولائی ۱۹۳۸ء صفحہ ۷)
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 106 خلافت عامیہ کا پندرھواں سال الفضل ۱۶/ مارچ ۱۹۲۸ء صفحه ۲ م الفضل ۱۷/ اپریل ۱۹۲۸ء صفحه ۷ ۳۵ در اصل اس مشاورت کے سامنے مرکز میں زمانہ ہوسٹل کے قیام کی تجویز زیر غور تھی.حضور نے اس تجویز کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے مندرجہ بالا تحریک فرمائی بعض نمائندوں کی رائے تھی کہ حضرت ام المومنین کی طرف سے زمانہ ہوسٹل کے چندہ کی اپیل ہو اور عورتیں چندہ دیں.مگر حضور نے اسے سختی سے رد کر دیا.اور فرمایا.” یہ اپیل میری طرف سے ہو اور مرد چندہ دیں اگر یہ چندہ عورتوں پر رکھا گیا تو یہ بات آئندہ ہماری ترقی میں حائل ہو جائے گی اور ہمارے گھروں کا امن برباد کر دے گی.اور یہ احساس پیدا ہو گا کہ مرد عورتوں کے لئے کچھ نہیں کر رہے اور نہ کرنا چاہتے ہیں میں اس قسم کا احساس اپنی جماعت کی عورتوں یدا کرنا پسند نہیں کرتا.ہم خود اپنے چندہ سے عورتوں کی تعلیم کا انتظام کریں گے اور اس کے لئے ایک پیسہ بھی عورتوں سے نہ مانگیں گے.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء صفحہ ۶) رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء صفحه ۵۹ تا۶۰ ۳۷.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء صفحه ۳۹ ۳۸.تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو ر پورٹ مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۵۳ تا ۱۵۵ ۳۹ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۶۹۰۷۸ ۴۰ مثلا کمیشن نے ہر کاغذ نمبر دے کر شامل مسل نہیں کیا.بعض کارکنوں کے خلاف اس نے ایک رائے قائم کی.مگر ان کو جواب دہی کا موقعہ نہیں دیا وغیرہ (رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحہ ۱۱-۱۲) کمیشن کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ اس نے اپنی اٹھارہویں سفارش میں نادانستہ طور پر ایک ایسی تجویز پیش کی جس پر براہ راست منصب خلافت پر زد پڑتی تھی.اور اس کے ادب واحترام کے سراسر منافی تھی اس سفارش کی تفصیل اور اس پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی کا مفصل فیصلہ ۱۹۳۰ء کے حالات میں آئے گا.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحہ ۹-۱۳ ۴۲ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحه ۱۲-۱۳ ۳۳ " بشارات رحمانیه " (مولفه مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر مولوی فاضل) حصہ اول صفحه ۲۰۲-۲۰۳ الفضل ۱۳ / اپریل ۱۹۲۸ء صفحه ۹ کالم ۳ ۴۵ تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحه ۲۹۰۵۷۸ ۵ پر تبلیغ اسلام سے متعلق اس عہد کا ذکر آچکا ہے.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء صفحه ۱۳۸-۱۴۳ ۴۷ الفضل ۱۸ مئی ۱۹۳۸ء صفحه ار ۱۵/ مئی ۱۹۳۸ء صفحه ۱ -۴۸- روزنامه "لمت لاہور مورخہ ۱۹/ مارچ ۱۹۵۴ء بحوالہ الفضل ۱۲ اپریل ۱۹۵۴ء صفحہ ۵ کالم ۲۰۱ رپورٹ سالانہ صد را مجمن احمد یه ۱۹۱۹۰۲۰ء صفحه ۵۹ ۵۰ رپورٹ صد را مجمن احمد ید ۲۰-۱۹۱۹ء صفحه ۶۰۰۵۹ ۰۵۱ الفضل ۱۴ / اگست ۱۹۳۸ء " ۵۲ چوہدری محمد شریف صاحب سابق مبلغ بلاد عربیہ دیگیمبیا کابیان ہے کہ مبلغین کلاس کامدرسہ احمدیہ کے ساتھ کوئی تعلق نہ تھا اس کلاس کی پڑھائی حضرت حافظ صاحب کے مکان میں بھی اور مسجد اقصیٰ میں بھی ہوا کرتی تھی کوئی میز کرسی وغیرہ نہ ہوا کرتا تھا".۵۳.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء میں لکھا ہے ساتھ میں جماعت سے اوپر یعنی مولوی فاضل کی دونوں جماعتیں جو پہلے مدرسہ کے.ساتھ ہوا کرتی تھیں اب کالج میں منتقل کردی گئی ہیں.۴۲ لڑکے کالج کی طرف منتقل ہوئے ہیں (صفحہ ۲۱۰) ۵۴- بعض اصحاب کے بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب بی.اے بی ٹی اور حضرت مولوی محمد دین صاحب بھی اس میں رہتے رہے ہیں.۵۵ ریکارڈ صدر انجمن احمد یہ ۱۹۲۸ء جامعہ احمدیہ کے یہ اولین اساتذہ کسی تعارف کے محتاج نہیں اور تاریخ احمدیت میں ان بزرگوں
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 107 خلافت ثانیہ کا پندرھواں سال کا کئی بار تذکرہ آچکا ہے اور آئندہ بھی آئے گا.یہاں مختصرا یہ بتانا مناسب ہو گا.(۱) ضیغم احمدیت حضرت مولانا سید سرور شاه صاحب ۱۰ / تمبر ۱۸۷۳ء کو پیدا ہوئے.۱۶ مارچ ۱۸۹۷ء سے قبل حضرت مسیح موعود کی بیعت کی اور اپریل.مئی 1991ء میں مستقل طور پر ہجرت کر کے قادیان تشریف لے آئے یکم مئی 1901 ء سے سلسلہ کی باقاعدہ ملازمت اختیار کی اور تعلیم الاسلام ہائی سکول اور پھر مدرسہ احمدیہ میں لیے عرصہ تک عظیم الشان تعلیمی و تربیتی خدمات بجالانے کے بعد جامعہ احمدیہ کے پرنسپل بنے تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو " اصحاب احمد جلد ہ ہر سہ حصص مولفہ جناب ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے قادیان دار الامان (۲) عبد الکریم معانی حضرت حافظ روشن علی صاحب کے سوانخ تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ ۶۸ او ۱۷۹ میں مندرج ہیں جامعہ احمدیہ میں منتقل ہونے سے قبل آپ جماعت مبلغین کے حکمران تھے.(۳) حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب حلال پوری ۱۳/ اپریل ۱۹۰۸ء میں حضرت مسیح موعود کے دست مبارک پر بیعت کر کے داخل احمدیت ہوئے اور ۲۸/ جنوری ۱۹۰۹ء سے مستقل طور پر دیار حبیب میں آگئے.یہاں حضرت خلیفتہ المسیح اول سے شرف تلمذ حاصل کیا.آپ تفسیر، حدیث، فقہ ، منطق ، فلسفہ، صرف و نحو اور ادب عربی کے نہایت بلند پایہ عالم تھے.اور حضرت مسیح موعود کی کتب و ملفوظات کے لو گویا حافظ تھے.(۴) حضرت میر محمد اسحاق صاحب (خلف الصدق حضرت میر ناصر نواب صاحب (۸/ ستمبر ۱۸۹۰ء کو بمقام لدھیانہ پیدا ہوئے غالباً ۱۸۹۴ء کے بعد سے قادیان میں مستقل سکونت اختیار کرلی.اور "الدار" میں قیام کا شرف حاصل ہوا.بچپن سے ۱۸ سال کی عمر تک حضرت مسیح موعود کے روز و شب کے حالات مشاہدہ کئے اور آخر دم تک قریباً اسی طرح ذہن میں محفوظ رہے کئی سفروں میں ہمرکاب ہونے کا فخر حاصل کیا.آخرمی بیماری کی ابتداء سے وصال تک حضرت جری اللہ فی حلل الانبیاء کے پاس رہے حضور علیہ السلام نے متعدد مرتبہ آپ سے لوگوں کے مخطوط کے جوابات لکھوائے.اور حقیقتہ الوحی کا مسودہ بھی.حضور نے اپنی کتابوں میں بیسیوں دفعہ آپ کا ذکر فرمایا.بہت سے نشانوں کے عینی گواہ اور مورد بھی تھے.بے قاعدہ اور باقاعدہ طور پر حضرت خلیفتہ اصحیح اول حضرت مولوی عبد الکریم صاحب حضرت حافظ روشن علی صاحب مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب اور مولوی محمد اسماعیل صاحب فاضل سے عربی علوم پڑھے 1917ء میں مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا ۱۹۱۲ ء میں صدرانجمن کی ملازمت میں آئے.جامعہ احمدیہ کے قیام سے قبل مدرسہ احمدیہ میں مدرس تھے.(رسالہ جامعہ احمد یہ سالنامہ صفحہ ۷۴) جامعہ میں آپ اپنے مفوضہ نصاب پڑھانے کے علاوہ ہمیشہ طلباء میں خاص اہتمام سے تقریر کا ذوق و شوق پیدا کرنے کے لئے جامعہ احمدیہ اور مہمان خانہ میں تقریر کراتے اور بیرونی مقامات میں جلسوں اور مناظروں میں لے جاتے جس سے ان میں تقریر کی غیر معمولی قوت پیدا ہو جاتی تھی.۵۶ یاد رہے کہ اس جلد میں جامعہ احمدیہ سے متعلق حالات تقسیم ہندے ۱۹۴ء تک لکھے گئے ہیں بعد کے واقعات پاکستانی دور کی تاریخ یں جامعہ احمدیہ سے " میں آئیں گے.۱۸۹۴-۵۷ء میں ممند قبیلہ کے ایک ممتاز گھرانے میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم پشاور کی بعض درسگاہوں میں پائی دریں اثناء صاحبزادہ سیف الرحمن صاحب احمدی ساکن بازید خیل ضلع پشاور کے حلقہ درس میں آپ کو شمولیت کا موقعہ ملا.اور آپ اسی اثر کے ماتحت مارچ ۱۹۱۰ء کے سالانہ جلسہ پر قادیان تشریف لائے اور حضرت خلیفہ اول کے دست مبارک پر بیعت کرلی ہے 19ء میں آپ نے مدرسہ احمدیہ سے مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا جون ۱۹۱۸ء میں مدرسہ احمدیہ میں استاد مقرر ہوئے ۱۹۲۹ء میں ترقی پا کر جامعہ احمدیہ میں منتقل ہوئے اور تعلیمی و تربیتی فرائض ادا کرنے کے بعد ۱۹۴۹ ء میں بطور پروفیسر تعلیم الاسلام کالج میں منتقل ہوئے تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو ” جامعہ احمدیہ " سالنامہ نمبر صفحہ ۷۴ و اصحاب احمد جلد پنجم حصہ سوم صفحه ۴۹ تا ۵۵- ۵۸- کھیوا تحصیل چکوال ضلع جہلم آپ کی جائے پیدائش ہے آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد مولوی عبد الرحمن صاحب اور جناب مولوی محمد خلیل الرحمن صاحب بھیروی اور مولوی فضل الہی صاحب سے پائی پھر چند سال مدرسہ احمدیہ میں دینیات کا علم حضرت قاضی سید امیر حسین صاحب اور حضرت حافظ روشن علی صاحب سے حاصل کیا.معقولات سے متعلق علامہ حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب سے شرف تلمذ حاصل کیا ۱۹۳۷ء میں بمقام شملہ قرآن مجید حفظ کیا اور حافظ و قاری محمد یوسف صاحب سہارنپوری کو سنایا.۵۹.یہ حضرت خلیفہ اول کے قابل شاگردوں میں سے ہیں " تسہیل العربیہ " کا عربی اردو حصہ) اور ترجمہ "مفردات امام راغب"
i تاریخ احمدیت.جلد ۵ آپ کی کاوشوں کا نتیجہ ہیں 108 خلافت مانیہ کا پند ، -7+ ان کے علاوہ ڈاکٹر محمد عبد اللہ صاحب کچھ عرصہ تک طلب کی تعلیم دیتے رہے حافظ فتح محمد صاحب قاری جامعہ احمد یہ قادیان کے آخری دور میں معلم تجوید رہے اور سید احمد صاحب فزیکل انسٹرکٹر قرآن مجید سوره آل عمران آیت ۱۰۵ قرآن مجید سورة التو به آیت ۱۲۲ الفضل ۱۴۳/ اگست ۱۹۲۸ء صفحہ ۷۶ ۶۴ حضور ایدہ اللہ نے اس سال ۲۵ / اکتوبر ۱۹۲۸ء کو مولوی عبد الرحیم صاحب درد کے اعزاز میں دی گئی ایک پارٹی میں دوبارہ جامعہ احمدیہ میں تشریف لائے.اور طلباء جامعہ احمدیہ کو پر زور تلقین فرمائی کہ وہ مختلف موضوعات پر تحقیقی مقالے لکھیں اس سے نہ صرف ان کی علمی ترقی ہوگی اور جامعہ احمدیہ کو تقویت پہنچے گی بلکہ جماعت احمدیہ کی شہرت دوبالا ہو جائے گی ( ملخصا از الفضل ۲۷/ نومبر ۱۹۳۸ء صفحه ۵ تا ۷) الفضل ۳/ جنوری ۱۹۲۹ء صفحه ۱۰ ۶۶ الفضل ۲۸ / جون ۱۹۲۹ء صفحہ 1.اس حادثہ کی تفصیلات آگے آرہی ہیں." رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۱۳ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحه ۲۱۳ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحه ۲۱۲ رپورٹ سالانه صد را لجمن احمد یه ۳۲-۱۹۳۱ء صفحه ۴۶ ۷۰.رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمد یہ ۱۹۳۰۰۳۱ء صفحہ ۲۶.اس لائبریری کے ۱۹۴۷ء تک وقتا فوقتا کئی پروفیسر نگران رہے مثلا حافظ مبارک احمد صاحب شیخ محبوب عالم صاحب خالد - لائبریری میں ۱۹۴۷ء تک گا ہے گا ہے جو اخبارات در سائل منگوائے گئے ان کی فہرست حسب ذیل ہے.انقلاب (لاہور) پیغام صلح (لاہور) ام القریٰ مکہ مکرمہ) ماہنامہ ادبی دنیا (لاہور) عالمگیر ریویو آف یلیجر اردو انگریزی ( قادیان) معارف (اعظم گڑھ) میگزین تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان- نیرنگ خیال (لاہور) الضیاء نہر بائی عربی.اہل حدیث (امرت سر) احسان (لاہور) پر تاپ (لاہور) ہمایوں (لاہور) الاستقلال عربی (ارجنٹائن) روزنامہ سول اینڈ ملٹری گرت (لاہور) اختبار ریاست (دہلی) فرقان ( قادیان) اے رپورٹ سالانہ صد را مجمن احمدیه ۳۲-۱۹۳۱ء صفحه ۴۴-۴۶ ۰۷ الفضل ۱۳/ دسمبر ۱۹۳۲ء صفحه ۱- تفصیل ۱۹۳۲ء کے حالات میں آئے گی.۷۳.رپورٹ سالانہ صیفہ جات صد را انجمن احمد یه ۳۳-۱۹۳۲ء صفحه ۳۴ ۷۴ - الفضل ۲۷/ نومبر ۱۹۳۴ء ۷۵- ۱۹۴۷ء تک مندرجہ ذیل اصحاب مختلف اوقات میں ہوسٹل جامعہ احمدیہ کے سپر نٹنڈنٹ رہے.سردار مصباح الدین صاحب شیخ محبوب عالم صاحب خالد صاحبزادہ مولوی ابو الحسن صاحب قدی- مولوی ارجمند خان صاحب ۷۶ رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمد یه ۴۵-۱۹۴۴ء صفحہ ۳۵ - اسی کلاس سے مولوی بشیر احمد صاحب (حال مبلغ و امیر کلکتہ) نے مسکرت کا نصاب پاس کیا.۷۷.گو جامعہ احمدیہ کا افتتاح مئی ۱۹۲۸ء میں ہو انگر جیسا کہ جامعہ احمدیہ کے قدیم ریکار ڈ رجسٹر داخل خارج طلبہ اسے ثابت ہے طلبہ کا داخلہ ۱۹/ نومبرے ۱۹۲ء سے شروع کر دیا گیا تھا تا نئے تعلیمی سال یکم مئی ۱۹۲۸ء سے با قاعدہ جامعہ احمدیہ کا اجراء ہو سکے.۷۸ - صحیح تاریخ ولادت ۱۶/ نومبر ۱۹۰۹ء ۷۹ مولوی فاضل کے امتحان میں اول آئے تھے.صحیح تاریخ ولادت ۱۱ جنوری ۱۹۱۳ء ۱ ۱۹۳۳ء میں مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا اور پنجاب یونیورسٹی میں اول پوزیشن حاصل کی.۸۲ آپ پہلی بار ۱۹۲۹ء میں داخل جامعہ ہوئے مگر دو سال کے لئے چلے گئے.اور دوبارہ داخلہ ۱۹۳۱ء میں لیا.
تاریخ احمد بیت - جلد ۵ 109 خلافت ثانیہ کا پندرھواں سال ۸۳- امتحان مولوی فاضل میں دوم آئے.۸۴- ملک صلاح الدین صاحب کی تیار شد.مفصل فہرست شاگردان حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب اصحاب احمد جلد تیم حصہ دوم میں موجود ہے.البتہ اس میں ملک غلام فرید صاحب ایم.اے کا نام سہو لکھا گیا ہے.۸۵ رپورٹ سالانہ صیفہ جات صدر انجمن احمدیہ ۴۰-۱۹۳۹ء صفحہ ۱۲۱- ۲۲ اور پورٹ سالانہ ۴۳-۱۹۴۲ء صفحه ۲۰ و رپورٹ سالانہ ۱۹۴۴-۴۵ء صفحه ۳۶.۸۶ پنجاب یونیورسٹی کے امتحان مولوی فاضل میں اول رہے.۸۷- مولانا ابو العطاء صاحب کے پرنسپل بننے سے چند ماہ قبل خان صاحب مولوی ارجمند خان صاحب قائم مقام پر نسل کے فرائض انجام دیتے رہے.۸۸ رپورٹ سالانه صد را انجمن احمد یه ۴۸-۱۹۴۷ء صفحه ۱۵ ۸۹ فاروق ۶ / جون ۱۹۳۸ء صفحه او فاروق ۱۳/ جون ۱۹۲۸ء صفحه ۱ ۹۰ - الفضل ۱۰ جنوری ۱۹۲۸ء صفحہ ۱- ۲( تقریر سالانہ جلسه ۱۹۲۷ء) الفضل ۴/ مئی ۱۹۲۸ء صفحه ۱۵ خطبه جمعه فرموده ۲۷/ اپریل (۱۹۲۸ء) -٩٣ الفضل ۱۰/ جنوری ۱۹۴۸ء صفحه ۲ کالم ۲ ۹۳ - الفضل ۵/ جون ۱۹۲۸ء صفحه ۱.41 -۹۴ یہاں یہ ذکر کر تار لچپسی سے خالی نہ ہو گا کہ منشی محبوب عالم صاحب ایڈیٹر " چیسہ اخبار لاہور نے اپنی کتاب " اسلامی سائیکلو پیڈیا " میں ۱۲/ ربیع الاول کی مجالس میلاد النبی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا." مرزا غلام احمد قادیانی جو مسیح موعود ہونے کے مدعی تھے ان کے پیرو اس روز خاص جلسہ کیا کرتے ہیں جس سے ان کا مدعا اس امر کا اظہار ہوتا ہے کہ آج کے دن نبی ﷺ نے وفات پائی ہے.مگر نبوت نے وفات نہیں پائی نبی ہمیشہ آتے رہیں گے چنانچہ ایک نبی مرزا صاحب بھی آچکے ہیں ".(حصہ اول صفحہ ۱۳۱) -۹۵ تعجب کی بات یہ تھی کہ پہلی تاریخ بدلنے کا سوال المسنت والجماعت کے بعض اصحاب میں پیدا ہو حالانکہ اس دن لیکچر دینے والوں میں کئی شیعہ حضرات نے بھی نام لکھوایا تھا اور جلسہ کو کامیاب بنانے میں ہر ممکن تعاون کی پیشکش کی تھی اور کو کسی شیعہ کو شهیدان کربلا کے دردناک حالات کے ساتھ سیرت رسول پر روشنی ڈالنے سے اعتراض نہیں ہو سکتا تھا.مگر حضور نے محض اس وجہ سے کہ محرم کے دنوں میں فسادات رونما ہو جانے کا خطرہ ہوتا ہے اور حکومت امن و امان کی بحالی کے لئے بعض جگہ جلسوں کی ممانعت کر دیتی ہے.۷ ارجون کا دن جلسوں کے لئے مقر فرما دیا.(الفضل ۴/ مئی ۱۹۲۸ء صفحہ ۶) -44.** الفضل ۴/ مگی ۰۶۱۹۲۸ الفضل ۴/ مئی ۱۹۲۸ء صفحه ۸۰۷ رپورت مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحه ۲۰۵ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحه ۲۰۵ الفضل ۳/ اپریل ۱۹۲۸ء صفحه ۲ در پورت مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحه ۲۰۷ مشانی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ، حضرت میر محمد اسماعیل صاحب حضرت مولوی شیر علی صاحب حضرت مفتی محمد صادق ن صاحب.حضرت مولوی ذوالفقار علی صاحب ، حضرت شیخ یعقوب علی صاحب ۶ فانی.حضرت قاضی محمد یوسف صاحب.مولوی عبد الحمید.صاحب سیکرٹری تبلیغ جماعت احمدیہ دہلی پیچ رحمت اللہ صاحب شاکر حضرت شیخ عبدالرحیم صاحب سابق سردار حجبت سنگھ.حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل قاضی محمد نذیر صاحب فاضل لائلپوری.مولوی ابو العطاء صاحب جالندھری - خواجه غلام نبی صاحب ایڈیٹر " الفضل ".
تاریخ احمدیت.جلدی 110 خلافت ثانیہ کا پندرھواں سال ۱۰۲- مثلاً فاطمہ بیگم صاحبہ المیہ ملک کرم الہی صاحب ضلع دار - مریم بیگم صاحبہ المیہ حضرت حافظ روشن علی صاحب ہاجرہ بیگم صاحبہ المیہ ایڈیٹر الفضل سکنیتہ انساء بیگم صاحبہ قادیان - نسیم صاحبہ المیہ ڈاکٹر سید محمد حسین صاحب کیمبل پور عزیزہ رضیہ صاحبہ اہلیہ مرزا گل محمد صاحب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر گو ہر الدین صاحب مانڈلے بربیا.امتہ الحق صاحبہ بنت حضرت حافظ روشن علی صاحب - ۱۳ مثلاً حکیم برہم صاحب ایڈیٹر اخبار " مشرق گورکھپور - جناب خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی ایڈیٹر ” منادی " ۱۰۴ لالہ دنی چند صاحب ایڈووکیٹ انبالہ ۱۰۵.بعض نعت لکھنے والے حضرت منشی قاسم علی صاحب رامپوری.مولوی برکت علی صاحب لائق لدھیانہ - حضرت خان صاحب مولوی ذو الفقار علی خان صاحب جناب شیخ محمد احمد صاحب مظہر بی.اے.ایل ایل بی وکیل کپور تھلوی - اخبار مشرق (گورکھپور نے اس نمبر پر یہ ریویو کیا کہ اس میں حضرت رسول کریم ال کے سوانح حیات وواقعات نبوت پر بہت کثرت سے مختلف اوضاع و انواع کے مضامین ہیں اور ہر مضمون پڑھنے کے قابل ہے ایک خصوصیت اس نمبر میں یہ ہے کہ ہندو اصحاب نے بھی اپنے خیالات عالیہ کا اظہار فرمایا ہے جو سب سے بہتر چیز ہندوستان میں بین الاقوامی اتحاد پیدا کرنے کی ہے دوسری خصوصیت یہ ہے کہ مردوں سے زیادہ عورتوں نے اپنے پیغمبر کے حالات پر بہت کچھ لکھا ہے “.(۲۱ / جون ۱۹۲۸ء (بحوالہ الفضل ۳/ جولائی ۱۹۲۸ء) صفحہ ۳ کالم (۳) ۱۰۷- یہ تینوں باتیں غلط تھیں اور واقعات نے ان کا غلط ہونا ثابت کر دیا (1) مولوی ابو الکلام صاحب آزاد ڈاکٹر کچلو صاحب ڈاکٹر مختار صاحب انصاری اور سردار کھڑک سنگھ صاحب جیسے کانگریسی لیڈریا تو بعض جلسوں کے پریذیڈنٹ ہوئے یا اس کے دائی بنے جس سے ظاہر ہے.کہ حکومت کے ساتھ اس تحریک کا کوئی تعلق نہیں تھا.(۲) ان جلسوں پر جماعت احمدیہ کا پندرہ ہزار کے قریب روپیہ صرف ہوا.لیکن جماعت نے کسی ایک پیسہ کا بھی چندہ نہ مانگا البتہ لکھنو اور کئی دوسرے مقامات میں مسلمانوں نے خود جلسہ کے انعقاد کے لئے رقوم بھیجیں جو انہیں کے انتظام کے ماتحت اس کام پر خرچ ہو ئیں (۳) سارے ہندوستان میں منعقد ہونے والے جلسوں میں سے صرف ایک تقریر کے متعلق کہا گیا کہ اس میں احمدیت کی تبلیغ کی گئی مگر وہ تقریر بھی ہندوؤں کے خلاف تھی.پھر ان جلسوں میں مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری ، حیدر آباد دکن کے صدر الصدور مولوی حبیب الرحمن خان صاحب شروانی علماء فرنگی محل اور جناب ابو الکلام صاحب آزاد کا کسی نہ کسی رنگ میں حصہ لینا بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ انہیں ایسے جلسوں میں احمدیت کے مخصوص عقائد کی تبلیغ ہونے کا کوئی اندیشہ نہیں تھا.(الفضل ۲۴/ جولائی ۱۹۲۸ء صفحه ۶۰۵ کالم ۲-۳) ۱۰۸- چنانچہ مولوی محمد علی صاحب مرحوم پریذیڈنٹ احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور نے خود اقرار کیا کہ ان جلسوں میں میاں صاحب کے ساتھ ہم نے اشتراک عمل نہیں کیا.(پیغام صلح یکم ستمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۲) اس کے مقابل ان کا گذشتہ طرز عمل یہ تھا کہ انہوں نے ایک عرصہ قبل کانگریس کے لیڈر مسٹر گاندھی کی قیادت میں چلائی ہوئی تحریک خلافت کے ساتھ وابستگی ضروری خیال کی چنانچہ احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے موجودہ امیر جناب مولوی صدر الدین صاحب کا بیان ہے کہ "میں نے انگریزی راج کے خلاف ہندوستان میں اور خود انگلستان میں متعدد لیکچر دیئے تھے اور سالہا سال تک کانگریس اور تحریک خلافت سے تعاون کرتے ہوئے کھدرپوش بنا رہا ".(کامیاب زندگی کا تصور صفحہ ۱۱۲ مولف پروفیسر انور دل شائع کردہ مکتبہ جدید لاہور من طبع اول مارچ ۱۹۹۴ء - افسوس ان حضرات کو سیرت النبی ﷺ کی عالمگیر تحریک بھی جماعت احمدیہ قادیان سے اتحاد عمل پر آمادہ نہ کر سکی.اور بعض غیر مبایعین نے بیان کیا کہ ہمیں الجمن نے ان میں حصہ لینے سے روکا ہے اور دو چار مقامات کے سوا بحیثیت قوم فریق لاہور نے اس کا بائیکاٹ ہی کیا.جس کی وجہ صرف یہ تھی کہ اس تحریک کے بانی حضرت خلیفتہ المسیح الثانی تھے اور یہ آواز قادیان سے بلند ہوئی تھی.مگر چونکہ غیر مسلموں کو اسلام تک لانے کی موثر ترین صورت یہی تھی جو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے تجویز فرمائی تھی اس لئے بالآخر ان کو بھی تسلیم کرنا پڑا.کسی موقعہ پر یہ آواز بلند کر دینے سے کہ فلاں شخص نے رسول اللہ الله کی شان میں گستاخی کر کے ہمارا دل دکھایا ہے حقیقت کوئی اصلاح نہیں ہوتی بلکہ بسا اوقات اپنے غیظ و غضب کے اظہار سے بڑھ کر اس سے کچھ حاصل نہیں ہوتا.اگر ان گستاخیوں کا سد باب کرنا ہے اگر اس ملک میں اشاعت اسلام کے لئے کوئی عملی راستہ کھولنا ہے تو
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 111 خلافت ثانیہ کا پندرھواں سال -It⚫ اس کے لئے سب سے بڑھ کر یہ ضروری ہے کہ آنحضرت کے صحیح حالات کو ہر طبقہ کے لوگوں تک پہنچایا جائے".(پیغام صلح ضمیمه ۳۰/ اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحه ۲ کالم ۳) 19 اخبار مخبر اودھ نے جلسہ لکھنو کے موقعہ پر آپ کی تقریر کے بارے میں لکھا." پھر مولوی اللہ دتہ صاحب احمدی پلیٹ فارم پر تشریف لائے آپ نے موثر طریقہ سے حضور کی زندگی کا شاندار پہلو کھایا پرانے خیالات کے بزرگ اور ینگ پارٹی کے نوجوان مسلمان آپ کی تقریر سے نہایت خوش ہوئے.آپ نے ثابت کر دیا کہ آنحضرت ا دنیا کے لئے اخلاق کا اعلیٰ نمونہ اور خدا کی رحمت تھے اہل مجلس کی استدعا پر آپ کو مزید وقت دیا گیا جس روز مولوی اللہ ورتہ صاحب لکھنو سے قادیان تشریف لے جارہے تھے تو احمدیوں کے علاوہ دیگر فرقوں کے مسلمان بھی اسٹیشن پر موجود تھے جنہوں نے رخصت کے وقت آپ سے مصافحہ کیا " ( مخبر او ده ۲۶/ جون ۱۹۲۸ء بحواله الفضل ۳/ جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۹ کالم (۳) کلکتہ کے اخبار "دی انگلش مین " (۱۸/ جون ۱۹۲۸ء) نے اور "دی امرت بازار پتر کا" (۱۹ / جون) نے جلسہ سیرت النبی کلکتہ کی رپورٹ شائع کی جس میں آپ کی تقریر کا بھی ذکر کیا.(ملاحظہ ہو الفضل ۶ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۹ کالر) آپ نے ۱۷ جون کا جلسہ ریل گاڑی میں کیا.جس کی دلچسپ تفصیل آپ کے الفاظ میں یہ ہے کہ "۱۷/ جون ۱۹۲۸ء کو میں کراچی میں تھا.اس دن دہاں کے اس جلسہ میں شریک ہونے کو دل چاہتا تھا.مگر مجبوری تھی ٹھہر نا مشکل تھا آخر ۳ بجے کی گاڑی میں سوار ہو گیا اور اپنی سیٹ پر کھڑے ہو کر حضرت رسول کریم ﷺ خاتم انسین کی سیرت پر لیکچر دینا شروع کر دیا.جب دو سرا اسٹیشن آیا تو اس کمرہ سے نکل کر دو سرے کمرہ میں جا پہنچا اور وہاں لیکچر کر دیا.غرضیکہ اسی طرح بفضلہ تعالی سات گاڑیوں میں پہنچ کر ۱۷/ جون کو ۳ بجے سے ۱۲ بجے تک میں نے لیکچر دئیے جن کو ہندو مسلمان ، سکھ، عیسائی غرضکہ ہر طبقہ نے پسند کیا.(الفضل ؟ جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ سے کالم ) ملک فضل حسین صاحب نے جو بک ڈپو تالیف و اشاعت کے مینجر کے فرائض سر انجام دے رہے تھے غیر مسلم اصحاب کی بعض تقاریر دنیا کا ہادی اعظم غیروں کی نظر میں" کے نام سے دسمبر ۱۹۲۸ء میں شائع کر دیں.جنوبی ہندوستان میں ایک تھیو سائیکل سوسائٹی کے ذریعہ اس کے حلقہ اثر کے اندر ۳۰ کے قریب جلسے ہوئے (رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحه ۲۰۶) -ur - آپ نے تحریک کی افادیت پر روشنی ڈالی اور کہا میں مسٹری آرد اس کی برسی کے جلسہ کا بھی صدر تھا مگر وہاں اتنی حاضری نہ تھی.جتنی یہاں ہے.۱۵- آپ نے کہا کہ میں بہت ضروری کام چھوڑ کر آیا ہوں.کیونکہ اس میں شمولیت سب سے ضروری تھی آئندہ بھی اگر ایسے جلسے منعقد ہوں گے تو خواہ کتناہی کام مجھے در پیش ہو گا میں اس پر ایسے جلسہ میں شمولیت کو مقدم کروں گا.(الفضل ۲۴/ جولائی ۱۹۲۸ء نم الفضل ۲۶/ جولائی ۱۹۲۸ء صفحه ۳-۴- تفصیل رپورٹوں کے لئے ملاحظہ ہو.الفضل ۲۲ جون ۲۲ جون ۳۰ / جولائی ۶ / جولائی ۱۰ جولائی ۱۷-۲۴ جولائی ۱۹۲۸ء.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحه ۲۰۶ ۱۱۸ ملاحظہ ہو تفسیر حضرت محی الدین ابن عربی سورہ بنی اسرائیل زیر آیت علی ان یبعثک ریگ مقاما محمودا 119 بحواله الفضل ۲۹/ جون ۱۹۲۸ء صفحه ۱۶ ۱۲۰ بحوالہ الفضل ۳/ جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۹ ۱۲۱ بحوالہ الفضل ۶ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۹ کالم ۲ ۱۲۲ بحوالہ الفضل ۱۰/ جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۱ ۱۳۳- بحوالہ الفضل ۷ ار جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ؟ ۱۲۴- مثلا اخبار ہمدم (لکھنو) وکیل (امرت سر) مشرق (گورکھپور) کشمیری گزٹ (لاہور) "حقیقت" خادم المومنین "" منادی " ( دیلی) "اردو اخبار " (ناگپور) " پیشوا" اور "حق" منبر" (اودھ) توحید " (کراچی) اس کے علاوہ جزوی طور پر غیر مسلم اخبارات نے
تاریخ احمدیت - جلد ۵ 112 بھی جلسہ کی رپورٹیں شائع کیں.مثلاً اخبار دی انگلش میں " (کلکتہ) "دی امرت بازار پتر کا (کلکتہ) "انقلاب" (لاہور) "سیاست" (لاہور) " تنظیم " (امرت سر)- مقدم الذکر دو اخبارات نے تو جلسوں کے انعقاد سے قبل اس کی افادیت و اہمیت پر زور دار نوٹ لکھے.(تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۵/ جون ۱۹۲۸ء صفحہ ۹) ۱۳۵ روزنامه "حقیقت "لکھنو (۲۳/ جون ۱۹۲۸ء) نے علماء کی ذہنیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا." جو لوگ اتفاق کی چلتی ہوئی بگاڑی میں روڑا اٹکانا چاہتے ہیں انہیں ان کی رائے مبارک رہے خادمان ملک و ملت کو ان کی آواز پر کان نہیں دھرنا چاہئے".(بحوالہ الفضل سے ار جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۵) ۱۳۶ مولوی کفایت اللہ صاحب کے اس عدم تعاون بلکہ صریح بائیکاٹ کے باوجود جلسہ دہلی بہت کامیاب ہوا.چنانچہ اخبار "منادی" دیلی (۲۳ جون ۱۹۲۸ء) نے لکھا کہ ”سوا نو بجے رات کو پریڈ کے میدان میں سیرت رسول کی نسبت جلسہ ہوا.دس ہزار کا مجمع تھا.ہندو مسلمان کی نہایت عمدہ تقریریں ہوئیں جلسہ بہت کامیاب ہوا.بارہ بجے تک رہا.آج تک دہلی میں کوئی مشترکہ جلسہ ایسی کامیابی سے نہ ہوا ہو گا".(بحوالہ الفضل ۱۷/ جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۷) ۱۳۷ بحوالہ الفضل ۷ ار جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ؟ -۱۲۸ مضمون چودھری فتح محمد صاحب سیال ایم.اے.مطبوعہ الفضل ۲۴ / جولائی ۱۹۳۸ء صفحه ۵۰۴ سے ماخوذ مع تلخیص ۱۲۹ الفضل ۲۲ جون ۱۹۲۸ء صفحہ ۳-۴- مقامی جماعت میں سے ملک صاحب کے ساتھ گہرا تعاون کرنے والے حضرات- موادی عبد الرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل، منشی محمد الدین صاحب ملتان (سابق مختار عام) چوہدری برکت علی صاحب، ماسٹر علی محمد صاحب بی.اے بی ٹی.چوہدری ظہور احمد صاحب مولوی عطا محمد صاحب اور مدرسہ احمدیہ اور تعلیم الاسلام ہائی سکول کے سکاؤٹس (الفضل ۱۷ جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ کالم ۲) ١٣- الفضل ۲۲/ جون ۱۹۲۸ء صفحه ۳- تم ۱۳۱ ریکارڈ صد را مجمن احمد یہ اگست ستمبر ۱۹۲۸ء- ۱۳۲ ملاحظہ ہو " ریویو آف ریلیجن انگریزی جولائی تا اکتوبر ۱۹۳۲ء ملک صاحب کے قلم سے حضور کے لیکچر اسلام میں اختلافات کا آغاز کا انگریزی ترجمہ بھی ریویو آف ریلیجہ میں شائع شدہ ہے.۱۳۳- رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹۴ء صفحه ۲۰۷-۲۰۸ ۱۳۴- دوسرے غیر مسلم مضمون نگاروں کے نام یہ تھے سردار جوند سنگھ صاحب سعد اللہ پور ضلع گجرات پنڈت هرچند صاحب لدھیانہ لالہ دنی چند صاحب کپور آنریری پر چارک شادی ہوگان سرہند.پنڈت گیا نیندر دیو شر ما صاحب شاستری گورکھپورہ لالہ سرداری لعل صاحب و روان حجرہ شاہ مقیم منگمری سردار جسونت سنگھ دریا رام ضلع ہوشیار پور بابو اننت پر شاد صاحب بی.اے ایل ایل بی وکیل و رئیس بھاگلپور.یہ مضامین ملک فضل حسین صاحب منیجر بک ڈپو تالیف و اشاعت قادیان نے " دنیا کا بہادی اعظم غیروں کی نظر میں " کے نام سے عمدہ کتابت و طباعت کے ساتھ دسمبر ۱۹۲۸ء میں شائع کر دی تھیں.ملک صاحب موصوف کی خدمات کا کئی مقام پر ذکر آئے گالنڈ اضمنا یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ملک صاحب نے بیڈ پر تالیف دا شاعت صدر انجمن احمدیہ کے مینجر ہونے کی حیثیت سے اس قومی ادارہ کو سالہا سال تک نہایت خوش اسلوبی سے سنبھالا.اور آپ کے زمانہ اہتمام میں سلسلہ احمدیہ کے لٹریچر کی خوب اشاعت ہوئی ہے.۱۳۵- پیغام صلح ۲۷ جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ( مضمون مولوی محمد علی صاحب پریذیڈنٹ احمد یہ انجمن اشاعت اسلام لاہور ) ۱۳۶- مولوی محمد علی صاحب - ناقل الفضل ۳/ اگست ۱۹۲۸ء صفحه ۴ کالم ۱ ۱۳۸ الفضل ۳/ اگست ۱۹۲۸ء صفحه ۳-۷ ١٣٩- الفضل ۳/ اگست ۱۹۲۸ء صفحه ۷).الفضل ۲۶/ جون ۱۹۲۸ء صفحه اکالم ۱۳۱ الفضل ۷ ۱ جولائی ۱۹۳۸ء صفحہ ۶ کالم ۱-۲ i
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 113 ۱۴۲.تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو کتاب "حیات بشیر ، طبع اول صفحه ۱۲۸۳۰۲۷۲ مولفہ مولانا شیخ عبد القادر صاحب سابق سود اگر ملی مربی سلسلہ احمدیہ ) کتاب " نبیوں کا چاند " طبع اول صفحہ ۶۶-۷۳ (مولفه فضل الرحمن صاحب نعیم شائع کردہ اتالیق منزل ربوه ١٣٣ الفضل ۲۰ / نومبر ۱۹۹۳ء صفحه ۴-۵ م الفضل ۲۱ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۴ کالم ۲- الفضل ۱۰/ جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۵ کالم ۱۴۵.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۸۸ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دنوں مولوی غلام احمد صاحب بد و طهوی (حال مبلغ گیمبیا) ایک ماہ تک حوالہ جات وغیرہ نکالنے کے لئے حضور کی خدمت میں حاضر رہے.۱۴۶- ٹائمز آف انڈیا نے ۲۴ / جون ۱۹۲۸ء کی اشاعت میں آنحضرت ا س کے حرم پاک کا ذکر نہایت گرے ہوئے الفاظ میں کیا تھا.جس پر حضور نے چٹھی لکھی اور اس کے اسٹنٹ ایڈیٹر ایس جیسن کو تحریری معذرت کرنا پڑی حضرت اقدس کی چٹھی اور اس معذرت نامہ کا متن الفضل ۲۰/ جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ پر شائع شدہ ہے.الد ۳۷- نجران مکہ معظمہ سے یمن کی طرف سیات منزل پر ایک وسیع علاقہ کا نام ہے جہاں عیسائیوں کا ایک عظیم الشان کلیسا تھا جس کو وہ کعبہ کہتے تھے اور حرم کعبہ کا جواب سمجھتے تھے.تفصیلات معجم البلدان اور فتح الباری میں موجود ہیں.(بحوالہ سیرت النبی الله حصہ اول جلد دوم صفحه ۳۷-۳۸- از شمس العلماء علامه شیلی نعمانی مرحوم) ۱۴۸ زاد المعاد ابن قیم ( بحوالہ سیرت النبی حصہ اول جلد دوم صفحه ۳۸- از شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی مرحوم) ۱۹- الفضل ۱۷ جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۶ ۱۵۰ الفضل سے الرجولائی ۱۹۲۸ء صفحہ سے کالم ۱-۲ ۱۵۱- ڈاکٹر صاحب مسلمانوں کے مشہور لیڈر تھے جو ۱۹۲۷ء میں آنریبل چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب کے ساتھ مسلم حقوق و مطالبات کی نمائندگی کے لئے انگلستان گئے تھے.۱۵- الفضل ۲۱ جولائی ۱۹۲۸ء صفحه ۵ تاے ۱۵۳ الفضل ۲۴/ جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۹ کالم ۲ -۱۵۴ الفضل ۲۷ جولائی ۱۹۳۸ء صفحہ ۶ کالم ۲۰۱ ده الفضل ۳۱ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحه ۲ ۱۵- الفضل ۱۰/ اگست ۱۹۲۸ء صفحہ اکالم - حضور قبل ازیں قریب دو ہفتہ تک ڈلہوزی میں قیام پذیر ہونے کے بعدے / جولائی ۱۹۲۸ء کو قادیان بھی تشریف لے گئے اور ۹/ جولائی ۱۹۳۸ء کو واپس ڈلیوری آگئے (الفضل ۱۳/ جولائی ۱۹۳۸ء صفحہ ا کالم ۱۵۷ الفضل ۱۳/ جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۷ کالم ۳ ۵۸ الفضل ۱۷/ جولائی ۱۹۲۸ء صفحه ۳-۴ ۱۵۹.جن جماعتوں نے چند ہ خاص کے وعدے پورے کر دیے ان کے نام رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۹۳ پر شائع شدہ ہیں.الفضل ۲۴ جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ کالم -۲ ۱۹۱ اخبار "پیغام صلح لا ہورے ار جولائی ۱۹۳۸ء صفحہ ۵ کالم ۲ - الفضل ۷ ۱۲ جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۴ کالم ۱-۲ الفضل ۲۷ جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۴۰۳ ۱۳ افضل ۷ ۱۲ جولائی ۱۹۲۸، صفحہ ۲ کالم ۲ ۱۹۵ به درس حضور ایدہ اللہ تعالی کی نظر ثانی ترمیم داصلاح اور بہت سے انسانوں کے بعد ۱۹۴۰ء میں تفسیر کیہ جلد سوم کی صورت میں شائع ہوا اس کی تفصیل اگلی جلد میں آرہی ہے.اس وقت تک ابھی مائیکرو فون کا استعمال قادیان میں شروع نہیں ہو ا تھا.الفضل تمبه ۱۹۲۸ء صفحه ۲۰۱ ۱۹۸، اس بارے میں پیما اما ان الفضل ۳/ اپریل ۱۹۳۸ء میں اور دوسرا الفضل ۲۳ / مئی ۱۹۲۸ء میں ہوا.اس کے بعد ۶ / جولائی ۱۹۲۸ء
تاریخ احمدیت جلد ۵ سے۷ / اگست ۱۹۲۸ء کے الفضل میں.الفضل / جولائی ۱۹۲۸ء تا ۷ / اگست ۱۹۲۸ء صفحه ۱ 114 خلافت مثلاً حافظ عبد السلام صاحب شملہ مرزا عبد الحق صاحب بی.اے ایل ایل بی گورداسپور چوہدری عصمت اللہ صاحب وکیل لائلپور - منشی قدرت اللہ صاحب سنوری- صالح محمد صاحب قصور نذیر احمد صاحب متعلم بی ایس سی بابو عبد الحمید صاحب شمله قریشی رشید احمد صاحب بی.ایس سی.میرٹھ.بابو فقیر محمد صاحب کورٹ انسپکٹر کیمل پور ملک عبد الرحمن صاحب خادم گجرات.سید محمد اقبال حسین صاحب ہیڈ ماسٹر نور محل بابو روشن دین صاحب سیالکوٹ ماسٹر فقیر اللہ صاحب ڈسٹرکٹ انسپکٹر مدارس.ا الفضل ۱۳/ اگست ۱۹۲۸ء صفحه ا -۱۷۲ مولوی ارجمند خان صاحب کی روایت ہے کہ " ایک دفعہ میں نے اختتام درس پر حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب ناقل) سے عرض کیا آپ لکھنے کی تکلیف کیوں اٹھاتے ہیں.آپ کو قرآن مجید کے علوم سے واقفیت اور پورا عبور حاصل ہے آپ نے جو اب فرمایا ایک تو میں حضرت صاحب کے حکم کی تعمیل کرتا ہوں دوسرے یہ کہ اگر چہ میں حضور کو خلافت سے قبل پڑھا تا رہا ہوں لیکن منصب خلافت پر متمکن ہونے کے بعد اللہ تعالی نے آپ پر معارف اور حقائق قرآنیہ کا ایسا دروازہ کھولا ہے کہ میرا فهم ان علوم سے قاصر ہے اور میں حضور کا شاگرد ہوں استاد نہیں".(اصحاب احمد جلد پنجم حصہ سوم صفحه ۵۴ طبع اول) ۱۷- رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۸۸- اصحاب احمد " جلد بیم حصہ سوم صفحه ۱۵۴ مرتبہ جناب ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے قادیان) تاریخ اشاعت نمبر ۱۹۶۴ء ناشر احمد یہ بیڈ پو ربوہ طبع اول- ۱۷۴ دو اڑھائی سو مستورات بھی پردہ میں بیٹھ کر استفادہ کرتی تھیں (الفضل ۱۴/ اگست ۱۹۲۸ء صفحه ۱) ۱۷۵ الفضل سے الر اگست ۱۹۲۸ء صفحہ اکالم ۱-۲ ١٧٦ الفضل ۱۳/ اگست ۱۹۲۸ء صفحه ۲ ۱۷۷- الفضل ۷ / ستمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۵ کالم ۳ ۱۷۸ - الفضل ۷ / ستمبر ۱۹۲۸ء صفحه ۱ ١٧٩- الفضل ۱۱/ ستمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۳ کالم ۱ ١٠- الفضل ۱۱/ ستمبر ۱۹۲۸ء صفحه ۲ کالم ۱-۲ الفضل ۱۴/ ستمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۷ کالم ۳ ۱۸۲- افسوس یہ تاریخی نوثواب قریبا نا پید ہے اور باوجود تلاش کے شعبہ تاریخ احمدیت " ربوہ کو اب تک دستیاب نہیں ہو سکا.الفضل ۱۲ اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ میں مرزا عبد الحق صاحب وکیل گورداسپور (حال امیر صوبائی مغربی پاکستان کے قلم سے درس کے اجتماع کا فوٹو" کے عنوان سے اس فوٹو کا یوں ذکر ملتا ہے کہ ”جن دوستوں نے درس کے موقعہ پر فوٹو کی قیمت ادا کی تھی ان کی خدمت میں اطلاعا عرض ہے کہ وہ اپنی کاپی مولوی عبد الرحمن صاحب مولوی فاضل مدرسہ احمدیہ قادیان سے محصول ڈاک بھیج کر منگوا سکتے ہیں".۱۸۳- ولادت ستمبر ۱۸۹۲ء بیعت ۱۹۱۲ء - ۱۹۳۲ سے ۱۹۴۲ء تک جماعت احمد یہ نئی دہلی و شملہ کے امیر رہے اور ۱۹۴۲ء سے ۱۹۴۷ء تک نئی دہلی کی جماعت احمدیہ کے امیر اور مشترکہ جماعت دہلی وینتی دیلی کے نائب امیر کی حیثیت سے خدمات بجالاتے رہے.۱۹۵۲ء میں پنشن پانے کے بعد زندگی وقف کی اور سالہا سال تک تحریک جدید میں وکیل الدیوان اور وکیل اعلیٰ کے عہدوں پر فائز رہے اور ان دنوں وکیل المال ثانی کے فرائض انجام دے رہے ہیں.۱۸۴ - الفضل ۱۲/ اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحه ۱۲ ۱۸۵- الفضل ۲۳/ اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحه ۳ و صفحه ۷-۸ ١٨٦ الفضل ٢٣/ اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحه ۳ و صفحه ۸۰۷ الفضل ۱۶-۲۰/ نومبر ۱۹۲۸ء صفحه ۱ الفضل ۲۳/ نومبر ۱۹۲۸ء صفحها
تاریخ احمدیت جلد ۵ ١٨٩ الفضل ۲۷/ نومبر ۱۹۲۸ء صفحه ١٩ الفضل ۳۰ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحه ۲ 11- الفضل سے دسمبر ۱۹۲۸ء صفحه ۱ ۱۹۳ - الفضل الر دسمبر ۱۹۲۸ء صفحه ۱ الفضل ۸/ جنوری ۱۹۲۹ء صفحه ۱ -١٩٤ الفضل ۲۹/ جنوری ۱۹۲۹ء صفحه ۲ ۱۹۵- الفضل ۱۶/ جولائی ۱۹۲۹ء صفحہ ۷ 115 ۱۹۶ - "حیات محمد علی جناح " صفحہ ۱۷۴.مسلمانان ہند کی حیات سیاسی صفحه ۱۸-۱۱۹ ۱۹۷- "مسلمانوں کے حقوق اور ضرور پورٹ " صفحہ ۲-۱۴ از حضرت خلیفتہ اصبح الثانی ایدہ اللہ تعالی) ۱۹۸ حیات محمد علی جناح " صفحہ ۱۷۴ خلافت ثانیہ کا پندرھواں سال ۱۹۹- مرزا محمد دہلوی کی کتاب "مسلمانان ہند کی حیات سیاسی " صفحہ ۱۲۰-۱۲۱ سے اس کی مزید تفصیلات کا پتہ چلتا ہے چنانچہ لکھا ہے کہ سوال ہوا کہ اس رپورٹ ساز کمیٹی کے مسلم اراکین آخر کیا کر رہے ہیں.انہوں نے اس رپورٹ پر کیوں دستخط کر دئیے اس وقت یہ عقدہ کھلا کہ اس کمیٹی کے دو مسلم ارکان میں سے ایک شعیب قریشی نے مسلمانوں کے سیاسی حقوق کی حمایت کرتے ہوئے نہایت قابلیت ، معقولیت اور جرأت کے ساتھ پنڈت موتی لال نہرو کی تجاویز سے اختلاف کیا تھا لیکن جب پنڈت جی نے ان کو نہ مانا تو وہ پھر کمیٹی کے کسی جلسہ میں شریک ہی نہیں ہوئے.اور نور الہ آباد سے سمیٹی واپس چلے گئے انہوں نے کمیٹی سے اختلاف کرتے ہوئے ایک بیان بھی لکھا تھا لیکن پنڈت موتی لال نہرو نے وہ اختلافی بیان رپورٹ کے ساتھ شائع نہیں کیا اور مولانا کفایت اللہ صاحب اس سے بھی زیادہ صفائی کے ساتھ اس مسئلہ پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مسٹر شعیب قریشی نے ان سے کہا تھا کہ انہوں نے (یعنی شعیب قریشی نے نہرورپورٹ پر اپنے دستخط نہیں کئے ہیں لیکن اس کے متعلق انہوں نے اپنے بوں پر اس لئے مر سکوت قائم رکھی کہ ایسانہ کرنے سے رپورٹ کی اہمیت ختم ہو جاتی تھی.اور سرعلی امام کے متعلق جو اس رپورٹ سمانہ کمیٹی کے دوسرے مسلم ممبر تھے.مولانا کفایت اللہ کا بیان ہے کہ انہوں نے رپورٹ پر دستخط تو کر دیے تھے لیکن اسے پڑھانہ تھا.چنانچہ لکھنو میں جب یہ رپورٹ آل پارٹیز کانفرنس کے اجلاس میں پیش ہوئی تو سرعلی امام نے اس کی حمایت میں آل میں جو تقریر کی اس کا بڑا حصہ ان تجاویز سے مختلف تھا جو مسلمانوں کے متعلق نہرو رپورٹ میں شائع کی گئی تھیں ".(دی کیس آف دی مسلم صفحه ۴) ۲۰۰ حیات محمد علی جناح صفحه ۱۷۴-۱۷۵ ۲۰۱ مسلمانوں کے حقوق اور نہرو رپورٹ " صفحہ ۵- از سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی) ۲۰۲- "سیاست ملیه » صفحه ۱۲۲۶ محمد امین زبیری مارہروی مطبوعہ عزیزی پریس آگرہ مارچ ۱۹۴۱ء صفر ۵۱۳۶۰ ۲۰۳." تحریک آزادی " (مرتبه انور عارف) صفحه ۱۸ تا شر انور عارف مالک مطبع ما حول کراچی طبع دوم نومبر ۱۹۵۹ء آپ نے ایک مقام پر مسئلہ اقلیت کی نسبت یہ بھی لکھا ہے.” میں ایک لمحہ کے لئے یہ باور نہیں کر سکتا کہ ہندوستان کے مستقبل کے نقشے میں ان اندیشوں کے لئے کوئی جگہ نکل سکتی ہے.ان اندیشوں کا صرف ایک ہی علاج ہے ہمیں دریا میں بے خوف و خطر کود جاتا چاہیئے.جوں ہی ہم نے ایسا کیا ہم معلوم کرلیں گے کہ ہمارے تمام اندیشے بے بنیاد تھے.(خطبات ابو الکلام آزاد " طبع اول صفحه ۳۱۴) -۲۰۴ ايضا صفحه اا ۲۰۵ ایضا صفحہ والد صفحه ۱۲ ۲۰۶ تحریک آزادی (مرتبه انور عارف) صفحه ۱۱۲ ۱۱۳ ۲۰۷ خطبات ابو الکلام آزاد " صفحہ ۳۱۹ تا شرایم شاء اللہ خان اینڈ سنز ۲۶ ریلوے روڈ لاہور ۲۰۸- ایضاً صفحه ۳۱۹-۳۲۰ et
تاریخ احمد بیت ، جلد ۵ 116 خالی نت عثمانیہ کا پندرھواں سال ۲۰۹ " تاریخ احرار " (از چوہدری افضل حق صفحہ ، طبع اول ”سوانح سید عطاء اللہ شاہ بخاری" (از جناب شورش کاشمیری) صفحه ۸۵ طبع اول مجلس احرار اسلام کا آرگن " آزاد ۳۱/ جنوری ۱۹۵۱ء صفحه ۱۹ ۲۱- ايضا ۱۳۱۰ ۲۱۳ ایضا ۲۱۳ " تاریخ احرار صفحه ۱۳۷ از چوہدری افضل حق صاحب نا شرز مزم یک ایجنسی بیرون موری دروازہ لاہور - اہا حدیث ۵ / اپریل ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۵ کالم ۳ ۲۱۵- روزنامہ "مجرم " لکھنو ۱۴۳/ نومبر ۱۹۳۸ء ۲۱۶.ملاحظہ ہو اہا حدیث " ( امرت سر۲۱ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۵ کالم ۲- ۳ و " اہلحدیث امرت سر ۵ / اپریل ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۵ کالم ۳ ۲۷- " تحریک آزادی (مرتبہ انور عارف) صفحه ۱۳ او " سیرت محمد علی صفحه ۴۱۶ -۲۱۸ تصدق احمد صاحب شروانی ممبر مجلس وضع آئین و قوانین ہند نے انہی دنوں اخبار زمیندار (۲۹/ ستمبر ۱۹۲۸ء) میں لکھا تھا.”نہرو رپورٹ کے شائع ہونے اور آل پارٹیز کانفرنس لکھنو میں اس کے منظور ہو جانے کے بعد بھی اخبارات میں اس کے متعلق مخالف اور موافق متعدد مضامین شائع ہو رہے ہیں جہاں تک میری نظرت اردو اخبارات گذرے ہیں مجھے افسوس کے ساتھ کہتا پڑتا ہے کہ کسی اخبار میں میں نے کوئی تنقید یا تبصرہ اس رپورٹ کے متعلق نہیں دیکھا.اجمالی طور پر اس رپورٹ کی موافقت یا مخالفت کی گئی ہے".(بحوالہ الفضل ۵/ اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحہ اکالم ۲) ۲۱۹ کتاب "مسلمانوں کے حقوق اور نہرو رپورٹ " ۲۲۰.مسلمانوں کے حقوق اور نسرور پورٹ "صفحہ ۱۰-۱۴ ۲۲۱- چنانچہ مسٹر جناح نے اپنی ایک تقریر کے دوران کہا "ہمیں (کلکتہ لیگ کے بانیوں کو اس کمرہ میں اکثریت حاصل ہے.لیکن کیا ہمیں ملک میں بھی اکثریت حاصل ہوگی؟ اس پر لوگوں نے کہا.ہاں) مسٹر جناح نے کہا کہ میرے لئے اس سے زیادہ کوئی امر خوشکن نہ ہو گا.مگر انصاف یہ چاہتا ہے کہ میں اقرار کروں کہ مجھے اس پر اطمینان حاصل نہیں ہے کہ ملک کے مسلمانوں کی اکثریت ہماری تائید میں ہے ".(سول اینڈ ملٹری گزٹ ۲/ جنوری ۱۹۳۸ء صفحه ۵ کالم (۳) بحوالہ مسلمانوں کے حقوق اور نمرو رپورٹ صفحه ۱۶ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ مسٹر محمد علی جناح مرکزی اسمبلی میں مسلمانوں کے لئے ایک تہائی نیابت ملنے کی شرط پر مخلوط انتخاب کے حامی ہو گئے تھے.لیکن سر شفیع اور ان کے رفقاء نے مسٹر جناح کی اس پالیسی سے اختلاف کیا اور لیگ دو حصوں میں بٹ گئی ایک کے صدرم در مسٹر جناح اور سیکرٹری ڈاکٹر کچلو اور دوسری کے صدر سر شفیع اور سیکرٹری سر محمد اقبال قرار پائے " "ذکر اقبال " صفحہ ۱۳۹) حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی اور جماعت کا تعاون اس مرحلہ پر شفیع لیگ کو حاصل تھا.۲۲۲."مسلمانوں کے حقوق اور نمرور پورٹ صفحہ ۳۵-۳۶ ۲۲۳.مسلمانوں کے حقوق اور شہرور پورٹ " صفحہ ۱۲۹ ۲۲۴ الفضل ۱۸/ جنوری ۱۹۲۹ء صفحه ۱۰ کالم ۳.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحه ۲۵۷ ۳۲۵ الفضل ۲۰/ اگست ۱۹۲۹ء صفحه ۸ ۲۲۶ رپورٹ صد را انجمن احمد یه قادیان ۳۱-۱۹۳۰، صفحه ۱۰۸ ۳۲۷- الفضل ۱۹/ اکتوبر ۱۹۳۸ء صفحه ۸-۹ ۲۲۸.بطور ثبوت ملاحظہ ہو الفضل ۲/ نومبر ۱۹۳۸ ء صفحہ ۷ ۶۴ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحه ۹٬۱۰/ نومبر ۱۹۲۸ء صفحه ۱۲ صفحه ۱۳۹۶/ نومبر ۱۹۲۸، صفحه ۲۰۱۲ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحه ۲ و صفحه ۱۰ ۲۷/ نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۳۰۱۰/ نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۷ ۱۱/ دسمبر ۱۹۲۸ء صفحه ۱۸٬۸۴۲/ دسمبر ۱۹۲۸ء صفحه ۹ ۲۲۹- سیاست ۳۱ / جولائی ۱۹۲۹ء بحواله الفضل ۹ / اگست ۲۳۹ ، صفحه ۶
117 خلافت عثمانیہ کا پندرھوا ٢٣٠- الفضل ۱۳/ دسمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۷ کالم ۲- ۳.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۱- ۱۲ و الفضل ۷ / دسمبر ۱۹۴۸ء صفحہ ۷ - الفضل / و کمبر ۱۹۳۸ء صفحه ۸ ۲۲۱- اقتباس از مکتوب ملک غلام فرید صاحب ایم اے (دفتر تفسیر القرآن انگریزی ٹمپل روڈ لاہور ) ۲۳۲- "مسلمانوں کے حقوق اور ضرور پورٹ طبع اول صفحہ 10 ۲۳۳." مسلمانوں کے حقوق اور نہرورپورٹ " طبع اول صفحہ ۱۳ ۲۳۴- الفضل ۲۱ / دسمبر ۱۹۲۸ء صفحه ۴ ۲۳۵- جناب عبد المجید صاحب سالک اور محمد مرزا دہلوی کے نظریہ کے مطابق جناب محمد علی جناح نے چودہ نکات مسلم کنوینشن دیلی کے انعقاد کے بعد پیش کئے جیسا کہ آگے ذکر آرہا ہے.۲۳۶.حیات محمد علی جناح صفحه ۱۷۵-۱۷۶ ۲۳۷- "سیرت محمد علی صفحه ۱۵۲۵ از رئیس احمد جعفری ) طبع دوم ۱۹۵۰ء ۲۳۸- الفضل ۱۸/ جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۰.مسلم لیگی وفد میں شامل دوسرے ممبران میں سے بعض کے نام راجہ صاحب محمود آباد صدر اجلاس ، ڈاکٹر سیف الدین صاحب کچلو.مسٹر چا گلا.ڈاکٹر سید محمود صاحب، مولوی ظفر علی خان صاحب ایڈیٹر زمیندار - نوابزاده لیاقت علی خان صاحب چوہدری خلیق الزمان صاحب مسٹر عبد الله صاحب بریلوی (حیات محمد علی جناح صفحہ ۱۷۷) ۲۳۹.سیرت محمد علی صفحه ۵۳۵ ۲۴۰."مسلمانان ہند کی حیات سیاسی " صفحہ ۱۲۷ جناب سید رئیس احمد صاحب جعفری اپنی کتاب ”سیرت محمد علی " میں لکھتے ہیں." ان (یعنی مولانا محمد علی جو ہر.ناقل ) کی تقریر کے بعد دو سرے بزرگوں نے اس موضوع پر تقریر کی اور ان کے نظریہ کی مخالفت اور در مستعمرات کی حمایت کی مباحثہ ابھی اسی موضوع پر جاری ہی تھا کہ مغرب کی نماز کا وقت آگیا اور محمد علی مغرب کی نماز پڑھنے باہر چلے گئے.تھوڑی دیر کے بعد وہ نماز پڑھ کر واپس آرہے تھے لیکن ابھی ڈائس تک پہنچے تھے کہ کسی نے ان سے کہہ دیا در نیہ مستعمرات تو پاس ہو گیا اور اس پر مباحثہ بھی ختم ہو گیا.سنتے ہی محمد علی نے اناللہ پڑھا اور الٹے پاؤں واپس آگئے پھر انہوں نے کنوینشن میں شرکت نہیں کی اگر چہ زور بہت ڈالا گیا " ( صفحہ ۵۲۷) ۲۴۱ مسلمانان ہند کی حیات سیاسی صفحہ ۱۳۸ ۳۲۲- "سیرت محمد علی طبع دوم ۱۹۵۰ء صفحه ۵۲۸-۱۵۴۹ از رئیس احمد جعفری) کتاب منزل لاہور.۲۴۳- " سیرت محمد علی " صفحه ۵۲۹-۵۳۰ ۲۴۴." حیات محمد علی جناح طبع اول صفحہ ۱۷۹-۱۸۰ ۲۴۵- حیات محمد علی جناح صفحه ۱۸۱ ۲۴۶- "سیرت محمد علی صفحه ۵۳۰-۵۳۱ ۲۴۷." حیات محمد علی جناح " صفحه ۱۸۳ -۲۴۸.تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۱۸/ جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۰ ۲۴۹.کانفرنس میں شریک ہونے والے بعض اصحاب کے نام : سر آغا خاں مولانا محمد علی جو ہر سرابراہیم رحمت اللہ سر شفیع سر محمد اقبال سر ذو الفقار علی خاں مسٹر ان کے غزنوی مسٹر شرف الدین مولوی شفیع داؤدی، سیٹھ عبد اللہ ہارون نواب محمد اسماعیل خان نواب محمد یوسف مولوی محمد یعقوب ؛ اپنی پریذیڈنٹ اسمبلی مسٹر محمود سهروردی سید رضا علی صاحبزادہ سلطان احمد ڈاکٹر نبیاء الدین داؤد صالح بھائی عبد المساجد به ایونی حسرت موہانی ' ڈاکٹر شفاعت احمد خاں خان بهادر بدایت حسین ، مولوی آزاد سبحانی مولوی کفایت اللہ مولوی محمد عریان ڈاکٹر ذاکر حسین خاں عبد المجید سالک ظلام رسول مهر (الفضل ۸/ نور کی ۱۹۲۹ ء و سرگزشت از عبدالمجید صاحب سالک) صفحه ۲۵۷ ۲۵۰- "سیرت محمد علی صفحه ۵۳۵-۵۳۶ ۲۵۱، "سرگزشت ۱۳ از عبد المجید سالک الطبع اول صفحہ سے ۲۵
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 118 خلافت عثمانیہ کا پندرھواں سال ۳۵۳- الفضل ۸/ جنوری ۱۹۲۹ء صفحه ۱۲ و الفضل ۱۸؍ جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۰ کالم ۳ ۲۵۳- "ذکر اقبال " صفحه ۱۴۳ ۲۵۴- "مسلمانان ہند کی حیات سیاسی صفحہ ۱۲۲-۱۲۳ ۲۵۵ - الفضل ار جنوری ۱۹۲۹ء صفحه ۱ ۲۵۶."سرگزشت" از عبد المجید سالک) صفحه ۳۶۰ ۲۵۷- " سلسلہ احمدیہ صفحہ ۳۹۸-۳۹۹) مولفه قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب) ۲۵۸- خطوط وحدانی کا حصہ حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہجہانپوری نے اپنے قلم سے اضافہ فرمایا ہے (المؤلف) ۲۵۹ " مرکز احمدیت قادیان صفحه ۴۹-۵۱) مؤلفه شیخ محمود احمد عرفانی مرحوم مجاہد بلاد عربیه) ۲۲۰ - الحکم ۲۰/ اپریل ۱۹۰۲ء صفحه ۱۲-۱۳ بحوالہ تذکره طبع دوم صفحه ۴۳۳-۴۳۴- حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہاں تک دکھایا گیا کہ قادیان کی آبادی دریائے بیاس تک پہنچ جائے گی ( الفضل ۱۴/ اگست ۱۹۲۸ء صفحہ ۶ - کالم سود تذکرہ طبع دوم صفحہ ۷۷۹) مگر اس کے ساتھ ہی آپ کو یہ بھی اطلاع دی گئی کہ اس قادیان کی اس پر رونق اور وسیع آبادی سے قبل قادیان کو ابتلاؤں کے ایک سلسلہ میں سے گذرنا پڑے گا.مثلاً آپ کو دکھایا گیا قادیان آنے کا راستہ حضور پر بند ہے ( تذکرہ طبع دوم صفحہ ۴۳۶۳) الدار کے ارد گرد ایک دیوار کھینچی جارہی ہے جو فصیل شہر کے رنگ میں ہے (ایضا صفحہ ۴۴۰-۴۴۳) قادیان کے راہ میں سخت اندھیرا ہے مگر آپ ایک نہیں ہاتھ کی مدد سے کشمیری محلہ سے ہوتے ہوئے پہنچ گئے ہیں (ایضاً ۸۳۳-۸۳۴) اس سلسلہ میں حضور کو یہ الہام بھی ہوا کہ ان الذي فرض علیک القرآن لرادک الی معاد یعنی وہ قادر خدا جس نے تجھے پر قرآن فرض کیا پھر تجھے واپس لائے گا.تریاق القلوب صفحه 4- تذکرہ طبع دوم صفحه ۳۱۳) ۲۶۱ الحکم ۱۷ اپریل ۱۹۰۵ء صفحه ۱۲- بحوالہ تذکره صفحه ۵۳۴ ۲۶۲- تذکره طبع دوم صفحه ۷۸۰-۷۸۱-۸۰۹ ٢٦٣- الفضل ۲۵/ دسمبر ۱۹۲۸ء صفحہ سے کالم ۲ ۲۶۴ سلسلہ احمدیہ " ( صفحہ ۳۹۹) طبع اول ۲۶۵.یہاں یہ بتانا مناسب ہو گا کہ قبل ازیں آخر ۱۹۱۴ء میں گورداسپور سے بوٹاری تک لائن بچھانے کی تجویز بھی زیر غور آئی تھی اور حکومت نے اس کی پیمائش کی ابتدائی منظوری بھی دے دی تھی.اور گویہ قطعی بات نہ تھی کہ یہ لائن قادیان سے ہو کر گذرے مگر درمیانی حصہ میں اہم ترین مقام قادیان ہی تھا اس لئے قرین قیاس یہی تھا کہ یہ قادیان کے راستہ سے بوٹاری تک پہنچے گی.لیکن یہ تجویز ابتدائی مرحلہ پر ہی ملتوی ہو گئی اور تیرہ سال تک معرض التواء میں پڑ گئی اس بات کا علم بابو قریشی محمد عثمان احمد کی ہیڈ ڈرافٹسمین دفتر چیف انجینئر نارتھ ویسٹرن ریلوے لاہور کے ایک خط سے ہوتا ہے جو انہوں نے ۸ / نومبر ۱۹۱۴ء کو حضرت مولوی محمد دین صاحب ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول کے نام لکھا تھا.اور جو دفتر پرائیویٹ سیکرٹری ربوہ میں محفوظ ہے بابو صاحب نے اس خط میں لکھا."نئی لائنوں کی بابت دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ یہ منظوری گورنمنٹ کی تعمیر کے لئے نہیں بلکہ پیمائش کرنے کے لئے ہے چنانچہ اس کی پیمائش عنقریب شروع ہونے والی ہے پھر یہ خیال ہوا کہ جنب گورنمنٹ نے لائنوں کی لمبائی و غیر ودی ہے تو پیمائش ابتدائی کے نقشے دفتر میں ہوں گے.حمر ابتدائی پیمائش ہی نہیں ہوئی صرف سرسری (Rangi لسبائی نقشہ سے ٹاپ لی گئی ہے اور اس کی منظوری دے دی گئی.گورداسپور ڈسٹرکٹ کا نقشہ (map دیکھنے سے معلوم ہوا کہ قادیان اس لائن پر آتا ہے جو گورداسپور سے بوٹاری تک منظور ہوئی جس کی لمبائی قریبا ۳۷ میل ہوگی.اگر یہ لائن گورداسپور سے سیدھی بوناری جاوے تو قادیان قریباً ساڑھے تین میل رہ جاتا ہے.اگر قادیان ہی ہو کر جاوے تو مطلب حاصل ہے زیادہ قرینہ قوی اس بات کا ہے کہ لائن قادیان ہو کر گزرے کیونکہ اس کے گردو نواح میں قادیان سب سے بڑی جگہ ہے اور لائن منظور شدہ کی لمبائی (Miles 37 ہی اس وقت درست آتی ہے جبکہ لائن قادیان ہو کر گزرے.اگر اس تجویز کے مطابق لائن بچھائی جاتی تو اس کا سرسری نقشہ حسب ذیل ہوتا:
تاریخ احمدیت - جلد ۵ دریائے بیاس 119 ن ۲۶۶- الفضل ۲۵/ دسمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ے کام ۲ جالندھر کی طرف بوماری الائن، ۲۹۷ الفضل ۷ ارجون ۱۹۲۸ء صفحہ ا کالم ۲ ۲۲۸ - الفضل ۲۰۱۶/ نومبر ۱۹۲۸ء صفحه اکالم ۲۰۱ ٢٦٩.الفضل ۳۰ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ اکالم ) ٢٧٠- الفضل االر دسمبر ۱۹۲۸ء صفحہ اکالم ) ٢٧١ الفضل ۲/ نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ا کالم ایتار پورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحه ۲۵۰ ۲۷۲- مکتوب شیخ محمد دین صاحب محرر ۲۰۰/ جولائی ۱۹۲۸ء صفحه ۵ (بنام مولف کتاب) ۲۷۳- " اصحاب احمد " جلد اول صفحہ ۱۰۴ میں لکھا ہے کہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے منشی صاحب کو حضرت مولوی عبد المغنی خان صاحب کا نائب فرمایا اور خشی صاحب کئی ماہ تک سارا سارا دن پیدل سفر کر کے تندہی سے کام کرتے رہے.۲۷۲ ماخوذ از مکتوب جناب شیخ محمد دین صاحب سابق مختار عام ۲۰/ جولائی و ۲۷/ جولائی ۱۹۶۵ء ۲۷۵ - الفضل ۲۳/ نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۷ ۲۷۶.اس کا مکمل متن الفضل ۲۵/ دسمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۸۰۷ میں چھپا ہوا ہے.ڈاکٹر صاحب نے قادیان میں گاڑی آنے اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے ہمرکاب سفر کرنے کی نسبت ایک مبشر خواب بھی دیکھا تھا جس کا ذکر آپ نے اس ٹریکٹ میں بھی کر دیا ہے.۲۷۷ ایضاً صفر ۲۷۸ مدرسہ احمدیہ کے سکاؤٹس کی تنظیم ان دنوں بہت مستعد اور سرگرم عمل تھی.اس تنظیم کا ایک کارنامہ یا د رہے گا.اور وہ یہ کہ جب ۲۷ / بیمہ ۱۹۲۷ ، کے جلسہ میں بہت سے لوگوں کو پنڈال کی کوتاہی کی وجہ سے بیٹھنے کی جگہ نہ مل سکی تو حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی نے اظہار ناراضگی فرمایا.جس پر مدرسہ احمدیہ کے سکاؤٹس دوسرے احباب کے ساتھ حضرت میر محمد اسحاق صاحب ناظر ضیافت کی نگرانی میں رات کے گیارہ بجے سے لے کر فجر کی نماز سے کچھ پہلے تک نہایت محنت ، غیر معمولی تدبر اور پوری تندہی سے بغیر ایک منٹ کے وقفہ اور آرام کے شہتیریاں اٹھانے اور انہیں اور گارا ہم پہنچانے کا کام کرتے رہے اور جلسہ کی جگہ کافی وسیع ہو گئی اور اس کے احاطہ میں تین ہزار کے قریب زیادہ نشستوں کی گنجائش پیدا ہو گئی.کام کرنے والوں میں محترم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب بھی شامل تھے.غرض یہ کام اس خاموشی اور عمدگی سے انجام پایا کہ دوسرے روز دو سری تقریر کے وقت حضور نے اس کام پر اظہار خوشنودی فرمایا.اور سکاؤٹس اور دوسرے لوگوں کو اپنے دست مبارک سے بطور یادگار تمغے عنایت فرمائے.(رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء صفحه ۷۶۱۷۵ او الفضل ۳/ جنوری ۱۹۲۸ء صفحہ ۲) قادیان کے رسالہ "جامعہ احمدیہ " کے سالنامہ (صفحہ ۴۳) پر ان سکاؤٹس کی تصویر شائع شدہ ہے.۲۷۹- الفضل ۲۵/ دسمبر ۱۹۲۸ء ۲۸۰.اس پہلی گاڑی کے گارڈ کا نام بابو ولی محمد صاحب اور ڈرائیور کا نام بابو عمر دین صاحب تھا گاڑی امرت سر سے بٹالہ تک ۲۵ میل فی نگھنٹہ کی رفتار سے بٹالہ تا قادیان ۵ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے آئی جس میں پانچ ہو گیاں تین سنگل گاڑیاں اور دو بر یک دان تھیں.انجمن ST Class اور ۷۰۹ نمبر کا تھا.اس پہلی گاڑی کو جو امرت سرسے قادیان جانی تھی دیکھنے اور اس میں سفر کرنے کے لئے دور ترین فاصلہ سے جو پہلے ٹکٹ خریدے گئے وہ مکرم شیخ احمد اللہ صاحب ہیڈ کلرک کنٹونمنٹ بورڈ نو شہرہ اور ان کی ہمشیرزادی زبیده خاتون صاحبہ کے نو شہرہ چھاؤنی سے قادیان تک کے تھے یہ گاڑی رات کو ۲ ۱۷ ۶ بجے امرت سر چلی گئی جس میں بٹالہ امریت سر اور لاہور کے بہت سے اصحاب واپس ہو گئے.ریل کے افتتاح پر احمدیان مالابار اور احمد یہ ایسوسی ایشن میمو(برما) نے
تاریخ احمدیت جلد ۵ 120 خلافت ثانیہ کا پندرھواں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے حضور مبارکباد کے تار ارسال کئے اور اپنی عدم شمولیت پر اظہار افسوس کیا.۲۸۱ " تاریخ احمدیت جلد سوم ( صفحه ۵۵۷-۵۵۸-۵۸۰) اور تاریخ احمدیت جلد چهارم (صفحہ ۲۱۴-۲۱۵) پر اس حقیقت کی تائید میں متعدد شواہد موجود ہیں.اس کے علاوہ ملاحظہ ہو حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب کا مضمون مطبوعہ الفضل ۲۵/ ستمبر ۱۹۶۴ء صفحه ۵) ۲۸۲- الفضل ۶ جون ۱۹۲۴ء صفحہ ۹ کالم ۲ ۲۸۳ الفضل ۳/ اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحه اکالم ۲ ۲۸۴- ٹریکٹ " الصلح خیر صفحه ۲-۳ ۲۸۵.تفصیل ۱۹۳۰ء کے حالات میں آئے گی.۲۸۶ - الفضل ۴ / جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ سے کالم ۲ ۲۸۷ الفضل یکم جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۱-۲-۱۱-۱۲ ۲۸۸- "فضائل القرآن " طبع اول صفحه ۱۳۴-۱۳۵ ۲۸۹.اس سلسلہ کے پانچ ابتدائی لیکچر خواجہ غلام نبی صاحب مرحوم ایڈیٹر " الفضل " نے قلمبند کئے اور آخری تقریر مولوی محمد یعقوب صاحب طاہر مرحوم نے لکھی.ان سب تقریروں کا مجموعہ الشرکتہ الاسلامیہ ربوہ نے فضائل القرآن " ہی کے نام سے دسمبر ۱۹۶۳ء میں شائع کر دیا ہے.-۲۹۰ فضائل القرآن " طبع اول صفحه ۴۳۹ ٢٩ الفضل ٢ / مارچ ۱۹۲۸ء صفحہ ۵.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کے حقیقی بچاتھے آپ نے ۱۸۹ ء میں تحریری اور فروری ۱۸۹۲ء میں دستی بیعت کی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اہل بیت سے بہت اخلاص رکھتے تھے اور خلافت سے وابستگی تو ان کے ایمان کا جزو تھا.(الفضل ۱۳ مارچ ۱۹۲۸ء) تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحه ۴۴۰-۲۲۲) ۳۱۳ کی فہرست میں آپ کا نام ۷ ۴ نمبر پر لکھا ہے.۲۹۳- بعمر ۸۹ سال ریکارڈ بہشتی مقبره قادیان) ۳۱۳- اصحاب میں ان کا نام ۵۹ نمبر پر درج ہے.۲۹۴.حضرت میاں چراغ دین صاحب "رئیس لاہور کے چھوٹے بھائی اور حضرت میاں محمد شریف صاحب ای.اے.سی کے والد - سلسلہ احمدیہ کے آغاز ہی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خدام میں شریک ہوئے اور نہایت اخلاص سے زندگی بسر کی الفضل ۱۰ / اگست ۱۹۲۸ء صفحه ۲) و (الفضل ۲۴/ اگست ۱۹۲۸ء صفحه ۹ کالم) ۲۹۵- ولادت ۱۸۴۸ء سن بیعت ۱۸۹۸ء شروع عہد خلافت ثانیہ سے معتمد صدر انجمن احمد یہ تھے.۱۹۲۱ء میں جب امراء کا نظام قائم ہوا تو حضرت خلیفتہ صحیح الثانی ایدہ اللہ تعالی نے آپ کو جماعت امر تسر کا امیر مقرر فرمایا.(الفضل ۳۰/ اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۶-۷) ۲۹۶- غلام حسین صاحب لدھیانوی کا بیان ہے کہ میں نے حافظ صاحب سے دریافت کیا کہ آپ حضرت مسیح موعود کی بیعت میں کس طرح داخل ہوئے.آپ نے فرمایا.جب حضور (پہلی بار الدھیانہ تشریف لائے تو میں نے خواب دیکھا کہ ایک بزرگ لدھیانہ تشریف لائے ہیں اور خواب ہی میں اس محلہ اور مکان کا پتہ بھی دیا گیا میں تلاش میں نکلا تو بعینہ حضرت صاحب کی زیارت ہوئی.اور میں حضور کی مجلس میں حاضر ہو تا رہا.اس کے بعد بیعت اولی کے موقعہ پر حضرت حاجی منشی احمد جان صاحب کے مکان پر جاکر بیعت کرلی.بیعت کنندگان کی فہرست میں آپ کا اس وقت چودھواں نمبر تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ازالہ اوہام حصہ اول طبع اول کے صفحہ ۸۱۷ پر آپ کا ذکر خیران الفاظ میں کیا ہے." حافظ صاحب جو ان صالح بڑے محب اور مخلص اور اول درجہ کا اعتقاد رکھنے والے ہیں ہمیشہ اپنے مال سے خدمت کرتے رہتے ہیں جزا ہم اللہ خیر الجزا.۱۳۱۳ اصحاب کبار کی فہرست میں آپ کا نام ۷۸ انمبر پر مرقوم ہے.(الفضل / جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۲) ۲۹۷ الفضل ۲۴ فروری ۱۹۲۸ء صفحہ.ان کے مفصل حالات حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کے قلم سے الفضل ۳/ مارچ ۱۹۲۸ء صفحہ ۸-۹ پر شائع شدہ ہیں.۲۹۸- خواتین میں سے اہلیہ حضرت مولوی صوفی حافظ غلام محمد صاحب مبلغ ماریشس /۱۲/ جنوری ۱۹۲۸ء کو اور محمودہ بیگم صاحبہ (البیہ
121 خلافت ثانیہ کا پندرھواں مولوی عبد السلام صاحب عمر ۲۶ / مئی ۱۹۲۸ء کو اور آخر مئی ۱۹۲۸ء میں المیہ صاحبہ حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب اور ۲۳ اکتوبر ۱۹۲۸ء کو والدہ محترمہ خان صاحب منشی فرزند علی صاحب کا انتقال ہواز الفضل ۲۰/ جنوری ۱۹۲۸ و ۲۹/ مئی ۱۹۲۸ء صفحه اد ۵/ جون ۱۹۳۸ء صفحه او الفضل ۲۶/ اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحه :- ٢٩٩.الفضل ۱۳/ ستمبر ۱۹۲۸ء صفحه ۱-۲ ۳۰۰ الفضل ۱۴۰/ ستمبر ۱۹۲۸ء صفحه ۲۰۱ ۳۰ الفضل ۲۱/ دسمبر ۱۹۲۸ء صفحه ٣٠٢ - الفضل ۲۳ / اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحه اکالم ) ٣٠٣ الفضل ۳۱/ جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ اکانم ۳۰۴- الفضل ۱۶ جولائی ۱۹۲۸ء صفحه ۲ ۳۰۵.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء صفحه ۱۶ ۳۰۶.ملاحظہ ہو " تاریخ احمدیت " جلد پنجم صفحہ ۲۲۸ ۳۰۷ الفضل ۱۵ مئی ۱۹۳۸ء صفحه ۸۰۷ ۳۰۸ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحه ۲۱۲ ۳۰۹ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ صفحه ۲۶۵ ۳۱۰.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹۴ء صفحه ۲۲۱ الفضل ۲۸ / اگست ۱۹۲۸ء صفحه ۲ کالم ۱ ۳۱۲.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۶۹ ۳۱۳.یہ دعوی الفضل ۷ / ستمبر ۱۹۲۸ء کے ایک مضمون بعنوان "احمدیہ انجمن اشاعت اسلام کا کچا چٹھا " پر کیا گیا.۳۱۴ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحه ۲۳۳- پیغام صلح ۱۱/ ستمبر ۱۹۲۸ء صفحه ۳- الفضل ۱۲۱ ستمبر ۱۹۲۸ صفحه ۱ ۳۱۵ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹۴ء صفحہ ۲۲۷ ۳۱۹- الفضل ۱۰/ جنوری ۱۹۲۸ صفحه ۲ ۳۱۷- الفضل ۳/ اپریل ۱۹۳۸ء صفحہ سے ۳۱۸ الفضل ۲۶/ اکتوبر ۱۹۳۸ء صفحه ۱۰۰۹ ۳۱۹ الفضل ۱۷/ جنوری ۴۱۹۲۱ ۳۲۰ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء صفحہ ۱۸۸ ۳۲۱ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحه ۱۸۲ ۳۲۲ الفضل ۱۴ جنوری ۱۹۲۹ء صفحه ۸ کالم ۳۰۳ ۳۲۳ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحه ۱۸۶ ۳۲۴.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۳۳ " تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحه ۴۹۹ ۳۲۵.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ سے ۱۷ ٣٢- الفضل ۳۵/ جنوری ۱۹۲۹ء صفحه ۱ ۳۲۷ الفضل ۲۷- اپریل ۱۹۳۸ء صفحه ۱ ۳۲۸ الفضل ۷ /اگست ۱۹۳۸ء صفحه ا کالم ۱ ۳۲۹.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۷۴ 1.٣٣٠.الفضل ۱۳ جولائی ۱۹۳۸ء صفحہ ۲ کالم ۳ الفضل ۲۶/ اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحه ۳۳۱ رپورت مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۷۳
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 122 خلافت ثانیہ کا پندرھواں سال ۳۳۲ الفضل ۲۶ اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحه ا ۳۳۳ مید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے سالانہ جلسہ ۱۹۲۸ء پر اس کی نسبت ارشاد فرمایا.کہ ہر ایک احمدی کا فرض ہے کہ خرید کر اپنے پاس رکھے " الفضل یکم جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۲ کالم (۳) ۱۳۳۴ الفضل ۲۱/ دسمبر ۱۹۲۸ء صفحه ۹ ۳۳۵ اس کتاب کے چار حصے شائع ہوئے پہلا دو سرا ۸۲۸ تو میں اور تیسرا چو تھا ۱۹۲۹ء میں.۳۳۶ میرید تر شاہ صاحب غیر مبائع مبلغ کے ٹریکٹ " تناقضات مابین اقوال حضرت صاحب د میاں صاحب کا جواب ۱۳۳۷الفضل ۱/۲۴ سمبر ۱۹۲۹ء صفحه ۱۳ ۳۳۸ الفضل ۲۰ مارچ ۱۹۲۸ء صفحه ۱۸ تاریخ مباحشه ۲۶ تا ۲۸ فروری ۱۹۲۸ء) ۳۳۹ الفضل ۲۷/ ایریل ۱۹۲۸ء ( تاریخ مباحثه ۱۸/ مارچ ۱۹۲۸ء) ۳۴۰ الفضل ۳/ اگست ۱۹۲۸ء تاریخ مباحثہ ۲۹/ جولائی ۱۹۳۸ء) ۳۴۱- الفضل ۲ مارچ ۱۹۲۸ء صفحه ۲ کالم ۱۲ تاریخ مناظره ۱۳/ فراری ۱۹۲۸ء) ۳۴۲- الفضل ۱۳ مارچ ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ کالم ۲ پر اس مناظرہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مولوی صاحب نے ہر سوال کا جواب قرآن سے دیا جسے سن کر لوگ عش عش کر اٹھے ( تاریخ مناظرہ مارچ ۱۹۲۸ء) ا ا ا ر ی اور تین روز جاری را حامی مناظر انے والا اس خوبی اور عمدگی سے ان کئے کہ قیامدی بلکہ غیر مسلم تک نے خراج تحسین ادا کیا الفضل ۲۲/ مئی ۱۹۲۸ء صفحه ۲ کالم (۲) ۳۴۴ مناظرہ کا موضوع " نیوگ " تھا آریہ مناظر نے علی الاعلان تسلیم کیا.کہ نیوگ آریوں کا دھرم نہیں.ایک ہندو اس موقعہ پر اسلام لایا.( فاروق ۱۳ جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۱) ۳۴۵ فاروق ۲۰/ اگست ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۱- یہ مباحثہ ۱۳ / اگست ۱۹۲۸ء کو ہوا.ملک عبد الرحمن صاحب خادم ابھی سترہ منٹ تقریر کرنے پائے تھے کہ آریوں نے آپ کی ٹھوس اور مدلل تقریر کی تاب نہ لا کر ہنگامہ اٹھا دیا اس لئے پولیس نے مداخلت کر کے مناظرہ بند کرادیا اور آریہ سماجی اسے غنیمت سمجھتے ہوئے میدان سے اٹھ کر چل دئیے.۳۴ الفضل ۱۷ اگست ۱۹۲۸ء صفحه ۳ تاریخ مناظره ۳۲/ جولائی ۱۹۲۸ء) الفضل ۱۳/ نومبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۸ کالم ۱۳ تاریخ مباحثه ۲۱ / اکتوبر ۱۹۲۸ء) ۳۳۸ الفضل ۲۷/ نومبر ۱۹۲۸ء صفحه ۸ کالم ۳- آریہ کاج لائل پور نے جماعت احمدیہ سے ۲۹ اکتوبر لغایت ۳/ نومبر ۱۹۲۸ء چھ مختلف مضامین پر مباحثہ طے کیا تھا.مگر آریہ مناظر ۳۰ اکتوبر کو پہنچے اس روز مسئلہ تاریخ پر مباحثہ ہوا.قریباً ایک گھنٹہ باقی تھا.کہ آریہ سماج کے مناظر کا گلا بند ہو گیا.صاحب صدر لالہ بھگت رام صاحب ساہنی کی درخواست پر بقیہ وقت ایک گھنٹہ ۳۱/اکتوبر پر ملتوی کر دیا گیا.دوسرے دن آریہ سماج کے دوسرے مناظر میدان میں آئے.جنہوں نے بمشکل تمام ایک گھنٹہ پورا کیا.اور تاریخ کی بجائے قرآن مجید پر اعتراضات شروع کر دیے.جن کے مسکت جواب دیئے گئے.اس کے بعد آریہ سماج کو کسی اور موضوع پر مباحثہ کرنے کی جرات نہ ہو سکی.۳۴۹- الفضل ۶/ نومبر ۱۹۲۸ء صفحه ۲ کالم از تاریخ مباحثه ۲۳- ۲۴/ ستمبر ۱۹۲۸ء ۳۵۰- الفضل ۱۳/ نومبر ۶۱۹۲۸- تاریخ مباحثه ۳۱/ اکتوبر و یکم نومبر ۱۹۲۸ء بمقام مندر آریہ سماج کو بگڑھ) ۳۵۱- الفضل ۱۳/ نومبر ۱۹۳۸ء ( تاریخ مباحثه ۷ / نومبر ۱۹۲۸ء) ۳۵۲- الفضل ۳۷/ نومبر ۱۹۲۸ء صفحه ۱۲ تاریخ مناظره ۲۰/ نومبر ۱۹۲۸ء مقام مناظرہ باغ مہاں سنگھ) ۳۵۳ اس مناظرہ میں صدارت کے فرائض مرزا عبد الحق صاحب بی.اے ایل ایل بی نے انجام دیئے.اور انجمن نظام المسلمین نے ہر ممکن طریقہ سے مباحثہ کا انتظام کیا.دونوں دن غیر احمدی مناظر بطور معترض پیش ہوئے مگر خدا کے فضل سے دونوں روز احمدیت کو کھلاغلبہ حاصل ہوا.اور بفضلہ تعالٰی حاضرین پر احمد بی دلائل کا سکہ بیٹھ گیا.فالحمد لله (الفضل ۲۱/ دسمبر ۱۹۲۸ء صفحه ۸۰۷) ۳۵۴- تاریخ مباحثه ۳۰ / دسمبر ۱۹۳۸ء مضمون مباشہ "عالمگیر مذ ہب " تھا.شروع میں آریہ سماجی مناظر نے ایک گھنٹہ تک تقریر کی کہ
تاریخ احمدیت - جلد ۵ 123 خلافت ثمانیہ کا پندرھواں سال آکند، دنیا کا مذ ہب آریہ دھرم ہو گا.خادم صاحب نے آریہ سماجی مناظر کی تقریر کے ۱۵ منٹ میں ایسے مسکت اور مدلل جواب دیئے کہ پذت صاحب اصل مبحث کو چھوڑ کر قرآن مجید پر اعتراضات کرنے لگے.خادم صاحب نے ان کا بھی اچھی طرح تجزیہ کر دینے کے بعد اپنے مطالبات کے جواب کا مطالبہ کیا.مگر وہ آخر وقت تک ان کا جواب نہ دے سکے.حتی کہ ایک معزز ہند و وکیل پنڈت صاحب کی تقریر کے دوران بول اٹھے کہ جواب کیوں نہیں دیتے.مگر پنڈت صاحب جواب لاتے کہاں سے.(الفضل ۸/ جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۲ کالم ۲۰۱)
د - جلد ۵ دو سرا باب (فصل اول) 124 خلافت ثانیہ کا سولہواں سال انقلاب افغانستان پر تبصرہ اور راہنمائی سے لے کر مسلمانان ہند کے تحفظ حقوق کی نئی مہم تک خلافت ثانیہ کا سولہواں سال جنوری ۱۹۲۹ء تا دسمبر ۱۹۲۹ء بمطابق رجب ۱۳۴۷ھ تا رجب ۱۳۴۸ھ تک) حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی ۱۲/ جنوری ۱۹۲۹ء کو بذریعہ موٹر لاہور سفر لاہور تشریف لے گئے.اور اپنے برادر نسبتی ڈاکٹر خلیفہ تقی الدین صاحب کے ہاں قیام فرمایا.اگلے روز (۱۳)/ جنوری کو) حضور نے احمد یہ ہوسٹل میں مختلف کالجوں کے احمدی اور غیر احمدی طلباء کے علاوہ بعض دوسرے اصحاب کو بھی شرف ملاقات بخشا.۱۴ جنوری کو آپ نے گورنر صاحب پنجاب ( سر جیفری ڈی مانٹ مورنسی) سے ملاقات کی اس کے بعد مسجد احمد یہ بیرون دہلی دروازہ میں تشریف لے گئے اور ایک پر معارف تقریر فرمائی جس میں آیت لا يمسه الا المطهرون کی نہایت لطیف تفسیر فرمائی اور بتایا کہ قرآن کریم کے اعلیٰ معارف اور نکات انہیں لوگوں پر کھولے جاتے ہیں جنہیں روحانیت حاصل ہو اور جو خدا تعالٰی کے مقرب ہوں اور یہ قرآن کریم کے کلام الہی ہونے کا ایک ثبوت ہے.اسی سلسلہ میں حضور نے بیان فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کا جو علم دیا وہ کسی اور کو حاصل نہ تھا.حالانکہ اور لوگ ظاہری علوم کے لحاظ سے بہت بڑھ کر تھے اسی طرح مجھے بھی خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کے ایسے معارف سمجھائے ہیں کہ خواہ کوئی ظاہری علوم میں کتنا بڑھا ہوا ہو اگر قرآن کریم کے حقائق بیان کرنے میں مقابلہ کرے گا تو نا کام رہے گا ن.یہ تقریر تقریباً ایک گھنٹہ تک جاری رہی.۱۵ جنوری کو چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے حضور کے اعزاز میں مشغل ہوٹل میں جائے کی دعوت دی جس میں سر شیخ عبد القادر صاحب خلیفه شجاع الدین صاحب سید محسن شاہ صاحب
تاریخ احمدیت جلد ۵ 125 مولوی غلام محی الدین صاحب قصوری، شیخ نیاز علی صاحب کے علاوہ اور بھی کئی اصحاب شامل ہوئے اور مسائل حاضرہ پر گفتگو ہوتی رہی اس کے بعد حضور چوہدری صاحب کی کوٹھی میں تشریف لے گئے اور احمدی اور غیر احمدی دوستوں نے ملاقاتیں کیں.جنوری کو سر شیخ عبد القادر صاحب نے اپنی کو ٹھی پر حضور اور حضور کے رفقاء کو چائے کی دعوت دی.اس سے فارغ ہو کر حضور چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کے ہاں تشریف لے گئے اور بہت سے اصحاب کو شرف ملاقات بخشا.۱۷/ جنوری کو حضور نے بعض سر بر آوردہ مسلمانوں سے ملاقات کی اور معاملات حاضرہ پر گفتگو فرماتے رہے.۱۸ جنوری کی صبح کو حضور بذریعہ موٹر لاہور سے بٹالہ آئے اور بٹالہ سے ٹرین پر سوار ہو کر جمعہ سے قبل قادیان پہنچے اور خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ۱۹۲۸ء کے آخر انقلاب افغانستان پر تبصرہ اور رہنمائی میں مسلم ممالک خصوصاً ترکی اور افغانستان کو متنبہ کیا تھا کہ وہ دین سے بے اعتنائی چھوڑ دیں اور غیر اسلامی رجحانات کا دروازہ بند کر دیں کہ یہ راستے ترقی کے نہیں ترقی کے لئے اسلام کی طرف توجہ کی ضرورت ہے.شاه افغانستان امیر امان اللہ خان نے جو سیاحت یورپ کے دوران مغربی تہذیب و تمدن پر بے حد فریضہ ہو گئے تھے.کابل واپس پہنچتے ہی مغربیت کی ترویج و اشاعت کے لئے احکام نافذ کر دیئے تھے.نتیجہ یہ ہوا کہ ۱۳/ جنوری ۱۹۲۹ء کو افغانوں نے ایک معمولی انسان حبیب اللہ (عرف بچہ سقہ) کی سرکردگی میں مسلح بغاوت کردی - امیر امان اللہ خان نے قندھار کو مرکز بنا کر کابل پر چڑھائی کرنے کی کوشش کی لیکن قبائلی سرداروں اور تعلیم یافتہ نوجوانوں نے اس کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا اور وہ افغانستان سے بھاگ کر ہندوستان کی راہ سے اٹلی چلے گئے.ابھی امیر امان اللہ خاں اپنے ملک میں ہی تھے کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۲۵/ جنوری ۱۹۲۹ء کو خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس میں افغانستان کی شورش پر مفصل تبصرہ کیا اور اپنے موقف کا مندرجہ ذیل الفاظ میں اعلان فرمایا.آئندہ کے متعلق ہمارا مسلک یہی ہے کہ ہمیں کسی خاص شخص سے کوئی تعلق نہیں ہے.جو بھی حکومت کسی ملک میں قائم ہو اس کی اطاعت فرض اور اس سے بغاوت گناہ ہے ہم نے عام فائدہ اسلام کا دیکھنا ہے.میرے نزدیک سیاسی لحاظ سے اسلام کو حقیقی اسلام کو نہیں کیونکہ وہ تو خود اپنی ذات سے قائم ہے.اسے اپنے قیام کے لئے کسی ایسے سہارے کی ضرورت نہیں) ہاں سیاسی لحاظ سے اسلام کو
تاریخ احمد بیت - جلد ۵ 126 ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام اسلامی ممالک میں زبر دست آزاد اور مضبوط حکومتیں ہوں.یہی وجہ تھی کہ باوجود اس کے کہ شریف حسین کے زمانہ میں ہم اس کی حکومت کو نا جائز سمجھتے اور اس کے خلاف بغاوت کرنا جائز قرار دیتے تھے لیکن جب سلطان ابن سعود نے پوری طرح وہاں اپنا تسلط جما لیا اور اس کی حکومت قائم ہو گئی تو اب ہم اس کو جائز سمجھتے اور اس کے خلاف بغاوت کو ناجائز قرار دیتے ہیں اب اگر شریف بھی اس پر حملہ کرے گا.تو ہمیں برا لگے گا.اس لئے ہم بچہ سقہ کو بھی برا سمجھتے ہیں کہ اس نے ایک آزاد اسلامی حکومت کو ضعف پہنچایا.جب تک وہ خود وہاں حکومت قائم نہ کر لے ہم اسے براہی کہیں گے.اب وہاں خواہ کوئی بادشاہ ہو جائے امان اللہ خاں ہو یا عنایت اللہ خاں یا در خاں ہو.یا علی احمد جان یا بچہ سقہ جو بھی وہاں ایسی حکومت قائم کرلے گا.جو سارے افغانستان پر حاوی ہوگی.بالکل آزاد ہو گی کسی دوسری سلطنت کے ماتحت نہ ہوگی ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لئے کوشش کرے گی ، اس کے ہم ایسے ہی خیر خواہ ہوں گے جیسے ان اسلامی حکومتوں کے ہیں جو اپنے ممالک میں مسلمانوں کی ترقی کی کوشش کر رہی ہیں.پس ہمارے آئندہ کے متعلق احساسات یہ ہیں کہ وہاں ایسی حکومت قائم ہو جو بالکل آزاد ہو.وہ نہ انگریزوں کے ماتحت ہو نہ روسیوں کے نہ کسی اور کے ہم اسے بھی پسند نہیں کرتے کہ افغانستان ایک دفعہ کامل آزادی حاصل کرنے کے بعد تھوڑا بہت ہی انگریزوں کے ماتحت ہو ہم اسے اس طرح دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ آزاد ہو.مضبوط ہو ٹکڑے ٹکڑے نہ ہو اور نہ کسی کے ماتحت یا زیر اثر ہو.اگر وہاں ایسی حکومت قائم ہو جائے تو حکمران خواہ کوئی ہو ایسی حکومت اسلام کے لئے مفید ہو گی ہم اسے سخت نا پسند کرتے ہیں کہ افغانستان کے معاملات میں کسی قسم کا دخل دیا جائے اور ہم امید رکھتے ہیں گورنمنٹ اس بات کی احتیاط کرے گی کہ افغانستان کے اندرونی معاملات میں ہرگز مداخلت نہ کی جائے اور جیسے وہ پہلے آزاد تھا ویسے ہی اب بھی رہے.میرے نزدیک مسلمانوں کو صرف اس بات کی ضرورت ہے اور مسلمانوں کی تمام جماعتوں اور انجمنوں کو بالاتفاق پورے زور کے ساتھ یہ اعلان کر دینا چاہئے کہ ہم اسے سخت ناپسند کرتے ہیں کہ افغانستان کے فسادات کے نتیجہ میں کوئی غیر قوم خواہ وہ انگریزی ہوں اس ملک پر کسی قسم کا تصرف کرے افغانستان اسی طرح آزاد ہونا چاہئے جیسے پہلے تھا.تاکہ مسلمانوں کی سیاسی طاقت کو جو پہلے ہی کمزور ہے مزید نقصان نہ پہنچے.مذاہب کانفرنس کلکته ۲۷-۲۸ جنوری ۱۹۲۹ء کو برہمو سماج کے زیر انتظام کلکتہ یونیورسٹی کے سینٹ ہال میں مذاہب کانفرنس منعقد ہوئی.جس میں مولوی دولت احمد خاں بی ایل ایڈیٹر رسالہ " احمدی نے حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے قائم مقام کی حیثیت میں
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 127 خلافت عثمانیہ کا سولہواں سال مضمون پڑھا اور مولوی عبد القادر صاحب ایم.اے مولوی فاضل احمدی پروفیسر اسلامیہ کالج کلکتہ نے بتایا کہ دنیا میں اسلامی اصولوں کی تعلیم و ترویج بین الاقوامی طور پر ہمدردانہ جذبات پیدا کرنے کا موجب ہوگی کیونکہ آنحضرت ﷺ نے غیر مشتبہ الفاظ میں اخوت انسانی کی تعلیم دی ہے.طلبہ میں تقسیم انعامات کا مشترکہ جلسہ لڑکوں اور لڑکیوں میں عملی ذوق و شوق بڑھانے کے لئے ۲۸/ جنوری ۱۹۲۹ء کو تعلیم ان اسلام ہائی سکول قادیان کے ہال میں قادیان کے مرکزی اداروں کا تقسیم انعامات کا مشترکہ جلسہ ہوا جس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی نے خود اپنے ہاتھ سے انعامات تقسیم فرمائے اور تقریر بھی فرمائی جس کے شروع میں فرمایا کہ " جلسہ تقسیم اسناد میرے نزدیک ایک ایسا نکشن ( تقریب) ہے جو سکول کی زندگی کو زیادہ دلچسپ بنانے میں بہت مفید ہو سکتا ہے اور ہم صرف ایک ضرورت کو آج پورا نہیں کر رہے.بلکہ اس ضرورت کو اس کے وقت سے بہت پیچھے پورا کر رہے ہیں“.اس کے بعد حضور نے ہدایت فرمائی کہ " میرے خیال میں یہ ضروری ہے کہ انعاموں کو ہمیشہ طالب علم کے سامنے رکھنے کا انتظام ہونا چاہیئے جب تک انعامات ایک لمبے سلسلے کے ساتھ وابستہ نہ کر دیئے جائیں وہ ایسے دلچسپ اور مفید نہیں ہو سکتے.یہ ایک ضروری بات ہے جسے پورا کرنا ہمارے منتظمین کا فرض ہونا چاہیئے.ٹورنامنٹ کے انعاموں کے متعلق بھی ایسا انتظام ہونا چاہیئے کہ وہ سارا سال ورزش کا شوق دلانے میں محمد ثابت ہو سکیں اور علوم کے انعامات کے متعلق بھی ایسا ہی ہونا چاہیئے اگر زمانہ امتحان میں پڑھائی کا شوق پیدا کیا جائے تو یہ اتنا مفید نہیں ہو سکتا جتنا سار ا سال محنت کرنے کا ہو گا".یہ مرکز احمدیت میں اپنی نوعیت کا پہلا جلسہ تھا.۳۱/ جنوری ۱۹۲۹ء کو پنجاب کے نمائندگان گورنر پنجاب کی خدمت میں ایڈریس جماعت احمدیہ نے گورنر پنجاب کی خدمت میں ایڈریس پیش کیا.جس میں جماعت کی تاریخ اس کی علمی و دینی خدمات اور تعلیمی ترقی پر روشنی ڈالنے کے بعد مسلمانوں کے چھ متفقہ مطالبات پیش کئے اور افغانستان کے سیاسی تغیرات کی نسبت یہ درخواست کی کہ مرکزی حکومت پر زور دیا جائے کہ نہ صرف یہ کہ افغانستان کے متعلق عدم مداخلت کی پالیسی بر قرار رکھی جائے بلکہ جہاں تک ہو سکے اسے کامل آزادی اور خود مختاری حاصل کرنے میں مدد دی جائے.ہز ایکسی لینس گورنر پنجاب نے اس ایڈریس کے جواب میں جماعت احمدیہ کی حیرت انگیز علمی ترقی
تاریخ احمد بیت ، جلدن 128 خلافت ثانیہ کا سولہواں سال کو سراہا اور یقین دلایا کہ آپ کی جماعت کے خیالات پر احتیاط و توجہ کے ساتھ غور کیا جائے گا.افغانستان کے اندرونی خلفشار کی نسبت اس بات کا اظہار کیا کہ گورنمنٹ کی پالیسی انتہا درجہ غیر جانبدارانہ ہے اور رہی ہے اور ہمیں مخلصانہ امید ہے کہ اس ملک کے طول و عرض میں پھر سے امن کا دور دورہ ہو جائے اور ہندوستان کے شمال مغرب میں اس کا ہمسایہ ملک ایک دفعہ پھر ایک مضبوط اور ایک متحدہ ملک بن جائے.مسلم خبر رساں ایجنسی کے قیام کی تحریک "افضل" نے ۱۹/ فروری ۱۹۲۹ء کی اشاعت میں مسلمانان ہند کو توجہ دلائی کہ وہ جلد سے جلد کوئی اپنی خبر رساں ایجنسی قائم کریں اور اس کی ہر طرح حوصلہ افزائی کریں کہ قوموں کی زندگی کے لئے یہ نہایت ضروری چیز ہے - اشاعت لٹریچر سے متعلق حضرت حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ۲۲/ مارچ ۱۹۲۹ء خلیفتہ المسیح الثانی کے اہم ارشادات کو ارشاد فرمایا کہ " یہ زمانہ نشرو اشاعت کا ہے جس ذریعہ سے ہم آج اسلام کی مدد کر سکتے ہیں وہ یہی ہے کہ صحف و کتب کی اشاعت پر خاص زور دیں اگر ہر جماعت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کی ایجنسیاں قائم ہو جائیں تو یقینا بہت فائدہ ہو سکتا ہے ".نیز ہدایت فرمائی کہ عام طور پر ہماری کتابیں گراں ہوتی ہیں اور اس وجہ سے لوگ ان کی اشاعت نہیں کر سکتے.اس کے لئے ایک طرف تو میں نظارت I کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ کتابوں کی قیمتوں پر نظر ثانی کرے اور قیمتیں اس حد پر لے کر آئے کہ ان انجمنوں کو جو ایجنسیاں لیں کافی معاوضہ بھی دیا جا سکے اور نقصان بھی نہ ہو اور دوسری طرف احباب کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ بھی اس بارے میں فرض شناسی کا ثبوت دیں".اس کے علاوہ سلسلہ کے اخبارات کی توسیع کی طرف بھی خاص توجہ دلائی.انجمن احمد یہ دہلی کا آٹھواں سالانہ جلسہ ۲۳ تا ۲۶/ دہلی میں انجمن احمد یہ کا سالانہ جلسہ مارچ ۱۹۲۹ء منعقد ہوا.جس میں حضرت شیخ غلام احمد صاحب واعظ حضرت صوفی غلام محمد صاحب بی.اے ، حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیر مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری وغیرہ علمائے سلسلہ نے تقریریں کیں.اور بابو اعجاز حسین صاحب امیر جماعت احمد یہ دہلی ، چوہدری نعمت خاں صاحب سینئر جج دیلی ، موادی اکبر علی صاحب انسپکٹر آف در کس ریلوے ، خان صاحب برکت علی صاحب امیر جماعت
تاریخ احمدیت جلد ۵ 129 خلافت ثانیہ کا سوله احمدیہ شملہ ، مولوی حاجی حکیم امجد علی صاحب آنریری مجسٹریٹ در کیس دہلی کر تل اوصاف علی خان صاحب کی آئی ای سابق کمانڈر انچیف تا مجھہ اسٹیٹ ، مولوی محمد شفیع صاحب داؤدی ممبر لیجسلیٹو اسمبلی دہلی اور خواجہ حسن نظامی صاحب نے مختلف اجلاسوں میں صدارت فرمائی.اس جلسہ میں خواجہ صاحب نے رائے بہادر لالہ پارس داس رئیس دہلی کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی امام جماعت احمدیہ کی طرف سے سیرت النبی کے مضمون بطور انعام ایک طلائی تمغہ اور گھڑی پیش کی 14 جناح لیگ اور شفیع لیگ کے الحاق کی کوشش اور کامیابی سائمن کمیشن سے بائیکاٹ کے مسئلہ پر مسلم لیگ دو حصوں میں بٹ چکی تھی.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کی نگاہ میں جناب محمد علی صاحب جناح کی سیاسی خدمات کی بہت قدر و منزلت تھی.اس لئے آپ دل سے چاہتے تھے کہ سر شفیع اور جناح میں مفاہمت ہو جائے.چنانچہ حضور نے ڈاکٹر سر محمد اقبال (سیکرٹری شفیع لیگ) اور جناب محمد علی جناح دونوں کو خطوط لکھے.جن کا ذکر ان ہر دو اصحاب نے بعض مجالس میں بھی کیا اور مصالحت کی امید پیدا ہو گئی شروع مارچ ۱۹۲۹ء کو سر محمد شفیع اور جناب محمد علی صاحب جناح کی ملاقات ہوئی.اس وقت جماعت احمدیہ کے نمائندہ کی حیثیت سے حضرت مفتی محمد صادق صاحب ( ناظر امور خارجہ ) بھی موجود تھے.دونوں لیڈر گفت و شنید کے بعد باہمی اتحاد پر آمادہ ہو گئے اور ۲۸-۲۹-۳۰ / مارچ کا اجلاس مسلم لیگ دہلی میں قرار پایا.اس اجلاس کے دعوتی خطوط II حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں بھی بھیجے گئے کہ آپ بھی تشریف لائیں.مسلمانوں کے درمیان مصالحت کے لئے سعی فرمائیں.حضور خود تو مجلس مشاورت کی وجہ سے تشریف نہ لے جاسکے اس لئے حضور نے اپنی طرف سے حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو دہلی بھیجا علاوہ ازیں بہار سے حکیم خلیل احمد صاحب سونگھیری بھی آگئے.حضرت مفتی صاحب مصالحت میں کامیابی کے بہت پر امید تھے.اور انہوں نے اس کے لئے ہر ممکن کوشش کی.مگر سر محمد شفیع تو بیماری کی وجہ سے نہ آسکے اور ان کے رفقاء لیت و لعل میں رہے جناح صاحب نے ہر طرح کوشش کی کہ شفیع لیگ کے تمام اصحاب لیگ میں شامل کر لئے جائیں.مگر لیگ کے ممبروں نے ان کی سخت مخالفت کی اور مسٹر جناح کی کوئی اپیل قبول نہ کی.مسلم لیگ کے اس اجلاس میں سبجیکٹ کمیٹی کے سامنے تین ریزولیوشن پیش ہوئے ایک مسودہ جناح صاحب کا تیار کیا ہوا تھا.جس میں نہرو رپورٹ رد کر دی گئی تھی یہ ریزولیوشن راجہ غضنفر علی صاحب نے پیش کیا اور حضرت مفتی محمد صادق
130 صاحب نے اس کی تائید کی.دوسرا اور تیسرا مسودہ غازی عبد الرحمن صاحب نے اور شیردانی صاحب نے پیش کیا.موخر الذکر واپس لے لیا گیا دونوں مسودے سبجیکٹ کمیٹی میں پاس ہو کر کھلے احباب اس میں پیش ہونے والے تھے کہ ڈاکٹر عالم صاحب کی صدارت پر زبردست ہنگامہ بپا ہو گیا.اس اثناء میں مسٹر جناح بھی تشریف لے آئے اور انہوں نے کار روائی بند کرادی اور مسلم لیگ کا اجلاس کوئی ریزولیوشن پاس ہوئے بغیر ملتوی ہو گیا.لیکن حضرت مفتی صاحب نے اپنی کوششیں برابر جاری رکھیں.جو باز آخر بار آور ہو سکیں.چنانچه ۲۸/ فروری ۱۹۳۰ء کو مسٹر جناح کی زیر صدارت مسلم لیگ کو نسل کا اہم اجلاس دہلی میں منعقد ہوا.لیگ کی دونوں شانوں کے پچاس سے زیادہ اصحاب شریک اجلاس تھے.سر شفیع بھی موجود تھے اور تالیوں کی گونج میں اعلان کیا کیا کہ لیگ کی دونوں شاخوں کو ملا دیا گیا ہے.اس کے بعد مسٹر جناح ور سر شفیع ایک دوسرے سے بغل گیر ہوئے.اور دونوں مسلم لیگیں ایک ہو گئیں.- نظارت امور خارجہ قادیان کی مطبوعہ رپورٹ ۳۰-۱۹۲۹ء میں اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ "دہلی کی آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں اس سال آخری جلسہ میں ہر دو مسلم پارٹیوں کی مصالحت ہوئی جو مدت بعد عمل میں آئی اور اس مصالحت کے کرانے میں ہماری طرف سے بہت کوشش ہوتی رہی فالحمد للہ امید ہے کہ اب انشاء اللہ سب مسلمان مل کر اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے سر بکھٹ ہو سکیں گے ".سلسلہ احمدیہ کے ترجمان اخبار الفضل " نے اس خبر پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ادارتی نوٹ میں لکھا." یہ نہایت افسوسناک بات تھی کہ مسلمانوں کی واحد سیاسی انجمن مسلم لیگ میں بھی اختلاف پیدا ہو گیا تھا....یہ صورت دردمندان قوم کے لئے بے حد تکلیف دہ تھی....اور وہ دونوں کو متحد دیکھنے کے آرزو مند تھے.حال میں مسلم لیگ کے اجلاس کا ایجنڈا جب ہمیں بغرض اشاعت موصول ہوا تو ہم نے اسے شائع کرتے ہوئے ذمہ دار ارکان کو متحد ہونے کی ضرورت بتاتے ہوئے لکھا تھا کہ سب سے اول اتحاد پیدا کرنا چاہیئے اور پھر مل کر اسلامی حقوق کی حفاظت میں لگ جانا چاہئے".(الفضل ۴/ فروری) اب ہمیں یہ معلوم ہو کر بہت خوشی ہوئی کہ ہماری یہ خواہش بر آئی.اب لیگ کا فرض ہے کہ پوری طرح مسلم حقوق کی حفاظت میں لگ جائے اور پوری کوشش و جد وجہد سے مسلم لیگ کو اس مقام پر لے آئے کہ وہ صحیح معنوں میں مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی کا حق ادا کر سکے.مسلم لیگ نے بہت وقت غفلت اور اندرونی کشمکش میں کھو دیا ہے اسے نہ صرف گزشتہ کو تاہیوں کی تلافی
131 کرنی چاہئے بلکہ آئندہ پوری تندہی سے کام کرنا چاہئے.AZ خلافت مانید که راجپال کا قتل اور اسمبلی میں بم کا واقعہ ایسے وقت میں جبکہ ملک میں کانگریس کی سیاسی تحریک زوروں پر تھی اپریل ۱۹۲۹ء کے شروع میں دو نہایت اہم واقعات رونما ہوئے جنہوں نے ملکی فضا پر بہت ناگوار اثر ڈالا.پہلا واقعہ کتاب ”رنگیلا رسول" کے دریدہ دہن اور بد باطن مصنف "راجپال " کا قتل تھا.جو پچیس چھبیس سال کے ایک پر جوش مسلمان نوجوان علم الدین کے ہاتھوں ۶/ اپریل کو لاہور میں ہوا - مسلمان علماء نے جن میں مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری بھی شامل تھے.اس قتل پر اظہار بیزاری کیا اور کہا کہ راجپال کا قتل شرع اسلام کی رو سے ناجائز ہے اور ملک کی سیاسی حالت کے لئے سخت مصر ہے اور اگر کسی مسلمان نے ایسا کیا ہے تو اس فعل کا وہ خود ذمہ دار ہے لیکن آریہ اخباروں نے مسلمانوں پر یہ الزام لگایا کہ ” حالات بتلا رہے ہیں کہ ملک میں ایک سرے سے لے کر دو سرے سرے تک یہ سازش پھیلی ہوئی ہے ".ایک آریہ مقرر نے دہلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا.یہ قلمی جنگ ہے جو شخص حجت اور دلائل سے گزر کر اس قسم کی باتوں پر اتر آتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے مذہب میں تحریر و دلائل کی طاقت نہیں لیکن میں نہیں سمجھتا کہ اسلام کا اس قدر دیوالہ نکل چکا ہے ".دوسرا واقعہ ۱/۸ اپریل کو نئی دہلی میں ہوا.جبکہ لیجسلیٹو اسمبلی کے کونسل چیمبر میں جب سپیکر (صد را سمبلی) رولنگ دینے کے لئے کھڑا ہوا تو گیلری سے سرکاری بنچوں پر دو بم پھینکے گئے - حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ۱۲/ اپریل ۱۹۲۹ء کے خطبہ جمعہ میں ان ہر دو واقعات کے پس پردہ اسباب و عوامل پر قرآنی نقطہ نگاہ سے روشنی ڈالی اور بتایا کہ." قرآن کریم میں اللہ تعالٰی نے کامیابی کے راستہ میں جو روکیں ہوتی ہیں.ان کے متعلق ایک کر بتایا ہے اور وہ گر یہ ہے کہ ناکام رہنے والے لوگوں کی ناکامی کا سبب يحبون العاجلة ويذرون ور آنهم يوما ثقیلا ہوتا ہے.وہ نہا.تم ہی محدود نگاہ سے معاملات کو دیکھتے ہیں قریب ترین نتائج ان کے نزدیک محبوب ہوتے ہیں اور حقیقی اور اصلی غیر متبدل اور دائمی اثرات و نتائج ان کے پیش نظر نہیں ہوتے.دنیا میں جس قدر لڑائیاں، فسادات اور جھگڑے پیدا ہوتے ہیں.اگر ان کے اسباب پر غور کیا جائے تو ننانوے فیصدی ایسے نکلیں گے جن کا سبب فریقین میں سے کسی نہ کسی کا یا دونوں کا بغیر کافی غورد فکر کے جلدی سے کسی نتیجہ پر پہنچ جانا اور ایک عاجل نتیجہ پیدا کرنے کی کوشش کرنا ہو گا اگر انسان اپنے جو شوں کو دبائے رکھے اور اگر وہ یہ دیکھے کہ میرے اعمال کا نتیجہ کیا نکلے گا.تو بہت سی لڑائیاں دور ہو جا ئیں بہت سے جھگڑے بند ہو جا ئیں اور بہت سے فسادات مٹ جائیں میں دیکھتا ہوں ہندوستان میں
تاریخ احمدیت جلد ۵ 132 اس وقت متواتر کئی سال سے فساد شروع ہے قوموں میں اختلاف ہے مذہب میں تفرقہ ہے حکومت اور رعایا میں کشمکش جاری ہے ان سب کی وجہ یحبون العاجلة ويذرون ور آنهم يوما ثقيلاي ہے عاجل نتیجہ کو لوگ پسند کر رہے ہیں اور ایک بھاری آنے والے دن کو نظر انداز کر رہے ہیں".قیام امن کے اس سنہری اصول کی روشنی میں حضور نے حکومت اور رعایا دونوں کو قصور وار ٹھہرایا حکومت کو بتایا کہ."" حکام گورنمنٹ ابھی تک اسی پرانے اثر کے ماتحت ہیں جبکہ ہندوستان میں ہندوستانیوں کی آواز کوئی حقیقت نہیں رکھتی تھی وہ ابھی اسی خیال میں ہیں کہ ہمیں خدائی قدرت حاصل ہے جس چیز کو ہم درست سمجھیں نہ صرف یہ کہ اسے درست سمجھا جائے بلکہ واقعہ میں وہ درست ہی ہے اور جسے ہم غلط سمجھیں نہ صرف یہ کہ اسے غلط سمجھا جائے بلکہ فی الواقعہ وہ غلط ہی ہے.....بسا اوقات ان کا لہجہ ایسا ہتک آمیز ہوتا ہے کہ ایک آزاد خیال انسان کے دل میں اس کی قومی عزت کا جوش ابال مارتا ہے اور وہ فور امقابلہ کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے.ہندوستانیوں میں اس وقت ایک روپیدا ہو رہی ہے.اور ہندوستانی برابری کے مدعی ہیں.وہ قوم کے اعزاز اور وقار کو محسوس کرنے لگ گئے ہیں.وہ سمجھنے لگے ہیں کہ ہم بھیٹر بکریاں نہیں کہ ریوڑ کی طرح جدھر چاہے ہانک دیا جائے ہم بچے نہیں کہ ہماری نگرانی کی جائے وہ اپنے ملک میں ملکی علوم ملکی تہذیب اور ملکی تمدن کو جاری کرنا چاہتے ہیں پس ان حالات میں اگر انگلستان ہندوستان پر حکومت کرنا چاہتا ہے تو اس کے افسروں کو اپنے رویہ میں تبدیلی کرنی پڑے گی کوئی ملک خواہ وہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو جب اس میں آزادی کا احساس پیدا ہو جاتا ہے.تو وہ یقیناً آزادی حاصل کر کے رہتا ہے.دنیا کی تاریخ میں کوئی ایک بھی ایسی مثال ایسی نہیں ملتی کی کوئی چھوٹے سے چھوٹا ملک جس کی آبادی خواہ چند ہزار ہی ہو ہمیشہ کے لئے کسی کا غلام رہا ہو.پھر یہ ہندوستان کے ۳۳ کرو ڑ انسان کہاں ہمیشہ کے لئے غلامی میں رہ سکتے ہیں"." ہندوستان کے سیاسی لیڈروں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا.دوسری طرف میں دیکھتا ہوں کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن میں ملک کی آزادی کا جوش ہے.میں اس کی بہت قدر کرتا ہوں اور آزادی و حریت کا جوش جو میرے اندر ہے میں سمجھتا ہوں اگر احمدیت اسے اپنے رنگ میں نہ ڈھال دیتی.تو میں بھی ملک کی آزادی کے لئے کام کرنے والے انہی لوگوں میں سے ہو تا لیکن خدا کے دین نے ہمیں بتا دیا کہ عاجلہ کو مد نظر نہیں رکھنا چاہئے میں ان لوگوں کی کوششوں کو پسند کرتا ہوں مگر بعض دفعہ وہ ایسا رنگ اختیار کر لیتی ہیں کہ انگریزوں کو نقصان پہنچانے کے خیال میں وہ اپنی قوم کے اخلاق اور اس روح کو جو حکومت کے لئے ضروری ہوتی ہے تباہ کر دیتی
133 خلافت ثانیہ کا.ہے ایسے بہت خطرناک ہوتے ہیں گورنمنٹ کی خوشامد کرنے والا بے شک غدار ہو سکتا ہے لیکن اس کی غداری اس کے اپنے نفس کے لئے ہوتی ہے.جو شخص کسی عہدہ یا دنیاوی مطلب کے حاصل کرنے کے لئے گورنمنٹ کی خوشامد کرتا ہے وہ بے شک غدار ہے لیکن جو شخص ملک کے اخلاق کو برباد کرتا اور بگاڑ تا ہے وہ اس سے بڑھ کر غدار ہے پہلے شخص کی غداری کا اثر اس کی اپنی ذات پر ہوتا ہے لیکن دوسرے کی غداری تمام قوم کے لئے تباہی کا موجب ہوتی ہے "." قتل راجپال کے سلسلہ میں حضور نے مسلمانوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ.وہ عاجل باتوں کی طرف نہ جائیں مسلمانوں کو یا د رکھنا چاہئے کہ چاند پر تھوکنے سے اپنے ہی منہ پر آکر تھوک پڑتا ہے.مخالف خواہ کتنی ہی کوشش کریں.محمد رسول اللہ ا کے نور کو گر دو غبار سے نہیں چھپا سکتے اس نور کی شعاعیں دور دور پھیل رہی ہیں تم یہ مت خیال کرو کہ کسی کے چھپانے سے یہ چھپ سکے گا.ایک دنیا اس کی معتقد ہو رہی ہے پادریوں کی بڑی بڑی سوسائٹیوں نے اعتراف کیا ہے کہ ہمیں سب سے زیادہ خطرہ اسلام سے ہے کیونکہ اسلام کی سوشل تعلیم کی خوبیوں کے مقابلہ میں اور کوئی مذہب نہیں ٹھر سکتا.اسلام کا تمدن یورپ کو کھائے چلا جا رہا ہے اور بڑے بڑے متعصب اسلام کی طرف مائل ہو رہے ہیں جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ اسلام کو گالی دینے سے اسلام کی ہتک ہو گی وہ اگر عیسائی ہے تو عیسائی مذہب کا دشمن ہے اگر سکھ ہے تو سکھ مذہب کا دشمن ہے اور اگر ہندو ہے تو ہندو دھرم کادشمن ہتک تو دراصل گالی دینے والے کی ہوتی ہے جسے گالی دی جائے اس کی کیا بہتک ہو گی.ہتک تو اخلاق کی بناء پر ہوتی ہے اگر کوئی شخص مجھے گالیاں دیتا ہے تو وہ اپنی بد اخلاقی کا اظہار کرتا ہے.اور اس طرح خود اپنی ہتک کرتا ہے.میں گالیاں سنتا ہوں اور برداشت کرتا ہوں تو اپنے بلند اخلاق کا اظہار کرتا ہوں جو میری عزت ہے.وہ مذہبی لیڈر جنہوں نے قوموں کی ترقی کے لئے کام کیا خواہ کسی بڑے طبقہ میں یا ایک بہت ہی محدود طبقہ میں کیا ہو وہ قابل عزت ہیں اور انسانی فطرت کا تقاضا یہی ہے کہ ان کی عزت کی جائے جو قوم ایسا نہ کرنے والوں کی مدد کرتی ہے وہ خود اپنی تباہی کا سامان پیدا کرتی ہے.اسی طرح وہ لوگ جو قانون کو ہاتھ میں لیتے ہیں.وہ بھی مجرم ہیں.اور اپنی قوم کے دشمن ہیں اور جو ان کی پیٹھ ٹھر نکتا ہے وہ بھی قوم کا دشمن ہے.میرے نزدیک تو اگر یہی شخص قاتل ہے تو اس کا سب سے بڑا خیر خواہ وہی ہو سکتا ہے جو اس کے پاس جائے اور اسے سمجھائے کہ دنیاوی سزا تو تمہیں اب ملے گی ہی لیکن قبل اس کے کہ وہ ملے تمہیں چاہئے کہ خدا سے صلح کر لو اس کی خیر خواہی اسی میں ہے کہ اسے بتایا جائے تم سے غلطی ہوئی ہم تمہارے جرم کو تو کم نہیں کر سکتے لیکن بوجہ اس کے کہ تم ہمارے بھائی ہو تمہیں مشورہ دیتے ہیں کہ تو بہ کرو - گریہ و زاری کرد.خدا کے حضور گڑ گڑاؤ - یہ
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 134 خلافت ثمانیہ کا سولہواں سال احساس ہے جو اگر اس کے اندر پیدا ہو جائے تو وہ خدا کی سزا سے بچ سکتا ہے اور اصل سزاد ہی ہے “.حضور نے حکومت عوام اور مسلمانوں کو قیمتی مشورے دینے کے علاوہ ہندو اور مسلمان دونوں سے اپیل کی کہ ایک دو سرے کے بزرگوں کا احترام کریں کہ یہی طریق قیام امن کا موجب ہو سکتا ہے
تاری احمدیت.جلد ۵ دو سرا باب (فصل دوم) 135 خلافت ثانیہ کا سولہواں سال جلسہ سیرت النبی او رالفضل کا خاتم النیسین نمبر ۱۲ جون ۱۹۲۹ء پچھلے سال کی " طرح اندرون اور بیرون ملک میں جماعت احمدیہ کے زیر انتظام وسیع پیمانے پر سیرت النبی کے جلسے منعقد ہوئے.جو شان و شوکت میں آپ ہی اپنی نظیر تھے اس سال آنحضرت ا کی مقدس زندگی کے مندرجہ ذیل پہلوؤں پر بالخصوص روشنی ڈالی گئی.-I رسول کریم ﷺ کا غیر مذاہب سے معاملہ بلحاظ تعلیم اور تعامل.توحید باری تعالیٰ پر رسول کریم ﷺ کی تعلیم اور زور لکھا.پچھلے سال کے جلسوں نے مسلمانوں میں اس کی عظمت و اہمیت کا سکہ بٹھا دیا تھا اس لئے اس دفعہ اسلامی پریس نے اس تقریب کے آنے سے کئی روز پہلے ہی اس کو کامیاب بنانے کی مہم شروع کر دی.چنانچہ خواجہ حسن نظامی صاحب نے اپنے اخبار ” منادی (۲۴/ مئی ۱۹۲۹ء) میں "ربیع الاول کے جشن خالص مذہبی تقریب کی صورت میں ہوتے ہیں.مگر دو سری جون کے جلسے اس طرز کے ہوں گے جن میں عیسائی اور ہندو وغیرہ وغیرہ بھی شریک ہو سکیں اور سیرت پاک رسول مقبول ال کو سن کر اپنے ان خیالات کی اصلاح کر سکیں جو غلط پر اپیگنڈا نے غیر مسلمین کے دلوں میں جما دیئے ہیں.لہذا میرے تمام رفیقوں اور مریدوں کو ان جلسوں کی تیاری و تعمیل میں پوری جد و جہد کرنی چاہئے ".اخبار "محسن" لمتان (۲۳/ مئی ۱۹۲۹ء) نے لکھا.یہ امر قابل صد ہزار متائش ہے کہ سلسلہ احمدیہ کے امام صاحب نے اس مبارک تقریب کو کامیاب بنانے کے لئے ہر مذ ہب وملت کے پیروؤں کو مدعو کیا ہے.ظاہر بین نظریں اس کی تہہ کو نہیں پہنچ سکتیں.لیکن اگر بنظر امعان دیکھا جائے تو اس کی تہہ میں ایک بہت بڑا اسلامی تبلیغی راز مضمر ہے " اخبار " پیغام عمل " فیروزپور (۲۴/ مئی ۱۹۲۹ء) نے لکھا.ہم مسلمانوں کو خصوصاد دیگر انصاف پسند اصحاب کی خدمت میں عموماً نہایت ادب و نیاز سے
تاریخ احمد 136 خلافت ثانیہ کا گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ اگر آپ فی الواقعہ ان ہر دو قوموں (مسلم و ہندو - ناقل) کے مابین صلح و آشتی چاہتے ہیں نیز دنیا کے ہادیان دین کی عزت و احترام کو اپنا فرض اولین یقین کرتے ہیں تو آؤ حضرت امام جماعت احمدیہ کی اس مبارک تحریک پر لبیک کہتے ہوئے اس کو ہر ممکن سے ممکن طریق سے کامیاب بنانے کی سعی کریں ".اخبار "مسلم راجپوت " نے ۱۵ مئی ۱۹۲۹ء کی اشاعت میں لکھا.عہد حاضرہ میں ترقی اسلام کا یہ سب سے بڑا گر ہے کہ حضور سرور عالم کے اقوال و اعمال کو صحیح رنگ میں دنیا کے سامنے پیش کیا جائے اور ہماری رائے میں اہل قادیان کی یہ تحریک نہایت مبارک اور ہر اعتبار سے لائق تائید ہے اور تمام ان مسلمانوں کو جو حقیقت میں دین الفطرت کے چمن کو سرسبز اور شاداب دیکھنا چاہتے ہیں نہ صرف ان جلسوں کی تائید کرنی چاہئے بلکہ ان میں عملی حصہ لینا چاہئے.کوئی شخص ایسے جلسوں کی جس میں پیغمبر اسلام (ال سی کی پاک زندگی کے حالات بیان کئے جائیں مخالفت کرے اور اس پر حمایت و تائید اسلام کا دم بھرے یہ دونوں باتیں ایک دوسرے کی ضد ہیں بد قسمتی سے مسلمانوں میں ایک ایسی جماعت پیدا ہو گئی ہے جو اس نیک تحریک کی مخالفت کو بھی اپنا ایمان سمجھتی ہے.اس جماعت کو سب سے بڑے دو اعتراض ہیں.(۱) حضرات قادیان اس میں اپنے مخصوص فرقہ وارانہ خیالات کی اشاعت کرتے ہیں اور (۲) وہ اپنے اغراض کی اشاعت کے لئے دوسرے مسلمانوں سے روپیہ وصول کرتے ہیں لیکن گزشتہ سال کے جلسوں پر اس قسم کی کوئی بات دیکھنے میں نہیں آئی جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ ہر دو الزامات غلط ہیں اور محض ایک مفید کام میں رکاوٹ ڈالنے کے لئے وضع کئے گئے ہیں مسلمانوں کو چاہئے کہ ان خواہ مخواہ کے مخالفین کی باتوں پر کان نہ دھریں ".اخبار " مشرق "گورکھپور (۱۹ مئی ۱۹۲۹ء) نے لکھا.مسلمانوں میں احمدی جماعت جس خلوص کے ساتھ قومی خدمات انجام دے رہی ہے دوسری جماعتیں اس خلوص کے ساتھ یہ خدمات انجام نہیں دیتیں.ہم کو اس کا اعتراف ہے یہ احمدی وہی لوگ ہیں جن کو کمزور سمجھ کر دوسرے مسلمان اپنی قوت کے زور پر سنگسار کراتے ہیں افسوس معلوم نہیں لا اکراہ فی الدین کے عامل اس قسم کے جبرو تشدد اور عقیدہ پرستی کہاں سے سیکھ کر آئے ہیں اس ہی احمدی جماعت کے مخلص ممبروں نے پچھلے سال میں اپنی محنت اور خلوص سے آنحضرت کے مقدس حالات جو غیر مسلموں میں تاریکی کے اندر پڑے ہیں خود غیر مسلموں سے پلیٹ فارموں پر بلا کر ظاہر کرائے ہیں اس ہی جماعت کے اراکین کی جدوجہد سے امسال پھر ۲ / جون ۱۹۲۹ء
تاریخ احمد بیت - جلد ۵ 137 خلافت تانیہ کا سولہواں سال کو حضور کے حالات ملک کے گوشتہ گوشتہ میں بیان کئے جائیں گے.اخبار ” ہمت " لکھنو (۳/ مئی ۱۹۲۹ء) نے لکھا." " جناب امام جماعت احمدیہ کی یہ مبارک تجویز بے حد مقبول ہو رہی ہے کہ مختلف اور مخصوص مقامات پر اس طرح کے جلسے منعقد کئے جائیں جن میں مسلمانوں کے تمام فرقوں کے علماء اور لیکچرار بالاتفاق سیرت نبوی پر اظہار خیالات فرما ئیں اور ان جلسوں میں دوسرے فرقوں کے افراد کو بھی شرکت کی دعوت اور ان کی نشست وغیرہ کا انتظام کیا جائے جماعت احمدیہ کی سنجیدہ اور ٹھوس تبلیغی سرگرمیاں ہر حیثیت سے مستحق مبارکباد ہیں اور ہمارے نزدیک مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اس نهایت مفید اور اہم تجویز کو عملی جامہ پہنانے کے لئے پوری سعی سے کام لیں "." حکیم مولوی امجد علی صاحب آنریری مجسٹریٹ اور کیس دہلی نے کہا.ایسے نازک وقت میں جبکہ ہندوستان میں چاروں طرف آگ لگی ہوئی تھی حضرت امام جماعت احمدیہ نے ان پاک جلسوں کی بنیاد رکھ کر ہم پر بڑا احسان کیا اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ خدا تعالی کی طرف سے ایک الہامی تحریک تھی.اسلامی پریس نے امسال بھی ان جلسوں پر مفصل تبصرہ کیا اور ان کی افادیت کا اقرار کیا.چنانچہ "انقلاب" (لاہور) "کشمیری گزٹ " (لاہور) "مدینہ" (بجنور) "تعمیر" ( فیض آباد) "محسن" (ملتان) "سیاست" (لاہور) " صحیفہ " (حیدر آباد دکن) "حقیقت" " ہمدم " " ہمت " (لکھنو) اور بنگال کے " متعدد انگریزی، اردو بنگالی اخبارات کے علاوہ بیرونی ممالک میں "ڈیلی نیوز" شکاگو اور افریقہ کے متعدد اخبارات نے اپنے اپنے رنگ میں اس تحریک کی پر زور تائید کی اور بعض نے جلسوں کی روئیدادیں بھی شائع کیں.اس کے مقابل سیرت النبی کے جلسوں کی سب سے زیادہ مخالفت اخبار "زمیندار" کے ایڈیٹر مولوی ظفر علی خاں کی طرف سے کی گئی جس کی وجہ سے ملتان، فیض آباد انبالہ لاہور اور پشاور وغیرہ مقامات میں افسوسناک صورتحال پیدا ہوئی.غیر جانبدار اسلامی پریس مثلاً اخبار "تعمیر فیض آباد (۴/ جون ۱۹۲۹ء) اخبار "محسن ملمان (۶ / جون ۱۹۲۹ء) اور اخبار "سیاست" لاہور (۸/ جون ۱۹۲۹ء) نے اس پر زبر دست تنقید کی چنانچہ موخر الذکر اخبار نے خصوصاً پشاور کے مخالفین کے متعلق لکھا." سب سے زیادہ اندوہناک مداخلت پشاور میں رونما ہوئی.پشاور لاہور سے بہت دور ہے اور وہاں کے نوجوان اس حقیقت سے آگاہ نہیں کہ گدائے لم یزل کی مخالفت و موافقت کبھی بھی نی سبیل اللہ نہیں ہوئی.انہوں نے اس کی شریرانہ تحریروں سے متاثر ہو کر جلسہ میں گدھے چھوڑ
جلده 138 خلافت ثانیه دیئے اور اس طرح پشاور کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ لگا یا نہیں نہیں صرف یہی نہیں بلکہ انہوں نے اپنے ہادی و رہنما فداہ ابی) کی یاد کے جلسے کو برباد کر کے اپنے نامہ اعمال کو سیاہ کر دیا اور مخالفین کو یہ کہنے کا موقعہ دیا کہ مسلمان بچے دل سے رسول اللہ اللہ کی قدر نہیں کرتے.ہمیں یقین ہے کہ اس شرارت کے ذمہ دار چند جاہل لونڈے ہوں گے ہماری دعا ہے کہ خداوند کریم انہیں تو بہ کی توفیق عطا فرمائے.گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی " الفضل " نے ۳۱ / مئی ۱۹۲۹ء کو شاندار خاتم النیسین نمبر شائع کیا.جس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے علاوہ جماعت احمدیہ کے مشہور اور جید علماء و فضلا ( اور احمدی (خواتین) نے مضمون لکھے.غیر احمدی مضمون نگاروں میں سے مولوی محمد یعقوب صاحب ڈپٹی پریذیڈنٹ لیجسلیٹو اسمبلی دہلی ، سید حبیب صاحب ایڈیٹر روزنامه "سیاست" لاہور، ملار موزی صاحب، خواجہ حسن نظامی صاحب دہلی اور غیر مسلم مضمون نگاروں میں سے لالہ رام چند صاحب منچندہ بی.اے.ایل ایل بی وکیل لاہور، پنڈت ٹھا کر دت صاحب شرما موجد امرت دھارا لالہ جگن ناتھ صاحب بی اے.ایل ایل بی وکیل کبیر والہ (ضلع ملتان) پروفیسر ایچ.ہی.کمار صاحب بی.اے اور پادری غلام مسیح صاحب لاہور خاص طور پر قابل ذکر تھے.اس نمبر کی اہم خصوصیت یہ تھی کہ احمدی غیر احمدی اور غیر مسلم شعراء نے اپنا نعتیہ کلام اس کے لئے بھیجا تھا.مثلاً حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہ جہان پوری ، ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب حضرت میر محمد اسمعیل صاحب حضرت مولوی ذوالفقار علی صاحب جناب حکیم سید علی صاحب آشفته لکھنوی، لسان الملک ریاض خیر آبادی لسان الهند مرزا محمد ہادی عزیز لکھنوی، منشی لچھمن نرائن صاحب سنہائی.اے لسان القوم صفی لکھنوی اعتبار الملک حکیم مولوی ضمیر حسن خان صاحب دل شاہجہانپوری.الفضل کے اس خصوصی نمبر پر غیر مسلم اور مسلم دونوں حلقوں نے عمدہ آراء کا اظہار کیا..چنانچہ لالہ رام چند صاحب منچندہ بی اے ایل ایل بی.ایڈووکیٹ لاہو ر نے لکھا.” میں نے اہل قلم کے قیمتی مضامین کو جو تمام کے تمام حضرت رسول اللہ کی پاک ذات اور سوانح عمری کے متعلق ہیں نہایت ہی مسرت اور دلچسپی سے پڑھا....اگر استقلال کے ساتھ اس کو جاری رکھا گیا تو آج سے تیس سال بعد کئی ہندو گھرانوں میں پیغمبر صاحب کی برسی منائی جائے گی.اور جو کام مسلم بادشاہ ہندوؤں سے نہیں کرا سکے وہ آپ کرا سکیں گے ، ملک میں امن ہو گا خوشحالی ہو گی ترقی اور آزادی ہوگی اور ہندو مسلم باوجود اختلافات کے بھائیوں کی طرح رہیں
تاریخ احمدیت جلده گے".139 خلافت ماشیہ کا سولہواں سال اخبار "کشمیری لا ہور (۱۴ / جون ۱۹۲۹ء) نے لکھا."الفضل کے خاتم النیسین نمبر کی کئی دنوں سے دھوم تھی آخر ۳۱/ مئی کو یہ نمبر دیدہ زیب جاذب توجہ شکل اور صوری و معنوی خوبیوں کے ساتھ شائع ہو گیا".الخ.اخبار "سیاست" (۱۶/ جون ۱۹۲۹ء) لاہور نے لکھا.یہ نمبر ہماری نظر سے گزرا ہے اس میں ملک کے بہترین انشاء پردازوں کے قلم سے اسوہ حسنہ رسول پاک کے متعلق مضامین موجود ہیں.ہر مضمون اس قابل ہے کہ موتیوں سے تو لا جائے " -۴- اخبار " منادی " (دہلی) (۲۱/ جون ۱۹۲۹ء) نے لکھا.اس سال بھی اخبار الفضل کا خاتم النسین نمبر نہایت قابلیت اور عرقریزی سے مرتب کیا گیا...جس کے مطالعہ سے گوناگوں معلومات کے حصول کے علاوہ ایمان بھی تازہ ہو تا ہے ہمارے نزدیک اس اخبار کا یہ نمبر اس قابل ہے کہ ہر مسلمان اس کا مطالعہ کرے ؟ ۴۹ جون ۱۹۲۹ء کے شروع میں ابوالاثر ابو الاثر حفیظ صاحب جالندھری قادیان میں حفیظ صاحب جالندھری قادیان تشریف لائے.ان کی آمد پر تعلیم الاسلام ہائی سکول کی گراؤنڈ میں ایک مجلس مشاعرہ منعقد ہوئی جس میں دوسرے اصحاب کے علاوہ ابو الاثر حفیظ صاحب جالندھری نے جو ابھی نوجوان ہی تھے اور شاہنامہ اسلام " کی اشاعت کے لئے کوشاں تھے." شاہنامہ اسلام" کے بعض حصے اپنی مخصوص طرز میں پڑھ کر سنائے اس مجلس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے بھی شمولیت فرمائی.حفیظ صاحب نے "شاہنامہ اسلام" کی اشاعت سے پہلے اس کے بعض حصے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو بھی دکھائے تھے اور حضور کے ارشاد پر بک ڈپو تالیف و اشاعت قادیان نے اس کی سو کاپیاں پیشگی قیمت پر خریدی تھیں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا سفر کشمیر ۱۹۲۹ء کا نہایت اہم اور قابل ذکر واقعہ حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کا سفر کشمیر ہے جو ۵ / جون ۱۹۲۹ء سے شروع ہو کر ۳۰ / ستمبر ۱۹۲۹ء کو ختم ہوا.حضور کے اہل بیت و صاحبزادگان کے ۱۵۳ ملاوہ حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب ہلالپوری، حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب در دایم.اے حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب اور مولوی قمر الدین صاحب بھی رفیق سفر تھے.آخر میں حضرت
تاریخ احمدیت جلد ۵ 140 خلافت عثمانیہ کا سولہواں صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب بھی سری مگر تشریف لے گئے.سری نگر میں حضور نے ہاؤس بوٹ میں قیام فرمایا.اس سفر کی (جو کشمیر کا اس وقت تک آخری سفر ہے ) نمایاں ترین خصوصیت یہ تھی کہ حضور نے دوران قیام میں ریاست کشمیر و جموں کی جماعت احمدیہ اور دوسرے مسلمانوں کو اپنی تقریروں اور خطبوں میں ایمان کے ساتھ عمل صالح اختیار کرنے کی طرف بار بار توجہ دلائی اور مختلف طریقوں اور پیرایوں سے ان کو اخلاقی، ذہنی اور روحانی تغیر پیدا کرنے کی انقلاب انگیز دعوت دی اور خصوصاً کشمیری احمد نیوں کو ان کی تنظیمی اور تبلیغی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ فرمایا.اس سلسلہ میں حضور کے خطبات و تقاریر کے بعض اقتباسات درج ذیل کئے جاتے ہیں.یہاں کی جماعت تنظیم کی طرف توجہ نہیں کرتی.اگر وہ منظم جماعت کی صورت میں ہو اور تبلیغی کوششوں میں لگ جائے تو ریاست میں اچھا اثر پڑے.اس علاقہ میں جماعتیں تو موجود ہیں اور اچھی جماعتیں ہیں مگر چونکہ ان کی کوئی تنظیم نہیں اس لئے علاقہ پر اثر نہیں پڑتا.اگر ایسا ہو جائے تو مسلمان ترقی کر سکتے ہیں".(فرمودہ ۲۷/ جون ۱۹۲۹ء) ( بمقام سرینگر ( ۲ - " صحیح طریق یہ ہے کہ انسان ایمان کے ساتھ اعمال صالحہ اور اخلاق حسنہ حاصل کرنے کی کوشش کرے اور جس قدر کسی کی طاقت ہو.اس قدر کرے اس سے وہ اپنی حالت میں ایک پورا درخت ہو جائے گا جو کم و بیش دوسروں کے لئے فائدہ کا موجب ہو گا اس کے اندر حسن سلوک کی عادت احسان کرنے کا مادہ ہو ، لوگوں کی مدد کرنے اور بھلائی کرنے کی عادت ہو الغرض تمام قسم کی نیکیاں کم و بیش اس کے اندر ہوں......تب ہی اس کے اندر سر سبز درخت والی خوبصورتی پیدا ہو گی " - ( فرموده ۲۱/ جون ۱۹۲۹ء بمقام سرینگر).جو باتیں مسلمانوں نے چھوڑ دی ہیں جب تک وہ دوبارہ ان میں پائی نہ جائیں کبھی اور کسی خال میں ترقی نہیں کر سکتے.محنت کی عادت ڈالیں ، دوسروں پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیں خدمت خلق کو اپنا فرض سمجھیں تب وہ ترقی کر سکتے ہیں اسلام چونکہ اچھی چیز تھی اس وقت تک اس ملک میں اسلام کی خوبیوں کا نقش موجود ہے.گو مسلمان اپنی غفلت کی وجہ سے مٹادیئے گئے یہاں کشمیر میں بھی یہی مرض پایا جاتا ہے اس لئے میں نے اپنے خطبے اس طرز کے بیان کرنے شروع کئے ہیں کہ مسلمانوں میں عمل نہ کرنے کی وجہ سے جو پستی ہے اس میں تبدیلی پیدا ہو.کیونکہ مسلمان اپنی مدد آپ نہ کریں گے محنت نہ کریں گے دیانتداری سے کام نہ کریں گے اپنے آپ کو مفید نہ بنا ئیں گے تب تک ترقی نہ ہوگی...مسلمانوں کو چاہئے خدا تعالی کی امداد کے طالب ہوں.دوسروں پر توکل نہ کریں بلکہ خود عمل کریں اور خدا تعالیٰ کے ماننے والوں میں سے ہوں " - (فرموده ۵/ جولائی ۱۹۳۰ء بمقام
جلده سرینگر) 141 خلافت ثانیہ کا سولہواں..بعض قربانیاں ایسی کرنی پڑتی ہیں جن کا نفع فوری طور پر نظر نہیں آتا مگر اس کے پس پردہ بہت عظیم الشان فوائد ہوتے ہیں انبیاء کے حقیقی متبعین بھی قربانیاں کرتے ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دنیا میں کامیاب ہو جاتے ہیں...ہمارے لئے بھی ضروری ہے کہ بلحاظ ایمان کے پتھر کی چٹان کی طرح ثابت ہوں....ماموروں کا کام نئی زندگی پیدا کرنا ہوتا ہے انبیاء کی جماعتوں کے ہر فرد کو سمجھنا چاہئے کہ میرے ہی ذریعہ دنیا کی نجات ہوگئی...حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس قسم کے چالیس مومنوں کی خواہش رکھتے تھے کہ اگر ہماری جماعت میں پیدا ہو جائیں تو پھر تمام دنیا کا فتح کرنا آسان ہو جاتا ہے " فرموده ۲۸/ جون ۱۹۲۹ء بمقام سرینگر) ان اصول کے ذریعہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیش فرمائے ہیں قرآن اور حدیث کے مطالب حل کرنا ایک کھلی بات ہو گئی ہے اور ہمارے دوستوں کے لئے ضروری ہے کہ قرآن اور حدیث پر تدبر کریں اور خصوصاً نوجوانوں کو بہت زیادہ توجہ کرنی چاہئے کیونکہ ہر ایک قوم نو جوانوں کی کوشش سے ترقی کرتی ہے.( فرموده ۲/ اگست ۱۹۲۹ء بمقام آڑو کشمیر ) -اهدنا الصراط المستقیم میں یہ سکھایا گیا ہے کہ اے خدا ہمیں کام کے مسلمان بنا ہم نام کے مسلمان نہ ہوں کیونکہ نام کی کچھ حقیقت نہیں اصل چیز کام ہے ".(فرمودہ ۱۹/ جولائی ۱۹۲۹ء بمقام سرینگر) ے."پاک لوگوں کا دل خدا تعالیٰ کی محبت اور الفت میں اس قدر گداز ہوتا ہے کہ گویا اس کے مقابلہ میں جسم نے کچھ کیا ہی نہیں ہوتا.یہی وہ درجہ ہے جس کے لئے ہر ایک مومن کو کوشش کرنی چاہئے اس کے لئے رسول کریم انا نے فرمایا ہے.انسان کے جسم میں ایک لوتھڑا ہے اگر وہ درست ہو جائے تو سارا جسم درست ہو گیا اور اگر وہ خراب ہو گیا تو سارا جسم خراب ہو گیا.الا وھی القلب سنو وہ دل ہے پس اصل چیز انسان کے دل کی پاکیزگی ہے " - (فرموده ۹/ اگست ۱۹۲۹ء بمقام پہلگام) ان سات مختصر اقتباسات سے یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں ہے کہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمد یہ کشمیر اور دوسرے مسلمانوں کو بیدار کرنے کا کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا اور ہر ممکن کوشش کی کہ ریاست کے مسلمانوں میں زندگی کی ایک نئی روح پیدا ہو جائے.سفر کشمیر کے دوسرے قابل ذکر واقعات اس خصوصی قسم کے علاوہ منظر کشمیر کے کئی اور قابل ذکر واقعات بھی ہیں جن کا بیان کرنا
تاریخ احمدیت جلد ۵ ضروری ہے.مثلاً 142 عیادت خواجہ کمال الدین صاحب حضور ۱۹۲۹ء کو بذریعہ موٹر ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب اور صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو ساتھ لے کر خواجہ کمال الدین صاحب کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے جو نشاط باغ کے آگے سرینگر سے ۵۰۰ فٹ کی بلندی پر خیمہ میں رہائش پذیر تھے.حضور ایک گھنٹہ تک خواجہ صاحب کے پاس تشریف فرمار ہے.حضور اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں.”اسلامی سنت کو پورا کرنے کے لئے اور اس وجہ سے کہ میں چھوٹا تھا اور مدرسہ میں پڑھتا تھا خواجہ صاحب نے تین چار دن مجھے حساب پڑھایا تھا اور اس طرح وہ میرے استاد ہیں میں ان کی عیادت کے لئے گیا تھا.موقع کے لحاظ سے ان کی بیماری کے متعلق باتیں ہوتی رہیں ".یاری پورہ کے جلسہ میں شرکت: ۱۵/ اگست ۱۹۲۹ء کو جماعت احمدیہ یاڑی پورہ کا جلسہ منعقد ہوا جس میں حضور معہ مولانا محمد اسمعیل صاحب ہلالپوری ، مولوی قمر الدین صاحب ، مولوی عبدالرحیم صاحب درد بذریعہ موٹر تشریف لے گئے.احباب جماعت نے حضور کا شاندار استقبال کیا جلسہ گاہ میں جو مسجد احمدیہ کے صحن میں بنائی گئی تھی.خوب آراستہ کی گئی تھی.نماز ظہر و عصر پڑھانے کے بعد حضور نے ایک ولولہ انگیز تقریر فرمائی جس میں بتایا کہ نبی کے زمانہ میں چھوٹے بڑے کئے جاتے ہیں اور بڑے چھوٹے.تقریر میں صحابہ کرام کی مثالیں پیش کر کے احمدی احباب کو خدمت اسلام، تبلیغ احمدیت اور بچوں کی تعلیم کی طرف توجہ دلائی.اور آخر میں ارشاد فرمایا.میں جماعت کے لوگوں کو اس طرف خاص طور پر توجہ دلاتا ہوں خواہ کوئی تاجر ہو یا واعظ زمیندار ہو یا گورنمنٹ کا ملازم خواہ کوئی چھوٹا ہو یا بڑا ہر ایک کو سب سے اول اپنے نفس کی اصلاح کرنی چاہئے اور لوگوں کے سامنے اپنا ایسا نمونہ پیش کرنا چاہئے کہ جو کوئی دیکھے پکار اٹھے خدا رسیدہ لوگ ایسے ہوتے ہیں اگر ایسی حالت ہو جائے تو پھر دیکھ لو احمدیت کی ترقی کے لئے کس طرح رستہ کھل جاتا ہے".یاری پورہ میں قریباً چونسٹھ افراد نے بیعت کی.جموں میں تقریر: سرینگر سے واپسی پر حضور نے ایک روز جموں میں قیام فرمایا.جہاں ۳۰/ ستمبر ۱۹۲۹ء کو آپ نے ایک اہم تبلیغی تقریر فرمائی جس میں طالبان حق کو بڑے پر جوش الفاظ میں توجہ دلائی کہ وہ بچے مذہب اور بچی جماعت کی تلاش میں خدا تعالیٰ سے بذریعہ دعار ہنمائی طلب کریں.
تاریخ احمدیت جلد ۵ دو سرا باب (فصل سوم) 143 خلافت عثمانیہ کا سولہواں سال حضرت حافظ روشن علی صاحب "عبد الکریم ثانی کی وفات علامہ حضرت حافظ روشن علی کی وفات ۱۹۲۹ء کا روح فرسا واقعہ حضرت حافظ روشن على ال جیسے مثالی عالم ربانی کی وفات ہے YA جو ۲۳ جون ۱۹۲۹ء کی شام کو واقع ہوئی.حضرت میر محمد اسحاق کے الفاظ میں " حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت نور الدین اعظم کو چھوڑ کر سلسلہ احمدیہ کی تاریخ میں مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کی وفات کے بعد کوئی حادثہ حافظ صاحب مرحوم کے حادثہ جیسا نہیں ہوا.جماعت احمدیہ نے یہ عظیم صدمہ کتنی شدت سے محسوس کیا اس کا اندازہ اس سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ حضرت حافظ صاحب کی یاد میں کئی ماہ تک مضامین شائع ہوتے رہے.سلسلہ کے بزرگوں اور شاعروں نے عربی اردو اور فارسی میں دردناک مرنے کے اور آپ کے شاگردوں اور مرکزی اداروں اور بیرونی جماعتوں کی طرف سے تعزیتی قرار دادیں پاس کی گئیں.حتی کہ سلسلہ کے مشہور " مخالف جناب مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے اپنے اخبار " اہلحدیث " میں لکھا.حافظ روشن علی قادیانی جماعت میں ایک قابل آدمی تھے.قطع نظر اختلاف رائے کے ہم کہتے ہیں کہ موصوف خوش قرأت خوش گو تھے.مناظرے میں متین اور غیر دلآزار تھے.مرزا صاحب کے راسخ مرید تھے ہمیں ان کی وفات میں ان کے متعلقین سے ہمدردی ہے ".اخبار "پیغام صلح " لا ہو ر نے لکھا." حافظ روشن علی صاحب ایک مشدد محمودی تھے.محمودیت کی حمایت میں انہوں نے ہمیشہ غالیانہ سپرٹ کا اظہار کیا.تاہم ان میں بعض خوبیاں بھی تھیں جن کی وجہ سے ان کی موت باعث افسوس ہے حافظ صاحب حضرت مولانا نور الدین صاحب مرحوم کے شاگردوں میں سے تھے نہایت ذہین، خوش بیان خوش الحان اور عالم آدمی تھے.نہ صرف علوم اسلامیہ پر کافی عبور تھا بلکہ غیر مذاہب سے بھی خاصی واقفیت رکھتے تھے اور آریہ سماج کے ساتھ کئی مناظرے انہوں نے کئے.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی حضرت حافظ صاحب کی وفات کے وقت چونکہ سرینگر میں مقیم تھے.اس لئے امیر مقامی حضرت مولوی شیر علی صاحب نے حضور کو بذریعہ تار اطلاع دی.جس پر
تاریخ احمد بیت - جلد ۵ 144 خلافت مانید حضور نے تعزیت کا مندرجہ ذیل تار ارسال فرمایا.۲۴/ جون محمود آباد - سرینگر مولوی شیر علی صاحب کا تار حافظ روشن علی صاحب کی وفات کے متعلق ملا.انا للہ وانا الیه راجعون.مجھے بہت افسوس ہے کہ میں وہاں موجود نہیں ہوں تاکہ اس قابل قدر دوست اور زبردست حامی اسلام کی نماز جنازہ خود پڑھا سکوں.حافظ صاحب مولوی عبد الکریم صاحب ثانی تھے اور اس بات کے مستحق تھے کہ ہر ایک احمدی انہیں نہایت عزت و توقیر کی نظر سے دیکھے.انہوں نے اسلام کی بڑی بھاری خدمت سر انجام دی ہے اور جب تک یہ مقدس سلسلہ دنیا میں قائم ہے انشاء اللہ ان کا کام کبھی نہیں بھولے گا.ان کی وفات ہمارے سلسلہ اور اسلام کے لئے ایک بڑا صدمہ ہے لیکن ہمیشہ ایسے ہی صدمے ہوتے ہیں جنہیں اگر صبر کے ساتھ برداشت کیا جائے تو وہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کے جاذب بن جاتے ہیں ہم سب فانی ہیں لیکن جس کام کے لئے ہم کھڑے کئے گئے ہیں.وہ اللہ تعالی کا کام ہے جو موت و حیات کا پیدا کرنے والا ہے اور وہ غیر معلوم اسباب کے ذریعہ اپنے کام کی تائید کرے گا.چونکہ ہماری جماعت ہمارے پیارے اور معزز بھائی کی خدمات کی بہت ممنون ہے اس لئے میں درخواست کرتا ہوں کہ تمام دنیا بھر کی احمد یہ جماعتیں آپ کا جنازہ پڑھیں.یہ آخری خدمت ہے جو ہم اپنے مرحوم بھائی کی ادا کر سکتے ہیں.لیکن یہ بدلہ ان بیش قیمت خدمات کے مقابلہ میں جو انہوں نے اسلام کے لئے کیس کیا حقیقت رکھتا ہے.میں احباب کے ساتھ سرینگر میں نماز جنازہ پڑھوں گا.اگر لاش کے متغیر ہو جانے کا خوف نہ ہو تا تو التوائے تدفین کی ہدایت دے کر میں اس آخری فرض کو ادا کرنے کے لئے خود قادیان آتا.اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر جو ہم سے رخصت ہو گئے ہیں اور ان پر بھی جو زندہ ہیں اپنی رحمتیں نازل فرمائے".چنانچہ یہ تار پہنچنے کے بعد قادیان میں ۲۴/ جون کو اابجے کے قریب حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی کوٹھی سے جہاں ایام علالت میں آپ مقیم تھے آپ کا جنازہ اٹھایا گیا.جنازہ کے ہمراہ ایک انبوہ کثیر تھا.حضرت مسیح موعود کے باغ میں حضرت مولوی شیر علی صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی اور یہ مقدس اور خدا انما وجود مقبرہ بہشتی میں دفن کر دیا گیا.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے سرینگر میں نماز جنازہ پڑھائی اور دوسرے مقامات کی احمدی جماعتوں نے حضور کے حکم کے مطابق اپنی اپنی جگہ غائبانہ نماز جنازہ ادا کی.حضرت امیر المومنین نے ۲۸/ دسمبر ۱۹۲۹ء سالانہ جلسہ کے موقعہ پر حافظ صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا.
"" رحیت - جلد ۵ 145 ثانیہ کا میں سمجھتا ہوں میں ایک نہایت و فادار دوست کی نیک یاد کے ساتھ بے انصافی کروں گا اگر اس موقعہ پر حافظ روشن علی صاحب کی وفات پر اظہار رنج و افسوس نہ کروں.حافظ صاحب مرحوم نہایت ہی مخلص اور بے نفس انسان تھے.میں نے ان کے اندروہ روح دیکھی.جسے اپنی جماعت میں پیدا کرنے کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خواہش تھی.ان میں تبلیغ کے متعلق ایسا جوش تھا کہ وہ کچھ کہلوانے کے محتاج نہ تھے.بہت لوگ مخلص ہوتے ہیں کام بھی اچھا کرتے ہیں مگر اس امر کے محتاج ہوتے ہیں کہ دوسرے انہیں کہیں کہ یہ کام کرو تو وہ کریں.حافظ صاحب مرحوم کو میں نے دیکھا وہ سمجھتے تھے گو خدا تعالٰی نے خلیفہ مقرر کیا ہے.مگر ہر مومن کا فرض ہے کہ ہر کام کی نگہداشت کرے اور اپنے آپ کو ذمہ دار سمجھے وہ اپنے آپ کو سلسلہ کا ایسا ہی ذمہ دار سمجھتے تھے جیسا اگر کوئی مسلمان بالکل اکیلا رہ جائے اور (وہ اپنے آپ کو ذمہ دار) سمجھے یہ ان میں ایک نہایت ہی قابل قدر خوبی تھی اور اس کا انکار ناشکری ہو گا یہ خوبی پیدا کئے بغیر جماعت ترقی نہیں کر سکتی کہ ہر شخص محسوس کرے کہ سب کام مجھے کرنا ہے.اور تمام کاموں کا میں ذمہ دار ہوں.میں سمجھتا ہوں ایسے ہی لوگوں کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ اگر مجھے چالیس مومن میسر آجائیں تو میں ساری دنیا کو فتح کر لوں.یعنی ان میں سے ہر ایک محسوس کرے کہ مجھ پر ہی جماعت کی ساری ذمہ داری ہے اور میرا فرض ہے کہ ساری دنیا کو فتح کروں.حضرت حافظ روشن علی صاحب کی وفات سے جماعت حضرت حافظ صاحب کے جانشین کے تبلیغی کاموں میں جو لا پیدا ہوگیا اس کاپر ہو تابست ہونا مشکل نظر آتا تھا.مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کے بعض نامور شاگردوں کو جنہیں آپ نے مرض الموت میں وصیت فرمائی تھی کہ ”میرے شاگر د ہمیشہ تبلیغ کرتے رہیں " اس خلا کے پر کرنے کے لئے آگے بڑھا دیا اور انہوں نے تبلیغ واشاعت دین کے میدان میں ایسی ایسی خدمات سر انجام دیں کہ وہ حضرت حافظ روشن علی ثانی بن گئے.چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں." کچھ عرصہ کے بعد جب ادھر میر محمد اسحاق صاحب کو انتظامی امور میں زیادہ مصروف رہنا پڑا اور ان کی صحت بھی خراب ہو گئی اور ادھر حافظ روشن علی صاحب وفات پاگئے تو....اس وقت اللہ تعالیٰ نے فورا مولوی ابو العطاء صاحب اور مولوی جلال الدین صاحب شمس کو کھڑا کیا اور جماعت نے محسوس کیا کہ یہ پہلوں کے علمی لحاظ سے قائم مقام ہیں " حضرت حافظ روشن علی کی وفات کے بعد افتاء کی اکثر و بیشترذمہ داری حضرت مولاناسید سرور A- شاہ صاحب کے کندھوں پر آپڑی جسے آپ عمر بھر کمال خوبی و خوش اسلوبی سے انجام دیتے رہے.
تاریخ احمر بت مفید ۵ 146 خلافت ثانیہ کا سولہواں سال حضرت مولانا کا طریق تھا کہ آپ جامعہ احمدیہ کے طلبہ کو بھی استفتاء کا جواب دینے کے لئے ارشاد فرماتے اور ساتھ ہی کتابوں کی بھی رہنمائی فرماتے اور پھر اس پر نظر ثانی کر کے بھجواتے اس طرح آپ کی رہنمائی اور نگرانی میں آپ کے شاگردوں کو بھی فقہی مسائل میں دسترس حاصل ہو جاتی.اخبار " مباہلہ " دسمبر ۱۹۲۸ء سے نہایت ناپاک اور شرمناک پراپیگنڈا کر " جواب مباہلہ" رہا تھا.جس کے تحقیقی اور مدلل جواب کے لئے مولوی ابو العطاء صاحب جالندھری سیکرٹری انجمن انصار خلافت لاہور نے " جواب مباہلہ کے نام سے ٹریکٹوں کا ایک سلسلہ جاری کیا.اس سلسلہ میں پہلا ٹریکٹ ۳۰ / جون ۱۹۲۹ء کو لاہور سے شائع ہوا.مولوی ابو العطاء صاحب نے اس سلسلہ کے شروع کرنے سے پہلے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایده اللہ تعالیٰ سے اجازت بھی چاہی اور ضروری ہدایات کی بھی درخواست کی.حضور نے اپنے قلم سے مندرجہ ذیل نهایت پر زور اور بصیرت افروز جواب تحریر فرمایا جو پہلے ٹریکٹ میں بھی شائع کر دیا گیا.اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر مکرمی - السلام علیکم.بے شک اس کام کو شروع کریں اللہ تعالیٰ آپ کا مددگار اور ناصر ہو.میں تو خودان امور کا جواب دینا شرعاً اور بعض رؤیا کی بنا پر مناسب نہیں سمجھتا لیکن ایک ادنی تدبر سے انسان ان لوگوں کے مفتربانہ بیانات کی حقیقت کو پا سکتا ہے.میرا جواب تو میرا رب ہے میں اسی کو اپنا گواہ بنا تا ہوں وہ سب کھلی اور پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے اور اسی کا فیصلہ درست اور راست ہے وہ اس امر پر گواہ ہے کہ اخبار مباہلہ والوں نے سر تا پا جھوٹ بلکہ افترا سے کام لیا ہے اور انشاء اللہ وہ گواہ رہے گا.میں اس کے فضل کا امیدوار اور اسی کی نصرت کا طالب ہوں رب انی مغلوب فانتصر میں ان لوگوں کے بیانات پر جو اخبارات میں شائع ہوئے ہیں سوائے اس کے یہ کہوں کہ انہیں خدا تعالیٰ کی لعنت سے ڈرنا چاہیئے کہ سر تا پا کذب و بستان سے کام لے رہے ہیں اور کچھ کہنے کی ضرورت نہیں سمجھتا اگر میرا رب مجھ سے کام لینا چاہتا ہے تو وہ خود میرا محافظ ہو گا اور اگر وہی مجھ سے کام نہیں لینا چاہتا تو لوگوں کی تعریفیں میرا کچھ نہیں بنا سکتیں.باقی رہیں ہدایات سو میرے نزدیک ہر ایک عظمند انسان جو شریعت کے امور سے کچھ بھی واقفیت رکھتا ہو ان لوگوں کے غلط طریق سے آگاہ ہو سکتا ہے.ہاں ایک سوال ہے جس کا شائد آپ جواب نہ دے سکیں اور وہ یہ ہے کہ بعض نادان اور شکوک و شبہات میں
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 147 خلافت ثانیہ کا سولہوا.پڑے ہوئے لوگ یہ خیال کر لیتے ہیں کہ مباہلہ نہ کرنا اس سبب سے نہیں کہ مباہلہ کو میں جائز نہیں سمجھتا بلکہ اس سبب سے ہے کہ میں مباہلہ کرنا نہیں چاہتا.سو اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو مبالہ بھی ہر شخص سے نہیں ہو سکتا.اس کے لئے بھی شرائط ہیں مگر اس قسم کے امور کے لئے کہ جن کے متعلق حدود مقرر ہیں اور گواہی کے خاص طریق مذکور ہیں مباہلہ چھوڑ کر قسم بھی جائز نہیں اور ہرگز درست نہیں کہ کسی شخص (الزام دہندہ) کو ایسے امور میں مباہلہ کے مطالبہ کی اجازت دی جائے یا مطالبہ پر مباہلہ کو منظور کر لیا جائے مجھے یہ کامل یقین ہے اور ایک اور ایک دو کی طرح یقین ہے کہ ایسے امور کے متعلق مباہلہ کا مطالبہ کرنا یا ایسے مطالبہ کو منظور کرنا ہر گز درست نہیں بلکہ شریعت کی ہتک ہے اور میں ہر مذہبی جماعت کے لیڈروں یا مقتدر اصحاب سے جو اس امر کا انکار کریں مباہلہ کرنے کے لئے تیار ہوں اگر مولوی محمد علی صاحب یا ان کے ساتھ جو مباہلہ کی اشاعت میں یا اس قسم کے اشتہارات کی اشاعت میں خاص حصہ لے رہے ہیں.مجھ سے متفق نہیں بلکہ ایسے امور میں مباہلہ کے مطالبہ کو جائز سمجھتے ہیں اور ان کا یہ یقین ہے کہ جو شخص ایسے مطالبہ کو منظور نہیں کرتا وہ گویا اپنے جرم کا ثبوت دیتا ہے تو ان کو چاہئے کہ اس امر پر مجھ سے مباہلہ کر لیں.پھر اللہ تعالیٰ حق و باطل میں خود فرق کر دے گا.خاکسار مرزا محمود احمد ۶/۲۹ ۱۵ اس باطل شکن چیلنج کو قبول کرنے اور میدان مباہلہ میں آنے کی کسی کو جرات نہ ہوئی.قادیان کے احمدی اور دوسرے مسلمان اپنی ضروریات مدیح قادیان کے انہدام کا واقعہ کے لئے عید اور دوسرے موقعوں پر گائے ذبح کیا کرتے تھے لیکن جب حکومت نے یہاں سمال ٹاؤن کمیٹی قائم کی تو اس عمل کو ایک باضابطہ شکل میں لانے کے لئے کمیٹی کی معرفت مذبح کی درخواست دی گئی.جو ڈپٹی کمشنر صاحب گورداسپور نے منظور کرلی اور کمیٹی نے بھینی متصل قادیان میں منظور شدہ جگہ پر مدیح تعمیر کیا اور جولائی میں اس کے کھلنے کی اجازت ملی اور جونہی اس میں باقاعدہ کام شروع ہوا.قادیان کے فتنہ پرداز ہندوؤں اور سکھوں نے ارد گرد کے سادہ مزاج اور دیہاتی سکھوں کو بھڑکانا شروع کیا اور ۷ / اگست ۱۹۲۹ء کو کئی سو سکھوں کے شوریدہ سر ہجوم کے ذریعہ پولیس کی موجودگی میں پندرہ منٹ کے اندر اندر ذبح مسمار کرا دیا.اور پھر سکھوں کو مسلمانوں کے خلاف آلہ کار بنانے کے بعد ڈپٹی کمشنر کے فیصلہ کے بعد کمشنر صاحب کے پاس اپیل دائر کر دی اور اس فتنہ کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے ڈپٹی کمشنر نے مرعوب ہو کر مدیح کا لائسنس منسوخ کر دیا..اس واقعہ نے سارے ہندوستان کے مسلمانوں میں غم و غصہ کی زبر دست امر دو ڑا دی.اور AY AO
میت جلده 148 خلافت عثمانیہ کا سولہواں سال پریس نے ایسا متحدہ احتجاج کیا جس کی نظیر نہیں ملتی چنانچہ "انقلاب" (لاہور) مدینہ " (بجنور) " پیغام صلح" (لاہور) "منادی" (دہلی) "الجمعیتہ" (دہلی) " دور جدید " (لاہور) " تازیانہ " (لاہور) مسلم آؤٹ لک" (لاہور) "وکیل" (امرتس) " مونس " (اٹاده ) " اہلحدیث" (امرتسر) "زمیندار" (لاہور) " الامان " ( دیلی) "شباب" (راولپنڈی) "حقیقت" (لکھنو) "ہمت " (لکھنو) نے مذیج کی تائید و حمایت میں پر زور ادار لیے لکھے.اس کے علاوہ مسلم لیگ (امرتسرد گورداسپور) " مجلس خلافت پنجاب " نے ریزولیوشن پاس کئے.جس زمانہ میں مذبح سے متعلق یہ فتنہ برپا کیا گیا ہے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی سری نگر میں تشریف فرما تھے اور حضور معاملہ کے آغاز ہی سے اس میں غیر معمولی دلچسپی لیتے اور ہدایات دیتے رہے تھے اور سری نگر سے واپسی کے بعد تو آپ نے ایک طرف تو ملی و قومی حق کے حاصل کرنے کے لئے جماعت احمدیہ میں زبر دست جوش و خروش پیدا کر دیا اور دوسری طرف ۱۹ ستمبر ۱۹۲۹ء کو مسئلہ ذبیحہ گائے سے متعلق ہندو سکھ اور مسلم لیڈروں کے نام مفصل مکتوب لکھا.جو الفضل ۲۰/ ستمبر ۱۹۲۹ء میں شائع ہوا.جس کے جواب میں سردار جوگندر سنگھ صاحب، سردار تارا سنگھ صاحب بھائی پر مانند صاحب دیانند کالج جالندھر اور بعض مسلمان لیڈروں کے خطوط موصول ہوئے.چونکہ کمشنر صاحب لاہور کی عدالت میں مذبح قادیان سے متعلق اپیل کی سماعت ہونے والی تھی اس لئے سب سے بڑی ضرورت اس امر کی تھی کہ مسلمانوں کا کیس صحیح صورت میں رکھا جائے.یہ اہم کام چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کے سپرد ہوا.جنہوں نے ۱۷/ ستمبر ۱۹۲۹ء کو چوٹی کے ہندو وکلاء کے دلائل کی زبر دست تردید کرتے ہوئے ذیح کی ضرورت واضح کی.ہندو وکلاء آپ کی بحث کے سامنے کوئی ایسی معقول دلیل نہ پیش کر سکے جسے مسلمانوں کو اپنے مذہبی اور اقتصادی حق سے محروم کر دینے کے لئے وجہ جواز قرار دیا جاسکے Na آخر ۲۸/ اکتوبر ۱۹۲۹ء کو کمشنر صاحب نے (باوجود یہ کہ ان کا رویہ قبل ازیں غیر نصفانہ اور دل آزار نظر آتا تھا، ہندوؤں کی اپیل خارج کر دی اور فیصلہ کیا کہ حکم امتناعی اس وقت تک قائم رہے گا جب تک ڈپٹی کمشنر صاحب گورداسپور ذبیحہ گائے کے لائسنس کی تجدید کریں - A4 پنجاب سائمن کمیٹی کی رپورٹ پر تبصرہ پنجاب کے سائمن کمیشن کمیٹی میں مسلمانوں کو اپنی غفلت اور بے حسی کی وجہ سے اپنے تناسب کے لحاظ سے بہت کم نمائندگی ملی.مزید براں الجھن یہ پیدا ہو گئی کہ کمیٹی کے مسلمان ممبروں نے تعاون کے پیش نظریہ تجویز قبول کر لی کہ پنجاب کو نسل میں کل ایک سو پینسٹھ ممبر ہوں جن میں سے ۸۳
تاریخ احمدیت جلد ۵ 149 خلافت ثانیہ کا سولہوار ممبر مسلمان ہوں، باقی ہندو سکھ اور مسیحی وغیرہ چونکہ اس تجویز کے نتیجہ میں مسلمانوں کی پچپن فیصدی کی اکثریت اکاون فیصدی میں بدل جاتی تھی اور مسلمانان پنجاب کے سیاسی مفاد کو نقصان پہنچتا تھا اس لئے حضور ایدہ اللہ تعالٰی نے ان کی رائے کے خلاف الفضل (۳۰/ اگست ۱۹۲۹ء) میں آواز اٹھائی اور ان ممبروں کی چار اصولی غلط فہمیوں کی نشاندہی فرمائی.جن کا رد عمل موجودہ تجویز کی صورت میں ظاہر ہوا تھا.اور پھر ان کے ازالہ کی تین صورتیں تحریر فرما ئیں.حضور کا یہ مضمون اخبار "سیاست" اور " دور جدید " میں شائع ہوا تو ضلع میانوالی کے ایک غیر احمدی محمد حیات خاں صاحب سپرنٹنڈنٹ پولیس پیشنر نے ۱۸ ستمبر ۱۹۲۹ء کو حضور کے نام مندرجہ ذیل خط لکھا.بخدمت مکرم و معظم بنده جناب والاشان حضرت خلیفہ صاحب قادیان بعد السلام علیکم و آداب و تسلیمات گزارش ہے کہ جناب کا مضمون پڑھ کر جس اعلیٰ قابلیت و باریکی سے آپ نے نقائص اور ان کے علاج بتائے ہیں ان کی داد دینی پڑتی ہے.اگر چند اخبارات نے بھی ہوشیاری سے نقائص و علاج لکھتے ہیں مگر حضور کی باریکی کو نہیں پہنچ سکے دیگر جس مسلمان نے بھی اس مضمون کو پڑھا ہے میری تائید کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس کی جزائے خیر دے الخ " برطانوی حکومت نے جن مسلمانان فلسطین پر یهودی یورش کے خلاف احتجاج عرب ملکوں کو سہلی جنگ عظیم کے بعد ترکوں کے اقتدار سے آزاد کرانے کا تحریری معاہدہ کیا تھا ان میں فلسطین بھی شامل تھا لیکن اس کے ساتھ ہی برطانیہ نے دنیا بھر کے یہودیوں کی ایجنسی سے یہ خفیہ وعدہ کر لیا تھا کہ جنگ کے بعد یہودیوں کے لئے فلسطین ایک قومی گھر بنا دیا جائے گا.چنانچہ عربوں سے کئے ہوئے وعدے تو پس پشت ڈال دیئے گئے اور یہودیوں کی آباد کرنے کی مہم بڑے زور شور سے شروع کر دی.اور یہودیوں نے اپنے مقصد کی تکمیل کے لئے مسلمانان فلسطین کو نشانہ ظلم دستم بنانا شروع کر دیا.ان مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کے لئے حضرت مولانا میر محمد اسحاق صاحب کی صدارت میں ۱۴/ ستمبر ۱۹۲۹ء کو ایک غیر معمولی جلسہ ہوا.جس میں حضرت شیخ یعقوب علی صاحب نے فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی کی قرارداد پیش کر کے ایک مفصل تقریر فرمائی اور اپنے چشم دید حالات و واقعات کا ذکر کر کے بتایا کہ یہود کو مسلمانوں پر مسلط کرنے کے لئے بہت خطرناک چال چلی جا رہی ہے.ان کے علاوہ شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر اخبار "نور" شیخ محمود احمد صاحب عرفانی، سید محمود اللہ شاہ صاحب اور چودھری ظہور احمد صاحب نے حفاظت حقوق مسلمانان فلسطین کی طرف حکومت کو
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 150 خلافت ثانیہ کا سولہواں توجہ دلانے اور یہود کو مظالم سے باز رکھے جانے کے لئے ریزولیوشن پیش کئے جو اتفاق رائے سے پاس ہوئے.شار دابل اور حضرت خلیفتہ المسح اید واللہ اجمیر کے ستر بر لاس شہر دانے اسہیل میں مسٹر ہر تجویز پیش کی کہ ہندوؤں میں کم سن بچوں کی شادی کی عادت پائی جاتی ہے جس سے بچوں کی ذہنی اور جسمانی نشود نما اخلاق و عادات اور صحت پر بہت برا اثر پڑتا ہے لہذا ایک قانون نافذ کیا جائے جس سے اس رسم کا انسداد ہو سکے.یہ تجویز شار دابل کے نام سے موسوم ہوئی اور اسے وائسرائے ہند کی منظوری سے پورے ہندوستان پر نافذ کر دیا گیا.امیر المومنین سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی نے اس قانون سے متعلق حکومت ہند کو ایک مفصل بیان ارسال فرمایا جس میں بتایا کہ بچپن کی شادی پر قانوناً پابندی عائد کرنا درست نہیں تعلیم اور وعظ کے ذریعہ اس کی روک تھام کرنی چاہئے.قانون بنا دینے سے کئی پیچیدگیاں پیدا ہو جائیں گی.صحیح طریق یہ ہے کہ بچوں کو بالغ ہونے پر فسخ نکاح کا حق دیا جائے اس حق سے تمام نقائص دور ہو سکتے ہیں بلا شبہ فسخ نکاح کے معاملہ میں دوسرے مذاہب کا اسلامی تعلیم سے اختلاف ہے لیکن اس کے باوجود یہ عقل و فہم سے بالا امر ہے کہ مسلمانوں کو کیوں ایسے تمدنی حالات میں دو سرے مذاہب کے تابع کیا جائے جن میں ہماری شریعت نے ہمارے لئے معقول صورت پیدا کر دی ہے لیکن ان کے ہاں کوئی علاج نہیں.شرعاً ایسے قانون کی ہمارے نزدیک ممانعت نہیں بشرطیکہ اس کا فیصلہ مسلمانوں کی رائے پر انہی دنوں حضور سے سوال کیا گیا کہ یہ مداخلت فی الدین ہے؟ حضور نے فرمایا.نہیں.ہمارے نزدیک مداخلت فی الدین وہ ہے جس پر جہاد کرنا فرض ہو جائے اسے ہم تمنیات میں مداخلت سمجھتے ہیں اور اسی بناء پر اس کی مخالفت کرتے ہیں کیونکہ کسی قوم کو دوسروں کے تمدن میں دخل دینے کی ضرورت نہیں.تمدنی طور پر جن باتوں کی اسلام نے اجازت دی ہے ان سے روکنے کا حق کسی کو نہیں.ہاں اگر مسلمان آپس میں فیصلہ کر کے ایسا کر لیتے تو اس کے معنی یہ ہوتے کہ یہ عارضی انتظام ہے جو ایک جائز بات میں عیب پیدا ہونے کی وجہ سے اسے روکنے کے لئے کیا گیا ہے لیکن دوسروں کا اس سے روکنا مستقل طور پر ہے اور رسول کریم ایل پر حملہ ہے جسے برداشت نہیں کیا جا سکتا".حضور ایدہ اللہ تعالٰی درد شکم کے علاج کی غرض سے ۲۵/ اکتوبر ۱۹۲۹ء کو لاہور تشریف سفر لاہور لے گئے.اور کرنل باٹ صاحب سے طبی مشورہ لینے کے علاوہ نماز جمعہ پڑھانے اور احمدیہ انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن کی ایک دعوت میں تقریر فرمانے کے بعد ۴/ نومبر کی شام کو قادیان
تاریخ احمدیت.جلد ۵ واپس تشریف لے آئے.اس سفر کی نسبت حضور کا تاثر یہ تھا کہ.151 خلافت ثانیہ کا سولہواں سال مسلمانوں کا ارادہ سیاسیات کے متعلق کچھ کرنے کا معلوم نہیں ہو تا.اب کے لاہو ر جا کر میں نے پتہ لگایا تو معلوم ہوا کہ کہیں زندگی دکھائی نہیں دیتی.مردنی چھائی ہوئی ہے.ہاں اتنا ہے کہ انہیں اپنی اس حالت کا احساس ضرور ہے.ایک معزز مسلمان نے کہا.اب تو کوئی انسان پیدا ہی ہو گا تو مسلمان بچ سکیں گے.میں نے کہا.پیدا تو ہو ا تھا مگر مسلمانوں نے پہچانا نہیں "
تاریخ احمدیت.جلد ۵ دو سرا باب (فصل چهارم) 152 خلافت ثانیہ کا سولہواں اللہ تعالیٰ کی طرف سے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ سلطنت برطانیہ کے آثار زوال الصلوۃ والسلام کو ۱۸۹۱ء میں جبکہ برطانوی سلطنت کا آفتاب بری آب و تاب سے چمک رہا تھا الہام ہوا سلطنت برطانیه تا ہشت بعد ازاں ضعف سال فار ر اختلال چنانچه ۲۲ جنوری ۱۹۰۱ء کو ملکہ وکٹوریہ انتقال کر گئیں ۱۹۱۴ء میں پہلی جنگ عظیم ہوئی جس نے اتحادیوں کی طاقت پر بڑی ضرب لگائی.۱۹۱۸ء میں انگریز ہندوستان کو سیاسی حقوق دینے کے اعلان پر مجبور ہو گئے.۱۹۲۸ء میں ہندوستان کو مزید اختیارات دینے کے لئے انگلستان سے مشن آیا اور سلطنت برطانیہ تاہشت سال" کی صداقت کے آثار نمایاں ہونے لگے."1 یہ حقیقت بین الاقوامی حیثیت سے بھی اب ایسی واضح نظر آرہی تھی کہ سرونسٹن چرچل جیسے و برطانوی مفکر نے انہی دنوں " کیا برطانوی سلطنت کا خاتمہ قریب ہے " کے عنوان سے ایک مضمون لکھا جس میں کھلا اقرار کیا کہ اس میں شبہ کی گنجائش نہیں کہ موجودہ صدی سلطنت برطانیہ کے لئے فائدہ بخش نظر نہیں آتی.سلطنت کو گزشتہ صدی سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے انیسویں صدی میں اس کو دوسری حکومتوں پر جو تفوق حاصل تھا وہ کم ہو رہا ہے.برطانیہ کو اپنی بحری طاقت پر ناز تھا.لیکن ہوائی قوت اس کے لئے مملک ثابت ہوئی ہے اور بے نظیر بحری قوت کے گھمنڈ کا خاتمہ ہو گیا ہے مالی لحاظ سے جو فوقیت انگلستان کو حاصل تھی وہ بھی ختم ہو گئی.اس سے قبل جو قومیں اور ملک ہمارے مطیع و فرمانبردار تھے ان میں اب بیداری پیدا ہو چکی ہے اور حکومت خود اختیاری حاصل کرنے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں.ہندوستان کی سب سے بڑی تحریک وہ ہے جو گو ر نمنٹ کے خلاف استعمال ہو رہی ہے اس تحریک کے پیرو ہر ایسے رکن کو جو انسانوں کے اس وسیع سمندر میں انتظام وانصرام کے لئے جاتا ہے.ناقابل التفات سمجھتے ہیں.(تلخیص و ترجمہ 1 |44 حکومت میاں علم دین صاحب کی لاش اور حکومت کا غیر دانشمندانہ رویہ کے دشمن نے
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 153 مانیہ کا سولہواں سال اسلام راجپال کے قاتل علم دین کو میانوالی جیل میں پھانسی کی سزا دی.مگران کی لاش مسلمانوں کو حوالے کرنے سے انکار کر دیا جس پر مسلمانوں میں زبردست ہیجان پیدا ہو گیا.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے حکومت کے اس غیر دانشمندانہ رویہ پر سخت تنقید کی اور فرمایا.اس سے فساد بڑھے گا.جب ایک شخص مرگیا اور قانون کی حد ختم ہو گئی.تو اس سے آگے قدم بڑھانا فتنہ پیدا کرنا ہے یہ بہت ہی نا معقول حرکت ہے جو حکومت سے سرزد ہوئی یہ تو خواہ مخواہ مسلمانوں کو چڑانے والی بات ہے پھر اس کا جنازہ بھی نہیں پڑھنے دیا گیا.حالانکہ یہ ہر مسلمان کا مذ ہی حق ہے جس سے محروم کرنا بہت بیہودہ بات ہے.آخر حکومت کو مسلمانوں کے سامنے جھکنا پڑا اور لاش مسلمانوں کے حوالہ کر دی گئی.لاہور میں اس کی نماز جنازہ پڑھی گئی.حضور کو اطلاع ملی کہ جنازہ میں مسلمانوں کا بڑا ہجوم تھا.جس پر آپ نے فرمایا کہ ” یہ ایک مظاہرہ کی اچھی صورت تھی اس کا یہ اثر ہو گا کہ آئندہ کسی شخص کو ایسی امن شکن حرکات کی کم جرات ہو گی جیسے راجپال نے کی تھی.ملکی ترقی کے لئے اتحاد نہایت ضروری ہے اور اتحاد ترقی نہیں کر سکتا جب تک فتنہ انگیز حرکات کا انسداد نہ ہو ".اور فرمایا اتنے بڑے مجمع کا ایسی حالت میں مسلمانوں نے بہت اچھا انتظام کیا اور کوئی ناگوار واقعہ رونما نہ ہوا.ایسے انتظامات سے قوم کی اچھی ٹریننگ ہو سکتی ہے ".1-5 سالانہ جلسہ کے لئے چندہ کی تحریک حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسی الثانی ایدہ اللہ تعالی نے ۱۵/ نومبر ۱۹۲۹ء کے خطبہ جمعہ میں پوری جماعت کو اور پھر مکتوب کے ذریعہ اس کے کارکنوں کو سالانہ جلسہ کے چندے کی فورنی وصولی کے لئے تحریک فرمائی.یہ تحریک نہایت ہی تنگ وقت میں شائع ہوئی لیکن جماعت نے حیرت انگیز جوش سے اس کا استقبال کیا.بعض جماعتوں اور احباب نے مقررہ چندہ سے ڈیوڑھا دو گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ چندہ بھیج دیا.جس پر حضور نے بہت خوشنودی کا اظہار فرمایا.دیوانہ وار تبلیغ کرنے کا ارشاد ۲۲ نومبر ۱۹۲۹ء کو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جماعت سے لگ جاؤ ورنہ آئندہ نسلیں بھی کمزور ہو جا ئیں گی.بذریعه خطبه جمعه ارشاد فرمایا کہ دیوانہ وار تبلیغ احمدیت میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ملک میں تبلیغ احمدیت کا دائرہ وسیع مبلغین کو خاص ہدایت تر کرنے کے لئے ۱۴ دسمبر ۱۹۲۹ء کو ہدایت فرمائی کہ مبلغین خاص طور پر ان مقامات میں بھجوائے جائیں.جہاں ابھی تک کوئی جماعت قائم نہیں ہوئی چنانچہ فرمایا.ہماری تبلیغ میں ایک روک ہے عام طور پر ہمارے مبلغین انہی مقامات پر جاتے ہیں جہاں پہلے ہی
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 154 خلافت ثانیہ کا سولہواں سال جماعتیں موجود ہیں میں نے سوچا ہے ہر مبلغ کے لئے ایسے مقامات کے دورے لازمی کر دیے جائیں جہاں پہلے کوئی احمدی نہیں.تانئی جماعتیں قائم ہوں جس جگہ پہلے ہی کچھ احمدی ہوتے ہیں وہاں پھر جماعت ترقی نہیں کرتی.کیونکہ لوگوں میں ضد پیدا ہو جاتی ہے لیکن اگر مبلغین کو نئے مقامات پر بھیجا جائے تو ہر ایک کے لئے ماہ ڈیڑھ ماہ میں پانچ سات نئے آدمی جماعت میں داخل کرنا کچھ مشکل نہیں اور اس طرح پہلی جماعتوں میں بھی از سر نوجوش پیدا ہو سکتا ہے کیونکہ جب ان کے قرب وجوار میں نئی جماعتیں قائم ہو جائیں تو وہ بھی زیادہ جوش اور سرگرمی سے کام کریں گے " پادری کریم ڈچ مشنری قادیان میں ہالینڈ کے ایک مشنری پادری ڈاکٹر کریمر ہالینڈ سے جاوا جاتے ہوئے ۱۵/ دسمبر ۱۹۲۹ء کو قادیان آئے حضور سے ملاقات کی اور سلسلہ کے مدارس اور دفاتر دیکھے.اور شام کو واپس چلے گئے ڈاکٹر کریمر جماعت کی تنظیم اور جذبہ تبلیغ دیکھ کر بہت متاثر ہوئے اور انہوں نے مسلم ورلڈ " (اپریل ۱۹۳۱ء) میں اپنے تاثرات مندرجہ ذیل الفاظ میں شائع کئے.جماعت احمد یہ مسلمانوں میں ایسی ہی جماعت ہے.جیسی کہ ہندوؤں میں آریہ سماجی.ان دونوں جماعتوں کا عیسائیت کے ساتھ خاص تعلق ہے کیونکہ یہ دونوں جماعتیں ہندوستان میں توسیع عیسائیت کے خلاف جارحانہ کارروائیاں کر رہی ہیں.ہندوستانی مسلمانوں پر عام طور پر مایوسی کا عالم طاری ہے بر خلاف اس کے جماعت احمد یہ میں نئی زندگی کے آثار پائے جاتے ہیں اور اس لحاظ سے یہ جماعت قابل توجہ ہے.یہ لوگ اپنی تمام توجہ اور طاقت تبلیغ اسلام پر خرچ کر رہے ہیں اور سیاست میں حصہ نہیں لیتے.ان کا عقیدہ ہے کہ انسان جس حکومت کے ماتحت ہو اس سے وفادار رہے.اور وہ صرف اس بات کی پرواہ کرتے ہیں کہ کونسی حکومت کے ماتحت ان کو تبلیغ اسلام کے مواقع اور سہولتیں حاصل ہیں.اور وہ اسلام کو ایک مذہبی گروہ یا سیاسی نقطہ نگاہ سے نہیں دیکھتے بلکہ اس کو محض صداقت اور خالص حق سمجھ کر تبلیغ کے لئے کوشاں ہیں اس لحاظ سے یہ جماعت فی زمانہ مسلمانوں کی نہایت عجیب جماعت ہے اور مسلمانوں میں صرف یہی ایک جماعت ہے جس کا واحد مقصد صرف تبلیغ اسلام ہے.اگر چہ ان کی طرز تبلیغ میں کسی قدر سختی پائی جاتی ہے تاہم ان لوگوں میں قربانی کی روح اور تبلیغ اسلام کا جوش اور اسلام کے لئے سچی محبت کو دیکھ کر بے تحاشا صد آفرین نکلتی ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مرزا غلام احمد صاحب ایک زبر دست شخصیت کے آدمی تھے.وہ فریق جو ان کو نبی مانتا ہے اس کا مرکز قادیان ہے.میں جب قادیان گیا تو میں نے دیکھا کہ وہاں لوگ اسلام کے لئے جوش اور اسلام کی آئندہ کامیابی کی امیدوں سے سرشار ہیں اپنے آپ کو وہ غریبانہ طور پر پیغام پہنچانے والے نہیں سمجھتے.بلکہ
تاریخ احمد بیت - جلد ۵ 155 خلافت ثانیہ کا سولہواں سال ان کو اس بات پر ناز ہے کہ وہ دنیا میں سچائی کا اعلان کرنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں.اور وہ اسلام کی محبت میں اس قدر اندھے اور مجنون ہو رہے ہیں کہ جس قدر انسانی قلب کے لئے ممکن ہو سکتا ہے اگر چہ یہ لوگ دیگر مذاہب کو نہایت حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں (؟) لیکن وہ اس بات کے تکرار سے بھی کبھی نہیں تھکتے کہ اسلام بنی نوع انسان کی مساوات ، امن و امان اور مذہبی آزادی کا سبق دیتا ہے.اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اس بات میں یہ لوگ بچے ہیں کیونکہ ان لوگوں کی تمام طاقت اس بات کے پیش کرنے پر خرچ ہو رہی ہے.کہ اسلام اعلیٰ اخلاق اور پاکیزہ تمدن کی تعلیم دیتا ہے.اس جماعت کا اثر اس کے اعداد و شمار سے بہت زیادہ وسیع ہے.مذہب میں ان کا طرز استدلال بہت سے تعلیم یافتہ مسلمانوں نے اختیار کر لیا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں میں رہتے ہوئے احمدیوں کا علم کلام عقلا ماننا پڑتا ہے".چھپن فیصدی کمیٹی کا وفد قادیان میں پنجاب میں مسلم آبادی چھپن فیصدی تھی اسی مناسبت سے ۱۹/ نومبر ۱۹۲۹ء کو جناب عبدالمجید صاحب سالک مدیر انقلاب کی تحریک پر دفتر " انقلاب " لاہور میں ”چھپن فیصدی کمیٹی " کے نام سے پروفیسر سید عبد القادر صاحب کی صدارت میں ایک انجمن قائم ہوئی.جس کا مقصد مسلمانان پنجاب کے سیاسی حقوق کی حفاظت تھا.ملک لال دین صاحب قیصر اور مولوی عبد المجید صاحب قرشی کمیٹی کے نمایاں ممبر تھے.کمیٹی کے ساتھ ہی ”چھپن فیصدی کو ر کی بھی بنیاد ڈالی گئی.اس کمیٹی کا ایک وفد جو مولوی عبد المجید صاحب قرشی اور مولوی محمد شریف صاحب پر مشتمل تھا.۱۷/ دسمبر ۱۹۲۹ء کو قادیان آیا اور حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالٰی سے ملا.حضور نے بتایا کہ ہم تو ۱۹۱۷ء سے برابر مسلمانان پنجاب و بنگال کے متعلق یہ معاملہ پیش کر رہے ہیں.ہم آپ کی ہر قسم کی مدد کریں گے.آپ اپنے خیالات ہماری جماعت کے سامنے پیش کریں اور یہاں قادیان ہی سے یہ کام شروع کر دیں اور اس کے ساتھ بعض اہم اور قیمتی ہدایات بھی دیں.حضور سے اجازت حاصل ہونے پر مولوی ذوالفقار علی خان صاحب کی زیر صدارت قادیان میں ایک پبلک جلسہ منعقد ہو ا جس میں سب سے پہلے خان صاحب نے ۵۶ فیصدی سے متعلق حضرت خلیفتہ المسیح الثانی اور جماعت احمدیہ کی مساعی جمیلہ پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ کس طرح مسٹرما نمیگو وزیر ہند کی ہندوستان میں آمد کے وقت سے اس کے لئے ہم آواز بلند کر رہے ہیں اور اب سائمن کمیشن کے سامنے بھی اس حق پر زور دیا ہے پس چونکہ یہ معاملہ ہمیشہ ہماری ہی طرف سے اٹھتا رہا ہے اس لئے ہم دل و جان سے اس کے حامی ہیں اور ہر جائز امداد کے لئے تیار ہیں.
تاریخ احمدیت جلده 156 خان صاحب کے بعد قرشی صاحب نے نہایت موثر پیرایہ میں کمیٹی کا نقطہ نگاہ واضح کیا اور اس جدوجہد میں شامل ہونے کی اپیل کی.اس تقریر کے بعد لوکل انجمن احمد یہ قادیان کے پریذیڈنٹ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے پر جوش تقریر کر کے یہ ریزولیوشن پیش کیا.جو باتفاق رائے پاس ہوا.لوکل جماعت احمدیہ قادیان پنجاب میں مسلمانوں کو چھپن فیصدی حقوق کے ملنے کی حامی ہے.کیونکہ حضرت امام جماعت احمدیہ قادیان ہمیشہ سے یہ مطالبہ مسلمانان پنجاب کے لئے پیش کرتے رہے ہیں.بحیثیت ایک مستقل منظم جماعت کے یہ جماعت اپنے امام کی ہدایات کے ماتحت ۵۲ فیصدی کمیٹی کی ہر قسم کی جائز امداد کرے گی.اور ہر وقت تعاون کے لئے تیار رہے گی".کانگریس نے نہرو کانگریس کا اجلاس لاہور اور مجلس احرار اسلام کی بنیاد رپورٹ" کے تسلیم کئے جانے کی نسبت اجلاس کلکتہ (دسمبر ۱۹۲۸ء) میں حکومت کو ایک سال کا جو نوٹس دے رکھا تھا اس کی معیاد دسمبر ۱۹۲۹ء تک تھی اس دوران میں کانگریس سول نافرمانی کی خفیہ اور علانیہ تیاریاں کرتی اور مسلمانوں اور حکومت دونوں کو دھمکیاں دیتی رہی.اور بالآخر مہلت ختم ہوتے ہی اس نے ۲۱ / دسمبر ۱۹۲۹ء کے اجلاس لاہور میں اعلان کر دیا.کہ چونکہ نہرو رپورٹ " منظور نہیں ہوئی اس لئے اب سول نافرمانی کا پروگرام عمل میں لایا جائے.اور اب ہم درجہ نو آبادیات پر بھی قناعت نہیں کریں گے.آزادی کامل حاصل کریں گے.یہ اعلان پنڈت جواہر لال نہرو کی صدارت میں گاندھی جی نے کیا.اس موقع پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی چٹھی بعنوان An Appeal to Hindu " Leaders (ہندوؤں کے نام اپیل) تقسیم کی گئی جس میں حضور نے انہیں مسلم حقوق کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا "مسلمانوں کا مقصد صرف اس قدر ہے کہ وہ ملکی مفاد کی خاطر آئندہ مصائب کا اطمینان اور محفوظ ہونے کے احساس کے ساتھ مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکیں ہر اکثریت کا اخلاقی فرض ہے کہ وہ نہ صرف اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کرے بلکہ انہیں ہر طرح مطمئن کرنے کی کوشش کرے.مسلمان حب وطن اور اس کے استخلاص میں جدوجہد کے لحاظ سے برادران وطن سے کسی طرح بھی پیچھے نہیں.لیکن اقلیت میں ہونے کی وجہ سے وہ ملک کے آئندہ نظام میں اپنی پوزیشن کے متعلق طبعاً مشوش ہیں الخ ".اس اپیل پر کانگریس کے لیڈروں نے بالکل التفات نہ کی اور مسلمانوں کے حقوق کو نظر انداز کر کے " آزادی کامل " کی قرار داد پاس کر دی جس کے معنے اس کے سوا کچھ نہ تھے کہ وہ بدیشی حکومت کو |
157 خلافت پاشید کا مسلمان سے تصفیہ حقوق کے بغیر ہی ملک سے نکال باہر کرنا چاہتی تھی حالانکہ اس مقصد کے حصول سے پہلے ہندوستانی قوموں کی سیاسی انفرادیت کی محافظت کی ضمانت ضروری تھی اس لئے کہ آزادی کامل تک پہنچنے کے لئے راہ میں جو منزلیں آتی تھیں وہ سب آئینی تھیں.لہذا ان آئینی منزلوں تک کا راستہ بالکل آئینی حیثیت سے طے ہونا چاہئے تھا اور ابتداء ہی میں ان مختلف اقوام کو جو اس راہ پر گامزن ہونے والی تھیں آئینی حیثیت سے یہ اطمینان مل جانا چاہئے تھا کہ اس راہ کی آخری منزل تک پہنچتے پہنچتے ہر قوم کی انفرادیت اور اس کا سیاسی مفاد ہر طرح محفوظ رہے.مگر یہ ضمانت ابھی تک ہندوستانی اقلیتوں کو نہیں ملی تھی.بلکہ ابتدائی آئینی منزل ( نہرو رپورٹ) میں بھی مختلف قوموں کو جو ہم سفر تھیں بالکل نظر انداز کر دیا گیا تھا جس کے باعث ملک میں شدید بے چینی اور انتشار پیدا ہوا.اور ساری جد و جہد آزادی ایک مخصوص (ہندو) قوم کی کشمکش اقتدار بن کر رہ گئی.یہی وجہ تھی کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز شروع سے یہ آواز اٹھاتے آرہے تھے کہ آزادی کامل سے پہلے ہندو اکثریت سے جو آل انڈیا نیشنل کانگریس پر قابض ہے حقوق کے تصفیہ کی اشد ضرورت ہے ورنہ حکومت حاصل ہو جانے کے بعد سب کچھ اکثریت کے ہاتھ میں چلا جائے گا.یہ آواز ابتداء میں بہت کمزور تھی مگر نہرو رپورٹ کے بعد ملک کے گوشہ گوشہ سے اس زور کے ساتھ بلند ہوئی کہ مسلمانوں کی اکثریت نے " آزادی کامل" کے لفظ کے پیچھے پوشیدہ خطرے کو محسوس کر لیا اور اس بظاہر دلکش و دلفریب مگر حقیقت میں ملک اور خطرناک نعرہ میں کانگریس کی تائید کرنے سے صاف انکار کر دیا.الله مسلمانوں کے سواد اعظم کے مقابل بعض انتہا پسند اور جوشیلے مسلمان جو کانگریس کی مہا سبھائی ذہنیت کا متعدد بار تجربہ کرنے کے باوجود کانگریس سے چھٹے ہوئے تھے اور نیشنلٹ" اور "خدائی خدمت گار " کہلاتے تھے یا " جمعیتہ العلماء ہند" سے مسلک تھے " آزادی کامل" کی قرارداد پر کانگریس کے اور بھی پر جوش حامی بن گئے.ان جماعتوں کے علاوہ جو کانگریس کے دوش بدوش مسلمانوں میں کام کر رہی تھیں " آزادی کامل یکی قرار داد کو عملی جامہ پہنانے اور اس کی تحریک کو مسلمانوں تک پھیلانے کے لئے دسمبر ۱۹۲۹ ء میں یعنی کانگریس کے اجلاس لاہو ر ہی کے دنوں میں لاہور ہی میں مجلس احرار اسلام کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت کی بنیاد پڑی جس کے لیڈر اگرچہ شروع ہی سے ہر معاملہ میں کانگریس کی پر زور حمایت کرتے آرہے تھے مگر اب ایک نئے نام اور نئے پلیٹ فارم سے اپنی پہلی سرگرمیوں کو تیز تر کرنا چاہتے تھے.چنانچہ مفکر احرار چوہدری افضل حق صاحب لکھتے ہیں." مجلس احرار کا سب سے پہلا جلسہ ۲۹ دسمبر ۱۹۲۹ء کانگریس کے سالانہ جلسہ کے موقعہ پر ہوا.
تاریخ احمدیت جلد ۵ 158 خلافت ثانیہ کا سولہواں | SIN جس میں سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے میری صدارت میں تقریر کی اور کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ مسلمان نوجوان ہندوستان کی آزادی کا ہر اول ثابت ہوں.آزادی کے حصول کا فخر ہمارے حصہ میں آئے.اس کے تھوڑے عرصہ کے بعد سول نافرمانی کا آغاز ہوا.اور کانگریس کے جھنڈے تلے سب نے مل کر قربانیاں پیش کیں ".سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری کے ایک سوانح نگار لکھتے ہیں.” دسمبر ۱۹۲۹ء میں کانگریس نے مکمل آزادی کا ریزولیوشن پاس کیا اور اپریل ۱۹۳۰ء میں نمکین ستیہ گرہ کا آغاز کر دیا.احرار ذہناً کانگریس کے ساتھ تھے انہوں نے اپنی تنظیم کو ادھورا چھوڑا اور کانگریس میں شریک ہو کر سول نافرمانی میں حصہ لینے لگے.اس کی تفصیل میں شاہ جی کے ایک اور سوانح نویس نے لکھا ہے کہ.انڈین نیشنل کانگریس نے ۱۹۲۹ء کے اجلاس میں بمقام لاہور جب آزادی کامل کی قرار داد منظور کی تو اس کی تائید واشاعت میں آپ نے نہایت انہماک اور سرگرمی ت حصہ لیا اور جب مہاتما گاندھی کی قیادت میں آزادی کا بگل بجایا گیا اور نمکین سول نافرمانی کا ملک میں آغاز ہوا تو آپ پیش پیش رہے اور تمام ہندوستان میں کانگریس کے پروگرام کی اشاعت کے لئے طوفانی دورے کئے.ایک احراری لیڈر جناب مظہر علی صاحب اظہر کا بیان ہے کہ.مجلس احرار کے قیام کے وقت کانگریس سے کوئی اختلاف نہ تھا بلکہ ہمارے بہترین کارکن ۱۹۳۰ء کی سول نافرمانی کی تحریک میں قید کاٹ چکے تھے جن میں سے سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری مولانا حبیب الرحمن صاحب لدھیانوی ، چوہدری افضل حق صاحب اور شیخ حسام الدین صاحب کے نام بیان کر دینا مناسب ہے اس کے علاوہ ہمارے رضا کاروں نے تحریک سول نافرمانی میں حصہ لیا.مجلس احرار کے صدر جناب سید عطاء اللہ شاہ بخاری کا اپنے متعلق واضح طور پر اعلان تھا کہ "سمر سے پاؤں تک سیاسی آدمی ہوں".لہذا مجلس احرار بنیادی حیثیت سے خالص ایک سیاسی III جماعت تھی جس کا اصولی و بنیادی مقصد وحید مسلمانوں کو اپنے جوش خطابت سے کانگریس کی پالیسی پر گامزن اور اس کی تحریک پر کار بند کرنا تھا اور کانگریس کے چوٹی کے لیڈر ان دنوں جماعت احمدیہ کو تمام اسلامی جماعتوں میں اپنا سب سے بڑا حریف سمجھتے تھے.اور اس کی زبر دست تنظیم اور فدائیت کا بے نظیر جذ بہ ان کی آنکھوں میں خار کی طرح کھٹک رہا تھا.چنانچہ ڈاکٹر سید محمود جنرل سیکرٹری آل انڈیا نیشنل کانگریس اپریل ۱۹۳۰ء میں قادیان آئے.انہوں نے حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کو ایک ملاقات میں بتایا کہ پنڈت جواہر لال صاحب نہرو جب یورپ کے سفر سے (دسمبر۷ ۱۹۲ء) میں واپس
تاریخ احمدیت جلد ۵ 159 خلافت ثانیہ کا سولہواں سال آئے تو انہوں نے اسٹیشن پر اتر کر جو باتیں سب سے پہلے کہیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ میں نے اس سفر یورپ سے یہ سبق حاصل کیا ہے.کہ اگر انگریزی حکومت کو ہم کمزور کرنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ اس سے پہلے احمد یہ جماعت کو کمزور کیا جائے.چنانچہ مجلس احرار اسلام نے اس نقطہ کو بھی اپنی تحریک کا جزو لا ینفک بنالیا اور جس طرح انہوں نے اس سے پہلے نہرو رپورٹ " کے مخالفین کو قصر بر طانیہ کے ستون مشہور کر رکھا تھا اور آئندہ چل کر مسلم لیگ اور خاکسار تحریک کو انگریزی ایجنٹ اور دام فرنگ کے نام سے موسوم کیا.جماعت احمدیہ کو " برطانوی ایجنٹ قرار دے کر اس عظیم الشان اسلامی تنظیم کے خلاف بر سر پیکار ہو گئے.جو کانگریسی ذہن کے عین مطابق تھا.چنانچہ چوہدری افضل حق صاحب " تاریخ احرار " میں صاف لکھتے ہیں " کانگرسی مسلمانوں کا ذہن بے حد متشکلک اور متشدد ہے ۱۹۳۵ء سے پہلے تو لوگوں کو سی.آئی.ڈی اور انگریز کے ایجنٹ کا الزام لگا نا عام تھا.کانگریسی مسلمان اپنے دعوئی اور عمل میں مخلص ہوتے ہیں مگر وہ دو سروں کو ہمیشہ بد عقل اور دوسروں کا آلہ کار سمجھتے ہیں 10 - مجلس احرار کا ترجمان اخبار " آزاد " (لاہور) اسی بناء پر لکھتا ہے.” جب حجتہ الاسلام حضرت علامہ انور شاہ صاحب کا شمیری حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی اور حضرت مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری و غیر هم رحم اللہ کے علمی اسلحہ فرنگی کی اس کاشتہ داشتہ نبوت کو موت کے گھاٹ نہ اتار سکے تو مجلس احرار اسلام کے مفکر اکابر نے جنگ کا رخ بدلا.نئے ہتھیار لئے اور علمی بحث و نظر کے میدان سے ہٹ کر سیاست کی راہ سے فرنگی سیاست کے شاہکار پر حملہ آور ہو گئے ".اس اہم ترین سیاسی مقصد کے علاوہ جو دراصل کانگریس کے پروگرام کی تکمیل کے لئے از حد ضروری تھی) تحریک احمدیت کی مخالفت میں بعض اور عوامل بھی کار فرما تھے.مثلاً نہرو رپورٹ کی اندھا دھند تائید کی وجہ سے اس گروہ کے وقار اور عظمت کو سخت نھیں پہنچی تھی.جس کے ازالہ اور دوبارہ مسلمانوں میں نفوذ و مقبولیت کے لئے احمدیت کی مخالفت ایک کارگر ہتھیار تھا.جو غیر احمدی علماء اپنی شہرت و عزت کی دکان چمکانے کے لئے ابتدا سے استعمال کرتے آرہے تھے.جماعت احمدیہ سے مخالفت کی ایک اہم وجہ مولوی ظفر علی خاں کے اخبار "زمیندار" کے نزدیک مسلمانوں سے مالی منفعت " کا حصول تھا.چنانچہ اس نے لکھا."بتدریج یہ حقیقت زمانے نے مولانا حبیب الرحمن اور چودھری افضل حق پر واضح کر دی کہ کیا خدمت دین کے اعتبار سے اور کیا مالی منفعت کے لحاظ سے قادیانیت کی مخالفت موثر ترین ہے".یہ نظریہ اس لحاظ سے خاص طور پر
تاریخ احمدیت جلد ۵ 160 174 قابل توجہ ہے.سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری امیر شریعت " احرار کو مسلم تھا کہ رد احمدیت کے فن میں مولوی صاحب موصوف ان کے قائد ہیں چنانچہ ان کا بیان ہے کہ ” میری صدارت میرے دوستوں کا عطیہ ہے ورنہ اس منصب کے حقدار مولانا ظفر علی خاں ایڈیٹرز میندار ہیں.جنہوں نے روز اول سے مرزائیت کی جڑوں پر کلہا ڑا رکھا ہے وہ اس فن میں ہمارے استاد ہیں ".اس مقام پر مجلس احرار کی صرف ابتدائی تاریخ پر طائرانہ نظر ڈالنا مقصود تھا جس سے الحمد للہ ہم فارغ ہو چکے ہیں.البتہ ہم آگے جانے سے پہلے مناسب سمجھتے ہیں کہ اس مجلس کے سیاسی نظریات اور اس کے سیاسی مزاج کی نسبت اس کے قائدین اور مخالفین دونوں کی بعض آراء و مقتبسات بطور نمونہ درج کر دیں تا ان واقعات و حوادث کی تہہ تک پہنچنے میں مدد ملے جو آئندہ مجلس احرار کی سیاسی پالیسی اور انتہاء پسندانہ روش کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ کے خلاف رونما ہوئے اور جنہوں نے بر صغیر پاک و ہند کی سیاسی دن ہی فضا پر خطرناک اثر ڈالا.امیر شریعت احرار کی رائے سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری نے آزادی ہند سے متعلق اپنا مثبت نظریہ بتاتے ہوئے فرمایا.”ہمارا پہلا کام یہ ہے کہ غیر ملکی طاقت سے گلو خلاصی حاصل ہو اس ملک سے انگریز نکلیں یا نکالے جائیں تب دیکھا جائے گا کہ آزادی کے خطوط کیا ہوں گے...اگر اس مہم میں سٹور بھی میری مدد کریں گے تو میں ان کا منہ چوم لوں گا " - جنرل سیکرٹری مجلس احرار کا بیان احرار کے ایک سابق جنرل سیکرٹری لکھتے ہیں.احرار پنجاب کے اونی متوسط طبقے کے شہریوں کی ایک ایسی تحریک تھے.جس میں جوش و جذبہ وافر تھا.وہ لیگ کے ہمہ گیر سیاسی ذہن کے مقابلہ میں ایک مذہبی جماعت تھے اور کانگریس کی ہمہ گیر تنظیم کے مقابلہ میں ایک محدود سیاسی ذہن...خود داخلی طور پر متضاد الخیال تھے.لیکن اینٹی برٹش ذہن کی مشترکہ چھاپ نے انہیں ایک کر رکھا تھا.جن طاقتوں کے خلاف صف آراء تھے ان کی مختلف الاصل جارحیت کے خلاف مذہبی زبان میں سیاسی اثر پیدا کرتے تھے.اکابر احرار میں سے بیشتر کانگریس اور جمعیتہ العلماء کے ذہن کی سفارت کرتے.مولانا ابو الکلام آزاد اور مولانا حسین احمد مدنی سے ایک گونہ عقیدت رکھتے اور ان کی ذات کے لئے نبرد آزما ہوتے تھے گویا سیاست و مذہب کے میدان میں انہیں اپنے ثانوی ہونے کا اقرار تھا.احرار کسی تخلیقی فکر کے مظہر نہ تھے مگر ایجی ٹیشن اور پراپیگینڈا کے فن میں بے مثال تھے...احرار میں قربانی احتجاج ، حوصلہ اور خطابت کا جو ہر وافر
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 161 تھا.لیکن فکر نظر کسوئی اور قیادت کا تناسب مقابلتا کمتر تھا " - خلافت ماشیہ کا سولہواں سال مجلس احرار کے اخبار "آزاد" کی رائے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مجلس احرار کے خطبوں میں جذباتیت، پھکڑ بازی اور اشتعال انگیزی کا عصر غالب ہوتا ہے یہ ٹھیک ہے مگر یہ بھی تو دیکھئے کہ ہماری قوم کی ذہنیت اور مذاق کیا ہ...آپ ذرا حقیقت پسند ، سنجیدہ اور متین بن جائیں پھر آپ مسلمانوں میں مقبول ہو جائیں اور کوئی تعمیری و اصلاحی کام کرلیں تو ہمار ا زمہ.یہی تو ہماری سب سے بڑی کمزوری ہے کہ ہم حقائق و واقعات سے کوئی تعلق نہیں رکھتے صرف جذبات سے کام نکالتے ہیں اسی طرح اشتعال انگیزی بھی ہماری تحریکوں ، جماعتوں اور قائدوں کی جان ہے.آپ بڑے بڑے دیندار با اخلاق اور سنجیدہ اور متین پہاڑوں کو کھو دیں تو اشتعال کا چوہا نکلے گا.الیکشن بازی میں تو دیندار اور بے دین سب کے سب اشتعال انگیزی ہی سے کام لیتے ہیں.ہاں یہ ضرور ہے کہ اس سے کوئی کم لیتا ہے اور کوئی زیادہ ہمارے احراری بزرگ اس میں سب سے آگے ہیں اس لئے وہ رشک و حسد کی نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں ".امریکہ کے ایک مشہور مصنف کی رائے امریکہ کے ایک نامور مصنف مسٹر جان گشتھر لکھتے ہیں.احرار پنجاب میں بایاں بازو ہیں اور وہ کانگریس کے ساتھ ہیں وہ عجیب مجموعہ اضداد ہیں ایک طرف وہ مذہبی اعتبار سے فرقہ پسند فدائی ہیں اور دوسری طرف سیاسی انتہا پسند " 1 حضرت حافظ روشن علی صاحب ان کے علاوہ (جن کا تذکرہ جلیل القدر صحابہ کا انتقال گزشتہ صفحات میں کیا جا چکا ہے )۱۹۲۹ء میں کئی اور جلیل القدر صحابہ کا انتقال ہو ا جن کے نام یہ ہیں.ہوا ۰۵ حضرت مولوی محمد صاحب مزنگ لاہور ( تاریخ وفات ۲/ جنوری ۱۹۲۹ء) حضرت بابا ہدایت اللہ صاحب ( تاریخ وفات ۱۲/ جنوری ۱۹۲۹ء) حضرت شهامت خاں صاحب ناردون ضلع کانگڑہ (والد ماجد ڈاکٹر مطلوب خاں صاحب) حضرت بابو روشن دین صاحب سیالکوٹ ( تاریخ وفات ۲۴/ جنوری ۱۹۲۹ء ) شاہ جہاں بی بی المیہ حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب شهید ( تاریخ وفات یکم نومبر ۱۹۲۹ء صوفی با با شیر محمد صاحب آف بنگہ ضلع جالندھر - IFA
عت - جلوه 162 دو سرا باب (فصل پنجم) متفرق واهم واقعات خاندان حضرت مسیح موعود میں ترقی (1) حضرت خلیفہ المسح ایدہ اللہ تعال کی حرم رابع صاجزادی امتہ النصیر بیگم صاحبہ پیدا ہو ئیں - ساره بیگم صاحبہ کے ہاں ۱۳/ اپریل ۱۹۲۹ء کو (۲) حضرت نواب محمد علی خاں کے ہاں ۱۲/ ستمبر ۱۹۲۹ء کو صاجزادی آصفہ مسعودہ بیگم پیدا ہو ئیں مدیر " مشرق" کی وفات حکیم برہم صاحب ایڈیٹر " مشرق "گورکھپور ۲۴/ جنوری ۱۹۲۹ء کو وفات پاگئے - آپ مسلمانوں کی فلاح کے لئے کوشش کرنے دانوں میں ایک ممتاز و با اصول اخبار نویس تھے اور اس لئے جماعت احمدیہ کے دینی اور مذہبی خدمات کا کھلے الفاظ میں اقرار کر کے دلی بشاشت سے اسے سراہنے ہی پر بس نہ کرتے بلکہ مسلمانوں کے دلوں میں اس کے کاموں کی قدرو منزلت پیدا کرنے کے لئے پر زور مضامین بھی شائع فرمایا کرتے تھے.چنانچہ آپ نے اپنی زندگی میں جو آخری پرچہ " مشرق " تیار کیا اور جو آپ کی وفات کے بعد شائع ہوا.اس میں بھی مندرجہ ذیل نوٹ لکھا.ہندوستان میں صداقت اور اسلامی سپرٹ صرف اس لئے باقی ہے کہ یہاں روحانی پیشواؤں کے تصرفات باطنی اپنا کام برابر کر رہے ہیں اور کچھ عالم بھی اس شان کے ہیں جو عبد الد راہم نہیں ہیں اور سچ پوچھو تو اس وقت یہ کام جناب مرزا نمایام احمد صاحب مرحوم کے حلقہ بگوش اسی طرح انجام دے رہے ہیں جس طرح قرون اولی کے مسلمان انجام دیا کرتے تھے.حیدر آباد میں انجمن ترقی اسلام کی بنیاد یکم فروری ۱۹۲۹ء سے انجمن ترقی اسلام میدار آباد (دکن) کا باقاعدہ قیام عمل میں آیا.انجمن کی انتظامیہ کے ایک ممبر مولوی عبد الرحیم صاحب نیر بھی تھے جو ۱۹۲۸ء سے جنوبی ہند میں بحیثیت مبلغ
تاریخ احمدیت جلد ۵ 163 بڑے شوق و جوش سے مصروف کار تھے اور انجمن ترقی اسلام کا نمایاں کام ریاست کی اچھوت اقوام میں مدارس کا قیام اور ان میں تبلیغ اسلام کرنا تھا.چنانچہ موضع بوئے پلی.دینا چڑ اور محبوب نگر میں مدر سے قائم ہو گئے جن میں ایک سو سے زائد طالب علم تعلیم پاتے تھے.ان مدرسوں کے اخراجات انجمن ترقی اسلام کے مقامی ریز رو فنڈ سے ادا کئے جاتے تھے.مقدمه شاه جهانپور کا فیصلہ مقدمہ احمدیہ مسجد شاہ جہانپور کی اپیل ڈسٹرکٹ جج کی عدالت میں دائر تھی.شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ اور مولوی فضل الدین صاحب مشیر قانونی نے پیروی کی.بالآخر مقدمہ جی شاہ جہان پور سے احمدیوں کے حق میں فیصل ہوا تھا.اس سال جماعت احمدیہ کی سات خواتین نے احمدی خواتین کی عربی امتحان میں کامیابی " مولوی" کا عربی امتحان پاس کیا.جن میں سے محترمہ امتہ السلام بیگم صاحبہ بنت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب یو نیورسٹی میں خواتین میں اول اور حضرت سارہ بیگم صاحبہ سوم رہیں.یہ پہلا موقعہ تھا کہ اتنی احمدی مستورات اس امتحان میں پاس ہو ئیں.۱۴۵ تمبر ۱۹۲۹ء کا واقعہ ہے کہ جماعت احمد یہ پشاور کے ایک مخلص ایک احمدی پر قاتلانہ حملہ احمدی میاں محمد یوسف صاحب پر قصہ خوانی بازار میں ایک شخص نے پشاور میں چاقو سے محض اس لئے قاتلانہ حملہ کر دیا کہ اس کا بھائی ان کے ذریعہ سے داخل سلسلہ احمد یہ ہو چکا تھا.اور کسی موقع پر میاں محمد یوسف صاحب نے اسے بھی قبول احمدیت کی دعوت دی تھی مجرم اسی وقت مگر فتار کرلیا گیا اور عدالت نے دو سال قید بامشقت کی سزا دی.ماریشس: حافظ جمال احمد صاحب نے آریہ بیرونی مشنوں کے بعض ضروری واقعات سماجیوں کے خلاف مسلمانوں کے مشترکہ جلسوں میں کامیاب تقریریں کیں اور وہاں کے مسلمان سیٹھوں نے اقرار کیا کہ اسلام کی فتح احمدیوں کے ہاتھ پر ہوئی ہے.سماٹرا: یکم رمضان کو پاڈانگ میں مسئلہ معراج پر ایک غیر احمدی مولوی صاحب سے مناظرہ ہوا.مشتعل ہجوم نے مناظرہ کے دوسرے دن مولوی رحمت علی صاحب اور حاجی محمود صاحب کو گالیاں دیں اور احمد یہ مشن ہاؤس پر پتھر پھینکے.دو گھنٹے تک یہ ہنگامہ جاری رہا.جسے دیکھ کر اسی جگہ دو احباب داخل سلسلہ احمدیہ ہو گئے.
10° جلد ۵ 164 خلافت ثانیہ کا سولہواں پینگ (سٹریٹ سیٹلمنٹ): میں ۳-۱۴ جولائی ۱۹۲۹ء کو علی الترتیب وفات مسیح اور ختم نبوت سیاب مباحثات ہوئے پہلا مباحثہ احمد نور الدین صاحب نے اور دو سرا زینی دحلان صاحب نے کیا نائیجیریا (مغربی افریقہ) حکیم فضل الرحمن صاحب نے ۲۲/ فروری ۱۹۲۹ء کو مسجد ایکر افول کا سنگ بنیاد رکھا.حکیم صاحب اس سے پیشتر افریقہ کی کئی احمدی مساجد کا افتتاح کر چکے تھے.مگر یہ پہلی مسجد تھی جس کی بنیاد آپ کے ہاتھوں رکھی گئی.101) (۱) مولوی نذیر احمد علی صاحب ۲۲ / فروری ۱۹۲۹ء مبلغین احمدیت کی روانگی اور واپسی کو سیرالیون مغربی افریقہ میں فریضہ تبلیغ بجالانے کے لئے روانہ ہوئے.آپ پہلے مبلغ تھے جو قادیان سے ریل گاڑی میں روانہ ہوئے.(۲) مولوی رحمت علی صاحب مبلغ سماڑا.ابوبکر صاحب بگنڈا اور ادریس دا تو صاحب سماٹری کو ساتھ لے کر ۱۹ / اکتوبر ۱۹۲۹ء کو پہلی بار قادیان تشریف لائے.نئی مطبوعات اس سال مندرجہ ذیل کتب سلسلہ شائع ہو ئیں.(۱) مکتوبات احمد یہ "جلد پنجم نمبر یعنی سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مکتوبات بنام چوہدری رستم علی صاحب مرتبہ (حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی) (۲) تحفتہ النصاری " حصہ اول (مولفہ چوہدری غلام احمد صاحب امیر جماعت پا کمپٹن) اندرون ملک کے بعض مشہور مباحثے (۱) مباحثہ گجرات: (مابین مولانا ابو العطاء صاحب و آریہ مناظر) یہ مباحثہ ۱۵/ جنوری ۱۹۲۹ء کی شام کو آریہ سماج کے مندر میں ہوا.موضوع بحث مسئلہ تاریخ تھا.مولانا ابو العطاء صاحب نے آریہ مناظر سے مطالبہ کیا کہ وہ ثابت کریں کہ انسان ہونے سے پہلے وہ کن کن جونوں کے چکر میں مقید رہے ہیں.دوسرے یہ کہ تھوڑی مدت کے گناہوں کی سزا آریوں کی مسلمہ کتب کے مطابق عرصہ در از تک کیوں دی جائے گی.مولانا صاحب کے مطالبہ کا کوئی معقول جواب آریہ مناظر نہ دے سکا تو آریوں نے جناب مولانا کے خلاف بولنے کے لئے اہل قرآن کے ایک مولوی صاحب کو کھڑا کر دیا.آریہ سماج کو توجہ دلائی گئی کہ اگر یہ صاحب اسلام کے نمائندے ہیں تو آریہ مناظر سے بحث کریں.اگر نہیں تو آریوں کی طرف سے کھڑے ہوں آخر جب مسلمانوں کو یہ معلوم ہوا کہ شاہ جی آریوں کی امداد کے لئے تشریف لائے ہیں تو انہوں نے ان کو مقام مباحثہ تے باہر نکال دیا.جب سیکرٹری آریہ سماج نے دیکھا.کہ اب مناظرہ کرنا ہی پڑے گا تو ادھر ادھر کی باتوں میں وقت ضائع کرنے کی کوشش شروع
احمدیت.جلد د 165 خلافت ثانیہ کا سولہواں سال کر دی اور پھر لیمپ بجھا دیا اور مناظرہ ختم ہو گیا.(۲) مباحثہ میمو (برما) (مابین سید عبد اللطیف صاحب احمدی آف رنگون اور مولوی غلام علی شاہ صاحب آف مانڈ لے) یہ مناظرہ ۲۳/ جون ۱۹۲۹ء کو جامع مسجد میں چھ گھنٹہ تک جاری رہا.قریباً ایک ہزار افراد اس میں شامل ہوئے احمدی مناظر نے صداقت حضرت مسیح موعود اور ختم نبوت پر آیات قرآنی سے اپنے دعوے کے دلائل پیش کر کے چیلنج کیا کہ مولوی صاحب انہیں توڑیں مگر غیر احمدی مولوی صاحب جو قریباً ایک درجن علماء کی معیت میں آئے ہوئے تھے آخر تک کسی دلیل کو توڑ نہ سکے.(۳) مباحثه حجرات: (مابین مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری و پنڈت ست دیو صاحب آریہ سماجی مناظر) تاریخ مناظرہ ۲۴/ مارچ ۱۹۲۹ء تھی اور موضوع بحث یہ تھا کہ وید کامل الهامی کتاب ہے یا قرآن شریف ؟ مولانا ابو العطاء صاحب نے آریہ مناظر کے رد میں ستیارتھ پر کاش سے اہم حوالہ جات پیش کئے اور قرآن شریف کے الہامی ہونے کے بارے میں تو ایسی لاجواب دلکش تقریر فرمائی کہ سامعین عالم وجد میں تھے - (۴) مباحثہ دینا نگر ضلع گورداسپور: (مابین مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری ، پنڈت رام چند صاحب دہلوی تاریخ مباحثہ ۲۶ جولائی ۱۹۲۹ ء - موضوع بحث " نماز اور سندھیا " تھا.آرید مناظر کو ایسا زچ ہو نا پڑا کہ آریوں پر مردنی سی چھا گئی.(۵) مباحثہ ڈنڈوت: تحصیل پنڈدادن خان ضلع جہلم ( ما بین ملک عبد الر حمن صاحب خادم گجراتی و مولوی محمد احسن صاحب تاریخ مناظره ۹/ اگست ۱۹۲۹ء- موضوع بحث صداقت حضرت ۱۵۷ سیح موعود تا (۲) مباحثه صمی: تحصیل پنڈ دادن خان ضلع جہلم (مامین ملک عبد الر حمن صاحب خادم گجراتی و مولوی سید لال شاہ صاحب) تاریخ مناظره ۱۲ اگست ۱۹۲۹ء- موضوع بحث "صداقت مسیح موعود " اور "حیات و وفات مسیح ناصری علیہ السلام " ملک صاحب نے دوران مناظرہ میں اپنے استنباط کی تائید میں بار بار انعامی چیلنج دیئے مگر غیر احمدی مناظر صاحب کو ان کے قبول کرنے کی جرأت نہ ہو سکی.١٥٩ (۷) مباحثه موضع میانوالی ضلع سیالکوٹ: (مابین مولوی غلام احمد صاحب بد و طهوی و مولوی عبدالرحیم شاہ صاحب تاریخ مباحثه ۲۲/ اگست ۱۹۲۹ء- موضوع مباحثه "حیات و وفات حضرت مسیح" و "صداقت حضرت مسیح موعود غیر احمدی مناظر صاحب لاجواب ہو کر سخت
تاریخ احمدیت جلده 166 خلافت ثانیہ کا سولہواں سال 14+ کلامی پر اتر آئے.جس پر غیر احمدیوں کے صدر نے بھی اظہار افسوس کیا - (۸) مباحثہ مری (مابین مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری و ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب غیر مبائع تاریخ مباحثه ۲۳/ اگست ۱۹۲۹ء تھی اور موضوع مباحثہ " امکان نبوت از روئے قرآن و حدیث || اس مناظرے میں ڈاکٹر صاحب نے ایسی روش اختیار کی جس کی وجہ سے غیر احمدی حضرات کو جو جلسہ میں موجود تھے.یہ یقین ہو گیا کہ آپ احمدیت سے دست بردار ہو گئے ہیں انہوں نے پر شوق و جوش ڈاکٹر صاحب سے معانقہ کیا اور انہیں دعوت دی کہ آپ جمعہ کی نماز ہمارے ساتھ ہی ادا کریں اس موقعہ پر تو آپ نے کچھ ایسا ہی انداز ظاہر کیا تھا کہ گویا آپ رضامند ہیں مگر بعد کو انکار کر دیا.اس موضوع کے بعد دعوی نبوت از روئے تحریرات مسیح موعود پر مباحثہ کا فیصلہ ہو چکا تھا بلکہ شرائط بھی طے ہو چکی تھیں لیکن غیر مبایعین نے ڈاکٹر صاحب کو کہلا بھیجا کہ اگر آپ نے مناظرہ کیا تو ہم آپ سے الگ ہو جائیں گے - (۹) مباحثہ تر گڑی: (مابین ملک عبدالرحمن صاحب خادم گجراتی و مولوی سراج دین صاحب) یہ مباحثہ ۹ / ستمبر ۱۹۲۹ء کو ہوا.موضوع بحث حیات و وفات مسیح تھا.(۱۰) مباحثہ سرینگر: (مابین مولانا ابو العطاء صاحب جالندهری و میرید تر شاه صاحب غیر مبائع) یه مباحثه ۱۲- ۱۳/ ستمبر ۱۹۲۹ء کو منعقد ہوا.موضوع " امت محمدیہ میں نبوت " تھا.(11) مباحثہ رنگون: (مابین سید محمد لطیف صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ رنگون و سید علی شاہ صاحب) تاریخ مباحثہ ۱۷/ ستمبر ۱۹۲۹ء اور موضوع بحث " وفات مسیح و صداقت مسیح موعود" تھا.احمدی مناظر نے غیر احمدی مناظر کو بار بار قرآن و حدیث پیش کر کے جواب کا مطالبہ کیا.مگر وہ اٹھ کر روانہ ہو گئے.(۱۲) مباحثہ انچولی ضلع میرٹھ : (مابین مولانا ظہور حسین صاحب و مولوی محمد منظور صاحب سنبلی مراد آبادی و مولوی غلام احمد صاحب بد و طهوی و مولوی عبد الشکور صاحب لکھنوی) احمدی مناظرین نے اس مناظرے میں دیو بندی علماء سے سولہ مطالبات کئے جن کا کوئی جواب نہ دیا گیا نواب مرزبان علی صاحب سپیشل مجسٹریٹ اور دیگر رؤساء نے اسٹیج پر اس کا کھلا اقرار کیا.(۱۳) مباحثہ لالہ موسیٰ : (ضلع گجرات) مابین ملک عبدالرحمن صاحب خادم گجراتی و مناظر اہلحدیث حافظ فضل الرحمن صاحب تاریخ مباحثه ۳/ اکتوبر ۱۹۲۹ء - موضوع نمبرا بحث حیات و وفات مسیح ناصری نمبر ۲ صداقت مسیح موعود - غیر احمدی مناظر دوسری بحث میں اختتام مناظرہ سے ایک گھنٹہ قبل ہی میدان مناظرہ سے اٹھ کر چل دیئے.
ریخ احمدیت جلد ۵ 167 خلافت ثانیہ کا سولہواں سال (۱۴) مباحثه چک نمبر ۵۶۵ ضلع لائلپور (مابین ابو العطاء صاحب و علماء اہل سنت) یہ مناظره وسط اکتوبر ۱۹۲۹ء میں صداقت مسیح موعود اور ختم نبوت کے موضوع پر ہوا.غیر احمدیوں نے ۳۰ کے قریب حنفی و اہلحدیث علماء جمع کر رکھے تھے.مناظرہ ہونے پر یہ بہت بے دل ہو گئے.حتی کہ آپس میں الجھ پڑے کہ فلاں بات کیوں پیش نہ کی.میں ہو تا تو یہ پیش کرتا.(۱۵) مباحثه موضع کاشیما: ضلع بنگال (احمدی مناظر مولوی ظل الرحمن صاحب بنگالی ) یہ مباحثہ آخر اکتوبر ۱۹۲۹ء میں ہوا.موضوع بحث بقائے نبوت اور صداقت مسیح موعود تھا.اطراف وجوانب کے ہزاروں آدمی کار روائی دیکھنے کے لئے شامل ہوئے تھے.خان بهادر چوہدری نواب محمد دین صاحب خان بہادر نواب محمد دین صاحب کی بیعت باجوہ نیا کرو ڈپٹی کمتر تلونڈی عنایت ریٹائرڈ ضلع سیالکوٹ کے ایک نامور رئیس تھے.آپ کی والدہ ماجدہ محترمہ بہشت بی بی صاحبہ اور آپ کے برادر اکبر چوہدری محمد حسین صاحب اور آپ کے فرزند ارجمند چوہدری محمد شریف صاحب ایڈووکیٹ منٹگمری) تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحابیت کا شرف پاچکے تھے لیکن باوجود یہ کہ آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے ہی سے حضور کی گہری عقیدت حاصل تھی تاہم آپ ابھی تک بیعت سے مشرف نہیں ہوئے تھے.آخر اس سال یعنی ۱۹۲۹ء میں آپ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دست مبارک پر بیعت کر کے سلسلہ عالیہ احمد یہ میں شامل ہو گئے.حضور ایدہ اللہ تعالی آپ کی بیعت کا دلچسپ واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں." مجھے یاد ہے جب انہوں نے بیعت کی تو ساتھ یہ درخواست کی کہ میری بیعت ابھی مخفی رہے میں ریٹائر ہو چکا ہوں اور اب ملازمتیں ریاستوں میں ہی مل سکتی ہیں.اس لئے اگر میری بیعت ظاہر نہ ہو تو ملازمت حاصل کرنے میں سہولت رہے گی...میں چند دنوں کے لئے شملہ گیا اور انہوں نے مجھے دعوت پر بلایا اور کہا اور تو میں کوئی خدمت نہیں کر سکتا لیکن یہ تو کر سکتا ہوں کہ دعوت پر بڑے بڑے آدمیوں کو بلالوں...مجھے ثواب مل جائے گا.میں دعوت پر چلا گیا انہوں نے بڑے بڑے آدمی بلائے ہوئے تھے.میں اس انتظار میں تھا کہ کوئی اعتراض کرے اور میں اس کا جواب دوں کہ وہ کھڑے ہوئے اور حاضرین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے تقریر میں انہوں نے کہا بڑی خوشی کی بات ہے کہ امام جماعت احمد یہ یہاں تشریف لائے ہیں جو شخص کسی قوم کا لیڈر ہوتا ہے ہمیں اس کا احترام کرنا چاہئے......دو تین منٹ کے بعد وہ تقریر کرتے ہوئے یکدم جوش میں آگئے اور کہنے لگے اس
168 خلافت ثانیہ کا سولہواں تاریخ احمدیت زمانہ میں ایک شخص آیا اور وہ کہتا ہے کہ میں خدا تعالی کی طرف سے مامور ہوں.اگر آپ لوگ اسے نہیں مانیں گے تو آپ پر خدا تعالی کی طرف سے عذاب آجائے گا.جب وہ تقریر کر کے بیٹھ گئے تو میں نے کہا.دیکھئے نواب صاحب میں نے تو ظاہر نہیں کیا کہ آپ احمدی ہیں آپ نے تو خودہی ظاہر کر دیا ہے وہ کہنے لگے مجھ سے رہا نہیں گیا.میں نے کہا میں پہلے ہی سمجھتا تھا کہ کچی احمدیت چھپی نہیں رہتی آپ خواہ کتنا بھی چھپائیں یہ ظاہر ہو کر رہے گی "
تاریخ احمدیت مخرب 169 حواشی حصہ اول (دو سرا باب) خلافت ثانیہ کا سولہواں سال → د.-A الفضل ۱۸/ جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۱.رستہ میں ایک جگہ موٹر خراب ہو گئی وہاں قریب ہی کرکٹ کی کھیل ہو رہی تھی.ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب کی خواہش پر حضور کھیل کے میدان میں چلے گئے.وہاں ہندوستان کے ایک مشہور مسلم لیڈر آگئے اور حضور کو دیکھ کر حیرانی سے کہنے لگے کہ آپ بھی یہاں آگئے.حضور نے فرمایا.یہاں آنے میں کیا حرج ہے.کہنے لگے یہاں کھیل ہو رہی ہے آپ نے جواب دیا.میں خود ٹورنامنٹ کراتا ہوں اور کھیلتے بھی جاتا ہوں.پہلے فٹ بال بھی کھیلا کرتا تھا مگر اب صحت اسے برداشت نہیں کرتی.انہیں یہ باتیں سن کر بہت تعجب ہوا.گویا پڑھے لکھے مسلمانوں کے دلوں میں یہ خیال ہے کہ دین اور ورزش ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے.(رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء) الفضل ۱۸/ جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ا کالم ۲ آپ آخر ۱۹۲۸ء میں آئے تھے اور یکم دسمبر ۱۹۲۸ء کو انجمن حمایت اسلام لاہور نے ان کی خدمت میں سپاسنامہ پیش کیا تھا.یہ گورنر صاحب جماعت احمدیہ کی تعلیمی ترقی سے بہت متاثر تھے چنانچہ انہوں نے غالباً اسی ملاقات کے دوران میں یا کسی اور موقعہ پر کہا.ایک ایسی جماعت نے جو مقابلاتا قلیل ہے اور جس کے بالی محدود ذرائع میں تعلیمی اعتبار سے نمایاں ترقی کی ہے اور یہ امریذات خود تمام ملت اسلامیہ کے لئے من حیث الجماعت ایک تعجب انگیز نمونہ ہے جن اصحاب نے اس عظیم الشان تحریک کی رہنمائی کی اور جنہوں نے اس کی تائید اور معاونت کی میرے پاس ان کی تحسین کے لئے کافی کلمات نہیں ہیں".(رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحه ۳۱۸) مفصل تقرير الفضل ۵/ فروری ۱۹۳۵ء میں چھپ چکی ہے.الفضل ۲۲/ جنوری ۱۹۲۹ء صفحه ۱-۲- الفضل یکم فروری ۱۹۲۹ء صفحہ ۸- الفضل یکم مارچ ۱۹۳۹ء صفحہ ۶ کالم ۱-۲- خواتین اور طالبات کے لئے پردے کا انتظام تھا.جو انعامات دیئے گئے ان میں سے تقریر اور مضمون نگاری کے انعام حاصل کرنے والے طلبائے جامعہ ومدرسہ کے نام یہ ہیں.(جامعہ احمدیہ) مولوی محمد صادق صاحب عبد المنان صاحب عمر (مدرسه احمدیه) مولوی محمد سلیم صاحب شیخ عبد القادر صاحب (رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحه ۲۱۷) الفضل یکم فروری ۱۹۲۹ء صفحہ اکالم ۳ و صفحه ۲ کالم ۲.یعنی (۱) ہندوستان میں فیڈرل طرز کی حکومت ہو جس میں صوبوں کو مکمل خود اختیاری حاصل ہو.(۲) جداگانہ انتخاب کو اس وقت تک قائم رکھا جائے جب تک کہ سیاسی میدان سے فرقہ وارانہ جذبات معدوم نہ ہو جائیں.(۳) اسی دوران میں مختلف اقوام کے لئے مناسب آبادی کے لحاظ سے صوبجاتی مجالس قانون ساز میں نشستیں مخصوص کر دی جائیں.اقلیتوں کو بے شک کچھ زائد مراعات دی جائیں لیکن اس بات کا خیال رکھا جائے کہ ایسا کرنے سے کوئی کثرت اقلیت میں تبدیل نہ ہو جائے.(۴) سندھ کو مل صوبہ بنا دیا جائے.(۵) صوبہ سرحد اور بلوچستان میں اصطلاحات نافذ کر دی جائیں.(۶) تمام مذاہب کے لئے کامل آزادی کا.اصول تسلیم کیا جائے اور یہ بات سابقہ تمام باتوں کے ساتھ ملکی دستور میں داخل کبھی جائے.الفضل ۱۳ / فروری ۱۹۲۹ء صفحه ۴-
تاریخ ا ت جلد ۵ 170 خلافت تانیہ کا سوله الفضل ۱۲ / فروری ۱۹۲۹ و صفحه ۵۰۴ الفضل ۱۱۹ فروری ۱۹۲۹ء صفحه ۴ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۴۷ تألیف و تصنیف الفضل ۲۹/ مارچ ۱۹۲۹ء صفحہ ۶-۷ - جس کا ذکر قبل از میں ۱۹۲۸ء کے حالات میں گزر چکا ہے.ازیں و الفضل ۹/ اپریل ۱۹۲۹ء صفحه ۲ ۲۰ مولانا محمد علی جوہر نے اپنے اخبار ہمد رد ۵ / مارچ ۱۹۳۹ء میں ملاقات کا ذکر کیا تھا.(مولانا محمد علی بحیثیت تاریخ اور تاریخ ساز صفحه ۳۳۶ شائع کردہ سندھ ساگر اکادمی لاہور طبع اول جنوری ۱۹۶۲ء ۲۱ مکمل متن کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۲۲ مارچ ۱۹۲۹ء صفحہ ۹- ۲۲ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۴۸- چنانچہ انہوں نے ۲۶ / مارچ ۱۹۲۹ء کو لکھا.مسلمانوں کے مشہور لیڈروں کے درمیان جو باہمی اختلافات اور نزاع پیدا ہو گیا تھا اس کے دور کرنے کے واسطے حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ نے جو سعی فرمائی تھی وہ بھی بفضلہ تعالی بار آور ہو رہی ہے چنانچہ جس وقت یہ رپورٹ مجلس مشاورت میں پیش ہو گی اس وقت راقم الحروف دہلی میں مسلمانوں کے دو بڑے لیڈروں مسٹر جناح اور سر شفیع اور ان کے رفقاء کی باہمی مصالحت میں انشاء اللہ کامیابی دیکھ رہا ہو گا.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحه ۲۴۸) ۲۳- الفضل ۱۳/ اپریل ۱۹۲۹ء صفحه ۷- ۲۴- الفضل ۵ / اپریل ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۳ کالم ۲- ۲۵ الفضل ۷ / مارچ ۰۶۱۹۳۰ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحه ۲۵۷- الفضل 11 / مارچ ۱۹۳۰ء صفحه ۴ کالم ).3 ۲۸ عبد المجید صاحب سالک نے مسلم لیگ کے الحاق کا واقعہ بیان کرتے ہوئے اپنی سرگزشت میں لکھا ہے کہ اصل بات یہ ہے کہ مسٹر محمد علی جناح مسلمانوں کی مصلحت کو خوب جانتے تھے اور انہوں نے ہندوؤں کے سامنے اتمام حجت کر دیا اور پھر غصے میں بمبئی چلے گئے.پھر خیال آیا ہو گا کہ دو لیگوں کا قائم رہنا خالص حماقت ہے خصوصاً جبکہ آل پارٹیز کانفرنس ملک بھر میں گونج اور گرج رہی ہے اور مسلم لیگ کو کوئی پوچھتا بھی نہیں.(صفحہ ۲۶۰-۲۶۱) ۲۹- الفضل ۱۳/ اپریل ۱۹۲۹ء صفحه ۱۲- ۳۰ اخبار تیج (دہلی) ۱۰ / اپریل ۱۹۲۹ء بحوالہ اہلحدیث امر تسر ۱۹ / اپریل ۱۹۲۹ء صفحه ۱۴-۱۵ بعض شریف اور غیر متعصب ہندوؤں نے اس موقعہ پر یہ بھی اقرار کیا کہ "اگر چہ بعض ہندو جرائد قتل راجپال کی آڑ میں مذہب اسلام اور اس کے بانی حضرت محمد صاحب کی ذات بابرکات کے خلاف نہایت کمینے الزامات تراشنے میں مصروف ہیں لیکن مسلمان لیڈروں کی صاف دلی ملاحظہ ہو کہ وہ ان ناقابل برداشت حملوں کو سنتے ہوئے بھی قتل راجپال میں ان کے ساتھ نہایت خلوص دلی سے اظہار ہمدردی کر رہے ہیں.ہم مسلمان بھائیوں کا اس صاف دلی اور اظہار ہمدردی کا شکریہ ادا کرتے ہیں." اخبار رشی امر تسر ۱۸ / اپریل ۱۹۳۹ء) بحوالہ الفضل ۳۰/ اپریل ۱۹۲۹ء صفحہ ۴.۳۲ تیج (دہلی) ۱۰/ اپریل ۱۹۲۹ء بحوالہ اہلحدیث امر تسر صفحه ۱۵ کالم ۳ ۳۳- الفضل ۱۲ / اپریل ۱۹۲۹ء صفحه ۱۲- ۴۴ الفضل ۱۹ / اپریل ۱۹۲۹ء صفحه ۶ تا ۸ ۳۵ الفضل ۲۵/ جنوری ۱۹۲۹ء صفحه ۶ - بحواله الفضل ۱۳۸ مئی ۱۹۲۹ء صفحہ ۹ کالم :-
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 171 خلافت ثانیہ کا سولہواں سال ۳۷ بحواله الفضل ۱۲۸ مئی ۱۹۲۹ء صفحه ۹ کالم ۲ ۳۸ بحواله الفضل ۱۲۸ مئی ۱۹۳۹ء صفحہ ۹ کالم ۳ ٣٩ الفضل ۱۲۱ مئی ۱۹۲۹ء صفحہ ۹ کالم -۲ ۴۰ مشرق ۱۹ مئی ۱۹۲۹ء بحواله الفضل ۱۲۱ مئی ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۰ کالم :- اخبار ہمت لکھنو ٣ / مئی ۱۹۲۹ ء بحوالہ الفضل ۱۰ مئی ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۰ کالم ۲.الفضل ۹/ اپریل ۱۹۲۹ء صفحه ۲ کالم ۲- ۲۳ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحه ۲۰۰.۴۴ مراد هه لوی ظفر علی خاں صاحب ہیں.ناقل.۴۵ بحواله الفضل ۲۸ جون ۱۹۲۹ء صفحہ ۶ کالم ۱-۲- ام بحوالہ الفضل ۱۱ جون ۱۹۲۹ء صفحہ اکالم ۲.۴۷- بحواله الفضل ۲۱ جون ۱۹۲۹ء صفحہ اکالم ۲-۳- ۲۸ بحواله الفضل ۲۵/ جون ۱۹۲۹ء صفحہ اکالم ۲- ۴۹ بحواله الفضل ۲۵ جون ۱۹۲۹ء صفحه ا کالم ۳ الفضل ۱۴ / جون ۱۹۲۹ء صفحہ اکالم - ال الفضل ۱۳/ نومبر ۱۹۲۹ء صفحه ۲ کالم ۲.۵۲ - الفضل ۱۸-۲۱ / جون ۱۹۲۹ء صفحہ ا کالم) ۵۳ - الفضل ۴ / اکتوبر ۱۹۲۹ء صفحه ۱ ۵۴- الفضل ۳۰/ اگست ۱۹۲۹ء صفحه ا- ۵۵ الفضل ۵/ جولائی ۱۹۴۹ء صفحہ اکالم - ۵۶ الفضل ۹/ جولائی ۱۹۲۹ء صفحہ ۶ کالم ۳.۵۷ الفضل ۱۹/ جولائی ۱۹۲۹ء صفحہ سے کالم ۲.۳.الفضل ۲۳/ جولائی ۱۹۲۹ء صفحہ ۷ کالم ۲.الفضل ۱۳/ اگست ۱۹۲۹ء صفحه ۶ کالم - الفضل ۲۰/ اگست ۱۹۲۹ء صفحه ۶ کالم ۳ ال الفضل ۲۳/ اگست ۱۹۲۹ء صفحه ۶ کالم - ۶۲ الفضل ۵/ جولائی ۱۹۲۹ء صفحہ ۱ کالم ۲- الفضل ۱۹/ جولائی ۱۹۲۹ء صفحہ اکالم ۲.۷۴.یادر ہے کہ سفر کشمیر کے اکثر بیشتر خطبات آپ نے اور بعض ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب و محمد افضل صاحب نے مرتب کر کے الفضل کو بھجوائے جو شائع شدہ ہیں.الفضل ۲۲ / اگست ۱۹۲۹ء صفحه اکالم ۲-۳- الفضل ۱۲/ نومبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۹ کالم ۱-۲- الفضل ۳/ دسمبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۷ الفضل ۲۸/ جون ۱۹۲۹ء صفحہ ۱.الفضل ۲۸/ جون ۱۹۲۹ء صفحہ ۷ کالم ۲.خواجہ غلام نبی صاحب ایڈیٹر الفضل حضرت میر محمد اسحاق صاحب مولانا ابو العطاء صاحب ، حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیر مولوی غلام احمد صاحب بد و طہوی اور ڈاکٹر محمد شاہ نواز صاحب کے مضامین الفضل میں شائع شدہ ہیں.
172 خلافت ثانیہ کا سولہواں سال تاریخ احمدیت جلد ۵ مرضیہ کہنے والوں میں سے حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب حضرت خان صاحب ذو الفقار علی صاحب حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی نواب خان صاحب ثاقب میرزا خانی، ملک عبد الرحمن صاحب خادم ، مولانا جلال الدین صاحب شمس ، مولوی غلام احمد صاحب اختر اوچ شریف مولوی عبد الله صاحب مالا باری خاص طور پر قابل ذکر ہیں.۷۲ اخبار اہلحدیث ۲/ جولائی ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۵ کالم -۲ - اخبار پیغام صلح و ر جولائی ۱۹۲۹ء.۷۴.حضور نے اس ایک فقرہ میں حضرت حافظ صاحب کی پوری زندگی کا نقشہ کھینچ دیا ہے.چنانچہ جب ہم حضرت مولوی عبد الکریم اور آپ کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو دونوں بزرگوں میں متعدد مما تھیں اور مشابہتیں پائی جاتی ہیں.دونوں اپنے زمانے میں صف اول کے علماء میں شمار ہوتے تھے.دونوں خوش الحان واعظ مقرر تھے.دونوں کی علمی و دینی خدمات کا سلسلہ آخر دم تک جاری رہا.دونوں سنتالیس سال کی عمر میں اپنے مولی حقیقی سے جاملے.۷۵ - الفضل ۳۸/ جون ۱۹۲۹ء- الفضل ۲۸/ جون ۱۹۲۹ء صفحہ ۲ کالم ۲- ۷۷.الفضل ۷ / جنوری ۱۹۳۰ء صفحہ ۳ کالم ۲۴۱ الفضل ۲۸ جون ۱۹۳۹ء- ۷۹ الفضل ۱۹/ نومبر ۱۹۴۰ء ۸۰ یاد رہے سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے جنوری ۱۹۱۹ء میں جب نظار توں کا قیام فرمایا تو اعلان فرمایا کہ میں نے جماعت کی ضروریات افتاء کو مد نظر رکھ کر مکرمی مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کرمی مولوی محمد اسمعیل صاحب اور مکرمی حافظ روشن علی صاحب کو مقرر کیا ہے.(الفضل ۴ / جون ۱۹۱۹ء صفحہ اکالم (۳) ملک صلاح الدین صاحب ایم.انے جنہوں نے اصحاب احمد کی تین جلدوں میں آپ کی مفصل سوانح لکھی ہے بطور نمونہ آپ کے بچپن فتاری بھی شائع کئے ہیں جن سے حضرت مولانا کی تبحر علمی ، باریک نظری اور دینی بصیرت کا بخوبی اظہار ہوتا ہے.۸۲- اصحاب احمد جلد پنجم حصہ سوم میں اس کا کئی مقامات پر ذکر آتا ہے نیز رپورٹ صدرا انجمن احمدیہ ۳۳-۱۹۳۲ء کے صفحہ ۳۱ پر لکھا ہے.مفتی صاحب سلسلہ ان طلباء سے فتوئی کا کام بھی لے کر مشق کرواتے رہتے ہیں.۸۳ - اخبار مبابلہ جاری کرنے والے کون تھے ؟ اس کا تذکرہ تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحہ ۶۲۱ تا ۶۲۵ میں گزر چکا ہے.Ar اخبار جواب مسالہ نمبر ا صفحه ۲ ۸۵ الفضل ۱۷ ستمبر ۱۹۲۹ء صفحه ۲ و الفضل ۱۳/ اگست ۱۹۲۹ء صفحه ۲ کالم - اختبار ملاپ (۲۰/ اگست ۱۹۲۹ء) نے لکھا کہ سکھوں سے پوچھا گیا کہ تمہیں بوچڑ خانہ پر اعتراض تو نہیں تو انہوں نے بھی کہا کہ نہیں پس ڈپٹی کمشنر صاحب نے سمجھا کہ فیصلہ ہو گیا.اس بیان سے ثابت ہوتا ہے کہ جہاں تک ذیح کا تعلق ہے سکھ ذبح کے خلاف نہیں تھے.اس کے بعد انہیں پہلے اقرار پر قائم نہ رہنے دینے میں کسی اور فریق کا ہاتھ تھا اور یہ فریق ہندوؤں کے سوا اور کون ہو سکتا تھا.چنانچہ سکھوں کے مشہور اخبار اکالی (امرتسرانے تو صاف لکھا کہ گائے کی نذہبی عظمت کا سوال خالص ہند و سوال ہے اور سکھ جہاں جھٹکہ پر کسی قسم کی بندش برداشت نہیں کر سکتے وہاں دوسروں کو بھی کوئی خوراک کھانے سے نہیں روکنا چاہئے.اسی طرح سردار دیوان سنگھ صاحب مفتون نے اپنے اخبار ریاست (۲۴/ اگست ۱۹۲۹ء) میں لکھا.جہاں تک کسی جانور کے مارنے کا سوال ہے ایڈیٹر ریاست کے ذاتی خیال کے مطابق گائے اور بکری یہاں تک کہ گائے اور ایک مکھی میں بھی کوئی فرق نہیں.گائے سے متعلق سکھ قوم کی یہ رائے ہندوؤں سے پوشیدہ نہیں تھی.جیسا کہ اخبار گورو گھنٹال (۳۱/ اگست ۱۹۲۹ء) نے اقرار کیا کہ سکھوں میں اب کچھ عرصہ سے بعض من چلے لوگ ایسے بھی پیدا ہو چکے ہیں کہ جو نہ صرف یہ کہ گائے کی عظمت کے قائل نہیں رہے بلکہ وہ سور اور گائے میں بھی کوئی تمیز کرنے کے لئے تیار نہیں.(بحوالہ الفضل ۳/ ستمبر ۱۹۲۹ء صفحه ۳-۴) ۸۷.یاد رہے کمشنر صاحب کی عدالت میں مدیح کے خلاف قادیان کے ہندوؤں کی اپیل پیش ہوئی تھی کوئی سکھ ان کے ساتھ شامل نہ تھا.
ریت - جلد ۵ 173 خلافت ثانیہ کا سولہواں سا ۸۸ الفضل ۲۴/ ستمبر ۱۹۲۹ء صفحه او الفضل یکم اکتوبر۱۹۲۹ء صفحه ۴۰۳ ۸۹ الفضل یکم نومبر ۱۹۲۹ء صفحہ 1.یاد رہے کہ ڈپٹی کمشنر صاحب نے اس فیصلہ کے بعد فریج کی اجازت ملتوی کر دی تھی.مگر گوشت کی دکان موجود رہی.اور آخر ۱۵ جون ۱۹۳۱ء کو محلہ دار العلوم میں نئے تعمیر شدہ مدیح کا انتاج ہوا.(الفضل ۱۹/ جون ۱۹۳۱ء صفحہ ۱)..الفضل ۳۰/ اگست ۱۹۲۹ء صفحه ۰۵ الفضل ۲۰/ ستمبر ۱۹۲۹ء صفحہ اکالم ۲-۳- - شار دابل کی تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو.زمیندار ۲/ اکتوبر 1979ء بحوالہ الفضل ۸ / اکتوبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۹ کالم ۱-۲- الفضل ۲۲/ اکتوبر ۱۹۲۹ء صفحه ۱-۲- ۹۴ ایضا صفحہ و کالم ۳ ۹۵- الفضل ۲۹/ اکتوبر ۱۹۲۹ء صفحہ اکالم - الفضل ۸/ نومبر ۱۹۲۹ء صفحہ اکالم - مفصل تحریر کے لئے ملاحظہ ہو.الفضل ۲۹/ نومبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۸ تا ۱۳ الفضل ۱۵/ نومبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۶ کالم ۲ تاریخ احمدیت جلد دوم طبع دوم صفحه ۲۰۴ ۹۹ پارس لاہور ۲۴ / نومبر ۱۹۲۹ء بحوالہ الفضل ۲۶ / نومبر ۱۹۲۹ء *|** دفتر پرائیوٹ سیکرٹری ربوہ کے قدیم ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ علم دین کے والد صاحب نے ۷ / جولائی ۱۹۲۹ء کو حضور کی خدمت میں خط لکھا کہ علم دین قتل راجپال میں گرفتار ہے اور عدالت سیشن سے پھانسی کا حکم ہو چکا ہے اپیل کی تاریخ ۱۵ ماہ حال مقرر ہے.حضور اس کے لئے دعا فرمائیں.10- الفضل ۱۵/ نومبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۶- ١٠ الفضل ۱۰/ دسمبر ۱۹۲۹ء صفحه ۶ کالم ۲ ١٠٣- الفضل ۲۲ نومبر ۱۹۲۹ء صفحہ ا کالم ۲- ۱۰۴ شائع شدہ الفضل ۲۲ نومبر ۱۹۲۹ء صفحه ۹۰۶ ۱۰۵- الفضل ۲۶/ نومبر ۱۹۲۹ء- ١٠ الفضل ۱۷ دسمبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۱-۲- ١٠٧- الفضل ۲۹/ نومبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۶-۰۷ الفضل ۱۷/ دسمبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۶ کالم ۱-۲- الفضل ۲۰ دسمبر ۱۹۲۹ء صفحہ ا کالم - -11° مسلم ورلڈ اپریل ۱۹۳۱ء بحوالہ تاثرات قادیان (مولفه ملک فضل حسین صاحبه) صفحه ۱۹۸ تا ۲۰۱ ۱۱۱ سرگزشت صفحه ۲۶۲ و الفضل ۲۶ / نومبر ۱۹۳۹ء صفحه ۱۳.۱۱۲ الفضل ۲۴/ دسمبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۸-۹- اخبار انقلاب (۲۰/ دسمبر ۱۹۲۹ء) نے بھی اس وفد کی خبر شائع کر دی تھی.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحه ۳۵۸- (الفضل ۱۰/جنوری ۱۹۳۰ء صفحه ۸) الفضل ۲۲/ نومبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۹ کالم.یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ حضرت خلیفہ المسیح ایدہ اللہ تعالی کی بنیادی پالیسی ہمیشہ یہ رہی ہے کہ کانگریس حکومت یا عوام میں سے جو فریق جس پہلو کے اعتبار سے صحیح قدم اٹھاتا آپ اس کی تائید فرماتے مثلاً حضور سے انہیں دنوں عرض کیا گیا کہ شاید کانگریس کے اجلاس لاہور کی وجہ سے حکومت کرسمس کی چھٹیاں منسوخ کر دے اس پر آپ نے فرمایا اگر یہ درست ہے تو روکنے کا طریق بہت بزدلانہ ہے.چاہئے تو یہ تھا کہ گور نر صاحب خود کانگریس کے جلسہ میں جاتے اور کہتے سناؤ جو کچھ سنانا چاہتے ہو ایسی دلیری کا بھی مخالفین پر خاص اثر ہوتا ہے.(الفضل ۲۲ نومبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۹ کالم ۲) ۱۵ یادر ہے کا نگریسی پراپیگنڈا کی وجہ سے دوسرے مسلم ممالک اس غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے کہ مسلمانان ہند غلامی کے زمانہ کو لمبا کرنا چاہتے ہیں.چنانچہ عبد المجید صاحب سالک اپنی کتاب سرگزشت میں لکھتے ہیں.
تاریخ احمدیت جلد ۵ 174 خلافت عثمانیہ کا سولہواں سال چونکہ کانگریس اپنے اجلاس لاہور میں کامل آزادی کی قرار داد منظور کر چکی تھی اس لئے ہمارے بعض بے خبر ہمسایہ ملکوں میں یہ غلط فہمی پھیل گئی تھی کہ بس اب ہندوستان سے انگریزوں کا بوریا بسترا بندھنے والا ہے افغانستان ایران ، ترکی اور مصر کے بعض حلقے اس امر پر بے حد تاسف کا اظہار کر رہے تھے کہ ہندوستان کے مسلمان اس آزادی کی تحریک میں شامل نہیں ہوتے اور انگریز کے اقتدار کو نادانستہ زیادہ استوار کر رہے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اسلامی ممالک پر انگریز کی گرفت نرم ہونے میں نہیں آتی اخباروں اور عوامی جماعتوں ہی تک یہ معالمہ محمد دو رہتا تو ایسی اہم بات نہ تھی لیکن جب نحاس پاشا اور مصطفی کمال بھی مسلمانان ہند کو ختم کر کے انہیں تحریک آزادی میں حصہ لینے کی تلقین کرتے تھے تو جی جل جاتا تھا کہ ان لوگوں کو حقیقی حالات کا کچھ علم نہیں محض گھر بیٹھے ہی سات کروڑ مسلمانوں کی ایک عظیم جمعیت کو انگریز پرست سمجھ رہے ہیں".(سرگزشت از عبد المجید صاحب سالک صفحه ۲۷۸۰۲۷۷) آپ ۱۸۹۳ء میں بمقام پن پیدا ہوئے ۱۲ برس کی عمر میں اپنے والد کے ہمراہ اپنے وطن ناگڑیاں ضلع گجرات (پنجاب) آئے کچھ عرصہ تک امرتسر کی جامع مسجد شیر دین کے مدرسہ عربیہ میں تعلیم پائی.۲۲-۱۹۲۱ء کی تحریک خلافت کے موقعہ پر جب اس مسجد کے آپ خطیب تھے اپنی پر جوش خطابت سے مسلمانوں کو ترک موالات اور ہجرت پر آمادہ کیا جس سے متاثر ہو کر جہاں ہزاروں مسلمان قید ہوئے تحریک خلافت کے ایام میں رئیس الاحرار مولانا محمد علی جوہر نے ان کو مشورہ دیا کہ جو قدرت تم کو اپنی زبان پر ہے وہ خداداد ہے اور خدا کی ایک بڑی نعمت ہے مگر ایک بڑی خطر ناک نعمت ہے اور تمہاری مسکولیت بہت بڑھ گئی ہے، جب تک تم اسے حق کی راہ میں استعمال کرو گے فلاح دارین حاصل کرو گے لیکن اگر کبھی یہ باطل کی راہ میں استعمال کی گئی تو ہزاروں بندگان خدا کو بھی گمراہ کرنے کے لئے کافی ہوگی.(سوانح سید عطاء اللہ شاہ بخاری از حبیب الرحمن خان کا بلی میها " تاریخ احرار اور چوہدری افضل حق طبع مانی ۱۹۶۸ صفحہ اے ) ۱۷- سید عطاء اللہ شاہ بخاری - از جناب آغا شورش کا شمیر کی مدیر چشمان لاہور طبع اول صفحه ۸۴-۸۵ ۱۸ سوانح حیات سید عطاء اللہ شاہ بخاری صفحه ۲۵ مولفہ حبیب الرحمن خان کاہلی جون ۱۹۴۰ ء بار اول پبلشر ہندوستانی کتب خانہ ریلوے روڈ لاہور ۱۱۹ خطبات احرار صفحه ۱۴۵ ۱۲۰ سوانح حیات سید عطاء اللہ شاہ بخاری صفحه ۹۱ از خان کا بلی) ۱۱- کہتے ہیں کہ مجلس احرار کے ساتھ اسلام کا لفظ مولوی ظفر علی خاں کی تجویز پر شامل ہو ا تھا.چنانچہ اخبار زمیندار ۸/ اگست ۶۱۹۳۵ صفحہ ۲ سے اس کی تائید ہوتی ہے چنانچہ چوہدری افضل حق صاحب ( مفکر احرار) سے اس میں یہ سوال کیا گیا ہے کہ کیا یہ امر واقعہ نہیں ہے کہ مجلس احرار کی تشکیل کے وقت احرار کے ساتھ اسلام لکھنا آپ پسند نہ کرتے تھے محض مولانا ظفر علی خان کے ارشاد پر احرار اسلام نام دیا گیا".۱۳ خطبه جمعه سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی اید واللہ تعالی (الفضل ۶/ اگست ۱۹۳۵ء) ۱۳۳- اخبار آزادلاہور چوہدری افضل حق نمبر ۱۳۴ خطبات احرار مرتبہ جناب شورش کاشمیری صفحه ۲۰-۴۲۰۳۴ ۱۳۵ تاریخ احرار صفحه ۶۱ تا شهرز مزم یک ایجنسی بیرون موری دروازہ لاہور.۲ اخبار آزادل ہو ر ۳۰ / اپریل ۱۹۵۱ء صفحہ سے اکالم ۱-۲- ۱۲۷- اس حقیقت کی مزید وضاحت و تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ احرار صفحہ ۱۷.خطبات احرار صفحہ کے ۷ و ۱۱۵ ۱۲۸- زمیندار ۱۳/ اگست ۱۹۳۵ء صفحه ۳ کالم ۱۲۹ خطبہ صدارت بر موقعہ تبلیغی کانفرنس قادیان (مدینه بجنور یکم نومبر ۱۹۳۴ء صفحه ۴ کالم ۲) ۱۳۰- سید عطاء اللہ شاہ بخاری صفحه ۲۹-۱۳۰ از شورش کاشمیری) ۱۳۱- سید عطاء اللہ شاہ بخاری.صفحہ ۷ 10-109- ۱۳۲ مدیر رسالہ چٹان لاہور سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی نسبت لکھتے ہیں.جن چیزوں سے نفور ہوں ان سے تمسخر بھی روا ر کھتے ہیں ان کے ہاں اس تمسخر یا پھکڑ کی زد سب سے زیادہ مرزا غلام احمد قادیانی اور ان کی ذریات پر پڑتی ہے.(سید عطاء اللہ شاہ بخاری صفحہ
تاریخ احمدیت جلد ۵ (197 175 خلافت ثانیہ کا سولہواں سال ۱۳۳- روزنامہ آزادلاہور احرار نمبر۷ ۱۲ ستمبر ۱۹۵۸ء صفحہ ۷ با ۱۸.۱۳۴- رشید نیاز صاحب نے اپنی کتاب تاریخ سیا لکوٹ میں جان مکتھر کے یہ الفاظ نقل کرنے کے بعد لکھا ہے.یہ ہیں وہ الفاظ جو ایشیاء کے ایک شہرہ آفاق مصنف مسٹر جان کمر کی زبان سے مجلس احرار اسلام کے بارے میں جاری ہوئے ہیں اس نے احرار کو مجموعہ امداد کہہ کر جو طنز کا نشتر مارا ہے وہ مسٹر کشمیر کے لئے تو ایک تنقید کا سہارا ہے.مگر سرفروشان احرار کے لئے باعث شرف و مباہات ایک رنجدہ چیز یہ بھی ہے کہ اس تحریک کو جتنے مخلص کارکن ملے ہیں.اس کے لیڈر بہ تخصیص چند اتنے ہی موقع پرست ثابت ہوئے.(صفحہ ۲۴۲ مطبوعہ ۱۹۵۸ء ناشر مکتبہ نیاز سٹریٹ ڈاکٹر فیروز الدین سیالکوٹ) ۱۳۵ پنجابی کے بہت مشہور شاعر جنہوں نے دور سالے ایک پنجابی میں اور دوسرا اردو میں حضرت مسیح موعود کی تائید میں لکھے تھے ایک سو چار سال کی عمر میں فوت ہوئے آخری عمر میں بڑھاپے کی وجہ سے قادیان جانے سے معذور ہو چکے تھے اور نماز عید کے سوا سب نماز میں بستر پر ہی ادا کر سکتے تھے حضرت مسیح موعود نے حضرت مولوی غلام حسین صاحب لاہوری اور ان کی نسبت فرمایا تھا کہ انہیں ہمارے خرچ پر قادیان لایا جائے انہیں وصیت کرنے کی ضرورت نہیں مگر افسوس ان کی وفات اچانک ہوئی اور نعش کو قادیان لے جانے کا بندوبست نہ کیا جاسکا.( الفضل ۲۲/ جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۲ کالم ۳) ١٣٩- الفضل ۱۲ فروری ۱۹۲۹ء صفحہ ا کالم - سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ۲۵/ جنوری ۱۹۲۹ء کو حضرت مولوی محمد صاحب حضرت شہامت خاں صاحب اور حضرت بابو روشن دین صاحب کا اکٹھا جنازہ پڑھایا اور حضرت مسیح موعود کے ان پرانے اور اولین صحابہ کے اخلاص و فدائیت کا ذکر نہایت تعریفی کلمات میں فرمایا.(الفضل ۲۹/ جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۲ کالم ) ۱۳۷- مرحومه نهایت مخلص اور پر جوش احمدی تھیں جب حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف کی شہادت کا واقعہ ہوا تو انہوں نے نہایت صبر د استقلال کا نمونہ دکھایا اور اس کے بعد اپنی چھوٹی بڑی سب اولاد کو احمدیت کی تعلیم دینے اور اس صداقت پر پختہ کرنے میں منہمک ہو گئیں.اپنے ایمانہ کے ۱/۳حصہ کی وصیت کی ہوئی تھی ۱۹۲۶ء سے جبکہ یہ خاندان خوست سے سرحد میں آیا ہر سال سالانہ جلسہ پر تشریف لاتی تھیں.(الفضل ۱۳/ نومبر ۱۹۳۹ء) ۱۳۸ مورخ احمدیت حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی آپ کے حالات زندگی میں لکھتے ہیں.میاں شیر محمد صاحب نے حق سمجھ لیا اور سمجھ کر قبول کر لیا یہی وہ گھڑی تھی جس نے شیر محمد یکہ بان کو ابدال بنا دیا.اس دن کے بعد میاں شیر محمد کی حالت میں یہ تبدیلی ہوئی کہ وہ یکہ ہان مبلغ ہو گیا جب وہ اپنی سواریوں کو لے کر چلتا تو اس کا کام یہ ہو تا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خوشخبری سناتا اور خدا تعالٰی نے اس پر تبلیغ کے ایسے اسرار کھول دیئے کہ وہ اپنے مطلب کو نهایت سریع الفہم طریق پر مدلل کر کے پیش کرتا.یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا معجزہ تھا.بر کے از زمینی آسمانی چوں مہربانی سے کنی کنی ان کی زندگی میں جب یہ انقلاب ہوا تو ان کے ساتھ مختلف قسم کی آزمائشوں اور ابتلاؤں کا دور شروع ہو گیا.پے در پے گھوڑے خریدے اور مرگئے اور کئی قسم کے نقصان ہوئے یہاں تک کہ بعض اوقات عرصہ حیات تنگ ہو گیا مگر اس شیر نے ان مصائب میں اپنے موتی سے صدق اور اخلاص کے رشتہ کو آگے بڑھایا.( الفضل ۱۰/ دسمبر ۱۹۲۹ء صفحہ اکالم ۴) ١٣٩ الفضل ۱۶ / اپریل ۱۹۲۹ء صفحہ اکالم ۲- ١٠- الفضل ۱۷ ستمبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۲- آپ مرزا مبشر احمد صاحب ( ابن حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب) کے عقد میں آئیں.۱۴۱ آپ حضرت سید مختار احمد صاحب مختار شاہ جہانپوری کی طرح امیر مینائی کے شاگرد تھے.امیر مینائی کے تلامذہ کی یہ خصوصیت ہمیشہ یاد گار رہے گی کہ ان میں سے کسی نے تحریک احمدیت کی مخالفت نہیں کی.۱۴۲- اخبار مشرق ۲۴/ جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۴ کالم بحوالہ الفضل ۲۲ فروری ۱۹۲۹ء صفحہ ۴ کالم - ۱۳۳ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحه ۱۹۶۰۱۹۴- ۱۴۴ رپورت مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحه ۲۵۱ ۱۴۵- الفضل ۹/ جولائی ۱۹۲۹ء صفحہ اکالم ۱-۲-
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 176 خلائت که ما الفضل ۲۷/ دسمبر ۱۹۲۹ء صفحه ۵- الفضل ۲۲/ اکتوبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۲ کالم - حملہ آور کا نام محمد اکبر آفریدی تھا جس نے قید سے رہائی کے بعد بیعت کرلی تھی.۱۴۸- الفضل یکم مارچ ۱۹۲۹ء صفحه ۲ کالم --- ١٣٩ الفضل ۲۶ / مارچ ۱۹۲۹ء صفحه ۸- ۱۵۰ الفضل ۲/ اگست ۱۹۲۹ء صفحه ۰۹ الفضل ۱۴ مئی ۱۹۲۹ء صفحہ ۷.۱۵۲- الفضل ۲۶/ فروری ۱۹۲۹ء صفحه اکالم.۱۵۳ الفضل ۲۲ / اکتوبر ۱۹۲۹ء صفحہ اکالم - ۱۵۴- الفضل ۱۵ / فروری ۱۹۳۹ء- ۱۵۵ - الفضل ۵/ جولائی ۱۹۲۹ء صفحہ ا کالم ۳- ۱۵۶- الفضل ۱۳/ اپریل ۱۹۲۹ء صفحہ ۹ کالم ۳.۱۵۷- الفضل ۳۰/ جولائی ۱۹۲۹ء صفحہ اکالم او ۲ / اگست ۱۹۲۹ء صفحہ ۲.١٥٨ الفضل ۲۰/ اگست ۱۹۲۹ء صفحه ۸ کالم ۳ ۱۵۹- الفضل ۶/ ستمبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۹ کالم ١٦٠- الفضل ۲۷/ ستمبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۷ کالم ۳.ا الفضل ۱۳/ ستمبر ۱۹۲۹ء صفحه ۸ و الفضل ۱۵/ اکتوبر ۶۱۹۳۹ صفحه ۶-۷ - -۱۲ الفضل ۲۷/ ستمبر ۱۹۲۹ء صفحہ سے کالم ۳ ١٦٣- الفضل ۲۲ / اکتوبر ۱۹۲۹ء صفحه ۸-۹ ۱- الفضل ۸/ اکتوبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۷ کالم ۰۳ ۱۶۵ - الفضل ۵/ نومبر ۱۹۲۹ء صفحه ۰۹ ١٢٦ الفضل ۲۲ نومبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۳ کالم ۲ ١٦٧- الفضل ۲۵/ اکتوبر ۱۹۲۹ء صفحه ۹ کالم ۰۳ ١٦- الفضل ۲۹/ نومبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۷ے کالم ۳.--699 تاریخ ولادت ۱۸۷۲ء تاریخ وفات ۵/ جولائی ۱۹۴۹ء - بیعت کے بعد گو آپ کی پوری زندگی سلسلہ کی خاطر سر فروشانہ خدمات میں گزری مگر آپ کی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ جدید مرکز احمدیت ربوہ کا قیام ہے.جیسا کہ دور پاکستان کی تاریخ احمدیت میں بڑی شرح وبسط سے ذکر آرہا ہے وباللہ التوفیق ۱۷۰.اس کا تفصیلی ذکر حضرت نواب محمد دین صاحب کے ایک مضمون مطبوعہ الفضل ۲۸/ دسمبر ۱۹۳۹ء صفحہ اس میں بھی موجو د ہے.۷ کتاب ربوه ( از ملک کپٹن خادم حسین صاحب) صفحه ۳۲۵- طبع اول ۱۹۶۳ء ربوه ۱۷۲- الفضل ۳۱ جولائی ۱۹۴۹ء.
تاریخ احمدیت جلد ۵ تیسرا باب (فصل اول) 177 خلافت ثانیہ کا سترھواں سال ”ندائے ایمان" کے سلسلہ اشتہارات سے لے کر کتاب ”ہندوستان کے موجودہ سیاسی مسئلہ کا حل کی اشاعت اور گول میز کانفرنس کے انعقاد تک خلافت ثانیہ کا سترھواں سال (جنوری ۱۹۳۰ء تا دسمبر ۱۹۳۰ء بمطابق رجب ۱۳۴۸ھ تا شعبان ۱۳۴۹ھ) حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایده الله نظام جماعت سے متعلق ایک اصولی ہدایت تعالے نے ۱۷ جنوری ۱۹۳۰ء کو نظام جماعت پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ خلیفہ سے ہر ایک احمدی کو براہ راست تعلق ہے مگر ساتھ ہی فرمایا :- " یاد رکھنا چاہئے ہر ایک احمد کی ہر ایک بات جو مجھ تک پہنچانا چاہے پہنچا سکتا ہے سوائے اس بات کے جو دفتری لحاظ سے اس کی ذات کے متعلق ہو مثلاً اگر کوئی یہ لکھے کہ میری ترقی روک دی گئی ہے یا مجھے فلاں حق نہیں دیا گیا تو اس قسم کی باتوں پر میں اس وقت تک غور نہ کروں گا جب تک متعلقہ دفتر کے ذریعہ کا غذ نہ آئے لیکن اگر کوئی اس قسم کی بات ہو ( خدانخواستہ) کہ دفتر میں فلاں خیانت کرتا ہے یا قومی کام کو نقصان پہنچاتا ہے تو اس قسم کی شکایت کو میں سنوں گا کیونکہ قوم کے ہر ایک فرد کا خواہ وہ کلرک ہو یا چپڑاسی فرض ہے کہ قومی حقوق کی حفاظت کرے جب تک خلافت قائم ہے ہر ایک احمدی کا براہ راست خلیفہ کے ساتھ تعلق ہے مگر دیکھو بعض معاملات میں اللہ تعالیٰ نے بھی حد بندی کر دی ہے مثلاً انسانوں کے آپس کے معاملات کے متعلق ہر ایک انسان کا خد اتعالے سے براہ راست تعلق ہے لیکن معاملات میں براہ راست کوئی حکم جاری نہیں کر سکتا.مگر پھر یہ بھی کہتا ہے کہ میرے اور میرے بندہ کے درمیان کوئی واسطہ نہیں حتی کہ رسول بھی واسطہ نہیں، خلفاء بھی دنیا میں خدا
178 خلافت ثانیہ کا سترھواں سال تعالے کے قائم مقام ہوتے ہیں.اس لئے ان کے اور ان کے ماننے والوں کے درمیان بھی کوئی واسطہ نہیں ہو تا سوائے محکمانہ امور کے جو کسی کی ذات سے تعلق رکھتے ہوں.”ندائے ایمان" کے تبلیغی اشتہارات کا اجراء اس سال حضور نے تبلیغ احمدیت پر زور دینے کے لئے جہاں ہر احمدی کو اپنے پایہ کا ایک نیا احمدی بنانے کی دوبارہ تحریک فرمائی وہاں اہل ملک تک پیغام احمد ہمت پہنچانے کے لئے اپنے قلم سے ”ندائے ایمان" کے نام سے اشتہارات کا ایک نہایت مفید سلسلہ شروع فرمایا.جس کا پہلا نمبر آپ نے ۱۷ جنوری ۱۹۳۰ء کو لکھا جو صیغہ دعوۃ و تبلیغ کی طرف سے پوسٹر اور پمفلٹ کی صورت میں تین بار چھپوا کر چھیاسٹھ ہزار کی تعداد میں شائع کیا گیا.اس پہلے نمبر میں حضور نے مسلمانان عالم کو حضرت مسیح موعود کے ظہور کی نہایت موثر پیرائے میں خبر دیتے ہوئے توجہ دلائی کہ حق کو قبول کرنے میں جلدی کرنی چاہئے اور خدا کی آواز سے بے پروا ہی نہیں برتنی چاہئے کیونکہ کیا معلوم ہے کہ موت کب آجائے گی اور ہمارے اعمال کے زمانہ کو ختم کر دے گی...آخر کونسی دلیل ہے جس کے آپ منتظر ہیں اور کو نسانشان ہے جس کی آپ کو جستجو ہے مسیح موعود کے متعلق جو کام بتایا گیا تھا وہ آپ کے ہاتھوں سے پورا ہو رہا ہے.اور اسلام ایک نئی زندگی پا رہا ہے پس جلدی کریں اور مسیح موعود کو قبول کر کے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہوں.لیکن اگر آپ ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے ابھی تک اس معاملہ پر غور ہی نہیں کیا تو بھی میں آپ کو توجہ دلاتا ہوں کہ جلد تحقیق کی طرف متوجہ ہوں.اور مندرجہ ذیل طریقوں میں سے ایک کو اختیار کریں.(۱) جو سوالات آپ کے نزدیک حل طلب ہوں انہیں اپنے قریب کے احمدیوں کے سامنے پیش کر کے حل کرائیں.(۲) اگر آپ کے پاس کوئی احمدی جماعت نہ ہو تو مجھے ان سوالات سے اطلاع دیں.(۳) اپنے علاقہ میں جلسہ کر کے احمدی مبلغ منگوا کر خود بھی سلسلہ احمدیہ کی صداقت کے دلائل سنیں.اور دوسروں کو بھی اس کا موقعہ دیں اللہ تعالٰی آپ کے ساتھ ہو اور آپ کو اپنے نور کے قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اس پہلے اشتہار نے جو پوسٹر کی صورت میں ملک بھر میں چسپاں کیا گیا تھا ہر جگہ ایک زبر دست حرکت پیدا کر دی." ندائے ایمان " کے تین مزید اشتہار بھی حضور کے قلم سے کچھ کچھ وقفے کے ساتھ شائع ہوئے.چوتھا اشتہار اکتوبر ۱۹۳۳ء میں چھپا تھا.مبلغین احمدیت کو نصائح ۲۴ جنوری ۱۹۳۰ء کو مدرسہ تعلیم الاسلام ہائی سکول کے طلباء نے حکیم فضل الرحمان صاحب کے اعزاز میں افریقہ سے واپسی پر چائے
" تاریخ احمدیت.جلد ۵ 179 خلافت ثانیہ کا سترھواں سال کی دعوت دی جس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے تقریر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا.دین کے لئے قربانی کرنے کا خیال ہمیشہ یاد رکھنے والا خیال ہے مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ مذہب کے لئے جو قربانی کی جائے وہ اپنا بدلہ خدا تعالٰی سے لاتی ہے تم اپنے اندر روحانیت پیدا کرد آگے اس کے نتائج تمہیں خود حاصل ہو جائیں گے.روحانی درجے بھی دو قسم کے ہوتے ہیں بعض انسانوں کو خدا تعالیٰ اس قابل سمجھتا ہے کہ دنیا میں ان کی قبولیت ہو.ایسے لوگوں کی قبولیت پھیلا دیتا ہے چنانچہ رسول کریم ال فرماتے ہیں فیوضع له القبول فی الارض رو سرا درجہ یہ ہے خداتعالی اپنے بندوں میں قبولیت نہیں پھیلا تا مگر اپنی رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے ایسا انسان ولایت الہی کے اثرات محسوس کرنے لگ جاتا ہے اس طرح بھی وہ سمجھتا ہے ناکام نہیں رہا کیونکہ وہ خدا کے فضل اور نوازش اپنے او پر نازل ہوتا دیکھ لیتا ہے.پس دین کی خدمت کرنا اور قربانی کے لئے تیار رہنا بہت بڑی بات ہے مگر اس سے بڑی بات یہ ہے کہ خدمت اور قربانی خدا کے لئے ہو بندوں کے لئے نہ ہو.اور جب خدا کے لئے ہو گی تو انسان کی نگاہ روحانیت پر ہوگی اور وہ کامیاب ہو جائے گا لیکن جو دنیا پر نظر رکھتا ہے اس کی نگاہ مادیات پر ہوتی ہے اس پر خدا کے فیوض نازل نہیں ہوتے اور نہ وہ دنیا کے لئے مفید ہوتا ہے".ای روز طلباء جامعہ احمدیہ نے بھی مکرم حکیم صاحب کے اعزاز میں دعوت دی.اس موقعہ پر حضور نے مبلغوں کو دوسری اہم نصیحت یہ فرمائی کہ :- مبلغ کے لئے ضروری ہے کہ اپنے اندر انسانیت پیدا کرے یعنی دوسروں سے مل کر کام کرنے کی اس میں اہلیت ہو ، اتحاد اور تعاون سے کام کر سکے دوسری چیز..انانیت ہے اسی کا دوسرا نام تو حید ہے انسان میں ایک تو انسانیت رکھی گئی ہے.یعنی دوسرے انسانوں سے تعلق پیدا کرنا اور ان کے ساتھ مل کر کام کرنا.دوسرے انانیت ہے یعنی یہ سمجھنا کہ میرے اور میرے رب کے درمیان اور کوئی واسطہ نہیں.میرا اپنے رب کے ساتھ براہ راست تعلق ہے " مہاراجہ کپور تھلہ میں ایک مسجد کی تعمیر جگجیت سنگھ صاحب والٹی کپور تھلہ اسلامی ملکوں میں بہت سفر کر چکے تھے.ایک دفعہ انہوں نے مراکش میں قطبیہ مسجد دیکھی تو اس کا خالص عربی طرز انہیں پسند آیا اور وہیں انہوں نے ارادہ کر لیا کہ کپور تھلہ میں ایسی ہی مسجد تعمیر کراؤں گا.چنانچہ انہوں نے واپس آکر مذہبی رواداری کا ثبوت دیتے ہوئے ایک شاندار مسجد کپور تھلہ میں تعمیر کرائی جو قطبیہ کا ہو بہوچہ یہ تھی اور جو پیرس کے ایک مشہور انجینئر کے مجوزہ نقشہ کے مطابق ساڑھے تین سال میں تعمیر ہوئی.
تاریخ احمدیت جلد ۵ 180 خلافت ثانیہ کا سترھواں سال ۱۴ مارچ ۱۹۳۰ء کو مہاراجہ صاحب نے اس کا افتتاح کیا.اس تقریب پر ہزاروں نفوس شامل ہوئے مختلف والیان ریاست اور ہندوستان کے مذہبی اور سیاسی لیڈر بھی مدعو تھے.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی کے نمائندہ مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم.اے نے افتتاح کے وقت محراب مسجد کے پاس کھڑے ہو کر تقریر کی جس میں مہاراجہ صاحب کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ میں حضرت امام جماعت احمدیہ قادیان کے نمائندہ کی حیثیت سے مہاراجہ صاحب بہادر کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے اپنی مسلمان رعایا کے لئے یہ عظیم الشان مسجد اپنے دارالحکومت میں تعمیر کرائی ہے غالبا یہ ایشیا بھر میں اپنی قسم کی پہلی ہی مثال ہے مہاراجہ صاحب نے جس فیاضی دریا دلی اور وسعت قلبی کا ثبوت اس خدا کے گھر بنانے سے دیا ہے وہ آج کل کے تعلیم یافتہ لوگوں اور مہذب حکومتوں کے لئے ایک قابل تقلید نمونہ ہے.ایسے وقت میں جبکہ ہمارے بعض وطنی بھائی ہمارا اپنی مساجد میں بھی اذان دینا پسند نہیں کرتے مہاراجہ صاحب کا عین اپنے گھر میں اذانیں دلوانا اور نمازیں پڑھوانا کوئی معمولی بات نہیں بلکہ اس بات کا زندہ ثبوت ہے کہ مہاراجہ صاحب اپنے ملک کے نہایت ہی خیر خواہ اور بچے لیڈروں میں سے ہیں.اور حضرت باوا نانک علیہ الرحمتہ کے نقش قدم پر چلنے والے ہیں.اگر ہندوستان میں ایک مذہب والے دوسرے مذہب کے متبعین کے ساتھ ایسی ہی فراخدلی اور فراخ حو صلگی سے پیش آئیں.تو وہ دن دور نہیں کہ نہ صرف ہندوستان میں بلکہ سارے جہان میں حقیقی امن کی راہ نکل آئے.اسلام کی پاک تعلیم کے مطابق کوئی شخص ایک نیکی کرے تو خدا اس کو دس نیکیوں کا اجر دیتا ہے مگر مہاراجہ صاحب نے تو صدقہ جاریہ کے طور پر ہمیشہ کے لئے یہ نہایت ہی خوبصورت اور عالی شان عمارت تعمیر کرا دی ہے".مولانا ابو العطاء صاحب کا سفر مانگرول مولانا ابو العطاء صاحب تحریر فرماتے ہیں.اور حضرت مصلح موعود کے خطوط مارچ ۱۹۳۰ء کا واقعہ ہے کہ حیدر آباد دکن میں آریوں سے مناظرہ مقرر ہوا.جب میں حضور سے اجازت لینے اور درخواست دعا کرنے کے لئے حاضر ہوا تو فرمایا کہ والتی مانگرول سے ہماری رشتہ داری بھی ہے اور وہ گزشتہ دنوں بیمار رہے ہیں آپ واپسی پر براستہ بمبئی مانگرول سے ہوتے آئیں میرا سلام بھی پہنچا دیں اور ان کی خیریت بھی پوچھ آئیں.حیدر آباد پہنچنے پر مجھے حضور کا مندرجہ ذیل گرامی نامہ موصول ہوا:- عزیز مکرم مولوی الله و تا صاحب السلام علیکم.نواب صاحب کو آج خط لکھ دیا ہے لیکچر کرانے کے لئے بھی اشارۃ لکھ دیا ہے ایک
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 181 خلافت ثانیہ کاسترھواں سال نقل آپ کو بھجوا رہا ہوں.قیام حید را آباد میں سیٹھ احمد بھائی صاحب کی طرف خاص خیال رکھیں.بہت مخلص ہیں لیکن دنیا کی طرف زیادہ رجحان ہے اور اس وجہ سے نقطہ نگاہ اور ہے ہمارے آدمی ملتے رہیں تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے اخلاص سلسلہ اور محبت خلافت میں ترقی دے.نواب صاحب اگر امراء کے طریق پر چلتے وقت کوئی رقم کرایہ وغیرہ کے نام سے دیں تو ان کے سیکرٹری کی معرفت اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھ دیں کہ میں تو اپنے امام کی طرف سے سلام پہنچانے اور مزاج پرسی کے لئے آگیا تھا مگر چونکہ ہدیہ واپس کرنا بھی درست نہیں میں خدمت اسلام کے لئے یہ رقم جمع کرادوں گا تاکہ نواب صاحب کی خوشی بھی پوری ہو جائے اور ان کے لئے موجب ثواب بھی یہ میں نے احتیاطاً لکھ دیا ہے کیونکہ عام طور پر امراء کے ذہن میں علماء کے سوالی ہونے کا خیال جما ہوا ہے.پس میلہ لطیف احمدی جماعت کے علماء کے متعلق ایسا خیال ان کے دل سے نکالنا ضروری ہے کو ممکن ہے یہ موقع ہی پیش نہ آئے.والسلام خاکسار مرزا محمود راستہ میں اگر بمبئی میں سیٹھ اسمعیل آدم صاحب سے بھی ملتے آئیں تو اچھا ہو وہ آپ کے مضمونوں سے خاص طور پر ناراض ہیں.آپ کو غالی سمجھتے ہیں مگر ہیں بڑے مخلص اور مجھے ان سے شدید محبت ہے شاید اللہ تعالی ان کی اصلاح کر دے.مرزا محمود احمد " حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے مندرجہ بالا خط میں جناب نواب صاحب کے نام والے خط کی جس نقل کا ذکر ہے جو مجھے بھجوائی گئی تھی وہ حسب ذیل تھی :- نقل خط بنام نواب صاحب منگرول مکرمی و معظمی جناب نواب صاحب منگرول كان الله م السلام علیم ورم علیکم ورحمتہ اللہ و برکاته ! عزیزم مولوی اللہ دتہ صاحب ہمارے نوجوان صاحب علم و عرفان علماء میں سے ہیں.ریاست حیدر آباد بعض دینی اجتماعوں کے لئے جارہے ہیں جناب کے محبانہ تعلقات کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے انہیں ہدایت کی تھی کہ واپسی پر میری طرف سے خیریت طلبی اور مزاج پرسی کرتے آئیں.بعد میں خیال آیا کہ شاید ان دنوں آپ ریاست میں تشریف نہ رکھتے ہوں یا ان کا آنا کسی اور سبب سے قرین مصلحت نہ ہو اس لئے یہ چند حروف تحریر ہیں کہ اگر ایسا ہو تو آپ اپنے کسی
- جلد ۵ 182 خلافت ثانیہ کا سترھواں سال سیکرٹری کو ہدایت فرمائیں کہ وہ مولوی صاحب موصوف کو معرفت سیٹھ عبد اللہ بھائی صاحب الہ دین بلڈنگس سکندر آباد دکن اطلاع کر دیں.کہ اس وقت ان کا آنا قرین مصلحت نہ ہو گا.اگر بالعکس ان کے آنے میں کوئی روک نہ ہو تو اس لحاظ سے کہ یہ نوجوان علوم اسلامیہ میں حصہ وافر رکھتے ہیں.اگر ان سے وعظ و نصیحت کی کوئی خدمت جناب کی ریاست میں ہو جائے تو ان کا قلیل قیام ان کے لئے موجب حصول ثواب بھی ہو جائے گا.ورنہ اصل غرض تو میری جانب سے السلام علیکم پہنچانا اور مزاج پر سی ہی ہے.غالبا عزیزند کور خود بھی خط لکھیں گے.والسلام - مرزا محمود احمد معزز قارئین ! اللہ تعالٰی کے فضل سے حضور کی دعاؤں کی برکت سے یہ سفر بہت کامیاب رہا.میں نے حضور کی سب ہدایات کی حرف بحرف تعمیل کی تھی.آپ ذرا ان خطوط میں اس محبت اور پیار کے انداز کو تو دیکھیں جو ہمارے امام رضی اللہ عنہ کو اپنے خدام سے تھا.اپنی جماعت کے افراد سے تھا.ان ونوں حضرت سیٹھ اسمعیل آدم صاحب غیر مبالعین میں شامل تھے حضور نے کی تو جہات کا نتیجہ تھا کہ آپ نے بیعت کر کے سلسلہ کی عظیم خدمات کی توفیق پائی.‘“ ( الفرقان ربوہ فضل عمر نمبر دسمبر ۱۹۲۵ء و جنوری ۱۹۶۶ء) رسالہ جامعہ احمدیہ کا اجراء اور حضرت اکثر کالج اپنا ر سانہ شائع کرتے ہیں جو ان کی علمی خلیفہ المسیح الثانی کا نصیحت آمیز مضمون و ادبی سرگرمیوں کا آئینہ دار ہوتا ہے.اسی طریق کے مطابق جامعہ احمدیہ کی طرف سے حضرت مولانا میر محمد اسحاق صاحب پروفیسر جامعہ احمدیہ کی زیر نگرانی اپریل ۱۹۳۰ء سے ایک سہ ماہی رسالہ جاری کیا گیا.رسالہ اردو عربی مضامین پر مشتمل تھا ابتداء حصہ اردو کے مدیر مولوی چراغ دین صاحب فاضل - حصہ عربی کے مولوی محمد صادق صاحب فاضل چغتائی اور مینجر مولوی عبد الرحمان صاحب انور (بو تالوی) مقرر ہوئے.سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس رسالہ کے پہلے نمبر کے لئے مندرجہ ذیل مضمون تحریر فرمایا :- " ہر ایک کالج میں آجکل رواج ہے کہ اس کے طلباء اپنے تعلقات کو کالج سے مضبوط کرنے کے لئے ایک رسالہ جاری کرتے ہیں اور اس کے ذریعہ سے نہ صرف اپنے لئے ایک میدان کار نکالتے ہیں بلکہ اس کے ذریعہ سے کالج کے پرانے طلباء کا تعلق بھی کالج سے قائم رہتا ہے کیونکہ وہ اس میں مضمون لکھتے رہتے ہیں اور کالج کے حالات سے آگاہ رہتے ہیں پس اسی لحاظ سے اس رسالہ کا اجر ایقینا کالج کے لئے انشاء اللہ مفید ثابت ہو گا.لیکن آپ لوگوں کو یہ بات اچھی طرح یاد رکھنی چاہئے کہ صرف رسالہ کے اجراء سے کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک کہ محنت کرنے اور علم کو بڑھاتے رہنے کی آپ لوگ |
تاریخ احمد بیت ، جلد ۵ 183 خلافت ثانیہ کاسترھواں سال کوشش نہ کریں.خالی مضمون ہر ایک شخص لکھ سکتا ہے لیکن اس کوشش میں بہت کم لوگ کامیاب ہوتے ہیں کہ ایسا مضمون لکھیں جو دوسروں کے لئے زیادتی علم کا موجب ہو.حالانکہ اصل مضمون وہی ہے جو اپنے اندر کوئی نئی بات رکھتا ہو پس میں آپ کو نصیحت کروں گا کہ آپ اپنے رسالہ میں ہمیشہ کوشش کر کے مضمون لکھیں اور ان امور کو مد نظر رکھیں.-۲ -4 -A -4 ایسے مضمونوں کو منتخب کریں جو واقعہ میں مفید ہوں اور صرف ذہنی دلچسپی پیدا کرنے کی کوشش نہ کی گئی ہو.ہمیشہ اس امر کو مد نظر رکھیں کہ مضمون کی طبعی ترتیب قائم رکھی جائے تاکہ پڑھنے والے کے اچھی طرح ذہن نشین ہو جائے.ہمیشہ مضمون میں ایسے مفید پہلو پیدا کرنے کی کوشش کریں جو اس سے پہلے زیر بحث نہ آئے ہوں.ہمیشہ ایسے امور پر بحث کریں جن سے ذہن میں وسعت پیدا ہو اور تنگ ظرفی اور کج بحثی پیدا کرنے والے نہ ہوں.ہمیشہ یہ کوشش کریں کہ تقویٰ کا دامن نہ چھوٹے.اپنے خیال کو ثابت کرنے کے لئے کبھی جھوٹے استدلال کو کام میں نہ لاویں.اگر کسی امر میں اپنی غلطی معلوم ہو تو اس کے اقرار کرنے سے دریغ نہ ہو.جن لوگوں کو آپ سے پہلے علم پر غور کرنے کا موقعہ ملا ہو ان کے غوروفکر کے نتائج کو مناسب درجہ دیں لیکن:- یہ یادر ہے کہ انسانی علم کی ترقی کبھی مسدود نہیں ہو سکتی مگر ساتھ ہی یہ امر بھی ہے کہ :- علم کے جس مقام پر اب دنیا ہے وہ پہلوں کی قربانی کا ہی نتیجہ ہے اگر وہ نہ ہوتے تو ہم بھی اس مقام پر کھڑے نہ ہوتے پس ان کی غلطیاں ہی ہماری اصابت رائے کا موجب ہیں.۱۲ رسالہ جامعہ احمدیہ نے اپنے محققانہ مضامین کی وجہ سے بہت جلد اپنا مقام پیدا کر لیا.اور جماعت نے طلباء جامعہ احمدیہ کے ٹھوس اور مدلل مضامین کو سراہا.دسمبر ۱۹۳۰ء میں یعنی پہلے ہی سال اس کا ایک ضخیم سالنامہ شائع ہوا جو معیاری مضامین اور عمدہ تصاویر کا مرقع تھا.افسوس یہ رسالہ اقتصادی مشکلات کی وجہ سے جاری نہ رہ سکا.اور دسمبر ۱۹۳۲ء میں بند کر دیا گیا.اس سال تعلیم الاسلام تعلیم الاسلام ہائی سکول میگزین کا اجراء اور حضور کا پیغام ہائی سکول کی طرف سے
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 184 خلافت ثانیہ کا سترھواں سال بھی ایک سہ ماہی اردو و انگریزی میگزین جاری ہوا جس کے مدیر اعلیٰ ماسٹر محمد ابراہیم صاحب بي ان تھے افسوس رسالہ جامعہ احمدیہ کی طرح یہ بھی جلد ہی بند کر دیا گیا.اس رسالہ کے اجراء پر بھی حضور نے ایک روح پرور پیغام تحریر فرمایا جو میگزین کے پہلے شمارہ میں سرورق کے صفحہ ۲ پر شائع ہوا.اس اہم پیغام کا متن حسب ذیل تھا :- " مجھے تعلیم الاسلام ہائی سکول کا ایک سابق طالب علم ہونے کی حیثیت سے وہری خوشی ہے کہ سکول کے طلباء ایک رسالہ اپنے اندر کام کا جوش پیدا کرنے کے لئے نکالنے لگے ہیں.میرے نزدیک یہ رسالہ مفید ہو سکتا ہے اگر طالب علم اس کا پورا بوجھ خود اٹھا ئیں اور اسے ایسے ایک سکول میگزین سے زیادہ حیثیت نہ دیں.میں جب چھوٹا تھا تو ہم نے ایک رسالہ شعیذ الاذہان نکالا تھا.اور صرف ہم سات طالب علم اس رسالہ کو شائع کرتے تھے اور کسی سے مدد طلب نہیں کرتے تھے.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ رسالہ اپنوں کے علاوہ غیروں میں بھی مقبول تھا.میں امید کرتا ہوں کہ تعلیم الاسلام ہائی سکول کے موجودہ طالب علم بھی اس رویے سے کام کریں گے اور اس رسالہ کو اپنے اندر تعلیم الاسلام کی روح پیدا کرنے کا ذریعہ بنائیں گے.انہیں یا د رکھنا چاہئے کہ ان کے سکول کا نام نہایت شاندار ہے اور اس نام کے اندر ہی ان کا نام پوشیدہ ہے.تعلیم الاسلام کو سیکھنا اور اسے دنیا میں پھیلانا یہ ان کا واحد مقصد ہونا چاہئے.اسلام اس وقت بالکل لاوارث ہے خدا تعالیٰ نے تم کو چنا ہے کہ تم اس کے وارث بنودہ اس وقت پامال ہے خدا تعالیٰ نے تم کو چنا ہے کہ تم اس کے حامل بنو.وہ اس وقت بے یار ہے خدا تعالیٰ نے تم کو چنا ہے کہ تم اس کے یار بنو وہ اس وقت بے وطن ہے خدا تعالیٰ نے تم کو چنا ہے.تمہارے دل اور تمہارے گھر اس کا وطن بنیں تم زبانوں سے کئی دفعہ کہہ چکے ہو کہ ایسا ہی ہو گا مگر وقت ہے کہ ہمارے عمل بھی اس کا ثبوت دیں کوئی سپاہی بغیر مشق کے میدان جنگ میں کام نہیں دے سکتا.نیک نیت اچھی چیز ہے مگر خالی نیک نیت خواہ کتنی ہی پختہ کیوں نہ ہو بغیر عملی قابلیت کے چنداں فائدہ نہیں دیتی.پس زندگی کے ہر شعبہ میں اسلام کے مطابق زندگی بسر کرنے کی کوشش کرو.اور اس کی تعلیم کو لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کرو.تاکہ یہ امر تمہاری عادت میں داخل ہو جائے.اور آپ ہی آپ ایسے اعمال ظاہر ہوتے چلے جائیں جو تعلیم الاسلام کے ظاہر کرنے والے ہوں اور آپ ہی آپ وہ کلمات نکلنے شروع ہو جا ئیں.جو تعلیم الاسلام کی گونج پیدا کرنے والے ہوں.اور آپ ہی آپ وہ ملفوظات قلم پر آنے لگیں جو تعلیم الاسلام کا رنگ رکھتے ہوں.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو اور اگر بچے دل سے کوشش کرو گے تو انشاء اللہ ایسا ہی ہو گا ".والسلام خاکسار مرزا محمود احمد
تاریخ احمدیت جلد ۵ 185 خلافت ثانیہ کا سترھواں سال ایک ڈچ قنصل قادیان میں ۱۵اپریل ۱۹۳۰ء کو مسٹرانڈ ریا ساڈچ قفصل قادیان آئے.واپسی پر انہوں نے حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو ایک خط لکھا جس میں تحریر کیا.میں نے قادیان میں نیکی کے سوا اور کچھ نہیں پایا.سفر ہندوستان سے جو بہت سے اثرات میرے دل پر ہوئے ہیں ان میں سے خاص اثرات قادیان کے ہیں جنہوں نے میرے دل میں خاص جگہ حاصل کی ہے.سب سے اول آپ لوگوں کی مہمان نوازی ہے جس سے میں مسرور ہوا.اور میں آپ کا ممنون ہوں گا.اگر آپ میرا شکریہ اپنے سب احباب کو پہنچا دیں.خاص بات جو مجھ پر اثر کرنے والی ہوئی وہ ایک طبعی ایمان اور کچی برادری ہے جو الہی محبت سے پیدا ہو کر قادیان کو رسولوں کی سی ایک فضا بخش رہی ہے.جو عیسائی حلقوں میں شاذ و نادر ہے.( ترجمہ از ڈچ زبان) فتنہ اخبار "مباہلہ اور حادثہ بٹالہ جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے اخبار " مباہلہ " کے ذریعہ سے حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کے خلاف جو نہایت ہی اشتعال انگیز اور حد درجہ دل آزار پراپیگنڈا شروع کیا جارہا تھا جو مارچ اپریل ۱۹۳۰ء میں تشویشناک صورت اختیار کر گیا.چنانچہ مباہلہ والوں نے ۲۸ مارچ ۱۹۳۰ء کو عین اس وقت جبکہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ خطبہ جمعہ ارشاد فرمارہے تھے مسجد اقصیٰ کی محراب کے پاس فساد برپا کرنے کا ارادہ کیا.اس موقعہ پر بعض جوشیلے مقتدی مسجد کی کھڑکیوں سے پھاند کر وہاں پہنچ گئے تا ان کو کیفر کردار تک پہنچا ئیں مگر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے بعض دوستوں کو قسمیں دے کر بھیجا کہ تمہیں بالکل ہاتھ نہیں اٹھانا ہو گا اور صرف اپنے دوستوں کو پکڑ کر لانا ہو گا.یہ واقعہ ہزاروں آدمیوں کی موجودگی میں ہوا لیکن پولیس نے جو کار روائی کی وہ یہ تھی کہ حضرت میر قاسم علی صاحب اور مولوی عبد الرحمان صاحب فاضل و غیره) احمدی معززین کی ہزار ہزار روپیہ کی ضمانتیں طلب کیں.اس واقعہ کے چند روز بعد انہوں نے جاہل عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے یہ چال چلی کہ ۱۳ اپریل ۱۹۳۰ء کی رات کو اپنے اخبار مباہلہ کے تمام فائل ، متعلقہ کاغذات نیز گھر اور دفتر کا تمام سامان محفوظ کر کے مکان کی ایک کوٹھڑی کو جہاں اسباب وغیرہ کچھ نہ تھا آگ لگا دی جس سے چند لکڑیاں جھلس گئیں.مگر جماعت احمدیہ کے مخالف اخبارات وغیرہ میں یہ جھوٹی خبریں شائع کیں کہ ہمارا امکان نذر آتش کر دیا گیا ہے اور سارا سامان جلا دیا گیا ہے.قادیان میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی ہدایت کے تحت احمدی بے مثال صبر و تحمل کا نمونہ بنے ہوئے تھے.اس لئے ان لوگوں نے یہ دیکھ کر کہ مرکز احمدیت میں بیٹھ کر ان کے لئے مزید شرارت پھیلانے کا موقعہ نہیں ہے.بٹالہ میں اپنی شرارتوں کا اڈہ بنالیا اور مشہور کر دیا کہ احمدیوں نے انہیں
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 1869 خلافت ثانیہ کا سترھواں.قادیان سے نکال دیا ہے بٹالہ میں ان کی تحریک پر انجمن شباب المسلمین کے عہدیداروں اور والٹیئروں نے 9 اپریل ۱۹۳۰ء کو ایک جلوس مرتب کیا جو محض اشتعال دلانے کے لئے اس محلہ سے گزرا جہاں پریذیڈنٹ انجمن احمد یہ بٹالہ (شیخ عبدالرشید صاحب مالک کارخانہ عبدالرشید اینڈ سنز) کا مکان تھا.جلوس نے مکان کے سامنے فحش گالیاں دیں اور حضرت مسیح موعود اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی اور دوسرے افراد خاندان مسیح موعود کے متعلق ناروا کلمات استعمال کئے اور جب انہیں منع کیا گیا تو جلوس کے بعض افراد دروازے توڑ کر جبرا ان کے رہائشی مکان میں گھس گئے اور اندر جاکر انہیں اور ان کے لڑکے کو زدو کوب کیا اور سامان توڑ پھوڑ دیا.بٹالہ میں ان کی قماش کے لوگوں نے ان کی بڑی آؤ بھگت کی ان کے جلوس نکالے ان کے لئے چندہ جمع کیا مگر چند دن کے بعد ہی یہ لوگ اپنا نیا میدان تلاش کرنے کے لئے امرت سر آگئے اور احمدیوں کے خلاف ہنگامہ آرائی شروع کردی.۲۳ اپریل ۱۹۳۰ء کی رات کو ایک ایسا حادثہ پیش آیا جس نے حالات کو بد سے بد تر بنا دیا کہا جاتا ہے کہ نوشہرہ کے ایک احمدی نوجوان قاضی محمد علی صاحب گورداسپور سے بٹالہ کی طرف ایک لاری میں آرہے تھے بد قسمتی سے اس میں ”مباہلہ " والے مستری اور ان کے مددگار ایک کافی تعداد میں موجود تھے.راستہ میں قاضی صاحب کی مباہلہ والوں سے گفتگو ہوتی رہی جس میں زیادہ تر زور انہوں نے اس بات پر دیا کہ مخالفت کی وجہ سے شرافت و انسانیت کو خیر باد نہیں کہنا چاہئے اور جھوٹے الزامات لگا کر احمدیوں کی دل آزاری نہیں کرنی چاہئے مگر مباہلہ والوں نے اخبار مباہلہ کا ایک پرچہ نکال کر نہایت گندے اور اشتعال انگیز فقرات سنانے شروع کر دیئے اور تصادم شروع ہو گیا.فریق مخالف نے قاضی صاحب پر حملہ کرنے کے لئے چاقو نکال لیا یہ دیکھ کر قاضی محمد علی صاحب کو بھی چاقو نکالنا پڑا.یہ دیکھ کر لاری میں بیٹھنے والے لوگ قاضی صاحب پر پل پڑے اور بے تحاشا مارنا شروع کر دیا.ایسی حالت میں انہوں نے اپنے بچاؤ کی پوری کوشش کی لیکن انہیں بہت سے آدمیوں نے اس قدر مارا کہ بیہوش کر دیا اور انہیں معلوم نہ ہوا کہ کیا ہوا اور جب ہوش آیا تو دیکھا کہ ایک شخص (جو بعد کو مرگیا) زخمی پڑا ہے اور وہ خود دوسروں کے پنجے میں گرفتار ہیں اس کے بعد پولیس نے آکر انہیں گرفتار کر لیا.اور ان پر قتل عمد کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا.جماعت احمدیہ کی طرف سے ان کی قانونی امداد میں کوئی دقیقہ فرد گذاشت نہ کیا گیا.مگر ابتدائی عدالت نے ان کو پھانسی کا فیصلہ دیا.اس پر ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی گئی مگر سزا بحال رہی.
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 187 خلافت ماشیہ کا سترھواں سال حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی طرف جماعت احمدیہ علی وجہ البصیرت اپنے خلیفہ دامام سے روزوں کی تحریک اور اس کا نتیجہ کا جو مقام و منصب سمجھتی ہے اور اسے جس طرح اپنے ایمان کا جزو قرار دیتی ہے اس لحاظ سے یہ سوال خارج از بحث تھا کہ فتنہ پردازوں کے خلاف کسی دنیوی عدالت میں چارہ جوئی کی جائے البتہ سلسلہ کے دوسرے ارکان کے تحفظ کے لئے عدالتوں کی طرف رجوع ہو سکتا تھا.چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالی نے اسی نقطہ نگاہ سے ۱۹۳۰ء کی مجلس مشاورت میں جماعت کے نمائندوں سے مشورہ طلب فرمایا.چنانچہ عدالتوں کے طریق کار سے پوری طرح واقفیت رکھنے والے معززین اور تجربہ کار اصحاب کی آراء سننے کے بعد اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کی شان اور وقار کے احترام کا لحاظ رکھتے ہوئے نمائندوں کی کثرت نے رائے دی کہ ہمیں سرکاری عدالتوں کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت نہیں اور نہ ان پر کوئی بھروسہ ہے.چنانچہ حضور نے بھی فیصلہ فرمایا کہ ہم انسانی عدالتوں کی بجائے خدائے قدوس کی بارگاہ میں اپنا استغاثہ پیش کریں.اور ارشاد فرمایا کہ رسول کریم ﷺ کی عادت تھی کہ ہفتہ میں دو روز پیر اور جمعرات کے دن روزے رکھا کرتے تھے.ہماری جماعت کے وہ احباب جن کے دل میں اس فتنہ نے درد پیدا کیا ہے اور جو اس کا انسداد چاہتے ہیں.اگر روزے رکھ سکیں تو ۲۸ اپریل ۱۹۳۰ء سے تیس دن تک جتنے پیر کے دن آئیں ان میں روزے رکھیں اور دعاؤں میں خاص طور پر مشغول رہیں کہ خدا تعالے یہ فتنہ دور کر دے.اور ہم پر اپنا خاص فضل اور نصرت نازل کرے اور جو دوست یہ مجاہدہ مکمل کرنا چاہیں وہ چالیس روز تک جتنے پیر کے دن آئیں ان میں روزے رکھیں اور دعا کریں.چنانچہ جماعت کے دوستوں نے حضور کی تحریک پر روزے رکھے اور تضرع سے دعائیں کیں آخر خدائی عدالت نے اپنے بندوں کے حق میں ڈگری دے دی یعنی ایسا سامان پیدا کر دیا کہ فتنہ پردازوں کے دلوں میں حکومت کی مخالفت کا جوش پیدا ہو گیا جس کی وجہ سے وہ سب پکڑے گئے باقی وہ رہ گئے جو بالکل کم حیثیت اور ذلیل لوگ تھے.اصل وہی تھے جن کی شہ پر انہیں شرارت کی جرأت ہوتی تھی اور دہ گرفتار ہو گئے ان کے علاوہ وہ اخبار جو جماعت کے خلاف گند اچھالتے تھے.یا تو بند ہو گئے.یا پریس آرڈی نینس کے خوف کی وجہ سے اپنا رویہ بدلنے پر مجبور ہوئے.منصب خلافت سے متعلق پر شوکت اعلان پچھلے سالوں میں حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جو کمیشن دفاتر کے جائزہ کے سلسلہ میں مقرر فرمایا تھا اس نے مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء میں اپنی رپورٹ پیش کی جس میں
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 188 خلافت ثانیہ کا سترھواں یہ تجویز رکھی کہ انجمن معتمدین خلیفہ وقت کی ماتحتی میں سلسلہ کی تمام جائداد کی نگران اور مالک مقرر ہوئی ہے اس واسطے وہ صحیح معنوں میں جماعت کی نمائندہ ہونی چاہئے ناظر صاحبان جو جماعت کے ملازمین میں سے ہیں.کسی طرح بھی جماعت کے نمائندے نہیں کہلا سکتے.ہمارے خیال میں انجمن معتمدین کے ممبران جماعت کے انتخاب سے مقرر ہونے چاہئیں - 21 یہ پوری تجویز چونکہ منصب خلافت کی حقیقت کے بالکل خلاف اور اس پر تبر رکھنے کے مترادف تھی اس لئے حضور نے اس پر زبردست تنقید کی اور نہایت پر حلال اور پر شوکت الفاظ میں اعلان فرمایا :- اللہ تعالیٰ ہمارا گواہ ہے ہم ایسے لوگوں سے تعاون کر کے کام نہیں کر سکتے.ہم نے اس قسم کے خیالات رکھنے والے ان لوگوں سے اختلاف کیا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت میں رہے آپ کے پاس بیٹھے آپ کی باتیں سنیں ہم اپنے جسم کے ٹکڑے الگ کر دینا پسند کر لیتے.لیکن ان کی علیحدگی پسند نہ کرتے مگر ہم نے انہیں چھوڑ دیا اور اس لئے چھوڑ دیا کہ خلافت جو برکت اور نعمت کے طور پر خدا تعالیٰ نے نازل کی وہ اس کے خلاف ہو گئے اور اسے مٹانا چاہتے تھے.خلافت خدا تعالیٰ کی ایک برکت ہے اور یہ اس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک جماعت اس کے قابل رہتی ہے لیکن جب جماعت اس کی اہل نہیں رہتی تو یہ مٹ جاتی ہے ہماری جماعت بھی جب تک اس کے قابل رہے گی.اس میں یہ برکت قائم رہے گی اگر کسی کے دل میں یہ خیال ہو کہ مجلس شوری جماعت کی نمائندہ ہے اور اس کی نمائندہ مجلس معتمدین ہو تو اسے یاد رکھنا چاہئے کہ ہم یہ خیال سننے کے لئے بھی تیار نہیں ہو سکتے.اور ہم اس کے مقابلہ میں ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن خلافت کو نقصان پہنچنے دینے کے لئے تیار نہیں.اللہ تعالی گواہ ہے میں صاف صاف کہ رہا ہوں ایسے لوگ ہم سے جس قدر جلد ہو سکے الگ ہو جائیں اور اگر وہ ہمارے ساتھ رہتے ہیں تو منافق ہیں اور دھوکہ دے کر رہتے ہیں اگر سارے کے سارے بھی الگ ہو جائیں اور میں اکیلا ہی رہ جاؤں تو میں سمجھوں گا کہ میں خداتعالی کی اس تعلیم کا نمائندہ ہوں جو اس نے دی ہے مگر یہ پسند نہ کروں گا کہ خلافت میں اصولی اختلافات رکھ کر پھر کوئی ہم میں شامل رہے یہ اصولی مسئلہ ہے اور اس میں اختلاف کر کے کوئی ہمارے ساتھ نہیں روستا اس موقعہ پر ہر طرف سے پر زور آوازیں آئیں کہ سب حضور کے ساتھ متفق ہیں.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے اندر جو بہادرانہ سپرٹ کام کر رہی تھی وہ خود حفاظتی کی تلقین حضور پوری جماعت میں سرگرم عمل دیکھنے کے متمنی تھے چنانچہ آپ
تاریخ احمدیت - جلد ۵ 189 خلافت ثانیہ کا سترھواں سال نے اس سلسلہ میں مجلعی مشاورت ۱۹۳۰ء کے موقعہ پر احباب کو یہ اہم مشورہ دیا کہ :- جو سامان بہادری اور جرات پیدا کرنے والے میسر آسکتے ہیں وہ ضرور مہیا کئے جائیں جن احباب کو بندوق رکھنے کی اجازت مل سکے وہ بندوق رکھیں جہاں جہاں تلوار رکھنے کی اجازت ہے وہاں تلوار رکھی جائے اور جہاں یہ اجازت نہ ہو وہاں سونار کھا جائے...قرآن کریم میں آتا ہے خذوا حذر کم ہتھیار اپنے پاس رکھو دیکھو سکھ ہتھیار رکھنے کے لئے کس قدر اصرار کرتے ہیں اور ہم جنہیں ہمارا مذہب حکم دیتا ہے کہ ہتھیار رکھو ہم کیوں نہ رکھیں مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خاص طور پر ہدایت کی تھی کہ گھر سے باہر نکلنے کے وقت لاٹھی رکھا کرو.مذہب میں بھی یہی پسندیدہ بات ہے اس قسم کی سب چیزیں چستی چالا کی اور بہادری پر دلالت کرتی ہیں ان کی طرف ہمارے دوستوں کو توجہ - کرنی چاہئے.یہاں یہ ذکر کر دینا مناسب ہے کہ احمدیوں میں جو آیتک سونا ہاتھ میں رکھنے کا کچھ عمل ہے وہ اسی تحریک کا نتیجہ ہے جو قرآن کریم کی ہدایت کے عین مطابق ہے.احمدیہ یونیورسٹی کی داغ بیل مولوی عبدالرحیم صاحب در دایم.اے نے مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء کے موقعہ پر پہلی بار یہ تحریک کی کہ ہمارے سلسلہ کو قائم ہوئے نصف صدی ہونے کو ہے اور ہمارے مدارس بھی ۲۵ سال سے قائم ہیں مگر ابھی تک ہم نے یونیورسٹی کی شکل پورے طور پر اختیار نہیں کی.حالانکہ ایک بڑھتی ہوئی قوم کی ترقی کو صحیح لائنوں پر چلانے کے لئے ایک مستقل اور مکمل یونیورسٹی کا قائم ہونا ضروری ہے.ہمارے زمانے کے حالات اس سرعت سے بدل رہے ہیں کہ میرے نزدیک اب وقت آگیا ہے.کہ ہم احمد یہ یونیورسٹی کی شکل کو ایک چھوٹے پیمانے پر قواعد و ضوابط کے ساتھ قائم کر کے محفوظ کر دیں.اس کے ساتھ ہی انہوں نے ایک مفصل سکیم بھی پیش کی جس پر حضرت خلیفہ المسیح نے ایک سب کمیٹی مقرر فرمائی جس کے ممبر حسب ذیل تھے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب ، حضرت میر محمد اسحاق صاحب قاضی محمد اسلم صاحب، چوہدری اسد اللہ خان صاحب مشی برکت علی صاحب لائق لدھیانوی ملک غلام رسول صاحب شوق چوہدری فضل احمد صاحب - مولوی محمد دین صاحب مرزا عبد الحق صاحب چوہدری غلام حسین صاحب چوہدری محمد شریف صاحب وکیل - شیخ عبدالرحمان صاحب مصری اس کمیٹی نے اس سکیم کو ضرورت سے زیادہ مفصل اور پیش از وقت قرار دیا.اور اس کی بجائے
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 190 خلافت تانیہ کاسترھواں سال ایک مختصر مجلس تعلیم (تعلیمی بورڈ) کی تجویز پیش کی جس کے سپرد جماعت کی اعلیٰ نگرانی کا کام کیا جاسکے.اس کمیٹی کی رپورٹ ۱۹۳۲ء کی مجلس مشاورت میں پیش ہوئی لیکن اس کی تائید میں صرف سات نمائندگان تھے.کثرت رائے اس تجویز کے خلاف تھی.حضرت خلیفتہ المسیح نے نمائندگان جماعت سے رائے لینے کے بعد چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب کی یہ تجویز منظور فرمائی که نظارت تعلیم و تربیت کی طرف سے ایک نئی رپورٹ تیار کی جائے جس میں دوسری یونیورسٹیوں کے انتظام کے پیش نظر احمدیہ یونیورسٹی کا ڈھانچہ ہو.چنانچہ نظارت تعلیم و تربیت کی طرف سے صوفی عبد القدیر صاحب نیاز بی.اے نے ایک ڈھانچہ تیار کیا جس پر مارچ ۱۹۳۳ء میں چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ملک غلام رسول صاحب شوق اور قاضی پروفیسر محمد اسلم صاحب پر مشتمل ایک اور کمیٹی کا تقرر عمل میں لایا گیا جس نے ۱۹۳۸ء میں اپنی سفارشات پیش کیں.ان سفارشات پر مزید غور کرنے کے لئے حضور نے مندرجہ ذیل ممبران پر مشتمل ایک اور کمیشن مقرر فرمایا چوہدری ابوالہاشم خاں صاحب صدر - ناظر صاحب تعلیم و تربیت سیکرٹری.حضرت میر محمد اسحق صاحب صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ملک غلام رسول صاحب شوق - مولوی عبدالرحیم صاحب درد- پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب.اس کمیشن کی رپورٹ سب کمیٹی (شوری) کی سفارشات کے ساتھ ۱۹۴۰ء کی مجلس مشاورت میں پیش ہوئی تو حضور نے مشاورت کی بحث سننے کے بعد فرمایا:- "1 یہ زیادہ مناسب ہو گا کہ ہم ایک ایسے بورڈ کے قیام پر غور کریں جس کا کام امتحانات کی نگرانی تعلیمی ضرورتوں کا خیال رکھنا اور نصاب مقرر کرنا اور نصاب کے لئے اگر کسی موضوع پر کوئی موزوں کتاب موجود نہ ہو تو وہ لکھوانا ہوتا یہ ٹیکنیکل کام ناظر کے ہاتھ سے نکل کر ایسے لوگوں کے ہاتھ میں چلا جائے جو تعلیمی لحاظ سے زیادہ ماہر ہوں".کثرت رائے تعلیمی بورڈ کے حق میں تھی اور حضور نے بھی فیصلہ فرمایا کہ صدرانجمن احمد یہ جلد سے جلد ایک ایسے بورڈ کے قیام کے متعلق تفصیلی قواعد بنا کر میرے سامنے پیش کرے.سلسلہ کے سب امتحانات بھی اسی کے سپرد ہوں".چنانچہ اس ہدایت کے مطابق حضور کی خدمت میں تفصیلی قواعد پیش کئے گئے اور بالآخر آپ کی منظوری سے ۱۹۴۲ء میں اس تعلیمی بورڈ کا قیام عمل میں آیا جس کا نام مجلس تعلیم رکھا گیا.اس طرح احمد یہ یونیورسٹی کے ابتدائی نظام کی داغ بیل مجلس تعلیم کی صورت میں قائم کر دی گئی.
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 191 خلافت ثانیہ کا سترھواں سال (فصل دوم) ملکی شورش میں کانگریس اور آل انڈیا نیشنل کانگرس نے دسمبر ۱۹۲۹ء میں حکومت کے رویہ پر تنقید اور کامل آزادی کا نعرہ بلند کرنے کے بعد ۲۶ جنوری ۱۹۳۰ء کو یوم آزادی منایا اور ۶ اپریل ۱۹۳۰ء سیح طریق عمل کی راہنمائی گاندھی جی کی قیادت میں قانون نمک سازی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ملک میں سول نافرمانی کا آغاز کر دیا اور کلکتہ سے لیکر پشاور تک بغاوت کے شعلے بھڑک اٹھے گاندھی جی اور کانگریس نے پے در پے کوشش کی کہ کسی نہ کسی طرح مسلمانوں کو اس شورش میں شامل کرنے پر آمادہ کرلیں.اور گو مجلس احرار اور جمعیتہ العلماء کی مختصری جماعتیں کانگریس کے دوش بدوش شریک کار تھیں.لیکن حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی مساعی کے نتیجہ میں مسلمان من حیث القوم اس تحریک سے الگ ہی رہے اور انہوں نے صاف کہہ دیا کہ پہلے ہمارے ساتھ تصفیہ حقوق کر کے ہمیں مطمئن کر دو اس کے بعد ہم ہر تحریک میں شامل ہونے کو تیار ہوں گے.چنانچہ سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح نے ۲ مئی ۱۹۳۰ء کو خطبہ جمعہ کے ذریعہ اس سیاسی شورش پر مفصل تبصرہ کرتے ہوئے کانگریس کی تحریک آزادی سے اصولی اور کلی ہمدردی کا اظہار کرنے کے باوجود کانگریس اور گورنمنٹ دونوں کے غلط رویہ پر بے لاگ تنقید کی اور مسلمانوں کے لئے عموماً اور جماعت احمدیہ کے لئے خصوصاً صحیح طریق عمل پیش کیا.چنانچہ حضور نے کانگریس کی نسبت اس رائے کا اظہار فرمایا کہ :- کانگریس اپنی ذات میں ہمارے لئے کسی تکلیف اور رنج کا موجب نہیں وہ چند ایسے افراد کا مجموعہ ہے جو اپنے بیان کے مطابق ملک کی آزادی اور بہتری کے لئے کوشش کر رہے ہیں اور کوئی عقلمند کوئی شریف کوئی باحیا اور کوئی انسان کہلانے کا مستحق انسان ایسے لوگوں کو بے قدری اور بے التفاتی کی نگاہ سے نہیں دیکھ سکتا.جو اپنے آپ کو اس لئے مصیبت میں ڈالے ہوئے ہوں کہ اپنے ملک اور اہل ملک کو آرام اور آسائش پہنچا ئیں اس لئے جس حد تک ان کے اپنے بیان اور ان کے اصول کا تعلق ہے ہمیں ان کے ساتھ کلی ہمدردی ہے اور جس مقصد اور مدعا کو لے کر وہ کھڑے ہوئے ہیں....ان کے حصول کی خواہش میں ہم کسی سے پیچھے نہیں ہیں.اور حریت جس طرح گاندھی جی پنڈت موتی
192 خلافت عثمانیہ کا سترھواں سال لال نہرو پنڈت جواہر لال نہرو ، مسٹرسین ، مسٹر آئنگر ، ڈاکٹر ستیہ پال وغیرہ کو مطلوب ہے اسی طرح ہمیں بھی مطلوب ہے اور ہندوستان ویسا ہی ہمارا ملک ہے جیسا ان لوگوں کا ہے اور اپنے وطن کی محبت اور آزادی کا خیال اسی طرح ہمارے سینوں میں بھی موجزن ہے جس طرح ان کے سینوں میں ہے ".حکومت وقت سے متعلق یہ نکتہ پیش فرمایا :- لیکن دوسری طرف ہم اس بات سے بھی انکار نہیں کر سکتے کہ ہمارا ملک ہندوستان انگریز کے ماتحت ہے....وہ سترھویں صدی سے ہندوستان میں آئے اور انیسویں صدی سے بلکہ اٹھارھویں صدی سے ہی انہیں حکومت میں حصہ مل گیا.اور اب وہ سارے ہندوستان پر قابض ہیں.پس اس سے ہم انکار نہیں کر سکتے کہ قانون کے مطابق ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت قائم ہے.اور کوئی دوسری حکومت جو انگریزوں کے منشاء اور سمجھوتہ کے بغیر قائم ہو وہ قانونی حکومت نہیں کہلا سکتی".ان حالات میں ایک طرف تو ہم کانگریس کی نیت پر حملہ کرنے اور اس کے مقصد کو برا کہنے کے لئے تیار نہیں اور دوسری طرف انگریزوں کا حکومت کا حق چلا آتا ہے اس کا انکار کرنے کے لئے تیار نہیں....ان دونوں باتوں کے درمیان رستہ تلاش کرنا ایسا ہی ہے جیسے پل صراط تیار کرنا اگر چہ یہ بہت مشکل کام ہے لیکن صحیح راستہ یہی ہے اور یہی خدا کے منشاء کے ماتحت ہے.لیکن افسوس ہے کہ اس وقت یہ صحیح راستہ اختیار نہیں کیا جا رہا.ایک طرف کانگریس کے لوگ ایک صحیح مقصد کے لئے ایسی کارروائیوں پر اتر آئے ہیں جو نہ آج مفید ہو سکتی ہیں نہ کل.آزادی اچھی چیز ہے مگر وہ آزادی حاصل کرنے کا طریق جو ہمیشہ کے لئے غلام بنائے کبھی اچھا نہیں ہو سکتا.کانگریس والے آزادی حاصل کرنے کے لئے ایسا ہی طریق اختیار کئے ہوئے ہیں جو ہندوستان کو ہمیشہ کے لئے غلام بنا دے گا اور وہ طریق قانون شکنی ہے...اس کے مقابلہ میں ہم یہ نہیں کہتے کہ گورنمنٹ غلطی سے بری ہے اس کا اس رویہ بھی اتنا اچھا نہیں جتنا ہونا چاہئے تھا.اسے سمجھنا چاہئے تھا کہ وہ باہر سے آئے ہوئے لوگ ہیں یہاں کے نہیں اس لئے ملک میں یہ خیال پیدا ہو نالازمی ہے کہ ملکی معاملات کے حل کرنے میں ہماری رائے بھی سنی جائے مگر اس کی کوئی پرواہ نہیں کی جاتی انگلستان میں اگر کوئی فساد ہو تو اس کے انسداد کے لئے حکومت لوگوں سے مشورہ کرتی اور ان کی کمیٹیاں بناتی ہے اور پھر طریق عمل تجویز کرتی ہے حالانکہ ملک ان کا اپنا ہو تا ہے حکومت ان کی اپنی ہوتی ہے مگر یہاں باہر کے آئے ہوئے غیروں پر حکومت کرنے والے اتنے فسادات کی موجودگی میں ملک سے پوچھتے تک نہیں کہ کیا کیا جائے.غرض ایک طرف اگر کانگریس غلط طریق اختیار کئے ہوئے ہے تو دوسری طرف گورنمنٹ بھی غلطی کر رہی ہے اور مسلمانوں کے لئے بہت مشکل پیدا ہو گئی ہے مسلماں قانون شکنی نہ کریں اور نمک شبازی بھی نہ کریں
حمدیت جلد ۵ 193 خلافت عثمانیہ کا سترھواں سال مگر یہ بھی تو نہیں ہو سکتا کہ وہ ملک کی حریت اور آزادی کے لئے کچھ نہ کریں لیکن اگر وہ اس کے لئے آواز اٹھاتے ہیں.تو کانگریس کے حامی اور مددگار سمجھے جاتے ہیں اور اگر خاموش رہتے ہیں تو ملک کے دشمن قرار پاتے ہیں.مسلمانوں کی اس مشکل کا ازالہ بھی گورنمنٹ کے ہاتھ میں ہے مگر افسوس ہے کہ گورنمنٹ نے اس کے متعلق کچھ نہیں کیا.اس وقت چاہئے تھا کہ گورنمنٹ مسلمانوں کو یقین دلاتی کہ ہم تمہارے جائز حقوق تمہیں دینے کے لئے تیار ہیں یا کم از کم اس بات کا اقرار کرتی کہ کانگریس سے مسلمانوں کا علیحدہ رہنا اس لئے نہیں کہ وہ سکتے ہیں اور کچھ کر نہیں سکتے بلکہ اس لئے ہے کہ وہ قانون کا احترام کرتے ہیں اور قانون کے اندر رہ کر ملک کی ترقی کے لئے کوشاں ہیں".اس ضمن میں مسلمانوں کے سامنے بہترین صورت یہ رکھی کہ :- ”وہ قانون شکنی کا مقابلہ کریں.اور ادھر گورنمنٹ سے اپنے مطالبات پورے کرانے پر قانون کے اندر رہ کر زور دیں اور ثابت کر دیں کہ ہم ایسے ہی ملک کی آزادی کے خواہاں ہیں جیسے ہندو اور اس بات کو جاری رکھیں جب تک اپنے حقوق حاصل نہ کر لیں".خطبہ کے آخر میں حضور نے جماعت احمدیہ کے لئے اعلان فرمایا کہ : " ہر جگہ اور ہر علاقہ کی جماعتیں قانون شکنی کا مقابلہ کریں.اور اس طرح گورنمنٹ کو امن قائم کرنے میں مدد دیں مگر اس کے ساتھ ہی صاف طور پر کھول کر کہدیں کہ ہم یہ نہیں چاہتے کہ ہماراملک غلام رہے ہم اپنے اور مسلمانوں کے حقوق کا مطالبہ کرتے رہیں گے اور انہیں حاصل کریں گے.حضور کا یہ خطبہ اردو اور بنگالی میں ٹریکٹ کی صورت میں بکثرت شائع کیا گیا.اس کے علاوہ حکومت ہند پر زور دیا گیا کہ وہ مسلمانوں کے مطالبات پورا کرنے کا اعلان کرے.اسی سلسلہ میں ۴ جون ۱۹۳۰ء کو پنجاب کے مسلمان زمینداروں کا ایک وفد سر نواب ملک خدا بخش صاحب کی صدارت میں وائسرائے ہند لارڈارون سے بھی ملا جس میں جماعت احمدیہ کی طرف سے حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب شامل ہوئے.وائسرائے نے وفد کو یقین دلایا کہ مسلمانان پنجاب کو اس بات کا خوف نہ کرنا چاہئے کہ ان کے جائز مطالبات منظور ہوئے بغیر رہ جائیں گے.اس موقعہ پر جماعت احمدیہ نے ملک کے طول و عرض میں بحالی امن کے لئے جلسے منعقد کرنے کے ساتھ ساتھ جو شاندار عملی جدوجہد کی وہ ایک بے مثال کارنامہ ہے ملک کے جس گوشہ میں کہیں اکار کا احمدی بھی موجود تھاوہ بڑے سے بڑے خطرات کے مقابلہ کے لئے ڈٹ کر میدان میں آگیا احمدیوں نے نہ صرف شورش پسندوں کی ہمنوائی گوارا نہ کی بلکہ وہ اپنی مسلسل کو بخشش اور قربانی سے مسلمانوں کو
یت - جلد ۵ 194 خلافت ثانیہ کا ستر جوان سال من حیث الجماعت اس تباہ کن تحریک سے علیحدہ رکھنے میں کامیاب ہو گئے.ساری جماعت میں صرف ایک مثال منٹگمری کی تھی جہاں ایک احمدی نے کمزوری دکھائی اور حضور کی خدمت میں خط لکھا.کہ یہاں بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر ہم نے کانگریسی تحریک کی علی الاعلان مخالفت کی تو لوگ ناراض ہو جائیں گے.حضور نے ۳۰ مئی ۱۹۳۰ء کو خطبہ جمعہ میں اس خط کا ذکر کرتے ہوئے سخت خفگی اور ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا :- " مجھے یہ خط پڑھ کر سخت حیرت ہوئی کیونکہ میں نہیں سمجھ سکتا مومن بزدل بھی ہو سکتا ہے...کس قدر شرم اور افسوس کی بات ہے کہ ہماری آنکھوں کے سامنے جبرو تشدد اور ظلم ہو رہا ہو.مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے منصوبے عملی صورت اختیار کر رہے ہوں اور ہم اس وجہ سے چپ چاپ بیٹھے رہیں کہ لوگ ناراض ہو جائیں گے لوگ ہمارے دوست کس دن ہوئے تھے اور پھر ہم نے کب لوگوں کی پوجا کی کہ یہ خیال کریں آج وہ ہمارے دوست ہیں...احمدیوں کو یا درکھنا چاہئے کہ اگر وہ اپنے کام میں سستی کر کے مقامی ہندو مسلمانوں کی مخالفت سے بچ بھی گئے تو اللہ تعالیٰ ان کے لئے کوئی اور دکھ پیدا کر دے گا.تاوہ غافل نہ ہو جائیں.مومن کبھی بزدل نہیں ہو تا اس لئے ایسے خیالات دل میں نہ لانے چاہئیں.اس تحریک سے مسلمانوں کا صریح نقصان ہو رہا ہے اور اگر اسی طرح ہوتا رہا تو وہ دن دور نہیں جب ان کی وہی حالت ہوگی جو چین میں ہوئی...یاد رکھو ہر وہ پتھر جو خداتعالی کی بات منوانے اور مسلمانوں کی ہمدردی کرنے کی وجہ سے پڑتا ہے وہ پتھر نہیں پھول ہے.ایسے پتھر مبارکبادی کے پھول ہیں جو خد اتعالیٰ پھینکتا ہے اس لئے ان سے ڈرنا نہیں بلکہ خوش ہونا چاہئے کہ ان کے ذریعہ خدا تعالیٰ اپنے بندے کو عزت دیتا ہے.ہم جو کچھ کرتے ہیں محض مسلمانوں کے فائدے کے لئے کرتے ہیں اگر وہ آج اس بات کو نہیں سمجھتے تو آئندہ نسلیں یقینا یہ کہنے پر مجبور ہوں گی کہ ایسے نازک موقعہ پر احمدیوں نے ان کی حفاظت کی پوری پوری کوشش کی ".سول نافرمانی کے نتیجہ میں المسیح الثانی کا مکتوب وائسرائے ہند کے نام حکومت کی طرف سے حضرت خلیفۃ ا گرفتاریاں شروع ہو گئیں جس پر ملکی فضا بالکل بدل گئی اور شورش شہروں سے نکل کر دیہات تک پھیل گئی.اس اہم مرحلہ پر حضرت امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۲ مئی ۱۹۳۰ء کو وائسرائے ہند کے نام ایک مفصل خط لکھا جس میں ان کے سامنے قیام امن کی غرض سے سات اہم تجاویز پیش کیں :- ا ملک کی تمام امن و اعتدال پسند جماعتوں کے نمائندوں کی کانفرنس بلا کر مشورہ لیا جائے کہ کونسا
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 195 خلافت ثانیہ کا سترھواں سال طریق ہے جس سے قانون کا احترام بھی قائم رہے اور ہندوستانیوں کو تشدد کی بھی شکایت نہ ہو.۲- تمام گورنروں کی کانفرنس منعقد کی جائے اور سب ہندوستان کے لئے ایک متفقہ طریق عمل تجویز کیا جائے.پر لیس پر پابندیاں لگانا ایک حد تک ضروری ہے لیکن اس قدر ضمانتوں کا طلب کرنا اردو پریس کے لئے ناقابل برداشت ہے اور شورش کو بڑھا دے گا پس اول صرف تنبیہہ ہونی چاہئے دوسری بار معمولی ضمانت طلب کی جائے تیسری بار زر ضمانت زیادہ کر دیا جائے.۴.حکومت کو اعلان کرنا چاہئے کہ موجودہ گرفتاریاں تحریک آزادی کو روکنے کے لئے نہیں بلکہ اس کے لئے بہتر فضا پیدا کرنے کی غرض سے ہیں ورنہ ہندوستان کو بہر حال درجہ نو آبادیات دیا جائے ۵- مسلمان موجودہ شورش میں من حیث القوم الگ ہیں.مگر ہنگامہ پشاور میں حکومت سے سخت غلطی ہوئی اور مقامی حکام نے ضبط نفس سے کام نہیں لیا حکومت کو اس کا ازالہ کرنا چاہئے اس ضمن میں اس قسم کا اعلان بہت مفید ہوگا.کہ صوبہ سرحد کو بھی دوسرے صوبوں کے ساتھ ساتھ ملکی اصلاحات دے دی جائیں گی.مسلمانوں کو شبہ ہے کہ حکومت فیصلہ کرتے وقت ان کے حقوق ہندوؤں کے شور کی وجہ سے تلف کر دے گی اس کا ازالہ ہونا چاہئے.ے.شاردا ایکٹ کے بارے میں بھی حکومت نے سخت غلطی کا ارتکاب کیا ہے میں خود بچپن کی شادیوں کا مخالف ہوں لیکن اس کے باوجود ہرگز پسند نہیں کرتا کہ ایک کثیر التعداد جماعت سوشل اصلاح کے نام سے قلیل التعداد جماعتوں کے ذاتی معاملات میں دخل دے.وائسرائے ہند کے پرائیویٹ سیکرٹری مسٹر کننگھم کی طرف سے اس خط کا مفصل جواب موصول ہوا جس کا ملخص یہ تھا کہ :- ا انگلستان سے واپسی کے بعد ہز ایکسی لینسی نے مختلف جماعتوں کے مشہور نمائندوں کے ساتھ مسلسل رابطہ قائم رکھا ہے اور انہیں یقین ہے کہ گورنروں نے بھی رکھا ہو گا اس لئے فی الحال با قاعدہ کسی کانفرنس کی ضرورت نہیں.۲- اس سے زیادہ بے بنیاد خیال اور کوئی نہیں ہو سکتا کہ حکومت آزادی ملک کے جائز جذبات کو دبانا چاہتی ہے..اخباروں کو کئی موقعوں پر ضمانت طلب کرنے سے پہلے دوستانہ انتباہ کیا گیا ہے اور اس کا اثر
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 196 خلافت ثانیہ کا سترھواں سال بھی بہت اچھا ہوا ہے..واقعہ پشاور کی تحقیق کے لئے ہائیکورٹ کے دو جوں پر مشتمل ایک کمیٹی مقرر کر دیگئی ہے.۵- شاردا ایکٹ کے متعلق آپ کی رائے ہز ایکسی لینسی نے خاص دلچسپی سے پڑھی ہے اور وہ محسوس کرتے ہیں کہ ایک مذہبی جماعت کے امام کی طرف سے اس بارے میں جو خیالات ظاہر کئے گئے ہیں.وہ خاص طور پر توجہ کے مستحق ہیں چنانچہ گورنمنٹ آف انڈیا نے حال ہی میں لوکل حکومتوں سے شار دا ایکٹ وغیرہ کے بارہ میں مشورہ طلب کیا ہے.- حفاظت حقوق کی نسبت مسلمانوں کی بدگمانی دور کرنے کے لئے ہز ایکسی لینسی اپنے اثر کو کام میں لائیں گے.ہر میجسٹی کی حکومت ہمیشہ اس امر پر زور دیتی رہی ہے کہ گول میز کانفرنس میں تمام قوموں اور خاص ذمہ داری رکھنے والی جماعتوں کی نمائندگی کا ضرور خیال رکھا جائے گا.کانگریس جماعت احمدیہ کی طرف سے مسلم پریس کی حفاظت کیلئے پیشکش پنجاب کا مرین کمیٹی نے اخبارات بند کر دینے کا نوٹس دیا تھا.اور بند نہ کرنے کی صورت میں پکٹنگ لگانے کی دھمکی دی تھی جس سے کانگریس کی غرض یہ تھی کہ مسلمان اخبارات کا جو کانگریسی شورش کے خطرات سے آگاہ کر رہے تھے گلا گھونٹ دیا جائے اور اس طرح مسلمانوں کے سیاسی اور ملکی مفاد کو سخت نقصان پہنچایا جائے.اس نازک مرحلہ پر جماعت احمدیہ نے لاہور کے مسلم اخبارات " انقلاب و سیاست کو کانگریس کے تشدد سے بچانے کے لئے اپنی خدمات پیش کر دیں.چنانچہ ناظر صاحب امور خارجہ قادیان نے اخبار انقلاب و سیاست کو حسب ذیل نار دیا." جماعت احمدیہ کو یہ سن کر افسوس ہوا کہ کانگریس کے رضا کار آپ کے دفتر پر پہرا بٹھانے کی دھمکی دے رہے ہیں چونکہ یہ امر بابند قانون شہریوں کا مقصد مشترک ہے اس لئے جماعت احمدیہ قادیان حسب ضرورت اپنے آدمیوں کو لاہور بھیجنے کے لئے بالکل تیار ہے تاکہ وہ کانگریس کے جارحانہ اقدام کے مقابلے میں اخبارات کی حفاظت کریں".یہ تار انقلاب نے اپنے ۲۹ مئی ۱۹۳۰ء کے پرچہ میں احمدی بھی انقلاب کی حفاظت کے لئے تیار ہیں کے عنوان سے نمایاں طور پر شائع کرتے ہوئے لکھا:- " ہم جماعت احمدیہ کا تہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں ہمیں یقین ہے کہ ان کی طرح ہر مسلمان اپنے اس خادم جریدے کی حفاظت کے لئے کمر بستہ ہے جب تک ملت اسلامید انقلاب کی پشت پناہ ہے انقلاب کو کفر کی طاقتیں کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتیں ".(صفحہ 1)
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 197 خلافت ثانیہ کا سترھواں سال اخبار "سیاست" کے ایڈیٹر جناب سید حبیب صاحب کی طرف سے اس تار کے جواب میں حسب ذیل میٹھی موصول ہوئی:- " جناب من ! میں دلی شکریہ کے ساتھ آپ کے مکتوب نمبر C۲۶/۴۵۹ محررہ ۲۷ مئی ۱۹۳۰ء اور تار جس کا آپ نے اس مکتوب میں حوالہ دیا ہے رسید پیش کرتا ہوں اور آپ کو یہ اطلاع دینا چاہتا ہوں کہ اس موقعہ پر آپ نے جس برادرانہ ہمدردی اور بچی اسلامی سپرٹ کا اظہار کیا ہے اس نے مجھ پر اور ے متعلقین پر ایک دیر پا اثر قائم کیا ہے میں آپ کی معرفت آپ کی جماعت کا شکریہ ادا کر تا ہوں اور انہیں اس بات کا یقین دلاتا ہوں کہ میں اس پیشکش کے لئے بے حد ممنون ہوں اب خطرہ گذر گیا ہے اور کانگریس نے میرے دفتر پر پکٹنگ کرنے کا ارادہ ترک کر دیا ہے.تاہم اگر کبھی ضرورت پیش میرے آئی تو میں آپ کی مخلصانہ پیشکش سے فائدہ اٹھانے میں دریغ نہ کروں گا آپ کا حبیب ".سیاسیات میں دخل دینے کی وجہ جماعت احمدیہ ایک مذہبی جماعت ہے جس کا اصل مقصد اور مدعا تبلیغ اسلام ہے اس لئے اس کا براہ راست سیاسیات سے کوئی تعلق نہیں لیکن جب ملک میں کوئی وبا آتی ہے تو وہ سب کو لپیٹ لیتی ہے جب آگ لگتی ہے تو دوست دشمن کے گھر کی کوئی تمیز روا نہیں رکھتی.اسی طرح وہ سیاسی تغیرات جو اس زمانہ میں پیدا ہو رہے تھے اور وہ بہیجان جو عوامی ذہن میں پایا جاتا تھا جماعت احمدیہ پر اثر انداز ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا اور اگر جماعت احمد یہ خود متاثر نہ بھی ہوتی تب بھی دوسرے لوگ انہیں خاموش نہیں بیٹھنے دیتے تھے.سیاسی حلقے پہلے یہ اعتراض کرتے تھے کہ یہ جماعت ملکی معاملات میں دلچسپی نہیں لیتی لیکن جب حضرت خلیفتہ المسیح کی قیادت میں جماعت نے صحیح طریق عمل کا اظہار کیا تو یہ کہا جانے لگا کہ تم کانگریس کی تحریک کے خلاف کیوں رائے رکھتے ہو.حضور نے ۳۰ مئی ۱۹۳۰ء کو جماعت احمدیہ کی یہ نازک پوزیشن ملک کے سامنے پیش کرتے ہوئے فرمایا :- جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم سیاسیات میں کیوں دخل دیتے ہیں ان کے لئے میرے تین جواب ہیں اول یہ کہ ہم اپنا کام کر رہے تھے تم نے ستایا دن کیا اور بار بار اعتراض کئے کہ تم کیوں خاموش ہو اس لئے ہم مجبور ہو گئے کہ اپنی صحیح رائے کا اظہار کر دیں.دوسرے یہ کہ ہماری جماعت خد اتعالیٰ کے فضل سے ہندوستان کے ہر حصہ اور بیرونی ممالک میں پھیلی ہوئی ہے اور ان میں سے کئی ایک ایسے دوست ہیں جنھیں سالہا سال قادیان آنے کا اتفاق نہیں ہوتا اس لئے ضروری ہے کہ ان کی رہنمائی کے لئے ہم اپنے نیز بیرونی پریس کے ذریعہ بھی ملکی امور کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کریں اور انہیں مناسب ہدایات دیں تیسرے یہ کہ ہم مبلغ ہیں اور ہمارا پیشہ میں ہے کہ جو بات حق سمجھیں اسے دنیا میں
تاریخ احمدیت جلد ۵ 198 خلافت عثمانیہ کا سترھواں سال پھیلائیں جس طرح کوئی شخص کسی ڈاکٹر کو نہیں کہہ سکتا کہ تم لوگوں کا علاج کیوں کرتے ہو کیونکہ اس کا کام ہی یہ ہے اسی طرح کوئی شخص حق کے اظہار کی وجہ سے ہم پر بھی اعتراض نہیں کر سکتا کیونکہ یہ ہمارا پیشہ ہے اس لئے جسے ہم مفید سمجھیں فرض منصبی کے لحاظ سے ضروری ہے کہ اسے دوسروں تک پہنچادیں.اگر ہماری باتیں غلط ہیں تو پھر ہمارے مخالفین کے لئے گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں کیوں کہ ان باتوں کو سن کر لوگ خود ہی رد کر دیں گے لیکن اس حق سے ہمیں محروم نہیں کیا جاسکتا کہ جس طرح وہ اپنے خیالات کی اشاعت کرتے ہیں اسی طرح ہم بھی کریں آزادی وطن حاصل کرنے والے آزادی کو ہر چیز پر مقدم سمجھتے ہیں.لیکن کیا یہ امر آزادی کے منافی نہیں ہو گا.کہ وہ ہم سے محض اس وجہ سے جھگڑیں کہ ہماری رائے ان کے خلاف ہے انہیں تو چاہئے کہ اعلان عام کر دیں کہ جو شخص ان کے خیالات کے خلاف رائے رکھتا ہو وہ آئے اور اسے پیش کر کے اس کی معقولیت ثابت کرے...ہم ایسے جلسوں کا انتظام کرتے ہیں اور مخالف رائے رکھنے والے اپنی اپنی رائے کا اظہار کریں ہم نے تو کئی بار اس بات کا اعلان کیا ہے کہ جو لوگ ہماری رائے کو غلط سمجھتے ہیں وہ آئیں اور ہمارے سٹیج پر کھڑے ہو کر تقریریں کریں یہ نہیں کہ ہر ایرے غیرے کے لئے بلکہ اگر معقول اور بار سوخ لیڈر آئیں تو ہم ان کی تقریر کے لئے جماعت کو اکٹھا بھی کر سکتے ہیں اور میں خود بھی ان کے خیالات سنوں گا اور اگر انکی بات معقول ہوگی تو ہمیں اس کے ماننے میں کوئی عذر نہ ہو گا.اور اگر وہ ہمارے خیالات کو معقول سمجھیں تو ان کا بھی فرض ہے کہ آزادی کے ساتھ ہماری اتباع کرنے لگ جائیں.مگر افسوس کانگریس کے ذمہ دار لیڈروں کو اس معقول تجویز کے قبول کرنے کی توفیق نہ مل سکی.
تاریخ احمدیت جلد ۵ 199 خلافت ثانیہ کا سترھواں سال فصل سوم حضرت خلیفہ اسیح ایدہ اللہ تعالٰی جون ۱۹۳۰ء کا پہلا ہفتہ جماعت احمدیہ کے لئے ایک درد انگیز امتحان اور ابتلاء کا ہفتہ تھا احمدیوں نے کانگریس کی سیاسی شورش کے کی نسبت اخبار ٹریبون رن" کی مفتریانہ خبر اور اس کا رد عمل خلاف قیام امن کی جو مخلصانہ جدوجہد جاری رکھی تھی اس پر کانگریسی حلقے نعل در آتش ہو رہے تھے.اور انہوں نے مختلف مقامات کے احمدیوں کو جانی اور مالی نقصان پہنچانے کی دھمکیاں دیں اس سلسلہ میں سب سے خطرناک حربہ یہ استعمال کیا گیا کہ جماعت احمدیہ سے انتقام لینے اور اس کی توجہ منتشر کرنے کے لئے ہندو اخبار ٹرمیون " کے کسی نامہ نگار نے امرت سرے بذریعہ فون حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اچانک وفات کی بے بنیاد خبر بھیجی جو " ٹریبون لاہور نے ۳ جون ۱۹۳۰ء کو شائع کر دی اور اس پر ایک شذرہ لکھ دیا.Kia اس سراسر جھوٹی اطلاع نے حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی ذات والا صفات سے متعلق جماعت احمدیہ کے لئے اس قدر رنج والم اور غم واندوہ پیدا کر دیا جس کا اندازہ امکان سے باہر ہے اس خبر کا شائع ہو نا تھا کہ بجلی کی طرح یہ آن کی آن میں ملک کے ایک سے دو سرے سرے تک پہنچ گئی اور جس احمدی تک بھی پہنچی اس پر ایک قیامت ڈھا گئی بہت سے احمدی احباب کا بیان ہے کہ ٹرمیون کی خبر کان میں پڑتے ہی دماغ معطل ہو گیا ہاتھ پاؤں پھول گئے.گویائی کی طاقت سب ہو گئی اور گھر کے لوگوں کو بتانا مشکل ہو گیا.اور جب بتایا گیا تو گھروں میں کہرام مچ گیا مرد عورت بوڑھے جو ان جلد سے جلد قادیان جاپہنچنے کی کوشش میں مصروف ہو گئے.چنانچہ جہاں جہاں سے تردید کی اطلاع پہنچنے سے پہلے کوئی گاڑی چلتی تھی وہاں کے احباب فور اروانہ ہو گئے اور جہاں روانگی میں دیر تھی یا جلدی پہنچنا مشکل تھا وہاں سے واپسی تاروں کا تانتا بندھ گیا.شیخ کریم بخش صاحب آف کوئٹہ نے یہ اطلاع سنی تو جماعت کو ئٹہ کی طرف سے تار دینے کے لئے تار گھر گئے اور ساری رات بیٹھے روتے رہے جب دوسرے روز ۴ بجے حضور کی خیریت کا جواب ملا تب گھر گئے..
تاریخ احمد بیت - جلد ۵ 200 خلافت عثمانیہ کا سترھواں ڈاکٹر محمد شفیع صاحب ویٹرنری اسٹنٹ جڑانوالہ میں تھے ٹریبیون کی خبر پڑھ کر ان کی جو حالت ہوئی اس کی نسبت وہ خودہی لکھتے ہیں.ٹریبون کی غلط خبر نے مجھے قریب مرگ کر دیا.اگر اسی روز شام کو ٹرمیون میں تردید کا تار نہ پڑھتا اور برادرم ڈاکٹر محمد احسان صاحب قادیان سے ۱۰ بجے شب کو نہ آجاتے.تو میرا زندہ رہنا مشکل تھا کیونکہ جس وقت سے میں نے یہ خبر پڑھی تھی رو رو کر میری حالت دگرگوں ہو رہی تھی.دل ڈوبتا جاتا اور جسم بے حس ہوتا جاتا تھا.ملک ( راجہ ) علی محمد صاحب افسر مال نے انہیں دنوں مظفر گڑھ سے مولوی عبد الرحیم صاحب درد کے نام مندرجہ ذیل مکتوب لکھا جس سے کسی قدر اندازہ ہو جائے گا کہ ٹریبیون کی خبر سن کر احمدیوں کی کیا حالت ہوئی ہوگی وہ لکھتے ہیں.کل شام کو عزیزی چوہدری عبداللہ خاں صاحب و ڈاکٹر محمد دین صاحب اخبار ٹریبون کا پرچہ میری اطلاع کے لئے لائے وہ خود روتے ہوئے میرے پاس پہنچے خبر پڑھ کر دل بے قرار ہو گیا.اٹھ کر میں نے اندر اپنی اہلیہ کو خبر دی جو سخت گھبرا گئی چند ساعت تو ہم سب بیٹھے زار زار روتے رہے دل میں غم و ملال کے بادل اٹھ کر آتے تھے.اور قوت واہمہ قادیان لے جاتی تھی.اور تصور قادیان کی حالت و غم و مصیبت کی ایسی تصویر کھنچا تھا جس کی وجہ سے آنکھیں پھٹ جاتی تھیں.اور کلیجہ منہ کو آتا تھا تمام رات میں نہیں سویا.اور روتے ہوئے گذری میری اہلیہ کی حالت نہایت مضطربانہ تھی اور کبھی کبھی جب اس کے منہ سے یہ صداغم والم کے گہرے جذبات سے آلودہ نکلتی کہ حضرت صاحب نے ہزاروں نکاح کے خطبے پڑھے ہونگے لیکن کیا اب ان کی لڑکی کا خطبہ کوئی اور پڑھے گا.تو دل غم کے تلاطم خیز سمندر میں تیر تادکھائی دیتا تھا.اور جب قوت واہمہ میری توجہ کو جماعت کی موجودہ اور اندرونی بیرونی شورش کی طرف کھینچتی تھی تو پھر دل سے یہی صدا نکلتی تھی کہ یہ زلزلہ جو ہماری جماعت پر آیا ہے بے نظیر ہو گا.اور اس کی مثال کسی گذشتہ جماعت کے حالات میں نہیں ملیگی دل غم سے پر ہو کر آنکھیں آسمان کی طرف اٹھ جاتی تھیں.کبھی کبھی دل میں یہ خیال گذر تا تھا کہ شاید یہ خبر جھوٹ ہو لیکن اس پر اعتبار نہیں کیا جاتا تھا.کیونکہ اتنی بڑی شخصیت کے متعلق ٹریبیون" اخبار میں جھوٹی خبر نکلنے کا کم امکان ہو سکتا ہے تاہم اس خیال کے تابع میں نے اپنے رب کے حضور میں درخواست کی کہ اے میرے مولی اگر یہ خبر غلط ہو تو میں ایک رات سالم عبادت کروں گا.اور بالکل نہیں سوؤں گا چنانچہ آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسا ہی کرنے کا ارادہ ہے.غرضیکہ گزشتہ رات ہمارے لئے قیامت کا نمونہ تھی میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے آج تک ایسی غم والی رات نہیں پائی "
تاریخ احمد بیت ، جلد ۵ 201 خلافت عثمانیہ کا سترھواں سال ۱۵۰ ڈاکٹر محمد علی خاں صاحب افریقی - "رمیون " اخبار پڑھتے ہی ماہی بے آب کی طرح تلملا اٹھے اس صدمہ سے دل کو ضعف ہو گیا تار دینے ہی کو تھے کہ جماعت احمد یہ گجرات کے امیر سے خوشخبری ملی کہ حضور بخیریت ہیں.بارگاہ ایزدی میں شکر کیا لیکن اس دن کے ضعف کا اثر تین دن تک رہا.خود قادیان میں یہ حالت تھی کہ جس کے کان میں یہ منحوس خبر پڑتی وہ حضرت امیر المومنین کی خیر و عافیت کا اپورا علم اور یقین رکھنے کے باوجود حضور کی زیارت کے لئے بے تاب ہو جاتا حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کا بیان ہے کہ :- ۵۱ میں حسب معمول اپنے دفتر کے بر آمدہ میں بیٹھا تھا کہ مکرمی مولوی فقیر علی صاحب اسٹیشن ماسٹر ( قادیان) گھبرائے ہوئے بھاگے چلے آتے ہیں.میں محسوس کرتا تھا کہ گھبراہٹ میں ان کا قدم باوجود کوشش کے پوری تیزی سے نہیں اٹھ رہا.مجھ سے ابھی وہ فاصلے پر تھے کہ میں نے پوچھا خیر تو ہے انہوں نے کہا حضرت صاحب کی طبیعت کیسی ہے میں نے جواب دیا اچھی ہے مگر میرے کہنے سے ان کی تسلی نہیں ہوئی وہ بھاگے جاتے تھے اور کہتے تھے کہ لاہور میں کسی بد معاش نے جھوٹی خبر اڑا دی ہے میں اندازہ کرتا تھا کہ ان کے منہ سے موت کا لفظ نہیں نکلتا.میں نے کہا کہ کیوں تم نے اسٹیشن پر ہی اس کی تردید نہ کر دی.انہوں نے کچھ جواب نہ دیا اور بھاگتے چلے گئے میں نے اس نظارہ کو دیکھا اور تعجب کیا کہ یہ قادیان میں موجود تھے اور ان کو علم تھا پھر انہوں نے اس خبر کی تردید کے لئے شہر آنے کی کیوں ضرورت سمجھی مگر معامیں نے محسوس کیا کہ یہ محبت کا ایک کرشمہ ہے.03 قاریان ہی کا واقعہ ہے کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے اہل بیت کے پاس سے ایک احمدی خاتون اٹھ کر گئی ہی تھیں کہ ان کے بیٹے نے جو لاہور سے اسی وقت آئے تھے یہ سنایا کہ وہاں ایسی خبر مشہور ہے وہ خاتون یہ سنتے ہی فورا واپس آئیں جب حضور کی صحت سے متعلق دریافت کر لیا تو انہیں تسلی ہوئی.قادیان میں جب بیرونی جماعتوں کے اس طرح پریشانی و افسوس میں مبتلا ہونے کا علم ہوا تو اس کے ازالہ کے لئے جو کچھ کیا جا سکتا تھا اس کے لئے تمام دفاتر مصروف ہو گئے اور جماعتوں کو ہر ممکن ذریعہ تارون وغیرہ سے حضور کی بخیریت ہونے کی اطلاع جلد سے جلد پہنچانے کے انتظامات کئے گئے اس موقعہ پر الفضل کا ایک غیر معمولی نمبر بھی شائع کیا گیا.اسٹیشن ماسٹر صاحب اور سب پوسٹ ماسٹر صاحب قادیان اور ان کے عملے نے بھی پورا پورا تعاون کیا اور ہر طرف اطلاعات بھجوانے کی کوشش کی لیکن ان تمام ذرائع کو بروئے کار لانے کے باوجود کئی مقامات کے احمدی جنھیں بروقت اطلاع نہ پہنچائی جاسکی یا کسی اور جگہ سے بھی علم نہ ہو سکا وہ نور آقادیان کے لئے روانہ ہو گئے اور ۳ جون کی صبح کی گاڑی سے
تاریخ احمدیت جلد ۵ 202 خلافت عثمانیہ کا سترھواں گوجرانوالہ نواں شہر ضلع جالندھر، لائلپور چوہڑکانہ اوکاڑہ ، منٹگمری وغیرہ مقامات سے احمدی قادیان ٥٥ پہنچ گئے.جو احباب یہ افواہ بن کر گھروں سے دیوانہ وار چل دیئے تھے ان کا بیان ہے کہ شدت غم والم میں از خود رفتہ ہو جانے کی وجہ سے انہیں یہ بھی معلوم نہ ہو سکا کہ ان کے ساتھ گاڑی میں کون لوگ بیٹھے ہیں اور وہ کس کس اسٹیشن سے گزر رہے ہیں ، فور غم واندوہ کی وجہ سے آنسو بھی نہ نکلتے تھے بس ایک بیہوشی کا سا عالم تھا اور خود فراموشی کا ایک دریا تھا جس میں بہتے چلے جارہے تھے جب راستہ میں کسی نے اس خبر کے غلط ہونے کا ذکر کیا تو بے اختیار خوشی کے آنسو نکل آئے لیکن پھر خوشی اور مسرت کا یہ عالم تھا کہ اس کا برداشت کرنا مشکل ہو گیا جس طرح غم واندوہ کا کوئی اندازہ نہ تھا اسی طرح اب خوشی کی بھی کوئی حد نہ رہی تھی.لیکن باوجود یکہ انہیں رستہ ہی میں حضرت امیر المومنین کی خیریت کا علم ہو چکا تھا اور وہ اسے صحیح بھی سمجھ گئے تھے تاہم صبر نہیں کر سکتے تھے تاوقتیکہ حضرت خلیفہ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کا بیان ہے کہ میں جو راستہ پر بیٹھتا ہوں ان آنے والوں کو دیکھتا تھا کہ وہ محبت اور اخلاص کے پیکر ہیں انہیں دوران سفر میں اس خبر کا افتراء ہونا معلوم ہو چکا تھا.مگر ان کی بے قراری ہر آن بڑھ رہی تھی.اور یہ صرف اعجاز محبت تھا یہ دوست اپنی اس بیقراری میں قصر خلافت کی طرف بھاگے جارہے تھے میں نے دیکھا بعض ان میں ایسے بھی تھے جنہوں نے اس سفر میں نہ کچھ کھایا نہ پیا.ان طبعی تقاضوں پر بھی محبت کا غلبہ تھا.جب تک قصر خلافت میں جاکر انہوں نے اپنے امام کو دیکھ نہ لیا.اور مصافحہ اور معانقہ کی سعادت حاصل نہ کرلی ان کے دل بے قرار کو قرار نہ آیا.خود حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں.” باہر سے آنے والوں کی حالت یہ تھی کہ باوجودیکہ اس کی تردید ہو چکی تھی مگر وہ یہی کہتے تھے جب تک ہم خود دیکھ نہ لیس ہمیں چین نہیں آئے گا.مجھے اس دن سردرد کا دورہ تھا مگر آنے والے دوستوں سے ملناپڑتاتھا.حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی حالت آنے والے دوستوں سے ایک الگ رنگ رکھتی تھی آپ کو اس شہر کا کوئی خیال نہ تھا جو تکلیف تھی وہ یہ تھی کہ اس خبر نے جماعت کو تکلیف دی آپ ان کے مالی نقصان ان کے ذہنی اور روحانی تکلیف کو اس طرح محسوس کرتے تھے کہ گویا آپ ہی پر وارد ہو رہی ہے.01 ٹرمیون " کی خبر نے پوری جماعت کو مجسم گریہ وزاری بنادیا مگر اس سے کئی سبق بھی حاصل
تاریخ احمدیت.جلد ۵ ہوئے مثال 203 اول یہ ثابت ہو گیا کہ دشمنان احمدیت جماعت احمدیہ کے خلاف ایسے جھوٹ سے بھی پر ہیز نہیں کرتے جس کا بہت جلد ظاہر ہو جانا یقینی ہوتا ہے.دوم جماعت احمدیہ کے ہر فرد نے حضور ایدہ اللہ تعالٰی سے محبت و عقیدت کا ایسا بے نظیر اور عدیم المثال نمونہ پیش کیا جس کی مثال عظیم الشان نبیوں کی جماعتوں کے سوا اور کہیں نہیں مل سکتی.سوم مخالفوں کے اس پراپیگینڈا کی قلعی کھل گئی کہ معاذ اللہ جماعت احمدیہ کو مباہلہ والوں کے بتانات کی وجہ سے اپنے امام سے اخلاص نہیں رہا.چهارم.دوسرے لوگوں کے دلوں میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی جو عزت و عظمت تھی اس کا بھی اظہار ہوا.چنانچہ غیر از جماعت مسلمانوں کا معتد بہ حصہ جماعت احمدیہ کے ساتھ غم میں ایسا شریک ہوا کہ گویا خود ان کے گھروں میں کوئی مصیبت آگئی ہے ایک مسلمان پر نسپل کھانا نہ کھا سکے بعض غیر احمدی عورتیں اور بچے بھی یہ خبر سن کر رونے لگے.شملہ میں جب یہ منحوس اطلاع پہنچی تو غیر احمدیوں نے حضرت مفتی محمد صادق صاحب سے قدم قدم پر ہمدردی کا اظہار کیا.سید محسن شاہ صاحب ایڈووکیٹ آف لاہور نے کہا کہ مسلمانوں کو اس وقت راہ راست پر چلانے والا ایک ہی شخص تھاوہ بھی چلا گیا تو باقی کیا رہا.سر عبد القادر صاحب کو اس خبر سے گہرا صدمہ پہنچا اور خیریت کی خبر ملنے پر بے انتہاء خوشی ہوئی جسو کی ضلع گجرات کے شیعہ اصحاب نے مولوی حکیم سید فضل حسین صاحب شیعه مبلغ آف کوٹلہ سیداں احمد آباد ضلع جہلم کی صدارت میں ٹریبیون" کے ناپاک پراپیگنڈا کی مذمت کاریزولیوشن پاس کیا.احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے انگریزی اخبار لائٹ (Light) نے اپنے یکم جون ۱۹۳۰ء کے پرچہ میں سیاہ حاشیہ کے ساتھ "مرزا بشیر الدین محمود احمد "مرحوم" کے نام سے ایک نوٹ شائع کیا جس کا ترجمہ یہ تھا کہ " ہم گہرے رنج اور افسوس کے ساتھ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب سلسلہ احمدیہ کے قادیانی حصہ کے امام کی وفات کی خبر درج کرتے ہیں جو حرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے ہوئی.یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمیں آپ سے بعض عقائد میں اختلافات تھے لیکن اس سے ہم اس مشہور و معروف ہستی کی ان خوبیوں سے جو قدرت نے انہیں فیاضی سے عطا کی تھیں آنکھیں بند نہیں کر سکتے.اپنے عقائد کے لئے آپ کا جوش اور سرگرمی بحیثیت لیڈر آپ کی پختہ کاری اور ہنرمندی ماہر تنظیم اور سب سے بڑھ کر آپ کی ذاتی مقناطیسی کشش جس کی وجہ سے آپ کے متبعین کو آپ سے حیرت انگیز عقیدت تھی ایسی صفات ہیں جنہیں وہ لوگ بھی جنہوں نے کبھی آپ کو دیکھا بھی نہیں تسلیم کئے بغیر
تاریخ احمد بیت جلد ۵ 204 ست ترھواں سال نہیں رہ سکتے اس حقیقت سے یہ حادثہ اور بھی غمناک ہو جاتا ہے کہ آپ ابھی نوجوان یعنی صرف چالیس سال کی عمر کے تھے ہم آپ کی جماعت نیز آپ کے غمزدہ خاندان سے دلی ہمدردی کا اظہار کرتے.پنجم ایک اور سبق اس خبر سے جماعت کو نیہ حاصل ہوا کہ اسے اپنے خبر رسانی کے انتظام کو مضبوط کرنے کا خیال پیدا ہوا چنانچہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کو توجہ دلائی کہ :- دفاتر ایسا انتظام کریں کہ جماعتیں مختلف حلقوں میں تقسیم ہو جائیں اور ارد گرد کی جماعتیں ضرورت کے موقع پر وہاں سے اطلاع حاصل کریں.مثلاً لاہور، دہلی، راولپنڈی، پشاور ، جالندھر ملتان و غیره مقامات پر یہاں سے اطلاع دیدی جائے اور ہر جماعت اپنے قریبی مرکز سے معلوم کرلے اگر ہمارا خبر رسانی کا انتظام ایسا ہو تا تو تین جون کو ہی ہر جگہ اطلاع مل جاتی لیکن اب تو یہ ہوا کہ بعض لوگوں کو ایسی تار دیئے.۴۸۰۴۸ گھنٹے ہو گئے لیکن کوئی جواب نہ ملا کیونکہ تار والے آہستہ آہستہ اور باری باری کام کر رہے تھے ادھر دوستوں کو اس قدر پریشانی تھی کہ کئی ایک کے دل گھٹنے شروع ہو گئے اور بعض کو تو باوجودیکہ اطمینان ہو چکا تھا کہ یہ خبر غلط ہے مگر انہیں دھڑ کے کی بیماری ہو گئی اگر ایسا انتظام ہو تاکہ انہیں وقت پر اطلاع مل سکتی تو ان کی صحت پر ایسا نا گوار اثر نہ پڑ تا پس دفاتر کو چاہئے ایسا انتظام کریں کہ تمام جماعتوں کو فورا اطلاع پہنچائی جاسکے.بالآخر یہ بتانا ضروری ہے کہ حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالٰی نے اس موقعہ پر جماعت کو یہ اہم وصیت فرمائی کہ : جہاں خدا تعالیٰ نے اس جماعت کو اخلاص کے اظہار کا موقعہ دیا وہاں یہ بھی بتادیا کہ انسان آخر انسان ہی ہے خواہ وہ کوئی ہو اور ایک نہ ایک دن اسے اپنے مخلصین سے جدا ہو نا پڑتا ہے اس بات کا احساس بھی خدا تعالیٰ نے جماعت کو کرا دیا اس سے یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ خلیفہ سے جماعت کو جو تعلق ہے وہ جماعت ہی کی بہتری اور بھلائی کے لئے ہے اور جو بھی خلیفہ ہو اس سے تعلق ضروری ہے یا درکھو اسلام اور احمدیت کی امانت کی حفاظت سب سے مقدم ہے اور جماعت کو تیار رہنا چاہئے کہ جب بھی خلفاء کی وفات ہو جماعت اس شخص پر جو سب سے بہترین خدمت دین کر سکے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے اور اس سے الہام پانے کے بعد متفق ہو جائے گی انتخاب خلافت سے بڑی آزمائش مسلمانوں کے لئے اور کوئی نہیں یہ ایسی ہے جیسے باریک دھار پر چلنا ذرا سا قدم لڑکھڑانے سے انسان دوزخ میں جاگرتا ہے غرض انتخاب خلافت سب سے بڑھ کر ذمہ داری ہے جماعت کو اس بارے میں اپنی ذمہ داری پہچانی چاہئے"."
تاریخ احمد بیت ، جلد ۵ 205 خلافت ثانیہ کا سترھواں سال کانگریسی لیڈر مسز نائیڈو کی رہائی کے لئے اپیل ہندوستان کی مشہور کا نگریسی لیڈر مسٹر نائیڈو سول نافرمانی کے جرم میں نو ماہ کے لئے جیل میں ڈال دی گئی تھیں جس پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ۵ جون ۱۹۳۰ء کو وائسرائے ہند لارڈارون) کے نام ایک مفصل خط لکھا جس میں مسز نائیڈو کی رہائی کے لئے پر زور اپیل کرتے ہوئے تحریر کیا کہ :- " قانون شکنی کے ارادہ کو تو میں کسی صورت میں بھی جائز نہیں سمجھ سکتا.لیکن میرے خیال میں سیاسی جدوجہد کی بناء پر عورت کے لئے جیل خانہ کا مقام تجویز کرنا بھی ایک ایسا طریق ہے جو صرف انتہائی صورت میں اختیار کیا جانا چاہئے اور خصوصاً مسز نائیڈو جیسی عورت کے لئے جو ملک کے نہایت ممتاز اور روشن ضمیر لیڈروں میں سے ہونے کے علاوہ ایک مشہور شاعرہ بھی ہیں پس میں...اپیل کرتا ہوں کہ آپ مسٹر نائیڈو کی آزادی کا اعلان کر کے اس امر کا ایک مزید ثبوت دیں کہ برطانیہ عورت کی عزت کرتا ہے....میں اس امر سے انکار نہیں کر سکتا کہ عورتوں کے ذریعہ سے قانون شکنی کی مہم سر کرانے کی خواہش ایک بزدلانہ خواہش ہے اور اگر ایسے موقع پر گورنمنٹ کو قانون کے احترام کے لئے کچھ کرنا پڑتا ہے تو اس کی آئینی ذمہ داری گورنمنٹ پر عائد نہیں ہو سکتی لیکن باوجود اس کے میرے نزدیک عورت کا شرف ایک ایسا امر ہے کہ اگر کانگریس والے اس کا خیال نہ بھی رکھیں تو بھی گورنمنٹ کو حتی الوسع اس کا خیال رکھنا چاہئے.حضور نے وائسرائے ہند سے رہائی کی اپیل کرنے کے علاوہ کانگریس کے ارباب حل و عقد سے بھی خط و کتابت کی اور زور دیا کہ انہیں ملکی آزادی کی جدو جہد کے اس حصے میں عورتوں کی شرکت کو بالکل روک دینا چاہئے جس کا لازمی نتیجہ جیل خانہ ہے کیونکہ اس طرح خود کانگریس پر بھی بزدلی کا اعتراض آتا ہے.نہرو کمیٹی کی تمہ رپورٹ پر تبصرہ سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کے قلم سے نمرو رپورٹ پر تبصرہ شائع ہونے کے بعد نہرو کمیٹی نے اس کا ایک تمہ شائع کیا جس میں اپنی پہلی پیش کردہ تجاویز میں بعض اصلاحیں کیں حضرت خلیفتہ المسیح ایده اللہ تعالیٰ نے اصلاح کے ان حصوں پر جو مسلم قوم سے تعلق رکھتے تھے ایک مختصر مگر جامع تبصرہ کیا.جو الفضل المئی ۱۹۳۰ء (صفحہ ۳-۴) میں شائع ہوا.اس تبصرہ میں حضور نے تعلیم ، اجارہ زمین ، حکومت کی زبان ، صوبجاتی حکومتوں پر مرکزی حکومت کی بالادستی ، صوبائی گورنروں کے تقرر نئے صوبوں کی تجویز قانون سازی، فرقه دارانه
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 206 خلافت ثانیہ کا سترھواں سال انتخاب وغیرہ امور کی نسبت نہرو کمیٹی کی تتمہ رپورٹ پر زبردست تنقید فرمائی اور حکومت برطانیہ کو صاف اور واضح لفظوں میں متنبہ کرتے ہوئے فرمایا کہ :- ان کی قوم بے شک اس وقت ہندوستان کی حاکم ہے لیکن وہ اس کی مالک نہیں ہے وہ آٹھ کروڑ مسلمانوں کو ہمیشہ کے لئے ہندوؤں کا غلام بنا دینے کا کوئی حق نہیں رکھتے وہ قوم جو غلامی کو مٹانے کے لئے اس قدر دعویدار ہے وہ آئندہ نسلوں کی نظر سے ہمیشہ کے لئے گر جائے گی.اگر وہ اس آزادی کے زمانے میں آٹھ کروڑ مسلمانوں کو قلم کی ایک جنبش سے ایک ایسی قوم کا غلام بنانے کا فیصلہ کر دے گی جس نے اپنے غلاموں کے ساتھ دنیا کی تمام اقوام سے بد تر سلوک کیا ہے ہر ایک قوم کے غلام تھوڑے ، یا زیادہ عرصہ میں آزاد ہو گئے ہیں لیکن ہندوؤں کے غلام ہزاروں سال کے گزرنے کے بعد آج بھی اچھوت اقوام کے نام سے ہندوؤں کے ظالمانہ دستور غلامی پر شہادت دے رہے ہیں انگلستان کو یاد رکھنا چاہئے کہ جس وقت وہ ہندوستان کو آزادی دینے پر آمادہ ہو گا اسی وقت سے مسلمان آزاد ہوں گے اور ان کا یہ حق ہو گا کہ وہ یہ مطالبہ کریں کہ یا تو ان کے حقوق کی نگرانی کی جائے یا وہ اپنی آزاد ہستی کے برقرار رکھنے کے لئے مجبور ہوں گے کہ ہر ایک ایسے نئے نظام سے وابستہ ہونے سے انکار کر دیں.جو ان کی آزادی کو کچل دینے والا ہو اور اپنے لئے خود کوئی ایسا نظام قائم کریں.جس کے ماتحت وہ اپنی آزادی اور حریت قائم رکھ سکیں.آزادی ہند کے بعد مسلمانوں کے مستقل اور آزاد نظام کے قیام کا یہی وہ عظیم الشان تخیل تھا جس پر چند ہفتے بعد آل پارٹیز کانفرنس نے اپنے سیاسی مطالبہ کی بنیاد رکھی.اور جسے ڈاکٹر محمد اقبال صاحب نے اسی سال دسمبر ۱۹۳۰ء میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس الله منعقدہ (الہ آباد) میں ذرا.وضاحت سے پیش فرمایا اور اس کے مطابق ۱۹۴۰ء میں قرار داد پاکستان منظور کی گئی.
- جلده 207 خلافت ثانیہ کا سترھواں سال فصل چهارم سفر شملہ اور آل مسلم پارٹیز کانفرس میں شرکت حضرت معینہ اسما الان امید اللہ خلیفتہ المسیح تعالیٰ بنصرہ العزیز وسط ۱۹۳۰ء میں شملہ تشریف لے گئے اس سفر کو (جو ۲ جولائی ۱۹۳۰ء کو شروع ہو کر ۳ اگست ۱۹۳۰ء کو ختم ہوا) مسلمانان ہند کی سیاسی جدوجہد میں سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے.دراصل شملہ میں مقیم مسلم زعماء نے اس کے لئے خاص طور پر تحریک کی تھی چنانچہ چودھری ظفر اللہ خاں صاحب نے ۲۵ جون ۱۹۳۰ء کو مندرجہ ذیل مکتوب حضور کی خدمت میں لکھا تھا:- سیدنا و امامنا السلام علیکم و رحمتہ الله و بركاته ، والا نامه شرف صدور لایا.سائمن کمیشن کی رپورٹ کا خلاصہ حضور نے ملاحظہ فرمالیا ہو گا.اکثر پہلوؤں سے مایوس کن ہے.سردار حیات خاں اور دیگر احباب شملہ کی خواہش تھی کہ حضور ۴-۱۵ جولائی ۱۹۳۰ ء ناقل) کی کانفرنس میں ضرور شملہ شمولیت فرمائیں تا اس موقع پر مسلمانوں کی صحیح نمائندگی ہو سکے" آل مسلم پارٹیز کانفرنس نے کن امور پر غور کیا اور حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر کس طرح سیاسی راہنمائی فرمائی؟ اس پر لاہور کے ہفت روزہ اخبار " خاور " (۲۱ جولائی ۱۹۳۰ء) کا مندرجہ ذیل اداریہ کافی روشنی ڈالتا ہے.ماہ حال کے اوائل میں آل انڈیا مسلم کانفرنس شملہ میں منعقد ہوئی.پنجاب.بمبئی - مدراس بنگال - یو پی.سی پی اور دہلی سے نمائندگان آئے ہوئے تھے.مولانا شوکت علی صاحب صدر جلسہ تھے تین دن تک ان حضرات نے سائن رپورٹ نہرو رپورٹ اور راؤنڈ ٹیبل کانفرنس پر بحث و تمحیص کی.آخر جس قدر قرار دادیں پاس ہو ئیں وہ تقریبا دی تھیں جو جنوری ۱۹۲۹ء کو دہلی میں پاس ہوئی تھیں.مجملا ان قرار دادوں کی کیفیت یوں بیان کی جاسکتی ہے کہ مسلمانوں نے فیڈرل نظام حکومت کی حمایت کرتے ہوئے مرکزی قانون ساز جماعت میں ساڑھے تینتیس فیصد نشستوں کا مطالبہ کیا.گورنروں کے وسیع اختیارات کی مذمت کی.بنگال اور پنجاب میں اپنی اکثریت کا مطالبہ کیا.سندھ کی علیحدگی ، سرحد اور بلوچستان کو صوبجاتی آزادی اور سائمن کمیشن نے محکمہ فوج کے لئے جو سفارشات کی تھیں ان کی مخالفت کی.ہماری رائے میں جن سیاسی حالات میں سے ہم گزر رہے ہیں ان کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان اسی قسم کے مطالبات یا سیاسی خیالات کا اظہار کرتے.عمر برٹش پارلیمینٹ بلا شبہ آج
تاریخ احمد بیت جلد ۵ 208 کانگریس کے سوا دوسری کسی جماعت کو تسلیم نہیں کرتی اس لئے مسلمان اگر یہ چاہتے ہیں کہ برٹش مدبرین کے سامنے ان کی رہی پوزیشن ہو جو آج کانگریسی رہنماؤں کو حاصل ہے تو وہ انہی حکمت عملیوں پر کار بند ہوں جن پر کانگریس را ہنما عمل پیرا ہیں یعنی پراپیگینڈا کے لئے پریس کا زور قلم اور پلیٹ فارم کی آواز خرید نے کا انتظام کرنا چاہئے.شملہ کے مقام پر جس قدر مسلم نمائندگان جمع تھے ان میں بعض صوبوں کے وزراء اکثر خطاب یافتگان تعلقه داران ، روسا صاحب جاہ اور حکومت نواز حضرات ہی شامل تھے چنانچہ لانگ وڈ ہوٹل اور ڈیویکو ہال روم سے نکلتے ہوئے سنا گیا کہ اس مسلم کانفرنس کو بیرونی دنیا میں آل انڈیا ٹوڈیز کا نفرنس کہا جاتا ہے.بایں ہمہ یہ کہنا بالکل حق بجانب ہو گا کہ اس کا نفرنس میں جتنے حضرات نے حصہ لیا تھا.وہ ہندوستان کے ان صوبوں میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے پوری پوری اسلامی حکومت قائم کرانے پر تلے ہوئے نظر آتے تھے.ان کا یہ جذبہ اتنا مضبوط اور الم نشرح تھا کہ ایک دن وہ ضرور ہندو ابنائے وطن اور اپنے اجنبی حکمرانوں کو اس بات پر مجبور کرنے کے لئے بھی آمادہ ہو جائیں گے کہ انہیں بنگال پنجاب، شمال مغربی سرحدی صوبہ سندھ اور بلوچستان کی حکومت دیدی جائے گیو ابھی تک وہ برادرانہ محبت اور صلح جو یا نہ حکمت عملی پر کار بند ہیں.مگر ایک دن ضرور ایسا آنے والا ہے کہ مسلم سیاستدان ہر قسم کے ذرائع کو استعمال کرنے پر بھی آمادہ ہو جائیں گے اگر کسی بات نے ہمارے دل پر شملہ کا نفرنس کے متعلق اثر کیا.تو وہ یہی چیز تھی آج جس طرح سے کانگریسی سیاستدان حکومت خود اختیاری کے لئے تن من اور دھن سے لگے ہوئے ہیں اسی طرح یقینا مسلم خطاب یافتگان تعلقه داران روسا، حکومتی عہدیداران اور حکومت نواز بھی اپنے سیاسی حقوق کی باز گشت کے لئے کمر بستہ ہو جائیں گے.حضرت میرزا بشیر الدین محمود صاحب ایک روحانی پیشوا سمجھے جاتے ہیں.مگر راقم الحروف نے شملہ کا نفرنس کے موقعہ پر آپ کو سیاسیات حاضرہ سے پورا واقف راستباز اور صاف گو بزرگ پایا.بالخصوص جس وقت دوسرے دن کی نشست میں گول میز کانفرنس کی شرکت کا سوال پیش ہوا.تو راجہ غضنفر علی خان صاحب اور دو ایک دوسرے حضرات نے اس سوال کو قبل از وقت بیان کرتے ہوئے یہ دلیل پیش کی کہ اس سے ہندوستان کو وہ قومیں جو اس کانفرنس کا بائیکاٹ کر رہی ہیں.مسلمانوں کے اس اشتیاق تعاون کو حقارت سے دیکھیں گی.اور اسلامی وقار کو دھبہ لگے گا.اس لئے بہتر ہے کہ چند دن صبر سے کام لیا جائے.ملک فیروز خاں صاحب نون اور کئی ایک دوسرے حضرات نے اس دلیل کو توڑنے اور ریزولیشن کے حق بجانب یا بر محل ہونے پر زور دیا.مگر حقیقت یہ تھی کہ ان کے دلائل معترضین کو مطمئن نہ کرسکے اور اس کی وجہ غالبا یہی تھی کہ وہ سب حضرات اس ریزولیوشن کی برجستگی اور اس
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 209 خلافت ثانیہ کاسترھواں سال کے اعماق تفلسف کو ظاہر کرنے سے گریز کرتے تھے اور الفاظ کے پیچ و تاب میں مطالب کو پنہاں رکھنے کی کوشش کراتے تھے مگر حضرت مرزا محمود صاحب نے ریزولیوشن کے حق میں چند منٹ کے لئے جو تقریر کی وہ مدروح کی انتہائی راستبازی اور راستگوئی کی دلیل تھی چنانچہ آپ نے فرمایا کہ اس وقت مسلمان سائن رپورٹ اور نہرو رپورٹ سے اس قدر دل برداشتہ اور کبیدہ خاطر ہو چکے ہیں کہ وہ گول میز کانفرنس کے نتائج کا انتظار کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں اس لئے بہت ممکن ہے کہ کوئی عصر جمہور اسلام کے جذبات کو فور اسول نافرمانی کی طرف دھکیل دے اس لئے مسلم اکابر کا فرض ہے کہ وہ قوم کو گول میز کانفرنس کی شرکت کے مرحلہ تک صبر کی تلقین کریں تاکہ وہ سول نافرمانی کے میدان میں نہ کو دیریں".فی الحقیقت یہ ایک راز تھا جسے دوسرے بزرگ الفاظ کی چادر میں لپیٹ رہے تھے مگر مرزا صاحب نے اس راز کا نقاب الٹ کر عریاں کر دیا.راقم الحروف کو اس سے قبل مرزا صاحب کے خیالات کو صفحہ قرطاس پر تو دیکھنے کا ضرور موقعہ ملا تھا.مگر بالمواجہ گفتگو سننے کا اتفاق نہ ہوا تھا.میرے دل پر اس کیفیت نے بہت اثر کیا اور میں نے اسی وقت صر صاحب اور قیصر صاحب سے اس کا ذکر کیا.بہر کیف اس کانفرنس کی قرار داد میں جن جذبات کے ماتحت پاس ہو ئیں وہ جذبات ہر طرح قابل احترام تھے " کانفرنس کے صدر مولوی شوکت علی خان صاحب نے اپنے تاثرات انقلاب ۱۶ جولائی ۱۹۳۰ء میں شائع کرائے تھے.جن کا ایک ضروری اقتباس درج ذیل ہے :- حاضرین جلسہ میں اسمبلی اور کو نسلوں کے بہت سے ارکان تھے.علاوہ ملک فیروز خاں نون کے نوابزادہ محمد یوسف صاحب صوبہ متحدہ کے وزیر بھی موجود تھے مولوی محمد یعقوب ڈپٹی پریذیڈنٹ بھی شریک تھے.سوراج پارٹی نئی انڈی پنڈنٹ پارٹی اور نئی بے نام پارٹی کے ارکان بھی موجود تھے.کو نسل اور اسمبلی کے اکثر سابق ارکان بھی تھے آئندہ کو نسلوں اور اسمبلی کے بہت سے امیدوار بھی تھے زمینداروں اور امیروں کا طبقہ خاص طور پر موجود تھا.جس قدر تجربہ کار اصحاب موجود تھے.ان کا متفقہ فیصلہ یہ تھا کہ مباحثہ کا معیار بہت اونچا تھا.اور تائید ہو یا ترمیم یا مخالفت تمام مقررین نے وقت کی اہمیت کا اندازہ کر کے اپنے خیالات کا اظہار کیا.جلسے بہت پر لطف رہے اور آپس میں بہت لوگوں کی نئی دوستیاں قائم ہو گئی ہیں.خدا کے فضل و کرم سے اتنی نئی بات اور نمایاں طور پر دکھائی دی کہ حاضرین میں سے ہر شخص کے دل میں یہ تمنا تھی کہ وہ خود اور باقی تمام مسلمان بھی باتوں کو چھوڑ کر موجودہ سستی کاہلی اور بے ہمتی کو چھوڑ کر جلد تر اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں.اور تمام قوم کو بیدار کر کے چند ماہ کے اندر اس "
خلافت ثانیہ کا سترھوار اریخ احمدیت جلد ۵ 210 قدر کام کر دکھا ئیں کہ جو کمی مقابلتاً ہم میں پیدا ہوئی تھی وہ دور ہو جائے.اور مسلمان اپنی شایان شان حیثیت سے ملک کی حکومت میں حصہ لیں.میں سارے ہندوستان کے مسلمانوں کو بشارت دیتا ہوں کہ ہماری قومی زندگی نے اپنا رنگ بدلا ہے اور آنے والے دو تین مہینوں میں ہندوستان دیکھ لے گا کہ کس سرعت کے ساتھ وہ اپنی تنظیم کرتے ہیں.اور اپنے گھر کو سنبھالتے ہیں.جنگ اور ہنگامہ آرائی کے لئے ان کو کھڑا کرنا بہت آسان کام ہے.مہاتما گاندھی نے جو کام دس برس میں کیا مسلمان اس سے دگنا کام دس مہینے میں کر دیں گے مگر ٹھنڈے تعمیری کاموں میں ذرا دل کم لگتا ہے اس لئے بہت دنوں کی سستی اور کاہلی کے بعد اس نے کروٹ بدلی ہے اب مسلمان آمادہ عمل ہیں.ایک منٹ کے اندر ایک چھوٹی ی کمیٹی بنائی گئی کہ وہ تخمینہ کرے کہ معمولی مصارف کے لئے کس قدر روپے کی فوری ضرورت ہے مشکل سے پانچ منٹ صرف کئے گئے ہوں گے کہ مصارف کا اندازہ کر کے پچاس ہزار کی رقم مقرر کردی گئی میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ حضرت مرزا صاحب امام جماعت احمدیہ کا خاص طور پر تذکرہ کروں کہ علاوہ مفید مشوروں اور امداد کے اپنی اور اپنی جماعت کی طرف سے دو ہزار روپے کا وعدہ فرمایا.اور سات سو روپے اسی وقت مولانا شفیع داؤدی سیکرٹری آل انڈیا مسلم کانفرنس کے خالی خزانے میں داخل چونکہ قادیان سلسلہ احمدیہ کا قادیان میں درس و تدریس سے متعلق ایک اعلان مرکز ہے اس لئے وعظ و تدریس سے متعلق یہاں بہت کچھ احتیاط کی ضرورت تھی.حضرت خلیفتہ المسیح اول نے اپنے زمانہ خلافت میں یہ اعلان کرایا تھا کہ مساجد وغیرہ میں عام مرکزی مقامات پر کوئی شخص ان کی اجازت کے بغیر وعظ نہ کرے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد مبارک سے یہ طریق چلا آتا تھا کہ قادیان میں کوئی عام درس بغیر اجازت نہیں ہو تا تھا.اسی طریق کے مطابق حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ہم جولائی ۱۹۳۰ء کو اعلان فرمایا کہ کوئی شخص اجتماعی جگہوں جیسے مساجد ، مدارس ، دفاتر ، اور مہمانخانہ وغیرہ میں پبلک درس نہ دے.کیونکہ ایسی جگہوں پر جو درس دیا جائے یا وعظ کیا جائے سلسلہ پر اسکی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور ایسی ذمہ داری اجازت کی شرط لگانے کے بغیر نہیں اٹھائی جاسکتی.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو مسلمان ریاستوں کی اصلاح و ترقی کا خیال ابتدا ہی سے مسلمان ریاستوں کی ترقی و
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 211 بہود کا خیال رہا ہے چنانچہ اس سال ریاست رامپور نے حضرت مولوی ذوالفقار علی خان صاحب ناظر اعلیٰ کی خدمات حاصل کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی نے سلسلہ کی ضرورت کے باوجود انہیں جانے کی اجازت دے دی.اور ۱۰ اگست ۱۹۳۰ء کو ان کی الوداعی دعوت میں فرمایا :- مسلمان ریاستوں کی ہستی یاد گار ہے اس اسلامی شان و شوکت کی جو ہندوستان میں قائم تھی اور یاد گار ہے اس زمانہ کی جب مسلمانوں کو خدا نے ہندوستان کی حکومت دی تھی.اسی طرح ہر ہندو ریاست یادگار ہے مسلمانوں کی غلط پالیسی اختیار کرنے کی ہر مسلمان ریاست کی ہستی یاد دلاتی ہے کہ تمہیں خدا نے اس ملک کی حکومت دی تھی اور یہ بھی قابل قدر چیز ہے مگر افسوس کہ یہ آثار بھی مٹ رہے ہیں.گو اسلامی ریاستیں اسلامی شان و شوکت کی قائم مقام نہیں مگر اسلامی حکومت کی یادگار ضرور ہیں اور مسلمانوں کو بتاتی ہیں کہ یہ ملک تمہارا اور تمہارے باپ دادوں کا تھا اور اس کے جو نشان ہم پر اثر انداز ہوتے ہیں وہ ہمارے اندر زندگی اور تازگی پیدا کرنے کا ذریعہ میں پس میں جہاں تک سمجھتا ہوں اسلامی ریاستوں کے مٹنے سے وہ تعلقات جو مسلمانوں کو زمانہ ماضی سے ہیں کمزور ہو جائیں گے اس لئے مجھے ہمیشہ اسلامی ریاستوں کی اصلاح اور ترقی کا خیال رہتا ہے اور اگر کسی ریاست میں کسی احمدی کے جانے کا موقع ہو تو خیال آتا ہے شاید اسی کے ذریعہ اس ریاست کی حفاظت کا کوئی سامان پیدا ہو جائے.یا شاید یہی اس کی نجات کا ذریعہ بن جائے.اسی وجہ سے باوجود اس کے کہ میں ریاست کی ملازمت کو زیادہ اچھا نہیں سمجھتا.خیال آتا ہے کہ احمدی وہاں جائیں اور کام کریں شاید خد اتعالیٰ ان کے ذریعہ ان ریاستوں کی اصلاح کر دے.اور والیان ریاست جن کے دل اس درد سے خالی ہیں جو قومی درد ہوتا ہے وہ بھی درد محسوس کرنے لگیں.اور شاید انہیں خیال آئے کہ جو کچھ ان کے پاس ہے اس کی پوری طرح حفاظت کریں اس لئے نہیں کہ اپنے نفسوں پر خرچ کریں یا اپنے بال بچوں پر خرچ کریں.بلکہ اس لئے کہ اسلام کے لئے مفید ثابت ہو مسلمانوں کی اصلاح اور ترقی کے کام آئے ان کی بہتری اور بھلائی کا ذریعہ بنے اس لئے میں نے خان صاحب کو جانے کی اجازت دی ہے.ڈھاکہ اور ضلع حصار کے مسلمانوں پر حضرت خلیفہ اسی ایدہ اللہ تعالٰی نے ۱۹۲۷ء کے فسادات لاہور کو دیکھ کر مسلمانوں کو تحریک اتحاد مظالم اور احمدیوں کو عملی امداد کی ہدایت کی دعوت دی تھی جس کا مسلمانوں پر پر گہرا اثر ہوا تھا مگر اس کے بعد بعض لوگوں نے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کی کوشش کی اور بالآخر اس تحریک کو بہت ضعف پہنچا.۱۹۳۰ء کے وسط میں ڈھاکہ اور حصار کے مسلمان ہندوؤں کے تختہ مشق بنائے جانے
212 خلافت ثانیہ کا ستر ھو لگے تو اس تحریک کی پھر ضرورت محسوس ہوئی چنانچہ حضور نے ۸ اگست ۱۹۳۰ء کو احمدیوں سے ارشاد فرمایا کہ وہ اس طرح عملی طور پر مسلمانوں کے مصائب میں ان کے شریک ہوں کہ وہ محسوس کریں کہ یہ مصیبت احمدیوں پر آئی ہے اس طرح ان کا نمونہ دیکھ کر دو سرے مسلمانوں کے دلوں میں بھی اپنے بھائیوں کے لئے غیرت اور بیداری پیدا ہو جائے اور وہ بھی مدد کے لئے اٹھ کھڑے ہوں.ڈھاکہ کے مسلمانوں کی امداد کے لئے لفٹنٹ خواجہ حبیب اللہ صاحب نواب ڈھاکہ کی صدارت میں ایک مسلم ریلیف کمیٹی قائم ہوئی جسے حضور نے پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا اور دو سو روپیہ مظلوموں کی امداد کے لئے ارسال فرمایا.LA ۳ اکتوبر ۱۹۳۰ء کو حضرت امیرالمومنین ایده شعار اسلامی کی پابندی کا تاکیدی ارشاد اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے شعار اسلامی (داڑھی) کی پابندی کی طرف پر زور توجہ دلائی چنانچہ فرمایا:- " احباب کو چاہئے کہ اپنے بچوں کو شعائر اسلامی کے مطابق زندگی بسر کرنے کا عادی بنائیں کیا یہ کوئی کم فائدہ ہے کہ ساری دنیا ایک طرف جارہی ہے اور ہم کہتے ہیں ہم اس طرف چلیں گے جس طرف محمد رسول اللہ ﷺ لے جانا چاہتے ہیں اس سے دنیا پر کتنا رعب پڑے گا دنیا رنگارنگ کی دلچسپیوں اور ترغیبات سے اپنی طرف کھینچ رہی ہو مگر ہم میں سے ہر ایک یہی کہے کہ میں (اس) راستہ پر جاؤں گا جو محمد رسول اللہ اللی کا تجویز کردہ ہے تو لازماً دنیا کہے گی کہ محمد رسول اللہ الیہ کے خلاف کوئی بات نہیں کرنی چاہئے کیونکہ اس کے متبعین اس کے گرویدہ اور جانثار ہیں.لیکن جو شخص فائدے گن کر مانتا ہے وہ دراصل مانتا نہیں مانتا وہی ہے جو ایک دفعہ یہ سمجھ کر کہ میں جس کی اطاعت اختیار کر رہا ہوں وہ خدا تعالے کی طرف سے ہے آئندہ کے لئے عہد کر لیتا ہے کہ جو نیک بات یہ کہے گا اسے مانوں گا اور اطاعت کی اس روح کو مد نظر رکھتے ہوئے سوائے ان صورتوں کے کہ گورنمنٹ کے کسی حکم یا نیم حکم سے داڑھی پر کوئی پابندی عائد ہو جائے سب کو داڑھی رکھنی چاہئے مگر یہ ایسی ہی صورت ہے جیسے بیماری کی حالت میں شراب کا استعمال جائز ہے.اس لئے اس حالت والے چھوڑ کر باقی سب دوستوں کو داڑھی رکھنی چاہئے اور اپنے بچوں کی بھی نگرانی کرنی چاہئیے کہ وہ شعائر اسلامی کی پابندی کرنے والے ہوں اور اگر وہ نہ مانیں تو ان کا خرچ بند کر دیا جائے اسے کوئی صحیح الدماغ انسان جبر نہیں کہہ سکتا...اس کا نام جبر نہیں بلکہ نظام کی پابندی ہے اور نظام کی پابندی جبر نہیں ہو تا بلکہ اس کے اندر بہت بڑے بڑے فوائد ہیں اور اس کے بغیر دنیا میں گزارہ ہی نہیں ہو سکتا"..
تاریخ احمدیت جلد ۵ 213 خلافت ثانیہ کا سترھواں سال سیرت النبی کے جلسے اس سال پھر ۲۶اکتوبر ۱۹۳۰ء کو جماعت احمدیہ کے زیر انتظام اندرون و بیرون ملک میں جلسہ ہائے سیرت النبی ( ) کے پر شوکت جلسے منعقد ہوئے.اس روز حضرت خلیفہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے قادیان میں ایک نہایت پر معارف تقریر فرمائی جس میں عرفان الہی اور محبت باللہ کے اس عالی مرتبہ پر روشنی ڈالی جس پر رسول کریم ال دنیا کو قائم فرمانا چاہتے تھے.حسب دستور اس سال بھی الفضل کا خاتم النبین نمبر شائع ہوا جس میں حضرت امیر المومنین ایده اللہ تعالیٰ اور سلسلہ کے دوسرے بزرگوں کے مضامین کے علاوہ مولوی عبد المجید صاحب سالک مدیر انقلاب سراج الحسن صاحب سر آج لکھنوی، حکیم سید علی صاحب آشفته، منشی پچھن نرائن صاحب سنہا کی نعتیں بھی شامل اشاعت تھیں.اس نمبر کی یہ بھی خصوصیت تھی کہ اس میں بیرونی ممالک کے احمدیوں نے بھی حصہ لیا تھا.اور سالٹ پانڈ مغربی افریقہ کے مسٹر جمال جانسن کا مضمون اور فلسطین کے مصباح الدین العابودی کی عربی نظم شائع ہوئی.لارڈ اردن سائمن کمیشن رپورٹ پر تبصرہ اور ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا حل واترائے ہند رخصت پر ولایت گئے وہاں سے واپس آکر انہوں نے ۳۱ اکتوبر ۱۹۲۹ء کو اعلان کیا کہ ہندوستان کی منزل مقصود درجہ نو آبادیات ہے اور حکومت سیاسی ارتقاء کے مختلف پہلوؤں پر غور کرنے کے لئے ایک گول میز کانفرنس بھی منعقد کرنے کو تیار ہے اس کے سات ماہ بعد ۱۲ مئی ۱۹۳۰ء کو انہوں نے گول میز کانفرنس کی تاریخ انعقاد کا بھی اعلان کیا کہ یہ کانفرنس ۲۰ نومبر ۱۹۳۰ء کے قریب منعقد کئے جانے کی تجویز ہے اور ہندوستانی نمائندوں کو لندن میں جمع کرنے کے انتظامات بڑی سرگرمی سے عمل میں لائے جارہے ہیں اور جہاں کانگریس نے اقلیتوں کے مسائل کلیتہ نظر انداز کر دیئے وہاں وائسرائے نے کانفرنس کے زیر غور مسائل میں سب سے زیادہ اہم مسئلہ اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت ہی قرار دیا اور کہا:- ہندوستان کا ارتقاء حقیقی مسائل کے حل پر منحصر ہے جن میں سب سے زیادہ اہم مسئلہ یہ ہے کہ اقلیتوں کی آئندہ پوزیش کیا ہوگی جہاں تک اس مسئلہ کا تعلق ہے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ کوئی ایسا تصفیه اطمینان بخش خیال نہیں کیا جا سکتا جو ان اہم اقلیتوں کے نزدیک مقبول نہ ہو جنھیں آئندہ دستور کے ماتحت زندگی بسر کرنی ہے اور جو ان میں حفاظت و سلامتی کا احساس پیدا کر دے".گول میز کانفرنس کے موقع پر مسائل اقلیت کے سلسلہ میں سائمن کمیشن کی رپورٹ کا زیر غور آنا
تاریخ احمدیت جلد ۵ 214 لافت ثانیہ کاسترھواں سال ناگزیر تھا.چنانچہ وائسرائے ہند یہ کہہ چکے تھے کہ یہ اہم سرکاری حیثیت اور پر معنی قدرو قیمت کی دستاویز ہے اور اس وقت ہندوستان کی سیاسی حالت کے مسئلہ کا ایک ایسا تعمیری حل ہے جس سے بہتر ہمارے پاس اور کوئی حل موجود نہیں.بنا بریں حضور نے گول میز کانفرنس کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک مدلل و مفصل اور جامع و مانع تبصرہ لکھا اور اس کا انگریزی ایڈیشن شائع کرا کے بذریعہ ہوائی جہاز مین اس وقت انگلستان میں پہنچادیا جبکہ گول میز کانفرنس کی کارروائی کا آغاز ہونے والا تھا.اس کتاب کی تیاری میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ، حضرت مولوی شیر علی صاحب اور حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب درد نے دن رات ایک کر کے نہایت محنت اور عرق ریزی سے کام کیا اور انہی کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ کتاب بر وقت تیار ہو گئی.اور گول میز کانفرنس کے ممبروں کے علاوہ وزیر اعظم انگلستان ، وزیر ہند اور دیگر عمائد و ارکان سلطنت برطانیہ تک پہنچ گئی اور اس کے بعد ہندوستان میں بھی اعلیٰ حکام اور اسمبلی اور کو نسل کے اکثر ممبروں اور ملک کے چوٹی کے سیاسی لیڈروں کو بھجوائی گئی اور بکثرت تقسیم کی گئی.یہ تبصرہ جس میں مسلمانوں کے حقوق و مطالبات کی معقولیت پر سیر حاصل بحث کی گئی تھی.اور ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا نہایت معقول اور تسلی بخش حل پیش کیا گیا تھا.اس سے راؤنڈ ٹیبل کے مسلمان نمائندوں کو بہت تقویت پہنچی اور اس کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے پہلی بار متفقہ طور پر اپنے مطالبات کامیابی اور خوبی کے ساتھ پیش کئے اور انگلستان کے اہل الرائے لوگوں پر اس کا اس قدر گہرا اثر ہوا کہ وہ لوگ جو چند روز پہلے اس عظیم الشان ملک کو ہندوؤں کے ہاتھ میں دینے کو تیار بیٹھے تھے.اس غلطی سے متنبہ ہو گئے اور مسلمانوں کی ہندوستانی خصوصی حیثیت کے قائل ہو کر ان کے مطالبات کی معقولیت کا اقرار کرنے پر مجبور ہو گئے.یہ تبصرہ انگلستان اور ہندوستان دونوں حلقوں میں بہت مقبول ہوا نہایت درجہ دلچسپی اور توجہ سے پڑھا گیا اور مدبروں سیاستدانوں اور صحافیوں نے اس پر بڑے شاندار الفاظ میں خراج تحسین ادا کیا.چنانچہ بطور نمونہ چند آرا اور رج ذیل کی جاتی ہیں :- - لارڈ میسٹن سابق گورنریو-پی- میں آپ کا بہت ممنون ہوں کہ آپ نے مجھے امام جماعت احمدیہ کی نہایت دلچسپ تصنیف ارسال فرمائی ہے میں نے قبل ازیں بھی ان کی چند تصنیفات دلچسپی سے پڑھی ہیں.مجھے امید ہے کہ اس کتاب کا پڑھنا میرے لئے خوشی اور فائدے کا موجب ہو گا.لیفٹیننٹ کمانڈر کینور دی ممبر پارلیمنٹ.کتاب ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا حل کے ارسال فرمانے پر آپ کا بہت بہت ممنون ہوں میں نے اسے بہت دلچسپی سے پڑھا ہے “.
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 215 خلافت ثانیہ کا سترھواں سے سر میلکم بیلی گورنر صوبہ یو پی و سابق گورنر پنجاب ” میرے پیارے مولوی صاحب (امام مسجد لندن) اس کتاب کے لئے جو آپ نے امام جماعت احمدیہ کی طرف سے میرے نام بھیجی ہے میں آپ کا بہت ممنون ہوں میں جماعت احمدیہ کے حالات سے خوب واقف ہوں اور اس روح کو خوب سمجھتا ہوں اور قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں جسے لیکر وہ ہندوستان کے اہم مسائل کے حل کے لئے کام کر رہی ہے مجھے یقین ہے کہ یہ کتاب میرے لئے مفید ہوگی اور میں اسے نہایت دلچسپی کے ساتھ پڑھوں گا".مسٹرڈ بلیو پی.پارٹن.میں جناب کا امام جماعت احمدیہ کی تصنیف کردہ کتاب کے ارسال کرنے پر شکریہ ادا کرتا ہوں یہ ایک نہایت دلچسپ تصنیف ہے میرے دل میں اس بات کی بڑی وقعت ہے کہ مجھے اس کے مطالعہ کا موقع ملا ہے".- مسٹر آر ای ہالینڈ (انڈیا آفس) - جناب کے کتاب ارسال فرمانے کا بہت بہت شکریہ میں نے اسے بہت دلچسپ پایا ہے اور اس سے فائدہ اٹھایا ہے ".سرمون او مر." اس چھوٹی سی کتاب کے ارسال کے لئے جس میں مسئلہ ہند کے حل کے لئے امام جماعت احمدیہ کی تجاویز مندرج ہیں.میں تہ دل سے آپ کا شکریہ ادا کر تا ہوں سائمن کمیشن کی تجاویز پر یہی ایک مفصل تنقید ہے جو میری نظر سے گزری ہے میں ان تفصیلات کے متعلق کچھ غرض نہ کروں گا جن کے متعلق اختلاف رائے ایک لازمی امر ہے لیکن میں اس اخلاص ، معقولیت اور وضاحت کی داد دیتا ہوں جس سے کہ ہز ہولی نس (امام جماعت احمدیہ) نے اپنی جماعت کے خیالات کا اظہار کیا ہے.اور میں ہر ہولی نس (حضرت اقدس - ناقل) کی..باند خیالی سے بہت متاثر ہوا ہوں“.لارڈ کریو سابق وزیر ہند لارڈ کر یو مسئلہ ہند پر امام جماعت احمدیہ کی تصنیف کردہ کتاب کے ارسال کے لئے امام مسجد لندن کے بہت ممنون ہیں انہوں نے یہ کتاب دلچسپی سے پڑھی ہے".سرای گیٹ." میں کتاب ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا حل کے ارسال کرنے پر نہایت شکر گزار -2 ہوں اور اسے نہایت دلچسپی سے پڑھ رہا ہوں"..سر گریم بوور." میں مسئلہ ہند پر آپ کی ارسال کردہ کتاب کے لئے آپ کا بہت ممنون ہوں اور اسے نہایت دلچسپی سے پڑھوں گا گول میز کے مندوبین نے ابتداء تو بہت اچھی کی ہے یوں تو میرا خیال ہے کہ فیڈرل سسٹم کو سبھی پسند کرتے ہیں لیکن تفاصیل کے متعلق دقتیں ہیں مثلا ہندوستان کی فوجی اقوام اکثر مسلمان ہیں.اور ہندی افواج میں اعلیٰ ترین رجمنٹیں مسلمانوں کی ہیں تو کیا یہ تجویز ہے کہ انگریز افسروں کی بجائے ہندی افسر مقرر کر دیئے جائیں ؟ میرا خیال ہے کہ ایسا نظام چل نہ سکے گا یہی میری رائے پولیس کے متعلق ہے فوج اور پولیس کا سوال ظاہر ا تو بہت آسان ہے لیکن عملاً اتنا آسان
تاریخ احمدیت ، جلد ۵ 216 خلافت ثانیہ کا سترھواں نہیں میں یہ کتاب سر جیمز - آر- انز- سابق چیف جسٹس جنوبی افریقہ کو بھیجوں گا اور اگر آپ اجازت دیں تو میں ان سے درخواست کروں گا کہ وہ اخبار کیپ ٹائمز کے ایڈیٹر کو اس کا دیباچہ شائع کرنے پر آمادہ کریں.جنوبی افریقہ میں یہودیوں کا بڑا اثر ہے اور ریاستہائے متحدہ کے یہودیوں کے علاوہ دوسرے درجہ پر صیہون ننڈ میں چندہ دینے والے یہیں کے یہودی ہیں.یہی صیہونی تحریک انہیں مسلمانوں کا دشمن بنائے ہوئے ہے یورپین لوگ خاص کر انگریز مسلمانوں کے حق میں ہیں اس لئے میرا جی چاہتا ہے کہ اخبار کیپ ٹائمز ہز ہولی نس کی اس تصنیف کا دیباچہ شائع کرے".-۱۰ سر جان کر کتاب ہندوستان کے سیاسی مسائل کاحل کی ایک جلد ارسال فرمانے کے لئے میں آپ کا بہت ممنون ہوں.اور میں اسے بہت دلچسپی سے پڑھ رہا ہوں".لارڈ ڈارلنگ.لارڈ ڈارلنگ امام مسجد لنڈن کی طرف سے مسئلہ ہند کے متعلق کتاب پا کر بہت شکر گزار ہیں انہیں یقین ہے کہ اس کتاب سے انہیں بہت سی کار آمد معلومات اور تنقید ملے گی".سر جیمز داکر." مجھے ایک جلد ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا حل مصنفہ جناب امام جماعت احمدیہ ملی ہے میں اس کے لئے آپ کا بہت مشکور ہوں.میں نے اس کے بعض جستہ جستہ مقامات دیکھے ہیں مجھے یقین ہے کہ یہ تصنیف قابل دید ہو گی".۱۳ میجر آر- ای - فشری بی - ای - " آپ نے از راہ کرم مجھے مسئلہ ہند پر امام جماعت احمدیہ کی تصنیف کرده کتاب ارسال فرمائی اس کا شکریہ مجھ پر واجب ہے میں اسے بڑی دلچسپی سے پڑھ رہا ہوں مجھے ہندوستان اور دو سرے ممالک میں جو تجارب حاصل ہوئے ہیں ان کی بناء پر آپ کے مقاصد سے ہمدردی ہے.بطور ممبر انڈین ایمپائر سو سائٹی کے میں یقینا ہمیشہ اس بات کا حامی رہوں گا کہ اسلام کے متعلق جو برطانیہ کی ذمہ داری ہے وہ ہماری قوم کے اعلیٰ ترین اخلاقی فرائض میں سے ہے.میں نے اپنی زندگی کے بہت سے سال مسلمانوں میں رہ کر گزارے ہیں وہ رواداری اور مہمان نوازی اور سخاوت جو مسلمان دوسری موحد اقوام سے برتتے ہیں اسلام کے اعلیٰ معیار تعلیم کی شاہد ہے.ہر دو مذاہب یعنی اسلام اور عیسائیت میں ایک مجانست ہے اسلام عیسائیت کی روایات کو قدر اور عزت کی نظر سے دیکھتا ہے اور اس سے دونوں مذاہب میں ایک مضبوط اتحاد پیدا ہو جانا چاہئے اگر چہ میں خود عیسائی ہوں لیکن پھر بھی میں اسلامی روح کو جس نے ترقی اور تہذیب کے پھیلانے میں بڑی مدد دی ہے قدرو منزلت کی نظر سے دیکھتا ہوں".
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 217 خلافت ثانیہ کا سترھواں -۱۴ آنریبل پیٹرسن سی.ایس.آئی سی آئی - ای: "کتاب ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا حل کے ار سال کا بہت بہت شکریہ مجھے ابھی تک اس کے ختم کرنے کی فرصت نہیں ملی امید ہے کہ چند دنوں میں ختم کرلوں گا لیکن جس قدر میں نے پڑھا ہے اس سے ضرور اس قدر ظاہر ہو تا ہے کہ یہ تصنیف موجودہ گتھی کے سلجھانے کے لئے ایک دلچسپ اور قابل قدر کوشش ہے مسلمانوں کا نقطہ نظر اس میں بہت وضاحت سے پیش کیا گیا ہے امید ہے کہ میں آپ سے جلد ملوں گا".لارڈ ایلم: ”میں آپ کا ممنون ہوں کہ آپ نے مجھے وہ کتاب ارسال کی جس میں سائن رپورٹ کے متعلق مسلمانوں کی رائے درج ہے میں اس بات کی اہمیت کو خوب سمجھتا ہوں کہ سائمن رپورٹ کو خالی الذہن ہو کر پڑھنا بہت ضروری ہے اور اسے ناحق ہدف ملامت بنانا یا غیر معقول مطالبات پیش کرنا درست نہیں اس لئے مجھے اس بات کی بڑی خوشی ہے کہ مجھے اس کے متعلق ہندوستان کے ایک ذمہ دار طبقہ کی رائے پڑھنے کا موقع ملا ہے".-10 -17 لارڈ سٹڈ نیم :.میں اس بات کا بہت شکر گزار ہوں کہ آپ نے مہربانی فرما کر مجھے جماعت احمدیہ کے خیالات سے جو ہز ہولی نس نے بڑی خوبی سے بیان فرمائے ہیں آگاہ ہونے کا موقع دیا ہے میں نے دیکھا کہ ہنر ہولی نس اس خیال سے متفق ہیں کہ ہندوستان ابھی درجہ نو آبادیات کے لائق نہیں.اور یہ کہ بہت سے دوسرے مبصرین کی طرح ہز ہولی نس بھی اس خیال کے ہیں کہ انگریزی Democracy کے نمونہ پر ہندوستان کی حکومت ہونی چاہئے مگر شاید انہیں یہ پتہ نہیں کہ ریاستہائے متحدہ امریکہ کا پریذیڈنٹ اپنے وزراء خود چنا ہے اور یہ وزراء اس کے سامنے جوابدہ ہوتے ہیں تاہم ملک کی کانگریس کے سامنے فیڈرل نظام پر عمل درآمد کرنے میں بعض خاص دقتیں ہیں.اضلاع متحدہ امریکہ کو چار سال کی جنگ اور دس لاکھ آدمیوں کی جانوں کی قربانی کے بعد یہ درجہ ملا تھا.فی الحال جیسا کہ سائن کمیشن کی رائے ہے ہندوستان فیڈرل حکومت کے قابل نہیں ہوا.کبھی ہندوستان کے سے حالات میں کسی ملک میں فیڈرل حکومت قائم نہیں ہوئی.فیڈریشنیں قدرتی طور پر خود بخود بن جایا کرتی ہیں جب لوگ ان کے لئے تیار ہوں.ہندوستان کو جو بہت کافی حد تک حکومت خود اختیاری دی جاچکی ہے اس پر جو کچھ بغیر کسی کے خطرہ کے متزاد کیا جا سکے اس میں دریغ نہیں ہونا چاہئے لیکن میرے خیال میں سب سے اہم معاملہ پبلک کی بہبود کا ہے".برطانیہ کا مشہور ترین اخبار ٹائمز آف لنڈن مورخہ ۲۰ نومبر ۱۹۳۰ء کے نمبر میں فیڈرل آئیڈیل کے عنوان کے ماتحت ایک نوٹ کے دوران میں لکھتا ہے کہ :-
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 218 خلافت ثانیہ کا سترھواں سال ”ہندوستان کے مسئلہ کے متعلق ایک اور ممتاز تصنیف (مرزا بشیر الدین محمود احمد ) خلیفته ام امام جماعت احمدیہ کی طرف سے شائع ہوئی ہے".۱۷ ایل ایم ایمری.مشہور ممبر کنز رو نیو پارٹی :- ” میں نے یہ کتاب بڑی دلچسپی سے پڑھی ہے اور میں اس روح کو جس کے ساتھ یہ کتاب لکھی گئی ہے اور نیز اس محققانہ قابلیت کو جس کے ساتھ ان سیاسی مسائل کو حل کیا گیا ہے نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں".انگلستان کے سیاستدانوں کی آراء درج کرنے کے بعد ہندوستان کے مسلم زعماء اور اسلامی پریس کے تبصرے درج کئے جاتے ہیں :- ا سر مرز امحمد اسماعیل بیگ صاحب دیوان ریاست میسور " سر مرزا آپ کی کتاب پا کر بہت ممنون ہیں اور اسے بہت دلچسپی سے پڑھیں گے علی الخصوص اس وجہ سے کہ وہ آپ کی جماعت کے امام سے ذاتی واقفیت رکھتے ہیں.آپ کا صادق آئی.ایم ایس سیکرٹری.۲- جناب اے.ایچ غزنوی آف بنگال:- "کتاب : ندوستان کے سیاسی مسئلہ کا حل " کے لئے مسٹر اے.ایچ غزنوی مولوی فرزند علی صاحب کے بہت ممنون ہیں انہوں نے اس کتاب کو بہت دلچسپ پایا ہے"..ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب آف علی گڑھ : ” میں نے جناب کی کتاب نہایت دلچسپی سے پڑھی میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ اس کی یورپ میں بہت اشاعت فرمائیں ہر ایک ممبر پارلیمنٹ کو ایک ایک نقل ضرور بھیج دی جائے اور انگلستان کے ہر مدیر اخبار کو بھی ایک ایک نسخہ ارسال فرمایا جائے اس کتاب کی ہندوستان کی نسبت انگلستان میں زیادہ اشاعت کی ضرورت ہے جناب نے اسلام کی ایک اہم خدمت سرانجام دی ہے ".۴.سیٹھ حاجی عبداللہ ہارون صاحب ایم ایل اے کراچی:.”میری رائے میں سیاست کے باب میں جس قدر کتابیں ہندوستان میں لکھی گئی ہیں ان میں کتاب ”ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا حل" بہترین تصانیف میں سے ہے ".۵- علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال لاہور - تبصرہ کے چند مقامات کا میں نے مطالعہ کیا ہے نہایت عمدہ اور جامع ہے".- اخبار انقلاب لاہور (مورخہ ۱۶ نومبر ۱۹۳۰ء) جناب مرزا صاحب نے اس تبصرہ کے ذریعہ سے مسلمانوں کی بہت بڑی خدمت انجام دی ہے یہ بڑی بڑی اسلامی جماعتوں کا کام تھا جو مرزا صاحب نے انجام دیا".
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 219 خلا فت ثانیہ کا ستر ھو ے.اخبار سیاست لاہور (مورخہ ۲ دسمبر ۱۹۳۰ء) "مذہبی اختلافات کی بات چھوڑ کر دیکھیں تو جناب بشیر الدین محمود احمد صاحب نے میدان تصنیف و تالیف میں جو کام کیا ہے وہ بلحاظ ضخامت و افادہ ہر تعریف کا مستحق ہے اور سیاست میں اپنی جماعتوں کو عام مسلمانوں کے پہلو بہ پہلو چلانے میں آپ نے جس اصول عمل کی ابتدا کر کے اس کو اپنی قیادت میں کامیاب بنایا ہے وہ بھی ہر منصف مزاج مسلمان اور حق شناس انسان سے خراج تحسین، صول کر کے رہتا ہے آپ کی سیاسی فراست کا ایک زمانہ قائل ہے اور نہرو رپورٹ کے خلاف مسلمانوں کو مجتمع کرنے میں سائمن کمیشن کے رو برد مسلمانوں کا نقطہ نگاہ پیش کرنے میں مسائل حاضرہ پر اسلامی نقطہ نگاہ سے مدلل بحث کرنے اور مسلمانوں کے حقوق کے استدلال سے مملو کتا بیں شائع کرنے کی صورت میں آپ نے بہت ہی قابل تعریف کام کیا ہے زیر بحث کتاب سائن ، پورٹ پر آپ کی تنقید ہے جو انگریزی زبان میں لکھی گئی ہے.جس کے مطالعہ سے آپ کی وسعت معلومات کا اندازہ ہوتا ہے آپ کا طرز بیان سلیس اور قائل کر دینے والا ہوتا ہے آپ کی زبان بہت شستہ ہے ".-- ایڈیٹر صاحب اخبار " ہمت " لکھنو (مورخه ۵ دسمبر ۱۹۳۰ء):- ہمارے خیال میں اس قدر ضخیم کتاب کا اتنی قلیل مدت میں اردو میں لکھا جانا انگریزی میں ترجمہ ہو کر طبع ہونا.اغلاط کی درستی پروف کی صحت اور اس سے متعلق، سینکڑوں وقتوں کے باوجود تحمیل پانا.اور فضائی ڈاک پر لندن روانہ کیا جانا.اس کا بین ثبوت ہے کہ مسلمانوں میں بھی ایک ایسی جماعت ہے جو اپنے نقطہ نظر کے مطابق اپنے فرائض سمجھ کر وقت پر انجام دیتی ہے اور نہایت مستعدی اور تندہی کے ساتھ.غرضیکہ کتاب مذکورہ ظاہری اور باطنی خوبیوں سے مزین اور دیکھنے کے قابل ہے".کتاب ”ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا حل " پر مزید تبصرے ۱۰ نومبر ۱۹۳۰ء DIL KUSHR, TEMPLE ROAD L HORE.مکرمی جناب تقدس مآب مرزا صاحب السلام عليكم و رحمة الله وبركاته عنایت نامہ آج ہی ملا اور اس کے ساتھ آپ کی انگریزی کتاب جس میں ہندوستان کی سیاسی مشکلات کا حل آپ نے لکھا ہے میں آپ کا ممنون ہوں کہ آپ نے مجھے اپنے قیمتی خیالات سے مستفید ہونے کا موقع دیا.میں کتاب کو شوق سے پڑھوں گا.اور شوق سے کسی وقت تبادلہ خیالات کے موقع کا
تاریخ احمد بیت - جلد ۵ 220 خلافت ثمانیہ کا سترھواں سال منتظر رہوں گا.آپ نے واقعی بڑی ہمت کی ہے اس تھوڑے وقت میں اس اہتمام کے ساتھ کتاب لکھ کر اور ترجمہ کرا کے ممبران گول میز کانفرنس اور دیگر اکابر انگلستان کے پاس اپنی رائے پہنچادی ہے.مجھے بھی شملہ پر آپ سے نہ مل سکنے کا افسوس رہا.خدا نے چاہا تو اب لاہور میں ملاقات ہو گی آپ سرما میں ایک آدھ مرتبہ تو تشریف لایا کرتے ہیں.جب تشریف لائیں تو مجھے بھی اطلاع ہو جائے تاکہ کہیں مل بیٹھنے کا بندوبست کیا جائے.نحمدہ و نصلی آپانی پت - فیض منزل ۶ شوال ۱۳۴۱ھ - چٹھی نمبر ۱۵۸۱ حضرت مرزا صاحب قبلہ سلام علیک مزاج عالی والسلام را تم عبد القادر جناب نے سیاسی مسئلہ کا حل " تصنیف فرما کر مسلمانوں.ہندوستان حکومت پر جو احسان اور خدمت انجام دی ہے اس پر جناب کی ذات شریف مستحق مبارک باد ہے.حقیقت یہ ہے کہ جناب نے اپنے اعلیٰ منصب کا وہ فرض جو آپ پر عائد ہو تا تھا بدرجہا اولی طریق پر ادا فرمایا.الحمدللہ علی ذالک" میں آخر میں پھر ایک مرتبہ ہدیہ تبریک پیش کرنے کا فخر حاصل کرتا ہوں فقط والسلام ابو عامرا قبال احمد انصاری
..بلدد 221 خلافت ثانیہ کا سترھواں سال فصل پنجم حضرت مصلح موعودؓ کے حضور چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کا ایک مکتوب MODEL TOWN LAHORE ٣٠/٨/٣٠ بسم الله الرحمن الرميح سیدنا و امامنا السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ محبت نامہ حضور کا ملا.عزیز بشیر احمد آج سیالکوٹ چلا گیا ہے یکم ستمبر سے کام سیکھنے کے لئے اس کی تعیناتی وہاں ہوئی ہے.حضور کا والا نامہ اور میاں عبد المنان صاحب کا خط رہیں بھیج دیئے گئے ہیں.کراچی والے مقدمہ کے متعلق ابھی پورا وثوق نہیں ہے کہ خاکسار کو وہاں جانا ہو گا.اگر جانا ہوا تو یہاں عبد اللہ خاں صاحب جو مدد طلب کریں گے انشاء اللہ دریغ نہیں کروں گا.پہلے تو 9 ستمبر تاریخ سماعت مقدمہ مقرر تھی.لیکن پرسوں کی خبر سے معلوم ہوتا ہے کہ ممکن ہے تاریخ ملتوی ہو جائے.بہر صورت جو بھی فیصلہ ہو گا اس کی اطلاع خدمت اقدس میں کردوں گا.انشاء اللہ.آج گور نر صاحب کی چٹھی آئی ہے کہ وائسرائے صاحب تمہیں گول میز کانفرنس میں شرکت کے لئے نامزد کرنا چاہتے ہیں لیکن آخری فیصلہ کرنے سے پہلے معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ آیا تم جا سکو گے یا نہیں.چٹھی اپنے ہاتھ سے لکھی ہوئی ہے.پتہ بھی اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا ہے چپھی کے شروع میں personal and Confidential کے الفاظ ہیں.جواب طلب کیا ہے میں نے لکھ دیا ہے کہ میں جانے کے لئے تیار ہوں اور ہر ممکن کوشش کروں گا کہ جو مسائل زیر غور آئیں ان کا کوئی قسمی بخش حل ہو سکے.معلوم ہوتا ہے کہ جب تک آخری فیصلہ نہ ہو وہ نہیں چاہتے کہ نمائندگان کے ناموں کی اشاعت ہو.حضور دعا فرمائیں کہ اگر خاکسار کے ذمہ یہ خدمت ڈالی جائے تو اللہ تعالٰی اپنی رضا اور اسلام اور مسلمانوں کی بہتری کے مطابق عمل کرنے کی بصارت اور توفیق عطا فرمائے.آمین.
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 222 خلافت ثانیہ کا سترھواں سا.و السلام حضور کا غلام خاکسار ظفر اللہ خان گول میز کانفرنس اور محترم چوہدری سید نا حضرت خلیفة المح الانی ایده الله تعالی بصره ظفر اللہ خان صاحب کی سنہری خدمات العزیز نے سائمن کمیشن کی رپورٹ پر تبصرہ فرماتے ہوئے مسلمانان ہند کے جن مطالبات و حقوق پر علمی وسیاسی نقطہ نظرت میر حاصل روشنی ڈالی تھی.وہ گول میز کانفرنس میں اکثر و بیشتر مسلم زعماء کی بحث کا مرکز رہے.اور انہوں نے اپنی اپنی اہمیت کے مطابق برطانوی نمائندوں کے سامنے ان کی ضرورت و اہمیت واضح کی مگر اس کی بہترین اور شاندار وکالت کا حق چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے ادا کیا جو دو پھیلے کا نفرنس کی طرح اس کا نفرنس میں بھی حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی زبان بن گئے.کانفرنس میں کونسے پیچیدہ مسائل در پیش تھے کس طرح ان پر غور و بحث کے لئے کارروائی ہوئی اور چوہدری صاحب نے اس میں کیا کیا کام کیا اس کا محض سرسری سا اندازہ کرنے کے لئے ذیل میں چوہدری صاحب موصوف کے بعض ان خطوط کے بعض اقتباسات درج کئے جاتے ہیں.جو کانفرنس کے سلسلہ میں آپ وقتا فوقتا اپنے آقاد مرشد حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت میں لکھتے تھے یہ خطوط مسلمانان ہند کی سیاسی جدوجہد کی مستند ترین دستاویز ہیں.مکتوب از لاهور ۳۰ اگست ۱۹۳۰ء بد الله الرحمن الرح سيدنا واما منا! السلام عليكم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ آج گورنر صاحب کی چٹھی آئی ہے کہ وائسرائے صاحب تمہیں گول میز کانفرنس میں شرکت کے لئے نامزد کرنا چاہتے ہیں.لیکن آخری فیصلہ کرنے سے پہلے معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ آیا تم جا سکو گے یا نہیں...میں نے لکھ دیا ہے کہ میں جانے کے لئے تیار ہوں....حضور دعا فرمائیں کہ اگر خاکسار کے ذمہ یہ خدمت ڈالی جائے تو اللہ تعالیٰ اپنی رضا اور مسلمانوں کی بہتری کے مطابق عمل کرنے کی بصارت اور توفیق عطا فرمائیں.والسلام.حضور کا غلام ظفر اللہ خاں ا بد الله الرحمن ال نے سیدنا امامنا السلام علیکم ورحمتہ اللہ مکتوب از لنڈن ۱۲ نومبر ۱۹۳۰ء وبركاته گول میز کانفرنس کا افتتاح ملک معظم نے کیا تقریریں وغیرہ کل ہی ہندوستان میں بھی شائع ہو جائیں گی یہ کارروائی تو محض نمائشی تھی اصل اجلاس
تاریخ احمدیت جلد ۵ 223 خلافت عثمانیہ کا سترھواں سال ا سے شروع ہونگے البتہ ۶ نمائندگان کی ایک ضابطہ کمیٹی قائم کی گئی ہے جس کے اجلاس آج سے شروع ہو گئے ہیں تاکہ کانفرنس کا پروگرام تیار کیا جائے ان ۶ میں سے ۳ برطانوی نمائندے ہیں ۵ ریاستوں کے ۸ برطانوی ہند کے ان ۸ میں سے ۲ مسلمان ایک یورپین ایک سکھ آ ہندو جن کے نام یہ ہیں.سپرو - جے کار - شاستری - بھوپندر ناتھ متر.سکھ سردار اجل سنگھے.یورپین سر ہیوبرٹ کار مسلمان شفیع اور جناح.ان کے نام بھی آج کی کارروائی میں شائع ہو جائیں گے 'Royal EmpireSociety‘ کی طرف سے ایک تبصرہ سائمن کمیشن کی رپورٹ پر شائع ہوا ہے جس میں سے قابل تذکرہ یہ بات ہے کہ ان کی سفارش ہے کہ قریبا تمام ملک کو اس طرح پر ووٹ دے دیئے جائیں کہ ۲۰۰۲۰ کے حلقے قائم ہو جائیں.اور یہ ۲۰ ایک ووٹر انتخاب کریں اس صورت میں ہر قوم کی تعداد آراء کے لحاظ سے آبادی کے مطابق ہو سکتی ہے یہ بھی سفارش ہے کہ تعلیم یافتہ لوگوں کو انفرادی طور پر بھی رائے دہندگی کا حق دیا جائے ان کی رپورٹ صوبجات میں سرکاری وزیر کے مخالف ہے.بد الله الرحمن الجنہ سید نا و اما منا! السلام علیکم و رحمتہ اللہ مکتوب از لندن ۱۹ نومبر ۶۱۹۳۰ و برکاتی کانفرنس کے جنرل اجلاس ہو رہے ہیں ان کی رپورٹیں اخباروں میں چھپ رہی ہوں گی حضور کے ملاحظہ سے گذری ہوں گی مسلمان ممبران اپنے مطالبات پر متحد ہیں، ہندوؤں سے کوئی سمجھوتہ نہیں ہوا.سمجھوتے کی افواہیں اخباروں میں بالکل غلط تھیں.گفتگو ہوتی رہی ہے.وہ اپنی جگہ پختہ ہیں ہم اپنی جگہ کا نفرنس میں یہ سوالات کمیٹیوں میں پیش ہوں گے اور یہ کمیٹیاں سوائے پہلی کمیٹی کے جو عام ڈھانچہ دستور آئین کا تیار کرے گی آئندہ ہفتہ کے آخر میں غالبا بنائی جائیں گی.مسلمانوں کے مطالبات وہی ہیں جو حضور کی کتاب میں درج ہیں اس امر پر بھی اتفاق ہے کہ بنیادی حقوق دستور آئین میں درج ہونے چاہئیں اور اگر ان کی خلاف ورزی کی گئی تو عدالت کو دست اندازی کا اختیار ہونا چاہئے.....و السلام حضور کا غلام خاکسار ظفر اللہ خان مکتوب از لنڈن ۲۵ دسمبر ۱۹۳۰ء جان الاحمر الرجن سیدنا و امامنا ! السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکات لبرل ہندوؤں اور مسلمان نمائندگان کے قائم مقاموں کے درمیان پھر سمجھوتہ کے لئے گفتگو جاری ہے گفتگو کی بناء جداگانہ حلقہ ہائے نیابت پر ہے کیونکہ مسلمانوں نے مشترکہ انتخابات کو تسلیم کرنے سے قطعی انکار کر دیا ہے چھ صوبجات کا جھگڑا بھی نہیں کیونکہ وہاں صورت یہ ہے کہ موجودہ حق نیابت اور جداگانہ انتخابات قائم ہیں صرف پنجاب اور بنگال کا جھگز ا ت بنگال میں تو مسلمانوں کو تمام کو نسل کی کثرت ملنی نا ممکن ہے کیونکہ یورپینوں کا حق
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 224 خلافت ثانیہ کا سترہواں سال نیابت غالبا گیارہ فیصد تسلیم کیا جائیگا باقی ۸۹ فیصدی میں سے ا۵ مسلمانوں کو کسی صورت میں نہیں مل سکتا کیونکہ اس طرح ہندوؤں کی نیابت ان کی آبادی کی نسبت سے بھی کم ہو جاتی ہے موجودہ کو نسل میں تمام ممبران میں سے ۲۵ فیصدی مسلمان ہیں پنجاب میں زیادہ سے زیادہ ۵۱ فیصدی تسلیم ہو سکے گا کیونکہ زیادہ رخ اس طرف ہے کہ حکومت ہند کی سفارش اس معاملے میں تسلیم کرلی جائے اور ان کی ایک سفارش یہ ہے کہ پنجاب میں ۴۹ فیصدی کے قریب مسلمانوں کو جداگانہ نیابت سے مل جائے اور کوئی دو فیصدی کے قریب مشترک نشستوں میں سے.مثلا تمنداروں کی نشست اور بڑے زمینداروں کی نشستوں میں سے آئندہ آبادی کی نسبت بڑھنے کا اصول تسلیم کرانا مشکل ہے کیونکہ برلس.اصول پیش کرتے ہیں کہ فہرست رائے دہندگان میں مسلمانوں کا تناسب آبادی کے مطابق کر دینا چاہئے اور اگر وہاں مناسب ٹھیک ہو جائے تو جس قدر آبادی میں تناسب بڑھے گا.فہرست رائے دہندگان میں بھی بڑھ جائے گا اور اس صورت میں بڑھتی نسبت کے ساتھ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ مشتر کہ انتخاب کی طرف آئیں نہ کہ اور زیادہ علیحدہ انتخابات پر قائم ہونے چاہئیں.اور ان کی کثرت بھی بڑھتی جائے.باقی مسلمان مطالبات کو وہ تسلیم کرتے ہیں مذہبی امور کے متعلق حفاظتی اصول نهایت وسیع الفاظ میں ہے فیڈرل سسٹم کو بھی ابھی تک تو تسلیم کیا جا رہا ہے دیکھیں آگے کیا ہو تا ہے اگر آپس میں کوئی سمجھوتہ نہ ہو سکا تو قدامت پسند اور لبرل گروہوں کے انگریز نمائندگان تو غالبا مسلم مطالبات کے ساتھ اظہار ہمدردی کریں گے لیکن لیبر والے اگر مخالفت نہیں کریں گے تو ان کی طبیعت مخالفت کی طرف ضرور مائل ہوگی.سکھوں کی طرف سے کہا گیا ہے کہ اگر پنجاب میں مسلمانوں کی کثرت قانو نا کر دی گئی تو خانہ جنگی ہو جائے گی.گو اس تقریر کا اثر سکھوں کے لئے مفید نہیں ہو گا.اقلیتوں کی کمیٹی کا ایک اجلاس پر سول ہوا تھا.آئندہ اجلاس ۳۱ کو ہو گا.اگر کوئی سمجھوتہ ممکن ہوا تو اس دن تک ہو چکا ہو گا.ممکن ہے کہ کانفرنس کے اجلاس وسط جنوری یا تیسرے ہفتہ میں ختم ہو سکیں.اس صورت میں خاکسار وسط فروری کے قریب انشاء اللہ واپس پہنچ سکے گا.والسلام حضور کا غلام - خاکسار ظفر اللہ خان" بد الله الرحمن المجنى سیدنا و امامنا! السلام علیکم و رحمته مکتوب از لنڈن ۲ جنوری ۱۹۳۱ء اللہ و برکاتہ فرنٹیر کمیٹی نے کل رپورٹ کر دی ہے کہ صوبہ سرحدی کی کونسل میں ۶۵ فیصدی منتخب شده ممبر اور ۳۵ فیصدی نامزد شدہ ہوں نامزد شدہ میں سے ۲۰ فیصدی سے زائد سرکاری ممبر نہ ہوں.بعض محکمہ جات جو دیگر صوبجات میں صوبجاتی ہوں گے اس صوبہ میں مرکزی ہوں گے دو وزراء دونوں غیر سرکاری جن میں سے ایک ضرور منتخب شدہ ہو.
تاریخ احمدیت جلد ۵ 225 خلافت عثمانیہ کا سترھواں - گورنر حکومت کا زمہ دار اور وزارت میں شامل ہو گا.گویا ڈھانچہ مل گیا ہے گو گورنر کے اختیارات کچھ زائد ہوں گے مسودہ رپورٹ میں یہ تھا کہ ہندوؤں سکھوں کی تعداد سے دگنی نیابت ملے گی ڈاکٹر مونجے لگا کہنے کہ مسلمانوں کو فلاں میں اتنا ملا ہوا ہے فلاں میں اتنا مسلمانوں نے درمیان میں ہی کہہ دیا کہ اچھا تعداد سے تین گنا لے لو اس کا بہت اچھا اثر ہوا.اقلیتوں کی کمیٹی میں لبرل ہندوؤں کی طرف سے مختلف باتیں پیش کی گئی ہیں.یہاں تک بھی کہہ دیا گیا ہے کہ اگر تم جداگانہ نیابت ترک نہیں کر سکتے تو پھر ہم تمہیں مجبور نہیں کرتے لیکن تعداد کے لحاظ سے نہ لبرل ۵۱ فیصدی سے آگے بڑھیں گے نہ انگریز کیونکہ سکھوں کو بھی وہ زائد دینا چاہتے ہیں.آئندہ اجلاس 4 جنوری کو ہو گا.کل اور پرسوں سر محمد شفیع نے خوب اچھی طرح مسلم مطالبات کو پیش کیا.۶ کو شاید مجھے بھی کچھ کہنے کا موقعہ ملے.آجکل میں پانچ کمیٹیوں میں کام کر رہا ہوں کل صبح ساڑھے دس بچے سے لیکر شام ساڑھے گیارہ بجے تک متواتر کمیٹیوں کے اجلاسوں میں بیٹھنا پڑا اور تمام نمائندگان کانفرنس میں سے صرف میں ایک تھا جو ہر اس کمیٹی میں شامل تھا جس کا اجلاس کل ہوا آجکل کام بہت تیزی سے ہو رہا ہے کیونکہ وقت بہت تنگ ہے میں انشاء اللہ ۲۳ یا ۳۰ جنوری (غالبا ۳۰) کو مارسیلز سے جہاز پر سوار ہوں گا اور ۸ یا ۱۵ (غالبا) ۵ فروری کی شام کو بفضل اللہ لاہور پہنچ سکوں گا.خان صاحب اب تو خوب کام کر رہے ہیں کچھ دلچسپی بھی پیدا ہو گئی ہے اور کام کی تفاصیل کے ساتھ واقفیت بھی اس سے ان کا حوصلہ بھی بڑھ گیا ہے.والسلام - حضور کا غلام خاکسار ظفر اللہ خاں".بد الله الرحمن الرن سید نا و امامنا ! السلام علیکم ورحمتہ اللہ مکتوب از لنڈن ۲۵ ستمبر ۱۹۳۱ء و برکاته ۱۸ ستمبر جمعہ کے دن خاکسار کو وزیر ہند نے انڈیا آفس میں گفتگو کرنے کے لئے بلایا تھا.علاوہ مسلمانوں کے حقوق کے متعلق عام گفتگو کے آخر میں خاکسار نے کشمیر کے معاملات پر بھی انہیں توجہ دلائی اور انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ خود بھی توجہ کریں گے اور وائسرائے کو بھی توجہ دلائیں گے.اس امر کی طرف اور اس کے اغلب نتائج کی طرف بھی توجہ ولائی.کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی طرف سے نواب سر ذو الفقار علی خاں اور سر محمد اقبال جیسے صاحبان کو تو جانے کی اجازت نہ دی گئی اور احرار کے جتھے کو کسی نے نہ روکا.اس کے بعد اطلاع ملی کہ عارضی صلح ہو گئی ہے اور آج خبر چھپی ہے کہ وسیع پیمانے پر فسادات ہوئے ہیں جن میں سرکاری افسران اور پولیس وغیرہ کے ۹۰-۹۵ آدمی زخمی ہوئے ہیں.اور اگر ان کے ۹۵-۹۰ زخمی ہوئے تو رعایا کا خون بہت بے دردی سے بہایا گیا ہو گا.پارلیمنٹ میں سوالات وغیرہ کے متعلق خان صاحب نے حضور کی خدمت میں لکھ دیا ہو گا اور خاکسار کی دوسری ا،
226 خلافت ثمانیہ کا سترھواں.تقریروں کی نقول بھی بھیج دی ہوں گی....والسلام حضور کا غلام خاکسار ظفر اللہ خاں".بدالله الرحمن النجن، سیدنا و اما منا! السلام علیکم ورحمتہ مکتوب از لنڈن ۷ انو مبر ۱۹۳۲ء اللہ وبرکاتہ " آج کا نفرنس کا ابتدائی اجلاس ہے با قاعدہ اجلاسن ۲۱ ( نومبر ناقل) سے شروع ہوں گے.وزیر ہند اور وزیر اعظم سے مل چکا ہوں مئوخر الذکر سے تو رسمی ملاقات تھی وزیر ہند سے مفصل اور بلا تکلف گفتگو ہوئی.سندھ کی علیحدگی کے متعلق وہ پوری امید دلاتے ہیں مرکزی مجلس میں مسلم نمائندگی پر بھی بحث ہوئی.برطانوی ہند کے حصہ میں سے تیسرا حصہ تو وہ تسلیم کرتے ہیں لیکن ریاستوں کو زائد نیابت دینے سے جو پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں اس کا حل ابھی تجویز نہیں ہو سکا.....و السلام- حضور کا غلام خاکسار ظفر اللہ خاں".مکتوب از لنڈن ۲۶ مئی ۱۹۳۳ء بد الله الرحمن الجنے سیدنا و امامنا! السلام علیکم و رحمتہ پہلوؤں پر اللہ وبرکاتہ پرسوں خاکسار....و زیر نو آبادیات سے ملا تھا فلسطین کے معاملات پر گفتگو تھی.میاں سر فضل حسین صاحب نے لکھا تھا کہ چونکہ ہندوستان میں اس معاملہ پر شور ہو رہا ہے اس لئے کوشش کی جائے کہ اول حکومت کی پالیسی عربوں سے ہمدردی کی ہو اور دوسرے حکومت ہند کو اطلاع دی جائے کہ فلسطین میں کیا کیا جا رہا ہے وزیر صاحب کے ساتھ بہت سے پر گفتگو ہوئی اور گفتگو کے درمیان میں مجھے خیال ہوا کہ واپسی پر میں فلسطین سے ہو تا جاؤں گفتگو کے آخر میں فلسطین کے ہائی کمشنر سے بھی ملاقات ہو گئی جو آجکل انگلستان آئے ہوئے تھے اگر حضور پسند فرما ئیں تو خاکسار واپسی پر قسطنطنیہ یروشلم وغیرہ سے ہوتا آئے اس صورت میں حضور ہدایات بھی ارسال فرما دیں کہ ان ممالک میں نما کسار کن امور کی طرف توجہ کرے خصوصیت سے فلسطین میں ہائی کمشنر نے وعدہ کیا ہے کہ وہ مناسب سہولتیں بہم پہنچا دیں گے تاکہ میں دیکھ لوں کہ حکومت کی کیا پالیسی ہے اور اسے کس طرح چلایا جا رہا ہے.۲ جون کے بعد کمیٹی کا اجلاس ۱۳ جون کو ہو گا.فی الحال کمیٹی میں صرف تمہیدی بحث ہو رہی ہے میں نے مسلمانوں کی طرف سے قریباً تمام ایسے مسائل کا ذکر کر دیا ہے جس کی زدان پر پڑتی ہے تفصیلی بحث میں پھر ان پر زور دیا جائے گا انشاء اللہ درخواست ہے کہ حضور خاکسار کو اپنی دعاؤں میں یاد فرماتے رہیں.ہزہائی نس آغا خاں، ڈاکٹر شفاعت احمد خاں اور مسٹر غزنوی مینوں نے مجوزہ ہندو مسلم سکھ معاہدہ کے خلاف اپنی رائے میاں سر فضل حسین صاحب کو میری معرفت بھجوادی ہے.والسلام.حضور کا غلام خاکسار ظفر اللہ خاں".
تاریخ احمدیت جلد ۵ 227 خلافت ثانیہ کا سترھواں سا مکتوب از لنڈن ۲۷ جولائی ۱۹۳۴ء د الله الخمر الرجے سیدنا و امامنا السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ سیاسی اور آئینی امور کے متعلق تو انہی قیاسات کی مزید تائید ہوئی ہے جن کا ذکر خدمت اقدس میں پیشتر کر چکا ہوں سندھ کی علیحدگی کے خلاف یہاں مخالفین نے ایک مرکز قائم کر رکھا ہے جس کی طرف متواتر سرگرمی سے کوشش جاری ہے.لیکن معلوم ہوا کہ کمیٹی اس سے متاثر نہیں ہوئی میں اس امر پر زور دے رہا ہوں کہ سندھ کی علیحدگی دیگر صوبجات میں نئے نظام کے اجراء کے ساتھ ہی عمل میں آجائے....." چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کو گول میز کانفرنس اور اسکی تجاویز پر غور کرنے مسلمانان ہند کی طرف سے خراج تحسین والی پارلیمنٹری کمیٹی کی رپورٹ ۱۹۳۴ء میں شائع ہوتی جسے ۱۹۳۵ء میں برطانوی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے پاس کر دیا.اور اس کا نام گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ رکھا گیا.جو ہندوستان میں یکم اپریل ۱۹۳۷ء سے نافذ بھی ہو گیا.ہندوستان کے اس جدید آئین اساسی میں مسلمانوں کے کم و بیش تمام مطالبات منظور کرلئے گئے جداگانه انتخاب بدستور قائم رہا.صوبہ سرحد میں مکمل اصلاحات رائج کر دی گئیں.سندھ کو بمبئی سے علیحدہ کر کے ایک جداگانہ صوبے کی حیثیت دے دی گئی پنجاب میں مسلمانوں کی اکثریت (اگر چہ بے حد قلیل قائم ہو گئی البتہ بنگال سے متعلق مسلم مطالبہ تسلیم نہ کیا جا سکا.اور مسلمانوں کی آئینی اکثریت قائم نہ ہوئی.البتہ کانگریس کا زور وہاں بھی تو ڑ دیا گیا.اس کے علاوہ گورنروں کو اس قسم کی ہدایات جاری کر دی گئیں.کہ صوبائی وزارتوں میں مسلمانوں کو ایک تہائی حصہ ضرور ملنا چاہئے.اور ان کامیابیوں کا سہرا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی توجہ کے طفیل چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے سر تھا.جنہوں نے کامیاب وکالت کو خیر باد کہہ کر چار سال تک اپنی الگا تار کوششیں ملک کی آئین سازی کے نقشہ میں مسلم حقوق کا رنگ بھرنے کے لئے وقف کئے رکھیں.اسلامی ہند کی سیاسی تاریخ میں چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے اسلامی حقوق کی پاسبانی و ترجمانی کا فریضہ جس خوش اسلوبی سے ادا کیا اس پر ہندی مسلمانوں نے کھلے دل سے خراج تحسین ادا کیا.اور سیاسی معاملات میں آپ کی بلندی فکر و اصابت رائے کا سکہ بڑے بڑے مدبران سیاست کے قلوب پر بیٹھ گئیں.اور مسلمانوں نے آپ کی مدلل و پرزور تقریروں پیچید والا یخل مسائل میں برمحل را ہنمائی نے امت مسلمہ کی شاندار خدمات کا اقرار کیا اور جب آپ لندن سے واپس آئے تو آپ کا شاندار استقبال کیا گیا اور ۱۹۳۴ء میں آپ آزیبل سرمیاں فضل حسین صاحب کی جگہ وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل
تاریخ احمدیت جلده 228 خلافت علانیہ کا سترھواں.کے بلا مقابلہ ممبر منتخب کر لئے گئے چوہدری صاحب کی خدمات سے متعلق کثیر شہادتوں میں سے صرف چند آراء کا پیش کرنا کافی ہو گا.ا خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی نے اخبار منادی ۲۴ اکتوبر ۱۹۳۴ء میں آپ کی لفظی تصویر پیش کرتے ہوئے لکھا:- دراز قد مضبوط اور بھاری جسم ، عمر چالیس سے زیادہ گندمی رنگ ، چوڑا چکلا چهره فراخ چشم فراخ عقل، فراخ علم اور فراخ عمل ، قوم مسلمان ، عقیدہ قادیانی - چپ رہتے ہیں اور بولتے ہیں تو کانٹے میں تول کر اور بہت احتیاط کے ساتھ پورا تول کر بولتے ہیں.سیاسی عقل ہندوستان کے ہر مسلمان سے زیادہ رکھتے ہیں.وزیر اعظم ، وزیر ہند اور وائسرائے اور سب سیاسی انگریز ان کی قابلیت کے مداح ہیں اور ہندو لیڈر بھی بادل ناخواستہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ شخص ہمارا حریف تو ہے مگر بڑا ہی دانشمند حریف ہے اور بڑا ہی کارگر حریف ہے گول میز کانفرنس میں ہر ہندو اور مسلمان اور ہر انگریز نے چوہدری ظفر اللہ خاں کی لیاقت کو مانا اور کہا کہ مسلمانوں میں اگر کوئی ایسا آدمی ہے جو فضول اور بے کار بات زبان سے نہیں نکالتا.اور نئے زمانے کے پالیٹکس پیچیدہ کو اچھی طرح سمجھتا ہے تو وہ چوہدری ظفر اللہ ہے.میاں سر فضل حسین قادیانی نہیں ہیں.مگروہ اس قادیانی کو اپنا سیاسی فرزند اور سپوت بیٹا تصور کرتے ہیں.ظفر اللہ ہر انسانی عیب سے پاک اور بے لوث ہے ".۲ اخبار دور جدید لاہور (۱۶ اکتوبر ۱۹۳۳ء) نے لکھا ہے:." ہم آپ کی ان حالیہ مصروفیتوں اور خدمات اسلامی کو معرض بحث میں لانا چاہتے ہیں جن کے لئے آپ کو بہت بڑے ایثار سے کام لینا پڑا ہے.آج چار سال سے آپ اس پریکٹس پر لات مار کر جس کی آمدنی اوسطاً پانچ چھ ہزار ہے محض لمت اسلامی کی خدمات انجام دینے کی خاطر انگلستان میں بڑی تندہی کے ساتھ کام کر رہے ہیں جن کو نہ صرف پنجاب کے بلکہ تمام ہندوستان کے مقتدر اور چوٹی کے رہنماؤں نے تسلیم کیا ہے حتی کہ اہل انگلستان ان کا لوہا مانے ہوئے ہیں ".اخبار " انقلاب " لاہور ۱۳ جولائی ۱۹۴۱ء لکھتا ہے :- " سر سیموئل ہو ر و زیر ہند نے اپنی ایک تقریر میں اعلان کیا تھا کہ گول میز کانفرنسوں کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا.انہیں حل کرنے کے لئے قیمتی اور نتیجہ خیز خدمات سر محمد ظفر اللہ خاں نے سرانجام دیں".اخبار "شہباز " لاہور (۶ جولائی ۱۹۴۱ء) نے لکھا:- ۱۹۳۰ء میں ہندوستانی اصلاحات کے سلسلے میں لندن میں گول میز کانفرنس کے اجلاس شروع
تاریخ احمدیت جلد ۵ 229 خلافت ثانیہ کا سترھواں سال ہوئے.سر محمد ظفر اللہ خاں تینوں گول میز کانفرنسوں اور ہندوستانی اصلاحات سے متعلق دونوں ایوانوں کی مشترکہ پارلیمنٹری کمیٹی کے مندوب تھے ان کا نفرنسوں اور کمیٹی میں آپ نے جو شاندار خدمات سرانجام دیں ان سے ہندوستان میں اور ہندوستان سے دلچسپی رکھنے والے برطانوی حلقوں میں آپ کی شہرت میں بہت اضافہ ہو گیا.مشترکہ پارلیمنٹری کمیٹی کے چیئرمین لارڈ تلتھگو تھے.اس کمیٹی میں سر محمد ظفر اللہ خاں نے جو کار ہائے نمایاں سرانجام دیئے انہیں بے حد مقبولیت ہوئی اور انہوں نے برطانیہ کے صف اول کے بعض ممتاز مد برین مثلا لارڈ سینگے.آرچ بشپ آف کنٹر بری.سر آسٹن چیمبرلین اور مار کو کیس آف سالسبری کے رشتہ دوستی سے منسلک کر دیا سر محمد ظفر اللہ خاں نے انگلستان کے ہوشیار ترین مباحث اور سیاستدان مسٹر چرچل پر زبر دست جرح کی.مسٹر چرچل کمیٹی کے سامنے شہادت دے کر فارغ ہوئے تو سر محمد ظفر اللہ خاں سے از راہ مزاح کہنے لگے آپ نے کمیٹی کے سامنے مجھے دو گھنٹے بہت بری طرح رگیدا ہے با ایں ہمہ جب سلطنت برطانیہ بلکہ تمام مہذب دنیا کو شدید ترین خطرہ لاحق ہونے کے پیش نظر تمام سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھنا پڑا تو ان دونوں کے باہم بہترین دوست بن جانے میں سر محمد ظفر اللہ خاں کی جرح حائل نہ ہو سکی.مشترکہ منتخب کمیٹی میں اہم خدمات سر انجام دینے کی وجہ سے لارڈ لنلتھگو (چیئرمین کمیٹی و وائسرائے ہند - ناقل)....کو آپ کا کام بنظر تعمق دیکھنے کا موقعہ مل گیا.سر ماؤس گوائر....گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۱۹۳۵ء کے اصل تشکیل دہندہ میں سر محمد ظفر اللہ خاں کو کئی مواقع ان سے مل کر کام کے میسر آئے ".جناب سید حبیب صاحب ایڈیٹر اخبار ” سیاست " لاہور (۱۹ اکتوبر ۱۹۳۴ء) نے لکھا:.چوہدری صاحب بارہا مسلمانوں کی طرف سے پنجاب کو نسل میں نمائندہ بن کر آئے ایک دفعہ ان کو یہ اعزاز بلا مقابلہ نصیب ہوا.کو نسل کے اندر مسلمانوں کے عام مفاد کی نمائندگی کرتے رہے.سائمن کمیشن میں انہوں نے مسلم نمائندہ کی حیثیت سے کام کیا سر فضل حسین کی جگہ عارضی طور پر (وزیر) مقرر ہوئے اور گول میز کانفرنس میں مسلم نمائندہ کی حیثیت سے لئے گئے.....چودھری صاحب نے جہاں جہاں بھی مسلمانوں کی خدمت کی وہاں ہمیشہ مفاد ملت کا خیال رکھا کسی موقع پر ان کے کسی بدترین دشمن کو بھی یہ کہنے کی جرات نہیں ہوئی کہ انہوں نے قاد یا نیت کو مفاد اسلام پر ترجیح دی انہوں نے لندن میں اپنا اور مسلمانوں کا نام روشن کیا.سر آغا خاں اور دوسرے مسلمان ان کی قابلیت محنت ، جانفشانی اور مفاد اسلام کے لئے ان کی عرق
خلافت ثانیہ کاسترھواں سال 230 تاریخ احمدیت جلد ۵ 4A- ریزی کے مداح رہے ".اخبار مسلم آواز کراچی جون ۱۹۵۲ء لکھتا ہے: " سر ظفر اللہ خاں کے متعلق قائد اعظم محمد علی جناح - ناقل ) اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ظفر اللہ خاں کا دماغ خداوند کریم کا زبر دست انعام ہے ".ڈاکٹر عاشق حسین صاحب بٹالوی ڈاکٹر اقبال صاحب کا کر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:.ڈاکٹر صاحب ایک سیاسی مفکر تھے.عملی سیاستدان نہ تھے ایک عملی سیاستدان کی حیثیت سے ڈاکٹر صاحب کو دو مختلف موقعوں پر کام کرنے کا اتفاق ہوا تھا.پہلا موقع اس وقت پیش آیا جب وہ ۱۹۲۷ ء میں پنجاب لیجسلیٹو کو نسل کے ممبر منتخب ہوئے اور دوسرا موقع وہ تھا.جب انہیں ۱۹۳۱ء میں گول میز کانفرنس میں شرکت کے لئے لندن جانا پڑا...گول میز کانفرنس سے تو وہ اس قدر برگشته خاطر ہوئے تھے کہ استعفے دے کر واپس چلے آئے.پنجاب لیجسلیٹو کونسل میں کامیاب ترین آدمی سر فضل حسین تھے.اور گول میز کانفرنس کے مسلمان مندوبین میں سب سے زیادہ کامیاب آغا خاں اور چوہدری ظفر اللہ خاں ثابت ہوئے".مقتدر مسلم اصحاب کی آراء کے بعد اب ایک ہندو نامہ نگار کا نظریہ بھی ملاحظہ ہو - اخبار "تیج دہلی کے نامہ نگار نے لنڈن سے لکھا:- مسلم ڈیلی گیٹوں میں چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے خاص شہرت حاصل کرنی ہے حالانکہ وہ ہمیشہ فرقہ پرستی کا راگ گاتے رہے ہیں لیکن پھر بھی وہ اپنی قابلیت کے باعث سر محمد شفیع ، مسٹر جناح اور ڈاکٹر شفاعت احمد خان پر سبقت لے گئے ہیں ".-A
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 231 خلافت ثانیہ کا سترھواں سال فصل ششم ایک جرمن سیاح مسٹر فریڈرک جو چین ایک جرمن سیاح قادیان میں FRIEDRICH WAGER CHEM NITZ ولداخ کے راستہ سے ہندوستان آیا تھا ۲۹ نومبر ۱۹۳۰ء کو وارد قادیان ہوا اور قریب دو ماہ تک مقیم رہا.مسٹر فریڈرک قادیان کے ماحول سے بہت متاثر ہوا اور اس نے اپنے تاثرات ریویو آف ریلیجز (انگریزی) میں شائع کرائے جن کا خلاصہ درج ذیل کیا جاتا ہے سیاح مذکور نے لکھا:- قادیان میں قیام :- میرا ارادہ چند گھنٹے یا زیادہ سے زیادہ ایک دن قادیان میں ٹھہرنے کا تھا لیکن باوجودیکہ جب میں یہاں آیا تو میری ظاہری حالت بالکل معمولی تھی اور لمبے سفر کی وجہ سے بالکل ختہ ہو رہا تھا.یہاں بڑی گرم جوشی کے ساتھ میرا خیر مقدم کیا گیا جو بہترین قیامگاہ اس وقت میسر تھی وہ میرے لئے تجویز کی گئی.اور جلدی ہی مجھے کم از کم ایک ہفتہ ٹھرنے کی دوستانہ دعوت دی گئی اس وجہ سے مجھے اپنا پروگرام منسوخ کر کے یہاں ایک ہفتہ ٹھہرنا پڑا.بعد میں متواتر اصرار پر مجھے اپنا قیام اس قدر لمبا کرنا.پڑا.کہ میں یہاں قریباً سات ہفتہ ٹھرا.اس طرح مجھے جماعت احمدیہ کا سالانہ جلسہ دیکھنے کا بھی موقع مل گیا.جس میں ملک کے ہر حصہ سے لوگ شامل ہوتے ہیں.اس جلسہ سے متعلق میں نہایت اعلیٰ رائے رکھتا ہوں عیسائی محققین اور قادیان:- یقیناً بہت سے عیسائی ایسے ہیں جو اسلام سے متعلق معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں اس کے دو ہی طریق ہیں ایک تو یہ کہ کتابوں کا مطالعہ کیا جائے اور دو سرے یہ کہ اسلامی ممالک میں رہائش اختیار کی جائے کتابوں سے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ بہت سی کتابیں ایسی ہیں جو اسلام سے متعلق غلط خیالات پیش کرتی ہیں جماعت احمدیہ کا ایک بہت بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ اس نے ایسی غلط بیانیوں کی تصحیح کی ہے اور اسلام سے متعلق صحیح اور مستند معلومات کا ذخیرہ فراہم کر دیا ہے جو لوگ اسلامی ممالک میں نہیں جاسکتے.انہیں چاہئے کہ جماعت احمدیہ کا مہیا کر وہ لڑیچر پڑھیں اسلامی ممالک میں جانے والوں کے لئے ایک بڑی وقت یہ ہے کہ انہیں اس ملک کی زبان سیکھنی پڑتی ہے لیکن ہر ایک نہیں کر سکتا.اب یہ وقت رفع ہو گئی ہے ایسے جو یان حق اگر قادیان جائیں تو انہیں وہاں متعدد ایسے لوگ ملیں گے جو نہایت فصیح انگریزی جانتے ہیں.اور کئی ایک ایسے مشنری وہاں ہیں جو یورپ
تاریخ احمدیت جلده 232 خلافت ثانیہ کا مترھواں سال کے مختلف ممالک اور امریکہ سے واپس آئے ہوئے ہیں اور عیسائی ممالک کے حالات کا تجربہ رکھتے ہیں.قادیان میں جانے والے ہر شخص کو وہاں کئی لوگ ایسے ملیں گے جن سے وہ با آسانی تبادلہ خیالات کر سکتا ہے.قادیان کی فضاء :- قادیان کی فضاء مادی دنیا سے بالکل مختلف اور خالص روحانی ہے یہاں مذہبی خیالات کا چرچا رہتا ہے یہاں رہنے سے انسان کے اندر ایسی طاقت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ روز مرہ کی زندگی میں مادیات کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکتا ہے یہ روح اور جسم دونوں کے لئے امن اور تازگی و آسودگی کا مرکز ہے جائے وقوع بھی ایسی ہے جو مادی لحاظ سے بہت اچھی ہے یہاں شاید ایک آدھ ہی موٹر کار نظر آئے گی ریلوے سٹیشن بھی فاصلہ پر ہے موجودہ زمانے کی ایجادیں یہاں کی زندگی کو پریشان نہیں کرتیں.قادیان مختلف ممالک کے لوگوں کا مرکز ہے اور اس لئے یہاں مختلف خیالات اور علوم سے تعلق رکھنے والے لوگ جمع ہیں.جو شخص یہاں کوشش کرے کچھ حاصل کرنا چاہے وہ اطمینان قلب سے حاصل کر سکتا ہے.اور ایسا جوں جوں تلاش کرے گا.اسے یہاں کبھی نہ ختم ہونے والے نئے نئے خزانے حاصل ہوتے جائیں گے.قادیان سے کیا حاصل ہوا :- یہاں میں نے ہر قسم کی گفتگو کی.اور مختلف کتب کا مطالعہ کیا جن میں ٹیچنگس آف اسلام کا اثر میرے قلب پر بہت گہرا ہے اس طرح اسلام کے متعلق میرے علم میں بیش بہا اضافہ ہوا.اور قرآن پاک و رسول کریم ال سے متعلق جو غلط فہمیاں یورپین تصنیفات کے مطالعہ سے پیدا ہو گئی تھیں.وہ رفع ہو گئیں.اسلام کی سادگی مجھ پر زیادہ سے زیادہ واضح ہو گئی.میری دلی خواہش ہے کہ یورپ اور امریکہ کے لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ اسلام میں کتنی اعلیٰ خوبیاں ہیں.تا عیسائی ممالک آہستہ آہستہ انہیں قبول کر سکیں.اسلامی تعلیم اس قدر سادہ ہے کہ معمولی سمجھ کا آدمی بھی اسے نہایت آسانی سے سمجھ سکتا ہے عیسائیت اسلام سے بہت کچھ حاصل کر سکتی ہے اسلام اور عیسائیت دونوں ایک دوسرے سے بہت کچھ لے سکتے ہیں اور اس طرح ایک دوسرے کے قریب ہو سکتے ہیں یہ فضول بات ہے کہ ہم دوسرے مذاہب کے تاریک پہلو ہی زیر نظر ر کھیں ہمیں چاہئے کہ خوبیوں کو بھی دیکھیں بلکہ انہیں قبول کریں.اس طرح تو حید کے متعلق ہمارا عقیدہ کامل ہو سکتا ہے اور خدائے واحد و قادر مطلق پر ایمان بڑھ سکتا ہے مجھے یقین ہے کہ احمدیت کے مقدس بانی کو خداتعالی کی طرف سے الہامات ہوتے تھے اور میں ایمان رکھتا ہوں کہ خدا تعالی اپنے نیک بندوں سے ہمکلام ہوتا ہے جس کے کئی ایک مقاصد میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مختلف مذاہب میں جو اختلاف ہے وہ کم ہو جائے.
تاریخ احمدیت جلد ۵ 233 خلافت ثانیہ کا سترھواں سال رواداری: مجھے یہ دیکھ کر بے انتہاء مسرت ہوئی کہ قادیان میں غیر مذاہب والوں سے بہت اچھا سلوک کیا جاتا ہے حضرت خلیفۃ ا صحیح امام جماعت احمدیہ نے اپنی بے انتہاء مصروفیتوں کے باوجود مجھے کئی بار باریابی کا موقع عطا فرمایا.اور ایک دفعہ فرمایا.احمدیوں کو دیگر مذاہب کے لوگوں سے متعلق رواداری کی بھی تلقین کی جاتی ہے مجھے یقین ہے کہ جماعت احمدیہ کا دیگر مذاہب کے ساتھ حسن سلوک پرانے مذہبی تعصبات کو نیست و نابود کرنے میں بہت محمد ہو گا.اور مجھے اس تصور سے بے انتہا مسرت ہوتی ہے کہ اس سے آخر کار مختلف مذاہب میں اختلافات کم ہو جائیں گے.میں قادیان میں ایک عیسائی کی طرح رہا.اور کبھی اسے چھپایا نہیں.لیکن باوجود اس کے مجھ سے بہترین سلوک کیا گیا.قادیان جانیوالوں کو مشورہ: جس شخص کو قادیان جانے کا اتفاق ہو میں اسے مشورہ دوں گا کہ وہ وہاں کچھ عرصہ ٹھہرے کیونکہ کچھ عرصہ ٹھرنے پر ہی قادیان کی حقیقی سپرٹ انسان پر ظاہر ہونا شروع ہوتی ہے.لیکن جو شخص ایک آدھ دن ٹھہر کر چلا جائے اسے وہاں کوئی دلچسپی نظر نہ آئے گی قادیان دہلی، آگرہ کی طرح شاندار عمارات کا مجموعہ نہیں لیکن ایک ایسی جگہ ہے جس کے روحانی خزانے کبھی ختم نہیں ہوتے.یہاں ہر دن جو گزارا جائے انسان کی روحانیت میں اضافہ کرتا ہے اور بہت ہی کم لوگ ایسے ہوں گے جو قادیان سے خالی ہاتھ واپس گئے ہوں لیکن وہاں سے جو کچھ حاصل ہو تا ہے اس کی قیمت کا اندازہ سکوں میں نہیں ہو سکتا بلکہ یہ بہت ہی زیادہ قیمتی بلکہ انمول چیز ہے.میں نے ایشیا میں ایک لمبا سفر کیا ہے.اور بہت مقامات دیکھتے ہیں ان میں سے بعض ایسے ہیں جنہیں دوبارہ دیکھنے کی خواہش نہیں.بعض ایسے ہیں جنھیں پھر دیکھنے کو دل چاہتا ہے اور ایسے مقامات میں قادیان کا نمبر سب سے اول ہے اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ قادیان نے مجھے کیا کچھ دیا ہے.اور یہ ایک وزیٹر (زائر) کو دے سکتی ہے آخر میں میں ان تمام احباب کا دلی شکریہ ادا کرتا ہوں جن کی مہربانی سے قادیان کا قیام میری زندگی کا ایک یادگار اور ناقابل فراموش واقعہ بن گیا ہے.اگست ۱۹۳۱ء کے ریویو میں مسٹر عبداللہ آرسکاٹ نے قادیان کے متعلق اپنے تاثرات شائع کرائے ہیں جن کے حرف حرف سے مجھے اتفاق ہے فرق اتنا ہے کہ انہوں نے ایک مسلمان کی حیثیت سے یہ رائے قائم کی ہے اور میں عیسائی ہونے کی حالت میں یہ سطور لکھ رہا ہوں.احمدیت کا ذکر انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا میں مغربی دنیا میں انسائکلو پیڈیا برٹینیکا کو جدید علوم اور سائنسی ترقی کا ایک معیاری نقطہ سمجھا جاتا ہے.اے ۱۷ء میں یہ پہلی بار ایڈنبرا سکاٹ لینڈ) سے تین جلدوں میں شائع ہوا.دوسرا ایڈیشن تقریباً پانچ برس کے بعد چھپا جو دس (۱۰) جلدوں پر مشتمل تھا.اس کے بعد اس کے نئے سے نئے ایڈیشن مزید
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 234 خلافت کاشیہ کاسترھواں سال اضافوں کے ساتھ نکلنے لگے ۲۹-۱۹۳۰ ء میں اس کا چودھواں ایڈیشن بیک وقت لندن اور نیو یارک سے منظر عام پر آیا.جس میں جدید ترین نشود نما " RECENT DEVELPMENTS) کے ذیلی عنوان کے تحت احمدیت کا ذکر کیا گیا.یہ پہلا موقع تھا جبکہ اس سلسلہ تالیف کے ذریعہ دنیا کو سلسلہ احمدیہ سے روشناس کرانے کی سنجیدہ کوشش کی گئی یہ مضمون نامور مستشرق پروفیسر سر تھامس والکر آرنلڈ (SIR THOMES WALKER ARNALD) کے قلم سے نکلا جو نو برس تک سرسید کے زمانہ میں ایم اے او کالج علی گڑھ میں پروفیسر کے منصب پر فائز رہے اور یہیں مشہور عالم کتاب دعوت اسلام ("The Preaching Of Islam) لکھی جسے مسلم دنیا میں بہت مقبولیت حاصل ہوئی.سر تھامس آرنلڈ کا انتقال 9 جون ۱۹۳۰ء کو ہوا.ذیل میں ان کے احمدیت سے متعلق نوٹ کا متن اور اردو ترجمہ دیا جاتا ہے.یہ ترجمہ رسالہ ریویو آف ریلیجہ اردو قادیان نے اگست ۱۹۳۳ء کے شمارہ " میں ایک مختصر تعارفی نوٹ کے ساتھ سپر د اشاعت کیا تھا :-
خلافت ثانید کاسترھواں سال 235 RECENT DEVELOPMENTS تاریخ احمد بیت - جلد ۵ In modern times the most important sectarian developments have beem those of the Wahhabis (qv), the Babis (qv) and the Ahmadiyya The last of these movements was started by Mirza Ghulam Ahmad, who in 1879, began to preach in the village of Qadian in the province of the Punjah, India, He claimed to be not only the Mahdi but also the promised Messiah personages generally held to be distinct in ordinary Muslim the ology.Another modification he introduced into Islamic doctrine had reference to the death of Jesus; the commonly accepted belief maintains that Jesus was taken by God alive into heaven, while a phantom was crucified in his places in opposition to this he declared that Jesus was actually crucified, but was taken down from the cross while still alive by his disciples, was healed of his wounds and afterwards made his way into Kashmir, where he finally died, his tomb being still in existence in the city of Srinagar.Having thus removed the ground for any expectation of the second coming of Jesus from haven to earth, he explained that he himself was the Messiah, not as being an Incarnation of Jesus for he rejected the doctrine of Transmigration, but as having come in the likeness of Jesus being Jesus for this generation just as John the Baptist was Elijah, because he came in the spirit and power of Elijah In proff that he had come in the spirit and power of Jesus, Mirza Ghulam Ahmad adduced the likeness of his own character and personality to that of Jesus, his gentlencess of spirit, the peaceful character of his teaching, his miracles and the appropriateness of his teaching to the need of the age in harmony with this pacific claim, he expounded the doctrine of Jihad (usually interpreted as meaning war against unbelievers as a striving after righteousness Mirza Ghulam Ahmad died in 1908 and a few years after his death his followers split into two parties, one having its headquarters in Qadian and the other in Lahore Both these sections of the community succeeded in enlisting the services of devoted, self-sacrificing men, who are unceasingly active as propagandists, controversialists and pamphleteers.They control an extensive missionary activity, not only in India, West Africa, Mauritius and Java (where their efforts are mainly directed towards persuading their on religionists to join the Ahmadiyya sect), but also in Berlin, Chicago and London.Their missionaries have devoted special efforts to winning European converts and have devoted a considerable measure of success.In their literature they give such a presentation of Islam as they consider calculated to attract persons who have received an education on modern lines, and thus not only attract, non-Muslims, and rebut the attacks made on Islam by Christain controversialists, but win back to the faith Muslims who have come under agnostic or rationalist influences.The Encyclopaedia Britannica 14th Edition (192930) Vol 12 P.711.712
تاریخ احمدیت.جلد ۵ " 236 تازه ارتقاء خلافت ثانیہ کا سترھواں سال دور جدید میں سب سے اہم فرقہ وارانہ نشود ارتقاء وہابیوں، بابیوں اور احمدیوں کا ہے موخر الذکر تحریک کے بانی مرزا غلام احمد ہیں جنہوں نے ۱۸۷۹ء میں قادیان کی بستی سے جو صوبہ پنجاب ہندوستان میں واقع ہے.دعوت وارشاد کا سلسلہ شروع کیا.یه دو آپ کا دعویٰ نہ صرف مہدی موعود کا تھا بلکہ آپ مسیح موعود ہونے کے بھی مدعی تھے.حالانکہ شخصیتیں اسلام کے رواجی علم کلام میں بالعموم جداگانہ اور مختلف قرار دی گئی ہیں، ایک اور اصلاح جو آپ نے اسلامیوں کے عقائد کی کی وہ یسوع مسیح کی وفات سے متعلق ہے.مسلمانوں کا عام اعتقاد یہ ہے کہ مسیح زندہ آسمان پر اٹھالئے گئے اور ان کی جگہ ان کا ایک شبیہ صلیب پر لٹکایا گیا.اس کے برعکس آپ نے یہ بتلایا کہ فی الحقیقت مسیح ہی صلیب پر چڑھائے گئے لیکن ابھی زندہ ہی تھے کہ ان کے پیروان نے انہیں صلیب سے اتار لیا، رفتہ رفتہ ان کے زخم مندمل ہو گئے ، پھر انہوں نے کشمیر کا رخ کیا جہاں انجام کار وہ فوت ہو گئے اور ان کا مزار ابھی تک شہر سری نگر کشمیر میں موجود ہے اس طریق سے آپ نے آسمان سے یسوع مسیح کی آمد ثانی کی امید کو منقطع کرتے ہوئے یہ بتلایا کہ آپ خود ہی وہ مسیح ہیں.یعنی یہ نہیں کہ مسیح آپ میں حلول کر آیا تھا کیونکہ آپ مسئلہ تناسخ کے قائل نہیں تھے.بلکہ آپ یسوع مسیح کے مثیل بنکر آئے اور آپ موجودہ نسل کے لئے بالکل اسی طرح یسوع مسیح تھے جس طرح ایلیا کی جگہ پر یوحنا تھا، کیونکہ وہ یوحنا کی خوبو اور قومی لیکر ظاہر ہوا تھا.اس امر کے ثبوت میں کہ آپ یسوع مسیح کی خوبو اور قومی لیکر مبعوث ہوئے آپ نے اپنے خلق کی علیمی ، اپنی تعلیمات کی امن پسندانہ روش اور حاضر الوقت ضروریات سے مناسبت اور اپنے معجزات کے ذریعہ یسوع مسیح سے اپنی شخصیت اور کیریکٹر کی مماثلت کو ثابت کیا.مسئلہ جہاد کی جسے عام طور پر کفار سے جنگ کے معانی میں استعمال کیا جاتا تھا.اپنے امن پسندانہ دعوی کی مطابقت میں آپ نے یہ تشریح کی کہ سب سے بڑھ کر اس سے مراد زہد و اتقا کی جد وجہد ہے.مرزا غلام احمد کا انتقال ۱۹۰۸ ء میں ہوا.اور آپ کی وفات سے چند ہی برس بعد آپ کے متبعین دو گروہوں میں منقسم ہو گئے ، جن میں سے ایک کا صدر مقام قادیان ہے اور دو سرے کا لاہور.اس سلسلہ کے ہر دو فریق ایسے مخلص اور ایثار پیشہ افراد کی خدمات حاصل کرنے میں کامیاب ہیں جو غیر مختتم طور پر بحیثیت مبلغ مناظر اور ناشر کے پوری مستعدی سے سرگرم عمل ہیں، وہ دعوت و تبلیغ کی ایک ایسی وسیع جد و جہد پر ضبط قائم کئے ہوئے ہیں جو نہ صرف ہندوستان مغربی افریقہ ماریشس اور جادا (جہاں ان کی مساعی زیادہ تر اپنے ہم نے ہبوں کو سلسلہ احمدیہ میں داخل کرنے میں صرف ہو رہی ہیں) بلکہ برلن، شکاگو اور لنڈن تک بھی پھیلی ہوئی ہے.یہاں ان کے مبلغین نے خاص مساعی یوروپین
تاریخ احمدیت جلد ۵ 237 خلافت ثانیہ کا سترھواں سال لوگوں کو دائرہ اسلام میں داخل کرنے میں صرف کی ہیں اور اس معاملہ میں وہ بہت حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں.انہوں نے اپنے لٹریچر میں اسلام کو اسی طریق سے پیش کیا ہے جو ان کے نزدیک ایسے لوگوں کو بھی اپنی طرف جذب کر سکے گا.جنہوں نے جدید اند از پر تعلیم حاصل کی ہے.اور اس طرح نہ صرف یہ کہ غیر مسلموں کو ان کی طرف کشش ہوگی اور اسلام کے عیسائی مخالفین کے حملوں کا رد ہو سکے گا بلکہ ان مسلمانوں کو بھی واپس اسلام میں لایا جا سکے گا جو دہریت یا طبعیت کے اثرات سے متاثر ہو چکے ہیں".حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کی بیعت حضرت صاجزادہ مرزا سلطان احمد صاحب جنہوں نے ۱۹۲۸ء میں اعلان احمدیت کیا تھا اس سال دسمبر ۱۹۳۰ء میں اپنی آخری بیماری کے دوران جبکہ آپ صاحب فراش ہو چکے تھے.اپنے چھوٹے بھائی حضرت امیر المومنین میرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ المسیح ایدہ اللہ تعالٰی الودود کے دست مبارک پر بیعت کرلی.اور اس طرح سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مصلح موعود سے متعلق یہ عظیم الشان پیشگوئی کہ وہ تین کو چار کرنیوالا ہو گا غیر معمولی حالات اور فوق العادت رنگ میں پوری ہو گئی.فالحمد لله حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب اس واقعہ سے متعلق لکھتے ہیں کہ ” میں جناب مرزا سلطان احمد صاحب کی خدمت میں حاضر ہو تا رہتا تھا اور کبھی کبھی سلسلہ احمدیہ کا ذکر بھی ہو جاتا تھا آخر اللہ تعالی اپنے فضل سے وہ دن بھی لے آیا کہ مرزا صاحب موصوف کے اہل بیت کی طرف سے خاکسار کو بلایا گیا.تا حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کر کے حضور کو یہاں لے آؤں.تا حضور بیعت لے لیں.میں نے حضرت امیر المومنین خلیفہ اصیح ایدہ اللہ تعالی کی خدمت مبارک میں حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے ہاں تشریف لے چلنے اور ان سے بیعت لے لینے کے لئے عرض کیا.حضور اسی وقت اٹھ کھڑے ہوئے.حضور ایدہ اللہ تعالی مرزا سلطان احمد صاحب کی چارپائی کے قریب کرسی پر بیٹھ گئے.تو میں نے دیکھا.کہ دونوں بھائیوں پر خاموشی طاری ہے اور ایسا معلوم ہو تا تھا کہ دونوں کے دل شرم و حیا سے لبریز ہیں.آخر کچھ توقف کے بعد خاکسار نے مرزا صاحب موصوف کا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ جب آپ بیعت کی خواہش ظاہر فرما چکے ہیں تو اپنا ہاتھ بڑھا ئیں اور بیعت کر لیں چنانچہ انہوں نے ہاتھ بڑھایا اور بیعت شروع ہو گئی.حضرت خلیفتہ امسیح دھیمی آواز سے بیعت کے الفاظ فرماتے اور مرزا سلطان احمد صاحب ان کو دہراتے جاتے تھے جس وقت یہ الفاظ فرمائے گئے کہ آج میں محمود کے ہاتھ پر اپنے تمام گناہوں سے تو بہ کر کے احمدی جماعت میں داخل ہو تا ہوں.تو میرے قلب کی عجیب کیفیت ہو گئی.
تاریخ احمدیت جلد ۵ 238 خلافت ثانیہ کا سترھواں اللہ تعالی کی قدرت کا عجیب نظارہ آنکھوں کے سامنے آگیا.کہ ایک چھوٹے بھائی کو جو بڑے بھائی سے عمر میں بہت چھوٹا ہے بلکہ اس کی اولاد کے برابر ہے.خدا تعالٰی نے وہ مرتبہ دیا ہے کہ وہ آج اپنے بڑے بھائی سے یہ الفاظ کہلوا رہا ہے کہ آج میں محمود کے ہاتھ پر اپنے تمام گناہوں سے توبہ کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو تا ہوں پھر اس کے بعد یہ الفاظ بھی دہرائے گئے.کہ آئندہ بھی ہر قسم کے گناہوں سے بچنے کی کوشش کروں گا شرک نہیں کروں گا.دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا.اور جو نیک کام آپ بتا ئیں گے ان میں آپ کی فرمانبرداری کروں گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تمام دعووں پر ایمان رکھوں گا.بیعت کے تمام الفاظ ختم ہو جانے پر حسب معمول حضور نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے حضرت مرزا سلطان احمد صاحب اور دیگر حاضرین نے بھی ہاتھ اٹھا کر دعا میں شمولیت کی.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام ہے لا نبقى لك من المخزيات ذكر ا یعنی ہم تمہارے متعلق ایسی تمام باتوں کو جو شرمندگی یا رسوائی کا موجب ہو سکیں مٹادیں گے.اللہ تعالٰی نے حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کو بیعت خلافت کی توفیق دے کر اپنا یہ وعدہ غیر معمولی رنگ میں پورا فرما دیا.چنانچہ سید نا حضرت امیرالمومنین فرماتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق جو اعتراض کئے جاتے تھے.ان میں سے ایک اہم اعتراض یہ بھی تھا کہ آپ کے رشتہ دار آپ کا انکار کرتے ہیں اور پھر خصوصیت سے یہ اعتراض کیا جاتا تھا کہ آپ کا ایک لڑکا آپ کی بیعت میں شامل نہیں یہ اعتراض اس کثرت سے کیا جاتا تھا کہ جن لوگوں کے دلوں میں سلسلہ کا درد تھا وہ اس کی تکلیف محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتے تھے.میں دوسروں کا تو نہیں کہہ سکتا لیکن اپنی نسبت میں کہہ سکتا ہوں کہ میں نے متواتر اور اس کثرت سے اس امر میں اللہ تعالٰی سے دعائیں کیں کہ میں کہہ سکتا ہوں بغیر ذرہ بھر مبالغہ کے بیسیوں دفعہ میری سجدہ گاہ آنسوؤں سے تر ہو گئی اس وجہ سے نہیں کہ جس شخص کے متعلق اعتراض کیا جاتا تھا وہ میرا بھائی تھا بلکہ اس وجہ ے کہ جس شخص کے متعلق اعتراض کیا جاتا تھا وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بیٹا تھا اور اس وجہ سے بھی کہ یہ اعتراض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر پڑتا تھا میں نے ہزاروں دفعہ اللہ تعالی سے دعا کی اور آخر اللہ تعالیٰ نے اس کا نتیجہ یہ دکھایا کہ مرزا سلطان احمد صاحب جو ہماری دو سری والدہ سے بڑے بھائی تھے.اور جن کے متعلق حضرت خلیفتہ المسیح اول رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد عام طور پر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ ان کے لئے اب احمدیت میں داخل ہو نا نا ممکن ہے احمدی ہو گئے ان کا احمدی ہونا نا ممکن اس لئے کہا جاتا تھا کہ جس شخص نے اپنے باپ کے زمانہ میں بیعت نہ کی ہو.اور پھر ایسے شخص کے زمانہ میں بھی بیعت نہ کی ہو جس کا ادب اور احترام اس کے دل میں موجود ہو اس کے
تاریخ احمدیت.جلد نه 239 خلافت عثمانیہ کا سترھواں سال متعلق یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ کسی وقت اپنے چھوٹے بھائی کے ہاتھ پر بیعت کرلے گا لیکن کتنا زبر دست اور کتنی عظیم الشان طاقتوں اور قدرتوں والا دہ خدا ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے مدتوں پہلے فرما دیا تھا ولا نبقى لك من المخزيات ذکر ا یعنی ہم تیرے اوپر جو اعتراض کئے جاتے ہیں ان کا نشان بھی نہیں رہنے دیں گے بلکہ سب کو مٹا دیں گے - 2 جلیل القدر صحابہ کا انتقال - حکیم چراغ علی صاحب ( تاریخ وفات ۱۹ اپریل ۱۹۳۰ء) - مولوی عبد الصمد صاحب انصاری مهاجر پٹیالوی - 1 HA- حضرت مولوی قاضی سید امیر حسین صاحب ( تاریخ وفات ۲۴ اگست ۱۹۳۰ء) ڈاکٹر عباداللہ صاحب امرتسری ( تاریخ وفات ۲۷ ستمبر ۱۹۳۰ء) میاں جیون بٹ صاحب امرت سری ( تاریخ وفات ۱۸ ستمبر ۱۹۳۰ء) حضرت مولوی حافظ سید علی میاں صاحب شاہجہانپوری ( تاریخ وفات ۱۲ اکتوبر ۱۹۳۰ء) حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب رئیس حاجی پورہ ریاست کپور تھلہ ( تاریخ وفات یکم دسمبر ۱۹۳۰ء)
تاریخ احمدیت جلد ۵ 240 خلافت ثانیہ کا سترھواں سال فصل ہفتم ۱۹۳۰ء کے متفرق و اہم واقعات خاندان مسیح موعود میں ترقی ۱۷ اکتوبر ۱۹۳۰ء کو حضرت خلیفہ الحی ایدہ اللہ بصرہ العزیز کے حرم اول کے ہاں مرزا اظہر احمد صاحب پیدا ہوئے.۲۰ فروری ۱۹۳۰ء کو صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی نواسی صبیحہ بیگم صاحبہ پیدا ہو ئیں (جو بعد کو مرزا انور احمد صاحب کے عقد میں آئیں) حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کے ہاں ۲۰ دسمبر ۱۹۳۰ء کو ایک فرزند کی ولادت ہوئی.مشہور مسلم لیڈر مولانا شوکت علی خان صاحب ۳ شوکت علی خان صاحب قادیان میں جنوری ۱۹۳۰ء کو قادیان تشریف لائے.اور حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ العزیز سے ملاقات کی.اس سلسلہ میں اخبار آفتاب (بمبئی) نے ۲۴ فروری ۱۹۳۰ء کو ایک اخبار کے حوالہ سے مندرجہ ذیل خبر شائع کی.”مولانا شوکت علی پچھلے دنوں قادیان تشریف لے گئے اور مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ قادیان کے ہاں فروکش ہوئے.خلوت میں آپ نے خلیفہ صاحب سے دست بستہ عرض کی کہ میں آپ کی دعاؤں کا محتاج ہوں فی الحال میں آپ کی تبلیغ علی الاعلان نہیں کر سکتا.کیونکہ اس طور پر مسلمان مجھ سے ایک دم بد ظن ہو جا ئیں گے انشاء اللہ موقعہ ملنے پر ہر ممکن طریق سے احمدیت ( قادیانیت) کی اشاعت کروں گا“ اس خبر سے اندازہ لگ سکتا ہے کہ مخالفین احمدیت ان دنوں کس طرح غلط بیانیوں سے کام لے رہے تھے یہ خبر "زمیندار" نے بھی شائع کی تھی جس کی تردید ۲۵ فروری ۱۹۳۰ء کے "زمیندار" میں خود مولانا شوکت علی صاحب نے شائع کر دی تھی.امنہ الی لائبریری" فروری ۱۹۳۰ء میں قائم ہوئی گول کمرہ امتہ الحی لائبریری کا اجراء میں اس کا باقاعدہ افتتاح ہوا.[BA] حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ حضرت مرز ا عزیز احمد صاحب کا دوسرا نکاح العزیز نے ۲ فروری ۱۹۳۰ء کو مسجد اقصیٰ
تاریخ احمدیت جلد ۵ 241 خلافت ثانیہ کا سترھواں سال میں بعد نماز عصر مرزا عزیز احمد صاحب خلف اکبر حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کا دوسرا نکاح سیده نصیرہ بیگم صاحبہ (بنت حضرت مولانا میر محمد اسحق صاحب) سے پڑھا.اور نہایت لطیف خطبہ نکاح ارشاد فرمایا.ریز روفنڈ میں نمایاں حصہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی طرف سے " ریز روفنڈ" کی جو اہم تحریک جاری تھی اس کے قیام میں جن اصحاب نے سب زیادہ حصہ لیا ان میں سر فہرست محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب تھے چنانچہ حضرت خلیفۃ ا ایدہ اللہ تعالٰی نے مجلس مشاورت ۱۹۳۰ ء میں فرمایا :- "دراصل لوگوں نے اس فنڈ کے جمع کرنے میں بہت کم توجہ کی ہے.اگر پانچ پانچ روپے بھی دوست ماہوار جمع کرنے کی کوشش کرتے تو بہت کچھ جمع کر سکتے تھے بعض نے تو کہا تھا کہ وہ لاکھ لاکھ جمع کر سکتے ہیں مگر نہ معلوم انہوں نے کیوں نہ کیا.اگر دوست اس طرف توجہ کریں تو ۲۵ لاکھ کا جمع ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں اور اس سے بہت کافی آمدنی ہو سکتی ہے اس وقت تک ریز رو فنڈ کا زیادہ حصہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے جمع کیا ہے اور انہوں نے ایک معقول رقم جمع کی ہے بڑی رقموں کے لحاظ سے چوہدری صاحب کی رقم بہت بڑی رقم ہے.انگلستان کے ایک مقتدر رسالہ نے جنوری ۱۹۳۰ء کے ایشوع میں انگلستان مشن کا احتجاج آنحضرت ا اللہ اور حضرت عائشہ صدیقہ کا ذکر نهایت ناشائستہ الفاظ میں کیا تھا.خانصاحب مولوی فرزند علی صاحب نے اس کا علم ہونے پر ایک طرف ایڈیٹر کو اور دو سری طرف وزیر ہند کو توجہ دلائی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایڈیٹر رسالہ کو معافی مانگنا پڑی اور حکومت ہند نے اس رسالہ کا داخلہ ملک میں ممنوع قرار دے دیا - 121 (1) حکیم فضل الرحمان مبلغین احمدیت کی بیرونی ممالک کو روانگی اور واپسی مبلغ افریقہ ۲۷ صاحب جنوری ۱۹۳۰ء کو واپس قادیان تشریف لائے.(۲) مولوی رحمت علی صاحب (دوسری بار) اور مولوی محمد صادق صاحب ( پہلی بار) تبلیغ اسلام کی م غرض سے ۶ نومبر ۱۹۳۰ء کو قادیان سے روانہ ہوئے حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ انہیں الوداع کہنے کے لئے خود ریلوے سٹیشن پر تشریف لے گئے اور دعاؤں کے ساتھ ان مجاہدوں کو رخصت کیا.
تاریخ احمدیت جلده 242 خلافت ثانیہ کا سترھواں سال قاہرہ سے اخبار ”اسلامی دنیا کا اجراء اس سال جناب شیخ محمود احمد صاحب عمرفانی نے قاہرہ میں آنریری مبلغ کے فرائض انجام دینے کے علاوہ اسلامی دنیا کے نام سے ایک اخبار جاری کیا مسلمانوں کا باہمی تعارف اور انہیں ان کے مصائب ملی سے آگاہ کر کے اتحاد کی دعوت اس اخبار کی پالیسی تھی.اس کے دو ایڈیشن نکلتے تھے ایک اردو میں دوسرا عربی میں.10 یہ اخبار مصور تھا اور اردو دنیا میں اسلامی دنیا کی خبریں نہایت شرح و بسط سے شائع ہوتی تھیں.افسوس ہے کہ بعض ناگزیر مجبوریوں نے یہ اخبار زیادہ عرصہ تک جاری نہ رہنے دیا.اور اس کی اشاعت بند ہو گئی اور جناب عرفانی صاحب قاہرہ سے قادیان آگئے.احمدی مشن ایک حیدر آبادی سیاح کی نظر میں میرزا سلیم بیگ صاحب سیاح بلاد اسلامیہ حیدر آباد دکن اس زمانہ میں سیاحت کر رہے تھے میرزا صاحب کو مصر اور دوسرے احمدی مشنوں کو قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا.چنانچہ وہ لکھتے ہیں دوسری مرتبہ ۱۹۳۰ء میں قاہرہ جانے کا اتفاق ہوا اور یہ میری خوش نصیبی تھی کہ عرفانی صاحب موجود تھے.اور ان کا مشن نہایت کامیابی سے اپنے کام میں لگا ہوا تھا...اور مجھے مشن کی کارگزاری پر مشن کے رسوخ پر مبلغ کے خلوص پر غور کرنے کا بہت زیادہ موقع ملا.میں ان تاثرات کو لئے ہوئے فلسطین، شام، استنبول اور برلن وغیرہ گیا جہاں مجھے جماعت احمدیہ کی تنظیم اور کوششوں کا ثبوت ملتا گیا مجھے حقیقتاً نهایت صدق دل سے اس کا اعتراف ہے کہ میں نے ہر جگہ جماعت احمدیہ کے مبلغوں کی کوششوں کے نقوش دیکھے ہر جگہ اسلامی روایات کے ساتھ تنظیم دیکھی ہر جگہ اس جماعت میں خلوص اور نیک نیتی پائی جماعت احمدیہ میں سب سے بڑی خوبی اتحاد عمل اور امام جماعت احمدیہ کے احکام کی پابندی ہے اس کے اراکین کہیں اور کسی حال میں شعار اسلام اور احکام اسلام کو نظر انداز نہیں کرتے.اور نہ اپنی اصل غرض سے اور فرض سے انجان ہوتے ہیں.تقریروں، تحریروں یا ملاقاتوں میں ان کا نقطہ نظر موجود ہوتا ہے.اور وہ اشارہ کنا تہ اپنا کام کئے جاتے ہیں محنت برداشت کرتے ہیں غیر مانوس اور غیر مشرب لوگوں میں رسوخ پیدا کر کے اپنے فرائض کی تکمیل کرتے ہیں.سیٹھ ابو بکر صاحب سماٹری کی طرف سے الوداعی تقریب سیٹھ ابوبکر صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ سماٹرا جو ۱۹ اکتوبر ۱۹۲۹ء کو مولوی رحمت علی صاحب مبلغ سماٹرا کے ہمراہ آئے 1 جنوری ۱۹۳۰ء کو کاٹرا روانہ ہوئے اور ۳۰ جنوری ۱۹۳۰ء کو پاڑانگ پہنچے روانگی سے ایک دن قبل انہوں نے قصر خلافت میں ایک سو اصحاب کو چائے کی دعوت دی جس میں سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح نے بھی شرکت
تاریخ احمدیت جلد ۵ 243 خلافت ثانیہ کا سترھواں سال فرمائی.سیٹھ صاحب نے ملائی زبان میں تقریر کی قادیان اور خلافت کی روحانی برکات اور احمدیوں کی اخوت اسلامی کا ذکر کرتے ہوئے ان پر بار بار رقت طاری ہو جاتی اور آنکھیں اشکبار ہو جاتیں.سیٹھ صاحب کی تقریر کے بعد مولوی رحمت علی صاحب نے اس کا ترجمہ کیا.پھر حضرت امیرالمومنین نے بھی خطاب فرمایا اور بتایا کہ سیٹھ صاحب نے گو اجنبی زبان میں تقریر کی مگر ان کی حالت اس قدر موثر تھی کہ بے اختیار دل کھنچا جاتا تھا چنانچہ فرمایا :- گو مولوی رحمت علی صاحب نے ان کی تقریر کا ترجمہ کر دیا ہے مگر میں سمجھتا ہوں اس ترجمہ سے بہت زیادہ قیمتی تھی وہ آواز وہ لہجہ اور وہ تاثر جو ابو بکر صاحب کے چہرہ سے ظاہر ہو رہا تھا اور جو یادگار کے طور پر قائم رہیں گے اور ہم کہہ سکتے ہیں ہمارے ایمان میں ان کی وجہ سے اسی طرح زیادتی ہوئی ہے جس طرح ان کے ایمان میں قادیان آنے کی وجہ سے ہوئی ہے".آخر میں فرمایا :- " میں اپنے کل جانے والے بھائی کے لئے دعا کرتا ہوں اور انہیں یقین دلاتا ہوں کہ ہماری خواہش کوشش اور دعا ان کے ساتھ ہو گی".ہوئی.اس کے بعد سارے مجمع نے حضور ایدہ اللہ تعالے کے ساتھ دعا کی اور یہ مبارک تقریب ختم IFA | (1) مباحثہ گجرات (مابین ملک عبدالرحمن اندرون ملک کے مشہور مباحثات صاحب خادم و پنڈت شانتی سروپ سابق محمد علی) تاریخ مناظره ۳ جنوری ۱۹۳۰ء پنڈت صاحب نے اس موضوع پر کہ میں نے اسلام کیوں چھوڑا.ایک لیکچر دیا تھا اس کے بعد یہ مباحثہ ہوا.جس میں ان کے ایسے تمام تر اعتراضات کے جوابات دیئے گئے جن کی بناء پر انہوں نے اسلام کو چھوڑ دینا ظاہر کیا تھا مگر وہ آخر بحث تک کسی ایک جواب کو بھی رد نہ کر سکے.۲- مباحثہ میرٹھ (مابین مولانا ابو العطاء صاحب و آریہ سماجی پنڈت صاحب) تاریخ مناظره ۸-۹ فروری ۱۹۳۰ ء اور موضوع تاریخ تھا.-- مباحثه حیدر آباد دکن: (مابین مولانا ابو العطاء صاحب و پنڈت دھرم بھکشو صاحب آرید سماجی تاریخ مناظره ۲۰-۲۱-۲۲ مارچ ۱۹۳۰ء موضوع بحث عالمگیر مذہب اور تاریخ 1 - مباحثه مدرسه چٹھہ ضلع گوجر انوالہ (مابین حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی و مولوی فضل علی صاحب لکھنوی و مولوی غلام احمد صاحب بد و طهوی و مولوی فضل علی صاحب لکھنوی) تاریخ
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 244 خلافت ثانیہ کا سترھواں مممم مناظرہ ۸ تا ۱ جولائی ۱۹۳۰ء موضوع بحث ختم نبوت اور صداقت مسیح موعود علیه السلام ایک حنفی عالم مولوی سردار محمد صاحب نے اس مباحثہ سے متاثر ہو کر کہدیا کہ اگر آج پانچ سو روپیہ کا انعام مقرر ہو تا تو احمدی مناظروں کا حق تھا کہ ان کو دیا جاتا.۵ مباحث کریم پور ضلع جالندھر مابین مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری و مولوی اسد الله صاحب سهارنپوری تاریخ مناظره ۲۵-۲۶ مئی ۱۹۳۰ء موضوع بحث صداقت حضرت مسیح موعود و حیات و وفات مسیح.اس مباحثہ میں بفضلہ تعالٰی حق کو ایسی نمایاں فتح ہوئی کہ آٹھ اشخاص اس سے متاثر ہو کر سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو گئے.4 - مباحثہ جتوئی ضلع مظفر گڑھ (جماعت احمدیہ کے مناظر مولانا ابو العطاء صاحب و مولانا ابو البشارت عبد الغفور صاحب اور غیر احمدی مناظر مولوی سلطان محمود صاحب و مولوی غلام رسول صاحب المعروف محدث) تاریخ مناظره ۱۱ تا ۱۳ جولائی ۱۹۳۰ ء - موضوع بحث حیات و وفات مسیح علیہ السلام حضرت مرزا صاحب ختم نبوت صداقت مسیح موعود ے مباحثہ گلہ مہاراں ضلع سیالکوٹ (احمدی مناظر مولوی محمد یار صاحب عارف اور غیر احمدی مناظر مولوی احمد دین صاحب لکھڑوی ، مولوی نور حسین صاحب گر جاکھی اور حافظ حبیب اللہ صاحب امرت سری تاریخ مباحثہ ۲۱ جولائی ۱۹۳۰ء - یہ مناظرہ حیات د وفات مسیح اور صداقت مسیح موعود کے موضوع پر ہوا.اس میں احمدیوں کی طرف سے مناظر تو آخر تک مکرمی مولوی محمد یار صاحب عارف ہی رہے.مگر غیر احمدیوں کو یکے بعد دیگرے تین مناظر بدلنے پر مجبور ہونا پڑا مگر اس پر بھی انہیں ایسی شکست فاش نصیب ہوئی کہ غیر احمدی علماء کو وقت ختم ہونے سے پیشتر ہی اپنی میز کرسیاں اور کتابیں اٹھوا کر میدان بحث سے چل دینا ہی مناسب معلوم ہوا.HD ۸- مباحثہ کوٹ باجوہ تحصیل نارد وال ضلع سیالکوٹ (احمدی مناظر مولوی محمد یار صاحب عارف اور غیر احمدیوں کی طرف سے کئی علماء نے مناظرہ میں حصہ لیا) تاریخ مناظرہ ۲۱ جولائی ۱۹۳۰ء موضوع بحث حیات و وفات مسیح و صداقت مسیح موعود - -۹- مباحثه نارووال ضلع سیالکوٹ (احمدی مناظر مولوی عبد الله صاحب امام مسجد احمدیه نارووال و مولوی خیر دین صاحب سیکرٹری تبلیغ نار و دال - غیر احمدی مناظر مولوی غلام رسول صاحب و مولوی عبد الرحیم صاحب ( مناظر اہلحدیث) تاریخ مناظره ۵-۷-۸ ستمبر ۱۹۳۰ء موضوع بحث حیات و وفات صحیح و صداقت مسیح موعود - 1 -10 مباحثہ بھڈ یار ضلع امرت سر (احمدی مناظر حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی و IFA ۱۱۳۵
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 245 خلافت نمائید کا سترھواں - مولوی محمد یار صاحب عارف تاریخ مناظره ۱۳-۱۴ ستمبر ۱۹۳۰ء موضوع بحث.حیات و وفات مسیح صداقت مسیح موعود 14 - مباحثہ چندر کے مگولے ضلع سیالکوٹ (مابین مولوی محمد یا ر صاحب عارف و مولوی عصمت الله صاحب غیر مبائع) تاریخ مناظره ۱۵ نومبر ۱۹۳۰ء تھی اور موضوع بحث مسئلہ نبوت - 1 ۱۲- مباحثہ بٹالہ (مابین مولانا ابو العطاء صاحب و مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری ۱۵ نومبر ۱۹۳۰ء کو یہ مناظرہ ہوا.-۱۳- مباحثہ لائل پور احمدی مناظر مولوی محمد یار صاحب عارف و مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری غیر احمدی مناظر مولوی مسعود صاحب و مولوی محمد شفیع صاحب سکھتر دی) تاریخ مناظره ۲۰-۱۹ نومبر ۱۹۳۰ء موضوع بحث ختم نبوت کی حقیقت اور صداقت مسیح موعود ۱۴.مباحثہ کوٹ کپورہ فرید کوٹ ( مابین مولوی محمد یا ر صاحب عارف و مولوی عبد الرحمن فرید کوٹی ) تاریخ مناظر ۱۰۰دسمبر ۱۹۳۰ء.موضوع ختم نبوت و حیات و وفات مسیح.-۱۵ مباحثه آژه ضلع گجرات ( مابین ملک عبد الرحمن صاحب خادم و مولوی محمد حسین صاحب کولو تارروی ) تاریخ مناظره ۳۱ دسمبر ۱۹۳۰ء د یکم جنوری ۱۹۳۱ ، موضوع بحث صداقت مسیح موعود و حیات و ۱۳ وفات مسیح ۱۶ مباحثہ کرولیاں ضلع گورداسپور (احمد کی مناظر مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری.مولوی محمد یار صاحب عارف - مولوی ابو البشارت عبد الغفور صاحب غیر احمدی مناظر مولوی نور حسین گر جاکھی.مولوی محمد امین صاحب و عبد الرحیم صاحب تاریخ مناظره ۳۱ دسمبر ۱۹۳۰ء د یکم جنوری ۱۹۳۱ء مضامین مناظرہ " ختم نبوت "صداقت مسیح موعود و حیات و وفات مسیح - 12 ۱۴۴ ۱۹۳۰ء کے واقعات کو ختم کرنے سے پہلے اس دور کی دو اہم ۱۹۳۰ء کی دو اہم تصانیف کتابوں کا تفصیلی ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے جن میں سے ایک مسلمانان ہند کی سیاسی خدمت کا شاہکار ہے اور دوسرا تبلیغ احمدیت کا.پہلی کتاب کا نام ہندو راج کے منصوبے اور دوسری کا نام ہے تفہیمات ربانیہ - ا.ہندو راج کے منصوبے.یہ کتاب مکرم ملک فضل حسین صاحب کی نادر تالیف ہے جسے حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالے بنصرہ العزیز نے نہایت درجہ پسندیدگی کی نظر سے دیکھا اور شاندار رائے لکھی (ملاحظہ ہو الفضل ۱۶ ستمبر ۱۹۳۰ء صفحه (۲) نیز جماعت احمدیہ بلکہ دوسرے مسلمان لیڈروں نے اس کی اشاعت میں دل کھول کر حصہ لیا اور اسی کا نتیجہ تھا کہ ایک نہایت قلیل وقت میں اس کے
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 246 خلافت ثانیہ کاسترھواں آٹھ دس ایڈیشن چھپکر ملک کے گوشے گوشے میں پھیلا دیئے گئے کتاب کی افادیت کا اندازہ اس سے لگ سکتا ہے کہ اعلیٰ حضرت نظام حیدر آباد دکن نے بڑے اہتمام کے ساتھ اس کتاب کا انگریزی ترجمہ کرایا اور Plans of Hindu Raj" کے نام سے بڑی بج رصبح کے ساتھ اسے شائع کیا اور تیسری گول میز کانفرنس پر تین سو نسخے لنڈن بھجوائے گئے.جو حکومت برطانیہ کے ارکان پارلیمینٹ کے مقتدر افراد اور سر بر آوردہ انگریزوں تک پہنچا دیئے گئے.انگریزی کے علاوہ سندھی اور گجراتی زبان میں بھی اس کا ترجمہ شائع ہو چکا ہے حضرت مرزا شریف احمد صاحب، حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ، حضرت میر محمد اسحاق صاحب، حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ، حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب عبد المجید صاحب سالک ایڈیٹر انقلاب- سید شمس الحسن صاحب اسٹنٹ سیکرٹری آل انڈیا مسلم لیگ دہلی اور محترمہ بیگم شاہ نواز نے بھی اس پر نہایت عمدہ ریویو لکھے جو الفضل ۲۳ اگست ۱۹۳۰ء اور یکم فروری ۱۹۵۲ ء میں شائع ہو چکے ہیں اس سلسلہ میں مکرم ملک غلام فرید صاحب ایم.اے کی یہ رائے نہایت صائب اور حقیقت پر مبنی ہے کہ مسلمانان ہند کو بیدار کرنے اور مطالبہ پاکستان میں جان ڈالنے میں مہاشہ فضل حسین کی کتاب ہندو راج کے منصوبے کا بھی کافی دخل ہے یقینا قیام پاکستان کی تاریخ لکھنے والا کوئی مورخ اس کتاب کو نظر انداز نہیں کر سکتا.۲- تفہیمات ربانیہ (منشی محمد یعقوب صاحب نائب تحصیلدار ریاست پٹیالہ کی کتاب عشرہ کاملہ اور تحقیق لاثانی کا مفصل و مدلل جواب مولانا ابو العطا صاحب جالندھری کے قلم سے) اس کتاب کا پہلا ایڈیشن دسمبر ۱۹۳۰ء میں مینجر بک ڈپو تالیف و اشاعت قادیان نے اور دوسرا ایڈیشن نئے اور مفید اضافوں کے ساتھ دسمبر ۱۹۶۴ء میں مکتبہ الفرقان ربوہ نے شائع کیا.حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس کے طبع اول پر سالانہ جلسہ ۱۹۳۰ء میں فرمایا.اس کا نام میں نے ہی تقسیمات ربانیہ رکھا ہے (طباعت سے پہلے) اس کا ایک حصہ میں نے پڑھا ہے جو بہت اچھا تھا.اس کتاب کے لئے کئی سال سے مطالبہ ہو رہا تھا.کئی دوستوں نے بتایا کہ عشرہ کاملہ میں ایسا مواد ہے کہ جس کا جواب ضروری ہے اب خدا کے فضل سے اس کے جواب میں اعلیٰ لٹریچر تیار ہوا ہے.دوستوں کو اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے اور اس کی اشاعت کرنی چاہئے " ۱۴۵
- تاریخ احمدیت جلد ۵ 247 حواشی (تیرا باب) الفضل ۲۱ فروری ۱۹۳۰ء صفحه ۷-۸ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحه ۲۰۱-۲۰۲ الفضل ۲۱ فروری ۱۹۳۰ء صفحه ۱۳ کالم رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحه ۲۰۱-۲۰۲ خلافت ثانیہ کاسترھواں سال د الفضل ۲۳ اکتوبر ۱۹۳۳ء صفحہ ۳.بعض لوگوں نے اس سلسلہ اشتہارات کی مقبولیت کو دیکھ کر ندائے ایمان ہی کے نام سے جوابی اشتہار لکھے عمران حرکات سے اصل اشتہارات کا اثر زائل نہیں ہو سکتا تھا.-1+ الفضل فروری ۱۹۳۰ء صفحہ ۱۰ کالم ۲-۳ الفضل ، فروری ۱۹۳۰ء صفحہ ۱۰-۷ "سرگزشت صفحه ۳۶۸- مثلا نواب صاحب بہاولپور نواب صاحب پالن پور سر محمد شفیع صاحب عبد المجید صاحب سالک خواجہ حسن نظامی صاحب الفضل ۲۱ مارچ ۱۹۳۰ء صفحه ۲۰۱ اکتوبر ۱۹۳۰ء سے رسالہ مولوی ظفر محمد صاحب فاضل کی ادارت میں اور مارچ ۱۹۳۱ء سے سید یوسف شاہ صاحب کا شمیری کی ادارت میں نکلنا شروع ہوا آخری پرچہ میں جو دسمبر ۱۹۳۲ء میں چھپا مولوی محمد سلیم صاحب ایڈیٹر تھے.رسالہ جامعہ احمدیه سالنامه و نمبر ۱۹۳۰ء صفحه ۱ ۱۳ رسالہ جامعہ احمدیه سالنامه دسمبر ۱۹۳۰ء -۱۴ تعلیم الاسلام میگزین جلد انمبر ا سرورق صفحه ۲ ۱۵ الفضل ۸ اپریل ۱۹۳۰ء صفحه اکالم الفضل ۹ مئی ۱۹۳۰ء صفحہ ۷ کالم ۲-۳ الفضل اپریل ۱۹۳۰ء صفحه ۸ کالم ۱۸ الفضل ۸ اپریل ۱۹۳۰ء صفحہ اکالم ۲-۳ الفضل 11 اپریل ۱۹۳۰ء صفحہ ۲ کالم ۳ ۲۰ الفضل ۱۵ اپریل ۱۹۳۰ء صفحه ۲ الفضل ۲۳ اپریل ۱۹۳۰ء صفحه ۲ کالم ۲ دیندار متقی اور جوش رکھنے والے نوجوان تھے زرعی زمین کے علاوہ لنگی کلاہ کی دکان بھی تھی سلیم اللہ صاحب صوبیدار میجر پیشنر نوشہرہ کے بیان کے مطابق ایوب شاہ صاحب مردان کی تحریک پر قاضی صاحب کے ماموں اور وہ داخل احمدیت ہوئے.قاضی صاحب کی بیوی عرصہ ہو ا فوت ہو چکی ہیں ان کا ایک لڑکا با بو فضل علی اور نواسہ فیروز شاہ موجود ہے.۲۲ الفضل ۴ مئی ۱۹۳۰ء صفحہ ۲ کالم ۱-۲ ۲۳ الفضل ۱۹ مئی ۱۹۳۱ء مزید تفصیل ۱۹۳۱ء کے واقعات میں آرہی ہے.۲۴ الفضل ۲۳ اپریل ۱۹۳۰ء صفحه ۲ کالم ۳-۴ - ۲۵ الفضل ۲ جون ۱۹۳۰ صفحه کالم ۱۳ خطب جمعه سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی) ا ا ا الاب جو سید رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحہ ۴۶ ۲۷.اس تجویز سے تمیمن نتائج نکلتے تھے.(1) معتمدین سلسلہ کی تمام جائداد کے نگران میں گو خلیفہ کے ماتحت ہیں (۲) خلیفہ کا ناظر صاحبان کو مجلس معتمدین کے نمبر مقرر کرنا درست نہیں.(۳) مجلس معتمدین کا انتخاب خلیفہ کی طرف سے نہیں جماعت کے
.248 خلافت عثمانیہ کا تاریخ احمدیت.جلده انتخاب سے ہونا چاہئے ظاہر ہے کہ یہ تینوں نتیجے نظریہ خلافت کے بھی منافی تھے.اور دنیاوی حکومتوں کے دستور اساسی کے بھی خلاف تھے کوئی پارلیمنٹ وزراء مقرر نہیں کرتی.مگر کمیشن کی رائے تھی کہ مجلس شوری مجلس معتمدین مقرر کرے (ایضا صفحہ -۲۸ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحه ۴۷ ۲۹ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحہ ۱۲۸-۱۲۹ ۳۰ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحه ۲۳۵-۲۳۶ مجلس "تعلیم" کے ابتدائی ارکان ضروری قواعد اور اہم کوائف کی تفصیل انشاء اللہ ۱۹۴۲ء کے حصہ تاریخ میں آئینگی.مندرجہ بالا حالات کے لئے ملاحظہ ہو کتاب " مجلس تعلیم " ( شائع کرده مجلس تعلیم قادیان- دسمبر ۱۹۳۵ء) مسلمانان ہند کی حیات سیاسی " میں لکھا ہے ۱۹۳۰ء میں جب کانگریس نے اپنے سول نافرمانی کے پروگرام کا جائزہ لینا شروع کیا تو مسلمانوں کی قدیم سیاسی جماعتوں میں سے ایک بھی اس کے ساتھ نہ ہوئی اور نہ مسلمان من حیث القوم اس تحریک میں شامل ہوئے البتہ احرار اور جمعیتہ العلماء کی مختصر جماعتیں گاندھی اردن سمجھوتے تک کانگریس کے ساتھ رہیں“.(صفحہ ۱۳۵) الفضل ۹ مئی ۱۹۳۰ء صفحه ۱ تا ۴ ہفت روزہ "ملت" کراچی (۳۰ جون ۱۹۳۰ء) نے اس خطبہ کا قریباً پورا متن شائع کیا.اس خطبہ کے بعد بھی حضور نے کانگریس اور اس کی تحریک پر کئی خطبے ارشاد فرمائے جنہوں نے سول نافرمانی کی آگ بجھانے میں بہت مدد دی.۳۴ الفضل ۲۷ مئی ۱۹۳۰ء صفحہ ۲ کالم ۲-۳- الفضل ۳ جون ۱۹۳۰ء صفحہ ۲ کالم ۳۵- الفضل ۱۰ جون ۱۹۳۰ء صفحہ ۷ الفضل ۵ جون ۱۹۳۰ء صفحه ۱۰ ۳۷ ۲۳ اپریل ۱۹۳۰ء کو کانگریس کے دو سرحدی لیڈروں (عبد الغفار خاں وغیرہ) کی گرفتاری پر شہر کے حالات قابو سے باہر ہو گئے فوج بلائی گئی جس نے ہجوم پر رائفلوں اور مشین گنوں سے فائر کئے اس حادثہ میں ہیں افراد ہلاک ہو گئے.حضرت خلیفہ المسیح کے مندرجہ بالا مکتوب میں اسی درد ناک واقعہ کی طرف اشارہ ہے مگر افسوس ڈاکٹر عاشق حسین صاحب بٹالوی جیسے مورخ حضرت امام جماعت احمدیہ کے اس احتجاج سے آشنا نہیں چنانچہ انہوں نے اپنی کتاب اقبال کے آخری دو سال میں لکھا ہے عین اس وقت جب صوبہ سرحد کے باشندوں کے خون سے پشاور کی سرزمین لالہ زار بن رہی تھی ہندوستان بھر میں کوئی اسلامی جماعت کوئی اسلامی انجمن کوئی اسلامی ادارہ ایسا نہیں تھا جو صدائے احتجاج بلند کرتا.اور حکومت سے پوچھتا کہ یہ کس جرم کی پاداش میں مسلمانوں کا خون بہایا جا رہا ہے.مسلم لیگ ختم ہو چکی تھی ابنائے زماں کی ناقدری کے ہاتھوں جناح وطن میں رہنے کے باوجود غریب الوطن کی زندگی بسر کرنے پر مجبور تھا محمد علی مرض الموت میں مبتلا اپنی زندگی کا آخری سال پورا کر رہا تھا.(صفحہ ۳۴۴) الفضل ۵ جون ۱۹۳۰ء صفحه ۵۰۴ الفضل ۳ جون ۱۹۳۰ء صفحہ ا کالم ۳ الفضل کے جون ۱۹۳۰ ء اس خطبہ میں حضور نے کانگریس کے پروگرام پر زبر دست ناقدانہ روشنی ڈالتے ہوئے ثابت کر دکھایا کہ اس تحریک سے سراسر نقصان ہی نقصان ہے مسلمانوں کو بھی اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا اور ملک کو بھی نہیں (ایضا صفحہ ؟ کالم (۳) ام الفضل -۴ جون ۱۹۳۰ء صفحہ.۲.یہ اخبار تقسیم ملک کے بعد انبالہ منتقل ہو چکا ہے.-۴۲- جیسا کہ ۱۹۲۹ء کے حالات میں ذکر آچکا ہے کانگریس پہلے ہی اپنی تحریک کے خلاف مسلمانان ہند میں اپنا سب سے بڑا حریف جماعت احمدیہ کو سمجھتی تھی کیونکہ یہی واحد فعال جماعت تھی جو مسلمانوں کے حقوق کے لئے سینہ سپر تھی چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کا بیان ہے کہ ڈاکٹر سید محمود صاحب ( کانگریس کے سیکرٹری - ناقل) نے میرے سامنے کہا کہ میں آپ کے سیاسی خیالات سے اختلاف رکھتا ہوں لیکن مذہبی لحاظ سے آپ کی اسلامی خدمات کا قائل ہوں ہمارے درد صاحب جب گاندھی جی سے ملنے گئے تو اس وقت بھی گاندھی جی کے سامنے ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ مسلمانوں میں اگر کوئی کام کرنے والی
تاریخ احمدیت جلد ۵ 249 جماعت ہے تو وہ احمد یہ جماعت ہی ہے جس پر خود گاندھی جی نے کہا کہ میں اس امر کو خوب جانتا ہوں" (الفضل ۷ ۲ جون ۱۹۳۱ء صفحہ ۸ کانما) ۴۳- الفضل ۱۰ جون ۱۹۳۰ء ۴۴- الفضل یکم اکتوبر ۱۹۵۹ء صفحه ۵ ۳۵- حال پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ پنڈی بھٹیاں ضلع گوجرانوالہ (وفات ۲- جنوری ۱۹۹۳ء) حال سیکرٹری اصلاح و ارشاد سیا لکوٹ الفضل ۱۹ جون ۱۹۳۰ء صفحه ۶ کالم ۳ ۲۸ مفصل مکتوب کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۱۰ جون ۱۹۳۰ء صفحہ ۲ کالم -۲ الفضل ۱۰ جون ۱۹۳۰ء صفحه ۲ کالم ۱-۲ المفضل ۱۲ اگست ۱۹۳۰ء صفحه » کالم ۲۰۱ ا الفضل ۱۰ جون ۱۹۳۰ء صفحہ ۴ کالم ۱-۲ ۵۷ الفضل ۱۵ جون ۹۳۰ء صفحہ ۷ کالم ۱-۲ ۵۳- الفضل ۱۲ جون ۱۹۳۰ء صفحه ۶ ۵۴ الفضل ۵ جون ۱۹۳۰ء صفحه ا کالم ۲-۳ -۵۵ الفضل ۱۰ جون ۱۹۳۰ء صفحه ۴ کالم ۲: ۳ الفضل ۱۵ جون ۱۹۳۰ء صفحہ سے کالم ۳ الفضل ۱۲ جون ۱۹۳۰ء صفحہ ۶ کالم ۲ ۵۸ الفضل ۱۵ جون ۱۹۳۰ء صفحہ ۷ کالم ۳ و الفضل ۱۲ جون ۱۹۳۰ء صفحه ۶ کالم ۲-۱ الفضل ۱۲ جون ۱۹۳۰ء صفحه ۲ کالم ۱ الفضل ۱۹ جون ۱۹۳۰ء صفحہ ۶ کالم ۳ بحوالہ الفضل سے جون ۱۹۳۰ء صفحہ ۲ کالم الفضل ۱۲ جون ۱۹۳۰ء صفحہ ۷ کالم ۳ الفضل ۱۳ جون ۱۹۳۰ء صفحه ۴۳۰۳ ۶۵ - الفضل ۱۰ جون ۱۹۳۰ء صفحه ۳ ايضا صفحہ ۳ کالم ۳ ۲ - الفضل امتي ۱۹۳۰ء صفحه ۴ کالم ۳ تفصیل اگلی فصل کے آغاز میں آرہی ہے.یہاں یہ ظاہر کر دینا ضروری ہے کہ ۱۹۳۰ء کے الہ آباد اجلاس کے لئے علامہ اقبال کے صدر مقرر کئے جانے کا فیصلہ مسلم لیگ کے جس اجلاس میں کیا گیا اس کے صدر حضرت مفتی محمد صادق صاحب تھے.(الفضل ۲۰ دسمبر ۱۹۳۰ء) الفضل ۵ جولائی ۱۹۳۰ء صفحہ اکالم.حضور کے ہمراہ حضرت ام المومنین حضور کے دو حرم پرائیویٹ سیکرٹری مع محملہ ناظر امور خارجه مولوی عبدالرحیم صاحب درد مع عمله حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب اور حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب بھی تشریف لے گئے اور مقامی امیر حضرت مولوی شیر علی صاحب مقرر فرمائے گئے.۷۰ ( ب سر سکندر حیات خان صاحب مراد ہوں گے.(مولف) اسے ہفت روزہ " خاور لاہو را ۲ جولائی ۱۹۳۰ء صلح ۳ ۷۲ نقل مطابق اصل
تاریخ احمدیت جلد ۵ 250 خلافت ثانیہ کا سترھواں سال ۷۳.بحوالہ الفضل ۱۹ جولائی ۱۹۳۰ء صفحہ ۹ کالم 1 ۷۴.الفضل ۱۵ جولائی ۱۹۳۰ء صفحہ ۱-۲ ۷۵.اس سلسلہ میں حضور کا اعلان الفضل ۲۱ اگست ۱۹۳۰ء صفحہ پر مندرج ہے.ے.الفضل ۱۹ اگست ۱۹۳۱ء صفحه ۵-۶ ۷۷ الفضل ۱۳ اگست ۱۹۳۰ء صفحه ۷۰۶ ۷۸ الفضل ۱۶۷ اگست ۱۹۳۰ء صفحه ۳ کالم اور صفحہ ۸ و الفضل ۹ اکتوبر ۱۹۳۰ء صفحه ۷ کالم ۲-۳ ۸۰ مفصل تقرير الفضل ۸ نومبر ۱۹۳۰ ء وا انو مبر ۱۹۳۰ء میں چھپ چکی ہے.رپورٹ سالانہ صد را مجمن احمد یه ۳۱-۱۹۳۲ء صفحه ۴۰۳ -Ar ۸۲ رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمد یه ۳۰-۱۹۳۱ء صفحه ۱۰۸-۱۰۹ یہ سب آراء سیاسی مسئلہ کا حل کے اردو ایڈیشن میں چھپ چکی ہیں.۸۴ یہ کانفرنس لندن میں تین بار منعقد ہوئی (۱) نومبر ۱۹۳۰ء تا جنوری ۱۹۳۱ء (۲) ستمبر ۱۹۳۱ء تا دسمبر ۱۹۳۱ء)۳(نومبر ۱۹۳۲ء تاد سمبر ۱۹۳۲ء - چوہدری ظفر اللہ خان صاحب تینوں کا نفرنسوں میں شامل ہوئے مگر جناب محمد علی جناح نے پہلی اور دوسری کانفرنس میں شمولیت فرمائی اور پھر دل برداشتہ ہو کر لنڈن میں ہی مقیم ہو گئے چنانچہ ان کا بیان ہے میں حیران ہوں کہ میری ملی خود داری اور وقار کو کیا ہو گیا تھا کانگریس سے صلح و مفاہمت کی بھیک مانگا کر تا تھا میں نے اس مسئلہ کے حل کے لئے اتنی مسلسل اور غیر منقطع مساعی کیں کہ ایک انگریز اخبار نے لکھا ” مسٹر جناح ہندو مسلم اتحاد کے مسئلہ سے کبھی نہیں تھکتے لیکن گول میز کانفرنس کے زمانہ میں مجھے اپنی زندگی میں سب سے بڑا صدمہ پہنچا اب میں مایوس ہو چکا تھا مسلمان بے سہار ا اور ڈانواں ڈول ہو رہے تھے.مجھے اب محسوس ہونے لگا کہ میں ہندوستان کی کوئی مدد نہیں کر سکتا.نہ ہندو ذہنیت میں کوئی خوشگوار تبدیلی پیدا کر سکتا ہوں نہ مسلمانوں کی آنکھیں کھول سکتا ہوں آخر میں نے لندن میں ہی بودوباش کا فیصلہ کر لیا - حیات محمد علی جناح طبع دوم صفحه ۲۰۱۰۲۰۰ از جناب سید رئیس احمد صاحب جعفری) کانفرنس میں ان کی کیا پوزیشن تھی اس پر خود جناب محمد علی صاحب جناح مندرجہ ذیل الفاظ میں روشنی ڈالتے ہیں " میں اس کا نفرنس میں بالکل یکہ و تنہا تھا میں نے مسلمانوں کو ناراض کیا کیونکہ وہ مجھے مخلوط انتخاب کا حامی سمجھتے تھے.ہندو مجھ سے الگ ناراض تھے کیونکہ میں چودہ نکات کا موجد تھا.میں نے والیان ریاست کو بھی ناراض کیا...برطانوی پارلیمنٹ بھی مجھ سے ناراض تھی.نتیجہ یہ ہوا کہ دو ہفتے بھی گزرنے نہ پائے تھے کہ کانفرنس کے مندوبین کے ہجوم میں میرا ایک بھی حامی اور مددگار نہ رہا.( اقبال کے آخری دو سال ، صفحہ ۲۶۲ ۲۶۳.از ڈاکٹر عاشق حسین صاحب بنا دیا لارڈ فسیل و ڈ جو اس زمانے میں وزیر ہند تھے اپنی کتاب "Nine Troubled Years" کے صفحہ ۵۲ پر گول میز کانفرنس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں جناح بھی چونکہ آغا خاں اور چوہدری ظفر اللہ خاں کے ساتھ بیٹھتے تھے اسلئے یہ توقع کی جاسکتی تھی کہ وہ اپنے وفد کی راہنمائی کریں گے یہ صحیح ہے کہ انہوں نے وقتا فوقتا بحث میں نمایاں حصہ لیا لیکن ہم میں سے اکثر لوگ ان کے تغیر پذیر ذہن کی حرکات رکھنے سے معدار تھے.یوں معلوم ہو تا تھا کہ وہ کسی شخص کے ساتھ کام کرنے کو تیار نہیں ہیں.کیا وہ ایک آل انڈیا فیڈریشن کے حامی تھے اس کا تیقین کے ساتھ جواب دینا ہمارے لئے ممکن نہ تھا.کیا وہ مرکز میں ردو بدل کئے بغیر صوبائی خود مختاری کے حامی تھے بعض اوقات ان کی باتوں سے یہ معلوم ہو تا تھا کہ وہ صوبائی خود مختاری سے آگے نہیں جانا چاہتے تھے...ان کی یہی تغیر پذیر ذہنی کیفیت تھی جو ان کے ساتھ تعاون کرنے میں ہمارے لئے مشکلات پیدا کر رہی تھی.اور جس کی وجہ سے وہ اپنے مسلمان رفقاء کی صاف اور صحیح راہنمائی سے معذور تھے ".ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب (جن کی نامزدگی میں جماعت احمدیہ کی کوششوں کا بہت دخل تھا.رپورٹ صدر انجمن احمد یہ ۱۹۳۱ء و ۱۹۳۲ء صفحہ ۱۰۹-۱۰) اگر چہ کا نفرنس میں شامل ہوئے اور اقلیتوں کے مسائل کی کمیٹی میں بطور ممبر سرگرم عمل رہے مگر ایک موقع پر جبکہ مسلم رفد کے سرگروہ نے کہا کہ صوبائی خود اختیاری کے ساتھ ہی مرکز میں وفاق قائم کر دیا جائے تو وہ مسلم وفد سے علیحدہ ہو گئے (ذکر اقبال صفحہ (۱۵۸) آپ لندن میں قیام کے دوران میں احمدیہ مسجد لنڈن کی ایک تقریب میں بھی شامل ہوئے.
تاریخ احمد میت - جلد ۵ 251 خلافت جہاں نو مسلم انگریزوں کی زبان سے قرآن مجید سن کر خوش ہوئے.اور خصوصاً ایک انگریز نوجوان مسٹر عبد الرحمن ہارڈی کے حسن قرات اور صحت تلفظ سے بے حد محظوظ ہوئے ایک چھ سات سال کی انگریز بچی نے سورہ فاتحہ سنائی جس پر ڈاکٹر صاحب نے اسے ایک پونڈ انعام بھی دیا.اور امام مسجد لنڈن مولوی فرزند علی صاحب کا شکریہ ادا کیا جن کی توجہ سے یہ موقع میسر آیا تھا.جناب غلام رسول صاحب مرنے اس واقعہ کی تفصیل لنڈن سے ایک مکتوب میں بھیجوائی تھی جو " انقلاب " (۲۹ اکتوبر ۱۹۳۱ء) میں شائع شدہ ہے (الفضل کیکم نومبر ۱۹۳۱ء میں اس کی نقل بھی چھپ گئی تھی جناب مصر صاحب کا مکتوب ان الفاظ پر ختم ہو تا تھا."مولانا فرزند علی نہایت خوش اخلاق اور نیک طبع بزرگ ہیں فرائض امامت و تبلیغ کی بجا آوری کے علاوہ مسلمانوں کے جماعتی سیاسی کاموں میں بھی کافی وقت صرف کرتے ہیں.اور اس سلسلہ میں انہوں نے یہاں کے اونچے طبقے میں بہت گہرا اثر در سوخ پیدا کر لیا ہے " ان سطور سے یہ اندازہ کچھ مشکل نہیں ہے کہ لندن کا احمدیہ مشن ان دنوں مسلمانوں کی سیاسی خدمات میں کس درجہ دلچسپی لے رہا تھا.۰۸۵ سری نواس شاستری مراد ہیں.- ۱۵ نومبر ۱۹۳۰ء کو چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے بر اور اصغر چوہدری اسد اللہ خانصاحب نے (جو ان دنوں اعلیٰ تعلیم کے لئے لندن میں مقیم تھے ) حضور کی خدمت میں یہ خط لکھا کل گول میز کانفرنس کا پہلا اجلاس ہوا تھا پبلک کو اندر جائیکی اجازت نہیں تھی نہ ہی پریس کو پہاڑھے دس بجے سے لیکر ایک بجے تک اجلاس ہوا آج پھر برادرم مکرم گئے ہیں دعا ہے کہ اللہ تعالی اس کانفرنس کو اسلام کی طرح کا ایک ذریعہ بنادے ".۸۷.ہندوستان کے جن اخباروں میں گول میز کانفرنس کی اطلاعات شائع ہو ئیں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے خاص اہتمام سے اسے اپنے دو زاتی کننگ رجسٹروں میں محفوظ کرالیا تھا جو اب تک خلافت لائبریری ربوہ میں موجود ہیں.۸۸- صحیح لفظ پڑھا نہیں گیا ( مسولف) ۸۹ خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب مبلغ لندن کی طرف اشارہ ہے جنہوں نے مسلمانوں کے سیاسی مفادات کی غرض سے انتھک کوشش کی چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے فرمایا 'خان صاحب منشی فرزند علی صاحب نے پہلے تو اتنی گھبراہٹ ظاہر کی کہ میں نے یہ سمجھا شاید ساری محنت برباد ہو جائے لیکن جب کام شروع ہوا تو انہوں نے اتنی کوشش اور سرگرمی سے کام کیا کہ اس کا بہت بڑا اثر ہوا.حتی کہ ولایت کے اخبارات میں کئی تصاویر چھپیں جن میں خانصاحب کو نمائندہ گول میز کانفرنس لکھا گیا.بلکہ ایک ہوائی جہاز کی تصویر میں انہی کو نمائندہ قرار دیا گیا.اس کی وجہ یہ تھی کہ ہر جگہ اور ہر سو سائٹی میں مسلمانوں کی تائید اور حمایت کے لئے وہ پہنچتے تھے اور کوشش کرتے رہے " رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۱ ء صفحہ ۱) جناب شفیع داوری صاحب نے ۱۰ جنوری ۱۹۳۱ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت میں خان صاحب کے حسن اخلاق کی تعریف کرتے ہوئے لکھا." حضرت مرزا صاحب ، خله السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ.میری قسمت میں ہجوم کار اتنا لکھا ہوا ہے که معمولی اخلاقی رسمیات کی انجام دہی سے قاصر رہ جاتا ہوں بارہا میں نے ہندوستان پہنچ کر کوشش کی کہ ایک بار اور جناب کی مہربانیوں کا دلی شکریہ ادا کروں مگر بالکل ہی موقع نہ ملا مجھے فرزند علی خاں صاحب کی بندہ نوازی کبھی بھولنے کی نہیں انہوں نے اخوت اسلام کا سچا نمونہ میرے ساتھ لندن میں پیش کیا اور میں سمجھتا ہوں یہ ان کی فطرت میں داخل ہے اس لئے ہر ایک کے ساتھ ان کا برتاؤ ایسا ہی ہوتا ہو گا.ماشاء اللہ خوب آدمی ہیں بہت ہی مخلص آدمی ہیں خداوند تعالے انہیں ہمیشہ خوش و خرم * رکھے".ال شدی همه نبینی کا تذکرہ کتاب کے حصہ دوم میں بڑی تفصیل سے آ رہا ہے یہ حصہ تحر یک آزادی کشمیر سے نصوص ہے.یعنی کشمیری زعماء اور ڈوگرہ حکومت میں (متولف) خانصاحب مولوی فرزند علی صاحب (متولف) یہاں یہ وضاحت کرنا ضروری ہے کہ مارچ ۱۹۳۳ء میں مینوں کا نفرنسوں کی متفقہ تجاویز ایک قرطاس ابیض کی صورت میں شائع کر دی گئی تھی.اس کے بعد اپریل ۱۹۳۳ء میں لارڈ نلتھگو کی صدارت میں ایک متحدہ پارلیمنٹری کمیٹی مقرر ہوئی جس میں ہندوستانی نمائندے بھی شامل ہوئے اس کمیٹی نے ۱۹۳۴ء میں اپنی رپورٹ پیش کردی اس پارلیمنٹری کمیٹی کا ذکر چوہدری
تاریخ احمدیت جلد ۵ صاحب نے اپنے خط میں فرمایا ہے.252 خلافت ثانیہ کا ستر ھواری سال -۹۴- اقبال کے آخری دو سال صفحہ ۲۶۵.ان کا میابیوں کی عظمت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہندو اکثریت کی نمائندہ جماعت آل انڈیا نیشنل کانگریس فرقہ وارانہ مسائل کو کوئی اہمیت دینے کی بجائے اسے محض بیکار چیز سمجھ رہی تھی اس کے نزدیک اصل مسئلہ صرف اور صرف یہ تھا کہ ملک کی باگ ڈور ہندوستان کی اکثریت کے ہاتھ میں دے دی جائے چنانچہ پنڈت جواہر لال صاحب نہرو نے کتاب ” میری زندگی میں کانگرس کی اس مستقل پالیسی کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ : پہلی گول میز کانفرنس ختم ہو رہی تھی اور اس کے فیصلوں کی بڑی دھوم دھام تھی.ہمیں اس پر ہنسی آتی تھی اور شاید اس نہیں میں کسی قدر حقارت بھی شامل تھی.یہ ساری تقریریں اور بخشیں بالکل بیکار اور حقیقت سے خالی تھیں ایک مسئلہ جسب در کنگ کمیٹی کے سامنے پیش تھا فرقہ وارانہ مسئلہ تھا یہ وہی پرانا قصہ تھا جو نئے نئے بھیس بدل کر آتا تھا.گاندھی جی کا خیال تھا کہ اگر کانفرنس برطانوی حکومت کے اشارے سے پہلے فرقہ وارانہ مسئلے میں الجھے گی تو اصل سیاسی اور معاشی مسائل پر خاطر خواہ غور نہیں کیا جاسکے گا.گاندھی جی لندن کی دوسری گول میز کانفرنس میں کانگرس کے تنہا نمائندہ کی حیثیت سے گئے تھے...ہم گول میز کانفرنس میں کچھ اس لئے تو شریک نہیں ہو رہے تھے کہ جا کر دستور ملکی کی میمنی تفصیلات سے متعلق وہ بخشیں چھیڑیں جو کبھی ختم ہی ہونے میں نہ آئیں اس وقت ان تفصیلات میں ہمیں ذرا دلچسپی نہ تھی اور ان پر تو غور اس وقت ہو سکتا تھا جبکہ برطانوی حکومت سے بنیادی معاملات پر کوئی سمجھوتہ ہو جاتا اصلی سوال تو یہ تھا کہ جمہوری ہند کو کتنی طاقت منتقل کرنی ہے تفصیلات کو طے کرنے اور انہیں قلمبند کرنے کا کام تو کوئی بھی قانون دان بعد کو کر سکتا تھا ان بنیادی امور میں کانگرس کا مسلک صاف اور سید ھا تھا اور اس میں بحث اور دلیل کی زیادہ گنجائش نہ تھی".۹۵ الفضل ۱۸دسمبر ۱۹۳۳ء ٩٦ بحواله الفضل ۱۳ نومبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۷ کالم ۳ ۹۷ بحوالہ "اصلاح " سرینگر ۲۴ جولائی ۱۹۴۱ء صفحه ۴ - بحواله الفضل » فروری ۱۹۵۲ء صفحه ۵ 19 بحواله الفضل ۲۲ جون ۱۹۵۲ء صفحه ۸ اقبال کے آخری دو سال " صفحہ ۱۴ ۱۵ 101 بحوالہ الفضل سے فروری ۱۹۵۳ء ۱۰ الفضل جون ۱۹۳۲ء صفحه ۱۱ ۱۰۳ رساله ریویو آف ریلیجرو انگریزی ( قادیان) مئی ۱۹۳۲ء صفحه ۱۵۸ تا ۲۶۲ الفضل اد ممبر ۱۹۴۰ء صفحہ ۳ ملحصا.۱۰۵ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ۷۰ حاشیہ ١٠ الفضل جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ ۵ کالم ۱-۲ ۰۱۰۷ ولادت جون ۱۸۶۰ء تاریخ بیعت جون ۱۹۰۵ ء مارچ 1919ء میں ہجرت کر کے قادیان آگئے تھے.۱۹۲۳ء میں فتنہ ارتداد کے انسداد کے تبلیغی جہاد میں شامل ہوئے اور کو سمہ ضلع میں پوری نہیں خدمات با اتے وت ۱۹ اپریل ۱۹۳۰ء کو انتقال کیا اور مزار حضرت مولوی عبد الکریم کے قریب دفن کئے گئے.(الفضل ۳۱ جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ ۹۰۸ ١٠٨.الفضل ۱۹ اگست ۱۹۳۰ء صفحہ - نہایت مخلص اور صوفی منش در دیش انسان تھے ہندی زبان پر عبور تھا اور ہندی کتب سے حضرت صحیح موعود عليه الصلوۃ والسلام اور اسلام کی صداقت کا بیان آپ کے رگ وریشہ میں داخل تھا اس باب میں کتاب " شری نش کلنک در شن یا ظهور تلگی او تار " آپ کی یاد گار ہے اس کے علاوہ اعلان صحیح نی رو تکفیر مسیح کی غیر مطبوعہ تصنیف بھی ! آنریری طور پر پوری عمر تبلیغ اسلام و احمدیت میں گذاری.١٠٩ الفضل ۲۶ اگست ۱۹۳۰ء سلسلہ عالیہ احمدیہ کے مشہور عالم اور محدث تھے آپ نے ۱۸۹۳ء میں مباحثہ آعظم کے دوران حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دست مبارک پر بیعت کی اور جماعت احمد یہ امرت سرکی پہلی انجمن فرقانیہ کے پہلے صدر مقرر
تاریخ احمدیت جلد ۵ -11f 253 خلافت ثانیہ کا سترھواں سال ہوئے بیعت کے بعد مخالفت کی وجہ سے مدرستہ المسلمین امر تسر سے سلسلہ ملازمت جب منقطع ہو گیا تو قادیان ہجرت کر کے تشریف لے آئے اور ایک نہایت ہی قلیل مشاہرہ پر پہلے مدرسہ تعلیم الاسلام میں پھر مدرسہ احمدیہ میں پڑھانے لگے.اور پنشن یاب ہونے کے بعد بھی آخر دم تک درس تدریس کا سلسلہ جاری رکھا.اور بخاری مسلم کا سبق مختلف طلباء کو دیتے رہے.آپ بھیرہ کے رہنے والے اور حضرت خلیفہ اول کے داماد تھے.قریباً اسی سال کی عمر میں وصال ہوا.قوئی نہایت اعلی - قد لمبا.شکل نهایت وجیہ اور بارعب ، طبیعت جلالی تھی مگر حق معلوم ہونے پر نور اغصہ ٹھنڈا ہو جاتا تھا اپنے فرائض کی ادائیگی میں وقت کے نهایت پابند تھے مجلس معتمدین کے بھی کئی سال ممبر رہے آپ کو علم حدیث میں بالخصوص ید طولی حاصل تھا قرآن مجید کے علوم سے بھی خاص شغف تھا آپ کی طبیعت مجتہدانہ تھی اور قرآن وحدیث کے کئی مقامات میں منفردانہ رائے رکھتے تھے.خدا تعالٰی نے آزاد خیالی اور حریت رائے کا ایک خاص جو ہر عطا کیا تھا.قاضی صاحب حضرت خلیفہ ثانی کے استاد تھے مگر حضور ایدہ اللہ تعالی کے ساتھ زبر دست ارادت رکھتے تھے حضور کے ہاتھ پر بیعت کر کے ہر معاملہ میں پوری اطاعت اور فرمانبرداری کا ثبوت دیا.اور.فتنہ انکار خلافت کے خلاف مردانہ وار کھڑے رہے.حضرت خلیفتہ المسیح کو بھی آپ سے بہت محبت تھی حضور جب شملہ سے واپس آئے تو الدار میں جانے سے پہلے قاضی صاحب کی عیادت کے لئے ان کے گھر تشریف لے گئے اور ان کی پاکلتی بیٹھ گئے اور اٹھ کر بیٹھنے کی خواہش پر خود حضرت نے ان کو سہارا دے کر اٹھایا.(الفضل ۲۸ اگست ۱۹۳۰ء صفحه ۹ کالم ۲-۳- الفضل ۲ ستمبر ۱۹۳۰ء صفحہ ۹۷ امرت سر کے احمدیوں میں سب سے پہلے نوجوان جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ابتلاء کے ابتدائی ایام میں قبول کیا.امرت سر کی احمد یہ مسجد انہی کی کوشش سے جماعت کو لی.امرت سر میں ان کا مکان آنے جانے والے احمدیوں کے لئے ایک کھلا مہمان خانہ تھا.(الفضل ۹ دسمبر ۱۹۳۰ء صفحہ ۶-۷ و ۲۰ دسمبر ۱۹۳۰ء صفحه ۸۰۷) ۱۸۹۵ء کے قریب حضرت مسیح موعود کی بیعت سے مشرف ہوئے حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب کے خسر تھے.اور جماعت احمد یہ امرت سر کے بزرگوں میں احمدیت کا مضبوط قلعہ.تفصیل کے لئے دیکھیں اصحاب احمد جلد ۵ حصہ اول صفحہ ۷۳.و اصحاب احمد جلد ۵ حصہ دوم صفحه ۲۱ تا ۲۴- والد ماجد حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب مختار شاہجہانپوری اور سید محمد ہاشم صاحب بخاری (مجاہد افریقہ کے نانا.اپنے تجر علم، وسعت نظر اور محیر العقول قوت حافظہ کے لحاظ سے ایک نمونہ قدرت الہی تھے اسی برس کی عمر میں انتقال کیا.آپ حضرت مسیح موعود کے ان قدیم صحابہ میں سے تھے جن کو ۱۸۹۳ء سے تحمل شرفی قبول حاصل ہو ا ( الفضل ۱۸ نومبر ۱۹۳۰ء والفضل ۲۵دسمبر ۱۹۳۰ء صفحہ کے کالم ۳) حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے نے نومبر ۱۹۳۰ء کو خطبہ میں ارشاد فرمایا کہ " حافظ مختار احمد صاحب شاہجہانپوری اپنے علاقہ میں تو وہ سلسلہ کا ایک ستون ہیں بہت سے احباب ان سے واقف ہونگے اور قادیان میں بعض نے ان کی نظمیں بھی سنی ہو گی.اپنے علاقہ کے لئے وہ اور ان کے والد سلسلہ کے لئے بہت بابرکت وجود ہیں ( الفضل ۱۳ نومبر، ۱۹۳ ء صفحہ ۶ کالم )) حضرت مسیح موعود کے قدیم ۳۱۳ مخلصین میں سے تھے بہت سے مقدمات اور مباحثات میں حضرت مسیح موعود کے ساتھ رہے (الفضل ۹ دسمبر ۱۹۳۰ء صفحہ ۲ کالم ۳) الفضل ۱۸ اکتوبر ۱۹۳۰ء صفحه اکالم ۱۵ الفضل ۲۵ فروری ۱۹۳۰ء صفحه ۱ ۱۶ الفضل ۳۳دسمبر ۱۹۳۰ء صفحہ ۳ کالم ۱۲ مرز افاروق احمد صاحب جو تقریباً اڑھائی سال کی عمر میں فوت ہوئے) -116 الفضل ۷ جنوری ۱۹۳۰ء صفحہ اکالم الفضل فروری ۱۹۳۰ء صفحه ۱ ۱۹ الفضل کے فروری ۱۹۳۰ء صفحہ ۱.مفصل خطبہ کے لئے ملاحظہ ہو الفضل سے مارچ ۱۹۳۰ء صفحہ ۸ تا ۱۱ ۱۲۰ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحه ۷۵ مطبوعه ۲ دسمبر ۱۹۳۰ء ١٣١ الفضل سے مارچ ۱۹۳۰ء صفحہ ۲ کالم ۳۰۱ ۱۳ الفضل ۳۱ جنوری ۱۹۳۰ء صفحه ۱
تاریخ احمدیت جلد ۵ ۱۳۳- الفضل ۸ نومبر ۱۹۳۰ء صفحه) 254 ۱۲۴ - الفضل یکم اپریل ۱۹۳۰ء صفحه ۹-۱۰ اخبار انقلاب لاہور وغیرہ نے اس کے اجرا کا خیر مقدم کیا.۱۳۵- مرکز احمدیت قادیان - صفحه ۴۷۳۴۶ ( از شیخ محمود احمد صاحب عرفانی) خلافت ثانیہ کا سترھواں سال ۱۲۶ الفضل ۱۴ جنوری ۱۹۳۰ صفحه الفضل کے اجنوری ۱۹۳۰ء صفحہ ۳- ۴ پر ان کی مفصل تقریر چھپ چکی ہے.الفضل کے جنوری ۱۹۳۰ء صفحہ ۱۰ کالم ۳ ۱۳۸ ایضا صفحہ ا کالم ۲ ١٣٩ الفضل ۲۴ جنوری ۱۹۳۰ء صفحه ۱۳ کالم ۲-۳ ۱- الفضل ۲۱ فروری ۱۹۳۰ء صفحه ۲ ۱- الفضل ۲۵ مارچ ۱۹۳۰ء صفحه ۲ کالم ۲ و الفضل ۱۵ اپریل ۱۹۳۰ء صفحه ۸ کالم ۳ -١٣٢ الفضل ۲۴ جولائی ۱۹۳۰ء صفحه ۲ کالم ۱۳۳- الفضل ۱۵ جون ۱۹۳۰ء صفحہ ۶ کالم ۳ ۱۳- الفضل ۲۴ جولائی ۱۹۳۰ء صفحہ ۹ ۱۳۵ الفضل ۷ اگست ۱۹۳۰ء صفحه ۲ - الفضل وجولائی ۱۹۳۰ء صفحہ ۲ کالم ۳ ۱۳۹ ۱۳۷ الفضل اکتوبر ۱۹۳۰ء صفحہ سے کالم ۳ ١٣٨- الفضل ۲۳ ستمبر ۱۹۳۰ء صفحه ۲ کالم -۲ ١٣٩ الفضل ۲۵ نومبر ۱۹۳۰ء صفحه ۸۰۷ الفضل ۱۸ نومبر ۱۹۳۰ء صفحه) ١٣١ الفضل ۲۹ نومبر ۱۹۳۰ء صفحه ۸۰۷ ١٤٢ الفضل ۲۳ دسمبر ۱۹۳۰ء صفحه ۸ کالم ۳ - الفضل ۶ جنوری ۱۹۳۱ء صفحہ ۲ کالم - کولو تار ژوی صاحب ابو سعید مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے داماد تھے.-٤-١٤ الفضل ۲۴ جنوری ۱۹۳۱ء صفحه ۱۲ کالم (۳) ۱۴۵ الفضل ۱۳ جنوری ۱۹۳۱ء صفحہ ۴ کالم (۳)
تاریخ احمدیت جلد ۵ چوتھا باب (فصل اول) 255 خلافت عثمانیہ کا اٹھارہواں سال مجلس انصار اللہ کے احیاء سے لے کر مسلم لیگ کے اجلاس دہلی (دسمبر ۱۹۳۱ء) میں محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کے خطبہ صدارت تک خلافت ثانیہ کا اٹھارہواں سال جنوری ۱۹۳۱ء تا دسمبر ۱۹۳۱ء بمطابق شعبان ۱۳۴۹ھ تا شعبان ۵۱۳۵۰) ہم ۱۹۲۸ء کے واقعات قلمبند کرتے ہوئے اب ۱۹۳۱ء کے اس اہم سال میں آپہنچے ہیں جس میں تحریک آزادی کشمیر کا آغاز ہوا.اور حضرت امام جماعت احمد یہ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی صدارت میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی جیسے فعال اور ملک گیر ادارہ کا قیام عمل میں آیا تھا.جس کے تحت جماعت احمدیہ کا ہر فرد کشمیر کے مسلم لیڈروں اور دوسرے مسلمانوں کے دوش بدوش آزادی کشمیر کے لئے سربکف ہو کر میدان عمل میں آگیا.کشمیر کی تحریک آزادی میں جماعت احمدیہ کی سنہری خدمات بہت تفصیل طلب ہیں اور ان کی اہمیت و عظمت کا تقاضا ہے کہ وہ یک جائی طور پر پوری شرح و بسط سے زیب قرطاس کی جائیں.تایہ بھی معلوم ہو سکے کہ مصلح موعود سے متعلق یہ پیشگوئی کہ وہ امیروں کی رستگاری کا موجب ہو گا.کس شان سے پوری ہوئی.لہذا اس جلد کا حصہ دوم اس اہم تحریک کے لئے مخصوص کر دیا گیا ہے اور یہاں صرف اس قدر اشارہ پر اکتفا کرتے ہوئے ۱۹۳۱ء کے دوسرے حالات و واقعات پر نظر ڈالتے ہیں.انصار اللہ " کا احیاء اور اس کی تبلیغی خدمات فروری ۱۹۳۱ء میں انصار اللہ " کا احیاء ہوا اور اس کا مقصد یہ قرار پایا.کہ ہر جماعت سے ایسے مخلصوں کو جو تبلیغ کے لئے اپنے اوقات مرکزی لائحہ عمل کے مطابق وقف
تاریخ احمدیت جلد ۵ 256 خلافت عباسیہ کا اٹھارہواں سال کریں دوسرے لوگوں سے ممتاز حیثیت دی جائے.انصار اللہ میں داخل ہونے والے احمدیوں سے یہ عہد لیا جاتا تھا کہ وہ نظارت دعوۃ کو تبلیغ یا مقامی سیکرٹری تبلیغ کے ماتحت اپنے ایام وقف تبلیغ سلسلہ کے لئے اس حلقہ میں گزاریں گے.جو ان کے لئے مقرر کیا جائے گا اور اپنی علمی استعداد بڑھانے کے لئے ان مضامین کی تیاری کریں گے جولا ئحہ عمل میں تجویز کئے گئے ہیں.یہ تبلیغی تنظیم جو نظارت دعوۃ و تبلیغ کی دست و بازو ثابت ہوئی اور ملک کے طول و عرض میں اس نے نمایاں خدمات انجام دیں.اس کی ترقی میں حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب اور حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال کی کوششوں کا بہت دخل تھا.انصار اللہ کی تبلیغی سرگرمیوں کا آغاز قادیان کے قرب و جوار میں بیٹ کے علاقہ سے کیا گیا.جہاں ۲۸/ مارچ ۱۹۳۱ء کو ہتیں افراد پر مشتمل پہلا وفد پہنچا اس نے سولہ حلقوں میں تقسیم ہو کر ایک سو پندرہ بستیوں میں پیغام احمد بیت پھیلانے کی بنیاد رکھ دی.سید نا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ارشاد فرمایا تھا کہ قادیان کا ہر بالغ احمدی (معذوروں کے سوا) سال میں پندرہ دن تبلیغ کے لئے وقف کرے جو نظارت دعوۃ تبلیغ کے زیر انتظام بیرونی مقامات میں بھیجا جائے گا.انصار اللہ کے اس پہلے وفد کے تمام افراد قادیان ہی کے رہنے والے اور حضور کی تحریک پر روح اخلاص کا نمونہ دکھانے والوں میں سابقون الاولون تھے.اس کے بعد 9/ اپریل ۱۹۳۱ ء کو دو سرا دفند ( کہ وہ بھی بہتیں ہی افراد پر مشتمل تھا.اسی علاقہ میں روانہ ہوا.چوہدری محمد شریف صاحب مبلغ بلاد عربیہ کا بیان ہے کہ حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی اس تبلیغی مہم بیٹ کے انچارج مقرر کئے گئے تھے آپ کا ہیڈ کوارٹر ” بھینی میلواں" تھا.میں بھی جولائی کے اس وفد میں شامل تھا جس نے اس علاقہ میں کام کیا.قادیان سے باہر جس تنظیم انصار اللہ نے سب سے پہلے اپنے حلقہ تبلیغ میں کام شروع کرنے کی اطلاع دی.وہ بنگہ ضلع جالندھر کی تنظیم انصار اللہ تھی.یہ تھی مختصری داغ بیل اس تنظیم کی جو بعد کو جماعت احمدیہ کی ایک مستقل تحریک بنی اور جو آج عظیم الشان خدمات بجالا رہی ہے.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۲۷/ قومی نقائص کی اصلاح کے لئے جدوجہد فروری ۱۹۳۱ء کو ایک سلسلہ خطبات شروع فرمایا.جس میں حضور نے جماعت احمدیہ کو بعض ان قومی امور کی طرف توجہ دلائی جو مسلمانوں کے زوال کا باعث بنے.مثلاً حضور نے بتایا کہ جب تک مسلمان یہ یقین رکھتے رہے کہ قرآن مجید رسیع و غیر محدود مطالب رکھتا ہے ان کی علمی ترقی جاری رہی مگر جس وقت ان میں یہ خیال پیدا ہوا.کہ قرآنی
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 257 خلافت ثانیہ کا اٹھارہواں سال معارف میں ترقی نہیں ہو سکتی اور اب اس سے نئے نئے علوم نہیں نکالے جاسکتے ان کے دماغ معطل و مفلوج ہو کے رہ گئے.نتیجہ یہ ہوا کہ مادی ترقیات کے دروازے بھی بند ہونے لگے.چنانچہ ساتویں صدی ہجری تک مسلمانوں میں ایجاد کا سلسلہ جاری رہا.وہ طب کیمیا ہیئت ہندسہ الجبراً انجینر نگ کے ماہر تھے.مگر اسی صدی میں جب یہ خیال غالب آگیا کہ اب قرآن سے نئے معارف نکالنا گناہ ہے دنیوی اختراعات کا سلسلہ بھی رک گیا.ہمیں چاہئے کہ ہم ہمیشہ غور کرتے رہیں کہ کیا ہم میں بھی تو یہ نقص پیدا نہیں ہو گیا.اور اگر ہو گیا ہے تو اس کے ازالہ کی کوشش کریں.ورنہ جس نقص نے دوسرے مسلمانوں کو مصیبت میں ڈال زیادہ ہمارے لئے بھی مشکلات کا موجب بن سکتا ہے.خلافت اللہ تعالیٰ کی حضرت خلیفتہ المسیح کیلئے پہرے کا مستقل اور باقاعدہ انتظام کا اور ان عظیم الشان نعمت اور بیش بہا امانت ہے.جس کی حفاظت نظام اسلامی کی حفاظت ہے.اور اس سعادت میں حصہ لینے والے اور خلیفہ وقت کا پہرہ دینے والے بڑے اجر و ثواب کے مستحق ہیں.- حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے سب سے پہلے پہرہ دینے والے عبد الاحد خاں صاحب افغان ہیں جو ۱۹۱۸ ء میں حضور کا انفلوانزا کی شکایت پیدا ہونے کے دنوں میں پہرے کی خدمت انجام دیتے تھے.اسی زمانہ کے قریب قریب خان میر صاحب انفان اور نیک محمد خان صاحب غزنوی بھی گا ہے گا ہے یہ خدمت انجام دینے لگے.مگر یہ کام رضا کارانہ حیثیت میں ہو تا تھا.دسمبر۷ ۱۹۲ء میں بہت سے دوستوں نے خواب میں دیکھا کہ حضور پر حملہ کیا گیا ہے.جس پر ۱۵/ ستمبر ۱۹۲۷ء کو صدرانجمن احمدیہ نے خادم خاص" کے نام سے دو نئی اسامیاں منظور کیں اور فیصلہ کیا گیا کہ ان کا تقرر پرائیویٹ سیکرٹری (حضرت امیر المومنین) کے مشورہ سے ناظر امور عامہ کریں گے.مگر غالبا یہ انتظام سالانہ جلسہ کے لئے کیا گیا تھا.حضور کی حفاظت اور قصر خلافت کی حفاظت کا باقاعدہ انتظام شروع ۱۹۳۱ء میں ہوا.اس سلسلہ میں پہلے محافظ خان میر صاحب افغان متوطن علاقہ دیسور مقرر ہوئے.اگر چہ آپ صاحبزادہ حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی نگرانی میں ۱۲ جنوری ۱۹۳۱ء سے آنریری طور پر کام کر رہے تھے مگر دفتری حیثیت سے مارچ ۱۹۳۱ ء میں ان کا تقرر ہوا.خان میر صاحب ۱۹۳۱ء سے ۱۱/ دسمبر ۱۹۴۷ء تک اس خدمت پر فائز رہے شروع میں تو آپ اکیلے پہرہ دار تھے مگر کچھ مدت کے بعد بعض اور اصحاب آپ کے ساتھ اس نازک ذمہ داری میں شامل ہو گئے.۱۹۴۸ء میں پہرہ داروں کی نگرانی کے لئے " افسر حفاظت " کا تقرر عمل میں آیا.اور پہلے افسر حفاظت جناب سید احمد صاحب مولوی فاضل (ابن حضرت ؛ اکٹر سید غلام غوث صاحب) مقرر ہوئے.جو ماہ جون ۱۹۵۱ء تک یہ خدمت بجالاتے
-1 تاریخ احمدیت.جلد ۵ 258 خلافت ثانیہ کا اٹھارہواں سال رہے.ان کے بعد یہ کام بالترتیب مندرجہ ذیل اصحاب کے سپرد ہو تا رہا.چوہدری اقبال احمد صاحب حال چک ۹۸ شمالی سرگودها) (۲ جون ۱۹۵۱ء سے جون ۱۹۵۴ء تک) کمپٹن محمد حسین صاحب چیمہ (حال سیکرٹری مال لنڈن ) ( جون ۱۹۵۴ء سے جون ۱۹۵۷ء تک) جناب کمپٹن شیر ولی صاحب (حال موضع در جمال ڈا کھانہ کریالہ ضلع جہلم) (۱۱/ جون ۱۹۵۷ء سے ۲۵/ اکتوبر۱۹۵۷ء تک) - صوبیدار عبد الغفور صاحب نائب افسر ( اکتوبر ۱۹۵۷ء سے ۲۲/اکتوبر ۱۹۵۸ء تک) - چوہدری عبد السلام صاحب باڈی گارڈ قائم مقام افسر (۲۲/اکتوبر ۱۹۵۸ء سے ۸/ دسمبر ۱۹۵۸ء تک) صوبیدار عبد المنان صاحب دہلوی (۹/ دسمبر ۱۹۵۸ء سے آج تک ) پہرے کے انتظام کو زیادہ مستحکم بنانے کے خیال سے ۱۹۵۶ء میں نظارت حفاظت کا قیام ظہور میں آیا اور پہلے ناظر جناب مرزا د اؤ د احمد صاحب لفٹنٹ کرنل ریٹائرڈ مقرر ہوئے.مگرے ۱۹۵ء کے شروع میں یہ نظارت ختم کر دی گئی.اور حسب دستور سابق افسر حفاظت ہی پہرے کی نگرانی کا فرض انجام دینے لگے.اس مستقل اور با قاعدہ انتظام کے علاوہ سالانہ جلسہ اور جمعہ اور دوسرے ہنگامی حالات میں ۱۹۲۷ء سے حضور کے زمانہ صحت تک بہت سے مخلصین آنریری طور پر حفاظت کی خدمت انجام دیتے رہے ہیں مثلاً سردار کرم داد صاحب رسالدار - لفظنٹ سردار نذر حسین صاحب - چوہدری اسد الله خان صاحب (حال امیر جماعت احمدیہ لاہور).چوہدری محمد صدیق صاحب فاضل (حال انچارج خلافت لائبریری - مرزا محمد حیات صاحب (رفیق حیات سیالکوٹ) مولوی عبدالکریم صاحب (ابن حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب حلال پوری) خواجہ محمد امین صاحب - ملک محمد رفیق صاحب - بابو شمس الدین صاحب ( حال امیر جماعت احمدیہ پشاور) جمعدار شیر احمد خان صاحب (حال لنڈن) جماعت احمدیہ کی ادبی خدمات دہلی کے مشہور ولی مرتاض حضرت خواجہ میر درد رحمتہ اللہ علیہ (۰۶۱۷۱۹ ۱۷۸۵ء) نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ "اے اردو گھبرانا نہیں.تو فقیروں کا لگایا ہوا پورا ہے خوب پھلے پھولے گی.تو پروان چڑھے گی ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ قرآن حدیث تیری آغوش میں آکر آرام کریں گے.بادشاہی قانون اور حکیموں کی طبابت تجھ میں آجائے گی اور تو سارے ہندوستان کی زبان مانی جائے گی".
تاریخ احمدیت جلد ۵ 259 خلافت عثمانیہ کا یہ عظیم الشان پیشگوئی خدا کے فضل و کرم سے تحریک احمدیت کے ذریعہ سے پوری ہوئی اور ہو رہی ہے چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فقید المثال اردو لٹریچر اور دنیا بھر میں اس کی اشاعت کرنے والی جماعت پیدا کر دی ہے.اور ساری دنیا میں جہاں جہاں احمدی مشن یا احمدی مسلمان موجود ہیں وہاں اردو سیکھی اور سکھلائی جارہی ہے الغرض اردو کی ترقی و سربلندی کی اساس عالمگیر سطح پر قائم کی جاچکی ہے.اور خصوصاً حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اس اساس کو بلند سے بلند تر کرنے میں اپنے زمانہ خلافت میں سنہری خدمات انجام دی ہیں اور آپ کے قلم سے نکلی ہوئی کثر التعداد تصانیف و تحریرات اس پر شاہد ہیں.اس ضمن میں آپ نے اس سال (۳۱-۱۹۳۰ء) میں اردو کی سرپرستی کی طرف خاص طور پر توجہ فرمائی.مذہبی اور سیاسی میدان میں آپ کی قابلیت کا سکہ پہلے ہی بیٹھ چکا تھا.اب ادبی حلقوں میں بھی آپ کی دھوم مچ گئی.اس کی تفصیل یہ ہے کہ آزیبل جسٹس سر عبد القادر صاحب کی نگرانی اور شمس العلماء احسان اللہ خان صاحب تاجور نجیب آبادی (۶۱۸۹۴-۱۹۵۱ء) کی ادارت میں لاہور سے ادبی دنیا" کے نام سے ماہوار اردو کا ایک بلند پایہ رسالہ شائع ہو تا تھا.جو اپنے معاصرین میں ممتاز مقام رکھتا تھا.اس رسالہ (مارچ ۱۹۳۰ء) میں پروفیسر بھوپال سنگھ صاحب ایم.اے سینئر پروفیسر انگلش (دیال سنگھ کالج لاہور) کا ایک مضمون شائع ہوا جس کا عنوان تھا ” حالی کی تنقید نگاری " حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے یہ مضمون بہت دلچسپی سے پڑھا اور آپ کو تحریک ہوئی کہ " شعر " سے متعلق اپنے خیالات سپرد قلم کر کے بھیجوا ئیں.چنانچہ خودہی فرماتے ہیں." ایک پروفیسر اور پھر انگریزی زبان کے پروفیسر کے قلم سے اردو علم ادب کی ایک شاخ کے متعلق مضمون کیسا بھلا معلوم ہوتا ہے میں نے اس مضمون کو نہایت شوق سے دیکھا اس مضمون کے مطالعے کے دوران میں تو سن خیال میں کہیں سے کہیں چلا گیا تا اینکہ میرے دل میں یہ آرزو پیدا ہو گئی کہ میں شعر کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کروں".اس آرزو کی تکمیل کے لئے آپ نے "ابن رسالہ ”ادبی دنیا میں پہلا مضمون الفارس" کے نام سے ادارہ ادبی دنیا کو ایک مضمون بھجوایا جو مئی ۱۹۳۰ء کے شمارے میں شائع ہوا.اس مضمون میں جو اپنی نوعیت کا اچھو تا مضمون تھا.حضور نے مغربی زبان اور عربی مشتقات کی روشنی میں شعر کی تعریف بیان فرمائی اور اس کی کیفیت و ماہیت پر روشنی ڈالتے ہوئے اعتدال کے ایک نئے زاویہ کی نشان دہی فرمائی.چنانچہ آپ نے لکھا." شعر کا بھی ایک جسم ہے اور ایک روح موجودہ دور کے مغربی علماء میں سے اکثر اس کے جسم ہی سے
تاریخ احمدیت جلد ۵ 260 خلافت عثمانیہ کا اٹھارہواں سال تعریف کو مکمل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.قدیم اور زمانہ وسطی کے ادیب اپنی تعریف شعر کی روح سے خاص کر دیتے تھے.دونوں اپنی اپنی جگہ جو کچھ کہتے ہیں درست کہتے ہیں مگر سچائی کے زیادہ قریب ہونے کے لئے ہمیں ان دونوں تعریفوں کو ملا لینا چاہئے.مغربی شعراء میں سے ورڈس ورتھ کا یہ خیال ہے کہ شعر نام ہے ان جذبات کا جن کی یاد سکون کے وقت میں پھر تازہ کی جاتی ہے.یا یہ کہ شعران جذبات کو جو ہم محسوس کرتے ہیں تمثیل کے ذریعہ سے بیرونی دنیا تک پہنچانے کا نام ہے میتھیو آرنلڈ کا نظریہ بھی اس سے ملتا جلتا ہے جس کا یہ خیال ہے کہ شعر حیات کی تنقید کا نام ہے.مگر مشہور جرمن فلاسفر ہیگل II کے نزدیک صرف وزن ہی وہ پہلی اور آخری چیز ہے جس کا شعر میں پایا جانا ضروری ہے.عمده تشبیهات، طرفه خیالات اعلیٰ افکار اچھے اور برے شعر میں فرق کرنے میں تو مدد دے سکتے ہیں لیکن وہ شعر کو شعر نہیں بناتے.میں یہ کہوں گا کہ ورڈس ورتھ نے ہیگل سے اختلاف نہیں کیا نہ ہیگل نے ورڈس در تھے سے صرف اتنا ہوا ہے کہ ایک استاد الفاظ نے شعر کا فلسفہ بیان کر دیا ہے اور ایک فلاسفر نے اس کی لفظی صورت سے بحث کرلی ہے".12 اس کے بعد آپ عربی زبان سے شعر کے معنی بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں.مغربی زبان کے مشتقات کی رو سے اس فن پر جو روشنی پڑتی ہے وہ کافی نہیں اور ابتدائی انسان کی جرات کے اظہار سے زیادہ اس سے کچھ پتہ نہیں چلتا.لیکن میرے نزدیک عربی زبان جو نہایت ہی مکمل زبان ہے.اور اشتقاق کبیر بلکہ اکبر کی مدعی ہے اس کے مقرر کردہ نام سے ہمیں اس فن کی حقیقت کے متعلق بہت کچھ معلومات حاصل ہو جاتی ہیں عربی زبان میں کلام منظوم کو شعر کہتے ہیں اور شعر کے معنے پہچاننے کے ہیں اشفاق صغیر پر جو ہم نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس میں اندرونی اور چمٹی ہوئی چیز کے معنے پائے جاتے ہیں.اور ساتھ چمٹی ہوئی چیز انسان کے لئے اس کے اندرونی جذبات ہیں جو بیرونی اثرات سے متحرک ہو کر جوش میں آجاتے ہیں.پس شعر کے معنی اشتقاق صغیر کی روشنی میں یہ ہوں گے کہ ایسی بات کو بیان کرنے والا کلام جو ہمارے دل میں موجود ہے اور جو ہمارے بعض جذبات کو اس طرح ابھارتا ہے کہ ہم الفاظ سے جدا ہو کر معافی کی تمام جزئیات سے پوری طرح واقف ہو جاتے ہیں معانی کو محسوس کرتے ہیں گویا وہ ایک مضراب ہے جو ہمارے سازوں میں لرزش پیدا کر دیتی ہے".ادبی دنیا کے مدیر جناب تاجور نجیب آبادی نے اس مضمون پر اسی شمارہ میں دو نوٹ لکھے.(۱) ملک کے ایک مشہور نہ نہیں رہنما جن کی روحانی عظمت کا سکہ ان کے لاکھوں مریدوں ہی نہیں بلکہ امتیوں کے دلوں پر بیٹھا ہوا ہے اور جو اپنی مسند خلافت سے احکام الٹی کی تبلیغ اور مذہبی تلقین ہی کو
ربیت ، جلد ۵ 261 خلافت ثانیہ کا انھار ہو اپنا منصب خیال فرماتے ہیں.ادبی دنیا ان کی مقدس مصروفیتوں میں بھی خلل انداز ہوئے بغیر نہ رہا.اس نمبر میں ” ابن الفارس" کے نام سے جو بلند و گراں مایہ مضمون شائع ہو رہا ہے.انہی کے خامہ مقدس چکاں کی تراوش ہے".(۲) مندرجہ بالا مضمون ایک ایسی شخصیت کے دل و دماغ کی تراوش ہے جو فی الحقیقت کھول انسانوں کے قلوب پر حکمران ہے.ادبی دنیا کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا اس سے زیادہ اور کیا نہوت ہو گا.کہ ایسے حضرات اپنے رشحات کرم سے اس کی آبیاری کرتے ہیں.فاضل مضمون نگار نے ہمیں ”ابن الفارس" کے لطیف و نازک نقاب اٹھانے کی اجازت نہیں دی مگر ہم علامہ اقبال کے ہم نوا ہو کر کہہ سکتے ہیں پر تو حسن تو مے افتد برون مانند رنگ صورت می پرده از دیوار نیا ساختی" رسالہ ادبی دنیا میں دوسرا مضمون حضور نے اگلے سال ۱۹۳۱ء میں ”اردو رسائل زبان کی کس طرح خدمت کر سکتے ہیں.کے اہم موضوع پر ایک اور قیمتی مضمون تحریر فرمایا.جو ادبی دنیا " مارچ ۱۹۳۱ء ( صفحہ ۱۸۶ تا ۱۸۸) میں آپ کا فوٹو دے کر شائع کیا گیا.ذیل میں اس اہم مضمون کا مکمل متن درج کیا جاتا ہے.حضور نے تحریر فرمایا.اردو زبان کی بڑی وقتوں میں سے ایک یہ وقت ہے کہ اس کی لغت کتابی صورت میں پوری طرح مدون نہیں ہے اور نہ اس کے قواعد پورے طور پر محصور ہیں اور نہ مختلف علمی مضامین کے ادا کرنے کے لئے اصطلاحیں مقرر ہیں مولوی فتح محمد صاحب جالندھری نے قواعد کے بارے میں اچھی خدمت کی ہے اور مولانا شیلی اور مولوی عبدالحق صاحب نے ان کے کام کو جلا دینے میں حصہ لیا ہے.لغت کا کام مولوی نذیر احمد دہلوی نے کیا ہے اور اصطلاحات کے لئے ہم عثمانیہ یونیورسٹی کے ممنون ہیں.انجمن ترقی اردو انسی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے بہت کچھ کر رہی ہے لیکن کام اس قدر ہے کہ کسی ایک شخص یا ایک انجمن یا ایک ادارہ سے ہونا نا ممکن ہے.اردو کے بہی خواہوں نے جو میرے نزدیک بعض مشکلات کو جو اردو زبان سے مخصوص ہیں نظر انداز کر دیا ہے.مثلاً (1) وہ سب زبانوں میں عمر میں چھوٹی ہے.(۲) حقیقی شاہی گود میں پلنے کا اسے کبھی موقع نہیں ملا.جو زبان کی ترقی کے لئے ضروری ہے.(۳) اصل میں تو تین لیکن کم سے کم دو مائیں اس کی ضرور ہیں اور مصیبت یہ ہے کہ دونوں سگی ہیں ہر ایک اپنی تربیت کا رنگ اس پر چڑھانا چاہتی ہے اور جب ان کا آپس میں اتحاد نہیں ہو سکا تو دونوں اپنا غصہ اس معصوم پر نکالتی ہیں.میں نے تو جہاں تک غور کیا ہے اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اس وقت جھگڑا یہ
تاریخ احمدیت جلد ۵ 262 خلافت ثانیہ کا اٹھارہواں سال نہیں کہ اہل سنسکرت اردو کو اپنا بنانے کو تیار نہیں.بلکہ یہ ہے کہ وہ اسے صرف اپنا ہی بنائے رکھنے پر مصر ہیں اور عربی فارسی والوں کے سایہ سے اس نو نہال کو دور رکھنا چاہتے ہیں اور یہی حال ان کا بھی ہے.(۴) ہمارا علمی طبقہ غیر زبانوں میں سوچ کا عادی ہو گیا ہے.اور اسی وجہ سے اس کی تحقیق و تفتیش سے اردو نفع نہیں اٹھا سکتی.(۵) ٹائپ نہ ہونے کے سبب آنکھوں کو اس کے حروف سے وہ موانست نہیں پیدا ہوتی.جو ٹائپ پر چھپنے والی زبانوں کے حروف سے ہو جاتی ہے.اور اس وجہ سے لوگوں میں شوق تعلیم سرعت سے ترقی نہیں کر سکا.اور کتابوں کی اشاعت وسیع پیمانے پر نہیں ہو سکی انسان بارہ تیرہ قسم کی ٹائیوں کا عادی تو ہو سکتا ہے لیکن ہزاروں قسم کا نہیں.اور اردو زبان کے جتنے کاتب ہیں گویا اتنے ہی ٹائپ ہیں.جس کی وجہ سے طبیعتوں پر ایک غیر محسوس بوجھ پڑتا ہے اور تعلیم کا ذوق کم ہو جاتا ہے.ان مشکلات کی وجہ سے اردو کی ترقی کے رستہ میں دوسری زبانوں کی نسبت زیادہ مشکلات حائل ہیں.مگر میرے نزدیک وہ ایسی نہیں کہ دور نہ کی جاسکیں.اب تک نقص یہی رہا ہے کہ مرض کی تشخیص نہیں کی گئی.اور اس کی وجہ سے لازماً علاج بھی صحیح نہیں ہوا اگر اردو عمر میں اپنی بہنوں سے چھوٹی تھی تو اس کے لئے اس قسم کی غذا کا بھی انتظام ہونا چاہئے تھا اور اگر وہ شاہی گود سے محروم تھی.تو کیوں نہ اسے جمہوریت کی گود میں ڈال دیا گیا.جس کی حفاظت شاہی حفاظت سے کسی صورت میں کم نہیں کہ اصل بادشاہت تو اسی کی ہے.اگر اس کی تربیت کے متعلق اختلاف تھا تو بجائے یہ صورت حالات پیدا کرنے کے کہ جس کا بس چلا وہ اسے اپنے گھر لے گیا.وہی کیوں نہ کیا گیا جو حضرت محمد ( ا ) نے اس وقت کیا تھا جب خانہ کعبہ کی تعمیر جدید کے موقع پر حجر اسود کو اٹھا کر اس کی جگہ پر رکھنے کے سوال پر مختلف قریش خاندان میں جھگڑا پیدا ہوا تھا.اور انہوں نے ایک چادر بچھادی اور اس پر حجر اسود اپنے ہاتھ سے رکھ کر سب قوموں کے سرداروں سے کہا کہ وہ اس چادر کے کونے پکڑلیں.اور اس طرح سب کے سب اس کے اٹھانے میں برابر کے شریک ہو جائیں.اسی طرح اگر اردو، سنسکرت اور عربی کی مشترک تربیت میں دے دی جاتی تو یہ جھگڑا ختم ہو سکتا تھا.ٹائپ کا سوال مختلف قسم کا سوال ہے لیکن اگر مذکورہ بالا باتوں کی طرف توجہ ہوتی تو بہت سے لوگ اسے حل کرنے کی طرف بھی مائل ہو جاتے.اور الحمد للہ کہ اس وقت حیدر آباد میں بہت سے ارباب بصیرت اس کے لئے کوشش کر رہے ہیں.میری ان معروضات کا مطلب یہ ہے کہ اردو کی ترقی کے لئے ایسے ذرائع اختیار کرنے چاہئیں کہ بجائے ایک محدود جماعت کی دلچسپی کا مرکز بننے کے جمہور کو اس سے دلچسپی پیدا ہو.خالص علمی رسائل
تاریخ احمد میمت - جلد ۵ 263 خلافت ثانیہ کا اٹھار ہواں سال صرف منتخب اشخاص کی توجہ منعطف کراسکتے ہیں اور زبانیں چند آدمیوں سے نہیں بنتیں خواہ وہ بہت اونچے پایہ کے کیوں نہ ہوں.قاعدہ یہ ہے کہ زبان عوام الناس بناتے ہیں.اور اصطلاحیں علماء - اردو بھی اس قاعدہ سے مستثنیٰ نہیں ہو سکتی.پس اگر ہم اردو کی ترقی کے مقصد میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں.تو اس کا ذریعہ صرف یہی ہے کہ ہمارے ادبی رسالوں میں اس کے علمی پہلوؤں پر بحثیں ہوں.ماکہ صرف پیش آنے والی مشکلات کے علاج ہی کا سامان نہ ہو.بلکہ عوام الناس بھی ان تحقیقات سے واقف ہوتے جائیں اس وقت خدا تعالٰی کے فضل سے کئی اردو رسائل کامیابی سے چل رہے ہیں.اگر ان رسائل میں چند صفحات مستقل طور پر اس بات کے لئے وقف ہو جائیں کہ ان میں اردو زبان کی لغت یا قواعد یا اصطلاحوں وغیرہ پر بخشیں ہوا کریں تو یقیناً تھوڑے عرصہ میں وہ کام ہو سکتا ہے جو بڑی بڑی انجمنیں نہیں کر سکتیں.اور بڑا فائدہ یہ ہو تا کہ جو نئی نئی اخترا میں ہوں گی یا الفاظ کے استعمال یا قواعد زبان کے متعلق جو پہلو زیادہ وزنی معلوم ہو گا عام لوگ بھی اس کو قبول کریں گے کیونکہ دلچسپ اردو رسائل میں چھپنے کی وجہ سے وہ سب مضامین ان کی نظروں سے بھی گزرتے رہیں گے.ہاں یہ مد نظر رہے کہ مضمون ایسے رنگ میں ہو کہ سب لوگ اسے سمجھ سکیں.اس قسم کے مضامین کی اشاعت کا فائدہ یہ بھی ہو گا کہ ہمارے ہندو بھائی بھی ان بحثوں میں حصہ لے سکیں گے اور اس میں کیا شک ہے کہ بغیر ان کی مدد کے ہم یہ کام نہیں کر سکتے.کیونکہ اردو میں بہت سے لفظ سنسکرت اور ہندی بھاشا کے ہیں اور ان کی اصلاح یا ان میں ترقی بغیر ہندوؤں کی مدد کے نہیں ہو سکتی.ان کی شمولیت کے بغیر یا تو وہ حصہ زبان کا نامکمل رہ جائے گا.یا اسے بالکل ترک کر کے اس کی جگہ عربی الفاظ اور اصطلاحیں داخل کرنی پڑیں گی.اور یہ دونوں باتیں سخت مضر ہیں اردو کی ترقی کے راستہ میں روک پیدا کرنے والی ہوں گی.اس تمہید کے بعد میں ایڈیٹر صاحب ادبی دنیا اور دوسرے ادبی رسائل سے درخواست کرتا ہوں کہ اگر وہ ان باتوں میں مجھ سے متفق ہوں تو اپنے رسائل میں ایک مستقل باب اس غرض کے لئے کھول دیں.لیکن انہیں ان مشکلات کا بھی اندازہ کر لینا چاہئے جو اس کام میں پیش آئیں گی.مثلا یہ کہ جو سوالات اٹھائے جائیں گے انہیں حل کون کرے گا بالکل ممکن ہے کہ جواب دینے والے ایسے لوگ ہوں جن کا کلام مستند نہ ہو یا جن کے جواب تسلی بخش نہ ہوں یا کوئی شخص جواب کی طرف توجہ ہی نہ کرے.اگر صرف رسالہ کے ادارہ نے جواب دیئے تو پھر اول تو اصل مطلب فوت ہو جائے گا دوم ممکن ہے کہ اس سے وہ اثر پیدا نہ ہو سکے.جو اصل مقصود ہے.لہذا اس مشکل اور اس قسم کی دوسری مشکلات کے حل کے لئے میں یہ تجویز پیش کرتا ہوں کہ جو رسالہ اس تحریک پر عمل کرنا چاہے اس میں ایک ادبی کلب قائم کر دی جائے ادارہ کی طرف سے متعدد بار تحریک کر کے رسالہ کے خریداروں کے
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 264 انت ثانیہ کا ان سال نام ظاہر کریں.جو خریدار مستند ادیب ہیں ان سے اصرار کر کے اپنا نام پیش کرنے کے لئے کہا جائے ایسے تمام خریداروں کے نام ایک رجسٹر میں جمع کرلئے جائیں.اور انہیں ادبی کلب کا ممبر سمجھا جائے.چونکہ بالکل ممکن ہے کہ بہت سے ادیب اور علام جن کی امداد کی ضرورت سمجھی جائے.رسالہ کے خریدار نہ ہوں.اس لئے ایسے لوگوں کی ایک فہرست تیار کی جائے اور رسالہ کے مستطیع خریداروں کی اعداد سے ان کے نام رسالہ مفت ارسال کیا جائے اور ان کا نام اعزازی ممبر کے طور پر کلب کے رجسٹر میں درج کر لیا جائے.تمام ممبروں سے امید کی جائے کہ جب کبھی کوئی سوال (1) اردو لغت کے متعلق (۲) نحوی قواعد کے متعلق (۳) بعض علمی خیالات کے ادا کرنے میں زبان کی دقتوں کے متعلق (۴) محاورات کے متعلق (۵) تذکیر و تانیث (۶) جمع کے قواعد کے متعلق (۷) پرانی اصطلاحات کی تشریح یا نئی اصطلاحات کی ضرورت کے متعلق پیدا ہو تو بجائے خود حل کر کے خود ہی اس سے لطف حاصل کرنے کے وہ اس سوال کو رسالہ کے ادبی کلب کے حصول کے لئے کرائیں.خواہ اپنا حل بھی ساتھ ہی لکھ دیں یا خالی سوال ہی لکھ دیں ان سے یہ بھی امید کی جائے کہ جب کوئی ایسا سوال سامنے ہو تو وہ اس کا جواب دینے کی کوشش کیا کریں.ملک کو اردو علم ادب کے لحاظ سے چند حلقوں میں تقسیم کر دیا جائے مثلا (1) دہلی اور اس کے مضافات (۲) لکھنو اور اس کے مضافات (۳) پنجاب (۴) رامپور اور اس کے مضافات (۵) بھوپال اور اس کے مضافات (۷) اگرہ اور اس کے مضافات (۷) اعظم گڑھ اور الہ آباد اور اس کے مضافات (۸) بهار (۹) حیدر آباد - اس طرح علمی لحاظ سے اسے دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے.(۱) اسلامی یعنی عربی اور فارسی اثر.(۲) ہند و یعنی سنسکرت اور ہندی بھاشا اثر.جب سوالات رسالہ کے دفتر میں آئیں تو ادارہ انہیں مختلف حصوں میں تقسیم کر دے مثلاً جو سوال کسی لفظ کے استعمال اس کی شکل اور اس کی تذکیر و تانیث کے متعلق ہوں انہیں ایک جگہ جمع کر کے شائع کرے اور ان کے متعلق مذکورہ بالا حلقوں کے احباب سے درخواست کرے کہ وہ نہ صرف اپنی علمی تحقیق بتا ئیں بلکہ یہ بھی بتائیں کہ ان کے علاقہ میں وہ لفظ اردو میں استعمال ہوتا ہے یا نہیں اگر ہوتا ہے تو کس شکل میں اور کن کن معنوں میں اس طرح دو فائدے حاصل ہوں گے.ایک تو اس امر کا اندازہ ہو جائے گا کہ اس خاص لفظ یا محاورہ کے متعلق اردو بولنے والوں کی اکثریت کس
تاریخ احمدیت جلد ۵ 265 خلافت ثانیہ کا اٹھار ہواں سال طرف جارہی ہے اور اس سے اردو کی ترقی کی رو کا اندازہ ہو سکے گا.دوسرے علمی تحقیق بھی ہو جائے گی اور پڑھنے والوں کی طبائع فیصلہ کر سکیں گی کہ اس بارہ میں اردو کے حق میں کون سی بات مفید ہے آیا تحقیق کی پیروی کرنی چاہئے یا غلط الفاظ کی تصدیق کہ یہ دونوں باتیں اپنے اپنے موقع پر زبان کی ترقی کے لئے ضروری ہوتی ہیں.اس طرح جس لفظ کے متعلق بحث ہو اگر سنسکرت یا ہندی بھاشا اس کا ماخذ ہو تو اس کے علماء کو اور اگر عربی فارسی ماخذ ہو تو اس کے علماء کو اس پر روشنی ڈالنے کی طرف توجہ دلائی جائے.اس طرح اور بہت سی تقسیمیں کی جاسکتی ہیں، جو اس کلپ کو زیادہ دلچسپ بنانے کا باعث ہو سکتی ہیں کلب کا کام فیصلہ کرنا ہو بلکہ ہر پہلو کو روشنی میں لانا ہو.اس طرح جدید اصطلاحات کی ضرورتوں کو کلب کے صفحات میں شائع کیا جائے اور بحث کی طرح اس طریق پر نہ ڈالی جائے کہ خالص عربی یا خالص سنسکرت اصطلاحات لے لی جائیں بلکہ تحریک یہ کی جائے کہ وہ خیال جس کے ادا کرنے کی ضرورت پیدا ہوئی ہے.اس کے متعلق کلب کے ممبر پہلے یہ بحث کریں کہ اس خیال کا کسی اردو لفظ سے تعلق ہے.پھر یہ دیکھا جائے کہ وہ لفظ کس زبان کا ہے.اور آیا اس لفظ سے جدید اصطلاح کا بنانا آسان ہو گا.اگر عام رائے اس کی تائید میں ہو تو پھر اس زبان کے ماہروں سے درخواست کی جائے کہ وہ اس کے متعلق اپنا خیال ظاہر کریں کیونکہ جس زبان کا لفظ ہو اس کے ماہر اس کے صحیح مشتقات پر روشنی ڈال سکتے ہیں.ممکن ہے یہ خیال کیا جائے کہ اردو رسائل کے ادارے تو پہلے بوجھوں تلے دبے پڑے ہیں وہ اتنی پیچیدہ سکیم پر کس طرح عمل کر سکتے ہیں لیکن اول تو یہ سکیم عمل میں اس قدر پیچیدہ اور توجہ طلب نہ ہوگی.جس قدر کاغذ پر نظر آتی ہے.دوم اس قسم کے کلب جیسا کہ یورپ کا تجربہ ہے.ہمیشہ رسائل و اخبارات کی دلچپسی اور خریداری بڑھانے کا موجب ہوتے ہیں اس لئے جو رسالہ اس کام کو شروع کرے گا وہ میرے نزدیک مالی پہلو سے فائدہ میں رہے گا.تیسرے یہ بھی ضروری ہے کہ فورا اس ساری سکیم پر عمل کیا جائے ہو سکتا ہے کہ کلب جاری کر کے صفحات مقرر کئے بغیر اور اس طرح مضامین تقسیم کئے بغیر جس طرح میں نے بیان کیا ہے کام شروع کر دیا جائے پھر جوں جوں ادارہ اور کلب کے ممبروں کو مشق ہوتی جائے کام کو اصول کے ماتحت لایا جائے.تھوڑی سی ہمت کی ضرورت ہے اور بس.ادبی دنیا کے لئے اور اگر کوئی اور رسالہ اس تحریک پر عمل کرنے کے لئے تیار ہو تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ ضرورت ہو تو میں اس بحث کو واضح کرنے کے لئے اور اس تحریک سے لوگوں میں دلچسپی پیدا کرنے کے لئے بشرط فرصت اور مضامین بھی لکھ سکتا ہوں".(صفحہ ۱۸۶-۱۸۸)
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 266 خلافت ثانیہ کا اٹھارہواں سال جناب تاجور نے حضور کے مضمون کے ساتھ ایک ادارتی نوٹ دیا.جس میں آپ کی اردو نوازی اور ادبی خدمات کو زبر دست خراج تحسین ادا کرتے ہوئے لکھا.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب امام جماعت احمدیہ کی توجہات بیکراں کا میں سپاس گزار ہوں کہ وہ ادبی دنیا کی مشکلات میں ہماری عملی امداد فرماتے ہیں میں نے ان کی جناب میں امداد کی نہ کوئی درخواست کی تھی.نہ مجھے احمدی ہونے کا شرف حاصل ہے اور نہ ادبی دنیا کوئی مذہبی پرچہ ہے.مگر حضرت مرزا صاحب اپنی عزیز مصروفیتوں میں سے علم و ادب اور علم و ادب کے خدمتگزاروں پر توجہ فرمائی کے لئے بھی وقت نکال لیتے ہیں.ملکی زبان و ادب سے جناب موصوف کا یہ اعتنا ان علماء کے لئے قابل توجہ ہے.جو اردو ادب کی خدمت کو تضیع اوقات سمجھتے ہیں " - اگلے نمبر میں مزید لکھا.پچھلے نمبر میں حضرت امام جماعت احمد یہ قادیان کی توجہ بیکراں کا حال آپ نے پڑھ لیا ہو گا.امام جماعت احمدیہ مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود کے خلف الرشید اور ان کے خلیفہ ہیں.مرزا صاحب مرحوم کی تصانیف اردو ادب کا ایک ذخیرہ بیکراں ہیں الولد ستر لابیہ کے مطابق ان کے نامور فرزند کے دل میں بھی اردو زبان کے لئے ایک لگن اور اردو کے خدمت گزاروں سے ایک لگاؤ موجود -"< اس مضمون میں حضور نے ادبی رسالوں کے سامنے ایک سکیم بھی رکھی تھی.جسے ادبی حلقوں میں پسند کیا گیا.چنانچہ سید عبد القدوس صاحب ہاشمی ندوی ایم.اے مدیر رسالہ "قدیم " ( گیا جنوبی ہند) نے ۹/ اپریل ۱۹۲۱ء کو حضور کی خدمت میں لکھا کہ میں نے رسالہ ”ادبی دنیا میں شائع شدہ آپ کی سکیم کئی بار پڑھی اور مجھے یہ بہت پسند آئی ہے میں جناب کی سکیم بروئے کار لانا چاہتا ہوں.اور میں انشاء اللہ ابتدائی دقتیں بھی برداشت کر لوں گا.میں حضور کا بہت شکر گزار ہوں گا اگر اس بارے میں گرانقدر مشورہ سے سرفراز فرمایا جائے.۲۵/ مارچ ۱۹۳۱ء کو ہندوؤں نے کانپور میں فرقہ وارانہ مسلمانان کانپور پر ہولناک مظالم نیار کر کے سلمانان کانپور پر ہولناک مظالم ڈھائے نہ فساد بوڑھوں کے قتل سے رکے نہ بچوں کے قتل سے مجھجکے.عورتوں کی چھاتیاں کاٹ ڈالیں.مکانات جلا دیئے دکانیں لوٹ لیں.اور مساجد منہدم کر دیں.سفاکی اور بے رحمی کی انتہا یہ تھی کہ ہندوؤں نے مسلمانوں کی تباہی بربادی ہلاکت اور خوں ریزی پر مسرت و شادمانی کا اظہار کیا.چنانچہ لاہور کے ہندو اخبار "کیسری " نے لکھا." اس وقت تک عام طور پر اس قسم کے فسادات میں یہ ہو تا تھا کہ ہندو پٹتے
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 267 خلافت ثانیہ کا اٹھار ہواں سال اور مسلمان لوٹتے تھے.مگر اب حالات بدل رہے ہیں.ہمیں اس امر سے تسلی ہے کہ اب ہندو مار نہیں کھاتے".اخبار "الفضل " نے جو مظلوم کی حمایت کے لئے وقف تھا.مسلمانوں پر ان خطرناک مظالم اور ذمہ دار حکام کی مجرمانہ غفلت کے خلاف زبردست آواز بلند کی.کان پور کے مصیبت زدہ مسلمانوں کی امداد کے لئے ایک مسلم ریلیف کمیٹی قائم ہوئی جسے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے دو سو روپے کا عطیہ ارسال فرمایا.جس کی رسید خان بهادر حافظ ہدایت حسین صاحب بار ایٹ لاء پریذیڈنٹ ریلیف کمیٹی کانپور نے بھجوائی.حکومتیں ہمیشہ زبردست کا انگریزی حکومت کی غفلت شعاری اور حضور کا اعلان ساتھ دیا کرتی ہیں.ان دنوں انگریزی حکومت یہی مظاہرہ کر رہی تھی.مسلمانوں کے خلاف فسادات برپا ہوتے تو گواہی دینے والے مسلمان ہی مقدمات میں پھانس لئے جاتے تھے.حضرت اور نگ زیب رحمتہ اللہ علیہ اور دوسرے مسلمان بادشاہوں اور بزرگوں پر برابر حملے ہوتے رہتے.حتی کہ امتحان کے پرچوں میں بھی مسلم بادشاہوں کو گالیاں دی جاتیں مگر حکومت ٹس سے مس نہ ہوتی.۱۹۳۱ء میں حکومت کی اس دو رخی پالیسی کا جماعت احمدیہ کو خاص طور پر نشانہ بننا پڑا.بنگال میں ایک بد باطن نے ایک کتاب لکھی جس میں حضرت مسیح موعود کو شرمناک گالیاں دی گئیں.مگر حکومت نے اس پر کوئی نوٹس نہ لیا.اس کے مقابل ہماری طرف سے لیکھو نام لکھ دینے پر حکومت کی مشینری حرکت میں آگئی.بحالیکہ جب پنڈت لیکھرام کا نام ہی لیکھو ہو تو اسے لیکھو نہ لکھا جائے تو اور کیا لکھا جاتا.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے حکومت کے اس غیر دانشمندانہ و نامنصفانہ اقدام پر ۲۷/ مارچ ۱۹۳۱ء کو احتجاج کرتے ہوئے فرمایا.ہم ہر گز ایسے نوٹسوں کو تسلیم نہیں کرتے.ہم قانون کی پابندی کرتے ہیں.گورنمنٹ اگر کوئی قانون بنائے گی کہ لیکھو کو لیکھو نہ کہا جائے تو خدا تعالٰی ہمارے لئے کوئی اور راہ نکال دے گا جس سے ہم آریوں کی دکھتی رگ پکڑ سکیں گے.کیونکہ اسلام کوئی حکم ایسا نہیں دیتا.جس سے مشکلات میں اضافہ ہو جائے.اگر اس نے قانون کی پابندی کا حکم دیا ہے تو ایسے راستے بھی بتادیئے ہیں.کہ قانون کے اندر رہتے ہوئے بھی اپنی غیرت کا ثبوت دے سکیں".اس کے ساتھ ہی آپ نے مصنفین سلسلہ کو اجازت دی کہ وہ اخلاق و قانون کے اندر رہتے TA
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 268 خلافت ثانیہ کا اٹھارہواں سال ہوئے آریوں کی بد زبانیوں کا جواب دیں.ہاں قانون کی پابندی کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ وہ قید سے ڈریں اگر انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا اور اظہار صداقت کے ” جرم " میں انہیں جیل میں ڈال دیا جاتا ہے تو انہیں بخوشی چلے جانا چاہئے.کیونکہ مومن بزدل نہیں ہوتا.
تاریخ احمدیت جلد ۵ 269 خلافت لامیہ کا اٹھارہواں سال چوتھا باب (فصل دوم) تحفہ لارڈارون لارڈارون ۱۹۲۶ء میں ہندوستان میں وائسرائے ہو کر آئے اور ۱۹۳۱ء تک اس عہدہ پر فائز رہے.لارڈارون نہایت خوش خلق ، نیک دل اور مذہبی آدمی تھے.جنہوں نے اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں اعلیٰ اخلاقی نمونہ پیش کیا.لار ڈارون جب ہندوستان سے رخصت ہونے لگے.تو دوسروں نے تو ان کو مادی تجھے و تحائف پیش کئے مگر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ایک کتاب " تحفہ لارڈارون" کے نام سے (۲۷/ مارچ سے ۳۱ / مارچ ۱۹۳۱ء تک) پانچ روز میں تصنیف فرمائی اور جو احمد یہ وفد نے ۸/ اپریل ۱۹۳۱ء کو و اسرائیل لاج (دہلی) میں وائسرائے ہند لارڈارون کو نہایت خوبصورت سنہری کا سکیٹ اور خوشنما طشتری میں بطور تحفہ پیش کی.تحفہ لارڈارون" تین ابواب پر مشتمل ہے.پہلے باب میں حضور نے لارڈارون کو ان کے طریق عمل پر مبارکباد دینے اور ان کے جذبہ مذہبی کی تعریف کرنے کے بعد توجہ دلائی ہے کہ حکومت برطانیہ سے دانستہ یا نادانستہ ہندوستانی مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچا ہے.ان کی حکومت انگریزی حکومت کے قیام سے طبعاً تباہ ہو گئی ہے.اور نہ صرف کرناٹک ، بنگال اودھ میسور ، حجر اور سندھ جیسی اسلامی ریاستیں مٹ گئی ہیں بلکہ مسلمانوں کا تمدن اور فوقیت بھی انگریزی حکومت کے نتیجہ میں تباہ ہو گئی حالانکہ غالب گمان تھا کہ اگر انگلستان کا قدم درمیان میں نہ آتا تو چند سال میں ایک نئی زبر دست اسلامی حکومت اسی طرح ہندوستان میں قائم ہو جاتی جس طرح مغلوں سے پہلے بار بار ہو چکی تھی.لہذا اب جبکہ ہندوستان کی عنان حکومت ہندوستانیوں کے سپرد کی جانے والی ہے.انگلستان کا فرض ہے کہ وہ دیکھے کہ اس تغیر کے نتیجہ میں مسلمان اور زیادہ تباہ نہ ہو جائیں.بلکہ انہیں علمی، تمدنی اور مذہبی ترقی کرنے کا موقع حاصل رہے نہ یہ کہ جب وہ ہندوستان کو آزادی دے تو ہندوؤں کو اپنی پہلی حالت سے سینکڑوں گنا طاقتور اور مسلمانوں کو سینکڑوں گنا کمزور کر کے جائے.اگر ایسا ہوا تو مسلمانوں کو ہمیشہ انگریزوں سے یہ جائز شکایت رہے گی کہ انہوں نے ہندوستان میں آکر یا اپنا فائدہ کیا یا ہندوؤں کا اس کے برعکس مسلمانوں کو فائدہ پہنچانے کی بجائے ان کی طاقت کو تو ڑ کر ہمیشہ کے لئے انہیں کمزور کر دیا.پس میں اور تمام جماعت احمد یہ بلکہ ہر مسلمان آپ سے امید کرتا ہے کہ آپ انگلستان جا
تاریخ احمدیت جلد ۵ 270 خلافت ثانیہ کا اٹھارہواں سال کر اپنے دوستوں کو خصوصاً برطانوی پبلک کو عموماً اسلامی نقطہ نگاہ سے واقف کریں گے.اور انگلستان کو اس خطرناک غلطی میں مبتلا ہونے سے محفوظ رکھیں گے.احمدی جماعت یہ امر کبھی برداشت نہیں کرے گی کہ مسلمانوں کو دوسری قوموں کے رحم پر چھوڑ دیا جائے اور اسلام کو آزادانہ طور پر پرامن طریق سے ترقی کرنے کے ذرائع سے محروم کر دیا جائے.دو سرے اور تیسرے باب میں حضور نے لارڈارون کو اسلام اور سلسلہ احمدیہ کی نسبت گزشتہ نوشتے بتائے اور پھر جماعت احمدیہ کے بائیس بنیادی عقائد بیان کرنے کے بعد خاتمہ میں بتایا کہ ” بے شک یہ سلسلہ اس وقت کمزور ہے لیکن سب الٹی سلسلے شروع میں کمزور ہوتے ہیں ، شام، فلسطین اور روم کے شہروں میں پھرنے والے حواریوں کو کون کہہ سکتا تھا کہ یہ کسی وقت دنیا میں عظیم الشان تغیر پیدا کر دیں گے.وہی حال ہمارے سلسلہ کا ہے اس کی بنیاد میں خدا تعالیٰ نے رکھی ہیں اور دنیا کی روکیں اس کی شان کو کمزور نہیں بلکہ دوبالا کرتی ہیں کیونکہ غیر معمولی مشکلات پر غالب آنا اور غیر معمولی کمزوری کے باوجود ترقی کرنا الھی مدد اور الٹی نصرت کا نشان ہوتا ہے اور بصیرت رکھنے والوں کے ایمان کی زیادتی کا موجب " - - لارڈارون نے اس قیمتی تحفہ پر بہت خوشی کا اظہار کرنے اور اس کا زبانی شکریہ ادا کرنے کے علاوہ حضور کے نام ایک تحریری شکریہ بھی ارسال کیا جو تحفہ لارڈارون اردو ایڈیشن کے آخر میں طبع شدہ ہے.اتحاد المسلمین کے لئے تحریک سیاسی تغیرات ملکی اپنے ساتھ مذہبی خطرات بھی لا رہے تھے.وہ مسلمان جو پہلے ہی اقتصادی طور پر ہندوؤں کے دست نگر اور ذہنی طور پر ان کے زیر اثر تھے.اور تعلیمی اور دنیوی ترقیات سے محروم چلے آرہے تھے.اور ان کا تبلیغی مستقبل بھی تاریک نظر آرہا تھا.چنانچہ گاندھی جی کا اخبار سیٹسمین میں ایک انٹرویو شائع ہوا کہ سو راج ( ملکی حکومت) مل جانے کے بعد اگر غیر ملکی مشنری ہندوستانیوں کے عام فائدہ کے لئے روپیہ خرچ کرنا چاہیں گے تو اس کی تو انہیں اجازت ہوگی لیکن اگر وہ تبلیغ کریں گے تو میں انہیں ہندوستان سے نکلنے پر مجبور کروں گا.جس کے معنے اس کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتے کہ سو راج میں مذہبی تبلیغ بند ہو جائے گی.اس کے علاوہ ہندوؤں کی طرف سے مسلمانوں پر ظلم وستم کے واقعات برابر ہو رہے تھے.پہلے بنارس میں فساد ہوا.پھر آگرہ اور میرزا پور میں اور پھر کانپور میں مسلمانوں کو نہایت بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا.
تاریخ احمدیت جلد ۵ 271 خلافت ثانیہ کا اٹھارہواں سال حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالٰی نے اس نازک موقع پر مارچ ۱۹۳۱ء مسلمانوں کو پھر اتحاد کی پر زور تلقین فرمائی اور نصیحت کی کہ اگر مسلمان ہندوستان میں زندہ رہنا چاہتے ہیں.تو انہیں یہ سمجھوتہ کرنا چاہئے کہ اگر دیگر قوموں کی طرف سے کسی اسلامی فرقہ پر ظلم ہو تو خواہ اندرونی طور پر اس سے کتنا ہی شدید اختلاف کیوں نہ ہو اس موقع پر متفق ہو جا ئیں گے - تحریک اتحاد کے تعلق میں جماعت احمدیہ کی کوششیں کہاں تک بار آور ہو ئیں اس کا اندازہ ایک ہندو اخبار کے حسب ذیل الفاظ سے لگ سکتا ہے.اخبار " آریہ دیر لاہور (۹/ اگست ۱۹۳۱ء صفحہ ۶) نے لکھا.رشی دیانند اور منشی اندرمن کے زبر دست اعتراضات کی تاب نہ لاکر مرزا غلام احمد قادیانی نے احمد یہ تحریک کو جاری کیا.احمد یہ تحریک کا زیادہ تر حلقہ کار مسلمانوں کے درمیان رہا.....اس جماعت کے کام نے مسلمانوں کے اندر حیرت انگیز تبدیلی پیدا کر دی ہے.اس تحریک نے مسلمانوں کے اندر اتحاد پیدا کر دیا...آج مسلمان ایک طاقت ہیں ، مسلمان قرآن کے گرد جمع ہو گئے ".مسلمانوں کے لئے نازک وقت اور جماعت احمدیہ کو نصیحت خدا تعالی کے فضل سے اب جماعت احمدیہ کو ایک ایسا مقام حاصل ہو چکا تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی نگاہیں اسلام اور مسلمانوں کی ترقی کے لئے اس کی طرف اٹھتی تھیں اور وہ جماعت کی سیاسی رہنمائی اور قیادت کا اقرار کھلے لفظوں میں کرنے لگے تھے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی نے مجلس مشاورت ۱۹۳۱ء منعقدہ ۲-۳-۴/ اپریل) کے موقع پر جماعت کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا.کہ - اب ایسے تغیرات ہونے والے ہیں کہ اگر مسلمانوں نے ہوشیاری سے کام نہ لیا اور اللہ تعالٰی کا فضل جذب کرنے کی تدبیر نہ کی تو ہندوستان میں مسلمان اس طرح تباہ ہو جائیں گے جس طرح سپین میں ہوئے تھے اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ اگر مسلمان ہو شیاری سے کام لیں اور خدا تعالیٰ کی رضا کے ماتحت کام کریں تو یہ ملک جس میں ۳۳ کروڈ دیوتاؤں کی پرستش کی جاتی ہے خدائے واحد کی عبادت کرنے لگے.اس سلسلہ میں حضور نے جماعت کو اس کی ذمہ داری کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا." خدا تعالیٰ کی توحید قائم ہوگی.اور ضرور قائم ہوگی مگر یہ ضروری نہیں کہ اسلام کی ترقی ہمارے ہاتھوں ہو.اگر ہم اس کے اہل ثابت ہوئے تو ہمارے ہاتھوں ہوگی ورنہ خدا تعالیٰ کوئی اور قوم کھڑی کر دے گا".
تاریخ احمدیت جلد ۵ 272 خلافت ثانیہ کا اٹھارہواں سال صنعت و حرفت کی طرف توجہ ہندوستان میں تجارت قریباً تمام کی تمام ہندوؤں کے ہاتھ میں تھی جو مسلمان اس طرف توجہ کرتے تھے.وہ اس لئے کامیاب نہیں ہو سکتے تھے کہ درمیان کے سارے راستے ہندوؤں کے قبضہ میں تھے.جب ملک میں سودیشی تحریک پیدا ہوئی تو مسلمانوں کو بھی صنعت کا خیال آیا.لیکن بڑھتی ، جلا ہے، معمار کو ہار جو پہلے زیادہ تر مسلمان ہوتے تھے.وہ گرے ہوئے برتاؤ کی وجہ سے اپنے اپنے پیشہ کو حقیر سمجھ کر چھوڑ چکے اور اس کی جگہ دوسرا کام اختیار کر چکے تھے.اس لئے سودیشی تحریک سے بھی زیادہ تر فائدہ ہندوؤں ہی نے حاصل کیا.اور وہ تجارت کے قریباً تمام شعبوں پر قابض ہو گئے.حتی کہ ذبیحہ گاؤ کے سوال پر آئے دن جابجا فسادات بر پا کرنے کے باوجود چمڑے کی تجارت کے بھی مالک بن بیٹھے.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی نے اس سال مشاورت ۱۹۳۱ء کے موقع پر دوسرے مسلمانوں کو عموماً اور اپنی جماعت کو خصوصاً اس نازک صورت حال کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا کہ جماعتی ترقی کے لئے صنعت و حرفت اور تجازت ضروری چیزیں ہیں.اور اگر مسلمانوں نے جلد ہی ادھر توجہ نہ کی تو ان پر ترقی کے راستے ہمیشہ کے لئے بند ہو جائیں گے.حضور نے اس سلسلہ میں ایک صنعتی تحریک جاری کرنے کا قصد فرمایا اور اس کی سکیم بنانے کے لئے چند تجربہ کار اصحاب پر مشتمل ایک کمیٹی بنادی جن کے اسماء درج ذیل ہیں.(1) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب (پریذیڈنٹ) (۲) حضرت مولوی عبد المغنی خان صاحب ناظر بیت المال (۳) سیٹھ فاضل بھائی صاحب سکندر آباد دکن (۴) مرزا محمد اشرف صاحب ( محاسب صدر انجمن احمدیہ (۵) محمد فاضل صاحب راولپنڈی (۲) مولوی محمد عبد الله صاحب (بو تالوی) (۷) شیخ عبد الرحمن صاحب مصری - صنعتی تحریک کی سکیم کے مطابق قادیان میں پہلا کارخانہ ہوزری فیکٹری" کے نام سے کھولا گیا جو ۱۹۲۳ء سے ۱۹۴۷ء تک بڑی کامیابی سے چلتا رہا.حضور ایده الله ناظروں کے دوروں سے متعلق حضرت خلیفہ ثانی کی ہدایت تعالی نے مجلس مشاورت ۱۹۳۱ء کے موقع پر ایک طرف تو ناظروں کو یہ ہدایت کی کہ وہ دورے کر کے جماعتوں کی رہنمائی کریں اور دوسری طرف جماعتوں سے ارشاد فرمایا کہ.میں امید کرتا ہوں آئندہ جماعتیں ناظروں کے دورہ سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں گی اور ان کا احترام کر کے ثابت کر دیں گی.کہ ہم دینی خدمت کرنے والوں کا پورا پورا احترام کرنے والے
تاریخ احمدیت جلد ۵ 273 خلافت ثانیہ کا اٹھارہواں سال ہیں.رسول کریم ﷺ نے تو یہاں تک فرما دیا ہے کہ میں جسے کسی کام کے لئے مقرر کرتا ہوں.اس کی اطاعت کرانے والا میری اطاعت کرتا ہے اور اس کی نافرمانی کرنے والا میری نافرمانی کرتا ہے اس طرح رسول کریم ﷺ نے آرگنائزیشن کو مذہب کا حصہ بنا دیا اور کام کرنے والوں کی اطاعت اور احترام نظام کی جان ہے ".نمائندگان مشاورت کو زریں نصیحت حضور ایدہ اللہ تعالی نے ۵/ اپریل ۱۹۳۱ء کو جو اس مجلس مشاورت کا تیسرا دن تھا.اس کے آخری اجلاس میں نمائندگان مشاورت کو نصیحت فرمائی کہ ہمارے سارے کام روحانیت پر مبنی ہیں.جب تک ہماری جماعت کا ہر فرد یہ محسوس نہیں کرتا کہ ہمارے کام قومی ملکی سیاسی نہیں بلکہ مذہبی ہیں اور ان کا سر انجام دینا عبادت ہے اس وقت تک کامیابی نہیں ہو سکتی " C4- خواتین میں بہادری پیدا کرنے کی تحریک حضور ایدہ اللہ تعالٰی نے ۱۰/ اپریل ۱۹۳۱ء کو خواتین میں تحریک جرات و بہادری پیدا کرنے کے سلسلہ میں فرمایا.ابتدائی ایام میں مسلمان عورتوں نے بڑا کام کیا.مگر اسی وجہ سے کہ انہیں جنگوں میں شامل ہونے کا موقعہ دیا گیا.رسول کریم ﷺ ہمیشہ انہیں جنگوں میں شامل رکھتے تھے لڑائی کے فنون سکھاتے تھے.اور مشق کراتے تھے.مگر اب مسلمانوں نے یہ باتیں چھوڑ دیں ہیں ہمارا فرض ہے کہ انہیں دلیر بنا ئیں اور اگر لڑائی میں شامل ہونے کے لئے تیار نہیں کر سکتے تو کم از کم ان کے اندر اتنی جرات تو پیدا کر دیں کہ اگر ہم میں سے کوئی اسلام کے لئے جان دینے کے لئے جائے تو انہیں بجائے صدمہ کے اس دھمال سے خوشی ہو کہ اس ثواب میں ہم بھی شریک ہیں ".حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۹ / اپریل ۱۹۳۱ء کو مع حرم سوم حضرت ام رفیع صاحبہ اور سفر منصوری اپنی دختر ناصرہ بیگم صاحبہ آب و ہوا کی تبدیلی کے لئے منصوری تشریف لے گئے.حضور کے ہمراہ حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب در دایم اے ، ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب اور شیخ یوسف علی صاحب پر ائیوٹ سیکرٹری بھی تھے.حضور نے ۲۴/ اپریل کو جماعت احمدیہ منصوری کو اس کی تبلیغی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا کہ پہاڑوں کو انبیاء اور علماء کے ساتھ نسبت ہے اس باطنی نسبت کے ساتھ اب پہاڑوں کو الٹی سلسلوں کے ساتھ ایک نسبت ظاہری بھی ہو گئی ہے.اب اگر ایسے مختلف پہاڑی مقامات پر ہماری جماعتیں مضبوط ہو جائیں تو پھر ہم سارے ملک میں تبلیغ کر سکتے ہیں
تاریخ احمدیت جلده 274 خلافت ثانیہ کا اٹھارہواں سال ۲۶/ اپریل ۱۹۳۱ء کو حضور نے منصوری کے ٹاؤن ہال میں ”ہندو مسلم اتحاد" کے موضوع پر ایک اہم لیکچر دیا.جس کے آخر میں ہندوؤں اور مسلمانوں کو نصیحت فرمائی کہ.میں تفصیلی طور پر غور کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ہندو مسلمانوں کی صلح ہو سکتی ہے لیکن اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ صلح نہیں ہو سکتی.اور ہمیں اگر آپس میں لڑنا ہی پڑے تو بھی انسانیت کو بالائے طاق نہیں رکھنا چاہئے.لڑائی کے وقت اس قسم کے واقعات نہیں ہونے چاہئیں کہ ہم انسانیت کو ہی بھول جائیں عورتوں اور چھوٹے بچوں کو ہلاک کریں.چھوٹے بچوں پر تو جنگلی جانور بھی رحم کھاتے ہیں.بہادری سے لڑیں اس سے صلح ہو جانے کی امید قائم رہتی ہے نہ کہ بزدلی سے کام لیں کہ یہ انسانیت کے خلاف ہے " حضور نے یکم مئی ۱۹۳۱ء کو اسلامیہ سکول میں خان بہادر کل حسین صاحب آنریری مجسٹریٹ کی زیر صدارت دو سرا لیکچر دیا.جس میں ہندو مسلم تعلقات اور ان کی اصلاح کی ضرورت پر قریبا دو گھنٹہ تک معلومات افزا روشنی ڈالی.جسے تمام طبقوں نے عام طور پر پسند کیا بلکہ حاضرین میں سے بعض کی رائے تھی کہ یہ اپنی قسم کی پہلی تقریر ہے جس کی تعریف میں تمام مختلف الخیالات لوگ رطب اللسان ہیں.۱۴۴ ۳۰/ اپریل ۱۹۳۱ء کو حضور منصوری سے روانہ ہو کر ڈیرہ دون میں مقیم ہوئے پھر دہلی تشریف لے گئے جہاں حضور کی خدمت میں جماعت دہلی نے ایڈریس پیش کیا.حضور نے جماعت دہلی کی تعریف کی اور فرمایا کہ یہ جماعت ان جماعتوں میں سے ہے جو حتی الوسع ان تمام ذرائع کو استعمال کرتی ہیں جن سے وہ کوشش کرتی ہیں کہ جماعت کا قدم ترقی کی طرف بڑھے.قیام دہلی کے دوران حضور نے نظام الدین اولیا ء رحمتہ اللہ علیہ کے مزار مبارک پر دعا کی.مولوی برکت علی صاحب لائق سابق امیر جماعت لدھیانہ کی روایت کے مطابق اس سفر میں حضور مالیر کوٹلہ بھی تشریف لے گئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک قدیم صحابی حضرت صوفی میر عنایت علی صاحب کو بیعت اولیٰ کی معینہ جگہ کی نسبت اختلاف تھا.ان کے نزدیک بیعت اولی موجودہ معینہ جگہ کے بالمقابل جنوبی کوٹھڑی میں ہوئی تھی.لیکن دوسرے بیعت کنندگان کی رائے میں معینہ جگہ ہی اصل جگہ تھی.اس اختلاف کو دور کرنے کے لئے حضور نے واپسی پر لدھیانہ میں قیام فرمایا.اور بیعت اوٹی کی جگہ کی تعین فرمائی جس کی تصدیق حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی ا نے بھی کی.(جو پہلے روز کے بیعت کرنے والوں میں شامل تھے) اس طرح حضرت امیر المومنین کے ہاتھوں صحیح مقام سے متعلق اختلاف کا ہمیشہ کے لئے فیصلہ ہو گیا.
تاریخ ا 275 خلافت ثانیہ کا اٹھار ہواں سال ۵۰ حضور لدھیانہ سے روانہ ہو کر ۱۴/ مئی ۱۹۳۱ء کو دارالامان قادیان میں رونق افروز ہوئے.اس سفر میں آپ کو اکثر اوقات رات کے تین تین بجے تک مختلف دینی اور ملکی سرگرمیوں میں مصروف رہنا پڑا.اس سفر میں خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی مدیر منادی " نے بھی آپ سے ملاقات اور حالات حاضرہ پر گفتگو کی.محترم خواجہ صاحب نے اسی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے اپنے اخبار ” منادی " میں لکھا.جماعت احمدیہ کے امام جناب میرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب سے ملا تو واحدی صاحب بھی ساتھ تھے ان کی عمر بیالیس سال کی ہے جب پہلے ملاقات ہوئی تھی تو ان کی ڈاڑھی نہیں نکلی تھی اور یہ اپنے والد کے ساتھ درگاہ (حضرت نظام الدین اولیاء - ناقل) میں آئے تھے.اب لمبی ڈاڑھی ہے اور کچھ بال بھی سفید ہو گئے ہیں.مجھ سے بارہ سال چھوٹے ہیں.آنکھیں غلافی ہیں ہنس کر یعنی خندہ پیشانی سے بات کرتے ہیں.بات چیت سے معلوم ہوا بہت بھولے اور بہت سیدھے سادھے مسلمان ہیں.موجودہ زمانہ کی چالاکی و ہوشیاری نہیں معلوم ہوتی.بلکہ بعض باتوں سے تو ایسا معلوم ہو تا تھا کہ ایک معصوم بچہ گفتگو کر رہا ہے.مجھ پر اس سادگی کا بہت اچھا اثر ہوا اور میرے دل میں ان کی عزت پیدا ہوئی.گفتگو موجودہ حالات پر تھی.وہ جداگانہ انتخاب کے حامی ہیں دلائل میں کوئی گہرائی نہ تھی".یہ تو خواجہ صاحب کا وہ تاثر تھا.جس کا ذکر انہوں نے ۱۹۳۱ ء کی سرسری ملاقات کے بعد لکھا تھا اس کے بعد جلد ہی آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا قیام عمل میں آیا اور حضور کی صدارت میں ان کو تحریک آزادی کشمیر میں خدمات بجالانے کی سعادت حاصل ہوئی تو انہیں حضور کی شخصیت کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا اور وہ اپنے گزشتہ نظریہ کو بدلنے پر مجبور ہو گئے چنانچہ انہوں نے ۱۹۳۳ء میں حضور کی قلمی تصویر کھینچتے ہوئے لکھا.میرزا محمود احمد در از قد در از ریش گندمی رنگ ، بڑی بڑی آنکھیں ، عمر چالیس سے زیادہ ذات مغل، پیشہ امامت اور مسیح موعود کی خلافت اور تقریر و تحریر کے ذریعہ قادیانی جماعت کی پیشوائی.پنجاب کے قصبہ قادیان میں رہتے ہیں.ان کے والد نے دعوی کیا تھا کہ وہ امام مہدی ہیں اور حضرت عیسی بھی ہیں اور شری کرشن بھی ہیں.اب یہ اپنے والد کے قائم مقام اور خلیفے ہیں.آواز بلند اور مضبوط ہے.عقل دور اندیش اور ہمہ گیر ہے.کئی بیویوں کے شوہر اور کئی بچوں کے باپ اور کثیر تعداد انسانوں کے رہنما ہیں.اکثر بیمار رہتے ہیں مگر بیماریاں ان کی عملی مستعدی میں رخنہ نہیں ڈال سکتیں.
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 276 خلافت ثانیہ کا اٹھار ہواں سال انہوں نے مخالفت کی آندھیوں میں اطمینان کے ساتھ کام کر کے اپنی مغنی جواں مردی کو ثابت کر دیا اور یہ بھی کہ مغل ذات کار فرمائی کا خاص سلیقہ رکھتی ہے سیاسی سمجھ بھی رکھتے ہیں اور مذہبی عقل و فہم میں بھی قوی ہیں اور جنگی ہنر بھی جانتے ہیں یعنی دماغی اور قلمی جنگ کے ماہر ہیں ".or صدر انجمن احمدیہ کے قواعد صد را انجمن احمدیہ کے قواعد و ضوابط کی تشکیل ضوابط جمع کرنے کے لئے حضرت و مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت علامہ میر محمد اسحاق صاحب اور حضرت مرزا محمد شفیع صاحب آڈیٹر (صدر انجمن احمدیہ پر مشتمل ایک کمیٹی مقرر کی گئی تھی.جس نے مئی ۱۹۳۱ء میں مفصل قواعد و ضوابط مرتب کر دیئے.حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالٰی نے اس مجموعہ کے شائع کرنے کی منظوری ۱۴/ مئی ۱۹۳۶ء کو عطا فرمائی اور جنوری ۱۹۳۸ء میں یہ شائع کر دیا گیا.صدرانجمن احمدیہ کے قواعد اساسی (Bylaws) کا یہ پہلا ایڈیشن ۲۸۰ صفحات پر مشتمل تھا.اس پر آخری نظر ثانی حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے فرمائی اور جناب سید محمد اسمعیل صاحب سپرنٹنڈنٹ وفاتر نے اس کی ترقیات و اضافہ جات کے شامل کرنے میں مدد دی - E حضرت امیر المومنین ایده جماعت احمدیہ کے ہر فرد کو بیدارو ہوشیار ہونے کا ارشاد اللہ تعالٰی نے 10 مئی ۱۹۳۱ء کو ارشاد فرمایا کہ ہر احمدی کو اپنے ماحول میں بیدار ہو جانا چاہتے اور اندرونی و بیرونی دشمنوں پر کڑی نگاہ رکھنی چاہئے.اور خصوصاً منافقین کو بے نقاب کرنے کی پوری کوشش کرنی چاہئے.اس ضمن میں یہ بھی ارشاد فرمایا.میں یقین رکھتا ہوں کہ ایسے لوگوں کو جماعت سے علیحدہ کر دینے سے سلسلہ کو کبھی نقصان نہیں پہنچے گا بلکہ تم اگر ایک کو نکالو تو خدا اس کے بدلے ہزار آدمی سلسلہ میں داخل کرے گا.آخر سلسلہ کی اشاعت کی ذمہ داری تو مجھ پر ہے.میں کیوں نہیں ڈرتا.مجھے کامل یقین ہے کہ اگر میں ایک شخص کو بھی جماعت سے نکالوں تو خدا اس کے بدلے سینکڑوں آدمی مجھے دے گا.میں دیکھتا ہوں کہ مستریوں کو جماعت سے نکالنے کے بعد جماعت نے اتنی جلدی ترقی کی ہے کہ پچھلے سالوں میں ایسی ترقی نہیں ہوئی".منافق کی آپ نے واضح علامت یہ بیان فرمائی کہ." جس وقت کوئی شخص نظام سلسلہ کی تحقیر کرے اور علانیہ اعتراض کرے اور جب کہا جائے کہ ذمہ دار افسروں تک یہ بات پہنچاؤ تو وہ کہے کہ مجھے ڈر آتا ہے تو فورا سمجھ جاؤ کہ وہ منافق ہے".۵۵
تاریخ احمدیت جلد ۵ 277 خلافت عثمانیہ کا اٹھار ہواں سال مسٹر عبد اللہ سکاٹ پہلے برطانوی احمدی اور انگریز نو مسلم تھے پہلا برٹش احمدی قادیان میں جو ۹ / مئی ۱۹۳۱ء کو قادیان تشریف لائے اور قریباً دو ماہ تک مرکز احمدیت کی برکات سے مستفید ہوئے.اس دوران آپ کو حضرت خلیفہ ثانی کی ملاقات کا موقعہ بھی ملا.واپسی پر آپ نے قادیان سے متعلق اپنے تاثرات ایک مفصل مضمون میں قلمبند کئے جن میں قادیان کی مساجد اس کے اداروں اور پاکیزہ اور روحانی فضا کا نقشہ کھینچتے ہوئے لکھا کہ قرآن شریف میں جنت کی جو تفصیل لکھی ہے کہ وہاں نہ غم ہو گا نہ ڈر نہ جھگڑے، ہر شخص ایک دوسرے سے السلام علیکم کہہ کر ملاقی ہو گا.یہی بات میں نے قادیان میں بچشم خود مشاہدہ کی ہے.
تاریخ احمدیت جلد ۵ چوتھا باب (فصل سوم) 278 خلافت ثانیہ کا اٹھارہواں سال قاضی محمد علی صاحب بٹالہ کے واقعہ قتل میں قاضی محمد علی صاحب نوشهروی کا دصال ماخوذ تھے.آپ کی اپیل ۹ اور ۱۲/ جنوری ۱۹۳۱ء کو ہائیکورٹ لاہور میں جسٹس ایڈ مین اور جسٹس کولڈ سٹریم کے بینچ میں پیش ہوئی.اپیلانٹ کی طرف سے شیخ دین محمد صاحب ایم اے.ایل ایل بی ایڈووکیٹ ہائیکورٹ ممبر پنجاب کو نسل اور شیخ بشیر احمد صاحب بی اے.ایل ایل بی ایڈووکیٹ ہائیکورٹ گوجر انوالہ (حال ٹمپل روڈ لاہور) نے پیروی کی.بچ نے شن حج کا فیصلہ موت بحال رکھا اور اپیل نا منظور کردی - 2 ہائیکورٹ کے فیصلہ کے بعد حکومت پنجاب اور حکومت ہند سے رحم کی اپیل کی گئی مگر گورنر صاحب پنجاب اور وائسرائے ہند دونوں نے یہ اپیل رد کر دی.جس پر پریوی کو نسل کی طرف رجوع کیا گیا.پریوی کونسل میں اپیل دائر تھی کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی نے قاضی محمد علی صاحب کو اپنے قلم سے ۹/ اپریل ۱۹۳۱ء کو مندرجہ ذیل نصیحت آمیز خط تحریر فرمایا.بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم مکرم قاضی صاحب! السلام عليكم و رحمتہ الله و بركاته ہائی کورٹ کے فیصلہ کے بعد گورنمنٹ پنجاب اور حکومت ہند کے پاس رحم کی اپیل کی گئی اور گورنر صاحب اور وائسرائے دونوں نے اس اپیل کو رد کر دیا اور اس کی بڑی وجہ جہاں تک میں سمجھا ہوں اس وقت کے سیاسی حالات ہیں وہ ڈرتے ہیں کہ اگر اس مقدمہ میں دخل دیں تو ان لوگوں کے بارے میں بھی دخل دینا پڑتا ہے.جو سیاسی شورش میں پھانسی کی سزا پا چکے ہیں.اب صرف ایک ہی راہ باقی تھی اور وہ پریوی کو نسل میں اپیل تھی بسوا پیل اب دائر ہے اور اس ماہ میں اس کی پیشی ہے اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کا کیا نتیجہ نکلے گا اس لئے میں پیشتر اس کے کہ اس اپیل کا فیصلہ ہو آپ کو بعض امور کے متعلق لکھنا چاہتا ہوں.(۱) جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں.میرا یہ یقین ہے کہ قانون کو ہاتھ میں لینا ہمارے طریق کے خلاف ہے اس لئے جس حد تک بھی آپ سے غلطی ہوئی ہے اس کے متعلق آپ کو تو بہ اور استغفار سے کام
ت - جلد ۵ 279 خلافت ثانیہ کا ا نھار ہواں سال لینا چاہئے اللہ تعالیٰ نے جب ایک قانون بنایا ہے تو یقیناً اس نے ہمارے لئے ایسے راہ بھی بنائے ہیں کہ بغیر قانون شکنی کے ہم اپنی مشکلات کا حل سوچ سکیں.(۲) خواہ آپ سے غلطی ہی ہوئی لیکن چونکہ آپ نے جو کچھ کیا ہے جہاں تک مجھے علم ہے محض دین کے لئے اور اللہ تعالٰی کے لئے کیا ہے.میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر آپ استغفار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ پر توکل سے کام لیں.تو وہ نہ صرف یہ کہ آپ سے عفو کا معاملہ کرے گا بلکہ آپ کو اپنے اخلاص کا بھی اعلیٰ بدلہ دے گا.(۳) غیب کا علم اللہ تعالٰی کو ہے ہم امید رکھتے ہیں کہ وہ آپ سے رحم کا معاملہ کرے گا.اور آپ کے بچاؤ کی کوئی صورت پیدا کر دے گا لیکن اس کی مشیت پر کسی کو حکومت نہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کو برأت کی خواہیں آئی ہیں لیکن خدا تعالی کی برأت اور رنگ میں ہوتی ہے.اس کی طرف سے یہ بھی ایک برأت ہے کہ غلطی کی سزا اس دنیا میں دے کر انسان کو پاک کر کے اپنے فضل کا وارث کر دے.پس چونکہ خواہیں تعبیر طلب ہوتی ہیں ان کے ظاہری معنوں پر اس قدر زور نہیں دینا چاہئے.اور اس امر کو مد نظر رکھنا چاہئے کہ اگر ان کی تعبیر کوئی اور ہے تو پھر بھی بندہ اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر پر راضی رہے.کوئی انسان دنیا میں نہیں جو موت سے بچا ہوا ہو اور ایسا بھی کوئی نہیں جو کہہ سکے کہ وہ ضرور لمبی عمر پائے گا بڑے بڑے مضبوط آدمی جو ان مرجاتے ہیں اور کمزور آدمی بڑھاپے کو پہنچتے ہیں.پس کون کہہ سکتا ہے کہ وہ ایک خاص قسم کی موت سے بچ بھی جائے تو کل ہی دوسری قسم کی موت اسے پکڑنہ لے گی.پس کیوں نہ بندہ اللہ تعالی کی مشیت پر راضی ہو تاکہ اس دنیا میں اسے جو تکلیف پہنچی ہو اگلے جہان میں تو اس کا بدلہ مل جائے.پس میں چاہتا ہوں کہ اس وقت کہ ابھی اپیل پیش ہونے والی ہے آپ کو توجہ دلاؤں کہ اگر خدانخواستہ یہ آخری کوشش بھی ناکام رہے تو آپ کو صبر اور رضاء، نقضاء کا ایسا اعلیٰ نمونہ دکھانا چاہئے کہ جو ایک مومن کی شایان شان ہو.ابھی پچھلے دنوں بھگت سنگھ وغیرہ کو پھانسی کی سزا ہوئی ہے.لیکن ان لوگوں نے رحم کی اپیل کرنے سے بھی انکار کر دیا کیونکہ انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے ملک کے لئے یہ کام کیا ہے ہم کسی رحم کے طالب نہیں اور پھر بغیر گھبراہٹ کے اظہار کے یہ لوگ پھانسی پر چڑھ گئے.یہ وہ لوگ تھے جو نہ خدا تعالی پر ایمان رکھتے تھے.اور نہ مابعد الموت انہیں کسی زندگی یا کسی نیک بدلہ کا یقین تھا.صرف قومی خدمت ان کے مد نظر تھی اور بس.ان لوگوں کا یہ حال ہے تو اس شخص کا کیا حال ہو نا چاہئے جو خداتعالی پر یقین رکھتا ہو اور ایک نئی اور اعلیٰ زندگی کا امیدوار ہو.
تاریخ احمدیت جلد ۵ 280 خلافت عثمانیہ کا اٹھا ر ہواں سال اس میں کوئی شک نہیں کہ جماعت اسلامی تعلیم کے مطابق مجبور ہے کہ آپ کے فعل کو غلطی پر محمول کرے.لیکن ساتھ ہی جماعت اس امر کو بھی محسوس کر رہی ہے کہ آپ نے غیرت اور دینی جوش کا ایسا نمونہ دکھایا ہے کہ اگر اس فعل کے بدلہ میں آپ کو سزائے پھانسی مل جائے تو یقیناً جماعت اس امر کو محسوس کرے گی کہ آپ نے اپنی غلطی کا بدلہ اپنی جان سے دے دیا اور آپ کا اخلاص باقی رہ گیا.جسے وہ ہمیشہ یادر رکھنے کی کوشش کرے گی.لیکن اگر آپ سے کسی قسم کا خوف ظاہر ہو یا گھبراہٹ ظاہر ہو تو یقیناً جماعت کے لئے یہ ایک صدمہ کی بات ہوگی.اور آپ کے پہلے فعل کو وہ کسی دینی غیرت کا نتیجہ نہیں بلکہ عارضی جوش کا نتیجہ خیال کرے گی.پس آج اس وقت کا معاملہ نہ صرف یہ کہ آپ کے اپنے و قار پر اثر انداز ہو گا بلکہ جماعت کے وقار پر بھی.جس کے لئے کابل کے شہداء نے ایک اعلیٰ معیار قائم کر دیا ہے.پس جہاں ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس پیالے کو آپ سے ملا دے اور آپ بھی دعا کریں کہ ایسا ہی ہو رہاں ہر ایک احمدی یہ امید کرتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کی مشیت ہماری خواہشات کے خلاف ہو تو آپ کا رویہ اس قدر بہادرانہ اس قدر دلیرانہ اس قدر مومنانہ ہو گا کہ آئندہ نسلیں آپ کے نام کو یاد رکھیں.اور آپ کی غلطی کو بھلاتے ہوئے آپ کے اخلاص کی یاد کو تازہ رکھیں اور ان کے دل اس یقین سے پر ہو جائیں کہ ایک احمدی ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی مشیت پر خوش ہے اور اسے دنیا کی کوئی تکلیف مرعوب نہیں کر سکی.قادیان ۹/۴/۳۱ خلیفتہ المسیح خاکسار ( دستخط مرزا محمود احمد ) آخر پریوی کو نسل نے بھی فیصلہ بحال رکھا اور قاضی محمد علی صاحب کو خدا کی طرف سے آخری بلاوا آ پہنچا.خدا کی مشیت از لی پوری ہوئی اور آپ ۱۶/ مئی ۱۹۳۱ء کو گورداسپور جیل میں بوقت 4 بجے صبح تختہ دار پر لٹکا دیے گئے فاناللہ وانا اليه راجعون.قاضی صاحب کی نعش گورداسپور سے قادیان پہنچائی گئی اور حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کے باغ میں پانچ ہزار کے مجمع سمیت نماز جنازہ ادا کی پھر دوستوں نے آپ کا چہرہ دیکھا اور فوٹو لیا.گیا اور آپ بہشتی مقبرہ کی مقدس خاک میں دفن کر دیئے گئے.قاضی صاحب بڑے حق پرست ، متقی اور خدا ترس انسان تھے.وکیلوں اور قانون دانوں نے آپ کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے بیان کو قانونی رنگ میں ڈھال لیں تو وہ الفاظ کے معمولی ہیر پھیر سے سزا سے بچ سکتے ہیں.مگر انہوں نے معمولی سا اختلاف بھی گوارا نہ کیا.پھانسی قبول کرلی.مگر سچائی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا.حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز آپ کی حق پرستی کو سراہتے ہوئے
تاریخ احمدیت جلد ۵ فرماتے ہیں.281 خلافت ثانیہ کا اٹھارہواں سال عدالت کے فیصلہ کے ہم پابند نہیں اس نے اپنا کام کیا اور اپنی رائے کے مطابق انہیں پھانسی دے دی اس پر اس کا کام ختم ہو گیا.مگر ہم اس کے فیصلہ کو صحیح مانے کے پابند نہیں ہیں.اس نے اپنے نقطہ نگاہ پر بنیاد رکھی وہ ان کی سچائی سے اس طرح واقف نہ تھی جس طرح ہم واقف ہیں.ہم نے ان کی صداقت کو دیکھا ہے متواتر ایسے واقعات ہوئے کہ انہیں جھوٹ بولنے کے لئے ورغلایا گیا.مگر انہوں نے ایک لمحہ کے لئے صداقت کو نہ چھوڑا اور میں ذاتی طور پر واقف ہوں کہ وہ شخص جھوٹانہ تھا اور پانچ نہیں اگر پانچ ہزار گواہ بھی اس کے خلاف شہادت دیں تو ہم انہیں ہی جھوٹا سمجھیں گے.عدالت نے اگر چہ دیانتداری سے فیصلہ کیا مگر غلط کیا.واقعہ یہی ہے کہ قاضی صاحب نے قتل نہیں کیا.ایک آدمی ضرور مرا- مگر معلوم نہیں کس کے ہاتھ سے....پس ہم جب قاضی صاحب کی تعریف کرتے ہیں تو اس وجہ سے نہیں کہ انہوں نے ایک آدمی کو مار دیا بلکہ اس وجہ سے کہ انہوں نے سچائی کو اختیار کیا.آخر دم تک اس پر قائم رہے اور بالآخر جان دے دی.مگر صداقت کو نہ چھوڑا اور یہ وہ روح ہے جو ہم چاہتے ہیں ہر احمدی کے اندر پیدا ہو.اسی وجہ سے میں ان کے جنازہ میں شامل ہوا".ہندوستانی قرآن مجید کی طباعت میں غیر مسلموں کے دخل پر انتقاد و احتجاج مسلمانوں کی غفلت اور عدم تو بہی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کئی ایک غیر مسلموں نے قرآن مجید کی طبع و اشاعت کا کام اپنے ہاتھ میں لے لیا.چونکہ ان کا مقصد محض روپیہ کمانا تھا.اس لئے ان کی طباعت میں خطرناک غلطیاں پائی جاتی تھیں.مثلا لا ہور کے ایک کتب فروش سنت سنگھ نے قرآن کریم کا پہلا پارہ شائع کیا.جس میں دوسری عام غلطیوں کے علاوہ قرآن مجید کی آیت میں حضرت آدم کے لئے جہاں خلیفہ کا لفظ آتا ہے.وہاں خبیث کا لفظ لکھ دیا.اس دل آزار حرکت کے خلاف اخبار الفضل نے (۳۰/ مئی ۱۹۳۱ء) کو شدید صدائے احتجاج بلند کی.اور کہا کہ غیر مسلموں کو قرآن مجید کی طباعت اور فروخت سے فور اردک دینا چاہئے.مسلمانوں کو کسی غیر مسلم کا چھپا ہوا قرآن مجید نہیں خریدنا چاہئے اور مسلمان تاجران کتب کو قرآن مجید کی طباعت و اشاعت کی طرف توجہ کرنی چاہئے.
تاریخ احمدیت جلد ۵ چوتھا باب (فصل چهارم) 282 خلافت ثانیہ کا اٹھارہواں سال جماعت احمدیہ کا چهل سالہ دور سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر اکتوبر نومبر ۱۸۹۰ء میں مقام مسیحیت کا انکشاف ہوا.جس کا اعلان حضور نے شروع ۱۸۹۱ ء میں ”فتح اسلام میں فرمایا.اس لحاظ سے ۱۹۳۱ء کے آغاز میں جماعت احمدیہ کی عمر چالیس سال تک پہنچ گئی اور بلوغت تامہ کا پہلا درجہ جماعت کو حاصل ہوا.یہ چالیس سالہ دور اس شان سے گزرا کہ اس کی ہر دہائی میں احمدیت کو فتح نصیب ہوئی.پہلے دس سال میں مسیحیت و مجددیت کے خلاف اٹھنے والے طوفان کا رخ پلٹا گیا.دوسرے دس سال میں اللہ تعالٰی نے نبوت کی تشریح و توضیح کا سامان فرمایا.تیسرے دس سال میں نظام خلافت کو تقویت حاصل ہوئی.اور چوتھے دس سال میں بیرونی ممالک میں بکثرت احمد یہ مشن قائم ہوئے.اور سلسلہ کی عالمگیر ترقی کی بنیادیں رکھ دی گئیں.حضرت امیر المومنین نے خدا تعالٰی کی اس غیر معمولی تائید و نصرت پر جذبات تشکر ظاہر کرنے کے لیئے ۵/ جون ۱۹۳۱ء کو ایک اہم خطبہ جمعہ پڑھا اور ارشاد فرمایا کہ یہ ایک قسم کی جوبلی ہے کیونکہ پچاس سال کی عمر کا پا جانا بڑی خوشی کی بات ہوا کرتی ہے.مگر پہلی بلوغت چالیس سالہ ہے اور ہمیں سب سے پہلے اس بلوغت کے آنے پر اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ باوجود دشمنوں کی کوششوں کے ہماری جماعت چالیس سال کی عمر تک پہنچ گئی.اور میں سمجھتا ہوں ہمیں خاص طور پر اس تقریب پر خوشی منانی چاہئے.کیونکہ اللہ تعالیٰ کے قوانین میں سے ایک قانون یہ بھی ہے کہ اگر بندہ اس کی نعمت پر خوشی محسوس نہیں کرتا.تو وہ نعمت اس سے چھین لی جاتی ہے اور اگر خوشی محسوس کرے.او ر ا ے.اور اللہ تعالیٰ کی حمد کرے تو زیادہ زور سے اللہ تعالیٰ کے فیضان نازل ہوتے ہیں پس میرا خیال ہے ہم کو اس سال چالیس سالہ جوبلی منانی چاہئے".اس چهل سالہ جو بلی کی بہترین صورت آپ نے یہ بیان فرمائی کہ."سب سے بڑی جو ہلی یہ ہے کہ ہم سال حال تبلیغ کے لئے مخصوص کر دیں اور اتنے جوش اور زور کے ساتھ تبلیغ میں مصروف ہو جائیں کہ ہر جماعت اپنے آپ کو کم از کم دگنی کرے یہ جو بلی ایسی ہوگی جو آئندہ نسلوں میں بطور یادگار رہے گی.اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے اپنی یادگاروں کے قیام کے لئے اینٹوں ، پتھروں اور چونے کے محتاج نہیں ہوتے بلکہ وہ دنیا میں روحانیت قائم کرنا چاہتے ہیں اور
تاریخ احمدیت - 283 خلافت ثانیہ کا اٹھارہواں سال یہی ان کی بہترین یادگار ہوتی ہے کہ اس مقصد کو پورا کر دیا جائے جس کے لئے وہ دنیا میں مبعوث ہوئے ".اور فرمایا.اس جوبلی کی یادگار کا اس کو بھی حصہ ہی قرار دے لو کہ تمام بالغ احمدی خواہ وہ مرد ہوں یا عورتیں کوشش تو یہ کریں کہ ہمیشہ تجد پڑھیں لیکن اگر ہمیشہ اس پر عمل نہیں کر سکتے تو جمعہ کی رات مخصوص کر لیں اور سب اللہ تعالی کے حضور متفقہ طور پر دعائیں مانگیں حضور نے ۱۲ جون ۱۹۳۱ء کو جمعہ کی رات میں التزام سے تہجد پڑھنے کی تلقین کرتے ہوئے اس یقین کا اظہار فرمایا کہ اگر جماعت یہ نیکی بطور یادگار پیدا کرے تو عرش الہی ہل جائے گا اور ” دہریت کی رو جو اس وقت دنیا میں جاری ہے رک جائے گی اور بے دینی و الحاد کو شکست ہو جائے گی اور اللہ تعالٰی کی رحمتوں کا نزول شروع ہو جائے گا.انجمن شباب المسلمین بٹالہ کا جلسہ بٹالہ کی انجمن شباب المسلمین نے جماعت احمدیہ کے خلاف ایک محاذ قائم کر رکھا تھا.جون ۱۹۳۱ء کو اس کے پلیٹ فارم پر جناب سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری نے ایک روایت کے مطابق یہاں تک کہہ ڈالا کہ احمدیوں کے مقابل پر ہمیں کسی کوشش کی ضرورت نہیں سیاسی طور پر مسلمان کانگریس کی مدد کریں.احمدی ہمیشہ ہی خوشامدی چلے آئے ہیں.چنانچہ ان کا امیر بھی خوشامدی ہی تھا جس دن ہمیں حکومت ملی اور میں وزیر اعظم ہو گیا یہ لوگ میرے بوٹ چاٹا کریں گے.گاندھی جی کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو ان کے پیچھے چلنا چاہئے.یہی وہ شخص ہے جس نے ہندوستان کو آزادی دلائی میرزا صاحب نے آکر دنیا کو کون سی آزادی دلائی تھی انہوں نے تو آکر غلام بنا دیا.جب سو راج مل گیا.تو یہ لوگ گاندھی جی کی سرداری تسلیم کریں گے اور اب تو گائے پر لڑتے ہیں.پھر گائے ۶۵ کا پیشاب پیا کریں گے.حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۹ / جون ۱۹۳۱ء کے خطبہ جمعہ میں اس بیان کا ذکر کر کے اس پر مفصل تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقابل میں گاندھی وغیرہ کی کچھ بھی حقیقت نہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خدا کی طرف سے مامور ہو کر آئے پس جو بھی آپ کے مقابل پر اٹھے گا.خواہ وہ گاندھی ہو یا کوئی اور اللہ تعالی اسے یوں کچل ڈالے گا جس طرح ایک جوں مار دی جاتی ہے.
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 284 خلافت عثمانیہ کا اٹھارہواں سال دم حضرت کہتے ہیں کہ گاندھی جی نے انگریزوں کو ہرا دیا.اول تو یہ بات ہی غلط ہے لیکن پھر بھی اگر گاندھی جی انگریز کیا ساری دنیا کو بھی ہرا دیں.تب بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقابل میں اس کی کچھ حیثیت نہیں کیونکہ گاندھی جی کی فتوحات لوگوں کو خوش کر کر کے ہو ئیں.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دنیا کو ناراض کر کے جیتا یہاں تک کہ دنیا کا ایک معتدبہ مسیح موعود علیہ السلام کے قدموں میں اگر ا اور ابھی کیا ہے دنیا دیکھے گی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے ہاتھ پر کس طرح مخلوق اکٹھی ہوتی ہے.گاندھی جی اور ان کی تحریکیں ہستی ہی کیا رکھتی ہیں.اس خدا کے جرنیل کے مقابل میں جو دنیا کا نجات دہندہ بن کر آیا.پھر گاندھی جی تو اسلامی تعلیم پر بھی اعتراض کرتے ہیں...پس ایسے شخص کی تعریف کرنا دراصل رسول کریم ﷺ کی علانیہ ہتک کرنا ہے ".لائل پور میں ۲۰-۲۱/ جون ۱۹۳۱ء کو ایک زمینداروں کی اقتصادی مشکلات کاحل زمینداره کانفرنس منعقد ہوئی جس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ایک اہم مضمون محترم مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری نے پڑھا - جو بعد کو ”زمینداروں کی اقتصادی مشکلات کا حل " کے نام سے رسالہ کی صورت میں بھی شائع کر دیا گیا.اس مضمون میں حضور نے زمینداروں کی مشکلات کے عارضی و مستقل اسباب و علل اور پھران کے علاج پر بڑی تفصیلی روشنی ڈالی اور زمینداروں کی تباہی کا سب سے بڑا موجب سودی قرض کو قرار دیتے ہوئے اس سے نجات پانے کے لئے ایک بہترین سکیم پیش کی اور وعدہ فرمایا کہ " میں اور احمدی جماعت کے تمام افراد اپنی طاقت کے مطابق ہر اس جائزہ کوشش میں آپ لوگوں کے ساتھ ہوں گے.جو آپ زمینداروں کی حالت کو بہتر بنانے کے لئے کریں " بعض اکالیوں نے یہ چاہا کہ یہ مضمون ہی نہ سنایا جائے کیونکہ ان کو یہ خیال تھا کہ اس میں سلسلہ کی کچھ نہ کچھ تبلیغ ضرور ہو گی.لیکن جب مضمون پڑھا گیا.تو اکالیوں نے عصمت اللہ خان صاحب وکیل احمدی سے معافی مانگی اور اقرار کیا کہ مضمون بہت اچھا تھا.ہم نے اسے روکنے میں سخت غلطی کی اسی طرح شہر کے دوسرے لوگوں نے بھی جو کا نفرنس میں موجود تھے اس مضمون کو بہت پسند کیا.امام جماعت احمدیہ کی مذہبی نصیحت حیدر آباد دکن کے "صحیفہ روزانہ " نے اپنی ۲۵/ حسب ذیل بیان شائع کیا.|NA ||14 جون ۱۹۳۱ء کی اشاعت میں حضرت مصلح موعود کا
جلد ۵ 285 خلافت ثانیہ کا اٹھارہواں سال میں تمام مسلمانوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ ان کے لئے یہ وقت بہت نازک ہے چاروں طرف سے تاریک بادل انڈے آرہے ہیں زمانہ مسلمانوں کو ایک زخم دینے کو تیار ہے ایک دفعہ پھر وہ بنیادیں جن پر انہیں عظیم الشان اعتماد تھاہل رہی ہیں اور وہ عمود جن پر ان کے تمام نظام کی چھتیں رکھی گئی تھیں متزلزل ہو رہی ہیں ان کی عقل و دانش کے امتحان کا وقت پھر آرہا ہے زمانہ پھر دیکھنا چاہتا ہے کہ پچھلی مصیبتوں سے انہوں نے کیا حاصل کیا ہے اور پچھلے تجربوں نے انہیں کیا فائدہ پہنچایا ہے اور یہ وقت ہے کہ بیدار ہوں اور ہوشیار ہوں زور دار تحریروں اور لچھے دار تقریروں کی سحر کاریوں سے متاثر ہونے کی بجائے ان آنکھوں سے کام لیں جو خدا نے انہیں دی ہیں.اور ان کانوں سے کام لیں جو اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا فرمائے اور اس دل و دماغ سے کام لیں جو ان کے رب نے انہیں بخشا ہے اور اس بات کے لئے کھڑے ہو جا ئیں کہ وہ ذلت کی چادر جو ان کو پہنائی جاتی ہے وہ اسے ہرگز نہیں پہنیں گے خدا نے مسلمانوں کو معزز بنایا تھا مگر انہوں نے خود اپنے لئے ذلت خریدی لیکن اب ان کو چاہئے کہ وہ ذلت کے جامہ کو اتار پھینکیں اور اپنی ایک مستقل اور نہ ختم ہونے والی جد و جہد کو اختیار کریں اور گالی کا جواب محبت سے اور سختی کا جواب نرمی سے دیں تاکہ دنیا کو یہ معلوم ہو کہ وہ اپنے نفوس پر اعتماد رکھتے ہیں اور مضبوط چٹانوں کی طرح ہیں جو ہر حالت میں اپنی جگہ پر رہتی ہیں نہ کہ چھوٹے کنکروں کی طرح جو تھوڑی سی ہوا پر اور ھم مچاتے ہیں.وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمین - مرزا محمود احمد فقط- خاندان حضرت مسیح موعود میں ایک مبارک تقریب اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اب تک حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے سات صاحبزادے اور صاحبزادیاں قرآن کریم ختم کر چکی تھیں بلکہ محترم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب تو بقلہ تعالیٰ حافظ قرآن مجید بھی ہو چکے تھے.خدا تعالی کے اس احسان عظیم کا شکر ادا کرنے کے لئے ۲۹ / جون ۱۹۳۱ء بروز دوشنبه مبارک دوشنبه عصر کے وقت حضور کے حرم اول کے مکان میں ایک جلسہ منعقد ہوا.جس میں مقامی خواتین کے علاوہ حضرت ام المومنین رضی اللہ عنها صاحبزادی حضرت نواب مبار که بیگم صاحبہ ، حضرت صاجزادی امته الحفیظ بیگم صاحبہ اور سیدہ امتہ السلام بیگم صاحبہ (بنت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب) اور حرم محترم سید نا امیرالمومنین شامل ہوئے.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس مبارک تقریب تے متعلق ایک نظم ارشاد فرمائی تھی جس میں اپنے تمام بچوں کے نام لے لے کر جن میں حضور نے سیدہ امتہ السلام بیگم صاحبہ کو حضرت مسیح موعود کے زمانہ کی یاد گار ہونے کی وجہ سے شامل فرمالیا، اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان کا شکر بجالاتے ہوئے دعائیں
تاریخ احمد بیت - جلدن 286 خلافت عثمانیہ کا اٹھارہواں سال کی گئیں اور جو نظم اس موقعہ پر پڑھی گئی اس کے چند اشعار بطور نمونہ درج ذیل ہیں.بڑھیں اور ساتھ دنیا کو بڑھائیں پڑھیں اور ایک عالم کو پڑھائیں الفن دور ہوں ان کی بلائیں پڑیں دشمن ہی اس کی جفائیں نظر آئیں سب ہی تقویٰ کی راہیں الی تیز ہوں ان کی نگاہیں ہوں بحر معرفت کے ت شرما شناور سماء علم کے کے ہوں مهر انور قصر احمدی کے پاسباں ہوں یہ ہر میداں کے یارب پہلواں ہوں یہ پھر ایمان لائیں پھر واپس ترا قرآن لائیں آخر میں حضرت ام المومنین اور حرم محترم حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے سب بچوں کو سامنے بٹھا کر خواتین کے تمام مجمع سمیت دعائیں مانگیں اور تمام خواتین میں شیرینی تقسیم کی گئی.حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کا انتقال اتی سال کی عمر میں ۲ جولائی ۱۹۳۱ء کو بوقت صبح انتقال فرما گئے.انا للہ و انا الیه راجعون اسی روز پونے پانچ بجے کے قریب آپ کا جنازہ اٹھایا گیا اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے بہت بڑے مجمع سمیت باغ میں آپ کی نماز جنازہ ادا کی اور آپ مزار حضرت مسیح موعود کے احاطہ میں شرقی جانب دفن کئے گئے.محترم حضرت مرز اسلطان احمد صاحب نہایت متواضع اور وسیع الاخلاق انسان تھے.خدمت خلق کے جذبہ سے آپ کا دل معمور تھا.قوت تحریر اور زور قلم آپ نے سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام سے ورثہ میں پایا تھا.پورے ملک ہند کے موقر و بلند پایہ رسائل و اخبارات آپ کے فلسفیانہ اخلاقی و علمی مضامین نهایت قدرو منزلت سے فخریہ شائع کرتے تھے.اس کے علاوہ آپ کے ۴ کے لگ بھگ کتابوں کے مصنف بھی تھے - a حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کا انتقال ادب اردو کے لئے بہت بڑا نقصان تھا.جو ادلی میں بہت محسوس کیا گیا.مثلاً " ادبی دنیا " کے ایڈیٹر اور شمس العلماء احسان اللہ خاں تاجور نجیب آبادی (۱۹۵۱-۱۸۹۴ء) نے اپنے رسالہ میں آپ کی تصویر دے کر یہ نوٹ شائع کیا کہ.حلقوں ” دنیائے ادب اس ماہ اردو کے نامور بلند نظر اور فاضل ادیب خان بهادر مرز ا سلطان احمد صاحب سے بھی محروم ہو گئی.آپ نہایت قابل انشاء پرداز تھے.اردو کا کوئی حصہ ان کی رشحات قلم سے محروم نہ رہا ہو گا.قانون و عدالت کی اہم مصروفیتوں کے باوجود بھی مضامین لکھنے کے لئے وقت نکال لیتے تھے.بہت جلد مضمون لکھتے تھے.عدالت میں ذراسی فرصت ملی تو وہیں ایک مضمون لکھ کر کسی رسالہ کی
احمدریت، جلد ۵ 287 خلافت ثانیہ کا اٹھارہواں سال فرمائش پوری کر دی.اردو زبان کے بہت سے مضمون نگاروں نے ان کی طرز انشاء کو سامنے رکھکر لکھنا سیکھا افسوس کہ ایسا ہمہ گیرد همه رس انشاء پرداز موت کے ہاتھوں نے ہم سے چھین لیا.مرزا صاحب مرحوم سیلف میڈ (خودساز) لوگوں میں سے تھے.آپ نے پٹواری کی حیثیت سے ملازمت شروع کی اور ڈپٹی کمشنر تک ترقی کی.آپ مرزا غلام احمد صاحب ( مسیح موعود) کے فرزند تھے.اپنے محترم باپ کی زندگی میں ان کی نبوت بروزی " پر ایمان نہیں لائے.ان کی وفات کے بعد اور اپنی وفات سے کچھ دن پہلے اپنے چھوٹے بھائی حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفتہ المسیح کے ہاتھ پر بیعت کی.اردو میں بیش قیمت لٹریچر آپ نے اپنی یادگار کے طور پر چھوڑا ہے.علم اخلاق پر آپ کی کتابیں اردو زبان کی قابل قدر تصانیف میں سے ہیں " - 0 انجمن حمایت اسلام لاہور کے ترجمان "حمایت اسلام “ور جولائی ۱۹۳۱ء نے لکھا." یہ خبر گہرے حزن و ملال کے ساتھ سنی جائے گی کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے بڑے صاحبزادے خان بهادر مرزا سلطان احمد صاحب جو پراونشل سول سروس کے ایک ہر دلعزیز اور نیک نام افسر تھے.اس جہان فانی سے رحلت کر گئے.خان بہادر صاحب مرحوم نے علم و ادب پر جو احسانات کئے ہیں وہ کبھی آسانی سے فراموش نہیں کئے جاسکتے ان کے شغف علمی کا اس امر سے پتہ چل سکتا ہے کہ وہ ملازمت کی انتہائی مصروفیتوں کے باوجود گراں بہا مضامین کے سلسلے میں پیہم جگر کاری کرتے رہے.ہمیں مرحوم کے عزیزوں اور دوستوں سے اس حادثہ میں دلی ہمدردی ہے.باری تعالیٰ مرحوم کو فردوس کی نعمتیں اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے".حضرت مرزا سلطان احمد ان کی شکل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے مشابہت پائی جاتی تھی اور کوئی نظم پڑھتے وقت گنگنانے کی آواز تو حضور علیہ السلام کی طرز سے بہت ہی ملتی تھی.آپ سے ملنے والے آپ سے مل کر روئے مبارک حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی مشابہت پاکر روحانی مسرت حاصل کیا کرتے تھے.چنانچہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے ۴/ جولائی ۱۹۳۱ء کو حضرت امیر المومنین کی خدمت میں جو عریضہ تعزیت ارسال کیا.اس میں لکھا." آج الفضل میں جناب میرزا سلطان احمد صاحب کی وفات کی خبر پڑھی انا لله و انا اليه راجعون مجھے جب کبھی مرحوم کی بیماری کے آخری ایام میں مرحوم کی خدمت میں حاضر ہونے کا اتفاق ہوا تو مرحوم کو دیکھ کر یہ مصرعہ میری زبان پر جاری ہو جایا کرتا تھا.ع - '' دھوئے گئے ہم اتنے کہ بس پاک ہو گئے
تاریخ ا د 288 خلافت ثانیہ کا اٹھارہواں سال آخری عمر میں مرحوم کا چہرہ بہت حد تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے چہرہ مبارک سے مشابہ نظر آیا کرتا تھا.اور رنگ بھی بہت صاف ہو گیا تھا.آخر ان کی صفائی باطن کے مطابق اللہ تعالی نے انہیں سلسلہ میں داخل ہونے اور پھر حضور کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی توفیق عطا فرمائی فالحمد لله على ذالك.اللہ تعالیٰ مرحوم کو اپنی رحمت کی آغوش میں جگہ دے اور جنت میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا روحانی قرب نصیب کرے"." اردو کا ایک بھلایا ہوا اہل قلم سیاست جدید " ( کانپور) حال میں ہی لکھتا ہے......اس بیسویں صدی کے شروع کے بیس سالوں میں اردو کے کسی بھی قابل ذکر رسالہ کو اٹھا کر دیکھ لیجئے اس کے مضمون نگاروں میں ایک نام مرزا سلطان احمد کا ضرور نظر آئے گا.عمومی- علمی و فلسفیانہ موضوعوں پر قلم اٹھاتے تھے ان کے مضامین عام اور عوامی سطح سے بلند اور سنجیدہ مذاق والوں کے کام کے ہوتے تھے.رسالہ الناظر مشہور زمانہ کانپور...ادیب الله آباد - مخزن لاہور.پنجاب لاہور وغیرہ میں ان کی گلکاریاں نظر آتی تھیں.رفتہ رفتہ اردو والوں نے انہیں بالکل ہی بھلا دیا.ان کے قلم سے چھوٹی بڑی بہت سی کتابیں نکلی تھیں جن کی میزان چالیس در جن سے کم نہ ہو گی.کسی کتاب کو ان کے خصوصی طرز تحریر کے باعث قبولیت عام نصیب نہ ہوئی.اور اب جبکہ پاکستان کے قیام کے بعد اس سرزمین میں اردو کی خدمت ہو رہی ہے اور بہت پرانے مصنفوں اور مؤلفوں کی کتابیں جو گمنام اور مثل گمنام کے ہو چکی تھیں وہاں بڑے آب و تاب سے چھاپی جارہی ہیں.ان کے ذخیرہ تصانیف کی طرف سے کسی کو بھی تاحال توجہ کی توفیق نہیں ہوئی.جناب فقیر سید وحید الدین صاحب کا قابل قدر نوٹ جناب فقیر سید وحید الدین صاحب لکھتے ہیں." مرزا سلطان احمد میرے بزرگوں سے ان کے دوستانہ مراسم اور قریبی روابط تھے اس زمانے میں ہوٹل موجود ہی نہ تھے.نہ آج کی طرح عالی شان ہوٹل تعمیر کرنے یا ان میں قیام کرنے کا تصور تھا.مہمان آتے اور اپنے قریبی اقارب و احباب کے پاس ٹھرتے.عام لوگوں کے لئے سرائیں تھیں.دوست دوستوں کے یہاں آتے اور بلا تکلف قیام کرتے.مہمان نوازی شرافت کی علامت سمجھی جاتی تھی.مہمان سے لوگ اکتاتے نہ تھے ، بلکہ یہ سمجھتے تھے کہ مہمان کا آنا اللہ تعالیٰ کی رحمت کا باعث ہوتا ہے اور مہمان غیب
289 خلافت ثانیہ کا اٹھارہواں سال سے اپنا رزق خود لے کر آتا ہے.میزبانی اور مہمانی کی وجہ سے آپس کے تعلقات کی بھی تجدید ہوتی رہتی.مرزا صاحب اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز رہے.ادھر میرے اکثر بزرگ بھی مختلف سرکاری محکموں سے وابستہ رہے.انگریز نے کچھ ایسا ماحول پیدا کر دیا تھا کہ خوشحال گھرانوں کے لوگ بھی جب تک کسی سرکاری عہدے اور دفتری منصب پر فائز نہ ہوتے زیادہ باد قارنہ سمجھے جاتے تھے.سرکاری ملازمت نشان عزت تھی.مرزا صاحب اردو فارسی اور عربی زبانوں پر بڑا عبور رکھتے تھے مگر انگریزی نہیں جانتے تھے.سرکاری ملازمت میں انہوں نے اپنے فرائض بڑی محنت ، ذہانت اور دیانت داری سے انجام دیئے.جس جگہ بھی رہے ، نیک نام رہے.بالا دست افسر بھی خوش ما تحت عملہ اور اہل معاملہ عوام بھی مطمئن.وہ اپنی ان خوبیوں کے سہارے ترقی کرتے کرتے ڈپٹی کمشنر کے عہدے تک پہنچے.جو اس زمانے میں ایک ہندوستانی کی معراج تھی.سادہ لباس سادہ طبیعت انکسار اور مردت ان کے مزاج کا خاصہ تھا.ان کی ذات کے جو ہر اس وقت پوری طرح نمایاں ہو کر سامنے آئے ، جب وہ ریاست بہاول پور کے وزیر بنا کر بھیجے گئے.کوٹھی میں داخل ہوتے ہی ملازمین سے کہا." سلطان احمد اس ٹھاٹھ باٹھ اور ساز و سامان کا عادی نہیں ہے".چنانچہ ان کے کہنے سے تمام اعلیٰ قسم کا فرنیچر اور ساز و سامان اکٹھا کر کے ایک کمرے میں مقفل کر دیا گیا.انہوں نے رہنے کے لئے صرف ایک کمرہ منتخب کیا.نمائش اور دکھاوا تو انہیں آتا ہی نہیں تھا.لباس اور رہائش کی طرح کھانا بھی سادہ کھاتے.جب ملازمت سے ان کے سبکدوش (ریٹائر) ہونے کا وقت آیا تو انہی دنوں پہلی جنگ عظیم کے اختتام کے بعد حکومت کے خلاف ترک موالات (نان) کو آپریشن) کے ہنگامے شروع ہو گئے.پہلے لاہور اور پھر گوجرانوالہ ان ہنگاموں کی لپیٹ میں آگیا.مرزا سلطان احمد گوجر انوالہ میں ڈپٹی کمشنر تھے.وہاں سب سے زیادہ ہنگائے ہوئے.عوام کے جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ لیڈروں کی ہدایات کے بر خلاف انہوں نے آئینی حدود کو تو ڑ دیا.بعض سرکاری عمارتوں کو نقصان پہنچایا اور ریلوے اسٹیشن کو پورے کا پورا جلا دیا.ایک جم غفیر ہاتھوں میں بانس لاٹھیاں اور اینٹ پتھر لئے ہوئے ضلع کچھری کی طرف بڑھا.مرزا سلطان احمد ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ اگر اپنے تدبر اور خوش بیانی سے کام نہ لیتے تو یہ مشتعل لوگ نہ جانے کیا کر کے دم لیتے.مرزا صاحب نے اس پر جوش ہجوم کے سامنے ایسی سلجھی ہوئی تقریر کی کہ نفرت و غصہ کی یہ آگ ٹھنڈی ہو گئی.وہی جلوس مرزا سلطان احمد کی سرکردگی میں شہر کو
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 290 خلافت ثانیہ کا اٹھارہواں سال واپس ہوا اور جن کی زبانوں پر " انگریز مردہ باد کے نعرے تھے وہ اب " مرز اسلطان احمد زندہ باد" کے جیکارے لگانے لگے.ترک موالات کے ہنگامے ٹھنڈے پڑ گئے تو گورنر پنجاب نے ایک ملاقات میں مرزا سلطان احمد سے کہا کہ آپ گوجر انوالہ کا انتظام ٹھیک طور پر نہ کر سکے.مرزا صاحب اس کے جواب میں بولے کہ لاہور میں تو ”یور ایکسی لینسی" بہ نفس نفیس موجود تھے.پھر بھی یہاں کے ہنگاموں کو نہ روک سکے.آپ یہاں روکتے تو یہ ہنگامے وہاں نہ پہنچتے.مرزا صاحب کے اس جرات مندانہ معقول جواب پر لاٹ صاحب خفیف ہو کر رہ گئے.انگریز حکومت نے جب پنجاب میں مارشل لاء نافذ کیا تو وہ بڑی سختی اور شدید آزمائش کا زمانہ تھا.امرتسر لاہور، گوجرانوالہ اور حافظ آباد کے باشندوں پر سب سے زیادہ سختی کی گئی.میں اس زمانے میں نویں جماعت میں پڑھتا تھا.بڑے تشدد اور جبرو استبداد کا دور تھا.برطانوی ملوکیت چنگیزیت پر اتر آئی تھی.ہر روز ایک سے ایک سخت حکم نافذ ہو تا.شہری آزادی برطانوی سامراج کے شکنجے میں کسی جارہی تھی حکم دیا گیا کہ شہر کی تمام موٹر کارمیں ہیڈ کوارٹر میں جمع کرادی جائیں.اس وقت لاہور میں مشکل سے پچاس ساٹھ کارمیں ہوں گی.پھر حکم ہوا کہ موٹر سائیکلیں بھی ہیڈ کوارٹر پہنچا دی جائیں.اس کی بھی لوگوں کو جبرا قہر ا تعمیل کرتے ہی بنی ، مگر جور و ستم کا یہ سلسلہ اس حد پر بھی نہ رک سکا ایک اور فرمان صادر ہوا جس کی تعمیل میں سائیکلیں تک سرکاری تحویل میں دے دینی پڑیں.حکم یہ تھا کہ سائیکلیں پمپ اور لیمپ سمیت جمع کرائی جائیں.جن بیچاروں کے پاس لیمپ اور پمپ نہ تھے انہوں نے بازار سے مول لے کر سرکاری محکم کی تعمیل کی.ایسا محسوس ہو تا تھا جیسے مارشل لاء کی تلوار ہر کسی کے سر پر لٹک رہی ہے.راقم الحروف کے پاس بھی ایک سائیکل تھی.جو کئی سال کی رفاقت کے سبب مجھے بہت عزیز تھی.میں اسے مع ساز و سامان دل پر جبر کر کے ایمپائر (لاہور میں صرف یہی ایک سینما ہال تھا جس میں انگریزی کی خاموش فلمیں دکھائی جاتی تھیں) کے مرکز میں داخل کرا آیا.حکم حاکم ، مرگ مفاجات ! والد مرحوم اس زمانے میں حافظ آباد میں تعینات تھے جو فسادات اور ہنگاموں کے اعتبار سے کافی متاثر علاقہ تھا اور انگریز کی خاص توجہ کا مرکز بن گیا تھا.انگریز ڈپٹی کمشنر نے ان سے دریافت کیا " آپ کے خیال میں مارشل لاء کو کتنی مدت تک قائم رکھنا چاہئے "؟ والد مرحوم نے دست بستہ عرض کیا " صاحب ! بہت ہو چکا ہے.اب بس کرو.ان کے اس فقرے میں نہ جانے کتنے مظلوموں کی فریاد و فغاں شامل تھی.ڈپٹی کمشنر اس فقرے کو سن کر ایک دم سنجیدہ (SERIOUS) ہو کر خاموش ہو گیا.اس کی اس خاموشی کا راز اس وقت کھلا جب ایک ہفتے کے اندر
تاریخ احمدیت جلد ۵ 291 خلافت ثانیہ کا اٹھارہواں سال اند ر والد صاحب کا تبادلہ دوسرے علاقے میں کر دیا گیا.اس واقعے سے اندازہ ہو کہ ہر کچی بات کچھ نہ کچھ قربانی چاہتی ہے.جوانی کی کو تاہ نظری کے سبب میں نے والدہ صاحبہ کی خدمت میں عرض کیا کہ والد صاحب کو ڈپٹی کمشنر سے یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ اس طرح خواہ مخواہ انگریز بالا دست افسر کی ناراضی مول لی.لیکن آج میں اپنی اس خام خیالی پر ندامت محسوس کرتا ہوں کہ میں نے اس پنج داند از پر کیوں سوچا؟ کیونکہ انہوں نے تو یہ کہہ کر اگلے جہان میں حاکم مطلق اور منصف حقیقی کے سامنے سرخرو ہونے کا ایک سبب پیدا کیا اور یہ مشورہ دیتے ہوئے ذاتی مفاد اور وقتی مصلحتوں کے لئے سچائی اور ایمان کا دامن نہیں چھوڑا.یہاں انگریز کے اس کردار کو سراہنا بھی ضروری ہے کہ اس اختلاف رائے کے باوجود ایک جگہ سے دوسری جگہ تبادلے ہی کو کافی تنبیہ سمجھا گیا.اس سے زیادہ اور کوئی نوٹس نہیں لیا گیا.مارشل لاء جب ختم ہوا تو انگریز سرکار نے اس "لا قانونی دور " کے واقعات کی تحقیقات کے لئے ایک کمیٹی مقرر کی جس کے صدر لارڈ ہنٹر قرار پائے.عوام کی طرف سے ممتاز قومی نمائندے گواہ کی حیثیت سے ہنٹر کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے.مرزا سلطان احمد صاحب نے جس صاف گوئی ، بے باکی اور اخلاقی جرات کے ساتھ اس کمیٹی کے روبرو گواہی دی اور واقعات کا تجزیہ کیا وہ " ہنٹر کمیٹی " کی رپورٹ میں زریں ورق کی صورت میں محفوظ رہے گا.مرزا سلطان احمد پر فالج کا حملہ جان لیوا ثابت ہوا.علاج معالجے کے لئے انہیں لاہور لایا گیا.راقم الحروف کے ایک بزرگ سید اصغر علی شاہ کے ہاں ان کا قیام رہا.یہ مکان ہمارے مکان سے ملحق تھا.میں اکثر مرزا صاحب کی خدمت میں حاضر ہو تا.اپنے خطوں کے جوابات وہ مجھ سے لکھواتے.میرے لئے بڑی مشکل کا سامنا تھا.مرزا صاحب بیمار ہونے کے باوجو د روانی کے ساتھ خط کی عبارت فر فر بولتے اور میں اپنی بدخطی چھپانے کے لئے آہستہ لکھتا.میری ست نگاری ان کی زود گوئی کا ساتھ کہاں دے سکتی تھی.جب میں خط لکھ چکتا تو مرزا صاحب اسے پڑھتے اور میں ان کے تیوروں سے بھانپ لیتا کہ میری تحریر سے وہ مطمئن نہیں ہیں بلکہ کچھ دل گرفتہ ہی ہیں.میں دل ہی دل میں شرمندہ ہو تا.مجھے ان کا ایک " جملہ جو انہوں نے اپنے دوست کے خط میں مجھ سے لکھوایا تھا آج تک یاد ہے.یہ خبط وہ شخص کسی اور سے لکھوانے کا محتاج ہے جو جب بھی قلم اٹھا تا تا تو صفحے کے صفحے بے تکان لکھتا چلا جاتا اور پھر بھی اس کا قلم رکنے کا نام نہ لیتا.اس بیماری سے جانبر نہ ہو سکے.چند دن کے لئے طبیعت بحال بھی ہوئی تو وہ موت کا سنبھالا تھا.اللہ
292 ظافت ماشیہ کا اٹھارہواں سال تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے.بڑے صاحب کردار بزرگ تھے ".انجمن " صفحه ۱۲۵ تا ۱۳۲ از فقیر سید وحید الدین صاحب پر نٹر و پبلشر لا ئن آرٹ پر لیں.کراچی) طبع اول ۱۹۷۶ء.امیر اہلحدیث کا مباہلہ کے لئے چیلنج اور فرار گھڑیالہ ضلع لاہور میں ایک شخص سید محمد شریف تھے.جن کا دعویٰ تھا کہ پنجاب کے اہلحدیث کا ایک حصہ ان کے ساتھ ہے.سید صاحب نے وسط ۱۹۳۱ء میں حضرت خلیفتہ المسیح کو مباہلہ کا چیلنج دیا اور خود ہی تاریخ مباہلہ ۱۲/ جولائی ۱۹۳۱ء اور مقام مباہلہ عید گاہ امرتسر مقرر کر دی اور کہا کہ نتیجہ مباہلہ خارق عادت ہو نہ کہ انسانی ہاتھوں سے حضور نے یہ چیلنج پہنچتے ہی ۶/ جولائی ۱۹۳۱ء کو نہ صرف مباہلہ کی تجویز بلکہ مباہلہ کے خارق عادت اثر کی شرط بھی منظور فرمالی مگر مقام و تاریخ مباہلہ اور دوسری تفصیلات طے کرنے کے لئے یہ تجویز پیش کی کہ فریقین کے دو دو نمائندے ہوں جو تین اور مسلمہ فریقین آدمیوں کی موجودگی میں مقام و تاریخ مباہلہ کا فیصلہ کریں تا فریقین میں کسی کو بلا وجہ تکلیف نہ ہو.اس سلسلہ میں حضور نے اپنی طرف سے مولوی فضل الدین صاحب الـ وکیل اور مولوی غلام رسول صاحب را جیکی کو اپنا نمائندہ مقرر فرمایا.اس کے ساتھ ہی حضور نے قرآن مجید اور سنت رسول اللہ اللہ کے عین مطابق یہ ضروری قرار دیا کہ مباہلہ سے پہلے فریقین ایک دوسرے پر اتمام حجت کے لئے تقریر کریں دوسرے یہ کہ صرف آپ اور سید محمد شریف صاحب ہی مباہلہ نہ کریں بلکہ اپنے متبعین میں سے کم از کم پانچ پانچ سو افراد شامل کریں".سے اس اعلان کے ساتھ حضور نے اپنی جماعت سے مطالبہ کیا کہ خواہ سید محمد شریف صاحب پانچ سو افراد ہی ساتھ لائیں.ہماری طرف سے ایک ہزار احمدی مباہلہ میں پیش ہوں گے.اس لئے ہماری جماعت کے وہ دوست جو یقین ، وثوق اور اپنے مشاہدہ کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لا چکے ہیں.ایک دن کے استخارہ کے بعد اپنا نام پیش کریں.تا ایک ہزار کی فہرست فریق ثانی کے پاس بھیجوائی جا سکے.حضرت خلیفتہ المسیح کا خیال تھا کہ یہ چیلنج سنجیدگی پر مبنی ہے اور آپ کو امید بندھ گئی تھی کہ فریقین میں بالآخر مباہلہ ہو گا.مگر ادھر آپ تو جماعت کے ایک ہزار احمدی کے میدان میں لانے کے لئے تیار ہو گئے ادھر سید صاحب نے اس سے گریز اختیار کرنا شروع کر دیا.چنانچہ پہلے ہی مرحلہ پر اس پر اڑ گئے کہ نہ کسی اتمام حجت کی ضرورت ہے نہ ہزار یا پانچ سو افراد کی اور نہ یہ شرائط قرآن و حدیث کے مطابق A+ ہیں.
293 خلافت عثمانیہ کا اٹھارہواں سال حضور نے اس کے جواب میں ۱۸/ جولائی ۱۹۳۱ء کو مفصل طور پر ان کے سامنے قرآن و حدیث کی روشنی میں اپنا موقف ثابت کر دکھایا.اور للکارا کہ وہ اس بحث کو ختم کرتے ہوئے مباہلہ مسنونہ کے لئے تیار ہو جائیں تاکہ میرے نمائندے ان کے نمائندوں سے مل کر مباہلہ کی تاریخ اور مقام کا تصفیہ کر لیں.احمدی بڑی بے تابی سے مباہلہ کے انعقاد کا انتظار کر رہے ہیں.لیکن سید صاحب اپنے بلند بانگ دعاوی کے باوجود اپنی ہٹ پر قائم رہے اور اپنے موقف کو درست قرار دینے کے لئے ایک اشتہار دیا.مگر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ان کے دلائل کی دھجیاں بکھیر دیں اور تیسری بار ان کو پھر دعوت دی کہ ” ایسے اعلیٰ موقع کو ہاتھ سے نہ دیں اور اپنے مریدوں کو اس ثواب کے موقع سے محروم نہ کریں.آخر ہماری جماعت کے لوگ بھی تو شوق سے اس مباہلہ میں شامل ہونے کے لئے تیار ہیں میں نہیں سمجھتا کہ ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے والے انہیں فاذهب انت وربك فقاتلا انا مهنا قاعدون کہہ کر ان سے الگ ہو جائیں ".مگر ”امیر جماعت اہلحدیث پر ان غیرت دلانے والے الفاظ کا بھی کچھ اثر نہ ہوا اور آخر دم تک انہیں اپنی جماعت کو لے کر میدان مباہلہ میں آنے کی جرات نہ ہو سکی.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی حضرت مسیح موعود کی طرز تحریر اختیار کرنے کی تحریک ایدہ اللہ تعالیٰ نے 10/ جولائی ۱۹۳۱ء کو جماعت کے مصنفوں اخبار نویسوں اور مضمون نگاروں کو یہ اہم تحریک فرمائی کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرز تحریر اپنا ئیں تا ہمارے جماعتی لٹریچر ہی میں اس کا نقش قائم نہ ہو بلکہ دنیا کے ادب کا رنگ ہی اس میں ڈھل جائے.چنانچہ حضور نے فرمایا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وجود سے دنیا میں جو بہت سی برکات ظاہر ہوئی ہیں.ان میں سے ایک بڑی برکت آپ کا طرز تحریر بھی ہے.جس طرح حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے الفاظ جو ان کے حواریوں نے جمع کئے ہیں یا کسی وقت بھی جمع ہوئے ان سے آپ کا ایک خاص طرز انشاء ظاہر ہوتا ہے اور بڑے بڑے ماہرین تحریر اس کی نقل کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طرز تحریر بھی بالکل جدا گانہ ہے اور اس کے اندر اس قسم کی روانی زور اور سلاست پائی جاتی ہے کہ باوجو د سادہ الفاظ کے باوجود اس کے کہ وہ ایسے مضامین پر مشتمل ہے جن سے عام طور پر دنیا نا واقف نہیں ہوتی اور باوجود اس کے کہ انبیاء کا کلام مبالغہ ، جھوٹ اور نمائشی آرائش سے خالی ہوتا ہے اس کے اندر ایک ایسا جذب اور کشش پائی جاتی ہے کہ جوں جوں انسان
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 294 ت ثانیہ کا اٹھارہواں سال اسے پڑھتا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے الفاظ سے بجلی کی تاریں نکل نکل کر جسم کے گرد لپیٹتی جارہی ہیں....اور یہ انتہا درجہ کی ناشکری اور بے قدری ہوگی.اگر ہم اس عظیم الشان طرز تحریر کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے طرز تحریر کو اس کے مطابق نہ بنا ئیں".نیز فرمایا.پس میں اپنی جماعت کے مضمون نگاروں اور مصنفوں سے کہتا ہوں کسی کی فتح کی علامت یہ ہے کہ اس کا نقش دنیا میں قائم ہو جائے.پس جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نقش قائم کرنا جماعت کے ذمہ ہے آپ کے اخلاق کو قائم کرنا اس کے ذمہ ہے آپ کے دلائل کو قائم رکھنا ہمارے ذمہ ہے آپ کی قوت قدسیہ اور قوت اعجاز کو قائم کرنا جماعت کے ذمہ ہے آپ کے نظام کو قائم کرنا جماعت کے ذمہ ہے وہاں آپ کے طرز تحریر کو قائم رکھنا بھی جماعت کے ذمہ ہے".اس ضمن میں حضور نے اپنا تجربہ یہ بتایا کہ.میں نے ہمیشہ یہ قاعدہ رکھا ہے.خصوصاً شروع میں جب مضمون لکھا کرتا تھا.پہلا مضمون جو میں نے تشعیذ میں لکھا وہ لکھنے سے قبل میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریروں کو پڑھا تا اس رنگ میں لکھ سکوں.اور آپ کی وفات کے بعد جو کتاب میں نے لکھی اس سے پہلے آپ کی تحریروں کو پڑھا.اور میرا تجربہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اس سے میری تحریر میں ایسی برکت پیدا ہوئی کہ ادیبوں سے بھی میرا مقابلہ ہوا.اور اپنی قوت ادبیہ کے باوجود انہیں نیچا دیکھنا پڑا " AF
تاریخ احمد ید جلده چو تھا اب (فصل پنجم) 295 خلافت عثمانیہ کا اخار ہواں سال سیلیون یا لنکا (CEYLON) کی سرزمین کو دنیا کی قدیم مذہبی تاریخ میں دار التبلیغ سیلون کا قیام بڑی اہمیت حاصل ہے.چنانچہ " قصص الانبیاء " وغیرہ کتابوں میں لکھا ہے کہ ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام جنت (ارضی) سے نکلنے کے بعد ہندوستان کے مشہور جنوبی جزیرہ لنگاری میں اقامت پذیر ہو گئے.لنکا میں ایک پہاڑ کی چوٹی کا نام ADAM, PEAK یعنی آدم کی چوٹی ہے.جہاں سیلونی ہر سال عبادت کے لئے جمع ہوتے ہیں.سبحہ المرجان میں جناب سید غلام علی واسطی آزاد بلگرامی نے اس طرح کی کئی روایات جمع کی ہیں اور یہ بھی بتایا ہے کہ یہاں حضرت آدم اپنے ساتھ حجر اسود بھی لائے تھے.ان بیانات کی واقعاتی حیثیت خواہ کیسی ہی مخدوش وسقیم کیوں نہ ہو.مگر مورخین اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ عرب اور ہندوستان کے درمیان ازمنہ قدیم سے جو تجارتی تعلقات قائم تھے اور جو دونوں علاقوں بلکہ تمام دنیا کی تاریخ پر اثر انداز ہوئے.لنکا کے ساحلی علاقہ نے اس میں ایک مرکزی کردار ادا کیا ہے.جب عرب نور اسلام کی روشنی سے منور ہو ا تو مسلمان ملاحوں اور تاجروں نے اپنے پیشروؤں کا کام برقرار رکھا.اور اپنی کشتیاں اور جہاز لے کر عرب سے لنکا اور ہندوستان کے ساحل پر آنے لگے.اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں احمدیت کا پیغام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ مبارک ہی میں لٹریچر کے ذریعہ سے لنکا پہنچا.نیک اور سعید طبع لوگ اس سے متاثر ہوئے یہاں تک کہ حضرت صوفی غلام محمد صاحب بی.اے ماریشس تشریف لے جاتے ہوئے ۱۴ / مارچ ۱۹۱۵ء کو سیلون میں پہنچے اور آپ نے یہاں تین مہینے قیام فرمایا.اور اس مختصری مدت میں ایک مخلص اور فعال جماعت پیدا کر لی.۸۵ AM حضرت صوفی صاحب کے ماریشس جانے کے کچھ مدت بعد مولوی ابراہیم صاحب مالا باری مقامی مبلغ مقرر کئے گئے.مقامی جماعت نے 1917 ء میں ایک رسالہ Message ( پیغام) اور انگریزی میں اور ایک رسالہ تھوون Thoothan) تامل زبان میں جاری کیا.جو تبلیغ کا بہترین ذریعہ تھے.قیام جماعت کے سولہ سال بعد ستمبر ۱۹۳۱ء میں کولمبو میں باقاعدہ دار التبلیغ قائم کیا گیا جس کے پہلے مرکزی مبلغ مولوی عبد اللہ صاحب مالا باری مقرر ہوئے.آپ کے تقرر سے کچھ عرصہ قبل سیلون کے مذکورہ بالا دونوں
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 296 خلافت ثانیہ کا اٹھار ہواں سال رسالوں کی اشاعت میں وقفہ پڑ گیا تھا.یکم اپریل ۱۹۳۲ء سے (تھودن) کا دوبارہ اجراء ہوا.جس کی طباعت و اشاعت میں جناب عبد المجید صاحب کی جدوجہد کا نمایاں دخل تھا.عبد المجید صاحب اوائل عمر ہی میں احمد یہ پریس میں کمپوزیٹر کی خدمات انجام دیتے آرہے تھے.ان کا اخلاص و شوق ان کے علم میں خاطر خواہ اضافہ کا موجب بن گیا.اور اب وہی اس رسالہ کے ایڈیٹر اور پبلشر ہیں اور اشاعت اسلام کے لئے ان کی قربانی ، جوش اور ولولہ قابل رشک ہے.دار التبلیغ سیلون کے اولین مبلغ مولوی عبد الله صاحب مالا باری نے (جو مالا بار مشن کے بھی انچارج تھے جہاں آپ کے ذریعہ سینکڑوں افراد حلقہ بگوش احمدیت ہوئے) پہلے ہی سال کولمبو Colombo) پانہ ڈرا (Panadra) اور نیگومبو (Negombo) میں زبانی گفتگو کے علاوہ مضامین اور ہفتہ وار لیکچروں کے ذریعہ احمدیت کی منادی کی اور نیکو مبو میں پہلی احمد یہ مسجد کی بنیاد رکھی.اس وقت سیلون یا لنکا ہندوستان کا ایک حصہ تھا.فروری ۱۹۴۸ء میں انگریزوں نے اس ملک کو آزاد کیا.ان ابتدائی سرگرمیوں کے بعد آپ نے اس جزیرہ میں تبلیغ کو مزید وسعت دی.جب بھی آپ مالا بار سے سیلون پہنچتے تو کولمبو کے علاوہ پانہ دورانیگومبو کیمپولا مٹور وٹا“ پوسولادا - مقامات کے بارہا دورے کرتے تھے اور تحریر و تقریر اور پرائیویٹ ملاقاتوں سے اشاعت حق میں مصروف رہتے تھے اور خطبات انفرادی نصائح اور درس و تدریس کے ذریعہ سے تعلیم و تربیت کا فریضہ بھی بجالاتے رہے.محترم مولوی عبد اللہ صاحب مالا باری پہلے نظارت دعوت و تبلیغ کے ماتحت پھر ۱۹۴۵ء سے وکالت تبشیر تحریک جدید کے زیر نگرانی فریضہ تبلیغ بجالاتے رہے.اور مالا بار سے موقعہ ملنے پر ہر سال دو سال بعد چند ماہ سیون میں گزارتے.اس ملک کی آزادی کے بعد ۸/ اگست ۱۹۵۱ء کو صرف اس مشن کے لئے تحریک جدید نے مولوی محمد اسمعیل صاحب منیر کو مبلغ بنا کر بھیجا.آپ نے مارچ ۱۹۵۸ء تک تبلیغ حق کی اور آپ کے عمد میں بھی جماعت سیلون نے ہر لحاظ سے ترقی کی اور لنکا کی حکومت اور عوام دونوں میں احمدیت کا چرچا عام ہونے لگا.مولوی محمد اسمعیل صاحب کی واپسی سے قبل اس مشن کا چارج لینے کے لئے مولوی عبدالرحمن صاحب شاہد سیلونی ۱۲۵ / جولائی ۱۹۵۷ء کو ربوہ سے روانہ کئے گئے جو ۱۲ / دسمبر ۱۹۷۱ء تک سیلون مشن کے انچارج رہے ۱۹۷۲ء سے مقامی جماعت ہی یہ مشن چلا رہی ہے.سیلون مشن کا مرکز کولمبو ہے جہاں احمدیہ دار التبلیغ میں فضل عمر لائبریری اور اخبار دی میسیح "
تاریخ احمدیت جلد ۵ 297 خلافت ثانیہ کا اٹھار ہواں سال (The Message) کے شعبے قائم ہیں ۱۹۵۷ء میں جماعت کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے پیش نظر ایک سہ منزلہ عمارت بھی خرید لی گئی جس کے صحن میں مسجد بنانے کی تجویز ہے.نیگومبو میں اس مشن کی دوسری شاخ ہے جہاں وسیع باغ میں احمد یہ مسجد ، بچوں کا سکول اور لائبریری ہے پالمنی میں تیسری شاخ ہے.جیسا کہ اوپر ذکر آچکا ہے.سیلون میں جماعت کا دیرینہ اخبار دی میسیج ہے جو ایک مدت تک بند رہنے کے بعد ۱۹۵۳ء میں دوبارہ انگریزی اور تامل میں جاری کیا گیا ۱۹۵۶ء میں اس کا تیسرا ایڈیشن سیلون کی سرکاری زبان سہیلیز Sinhaleese) میں بھی چھپنے لگا.اور اب یہ واحد اسلامی اخبار ہے جو بیک وقت ملک میں بولی یا سمجھی جانے والی تین زبانوں (انگریزی تامل اور منیلین میں شائع ہو رہا ہے.اور علمی طبقہ میں خاص شہرت رکھتا ہے.سیلون - لنکا کے علاوہ جنوبی ہند ملائیشیا اور برما میں بھی اس کے ذریعہ سے پیغام حق پہنچ رہا ہے.احمد یہ مشن سیلون نے چند سال میں ہزاروں روپے کا لٹریچر جنوبی ہند کی مختلف زبانوں میں تیار کر لیا ہے جو سیلون کے علاوہ جنوبی ہند ملایا اور بورنیو د غیرہ بھی بھیجا جاتا ہے.مطبوعات کی بنیاد مکرم مولوی محمد اسمعیل صاحب منیر نے رکھی اور اس کی مالی امداد سیلون کے مخلص احمدی جناب ڈاکٹر سلیمان صاحب اور ان کی بیگم صاحبہ نے قبول کی.مشن کی طرف سے اب تک اسلامی اصول کی فلاسفی ".لیکچر لاہور " " نظام نو" - "ہمار ا رسول " " تحفه شهزاده ویلیز " " احادیث النبی""." قرآن مجید کی دو سورتیں " - " صداقت مسیح موعود " " وفات عیسی " اور " اجرائے نبوت وغیرہ رسائل وکتب شائع ہو چکی ہیں.ان کے علاوہ کثیر تعداد میں ٹریکٹ بھی اسلامی قاعدہ " (سہیلیز) اور اسلام کا خلاصہ" تامل و انگریزی بھی ادارہ کی مطبوعات میں سے ہیں.".اس مشن نے سرکاری زبان سیلیر میں پیشں بار اسلامی لٹریچر شائع کر کے حضرت امیر المومنین المصلح الموعود ایده الله الورود کی ایک خواب ہی ر 15 کمدی جو حضور نے درج ذیل الفاظ میں قبل از وقت شائع فرما دی تھی." میں نے رویا میں دیکھا کہ کوئی تحریر میرے سامنے پیش کی گئی ہے.اور اس میں یہ ذکر ہے کہ ہمارے سلسلہ کا لٹریچر سنہالیز زبان میں بھی شائع ہونا شروع ہو گیا ہے.اور اس کے نتائج اچھے نکلیں گے.میں خواب میں کہتا ہوں کہ سنگھالیز زبان تو ہے یہ سنہا لیز کیوں لکھا ہے پھر میں سوچتا ہوں کہ سنہالیز زبان کون سی ہے تو میرا ذ ہن اس طرف جاتا ہے کہ شاید یہ ملائی زبان کی کوئی قسم ہے اس کے بعد آنکھ کھل گئی".
تاریخ احمدیت.جلده 298 خلافت ثانیہ کا اٹھارہواں سال اس عظیم الشان رویا کی اشاعت کے پانچ برس بعد ۱۹۵۷ء میں سہیلیز زبان میں ”اسلامی اصول کی فلاسفی " شائع ہونے پر احمد یہ مشن ہاؤس میں ایک پبلک تقریب منعقد ہوئی جس میں ”اسلامی اصول کی فلاسفی" کے ترجمہ کی اشاعت کا اعلان سیلون کے وزیر ڈاک خانہ جات و براڈ کاسٹ نے کیا اور سیلون کے ہر روزنامے نے اس تقریب کا اس کی تصاویر دے کر نمایاں ذکر کیا.اور مشن کے اس کارنامے کو قومی خدمت قرار دے کر خوب سراہا.وزیر اعظم سیلون جناب بند را نائیکا (Bandra Naika S.W.R.D) نے اپنے پیغام میں کہا.بدھسٹ اور سہیلیز ہونے کے لحاظ سے میں اس کتاب "اسلامی اصول کی فلاسفی " ISLAM DHAR MAYA) کے لئے مختصر پیغام بھیجنے میں فخر محسوس کرتا ہوں.تاریخ سیلون کے اہم دور میں سہیلیز میں اسلامی کتب کی اشاعت باعث اطمینان ہے اس کے ذریعہ سے ایک دو سرے سے تعلقات بڑھیں گے.یہ کتاب جو عام فہم زبان میں تیار کی گئی ہے.یقینا سہیلیز زبان میں اسلامی لٹریچر کی ضرورت پوری کرنے والی ہوگی.اسلامی اصول کی فلاسفی " کے مترجم مسٹرپی.ایچ دید یکیے کا بیان ہے کہ جب میں ترجمہ کر رہا تھا تو کئی غیر مسلموں نے میری سخت مخالفت کی.مگر میں نے اس قومی ودینی خدمت کی تکمیل ضروری خیال کی.اور اس کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد مجھے اس سے عقیدت ہو گئی.اسی وجہ سے اس کا ترجمہ بہت کم وقت میں مکمل ہو گیا.سیلون ریڈیو سے بھی کئی روز مسلسل جماعت احمد یہ سیلون کی اس عظیم الشان خدمت کا تذکرہ کیا جاتا رہا.اخبار اور لٹریچر کی اشاعت کے علاوہ ملکی اخبارات ریڈیو اور مبلغین کے مسلسل دوروں کی وجہ سے سیلون کے ہر شہر اور ہر گاؤں میں اسلام اور احمدیت کا پیغام بہت اچھی طرح پہنچ گیا ہے اور پندرہ اہم پبلک لائبریریوں میں جماعت احمد یہ کالٹر پچر بھی موجود ہے.۱۹۵۲ء سے یہ مشن خود اپنا کفیل ہو چکا ہے اور سیلون کی جماعت دینی خدمتوں اور قربانیوں کے علاوہ سلسلہ کے تبلیغی و تربیتی کاموں میں بھی اسی طرح دل سوزی و سرگرمی اور جوش و خروش سے حصہ لینے والی ہے.جس طرح دوسرے ملکوں کی جماعتیں.صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر صد را مجمن احمدیہ کیلئے جدید عمارت اور اس کا افتتاح دفاتر غیر مناسب و بے ترتیب عمارتوں میں ایک دو سرے سے جدا اور منتشر حالت میں تھے جس کی وجہ سے سلسلہ کا خرچ بھی زیادہ ہو رہا تھا.اور قربت و سہولت بھی حاصل نہیں تھی.لہذا ستمبر ۱۹۳۱ء کے قریب مسجد اقصیٰ کے شرقی جانب پنڈت شنکر د اس صاحب کا پختہ مکان تھا جو خرید لیا گیا.اس مکان کا سلسلہ احمدیہ کے قبضہ میں
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 299 خلافت ثانیہ کا اٹھا ر ہو ان سال آجانا اور اللہ تعالٰی کے فضلوں میں سے ایک خاص فضل اور اس کے نشانوں میں سے ایک اہم نشان تھا.جب پنڈت شنکر داس صاحب نے یہ عمارت تعمیر کی تو مسجد اور دار مسیح سے قرب کی وجہ سے احمدی آبادی بہت مشوش ہوئی مگر جب حضرت مسیح موعود کے سامنے اس کا ذکر ہوا.تو حضور نے اللہ تعالیٰ سے علم پا کر ارشاد فرمایا.یہ کوئی فکر کی بات نہیں.شاہی کیمپ کے پاس کوئی شخص نہیں ٹھہر سکتا.اس وقت یہ گھر نهایت آباد اور ترقی کی حالت میں تھا.مگر اس کے بعد اس مکان کے مکینوں کو پے در پے ایسے صدمات پہنچے کہ یہ اجڑ گیا.اور خدائی قدرت نمائی کا آخری کرشمہ پر ہوا کہ یہی عمارت حضرت مسیح موعود کے شاہی کیمپ کا ایک حصہ بن گئی اور اس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے حکم سے شاہی فوج کے سپاہی دنیا کی روحانی فتح حاصل کرنے کے لئے داخل ہو گئے.اس مکان کی اوپر کی منزل تک نہ تو لپائی تھی نہ سفیدی اور نہ فرش لگے ہوئے تھے.علاوہ ازیں بالائی منزل میں دو بر آمدے اور دو کمرے ابھی تعمیر کئے جانے تھے لہذا حضرت مرزا بشیر احمد صاحب افسر صاحب پراویڈنٹ فنڈ اور افسر صاحب تعمیر پر مشتمل ایک سب کمیٹی بنائی گئی.جس کے سپرد یہ کام کیا گیا کہ وہ عمارت کا اس رنگ میں نقشہ بنائے کہ زیادہ سے زیادہ دفاتر کی گنجائش نکل آئے.سب کمیٹی کے تجویز کردہ نقشہ کے مطابق جب اس مکان کی عمارت میں مناسب کمی بیشی اور مرمت ہو چکی تو اپریل ۱۹۳۲ء میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دفاتر کی اس جدید عمارت کا افتتاح فرمایا - 1 40- سیرت النبی کے جلسے حسب معمول سیرت النبی کے شاندار جلے اس سال بھی منعقد ہوئے.لاہور کے جلسہ میں جو ۸/ نومبر ۱۹۳۱ء کو ہوا.خود حضرت خلیفہ المسیح الثانی بھی تشریف فرما ہوئے.بریڈ لاء ہال میں لالہ رام چند صاحب منچندہ اور مولوی محمد بخش صاحب مسلم بی.اے کی تقریر کے بعد حضور نے ۲۴ گھنٹہ تک ایک بصیرت افروز تقریر فرمائی.تقریر میں قرآن کریم کی آیت لقد جاءكم رسول من انفسكم عزيز عليه ما عنتم حريص عليكم بالمومنين رؤف الرحیم (التوبہ) کی نہایت ہی لطیف تفسیر کرتے ہوئے بتایا کہ اس میں آنحضرت ﷺ کی پانچ ایسی خصوصیات بیان کی گئی ہیں جن میں آپ منفرد ہیں.اس تاریخ کو گزشتہ روایات کے مطابق الفضل کا خاتم انیسین نمبر بھی شائع کیا گیا جس میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت میر محمد اسمعیل صاحب اور دو سرے بزرگان سلسلہ اور علمائے سلسلہ کے علاوہ حضرت ساره بیگم صاحبہ محترمہ ناصرہ بیگم صاحبه امتہ السلام بیگم صاحبہ اور دوسری احمدی خواتین کے مضامین بھی شائع ہوئے.غیر از جماعت اصحاب
تاریخ احمدیت جلد ۵ 300 خلافت ثانیہ کا اٹھارہواں سال میں سے مولوی خیر صاحب سابق اسٹنٹ ایڈیٹر اخبار " مشرق " گورکھپور) نے مضمون لکھا اور سید علی نقوی صاحب صفی لکھنوی.ابو المعظم نواب سراج الدین احمد خان صاحب سائل دہلوی.سید محمد کاظم علی صاحب شائق رئیس اعظم گورکھپور اور مفتی ضیاء الدین صاحب پونچھ کی نعتیں شائع ہوئیں.یہ نمبر با تصویر تھا یعنی اس کا سرورق احمد یہ مسجد فضل لندن کی تصویر سے مزین 11
تاریخ احمدیت جلد ۵ 301 خلافت ثانیہ کا اٹھارہواں سال چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کا ایک اہم مکتوب (مورخه ۰ار دسمبر ۱۹۳۱ء) بحضور سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بسلسلہ اجلاس مسلم لیگ دهلی) Swiss Hotel dellin 10.12.31.بسم ابد این جنن البيهم سیدنا و امامها - السلام عليكم و محمد الم و بر بابا مجھے ابھی اللہ ملی ہے کہ خاکسار کو آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ الیکس کا جو د تھیلی میں ۲۶ -۲۷ ۲۶ کو ہونے والا ہے صدر منتخب کیا گیا ہے.کوئن کا حصہ ہے اتوار کو ہواتھا اور میں میرا نام تو آیا تھا لیکن چوتھے نبر تھا یکر کا اور مجھے یہ خیال نہیں تھا کہ میری باری آجا ئیگلی اس جانگلی لئے حضور سے بیشتر را از طلب نہ کرتا.گوسیگریزی
تاریخ احمدیت جلد ۵ 302 خلافت ثانیہ کا اٹھارہواں سال سے میں نے یہ ہر ہا تھا کہ شمار رحلہ انہی تاریخوں پر ہوگا لیکن انہوں نے کہا اگر تم پر بھی قرعہ پڑا تو ہے ہو کو فارغ ہو بھی جاؤ گے اس شام چلے جانا.خاک ناراخیانت کر می جناب مفتی حساب سے عرض کر دیا تھا کہ حضور کی حضرت میں روسی روز کی صورت کی اطلاع کردیں.آج شادر علم تلی ہے کہ مجھے تنتجیب کیا گیا ہے اور اب کی تبدیلی کی گیتاش کری میں یہ نہیں کیونکہ وقت بہت کم ہے.اور سیکیور برای ما کل ہمتی جا رہے ہیں اور ہم کو وریب تشریف کرائیں گے اس لئے اب وہ کسی اور کے لئے کوئی بھی نہیں کر سکتے.ادھر اس موقعہ پر دھر داری بھی بہت ہے.کما لیا کریں اہم کی سیاسی موقعہ پہلے نہ ہوا ہوگا.اس لئے خاک را مشکور کی منظور ی کی اینر ہیں اور اور تھائی سے توفیق طلب کرتے
تاریخ احمدیت جلد ۵ 303 خلافت ثانیہ کا اٹھارہواں سال ہوئے اسے منظور کر لیا ہے.اور زیادہ تررسی رنگ میں اپنے خیالات کے بلی کی سے اسے قبول کیا ہے کہ اس تو تو پر مسلم کان شہیر کو حضور کی زبان بن کر سیاسی مشورہ دوں اور کسی حد نک دانلی سیاسی راچھی کی کر سکوں.اس لئے معروف ہوں کہ حضور کمال ذرہ نوازی کرد و شفقت سے رہنا قیمتی وقت نکال کر ایک بلیس کا مسودہ لکھوار میں روز کا کار کر بھیجوا دیں خاک ارادے ترجمہ کر لیا.لوئیڈ ہیں دونوں زبانوں میں چھیپ پکا اردو میں بھی اور انگریزی میں بھی.گومیز بها غالباً انگریری کیا جائیگا.حضور انداره خرنا سکتے ہیں کہ وقت بہت بھی تحریک کا کافی ہے حصے پورے ہے beit کام عدالت میں بھی رہتا ہے.لیکن زیادہ مشکل یہ کہ نہ میرے اندر و وسعت نظر نہ وہ قابلیت نه توره حالات کانه صیح اندازه امور جواز به دور نه آینده
304 خلافت ثانیہ کا اٹھار ہوار کے کیا کیا آنے والینے جالوت کا اتوار جور این فرض ادا کرنے کے لئے ضروری ہیں.اس نو بیری کے قابلیت کو بھی یہ نظر رکھتے ہوتے اور موقعہ کے لحاظ سے بھی منور نہ تصنیف قدر گوارا نرما لیں.حضور کی نام مصر و نیتوں کا علان جبکہ بھی قریب آ جائے اور حضور نیز یہ تاکید ہو جو ہونا تکلیف ماشا بود که ان تفقط طالباً کاک اراک شده اند بیان سے فارغ ہوکر ۲۰ ر کو قبل دو پہر حاضر قریب اندلس ہو یا دوراشته عائیل حضور کی خدمت می باشند براه راست بھی لیں گے.چاینا ایک والوں کی طرف سے بھی زید بران در یکی در راه است که که اگر گفتن ہو تو حضور جلو گی علیہ رول تاریخیں ۲۸۰۲۷ ۲۹۰ شور زما د ہیں.لیکن میں نے ڑکے کہدیا ہے کہ نیا نیا یہ نا شکری ہو گا مل جو سے یاد
خلافت عثمانیہ کا اٹھارہواں سال تاریخ احمدیت.جلد ۵ 305 ہو کہ حضور نے فرمایا تھا کہ یہ تاریخیں صورت صیح لوعود عید الصورة وہ سوم کی شور کردہ ہیں) پیرے زنل درخواست ہے کہ بہر صورت رہنے قدام کو جو سہیل سے گذار جلد پر جا سکتے ہیں ارشاد فر ما یا جا تھے موہ لیگ کے ابوس بین فیہ وقت کے لئے زیادہ سے زیادہ شامل نہ سکتے ہیں شامل ہوں.انکا خیال ہے کہ میر نے نام کا عنوان ہوتے بھی جمیعت العلی وغیرہ شور چھائے اور خالفت شروع کر دیں گے اور کوشش کر لیں گے کہ اجلہ کا ایک کے وون میں بھی بی لعنت ہو.اس لئے گوشتی کر نی مائے ہے کہ جمے احمدیہ کے بہت سے مبرا نہ مقابل ہو سکیں تا کہ حاضری بھی تھی ہو اور ایزولیوشن وغرہ بھی جب کت و پاس ہو جائیں.یہ طریقہ جنوری میں نکور رہا ہوں اور پورے محور پر اظہار مدعا بھی نہیں کر تھا.جو اس طریقہ کے معنے ہونے کی بنی ریت نگار نہیں
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 306 خلافت عثمانیہ کا اٹھارہواں سال داکار کو اطلاع کرا دیں کہ یہ خریفه شرق با ریال اصیل کر کیا ہے اور یہ تعین کے تعلق خاکسار کی گذارش نبول ہو چکی ہے تو کاک کی بہت سی تشویش رفع ہو جائیگی ائندہ الیس ہو جیسے جسے حضور کرتے جائیں اگر ان کو کھجور میں تو خاک ار سیاسی سات سات ترجمہ کر آ جائے.ابا ولی روایات اور جب میمانی کی حالت موجود در ایالات پر تبصرہ اور آئیندہ کے کام کے متعلق بھی ہوگا.آئی ڈاریک با اعدہ نظام اور تم کیا تو عوام کرنے پر اگر حضور بند ذا ئیں تو خصوصیت سے زور دیدیں اور آخری گذارش یہ ہے کہ کار کے لئے دعا تاریکی کہ اسد شمال اس قونو پر صحیح اور تحقیق خدمت اور راہنمائی کی توفیق عطا ہوتا گیا.آمین دانیم حضور کی منوج خان زنمو السلفان
ریت - جلد ۵ 307 خلافت ثانیہ کا اٹھارہواں سال مسلم لیگ کا اجلاس دہلی اور چوہدری مسلم لیگ کا اجلاس دیلی ۱۲۲ دسمبر ۱۹۳۱ء کو مسجد فتح پوری کے جیون بخش ہال میں زیر صدارت ظفر اللہ خان صاحب کا خطبہ صدارت جناب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب منعقد ہونا قرار پایا تھا.لیکن کئی روز سے احراریوں اور دوسرے کانگریسی علماء نے جلسہ میں رکاوٹ ڈالنے NA اور چوہدری صاحب کو محض احمد ی ہونے کی وجہ سے بد نام کرنے میں اپنی تمام تر کوششیں صرف کر دیں.آپ کا سیاہ جھنڈیوں سے استقبال کیا اور بالآخر ہال پر بھی قبضہ کر لیا.جس پر مسلم لیگ کے ایک سو مندوبین خان صاحب نواب علی صاحب کی کوٹھی واقعہ کیلنگ روڈ نئی دہلی میں جمع ہوئے.خان صاحب ایس ایم عبد اللہ صدر مجلس استقبالیہ کے خطبہ کے بعد سر مولوی محمد یعقوب صاحب سیکرٹری مسلم لیگ نے لیگ کو نسل کے انتخاب کے مطابق چوہدری ظفر اللہ خان صاحب سے فرائض صدارت ادا کرنے کی درخواست کی اور چوہدری صاحب کرسی صدارت پر رونق افروز ہوئے اور ایک مبسوط فاضلانہ خطبہ صدارت پڑھ کر سنایا.اس خطبہ میں آپ نے مسلم نقطہ نگاہ کی ترجمانی کرتے ہوئے ملک کے تمام پیچیدہ اور لانخل مسائل مثلاً وفاق، وفاقی مجالس قانون مالیات وفاق، حق رائے دہندگی، عدالت وفاق ، صوبجاتی خود مختاری، مسلمانوں کے اساسی حقوق وغیرہ پر سیر حاصل روشنی ڈالی اور نہایت صاف اور واضح لفظوں میں مسلمانوں کے موقف کی معقولیت مهرنیم روز کی طرح روشن کر دکھائی.سیکرٹری مسلم لیگ کے الفاظ میں یہ اجلاس عدیم النظیر تھا.اور اس میں کونسل کے ارکان نے غیر معمولی تعداد میں شرکت کی.یہ خطبہ صدارت مسلم لیگ کی تاریخ میں نہایت درجہ اہمیت رکھتا ہے جسے اسلامی پریس نے بے حد سراہا.چنانچہ چند مسلم اخبارات کی آراء درج ذیل ہیں.(۱) روزانہ اخبار "انقلاب" (لاہور) یکم جنوری ۱۹۳۲ء کے پرچہ میں خطبہ صدارت درج کرتے ہوئے لکھا.چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس دہلی کے صدر کی حیثیت سے جو خطبہ پڑھا.اس میں سیاسیات ہند اور سیاسیات اسلامی کے تمام مسائل پر نہایت سلاست، سادگی اور سنجیدگی سے اظہار خیالات فرمایا ".(۲) اخبار " الامان “ دیلی ۳۰ / دسمبر ۱۹۳۱ء نے لکھا.جہاں تک آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی تجاویز اور اس کے خطبہ صدارت کا تعلق
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 308 خلافت عثمانیہ کا اٹھار ہواں سال ہے اس میں پوری پوری مسلمانان ہند کی ترجمانی کی گئی ہے.اور اس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ بروقت مسلمانان ہند کی صحیح ترجمانی کرنے میں یہ اجلاس گزشتہ جلسوں سے زیادہ کامیاب رہا.وزیر اعظم کے اس تاریخی اعلان پر جو اس نے ۲/ دسمبر کو گول میز کانفرنس میں پیش کیا تھا.مایوسی کا اظہار افسوس کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا کہ جب تک وہ مسلمانوں کے فلاں فلاں مطالبات نہ منظور کریں.اس وقت تک مسلمان محض اس اعلان سے ہرگز مطمئن نہیں ہو سکتے.اس طرح ایک اہم تجویز آل انڈیا مسلم کانفرنس اور آل انڈیا مسلم لیگ کو متحد کرنے کے لئے منظور کی گئی.جس پر مسلمانوں کی سیاسی موت وحیات کا دارد مدار ہے.اسی طرح بعض اور مفید ضروری تجاویز منظور ہو ئیں.اسی طرح خطبہ صدارت میں جس دلیری و بے باکی کے ساتھ حکومت کے رویہ کی مذمت اور حقوق مسلمین کی وکالت کا حق ادا کیا گیا ہے.وہ بھی اس اجلاس کی ایک تاریخی خصوصیت ہے"." (۳) "الخلیل دیلی نے اپنے کیم جنوری ۱۹۳۲ء کے پرچہ میں لکھا.چودھری ظفر اللہ خاں نے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس دہلی میں جو خطبہ صدارت ارشاد فرمایا.وہ اپنی نوعیت و سود مندی کے اعتبار سے وقت کا ایک اہم خطبہ ہے اور اس میں مسلم جذبات کی صحیح صحیح ترجمانی کی گئی ہے.ہم چوہدری صاحب کے ممنون ہیں کہ آپ نے مسلم جذبات کی کچی وکالت کی اور حکومت اور دنیا کو ایک دفعہ اور متنبہ کر دیا ہے کہ اگر مسلمانوں کے حقیقی مطالبات منظور نہ کئے گئے اور انتخاب جدا گانہ کے قیام میں پنجاب دبنگال میں مسلم اکثریت کے تحفظ سندھ کی غیر مشروط علیحدگی اور سرحد کو حقیقی اصلاحات کے عطا کرنے کی طرف مستعد انہ قدم نہ اٹھایا گیا تو یہاں کوئی آئین کامیاب نہ ہو گا اور مسلمان ہرگز مطمئن نہ ہوں گے.مسلم حقوق کی وکالت کا جو طریقہ آپ نے اختیار کیا.وہ بہت صحیح اور بہت درست تھا.تمام خطبہ آپ کی فاضلانہ اور دلیرانہ ترجمانی سے لبریز ہے.آپ نے اس خطبہ صدارت میں جن گرانقدر خیالات کا اظہار کیا ہے.حقیقت میں وہی مسلمانوں کے خیالات ہیں اس خطبہ کو پڑھ کر مخالفین کو یقینا اپنے احتجاجی فعل و عمل پر افسوس ہوا ہو گا اور ہونا چاہیے " سر محمد یعقوب خاں صاحب نے اجلاس دہلی کے بخیر و خوبی منعقد ہو جانے کے بعد مسلمانان ہند کو توجہ دلائی کہ " آل انڈیا مسلم لیگ کو اپنا سالانہ اجلاس منعقد کرنے میں جو دشواریاں دہلی میں ۲۶ / دسمبر ۱۹۳۱ء کو پیش آئیں وہ پہلی مرتبہ نہ تھیں بلکہ اس سے پیشتر کئی مرتبہ لیگ کے مخالفوں نے اس کو توڑنے اور اس کے جلسوں کو ناکام بنانے میں سعی اور کوشش کا کوئی دقیقہ نہیں اٹھار کھا...اس مرتبہ دہلی میں مخالفین کا ہجوم...بہت زیادہ اور بہت قوی اسی وجہ سے ہوا کہ علم بغاوت مذہب کے نام
تاریخ احمدیت جلد ۵ 309 خلافت ثانیہ کا اٹھار ہو ان سال سے بلند کیا گیا تھا اور یہی امر سب سے زیادہ باعث شرم اور قابل نفرت ہے مسلمانان ہند کو اس واقعہ سے سبق حاصل کرنا چاہیئے.اور آئندہ کے واسطے اس فتنہ پردازی کا سدباب کرنا چاہئے.ورنہ مسلمانوں کا تمام قومی شیرازہ بکھر جائے گا.اور ان کے سیاسی حقوق کا قلعہ پاش پاش ہو جائے گا.....مسلمانوں کو اس وقت ہندوستان میں اپنی آٹھ کروڑ آبادی پر ناز ہے اور اسی کے تناسب سے ہم اپنے حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں اگر قادیانی شیعہ خوبے بو ہرے اور دیگر تمام فرقے مثلاً اہل قرآن اور اہل حدیث سب کے سب جیسا کہ علماء کرام ہمیشہ سے فتویٰ دیتے چلے آئے ہیں.دائرہ اسلام سے خارج کر دئے جائیں.تو خالص مسلمانوں کی آبادی ہندوستان میں کس قدر رہ جائے اور ان کے سیاسی مطالبات کی کیا گت ہو گی " جلیل القدر صحابہ کا انتقال ۱۹۳۱ء میں فوت ہونے والے بعض جلیل القدر صحابہ یہ ہیں.(۱) ۱۹۳۱ء) چوہدری عبد السلام صاحب کا ٹھ گڑھی ( تاریخ وفات ۱۹/ اکتوبر حضرت سید ارادت حسین صاحب اور میوئی ( تاریخ وفات ۲/ نومبر ۱۹۳۱ء) - حضرت ملا محمد میرد صاحب افغان ساکن خوست ( تاریخ وفات ۷/۸ دسمبر ۱۹۳۱ء) ۱۹۳۱ء میں اندرون ملک کے مبلغین احمدیت سلسلہ احمدیہ کے مبلغین اب تک کسی خاص حلقہ میں تعینات نہ کئے جاتے تھے.بلکہ مرکز جہاں چاہتا انہیں بھجوا دیتا تھا.مگر مجالس مشاورت ۱۹۳۰ء میں فیصلہ کیا گیا کہ مبلغین کے ہیڈ کوارٹر تجویز کر کے وہ کئی حلقوں میں تقسیم کر دئیے جائیں.اس فیصلہ کے مطابق ۱۹۳۱ء میں مبلغین کے لئے حسب ذیل حلقے مقرر کئے گئے تھے.(1) صوبہ پنجاب میں نو حلقے تھے جن کی تفصیل مع مبلغین متعلقہ یہ ہے.نمبر شمار نام ہیڈ کوارٹر نام مہتمم تبلیغ علاقہ حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری امرتسر گورداسپور لاہور فیروز پور مولوی ابوالبشارت عبد الغفور صاحب راولپنڈی کیمل پور ، جہلم ، میانوالی امرتسر راولپنڈی انبالہ مولوی محمد حسین صاحب انبالہ لدھیانہ پیالہ نامہ م سیالکوٹ ، حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی سیالکوٹ گوجرانوالہ گجرات ، شیخوپورہ 0 مولوی عبد الرحمن صاحب انور بو تالوی وہلی رہتک ، حصار کرنال له مولوی ظهور حسین صاحب ود علی جالندهر مهاشہ محمد عمر صاحب جالندھر ہوشیار پور کانگڑہ
310 تاریخ احمدیت.جلد ۵ لائل پور مولوی علی محمد صاحب اجمیری A q لمان متفرق خلافت ثانیہ کا اٹھار جواں سال لائلپور ، منٹگمری ، سرگودھا جھنگ مولوی عبد الاحد صاحب ہزاروی، مولوی بہاولپور ، مکان ، مظفر گڑھ، ڈیرہ غازی خان ظفر محمد صاحب گیانی واحد حسین صاحب (۲) صوبہ سرحد کو بتفصیل ذیل تین حصوں میں تقسیم کیا گیا.نمبر شمار ہیڈ کوارٹر مهتم تبلیغ ٹوپی ضلع پشاور صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب ڈیرہ اسمعیل خاں مولوی چراغ دین صاحب حکیم عبد الواحد صاحب بالا کوٹ علاقہ پشاور کوہاٹ علاقہ غیر ڈیرہ اسمعیل خاں بنوں مع علاقہ غیر ضلع ہزارہ مع علاقہ غیر ان کے علاوہ صوبہ یو پی میں مولوی غلام احمد صاحب فاضل بد و طهوی، ڈاکٹر عبدالحی صاحب عارف مولوی افضال احمد صاحب اور مولوی جلال الدین صاحب بالترتیب لکھنو مین پوری اور ساند ھن میں کام کر رہے تھے.کشمیر میں تبلیغ مولوی عبد الواحد صاحب کشمیری مولوی فاضل کے سپرد صوبہ سندھ میں مولوی مرید احمد صاحب اور مولوی محمد مبارک صاحب متعین تھے.حیدر آباد (دکن) میں حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیز تبلیغ کے انچارج تھے.صوبہ بنگال میں مولوی ظل الرحمن صاحب بنگالی مقرر تھے اور اچھوت اقوام میں فریضہ تبلیغ کا کام شیخ حمید اللہ صاحب، شیخ عبدالرحیم صاحب اور مولوی خلیل الرحمن صاحب بجالا رہے تھے.
تاریخ احمدیت.جلد ۵ چوتھا باب (فصل ششم) 311 ۱۹۳۱ء کے بعض اہم و متفرق واقعات خلافت ثانیہ کا اٹھارہواں سال ۱۹۳۱ء کا پہلا ہفتہ ملکی و قومی لحاظ سے بڑا المناک و دل مولانا محمد علی جوہر کا انتقال پر ملال خراش ثابت ہوا.یعنی ان کے نہایت ہی مقبول و ممتاز سیاسی لیڈر مولانا محمد علی جو ہر جو حضرت مولوی ذوالفقار علی خاں گوہر کے چھوٹے بھائی تھے اس دار فانی سے عالم جاودانی کی طرف انتقال کر گئے.انا للہ وانا اليه راجعون مولانا محمد علی جو ہر اپنی علمی قابلیت سیاسی عظمت فطری جرأت اور جذبہ حریت میں شہرہ آفاق لیڈر تھے.آپ نے اپنے وطن وقوم کی خدمت کے لئے اپنی عزیز سے عزیز متاع کو بھی قربان کرنے سے کبھی دریغ نہیں کیا.آپ عرصہ سے بیمار چلے آرہے تھے.مگر محض آزادی کی تمنا لے کر لنڈن پہنچے.گول میز کانفرنس میں شامل ہوئے اور ۳۱ / دسمبر کو لیٹے لیٹے آزادی وطن کے لئے ایک پر جوش اور ولولہ انگیز تقریر کی اور کہا."اگر آپ مجھے ہندوستان کی آزادی نہیں دیں گے تو پھر آپ کو یہاں مجھے قبر کے لئے جگہ دینا ہو گی".یہ الفاظ ایک لحاظ سے صحیح ثابت ہوئے اور آپ لنڈن میں ہی ۱۴ جنوری ۱۹۳۱ء ساڑھے 9 بجے صبح کو وفات پاگئے.انا للہ وانا اليه راجعون اور " خادم الحرمين الشریفین" مولانا جو ہر کا انتقال ایک قومی حادثہ تھا جس پر پورے عالم اسلام میں صف ماتم بچھ گئی.جماعت احمدیہ نے اس پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا.الفضل نے اس عظیم رہنما کی وفات پر نوٹ لکھا اور ان کے علمی کارناموں کو خراج تحسین ادا کیا.اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی طرف سے نظارت امور خارجہ نے محترم مولانا شوکت علی صاحب کے نام ایک برقی پیغام ارسال کیا.کہ حضرت خلیفتہ المسیح کو مولانا محمد علی کی وفات کی خبر معلوم کر کے جو ایک قومی نقصان ہے سخت صدمہ ہوا.انا للہ وانا اليه راجعون مہربانی فرما کر تمام خاندان سے حضور کی دلی ہمدردی کا اظہار کردیں".m | *}} | ۲۱- ۲۲/ مئی ۱۹۳۱ء کی درمیانی شب کو حضرت خلیفتہ المسیح خاندان مسیح موعود میں ترقی الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی حرم ثالث ( حضرت ام طاہر) سے مرزا
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 312 خلافت عثمانیہ کا اٹھارہواں سال اطہر احمد صاحب پیدا ہوئے.ہوئی.JEF - ۱۷ جولائی ۱۹۳۱ء کو حرم خامس حضرت ام وسیم کے ہاں صاحبزادہ مرزا نعیم احمد صاحب کی ولادت بنگال کی امارت کلکتہ کی جماعت کے امیر حکیم ابو طاہر صاحب اپنی بیماری کے باوجود بہت کامیابی سے سلسلہ کا کام چلا رہے تھے.اور اپنی سرگرمیوں اور کوششوں سے کلکتہ جیسے علمی اور تجارتی مرکز میں جماعت احمدیہ کا وقار بلند کر کے اسے بڑے طبقہ میں مقبول بنا دیا تھا.وہاں کا سیرت النبی کا جلسہ (۱۹۳۰ء) بهترین جلسہ تھا.حضور نے ان کی ان مخلصانہ مساعی پر مجلس مشاورت میں اظہار خوشنودی فرمایا اور انہیں پورے بنگال کا امیر مقرر فرما دیا.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ نکاحوں سے متعلق ایک ضروری اعلان العزیز نے جماعت احمدیہ کو شادی بیاہ کی غیر اسلامی رسوم سے بچانے کے لئے یہ اعلان فرمایا.اگر مجھے علم ہو گیا کہ کسی نکاح کے لئے زیو ریا کپڑے وغیرہ کی شرائط لگائی گئی ہیں یا لڑکی والوں نے ایسی تحریک بھی کی ہے تو ایسے نکاح کا اعلان میں نہیں کروں گا.اسی ضمن میں حضور نے یہ بھی فرمایا کہ " فضول رسمیں قوم کی گردن میں زنجیریں اور طوق ہوتے ہیں جو اسے ذلت اور ادبار کے گڑھے میں گرا دیتے ہیں اسلام ان سے منع کرتا اور اعتدال سکھاتا ہے".۱۹۳۱ء کی مردم شماری اور قادیان کی آبادی 1971ء کی مردم شماری میں قادیان کی کل ۱۹۲۱ء آبادی ۴۴۰۰ تھی جس میں سے احمدی ۲۳۰۰ تھے.مگر دس برس کے بعد فروری ۱۹۳۱ء کی مردم شماری میں احمدی آبادی دگنی سے بھی بڑھ گئی جس کی فرقہ وار تفصیل یہ ہے.احمدی ۵۱۹۸- غیر احمدی ۸۱۹- سناتنی ۳۸۶ - آریہ ۸۷ - سکھ ۲۶۸.عیسائی چوہڑے ۵۱- چوہڑے ۲۰۹ میزان ۷۰۱۸-۳ ایک افغانی سیاح قادیان میں ایک افغانی سیاح ۱۳۰ مئی ۱۹۳۱ء کو حضرت خلیفہ المسیح الثانی سے ملاقات کی.ایدہ اللہ تعالی کی زیارت کے لئے قادیان آئے اور حضور قادیان میں عورتوں کے لئے اعلی انگریزی تعلیم کا اجراء حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 313 خلافت عثمانیہ کا اٹھار ہواں سال بنصرہ العزیز نے یکم جولائی ۱۹۳۱ء کو قادیان میں ایف.اے کلاس کا افتتاح فرمایا.اس موقع پر حضور نے اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ انگریزی تعلیم جاری رہے یہاں تک کہ گریجوایٹ خواتین کی اتنی کثیر تعداد پیدا ہو جائے کہ ہم سکول میں بھی زنانہ شاف رکھ سکیں.اور کالج بھی قائم کر سکیں.اس تعلق میں حضور نے یہ بھی فرمایا.کہ تربیت اولاد کے مسئلہ میں کامیابی کی فقط یہی ایک صورت ہے کہ چھوٹی عمر کے بچوں کے بورڈنگ بنا کر ان کا انتظام عورتوں کے سپرد کر دیا جائے.تاکہ وہ ان میں بچپن میں ہی خاص اخلاق پیدا کریں اور پھر وہ بچے بڑے ہو کر دوسروں کے اخلاق کو اپنے اخلاق کے سانچے میں ڈھالیں.اگر ہم ایسے ہو مز (گھر) قائم کر سکیں.تو اس کے ذریعہ سے اعلیٰ اخلاق پیدا کئے جا سکتے ہیں.اور ایسی تربیت ہو سکتی ہے جو ہماری جماعت کو دوسروں سے بالکل ممتاز کر دے.مگر یہ بات کبھی حاصل نہیں ہو سکتی جب تک کافی تعداد میں تعلیم یافتہ عورتیں نہ ہوں.بیرونی مشنوں کے بعض واقعات مولانا رحمت علی صاحب کے ذریعہ فروری ۱۹۳۱ء میں جادا مشن کا قیام ہوا.مولوی صاحب کا مرکز بٹا دیا تھا.114 ابتدا میں بٹا دیا کے علاوہ چپو اور بوگر میں جماعتیں قائم ہو ئیں.کبابیر میں مولانا جلال الدین صاحب شمس نے ۳/ اپریل ۱۹۳۱ء کو پہلی احمد یہ مسجد کی بنیاد رکھی.نومبر ۱۹۳۱ء میں فلسطین کی مردم شماری ہوئی.جس میں احباب جماعت نے اپنے نام کے ساتھ احمدی مسلمان " لکھوایا.فلسطین کی یہ پہلی مردم شماری تھی جس میں جماعت احمدیہ کا ذکر ہوا.مسلمانان عالم کی ایک کانفرنس اوائل دسمبر ۱۹۳۱ء میں بمقام بیت المقدس منعقد ہوئی جس میں سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی کو بھی دعوت دی گئی.حضور نے مبلغ حیفا محترم مولانا جلال الدین صاحب شمس کو شامل ہونے کا ارشاد فرمایا.اور گو بعض تنگ دل مشائخ نے یہ برداشت نہ کیا.مگر اس واقعہ سے جماعت احمدیہ کی عالمی حیثیت و اہمیت ضرور واضح ہو گئی.-۱ مبلغین اسلام کی آمد و روانگی 1- مکرم مولوی محمد یار صاحب عارف ۱۲۵ جولائی ۱۹۳۱ء کو قادیان سے بغرض تبلیغ لنڈن روانہ ہوئے.اور محترم ابو العطاء صاحب ۱۳/ اگست ۱۹۳۱ء کو قادیان سے حیفا ( فلسطین) کو.۲۸/ تمبر ۱۹۳۱ء کو محترم جناب مولوی ابو بکر ایوب صاحب سماٹری دس سال قادیان میں تعلیم حاصل کرنے اور فارغ التحصیل ہونے کے بعد سماٹرار وانہ ہوئے.
تاریخ احمدیت جلد د 314 خلافت مانیہ کا اٹھارہواں سال محترم مولانا جلال الدین صاحب شمس شام و فلسطین میں فریضہ تبلیغ کی کامیاب ادائیگی کے بعد ۲۰/ دسمبر ۱۹۳۱ء کو واپس دارالامان میں پہنچ گئے.۱۹۳۱ء کی مطبوعات سلسلہ اس سال مرکز احمد بیت سے مندرجہ ذیل کتب شائع ہو ئیں." تجلیات رحمانیه" از مولانا ابو العطاء صاحب فاضل جناب مولوی ثناء اللہ امرتسری ایڈیٹر اہلحدیث" نے "تعلیمات مرزا" - "فیصلہ مرزا " و غیره بعض رسائل لکھے تھے جن کا جواب مولانا ابو العطاء صاحب نے حیفا فلسطین سے لکھ کر بذریعہ ہوائی ڈاک ارسال فرمایا اور حضرت مولوی میر قاسم علی ایڈیٹر " فاروق " نے دسمبر ۱۹۳۱ء میں تجلیات رحمانیہ" کے نام سے شائع کیا.مسلمانان کشمیر اور ڈوگرہ راج" (مؤلفہ ملک فضل حسین صاحب) اس کتاب میں کشمیری مسلمانوں کے سیاسی مطالبات کی معقولیت حقائق و واقعات کی روشنی میں بالکل نمایاں اور ڈوگرہ راج میں ان کی درد ناک حالت اور نا گفتہ بہ مظلومیت کا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا گیا ہے.یہ کتاب بھی دسمبر ۱۹۳۱ء میں اشاعت پذیر ہوئی اور ملک صاحب کی دوسری کتابوں کی طرح غیر معمولی دلچسپی سے پڑھی گئی.مباحثات بالاکوٹ و بھنگہ مولانا ابو العطاء صاحب تحریر فرماتے ہیں.اوائل ۱۹۳۱ء کی بات ہے کہ بالا کوٹ ضلع ہزارہ میں غیر احمدی علماء سے مباحثات ہوئے.پادریوں سے کامیاب مناظرہ پہلے ہو چکا تھا.علماء سے جو مباحثہ وفات مسیح علیہ السلام پر ہوا اس میں مد مقابل مولوی عبد الحنان صاحب ہزار وی تھے.اس مباحثہ کا آغاز نہایت پر لطف طریق پر ہو ا تھا میں نے اپنی تقریر کے شروع میں آیت قرآنی کی تلاوت کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ شعر بآواز بلند پڑھا.این جریم داخل مر گیا حق کی قسم بنت ہوا وہ محترم اس پر مخالف مولوی صاحب نے کہا کہ یہ شعر اس لئے غلط ہے کہ اگر حضرت عیسی کو وفات یافتہ بھی مان لیا جائے تب بھی یہ کہنا غلط ہے کہ وہ جنت میں داخل ہو چکے ہیں.جنت میں تو ابھی کوئی بھی داخل نہیں ہوا.اس پر میں نے فورا مولوی صاحب سے دریافت کیا کہ کیا رسول کریم ا بھی
تاریخ احمدیت جلد ۵ 315 خلافت ثانیہ کا اٹھارہواں سال جنت میں داخل نہیں ہوئے؟ مولوی صاحب نے کہہ دیا کہ ہاں ابھی تک رسول کریم ﷺ بھی جنت میں داخل نہیں ہوئے میں نے قرآن مجید ہاتھ میں لے کر پر زور لہجہ میں کہا میں اس خدا کی قسم کھاتا ہوں جس نے یہ قرآن مجید نازل کیا ہے کہ ہم احمدیوں کے عقیدہ کے رو سے رسول اکرم ای جنت کے بلند ترین مقام میں داخل ہیں.اس قسم کے بعد میں نے کہا کہ بھائیو! ایک طرف مولوی صاحبان کا یہ عقیدہ ہے جو ابھی آپ نے مولوی عبد الحنان صاحب کے منہ سے سنا ہے اور ایک طرف ہمارا عقیدہ ہے جو میں نے ابھی حلفا بیان کیا ہے.اب آپ خود اندازہ لگائیں کہ رسول کریم ای کی عزت و عظمت کو کون مانتا ہے ؟ شروع مناظرہ میں ہی اس واقعہ سے سامعین پر بڑا گہرا اثر ہوا.اس مناظرہ اور دیگر مناظرات میں بھی اللہ تعالی کی خاص تائید شامل حال رہی اور اس پہاڑی علاقہ میں احمدیت کا خوب چرچا ہوا.فالحمد الله على ذلك.بالا کوٹ کے بعد بھنگہ میں مناظرہ مقرر تھا.یہ مناظرہ جمعہ کے روز ہونے والا تھا.مقام مناظرہ ایک کھلی جگہ گاؤں سے کچھ فاصلہ پر عین اس سڑک پر واقع تھا جو مانسہرہ سے بالا کوٹ کو جاتی ہے.مناظرہ کا وقت نماز جمعہ کے بعد مقرر ہوا.ہم نے اسی جگہ پر نماز جمعہ ادا کی.احمدیوں کی تعداد تمہیں چالیس ہو گی.غیر احمدی جم غفیر کی صورت میں نیچے وادی میں پانی کے نالہ کے پاس نماز ادا کرنے کے لئے گئے.خطبہ جمعہ میں مولوی غلام غوث صاحب نے عوام کو سخت اشتعال دلایا.سامعین میں احمدیوں کے بعض رشتہ دار اور ہمد رد بھی تھے.انہوں نے وہاں سے جلد آکر اپنے احمدی رشتہ داروں کو بتایا کہ مناظرہ وغیرہ تو ہو گا نہیں فساد اور کشت و خون ہو گا بہتر ہے کہ آپ لوگ یہاں سے چلے جائیں.ایک کے بعد دوسرے دوست نے آکر یہی ترغیب دی.جماعت احمدیہ بنگلہ کے صدر محترم سید عبد الرحیم شاہ صاحب کو دوستوں نے اس طرف توجہ دلائی.انہوں نے مجھے حالات سے اطلاع دی.میں نے کہا کہ جانے کا تو کوئی سوال ہی نہیں.جب غیر احمدی مولوی ہجوم کو لے کر مقام مناظرہ کی طرف آرہے تھے تو ان کے اطوار صاف بتا رہے تھے کہ وہ لوگ مناظرہ کے لئے نہیں بلکہ مقابلہ کے لئے آرہے ہیں.محترم سید عبدالرحیم شاہ صاحب نے خطرہ کو بھانپ کر پھر توجہ دلائی میں نے پھر وہی جواب دیا.تیسری مرتبہ ان کے کہنے پر بھی میرا ہی جواب تھا.ہاں ہم نے اتنی احتیاط ضرور کر لی تھی کہ مناظرہ کی کتب جو پہلے پھیلا کر میز پر رکھی ہوئی تھیں انہیں محفوظ کر لیا تھا.اس وقت موت یقینی نظر آرہی تھی.میرے ہاتھ میں اس وقت بھیرہ کی بنی ہوئی بید کی خوبصورت چھڑی تھی جو مجھے اپنے بزرگوار حضرت مولوی محمد عبد اللہ صاحب بو تالوی کی طرف سے میری شادی کے موقعہ پر ملی تھی.میرے دل میں اس وقت یہ حسرت تھی کہ دفاع کا کوئی انتظام نہیں تاہم اللہ تعالٰی
تاریخ احمدیت جلده 316 خلافت ثانیہ کا اٹھار ہواں سال پر تو کل کرتے ہوئے ہم سب تیار بیٹھے تھے کہ اللہ تعالی کی راہ میںجو پیش آئے ہم اسے برداشت کریں گے.مخالف ہجوم میں لاٹھی تو قریباً ہر دیہاتی کے ہاتھ میں تھی ، بہت سے لوگوں کے پاس کلہا ڑیاں بھی تھیں.غیر احمدی مولوی صاحبان نے ہجوم کے ساتھ ہمیں چاروں طرف سے گھیر لیا اور ایک مولوی صاحب نے کھڑے کھڑے مجھ سے یوں خطاب کیا کہ آپ لوگ مناظرہ کرنا نہیں چاہتے ؟ میں نے کہا کہ کیوں نہیں چاہتے ہم تو مناظرہ کرنے کے لئے آئے ہیں.یہ کتابوں کے ٹرنک کس لئے ہیں ؟ اس پر مولوی صاحب نے کہا ہم پہلے مرزا صاحب کی صداقت پر مناظرہ کریں گے.میں نے کہا کہ ہمیں منظور ہے ابھی مناظرہ شروع ہو جاتا ہے میرے دل میں آیا کہ چلو پہلی تقریر میں پیغام حق تو پہنچا دیا جائے گا بعد میں تو یہ لوگ اغلبا فساد برپا کر دیں گے.مولوی صاحب کہنے لگے کہ پہلی تقریر ہم کریں گے.میں نے کہا کہ اصول کے مطابق پہلی تقریر مدعی کی ہوتی ہے.ہم صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مدعی ہیں اس لئے پہلی تقریر ہماری ہوگی.اس مرحلہ پر ہجوم میں شور اٹھا اور اشتعال انگیز نعرہ کے ساتھ ایک دیہاتی لاٹھی لے کر میرے سر پر مارنے کے لئے آگے بڑھا.میرے ساتھ محترم سید عبدالرحیم شاہ صاحب کھڑے تھے انہوں نے لاٹھی کو دیکھ لیا اور آگے بڑھ کر روکنا چاہا مگر وہ لاٹھی ان کے ماتھے پر لگی.خون زور سے بہنے لگا اور ہنگامہ کی صورت پیدا ہو گئی.اس موقعہ پر اللہ تعالی کا عجیب نشان ظاہر ہوا.بنگلہ کے ایک غیر احمدی سید نے جب یہ دیکھا کہ قریبی گاؤں کے ایک گوجر کی لاٹھی سے بھگہ کے سید عبدالرحیم شاہ زخمی ہو گئے ہیں تو اس نے شور مچا دیا کہ اے بنگلہ کے لوگو! تمہارے سید کو فلاں گاؤں کے گوجر مار گئے ہیں.یہ آواز بلند ہوئی تھی کہ سارا ریلہ ان گوجروں کی طرف ہو گیا.ایک لمحہ کے اندراندریوں ہوا کہ وہ لوگ جو احمدیوں کو قتل کرنے کے لئے آئے تھے بھاگتے نظر آئے.وہ ایک دوسرے کے پیچھے دوڑ رہے تھے.ہونگہ والوں نے سید عبدالرحیم شاہ صاحب کو لاٹھی مارنے والے شخص کو نیچے نالہ میں قریباً دو اڑھائی فرلانگ کے فاصلہ پر جا پکڑا اور خوب ماراحتی کہ مشہور ہو گیا کہ شاید وہ مر گیا حالانکہ مرا نہیں تھا.ہم اس میدان میں کھڑے قدرت خداوندی کا نظارہ دیکھ رہے تھے.سب مولوی میدان سے بھاگ چکے تھے صرف احمد ی ہی اس جگہ موجود تھے.اللہ تعالیٰ کی غیر معمولی تائید کا یہ عجیب واقعہ تھا.میری طبیعت پر سید عبدالرحیم شاہ صاحب کے میری جگہ لاٹھی اپنے سر پر لینے کا بڑا اثر تھا اور آج تک قائم ہے اس کے بعد میں جب فلسطین گیا تب بھی اس واقعہ کی وجہ سے ان سے سلسلہ خط و کتابت جاری رہا.
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 317 خلافت یہ کا اٹھار ہو ان سال گزشتہ سال (جولائی ۱۹۷۰ء میں) مجھے عزیزم مولوی محمد الدین صاحب مربی سلسلہ احمدیہ کی معیت میں ایبٹ آباد اور بنگلہ جانے کا موقعہ ملا.برادرم سید محمد بشیر صاحب پسر سید عبدالرحیم شاہ صاحب ہمیں ایبٹ آباد سے مانسہرہ اور پھر بھنگہ لے گئے.ایک دن رات ہم نے بنگلہ میں احباب کے درمیان گزارا.محترم سید عبد الرحیم شاہ صاحب نے گزرے ہوئے واقعات سب کے سامنے بڑی محبت سے سنائے اور بار بار کہا کہ میں حیران تھا کہ میں نے جب بھی مولوی صاحب ( خاکسار) سے اس وقت کہا کہ لوگ آمادہ فساد ہیں ہمیں حفاظت کا انتظام کرنا چاہئے تو انہوں نے یہی جواب دیا کہ اب انتظام تو اللہ تعالیٰ نے ہی کرتا ہے ہم کیا کر سکتے ہیں یہاں سے جانے کا بہر حال کوئی سوال نہیں ہے.اس قیام کے آخر پر ہم نے وہ مقام بھی دیکھا جہاں اب سکول بن چکا ہے ".(رساله الفرقان جنوری ۱۹۷۱ء صفحه ۵۴ تا ۵۶) اندرون ملک کے دیگر مشہور مباحثات از مباحثه دھرگ میانه تحصیل نارووال ضلع - سیالکوٹ (احمدی مناظرین مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری - مولوی ظهور حسین صاحب مولوی محمد یار صاحب عارف غیر احمدی مناظرین مولوی محمد امین صاحب و مولوی عبد الرحیم صاحب یہ مباحثہ -۳-۱۴ جنوری ۱۹۳۰ء کو مسئلہ حیات و وفات مسیح و صداقت مسیح موعود کے موضوع پر ہوا مناظرہ کے دوران ہی میں غیر احمدی مناظرین میدان مباحثہ سے چل دیئے.مباحثہ جہلم (مابین مولوی ابو العطاء صاحب جالندهری و میر مد ثر شاه صاحب غیر مبائع) یه مباحثہ ۱۵/ مارچ ۱۹۳۱ء کو نبوت مسیح موعود کے موضوع پر ہوا تھا.اس مناظرہ کا یہ اثر ہوا.کہ تعلیم یافتہ طبقہ نے ہمارے فاضل مناظر کے دلائل کی معقولیت کا کھلے طور پر اظہار کیا.- مباحثه بد و ملی ضلع سیالکوٹ: (مابین مولوی ظهور حسین صاحب و پنڈت رام چند ر صاحب دهلوی و مابین گیانی واحد حسین صاحب و پادری یوحنا صاحب) بدوملہی میں ۱۵/ مارچ ۱۹۳۱ء کو آریہ سماج نے مذاہب کانفرنس منعقد کی جس کے دوسرے روز مسجد احمدیہ میں مسلمانوں کا متفقہ جلسہ ہوا.جس میں احمدی و غیر احمد کی علماء نے صداقت اسلام پر تقریریں کیں.اس جلسہ کے دوران احمدی مبلغوں نے کامیاب مناظرے کئے.- مباحثه بسراواں متصل قادیان: (مابین پروفیسر حافظ مبارک احمد صاحب و مولوی محمد حسین صاحب کولو تار روی) یہ مباحثہ ۲۹/ مارچ ۱۹۳۱ء کو الہامات مسیح موعود کے موضوع پر ہوا.١٣٢
تاریخ احمدیت جلد ۵ 318 خلافت ثانیہ کا اٹھار ہو ان سال - مباحثہ ہالہ ضلع حیدر آباد سندھ: (مابین مولوی مرید احمد صاحب احمدی اور مولوی عبد الکریم صاحب) یہ مناظرہ ۱۸/ اپریل ۱۹۳۱ء کو معروف تین اختلافی مسائل پر ہوا.مباحثه بوسن ضلع ملتان: احمدی مناظر ابو البشارت مولوی عبد الغفور صاحب فاضل و مولوی ظہور حسین صاحب فاضل) یہ مناظرہ ۱۷-۱۸-۱۹ / مئی ۱۹۳۱ء کو تین دن جاری رہا.موضوع بحث حیات و وفات مسیح، مسئلہ نبوت اور صداقت مسیح موعود تھے.121 مباحثہ رنگ پور بنگال: جو مولوی ظل الرحمن صاحب بنگالی نے وسط ۱۹۳۱ء کے قریب ایک غیر احمدی عالم سے رنگ پور میں صداقت مسیح موعود اور حیات و وفات مسیح کے موضوع پر کیا.جس کا سنجیدہ اور تعلیم یافتہ طبقہ پر بہت اچھا اثر ہوا.-1+ -11 مباحثہ بٹالہ: (مابین مولوی محمد یار صاحب عارف و مولوی محمد یوسف صاحب امرتسری اور جناب ابو العطاء صاحب فاضل جالندھری و حافظ احمد الدین صاحب لکھڑوی) ۲۹-۳۰/ جون ۱۹۳۱ء کو گلاب خاں قانیاں تحصیل بٹالہ میں بالترتیب حیات و وفات مسیح اور صداقت صحیح موعود پر مناظرہ ہوا.مباحثہ ڈگری علاقہ سندھ : (مابین بابو الله داد صاحب احمدی و مولوی عبد العزیز صاحب ملتانی مناظر اہلحدیث اور مابین مولوی محمد سلیم صاحب فاضل و عبد الرحیم شاہ صاحب) تاریخ انعقاد ۱۰-۹ جولائی ۱۹۳۱ء تھی اور موضوع بحث حیات د وفات مسیح و صداقت مسیح موعود - مباحثہ بھینی واقعہ بیٹ متصل قادیان: (مامین ابو العطاء صاحب جالندھری و پادری عبدالحق صاحب یہ مباحثہ ۱۸/ جولائی ۱۹۳۱ء کو ہوا.اور اس میں احمدیت کو نمایاں کامیابی حاصل ہوئی.IFA " مباحثہ سری گوبند پور: (مابین حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی و مولوی محمد یوسف صاحب امرتسری) یہ مباحثه ۲۹/ اگست ۱۹۳۱ء کو ختم نبوت " کے موضوع پر ہوا - 1 -۱۲ مباحثہ کا ہنودان تحصیل گورداسپور (مابین مولوی محمد سلیم صاحب فاضل و مولوی محمد یوسف صاحب امرتسری) تاریخ مباحثه ۱۸-۱۹ / ستمبر ۱۹۳۷ء موضوع وفات مسیح و صداقت مسیح موعود.یہ کامیاب مناظرہ مسلسل سات گھنٹے ہوا.۱۹۳۱ء میں جن اصحاب نے بیعت کی.ان میں سے ڈپٹی فقیر اللہ صاحب ڈپٹی اله.بعض نو مبایعین ایگزیکٹو انجینئر سرحد اور میر اللہ بخش صاحب تسنیم را ہوالی ضلع گوجرانوالہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں.
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 319 خلافت عثمانیہ کا اٹھارہواں سال -1 -1+ -41 -۱۲ حواشی (چوتھا باب) اشتهار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمد یه قادیان ۱۹۳۰۰۳۱ء ملاحظہ ہو ر پورٹ صد را مجمن احمدیه ۳۰-۱۹۳۱ء تا ۴۰-۰۶۱۹۳۹ وفد کے بعض دوستوں کے نام.میاں فضل محمد صاحب ( ہر سیاں والے) بابو محمد رشید صاحب سید عنایت علی شاہ صاحب سردار نذر حسین صاحب منشی امام دین صاحب سید ولایت شاہ صاحب سردار کرم داد خان صاحب- حافظ محمد رمضان صاحب الفضل ۳۱ / مارچ ۱۹۳۱ء صفحہ ۲ کالم ۱) الفضل / اپریل ۱۹۳۱ء صفحہ 1 ر پورٹ سالانه صد را مجمن احمد به ۱۹۳۰۰۳۱ء صفحه ۱۴- یہ تفصیل اتگلی جلد میں آئے گی.الفضل ۱۵ مارچ ۱۹۳۱ء صفحه ۶ تا ۰۸ حال درویش قادیان کا اصل وطن افغانستان ہے آپ ۱۹۰۹ء میں داخل احمدیت ہوئے تھے.ریکار و صد را نجمن احمدیہ ۱۹۲۷ء صفحه ۱۱۸-۱۹ بیعت ۱۹۰۹ء - خلف حضرت ڈاکٹر عبدالرحیم صاحب دہلوی (ولادت قریباً ۱۸۷۹ء وفات ۱۰/ اگست ۱۹۶۵ء) حضرت ڈاکٹر صاحب کے ایک فرزند مولوی عبد القادر صاحب دہلوی قادیان میں ناظم جائداد صدرانجمن احمدیہ کے عہدہ پر ہیں.- یہ بطور یکم اکتوبر ۱۹۶۵ء کو لکھی جارہی ہیں.۱۴ میخانه درد از جناب سید ناصر نذیر صاحب فراق دہلوی) صفحه ۱۵۳- اشاعت مارچ ۱۹۱۰ ء- ۱۵ جناب تاجور کے بعد منصور احمد صاحب اور پھر جناب صلاح الدین احمد صاحب اس کے مدیر بنے.جنہوں نے ربع صدی سے زائد اس کے ادارت کے فرائض نہایت خوش اسلوبی سے ادا کئے اور اس کی قلمی خدمت کرتے کرتے اپنے مولائے حقیقی کو جا ھے.Wordsworth Mathew Arneld -2 Hegle -A 19 ادبی دنیا مئی ۱۹۳۰ء صفحه ۳۲۸ تا ۳۴۱ ۲۰ ايضا صفحه ۳۲۳ ادبی دنیا مگی ۱۹۳۰ء صفحہ ۳۴۱ ۲۲ ادبی دنیا مارچ ۱۹۳۱ء صفحه ۱۳۱ ادبی دنیا اپریل ۱۹۳۱ء صفحه ۱۳۰۰۱۹ ۲۴ ۲۵- بحواله الفضل / اپریل ۱۹۳۱ء صفحه ۳-۴- ۲۶ ریکارڈ دفتر پرائیوٹ سیکرٹری ربوہ ۲۷ ملاحظہ ہو آریہ مستحک لیکھرام بندی صفحه ۲۳-۲۴-۱ از لاله نشی رام المعروف (سوامی شرد همانند) ۲۸ الفضل ۱۶ / اپریل ۱۹۳۱ء صفحه ۸-۹-
ریخ احمدیت جلده ۲۹- ایضا صفحہ و کالم ۳ 320 خلافت ثانیہ کا اٹھارہواں سال.اس تصنیف کا انگریزی میں ترجمہ حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد نے کیا اور اس پر نظر ثانی صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے فرمائی.طباعت اور کا سکیٹ اور طشت کی تیاری کا انتظام مخدومی حضرت مولوی شیر علی صاحب نے کیا.(الفضل ۱۱۴ اپریل ۱۹۳۱ء) ممبر چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم اے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب مولوی عبدالرحیم صاحب در دایم.اے.۳۲ تحفه لار داردن (اردو) طبع اول پریل ۱۹۳۱ء صفحه ۷ ۴ شائع کردہ بکنڈ یو تالیف و اشاعت قادیان- ٣٣- الفضل ۱۶/ اپریل ۱۹۳۱ء صفحه ۵ تائے.۳۴ بحوالہ فاروق ۲۱/۲۸ اپریل ۱۹۳۲ء صفحه ۱۰ ۳۵ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۱ء صفحه ۰۸۰۶ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۱ء صفحه ۰۸۰۰۷۹ ۳۷ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے مشاورت ۱۹۳۱ء میں احباب جماعت سے یہ عہد لیا کہ جاپان انگلستان یا دوسرے ممالک کی بنی ہوئی جرا ہیں خواہ کتنی خوبصورت چمکدار اور مضبوط کیوں نہ ہوں ہم اپنے کارخانہ کی ہی جرابیں استعمال کریں گے.چنانچہ احمدیوں نے اس عہد پر عمل کیا اور جلد ہی اس کی مصنوعات کو ملک بھر میں مقبولیت حاصل ہو گئی.(رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۱ء -M.صفحه (A) ۳۸ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۱ء صفحه ۱۰۴- ۳۹.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۲۸.الفضل ۱۹ / اپریل ۱۹۳۱ء صفحہ ۷ کالم ۳.ام یہاں یہ بتانا مناسب ہو گا کہ ہندو ایک عرصہ سے ہندو مہاسبھا کے زیر اہتمام جنگی تیاریوں میں مصروف تھے اور وہی ہندو لیڈر جو کانگریس کے روح رواں سمجھے جاتے اور کانگریس کے پلیٹ فارم پر عدم تشدد پر زور دیتے تھے مردوں کے علاوہ عورتوں کو بھی نشانہ بازی اور شمشیر زنی سکھانے لگے اور پھر جلد ہی یہ کام براہ راست کانگریس نے اپنے ہاتھوں میں لے لیا.(الفضل ۲۵/ اپریل ۱۹۳۱ء صفحہ ۳ کالم ۲) الفضل ۱۹ / اپریل ۱۹۳۱ء صفحہ اکالم - الفضل ۵/ مئی ۱۹۳۱ء صفحہ ۶ کالم ۱-۲- ۴۴- الفضل ۱۲ مئی ۱۹۳۱ء صفحہ ۲ کالم ۳- ۴۵- الفضل ۱۵ مئی ۱۹۳۱ء صفحہ ۱.ام الفضل ۴/ جون ۱۹۳۱ء صفحہ کالم - الفضل ۷ / مئی ۱۹۳۱ء صفحہ اکالم - ۴۸ - الفضل ۹/ مئی ۱۹۳۱ء صفحہ اکالم - ۴۹ ریویو آف ریلیجز اردو جون جولائی ۱۹۴۳ء صفحہ ۳۶-۳۷.الفضل ۱۶/ مئی ۱۹۳۱ء صفحہ اکالم - الله سالنامه منار کی ۱۹۳۶ء صفحہ ۱۶۹-۱۷۰- ۵۲ زمانہ نے خود ثابت کر دیا کہ حضور کا موقف ہی صحیح تھا.۵۳ اخبار عادل دیلی ۱۲۴ اپریل ۱۹۳۳ ء و سالنامہ منادی ۱۹۳۶ء صفحہ ۱۷۸-۱۷۹ ۰۵۴ ملاحظہ ہو دیباچہ قواعد و ضوابط صد را انجمن احمد یہ قادیان شائع کردہ حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم.اے.ناظر اعلیٰ.۵۵ الفضل ۹/ جون ۱۹۳۱ء صفحہ ۷ کالم ۲-۳- ۵۶- رساله ریویو آف ریلیجز اردو ( قادیان) نومبر ۱۹۳۱ء صفحه ۲۳-
تاریخ احمدیت جلد ۵ 321 خلافت ثانیہ کا اٹھارہواں سال ۵۷ - الفضل ۱۵/ جنوری ۱۹۳۱ء صفحہ ۲ کالم ۲- الفضل ۱۹/ مئی ۱۹۳۱ء صفحه ۱-۲- ۵۹ قاضی صاحب کی سیرت طیبہ کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۲۱ مئی ۱۹۳۱ء صفحہ ۱-۲- الفضل ۱۸/ جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ ۶ کالم ۱-۳- الفضل ۳۰ / مئی ۱۹۳۱ء الفضل / جون ۱۹۳۱ء صفحہ ۶ کالم ہے.- الفضل ا/ جون ۱۹۳۱ء صفحہ ۹ کالم ۳.الفضل ۱۸/ جون ۱۹۳۱ء صفحہ ۶ کالم ۲- -۲۵ بحواله الفضل ۲۷/ جون ۱۹۳۱ء صفحہ ہے.الفضل ۲۷ / جون ۱۹۳۱ء الفضل ۴/ جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ ۳ تاے.الفضل ۴/ جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ ۷ کالم ۳.چوہدری عصمت اللہ خان صاحب وکیل کے ایک خط محرره جون ۱۹۳۱ء سے ماخوذ جو دفتر پرائیویٹ سیکرٹری ربوہ میں موجود ہے.ای صاجزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ناصر بیگم صاحبہ مرزا مبارک احمد صاحب امتہ القیوم بیگم صاحبہ مرزا منور احمد صاحب امته الرشید بیگم صاحبہ امتہ العزیز بیگم سلم اللہ وبارک علیم.الفضل ۲ جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ ۱-۲- ۷۳.آپ کے مطبوعہ مضامین کے مجموعہ کی بارہ جلد میں خلافت لائبریری ربوہ میں موجود ہیں.۷۴ نقوش (لاہور) آپ بیتی نمبر صفحہ ۵۷۸-۵۷۹ پر ان کتابوں کی مندرجہ ذیل فہرست درج ہے.اساس الاخلاق قوت اور محبت.الوجد - جبر و قدر - تبين الحق - مرأة الخيال - صدائے اہم معیار - اصول - سی و پنوں (پنجابی) اخلاق احمدی- ریاض الاخلاق- سراج الاخلاق رفیق الاخلاق فرحت صداقت - امثال - دلنواز - دلسوز - ایک اعلیٰ ہستی بزم خیال زمینداره بنک نظم خیال الفت راز الفت - فن شاعری.مشیر باطل- نبوت - الصلوة - اعتصام حیات صادقہ - نساء المومنین- خیالات یا د رسول یادگار حسین- ایثار حسین - علوم القرآن ملت- النظر فنون لطیفہ (چند نظمیں) زندگی.درس بے خودی طلاق و کثرت ازدواج- تنقید بر مثنوی مولانا قدوائی.ذبح گائے فلسفہ صفات باری- سفرنامہ - مجموعه مضامین (باره جلد ) و غیره ۷۵ ادبی دنیا لا ہو ر اگست ۱۹۳۱ء صفحہ ۲۹ ۷۶ رسالہ حمایت اسلام لاہو ر ۹/ جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ ۴.۷۷.اصل خط دفتر پرائیویٹ سیکرٹری ربوہ میں محفوظ ہے.۷۸.بحوالہ ہفت روزہ لاہو ر ۹ / اگست ۱۹۶۵ء صفحہ ۵.منشی دین محمد صاحب ایڈیٹر میونسپل گزٹ نے کتاب یادگار در بار تاجپوشی حصہ دوم صفحہ ۲۵۵-۲۵۶ میں حضرت صاحبزادہ صاحب کے مختصر حالات مع تصویر کے شائع کئے تھے.و الفضل ۹ / جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ ۲۰۱ الفضل 11 جولائی ۱۹۳۱ ء صفحہ ۷ کالم ۲.-A- الفضل ۱۸ جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ ۳-۴- الفضل ۳۱ مارچ ۱۹۳۲ء صفحہ ۶ - ۸۳ - الفضل ۱۶ / جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ ۵-۲- A آب کوثر ( از جناب شیخ محمد اکرام ایم اے) صفحہ ۲۱۱۹ طبع سوم ۸۵ تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحه ۱۸۸ ( طبع اول) Ay زیرون سالانه صدرانجمن احمد یه ۳۲-۱۹۳۱ء صفحه ۱۵-
تاریخ احمدیت ، جلد ۵ 322 خلافت ثانیہ کا اٹھارہواں سال ۸۷ رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمد یه ۳۲-۱۹۳۱ء صفحه ۱۵-۱۲- ۸۸ رپورٹ سالانه صد را بهمن احمد یه ۳۱-۱۹۳۰ء صفحه ۱۵-۱۶- -A4 Pandura Negombo Gampola Moturata Pussulawa ۹۰.یہ لنکا کے اصل باشندے تھے اور ربوہ میں تعلیم حاصل کر کے گئے تھے.الفضل ۲۴/ دسمبر ۱۹۵۲ء صفحه ۲ خواب نمبر - المبشرات شائع کرده ادارۃ المصنفین ربوه صفحه ۱۷۵-۱۷۸ ۹۲- الفضل ۳/ مئی ۱۹۳۲ء صفحہ ۵ کالم ۱-۲- -۹۴ ریکار ڈهد را انجمن احمد یه ۱۹۳۱ء ۹۵- الفضل ۳/ مئی ۱۹۳۲ء صفحه ۵ کالم ۱-۲- ۹۶ الفضل نو مبرود سمبر ۱۹۳۱ء میں تفصیلی رپورٹیں موجود ہیں.-92 الفضل /۱۲/ نومبر ۱۹۳۱ء - مفصل تقریر الفضل ۲۴ نومبر ۱۹۳۱ء صفحه ۵ تا ۷ و ۶ / دسمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۵ تا ۹ پر چھپ گئی تھی.۹۸- سر محمد یعقوب صاحب سیکرٹری مسلم لیگ نے اس سلسلہ میں یہ بیان جاری کیا کہ دہلی کے غیر تعلیم یافتہ طبقہ میں چوہدری ظفران خان صاحب کی صدارت کے خلاف جو شرارت پھیلائی گئی وہ ان کا نگریسی پھوؤں کی تیار کردہ تھی جو پس پردہ اس نوع کے کام کیا کرتے ہیں اور جن کا دماغی توازن اس وجہ سے اور بھی متزلزل ہو گیا تھا کہ گول میز کانفرنس میں مسلم مندوبین کی یگانگت و اتحاد نے کانگریسی امیدوں پر پانی پھیر دیا.اور حامد سخت پریشان ہو رہے تھے کہ اب کیا کریں.ناواقف طبقہ کی اس شورش کے باوجود میں دیکھتا ہوں کہ دہلی کے مسلمانوں کا تعلیم یافتہ طبقہ سمجھدار اور معالمہ قسم طبقہ ہمارے ساتھ ہے.(ملاپ ۳۰ دسمبر ۱۹۳۱ء بحواله الفضل (۳/ جنوری ۱۹۳۲ء صفحه ۴) اس بیان کی تصدیق اس سے بھی ہوتی ہے کہ ہندو پریس نے اس دھاندلی پر خوشی کے شادیانے بجائے اور لکھا.مسلم لیگ کے قادیانی صدر چودھری ظفر اللہ خان کی جو گست اب کے دہلی میں بنی ہے اور سیاہ جھنڈوں سے آپ کا استقبال ہوا ہے اس کی خبریں من کر یہی کہنا پڑتا ہے کہ یہ مسلم لیگ اور اس کے صدر مسلمانوں کے کسی طرح نمائندے نہیں ہیں.(ملاپ ۲۸/ دسمبر ۱۹۳۱ء) نیز لکھا.سمجھ نہیں آتی کہ عام مسلمانوں کے اس سلوک کے باوجود قادیانی کس طرح مسلم حقوق کی نمائندگی وغیرہ کی رٹ لگاتے اور ان کے لئے ہندوؤں سے الجھتے ہیں.( آریہ دیر ۱۳۰ دسمبر ۱۹۳۱ء) الفضل ۳/ جنوری ۱۹۳۲ء صفحہ ۱۰ کالم ۲- ١٠٠ یہ الفضل ۱۹۳۳ ء میں بالاقساط شائع ہونے کے علاوہ ٹریکٹ کی صورت میں بھی چھپ چکا ہے.رت میں بھی -۱۹ بحوالہ اخبار الفضل ۵/ جنوری ۱۹۳۲ء صفحہ سے کالم ۳ ١٠ الفضل ۱۲ جنوری ۱۹۳۲ء صفحه ۸ کالم ۱-۲- ۱۰۳ حضرت مسیح موعود کے پرانے خدام میں سے تھے آپ خدمت احمدیت کے لئے ایک سرگرم سپاہی تھے.جن کے نتیجہ میں کاٹھ گڑھ اور اس کے گرد و نواح میں احمدیہ جماعتیں قائم ہوئیں.دینی تعلیم قادیان میں حاصل کی تھی.قرآن شریف بھر تھے اور سنسکرت کے فاضل تھے کئی تبلیغی مناظرے کئے احمد یہ مڈل سکول اور احمد یہ شفا خانہ جاری کیا.تبلیغ کے لئے ایک عاشق کی مانند گھومتے رہتے تھے.آپ کا پروگرام مقرر ہو تا تھا کھانے اور پہنے کا آپ کو کوئی خیال نہ ہو تا جو کچھ ملا کھا لیا اور جو کچھ ملا پہن لیا.یہاں تک کہ اکثر سفر میں اپنے ساتھ جیب میں پنے رکھتے تھے.(الفضل ۲۹/ اکتوبر ۱۹۳۱ء صفحہ کے کالم ۳) ۱۰۴، صوبہ بہار کے صحابہ میں سے تھے آخر عمر تک بڑے جوش کے ساتھ تبلیغ احمدیت اور مسلمانوں کے ملکی سیاسی اور قومی مفاد میں کوشاں رہے.جماعت احمدیہ اور مسلمانان صوبہ بہار کے لئے ان کا وجود بہت نافع اور فیض رساں تھا.صوبہ بہار کے اخبار اتحاد نے ان کی وفات پر لکھا.آپ کے انتقال نے ایک زبر دست کمی کر دی ہے خدا اسے پورا کرے.(الفضل ۱۰/ نومبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۲ کالم ۳) یہ حضرت سید وزارت حسین صاحب کے بڑے بھائی تھے اور ہندوستان کے مشہور احمدی ادیب جناب سید اختر صاحب اور نیوی کے تایا.
323 خلافت ثانیہ کا اٹھارہواں سال تاریخ احمدیت.جلد ۵ ۱۰۵ حضرت مولوی عبد الستار صاحب افغان عرف بزرگ صاحب کے برادر خورد اور حضرت صاحبزادہ سید عبد اللطیف شہید کے مخلص دوستوں میں سے تھے.حضرت ملا میر صاحب کا عظیم الشان کارنامہ جو ہمیشہ یاد رہے گا.یہ ہے کہ حضرت شہید مرحوم کا خاندان جب ترکستان میں جلاوطنی کے دن گزار رہا تھا حکومت افغانستان نے ان کی ساری جائدادیں ضبط کرلی تھیں اور اس خاندان کا نام تک لینا جرم سمجھا جاتا تھا.ملا میر صاحب ہی کا وجود تھا جس کو خاندان شہید سے ہمدردی اور خدمات کا احساس تھا.چنانچہ صاحبزادہ سید ابو الحسن صاحب قدسی فرماتے ہیں.قریبا پندرہ سال تک وہ ہمارے خرچ وغیرہ کا انتظام کرتے رہے بنوں جا کر ہماری زمین کی آمدنی لے کر ترکستان پہنچادیتے راستہ کی دوری برفوں اور پہاڑوں کی مشکلات آپ کے راستہ میں حائل نہ ہو سکتی تھیں.اور ایک مدت در از تک ان دور در از سفروں کو پیدل طے کرتے رہے پھر جب ہم کابل کے جیل خانوں میں تھے وہاں بھی آپ کا ہی وجود ہمارے لئے نہایت مفید ثابت ہوا.اور ہم خدا کے فضل سے آپ کی کوشش سے نہایت با آبرو اور عزت کے ساتھ رہتے.خلاصہ یہ کہ جب تک ہمیں ضرورت تھی.اس وقت تک انہوں نے ہمیں نہ چھوڑا اور جس وقت ہم کو شاہ امان اللہ خاں نے اپنے ملک میں آنے کی اجازت دی اور ہم سید گاہ میں آگئے.اس وقت انہوں نے کہا اب عمر کے آخری حصہ کو قادیان میں ہی ختم کرنا چاہئے.چنانچہ وہ قادیان آگئے اور پھر آخری دم تک قادیان میں ہی رہے.(الفضل ۱۷ جنوری ۱۹۳۲ء صفحہ ۱۰۹) جناب عبد الرحیم خاں صاحب عادل کا بیان ہے کہ آپ کا اصل نام مام محمد مرو ز خاں تھا آپ موصی نہ تھے مگر حضرت خلیفہ ثانی کے حکم سے اپنی دینی خدمات کے باعث بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن کئے گئے.۱۰۶ رپورٹ سالانه صد ر انجمن احمد یه ۳۲-۱۹۳۱ء صفحه ۱۸-۰۲۰ ۱۰۷ محترم سید رئیس احمد صاحب جعفری مولانا کی زندہ دلی اور ظرافت کا ایک واقعہ اپنی کتاب سیرت محمد علی میں لکھتے ہیں کہ احباب کی ایک صحبت میں بحث چھڑی.تم تین بھائی ہو دو شاعر میں ذو الفقار ملی گوہر محمد علی جوہر اور شوکت علی کیا؟ محمد علی نے فوراجواب دیا.شوہر بھی ایک ہم قافیہ تخلص ہے صفحہ ۱۷-۱۱۸ ۱۰۸ سیرت محمد علی از سید ر میں احمد صاحب جعفری صفحه ۵۷۰ ۱۰۹ ۱۰ الفضل ابر جنوری ۱۹۳۱ء صفحہ ۴ کالم ۳۰۲.آپ کی قبر مسجد اتمی (بیت المقدس) کے احاطہ اور شاہ حسین کے جوار میں مغربی جانب کے درمیانی گیٹ سے داخل ہوئے بائیں ہاتھ ہے.-114 الفضل ۸/ : نور کی ۱۹۳۱ء صفحہ ۱.الفضل ۲۶ / مئی ۱۹۳۱ء صفحہ ا کالم - الفضل ۲۱ جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ اکالم ۲.تاریخ احمدیت جلد سوم میں ان کی جو تاریخ ولادت ۱۹۳۲ء درج ہے وہ صحیح نہیں ہے.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۱ء صفحه ۱۰۴.۱۱۵ الفضل ۷ / اپریل ۱۹۳۱ء صفحہ ۵ کالم ۲- الفضل (۲۶ مئی ۱۹۳۱ء صفحه ۲ کالم ۳ - الفضل ۲ جون ۱۹۳۱ء صفحہ اکالم - الفضل ۷ / جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ ۵ 19 رپورٹ سالانہ صد را انجمن احمد یه ۳۲-۱۹۳۱ء صفحه ۵-۱- ۱۲۰ رپورٹ سالانه صد را انجمن احمد یه ۳۲-۱۹۳۱ء صفحه ۱۲- ۱۲۱ رپورٹ سالانہ صد را نیمین احمدیه ۳۲-۱۹۳۱ء صفحه ۱۳ ۱۲۲ رپورٹ سمانه صد ر انجمن احمد به قادیان ۳۲-۱۹۳۱ء صفحه ۱۲- ١٣٣.الفضل ۲۸ جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ اکالم - ۱۲۳ -۱۲۴ الفضل ۱۵ اگست ۱۶۱۹۳۱ ۱۳/ ستمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۰ کالم ۱- ۱۲۵- الفضل یکم اکتوبر ۱۹۳۱ء صفحہ اکالم ) ١٣٦ الفضل ۲۲ / دسمبر ۱۹۳۱ء صفحه ۲ کالم ۳
- جلدد 324 خلافت ثانیہ کا اٹھارہواں سال ۱۲۷ - الفضل ۱۳/ جنوری ۱۹۳۱ء صفحہ ۲ کالم ۱-۲- ۱۲۸ - الفضل ۹/ اپریل ۱۹۳۱ء صفحه ۹ ۱۳۹ حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی ، مولوی ظهور حسین صاحب، مولوی محمد علی صاحب بدو لهوی مباشہ محمد عمر صاحب گیانی واحد حسین صاحب ۱۳۰ مولوی محمد حنیف صاحب ندوی، مولوی عطاء اللہ صاحب امرتسری، مولوی عبد الواحد صاحب، مولوی محمد حسین صاحب اور مولوی عبد اللہ صاحب آف چونڈہ حافظ بدر الدین صاحب حافظ محمد حسین صاحب چوہدری حکیم نور الدین صاحب جلال آبادی ١١- الفضل ۹/ اپریل ۱۹۳۱ء صفحہ ۲ کالم ۱-۲- ١٣٢ الفضل ۲ / اپریل ۱۹۳۱ء صفحہ کالم : الفضل ۲۸/ مئی ۱۹۳۱ء صفحہ ۲ کالم -۲ ۱۳۴- الفضل ۳۰/ مئی ۱۹۳۱ء صفحہ ۹ کالم ۱-۲- ۱۳۵- الفضل ۱۸/ جون ۱۹۳۱ء صفحہ ۲ کالم ۳ ١٣٦- الفضل ۲/ جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ ۲ کالم ۲.۱۳۷ الفضل ۲۳ جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ ۲ کالم -۲ ١٣٨- الفضل ۲۱ / جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ اکالم - الفضل ۸/ ستمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۹ کالم ۳ ۱۰ الفضل ۲۲ ستمبر ۱۹۳۱ء صفحه او الفضل ۲۷/ ستمبر ۱۹۳۷ء صفحہ ۱۰ کالم ۱-۲- ١٣١ الفضل ۴ فروری ۱۹۳۲ء صفحه ۱۰-
تاریخ احمد نت مطره 325 حصہ دوم تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیه
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 326 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ حصہ دوم - پہلاباب (فصل اول) ریاست جموں و کشمیر کے جغرافیائی حالات تمدنی و مذہبی تاریخ اور تحریک آزادی کا پس منظر ریاست کے جغرافیائی حالات محل و قوع و رقبه ریاست جموں و کشمیر (جس کے قریباً چالیس لاکھ مظلوم اور ستم رسیدہ مسلمان باشندے جنگ آزادی کے ایک فیصلہ کن اور نازک مرحلہ میں داخل ہو چکے ہیں) ایک عرصہ سے عالمی سیاست کی توجہ کا خصوصی مرکز بن چکی ہے.اس ریاست کے شمال میں چین اور روس، جنوب مغرب میں مغربی پاکستان، مشرق میں تبت اور جنوب مشرق میں بھارت ہے.ریاست کا رقبہ تقریباً چوراسی ہزار مربع میل ہے.D - جو نتیجیم ، سوئٹزرلینڈ، بولیویا، البانیہ ، ڈنمارک اور فلسطین کے مجموعی رقبہ کے لگ بھگ اور بلغاریہ، پرتگال چیکوسلواکیہ ، آئس لینڈ لائبیریا ملایا نیپال اور یونان جیسے ممالک سے ہزاروں میل زیادہ ہے.کشمیر کی مشہور عالم اصل وادی جو قدرت کے دلکش مناظر کی کشمیر کی خوبصورت دادی وجہ سے "جنت نظیر " کے نام سے موسوم ہوتی ہے.تقریباً اتی میل لمبی اور ۳۰ میل چوڑی ہے.اس وادی کے طول میں سے دریائے جہلم گزرتا ہے.دادی کی زمین نہایت ذرخیز ہے اور جابجا باغات سے مزین نظر آتی ہے.اس وادی کے ایک حصہ میں وہ مشہور علاقہ ہے جس میں زعفران پیدا ہو تا ہے.وادی کے چاروں طرف پہاڑوں کا ایک وسیع سلسلہ ہے جو قدرتی جنگلات سے ڈھکا ہوا ہے مگر اس میں دیسات اور آبادیوں کے آس پاس زراعت بھی ہوتی ہے.قدرتی نالے اور چشمے کشمیر کی وادی اور پہاڑ کے حصہ ہر دو کی نمایاں خصوصیات ہیں.لوگوں کا پیشہ عموماً زراعت اور گلہ بانی ہے مگر شہروں اور قصبوں میں صنعت و حرفت بھی اپنے کمال تک پہنچی ہوئی ہے.اور کشمیری لوگ اس شعبہ کے ساتھ خاص لگاؤ اور دلچسپی رکھتے ہیں.اون کا کام ریشم کا کام لکڑی کا کام تمام صنعتوں میں سے نمایاں ہے.اور کشمیر کا یہ مال عرصہ سے بیرونی ممالک میں بڑی قدر کی نگاہ سے
یت - جلد ۵ 327 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد دیکھا جاتا ہے.سری نگر میں ایک پیشہ اور بھی ہے یعنی زائرین کشمیر کی خدمت و تواضع کا پیشہ.مختصر یہ کہ کشمیر کی اصل دادی ایک دلکش سیرگاہ اور سیاحوں کا مرکز ہے.جسے بجا طور پر برصغیر پاک و ہند کا سوئٹزرلینڈ کہنا بالکل مناسب ہو گا.بعض لوگ اسے ایشیا کا فیس بھی کہتے ہیں اور سری نگر کو بغداد کے نام سے موسوم کرتے ہیں.فرخی، نظامی، فیضی، عرفی اور دوسرے نامور شاعروں کے کلام میں اس کی تعریف پائی جاتی ہے.فرانسیسی سیاح و ڈاکٹر گستاؤلی بان وادی کشمیر کا نقشہ کھینچتے ہوئے لکھتا ہے.اس کے ایک طرف تو برف سے ڈھکی ہوئی چوٹیاں ہیں.اور دوسری طرف پہاڑوں کی دیوار میں جہاں انسان کا قدم پہنچ نہیں سکتا.ان دو موانع کے وسط میں نہایت خوشگوار آب و ہوا کا یہ ملک ہے جس کے کھیت سرسبز ہیں جھیلیں شفاف اور پرسکون گاؤں مکانات خوبصورت اور مندر اور قصروں کی دیواریں سفید سفید نظر آتی ہیں.اس ملک میں صرف ایک ہی ندی جہلم ہے جس کا نام آریوں نے دتستا رکھا.اور جسے یونانیوں نے ہائی ڈاس پنیر کہا ہے.یہاں یہ ندی اپنے منبع سے قریب واقع ہوئی ہے اور اس کے کناروں پر چنار اور بید اس طرح اُگے ہوئے ہیں کہ پردوں کا کام دیتے ہیں.ندی کے کناروں پر چلتے وقت جب اوپر کو آنکھ اٹھتی ہے تو ایک طرف ننگا پربت کی شاندار چوٹی جو ملک ہند کی سرحد ہے اور دو سری طرف ڈب سنگ کا پہاڑ.جس کا درجہ دنیا کے پہاڑوں میں دوسرا سمجھا جاتا ہے.نظر آتا ہے.اگر نیچے نظر ڈالیں.تو ایک اور ہی منظر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے.جو بے انتہا خوشگوار اور دل پذیر ضرور ہے ایک طرف جھیلوں کے پر سکون نیلے پانی میں سنگ مرمر کی خوبصورت عمارتیں اپنے پاؤں دھو رہی ہیں.اور دوسری طرف وہ سبزہ ہے جس کی گہری سبزی میں انواع و اقسام کے پھول اپنا تبسم دکھا رہے ہیں.کشمیر کے وسط میں سری نگر جو کہ اس کا دار السلطنت ہے.جہلم کے دونوں کناروں پر واقع ہے.اور اس میں نہریں اس کثرت سے ہیں.کہ اسے ہند کا وفیس کہتے ہیں.مکانات کی مسطح چھتوں پر ایک تہہ مٹی کی بچھائی گئی ہے.جس میں سے ہری گھاس اور قسماتم کے پھول کھلتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک معلق باغوں کا سلسلہ ہے اور جھیلوں کے اندر بھی تیرتے ہوئے باغ موجود ہیں.اس گھائی میں انسان کا حس ، فطرت کی لطافت سے بھی مقابلہ کرتا ہے.کشمیری صورت شکل میں نہایت حسین اور رنگ میں ہند کے کل باشندوں سے صاف ہیں.کشمیر کا یہ خوبصورت اور دلفریب خطہ صوبہ کشمیر کا صرف ایک حصہ ہے اور ریاست میں صوبہ کشمیر کے علاوہ صوبہ جموں اور ملحقہ جاگیرات اور لداخ و گلگت کے اضلاع سرحدی بھی شامل ہیں مردم شماری ۱۹۴۱ء کی رو سے ریاست کی کل آبادی کم و بیش چالیس لاکھ تھی جو ملک شام کی موجودہ
تاریخ احمدیت جلده 328 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ آبادی کے برابر ہے اس آبادی میں سے (تمیں لاکھ تہتر ہزار پانچ سو چالیس) مسلمان تھے.چنانچہ انسائیکلو پیڈیا آف برٹینیکا" میں زیر لفظ "کشمیر" (Kashmir لکھا ہے کہ کشمیر کے باشندوں میں بھاری اکثریت واضح اور صریح طور پر مسلمانوں کی ہے.جو ابھی تک اپنے قدیم مذہبی خیالات و عقائد سے زبر دست متاثر اور اس پر سختی سے قائم ہیں ۱۹۴۱ء کی مردم شماری کے مطابق ریاست کی کل آبادی چالیس لاکھ اکیس ہزار چھ سو سولہ نفوس پر مشتمل تھی جن میں سے آٹھ لاکھ سات ہزار پانچ سو انچاس ہندو، تین لاکھ تہتر ہزار پانچ سو چالیس مسلمان.تین ہزار انای دیسی عیسائی.انتیس ہزار تین سو چھہتر قبائلی اور ایک لاکھ آٹھ ہزار چوہتر متفرق لوگ تھے.( ترجمہ )
(فصل دوم) 329 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ قدیم تاریخ کشمیر پندرھویں صدی قبل مسیح سے لے کر ( جبکہ آریہ قوم جنوبی ایشیا میں داخل ہوئی) دو ہزار سال قبل مسیح اور مابعد کا زمانہ "زمانہ قبل از تاریخ" کہلاتا ہے.اس دور کی تاریخ کے دو اہم ماخذ ہیں.(۱) آثار قدیمہ (۲) ہندو لٹریچر آثار قدیمہ سے یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچتی ہے کہ " عہد تاریخ سے پہلے " بھی کشمیر میں آبادی تھی.چنانچہ ڈاکٹر صوفی غلام محی الدین صاحب لکھتے ہیں.اب تک یہ خیال کیا جاتا تھا کہ کشمیر میں پتھر کا زمانہ آیا ہی نہیں بہر حال پاند ریلهن ، تخت سلیمان ارہوم وند را ہوم ، رنگل اور نارن راگ کے مقامات پر کھدائی وغیرہ کے بعد کاشتکاری اور شکار کے اوزاروں قدیم وضع کی قبروں، مختلف شکلوں کے گھڑے ہوئے پتھروں کی حالیہ دریافت نے بظاہر ثابت کر دیا ہے کہ ایسا عمد کشمیر میں گزرا ہے یعنی اس قدیم قبل از تاریخ دور میں بھی یہ سرزمین انسانوں سے آباد رہ چکی ہے.بدھ زمانے سے پہلے اور بعد میں ناگ پوجا کار سمیع رواج اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وادی کشمیر کے اولین آباد کار ضرور دہ لوگ ہوں گے جو " باشندگان قدیم" کے نام سے مشہور ہیں.اور آریاؤں کی آمد سے پہلے ہندوستان میں آباد تھے.اس بارے میں کچھ پتہ نہیں کہ کشمیر میں قدم رکھتے وقت ان ابتدائی باشندوں کی تہذیب کس مقام تک پہنچ چکی تھی".A زمانہ تاریخ سے قبل کے حالات کشمیر کا دوسرا ماخذ ہندوؤں کا لٹریچر ہے.جس میں پنڈت کلمن کی کتاب "راج ترنگنی " ( تاریخ کشمیر) جو بارھویں صدی عیسوی میں راجہ جے سنگھ (۶۱۱۳۵-۱۱۶۲ء) کے عہد میں لکھی گئی اور بھوج پتر پر لکھی ہوئی کتاب رستا گر اور اس کا ترجمہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں.مگر متعدد مغربی محققین و مورخین کی رائے میں ہندوؤں کی پرانی کتابیں تاریخی نقطہ نگاہ سے قابل اعتماد نہیں ہیں.چنانچہ ڈبلیو کوک ٹیلر کا بیان ہے.”ہندوؤں کے بزرگوں نے...تاریخ کو بالکل خبط کر دیا.....الفنسٹن صاحب سابق گورنر بمبئی اپنی کتاب " تاریخ ہند" میں لکھتے ہیں.”ہندوؤں کی تاریخ نویسی انتها درجہ ناقص و نا قابل اعتماد ہے......" مشہور مستشرق ڈاکٹر گستاولی بان نے کافی تحقیق کے بعد ہندو تاریخ نویسی کی نسبت یہ رائے قائم کی ہے.
تاریخ احمدیت جلد ۵ 330 تحریک آزادی کشمیر ا د ر جماعت احمدیه ہے." ان ہزارہا جلدوں میں جو ہندوؤں نے اپنی تین ہزار سال کے تمدن میں تصنیف کی ہیں، ایک تاریخی واقعہ بھی صحت کے ساتھ درج نہیں ہوا".نامور و نیسنٹ اے سمتھ ایم.اے "راج ترنگنی " کی نسبت مندرجہ ذیل رائے کا اظہار کرتے ہیں."کشمیر کی تاریخ بارھویں صدی میں لکھی گئی اور تمام سنسکرت ادبیات میں صرف ایک یہی کتاب ہے جو باقاعدہ تاریخ کے فن میں تحریر ہوئی اس میں کثرت سے ایسی بے سر و پا قدیم روایتیں پائی جاتی ہیں جو سخت احتیاط کے بعد کام میں لائے جانے کے قابل ہوں گی".مغربی محققین کے یہ نظریات متعدد ہندو فاضلوں اور ودوانوں کو بھی مسلم ہیں.چنانچہ بھائی پر مانند صاحب مشهور مہاسبھائی لیڈر کا اقرار ہے کہ بد قسمتی سے ہمارے بزرگوں کو اپنے حالات درستی سے قلم بند کرنے کا شوق نہ تھا اور جو کچھ حالات لکھے ہوئے ملتے ہیں وہ شاعرانہ مبالغہ سے بھرے ہوئے م - ہیں.جن کی امداد سے صحیح واقعات پر پہنچنا محال ہے ".اسی طرح منشی ہیرا لال صاحب معترف ہیں کہ افسوس ہے ہندوستان کی کوئی پرانی تاریخ نہیں لمتی اس کے قدیمی حالات پر ایسا گھٹاٹوپ بادل چھا گیا ہے.کہ جس کا پتہ لگنا قریباً نا ممکن ہو گیا ہے.اسی طرح بابو رو میش چند روت نے ہندو و قائع نگاروں پر تنقیدی نظر ڈالتے ہوئے لکھا ہے.معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے متقدمین کی ناکامیابی زیادہ تر ان کے غلط راستہ پر چلنے کی وجہ سے تھی.انہوں نے اپنی تمام کوشش ہندوستان کے مختلف حصوں اور سلطنت کے راجاؤں کی ایک فہرست بنانے میں صرف کر دی لیکن ہمارا یقین ہے کہ یہ فہرستیں قریباً غلط ہیں".بابور و میش چند روت نے ہندو تاریخ دانی کے جس پہلو کی نشاندہی کی ہے وہ " راج ترنگنی " اور ر نتاگر دونوں میں موجود ہے جو عام طور پر قدیم تاریخ کشمیر کا سر چشمہ اور منبع قرار دی گئی ہیں.خصوصاً " راج ترنگنی" کے متعلق تو اس کے غالی مداحوں کو بھی (جو اسے مبالغہ آمیزی سے مصون و محفوظ سمجھتے ہیں) اعتراف ہے کہ کلہن کی تحریر میں دھندلا پن ہے.اس نے نادر الفاظ استعمال کئے ہیں یا شاعرانہ گڑ بڑ ڈال دی ہے اور اس کے بیانات کی طرز تحریر شاعرانہ ڈھنگ پر ہے یہ چیز ترنگ نمبر ۸ میں بہت بڑھی ہوئی ہے.یہاں تک کہ وہ یہ کہنے پر بھی مجبور ہیں کہ "فوق الفطرت عصر جادو اور منتر و غیرہ کا بھی اس کی تاریخ میں بہت کچھ دخل ہے".(دیباچہ مکمل راج ترنگنی "صفحہ ۱۴۱-۱۴۳) ان حالات میں عہد حاضر کے ایک مورخ کے لئے اصل واقعات کی تہہ تک پہنچنا کتنا مشکل کام ہے اس پر کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں ہے.تاہم منشی محمد الدین صاحب فوق مورخ کشمیر کی محنت و کاوش کی داد دینا پڑتی ہے کہ انہوں نے "راج ترنگنی " اور "ر تاگر " اور دوسرے قدیم لٹریچر کی ورق گردانی کر کے اپنی
تاریخ احمدیت - جلد ۵ 331 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ ریسرچ کو ایک عمدہ خلاصہ اور بہترین نچوڑ " مکمل تاریخ کشمیر جلد اول کی شکل میں شائع کر دیا اور اس میں ابتدائے ظہور آدم سے لے کر ۱۳۳۴ء تک کے تاریخ وار واقعات پر طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے قدیم فرمانروایان کشمیر کے حالات کا ایک اہم خاکہ پیش کیا ہے.مورخ کشمیر منشی محمد الدین صاحب فوق کی تحقیق کا سادہ لفظوں میں خلاصہ یہ ہے کہ زمانہ قدیم میں کچھ عرصہ تک یہ خط کشمیر پانی کے نیچے دبا رہا.پانی ہٹ جانے یا نکالے جانے کے بعد یہ زمین آباد ہونی شروع ہوئی اور اس کی آبادی پر پانچ ہزار برس سے زائد عرصہ گزر چکا ہے قدیم ایام میں یہاں مستقل آبادی نہ تھی.کیونکہ کثرت سے برفباری سے موسم سرما میں یہاں قیام نہایت دشوار بلکہ ناممکن تھا خصوصاً جبکہ سخت سردی سے بچاؤ کے ضروری سامان ناپید تھے اور لوازمات زندگی کے وسائل محدود تھے.ابتداء میں کشمیر تالاب کی صورت میں ایک وسیع میدان تھا جس میں جابجا چشمے اور دریا موجود تھے.موجودہ دریا بہت ( دو تستا) جسے جہلم کہتے ہیں پہلے بھی اس طرح کشمیر اور کانمان کا پانی لے کر پنجاب کو سیراب کرتا تھا اس وقت یہ موسم بہار کی چراگاہوں کا کام دیتا تھا.اوائل موسم بہار میں بھمبر راجوری کانان پکھلی وغیرہ قرب و جوار کے باشندے اور چرواہے بھیڑ بکریاں لے کر یہاں آجاتے اور ان کے مرغزاروں کی زرخیزی اور شادابی سے متمتع ہو کر جاڑے سے پہلے ہی اپنے دیس کو لوٹ جاتے تھے.یہ وہ زمانہ تھا.جبکہ لوگ تہذیب سے بالکل نا آشناء حشیانہ زندگی بسر کرتے تھے.ان کا گزارہ زیادہ تر مال مویشی اور شکار پر تھا.پتھر کی کلہاڑیاں اور ہتھیار ان کے جنگی اسلحہ تھے آخر دور میں تیرو ترکش کا استعمال بھی کرنے لگے.اور زراعت بھی انہوں نے اختیار کی لیکن مستقل رہائش کے پابند نہ تھے جہاں زمین نظر آئی وہیں کاشتکاری شروع کر دی پھر نقل مکانی کر کے کسی اور طرف چل دیئے.دریا دید کے ذریعہ یہاں ابتدائی آبادی شروع ہوئی.کچھ عرصہ بعد مسیح سے تین ہزار آٹھ سو نواسی سال پیشتر طوفان نوح کا حادثہ پیش آیا جس نے دریا دیو کی قوم کو بالکل نیست و نابود کر دیا.حضرت مسیح سے دو ہزار بیالیس سال پہلے راجہ سند رسین کے عہد میں کشمیر کا شہر سند مت نگر بھی ( یہ شہر اس مقام پر آباد تھا جہاں اب جھیل ڈلر ہے) غرق ہو گیا اس طغیانی سے کامراج کا ایک بڑا حصہ زیر آب آگیا.حضرت مسیح سے باره سو بیاسی سال پہلے راجہ نریندر کے عہد حکومت میں پانی نکلوا کر کامراج میں دوبارہ آبادی کی بنیاد پڑی کہتے ہیں کہ کشمیر کی اس جدید آبادی کا سلسلہ کشیپ رشی کے زمانے سے شروع ہوتا ہے.جس نے مختلف لوگوں کو یہاں لا کر آباد کر دیا.دریا دیو کے بعد جب کشیپ رشی نے کشمیر از سر نو آباد کیا اس وقت ہر شخص اپنے اپنے گھر کا خود مختار اور حاکم تھا.اس حالت کے بعد ایک قبائلی نظام نے جنم لیا.اور اس وقت سے شخصی طرز حکومت کی ابتدا ہوئی اور پورن کرن (راجہ جموں) کا لڑکا دیا کرن کشمیر کاسب
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 332 تحریک آزادی کشمیر ا د ر جماعت احمد به سے پہلا حاکم بنا.یہ ۳۱۸۰ ق م کا واقعہ ہے اس کے بعد ۱۳۲۴ء تک کشمیر میں ہندو راجوں کے یکے بعد دیگر اکیس خاندان حکمران رہے اور آخری ہندو راجہ مسہد یو تھا.na منشی محمد الدین صاحب فوق نے بعض ہندو تواریخ اور آثار قدیمہ سے یہ نتیجہ بھی نکالا ہے کہ ہندوؤں کے مشہور رٹی راجہ رام چندر جی نے بھی کشمیر کو اپنے مقبوضات میں شامل کر لیا تھا.۷۵۰ء میں راجہ للتادت کے زمانے میں موضع شیر دروں کی زمین سے ایک مندر بر آمد ہوا.جس کے دروازے پر صاف الفاظ میں کندہ تھا کہ یہ مندر رامچندر اور پچھن نے تعمیر کیا ہے..یادر ہے کہ بعض مورخین نے را چند رجی کا زمانہ ایک ہزار سال قبل مسیح کے لگ بھگ معین کیا ہے.
تاریخ احمدیت.جلد ۵ فصل سوم 333 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد یہ بدھ مت کا دور آریہ قوم جب ہندوستان میں آکر بت پرستی میں ڈوب گئی.تو مہاتما بدھ (انداز ا۵۷۷ ق م ۴۸۷ ق م) کا ظہور اور بدھ مت جلد ہی ہندوستان، چین، جاپان اور بر ماد غیرہ ممالک تک جا پہنچا.اور ۲۶۱ ق م راجہ اشوک نے اس وقت کے مشہور فاضل اپ گپتا کے ہاتھ پر بدھ دھرم قبول کر لیا.اس طرح بدھ دھرم کو سرکاری مذہب کی حیثیت حاصل ہو گئی..راجہ اشوک نے اس مذہب کے فروغ دینے کے لئے ۲۵۹ ق م میں دوسرے علاقوں کے علاوہ کشمیر میں بھی واعظ و مبلغ بھیجوائے.کشمیر اس کی عملداری اور سلطنت میں داخل تھا.اشوک کو تعمیرات کا بہت شوق تھا.کہتے ہیں کہ تین برس کی قلیل مدت میں اس نے چوراسی ہزار ستوپ تعمیر کرائے تھے.کشمیر میں بھی بدھوں کی عمارتیں پائی جاتی ہیں.مگران کے ستون اور مورتیاں یونانی طرز تعمیر کا نمونہ ہیں-- D قیاس ہے کہ ان عمارتوں کا زمانہ غالیا ؟ ا ق م سے لے کر ۲۰ ء کا درمیانی زمانہ تھا.جبکہ شمال مغربی ہندوستان (پنجاب) پر یونانیوں کا قبضہ تھا.
احمدیت.جلدن 334 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ فصل چهارم کشان قوم کا قبضہ وسط ایشیا کی ترکستانی قوموں کو یورپین مورخین تحسین اقوام کہتے ہیں.ان اقوام کی ایک شاخ یو چی بیان کی جاتی ہے.جس کی ایک شاخ کا نام کشن پاکشان تھا.12.اس کشن یا کشان قوم نے آگے چل کر کابل و کشمیر تک جو اس زمانہ میں " کی پن" کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا تھا.قبضہ کر کے ایک زبر دست حکومت قائم کرلی تھی.HD مسٹرو نینٹ اے سمتھ کے اندازہ میں یہ ۱۵ء تا۳۰ء کا واقعہ 2 →.M تقریباً ۷۸ ء میں اس شاخ کا بادشاہ کنشک تخت نشین ہوا.جس کے متعلق دنیسنٹ اے سمتھ نے لکھا ہے.کہ یہ ” غالبا کنشک ہی کا کام تھا کہ اس نے کشمیر کی دور افتادہ وادی کو زیر نگین اور اپنی سلطنت کے ساتھ ملحق کیا یہاں اس نے بہت سی عمارات تعمیر کرا ئیں اور ایک شہر بسایا جو اگرچہ اب محض ایک گاؤں ہی رہ گیا ہے مگر کنشک کا نام اب تک اس میں باقی ہے ".راج ترنگنی کے مترجم اسٹین کا قول ہے کہ کنشک پور کی جگہ اب ایک گاؤں کانسپور آباد ہے جو ۷۴ - ۲۸ مشرقی طول بلد اور ۳۴-۱۴ شمالی عرض بلد پر دریائے بہت اور اس شاہراہ کے درمیان واقعہ ہے جو بارا مولا سے سرینگر کو جاتی ہے ونسینٹ اے سمتھ نے لکھا ہے کہ کنشک کے سکے کشمیر میں بکثرت پائے جاتے ہیں.پنڈت کلہن نے " راج ترنگنی " میں کنشک کی نسبت لکھا ہے کہ اس کے زمانے میں کشمیر کا علاقہ بحیثیت مجموعی بدھ مت والوں کے قبضہ میں تھا.راجہ کنشک نے بدھ مذہب کی تحقیق کے لئے کشمیر کا دارالسلطنت کے قریب کندلون کے مقام پر ایک مجلس منعقد کرائی جس میں پانچ سو کے قریب فاضل جمع ہوئے جنہوں نے شریعت سے متعلق بڑی ضخیم تفسیریں لکھیں جو خاتمہ مجلس کے بعد تانبے کی چادروں پر کندہ کرائی گئیں اور ایک خاص ستوپ میں جو کنشک نے اس غرض سے تعمیر کرایا تھا محفوظ کر دی گئیں ازاں بعد راجہ کنشک نے کشمیر کی آمدنی اشوک کی طرح مذہب کے لئے وقف کر دی.کنشک کے بعد ہو شک نے کشمیر میں ایک شہر ہشک پور بسایا جو شرعین درہ بار امولا کے پار واقع تھا.کہتے ہیں کہ ۶۳۱ء میں جب چینی سیاح ہیون سانگ کشمیر گیا تو چند روز تک ہشک پور کی خانقاہ والوں
ابر بیت - جلد ۵ 335 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ نے اس کی مہمان نوازی کا حق ادا کیا اور اسے بہت سے بھکشوؤں کے ساتھ بڑے کروفر سے دار السلطنت میں پہنچایا.کشمیر کے فرمانروا (غالبا در بھور دھن) نے اس کا دھوم دھام سے استقبال کیا.اور اس نے کشمیر کے عالموں سے مباحثات کئے یہاں اس کو بدھ مذہب کی بہت سی کتابوں کے مطالعہ کا موقعہ ملا.جن میں سے بعض اس نے حفظ کرلیں اور مئی ۶۳۱ ء سے اپریل ۶۳۳ ء تک کشمیر میں قیام کرنے کے بعد واپس چلا گیا.بادشاہ ہو شک کے بعد با سود یو اور با سود یو کی موت کے بعد جو ۱۷۸ء میں خیال کی جاتی ہے.کشن یا کشان سلطنت پر زوال آگیا.
تاریخ احمدیت.جلد ۵ حصہ دوم پہلا باب (فصل پنجم) 336 اسرائیلی قبائل کا کشمیر میں داخلہ تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ پانچویں صدی قبل مسیح سے تیسری صدی قبل مسیح کا دور تاریخ کشمیر کا نہایت اہم اور قابل ذکر دور ہے کیونکہ اسی زمانے میں خطہ کشمیر کے طول و عرض پر مستقل اور منظم آبادی کا آغاز ہوا.اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد فلسطین میں یہودیوں کی حکومت دو حصوں میں بٹ گئی.تاریخ میں ایک حصہ کو سلطنت اسرائیل کہتے ہیں اور دوسرے کو سلطنت یهودو یہ سلطنت اسرائیل سرغوں کے ہاتھوں ۷۲۲ ق م میں ختم ہو گئی اور سولہ سترہ سال میں ہزاروں یہود جلا وطن ہو گئے.اس کے قریبا ڈیڑھ دو سو سال بعد بخت نصر نے سلطنت یہودیہ پر (جس کا دار السلطنت یروشلم تھا) چڑھائی کر کے ۵۸۶ ق م میں اس کا تختہ الٹ دیا.سیر و علم تباہ و برباد اور تاخت و تاراج کر دیا گیا.اور اسرائیلی قبائل عراق فارس میدیا اور دو سرے علاقوں میں غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو گئے.ولیم ایم لینگر کی تحقیق کے مطابق ۵۸۶ ق م سے ۵۳۸ ق م تک یہودی عراق کے ماتحت اور ۵۳۸ ق م سے ۳۳۲ ق م تک...ایرانی حکومت کے ماتحت رہے آخر خورس نے انہیں یروشلم میں ہیکل از سرنو تعمیر کرنے کی اجازت دے دی.نمیاہ نبی نے یروشلم کی فصیلیں بنا ئیں اور شرعی قانون نافذ کئے.حالات کے سازگار ہونے پر بعض اسرائیلی قبائل اپنے وطن کو لوٹ آئے.مگر یقیہ دس قبائل پر اسرار طریق پر غائب ہو گئے.مختصر تاریخ بائیبل (Manual of Bible History) کے مصنف مسٹر بلی کی ان گمشدہ قبیلوں کی نسبت یہ قیاس آرائی کرتے ہیں." یہ بات کہ آخر کار ان دس فرقوں کی کیا حالت ہوئی ایک ایسا تاریخی مسئلہ ہے جو اب تک حل نہیں ہوا بعض کا گمان ہے.کہ وہ ایشیاء میں ملک ترکی کے نسطوری فرقے کے عیسائیوں میں شامل ہیں اور بعض یہ کہتے ہیں کہ ہند کے افغانوں میں ملتے ہیں اور بعض کا یہ خیال ہے کہ وہ بہت دور دور جگہوں کو چلے گئے ہیں ".مسٹر بلیکی جس " تاریخی مسئلہ " کو لانخل قرار دیتے تھے.کوئی سربستہ راز نہیں رہا.بلکہ تحقیق کی روشنی میں یہ حقیقت ناقابل تردید شواہد و دلائل کے ذریعہ سے ثابت ہو چکی ہے کہ یہ دس گم شدہ اسرائیلی قبائل قطعی طور پر افغانستان اور کشمیر
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 337 تحریک آزادی کشمیراد ر جماعت احمد به " میں آباد ہوئے اور اب ان علاقوں میں زیادہ تر انہیں کی نسل پائی جاتی ہے.کشمیریوں کانسیسی سلسلہ کئی پشتوں کے واسطہ سے براہ راست ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام تک جا پہنچتا ہے.اگر اسرائیلی خصوصیات و آثار کی روشنی میں اہل کشمیر کے چہروں کی ساخت ، رنگ ، عادات زبان اور کشمیر کی پرانی یادگاروں اور ان کے ناموں پر وسیع نظر ڈالی جائے تو یہ تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ کشمیر کے باشندے یقینا بنی اسرائیل کی اولاد سے ہیں.یہ حقیقت اب اتنی واضح اور نمایاں ہو چکی ہے کہ مغربی اور مشرقی محقق مفکر اور سیاح حتی کہ عیسائی دنیا بھی اس پر سنجیدگی سے غور و فکر کرنے پر مجبور ہو چکی ہے.چنانچہ فرانسیسی ڈاکٹر بر نیئر نے اپنی کتاب "سلطنت مغلیہ میں سیرو سیاحت" (جلد دوم مطبوعہ لنڈن ۱۸۹۱ء) میں کئی محققین کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ کشمیر کے باشندے دراصل یہودی ہیں کہ جو تفرقہ شاہ اسور کے ایام میں اس ملک میں آگئے تھے.اور ان کے لباس اور بعض رسوم قطعی طور پر فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ اسرائیلی خاندان میں سے ہیں.جارج فارسٹر نامی ایک انگریز اپنے مکاتیب سفر از بنگال تا انگلستان " مطبوعہ لنڈن ۱۸۰۸ ء میں لکھتا ہے کہ جب میں کشمیر میں تھا تو میں نے خیال کیا کہ میں ایک یہودیوں کی قوم کے درمیان رہتا ڈاکٹر غلام محی الدین صاحب سوفی اہل کشمیر" کے عنوان سے لکھتے ہیں.کہ "کشمیریوں میں سے بہتوں کے خدو خال کی یہودی وضع کا متعدد جدید سیاحوں نے مشاہدہ کیا ہے.حالیہ زمانے میں کشمیر پر دو بلند پایہ محققین یعنی سر والٹر لارنس اور سر فرانس ینگ ہر بینڈ نے جن کی کشمیر اور کشمیریوں سے گھری واقفیت میں کوئی کلام نہیں ، عورتوں، بچوں اور مردوں کے چہروں کی صریح ” یہودی " وضع کو تسلیم کیا ہے.سر والٹر لارنس کہتے ہیں کہ مڑی ہوئی ناک کشمیریوں کی امتیازی خصوصیت ہے.اور عبرانی ناک نقشہ عام ہے.سر فرانس کا کہنا ہے کہ "ہم نے اپنے ذہن میں قدیم اسرائیلی ہیروں کی جو تصویر بنائی ہے اسے کشمیر میں سچ سچ دیکھنا ممکن ہے....اور واقعہ یہ ہے کہ اصلی انجیلی چہروں کو کشمیر میں ہر جگہ دیکھا جا سکتا ہے.بر نیئر نے بھی اسی فیصلہ کن انداز میں بات کی ہے." پیر پنجال کے پہاڑ پار کر کے کشمیر میں داخل ہونے پر مجھے سرحدی دیہات کے باشندے یہودیوں سے بہت مشابہ معلوم ہوئے.ان کے خدو خال اور آداب اسی قدیم قوم کے معلوم ہوتے ہیں.میری بات کو محض تخیل آرائی نہ سمجھئے کیونکہ میرے کشمیر آنے سے مدتوں قبل ہمارے جیسوٹ پادری اور کئی دوسرے یورپی ان کی یہودی شکل و صورت کا ذکر کر چکے ہیں".شاہ ہمدان ولی اللہ چودھویں صدی عیسوی) میں تشریف لائے تھے.انہوں نے بھی وادی کو گو یا کشمیر میں اسرائیلیوں کی آباد کاری کی تائید میں ” باغ سلیمان " کا نام دیا تھا".
تاریخ احمدیت جلد ۵ 338 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ اس عظیم الشان انکشاف کے بعد کہ کشمیری اسرائیلی نسل سے ہیں "کشمیر " کی وجہ تسمیہ کا مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بتایا ہے کہ کشمیر دراصل عبرانی نام ہے.جوک اور اشیر سے مرکب ہے کہ کے معنی ہیں مانند اور اشیر عبرانی زبان میں ملک شام کو کہتے ہیں.پس ک اشیر کے معنی ہیں ” ملک شام کی مانند مگر کثرت استعمال اور مرور زمانہ سے ک اشیر کا درمیانی الف گر گیا اور کثیر رہ گیا.جس کا واقعاتی ثبوت یہ ہے کہ خود اہل کشمیر اس خطہ کو آج تک کثیر ہی کہتے ہیں چنانچہ ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کا ایک شعر ہے "کشیری که با بندگی خود گرفته ت می تراشد ز سنگ مزار -
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 339 تحریک آزاء کا کشمیر اور جماعت احمد نقشه سفر حضرت مسیح علیہ سلام نشان را سو
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 340 تحریک آزادی کشمیر ا د ر جماعت احمدیہ فصل ششم حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت مریم کشمیر میں ۴۵ اب ہم کشمیر کے اس تاریخی زمانے میں داخل ہو رہے ہیں جبکہ خدا کے ایک برگزیدہ نبی اور جلیل القدر پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام (جنہیں قدیم اسلامی لٹریچر میں امام السائحين " یعنی سیاحوں کا امام کہا گیا ہے ) اپنی والدہ حضرت مریم کے ساتھ صلیبی موت سے بچ جانے کے بعد اپنے تبلیغی مشن کی تکمیل کے لئے عراق ، فارس ، افغانستان اور پنجاب سے گزرتے ہوئے کشمیر میں رونق افروز ہو گئے اور آپ کی یہ پیشگوئی پوری ہوئی کہ میری اور بھی بھیڑیں ہیں جو اس بھیڑ خانہ کی نہیں مجھے ان کا بھی لانا ضرور ہے اور وہ میری آواز سنیں گی پھر ایک ہی گلہ اور ایک ہی چرواہا ہو گا.تاریخ کشمیر بلکہ تاریخ عالم کے اس پر اسرار عہد پر صدیوں تک پردہ پڑا رہا اور خصوصا عیسائی دنیا نے اپنی مذہبی مصالح کے باعث اسے چھپانے کی مسلسل کوشش کی مگر جدید تحقیقات سے جو مشہور مذاہب عالم ہندو دھرم بودھ مت ، عیسائیت اور اسلام کے لٹریچر اور آثار قدیمہ کی روشنی میں کی گئی ہے اور جس کا سلسلہ گہری دلچسپی اور غیر معمولی توجہ سے جاری ہے اب تک حضرت مسیح علیہ السلام کے سفر کشمیر سے متعلق بہت ہی تعجب خیز اور حیرت انگیز تفصیلات منظر عام پر آچکی ہیں.اس علمی تحقیق میں جن محققوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحقیق کی روشنی میں مزید کام کیا ہے ان میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب ، حضرت مولوی شیر علی صاحب حضرت قاضی محمد یوسف صاحب آف ہوتی مردان مولانا جلال الدین صاحب شمس ، چوہدری نذیر احمد صاحب بیرسٹرایٹ لاء لاہور ، شیخ عبد القادر صاحب محقق عیسائیت اور قریشی محمد اسد اللہ صاحب کا شمیری خاص طور پر قابل ذکر ہیں.ان محققین کی ریسرچ سے جو نتائج بر آمد ہوئے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام صرف چند گھنٹے تک صلیب پر رہے اور بے ہوشی کے عالم میں زندہ ہی صلیب سے اتار لئے گئے.حضرت مسیح کے صلیب سے زندہ اتارے جانے کے بعد حکیم نقود یمس نے آپ کے زخموں پر تیز مصالح اور شفا بخش مرہم لگایا اور پھر آپ ایک رومن طرز کی "قبر میں منتقل کر دیئے گئے جو آپ کے حواری یوسف آرمیتیا کی ملکیت تھی اور جو پہاڑ کھود کر بنائی گئی تھی اس قبر میں جو ایک کشادہ کمرہ کے
تاریخ احمد بیت - جلد ۵ 341 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ مشابہ ہے.اور اب تک یروشلم میں موجود ہے) آپ کے جسم کو مختلف مقوی ادویہ اور بوٹیوں کا بخور دیا گیا.ایک بڑا پتھر رکھ دیا گیا.رات کے آخری حصہ میں تیز آندھی اور زلزلہ سے چٹانیں ہلنے اور شق ہونے لگیں.اس وقت حضرت مسیح کا ایک معتقد سفید لباس میں ملبوس قبر تک پہنچا سردار کاہن کے پہرہ دار جو زلزلہ اور آندھی سے پہلے ہی خوفزدہ تھے اس شخص کو دیکھتے ہی دہشت زدہ ہو کر بھاگ گئے اور شہر میں جا کر افواہ پھیلا دی کہ ایک فرشتہ نے نمار سے پتھر ہٹا کر اسے کھول لیا ہے.واقعہ صلیب پر تیس گھنٹے گزرنے کے بعد حضرت مسیح علیہ السلام کو بے ہوشی سے افاقہ ہو نا شروع ہوا.اور جب آپ کو ساری سرگزشت بتائی گئی تو آپ بہت متعجب ہوئے اور خدا تعالیٰ کی حمد کرنے لگے.حکیم نقود یمس کے مشورہ پر آپ نے کھجور میں اور روٹی شہد کے ساتھ کھائی اور آپ میں اتنی قوت آگئی کہ آپ خود اٹھ کر بیٹھ سکیں.اس مرحلہ پر زیادہ دیر تک حضرت مسیح کو اس قبری میں رہنے دینا بڑا مخدوش و خطرناک امر تھا اس لئے آپ کو اس قبر سے ایک قریبی مکان میں منتقل کر دیا گیا.چند روز کے بعد آپ چلنے پھرنے کے قابل ہو گئے تو آپ نے اپنے شاگردوں کو تبلیغ کے متعلق فرمائیں.اور دور دراز مقام کے سفر پر روانگی سے پیشتر ان سے فرمایا کہ " میں نہیں بتا سکتا.کہ اب کہاں جاؤں گا.کیونکہ میں اس امر کو مخفی رکھنا ضروری سمجھتا ہوں اور میں سفر بھی تنہا ہی کروں گا.اور جب آپ یروشلم کے قریب کوہ زیتون پر حواریوں سے جدا ہونے لگے.تو پہاڑ پر سخت کر چھائی ہوئی تھی.حواریوں نے آپ کے سامنے گھٹنے ٹیکے تو ان کے چہرے زمین کی طرف جھکے ہوئے تھے.اس حالت میں آپ اٹھے اور جلدی جلدی دھند اور غبار میں آگے روانہ ہو گئے لیکن شہر میں یہ خبر مشہور ہو گئی کہ یسوع بادلوں میں سے آسمان پر اٹھائے گئے ہیں مگر یہ خبر آپ کے ان حواریوں میں سے کسی نے مشہور نہیں کی تھی جو آپ کی روانگی کے وقت موجود تھے اور جن کے گھٹنے ٹیکنے کی حالت میں آپ آگے بڑھ گئے تھے.بلکہ یہ خبر ان لوگوں نے مشہور کی تھی جو آپ کی روانگی کے وقت موجود نہیں تھے.یہ واقعہ جو بہت اختصار سے لکھا گیا ہے.واقعہ صلیب کے ایک معینی شاہد نے اپنے مفصل مکتوب میں پوری شرح و بسط سے درج کیا ہے.گو حضرت مسیح علیہ السلام نے یروشلم سے روانگی کے وقت مصلح اپنے سفر کی نسبت کچھ نہیں بتایا تھا مگر اناجیل کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہود پہلے سے یہی سمجھتے تھے کہ آپ کا ارادہ بنی اسرائیل کے ان گمشدہ قبائل تک پیغام حق پہنچانے کا ہے چنانچہ یو حنا ۳۳-۷/۳۶ (اتصور ائزڈ ورشن) میں لکھا ہے.” یہودیوں نے آپس میں کہا کہ یہ کہاں جائے گا کہ ہم اسے نہ پائیں گے.کیا ان کے پاس جائے گا جو غیر قوموں میں پراگندہ ہیں.ان آیات کی شرح میں پیکس تفسیر بائیبل میں لکھا ہے.شاید مسیح ان
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 342 تحریک آزادی کشمیر ادر جماعت احمدیہ علاقوں میں جانے کے لئے سوچ رہا تھا جہاں یہو د جلا وطنی کے بعد بس گئے تھے.امریکن یونیورسٹی کے ایک پروفیسر البرٹ ہیما اپنی کتاب "Ancient History"" تاریخ قدیم" میں انجیل کے اس بیان پر لکھتے ہیں." ایک دن جب حضرت مسیح ناصری ایک پر جوش و عظ فرما رہے تھے اس وعظ میں آپ نے اپنی روانگی کا ذکر کیا.تو کچھ لوگوں نے حیرانی کا اظہار کیا کہ کیا یہ بنی اسرائیل کے گمشدہ قبائل میں جاکر تبلیغ کا ارادہ رکھتے ہیں".(صفحہ ۳۸) حدیث نبوی میں آتا ہے کہ " اوحی الله تعالى الى عیسى ان يا عيسى انتقل من مكان اللى مكان لئلا تعرف فتونی" یعنی اللہ تعالٰی نے عیسی علیہ السلام کو وحی فرمائی کہ اے عیسی ایک مقام سے دو سرے مقام کی طرف چلتے رہو تا ایسا نہ ہو کہ تم پہچانے جاؤ اور تمہیں تکلیف دی جائے.اس فرمان خداوندی کے مطابق حضرت عیسی علیہ السلام یروشلم سے روانہ ہو کر پہلے دمشق تشریف لے گئے جہاں مقدسین دمشق یروشلم کے یہودی چرچ سے الگ ہو کر آبسے تھے.ان لوگوں نے جو آپ کے لئے چشم براہ تھے.نہ صرف آپ کو پناہ دی بلکہ خود بھی آپ کی پناہ میں آگئے یعنی حلقہ بگوش عیسائیت ہونے لگے.یروشلم کے کاہن اعظم کو جب یہ پتہ لگا کہ حضرت مسیح دمشق میں پناہ گزین ہیں تو اس نے پولوس کو ان کی گرفتاری کے لئے مسلح دستہ دے کر دمشق کی طرف بھیجا.لیکن وہ اپنے ارادوں میں ناکام رہا.ان واقعات کی تفصیل رابرٹ گریور اور جو شوعا پوڈرو کی تصنیف ” یسوع روم میں " - (Jesus in Rome) میں موجود ہے.اس حقیقت کی مزید تائید وادی قمران سے بر آمد ہونے والے صحائف سے بھی ہوتی ہے.دمشق سے آپ مختلف مقامات کی سیرو سیاحت کرتے جن میں (روم بھی بتایا جاتا ہے) نصیبین کے رستہ افغانستان سے ہوتے ہوئے شمالی ہند میں داخل ہوئے (غالباً اسی زمانے میں یا اس کے کچھ مدت بعد آپ لیہ لاسہ گلگت ، مس ، نیپال، بنارس ، پنجاب وغیرہ میں بھی تشریف لے گئے ) اور بالآخر کشمیر میں جاگزین ہو گئے.جو " ا وينهما الى ربوة ذات قرار و معين " کے قرآنی الفاظ کی عملی تعبیر تھی.اس وقت راجہ اکھ کا بیٹا گو پانند (گو پاوت (دم) حکمران تھا.یہ ۷۸ ء کا واقعہ ہے جبکہ لوگک سن ۳۱۵۴.تھا اسی 101 سال آپ کی ملاقات سری نگر کے قریب وین مقام پر ہندوستان کے مشہور راجہ شالبا ہن سے ہوئی.1 حضرت مسیح نے یہاں کھلے طور پر اعلان نبوت فرمایا اور اہل کشمیر کثرت سے آپ کی دعوت قبول کرنے لگے.حضرت مسیح علیہ السلام موسوی شریعت کے تابع نبی تھے.جیسا کہ آپ نے خود فرمایا ہے.یہ نہ
ریخ احمد بیت - جلد ۵ 343 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ سمجھو کہ میں تو رات یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں.منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں".موسوی شریعت کی نشر و اشاعت کے فریضہ کی بجا آوری کے ساتھ ہی آپ کی آمد کا سب سے بڑا مقصد یہ تھا کہ آپ موعود آخر الزمان حضرت محمد مصطفی ا کے ظہور کی بشارت سنائیں.اور یہ عجیب بات ہے کہ آپ کے الہامات کو انجیل ہی کا نام دیا گیا جس کے لغوی معنی ہی خوشخبری کے ہیں.چنانچہ آپ نے اپنے اس فرض منصبی کی تکمیل فرمائی اور اہل کشمیر کو اسلام اور آنحضرت ا کے ظہور کی خبردی اور ان کو آنحضرت ا اور اسلام کے استقبال کے لئے تیار کرتے رہے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل اس ملک میں آکر اکثر بدھ مت میں داخل ہو گئے تھے.سو حضرت مسیح کے کشمیر میں آنے پر ان میں سے اکثر راہ راست پر آگئے جس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ گوتم بدھ نے ایک اور آنے والے بدھ کی نسبت جس کا نام اس نے بگو امتیا ( یعنی مسیحا) رکھا تھا پیشگوئی کی تھی اور کہا " میالا کھوں مریدوں کا پیشوا ہو گا.جیسا کہ میں اب سینکڑوں کا ہوں".(لگا تی سنتا بحوالہ کتاب اولدن برگ صفحه ۱۴۴) گو تم بدھ نے یہ بھی بتایا تھا کہ پانچویں صدی تک اس کے مذہب کا زوال ہو جائے گا تب تیا اس ملک میں دوبارہ میری اخلاقی تعلیموں کو قائم کرے گا.چنانچہ کشمیر میں حضرت مسیح کی آمد گو تم بدھ کی پیدائش سے پانچ سو سال کے بعد ہی ہوئی.اور بدھ کے پیرو پروانہ وار آپ کے گرد جمع ہوتے گئے.غرض اس ملک میں حضرت مسیح کو بڑی وجاہت حاصل ہوئی.حتی کہ راجہ کا ایک مرید "سندھی متی " نامی آپ کی زندگی میں لاولد راجہ جے اندر کے بعد تخت نشین بھی ہوا.چنانچہ انیسویں صدی کے آخر میں ایک سکہ پنجاب سے بر آمد ہو ا جس پر پالی زباں میں حضرت عیسی کا نام درج تھا.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے کشمیر میں آکر شاہانہ عزت پائی غالبا یہ سکہ ایسے بادشاہ کی طرف سے جاری ہوا ہو گا جو حضرت مسیح پر ایمان لے آیا تھا.کتاب " اکمال الدین و اتمام النعمت" سے جو شیعوں کی معتبر کتاب ہے اور ہزار برس قبل تصنیف ہوئی.ظاہر ہوتا ہے کہ اہل کشمیر آنحضرت ﷺ کی آمد کے صدیوں سے منتظر چلے آرہے تھے اور ان کی کتابوں میں حضور کی پیشگوئی موجود تھی.اکمال الدین " میں مزید لکھا ہے.”حضرت یوز آصف (یسوع مسیح علیہ السلام - ناقل) نے کشمیر میں آخری وقت اپنا خلیفہ مقرر کیا جس کا نام بابد تھا.اور اسے وصیت فرمائی کہ میرے بعد عبادت کا پابند رہنا، نماز پڑھتے رہنا، سچائی سے منہ نہ پھیرنا.پھر آپ نے اپنے اوپر ایک قبر بنائے جانے کا ارشاد فرمایا
تاریخ احمدیت جلد ۵ 344 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیه جہاں آپ نے اپنے پاؤں مغرب کی طرف پھیلائے اور سر مشرق کی طرف کیا اور اپنی جان جان آفرین کے سپرد کردی.حدیث نبوی کے مطابق آپ کا وصال ایک سو بیس برس کی عمر میں ہوا.اور ایک روایت میں ہے کہ آپ مقدس تو ما کے ہاتھوں دفن کئے گئے.(ناصرین گاسپل) سرینگر کے محلہ خانیار میں آپ کا مزار مبارک اب تک موجود ہے.طبقات کبیر" میں حضرت امام حسن علیہ السلام کا یہ قول درج ہے کہ حضرت عیسیٰ بن مریم کی روح ۱۲۷ رمضان کو قبض کی گئی تھی."لقد قبض فی الليلة التي عرج فيها بروح عيسى بن مريم ليلة سبع وعشرين من رمضان ای طرح تاریخ طبری میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح کی قبر کے کتبہ کی عبارت یہ ہے." هذا قبر رسول الله عیسی بن مریم " اس وقت کا واقعاتی ثبوت کہ حضرت مسیح نے واقعی لمبی زندگی پا کر وفات پائی تھی ان تصاویر سے بھی ملتا ہے جو دوسری صدی کے ابتدائی مسیحیوں نے بنائی تھیں اور جو ان کے ہاں امانت کے طور پر محفوظ چلی آتی تھیں یہ تصاویر انسائیکلو پیڈیا برٹینکا جلد ۱۴ میں شائع ہو چکی ہیں.ان تصاویر سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ جوانی اور بڑھاپے کی تصاویر ہیں.بڑھاپے کی تصویر سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ حضرت مسیح اس وقت طویل العمر تھے.| 1+ مشرقی لٹریچر سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کا روحانی سلسلہ خلافت اسلام کی آمد کے زمانے تک موجود تھا.اور لوگ یہاں تو رات ، زبور ، انجیل اور صحف ابراہیمی پڑھتے اور ان پر عمل کرتے اور دو سروں کو ان پر عمل کرنے کی تاکید کرتے رہتے تھے.عصر جدید کی تحقیق پر ایک سرسری نظر ڈالنے کے بعد اب حضرت مسیح کے سفر کشمیر سے متعلق چند مستند شہادتیں درج کی جاتی ہیں.جن سے تاریخ کشمیر کے اس تاریخی واقعہ پر تیز روشنی پڑتی ہے.یاد رہے کہ حضرت مسیح قدیم لٹریچر میں کئی ناموں سے پکارے گئے ہیں.یسوع - یوز آسف - آصف یوسا- شافت میا- مسیح - مشیحا مسیحا می شی ہو.عیسی.ایشان دیو - عیسی نادیو - عیسی ناتھ.مگر یہ سب ایک ہی شخصیت کے مختلف نام ہیں.جن میں حضرت عیسی علیہ السلام کو مختلف قوموں یا گروہوں نے اپنے لب و لہجہ اور تلفظ میں یاد کیا ہے.ہندو لٹریچر کی شہادت بھو یہ مہا پر ان ہندوؤں کے قدیم اٹھارہ پر انوں میں سے نواں پر ان " ہے.اس کتاب کے تیسرے باب میں دو جگہ حضرت مسیح کی کشمیر میں آمد کا ذکر ملتا ہے چنانچہ لکھا ہے." ایک دن مہاراجہ شالبا ہن ہمالیہ پہاڑ کے ایک ملک میں گیا.وہاں اس نے ساکا قوم کے ایک راجہ کو دین مقام پر دیکھا وہ خوبصورت رنگ کا تھا.اور سفید کپڑے
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 345 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ پہنے ہوئے تھا.شالبا ہن نے اس سے پوچھا آپ کون ہیں؟ اس نے جواب دیا.میں یو ساشافت (یوز آسف) ہوں اور عورت کے بطن سے میری پیدائش ہوئی.(راجہ شالباہن کے حیران ہونے پر) اس نے کہا کہ میں نے جو کچھ کہا ہے سچ کہا ہے.اور میں مذہب کو صاف و پاک کرنے کے لئے آیا ہوں راجہ نے اس سے پوچھا کہ آپ کو نسا مذ ہب رکھتے ہیں.اس نے جواب دیا اے راجہ اجب صداقت معدوم ہو گئی اور میچوں کے ملک (ہندوستان سے باہر کسی ملک) میں حدود شریعت قائم نہ رہی تو میں وہاں مبعوث ہوا.میرے کلام کے ذریعہ جب گنگاروں اور ظالموں کو تکلیف پہنچی تو ان کے ہاتھوں سے میں نے بھی تکلیفیں اٹھا ئیں.راجہ نے اس سے پھر پوچھا کہ آپ کا مذ ہب کیا ہے ؟ اس نے جواب دیا میرا مذہب محبت، صداقت اور تزکیہ قلوب پر مبنی ہے.اور یہی وجہ ہے کہ میرا نام "عیسی مسیح" رکھا گیا ہے 14-" حضرت عیسی کے کشمیر میں آنے اور ان کے ایک مرید "سندھی متی" کے بادشاہ بنے کا ذکر پنڈت کلمن کی "راج ترنگنی " میں بھی ملتا ہے یہ ذکر ایشان دیو" کے نام سے کیا گیا ہے.اگر چہ پنڈت کلہن نے اس سلسلہ میں خالص دیو مالائی طرز بیان میں عجوبہ پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک مبہم اور غیر مسلسل اور بہت لمبا واقعہ لکھا ہے جو " راج ترنگنی " مترجم از "ٹھا کر چند شاہپوریہ کے صفحہ ۷۷ سے ۱۹۴ تک پھیلا ہوا ہے.لیکن اگر دوسرے قدیم لڑیچر کی روشنی میں اس پورے واقعہ پر ناقدانہ نظر ڈالی جائے اور اس کے حشو و زوائد اور غیر حقیقی عناصر کی چھان بین کی جائے.تو اس سے یہ قیمتی معلومات حاصل ہوتی ہیں کہ ایشان دیو (یعنی حضرت عیسی علیہ السلام) کا ایک مرید سندھی متی" کشمیر کے راجہ جے اندر کاوزیر تھا جسے راجہ نے غلط کار مشیروں کی سازش کے نتیجہ میں جیل میں ڈال دیا.جو دس سال نظر بند رہا.راجہ لا ولد تھا اس لئے اس نے اس خیال سے کہ میرے بعد سندھی متی ضرور تخت کا وارث ہو جائے گا.سندھی متی کو پھانسی پر لٹکانے کا حکم دے دیا.اس پر ایشان دیو" پر کشفی حالت طاری ہوئی.اور اس نے دیکھا کہ جو گنیوں کا ایک مجمع ہے جس کے گرد روشنی کا ہالہ بنا ہوا ہے.اس مجمع نے "سندھی متی" کا پنجرا اپنے حلقہ میں لے لیا.پھر کیا دیکھتا ہے کہ مجمع اس کے (منتشر) اعضا جو ڑ رہا ہے.ایشان دیو" جب عالم کشف سے بیدار ہوئے.تو ان کو غیبی آواز آئی کہ اے ایشان خائف نہ ہو یہ شخص جسے ہم نے آسمانی جسم سے بنایا ہے زمین پر سندھی متی کے نام سے اور اپنے شریفانہ چال چلن کی وجہ سے آریہ راج کے لقب سے مشہور ہو گا.چنانچہ ادھر سندھی متی پھانسی کی موت سے بچ گیا.ادھر راجہ جے اندر کی موت واقع ہو گئی.ایشان دیو نے سندھی متی " کو گلے لگایا اور اہل کشمیر نے بھی اس کے دوبارہ زندہ ہونے پر بڑی خوشی منائی اور بالا تفاق لاولد راجہ جے اندر کی جگہ اسے تخت پر بٹھایا."
تاریخ احمدیت جلد ۵ 346 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ وه ۴۷ برس تک حکمران رہا.اور آخر سلطنت چھوڑ کر کسی غار میں عبادت کے لئے چلا گیا.بھوشیہ صایران" کے علاوہ بندھیا چل کے ایک ہندو فرقہ " ناتھ جو گی" کی کتاب " ناتھ مامو بولی " میں بھی حضرت مسیح کا ذکر آتا ہے چنانچہ لکھتا ہے." عیسی ناتھ کو اپنے ہم وطنوں نے ہاتھوں اور پیروں میں کیل لگا کر سولی پر چڑھا کر مارنے کی کوشش کی اور مردہ سمجھ کر قبر میں رکھ دیا.مگر عیسی ناتھ نے قبر سے نکل کر آریہ دیس میں فرار اختیار کیا اور کوہ ہمالیہ کے دامن (کشمیر) میں ایک خانقاہ قائم کی اور خانیار سرینگر میں ان کی سمادھی (مزار) ہے " - 1 بدھ مذہب کے لٹریچر کی شہادت ایک روی سیاح نکولس نائورچ ۱۸۹۰ء کے قریب لداخ میں بدھ مذہب کی ایک خانقاہ میں کئی ماہ مقیم رہا.جہاں بدھ علماء انہیں اپنے کتب خانے میں سے پرانی کتابیں ترجمہ کر کے سنایا کرتے تھے.ان میں سے ایک کتاب سے انہوں نے عیسی کے حالات پڑھ کر سنائے اس کتاب کا ترجمہ کر کے وہ ساتھ لے گئے اور فرانسیسی زبان میں ایک کتاب لکھی جس کا ترجمہ انگریزی میں بھی شائع ہو گیا ہے.اس کتاب کا نام The Unknown Life of Jesus Christ" جب یہ کتاب شائع ہوئی تو عیسائی حلقوں نے پورا زور لگایا کہ اس کتاب کو جعلی ثابت کر دکھائیں.اپنی کتاب کے دوسرے ایڈیشن میں نوٹووچ نے چیلنج کیا کہ میں محققین کے ایک مشن کے ساتھ خود ہندوستان جانے کے لئے تیار ہوں اور بدھ صحیفوں سے ان کی تسلی کروا سکتا ہوں.چنانچہ ایک فاضل خاتون لیڈی میرک نے جس جاکر تحقیقات کی اور اس کے نتائج شائع کرتے ہوئے لکھا.”لداخ کے شہریہ میں مسیح کی روایت ہمیں ملتی ہے.جو یہاں عیسی کے نام سے مشہور تھے.جس کے بدھ معبد میں ۱۵۰۰ سو سال قبل کی نہایت قیمتی دستاویزات رکھی ہیں جو مسیح کی زندگی کے ان ایام سے تعلق رکھتی ہیں.جو اس نے یہاں بسر کئے ان میں لکھا ہے کہ اس علاقہ میں میسیج کو خوش آمدید کئی گئی اور یہاں اس نے لوگوں کو تعلیم دی.پروفیسر نکولس رورک (Nicholas Roriek) نے وسط ایشیا کی سیاحت کے بعد ۱۹۲۹ء میں ایک کتاب (Heart of Asia) کے نام سے شائع کی.اس کتاب میں پروفیسر د کور نے لکھا ہے کہ کشمیر، لداخ اور وسط ایشیا کے مختلف مقامات میں اب بھی یہ مضبوط روایات پائی جاتی ہیں کہ حضرت مسیح ناصری نے ان علاقوں کا سفر اختیار کیا ہے سری نگر میں وہ فوت ہوئے.وہیں ان کا مزار ہے.یہ سب کی سب روایات اس بات پر متفق ہیں کہ جس زمانے میں حضرت مسیح فلسطین سے غیر حاضر تھے.اس وقت آپ ایشیا اور ہندوستان میں موجود تھے.تمر
تاریخ احمدیت جلد ۵ 347 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ عیسائی لٹریچر کی شہادت مکتوب اسکندریہ کا ذکر اوپر آچکا ہے اس کے علاوہ بعض مزید شہادتیں بطور نمونہ درج ذیل کی جاتی ہیں.٣.مسٹر سٹیفن گراہم اپنی کتاب "روسین پلگر مز آف یروشلم" کے صفحہ پر لکھتے ہیں.غالبا مسیح کی موت (یعنی صلیبی "موت" ناقل) کے بعد کئی سال تک ان کے درمیان یہ عجیب خبر پھیلی رہی کہ وہ زمین پر کسی دور دراز جگہ میں زندہ ہیں اور عنقریب دوبارہ ظاہر ہوں گے.انیسویں صدی کے عیسائی مصنف مسٹر بروس لکھتے ہیں.مسیح فی الواقع مرے نہیں تھے.عارضی بے ہوشی کے بعد وہ پھر ہوش میں آگئے تھے اور کئی مرتبہ اپنے شاگردوں کو زندہ نظر آئے.پھر وہ اتنا عرصہ زندہ رہے کہ پولوس کو بھی ان کی زیارت نصیب ہوئی اور بالآخر انہوں نے کسی نامعلوم مقام پر وفات پائی.(اپالو گویٹر مطبوعہ (۶۱۸۹۲ ڈاکٹرایم.اے (ایک مسیحی مصنف) لکھتے ہیں." یہ ہو سکتا ہے کہ بنی اسرائیل کے دسن گمشدہ قبائل کو تبلیغ کر کے مسیح سرینگر (کشمیر) کے دور دراز علاقہ میں فوت ہو گیا ہو.اور وہ اس قبر میں دفن ہو جو اس کے نام سے مشہور ہے ".- کپتان سی.ایم انرک لکھتے ہیں.” مجھے اپنے قیام کشمیر کے دوران میں وہاں کی قبروں کے متعلق چند عجیب باتیں معلوم ہو ئیں.ان میں سے ایک قبر کو مسیح ناصری کی قبر کہتے ہیں ".کشمیر کی قدیم تاریخ میں جو کشمیر کے مشہور مورخ ملا نادری کی تالیف مسلم لٹریچر کی شہادت ہے اور جو ۱۳۷۸ء سے ۱۴۱۶ء تک مکمل ہوئی ہے." راجہ گوپانند پسرش بعد از عزلی او بر حکومت رسید - در (عمد حکومت ) او متخانہ ہائے بسیار (تعمیر شدند) بالائے کوہ سلیمان گنبد شکسته بود و برائے تعمیرش یکے از وزرائے خود نامی سلیمان که از پارس آمده بود تعیین نمود.هند و واں اعتراض کردند که او غیر دین ملیچھ است در یں وقت حضرت یوز آصف از بیت المقدس بجانب وادی اقدس مرفوع شده دعوائے پیغمبری کرد شب و روز عبادت باری تعالی کرد و در تقوی و پارسائی بدرجہ اعلی رسیده خود را بر سالت اہل کشمیر مبعوث (گوارید) و بد عوت خلائق اشتغال نمود زیرا که کثیر مردمان خطه عقیدت مند آنحضرت بودند - راجہ گوپادت اعتراض ہندواں پیش او کرد بحکم آنحضرت سلیمان کہ ہندواں نامش سند یمان دادند تکمیل گنبد مذکوره کرد (سال پنجاه و چهار) د نیز بر نردبان نوشت که در یں وقت یوز آصف دعوئی پیغمبری می کند و بر دیگر سنگ نردبان هم نوشت که ایشان یسوع پیغمبر بنی اسرائیل است و در کتاب هندوان دیده اند که آنحضرت بعینه
تاریخ احمد ہے 348 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ حضرت عیسی روح اللہ علی نبینا وعلیہ الصلوۃ و السلام بود و نام یوز آصف ہم گرفت.والعلم عند الله - عمر خود در میں بسر کرد بعد رحلت محله انز مره آسوده و نیز می گویند که بروضه آنحضرت انوار نبوت جلوہ گرمی باشند و راجہ گوپادت شصت سال و دو ماه حکومت نموده درگذشت ".(ترجمہ) راجہ آٹھ کے معزول ہونے کے بعد اس کا بیٹا راجہ گو پانند گو پادت کا نام اختیار کر کے حکمران ہوا.اس کے عہد حکومت میں بہت سی عمارات تعمیر ہو گئیں.کوہ سلیمان کی چوٹی پر ایک شکستہ گنبد تھا.اپنے وزیروں میں سے ایک شخص سلیمان نامی کو جو پارس سے آیا تھا.اس کی تعمیر کے لئے مقرر کیا.ہندوؤں نے اعتراض کیا کہ وہ ملیچھ ہے اس وقت حضرت یوز آصف بیت المقدس کی جانب سے دادی اقدسن (کشمیر) کی طرف سے مرفوع ہوئے.اور آپ نے پیغمبری کا دعوی کیا.شب و روز عبادت باری تعالیٰ میں مشغول رہے.تقویٰ اور پارسائی میں اعلیٰ درجہ پر پہنچ کر خود کو اہل کشمیر کی طرف پیغمبر مبعوث قرار دیا.اور دعوت خلائق میں مصروف ہو گئے.چونکہ خطہ کشمیر کے لوگ آنحضرت (یوز آصف) کے عقیدت مند تھے.راجہ گو یادت نے ہندوؤں کا اعتراض ان کے سامنے پیش کیا.اور آنحضرت کے حکم سے سلیمان نے جسے ہندوؤں نے سندیمان کا نام دیا گنبد مذکورہ کی تکمیل کی (۵۴ تھا) اور اس نے گنبد کی سیڑھیوں پر لکھا.اس وقت یوز آصف نے دعوئی پیغمبری کیا ہے اور دوسری سیڑھی کے پتھر پر یہ عبارت لکھی.وہ یسوع پیغمبر بنی اسرائیل ہے (ملا نادری کہتے ہیں) ہندوؤں کی ایک کتاب میں میں نے دیکھا ہے کہ آنحضرت بعینہ حضرت عیسی روح اللہ علی نبینا و علیہ الصلوۃ والسلام تھے.اور یوز آصف بھی نام اختیار کر لیا تھا.والعلم عند اللہ اور آپ نے اپنی عمر یہیں بسر کی اوروفات کے بعد موضع انز مرہ میں دفن ہوئے.اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آنحضرت کے روضہ پر انوار نبوت جلوہ گر ہوتے ہیں.راجہ گو پارت نے ۶۰ سال دو ماہ حکومت کرنے کے بعد انتقال کیا.
تاریخ احمدیت جلد ۵ حصہ دوم، پہلا باب (فصل ہفتم) 349 کشمیر میں اسلام کی تبلیغ واشاعت تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ کشمیر میں پہلا مسلمان جو اموی خلیفہ ولید بن عبد الملک (۷۰۵ ۶ تا ۷۱۵ء) کے زمانے میں پہنچا.جهم بن سامہ شامی تھا جو فاتح محمد بن قاسم کے سندھ پر حملہ (۶۷۱۲ تا ۷۱۵) کے دوران راجہ داہر کے بیٹے جے سیہ (یا جے سنگھ) کے ہمراہ کشمیر میں آیا.کشمیر کے حکمران راجہ نے جہم بن سامہ کی بہت قدرو منزلت کی اور اس نے وہیں مستقل سکونت اختیار کرلی.چنانچہ شروع ساتویں صدی ہجری کی مستند کتاب " چچ نامہ " میں یہ ذکر موجود ہے.۷ ۷۱ ء اور ۷۲۰ ء کے وسطی زمانے میں حضرت عمر بن عبد العزیز نے سلیط بن عبد اللہ کو تبت اور کشمیر میں تبلیغ اسلام کے لئے بھیجا( تاریخ یعقوبی جلد ۲ صفحہ ۲۶۲) سلیط بن عبد اللہ کی آمد کے قریباً چھ سو سال تک یہاں تبلیغ اسلام کی کسی نمایاں جدوجہد کا کوئی سراغ نہیں ملتا.البتہ دسویں صدی عیسوی میں ایک مسلمان عرب سیاح ابو دلف سعر بن ململ بغداد سے ترکستان چین کابل تبت سے ہوتا ہوا کشمیر میں بھی آیا تھا.مگر اس کا سفرنامہ ہمارے سامنے نہیں ہے.AC کشمیر کے حالات نے چودھویں صدی عیسوی کے آغاز میں یکا یک پلٹا کھایا اور بعض با کمال مسلمان بزرگوں کے روحانی اثر اور بے نفس تبلیغ کے ذریعہ سے پوری ریاست اسلامی نور سے منور ہونے لگی.یہ روحانی انقلاب خدا تعالیٰ کے خاص تصرف سے ہوا.جس کی بظاہر یہ وجہ ہوئی کہ کشمیر کے راجہ ر پنچن کو دو مبلغین اسلام حضرت شاہ میر اور حضرت بلال شاہ عرف حضرت بلبل شاہ نے یکے بعد دیگرے تبلیغ کی اور راجہ صاحب ۱۳۲۷ ء میں مع اہل و عیال حضرت بلبل شاہ کے دست حق پرست پر مشرف باسلام ہو گئے.اور ملک صدر الدین کے نام سے یاد کئے جانے لگے.راجہ کے حلقہ بگوش اسلام ہونے کے بعد سرزمین کشمیر اشاعت اسلام کا مرکز بن گئی.اور ہر طرف اسلام کا غلغلہ بلند ہونے لگا.راجہ رنچن نے جن کا اسلامی نام صدر الدین قرار پایا تھا ۲ سال ۷ ماہ حکمران رہنے کے بعد ۱۳۲۷ء میں وفات پائی.صدر الدین بادشاہ اپنے عہد حکومت میں اشاعت اسلام کے لئے ہمہ تن کو شاں رہا.
تاریخ احمدیت ، جلد ۵ 350 احمدیہ تحریک آزادی کشمیر اور ع سلطان صدر الدین کی وفات کے بعد ریاستی نظم و نسق میں بد نظمی پیدا ہو گئی اور ۱۳۴۳ء میں حضرت شاہ میر سلطان شمس الدین کے نام سے تخت نشین ہوئے.آپ نے بلا تفریق مذہب و ملت تمام رعایا سے مالیہ سرکاری دسویں حصہ کی بجائے پانچواں حصہ مقرر کر دیا.ریاست میں بکرمی سمت موقوف کر کے نیا سنہ جاری کیا.جس کی ابتداء راجہ رنچن (سلطان صدر الدین) کی تاجپوشی کے وقت سے ہوئی.شاہان مغلیہ کے زمانے تک یہ سنہ کشمیری سنہ کے نام سے رائج رہا.۱۳۴۷ء میں آپ دار فانی سے گزر گئے.آپ کے زمانے میں اسلامی حکومت مستحکم بنیاد پر قائم ہو گئی.سلطان جمشید کے عہد حکومت ۴۸- ۱۳۴۷ء میں بعض صاحب کرامات بزرگ ہوئے جن کا زہد و انتقا زبان زد خلائق تھا.اور کرامات سے کشمیر میں اشاعت اسلام کی رفتار پہلے سے تیز ہو گئی.۱۳۷۲ء میں یعنی سلطان شہاب الدین کی حکومت (۱۳۶۰ء تا ۱۳۷۸ء) کے آخر میں امیر کبیر حضرت سید علمی ہدائی پہلی بار ہمدان سے تشریف لائے اور کچھ عرصہ قیام کے بعد واپس تشریف لے گئے پھر ۱۳۷۹ء میں ( جبکہ سلطان قطب الدین جیسا عادل ، منصف اور رعایا پر دربادشاہ تخت نشین تھا.سات سو مریدوں کے ہمراہ دوبارہ کشمیر تشریف لائے.اور کشمیر کے طول و عرض میں تبلیغی نظام قائم کر دیا.مساجد تعمیر کرائیں ،مدارس قائم کئے اور ہر شہر میں معلمین و مبلغین کی ایک جماعت متعین فرمائی ۷۸۳ ھ بمطابق ۱۳۷۲ء میں آپ بہت سے فقراء اور صوفیاء کو لے کر گلگت اور لداخ تشریف لے گئے اور تمام علاقے میں دورے کر کے تبلیغ اسلام فرماتے رہے.جن مبلغین اور داعیان اسلام نے آپ کی زیر نگرانی کشمیر میں تبلیغی فرائض انجام دیئے ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں.میر حسین سمنائی سید جمال الدین سید کمال الدین سید جمال الدین علائی سید فیروز سید محمد کاظم ملقب به سید قاضی سید رکن الدین سید فخر الدین شیخ محمد قریشی سید مراد ، سید عزیز اللہ ، شیخ احمد قریشی ، حاجی محمد شیخ سلیمان.ان بزرگوں نے حضرت شاہ ہمدان کے زیر ہدایت کشمیر کے مختلف مقامات کو اپنی تبلیغی سرگرمیوں کا مرکز بنایا ، خانقاہیں بنا ئیں جہاں مبلغین تیار ہوتے تھے.مساجد اور مدارس تعمیر کئے اور لنگر خانے جاری کئے.ان مبلغین کے علاوہ شاہ ہمدان کے بھانجے سید احمد اندرابی نے بھی کشمیر میں تبلیغ کی.اندرابیہ کے بعض مشہور مبلغوں کے نام یہ ہیں.سید محمد اندرابی ،سید محمد ابراہیم اندرابی، سید شمس الدین سید محمد میرک اندرابی، سید محمد طامبر، سیدمحمد افضل ، قطب العالم ،سید محمد عنایت اللہ اندرابی ، حاجی سید عتیق الله شهید اندرابی ، سید کمال الدین اندرابی.۱۳۹۴ ء میں یعنی سلطان سکندر کی تخت نشینی کے پہلے سال حضرت امیر کبیر علی ہدائی کے نوجوان فرزند سید میر محمد ہمدانی معمر ۲۲ سال تین سور نقاء سمیت وارد کشمیر ہوئے اور بارہ سال (ایک روایت ۹۳
تاریخ احمدیت جلد ۵ 351 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیه کے مطابق با ئیس سال تک) کشمیر میں مصروف تبلیغ رہے.پروفیسر آرنلڈ نے لکھا ہے کہ کشمیر میں میر ہمدانی کے آنے پر اس تیزی اور وسعت سے اسلام پھیل گیا.کہ ملک میں چند لوگ مسلمان ہونے سے رہ گئے اور جوں جوں لوگ مسلمان ہوتے گئے اپنے مندروں کو مسجدیں بناتے گئے.سلطان سکندر کے بعد ۱۴۱۷ ء میں سلطان علی شاہ اور ۱۴۲۳ء میں سلطان زین العابدین عرف بڑشاہ تخت نشین ہوا.اس علم نواز انصاف پرور اور مساوات پسند مسلم فرمانروا کے زمانے میں کشمیر نے ہر لحاظ سے غیر معمولی ترقی کی اور اس کا وجود مسلمان اور ہندو بلکہ پوری رعایا کے لئے سایہ رحمت ثابت ہوا اور ملک کی کایا پلٹ گئی.اس کے عہد حکومت میں ملک کشمیر علوم و فنون کا گہوارہ بن گیا.اور کشمیر کی شہرت ہندوستان سے گزر کر بلخ بخارا، خراسان اور ایران تک جا پہنچی اور علماء و فضلا خود بخود اس کے دربار میں کھنچے چلے آئے اور یہیں زندگی بسر کرنے لگے.ملک الشعراء ملا احمد کشمیری جیسے شاعر و مناظر اور ملا نادری جیسے مورخ اسی زمانے میں ہوئے ہیں.سلطان زین العابدین کے زمانہ میں کشمیر شریعت اسلامیہ کی پابندی کے لئے خاص طور پر مشہور ہوا.اور جس قدر علماء و مشائخ اس دور میں نظر آتے ہیں کسی بادشاہ کشمیر کے زمانے میں دکھائی نہیں دیتے.چند بزرگوں کے نام یہ ہیں.شیخ الاسلام مولانا کبیر، قاضی القضاة ملا جلال الدین حافظ بغدادی ، میر علی بخاری علامہ سید شمس الدین اندرابی ، سید حسین قمی رضوی با با حاجی ادهم ، سید محمد مدنی سید محمد عالی بلخی ، میر سید حسن میر سید حسین منطقی سید جان باز ولی بابا زین الدین بابا عثمان گنائی ، شیخ بہاء الدین گنج بخش ، شیخ نور الدین ولی میر سید محمد امین اویسی " سلطان زین العابدین (متوفی ۱۴۷۴ء) کے عہد تک جن مبلغین اسلام کا تذکرہ کیا جا چکا ہے ان کے علاوہ اور بہت سے بزرگ وقتا فوقتا کشمیر میں تبلیغ کے فرائض ادا کرتے رہے ہیں.جن میں سے میر شمس الدین Y- عراقی، شیخ محمد حمزه مخدوم خواجہ طاہر سہروردی، شاہ فرید الدین قادری ، میر عبدالرشید بیهقی خواجہ محمد اعظم ، مولف " تاریخ اعظمی شیخ بهاء الدین گنج بخش ، شیخ نور الدین ولی ، مولانا محمد کمال (استاد حضرت مجد والف ثائی شاہ نعمت اللہ کشمیری خاص طور پر قابل ذکر ہیں.کشمیر میں اسلامی حکومت قریباً پانچ سو سال تک قائم رہی ۱۳۲۵ء سے ۱۳۴۴ء تک شاہان زمانہ بے استقلالی ۶۱۳۴۳ تا ۱۵۵۴ء سلاطین کشمیر - ۱۵۵۴ء سے ۱۵۸۶ء تک خاندان چک ۱۵۸۶۰ء سے ۱۷۵۲ء تک شاہان مغلیہ اور ۱۷۵۳ء سے ۱۸۱۹ء تک افغان بر سر اقتدار رہے اور آخری مسلمان بادشاہ شجاع الملک تھا.اسلامی عهد حکومت کی مذہبی تاریخ پر روشنی ڈالنے کے بعد بالآخر یہ بتانا ضروری ہے کہ مسلم
تاریخ احمدیت جلد ۵ 352 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد یہ سلاطین کشمیر کے بعد اہل کشمیر کو خوشحال بنانے اور ملک کی علمی ، ثقافتی اور مادی ترقی و بہبود میں مغل بادشاہوں نے گہری دلچسپی لی ہے.چنانچہ فرانسیسی سیاح ڈاکٹر بر نیئر جو حضرت اور نگ زیب رحمتہ اللہ علیہ کے زمانہ میں اس بر صغیر میں سیر و سیاحت کر رہا تھا.مسلم کشمیر کی نسبت لکھتا ہے.دوسرے ممالک کی نسبت کشمیر میں علم و فضل کی فراوانی ہے.ادبیات اور حکمت سے یہاں کے لوگ کافی واقف ہیں صنعت و حرفت میں بھی یہ کسی سے کم نہیں.کشمیر جنت نظیر ہے سارا ملک سرسبز و شاداب اور سدابہار باغ کی طرح ہے...اور کشمیری ہر طرح سے سکھی ہیں".پیٹرس جیر دس جهانگیری دور کے کشمیر کا حال مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کرتا ہے.اکبر کا جانشین جہانگیر تھا.جسے اپنی سلطنت میں سب سے زیادہ عزیز کشمیر تھا.وہ کشمیر میں باغ لگانے والے کے نام سے مشہور ہے.کشمیر میں اس کے لگائے ہوئے جو باغ اب تک مشہور ہیں.وہ شالیمار باغ ، نسیم باغ اور نشاط باغ ہیں.ہر ایک میں حیرت انگیز شہ نشین اور چبوترے بنے ہوئے ہیں جہاں فواروں سے ٹھنڈا پانی دھار باندھ کر نکلتا ہوا جھرنوں سے گر تا اور مرمرین ڈھلانوں پر جھلملاتا جاتا ہے.وادی کے طول و عرض میں جو دیو زاد اور پر شوکت چنار نظر آتے ہیں وہ بھی جہانگیر نے لگائے تھے.تصنیف راؤ بهادروی پی مینن بھارتی امور ریاست کے سابق سیکرٹری اپنی "The Integration of The Indian states" میں لکھتے ہیں.دو سو سال تک کشمیر مغلوں کا گرمائی صدر مقام رہا.مغلوں کے آثار و نقوش قلعہ ہری پربت شالیمار باغ نشاط باغ ، اچھابل اور ویری ناگ میں اب تک موجود ہیں.چنار کے بلند و بالا و رخت جو ہر جگہ نظر آتے ہیں انہیں کی یاد گار ہیں.
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 353 تحریک آزادی کشمیر ا د ر جماعت احمدیه فصل هشتم کشمیر سکھ عہد حکومت میں افسوس مغلیہ دور کی پر عظمت اور انمول وراثت کو بعد کے حکمرانوں نے حتی الوسع برباد کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی.مسلمانوں کے ستارہ عروج کے زوال پر عنان اقتدار ۱۸۱۹ء میں مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب کے ہاتھ میں آگئی.مہاراجہ صاحب کے بعد ان کے جانشینوں نے مارچ ۱۸۴۶ء تک حکومت کی اس دور میں مسلمانوں کی رواداری کا بدلہ اس رنگ میں دیا گیا.کہ ان کی مساجد اور قلعے مسمار کئے گئے اور جن عمارتوں کو دیکھ کر انسانی عقل حیرت میں پڑ جاتی تھی.وہ اصطبلوں میں بدل دی گئیں اور وادی کشمیر میں اذان دینے کی سز ا زبان کاٹنا قرار دی گئی.چنانچہ پیٹرس جیروس لکھتا ہے." حکومت کی مسلح فوجیں تمام تندرست مردوں کو پکڑ دھکڑ کر دور دراز علاقوں میں طویل عرصوں تک بطور قلی کام کرنے کے لئے بھیج دیتیں.اکثر وہ کبھی واپس نہ آتے.کھیتی باڑی کا کام بوڑھے مرد اور عورتیں ، جیسے بن پڑتا کرتیں.نوجوان عورتوں نے خود کو برقعوں میں چھپا لیا.اور لڑکوں کا وہی حشر ہوا.جو صد ہا سال پہلے کو رنتھ میں ان کے بھائیوں کا ہوا تھا.پھر سے ہزاروں لوگ کشمیر سے بھاگ گئے.اب کی دفعہ بھاگنے والے مسلمان تھے " یورپین سیاح ولیم مور کر فٹ (جس نے ۱۸۲۴ء میں کشمیر کا سفر کیا تھا) لکھتا ہے.سکھ کشمیریوں کو مویشیوں سے کسی طرح بہتر نہ سمجھتے تھے.اگر کوئی سکھ کسی کشمیری کو قتل کر دے تو اس کی سزا سولہ سے ہیں روپے تک جرمانہ تھی.جس میں سے چار روپیہ مقتول کے ورثاء کو دیے جاتے تھے اگر وہ ہندو ہو.اور دو روپے دیئے جاتے تھے اگر وہ مسلمان ہو".فضل احمد صاحب صدیقی ایم.اے مدیر ڈان اپنی کتاب "خونا بہ کثیر " صفحہ ۱۶ تا ۱۹ میں سکھ عبد حکومت کا نقشہ کھینچتے ہوئے لکھتے ہیں.مسلمانان کشمیر پر سکھوں کی کرم فرمائیاں انتہائی شرمناک حد تک پہنچی تھیں.اذان دینا ممنوع قرار دے دیا گیا تھا.بیشتر مساجد اراضی نزول قرار دے دی گئی تھیں.شاہ ہمدان جیسے جلیل القدر بزرگ کے خانقاہ کے انہدام کے احکام جاری ہو گئے تھے.بر بنائے اس مفروضہ کہ ۱۲۰۰ سال پہلے اس خانقاہ کی
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 354 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ جگہ کوئی شری کالی مندر تھا.گائے کی قربانی کے الزام میں غریب مسلمان سری نگر کے بازاروں میں حقیر جانوروں کی طرح گھسیٹ گھسیٹ کر مار ڈالے گئے.انہی سفاکیوں سے تنگ آکر بے شمار کشمیری گھرانے ہجرت پر مجبور ہوئے اور پنجاب یوپی اور دیگر مقامات میں جاہیے".
تاریخ احمدیت جلد ۵ 355 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ فصل نهم کشمیر میں ڈوگرہ راج دادی کشمیر کے ستم رسیدہ اور مظلوم مسلمانوں پر ظلم و بربریت اور جبرو تشدد کا اس سے بھی زیادہ ہولناک دور ۱۶/ مارچ ۱۸۴۶ء کے منحوس دن سے شروع ہوا جبکہ انگریزی حکومت نے پچھتر لاکھ روپیہ ایک گھوڑا بارہ بکریوں اور چھ جو ڑا شال سالانہ خراج کے بدلے کشمیر اور دریائے سندھ کے مشرق اور دریائے راوی کے مغرب کا تمام پہاڑی علاقہ مہاراجہ گلاب سنگھ اور ان کے " جانشین ہائے نرینہ کو دے دیا.یہ سودا ایک تحریری معاہدہ کی رو سے ہوا جو معاہدہ امرتسر کہلاتا ہے.بیان کیا جاتا ہے کہ یہ خرید و فروخت محض فرضی اور دکھاوے کی تھی کوئی رقم لی دی نہیں گئی.اب خواہ مذکورہ سودا فرضی ہو یا واقعی بر کیف یہ ایک حقیقت ہے کہ کشمیر میں ڈوگرہ حکومت انگریزوں کی مہربانی سے قائم ہوئی تھی.اور اس طرح کشمیر کے لکھوکھا مسلمان عملاً فروخت کئے گئے اور غلام بنا دیئے گئے.اس زمانے میں کشمیر کی مرکزی وادی کو چھوڑ کر کشمیر کا ملک چار بڑی ریاستوں میں منقسم تھا.جو اپنی طاقت اثر اور وسعت کے لحاظ سے دوسری چھوٹی چھوٹی ریاستوں سے نمایاں تھیں اور یہ چاروں کی چاروں بڑی ریاستیں مسلمان تھیں اور ان کے رئیس اپنے اپنے علاقہ میں خود مختار رئیس تھے.ان میں سے ایک ریاست بھمبر تھی جو موجودہ اضلاع گجرات اور جہلم کی حدود کے ساتھ ملتی تھی.دوسری ریاست راجوری تھی.تیسری کرنا اور چوتھی کشتواڑ - راجہ گلاب سنگھ صاحب ایک زیرک آدمی تھے.جب انہوں نے یہ دیکھا کہ کشمیر کی مرکزی دادی چاروں طرف سے اسلامی ریاستوں میں گھری ہوئی ہے.تو انہوں نے ان ریاستوں کو مٹاکر کشمیر میں صرف ایک ڈوگرہ سلطنت قائم کرنے کی کوششیں شروع کر دیں.اور چونکہ انگریزی حکومت ان کی پشت پناہ تھی اس لئے وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب ہو گئے اور انہوں نے یکے بعد دیگرے چاروں اسلامی ریاستوں کو ختم کر کے مرکزی حکومت کشمیر میں شامل کر لیا.کشمیر کی دوسری مسلمان ریاستوں کے بہت ہی قلیل عرصہ میں نابود ہو جانے پر ان کے پسماندگان میں سے کچھ تو اپنے ہی ملک میں دربدر خاک چھانے پر مجبور ہو گئے اور کچھ اپنی عزت و آبرو
اریخ احمدیت.جلد ۵ 356 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد به بچانے کے لئے ہندوستان کے مختلف مقامات میں پناہ گزین ہو گئے.مہاراجہ گلاب سنگھ صاحب نے اپنے تارو اعزائم کی تکمیل کے لئے مسلمان نوابوں پر کیا کیا مظالم ڈھائے ؟ اس بارے میں شیخ غلام حیدر چشتی بانی رکن ینگ میز مسلم ایسوسی ایشن جموں لکھتے ہیں.گلاب سنگھ بے حد سفاک ظالم بے رحم اور حریص راجہ تھا.اس نے جموں کی حکومت سنبھالتے ہی بھمبر پونچھ ، میر پور راجوری اور کشتواڑ وغیرہ کے مسلمان حکمرانوں کو مکرو فریب سے قابو میں لا کر کسی کو " درگ" میں ڈالا جو کنوؤں کی شکل کا ایک گڑھا ہوتا تھا جس میں دشمن کو ڈالا جاتا تھا) کسی کی آنکھیں نکلوائیں اور کسی کو سامنے کھڑا کر کے کھال اتروادی.چنانچہ پونچھ کے ایک مسلمان راجے کو گرفتار کر کے گلاب سنگھ کے سامنے لایا گیا.تو اس نے راجے کی کھال اتارنے کا حکم دیا.کھال سر کی طرف سے اتارنے میں دماغی صدمے سے آدمی جلد مرجاتا ہے.اور اسے کم اذیت ہوتی ہے لیکن پاؤں کی طرف سے اتارنے میں آدمی دیر تک زندہ رہتا ہے.اور مرنے سے پہلے زیادہ دیر تک اذیت اٹھاتا ہے گلاب سنگھ کا ایک بیٹا بھی اس وقت موجود تھا.جب مظلوم راجے کی کھال ٹانگوں سے اوپر ادھیڑی جا چکی تو اس دردانگیز نظارے کی تاب نہ لاتے ہوئے اس نے منہ ایک طرف پھیر لیا.گلاب سنگھ نے بیٹے کی گردن پکڑ کر یہ کہتے ہوئے اس کا منہ مظلوم راجے کی طرف پھیر دیا.کہ اگر یہ بزدلی دکھاؤ گے تو حکومت کیسے کرو گے".جب کھال چھاتی تک اتر چکی تو بہادر مسلمان راجہ نے جس کے حواس اس وقت تک بجا تھے پہلے پانی پینے کی اور پھر بیوی بچوں کو دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا.لیکن گلاب سنگھ نے اس کی اس خواہش کو مسترد کر دیا جب کھال گردن تک اتر چکی تو راجہ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی - مہاراجہ گلاب سنگھ صاحب کے اگست ۱۸۵۷ء میں اس جہان سے رخصت ہو جانے کے بعد راجہ رنبیر سنگھ یا رندھیر سنگھ حکمران ہوئے تو مسلمانوں کو کچھ سکون حاصل ہوا.مہاراجہ رنبیر سنگھ صاحب ہی کے زمانے میں ۷۷-۱۸۷۶ء کے قریب حاجی الحرمین حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحب طبیب شاہی کی حیثیت سے کشمیر تشریف لے گئے.اور آپ نے عظیم الشان طبی خدمات انجام دیں.آپ کا وجود باجود نہ صرف کشمیری مسلمانوں کے لئے آیہ رحمت بن گیا.بلکہ پچاس سالہ معطل کے بعد تبلیغ اسلام کا موقع بھی پیدا ہو گیا.۱۲ ستمبر ۱۸۸۵ء کو مہاراجہ رنبیر سنگھ صاحب فوت ہو گئے.اور مہاراجہ پرتاب سنگھ صاحب ان کے جانشین ہوئے.کہا گیا ہے کہ یہ راجہ جی بڑے کٹر ہندو تھے.اور کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ایسے پر دہت زدہ تھے کہ پنڈتوں سے مشورہ کئے بغیر کوئی فیصلہ ہی نہ کرتے تھے.نتیجہ یہ نکلا کہ پنڈت
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 357 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیه لوگ جو مسلمانوں کے سخت دشمن اور ان پر ظلم و ستم ڈھانے کے خوگر چلے آتے تھے مگر مہاراجہ رنبیر سنگھ صاحب کی عدل پسند طبیعت کی وجہ سے وقتی طور پر ظلم آرائی سے رکے ہوئے تھے.مہاراجہ پرتاب سنگھ صاحب کے اقتدار سنبھالتے ہی ان کو شہ ملی اور وہ پوری کشادہ دلی سے " لمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دینے میں مشغول ہو گئے.چنانچہ رسالہ " پنجاب ریویو" (مارچ ۱۸۸۷ء) نے اہل کشمیر کی حالت زار کا درد ناک نقشہ کھینچتے ہوئے لکھا."کشمیر کی حالت افریقہ کے وحشیوں کی حالت سے ذرا بھی کم نہیں اور اگر اور بھی سچ پوچھنا چاہتے ہیں تو ان بد نصیب معتوبوں گویا از لی سیاہ بختوں پر تو نہ آج بلکہ ہمیشہ ہی سے آفت رہی ہے".دربار جموں و کشمیر ایک ایسا دربار ہے کہ جہاں چھانٹ چھانٹ کے متعصب لوگ بھرتی کئے جاتے ہیں.کرنل اے ڈیورنڈ اپنی کتاب "میکنگ آف اے فرنیر میں ڈوگرہ مظالم کا ذکر یوں کرتا ہے.تمام افسر اور سپاہی یا تو ڈوگرہ قوم سے ہیں یا دو سرے ہندوؤں سے کہ جنہیں کشمیریوں سے کسی قسم کی ہمدردی نہیں.سپاہی مزدوروں سے کتوں کا سا سلوک کرتے اور انہیں اس طرح پیٹتے تھے جیسے کوئی بوجھ اٹھانے والے جانوروں کو پیٹتا ہے ".ایک غیر ملکی سیاح مسٹرائی ایف نائٹ رکن مہم کرنل ڈیورنڈ نے ۱۸۹۱ء میں کشمیر کے دیہاتی مسلمانوں کی درد ناک حالت کا ذکر مندرجہ ذیل الفاظ میں کیا ہے." جب کشمیر کے بے گاری سرینگر سے گلگت تک سامان رسد لے جانے کے لئے لگائے جاتے ہیں تو ان کی حالت قابل رحم ہوتی ہے.یہ بیگاری گلگت کی سنگلاخ اور دشوار گزار راہوں پر منوں بوجھ اٹھا کر بڑے صبر کے ساتھ چلتے رہتے ہیں.اور گلگت ایسے بے برگ و گیاہ اور برفانی خطے میں (کشمیری) سامان رسد پہنچاتے ہیں.ان میں سے کئی بھوک پیاس اور تھکاوٹ سے چور ہو کر پگڈنڈیوں پر ہی جاں بحق ہو جاتے ہیں.اور سینکڑوں نیم عریانی کے باعث برفانی سردیوں کی تاب نہ لاکر مرجاتے ہیں.جب کسی شخص کو اس کے گاؤں میں بیگار کے لئے پکڑا جاتا ہے تو گھروں میں کہرام مچ جاتا ہے اس کے بیوی بچے چیختے اور چلاتے ہیں اور اس بد نصیب انسان سے چمٹ جاتے ہیں کیونکہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ اب وہ اس کی صورت دوبارہ نہیں دیکھیں گے ".جہاں حکومت کے افسروں کی طرف سے مسلمانوں پر ایسے ظلم و ستم کئے جاتے ہیں.وہاں حضرت مولوی حکیم نور الدین صاحب جیسے حامی اسلام و المسلمین اور اظہار حق میں کسی بڑی سے بڑی قوت سے بھی مرعوب نہ ہونے والے مرد خدا کو زیادہ دیر تک کہاں برداشت کیا جا سکتا تھا.چنانچہ یہی ہوا اور مہاراجہ پرتاب سنگھ صاحب نے پنڈتوں کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے ستمبر ۱۸۹۲ء کو آپ پر "گاؤ کشی"
تاریخ احمد بیت - جا 358 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ کا الزام لگا کر درون کے اندر اندر کشمیر چھوڑ دینے کا حکم دے دیا.(ملاحظہ ہو اخبار ” سرمور گزٹ ۱۷/ ستمبر ۱۸۹۲ء صفحہ ۲ کالم ۲) حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب کے ریاست سے چلے آنے کے بعد مسلمانوں پر یہ حقیقت کھلی کہ ریاست کشمیر میں مسلمانوں کو ملازمتوں سے بر طرف یا ریاست سے نکلوا دینے کی منظم سازش کی جارہی ہے.چنانچہ راولپنڈی کے مشہور اخبار چودھویں صدی " نے ۲۳ جولائی ۱۸۹۵ء کو مسلمانان کشمیر کی حق تلفی کا اصلی سبب" کے عنوان سے مضمون لکھ کر اس امر کا پہلی بار انکشاف کیا کہ ایک سوچی سمجھی سکیم کے مطابق مسلمانوں کو ان کے عہدوں اور ملازمتوں سے محروم کیا جارہا ہے.الله حضرت خلیفہ اول پر ایک انکشاف ضمنا یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ حضرت مولانا حکیم نور الدین کے ریاست کشمیر سے واپس آجانے کے ایک عرصہ بعد آپ پر اللہ تعالی کی طرف سے یہ عجیب انکشاف ہوا کہ کشمیر اور ہمالیہ کے دامن میں آباد مسلم آبادی کا اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے ساتھ گہرا تعلق ہے جس کا اظہار حضور نے مکرم سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب سے بھی فرمایا.چنانچہ حضرت شاہ صاحب کی روایت کے مطابق حضور نے ارشاد فرمایا.ساری رات میں جاگتا رہا اس غم و فکر میں کہ مسلمانوں کی نجات کیسے ہو گی.دجالی فتنہ شدت سے بڑھتا چلا جارہا ہے.اور میرے دیکھتے ہی دیکھتے مسلمانوں کی کئی حکومتیں برباد ہو گئی ہیں.پھر آپ خاموش ہو گئے.تھوڑے وقفہ کے بعد حسرت بھرے لہجے میں فرمایا.قرآن مجید میں جو آیا ہے تکار السموات يتفطرن منه و تنشق الارض و تخر الجبال هدا 0 پورا ہو گیا بہت ہی بڑا فتنہ جس سے نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آتی.پھر فرمایا خدا کا کلام پر حکمت ہوتا ہے اور اس کے اندر ہی علاج بھی سمجھا دیا جاتا ہے.یہ پہاڑی سلسلہ ہے آپ نے کوہ ہمالیہ سے شروع کرتے ہوئے بلوچستان اور ڈیرہ غازی خان کے سب پہاڑی سلسلے گئے اور فرمایا.ان پہاڑی قوموں کے اندر کوئی جائے اور ان میں زندگی پیدا کرے تو شاید ان میں حرکت پیدا ہو اور مسلمانوں کا بقیہ الباقیہ کسی طرح بچ جائے ".مہاراجہ کشمیر کی طرف سے مسلمانوں کو مرتد کرنے کا پروگرام اور اخبار چودھویں صدی " کے احتجاج کا ذکر کیا گیا ہے.اب یہ بتایا جاتا ہے کہ اس احتجاج کا رد عمل کیا ہوا.کشمیری پنڈتوں نے مسلمانوں کی زندگی تو پہلے ہی تلخ اور دو بھر بنا رکھی تھی.اب اس میں اور شدت اختیار کرلی اور
359 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ خصوصاً بکسر والوں پر بھاری ٹیکس عائد کرنے کے علاوہ دوسرے سرکاری ذرائع سے مسلمانان کشمیر کو شدہ کرنے کا پروگرام بھی بنالیا.چنانچہ ۱۹۲۳ء میں جب ہندوؤں نے بے علم مسلمان راجپوتوں (مکانہ) 1 کو مرتد کرنے کا منصوبہ تیار کیا.تو مہاراجہ کشمیر پرتاب سنگھ صاحب نے اس کی پشت پناہی کی.جو مہاراجہ اور پنڈت ریاست کشمیر سے بہت دور دوسری حکومت کے علاقوں میں شدھی کا جال بچھانے کے لئے اتنے سرگرم ہوں وہ خود اپنی ریاست و حکومت میں کیا کچھ نہ کر رہے ہوں گے.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی رائے میں تو اے - ۱۸۶۱ ء سے کشمیر میں شدھی کی سکیم بنائی گئی تھی لیکن اس سکیم کے نفاذ کا نمایاں زمانہ ۱۹۲۳ء ہی ہے جموں کے بعض اصحاب کا بیان ہے کہ شدھی کے زمانے میں مشہور مہا سبھائی لیڈر پنڈت مدن موہن مالویہ مہاراجہ کشمیر کے پاس پہنچے اور ارتداد (شدھی) کے لئے سب سے پہلے اور ھم پور کا ضلع اور پھر باقی ریاست تجویز کی.۱۱۸ جموں کے ممتاز سیاسی لیڈر جناب چوہدری غلام عباس صاحب کشمکش " میں لکھتے ہیں کہ اس وقت ریاست کے بعض علاقوں میں مسلمانوں کی حالت بڑی ناگفتہ بہ تھی.” پہاڑی علاقوں میں اس وقت ایک اجنبی کے لئے ہندو اور مسلمان میں تمیز کرنا بے حد مشکل بات تھی.ان مسلمانوں کی رسوم وضع قطع اور لباس حتی کہ عام عادات بھی ہندوانہ تھیں.گھر گھر میں مورتیاں تھیں جن کو یہ مسلمان پوجتے اور ان سے مرادیں مانگتے تھے ".جموں شہر میں جہاں ہندوؤں کی اکثریت تھی ینگ مینز ایسوسی ایشن اور انجمن اسلامیہ کے نام سے مسلمانوں کی دو انجمنیں قائم تھیں.اور سرینگر میں انجمن "نصرت الاسلام"." انجمن اسلامیہ " اور انجمن "ہمدرد اسلام " وغیرہ تھیں.مگر شدھی کے زمانے میں اس فتنہ کی روک تھام میں پر جوش اور نمایاں حصہ صرف جموں کی انجمنوں ( انجمن اسلامیہ " اور " ینگ مینز ایسوسی ایشن") ہی نے لیا.انہوں نے جماعت احمد یہ قادیان اور احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور سے علماء د مبلغین بلوائے اور ہندو دھرم کے خلاف اور اسلام کی حقانیت میں کامیاب لیکچر دلوائے چنانچہ ماہ مارچ ۱۹۲۴ء کے آخری ہفتہ میں انجمن اسلامیہ جموں کے جلسوں میں حضرت علامہ حافظ روشن علی صاحب اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے نہایت کامیاب لیکچر ہوئے.11' اگلے سال انجمن اسلامیہ جموں کے جلسہ میں حضرت علامہ حافظ روشن علی صاحب اور حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیر نے شمولیت فرمائی.حضرت حافظ صاحب کا لیکچر ۲۱ / مارچ ۱۹۲۵ء کی شام کو."حقیقت اسلام" کے موضوع پر ہوا.اور حضرت مولوی نیر صاحب نے ۲۲ / مارچ ۱۹۲۵ء کو "کتاب مبین " کے موضوع پر تقریر فرمائی - 1
جلد ۵ 360 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ "انجمن اسلامیہ" سے زیادہ "مسلم بینگ میز ایسوسی ایشن" نے اس تنظیم کے سرگرم ممبروں میں شدھی کے خلاف جدوجہد میں حصہ لیا.جناب چوہدری نواب خان صاحب والد ماجد جناب چوہدری غلام عباس صاحب) اور مستری یعقوب علی صاحب جیسے مستعد اور مخلص احمدی بھی شامل تھے.ایسوسی ایشن کے جلسے انجمن اسلامیہ کے جلسوں کی نسبت زیادہ بارونق اور دلچسپ ہوتے تھے.اور اس کے سٹیج پر بھی احمدی مبلغین نے تقریریں کیں مثلا ینگ مینز ایسوسی ایشن کے پہلے سالانہ جلسہ پر جناب چوہدری غلام عباس صاحب کی دعوت پر حضرت علامہ حافظ روشن علی صاحب نے بھی تقریر فرمائی.ย ایسوسی ایشن کا یہ پہلا جلسہ بہت کامیاب رہا.چنانچہ چوہدری غلام عباس صاحب لکھتے ہیں.مسلمانوں کے سینوں میں ایک غیر مرئی جوش و ہیجان پیدا ہو گیا.ان کی مدتوں سے بے حس رگوں میں خون تیزی سے دوڑنے لگا.جلسہ کے انتقام پر ایسوسی ایشن کی پوزیشن کو چار چاند لگ گئے اور کارکنان ایسوسی ایشن عوام کی توجہ کا مرکز اور ان کے سیاسی مستقبل کی امید بن گئے ".ان ابتدائی جلسوں کے بعد بھی جماعت احمدیہ کے مرکز قادیان سے آریوں کا رد کرنے اور حقانیت اسلام ثابت کرنے کے لئے بار بار مبلغ جاتے رہے.مثلاً ۱۹۲۶ء اور ۱۹۲۹ء میں مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری اور فاضل سنسکرت مهاشہ محمد عمر صاحب مولوی فاضل نے انتہائی مخالف ماحول میں جموں اور کوٹلی میں لیکچر دیئے.۱۹۳۰ء کے قریب جموں اور بھمبر میں حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی نے اسلامی انجمنوں کے جلسوں میں تقریریں فرما ئیں.2 جولائی ۱۹۳۱ء میں ابو البشارت مولوی عبد الغفور صاحب گیانی واحد حسین صاحب ملک عبدالرحمن صاحب خادم گجراتی بی.اے اور مولوی عبد الاحد صاحب جماعت احمدیہ پونچھ کے سالانہ جلسہ میں شامل ہوئے.۱۹۳۲ء میں ریاستی کوائف آتش فشاں پہاڑ کی مانند لاوا پھینکنے پر تیار ہو چکے تھے.آریوں نے سخت اشتعال پھیلا رکھا تھا اور ریاست کا حکمران طبقہ مسلمانوں کو کچل دینے کا تہیہ کر چکا تھا مگران مخدوش حالات کے باوجود قریشی محمد نذیر صاحب فاضل و مهاشہ محمد عمر صاحب فاضل احمدی مبلغ جموں میں پہنچے اور آریوں کے اعتراضات کی دھجیاں اڑا دیں.ان مرکزی مبلغین احمدیت کے علاوہ مولوی عبد الواحد صاحب مولوی فاضل ناسنور مولوی نظام الدین صاحب، مولوی سید محمد یوسف شاہ صاحب مولوی فاضل اور مولوی محمد حسین صاحب نے جو ریاست میں احمدی مبلغ تھے.کشمیر اور پونچھ میں فتنہ ارتداد کا مقابلہ کیا.ان مجموعی کوششوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ خدا کے فضل و کرم سے ملکانہ قوم کی طرح اہل کشمیر بھی شدھی کے سیلاب کی زد سے بچ گئے.۱۲۵
ت - جلد ۵ 361 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ کشمیر سے افغانستان تک ہندو راج قائم کرنے کی سازش حین صادرایہ پر آپ لیکن سنگھ اور کشمیر کے پنڈتوں کے ناروا و خطرناک عزائم اسی حد تک محدود نہ تھے بلکہ وہ ہندوستان کے دوسرے مہا سبھائیوں اور جن سنگھیوں کے دوش بدوش سارے ہندوستان اور کشمیر میں بھی ہندو راج قائم کرنے کی زیر دست سازش میں مصروف تھے اور یہ سازش جو پہلے اندر ہی اندر رواں دواں تھی ۱۹۲۵ء میں پوری طرح کھل کر سامنے آگئی.چنانچہ ہندو اخبار "ملاپ " لاہور نے (جو آگے چل کر مسلمانان کشمیر کی تحریک آزادی میں مہاراجہ کشمیر کی تائید اور مسلمانوں کی مخالفت میں پراپیگنڈہ کے لئے وقف ہو گیا تھا) ۱۵/ مئی ۱۹۲۵ء کو ایک مضمون شائع کیا جس میں لکھا کہ." ہم بھی ایک نیا گل کھلائیں گے اور اس گل کی مہک کابل سے کلکتہ اور کشمیر سے راس کماری تک پھیل جائے گی.یہ گل ہندو سنگھٹن اور خصوصاً پنجابی ہندوؤں کا سنگھٹن ہے اس سے ہندو ریاست قائم ہوگی پورن شدھی ہوگی اور افغانستان اور سرحد کی فتح ہو گی یہ سب معجزے اور کرامات آئندہ ظہور میں آئیں گے".نیز لکھا.” جب ہندو سنگھٹن کی طاقت سے سوراجیہ لینے کا وقت قریب آئے گا تو ہماری جو نیتی (پالیسی) مسلمانوں و عیسائیوں کی طرف ہوگی اس کا اعلان کر دیا جائے گا.اس وقت باہمی سمجھوتہ وغیرہ کی ضرورت نہیں ہو گی بلکہ ہندو مہا سبھا صرف اپنے فیصلہ کا اعلان کر دے گی کہ نئی ہندو ریاست میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے فرائض اور حقوق کیا ہوں گے.اور ان کی شدھی کی کیا شرائط ہوں گی".مہاراجہ پرتاپ سنگھ صاحب کے ستمبر ۱۹۲۵ء میں لاولد فوت ہو جانے پر جب ان کے بھتیجے سر ہری سنگھ صاحب بہادر مہاراجہ کشمیر ہوئے تو حالات پہلے سے بھی زیادہ خراب ہو گئے چنانچہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۱۹۳۱ء میں فرمایا کہ ”ہم سب کو اس بات کی امید تھی.کہ سر ہری سنگھ بہادر مہاراجہ کشمیر کے گدی نشین ہونے پر ریاست کی حالت اچھی ہو جائے گی لیکن واقعہ یہ ہے کہ وہ پہلے سے بھی بد تر ہو گئی ہے...اس وجہ سے کہ ریاست میں ایک ایسا عصر اس وقت غالب ہو رہا ہے جو نہایت ہی متعصب ہے اور آریہ راج کے قائم کرنے کے خیالی پلاؤ پکا رہا ہے.یہ عصر چونکہ مہاراجہ صاحب بہادر کے گردو پیش رہتا ہے اور ریاست کی بد قسمتی سے اس وقت ریاست کے سیاہ و
تاریخ احمدیت.جلد ۵ | ۱۲۸ 362 تحریک آزادی کشمیر ا د ر جماعت احمدیه سفید کا مالک بن رہا ہے.اس لئے مہاراجہ صاحب بہادر جموں و کشمیر بھی یا تو اس عصر کے بڑھے ہوئے نفوذ سے خوف کھا کر یا بوجہ ناواقفیت کے ان کی پالیسی کو نہ سمجھتے ہوئے کسی مخالف آواز کے سننے کے لئے تیار نہیں ہیں ".کشمیری قوم اپنی فطری صلاحیتوں اور قدرتی استعدادوں کے لحاظ سے نہایت زرخیز دماغ لے کر پیدا ہوئی ہے یہ وہ قوم ہے جس نے حضرت مولانا عبد الکریم سیالکوٹی جیسے " مسلمانوں کے لیڈر" حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ جیسے شیر خدا مولانا جلال الدین شمس جیسے مبلغ و مناظر، خواجہ کمال الدین جیسے وکیل اور مشنری، خواجہ غلام نبی رسید حبیب جیسے صحافی ڈاکٹر علامہ سر محمد اقبال جیسے نامور فلسفی و شاعر نواب سلیم اللہ خان آف ڈھاکہ جیسے محب وطن نواب اعظم یار جنگ اور مولوی چراغ علی جیسے مصنف خلیفہ رجب دین صاحب جیسے منتظم و مدیر خلیفہ عبدالحکیم جیسے صاحب طرز ادیب حکیم اجمل خاں جیسے طبیب حاذق اور شیخ دین محمد جیسے قانون دان پیدا کئے مگر مہاراجہ ہری سنگھ کی ذہنیت کیا تھی اور وہ اپنے پیشروؤں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کشمیری مسلمانوں کو کس نظر سے دیکھنے کے عادی تھے.اس کی نسبت ایک مورخ رچرڈ ٹمپل کا ایک واقعہ لکھنا ضروری ہے رچرڈ لکھتا ہے کہ ” جب میں نے مہاراجہ ہری سنگھ سے پوچھا وہ کیوں سری نگر شہر کو ایک پاک و صاف شہر بنانے کی کوشش نہیں کرتے تو انہوں نے جواب دیا کہ کشمیری لوگ گندہ رہنا پسند کرتے ہیں اسی طرح جب ایک دفعہ مہاراجہ ہری سنگھ سے پوچھا گیا کہ وہ کشمیری قوم کے نوجوانوں کو اپنی فوج میں بھرتی کیوں نہیں کرتے تو انہوں نے کہا کہ کشمیری بزدل ہیں اور جب انہیں رنبیر سنگھ کے عہد میں فوج کی تربیت دے کر لڑائی میں جانے کا حکم دیا تو انہوں نے کہا کہ ہمیں پولیس کی حفاظت ہونی چاہئے.لیکن یہ فرضی کہانی آئندہ رونما ہونے والے واقعات نے جھوٹی ثابت کر دی جبکہ فرزندان کشمیر نے آزادی کی آواز بلند کرنے کے بعد اپنی چھاتیوں پر گولیاں کھائیں اور اپنے خون سے جذبہ حریت کی مسلسل آبیاری کی.بہرحال ڈوگرہ حکومت کے مظالم کشمیری پنڈتوں کی سازش اور مہاراجہ ہری سنگھ صاحب کی ذہنیت کا مطالعہ کرنے کے بعد تحریک آزادی کشمیر کا پس منظر معلوم کرنا چنداں مشکل نہیں.ہے.
تاریخ احمدیت جلد ۵ 363 تحریک آزادی کشمیر ا د ر جماعت احمدیہ -r حواشی (حصہ دوم.پہلا باب) بین الاقوامی معلومات اور حالات حاضرہ صفحہ ۲۳۳ از جناب محمد اکرم صاحب رہبر سینیٹر سب ایڈیٹر روزنامہ نوائے وقت (لاہور) طبع اول ۱۹۷۴ء و تاریخ اقوام کشمیر (مولفه مورخ کشمیر جناب منشی محمد دین صاحب فوق صفحه ۱۲۸ طبع اول جون ۱۹۳۴ تمدن ہند صفحه ۳۷-۳۸ عرب دنیا صفحه ۷۱ ( از جناب محی الدین الوائی ایم.اے الا زہر قاہرہ ناشر مکتبہ برہان دیلی سن اشاعت دسمبر ۱۹۷۱ء- ۱۹۳۱ء کی مردم شماری کے تفصیلی اعداد و شمار کے لئے ملاحظہ ہو مولوی حشمت اللہ صاحب لکھنوی کی کتاب مختصر تاریخ جموں د ریاستہائے مفتوحہ مہاراجہ گلاب سنگھ بہادر مطبوعہ ۱۹۳۹ء صفحہ ۱۳۲ ہفت روزہ نصرت لاہو ر کشمیر نمبر صفحه ۸۱ - مقدمه تاریخ بند قدیم جلد اول ( از اکبر شاہ خاں نجیب آبادی) صفحه ۱۰۶-۱۰۸ مطبوعہ جولائی ۱۹۳۳ء.۷ مقدمه تاریخ بهند قدیم جلد اول ( از اکبر شاہ خان نجیب آبادی) صفحه ۱۴۴ -A قدیم تاریخ ہند صفحہ 1- از ونیسنٹ اے سمتھ ایم.اے ترجمہ مولوی محمد جمیل الر حمن صاحب ایم اے.ایم آر اے ایس.مددگار پر و فیسر تاریخ السلام کلیه جامعہ عثمانیہ منہ اشاعت ۱۹۲۲ء دار الطبع جامعہ عثمانیہ حیدر آباد دکن ۱۰۹ رسالہ زمانہ کانپور ستمبر اکتوبر ۱۹۱۴ء بحوالہ مقدمه تاریخ بند قدیم مولفه اکبر شاہ خان صاحب نجیب آبادی جلد اول صفحه ۱۰۹ مکمل راج ترنگنی (مترجم تھا کر اچھر چند صاحب شاہ پوری) صفحه ۲۳-۲۴- 11- ۱ اصل کتاب سنسکرت نظم میں اور آٹھ ترنگ (جلدوں) میں ہے جس کا نسخہ جناب فوق صاحب کے بیان کے مطابق کشمیر کے علاوہ جے پوریا جودھ پور میں بھی مل سکتا ہے.اس کتاب کے اردو اور انگریزی تراجم ہو چکے ہیں نھا کر اچھر چند شاہ پوری نے ۱۹۱۲ ء میں عمل راج ترنگنی کے نام سے اردو ترجمہ شائع کیا تھا اور ایم.اے سٹائن صاحب نے انگریزی میں.۱۳ ۱۴- اردو لٹریچر میں رنگا گر سے متعارف کرانے والے منشی محمد الدین صاحب فوق تھے.منشی صاحب فروری ۱۸۸۷ء میں کوٹلی ہر نارائن ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے اور ۱۴/ ستمبر ۱۹۳۵ء کو وفات پائی بڑے فاضل و محقق نغز گو شاعر کامیاب صحافی اور مایہ ناز تاریخ دان اور صاحب نظر مولف تھے.جماعت احمدیہ سے ان کو خاص انس تھا اور اس کے کارناموں کے بے حد مداح تھے آپ نے اپنے پیچھے 40 کتابیں یادگار چھوڑیں جن میں سے ۸۱ شائع ہو چکی ہیں کشمیر کی تاریخ آپ کا سب سے محبوب مضمون تھا.(رساله نقوش لاہور نمبر صفحه ۹۹۷ تا ۱۰۰۳) -۱۵ ملحها از کتاب مکمل تاریخ کشمیر جلد اول صفحه ۱ تا ۲۸ از منشی محمد الدین صاحب فوق) - مکمل تاریخ کشمیر جلد اول صفحه ۱۸-۱۹ از جناب منشی محمد الدین صاحب فوق) ۱۷ تاریخ اقوام عالم از مرتضی احمد خاں) صفحه ۱۹۰ مطبوعہ مارچ ۱۹۳۶ء - شائع کردہ مجلس ترقی ادب اردو - کلب روڈ لاہور.۱۸- تاریخ ہند و پاک صفحه ۴۱-۴۲- -19 -⭑ تاریخ بند و پاک صفحه ۷۶ قدیم تاریخ ہند صفحہ ۲۲۶٬۲۲۵ ۲۲۷ ونیسنٹ اے سمتھ ) ۲۱ تمدن بند اردو (بان گستاولی) صفحه ۳۵۲ و ۳۶۳- -۲۲ قدیم تاریخ ہند از دنیسٹ اسے معتمد ایم اے (ترجمہ) صفحه ۳۵۵ ۲۳ کرو شتی طرز تحریر میں اس قوم کا نام کشن لکھا ہے مگر ساسانی اور چینی شہادات بتاتی ہیں کہ یہ نام کشان تھا.قدیم تاریخ ہند از ونسنٹ اے سمتم مترجم - صفحہ ۳۷۶ حاشیہ) -۲۴ مقدمه تاریخ هند قدیم صفحه ۱۹۲ از اکبر شاہ خان نجیب آبادی)
تاریخ احمدیت جلد ۵ 364 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ ۲۵ ملاحظہ ہو قدیم تاریخ ہند از ونسنٹ اے تھے.ترجمہ حاشیہ صفحہ ۳۷۶) قدیم تاریخ ہند (ترجمہ) صفحه ۳۷۷ ۲۷ قدیم تاریخ بند - اردو از ونسنٹ اے سمتھ ایم.اے صفحہ ۳۹) ۲۸ قدیم تاریخ ہند صفحه ۳۹ ۳۹۲ حاشیه -۲۹ قدیم تاریخ ہند صفحه ۳۹ ۳۹۲ حاشیه قدیم تاریخ ہند صفحه ۴۰۳-۲۰۵ ۳۱ قدیم تاریخ بند ارونسنٹ اے سمتھ) مترجم صفحہ ۴۱۰ -۳۲ مقدمه تاریخ ہند قدیم صفحہ ۷۹ ا ( از اکبر شاہ خان نجیب آبادی) ۳۳ قدیم تاریخ هند ( ونسنٹ اے سمتھ ) اردو - صفحہ ۴۱۱.انسائیکلو پیڈیا تاریخ عالم جلد دوم صفحه ۵۸۰۵۲ و تالیف ایم ایل اینگر ترجمه و تهذیب غلام رسول صاحب میرا شائع کردہ شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور - اشاعت اول ۱۹۵۹ء.۴۵ تاریخ بائیبل صفحه ۱۳۷۵ از مسٹر بلیکی) (ترجمه) ۳۶ ۳۷ اس سلسلہ میں تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب مسیح ہندوستان میں باب چهارم فصل سوم حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی کتاب تحقیق درباره قبر مسیح اور حیات الصحیح و دفاته از حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اور خواجہ نذیر احمد صاحب کی کتاب Earth مطالعہ ہے.Jesus in Heaven on ملاحظہ ہو تاریخ کلیسیا مصنفہ پادری برکت اللہ صاحب ایم.اے صفحہ ۱۵۷ بحوالہ حضرت مسیح مشرق میں صفحہ ۴.۳۹ بحوالہ کتاب صحیح ہندوستان میں از سید نا حضرت مسیح موعود طبع اول صفحه ۱۵ و ۹۲ - ۹۳ و ۴۰ یعنی یسوع- (ناقل) ۴۱ رسالہ نصرت لاہور ۲۸/ فروری ۱۹۶۰ و صفحه ۸۰-۸۲- ۴۲ روزگار فقیر صفحه ۱۰۲ جلد دوم (مولفه جناب فقیر سید وحید الدین صاحب) طبع اول نومبر ۱۹۷۴ء ۴۳ امام عالم عارف باللہ علامہ محمد بن الوليد القرى الطرطوشی اپنی شہرہ آفاق کتاب سراج الملوک مطبع خیر یہ مصر ۱۳۰۶ء میں لکھتے ہیں.این عیسی روح الله و كلمته راس الزاهدین و امام السائحين (صفحہ ٦) اور لسان العرب میں لکھا ہے کہ قیل سمی عیسی بمسيح لانه كان سائحا في الارض یعنی بیٹی کا نام صحیح اس لئے رکھا گیا کہ وہ زمین میں سیر کرتے رہے تھے.-۴۴.تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو.حضرت مریم کا سفر کشمیر (از جناب محمد اسد اللہ صاحب قریشی فاضل کشمیری) ۴۵- یوحنا باب ۱۰ آیت ۱۹ انجیلی بیان کے مطابق دن کا آخری حصہ ہے.۴۷.یہ خط ۱۸۷۳ء میں ابی سینیا کی ایک تجارتی کمپنی کے ممبر کو شہر اسکندریہ کے ایک قدیم یونانی راہب خانے سے دستیاب ہوا.اور اس کا انگریزی ترجمہ انڈو امریکن بک کمپنی شکا گونے The Cruxifixion by AN Eye witness" کے نام سے ۱۹۰۷ء - میں شائع کر دیا تھا.۴۸.بائبل کے مشہور سکالری- آری گریگری کو انجیل مرقس کا ایک نسخہ ملک یونان میں کوہ ایتھاس سے ۱۸۸۷ء میں ملا.جس کی کتابت نویں صدی عیسوی میں ہوئی تھی.اس نسخہ کے اختتام پر یہ ذکر ہے کہ حضرت مسیح صلیب سے اتارے جانے کے بعد جس قبر میں رکھے گئے تھے اس سے آپ زندہ باہر نکل آئے تھے اور شاگردوں کو یہ پیغام دیا تھا کہ وہ کھیل میں آکر آپ سے ملیں.اس ضمن میں لکھا ہے کہ ان واقعات کے بعد یسوع خود بھی مشرق سے ظاہر ہوا اور اس نے ان کی معرفت (یعنی حواریوں کے ذریعہ سے) مغرب تک حیات جاوید کی پاک اور لازوال منادی پھیلائی.Canon and text of the new testament) (By CR Greery P512 تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو.انجیل مرق کا آخری ورق (مولفه محقق عیسائیت جناب شیخ عبد القادر
یت - جلد ۵ صاحب لائلپوری چوبرجی.لاہور) 365 -۴۹ کنز العمال جلد ۲ صفحه ۳۴ مطبوعه ۱۳۱۲ھ حیدر آباد د کن تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ ۵۰ ملاحظہ ہو کتاب صحائف قمران صفحه ۷۷-۷۹- از محقق عیسائیت شیخ عبد القادر صاحب لائلپوری - طبع اول دسمبر ۱۹۹۰ء.-۵۱ مسیح کشمیر میں (از محمد اسد اللہ صاحب قریشی صفحہ ۶۷۶۶ ۵۲ متی باب ۵- آیت ۱۷ ۵۳- مسیح ہندوستان میں صفحہ ۷۸-۷۹- از سید نا حضرت مسیح موعود علیه السلام) ۵۴ مسیح ہندوستان میں صفحہ ۵۱ ( از سید نا حضرت مسیح موعود علیه السلام) ۵۵ - الکمال الدین فی اثبات الغیته و کشف الحيره (مولفه الشيخ السعيد ابی جعفر محمد بن علی بن الحسن بن موسی بن بابویہ القمی) صفحه ۲۴۴ و ۲۷۲ ۵۶ ايضا صفحه ۳۶۰ ۵۷ کنز العمال جلد ۶ صفحه ۲۰ او طبرانی بروایت حضرت فاطمتہ الزہراء ۵۸ پادری بہت ایم.اے نے اپنی کتاب ہندوستان کی تاریخ میں ایک روایت لکھی ہے کہ تھو ما حواری کا شمالی ہندوستان میں جانا بھی ثابت ہے.ایک روایت میں ہے کہ تھو ما حواری نے حضرت مریم صدیقہ کے سامنے شمال مشرقی ہند کے علاقہ میں اپنے تبلیغی حالات بیان کئے.مسز فرد ایک عیسائی خاتون کی (جو مدراس میں تھو ما حواری کے مقبرہ پر متعین تھیں) ایک روایت ہے کہ حضرت عینی اور ان کی ماں سب ہندوستان ہی میں تھے.(جلد اول صفحہ (۴۳) بحوالہ حضرت مسیح کشمیر میں صفحہ ۳۹ از جناب قریشی محمد اسد اللہ صاحب فاضل کا شمیری) ۵۹ طبقات کبیر جلد ۳ صفحه ۲۶ مطبوع ۵۱۳۲۱ ۲۰ تاریخ طبری جلد ۲ صفحہ ۳۹ے (مطبوعه ۱۸۸۱-۱۸۸۲ء) انسائیکلو پیڈیا میں ان تصاویر کے ساتھ مندرجہ ذیل نوٹ شائع کیا گیا ہے.یہ تصویر روم کے مقدس پطرس کے گرجا میں قدیم یادگاروں میں رکھی ہوئی ہے جو کہ ایک کپڑے پر بنائی گئی ہے تصویر کی تاریخ تخقینی طور پر دوسری صدی عیسوی تک پیچھے جاتی ہے.-۶۲ اصول کافی کتاب الحجه صفحه ۲۱۵ مطبوعه ایران (کتاب التوحید) چنانچہ دیسی پادری برکت اللہ صاحب ایم.اے لکھتے ہیں.حال ہی میں شمالی ہندوستان سے بھی اس قسم کی ملیس ملی ہیں یہ ملیس کشمیر کی قدیم قبروں اور پہاڑوں کی وادیوں سے دستیاب ہوئی ہیں.ان کی بناوٹ ان کے نقش و نگار اور الواح کی عبارات کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ملیس نسطوری ہیں اور قبریں نسطوری عیسائیوں کی ہیں یہ امور ثابت کرتے ہیں کہ قدیم صدیوں میں کشمیر میں بھی عیسائی کلیسا ئیں جابجا قائم تھیں.اور وہاں نسطوری مسیحی بکثرت آباد تھے.( تاریخ کلیسائے ہند صفحہ ۱۵۷) یہ علم لسانیات کا مسلمہ قاعدہ ہے کہ ایک زبان کا لفظ جب دوسری زبان میں آتا ہے تو اس میں اکثر کچھ نہ کچھ تغیر پیدا ہو جاتا ہے.چنانچہ میکیس مولر نے اپنی کتاب سیکرڈ آف دی ایسٹ جلد میں اس کی نظیر کے طور پر مثالیں بھی دی ہیں.۶۵ یه کتاب ۱۱۵ء میں تصنیف ہوئی اور ۱۹۱۰ ء میں مہاراجہ کشمیر سر پر تاپ سنگھ کے حکم سے بھیتی میں بزبان سنسکرت شائع ہوئی.اس کا ترجمہ شیلو ناتھ شاستری دروان سے کرایا گیا.باہر سے آنے والی قوم ۶۷- سری نگر سے دس میل کے فاصلہ پر ایک خوبصورت مقام ہے.۶۸ جیمز پر نسپ لکھتے ہیں راجہ شالبا بن ۷۸ ء میں کشمیر سے رخصت ہوئے.حضرت مسیح کشمیر میں صفحہ ۴۶) ۲۹ مها بهوشیه پران صفحه ۲۸۰ پر ب ۳ ادھیائے ۲ شلوک ۲۱ تا ۳۱ ۷.متی کا لفظ بھی معنی خیز ہے.ا مزید وضاحت کے لئے ملاحظہ ہو کتاب حضرت مسیح کشمیر میں صفحہ ۵۳ تا ۶۰- ۷۲ ماہنامہ پختر ابو ۱۹۳۶ء بزبان بنگہ (بحوالہ حضرت مسیح کشمیر میں صفحہ ۴۶ ۴۷ مولفہ مولانا محمد اسد اللہ صاحب قریشی الکاشمیری)
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 366 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ ۷۳ کتاب صحیح بلاد شرقیہ میں تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۷۰ء جناب مولانا شیخ عبد القادر صاحب فاضل) صفحه ۸۳-۸۶ ۷۴ ملحها از کتاب صحیح بلاد شرقیہ میں صفحہ ۷۰-۰۷۳ ۷۵ کتاب اگر مسیح صلیب پر قوت نہیں ہوا.صفحہ اے بحوالہ Where did jesus die (مولفہ مولانا جلال الدین صاحب شمس) خدا کی سلطنت صفحه نے ۹ مطبوعہ ۶۱۹۱۵ ۷۷.قوسین میں دیئے ہوئے الفاظ کرم خوردہ تھے جو مشکل سے پڑھے گئے.۷۸ جناب خواجہ نذیر احمد صاحب نے اپنی کتاب " Earth Jesus in IIcaven on" کے صفحہ ۳۸۲ پر اس کا پہلی بار عکس شائع کیا.۷۹.جہم بن سامیہ علافیوں کے ساتھ عراق سے ہندوستان میں آیا.۸۰ بان گستاولی فرانسیسی محقق نے اپنی کتاب تمدن عرب میں لکھا ہے کہ عربوں نے اپنی حکومت قائم ہو جانے کے ساتھ ہی ہندوستان سے تجارتی تعلقات کو بہت بڑی وسعت اور ترقی دی.ہندوستان پہنچنے کے لئے بحری اور بری دونوں راستے اختیار کئے.بری راستہ سے قافلے دمشق وبغداد و سمرقند و کشمیر سے ہوتے ہوئے ہندوستان پہنچتے تھے.(تمدن عرب صفحه ۵۰۳) عرب کشمیری شالیں مسالہ جات عطریات اور بیش بہا لکڑیاں برآمد کرتے تھے (صفحہ ۵۰۴) پندرھویں صدی عیسوی کی فارسی کتاب ختائی نامہ میں ایک مسلمان تاجر نے لکھا ہے کہ عرب کشمیر کے راستہ سے چین تک تجارت کیا کرتے تھے.(صفحہ ۵۰۵) ہندو روایات کے مطابق ۷۰۸ ء سے ۷۱۵ تک کشمیر کے یکے بعد دیگرے راجہ تار پیڈ اور راجہ للتات دو راجے گزرے ہیں.مقدم الذکر کا عہد حکومت ۷ ء سے ۷۱۵ء تک رہا.موخر الذکر راجہ کا دور حکومت ۷۱۵ ء سے ۶۷۵۲ تک بیان کیا جاتا ہے بعض قرائن سے جسم بن سامہ کی کشمیر میں آمد رمضان ۹۳ھ مطابق جون ۷۱۲ء کے بعد ہوئی ہے.(مکمل تاریخ کشمیر جلد اول صفحہ ۱۹۵) ۸۲ هیچ نامه صفحه ۲۰۳ تألیف علی بن حامد ابو بکر الکوفی سنہ تالیف ۵۶۱۳ - ناشر مجلس مخطوطات- فارسیه حیدر آباد دکن سنه اشاعت ۱۹۳۹ء.اس کتاب کا اصل نام فتح نامہ ہے.۸۳ بحواله تاریخ اشاعت اسلام (مولفه جناب شیخ محمد اسمعیل صاحب پانی پتی) صفحہ ۵۶ بنه اشاعت ۱۹۶۲ء- تا شر شیخ غلام علی اینڈ سنٹر لاہور ۸۴ مسلم ثقافت ہندوستان میں صفحہ ۲۷۱-۱۳۷۲ مولفہ جناب مولانا عبد الحمید صاحب سالک) طبع اول ۱۹۵۷ء ناشر ادارہ ثقافت -AO اسلامیہ لاہور.جناب شیخ محمد اکرام صاحب ایم.اے کی کتاب آپ کو ٹر کے معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں اسکے دکے مسلمان کشمیر میں آتے جاتے رہتے تھے اور راجہ ہرش کے عہد حکومت (۱۱۰۳ء تا ۱۱۴ء) میں تو بعض مسلمان کشمیری فوج میں ملازم بھی رہے ہیں.صفحہ ۴۲۶ حاشیه) آپ سوات سے ۱۳۱۵ء میں کشمیر تشریف لائے.اور شاہی دربار تک پہنچے تھے اور کشمیر کے سیاسی تعلقات مسلمانوں سے قائم ہوئے.( آب کوثر صفحہ ۴۲۶-۴۲۷) ۸۷- خزینۃ الاصفیا میں لکھا ہے کہ حضرت بلبل شاہ کا اصل نام سید شرف الدین تھا اور اسلام کشمیر میں انہی کی بدولت پھیلاوہ شاہ نعمت اللہ فارسی کے مرید اور سہروردی سلسلہ کے بزرگ تھے.(بحوالہ آپ کو ثر صفحہ ۴۲۷) ۸۸- مکمل تاریخ کشمیر ( صفحه ۱۲-۱۳) مکمل تاریخ کشمیر جلد دوم صفحه ۱۳-۱۴- آپ کو ٹر میں اس کی بجائے ۱۳۶۹ء کا سال لکھا ہے.-۹۱ مکمل تاریخ کشمیر جلد دوم صفحه ۰۲۱ ۲۳- تاریخ مذکورہ کے مطابق آپ کے یہ سب مرید سادات کرام سے تھے.۹۲ تاریخ اشاعت اسلام مولفہ جناب شیخ محمد اسمعیل صاحب پانی پتی (صفحہ ۵۲۰-۵۷) ۰۹۳ تاریخ اشاعت اسلام مولفه جناب شیخ محمد اسمعیل صاحب پانی پتی.(صفحہ ۵۶-۵۶۲) ۹۴ ملخصا از کتاب مکمل تاریخ کشمیر جلد دوم صفحه ۳۳-۵۵-
تاریخ احمد بیست - جلد ۵ 367 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ ۹۵ شباب کشمیر صفحه ۲۵۰ تا ۱۳۸۸ مولفه مورخ کشمیر منشی محمد الدین صاحب فوق) ۹۶ تاریخ اشاعت اسلام صفحہ ۵۶۳ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تبلیغ سے ایک فاضل برہمن مسلمان ہوا جس کا نام شیخ عبد اللہ رکھا گیا.کشمیر کے موجودہ لیڈر شیر کشمیر شیخ عبد الله صاحب ان کے پوتے کے ہوتے ہیں.۹۷ مزید ناموں کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ اشاعت اسلام صفحه ۵۶۲-۱۵۶۳ از شیخ محمد اسمعیل صاحب پانی پتی خزیتہ الاصفیاء (جلد دوم) مولفہ مفتی رحیم اللہ قریشی اسدی الہاشمی اللہ ہوری.مکمل تاریخ کشمیر جلد دوم صفحه ۱۲ مولفه مورخ کشمیر نشی محمد الدین صاحب فوق ۹۹ ( منقول از کتاب کا شمیر مصنفہ شری گوپال نیو ٹیا صفحہ ۱۱۷) بحوالہ کتاب مسئلہ کشمیر اور ہندو مماحبھائی صفحہ ۲۷ مولفہ ملک فضل حسین صاحب 100 كواله رساله نصرت ہفت روزه صفحه ۴۹- کشمیر نمبر (۲۸/ فروری ۱۹۶۰ء) 101 بحوالہ کشمیر اور جونا گڑھ کی کہانی صفحہ ۱۳۰۷ از جناب رئیس احمد صاحب جعفری) ۱۰۲ بحوالہ رسالہ نصرت لاہور صفحہ اے - THIS IS KASHMIR ۱۰۳ بحواله مختصر تاریخ کشمیر از الله بخش صاحب یوسفی شائع کردہ محمد علی ایجو کیشنل سوسائٹی یوسفی ہاؤس کراچی نمبرہ.۱۰- خوں نا به کشمیر مولفه جناب فضل احمد صاحب صدیقی ایم.اے مدیر ڈان شائع کردہ ادارہ ادب فریئر اسٹریٹ صدر کراچی نمبر ۲) ۱۰۵- یہی وہ زمانہ تھا جبکہ سینکٹروں دوسرے خاندانوں کی طرح حاجی میر شمس الدین صاحب (لائف پریذیڈنٹ انجمن حمایت اسلام) میاں کریم بخش صاحب رئیس اعظم، شیخ حسن دین صاحب ڈار (مدیر حمایت اسلام) کے خاندان کے علاوہ گنائی خاندان لاہور میں پناہ گزین ہوا.خواجہ غلام محی الدین صاحب مالک کشمیر اخبار کے خاندان نے امر تسر میں بودوباش اختیار کرلی.ڈھاکہ کا مشہور توالی خاندان (جس سے خواجہ نصرت جنگ نائب ناظم کا تعلق تھا، سکھوں کے مظالم سے تنگ آکر بنگال میں چلا گیا.اسی طرح سیالکوٹ لاہور اور امرتسر میں آباد پال قوم کو بھی ان پر آشوب ایام میں کشمیر کو خیر باد کہنا پڑا.(تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو منشی محمد الدین صاحب فوق کی کتاب تاریخ اقوام کشمیر) ۱۰ کشمیر کے حالات از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب شائع کردہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی طبع اول صفحه ۳-۵- اشاعت اول اگست ۱۹۳۱ء مطبوعہ قادیان- ۱۰۷ هنگامه کشمیر صفحه ۱۸ بحوالہ شیر کشمیر مصنفہ کلیم اختر صاحب صفحه ۹۲ تا ۹۳) شائع کردہ سندھ ساگر اکاڈمی لاہور طبع اول ۱۹۶۳ء.-۱۰۸ کشمیری مسلمانوں کی ہجرت کا جو سلسلہ سکھ عہد حکومت میں شروع ہوا تھاوہ ڈوگرہ راج کے ابتداء میں بھی جاری رہا.چنانچہ ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کے جد امجد شیخ محمد رفیق صاحب بھی دوسرے بہت سے کشمیری خاندانوں کی طرح ۱۸۵۷ء کے بعد ہجرت کر کے سیالکوٹ میں آبسے تھے ڈار اور گورگانی خاندان جو تقسیم ہند سے پہلے امر تسر میں آباد تھا وہ بھی اسی دور میں ترک کشمیر پر مجبور ہوا تھا.(ذکر اقبال صفحہ ۷-۱۸ مولقہ مولانا عبد المجید صاحب سالک و تاریخ اقوام کشمیر (جلد اول) ۱۹ صحیفہ زریں صفحہ سے مطبوعہ نول کشور لکھنو ۱۹۰۲ء.-11.تاریخ احمدیت جلد چهارم صفحه ۹۱ - ( طبع اول) بحوالہ مختصر تاریخ کشمیر ( از اللہ بخش صاحب یوسفی) صفحه ۶۱ - ۱۲ شیر کشمیر مصنف جناب کلیم اختر صاحب (طابع.سندھ ساگر اکاڑی لاہور ۸ صفحه ۹۴-۹۵) تاریخ احمدیت جلد چهارم صفحه ۱۳۶ تا ۴۱ میں یہ واقعہ با تفصیل آچکا ہے.۱۱۴ تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحه ۱۴۰-۱۴۱) اس اخبار کے بعض متعلقہ پر چے خلافت لائبریری صد را انجمن احمد یہ ربوہ میں محفوظ ہیں) ۱۱۵ سوره مریم : ۶۶) ۹ روزنامه الفضل قادیان ۱۶ جون ۱۹۳۵ء صفحہ ۷- ۱۷ تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحہ ۳۲۰ پر یہ واقعہ آچکا ہے.
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 368 ۱۱۸ کشمکش صفحه ۳۸-۳۹- مولفہ چوہدری غلام عباس صاحب ( شائع کردہ اردو اکیڈمی لاہور) -11 اخبار الفضل یکم اپریل ۱۹۲۴ء و الفرقان ربوہ دسمبر ۱۹۶۰ء صفحہ ۳۴-۳۵ میں تفصیل درج ہے.۱۳۰- الفضل ۹ / اپریل ۱۹۲۵ء صفحه اکالم :- ۱۳۱- الفرقان دسمبر ۱۹۶۰ء صفحه ۳۵- تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ ۱۲۲ کشمکش صفحه ۱۳۸۴۷ از جناب چوہدری غلام عباس صاحب ناشرار دواکیڈی لوہاری دروازہ لاہور) ۱۳۳- الفضل ۹ / اگست ۱۹۲۶ء صفحه ۴ و الفضل ۵ / اپریل ۱۹۲۹ء صفحہ ۱ ۱۲۴ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحه ۱۷۱ ۱۲۵- الفضل ۷ / جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ اکالم - ۱۲۶- ملاحظہ ہو کتاب ہندو راج کے منصوبے (از ملک فضل حسین صاحب (احمدی مهاجر) ۱۲۷- بحوالہ مسئلہ کشمیر اور ہندو مہاسبھائی.صفحہ ۲۱۲-۲۱۳ مطبوعہ نمبر ۱۹۳۲ء ( از مکرم جناب مهاشه ملک فضل حسین صاحب) -۱۲۸ الفضل ۱۱۶ جون ۱۹۳۱ء صفحه ۳ کالم ۲-۳- ۱۳۹ کشمیر کی تحریک آزادی صفحه ۷ ۱۲ از میر عبد العزیز صاحب بی-اے)
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 369 تحریک آزادی کشمیر ا د ر جماعت احمدیہ دو سرا باب (فصل اول) تحریک آزادی کشمیر کے مختلف ابتدائی دور مسلمانان کشمیر پر مظالم کے خونچکاں واقعات حضرت امام جماعت احمدیہ کے پر زور احتجاجی مضامین اور آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا قیام- (از ستمبر ۱۸۴ء تا ۲۵ جولائی ۱۹۳۱) تحریک آزادی کا پہلا دور از ۱۸۴ ۱۸۲) ۱۸۹۲ء تا ۱۹۰۸ء) گزشتہ باب میں ذکر آچکا ہے کہ حضرت حکیم مولانا پنجاب کے مسلم پریس کا احتجاج نور الدین صاحب کو ستمبر ۱۸۹۲ء میں مہاراجہ پر تاپ سنگھ صاحب کے حکم پر ریاست کشمیر چھوڑنا پڑی.آپ کے بعد ایک سوچی سمجھی سکیم کے مطابق مسلمان ملازمین کو بر طرف کیا جانے لگا.چنانچہ راولپنڈی کے اخبار ” چودھویں صدی " نے ۲۳ / جولائی ۱۸۹۵ء کو پہلی بار ڈوگرہ حکومت کی در پردہ سازش کا انکشاف کرتے ہوئے لکھا:."جموں اور کشمیر کی حکومت میں مہاراجہ گلاب سنگھ کا زمانہ تو ایک نہایت پر آشوب زمانہ تھا.ان کے زمانہ حکومت سے کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا.البتہ مہاراجہ رنبیر سنگھ صاحب کا عہد حکومت ایک پر امن زمانہ تھا.اور طرز حکومت کی ایک مستقل بناء پڑ گئی تھی.اور ہر ایک قسم کی ترقیاں ہوئی تھیں جو سب سے بڑی خوبی مہاراجہ رنبیر سنگھ صاحب کی حکومت میں تھی وہ یہ تھی کہ وہ اپنی رعایا کے ہر ایک فرقہ کے ساتھ ان کے حقوق کی مقدور کے مطابق سلوک کرنے کی طرف مائل رہتے تھے اپنی مسلمان رعایا سے بھی ایسی ہی الفت رکھتے تھے جیسی ہندو رعایا سے اور اگر چہ ان کے نزدیک ہندو اور مسلمانوں میں ان کی رعایا ہونے کے اعتبار سے کوئی فرق نہ تھا لیکن ایسا معلوم ہو تا تھا کہ وہ مسلمانوں کو اپنی ملازمت میں رکھنا زیادہ پسند کرتے تھے اس سبب سے اچھے اچھے اور جلیل القدر عہدوں پر اکثر مسلمان ملازم دکھائی دیتے تھے اور ادنی ملازمت میں بھی بے شمار مسلمان تھے اس وقت ہمارے پاس کوئی فہرست تو اس زمانہ کے
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 370 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ ملازموں کی نہیں ہے لیکن ہم حافظہ سے بہت سے نام گنارے سکتے ہیں (اس کے بعد بارہ مسلمانوں کے نام لکھ کر تیرھواں نام حضرت مولوی نور الدین صاحب حکیم اعلیٰ " کا لکھا اور آپ کے بعد چند نام مزید لکھنے کے بعد تحریر کیا کہ مولوی نور الدین صاحب حکیم اعلیٰ وغیرہ جیسے بزرگ اور قدیم اور ہر دلعزیز عمدہ دار کی نسبت صرف یہ امر قابل بیان ہے کہ ان کے نکالنے کے واسطے گاؤ کشی کا الزام تجویز کیا گیا تھا کیونکہ اور کوئی بہانہ نہیں مل سکتا تھا اخبار چودھویں صدی نے اس مضمون کے بعد اہل کشمیر کی حق تلفیوں پر مسلسل مضامین لکھے جن میں ریاستی اعداد و شمار سے اصل حقائق پر روشنی ڈالی اور ان مسلمان ملازموں کی فہرستیں شائع کیں جو حکومت کشمیر کی ظالمانہ کارروائی کا شکار ہوئے تھے.اخبار چودھویں صدی کے بعد جناب تاج الدین صاحب تاج نے ۱۹۰۱ء میں گلشن کشمیر کے نام سے کشمیر کے صحیح حالات کی ترجمانی کے لئے ایک ہفت روزہ شروع کیا.۱۹۰۶ء میں منشی محمد الدین صاحب فوق نے رسالہ کشمیری میگزین جاری کیا.۱۹۱۳ء سے یہ رسالہ کشمیری اخبار کی صورت میں ۱۹۳۴ء تک چھپتا رہا.اس رسالہ و اخبار نے باشندگان کشمیر کی آواز بلند کرنے میں قریباً ربع صدی تک نا قابل فراموش خدمات سرانجام دیں.ان اخبارات کے بعد تحریک آزادی کشمیر میں جن اخباروں نے نمایاں حصہ لیا ان میں اخبار انقلاب- مسلم آؤٹ لک - سیاست - سن رائز (لاہور) - جماعت احمدیہ کا انگریزی ترجهان اخبار الفضل اور اخبار فاروق ( قادیان) خاص طور پر قابل ذکر ہیں اور خصوصاً الفضل - ( قادیان) نے تو اس سلسلہ میں ایسا مستند اور مفصل ریکارڈ محفوظ کر دیا ہے کہ تحریک آزادی کشمیر پر قلم اٹھانے والا کوئی مورخ اس سے بے نیاز نہیں ہو سکتا !! شروع شروع میں صحافت نے جو اہل کشمیر کے تحفظ حقوق کے لئے انجمنوں کا قیام آواز بلند کی اس پر عملی قدم اٹھانے کے لئے مجلس کشمیری مسلمانان لاہور کے نام سے ۱۸۹۶ء میں پہلی انجمن قائم ہوئی جس کے بانیوں میں سے میاں کریم بخش صاحب رئیس اعظم لاہور ان کے فرزندان میاں شمس الدین صاحب و میاں نظام الدین صاحب و میاں جلال الدین صاحب مولوی احمد دین صاحب بی.اے پلیڈ ر - خواجہ رحیم بخش صاحب بی.اے اور ڈاکٹر محمد اقبال صاحب تھے اس مجلس نے ڈیڑھ سال تک کام کیا.یکم دسمبر ۱۹۰۱ء کو اس تنظیم کا احیاء "مسلم کشمیری کانفرنس" کے نام سے ہوا.اور اس کے جنرل سیکرٹری میاں شمس الدین صاحب اور پریذیڈنٹ میاں کریم بخش صاحب مقرر ہوئے.1911 ء میں آل انڈیا مسلم کشمیری کا نفرنس" کی بنیاد پڑی جو ملک گیر تنظیم تھی جس نے جلد ہی ملک گیر صورت
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 371 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ اختیار کرلی اور اس کے اجلاس لاہور امرتسر گوجرانوالہ سیالکوٹ ، گجرات ، جہلم اور راولپنڈی میں بھی ہوئے.اور ۱۹۱۱ء سے ۱۹۲۳ء تک خان بہادر شیخ غلام صادق صاحب آنریری اکسٹرا اسٹنٹ کمشنر امرت سر خان بهادر خواجہ یوسف شاہ صاحب ممبر لیجسلیٹو اسمبلی پنجاب نواب سربلند جنگ بہادر حاجی مولوی حمید اللہ خان صاحب سابق چیف جسٹس حیدر آباد دکن.خان بہادر نواب خواجہ محمد اعظم خان صاحب رئیس اعظم ڈھا کہ میاں فیروزالدین صاحب آنریری مجسٹریٹ و رئیس اعظم امرت سرادر شیخ عطا محمد صاحب بی.اے ایل ایل بی وکیل پبلک پراسیکیوٹر گجرات رئیس اعظم گوجرانوالہ نے ان اجلاسوں کی بالترتیب صدارت کی ۱۹۲۴ء میں یہ مجلس سرینگر میں اپنا اجلاس کرنا چاہتی تھی مگر معتمد وزیر امور خارجہ ریاست جموں وکشمیر نے اطلاع دی کہ سال رواں میں اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی.۱۹۲۴-۲۵ء میں اس کے یہ عہدیدار تھے.(۱) شیخ عطا محمد صاحب بی.اے ایل ایل بی پریذیڈنٹ سٹریل سٹینڈنگ کمیٹی (۲) سید محسن شاہ صاحب بی.اے ایل ایل بی بیرسٹرایٹ لانو ایڈووکیٹ ہائیکورٹ لاہور آنریری جائنٹ سیکرٹری (۳) خواجہ فیروز الدین احمد صاحب بی.اے بیرسٹرایٹ لاء ایڈووکیٹ ہائیکورٹ لاہور - آنریری جائنٹ سیکرٹری - (۴) منشی محمد الدین صاحب فوق ایڈیٹر شمیر کی اخبار لاہور آنریری اسسٹنٹ سیکرٹری.(۵) خواجہ غلام نبی صاحب آنریرکی فنانشل سیکرٹری.(۶) خواجه صدرالدین صاحب آنریری آڈیٹر - اس تنظیم نے کشمیری خاندانوں کے ہو نہار مگر نادار بچوں پر ہزاروں روپے صرف کئے ۱۹۱۷ء تک اس کانفرنس نے شمالی کشمیر میں ۱۲- ۳ مدرسے اپنے خرچ پر جاری کئے اور کشمیر کے بعض ہو نہار طلبہ کو وظائف دیگر کالجوں کی تعلیم بھی دلوائی.۱۹۳۱۱ء میں جب آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا قیام عمل میں آیا تو اس کے سب عہدیداروں خصوصا سید محسن شاہ صاحب بی.اے.ایل ایل بی ہائیکورٹ لاہور اور منشی محمد الدین صاحب فوق نے کشمیر کمیٹی سے خاص طور پر تعاون کیا اور اپنی خدمات اسکے مقاصد کی تکمیل کے لئے پیش کر دیں.فجزاهم الله احسن الجزاء اس زمانہ میں آل انڈیا کشمیری کانفرنس" کے علاوہ " آل انڈیا محمدن ایجو کیشنل کانفرنس " (جس کے جائنٹ سیکرٹری عرصہ تک صاحبزادہ آفتاب احمد خاں صاحب بی.اے رہے) مسلمانان کشمیر کے تعلیمی مسئلہ کی طرف خاص دلچسپی لیتی رہی.
تاریخ احمدیت - جلد ۵ فصل دوم 372 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد یه تحریک آزادی کا دوسرا دور (۱۹۰۹ء تا ۶۸۱۹۲۰) حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایده الله ت خلیفہ المسیح الثانی کا پہلا سفر کشمیر۱۹۰۹ء تعالٰی اپنے زمانہ خلافت سے پانچ سال حضرت قبل میں سال کی عمر میں کیم جولائی ۱۹۰۹ء کو پہلی بار کشمیر تشریف لے گئے اور ۲۲ / اگست ۱۹۰۹ء تک قیام پذیر رہے.اسی دوران میں آپ ناسنور بھی تشریف لائے.اللہ تعالی نے آپ کو فطری طور پر مظلوموں اور بیکسوں کے لئے ایک مضطرب اور حساس دل عطا فرمایا ہے دوران قیام کشمیر میں آپ کی آنکھوں نے کشمیری مسلمانوں پر ظلم وستم کے ایسے ایسے نظارے دیکھے کہ آپ فرط غم سے آبدیدہ ہو گئے اور آپ میں اہل کشمیر کی آزادی کے لئے زبردست جذبہ پیدا ہو گیا چنانچہ خود ہی فرماتے ہیں.میں چھوٹا تھا کہ ہم سرینگر جاتے ہوئے ایک گاؤں میں سے گذرے اس وقت موٹریں نہ تھیں ٹانگوں پر جاتے تھے.گاؤں والوں سے ہم نے مرغ مانگا مگر انہوں نے صاف انکار کر دیا اور کہا اس گاؤں میں تو و با پڑی تھی اور سب مرغ مرگئے میرے چھوٹے بھائی بھی غالبا حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب ناقل) بھی میرے ساتھ تھے جن کی عمر اس وقت تیرہ سال کی تھی وہ ایک گھر میں گھس گئے اور واپس آکر کہا کہ اس میں چالیس سے زیادہ مرغ ہیں میں نے سمجھا بچہ ہے غلطی لگی ہوگی لیکن پاس ہی صحن تھا میں نے جو ادھر نظر کی تو واقعی صحن مرغوں سے بھرا ہوا تھا.میں نے جب گھر والے سے پوچھا تو اس نے کہا یہ تو ہم نے نسل کشی کے لئے رکھے ہوئے ہیں اتنے میں ایک اور ساتھی نے آکر کہا قریباً سب گھروں میں کثرت سے مرغ موجود ہیں.آخر گاؤں والوں نے بتایا کہ بات یہ ہے کہ سرکاری آدمی آتے ہیں اور بغیر پیسہ دیئے ہمارے گھر اجاڑ کر چلے جاتے ہیں اس لئے ہر سفید پوش کو سرکاری آدمی سمجھ کر انکار کر دیتے ہیں.ایک دفعہ میں پہلگام گیا.ریاست کا اس وقت قانون تھا کہ بوجھ اٹھانے کے لئے اگر آدمی کی ضرورت ہو تو تحصیلدار کو چٹھی لکھی جائے چنانچہ میں نے چٹھی لکھی مزدور آگئے اور بوجھ اٹھا کر چل پڑے دور جا کر میں نے دیکھا کہ ان میں سے ایک آہیں بھر رہا ہے اور کراہ رہا ہے میں چونکہ جانتا تھا کہ کشمیری مزدور بوجھ بہت اٹھاتے ہیں اس لئے اس کے کر اپنے پر مجھے حیرت ہوئی اور کہا
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 373 تحریک آزادی کشمیر ا د ر جماعت احمدیہ تم لوگ بوجھ اٹھانے میں بہت مشاق ہو پھر اس طرح کیوں کراہ رہے ہو اس نے کہا مشاق رہی ہوتے ہیں جن کا یہ پیشہ ہو میں تو برات کے ساتھ جارہا تھا کہ پکڑ کر یہاں بھیج دیا گیاوہ ایک معزز زمیندار تھا جس نے کبھی یہ کام نہیں کیا تھا میں نے اسے کہا میں ٹرنک خود اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتا پہلے گاؤں میں ہی چکر مجھے کتنی رقم خرچ کرنی پڑے میں وہاں سے مزدور لیکر تمہیں چھوڑ دوں گا.چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا یہ ایسی درد ناک بات تھی جس سے میں بہت ہی متاثر ہوا اور میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہو گئی کہ کشمیر کے لوگوں کی آزادی کے لئے کوشش کرنی چاہئے".پھر فرماتے ہیں اس سے بھی زیادہ عجیب واقعہ مجھے ایک افسر نے جو پونچھ میں وزارت کے عہدہ پر فائز رہا ہے تایا...کہ ایک دفعہ مجھے مزدوروں کی ضرورت تھی میں نے حاکم مجاز کو اس کے متعلق مخط لکھا اس نے کچھ مزدور بھیجے جن کے متعلق مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ ان میں سے ایک بھی مزدور نہ تھا بلکہ سب کے سب براتی تھے جن میں دولہا بھی شامل تھا ذرا غور کرو یہ کس قدر دردناک واقعہ ہے ان لوگوں کے لئے کھانے پکے ہوئے ہونگے اور لڑکی والے ان کی راہ دیکھ رہے ہوں گے دولہن دولہا کا انتظار کر رہی ہو گی.اس واقعہ سے میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے".غرضیکہ اس نوعیت کے تلخ واقعات کی یاد لے کر آپ واپس قادیان تشریف لائے اور پہلا قدم یہ اٹھایا کہ اگلے سال جب تمبر ۱۹۱۰ء سے مدرسہ احمدیہ کے افسر بنے تو آپ نے کشمیری طلبہ کو قادیان میں تعلیم دلانے کی طرف خاص توجہ شروع کر دی.اور جب مارچ ۱۹۱۴ء میں مسند خلافت پر متمکن ہوئے تو آپ نے کشمیری طلباء کے لئے خاص وظائف مقرر فرما دیے اور ریاست کے نونہالوں کی کثیر تعداد قادیان میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے آنے لگی جس کا سلسلہ ۱۹۴۷ء تک جاری رہا.حضور کو اہل کشمیر کا کس درجہ خیال تھا اس کا اندازہ صدرانجمن احمد یہ قادیان کے رجسٹر متعلقہ سال ۱۹۱۷ء سے بخوبی لگ سکتا ہے اس رجسٹر میں لکھا ہے کہ :- درخواست مسمی عبد الجبار مدرس رشی نگر ڈاک خانہ شوپیاں ملک کشمیر کہ اس کے بھائی عبد الرزاق کو مدرسہ احمدیہ میں داخل فرمایا جائے.معہ ارشاد حضرت خلیفۃ المسیح کہ اب کشمیری لڑکے مدرسہ احمدیہ میں نہیں رہے اس لئے اس کا انتظام کر کے بلائیں.معہ رپورٹ سیکرٹری کہ لڑکے کو لکھ دیا گیا ہے کہ وہ بہت جلد آجاوے مناسب وظیفہ مقرر کیا جاوے.۱۹۲۹ء میں کشمیر کے ایک غیر احمدی پیر حضور کی ملاقات کے لئے تشریف لائے حضور نے انہیں فرمایا کہ آپ کشمیر سے ذہین طلبہ بھجوائیں ہم ان کی تعلیم کا زمہ لیتے ہیں.D "
374 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ کشمیر میں تعلیم بالغاں کی بنیاد کشمیر میں شوپیاں سے چند میل کے فاصلہ پر تحصیل کو لگام میں احمدیوں کا مشہور گاؤں ناسنور ہے جہاں ۱۹۰۹ء کے جلسے میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے بھی شرکت فرمائی اور احمدیوں اور غیر احمدیوں سے خطاب کرتے ہوئے اہم نصائح فرما ئیں.ناسنور میں ڈار قوم کا ایک معزز خاندان آباد تھا.جو سارے علاقہ میں بڑی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور زمینداری اور تجارت دونوں لحاظ سے وہ آسودہ حال تھا اس خاندان کے ایک بزرگ حضرت حاجی عمر ڈار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قدیم صحابہ میں سے تھے.انہوں نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی اس نصیحت سے متاثر ہو کر کہ ریاست میں تعلیم عام کرنی چاہئے.۱۹۰۹ء سے کشمیر میں تعلیم بالغان کی بنیاد رکھی چنانچہ منشی محمد الدین صاحب فوق لکھتے ہیں:.” خواجہ محمد عمر ڈار احمد کی ہونے کے بعد سب سے پہلے حج بیت اللہ سے مشرف ہوئے.پھر انہوں نے قریباً پچاس سال کی عمر میں کچھ لکھنا پڑھنا سیکھا.اور کشمیر میں تعلیم بالغان کی بنیاد قائم کی جس کے کھنڈروں پر آج ہماری ریاست کا محکمہ تعلیم ایک عالی شان عمارت کھڑی کرنے میں مصروف نظر آ رہا ہے مرزا صاحب.کے عقائد و دعاوی سے کسی کو مخالفت ہو یا موافقت اور خواجہ عمر ڈار کی قبول احمدیت اچھی ہو یا بری لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی احمدیت نے اس گاؤں میں ایک بیداری سی پیدا کر دی اور اس بیداری نے وہ علمی انقلاب پیدا کر دیا جس کی بدولت آج ناسنور میں ایک پرائمری سکول کے علاوہ ایک زنانہ سکول بھی قائم ہے اور چھ مولوی فاضل کا امتحان پاس ہونے کے علاوہ متعدد انگریزی خوان نوجوان وہاں موجود ہیں جو مختلف محکموں میں اچھے اچھے عہدوں پر بر سر روزگار ہیں ".I'm راجوری کے مسلمانوں کی تنظیم ۱۹۱۴ء میں ایک احمدی عالم مولوی عبدالرحمن صاحب نساکن اندوره اسلام آباد (والد ڈاکٹر نظیر الاسلام صاحب) نے راجوری میں مسلمانوں کو منظم کرنے کی جدوجہد شروع کی اس بزرگ کو قرآن مجید سے عشق تھا.لوگ ان کو امام مہدی کہتے تھے.کیونکہ آپ جب قرآن کریم تلاوت فرماتے تھے تو لوگ وجد میں آجاتے تھے مولوی عبدالرحمن صاحب کی تقریروں سے علاقہ میں مسلمانوں میں ایسا اتحاد پیدا ہو گیا اور ہندوؤں نے نئی ابھرنے والی تنظیم کو اپنے لئے خطرہ سمجھ کر ہندو مسلم فساد کھڑا کر دیا.پولیس نے گولیاں چلا ئیں.مولوی عبدالرحمن صاحب کی جائیداد ضبط کرلی گئی.اور انہیں کٹک میں پناہ گزیں ہونا پڑا.ایک عرصہ کے بعد دوبارہ اپنے گاؤں میں آگئے.۱۸ / جون ۱۹۴۴ء کو انتقال فرمایا.
تاریخ احمدیت جلد ۵ 375 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ مسٹر شارپ اور کشمیری وفد اس وقت تک اہل کشمیر کے لئے جو کچھ کیا جارہا تھا وہ زیادہ تر پنجاب کے مسلمانوں کی طرف سے ہو رہا تھا.۱۹۱۶ ء پہلا سال ہے.جبکہ خود مسلمانان کشمیر نے حکومت ہند کے مشیر تعلیم مسٹر شارپ کے سامنے جو ان دنوں کشمیر کا دورہ کر رہے تھے اپنے مطالبات پیش کرنے کی جرأت کی.مہاراجہ (پر تاپ سنگھ صاحب) نے یہ مطالبات بظاہر منظور کرلئے لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکمران ریاست کی رسمی منظوری کے باوجود وہ سفارشات کبھی شرمندہ معنی نہ ہو سکیں.
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 376 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیه فصل سوم تحریک آزادی کا تیسرا دور (۱۳، ۱۳۸۲) حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا دوسراسفر کشمیر حضرت علیہ الی الثانی ایده الله تعال ۱۹۲۱ء میں (۲۵/ جون تا ۲۹/ ستمبر) دوباره کشمیر تشریف لے گئے اور جیسا کہ تحریک آزادی کشمیر کے ایک نہایت مخلص اور سرگرم کار کن چوہدری ظہور احمد صاحب (حال آڈیٹر صد رانجمن احمد یہ ربوہ) نے کشمیر کی کہانی میں بالتفصیل تحریر فرمایا ہے اس سفر میں حضور کو اہل کشمیر کے روح فرسا حالات دیکھ کر ان سے ہمدردی کی تڑپ اور گہری ہوگئی اور ریاستی باشندوں کے حالات کا بہت گہرا مطالعہ کرنے کا موقع ملا.اور آپ نے اپنے متعلقین اور دوسرے افراد جماعت سے اس مظلومیت کا سیاق و سباق کا مواد فراہم کرنا شروع کر دیا.اور پہلی فرصت میں مظلومین کشمیر کو باہمی اتحاد ، اتفاق ، تعلیم کی اشاعت اقتصادی حالت کی بہتری اور اسلامی احکام کی تعمیل اور رسم ورواج سے علیحدگی کی طرف توجہ دلائی.مئوخر الذکر بات چونکہ دینی نقطہ نگاہ سے سب سے اہم تھی اس لئے حضور نے اس پر کشمیر میں خطبات جمعہ کے دوران بھی زور دیا اور فرمایا:- اگر کامیابی یا ترقی کرنا چاہتے ہو تو جہاں خدا کا حکم آوے اسے کبھی حقیر نہ سمجھو.رسم ورواج کو جب تک خدا کے لئے چھوڑنے کو تیار نہ ہو گے تب تک نمازیں روزے اور دوسرے اعمال آپ کو مسلمان نہیں بنا سکتے.جہاں نفس فرمانبرداری سے انکار کرتا ہے اسی موقعہ پر حقیقی فرمانبرداری کرنے کا نام اسلام ہے اگر کوئی ایسا فرمانبردار نہیں ہے اور رسم و رواج کو مقدم کرتا ہے تو اس کا اسلام اسلام نہیں ہے ".۲۵ جولائی ۱۹۲۴ء کا واقعہ ہے کہ سرینگر کے کارخانہ ریشم ۱۹۲۴ء میں ڈوگرہ راج کے مظالم جو ان دوروں کو شکایت تھی کہ ان کو بہت کم مزدوری کے ملتی ہے اور جو کچھ ملتا ہے خود ہندو افسران اس میں سے رشوت جمع کر لیتے ہیں یہ الزام درست ثابت ہوا.مگر ریاست یا تو افسر کو بچالیتی یا برائے نام سزا دے کر کسی اور پارک میں تبدیل کر دیتی تھی اس کھلی طرف داری پر مسلمان مزدوروں نے ہڑتال کر دی.ریاستی حکام نے رات کے بارہ بجے مظلوم
تاریخ احمد سیست.جلد ۵ 377 تحریک آزادی کشمیر ا د ر جماعت احمدیہ مزدور لیڈروں کو گرفتار کر لیا.اور دو سرے مزدوروں کو گور نر کشمیر کی موجودگی میں مسلح فوج نے اپنے نیزوں کا نشانہ بنایا.اس واقعہ پر شاید ایک ماہ نہ گذرا ہو گا کہ ایک ہندو اخبار ”عام " لاہور کے ایک مضمون کی بناء پر کشمیری پنڈتوں کی ایک جماعت نے خانقاہ معلیٰ پر اینٹوں اور پتھروں سے حملہ کر دیا.اور جوتوں سمیت اندر جا کر اس کی بعض کھڑکیاں بھی تو ڑدیں چنددنوں کے بعد جب محرم آیا تو ریاست نے ذوالجناح اور ماتمی جلوس نکالنے پر عمد اپابندی لگادی بلکہ گورنر صاحب کشمیر ( جو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ بھی تھے) شیعہ اصحاب سے ذوالجناح بھی چھین لیا.اس کے بعد ۱۴ / اکتوبر ۱۹۲۴ء کو وائسرائے ہند لارڈ ریڈنگ سیرو سیاحت کے لئے کشمیر آئے تو مسلمانان کشمیر کے نمائندوں نے اپنی سیاسی مذہبی اور معاشرتی شکایات کا محضر نامہ (میموریل) تیار کیا جس میں اعدادو شمار دے کر بتایا کہ ریاست کی کل آبادی کا ننانوے فیصدی حصہ ہندو ارکان حکومت کی جیبوں میں جاتا ہے اور صرف ایک فیصدی حصہ ۹۵ فیصدی مسلمان آبادی کو دیا جا رہا ہے.یہ محضر نامه مسلمانان کشمیر کے نمائندوں نے لارڈ ریڈنگ (وائسرائے ہندوستان) کو پیش کیا جو انہوں نے دربار کشمیر میں بھیج دیا لارڈ ریڈنگ ۲۸/ اکتوبر ۱۹۲۴ء تک کشمیر میں رہے ان کے جانے کے بعد مہاراجہ پرتاپ سنگھ صاحب نے رائے بہادر کر تل جنگ سنگھ صاحب مشیر مال، چوہدری خوشی محمد صاحب ناظر اور مسٹر گلینسی (ممبر فائنینس و پولیس) پر مشتمل ایک کمیشن بٹھا دیا جس نے محضر نامہ پر دستخط کرنے والوں کے بیانات لینے شروع کئے بیانات دینے والے کمیشن کے ممبروں سے مرعوب نہ ہوئے کشمیر کی حکومت کے لئے اس قسم کی حق گوئی بالکل نئی بات تھی نتیجہ یہ ہوا ۱۵/ مارچ ۱۹۲۵ء کو مسلمانوں کے ان نمائندوں میں سے خواجہ سعد الدین صاحب شال رئیس سرینگر کے مکان پر ایک انسپکٹر پولیس اور دو سب انسپکٹر پولیس نے ڈیڑھ سو سپاہیوں کی جمعیت کے ساتھ دھاوا بول دیا.اس وقت خواجہ صاحب کا اکلوتا بیٹا نمونیہ میں مبتلا تھا اور آپ اس کی تیمار داری میں مصروف تھے آپ نے صبرو شکر سے ریاست کے ظالمانہ احکام کی تعمیل کی.اور پولیس پہلے بند گاڑی میں اور پھر موٹر میں بٹھا کر پنجاب کی سرحد تک چھوڑ گئی.اسی طرح خواجہ حسن شاہ صاحب نقش بندی رئیس کی چار ہزار روپیہ سالانہ کی جاگیر میموریل پر دستخط کرنے کی پاداش میں ضبط کرلی گئی.اور ان کے قابل فرزند خواجہ نورشاہ صاحب تحصیل دار خاص کا نہ صرف درجہ ترقی (وزیر وزارت) غصب کر کے ایک اور شخص کو دے دیا گیا بلکہ ان سے اس قسم کا سلوک روا رکھا گیا کہ پہلے وہ جبر ارخصت لینے پر مجبور کئے گئے اور پھر ان کے ایک مشورہ طلب عریضہ کو ناحق استعفیٰ بنا کر منظور کر لیا گیا.حالانکہ ان کا مذکورہ بالا میموریل کے ساتھ کوئی تعلق اور واسطہ نہ تھا اسی طرح سید حسین شاہ صاحب ذیلدار جذل بل ( سرینگر) بھی اسی
تاریخ احمدیت جلد ۵ 378 "جرم" کی وجہ سے ذیلداری سے علیحدہ کر دیئے گئے.اس پر تحریک آزادی کشمیر ا د ر جماعت احمدیہ پر اکتفاء نہ کرتے ہوئے اسلام آباد میں مسلمانوں کو تہس نہس کرنے کے لئے لشکر اور توپ خانے منگوائے گئے بارہ مولا میں مسلمانوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ مسجد کی دیوار میں اپنے ہاتھ سے گرادیں.سرینگر میں ریشم خانہ کے مزدوروں کو بندوقوں کے کندوں اور سنگینوں کی نوکوں سے زخمی اور مجروح کر کے الٹا ان پر بلوہ اور بغاوت کے مقدمات قائم کئے گئے اور بیرونی دنیا کو بے خبر رکھنے کے لئے تار رکوا دئے گئے.لیکن مظلوموں کی آہیں جو توپ و تفنگ سے زیادہ اثر رکھتی ہیں.وہ نہ صرف آہنی دیواروں بلکہ ہمالیہ کے سر بفلک پہاڑوں کو چیرتی اور کشمیر کی وادیوں کو طے کرتی پنجاب کے میدانوں میں جس جس جگہ اور جس جس میدان پر گئیں ان لوگوں کو جن کے پہلو میں پتھر نہیں بلکہ درد سے بھرا ہوا ایک گداز دل ہے ہم نواد ہم آہنگ بنائی گئیں.رشی نگر میں آتشزدگی قریبا ۱۹۲۷ء میں کشمیر کے موضع رغی نگر کے مسلمان باشندوں کو آتشزدگی کی وجہ سے بہت نقصان پہنچا جس پر نظارت امور خارجہ قادیان نے گورنر صاحب سرینگر سے درخواست کی کہ وہ مالیہ کی ادائیگی معاف کر دیں یا اسے ملتوی کر دیں.ریاست بھوپال کی تعزیرات میں ایک ہندو ریاستوں سے انصاف پروری کی اپیل دفعہ یہ چلی آتی تھی کہ اگر کوئی مخلص اسلام قبول کر کے پھر ارتداد اختیار کرے تو اسے تین برس تک قید یا جرمانہ یا ہر دو قسم کی سزادی جاسکتی تھی.والٹی بھوپال نے اکتوبر ۱۹۲۸ء میں یہ قانون منسوخ کر دیا.اخبار "الفضل " نے اس خبر پر کشمیر اور دوسری ہندو ریاستوں کے حکمرانوں کو توجہ دلائی کہ یہ ایک مسلم حکمران کی روشن ضمیری اور رعایا پروری کی تازہ ترین مثال ہے کاش وہ بھی اپنی مسلم رعایا کو مذہبی آزادی دے کر اپنے عدل شعار ہونے کا ثبوت دیں.کشمیر اور جموں میں تعلیمی جدوجہد حضرت خواجہ محمد عمر صاحب ڈار کے فرزند خواجہ عبد الرحمن صاحب ڈار بھی صحابی تھے جو حضرت مسیح موعود عليه الصلوة والسلام کے زمانہ میں تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں پڑھتے رہے.اور حضور علیہ السلام کی دعاؤں کی برکت سے انڈنس میں کامیاب ہوئے تھے.خواجہ صاحب نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کی نصائح پر عمل پیرا ہو کر سارے علاقے کا دورہ کیا.مسلمانوں کو منظم کیا ان کے اختلافات رفع کرنے کی کوشش کی اور ان کو تعلیم کے فوائد بتائے.ادھر وادی کشمیر میں خواجہ
تاریخ احمدیت جلد ۵ 379 تحریک آزادی کشمیر او رجماعت احمدیه صاحب کام کر رہے تھے ادھر علاقہ جموں میں خواجہ صاحب کے دوش بدوش ٹھیکیدار یعقوب علی صاحب میاں فیض احمد صاحب اور ان کے رفقاء نے بھی یہ تحریک شروع کردی ٹھیکیدار صاحب انجمن اشاعت اسلام لاہور کے ممبر تھے.اور فیض احمد صاحب کا تعلق جماعت احمد یہ قادیان سے تھا.مسلمان زمینداروں کی تنظیم کشمیر میں زمینوں کا مالک ریاست بھی جاتی تھی جس کا نتیجہ یہ تھا کہ کوئی زمیندار اپنی زمین پر کسی قسم کا مالکانہ تصرف نہیں کر سکتا تھا بلکہ ہر مالکانہ تصرف کے لئے اسے ریاست کی خاص اجازت حاصل کرنا پڑتی تھی گویا کشمیر میں زمیندار عملاً مزارعوں کی حیثیت رکھتے تھے وہ اپنی اراضی پر لگائے ہوئے درخت نہیں کاٹ سکتے تھے مکان نہیں تعمیر کر سکتے تھے اگر ریاست کو ان کی زمین کے لینے کی ضرورت محسوس ہوتی تو وہ فورا بے دخل کر دئیے جاتے اور محض کاشت کے حقوق کی بناء پر انہیں نہایت خفیف سا معارضہ ملتا.ریاست کو یہ بھی قانوناً حق حاصل تھا کہ مسلمان زمینداروں پر غیر مسلم اشخاص کو لا کر مالک قرار دے چنانچہ کئی خالص مسلم رقبہ جات اسی طرح محض رسمی نذرانوں پر غیر مسلموں کی ملکیت قرار پاچکے تھے اور اس کے متعلق کسی مسلمان زمیندار کا عذر قابل شنوائی نہیں سمجھا جاتا تھا.اس طرح مسلمان زمینداروں کا بڑی بے دردی سے نگلا کاٹا جارہا تھا ظلم و ستم کی حد یہ تھی کہ ریاست کشمیر کو صرف نقدی میں ٹیکس وصول کرنے کی بجائے عملا جنس اور نقدی ہر دو صورتوں میں معاملہ وصول کرتی تھی گویا کشمیری زمیندار کو لگان کے ساتھ مالکانہ بھی ادا کر نا پڑتا تھا یعنی کچھ ٹیکس تو وہ ریاست کو بحیثیت حکومت دیتا تھا اور کچھ بحیثیت مالک جس کی عملی صورت اور بھی عجیب تھی اور وہ یہ کہ ریاست زمیندار سے پیداوار کا ایک معقول حصہ لگان سرکاری میں وصول کر لیتی اور اس کے ساتھ ہی وہ زمیندار کی پیداوار بھی خود اپنے مقرر کردہ نرخ پر خرید لیتی جس کے بعد ریاست یہ خرید شده جنس بازاری بھاؤ پر معقول منافع کے ساتھ پھر زمینیدار اور دوسری رعایا کے ہاتھ فروخت کر دیتی اس طرح ریاست در ہرا فائدہ اٹھاتی اور رعایا کو دوہرا نقصان ہوتا.زمینداروں کی یہ حالت زار دیکھ کر خواجہ عبدالرحمن صاحب ڈار نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی ہدایات کی روشنی میں زمینداروں کی تنظیم و اصلاح کا بیڑا اٹھایا اور تھوڑے ہی عرصہ میں انہوں نے قانون و اخلاق کی پابندی کرتے ہوئے ریاست بھر کے مسلمان زمینداروں کی تنظیم کرلی.اس پر حکام ریاست نے انہیں ظلم و ستم کا نشانہ بنانا شروع کر دیا.حتی کہ پولیس نے ان کو ڈوگرہ مظالم کے خلاف احتجاج اور محض زمینداروں کو منظم کرنے کے جرم میں غنڈوں میں شامل کر لیا.انا للہ وانا اليه راجعون.
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 380 تحریک آزادی کشمیر ا د ر جماعت احمدیه یہ وہ نازک دور تھا جبکہ ڈوگرہ راج سے ٹکر لینے کا خیال و تصور بھی اہل کشمیر کو نہیں آسکتا تھا.چنانچہ جناب چراغ حسن حسرت لکھتے ہیں.نوجوانوں نے بڑے اشتیاق سے یہ واقعات سنے اور حیرت زدہ ہو کر چلا اٹھے کیا یہ ممکن ہے بڑھے ٹھڈوں نے جنھیں ظلم سہتے زیادہ عرصہ ہو ا تھا.سرہلا کر کہا بالکل جھوٹ بادشاہوں سے کون لڑ سکتا ہے.(کشمیر از حسرت صفحہ ۱۶۰) خلیفہ عبدالرحیم صاحب آف جموں) اس زمانہ میں ریاست کی کلیدی اسامیوں پر ڈوگروں اور کشمیری پنڈتوں کا قبضہ تھا (الا ماشاء کی خدمات اور بینرجی کا لرزہ خیز بیان اللہ اس لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایده اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانان کشمیر کو یہ بھی تلقین کی جارہی تھی کہ وہ ریاست کی ملازمت میں زیادہ سے زیادہ آگے آنے کی کوشش کریں اور جو مسلمان ان اسامیوں پر ہیں وہ مسلمانوں کی خدمت کو اپنا شعار بنائیں.حضرت خلیفہ نور الدین صاحب جمونی کے فرزند خلیفہ عبدالرحیم صاحب ان غیور افسروں میں سے تھے جنھوں نے دور ملازمت میں اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کا حق ادا کر دیا.تحریک آزادی کے سلسلہ میں آپ کی شاندار مساعی کا ذکر آئندہ بھی آئے گا مگر واقعاتی ترتیب کے لحاظ سے یہاں ہم ان کے اس کارنامے کا ذکر کرنا چاہتے ہیں کہ خاص طور پر انہوں نے ریاستی وزراء سرا یلیین بینرجی اور مسٹرو یکفیلڈ کے سامنے صحیح اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے واضح کیا کہ کس طرح ۹۵ فیصدی مسلمان اکثریت بے انصافی اور جبرو تشدد کا شکار ہو رہی ہے.چوہدری ظہور احمد صاحب ( آڈیٹر صد را انجمن احمدیہ پاکستان ) خلیفہ عبد الرحیم صاحب کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں.” خلیفہ عبدالرحیم صاحب (جو بعد میں ہوم سیکرٹری حکومت جموں وکشمیر بنے) انہی ریاستی افسروں میں سے ایک تھے جن کی قومی خدمات کو مسلمانان جموں وکشمیر کبھی فراموش نہیں کر سکتے.یہ ان دنوں کی بات ہے جبکہ سرا یلین بینر جی اور مسٹرو یکفیلڈ ریاست کے وزراء میں شامل تھے اور مہاراجہ پر چھائے ہوئے تھے خلیفہ عبدالرحیم صاحب جو مسلمانوں کی حالت زار سے بخوبی واقف تھے اپنی قابلیت محنت اور دیانتداری کی وجہ سے اپنے بالا افسران یعنی وزراء کے دلوں میں بھی ایک خاص مقام پیدا کر چکے تھے انہوں نے ان وزراء کے سامنے مردم شماری کے اعدادو شمار رکھے اور اس کے مقابل ملازمتوں میں ان کا تناسب بتایا جو آٹے میں نمک کے برابر بھی نہ تھا.ہندو ساری ریاست پر چھائے ہوئے تھے تجارت پر تو کلیتہ ہندوؤں کا ہی قبضہ تھا.پلیٹ فارم کی بھی کوئی آزادی نہ تھی.انجمن بنانے کی ممانعت تھی مسلمانوں کے اوقاف پر ریاست کا قبضہ تھا بعض مساجد مال گوداموں کے طور پر استعمال ہو رہی تھیں.یہ ساری باتیں سر بینر جی اور مسٹرو یکفیلڈ کے نوٹس میں لائی گئیں.
تاریخ احمدیت جلد ۵ 381 31 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ خلیفہ عبدالرحیم صاحب کی اس جدوجہد کا نتیجہ یہ رونما ہوا.کہ ہندوستان کے مشہور مدبر اور سیاست دان سرایلین بینرجی ریاست کشمیر میں دو تین سال تک وزیر خارجہ وسیاسیات رہنے کے بعد مستعفی ہو گئے اور استعفاء کے فورا بعد ایسوشی ایٹڈ پریس کے نمائندہ کو اپنے مشاہدہ اور تجربہ کی بناء پر مسلمانان کشمیر کے متعلق ایک اہم بیان دیا جو اخبار سیسمین (Statenman) کلکتہ نے حسب ذیل رائے کے ساتھ شائع کیا:- ہندو کانگریسی اخبارات جس طرح برطانوی راج کے خلاف محاذ جنگ قائم کئے ہوئے تھے اسی طرح آج کل انہوں نے مسلمانوں کے کشمیری اضطراب کے خلاف بھی ایک مستقل جہاد شروع کر رکھا ہے اور اس مسلم ایجیٹیشن کو ناقص بتا بتا کر اس کے اثر کو زائل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ تحریک اس قدر کامیاب اور منظم ہے کہ قارئین کرام کو بخوبی معلوم ہو گا.ریاست جموں و کشمیر کے باشندوں کی حالت جس قدر خراب ہے ان پر جس طرح حکومت کی جاتی ہے ان کے ساتھ غیر شریفانہ اور انسانیت سوز سلوک کیا جاتا ہے اس کا اندازہ خود ریاست کے ایک اہلکار کی زبان سے سنئے.اور غور کیجئے کہ یہاں کی حالت کس قدر نا گفته به اور کس قدر نا قابل برداشت ہو چکی ہے پریس کے نمائندہ سے ریاست کشمیر کے محکمہ خارجیہ سیاسیہ " کے سابق وزیر (۱۹۲۹ء) سرا یلین بینرجی نے اپنے عہدہ سے دست بردار ہونے کے بعد جو ایک دفعہ بیان دیا تھا اس وقت اس کا اعادہ ضرور مفید ہو گا یا د رہے کہ یہ بیان کسی تحریک کے سلسلہ میں نہیں دیا گیا تھا بلکہ ان واقعات سے متاثر ہو کر دیا گیا ہے جن سے وہ اپنے عہد میں متاثر ہوئے اور جو انہوں نے اپنے عہد حکومت میں اپنی آنکھوں سے دیکھے اور آگاہی عوام کے لئے شائع کر دیا.مسٹرا یلیین بینرجی نے جو واقعات بیان کئے تھے ان کا خلاصہ حسب ذیل ہے:.«کشمیر کی ریاست میں تقریباً تمام مسلمانوں کی آبادی ہے لیکن اس قدر جاہل اس قدر سادہ لوح اور مظلوم و معصوم که حالت حد بیان سے باہر ہے افلاس بے انتہا بڑھا ہوا ہے اور حکومت کی بے اعتنائی اور جو ر اس قدر نا قابل برداشت ہیں کہ مجھے ان کی حالت دیکھ دیکھ کر رقت ہوتی ہے حکومت اور رعایا کے درمیان کوئی رابطہ محبت نہیں ہے وہ بے زبان مویشیوں کی طرح ہیں جو حاکم جس صورت سے چاہتا ہے ان سے کام لیتا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہو تا حکومت کی انتظامی مشینری اس قدر خراب اور ناقص ہے کہ میں عرض نہیں کر سکتا.اشد ضروری ہے کہ تمام انتظامی عملہ کو از سرنو تشکیل کیا جائے اور تمام نقائص فور اوور کر دئے جائیں.لوگوں کو شکایتیں کرنے اور اپنی حالت حکام اعلیٰ تک
تاریخ احمدیت جلد ۵ 382 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ پہنچانے کا کوئی معقول ذریعہ نہیں ہے اور حکومت ان کی طرف سے اس قدر استغناء برتی ہے کہ گویادہ ان سے کچھ فائدہ حاصل کرتی ہی نہیں تعلیم یافتہ طبقہ جو تمام تر کشمیری پنڈتوں پر مشتمل ہے ان کی حالت بھی کچھ اچھی نہیں.اس لئے انہیں بھی ایک طرح سے مسلمانوں ہی کی طرح خراب وختہ سمجھنا چاہئے وہ کسی قسم کی تجارتی و صنعتی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتے.اور مذہبی حلقوں میں ان کی حالت اچھی نہیں اس لئے وہ بھی بری حالت میں ہیں حکومت کی ملازمتوں میں ان کو بھی ترجیح نہیں دی جاتی وہاں بیرونی اصحاب کی خوب پرورش ہوتی ہے ریاست میں کوئی رائے عامہ نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اخبارات سرے سے ہیں ہی نہیں اور موجودہ دور تمدن میں کسی مقام پر اخبارات کا نہ ہونا جس قدر اندوہناک منظر دور جهالت و بربریت کا ثبوت پیش کر سکتا ہے وہ وہاں موجود ہے یعنی رائے عامہ کے فقدان سے یہاں کی حکومت کی پالیسی پر نکتہ چینی بالکل نہیں ہوتی...کشمیر کی سیاسی فوقیت زیادہ تر قدرتی اور جغرافیائی محل وقوع کی بناء پر ہے کیونکہ قدرت نے اسے تین بڑی بڑی سلطنتوں کے مابین پیدا کیا ہے اور اس وجہ سے اسے جو فوقیت حاصل ہو سکتی ہے وہ ظاہر ہے لیکن ریاست نہ تو کبھی اپنے پورے مدارج پر پہنچے گی اور نہ اپنی ذمہ داریاں پہچانے گی جب تک کہ حکومت اور باشندوں کے در میان زیاده رابطه اتحاد اور زیادہ رشتہ الفت و مفاہمت قائم نہ ہو کشمیر کے دستکار جس قدر...جفاکش مشہور تھے اب ان کی ہمت افزائی نہیں ہوتی اور اس وجہ سے ان کی حالت اس قدر با کل بہ انحطاط ہے کہ بیان سے باہر ہے حکومت ان کی سرپرستی اور امداد نہیں کرتی اس وجہ سے ان کی حالت روز بروز گرتی چلی جارہی ہے.میسور کی حکومت اپنے صناعوں کی جتنی امداد و سر پرستی کرتی ہے وہ اس ریاست (کشمیر) کے لئے نمونہ ہے".' حکام ریاست کا منصوبہ اور یعقوب علی صاحب کی ایمانی جرأت سرا بلین کے کی اس بیان نے جہاں ہندوستان کے طول و عرض میں زبردست ہیجان برپا کر دیا وہاں حکومت جموں و کشمیر پر بھی اس مشہور مدبر کے الفاظ نے سراسیمگی اور گھبراہٹ طاری کر دی اور اس نے پہلے انجمن اسلامیہ جموں دکشمیر کی اسلامی انجمنوں سے اس کی تردید کرانے اور عامتہ المسلمین کی آواز دبانے کا منصوبہ سوچا جو ناکام ہو گیا جس کا سہرا ٹھیکیدار یعقوب علی صاحب احمدی (جموں) پر تھا.جو ینگ منیز ایسوسی ایشن کے روح رواں تھے اس اہم واقعہ کی تفصیل شمالی ہند کے پر جوش اخبار "انقلاب" نے اپنی تین اشاعتوں میں شائع کی جس کے تین اقتباسات درج ذیل کئے جاتے ہیں." سمرا یلیین بینرجی کے خیالات سے جو قریباً تمام اخبارات میں چھپ چکے ہیں متاثر ہو کر حکام
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 383 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ ریاست جموں نے پرسوں مسلمانوں کا وفد آغا سید حسین ہائیکورٹ حج کے مکان پر بلایا اور یہ خیال ظاہر کیا کہ مسلمانوں کی طرف سے آپ ایک ریزولیوشن منظور کرا دیں جس میں بینرجی کے خیالات سے اختلاف ظاہر کیا جائے.مسلمانوں کے ان خود ساختہ لیڈروں نے چائے کی ایک ایک پیالی سے اتنا نشہ حاصل کیا کہ مہاتما گاندھی بھی وائسرائے کی چائے پر اتنے سرشار نہ ہوئے ہونگے.آپ نے قوم سے استصواب کئے بغیر فرما دیا.ہمیں دیجئے قلم اور دوات ابھی لکھے دیتے ہیں خد ا بھلا کرے مستری یعقوب علی صاحب قبلہ کا جنہوں نے کہدیا کہ پہلے مسلمانوں سے استصواب ضروری ہے چنانچہ کل انجمن اسلامیہ نے منادی کرادی کہ سرا یلین بینرجی کے خیالات پر اظہار رائے کیا جائے گا مسلم پبلک کو ان کی اس قوم فروشی کی خبر ہوئی تو انجمن مذکور کے خلاف نفرت کا جذبہ پھیل گیا جس پر اول تو جلسہ ملتوی کرنے کی ٹھائی گئی مگر مسلمانوں کے زور دینے پر جلسہ منعقد ہوا اور سرکار کے ان پھوؤں نے جو حکام سے کہہ آئے تھے کہ ہم میں قوت گویائی موجود ہے تمام مجمع کو ہاتھوں پر ڈال لیں گے جلسہ کا افتتاح کر دیا.حاضری چھ ہزار سے زیادہ تھی قوت گویائی والے بزرگ تو بول ہی نہ سکے.چند اور لیڈروں نے برجستہ تقریریں کیں مگر مسلمانوں نے صاف کہہ دیا کہ ہمیں انجمن کے موجودہ عہدیدار منظور نہیں کیونکہ تمام کے تمام پریذیڈنٹ اور سیکرٹری پنشن یافتہ ہیں اور مسلمان ان سے اعلائے کلمتہ الحق کی توقع نہیں رکھتے مسلمانوں نے تقاضا شروع کر دیا مسلمانوں کو ۹۰ فیصدی ہوتے ہوئے تین فیصدی نوکریاں بھی نہیں دی جاتیں.مسلمانوں کا خون بہایا جاتا ہے اور کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا.چند آزاد خیال حضرات نے کہہ دیا کہ مہاراج بہادر کے حکام مسلمانوں سے اس طرح سلوک کرتے ہیں جس طرح فرعون کی حکومت اسرائیلیوں سے کرتی تھی.کسی نے کہا کہ مسلمانوں کے اتنے بھی حقوق نہیں جتنے گدھوں کے ہوتے ہیں کسی نے کہا انسپکٹر پولیس ایک بھی مسلمان نہیں غرض طرح طرح کی شکایات دہرائی گئیں.مسلمانوں کی ایک جماعت نے ایک پوسٹر پر جس پر ان کی شکایات مندرج تھی دستخط کرائے اور وہ پبلک جلسہ میں پڑھا گیا تمام مسلمانوں نے اس سے اتفاق کیا اور رجعت پسندوں کو ریزولیوشن منظور تو کیا پیش کرنے کی جرات نہ ہو سکی.غرض مسلمانان ریاست جموں نے سرا یلیین بینرجی کے لفظ لفظ سے اتفاق کیا اور مہاراج سے استدعا کی کہ آپ مسلمانوں کی شکایات کا تدارک کرنے کی طرف توجہ فرمائیں " ' دوسرے شمارہ میں نامہ نگار جموں کے حوالہ سے "انقلاب" نے یہ خبر شائع کی :- یہاں کل سے بڑی زبر دست افواہ پھیل رہی ہے کہ حکومت کشمیر اپنے لئے پراپیگنڈا کرانے کی غرض سے اس وقت تک ہیں ہزار روپے خرچ کر چکی ہے اور ایک بڑے سرکاری افسر پچیس ہزار کی
ریت - جلد ۵ 384 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدید رقم لے کر پرسوں سے لاہور گئے ہوئے ہیں تاکہ اخبارات کے منہ بند کئے جائیں.شہر بھر میں بڑا ہیجان پھیلا ہوا ہے....انجمن اسلامیہ نے اپنے جس اجلاس میں وہ رسوائے عالم ریزولیوشن منظور کیا وہ اغراض و مقاصد انجمن کی رو سے بالکل بے ضابطہ اجلاس تھا کیونکہ جلسہ سالانہ کے بعد کوئی اجلاس منعقد نہیں ہو سکتا.تاوقتیکہ انتخاب عہدیداران نہ ہو.مزید براں اجلاس مذکورہ کا کورم بھی پورا نہ قا" - - تیسرے شمارہ میں یہ تبصرہ کیا:- " سرا یلین بینرجی کی صدائے حق نے ایک ہی دن میں جو کام کیا وہ اسلامی اخباروں کے پانسو مضامین اور اسلامی انجمنوں کی پانسو قرار دادوں سے بھی نہ ہو سکا.ایک قابل ، تجربہ کار مد برنے ڈھائی سال تک ریاست کشمیر کے حالات کا امعان نظر سے مطالعہ کرنے کے بعد جو رائے ظاہر کی ہے اس سے مہاراجہ بہادر حکام ریاست حکومت ہند غرض کوئی بھی تغافل و تجاہل نہیں کر سکتی...اگر چہ بعض ہند و عمال ریاست نے چند خوشامد پرست مسلمانوں کو ساتھ ملا کر عامہ مسلمین کی رائے کو دبانے اور سرا یلیین بینرجی کے بیان کی تردید کرنے کی کوشش کی تھی.لیکن تمام کشمیری مسلمانوں نے اپنی کمزوری اپنی مفلسی اور بیکسی کے باوجود ان کے خلاف شدت سے صدائے احتجاج بلند کی اور ان خوشامد پرستوں کو اسلام کا غدار بتایا جو اپنے ذاتی مفاد کے لئے مسلمانوں کو پامال کرنا چاہتے ہیں...تمام اسلامی اخبارات اس معاملے میں ہم زبان ہیں ".اس سلسلہ میں اپریل ر ایلبین کے بیان کی تائید میں جماعت احمدیہ کا جلسہ ۱۹۲۹ء میں مرکز احمدیت قادیان میں بھی ایک عظیم الشان جلسہ منعقد ہو ا جس کی روداد اخبار انقلاب (۲۰/ اپریل ۱۹۲۹ء) نے بایں الفاظ شائع کی." قادیان کے گذشتہ ہفتہ معزز کشمیری احباب کا ایک عظیم الشان جلسه زیر صدارت مولوی عبد الاحد صاحب مولوی فاضل منعقد ہوا جس میں مولوی احمد اللہ صاحب متعلم مولوی فاضل مولوی غلام احمد صاحب (کشفی) کارکن صیغه ترقی اسلام خاکسار محی الدین (بانڈی پورہ) مولومی عبد العزیز صاحب ڈار ، خواجہ محمد اسمعیل صاحب (شوپیاں) مولوی عبد الغفار صاحب ڈار ، غلام محی الدین شاہ صاحب تاجر (بانڈی پورہ) کی زبردست تقریریں ہوئیں جلسے میں بالاتفاق رائے پاس ہوئی کہ سر ایلین بینرجی نے مسلمانان کشمیر کی افتادگی بے چارگی کے متعلق جو بیان دیا ہے بالکل صحیح اور آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے موصوف نے جو مفید و قیمتی مشورہ ریاست کو دیا ہے اس لائق ہے کہ
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 385 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد به ریاست اسے قدردانی اور قبولیت کی نظر سے دیکھے اور عملی جامہ پہنائے.سرا یلین بینر جی ایک غیر مسلم ہیں.ان کا مسلمانان کشمیر کے ساتھ سوائے اس کے اور کوئی تعلق نہیں کہ وہ اپنے پہلو میں بنی نوع انسان سے ہمدردی رکھنے والا ایک درد مند دل رکھتے ہیں.فطرت انسانی کا یہی تقاضا ہے کہ عاجز و مظلوم کی حالت دیکھ کر درد سے دل بھر جائے.یہ جلسہ ریاستی برادری اسلام سے پر زور استدعا کرتا ہے کہ ہر جگہ جلسے کر کے ذمہ دار حکام کی اس صلح کش حرکت اور چند نام نہاد مسلمانوں کی ملت فروشانہ کارروائی کے خلاف بر ملا نفرت ملامت کریں جس کا ارتکاب وہ دوروں سے اور جلسے کر کے کر رہے ہیں.جو مسلمانان کشمیر کے لئے کسی طرح بھی مفید نہیں بلکہ باعث ہلاکت ہے....آخر میں یہ جلسہ سرا یلین بینرجی کا اپنی کل مسلمان ریاست کی طرف سے دلی شکریہ ادا کرتا ہے اور ان کے بے غرضانہ بیان اور اس وسعت قلبی پر بصدق دل مبارک باد عرض کرتا ہے " " ۲۸-۲۷ / اپریل الفضل میں مسلمانان کشمیر کے مطالبات اور انکی تائید ۱۹۲۹ء کو لدھیانہ میں آل انڈیا مسلم کشمیری کانفرنس کا سالانہ اجلاس منعقد ہوا جس میں اہل کشمیر کی فلاح و بہبود کے لئے ۱۹ ریزولیوشنز پاس کئے اور کانفرنس کے لائحہ عمل اور اس پر عملدرآمد کے لئے چالیس افراد پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی گئی اس اجلاس کی روداد الفضل (۱۴) مئی ۱۹۲۹ء) نے (جو عرصہ سے کشمیری مسلمانوں کے مسئلہ میں دلچسپی لے رہا تھا) شائع کرتے ہوئے اہل کشمیر کے اہم مطالبات عوام تک پہنچائے." آل انڈیا مسلم کشمیری کانفرنس " نے اپنے اس اجلاس میں یہ قرار داد بھی پاس کی کہ یہ اجلاس نہایت افسوس سے اس امر کا اظہار کرتا ہے کہ دربار کشمیر گذشتہ چند سال سے ان تجاویز کو جو کانفرنس سالانہ اجلاس میں منظور کرتی ہے اور دربار کو بھیجتی ہے توجہ کرنا تو کجا جواب دینے سے بھی قاصر رہا.جو معمولی رواداری کا تقاضہ تھا اور باوجود کانفرنس کے متواتر مطالبات کے مسلمانان کشمیر کے مصائب کو دور کرنے کی طرف کوئی توجہ نہیں کی " A
تاریخ احمدیت جلده 386 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ فصل چهارم تحریک آزادی کا چوتھا دور از ۱۳۹ (۱۹۳۰) خلیفتہ المسیح حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا تیسرا سفر کشمیر حضرت مفید اسما الان ایده الله تعالی در اسفرکی جون ۱۹۲۹ء کو تیسری بار کشمیر تشریف لے گئے ہندو حلقوں کے سامنے چونکہ حضور ایدہ اللہ تعالی کی تحریک کشمیر سے متعلق سرگرمیاں آچکی تھیں.اس لئے اخبار "ملاپ " (لاہور) نے ۲۲ / جون ۱۹۲۹ء کو لکھا.ریاست کشمیر کو اس بارہ میں اپنی تسلی کر لینی چاہئے کہیں خلیفہ صاحب ریاست کشمیر کی مسلم آبادی میں اپنے تبلیغی و عظوں سے کوئی نئے کانٹے نہ ہو آئیں.حضور کو اس سفر میں یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ کشمیر بیدار ہو رہا ہے مگر خواجہ عبدالرحمن صاحب ڈار سے ریاستی سلوک معلوم کر کے سخت افسوس ہوا.چنانچہ خودہی فرماتے ہیں:.”میں ۱۹۲۹ء میں جب کشمیر گیا تو مجھے یہ بات معلوم کر کے نہایت خوشی ہوئی کہ مسلمانوں میں ایک عام بیداری پائی جاتی تھی حتی کہ کشمیری زمیندار جو کہ لمبے عرصہ سے ظلموں کا تختہ مشق ہونے کی وجہ سے اپنی خود داری کی روح بھی کھو چکے تھے ان میں بھی زندگی کی روح داخل ہوتی ہوئی معلوم دیتی تھی.اتفاق حسنہ سے زمینداروں کی طرف سے جو جدوجہد کی جارہی تھی اس کے لیڈر ایک احمدی زمیندار تھے.زمینداروں کی حالت درست کرنے کے لئے جو کچھ وہ کوشش کر رہے تھے اس وجہ سے ریاست انہیں طرح طرح سے دق کر رہی تھی وہ ایک نہایت ہی شریف آدمی ہیں معزز زمیندار ہیں اچھے تاجر ہیں اور ان کا خاندان ہمیشہ سے ہی اپنے علاقہ میں معزز چلا آیا ہے اور وہ بھی اپنی گذشتہ عمر میں نہایت معزز اور شریف سمجھے جاتے رہے ہیں.لیکن محض کسانوں کی حمایت کی وجہ سے ان کا نام بد معاشوں میں لکھے جانے کی کوشش کی جارہی تھی جب مجھے یہ حالات معلوم ہوئے تو میں نے مولوی عبد الرحیم صاحب د رود ایم.اے کو اس بارہ میں انسپکٹر جنرل آف پولیس ریاست جموں و کشمیر سے ملاقات کے لئے بھیجا گفتگو کے بعد انسپکٹر جنرل پولیس نے یہ وعدہ کیا کہ وہ جائز کو شش بے شک کریں لیکن زمینداروں کو اس طرح نہ اکسائیں جس سے شورش پیدا ہو اور اس کے مقابلہ میں وہ بھی وعدہ کرتے ہیں کہ ان کو جو ناجائز تکلیفیں پولیس کی طرف سے پہنچ رہی ہیں وہ ان کا ازالہ کر دیں گے اور اسی طرح یہ یقین دلایا کہ جو جائز تکالیف کسانوں کو ہیں ان کا ازالہ کرنے کے لئے ریاست تیا ر ہے ہم
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 387 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ ۵۰ نے یہ یقین کرتے ہوئے کہ یہ وعدے اپنے اندر کوئی حقیقت رکھتے ہیں ان صاحب کو جو اس وقت کسانوں کی حمایت کر رہے تھے یہ یقین دلایا کہ ان کی جائز شکایات پر ریاست غور کرے گی اس لئے وہ کوئی ایسی بات نہ کریں جس سے شورش اور فتنہ کا خوف ہو لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ زمینداروں کی جائز شکایات کو دور ہو نا تو الگ رہا برابر دو سال سے ( یہ الفاظ جون ۱۹۳۱ ء میں لکھے گئے ناقل) ان صاحب کے خلاف ریاست کے حکام کوشش کر رہے ہیں اور باوجود مقامی حکام کے لکھنے کے کہ وہ صاحب نہایت ہی شریف انسان ہیں ان کا نام بد معاشوں میں درج کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ".حضور کے دل کو (جو کشمیر کے بے بس اور مظلوم مسلمانوں کی غلامانہ زندگی اور دکھ بھری داستان پر پہلے ہی بہت دکھی تھا) اس قسم کے اخلاق سوز اور خلاف انسانیت واقعات سے اور زیادہ ٹھیس پہنچی.چنانچہ فرماتے ہیں ”۱۹۲۹ء میں جب مجھے کشمیر جانے کا اتفاق ہوا تو پھر وہاں بعض اس قسم کے حالات دیکھنے میں آئے جن کی وجہ سے وہاں کے لوگوں کی ہمدردی کا نقش اور گہرا ہو گیا.یہی وجہ ہے کہ آپ نے اس سفر میں اہل کشمیر کو اپنی مدد آپ کرنے اور متحد و منظم ہونے کی پر زور تلقین فرمائی جیسا کہ حصہ اول میں بتایا جا چکا ہے.or خواجہ غلام نبی صاحب گلکار سرینگر کے پر جوش سرینگر میں ریڈنگ روم پارٹی کا قیام اموری اور اپنے خاندان میں پہلے اعلی تعلیم یافتہ نوجوان ہیں جسب حضرت خلیفتہ المسیح الثانی سرینگر میں تشریف لائے تو خواجہ صاحب کو بھی حضور کی مجلس سے فیض یاب ہونے کا موقعہ ملا.ملک و قوم کی خدمت کی چنگاری طالب علمی کے زمانہ ہی سے آپ کے اندر دبی ہوئی حضور کی توجہ سے اب سلگنے لگی اور انہوں نے ۱۹۳۰ء کے آغاز میں مختلف پبلک مقامات پر جا جا کر اصلاحی تقاریر کا سلسلہ شروع کر دیا.اور ان میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی نصائح کے پیش نظر تعلیم اتحاد اور معاشرتی رسوم و رواج کی اصلاح پر زور دینے لگے.۵۳ مورخ کشمیر منشی محمد الدین صاحب فوق لکھتے ہیں: جب شیخ محمد عبد اللہ جن کی خدمات ادلین نے ان کو شیر کشمیر کا خطاب دیا ہے علی گڑھ میں تعلیم پارہے تھے خواجہ غلام نبی ان ایام سے بھی قبل اپنی قومی پستی کا زبر دست احساس رکھتے تھے آپ نے چند مسلمانوں کو منظم کیا.لیکن ریاست میں ان ایام میں انجمن بنانا جرم تھا آپ نے مسجدوں دعوتوں ، خانقاہوں اور میلوں اور ایسے ہی اجتماعات سے انجمنوں کا کام لے کر لیکچر وغیرہ شروع کر دیئے آپ کے ساتھ ان دنوں مسٹر عبد الغنی ننگر و ولد صابر جو نگر و ساکن پلوامہ اور فتح کدل سرینگر کے ایک لڑکے غلام حسن ولد حبیب اللہ صابون کے سوا کوئی آگے آنے والا نہ تھا.ان ایام میں شیخ محمد عبد اللہ علی گڑھ سے ایم.ایس.سی ہو کر واپس کشمیر آچکے اور
تاریخ احمدیت، جلد ۵ 388 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد یہ 2 ۵۴ سٹیٹ ہائی سکول میں سائنس ماسٹر مقرر ہو چکے تھے.اور آپ سے اکثر بلکہ روزانہ ملا کرتے تھے.سرینگر کا مشہور اخبار "اصلاح" خواجہ غلام نبی صاحب گلکار کی ان ابتدائی خدمات کا ذکر درج ذیل الفاظ میں کرتا ہے."کشمیر کا ہر کس دنا کسی بخوبی جانتا ہے کہ مسٹر گل کار ہی وہ مایہ ناز ہستی ہے جس کو سب سے پہلے اپنی قوم کی مظلومی و بے کسی کے خلاف آواز اٹھانے کا فخر حاصل ہوا.کشمیر کا بچہ بچہ اس امر کا زندہ گواہ ہے کہ مسٹر گل کار ان ہو نہار نوجوانوں میں سے ہے جس کے دل نے سب سے پہلے قوم کی خستہ حالی پر درد محسوس کیا جو نہی کہ اس نے عالم شباب میں قدم رکھا اس کی نگاہ قوم کی زبوں حالی و بد حالی پر پڑی اور اس کے دل پر ایسی چوٹ پڑی کہ وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر تحریک کشمیر کا جھنڈا بلند کرتا ہوا میدان میں کودا اور خطرات و مصائب کی پروانہ کرتے ہوئے قوم کو بیدار اور ہوشیار کرنے کے لئے عملی جدوجہد شروع کر دی اس مجاہد اعظم کی درد بھری آواز اور مخلصانہ تحریک نے صدیوں کے سوئے ہوئے غلام ملک کو بیدار کیا اور سالہا سال کی روندی ہوئی قوم میں زندگی کی لہر پیدا کر دی.ON جناب خواجہ صاحب کی نمایاں سیاسی زندگی کا آغاز " آل کشمیر مسلم سوشل آپ لفٹ ایسوسی ایشن " سے ہو تا ہے جو نوجوانان سرینگر نے ۱۹۳۰ء میں کشمیری مسلمانوں کی تنظیم کے لئے قائم کی اور جس کے پہلے صدر آپ ہی تجویز ہوئے اس تنظیم کو جن سر بر آوردہ مسلمانوں کی پشت پناہی حاصل تھی ان میں مولوی احمد اللہ صاحب ہمدانی ، مولوی عبد اللہ صاحب وکیل خاص طور پر قابل ذکر ہیں.انہی دنوں ایسوسی ایشن کے ممبروں میں ایک ایسے سرگرم انقلابی لیڈر کا اضافہ ہوا جس نے آئندہ چل کر اندرون ریاست میں تحریک حریت کا جھنڈا اس شان سے بلند کیا کہ وہ خود مجسم تحریک بن گیا.میری مراد شیر کشمیر شیخ محمد عبد اللہ صاحب سے ہے جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم ایس سی ( کیمسٹری) کی ڈگری لیکر سرینگر میں تشریف لائے اور آتے ہی ایسوسی ایشن میں ایک نئی روح پھونک دی - ۸/ مئی ۱۹۳۲ء کو آل کشمیر مسلم سوشل اپ لفٹ ایسوسی ایشن کا پہلا اجلاس کا چنگری مسجد حاجی سم را تھر کے محلہ میں خواجہ محمد سکندر صاحب ٹیلیگراف ماسٹر کے مکان پر ہو ا جس میں قریباً ایک سو نوجوان شامل ہوئے اور انہوں نے حلف اٹھایا کہ ہم ڈوگرہ حکومت سے کشمیر کو آزاد کرا کے چھوڑیں گے.4.- چونکہ ریاست میں سیاسی انجمن بنانے کی اجازت نہ تھی اس لئے لے پایا کہ ایک ریڈنگ روم کھولا جائے جس سے تحریک آزادی کے لئے پراپیگنڈا سنٹر کا کام لیا جا سکے چنانچہ مجوزہ پروگرام کے مطابق دوسرے دن ۹ / مئی ۱۹۳۰ء کو عید الاضحیہ کے دن یہ ریڈنگ روم کھولا گیا اور فتح کدل پر واقع !
تاریخ احمدیت جلد ۵ 389 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد به уро ہونے کی وجہ سے اس کا نام فتح کدل ریڈنگ روم رکھا گیا اور اس سے وابستہ لوگ ”ریڈنگ روم پارٹی " کے نام سے موسوم ہوئے اور اس کے صدر شیر کشمیر محمد عبد اللہ صاحب اور جنرل سیکرٹری خواجہ غلام نبی صاحب گل کار چنے گئے.جموں میں ینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن کے سیاسی لیڈر مثلاً جناب ٹھیکیدار مستری یعقوب علی صاحب چوہدری غلام عباس صاحب جناب سردار گوہر رحمان صاحب) بڑی جانفشانی کوشش، خلوص اور استقلال سے تحریک آزادی کا علم بلند کر رہے تھے اور سرایلین بینرجی کے بیان کے بعد پنجاب کے مسلم پریس کے ذریعہ کشمیر کے اندرونی حالات بیرونی دنیا کے سامنے لا رہے تھے شیخ محمد عبد اللہ صاحب ایسوسی ایشن سے رابطہ اور ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے خود جموں تشریف لے گئے.اور اپنے مشن میں کامیاب واپس اگر جلسوں جلوسوں اور تقریروں کا سلسلہ شروع کر دیا اور اب جموں کی طرح سرینگر سے بھی پنجاب کے مسلم پریس میں ڈوگرہ راج کے ظلم و ستم اور مسلمانوں کی مظلومی اور بیکسی کے متعلق مراسلات اور مضامین بھیجوائے جانے لگے جن اخبارات میں یہ خطوط و مضامین شائع ہوتے تھے ریڈنگ روم پارٹی اسے پھیلا دیتی.ریڈنگ روم پارٹی نے ایک اور خفیہ پارٹی بنائی جو سرکاری ملازموں پر مشتمل تھی جس میں خواجہ علی شاہ صاحب خواجہ غلام محمد صاحب گلکار ، حکیم علی ریشم خانہ غلام احمد صاحب عشائی نظام الدین صاحب مستو، صفدر علی صاحب پیر غلام احمد صاحب فاضل اور پیر غلام رسول صاحب تھے جن کے ذمہ یہ کام تھا کہ مسلمانان ریاست کی ملازمتوں کے اعدادو شمار جمع کر کے پنجاب کے اخبارات کو ارسال کئے جائیں.چنانچہ یہ کام پوری سرگرمی سے جاری رہا.
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 390 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ فصل پنجم تحریک آزادی کے پانچویں دور کا آغاز (اپریل ۱۹۳۱ء سے مئی ۱۹۳۳ء تک) مذہبی مداخلت اور توہین قرآن مجید کے ناگوار واقعات اب ہم ۱۹۳۱ء کے اہم سال میں قدم رکھ رہے ہیں جبکہ تحریک آزادی کشمیر مختلف ابتدائی ادوار میں سے گذرتی ہوئی ایک نئے اور انقلاب انگیز دور میں داخل ہو گئی اور وہ مواد جو اندر ہی اندر بے کس مسلمانوں کے قلوب میں پک رہا تھا پھوٹ کر بہہ نکلا اور مظلوم کی زبان اس کے مظالم کی داستان سے ہویدا ہو گئی یہ انقلاب انگیز دور ۲۹/ اپریل ۱۹۳۱ء سے شروع ہوتا ہے جبکہ عید الاضحیہ کے دن جموں میں ایک آریہ ڈپٹی انسپکٹر پولیس نے ایک خطیب کو عید کا خطبہ پڑھنے سے روک دیا.اور یہ بتانے کے باوجود کہ خطبہ نماز کا ایک ضروری جزو ہے ہندو افسر اس بات پر اڑا رہا میں کہتا ہوں صرف نماز پڑھ سکتے ہو لیکچر کی اجازت نہیں.ریاست کے مسلمان جو صدیوں سے زیر عتاب چلے آرہے تھے یہ واقعہ برداشت نہ کر سکے.اور ینگ مینز ایسوسی ایشن نے اس کے خلاف آواز اٹھائی اور اس سلسلہ میں ایک پوسٹر بھی شائع کیا.جس نے ریاست کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک آگ سی لگادی یہ آتشی ماحول قائم تھا کہ اس کے صرف چند روز بعد ۵ جون کی صبح کو ایک ہندو سارجنٹ کے ہاتھوں قرآن مجید کی سخت بے حرمتی کا دل آزار واقعہ پیش آگیا.جس کی تفصیل یہ ہے کہ جموں پولیس کا ایک مسلمان کا نشیبل صبح کے وقت اپنے کمرہ میں تلاوت کر رہا تھا کہ ایک ہندو سارجنٹ آیا اور کانشیل کو قرآن مجید کی تلاوت کرتے دیکھ کر آپے سے باہر ہو گیا اور اس نے کانسٹیبل کے ہاتھ سے قرآن کریم ( پنجسورہ) چھین کر زمین پر دے مارا.اور غصہ سے کہنے لگا کہ تم یہ بکو اس پڑھ رہے ہو.اور بعد میں حکومت کشمیر نے مسلمان سپاہی کو بر طرفی کی سزا دے دی اور ظالم و سفاک ہندو افسر کو پنشن پر ریٹائر کر دیا جس کے نتیجہ میں کئی مسلمانوں کے زخمی دلوں پر نہایت بیدر دانہ طریق سے نمک پاشی ہوئی.اس زمانہ کے قریب ریاسی کی مسجد بھی گرائی گئی اور ڈھنگوار اور کوٹلی میں نماز پڑھنے کی ممانعت کر دی گئی.ان واقعات کے یکے بعد دیگرے ہونا، ہر واقعہ میں عبادت میں دخل اندازی کا ہونا اور پھر ہر واقعہ میں غیر مسلم پولیس کا ہا تھ ہو نا تا تا ہے کہ یہ اتفاقی حادثات نہیں تھے بلکہ دیدہ دانستہ کسی سکیم کا نتیجہ تھے ۹۵
تاریخ احمدیت جلد ۵ 391 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ اس امر نے قدر تا ریاست کے مسلمانوں کے اندر جوش پیدا کر دیا اور ریاست کی مسلم آبادی میں انتہائی رنج والم کی لہر دوڑ گئی.مسلمانوں نے سخت اضطراب اور بے تابی کی حالت میں حکومت کشمیر سے مناسب تلافی کی استدعا کی اور اس کے ساتھ ہی ان کی آنکھوں کے سامنے وہ مظالم بھی پھر گئے جو ڈوگرہ حکومت ابتداء ہی سے ان پر کرتی آرہی تھی اور انہیں یہ احساس ہوا کہ ریاست کے افسران یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ جموں کشمیر میں اب مسلمان محض ذلیل اور غلامانہ حیثیت میں رہ سکتا ہے چنانچہ ساری ریاست میں اس کے خلاف پروٹسٹ شروع ہو گیا جلسے کئے گئے اور برطانوی ہند کے مسلم پریس نے خصوصاً زبردست تنقید کی.مگر حکومت جموں و کشمیر نے کوئی مصالحانہ قدم اٹھانے کی بجائے اور زیادہ تختی شروع کر دی اور مسلم اخبارات کے داخلے بند کرنے شروع کر دیئے چنانچہ "انقلاب" "مسلم آؤٹ لک" اور "سیاست" کا ریاست کے اندر داخلہ ممنوع قرار دے دیا گیا.جب بعض مسلم اخباروں نے بعض دوسرے ناموں سے اخبارات نکالنے شروع کئے تو ان کے داخلے بھی بند کر دیئے گئے اس طرح ریاست کے مسلمانوں اور باہر کے مسلمانوں میں جدائی ڈال دینے سے ریاستی مسلمانوں اور برطانوی ہندوستان کے مسلمانوں میں شدید گھبراہٹ پیدا ہو گئی.ریاست کے مسلمان نوجوانوں کا ایک وفد ۹/ جون ۱۹۳۱ء کو (ریاست کے انگریز وزیر) مسٹرو یکفیلڈ (Mr.G.E.C.Wakefield) سے ملا جو ایک روز قبل بغرض تحقیق کشمیر سے جموں آئے تھے اور جموں کی تمام اسلامی انجمنوں کے صدر اور سیکرٹری مدعو کر کے مسلمانوں کی شکایات سے متعلق گفتگو کر چکے تھے.مسلم وفد نے پانچ گھنٹے تک ان سے تبادلہ خیالات کیا.اپنے ضروری مطالبات ان کے سامنے رکھے اور درخواست کی کہ وہ ان کو مہاراجہ صاحب جموں و کشمیر کے سامنے پیش کریں.مسٹرو یکفیلڈ (وزیر دفاع و پولیٹکل امور) نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ اپنا ایک وفد سری نگر میں مہاراجہ صاحب کے پاس لے جائیں اور وعدہ کیا کہ مسلمانوں کی تکالیف مہاراجہ صاحب کے سامنے پیش کریں گے.اور ان کے ازالہ کی کوشش کریں گے.چنانچہ ان کی اس یقین دہانی پر جموں کے چار مسلمان لیڈروں کا ایک وفد تجویز ہوا جس کے نام مندرجہ ذیل تھے.(۱) چوہدری غلام عباس صاحب (۲) مستری یعقوب علی صاحب (۳) سردار گو ہر رجمان صاحب (۴) شیخ عبد الحمید صاحب ایڈووکیٹ.
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 392 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی طرف سے جونی یہ خبر روزنامہ انقلاب مورخہ ۱۲ جون ۱۹۳۱ء میں شائع ہوئی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی آزادی کشمیر سے متعلق مضامین کا آغاز ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی خداداد فراست و ذہانت سے قطعی طور پر اس نتیجے پر پہنچے کہ آزادی کشمیر کا یہ نہایت سنہری موقعہ ہے اور اس وقت کی خاموشی کشمیریوں کی ابدی غلامی پر منتج ہوگی.چنانچہ آپ نے انقلاب میں ہی ایک مضمون لکھا.جو ۱۶/ جون ۱۹۳۱ء کو الفضل میں بھی شائع ہوا.اس مضمون میں حضور نے تحریر فرمایا :- میں متواتر کئی سال سے کشمیر میں مسلمانوں کی جو حالت ہو رہی ہے اس کا مطالعہ کر رہا ہوں اور لیے مطالعہ اور غور کے بعد اس نتیجہ پر پہنچنے پر مجبور ہوا ہوں کہ جب تک مسلمان ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار نہ ہوں گے یہ زرخیز خطہ جو نہ صرف زمین کے لحاظ سے زرخیز ہے بلکہ دماغی قابلیتوں سے بھی حیرت انگیز ہے کبھی بھی مسلمانوں کے لئے فائدہ بخش تو کیا آرام دہ ثابت نہیں ہو سکتا.کشمیر ایک ایسا ملک ہے جسے صنعت و حرفت کا مرکز بنایا جاسکتا ہے.اس ملک کے مسلمانوں کو ترقی دیگر ہم اپنی صنعتی اور دینی پستی کو دور کر سکتے ہیں.اس کی آب و ہوا ان شدید تغیرات سے محفوظ ہونے کی وجہ سے جو پنجاب میں پائے جاتے ہیں بارہ مہینے کام کے قابل ہے.ہندوستان کی انڈسٹریل ترقی میں اس کا موسم بہت حد تک روک ہے لیکن کشمیر اس روک سے آزاد ہے اور پھر وہ ایک وسیع میدان ہے جس میں عظیم الشان کار خانوں کے قائم کرنے کی پوری گنجائش ہے پس تمام مسلمانوں کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ وہ اس ملک کو اس تباہی سے بچانے کی کوشش کریں جس کے سامان بعض لوگ پوری طاقت سے پیدا کر رہے ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسلمان اخبارات جیسے انقلاب.مسلم آؤٹ لک - سیاست اور سن رائز اور اسی طرح نیا اخبار کشمیری مسلمان جموں اور کشمیر کے مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت میں بہت کچھ حصہ لے رہے ہیں لیکن خالی اخبارات کی کوششیں ایسے معاملات کو پوری طرح کامیاب نہیں کر سکتیں.ضرورت ہے کہ ریاست کشمیر کو اور گورنمنٹ کو پوری طرح اس بات کا یقین دلایا جائے کہ اس معاملے میں سارے کے سارے مسلمان خواہ وہ بڑے ہوں یا کہ چھوٹے ہوں کشمیر کے مسلمانوں کی تائید اور حمایت پر ہیں اور ان مظالم کو جو وہاں کے مسلمانوں پر جائز رکھے جاتے ہیں کسی صورت میں برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں جہاں تک میں سمجھتا ہوں ریاست پر اور گورنمنٹ پر زور ڈالنے کے سامان مفقود نہیں ہیں ہم دونوں طرف زور ڈال سکتے ہیں ضرورت صرف متحدہ کوشش اور عملی جدوجہد کی ہے.میں نے ان مطالبات کو جو مسلمانان کشمیر کی طرف سے مسٹرو یکفیلڈ کے سامنے پیش ہوئے ہیں
تاریخ احمدیت جلد ۵ 393 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدید دیکھا ہے میرے نزدیک وہ نہایت ہی معقول اور قلیل ترین مطالبات ہیں اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں ان میں اس مطالبہ کو بھی شامل کرنے کی ضرورت ہے کہ کشمیر کے علاقہ میں انجمنیں قائم کرنے پر جو روک پیدا کی جاتی ہے اس کو بھی دور کیا جائے جہاں تک مجھے علم ہے یہی پونچھ کے علاقہ میں بھی روک ہوتی ہے اور اجازت کی ضرورت ہوتی ہے یعنی جس طرح تحریر و تقریر کی مکمل آزادی کا مطالبہ کیا گیا ہے اسی طرح اجتماع کی مکمل آزادی کا بھی مطالبہ کیا جائے اور میرے نزدیک علاقہ کشمیر کے مسلمانوں کے زمیندارہ حقوق جو ہیں ان پر نظر ثانی کا مطالبہ بھی ہونا چاہئے کشمیر کے مسلمانوں کا بیشتر حصہ زمیندار ہے لیکن وہ لوگ ایسے قیود میں جکڑے ہوئے ہیں کہ سراٹھانا ان کے لئے ناممکن ہے عام طور پر کشمیر کے علاقہ میں کسی نہ کسی بڑے زمیندار کے قبضہ میں جائدادیں ہوتی ہیں اور وہ لوگ انہیں تنگ کرتے رہتے ہیں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دو چار مسلمان زمیندار بھی ہیں لیکن دو چار مسلمانوں کی وجہ سے کشمیر کے لاکھوں مسلمانوں کو غلام نہیں بنے رہنے دینا چاہئے.جہاں تک میں سمجھتا ہوں اگر ہمیں کشمیر رجموں کے مسلمانوں کی آزادی کا سوال حل کرنا مطلوب ہے تو اس کا وقت اس سے بہتر نہیں ہو سکتا.ہندوستان کی آزادی کی تحریک کے نتیجہ میں قدرتی طور پر انگلستان اپنے قدم مضبوط کرنے کے لئے ریاستوں کو آئندہ بہت زیادہ آزادی دینے پر آمادہ ہے اگر اس وقت کے آنے سے پہلے جموں اور کشمیر کے مسلمان آزاد نہ ہو گئے تو وہ بیرونی دباؤ جو جموں اور کشمیر ریاست پر آج ڈال سکتے ہیں کل نہیں ڈال سکیں گے پس میرے نزدیک اس بات کی ضرورت ہے کہ ایک کانفرنس جلد سے جلد لاہور یا سیالکوٹ یا راولپنڈی میں منعقد کی جائے.اس کانفرنس میں جموں اور کشمیر سے بھی نمائندے بلوائے جائیں اور پنجاب اور اگر ہو سکے تو ہندوستان کے دو سرے علاقوں کے مسلمان لیڈروں کو بھی بلایا جائے اس کانفرنس میں ہمیں پورے طور پر جموں اور کشمیر کے نمائندوں سے حالات سن کر آئندہ کے لئے ایک طریق عمل تجویز کر لینا چاہئے اور پھر ایک طرف حکومت ہند پر زور ڈالنا چاہئے وہ کشمیر کی ریاست کو مجبور کرے کہ مسلمانوں کو حقوق دیئے جائیں.دوسری طرف مہاراجہ صاحب کشمیر و جموں کے سامنے پورے طور پر معاملہ کو کھول کر رکھ دینے کی کوشش کی جائے ماکہ جس حد تک ان کو غلط فہمی میں رکھا گیا ہے وہ غلط فہمی دور ہو جائے اور اگر ان دونوں کو ششوں سے کوئی نتیجہ نہ نکلے تو پھر ایسی تدابیر اختیار کی جائیں کہ جن کے نتیجہ میں مسلمانان جموں اور کشمیر وہ آزادی حاصل کر سکیں جو دوسرے علاقہ کے لوگوں کو حاصل ہے چونکہ ریاست ہندو ہے ہمیں کوئی اعتراض نہ ہو گا کہ ہم اپنے حقوق میں سے کچھ حصہ رئیس کے خاندان کے لئے چھوڑ دیں لیکن یہ کسی صورت میں تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ پچانوے فیصدی آبادی کو پانچ فیصدی بلکہ اس سے بھی کم حق دے
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 394 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ کر خاموش کر دیا جائے.میرے خیال میں کشمیری کانفرنس نے جو کچھ کام اس وقت تک کیا ہے وہ قابل قدر ہے لیکن یہ سوال اس قسم کا نہیں کہ جس کو باقی مسلمان کشمیریوں کا سوال کہہ کر چھوڑ دیں مسلمانان جموں و کشمیر کو اگر ان کے حق سے محروم رکھا جائے تو اس کا اثر صرف کشمیریوں پر ہی نہیں پڑے گا بلکہ سارے مسلمانوں پر پڑے گا اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ دوسرے مسلمان تماشائی کے طور پر اس جنگ کو دیکھتے رہیں.میں سمجھتا ہوں کہ اس کانفرنس کی دعوت کشمیری کانفرنس کی طرف سے جاری ہونی چاہئے لیکن دعوت صرف کشمیریوں تک ہی محدود نہیں رہنی چاہئے بلکہ تمام مسلمانوں کو جو کوئی بھی اثر و رسوخ رکھتے ہیں اس مجلس میں شریک ہونے کی دعوت دینی چاہئے.اور کوئی وجہ نہیں کہ اگر متحدہ کوشش کی جائے تو اس سوال کو جلد سے جلد حل نہ کیا جا سکے " حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی طرف سے آزادی کشمیر میں دلچسپی لینے کے فوری وجوہ مسئلہ کشمیر کے لئے میدان عمل میں آنے کے چار اہم وجوہ و اسباب تھے.جن پر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنے قلم سے روشنی ڈالتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:." مجھے جو فوری توجہ کشمیر کے مسئلہ کی طرف ہوئی اس کی چار وجوہات تھیں پہلی وجہ تو یہ تھی کہ میں کشمیر کا کئی دفعہ سفر کر چکا تھا.اور میں نے وہاں کے مسلمانوں کی مظلومیت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہوا تھا.اور دوسری وجہ یہ تھی کہ پچاس ہزار کے قریب وہاں احمد ہی تھے جن کے حالات احمد یہ جماعت میں شامل ہونے کی وجہ سے مجھے قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملتا تھا.اور اس وجہ سے ان کی مظلومیت مجھے پر زیادہ سے زیادہ ظاہر ہوتی رہتی تھی.تیسرے نواب امام دین صاحب جو مہاراجہ رنجیت سنگھ سکھ بادشاہ کے زمانہ میں جالندھر کے گورنر تھے ان کو کشمیر کے خراب حالات دیکھ کر سکھ گورنمنٹ نے گورنر بنا کر کشمیر بھجوایا کشمیر کے حالات خراب تھے خصوصاً اردگرد بسنے والے ڈوگروں کی وجہ سے یہ خرابی بڑھ گئی تھی.اس لئے نواب امام دین صاحب کا یہ خیال تھا کہ یہ کام آسان نہیں بلکہ بہت مشکل ہے انہوں نے سکھ گورنمنٹ سے اصرار کیا کہ مجھے اپنے ساتھ بطور مددگار میرزا غلام مرتضی رئیس قادیان کو بھی ساتھ لے جانے کی اجازت دی جائے.میرزا غلام مرتضی صاحب میرے دادا تھے اور نواب امام دین صاحب کے نہایت گہرے دوست تھے چنانچہ یہ دونوں کشمیر گئے اتنے میں انگریزوں اور سکھوں کی لڑائی ہوئی.اور انگریزوں نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے لڑکے پر فتح پائی اور انہوں نے تاوان جنگ کے طور پر ۷۵ لاکھ نانک شاہی روپیہ مانگا.جو تقریباً پچاس لاکھ موجودہ سکہ کے برابر تھا.چونکہ سکھ خزانے اس وقت خالی تھے اور انگریزوں نے جو سکھوں پر فتح پائی تھی اس میں اندرونی سازش مہا راجہ
تاریخ احمد جلد ۵ 395 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ دھیان سنگھ جرنیل مجیٹھ اور جرنیل سردار گلاب سنگھ بھاگو والیہ (جو رشتہ داری کے لحاظ سے پٹیالہ اور کپور تھلہ سے ہی تعلق رکھتا تھا) کی تھی اس لئے انگریزوں نے سکھ حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ ۷۵ لاکھ چہرہ نانک شاہی کے بدلہ میں کشمیر مہاراجہ گلاب سنگھ کے پاس بیچ دیں.اس کے بعد ریاست کشمیر نے اپنے ارد گرد کا ایک وسیع علاقہ جو چھوٹے چھوٹے مسلمان حکمرانوں کے ماتحت تھا قیام امن کے نام سے فتح کیا.گلگت کا بہت سا علاقہ مظفر آباد کا بہت سا علاقہ اور ریاسی کا بہت سا علاقہ سب اسی قسم کا ہے مہاراجہ گلاب سنگھ کے پاس اس جائداد کے جانے سے اس سکیم کی وجہ سے جس پر ڈوگرے عمل کرنا چاہتے تھے یعنی مسلمان ریاستوں کو تباہ کر کے ریاست جموں و کشمیر میں ملانا چاہتے تھے نواب امام دین صاحب نے بغاوت کرنا چاہی اور ان مسلمان ریاستوں کا ایک حصہ بنانا چاہا.لیکن باقی مسلمانوں نے ان کو مشورہ دیا کہ یہ لڑائی انگریزوں کے ساتھ ہوگی.اور انگریزوں کے ساتھ پہاڑی نواب نہیں لڑسکتے ہیں اس لئے نواب امام دین صاحب چارج دیکر وہاں سے آگئے.چوتھی وجہ کشمیر میں دلچپسی کی یہ تھی کہ میرے استاد اور جماعت احمدیہ کے پہلے خلیفہ اور میرے خسر حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب کشمیر میں بطور شاہی حکیم کے ملازم رہے تھے اور راجہ ہری سنگھ کا باپ امر سنگھ اور چا رام سنگھ اس وقت دونوں ۱۵-۱۵-۱۲-۱۶ سال کی عمر کے تھے.ان دونوں نے اسلام کی خوبیوں کو محسوس کیا اور حضرت مولوی نور الدین صاحب سے خواہش کی کہ وہ انہیں قرآن شریف پڑھا ئیں اور آپ نے ان کو مخفی طور پر قرآن شریف پڑھانا شروع کیا.۱۴- ۱۴- ۱۵-۱۵ پارے پڑھے تھے کہ اس وقت کے مہاراجہ کو خبر ہو گئی جو مہاراجہ ہری سنگھ موجودہ راجہ کے تایا تھے اور ان کا نام پر تاپ سنگھ تھا انہوں نے اسی وقت مولوی صاحب کو تو تین دن کے اندراندرجموں سے نکل جانے کا حکم دے دیا.اور ان لڑکوں کو عملاً نظر بند کر دیا.چوری چھپے کبھی بعد میں بھی حضرت مولوی صاحب سے خط و کتابت کرتے رہتے تھے.چنانچہ میں نے ان کے بعض خط حضرت مولوی صاحب کے نام خود پڑھے ہیں انکا حضرت مولوی صاحب سے ایسا تعلق تھا کہ امر سنگھ آپ کو اپنے خطوں میں اپنے بزرگ کے طور پر مخاطب کیا کرتا تھا، پس ایک طرف مسلمانوں کی ہمدردی اور ان کی مظلومیت کے احساس کی وجہ سے اور دوسری طرف اس خواہش کی وجہ سے کہ کشمیر جس میں میرے دادا سالہا سال تک کام کرتے رہے ہیں اور پھر اس وجہ سے کہ مہاراجہ ہری سنگھ کے باپ نے میرے خسر سے قرآن کریم پڑھا ہے ان سب کی ترقی کے لئے کوشش کروں میں نے فورا اس معاملہ میں دلچسپی لینی شروع کردی"
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 396 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ ۱۶ جون کے تاریخی مضمون کی بازگشت تحریک آزادی میں دلچسپی لینے کے عوامل و / محرکات کا تذکرہ کرنے کے بعد اب ہم دوبارہ ۱۶/ جون ۱۹۳۱ء کے مضمون کی طرف آتے ہیں یہ تاریخی مضمون جو گویا جنگ آزادی کا پہلا بگل تھا جب "انقلاب" اور "الفضل" میں شائع ہوا تو اس کی صدائے بازگشت یہ پیدا ہوئی کہ اول تو روزنامہ "سیاست" (لاہور) نے اسکی تائید میں ایک مضمون بعنوان کشمیر کانفرنس کے انعقاد کی تجویز لکھا.دوسرے مسلمانان ہند کے نامور صوفی لیڈر جناب شمس العلماء خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی نے حضور کو خط لکھا کہ اب دیر نہیں کرنا چاہئے اور جلد کشمیر کانفرنس کی تحریک کر دینا چاہئے.جنرل سیکرٹری مسلم کشمیری کانفرنس کا مکتوب تیرے سید محسن شاہ صاحب بی.اے.ایل ایل بی ایڈووکیٹ جنرل سیکرٹری مسلم کشمیری کا نفرنس لاہور نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کو مندرجہ ذیل مکتوب لکھا جو انقلاب یکم جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ ۳ پر بھی شائع ہوا.مکرمی محتری جناب مرزا صاحب السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ میں نے آپ کا مضمون "ریاست کشمیر و جموں میں مسلمانوں کی حالت اور ایک خاص کشمیری کانفرنس منعقد کرنے کی ضرورت اخبار "انقلاب" مورخہ ۱۶ / جون میں پڑھا.مجھے آپ کے خیال سے کلی اتفاق ہے اور مسلمانان کشمیر کی حالت زار پر جو تجویز آپ نے تحریر فرمائی ہے وہ نہایت مفید اور قابل عمل ہے میرا خیال تھا کہ آپ مجھے بحیثیت آل انڈیا مسلم کشمیری کا نفرنس یہ تجویز تحریر کریں گے تاکہ میں اسے کانفرنس کی مجلس عاملہ میں پیش کروں مگر مجھے آج کے انقلاب مورخہ ۲۳/ جون ۱۹۳۱ء سے معلوم ہوا کہ آپ چاہتے ہیں کہ میں اخبار کے ذریعہ آپ کی تجویز کے متعلق اپنی رائے تحریر کروں لہذا یہ چند سطور آپ کی خدمت میں بھیجتا ہوں میں کانفرنس کا مجلس عاملہ کا جلسہ آئندہ ۵/ جولائی کو منعقد کروں گا جو فیصلہ ہو گا اس سے آپ کو مطلع کردوں گا مگر میری ذاتی رائے یہ ہے کشمیر کا معاملہ ایسا معاملہ ہے جس میں سب مسلمانوں کا متفقہ طور پر شریک ہونا نہایت مفید ہو گا اور اس کے لئے ایک الگ انجمن قائم کرنی زیادہ مفید ہو گی لاہور کے اہل الرائے اصحاب سے میری اس معاملہ میں گفتگو ہوئی ہے اور یہ سب کی رائے ہے کہ یہ کام ایک الگ جماعت کے سپرد ہو تو اس سے جلد مفید نتیجہ نکلے گا.اور اس کے لئے بھی عنقریب لاہور میں ایک جلسہ منعقد کیا جائے گا.جس میں اگر آپ شریک ہوں تو بہت ہی اچھا ہو ورنہ آپ اپنے کسی نمائندے کو بھجوا دیں میں اس جلسے کی اطلاع آپ کو اور دیگر ہر رو اصحاب کو دوں گا.اور اس جلسے میں مجوزہ کانفرنس کے ابتدائی مراحل طے کئے جائیں گے میں اور تمام مسلمان آپ کے شکر گزار ہیں کہ آپ
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 397 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد به نے اس معاملے میں دلی ہمدردی اور دلچسپی کا اظہار فرمایا ہے جس سے یقین کامل ہے کہ بہت جلد مفید عملی نتائج پیدا ہوں گے.خداوند کریم آپ کو اس نیک کام میں حصہ لینے کے لئے جزا ہائے خیر عطا فرمائے".والسلام نیازمند محسن شاہ آنریری جنرل سیکرٹری مسلم کشمیری کا نفرنس - 1 آزادی کشمیر سے متعلق دو سرا مضمون اس رد عمل پر حضور نے ایک اور مضمون رقم فرمایا جو روزنامه انقلاب مورخه ۲۵/ جون ۱۹۳۱ ء اور روزنامہ الفضل ۱۲ جولائی ۱۹۳۱ء میں شائع ہوا.حضور نے اس مضمون میں لکھا کہ " آل انڈیا مسلم کشمیری کا نفرنس " جیسے ادارہ کو چاہئے کہ وہ اس تجویز کو عملی جامہ پہنانے کے لئے دعوت نامہ شائع کرے اور مقام اجتماع کا اعلان کرے لیکن اگر مصلحت کی وجہ سے وہ اس کام کو ہاتھ میں نہ لینا چاہے تو پھر ہم لوگوں میں سے کوئی اس کا محرک ہو سکتا ہے".اپنی اس ذاتی رائے کا اظہار کرنے کے بعد حضور نے کشمیر کانفرنس سے متعلق قیمتی مشورے دینے کے بعد تحریر فرمایا :- اب بھی میرا یہی خیال ہے کہ کشمیری کا نفرنس کے سیکرٹری صاحب کو اس کام کے لئے کھڑا ہونا چاہئے مجھے اچھی طرح معلوم نہیں کہ وہ کون صاحب ہیں مگر میں امید کرتا ہوں کہ کام کو سہولت سے چلانے کے لئے وہی اس مجلس کے انعقاد کی کوشش کریں گے کیونکہ ہر کام کے لئے بلا ضرورت و مصلحت الگ الگ انجمنوں کا بنانا تفرقہ اور انشقاق پیدا کرتا ہے لیکن اگر کسی وجہ سے وہ اس کام کو کرنا پسند نہ فرماتے ہوں تو میں ان سے درخواست کروں گا کہ وہ اخبار کے ذریعہ سے اس کی اطلاع کردیں.تاکہ کوئی دوسرا انتظام کیا جائے."سیاست" کے مضمون نگار صاحب نے تحریر فرمایا ہے کہ کشمیر کے نمائندوں کا طلب کرنا نا ممکن ہو گا لیکن میرے نزدیک یہ نا ممکن نہیں ، مجھے جو اطلاعات کشمیر سے آرہی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے.کہ کشمیر میں سینکڑوں آدمی اس امر کے لئے کھڑے ہو گئے ہیں.کہ اپنی جان اور مال کو قربان کر کے مسلمانوں کو اس ذلت سے بچائیں جس میں وہ اس وقت مبتلا ہیں اور کشمیر والوں نے ایک انجمن سات آدمیوں کی ایسی بنائی ہے.جس کے ہاتھ میں سب کام دے دیا گیا ہے.ہو سکتا ہے کہ انجمن اپنے میں سے کسی کو یا اپنے حلقہ سے باہر سے کسی شخص کو نمائندہ مقرر کر کے بھیج دے اسی طرح گاؤں کے علاقوں سے بھی نمائندے بلوائے جاسکتے ہیں اگر ریاست کشمیر کی طرف سے روک کا احتمال ہو تو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان نمائندوں کا علم بھی کسی کو نہ دیا جائے لیکن اگر بفرض محال ہم کشمیر سے نمائندے طلب نہ بھی کر سکیں.تو پھر ہم یہ کر سکتے ہیں کہ ایک دو معتبر آدمیوں کو اپنی طرف سے کشمیر بھجوا دیں وہ بہت
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 398 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ معروف نہ ہوں اور نہ ان کے نام شائع کئے جائیں کشمیر پہنچ کروہ کشمیر کی انجمن اور دوسرے علاقوں کے سر بر آوردہ لوگوں سے مشورہ کر کے ان کے خیالات کو نوٹ کر کے لے آئیں.اور کانفرنس میں ان سے فائدہ اٹھا لیا جائے.بہر حال کشمیر کے حقیقی مطالبات کا علم ہونا بھی ضروری ہے کیونکہ مختلف علاقوں میں مختلف طور ظلم ہو رہا ہے اور ہم دور بیٹھے اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے لیکن باوجود اس کے میرا یہ مطلب نہیں کہ اگر کشمیر کے نمائندے نہ آسکیں تو ہم کوئی کام ہی نہ کریں.اگر ان سب تجاویز میں سے کسی پر بھی عمل نہ ہو تو بھی ہمیں کانفرنس کرنی چاہئے جو باشندگان کشمیر کشمیر سے باہر ہیں وہ کم کشمیری نہیں ہیں ہم اس کی مدد سے جس حد تک مکمل ہو سکے اپنی سکیم تیار کر سکتے ہیں.یہ ضروری ہے کہ یہ کانفرنس تمام فرقوں اور تمام اقوام کی نمائندہ کانفرنس ہو تاکہ متفقہ کوشش سے کشمیر کے سوال کو حل کیا جا سکے.اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس غرض کے لئے ان مسلمانوں کو بھی ضرور دعوت دینی چاہئے جو کانگریس سے تعلق رکھتے ہیں اور میں نہیں سمجھتا کہ وہ لوگ اس کام میں دوسرے مسلمانوں سے پیچھے رہیں گے."سیاست" کے مضمون نگار صاحب نے ایک پلیٹی کمیٹی کشمیر کے قیام کی بھی تجویز پیش کی ہے میں اس سے بالکل متفق ہوں اور یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس بارہ میں میں کشمیر کے دوستوں کو پہلے سے لکھ چکا ہوں کہ کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کو کامیاب کرنے کے لئے ہندوستان اور اس کے باہر بھی پروپیگنڈا کی ضرورت ہوگی اور میں اس کام میں سے یہ حصہ اپنے ذمہ لیتا ہوں کہ پارلیمنٹ کے ممبروں اور گورنمنٹ ہند کو کشمیر کے مسلمانوں کے حالات سے آگاہ کرتا رہوں اور کشمیر کے حالات کے متعلق پارلیمنٹ میں سوال کروا تار ہوں اس کے جواب میں مجھے یہ اطلاع بھی آگئی ہے کہ وہاں بعض دوست ایسے حالات جمع کرنے میں مشغول ہیں جن سے ان مظالم کی نوعیت ظاہر ہو گی.جو اس وقت کشمیر کے مسلمانوں پر روا ر کھے جاتے ہیں اس فہرست کے آتے ہی میں ایک اشتہار میں ان کا مناسب حصہ درج کر کے پارلیمنٹ کے ممبروں میں اور دوسرے سر بر آوردہ لوگوں میں تقسیم کراؤں گا اور گورنمنٹ ہند کو بھی توجہ دلاؤں گا.اس وقت غلامی کے خلاف سخت شور ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ کشمیر کی لاکھوں کی آبادی بلا قصور غلام بنا کر رکھی جائے آخر غلام اس کو کہتے ہیں جسے روپیہ کے بدلے میں فروخت کر دیا جائے اور کیا یہ حق نہیں کہ کشمیر کو روپیہ کے بدلہ میں حکومت ہند نے فروخت کر دیا تھا پھر کیا ہمارا یہ مطالبہ درست نہیں کہ جبکہ انگریز عرب اور افریقہ کے غلاموں کو آزاد کرانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ ان غلاموں کو
399 تحریک آزادی کشمیر ا د ر جماعت احمدیه بھی آزاد کرا ئیں جن کی غلامی کا سبب وہ خود ہوئے ہیں میں سمجھتا ہوں ہر ایک دیانتدار آدمی اس معالمہ میں ہمارے ساتھ ہو گا.بلکہ میرا تو یہ خیال ہے کہ خود مہاراجہ سر ہری سنگھ صاحب بھی اگر ان کے سامنے سب حالات رکھے جائیں تو اس ظلم کی جو ان کے نام سے کیا جا رہا ہے اجازت نہ دیں گے اور مسلمانوں کو ان کے جائز حقوق دے کر اس فیڈریشن کے اصل کو مضبوط کریں گے جس کی وہ تائید کر رہے ہیں.آزادی کشمیر سے متعلق تیرا مضمون حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے اس دوسرے مضمون پر مختلف طور پر حاشیہ آرائی ہوتی رہی.- بعض لوگوں نے کشمیر کے ساتھ دلچسپی پیدا کرنے کے لئے یوم کشمیر منانے کے فیصلے کئے لیکن بد قسمتی سے کسی نظام کے تحت نہیں پشاور نے الگ تاریخ مقرر کر دی کا پور نے الگ اور لاہو ر نے الگ تب حضور نے تیسرا مضمون لکھا جو الفضل مورخہ ۱۶ / جولائی ۱۹۳۱ء میں اور انقلاب ۱۸/ جولائی ۱۹۳۱ء میں شائع ہوا اور اس میں آپ نے بتایا کہ یہ کام بغیر نظام کے ہونے والا نہیں انگریز کہہ چکا ہے کہ میں ریاستوں کے معاملہ میں دخل نہیں دوں گا.اور ہندو اور مسلمان ان کی اس پالیسی کو پسند کر چکے ہیں اس لئے جب تک کل ہند بنیاد پر کوئی تحریک جاری نہ کی گئی اور ان مشکلات کو سوچ کر کوئی قدم نہ اٹھایا گیا.اس وقت تک یہ سوال کبھی بھی حل نہیں ہو گا.پس میں تحریک کرتا ہوں کہ ایک ایسے مقام پر جہاں کشمیر کے لوگ بھی آسکیں کل ہند مسلم اجتماع کیا جائے چنانچہ حضور کے الفاظ یہ تھے.میں تمام ان ذمہ دار اشخاص کو جو یا تو نسلاً کشمیری ہیں یا مسئلہ کشمیر سے ہمدردی رکھتے ہیں توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس کام کے کرنے کے لئے ایک نظام تجویز کریں کوئی لوکل کمیٹی خواہ کتنے ہی بااثر آدمیوں پر مشتمل ہو اس کام کو نہیں کر سکتی.جب تک کہ ایک آل انڈیا کانفرنس مسلمانوں کی اس مسئلہ پر غور نہ کرلے گی.اور اس کے لئے ایک متفقہ پروگرام تجویز نہ کرے گی اس سوال کا حل ناممکن ہے.ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ یہ سوال براہ راست برطانوی ہند کے باشندوں سے تعلق نہیں رکھتا اور ہمارے یہاں کے مظاہرے ریاست کشمیر پر کوئی اثر نہیں ڈال سکتے.دوسرے باشندگان کشمیر ابھی تعلیم میں بہت پیچھے ہیں اور بوجہ اس کے کہ ان کو کسی قسم کی بھی آزادی حاصل نہیں عوام الناس میں با قاعدہ جد وجہد کی بھی ہمت کم سے تیسرے ریاستوں میں اس طرح کی آئینی حکومت نہیں ہوتی جس طرح کی حکومت برطانوی علاقہ میں ہے نہ ان کا کوئی قانون مقرر ہے نہ ان کا کوئی ریکارڈ ہوتا ہے وہ جس طرح چاہتی ہے کرتی ہے اور
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 400 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ پھر اپنے منشاء کے مطابق اپنے فعل کی تشریح کر کے دنیا کے سامنے پیش کر دیتی ہے.چوتھے حکومت ہند ریاستوں کے معالمہ میں غیر جانبدار رہنے کا اعلان کر چکی ہے اور ان کی اس پالیسی کی تائید مسلمان بھی کر چکے ہیں پس حکومت ہند پر اس معاملہ میں زور دینا کوئی معمولی کام نہیں ہو گا اور ہمیں نہایت غور کے بعد کوئی ایسی راہ تلاش کرنی پڑے گی کہ ہمارا اصول بھی نہ ٹوٹے اور ہمارا کام بھی ہو جائے.پس ان حالات میں ہمیں اپنا پروگرام ایسی طرز پر بنانا ہو گا کہ کشمیر کے مسلمانوں کی ہمت بھی قائم رہے اور حکومت ہند پر بھی ہم زور دے سکیں.اور کوئی ایسی بات بھی ہم سے صادر نہ ہو جس کا اثر ہمارے بعض دوسرے اصولوں پر جو مسئلہ کشمیر سے کم اہم نہیں ہیں پڑتا ہے اور ایسا پروگرام آل انڈیا کا نفرنس کے بعد ہی مقرر کیا جا سکتا ہے.میں دیکھتا ہوں کہ ہمارے بعض دوست یہ خیال کر رہے ہیں کہ محض ان شکایات کو پیش کر دینا اور کرتے رہنا جو جموں اور کشمیر کے مسلمانوں کو ریاست سے ہیں ہمارے لئے کافی پروگرام ہے حالانکہ یہ درست نہیں اس سوال میں بعض ایسی پیچیدگیاں ہیں کہ اخبارات کے صفحات پر بھی ہم ان کو نہیں لا سکتے.اور میں ان مسلمانوں کو جو جوش تو رکھتے ہیں لیکن کسی نظام کے تحت کام کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں.بتا دینا چاہتا ہوں اگر کافی غور و فکر کے بعد اور وسیع مشورہ کے بعد اس کا پروگرام تیار نہ کیا گیا تو آئندہ بعض ایسے سوالات پیدا ہو جائیں گے جن کا حل ان کے امکان سے باہر ہو گا.لیکن اس وقت پچھتانے سے کچھ حاصل نہ ہو سکے گا.اور مسلمانوں کو بعض ایسے نقصانات پہنچ جائیں گے جن کا خیال کر کے بھی دل کو تکلیف ہوتی ہے پس میں پھر ایک دفعہ ان ذمہ دار لیڈروں کو جو برطانوی ہند کی کشمیر برادری میں رسوخ رکھتے ہیں توجہ دلاتا ہوں کہ وہ نہایت محدود لیکن ہندوستان بھر کے چوٹی کے لیڈروں کی ایک کانفرنس کسی ایسے مقام پر جہاں جموں اور کشمیر کے مسلمان بھی آسکیں منعقد کریں.تا کہ اس موقعہ پر ان تمام مشکلات پر غور کر کے جو ہمارے رستے میں حائل ہیں ایک ایسا پروگرام تیار کیا جائے جس پر عمل کر کے بغیر کسی نئی پیچیدگی کے پیدا ہونے کے ہم مسلمانان کشمیر کی آزادی کے مسئلہ کو حل کر سکیں.اس پروگرام کے بعد ہی میرے نزدیک کشمیر ڈے کی کوئی تاریخ مقرر کرنی چاہئے اور اتنا عرصہ پہلے سے وہ تاریخ مقرر ہونی چاہئے کہ سارے ہندوستان میں جلسہ کی تیاری کی جا سکے اس دن علاوہ کشمیر کے حالات سے مسلمانوں کو واقف کرنے کے پروگرام کا وہ حصہ بھی لوگوں کو سنایا جائے جس کا شائع کرنا مناسب سمجھا جائے اور ہر مقام پر چندہ بھی کیا جائے اگر فی گاؤں پانچ پانچ روپیہ بھی اوسطاً چندہ کے
تاریخ احمد بیت - جلد ۵ 401 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت از ہو جا ئیں تو قریباً تین لاکھ روپیہ پنجاب میں ہی جمع ہو سکتا ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس جدوجہد میں بہت کچھ روپیہ بھی صرف کرنا پڑے گا اور بغیر ایک زیر دست فنانشل کمیٹی کے جس پر ملک اعتبار کر سکے.کسی بڑے چندہ کی تحریک کرنا یقیناً مسلک ثابت ہو گا.میں امید کرتا ہوں کہ ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب ، شیخ دین محمد صاحب سید محسن شاہ صاحب اور اسی طرح دو سرے سر بر آوردہ ابنائے کشمیر جو اپنے وطن کی محبت میں کسی دوسرے سے کم نہیں ہیں اس موقعہ کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے موجودہ طوائف الملوکی کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے ورنہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سب طاقت ضائع ہو جائے گی اور نتیجہ کچھ نہیں نکلے گا.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی طرف سے ہی وہ زمانہ ہے جس کی نسبت تحریک آزادی مظلومین کشمیر کی فوری اعانت کے ایک مشہور لیڈر مفتی ضیاء الدین صاحب ضیاء سابق مفتی اعظم پونچھ اپنے منظوم کتا بچہ نوحہ کشمیر میں لکھتے ہیں.آغاز تحریک آزادی میں مظلوم کشمیریوں کی طرف سے زعما ء ہندوستان کی خدمت میں خطوط بھیجے گئے جن میں ڈاکٹر علامہ سر محمد اقبال صاحب (شاعر مشرق)، جناب شیخ صادق حسن صاحب امرت سری امام جماعت احمدیہ اور خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی شامل ہیں اور کہا گیا کہ مظلوموں کی مدد کیجئے.(امام جماعت احمدیہ کے سوا سب کی طرف سے یہ جواب آیا کہ آپ نے ایسے خطر ناک کام میں کیوں ہاتھ ڈالا اور بس.صرف امام جماعت احمدیہ قادیان کی طرف سے یکمشت ایک خطیر رقم مظلومین کشمیر کی امداد کے لئے موصول ہو گئی.خانقاہ معلی (سرینگر) میں مسلمانوں کا عظیم الشان اجتماع قبل ازیں مسٹر و یکفیلڈ کے مشورہ پر جموں کے وفد کی تشکیل پر روشنی ڈالی جا چکی ہے اب یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ وفد جب سرینگر میں پہنچا تو سرینگر میں بھی تحریک آزادی پہلے سے زیادہ زور پکڑ گئی.اس وقت تک ریڈنگ روم پارٹی نے سرینگر کے دونوں مذہبی رہنماؤں یعنی میر واعظ احمد اللہ صاحب ہمدانی اور میر واعظ یوسف شاہ صاحب کا تعاون حاصل کر لیا تھا.اور جامع مسجد سرینگر اور خانقاہ معلیٰ میں باقاعدگی سے اجلاس ہو رہے تھے چنانچہ سرینگر کی جامع مسجد میں شیخ محمد عبد اللہ صاحب کے اہتمام سے ایک جلسہ منعقد ہوا.جو تمہیں ہزار مسلمانوں پر مشتمل تھا یہ ریاست کشمیر میں اپنی نوعیت کا پہلا جلسہ تھا جس میں سیاسی تقریر میں ہو ئیں اور مسلمانوں کو اپنے پیدائشی حقوق حاصل کرنے کی تلقین کی گئی.اس کے بعد جامع مسجد ریڈنگ روم پارٹی اور
تاریخ احمدیت.جلد 2 402 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد یہ دوسرے مسلم نوجوانوں کی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بن گئی.اسی دوران میں مسلم نمائندگان کے انتخاب کے لئے ۲۱ / جون ۱۹۳۱ء کو خانقاہ معلی سرینگر کے کھلے صحن میں ایک عظیم الشان اسلامی جلسہ منعقد ہوا.پنڈت پریم ناتھ بزاز نے اپنی کتاب "INSIDE KASHMIR" کے صفحہ ۱۲۵ پر لکھا ہے کہ یہ تحریک آزادی کی تاریخ میں نہایت اہم جلسہ تھا جس میں میرواعظ یوسف شاہ اور مولوی عبد اللہ وکیل " مرزائی ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو گئے تمام فرقہ وارانہ اختلاف یکسر نظر انداز کر دیئے گئے اور سنی شیعہ خفی رہائی اور احمدی پوری طرح اپنے مطالبات منوانے کے لئے متفق و مجتمع ہو گئے.مسلمان لیڈروں نے اس موقعہ پر حلفا عہد کیا کہ وہ آخر دم تک اپنے مقاصد کی خاطر نبرد آزمار ہیں گے.اس جلسہ میں مختصر مگر پر جوش تقریریں ہوئیں اور شیخ محمد عبد اللہ صاحب، میر واعظ احمد اللہ صاحب ہمدانی، میر واعظ محمد یوسف شاہ صاحب، خواجہ سعد الدین صاحب شال، خواجہ غلام احمد صاحب عشائی، منشی شهاب الدین صاحب، آغا سید حسین شاہ صاحب جلالی کا انتخاب (بطور نمائندگان) عمل میں آیا.جلسہ کے آخر میں ایک صاحب عبد القدیر خاں جو امروہہ (یو پی) کے باشندے تھے اور بعض انگریزوں کے گائیڈ کے طور پر کشمیر آئے ہوئے تھے بڑے جوش سے کھڑے ہو گئے اور انہوں نے ایک کونے میں کھڑے ہو کر جموں کے گزشتہ واقعات دہراتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کو بے غیرتی کی زندگی AF چھوڑ دینی چاہئے.قرآن کو اٹھا کر زمین پر پھینکا جاتا ہے اور راجہ کچھ نہیں سنتا تو ایسے راجہ کو پتھروں اور اینٹوں سے بات سنانی چاہئے اس تقریر کے نتیجہ میں انہیں ۲۵/ جون ۱۹۳۱ء کو نگین باغ سے جہاں وہ کسی یورپین کے ساتھ فرد کش تھے گرفتار کر لئے گئے.اور دفعہ ۱۲۴ الف و دفعہ ۱۵۳٬۱۵۱ کے تحت عوام کو اکسانے اور رعایا میں منافرت پھیلانے کے جرم میں ان کا چالان کر دیا گیا.۶-۷-۸-۹/ جولائی ۱۹۳۱ء کو سیشن کورٹ میں سماعت ہوئی.AF حضرت خلیفہ مقدمہ عبد القدیر خان صاحب اور مہاراجہ جموں و کشمیر کا اعلان المسیح الثانی ایده اللہ تعالیٰ ابتداء ہی سے عبد القدیر خان صاحب کے مقدمہ میں گہری توجہ و دلچسپی لے رہے تھے اور سرینگر کے احمدی نوجوان حضور کو تازہ اطلاعات برابر پہنچاتے آرہے تھے چنانچہ ۱۰/ جولائی ۱۹۳۱ء کو جناب محمد یوسف صاحب بی.اے (جو بعد کو ایل ایل بی ہو کر وکیل بنے) نے سرائے صفاکدل سے حسب ذیل خط لکھا جس سے اس زمانے کے ماحول پر خوب روشنی پڑتی ہے.
تاریخ احمد بیست - جلده 403 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ سرائے صفاکدل سرینگر کشمیر ١٠/٣١ بحضور حضرت اقدس خلیفتہ المسیح ایده الله بنصره آقائی ! السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاته گذشتہ خطوں میں کچھ حال عرض خدمت کیا جاچکا ہے ان دنوں کوئی خاص امر تو پیش نہیں آیا البتہ مسٹر عبد القدیر جنہوں نے توہین قرآن کریم کے متعلق تقریر کی تھی اور جن کی گرفتاری کی اطلاع حضور کو ہو چکی ہے.ان کا مقدمہ سیشن جج کی عدالت میں چل رہا ہے.پولیس اور C.H.D کی شہادتیں ہو چکی ہیں.عبد القدیر صاحب کی طرف سے مولوی محمد عبد اللہ صاحب وکیل ، مولوی قمر الدین صاحب اور دو ایک اور وکیل پیروی کر رہے ہیں اور سب مفت کام کر رہے ہیں لیکن ان سب وکلاء کی رائے ہے کہ باہر پنجاب یا ہندوستان کا کوئی اچھا وکیل یا بیرسٹر چاہئے کیونکہ ریاستی و کلا بعض Paints کھول کر بیان نہیں کر سکتے.ان کو ریاست کی طرف سے خطرہ رہتا ہے.کل ایک تارسید محسن شاہ سیکرٹری کشمیری کانفرنس کو اسی مضمون کا دیا گیا تھا.جو آج آپ کی خدمت میں دیا گیا رہاں سے آج جو اب نہ آنے پر مسٹر عبد اللہ اور مسٹر عبدالرحیم نے مجھ سے آپ کی خدمت میں تار دلوایا ہے اس Case میں باہر کے کسی قابل وکیل یا بیرسٹر کی ازحد ضرورت ہے جو ریاست سے بالکل نہ ڈرے اور ہر ایک بات کو کھول کر بیان کر سکے.اگر اس Case میں مسلمان دب گئے تو اوروں پر بھی ہاتھ ڈالا جائے گا یہ ایک قسم کا مسلمانوں کی طاقت کا امتحان لیا جا رہا ہے اس لئے زبردست Defence کی ضرورت ہے اس وقت تک مولوی عبد اللہ صاحب نے مقدمہ کو نہایت قابلیت اور محنت سے چلایا ہے اور مقدمہ کو لمبا کر رہے ہیں تاکہ اس دوران میں باہر سے کوئی مدد آ جائے.یہ مقدمہ یہاں کے High Court میں بھی جائے گا.مسلمانان کشمیر حضور والا سے امید رکھتے ہیں کہ حضور اس نازک موقع پر ان کی مدد فرما ئیں گے...غالبا اس سے قبل مسٹر محمد عبد اللہ کی طرف سے یا ان کے ایما کے مطابق کسی اور صاحب کی طرف سے حضور کو مل چکا ہو گا.حضور کے دوسرے مضمون نے جو الفضل میں شائع ہوا.بہت مفید نتیجہ یہاں پیدا کیا ہے اور مطالبات میں ان مضامین سے Points لئے جارہے ہیں یہاں کے تعلیم یافتہ طبقہ کی توجہ حضور کی طرف بہت زیادہ ہو گئی ہے اور اب ہر بات میں وہ حضور کی طرف رجوع کرتے ہیں.آج یہاں کی نمائش گاہ میں ایک سرکاری پبلک جلسہ ہوا.گور نر صاحب نے مہاراجہ صاحب کا اعلان پڑھ کر سنایا.حاضرین کی تعداد دو اڑھائی ہزار کے قریب بتائی جاتی ہے.اعلان کا مضمون یہ تھا کہ
تاریخ احمدیت جلد ۵ 404 تحریک آزادی کشمیر ا د ر جماعت احمدیہ جب سے ہمارے خاندان کے ہاتھ حکومت آئی ہے ہندو مسلمان بھائیوں کی طرح آپس میں رہے ہیں لیکن اب کچھ کشیدگی ہو رہی ہے جو ہر گز پسندیدہ نہیں.اعلان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تمہاری جو شکایات ہوں وہ براہ راست میرے پاس ہونی چاہئیں میں اپنی رعایا کے ہر ایک فرد سے ملاقات کروں گا (حالانکہ مہاراجہ کی ملاقات ناممکن ہے عوام کو بالکل پاس نہیں جانے دیا جاتا) پھر اعلان میں اس بات پر خاص زور دیا گیا ہے کہ ریاست کی بات ریاست کے باہر بالکل نہیں جانی چاہئے.اور باہر کے اخبارات کو بالکل خبر نہیں ہونے دینی چاہیئے اور کسی غیر ریاستی کی مدد بالکل نہ لی جائے مہاراجہ صاحب نے اس بات کا پھر اعلان کیا ہے کہ میں کوئی نے ہب نہیں رکھتا میرا نہ ہب انصاف ہے ملازمتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس میں قابلیت کا معیار رکھا گیا ہے چونکہ مسلمان تعلیم یافتہ لوگ کم ہیں اس لئے وہ زیادہ ملازمتوں میں نہیں ہیں اور جتنے تعلیم یافتہ مسلمان ہیں وہ ملازمتوں میں لگائے گئے ہیں (حالانکہ یہ بیان بالکل غلط ہے سینکڑوں پڑھے لکھے اور کئی گر یجو یٹ مارے مارے پھر رہے ہیں اگر یہ حالت نہ ہوتی تو آج نوجوان اس قدر شور نہ کرتے.دوسرے مسلمانوں کو تعلیم کی طرف رغبت نہیں دی جاتی اور ان کو Qualify کرنے کے لئے کوئی مدد ریاست نہیں دیتی صرف پنڈتوں اور ڈوگروں کی مدد اور آرام کا خیال رکھا جاتا ہے).آخر میں پولیس وغیرہ کی مدح سرائی کرتے ہوئے ان کا اعلان ختم ہوا کہ یہ لوگ نہایت ایمانداری سے عوام کی مدد کریں گے (مدد یہی ہے کہ رشوت کا بازار تمام ریاست میں گرم ہے اور یہ لوگ اپنے آپ کو فرعون خیال کرتے ہیں) چند روز سے بارش کا زور رہا.طوفان بہت آیا گذشتہ سالوں کا طوفان امسال سے مقابلہ نہیں کر سکتا.پنڈی اور کشمیر کا راستہ تباہ ہو گیا ہے اور سنا ہے کہ کو ہالہ کاپل بہہ گیا ہے البتہ جموں کے راستہ سے آمدو رفت جاری ہے ڈاک آج چار دن کے بعد قلیوں کے ذریعہ یہاں پہنچی ہے.خدا جانے یہ عریضہ کب حضور کی خدمت میں پہنچے گا.کاروبار کی حالت دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے حضور کی خدمت اقدس میں ملتمس ہوں کہ حضور اپنی خاص دعاؤں میں اس عاجز کو بھی یاد رکھیں باقی حالات جو ہوں گے اس کی اطلاع بعد میں کروں گا.والسلام حضور کا ادنی ترین خادم خاکسار محمد یوسف
سیدنا حضرت خلیفہ انتج الثانی کی ایک یادگار تصویر ( 13 ستمبر 1931 ء بمقام سیالکوٹ)
حضرت خلیفہ اسی الثانی ایدہ اللہ بنصر العزیز ارکان کشیر کمیٹی (سیالکوٹ) کے درمیان رونق افروز ہیں (13 ستمبر 1931ء بمکان آغا حیدر صاحب)
مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے کے لئے جامع مسجد سرینگر کا فوجی محاصرہ
مسلمانان کشمیر پر ڈوگرہ مظالم کے درد ناک مناظر (13 14 جولائی 1931ء) جامع مسجد سرینگر میں شہداء کی خاک و خون میں لتھڑی ہوئی لاشیں ایک معصوم بچی جس کا ناک کاٹنے کے بعد اسے دریا میں ڈبو دیا گیا تھے اسے دریا دیا ڈوگر ظلم و ستم کا شکار ہونے والی ایک اور بدقسمت بچی
جامع مسجد سرینگر ڈوگرہ فوج کے نرغہ میں 13 / جولائی 1931ء کے حادثہ پر سرینگر میں 17 روزہ ہڑتال 27 جولائی 1931ء کو سرینگر کی تقریبا سات ہزار مسلم خواتین کا اجتماع زیارت خواجہ نقشبند میں ( جہاں پولیس اور فوج کے ہاتھوں جام شہادت پینے والے مسلمان دفن کئے گئے )
آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کا تاریخی اجلاس سرینگر ( منعقدہ اکتوبر 1935ء) پچھلی قطار کے وسط میں شیخ محمد عبد اللہ صاحب بار پینے کھڑے ہیں اور کرسی پر چوہدری غلام عباس صاحب اور ان کے بائیں ہاتھ غلام نبی صاحب گا کار تشریف فرما ہیں
چوہدری سرمحمد ظفر اللہ خاں صاحب اور ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب ( دوسری) گول میز کانفرنس میں شمولیت کے لئے تشریف لے جارہے ہیں
قاضی محمد علی نوشہروی قیدی ہونے کی حالت میں قاضی محمد علی نوشہروی شہادت کے بعد
تاریخ احمدیت جلد ۵ 405 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ ۱۳ جولائی ۱۹۳۱ء کا المناک دن اور مسلمانان سرینگر کو عبد القدیر خان صاحب کے مقدمہ میں طبعاد لچپسی اور ہمدردی تھی اور وہ کثیر سری نگر کے مسلمانوں پر گولیوں کی بوچھاڑ تعداد میں مقدمہ کی کارروائی دیکھنے کے لئے عدالت میں جایا کرتے تھے.مگر اس دوران میں حکومت نے اس مقدمہ کی سماعت معمولی عدالت سے منتقل کر کے ہری پربت کے جیل خانہ میں شروع کر دی.مسلمانوں کو اس تبدیلی کا علم ہوا تو وہ یہ محسوس کر کے کہ شائد مقدمہ نے کوئی نئی صورت اختیار کرلی ہے ۱۳ / جولائی ۱۹۳۱ء کو مقدمہ کی سماعت کے وقت ہزاروں کی تعداد میں ہری پربت (سنٹرل جیل سرینگر) میں پہنچ گئے.تحریک کشمیر کے ایک رہنما مولوی محمد سعید صاحب سابق ایڈیٹر ” ہمد رد " سرینگر کا بیان ہے کہ کئی ایک پیشیوں کے بعد ۱۳/ جولائی ۱۹۳۱ء کو پیشی تھی اس سے قبل دو دن شہر میں بعض چالاک لوگوں نے مسلمانوں کو پریشان کرنے کے لئے عوام اور غیر تعلیم یافتہ مسلمانوں میں اس افواہ کی شہرت کرا دی کہ عبد القدیر صاحب کو بغاوت کے الزام میں پھانسی ہوگی.یا کم از کم جس دوام کی سزادی جائے گی.اس افواہ نے شہر میں سراسیمگی پھیلادی امسال کی طرح ۱۹۳۱ء کی تاریخ ۱۳/ جولائی کو بھی سوموار کا دن تھا اتوار ۱۲ جولائی کی شام کے بعد مائسمہ کی مسجد میں جلسہ ہوا شیخ محمد عبد اللہ صاحب شیر کشمیر اور مولوی عبدالرحیم صاحب نے عوام کو یقین دلایا کہ مولانا عبد القدیر کے مقدمہ کی تحقیقات ابھی جاری ہے افواہوں پر اعتبار نہیں.حکومت نے اگر کھلی عدالت کی بجائے بند کمرے میں تحقیقات شروع کی ہے تو اس سے خطرہ کا امکان نہیں اور چونکہ اب جیل میں سماعت ہو رہی ہے اس لئے عوام جو کھلی عدالت میں روئداد سننے جاتے تھے جیل کی طرف ہر گز نہ جائیں.کیونکہ وہاں جانا بے سود ہے.عوام چونکہ دوسری افواہ سے اس قدر متاثر ہو چکے تھے کہ نوجوان رہنماؤں کی ہدایت انہیں اپیل نہ کر سکی.اس لئے دوسرے روز جوق در جوق لوگ سنٹرل جیل اور جیل سے ملحقہ باغات میں جمع ہو گئے.AL المختصر اسی دوران میں سیشن جج ، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور دوسرے افسر بھی وہاں آگئے.مسٹر پریم ناتھ بزاز کی رپورٹ کے مطابق اس وقت تقریباً سب افسر ہندو تھے.مسلمان ان افسروں کے ساتھ ہی جیل کے بیرونی احاطہ میں گھس گئے لیکن یہ عجیب بات ہے کہ اس موقعہ پر کسی افسر نے بھی یہ اعلان نہیں کیا کہ یہ اجتماع غیر قانونی ہے اور یہ کہ لوگوں کو منتشر ہو جانا چاہئے اور یہ کہ اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو ان پر فائرنگ کیا جائے گا.اور بغیر کسی تنبیہ کے اس اجتماع میں سے ہجوم کے لیڈروں کو گر فتار کر لیا گیا.مسلمان اس بات کو دیکھ کر نہایت گھبرائے اور انہوں نے مطالبہ کیا کہ ہمارے لیڈروں کو فور آرہا
تاریخ احمدیت جلد ۵ 406 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد به A کر دیا جائے اس موقعہ پر پھر بغیر تنبیہ کے پولیس کو فائر کرنے کا حکم دے دیا گیا.گورنمنٹ کی رپورٹ یہ تھی کہ دس آدمی مارے گئے اور بہت سے زخمی ہوئے پبلک کی رائے یہ تھی کہ اس سے بہت زیادہ آدمی مارے گئے ہیں اور جو لاشیں جیل میں رہ گئیں وہ الگ ہیں لیکن پولیس نے جن کا تعاقب کیا اور گلیوں میں جاکر ان کو شہید کر دیا وہ ان کے علاوہ تھے مسلمانان کشمیر نے اس وقت جس شجاعت اور بہادری کا نمونہ دکھایا اس کا اقرار کرتے ہوئے مسٹرو یکفیلڈ نے لکھا.”فسادات کے دوران جو ۱۹۳۱ء میں ہوئے جتنے بھی کشمیری مرے ان کے سارے کے سارے زخم سینے پر تھے پشت پر نہیں تھے.مسلمانان سرینگر پر مظالم سے متعلق چشم دید شہادت اس سے زیادہ تفصیل ہمیں مولوی عبداللہ صاحب وکیل، پیر قمر الدین صاحب وغیرہ وکلاء اور دوسرے اصحاب کی شہادتوں سے ملتی ہے جو الفضل ۱۸/ اگست ۱۹۳۱ء) میں شائع شدہ ہیں.ان شہادتوں کا خلاصہ یہ تھا کہ ہر دو صاحبان ملزم عبد القدیر صاحب کی طرف سے پیرو کار تھے اس کے علاوہ مسٹر غلام محمد صاحب بی.اے.ایل ایل بی موجود تھے.۱۳ / جولائی ۱۹۳۱ء کو مسلمانوں کی ایک جماعت جیل کے باہر عبد القدیر صاحب کا مقدمہ سننے کے لئے جمع ہوئی جس کا ہر گز یہ مقصد نہ تھا کہ وہ کسی قیدی کو چھڑائے مقدمہ عبد القدیر کے ساتھ مسلمانوں کو یہ تعلق تھا کہ عبد القدیر توہین قرآن کریم کے سلسلے میں تقریر کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا.اور مسلمان اس مقدمہ کو نہ ہی مقدمہ سمجھتے ہیں اس لئے مقدمہ کی کارروائی سننے کے لئے آنا مسلمانوں کا فطری تقاضا تھا مسلمان ہرگز جیل کے دروازہ کی طرف نہیں دوڑے اور نہ گارد پر حملہ کیا.اور نہ پھاٹک سے داخل ہو کر اندرونی دروازہ پر پہنچنے کی کوشش کی بلکہ بیرونی پھاٹک کھلا تھا لوگ بیرونی پھاٹک سے داخل ہو کر بیرونی صحن میں بلا روک ٹوک آتے جاتے تھے.صاحب سیشن جج کے آنے پر دو تین سو اشخاص ان کے ساتھ صحن میں داخل ہوئے سیشن جج نے وکلاء ملزم سے کہا کہ لوگوں کو ہدایت کریں کہ باتیں کر کے شور نہ ڈالیں.وکلاء ملزم نے مسلمانوں سے مخاطب ہو کر کہا آپ چلے جائیں اسلام کا حکم ہے کہ امن سے رہو.اس پر لوگ جو اس صحن میں جمع تھے باہر چلے گئے جیل سے متصل ایک باغ میں ایک اور جماعت مسلمانوں کی مقدمہ سننے کے لئے جمع تھی ایک مسلمان پولیس افسر نے وکلاء ملزم سے کہا کہ اس جماعت کو بھی ہدایت کی جائے کہ وہ بھی چلی جائے.اور صحن میں نہ آئے چنانچہ وکیل نے مع ایک پولیس کے آدمی کے انہیں کہا کہ آپ چلے جائیں اور کوئی آدمی صحن میں نہ آئے انہوں نے جواب دیا کہ ہم نماز ظہر پڑھ کر چلے جاتے ہیں
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 407 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیه لوگ نماز کی تیاری میں مصروف ہو گئے وکلاء ملزم اور سپاہی واپس صحن جیل میں آگئے.گورنر کشمیر مع پولیس موجود تھے انہوں نے پولیس کو مجمع سے لوگوں کو گرفتار کرنے کے لئے کہا.پولیس والے ہتھکڑیاں لے کر دوڑے اور باغ والے لوگوں کو گر فتار کرنا شروع کیا جو نماز کے لئے تیاری کر رہے تھے چند اشخاص کو گر فتار کر کے جیل میں ڈال دیا اس تشدد کو دیکھ کر مجمع میں شور پیدا ہوا اور فورا گولی چلادی گئی اگر محض مجمع کو منتشر کرنا مقصود ہو تا تو اس کے لئے زیادہ سے زیادہ لاٹھی چارج کافی تھا مگر ایسانہ کیا گیا بلکہ گولی چلائی گئی جس سے بے بس اور نہتے مسلمان اس طرح کرے جس طرح درخت سے پتے کرتے ہیں اس کے ساتھ ہی پتھر بھی آتے رہے.غرضیکہ اس گولی کے چلنے سے کچھ اصحاب قتل ہوئے اور بہت سے زخمی ہوئے مجمع نے بھاگنا شروع کیا تو پولیس والوں نے کہا کہ پولیس لائن کو آگ لگ گئی مگر حقیقت یہ ہے کہ کوئی جگہ نہیں پہلی.بیان کیا جاتا ہے کہ پولیس والوں نے خود ہی آگ لگائی اور خود ہی بجھائی حالانکہ یہ صاف بات ہے کہ اگر کوئی آگ لگا تا تو وہ موقع پر گرفتار ہوتا.کیونکہ پولیس مسلح ہو کر موقعہ پر حاضر تھی کسی قیدی نے مسلح پولیس سے بندوق چھینے کی کوشش نہیں کی نہ کسی مسلمان سے کسی سپاہی نے تعرض کیا مجمع کو تنبیہہ نہیں کی گئی کہ تم منتشر ہو جاؤ.نہ مجمع خلاف قانون تھا اور نہ مجمع نے حملہ کیا ٹیلیفون اور تار کے کاٹنے کا واقعہ سرا سر غلط ہے جب پہلے بندوقیں چلیں تو جو ابا لوگوں نے کچھ پتھر مارے گولی آنا فانا چلائی گئی لوگ و چار ناگ (قصبہ کا نام ہے) کی طرف نہیں گئے اور نہ ہی ان لوگوں نے شہر کا رخ کیا بلکہ اس قتل عام سے بچنے کے لئے ہندوؤں نے شور ڈال دیا اور لوٹ مار کی داستانیں بنائی گئیں.اس کا ثبوت یہ ہے کہ جس جگہ بھی شہر میں لوٹ مار کی داستانیں بنائی گئی ہیں وہاں ہندوؤں کی آبادی زیادہ ہے اور جس جگہ شہری پنڈتوں کی آبادی کم ہے وہاں کوئی شکایت لوٹ مار کی نہیں ہوئی اس کے علاوہ دوسرا ثبوت یہ ہے کہ جس جگہ شہر میں لوٹ مار کی کہانی بیان کی گئی ہے آج برابر پچپن دن کے بعد تلاشی لینے پر ہندوؤں کی دوکانوں کا مال ان کے گھروں سے نکل رہا ہے.ملٹری مع سواروں کے شہر میں روانہ کی گئی.ملٹری کے سپاہیوں اور سواروں سے ہتھیار لے کر انہیں چھاؤنی میں ہی رکھا گیا اور خاص طور پر ہندو ملٹری شہر میں متعین کی گئی (یہ وہی فوج تھی جس کو صرف ایک ہفتہ پہلے ہندوؤں نے یہ کہہ کر کہ مسلمان گائے ذبح کرنے والے ہیں مشتعل کیا ہوا تھا اور وہ پہلے.سے مسلمانوں کے خون کے پیاسے تھے) غرضیکہ فوج نے شہر میں داخل ہو کر وہ تباہی مچائی کہ ہلاکو خاں کے مظالم کی از سر نو یاد تازہ ہو گئی.ایک نو سالہ لڑکی کی ناک کائی گئی اور اس کو دریا میں ڈبو دیا گیا اس سلسلے میں ایک معزز غیر مسلم خاتون کا بیان ملاحظہ ہو جو یہ ہے.مورخہ ۱۵ / جولائی ۱۹۳۱ ء دس بجے کے قریب محلہ تاشو ان کی طرف سے میں نے عورتوں کے
تاریخ احمدیت جلد ۵ 408 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ رونے کی آواز سنی ایک آدمی جو پل کے اوپر سے جا رہا تھا میں نے اس سے پوچھا کہ شور کیسا ہے اس نے جواب دیا کہ ایک آدمی اپنی موت سے مرا ہے عورتیں اس کا ماتم کر رہی ہیں.اس کے دو منٹ بعد میں نے گولی چلنے کی آواز محلہ تاشو ان کی طرف سے سنی اتنے ہی میں اسی طرف سے ملٹری والوں کو آتے دیکھا اور میں بھی اسی وقت اپنے گھر سے باہر نکلی.میرالڑ کا میرے ساتھ تھا میں نے ایک اور لڑکے کو جو پل پر کھڑا تھا دیکھا جب ملٹری پل سے گزری تو ایک سپاہی نے اس لڑکے کا تعاقب کیا اور گولی چلائی اور وہ لڑکھڑا کر قصائی اور نان بائی کی دکان کے درمیان گر گیا.میرالڑ کا جو میرے ساتھ اس کی مدد کے لئے دوڑا اس پر بھی ایک گولی دوسرے سپاہی نے چلائی لیکن گولی کا نشانہ خطا گیا.اور میرالر کا بچ گیا اتنے میں ایک ماشکی جو سامنے سے آرہا تھا اس پر بھی ایک گولی چلائی اور وہ بھی گر گیا ایک تیسرا شخص جو کہیں جا رہا تھا اس پر بھی گولی چلائی گئی جس وقت وہ دم تو ڑ رہا تھا اس پر دو اور فائر کئے گئے یہ سارا واقعہ دو تین منٹ میں ہوا میں نے انہیں کہا تم لوگوں کو کس نے اس طرح گولیاں چلانے کی اجازت دی ہے مجھے لکھت دکھاؤ انہوں نے جواب دیا ہم کو اجازت ہے اور چلے گئے ایک شخص جو کہ نواکدل کی طرف سے بائیسکل پر آرہا تھا مجھے گھبرایا ہوا دیکھ کر مجھ سے دریافت کرنے لگا کہ کیا معاملہ ہے میں نے صرف اتنا کہا کہ جاکر ملٹری افسر کو ٹیلیفون کر دو اور کہہ دو کہ اس محلہ میں بلاوجہ گولی چلائی جارہی ہے اور ہم لوگ خطرہ میں میں وہ چلا گیا تھوڑی دیر بعد آفیسر آگئے اور مجھ سے دریافت کیا تو میں نے اصلی واقعات سنا دیئے".الغرض مسلمانوں کو قتل کرنے کے علاوہ لوٹا گیا اور کثیر التعداد کو جیل خانہ میں بھیج دیا گیا عورتوں کی بے حرمتی فوجیوں اور پنڈتوں نے مل کر کی.مسلمانوں کے گھروں کی تلاشیاں لی گئیں ابھی سلسلہ جاری ہے اور بغیر کسی مدعی کے صرف ایک ہندو کے کہنے پر محلہ محلہ کی تلاشی لی جاتی ہے.سپاہیوں کی پنڈتوں نے خوب خاطر و مدارات کی اور بہت عمدہ کھانے کھلائے پنڈتوں کے اس منصوبے کی (جو انہوں نے مسلمانوں کو مٹانے کے لئے باندھ رکھا ہے) دلیل یہ ہے کہ جموں میں پہلے مسلمانوں پر بم پھینکا گیا اور سرینگر کے شفا خانے سے ایک پنڈت کے ذریعہ جو وہاں کا ملازم ہے پکرک ایسڈ کی ایک کثیر مقدار چرائی قتل وغارت کے علاوہ اندھا دھند گرفتاریاں کر کے کثیر جماعت پر نشد دکیا گیا.اور پانی بند کر کے پیا سمار کھا گیا.صدہا مسلمانوں کو گھروں سے نکالکر جیل میں ڈالا گیا.جس میں رکھا گیا اور ان کے ساتھ وہ سلوک کیا گیا کہ خدا کی پناہ اب (۴/ اگست) تک دریا سے نعشیں مل رہی ہیں.صدہا ایسی مثالیں ہیں جن سے یہ ایک منظم سازش ثابت ہے.مولوی نور الدین قاری جو ایک بہت ہر دلعزیز مسلم ٹیچر ہیں سکول سے نکلتے ہی پکڑ لئے گئے اور ان کو ایک کوچہ کی طرف لے گئے اور خوب
تاریخ احمدیت جلد ۵ 409 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ مارا.اور آخر چند یوم حوالات میں رکھا.محلہ نوا بازار بری کدل - مہاراج گنج - ڈومہ کدل - دچار ناگ.وغیرہ وغیرہ مقامات پر ہندوؤں نے مسلمانوں کو قتل کیا لیکن حکومت نے آج تک کوئی تفتیشی کارروائی نہیں کی.اور نہ ہی ہندوؤں کو پکڑا ہے.مسلمانوں نے جب اصرار کیا کہ شہر میں تحقیقات کی جائے تو ایک ہندو اور ایک مسلمان افسر مقرر کیا گیا لیکن مسلمان افسر بھی حکومت کے اعلیٰ ارکان کی خوشنودی کی خاطر مسلمانوں کے خلاف کار روائی کرتے ہیں کیونکہ انہیں ملازمت سے علیحدگی کا خوف ہے چنانچہ کچھ ملازم مسلمان اور کچھ معلمات معطل کی گئی ہیں غرضیکہ مسلمان نہایت بے کس بے بس ہیں نہ قانونی امداد میا ہے ".ان واقعات نے کشمیر میں گویا ایک قیامت برپا کر دی اور سرینگر کے مسلمان محلہ جات نے ماتمی لباس پہن لیا.اور شہر میں عام ہڑتال ہو گئی جو متواتر سترہ دن تک جاری رہی اس پر ریاست نے حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اپنی پوزیشن کے بچاؤ کے لئے فوری طور پر دو تدبیریں اختیار کیں ایک تو یہ کہ خبروں پر سنسر لگادیا تا کوئی خبر جو اصل حالات کو منکشف کرے یا جو ریاست کے مفاد کے خلاف ہو بذریعہ تار یا ڈاک باہر نہ بھیجی جاسکے.دوسری تدبیر ریاست نے یہ کی کہ فوراً ایک تحقیقاتی کمیشن کا اعلان کر دیا مگر یہ خدا کا فضل ہوا کہ حکام ریاست کی یہ ہر دو تجویزیں ناکام رہیں یعنی اول تو باوجود سنسر وغیرہ کی کوشش کے بیرونی دنیا تک حقیقت حال پہنچنے سے نہ رکی اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی کو سیالکوٹ سے بذریعہ تار اس کی اطلاع پہنچ گئی دوسرے مسلمانان کشمیر نے یہ دیکھتے ہوئے کہ ریاست کا مقرر کیا ہوا کمیشن صحیح معنوں میں غیر جانبدار کمیشن نہیں ہے اور ان کو اس سے انصاف کی توقع نہیں ہو سکتی غیر معمولی جرات سے کام لیا اور کمیشن کے ساتھ کام کرنے سے انکار کر دیا جس پر یہ کمیشن تو ڑنا پڑا.اس کے بعد نیا کمیشن مقرر کرنا پڑا جو جانبدار ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کا اعتماد حاصل نہ کر سکا.حکام ریاست کی مکروہ ذہنیت کا اس سے بھی پتہ لگتا ہے کہ جب جماعت احمدیہ نے ریاست سے یہ استدعا کی کہ زخمی مسلمانوں کی طبی امداد کے لئے ایک طبی وفد کو ریاست میں آنے کی اجازت دی جائے تو ریاست نے یہ عذر کر کے کہ تمام ضروری طبی انتظامات پہلے سے مہیا ہیں اجازت دینے سے انکار کردیا حالانکہ اس وفد کی تجویز خود مسلمانان کشمیر کی اس درخواست پر کہ ہمیں طبی امداد کی ضرورت ہے کی گئی تھی.بے تحریک آزادی کے لیڈروں کی گرفتاری حکام ریاست نے بے گا، فرزندان توحید کو شهید یا زخمی کرنے اور ان کی لاکھوں روپے
تاریخ احمدیت جلد ۵ 410 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ کی جائیدادیں لوٹ لینے پر ہی اکتفانہ کیا بلکہ ۱۳ ۱۴ / جولائی ہی کو کئی سو بے گناہ مسلمانوں کو گرفتار کر کے جیل خانہ میں ڈال دیا.گرفتار ہونے والوں میں تحریک آزادی کے تمام مشہور لیڈر بھی شامل تھے.اس واقعہ کی تفصیل میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی فرماتے ہیں.۱۳ / جولائی ۱۹۳۱ء کو جب گورنمنٹ کو یہ معلوم ہو گیا کہ مسلمان اب آپے سے باہر ہو گئے ہیں اور مظالم کی برداشت ان سے ناممکن ہے تو انہوں نے یہ سوچا کہ مسلمانوں کے لیڈروں کو گرفتار کر لینا چاہئے چنانچہ جو لوگ مرنے والوں کو جیل خانہ سے اٹھا کر مسجد میں لے آئے تھے اور اس بات کی تیاری کر رہے تھے کہ دوسرے دن مسلمانوں کے اجتماع کے ساتھ ان کو دفن کر آئیں پہلے تو حکام نے ان کو یہ سمجھانا شروع کیا کہ تم لوگ خاموشی سے چند آدمی لاشوں کے ساتھ بھیجوا دو اور پالک پر اس حادثہ کو ظاہر نہ ہونے دو.اور یہاں تک بھی تجویز کی کہ جامع مسجد جہاں لاشیں رکھی ہوئی تھیں اس کے قریب ایک جگہ میں ان کو دفن کردو لیکن مسلمان لیڈروں نے اس کو تسلیم نہ کیا اس پر گورنمنٹ نے تجویز کی کہ ظاہر میں تو لیڈروں کا پکڑنا مشکل ہو گا چوری چھپے ان لوگوں کو یکدم گرفتار کر لیا جائے چنانچہ مسٹر سدرلینڈ جو اس وقت فوج کے افسر اور غالبا جرنیل کے عمدہ پر تھے وہ جامع مسجد کے دروازہ پر آئے اور اشارہ سے شیخ عبد اللہ صاحب کو بات کرنے کے بہانے سے بلایا.اور پھر چپ کر کے ان کو ساتھ لے گئے اور جیل خانہ میں ڈال دیا اس کے کچھ گھنٹوں کے بعد میاں غلام نبی صاحب گلکار جو دو سرے لیڈر تھے ان کو بھی ان کے گھر پر رات کے نو دس بجے گرفتار کر لیا.پھر ۱۵ یا ۱۷ / جولائی کو تیرے لیڈر مسٹر عبدالرحیم کو بھی گرفتار کر لیا گیا اور غالبا ۱۴ تاریخ کی رات کو ہی یعنی جس دن صبح شیخ عبد اللہ صاحب کو گرفتار کیا تھا جموں کے اس وفد کے تین لیڈروں کو بھی گرفتار کر لیا گیا.جو مسٹرو یکفیلڈ کے کہنے پر مہاراجہ سے ملنے کے لئے گیا تھا.اور جس کا اس ایجی ٹیشن میں کوئی حصہ نہ تھا.ان لوگوں کے نام یہ تھے.(۱) جناب مستری یعقوب علی صاحب ٹھیکیدار (۲) سردار گوہر رحمان صاحب (۳) چوہدری غلام عباس صاحب زعمائے کشمیر نے اس موقعہ پر جس حوصلہ اور جاں فروشی کا نمونہ دکھایا اس پر روشنی ڈالتے ہوئے اخبار "اصلاح " ( سرینگر) نے ۱۳ / جولائی ۱۹۳۲ء کو لکھا.جب شیخ عبد اللہ صاحب اور ان کے نوجوان ہمراہیوں کو رات کے اندھیرے میں بادامی باغ سے قلعہ ہری پر بت میں لے جایا گیا اور ایک اندھیری کوٹھری کے سامنے لے جا کر دریافت کیا گیا کہ کون پہلے اندر جانا چاہتا ہے تو اس خیال سے کہ شاید اس کو ٹھری میں ایک ایک کر کے سب کو گولی سے اڑا دیا جائے گا بعض نوجوانوں کے حوصلے پست ہو گئے اس وقت شیخ صاحب موصوف نے اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ دنیا میں انسان کو ایک -
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 411 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ نہ ایک دن مرنا ہی ہوتا ہے پس اس بات سے ایمان والے نہیں ڈرا کرتے کہ ہم آج مرتے ہیں کہ کل ہمیں اس بات کی خوشی ہے کہ ہم اپنی زندگی کو قوم پر نار کر رہے ہیں اور سسک سسک کر غلاموں کی طرح نہیں مرتے مجھے پوری امید ہے کہ اس قربانی سے ہمار ا وہ مقصد پورا ہو گا.جس کے لئے ہم نے تحریک کو شروع کر رکھا ہے.اس تقریر کے بعد قیدی چند لمحات کے لئے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے.پھر غلام نبی صاحب گلکار نے جرات سے کام لے کر بتا یا دوستو مرنا دنیا میں ایک ہی دفعہ ہے بزدلوں کی طرح زندہ رہنے سے دلاور کی موت مرنا بہترین ہے میں سب سے پہلے اندر جا رہا ہوں آپ میرے پیچھے آئیں (سوانح حیات شیخ محمد عبد اللہ صاحب صفحہ ۵۶) چنانچہ اس نو عمر قومی جرنیل کی ہمت پر آفرین کہتے ہوئے اس وقت شیخ محمد عبد اللہ صاحب نے فرمایا.تم پر فخر کرتا ہوں- مسلمانان سرینگر کے پر امن نہتے اور بے بس مجمع کو ریاستی حکام ہندو پریس کا ظالمانہ رویہ نے گولیوں کا نشانہ بنا کر جہاں اپنی وحشت و درندگی اور مسلمانان ریاست کی بے کسی و مظلومی انتہا تک پہنچادی وہاں ہندو پریس نے نہ صرف اس قابل نفرین فعل کی تائید و حمایت کی بلکہ ریاستی حکام کو اور زیادہ ظلم و ستم کی تحریک کر کے اشتعال انگیزی کی حد کر دی.چنانچہ اخبار " ماپ لاہور نے لکھا ”باغیوں کو ایسی عبرتناک سزائیں دی جائیں جو دوسروں کے لئے تازیانہ عبرت ہوں“ (ملاپ ۱۷/ جولائی ۱۹۳۱ء) " حکومت نے گرفتاریوں کے سلسلہ میں اس قدر فراخدلی سے کیوں کام لیا ہے سات ہزار حملہ آوروں میں سے صرف دو سو مسلمانوں کو پکڑا جانا کوئی خاص اثر پیدا نہیں کر سکتا چاہئے تو یہ تھا کہ حکومت ان سات ہزار مسلمانوں کو گرفتار کر لیتی اور ان کے خلاف مقدمہ چلایا جاتا.مگر ایسا نہیں کیا گیا جس کا مطلب یہ ہے کہ ۶۸ سو مسلمان قانون کے ڈنڈے کی زد سے بچ جائیں گے اور مستقبل میں اس قسم کی جرات کر سکیں گے.(ملاپ ۱۷/ جولائی ۱۹۳۱ء) اگلے روز اخبار پر تاپ لاہور نے (۱۸ / جولائی ۱۹۳۱ء ) اس کی تائید مزید میں لکھا " سخت ہاتھ کے ساتھ فسادات کو کچل کر رکھ دینے کی ضرورت ہے " مسلمانان ریاست کشمیر نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کا وائسرائے ہند کے نام تار ۱۳ / جولائی ہی کے خونچکاں واقعہ کی اطلاع اسی روز حضور کو پہنچادی اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ آپ فورا یہ معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیں چنانچہ حضور نے اسی دن یعنی ۱۳ / جولائی کو ہز ایکسی لینسی وائسرائے ہند لارڈ ولنگڈن) کو مندرجہ ذیل تار بھجوایا "یور ایکسی لینسی کشمیر میں مسلمانوں کی خستہ حالی سے ناواقف نہیں.تازہ ترین
تاریخ احمدیت - جلد ۵ 412 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ اطلاعات سے پایا جاتا ہے کہ مسلمانوں پر نہایت ہی خلاف انسانیت اور وحشیانہ مظالم کا ارتکاب شروع ہو گیا ہے ۱۳/ جولائی کو سرینگر میں جو کچھ ہوا وہ فی الواقعہ تاسف انگیز ہے ایسوسی ایٹڈ پریس کی اطلاع کے مطابق نو مسلمان ہلاک اور متعدد مجروح ہوئے ہیں لیکن پرائیویٹ اطلاعات سے پایا جاتا ہے کہ سینکڑوں مسلمان ہلاک اور مجروح ہوئے ہیں.ریاست سے آنے والی تمام خبروں پر سخت سنسر ہے یہی وجہ ہے کہ ہمیں جو تار موصول ہوا وہ سیالکوٹ سے دیا گیا ہے ہز ہائی نفیس مہاراجہ کشمیر کے تازہ اعلان کے معا بعد جس میں انہوں نے اپنی مسلم رعایا کو کئی طرح کی دھمکیاں دی ہیں.اس قسم کی واردات کا ہونا صاف جتاتا ہے کہ یا تو غریب مسلمانوں پر بلا وجہ حملہ کر دیا گیا ہے.اور یا ایک نہایت ہی معمولی سے بہانہ کی آڑ لے کر ان بیچاروں کو سفاکی کے ساتھ ذبح کر دیا گیا ہے.کشمیر میں مسلمانوں کی بھاری اکثریت ہے لیکن ان کے حقوق بے دردی سے پامال کئے جار ہے ہیں اس وقت وہاں مسلم گریجوایٹوں کی تعداد بہت کافی ہے مگر انہیں کوئی ملازمت نہیں دی جاتی.یا اگر بہت مہربانی ہو تو کسی ادنی سے کام پر لگا دیا جاتا ہے اور جب ایک ملک کی ۹۵ فی صد آبادی کو اس کے جائز حقوق سے صریح نا انصافی کر کے محروم رکھا جائے تو اس کے دل میں ناراضگی کے جذبات کا پیدا ہوتا ایک فطری امر ہے لیکن نہایت ہی افسوس ہے کہ ریاست کے ذمہ دار حکام بجائے اس کے کہ مسلمانوں کے جائز مطالبات منظور کریں ان کی خفگی کو رائفلوں اور بک شاٹ سے دور کرنا چاہتے ہیں جموں کے حکمرانوں نے کشمیر کو فتح نہیں کیا تھا بلکہ انگریزوں نے اسے ان کے ہاتھ ایک حقیری رقم کے بدلے فروخت کر دیا تھا لہذا وہاں جو کچھ ہو رہا ہے حکومت برطانیہ بھی اس سے بری الذمہ نہیں ہو سکتی.مزید بر آن ریاست آخر کار برطانیہ کے ماتحت ہے اور موجودہ حکمران جو محض ایک چیف تھا ریاست اور اختیارات کے لئے حکومت برطانیہ کا ممنون احسان ہے اس لئے حکومت برطانیہ کا فرض ہے کہ وہ کشمیر کے بے بس مسلمانوں کی شکایات کے ازالہ کے لئے جو کچھ کر سکتی ہے کرنے سے دریغ نہ کرے.کشمیر کی اپنی علیحدہ زبان ہے اور اس کا تمدن اور مذہب وغیرہ جموں سے بالکل جداگانہ ہے اس لئے ڈوگرہ وزراء سے کشمیری مسلمانوں کے حق میں کسی بہتری کی توقع نہیں ہو سکتی اور انہیں اس وقت تک امن حاصل نہیں ہو سکتا.جب تک ان کی اپنی وزارت کے ذریعہ مہاراجہ جموں ان پر حکومت نہ کریں لہذا انسانیت کے نام پر میں یورا ایکسی لینسی سے پر زور اپیل کرتا ہوں کہ آپ کشمیر کے لاکھوں غریب مسلمانوں کو جنہیں برٹش گورنمنٹ نے چند سکوں کے عوض غلام بنا دیا ان مظالم سے بچالیں تاکہ ترقی اور آزاد خیالی کے موجودہ زمانہ کے چہرہ سے سیاہ داغ دور ہو سکے.کشمیر بے شک ایک ریاست
اریخ احمدیت.جلد ۵ 413 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ ہے مگر اس حقیقت سے انکار نہیں ہو سکتا کہ یہ نا انصافی سے پنجاب سے علیحدہ کیا گیا ہے اور دوسرے صوبہ جات کے مسلمانوں کی طرح پنجاب کے مسلمان کشمیری مسلمانوں پر ان مظالم کو کسی صورت میں برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہو سکتے.اگر حکومت ہند اس میں مداخلت نہ کرے گی تو مجھے خطرہ ہے مسلمان اس انتہائی ظلم و ستم کو برداشت کرنے کی طاقت نہ رکھتے ہوئے گول میز کانفرنس میں شمولیت سے انکار نہ کر دیں اور انتہائی مایوسی کے عالم میں کانگریسی رو میں نہ بھر جائیں " 40- مجرد حین و مظلومین کی فوری امداد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی نے وائسرائے کو تار دینے کے ساتھ ہی دوسرا کام یہ کیا کہ چوہدری عصمت اللہ صاحب کیل لائلپوری کوسر بینگر بھجوایا اور مظلومین کی امداد کے لئے پانچ سو کی رقم بھی فی الفور ارسال فرما دی.سرینگر کے لرزہ خیز سانحہ نے کشمیر کانفرنس کی اطلاع اور دوسرے اہم اقدامات مزید انتظار کو غیر ضروری بنا دیا - تھا اس لئے حضور نے فورا ایک گشتی چٹھی پنجاب اور ہندوستان کے دوسرے مسلمانوں کو بھی لکھی اور تار بھی دیئے کہ ۲۵/ جولائی ۱۹۳۱ء کو ہم شملہ میں جمع ہو کر کشمیر کے معاملہ پر پورے طور پر غور کریں.اور اس کے ساتھ ہی آپ نے تین اقدامات فرمائے.(۱) لنڈن مشن کو کشمیر کے حالات پر احتجاج کرنے کے لئے لکھا.(۲) روزنامہ الفضل کو اہل کشمیر پر ظلم و ستم کے خلاف زیادہ پر زور آواز بلند کرنے کا ارشاد فرمایا (۳) جماعت احمدیہ کے تمام افراد کو تحریک آزادی کے لئے مستعد و تیار کرنے کے لئے ۱۸ / جولائی ۱۹۳۱ء کو قادیان میں وسیع پیمانے پر زبر دست احتجاجی جلسہ منعقد کیا گیا جس میں چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم.اے.خواجہ غلام نبی صاحب ایڈیٹر الفضل اور مولوی نظام الدین صاحب مبلغ کشمیر نے مظالم کشمیر پر تقریریں کیں اور ڈوگرہ حکومت کے خلاف زبر دست صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے متعدد قرار دادیں پاس کی گئیں.جناب خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی کی حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے پے در پے مضامین نے یوں تو ملک کے طول و عرض میں بسنے والے طرف سے اشتراک عمل و تعاون کی آواز مسلمانوں میں زبر دست جنبش پیدا کر دی اور ان کی نگاہیں قیادت کے لئے آپ کی طرف اٹھنے لگیں مگر اس پر جوش تعاون داشتراک عمل کی غالبا سیلی زور دار آواز شمس العلماء جناب خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی کی طرف سے اٹھی جنہوں نے حضور
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 414 تحریک آزادی کشمیر ا د ر جماعت احمد به کو اس سلسلے میں متعدد خطوط لکھے اور ایک بلند پایہ لیڈر ہونے کے باوجود نہایت اخلاص و محبت سے ایک خادم کی حیثیت سے تحریک میں کام کرنے کی پیشکش کی چنانچہ ان کے دو مکتوب بطور نمونہ درج ذیل کئے جاتے ہیں.بسم اللہ الرحمٰن الرحیم در خواجہ حسن نظامی - ۱۳/ جولائی ۱۹۳۱ء مخلص نو از جناب مرزا صاحب السلام علیکم.آپ نے سرینگر کے حالات پڑھ لئے ہوں گے یہ موقع ہے کہ ہم سب مسلمان اپنی مستعدی اور اخوت اسلامی کو جتنی جلدی ایک مرکز پر جمع کر کے کام شروع کر دیں گے اتنا ہی زیادہ اثر ہو گا میری رائے یہ ہے کہ سری نگر کے واقعہ کی تحقیقات کے لئے آپ کو اور مجھ کو فور اخود چلنا چاہئے اس سلسلہ میں اگر ہم دونوں کو گرفتار کر لیا جائے گا.تو ایک برس کا کام ایک مہینہ میں پورا ہو جائے گا بلکہ شاید اس سے بھی زیادہ جلدی کامیابی ہو جائے گی اور خود آپ کی جماعت میں اتنی بڑی زندگی صرف معمولی حرکت سے پیدا ہو جائے گی جو حیرت انگیز ہوگی.میں جانتا ہوں کہ آپ کی پوزیشن اور آپ کی ذاتی مصالح اور آپ کی جسمانی صحت مزاحم ہوگی لیکن یہ وقت کسی بات کے دیکھنے کا نہیں ہے.قدیمی مسلمانوں کی طرح نہایت چستی اور پھرتی سے آگے بڑھ جانے کا وقت ہے میں آپ کے ساتھ بحیثیت ایک معمولی خادم کے چلوں گا لاہور میں بھی اطلاعیں دی ہیں تاکہ اسمبلی کا کوئی ممبر اور کوئی پنشن مسلمان حج اور کوئی بے تعصب ہندو بھی ہمارے ساتھ ہو تاکہ ہم سرینگر میں جاکر ایک منصفانہ اور موثر تحقیقات کر سکیں.تحقیقات تو یہی ہے کہ مسلمانوں کے ولوں کو مضبوط کیا جائے جن پر تلوار اٹھائی گئی ہے لیکن ہمیں صرف تحقیقات کرنے کا اعلان کرتا ہے اور ہر قسم کی تکلیفوں اور سختیوں کو برداشت کر کے کام کرنا ہے.اس خط کو دیکھتے ہی مجھے تار دیجئے جہاں آپ بتائیں گے میں فورا پہنچ جاؤں گا...حسن نظامی (نقل بمطابق اصل) بسم الله الرحمن الرحیم در خواجہ حسن نظامی - ۱۸/ جولائی ۱۹۳۱ء مخلص نواز حامی مسلمین جناب میرزا صاحب! السلام علیکم - ۱۶/ جولائی کا خط پہنچا غالبا کل یا پرسوں میرا بھی ایک خط آپ کو ملا ہو گا آج کے خط پر غور کرنے سے جو خیال ہو اوہ عرض کرتا ہوں لاہور کی کشمیری کا نفرنس کی نسبت آپ نے نہایت صحیح رائے قائم کی ہے ڈاکٹر محمد اقبال کی نسبت یہ تو ٹھیک ہے کہ ان کا اثر ہے مگر یہ ٹھیک نہیں ہے کہ ان میں عملی جرات بھی ہے وہ ہر گز اس مشکل کام میں دخل نہ دیں گے چاہے اس وقت وہ وعدہ کر لیں لیکن ایفاء کی امید نہیں ہے.
ریت - جلد ۵ 415 تحریک آزادی کشمیر ا د ر جماعت احمدیہ آپ ڈکٹیٹر کی حیثیت رکھتے ہیں میں آپ کے ساتھ کام کرنے کو موجود ہوں لاہور میں ایک مرکزی مقام بنادیجئے میں بھی وہاں آجایا کروں گا اور ایک بار آپ بھی آجائیں.۲۴ / جولائی کا جو دن مقرر ہوا ہے اس دن آپ لاہور آجا ئیں میں بھی آجاؤں گا وہاں سب سے مل کر کام کا نقشہ بنا لیا جائے گا میں نے تو بڑے بڑے متعصب مولویوں سے باتیں کیں تو ان کو آپ کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لئے آمادہ پایا.بہر حال دوسرے غافل و کامل و بے اثر لوگوں کا انتظار کرنا فضول ہے اب قدم بڑھائیے سب آپ کے پاس جمع ہو جائیں گے.۲۴ جولائی کو لاہور آنا ممکن ہو تو تار دیجئے.تاکہ میں ۲۳ کو وہاں پہنچ جاؤں ورنہ قادیان آجاؤں گا تاکہ تمام امور پر زبانی گفتگو ہو سکے.آپ نے وائسرائے اور لندن کا کام موقع کے موافق کیا.مگر اس کا کچھ اثر نہیں ہو گا.جب تک کہ گورنمنٹ اور ریاست مسلمانوں میں یک جہتی اور قوت محسوس نہ کرے خواجہ بانو خدا کے فضل سے اچھی ہیں اور آپ کی اہلیہ کی عیادت کی شکر گزار ہیں.نیازمند حسن نظامی.حضور کی طرف سے خواجہ حسن نظامی صاحب کی تجویز کا جواب خواجہ صاحب موصوف نے سرینگر جانے اور گرفتار ہونے کی جو تجویز پیش کی تھی اس کا جواب حضور ایدہ اللہ تعالٰی نے یہ دیا کہ یہ صحیح ہے کہ میری اور آپ کی گرفتاری پر شور پڑ جائے گا کیونکہ ہمارے لئے اپنی جان اور مال قربان کرنے والے لاکھوں لوگ موجود ہیں مگر ریاست اتنی بیوقوف نہیں کہ ہمیں گرفتار کرے.میں خوب جانتا ہوں وہ ہر گز ایسا نہیں کرے گی.پس اس فعل میں ہماری کوئی قربانی نہیں ہو گی صرف ایک نمائش ہو جائے گی جس سے فائدہ اٹھانا ہماری شان کے خلاف ہے.چنانچہ خواجہ حسن نظامی صاحب نے بھی اس رائے سے اتفاق کیا.حضرت خلیفة المسیح شملہ میں مسلم زعما کی کانفرنس اور آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا قیام رمانی ایدہ الہ تعالی بنصرہ العزیز نے مسئلہ کشمیر پر غور کرنے کے لئے ۲۵/ جولائی ۱۹۳۱ء کا دن مقرر فرمایا تھا.چنانچہ اس روز نواب سر ذو الفقار علی خاں صاحب آف مالیر کوٹلہ کی کوٹھی Pair View (شملہ میں نماز ظہر کے بعد ایک اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں ہندوستان کے بہت سے مسلم لیڈر مثلاً حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ شمس العلماء خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی.سرمیاں فضل حسین صاحب.ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب سر ذو الفقار علی خاں صاحب جناب نواب صاحب سنج پوره - خان بہادر شیخ رحیم
تاریخ احمدیت جلد ۵ 416 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد به بخش صاحب ریٹائرڈ سیشن جج سید محسن شاہ صاحب ایڈووکیٹ لاہور سیکرٹری آل انڈیا کشمیری کا نفرنس (لاہور) مولوی محمد اسمعیل صاحب غزنوی (امرتسر) مولوی نور الحق صاحب مالک "مسلم آؤٹ لک" (لاہور) سید حبیب صاحب ایڈیٹر سیاست (لاہور) شامل ہوئے.ان کے علاوہ مولوی میرک شاہ صاحب (سابق پروفیسر دیوبند پروفیسر اور مینٹل کالج لاہور) نے نمائندہ کشمیر کی حیثیت سے اور جناب اللہ رکھا صاحب ساغر نے نمائندہ جموں کی حیثیت سے شرکت فرمائی.صوبہ سرحد کی نمائندگی کے فرائض صاحبزادہ سر عبد القیوم کے بھائی صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب ( آف ٹوپی) نے انجام دیئے.اور مسلم پریس کے لئے اس اجلاس کی روداد قلمبند کرنے کا فریضہ چوہدری ظہور احمد صاحب (حال ایڈیٹر صد را انجمن احمد یہ پاکستان) نے ادا کیا.کانفرنس میں جب مسئلہ کشمیر پر بحث کا آغاز ہوا ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب، سرمیاں فضل حسین صاحب اور دوسرے نمائندوں نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی امام جماعت احمدیہ سے کہا کہ اس بارے میں آپ وائسرائے سے ملیں اور اس سے گفتگو کر کے معلوم کریں کہ وہ کس حد تک کشمیر کے معاملات میں دخل دے سکتے ہیں جس حد تک وہ دخل دے سکتے ہوں اسی حد تک ہی ہمیں یہ سوال اٹھانا چاہئے.حضور نے فرمایا کہ یہ طریق درست نہیں کہ وائسرائے سے پوچھا جائے کہ وہ کس حد تک دخل دے سکتا ہے بلکہ ہم سب سے پہلے کشمیر کے لوگوں سے پوچھیں گے کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور پھر ان کے مطالبات کو پورے زور کے ساتھ گورنمنٹ کے سامنے رکھیں گے.آخر طے پایا کہ ایک آل انڈیا کشمیر کمیٹی بنائی جائے جو اس سارے کام کو اپنے ذمہ لیکر انجام دئے اور اس وقت تک یہ مہم جاری رہے جب تک کہ ریاست کے باشندوں کو ان کے جائز حقوق نہ حاصل ہو جائیں تمام نمائندوں نے جو ریاست سے تعلق نہ رکھتے تھے یہ اقرار کیا کہ وہ بھی اس کمیٹی میں شمولیت اختیار کریں گے بلکہ وہ اسی وقت اس کے ممبر بھی بن گئے.اس کمیٹی کے قیام کے بعد اب اس کی صدارت کا نازک معاملہ پیش ہوا ( کانفرنس کے نامہ نگار) چوہدری ظہور احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ :- IA " مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ حضرت امام جماعت احمدیہ کے دائیں ہاتھ ایک ہی صوفہ پر ڈاکٹر سر محمد اقبال بیٹھے تھے اور دائیں طرف دوسرے صوفہ پر نواب سر ذوالفقار علی تھے اور حضرت امام جماعت احمدیہ کے بائیں طرف پہلے خواجہ حسن نظامی اور ان کے بعد نواب صاحب آف سنج پورہ تھے اور پھر بقیہ معززین جن کا ذکر اوپر آچکا ہے ڈاکٹر سر محمد اقبال نے تجویز کیا کہ اس کمیٹی کے صد ر امام جماعت احمدیہ ہوں ان کے وسائل مخلص اور کام کرنے والے کارکن یہ سب باتیں ایسی ہیں کہ ان
تاریخ احمد ہی.بلده 417 تحریک آزادی کشمیر ا و ر جماعت احمدیه سے بہتر ہمارے پاس کوئی آدمی نہیں..خواجہ حسن نظامی صاحب نے فورا اس کی تائید کی اور سب طرف سے درست ہے کی آوازیں آئیں.اس پر امام جماعت احمدیہ نے فرمایا کہ " مجھے اس تجویز سے ہرگز اتفاق نہیں میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں اور میری جماعت ہر رنگ میں کمیٹی کے ساتھ تعاون کرے گی لیکن مجھے صدر منتخب نہ کیا جائے".ہو گا".ڈاکٹر سر محمد اقبال نے امام جماعت احمدیہ کو مخاطب کر کے فرمایا :- حضرت صاحب جب تک آپ اس کام کو اپنے صدر کی حیثیت سے نہ لیں گے یہ کام نہیں 1-9 اس تعلق میں ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب نے ملک غلام فرید صاحب ایم.اے کو ایک ملاقات میں خود بتایا کہ کچی بات تو یہ ہے کہ جب کشمیر میں تحریک آزادی شروع ہوئی اور ہم نے دیکھا کہ بچارے کشمیریوں کو مہاراجہ تباہ کر کے رکھ دے گا تو مجھے اور دیگر مسلمان لیڈروں کو خیال پیدا ہوا کہ کشمیریوں کی کیسے مدد کی جائے ہم نے سوچا اگر ہم نے جلسے وغیرہ کئے اور کارکنوں اور سرمایہ کے لئے تحریک کی تو اول تو دیانتدار کارکن نہ لیں گے اور سرمایہ جمع نہیں ہو گا.اور جو سرمایہ جمع ہو گا.وہ بے ایمان کارکن کھا جائیں گے.اور اس دوران میں مہاراجہ تحریک کو کچل کر رکھ دے گا.کام فور اشروع ہونا چاہئے ہم نے سوچا کہ ہندوستان میں صرف ایک ہی شخصیت ہے کہ اگر وہ اس تحریک کی قیادت منظور کرلے تو دیانتدار کارکن بھی مہیا کرلے گی سرمایہ بھی جمع کرلے گی.وکلاء وغیرہ بھی وہ خود دے گی.اخبارات میں ولایت میں اور یہاں بھی پراپیگنڈا وہ خود کرلے گی اور وائسرائے اور اس کے سیکرٹریوں سے ملاقات بھی خود کرے گی وہ شخصیت مرزا محمود احمد ہیں".ملک صاحب موصوف کا یہ بیان جو حال ہی میں چوہدری ظہور احمد صاحب نے شائع کیا ہے یقیناً شک وشبہ سے بالا شہادت ہے جس کی بالواسطہ تائید ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کے اپنے ایک خط سے بھی ہوتی ہے جو انہوں نے کمیٹی کے قیام سے قریباً دس ماہ قبل ۵ ستمبر ۱۹۳۰ء کو شیخ یوسف علی صاحب پرائیویٹ سیکرٹری ( حضرت خلیفتہ المسیح الثانی) کے نام تحریر کیا چونکہ آپ کی جماعت منتظم ہے اور نیز بہت سے مستعد آدمی اس جماعت میں موجود ہیں اس واسطے آپ بہت مفید کام مسلمانوں کے لئے انجام دے سکیں گے.444 ” باقی رہا بورڈ کا معاملہ سو یہ خیال بھی نہایت عمدہ ہے میں اس کی ممبری کے لئے حاضر ہوں صدارت کے لئے کوئی زیادہ مستعد اور مجھ سے کم عمر کا آدمی ہو تو زیادہ موزوں ہو گا لیکن اگر اس بورڈ
تاریخ احمدیت جلد ۵ 418 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد به کا مقصد حکام کے پاس وفود لے جانا ہو تو ہمیں اس سے معاف فرمایا جائے وفد بے نتیجہ ثابت ہوتے ہیں اس کے علاوہ مجھ میں اس قدر چستی اور مستعدی بھی باقی نہیں رہی.بہر حال اگر آپ ممبروں میں میرا نام درج کریں تو اس سے پہلے باقی ممبروں کی فہرست ارسال فرمائیں.مخلص محمد اقبال چہ بہ مکتوب ڈاکٹر سر محمد اقبال ۵/ ستمبر ۱۹۳۰ء) جو کہ آپنا یا منتظم ہے اور نین کے قد ادتی اس جانی مرموجود ہر اس در سلے آب بیت مفید نام معلمانوں جائے انجام کے پر لگے باقی رہا لو ڈ کا معاملہ سو یہ خیال بھر بنات لئے ہے بری صدارت کے کوریا زیادہ سوات نے کور را با استاد اور جو سے کم کر رہی ہو تو را در خون ہوگا.عمر دو یز اور ہر بندہ اور ایک کو اور جانا ہو تو میں اس سے بات کرنا جا ئے.محمود نے تجربات ہو نا ہی بر مانده بویر استور شستی از اشعه ی باران برت رہی.پر مکہ لوگ آپ پھریوں پر برا نام مبیع کرنیلی از اس سے مجھے باقی نیروی نفرت اریسان نائم بع تلور هرتیک المختصر ڈاکٹر سرمحمد اقبال صاحب کی نگاہ میں چونکہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کی ذات والا صفات سے بڑھ کر تحریک آزادی کشمیر کی قیادت کے لئے اور کوئی موزوں شخصیت ملک میں موجود نہیں تھی.اس لئے آپ نے حضور ہی کا نام صدارت کے لئے پیش فرمایا ڈاکٹر صاحب کے بعد شمس العلماء خواجہ حسن نظامی صاحب اور دوسرے ارکان نے بھی اس کی مکمل تائید و حمایت کی اور جب ہر طرف سے یہی آواز بلند ہوئی تو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے بتیس لاکھ مسلمانان جموں کے بنیادی انسانی حقوق دلانے اور انہیں اقتصادی غلامی سے نجات دلانے کے لئے صدارت کی ذمہ داری قبول فرمالی.-
تاریخ احمدیت جلده 419 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد اور نمائندوں کی رضامندی سے کمیٹی کے سیکرٹری مولوی عبد الرحیم صاحب در دایم.اے (سابق | مبلغ انگلستان) تجویز کئے گئے " حضرت خلیفہ المسیح الثانی اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:- " مجھے کہا گیا کہ ہم آپ کو ڈکٹیٹر تجویز کرتے ہیں آپ جو کہیں گے وہ ہم کریں گے مگر میں نے کہا مجھے اور بہت کام ہیں اور میرے لئے یہ کام کرنا مشکل ہے اس پر کہا گیا یہ بھی ثواب کا کام ہے ۳۰ لاکھ مظلوم اور بے کس مسلمانوں کی خدمت ہے آپ ضرور یہ کام کریں ہمارا اصول تھا کہ خلیفہ دوسری انجمنوں میں شامل نہ ہو.مگر جب مجھ سے یہ کہا گیا تو میں اس کا کوئی جواب نہ دے سکا.پھر خیال آیا یہ کہیں گے کہ ناکامی کے ڈر سے پیچھے ہٹتا ہے.اس پر میں نے کہا دوسری انجمنوں میں خلیفہ کے شامل نہ ہونے کا دستور ہم نے خود ہی بنایا ہے اسے خدمت خلق کے لئے تو ڑ دیں تو کوئی حرج نہیں.چنانچہ میں نے ڈکٹیٹر بنے سے تو انکار کر دیا.لیکن کہا پریذیڈنٹ بننا قبول کر لیتا ہوں".فہرست ممبران آل انڈیا کشمیر کمیٹی حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بصرہ العزیز صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے علاوہ دیگر ممبران کے نام ایم محمد اسماعیل حاجی احمد صاحب مسٹر ایچ ایس سروردی بار ایٹ لاء درج ذیل ہیں..محمد کلکتہ - احمد عبدالستار صاحب آنریری سیکرٹری.دی کلکتہ مجلس کلکتہ ہم مولانا ابو ظفر وجیہ الدین صاحب ایم محمد علی اللہ بخش صاحب.سیکرٹری مسلم بیتی 4 مسٹر اے آرو نشکر فیڈریشن ہے.مولانا ابو یوسف صاحب اصفہانی شمالی بیتی - قاضی کبیر الدین صاحب 4- ڈاکٹر شفاعت احمد خاں صاحب 1- سید کشفی شاه نظامی ۱۳- سید عبد الحفیظ صاحب ۱۵- مولانا محمد شفیع صاحب داوری ۱۷.چوہدری عبدالمتین صاحب ایم ایل اے الله آباد + میاں سید جعفر شاہ صاحب رنگون ۱۲- جناب مولانا حسرت موہانی صاحب کلت بتی بتی شاه آباد کانپور ڑھا کہ ڈاکٹر ضیاء الدین احمد صاحب ایبٹ آباد ایم ایل اے پیشنه ۱۲ نواب ابراہیم علی خاں صاحب نواب آف کرنال سنج پورہ ایم ایل اے
تاریخ احمدیت جلده 420 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ آسمام ۱۸- جناب مشیر حسین صاحب قدوائی لکھنو ۱۹- سید غلام بھیک صاحب نیرنگ پلیڈر انبالہ ۲۰ مولانا سید حبیب شاہ صاحب ایڈیٹر لاہور "سیاست" لاہور -۲۱ مولوی نور الحق صاحب پروپرائیٹر مسلم لاہور ۲۲- سید محسن شاہ صاحب ایڈووکیٹ سیکرٹری آل انڈیا کشمیر کانفرنس آؤٹ لک ۲۳ - مولانا غلام رسول صاحب مہر ایڈیٹر "انقلاب" لاہور - ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب بار ایٹ لاء ۲۶ خان بهادر شیخ رحیم بخش صاحب.ریٹائرڈ ۲۵ - مولا نا مجھ یعقوب صاحب ایڈیٹر لائٹ لاہور سیشن جج ۲۷ آنریبل نواب سرذوالفقار علیخاں صاحب.ایم.لاہور -۲۸ مولانا عبدالمجید صاحب سالک ایڈیٹر ایل اے انقلاب ۲۹- محمد رفیق صاحب باریٹ لاء ایڈووکیٹ ہائیکورٹ لاہور ۳۰ ملک برکت علی صاحب ایڈووکیٹ لاہور لاہور لاہور لاہور ۳۱- حاجی شمس الدین صاحب لاہور ۳۲.میاں فیروز الدین صاحب.سیکرٹری خلافت کمیٹی لاہور ۳۳.میاں نظام الدین صاحب رکھیں لاہور ۳۴.میاں فضل کریم صاحب.ایل ایل بی لاہور لیڈر ۳۵- ڈاکٹر عبد الحق صاحب ایم بی بی ایس لاہور -۳۶- سید عبد القادر صاحب ایم.اے.پروفیسر اسلامیہ کالج لاہور ۷ ۳.مولا نا علم الدین صاحب سالک لاہور ۳۸- غلام مصطفیٰ صاحب ایڈووکیٹ لاہور ۳۹- شیخ نیاز علی صاحب ایڈووکیٹ لاہور ۴۰ چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب لاہور بار ایٹ لاء ایم-ایل-ی ۴۱- پیراکبر علی صاحب ایڈووکیٹ - ایم ایل سی فیروز پور ۴۲ - چوہدری محمد شریف صاحب ایل ایل بی ۴۳.خواجہ محمد شفیع صاحب ۴۵ شمس العلماء خواجہ حسن نظامی صاحب پلیڈر منگری دیلی ۴۴- مولانا مظہر الدین صاحب ایڈ میٹر "الامان" دیلی ۴۶ حاجی سیٹھ عبداللہ ہارون صاحب ایم.ایل اے.۴۷.مولانا سید محمد اسماعیل صاحب غزنوی امر تر ۲۸ شیخ محمد صادق صاحب ایم ایل اے ۴۹.مولانا عقیل الرحمان صاحب ندوی سیار پور ۵۰ مولانا جلال الدین صاحب شمس ۵۱ - مولانا عبد الرحیم صاحب درد ۵۳- ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب قادیان لاہور ۵۲ - مولانا شخص د اللہ صاحب دیلی کراچی امرتر قادیان سیالکوٹ ۵۴- غلام مصطفی صاحب بار ایٹ لاء گوجر انواله لکھنو ۵۵ ایم حسام الدین صاحب آنریری مجسٹریٹ امرتسر ۵۶ مولانا کرم علی صاحب
اریخ احمدیت.جلد ۵ 421 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد ۵۷- مولانا سید میرک شاہ صاحب فاضل دیوبند کرنال ۵۸ شیخ صادق حسن صاحب ایم ایل اے ۵۹- شیخ فضل حق صاحب ایم ایل اے پریذیڈنٹ بھیرہ ۶۰ - سید ذاکر علی شاہ صا حب میونسپل کمیٹی - مولانا عبد الحمید صاحب ۶۲ چوہدری اسد اللہ خان صاحب بارایٹ لاء ۶۳ - شماه مسعود احمد شاہ صاحب ایم ایل اے ؟ ۶۴- سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ۷۵- ایس ایم عبداللہ صاحب نائب صدر میونسپلٹی دیلی ا ہوں قادیان
! تاریخ احمدیت.جلد ۵ 422 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد به حواشی چودھویں صدی " (راولپنڈی) ۲۳/ جولائی ۱۸۹۵ء صفحه ۵-۶- ( تاریخ احمدیت جلد چهارم طبع اول صفحه ۱۳۱۰۱۴۰ "شیر کشمیر " صفحه ۱۳۲۶ از کلیم اختر صاحب شائع کردہ سندھ ساگر اکاڈمی لاہور طبع اول ۱۹۶۳ء اخبار کشمیری لاہور ۲۱ / اپریل ۱۹۲۶ء صفحه ۳-۴- " مسلم کشمیری کانفرنس کا پہلا اجلاس امرتسر میں 1991ء میں ہوا تھا جس میں نواب سر سلیم اللہ مہمان خصوصی تھے اس اجتماع میں شیخ محمد اقبال صاحب ، خواجہ الف دین صاحب وکیل خواجہ احمد دین صاحب ایڈووکیٹ اور دوسرے عمائدین کے ساتھ منشی محمد الدین صاحب فوق بھی شامل تھے اس موقعہ کا نونو روزگار فقیر جلد دوم (مولفه فقیر سید وحید الدین صاحب) میں چھپ چکا ہے.الفضل ( قادیان) ۲/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحه ۱۲ کالم "فغان کشمیر " ( شائع کردہ کشمیر پیلیٹی بورڈ آل انڈیا مسلم کشمیری کانفرنس لاہور) سرورق صفحه ا تاہم ایضا صفحہ ۱۲۹ " رہنمائے کشمیر "صفحہ ے ے ( از منشی محمد الدین صاحب فوق) مطبوعہ گلزار محمدی پریس لاہورے 141م) ے.رہنمائے کشمیر "صفحہ ۷۷ از منشی محمد الدین صاحب فوق) یہ کانفرنس ۱۸۸۶ء میں سرسید احمد خاں مرحوم کی کوشش سے قائم ہوئی تھی مختلف اور دور دراز مقامات پر اس کے اجلاس منعقد ہوئے جن میں علامہ شیلی اور حالی نظمیں پڑھتے.نواب محسن الملک اور خواجہ غلام الثقلین صاحب لیکچر دیتے.مسلم لیگ کے قیام سے پہلے سیاسی ونیم سیاسی امور میں کانفرنس ہی مسلم قوم کی آواز سمجھی جاتی تھی.(موج کوثر صفحہ ۸۲) مولفہ شیخ محمد اکرام صاحب بی.اے.ان مشہور کا نفرنسوں کے علاوہ ہندوستان میں کشمیری خاندانوں کی اور بھی متعدد انجمنیں قائم تھیں جن کے نام آل انڈیا مسلم کشمیری کا نفرنس کے رسالہ " فغان کشمیر مطبوعہ ۱۹۲۴ء میں مندرج ہیں.- تاریخ احمدیت جلد چهارم صفحه ۳۱۷ ا اس قصبہ کو آستور بھی کہتے ہیں.-K آل انڈیا کشمیر کمیٹی اور احرار اسلام صفحہ ۱۷۰۱۶ لیکچر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ۱۳/ تمبر۱۹۳۱ء بمقام سیالکوٹ والفضل ۲۴ ستمبر ۱۹۳۱ء صفحه ۹۰۸ الفضل ۱۲۴ جون ۱۹۴۶ء صفحه ۳ کالم ۲ آل انڈیا کشمیر کمیٹی اور احرار اسلام صفحہ ۷ او الفضل ۲۴ ستمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۸-۹ معلوم ہوتا ہے کہ ایسے واقعات بڑی کثرت سے ہوتے تھے چنانچہ ملک فضل حسین صاحب نے اپنی کتاب مسلمانان کشمیر اور ڈوگرہ راج صفحہ ۱۳۰ حاشیہ میں اخبار گورو گھنٹال سور جنوری ۱۹۲۷ء صفحہ ۲۳ کے حوالہ سے نواب صاحب مالیر کوٹلہ کی سیر کشمیر میں اسی قسم کا واقعہ لکھا ہے.-۱۴ رجسٹر کار روائی صدر انجمن احمدیہ ۱۹۱۷ء نمبر ۱ صفحه ۲۰ -۱۵ (مفہوم) الفضل ۲۷ جولائی ۱۹۲۹ء صفحہ ۶ الفضل ۵/ ستمبر ۱۹۲۱ء صفحہ ۱-۲ ۱۷ ولادت قریباً ۶۱۸۳۹-۱۸۹۴ء میں بیعت کی کتاب البریہ " میں ان کا ذکر موجود ہے کے ۱۹۰ء میں قریباً ۶۸ سال کی عمر میں قادیان سے قرآن شریف پڑھا.مارچ ۱۹۱۴ء میں وفات پائی ناسنور میں مزار ہے ان کے علاوہ ریاست کشمیر کے بعض ممتاز صحابہ کے نام یہ ہیں خواجہ عبد القادر صاحب ڈار ناسنور - خواجہ عبد الرحمان صاحب ڈار پاستور ( دونوں حضرت حاجی عمر ڈار کے فرزند) مولوی حبیب الله لون ناسنور - مولوی غلام محمد صاحب ناستور.فقیر محمد صاحب بھٹی ناسنور - راجہ عطاء اللہ خان صاحب یا ڈی پورہ راجہ غلام حیدر صاحب یاری پوره (یہ دونوں بزرگ کشمیر کے اولین صحابہ ہیں) حضرت خلیفہ نور الدین صاحب جموں.مولوی غلام احمد صاحب لون تا سنور شیخ فتح محمد صاحب ڈپٹی انسپکٹر کشتواڑ ( ضلع اور ھم پورہ) میاں محمد دین صاحب تاجر جموں.میر حبیب اللہ
تاریخ احمدیت.جلده 423 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت اسد.صاحب گاگرن شوپیاں.میر عبدالرحمن صاحب رینجر- میر غلام محمد صاحب گاگرن (شوپیاں) جمال الدین صاحب کا گرن (شوپیاں) غلام رسول صاحب شیخ، انکو شوپیاں مولوی خلیل الرحمان صاحب (قصبہ پہنچیری رایگان X بروایت جناب عبد العزیز صاحب ڈار) مولوی عبد الرحمان صاحب (اندوره اسلام آباد) HARO HA - تاریخ اقوام کشمیر " جلد ۲ صفحه ۱۷۶۱۷۵ -۲۰ مولوی فاضل مولوی عبد الجبار صاحب ناسنور مولوی احمد اللہ صاحب ناستور - مولوی نور احمد صاحب پاستور - مولوی محمد عبد الله شاه صاحب ناسنور مولوی خواجہ عبد الغفار صاحب ڈار صحافی نام منور کاشمیری انگریزی خوان - جناب غلام محمدار - مبارک احمد صاحب دار مولوی عبد الرحیم صاحب محمد ایوب صاحب صابر (مولوی عبد اللہ صاحب وکیل (مولوی عبد اللہ صاحب وکیل بعد کو ناسنور سے سرینگر آگئے اور پھر کچھ عرصہ بعد اسلام چھوڑ کر بھائی ہو گئے.) ضمیمہ "نوائے کشمیر " کو ٹلی ۲/ فروری ۱۹۵۱ء صفحہ ۱۲۰ مضمون جناب منشی امیر عالم صاحب کو ملی ضلع میرپور) ۲۲ بروایت جناب خواجہ عبد العزیز صاحب ڈار، پاستور -۲۳ مختصر تاریخ کشمیر صفحه ۱۳۶ مولف جناب اللہ بخش صاحب یوسفی) -۲۴ ہفت روزہ لاہور ۲۲ مارچ ۱۹۷۵ صفحه ۶ ( مقام اشاعت لاہور) ۲۵ - الفضل یکم ستمبر ۱۹۲۱ء صفحہ ۹ کالم ۲ ۲۶ محضر نامہ کا مکمل متن رسالہ فغان کشمیر صفحہ ۵- ۰ پر موجود ہے.تاریخ اقوام کشمیر صفحہ ۱۴۹ میں آپ کا ذکر آتا ہے.۲۸ تاریخ اقوام کشمیر صفحه ۱۷۷ ۲۷ ۲۹- فغان کشمیر صفحه ۱۲-۱۳ ۳۰.رپورٹ مجلس مشاورت ۶۱۹۲۷ الفضل ۱۵ اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحه ۴ کالم ها.آپ کی پانچ روایات صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اپنی کتاب سیرت المہدی حصہ سوم (صفحہ ۲۴۰-۲۴۱) میں درج فرمائی ہیں.۲۲ کشمیر کے حالات صفحه ۱۳-۲۵ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب) شائع کردہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی قادیان ۱۹۳۱ء -۳۴ خواجہ عبد الغفار صاحب ڈار مولوی فاضل سابق مدیر اخبار اصلاح سرینگر آپ کے فرزند ارجمند ہیں.خواجہ عبد الرحمن صاحب کے حقیقی بھائی خواجہ عبد العزیز صاحب ہیں.جن کی نسبت ہفت روزہ ضمیمہ نوائے کشمیر کو ٹلی (۲) فروری ۱۹۵۱ء) لکھتا ہے خواجہ صاحب موصوف ۱۹۳۱ء سے برابر مسلمانوں کی آزادی کے لئے جد وجہد کرتے رہے ۱۹۳۵ ء میں آپ نے تحصیل دار صاحب کو لگام کے خلاف ایک زمیندار کو عدالت میں بے عزت کرنے پر تمام کو ناکام میں شورش برپا کردی آخر پنڈت جیالال وانچ تحصیلدار کو کھلے اجلاس میں زمیندار سے معافی ما تھوڑی خواجہ صاحب نے تحصیل کو لگام کے ڈوگرہ جاگیر داروں کا ناک میں دم کر دیا تھا مزار مین کو ان کا پورا پورا حق دلانے میں پوری جدوجہد کی.جب پنڈت نہرو اور شیخ عبد اللہ کو ثر ہانگ آئے تھے توضیح عبد اللہ صاحب نے خواجہ عبد العزیز ڈار کا تعارف کراتے ہوئے کہا خواجہ صاحب میرے پرانے رفتی کاروں میں سے ہیں مگر جب سے میں نے نیشکرم کو اختیار کیا یہ مجھ سے ناراض ہیں مگر میں ضرور یہ کہوں گا کہ جس جماعت سے یہ تعلق رکھتے ہیں وہ زندہ اور فعال جماعت ہے اس جماعت نے کشمیریوں کو بیدار کرنے میں تمام لوگوں سے زیادہ کام کیا اور خواجہ صاحب اپنے علاقہ کے مسلمہ لیڈر ہیں (صفحہ ۲۱) ۳۵، بحوالہ شیر کشمیر صفحه ( از جناب کلیم اختر صاحب) خلیفہ صاحب مہاراجہ کشمیر کے دفتر میں سپرنٹنڈنٹ خاص تھے اس کے بعد وہ ترقی پاکر پہلے ریاست کی وزارت خارجہ میں اسٹنٹ سیکرٹری بنائے گئے پھر وسط ۱۹۲۹ء میں ہوم سیکرٹری کے عہدہ پر فائز ہوئے.
تاریخ احمدیت جلد ۵ 424 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد یہ ۳۷.رسالہ لاہور ۲۲ مارچ ۱۹۹۵ء صفحہ سے کالم ۳۲ ۳۸ الفضل ۱۳ ستمبر ۱۹۳۱ء ۳۹ ایمین کلکته ۱۹ / اگست ۱۹۳۱ء " سیاست لاہور ۲۳/ اگست ۹۳۱ صفحه (۲) کو اللہ مسئلہ کشمیر اور ہندو مہاسبھائی " مصنفہ ملک فضل حسین صاحب احمدی ماجر صفحه ۵۹ تا ۷۲ - (اشاعت ستمبر ۱۹۳۲ء) ۴۰- سرایلین بینرجی کے اس بیان نے اندرون کشمیر مسلمانوں کو بہت تقویت پہنچائی اور بینگ میز ایسوسی ایشن (جموں) اور انجمن نوجوانان اسلام ( سرینگر نے اس کی اشاعت میں خوب حصہ لیا موخر الذکر انجمن کی بنیاد مولوی غلام احمد صاحب ہمدانی نے ۱۹۲۸ء میں رکھی تھی.ا بیان عبد المجید صاحب قرشی الفضل ۳ ستمبر ۱۹۳۷ء صفحہ ۶ کالم ۲-۳ ۴۲ انقلاب ۷ / اپریل ۱۹۲۹ء صفحہ ۶.جناب چوہدری غلام عباس صاحب نے ٹھیکدار یعقوب علی صاحب کے اس جرات مندانہ اقدام کا زکر کشمش " (صفحہ ۵۲-۵۳) میں بھی کیا ہے.۴۳ انقلاب ۱۲/ اپریل ۱۹۳۵ء ۴۴- انقلاب ۱۳ اپریل ۱۹۲۹ء صفحه ۳ ۴۵- بریکٹ میں وضاحتی الفاظ خواجہ عبد العزیز صاحب ڈار سے استصواب کے بعد اضافہ کئے گئے ہیں.اخبار انقلاب لاہور ۲۰ / اپریل ۱۹۲۹ء ۴۷- الفضل ۱۳ مئی ۱۹۲۹ء صفحه ۹ ۳۸ اخبار "انقلاب لاہور ۱۳ مئی ۱۹۲۹ء صفحه ۶ - بحواله الفضل ۲۸ جون ۱۹۲۹ء صفحه ۳ کالم ۳ الفضل ۲۶/ جون ۱۹۳۱ء صفحه ۳ الفضل ۱۲۳ جون ۱۹۴۶ء صفحه ۳ کالم ۲ ۵۲ ولادت مارچ 1999ء - آٹھویں جماعت میں پڑھتے تھے کہ انہیں اور ان کے ساتھیوں کو ایک عیسائی نوجوان احمد شاہ ایم.اے نے آہستہ آہستہ عیسائیت کی تبلیغ شروع کر دی دوسرے ساتھی تو عیسائی ہونے پر آمادہ ہو گئے مگر گل کار صاحب اپنے ہمجولیوں کو مولوی عبد اللہ صاحب وکیل کے پاس لے گئے اور ان سے پوچھا کہ اسلام اچھا نہ ہب ہے یا عیسائیت مولوی صاحب روزانہ شام کو درس دیا کرتے تھے اس روز انہوں نے اپنے درس میں عیسائیت کے خلاف زیر دست تقریر کی اور حضرت مسیح موعود کی کتاب نور القرآن نکال کر سنائی جس سے سب بہت متاثر ہوئے اور روزانہ درس میں حاضر ہونے لگے.اور ان کی تبلیغ سے وفات مسیح کے قائل ہو کرے رسہ نصرت الاسلام میں جہاں نویں جماعت کل واخلہ لیا تھا اپنے ہم مکتبوں میں اس مسئلہ پر بحث شروع کر دی اس پر مہتمم مدرسہ نے آپ کو مدرسہ سے خارج کر دیا اور آپ سری پر تاپ ہائی سکول میں داخل ہو گئے دسویں جماعت پاس کی تو احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے مبلغ مولوی عصمت اللہ صاحب کی تحریک پر اشاعت اسلام کا لج ( احمد یہ بلڈ نگس لاہور) میں تعلیم پانے لگے.اسی دوران میں آپ کو ۱۹۲۸ء کے سالانہ جلسہ قادیان کی زیارت کا پہلا موقعہ میسر آیا اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے مکان پر قیام کیا اسی دوران میں آپ نے خواب میں دیکھا کہ میرے سامنے ایک شیشہ ہے جس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کھڑے معلوم ہوتے ہیں اور اس کے اندر لکھا ہے کہ یہ نور ہے اور آسمان سے یہ نور آیا ہے اس آسمانی انکشاف پر آپ جماعت احمد یہ قادیان میں شامل ہو گئے.اور دسمبر ۱۹۳۱ ء میں بیعت کرلی.۵۳ معمار آزادی کشمیر صفحه ۲ مطبوعه ۱۹۶۱ ع دار الاشاعت راولپنڈی (از محمد اسد اللہ صاحب قریشی کا شمیری) -۵۴ تاریخ اقوام کشمیر " جلد ۲ صفحه ۴۵۱-۴۵۳ مولف منشی محمد الدین صاحب فوق مطبوعه ۱۹۴۳ء) بحوالہ معمار آزادی کشمیر صفحه ۵۲۰۴۹ ۵۵ خواجہ غلام نبی صاحب گلکار کا بیان ہے کہ اشاعت اسلام کالج کے پرنسپل (مولوی صدر الدین صاحب) کی خواہش تھی کہ میں انجمن کا ملازم ہو جاؤں اور مبلغ بن جاؤں وہ چاہتے تھے کہ وہ مجھے نواب آف منگرول کے پاس بھیج دیں جہاں مجھے ہر قسم کی اء
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 425 تحریک آزادی کشمیر ا د ر جماعت احمد یہ سہولتیں میسر ہو سکتی تھیں مگر میں نے انکار کیا اور کہا کہ میں اپنے ہی ملک کی خدمت کرنا چاہتا ہوں.۵۲ اصلاح ۲۷/ نومبر ۱۹۳۵ء صفحه ۲ ۵۷- جناب مولوی محمد عبد اللہ صاحب وکیل کشمیر کے ایک فرزند مشتاق احمد فاروق ایڈوکیٹ اس کی تفصیل میں لکھتے ہیں " مجھے تحریک کشمیر سے نہ صرف ایک کشمیری تعلیم یافتہ اور محب وطن کی حیثیت سے ہی دلچسپی رہی ہے بلکہ اس لئے بھی زیادہ اور غیر معمولی دلچسپی رہی ہے کہ تحریک کا آغاز سرینگر میں والد صاحب مرحوم مولوی محمد عبد اللہ وکیل کی کوششوں کا نتیجہ تھا والد مرحوم نے ایک کتابچہ (مارچ ۱۹۳۱ء کے قریب ناقل) دور جدید کے عنوان سے لکھا اس سے قمل وہ مذہبی تبلیغ و معاشرتی اصلاح وبہبود کا کام کرتے رہے اور دور جدید کے شائع ہوتے ہی والد بزرگوار نے سیاسی سرگرمیاں شروع کر دیں او معرفی مدل ریڈ مگ روم کے نوجوانوں کی پشت پناہی اور ہدایت کا کام جہاں والد بزرگوار نے سنبھالا ادھر جموں میں مستری یعقوب علی مرحوم وہاں کے نوجوانوں کی پشت پناہی اور ہدایت فرمارہے تھے والد صاحب اور مستری یعقوب علی صاحب چونکہ دونوں کا تعلق جماعت احمدیہ سے تھا اور جماعت احمدیہ میں والد صاحب کو ان دنوں خاص مقام حاصل تھا.اس لئے تحریک کشمیر کا ہیڈ کوارٹر ہمار امکان بن گیا."انصاف" راولپنڈی ۱۱ / فروری ۱۹۶۵ء صفحه ۲ کالم (۳) ۵۸ - دسمبر ۱۹۰۵ ء میں ہمقام سرینگر پیدا ہوئے آپ کی پیدائش سے پندرہ روز تحمل آپ کے والد ماجد شیخ محمد ابراہیم صاحب کا انتقال ہوچکا تھا.آپ کی والدہ محترمہ کے پاس جس قدر دنیاوی دولت تھی وہ انہوں نے آپ کی تعلیم و تربیت پر نثار کر دی ۱۹۲۲ء میں دسویں جماعت کا امتحان پاس کرتے ہی شفیق والدہ کا سایہ بھی سرسے اٹھ گیا.مگربڑی بڑی مالی مشکلات برداشت کرتے ہوئے آپ نے تعلیم جاری رکھی اور سرینگر سے ایف ایس سی کا امتحان پاس کرنے کے بعد اسلامیہ کالج لاہور میں داخل ہوئے آپ کو بچپن ہی سے اپنے کشمیری مسلمان بھائیوں کی مظلومیت پر افسوس ہو تا تھا اور دل خون ہو ا جاتا تھا اور آنکھیں فرط ہمدردی سے پر نم ہو جاتیں.سرینگر اور لاہور دنوں جگہ آپ نے اپنے ہم وطنوں کی زبوں حالی کے تڑپا دینے والے مناظر دیکھے.۱۹۲۸ء میں اسلامیہ کالج سے بی ایس سی کا امتحان پاس کر کے علی گڑھ کالج چلے گئے یہاں آپ پر کیا بیتی اس داستان مظلومیت پر شیخ محمد عبد اللہ صاحب ان الفاظ میں روشنی ڈالتے ہیں.وہاں بھی میری حالت ایسی تھی میرے لئے کشمیری ہونا ایک عیب تھا جو لاہور میں معاف کیا گیا اور نہ علی گڑھ میں وطن اور وطن سے باہر اپنے عزیز وطن اور اہل وطن کی یہ ذلت و رسوائی دیکھ کر میرادل پاش پاش ہو گیا.اور میں نے بے زبان کشمیریوں کے استخلاص کے لئے دعا کی اور کچے دل سے یہ حلف اٹھایا کہ میں یا تو اپنے مظلوم کشمیری بھائیوں کو ان مصائب سے نجات دلاؤں گا یا خود بھی میاد کے ظلم و ستم کا شکار ہو جاؤں گا.۱۹۳۰ء کے آغاز میں آپ ایم ایس سی (کیمسٹری) کی ڈگری حاصل کر کے سرینگر آگئے اور گورنمنٹ ہائی سکول سرینگر میں بطور سائنس ماسٹر کام کرنے لگے آپ ایم ایس سی تھے لیکن ڈوگرہ حکومت نے آپ کو ساٹھ روپے ماہوار تنخواہ اور ۲۳ روپے الاؤنس کی ملازمت دی حالانکہ آپ سے کم تعلیم یافتہ ہندو بڑے بڑے عہدوں بلکہ وزارتوں پر قابض تھے." نقوش ! اور آپ بیتی نمبر صفوی به ۱۰۳ ۱۰۴، شیر کشمیر ۱۶ ۸۰ ۵۹ - الفضل ۱۸/ ستمبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۸ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس عظیم کی سرگرمیاں نمایاں رنگ میں وسط ۱۹۳۲ء سے پبلک کے سامنے آنے لگیں جبکہ گلانسی سفارشات منظور ہو گئیں الفضل نے نوجوانوں کی اس تنظیم کی خبر دیتے ہوئے لکھا یہ بات مسلم ہے کہ مسلمانان کشمیر بیدار ہو چکے ہیں...خداتعالی ان کی ہمتوں میں برکت دے.اخبار "ہمار ا کشمیر مظفر آباد ۲۶ / جولائی ۱۹۵۲ء صفحہ ۳.اس پہلے اجلاس میں شیخ محمد عبد اللہ صاحب.غلام احمد صاحب عشائی اور مولوی محمد سعید صاحب جیسے زعماء میں سے کوئی بھی موجود نہیں تھا بعض شامل ہونے والے نوجوان یہ تھے.خواجہ غلام کی صاحب گلکار - خواجہ محمد رجب صاحب (حال مجسٹریٹ مقبوضہ کشمیر) ملک محمد صدیق صاحب، مولوی بشیر احمد صاحب ابن مولوی عبد اللہ ، خواجہ عبد الغنی پلوامی ، غلام احمد صاحب ظہرہ محمد یکی صاحب رفیقی، غلام نبی صاحب رفیقی، خواجہ عبد الصمد صاحب درزی ، محمد مقبول صاحب کو زکر مبارک شاہ صاحب نقشبندی، پیر سیف الدین صاحب پیر حفیظ اللہ صاحب کاش ملک غلام نبی صاحب درزی ، ملک عبد القدیر صاحب ، غلام محمد صاحب باغ غلام رسول صاحب دیر غلام محمد صاحب بٹ، ماسٹر غلام محمد صاحب زینہ کدلی، خواجہ علی محمد صاحب سقہ مفتی جلال الدین پیر عبد القدوس صاحب غلام محمد صاحب ہانڈے ماسٹر محمد اسمعیل صاحب اسلام آبادی وغیرہ - ( آواز حق مظفر آبادی / ستمبر ۱۹۵۴ء صفحه ۲۵۹)
احمد میتر- جلد ۵ 426 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد یہ منشی محمد الدین صاحب فوق اس ایسوسی ایشن کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں مسلم سوشل آپ لفٹ ایسوسی ایشن کی سکیم کے تحت ساٹھ ستر نائٹ سکول بھی سرینگر میں کھل چکے تھے ( تاریخ اقوام کشمیر جلد ۲ صفحه ۴۵۱-۴۵۳) خواجہ غلام نبی صاحب گل کار کا بیان ہے کہ دوسرے روز عید الاضحیہ تھی ان نوجوانوں نے بر سر عام چندہ جمع کیا عید گاہ میں حکومت کے خلاف تقریریں کیں اور اس کے ساتھ ہی فتح کرلی ریڈنگ روم کا افتتاح کیا وہاں نوجوانوں کی آمدورفت شروع ہوئی تو جوان رہنماؤں نے حضرت بل آثار شریف خانقاہ معلی، علم صاحب ، مخدوم صاحب مجھوں دعوتوں ٹائٹ سکولوں عرسوں اور میلوں پر حکومت کے خلاف عوامی طاقتوں کو مجتمع کیا اور مسلمانوں کو اتحاد و اتفاق کی تلقین کی جگہ جگہ دستی پوسٹر لگائے."اخبار ہمارا کشمیر مظفر آباد ۲۶/ جولائی ۱۹۵۳ء صفحه ۳) ۷۳- معمار آزادی کشمیر صفحه ۳ ۶۴۳- «شیر کشمیر » صفحه ۸۲-۸۳ مسلم بینگ میز ایسوسی ایشن کے کارکنوں نے کس طرح ابتداء پنجاب کے اسلامی اخبارات میں حالات بھجوانے شروع کئے اور حکومت کشمیر کا معتاب نازل ہوا.اور دوبارہ یہ سلسلہ وسیع پیمانے پر جاری ہوا اس کی تفصیل جناب عبد المجید صاحب سالک نے اپنی " سرگزشت "صفحہ ۲۸۵-۲۸۸ میں بیان فرمائی.آواز حق مظفر آبادی / ستمبر ۱۹۵۴ء صفحہ ۲۶۳ کالم ۳.اس شمارہ میں یہ بھی لکھا ہے " ریڈنگ روم پارٹی " نے یہ تجویز کی کہ لاہور سے اخبار نکالا جائے.مگر اقتصادی حالات اجازت نہیں دیتے تھے اس لئے یہ تجویز ہوئی کہ انقلاب کی خدمات حاصل کی جائیں.اور جب اس اخبار کا داخلہ ریاست میں بند کر دیا جائے تو ایک اور نام سے اخبار جاری کیا جائے اور جب وہ بھی بند ہو جائے تو اشتہار نکالے جائیں چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اشتہاروں کے طریقہ پر اخبار مظلوم کشمیر کشمیری مسلمین ہتو کشمیر کے بعد دیگرے آتے گئے اور ادھر ریڈنگ روم پارٹی ان کو مشتہر کرتی گئی.۷۷ - الفضل ۱۲ مئی ۱۹۳۱ء صفحه ۴ الفضل / جون ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۳ کالم ! الفضل ۴ جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۳ کالم ۲ -۷۰ مثلاً انقلاب (لاہور) 4 / جون ۱۹۳۱ ء الفضل قادیان / جون ۱۹۳۱ء انقلاب لاہور ۱۲ / جون ۱۹۳۱ء و الفضل ( قادیان) ۱۳/ جون الفضل ۱۳/ جون ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۲ کالم ہو.۷۲ - INSIDE KASTIMIR صفحہ ۱۳۵ مولف مورخ کشمیر مسٹر پریم ناتھ بزاز) مطبوعہ ۱۹۴۱ء ناشر پبلشنگ کمپنی سرینگر.انقلاب ۱۲ جون ۱۹۳۱ء الفضل ۱۲/ جون ۱۹۳۱ء صفحه ۴۰۳ ۷۵ سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے ایک غیر مطبوعہ مضمون سے ماخوذ انقلاب یکم جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ ۳ ے.الفضل ۲ جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ ۳ ۷۸- یه تاریخ بالترتیب ۱۰-۲۸-۲۴ / جولائی ۱۹۳۱ء تجویز کی گئی.۷۹ اخبار الفضل قادیان دار الامان ۱۶ / جولائی ۱۹۳۱ء صفحه ۳-۴ -۸۰ اردو ترجمہ "نوحہ کشمیر " ( فارسی منظوم) صفحه ۱۲-۱۳ مطبوعہ پنجاب نیشنل پریس لاہو ر ۱۹۷۳ء ۸۱ اخبار مد رو سرینگر ذمہ دار حکومت نمبر ۳/ جولائی ۱۹۳۸ء صفحہ ۱۱) INSIDE KASHMIR A صفحه ۱۲۵ ۸۳ کشمیر کے حالات صفحه ۱۲۸ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب) والفضل ۹/ جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ ۹ کالم ۱-۲- " آواز حق "مظفر آباد صفحه ۲۵۹- مولوی محمد سعید صاحب مسعودی سابق ایڈیٹر اخبار ہر رد لکھتے ہیں مولانا عبد القدیر صاحب ۳۵-۴۰ کے درمیان
اریخ احمریت - جلد ۵ 427 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد یہ من وسال کے ایک گرانڈیل جوان تھے بھر پور جسم بد اسا سر گھنی اور تاؤ دی ہوئی کانوں کی لو سے ہمکنار موچھیں.تیز چیکدار اور گہری آنکھیں.گہرا گندمی رنگ اور گرجدار آواز.ان سب باتوں نے مولانا میں امتیازی رعب کی شان پیدا کر رکھی تھی آپ فطر نا سپاہی تھے اور آپ کا کاروبار چھاؤنیوں سے وابستہ رہنے کے باعث کریلا اور نیم چڑھا ہو گیا تھ مولانا یوپی کی طرف کسی مقام کے رہنے والے اور علمی خاندان سے متعلق تھے آپ کی تعلیم عربی فارسی تحمل از تحمیل ہی رک چکی تھی فوجیوں کے ساتھ کاروبار کی وجہ سے انگریزی نہایت رواں اور فوجیانہ بولتے تھے اردو مادری زبان ہونے کے باعث زیر تصرف تھی راولپنڈی اور پشاور کے طویل قیام کے باعث پنجابی اور پشتو زبان بھی اہل زبان کی طرح بول لیتے تھے کشمیر میں آپ کا رو د۱۹۳۱ء میں پہلی دفعہ ہور چین فوجی افسروں کی معیت میں ہوا خانقاہ معلی میں مسلمانن کشمیر کا پہلا جلسہ تھا جس میں آپ شامل ہوئے جلسہ کے انتقام پر آپ نے مسلمابین کشمیر کی نسبت اپنے تاثرات بیان کئے اردو زبان کسی نے بھی نہ کبھی.مگر پولیس کی رپورٹ پر دوسرے دن آپ کی گرفتاری عمل میں آگئی.اس سے قبل آپ حضرت بل میں جمعہ کے دن بھی کوئی تقریر کر چکے تھے " اخبار اصلاح سرینگر ۱۳ جولائی ۱۹۳۶ء) ہفت روزه اصلاح سرینگر ۱۳ / جولائی ۱۹۳۶ء ۸۵ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ میرے پاس متواتر و نود اور تاریں آئیں کہ آپ یہ کام اپنے ہاتھ میں لیں اور ہماری مدد کریں (الفضل ۱۲۴ جون ۱۹۴۶ء صفحہ ۳ کالم ۲ کشمیر کے حالات "صفحہ ۱۳۸ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب) مطبوع اگست ۱۹۳۱ء ۸۷ اخبار "اصلاح " سرینگر ۱۳/ جولائی ۱۹۳۶ء - INSIDE KABHIR صفحہ ۱۳۰- مطبوعہ کشمیره باشنگ کمیٹی سرینگر ۱۹۴۱ء ۸۹ جب گولی چلی تو عبد القدیر خان صاحب کو کسی کارروائی کے بغیر جیل کی ڈیوڑھی سے واپس لے جا کر حوالات میں بند کر دیا گیا.اور چند روز بعد سرینگر سیشن جج نے ان کو سال کی سخت قید سنادی.مگر بعد ازاں جلدی انہیں رہا کر دیا گیا.(الفضل ۶/ اگست ۱۹۳۱ء صفحه ۱۲) 4- "RECOLLECTION- صلی ۱۹۴ (بحواله «شیر کشمیر صفحه ۱۰۵- از جناب کلیم اختر صاحب) اخبار الفضل قادیان نے مسلمانان کشمیر کی قابل تعریف ہمت اور استقلال کے عنوان پر ۴/ اگست ۱۹۳۱ء کو ایک پر زور اداریہ بھی لکھا تھا.۱۴-۱۳۹ جولائی ۱۹۳۱ء کو شہید ہونے والوں کی ایک نا تمام فهرست اخبار ہمارا کشمیر مظفر آباد ۲۶/ جولائی ۱۹۵۲ء صفحہ ۳.اور ہفت روزه دار ۱۳/ جولائی ۱۹۶۳ ء میں شائع شدہ ہے.الفضل ۱۸/ اگست ۱۹۳۱ء صفحه ۹-۱۰ ۹۳ کشمیر کے حالات " ( از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب) -۹۴ یہ وفد ڈاکٹر محمد شاہ نواز صاحب کی سرکردگی میں زخمیوں کے علاج کے لئے بھیجا جاتا تجویز ہوا تھا جس کے لئے بذریعہ تار اجازت طلب کی گئی مگر حکومت کشمیر نے اسے داخلہ کی اجازت نہ دی.(الفضل ۱۳۰ جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ کالم ) -۹۵ این مولوی عبد الله صاحب وکیل ولادت ۱۸۹۵ء قریباً ۱۹۴۷ء میں جموں سے ہجرت کے کے سیالکوٹ آگئے اب تک وہیں قیام رکھتے ہیں.ولادت / فروری ۱۹۰۴ء بمقام جموں.چوہدری غلام عباس صاحب کی سیاسی جدوجہد میں ان کے والد بزرگوار منشی نواب الدین مرحوم احمد ی کی تربیت اور دعاؤں کا بہت دخل ہے چنانچہ چوہدری صاحب خود ہی فرماتے ہیں ” میرے والد محترم بے حد متشرع اور دین دار تھے.اور یہ امر واقع ہے کہ میں نے اپنی عمر میں ان کو ہمیشہ معمولاً اور التزاما دو بجے صبح کے لگ بھگ بیدار ہوتے پایا.تجد نماز پنجگانہ اور روزہ سے سوائے علالت کے انہوں نے کبھی ناغہ نہ کیا.مجھے ان سے بعض مذہبی عقائد میں اختلاف تھا لیکن میں جو کچھ بھی ہوں اور میں نے جو کچھ بھی اس دنیا میں حاصل کیا سب انکی بدولت ہے یہاں تک کہ میری موجودہ زندگی بھی ان ہی کی مرہون منت ہے ابتداء میں مہاراجہ ہری سنگھ اور ڈوگرہ حکومت کے خلاف لب کشائی کوئی آسان بات نہ تھی چہ جائے کہ حکومت کے خلاف باغیانہ تحریک کی رہنمائی کی جاتی.اکثر گھر والے میری سیاسی سرگرمیوں کے مخالف تھے لیکن والد محترم
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 428 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد بالخصوص تخلیہ میں میری گرفتاری پر بہت خوش ہوتے اور مجھے ہمیشہ ہمت اور استقلال کا سبق دیتے جب میری غیر آئینی سرگرمیاں شروع ہو گئیں تو ایک دفعہ بار جود کسر نفسی کے خود بھی گرفتار ہو گئے اب ان کے پاس مجھے دینے کے لئے کچھ نہ رہا تھا لیکن ان کی زندگی اور ان کی میرے حق میں دعائیں میرے لئے دنیا کی تمام نعمتوں اور ثروتوں سے زیادہ گراں قدر اندوختہ اور زاد حیات تھیں، کاش وہ آج زندہ ہوتے اور میری پریشانی خاطر میں میرے درد دل کا مدارا ہو سکتے.کشمکش " مولف جناب چوہدری غلام عباس صاحب صفحہ ۲۴۲-۲۲۳- شیخ عبد اللہ صاحب کا بیان ہے کہ گلکار صاحب نے بڑی جرأت کے ساتھ اپنی ہتھیلیاں پیش کرتے ہوئے کالو پستاؤ.ہمارے لئے یہ لوہے کی زنجیریں نہیں بلکہ سونے کے کنگن ہیں (" آتش چنار صفحہ ۹۸ از شیخ محمد عبد الله صاحب ناشر جو بدری اکیڈمی لاہور تصنیف ۱۹۸۲ء اشاعت ۱۹۸۵م اصلاح سرینگر ۱۳/ جولائی ۱۹۳۶ء صفحہ ۳-۴- ہری پریت کے ان لیڈروں کی گرفتاری کے بعد سے ادن تک مسلسل ہڑتال رہی.کچھ عرصہ جیل میں رہنے کے بعد جب ان کی رہائی عمل میں آئی تو خواجہ غلام محی الدین صاحب رہبر ساکن ہٹ مالو سرینگر نے ان کا گروپ فوٹولیا تھا مگر افسوس مولف کو وہ پاکستان سے دستیاب نہیں ہو سکا.خواجہ غلام محی الدین صاحب کی دکان گندہ سنگھ بلڈنگ سرینگر سے متصل واقع تھی ممکن ہے سرینگر سے یہ قیمتی اور یادگار فوٹو سیا ہو جائے.بحوالہ "الفضل ۲۳ / جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ ۱-۲ الفضل ۱۸/ جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۳۴۱ الفضل ۲۴/ ستمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۵ کالم ۴ متعلق نظمیں پڑھنے اور اللہ اکبر اسلام زندہ باد اور ۱۰۱- غیر مطبوعہ مضمون ۱۹۵۱ء (سید نا حضرت خلیفہ الثانی ایدہ اللہ تعالی) ۱۰۲ جلسہ سے قبل ایک عظیم الشان جلوس بھی نکالا گیا.جس نے مظالم کے کشمیر سے ڈوگرہ راج مردہ باد کے نعرے بلند کر کے زبر دست مظاہرہ کیا.(الفضل ۲۱ جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ اکالم ۲-۳ ۱۰۳ کچھ عرصہ ہوا مولوی بشیر احمد صاحب مبلغ جماعت احمدیہ دہلی نے شمس العلماء جناب خواجہ حسن نظامی مرحوم کے فرزند حسن نظامی ثانی صاحب سے ملاقات کی.تو انہوں نے بتایا کہ آپ کے خلیفہ صاحب کے متعدد محطوط ہمارے یہاں محفوظ ہیں.١٠٢- اخبار الفضل ۲۴۴/ ستمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۶ کالم ۳ -۱۰۵ حضور ایدہ اللہ تعالٰی ۲۳/ جولائی ۱۹۳۱ء کو قادیان سے بذریعہ گاڑی سفر شملہ کے لئے روانہ ہوئے تھے مولوی عبد الرحیم صاحب درد ایم.اے صحیح یوسف علی صاحب بی.اے پرائیویٹ سیکرٹری حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب (پروفیسر جامعہ احمدیہ ) ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب اور چوہدری ظہور احمد صاحب (حال آڈیٹر صد را انجمن احمد یہ ربوہ) بھی ہمراہ تھے (الفضل ۲۵/ جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ کالم ) در سالہ لاہور ۵ / اپریل ۱۹۶۵ء) ۱۰ بروایت چوہدری ظہور احمد صاحب (لاہو ر ۵ / اپریل ۱۹۷۵ء صفحه ۱۲ کالم ) ١٠- ايضا ۱۰۸- "الموعود صفحه ۱۵۹۱۵۸) تقریر حضرت خلیفہ المسیح الثانی ۱۹۴۴ء) ناشر الشرکتہ الاسلامیہ ربوہ مطبوعہ دسمبر ۶۱۹۷۱ لاہور ۵ / اپریل ۱۹۶۵ء صلحه ۱۲ کالم ۲ 11 ہفت روزہ " لاہور مئی ۱۹۶۵ء صفحه ۱۳ کالم ۲ تاہم حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی ان دنوں ملک میں اسلامی مفادات کے تحفظ کے لئے ایک مسلم بورڈ کی تجویز پر غور فرمارہے تھے یہ اسی تجویز کی طرف اشارہ ہے.صدر بننے کے بعد بھی حضرت کا ذاتی نقطہ نگاہ یہ تھا کہ یہ عہدہ کسی اور مسلمان لیڈر کو سونپ دیا جائے اور آپ اور جماعت احمدیہ کمیٹی کے پلیٹ فارم سے مسلمانان کشمیر کی آزادی کے لئے سرگرم جد وجہد جاری رکھیں مگر خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی نے ۳۱ جولائی ۱۹۳۱ء کو آپ کی خدمت میں لکھا.دوسرے صدر کا نام لینا آپ کی ہمت اور اعلیٰ جرات سے بعید ہے آپ تو ان مشکلات کے عادی ہیں اس پر آپ کو اپنا خیال مجبور ابدلنا پڑا.۱۱۳ الفضل ۳۰ / جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ ۲ و لاہور ۵۴ / اپریل ۱۹۹۵ء صفحه ۱۲-
تاریخ ت - جلد ۵ 429 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد به ایک تاوان احمدی نے ۲۸/ جولائی ۱۹۳۱ء کو حضور کی خدمت میں لکھا.آج اخبار میں یہ پڑھ کر کہ حضور کشمیر کمیٹی کے پریذیڈنٹ ہو گئے ہیں بہت افسوس ہوا کہ تاج خلافت ہوتے ہوئے اس انجمن کی پریذیڈنٹی حضور نے قبول فرمائی ہے حضور امیر المومنین ایدہ اللہ تعالٰی نے منوف کی پشت پر اپنے قلم سے یہ جواب رقم فرمایا کہ بعض دفعہ شفقت علی خلق اللہ کی وجہ سے مزیل شان باتیں کرنی پڑتی ہیں میں پہلے بھی انکار کا ارادہ رکھتا تھا مگر جب دیکھا کہ بعض لوگ ڈر کر پیچھے ہٹ رہے ہیں تو اس کی ذمہ داری کو اٹھالیا.الفضل ۱۰ جنوری ۱۹۳۲ء صفحه ۳ کالم ۲-۳-
تاریخ احمدیت جلد ۵ 430 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد یہ حصہ دوم تیسرا باب (فصل اول) آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا طریق کار و نظام عمل ، مسلمانان ریاست کی تنظیم ، حکومت ہندو حکومت کشمیر سے رابطه و خط و کتابت یوم کشمیر، عالی پراپیگنڈا، مظلومین کشمیر کی طبی اور مالی امداد معاہدہ صلح اجلاس سیالکوٹ اور مہاراجہ کی طرف سے ابتدائی حقوق دینے کا اعلان آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا طریق کار و نظام عمل (۲۵/ جولائی ۱۹۳۱ء تا ۱۲/ نومبر ۱۹۳۱ء) یہ تفصیل بتانے سے پیشتر کہ سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی قیادت میں تحریک آزادی کشمیر کس شان سے اٹھی ، آگے بڑھی اور منزل مقصود کی طرف تیزی سے رواں دواں ہوئی.آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے نظام عمل اور طریق کار کا بیان کرنا ضروری ہے.اصولی اور آئینی تحریک تحریک آزادی کشمیر دراصل ایک سماجی اور اقتصادی تحریک تھی جس کی بنیاد اخلاق اور انسانیت کے تقاضوں پر رکھی گئی.اس لئے ایک با اصول ادارہ کی حیثیت سے آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے ہندوؤں کے اشتعال انگیز پراپیگنڈا کے رد میں یہ اعلان کر دیا تھا کہ موجودہ ایجی ٹیشن کسی صورت میں بھی ہزہائی نس مہاراجہ صاحب کی ذات کے خلاف نہیں بلکہ اس کا مطلب صرف مسلمانان کشمیر کی ناقابل برداشت شکایات کا ازالہ اور متشددانہ طرز حکومت کی اصلاح کرانا ہے.جو مدت مدید سے کشمیر میں مروج ہے ".
تاریخ احمد مجید جلده 431 تحریک آزادی کشمیر او ر جماعت احمد یہ پھر یہ اصلاح بھی آل انڈیا کشمیر کمیٹی آئینی و دستوری دائرہ میں کرنے کے لئے قائم ہوئی تھی اور حق یہ ہے کہ اگر یہ کمیٹی سیاسی اغراض کے لئے بھی قائم ہوتی تب بھی اس کے لئے کسی غیر آئینی اور خلاف قانون روش کا اختیار کرنا سراسر نقصان دہ تھارجہ یہ کہ زمانہ مسلمانان کشمیر ہی کے لئے نہیں مسلمانان ہند کے لئے بھی نہایت نازک زمانہ تھا.اور وہ خود اپنے حقوق و مطالبات کے حصول میں زندگی اور موت کی کشمکش سے دوچار تھے.برطانوی حکومت کا جھکاؤ ہندوؤں کی طرف تھا.اور ہندو اپنے تمام تر اختلافات فراموش کر کے پورے ہندوستان سے مسلمانوں کی ہستی تک مٹا دینے پر تلے ہوئے تھے.ہندو راجوں مہاراجوں اور سرمایہ داروں کو کسی بھی ناجائز اور ناروا ذریعہ کے اختیار کرنے سے دریغ نہیں تھا.کانگریس کے لیڈر آزادی ہند کے دعاوی کے باوجود ہندو راجوں اور مہاراجوں کے حق میں تھے.اور حکومت ہند کی پالیسی یہ تھی کہ وہ ریاستوں کے اندرونی حالات میں غیر ریاستی لوگوں کی مداخلت کسی طرح گوارا نہ کرتی تھی.ظاہر ہے کہ ان حالات میں ہندوستان اور ہندوستان کی دوسری ریاستوں کی طرح ریاست کشمیر کی آزادی کا مسئلہ بھی تدریجی طور پر ہی حل ہو سکتا تھا اور اہل کشمیر قانو نادو سری ریاستوں سے بڑھ کر کوئی غیر معمولی قدم نہیں اٹھا سکتے تھے.لہذا " آل انڈیا کشمیر کمیٹی " کے لئے تحریک کو چلانے کے لئے صرف آئینی جدوجہد ممکن تھی.اور حضور نے شروع میں ہی ممبران کمیٹی کے سامنے اس کی وضاحت فرما دی تھی.چنانچہ سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کا بیان ہے.” جب ۱۹۳۱ء میں حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے لیڈر ان قوم کے مشورہ بلکہ ان کے اصرار اور اعتماد پر تحریک کشمیر کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لی.تو اس وقت حضور نے صرف اس شرط پر اس مبارک کام کو اپنے ہاتھ میں لیا تھا کہ آپ کی ساری کوششیں کانسٹی ٹیو مثل یعنی دائرہ نظام کے اندر ہوں گی اور اس روح تعاون پر مبنی ہوں گی جو جماعت احمدیہ کے مذہبی اصول میں سے ایک اہم اصول ہے لیڈروں نے اس شرط کو منظور کیا".مسلمانان ہند کو متحد پلیٹ فارم پر لانے کی جدوجہد مسلمانان کشمیر کا مسئلہ چونکہ پورے عالم اسلام کا مسئلہ تھا اس لئے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے ممبروں نے روز اول ہی سے یہ حتمی فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ ملک کی تمام مسلمان جماعتوں اور انجمنوں سے اشتراک عمل کر کے کشمیر کی خاطر کام کرنے والی مختلف جماعتوں میں نظم پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے.تا مسلمانوں کے متحد پلیٹ فارم سے اٹھنے والی آواز تحریک
تاریخ احمدیت جلد ۵ 432 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد ہے کو چلانے میں زیادہ سے زیادہ ممد و معاون ہو سکے.چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی نے کمیٹی بنتے ہی ملک کے مختلف مسلمان لیڈروں کو کمیٹی سے تعاون کرنے کی اپیل کی اور اس خیال سے کہ اس کمیٹی میں کانگریس کے مؤید مسلمانوں کی بھی نمائندگی ہو جائے گی آپ نے مظہر علی صاحب اظہر اور چوہدری افضل حق صاحب ( مفکر احرار) کو خطوط لکھوائے کہ مجھے امید ہے کہ آپ اس میں شامل ہو کر ہمارا ہاتھ بٹائیں گے.مولوی محمد اسمعیل صاحب غزنوی کو ان کے پاس بھجوایا کہ یہ اصحاب کسی طرح اس میں شامل ہو جائیں.مگر یہ کوششیں کامیاب نہ ہو سکیں اس پر آپ نے ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب، مولوی محمد اسمعیل صاحب غزنوی اور مولوی غلام رسول صاحب مہر کو خطوط لکھے کہ اگر کمیٹی میں شمولیت سے انکار کی وجہ یہ ہے کہ میں صدر ہوں تو آپ ان حضرات کو تیار کریں کہ وہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے ممبر ہو جائیں.اور مسلمانوں کی کثرت رائے کے ماتحت تحریک چلانے کا اقرار کریں.تو میں کمیٹی سے فورا مستعفی ہو جاؤں گا.بلکہ اس صورت میں وہ میرے اس خط ہی کو استعفیٰ سمجھ لیں.اس پیشکش کا جواب یہ دیا گیا کہ ہم اپنا الگ کام کریں گے.یہ صورت حال بڑی حوصلہ شکن تھی مگر کشمیر کمیٹی نے نہ صرف عدم تعاون کرنے والوں کی تشہیر سے اجتناب کیا بلکہ اعلان کر دیا کہ وہ مسئلہ کشمیر کے سلسلہ میں ہر مسلم تنظیم یا مجلس سے تعاون کرے گی.اور حضرت امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ تعالی نے صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی حیثیت سے تمام شاخوں کو ہدایت فرمائی کہ وہ اپنے پروگرام کو قائم رکھتے ہوئے جس قسم کی امداد کر سکیں کر دیں مثلا طبی امرداد- بهر حال کشمیر کمیٹی کا یہ کارنامہ ہمیشہ سنہری حروف سے لکھا جائے گا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی مسلسل توجہ اور زبر دست کوشش نے مولوی میرک شاہ صاحب جیسے دیوبندی عالم مولوی محمد ابراہیم صاحب میر سیالکوئی اور مولوی محمد اسمعیل صاحب غزنوی جیسے عالم الہحدیث ، خواجہ حسن نظامی صاحب اور مولوی عبدالحمید ظفر صاحب بنگالی جیسے مذہبی پیشوا، مولوی حسرت صاحب موہانی، مولوی شفیع داؤدی صاحب اور ڈاکٹر شفاعت احمد خان جیسے سیاستدان سید عبد القادر صاحب پروفیسر اسلامیہ کالج جیسے مورخ پروفیسر علم الدین صاحب سالک جیسے فاضل ، حاجی سیٹھ عبداللہ ہارون اور شیخ نیاز علی صاحب ایڈووکیٹ اور چوہدری عبدالمتین صاحب آف ڈھاکہ جیسے قومی کارکن ، ملک برکت علی صاحب اور مشیر حسین صاحب قدوائی جیسے کانگریسی ، ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب جیسے ماہر تعلیم ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب جیسے فلسفی و شاعر اور سید محسن شاہ صاحب جیسے کشمیر کے دیرینہ خادم مولوی عبدالمجید
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 433 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ " صاحب سالک ، مولوی غلام رسول صاحب مہر اور سید حبیب صاحب جیسے صحافی ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو گئے.اور تحریک آزادی کے لئے گراں قدر خدمات سرانجام دینے لگے.ہندی مسلمانوں کی سیاسی جماعت آل انڈیا مسلم لیگ اور کشمیری کانفرنس دونوں کمیٹی کی حمایت کرنے لگیں بلکہ دہلی میں کمیٹی کا اجلاس (۲۲/ نومبر ۱۹۳۱ء) کو مسلم لیگ کے دفتر میں ہی منعقد ہوا.پیلیٹی کمیٹی حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اگست ۱۹۳۱ء کے پہلے ہفتہ میں صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اور مولوی عبد المغنی خان صاحب پر مشتمل ایک پبلسٹی کمیٹی تجویز فرمائی.جس کا کام مسلمانان کشمیر کے حقوق و مطالبات کی حمایت و اشاعت تھا.اس کمیٹی نے اپنا فرض نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیا.چنانچہ "کشمیر کے حالات "- "مسلمانان کشمیر اور ڈوگرہ راج" اور "مسئلہ کشمیر اور ہندو مہاسبھائی" جیسی تصانیف اس کی کوشش سے شائع ہو ئیں.مقدم الذکر کتاب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے قلم سے لکھی گئی تھی.اور دوسری ملک فضل حسین صاحب احمدی مهاجر جماعت کے مشہور فاضل و محقق کی تحقیق کا نتیجہ تھیں ان کتابوں سے کشمیریوں کے موقف کو بہت تقویت پہنچی جیسا کہ آگے ذکر آئے گا.اس اہم لٹریچر کی اشاعت کے علاوہ کمیٹی نے وقتا فوقتا مختلف ہینڈ بل A اور ٹریکٹ بھی شائع کئے.مسلمانان کشمیر کا محضر نامہ (۱۹ / اکتو بر ۱۹۳۱ ء برائے مہاراجہ کشمیرا “MEMORIAL CONTAINING DEMANDS OF KASHMIR MUSLIMS" کے نام سے شائع کیا.پلیٹی کمیٹی نے مسلم پریس سے رابطہ قائم کرنے کی طرف بھی خاص توجہ دی.احمدی اخبارات میں سے اخبار "الفضل " ( قادیان) سن رائز" اور "پیغام صلح " لاہور نے نمایاں حصہ لیا.اور تحریک کو چپہ چپہ تک پھیلانے کا کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا حتی کہ پنجاب کے مشہور صحافی اور سیاسی لیڈر مولوی ظفر علی خان صاحب مدیر "زمیندار" کو لکھنا پڑا کہ شیخ محمد عبد اللہ صاحب تو اخبار الفضل کے اداریوں سے شیر کشمیر بنے ہیں.چنانچہ انہوں نے "شیر کشمیر " کے عنوان سے ۱۱/ ستمبر ۱۹۳۲ء کو ایک نظم لکھی جس میں شیخ محمد عبد اللہ صاحب کی زبان سے یہ شعر کہے.شیر کشمیر بن گیا ہوں میں فقط " الفضل" کے مقالوں سے ER اخبار " سن رائز" ہفت روزہ انگریزی اخبار تھا جس نے کشمیریوں کے مطالبات کی تائید میں نہایت معرکتہ الآراء مضامین شائع کئے.اس کے ایڈیٹر ان دنوں ملک غلام فرید صاحب ایم.اے تھے یہ وہ بلند پایہ اور وقیع اخبار تھا جس کے مضامین دوسرے اخبارات بھی نقل کرتے تھے.اور لنڈن میں پارلیمنٹ
تاریخ احمد بیت - جلد ۵ 434 تحریک آزادی کشمیر ا د ر جماعت احمد به کے ممبروں اور انڈیا آفس کے افسروں تک پہنچتا تھا.ہمیٹی کے اخبار ”سوشل ریفار مر" کے ایڈیٹر نٹراجن (NATRAJAN) نے اپنے اخبار میں لکھا کہ "سن رائز " جس جرأت اور قابلیت سے مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے.مسلمانوں کا کوئی اور اخبار نہیں کرتا.اس اخبار کے اداریے عموماً حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کے لکھے ہوئے تھے (گو حضور کا نام نہیں ہو تا تھا) اور ملک صاحب فصیح اور شستہ اور رواں انگریزی میں ترجمہ کر کے بطور اداریہ شائع کر دیتے تھے.ان اخبارات کے علاوہ اسلامی پریس " میں سے اخبار "انقلاب" (لاہور) "سیاست" (لاہور) " منادی" (دہلی) "ہمت " (لکھنو) نے کشمیر کمیٹی سے خاص تعاون کیا اور نہ صرف اس کے اجلاسوں کی کارروائی شائع کی.بلکہ تحریک کے حق میں آواز بلند کی.چونکہ مسلم پریس میں اخبار "انقلاب" تحریک کشمیر کی تائید میں بڑا اہم کردار ادا کر رہا تھا.اس لئے حکام کشمیر نے اس پر مقدمہ چلانا اله ۱۵ الله چاہا.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کو علم ہوا تو حضور نے ایڈیٹر صاحب "انقلاب کو تار دیا کہ - " مجھے یہ سن کر بہت مسرت ہوئی کہ حکوت کشمیر "انقلاب" کے خلاف مقدمہ چلانا چاہتی ہے.اگر ایسا ہوا تو ہمیں موقعہ ملے گا کہ ہم کشمیر کے مظالم کو انگریزی عدالت میں بے نقاب کریں.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میری ہر قسم کی تائید و حمایت آپ کے ساتھ ہو گی".ای طرح "انقلاب" سے پانچ ہزار کی ضمانت طلب کی گئی تو مدیران انقلاب نے اعلان کیا کہ ضمانت داخل خزانہ کرانے کی بجائے وہ اخبار بند کر دیا جائے گا.اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے عبد المجید صاحب سالک اپنی " سرگزشت" میں لکھتے ہیں.” دوستوں اور قدر دانوں کے تار پر تار آنے لگے.صاجزادہ سر عبد القیوم (پشاور) مرزا محمود احمد (قادیان) شعیب قریشی (بھوپال) نے آمادگی ظاہر کی کہ ہم پوری ضمانت داخل کر دینے کو تیار ہیں."انقلاب" بند نہ ہونا چاہئے".آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا اندرونی نظم ونسق شروع شروع میں جبکہ کمیٹی کا قیام ہوا.نظم نظارت امور عامہ نے (جس کے ناظران دنوں حضرت مفتی محمد صادق صاحب تھے ) کام سنبھالا.یوم کشمیر کے پروگرام سب جماعتوں اور غیر احمدی معززین کو بھیجے اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا پمفلٹ "کشمیر کے حالات " راتوں رات چھپوا کر بھیجا.چندہ کے متعلق جماعت میں تحریکات کیں اور کئی دن پورا عملہ اس میں مصروف رہا.اس کے بعد نظارت امور خارجہ کے تحت (جس کے اس وقت ناظر اور کشمیر کمیٹی کے سیکرٹری مولوی عبد الرحیم صاحب درد ایم.اے تھے) کشمیر کمیٹی کے لئے باقاعدہ محکمہ قائم کر دیا گیا.جس کے زیر انتظام وقتاً فوقتاً مولوی عبدالرحیم صاحب درد سیکرٹری کشمیر کمیٹی- سید زین العابدین ولی اللہ شاہ
ریخ احمدیت.جلد ۵ 435 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت ! صاحب صوفی عبد القدیر صاحب نیاز بی.اے بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی ، حکیم فضل الرحمن صاحب چوہدری ظہور احمد صاحب چودھری نذیر احمد صاحب باجوہ ، چوہدری محمد عظیم صاحب باجوہ چوہدری عصمت اللہ صاحب ایل ایل بی مولوی ظہور الحسن صاحب (حال سیالکوٹ) اور لفٹنٹ محمد اسحاق صاحب (ابن حضرت مولوی حکیم قطب الدین صاحب) سرینگر جموں اور میرپور میں تحریک آزادی میں اہم خدمات بجالانے کا موقعہ ملا.چوہدری ظہور احمد صاحب لکھتے ہیں.(فروری ۱۹۳۲ء میں قادیان سے اپیل کی گئی کہ گریجوئیٹ اور مولوی فاضل اور اس سے کم تعلیم کے لوگ اپنے آپ کو آنریری خدمات کے لئے پیش کریں تاکہ ان کے سپر د خدمت کی جاسکے.سینکٹروں لوگوں نے اپنے آپ کو اس خدمت کے لئے پیش کر دیا میر پور کے علاقہ میں زیادہ کارکنوں کی ضرورت تھی.جموں سے چوہدری محمد عظیم صاحب باجوہ میر پور جاچکے تھے.دوسرے کارکنوں کی ایک ٹیم مولانا ظہور الحسن کی سرکردگی میں بھجوائی گئی.مولانا بڑے جوشیلے کارکن ہیں وہاں خوب کام کیا.ناصر میر پوری کا نام اخبارات میں کثرت سے آتا تھا یہ ناصر میر پوری مولانا ظہور الحسن ہی تھے".اخبار "انقلاب" نے اپنی سرفروش اور جانباز کارکنوں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا تھا.کشمیر کمیٹی کے...اگر چہ وہاں پہلے ہی متعد دار کان مصروف کار تھے لیکن ان کی امداد اور مسلم نمائندوں سے مشاورت کرنے کی غرض سے پنجاب کے بعض مقتدر اور تجربہ کار حضرات بھیجے گئے.جنہوں نے اندرون کشمیر کے منتظم کرنے میں نہایت قابل قدر خدمات انجام دیں...ہم آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے محترم عہدیداروں اور کارکنوں کے شکر گزار ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ اس شکر گزاری میں مسلمانان کشمیر ہم سے کا ملا ہم آہنگ ہیں کہ کمیٹی کے کارکنوں نے نہایت بے نفسی اور انتہائی فراست سے ان کاموں کو نباہا ہے ".حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم.اے اور دفتر کشمیر کمیٹی کے مستعد کارکنوں کے علاوہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب، حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم.اے ، حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ، حضرت مولوی محمد دین صاحب بی.اے اور بعض دوسرے بزرگوں کو بھی افسروں کی ملاقاتوں وغیرہ کے لئے بھجوایا جاتا رہا.مولوی عبدالرحیم صاحب در دایم.اے ابتداء میں سیکرٹری شپ کے فرائض ادا کرنے کے علاوہ دفتر کے بھی ناظم تھے.مگر جب دسمبر ۱۹۳۱ء میں مولانا جلال الدین صاحب شمس فلسطین سے اعلائے کلمہ اسلام کی بجا آوری کے بعد تشریف لائے تو حضور نے آپ کو دفتر کا انچارج مقرر فرما دیا اور اس
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 436 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ نئے تقرر کی نسبت بتایا کہ ” مولوی جلال الدین صاحب کو شام سے واپسی پر کشمیر کا کام سپرد کیا گیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی یہ بہت بڑی عنایت ہے کہ ہمارے کام کرنے والے لوگ کام سے تھکتے نہیں ایک شخص جو چھ سال کا لمبا عرصہ اپنے وطن سے دور سمندر پار رہا ہو وہ امید کر سکتا ہے کہ واپسی پر اسے اپنے رشتہ داروں کے پاس رہنے اور آرام کرنے کا موقعہ دیا جائے مگر یہ مردوں اور عورتوں کے لئے تعجب کی بات ہے کہ مولوی صاحب جب سے آئے ہیں کل (۹/ فروری ۱۹۳۱ء کو.ناقل) صرف چند گھنٹوں کے لئے اپنے وطن گئے کیونکہ آتے ہی انہیں کام پر لگا دیا گیا".فروری ۱۹۳۳ء میں مولانا درد صاحب انگلستان تشریف لے گئے.تو ان کے بعد مولانا جلال الدین صاحب شمس پہلے اسٹنٹ سیکرٹری کشمیر کمیٹی پھر اسٹنٹ سیکرٹری " آل انڈیا کشمیر ایسوسی ایشن کی حیثیت سے کام کرنے لگے.فروری ۱۹۳۶ء میں مولانا صاحب انگلستان میں تبلیغ اسلام کے لئے روانہ ہوئے تو حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب اس دفتر کے انچارج بنائے گئے اب یہ دفتر "کشمیر ریلیف فنڈ" کے نام سے موسوم ہو تا تھا.اس دفتر کے ذمہ تحریک آزادی کشمیر سے متعلق بالواسطہ یا بلاواسطہ امور کا انتظام تھا.غیر احمدی دوستوں کے عطایا مسلم بنک لاہور میں جمع ہوتے تھے.اور احمدیوں کا چندہ یہ دفتر وصول کرتا تھا.دفتر کشمیر کمیٹی ہر قسم کے چندہ کی آمد اور خرچ کا پورا حساب رکھتا.اندرون یا بیرون ریاست میں تحریک آزادی کے لیڈروں اور کارکنوں کے ضروری اخراجات مہیا کر تا کشمیری طلباء کے وظائف کا انتظام کرتا.جلاوطن اور نظر بند کشمیریوں کی امداد کرتا اور عدالتوں کے ضروری اخراجات ادا کر تا تھا.کشمیر ریلیف فنڈ شروع ہی میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر ہر احمدی کے لئے ایک پائی فی روپیہ کے حساب سے کشمیر ریلیف فنڈ لازمی قرار دے دیا گیا تھا اور جماعتیں عرصہ تک بڑے التزام سے یہ ادا کرتی رہیں.اس فنڈ کے پہلے فنانشل سیکرٹری چوہدری برکت علی خان صاحب گڑھ شنکری تھے.جنہوں نے اس مد کو غیر معمولی ترقی دی.۷/ اپریل 197ء کو آپ کا انتقال ہو گیا.جس پر چوہدری ظہور احمد صاحب ( آڈیٹر صدر انجمن احمدیہ پاکستان ) کو *F*197+ " ریلیف فنڈ " کی نگرانی کا کام سپرد کر کے حضور نے انہیں فنانشل سیکرٹری مقرر فرمایا.آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے اجلاس کشمیر کمیٹی کے اجلاس شملہ دہلی، سیالکوٹ اور لاہور میں ہوئے.حضرت خلیفہ المسیح الثانی کو ان اجلاسوں میں بار بار شرکت کرنے کے علاوہ تحریک آزادی کے سلسلہ میں وزیر آباد راولپنڈی اور گڑھی حبیب اللہ بھی تشریف لے جانا پڑا.آپ کے ساتھ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب، مولوی عبد الرحیم
تاریخ احمدیت جلده 437 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ صاحب درد ، شیخ یوسف علی صاحب بی.اے پرائیویٹ سیکرٹری اور ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب کو بھی رفاقت نصیب ہوئی.گڑھی حبیب اللہ کے سفر میں جناب درد صاحب ساتھ نہیں تھے بلکہ آپ سرینگر گئے ہوئے تھے.اس سفر میں خان یحیی خان صاحب ہیڈ کلرک دفتر پرائیوٹ سیکرٹری) میاں نذیر احمد صاحب بھاگلپوری ( موٹر ڈرائیور) اور خان میر خان صاحب ( پہریدار) کو خدمت کا موقع ملا.برطانوی ہند کے احمدی اور تحریک آزادی جماعت احمدیہ اگر چہ مدتوں سے تحریک آزادی کشمیر میں دلچسپی لے رہی تھی لیکن آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی تشکیل کے بعد جبکہ کشمیر کمیٹی کی باگ ڈور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی نے سنبھال لی پوری دنیا کے احمدی گویا آزادی کشمیر کی فوج کے سپاہی بن گئے.قادیان جہاں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا اصل دفتر تھا ان دنوں تحریک آزادی کا اہم مرکز بن گیا.اور اس کے کارکن جن میں ہر طبقہ کے احمدی شامل تھے.میدان عمل میں آگئے.قادیان کے علاوہ ہندوستان میں جہاں جہاں احمدی جماعتیں قائم تھیں سرگرم عمل ہو گئیں.شدھی کے بعد ایسا جوش و خروش جماعت میں کبھی نہیں دیکھا گیا.خدا کے فضل سے کمیٹی کے اخراجات کا اکثر حصہ جماعت احمدیہ نے برداشت کیا.اور برطانوی ہند کی مسلمان جماعتوں میں سب سے زیادہ کارکن اندرون و بیرون ریاست کام کرنے والے جماعت احمدیہ نے فراہم کئے.تحریک آزادی کشمیر کا خمیازہ جماعت احمدیہ کو اس رنگ میں بھگتنا پڑا کہ جہاں کانگریسی خیال کے بعض مسلمان لیڈروں نے سر سکندر حیات خاں کی کوٹھی میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کو احمدیت کے صفحہ ہستی سے مٹا دینے کی دھمکی دی.وہاں ہندوستان کی انگریزی حکومت جو ریاست کشمیر کی نگران تھی.احمدیوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی.چنانچہ سید ولی اللہ شاہ صاحب کا بیان ہے کہ.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مجھے بذریعہ تار پالم پور بلوایا اور فرمایا.خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب شملہ میں ہیں آپ وہاں جائیں اور فارن سیکرٹری مسٹر کلینسی سے ملیں خان صاحب کو میں نے ہدایت بھیج دی ہے آپ اپنے طریق پر ان سے بات کریں.اور کہیں کہ کشمیر میں کام کرنے سے اب ہمیں روکا جا رہا ہے یہ درست پالیسی نہیں نیز جن حالات میں مجھے اور شیخ بشیر احمد صاحب کو وہاں سے نکالا گیا ہے وہ بھی پیش کروں چنانچہ میں ان اخبارات کے بہت سے تراشے لے گیا.مسٹر کلینسی نے اثنائے گفتگو میں اپنا وہی مشورہ دہرایا.اتفاق سے ان دنوں چار انگریز جاسوس روس میں گرفتار کئے گئے تھے.اور ملاقات سے ایک دن پہلے میں نے اخبار میں پڑھا کہ برٹش گورنمنٹ نے روس کو بمبارڈ کرنے کی دھمکی دی ہے.میں نے کہا چار انگریز جاسوس پکڑے جائیں اور برٹش
احمدیت جلد ۵ تاریخ احمدیت 438 تحریک آزادی کشمیر ا د ر جماعت احمد یہ حکومت سارے ملک کو بمبارڈ کرنے کے لئے تیار ہو جائے.یہ تو آپ کے لئے جائز اور لاکھوں مسلمان کشمیر میں پابال ہوں اور ان کے بھائیوں کو یہ اجازت بھی نہ دی جائے کہ وہ ان کی جائز مدد کریں یہ کہاں کا انصاف ہے.اس پر وہ بگڑے اور خان صاحب سے کہنے لگے."Well Moulvi Sahib the gentleman is reflecting an the Britishers" اچھا مولوی صاحب یہ نوجوان انگریزوں کو طعنہ دیتا ہے.یہ کہہ کر انہوں نے گھنٹی بجائی اور ہمیں |PA] رخصت کیا".یہ تو انگریزی حکومت کا ذکر ہے جہاں تک حکام کشمیر کا تعلق ہے.انہوں نے بیرونی احمدیوں کی کڑی نگرانی رکھی اور بعض اوقات ان کے لئے اخراج ریاست تک کی سزا دے دی.چنانچہ سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب صوفی عبد القدیر صاحب نیاز بی.اے چوہدری اسد اللہ خان صاحب بیر سٹرایٹ لاء ، شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ ، محمد یوسف خان صاحب وکیل اور شیخ مبارک احمد صاحب مولوی فاضل کو ۲۴ گھنٹے کے اندر اندر حدود ریاست سے نکل جانا پڑا.مہماشہ محمد عمر صاحب اور مولانا ابو العطاء صاحب کو اخبار "سیاست" کا پرچہ ساتھ رکھنے کے جرم میں جرمانہ کر دیا گیا.تحریک آزادی کشمیر کا بیرونی مرکز قادیان قاریان ان دنوں تحریک آزادی کشمیر کا ایک اہم مرکز کی حیثیت اختیار کر گیا.چنانچہ اس زمانہ میں ریاست کے تمام بڑے بڑے لیڈر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی سے قیمتی مشورہ لینے اور راہنمائی حاصل کرنے کے لئے قادیان تشریف لاتے تھے.شروع شروع میں حضور کی ہدایت تھی کہ پریس میں ان کی آمد کا ذکر تک نہ کیا جائے.چنانچہ قادیان آنے والے بعض زعماء کے نام یہ ہیں.شیخ محمد عبد اللہ صاحب ( شیر کشمیر) ، مولانا میرک شاہ صاحب فاضل دیو بند ٹھیکیدار یعقوب علی صاحب (جموں) جناب چوہدری غلام عباس صاحب جموں ، جناب اللہ رکھا صاحب ساغر جموں ، جناب عبد المجید صاحب قرشی، سردار گوہر رحمان صاحب جموں، جناب شیخ غلام قادر صاحب (جموں) مولوی محمد امین صاحب (بھمبر) حافظ محمد صاحب ( ڈکٹیٹر میر پور) ڈاکٹر امام الدین صاحب قریشی (میرپور) سید ولایت شاہ صاحب مفتی تحصیل راجوری فتح محمد صاحب کریلوی علاقہ کو ٹلی، مفتی ضیاء الدین صاحب ضیاء مفتی اعظم پونچھ سید مقبول شاہ صاحب خانیاری، شیخ غلام احمد صاحب کلو پونچھ ، جی.ایم صادق صاحب ، مفتی عتیق اللہ صاحب پونچھ ، خواجہ غلام محی الدین صاحب قره ، خواجہ غلام قادر صاحب گاند ریلی، مولوی عبد الرحیم صاحب ایم.اے.ایل ایل بی مولوی عبد اللہ صاحب وکیل - کشمیر کے مقتدر اور بااثر لیڈر اور دوسرے کشمیری مسلمان ان دنوں اتنی کثرت سے قادیان تشریف لاتے تھے کہ اخبار "ملاپ " (۱۲ / جون ۱۹۳۲ء) نے اہل کشمیر سے طنز کیا.☑
تاریخ ا 439 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد یہ اس موقعہ پر ہم کشمیری مسلمان بھائیوں سے چند کلمات کہنا ضروری سمجھتے ہیں.اول یہ کہ وہ بیرونی مسلمانوں کے اشارے پر ناچنا بند کر دیں.دوم یہ کہ بیرونی مسلمانوں کے تنخواہ دار کشمیری ایجی ٹیڑوں کو کہہ دیں کہ ہم تمہاری لیڈری سے باز آئے اب معاف رکھو اور اگر کشمیر میں تمہارا گزارا نہیں ہو سکتا تو قادیان میں چلے جاؤ " -.اندرون ریاست میں ہزاروں اندرون ریاست کے احمدی اور تحریک آزادی احمدی پائے جاتے تھے جو آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے بنے کے ساتھ ہی ریاستی احمدی تحریک آزادی کے لئے سر بکف ہو گئے.۱۹۳۱ء میں جہاں جہاں ریاست میں مشہور احمدی جماعتیں قائم تھیں ان کی تفصیل حسب ذیل ہے.حلقہ احمدی جماعتیں کشمیر (وزارت بارہ مولہ بارہ مولہ بانڈی پورہ، سوپورہ بھی مرگ- لدرون - بانجی پور - هند واژه شمالی و جنوبی) موج اسلام آباد سرینگر اسلام آباد ویری ناگ اندورہ پھڑا پولی.کو لگام ناستور کوریل مند گام کو نگام کو ٹو رشی کمر شوپیاں، مندد جن کاگرن زدر و ماقلو پلوامه قلم پورہ چک ایمرچ، زینت پوره باسو نون مٹی ارونی باڑی پورہ بیج بیاره شورت تاری گام کند پوره ویری ناگ پلوامہ باری باری گام ترال به کشمیر وزارت مظفر آباد گھنڈی سال خلہ ، مظفر آباد کرناہ.(مظفر آباد) صوبہ جموں ضلع جموں شہر جموں بورے جال ( معجمب) ضلع کٹھوعہ؟ ضلع اور هم پور اکھنور بھدرواہ کشتواڑ جاگیر چنینی ؟ ضلع ریاسی راجوری، ہرانہ چار کوٹ رتیاں ، ہموسان ساج، موہریاں کالا بن ڈھرانہ دھو ڑیاں.ضلع میرپور میرپور شہر کو ٹلی ہوئی بھمبر، پنجیری ، نگیال، ریتال بھا بڑا.ضلع پونچھ پونچھ شہر چھنید رو سلواہ، سرن جو ڑیاں، پٹھاناں تیر سونا گلی ناڑ ٹائیں
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 440 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ ہاڑی مروٹ، باغ کینیاں اگر سائی درہ شیر خاں.اضلاع سرحدی گلگت گلگت شهر لداخ حضرت بھائی عبدالر حمن صاحب قادیانی کے ایک خط بنام حضرت خلیفتہ المسیح الثانی مورخہ ۱۲ مارچ ۱۹۳۲ء) سے معلوم ہوتا ہے کہ تحریک آزادی کے ایام میں قریباً تمام احمدی بلیک لسٹ کر دیئے گئے.اور حکام ریاست ان کے خلاف تشدد پر اتر آئے.حتی کہ خلیفہ عبدالرحیم صاحب جیسے فرض شناس افسر کو تخفیف کا بہانہ کر کے ملازمت سے فارغ کر دیا گیا.اور دوبارہ ملازمت میں آنے کے لئے بڑی جدو جہد کرنا پڑی.سلسلہ کے مبلغ مولوی عبد الواحد صاحب، مولوی فاضل (آسنوری) 1 تاریخ ۱۴ / فروری ۱۹۳۲ء مظفر آباد میں گرفتار کرلئے گئے.دوران مقدمہ آپ کے ساتھ بے حد سختی اور درشتی روا ر کھی گئی.بخش گالیاں تک دی گئیں.اور چھ ماہ قید سخت کی سزادی گئی.جیل خانہ میں انہیں اس قدر تکلیف کا سامنا کرنا پڑا کہ ان کے دماغی توازن میں خلل آگیا اور آخر مظفر آباد سے ان کو سرینگر جیل منتقل کر کے رہا کر دیا گیا.رہائی کے بعد کافی عرصہ تک آپ دماغی عارضہ میں مبتلا ر ہے.کشمیر کے مقامی احمدیوں کو تحریک آزادی میں حصہ لینے کے ”جرم“ میں کئی سال تک برابر تکالیف و مصائب کا سامنا کرنا پڑا، بالخصوص ۳۷- ۱۹۳۶ء میں ایک خاص منصوبہ کے تحت ان پر مظالم ڈھائے جانے لگے.ریاست میں جس جس جگہ قلیل تعداد میں یا اکیلا احمدی تھا اسے طرح طرح کی تکلیفیں دی گئیں.ان کے مکانات جلائے گئے.ان کے خلاف جھوٹے مقدمے بنا کر عدالت میں گھسیٹا گیا.بائیکاٹ کرائے گئے اور مقامی حکام نے فتنہ پردازوں کی خوب پیٹھ ٹھونکی چنانچہ وزارت جنوبی میں موضع ہمیشہ دار تحصیل پلوامہ میں ایک احمدی دوست جلال الدین صاحب کو مصائب کا تختہ مشق بنایا گیا.اور پلوامہ کے تھانیدار نے اس مظلوم کی حمایت کرنے کی بجائے ظالموں کا ساتھ دیا.اسی طرح وزارت شمالی میں موضع لدرون زرہامہ کے احمدیوں پر عرصہ حیات تنگ کیا گیا.ان کے مکانات جلائے گئے کاروبار تباہ کر دیا گیا.اور جھوٹے مقدمات کھڑے کر کے حوالات میں بھیج دیا گیا.ریاست میں تحریک آزادی میں کام کرنے والے احمدیوں کی فہرست بہت طویل ہے.بطور نمونہ چند قابل ذکر اصحاب کے نام یہ ہیں.مولوی عبد اللہ صاحب وکیل خواجہ غلام نبی صاحب گلکار مولوی عبد الرحیم صاحب ایم.اے ، محمد ایوب صاحب صابر یوسف خاں صاحب بی.اے.ایل ایل بی خواجہ محمد امین صاحب سرینگر ، عبد القدوس صاحب مخدومی سرینگر ، غلام نبی صاحب رفیقی سرینگر
تاریخ احمدیت جلد ۵ 441 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد یہ قریشی محمد امین صاحب سرینگر قاری نورالدین صاحب سرینگر خواجہ صدرالدین صاحب با نهال ، خلیفہ نور الدین صاحب (جموں) خلیفہ عبدالرحیم صاحب (جموں) ٹھیکیدار یعقوب علی صاحب (جموں) مستری فیض احمد صاحب (جموں) میاں عبد الرحمن صاحب (جموں) خواجہ امداد علی شاہ صاحب (جموں) غلام محمد صاحب خادم (جموں) ماسٹر امیر عالم صاحب کو ملی.منشی دانشمند خان صاحب (پونچھ) میر غلام احمد صاحب کشفی، خواجہ عبد الرحمن صاحب ڈار (ناسنور) خواجہ عبد الغنی صاحب بانڈی پورہ ، میاں عبد الرحمن صاحب آف فیض احمد اینڈ سن خواجہ ولی محمد صاحب ڈار کند پورہ ، مولوی قطب الدین صاحب شرق خواجہ محمد رمضان صاحب یا تورشی مگر خواجہ محمد اسمعیل صاحب ٹیلر ماسٹر شوپیاں ، سید محمد ناصر شاہ صاحب سرور مظفر آباد سید سردار شاه صاحب حال تاجر مظفر آباد فلام محمد صاحب بانڈے ، خواجہ نور الدین صاحب دانی لدرون تحصیل ہندواڑہ ، چوہدری راج محمد صاحب چه مرگ عبدالرحمن صاحب ہانجی پوره ، خواجہ غلام رسول صاحب سکنہ مانلو ، عبد الغنی صاحب پلواما محمد یوسف صاحب گلگتی، مولوی خلیل الرحمن صاحب پنجیری - کشمیر کمیٹی مصلح ابتداء ہی سے اس تحریک میں جماعت کے افراد کی قربانیوں اور سرگرمیوں کو نمایاں طور پر پبلک کے سامنے لانا ہر گز مناسب نہ سمجھتی تھی.اور اندرون ریاست اور بیرون ریاست یکساں طور پر دونوں جگہ اس نے یہی پالیسی اختیار کی.اس بارے میں کس حد تک احتیاط برتی گئی اس کا اندازہ حضور ایدہ اللہ تعالٰی کے مندرجہ ذیل الفاظ سے بآسانی لگ سکتا ہے.احمد یہ جماعت کے متعلق میں نے یہ احتیاط کی کہ سوائے ایک صاحب کے جو لاہور کی جماعت سے تعلق رکھتے تھے (یعنی جناب ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب - ناقل) اور اس جماعت کی نمائندگی بھی ضروری تھی ایک احمدی بھی اس کمیٹی کا ممبر نہیں بنایا تا یہ الحرام نہ ہو کہ اپنے آدمی بھرتی کرلئے گئے بلکہ ملک کے بہترین اور مشہور لوگوں کو دعوت دی.جناب محی الدین صاحب قمر قمرازی مصنف " ارمغان کشمیر " کا بیان ہے.تحریک آزادی کے دوران جو پارٹ احمدیوں اور ان کے امیر جماعت نے ادا کیا ہے وہ کوئی شخص بشر طیکہ غیر متعصب ہو بھلا نہیں سکتا.تحریک کے دنوں میں سوپور میں پیشل طور پر گورنر کشمیر ٹھاکر کر تار سنگھ کے حکم سے وہاں تعینات ہوا تھا.اور مجھے بخوبی علم ہے کہ احمدی جماعت کے افراد نہایت تندہی اور خلوص نیت سے تحریک آزادی کی قلمے، درمے امداد کرتے رہتے تھے مجھے یاد ہے کہ میں گھر میں صبح سویرے اٹھتا تھا.تو مجھے سرہانے پر تحریک کشمیر کے سلسلہ میں کارکنان جماعت احمدیہ کی طرف سے ٹریکٹ رکھے ہوئے مل جاتے تھے.جنہیں پڑھ کر ہماری بڑی حوصلہ افزائی ہوتی تھی".
تاریخ احمدیت جلد ۵ 442 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ اس جماعت کی معلومات اس قدر وسیع تھیں.کہ جو کچھ پندرہ دن کے بعد ہونے والا ہو تا تھا.اس سے اہل خطہ کو آگاہ کرتے تھے.میرا ذاتی تجربہ ہے کہ ایک دفعہ میں مسلم ہوٹل سری نگر میں ٹھہرا ہوا تھا.اس وقت شیخ عبد اللہ صاحب گرفتار ہو چکے تھے تو جماعت احمدیہ کے ایک ممبر نے کہا کہ فلاں تاریخ کو شیخ صاحب رہا کئے جائیں گے.اس پر نہایت متعجب ہوا کہ اس جماعت کی معلومات کس قدر وسیع اور مصدقہ ہوتی ہیں.میری ذاتی رائے ہے کہ جس آزادی کے لئے ہم اس وقت متمنی ہیں وہ اس وقت حاصل ہو گئی ہوتی مگر بعض اونچی شخصیتوں کی تنگ دلی اور کو تاہ نظری کی وجہ سے...ہمارا ادعا آزادی کشمیر کی تحصیل میں وقف تمنا رہ گیا".بیرونی ممالک کے احمدی اور تحریک آزادی کی صورت بیرونی ممالک کے احمدیوں کی تھی فرق صرف یہ تھا کہ وہ عملاً کشمیر میں پہنچ نہیں سکتے تھے.مگر اس کی کمی انہوں نے کشمیر کے مظلوموں کی آواز کو بلند کرنے اور مالی امداد بھجوانے کی صورت میں پوری کر دی.
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 443 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد یہ (فصل دوم) مسلمانان ریاست کی تنظیم آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا جب قیام عمل میں آیا.تو ریاست کے مشہور مسلم لیڈر نظر بند تھے.اس لئے حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی نے صدارت قبول فرمانے کے بعد پہلا کام یہ کیا کہ مسلمانان ریاست کی تنظیم کی طرف فوری توجہ مبذول فرمائی.دراصل آزادی کشمیر کے متعلق حضور کا قطعی نقطہ نظر ( جس کا آپ نے واضح لفظوں میں اعلان بھی کر دیا ) یہ تھا کہ "کشمیر کو آزادی صرف اہالیان کشمیر کی کوشش سے مل سکتی ہے باہر کے لوگ صرف دو طرح ان کی مدد کر سکتے ہیں.(۱) روپیہ سے (۲) حکومت برطانیہ اور دوسری مہذب اقوام میں اہالیان کشمیر کی تائید میں جذبات پیدا کر کے.پس ایک طرف تو اہل کشمیر کو یہ خیال دل سے نکال دینا چاہئے کہ باہر کے لوگ آکر ان کی کوئی جسمانی مدد کر سکتے ہیں ان کی مدد اول بے اثر ہوگی دوسرے اس کا آزادی کی کوشش پر الٹا اثر پڑے گا.اور جدوجہد کی ہاگ اہل کشمیر کے ہاتھ سے نکل کر ایسے ہاتھوں میں چلی جائے گی جو بالکل ممکن ہے کہ کسی وقت انہیں فروخت کر ڈالیں.اور خود الگ ہو جائیں.پس خود اہل کشمیر کا فائدہ اس میں ہے کہ باہر سے مشورہ لیں، مالی امداد لیں.لیکن کسی صورت میں بھی جنگ میں شریک ہونے کے لئے انہیں نہ بلا ئیں.تاکہ معالمہ ان کے ہاتھ سے نکل کر دوسروں کے ہاتھ میں نہ چلا جائے.عارضی جوش ان کے کام نہ آئے گا بلکہ مستقل قربانی ان کے کام آئے گی.اور مستقل قربانی ملک کے باشندے ہی کر سکتے ہیں " بهر کیف حضرت خلیفۃ المسیح الثانی چاہتے تھے کہ مسلمانان کشمیر کی اندرونی تنظیم ایسی مستقل پائیدار اور مستحکم بنیادوں پر قائم ہو جائے کہ وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر مظالم کا مردانہ وار مقابلہ کر کے اپنے حقوق و مطالبات منوا سکیں.اس سلسلہ میں حضور نے پہلا قدم یہ اٹھایا کہ کشمیر کمیٹی کے پہلے اجلاس میں شامل ہونے والے کشمیری نمائندوں کو ہر قسم کے مخلصانہ تعاون کا یقین دلا کر انہیں مسلمانوں کو منظم کرنے کی اہم ہدایات دیں.چنانچہ جموں کے مشہور سیاسی لیڈر جناب اللہ رکھا صاحب ساغر (سابق مدیر و مالک اخبار "جاوید) کا بیان ہے کہ ”کچھ خفیہ ہدایات مجھے دی گئیں اور کہا گیا کہ میں جموں جانے سے پہلے سیدھا سرینگر r
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 444 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد به پہنچوں جہاں حالات خاصے خراب ہو چکے تھے.اور سیاست کا مرکز جموں کی بجائے سرینگر بن چکا تھا.میں شملہ سے راولپنڈی پہنچا یہاں معلوم ہوا کہ سرینگر میں مارشل لاء لگا دیا گیا ہے اور کسی مسلمان کا جس کا سیاست سے دور کا بھی تعلق ہو سرینگر پہنچنا ممکن نہیں " ( اس کے بعد ساغر صاحب نے تفصیل سے ان مشکلات کا ذکر کیا ہے جن سے گزر کردہ سرینگر پہنچے اور وہاں خلیفہ عبد الرحیم صاحب سے جو ان دنوں مسٹرد یکفیلڈ پرائم منسٹر کے پرائیوٹ سیکرٹری تھے.ملے اور جیسا کہ ہدایت دی گئی تھی ان کے مشورے کے مطابق کام کر کے کشمیر کمیٹی کی ہدایات قلمبند کر کے محبوب شاہ صاحب کے حوالہ کیں تا اسے متعلقہ افراد تک پہنچا دیا جائے.اس کے بعد آپ جموں روانہ ہو گئے.یہ واقعات بیان کرنے کے بعد مسلسل بیان میں لکھتے ہیں.دو سرے دن جموں پہنچتے ہی پروگرام کے مطابق معمل شروع کر دیا.یعنی جگہ جگہ میجیے پبلک میشگیں منعقد کی گئیں جن میں دربار کشمیر کی چیرہ دستیوں کی مذمت کی جاتی تھی اور حکومت سے مداخلت کی اپیل کی جاتی تھی.چھوٹے چھوٹے بچوں کی ایک انجمن بنائی گئی.جو مختلف قسم کے کتبے اٹھا کر جلوس کی شکل میں نعرے لگاتے ہوئے گلی کوچوں میں سے گزرتے تھے جب پولیس آتی تو تتر بتر ہو جاتے.اور کسی دوسری گلی میں جا کر اکٹھے ہو جاتے اور وہی نعرے بازی شروع کر دیتے تھے اس طرح پولیس والوں کو خوب ہلکان کیا جاتا تھا.اس کا نام " انجمن اطفال الاسلام " تھا.عورتوں کی جماعت بھی انہی خطوط پر بنائی گئی تھی.لیکن اس کا طریق زیادہ سنجیدہ اور مستور تھا ایک سائیکلو سٹائل کے ذریعہ ہر روز پمفلٹ چھاپ کر تقسیم کئے جاتے اور نمایاں جگہوں پر چسپاں کئے جاتے یہی طریقہ صوبہ جموں کے تمام قصبوں میں اختیار کیا گیا اور دیکھتے دیکھتے چند دنوں کے اندر اندر سرینگر اور جموں جیسے شہروں کی طرح ریاست کے چھوٹے چھوٹے قصبات میں بھی مسلمانوں میں زندگی کی لہر دوڑ گئی اور انقلاب آزادی کے پرچم لہرانے گئے " حضرت خلیفۃ المسیح کے ارشاد پر مسلمانان کشمیر کی تنظیم کے لئے سرینگر جموں ، میر پور وغیرہ میں با قاعدہ دفتر کھول دیئے گئے.جو تحریک آزادی کے مضبوط اور فعال مراکز ثابت ہوئے چنانچہ پر وفیسر محمد اسحق صاحب قریشی ایم.اے کا بیان ہے." میں جس وقت دسویں جماعت کا طالب علم تھا.اس وقت جماعت احمدیہ نے اردو بازار جموں میں تحریک آزادی کے کام کے سلسلہ میں ایک دفتر کھولا ہوا تھا.جس میں بہت سے کارکن کام کرتے تھے جب حکومت نے مسلمانوں کے مطالبات کی تحقیقات کے لئے کمیشن قائم کیا تھا اس سلسلہ میں یہ دفتر مختلف لوگوں کے بیانات اور خیالات قلمبند کرتا تھا میں بھی اس دفتر میں کام کرنے جایا کرتا تھا طالب علموں کو بلا کر ان کے ذریعہ مسودات کے نقول لکھوائے جاتے تھے.اور آئندہ میدان میں کام کرنے کے لئے تیار کیا جاتا تھا.اس مقصد کے لئے وہاں لائبریری بھی
تاریخ احمدیت جلد ۵ 445 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ قائم کی گئی تھی.جس میں ہندوستان اور بیرون ہندوستان کے اخبارات اور رسائل موجود رہا کرتے تھے جماعت احمدیہ کے کارکن ، مبلغین اور وکلاء اس سلسلہ میں مظلومین کشمیر کی خدمات اور تحریک آزادی کے کام کے سلسلہ میں پیش پیش تھے.میرا تاثر یہ ہے کہ تحریک آزادی کشمیر ۳۲-۱۹۳۱ء میں جو ذہنی انقلاب اور عملی تحریک ابھری اس میں سب سے زیادہ جماعت احمدیہ کی مخلصانہ کوششوں کا عمل دخل تھا.یہ ایک واقعہ ہے کہ اس وقت ریاست کے لوگ ڈوگرہ جبر و تشدد کے تحت اتنے رہے ہوئے تھے.کہ لوگوں کو تنظیم سے سیاسی تحریکیں چلانے اور سیاسی کام کرنے کا طریقہ ہی معلوم نہ تھا.جماعت نے ہی اہل ریاست کو تنظیم سے عملا کام کرنے کا طریقہ سکھایا - I میں نے جس تنظیم ، مستعدی اور خلوص سے اس زمانہ میں تحریک آزادی کشمیر کے لئے جماعت احمدیہ کو کام کرتے دیکھا.وہ اب تک میں پاکستان میں بھی نہ دیکھ سکا.جماعت احمدیہ نے اس سلسلہ میں مالی اور قانونی امداد بھی کی اور ہر رنگ میں تحریک آزادی کو کامیاب بنانے کے لئے اینا رو اخلاص سے بے مثال کام کیا ہے ".کشمیر شیخ محمد عبداللہ صاحب کی کشمیر میں مسلمانوں کی تنظیم کا نیا دور اس وقت صدر کشمیر کمیٹی سے پہلی ملاقات شروع ہوتا ہے جب شیخ محمد عبد اللہ صاحب "شیر کشمیر " دوسرے زممائے کشمیر کے ساتھ قلعہ اور تنظیم کے سنہری دور کا آغاز ہری پربت سے رہا ہو گئے اور انہوں نے صدر سیر آل انڈیا کشمیر کمیٹی سے براہ راست رابطہ قائم کرنے کے بعد نئے عزائم اور نئے ارادوں کے ساتھ ریاست کے مسلمانوں کی قیادت اور رہنمائی کا کام دوبارہ اپنے ہاتھ میں لینا قبول کیا.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی سے شیخ محمدعبداللہ صاحب کی کسی طرح پہلی ملاقات ہوئی اور اس وقت کیا کیا تجاویز زیر غور آئیں؟ یہ تاریخ آزادی کشمیر کا ایک مخفی مگر نہایت اہم واقعہ ہے جس کی تفصیل حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے الفاظ میں درج ذیل کی جاتی ہے." جب آل انڈیا کشمیر کمیٹی قائم ہو گئی اور میں نے یہ فیصلہ کیا کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کو آزادانہ طور پر باہر کام نہیں کرنا چاہئے.بلکہ کشمیر اور جموں کے لوگوں سے مل کر کام کرنا چاہئے تو میں نے کشمیر اور جموں کے نمائندے قادیان بلوائے اور ان سے مشورہ لیا.کوئی پندرہ سولہ آدمی آئے میں نے ان لوگوں سے پوچھا کہ کیا کوئی اور ایسا آدمی رہ تو نہیں گیا.جس کا کشمیر میں اثر ہو.انہوں نے کہا کہ شیخ عبد اللہ ایک نوجوان ہیں جن کا نوجوان لڑکوں پر اچھا خاصہ اثر ہے.اور وہ بول بھی سکتے ہیں.نڈر بھی ہیں.میں نے پوچھا کہ آپ لوگ ان کو کیوں ساتھ نہیں لائے.انہوں نے جواب دیا کہ ان کے متعلق
تاریخ احمدیت جلد ۵ 446 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدی ہمیں معلوم ہوا ہے کہ حکومت نے مخفی آرڈر کئے ہوئے ہیں کہ اگر یہ ریاست سے باہر نکلیں تو پھر ان کو واپس نہ آنے دیا جائے.مجھے یہ شیخ عبد اللہ کے حالات معلوم ہوئے ان سے میں نے سمجھا کہ یہ آدمی کام کا ہے.پس کشمیر کی تحریک کی لیڈری کے متعلق میں نے اس وقت تک کوئی فیصلہ کرنا مناسب سمجھا جب تک میں شیخ عبد اللہ سے نہ مل لوں.چنانچہ میں نے مولوی عبد الرحیم صاحب درد کو جو آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے سیکرٹری تھے.اس غرض کے لئے کشمیر بھجوایا.کہ وہ کشمیر کے حالات بھی دریافت کریں.اور دوسرے اس بات کا انتظام کریں کہ شیخ عبد اللہ کشمیر کی کسی سرحد پر مجھ سے مل لیں.چنانچہ درد صاحب نے اس بات کا انتظام کیا.میں قادیان سے گڑھی حبیب اللہ گیا.اور درد صاحب شیخ عبد الله صاحب کو لے کر گڑھی حبیب اللہ آئے.چونکہ گڑھی حبیب اللہ سرحد کشمیر پر تو واقع ہے لیکن سرحد کشمیر سے باہر.اور برطانوی ہندوستان میں تھا اور اس وقت پاکستان میں ہے ) اس لئے یہ ضروری سمجھا جائے گا کہ شیخ عبد اللہ کو چھپا کر لایا جائے.چنانچہ جب ریاست کشمیر کے کشم پر پہنچے تو درد صاحب نے شیخ عبد اللہ صاحب کو کار کے بیچ میں لٹادیا اور ان کے اوپر کپڑے ڈال دیئے تاکہ سٹیٹ کے افسران کو پتہ نہ لگے.اور اس طرح چھپا کر وہ میرے پاس گڑھی حبیب اللہ کے ڈاک بنگلہ پر ان کو لائے.وہ میری اور شیخ عبد اللہ صاحب کی پہلی ملاقات تھی.شیخ محمد عبد اللہ صاحب سے میں نے بڑی لمبی گفتگو کی.اور میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ اس شخص سے لیڈری کا کام لیا جا سکتا ہے.لمبی گفتگو کے بعد میں نے کہا کہ شیخ محمد عبد اللہ ! میں آپ کو کشمیر کی تحریک آزادی کا لیڈر مقرر کرنا چاہتا ہوں شیخ محمد عبد اللہ نے کہا میں لیڈری کے قابل نہیں مجھے تو کچھ آتا نہیں.جب میں نے اصرار کیا اور انہوں نے انکار کیا.تو میں نے کہا کہ شیخ محمد عبد اللہ میں آپ کو اصل حقیقت سمجھاتا ہوں.بات یہ ہے کہ جب ہم برطانوی ہندوستان میں کشمیر کے متعلق آواز اٹھا ئیں گے تو لاز کا انگریز ہم سے یہ پوچھے گا.آپ لوگ تو ریاست کے باشندے نہیں.آپ ان کے معالمات میں کیوں دخل دیتے ہیں اس کے دو ہی جواب میں ان کو دے سکتا ہوں یا تو یہ کہ وہ احمدی ہیں.مگر ان کی اکثریت احمدی نہیں ہے اوریا میں ان کو یہ جواب دے سکتا ہوں کہ میں ان کا وکیل ہوں.اور وکیل کے لئے کوئی شرط نہیں کہ وہ اس ملک کا باشندہ ہو.پس مجھے کشمیر میں تنظیم کی اس لئے ضرورت ہے کہ جب کبھی میں گورنمنٹ برطانیہ کو مخاطب کروں اور (وہ) مجھ سے پوچھیں کہ تمہارا ان سے کیا واسطہ ہے.تو میں ان کو دلیری سے کہہ سکوں کہ میں کشمیر اور جموں کے لوگوں کا وکیل ہوں.پس جب تک جموں و کشمیر سے ایسی آواز نہ اٹھتی رہے کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی اور اس کے صدر اس کے نمائندے ہیں اور وکیل ہیں اس وقت تک ہماری کوششیں پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکتیں.شیخ محمد عبد اللہ اتم یہ بتاؤ کہ کیا یہ آواز تم کشمیر سے زور کے ساتھ اٹھو اسکتے ہو یا نہیں ؟ شیخ محمد
تاریخ احمدیت جلد ۵ 447 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ عبداللہ نے جواب دیا یہ آواز تو نہایت شاندار طور پر اٹھا سکتا ہوں.اس پر میں نے کہا.بس آپ اس کام کے اہل ہیں، اور خدا کا نام لے کر اس کو شروع کر دیں میں نے ان کو اخراجات کے متعلق ہدایتیں دیں.کہ اس طرح دفتر بنانا چاہئے.اور وعدہ کیا کہ دفتر کے اخراجات اور دوسری ضرورتیں جو پیدا ہوں گی.ان کے اخراجات میں مہیا کرتا رہوں گا.چنانچہ اس گفتگو کے بعد درد صاحب شیخ محمد عبد الله صاحب کو لے کر کشمیر چلے گئے.اور ان کی واپسی پر کشمیر گورنمنٹ کو علم ہوا کہ انہوں نے کشمیر کے بارڈر پر مجھ سے ملاقات کی.چنانچہ اس کی طرف مسٹر جیون لعل پر سنل اسسٹنٹ پرائم منسٹر نے اپنے خط میں اشارہ کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں.کسی قدر ہمیں یہ تسلی بھی تھی کہ صدر صاحب خود ریاست کی سرحد پر آکر اپنے نمائندگان سے مل گئے ہیں.اور تمام حالات معلوم کرگئے ہیں." یہ تفصیل حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی نے اپنے ایک غیر مطبوعہ مضمون میں درج فرمائی ہے اور ساتھ ہی شیر کشمیر شیخ محمد عبد اللہ صاحب کا ایک طویل مخط بھی درج کیا ہے.جس میں شیخ صاحب نے علاوہ دوسرے امور کے اس تاریخی ملاقات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے.” میں جناب کو مودبانہ گڑھی حبیب اللہ والا وعدہ یاد دلانے کی جرات کرتا ہوں کہ اخراجات دفتر جو کہ شاید مبلغ - / ۲۳۸ روپے بنتے ہیں.جناب والا ماہوار بھیجتے رہیں گے مجھے روپے کی از حد ضرورت ہے کاش مجھے سرینگر سے صرف دو ہفتہ کی مہلت ملتی کہ میں دیہات کا دورہ کر کے چندہ جمع کرتا مگر جونہی میں ادھر ادھر جاتا ہوں کام تمام کا تمام جگڑ تا ہے.میں جناب سے التجا کروں گا.کہ کم از کم اخراجات دفتر کا انتظام فرما ئیں".حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی نے شیخ محمد عبد اللہ صاحب سے اپنا وعدہ کس مخلصانہ انداز میں پورا فرمایا.اس کی تفصیلات تو آئندہ مختلف مقامات پر آئیں گی مگر یہاں بھی بطور نمونہ شیخ محمد عبد اللہ صاحب کی صرف ایک تحریر درج کر دی جاتی ہے.1- شیر کشمیر شیخ محمد عبد اللہ صاحب نے مسلمانان ہند کے نام مندرجہ ذیل مکتوب لکھا.سرینگر بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم برادران لملت: السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ.جن حالات میں سے کشمیر کے مسلمان اس وقت گزر رہے ہیں.وہ آپ سے پوشیدہ نہیں ہیں.ان کے سیاسی حقوق کی حفاظت اور ان کی تمدنی اور تعلیمی اور مذہبی ترقی کے لئے جدو جہد ایک صرف کثیر کو چاہتی ہے.اندریں حالات ہم بیرون کشمیر کے مسلمان بھائیوں سے پر زور اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس کارخیر میں ہماری امداد فرمائیں.آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے اس وقت اپنے قیمتی مشورہ سے امداد کرنے کے علاوہ ہماری قانونی امداد بھی کی
تاریخ احمدیت.جلده 448 تحریک آزادی کشمیر ا د ر جماعت احمدیہ ہے اور مالی امداد بھی ہمیں صرف انہیں سے پہنچی ہے اس لئے ہم برادران ملت سے پر زور اپیل اور استدعا کرتے ہیں کہ وہ اس کے ننڈز کو مضبوط کرنے کی طرف فوری توجہ فرما دیں.تاکہ مالی تنگی کی وجہ سے ضروری کاموں میں حرج واقع نہ ہو.مجلس احرار نے جو تکالیف جسمانی مظلومان کشمیر کی ہمدردی میں برداشت کی ہیں ان کے ہم نہ دل سے مشکور ہیں.مگر اس وقت کا افسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ جماعت احرار کی طرف سے ہمیں مالی امداد ایک روپیہ کی بھی اس وقت تک نہیں پہنچی.والسلام شیخ محمد عبد الله - (مکتوب بنام حضرت امام جماعت احمد یہ ایدہ اللہ تعالٰی ) ۲۳/ مئی ۱۹۳۲ء - بچھواره سرینگر مکرمی جناب میاں صاحب السلام علیکم و رحمتہ اللہ.مبلغ تین صد روپیہ بذریعہ رجسٹری بیمه وصول پایا.شکری......لوگوں میں نئی زندگی پیدا ہو رہی ہے.اب صرف اخبار کی کمی ہے میں کوشش کرتا ہوں پانچ دس آدمی مل کر اگر پانچ پانچ سو رو پہیہ نکالیں تو ایک اعلیٰ اخبار جاری ہو سکتا ہے.اور اخبار ایک مشترکہ کمیٹی کی صورت میں چلایا جا سکتا ہے.اور پریس بھی اپنا خریدا جا سکتا ہے.ابھی مجھے اس میں کامیابی نہیں ہوئی لیکن کوشش جاری ہے کل رات آپ کی جماعت کے مبلغ مولوی عبد الاحد صاحب مجھے راستہ میں چلتے چلتے ملے اور فرمایا کہ آپ نے ارادہ ظاہر فرمایا ہے کہ کشمیر کے چند نوجوان طالب علموں کو جو کہ کالج یا ہائی کلاسز میں تعلیم پاتے ہوں ، غریب ہوں اور قومی کاموں میں دلچسپی رکھتے ہوں آپ کی جماعت کی طرف سے کچھ وظیفہ مقرر کیا جائے.اگر یہ درست ہے تو سب سے اول ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اس مد میں کل آپ کتنا خرچ کر سکتے ہیں تاکہ ہم اسی حساب سے لڑکوں کا انتخاب کریں.دوسری عرض میری یہ ہے کہ دیہاتوں سے بہت سے لڑکے امتحان انٹرنس میں کامیاب ہوئے ہیں اور وہ کالج میں صرف اسی لئے داخل نہیں ہو سکتے ہیں.کہ وہ غریب ہیں اور شہر میں رہنے کی جگہ نہیں ہے.اگر سرینگر میں ایک مکان بطور بورڈنگ کے لیا جائے اور ایک باورچی ایک چپراسی اور ایک سپرنٹنڈنٹ اس میں رہے اور کم از کم ۲۰ لڑکوں کی رہائش کی گنجائش اس میں ہو تو میرے خیال میں یہ بہت ہی مفید بات ہو گی.ماہوار اخراجات تقریبا ۲۰۰ روپیہ ہوں گے اپنے مشورہ سے مشکور فرما دیں.تمام احباب کو عرض.والسلام ۳- (مکتوب بنام مولوی عبد الرحیم صاحب درد (سیکرٹری آل انڈیا کشمیر کمیٹی) JAMUN.10.11.1932 تابعدار شیخ محمد عبد الله S.M.ABDULLAH M.S.c (Alig) مگر می مولا نادر و صاحب السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاته
تاریخ احمد بیت - جلده 449 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ آج میں غلام قادر کو آپ کے پاس بدیں وجہ روانہ کرتا ہوں کہ تاوہ جناب کو یاد دلاتا ر ہے.4 مبر شپ فار مزر جئرات رسید بک فارمزدفتر پریس پیڈ کے متعلق انتظام مکمل ہو سکے باقی حالات وہ زبانی عرض کرے گا.اشائی صاحب ابھی جموں میں ہیں آپ وقت بتا دیجئے کہ کب ہم لاہور آئیں گے.میرا خیال ہے کہ دستور اساسی مکمل ہو.تاہم کام کو شروع کرتے.باقی خیریت ہے میری طرف سے جناب حضرت صاحب کو دست بستہ عرض سلام - آپکا شیخ محمد عبد الله - اندرون کشمیر کام کرنے والے بعض پر جوش کارکن ملا محمد عبداللہ صاحب شیر شیخ صاحب کشمیر نے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے تعاون سے اندرون کشمیر جو تنظیم کی اس کو کامیاب بنانے والے تو خدا کے فضل وکرم سے لاکھوں مسلمانان کشمیر تھے مگر بعض پر جوش کارکنوں اور تحریک آزادی کے علمبرداروں کا ذکر کرنا ضروری ہے.میر واعظ محمد یوسف صاحب (حال راولپنڈی پاکستان) میر واعظ احمد اللہ صاحب ہمدانی غلام نبی صاحب ہمدانی ، مفتی ضیاء الدین صاحب ضیاء سابق مفتی اعظم پونچھ (حال مقیم لاہورپاکستان) سید حسین شاہ صاحب غلام احمد صاحب اشائی ، میاں احمد یا ر صاحب وکیل خواجہ سعد الدین صاحب شمال، بخشی غلام محمد صاحب سابق وزیر اعظم مقبوضہ کشمیر ، خواجہ غلام محمد صاحب بانڈے ، غلام نبی صحرائی ، غلام محمد صادق صاحب (مقبوضہ کشمیر کے موجودہ وزیر اعظم سید حسین شاہ صاحب جلالی، حسام الدین صاحب گیلانی، خواجہ شہاب الدین صاحب ، شیخ عبد الحمید صاحب وکیل (حال مظفر آباد سردار گوہر رحمان صاحب (حال سیالکوٹ)، چوہدری غلام عباس صاحب جموں (حال مقیم راولپنڈی پاکستان اللہ رکھا صاحب ساغر سابق ایڈیٹر نوجوان " (حال مقیم راولپنڈی پاکستان پروفیسر قریشی محمد اسحاق صاحب سابق جنرل سیکرٹری مسلم کانفرنس میجر محمد خان صاحب (صد را انجمن اسلامیه پونچھ ، ڈاکٹر امام الدین صاحب قریشی جنرل سیکرٹری مسلم ایسوسی ایشن میرپور صاحب دین صاحب زرگر (میرپور) سید ولایت شاہ صاحب مفتی تحصیل راجوری سرفراز خان صاحب نمبردار تھکیالہ رئیس کریلا پونچھ ، فتح محمد صاحب کریلوی مولوی محمد عبد اللہ صاحب سیا کھوی (صدر جمعیتہ العلماء کشمیر) ، مولانا محمد سعید مسعودی (حال مقبوضہ کشمیر) سید محمد مقبول صاحب بیہقی ، صوفی محمد اکبر صاحب خواجہ عبدالرحیم صاحب ڈار ، خواجہ احمد اللہ صاحب جنرل شال مرچنٹ سرینگر ، خواجہ غلام محمد صاحب شال مرچنٹ سرینگر ، میر واعظ محمد عبد اللہ شوپیاں، پیر محمد یاسین سید میرک شاہ صاحب اندرابی حال لاہور سید غلام محی الدین اندرابی محمد رجب بخش صاحب، خواجہ غلام نبی صاحب شال مرچنٹ سرینگر ، فقیر سالک ہمدانی صاحب سید عبد الغفور شاہ صاحب، حکیم عبدالحی صاحب نواکدل
ļ تاریخ احمدیت.جلد ۵ 450 تحریک آزادی کشمیر ادر جماعت احمدیہ سرینگر محمد عثمان صاحب بٹ قصبہ ترال ، خواجہ غلام وازه (ہندواڑہ) محمد مقبول صاحب (وٹالی) غلام قادر مسالہ (ہندواڑہ) قاضی عبد الغنی صاحب دلنہ (بارہ مولا) محمد یوسف کو تھیل) محمد یوسف صاحب قریشی ، صدر الدین (پونچھ) حبیب اللہ صاحب زرگر، خواجہ عبد الرزاق صاحب ترال، حکیم غلام علی صاحب سرینگر ، مفتی جلال الدین صاحب، غلام قادر صاحب (گاندربلی) پیر ضیاء الدین صاحب اندرابی قلند ر شاہ مظفر آباد ، خواجہ محمد شعبان صاحب محمد عبد اللہ خان صاحب.برادر ان کشمیر کے لئے مطبوعہ خطوط مسلمانان کشمیر کی تنظیمی جدوجہد میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کے ان شائع شدہ مکتوبات کا بھاری عمل دخل ہے جو حضور اہل کشمیر میں بجتی، تنظیم اور روح قربانی قائم رکھنے کے لئے شائع کر کے اندرون کشمیر بھجواتے رہے.ان خطوط نے خصوصاً ان ایام میں جبکہ شیخ محمد عبد اللہ صاحب نظر بند ہوئے کشمیریوں میں زبر دست تنظیم ولولہ اور جوش پیدا کر دیا.اور تحریک کے ہر نازک موڑ پر صحیح رہنمائی کی باب چهارم فصل پنجم میں یہ اہم خطوط بطور ضمیمہ شامل کر دیئے گئے ہیں چنانچہ شیر کشمیر شیخ محمد عبد اللہ صاحب نے جیل سے رہائی کے بعد اپنے ایک خط میں تحریر فرمایا.مکرم و معظم جناب حضرت میاں صاحب السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ.سب سے پہلے میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ میں تہ دل سے آپ کا شکریہ ادا کروں اس بے لوث اور بے غرضانہ کوشش اور جدوجہد کے لئے جو آپ نے کشمیر کے درماندہ مسلمانوں کے لئے کی پھر آپ نے جس استقلال اور محنت کے ساتھ مسئلہ کشمیر کو لیا.اور میری غیر موجودگی میں جس قابلیت کے ساتھ ہمارے ملک کے سیاسی احساس کو قائم اور زندہ رکھا مجھے امید رکھنی چاہئے کہ آپ نے جس ارادہ اور عزم کے ساتھ مسلمانان کشمیر کے حقوق کے حصول کے لئے جد وجہد فرمائی.آئندہ بھی اسے زیادہ کوشش اور توجہ سے جاری رکھیں گے.اور اس وقت تک اپنی مفید کو ششوں کو بند نہ کریں گے.جب تک ہمارے تمام مطالبات صحیح معنوں میں ہمیں حاصل نہ ہو جائیں".حکام ریاست نے جلد ہی یہ خطوط جو آپ شائع کر کے اندرون کشمیر بھجواتے رہتے تھے ضبط کرنا شروع کر دیئے جس پر حضور نے لکھا."عزیز دوستو! جو میرے پہلے خط کا حشر ہو ا ر ہی اس خط کا بھی ہو سکتا ہے.اس لئے میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ آئندہ لوگ یہ احتیاط کیا کریں کہ میرا مطبوعہ خط ملتے ہی فورا اسے پڑھ کر دوسروں تک پہنچا دیا کریں.تاکہ ریاست کے ضبط کرنے سے پہلے وہ خط ہر ایک کے ہاتھ میں پہنچ چکا ہو.اور ماکہ ہر مسلمان اپنے فرض سے آگا ہو چکا ہو.اور بہتر ہو گا جس کے ہاتھ میں میرا خط پہنچے وہ اس کا مضمون ان مردوں، عورتوں اور بچوں کو سناد نے جو پڑھنا نہیں جانتے.اور اگر ہو
تاریخ احمدیت جلد ۵ 451 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ سکے تو اس کی کئی نقلیس کر کے دوسرے گاؤں کے دوستوں کو بھجوا دے.اگر پورا خط نقل نہ ہو سکے تو اس کا خلاصہ ہی لکھ کر دوسرے دوستوں کو اطلاع کر دے".چنانچہ اس نصیحت کے مطابق مطبوعہ مکتوبات کشمیر و جموں کے طول و عرض میں پہنچتے رہے.اور مسلمانان ریاست میں آزادی و حریت کے جذبات و احساسات کو زندہ رکھنے میں ممد و معاون بنتے رہے.اصل بات یہ ہے کہ ان خطوط میں چونکہ بعض برطانوی افسروں پر بھی تنقید کی گئی تھی اس لئے بعض انگریز افسروں نے ریاستی احکام ضبطی کی تائید کی.یہ بات چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کو سر میاں فضل حسین صاحب سے ایک ملاقات کے دوران معلوم ہوئی.چنانچہ انہوں نے حضور ایدہ اللہ تعالٰی کی خدمت میں ۱۷ / مارچ ۱۹۳۲ء کو ایک مکتوب میں اطلاع دی کہ.مسٹر میکنائن ، سرچارلس والٹن اور مسٹر ایمرسن نے یہ شکایت کی ہوئی تھی کہ حضور کے اردو مطبوعہ خطوط اس قسم کے تھے جن کے نتیجہ میں قومی منافرت ریاست میں اور پنجاب میں بڑھنے کا اندیشہ تھا خصوصیت سے مڈلٹن رپورٹ کے متعلق جو خط تھا اس کے متعلق شکایت تھی کہ اس میں ایک شخص کی مفروضہ غلطی کی بناء پر برطانوی انصاف پر الزام لگایا گیا ہے...مسٹر ایمرسن نے لکھا تھا کہ یه مطبوعه خطوط نامناسب اور نقصان دہ ہیں لیکن اس کی ذمہ داری صدر کمیٹی پر ہے.اس کی بناء پر وفد سے انکار نہیں کرنا چاہئے".
تاریخ احمدیت جلد۵ 452 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ (فصل سوم) حکومت ہند و حکومت کشمیر سے رابطہ اور خط و کتابت حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ چونکہ شروع سے کشمیر کے معاملہ میں دلچسپی لے رہے تھے اس لئے جب آپ ۲۴/ جولائی ۱۹۳۱ء کو کانفرنس میں شرکت کے لئے شملہ تشریف لائے تو آپ نے شملہ پہنچتے ہی ۲۴ اور ۲۷/ جولائی ۱۹۳۱ء کو وائسرائے کو ملاقات کے لئے لکھا.جس کا جواب ۳۰/ جولائی کو ایکم اگست ۱۹۳۱ء کو ہز ایکسی لینسی وائسرائے آپ سے ملاقات کر سکیں گے.اور ان کو اس بات پر بھی کوئی اعتراض نہ ہو گا کہ آپ کے فارن سیکرٹری مولوی عبدالرحیم صاحب درد آپ کے بطور ترجمان ہوں.چنانچہ حضور یکم اگست ۱۹۳۱ء کو وائسرائے ہند لارڈن و لنگڈن) سے ملے اس وقت مولانا در دبھی آپ کے ساتھ تھے.اس ملاقات کی تفصیل اور اس کے نتائج خود حضور ہی کے الفاظ میں یہ ہیں." پہلے تو وہ بڑی محبت سے باتیں کرتے رہے جب میں نے کشمیر کا نام لیا.تو وہ اپنے کوچ سے کچھ آگے کی طرف ہو کر کہنے لگے.کہ کیا آپ کو بھی کشمیر کے معاملات میں انٹرسٹ ہے آپ تو نہ ہی آدمی ہیں مذہبی آدمی کا ان باتوں سے کیا تعلق ہو سکتا ہے.میں نے کہا میں بے شک مذہبی آدمی ہوں اور مجھے مذہبی امور میں ہی دخل دینا چاہئے.مگر کشمیر میں تو لوگوں کو ابتدائی انسانی حقوق بھی حاصل نہیں اور یہ دہ کام ہے جو ہر مذہبی شخص کر سکتا ہے.بلکہ اسے کرنا چاہئے.اس لئے مذہبی ہونے کے لحاظ سے بھی اور انسان ہونے کے لحاظ سے بھی میرا فرض ہے کہ میں انہیں وہ ابتدائی انسانی حقوق دلواؤں جو ریاست نے چھین رکھے ہیں آپ اس بارے میں کشمیر کے معاملات میں دخل دیں.تاکہ کشمیریوں پر جو ظلم ہو رہے ہیں ان کا انسداد ہو.وہ کہنے لگے آپ جانتے ہیں کہ ریاستوں کے معاملات میں ہم دخل نہیں دیتے.میں نے کہا میں یہ جانتا تو ہوں مگر کبھی کبھی آپ دخل دے دیتے ہیں.چنانچہ میں نے کہا کیا حیدر آباد میں آپ نے انگریز وزیر بھجوائے ہیں یا نہیں کہنے لگے تو کیا آپ کو پتہ نہیں نظام حیدر آباد کیسا مناتا ہے.میں نے کہا یہی بات تو میں کہتا ہوں کہ آخر وجہ کیا ہے کہ نظام حیدر آباد بر امنائیں تو آپ ان کی پروانہ کریں اور مہاراجہ صاحب کشمیر بر امنائیں تو آپ ان کے معاملات میں دخل دینے سے رک
یخ احمدیت.جلد ۵ 453 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ جائیں یہ ہندو اور مسلم میں سوتیلے بیٹوں والا فرق آپ کیوں کرتے ہیں.آخر یا تو وہ یہ کہہ رہے تھے کہ گورنمنٹ ریاستی معاملات میں دخل نہیں دے سکتی.اور یا یہ کہنے لگے کہ جب مجھے وائسرائے مقرر کیا گیا تھا تو وزیر ہند نے مجھ سے کہا کہ ہندوستان کی سیاسی حالت سخت خراب ہے کیا تم اس کو سنبھال لو گے میں نے کہا میں سنبھال لوں گا.مگر شرط یہ ہے کہ مجھے چھ مہینہ کی مہلت دی جائے اور مجھ پر اعتراض نہ کیا جائے کہ تم نے کوئی انتظام نہیں کیا.ہاں اگر چھ مہینے کے بعد بھی میں انتظام نہ کر سکا تو آپ بے شک مجھے الزام دیں.انہوں نے کہا بہت اچھا چھ مہینے یا سال نہیں میں آپ کو ۱۸ مہینے کی مہلت دیتا ہوں آپ اس عرصہ کے اندر یہ کام کر کے دکھا ئیں.لارڈ ولنگڈن کہنے لگے وزیر ہند نے تو مجھے ۱۸ مینے کی مہلت دی تھی.اور آپ مجھے کوئی بھی مہلت نہیں دیتے بلکہ چاہتے ہیں کہ فوری طور پر میں یہ کام کردوں.میں نے کہا.اگر یہی بات ہے تو جھگڑے کی کوئی بات ہی نہیں انہوں نے تو ۱۸ مینے کی آپ کو مہلت دی ہے آپ کو ۱۸ سال کی مہلت دینے کو تیار ہوں بشرطیکہ آپ مجھے یقین دلائیں کہ کشمیر کے مسلمانوں کی حالت سدھر جائے گی.انہوں نے کہا کہ پانچ چھ ماہ تک مجھے حالات دیکھنے ہیں.میں وعدہ کرتا ہوں کہ اس عرصہ میں مجھ سے جو کچھ ہو سکا.میں کروں گا اور کشمیر کے مسلمانوں کو ان کے حقوق دلانے کی پوری پوری کوشش کروں گا ".اس ضمن میں فرماتے ہیں.”میری اس تجویز کو انہوں نے پسند کیا کہ ایک وفد جو نواب ذوالفقار علی خان صاحب خان بهادر شیخ رحیم بخش صاحب ریٹائرڈ سیشن حج خواجہ حسن نظامی صاحب نواب صاحب کنج پورہ اور مولوی محمد اسمعیل صاحب غزنوی پر مشتمل ہو اس کے کشمیر جانے کی درخواست کی جائے.تاکہ یہ لوگ جا کر صورت حال پر غور کریں اور اگر مسلمانوں کی غلطی ان کو نظر آئے تو ان کو سمجھا ئیں اور اگر ریاست کی غلطی ان کو نظر آئے تو مہاراجہ صاحب کو صحیح مشورہ دیں.میں نے یہ تجویز اس بات کو خوب سمجھتے ہوئے کی تھی کہ مہاراجہ صاحب اس کو نہیں مانیں گے.اور اس کا وائسرائے پر نیک اثر پڑے گا.بعد میں میں نے ڈاکٹر اقبال کا نام بھی اس وفد میں جانے کے لئے تجویز کیا اور اس کے متعلق انہیں سیکرٹری آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی طرف سے تار بھی دی گئی انہوں نے اس کے جواب میں یہ لکھا کہ اس وقت وفد لے جانا میری رائے ناقص میں قرین مصلحت نہیں ہے کچھ ایجی ٹیشن کے بعد ہو تو مناسب ہے.اہل ریاست کا خیال ہے کہ یہ شورش لاہور سے اٹھی ہے.اس واسطے اول تو مجھے یہ اندیشہ ہے کہ وفد کو باریابی کی اجازت نہ ہو.اگر ہو بھی تو گور نمنٹ کشمیر اس کا بے جا فائدہ اٹھائے گی خود اہل خطہ بھی اس بات کو پسند نہ کریں گے.آج میرواعظ صاحب کا اعلان شائع ہوا ہے کہ ان کے دستخط اس اعلان پر جعلی بنائے گئے ہیں ریاست کے بعض مسلمانوں نے غالبا کشمیر
تاریخ احمدیت.جلده 454 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد ہے گورنمنٹ کے اشارہ پر شائع کیا ہے.اس کے علاوہ ریاست نے مولوی ابوالکلام آزاد کو دعوت دی ہے.یہ دعوت اگر چہ پہلے کی ہے تاہم اندیشہ ہے کہ ریاست ایک نیشنلسٹ مسلمان کو وہاں بلوا کر مسلمانان کشمیر کے کیس کو خراب کرنا چاہتی ہے.زیادہ کیا عرض کروں حضرت مرزا صاحب کی خدمت میں میری طرف سے آداب عرض ہو.محمد اقبال پھر ۵ اگست ۱۹۳۱ء کو ان کا لکھا ہوا خط خود براہ راست میرے پاس آیا جس کے متعلقہ حصے درج ذیل ہیں."کشمیر کے متعلق آپ کی کوششیں یقین ہے بار آور ہوں گی.مگر ذرا ہمت سے کام لیجئے اور اس معاملہ کو انجام تک پہنچائیے.کشمیر کے مہاراجہ کے پاس وفد لے جانا مسلمانوں کے مفاد کے لئے نہایت مضر ثابت ہو گا.میں آپ کو خدا کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ اس تجویز کو جامعہ عمل نہ پہنائیے.میں مفصل عرض نہیں کر سکتا.بالمشافہ موقعہ ہوا تو عرض کروں گا.اس تجویز کی بجائے یہ کیجئے کہ تین معززین کا وفد جس میں ایک آپ ہوں انگلستان جائے اور وہاں صرف دو ماہ قیام کرے اور انگریزی قوم اور پارلیمنٹ کو کشمیر کی تاریخ اور موجودہ حالات سے آگاہ کرے اس پر زیادہ سے زیادہ آٹھ دس ہزار روپیہ خرچ ہو گا اور نتائج اس کے بے انتہا خوشگوار ہوں گے اور مجھے یقین ہے کہ ہم سب کی توقعات سے بڑھ کر ہوں گے اگر مجھ کو ROUND TABEL CONFERANCE سے موقعہ مل گیا.تو انشاء اللہ کشمیر کے ADMINISTRATION کا سارا تارو پود بکھیر کر رکھ دوں گا اور ایسا کرنے میں کسی کا خوف مجھ پر غالب نہ ہو گا ".جیسا کہ میں اوپر لکھ چکا ہوں میں نے وند کی اس لئے تجویز پیش کی تھی کہ میں جانتا تھا کہ مہاراجہ نے نہیں مانتا اور اس طرح وائسرائے جو کہ اس کا بہت ہی گرویدہ ہے اس کی ذہنی کیفیت کی حقیقت سے آگاہ ہو جائے گا.اس لئے باوجود اس کے کہ ڈاکٹر محمد اقبال صاحب کا میرے دل میں بہت احترام تھا میں نے ان کے مشورہ کو قبول نہ کیا.کیونکہ میں سمجھتا تھا کہ دونوں باتوں کا نتیجہ ایک ہی ہے نہ وفد نے جاتا ہے اور نہ وہ نتائج پیدا ہونے ہیں جن کا ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کو خوف ہے اور ایسا ہی ہوا.میں نے ۳/ اگست ۱۹۳۱ء کو وائسرائے کے مشورہ سے سیکرٹری آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی طرف سے مندرجہ ذیل الفاظ میں تار مہاراجہ صاحب جموں و کشمیر کو دلائی.” براہ مہربانی نواب سر ذو الفقار خان صاحب نواب ابراہیم خان صاحب آف سنج پورہ ، خواجہ حسن نظامی صاحب خان بهادر شیخ رحیم بخش صاحب اور مولوی محمد اسمعیل صاحب غزنوی پر مشتمل مسلمانوں کے ایک وفد کو اجازت دیں کہ وہ کشمیر کی موجودہ صورت حالات کے سلسلہ میں اگلے ہفتہ کی تاریخ کو یو رہائنس کی خدمت میں حاضر ہو.
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 455 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ اس کا جواب پرائم منسٹر کشمیر کی طرف سے مندرجہ ذیل الفاظ میں آیا." عبد الرحیم درد سیکرٹری آل انڈیا کشمیر کمیٹی فیئر و یو شملہ ایجواب آپ کے تار لکھا جاتا ہے کہ صورت حال پر پوری طرح قابو پالیا گیا ہے.اور حالات اب اصل حالت میں ہیں غیر جانبدارانہ تحقیقات ہو رہی ہے.ایسے موقع پر کسی ڈیپوٹیشن کے آنے سے لازماً از سر نوجوش پیدا ہو جائے گا.اس لئے افسوس ہے کہ ہزہائنیں آپ کی درخواست منظور نہیں کر سکتے ".اس پر میں نے وائسرائے کے سامنے پروٹسٹ کیا کہ آپ سے مشورہ کرنے کے بعد یہ تار دی گئی تھی اور ایسے لوگ منتخب کئے گئے تھے جن پر ہرگز کسی فساد کا شبہ نہیں ہو سکتا تھا.مگر باوجود اس کے مہاراجہ نے خود سری کے ماتحت مسلمانوں کی جنگ کی ہے.اور ایسے وفد کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے جس کے جواب میں وائسرائے کی طرف سے کچھ معذرت کی گئی اور کہا گیا کہ غالبا غلط فہمی ہو گئی ہے دوبارہ پھر تار دیجئے.چنانچہ ۵ / اگست ۱۹۳۱ء کو میری طرف سے مندرجہ ذیل تار مہاراجہ کو دی گئی.یو رہائیس کے وزیر اعظم کے تار بنام سیکرٹری آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے متعلق میں یو رہائیس ہے درخواست کرتا ہوں کہ آپ اپنے فیصلہ پر نظر ثانی کریں.اگر چہ کشمیر کے حالات بظاہر اصلاح پذیر نظر آتے ہیں.مگر ہماری معلومات کے لحاظ سے ایجی ٹیشن شدید ہے.اور اس کی جڑیں بہت گہری ہیں.علاوہ ازیں ہندوستان کے مسلمانوں میں کشمیر کے معالمات کے متعلق بہت ایجی ٹیشن ہے اور یو ر ہائینس کی طرف سے اس وفد کو ملاقات کا موقع دینے سے حالات میں سکون پیدا ہو گا بر خلاف اس کے ایسے معزز افراد کو ملاقات کی اجازت دینے سے انکار پر اصرار سے مسلمانوں کے شکوک و شبہات میں اضافہ ہو گا.اس کا جواب دو ایک دن کے بعد پرائم منسٹر کی طرف سے یہ آیا.”امام جماعت احمد یہ فیکرو یو شملہ ! بحوالہ آپ کے تار ۵ / اگست ہزہائیس کی گورنمنٹ کا اب تک بھی یہی خیال ہے.کہ ایسے حالات میں جبکہ حالت بدستور سابق ہو چکی ہے اور معاملات رو بہ اصلاح ہیں.کسی بیرونی وفد کی آمد سے یقینا تازہ جوش اور شبہات پیدا ہوں گے.خاص کر ایسی حالت میں جبکہ آپ خود گواہ ہیں کہ ایجی ٹیشن کی جڑیں بہت گہری ہیں.وزیر اعظم کشمیر " میں نے وائسرائے کو لکھا اس تار کے الفاظ کو دیکھ لیجئے.اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ کشمیر گورنمنٹ کی نیت مسلمانوں کے متعلق خراب ہے جب میں نے ان کو یہ لکھا کہ فسادات کی وجہ سے برطانوی ہند میں بھی شورش ہے اور وفد کے جانے سے اس میں سکون پیدا ہو جائے گا.تو کشمیر گورنمنٹ نے جواب دیا کہ چونکہ امن ہو گیا ہے اس لئے کسی وفد کی ضرورت نہیں گویا فساد کی حالت میں تو وفد
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 456 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ کی ضرورت ہے.امن کی حالت میں وفد کی ضرورت نہیں لیکن جب میں نے تار دی کہ گو بظا ہر آپ کو فتنہ دیا ہوا نظر آتا ہے.مگر چونکہ اس فتنہ کی جڑیں گہری ہیں اور ہندوستان کے مسلمانوں میں کشمیر کے معاملات کے متعلق ایجی ٹیشن ہے اس لئے آپ وند کے جانے کی اجازت دیں.اس کا آنا مفید ہو گا تو اس پر کشمیر گورنمنٹ یہ جواب دیتی ہے کہ چونکہ فساد کی جڑیں گہری ہیں اس لئے وفد کے آنے کی ضرورت نہیں.گویا کہ خطرہ کے متعلق وفد کا آنا ضروری نہیں.اس طرح وہ اپنی دوسری تار میں پہلی تار کی تردید کر رہے ہیں.......ان تاروں کا نتیجہ یہ ہوا کہ وائسرائے پر حقیقت کھل گئی.اور ان کے اندر یہ احساس پیدا ہو گیا کہ جلد یا بدیر حکومت ہند کو اس معاملہ میں دخل دینا پڑے گا.اور جو پہلی ملاقات میں مجھ پر اثر تھا کہ وہ کسی صورت میں بھی کشمیر کے معالمات میں دخل دینے کو تیار نہیں یا کم سے کم وہ پورا زور لگا ئیں گے کہ وہ اس سے بچیں اس میں تبدیلی پیدا ہو گئی.اور میں نے سمجھا کہ اب آئندہ میں جو زور گورنمنٹ ہند پر ڈالوں گا بے اثر نہیں جائے گا بلکہ نتیجہ خیز ہو گا".۵۵
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 457 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ (فصل چهارم) یوم کشمیر کے عظیم الشان جلسے اور ان کا رد عمل آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے پہلے اجلاس شملہ میں قرار پایا تھا کہ ۱۴/ اگست ۱۹۳۱ء کو ملک میں "یوم کشمیر " منایا جائے.چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی نے ۶/ اگست ۱۹۳۱ء کو اپنے قلم سے ایک مفصل مضمون لکھا جس میں پر زور تحریک فرمائی کہ کشمیر ڈے پورے اہتمام کے ساتھ منایا جائے چنانچہ آپ نے تحریر فرمایا."مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ان کے بہتیں لاکھ بھائی بے زبان جانوروں کی طرح قسم قسم کے ظلموں کا تختہ مشق بنائے جارہے ہیں جن زمینوں پر وہ ہزاروں سال سے قابض تھے ان کو ریاست کشمیر اپنی ملکیت قرار دے کر نا قابل برداشت مالیہ وصول کر رہی ہے.درخت کاٹنے مکان بنانے، بغیر اجازت زمین فروخت کرنے کی اجازت نہیں.اگر کوئی شخص کشمیر میں مسلمان ہو جائے تو اس کی جائیداد ضبط کی جاتی ہے.بلکہ کہا جاتا ہے کہ اہل و عیال بھی اس سے زبر دستی چھین کر الگ کر دیئے جاتے ہیں.ریاست جموں و کشمیر میں جلسہ کرنے کی اجازت نہیں، انجمن بنانے کی اجازت نہیں.اخبار نکالنے کی اجازت نہیں غرض اپنی اصلاح اور فلموں پر شکایت کرنے کے سامان بھی ان سے چھین لئے گئے ہیں وہاں کے مسلمانوں کی حالت اس شعر کے مصداق ہے.نہ تڑپنے کی اجازت ہے نہ فریاد کی ہے گھٹ کے مرجاؤں یہ مرضی میرے صیاد کی ہے E چنانچہ حضور کے تجویز کردہ پروگرام کے مطابق ۱۴ اگست کو ہندوستان کے ہر مشہور شہر اور بستی میں بڑے جوش و خروش سے یوم کشمیر منایا گیا.قادیان میں مظلومین کشمیر کی حمایت میں مظاہرہ کیا گیا.اس روز اس شان کا جلوس نکلا کہ قادیان میں کبھی اس کی مثال نہیں ملتی.جلوس کے علاوہ چودھری فتح مجمد صاحب سیال ایم.اے (سابق مبلغ انگلستان) کی صدارت میں عظیم الشان جلسہ منعقد ہوا اور ڈوگرہ حکومت کے خلاف ریزولیوشن پاس ہوئے اور مظلومین کی امداد کے لئے چندہ کیا گیا.قادیان کی خواتین کا الگ جلسہ زیر صدارت حضرت سیده مریم بیگم صاحبه (حرم حضرت خلیفۃ المسیح الثانی) ہوا جس میں حضور کے مجوزہ ریزولیوشنز کے علاوہ یہ قرار داد بھی پاس کی گئی کہ اس جلسہ کی کارروائی سے بذریعہ تار
تاریخ احمدیت جلد ۵ 458 تحریک آزادی کشمیراد رجماعت احمد به لیڈی لارڈ و لنگڈن کو مطلع کیا جائے.دیو بند کے جلسہ میں مولوی محمد طیب صاحب مہتمم دار العلوم مولوی حسین احمد صاحب مدنی اور مولوی میرک شاہ صاحب کی تقریریں ہوئیں.لاہور کا جلسہ ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کی صدارت میں ہوا جلوس اور جلسہ میں ایک لاکھ مسلمان شریک ہوئے.ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب، مولوی دارد صاحب غزنوی اور سید محسن شاہ صاحب نے پر جوش تقریریں کیں.کلکتہ میں سہروردی صاحب نے عظیم الشان جلسہ کی صدارت کی.بمبئی میں ایک ہزار باوردی والٹیر ز نے جلوس کا انتظام کیا.مسلمانوں کا یہ جلوس بے نظیر تھا.جلسہ میں مولوی شوکت علی صاحب نے خاص طور پر حصہ لیا.سیالکوٹ میں ڈوگرہ حکومت کے خلاف پر جوش مظاہرہ کیا گیا جس میں مولوی عصمت اللہ صاحب مبلغ احمدیہ انجمن اشاعت اسلام نے پر جوش تقریر کی.اور آغا غلام حیدر صاحب میونسپل کمشنر سیالکوٹ کی صدارت میں قرار دادیں پاس ہو ئیں.پٹنہ میں مولوی شفیع داؤدی صاحب کی صدارت میں جلسہ ہوا اور انہوں نے اطلاع دی کہ صوبہ بہار کے گوشہ گوشہ میں یوم کشمیر کے موقعہ پر پر جوش مظاہرے ہوئے.علی گڑھ میں حاجی محمد صالح خان صاحب شیروانی آنریری مجسٹریٹ کی صدارت میں جلسہ ہوا کراچی کے خالقدینہ ہال میں مسلمانوں کا ایک عظیم اجتماع ہوا.حاجی سیٹھ عبداللہ ہارون صاحب نے صدارت کی.اسی طرح دہلی پونا، لکھنو، رنگون مالا بار گیا، حیدر آباد ، بنگال، بنگلور ، بہار و اڑیسہ وغیرہ شہروں میں زبردست جلسے منعقد ہوئے.غرضکہ بر صغیر کی تاریخ میں یہ پہلا موقعہ تھا جبکہ ملک کا گوشہ گوشہ تحریک آزادی کشمیر کی آواز سے گونج اٹھا اور ملک کے ایک سرے سے لے کر دو سرے سرے تک مسلمانوں میں درد و الم کی ایسی لہر دوڑ گئی کہ وہ دیوانہ وار اپنے مظلوم بھائیوں کی مدد کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے".اندرون ریاست میں جہاں ڈوگرہ حکومت مظالم ڈھارہی تھی.یوم کشمیر خاص اہتمام سے منایا گیا.چنانچہ اس دن سرینگر میں حکام کی مخالفانہ کوششوں کے باوجود جامع مسجد میں نہایت کامیاب جلسہ ہوا جس میں ایک لاکھ فرزندان توحید کا اجتماع ہوا.اس موقعہ پر ان چھوٹے چھوٹے یتیم بچے اور بچیوں کو سٹیج پر لایا گیا جن کے باپ ظالم اور فرعون مزاج ڈوگروں کے مظالم کا شکار ہو گئے تھے.یہ نظارہ بڑا ہی درد ناک تھا جو نہی لوگوں کی نظر ان معصوموں پر پڑی.مجمع زار زار رونے لگا.ہر ایک کی آنکھیں پر نم تھیں جلسہ گاہ اس وقت ماتم کدہ بن گئی.اور جب شہیدوں کے خونی کپڑے دکھائے گئے تو ایک حشر سا برپا ہو گیا.سرینگر کے علاوہ گلمرگ، شوپیاں ، بانڈی پور اور دوسرے مقامات پر بھی اس روز
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 459 تحریک آزادی کشمیر ا د ر جماعت احمدید | 1+ کامیاب احتجاجی مظاہرے ہوئے.چنانچہ مورخ کشمیر منشی محمد الدین صاحب فوق لکھتے ہیں.ما اگست کو یوم آزادی کے موقعہ پر مسلمانوں میں اتنا جوش و خروش تھا کہ اس کی نظیر ریاست کی سرزمین میں دوبارہ ملنی محال ہے ".یوم کشمیر" کے موقعہ پر یہ پورے مظاہرے پورے امن و امان کے ماحول میں ہوئے البتہ جموں میں جب اس موقعہ پر جلوس نکالا گیا.تو اس پر گولی چلا دی گئی.اور ایک مسلمان شہید ہو گیا اور کئی ایک زخمی بھی ہوئے جن میں بچے بھی تھے.اور مسجدوں پر حکومت نے قبضہ کر لیا.قادیان میں یہ اطلاع اسی روز پہنچ گئی اور حضور نے اسی وقت مہاراجہ صاحب کشمیر کو ذاتی طور پر مداخلت کرنے اور وائسرائے ہند کو سخت اقدام کرنے کے لئے تار دیئے.مہاراجہ صاحب کشمیر کو مندرجہ ذیل الفاظ میں تار دیا گیا.قادیان ۴/ اگست جموں سے اطلاع ملی ہے کہ وہاں پر امن مسلم جلوس پر نہایت بے رحمی سے گولی چلا دی گئی ہے.جس کے نتیجہ میں ایک شخص ہلاک ہو گیا ہے.اور کئی زخمی ہوئے جن میں بچے بھی شامل ہیں.مساجد پر افواج نے قبضہ کو رکھا ہے.اگر یہ سچ ہے تو حکام کی یہ ستم رانی نا قابل برداشت ہے مسلمانوں کا ایک طبقہ پہلے ہی انتہائی تدابیر اختیار کرنے پر زور دے رہا ہے میں یو رہائی نس سے اپیل کرتا ہوں کہ قبل اس کے کہ حالات بالکل قابو سے باہر ہو جائیں.جن سے مجبور ہو کر مجھے یا تو کشمیر کمیٹی کی صدارت انتہا پسند طبقہ کے حوالے کرنی پڑے یا سخت قدم اٹھانے پر مجبور ہونا پڑے.آپ ذاتی طور پر اس میں مداخلت کریں.اس وقت تمام دنیا کی آنکھیں کشمیر کی طرف لگی ہوئی ہیں.کہ دیکھئے ان لاکھوں الا بے بسوں کے ساتھ جنہیں قدرت نے یو رہائی نس کی رعایا بنایا ہے.کیا سلوک روا ر کھا جاتا ہے"- وائسرائے ہند کے نام دیئے جانے والے تار کے الفاظ یہ تھے." قادیان ۱۴/ اگست جموں سے تاز آیا ہے.کہ کشمیر ڈے کے سلسلہ میں مسلمانوں کے پر امن جلوس پر ریاستی فوج نے گولی چلا دی.جس کے نتیجہ میں ایک مر گیا.اور کئی زخمی ہو گئے.جن میں بچے بھی شامل ہیں.مسجدوں پر فوجوں کا قبضہ ہے اگر یہ درست ہے تو یہ مظالم ناقابل برداشت ہیں.اگر حکومت نے مداخلت نہ کی تو معاملہ میں اہم پیچیدگیاں پیدا ہو جائیں گی.جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ حالات بالکل قابو سے باہر ہو جائیں گے میں پہلے بھی معاملہ کی اہمیت و نزاکت پر زور دے چکا ہوں.اور موجودہ واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے اور اس حقیقت کے پیش نظر کہ مسلمانوں کا ایک طبقہ پہلے ہی انتہائی کارروائی کئے جانے پر زور دے رہا ہے.مجھے یا تو آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی صدارت سے استعفیٰ دے کر اسے انتہا پسندوں کے حوالہ کرنا پڑے گا.یا پھر سخت قدم اٹھانے پر رضامند ہونا پڑے گا".تار کے علاوہ حضور نے اسی وقت اپنا ایک نمائندہ جموں روانہ کر دیا.اور فوٹوگرافر بھی بھیجوایا تا
تاریخ احمد بیت - جلد ۵ 460 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیه زخمیوں کے فوٹو لے.چنانچہ وہاں پہنچ کر خفیہ طور پر تصاویر لی گئیں اور اس طرح ڈوگرہ حکومت کے مظالم کا زبردست ثبوت فراہم کر لیا گیا.چنانچہ سرینگر اور جموں کے ۱۹۳۱ء کے خونچکاں واقعات سے متعلق جو تصاویر اس کتاب میں شائع کی جارہی ہیں.وہ حضوری کی ہدایت پر لی گئی تھیں اور حضوری کی توجہ کی بدولت آج تک محفوظ ہیں.اس بروقت اقدام کی اہمیت بہت جلد نمایاں ہو گئی.حضور کا تار ملنے پر وائسرائے ہند نے ریاست کو تار دیا.کہ جموں کے مسلمانوں پر گولی چلائی گئی ہے مگر حکومت نے جواب دیا کہ یہ غلط ہے جلوس پر معمولی لاٹھی چارج ہوا ہے.یہی جواب وزیر اعظم کشمیر ہری کشن کول نے خواجہ حسن نظامی صاحب کو اپنے ۲۲/ اگست ۱۹۳۱ء کے مکتوب میں دیا.چنانچہ اصل واقعات کو بالکل مسخ کرتے ہوئے لکھا." آپ تحریر فرماتے ہیں کہ بچوں کو جموں میں برچھیوں سے زخمی کیا گیا.پرسوں چار نمائندگان مسلمانان مجھے ملنے آئے.اور یہی شکایت میرے پاس کی میں نے فور ابذریعہ ٹیلیفون جموں سے پتہ کیا.چنانچہ معلوم ہوا کہ مورخہ ۱۴ کر اگست کے دن خلاف قانون مسلمانوں نے جموں میں سیاہ جھنڈوں کے ساتھ جلوس نکالا...جس پر پولیس کو مجبور ہو کر جلوس کو لاٹھی چارج سے منتشر کرنا پڑا...لاٹھی چارج میں ۸ یا ۱۰ آدمیوں کو خراش لگے.جن میں سے دو کو کسی قدر زیادہ ضرب آئی.لیکن ایسی نہیں جنہیں ضرب شدید کہا جاسکے ہر دو کی حالت کل سے قریباً بالکل اچھی ہے.اس واقعہ کو یہاں تک رنگ دیا گیا کہ گولی چل گئی.اور پچاس ساٹھ آدمی ہلاک اور زخمی ہوئے برچھیوں اور سنگینوں سے.اصلیت یہ ہے کہ کوئی برچھایا سنگین استعمال نہیں کی گئی".بالکل اسی قسم کی رپورٹ حکام کشمیر نے وائسرائے ہند کو بھجوائی...کہ معمولی لاٹھی چارج ہوئی ہے.یہ رپورٹ پہنچنے پر وائسرائے کے پولٹیکل سیکرٹری نے بذریعہ تا حضور کو اطلاع دی کہ حکومت کشمیر گولی چلنے سے بالکل انکار کرتی ہے.مگر جب حضور نے حکومت ہند کے سامنے تصاویر رکھیں تو ڈوگرہ حکومت کی غلط بیانی بے نقاب ہو گئی.
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 461 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ (فصل پنجم) عالمی پراپیگنڈے کا آغاز حکومت ہند اور ریاست کشمیر پر دباؤ ڈالنے کا نہایت موثر ذریعہ بیرونی پراپیگنڈا تھا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آغاز کار ہی سے اس کا خاص انتظام کیا.چنانچہ اس ضمن میں آپ نے امریکہ سماٹرا، جاوا عرب مصر و شام میں ایک مہم شروع کی مگر سب سے زیادہ توجہ انگلستان کی برطانوی حکومت برطانوی پریس اور برطانوی عوام پر دی.کیونکہ کشمیر کی ریاست پر حکومت ہند کی نگرانی تھی.اور حکومت ہند برطانوی حکومت کے ماتحت تھی.برطانیہ کو متاثر کرنے کے لئے آپ نے مختلف ذرائع اختیار فرمائے.10 • ا.آپ نے لندن مشن کے انچارج خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب کو انگلستان میں تحریک آزادی کی آواز بلند کرنے کے لئے کئی ہدایات دیں جن کی تعمیل میں انہوں نے KASHMIR "PAST AND PRESENT (کشمیر کا ماضی و حال) کے نام سے ہیں صفحات کا ایک انگریزی پمفلٹ شائع کیا، برطانوی پریس سے رابطہ کر کے ان میں مظلومان کشمیر کے حالات شائع کرائے چنانچہ لنڈن کے متعدد با اثر اور بار تار اخبارات مثلاً "مارنگ پوسٹ " " سنڈے ٹائمز " "ڈیلی ٹیلیگراف".نیئر ایسٹ وغیرہ میں ہمدردانہ مضامین شائع ہوئے.اور وزیر اعظم کشمیر (ہری کشن کول) کی برطرفی کے عام مطالبہ اور نظم و نسق میں اصلاحات کی پر زور تائید کی گئی.0 اخبار "انقلاب یکم اکتو بر ۱۹۳۱ء نے لکھا.لنڈن ۲۸/ ستمبر آج کل برطانوی اخبارات میں کشمیر کے متعلق جو مضامین شائع ہو رہے ہیں.ان کی بناء پر معتبر حلقوں میں اہل کشمیر کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا جارہا ہے...لندنی اخبارات کا خیال ہے کہ ان کے مطالبات معقول اور وقیع ہیں جن سے حکومت کے لئے لازمی ہو گیا ہے.کہ ریاست کے نظم و نسق کا تجزیہ اور امتحان کرے خیال کیا جاتا ہے که خود مهاراجہ کشمیر مسلمانان کشمیر کی شکایات اور مطالبات پر غور کرنا چاہتے ہیں اور اس کے متمنی ہیں کہ انتظام ریاست کی اصلاح کر کے ریاست میں انتظامی شعبہ کو مضبوط کریں ".جناب غلام رسول صاحب مہر نے جو ان دنوں ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کے ہمراہ نمائندہ
تاریخ احمدیت جلد ۵ 462 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ "انقلاب" کی حیثیت سے انگلستان گئے ہوئے تھے انگلستان سے مندرجہ ذیل خط لکھا.کشمیری مسلمانوں کے تعلق میں برطانوی جرائد کا رویہ پہلے کی نسبت بہتر ہے.اور اس میں بلا شائبه و ریب مولوی فرزند علی صاحب امام مسجد لندن کا بڑا حصہ ہے.جو شروع سے لے کر کشمیر کے تعلق میں مسلسل جدوجہد فرماتے رہے ہیں.اخبارات میں جو خبریں شائع ہوتی رہیں ان کے علاوہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی طرف سے متعدد تار موصول ہوئے جن کی کاپیاں ایک ایک مندوب کے پاس بھیجی جاتی ہیں ".( انقلاب ۱۹/ نومبر ۱۹۳۱ء) جناب عبد المجید صاحب سالک نے اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا.انگلستان میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے جو کام کیا وہ ہندوستان کے کام سے بھی کہیں زیادہ بیش بہا تھا.مولانا مہر کے تازہ مکتوب میں قار مکین ملاحظہ فرما چکے ہیں کہ انگریزی پریس کا رویہ پہلے اچھا نہ تھا.لیکن آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے صدر کے برقی پیغامات اور مولوی فرزند علی امام مسجد لنڈن کی ان تھک مساعی سے اب حالات بہت بہتر ہیں اور اکثر انگریزی اخبارات کا لب ولہجہ ہمدردانہ ہو گیا ہے.اس کے لئے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے جو معزز و محترم ارکان گول میز کانفرنس میں شریک ہیں ان کو ہندوستان کے مفصل تار پہنچتے رہے جن میں حوادث کشمیر بیان کئے جاتے تھے.اور ان حضرات نے انہی تاروں سے متاثر ہو کر وزیر ہند سے متعدد ملاقاتیں کیں اور یہ وعدہ لیا کہ کشمیر کے معاملہ میں مظلوموں کی امداد کی جائے گی".مظفر آباد ( آزاد کشمیر) کا اخبار ”ہمارا کشمیر ۱۷۹/ مارچ ۱۹۵۴ء کی اشاعت میں لکھتا ہے کہ (جناب مرزا صاحب نے جنگ آزادی میں شہید ہونے والوں کی تصویریں اپنے آدمیوں سے کچھوا کر انگلستان ارسال کیں.شہیدوں کے خونی جائے پارلیمنٹ کے ممبروں کو دکھائے گئے.14 اسی طرح وہ بعض لارڈز مثلا کر تل ہاورڈ بری وغیرہ کو اس بات پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہو گئے.کہ وزراء اور پارلیمنٹ کے دوسرے ممبروں پر زور دیں کہ برطانوی حکومت مسئلہ کشمیر میں مداخلت کرے.چنانچہ وزیر ہند کی پہلو تہی کے باوجود پارلیمنٹ میں یہ مسئلہ کئی بار زیر بحث لایا گیا.مولوی فرزند علی خان صاحب کے بعد جب مولوی عبدالرحیم صاحب درد انگلستان تشریف لے گئے تو تحریک آزادی کی سرگرمیاں زور شور سے جاری رہیں چنانچہ آپ کے تیار کردہ بعض سوالات پارلیمنٹ میں ایک ممبر لیفٹیننٹ کرنل آر - وی.کے ایلین نے دریافت کئے.حضور نے امام مسجد لنڈن کو یہ بھی تاکید فرمائی کہ گول میز کانفرنس میں شامل ہونے والے مسلمان ممبروں کے ذریعہ سے بھی مسئلہ کشمیر کی اہمیت واضح کرنے کی کوشش کی جائے چنانچہ ہزہائی نس سر آغا خاں ، سرمیاں محمد شفیع ، ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب اور چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے علیحدہ علیحدہ
احمدیت جلد ۵ 463 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ وزیر ہند سے ملاقاتیں کیں.وزیر ہند نے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب سے وعدہ کیا کہ وہ خود بھی اس معاملہ میں توجہ کریں گے.اور حکومت ہند کو بھی توجہ دلائیں گے.اس کے بعد وائسرائے ہند کے پرائیوٹ سیکرٹری نے صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کو تار دیا کہ حکومت ہند اس بارے میں ریاست سے خط و کتابت کر رہی ہے.یہ پرو پیگنڈہ شروع ہوتے ہی ریاست کو فکر پڑ گئی اور اس نے قریباً چھ سو رد پیہ ماہوار تنخواہ پر لنڈن میں ایک ایجنٹ مقرر کر دیا.تا اس پراپیگنڈا کا اثر زائل کر کے برطانوی اخبارات کو ریاست کے حق میں لکھنے پر مائل کرنے مگر خدا کے فضل سے یہ سازش ناکام رہی.جناب چوہدری غلام عباس صاحب نے بھی اپنی سوانح عمری "کشمکش " میں تحریر فرمایا ہے." آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی معرفت ہماری شکایات سمندر پار کے مسلمانوں میں بھی زبان زد ہر خاص د عام ہو گئیں.اس نزاکت حال کے پیش نظر حکومت کشمیر کے لئے ہماری شکایات کو ٹالنا اور بزور طاقت عمومی محرکات کو بلا فکر نتائج کچلتے چلے جانا مشکل ہو گیا.آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے پہیم اصرار کے باعث حکومت ہند کا معاملات کشمیر میں دخل انداز ہونا ناگزیر ہو گیا.کشمیر کی سرحدات چین روس جیسے اشتراکی ممالک سے ملتی ہیں.لہذا اپنی فوجی اہمیت اور بین الاقوامی معاملات کے نقطہ نظر سے بھی ضروری ہو گیا کہ انگریز ریاست کے معاملات میں ضرور ہی دخل دے.نومبر ۱۹۳۱ء کے آخری دنوں میں حکومت کشمیر کو مجبورا مسلمانان ریاست کی شکایات اور مطالبات کی تحقیقات کے لئے ایک آزاد کمیشن کا اعلان کرنا پڑا.یقین غالب ہے کہ اس کمیشن کے تقرر میں حکومت ہند کو بھی زبر دست دخل تھا.وائسرائے اور حکومت ہند کے دوسرے افسروں پر معاملات کشمیر کی وضاحت کرنے کے سلسلہ میں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے غیر معمولی دلچسپی لی اور وہ حتی الوسع بر ایران پر اپنا اثر و رسوخ ڈالتے رہے جیسا کہ اس زمانے کے خطوط سے جو آج تک محفوظ ہیں روشنی پڑتی ہے.مہاراجہ کشمیر کی سازش اور اس کی ناکامی حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں.” جب کشمیر کی تحریک ہوئی.اس وقت بھی ہمیں ایسے ہی لوگوں سے کئی خبریں ملیں.جن سے ہمیں بہت فائدہ ہوا.ایک وقت ایسا واقعہ ہونے لگا تھا جس سے تحریک کشمیر بالکل تباہ ہو جاتی.اس وقت ایک ہندو لیڈر دیوان چمن لال تھے جو دیوان رام لال کے بھائی تھے.کانگریس میں انہیں کافی پوزیشن حاصل تھی.جب راجہ نے دیکھا کہ اب اسے کوئی رستہ نہیں ملتا.تو اس نے کانگریس کو خریدنے کی کوشش کی.چنانچہ اس نے دیوان چمن لال سے کہا کہ میں آپ کو یورپ میں پرو پیگنڈا کے لئے مقرر کرتا ہوں.
تاریخ احمد بیت - جلد ۵ 464 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ چنانچہ انہوں نے اس تحریک کے ماتحت اپنی ایک واقف عورت کو جو انگلستان کی مشہور جرنلسٹ اور اختیاری نمائندوں میں اچھی پوزیشن رکھنے والی تھی مقرر کیا.اور اسے تار دیا کہ میں تمہیں ۵۰ پونڈ ما اوار دوں گا.اور تمہارے باقی سب اخراجات بھی ادا کر دوں گا تم اخباروں میں ریاست کے حق میں پرو پیگنڈا کرو.وہ عورت بہت اثر رکھنے والی تھی.چنانچہ اس نے پریس کے نمائندوں اور اپنے دوستوں پر قبضہ کرنا شروع کیا.بعض کی اس نے تنخواہیں مقرر کر دیں.اور اس طرح کشمیر کے راجہ کے حق میں پرو پیگنڈا کا انتظام کیا.وہ اس قسم کا انتظام کر ہی رہی تھی کہ کسی مسلمان نے جس کے ہاتھ سے وہ تار گزری تھی.تار ٹائپ کر کے مجھے بھیج دی.اور لکھا کہ یہ تار دیوان چمن لال کی طرف سے فلاں عورت کو گئی ہے مگر اس نے اپنا نام نہ لکھا.ہم سمجھ گئے کہ تار کی نقل بھیجنے والا تار کے محکمہ میں کام کرتا ہے اور یہ تار اس کے ہاتھ سے گزری ہے.میں نے اس وقت وہ نقل ولائت میں اپنے نمائندہ کو بھجوائی.اور اسے ہدایت کی کہ وہ اس بارے میں فورا کار روائی کرے چنانچہ تار ملتے ہی ہمارے نمائندہ نے اس عورت کو بلایا.اور کہا مجھے آپ سے ایک ضروری کام ہے.جب وہ عورت آئی تو ہمارے نمائندہ نے اسے کہا کہ ہمیں معلوم ہوا ہے دیوان چمن لال نے تمہیں یہاں ریاست کے پروپیگنڈا کے لئے مقرر کیا ہے اور تمہارے نام یہ تار آیا ہے میں یہ تار اخبارات میں چھپوانے لگا ہوں اور یہ لکھنے لگا ہواں کہ تم فلاں شخص کے لئے اجرت پر کام کر رہی ہو.اور اخبارات میں جو فلاں فلاں مضمون شائع ہوا ہے.وہ بھی اس سلسلہ کی ایک کڑی ہے.انگلستان میں یہ سخت عیب سمجھا جاتا ہے کہ کوئی اخباری نمائندہ کسی سے پیسے لے کر کام کرے.جب اس نے یہ بات سنی تو وہ سخت گھبرائی.اور معذرت کرتے ہوائے کہنے لگی.کہ میں نے تو پہلے انکار کر دیا تھا.مگر خیر اب میں وعدہ کرتی ہوں کہ آئندہ اسی سلسلہ میں کچھ نہیں لکھوں گی.چنانچہ اس نے اس کام کے کرنے سے انکار کر دیا.اس طرح یہ پروپیگنڈ ا ختم ہوا.پھر ایک غیر احمد کی دوست نے مجھے لکھا.مجھے یاد نہیں کہ اس نے مجھے اپنا نام بھی لکھا تھا یا نہیں کہ ایک شخص جو سر کا خطاب رکھتا ہے اور ایک ریاست کا وزیر اور راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کا ممبر ہے.راجہ نے اسے اس بات کے لئے مقرر کیا ہے.کہ وہ راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کے ممبروں میں ریاست کے لئے پیگنڈا کرے میں نے چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کو لکھا کہ آپ وہاں یہ چیز پیش کریں کہ فلاں راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کا ممبر مہاراجہ کشمیر کے حق میں پرو پیگنڈا کر رہا ہے.کیا گو ر نمنٹ نے یہاں لوگوں کو اس لئے بلایا ہے کہ وہ دوسری جماعتوں کے خلاف نفرت کے جذبات پیدا کریں.انہوں نے وزیر ہند ہے بات کی.چنانچہ سرسیموئیل ہو ر جو بعد میں لارڈ ٹمپل وڈ ہو گئے تھے.انہوں نے اس ممبر کو بلا کر کہا.که یه نها یہ نہایت بری بات ہے.تم یا تو وعدہ کرو کہ یہ کام نہیں کرو گے.ورنہ وائسرائے ہند کو لکھوں گا.
تاریخ احمدیت جلد ۵ 465 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ کہ وہ تمہاری ممبری منسوخ کر دیں.چنانچہ اس نے وعدہ کیا کہ وہ کشمیر کے بارہ میں پرو پیگنڈا نہیں کرے گا.(الفضل ۱۴/ نومبر ۱۹۵۴ء صفحه ۴) کشمیر کمیٹی کے جلسہ پر سنگباری اینفت روزه اسلات ولی کا دار به مورخ ۲۸/ اکتوبر " اداریہ ۱۹۳۱ء - سید شفیع احمد صاحب دہلوی کے قلم سے) یہ سن کر ہماری حیرت کی کوئی حد نہیں رہی کہ سیالکوٹ میں ۱۳/ ستمبر کو ساڑھے نو بجے شب کو کشمیر کمیٹی کے جلسہ میں جبکہ جناب صدر کشمیر کمیٹی کے تقریر کرنے کا وقت مقرر تھا اور جلسہ گاہ قلعہ کے وسیع میدان میں ہو رہا تھا تو لوگ آٹھ بجے سے ہی جوق در جوق وہاں جمع ہونے لگے جب تجویز حاضرین جلسہ حکیم عبدالحکیم صاحب جو سیالکوٹ کے با اثر شرفاء میں شمار کئے جاتے ہیں اور احمدی عقیدے کے آدمی نہیں ہیں صدر جلسہ قرار دیئے گئے اور اسٹیج پر تشریف لا کر صدارتی تقریر کرنے لگے تو اشرار کے ایک گروہ نے جو فتنہ و فساد کی غرض سے جلسہ گاہ میں بھیجا گیا تھا.سخت شور بپا کر دیا.یہ دیکھ کر صاحب صدر نے ایک مقامی حافظ صاحب کو قرآن کریم کی تلاوت کے لئے کھڑا کیا تا یہ تحفظ اسلام کے مدعیان خاموش ہو جاویں.لیکن ان لوگوں کو خدا اور رسول ا سے تعلق ہی کیا تھا انہیں تو اپنے آقایان ولی نعمت کے احکام کی تعمیل کرنی تھی.عدوان اسلام و المسلمین کے پٹھو جن کا مقصد ہی تحریک کو نقصان پہنچا کر اپنے آقاؤں کا حق نمک ادا کرتا ہے.اس عظیم الشان جلسے میں ابتری پیدا کرنا چاہتے تھے.چنانچہ انہوں نے شور و شر کر کے ہاد ہو کے نعرے بلند کرتے ہوئے ایک دوسرے کو دھکیل کر بیٹھے ہوئے پر امن حاضرین پر پتھر پھینکنا شروع کر دیا تاکہ لوگ منتشر ہو جائیں.یہ دیکھ کر پولیس نے ان لوگوں کو اسن کے ساتھ مجمع سے چند فٹ پیچھے ہٹا دیا جہاں کھڑے ہو کر انہوں نے بیہودہ بکو اس کے ساتھ ساتھ جلسہ پر سنگ باری بھی شروع کر دی.صدر صاحب کشمیر کمیٹی بھی جلسہ گاہ میں تشریف لائے تھے.فتنہ پردازوں اور لفنگوں کی ٹولی کی شرارتیں اور خلاف انسانیت و شرافت حرکات دیکھ کر منتظمین جلسہ نے صدر صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ چونکہ سخت خطرہ کی حالت پیدا ہو گئی ہے اور نقصان کا احتمال ہے اس لئے آپ تشریف نہ لائیں لیکن جناب صدر نے اس خطرہ کی ذرہ بھر بھی پروانہ کی اور فور انتھروں کی اس شدید بارش کے دوران میں ہی اسٹیج پر تشریف لے آئے.چونکہ مفسد اور فتنہ پرداز ٹولی یہ سمجھ رہی تھی کہ وہ اپنی شرمناک حرکات سے جلسہ کو درہم برہم کرنے میں کامیاب ہو جائے گی اور فتنہ و فساد کے نہ صرف اسباب جو اس نے پیدا کر رکھے ہیں بلکہ اپنی طرف سے فساد شروع بھی کر رکھا ہے اس سے وہ
تاریخ احمدیت جلد ۵ 466 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائے گی.اس لئے جب اس نے دیکھا کہ اسے یہ مقصد حاصل نہیں ہوا اور وہ انسان جس کی تقریر سننے کے لئے ہزار ہا انسان جمع ہوئے ہیں.مردانہ وار جلسہ میں آگیا ہے تو اس ٹولی نے اپنی کمینگی اور شرارت کا انتہائی مظاہرہ کرنا اور بہت زیادہ زور اور شدت کے ساتھ پتھر برسانا شروع کر دیئے چونکہ تمام احمدی اکٹھے اسٹیج کے ارد گرد بیٹھے تھے اس لئے فتنہ پرداز ٹولی کا نشانہ وہی بنے.اس وقت احمدیوں نے جناب صدر کے ارد گرد حلقہ بنالیا اور چھتریاں تان لیں مگر پتھروں کا اس قدر زور تھا کہ باوجود اس کے تین پتھر جناب صدر کے ہاتھوں پر آکر لگے اور احمدی تو شاید ہی کوئی ایسا ہو کہ جسے چوٹ نہ آئی ہو.پچیس تیس کے قریب احمدیوں کو تو شدید زخم آئے اور ان کے کپڑے خون سے تر بتر ہو گئے.احمدیوں کو سخت چوٹیں آئیں اور سب سے زیادہ تکلیف دہ پہلو یہ تھا کہ ظالم اور سفاک فتنہ پرداز چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی سخت زخمی کر رہے تھے.لیکن باوجود اس کے ایک بھی احمدی نہ تو اپنی جگہ سے ہلا اور نہ کسی قسم کا اضطراب ظاہر کیا.تمام احمد ی جناب صدر کے ساتھ نہایت مردانگی اور حوصلہ کے ساتھ پتھر کھا کر وقار اور استقلال کا ثبوت پیش کرتے رہے اور ہر لحظہ اللہ اکبر اور اسلام زندہ باد کے نعرے لگاتے رہے.پتھروں کا سارا زور جناب صدر کے ارد گرد تھا کیونکہ بد باطن ٹولی آپ کو گزند پہنچانا چاہتی تھی اور آپ خطرہ کے منہ میں تھے.چنانچہ باوجود خدام کی جان نثارانہ حفاظت کے تین دفعہ آپ پر پتھر آکر پڑے.مگر جب اس خطرہ کو دیکھ کر منتظمین جلسہ نے آپ کو مشورہ دیا کہ یہاں سے ہٹ جانا چاہئے تو آپ نے نہایت جوش کے ساتھ اسے رد فرما دیا اور خطرہ کی کوئی بھی پرواہ نہ کرتے ہوئے تقریر کئے بغیر جانے سے انکار کر دیا اگر چہ ساری شرارت آپ کو نقصان پہنچانے کے لئے کی گئی تھی لیکن آپ کی معجزانہ طور پر حفاظت ہوئی اور بد ظن لفنگے سخت ناکام رہے.غرض جب پتھروں کی بارش پورے زور پر تھی تو احمدیوں کے کسی ایک بچہ نے بھی خطرہ کو محسوس کر کے اپنی جگہ سے ہلنے کی ضرورت نہ سمجھی تمام لوگ نہایت صبر و سکون کے ساتھ پتھر کھاتے اور نعرہ تکبیر بلند کرتے رہے.یہ حالت ایک گھنٹہ سے زیادہ تک جاری رہی اس دوران میں ۲۵-۳۰ احمدی ایسے شدید طور پر مجروح ہوئے جنہیں ہسپتال پہنچانا ضروری ہو گیا.چنانچہ انہیں موٹر میں بٹھا کر ہسپتال لے جانے کا انتظام کیا گیا اور مہذب دنیا یہ سن کر سیالکوٹ کے ان غنڈوں کی کمینگی پر ماتم کرے گی که ان مدعیان شجاعت و بسالت نے زخمیوں سے بھری ہوئی موٹر پر بھی پتھر برسائے اور اس کے شیشے وغیرہ توڑ ڈالے.اتنے لمبے عرصہ تک ہنگامہ خیزی اور فساد انگیزی کے باوجود پولیس کی گارد جو جلسہ سے قبل ہی وہاں آچکی تھی کہیں نظر نہ آتی تھی اور اس نے فتنہ پردازوں کی حد سے بڑھتی ہوئی شرارتیں دیکھنے کے باوجود انہیں روکنے کی قطعا کوئی کوشش نہ کی.گویا اس کا وجود اور عدم وجود برابر تھا.اخبار
تاریخ احمدیت جلد ۵ 467 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ الفضل کا بیان ہے کہ " ہمیں معتبر لوگوں نے بتایا ہے کہ بعض ذمہ دار پولیس افسر مفسدوں کی مدد کر رہے تھے اور بعض لوگوں کے متعلق معلوم ہوا ہے.انہوں نے خود اپنے کانوں سے سنا کہ بعض پولیس افسر اور سپاہی پتھر مارنے کی تحریک کر رہے تھے ".موجود الوقت پولیس کی اس مجرمانہ غفلت کو دیکھ کر لو کل کشمیر کمیٹی کے بعض معزز ارکان نے ڈپٹی کمشنر اور سپرنٹنڈنٹ پولیس کو اس حالت سے اطلاع دی اور وہ دونوں صاحبان موٹر میں وہاں پہنچ گئے ان کے آتے ہی انسپکٹر ان ڈیوٹی بھی کہیں سے نکل کر ادھر ادھر گھومتے ہوئے نظر آنے لگے.افسران مذکور نے شرارت کرنے والوں کو ان کی شرمناک حرکات سے باز رکھنے کی دیانتدارانہ کوشش کی اور ادھر ادھر چکر لگا کر انہیں روکتے رہے لیکن چونکہ بعض کمینہ فطرت شریر درختوں کے اوپر چڑھے ہوئے تھے اور عورتوں کی طرح چھپ چھپ کر حملے کر رہے تھے.اس لئے ڈپٹی کمشنر و غیرہ کی آمد پر بھی ان کی شرارت کا سلسلہ بند نہ ہوا.یہ حالت دیکھ کر جناب صدر کشمیر کمیٹی نے مولانا عبد الرحیم صاحب در دایم اے سیکرٹری کشمیر کمیٹی سے ارشاد فرمایا کہ جاکر افسروں سے کہہ دیا جائے.اگر وہ ان لوگوں پر قابو نہیں پاسکتے تو ہمیں اجازت دیں.ہم خدا کے فضل سے چند منٹوں کے اندراندران کے حواس درست کر سکتے ہیں احمد کی جو اس موقعہ پر دو ڈھائی ہزار سے تعداد میں کم نہ تھے نہایت جوش کی حالت میں تھے اور اگر ان کے پیرو مرشد اور امام یعنی صدر کشمیر کمیٹی جناب مرزا محمود احمد صاحب کی مسلسل اور متواتر صبر و سکون کے ساتھ اپنی اپنی جگہ پر بیٹھے رہنے کی ہدایات نے ان کو جکڑا ہوا نہ ہو تاتو اس رات سیالکوٹ کی سرزمین کچھ اور ہی نظارہ دیکھتی جب احمدی چپ چاپ بیٹھ کر زخمی ہو رہے تھے اور اپنے بھائیوں کو لہولہان دیکھ کر اپنے کم سن بچوں کو زخم کھا کر گرتے دیکھ کر اور اپنے زخمیوں پر لحظ بہ لحظ اضافہ پا کر بے مثال حوصلہ اور استقلال کا اظہار کر رہے تھے تو اشرار کو ان کی فتنہ پردازی سے روکنا ان کے لئے کچھ بھی مشکل نہ تھاوہ ہاتھ ہلائے بغیر زخمی ہونے پر ہر عزیز چیز سے عزیز تر مرزا محمود احمد صاحب کی حفاظت اور اپنے بچاؤ کے لئے اشرار کا مقابلہ کرنے کو ترجیح دیتے اور اس طرح ہر تکلیف کو اپنے لئے راحت محسوس کرتے.لیکن انہوں نے اس موقع پر بھی اپنے امام کی اطاعت اور فرمانبرداری کا نہایت اعلیٰ نمونہ دکھایا.اور اپنی امن پسندی کا اپنے تازہ تازہ اور گرم گرم خون سے ثبوت پیش کرتے رہے.آخر جب شرارت حد سے بڑھ گئی اور باوجود اعلیٰ حکام کی موجودگی کے رکتی نظر نہ آئی تو مولانا درد صاحب جناب صدر کے ارشاد کے ماتحت ڈپٹی کمشنر کے پاس گئے اور اس سے گفتگو شروع کی.چونکہ زخمی متواتر اس کے پاس سے گزر رہے تھے اور وہ یہی سمجھ چکا تھا کہ اس سے زیادہ احمدیوں کی صبر
تاریخ احمدیت جلد ۵ 468 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد به آزمائی کا امتحان کرنا خطرناک نتائج پیدا کرے گا اس لئے اس نے پانچ منٹ کے اندراند رفتنہ پردازوں کو منتشر ہونے کا حکم دے دیا.یہ لوگ جس قدر جوش دکھا رہے تھے بغیر مار کھانے کے بلکہ بعض کے مارے جانے سے ہرگز نہیں ملیں گے.لیکن حیرانی کی کوئی حد نہ رہی.جب یہ دیکھا کہ جنگ کے بلند بانگ نعرے لگانے والے اور اپنی شجاعت و بسالت سے دنیا کو زیر و زبر کر دینے کے دعوے کرنے والے دم دبا کر ایسے بھاگے کہ مڑکر پیچھے دیکھنے کی جرات بھی نہ کر سکے اور دو منٹ کے اندراندر میدان ان شریروں سے بالکل صاف ہو گیا.اس کے بعد جناب صدر تقریر کے لئے کھڑے ہوئے اور ایسی زور دار اور موثر تقریر فرمائی کہ سب لوگسبا نہ صرف اپنے زخموں اور چوٹوں کو بھول گئے بلکہ نہایت لطف و سرور محسوس کرنے لگے.تقریر کے دوران میں سیالکوٹ کے شرفا اور نیک طینت لوگ آخر تک موجود رہے.تقریر کے دوران میں ڈپٹی کمشنر اور سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس موٹر میں ادھر ادھر گھومتے رہے اور اختتام پر ڈپٹی کمشنر صاحب نے خود حاضر ہو کر جناب صدر سے اس ہنگامہ کے متعلق اظہار افسوس کیا اور سپرنٹنڈنٹ صاحب اپنی موٹر میں بیٹھ کر جناب صدر صاحب کی فرودگاہ تک ساتھ گئے.اشرار کی اس شرارت اور احمدیوں کے صبرو استقلال اپنے خلیفہ کے لئے جذبہ خدا کاری اور خطرناک سے خطرناک حالات میں اپنی جانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس کے احکام کی تعمیل واطاعت کے جوش سے سیالکوٹ کے شریف النفس اور سمجھدار لوگ بے حد متاثر ہوئے.چنانچہ ان میں سے کئی ایک نے خود حاضر ہو کر مبارکباد پیش کی اور فتنہ پردازوں کی شرارت کے متعلق اظہار نفرت کیا.ایک معزز مولوی صاحب نے جو مذہبی لحاظ سے جناب صدر سے شدید اختلاف رکھتے ہیں جلسہ کے اختتام پر فرودگاه پر اگر جناب صدر کو مبارکباد دی اور کہا آپ لوگوں نے آج ہمیں رسول کریم کے زمانہ کا نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا موقعہ بہم پہنچایا ہے.مذکورہ بالا واقعات کو مطالعہ کرنے کے بعد سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ کشمیر کمیٹی مسلمانوں کے سر بر آوردہ اصحاب اور لیڈروں نے بنائی تھی جن میں خواجہ حسن نظامی جو نہ ہی رنگ میں جناب مرزا محمود احمد صاحب امام جماعت احمدیہ کے اشد ترین مخالف ہیں اور سر محمد اقبال اور نواب سر ذو الفقار علی ایم ایل اے اور نواب ابراہیم علی خان صاحب آف کرنال و غیرہ وغیرہ کیا اس بات کو نہیں جانتے تھے کہ اس کمیٹی کا صدر اگر مرزا صاحب ممدوح کو بنایا گیا تو بجائے کشمیری مسلمانوں کی مدد کرنے کے یہ احمدیت کا پروپیگنڈا شروع کر دیں گے.مذکورہ بالا تمام سر بر آوردہ مسلمانوں کو بخوبی علم تھا کہ اس کمیٹی کے کام میں کوئی بھی ایسا کام نہیں.کہ جس میں احمدیت اور غیر احمدیت کا سوال اٹھ سکے اور اس وقت
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 469 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ تک کے حالات اور واقعات بھی یہ ثابت کر رہے ہیں کہ جناب صدر نے نہایت دیانتداری اور ایمان داری اور بڑے استقلال کے ساتھ مظلوم مسلمانوں کا کام کیا مگر جاہل اور کندہ نا تراش خود غرض لیڈروں کو شیطان نے بہکا کر بھولے مسلمانوں کو اس اپنے محسن کے ساتھ یہ برتاؤ کرنے پر آمادہ کر دیا.دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر مذکورہ بالا واقعات صحیح ہیں تو پولیس نے کسی مصلحت سے مجرمانہ خاموشی سے کام لیا ؟ کیا سیالکوٹ میں حکومت کشمیر کے ایجنٹ اور گر گے موجود تھے ؟ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ پھر کیا ہوا.گورنمنٹ کے حکام کے اشارہ سے ہوا یا لیڈروں کے اشارہ سے ہوا.یا کشمیر کے ایماء سے ہوا.ہمارے خیال میں گورنمنٹ کو اور کشمیر کو ایک بیان شائع کر کے اپنی پوزیشن فور اصاف کرنی چاہئے اور ہندوستان میں ہر مقام پر مسلمانوں کو اس حرکت پر نفرین کی آواز بلند کرنی چاہیے".ر ساله سلطنت دہلی ۲۱ / اکتوبر ۱۹۳۱ء صفحه ۶-۸)
جلد ۵ 470 تحریک آزادی کشمیر ا د ر جماعت احمدیه -1 ۲ (فصل ششم) مظلومین ریاست کو طبی اور مالی امداد تحریک آزادی کے نتیجہ میں مظلوم ننتے اور مفلوک الحال کشمیریوں پر مصائب و آلام کے پہاڑ ٹوٹ رہے تھے خصوصاً وسط ۱۹۳۱ء سے تو ان کے لئے متعدد ایسے نئے مسائل اٹھ کھڑے ہوئے جن سے ان کی زندگی در بھر ہو گئی اور قافیہ حیات تنگ ہو گیا.یہ نئے مسائل اصولی اعتبار سے تین تھے.ڈوگرہ مظالم سے زخمی ہونے والوں کے علاج کا معاملہ - ایران کشمیر کے اہل و عیال کی مالی ضروریات اور ان کے جرمانوں کی ادائیگی.تحریک آزادی دبانے کے لئے حکام نے وسیع پیمانے پر مسلمانوں کو گرفتار کر کے جیل خانوں میں ڈال دیا تھا اور ان پر سنگین الزامات عائد کر کے مقدمے چلا دیئے تھے ان کے لئے آئینی امداد کی ضرورت تھی.ان مسائل کے حل کے لئے بغیر تحریک کشمیر کا اندرون ریاست میں قائم و زندہ رہنا ممکن نہیں تھا الہذا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اپنے ذاتی اور اپنی جماعت اور ممبران کشمیر کمیٹی کے پورے وسائل و ذرائع بروئے کار لاتے ہوئے ان تمام امور کو طے کرنے میں اپنی پوری طاقت و قوت اور پورے وسائل و ذرائع صرف کر دیے.زخمیوں کو طبی امداد پہنچانے کے لئے وفد بھیجے شہدا کے پسماندگان اور نظر بندوں کے اہل و عیال کی ہر ممکن نگہداشت اور خبر گیری کا وسیع انتظام کیا حتی کہ قید ہونے والے لیڈروں کے جرمانے اپنے لنڈ سے ادا کئے.اس سلسلہ میں پہلا وفد چوہدری عصمت اللہ خان صاحب بی ایس سی.ایل ایل بی اور متعدد ڈاکٹروں پر مشتمل تھا.جو ۱۴/ اگست ۱۹۳۱ء سے قبل ہی جموں و سرینگر بھیج دیا گیا تھا.اس کے بعد دو طبی وفد اور بھجوائے گئے ایک کے انچارج میجر ڈاکٹر شاہ نواز تھے اور دوسرے کے ڈاکٹر محمد منیر صاحب پہلا وفد میر پور گیا تھا اور دو سرا بھمبر - یہ تمام حقائق اخبار الفضل اور جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی طرف سے آنے والے مختلف پرائیویٹ خطوط سے واضح ہوتے ہیں.جو آج تک کشمیر کمیٹی کے ریکارڈ میں محفوظ ہیں.مگر اس تفصیل میں جانا ہم مناسب نہیں سمجھتے البتہ ذیل میں بعض اہم آراء کا ذکر کر دینا مناسب ہو گا.ینگ مینز مسلم
تاریخ احمدیت.جلده 471 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ ایسوسی ایشن جموں کا ایک اشتہار یہاں درج کیا جاتا ہے.جس سے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی مالی خدمات کا کسی قدر اندازہ ہو سکتا ہے".مصیبت زدہ مسلمانان جموں کی اپیل دردمندان ملت کے نام “.برادران اسلام السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ.آپ پر روشن ہو چکا ہو گا کہ غریب مسلمانان کشمیر کو ابتدائی انسانی حقوق کے حصول میں آج تک کس طرح اپنا قیمتی خون پانی کی طرح بہانا پڑا اور یہ بھی واضح ہو چکا ہو گا کہ ۲ / نومبر کے المناک حادثہ میں جو ۴ / نومبر ۱۹۳۱ء تک جاری رہا.غریب مسلمانان جموں کو کن روح فرسا مصائب کا سامنا کرنا پڑا.اس کے بعد بیسیوں ناکردہ گناہ مسلمانوں پر مقدمات دائر کر دیئے گئے ہیں چونکہ کوئی انجمن کافی سرمایہ کی عدم موجودگی میں مذکورہ واقعات سے عہدہ بر آنہیں ہو سکتی آپ کی حمیت اسلامی سے پر زور التجا کی جاتی ہے.کہ از راہ کرم حتی المقدور مالی امداد سے دریغ نہ فرمائیں ہماری امداد کی خاطر تمام سرمایہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے حساب میں فی الفور جمع ہونا چاہئے.کیونکہ کمیٹی مذکورہ کی طرف سے کئی ماہ سے باقاعدہ طور پر ایک معتد به رقم ینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن جموں کو ماہ بماہ پہنچ رہی ہے.اور اب ہمیں یہ معلوم کر کے بے حد افسوس ہوا ہے کہ سرمایہ کی کمی کی سے کمیٹی مذکورہ مقروض ہو چکی ہے.کیونکہ برادران ملت نے یہ خیال فرما کر کہ چونکہ اب کام ختم ہو چکا ہے روپیہ کی ضرورت نہیں رہی.آل انڈیا کشمیر کمیٹی کو مالی امداد بہم پہنچانا ترک فرما دیا ہے.حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہماری ضروریات روز افزوں ہیں ایسی حالت میں کمیٹی مذکورہ کا مقروض ہونا ہماری کم نصیبی کا باعث ہے...پریذیڈنٹ محمد امین شاہ - جنرل سیکرٹری شیخ غلام قادر ینگ مینز ایسوسی وجہ ت ایشن جموں".اخبار "انقلاب" (1 / مارچ ۱۹۳۲ء) نے لکھا." آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے مسلمانان کشمیر کے شہداء پسماندگان اور زخمیوں کی امداد اور ماخوذین بلا کی قانونی اعانت میں جس قابل تعریف سرگرمی محنت اور ایثار کا ثبوت دیا ہے.اس کو مسلمانان کشمیر کبھی فراموش نہیں کر سکتے.اب تک اس کمیٹی کے بے شمار کار کن اندرون کشمیر مختلف خدمات میں مصروف ہیں.اور ہزار ہا روپیہ مظلومین و ماخوذین کی امداد میں صرف کر رہے ہیں لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مسلمانوں نے اب تک اس کمیٹی کی مالی امداد میں کافی سرگرمی کا اظہار نہیں کیا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ کمیٹی ہزار ہاروپیہ کی مقروض ہے.پچھلے دنوں "انقلاب" میں اس کمیٹی کے مداخل و مخارج بابت ماہ جنوری ۱۹۳۲ء شائع ہوئے تھے جس سے ظاہر ہو تا تھا کہ صرف ایک مہینہ میں خرچ آگے سے بقد ربارہ تیرہ سو روپے کے زائد ہوا ہے.ظاہر ہے کہ یہ صورت حالات زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتی اور قرض پر اتنا بڑا کام چل نہیں سکتا اور اگر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کو محض قلت سرمایہ کی وجہ سے اپنی خفیہ سرگرمیاں روک دینی پڑیں.تو یہ امر مسلمانان کشمیر i
تاریخ احمدیت جلده 472 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ کے لئے بے حد مصائب کا باعث ہو گا.اور مسلمانان ہند بھی یہ دعوئی نہ کر سکیں گے کہ وہ اپنے کشمیری بھائیوں سے عملی ہمدردی کا ثبوت دے رہے ہیں.کشمیر کمیٹی کے مختلف شعبے ہیں بہت سا رو پید پروپیگنڈا پر صرف ہوتا ہے اور بہت سا روپیہ امداد مظلومین اور اعانت ماخوذین اور مصارف مقدمات اور قیام دفاتر کے سلسلے میں خرچ کیا جاتا ہے.کشمیر کے تقریبا تمام قابل ذکر مقامات پر کشمیر کمیٹی کے کارکن مصروف عمل ہیں.اور نہایت امن و امان خاموشی اور آئین کے ساتھ کام کر رہے ہیں.مسلمانوں کو چاہئے کہ کمیٹی کی مالی امداد میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھیں.اور یقین رکھیں کہ ان کا ایک ایک پیسه نهایت جائز مصارف پر خرچ ہو گا ".اخبار "انقلاب" میں ہی مسلمانان راجوری کا مندرجہ ذیل مکتوب مع ادارتی نوٹ شائع ہوا.”جب سے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی بنیاد رکھی گئی ہے اس نے نہایت اخلاص سے مسلمانان کشمیر کی ہر ممکن طریق سے امداد کی ہے اور سینکٹروں تباہ حال مسلمانوں کو ہلاکت سے بچالیا ہے.اگر اس کے راستے میں بعض لوگ رکاوٹ نہ ڈالتے تو مسلمانان نے اپنے حقوق حاصل کر لئے ہوتے ہمیں افسوس ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں نے کشمیر کمیٹی کو مالی امداد دینے میں بہت کم توجہ کی ہے حالانکہ حقیقی اور ٹھوس کام کشمیر کمیٹی ہی کر رہی ہے.چنانچہ اس بات کے ثبوت سے ہم اس وقت مسلمانان راجوری کی ایک مراسلت درج کرتے ہیں.جس میں انہوں نے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا شکریہ ادا کیا ہے.اس قسم کے بیبیوں مراسلات ہم کو کشمیر کے مختلف علاقوں سے موصول ہو چکے ہیں جن سے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی خدمات کا سچے دل سے اعتراف کیا گیا ہے.مسلمانان را جوری کا مراسلہ یہ ہے.ہم قصبہ مسلمانان راجوری آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہی ایک کمیٹی ہے جو ہر گلی کوچہ میں غریب اور ناتوان مسلمانوں کی خبر لے رہی ہے.ہم ایک ایسے ویران جنگل کے رہنے والے ہیں.جن کا خبر گیراں تحت الثریٰ سے لوح محفوظ تک سوائے ذات باری کے اور کوئی نہیں.مگر اس کمیٹی نے ہماری دستگیری میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی.اور ہم پر بخوبی واضح ہو چکا ہے کہ کمیٹی کی نظر نہایت باریک ہے ہم خدا سے دعا کرتے ہیں کہ اے زمین و آسمان کے خالق اور دنیا و مافیہا کے ناظم ہماری اس ممد و معاون کمیٹی کو جو آج آڑے وقت میں ہمارے کام آرہی ہے مضبوط کر ، خصوصا صدر صاحب آل انڈیا کمیٹی کے احسانات کو تمام فرقوں کے مسلمان کسی صورت میں بھی بھول نہیں سکتے.ہمارے بہت سے مصائب کا اس کمیٹی کی مہربانی سے کچھ نہ کچھ ازالہ ہو گیا ہے.اور ابھی بہت سی مشکلات موجود ہیں.اگر یہ کمیٹی اپنی پوری کوشش جاری رکھنے میں سرگرم رہی.تو انشاء اللہ ایک نہ ایک دن ان مصائب سے ہم نجات حاصل کر لیں گے ".
تاریخ احمدیت جلد ۵ 473 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ سرینگر کے معزز مسلمانوں نے "انقلاب" (لاہور) میں کشمیر کمیٹی کی شاندار خدمات پر ہدیہ تشکر پیش کرتے ہوئے لکھا.” برادران اسلام ! ہم تمام مسلمانان کشمیر اس وقت مصائب کی چکی میں پیسے جارہے ہیں.زمین اور آسمان ہم پر تنگ ہو رہا ہے کچھ ہم میں سے شہید ہوئے.بہت سے زخمی ہوئے بہت سے مقدمات میں گرفتار ہیں.کچھ بھو کے مررہے ہیں اور بہت سے پریشان ہیں.اس مصیبت کے وقت میں ہم چاہتے ہیں کہ کوئی خدا کا نیک بندہ ہماری امداد کرے خواہ وہ مسلمان ہو یا یہودی عیسائی ہو یا ہندو.کیونکہ اس وقت مذہب کا سوال نہیں ہے بلکہ سوال یہ ہے کہ محض انسانی ہمدردی کی بناء پر کوئی ہماری امداد کرتا ہے یا نہیں.ان حالات میں ہم تمام مسلمانان کشمیر جناب پریذیڈنٹ صاحب آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے شکر گزار ہیں.کہ انہوں نے ہمارے دو سرے رہبران قوم کے ساتھ شامل ہو کر بہت ہی بلند کام کیا ہے.اور جو ان تھک کوششیں وہ ہم مظلومین کی امداد کے لئے کر رہے ہیں اس کو بیان کرنے سے ہماری نا چیز زبانیں قاصر ہیں.ہم کو جناب پریذیڈنٹ صاحب آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے عقائد اور اختلافی خیالات سے کوئی غرض نہیں ہے.ہم ان کے اختلافی خیالات کے ایسے ہی مخالف ہیں.جیسے کہ خواجہ حسن نظامی صاحب و دیگر عمائدین دین متین مخالف ہیں لیکن قومیت کے سوال میں عقائد کو چھوڑ کر ان کا کام نہایت ہی قابل تعریف ہے.پس ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس مصیبت کے وقت غدار اور قوم فروش اخبار...یہ کونسی خدمت انجام دے رہا ہے.کہ مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کے لئے سارا اخبار قادیانیت کے جھگڑے میں سیاہ کر کے ہماری مزید پریشانی کا باعث بن رہا ہے.ہم خوب جانتے ہیں کہ نے کشمیر میں آکر اور سرکاری مہمان بن کر اپنی عاقبت کس طرح خراب کی ہے.اب ہمارے بڑے خیر خواہ بن کر آریہ اخبارات کی کس طرح حمایت شروع کر رکھی ہے.اس لئے اب ہم مسلمانان کشمیر مجبور ہو کر اس تفرقہ پرداز اور مسلم کش اخبار اور اس کے حوار بین پر نفرت کرتے ہیں.اور مسلمانان ہند سے استدعا کرتے ہیں کہ وہ اخبار نے کورہ پر دباؤ ڈال کر اسے حرکات ناشائستہ سے رد کیں.ورنہ ہم لوگ یہ کہنے پر مجبور ہوں گے کہ ہماری پستی اور ذلت کے ایسے نام نہاد اخبار بھی ذمہ دار ہیں.الراقمان- خواجہ احمد اللہ صاحب جنرل شال مرچنٹ سرینگر ، خواجہ غلام محمد صاحب شمال مرچنٹ سرینگر ، مسٹر غلام نبی مرچنٹ سرینگر ، فقیر سالک صاحب ہمدانی ، سید عبدالغفور شاہ صاحب مفتی ضیاء الدین صاحب سرینگر، حکیم عبدالحی صاحب سرینگر محمد عثمان صاحب بٹ قصبه ترال ، غلام محمد صاحب ترال، خواجہ عبد الرزاق صاحب ترال، حکیم غلام علی صاحب سرینگر ، مسٹر غلام محمد صاحب بی.اے.مندرجہ بالا احباب کی طرف سے مجھے خط ہذا آپ کی خدمت میں روانہ کرنے کی ہدایت ہوئی ہے.
تاریخ احمدیت.جلد ۵ - 474 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیه خادم مفتی ضیاء الدین عفی عنه از نواکدل سرینگر - انقلاب ۸/ ستمبر ۱۹۳۱ء " - مفتی مولوی عتیق اللہ صاحب کشمیری (پونچھ) نے لکھا.آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے جس خلوص اور ہمدردی کے ساتھ مظلوم مسلمانان ریاست جموں و کشمیر کی مالی، جانی قانونی امداد دی ، اس کے لئے ہمارے جسم کا ذرہ ذرہ زبان سپاس ہے.ہم لوگ اس کمیٹی کی بے لوث مالی امداد کے تازیست ممنون رہیں گے اس کمیٹی نے شہداء کے پسماندگان کا خیال رکھا.بتامی دایامی کی پرورش کی.محبوسین کے پسماندگان کو مالی امداد دی ماخوذین کو قانونی امداد دی.کارکنوں کو گرانقدر مشورے دیئے.جنگلوں میں پہاڑوں میں جا کر مظلومین کی امداد کی ماخوذین کی اپیلیں دائر کیں اور ان کے مقدمات کی پیروی کی.قابل ترین قانونی مشیر بہم پہنچائے.ہندوستان اور بیرون ہند میں ہماری مظلومیت ظاہر کرنے کی جان توڑ کوشش کی.ہماری آواز کو حکام بالا تک پہنچایا.ہماری تسلی اور تسکین کی خاطر اشتہارات اور ٹریکٹ شائع کئے ہر وقت قابل اور موزون والسیر دیتے دنیائے اسلام کو ہمارے حالات سے آگاہ کر کے ہمدردی پر آمادہ کیا.اخبارات کے ذریعہ سے ہماری مظلومیت کو ظاہر کیا".جناب سید حبیب صاحب مدیر سیاست " لاہور نے لکھا."مظلومین کشمیر کی امداد کے لئے صرف دو جماعتیں پیدا ہو ئیں.ایک کشمیر کمیٹی دوسری احرار - تیسری جماعت نہ کسی نے بنائی نہ بن سکی.احرار پر مجھے اعتبار نہ تھا.اور اب دنیا تسلیم کرتی ہے کہ کشمیر کے یتامی مظلومین اور بیواؤں کے نام سے روپیہ وصول کر کے احرار شیر مادر کی طرح ہضم کر گئے.ان میں سے ایک لیڈر بھی ایسا نہیں جو بالواسطہ یا بلا واسطہ اس جرم کا مرتکب نہ ہوا ہو.کشمیر کمیٹی نے انہیں دعوت اتحاد عمل دی.مگر اس شرط پر کہ کثرت رائے سے کام ہو اور حساب با قاعدہ رکھا جائے.انہوں نے دونوں اصولوں کو ماننے سے انکار کر دیا.لہذا میرے لئے سوائے از میں چارہ نہ تھا کہ میں کشمیر کمیٹی کا ساتھ دیتا.اور میں یہ بہ بانگ دہل کہتا ہوں کہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب صدر کشمیر کمیٹی نے تندہی ، محنت، ہمت جانفشانی اور بڑے A- جوش سے کام کیا اور اپنا روپیہ بھی خرچ کیا اور اس کی وجہ سے میں ان کی عزت کرتا ہوں".نواب میجر سر محمد خان زمان خاں کے.ہی.آئی - ای فرمانروائے ریاست امب و ریاست ترنول (سابق صوبہ سرحد) نے حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالٰی کی خدمت میں ۶/ مارچ ۱۹۳۲ء کو ایک مکتوب میں لکھا.هرگاه از مخلصین با عتماد خود حالات همدردی عامه مسلمین در ذات والا صفات آنجناب شنیده ام و در اخبارات نیز ظهور همدردی عمل در اوقات فتنه ارتداد که معامله مذهبی بود و مصیبت مسلمانان کشمیر که معالمه سیاسی بود بار بار از نظر گذشته و اقوال مخلصین خود که وابستگان امان آن ذیشان می باشند به
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 475 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ صداقت و تحقیق ذہن نشین شده اند." یعنی میں نے اپنے قابل اعتماد مخلصین سے آنجناب کی ذات والا صفات کے عام مسلمانوں سے ہمدردی کے حالات سنے ہیں.اور اخبارات میں بھی فتنہ ارتداد کے اوقات میں جو ایک مذہبی معاملہ تھا اور مسلمانان کشمیر کی مصیبت میں جو ایک سیاسی معاملہ تھا آپ کی عملی ہمدردی کا ظہور بار بار نظر سے گزرا ہے اور اپنے مخلصین کے اقوال جو آپ کی امان ذی شان سے وابستہ ہیں صحیح اور ٹھیک ٹھیک ذہن نشین ہوئے ہیں.یہ تو نہایت اختصار کے ساتھ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی طبی اور مالی امداد کا تذکرہ ہے.جہاں تک قانونی امداد کا تعلق ہے کمیٹی کے زیر انتظام جماعت احمدیہ کے قابل اور چوٹی کے وکلاء نے ایسے بے نظیر کارنامے انجام دیئے ہیں.کہ تاریخ آزادی کشمیر میں ہمیشہ سنہری لفظوں سے یاد کئے جائیں گے.لہذا اس پہلو پر ہم آئندہ ایک فصل میں بالتفصیل روشنی ڈالنا چاہتے ہیں.اہل کشمیر تک مالی امداد پہنچانا فی ذاتہ ایک کٹھن مرحلہ تھا جس کی مشکلات کا اندازہ جناب میر غلام احمد صاحب کشفی کے اس واقعہ سے لگ سکتا ہے.کہ تحریک کشمیر کے دوران مظلومین کشمیر کی مالی امداد کے سلسلے میں آپ ایک بار قادیان سے پانچ سو روپیہ دے کر جموں بھیجے گئے جہاں میر محمد بخش صاحب ایڈووکیٹ کشمیر کمیٹی کی طرف سے مقدمات کی پیروی میں مصروف تھے.میر غلام احمد صاحب نے پانچ سو روپے اور اس کے ساتھ ایک چٹھی اپنے بوٹ کے تلوے میں سی لی راستوں میں تلاشیاں کی جاتی تھیں آپ رات پھر جموں چھاؤنی میں رہے.اور صبح شہر میں داخل ہو کر دفتر کشمیر کمیٹی ( واقعہ اردو بازار) میں پہنچے اور بوٹ کا تکلو کھول کر نقدی مع خط میر محمد بخش صاحب کے حوالہ کر دی.AT
تاریخ احمد بیت - جلد ۵ 476 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ ہے (فصل ہفتم) معاہدہ صلح اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا مخلصانہ مشورہ حکام کشمیر نے مولانا ابو الکلام صاحب آزاد اور سرتیج بہادر سپرو کو اس لئے کشمیر بلایا.تا ان کے اثر تحریک ختم کی جا سکے.چنانچہ جیسا کہ مسٹر پریم ناتھ بزاز نے اپنی کتاب INSIDE) (KASHMIR کے صفحہ ۱۴۳ پر لکھا ہے کہ جناب آزاد نے کشمیری مسلم لیڈروں سے کہا کہ وہ اپنے فرقہ دارانہ معاملات کو سیاست سے نہ الجھا ئیں بالفاظ دیگر ایجی ٹیشن بند کر کے مہاراجہ کی ذات پر اعتماد کریں.اس پر اخبار "کشمیری " لاہور (۷ / اگست ۱۹۳۱ء) نے لکھا کہ ”اگر مولانا ابو الکلام آزاد نے قوم کا اعتماد حاصل کرنا ہے تو وہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی سے گفتگو کئے بغیر اس معاملہ میں دخل نہ دیں“.مگر افسوس کہ سرینگر کے خود مسلمان لیڈر ان کی باتوں سے متاثر ہو گئے اور وزیر اعظم کشمیر ہری کشن کول کے دوست نواب سر مہر شاہ کے کہنے پر حکومت کشمیر سے ایک عارضی صلح نامہ کر لیا.اس معاہدہ کی مندرجہ ذیل شرائط تھیں.موجودہ ایجی ٹیشن بالکل بند کر دی جائے گی.مساجد یا دوسرے مذہبی مقام پر ایسے پبلک جلسے -1 منعقد نہ کئے جائیں گے جن سے حکومت کے خلاف یا فرقہ وارانہ منافرت پیدا ہوتی ہو.مساجد اور زیارت گاہوں میں عام اعلان کر دیا جائے گا کہ مسلمان بیرونی شورش سے متاثر نہ ہوں اور ہزہائیں کے جن سے انہیں اپنے جائز حقوق حاصل کرنے کی امید ہے وفادار رہیں گے.بیرونی ہمدردوں سے درخواست کی جائے گی کہ مطالبات کے متعلق آخری تصفیہ تک کوئی ایسی کارروائی نہ کریں جس سے اس فضا میں جس کے مطالبات پر غور کرنے کے لئے ضرورت ہے کسی قسم کا تکدر پیدا ہو.۴ اس سمجھوتہ سے رائج الوقت قوانین میں کوئی مداخلت نہ ہوگی.اس سمجھوتہ کے لئے وزیر اعظم کی مشفقانہ اور ہمدردانہ امداد کے لئے ہم ان کے ممنون ہیں.مطالبات کے متعلق ان سے پوری توجہ کی امید رکھتے ہیں.(نوٹ) باوجود ہنزہائنس کی طرف
تاریخ احمدیت.جلده 477 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ سے ہماری ۵/ اگست ۱۹۳۱ء کی عرضداشت کا جواب اطمینان بخش نہیں.ہم اس کا احترام کرتے ہیں اور ہز ہائیس سے وفاداری کی وجہ سے مشروط صلح کے لئے تیار ہیں.اس کے مقابل حکومت نے وعدہ کیا کہ (۱) قصبات اور دیہات میں مسلمان رہنماؤں کی طرف سے اس اعلان عام کے بعد کہ ایجی ٹیشن بند کر دی گئی ہے.وہ ان تمام ذرائع کو ترک کر دے گی جو گزشتہ دو ماہ سے اس کی طرف سے اختیار کئے گئے ہیں.(۲) وہ ملزم جن کا فسادات کے الزام میں عدالت میں چالان کیا جا چکا ہے ضمانت پر رہا کر دیئے جائیں گے.اور تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ شائع ہونے تک ان کے مقدمات کی سماعت ملتوی رہے گی.(۳) ان سرکاری ملازمین کے متعلق جنہیں ایجی ٹیشن میں حصہ لینے کے الزام میں موقوف ، معطل یا تنزل کر دیا گیا ہے.اس وعدہ پر کہ وہ آئندہ ایسی باتوں میں حصہ نہیں لیں گے ان کے معالمہ میں دوبارہ غور کیا جائے گا.اور انہیں پھر وہی حقوق دیئے جائیں گے".Ar اس معاہدہ کا اعلان جامع مسجد سرینگر میں ۲۸/ اگست ۱۹۳۱ء کو جمعہ کے اجتماع میں کیا گیا اور غیور مسلمانوں میں شدید نفرت کی ہر پیدا ہو گئی.حتی کہ پبلک نے خود شیخ محمد عبد اللہ صاحب پر حملہ کر دیا.جو ہری کشن کول وزیر اعظم کشمیر کی تمنائے دلی کے عین مطابق تھا.کیونکہ وہ مسلمانوں کے معزز لیڈروں کو شروع سے محض آوارہ مزاج نوجوان کہہ کر سب و شتم کرتے آرہے تھے.اس درد انگیز حادثہ کی تفصیلات ہدایت اللہ صاحب (یعنی چوہدری عصمت اللہ صاحب ایڈووکیٹ نے ۲۹/ اگست ۱۹۳۱ء کو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں درج ذیل الفاظ میں " بھیجوائیں.یہ صلح یا عارضی صلح ایک عجیب ہیجان پیدا کرنے کا باعث ہوئی ہے.شہر میں ہر ایک کشمیری حیران اور پریشان نظر آتا تھا.بعض کے متعلق معلوم ہوا ہے کہ وہ اس کے متعلق علم ہونے پر رونے لگے.بعض نے صدمہ کی وجہ سے کھانا نہ کھایا اور زیادہ آپے سے باہر ہونے والے یہ اعلان کر رہے ہیں کہ ہم دس نمائندوں کو قتل کر دیں گے.اور اس کے بعد خود بھی خود کشی کرلیں گے یہاں تک تو ہوا کہ بعض نے (شیخ) محمد عبد اللہ کو گریبان سے پکڑا.اور مارنا چاہا.بعض نے جبکہ وہ موٹر پر جارہا تھا اس پر پتھر برسائے اور بعض نے فحش گالیاں دیں.اور ہر ایک نظر آرہا تھا کہ وہ اپنی قسمت کو رو رہا ہے.اس تمام کیفیت کی وجہ کیا تھی.وہ صرف یہی تھی کہ شہر میں مشہور ہو گیا کہ اس عارضی صلح میں نمائندوں نے کشمیری مسلمانوں کو فروخت کر دیا ہے.میرے پاس بھی میرے محلہ میں سے بعض لوگ آئے اور کہنے لگے کہ آج تک تو ہم کشمیری پنڈتوں سے محمد عبد اللہ کے لئے لڑ پڑتے تھے.لیکن کل اگر ہم ہی سٹیج پر
تاریخ احمدیت جلد ۵ 478 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد به بے عزتی کریں گے.تو کشمیری پنڈت ہم کو طعنہ نہ دیں گے ؟ کہ ہم جو کہہ رہے تھے کہ محمد عبد اللہ تم کو دھوکہ دے جائے گا.کیا وہ درست نہ نکلا؟ میں نے ہر ایک کو اطمینان دینے کی کوشش کی اور جس جس سے میری گفتگو ہوئی.وہ تسلی کے ساتھ واپس گیا.شہر کے ہر ایک حصہ میں نمائندوں کے خلاف غیظ و غضب نظر آتا تھا.اور یہی ہر ایک کہتا تھا کہ کل ہم ان نمائندوں کو بے عزت کریں گے.اور سیج پر نہیں آنے دیں گے".جب حالات اس نہج تک آپہنچے تو شیر کشمیر جناب شیخ محمد عبد اللہ صاحب نے ان سے کہا کہ آپ لوگ پریذیڈنٹ صاحب آل انڈیا کشمیر کمیٹی سے پوچھ لیں اگر وہ ہمارے اس عارضی صلح نامہ کو ایسا ہی خطرناک قرار دیں تو آپ لوگوں کی جو مرضی ہو کریں ورنہ آپ ان کے مشورہ کے بغیر کوئی قدم نہ اٹھا ئیں.چنانچہ شیخ محمد عبد اللہ صاحب اور دوسرے کشمیری زعماء کی طرف سے معاملہ صدر صاحب آل انڈیا کشمیر کمیٹی کو بھجوایا گیا.جس پر صدر کشمیر کمیٹی (حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) نے "ریاست کشمیر و مسلم نمائندگان کے درمیان شرائط صلح پر ایک نظر" کے عنوان سے کہ میں ایک اشتہار شائع کیا جس میں صلح نامہ کے خطرناک نقائص کی نشاندہی کرنے کے بعد تحریر فرمایا.مسلمانوں کے نمائندوں نے یہ معاہدہ کیا ہے اور مسلمانوں کا فرض ہے کہ اس کی پوری طرح اتباع کریں کیونکہ مسلمان دھوکہ باز نہیں ہوتا.اور جو قوم اپنے لیڈر کی خود تذلیل کرتی ہے.وہ کبھی عزت نہیں پاتی.نیز مسلمانوں میں قحط الرجال ہے.اور کام کرنے کے قابل آدمی تھوڑے ہیں پس انہی سے کام لیا جا سکتا ہے اور لینا چاہئے.پس یہ نہیں ہونا چاہئے کہ اس مضمون کو پڑھ کر کوئی جو شیلا شخص جموں اور کشمیر کے لیڈروں کی مخالفت شروع کر دے.انہوں نے دیانتداری سے کام کیا ہے اور ہمیں ان کی قربانیوں کا احترام کرنا چاہیئے.اور ہنستے ہوئے ان کی غلطی کو قبول کرنا چاہئے پھر اس کے ضرر سے بچنے کا بہترین طریق سوچنا چاہئے.وہ طریق میرے نزدیک یہ ہے کہ وقت کے تعین سے اس معاہدہ کے ضرر کو محدود کر دیا جائے اور آئندہ کے لئے اپنے آپ کو آزاد کرا لیا جائے.میرے نزدیک اس کی بہتر صورت یہ ہے کہ دستخط کرنے والے نمائندگان ریاست کو ایک دوسری یادداشت یہ بھجوا دیں کہ چونکہ عارضی صلح کا وقت کوئی مقرر نہیں اور یہ اصول کے خلاف ہے اس فرد گذاشت کا علاج ہونا چاہئے.پس ہم لوگ یہ تحریر کرتے ہیں کہ ایک ماہ تک اس کی میعاد ہوگی.اگر ایک ماہ کے اندر مسلمانوں کے حقوق کے متعلق ریاست نے کوئی فیصلہ کر دیا یا کم سے کم جس طرح انگریزی حکومت نے ہندوستان کے حقوق کے متعلق ایک اصولی اعلان کر دیا ہے کوئی قابل تسلی اعلان کر دیا تب اس عارضی صلح کا زمانہ یا لمبا کر دیا جائے گا یا
تاریخ احمدیت جلد ۵ 479 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیه اسے مستقل صلح کی شکل میں بدل دیا جائے گا.لیکن اگر ایک ماہ کے عرصہ میں ریاست نے رعایا کو ابتدائی انسانی حقوق نہ دیئے یا ان کے متعلق کوئی فیصلہ نہ کیا.تو یہ صلح ختم سمجھی جائے گی.اور دونوں فریق اپنی اپنی جگہ پر آزاد ہوں گے".اس اشتہار کا نتیجہ یہ ہوا کہ اہل کشمیر میں عارضی سمجھوتہ کے خلاف جوش دب گیا.اور ان کو تسلی ہو گئی.کہ اس کی خرابی کو سنبھال لیا جائے گا.چنانچہ اس سلسلہ میں ایک تار بھی قادیان پہنچا.کہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب امام جماعت نے عارضی صلح کے شرائط پر جو تبصرہ فرمایا ہے اسے یہاں کی پلک نے بہت پسند کیا ہے".اس تبصرہ کا مزید نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانان کشمیر نے فیصلہ کر لیا ہے وہ معاہدہ لمبا نہیں ہونے دیں گے یا حکومت ان کو حقوق دینے کا فیصلہ کرے گی.یا صلح نامہ ختم کر دیا جائے گا.
ت - جلد ۵ 480 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ (فصل هشتم) حکام ریاست اور ہندوؤں کا شر انگیز منصوبہ ، جماعت احمدیہ کے خلاف مہم ، آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا اجلاس سیالکوٹ اور ریاست میں مسلمانوں کا قتل عام جس روز سے آل انڈیا کشمیر کمیٹی معرض وجود میں آئی مہاراجہ کشمیر ریاستی حکام اور ہندوؤں کی تمام کوششیں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کو ختم کرنے اور صدر کشمیر کمیٹی اور جماعت احمدیہ کو بد نام کرنے کے لئے وقف ہو گئیں اور ہندو پریس نے پر زور پراپیگنڈا کرنا شروع کیا کہ کشمیر ایجی ٹیشن قادیانی سازش کا نتیجہ ہے.چنانچہ بطور نمونہ چند اقتباسات درج کئے جاتے ہیں.ہندو اخبار " ملاپ " (لاہور) نے لکھا.قادیان کے خلیفہ جو خالص مذہبی آدمی بنتے ہیں وہ بھی کشمیر کے مسلمانوں کے گلے سے طوق غلامی اتارنے کے لئے لنگر لنگوٹے کس لیتے ہیں.آج سے برسوں پہلے کشمیر کے گاؤں گاؤں میں قادیانیوں نے اپنے واعظ بھیج دیئے جن کا کام مسلمانوں کو احمدی بنانے کے علاوہ یہ بھی تھا کہ وہ حکومت کشمیر کے خلاف لوگوں کو بھڑکا ئیں اور بغاوت تیار کریں؟." قادیانی سازش کا نتیجہ ہے کہ کشمیر کے امن پسند مسلمان اب شورش اور شرارت اور بخارت کے شرارے بن چکے ہیں اب کشمیری مسلمانوں کو وہ پہلے جیسا صلح جو، میانہ رو اور حلیم الطبع انسان نہ سمجھو بلکہ قادیانی روپیہ نے قادیانی پراپیگنڈا نے اور قادیانی گدی کے خلیفہ کی حرص و آز نے ان کشمیری مسلمانوں کو مرنے مارنے پر تیار کر دیا ہے ".مرزا قادیانی نے آل انڈیا کشمیر کمیٹی اس غرض سے قائم کی ہے.تاکہ کشمیر کی موجودہ حکومت کا خاتمہ کر دیا جائے اور اس غرض کے لئے انہوں نے کشمیر کے گاؤں گاؤں میں پراپیگنڈا کیا.انہیں روپیہ بھیجا ان کے لئے وکیل بھیجے شورش پیدا کرنے والے واعظ بھیجے.شملہ میں اعلیٰ افسروں کے ساتھ ساز باز کر تا رہا.(ملاپ یکم اکتو بر ۱۹۳۱ء صفحه ۵)
تاریخ احمدیت جلدن 481 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ کشمیر میں قادیانی شرارت کی آگ لگائی واعظ گاؤں گاؤں گھومنے لگے.چھوٹے چھوٹے ٹریکٹ چھپوائے گئے اردو میں بھی اور کشمیری زبان میں بھی اور انہیں ہزاروں کی تعداد میں چھپوا کر مفت تقسیم کیا گیا.مزید بر آن روپیہ بھی بانٹا گیا".(ملاپ ۳۰/ ستمبر ۱۹۳۱ء صفحه ۵) اس پر اکتفا کرتے ہوئے ہندو پریس نے ایک طرف اہل کشمیر کو ڈرایا کہ قادیانی سازش بے نقاب ہو گئی ہے اب وہ اپنی تحریک سے ہاتھ کھینچ لیں.چنانچہ لکھا.”کشمیری مسلمانوں کو بھی دیکھنا چاہئے کہ وہ کن ٹھگولی کے پنجوں میں پھنس گئے ہیں.اور کس طرح اپنے مہاراجہ کے خلاف ایک بھاری سازش کے کل پرزے بنے ہوئے ہیں.یہ حالات ان کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہیں کشمیری مسلمانوں کو اب پر اکشچت (کفارہ - ناقل) کے طور پر اعلان کرنا چاہئے کہ وہ کسی قسم کے حقوق کا مطالبہ فی الحال نہیں کرتے جس حالت میں وہ اب ہیں اسی حالت میں رہیں گے “.(ملاپ ۱۴/ اگست ۱۹۳۱ء صفحه ۵) دوسری طرف حکومت کو توجہ دلائی کہ حیرانی ہے کہ ریاست کشمیر کے خلاف شملہ میں بیٹھ کر جو سازش کی جارہی ہے (کشمیر کمیٹی کے قیام کی طرف اشارہ ہے.ناقل ) یہ اسی پروگرام کی ایک مذ ہے.حیرانی ہے کہ ریاست کشمیر کے خلاف اسی حکومت کے پایہ تخت میں بیٹھ کر سازش کی جارہی ہے جس حکومت کے لئے ریاست کشمیر کے حکمرانوں سے یہ معاہدہ کر رکھا ہے کہ وہ بیرونی دشمنوں سے کشمیر کی حفاظت کرے گی".(ملاپ - اگست ۱۹۳۱ء صفحہ ۵) یہ بھی لکھا."کشمیر کے چاروں طرف مسلمان حکومتیں ہیں.کشمیر پر اگر اسلامی جھنڈا لہرایا تو گورنمنٹ کے لئے خطرناک ہو گا.(ملاپ ۱۸/ اگست ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۶) تیسری طرف ہندوؤں کو اشتعال دلایا کہ اگر کشمیر میں مسلمان غالب ہو گئے اور کشمیری ہندوؤں کو نقصان پہنچاتو ہندوستان کے ۲۸ کروڑ ہندوؤں کی حالت خطرے میں ہو جائے گی.ہندوؤں کو مٹانے کی تیاری کشمیر میں ہو چکی ہے.اب پنجاب کے ہندوؤں کو جاگنا چاہئے.ورنہ ان کی حالت کشمیر جیسی ہو جائے گی".(ملاپ ۳۱ / اکتوبر ۱۹۳۱ء صفحه ۱۴) اسی طرح لکھا.(ہندوستان کے ہندو) اگر اس ہندو ریاست کو بچانا چاہتے ہیں تو انہیں آرام طلبی کو چھوڑ کر جد و جہد کرنا ہو گی.ورنہ بعد میں جموں و کشمیر کے ہندؤوں کے لئے آنسو بہانا بے سود ہو گا.وقت ہے جاگو، سنبھلو اور راکھشوں ناپاک جانوروں یعنی مسلمانوں - ناقل) کے چنگل میں پھنسی ہوئی ہندو ریاست کو بچاؤ“.(ملاپ ۱۴/ نومبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۵) چوتھی طرف حکومت کشمیر کو توجہ دلاتے ہوئے کہا.”جہاں تک ہندو ریاست کے استحکام کا معاملہ
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 482 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ ہے خطرہ کی کوئی بات نہیں اس شرارت کا منبع اس قدر ریاست کے اندر نہیں جتنا کہ برٹش پنجاب میں ہے یہاں کے قادیانی ہندو دھرم قوم پرستی ، کانگریس یا گاندھی کے سخت دشمن ہیں.احرار کی سرگرمیوں کا کوئی نوٹس نہیں لینا چاہئے ان کی ایجی ٹیشن خالی خولی ہے".(ملاپ ۳۱ / اکتو بر ۱۹۳۱ء صفحه (۱۷) ان حالات میں ہندو قوم کی طرف سے آل انڈیا کشمیر کمیٹی ، اس کے صدر محترم امام جماعت احمدیہ اور جماعت احمدیہ کے خلاف منصوبہ بندی خلاف توقع نہیں تھی.چنانچہ اس ضمن میں کشمیر حکومت کے در پردہ عزائم کا پہلی بار انکشاف اس وقت ہوا جبکہ ۸/ ستمبر ۱۹۳۱ء کو شیر کشمیر شیخ محمد عبد اللہ صاحب کا مندرجہ ذیل تار سیکرٹری آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے نام پہنچا.it SECRETARY KASHMIR COMMITTEE QADIYAN 8 SEP 1931 AHRAR DEPUTATION ARRIVED HERE STAYING AS STATE GUESTS SHOULD WE CO.OPERATE YOUR DEPUTATION BADLY NEEDED.ABDULLAH ✅ یعنی احرار کا وفد یہاں پہنچ گیا ہے.اور سرکاری مہمان کی حیثیت سے ٹھرا ہوا ہے.کیا ہم اس سے تعاون کریں آپ کے وفد کی اشد ضرورت ہے.احراری وفد کے ممتاز رکن مفکر احرار جناب چوہدری افضل حق صاحب یہ بتاتے ہوئے کہ جموں کے گورنر نے وزیر اعظم (ہری کشن کول) کو تار دے کر اس وفد کے داخلہ کی اجازت حاصل کرلی تھی داخلہ کشمیر پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں.ہم سرینگر پہنچے تو فضا قدرے مکدر تھی.لوگ غریب جماعت کے غریب افراد کو شک وشبہ کی نظر سے دیکھتے تھے.تنگ حال لوگ دوسروں کی تنگ حالی میں کیا مدد کریں گے بس آئے ہیں ریاستی خزانے سے جیبیں بھر کے لوٹ جائیں گے ہمارے ریاست میں آنے کا مقصد ہمارے بعض کا نگری احباب نے لوگوں کو یہی سمجھایا اور لوگوں نے یونہی سمجھا....غرض ایسے ماحول میں ہم سرینگر پہنچے حکومت کو ابتداء سے اصرار تھا کہ ہم ریاستی مہمان بنیں....ہمارے آرام کا ہماری ضرورت سے زیادہ خیال رکھا.خورد و نوش کا سامان ریاست کی شان کے مطابق کیا".ان ” شاہی مہمانوں" سے حکام کشمیر کی کیا گفتگو ہوئی یہ تو معلوم نہیں البتہ اس کے بعد عملاً ہوا یہ کہ چند روز بعد ۱۲- ۱۳/ ستمبر ۱۹۳۱ء کو سیالکوٹ میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے بھی شمولیت فرمائی.اس اجلاس میں عارضی معاہدہ کی روشنی میں کشمیر کی صورت حال پر غور کیا گیا اور مسلمانوں کو قربانی کے لئے تیار کرتے ہوئے خاص طور پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ مسلمانان کشمیر حتی الامکان بہت جلد اپنے مطالبات ریاست کشمیر کے سامنے پیش کر دیں.اور اسے آگاہ کر دیں کہ اگر ان مطالبات پر مناسب غور کرنے کے بعد ایک مہینہ کے اندر تسلی بخش
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 483 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد یہ فیصلہ نہ کیا گیا تو مفاہمت کالعدم سمجھی جائے گی.کمیٹی کے سب فیصلوں کی تائید بعد کو آل انڈیا مسلم کشمیری کانفرنس نے اپنے ایک خصوصی اجلاس میں کرتے ہوئے کمیٹی کو اپنی امداد کا پورا یقین دلایا.44°4A کشمیر کمیٹی کا اجلاس سیالکوٹ بخیر و خوبی ختم ہوا تو سیالکوٹ کشمیر کمیٹی کے ارکان نے حضور سے درخواست کی کہ کل ۱۴ ستمبر ۱۹۳۱ء کو قلعہ کے وسیع میدان پر ایک جلسہ سے خطاب فرما ئیں.یہ درخواست حضور نے قبول فرمالی مگر دوسرے دن شام کو جب حضور قیام گاہ سے جلسہ گاہ کی طرف تشریف لے جانے لگے تو منتظمین جلسہ نے عرض کیا کہ کشمیر کمیٹی کے مخالفین جلسہ پر سنگباری کر رہے ہیں سخت خطرہ کی حالت ہے اور نقصان کا احتمال ہے اس لئے آپ تشریف نہ لے جائیں.لیکن حضور نے اس کی ذرہ برابر پروانہ کی.اور پتھروں کی بارش میں سٹیج پر پہنچ گئے.خدام نے حضور کے ارد گرد حلقہ بنالیا اور میر عبد السلام صاحب وغیرہ مخلصین نے چھتریاں تان لیں.مگر اس کے باوجود تین پھر حضور کے ہاتھوں پر آکر لگے.اور احمدی تو شاید ہی کوئی ایسا ہو جسے چوٹ نہ آئی ہو پچیس تیس کے قریب احمدیوں کو تو شدید زخم آئے.اور ان کے کپڑے خون آلود ہو گئے حتی کہ چھوٹے چھوٹے بچے بھی سخت زخمی ہوئے.مگر احمدی استقلال کے ساتھ کوہ وقار اور پیکر عزم و شجاعت بنے ہوئے ہر لحظہ " اللہ اکبر " اور "اسلام زندہ باد" کے نعرے بلند کرتے رہے.پتھروں کا سارا زور حضور کے اردگرد تھا.منتظمین جلسہ نے مشورہ دیا کہ یہاں سے بہت جانا چاہئے.مگر آپ نے تقریر کئے بغیر واپس جانے سے بالکل انکار کر دیا اور آخر مولوی عبدالرحیم صاحب درد (سیکرٹری آل انڈیا کشمیر کمیٹی) حضور کے ارشاد پر ڈپٹی کمشنر کے پاس گئے اور ان کو صورت حال سے باخبر کیا چونکہ زخمی متواتر ان کے پاس سے گزر رہے تھے اور وہ بھی سمجھ چکے تھے کہ اس سے زیادہ احمدیوں کی صبر آزمائی کا امتحان کرنا خطرناک نتائج پیدا کرے گا اس لئے انہوں نے پانچ منٹ کے اندر اندر مجمع کو منتشر ہونے کا حکم دے دیا.اس حکم کے بعد ابھی تین منٹ بھی نہیں گزرے تھے کہ قلعہ کا میدان صاف ہو گیا.اس پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے موٹر اور پر زور تقریر کی اور نہایت پر شوکت انداز میں فرمایا کہ ”جو لوگ دوسروں کی خاطر پتھر کھاتے ہیں ان پر ضرور پھول برستے ہیں.جو پتھر آج پھینکے گئے ہیں ان کے کھانے کی ہم میں اہمیت نہیں یہ خدا تعالٰی نے اس لئے پھینکوائے ہیں کہ کل کو پھول بن کر ہمیں لگیں ان سے سمجھ لینا چاہئے کہ کشمیر آزاد ہو گیا.یہ پتھر بھی جن لوگوں نے مارے ہیں انہوں نے اپنی طرف سے نہیں بلکہ کشمیر کی طرف سے مارے ہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ ریاست نے علاقہ پر رعایا کو قبضہ دے دیا.سو اللہ کے فضل سے ہم امید کرتے ہیں وہ مظلوم جو سینکٹروں سال سے ظلم و ستم کا 10
تاریخ احمدیت جلد ۵ et 484 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ شکار ہو رہے ہیں ان کی آہیں اور سسکیاں آسمان پر جا پہنچیں اور خدا تعالی نے ظالموں سے ظلم کی آخری اینٹیں پھینکوا ئیں تا اس ملک پر اپنا فضل نازل کرے ہم نے چاہا کہ مہاراجہ اور حکومت کے ادب کو قائم رکھتے ہوئے امن کے ساتھ بغیر اس کے کہ مہاراجہ کی عزت میں فرق آئے نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ کشمیر کی تمام رعایا کو اس کے حقوق دلائیں مگر اس کے نادان وزراء نے ایسا نہ چاہا.ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ ہم باہر رہیں گے اور اس کے گھر پر جا کر پتھر نہیں پھینکیں گے مگر ریاست نے ہمارے علاقہ میں ہم پر پتھر پھینکوائے اور ابتدا کی اور یہ مسلمہ ہے کہ البادي اظلم...لیکن ہمارا قلب وسیع ہے ہم ان ہاتھوں کو جنہوں نے پتھر پر سائے ان زبانوں کو جنہوں نے اس کے لئے تحریک کی اور اس کنجی کو جو اس کا باعث ہوئی معاف کرتے ہیں کیونکہ جس کام کا ہم نے بیٹر اٹھایا ہے اس کے مقابلہ میں یہ تکلیف جو ہمیں پہنچائی گئی بالکل معمولی ہے....پس کشمیر کو آزاد کرانے کے لئے اگر ہم نے چند پتھر کھائے تو یہ کیا ہے ہم نے شروع سے کوشش کی ہے کہ امن کے ساتھ کام کریں اور آئندہ بھی یہی کوشش کرتے رہیں گے.پھر حضور نے ڈوگرہ حکومت کے زہرہ گداز مظالم کے بعض چشم دید واقعات بیان کرنے کے بعد حاضرین جلسہ کو نہایت درد اور سوز سے تحریک آزادی کشمیر کے لئے ایک جھنڈے تلے جمع ہونے کی تلقین کی اور ارشاد فرمایا.کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ کشمیری مسلمانوں پر ایسی ایسی آفتیں اور مصائب نازل ہو رہی ہوں اور یہاں یہ جھگڑے پیدا کئے جائیں.حالانکہ چاہئے تھا کہ متحدہ کوشش سے ان کی تکلیف کو دور کیا جاتا.میں احرار کو نصیحت کرتا ہوں کہ اگر ان میں سے کوئی یہاں بیٹھا ہو تو جا کر اپنے دوستوں کو سنادے میں ان پتھروں کی کوئی پروا نہیں کرتا.اور اس وجہ سے ان پر کوئی غصہ نہیں انہیں چاہتے کہ کشمیر کے مظلوم بھائیوں کی خاطر اب بھی ان باتوں کو چھوڑ دیں.وہ آئیں میں صدارت چھوڑنے کے لئے تیار ہوں لیکن وہ عہد کریں کہ مسلمانوں کی اکثریت کے فیصلہ کی اتباع کریں گے.ان کے اخلاق آج ہم نے دیکھ لئے ہیں وہ آئیں ہمارے اخلاق بھی دیکھیں.میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ صدارت چھوڑ دینے کے بعد بھی میں اور میری جماعت بھی ان کے ساتھیوں سے بھی زیادہ ان کا ہاتھ بٹائیں گے صدارت میرے لئے عزت کی چیز نہیں.عزت خدمت سے حاصل ہوتی ہے.سید القوم خادمهم.اگر کام نہ کیا جائے تو صرف صدر بننے سے کیا عزت ہو سکتی ہے.وہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی مجنون کے.میں بادشاہ ہوں.بغیر خدمت کے اعزاز حاصل نہیں ہو سکتا.میرے ذمہ تو پہلے ہی بہت کام ہیں اتنی عظیم الشان جماعت کا میں امام ہوں اور اس قدر کام کرنا پڑتا ہے کہ بارہ ایک بجے سے پہلے شاید ہی کبھی سونا نصیب ہو تا ہو.میں نے تو یہ بوجھ صرف اس لئے اٹھایا ہے کہ کشمیری مسلمانوں کی آئندہ نسلیں دعائیں دیں گی.اور کہیں گی کہ اللہ تعالٰی ان
تاریخ احمدیت جلد ۵ 485 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ لوگوں کا بھلا کرے جن کی کوشش سے آج ہم آرام کی زندگی بسر کر رہے ہیں.ان کے لئے بھی موقع ہے کہ کشمیریوں سے دعائیں لیں ان کی دعا ئیں عرش الہی کو ہلا دیں گی.وہ کہیں گے الہی ! جن لوگوں نے ہمیں آزاد کرایا ہے تو بھی ان کو آزاد کر دے...........آخر میں سب حاضرین سے اور ان سب سے جن تک میرا یہ پیغام پہنچے کہتا ہوں کہ اٹھو! اپنے بھائیوں کی امداد کرو.اپنے کام بھی کرتے رہو مگر کچھ نہ کچھ یاد ان مظلوموں کی بھی دل میں رکھو جہاں اپنے خانگی معاملات اور ذاتی تکالیف کے لئے ہمارے دلوں میں ٹیسیں اٹھتی ہیں وہاں ایک ٹیس ان مظلوموں کے لئے بھی پیدا کرو.اور ان آنسوؤں کی جھڑیوں میں سے جو اپنے اور اپنے متعلقین کے لئے برساتے ہو.اور نہیں تو ایک آنسوان ستم رسیدہ بھائیوں کے لئے بھی ٹپکاؤ مجھے یقین ہے کہ تمہاری آنکھوں سے ٹپکا ہوا ایک ایک آنسو جس کی محرک سچی ہمدردی ہوگی.ایک ایسا دریا بن جائے گا.جو ان غریبوں کی تمام مصائب کو خس و خاشاک کی مانند بہا کر لے جائے گا اور اس ملک کو آزاد کر دے گا.(الفضل ۲۴ ستمبر ۱۹۳۱ء صفحه ۳-۹) ادھر اجلاس سیالکوٹ کے معابعد آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے جلسہ پر سنگباری کی گئی.ادھر ایک ہفتہ بعد ۲۱/ ستمبر ۱۹۳۱ء کو شیخ محمد عبد اللہ صاحب کو جو اسلامیہ سکول کے لئے چندہ جمع کر رہے تھے گرفتار کر لیا گیا گرفتاری کے خلاف احتجاج کرنے والے نہتے اور بے گناہ مسلمانوں کے ایک پر امن جلوس پر ریاستی پولیس اور فوج نے حملہ کر دیا.اس حملہ سے متعدد مسلمان شہید اور بیسیوں زخمی ہوئے.کشمیر کمیٹی کے نمائندہ چوہدری عصمت اللہ خان صاحب بی ایس سی.ایل ایل بی تھے.جنہیں شروع سے آخر تک تمام واقعات اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا موقع ملا آپ نے قادیان میں نہ صرف اس دردناک حادثہ کے چشم دید حالات بالتفصیل بھیجوا دیئے بلکہ جامع مسجد کا نقشہ بھی بھجوایا جو الفضل ۲۹ ستمبر ۱۹۳۱ء میں شائع کر دیا گیا.چوہدری صاحب نے مسلح سواروں اور شہداء کے فوٹو ارسال کئے اور ان کے خون سے رنگین کر کے ایک کپڑا بھی جس پر انہیں کے خون سے لکھ کر یہ الفاظ بھی بھیجے کہ " مقتول مسلمانوں کا خون صفحہ کاغذ پر مظلومیت کی آواز بلند کر رہا ہے ".سرینگر سے بھی زیادہ اسلام آباد میں مسلمانوں کا کشت و خون ہوا.جہاں ۲۳/ ستمبر ۱۹۳۱ء کو گولی مسلمانان سرینگر و اسلام آباد پر فوج کے مظالم - چلنے سے ۲۵ مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا اور ڈیڑھ سو سے زیادہ کے قریب زخمی ہوئے.اس کے علاوہ شوپیاں اور اس کے مضافات میں بعض مسلمانوں کو ان کے مکانوں میں نہایت بے دردی اور بے رحمی سے جلا دیا گیا.جب اہل کشمیر نے اس ظلم و ستم کو دیکھا تو انہوں نے ۲۴/ ستمبر ۱۹۳۱ء کو
تاریخ احمدیت جلده 486 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد به سرینگر اور مضافات میں مسلح بغاوت کی.اس پر حکومت نے ۲۶/ ستمبر۱۹۳۱ء کو ۱۹.ایل اور مارشل لاء بر ما آرڈنینس جاری کر دیا.تحریک آزادی کے لئے مسلسل قربانی کی تحریک مہاراجہ کشمیر اور ان کے افسروں کی اس عہد شکنی نے عارضی صلح نامہ کو خود بخود چاک کر دیا.اور اندیشہ پیدا ہو گیا تھا کہ ان مظالم سے یہ تحریک کہیں دب ہی نہ جائے.اس لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اہل کشمیر اور مسلمانان ہند دونوں کو تحریک آزادی کے لئے مسلسل قربانی کی پر جوش تحریک فرمائی کہ ”میرے نزدیک اپنی اور اپنی ملک کی سب سے بڑی خدمت یہ ہوگی کہ ہر باشندہ کشمیر جو آزادی کی خواہش رکھتا ہے یہی ارادہ کرلے کہ خواہ میری ساری عمر آزادی کی کوشش میں خرچ ہو جائے میں اس کام میں اسے خرچ کر دوں گا اور آگے اپنی اولاد کو بھی یہی سبق دوں گا.کہ اس کوشش میں لگی رہے اور اسی طرح قربانی کے متعلق ہر ایک شخص کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ آزادی جیسی عزیز شے کے لئے جو کچھ بھی مجھے قربان کرنا پڑے میں قربان کر دوں گا.اگر اس قسم کا ارادہ رکھا جائے گا تو لازماً درمیانی مشکلات معمولی معلوم ہوں گی اور ہمت بڑھتی رہے گی".ریاست کو کشمیر کی طرف سے کشمیری مسلمانوں کا اقتصادی بائیکاٹ کیا جارہا تھا اس ضمن میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے مسلمانان ہند کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی اور ایسی تدابیر رکھیں جن سے بائیکاٹ کی سکیم کو ناکام بنانے میں مدد مل سکتی تھی.• :
تاریخ احمدیت احمدیت جلد ۵ 487 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ (فصل بنم) مہاراجہ صاحب کی طرف سے ابتدائی حقوق دیئے جانے کا اعلان ریاست کشمیر کے حکام نے ظلم و ستم کی حد کر دی تھی.اور اصلاح احوال کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی.مگر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی مساعی جمیلہ کا بالآخر نتیجہ یہ ہوا کہ مہاراجہ ہری سنگھ صاحب نے ۵/ اکتوبر ۱۹۳۱ء کو اپنی سالگرہ کے موقعہ پر شیخ محمد عبد اللہ صاحب اور بعض دوسرے سیاسی قیدیوں کی عام رہائی کا اعلان کر دیا.مارشل لاء ختم کر دیا اور مسلمانوں کے حقوق و مطالبات پر ہمدردانہ غور کرنے کا بھی وعدہ کیا.اس عظیم الشان تغیر پر جو حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی زبر دست جد و جہد اور آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی کوششوں سے رونما ہوا تھا شمس العلماء خواجہ حسن نظامی صاحب نے اپنے " روزنامچہ " مورخه ۲۴ / اکتوبر ۱۹۳۱ء) میں لکھا.حقیقت یہ ہے کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی اور اس کے اراکین کی اندرونی کوششوں کا یہ نتیجہ ہے.بے شک احرار کمیٹی کے کام کا بھی اثر پڑا ہے اور مہاراجہ کی سالگرہ کا بھی کچھ نہ کچھ اس سے تعلق ہے لیکن زیادہ اثر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے ولایتی پراپیگنڈا کا ہے.آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے صدر نے ممتاز مسلمانوں کے ذریعہ لندن میں کوشش کی.انگلستان کے بڑے بڑے اخباروں میں ریاست کشمیر کے مظالم کی اطلاعیں شائع ہوئیں اور اخباروں نے ریاست کشمیر کو مطعون کیا.اور مسلمان لیڈروں نے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے صدر کی تحریک کی وجہ سے وزیر ہند پر زور ڈالا.اور وائسرائے نے ریاست کی حکومت پر زور ڈالا.جب یہ نتیجہ نکلا.آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے صدر اور سیکرٹری اور اراکین کی ایک خوبی یہ ہے کہ انہوں نے اس موقع پر مسلمانوں کو باہمی تفریق سے بچانے کی کوشش کی.ورنہ بعض مسلمان ریاست کی حکمت عملی کا شکار ہو گئے.اور انہوں نے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے صدر اور سیکرٹری کی نسبت یہ لکھنا اور کہنا شروع کر دیا تھا کہ وہ صحیح عقیدہ کے مسلمان نہیں اس واسطے مسلمان ان کے ساتھ کام نہیں کر سکتے مگر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے صدر اور سیکرٹری اور اراکین نے نہایت عقلمندی اور صبر و ضبط سے کام لیا.ورنہ بات بڑھ جاتی اور مسلمان آپس میں لڑنے لگتے اور کشمیر کی حمایت کا کام رک جاتا اور کشمیر کے مسلمانوں پر بہت زیادہ ظلم ہونے لگتے.کیونکہ ریاست کے حکام مسلمانوں کی خانہ جنگی سے مضبوط ہو جاتے ".
جلد ۵ 488 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ عین اس وقت جبکہ جنگ آزادی مہاراجہ صاحب حضرت خلیفہ المسیح کا ایک اہم اعلان تشہیر کے اعلان کے بعد ایک اہم مرحلہ میں داخل ہو گئی امام جماعت احمدیہ کو یہ اطلاعات پہنچیں کہ بعض حلقے یہ پراپیگنڈا بھی کر رہے ہیں کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے پردہ میں تبلیغ احمدیت کی جارہی ہے.اس پر حضور نے مندرجہ ذیل اہم اعلان لکھا جو انقلاب ۷ / اکتوبر ۱۹۳۱ء میں شائع ہوا."میرے نزدیک ایسا فعل یقینا بد دیانتی ہے.لیکن اللہ تعالٰی کے فضل سے ہم اس بد دیانتی سے محفوظ ہیں.میں اس انکار کے ساتھ سب احمدیوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ کشمیر کی خدمت ایک انسانی ہمدردی کا فعل ہے اس نیکی کو کسی ایسی غلطی سے جو بد دیانتی کا رنگ رکھتی ہو خراب نہ کریں اور دوسرے مسلمانوں سے مل کر پوری تندہی سے خالص بر اور ان کشمیر کے نفع کو مد نظر رکھ کر سب کام کریں".مہاراجہ کے سامنے مسلم وفد کے مطالبات آل ال یا شیر کملی نے جلاس سیالکوٹ میں انڈیا فیصلہ کیا تھا کہ مسلمانان ریاست جلد از جلد اپنے مطالبات پیش کر دیں اس فیصلہ کے بعد خود مہاراجہ نے اپنی سالگرہ کے موقعہ پر مطالبات پر غور کرنے کا اعلان کر دیا تھا لہذا ضرورت تھی کہ فوری طور پر مسلمانوں کا ایک وفد مہاراجہ کے سامنے مطالبات پیش کر دے.چنانچہ مسلمانان جموں وکشمیر کے نمائندگان (جناب مستری یعقوب علی صاحب اور چوہدری عباس احمد صاحب نے) حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کی خدمت میں حاضر ہو کر مشورہ کیا ازاں بعد مسودہ مطالبات تیار کیا گیا اور مشہور زعمائے کشمیر نے اس پر کافی غور و بحث کی اور اسے آخری اصطلاحی اور قانونی شکل دینے کی غرض سے شیخ محمد عبد اللہ صاحب نے حضور کو تار دیا.کہ اپنے ذمہ دار نمائندوں کو کشمیر بھجوائیں.تادہ آخری شکل دے کر مہاراجہ کے سامنے پیش کر سکیں.یہ بار قادیان میں ۱۴/ اکتوبر ۱۹۳۱ء کو پہنچا چنانچہ حضور کی ہدایت پر مولوی عبد الرحیم صاحب ورد مولوی محمد یعقوب خان صاحب ایڈیٹر اخبار " لائٹ" (لاہور) مولوی عصمت اللہ صاحب اور چوہدری ظهور احمد صاحب سرینگر پہنچ گئے.چوہدری ظہور احمد صاحب کا بیان ہے."ہم سرینگر کی چیکنگ پوسٹ پر پہنچے تو ریاست کا ایک سیکرٹری کار لے کر موجود تھا.مولانا عبد الرحیم درد کے متعلق دریافت کر کے ان سے ملا اور درخواست کی کہ آپ لوگوں کی رہائش کا انتظام ریاست کے بڑے گیسٹ ہاؤس میں ہے.اور میں کار لے کر آپ کو لینے کے لئے آیا ہوا ہوں.وزیر اعظم صاحب نے مجھے بھجوایا ہے.
تاریخ احمدیت جلد ۵ 489 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ مولانا درد نے جواب دیا کہ ہم تو ان کے مہمان ہیں جنہوں نے ہمیں بلوایا ہے اس نے بہتیرا زور مارا لیکن محترم در دو صاحب نے نہ مانا تھا نہ مانے.اور ہم چیکنگ سے فراغت حاصل کرنے کے بعد اپنی کرایه والی کا رہی پر امیرا کدل پہنچے.شیخ محمد عبد الله ( صاحب) اور ان کے رفقاء استقبال کے لئے موجود تھے سب بہت خوشی سے ملے.ان کے حوصلے بلند ہو گئے.میں نے آتے ہی اپنے کمرہ میں دفتر لگایا.ہم دفتر کا تمام ضروری سامان ٹائپ رائٹر وغیرہ ساتھ لے گئے تھے.یہ وہ تاریخی ٹائپ رائٹر تھا.جس نے کشمیریوں کی امداد میں لاکھوں لفظ ٹائپ کئے.اور ان کا تاریخی میموریل بھی اس پر ٹائپ ہوا.جو مہاراجہ کو پیش کیا گیا.آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے لمبے اور گہرے مطالعہ اور نمائندگی کشمیر کے مشورہ سے مطالبات کا جو مسودہ انگریزی زبان میں تیار کیا تھاوہ ان کے سپرد اس غرض سے کر دیا گیا کہ اس پر پورے گیارہ نمائندے پھر غور کریں اور اگر کسی جگہ ترمیم کی ضرورت سمجھیں تو کریں....کئی گھنٹہ کے غور و فکر کے بعد نمائندگان کشمیر نے اس میں کسی کسی جگہ ترمیم کی.البتہ ان ترمیموں کی صرف زبان مولانا یعقوب خان صاحب ایڈیٹر لائٹ (LIGHT) لاہور اور مولانا درد صاحب نے درست کی.جب اس مسودہ پر سب نمائندگان کو شرح صدر ہو گیا تو وہیں راقم الحروف نے اسے ٹائپ کیا اور رات گئے یہ کام ختم ہوا.دوسرے دن....پھر خور ہو تا رہا.چند الفاظ کی کمی و بیشی ہوئی.اور اس کے بعد میں نے اس مسودہ کو آخری شکل میں ٹائپ کر دیا.اور اس ٹائپ شدہ میموریل کی ایک کاپی (بطور ایڈوانس) ای روز اور دوسری کاپی ۱۹ / اکتوبر ۱۹۳۱ء کو حسب پروگرام نمائندگان نے خود مہاراجہ کے سامنے جا کر پیش کی.مہاراجہ کشمیر نے مظالم کی حضرت خلیفہ المسی الثانی کا تار مہاراجہ کشمیر کے نام تحقیقات کے لئے جو "ولال کمیشن مقرر کیا تھا اس نے سراسر جانبدارانہ رپورٹ کی جس پر ریاست کے بدعنوان افسروں کی حوصلہ افزائی ہوئی اور جموں میں فوج نے درجنوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا.جموں سے یہ خبر ملنے پر حضور نے نومبر کے آغاز میں مہاراجہ کشمیر سے بذریعہ تار اپیل کی کہ وہ اپنی رعایا اور احراری جتھوں کو جو سیاسی جرائم میں گرفتار اور سزا یاب ہوئے رہا کر دیں.دلال رپورٹ کو منسوخ کر دیں اور تمام فسادات کی تحقیقات کے لئے ایک آزاد کمیشن مقرر کیا جائے.کمیشن کا صد رہا ہر کے ہائی کورٹ کا غیر جانبدار حج ہو.جس کو حکومت ہند مقرر کرے اور اس میں مسلمانوں کی کافی نمائندگی ہو.نیز نومبر کے آخری ہفتہ تک مسلمانوں کی شکایات کا ازالہ اور ابتدائی حقوق کے متعلق اعلان کر دیا جائے - 1
تاریخ احمدیت جلد ۵ 490 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد یہ مہاراجہ کی طرف سے ابتدائی اس تار پر ابھی چند روز ہی گزرے تھے کہ مہاراجہ صاحب کشمیر نے رعایا کو ۱۲/ نومبر حقوق دیئے جانے کا اصولی اعلان ۱۹۳۱ء کو ابتدائی انسانی حقوق دینے کا مفصل اور پتھر مسجد کی واگزاری! اعلان جاری کر دیا.جو آل انڈیا کشمیر کمیٹی اور تحریک آزادی کشمیر کی پہلی شاندار فتح تھی.حالانکہ جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ شروع شروع میں حکومت ہند ریاست کشمیر کے معاملہ میں مداخلت کرنے سے گریز کرتی تھی لیکن اس کے بعد اللہ تعالٰی نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی حکمت عملی فہم و تدبر اور آئینی جدوجہد کے نتیجہ میں تحریک آزادی کو ایسی طاقت حاصل ہو گئی کہ ایک طرف وائسرائے ہند کو دخل دینا پڑا دو سری طرف کشمیر گورنمنٹ کو جھکنا پڑا اور اس نے دوبار حضور کو پیغام بھیجا کہ آپ جموں آئیں اور مہاراجہ صاحب سے مل کر فیصلہ کرلیں.آپ کی گفتگو کے بعد جن حقوق کے متعلق اتفاق ہو گا.وہ کشمیر کے مسلمانوں کو دے دیئے جائیں گے حضور نے جواب دیا کہ میرے فیصلے کا کوئی سوال نہیں کشمیر کے مسلمانوں کے حقوق کا فیصلہ ہوتا ہے اور یہ فیصلہ کشمیر کے نمائندے ہی کر سکتے ہیں.میں نہیں کر سکتا.میں نہیں چاہتا کہ میں آؤں اور آپ سے باتیں کر کے کچھ فیصلہ کرلوں.بلکہ میں چاہتا ہوں کہ جن لوگوں کے حقوق کا سوال ہے ان کے نمائندوں کو بات کرنے کا موقعہ دیا جائے.بالآخر وزیر اعظم کشمیر ہری کشن کول نے پیغام بھیجا کہ " آپ اپنے نمائندے بھجوائیں جن سے وقتا فوقتا بات چیت کی جاسکے جس پر حضور نے مولوی عبدالرحیم صاحب در وایم.اے اور مولوی محمد اسمعیل صاحب غزنوی کو بطور نمائندہ بھیجوا دیا - ۱۰ / دسمبر ۱۹۳۱ء کو وزیر اعظم ریاست کشمیر کے پرائیویٹ سیکرٹری جیون لعل نے پرائیوٹ سیکرٹری (حضرت خلیفتہ المسیح الثانی) کو مندرجہ ذیل خط لکھا.تعلیم! آپ کا گرامی نامه مورخه ۳/ نومبر ۱۹۳۱ء جناب حضور والاشان پرائم منسٹر صاحب بہادر کے ملاحظہ سے گزرا.مختصر اجواب عرض کرتا ہوں کہ ابتداء سے یہ کوشش کی جارہی ہے کہ مسلمانان کشمیر کو ابتدائی جائز حقوق دینے میں بے حد جلدی کی جاوے.اور خاص طور پر گزشتہ ایک ہفتہ سے تو شب و روز سوائے اس کام کے پرائم منسٹر صاحب کسی دوسرے کام کی طرف متوجہ نہیں البتہ دو تین روز کے لئے جموں کے واقعات نے مجبور کیا.کہ وہاں پرائم منسٹر صاحب خود تشریف لے جائیں.جموں کے واقعات نے جس کے ذمہ دار احرار ہیں.معالمہ مطالبات کو قدرے التوا میں ڈال دیا.اور صدر صاحب کے ساتھ گفت و شنید یا خط و کتابت میں بھی دیر محض اسی وجہ سے ہوئی.....علاوہ بریں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے نمائندگان نے مقیمی سرینگر عبد الرحیم صاحب در داور مولانا اسمعیل غزنوی صاحب
تاریخ احمدیت جلده 491 IN تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ کے ساتھ اکثر تبادلہ خیالات ہو تا رہتا ہے.اور میں یقین کرتا ہوں کہ وہ آپ کو بتلا سکیں گے.کہ حکومت ہند نے اس معاملہ میں کس قدر دلچسپی لی ہے...کسی قدر یہ ہمیں تسلی بھی تھی کہ صدر صاحب خود ریاست کی سرحد پر آکر اپنے نمائندگان سے مل گئے ہیں اور تمام حالات معلوم کر گئے ہیں.ا اصدر صاحب کو معلوم ہو گیا ہو گا کہ مساجد وغیرہ کے اعلان میں صدر صاحب اور ہماری منشاء کے خلاف ہمیں اعلان کو جلد شائع کرنے کے لئے کس طرح سے رائے دی گئی.جو مجبوری کی حد تک پہنچ گئی...کہ ہمیں کشمیر کے نمائندوں نے مجبور کیا تھا کہ ہم اس قسم کا اعلان کر دیں آپ نے صدر صاحب کے خیال کو اس شکل میں رکھا ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم معاملہ کو لمبا کرنا چاہتے ہیں اور سنجیدگی کے ساتھ کسی مفید نتیجہ پر پہنچنے کی غرض سے گفتگو کرنا ہمارا مقصد نہیں یہ محض غلط فہمی ہے افسوس ہے کہ صدر صاحب نے ہماری مصروفیت اور مشکلات کا اندازہ نہیں کیا.لیکن ہر بات کا علاج وقت اور میعاد ہے.صدر صاحب عنقریب یقین کرنے پر تیار ہو جاویں گے کہ ہم معاملہ کو لمبا کرنا چاہتے ہیں یا مختصر؟ اور کہاں تک اس کے مشورہ صائب کے مطابق عمل کر رہے ہیں آپ کے لکھنے کے مطابق صدر صاحب کی خواہش محض مسلمانان کشمیر کو حقوق دلوانے کی ہے جس میں حکومت پورے طور سے خود مصروف ہے.آپ کا صادق جیون لعل - پرسنل اسٹنٹ ".اگلے دن ۱۱/ نومبر ۱۹۳۱ء کو وزیر اعظم کے پرسنل اسٹمنٹ نے مولوی عبد الرحیم صاحب درد کو چٹھی لکھی کہ وزیر اعظم صاحب ابتدائی حقوق دینے کو تیار ہیں.ایسا ہی وہ حکومت کی پالیسی کا بھی فیصلہ کریں گے آپ اور صوفی عبد القدیر صاحب بھی تشریف لائیں.چنانچہ یہ اصحاب وزیر اعظم کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے ملنے کے بعد وزیر اعظم نے ابتدائی حقوق کے اعلان کا مسودہ تیار کیا اور اس کی ایک نقل ریذیڈنٹ کشمیر مسٹر لیٹیمر (MR.LATIMAR) کو بھی بھجوادی.مسٹریٹیمر نے ۱۲/ نومبر ۱۹۳۱ء کو مولوی عبدالرحیم صاحب درد سے تشریف لانے کی خواہش ظاہر کی.چنانچہ آپ رات کے دو بجے ریزیڈنسی پہنچے وہاں مسٹریٹیمر کے ساتھ مسٹر گلینسی بھی بیٹھے ہوئے تھے جو کشمیر کے فساد دور کرنے کے لئے جموں گورنمنٹ کے ساتھ وابستہ کئے گئے تھے.وہاں کیا گفتگو ہوئی ؟ یہ بھی ایک دلچسپ بات ہے جس کی تفصیل حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے الفاظ میں یہ ہے.و مسٹرو رو کے پہنچتے ہی مسٹر کلینسی نے نہایت ہی گستاخانہ لہجہ میں کہنا شروع کیا.کہ آپ نے اس اعلان کی مخالفت کی تو میں آپ لوگوں کو قید کر دوں گا.اور سزائیں دوں گا.نیز کہا آپ لوگ ریاست کی مخالفت سے باز نہ آئے تو وائسرائے کو آپ کے خلاف رپورٹ کر دوں گا.اور گور نمنٹ آف انڈیا کو لکھوں گا جب مسٹر کلینسی نے اس رنگ میں بات کی تو درد صاحب نے بھی مناسب سمجھا کہ اس کو اس
تاریخ احمدیت.جلده 492 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ کی پوزیشن سے واقف کیا جائے انہوں نے کہا کہ اگر آپ وائسرائے کے پاس پہنچ سکتے ہیں تو میں بھی سیکرٹری آف سٹیٹ فار انڈیا کے پاس جا سکتا ہوں اس پر کلینسی نے رویہ بدل لیا.اور کہا کہ اگر آپ لوگوں نے مخالفت کی تو میرا مستقبل بالکل تباہ ہو جائے گا.تب مسٹر لیٹیمر جو کہ گلینسی سے زیادہ ہوشیار تھے انہوں نے درد صاحب کو اپنی طرف مخاطب کر لیا اور کہا کہ آپ بتائیں کہ جو اعلان حقوق کا ہوا ہے.اس سے آپ متفق ہیں یا نہیں؟ درد صاحب نے کہا کہ ابھی میں نے اس پر غور نہیں کیا.مسٹریٹیمر نے بکس سے پمفلٹ نکال کر ان کو دے دیا کہ آپ اس کو پڑھ لیں.جب انہوں نے اسے پڑھ لیا.تو مسٹر لیٹیمر نے کہا کہ اب میں آپ کو پڑھ کر سنانا چاہتا ہوں.جو بات درست ہو اس کی تصدیق کر دیں.اور جو غلط ہو وہ بتا دیں.چنانچہ مسٹر لیٹیمر نے اس اعلان کو پڑھنا شروع کیا اس کی اکثر باتوں کی درد صاحب نے تصدیق کی.اور دو باتوں کے خلاف کہا.اس پر مسٹریٹیمر نے خواہش ظاہر کی کہ کم سے کم کل جو سرینگر میں جلسہ ہو گا اس میں اس کو کلی طور پر رد نہ کیا جائے.اور اس کے جو پوائنٹ اچھے نظر آتے ہیں اس کی مخالفت نہ کریں.درد صاحب نے کہا یہ تو طبعی بات ہے اور درست ہے اور ہم ایسا ہی کریں گے مگر جو غلط بات ہے اس کی ہم تردید بھی کریں گے.اس پر مسٹریٹیمر نے مسٹر کلینسی سے کہا کہ بس بات ٹھیک ہو گئی.اکثر باتوں سے ان کو اتفاق ہے اور جن باتوں کو یہ صحیح سمجھتے ہیں ان کی خواہ مخواہ تردید کرنے کے لئے یہ آمادہ نہیں ہیں جب وہ یہ کہہ چکے تو درد صاحب نے ان کو بتایا کہ اس میں اکثر امور وہی ہیں جو ہم نے گورنمنٹ آف انڈیا اور گورنمنٹ آف کشمیر کے ذریعہ خود منظور کرائے ہیں.ان کی ہم مخالفت کس طرح کر سکتے ہیں.چنانچہ دو گھنٹے کی گفتگو کے بعد ریذیڈنٹ کا موٹر درد صاحب کو واپس ان کے ہاؤس بوٹ (میں) چھوڑ گیا".المختصر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی مسلسل سعی وجدوجہد کے نتیجہ میں مہاراجہ صاحب کشمیر نے ۱۲/ نومبر ۱۹۳۱ء کو ابتدائی حقوق آزادی دینے کا تاریخی اعلان کر دیا.جس کا مکمل متن یہ تھا.( یہ اعلان ۱۱/ نومبر ۱۹۳۱ء کا لکھا ہوا تھا) " HA مہاراجہ صاحب کشمیر کا قابل تعریف اعلان رعایا کو ضروری حقوق دینے کا اقرار کچھ عرصہ سے میری توجہ اس قسم کی بعض خاص شکایات کی طرف مبذول رہی ہے جن کا مفاد یہ ہے کہ میری ریاست میں مذہبی آزادی پر قیود موجود ہیں.ان شکایات کی وجہ سے مجھے بہت ہی سخت ایذا
تاریخ احمدیت.جلدة 493 تحریک آزادی کشمیر ا د ر جماعت احمدیہ پہنچی ہے اور میں اپنی رعایا کو یقین دلاتا ہوں کہ ہمیشہ میری یہ خواہش رہی ہے اور میری حکومت کی حکمت عملی (پالیسی) رہی ہے کہ ریاست کی آبادی کے ہر گروہ کو مکمل ترین آزادی حاصل ہو کہ وہ جس مذہب کی پابند ہو وہ اس مذہب پر عمل پیرا رہ سکے میری خواہش یہ ہے کہ اس معاملہ کے متعلق جو غلط فہمی ابھی موجود ہے فی الفور رفع ہو جائے.اور اس پالیسی کے نفاذ میں ماتحت حکام سے جو غلطی بھی سرزد ہو وہ ظاہر کی جائے اور اس کا ازالہ کیا جائے.گلانسی کمیشن کا ذکر میری درخواست پر بیرون ریاست سے ایک غیر جانبدار افسر کی خدمات حکومت ہند نے میرے سپرد کی ہیں.مدعا یہ ہے کہ یہ افسران شکایات کی تحقیقات کرے.جو اس وقت موجود ہیں اور ان کے ازالہ کے لئے سفارشات مرتب کرے.جس افسر کو میں نے اس غرض سے منتخب کیا ہے ان کا نام مسٹر جے.بی گلانسی صاحب کی.آئی.اسی ہے.ان صاحب کو اہل کشمیر سے متعارف کرانے کی چنداں ضرورت نہیں.اس لئے کہ آج سے چند ہی سال قبل انہوں نے غلہ کے انضباط کے طریق کار کے متعلق ریاست اور اہل ریاست کی جو بیش بہا خدمات کی تھیں وہ سب کو خوب معلوم ہیں غلہ کے متعلق ہر قسم کا کام کرنے والوں کو پہلے جن مشکلات سے سابقہ پڑتا تھا وہ خوش قسمتی سے رفع ہو گئی تھیں.اور ان کے رفع ہونے سے سب کو آرام اور نفع حاصل ہوا تھا جس کے لئے ہم ان تدابیر کے ممنون ہیں جو میری حکومت نے مسٹر گلانسی کے مشورہ کے بعد اختیار کی تھیں.لہذا مجھے امید اور یقین ہے کہ مسٹر گلائسی کو میری رعایا کا اعتماد حاصل ہو گا.اور کہ میری رعایا کی تمام جماعتیں اس کام میں جو مسٹر موصوف کو درپیش ہے ان کا ہاتھ بٹائیں گی.پرامن فضا کی ضرورت: میری ہدایات کے مطابق مسٹر گلائسی نے مختلف فرقوں کے نمائندوں سے تبادلہ خیالات کیا.اور ان کے ساتھ موجودہ حالت کی ہر صورت پر نہایت صفائی سے بحث کی.ان کا مدعا یہ تھا کہ پر امن فضا پیدا ہو جائے.اس لئے کہ تحقیقات کے کامیابی سے پورا ہونے کے لئے ایسی فضا کا وجود ناگزیر ہے.مسٹر گلانسی کے مددگار: اس تحقیقات میں مسٹر گلانسی کے چار غیر سرکاری آدمی مددگار ہوں گے جن میں سے دو مسلمان اور دو ہندو ہوں گے ان چار آدمیوں کو ان کی قوموں کے مصدقہ نمائندوں نے نامزد کیا ہے لہذا یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ اپنی اپنی قوم کے مفاد کے نہایت مناسب اور پورے پورے نمائندہ ہیں.شکایات کی تحقیقات: اس کمیشن کا پہلا کام یہ ہو گا.کہ یہ میری ریاست میں کسی جماعت کا جو مذہب ہو اسی مذہب کی آزادانہ پیروی میں جو حالات یا واقعات کسی طرح بھی حائل ہوں ان کے
تاریخ احمدیت جلد ۵ 494 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ متعلق اب تک جو شکایتیں میرے روبرو بغرض غور پیش ہو چکی ہیں ان کی جو تازہ شکایات کمیشن کے رو برو پیش کی جائیں گی ان کی تحقیقات کرے.مساجد وغیرہ کی واپسی: اس تحقیقات میں ان مقامات و عمارات کی واپسی کے دعاوی کی تحقیقات بھی شامل ہو گی.جن کا مقصد یہ ہو گا کہ ایسی عمارات اور ایسے مقامات جو اس وقت حکومت کے قبضہ میں ہیں اور جن کو رعایا کی کوئی جماعت ایسا مقام یا ایسی عمارت سمجھتی ہے جو کہ وہ کسی مذہب کے شعار کی پیروی کے لئے مخصوص ہیں اور اس سے قبل جو احکام میں جاری کر چکا ہوں ان میں ان ، مقامات یا عمارتوں کا تذکرہ نہیں ہوا.میری حکومت کا مشا ہر گز یہ نہیں ہے کہ وہ کسی ایسی عمارت یا کسی ایسے مقام پر قبضہ کئے رہے جس کے متعلق یہ معلوم ہو کہ وہ مقام یا عمارت کسی مذہب کے شعار کی پیروی کے لئے مخصوص تھی.اور جن ایسے مقامات یا عمارات کے متعلق کوئی جھگڑا نہیں ہو گا.ان کی واپسی کی تدابیر اختیار کی جائیں گی.نیز میری رعایا کا کوئی گروہ اگر کوئی ایسی فرقہ وار یا تمدنی شکایت ظاہر کرے گا جو اس گروہ کے خیال میں اس کے مذہب کے شعار کی پابندی کے راستہ میں حائل ہو تو گلانسی کمیشن اس کی بھی تحقیقات کرے گا.دیگر شکایات کی تحقیقات: اس کے بعد یہ کمیشن ان شکایات کی تحقیقات کرے گا.جو عام قسم کی ہوں اور جن کا کسی مذہب کے شعار کی پابندی سے کوئی تعلق نہ ہو.شکایات کا ازالہ کب ہو گا؟ ان تمام امور کے متعلق یہ کمیشن ممکن الوجود سرعت سے کام کرے گا.اور اپنی رپورٹ اپنی سفارشات کے ساتھ میری حکومت کے رو برو پیش کرے گا جن کے موصول ہوتے ہی بلا تاخیر مزید میری حکومت اس رپورٹ اور ان سفارشات کے متعلق مناسب کارروائی کرے گی اور جو احکام ضروری معلوم ہوں گے وہ نافذ کئے جائیں گے.آزادی تحریر و تقریر و اجتماع: میری خواہش یہ ہے کہ ریاست میں جو قوانین اس وقت جماعتیں اور انجمنیں بنانے کے متعلق اور اخبارات کے ذریعہ سے یا جلسوں میں اظہار خیالات کی آزادی کے متعلق اور دوسرے ایسے معاملات کے متعلق رائج ہیں.ان کو بہتر بنایا جائے.تاکہ جہاں تک میری رعایا کی بہبود اور اس کے امن سے زندگی گزارنے کی مقتضیات اجازت دیں.ان قوانین کو ریاست میں ان قواعد کے مطابق بنایا جائے جو اس وقت ایسے معاملات کے متعلق برطانوی ہندوستان میں رائج و نافذ ہیں.اس لحاظ سے ریاست کے قوانین میں تغیر و تبدل مسٹر گلانسی کے مشورہ کے مطابق ہو گا.اور یہ کام فی الفور شروع کر دیا جائے گا.دستور اساسی کا مسئلہ : جیسے کہ میں قبل ازیں اعلان کر چکا ہوں میری نیت یہ ہے کہ ایسے
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 495 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ ذرائع پیدا کئے جائیں.کہ میری رعایا کو ریاست کی حکومت میں دخل حاصل ہو جائے میں چاہتا ہوں کہ ہر قوم کے نمائندوں کو مناسب موقع دیا جائے کہ وہ ریاست کے معاملات کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کر سکیں اور حکومت کے نظام میں دخل اور امداد بھی دے سکیں.کشمیر میں گول میز کانفرنس: میرا ارادہ یہ ہے کہ جب متذکرہ بالا کمیشن موجودہ شکایات و تکالیف کی تحقیقات کا کام ختم کر چکے تو میں ایک ایسی کا نفرنس طلب کروں جس کے صدر مسٹر گلانسی ہوں اور جس میں میری رعایا کے تمام فرقوں کے نمائندے شامل ہوں.تاکہ اس کانفرنس میں دستور اساسی میں اصلاحات کی ترویج کے بہترین و مناسب ترین ذرائع پر تبادلہ خیالات ہو سکے.اور اس تبادلہ خیالات کے نتائج کے موافق میرے غور اور میرے احکام کے لئے سفارشات مرتب کی جاسکیں.بعض مناسب احکام کا نفاذ: اس تحریر کے ساتھ میری حکومت کے بعض اعلانات کئے گئے ہیں ان سے معلوم ہو گا کہ امور ذیل کے متعلق احکام نافذ کر دیئے گئے ہیں.اول - جن افسروں کو گزشتہ فسادات کے سلسلہ میں محکمانہ طور پر سزادی گئی تھی.ان کو پھر بحال کر دیا گیا ہے.دوم.حال ہی میں جن لوگوں کو سیاسی جرائم کی وجہ سے سزا ملی ہے.ان کے لئے اپیل کی میعاد وسیع کر دی گئی ہے.سوم - گزشتہ چار ماہ میں جو فسادات ہوئے ہیں ان کی وجہ سے جو فاقہ مست ہو گئے ان کو فی الفور امداد دی جائے.چہارم - سرینگر میں اول اول جو فسادات ہوئے ہیں ان کی تحقیقات کے لئے جو (دلال) کمیٹی مقرر ہوئی تھی اس کی تحقیقات کے بعد جو فسادات رونما ہوئے ان کی اور ان فسادات کو دبانے کے لئے ریاست نے جو وسائل اختیار کئے ہیں ان کی تحقیقات کے لئے ایک افسر مقرر کیا گیا ہے.(دستخط) ہری سنگھ مہاراجہ سرینگر مورخه ۱۱/ نومبر ۱۹۳۱ء " - مہاراجہ صاحب نے اس سلسلہ میں سب سے پہلا اور فوری قدم یہ اٹھایا کہ پتھر مسجد جس پر ریاست کا مدت مدید سے قبضہ تھا اور سرکاری گودام کے طور پر استعمال ہوتی تھی بڑی فراخدلی کے ساتھ مسلمانوں کے سپرد کر دی.اس مسجد کی رسم افتتاح بڑے جوش و خروش کے ساتھ ۲۹ / نومبر ۱۹۳۱ء کو عمل میں آئی یہ دن مسلمانان ریاست کے لئے سچ سچ جشن عید کا دن تھا اس تقریب پر پچاس ہزار مسلمانوں کا ایک عظیم الشان جلسہ منعقد ہوا.جس میں کشمیری مسلمانوں کے مشہور لیڈروں نے خطاب کیا.اور اس میں متفقہ طور پر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے شکریہ کی قرار داد منظور کی.چوہدری ظہور احمد صاحب جو آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے دوسرے ممتاز نمائندوں کے ساتھ اس تقریب میں خاص طور پر مدعو تھے اور اعزازی مہمانوں کی حیثیت سے سٹیج پر تشریف فرما تھے.تحریر فرماتے ہیں." را قم الحروف اس جلسہ میں شروع سے آخر تک موجود رہا.تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد "اللہ اکبر ".۱۲۰
تاریخ احمدیت جلده 496 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ اسلام زندہ باد اور صدر کشمیر کمیٹی زندہ باد" کے نعرے بلند ہوتے تھے.اور حاضرین خوشی سے اچھلتے تھے اس جلسہ میں جو تین ریزولیوشن متفقہ طور پر منظور ہوئے ان میں سے سب سے پہلا آل انڈیا کشمیر کمیٹی اور اس کے محترم صدر کے شکریہ پر مشتمل تھا.جلسہ سے فراغت کے بعد ہم لوگ کچھ دیر ٹھہرنے کے بعد جب شام کے بعد اپنے ہاؤس بوٹ پر پہنچے تو ہمار ا ہاؤس بوٹ پھولوں بہاروں اور بجلی کے قمقموں سے روشن تھا.اور گھاٹ پر بھی چرانماں تھا.یہ سب کام رضا کاروں نے خود بخود کیا تھا.ان میں بخشی غلام محمد اور خواجہ غلام قادر ڈکٹیٹر خواجہ غلام محمد صادق اور خواجہ غلام محی الدین قره پیش پیش تھے اور یہ سب دوسرے رضا کاروں کے ہمراہ رہاں موجود تھے.ہمارے ہاؤس بوٹ پر پہنچتے ہی ان لوگوں نے خوشی سے پھر نعرے لگائے ".
تاریخ احمدیت جلده 497 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ حواشی قرار داد آل انڈیا کشمیر کمیٹی اجلاس لاہور) تو میرا.گاندھی جی کے اخبار ینگ انڈیانا / جنوری ۱۹۲۵ء میں ایک مضمون شائع ہوا تھا.جسے INDULAL KA TAJNIC" نے اپنی کتاب HIM GANDHI AS I KNOW - صفحہ ۳۸۰ پر نقل کیا.جس سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے.کہ کانگریس اس زمانہ میں راجوں مہاراجوں کے مخالف نہیں.بلکہ بالواسطہ طور پر جاتی تھی.یہ کتاب دانش محل فیض تشنج دہلی نے اپریل ۱۹۴۳ء میں AB HIM شائع کی تھی..اسی وجہ سے بعض مسلمانوں نے کانفرنس کے انعقاد کی مخالفت کی تھی.(الفضل ۱۰/ جنوری ۱۹۳۲ء صفحہ ۳ کالم ۲) اخبار اصلاح سرینگر ۱۲۷ نومبر ۱۹۳۳ء صفحہ ۲ کالم ۲.ه الفضل ۲۴ ستمبر ۱۹۳۱ء صفحه ۴ کالم ۱-۲- - براوران ریاست کے نام تیسرا پیغام صفحہ 1.سیکرٹری آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے 1/ اکتو بر ۱۹۳۱ء کو اعلان کیا کہ بعض آل انڈیا کشمیر کمیٹیاں دریافت کرتی ہیں کہ مجلس احرار کے متعلق ان کا رویہ کیا ہونا چاہئے ان سب کی اطلاع کے لئے لکھا جاتا ہے کہ مجلس احرار بھی اسی کام کے لئے کھڑی ہوئی ہے جس کے لئے آل انڈیا کشمیر کمیٹی.اس لئے ہمارا رویہ ان کے متعلق ہمدردانہ ہونا چاہئے.ہمیں اپنے پروگرام کی طرف پوری توجہ کرنی چاہئے لیکن اگر کوئی مرد ان کے پروگرام میں ہم کر سکیں تو اس سے بھی ہمیں دریغ نہیں کرنا چاہئے مرکزی کمیٹی بھی ان کی ممکن اعداد سے دریغ نہیں کرے گی کیونکہ مشترکہ امور میں ایک دوسرے کی اعانت ایک بہترین پالیسی ہے.(الفضل / اکتوبر ۱۹۳۱ء صفحہ 1) الفضل ۸/ اگست ۱۹۳۱ ء صفحه الالم اس کتاب کا انگریزی ترجمہ مسٹر محمد حسین صاحب بی کام نے کیا رپورٹ سالانہ صد را مجمن احمد یہ ۳۲-۱۹۳۱ ء صفحه (۸) مثلاً آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے ممبروں کی طرف سے ایک اہم اعلان میمیرزا صاحب کی صدارت اور خواجہ حسن نظامی مصیبت زدہ مسلمابین جنوں کی اپیل دردمندان ملت کے نام میر واعظ ریاست کشمیر کا باطل سوزا اعلان.آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی خدمات جلیلہ کا اعتراف ال انڈیا کشمیر کمیٹی کا فوری اجلاس.نی کو ارمغان قادیان صفحه ۹۴ کلام مولوی ظفر علی خاں صاحب) مطبوعہ مسلم پر تنگ پریس ریلوے روڈ لاہور) جماعت احمدیہ کے دوسرے جرائد در سائل مثلاً اخبار فاروق نور - مصباح بھی تحریک آزادی کی حمایت کرتے رہتے تھے.- جناب ملک غلام فرید صاحب ایم اے کے مکتوب مورخہ ۱/ اکتوبر ۱۹۷۴ء سے ماخوذ ہفت روزہ لاہور ۲۴ / مئی ۱۹۶۵ء صفحہ ۱۳ کالم ۱-۲- ( مضمون چوہدری ظہور احمد صاحب آڈیٹر صد را مجحمن احمد یہ پاکستان ربوہ) اس اخبار نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کار تم فرمودہ پمفلٹ کشمیر کے حالات اپنے کالموں میں باقساط شائع کیا تھا.الفضل یکم اگست ۱۹۳۱ء صفحہ ۲ کالم - سرگزشت صفحه ۲۹۸ رپورٹ سالانہ صیغہ جات صد را انجمن احمد یہ یکم مئی ۱۹۳۱ء لغایت ۳۰/ اپریل ۱۹۳۲ء صفحه ۹۲- -۱۸ ملک محمد اسحاق صاحب کا (جو ایک عرصہ تک بطور خزانچی اس محکمہ میں کام کرتے ہیں بیان ہے کہ اس محکمے کا دفترا اولاً کشمیر کمیٹی کے نام سے ثانیاً کشمیر ایسوسی ایشن کے نام سے قریباً ۱۹۳۶ ء تک قصر خلافت میں قائم رہا.ازاں بعد کچھ عرصہ حضرت اماں جان کے چوبارہ ( متصل احمد یہ بک ڈپو تالیف و اشاعت قادیان میں رہنے کے بعد حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب کے گھر میں منتقل ہو گیا جو ان دنوں کشمیر ریلیف فنڈ کے انچارج تھے.19 ہفت روزہ لاہو را ۳ / مئی ۱۹۶۵ء صفحہ ۹ کالم ۲-۳-
1 تاریخ احمدیت.جلد ۵ 498 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ ۲۰ اخبار انقلاب (لاہور) ۲۰/ نومبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۳.۲۱ سالانہ رپورٹ صدرا مجمن احمد یہ ۳۲-۱۹۳۱ء صفحه ۱۰۶ -۲۲ الفضل ۱۴ فروری ۱۹۳۲ء صفحه ۲ کالم - ۲۳ اخبار سیاست ۱۸/ اگست ۱۹۳۱ء صفحہ ۴ سے معلوم ہوتا ہے کہ کشمیر کمیٹی کے ساتھ ایک کشمیر فنڈ کمیٹی بھی قائم کر دی گئی تھی.جس کے صدر ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب تھے کمیٹی کا حساب مسلم بنک لاہور میں کھول دیا گیا.روپے کا اخراج ڈاکٹر صاحب بالنقابہ اور غلام رسول صاحب بیرسٹر ایٹ لاء کے دستخطوں سے ہو تا تھا.-۲۴- آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے اجلاسوں کی تاریخیں.۲۵/ جولائی ۱۹۳۱ء (شملہ ) ۱۳/ ۱۲ ستمبر ۱۹۳۱ء (سیالکوٹ) ۱۳/ اکتوبر ۱۹۳۱ء (لاہور) ۲۴ اکتوبر ۱۹۳۱ء (لاہور) ۱۰/ نومبر ۱۹۳۱ء (لاہور) ۲۲ / نومبر ۱۹۳۱ء (دہلی) ۱۳۴ / فروری ۱۹۳۲ء (لاہور) ۲۴ / مارچ و ۳/ مارچ ۱۹۳۲ء (دیلی) ۹ / مئی ۱۹۳۲ء (لاہور ۵ / جولائی ۱۹۳۲ء (لاہور) کیم فروری ۱۹۳۳ء (لاہور) کے امتی ۱۹۳۳ء (لاہور) ۳ور ستمبر ۱۹۳۳ء (لاہور) ۱۷۴/ تمبر ۱۹۳۳ء (شمله) ۲۵/ مارچ ۱۹۳۴ء (لاہور) ۲۸۴/ مارچ ۰۶۱۹۳۴ ۲۵- رسالہ لاہو ر ا ۳ / مئی ۱۹۹۵ء صفحہ ۸ ۲۶ اجلاس منعقدہ ۹ / مئی ۱۹۳۲ء بمقام لاہور کی روئیداد میں حضور کی تقریر درج ہے کہ کمیٹی اس وقت تک ۳۳ ہزار روپیہ خرچ کر چکی ہے.اور جو ایڈووکیٹ محاذ کشمیر پر کام کر رہے ہیں ان کی قربانیاں اس کے علاوہ ہیں احمدیوں کے سوا دوسرے مسلمانوں کی طرف سے صرف سات ہزار روپیہ وصول ہوا ہے اور آٹھ ہزار کے قریب کمیٹی نے قرض لیا ہے باقی تمام رقم جماعت احمدیہ نے مہیا کی ہے.ماہوار خرچ ۳-۴ ہزار کے درمیان ہے لیکن احمدیوں کے چندہ کے سوا ما ہوار آید چار سو سے زیادہ نہیں ہرماہ تقریباً بارہ سو قرض لینا پڑتا ہے.رجسٹر روئیداد کشمیر کمیٹی صفحہ 19) یہ تو بطور مثال لکھا گیا ہے ورنہ کشمیر کمیٹی کی آمد کے حسابات سے جو موجود ہیں اس حقیقت کی پوری تائید ہوتی ہے.۲۷.غالبا یہ واقعہ اگست ۱۹۳۲ء کا ہے.حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس کی تفصیل پر روشنی ڈالتے ہوئے ۱۹۴۲ء میں فرمایا.ایک دن سر سکندر حیات خان صاحب نے مجھے کہلا بھیجا کہ اگر کشمیر کمیٹی اور احرار میں کوئی سمجھوتہ ہو جائے تو حکومت کسی نہ کسی رنگ میں فیصلہ کر دے گی.میں چاہتا ہوں کہ اس بارہ میں دونوں میں تبادلہ خیالات ہو جائے کیا آپ ایسی مجلس میں شریک ہو سکتے ہیں میں نے کہا مجھے شریک ہونے میں کوئی عذر نہیں.چنانچہ یہ میٹنگ سر سکندر حیات خاں کی کو ٹھی پر لاہور میں ہوئی اور میں بھی اس میں شامل ہوا.چوہدری افضل حق صاحب بھی وہیں تھے.باتوں باتوں میں وہ جوش میں آگئے.اور میرے متعلق کہنے لگے کہ انہوں نے الیکشن میں میری مدد نہیں کی.اور اب تو ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ احمد یہ جماعت کو کچل کر رکھ دیں گے.میں نے مسکراتے ہوئے کہا اگر جماعت احمد یہ کسی انسان کے ہاتھ سے کچلی جاسکتی تو کبھی کی کچلی جاچکی ہوتی.اور اب بھی اگر کوئی انسان اسے کچل سکتا ہے تو یقینا یہ رہنے کے قابل نہیں ہے.(الموعود صفحہ ۱۷۳) جناب چوہدری افضل حق صاحب تاریخ احرار صفحہ ۷۵-۷۶ میں یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں.میں نے کہا مرزا صاحب کوئی الیکشن ایسا نہیں گزرا جس میں مرزائیوں نے میرے خلاف ایڑی چوٹی کا زور نہ لگایا ہو ہمارا بھی خدا کے فضل سے فیصلہ یہ ہے کہ اس جماعت کو مٹاکر چھوڑیں گے".۲۸ خود نوشت حالات حضرت سید زین العابدین ولی اللہ صاحب (غیر مطبوعہ ) ۲۹ محترم شیخ مبارک احمد صاحب کے خلاف نوٹس جاری کئے جانے کا حکام کشمیر نے ایک عجیب عذر تراشا شیخ صاحب موصوف قادیان سے محض جماعتی تربیت و اصلاح کے لئے سرینگر بھجوائے گئے تھے.اب آپ آب و ہوا کی ناموافقت کے باعث جاتے ہیں بیمار ہو گئے قادیان سے آپ کو اپنے والد ماجد حضرت شیخ محمد الدین صاحب کا تار ملا کہ چاول کھالیں اور چائے کا قہوہ استعمال کریں.(MILK (12) آپ نے جوابی تار دیا کہ میں چاول اور قہوہ استعمال کرنے کے بھی قابل نہیں ہوں - BLE TO EAT RICE AND TAKE TEA WITHOUT MILK UNAHLE، سپر نٹنڈنٹ پولیس نے ان تاروں کو خفیہ اشارات قرار دے کر آپ کو گور ز کشمیر سردار عطر سنگھ کے حکم سے چوبیس گھنٹہ کے اندر اندر سرینگر سے چلے جانے کا حکم دے دیا.¡EAT RICE AND TAKE TEA WITHOUT
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 499 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ ۳۰ دسمبر ۱۹۳۱ء کے آخری ہفتہ میں شیر کشمیر پہلی بار قادیان تشریف لائے اس تقریب پر قادیان کے ایک پبلک جلسہ میں انہوں نے کشمیریوں کے حقوق و مطالبات پر تقریر بھی کی تھی.مشہور احمدی شاعر جناب حسن رہتای صاحب نے اس استقبالیہ تقریب کے لئے شیر آمد کے قافیہ پر لکھی ہوئی ایک فارسی نظم لکھی جو خواجہ عبد الغفار صاحب ڈار نے جو ان دنوں جامعہ احمدیہ میں تعلیم پارہے تھے) پڑھ کر سنائی جناب چوہدری ظہور احمد صاحب کا بیان ہے کہ شیخ محمد عبد اللہ صاحب میری یادداشت کے مطابق دو دفعہ قادیان آئے دونوں دفعہ حضور کے مہمان تھے نواب صاحب کی کوٹھی پر ایک دفعہ حضور بوجہ بیماری مقیم تھے.اس لئے یہ بھی وہیں رہے ایک سفر میں حضور کے ملکیتی گاؤں راجپورہ بھی گئے.۳۱ ملک فضل حسین صاحب کی شہادت کے مطابق عبد القدیر خان صاحب بھی رہائی کے بعد قادیان آئے تھے.۳۲ بحواله الفضل ۱۹/ جون ۱۹۳۲ء صفحہ ۱۳ کالم ۲-۳- ۳۳- الفضل ۱۳/ نومبر ۱۹۲۹ء صفحه ۸- ۳۴ لاہور ۳۱ / مئی ۱۹۶۵ء صفحہ ۹ کالم ۴(مفہوم) ۳۵- الفضل ۲۰/ مارچ ۱۹۳۲ء صفحه ۱- ۳۶.تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو اخبار اصلاح یکم ستمبر ۱۹۳۹ء تا ۲۲/ ستمبر ۱۹۳۹ء بعنوان کشمیر تحریک کے ایک اسیر زنداں کی داستان زندان ۳۷ اخبار اصلاح سرینگر ۲۰/ جنوری ۱۹۳۷ء صفحہ ۱ کالم ۱-۳- -- قریشی محمد اسد اللہ صاحب فاضل کا شمیری کے ایک غیر مطبوعہ مقالہ سے ماخوذ الفضل ۱۲۴ ستمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۴ کالم.اس درجہ محتاط رہنے کے باوجود جب بعض حلقوں کی طرف سے احمد بی غیر احمد ی کا سوال اٹھا دیا گیا تو حضور نے کشمیر کمیٹی کے مفاد کی خاطر چودھری ظفر اللہ خان صاحب پیراکبر علی صاحب فیروز پور فضل کریم صاحب ایل ایل بی - چودھری محمد شریف صاحب وکیل منگری، مولانا جلال الدین صاحب شمس اور ڈاکٹر عبد الحق صاحب کو بھی اس کا ممبر بننے کی دعوت دی اور کشمیر کمیٹی کے اجلاس لاہور میں دوسرے ممبروں کو اسکی اطلاع دیتے ہوئے وعدہ فرمایا کہ اگر کمیٹی کو ان میں سے کسی صاحب پر اعتراض ہو تو میں ان سے استعفاء دلوا سکتا ہوں".۲۰ جناب قریشی محمد اسد اللہ صاحب فاضل کے ایک غیر مطبوعہ مقالہ سے ماخوذ ۴۱ بیرونی احمدیوں نے جس خلوص و استقلال سے اہل کشمیر کی مالی امداد کی اس کی رپورٹیں ۳۳-۱۹۳۱ء کے) الفضل، فاروق اور مصباح میں شائع شدہ ہیں.الفضل ۲۷/ ستمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۴ کالم ۱-۲- ۴۳.اس کابانی اور روح رواں جموں کا ایک تھا لیڈر محمد اسمعیل تھا جو شہید ہو گیا.(لاہو ر ۲۶ / اپریل ۱۹۶۵ء صفحہ ۱۳ کالم ۲) ۴۴.یہ مشین سٹیشنری اور مطبوعات وغیرہ بھی کشمیر کمیٹی کی طرف سے خفیہ راستوں سے پہنچائی گئی تھی.۴۵ بیان جناب اللہ رکھا صاحب ساغر محرره ۲۲/ دسمبر ۱۹۶۳ء ( جناب قریشی محمد اسد اللہ صاحب فاضل کشمیری کے ایک غیر مطبوعہ مقالہ سے ماخوذ) ۴۶- جناب میر عبد العزیز صاحب ایڈیٹر اخبار انصاف راولپنڈی کا بیان ہے کہ چوہدری غلام عباس صاحب نے اپنی کتاب کشمکش کے مسودہ میں ایک عبارت یہ لکھی تھی کہ میں نے مذہب مولانا ابو الکلام آزاد سے سیکھا ہے اور سیاست مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب سے.اول الذکر سے میرا سیاسی اختلاف ہے اور ثانی الذکر سے مذہبی.مگر جب کتاب شائع ہوئی تو دوسری سطور کے علاوہ یہ حصہ بھی حذف کر دیا گیا.(لاہور ۲۸/ جون ۱۹۶۵ء صفحہ ۲ کالم ۱-۲) ۴-۷- بیان پروفیسر جناب محمد اسحق صاحب قریشی (قریشی محمد اسد اللہ صاحب فاضل ایک غیر مطبوعہ مقالہ سے ماخوذ) ۴۸ خواجہ احمد اللہ صاحب جناب خواجہ غلام محی الدین صاحب قرہ کے والد اور غلام محمد صادق کے چچا اور خسر تھے.۴۹ اہل کشمیر کے دو اہم فرض صفحہ 1 ۵۰ الموعود (لیکچر سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی ) سالانہ جلسه ۱۹۴۴ء صفحه ۱۵۹-۱۶
تاریخ احمدیت جلد ۵ ال الفضل ۶/ اگست ۱۹۳۱ء صفحه ۲ کالم ۲- ۵۲ الفضل ۸/ اگست ۱۹۳۱ء صفحه ا کالم ۲ ۵۳ - بحواله الفضل مورخہ ۱۸ اگست ۱۹۳۱ صفحه ۲ کالم - 500 -۵۴ بحوالہ اخبار الفضل مورخہ ۱/ اگست ۱۹۳۱ء صفحہ ا کالم ۲-۳- تحریک آزادی کشمیر ا د ر جماعت احمد به ۵۵ ایک غیر مطبوعہ مضمون ( مرقومہ سید با حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدے واللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ماخوذ -٥٦ الفضل ۶/ اگست ۱۹۳۱ء صفحه ۳ کالم ۵۷ الفضل ۲۰/ اگست ۱۹۳۱ و صفحه ۳- جده ۵۸ تفصیلات الفضل اگست ستمبر ۱۹۳۷ء میں موجود ہیں.۵۹ - الفضل ۲۷/ اگست ۱۹۳۱ء صفحه ۶-۷- اخبار کشمیری لاہورے / ۱۳ ستمبر ۱۹۳۷ء.الفضل مورخه ۱۸ / اگست ۱۹۳۱ء صفحه ۲ کالم - الفضل مورخه ۱۸/ اگست ۱۹۳۱ء صفحه ۲ کالم ۳ یہ لی ہو یہ تصاویر کافی تعداد میں لی گئی تھیں.مگر افسوس ۱۹۴۷ء کے انقلاب میں ان کا ایک حصہ تلف ہو گیا.اصل خط خلافت لائبریری ربوہ میں محفوظ ہے.۷۴۷۵ د افضل ۲۱ فروری ۱۹۳۲ ء ور پورٹ صدر انجمن احمد یہ سالانه ۳۲-۱۹۳۳ء صفحه ۹۰ انقلاب کیم اکتوبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۱.بحواله الفضل ۲۴ نومبر ۱۹۳۱ و صفحه بم ۷۹- انقلاب ۲۰/ نومبر ۱۹۳۷ء صفحه ۳ بحواله الفضل ۲۶/ نومبر ۱۹۳۱ء صفح+ الفضل ۲۴/ نومبر ۱۹۳۱ء صفحه ۶ - ال الفضل ۲۷/ نومبر ۱۹۳۱ء صفحا ۲ رپورٹ سالانہ (صدرا انجمن احمدیه) ۳۴-۱۹۳۳ صفحه ۱۹۰ الفضل ۱۳/ اکتوبر ۱۹۳۱ء صفحه -۷۴ الفضل / اکتوبر ۱۹۳۱ء صفحہ اکالم ۲.۳.ہے.اس کی تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۱۴/ نومبر ۱۹۵۴ء.۷۶ بحوالہ کتاب کشمکش صفحہ اللہ صفحہ ۱۲ مصنف چوہدری غلام عباس) ۷- انقلاب / مارچ ۶۱۹۳۲ صفحه ۴ ۷۸- انقلاب ۴ / اپریل ۱۹۳۲ء ۷۹ بحوالہ الفضل ۱۰ ستمبر ۱۹۳۱ء صفحه ۲ ۸۰ اخبار انقلاب (لاہور) ۲۰ / اپریل ۱۹۳۲ء صفحہ ۶ - تحریک قادیان حصہ اول صفحه ۴۲ مولقہ مولانا سید حبیب صاحب مدیر سیاست) طبع اول ستمبر ۱۹۳۲ - جناب قریشی محمد اسد اللہ صاحب فاضل کشمیری کے غیر مطبوعہ مقالہ سے ماخوذ - الفضل ۳/ ستمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۱ -۸۴ چنانچہ ہری کشن کول صاحب ۲۲ / اگست ۱۹۳۱ء کو شمس العلماء خواجہ حسن نظامی صاحب کو ایک مکتوب میں (جو کشمیر کمیٹی کے ریکارڈ میں محفوظ ہے واضح لفظوں میں لکھا.بانی موجودہ ایجی ٹیشن جو جوان لڑکے ہیں ان میں سے اکثر ریاست کی ملازمت سے بوجہ بد چلنی وغیرہ برخاست شدہ ہیں.-۸۵ یه اشتهار الفضل ۱۳ ستمبر ۱۹۳۱ ء میں بھی چھپ گیا تھا.
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 501 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیه الفضل ۱۳ ستمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۶ کالم ۲۱- - الفضل ۱۰/ تمبر ۱۹۳۱ء صفحہ اکالم ۲- ڈاکٹر محمد عالم صاحب کا نگریس کے اہم مسلمان ممبر تھے.اپنے وعدہ کے مطابق انہوں نے کانگریسی لیڈروں کی حمایت حاصل کرنے کی جدوجہد کی.لیکن ان کی کوشش کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ کانگریس سے بد تمکن ہو گئے.اور کانگریسں چھوڑ گئے اور بعد میں مسلمانوں کی طرف سے پنجاب اسمبلی کے لئے کھڑے ہوئے.-۸۹ بحوالہ مسئلہ کشمیر اور ہندو مہاسبھائی (مولفہ جناب ملک فضل حسین صاحب) صفحه ۹۴-۹۵ طبع اول ستمبر ۶۳۲ حد یہ ہے کہ مولوی ظفر علی خان صاحب کے اخبار زمیندار نے لفظ لفظ ملاپ کی تائید میں یہ بیان دیا کہ بظاہر ریاست میں امن کے آثار نظر آرہے تھے لیکن مصیبت یہ آپڑی کہ کشمیر کے فلاکت زدہ مسلمانوں کو روپیہ کی ضرورت تھی وہ روپیہ نہ انہیں جمعیت احرار دے سکتی تھی نہ کوئی دوسرا مسلمان، خلیفہ جی نے بات بگڑی دیکھ کر پرانی ہمسائیوں کا منہ کھول دیا اور ہزار ہا ر ہے کشمیری مسلمانوں کے پاس پہنچا دیئے اس طرح وہ آگ جسے مہاراجہ سرہری سنگھ کی آشتی پسندی اور سرسید مرشاہ اور مسلمانان کشمیر کے دوسرے مخلص ہو ردوں نے بجھائی تھی پھر بھڑک اٹھی.زمیندار ۲۷ نومبر ۱۹۳۱ء) حوالہ الفضل ۳/ نومبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۳ کالم ملاپ کی ہمنوائی کا پس منظر کیا تھا اس پر حضرت ظفر الملت کے مندرجہ ذیل اشعار جو آپ نے مہاراجہ کشمیر کو مخاطب کرتے ہوئے لکھتے تھے.- اے جواں سال مہاراجہ کہ نام کشمیر اے کہ آراستہ ہے نامہ عظمت تیرا ہے کہیں میری تمنا که تشکر کی زباں گونجتی ہے ترے اخلاق کے افسانوں سے بخت و دولت کے چمکتے ہوئے عنوانوں سے نہ کبھی کبھی عہدہ برآ ہو تیرے احسانوں سے چمن کے لایا ہوں میں اخلاص و صداقت کے یہ پھول تیرے ہی لطف و نوازش کے گلستانوں سے زمیندار ۲۹/ اکتوبر۱۹۳۷ء صفحه ایحواله ظفر علی خان کی گرفتاری صفحه ۴۴ از حبیب الرحمن کابلی شائع کردہ ریفارم لیگ اسلام گلی ومن پورہ لاہور مطبوعہ مارچ ۱۹۳۷ء) الله بحوالہ مسئلہ کشمیر اور ہندو مہاسبھائی صفحہ ۸۶ تا ۱۹ بحوالہ مسئلہ کشمیری ہندو مہاسبھائی صفحه ۱۲۰ ۹۳ مجلس احرار اسلام ہند نے ان دنوں کشمیر میں وسیع پیمانے پر سینکٹروں مسلمان رضا کار حدود کشمیر میں بھجوائے تھے یہاں اسی طبقہ بندی کی طرف اشارہ ہے.اس اقدام سے تحریک آزادی کشمیر پر کیا اثر پڑا اس کا اندازہ اخبار سیاست کے مندرجہ ذیل اقتباسات سے باآسانی لگ سکتا ہے.اخبار "سیاست ۳۴- ستمبر ۱۹۳۲ ء نے لکھا.اس جماعت احرار نے اہل الرائے مسلمانوں کے مشورہ کے خلاف کشمیر کو جتنے روانہ کئے جو آخر کار ناکام ہو کر مت مرحومہ کی ذلت ورسوائی کا باعث ہوئے.پھر لکھا.جتھے ہازی بے سود اور مضرت رساں ثابت ہوئی اس سے فائدہ کی بجائے الٹا نقصان پہنچا احرار کی جانب سے مسلمابین خطہ کو کوئی مالی امداد بھی نہ ملی ان کے جارحانہ اقدام کے باعث حکومت پنجاب وہند بھی برگشتہ ہو گئی.(سیاست یکم مارچ ۱۹۳۲ء) یہ تو ہندوستان کے مسلم پریس کی رائے تھی.کشمیری مسلمانوں کا رد عمل بہت زیادہ شدید تھا چنانچہ کشمیری نمائندگان کے سیکرٹری مفتی جلال الدین صاحب نے اعلان کیا کہ میں بعد تأسف احرار کی سرگرمیوں کی مذمت پر مجبور ہوں.کیونکہ ان گمراہوں کے بے جاجوش و خروش نے ہماری زندگیوں کو تباہ و برباد کر کے عظیم الشان مصائب میں جتلا کر دیا.(سیاست ۲۴/ نومبر ۱۹۳۲ء) یه وفد جیسا کہ تار سے واضح ہے ۱۸ ستمبر ۱۹۳۱ء کو سرینگر پہنچا مگر کسی خاص مصلحت سے چوہدری افضل حق صاحب نے تاریخ احرار کے صفحہ ۴۳ میں داخلہ کشمیر کا مہینہ اکتوبر ۱۹۳۱ء لکھ دیا ہے مگر صفحہ ۴۷ سے اصل حقیقت بالکل نمایاں ہو گئی ہے کیونکہ لکھا ک نمایاں ہوگئی ہے کہ تمبر ۱۹۳۱ء میں مکلیگن کالج سٹرائیک کے ہنگامہ کی اطلاع ہمیں سرینگر میں ملی تھی.۹۵- تاریخ احرار صفحه ۴۵-۴۶
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 502 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ -۹۶ حضور شریک اجلاس ہونے کے لئے 11/ ستمبر ۱۹۳۱ء کو ۳ بجے کی گاڑی سے عازم سیالکوٹ ہوئے رستہ میں ڈیرہ بابا نانک نارووال چونڈہ اور سیالکوٹ اسٹیشن پر آپ کا شاندار استقبال کیا گیا یا لکوٹ میں آپ آغا حید ر صاحب رکھیں کے مکان پر فروکش ہوئے اور کشمیر کمیٹی کے اجلاس میں شامل ہونے کے علاوہ جماعت احمدیہ سیالکوٹ اور لجنہ اماءاللہ کو بھی خطاب فرمایا.اور قلعہ سیالکوٹ پر معرکتہ الاراء تقریر بھی فرمائی اور حسب پروگرام ۱۵/ ستمبر ۱۹۳۱ء کو صبح ساڑھے چار بجے کے قریب بذریعہ موٹر روانہ ہو کر تین بجے شام واپس قادیان تشریف لے آئے.(الفضل ۱۵د۱۷/ ستمبر ۱۹۳۱ء صفحہ او ۲) الفضل ۲۰/ ستمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۲.ه الفضل ۲۹/ ستمبر ۱۹۳۱ء صفحه ۴ 44 اخبار الامان (۱۹) ستمبر ۱۹۳۱ء) نے لکھا.یہ تجاویز نہایت معقول ہیں اور کافی غور و تدبر کے بعد منظور کی گئی ہیں.ان تجاویز کے ذریعہ مہاراجہ کشمیر کو موقع دیا گیا ہے.کہ وہ ایک ماہ کے اندر مسلمانوں کے مطالبات پورے کر دیں.ورنہ اس کے بعد مسلمان اپنی جد و جہد شروع کر دیں گے نیز اس عرصہ میں مسلمانوں کے لئے ایک پروگرام بھی تجویز کر دیا گیا ہے.کہ وہ اس پر عمل کرکے قربانیاں دینے کی تیاری کریں.مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اس پروگرام کے مطابق ہر جگہ تیاریاں شروع کر دیں.(بحوالہ الفضل ۲۷/ ستمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۵ کالم (۳) -[** ان حضرات کی شان میں جناب افضل حق صاحب مفکر احرار لکھتے ہیں.یہ اپنی پگڑی پہلے ہی بغل میں دابے پھرتے تھے اور دوسروں کی اچھل جائے تو افسوس نہیں کرتے.(تاریخ احرار صفحہ ۴۱) طبقاتی جنگ احرار کے مزاج کے عین مطابق ہے.(تاریخ احرار صفحه 10 ہم نے ابھی تخریبی کام سیکھا ہے.تخریب کے ساتھ ساتھ تعمیری ذہن کی ضرورت ہے.( تاریخ احرار صفحہ ۲۷۴) الفضل ۲۰/ ستمبر ۱۹۳۱ء صفحه ۳-۴- مشہور عالم اہل حدیث جناب مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے لکھا.سیالکوٹ میں خلیفہ پر اتنے پتھر پڑے تھے کہ دو ٹرنک بھر کر لائے تھے.(اہل حدیث امر تسرے /جنوری ۱۹۳۸ء صفحه ۴) ۱- الفضل ۲۷/ ستمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۲۹٫۲/ ستمبر ۱۹۳۷ء صفحہ ۲ میں یہ تفصیلات چھپ گئی تھیں.۱۰- الفضل ۲۹/ ستمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۱.الفضل / اکتوبر ۱۹۳۱ء صفحها -۱۰۵ الفضل قادیان مورخه ۲۷/ ستمبر ۱۹۳۱ء صفحه ۴٫۳- الفضل ۲۷/ ستمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۵ کالم ۲۰۱ ١٠٧- بحواله الفضل ۱۰/ نومبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۱ کالم ---- اسی زمانہ میں پنجاب کے ۲۲ مشہور مسلمان زعماء ( مثلا ڈاکٹر خلیفہ شجاع الدین صاحب بیر سٹرایٹ لاء سید محسن شاہ ایڈووکیٹ ، مولوی غلام مرشد صاحب مولوی غلام محی الدین صاحب سیکرٹری انجمن حمایت اسلام پروفیسر سید عبد القادر صاحب، خواجہ دل محمد صاحب ایم اے) وغیرہ نے مسلمانوں سے ایک بیان میں اپیل کی کہ بعض مضبوط قرائن سے یہ اندیشہ پیدا ہو رہا ہے کہ حکام ریاست کشمیر مسلمانوں کی قوت کو توڑنے کے لئے یہ حربہ استعمال کرنے کے درپے ہیں کہ ان کے اندر فرقہ وارانہ سوال پیدا کریں.مسئلہ کشمیر ایک ہتم بالشان اسلامی مسئلہ ہے کسی قسم کے فرقہ وارانہ خیالات کی وجہ سے اس کو کسی قسم کا ضعف پہنچانا اسلام کے ساتھ غداری کے مترادف ہے اور ہمیں امید واثق ہے کہ ریاست ہمارے اندر اس قسم کی کمزوری پیدا کرنے میں ناکام ہو گی اور اس کی طرف سے آخری حربہ کے بالمقابل بھی مسلمان اپنی اسلامی صلاحیت کا ثبوت دیں گے.(الفضل ۱۸/ اکتوبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۱-۲) ۱۰۸- یہ نام حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے ایک تار سے معین ہوتے ہیں.جو حضور نے مولوی محمد یوسف صاحب میرواعظ کے نام دیا تھا.الفضل ۲۵ اکتوبر ۱۹۳۱ء صفحه ۴ کالم -۲ لاہور ۱۳ مئی ۱۹۶۵ء صفحہ ۸ یہ میموریل جو آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے خوبصورت انگریزی پمفلٹ کی صورت میں شائع کیا تھا مندرجہ ذیل نمائندگان نے پیش کیا.(۱) میر واعظ محمد یوسف صاحب (۲) میر واعظ احمد اللہ صاحب ہمدانی (۳) سعد الدین صاحب شال (۴) سید حسین شاہ صاحب جلالی
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 503 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ (۵) غلام احمد صاحب اشائی (۲) ٹھیکیدار مستری یعقوب علی صاحب (۷) شهاب الدین صاحب (۸) شیخ عبد الحمید صاحب ایڈووکیٹ (۹) چوہدری غلام عباس صاحب (۱۰) سردار گوہر رحمان صاحب (۱) شیخ محمد عبد اللہ صاحب (شیر کشمیر) ۱۱۲ الفضل ۱۰/ نومبر ۱۹۳۱ء ۱۱۳- الموعود صفحه ۱۶۱-۱۶۳ الموعود صفحه ۱۷۰ الیکچر سید ناحضرت خلیفتہ المسی الثانی ایده الله عالی بنصرہ العزیز ۸ ۱۲ دسمبر ۱۹۴۲ء) -۱۵ گڑھی حبیب اللہ میں شیخ محمد عبد اللہ صاحب کی ملاقات کی طرف اشارہ ہے.ناقل.الموعود صفحه ۱۶۹ تا ۱۷- (شخص) اصل مخط محفوظ ہے.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی کے ایک غیر مطبوعہ مضمون سے ماخوذ۱۹۵۱ء.الفضل ۱۹/ نومبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۹-۱۰- ۱۲۰- یہ مسجد ملکہ ہند نور جہاں بیگم نے تعمیر کرائی تھی.منشی محمد الدین صاحب فوق نے اپنی مشہور کتاب مکمل تاریخ کشمیر جلد دوم صفحه ۱۹۵ ( مطبوعہ ۱۹۱۰ء) پر اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے.ملکہ ہند نے خانقاہ معلی کے مقابلہ میں ایک سکمین مسجد بھی تیار کرنے کا حکم دیا.جو بعد میں بڑے عالی شان پیمانے پر تیار ہوئی اور اب تک موجود ہے اور سرکاری انباروں کا کام دیتی ہے.۱۲۱- الفضل ۱۳ دسمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۲ کالم - ۱۳۲- لاہور ہفت روزه مورخه ۱۰/ مئی ۱۹۶۵ء صفحہ ۱۳
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 504 حصہ دوم: چوتھا باب (فصل اول) تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ مڈلٹن کمیشن اور گلانسی کمیشن میں جماعت احمدیہ کی خدمات اہل کشمیر کے لئے مالی و جانی قربانیوں کی تحریک وسیع پیمانے پر فسادات اور ان کی روک تھام ، مظلومین کشمیر کے مقدمات کی پیروی میں احمدی وکلاء کے سنہری کارنامے آل جموں و کشمیر پولٹیکل مسلم کانفرنس کی بنیاد اخبار اصلاح" کا اجراء اور کشمیر اسمبلی کا قیام ولٹن کمیشن" اور "گلانسی کمیشن" (نومبر ۱۹۳۷ء سے لے کر ستمبر ۱۹۳۴ء تک) مہاراجہ ہری سنگھ صاحب والی جموں و کشمیر کے تاریخی اعلان (مورخہ ۱۱/ نومبر ۱۹۳۱ء) سے جدوجہد آزادی کا ایک نیا محاذ شروع ہوا یعنی ریاست کے مقرر کردہ "ڈلٹن کمیشن " اور "گلانسی کمیشن کے سامنے کار آمد اور مفید شہادتوں کا مرتب کرنا اور کشمیری مسلمانوں کو ایسے مشورے دینا جن سے وہ اپنا کیس موثر رنگ میں پیش کر سکیں.کمیشن میں کام کرنے والے مخلص کارکن یہ بہت بڑا معرکہ تھا جسے سر کرنے کے لئے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی طرف سے
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 505 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ سرینگر جموں پونچھے اور میرپور میں باقاعدہ دفاتر کھول دیئے سرینگر میں شیخ بشیر احمد صاحب بی اے.ایل ایل بی ایڈووکیٹ، چوہدری عصمت اللہ صاحب بی ایس سی.ایل ایل بی مولوی عبد الرحیم صاحب درد ایم.اے ، صوفی عبد القدیر صاحب نیاز بی.اے مولوی محمد اسمعیل صاحب غزنوی مولوی سید میرک شاہ صاحب اور چوہدری ظہور احمد صاحب کو دن رات کام کرنا پڑا.جس کا چرچا پنجاب کے مسلم پریس میں بھی ہوا.چنانچہ اخبار "انقلاب" نے لکھا.کشمیر میں اس وقت دو کمیشن مصروف کار ہیں.آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی خدمات آئینی جدوجہد میں ایسی عظیم الشان ہیں کہ کوئی دوسری جماعت اس لحاظ سے اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی.اسی اخبار نے ایک اور اشاعت میں لکھا." حقیقت یہ ہے کہ تحریک کشمیر کے سلسلے میں جو تعمیری کام اس کمیٹی نے انتہائی خلوص اور خاموشی سے انجام دیا ہے.اس کے شکریہ سے مسلمان کبھی عہدہ بر آنہیں ہو سکتے بحالت موجودہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے ایک مشہور عالم دو وکیل ایک گریجوایٹ اور ایک کلرک کو سرینگر میں اس کام پر مامور کر رکھا ہے کہ تحقیقاتی کمیشنوں کے سامنے مسلمانوں کا کیس تیار کریں اور ان کمیشنوں کی کارروائی پر نگرانی رکھیں ایک وکیل جموں میں مصروف کار ہے ایک میر پور بھیجا جا رہا ہے.دو اچھے وکیل گلانسی کمیشن کے ساتھ کام کرنے کے لئے بھیجے جارہے ہیں.لیکن ان کا سفر خرچ اور مصارف قیام پر بھی کافی روپیہ خرچ ہو رہا ہے "."1 لٹن کمیشن " کے سلسلہ میں شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کی خدمات سے متاثر ہو کر شیر کشمیر شیخ محمد عبد اللہ صاحب نے ۲۱ / دسمبر ۱۹۳۱ء کو سرینگر سے "الفضل" کے نام مندرجہ ذیل پیغام بھیجا.شوپیاں کا مقدمہ قتل گزشتہ ہفتہ سے شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور نہایت قابلیت کے ساتھ چلا رہے ہیں.اللہ تعالی کا شکر ہے کہ ایک ملزم رہا کر دیا گیا ہے.شیخ بشیر احمد صاحب نے ہمارے مفاد کی خاطر جو قربانی کی ہے اس کے ہم بے حد ممنون ہیں آپ نے مڈلٹن تحقیقاتی کمیٹی کے سلسلہ میں بھی ہمیں قابل قدر امداد دی ہے ہم آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ اس نے ایسا قابل قانون دان ہماری امداد کے لئے بھیجا ".شیخ صاحب کے دوش بدوش مولوی عبد الرحیم صاحب درد کی جد وجہد بھی قابل تعریف تھی اور ان کا وجود اہل کشمیر کے لئے بہت غنیمت تھا.چنانچہ چوہدری ظہور احمد صاحب کا بیان ہے کہ گلینسی نے جس وقت کام شروع کیا مولانا عبد الرحیم صاحب درد سرینگر ہی میں تھے.ان کا دستور یہ تھا کہ روزانہ شام کو مسلم نمائندوں سے سارے دن کی کارروائی کے حالات سنتے مشورے دیتے جاتے شہادتیں اور مواد مہیا کرنے کا کام بہت اہمیت رکھتا تھا.یہ کام پوری ذمہ داری سے شیخ بشیر احمد صاحب
تاریخ احمدیت جلد ۵.ایڈووکیٹ سرانجام دے رہے تھے.506 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ ایک روز ایک نمائندہ کمیشن سے مولانا درد صاحب نے فرمایا کہ وہ کمیشن کے اس طرح رکن ہیں.جیسے مسٹر کلینسی اگر مسٹر کلینسی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کار روائی کی تمام فائل اپنے ساتھ گھر پر لے جائیں ، مسٹرڈ لٹن اور ریاست کے دوسرے حکام سے مشورہ کریں.تو یہ حق آپ کو بھی حاصل ہے.اس لئے آپ آج مکمل فائل ہمارے پاس لائیں.تاکہ ہم ملاحظہ کے بعد آپ کو مزید مشورہ دے سکیں ہفتہ کی شام کو وہ فائل لے آئے اور راقم الحروف سے بیان کیا کہ وہ فائل مسٹر کلینسی کے علم کے بغیر اس کے اردلی سے اس شرط پر لے کر آئے ہیں کہ پیر کے روز دفتر کھلنے سے پہلے وہ اسے واپس کر دیں گے راقم الحروف نے اسی وقت اسے ٹائپ کرنا شروع کر دیا.ساری رات کام کرتا رہا.دوسرا دن (جو اتفاق سے اتوار کا دن تھا) کام کیا.اگلی رات نصف شب کے قریب میں نے ساری فائل کی چار نکلیں ٹائپ کر لیں تھیں.جو بعد میں بہت مفید ثابت ہوئیں.کیونکہ مسل میں جو نقائص رہ گئے تھے ان کا علم ہو گیا اور مسلم نمائندگان کو ضروری مواد مہیا کر کے ان کے ہاتھ مضبوط کر دیئے گئے اس ۳۴ گھنٹے کے عرصہ میں آرام اور نمازوں کا وقت غالبا چار گھنٹے سے زیادہ نہ ہو گا.نیند سے بچنے کے لئے کھانے سے پر ہیز کیا.اور صرف قہوہ استعمال کیا.اب میں خود حیران ہو تا ہوں کہ ان دنوں اتنا کام کرنے پر بھی خاص کوفت محسوس نہ ہوئی تھی".A محترم در و صاحب اس دوران میں چند روز کے لئے قادیان تشریف لے گئے تو شیخ محمد عبد اللہ صاحب نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت میں لکھا کہ کیا کروں اکیلا ہوں.....جناب سے استدعا کی تھی کہ مولانا درد کو کم از کم دس دن کے لئے سرینگر بھیج دیجئے اور درد صاحب نے بھی فرمایا تھا مگر ابھی تک نہیں آئے.خدارا انہیں جلدی روانہ فرمائیں.ورنہ تمام کام بگڑ جائے گا.میں اس وقت مختلف ہندوستانی ریاستوں کے انسداد گاؤ کشی کے قوانین کے حوالہ جات کی از حد ضرورت ہے مجھے امید قوی ہے کہ جناب والا اس کے متعلق کوشش فرما کر ہمیں مطلوبہ حوالہ جات روانہ فرمائیں گے.جناب کو شاید کشمیری پنڈتوں کا کمیشن کا نقل بیان مل گیا ہو گا.ہمیں تبدیلی مذہب کے متعلق جناب کا تفصیلی جواب مطلوب ہے.براہ کرم تھوڑا بہت وقت نکال کر جناب اس پر تبصرہ فرما ئیں.ہم نے ایک ایک مہینہ سے دفتر پتھر مسجد کے ساتھ قائم کیا ہے اور کام باقاعدہ چل رہا ہے جناب کو مودبانہ گڑھی حبیب اللہ والا و عدہ یاد دلانے کی جرات کرتا ہوں کہ اخراجات دفتر جو کہ شاید مبلغ - / ۲۳۸ روپے بنتے ہیں جناب والا ماہوار بھیجتے رہیں گے مجھے روپے کی ازحد ضرورت ہے.کاش مجھے سری نگر سے صرف دو ہفتہ کی مہلت ملتی.تاکہ میں دیہات کا دورہ کر کے چندہ جمع کرتا.مگر
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 507 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیه جو نبی میں ادھر ادھر جاتا ہوں کام تمام کا تمام بگڑتا ہے.میں جناب سے التجا کروں گا کہ کم از کم اخراجات دفتر کا انتظام فرما کر میری طرف سے مولانا در و صاحب مولانا غزنوی صاحب و دیگر کارکنان کی خدمت میں مودبانہ عرض السلام میں ہوں جناب کا تابعدار دستخط شیخ محمد عبد الله ( بحروف انگریزی - ناقل) خط تبدیلی مذہب اور گاؤ کشی سے متعلق قوانین کی فراہمی اس علا کے پینے پر کشمیر کمیٹی نے کلینسی کمیشن کے لئے مطلوبہ مواد مہیا کر کے بھیجوا دیا اور بھوپال ، رامپور جے پور حیدر آباد میسور بھرت پور بیکانیر، پٹیالہ بڑودہ ، بہاولپور مالیر کوٹلہ اور کپور تھلہ کے وزرائے اعظم سے خط و کتابت کی اور ان کے قوانین وراثت حاصل کر کے شیخ محمد عبد اللہ صاحب کو بھیجوائے اور ریاستوں سے جواب آتے ہی مسٹر گلینسی کو لکھا کہ معلوم ہوا ہے ریاست کے بعض حکام سمجھتے ہیں کہ تبدیلی مذہب سے محرومی دراشت کا قانون تمام ہندوستانی ریاستوں میں موجود ہے لیکن ایسا نہیں ہے.ہم نے مختلف ریاستوں سے تحقیق کی ہے پرائم منسٹریکا نیر اور پولیٹیکل سیکرٹری بڑودہ نے نہیں اطلاع دی ہے کہ ان کے یہاں یہ قانون منسوخ ہو چکا ہے (مراسلہ مورخہ ۵ / مارچ ۱۹۳۲ء) ان کے علاوہ جے پور میسور وغیرہ سے بھی اس قانون کی تنسیخی کا جواب آیا.رامپور اور پٹیالہ سے مکتوب ملا کہ قانون وراثت سے متعلق فیصلے ہر فرقہ کے عقیدہ و قانون کے مطابق کئے جاتے ہیں تبدیلی پر محرومی وراثت کی کوئی دفعہ موجود نہیں.جناب شیخ عبدالحمید زعمائے کشمیر حضرت امام جماعت احمدیہ کی خدمت میں صاحب ایڈووکیٹ جموں کا بیان ہے کہ مسلم مطالبات کے سلسلہ میں یہ مشکل پیش آئی کہ جب ہم نے حکومت کشمیر سے مسجدیں واپس کرنے کا مطالبہ کیا.تو ہندوؤں نے قدیم مندر کی (جو مسجدوں میں تبدیل ہوئے ہیں) واپسی کا مطالبہ کیا.اس مشکل کو حل کرنے کے لئے ہم نے مرزا بشیر الدین محمود احمد کی طرف رجوع کیا.آپ نے نمائندوں کو وزیر آباد بلایا.چنانچہ میں اور قاضی گوہر رحمان صاحب اور شیخ محمد عبد اللہ صاحب اور مستری یعقوب علی صاحب آپ سے وزیر آباد آکر ملے.اور آپ کی ہدایات کے مطابق ہم نے یہ جواب جاکر گلینسی کے سامنے دیا کہ مساجد ہم حکومت کشمیر سے واپس مانگ رہے ہیں نہ کہ کسی فرقہ کے قبضہ سے اور ہندوؤں کا جو سوال ہے وہ ان مقامات کے متعلق ہے جو صدیوں سے ان بزرگوں کے مسلمان ہونے کے بعد مسلمانوں کے قبضہ میں چلے آتے ہیں ایسی جائیداد کو واپس لینے کے لئے جو کسی دوسرے فرقہ کے قبضہ میں ہو انہیں عدالت کی طرف رجوع کرنا چاہئے....جب ہم نے یہ جواب پیش کیا تو فریق مخالف کا منہ بند ہو گیا -
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 508 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ گلانسی کمیشن کے سلسلہ میں چوہدری عصمت اللہ صاحب صوفی عبد القدیر صاحب نیاز کی خدمات بھی یادگار رہیں گی.چوہدری عصمت اللہ صاحب مڈلٹن کمیشن میں بطور عینی شاہد پیش ہوئے اس کے بعد گلانسی کمیشن کے لئے مواد جمع کرنے میں شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کے دست و بازو بن گئے.مسٹر گلینسی سے موخر الذکر دو اصحاب نے بار بار ملاقاتیں کیں.اور ان پر مسلم مطالبات کی معقولیت ہر رنگ میں واضح کرنے کی کوشش کی اور جن معاملات میں مسٹر گلینسی کو شرح صدر نہ تھا ان کو دلائل کے ذریعہ اپنا ہم خیال بنانے کی سعی و جد و جہد آخر وقت تک جاری رکھی ان مخلص اور مستعد کارکنوں کے علاوہ سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب مالیہ اور لگان کی تخفیف سے متعلق مسلم مطالبات کو مدلل بنانے کے لئے راولپنڈی، جہلم، سیالکوٹ وغیرہ ملحقہ اضلاع میں تشریف لے گئے اور پٹواریوں اور قانون گوؤں وغیرہ کی مدد سے مالیہ سے متعلق ضروری اور اہم کوائف فراہم کئے جو کمیشن کے مسلمان ممبروں کی طرف سے پیش کئے گئے.کمیشن جموں میں ڈلٹن اور گلانسی کمیشن سرینگر سے کام ختم کر کے وسط جنوری ۱۹۳۲ء میں سرینگر سے جموں پہنچا جہاں چوہدری عزیز احمد صاحب بی اے.ایل ایل بی نے اور مولوی غلام مصطفیٰ صاحب بیرسٹر گوجر انوالہ نے ینگ مینز ایسوسی ایشن کی طرف سے مڈلٹن کمیشن کے سامنے گواہوں کے بیانات دلائے.چوہدری محمد عظیم صاحب باجوہ اس خدمت میں چوہدری عزیز احمد صاحب کا ہاتھ بٹاتے تھے اور لفٹیننٹ محمد اسحق صاحب نے دفتری کام عمدگی سے سنبھالا چنانچہ چوہدری غلام عباس صاحب اپنی کتاب " کشمکش میں تحریر فرماتے ہیں کہ ” میں سرینگر سے جموں پہنچ گیا تھا.وہاں مسلم ایسوسی ایشن مڈلٹن کمیشن کے روبرو اپنا کیس پیش کرنے کی تیاریوں میں مصروف تھی.آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے دو ایڈووکیٹ مقدمہ کی پیروی کے لئے جموں بھیجے جنہوں نے پوری دلچسپی اور انہماک سے دوماہ تک یہ کام سرانجام دیا".جموں کے لیڈر سردار گوہر رحمان صاحب کے خطوط ذیل میں جموں کی ینگ مینز ایسوسی ایشن کے مشہور لیڈر اور ڈکٹیٹر جناب سردار گوہر رحمان صاحب کے چند خطوط کا درج کرنا ضروری ہے ان خطوط سے اس عظیم الشان کام کی نوعیت واہمیت کا بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے.(1)8.11.31 مخدومی و معظمی جناب پریذیڈنٹ صاحب آل انڈیا کشمیر کمیٹی - السلام علیکم و رحمتہ اللہ.مزاج شریف.چونکہ گلینسی کمیشن کی آمد آمد ہے.اور کمیشن مذکور کی آمد سے پہلے "مطالبات " کی کاپیاں تمام
تاریخ احمدیت جلد ۵ 509 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ قلمرو میں ارسال کرنی ضروری ہیں.لہذا از راہ کرم انگریزی مطالبات کا ترجمہ کراکر کم از کم ۳۰۰۰ کاپیاں ایک ہفتہ کے اندر اندر ارسال فرما کر شکر گزار فرمائیں.کیونکہ دیہاتی لوگ ابھی تک اپنے مطالبات سے ہی نا واقف ہیں.خاکسار گو ہر رحمان ) نقل مطابق اصل) (۲) جموں نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم بخدمت محترم جناب حضرت صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ.یہاں پہنچ کر حسب الحکم سب کچھ کر دیا گیا ہے.اور آئندہ بھی انشاء اللہ ایسا ہی ہوا کرے گا.ہمارے لئے ہر وقت دعا فرمایا کریں.کیونکہ ہم دشمنوں کے نرغے میں بے یار و مددگار ہیں.اور سوائے اللہ تعالٰی کے کوئی حامی دمددگار نہیں.آج معلوم ہوا ہے کہ بیمہ آگیا ہے صبح وصول ہو جائے گا.اخراجات کی سخت تکلیف ہے علاوہ ازیں یہاں پر سخت تکالیف کا سامنا ہے.میں بالکل تنہا ہوں اور کوئی صاحب زمہ داری کو محسوس نہیں کرتے.صبح سے لے کر رات دس بارہ بجے تک کام کرنا پڑتا ہے.دفتر میں شیخ غلام قادر صاحب بالکل تنہا ہیں اور کام کی اس قدر کثرت ہے کہ انہیں اس قدر پریشانی ہو رہی ہے جو بیان سے باہر ہے.اس کے متعلق میں اس قدر عرض کروں گا.کہ ایک ٹرینڈ کلرک ایک دو ماہ کے لئے اور ایک ٹائپ کا اگر انتظام فرما دیں.تو ہمیں کچھ سہولت ہو سکتی ہے اس وقت تک نہ ہی گلینسی کمیشن اور نہ ہی مڈلٹن کمیشن کے لئے کوئی تیاری ہو سکی ہے.باہر دورہ کرنے کے لئے آدمی نہیں ملتے یہاں کے تمام امورات ادھورے پڑے ہیں.اس لئے جناب بہت جلد کوئی مستقل انتظام فرما کر شکر گزار فرمائیں.وکلاء صاحبان میں سے کوئی صاحب اس وقت تک تشریف نہیں لائے.مقدمات کے بگڑ جانے کا اندیشہ ہے اگر شروع میں جرح نہ ہوئی تو بعد میں ہمیں مزید جرح کا موقعہ نہیں مل سکتا.اس لئے مودبانہ عرض ہے کہ جہاں تک جلد ممکن ہو سکے وکلاء کا انتظام فرما ئیں.یہاں پر دہی وکیل پیش ہو سکتے ہیں جو ایڈووکیٹ ہوں اس لئے اس کا ضرور خیال رکھیں.چوہدری عزیز احمد صاحب کو بحیثیت مختار پیش ہونے کی اجازت ملی ہے....والسلام خاکسار گوہر رحمان"- ( نقل مطابق اصل) (۳)۲۰/۱۲/۳۱ جموں بخدمت محترم جناب حضرت صاحب ایدہ اللہ تعالٰی.السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ.امید کہ جناب بخیریت ہوں گے.جلسہ کی وجہ سے مصروفیت زیادہ ہو گی.یہاں کے حالات دن بدن پیچیدہ ہو رہے ہیں.اشتہارات جاری کرنے کے بعد اس وقت تک صرف میرپور میں پریذیڈنٹ صاحب شکایات کی فراہمی کے لئے تشریف لے گئے ہیں.شکایات اس وقت تک بہت کم بھیجی گئی ہیں.اور وقت بہت کم ہے.میں نے جناب سے عرض کیا تھا.کہ ان اخراجات
تاریخ احمدیت - جلد ۵ 510 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ کے لئے کم از کم چار صد روپیہ کی ضرورت ہے.لیکن کوئی توجہ نہیں فرمائی گئی جس قدر ممکن ہو سکے روپیہ ارسال فرما ئیں.مڈلٹن کمیشن کا کام شروع کر دیا گیا ہے اور محمد اسحاق صاحب خوب محنت سے کام کر رہے ہیں.کرسمس میں تمام کام ختم کر لیا جائے گا.بشر طیکہ یہ تمام احباب یہاں پر رہیں اس لئے جناب میر صاحب وغیرہ کو کرسمس میں نہیں رہنے کے لئے حکم دیں تاکہ تمام بیانات مکمل کر لئے جائیں.اگر کام ہلکا ہو گیا تو ایک دن کے لئے جلسہ پر چلے جائیں گے.گلانسی کمیشن کے لئے تاحال کوئی مواد فراہم نہیں ہوا.وہ تمام بیانات کشمیر طلب کر رہے ہیں.اس لئے آج ان کو لکھ دیا ہے کہ بیانات ان کے آنے پر یہاں پیش کئے جائیں گے کیونکہ ہندو شمارتوں کو ورغلانے کی کوشش کر رہے ہیں.مسٹر عبد اللہ کا تار سرینگر سے آیا تھا.جو نوٹ وزیر آباد سے تیار کئے گئے تھے ان کے متعلق ریزولیوشن پاس ہو چکے ہیں.اب صرف گائے کشی کے سزا کی تخفیف پر بحث شروع ہے...شاب الدین کو سپوکس مین مقرر کیا ہے....دعا کریں اللہ تعالیٰ ایسے نازک وقت میں ہماری امداد فرمائے.....چوہدری عزیز احمد صاحب کو میر پور بھیجا ہوا ہے جناب کے پاس ایک اور وکیل نے یہاں آنے کی درخواست کی ہوئی ہے مہربانی کر کے انہیں فور اردا نہ فرما ئیں.تاکہ عزیز احمد صاحب کو مڈلٹن کمیشن کی تیاری کے لئے واپس بلایا جا سکے.کیونکہ وہ اس سے اچھی طرح واقف ہیں اس وقت ضرورت صرف ایک ایسے قابل اور محنتی کارکن کی ہے جو کمیشن کے کام سے اچھی واقفیت رکھتا ہو.کیونکہ ہم سب بالکل ناواقف ہیں.اور گلانسی کمیشن کی تیاری میں سخت پیچیدگیاں پیدا ہو رہی ہیں.یہ امر جناب کی فوری توجہ کا محتاج ہے.روپیہ کی اشد ضرورت ہے.آخر میں یہ عرض ہے کہ ہم سب جناب کی دعا کے بھی محتاج ہیں.ہماری کامیابی کے لئے ہر وقت دعا فرمایا کریں.درد صاحب ابھی تک یہاں نہیں پہنچے کیا کشمیر چلے گئے ہیں.احباب آپ سے آداب کرتے ہیں.خاکسار گوہر رحمان جموں ( نقل مطابق اصل) ان کمیشنوں میں تصنیفی لحاظ سے جس چیز نے ملک فضل حسین صاحب کی دو تصانیف بہت مددکی وہ ملک فضل حسین صاحب کی تالیف "مسلمانان کشمیر اور ڈوگرہ راج" تھی.جو ۳۰ دسمبر ۱۹۳۱ء کو شائع ہوئی.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ذاتی طور پر ڈیڑھ سونے اس کے خرید فرمائے اور حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب کو مظفر آباد روانہ فرمایا تادہ سر بر آوردہ مسلمانوں میں اسے مفت تقسیم کر دیں چنانچہ آپ نے ایسا ہی کیا.اس کتاب کے کئی ابواب کا انگریزی ترجمہ شیخ محمد عبد اللہ صاحب کی خواہش پر گلینسی کمیشن کے سامنے رکھا گیا.اس کتاب نے مسلمانان کشمیر کے مطالبات کی معقولیت واضح کر دی اور زعمائے کشمیر نے اس کا
تاریخ احمدیت جلده 511 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ بہت شکریہ ادا کیا.چنانچہ شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ صاحب نے تحریر فرمایا کہ "میری رائے ہے کہ قابل مصنف نے بہت محنت سے کام کیا ہے.اور کشمیر کے مسلمانوں کی نسبت درد دل رکھنے والے تمام حضرات کو چاہئے کہ وہ اس رسالہ کا ضرور مطالعہ کریں.مسلمانان ریاست کو بھی چاہئے کہ گھر گھر میں اس کتاب کو منگوا ئیں اور اپنے اصل حالات اور دشمنوں کی چالوں سے واقف رہیں اور اگر وہ آئندہ دنیا میں ایک باد قار قوم کی مانند رہنا چاہتے ہیں".مولوی سید میرک شاہ صاحب فاضل دیوبند و پروفیسر اورنٹیل کالج لاہور نے لکھا.اس کتاب کی ممتاز ترین خوبی یہ ہے کہ غیر جانبدار شاہدوں کی شہادت اور صحیح اعداد و شمار نیز واقعات کی روشنی میں مسلمانان کشمیر یا بالفاظ دیگر رعایائے کشمیر کی وہ تباہی و بربادی دکھادی گئی ہے جو ڈوگرہ حکومت کے عہد میں کشمیریوں کو پیش آئی.اس موضوع پر روشنی ڈالنے کے لئے میرے خیال میں اب تک کوئی کتاب اس سے بہتر نہیں لکھی گئی".جناب اللہ رکھا صاحب ساغر لیڈ ر جموں نے تحریر فرمایا.”میرے خیال میں رسالہ سلیقہ سے مرتب ہوا ہے مصنف کی عرقریزی قابل داد ہے".شیخ غلام قادر صاحب جنرل سیکرٹری ینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن جموں نے یہ رائے دی.” یہ اپنی نوعیت کا سب سے پہلا رسالہ ہے اس کے مصنف نے مہاسبھائی ہندوؤں کی خفیہ سازشوں کا تمام تار و پود کھول کر رکھ دیا ہے.جو مسلمانان کشمیر کو ایک مدت دراز سے سختی کے ساتھ کچل رہا تھا حوالہ جات سے ہندوؤں کی سازشوں کے اثبات میں جو محنت مصنف نے کی ہے قابل داد ہے ریاست کے محکمانہ گوشوارے جن میں ملازمتوں کا تناسب دکھایا گیا ہے.اور وہ مثالیں جن سے حکام کے کورانہ تعصبات کا نمونہ پیش کیا گیا ہے.سراسر حقیقت پر مبنی ہیں ".سید ولایت شاه صاحب مفتی تحصیل راجوری نے ان الفاظ میں تبصرہ کیا کہ ”میرے خیال میں یہ کتاب واقعات کشمیر کے لحاظ سے مشاہدات مینی کا مین ترجمہ ہے.اور مصنف صاحب نے جس خلوص سے محنت کر کے یہ کتاب لکھی ہے نہ دل سے اہل خطہ کیا جملہ مومنین کو مشکور ہونا عین انصاف ہے “.ملک فضل حسین صاحب نے مسلمانان کشمیر کے ڈوگرہ راج کے بعد ستمبر ۱۹۳۲ء میں "مسئلہ کشمیر اور ہندو مہا سبھائی" کے نام سے دوسری کتاب شائع کی جس میں تحریک حریت کشمیر کے خلاف مہا سبھائی پراپیگنڈا کی خوب قلعی کھولی اور ثابت کر دکھایا کہ ویدوں میں تبدیلی مذہب پر ضبطی جائیداد کا کوئی قانون موجود نہیں ، باقی رہی منو سمرتی تو اس کے قانون وقتی ہیں اور خود ہندوؤں نے بلکہ ریاست
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 512 تحریک آزادی کشمیر اء رجماعت احمدیہ کشمیر نے بھی اس کے متعدد قانون عملاً منسوخ اور کالعدم کر رکھے ہیں.بلکہ کشمیری پنڈت منو کے خلاف مطالبات کر رہے ہیں.ان کتابوں کی قوت و ہیبت کا حکام ریاست پر یہ اثر تھا کہ انہوں نے یہ دونوں کتابیں ضبط کر لیں.اور ہدایت جاری کر دی کہ جس شخص کے پاس ان کا کوئی نسخہ پایا جائے گا اسے چھ ماہ قید اور سو روپیہ جرمانہ کی سزادی جائے گی.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی نظر ثانی گلانسی کمیشن کا کام اختتام پذیر ہوا.تو حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے گلانسی کمیشن کے مسودہ اصلاحات پر مسلم مطالبات کے تحفظ کے لئے آخری کوشش یہ فرمائی کہ کمیشن کے مسودہ اصلاحات پر احتیاطاً خود بھی نظر ثانی کر کے مسلم زعماء کو مفید مشورے دیئے.چنانچہ سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب تحریر فرماتے ہیں.”حضور نے مجھے ہدایت فرمائی کہ اصلاحات کے مسودے میں ایسا نہ ہو کہ کوئی ایسی شقیں شامل کر دی جائیں جن سے کشمیری مسلمانوں کے حقوق کو نقصان پہنچے.اس لئے ضروری ہے کہ مسلمان ممبروں کے دستخط ہونے سے پہلے وہ مسودہ اصلاحات حضور کی نظر سے گزر جائے.یہ کام بہت مشکل تھا.کیونکہ مجھے معلوم ہوا کہ مسٹر کلینسی اور ان کی بیوی مسودہ اصلاحات خود ٹائپ کرتے ہیں اور اپنی صند و چی میں اسے مقفل رکھتے ہیں.ممبران کو بلا کر تبادلہ خیال کرتے ہیں ان سے اپنے سامنے ہی دستخط کروائیں گے.اور رپورٹ بالا بالا بھیج دیں گے.ان کا یہ طریق عمل میرے لئے مایوس کن تھا.لیکن سیدھی سادی تدبیر سے بغیر اس کے کہ سرقہ کی صورت ہو.تیار کردہ رپورٹ جس پر دستخط ہونے تھے آگئی.راتوں رات وہ ٹائپ کروائی اور میں وہ لے کر قادیان پہنچ گیا.حضور نے اس میں اصلاحات فرما ئیں اور تیسرے دن میں اور درد صاحب مرحوم دونوں مسودہ کو جموں لے آئے اور مسٹر عباس اور مسٹر اشائی کو ضروری مشورہ دیا گیا.اور یہ ممبر بہت ہی ممنون ہوئے.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کو کشمیریوں کی بہبود کا اتنا خیال تھا کہ حضور نے اصلاح شدہ مسودے کی دو کا پیاں ٹائپ کروا ئیں.ایک ایک کاپی دونوں کو دے دی گئی.کہ ہم میں سے اگر ایک گرفتار ہو جائے تو دوسرا مسلمان ممبران کمیشن کو پہنچا دے".مڈلٹن کمیشن کی رپورٹیں منٹ کمیشن اور گانی کمیشن سے متعلق جماعت احمد یہ کی عظیم الشان خدمات کا تذکرہ کرنے کے بعد اب ہم مڈلٹن کمیشن کی رپورٹ کی طرف آتے ہیں.ابتد اعمد لٹن کمیشن کا خلاصہ ایسوسی ایٹڈ پریس نے شائع کیا تھا.جسے دیکھ کر مسلمانان کشمیر اور کشمیر
تاریخ احمدیت جلد ۵ 513 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ کمیٹی کو بہت افسوس ہوا.کیونکہ ڈوگرہ مظالم کے متعلق رپورٹ سراسر غیر منصفانہ اور اس شہادت کے بالکل خلاف تھی جو کمیشن کے روبرو پیش کی گئی.اس بناء پر کشمیر کمیٹی نے حکومت کشمیر سے مطالبہ کیا کہ وہ مڈلٹن رپورٹ کی مکمل نقل مع شہادتوں کے کمیٹی کو مہیا کرے.نیز مطالبہ کیا کہ پوری رپورٹ بلا تاخیر شائع کی جائے.چنانچہ جب بعد کو اصل رپورٹ منظر عام پر آئی تو معلوم ہوا کہ اخبارات کا خلاصہ سخت گمراہ کن اور خلاف اصل تھا.اور گو مسلمانوں سے پورا پورا انصاف نہیں کیا گیا تھا.مگر وہ ایسی بری بھی نہیں تھی جیسی کہ خلاصہ سے معلوم ہوتی تھی.اور اس میں فسادات کی ذمہ داری ریاست کے سول اور فوجی افسروں پر ڈالی گئی تھی مگر چونکہ رپورٹ کے خلاصہ نے مسلمانان کشمیر میں سخت اضطراب و تشویش کی اردو ڈادی تھی.لہذا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی نے اہل کشمیر کے نام مطبوعہ خط لکھا جس میں اس رپورٹ پر انتقاد کرتے ہوئے فرمایا.بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ اب ہمیں گلیسنی کمیشن پر کیا اعتبار رہا.اس میں کوئی شک نہیں کہ گلینسی کمیشن سے بھی خطرہ ہے جس طرح مڈلٹن کمیشن میں خطرہ تھا.لیکن اگر اس کمیشن نے بھی ہماری امیدوں کے خلاف فیصلہ کیا.تو ہمارا کیا نقصان ہو گا.کیا انگریز کے منہ سے نکلی ہوئی بات ہمارے مذہب کی جزو ہے.اگر مسٹر گلینسی نے مسٹرڈ لٹن والا طریق اختیار کیا تو ہم مڈلٹن رپورٹ کی طرح اس کی غلطیوں کا بھی پردہ فاش کریں گے.اور اگر اس میں مسلمانوں کے حق میں کوئی سفارش کی گئی تو یقینا اس سے ہم کو فائدہ پہنچے گا".گلانسی کمیشن کی رپورٹ اور مسلمانان حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے یہ الفاظ صحیح ثابت ہوئے اور گلانسی کمیشن نے مسلمانوں کے اکثر کشمیر کے حقوق و مطالبات پر مہر تصدیق حقوق و مطالبات کی سفارش کر دی.اور ان کی معقولیت پر اس طرح صر تصدیق ثبت کر دی کہ ہندو پریس نے احتجا جا لکھا."کشمیر کی باگ ڈور مسلمانوں کے ہاتھ میں دے دی گئی ہے.۲۲۵ مارچ ۱۹۳۲ء کو کمیشن کی رپورٹ مکمل ہوئی اور مہاراجہ صاحب نے 10 / اپریل ۱۹۳۲ء کو رپورٹ کی سفارشات منظور کرنے کے احکام جاری کر دیئے.اور اس طرح حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی قیادت میں صرف چند ماہ کی آئینی جدوجہد سے اہل کشمیر کو اکثر و بیشتر وہ حقوق قانونا حاصل ہو گئے جو سکھوں کے عہد حکومت سے چھن گئے تھے.اور جن کی خاطر اندرون کشمیر اور بیرون ریاست دونوں جگہ ایک لمبے عرصہ سے کوششیں جاری تھیں.چنانچہ گلانسی کمیشن کے نتیجہ میں خانقاہ "سوختہ".خانقاہ شاہدرہ زیارت مدنی صاحب خانقاه بلبل شاه خانقاه دارا شکوه شاهی باغ مسجد، خانقاه صوفی شاه عید گاہ سرینگر وغیرہ مساجد و مقابر اور مقدس مقامات جو مدت سے ڈوگرہ حکومت کے قبضہ میں تھے.مسلمانوں کو واپس کر دیئے گئے اور آئندہ کے
جلده 514 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد یہ لئے مہاراجہ نے یہ اعلان کیا کہ اس نوع کی تمام مقدس عمارتیں مسلمانوں کے سپرد کر دی جائیں اور اگر ان پر قابض لوگوں کو معاوضہ دینے کا عدالتی فیصلہ ہو تو ریاست اسے معاوضہ ادا کرے.اور نئی مساجد بنانے کی درخواست پر بھی ہمدردانہ غور کیا جائے.مہاراجہ صاحب کی طرف سے یہ بھی اعلان کیا گیا کہ ہر قوم کو ریاست میں کامل مذہبی آزادی ہے اور اگر کوئی شخص اذان میں مداخلت کرے تو اسے سزادی جائے.یا کسی کو اس کی تبدیلی مذہب کی بناء پر ہراساں اور خوفزدہ کیا جائے.تو اس کی گو شمالی کی جائے.خواہ وہ پولیس ہو یا کوئی اور سرکاری عہدیدار ہو یا رعایا میں سے کوئی شخص !! تعلیم کے متعلق کمیشن کی سفارشات منظور کرتے ہوئے ابتدائی تعلیم کی توسیع ، عربی کے اساتذہ کی تعداد اسلامی وظائف کی مقدار اور محکمہ تعلیم کے مسلمان انسپکٹروں میں اضافہ کے احکام دیئے اور مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لئے ایک خاص انسپکٹر کے تقرر کا فیصلہ کیا.مسلمانوں کا ایک نہایت اہم مطالبہ یہ تھا کہ زمینداروں کو حقوق مالکانہ دیئے جائیں.جو تسلیم کر لیا گیا.اور جموں، سائیہ اکھنور کھٹولہ ، جیمر گڑھ، میر پور اور بھمبر کی تحصیلوں سے کاہ چرائی کا ٹیکس عارضی طور پر اڑا دیا گیا.دھاروں میں جو مزید ٹیکس وصول کیا جاتا تھا وہ بھی اڑا دیا گیا.اخروٹ کے درخت کاٹنے پر پابندی بھی ختم کر دی گئی، محکمہ جنگلات، پولیس اور مال وغیرہ میں بھی نئی اصلاحات جاری کی گئیں اور یکرڈالوں پر ٹیکس میں تخفیف کر دی گئی.* آزادی تقریر و تحریر سے متعلق اعلان کیا کہ ریاست میں جلد از جلد وہی قانون رائج ہو.جو برطانوی ہند میں رائج ہے.مالیہ کی شرح برطانوی علاقہ کے مطابق کرنے کے مطالبہ کی معقولیت تسلیم کر لی گئی ریاست کے افسروں اور مہاراجہ کو رائے عامہ سے آگاہ کرنے اور ریاست کی قانون سازی اور حکام کے اعمال پر تنقید کرنے اور رعایا کو شامل کرنے کے لئے مسٹر گلانسی کی زیر صدارت اصلاحاتی کانفرنس نے ریاست میں آئین ساز اسمبلی قائم کرنے کی سفارش کی.چنانچہ اس کی عملی تشکیل کے لئے مہاراجہ نے ایک فرنچائز کمیٹی قائم کر دی اور ۱۹۳۴ء میں اسمبلی کا قیام ہوا.اس کے علاوہ بیگار جنگلات ، رکھ کٹم 'دھڑت ، محکمہ تعمیرات عامہ میونسپلٹی ، محکمہ طبی ، ذبیحہ شادی صغرسنی سے متعلق مراعات کا اعلان کیا گیا.اور ریاستی مطابع کو برطانوی ہند کے مطابق بنانے کے لئے ایک نیا ترمیم شدہ قانون جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور اس بارے میں احکام بھی جاری کر دیئے گئے.
تاریخ احمدبیت.جلده 515 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیه حضرت امام جماعت احمدیہ کی طرف حضرت امام جماعت احمدیہ نے گلانسی کمیشن کی سے گلانسی اور زعماء کشمیر کو مبارکباد سفارشات اور مہاراجہ صاحب کے فیصلہ جات پر مفصل تبصرہ شائع فرمایا.اس تبصرہ میں حضور نے جہاں مسٹر کلینسی کو مبارک باد دی وہاں کلینسی کمیشن کے مسلمان ممبروں یعنی چوہدری غلام عباس صاحب اور خواجہ غلام احمد صاحب اشائی کی خدمات کو بہت سراہا اور گلینسی رپورٹ کے فیصلہ ملکیت اراضی پر خاص طور پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا.کہ گو بظا ہر یہ صرف ایک اصطلاحی تغییر معلوم ہوتا ہے.لیکن چند دنوں کے بعد اس کے عظیم الشان نتائج کو لوگ محسوس کریں گے.اور یہ امر کشمیر کی آزادی کی پہلی بنیاد ہے اور اس کی وجہ سے اہل کشمیر پر زندگی کا نیا دور شروع ہو گا.مجھے اس تغیر پر دو ہری خوشی ہے کیونکہ اس مطالبہ کا خیال سب سے پہلے میں نے پیدا کیا تھا اور زور دے کر اس کی اہمیت کو منوایا تھا بعض لوگوں کا یہ خیال تھا کہ یہ مطالبہ مانا نہیں جاسکتا.مگر اللہ تعالیٰ کا محض فضل ہے کہ آخر یہ مطالبہ تسلیم کر لیا گیا.مگر ساتھ ہی یہ وضاحت فرمائی کہ "ابھی ہمارا بہت سا کام پڑا ہے اور اسے پورا کئے بغیر ہم دم نہیں لے سکتے.نیز ہمیں یہ بھی یادر کھنا چاہئے کہ صرف قانون سے ہم خوش نہیں ہو سکتے کیونکہ قانون کا غلط استعمال اچھے قانون کو بھی خراب کر دیتا ہے پس دیکھنا یہ ہے کہ فیصلہ جات پر مہاراجہ کی حکومت عمل کس طرح کرتی ہے ".سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کا دورہ کشمیر حضور نے صرف اس اعلان پر ہی اکتفا نہیں فرمایا.بلکہ جلد ہی سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کو کشمیر میں بھجوایا.کہ اندرون ریاست میں جاکر معلوم کریں.کہ گلانسی سفارشات پر کہاں تک عمل ہوا ہے چنانچہ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ ”میں نے گاندربل کے قومی کارکن مسٹر غلام قادر کو ساتھ لیا اور کشمیر ٹورسٹ گائیڈ کی مدد سے دور دراز علاقوں میں گیا.سون مرگ بال مل بالتستان در از پاپت وادی (ریچھ والی وادی) شیطان کند تر اگر بل بانڈی پورہ سوپور بارہ مولا و غیرہ علاقوں کا دورہ کرتا ہوا.دو تین ماہ بعد سرینگر پہنچا.گھوڑے کی سواری سے پنڈلی کے بال جھڑ چکے تھے.جو اب تک صاف ہیں سر اور داڑھی کے بالوں میں سفیدی شروع ہو گئی تھی ان سفروں میں مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ منظور کردہ اصلاحات نافذ ہیں.بکروال وغیرہ قبائل نے میرا ہر جگہ خوشی سے استقبال کیا.اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو دعائیں دیں کہ ان کے کاہ چرائی کے ٹیکس کم ہوئے.اس سفر کے اثناء میں بعض وقت مجھے ریچھوں کی غاروں میں رات گزارنا پڑی.ریچھ موسم گرما میں برفانی چوٹیوں پر چلے جاتے ہیں اور غاریں خالی ہوتی ہیں.موسم کی
تاریخ احمدیت جلد ۵ 516 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ خرابی اور بارش کی وجہ سے ہمیں مجبور آراستے میں ان ہی غاروں میں سے ایک غار میں رات ٹھہرنا پڑا.گلانی کمیشن کے تعلق میں فصل کے اختتام پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کے قلم سے ایک اہم واقعہ کا درج کرنا ضروری ہے.حضور فرماتے ہیں گور نمنٹ آف انڈیا نے ایک والتی ریاست کو اسی غرض کے لئے مقرر کیا.کہ کس طرح اس جھگڑے کا وہ فیصلہ کروا دیں.انہوں نے میری طرف آدمی بھیجے اور کہا کہ جب تک آپ دخل نہیں دیں گے یہ معاملہ کسی طرح ختم نہیں ہو گا.میں نے کہا مجھے تو دخل دینے میں کوئی اعتراض نہیں.میری تو اپنی خواہش ہے کہ یہ جھگڑا دور ہو جائے.آخر ان کا پیغام آیا کہ آپ دہلی آئیں.میں دہلی گیا.چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب بھی میرے ساتھ تھے.دو دفعہ ہم نے کشمیر کے متعلق سیکیم تیار کی.اور آخر گورنمنٹ آف انڈیا کے ساتھ فیصلہ ہوا کہ ان ان شرائط پر صلح ہو جانی چاہئے.اس وقت کشمیر میں بھی یہ خبر پہنچ گئی.اور مسلمانوں نے یہ سمجھا کہ اگر ہم نے فیصلہ میں دیر کی تو تمام کریڈٹ جماعت احمدیہ کو حاصل ہو جائے گا.چنانچہ پیشتر اس کے کہ ہم اپنی تجاویز کے مطابق تمام فیصلے کروا لیتے مسلمانوں نے ان سے بہت کم مطالبات پر دستخط کر دیئے حالانکہ ان سے بہت زیادہ حقوق کا ہم گورنمنٹ آف انڈیا کے ذریعہ فیصلہ کروا چکے تھے "
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 517 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد یہ (فصل دوم) حضرت امام جماعت احمدیہ کی طرف سے اہل کشمیر کے لئے مالی و جانی قربانیوں کی پر زور تحریک اور اہل کشمیر سے ایک اہم وعدہ - آل انڈیا کشمیر کمیٹی اگر چہ اصولاً مسلمانان ہند کا ایک ملک گیر ادارہ تھا.مگر اس کی مالی اور دوسری عملی ذمہ داریاں سب سے زیادہ جماعت نے پوری کرنا تھیں.اس لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایده اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نہایت اولوالعزمی کے ساتھ سالانہ جلسہ ۱۹۳۱ء پر واضح اعلان فرمایا کہ."میں نے اپنے نفس سے اقرار کیا ہے.اور طریق بھی یہی ہے کہ مومن جب کوئی کام شروع کرے.تو اسے ادھورا نہ چھوڑے.میں نے کشمیر کے مسلمانوں سے وعدہ کیا ہے کہ جب تک کامیابی حاصل نہ ہو جائے خواہ سو سال لگیں.ہماری جماعت ان کی مدد کرتی رہے گی.اور آج میں اعلان کرتا ہوں کہ کل پرسوں اتر سوں سال دو سال سو دو سو سال جب تک کام ختم نہ ہو جائے ہماری جماعت کام کرتی رہے گی.حضرت عمر ا کے زمانہ میں ایک حبشی غلام نے ایک قوم سے یہ معاہدہ کیا تھا کہ فلاں فلاں رعایتیں تمہیں دی جائیں گی جب اسلامی فوج گئی.تو اس قوم نے کہا کہ ہم سے تو یہ معاہدہ ہے.فوج کے افسر اعلیٰ نے اس معاہدہ کو تسلیم کرنے سے لیت و لعل کی تو بات حضرت عمر ان کے پاس گئی انہوں نے فرمایا.مسلمانوں کی بات جھوٹی نہ ہونی چاہئے.خواہ غلام ہی کی ہو.مگر یہ غلام کا نہیں جماعت کے امام کا وعدہ ہے پس ہماری جماعت کو مسلمانان کشمیر کی امداد جاری رکھنی چاہئے.جب تک کہ ان کو اپنے حقوق حاصل نہ ہو جائیں.خواہ اس کے لئے کتنا عرصہ لگے.اور خواہ مالی اور خواہ کسی وقت جانی قربانیاں بھی کرنی پڑیں.ہم نے یہ کام مظلوم مسلمانوں کی امداد کے لئے شروع کیا ہے.مگر بعض لوگوں نے اس میں کامیابی دیکھ کر یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ ہم نے تبلیغ احمدیت کے لئے یہ کام شروع کیا ہے اس کام کی وجہ سے اگر اللہ تعالی کسی کے دل میں ہماری محبت ڈالے تو ہم خدا تعالی کے اس انعام سے انکار نہیں کر سکتے.مگر اسے ہم تبلیغ احمدیت کا آلہ نہیں بنا سکتے.اس کام کو چونکہ ہماری جماعت نے ابتغاء لوجه الله شروع کیا ہے.تاکہ ایک مظلوم قوم آزاد ہو.اس لئے کسی اپنے نفوذ
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 518 تحریک آزادی کشمیر او ر جماعت احمدیہ کا ذریعہ نہیں بنانا چاہئے ".حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی نے احمدیوں میں یوں زبر دست جذبہ اور روح پھونکنے کے بعد خاص آزادی کشمیر سے متعلق پانچ خطبے ارشاد فرمائے.چنانچہ ۲۲/ جنوری ۱۹۳۲ء کے خطبہ جمعہ میں بعض رویاء و کشوف کی بناء پر فرمایا.و کشمیر کے مسلمان یقینا غلام ہیں اور ان کی حالت دیکھنے کے بعد جو یہ کہتا ہے کہ ان کو کسی قسم کے انسانی حقوق حاصل ہیں.وہ یا تو پاگل ہے.اور یا اول درجہ کا جھوٹا اور مکار.ان لوگوں کو خداتعالی نے بہترین دماغ دیئے ہیں اور ان کے ملک کو دنیا کی جنت بنایا ہے.مگر ظالموں نے بہترین دماغوں کو جانوروں سے بد تر اور انسانی ہاتھوں نے اس بہشت کو دوزخ بنا دیا ہے لیکن خدا تعالی کی غیرت نہیں چاہتی کہ خوبصورت پھول کو کانٹا بنا دیا جائے.اس لئے وہ اب چاہتا ہے کہ جسے اس نے پھول بنایا ہے وہ پھول ہی رہے.اور کوئی ریاست اور حکومت اسے کانٹا نہیں بنا سکتی.روپیہ چالا کی مخفی تدبیریں اور پراپیگینڈا کسی ذریعہ سے بھی اسے کانٹا نہیں بنایا جا سکتا.چونکہ خدا تعالیٰ کا منشاء یہ ہے اس لئے کشمیر ضرور آزاد ہو گا.اور اس کے رہنے والوں کو ضرور ترقی کا موقع دیا جائے گا.اگر تم اس میں حصہ لو گے تو گو بظاہر اس بڑھیا کی مثال ہو گی.جس کے متعلق یہ قصہ مشہور ہے کہ وہ سوت کی انٹی لے کر حضرت یوسف علیہ السلام کو خریدنے گئی تھی.لیکن ساتھ ہی یہ مت خیال کرو تمہارا حصہ بہت تھوڑا ہے ممکن ہے ہمارا پیسہ یا دھیلہ یا دمڑی ہی اس کی آزادی کا موجب ہو جائے.اور اگر چہ دنیا کی نظر میں اس کی کچھ حقیقت نہ ہو مگر خدا تعالیٰ کے علم میں یہ بات ہو کہ اگر وہ دمڑی خرچ نہ کی جاتی تو یہ ملک آزاد نہ ہو سکتا.دوسری چیز دعا ہے.میں دوستوں کو تحریک کرتا ہوں کہ رمضان کی دعاؤں میں کشمیر کی آزادی کو بھی شامل رکھیں.اگر ہمارے پاس ریاست کے مقابلہ میں روپیہ نہیں.آدمی نہیں.فوجیں نہیں اور دوسرے دنیوی اسباب نہیں تو کچھ پروا نہیں کیونکہ ہمارے پاس وہ ہتھیار ہے جو دنیا کے سارے بادشاہوں کے پاس نہیں اور جس سے تمام حکومتوں کی متحدہ طاقتوں کو بھی شکست دی جاسکتی ہے.اور وہ دعا ہے ".اس خطبہ کے بعد حضور نے ۵/ فروری ۱۹۳۲ء کو مسلمانان کشمیر کے لئے ایک پائی فی روپیہ چندہ دینے کی اہم تحریک فرمائی اور ارشاد فرمایا.تمیں لاکھ انسانوں کی قوم سینکڑوں سال سے ظلم و استبداد کے نیچے چلی آتی ہے.پھر وہ ہماری تحقیق کے مطابق بنی اسرائیل میں سے ہے.وہی بنی اسرائیل جنہیں خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں ان کے ذریعہ فرعون کے مظالم سے نجات دلائی تھی.اور کوئی تعجب نہیں کہ وہ پھر
تاریخ احمدیت.جلده 519 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ اس فرعونی حکومت سے ان غریبوں کو بھی بچانا چاہتا ہو.اس لئے اس معاملہ میں ہماری مدد اس کی خوشنودی کا موجب ہوگی جماعت کے دوستوں کو چاہئے کہ اس موقعہ سے محروم نہ رہیں.اور اس معاملہ میں یہ کبھی خیال نہیں کرنا چاہئے.کہ وہ لوگ ہماری جماعت سے تعلق نہیں رکھتے ہمیں ان کی امداد کی کیا ضرورت ہے جس طرح خدا تعالٰی کا احسان اپنے پرائے میں کوئی فرق نہیں کرتا.اسی طرح مومن کے احسان میں بھی کوئی اس قسم کی تمیز نہ ہونی چاہئے...اور ان بے چاروں کی تو ایسی مظلومی کی حالت ہے کہ اگر وہ مسلمان بھی نہ ہوتے تب بھی ان کی مدد واجب تھی.مظلومین کشمیر کی امداد کے سلسلہ میں حضور نے تیسرا خطبہ ۱۲ / فروری ۱۹۳۲ء کو چو تھا خطبہ ۱۹/ فروری ۱۹۳۲ء کو اور پانچواں خطبہ ۲۶/ اگست ۱۹۳۲ء کو ارشاد فرمایا.اور جماعت سے تحریک آزادی کے لئے قربانیوں کا مطالبہ کیا اور یہ حضور کی قوت قدسی ہی کا نتیجہ تھا کہ جماعت کے ہر طبقہ نے اس مطالبہ پر نہایت اخلاص و فدائیت سے لبیک کہا.اور ان میں عمل وجد وجہد کی نئی روح پیدا ہو گئی.
تاریخ احمدیت جلد ۵ 520 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ (فصل سوم) فسادات اور ان کی روک تھام زعماء کشمیر کی رہائی کے لئے کامیاب جدوجہد اور مجرموں کی سزایابی ۱۹۳۲ء کا آغاز ظالمانہ آرڈی نینس کے نفاذ میرپور جموں، راجوری، ہندواڑہ بارہ مولا سوپور بھمبر کو ٹلی اور پونچھ میں ڈوگرہ حکومت کے شرمناک مظالم ، مفتی ضیاء الدین صاحب کی جلاوطنی محمد عبد اللہ صاحب اور دوسرے زعماء کشمیر I اور صوفی عبد القدیر صاحب نیاز بی.اے کے اخراج ریاست سے ہوا.جبر و تشدد کے اس نئے دور کا سبب یہ ہوا کہ جموں میں امن کی بحالی کے لئے جو انگریزی فوج متعین کی گئی تھی.وہ مسلمانان جموں کی سر توڑ کوشش کے باوجو د ۲۱/ دسمبر۱۹۳۱ء کو ریاست کشمیر کے زور دینے پر واپس بلائی گئی اور جموں کے نہتے مسلمان پھر ریاستی حکام کے رحم و کرم پر چھوڑ دیئے گئے.ادھر جموں میں کشیدگی انتہاء تک پہنچی ادھر میرپور میں یہ ظلم و ستم ہوا کہ انسپکٹر جنرل پولیس گورنر جموں اور وزیر وزارت نے فوج اور پولیس کی معیت میں عدم ادائیگی مالیہ 1 کے سلسلہ میں میرپور کے ایک گاؤں (کھڑی میں چھاپہ مارا.عورتوں کے زیورات اور دیگر چیزوں کے علاوہ مویشی بھی قرق کرلئے مگر زمینداروں نے کوئی مزاحمت نہ کی حکام تمام مال مویشی اور سامان لے کر جب روانہ ہونے لگے.تو زمینداروں نے رسیدیں طلب کیں لیکن حکام نے قطعی انکار کر دیا.اس پر زمیندار نهایت بے دست وپائی اور عجز کے ساتھ مویشیوں کے سامنے لیٹ گئے.اور رسیدات کا مطالبہ کرنے لگے انسپکٹر جنرل پولیس نے پولیس کو لاٹھی چارج کا حکم دیا.مگر مسلمان پھر بھی لیے رہے.آخر گولی چلا دی گئی.جس سے پانچ مسلمان شہید اور ۲۵ مجروح ہوئے.اس دہشت انگیزی کے بعد مظالم کا سلسلہ وسیع سے وسیع تر ہو گیا.اور چند ماہ میں علاقہ میرپور کے ہزاروں مسلمان جن میں مرد عورتیں بچے سب شامل تھے.تباہ حال ہو کر انگریزی علاقہ میں آگئے اور تین ہزار کے قریب تو صرف جہلم میں پناہ گزیں ہوئے.ان واقعات کی بازگشت جموں میں یہ ہوئی که / جنوری ۱۹۳۲ء کو جموں کے ہندوؤں نے مہاراجہ کشمیر اور اس کے وزیر اعظم اور دوسرے
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 521 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ سرکاری افسروں سے ملنے کے بعد سازش کی کہ جموں کے مسلمانوں کو تہ تیغ کر کے ان کے مکانات کو لوٹا اور جلا دیا جائے اور اس غرض کے لئے مسلح دیہاتی راجپوتوں کو اجرت پر منگوانے کا فیصلہ کیا گیا.اس سازش کا علم ہوتے ہی مسلم ایسوسی ایشن جموں نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کو تار دیا کہ وہ مہربانی فرما کر احتیاطی انتظامات کرانے کی کوشش فرما ئیں.مسلمان سخت مضطرب ہیں ".20 سول نافرمانی کی تحریک ان مخدوش حالات میں مسلمانوں کی طرف سے ذرہ برابر غیر قانونی حرکت بارودی ماحول کو شعلہ دکھانے کے مترادف تھی.لیکن افسوس وقت کی نزاکت کے سراسر خلاف اور ریاست کے ذمہ دار مسلمان نمائندوں کی اجازت کے بغیر میر پور میں عدم ادائے مالیہ کی تحریک جاری کر دی گئی اور سول نافرمانی کا پروگرام بنا لیا گیا.جس کا خمیازہ پورے صوبہ جموں بلکہ پوری ریاست کے مسلمانوں کو بھگتنا پڑا.جگہ جگہ مسلمانوں کا خون بہایا گیا اور شیخ محمد عبد اللہ اور دوسرے نامور لیڈر گرفتار کر لئے گئے اس سلسلہ میں جناب چوہدری غلام عباس صاحب اپنی کتاب "کشمکش" میں تحریر فرماتے ہیں.چند نوجوان احرار کے حامی تھے انہوں نے مسلم ایسوسی ایشن پر دباؤ ڈالا کہ ریاست کے مسلمان احرار کی رفاقت سے کام کریں.جماعت احرار کے لیڈروں اور بزرگوں سے جموں اور کشمیر کے مسلمانوں کو شدید اختلافات تھے.یہ تحریک انہوں نے ہماری شدید مخالفت کے باوجود ایسے حالات میں شروع کی جو اسلامیان ریاست کی اس وقت کی سیاسی فضا کے لئے سازگار نہ تھی کمیشن کے فیصلہ کی طرف ہندوستان اور ریاست کے مسلمانوں کی آنکھیں لگی ہوئی تھیں اور ہر معقول آدمی اس وقت کسی غیر آئینی کار روائی کو مفاد ملت کے خلاف ایک تخریبی حرکت تصور کرتا تھا.میری غیر حاضری میں مسلم ایسوسی ایشن کا کام ساغر صاحب کے ہاتھ میں تھا.انہوں نے جماعت احرار کی تحریک کے رد عمل کے لئے انفرادی سول نافرمانی کی.اور پچاس کے قریب نو جوانوں کے ہمراہ قید ہو گئے انہی دنوں میرپور میں تحریک عدم ادائے مالیہ کسی طے شدہ پروگرام اور مسلم نمائندگان ریاست سے مشورہ کئے بغیر شروع کر دی گئی.اخبار "سیاست" یکم مارچ ۱۹۳۲ء نے لکھا."کشمیر جنت نظیر میں ہندو کار پردازان حکومت کشمیر کی نا اہلی اور مکرو تعصب کے سبب اسلامیان خطہ پر جو قیامت برپا ہوئی....اسلامیان ہند کو ان زہرہ شگاف تکالیف نے تڑپا دیا.اور دیوانہ وار وہ ان کی مدد و اعانت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے.آل انڈیا کشمیر کمیٹی اسی غرض کے لئے مرتب ہوئی ، قرار پایا کہ اسلامیان خطہ کو جن میں انتہائی حالت پر پہنچ کر احساس خود داری پیدا ہوا ہے ہر ممکن اور جائز طریق سے مدد دی جائے انہیں حصول مقصد کے لئے بہترین طریق کار سمجھایا جائے اور ان کو مالی امداد دی جائے کیونکہ بوجہ ان کی بے انتہا مفلوک الحالی re
تاریخ احمد حمد - جلد ۵ 522 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ کے سب سے زیادہ انہیں مالی مدد کی ضرورت تھی.یہ ایک ایسا پروگرام تھا.کہ اس پر متحدانہ طریق پر عمل ہو تا تو اسلامیان کشمیر کو بے انتہاء فوائد مرتب ہوتے لیکن سوء تقدیر سے احرار کی افتراق انگیزی کے باعث اس پر اس طرح عمل نہ ہو سکا.جس طرح کہ ہونا چاہئے تھا.تاہم کشمیر کمیٹی نے مخالف حالات کی موجودگی میں جو کیا اور جو کر رہی ہے کسی آئندہ وقت میں جبکہ حالات کلیتہ پر سکون ہو جائیں گے روشن ہو جائے گی.اور مسلمان دیکھ لیں گے کہ حق بجانب کون تھا.اتنا تو اس وقت بھی ظاہر ہو گیا.کہ دو تین مرتبہ کھیل بن بن کر بگڑ گیا.جتھے بازی بے سود اور مضرت رساں ثابت ہوئی اس سے فائدہ کی بجائے الٹا نقصان پہنچا.احرار کی جانب سے مسلمانان خطہ کو کوئی مالی امداد بھی نہ ملی ان کے جارحانہ اقدام کے باعث حکومت پنجاب رہند بھی برگشتہ ہو گئی جس کا اثر ان تحقیقاتی کمشنوں پر پڑا.جو بڑے پرزور مطالبات اور بڑی جہدو کوشش سے مقرر کرائی گئیں اور اسلامیان کشمیر کی حالت بد سے بد تر ہو گئی".شیخ محمد عبداللہ صاحب اور دوسرے زعماء ۲۷/ جنوری ۱۹۳۲ء کو سرینگر سے شیخ محمد عبد اللہ صاحب اور ان کے رفقاء کی گرفتاری کشمیر کی گرفتاری پر احتجاج اور ان کی رہائی اور مفتی ضیاء الدین صاحب کے جبر یہ اخراج کی خبر قادیان پہنچی تو حضور نے فورا مہاراجہ کشمیر کو تار دیا کہ اطلاع موصول ہوئی ہے کہ مسٹر عبد اللہ کو سرینگر میں گرفتار کر لیا گیا ہے.حالانکہ صرف وہی ایسا آدمی تھا جس کے مشورے ریاست میں قیام امن کا موجب رہے ہیں.اور اس کی گرفتاری سے واضح ہوتا ہے کہ ریاستی حکام امن کے خواہش مند نہیں بلکہ بدامنی چاہتے ہیں.میں یو رہائی نس سے آخری بار التماس کرتا ہوں کہ مہربانی فرما کر حکام کو اس تشدد اور سختی سے روک دیں.وگرنہ باوجود ہماری انتہائی کوشش کے مجھے خطرہ ہے کہ خواہ کتنے بھی آرڈنینس جاری کئے جائیں امن قائم نہ ہو سکے گا.اور اس کی تمام تر ذمہ داری ریاست پر ہو گی".ساتھ ہی وائسرائے ہند کے نام بھی تار دیا کہ ”ہماری مصالحانہ مساعی کے باوجود ریاستی حکام مسلمانوں پر انتہائی تشدد میں مصروف رہے اور جلسوں کی ممانعت پانچ افراد سے زیادہ کے اجتماع کی ممانعت وغیرہ کے لئے ان مقامات پر بھی آرڈی نینس جاری کر دیئے گئے جہاں بالکل امن و امان تھا اب خبر آئی ہے کہ مفتی ضیاء الدین صاحب کو جبر احد و د ریاست سے نکال دیا گیا ہے اور مسٹر عبد اللہ کو ان کے رفقاء سمیت گرفتار کر لیا گیا ہے.جس سے صاف ثابت ہو تا ہے کہ ریاستی حکام خود ہی فتنہ انگیزی کرنا چاہتے ہیں تا حکومت برطانیہ کی ہمدردی حاصل کر سکیں اور مسلمانوں کو برباد کرنے کے لئے بہانہ
تاریخ احمدیت.جلد ؟ بنا سکیں.523 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ اس لئے میں ایک بار پھر یور ایکسی لینسی سے اپیل کرتا ہوں کہ فوری مداخلت کر کے حالات کو بد تر صورت اختیار کرنے سے بچالیں.اگر یور ایکسی لینسی کے لئے اس میں مداخلت ممکن نہ ہو تو صربانی فرما کر مجھے اطلاع کرا دیں.تامیں مسلمانان کشمیر کو اطلاع دے سکوں کہ اب ان کے لئے سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ یا تو جد وجہد میں ہی اپنے آپ کو فنا کر دیں اور یا دائمی غلامی پر رضامند ہو جائیں".حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایده الله ریاست کشمیر کا مقابلہ کرنے کے لئے نیا پروگرام تعالی نے وائسرائے صاحب اور مہاراجہ صاحب کو توجہ دلانے کے علاوہ مولوی عبدالرحیم صاحب درد اور ان کے دوسرے رفقاء کے نام ۲۷/ جنوری ۱۹۳۲ء کو بذریعہ مکتوب مندرجہ ذیل ہدایات بھیجیں.مسٹر عبد اللہ قید کر لئے گئے ہیں اور مفتی ضیاء الدین صاحب نکال دیئے گئے ہیں.ان حالات میں ریاست کا منشاء صاف ظاہر ہے کہ وہ کشمیر کمیٹی کے کام کو کچلنا چاہتی ہے اور ایک دفعہ تحریک کا خاتمہ کرنا چاہتی ہے.اس صورت میں ریاست سے تعاون یا اس کی امداد خود اپنے سے دشمنی ہے میرے نزدیک اب وقت ہے کہ پوری طرح ریاست سے مقابلہ کیا جائے.میں نے اس کے لئے تیاری شروع کر دی ہے.افسوس کہ احرار کی تحریک نے اس کام کو خراب کر دیا.اور جو اثر ہم نے پیدا کیا تھا اسے تباہ کر دیا.اب نئے سرے سے کوشش کی ضرورت ہوگی.مگر مجھے یقین ہے کہ انشاء اللہ ہم فتح پائیں گے اب اگر آپ لوگ سمجھتے ہیں کہ گفتگو کے نتیجہ میں مسٹر عبد اللہ اور دوسرے قیدی رہا ہو سکتے ہیں تو گفتگو کو جاری رکھیں ورنہ گفتگو کو بند کر دیں.اور واپس آکر مقابلہ کا پروگرام تیار کرنے میں میری مدد کریں اور پھر اس کے پورا کرنے میں.اب ضرورت ہے کہ سب پریس یکدم ایک آواز اٹھائے اور حکومت ہند پر پورا زور دیا جائے.ہاں واپس آنے سے پہلے ایک دفعہ ریذیڈنٹ اور مسٹر کلینسی سے مل کر ان کی امداد حاصل کرنے کی پوری کوشش کی جائے.اگر ان کی معرفت بھی کچھ نہ ہو سکے تو پھر ہمارا فرض ہے کہ پورا زور لگا کر ریاست کی شرارت کو کچلا جائے.آتے ہوئے خود ریاست میں جہاں تک ہو سکے نظام قائم کرتے آئیں.اور اندر کے کام کے متعلق بھی مشورہ کرتے آئیں.احرار کے پروگرام سے بہر حال ہمارا اتفاق نہیں ہو سکتا.اس لئے اپنے اصول پر سب داغ بیل ڈالی جائے".
تاریخ احمدیت جلد ۵ 524 تحریک آزادی کشمیر او ر جماعت احمد یو طبی وفد حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی نے اس انتہائی تشویشناک ماحول میں سب سے پہلا قدم یہ اٹھایا کہ ڈاکٹر محمد شاہ نواز صاحب ایم بی بی ایس کی قیادت میں ایک طبی وفد بھجوایا.tt وفد پہلے انسپکٹر جنرل پولیس مسٹر لا تھر سے ملا." صاحب بہادر " نے دوران گفتگو میں کہا کہ میں مسلمانوں سے تنگ آگیا ہوں اور میں بغیر مالیہ لئے واپس نہ جاؤں گا اور اس کے لئے انتہائی تدابیر اختیار کرنے پر آمادہ ہوں.وفد نے اس ملاقات کے بعد سول ہسپتال میرپور میں مجرد حین کا معائنہ کیا اور پھر جہلم میں آیا اور ان مجرد حین کا مشاہدہ کیا جو سول ہسپتال جہلم میں زیر علاج تھے اور واپس آکر مفصل رپورٹ حضور کی خدمت میں پیش کردی.سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کی ملاقات مسٹر لا تھر سے حضور نے طبی وفد بھیجوانے کے ساتھ سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کو تحقیق حالات کے لئے روانہ فرمایا.فسادات جموں کے بعد حضرت شاہ صاحب واقعات کی تحقیق کے سلسلہ میں مسٹرلا تھر کے پاس پہنچے جو اس وقت میرپور میں تھے.آپ نے مسلمانوں پر کئے جانے والے مظالم اور ان کی تشویش اور بے چینی کے اسباب وضاحت سے بتائے.مسٹر لا تھر انسپکٹر جنرل پولیس نے کہا کہ موجودہ حالات نے مجھے تحمیل معاہدہ کی مہلت ہی نہیں دی.مسٹر لا تھر نے وزیر اعظم ہری کشن کول کا ایک تار بھی دکھایا جس کا مفہوم یہ تھا کہ زمیندار پہلے مالیہ ادا کریں اس کے بعد تحقیقات کرائی جائے گی.اگر ضروری ہوا تو مناسب تدابیر اختیار کی جائیں گی.وزیر اعظم ہری کشن کول صاحب کی برطرفی شاہ صاحب کی تحقیقات سے چو نکہ یہ بات کھل کر سامنے آگئی تھی کہ گزشتہ فسادات کے بھڑ کنے اور زعمائے کشمیر کی گرفتاری اور کشمیر کمیٹی کے نامور کارکنوں کے اخراج کی ذمہ داری وزیر اعظم ہری کشن کول پر عائد ہوتی ہے.اس لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی کی کوشش تھی کہ انہیں عہدہ وزارت سے موقوف کرا دیا جائے.چنانچہ آخر فروری ۱۹۳۲ء میں ان کی بجائے مسٹر کالون وزیر اعظم مقرر کر دیئے گئے اور ریاستی مسلمانوں نے اطمینان کا سانس لیا.اللہ ہری کشن کول صاحب سے متعلق اہم واقعات سید نا حضرت خلیفة الحی الثانی ایده ال تعالیٰ بنصرہ العزیز نے "الموعود" میں کشن کول صاحب سے متعلق واقعات بیان فرمائے ہیں جو حضور ہی کے قلم سے درج ذیل کئے جاتے ہیں.
تاریخ احمدیت جلد ۵ 525 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ آخر سر ہری کشن کول نے مجبور ہو کر مجھے لکھا کہ آپ اپنے چیف سیکرٹری کو بھیج دیں.مہاراجہ صاحب کہتے ہیں میں خود ان سے بات کر کے ان معاملات کا فیصلہ کرنا چاہتا ہوں.میں نے چوہدری فتح محمد صاحب سیال کو بھیج دیا مگر ساتھ ہی انہیں کہہ دیا کہ یہ پرائم منسٹر کی کوئی چال نہ ہو.تیسرے دن ان کا تار پہنچا کہ میں یہاں تین دن سے بیٹھا ہوا ہوں مگر مہاراجہ صاحب ملاقات میں لیت و لعل کر رہے ہیں.میں نے کہا آپ ان پر حجت تمام کر کے واپس آجائیں.چنانچہ انہوں نے ایک دفعہ پھر ملاقات کی کوشش کی مگر جب انہیں کامیابی نہ ہوئی تو وہ میری ہدایت کے ماتحت واپس آگئے.چوہدری صاحب کے واپس آنے کے بعد سر ہری کشن کول کا خط آیا.کہ مہاراجہ صاحب ملنا تو چاہتے تھے مگر وہ کہتے تھے کہ مرزا صاحب خود آتے تو میں ان سے ملاقات بھی کرتا.ان کے سیکرٹری سے ملاقات کرنے میں تو میری ہتک ہے.اتفاق کی بات ہے.اس کے چند دن بعد ہی میں لا ہو ر گیا.تو سر ہری کشن کول مجھ سے ملنے کے لئے آئے.میں نے ان سے کہا کہ مہاراجہ صاحب خود آتے تو میں ان سے ملاقات بھی کرتا.آپ تو ان کے سیکرٹری ہیں اور آپ سے ملنے میں میری ہتک ہے.میرا یہ جواب سنکر وہ سخت گھبرایا میں نے کہا پہلے تو میں تم سے ملتا رہا ہوں.کیونکہ مجھے پتہ نہیں تھا کہ سیکرٹری کے ساتھ ملنے سے انسان کی ہتک ہو جاتی ہے.لیکن اب مجھے معلوم ہوا کہ اگر سیکر ٹری سے ملاقات کی جائے تو ہتک ہو جاتی ہے.اس لئے میں اب تم سے نہیں مل سکتا.گو یا خدا نے فوری طور پر مجھے ان سے بدلہ لینے کا موقع عطا فرما دیا.آخر اسی دوران میں ایک دن سر سکندرحیات خاں صاحب نے مجھے کہلا بھیجا کہ اگر کشمیر کمیٹی اور احرار میں کوئی سمجھوتہ ہو جائے تو حکومت کسی نہ کسی رنگ میں فیصلہ کر دے گی.میں چاہتا ہوں کہ اس بارہ میں دونوں میں تبادلہ خیالات ہو جائے.کیا آپ ایسی مجلس میں شریک ہو سکتے ہیں.میں نے کہا مجھے شریک ہونے میں کوئی عذر نہیں.چنانچہ یہ میٹنگ سر سکندر حیات خاں کی کوٹھی پر لاہور میں ہوئی اور میں بھی اس میں شامل ہوا.چوہدری افضل حق صاحب بھی رہیں تھے.باتوں باتوں میں وہ جوش میں آگئے اور میرے متعلق کہنے لگے کہ انہوں نے الیکشن میں میری مدد نہیں کی اور اب تو ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ احمد یہ جماعت کو کچل کر رکھ دیں.میں نے مسکراتے ہوئے کہا.اگر جماعت احمد یہ کسی انسان کے ہاتھ سے کچلی جاسکتی تو کبھی کی کچلی جا چکی ہوتی اور اب بھی اگر کوئی انسان اسے کچل سکتا ہے تو یقیناً یہ رہنے کے قابل نہیں ہے.پھر میں نے کہا یہ بھی درست نہیں کہ میں نے الیکشن میں آپ کی مدد نہیں کی ایک الیکشن میں میں نے آپ کی مخالفت کی ہے.اور ایک الیکشن میں آپ کی مدد کی ہے.سر سکندرحیات خاں بھی کہنے لگے.افضل حق تم بات بھول گئے ہو.انہوں نے ایک الیکشن میں تمہاری مدد کی تھی صرف
تاریخ احمدیت جلد ۵ 526 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ ایک الیکشن میں انہوں نے تمہاری مخالفت کی ہے.وہ کہنے لگے.میری بڑی جنگ ہوئی ہے اور اب تو میں نے احمدیت کو کچل کر رکھ دیتا ہے.جب اس طرح کوئی فیصلہ نہ ہو اتو گورنمنٹ آف انڈیا نے ایک والی ریاست کو اس غرض کے لئے مقرر کیا کہ کسی طرح اس جھگڑے کا وہ فیصلہ کروا دیں انہوں نے میری طرف آدمی بھیجے اور کہا کہ جب تک آپ دخل نہیں دیں گے یہ معالمہ کسی طرح ختم نہیں ہو گا.میں نے کہا.مجھے تو دخل دینے میں کوئی اعتراض نہیں.میری تو اپنی خواہش ہے کہ یہ جھگڑا دور ہو جائے.آخر ان کا پیغام آیا کہ آپ دہلی آئیں.میں دہلی گیا.چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب بھی میرے ساتھ تھے.دو دفعہ ہم نے کشمیر کے متعلق سکیم تیار کی اور آخر گورنمنٹ آف انڈیا کے ساتھ فیصلہ ہوا کہ ان ان شرائط پر صلح ہو جانی چاہئے.اس وقت کشمیر میں بھی یہ خبر پہنچ گئی اور مسلمانوں نے سمجھا کہ اگر ہم نے فیصلہ میں دیر کی تو تمام کریڈٹ جماعت احمدیہ کو حاصل ہو جائے گا.چنانچہ پیشتر اس کے کہ ہم اپنی تجاویز کے مطابق تمام فیصلے کروا لیتے.مسلمانوں نے ان سے بہت کم مطالبات پر دستخط کر دیئے.حالانکہ ان سے بہت زیادہ حقوق کا ہم گورنمنٹ آف انڈیا کے ذریعہ فیصلہ کروا چکے تھے.ا غرض کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کا تمام کام میرے ذریعہ سے ہوا.اور اس طرح اللہ تعالٰی نے مجھے اس پیشگوئی کو پورا کرنے والا بنایا کہ مصلح موعود اسیروں کا رستگار ہوگا.ان ہی ایام میں آخری دفعہ جب میں لاہور گیا تو سرہری کشن کول بھی وہاں آئے ہوئے تھے.ان کا میرے نام پیغام آیا کہ اپنے آدمی بھیج دیں.تاکہ شرائط کا ان کے ساتھ تصفیہ ہو جائے.میں نے کہلا بھیجا کہ تصفیه ان ان شرائط پر ہو گا.اگر مان لو تو صلح ہو سکتی ہے ورنہ نہیں.وہ کہنے لگے یہ شرائط تو بہت سخت ہیں.اگر ان کو تسلیم کر لیا گیا تو ہماری قوم بگڑ جائے گی.میں نے کہا یہ تمہاری مرضی ہے چاہو تو صلح کر لو اور چاہو تو نہ کرو.ورد صاحب اس کے ساتھ گفتگو کر رہے تھے.آخر رات کے گیارہ بجے اس نے کہہ دیا کہ ان شرائط پر صلح نہیں ہو سکتی.مجھے درد صاحب نے یہ بات پہنچائی تو میں نے ان سے کہا آپ سر ہری کشن کول سے جاکر کہہ دیں کہ اگر ان شرائط پر وہ صلح کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں تو پھر وہ بھی وزیر نہیں رہ سکتے.درد صاحب نے یہ بات اسے کسی تو وہ کہنے لگا میں تجربہ کار ہوں میں ایسے بلف (BLUFF) سے نہیں ڈرا کرتا.میں نے درو صاحب سے کہا آپ ان سے دریافت کریں اور پوچھیں کہ کرنل پکر جموں گیا ہے یا نہیں اگر وہ جموں گیا ہے اور مہاراجہ صاحب سے ملا ہے تو آپ یہ بتائیں کہ کیا مہاراجہ صاحب نے آپ کو وہ باتیں بتائیں ہیں.اگر نہیں بتا ئیں حالانکہ مہاراجہ آپ کو اپنا باپ کہا کرتا ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ آپ کو الگ کرنا چاہتا ہے.چنانچہ میں آپ کو بتا دینا
د - جلد ۵ 527 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد چاہتا ہوں کہ اب آپ کا زمانہ گزر چکا ہے.اب آپ وزیر اعظم نہیں رہ سکتے.مہاراجہ صاحب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ آپ کو الگ کر دیا جائے اور کالون صاحب کو وزیر اعظم بنا دیا جائے.یہ سنتے ہی اس کا رنگ فق ہو گیا.اور کہنے لگا بات تو ٹھیک معلوم ہوتی ہے.پھر اسی وقت اس نے اپنا موٹر تیار کیا.اور درد صاحب سے کہا کہ آپ ان سے اجازت لے کر آئیں اور میرے ساتھ چلیں جو شرائط بھی آپ لکھیں گے میں ان پر دستخط کرنے کے لئے تیار ہوں.انہوں نے کہا اب دستخط کرنے کا وقت نہیں رہا.کل صبح تم پرائم منسٹر ہو گئے ہی نہیں اس کو ایسا فکر ہوا کہ وہ اسی وقت راتوں رات موٹر پر جموں گیا.مگر جب صبح ہوئی تو مہاراجہ نے اسے کہہ دیا کہ تمہیں وزارت سے الگ کیا جاتا ہے.غرض کشمیر کے لوگوں کو جو کچھ ملاوہ میری جدوجہد کے نتیجہ میں ملا اور واقع یہ ہے کہ اگر کشمیر کے لوگ جلدی نہ کرتے تو گورنمنٹ آف انڈیا کی معرفت جو سمجھوتہ ہو تا.اس میں انہیں زیادہ حقوق مل جاتے اور گائے کا سوال بھی حل ہو جاتا.میں نے ان واقعات کے بیان کرنے میں بہت سی باتیں چھوڑ دیں اور متنبض والیان ریاست کا نام بھی نہیں لیا اگر میں آخری مرحلہ کی تفصیل بیان کروں تو شاید بعض والیان ریاست اسے اپنی ہتک خیال کریں مگر چونکہ یہ واقعہ اب گزر چکا ہے اس لئے اس کی تفصیل میں پڑنے کی ضرورت نہیں ".مہاجرین علاقہ میرپور کے خوردونوش اور بازیابی کیلئے جدوجہد جیسا کہ اوپر ذکر آچکا ہے.علاقہ کھڑی کے ہزاروں مظلوم مسلمان ریاستی حکام کی چیرہ دستیوں کا شکار ہو کر علاقہ انگریزی خصوصاً جہلم میں پناہ گزین ہو گئے تھے.مسلمانوں کے قریباً پچاسی گاؤں تھے جو بالکل ویران دیر باد ہو گئے حتی کہ یہ.کس لوگ مال مویشی اور پکی ہوئی فصلیں تک چھوڑ کر چلے آئے.اس پر حضور نے سید ولی اللہ شاہ صاحب کو اصلاح احوال کے لئے روانہ فرمایا.حضرت شاہ صاحب کا بیان ہے کہ ”میں نے مسٹر سالسبری کو بذریعہ تار اطلاع کی کہ میں جہلم آرہا ہوں اور راجہ محمد اکبر کی کوٹھی پر ٹھروں گا.اگر آپ وہاں تشریف لے آئیں تو مہاجرین کی واپسی کی تدبیر سوچیں....چنانچہ مسٹر سالسبری جہلم آئے اور میں نے ان سے گفتگو کی اور شرط یہ کی کہ میری موجودگی میں مظلومین کی فریاد سنی جائے.اور تحقیق کی جائے چنانچہ علی وال کا بنگلہ اس غرض کے لئے مقرر ہوا.اور میں نے یہ شرط کی کہ کوئی پولیس بوقت تحقیق موجود نہ رہے.چنانچہ مولوی ظہور الحسن صاحب فاضل معلمی یکے بعد دیگرے مظلومین کو لاری میں لاتے اور ایک ہفتہ تک واقعات کی چھان بین
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 528 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ ہوتی رہی.میں نے اپنے کلرک کو سمجھا دیا تھا کہ ایک طرف بیٹھ کر وہ واقعات ایسے طور سے نوٹ کرلے کہ کسی کو معلوم نہ ہو.چنانچہ مسٹر سالسبری کو بہت حد تک تسلی ہوئی اور انہیں یقین ہو گیا کہ اس علاقہ کے لوگ واقعی مظلوم ہیں.جس کی تمام تر ذمہ داری رام چند ڈی- آئی.جی اور ڈوگرہ سپرنٹنڈنٹ پر ہے جس کا نام غالبارام رتن تھا.میں نے مہاجرین کو تسلی دی اور انہیں واپس کیا.دو ہفتہ تک جہلم کے مسلمانوں نے جن میں جماعت احمد یہ جہلم بھی تھی.مظلوم مہاجرین کی کھلے دل سے مدد کی.رپورٹ مرتب کر کے میں نے جموں آکر وزیر اعظم مسٹر کالون کے سامنے پیش کی.انہوں نے یہ رپورٹ انسپکٹر جنرل پولیس مسٹر لا تھر کو بھیجی اور جب یہ رپورٹ ان کو دی گئی تو میں ان کے پاس ہی تھا.اور محمد یوسف صاحب سابق لیفٹیننٹ (پسر مولوی قطب الدین) اپنی وردی میں ملبوس میری کرسی کے پیچھے کھڑے تھے.ان سے ایک عجیب حرکت صادر ہوئی.اگر کوئی مکھی میری طرف آتی تو اسے دور کرتے اور ایک دفعہ جھک کر میرے بوٹ سے بھی مٹی صاف کی.بعد میں میں نے پوچھا آپ نے یہ کیا حرکت کی مجھے سخت شرم محسوس ہو رہی تھی.کہنے لگے یہ اس لئے کیا تا آئی جی پولیس کو آپ کے مقام کا علم ہو.اسی روح تواضع وبے نفسی کے ساتھ ہمارے کارکن محاذ کشمیر میں کام کرتے رہے.مولوی ظہور الحسن صاحب نے بہت محنت سے کام کیا.اور اسی طرح دوسروں نے بھی جب مسٹر لا تھر میری رپورٹ پڑھ چکے تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں پنجاب واپس جا رہا ہوں میں نے کہا.آج جانے کا ارادہ ہے.کہنے لگے نہیں آپ ٹھر جائیں.پرائم منسٹر میں اور مسٹر جار ڈین آج رات سیالکوٹ جارہے ہیں.مسٹر سٹیمر ریزیڈنٹ جموں و کشمیر کے ساتھ مشورہ کرتا ہے اور مسٹر سالسبری کو بذریعہ تار بلوایا گیا ہے.کل نتیجہ سن کر جا ئیں چنانچہ دوسرے دن صبح میں ان کے ہاں گیا اور انہوں نے بتایا کہ سالسبری کو پنجاب واپس بھیجنے کا فیصلہ ہوا اور رام چند ڈی آئی جی کی جبری ریٹائر منٹ کا.میں نے حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ کو اطلاع دی اور دوسرے دن اخباروں میں بھی شائع ہو گیا".مظلومین پونچھ کی امداد کیلئے سید ولی میرپور کے مسلمانوں کی امدادی مہم مکمل ہو جانے کے بعد حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ اللہ شاہ صاحب کی مساعی جمیلہ تعالی نے شاہ صاحب کو مظلومین پونچھ کی فریاد رسی کے لئے بھیجا.حضرت شاہ صاحب اس واقعہ کی تفصیل میں بیان فرماتے ہیں.علاقہ پونچھ میں جگہ جگہ فسادات ہوئے.ڈوگروں نے مسلمانوں پر ظلم توڑے اور ان کے بڑے بڑے آدمیوں کو قید میں ڈالا.علاقہ مینڈھیر اور علاقہ سرن وغیرہ پر ڈیڑھ سے دو لاکھ جرمانے ڈالے گئے.اور جرمانوں کو وصول کرنے کے لئے مسلمانوں پر سختیاں کی گئیں.الزام یہ تھا کہ ان لوگوں نے بغاوت کی ہے.اور ہندوؤں
تاریخ احمدیت جلد ۵ 529 تحریک آزادی کشمیراء رجماعت احمدیہ کے مکانات جلائے ہیں.تھکیالا پڑاوا کے مسلمان رؤساء بھی قید میں تھے.سردار فتح محمد خان (کریلہ ) روپوش تھے ان کے خلاف اور ان کے ساتھیوں کے خلاف پھانسی کے احکام عدالت سے جاری ہو چکے تھے.اور ان کے والد اور رشتہ دار سب قید و بند میں تھے.چوہدری عزیز احمد صاحب باجوہ ایڈووکیٹ وغیرہ احمدی وکلاء ان کے مقدمات کی پیروی کے لئے بھیجے گئے تھے.اور میں ان مظلوموں کی مدد کے لئے بھیجا گیا.سب سے پہلے میں نے آنجہانی راجہ پونچھ (سکھ دیو) سے ملاقات کی.....راجہ صاحب نے مجھے اجازت دی کہ میں خود فسادات کے مواقع دیکھوں اور حالات کی تحقیقات کروں.یہی میرا مقصد اس ملاقات سے تھا اور انہوں نے وزیر صاحب کو حکم دیا.وہ کورنش بجالائے.آخر فیصلہ یہ ہوا کہ میں اگلی صبح سفر پر روانہ ہوں اور وہ اس بارے میں متعلقہ علاقہ جات کے افسران کو پروانہ بھیج دیں گے کہ میرے لئے سہولتیں بہم پہنچائی جائیں.اور مجھے کہا کہ روانہ ہونے سے پہلے ان سے ملوں.میں نے اس کے لئے ان سے مدد نہیں مانگی تھی.بلکہ چاہتا تھا کہ تنہا فساد زدہ علاقوں کا دورہ کروں.دوسری صبح جب ان کے ہاں گیا تو معلوم ہوا کہ وہ سوئے ہوئے ہیں اور نو دس بجے جاگتے ہیں میں یہ جانتا تھا اس لئے عمد اصبح سویرے کا سفر اختیار کیا....یہ اللہ تعالٰی کا احسان ہوا کہ ایک ہی ہفتہ میں علاقہ تھکیالہ پڑاوا مینڈھیر اور سرن کا دورہ مکمل کر لیا.اور یہی علاقے فساد زدہ تھے.تھکیالہ پڑارا کا سفر بہت ہی تھکا دینے والا تھا.راستے میں کہیں کھانے کے لئے کچھ نہ ملا.پہاڑی پر پگڈنڈیوں کا راستہ تھا.رات تاریک تھی گھوڑے تھے مگر ان پر سفر محفوظ نہ تھا.اور چڑھائی کی وجہ سے تکلیف دہ اور رات بارہ ایک بجے کے درمیان پیدل کر یلا مقام پر پہنچا.جہاں جنگل میں سردار فتح محمد خان صاحب روپوش تھے.وہ مجھے رات ہی کو ملے اور میں نے انہیں مشورہ دیا کہ یہاں سے چلے جائیں.کیونکہ پھانسی کے احکام صادر ہو چکے ہیں.میں سرن سے پہاڑیوں اور ندیوں اور وادیوں کو عبور کرتا ہوا موسلادھار بارش میں آدھی رات پونچھ پہنچا.راستے میں تین چار دفعہ کپڑے تبدیل کرنے پڑے.راستہ میں ندی تھی پندرہ ہیں پونچھیوں کی مدد سے ندی عبور کی اور انہیں معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ ان کے جرمانے معاف کروانے اور ظالموں کو سزا دلانے کی غرض سے میرا یہ سفر ہے.دوسرے دن رپورٹ مرتب کی اور نقشہ جات مقامات فساد زدہ بھی تیار کئے.مسٹر جار ڈین نے مجھے پیغام بھیجا کہ میں ان سے یہاں نہ ملوں بلکہ سرینگر میں ملوں اسی دن وہ تو سرینگر چلے گئے.میں قادیان آیا.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے سامنے رپورٹ پیش کی.آپ نے فرمایا کہ میرا پہلا اخلاقی فرض یہ ہے کہ رام رتن صاحب ایم اے وزیر پونچھ کو خط لکھوں اور ان کو اصلاح حال کا موقع دوں.اور اگر وہ اس موقع سے فائدہ نہ اٹھا ئیں تو پھر سرینگر جاکر حکام بالا کو صورت حال سے آگاہ کروں.چنانچہ میں نے انہیں مفصل خط لکھا.جو حضور نے ملاحظہ کیا.
تاریخ احمدیت جلده 530 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد یہ اور اس میں مناسب اصلاح فرمائی خط میں انہیں ہفتہ عشرہ کی مہلت دی گئی.دراصل میرے نزدیک بغاوت کو ہوا دینے اور ظلم کرنے والے یہ اور بڑو صاحب تھے.یہ دونوں بغاوت فرو کرنے کے بہانے داد لینا چاہتے تھے کہ بڑا تیر را ہے.انہوں نے میرے خط کی پروانہ کی بلکہ میرے خلاف کارروائی کرنے کے لئے سرینگر پہنچے.میں بھی سرینگر پہنچ گیا.چنانچہ سرینگر میں وزیر اعظم مسٹر کالون سے ملا.اور رپورٹ پیش کی.اور اس کی کاپی مسٹر جار ڈین پولیٹیکل وزیر کو بھی دی.اور صورت حال سے انہیں پوری طرح آگاہ کیا.دونوں انگریز افسر میری رپورٹ سے پورے طور پر مطمئن اور متفق تھے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اطلاع ملی کہ محترم وزیر صاحب پونچھ ملازمت سے علیحدہ کئے گئے ہیں.اور بڑو صاحب ریاست بد را پنڈت بلکاک وزیر اسلام آباد کے مظلموں کی داستان لیبی ہے لیکن سب سے بڑھ کر ظلم انہوں نے یہ کیا تھا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی شیخ محمد عبد اللہ میرے اور درد صاحب مرحوم وغیرہ کے جعلی دستخطوں سے چٹھیاں لکھوائیں.یہ ثابت کرنے کے لئے کہ ہم مہاراجہ کشمیر کو علیحدہ کرنے کی سازش میں ہیں اور مسٹر پیل آئی جی پولیس نے جب مجھے ریاست سے واپس جانے کے لئے کہا تو یہ بھی دھمکی دی کہ وہ ہماری سازش کو بر سر عام لانے والے ہیں اور ہمارے خلاف سخت کارروائی ہوگی.میں نے مسکراتے ہوئے ان کی اس دھمکی کو قبول کیا اور کہا کہ وہ وقت بھی آئے گا کہ آپ ان الفاظ کے دہرانے سے شرم محسوس کریں گے چنانچہ انہوں نے پنجاب سی آئی ڈی کی مدد سے اس جعلی خط و کتابت کی تحقیق کی.اور ثابت ہوا کہ ان تمام چٹھیوں میں سے صرف ایک چٹھی کے دستخط اصلی ہیں.یعنی حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی چٹھی کے.جو بحیثیت صدر کشمیر کمیٹی شیخ محمد عبد اللہ کو لکھی گئی اور اس کا یہ مضمون تھا کہ مہاراجہ کشمیر کو بالکل متنی رکھا جائے.کیونکہ مظالم کے ذمہ دار حکام ریاست ہیں یا ناقص قانون نہ کہ مہاراجہ صاحب ان کی اصلاح ہونی چاہئے.اس پر پنڈت بلکاک کی علیحدگی کا فیصلہ ہوا.یہ مسل پہلے مسٹر جارڈین کے دفتر میں غائب ہو گئی تھی.لیکن وہ جلد ہی واپس قبضے میں لے لی گئی.انہوں نے مجھے وہ فائل بھی دکھائی...میں نے انہیں پنڈت بلکاک کے خلاف کارروائی پایہ تکمیل تک پہنچانے کی یاد دہانی کی.اور مجھے فائل کی گمشدگی کی تفصیل بھی بتائی.یہ واقعات اختصار سے میں نے اس لئے بیان کئے ہیں تا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی نگرانی کے تحت ان کے بھیجے ہوئے کارکنان کے کام کی نوعیت معلوم ہو اور یہ کہ مظلومانان کشمیر کی کس طرح دادری کی گئی.چنانچہ علاقہ سرن اور مینڈھیر کے جرمانے معاف ہوئے اور میری دوسری ملاقات میں مہاراجہ صاحب پونچھ نے میرے سامنے قید اور پھانسی کی سزاؤں کے احکام منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا.قید و بند میں پڑے ہوئے مسلمان
تاریخ احمدیت جلد ۵ 531 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ سرداروں کی رہائی ہوئی.اور اسیروں کو رہائی دلائے گا سے متعلقہ نوشتہ پورا ہوا.اور آخر ہماری کوشش سے سردار فتح محمد خان صاحب جو موت کے ڈر سے بھاگے پھرتے تھے.وہ اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے تختہ دار پر کھینچے جانے والے انسان کے لئے کتنی بڑی خوشی ہے اور ستم رسیدہ لوگوں کی رہائی اور آزادی کتنی بڑی خدمت ہے جو حضور کے ہاتھوں سے ادا ہوئی".سید ولی اللہ شاہ صاحب کی خدمات پر شکریہ اخبار "انقلاب" ۸/ ستمبر ۱۹۳۲ء میں لکھا ہے.سید ولی اللہ شاہ صاحب........بحیثیت نمائندہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی لار در اس، تلیل گریز کا دورہ کرتے ہوئے ۹/ اگست کو براہ تر اگر بل بوقت ظہر وارد ہوئے ہم باشندگان بانڈی پورہ جناب پریذیڈنٹ صاحب آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں کہ حضور ممدوح اور ان کے کارکن جو کوشش ہماری گری ہوئی حالت کے سنوارنے کے لئے کرتے ہیں اس کے شکریہ سے عہدہ بر آہونا ہمارے لئے ناممکن ہے ".وزیر اعظم کشمیر سے کشمیر کمیٹی کے وفد کی ملاقات جب ہری کشن کول کی برطرفی کے بعد مسٹر کالون وزیر اعظم بنے تو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی نے ۲۳/ اپریل ۱۹۳۲ء کو آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا ایک وفد ان کے پاس بھجوایا.جس نے نئے آرڈی نینسوں کی منسوخی اور شیخ محمد عبد اللہ صاحب اور دوسرے سیاسی قیدیوں کی رہائی پر تبادلہ خیالات کیا.اہل کشمیر سے خطاب اس کے چند روز بعد حضور نے اہل کشمیر کو توجہ دلائی.ہر قوم جو زندہ رہنا چاہتی ہو اس کا فرض ہے کہ اپنے لیڈروں اور کارکنوں سے وفاداری کا معاملہ کرے اور اگر کوئی کارکن قید رہیں اور لوگ تسلی سے بیٹھ جائیں تو یہ امر یقینا خطر ناک قسم کی بے وفائی ہو گا.مسلمانان جموں و کشمیر کو یاد رکھنا چاہئے کہ گو وہ بہت سے فلموں کے تلے دبے چلے آتے ہیں.لیکن پھر بھی ان کی حالت قیموں والی نہ تھی کیونکہ جب تک ان کے لئے جان دینے والے لوگ موجود تھے.وہ یتیم نہ تھے.لیکن اگر وہ آرام ملنے پر اپنے قومی کارکنوں کو بھول جائیں گے تو یقیناً آئندہ کسی کو ان کے لئے قربانی کرنے کی جرات نہ ہو گی.اور اس وقت یقینا وہ یتیم ہو جائیں گے.پس انہیں اس نکتہ کو یاد رکھنا چاہئے اور ملک کی خاطر قربانی کرنے والوں کے آرام کو اپنے آرام پر مقدم رکھنا چاہئے.پس ان کا یہ فرض ہے کہ جب تک مسٹر عبد اللہ قاضی گوہر رحمان اور ان کے ساتھی آزاد نہ ہوں وہ چین سے نہ بیٹھیں اور میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ اس کام میں ان کی ہر ممکن امداد کروں گا.
تاریخ احمدیت جلده 532 تحریک آزادی کشمیر ادر جماعت احمد به اور اب بھی اس غرض کو پورا کرنے کے لئے کوشش کر رہا ہوں مشکلات ہیں لیکن مسلمانوں کو مشکلات سے نہیں ڈرنا چاہیئے".اس پیغام پر اخبار "انقلاب" (۶/ مئی ۱۹۳۲ء) نے لکھا."ہمیں کشمیر کمیٹی کی قابل تحسین خدمات کا تہ دل سے اعتراف ہے اس کمیٹی نے مسلمانان کشمیر کے حقوق کی حمایت اور مظلومین کی مالی اور قانونی امداد میں جس حیرت انگیز سرگرمی عمل اور روح ایثار کا ثبوت دیا ہے وہ محتاج بیان نہیں اور مسلمانوں کو تہ دل سے اس کی شاندار خدمات کا اعتراف کرنا چاہئے ہمیں یہ معلوم کر کے مسرت ہوئی کہ سیاسی قیدیوں کے مسئلہ میں بھی آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے کارکن بالکل "انقلاب" کے ہم خیال ہیں اس کمیٹی کے صدر محترم اور سیکرٹری نے بھی یہی خیال ظاہر کیا ہے کہ بحالات موجودہ سب سے زیادہ ضروری کام یہی ہے کہ کشمیر کے سیاسی قیدی فی الفور رہا کر دیئے جائیں.آخر کشمیر کمیٹی کی کوششیں بار آور ہوئیں اور ۹ / مئی ۱۹۳۲ء ۱ کو مسٹر یوسف خان صاحب (علیگ) نذیر احمد صاحب عبد القدوس صاحب غلام محمد صاحب (بخشی) اور ۵ / جون ۱۹۳۲ء کو شیر کشمیر شیخ محمد عبد الله صاحب دو سری ۳۵ رفقاء سمیت رہا کر دیئے گئے.شیر کشمیر شیخ حمد عبد اللہ صاحب نے رہا ہوتے ہی پہلا اہم کام یہ کیا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت میں درج ذیل مکتوب تحریر فرمایا.SRINAGAR S.M.ABDULLAH M.Sc (ALIG) مکرم و معظم جناب حضرت میاں صاحب! السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ.سب سے پہلے میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ میں تہ دل سے آپ کا شکریہ ادا کروں اس بے لوث اور بے غرضانہ کوشش اور جدوجہد کے لئے جو آپ نے کشمیر کے درماندہ مسلمانوں کے لئے کی پھر آپ نے جس استقلال اور محنت کے ساتھ مسئلہ کشمیر کو لیا.اور میری غیر موجودگی میں جس قابلیت کے ساتھ ہمارے ملک کے سیاسی احساس کو قائم اور زندہ رکھا.مجھے امید رکھنی چاہئے کہ آپ نے جس ارادہ اور عزم کے ساتھ مسلمانان کشمیر کے حقوق کے حصول کے لئے جدوجہد فرمائی ہے.آئندہ بھی اسے زیادہ کوشش اور توجہ سے جاری رکھیں گے اور اس وقت تک اپنی مفید کوششوں کو بند نہ کریں گے جب تک کہ ہمارے تمام مطالبات صحیح معنوں میں ہمیں حاصل نہ ہو جائیں.آخر میں پھر آپ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس عریضہ کو ختم کرتا ہوں.میں ہوں.آپ کا تابعدار شیخ محمد عبد اللہ شیخ محمد عبد الله سید ولی اللہ شاہ صاحب کی جد و جہد اور مجرموں کی سزایابی صاحب کی رہائی سے
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 533 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ بعد حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی نے ریاست کے ظالم اور بد نماد حکام کی سرکوبی کی طرف توجہ فرمائی اور اس کام کے لئے حضور نے سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کو منتخب فرمایا.حضرت شاہ صاحب نے انتہائی نامساعد حالات کے باوجود اپنا فرض اس خوبی تقدیر ذہانت اور معاملہ فہمی سے ادا کیا کہ ظالم افسر کیفر کردار تک پہنچ گئے.اس اجمال کی تفصیل حضرت شاہ صاحب نے اپنے قلم سے جو تحریر فرمائی ہے وہ درج ذیل ہے.آپ لکھتے ہیں.طویل جدوجہد کی اثناء میں جو ۱۹۳۱ء میں شروع ہوئی اور ۱۹۳۴ء کے آخر تک جاری رہی حکومت کشمیر کی طرف سے قدم قدم پر رکاوٹیں ڈالی گئیں.دھمکیاں دی گئیں بلکہ گرفتاری کے وارنٹ تک جاری ہوئے.چوہدری عزیز احمد صاحب باجوہ بھی ان کارکنوں میں سے ایک تھے جن کی گرفتاری کے وارنٹ مسٹر سالسبری پیشل آفیسر میرپور کے حکم سے صادر ہوئے.اور وہ لاہور میں اچھے.انہوں نے میرپور میں کام کیا تھا.وہ دشوار گزار علاقے میں پیدل سفر کر کے مظلوموں کی مدد کو وہاں پہنچے جہاں چوٹی لال سب انسپکڑنے نہایت ہی گندے ظلموں کا ارتکاب کیا تھا.اور رام چند ڈی آئی جی پولیس نے ظالموں کو پناہ دی.اور ہمارے کارکنوں کے خلاف جھوٹے مقدمے بنائے گئے اس قسم کے ظالم حکام کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے میں بھیجا گیا.اور اس کے لئے مجھے بھی جموں وکشمیر اور پونچھ میں دور و نزدیک علاقہ جات کے پیدل اور گھوڑے پر سفر کرنے پڑے تھے.ظالموں کی فہرستیں تیار کیں.مظلوموں کے بیانات سنے اور نقشے بنائے اور ہسٹری شیٹ تیار کی.اس اثناء میں ایک دن جبکہ میں ہاؤس بوٹ میں تھا.شیخ محمد عبد اللہ صاحب عصر کے بعد آئے سرسے ننگے آواز میں گھبراہٹ تھی.بخشی غلام محمد صاحب ان کی حفاظت کے لئے پیچھے پیچھے تھے جو ہاؤس بوٹ کے باہر رہے.شیخ صاحب مجھے سے کہنے لگے.شاہ صاحب! ایک خطر ناک خبر ہے.میں نے کہا مجھے معلوم ہے.کہنے لگے کیا ؟ میں نے کہا مروانے کا انتظام ہو گیا ہے.وہ یہ سن کر حیران ہوئے اور کہا یہی خبر میں لایا ہوں مہاراجہ صاحب کے محل کے فلاں کارکن نے بتایا ہے کہ کانگڑہ اور دیلی سے چار آدمی بلائے گئے ہیں اور ان کے سپرد یہ کام ہوا ہے.کہ آپ کو اور مجھے مروا دیا جائے.میں نے کہا کہ اطلاع درست ہے.مجھ سے دریافت کیا.کہ آپ کو کس نے بتایا ہے.میں نے اپنا ذریعہ خبر رسانی بتانے سے معذرت کی (دراصل یہ ایک کھلا بیداری کی حالت میں مکاشفہ تھا.اور بلند آواز سے احتیاط کرنے کی ہدایت تھی اس لئے بنانے سے ہچکچا یا ) انہوں نے کہا کہ کیا تجویز ہے.میں نے کہا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کو ابھی اطلاع دی جائی چاہئے.جو ایک آدمی کے ہاتھ بھیجنی مناسب ہے.چنانچہ چٹھی لکھی گئی کہ اگر ہم مارے گئے تو اس کی ذمہ داری ماراجہ صاحب پر ہوگی.اور درخواست کی یہ چینی بینک میں محفوظ کر دی جائے.چنانچہ شیخ
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 534 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ صاحب موصوف نے بھی اپنی حفاظت کا انتظام کیا.اور میں اپنی بندوق اپنی رانوں میں لے کر سوتا.ہر جگہ جہاں میں گیا.اس حالت میں شب گزار تا.اور مشہور ہو گیا کہ میں مسلح سوتا ہوں.غرض ان پر مطر حالات میں ہمیں کام کرنا پڑا.اور یہ اللہ تعالی کا فضل ہے کہ میری کارروائی کے نتیجہ میں مندرجہ ذیل افسر برخاست ہوئے یا وہ پنجاب واپس کر دیئے گئے.(1) مسٹر سالسبری سپیشل آفیسر علاقہ میرپور (۲) رام چند ڈی آئی جی (جبری پیشن) (۳) چونی لال سب انسپکٹر پولیس (سزائے قید) یہ جیل سے بھاگ گیا تھا.اور اسے دوبارہ گرفتار کرانے کے بعد سزا دلوائی گئی مسٹرلا تھر آئی جی پولیس سے میں نے کہا.یہ کام محمد دین صاحب سب انسپکٹر (احمدی) کے سپرد کیا جائے اور اس کی دوبارہ گرفتاری کا زمہ میں لیتا ہوں.چنانچہ وہ گرفتار ہوا.اور اس نے سزا پائی.(۴) رام رتن کپور تھلوی ایم اے وزیر پونچھ یہ بھی وزارت سے علیحدہ کئے گئے.(۵) بڑو صاحب مجسٹریٹ درجہ اول پونچھ ملک صاحب کو ملک بدر کیا گیا اور قادیان حضرت خلیفتہ المسیح الثانی سے معافی مانگنے کے لئے آئے.اور روتے ہوئے پاؤں پر گر گئے.اس وقت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے اور درد صاحب حضور کے پاس بیٹھے تھے.(۲) پنڈت بلکاک وزیر وزارت اسلام آباد (جبری ریٹائر منٹ....(۷) ایک انسپکٹر پولیس جس نے علاقہ ویری ناگ میں مظالم کئے تھے.اس کا چالان کرایا گیا.اور میری موجودگی میں اس کے خلاف مقدمہ چلا اور تحقیق کے بعد آخر اس نے سزا پائی".i !
تاریخ احمدیت جلاده 535 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ (فصل چهارم) مظلومین کشمیر کے مقدمات کی شاندار وکالت اور بے نظیر کامیابی جماعت احمدیہ کے وہ وکلاء جو "ڈلٹن کمیشن " اور "گلانسی کمیشن کے لئے قانونی محاذ پر نبرد آزما تھے خدا کے فضل و کرم سے شاندار طور پر کامیاب و کامران ہوئے مگران کے سامنے آئینی جنگ کے اس محاذ کے علاوہ مظلومین کشمیر کے مقدمات کی پیروی کا ایک ایسا زبر دست معرکہ بھی درپیش تھا.جس کے ایک ایک مورچہ پر ان کو عدالتوں کے ساتھ دستوری جنگ کرنا پڑی.قبل اس کے کہ تحریک آزادی کے اس نہایت اہم حصہ پر ذرا تفصیلی روشنی ڈالی جائے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء میں اس کا ایک جمالی خاکہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے الفاظ میں درج کر دیں حضور ۱۹۵۱ء کے ایک غیر مطبوعہ مضمون میں تحریر فرماتے ہیں.۱۹۳۱ء اور ۱۹۳۲ء میں متواتر حکومت کشمیر نے مسلمانوں کو مختلف بہانوں سے گرفتار کر لیا ان گرفتاریوں کے نتیجہ میں بہت سے مقدمات دائر ہوئے جن میں بعض قتل کے تھے بعض ڈکیتی ، بعض بغاوت ، بعض بلوے کے تھے.یہ بیسیوں تھے اور سینکڑوں ملزم اس میں پیش ہوئے.ان لوگوں کے دفاع کے لئے آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے عموماً اور احمدیہ جماعت نے خصوصاً اپنے وکلاء کی خدمات پیش کیں.عملا احمد یہ جماعت سے باہر صرف ایک صاحب یعنی غلام مصطفیٰ صاحب نا تک بیرسٹر گوجر انوالہ نے اپنے آپ کو پیش کیا.جنہوں نے ایک مہینے کے قریب کام کیا.باقی تمام کے تمام وکلاء جو سب نوجوان احمدی تھے.اور اپنی عمر کے اس دور میں سے گزر رہے تھے کہ اگر ایک ماہ بھی اس کام میں حرج ہو جائے تو ساری عمر کی پریکٹس ضائع ہو جاتی ہے.ان کے نام اور کام کی تفصیل یہ ہے.شیخ بشیر احمد صاحب وکیل جو اس وقت لاہور کے چوٹی کے سول سائڈ کے وکیل ہیں انہوں نے چار ماہ تک سرینگر میں کام کیا.اس کے علاوہ کچھ عرصہ انہوں نے میرپور میں بھی کام کیا.چوہدری یوسف خاں اور چوہدری عصمت اللہ صاحب وکلاء نے میرپور میں کئی ماہ تک کام کیا.
تاریخ احمد بیت - جلد ۵ 536 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ - شیخ محمد احمد صاحب وکیل جو ریاست کپور تھلہ میں سیشن حج اور ایڈووکیٹ جنرل بھی رہے ہیں انہوں نے سات ماہ تک سرینگر میں کام کیا.چوہدری یوسف خان صاحب نے اڑھائی ماہ سرینگر میں کام کیا.چوہدری عزیز احمد صاحب باجوہ نے پانچ ماہ تک پونچھ میں کام کیا.قاضی عبد الحمید صاحب پلیڈ ر نے پونچھ میں چار ماہ تک کام کیا.۷ میر محمد بخش صاحب پلیڈر نے جو گو جرانوالہ میں کامیاب ترین وکلاء میں سے ہیں.جموں میں چھ -9 ماہ تک کام کیا.چوہدری اسد اللہ خان صاحب بار ایٹ لاء (برادر چوہدری ظفر اللہ خان صاحب) نے بعض اپیلوں میں کام کیا.قاضی عبد الحمید صاحب پلیڈرنے راجوری میں تین ماہ تک کام کیا.- میر محمد بخش صاحب نے نوشہرہ میں تین ماہ کام کیا.جو مقدمات ہوئے ان میں ۱۲۱۰- آدمیوں پر مقدمات چلائے گئے اور انداز ا ایک سو مقدمات تھے.ان وکلاء کی کوشش سے ان میں ۱۰۷۰ کے قریب بری ہو گئے اور ۱۴۰ کو بہت ہی معمولی سزائیں ہو ئیں.حالانکہ مقدمات اکثر قتل اور ڈکیتی وغیرہ تھے.ہمارے احمدی وکیل ڈیڑھ درجن کے قریب تھے جن میں سے نصف نے اپنے آپ کو پیش کیا اور بعض ایسے ہیں جو آج تک دوبارہ اپنی پریکٹس نہیں کر سکے".حضور ایدہ اللہ تعالٰی نے مندرجہ بالا الفاظ میں وکلاء کی جن بے لوث قربانیوں کا مختصر تذکرہ فرمایا ہے اب ناموں کی اسی ترتیب سے ان پر ذرا تفصیل روشنی ڈالی جاتی ہے.شیخ بشیر احمد صاحب بی اے.ایل ایل بی.ایڈووکیٹ جناب شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ پہلے قانون دان ہیں جو آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے قیام کے بعد خلیفہ المسیح الثانی کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے کشمیر میں تشریف لے گئے اور سرینگر جموں اور میرپور میں نہایت سنگین مقدمات کی نہایت کامیاب پیروی کر کے مظلومین کشمیر کی قابل قدر امداد کی.اس دوران میں آپ کو دوبار حدود ریاست سے بھی نکال دیا گیا.مگر جلد ہی حکومت کشمیر کو اپنا نوٹس واپس لینا پڑا.اور آپ پھر قانونی خدمات بجالانے کے لئے تشریف لے گئے.آپ نے جن ملزمین کو رہا کرایا ان میں شوپیاں کیس بڑی اہمیت کا حامل ہے.بات یہ ہوئی کہ
تاریخ احمدیت.جلده 537 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ ۱۹۳۰ء کے فسادات میں ایک سرکاری ملازم پنڈت ( مادھو کول) موضع شوپیاں میں مارا گیا.جس پر شوپیاں کے بعض مسلمان الزام قتل میں پکڑے گئے اور ان کا مقدمہ قریباً چھ ماہ تک سشن جج صاحبان کے پیش بینچ میں چلتا رہا تھا.جس کے فیصلہ کے خلاف ہائیکورٹ میں اپیل دائر تھی.اس مقدمہ کی کامیاب پیروی شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ نے کی.چنانچہ اخبار " انقلاب (۱۵/ اگست ۱۹۳۱ء) نے لکھا.ملزمین کی طرف سے کشمیر کمیٹی کے قابل اور لائق وکیل شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ ہائیکورٹ لاہور پیش ہوئے.جنہوں نے نہایت قابلیت سے مقدمہ کی پیروی کی ٹریبونل نے واقعہ شوپیاں کو محض بلوہ قرار دیا تھا اور ملزمین کو سزائے قید دی گئی.ملزمین نے ہائیکورٹ کشمیر میں اپیل دائر کر رکھی تھی جس کی پیروی کے لئے جناب شیخ صاحب موصوف سرینگر تشریف لے آئے ہیں ہم جناب صدر محترم کشمیر کمیٹی کا اہالیان کشمیر کی طرف سے اس محنت و مشقت کے لئے شکریہ ادا کرتے ہیں".محترم شیخ صاحب نے ہائیکورٹ کے سامنے اس غیر معمولی لیاقت و قابلیت سے وکالت کی کہ چند دن کے اندر کیس کے ایک ملزم کو رہا کر دیا گیا.جس پر شیخ محمد عبد اللہ صاحب ۲۴/ و سمبر ۱۹۳۱ء کو الفضل کے نام شکریہ کا تار دینے کے بعد دسمبر ۱۹۳۱ء کے آخر میں بنفس نفیس حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت میں حاضر ہوئے تا اسلامیان کشمیر کی طرف سے شیخ بشیر احمد صاحب اور کشمیر کمیٹی کے دوسرے مخلص کارکنوں کے کار ہائے نمایاں کا شکریہ ادا کریں.اس سفر میں آپ کے ہمراہ شیخ بشیر احمد صاحب مولانا عبد الرحیم صاحب درد ایم.اے اور مولوی محمد اسمعیل صاحب غزنوی بھی تھے.شوپیاں کے علاوہ آپ نے علی بیگ " ( میرپور) کے مقدمہ کی بھی پیروی کی اور اس مقدمہ کے چوالیس ملزمان نے مندرجہ ذیل الفاظ میں شکریہ ادا کیا.سب سے بڑھ کر ہم آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے ممنون ہیں جنہوں نے شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کو ہمارے مقدمہ کی بحث کے لئے ہماری درخواست کو قبول کرتے ہوئے بھیجا اور مسلسل ایک ہفتہ بحث کر کے انہوں نے ہماری نیابت کا حق ادا کر دیا".چوہدری محمد یوسف خان چوہدری محمد یوسف خان صاحب بی اے.ایل ایل بی صاحب نے سرینگر اور میرپور میں نہایت اخلاص سے قانونی امداد بہم پہنچائی.آپ کو بھی ایک بار ریاست بدر کر دیا گیا تھا آپ کی خدمات کے تعلق میں دو اقتباسات بطور نمونہ درج ذیل ہیں.اخبار "سیاست" (2/ ستمبر ۱۹۳۲ء) میں لکھا ہے کہ صدر محترم آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی خدمت
تاریخ احمد بیت - جلد ۵ -۲ " 538 تحریک آزادی کشمیر ا د ر جماعت احمدیہ میں مندرجہ ذیل تار موصول ہوا ہے.کہ ہم "ممنون ہیں کہ چوہدری یوسف خان پلیڈر کی محنت اور کوشش سے مقدمہ سرکار بنام شہاب الدین وغیرہ جس میں ۴۷ ملزم ڈاکہ کے الزام میں ماخوذ تھے اور اسی طرح مقدمہ سر کا ربنام فقیر محمد وغیرہ جس میں 9 ملزم ماخوذ تھے خارج کر دیئے گئے ہیں.مہربانی فرما کر ہماری طرف سے دلی شکریہ قبول فرما ئیں".لزمان " علی بیگ" (میرپور) کی طرف سے اخبار "انقلاب" (لاہور) ۱۱/ اکتوبر ۱۹۳۳ء میں مندرجہ ذیل الفاظ میں چوہدری محمد یوسف خان صاحب کی مساعی جمیلہ کا شکریہ ادا کیا گیا.چوہدری یوسف خان صاحب وکیل گورداسپور آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی طرف سے نہایت قابلیت کے ساتھ مقدمہ کی پیروی کرتے رہے ہیں.اور صرف چار ماہ سے جدید کشمیر کمیٹی کی طرف سے ایک وکیل صاحب بھیجے گئے جو چوہدری صاحب موصوف کی امداد کرتے رہے.اور اصل امداد چوہدری صاحب موصوف کی طرف سے ہمیں ملی.چوہدری عصمت اللہ صاحب وکیل چوہدری عصمت اللہ صاحب ایڈور کیٹ لائلپور کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ آپ جولائی ۱۹۳۱ء کے آغاز میں جبکہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا بھی قیام نہ ہوا تھا.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر سرینگر تشریف لے گئے.جہاں سے اکتوبر ۱۹۳۱ء میں واپس آکر دوبارہ نومبر ۱۹۳۱ء میں وارد کشمیر ہوئے اور تین ماہ تک قانونی امداد کا فریضہ ادا کیا.اور فروری ۱۹۳۲ء میں واپس لائلپور آگئے.لیکن پھر جلد ہی واپس ریاست کشمیر تشریف لے گئے.جہاں آپ دسمبر ۱۹۳۲ء تک بھمبر، نوشہرہ اور کوٹلی میں مظلومین کے کشمیر کے مقدمات میں قانونی امداد فرماتے رہے.آپ کی کوشش سے سمو وال مقدمہ قتل کے تمام ملزم بری ہو گئے.اس کے علاوہ مسلمانان کو ٹلی کے مقدمات کی پیروی میں آپ نے اور میر محمد بخش صاحب نے نہایت شاندار خدمات سرانجام دیں.جن کا اقرار انجمن اسلامیہ کوٹلی نے مندرجہ ذیل الفاظ میں کیا.or بار ہا انجمن ہائے پنجاب اور ہندوستان کے مختلف اراکین کو امداد کے لئے پکارا گیا اور کہا گیا کہ خدا کے لئے ہماری امداد کریں.مگر افسوس کہ سوائے خاموشی کے کسی نے کوئی جواب نہ دیا آخر کشمیر کمیٹی سے درخواست کی گئی جس کے جواب میں دو وکیل صاحبان دھوپ میں جلتے ہوئے یہاں آپہنچے.اور سسکتے ہوئے بے کس مسلمانوں کی امداد شروع کر دی.مقدمات جو کہ اس جگہ کے مسلمانوں پر بنائے گئے ہیں تمام قتل کے ہیں.چوہدری عصمت اللہ صاحب وکیل بی اے.ایل ایل بی اور میر محمد بخش صاحب پلیڈر نے نہایت جانفشانی سے مقدمات کی پیروی کی گواہ استغاثہ جو کہ چار ماہ سے پولیس کی زیر
539 تحریک آزادی کشمیر ا د ر جماعت احمد به حراست تھے.ان پر ایسی عمدہ جرح کی کہ مقدمہ کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں.سلطانی گواہ پر پورے دودن جرح ہوتی رہی.جس سے مقدمہ کی قلعی کھل گئی.باقی ہیں گواہ بھی اسی طرح زمین و آسمان میں گھومتے ہوئے نظر آتے تھے.کشمیر کمیٹی کے اراکین کا ہم جس قدر شکریہ ادا کریں کم ہے.خاص کر محترم صدر صاحب کا جو کہ بڑی بزرگ ہستی ہیں.ان کے حسن اخلاق کی تمام علاقہ میں دھوم ہے مظلوم مسلمان جو کہ وقتا فوقتا ان کی خدمت میں اپنی تکالیف بیان کرنے کے لئے حاضر ہوتے رہے.آپ کے حسن اخلاق کے بے حد مداح ہیں.امید ہے کہ آئندہ بھی صدر محترم اور اراکین کشمیر کمیٹی ہم بے کس مسلمانوں کی امداد فرماتے رہیں گے.اور اس کا اجر مالک حقیقی سے پائیں گے.ہم مظلوم مسلمانان کو ٹلی مسلمانان ہند سے اپیل کرتے ہیں کہ تمام تفرقات کو بالائے طاق رکھ کر کشمیر کمیٹی کے مشورہ سے ہماری امداد کریں.ہم وکلاء صاحبان سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ آپ اپنی خدمات کشمیر کمیٹی کی معرفت پیش کریں.تاکہ ہم بے کسوں کو ظلم سے نجات ملے.(مسلمانان کو ٹلی بذریعہ انجمن اسلامیہ کوٹلی) شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ جناب شیخ محمد احمد صاحب ۱۹۱۹ء میں بی اے آنر زپاس کر کے انگریزی کا ایم.اے کرنا چاہتے تھے.مگر حضور ایدہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا کہ جماعت کو آئندہ وکلاء کی بہت ضرورت پیش آئے گی.اس لئے وکالت کا امتحان پاس کریں.چنانچہ آپ نے لاء کالج میں داخلہ لیا.اور ۱۹۲۱ء سے کپور تھلہ میں وکالت کا کام شروع کر دیا.اسی دوران میں تحریک آزادی کا آغاز ہوا.اور حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی نے ۱۷/ نومبر ۱۹۳۱ء کو لاہور سے آپ کو تار دیا کہ.*PROPOSE SENDING YOU KASHMIR, IF CAN'T START IMMIDIATELY KINDLY COME HERE FOR CONSULTATION KHALIFATUL MASSIH".یعنی آپ کو کشمیر بھجوانے کی تجویز ہے اگر فورا روانہ ہونا ممکن نہ ہو تو آپ یہاں بغرض مشورہ آجائیے.(خلیفتہ المسیح) یہ تار ملتے ہی آپ پہلی گاڑی سے لاہور پہنچے.عند الملاقات حضور نے دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس کتنے مقدمات ہیں ؟ آپ کے پاس اس وقت ڈیڑھ سو کے قریب مقدمات تھے جن کی فہرست آپ نے حضور کے سامنے رکھ دی.حضور نے فرمایا کہ ان مقدمات کو دو سروں کے سپرد کرنے کا انتظام کرد اور ہمیں تار دو.چنانچہ آپ واپس کپور تھلہ آگئے.اور چند دنوں میں یہ مقدمات اپنے دوست وکلاء کے سپرد کر کے حضور کی خدمت میں تار دیا کہ میں حاضر ہوں حضور نے جوابی تار دیا کہ بھمبر روانہ ہو جائیں وہاں کثیر مقدمات پیروی طلب ہیں چنانچہ آپ براستہ گجرات بھمبر پہنچ گئے.
تاریخ احمدیت - جلده 540 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ بھمبر پہنچ کر ایک عجیب دقت کا سامنا ہوا.اور وہ یہ کہ ریاستی قانون کے لحاظ سے لازمی تھا کہ بیرون ریاست سے آنے والا وکیل ہر مقدمے کے لئے اجازت حاصل کرے دو روپیہ کے کاغذ پر درخواست دے اور میں روپیہ فیس ادا کرے گویا اگر ایک معمولی سا مقدمہ بھی پیروی طلب ہو تو عدالت ابتدائی عدالت اپیل اول اور ہائیکورٹ تک ایک مقدمہ کی پیروی کے لئے چھیاسٹھ روپے ادا کئے جائیں یہ صورت حال بہت سے اخراجات آل انڈیا کشمیر کمیٹی پر عائد کرنے والی تھی.صاحب استطاعت مقدمہ والوں نے اس فیس کو ادا کرنا چاہا لیکن غریب لوگ اس کی طاقت نہ رکھتے تھے آپ کو یہ نظر آیا کہ اگر میں باحیثیت لوگوں کی پیروی فیس ادا کر کے شروع کر دوں تو غرباء کو لاز ما شکایت پیدا ہو گی کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی بھی غریبوں کی مدد نہیں کرتی.اس مشکل کے پیش نظر اس قانون میں ترمیم کرانا ضروری تھا.اس لئے آپ بھمبر سے قادیان پہنچے اور رپورٹ پہنچادی.جس پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے چوہدری اسد اللہ خاں صاحب بار ایٹ لاء لاہور کو دوبارہ جموں بھیجوایا.نتیجہ یہ ہوا کہ چیف جسٹس کی سفارش پر اپریل ۱۹۳۲ء میں مہاراجہ نے بیرونی وکلاء پر عائد شدہ پابندیاں دور کر دیں اور فیس کے لئے بھی قانون بنا دیا کہ چیف جسٹس کو اختیار رہے کہ اگر وہ چاہے تو فیس معاف کر سکتا ہے.اس ترمیم نے مقدمات کی پیروی کا دروازہ کھول دیا.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ایڈووکیٹ کے متعلق مہاراجہ کی ترمیم و اجازت کے معابعد شیخ محمد احمد صاحب مظہر اور چوہدری یوسف خاں صاحب پلیڈ رگورداسپور کو سرینگر روانہ فرمایا اور اپنی دعاؤں سے رخصت کرنے سے قبل اہم ہدایات دیں جو جناب شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ کی یادداشت کے مطابق حسب ذیل تھیں.(1) ہم نے ایک مظلوم قوم کی مدد کرنی ہے وکلاء کا قاعدہ ہے کہ وہ موکل کی لمبی بات نہیں سنا کرتے لیکن کشمیری مظلوم ہیں آپ کو تحمل سے ان کی باتیں سنتا ہوں گی.خواہ آپ ان باتوں کو غیر ضروری ہی سمجھیں.(۲) کسی شخص سے کوئی تحفہ یا امداد قبول نہ کریں.بلکہ جو لوگ آپ کے پاس ملاقات کے لئے آئیں ان کی مناسب تواضع پر خود خرچ کریں کسی سے کوئی پیسہ نہ لیں.(۳) کشمیر میں جو سر کردہ لوگ اس قسم میں حصہ لے رہے ہیں ان کی طبیعتوں کا اندازہ بھی ہوتا چاہئے اور اس کے مطابق ان سے معاملات کرنے چاہئیں.(۴) ہر شخص رازدار ہونے کی اہلیت نہیں رکھتا اس لئے حزم و احتیاط ضروری ہے.(۵) سرینگر پہنچتے ہی وہاں کے گورنر سے ملاقات کریں.کیونکہ وہ مہم آزادی کشمیر کا معاند ہے اور اسے بہت سی غلط فہمیاں ہیں.
تاریخ احمدیت.جلده 541 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ (۲) اپنے کام کی رپورٹ ہمیں بھیجتے رہیں.یہ ہدایت لے کر آپ اور بعد ازاں چوہدری یوسف خان صاحب (پلیڈ ر گورداسپور) بھی سری نگر پہنچ گئے.سر دلال چیف جسٹس جموں و کشمیر ہائیکورٹ ان دنوں جموں میں تھے.اس لئے آپ (شیخ محمد احمد صاحب مظهر) نے پیروی مقدمات کے لئے اجازت کی درخواست پہلے ہی بذریعہ ڈاک جموں روانہ کر دی تھی.مگر سر دلال نے اجازت نہ دی.شیخ محمد عبد اللہ صاحب اور ان کے رفقاء کار کے مشورہ سے آپ حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے حضور نے فرمایا.آپ سر دلال کی طبیعت کو نہیں جانتے.جو شخص نرمی سے پیش آئے اس کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں اور جو شخص سختی سے پیش آئے اس سے نہایت سخت سلوک کرتے ہیں ان کی طبیعت کو مد نظر رکھو خود جاکر ان سے ملو اور پیروی مقدمات کی اجازت نرمی اور انکسار سے طلب کرو چنانچہ شیخ صاحب نے حضور کی اس ہدایت کی پوری پوری تعمیل کی اور سر دلال نے منظوری کا حکم صادر کر دیا.اور آپ نے بلا روک ٹوک مقدمات کی پیروی شروع کر دی.اس کے بعد رجسٹرار ہائیکورٹ سے آپ کے ایسے مراسم ہو گئے کہ اس نے آپ سے کہہ دیا کہ جس وکیل کے لئے آپ کو اجازت لیتا ہو مجھے کہہ دیا کیجئے.چنانچہ رجسٹرار مذکور کی وساطت سے اور وکلاء کے لئے بھی اجازت ملتی چلی گئی.(اخبار سیاست ۳۰ / ستمبر ۱۹۳۲ء میں مطبوعہ رپورٹ کے مطابق عدالت ابتدائی اور عدالت ہائے اپیل کے لحاظ سے ۲۵ مقدمات قتل، بلوہ ، ڈکیتی وغیرہ میں آپ کو پیروی کرنا پڑی جن میں ۱۸۰ مظلوم اور بے کس مسلمان ماخوذ تھے آپ کی مساعی سے ۱۲۲ صاف بری ہو گئے ۱۵ اپیل میں بری ہوئے اور کم و بیش ۲۸ کی سزائیں کم ہو گئیں.بارہ مولا کا مقدمہ جس میں چالیس معززین ملوث کئے گئے تھے حکومت نے از خود واپس لے لیا.یہ آخر جولائی ۱۹۳۲ء کا واقعہ ہے مقدمہ کی واپسی پر جناب قاضی عبد الغنی صاحب ریڈر اور دوسرے اکتیس اصحاب کی طرف سے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی کو سرینگر سے یہ تار موصول ہوا کہ بارہ مولا کا سب سے اہم مقدمہ حکومت نے واپس لے لیا ہے.از راہ کرم اپنے وکیل صاحب کی کامیابی اور آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی انمول خدمات کا شکریہ اور مبارک باد منظور فرمائیں.(الفضل ۳۱/ جولائی ۱۹۳۲ء صفحہ ۲ کالم (۳) پرائیوٹ سیکرٹری صاحب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی طرف سے ۶/ اگست ۱۹۳۲ء کو یہ خط شیخ محمد احمد صاحب کو ملا کہ حضور نے مقدمہ بارہ مولا میں کامیابی پر مبارکباد دی.آپ کو جس مقدمہ میں بے نظیر کامیابی ہوئی وہ تحصیل ہندواڑہ کا ایک کیس تھا اس علاقہ میں ایک
تاریخ احمدیت جلد ۵ 542 تحریک آزادی کشمیر او رجماعت احمدیہ چار اشخاص پر قائم کیا گیا.الزام یہ تھا کہ فسادات کے ایام میں یہاں ایک حکومت قائم کی گئی.ان چار اشخاص میں سے ایک حج ہائیکورٹ ، ایک مجسٹریٹ ، ایک تحصیلدار اور ایک جیلر ہوا.اور ان چاروں نے اپنے اپنے عہدے کے لحاظ سے کام کیا.ملزموں کو جرمانے کئے یا انہیں قید کیا یا اور کار روائی جو ان کے منصب کے مطابق تھی کی گئی." جیلر " اور " تحصیلدار " ہائیکورٹ میں بھی مجرم قرار پائے.باقی دو ملزم مولوی سیف اللہ شاہ صاحب اور مولوی سلیمان شاہ صاحب جیسے معزز اشخاص کا مقدمہ ابھی ہائیکورٹ میں چل رہا تھا.یہ دونوں اصحاب شیخ الحدیث جناب مولوی سید انور شاہ صاحب کشمیری پرنسپل مدرسه دارالعلوم دیو بند کے سگے بھائی تھے.اور اپنے علاقہ میں بڑے با اثر تھے.اور ان کے ہزاروں مرید بیان ہوتے تھے.مقدمہ جو اپنی نوعیت میں پہلے ہی نہایت سنگین تھا آخری مرحلہ تک آپہنچا تھا یعنی اپیل نا منظور ہو چکی تھی اور ہائیکورٹ میں اپیل ثانی دائر ہو کر آخری موقعہ تھا اور سب سے بڑی مشکل یہ آپڑی تھی.کہ اس مقدمہ کی دو شاخیں تحصیلدار اور جیلر ہائیکورٹ تک مجرم قرار پاچکے تھے.اور استغاثہ کو یہ کہنے کا حق تھا کہ جب وہ دونوں شخص جو ان ملزمان کے حکم سے کارروائی کرتے تھے.آخری عدالت سے مجرم قرار پا چکے تھے.تو یہ دونوں لازماً مجرم ہیں یہ بڑا عقدہ لا نخل تھا لیکن خدا تعالی کی شان يفعل الله ما يشاء ہے وہ چاہے تو بگڑی کو بنادے اور یہی ہوا کہ یہ بگڑی اس کے فضل سے بن گئی جناب شیخ محمد احمد صاحب ایڈووکیٹ اس اجمال کی تفصیل پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں ”قصہ یہ ہوا کہ مسل کے معائنہ کرنے پر مجھے معلوم ہوا کہ مجسٹریٹ جس نے عدالت ابتدائی میں اس مقدمہ کی سماعت کی اور سزادی قانوناً مجاز نہ تھا.کہ اس مقدمہ کی سماعت کرتا مسل پر یہ بات موجود تھی کہ مجسٹریٹ مذکور نے بحیثیت اعلیٰ انتظامی افسر اس الزام کی اپنے طور پر تحقیقات کی تھی اور نمبرداروں کو موقوف کر دیا تھا کہ انہوں نے اپنے علاقہ میں ایسی متوازی حکومت کے جاری ہونے کے متعلق سرکار کو اطلاع کیوں نہیں دی؟ نمبرداروں کی اس طرح پر بر طرفی کے بعد یہ مقدمہ سرکار بنام سیف اللہ شاہ و سلیمان شاہ حاکم مذکورہی نے سنا.ظاہر ہے کہ وہ اس بارہ میں اپنی قطعی رائے قائم کر چکا تھا.اور اس کے لئے مقدمہ کی سماعت ایک تحصیل حاصل تھی.دوسری بات یہ ہوئی کہ مقدمہ سر دلال کی پیشی میں آنے کی بجائے دوسرے حج کی پیشی میں لگ گیا.ہم نے بحث میں یہ عذر اٹھایا کہ سماعت مقدمہ از اول تا آخر غلط ہے.کیونکہ مجسٹریٹ اس مقدمہ کی سماعت کرنے کا مجاز نہ تھا.سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ بیج اور چیف جسٹس مجرم قرار دے چکا.ہمارا جواب یہ تھا کہ چیف جسٹس کے سامنے یہ بات نہیں پیش کی گئی کہ مجسٹریٹ نے خلاف قانون سماعت مقدمہ کی.یہ نقل فیصلہ موجود ہے جس سے ظاہر ہے کہ یہ عذر کسی نے نہیں اٹھایا.حج نے سرکاری وکیل سے اس بات کا جواب طلب کیا.جواب تو
تاریخ احمدیت جلد ۵ 543 تحریک آزادی کشمیر او ر جماعت احمد یہ راصل کوئی ہو نہیں سکتا تھا.دونوں اپیلانٹ اسی وقت بری کر دیئے گئے اور انہوں نے عدالت سے نکلتے ہی آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے صدر کے نام شکریے کا تار دیا".شیخ صاحب کو ان دنوں راتوں کو بھی مسلسل کام کرنا پڑتا تھا.جس کی وجہ سے آپ کی صحت پر سخت ناگوار اثر پڑا.مگر آپ اپنی کوششوں میں برابر منہمک رہے.شیر کشمیر شیخ محمد عبد اللہ صاحب پر جناب شیخ صاحب کی جانفشانی، خلوص اور محنت کا اتنا اثر تھا کہ انہوں نے ۱۶ / جولائی ۱۹۳۲ء کو مولانا جلال الدین صاحب شمس اسٹنٹ سیکرٹری کشمیر کمیٹی کو ایک مخط میں لکھا."محمد احمد صاحب وکیل کے متعلق ایک بات میں آپ سے عرض کردوں آپ اس پر بھی توجہ کریں اور حضرت صاحب کی توجہ مبذول کریں.محمد احمد صاحب ایک قابل اور محنتی وکیل ہیں انہوں نے کشمیر کے مقدمات میں بڑی جانفشانی کے ساتھ کام کیا.مگر انہیں کشمیر کمیٹی کی طرف سے بہت قلیل فنڈ مہیا ہوتے ہیں میں اس کے لئے خاص سفارش ده کرتا ہوں.کہ آپ اس کے لئے کم از کم اتنی رقم تو بھیج دیں تاکہ وہ یہاں مقروض نہ ہوں".۱۳/ ستمبر ۱۹۳۲ء کو پتھر مسجد سری نگر میں زیر صدارت سید حبیب صاحب ایڈیٹر ”سیاست“ ایک عظیم الشان جلسہ منعقد ہوا.جس میں شیخ محمد احمد صاحب مظہر، شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ اور چوہدری محمد یوسف خاں صاحب بی.اے کے کار ہائے نمایاں، بے لوث اور بیش قیمت قربانیوں کے لئے شکریہ ادا کیا گیا.۱۷/ نومبر ۱۹۳۲ء کو شیر کشمیر شیخ محمد عبد اللہ صاحب نے شیخ محمد احمد صاحب ایڈووکیٹ ، شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ ، جناب سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اور بعض دوسرے اصحاب کے اعزاز میں چائے کی دعوت دی چائے نوشی کے بعد یہ سب اصحاب پھر مسجد میں تشریف لے گئے.جہاں قریباً میں ہزار مسلمان ان کے الوداعی جلسہ میں موجود تھے.اس جلسہ میں شیخ محمد احمد صاحب اور چوہدری محمد یوسف خان صاحب کی خدمات کو بہت سراہا گیا.چنانچہ مولوی عبداللہ صاحب وکیل نے شیخ محمد احمد صاحب مظہر کی نسبت چشم دید واقعہ بیان کیا.شیخ صاحب موصوف نے نہایت ایمانداری سے اپنی جانفشانی کا ثبوت دیا.حتی کہ ایک دفعہ شیخ صاحب کے فرزند پنجاب میں بیمار ہو گئے اور انہوں نے مقدمات کو چھوڑ کر اپنے عزیز فرزند کی عیادت کے لئے پنجاب جانا مناسب نہ جانا.اور ذاتی معاملہ پر قومی مفاد کو ترجیح دے دی.اسی طرح ایک مرتبہ مالی مشکلات اور ضروریات کے لئے مجبور تھے.اور میں نے کشمیر کمیٹی سے مانگنے کے لئے کہا.مگر شیخ صاحب نے دلیرانہ جواب دے کر اپنے ایثار کا ثبوت پیش کیا اور فرمایا.میں کشمیر کمیٹی سے غریبوں اور قوم کا روپیہ لے کر صرف کرنا نہیں چاہتا.بلکہ میں چاہتا ہوں که سکونتی مکان فروخت کر کے گزارہ کرلوں.اس جلسہ کی پوری تفصیل اخبار ”سیاست“۳۰/ ستمبر "
د جلده ۱۹۳۲ء صفحہ ۶ پر شائع ہو گئی تھی.544 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ جسٹس کشمیر کے نام میموریل جناب شیخ محمد احمد صاحب منظر ایڈوکیٹ کی خدمات جلیلہ کا تذکرہ کرنے کے بعد بالآخر آپ ہی کے قلم سے ایک اہم واقعہ درج کرنا ضروری ہے.یہ واقعہ شیخ محمد عبد اللہ صاحب شیر کشمیر کے ذریعہ سے چیف جسٹس ہائیکورٹ کشمیر کے نام میموریل بھجوانے کا ہے.جس کے بعد خدا کے فضل سے مظلومین کشمیر کے مقدمات میں کامیابی کا دروازہ کھل گیا.آپ کا بیان ہے کہ " چیف جسٹس سرد لال کی طبیعت پر یہ اثر تھا کہ مسلمان اسے نا انصاف حج تصور کرتے ہیں اور اس کے انصاف پر اعتماد نہیں رکھتے.بعض ایسے واقعات رونما ہو چکے تھے.جن کی وجہ سے سر دلال کی طبیعت میں تحریک آزادی کے متعلق ایک مکدر اور تنفر پیدا ہو چکا تھا.خصوصا شیخ محمد عبد اللہ صاحب کو وہ اپنا شدید مخالف تصور کرتے تھے.اور مقدمات میں شیخ صاحب کا نام آتے ہی چین بجبیں ہو جاتے تھے.مچلی عدالتوں کو اس تندر کا علم تھا.اس لئے وہ ایک حد تک بے خوف تھیں.یہ ایک ایسی صورت حال تھی.جو مقدمات کی کامیابی میں ایک ناقابل بیان سد راہ تھی.اللہ تعالی کی شان ہے کہ یہ عقدہ جو بظاہر لا نخل نظر آتا تھا.اس کے حل کی خود بخود ایک تقریب پیدا ہو گئی." خود کنی خود کنانی کار را خود وہی رونق تو این بازار را یہ تقریب اس طرح پیش آئی کہ ایک دن شیخ محمد عبد اللہ صاحب انگریز وزیر اعظم کشمیر مسٹر کالون نامی سے ملاقات کرنے گئے.اور انہوں نے کشمیریوں پر مظالم اور انکے حقوق کی تلفی کا ذکر کیا.وزیر اعظم نے کہا کہ بہر حال شورش بند ہونی چاہئے.اور امن قائم کیا جائے.خیر اس ملاقات کے بعد شیخ صاحب چنار باغ میں میرے ہاؤس بوٹ پر تشریف لائے.شیخ صاحب نے مجھ سے ذکر کیا کہ مسٹر کالون کہتے ہیں کہ شورش بند ہونی چاہئے.اور امن قائم ہو جانا چاہئے.مجھے اس بات میں ایک بہت ہی بڑا نکتہ نظر آیا اور میں نے شیخ صاحب سے کہا کہ آپ کل تشریف لا ئیں.میں آپ کی طرف سے ایک میموریل لکھوں گا جو مسٹر کالون کو بھیجا جائے گا.اور آپ کی قوم کی اس میں بھلائی اور فائدہ ہے کہ وہ میموریل آپ کی طرف سے پیش ہو.میں نے شیخ صاحب کے اندر ایک بہت بڑی خوبی مشاہدہ کی.جس بات میں ان کی قوم کا بھلا ہو وہ اپنی رائے کو چھوڑ کر بھی اسے اختیار کر لیتے ہیں.خواہ بظاہر یہ بات ہو کہ اپنی رائے کو چھوڑنا ایک مشکل امر ہو لیکن شیخ صاحب کا خلوص بے نفسی پر مبنی تھا.میں نے ایک میموریل انگریزی زبان میں تیار کیا.جس میں امور ذیل پیش کئے.آپ فرماتے ہیں کہ شورش بند ہو لیکن آپ کو وجوہات معلوم ہونی چاہئیں.جن کی وجہ سے
تاریخ احمدیت جلد ۵ 545 تحریک آزادی کشمیر ا د ر جماعت احمدیہ شورش جاری ہے اور جب تک ان وجوہات کا ازالہ نہ ہو.امن قائم نہیں ہو سکتا.ان وجوہات میں سے چند حسب ذیل ہیں.(1) تمام لوگوں میں یہ احساس ہے کہ آزادی کا مطالبہ کرنے پر حکومت نے نہتے لوگوں پر گولیاں چلا ئیں بہت سے لوگ جاں بحق ہو گئے بعض زخمی ہوئے کسی کی ٹانگ کاٹنی پڑی کسی کا ہاتھ کاٹنا پڑا کسی کو زخم ہوئے یہ زخمی لوگ مقدمات میں لیے گئے.اور جب یہ لوگ لاریوں میں سوار ہو کر علاقوں کی طرف روانہ ہوتے ہیں اور لوگ دیکھتے ہیں کہ کسی کا ہاتھ کٹا ہوا ہے اور کسی کی ٹانگ کٹی ہوئی ہے اور کوئی زخمی ہے اور باوجود اس کے عدالت کی طرف لے جایا جا رہا ہے تو لوگوں میں ایک بہیجان پیدا ہوتا ہے.تو ملزمان کے متعلق زندہ باد کے نعرے لگتے ہیں.(۲) جب عدالتوں کے اندر مقامات کی پیروی ہوتی ہے.تو جو لوگ بر سر عدالت ہیں وہ تحریک آزادی کے دشمن ہیں اور اس معاملہ کو اپنا ذاتی معاملہ سمجھتے ہیں.کسی بے گناہ کو بھی بری کرنا ایک پاپ سمجھتے ہیں.اسکے نتیجہ میں ہی انتہائی بے اعتمادی عدالتوں اور حکومت کے خلاف پیدا ہوتی ہے.(۳) مچلی عدالتیں ایسی ہیں کہ ان کا نہ ہو نا ہونے سے بہتر ہے.(۴) بعض مقدمات میں بعض بڑے بڑے شریف اور معزز لوگ ملوث کئے گئے ہیں.تاکہ ان کو سزا دے کر عام لوگوں کو عبرت دلائی جاسکے.کہ وہ تحریک آزادی سے کنارہ کش ہو جائیں.ورنہ ان کا بھی یہی حشر ہو گا.مثلاً بارہ مولا کے مقدمہ میں چالیس معزز اور ممتاز شہری لیے گئے ہیں اور مقدمہ چل رہا ہے.اور خصوصاً تمام علاقے میں ہیجان اور اضطراب کا موجب ہے.(۵) مچلی عدالتیں طریق انصاف سے بہت حد تک محروم ہیں.اور شاید ہم ان حالات میں مقدمات کی پیروی سے دستکش ہو جاتے.لیکن ہمیں اس بات پر اعتماد ہے کہ بالآخر چیف جسٹس کے پاس پہنچ کرد ادری اور انصاف اور قانون کی پناہ حاصل ہو جائے گی.یہ وہ امور ہیں جن کی طرف وزیر اعظم صاحب کو توجہ کرنی چاہئے اور ظلم اور استبداد کی روک تھام ہونی چاہئے.اور قانون کے تقاضے مقدمات میں پورے ہونے چاہئیں.دوسرے دن شیخ صاحب حسب وعدہ تشریف لائے.میں نے یہ میموریل انہیں سنایا.اور انہوں نے پسند فرمایا.چنانچہ یہ میموریل شیخ صاحب نے مسٹر کالون کو بھیج دیا.بعد اس کے معلوم ہوا کہ وزیر اعظم نے یہ میموریل چیف جسٹس کے پاس روانہ کیا کہ وہ اس بارے میں کیا کہتے ہیں اور ان کے ریمارک ان امور کے متعلق آنے چاہئیں.
تاریخ احمدیت جلد ۵ 546 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ جب یہ میموریل چیف جسٹس صاحب کے پاس پہنچا.تو انہوں نے فورا شیخ صاحب سے ملاقات کرنا چای شیخ صاحب میرے پاس تشریف لائے کہ چیف جسٹس کی روبکار بغرض ملاقات مجھے پہنچی ہے اور میں نے شیخ صاحب سے معدرجہ ذیل گفتگو کی.چیف جسٹس کا یہ خیال کہ مسلمان انہیں بے انصاف سمجھتے ہیں دور ہونا چاہئے.اور یہ ایک ایسا امر ہے جو چیف جسٹس کو تمام ہندوستان میں نیک نام اور انصاف پسند قرار دے چکا ہے اور تمام مسلمان ان کے ممنون ہیں.اور ان کی انصاف پسندی کے قائل ہیں.وہ امر یہ ہے کہ جب راجپال نے ”رنگیلا رسول "کتاب لکھی اور اس پر مقدمہ قائم ہوا.اور سر دلیپ سنگھ نے بطور جج ہائیکورٹ یہ قرار دیا کہ حضور نبی کریم ﷺ کا شاتم موجودہ قانون کی رو سے ! مجرم نہیں قرار پا سکتا.اور راجپال کو بری کر دیا.اور یہ بات سب کو معلوم ہے اس کے بعد اس قسم کے مقدمہ توہین رسول کے الزام میں ایک شخص کالی چون کے خلاف الہ آباد ہائیکورٹ کے دائر ہوا.اور جب یہ مقدمہ ہائیکورٹ میں پہنچا تو سر دلال حجج تھے.ان کے سامنے سر دلیپ سنگھ کے فیصلہ کا حوالہ دیا گیا کہ شاتم رسول مجرم نہیں ہوتا.جو سر دلال نے نہایت حقارت سے اس فیصلے کو غلط قرار دیتے ہوئے مجرم کو سزادی اور قرار دیا کہ قانونا شاتم رسول گبری نہیں ہو سکتا.اور یہ جرم ہے.دونوں ہائیکورٹوں کے فیصلے متضاد ہو گئے.اس پر گورنمنٹ نے تعزیرات ہند کی دفعہ متعلقہ میں ترمیم کی اور مذہبی پیشواؤں کی ہتک کو جرم قرار دیا.میں نے شیخ صاحب سے عرض کیا کہ اگر سرد لال پوچھیں تو آپ مندرجہ بالا وفعات کا ذکر کریں اور یہ کہ ہم تو کیا ہندوستان کے تمام مسلمان آپ کی انصاف پسندی کے قائل ہیں.اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ کشمیر میں بھی کوئی تعصب آپ کی موجودگی میں انصاف کی راہ میں حائل نہ ہو.اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ شیخ صاحب جب سر دلال سے ملاقی ہوئے تو انہوں نے یہی سوال کیا کہ انہیں نا انصاف سمجھا جاتا رہا لیکن شیخ صاحب کے میموریل میں انہیں با انصاف ظاہر کیا گیا ہے اس کی کیا وجہ ہے جو ابا شیخ صاحب کی طرف سے دلیپ سنگھ والا مقدمہ اور کالی چرن والا مقدمہ مذکور ہوئے جیسا کہ اوپر درج کیا گیا ہے.یہ سن کر سرد لال بہت ہی خوش ہوئے اور فرمانے لگے.کہ ہاں میں نے جو اس وقت فیصلہ کیا مسلمانوں کا بچہ بچہ اسے جانتا ہے.اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں چیف جسٹس ہو تا ہوا کشمیر میں پورا عدل و انصاف نہ کراؤں.جن جن مقدمات میں نا انصافی ہوئی ہے آپ بے شک کوائف مجھے بھیج دیں.حسب ضرورت اس میں دست اندازی کروں گا.اس ملاقات کے بعد شیخ صاحب میرے پاس تشریف لائے.اور انہوں نے ملاقات مندرجہ بالا کا ذکر فرمایا اور یہ کہ جن مقدمات میں نا انصافی ہوئی ہے ان پر نوٹ لکھا جائے.اور یہ کہ سر دلال بالکل }
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 547 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ مطمئن ہو چکے ہیں اور ان کا تکدر دور ہو چکا ہے.خاکسار نے بعض مقدمات کے متعلق ایک یادداشت تیار کی جو سر دلال کو بھیجی گئی.پہلا حکم سر دلال نے اس بارے میں یہ صادر کیا کہ مقدمہ بارہ مولا جس میں چالیس معززین ملوث کئے گئے ہیں.فور اواپس لیا جائے.یاد رہے کہ سر دلال کشمیر کے چیف جسٹس بھی تھے اور جوڈیشل مسٹر بھی.اس لئے مقدمات کو اپس لینا یا ان میں دست اندازی کرنا ان کے اختیار میں تھا.ظاہر ہے کہ مندرجہ بالا صورت حال اس طرح پیدا ہوئی کہ حضرت صاحب نے سر دلال کی طبیعت کا جو نفسیاتی تجزیہ کیا ہوا تھا اس کے مطابق وہ نرم پڑ گئے اس کے بعد ہوا کا رخ پلٹ گیا اور مقدمات کامیاب ہونے شروع ہوئے اور اکثر ایسا ہوا کہ ہائیکورٹ میں اپیل کرنے پر مقدمہ کامیاب ہو تا رہا.کیونکہ سر دلال ایک مشہور با انصاف بج رہے ہیں.اور بطور جوڈیشنل کمشنر اودھ یا حج ہائیکورٹ الہ آباد ان کے فیصلوں میں سلامت اعتدال اور حقیقی انصاف پایا جاتا ہے.فمن شاء فلير جع اليه مندرجہ بالا میموریل کی نقل خاکسار نے حضرت صاحب کی خدمت میں بھی روانہ کردی.اور شیخ محمد عبد اللہ صاحب بھی اس کے بعد لاہور میں حضرت صاحب سے ملاقی ہوئے.انہوں نے اس کا ذکر کیا.چنانچہ حضور نے اس کے بعد ۶ / اگست ۱۹۳۲ء کو مقدمہ بارہ مولا میں کامیابی پر مبارکباد دی اور فرمایا کہ آپ نے جو کیا بہت اچھا کیا.جزاکم الله احسن الجزاء " چوہدری عزیز احمد صاحب نے بھمبر چوہدری عزیز احمد صاحب بی اے.ایل ایل بی اور پونچھ میں قابل رشک خدمات سر انجام دیں آپ کے علاوہ پونچھ میں قاضی عبد الحمید صاحب نے بھی مقدمات کی پیروی کی.مسلمانان علاقہ تھکیالہ پڑادہ جاگیر پونچھ نے ان فاضل وکلاء کی خدمات کا شکریہ درج ذیل الفاظ میں ادا کیا."ہم جملہ مسلمانان علاقہ تھکیالہ پڑاوہ جاگیر پونچھ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے صدر محترم و جملہ کار پردازان کے تہ دل سے ممنون ہیں اس وقت تک جو معقول امداد ہمیں اس کمیٹی کی طرف سے پہنچی ہے.وہ بے حد مسرت بخش ہے قانونی مدد کے علاوہ مالی امداد سے بھی ہمیں کمیٹی نے فائدہ پہنچایا ہے.خود غرض لوگ اگر اس کمیٹی کے کارناموں میں بلاوجہ روڑے نہ انکاتے تو یقیناً اس وقت تک مسلمانان جموں و کشمیر و پونچھ منزل مقصود کو پہنچ گئے ہوتے.مگر باوجود رکاوٹوں کے کمیٹی نے مسلمانوں کے حقوق اور جان و مال کی بے حد حفاظت کی ہے.اور سر توڑ کوشش کی ہے " قاضی عبد الحمید صاحب امرتسری آپ نے پونچھ میں قریب ہ ماہ اور راجوری میں قریباً تین ماہ تک خدمات انجام دیں.پونچھ میں خاصی تعداد
تاریخ احمدیت.جلده 548 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ مقدمات چل رہے تھے.اور قریبا سب سنگین نوعیت کے تھے.قتل ، آتش زنی ڈاکہ اور بلوہ وغیرہ ہر قسم کے مقدمات تھے.اور پولیس اور ہندوؤں نے محض سر بر آوردہ ہونے کی وجہ سے علاقہ کے معزز ترین مسلمانوں کو جھوٹے مقدمات میں جکڑ دیا تھا.قاضی صاحب نے نہایت محنت اور قابلیت سے پیروی کی اور الا ماشاء اللہ سب مقدمات کے نتائج مسلمانوں کے حق میں بر آمد ہوئے.آپ کی خدمات کا لسلہ مئی ۱۹۳۲ء سے دسمبر ۱۹۳۲ء تک جاری رہا.میر محمد بخش صاحب ایڈووکیٹ میر محمد بخش صاحب نے جموں کو ٹلی اور نوشہرہ میں پیروی مقدمات کی.آپ جموں میں تشریف لے گئے تو اس وقت تک ریاست کی طرف سے بیرونی پلیڈرز کو وکالت کی اجازت نہ تھی.اس لئے عدالت میں یہ سوال پیدا ہو گیا کہ میر صاحب پلیڈر ہیں اس لئے بطور وکیل پیش نہیں ہو سکتے.اس پر آپ نے ساری رات ریاستی قوانین کا مطالعہ کیا.اور اس نکتہ تک پہنچے کہ ریاستی قانون کے ماتحت کسی ملزم کا مختار خاص مقدمہ کی پیروی کر سکتا ہے.چنانچہ میر صاحب نے جیل سے تمام ملزمان کے خاص مختار نا مے حاصل کر کے عدالت میں پیش کر دیئے.عدالت نے اعتراض کیا کہ جب غیر ریاستی پلیڈر پیش نہیں ہو سکتا تو غیر ریاستی مختار خاص کس طرح پیش ہو سکتا ہے؟ میر صاحب کا موقف یہ تھا کہ مختار صاحب کے لئے یہ شرط ریاستی قانون میں نہیں رکھی گئی.عدالت جموں کوئی فیصلہ نہ کر سکی.ہائیکورٹ سے استصواب کیا گیا.ہائی کورٹ نے میر صاحب کے نقطہ نظر کی تائید کی اور اس طرح یہ قانونی روک بھی ہمیشہ کے لئے دور ہو گئی.BA ۱۵۹ جموں میں مشہور مقدمہ سرکار بنام غلام چل رہا تھا.جس میں بارہ مسلمان قتل اور ڈاکہ کے الزام میں ماخوذ تھے میر صاحب نے خدا کے فضل سے اس قابلیت سے کیس پیش کیا.کہ تمام مسلمان بری کر دیئے گئے.محترم میر محمد بخش صاحب نے اپنے آپ کو دوماہ کے لئے وقف کیا تھا یہ عرصہ گزارنے پر انہوں نے صدر محترم کشمیر کمیٹی سے واپس جانے کی اجازت چاہی.اس کا علم ملزمین کو بھی ہو گیا.انہوں نے بھی جناب صدر کو بذریعہ تار گزارش کی کہ میر صاحب کو تا اختتام مقدمہ جموں ہی میں رہنے کا حکم دیا جائے.یہ درخواست منظور کرلی گئی اور میر صاحب نے پورے چھ ماہ وہاں گزارے اور نہایت قابلیت سے یہ کام ختم کیا.جموں کے مشہور مقدمہ میں سترہ ملزم تھے.جن پر قتل ، ڈاکہ آتش زنی اور بلوہ وغیرہ کے مقدمات تھے.چھ ماہ بعد جب ساری کارروائی ختم ہوئی.تو میر محمد بخش صاحب نے بڑی قابلیت سے بحث کی.پہلے
تاریخ احمدیت جلد ۵ 549 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ دن چھ گھنٹے کی بحث کے نتیجہ میں دونوں جج صاحبان نے اس بات پر اتفاق کیا.کہ چار ملزموں کے خلاف الزام ثابت نہیں ہوا.دوسرے دن کی بحث کے اختتام پر مزید چار کے متعلق اس رائے کا اظہار کیا.اب صرف چار ملزم باقی رہ گئے تھے.اور بحث کا آخری دن تھا.عدالت کو مقررہ وقت سے ایک گھنٹہ زائد وقت دینا پڑا.حج صاحبان نے میر صاحب کی قابلیت کی بہت تعریف کی اور شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے جس محنت اور دیانتداری سے اس کیس کی پیروی کی اس سے ان کو بھی بہت فائدہ پہنچا ہے.اور عدل و انصاف کرنے میں ان کو مددملی ہے.فیصلہ محفوظ رکھا گیا.خیال تھا کہ تمام ملزم بری کر دیئے جائیں گے کئی دن گزر گئے.فیصلہ نہ سنایا گیا.ایک روز میر صاحب مسلم حج کے پاس گئے.اور دیر کی وجہ دریافت کی تو معلوم ہوا کہ دونوں ججوں میں اس بات پر اتفاق ہوا کہ تیرہ ملزم بے گناہ ہیں ان کو بری کر دیا جائے.باقی چار کے متعلق اس حصہ میں اتفاق ہے کہ قتل وغیرہ کے الزام ثابت نہیں.لیکن ہندو حج کو اس بات پر اصرار ہے کہ اگر ہم نے سب کو بری کر دیا.تو ریاست کی بدنامی ہو گی.دنیا کہے گی کہ جھوٹے مقدمات کھڑے کئے گئے تھے.اور ریاست کالاکھوں روپیہ خرچ ہو گیا ہے.آخر فیصلہ سنادیا گیا تیره ملزم بالکل بری اور چار کو بلوہ کرنے کے جرم میں چھ چھ ماہ قید کی سزا ہوئی اور اس طرح چار ہندوؤں کو بھی اس جرم میں چھ چھ ماہ کی قید کی سزا سنادی گئی.جن کی سزا ہوئی ان کی طرف سے ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی گئی.چوہدری اسد اللہ خان صاحب بیرسٹر نے ہائی کورٹ میں پیروی کی جہاں ایسی صورت پیدا ہو گئی کہ فریقین کو رہا کر دیا گیا اور اس طرح اس بہت بڑے مقدمے کا انجام بخیر ہوا.اور ریاست بھر میں کشمیر کمیٹی کے لئے تشکر و امتنان کی لہر دوڑ گئی".میر صاحب جموں میں کام کر رہے تھے.کہ گوجرانوالہ سے بچہ کی تشویشناک بیماری کا تار آیا مگر آپ نے مسلمانوں کے دفاع کو ترجیح دی اور گھر والوں کو لکھا کہ میرا جموں سے مقدمہ سے فارغ ہو کر آنا مشکل ہے میں ڈاکٹر بھی نہیں کہ اس کی مدد کر سکوں.ہاں دعا کر سکتا ہوں اور وہ جموں بیٹھے ہوئے بھی کرتا رہوں گا.ادھر میر صاحب نے یہ جواب دیا ادھر حسن اتفاق سے شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کشمیر سے گوجرانوالہ تشریف لائے تو انہیں بچے کی بیماری کا علم ہوا.تو آپ نے فورا خاطر خواہ طبی انتظام کر دیا.اور تھوڑے دنوں کے بعد بیماری سے افاقہ ہونا شروع ہو گیا.آپ ۱۹ مئی ۱۹۳۲ء کو چھ ماہ مسلسل جموں میں قانونی امداد کا فریضہ انجام دینے کے بعد نوشہرہ روانہ ہوئے تو مسلم بینگ میز ایسوسی ایشن جموں نے نہ صرف اپنے خصوصی اجلاس میں آپ کا شکریہ ادا کیا.بلکہ اس کے جنرل سیکرٹری نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت میں لکھا.
تاریخ احمدیت جلد ۵ 550 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ " جناب والا کی خدمت میں اس بات کا اظہار کرنا کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے مظلوم و تباہ حال مسلمانان کشمیر کی کیسی فقید المثال اور شاندار خدمات انجام دی ہیں تحصیل حاصل ہے کیونکہ کشمیری مسلمانوں کا بچہ بچہ ان احسانات کے بارے میں جو آپ حضرات نے خالصتہ اللہ ہم لوگوں پر کئے.اور کئے جارہے ہیں قیامت تک سبکدوش نہیں ہو سکتا.اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے.آپ کے فرستادہ وکلاء نے جس تندہی جانفشانی اور ہمدردی سے مظلوموں کی دستگیری فرمائی اس کا شکریہ ادا کرنا بھی ہمارے امکان سے باہر ہے.مجھے ایسوسی ایشن کی طرف سے ہدایت ہوئی ہے کہ جناب میر محمد بخش صاحب پلیڈر کی بے نظیر خدمات کے لئے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا شکریہ ادا کروں".جموں کے بعد آپ نے کو ٹلی اور نوشہرہ کے مظلوم مسلمانوں کی رہائی کے لئے دن رات ایک کر دیا.نوشہرہ سپیشل پیچ میں پندرہ مسلمانوں کے خلاف الزام قتل میں پانچ ماہ سے مقدمہ چل رہا تھا.میر صاحب نے نہایت قابلیت اور محنت سے پیروی کی جس کے نتیجہ میں تمام ملزم بری کر دیئے گئے.البتہ ریاست کی عزت بچانے کے لئے چار لیڈروں کو بلوہ کے جرم میں سوسور و پیہ جرمانہ کیا گیا اور تین چار کو معمولی سزا ہوئی.فیصلہ سننے کے لئے ہزاروں لوگ جمع تھے.انہوں نے اس فیصلہ پر بہت خوشی کا اظہار کرتے ہوئے نعرے بلند کئے اور کشمیر کمیٹی کے وکلاء کا شکریہ ادا کیا.ہائیکورٹ میں اپیل کا کام پھر چوہدری اسد اللہ خاں بیرسٹر لاہور کے سپرد ہوا.۲۵ جناب چوہدری اسدالله چوہدری اسد اللہ خان صاحب بیرسٹر ایٹ لاء - لاہور خان صاحب بیر سٹرایٹ لاء کی کوششوں سے بیرون ریاست سے آنے والے ایڈووکیٹ کے لئے فیس کی معافی کا جو حکم نامہ جاری ہوا اس کا ذکر گزر چکا ہے اس عظیم الشان خدمت کے علاوہ آپ جموں اور میر پور بھی تشریف لے گئے.چوہدری صاحب نے دونوں جگہ بہت محنت و خلوص سے قانونی خدمات انجام دیں.خصوصاً میر پور میں آپ نے وکالت کا حق ادا کر دیا.ان دنوں اس علاقہ میں فسادات جاری تھے اور مسلمان بے دریغ قتل کئے جارہے تھے.میرپور میں مسلمان شہداء کی جو نعشیں پہنچتی تھیں.چوہدری صاحب اپنے سامنے ہر نعش کا معائنہ کراتے اور مقتولین کے ورثاء کو تسلی دیتے علاقہ کے لوگ چودھری صاحب کے جذبہ ہمدردی سے بہت متاثر و مداح تھے.میرپور کے مقدمہ میں میر محمد بخش صاحب کی کوشش سے بہت سے مسلمان بری ہو گئے تھے مگر چھ کو سزا ہو گئی تھی.ہائیکورٹ میں اپیل کی گئی چوہدری اسد اللہ خان صاحب ہیر سٹرایٹ لاء نے تین
تاریخ احمدیت.جلده 551 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیه گھنٹہ تک بحث کی جس کے نتیجہ میں پانچ مسلمان بالکل بری کر دیئے گئے اور ایک کی سزا میں تخفیف کر دی گئی.ریاستی حکام نے آپ کو بھی چوبیس گھنٹہ کے اندر اندر ریاست چھوڑ دینے کا حکم دیا تھا.چوہدری صاحب نے جواب دیا کہ میں نے کوئی غیر قانونی اقدام نہیں کیا.اس لئے میں ریاست سے باہر نہیں جاؤں گا.ہاں اگر حکام مجھے زبر دستی اٹھا کر ریاست سے باہر چھوڑ آئیں.تو اور بات ہے یا پھر مجھ پر قانون کے ماتحت مقدمہ چلایا جائے.بالآخر ریاست کو نوٹس واپس لینے پر مجبور ہونا پڑا.NA جماعت احمدیہ کے وکلاء نے تحریک آزادی کے سلسلہ وکلاء کی خدمات پر خراج تحسین میں جو سنہری کارنامے دکھائے ان کے لئے ایک مستقل تصنیف کی ضرورت ہے.اوپر جو کچھ بیان ہوا وہ بھی اگر چہ اجمالی رنگ کی تفصیل تھی.مگر اس سے تحریک آزادی کشمیر کے ان مجاہدوں کی سرگرمیوں کا نقشہ جنگ مطالعہ کرنے میں کافی مدد مل سکتی ہے.تا ہم اس فصل کے اختتام پر کشمیر کے مسلم زعماء کے عمومی تاثرات کا درج کرنا ضروری ہے.- جناب اللہ رکھا صاحب ساغر سابق مدیر "رهبر" جناب اللہ رکھا صاحب ساغر کا بیان سرینگر و " جاوید " جموں (جن کا شمار ریاست کے ممتاز سیاسی رہنماؤں میں ہوتا ہے) ایک بیان میں فرماتے ہیں.ریاست کے اندر تو یہ ہو رہا تھا اور بیرون ریاست برطانوی ہند میں بھی پارہ کافی حد تک اونچا چڑھ چکا تھا.اپنے اپنے طور پر سب ہی کوشش کر رہے تھے کہ مسلمانان کشمیر کی ممکن حد تک مدد ہوتی رہے.لیکن اس سلسلے میں کشمیر کمیٹی کی حیثیت منفرد تھی.اس نے سائنٹیفک طور پر اس مہم کو بڑے منظم طریقے سے چلایا.پلٹی کو بہت فروغ دیا.حکومت ہند تک کئی یاد داشتیں بھیجیں.متعدد و خود ارسال کئے اور سب سے بڑھ کر اندرون ریاست سے ایسا اچھا میل قائم کیا کہ لوگوں کو اس سے بڑی سہولت ملی اطلاعات ہم لوگ فراہم کرتے.برطانوی ہند میں اس کو نشر کرنے کی ساری ذمہ داری کشمیر کمیٹی کی تھی.اور یہ رابطہ بڑا سہل اور آسان رکھا گیا.ہر جگہ سے اطلاعات بڑے سادہ طریقہ پر پہنچائی جاتیں کم خواندہ آدمی بھیجے جاتے.اور اس کی نوک پلک درست کر کے اور اس کو دل نشین اور موثر پیرایہ میں ڈھال لیا جاتا تھا.اور کشمیر کمیٹی کی کوئی ایجنسی انہیں نشر کر دیتی تھی.اس کے علاوہ روز مرہ کی ضروریات کے لئے مادی امداد بھی برابر پہنچتی رہتی تھی.مثلاً سائیکلو سٹائل کی مشین ، سٹیشنری، مطبوعات وغیرہ کی سپلائی خفیہ راستوں سے با قاعدہ جاری رہتی تھی.چونکہ ریاست میں پکڑ دھکڑ عام ہو چکی تھی.اور تمام قابل ذکر لیڈر اور کارکن گرفتار کر لئے گئے تھے.بلکہ ان کے لواحقین تک کو بھی جو سیاسیات میں اپنے بڑھاپے یا کاروبار کی وجہ سے کم
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 552 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ ہی دخل دیتے تھے.ان کو بھی مختلف الزامات میں ماخوذ کر لیا تھا.اس لئے آئے دن ان کی قانونی امداد کی ضرورت پڑتی رہتی تھی.چونکہ مسلم وکلاء اول تو تھے ہی کم اور اگر اکار کا کہیں تھا بھی تو وہ خود اسیر زندان تھا.اس لئے اس پہلو میں بھی بڑی مدد کی ضرورت تھی اور اس سلسلہ میں کشمیر کمیٹی نے جہاں مقامی طور پر قانونی امداد میسر آسکتی تھی اس کے مہیا کرنے کا بندوبست کیا.اور جہاں یہ ناممکن تھا وہاں لاہور سے وکلاء مہیا کئے گئے.اور ان کے اخراجات کمیٹی نے بھی برداشت کئے.اس کے سوا چھوٹے بڑے دو سرے کاموں کے لئے اخراجات کی کافی ضرورت ہوتی تھی.اس میں شبہ نہیں کہ ہنگامی قسم کے اخراجات تو مقامی طور پر بے شک پیدا ہو جاتے تھے لیکن دور رس اور مسلسل قسم کے اخراجات کے لئے کشمیر کمیٹی مالی امداد بھی کرتی تھی.میرا ذاتی نقطہ نظریہ ہے کہ کشمیر کمیٹی نے ۱۹۳۱ء میں جو مالی امداد تحریک کشمیر کی کی وہ لامحالہ بڑی ٹھوس او روزن دار تھی اور پائیداری اور نتیجہ خیزی کے لحاظ سے بے مثل تھی.میں ان آدمیوں سے متفق نہیں ہوں.جو یہ سمجھتے تھے یا اگر نہیں سمجھتے تھے تو کہتے تھے کہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے کشمیر کمیٹی کا ڈھونگ حکومت ہند کے ایماء پر کھڑا کیا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ اول تو علامہ اقبال جیسے انسان جس مجلس میں شامل ہوئے ہوں میں کبھی بھی نہیں سمجھ سکتا.کہ اس کا تعلق حکومت ہند سے ہو سکتا ہے.میرے مرشد کبھی بھی ایسی جماعت میں شامل نہ ہوتے.جس کے متعلق انہیں ایک فیصدی بھی شبہ ہو تا کہ وہ حکومت ہند کی آلہ کار ہے دوسرے بہ حیثیت جموں اور کشمیر کا ایک باشندہ ہونے کے ہماری سب سے بڑی خواہش یہی تھی اور سب سے بڑا مفاد اس میں تھا کہ حکومت ہند کشمیر کے معاملات میں مداخلت کرے.کیونکہ حکمران کشمیر نے مسلمانان کشمیر کو بالکل مجبور و بے بس کر دیا تھا اور انصاف کے سارے دروازے ان پر بند کر دیئے گئے تھے.اور اس کا مدادا صرف یہی تھا کہ حکومت ہند جس کے پاس پر امونٹ پاور تھی.وہی اس کا ازالہ کر سکتی تھی اور خود کانگریس نے چند دوسری ریاستوں میں اس چیز کے لئے حکومت ہند سے اپیل بھی کی تھی.کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ جو چیز دوسری ریاستوں کے عوام کو وہاں کے حکمرانوں کی بے اعتدالیوں سے محفوظ رکھنے کے لئے طلب کی گئی وہی چیز اگر ہمارے لئے مطلوب ہوئی تو اسے برا کیوں کہا جائے".۲ شیر کشمیر شیخ محمد عبد اللہ صاحب نے ایک شیر کشمیر شیخ محمد عبد اللہ صاحب کا بیان مضمون میں لکھا.و گزشتہ سال جس وقت ہم پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹے.اس وقت ہماری بے کسی اور بے چارگی کی جو حالت تھی.اس کا اقتضاء یہ تھا کہ ہم دنیا کی ہر اس چیز سے فائدہ حاصل کریں جو ہمارے لئے ذرہ بھر بھی مفید ہو سکتی ہو.پنجاب کے حساس مسلمانوں نے اخوت اسلام کے پیش نظر ہماری امداد کرنے کے
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 553 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد یہ لئے ایک طرف کشمیر کمیٹی کی بنیاد ڈالی اور دوسری طرف مجلس احرار کی سرفروش جماعت کا رخ ہماری طرف پھیر دیا.ہماری گوناگوں ضروریات اس بات کی مقتضی تھیں کہ ہماری امداد سب سے زیادہ قانونی اور مالی شکل میں کی جائے.کیونکہ ہماری مقابل طاقت نے زیادہ تر ہماری ان ہی دو کمزوریوں کو ہمارے دبانے کا ذریعہ بنار کھا تھا.اس اجمال کی تفصیل یوں ہے کہ تحریک کو دبانے کے لئے جو قتل و غارت عمل میں آئی.اس کے باعث سینکڑوں، بیوائیں اور یتیم اور ہزاروں بے خانماں اشخاص تحریک کی گردن پر بوجھ بن کر رہ گئے.جن کی مالی امداد کرنا تحریک کو فروغ دینے کے مترادف ہو گیا.اس کے ساتھ ہزارہا مسلمانوں پر جعلی مقدمات دائر کر دیئے گئے.مسلم وکلاء کی جو حالت کشمیر میں ہے.وہ عیاں ہے پہلے تو ہیں ہی نا پید اور جو کہیں ایک آدھ ہے بھی تو اس کے لئے جرات کے ساتھ سیاسی مقدمات کی پیروی کرنا نہیں.ان حالات میں ہمارے بیرونی معاونین کا فرض تھا کہ وہ ہماری ان دو سب سے بڑی " ضرورتوں کو اچھی طرح سے محسوس کرتے اور اسی رنگ میں ہماری امداد کی طرف قدم اٹھاتے.اس معاملہ میں جہاں تک ممکن ہو سکا.کشمیر کمیٹی نے ہمارا ہاتھ بٹایا.مگر افسوس کہ لیڈران احرار نے اپنی توجہ کو ہمارے اس فوری اور صبر شکن درد کی طرف متوجہ نہ کیا.اس میں شک نہیں کہ ان کی نگاہیں بہت رفیع مقاصد کی طرف لگی ہوئی تھیں اور وہ ہمارے لئے سیاسیات عالیہ کے انتہائی مدارج کو پا انداز کر دینا چاہتے تھے.مگر افسوس کہ درخت پر چڑھنے کے لئے جو قدرتی اصول تھا.اسے انہوں نے نظر انداز کر کے براہ راست بھنگ کو ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی " علاوہ ازیں شیخ صاحب نے اکتوبر ۱۹۳۳ء میں صفاکدل میں ایک تقریر کی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ کیا تم اس جماعت کو مردہ باد کہتے ہو جس جماعت کے ہر فرد میں صحابیوں جیسا ایثار ہے اور آپس میں ایسی ہمدردی ہے جیسا کہ قرون اوٹی والے مسلمانوں میں تھی کیا تم کو معلوم نہیں کہ یہاں کے اکثر پیرزادے یا اور دیگر طالب علم جب پنجاب میں طلب علم کے لئے جاتے ہیں.تو وہاں شہر شہر در بدر پھرتے ہیں جس وقت وہ قادیان پہنچ جاتے ہیں تو انہیں وہاں آرائش اور آرام ملتا ہے.حتی کہ وہ ایک عالم یا گریجوایٹ بن کر وہاں سے نکلتا ہے وہ لوگ نرمی اخلاق اور تہذیب میں مشہور ہیں.جب میں قید ہند کے زمانہ میں بالکل بے بس اور لاچار تھا میں نے یہاں کے وکلاء سے ، دمانگی انہوں نے صاف انکار کیا بلکہ دو گنا معاوضہ طلب کیا.پھر میں نے ہندوستان کے مسلمانوں سے درخواست کی وہاں سے بھی نا امیدی ہوئی.پھر اس جماعت کے امام سے میں نے امداد کی درخواست کی تو فورا انہوں نے ہر رنگ میں ہماری مدد کی جس سے تم بے خبر نہیں ہو.جس وقت ان کے ایک وکیل کو گھر سے تار آیا کہ اس کے بچے بیمار ہیں تو وہ میرے پاس آیا میں نے انہیں جانے کے لئے مشورہ
تاریخ احمدیت جلد ۵ 554 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ دیا لیکن انہوں نے جواب دیا.اگر یہاں ایک مسلمان آزاد ہو جائے تو میں سمجھوں گا کہ میرے بچے صحت یاب ہو گئے.بعد میں اس کے بچے یہاں ہی آئے تو کیا تم میں سے بہتوں نے نہیں دیکھا کہ وہ صاحب ایک ہاتھ سے بچوں کی مالش کرتے تھے اور ایک ہاتھ سے مسل کا مطالعہ کرتے تھے ".......عتیق اللہ صاحب کشمیری کا بیان جناب عقیق اللہ صاحب کشمیری نے انقلاب ۱۲۰ اپریل ۱۹۳۲ء میں لکھا."آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے جس خلوص اور ہمدردی کے ساتھ مظلوم مسلمانان ریاست جموں و کشمیر کو مالی جانی قانونی امداد دی.اس کے لئے ہمارے جسم کا ذرہ ذرہ زبان سپاس ہے اور ہم لوگ اس کمیٹی کی بے لوث مالی امداد کے تازیست ممنون رہیں گے.اس کمیٹی نے شہدا کے پسماندگان کا خیال رکھا.یتامی و ایامی (بیوگان - ناقل) کی پرورش کی.محبوسین کے پسماندگان کو مالی امداددی.ماخوذین کو قانونی امداد دی.کارکنوں کو گرانقدر مشورے دیئے جنگلوں اور پہاڑوں میں جاکر مظلومین کی امداد کی ماخوذین کی اپلیں دائر کیں.اور ان کے مقدمات کی پیروی کی.قابل ترین قانونی مشیر بہم پہنچائے.ہندوستان اور بیرون ہند میں ہماری مظلومیت ظاہر کرنے کے لئے جان توڑ کوشش کی.ہماری آواز کو مقام بالا تک پہنچایا.ہماری تسلی اور تسکین کی خاطر اشتہارات اور ٹریکٹ شائع کئے.ہر وقت قابل اور موزوں والنٹیئر دیئے.دنیائے اسلام کو ہمارے حالات سے آگاہ کر کے ہمدردی پر آگاہ کیا.اخبارات کے ذریعہ سے ہماری مظلومیت کو ظاہر کیا گیا".صاحب دین صاحب میرپور نے اکتوبر ۱۹۳۳ء صاحب دین صاحب میرپور کا بیان میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی کے نام مندرجہ ذیل خط لکھا." مظلومان خطہ کشمیر خاص کر مہجوران و مظلومان میر پور پر جو الطاف و اکرام.....معلی القاب نے کئے ہر صاحب خرد و ہوش پر اظہر من الشمس ہیں.کون نہیں جانتا کہ از ابتدائے تحریک تا حال زیر صدارت آنحضور مریدان با عقیدت مولوی ظهور الحسن ، مسٹر محمد یوسف عزیز احمد اور شیخ بشیر احمد صاحب جیسے لائق اشخاص کی بے لوث خدمات نے میرپور کیا بلکہ ریاست بھر کے بے کس دبے نوا انسانوں کے سفینہ حیات کو گرداب استبداد میں جبرو تظلم کے تھپیڑوں سے بچا کر ساحل استراحت کی جانب لا رکھا.آنحضرت کے فیض عام اور احباب متذکرہ بالا کی خدمات کے نقش مسلمان میرپور کے صفحہ دل پر قیامت تک منقش رہیں گے.جن کا اعتراف تاحد علم ہر ایک موقعہ پر کرتے رہے اور کرتے رہیں گے ".
تاریخ احمدیت - - جلد ۵ (فصل پنجم) 555 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ برادران کشمیر کے نام حضرت امام جماعت احمدیہ کے پیغامات ذیل میں حضرت امام جماعت احمدیہ خلیفتہ المسیح الثانی کے وہ اہم اور ولولہ انگیز پیغامات درج کئے جاتے ہیں جو حضور نے تحریک آزادی کے دوران ہر مہم پر وقتا فومختا مسلمانان کشمیر کے نام دیے اور جو پمفلٹ کی صورت میں شائع ہو کر ریاست جموں و کشمیر کے طول و عرض میں پہنچے اور نئے جوش اور نئے ولولہ اور نئی روح پیدا کرنے کا موجب بنے.یہ پیغامات حریت کشمیر کی مستند تاریخ ہیں.اور قیادت و فراست کی ایک حیرت انگیز مثال جن کی اہمیت و افادیت وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جائے گی.اس جگہ یہ تذکرہ کرنا بھی ضروری ہے کہ اس فصل میں حضور کے وہ پیغامات بھی شامل کر دئے گئے ہیں جو کشمیر کمیٹی سے استعفاء کے بعد دیئے.علاوہ ازیں تحریک آزادی کشمیر سے متعلق غیر مطبوعہ مکتوب بھی ان دستاویزات کا یکجائی مطالعہ تاریخ کشمیر پر قلم اٹھانے والے ہر مورخ کے لئے از بس ضروری ہے.برادران اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحیم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر برادران کشمیر کے نام پیغام السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاته : ریاست کشمیر میں جو حالات پیدا ہو رہے ہیں.ان کو پڑھ کر ہر مسلمان کا دل دکھ رہا ہے اور ہراک شخص کا دل ہمدردی سے آپ کی طرف کھینچا جا رہا ہے اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم لوگوں کی
تاریخ احمدیت جلد ۵ 556 تحریک آزادی کشمیر ا در جماعت احمد به طاقت میں جو کچھ بھی ہے اس سے دریغ نہیں کریں گے اور اگر آپ کو تکالیف سے بچانے کے لئے سو سال بھی کوشش کرنی پڑے تو انشاء اللہ وفاداری اور نیک نیتی سے اس کو جاری رکھیں گے لیکن اللہ تعالی کے فضل سے ہم امید کرتے ہیں کہ صورت حالات جلد بہتر ہو جائے گی.کیونکہ ایسے سامان پیدا ہو رہے ہیں.اور خداتعالی زبر دست دوست ہمیں عنایت کر رہا ہے.برادران! اس موقعہ پر آپ کو ایک نصیحت کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ظلم کی شدت کے وقت انسان آپے سے باہر ہو جاتا ہے.لیکن کامیابی کاگر صبر ہے.صبر انسان کی طاقت کو بڑھا دیتا ہے.اس کی قابلیت کو ترقی دیتا ہے.خدا تعالی رسول کریم ﷺ کو پہلے دن ہی فتح بخش سکتا تھا.لیکن اس نے تیرہ ! سال آپ کو اہل مکہ کے ظلموں تلے اسی وجہ سے رکھا کہ وہ چاہتا تھا کہ مسلمانوں میں حکومت کرنے کی قابلیت پیدا ہو جائے اس میں شک نہیں کہ آپ مدتوں سے مظلوم ہیں لیکن حق یہ ہے کہ پہلے آپ کے دل میں آزادی کا خیال ہی پیدا نہ تھا.اس لئے اس وقت آپ کی خاموشی صبر نہ تھی بلکہ کمزوری تھی.مبرای حالت کا نام ہے کہ انسان کا دل مقابلہ کو چاہے لیکن پھر وہ اپنے آپ کو کسی اصول کے ماتحت روک لے یہ حالت انسان کی اعلیٰ درجہ کی تربیت کرتی ہے.اور اس میں بڑی قابلیتیں پیدا کر دیتی ہے اور اس کا موقعہ آپ کو ابھی ملا ہے.پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ خواہ کس قدر ظلم ہو.آپ لوگ اس کا جواب تشدد سے نہ دیں بلکہ مبر اور قربانی سے دیں اور اس وقت کو تنظیم اور ایثار اور قربانی سے خرچ کریں.تب اللہ تعالیٰ کا فضل آسمان سے بھی نازل ہو گا.یعنی اس کی براہ راست مدد بھی آپ کو حاصل ہوگی.اور زمین سے بھی ظاہر ہو گا.یعنی اس کے بندوں کے دل بھی آپ کی مدد اور ہمدردی کے جذبات سے لبریز ہو جائیں گے.دوسری بات میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ آپ لوگ قطعی طور پر صلح سے انکار کر دیں جب تک کہ آپ کے گرفتار شدہ لیڈر رہا نہ ہو جائیں.یہ مصلحت کے بھی خلاف ہو گا اور غداری بھی ہوگی.کہ آپ کے لئے قربانی کرنے والے جیل خانہ میں ہوں اور آپ ان سے بالا بالا صلح کرلیں.جس وقت تک ایک نمائندہ بھی قید میں ہو اس وقت تک صلح کی گفتگو نہیں ہونی چاہئے.جب سب آزاد ہو جا ئیں پھر سب مل کر اور مشورہ سے اور اتحاد سے اپنی قوم کی ضرورتوں کو مہاراجہ صاحب کے سامنے پیش کریں.تو میں امید کرتا ہوں کہ مہاراجہ صاحب جن پر میں اب تک بھی حسن ظن رکھتا ہوں.آپ لوگوں کی تکلیفوں کو دور کریں گے.اور آپ لوگوں کو موقع مل جائے گا کہ اپنے پیارے ملک کی ترقی کے لئے دل کی خواہش کے مطابق کام کر سکیں.آخر میں میں پھر سب مسلمانوں کی ہمدردی کا یقین دلاتے ہوئے اس بات کا وعدہ کرتا ہوں کہ
تاریخ احمدیت.جلده 557 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ انشاء اللہ ہم لوگ اپنی طاقت کے مطابق آپ لوگوں کے لئے ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار ہیں اور انشاء اللہ تیار رہیں گے اس کے لئے کام کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے.اعوذ بالله من !! الرجيم والسلام خاکسار مرزا محمود احمد صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر برادر ان کشمیر کے نام دو سرا پیغام برادران کشمیر ! آپ لوگوں سے جو سلوک اس وقت ہو رہا ہے اسے سن کر ہر مسلمان کا کلیجہ منہ کو آ رہا ہے.اور تمام ہندوستان میں غم و غصہ کی ایک لہر پھیل رہی ہے.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی پورا زور لگا رہی ہے اور اللہ تعالٰی کے فضل سے امید ہے کہ جلد اس کی کوششیں نتیجہ خیز ہوں گی اور اللہ تعالٰی آپ لوگوں کی مشکلات دور فرما کر بہتری کی صورت پیدا کر دے گا.برادران! اس وقت بعض خود پرست لوگ مہاراجہ صاحب کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کی زبان بن رہے ہیں.اور ان تک جھوٹی رپورٹیں کر کر کے انہیں آپ لوگوں کے خلاف بھڑکا رہے ہیں.کہیں ایک باتصویر جھنڈے کو مشرکانہ طریق پر سلام کروایا جا رہا ہے اور کہیں ٹکٹکیوں پر کس کر بید لگائے جارہے ہیں اور کہیں بانی اسلام ﷺ اور اسلام کو گالیاں دلوائی جارہی ہیں لیکن یہ سب کچھ عارضی مصیبتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے کچھ عرصہ میں دور ہو جائیں گی.ایک طالب علم علم کے حصول کے لئے پندرہ سال رات دن محنت کرتا ہے.ایک نان پز اور ایک روٹی پکانے کے لئے تین دفعہ آگ میں جھکتا ہے.پھر آپ لوگ جو صدیوں کی تیار کردہ غلامی کی زنجیریں کاٹنے میں لگے ہوئے ہیں ان تکالیف کو جو آپ کو پیش آرہی ہیں کب خاطر میں لا سکتے ہیں.یہ تکلیفیں تو کچھ نہیں ان سے ہزاروں گنا تکالیف بھی اس کام میں پیش آئیں تو ان کی پروا نہیں کرنی چاہئے.ایک بات ضروری ہے کہ آپ لوگ اپنی طبائع میں جوش پیدا نہ ہونے دیں.اور اگر پبلک میں آپ کو بولنے کی اجازت نہیں تو اس وقت
تاریخ احمدیت جلده 558 تحریک آزادی کشمیراد رجماعت احمدیه اپنے گھروں میں فلموں کی داستانیں بیان کریں.اور رات کو سونے سے پہلے اپنی بیویوں، بہنوں اور بچوں کو نصیحت کریں کہ غلامی کی زندگی سخت ذلت کی زندگی ہے انہیں اپنے باپ دادوں کی مصیبتوں کو یا د رکھنا چاہئے.اور ان غلامی کی زنجیروں کو کاٹنے کی کوشش کرنی چاہئے.یاد رکھیں کہ مظلومیت آخر کامیاب ہوتی ہے.اور بچپن میں کان میں ڈالی ہوئی باتیں پتھر کی لکیر کی طرح ثابت ہوتی ہیں.پس جن تقریروں سے آپ کو باہر روک دیا گیا ہے وہ تقریر میں آپ میں سے ہر شخص رات کے وقت اپنے اپنے گھر میں گھر کی عورتوں اور بچوں کے سامنے کرے کہ اس سے سارے ملک کی تربیت بھی ہوتی چلی جائے گی اور باہر کی تقریروں کا جو مقصد تھا اس طرح اور بھی زیادہ عمدگی سے پورا ہو تا رہے گا.بلکہ میں تو کہوں گا کہ جو شخص اکیلا ہے اسے چاہئے کہ رات کو سونے سے پہلے خواہ اونچی آواز سے خواہ دل میں ایک دفعہ ان فلموں کا ذکر کر لیا کرے.جو امن کے قیام کے نام سے گزشتہ دنوں میں کشمیر میں روار کھے گئے ہیں.دوسری نصیحت میں یہ کرتا ہوں کہ آپ لوگ رات کو سونے سے پہلے سب گھر والوں کو جمع کر کے اپنے ان لیڈروں کی آزادی کے لئے جو اپنے کسی جرم کے بدلے میں نہیں.بلکہ صرف آپ لوگوں کو انصاف دلانے کے لئے جیل خانوں میں پڑے ہوئے ہیں.رو رو کر دعائیں کریں تاکہ آپ کی دعائیں عرش عظیم کو ہلائیں اور وہ شہنشاہ جو سب بادشاہوں پر حکمران ہے آپ کی مصیبت کو دور کرنے کے لئے اپنے فرشتوں کو بھیجے.اصل میں تو زبر دست بادشاہ بھی اللہ تعالی کی مدد کے ہر وقت محتاج ہوتے ہیں لیکن مظلوم اور کمزور کا اللہ تعالی کے سوا کون ہے.پس روز رات کو اپنے اپنے گھروں میں اسے پکاریں اور بچوں کو ساتھ شامل کریں تا ان کے دل میں بھی درد پیدا ہو.اور تا شاید ان معصوموں کی دعاؤں سے ہی اللہ تعالیٰ آپ کے مظلوم لیڈروں اور دوسرے قومی خادموں کو قید و بند کی تکلیف سے بچائے.اسی طرح وہ لیڈر جو ابھی تک آزاد ہیں.ان کے لئے بھی دعا ئیں کیا کریں.کہ خدا تعالیٰ ان پر بھی اپنا فضل کرے اور انہیں ان کی قومی خدمتوں کا بہت بڑا اجر دے آپ لوگ اگر سمجھیں تو اللہ تعالی کا آپ پر بڑا فضل ہے کہ دونوں میرواعظان کو اس نے قومی درد عطا فرمایا.اور وہ سب جھگڑے بھلا کر دوش بدوش ہر اک قسم کی تکلیف برداشت کر کے آپ لوگوں کے لئے کام میں لگے ہوئے ہیں.ان کا اتحاد اور ان کی یہ قربانی ضائع نہیں جائے گی.اور اللہ تعالٰی جہاں انہیں نیک بدلہ دے گا.وہاں اس قربانی کے بدلہ میں آپ لوگوں کو بھی کامیاب کرے گا.ہم لوگوں سے جس قدر ہو سکتا ہے.کام کر رہے ہیں میں نے بحیثیت صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی اب
تاریخ احمدیت جلد ۵ 559 تحریک آزادی کشمیر ا د ر جماعت احمدیہ پہلے سے بہت زیادہ کام کرنا شروع کر دیا ہے.چاروں طرف آدمی مسلمانوں کو حالات سے آگاہ کرنے کے لئے بھجوا دیئے ہیں اور چندہ پر بھی آگے سے بہت زیادہ زور دینا شروع کر دیا ہے اور مجھے امید ہے کہ ہندوستان کے مسلمان ہر قسم کی مالی اور جانی امداد آپ کو بہم پہنچاتے رہیں گے.آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے تجویز کی ہے کہ پہلے اچھی طرح حکومت ہند پر تمام حجت کر دے.اور اس کے لئے حضور وائسرائے کو توجہ دلائی جارہی ہے.چنانچہ پرائیوٹ سیکرٹری صاحب کے تار سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس وقت حکومت ہند اور ریاست میں تازہ مظالم کے متعلق خط و کتابت ہو رہی ہے.ہم چاہتے ہیں کہ اگر حکومت ہند فور ادخل دینے کے لئے تیار نہ ہو تو ہم لوگ خود ایسی تدابیر اختیار کریں جن سے حکومت ہند اور ریاست آپ لوگوں کے مطالبات پر غور کرنے کے لئے مجبور ہو.ہر ایک کام میں تب ہی کامیابی ہوتی ہے جب پورے نظام سے کیا جائے.اس لئے تمام پہلوؤں کو سوچ کر قدم اٹھانا ضروری ہوتا ہے.پس میں آپ کو بھی یہ نصیحت کرتا ہوں کہ کوئی ایسی بات نہ کریں جس سے ریاست کو خواہ مخواہ دخل دینے کا موقع ملے اور وہ بیرونی دنیا کو کہے کہ ہم تو مجبور ہو کر سختی کرتے ہیں.ورنہ ابتداء مسلمانوں کی طرف سے ہے.اب بھی وہ یہی کہتی ہے.چنانچہ ایک معزز صاحب نے مجھے خط لکھا ہے کہ میں گاندھی جی کے ساتھ جہاز میں تھا.میں نے انہیں کشمیر کے واقعات کی طرف توجہ دلائی تو انہوں نے کہا کہ میری یہ تحقیق ہے کہ سب شرارت مسلمانوں کی ہے.اور ریاست مظلوم ہے وہ صاحب لکھتے ہیں کہ میں نے سختی سے گاندھی جی کو توجہ دلائی کہ اس قدر بڑے لیڈر ہو کر آپ اس قدر تعصب سے کام لیتے ہیں اور بغیر تحقیق کے مسلمانوں کو ظالم قرار دیتے ہیں تو اس پر انہوں نے کہا کہ میں بھی تم کو قسم دیتا ہوں کہ کشمیریوں کا مظلوم ہونا ثابت کرو.ورنہ تم کو میں سخت بد دیانت سمجھوں گا.آپ لوگ دیکھ لیں کہ گاندھی جی جیسے انسان کو جنہیں ہر دلعزیز بنے کا نہایت شوق ہے بعض حکام ریاست نے دھوکا دے کر اس قدر متعصب بنا دیا ہے تو دوسرے لوگوں کا کیا حال ہو گا.پس آپ کو چاہئے کہ اپنے مظلوم ہونے کی حالت کو بالکل نہ بدلیں بید بے شک تکلیف دہ ہیں قید بے شک ایک مصیبت ہے لیکن ان تکلیفوں سے بہت زیادہ رسول کریم اللی نے اور آپ کے صحابہ نے برداشت کی تھیں.ظلم کے پاؤں نہیں ہوتے ظلم بھی دیر تک قائم نہیں رہ سکتا.کانٹوں کے ساتھ ہی پھول ہوتے ہیں.گلاب کے درخت میں پہلے کانٹے لگتے ہیں پھر پھول آتا ہے پس ان کانٹوں کو صبر سے برداشت کرو.تا گلاب کا پھول آپ کو دیا جائے.اللہ تعالٰی آپ لوگوں کے ساتھ ہو.اس خط کے مضمون کو جہاں تک ہو سکے اپنے دوستوں تک پہنچاؤ.حتی کہ کشمیر کا ہر مرد اور ہر عورت اور ہر بچہ اس کے مضمون سے آگاہ ہو جائے میں انشاء اللہ جلد ہی تیسرا خط آپ لوگوں کو لکھوں گا.خدا کرے اس خط
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 560 تحریک آزادی کشمیر ا د ر جماعت احمدیه میں میں آپ لوگوں کو کوئی بشارت دے سکوں اور اس وقت تک آپ کے لیڈر آزاد ہو چکے ہوں.مرزا محمود احمد صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی ۴- اکتوبر ۱۹۳۱ء بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم برادران کشمیر کے نام تیسرا پیغام برادران کشمیر ! السلام علیکم و رحمتہ الله و بركاته میرا دوسرا مطبوعه خط آپ کو مل گیا ہو گا.مجھے خوشی ہے کہ چار تاریخ کی صبح کو جو میں نے لکھا تھا کہ جب میرا تیسرا خط آپ کو پہنچے گا تو انشاء اللہ آپ کے لیڈر آزاد ہو چکے ہوں گے وہ بات صحیح ثابت ہوئی.اور اب میں ایسے ہی وقت میں خط لکھ رہا ہوں جبکہ ہمارے بھائی آپ کے لیڈر آزاد ہو چکے.برادران یہ وقت آپ پر نہایت نازک ہے احتیاط کی سخت ضرورت ہے اور ذرہ سی لغزش خطرناک نتائج پیدا کر سکتی ہے پس ان دنوں خاص طور پر اتحاد عمل اور خلوص نیت کی ضرورت ہے چنانچہ میں نے باوجود اس کے کہ احرار کی طرف سے ہمارے خلاف متواتر حملے ہوئے صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی حیثیت سے اس کی تمام شاخوں کو میں نے ہدایت کی ہے کہ وہ جس قسم کی امداد اپنے پروگرام کو قائم رکھتے ہوئے کر سکیں کر دیں جیسے مثلا طبی امداد پس کشمیر میں جہاں اصل جنگ ہو رہی ہے اتحاد کی زیادہ ضرورت ہے.دشمن ہمیشہ تفرقہ پیدا کر کے فائدہ اٹھایا کرتا ہے.اور یقیناً مسلمانوں کے بدخواہ احمدی غیر احمدی.سنی، شیعہ ، وہابی، حنفی دیو بندی اور بریلوی اس قسم کے اور سوال پیدا کر کے مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرنا چاہیں گے لیکن یہ لوگ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہیں سیاسی معاملات میں آپس کا اتفاق نہایت ضروری ہوتا ہے اور اللہ تعالی کی عظیم الشان نعمتوں میں سے ہے پس آپ کو دشمنوں کے اس قسم کے فریبوں میں نہیں آنا چاہئے.اور اللہ تعالیٰ پر توکل کر کے اپنی آزادی کے لئے پوری کوشش کریں.میں آپ سے بحیثیت صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی بھی اور بحیثیت امام جماعت احمدیہ ہونے کے بھی پورا وعدہ کرتا ہوں کہ ہم لوگ انشاء اللہ آپ کی ہر طرح مدد کریں گے اور کرتے چلے جائیں گے.یہاں تک کہ آپ کی تکالیف دور ہو جائیں.اور آپ کو آزادی کا سانس لینا مفید ہو اور خدا تعالیٰ آپ کو دشمنوں کے شر سے بچائے.,
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 561 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ منحصر میں آپ کو بشارت دیتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ کی کامیابی کے سامان پیدا ہو چکے ہیں لیکن میں آپ کو اس امر کے لئے ہو شیار بھی کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کی ترقی خود آپ کی قربانی پر منح ہے.جب تک آپ لوگ خود ایک لمبی قربانی کے لئے تیار نہ ہوں گے.باوجود ریاست سے حقوق مل جانے کے آپ ان سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے.لیکن اگر آپ اپنی اصلاح کرنے کے لئے تیار ہوں تو آل انڈیا کشمیر کمیٹی ہر طرح آپ کی امداد انشاء اللہ کرتی چلی جائے گی.اس وقت بھی خداتعالی کے فضل سے انگلستان کی وزارت پر اور ہندوستان کی حکومت پر اس نے اس قدر اثر ڈالا ہے کہ ریاست کو فکر پڑ گئی ہے.اور وہ توجہ کرنے پر مجبور ہو گئی ہے اور آئندہ انشاء اللہ ہم کو اس سے بھی زیادہ امید ہے.میں امید کرتا ہوں کہ آپ لوگ ریاست کے گوشہ گوشہ میں کمیٹیاں بنالیں گے.تاکہ آئندہ تعاون میں وقت نہ ہو.اور اپنے لیڈروں کی اطاعت کا مادہ پیدا کریں گے.تاکہ کامیابی میں روک نہ ہو.والسلام- خاکسار مرزا محمود احمد أعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر کشمیر کے لیڈر مسٹر عبد اللہ کی گرفتاری اور اہل کشمیر کا فرض برادران کشمیرا السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاته : گزشتہ کئی ماہ کے عرصہ میں میں خاموش رہا ہوں اور اپنا مطبوعہ خط آپ کے نام نہیں بھیج سکا.اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ لوگوں کے قابل فخر لیڈر مسٹر عبد اللہ آزاد ہو کر آگئے تھے.اور آزادی کی جد و جہد کو نہایت خوبی اور قابلیت سے چلا رہے تھے.پس میں ضرورت نہیں سمجھتا تھا کہ اپنے مطبوعہ خطوں کا سلسلہ جاری رکھوں لیکن اب جبکہ ریاست نے پھر مسٹر عبد اللہ اور دوسرے لیڈروں کو گرفتار کر لیا ہے.میں ضروری سمجھتا ہوں کہ اپنے مطبوعہ خطوں کا سلسلہ پھر جاری کر دوں.تاکہ آپ لوگوں کی کام کرنے کی روح زندہ رہے.اور مسٹر عبد اللہ کی گرفتاری کی وجہ سے آپ میں پراگندگی اور ستی پیدا نہ ہو.اے عزیز بھائیو! ریاست کے بعض حکام ایک عرصہ سے کوشش کر رہے تھے کہ مسٹر عبد اللہ کو
تاریخ احمدیت جلده 562 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ گرفتار کریں لیکن انہیں کوئی موقع نہیں ملتا تھا.چنانچہ مجھے معتبر ذریعہ سے معلوم ہوا ہے کہ بعض لوگوں نے یہ کوشش کی کہ مسٹر عبد اللہ جس جگہ ہوں وہاں لڑائی کروا دی جائے.اور پھر مسٹر عبد اللہ کو پکڑوا دیا جائے کہ یہ بھی لڑائی میں شامل تھے.اسی طرح بعض خبیٹوں نے یہ بھی کوشش کی کہ کسی ہندو فاحشہ عورت کو سکھا کر ان کے گھر پر بھیج دیں اور ان پر جبریہ بد اخلاقی کا الزام لگا کر انہیں گرفتار کروا دیں.میں یہ نہیں جانتا کہ کسی ذمہ دار ریاستی افسر کا اس میں دخل تھا یا نہیں.لیکن یہ یقینی امر ہے کہ اس قسم کی کوششیں بعض لوگ کر رہے تھے لیکن چونکہ میں نے ان ارادوں کا ذمہ دار حلقوں میں افشاء کر دیا تھا.اس لئے وہ لوگ ڈر گئے اور ان ارادوں کے پورا کرنے سے باز رہے.آخراب مفتی ضیاء الدین صاحب کی جلاوطنی کے موقع پر کہ یہ صاحب بھی ایک اعلیٰ درجہ کے مخلص قومی خادم ہیں ایک لغو بہانہ بنا کر مسٹر عبد اللہ کو گرفتار کر لیا گیا ہے.حالانکہ مسٹر عبد اللہ امن کے قیام کے لئے کوشاں تھے نہ کہ فساد پیدا کرنے کے لئے.عزیز بھائیو! چونکہ انسان حالات سے واقف ہو کر مخالف کے حملوں سے بچ جاتا ہے بلکہ مشہور ہے کہ دشمن کے منصوبوں سے واقف ہونا آدھی فتح ہوتی ہے.میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ ریاست کے حکام کن چالوں سے آپ کو پھنسانا اور آپ کے حقوق کو تلف کرنا چاہتے ہیں تاکہ آپ لوگ فریب میں نہ آئیں اور اپنے اعلیٰ درجہ کے کام کو کامیابی کے ساتھ فتح کر سکیں.آپ کو معلوم رہنا چاہئے کہ پچھلے مظالم کے وقت میں اور دوسرے ہمدردان کشمیر اس امر میں کامیاب ہو گئے تھے کہ حکومت ہند کی توجہ کو آپ لوگوں کی ناگفتہ بہ حالت کی طرف پھر ا سکیں.اور اوپر کے دباؤ کی وجہ سے ریاست مجبور ہو گئی تھی کہ ظلم کا راستہ ترک کر کے انصاف کی طرف مائل ہو لیکن وہ حکام ریاست جن کا ولی منشاء یہ تھا کہ کسی طرح مسلمانوں کو حق نہ ملیں.انہوں نے یہ کوشش شروع کر دی کہ کسی اہل کشمیر کی طرف سے ایسے مطالبات پیش کرا دیں.جو بالکل غیر معقول ہوں.یا ایسے فسادات کروادیں.جنہیں انگریز ناپسندیدہ سمجھیں وہ اس کا یہ فائدہ سمجھتے تھے.کہ اس طرح انگریزوں کی ہمدردی مسلمانوں سے ہٹ کر ریاست کے ساتھ ہو جائے گی.دوسری کو شش انہوں نے یہ کرنی شروع کردی کہ فرقہ وارانہ سوال پیدا کر کے مسلمانوں کی طاقت کو کمزور کر دیں.پہلے مقصد کو پورا کرنے کے لئے انہوں نے بعض مسلمان ذمہ دار لوگوں کو انگریزوں سے لڑوانے کی کوشش کی.چنانچہ جب گلنسی کمیشن مقرر ہوا.تو باوجود اس کے کہ مسٹر عبد اللہ اور ان کے ساتھی اس امر کا فیصلہ کر چکے تھے کہ جب تک کوئی خلاف بات ظاہر نہ ہو.وہ اس سے تعاون کریں گے اور میں نے بھی انہیں یہی مشورہ دیا تھا.ریاست کا ایک ایجنٹ جسے اس قسم کے کاموں کے لئے باہر سے بلوایا گیا
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 563 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ تھا.مسٹر گنسی سے ملا.اور انہیں اس نے کہا کہ مسلمان تم سے تعاون کرنا نہیں چاہتے اور اس طرح انہیں مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا.مگر چونکہ مسلمان تعاون کرنے کے لئے تیار تھے اس کا علاج اس شخص نے یہ کیا کہ مسلمانوں سے کہا کہ مسٹر گلنسی تم سے ملنا نہیں چاہتے ہیں انہیں سمجھا کر منوا دیتا ہوں اور پھر مسٹر گھنسی کو یہ بتا کر میں نے بڑی محنت سے مسلمانوں کو منوایا ہے اپنے جرم پر پردہ ڈالا اور ساتھ ہی مسٹر کلنسی کی طبیعت میں شروع میں ہی مسلمان لیڈروں سے بغض پیدا کر دیا.چنانچہ مولوی عبد الرحیم صاحب در دایم اے سیکرٹری آل انڈیا کشمیر کمیٹی جو کہ عرصہ سے آپ لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں انہیں ایک رات گیارہ بجے بلا کر ریذیڈنٹ صاحب اور مسٹر کلنسی نے صبح کے تین بجے تک جو گفتگو کی.اس سے صاف ظاہر تھا کہ دونوں صاحبان کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف زہر بھرنے کی پوری کوشش کی گئی تھی.اسی سلسلہ میں ایک کوشش یہ کی گئی کہ بعض اہالیان کشمیر سے جو در حقیقت ریاست کے بعض حکام سے ساز باز رکھتے ہیں.اور ان کی خفیہ چٹھیاں معتبر لوگوں نے دیکھی ہیں.یہ اعلان کروایا کہ وہ لوگ کشمیر کے لئے آزاد اسمبلی چاہتے ہیں.یہ امر کہ یہ لوگ بعض حکام ریاست کے سکھانے پر ایسا کر رہے تھے اس طرح واضح ہو جاتا ہے کہ یہ لوگ ساتھ کے ساتھ کہے جاتے ہیں کہ وہ مہاراجہ صاحب کے اقتدار کو کوئی نقصان نہیں پہنچانا چاہتے.حالانکہ آزاد اسمبلی کے معنی ہی یہ ہیں کہ مہاراجہ صاحب کے کل اختیار لے کر اسمبلی کو دے دیئے جائیں.اور جب سب اختیار مہاراجہ صاحب سے لے لئے جائیں.تو پھر ان کا اقتدار کہاں باقی رہا.غرض یہ دونوں باتیں ایسی متضاد اور ایک دوسرے سے مخالف ہیں کہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسمبلی کا مطالبہ خود حکام ریاست انگریزوں کو یہ بتانے کے لئے کہ اہل کشمیر کے مطالبات خلاف عقل اور باغیانہ ہیں کرواتے تھے.اصل میں یہ لوگ ریاست کے ایجنٹ تھے.تب ہی تو یہ کہتے تھے کہ ہم مہاراجہ صاحب کے اقتدار میں کوئی فرق نہیں لانا چاہتے.دو سرا ثبوت کہ یہ لوگ ریاست کی طرف سے اس کام پر مقرر ہوئے تھے یہ ہے کہ یہ لوگ ریاست کی موٹروں میں ریاست کے خرچ پر سفر کرتے رہے ہیں اور حکام ریاست نے تاریں دے دے کر انہیں بلوایا ہے اور ان کو اپنے کاموں پر بھیجوایا ہے اب کیا کوئی شخص مان سکتا ہے کہ ایک طرف تو یہ لوگ کامل آزادی کا مطالبہ کر رہے تھے.دوسری طرف ریاست جو مسلمانوں کو سر دست کچھ بھی دینے کو تیار نہیں معلوم ہوتی.ان لوگوں سے دوستانہ برتاؤ کر رہی تھی اور مسٹر عبد اللہ جیسے آدمی کو جن کے مطالبات نہایت معقول تھے اپنا دشمن قرار دے رہی تھی ریاست کا یہ سلوک صاف ظاہر کرتا ہے کہ یہ لوگ ریاست کے ایجنٹ تھے.اور مسٹر عبد اللہ رعایا کے حقیقی خیر خواہ تھے.
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 564 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ دو سرا کام یعنی مسلمانوں میں تفرقہ ڈلوانے کا کام بھی ریاست نے خود مسلمانوں سے لیا.اور انہی میں سے بعض لوگوں کو اس کام کے لئے کھڑا کیا کہ فرقہ بندی کا سوال اٹھا ئیں.حالانکہ فرقہ بندی مذہبی شے ہے اور کشمیر کی آزادی کا سوال مذہبی نہیں بلکہ سیاسی ہے کیا اگر ہندو اٹھ کر آج مسلمانوں کے مطالبات کی تصدیق کرنے لگیں.اور کہیں کہ ان حقوق کے ملنے سے ہمارا بھی فائدہ ہے تو کیا کوئی مسلمان ہے جو کہے گا کہ ہندوؤں کا ہم سے کیا تعلق؟ بلکہ ہر مسلمان شوق سے ان ہندوؤں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے گا.اور ہندوؤں کی امداد کو امداد غیبی سمجھے گا.یا مثلاً مہاراجہ صاحب اختیار دینے کو تیار ہوں تو کیا کوئی کہے گا کہ وہ ہندو ہیں ہم ان سے کچھ نہیں مانگتے یا جب سرینگر کے مظالم کے موقع پر بعض انگریزوں نے بعض مسلمانوں کو مار پیٹنے سے بچانے کے لئے کوشش کی تھی.تو کیا وہ مسلمان انہیں یہ کہتے تھے کہ ہم عیسائی کافر سے مدد نہیں لیتے ان ڈوگروں کو مارنے دو تم ہمیں نہ بچاؤ غرض یہ ایک بالکل خلاف عقل سوال تھا.اور اصل بات یہ تھی کہ ریاست کے حکام جانتے تھے کہ کشمیر کی آزادی کے لئے آئینی جدوجہد میں میرا بہت سا دخل ہے اور وہ اسی جدوجہد سے زیادہ خائف تھے.پس ریاست نے یہ کوشش شروع کی کہ مجھے تنگ کرے اور کشمیر کمیٹی سے استعفاء دینے پر مجبور کر دے.لیکن وہ یہ نہیں جانتی کہ میں خدا تعالٰی کے فضل سے ان لوگوں میں سے نہیں ہوں.جو ایک ارادہ کر کے اس سے پیچھے ہٹ جائیں.مجھے اگر کشمیر کمیٹی سے استعفاء بھی دینا پڑتا.تو بھی میں اہل کشمیر کی مدد سے دست کش نہ ہو تا اور محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے امید ہے کہ اہل کشمیر کے آزاد ہونے تک مجھے ان کی خدمت کی برابر توفیق ملتی رہے گی.اے میرے رب تو ایسا ہی کر.اور مجھے اس مظلوم قوم کی مدد کرنے اور بے غرض اور بے نفس خدمت کرنے کی توفیق عطا فرما.آمین اللهم آمین.اس تفرقہ ڈلوانے کے کام پر اس قدر زور دیا گیا کہ ریاست کے بعض حکام نے خود بلوا کر....صاحب کو لاہور بھجوایا.جہاں انہوں نے یہ پروپیگنڈا کیا کہ میں صدارت سے مستعفی ہو جاؤں.لیکن بعض معززین کا بیان ہے کہ جب انہوں نے صاحب سے پوچھا.کہ اگر موجودہ صد را استعفاء دے دیں تو کیا آپ مسٹر عبد اللہ صاحب سے مل کر کام کرنے لگ جائیں گے.اور ان کی تائید کرنے لگیں گے.تو انہوں نے جواب دیا کہ نہیں میں ایسا پھر بھی نہیں کروں گا.اس پر ان معززین نے کہا کہ اگر صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے استعفاء کی غرض اتحاد پیدا کرتا ہے تو اتحاد تو اس صورت میں بھی نہ ہوا.پھر ہم خواہ مخواہ کیوں کوشش کریں کہ وہ استعفاء دیں.غرض یہ کہ ریاست کے بعض حکام نے پورا زور لگایا کہ مذہبی فرقہ بندی کا سوال اٹھا کر مسلمانوں کو نقصان پہنچا ئیں.لیکن مسٹر عبد اللہ کی دور اندیشی اور اہل کشمیر کی وہ طبعی ذہانت جو انہیں اللہ تعالٰی نے
تاریخ احمد بہت جلد ۵ 565 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ عطا کر رکھی ہے ان کے منشاء کے راستہ میں روک بن گئی اور اہل کشمیر نے صاف کہہ دیا کہ وہ اس سیاسی سوال میں مذہبی تفرقہ پیدا نہیں ہونے دیں گے فالحمد للہ ثم الحمد للہ ان حالات کے بیان کرنے سے میری غرض یہ ہے کہ آپ لوگ پوری طرح ان کوششوں سے آگاہ رہیں جو ریاست آپ کے کام کو نقصان پہنچانے کے لئے کر رہی ہے اور آئندہ بھی کرے گی.اور اس کے ایجنٹوں کے دھوکہ میں آکر غصہ کی حالت میں کوئی فساد نہ کر بیٹھیں یا فرقہ بندی کے سوال کو سیاسی مسائل میں داخل نہ کرلیں.اے بھائیو ! اس میں کوئی شک نہیں کہ مسٹر عبد اللہ جیسے لیڈر کے بلاوجہ گرفتار کئے جانے پر جنہوں نے اپنی زندگی اپنے پیارے وطن اور اپنے پیارے وطنی بھائیوں کی خدمت کے لئے وقف کر چھوڑی تھی آپ لوگوں کو جس قدر بھی غصہ ہو کم ہے میں یہ بھی جانتا ہوں کہ آپ لوگوں میں سے اکثر اس جگہ خون بہانے کے لئے تیار ہیں.جہاں مسٹر عبد اللہ کا پسینہ گرے لیکن آپ لوگوں کو یہ بات نہیں بھلانی چاہئے کہ مسٹر عبد اللہ سے محبت کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ان کے کام کو جاری رکھا جائے.پس آپ لوگ ریاست کے اس ظلم کا جواب جو انہوں نے مسٹر عبد اللہ صاحب ، مفتی ضیاء الدین صاحب اور دیگر لیڈران کشمیر کو گر فتار یا جلاوطن کر کے کیا ہے یہ دیں کہ اس تحریک کو کامیاب کرنے کے لئے جو مسٹر عبد اللہ نے شروع کر رکھی تھی پہلے سے بھی زیادہ مستعد ہو جائیں.نیز جو مطالبات انہوں نے پیش کئے تھے.ان پر آپ لوگ اڑے رہیں اور جو شخص ان مطالبات کے خلاف کیسے خواہ آپ کا ظاہر میں دوست بن کر یہی کہے کہ ان مطالبات سے زیادہ سخت مطالبات ہونے چاہئیں اس کی بات کو رد کر دیں.اور صاف کہہ دیں کہ مسٹر عبد اللہ کی پیٹھ پیچھے ہم کسی اور کی بات ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں.مجھے اس نصیحت کی ضرورت اس لئے پیش آئی ہے کہ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں خود ریاست کا اس میں فائدہ ہے کہ بعض لوگوں سے زیادہ سخت مطالبات پیش کرائے.کیونکہ اس سے ایک طرف مسٹر عبد اللہ کی لیڈری میں فرق آتا ہے.دوسری طرف انگریزوں کو بھڑ کانے کا اسے موقع ملتا ہے.پس آپ نہ صرف اس خوشامدی سے ہوشیار رہیں.جو نقصان کا خوف دلا کر آزادی کی تحریک سے آپ لوگوں کو ہٹانا چاہے بلکہ اس دوست نما دشمن سے بھی ہوشیار رہیں جو بظا ہر آپ کی خیر خواہی کا دعوی کر کے اور سبز باغ دکھا کر آپ کو آپ کے حقیقی لیڈر سے پھر انا چاہتا ہے.مجھے اس بات پر زور دینے کی اس لئے بھی ضرورت پیش آئی ہے کہ بعض لیڈر جو ظاہر میں جوشیلے نظر آتے ہیں مجھے ان کی نسبت یقینی طور پر معلوم ہے.کہ وہ ریاست سے روپیہ لیتے ہیں اور مسٹر عبد اللہ کا اثر گھٹانے کے لئے ریاست کی طرف سے مقرر ہیں.
تاریخ احمدیت ، جلد ۵ 566 تحریک آزادی کشمیر ا د ر جماعت احمدیه یہ امر بھی یاد رکھیں کہ کوئی تحریک کامیاب نہیں ہو سکتی.جب تک کہ پبلک کی ہمدردی اس کے ساتھ نہ ہو اور پبلک اس کی خاطر اپنی جان دینے کو تیار نہ ہو.عزت کی موت ذلت کی زندگی سے ہزار درجہ اچھی ہوتی ہے پس جہاں میں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے نفسوں پر قابو رکھیں وہاں میں یہ نصیحت بھی کرتا ہوں کہ آپ کو اپنے نفسوں کو ملک اور قوم کے لئے قربانی کی خاطر تیار رکھنا چاہئے.یہ اور بات ہے کہ آپ اپنے ملک کے فائدہ کے لئے اعتدال کا طریق اختیار کریں اور یہ بات اور ہے کہ آپ اس امر کے لئے تیار ہوں کہ اگر ملک کے لئے جان دینی پڑے گی تو خوشی سے جان دے دیں گے.یہ دونوں باتیں جدا جدا ہیں اور اپنی اپنی جگہ دونوں حق ہیں پس چونکہ بالکل ممکن ہے کہ ایسا وقت آجائے کہ بغیر اخلاق یا مذہب کو ہاتھ سے دینے کے آپ کو اپنے ملک کے لئے جان دینی پڑے اس لئے اس وقت کے لئے بھی آپ کو تیار رہنا چاہئے.اور اپنے اندر قربانی کی روح اور بہادری کا احساس پیدا کرنا چاہئے اور پھر یہ بھی ضروری ہے کہ ہر کشمیری کو آپ لوگ اس جنگ کے لئے تیار رکھیں جو اس وقت آزادی کے لئے آپ لوگ کر رہے ہیں قید ہونا صرف مسٹر عبد اللہ کا فرض نہیں.آپ لوگوں کا بھی فرض ہے.مسٹر عبد اللہ آسان سے نہیں گرے ان کے بھی ماں باپ بھائی بند ہیں ان کا بھی ایک دل اور ایک جسم ہے جس طرح آپ کے قید ہونے پر آپ کے عزیزوں کو تکلیف پہنچ سکتی ہے اور جس طرح قید ہونے سے خود آپ لوگوں کے دل اور جسم کو بھی تکلیف پہنچتی ہے پس اس پر خوش نہ ہوں کہ آپ کا لیڈر آپ کے لئے قید میں ہے کیونکہ یہ غداری اور بے وفائی کی کمینہ مثال ہو گی.بلکہ اس امر کے لئے تیار رہیں کہ اگر موقع آئے تو آپ بھی اور آپ کے عزیز بھی بلکہ آپ کی عورتیں بھی قید ہونے کو تیار رہیں گی.یہ بھی مت خیال کریں کہ جب ہمیں امن کی تعلیم دی جاتی ہے تو ہمیں قید ہونے کا موقع کس طرح مل سکتا ہے کیونکہ مسٹر عبد اللہ کو بھی ریاست نے بلاوجہ اور بلا قصور گرفتار کیا ہے اور اسی دفعہ نہیں پہلے بھی اسی طرح بلا وجہ انہیں قید کرتی رہی ہے.اسی طرح ہو سکتا ہے کہ آپ کو بھی کسی وقت ریاست بلا وجہ قید کرلے.پس اپنے نفسوں کو تیار رکھیں.اور اپنی اولاد کو بھی سمجھاتے رہیں کہ ملک کی خاطر قید ہو نا کوئی بری بات نہیں بلکہ عزت ہے.میں نے اپنے ایک پہلے خط میں لکھا تھا کہ مسٹر عبد اللہ اور دوسرے لیڈر جب تک آزاد نہ ہوں.آپ لوگ روزانہ ان کے لئے دعا کرتے رہا کریں.اور اپنی اولادوں کو بھی اس میں شامل کیا کریں.میں اس بات کی طرف پھر توجہ دلاتا ہوں کہ آج سے آپ لوگ متواتر رات کو سونے سے پہلے خدا تعالٰی سے اپنے مذہب اور طریقہ کے مطابق مسٹر عبد اللہ کے لئے اور اہل کشمیر کو انسانی حقوق ملنے کے لئے دعا کیا کریں.نیز میں مساجد کے اماموں سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ وہ بھی ہر جمعہ کے دن تمام نمازیوں
تاریخ احمدیت جلد ۵ 567 تحریک آزادی کشمیرا، رجماعت احمدیه سمیت مناسب موقع پر کشمیر کی آزادی اور مسٹر عبد اللہ اور دیگر لیڈران کشمیر کی حفاظت اور رہائی کے لئے دعا کیا کریں اس کا فائدہ ایک تو یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کی غیرت جوش میں آکر ان فلموں کا خاتمہ جلد کر دے گی جو اہل کشمیر پر ردار کھے جاتے ہیں.اور دو سرا فائدہ یہ ہو گا کہ ہر گھر میں اور بچوں تک بھی یہ تحریک پہنچ جائے گی.یاد رکھیں کہ ریاست یہ قانون تو بنا سکتی ہے کہ گزر گاہوں یا مساجد میں آپ کو اور آپ کے بچوں کو اور آپ کی عورتوں کو کوئی شخص ملک کے صحیح حالات نہ بتائے.لیکن کوئی ریاست خواہ کس قدر زبردست کیوں نہ ہو اس امر کا انتظام نہیں کر سکتی کہ ہر گھر میں اپنے سپاہی بٹھا دے.پس اگر قانون نے مجلسوں کا دروازہ آپ کے لئے بند کر دیا ہے.تو اپنے گھروں میں اپنی عورتوں اور بچوں کو بٹھا کر دعاؤں کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کی مدد چاہو اور اپنی عورتوں اور اپنے بچوں کی قومی تربیت بھی کرو.اور بھی کئی باتیں ہیں جو میں کہنی چاہتا ہوں لیکن سردست میں اپنے اس خط کو اس بات پر ختم کرتا ہوں کہ اے اہل کشمیر آپ کو یہ امر ایک منٹ کے لئے بھی نہیں بھلانا چاہئے.کہ مسٹر عبد اللہ جو آپ سے زیادہ ناز و نعم میں پلے ہوئے ہیں جو ظاہری تعلیم کی آخری ڈگری حاصل کر چکے ہیں اور جو اگر کسی مہذب ملک میں ہوتے اور کسی منصف حکومت سے ان کا واسطہ پڑتا تو کسی نہایت ہی اعلیٰ عہدہ پر ہوتے.آج قید خانہ کی تاریک کوٹھڑی میں بند ہیں.کسی اپنے جرم کی وجہ سے نہیں بلکہ صرف اس لئے کہ اے اہل کشمیر آپ لوگ غلامی سے آزاد ہو جائیں.اور آپ کی اولادیں عزت کی زندگی بسر کریں.(باقی آئندہ) خاکسار میرزا محمود احمد صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی قادیان ضلع گورداسپور (پنجاب) ۲۷/۱/۳۲ اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحیم نحمده ونصلى على رسوله الكريم اہل کشمیر کے دواھم فرض میرا دو سراخط (سلسله دوم) برادران کشمیر! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ.میرا پہلا خط آپ کو مل گیا ہے اور گورنر کشمیر نے اسے ضبط شدہ بھی قرار دے دیا ہے یہ ریاست کشمیر کی بد قسمتی ہے کہ اس میں گورنر جیسے
568 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ عہدہ پر جاہلوں اور نا قابلوں کا تقرر ہوتا ہے اور مہاراجہ صاحب کی حکومت کے چلانے کے لئے ایسے لوگ مقرر ہوتے ہیں جو ان خطوط کو ضبط کرتے ہیں جن میں پر امن رہنے کی تعلیم دی جاتی ہے.افسوس کہ مہاراجہ صاحب ان امور سے ناواقف ہیں کہ ان کے بنائے ہوئے افسر خود ان کی حکومت کی جڑ پر تبر رکھ رہے ہیں اور ان کے ہاتھ سے کھا کر ان ہی کے ہاتھ کو کاٹ رہے ہیں ممکن ہے یہ لوگ دل سے خیال کرتے ہوں کہ مہاراجہ صاحب کی وفاداری کرتے ہیں لیکن مجھے تو شبہ ہے کہ یہ لوگ دل سے بھی مہاراجہ صاحب کے بد خواہ ہیں اور چاہتے ہیں کہ امن کی تعلیم دینے والوں کی کوششوں کو کمزور کر کے ریاست میں بغاوت پھیلا ئیں.بہر حال اگر یہ لوگ مہاراجہ صاحب اور ریاست کے دشمن نہیں تو نہایت بے وقوف دوست ضرور ہیں.عزیز دوستو! جو میرے پہلے خط کا حشر ہوا وہی اس خط کا بھی ہو سکتا ہے اس لئے میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ آئندہ آپ لوگ یہ احتیاط کیا کریں کہ میرا مطبوعہ خط ملتے ہی فورا اسے پڑھ کر دو سروں تک پہنچا دیا کریں تاکہ ریاست کے ضبط کرنے سے پہلے وہ خط ہر اک کے ہاتھ میں پہنچ چکا ہو اور تاکہ ہر مسلمان اپنے فرض سے آگاہ ہو چکا ہو اور بہتر ہو گا کہ جس کے ہاتھ میں میرا خط پہنچے وہ اس کا مضمون ان مردوں عورتوں اور بچوں کو سنا دے جو پڑھنا نہیں جانتے اور اگر ہو سکے تو اس کی کئی نقلیں کر کے دوسرے گاؤں کے دوستوں کو بھجوا دے اگر پورا خط نقل نہ ہو سکے تو اس کا خلاصہ ہی لکھ کر دوسرے دوستوں کو اطلاع کر دے..ان ہدایات کے بعد میں آپ لوگوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کو خط لکھنے کے علاوہ میں نے اپنے نائبوں کو انگلستان میں بھی تاریں دیں کہ وہ کشمیر کے مظالم کی طرف وہاں کے حکام کو توجہ ولا ئیں اور کشمیر کمیٹی کے سیکرٹری کو دہلی بھیجا تا کہ وہ حکومت ہند میں بھی آپ لوگوں کی تکالیف کو پیش کر کے داد خواہی کریں اور اسی طرح اپنے عزیز چوہدری ظفر اللہ خان صاحب ممبر راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کو بھی تار دی کہ وہ بھی حکام سے ملیں.چنانچہ یہ لوگ وائسرائے کے پرائیوٹ سیکرٹری اور دوسرے سیکرٹریوں اور حکام سے ملے اور انہیں صورت حالات سے آگاہ کیا.اسی طرح ولایت میں خان صاحب فرزند علی خان صاحب امام مسجد لنڈن نے میری ہدایت کے مطابق کوشش کی.نتیجہ یہ ہوا کہ حکومت کو دہلی اور لندن دونوں جگہ اصل حقیقت سے آگاہی ہو گئی اور ولایت کے اخبارات نے بڑے زور سے یہ لکھنا شروع کر دیا کہ ریاست کا نظام پوری طرح بدل کر مسلمانوں کی داد خواہی کرنی چاہئے.اور حکومت ہند نے بھی اس طرف توجہ کرنی شروع کی چنانچہ تازہ اطلاعات مظہر ہیں کہ اگر وزیر اعظم صاحب نے اپنا رویہ نہ بدلا تو شاید وہ چند دن میں اپنے عہدہ سے الگ کر دیئے جائیں گے.اور جلد ہی دوسرے افسروں
تاریخ احمدیت به جلد ۵ 569 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ میں بھی مناسب تبدیلی ہو جائے گی.جس کے لئے میں میر پور کوٹلی راجوری اور بھمبر کے دوستوں کی خواہش کے مطابق کوشش کر رہا ہوں میں اللہ تعالی کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ جلد کوئی آپ لوگوں کی بہتری کے سامان ہو جائیں گے میں نے ولایت پھر تار دی ہے کہ وہاں پہلے سے بھی زیادہ پراپیگنڈا کیا جائے.اور اصل حالات سے انگریزوں کو واقف کیا جائے.کیونکہ ریاست میں اس قدر ظلم ہوئے ہیں کہ اس انصاف پسند قوم کو اگر ان کا علم ہو گیا تو یقیناً ایک شور پڑ جائے گا.اور وہ حکومت پر بے انتہا زور دے گی میں نے اس سلسلہ میں ایک ولایتی خطوں کا سلسلہ بھی شروع کرنے کا ارادہ کیا ہے یعنی جس طرح میں آپ کو خط لکھتا ہوں اسی طرح ایک خط پارلیمنٹ کے ممبروں وزراء امراء اور ولایتی اخبارات کے ایڈیٹروں کے نام بھی لکھا کروں گا تاکہ انہیں بھی سب حالات کا علم ہوتا رہے اور ہندوؤں کے غلط پروپیگنڈا سے وہ واقف ہوتے رہیں مجھے امید ہے کہ میرے ایک دو خطوں سے وہاں شور پڑ جائے گا.اور فریب کی چادر جو ریاستی ہندوؤں نے بنی ہے تار تار ہو جائے گی.اس کے بعد میں آپ لوگوں کو پھر نصیحت کرتا ہوں کہ سول نافرمانی کا لفظ جو بد قسمتی سے بعض لوگوں نے استعمال کرنا شروع کر دیا تھا اور جس کے سبب انگریزی حکومت نے دھوکہ کھا کر ریاست کو سختی کرنے کی اجازت دے دی تھی اسے بالکل ترک کر دیں اور ہر اک شخص کو سمجھائیں کہ غلط الفاظ استعمال کرنے سے بھی سخت نقصان ہوتا ہے وہ ایسے لفظوں کا استعمال ترک کر دیں اور ایسے طریقوں سے بچیں کہ جن کے ذریعہ سے انگریزی حکومت کو ریاستی حکام دھوکہ دے سکیں یا درکھیں کہ آزادی یا تلوار کے زور سے حاصل ہو سکتی ہے یا انگریزوں کی امداد سے اور تلوار سے آزادی کا حصول آپ لوگوں کے لئے ناممکن ہے پس ایسے طریقے اختیار کرنے جن سے انگریزوں کی ہمدردی بھی جاتی رہے ہرگز عقلمندی کا شیوہ نہیں اس لفظ کے استعمال سے دیکھ لو کہ پہلے کس قدر نقصان ہوا ہے.صرف میرپور کے علاقہ میں چند نوجوانوں نے غلطی سے سول نافرمانی کا سوال اٹھایا.اور وہاں کے علاوہ تمام ریاست کشمیر پر ظلم کی انتہا ہو گئی.کارکن گرفتار ہو گئے عورتوں کی بے عزتی ہوئی اور بچے بلا وجہ بیٹے گئے.جس سول نافرمانی نے اب تک انگریزی علاقہ میں جہاں رعایا پہلے سے آزاد ہے کچھ نفع نہیں دیا.بلکہ مسٹر گاندھی اس کے بانی اب تک قید ہیں اور سب مسلمان اس کا تجربہ کر کے اس کی مخالفت کر رہے ہیں اس نے وہاں کیا نفع دیتا ہے سوائے اس کے کہ مہذب دنیا اس کی وجہ سے مسلمانوں کو باغی کہنے لگے اور ریاست کا دلی منشاء پورا ہو.اور اس کا کچھ فائدہ نہیں ہو سکتا.ہاں ابتدائی انسانی حقوق کے متعلق اگر کسی وقت سب لیڈروں کے مشورہ سے ریاست کے ظالمانہ اور خلاف شریعت احکام کے ماننے سے انکار کیا جائے تو وہ سول نافرمانی نہ ہوگی کیونکہ ابتدائی حقوق سے محروم کرنے والی حکومت
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 570 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ عرف عام میں خود باغی کہلاتی ہے ان احکام کے نہ ماننے والے لوگ باغی نہیں کہلاتے مگر اس کے متعلق میں تفصیل سے بعد میں لکھوں گا.اس وقت سب سے اہم بات جو کہنی چاہتا ہوں یہ ہے کہ گلنسی کمیشن اس وقت جلد جلد اپنا کام ختم کر رہا ہے اس کمیشن کی رپورٹ پر انگریزی حکومت کی آئندہ امداد کا بہت کچھ انحصار ہے میں خود بھی اس کمیشن کے سامنے پیش کرنے کو ایک بیان لکھ رہا ہوں لیکن آپ لوگوں کی کئی تکالیف ہوں گی جو مجھے معلوم نہیں اس لئے جس علاقہ میں میرا یہ خط پہنچے وہاں کے لوگوں کو چاہئے کہ اپنی شکایات اور ان کے ثبوت لکھ کر جلد سے جلد مفتی جلال الدین صاحب کو جو مسٹر عبد اللہ صاحب کے جانشین ہیں.سرینگر بھجوا دیں تاکہ وہ کمیشن کے آگے ان شکایات کو رکھ سکیں.اس معاملہ میں سستی ہوئی تو بعد میں پچھتانا پڑے گا.کیونکہ ایسے کمیشن روز روز نہیں بیٹھا کرتے.مجھے معلوم ہے کہ بعض لوگ آپ لوگوں کو یہ کہتے ہیں کہ اس کمیشن سے تعاون کا کوئی فائدہ نہ ہو گا لیکن یاد رکھیں کہ آپ کے لیڈر شیخ عبد اللہ صاحب اور دوسرے سب آپ کے خیر خواہوں نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ اس کمیشن سے تعاون کیا جائے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کمیشن سے تعاون مفید ہو گا پہلا فائدہ تو یہی ہے کہ اس کمیشن کی بدولت پریس اور تقریر او را انجمنوں کی آزادی کا سوال پیش ہو چکا ہے.اور تھوڑے دنوں میں اس کے متعلق کارروائی شروع ہو جائے گی اس کے علاوہ بھی امید ہے کہ اور بہت سے فوائد انشاء اللہ حاصل ہوں گے اور جن امور میں اس کمیشن کی رپورٹ نامکمل یا غلط ہوئی ہمارے لئے اس کے خلاف احتجاج کرنے کا پھر بھی راستہ کھلا ہے علاوہ ازیں اس وقت یہ کمیشن ایک طرح روک بن رہا ہے.جب انگریزی حکومت کو توجہ دلائی جاتی ہے تو اس کے ذمہ دار حکام کہتے ہیں کہ مہاراجہ صاحب ایک کمیشن بٹھا چکے ہیں پس اس کے فیصلہ کا انتظار کرنا چاہئے پس ہمارا فرض ہے کہ جہاں تک ہو سکے جلد اس کمیشن کا کام ختم کرائیں اور پوری کوشش کریں کہ اس کمیشن کی کارروائی اس رنگ میں تکمیل کو پہنچے کہ کمیشن مجبور ہو کہ کاغذات کی بناء پر مسلمانوں کے حق میں رپورٹ کرے.دوسرا ضروری امر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ریاست نے اس وقت پر امن لوگوں کے جلسے اور جلوس روک رکھے ہیں سول نافرمانی کے پروگرام والوں اور ہندوؤں کے جلسے اور جلوس کھلے ہیں جیسا کہ گزشتہ دنوں میں...کا جلوس نکلا اور اس میں احرار زندہ باد اور قادیانی مردہ باد کے نعرے لگائے گئے کسی کے مردہ باد کہنے سے ہم مر نہیں جاتے پس میں تو کہتا ہوں کہ اگر ہمیں مردہ باد کہہ کر کسی کا دل خوش ہوتا ہے تو چلو یہ بھی ایک ہماری خدمت ہے وہ اسی طرح اپنا دل خوش کر لیں ہم بھی خوش ہیں کہ
تاریخ احمدیت جلد ۵ 571 تحریک آزادی کشمیر او رجماعت احمدیہ ہمارے ایک بھائی کا دل اس طرح خوش ہو گیا.مگر ایک سبق ہمیں ان جلسوں اور جلوسوں سے ملتا ہے اور وہ یہ کہ ریاست کا ان لوگوں کو جلسوں اور جلوس کی اجازت دیتا صاف بتاتا ہے کہ ریاست کے لئے اس میں فائدے ہیں اور وہ فائدے میرے نزدیک دو ہیں.(1) اول فائدہ یہ ہے کہ ریاست اس طرح حکومت انگریزی کو یہ بتانا چاہتی ہے کہ ریاست کے مسلمان باغی ہو گئے ہیں اور اس غرض کو پورا کرنے کے لئے وہ اپنے ایجنٹ مقرر کر رہی ہے.(۲) دو سرا فائدہ یہ ہے کہ اس طرح ریاست لوگوں پر یہ ظاہر کرنا چاہتی ہے کہ مسٹر عبد اللہ لیڈر کشمیر کی پارٹی کمزور اور تھوڑی ہے اور ان کے مخالف زور پر ہیں ریاست کے ہاتھ میں فوج ہے اور حکومت ہے.وہ ظلم کے ساتھ ایک ہی قانون کو دو طرح استعمال کر سکتی ہے.لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں عقل دی ہے اور ہم بغیر فساد پیدا کرنے کے اس کی اس تجویز کو رد کر سکتے ہیں اور وہ اس طرح کہ ریاست نے جلسوں سے تو آپ لوگوں کو روک دیا ہے لیکن وہ لباس پر تو کوئی پابندی نہیں لگا سکتی.اس لئے میرے نزدیک آپ لوگ لباس کے ذریعہ سے اپنے خیالات کو ظاہر کر سکتے ہیں اور وہ اس طرح کہ جس قدر لوگ مسٹر عبد اللہ کے ہم خیال ہیں اور امن پسندی کے ساتھ اپنے حق لینا چاہتے ہیں اور سول نافرمانی کے حامی نہیں ہیں وہ اس امر کے ظاہر کرنے کے لئے کہ مسٹر عبد اللہ اور دو سرے لیڈروں کی قید سے انہیں تکلیف ہے اور دوسرے اس امر کو ظاہر کرنے کے لئے کہ وہ بہر حال پر امن ذریعہ سے اپنے حقوق طلب کریں گے اور ریاست کے حکام کے جوش دلانے کے باوجود اپنے طریق کو نہیں چھوڑیں گے اپنے بازو پر ایک سیاہ رنگ کا چھوٹا سا کپڑا باندھ لیں یا اپنے سینہ بر ایک سیاہ نشان لنکالیں.ایسے نشان سے بغیر ایک لفظ منہ سے نکالنے کے بغیر تقریر کرنے کے بغیر جلوس نکالنے کے آپ حکومت اور دوسرے لوگوں کو بتا سکیں گے کہ آپ مسٹر عبد اللہ کے ہم خیال ہیں اگر یہ تحریک ہر جگہ کے لیڈر کامیاب کر سکیں اور ملک کے ہر گوشہ میں ہر شخص خواہ مرد ہو خواہ عورت خواہ بچہ اس سیاہ نشان کا حامل ہو.تو آپ لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ بغیر جلسوں اور جلوس کے آپ لوگوں کی طرف سے اس امر کا اظہار ہوتا رہے گا کہ ایک طرف تو آپ لوگ مسٹر عبد اللہ کی قید پر احتجاج کرتے ہیں اور دوسری طرف ریاست کے ان ایجنٹوں کی پالیسی کے خلاف اظہار رائے کرتے ہیں.جو اندر سے تو ریاست سے ملے ہوئے ہیں اور بظا ہر کامل آزادی کا مظاہرہ پیش کر کے تحریک کو کچلنا چاہتے ہیں.اگر مختلف علاقوں کے لیڈر اس تحریک کو جاری کریں تو آپ لوگ دیکھیں گے کہ تھوڑے ہی دنوں میں ریاست اور اس کے ایجنٹ مرعوب ہونے لگیں گے.اور ہر راہ چلتے آدمی کو معلوم ہو جائے گا کہ کشمیر کا بچہ بچہ شیر کشمیر اور دوسرے لیڈروں کے ساتھ ہے اور یہ کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ حقوق کا مطالبہ صرف چند لوگوں کی طرف سے ہے یا یہ کہ ریاست کشمیر کے لوگ فساد کرنا چاہتے ہیں وہ اپنے دعوئی میں
تاریخ احمدیت جلد ۵ 572 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ جھوٹے ہیں اس تحریک میں سب اہل کشمیر شامل ہیں اور وہ باغی نہیں بلکہ آئینی طور پر اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے والے ہیں اور یہ وہ حق ہے جس سے کوئی شخص کسی کو محروم نہیں کر سکتا.اس کے علاوہ اور بہت سی باتیں ہیں جو میں اپنے اگلے خط میں ظاہر کروں گا.سر دست میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ آپ لوگ جلد سے جلد ان امور کے متعلق کو شش کریں گے اور ایسے سامان پیدا کر دیں گے کہ خدا تعالٰی کے فضل سے ہماری کوششیں بار آور ہوں اور آپ لوگوں کو آزادی کا سانس لینا نصیب ہو اور آپ کے لیڈر پھر آپ لوگوں میں آکر شامل ہوں اور آپ کی خدمت میں مشغول ہوں.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی نوٹ: (1) جن صاحبان کو یہ خط پہنچے ان سے درخواست ہے کہ اس کے اثر کو وسیع کرنے کے لئے وہ اپنے دوسرے دوستوں اور واقفوں کے نام اور پتے جو دوسرے گاؤں کے ہوں میرے نام یا سیکرٹری کے نام بھجوا دیں تاکہ آئندہ خطوط اور بھی وسیع علاقوں میں پھیلائے جاسکیں.(۲) چونکہ میرا ارادہ ہے کہ میں باقاعدہ انگلستان کے لوگوں کو اور ہندوستان کے حکام کو ایک رسالہ کے ذریعہ سے حالات کشمیر سے واقف کرتا رہوں.میں ممنون ہوں گا کہ اگر اپنے علاقہ کے حالات سے اور حکام کے رویہ سے مجھے آپ لوگ اطلاع دیتے رہا کریں.واقعات بالکل کچے اور بیان حلفیہ ہونے چاہئیں.مرزا محمود احمد اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر اہل کشمیر کے نام تغیر اخط (سلسلہ دوم) ڈلٹن کمیشن رپورٹ برادران اسلام علیکم ورحمته الله و برکاتہ گو اب تک مڈلٹن رپورٹ مکمل صورت میں
تاریخ احمدیت جلد ۵ 573 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ شائع نہیں ہوئی لیکن اس کا خلاصہ اخبارات میں شائع ہوا ہے.اس خلاصہ کو دیکھ کر مسلمانوں میں سخت جوش اور غضب کی لہر دوڑ گئی ہے اور وہ محسوس کر رہے ہیں کہ ریاست کے ہندو افسروں کی طرح انگریزی افسروں نے بھی ان سے دھو کہ کیا ہے اور یہ کہ وہ آئندہ انگریزوں سے بھی کسی انصاف کی امید نہیں کر سکتے.گو اس قسم کی منافرت اور مایوسی کے جذبات میرے دل میں پیدا نہ ہوئے ہوں جو بعض دوسرے مسلمانوں کے دلوں میں پیدا ہوئے ہیں لیکن میں اس امر کا اقرار کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ میرے نزدیک ہر انصاف پسند انسان کے نزدیک یہ رپورٹ موجب حیرت ثابت ہوئی ہو گی.اور تو اور سول اینڈ ملٹری گزٹ اخبار تک اس رپورٹ کے متعلق شبہات کا اظہار کرتا ہے اور اس کے حیرت انگیز یک طرفہ فیصلہ کو ایسوسی ایٹڈ پریس کے خلاصہ کی طرف منسوب کرتے ہوئے اصل رپورٹ کے شائع ہونے کی انتظار کا مشورہ دیتا ہے.وہ لوگ جو اس امید میں تھے کہ مڈلٹن کمیشن کی رپورٹ مسلمانوں کی مظلومیت کو روز روشن کی طرح ثابت کر دے گی بے شک اس وقت سخت مایوسی محسوس کرتے ہیں لیکن جن لوگوں کو یہ معلوم ہے کہ نہ افراد اقوام کے قائم مقام ہوتے ہیں اور نہ قومی جنگیں آسانی سے ختم ہو ا کرتی ہیں.وہ باوجود خلاف امید نتیجہ کے مایوس نہیں اگر مسلمان مظلوم ہیں جیسا کہ ہمارے نزدیک مظلوم ہیں تو ہزار مڈلٹن رپورٹ بھی ان کو ظالم نہیں بنا سکتی وہ مظاہرات جو برطانوی علاقہ کے مظاہرات کے مقابلہ میں کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتے تھے.لیکن جن کو بجائے لاٹھیوں کے گولیوں سے پراگندہ کیا گیا.اور گولیاں بھی اس بے دردی سے چلائی گئیں کہ کثیر تعداد آدمیوں کی ان کا نشانہ بنی ایسا واقعہ نہیں ہیں.کہ مڈلٹن رپورٹ ان کی حقیقت پر پردہ ڈال سکے.اگر مڈلٹن رپورٹ کا کوئی اثر دنیا پر ہو گا.تو صرف یہ کہ لاکھوں آدمی جو اس سے پہلے برطانوی انصاف پر اعتماد رکھتے تھے.اب برطانوی قوم کو بھی ظالم اور جابر قرار دینے لگیں گے.پس میرے نزدیک مڈلٹن رپورٹ کا نہ ریاست کو فائدہ پہنچا ہے اور نہ مسلمانوں کو نقصان.بلکہ انگریزوں کو نقصان پہنچا ہے.پس نہ ہندوؤں کے لئے خوشی کا موقع ہے اور نہ مسلمانوں کے لئے گھبراہٹ کا.اگر کسی کے لئے گھبراہٹ کا موقعہ ہے.تو عقلمند اور سمجھدار انگریزوں کے لئے جو اس میں اپنے وقار پر ایک شدید ضرب محسوس کریں گے.مجھے یقین ہے کہ مسٹرڈ لٹن بد دیانت نہیں.اور معاملہ وہ نہیں جو ریاست کے بعض اعلیٰ کار کن کئی ماہ سے بیان کر رہے تھے.یعنی یہ کہ انہوں نے مسٹرڈ لٹن کی رائے کو خرید لیا ہے کیونکہ گو میں مسٹر مڈلٹن کو ذاتی طور پر نہیں جانتا.لیکن ان کے جانے والے سب مسلمان یہی کہتے ہیں کہ خواہ ہائیکورٹ
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 574 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ کے حج خریدے جاسکتے ہوں لیکن مسٹرڈ لٹن نہیں خریدے جاسکتے.اور کوئی وجہ نہیں کہ واقفوں کی رائے کو جو خود ہماری قوم کے فرد ہیں ہم نظر انداز کر دیں.پس میں یہ تو نہیں مان سکتا.کہ مسٹرڈ لٹن نے بد دیانتی سے کام لیا ہے.لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کی رائے یکطرفہ ہے اور ان کی طبیعت کا میلان ان کے فیصلہ سے پھوٹا پڑتا ہے.جب ایک کمیشن کے تقرر کی ہم کوشش کرتے ہیں.تو ہمیں اس امر کی توقع رکھنی چاہئے کہ ممکن ہے اس کا فیصلہ ہمارے خلاف ہو.ہزاروں مقدمات میں بچے جھوٹے ثابت ہو جاتے ہیں اور جھوٹے بچے ثابت ہو جاتے ہیں پس اگر صرف ڈلٹن کمیشن کا فیصلہ ہمارے خلاف ہوتا اور مسلمان اس پر ناراض ہوتے تو میں اسے بچپن کا فعل قرار دیتا اور باوجود اس فیصلہ سے اختلاف رکھنے کے اس پر ناراضگی کا اظہار نہ کر تا لیکن یہ فیصلہ اس رنگ میں لکھا گیا ہے.کہ صرف خلاف ہی فیصلہ نہیں ہے.بلکہ متعصبانہ رنگ رکھتا ہے چنانچہ ہر اک بات جو مسلمانوں کے منہ سے نکلی ہے اسے ”خلاف عقل" بالبداہت باطل پکھلی کھلی دروغ بیانی قرار دیا گیا ہے اور جو کچھ ریاست کی طرف سے کہا گیا ہے.اسے معقول اور درست قرار دیا گیا ہے اور متعدد گواہوں کی گواہیوں کو اپنے ذاتی میلان پر قربان کر دیا گیا ہے بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہ مسلمانوں کی گواہی کو من حیث القوم نا قابل اعتبار قرار دے کر ایک ایسی قومی ہتک کی گئی ہے کہ اس کا خمیازہ اگر خطرناک سیاسی بے چینی کی صورت میں پیدا ہو تو برطانیہ کو سوائے اس بات کے کہنے کے چارہ نہ ہو گا کہ خدا مجھے میرے بے احتیاط فرزندوں سے بچائے.مگر جہاں تک میں سمجھتا ہوں اکثر انگریز دلوں میں خوب سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں پر ظلم ہوا ہے.پس اس رپورٹ کا مسلمانوں پر تو کیا اثر ہو گا.خود انگریزوں پر بھی اس کا کوئی اثر نہ ہو گا یہ اور بات ہے کہ بعض لوگ اپنے سیاسی فوائد کی وجہ سے اپنے دلی خیال کا اظہار نہ کریں.مجھے حیرت ہے کہ جب مسٹرڈ لٹن کے نزدیک سب کشمیری مسلمان جھوٹے ہیں.تو انہیں اس قدر عرصہ تک تحقیقات کی ضرورت کیا پیش آئی تھی.انہیں تو شروع میں ہی کہہ دینا چاہئے تھا کہ میں کسی مسلمان کی گواہی نہیں سنوں گا.اس قدر روپیہ اپنی ذات پر اور اپنے عملہ پر خرچ کروانے کے علاوہ انہوں نے مسلمانوں کا روپیہ بھی جنھوں نے دور دور سے گواہ منگوا کر پیش کئے تھے کیوں ضائع کرایا.ٹڈلٹن کمیشن رپورٹ پر اپنے خیالات ظاہر کرنے کے بعد اس امر پر بھی اظہار افسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا.کہ اس رپورٹ کے شائع ہونے پر بعض لوگ اس طرح مایوس ہو گئے ہیں کہ گویا ان کے نزدیک مڈلٹن کمیشن ہی ہمارا معبود ہے.اللہ تعالیٰ نے دنیا میں کام کرنے کے کئی راستے تجویز کئے ہیں.
تاریخ احمد بت جلده 575 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ اور ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم ان راستوں سے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے کوشش کریں.اگر ان میں سے بعض بند نظر آئیں تو ہمیں مایوسی کی ضرورت نہیں ہم نے اگر ایک کوشش کی اور اس میں ہم ناکام رہے تو مایوسی کی کونسی بات ہے ہمیں پھر کوشش کرنی چاہئے.اور پھر کوشش کرنی چاہئے یہاں تک کہ ہم کامیاب ہو جا ئیں.ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ مڈلٹن کمشن خود مسلمانوں کی کوششوں کے نتیجہ میں مقرر ہوا تھا.کشمیر سے متواتر یہ آواز آرہی تھی.کہ آزاد کمیشن مقرر کرایا جائے.اور باہر کے مسلمانوں نے اس کی تائید کی.پس اس قسم کے نتائج سے گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں.مڈلٹن کمیشن پر نہ آپ کو کوئی نا قابل برداشت قربانی کرنی پڑی ہے اور نہ اس رپورٹ سے ہماری پہلی پوزیشن میں کوئی نقص واقع ہوا ہے اس کمیشن کا مطالبہ مسلمانوں کی طرف سے اس خیال سے تھا کہ اگر وہ انصاف پر مبنی ہو ا تو مسلمانوں کی طرف غیر جانبدار لوگوں کی توجہ ہو جائے گی.اب اگر خلاف فیصلہ ہوا تو حالت وہیں کی وہیں آگئی جہاں پہلے تھی.پس نقصان کچھ نہیں ہوا.ہاں اگر فیصلہ درست ہو تا تو فائدہ ہو سکتا تھا.پس مایوسی کی کوئی وجہ نہیں.قومی جنگوں میں اتار چڑھاؤ ہوتے رہتے ہیں.رسول کریم ﷺ کے زمانہ کے متعلق بھی آتا ہے کہ لڑائی ڈول کی طرح تھی.کبھی کسی کا ڈول کو ئیں میں پڑتا اور کبھی کسی کا پس اگر فی الواقع مسلمانان کشمیر کا ارادہ آزادی حاصل کرتا ہے تو انہیں اپنے دل وسیع اور مضبوط کرنے چاہئیں.اور اپنی ہمتیں بلند اور اس قسم کی تکلیفوں اور ناکامیوں کی ذرہ بھر بھی پرواہ نہیں کرنی چاہئے ورنہ وہ یاد رکھیں کہ بڑے کام چھوٹے حوصلوں سے نہیں ہوتے اور اگر ان کا منشاء صرف تکلیفوں سے بچنے کا ہے تو اس کا آسان علاج ہے کہ ہتھیار ڈال دیں.اس صورت میں کچھ دنوں تک یہ ظاہری ظلم بند ہو کر اسی سابقہ کند چھری سے ہندو افسرانہیں قربان کرنے لگیں گے.جس سے پہلے قربان کیا کرتے تھے.لیکن اس موت میں نہ کوئی شان ہوگی نہ مسلمانوں کی ان سے ہمدردی ہو گی.ہم لوگ آپ کے بلانے پر آئے ہیں اگر آپ لوگ خاموش ہونا چاہیں تو ہم بھی خاموش ہو جائیں گے مگر مجھے یقین ہے کہ مایوسی صرف چند لوگوں کا حصہ ہے مسلمانوں کی کثرت اپنے لئے اور اپنے بچوں کے لئے آزادی حاصل کرنے کے لئے جان و دل سے مستعد ہے اور یہی کثرت ہے جو آخر باوجود ہمت ہارنے والوں اور مایوس ہونے والوں کے انشاء اللہ کامیاب ہو کر رہے گی.بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ اب ہمیں گلنسی کمیشن پر کیا اعتبار رہا.اس میں کوئی شک نہیں کہ کلنسی کمیشن سے بھی خطرہ ہے جس طرح مڈلٹن کمیشن میں خطرہ تھا.لیکن اگر اس کمیشن نے بھی ہماری امیدوں کے خلاف فیصلہ کیا.تو ہمارا کیا نقصان ہو گا.کیا انگریز کے منہ سے نکلی ہوئی بات ہمارے مذہب
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 576 ی کشمیر اور جماعت احمد سید کا جزو ہے اگر مسٹر کھنسی نے مسٹرڈ لٹن والا طریق اختیار کیا تو ہم مڈلٹر کی غلطیوں کی طرح کا بھی پردہ فاش کریں گے.اور اگر اس میں مسلمانوں کے حق میں کوئی سفارش کی گئی.تو یقینا اس سے ہم کو فائدہ پہنچے گا.بعض افسر اور بعض دوسرے لوگ بہت پہلے سے کلنسی رپورٹ کے متعلق بھی کہہ رہے ہیں کہ مسٹر کلنسی نے ان سے کہہ رکھا ہے کہ ان کا فیصلہ مسلمانوں کے خلاف ہو گا.اگر یہ سچ ہے تو بھی میرے نزدیک ہمیں اس سے مایوسی کی ضرورت نہیں.ہر ایک غیر منصفانہ رپورٹ جو انگریز کریں گے اس سے مسلمانوں کی ہمدردی کھو کر اپنی قوم کے لئے مشکلات پیدا کریں گے.پس ایسی رپورٹ سے ہمارا نقصان نہیں خود ان کا نقصان ہے ہمارے مطالبات پھر بھی قائم رہیں گے ہم نے اپنے حقوق کے متعلق کیا یہ تسلیم کیا ہے کہ جو کچھ انگریز کہ دیں گے اسے ہم تسلیم کرلیں گے.اگر وہ معقول بات ہوگی تو ہم اسے مانیں گے.ورنہ کہیں گے کہ عطائے تو بلقائے تو.برادران! یاد رکھیں کہ یہ مایوسی کی لہر دو طرح سے چلائی جارہی ہے.ایک ریاست کے ہندو افسروں کی طرف سے جو بعض انگریزوں کی غلطیاں گنوا کر مسلمانوں کو اس طرف لانا چاہتے ہیں کہ وہ خود ریاست کے ہندو افسروں سے فیصلہ چاہیں.حالانکہ جو کچھ ہندو افسروں نے سلوک کیا ہے وہ اس قدر پرانا نہیں کہ اسے مسلمان بھول جائیں.ایک شخص کے فیصلہ سے انگریزی طبیعت کا حال نہیں معلوم ہو سکتا نہ مسٹرڈ لٹن اور مسٹر کلنسی انگریزی حکومت کا نام ہے.لیکن ہندوؤں نے تو ریاست میں افراد کی حیثیت میں نہیں حکومت کی حیثیت میں مسلمانوں کو بے دردی سے کچلا ہے.پس جو کچھ ان سے ظاہر ہوا ہے کیا مسلمان اسے اس قدر جلد بھول جائیں گے ؟ اب اس وقت بھی کہ مڈلٹن رپورٹ شائع ہو چکی ہے میرے پاس درخواستیں آرہی ہیں کہ میرپور کی طرح دوسرے علاقوں میں بھی انگریزی مداخلت کی کوشش کی جائے.اگر انگریزوں اور ریاستی حکام میں فرق نہیں تو یہ کیوں ہو رہا ہے ؟ یہ سخت بے وقوفی ہو گی کہ ہم ایک شخص سے یا ایک فعل سے ناراض ہو کر عقل کو ہی چھوڑ دیں اور اپنی موت کے سامان خود کرنے لگیں.پس مڈلٹن رپورٹ کی غلطی کا یہ نتیجہ نہیں نکلنا چاہئے کہ ہم ہندو حکام کے ہاتھ میں کھیلنے لگیں.ان باتوں میں آنے والے لوگوں کو چاہیئے.کہ ان وسوسوں کے پیدا کرنے والوں سے دریافت کریں کہ فرض کرو کہ مڈلٹن صاحب کوئی رقم کھا گئے ہیں (جسے میں تسلیم نہیں کرتا ) تو یہ بتاؤ وہ رقم کس نے کھلائی ہے.اور کس غرض سے ؟ اگر ہندو حکام نے اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لئے تو اس جھوٹ کو تسلیم کر کے بھی تو اصل دشمن وہی رشوت کھلانے والے ثابت ہوتے ہیں.دوسرے لوگ جو اس وقت مایوسی پیدا کر رہے ہیں.وہ لوگ ہیں جو اس امر سے ڈرتے ہیں کہ کہیں دوسری مسلمان ریاستوں میں شورش نہ پیدا کی جائے یہ لوگ بھی سخت غلطی پر ہیں.اول تو کشمیر
تاریخ احمدیت جلد ۵ 577 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد به اور مسلمان ریاستوں کے حالات یکساں نہیں دوسرے یہ بھی غلط ہے کہ ہندو مسلمانوں کے کشمیر کے معاملات میں دلچسپی لینے کی وجہ سے مسلمان ریاستوں کے خلاف شورش کریں گے وہ پہلے سے یہ کام کر رہے ہیں.مسلمان کشمیر کے متعلق دلچسپی لیں یا نہ لیں انہوں نے مسلم ریاستوں میں بغیر وجہ کے بھی ضرور شورش پیدا کرنی ہے.پس ہمیں ان لوگوں کی باتوں میں نہیں آنا چاہئے.اور استقلال سے کشمیر کی آزادی کے لئے کوشش کرتے رہنا چاہئے.اور ایک سبب پر تو کل نہیں کرنا چاہیئے ہر جائز وسیلہ جس سے کام کے ہونے کی امید ہو ہمیں اختیار کرنا چاہئے.اور اگر کسی کوشش کا نتیجہ حسب دلخواہ نہ نکلے تو نا امید نہیں ہونا چاہئے.اس وقت سب سے بڑا آلہ آزادی کا سول نافرمانی سمجھا جاتا ہے پھر کیا یہ آلہ گزشتہ آٹھ سال میں کامیاب ہو گیا ؟ اگر وہ آٹھ سال میں کامیاب نہیں ہوا.تو ہم نو ماہ میں اپنی کوششوں سے کیوں مایوس ہوں.یاد رکھیں کہ خدا تعالیٰ نے خود ہی ہمارے لئے ایک راستہ مقرر کر چھوڑا ہے.اور ہمیں درمیانی روکوں کی وجہ سے اس سے ادھر ادھر نہیں ہونا چاہئے.اور وہ تو کل اور تبلیغ ہے.خدا تعالیٰ کے فضل پر یقین رکھنا اور انسانی فطرت پر یقین رکھنا کہ وہ زیادہ دیر تک دلیل کا مقابلہ نہیں کر سکتی یہی اصل کامیابیوں کی جڑ ہے.اور یہی کمزوروں کا حربہ ہے.جس سے وہ بغیر فوجوں کے جیت جاتے ہیں.رسول کریم ﷺ کو دیکھ لو.آپ باوجود انتہائی کوشش کر چکنے کے اپنے مخالفوں سے ناامید نہیں ہوئے کیونکہ آپ کو اللہ تعالٰی کے وعدوں پر بھی یقین تھا اور آپ اس امر پر بھی یقین رکھتے تھے کہ انسانی فطرت زیادہ دیر تک معقولیت سے آنکھیں بند نہیں کر سکتی.آخر ایک دن وہی لوگ جو آپ کے دشمن تھے.آپ کے تابع فرمان ہو گئے.پس ہمارے آقا کا اسوہ ہمارے سامنے موجود ہے.ہمیں کسی اور کی نقل کی ضرورت نہیں.ہمارا فرض ہے کہ ایک طرف ہر مسلمان کے دل میں خواہ وہ کشمیر کا ہو یا باہر کا کشمیر کے مسئلہ سے دلچسپی پیدا کریں.اور دوسری طرف ریاست کے حکام کو بھی اور انگریزوں کو بھی اپنے دعاوی کی معقولیت کا قائل کریں اور یہ نہ شبہ کریں کہ یہ لوگ ہماری بات نہیں مانیں گے.کیونکہ جب ہم اپنی طاقت پر خود شک کرنے لگ جائیں.تو ہماری بات کا دوسروں پر بھی اثر نہیں ہو تا ہمیں چاہئے کہ یقین رکھیں کہ ضرور ہماری بات اثر کرے گی.دیکھو مسمریزم کرنے والا ایک جاگتے شخص کو کہنے لگتا ہے کہ تم سو گئے تم سو گئے اور وہ سو جاتا ہے.پھر وہ اس سے جو کچھ چاہتا ہے منوالیتا ہے اگر وہ دوسرے سے جھوٹ متوالیتا ہے تو کیا ہم سچ نہ منوا سکیں گے ؟ ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا.بلکہ ضرور ہے کہ ایک دن یا ریاست کے حکام ہماری بات مان لیں اور مسلمانوں کے حق دے دیں اور یا انگریزی ہماری بات مان لیں.اور ہمارے حق دلا دیں.اسی طرح اگر ہم ریاست اور اس کے باہر مسلمانوں کو بیدار
احمد بیت - جلد ۵ 578 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ کرتے رہیں.تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ دوسرے لوگ ہم سے مرعوب ہوں گے کیونکہ بیدار قوم کو کوئی نہیں دبا سکتا.غرض اگر دوسرے لوگ دیکھیں گے کہ کشمیر کے مسلمان اور دوسرے مسلمان اس امر پر مل گئے ہیں کہ مسلمانوں کے لئے ان کے جائز حق حاصل کریں.تو جو لوگ دلیل سے ماننے والے نہیں وہ رعب سے مان لیں گے مگر رعب دھمکیوں سے اور مارنے سے نہیں پیدا ہو تا.بلکہ پختہ ارادہ اور اپنے کام کے لئے مستقل قربانی کے لئے تیار ہو جانے سے پیدا ہو تا ہے مجھے یقین ہے کہ اگر یہ باتیں اہل کشمیر پیدا کر لیں تو نہ ریاست ان کے حق کو دبا سکتی ہے نہ انگریز اس میں اس کی مدد کر سکتے ہیں.کوئی حکومت اپنے سب ملک کو تباہ کرنے کے لئے تیار نہیں ہو سکتی.اور کوئی توپ پختہ ارادہ کو زیر نہیں کر سکتی.پس ہمارا راستہ کھلا ہے اندرونی تنظیم اور اپنے معاملہ کو بار بار دلیل کے ساتھ پبلک میں لانا ان دونوں تدبیروں میں سے کوئی نہ کوئی ضرور اثر کرے گی.یا تنظیم رعب پیدا کرے گی یا دلیل دل کو صاف کر دے گی.خواہ ریاست کے حکام کے دلوں کو خواہ انگریزوں کے دلوں کو.اور جس طرف سے بھی ہمیں حق مل جائے ہم اسے خوشی سے قبول کریں گے اور نہ ریاست سے گفتگو کا دروازہ بند کریں گے.نہ انگریزوں سے جو بھی ہماری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے گا اس کی طرف ہم بھی دوستی کا ہاتھ بڑھائیں گے.اگر آج ریاست ہمارے بھائیوں کے حقوق دینے کو تیار ہو جائے تو ہم اس کے ساتھ مل کر انگریزوں سے کہیں گے کہ ہم لوگوں کی صلح ہو گئی ہے اب آپ لوگ یہاں سے تشریف لے جائیے.اور اگر انگریزوں کی معرفت ہمیں حق ملے گا تو ہم کہیں گے کہ ہمارے وطنی بھائیوں سے یہ غیر اچھے ہیں.جنہوں نے انصاف سے کام لیا.یہی اور صرف یہی عظمندی کا طریق ہے.اور جو شخص غصہ میں اور در میانی مشکلات سے ڈر کر اپنے لئے خود ایک دروازہ کو بند کر لیتا ہے وہ نادان ہے اور قوم کا دشمن ہے آج ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہمار ا حق ریاست سے ملے گا یا انگریزوں سے اور دلیل سے ملے گا یا قربانی کے رعب سے.پس ہم دونوں دروازوں کو کھلا رکھیں گے اور دونوں طریق کو اختیار کئے رہیں گے.یعنی انگریزوں اور ریاست دونوں سے گفتگو کا سلسلہ جاری رکھیں گے اسی طرح علاوہ دلیل کے اپنی تنظیم کو مضبوط کرتے چلے جائیں گے.پھر اللہ تعالیٰ کے علم میں جس طرح ہماری کامیابی مقدر ہے.اسے قبول کر لیں گے.اور اس کی قضا پر خوش ہو جائیں گے.میں امید کرتا ہوں کہ میں نے حقیقت کو خوب واضح کر دیا ہے اور بیدار مغز اہل کشمیر مایوسی پیدا کرنے والے لوگوں کی باتوں میں نہیں آئیں گے.بلکہ ہمت اور استقلال سے اپنے کام میں مشغول رہیں گے.اور یہ سمجھ لیں گے کہ مڈلٹن رپورٹ ہماری قسمت کا فیصلہ نہیں وہ فیصلہ ہمارے مولانے کرتا ہے.اور وہ ضرور اچھاہی فیصلہ کرے گا.مڈلٹن کمیشن مختلف سامانوں میں سے ایک سامان تھا.اگر فی
تاریخ احمدیت جلد ۵ - 579 تحریک آزادی کشمیر ا د ر جماعت احمدیه الواقع وہ سامان مفید بھی ثابت نہیں ہوا گو میرے نزدیک یہ فیصلہ بھی مفید ہو گا.اور بوجہ اپنے کھلے ہوئے تعصب کے شریف طبقہ کو اور بھی ہمارا ہمدرد بنا دے گا) تو ہمیں نہ مایوسی کی کوئی وجہ ہے اور نہ اپنا طریق عمل بدلنے کی ہمارا اصل پروگرام اسی طرح قائم ہے اور ہم اس کے ذریعہ سے کامیاب ہونے کی کامل امید رکھتے ہیں.لیکن ہتھیلی پر سرسوں جما کر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی سنت کے مطابق اور کچی قربانیوں اور تنظیم اور دلیل کے ذریعہ ہے.واخر دعونا ان الحمد لله رب العالمين خاکسار میرزا محمود احمد اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم برادران اہل کشمیر کے نام چوتھا خط (سلسلہ دوم) السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکات : میں نے اس امر کو دیکھ کر کہ حکام کشمیر بغیر اس امر کا خیال کئے کہ میرے خطوط ان کے فائدے کے ہیں یا نقصان کے خطوط کو ضبط کرتے رہے ہیں آئندہ خط لکھنے میں وقفہ ڈال دیا تھا لیکن جیسا کہ آپ لوگوں کو معلوم ہے میں آپ لوگوں کے کام کے لئے دہلی گیا تھا.اور جموں بھی مناسب کوشش کرتا رہا ہوں سو الحمد للہ کہ سرراجہ ہری کشن کول صاحب تو ریاست کو چھوڑ گئے ہیں اور نیا انتظام امید ہے کہ مسلمانوں کے حق میں مفید ہو گا گو میرے نزدیک آدمیوں کی تبدیلی نہیں بلکہ قانون اور نیت کی تبدیلی سے رعایا کو فائدہ پہنچ سکتا ہے آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے جو کچھ کوششیں کی ہیں.اس کے نتیجہ میں مجھے امید ہے کہ بہت جلد اہل کشمیر کی اکثر تکالیف دور ہو جائیں گی.اور ان کی آئندہ ترقی کا سامان پیدا ہو جائے گا.یہ کس رنگ میں ہو گا اور کب ہو گا.اس سوال کا جواب دینے سے میں ابھی معذور ہوں ہاں.......آپ لوگ تسلی رکھیں کہ انشاء اللہ ایک ماہ یا اس کے قریب عرصہ میں ایسے امور ظاہر ہوں گے جو آپ لوگوں کے لئے خوشی کا موجب ہوں گے.اور آپ گزشتہ تکالیف کو بھول جائیں گے لیکن اصل کام اسی وقت سے شروع ہو گا.کیونکہ حق کا ملنا اور اس سے فائدہ اٹھانا الگ الگ امور ہیں اگر ریاست کشمیر کے مسلمانوں نے حقوق سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کی تو سب قربانی ضائع جائے گی.
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 580 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ آپ لوگوں کو گزشتہ ایام میں سخت تکالیف کا سامنا ہوا ہے اور اب تک ہو رہا ہے.لیکن یہ امر آپ کو یا درکھنا چاہئے کہ بڑے کاموں کے لئے بڑی قربانی کی ضرورت ہوتی ہے اگر میرا علم صحیح ہے اور آپ لوگوں کو جلد بہت سے حقوق ملنے والے ہیں.تو یہ کامیابی آپ کی ایسی ہوگی کہ اس کی نظیر ہندوستان میں اور کہیں نہیں ملتی.اور کامیابی کے مقابلہ میں تکالیف بہت کم رہ جائیں گی.مجھے افسوس ہے کہ پوری طرح میرے منشاء کے مطابق کام نہیں ہوا.ورنہ مجھے یقین ہے کہ اس قدر تکالیف بھی نہ ہو تیں.لیکن آپ لوگوں کو چاہئے کہ اگر اللہ تعالیٰ حقوق دلا دے تو سب گزشتہ فلموں کو بھول کر آئندہ ترقی کے سامان پیدا کرنے میں لگ جائیں.ورنہ اگر اس وقت گزشتہ بدلے لینے کی طرف آپ متوجہ ہوئے تو بدلہ تو نہ معلوم آپ لے سکیں یا نہ لے سکیں حقوق سے فائدہ اٹھانے سے آپ لوگ محروم رہ جائیں گے یا درکھیں کہ مسلمان نہایت وسیع الحوصلہ ہوتا ہے.میں انشاء اللہ جس وقت خدا تعالٰی نے آپ لوگوں کو کامیاب کیا.ایک ایسا پروگرام آپ لوگوں کے سامنے اور آپ کے ہندوستان کے خیر خواہوں کے سامنے رکھوں گا.جس پر چل کر مجھے امید ہے کہ آپ لوگ اپنے حقوق سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکیں گے.اور اپنی ہمسایہ قوموں سے بھی آپ کے تعلقات خوشگوار رہیں گے.میں اپنی طرف سے بھی یہ وعدہ کرتا ہوں کہ انشاء اللہ ہر ممکن امداد آپ کی آئندہ ترقی کے لئے دیتا رہوں گا.و ما توفیقی الا بالله والسلام خاکسار مرزا محمود احمد اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر اہل جموں و کشمیر کی طرف میرا پانچواں خط (سلسلہ دوم) برادران ! میرے گزشتہ خط کے بعد بعض حالات میرے علم میں ایسے آئے ہیں کہ جن کی وجہ سے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ بعض امور کی تشریح جس قدر جلد ہو سکے کردوں.
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 581 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ پہلی بات یہ ہے کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ جموں میں یہ بات مشہور کی جارہی ہے کہ سر ظفر علی خان صاحب کو میں نے کوشش کر کے نکلوایا ہے اور میری غرض یہ ہے کہ چودھری ظفر اللہ خان صاحب کو ان کی جگہ وزیر مقرر کرواؤں مجھے افسوس سے یہ معلوم ہوا ہے کہ بعض ذمہ دار لیڈروں نے بھی اس خیال کا اظہار کیا ہے اور عوام الناس میں بھی اس بات کا چر چاہے میں سمجھتا تھا کہ جس اخلاص اور محبت سے میں نے اہل کشمیر کا کام کیا تھا اس کے بعد اس قسم کی بدظنیاں پیدا نہ ہو سکیں گی.لیکن افسوس کہ میرا یہ خیال غلط نکلا.اگر محض اختلاف رائے ہو تا تو میں بالکل پرواہ نہ کرتا.لیکن اس الزام میں میری نیت اور دیانت پر چونکہ حملہ کیا گیا ہے میں اس کا جواب دیتا ضروری سمجھتا ہوں لیکن پھر بھی نام نہ لوں گا تا کہ دوسروں کی بدنامی کا موجب نہ ہو.اصل واقعہ یہ ہے کہ سر ظفر علی صاحب کے کشمیر پہنچنے کے معابعد بعض نمائندگان کشمیر نے مجھے ایسے واقعات لکھے جن سے یہ ظاہر ہو تا تھا کہ سر ظفر علی صاحب مسلمانوں سے اچھا سلوک نہیں کرتے اور ایک واقعہ میر واعظ یوسف شاہ صاحب کے ساتھ ان کے سلوک کا خاص طور پر بیان کیا گیا تھا اس پر میں نے ولایت تار دیئے اور آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے ممبروں اور ہمدردوں نے وہاں کوشش کی اور بعض ذمہ دار حکام نے بتایا کہ احرار کی تحریک کے کمزور ہوتے ہی سر ہری کشن کول اور مرزا سر ظفر علی صاحب کو کشمیر سے علیحدہ کر دیا جائے گا.یہ غالبا اکتوبر کا واقعہ ہے اس واقعہ سے معلوم ہو جائے گا کہ ان کے اخراج کی تحریک خود کشمیر سے ہوئی.اور اکتوبر میں اس کا فیصلہ بھی در حقیقت ہو چکا تھا.گو خاص حالات کی وجہ سے اس پر عمل بعد میں ہوا.پس اس کا الزام مجھ پر لگانا درست نہیں.باقی رہا یہ الزام کہ میں نے یہ کوشش عزیز مکرم چودھری ظفر اللہ خان صاحب کو وزیر بنانے کے لئے کی ہے اس کا جواب میں یہی دے سکتا ہوں کہ چودھری ظفر اللہ خان صاحب کا میرے دل میں بہت احترام ہے لیکن مجھے یہ معلوم بھی ہو جائے کہ وہ کشمیر کی وزارت کی خواہش رکھتے ہیں تو میری رائے ان کی نسبت بدل جائے کیونکہ میں ان کو اس سے بہت بڑے کاموں کا اہل سمجھتا ہوں پس اس وجہ سے اس عہدہ کو ان کی ترقی کا نہیں بلکہ ان کے تنزل کا موجب سمجھوں گا.علاوہ ازیں کشمیر کے وزیر کی تنخواہ غالبا تین ہزار کے قریب ہے لیکن چودھری ظفر اللہ خان صاحب اس وقت بھی چار اور پانچ ہزار کے در میان حکومت ہند سے وصول کر رہے ہیں.پھر کس طرح ہو سکتا ہے کہ زیادہ آمد والے کام سے ہٹا کر میں انہیں ایک تھوڑی تنخواہ والے کام پر لگنے کا مشورہ دوں خصوصاً جبکہ اس میں کوئی مزید ترقی اور مزید عزت کا بھی سوال نہیں.پس جن لوگوں نے یہ اعتراض کیا ہے ان کی عقل ویسی ہی ہے جیسی کہ اس فقیر کی جس نے ایک ڈپٹی کو خوش ہو کر دعادی تھی کہ خدا تعالیٰ تجھے تھانہ دار بنائے.کاش وہ بد ظنی
تاریخ احمدیت جلد ۵ 582 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد به کر کے گنہگار نہ بنتے اور سمجھ سے کام لیتے اور سوچتے کہ عزیزم ظفر اللہ خان صاحب وزارت کشمیر سے زیادہ اہم کام کر رہے ہیں.اور اس سے بہت زیادہ ترقی کے سامان ان کے لئے خدا تعالٰی کے محض فضل سے میسر ہیں.دوسرا اعتراض مجھ پر یہ کیا گیا ہے کہ میں نے کوشش کر کے انگریزوں کو ریاست میں داخل کیا ہے انگریزوں کے داخلہ کا واقعہ بھی اس طرح ہے کہ جب کشمیر میں شورش زیادہ ہوئی اور مجھے یہ آوازیں آنی شروع ہوئیں کہ انگریز کشمیر میں گھس جائیں تو اچھا ہے تو میں نے اپنے ہاتھ سے ایک خط شیخ عبد اللہ صاحب ایم ایس سی لیڈر کشمیر کو لکھا اور رجسٹری کر کے بھیجا.کہ انگریز افسروں کا آنا مفید نہیں مضر ہو گا.اس لئے آپ لوگ اس قسم کا مطالبہ ہر گز نہ کریں.اور یہی خیال میرا شروع سے ہے کیونکہ گو انگریز افسر بالعموم انصاف اور قواعد کی پابندی میں بہت سے ہندوستانیوں سے بڑھ کر ہوتا ہے لیکن انگریز انگریزی حکومت میں ہی مفید ہوتا ہے ریاستوں میں نہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انگریزوں میں بوجہ ان کی اپنے قومی کیریکٹر کے اعلیٰ ہونے کے یہ نقص ہے کہ وہ اپنے ماتحتوں کی بات کو زیادہ مانتے ہیں انگریزی علاقہ میں یہ بات چنداں مضر نہیں ہوتی.کیونکہ یہاں انگریزی طریق ایک عرصہ سے جاری ہے.اور نگرانی اس شدت سے ہوتی ہے کہ دیسی افسروں کو بھی قواعد کی پابندی اور محکمانہ دیانت کی عادت ہو گئی ہے ریاستوں میں یہ بات نہیں ہوتی پس وہاں کے جھوٹ سے جب انگریز کا اعتماد ملتا ہے تو بجائے ملک کو نفع پہنچنے کے نقصان پہنچتا ہے انگریز اسی وقت مفید ہوتے ہیں جب سب نظام انگریزی ہو اس نظام میں ان کی عادات بالکل پیوست ہو جاتی ہیں اور کام اچھا چلنے لگتا ہے پس اس خطرہ کی وجہ سے میرا ہمیشہ یہ خیال ہے کہ انگریزوں کے کشمیر میں چلے جانے پر ہندو افسر زیادہ ظلم کر سکیں گے کیونکہ وہ ظلم کر کے جھوٹی رپورٹ دیں گے اور انگریز افسر کو اگر دھو کہ لگ گیا.اور اس جھوٹ پر اس کے سامنے پردہ پڑ گیا تو حکومت ہند اس انگریز افسر کے مقابلہ میں کسی اور کی بات نہیں سنے گی.کیونکہ وہ سمجھے گی کہ ایک غیر جانبدار آدمی کا بیان زیادہ قابل اعتماد ہے اور اس سے ہمارے کام کو نقصان پہنچے گا یہ میرا خطرہ اب صحیح ثابت ہو رہا ہے چنانچہ مسلمانوں کی آواز حکومت ہند میں پہلی سی موثر نہیں رہی اور آئندہ کامیابی کے لئے ہمیں بہت زیادہ عقل اور بہت زیادہ علم اور آہستگی کی ضرورت ہے.غرض شیخ عبد اللہ صاحب کے نام میرا خط اس امر کا شاہد ہے کہ انگریزوں کے لانے کی مجھے کوئی خواہش نہ تھی.....دوسری بات میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ بعض لوگوں نے مجھ سے سوال کیا ہے کہ میں نے جو یہ اعلان کیا ہے کہ ایک دو ماہ میں کشمیر کے متعلق کوئی ایسا فیصلہ ہو جائے گا جو مسلمانوں کے حق میں مفید ہو گا یہ
تاریخ احمدیت - 583 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ فیصلہ کیا ہے اور کس حد تک مسلمانوں کے لئے مفید ہے میں ان دوستوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے جو علم ہوا ہے وہ پانچ ذرائع سے ہے اور وہ سب ہی مخفی ہیں پس میں تفصیلات نہیں بتا سکتا.ہاں میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ انشاء اللہ مسلمانوں کی حالت پہلے سے اچھی ہو جائے گی باقی سیاسی جدوجہد ایسی ہی ہوتی ہے کہ آج ایک طاقت کو انسان حاصل کرتا ہے کل دو سرا اقدام اٹھاتا ہے اہل کشمیر دوسری ریاستوں سے غیر معمولی طور پر آگے قدم نہیں اٹھا سکتے.ریاستوں کی آزادی ہندوستان کی طرح تدریجی ہوگی.لیکن ہوگی ضرور یہ ناممکن ہے کہ ریاستیں اب بھی پرانی چال پر چلتی جا ئیں زمانہ انہیں مجبور کر رہا ہے اور کرتا چلا جائے گا.پس یہ خیال غلط ہے کہ سب کچھ ایک وقت میں حاصل ہو جائے.جس طرح یہ خیال بھی غلط ہے کہ ریاستیں اپنی پرانی حالت پر قائم رہ سکیں گی.تیسری بات میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ گو آئینی کمیشن کی ترکیب قابل اعتراض ہے اس میں نہ مسلمانوں کی کافی تعداد ہے اور نہ مسلمانوں سے مشورہ کر کے ممبر مقرر کئے گئے ہیں پس یہ تو ہمارا فرض تھا کہ اس کے خلاف پروٹسٹ کریں لیکن پروٹسٹ کرنے کے بعد میرے نزدیک اس کا بائیکاٹ مسلمانوں کے لئے مفید نہیں اس کا نتیجہ یہ ہو گا.کہ مسلمانوں کا پہلو کمزور ہو جائے گا.اصل بات یہ ہے کہ جہاں تک میں سمجھتا ہوں اسمبلی کسی نہ کسی شکل میں دینے کا فیصلہ مہاراجہ صاحب کر چکے ہیں.اب سوال صرف تفصیلات کا ہے پس اگر مسلمان شامل نہ ہوئے تو کام تو رکے گا نہیں صرف نتیجہ یہ ہو گا کہ مسلمانوں کا مشورہ کمزور ہو گا.جو نقصان دہ ہو گا.گو میری رائے تو یہی ہے کہ پروٹسٹ کر کے اس میں مسلمان ممبر حصہ لیں.اور کوشش کریں کہ بہتر سے بہتر صورت اسمبلی کی بن سکے.کیونکہ گو اصول میرے نزدیک پہلے سے طے شدہ ہیں.اور اس پر کمیشن کا کوئی اثر نہیں ہو گا لیکن چھوٹی چھوٹی باتیں بھی اچھی باتوں کو زیادہ اچھا بنا دیتی ہیں یا اور خراب کر دیتی ہیں.پس اس موقعہ سے ضرور فائدہ اٹھانا چاہئے.جب ہم نے پروٹسٹ کر دیا تو دنیا پر یہ ظاہر ہو گیا کہ ہم اس بے انصافی کو نا پسند کرتے ہیں.اس کے بعد ہماری شمولیت قطعا غلط فہمی نہیں پیدا کر سکتی کیونکہ سیاسی امور میں اس قسم کی شمولیت ہوتی ہی رہتی ہے اور لوگ اس کی حقیقت کو خوب سمجھتے ہیں پس جو فائدہ آپ لوگ اس وقت اٹھا سکتے ہیں کمیشن میں شامل ہو کر اٹھا لیں جو نقص رہ جائے گا اسے انشاء اللہ آئندہ درست کرنے کی کوشش ہوتی رہے گی.اور ابھی تو اہل کشمیر کے سامنے اپنی تعلیم اور تربیت کا اس قدر کام ہے جو کئی سال تک ان کی تو جہ کو اپنی طرف لئے رہے گا.چوتھی بات میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ کئی ہزار آدمی علاقہ کھڑی سے مقامی حکام کے ظلموں سے تنگ آکر جہلم میں آگئے ہیں.مجھے ان مصیبت زدوں سے ہمدردی ہے لیکن
تاریخ احمدیت جلد ۵ 584 تحریک آزادی کشمیر ا د ر جماعت احمدیه میرے نزدیک فور انکل آنے کی بجائے بہتر ہو تاکہ پہلے ہم لوگوں کو کوشش کرنے دی جاتی.اب بھی میں ان بھائیوں کو یہی نصیحت کروں گا کہ وہ اس اپنے علاقہ میں چلے جائیں اور ہمیں اپنی بہتری کے لئے کوشش کرنے دیں اگر ہم سے کچھ نہ ہو سکا تو ہم خود ان سے کہہ دیں گے کہ اب آپ لوگوں کے لئے ملک چھوڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے.مگر پوری کوشش کئے بغیر اور حکومت کو اصلاح کا موقع دینے سے پہلے نکلنا زیادہ مفید نتیجہ پیدا نہیں کر سکتا.میں ایک دفعہ پھر برادران ریاست کشمیر کو یقین دلاتا ہوں کہ میں اور آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے دوسرے ممبران کے پورے خیر خواہ ہیں اور انشاء اللہ جہاں تک ان کی طاقت میں ہے.وہ اس کام کو معقول اصول پر جاری رکھیں گے اور نہ میں اور نہ کوئی اور ممبر انشاء اللہ اس قسم کے اعتراضات سے ید دل ہو گا.کیونکہ اگر ہم ایسا کریں تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ ہم میں سچا قو می درد نہیں.ہم انشاء اللہ آپ لوگوں کی تکلیفوں کو دور کرنے میں پوری سعی کریں گے اور کر رہے ہیں.چار تاریخ کو کمیٹی کی طرف سے ایک وفد ہز ایکسی نسی وائسرائے کی خدمت میں کشمیر کے متعلق پیش ہونے والا ہے.وکلاء کے لئے بھی ہم اجازت طلب کر رہے ہیں اور جس حد تک ممکن ہو گا ہم لوگ انشاء اللہ ریلیف کا کام بھی کریں گے.ہاں آپ لوگوں سے ہم یہ خواہش ضرور رکھتے ہیں کہ ہمارے تجربہ سے جہاں تک ہو سکے فائدہ اٹھا ئیں اور ایسے رنگ میں کام کریں کہ غریبوں اور کمزوروں کا نقصان نہ ہو اور ملک تباہ نہ ہو بلکہ ترقی کرے.خاکسار مرزا محمود احمد اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحیم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ حو الناصر مسلمانان ریاست جموں و کشمیر کے نام میرا چھٹا خط (سلسلہ دوم) برادران! میں اپنے پچھلے خط میں لکھ چکا ہوں کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی آپ لوگوں کی تکالیف کے متعلق پوری کوشش کر رہی ہے اور میں نے یہ ذکر بھی کیا تھا کہ ایک وفد چار تاریخ کو جناب وائسرائے صاحب کی خدمت میں پیش ہونے والا ہے جو آپ لوگوں کی تکالیف کے متعلق آپ سے تفصیلی گفتگو
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 585 تحریک آزادی کشمیر ا د ر جماعت احمدیہ کرے گا.یہ وفد چار تاریخ کو پیش ہوا.اور اس کے ممبر مندرجہ ذیل اصحاب تھے.(1) نواب عبد الحفیظ صاحب ڈھاکہ (۲) خواجہ حسن نظامی صاحب (۳) مولانا شفیع داؤدی صاحب (۴) نواب صاحب کنچپوره (۵) سید مسعود احمد شاہ صاحب بہار (۶) اے.ایچ غزنوی صاحب بنگال (۷) سید محسن شاہ صاحب (۸) خان بہادر رحیم بخش صاحب (۹) ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب لاہور (۱۰) سید حبیب صاحب (۱) ڈاکٹر شفاعت احمد صاحب یو - پی (۱۲) شیخ فضل حق صاحب بھیرہ (۱۳) کپتان شیر محمد صاحب دو میلی (۱۴) چودھری ظفر اللہ خان صاحب (۱۵) مولوی عبد الرحیم صاحب درد.ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کسی مجبوری کی وجہ سے وفد میں شامل نہ ہو سکے.وفد نے جو ایڈریس حضور وائسرائے کی خدمت میں پیش کیا اس کا خلاصہ حسب ذیل ہے.کشمیر کی ریاست میں ایک لیے عرصہ سے عملاً ہندوؤں کو ہی حکومت میں حصہ دیا جاتا ہے مسلمان بہت کم اور النادر کالمعدوم کی حیثیت میں ہیں.حالانکہ ان کی آبادی ستانوے فی صدی ہے نتیجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو انتظامی اور قانونی دونوں شکنجوں میں اس طرح کس دیا گیا ہے کہ وہ ترقی نہیں کر سکتے.ایک لمبے عرصہ تک صبر کرنے کے بعد اب مسلمانوں میں بیداری پیدا ہوئی ہے اور انہوں نے بالکل جائز طور پر اپنے حقوق کا مطالبہ شروع کیا ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ حکومت ہند اس بارہ میں ان کی امداد کرے گی.اسی غرض کے پورا کرنے کے لئے جو کمیشن مقرر کیا گیا ہے.ہمیں افسوس ہے کہ اس میں مسلمانوں کی نہ تو صحیح نمائندگی ہے اور نہ کافی نمائندگی ہے.اس کا تدارک ہونا چاہئے.مگر صرف اسی قدر اصلاح سے کام نہیں چلے گا چاہئے کہ کشمیر کے مسلم لیڈروں کو آزاد کر کے اس مشورہ میں شریک کیا جائے اور دوسرے سیاسی قیدیوں کو بھی رہا کر کے فضاء صاف کی جائے.موجودہ فسادات میں جو مقدمات چلائے جا رہے ہیں اس پر مسلمانوں میں بے چینی ہے ریاست کے افسر جن پر خود الزام ہے آزاد تحقیقات نہیں کر سکتے.اس لئے ریاست کے باہر سے قابل اعتماد حج بلہ اکر مقدمات ان کے سامنے پیش کرنے چاہئیں.ہمیں مختلف ذرائع سے رپورٹیں ملی ہیں کہ بعض حکام نے سخت مظالم کئے ہیں اور فسادات کو اپنے بغض نکالنے کا ذریعہ بنالیا ہے اور اس کا ایک نتیجہ یہ ہوا ہے کہ کھڑی کے علاقہ سے ہزاروں آدمی نکل کر انگریزی علاقہ میں چلے آئے ہیں اس کا علاج ہونا چاہئے.جس کے لئے ہم یہ تجویز کرتے ہیں کہ فور اوہاں سے ان افسروں کو جن کے خلاف مسلمانوں کو شکایت ہے تبدیل کر دیا جائے اور ایک آزاد تحقیقات ان کے افعال کے متعلق کرائی جائے اس بارہ میں خصوصیت سے کشمیر کوٹلی ، راجوری اور
تاریخ احمدیت جلد ۵ 586 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ تحصیل مینڈر پونچھ کے افسر قابل ذکر ہیں.ہم درخواست کرتے ہیں کہ کشمیر میں ہمیشہ سردیوں میں مسلمان گور نر اور مسلمان یا انگریز افسر پولیس رہنا چاہئے.مہاراجہ صاحب کی وزارت میں کم سے کم دو مسلمان وزراء جن پر مسلمانوں کو اعتبار ہو.ہونے چاہئیں.مسلمان موجودہ مسلمان وزیر کے خلاف سخت مشتعل ہیں کیونکہ وہ ہرگز مسلمانوں کے فوائد کی حفاظت نہیں کر سکتے.موجودہ فسادات کے متعلق جو مقدمات ہیں ان میں سے باہر سے مسلمان وکیلوں کو پیش ہونے کی اجازت ہونی چاہئے اور ان سے بائیں روپیہ کی خاص نہیں نہیں لینی چاہئے.اس بارہ میں چیف جسٹس صاحب کشمیر نے سفارش کی ہے اور حکومت ہند کی سفارش مزید سہولت پیدا کر سکتی ہے.کشمیر میں قیدیوں کے ساتھ سلوک اچھا نہیں ہوتا اس کی اصلاح کی جائے اور آئندہ کے لئے ہر قوم میں سے کچھ معتمد علیہ غیر سرکاری آدمی مقرر کئے جائیں.جو جیل خانوں کا معائنہ کیا کریں.تاکہ اگر کوئی ظلم ہو رہا ہو تو اس کا علم ہو جائے.ہم یہ درخواست کرتے ہیں کہ آزاد تحقیقات جیل خانوں کے انتظام کے متعلق کر دائی جائے اور قانون جیل خانہ کی بھی اصلاح کی جائے اور خوراک وغیرہ کا انتظام بھی بہتر کیا جائے.یہ ایڈریس چار تاریخ کو حضور وائسرائے کے پیش ہوا اور تمام ممبران کے اتفاق سے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب گفتگو کے لئے مقرر ہوئے ایک گھنٹہ تک وائسرائے صاحب سے جن کے ساتھ وزیر ریاست اور پرائیویٹ سیکرٹری بھی تھے گفتگو ہوئی.اور علاوہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے مناسب موقعوں پر دوسرے ممبران وفد نے بھی حضور وائسرائے کو مسلمانوں کی تکالیف اور صورت حالات سے آگاہ کیا.میرے پاس گفتگو کی تفصیلات آچکی ہیں لیکن چونکہ ایسی گفتگو پرائیویٹ سمجھی جاتی ہے میں اسے شائع نہیں کر سکتا.مگر اس قدر بتا دینا چاہتا ہوں کہ سب گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ حکومت ہند اور ریاست دونوں اس امر پر متفق ہیں کہ اصلاح کی کافی گنجائش ہے اور دونوں آمادہ ہیں کہ اصلاح کی جائے تجاویز پر غور ہو رہا ہے اور امید ہے کہ جلد ترتیب وار مختلف تکالیف کا ازالہ شروع ہو جائے گا.پس ان حالات میں میں یہ دو نصیحتیں کروں گا.اول یہ کہ جس جس جگہ کوئی غیر آئینی کار روائی ہو رہی ہو اسے ترک کر دینا چاہئے.تاکہ اس پروگرام کے پورا کرنے میں روک پیدا نہ ہو.دوسرے یہ کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم آئینی جدو جہد چھوڑ دیں آئینی کوششوں کو یہ سہولت اور پرامن ذرائع سے برابر جاری رکھنا چاہئے.یہاں تک کہ شیخ محمد عبد اللہ صاحب قاضی گوہر رحمن صاحب مفتی جلال
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 587 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ الدین صاحب اور دو سرے قومی لیڈر اور قومی کارکن آزاد ہو کر ملک کی رہنمائی کر سکیں.جن لوگوں نے خود تکلیف اٹھا کر اپنی قوم کو بیدار کیا ہے خواہ وہ قید میں ہیں یا آزاد ہم ان کی قربانیوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے.ایک خوشخبری میں اور دیتا ہوں کہ اس وقت سب سے زیادہ تکلیف لوگوں کو مقدمات کی تھی کیونکہ باہر سے وکیل آنے کی اجازت نہ تھی.اور ریاستی وکلاء میں مسلمان بہت کم تھے اور ان میں سے تجربہ کار اور بھی کم تھے.میں نے چوہدری اسد اللہ خان صاحب بیرسٹر برادر خورد چوہدری ظفر اللہ خان صاحب بیرسٹر کو اس کام کے لئے جموں بھجوایا تھا.جنہوں نے آنریبل مسٹر دلال چیف جسٹس ریاست جموں و کشمیر سے گفتگو کی اور چیف جسٹس صاحب نے اجازت کی ضرورت کو تسلیم کر کے حکومت کے پاس اس قید کے اڑانے کی سفارش کی مہاراجہ صاحب نے عنایت فرما کر پہلے قانون میں تبدیلی کر دی ہے اور اب چیف جسٹس صاحب کی اجازت سے باہر کے وکلاء بغیر کسی خاص فیس ادا کرنے کے مقدمات میں پیش ہو سکیں گے اس سے امید ہے کہ وہ بے اطمینانی جو پیدا ہو رہی تھی دور ہو جائے گی.اور لوگوں کو ان الزامات کے دور کرنے کا کافی موقع مل جائے گا.جو بعض متعصب افسروں نے بلا وجہ ان پر لگا دیئے ہیں اور میں یقین دلاتا ہوں کہ اس غرض کے لئے قومی درد رکھنے والے وکلاء انشاء اللہ میسر آجائیں گے.میں امید کرتا ہوں کہ جلد بعض دوسری تکالیف کا بھی ازالہ ہو جائے گا.اور آپ لوگوں کو آرام کا سانس لینا میسر ہو گا.خدا کرے کہ میری یہ امید ٹھیک ہو.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر مسلمانان ریاست جموں و کشمیر کے نام میرا ساتواں خط (سلسلہ دوم)
تاریخ احمدیت جلد ۵ 588 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد سید برادران ! میں اپنے گزشتہ خطوں میں لکھ چکا ہوں کہ عنقریب اللہ تعالٰی کے فضل سے آپ کے مطالبات کا ایک حصہ پورا ہونے والا ہے.چنانچہ اس وقت تک آپ لوگوں کو کلینسی کمیشن کی رپورٹ کا خلاصہ معلوم ہو چکا ہو گا.اس رپورٹ کے متعلق میں تفصیلاً لکھنا مناسب نہیں سمجھتا، کیونکہ گو مجھے اس کے مضمون سے پہلے سے آگاہی تھی بلکہ اس کے لکھے جانے سے بھی پہلے مجھے اس کے بعض مطالب سے آگاہی تھی.لیکن پھر بھی اس کی مطبوعہ شکل میں چونکہ میں نے اسے پوری طرح نہیں پڑھا اور آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے خاص اجلاس میں بھی اس پر غور نہیں ہوا.اس لئے اس پر تفصیلی رائے کا اظہار کرنا ابھی مناسب نہیں ہاں میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ گو یہ رپورٹ میری خواہشات کو کلی طور پر پورا کرنے والی نہیں لیکن پھر بھی اس میں کافی مواد ایسا موجود ہے جس پر مسلمانوں کو بھی خوش ہونا چاہیئے اور مہاراجہ صاحب بہادر کو بھی.کیونکہ انہوں نے اپنی رعایا کے حقوق کی طرف توجہ کر کے اپنی نیک نفسی کا ثبوت دیا ہے اس طرح اس رپورٹ کے لکھنے پر مسٹر کلینسی بھی خاص مبارکباد کے مستحق ہیں.اور ان کے ساتھ کام کرنے والے نمائندے بھی کہ انہوں نے رعایا کے حقوق ادا کرنے کی سفارشات کی ہیں خواہ وہ مسلمانوں کے مرض کا پورا علاج نہ بھی ہوں میں خصوصیت سے اپنے باہمت نوجوان چوہدری غلام عباس صاحب اور دیرینہ قومی کارکن خواجہ غلام احمد صاحب اشائی کو شکریہ کا مستحق سمجھتا ہوں کہ انہوں نے نہایت محنت اور تکلیف برداشت کر کے مسلمانوں کے نقطہ نگاہ کو پیش کرنے کی کوشش کی چودھری غلام عباس صاحب نے اس نیک کام میں اپنوں اور بیگانوں سے جو برا بھلا سنا ہے میں امید کرتا ہوں کہ ان کے دل پر اس کا کوئی اثر نہیں رہے گا.کیونکہ انہوں نے خلوص سے قومی خدمت کی ہے اور یقینا اللہ تعالی ان کی قربانی کو ضائع نہیں کرے گا.اگر موجودہ نسل ان کی قربانی کی داد نہ بھی دے تو بھی آئندہ نسلیں انہیں ضرور دعاؤں سے یاد کریں گی.انشاء اللہ تعالٰی میں امید کرتا ہوں که دوسری کلینسی رپورٹ ایک نیا دروازہ سیاسی میدان کا مسلمانوں کے لئے کھول دے گی.اور گودہ بھی یقینا مسلمانوں کی پوری طور پر دادرسی کرنے والی نہ ہوگی لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بھی ان کی زندگی کے نقطہ نگاہ کو بدلنے والی اور آئندہ منزل کی طرف ایک صحیح قدم ہاں مگر ایک چھوٹا قدم ہو گی.میں اس وقت نہ تو یہ کہتا ہوں کہ ہمیں ان رپورٹوں پر افسوس کرنا چاہئے کیونکہ ان میں یقیناً اچھے امور ہیں اور ایسی باتیں ہیں کہ اگر انہیں صحیح طور پر استعمال کیا جائے.تو یقیناً مسلمان آزادی حاصل کرنے کے قریب ہو جائیں گے اور نہ ہی یہ کہتا ہوں کہ ہمیں خوش ہونا چاہئے.کیونکہ ابھی ہمارا بہت سا کام پڑا ہے.اور اسے پورا کئے بغیر ہم دم نہیں لے سکتے نیز ہمیں یہ بھی یادرکھنا چاہئے کہ صرف قانون
تاریخ احمدیت جلد ۵ 589 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ سے ہم خوش نہیں ہو سکتے کیونکہ قانون کا غلط استعمال اچھے قانون کو بھی خراب کر دیتا ہے پس دیکھنا یہ ہے کہ ان فیصلہ جات پر مہاراجہ صاحب کی حکومت عمل کس طرح کرتی ہے ہمیں امید ہے کہ اب جبکہ انگریز وزراء آگئے ہیں اور انہوں نے ایک حد تک حقیقت کو بھی سمجھ لیا ہے پہلے کی نسبت اچھی طرح ان اصلاحات پر عمل ہو گا.لیکن غیب کا علم اللہ تعالٰی کو ہی ہے اس لئے جب کہ ہم اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہیں.ساتھ ہی ہم اس سے عاجزانہ طور پر دعا بھی کرتے ہیں کہ وہ ان رپورٹوں کے اچھے حصوں کو نافذ کرنے کی وزراء اور حکام کو مناسب توفیق بخشے.اللهم امين مجھے یقین ہے کہ اگر مجھے صحیح طور پر اس تحریک کی رہنمائی کا موقع ملا اور بعض امور ایسے پیدا نہ ہو جاتے کہ تفرقہ اور شقاق پیدا ہو جاتا تو نتائج اس سے بھی شاندار ہوتے لیکن اللہ تعالی کی مشیت کے آگے کوئی چارہ نہیں اور پھر ہم کہہ بھی کیا سکتے ہیں شاید جو کچھ ہوا اس میں ہمارا نفع ہو کیونکہ علم غیب تو اللہ تعالی کو ہی ہے.مجھے سب سے زیادہ خوشی اس امر کی ہے کہ زمینوں کی ملکیت ریاست سے لے کر زمینداروں کو دے دی گئی ہے اگر سوچا جائے تو یہ کروڑوں روپیہ کا فائدہ ہے اور گو بظا ہر یہ صرف ایک اصطلاحی تغیر معلوم ہوتا ہے لیکن چند دنوں کے بعد اس کے عظیم الشان نتائج کو لوگ محسوس کریں گے اور یہ امر کشمیر کی آزادی کی پہلی بنیاد ہے.اور اس کی وجہ سے اہل کشمیر پر زندگی کا ایک نیا دور شروع ہو گا مجھے اس تغیر پر دوہری خوشی ہے کیونکہ اس مطالبہ کا خیال سب سے پہلے میں نے پیدا کیا تھا.اور زور دے کر اس کی اہمیت کو منوایا تھا بعض لوگوں کا یہ خیال تھا کہ یہ مطالبہ مانا نہیں جاسکتا.مگر اللہ تعالٰی کا محض فضل ہے کہ آخر یہ مطالبہ تسلیم کر لیا گیا.اسی طرح پریس کی آزادی کے متعلق جدید قوانین کا وعدہ بھی ایک بہت بڑی کامیابی ہے شاملاتوں کی ناواجب تقسیم کا انسداد اخروٹ کا درخت کاٹنے کی مکمل اور چنار کا مشروط آزادی لکڑی کے مبیا کرنے کے لئے سہولتیں بعض علاقوں میں کاہ چرائی کا ٹیکس معاف ہونا.تعلیم اور ملازمتوں میں سہولتیں ، ہانجیوں کی مشکلات کا ازالہ اور ایسے ہی بہت سے امور ہیں کہ جن میں اصلاح ایک نہایت خوشکن امر ہے اور انشاء اللہ اس سے ریاست کشمیر کی رعایا کو بہت فائدہ پہنچے گا.بعض باتیں ابھی باقی ہیں.جیسے وزارت کے متعلق فیصلہ.انجمنوں اور تقریر کی آزادی - مالیہ کو صحیح اصول پر لانا.آرڈی نینسوں کو اڑانا.اور قیدیوں کی عام آزادی کا اعلان.مسلمان ہونے والوں کی جائیدادوں کی ضبطی جن کے متعلق فیصلہ یا نہیں ہوایا ناقص ہوا ہے یا بالکل خلاف ہوا ہے.مجھے ان کا خیال ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ آخر ان امور میں بھی انشاء اللہ ہمیں کامیابی حاصل ہوگی.
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 590 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ قیدیوں کی آزادی کو سیاسی حقوق سے تعلق نہیں رکھتی.لیکن ہر قوم جو زندہ رہنا چاہتی ہو اس کا فرض ہے کہ اپنے لیڈروں اور کارکنوں سے وفاداری کا معالمہ کرے اور اگر قومی کارکن قید رہیں اور لوگ تسلی سے بیٹھ جائیں تو یہ امر یقینا خطرناک قسم کی بے وفائی ہو گا.مسلمانان جموں و کشمیر کو یاد رکھنا چاہئے.کہ گو وہ بہت سے فلموں کے تلے دبے چلے آتے ہیں.لیکن پھر بھی ان کی حالت تیموں والی نہ تھی.کیونکہ جب تک ان کے لئے جان دینے والے لوگ موجود تھے، یتیم نہ تھے لیکن اگر وہ آرام ملنے پر اپنے قومی کارکنوں کو بھول جائیں گے تو یقینا آئندہ کسی کو ان کے لئے تربانی کرنے کی جرات نہ ہوگی.اور اس وقت وہ یقینا یتیم ہو جائیں گے پس انہیں اس نکتہ کو یا درکھنا چاہئے اور ملک کی خاطر قربانی کرنے والوں کے آرام کو اپنے آرام پر مقدم رکھنا چاہئے.پس ان کا یہ فرض ہے کہ جب تک مسٹر عبداللہ صاحب قاضی گوہر الرحمن صاحب اور ان کے ساتھی آزاد نہ ہوں.وہ چین سے نہ بیٹھیں اور میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ اس کام میں میں ان کی ہر ممکن امداد کروں گا اور اب بھی اس غرض کے پورا کرنے کے لئے کوشش کر رہا ہوں مشکلات ہیں لیکن مسلمان کو مشکلات سے نہیں ڈرنا چاہئے.یہ بھی یاد رہے کہ بعض....آئندہ اصلاحات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں اہل کشمیر اگر اس فریب میں آگئے اور آئندہ کو نسلوں میں مسٹر عبد اللہ کے دشمن اور قومی تحریک کے مخالف ممبر ہو گئے تو سب محنت اکارت جائے گی اور مسٹر عبد اللہ اور دوسرے قومی کارکنوں کی سخت ہتک ہو گی پس اس امر کے لئے آپ لوگ تیار رہیں کہ اگر خدانخواستہ قومی کارکنوں کو جلدی آزادی نہ ملی.اور ان کی آزادی سے پہلے اسمبلی کے انتخابات ہوئے (گو مجھے امید نہیں کہ ایسا ہو) تو ان کا فرض ہونا چاہئے کہ کے مقابلہ میں قومی کام سے ہمدردی رکھنے والوں کو امید وار کر کے کھڑا کر دیں.اور یہ نہ کریں کہ کانگریس کی نقل میں بائیکاٹ کا سوال اٹھا دیں.بائیکاٹ سے کچھ فائدہ نہ ہو گا.کیونکہ آخر کوئی نہ کوئی ممبر تو ہو ہی جائے گا.اور قومی خیر خواہوں کی جگہ قومی غداروں کو ممبر بننے کا موقعہ دینا ہرگز عظمندی نہ کہلائے گا پس گو یہ ایک بہت طول امل ہے کہ قومی کارکنوں کی آزادی سے پہلے اسمبلی کا انتخاب ہو.لیکن چونکہ بعض قومی غدار اندر ہی اندر اس کی تیاریاں کر رہے ہیں اہل جموں و کشمیر کو ہوشیار کر دینا چاہتا ہوں اور ساتھ ہی خواجہ سعد الدین صاحب شال خواجہ غلام احمد صاحب اشاعی اور وسرے کارکنوں کو جن کی گزشتہ قومی خدمات کا انکار نہیں ہو سکتا.توجہ دلاتا ہوں کہ اب وقت ہے کہ وہ قومی تحریکات کو مضبوط کرنے کے لئے اختلاف چھوڑ دیں.میں ہمیشہ ان کا خیر خواہ رہا ہوں اور چاہتا ہوں کہ ان کی گزشتہ خدمات قومی تحسین کا انعام حاصل کئے بغیر نہ رہیں.پس میں ان سے اور ان کے دوستوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ قومی کارکنوں کی خدمت میں آکر شامل ہو جا ئیں.اور یقین رو
تاریخ احمدیت جلد ۵ 591 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ رکھیں کہ اس طریق کو اختیار کر کے انہیں ذلت نہیں بلکہ عزت حاصل ہوگی.ایک دو اور باتیں ہیں جن کا ذکر کر کے میں اس خط کو ختم کرنا چاہتا ہوں.اول یہ کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ گو اصلاحات کا اعلان ہو گیا ہے لیکن ظلم تو ابھی تک جاری ہے اس شبہ کے متعلق میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ دوڑتے ہوئے گھوڑے کو یکدم نہیں روکا جا سکتا.طوفان بھی بیٹھتے ہوئے کچھ وقت لیتا ہے پس ظلم کو جاری ہے لیکن ایسے سامان ہو رہے ہیں کہ انشاء اللہ ظلموں کا بھی انسداد ہو جائے گا.میں ابھی تفصیل نہیں بیان کرنا چاہتا لیکن یہ میں یقین دلاتا ہوں کہ اگر میرے مشورہ پر عمل کرتے ہوئے عقل سے کام لیا گیا.تو تھوڑے سے عرصہ میں ظلم کے روکے جانے کے بھی سامان ہو جا ئیں گے.انشاء اللہ تعالٰی.دوسری بات میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ وکلاء کے متعلق جو اعلان میں نے کیا تھا اس میں بعض غلط فہمیوں سے کچھ الجھن پیدا ہو گئی ہے لیکن میں اس کے لئے کوشش کر رہا ہوں.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہتری کی توقع رکھتا ہوں اور اگر لوگوں کو پوری طرح ڈیفنس کا موقع نہ دیا گیا تو میں انشاء اللہ اور ایسی تدابیر اختیار کروں گا کہ جن سے لوگوں کے اس اہم حق کی طرف حکومت کو توجہ ہو.تیسری بات میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ میں نے جو سیاہ نشان لگانے کا اعلان کیا تھا اس کے متعلق مجھے سرینگر سے شکایات موصول ہوئی تھیں کہ سیاہ نشان لگانے کو جرم قرار دیا گیا ہے اور اس نشان کے لگانے کے سبب سے بعض لوگوں کو گرفتار کر کے ان پر مقدمہ چلایا گیا ہے.میں نے اس کے متعلق حکومت کشمیر سے خط و کتابت کی ہے اور جو جواب وزیر اعظم کی طرف سے آیا ہے اس سے معلوم ہو تا ہے کہ اس بارہ میں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے.کیونکہ ان کے جواب میں اس امر سے قطعاً انکار کیا گیا ہے.اور لکھا ہے کہ نہ کسی شخص کو سیاہ نشان لگانے پر سزادی گئی ہے اور نہ مقدمہ ہی چلایا گیا ہے.اگر یہ بیان درست ہے تو مجھے تعجب ہے کہ رپورٹ دینے والوں کو اتنا بڑا مغالطہ کیونکر لگ گیا.بہر حال یہ سوال حل ہو گیا ہے کہ سیاہ نشان لگانے کو ریاست کشمیر میں جرم نہیں قرار دیا گیا.میں اس خواہش کے اظہار پر اس خط کو ختم کرتا ہوں کہ اللہ تعالٰی مجھے اس موسم گرما میں توفیق دے کہ خواہ چند دن کے لئے ہو کشمیر آکر خود صورت حالات کا معائنہ کر سکوں اور اس ملک کے مرض کو بذات خود دیکھ کر اس کے علاج کی پہلے سے زیادہ تدبیر کرنے کی توفیق پاؤں- و ما توفیقی الا بالله.واخر دعونا ان الحمد لله رب العلمين خاکسار مرزا محمود احمد صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی
تاریخ احمدیت جلد ۵ 592 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحیم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر برادران ریاست جموں و کشمیر کے نام میرا آٹھواں خط (سلسلہ دوم) برادران السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ میں سب سے پہلے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے گلینسی کمیشن کی رپورٹ کو کلی طور پر تسلیم نہیں کیا نہ ارتداد کے مسئلہ پر خاموشی کی ہے.نہ جد و جہد بند کرنے کا مشورہ دیا ہے.میرے خط پر ایک نگاہ ڈالنے سے ثابت ہو سکتا ہے کہ میں کلینسی رپورٹ کو ناقص سمجھتا ہوں ارتداد کے مسئلہ کو اہم اور آئندہ جدوجہد کو ضروری بلکہ میرا یہ عقیدہ ہے کہ خود مختار حکومتوں میں بھی آزادی کی جدوجہد کا جاری رہنا ضروری ہوتا ہے جس دن یہ جد و جہد بند ہو اسی دن سے غلامی کی روح قوم میں داخل ہونے لگتی ہے اور بظاہر آزاد نظر آنے والی قوم باطن میں غلامی کی زنجیروں میں جکڑی جاتی ہے.میں نے جو کچھ لکھا ہے یہ ہے کہ کلنسی رپورٹ میں بہت سے امور مسلمانوں کے فائدے کے ہیں اگر مسلمان ان سے فائدہ اٹھا ئیں تو بہت بڑا فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور یہ کہ ارتداد کے مسئلہ کے متعلق اور دو سرے امور کے متعلق جو ناقص ہیں.ہم جدوجہد جاری رکھیں گے لیکن جو اچھا کام کلنسی کمیشن نے کیا ہے اس کے بارہ میں شکریہ ادا کرنا چاہئے اور اس کے ذریعہ سے جو طاقت ہمیں حاصل ہوئی ہے اس سے کام لے کر ترقی کی نئی راہیں نکالنی چاہئیں اور جدوجہد کو کامیاب بنانے کے لئے حالات کے مطابق اس کی صورت بدل دینی چاہئے.میں نے جو کچھ لکھا اس پر اب تک قائم ہوں میرے نزدیک کشمیر کے لوگوں کا اس میں فائدہ ہے.میں نے یہ کام لوگوں کی خوشنودی کے لئے نہیں کیا تھا کہ ان کے اعتراض سے ڈر جاؤں.میں نے بلا غرض یہ کام کیا ہے اور بلا غرض ہی اسے جاری رکھنا چاہتا ہوں.اگر میں لوگوں کے اعتراض سے ڈر کر اس بات کو چھوڑ دوں جو میرے نزدیک حق ہے تو میں یقیناً خود غرض ہوں گا.اور میرا سب پہلا کام برباد ہو جائے گا.وائسرائے صاحب کو خوش کرنا یا مہاراجہ صاحب کو خوش کرنا کوئی بری بات نہیں.میں مہاراجہ
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 593 تحریک آزادی سمیر اور جماعت احمدیہ صاحب سے کبھی نہیں ملا اور نہ اس وقت تک خواہش ہے جب تک کہ وہ مسلمانوں کے حقوق کے متعلق دباؤ سے نہیں بلکہ دلی رغبت سے غور کرنے کو تیار نہیں.سر ہری کشن کول صاحب نے مجھے متواتر مہاراجہ صاحب سے ملنے کی دعوت دی لیکن میں نے نہیں مانا اور یہی اصرار کیا کہ مہاراجہ صاحب مسلمانوں کے حقوق کے متعلق میرے ساتھ گفتگو کرنا چاہیں تو مل سکتا ہوں ورنہ نہیں.یہ خط و کتابت میرے پاس محفوظ ہے.ان کی خوشنودی کی اس حد تک مجھے ضرورت ہے جس حد تک ہر انسان کی کیونکہ میں سب انسانوں کو اپنا بھائی سمجھتا ہوں اور کسی بھائی سے لڑنا پسند نہیں کرتا.باقی مجھے ان سے کوئی غرض نہیں.کیونکہ خاندانی لحاظ سے میں ایک ایسے شاہی خاندان سے تعلق رکھتا ہوں کہ جس نے ایک ہزار سال تک دنیا کی تاریخ کو اپنے قبضہ میں رکھا ہے.اور وجاہت کے لحاظ سے میں سمجھتا ہوں کہ جس قدر جان فدا کرنے والے لوگ میرے ماتحت ہیں ان کا ہزارواں حصہ بھی مہاراجہ صاحب کو حاصل نہیں.پس مہاراجہ صاحب تو کسی وقت میری مدد کے محتاج ہو سکتے ہیں.میں ان کی مدد کا محتاج خداتعالی کے فضل سے نہیں اور نہ انشاء اللہ ہوں گا.یہ تو حکومت کے متعلق ہے.اب میں اہل کشمیر کو لیتا ہوں.میں اپنے ان بھائیوں سے بھی صاف کہہ دینا چاہتا ہوں.میرا ان سے تعلق اخلاقی ہے.جب تک وہ مظلوم ہیں میں اپنا پورا زور ان کی تائید میں خرچ کروں گا.لیکن اگر انہوں نے ایسا راہ اختیار کیا جو ا خلا قا درست نہ ہو گا.تو میں اس وقت یقینا اس کی تائید کروں گا.کہ جو حق پر ہو گا اور انہیں غلطی سے روکوں گا.میں نے جو کچھ کام کیا ہے وہ ان کے لئے نہیں اپنے موٹی کے لئے کیا ہے.پس میرا ان پر احسان نہیں.نہ میں ان سے کسی شکریہ کا طالب ہوں ہاں میں انہیں کے فائدہ کے لئے انہیں نصیحت کرتا ہوں کہ انسان کو ہر اچھی چیز کی خوبی تسلیم کرنی چاہئے.گلنسی کمیشن کی رپورٹ یقیناً بہت سی خوبیاں رکھتی ہے.اس میں یقینا مسلمانوں کی بھلائی کا بہت سا سامان موجود ہے.اس کے متعلق یہ کہنا کہ اس سے ہماری حالت پہلے سے بد تر ہو جائے گی درست نہیں.اگر یہ درست ہے تو کیا یہ لوگ اس امر کا اعلان کرنے کو تیار ہیں کہ اس کمیشن کی سفارشات کو واپس لے لیا جائے.....ایک ضروری بات میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کی کامیابی کو دیکھ کر ہندوؤں نے بھی ایجی ٹیشن شروع کیا ہے اور وہ نہیں چاہتے کہ مسلمانوں کو جو تھوڑے بہت حقوق ملے ہیں وہ بھی انہیں حاصل رہیں.اگر اس موقعہ پر مسلمانوں نے غفلت سے کام لیا تو ہند و یقینا اپنا مدعا حاصل کرلیں گے.پس اس وقت ضرورت ہے کہ مسٹر عبد اللہ کی عدم موجودگی میں ایک انجمن مسلمانوں کے سیاسی حقوق کی حفاظت میں بنائی جائے.اور وہ انجمن اپنی رائے سے حکومت کو اطلاع دیتی رہے.ینگ مین مسلم ایسوسی ایشن کے اصول پر اگر ایک انجمن تیار ہو تو یقینا اس کے ذریعہ سے بہت سا کام کیا جا سکتا ہے.یہ مت خیال کریں کہ بغیر
تاریخ احمدیت جلده 594 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد یہ اجازت کے انجمن نہیں بن سکتی.انجمنوں کی ممانعت کا کوئی قانون دنیا کی کوئی حکومت نہیں بنا سکتی.آخر ہندو انجمنیں بنا رہے ہیں آپ کی انجمن خفیہ نہ ہوگی نہ باغیانہ پھر حکومت اس بارہ میں کس طرح دخل دے گی.میں امید کرتا ہوں کہ نوجوان فورا اس طرف قدم اٹھا ئیں گے.اور اس ضرورت کو پورا کریں گے.ورنہ سخت نقصان کا خطرہ ہے اور بعد میں پچھتائے کچھ نہ ہو گا.ایک ضروری امر جس کی طرف میں توجہ دلانا چاہتا ہوں یہ ہے کہ جب تک خود اہل کشمیر اپنے آپ کو منتظم نہ کریں گے کچھ کام نہیں ہو گا.باہر کے لوگ کبھی کسی نظام کو سنبھال نہیں سکتے.پس ضرورت ہے ایسے دانیٹروں کی جو اپنی خدمات کو قومی کاموں کے لئے وقف کرنے کے لئے تیار ہوں.ایسے لوگ اگر ایک ایک دو دو درجن بھی ہر شہر اور قصبہ میں مل جائیں تو ہندو ایجی ٹیشن کو بے اثر بنایا جا سکتا ہے.مجھے بعض لوگوں نے لکھا ہے کہ حکومت مسٹر عبد اللہ کی قید کو لمبا کرنے کی فکر میں ہے.اس میں کیا شک ہے کہ ہندو اس بارہ میں پورا زور لگا ئیں گے.لیکن میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ جہاں بعض حلقوں میں یہ خیال زیر غور ہے وہاں بعض حلقوں میں سیاسی قیدی چھوڑ کر اچھی فضا پیدا کرنے کا خیال بھی پیدا ہو رہا ہے.اور کیا تعجب ہے کہ دوسری تحریک پہلی پر غالب آجائے.پس ہمارا فرض یہی ہے کہ ہم ہوشیاری سے سب حالات کو دیکھیں.اور جس رنگ میں ہمارا فائدہ نظر آتا ہو اس کے مطابق کام اور میں ہمارا فائدہ نظر آتا اس کریں.بعض لوگوں کو وزارت کے متعلق بھی شکایات ہیں.میں اس کے متعلق بھی آپ لوگوں کو یقین دلاتا ہوں کہ اس کی اصلاح کے متعلق بھی ہم کوشش کر رہے ہیں اور میں آپ لوگوں کو یقین دلاتا ہوں کہ جب تک ایک کام کرنے والی وزارت مقرر نہ ہوگی.ہم انشاء اللہ صبر نہیں کریں گے.اور ایسے آثار ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ انشاء اللہ اس امر میں ہمیں کامیابی ہوگی.میں نے گزشتہ خط میں لکھا تھا کہ میں کشمیر آنے کا ارادہ رکھتا ہوں.بعض دوستوں کو اس سے غلط فہمی ہوئی ہے میں قریب زمانہ میں وہاں آنے کا ارادہ نہیں رکھتا بلکہ میرا ارادہ یہی ہے کہ جب اللہ تعالٰی ہمارے قیدی بھائیوں کو آزاد کرے تو آئندہ تنظیم کے پروگرام پر مشورہ کرنے کے لئے وہاں آؤں.ما کہ جو فوائد گزشتہ سیاسی جنگ میں ہم نے حاصل کئے ہیں.ان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جاسکے.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو.والسلام - خاکسار مرزا محمود أحمد صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی ۲۷/۵/۳۲
تاریخ احمدیت جلد ۵ 595 تحریک آزادی کشمیر ا د ر جماعت احمدیه بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم جس مسلم کو یہ مضمون پہنچے وہ دوسرے مسلمان بھائیوں کو بھی ضرور پہنچا دے.حقیقت حال اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحیم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ حو الناصر میں نے ایک عرصہ سے اہل جموں و کشمیر کے نام اپنے خطوط کا سلسلہ بند کیا ہوا تھا اور یہ اس وجہ سے نہ تھا کہ مجھے اہل کشمیر سے ہمدردی نہ رہی تھی بلکہ اس کی وجوہ اور تھیں اور میرا ان وجوہ کی بناء پر خیال تھا کہ میری طرف سے سلسلہ خطوط کا جاری رہنا لیڈران کشمیر کے لئے مشکلات پیدا کرے گا.پس خود اہل کشمیر کے فائدہ کے لئے میں خاموش رہا...اس کے بعد میں دوستوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں صدارت سے علیحدہ ہو کر امداد سے غافل نہیں رہا اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر میں پس پردہ کوشش نہ کرتا رہتا.تو یقیناً موجودہ حالت سے بھی بد تر حالت ہوتی.لیکن حالات کی نزاکت کو دیکھ کر میں نے اس امداد کا اظہار نہیں کیا.کیونکہ اس میں نقصان کا خطرہ تھا.سب سے اول میں نے یہ کام کیا کہ مولوی عبدالرحیم صاحب درد جن کے نام اور کام سے کشمیر کا ہر عاقل بالغ واقف ہے انہیں انگلستان ہدایت بھیجوائی کہ وہ انگلستان میں لوگوں کو کشمیر کے حالات سے واقف کریں تا اس سے لوگوں کو دلچسپی پیدا ہو.چنانچہ انہوں نے دو کام اس بارہ میں کئے.(1) مختلف ذمہ دار لوگوں سے اور پریس سے مل کر کشمیر کے متعلق ہمدردی پیدا کرنے کی کوشش کی.چنانچہ کئی اخبارات میں ہمدردانہ مضامین نکلے.جن میں سب سے زیادہ قابل ذکر ڈیلی ٹیلی گراف کا وہ مضمون ہے جس میں اس نے لکھا ہے کہ پہلے یہ بتایا جاتا تھا کہ کشمیر کے فسادات افسروں کی نالائقی کے سبب سے ہیں.لیکن اب تو انگریز افسر چلے گئے ہیں پھر بھی فساد ہو رہا ہے.معلوم ہوا کہ کوئی گہرا نقص ہے جس کے لئے اب ہمیں ایک اور کمیشن بٹھانا چاہئے.اور ان نقصوں کو دور کرنا چاہئے.اس پر درد
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 596 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ صاحب نے ایک تائیدی مضمون لکھا اور وہ اس اخبار میں چھپ گیا.یہ اخبار موجودہ حکمران جماعت کا اخبار ہے اور سب سے زیادہ اثر رکھتا ہے.(۲) دوسرا کام انہوں نے یہ کیا کہ پارلیمنٹ میں کشمیر کے متعلق سوال کرائے اور ذمہ دار لوگوں سے ملاقاتیں کیں چنانچہ لیڈی ندرلینڈ کے اخراج کے متعلق پارلیمنٹ میں سوال کرایا گیا اور بعض سوال موجودہ حالات کشمیر کے متعلق کرائے گئے.ایک اشتہار کشمیر کے حالات کے متعلق بڑے بڑے لوگوں میں حال میں شائع کیا گیا ہے اور بہت سے پارلیمنٹ کے ممبروں نے امداد کا وعدہ کیا ہے.اور پارلیمنٹ میں سوال کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے.آپ سمجھ سکتے ہیں کہ کشمیر کمیٹی کے معمولی ممبر ہونے کی حیثیت سے درد صاحب اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے تھے.اور جو کچھ وہ کر سکتے تھے اس سے انہوں نے دریغ نہیں کیا.میں نے ہندوستان میں جو کام کیا وہ یہ ہے.(1) مقدمات میرپور کی پیروی جس پر ہزاروں روپیہ خرچ ہوا.(۲) موجودہ فسادات میں جو گر فتاریاں ہوئی ہیں.ان کے متعلق بھی جدوجہد کی گئی ہے.چنانچہ مولوی عبد اللہ صاحب سیا کھوی کے رشتہ داروں کی تحریک پر ان کے لئے ایک لائق وکیل کا انتظام کیا گیا ہے.جو ان کے مقدمہ کی اپیل کرے گا.(۳) بعض قیدیوں کی رہائی کے لئے کوشش کی گئی.(۴) میر واعظ صاحب ہمدانی مجاورین خانقاہ میر مقبول شاہ صاحب اور دیگر بہت سے احباب کے متعلق جو ناواجب احکام جاری ہوئے تھے.ان کے منسوخ کرانے کی کوشش کی گئی.اور کی جارہی ہے.کچھ حصہ میں ہمیں کامیابی ہوئی ہے.بقیہ کے لئے کام ہو رہا ہے.(۵) ہزا پیکسیلنسی وائسرائے بہادر کے پرائیویٹ سیکرٹری.اور پھر خود حضور وائسرائے کے پاس میں نے مفتی محمد صادق صاحب کو بھیج کر مظالم کشمیر کے دور کرنے کی طرف توجہ دلوائی.اور ہز ایکسی لینسی کے کہنے پر مسٹر کالون سے بھی ہمارے آدمی ملے.وہ ضرور توجہ کریں گے.سید زین العابدین صاحب کو جموں دو دفعہ بھجوایا.اور ایک دفعہ دہلی.جہاں وہ مسٹر کالون.مسٹر وزارت حسین اور مسٹر یل سے ملے اور موجودہ حالات کو بدلوانے کے لئے پوری سعی کی.(۲) اس کے بعد میں نے عزیزم چودھری ظفر اللہ خان صاحب سے کہا کہ وہ ہزا یمیلینسی وائسرائے سے ملاقات کے موقعہ پر کشمیر کے متعلق بھی تذکرہ کریں.چنانچہ انہوں نے ان امور کے متعلق وائسرائے ہند سے گفتگو کی.
تاریخ احمدیت جلد ۵ 597 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدید (۷) جو لوگ جلا وطن کئے گئے ہیں.یا جن کو کشمیر میں ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے.ان میں سے بعض کی مالی امداد بھی کی گئی.(۸) جب بھی لیڈران کشمیر نے خواہش کی انہیں مناسب مشورے دیئے گئے.غرض یہ کام ہے.جو گزشتہ ایام میں میں نے کیا ہے.اور آپ لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کام معمولی کام نہیں.ہاں اگر نتیجہ اتنا شاندار نہیں نکلا.جس قدر کہ پہلے نکلا کرتا تھا.تو اس کے ذمہ دار آپ لوگ ہیں.میں نہیں.اول تو اس لئے کہ آپ نے یا آپ میں سے بعض نے سول نافرمانی جاری کر کے میرے ہاتھ باندھ دیئے.آپ جانتے ہیں کہ میں سول نافرمانی کا سخت مخالف ہوں.میرے نزدیک سول نافرمانی اسی وقت کامیاب ہو سکتی ہے.جبکہ حکومت شرافت سے کام لے.جس دن حکومت کے افسر رعایا کی طرح قانون شکنی پر آمادہ ہو جائیں.اس دن رعایا کا سب زور ٹوٹ جاتا ہے.پس اول تو میرے نزدیک سول نافرمانی کامیابی کا ذریعہ ہی نہیں.دوسرے میرے نزدیک سول نافرمانی مذہباً اور اخلاقا درست نہیں.کیونکہ اس سے قانون شکنی کی روح پیدا ہوتی ہے.اور جب یہ روح پیدا ہو جائے.تو خواہ اپنی ہی حکومت کیوں نہ ہو.وہ چل نہیں سکتی.تیسرے یہ کہ اگر سول نافرمانی کو مفید اور جائز بھی سمجھ لیا جائے.تب بھی میرے نزدیک کشمیر کے لوگ اس کے لئے تیار نہ تھے.سول نافرمانی کے لئے نہایت وسیع مخفی نظام اور کافی سرمایہ کی ضرورت ہوتی ہے.مگر جس وقت سول نافرمانی کا اعلان کیا گیا ہے اس وقت اہل کشمیر کو یہ باتیں میسر نہ تھیں.پس اگر سول نافرمانی کو مفید بھی سمجھ لیا جائے.تب بھی موجودہ حالات میں اس میں کامیابی ممکن نہ تھی.سول نافرمانی کے تجربے ہندوستان.آئرلینڈ - مصر اور فلسطین میں کئے گئے ہیں.لیکن ایک جگہ بھی کامیابی نہیں ہوئی.ہندوستان میں مل والوں کی دولت اور گاندھی جی کی شخصیت اس کی تائید میں تھی.مصر میں سعد زغلول جیسے شخص کی روح کام کر رہی تھی.آئرلینڈ کو امریکہ جیسے دولت مند ملک کی پشت پناہی حاصل تھی.اور دو سو سال کی تنظیم ڈی ولیرا کی امداد پر تھی.فلسطین کی جدوجہد عیسائی اور مسلمانوں کی مشترکہ تھی.گویا اصلی باشندے اور وہ باشندے جو وہاں قریب زمانہ میں حکومت کر چکے تھے.وہ مقابلہ پر آمادہ تھے.مگر بارہ سالہ جد وجہد کے بعد بھی ان لوگوں کو کچھ حاصل نہ ہوا.سوائے آئرلینڈ کے جس نے تجربہ کے بعد سول نافرمانی کو ترک کر دیا.اور کونسلوں میں داخل ہو کر ان پر قبضہ کرنے کی کوشش کی.سو آئرلینڈ میں ڈی دلیرا آج تبدیلی اصول کی وجہ سے حکومت کر رہا ہے اور ہندوستان، فلسطین اور مصر میں سول نافرمانی کے مدوجزر کے بعد حالات پھر وہی کے رہی ہیں.اور اس کے شیدار مولا پھر کو نسلوں کی طرف رغبت کر رہے ہیں.غرض سول نافرمانی ایک مشتبہ ہتھیار ہے جو دشمن ہی کو نہیں کبھی اپنے آپ کو بھی ہلاک کر دیتا ہے
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 598 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ اور اس وقت تک اس کے ذریعہ سے کسی ملک میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی.کامیابی یا قانونی تعاون سے ہوئی ہے جیسے کہ آئرلینڈ ایران وغیرہ میں.یا لڑائی سے جیسے کہ جرمنی، اٹلی اور لڑکی میں.پس اس مضر عمل کی موجودگی میں میں آپ کی کیا امداد کر سکتا تھا.برطانوی حکام کا ایک ہی جواب تھا.کہ جب یہ لوگ قانون تو ڑ رہے ہیں.تو حکام سوائے سزا دینے کے اور کیا کر سکتے ہیں.مگر اس سے پہلے فسادات میں وہ یہ جواب نہیں دے سکتے تھے.اور نہیں دیتے تھے.کیونکہ اس وقت ہم انہیں کہتے تھے کہ باوجود اس کے کہ ملک قانون شکنی کے مخالف ہے.حکام خود قانون شکنی کر کے فساد پھیلا رہے ہیں.اور برطانوی حکام تحقیق کرنے پر مجبور ہوتے تھے.دو سری دقت میرے راستہ میں رہی تھی کہ میں اب صدر نہ تھا.میں حکام کے کان میں تو بات ڈال سکتا تھا.مگر میں کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتا تھا.کیونکہ مجھے اس کا اختیار نہ تھا.اور اس وجہ سے کسی بات کو میں انتہا تک نہیں پہنچا سکتا تھا.اس کے سوا کہ نتیجہ میرے اختیار میں نہ تھا.میں نے پورے طور پر کوشش کی.اور اس میں کمی نہیں کی.ہاں اپنی کوشش کو شائع بھی نہیں کیا.کیونکہ ڈر تھا کہ اس وقت کے حالات کے ماتحت خود آپ کے لیڈر ہی حکومت کو تاریں دینے لگ جاتے کہ مجھے کشمیر کے متعلق کچھ کہنے کا حق نہیں اور فائدہ کی جگہ نقصان ہی ہوتا.میں یہ بھی یقین دلا دینا چاہتا ہوں کہ میں نے کشمیر ایسوسی ایشن کو صاف کہ دیا ہے کہ جو عہدہ دار بھی منتخب ہوں.میں اپنی پوری طاقت ان کی امداد کے لئے انشاء اللہ خرچ کروں گا.اور تبدیل شدہ حالات میں جو کچھ ہو سکتا ہے.اس سے مجھے دریغ نہ ہو گا.اس کے بعد میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ایک کامیابی کے سرے پر پہنچے ہوئے کام میں روک پیدا ہو گئی ہے.مجھے اس سے بحث نہیں کہ اس میں کس کا قصور تھا.بہر حال موجودہ خرابی کو ہم نے دور کرتا ہے.اور اس کے لئے مندرجہ ذیل مشورہ ان لوگوں کو جو مجھ پر اعتبار رکھتے.اور میری امداد کی ضرورت سمجھتے ہیں دیتا ہوں.کسی قسم کی قانون شکنی نہ کی جائے.بلکہ قانون کا پورا احترام کیا جائے.میں اس وقت اس اصل کی اخلاقی خوبیاں نہیں بیان کرنا چاہتا.صرف یہ کہتا ہوں کہ کم سے کم فائدہ اس کا یہ ہو گا.کہ قانون شکنی کا الزام لگا کر حکام کو ظلم کرنے کا موقعہ نہ ملے گا.اور آپ لوگ اس عرصہ میں منتظم ہو سکیں گے.آپ کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہر جنگ سے پہلے تنظیم ضروری ہے.مگر ابھی تو آپ لوگوں نے تنظیم کا کام ختم کیا شروع بھی نہیں کیا.پھر کتنا ظلم ہو گا.اگر آپ لوگ قومی طاقت کو ضائع کرلیں.آپ کی جائیں اور آپ کے مال قومی امانت ہیں.اس امانت کو بے موقعہ خرچ کرنا +1
تاریخ ام جلده 599 تحریک آزادی کشمیر ا د ر جماعت احمدیہ اپنا ہی نقصان نہیں.قوم پر بھی علم ہے.- دوسرا مشورہ میرا یہ ہے کہ اگر حکام ظلم بھی کریں.تب بھی آپ لوگ اس کا جواب خود نہ دیں.بلکہ قانونی طور پر اس کے ازالہ کی کوشش کریں.قانونی کوشش لمبی ہوتی ہے.لیکن اس کا اثر بہت اعلیٰ پڑتا ہے.اور غیر کو بھی اس کا جواب دینے کی جرات نہیں پڑتی.آخر ایک لمبے تجربہ سے آپ معلوم کر چکے ہیں.کہ خود جواب دے کر بھی ظلم کا ازالہ نہیں ہو تا.بلکہ ظالم کو ظلم کا اور موقعہ ملتا ہے.پس کیوں نہ صبر کے ساتھ کوشش کی جائے.اور ایک دفعہ ظالم حکام پر اس طرح حجت کر دی جائے.کہ پھر ان کے لئے منہ دکھانے کی صورت نہ رہے.بے شک آپ کا بہت کچھ نقصان ہوا ہے.لیکن آخر چوری ہے ، تجارتی نقصان سے طوفان سے اور دیگر حوادث سے بھی تو نقصان ہو جاتا ہے.اگر قوم کی خاطر نقصان ہو گیا.تو کیوں آپ اس قدر پریشان ہوتے ہیں.در حقیقت یہ نقصان نقصان نہیں.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ ایک تجارت ہے.صبر کے نتیجہ میں یہ نقصان آپ کو نفع سمیت واپس ملے گا.اور وہ دن دور نہیں کہ خدا تعالی آپ کی مظلومیت کی فریاد کو سنے گا.اور ظالم زیر کئے جائیں گے.اور آپ کو غلبہ دیا جائے گا.ظلم پہلے کب کامیاب ہوا ہے.کہ اب کامیاب ہو گا.پس ظلم پر صبر کریں.یعنے اس کے جواب کے لئے خود ہاتھ نہ اٹھائیں.بلکہ قانون کے اندر رہ کر ظالم کو سزا دلانے کی کوشش کریں.اور سب کاموں سے زیادہ تنظیم کی طرف توجہ کریں.جب تک آپ کے ملک میں تنظیم نہ ہو گی.کچھ نہ ہو سکے گا.منتظم ملک پر ڈا کے نہیں ڈالے جاسکتے.پس آپ اپنے آپ کو منظم کریں.مگر تنظیم سے میری مراد یہ نہیں کہ ہر جگہ ایک انجمن ہو.یہ امر بھی ضروری ہے.اور اب تک یہ کام بھی نہیں ہوا.لیکن میں تنظیم کے معنے اس سے زیادہ لیتا ہوں.تنظیم کے معنے میرے نزدیک یہ ہیں کہ ایک تو سارے ملک میں ہر فرد بشر کو قومی تحریک کا ہمدرد بنایا جائے.صرف جلسوں کا ہونا کافی نہیں.بلکہ ہر شخص کا نمبر ہوتا اور ممبری کی علامت کا استعمال کرنا ضروری ہے.میں نے بارہا سیاہ بلا لگانے یا ایسا ہی کوئی اور نشان لگانے کی طرف توجہ دلائی ہے.لیکن ابھی تک آپ لوگوں نے کوئی نشان قرار نہیں دیا.اور نہ اس پر عمل کیا ہے.حالانکہ جب تک حکومت کو یہ معلوم نہ ہو.کہ کس قدر لوگ قومی تحریک میں شامل ہیں.وہ مرعوب نہیں ہو مایوسی کی کوئی وجہ نہیں.شروع شروع میں جب میں نے کام شروع کیا تھا.آپ لوگ آج
تاریخ احمدیت جلد ۵ 600 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد به سے زیادہ کمزور تھے.مگر صحیح ذرائع سے کام لے کر خدا تعالی کی امداد سے بہت بڑی کامیابی حاصل ہو گئی.اب بھی خدا تعالٰی کے فضل سے حالات کو بدلا جا سکتا ہے.اور اگر آپ صحیح طریق اختیار کریں گے تو انشاء اللہ جلد حالات بدل جائیں گے.صرف ضرورت ہمت استقلال اور قانون کے اندر رہ کر کام کرتے ہوئے قربانی اور ایثار کی ہے.سو جس دن آپ لوگ پہلے کی طرح پھر کمر باندھ لیں گے.انشاء اللہ غم کے بادل پھٹ جائیں گے.اور خوشی کا سورج نکل آئے گا.مگر یاد رہے کہ قومی آزادی ایک دن میں نہیں ملتی.ہاں آزادی کی قسطیں صحیح جدوجہد سے یکے بعد دیگرے ملنی شروع ہو جاتی ہیں.حکومت کی آپ لوگ پوری نگرانی رکھیں کہ گلینسی رپورٹ پر عمل ہوتا ہے یا نہیں.جہاں نقص معلوم ہو.فورا اس کی اطلاع آل انڈیا کشمیر ایسوسی ایشن کو یا مجھے دیں.ہم تحقیق کر کے انشاء اللہ حکومت پر دباؤ ڈالیں گے.کہ وہ اپنا وعدہ پورا کرے.اس میں کوئی شک نہیں کہ مکلنسی رپورٹ میں جو کچھ ملا ہے.وہ ہمارے مطالبات سے بہت کم ہے.لیکن اس میں کوئی شک نہیں.کہ اگر اس پر عمل ہو.تو مسلمانوں کی حالت موجودہ حالت سے اچھی ہو جاتی ہے.پس مطابق مثل یکی را بگیر و دیگری راد عونی بکن جو ملا ہے اسے تو لینے کی کوشش کرنی چاہئے.اور باقی مطالبات کے لئے جد وجہد کو جاری رکھنا چاہئے.یہی طریق احسن ہے.اور اس میں کامیابی کا راز ہے.حکومت موجودہ شورش سے فائدہ اٹھا کر گلنسی رپورٹ کو عملاً داخل دفتر کرنا چاہتی ہے.ہمارا کام ہے کہ ہوشیاری سے اس پر عمل کرائیں.اور اگر وہ عمل نہ کرے تو حکومت ہند اور حکومت انگلستان کے سامنے اس معاملہ کو پیش کریں.اگر باری باری ایک ایک مسئلہ کو لے کر زور دیا گیا.تو آپ دیکھیں گے کہ زور زیادہ پڑ سکے گا.اور کامیابی زیادہ یقینی ہوگی.سب امور کو اکٹھا پیش کرنے پر حکومت برطانیہ جواب دے دیتی ہے کہ آخر ان کاموں کے لئے وقت چاہئے.لیکن اگر ایک امر کو لے کر کشمیر اور باہر کی طاقت اس پر خرچ کر دی جائے تو یقیناً کشمیر دربار معین صورت میں احکام جاری کرنے پر مجبور ہو گا.مثلا سب سے پہلے ملازمتوں کے سوال کو لے لیا جائے.اس سوال کے حل ہو جانے سے آپ کو آدھی فتح حاصل ہو جاتی ہے.کیونکہ علاوہ مالی فائدہ کے حکومت میں ایک کافی تعداد ایسے لوگوں کی آجاتی ہے.جن کے دل آپ کی ہمدردی سے پر ہوں گے.اسی طرح ایک ایک کر کے مختلف مسائل کو لیا جائے تو یقینا نہ تو حکومت مہلت کا مطالبہ کر سکتی ہے.اور نہ اسے اس چھوٹے سے امر کے لئے ساری اسلامی طاقت کا مقابلہ کرنے کی جرات ہو سکتی ہے.
جلده 601 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ اسمبلی بھلی یا بری جلد بننے والی ہے.بعض ساتھی بعض حکام سے مل کر کوشش کر رہے ہیں.کہ ووٹروں کی فہرست ایسی بنوائیں.کہ جس سے ان کی پارٹی کو طاقت حاصل ہو جائے.آپ کو چاہئے کہ اس کا تندہی اور عظمندی سے مقابلہ کریں.اور اپنے ووٹروں کی لسٹ مکمل کروائیں.تاکہ اگر اسمبلی پر قبضہ کرنے کی تجویز ہو.جو میرے نزدیک ضروری ہے.تو آپ ایسا کر سکیں.ورنہ اگر کانفرنس نے اسمبلی پر قبضہ کرنے کا فیصلہ بھی کیا.تو ووٹروں کی فہرست کے نقائص کی وجہ سے آپ لوگ زیادہ ہو کر بھی کم نظر آئیں گے....چھٹی بات آپ کے آئندہ پروگرام میں یہ ہونی چاہئے.کہ جن حکام نے قانون شکنی کر کے ظلم کیا ہے.ان کے خلاف کارروائی کریں.میرے نزدیک ہر جگہ تحقیقاتی کمیٹیاں مقرر ہو جانی چاہئیں.جو گواہیاں لے کر ظالم حکام کے خلاف مصالح جمع کریں.جب یہ مواد جمع ہو جائے.ہم انشاء اللہ لائق وکلاء سے مشورہ لے کر جہاں جہاں حکام پر مقدمات چلائے جاسکیں گے.مقدمات چلا ئیں گے.اگر اس طرح ہم بعض حکام کو سزا دلوانے میں کامیاب ہو گئے.تو ایک تو حکام کے ظلم کا ثبوت مل جائے گا.دوسرے آئندہ کے لئے حکام کو ظلم کرنے کی جرأت باقی نہ رہے گی.یہ تو میرے نزدیک آپ لوگوں کے لئے موجودہ حالات میں بہترین پروگرام ہے.جو کام ہمیں کرنا چاہئے.اور ہم انشاء اللہ اسے کریں گے.وہ یہ ہے.باہمی جھگڑوں کی وجہ سے عوام اور خواص دونوں کو کشمیر کے معاملہ سے دلچسپی نہیں رہی.ہمارا سب سے پہلا کام یہ ہونا چاہئے کہ حکمت عملی سے اس طرف پھر لوگوں کی توجہ پھیری جائے.تا اس بارے میں مسلمانوں کی متفقہ آوازاٹھے.سول نافرمانی کی وجہ سے حکومت کی ہمدردی جاتی رہی ہے.حالانکہ عوام میں سے اکثر و خاص میں سے بھی بعض اس تحریک کے مخالف تھے.پس چاہئے کہ حکومت کا نقطہ نگاہ پھر درست کیا جائے.گو یہ کام موجودہ حالات میں بہت مشکل ہے.لیکن مشکل کام بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہو جاتے ہیں.ہمیں اس طرف سے مایوس نہیں ہونا چاہئے اور میں خیال کرتا ہوں کہ صبرو استقلال سے کام لیتے ہوئے اگر صد رو دیگر عہدہ داران کشمیر ایسوسی ایشن نے جد وجہد کو جاری رکھا.تو وہ ضرور کامیاب ہوں گے.انشاء اللہ تعالٰی.انگلستان و دیگر ممالک میں پھر اس مسئلہ کی طرف لوگوں کی توجہ کو پھرانا.اس کام کو میں بآسانی کر سکتا ہوں.اور انشاء اللہ پوری طرح ایسوسی ایشن سے تعاون کروں گا.گلینسی رپورٹ کے خلاف جو باتیں ہوں.ان کو احسن طریق پر حکومت ہند اور حکومت برطانیہ - -1
تاریخ احمدیت.جلده -0 602 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد به کے سامنے رکھنا.اس کام میں بھی ایسوسی ایشن نہایت مفید بلکہ کامیاب مدد دے سکتی ہے.اور میں امید کرتا ہوں کہ وہ ایسا کرے گی.چونکہ کانفرنس عملاً بند پڑی ہے.بعض طلباء جن کو کتابوں وغیرہ کی امداد دی جاتی تھی.حیران پھر رہے ہیں.اسی طرح اور کئی مستحقین بے سرو سامانی کی حالت میں ہیں.ان کی مالی امداد کرنا.اس بارہ میں بھی ایسوسی ایشن اچھا کام کر سکتی ہے.اور انشاء اللہ کرے گی.سردست طلباء کی فوری ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے تین سو کی رقم اپنی طرف سے منظور کی ہے.جس سے مستحق طلباء کو امداد دی جائے گی.اس کے لئے مولوی عبد الاحد صاحب.مسٹر غلام نبی صاحب گلکار - مولوی عبداللہ صاحب وکیل خواجہ صدر الدین صاحب اور میر مقبول شاہ صاحب کی سب کمیٹی میں تجویز کرتا ہوں.اگر ان میں سے کسی کو اس سب کمیٹی میں کام کرنا منظور نہ ہو.تو باقی ممبر مل کر کام کریں اور فورا مستحق طلباء کی درخواستوں پر غور کر کے کتب وغیرہ کی امداد دیں.مولوی عبد الاحد صاحب ہمارے مبلغ ہیں اور سیاسی کاموں سے الگ رہتے ہیں.لیکن چونکہ یہ کام سیاسی نہیں.بلکہ تعلیمی اور تمدنی ہے.میں نے اس کمیٹی میں ان کو ممبر مقرر کیا ہے.آخر میں میں پھر آپ لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ قانون کے اندر رہ کر استقلال سے کام کریں.جس طرح رات ہمیشہ نہیں رہتی.آپ لوگوں کی تکالیف بھی ہمیشہ نہیں رہیں گی.آخر کامیابی کا دن چڑھے گا.اور وہ دن انہی کے لئے مبارک ہو گا.جنہوں نے اس وقت قومی کام کے لئے قربانیاں کی ہیں.دوسرے لوگوں کا مونہہ اس دن کالا ہو گا.اور اپنی شرمندگی اور ندامت کو چھپانے کا کوئی ذریعہ انہیں نہیں ملے گا.پس اے بھائیو ! ہمت کرو اور صبر سے کام لو.اور استقلال سے قانون کے اندر رہتے ہوئے کام کرتے چلے جاؤ کہ خدا تعالی کی مدد ظالم کے ساتھ نہیں.بلکہ مظلوم کے ساتھ ہوتی ہے.اپنی بے بی اور بے کسی کو نہ دیکھو.اپنے خدا کی طرف دیکھو.جو بے بسوں اور بے کسوں کا یار ہے.وہ خود آپ کے لئے لوگوں کے دلوں میں ہمدردی پیدا کر دے گا.اور غیب سے نصرت کے سامان پیدا ہو جائیں گے.جو بات آج ناممکن نظر آتی ہے کل کو ممکن ہی نہیں آسان نظر آئے گی.آج جسے آپ قربانی خیال کرتے ہیں.کل اسے کھیل سمجھیں گے.میرا آپ سے وعدہ ہے کہ میں آپ کی امداد انشاء اللہ کروں گا.اور میں اس وعدہ پر قائم ہوں.اور خدا تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں کہ وہ میری اس امداد میں برکت دے گا.واخر دعوانا ان الحمد لله رب العلمين.خاکسار میرزا محمود احمد امام جماعت احمدیہ قادیان
تاریخ احمدیت جلد ۵ 603 تحریک آزادی کشمیراد رجماعت احمد به برادران اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحیم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر برادر ان کشمیر کے نام سلسلہ چہارم کا مکتوب اول السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ: مجھے افسوس ہے کہ میرے کشمیر کمیٹی کی صدارت سے استعفیٰ دینے کے بعد اس قدر جلد آپ لوگوں پر پھر ایک درد ناک مصیبت نازل ہو گئی ہے.اور جبکہ آپ اپنے آپ کو محفوظ سمجھنے لگے تھے.مشکلات کا دروازہ از سر نو کھل گیا ہے.میں نے آپ لوگوں سے وعدہ کیا تھا کہ جب تک آپ لوگ مجھے اپنی مدد کے لئے بلائیں گے میں اپنی طاقت بھر آپ کی مدد کروں گا.اور یہ وعدہ مجھے خوب یاد ہے.اس وعدہ کو یاد کرتے ہوئے میں نے میرواعظ صاحب ہمدانی کو تار دیا تھا.کہ میں اہل کشمیر کے لئے ہر ممکن کوشش کروں گا.اور کزنی شروع کر دی ہے.جو کچھ مختصرا میں نے اس تارمیں لکھا تھا.اس کی تفصیل یہ ہے کہ میں نے ولایت بھی ہدایات بھیجوا دی ہیں.کہ وہاں کے ذمہ دار لوگوں کو صحیح حالات سے آگاہ کر کے کشمیر کے حالات کی طرف متوجہ کیا جائے.اور خود ریاست کو بھی اس طرف توجہ دلائی ہے.مجھے یقین ہے کہ جب مسٹر کالون کو صحیح حالات سے واقف کیا جائے گا تو وہ اس ظلم کو جو ان کے نام پر کیا گیا ہے.ضرور دور کرنے کی کوشش کریں گے...غرض یہ کہ میں انشاء اللہ آپ لوگوں کی امداد کے لئے ہر ممکن کوشش کروں گا.اور میں نے کام شروع بھی کر دیا ہے.لیکن آپ لوگوں کو بھی دیانتداری سے ایک فیصلہ کر لینا چاہئے.تاکہ آپ کے کام میں برکت ہو.اور میری کوششیں بھی کوئی نیک نتیجہ پیدا کریں.یہ مت خیال کریں کہ اب آپ لاوارث رہ گئے ہیں.اب بھی آپ کامیاب ہو سکتے ہیں.اور انشاء اللہ اگر آپ صحیح رویہ اختیار کریں تو کامیاب ہوں گے.لیکن اگر آپ یہ چاہیں کہ بغیر صحیح رویہ اختیار کرنے کے آپ کامیاب ہوں تو یہ نا ممکن ہے.آخر میں میں آپ کو پر امن رہنے کی نصیحت کرتا ہوں.ہر فساد سے پر ہیز کریں.اور مجھے کچھ دن کوشش کر لینے دیں.میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر آپ لوگ میری نصیحت پر کار بند ہوں گے.تو جلد آپ کے لیڈر عزت سے باہر آجائیں گے.اور آپ آزادی کے اور قریب ہو جائیں گے.اور یہی آزادی
تاریخ احمدیت جلد ۵ 604 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ قیمتی آزادی ہے.ورنہ ذلت کے ساتھ قید سے رہائی کوئی آزادی نہیں.اس سے تو مرجانا بہتر ہے.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد امام جماعت احمدیہ ۱۸ جون ۱۹۳۳ء اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر برادران جموں و کشمیر کے نام میرا دو سراخط بسلسلہ چہارم برادران! السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ: میرا پہلا خط آپ کو مل چکا ہے.اور جوابات سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام علاقہ پر اس نے ایک مفید اور نیک اثر پیدا کیا ہے.آج میں دو سراخط آپ کی طرف لکھ رہا ہوں.اور امید کرتا ہوں کہ گزشتہ کی طرح آپ اس خط کے مضمون کو بھی غور سے پڑھیں گے.اور اس پر پوری طرح عمل کرنے کی کوشش کریں گے.میں آپ سے یہ بھی درخواست کرتا ہوں.کہ چونکہ ہر شخص تک یہ خطوط نہیں پہنچائے جاسکتے.جس کو یہ خط ملے وہ دوسرے پڑھے لکھے ہوئے لوگوں کو یہ خط پڑھا دے.اور ان پڑھوں کو بنا دے.اور جو دور میں ان تک پہنچا دے.حتی که هر باشنده ریاست جموں و کشمیر کو یہ خط مل جائے.یا اس کے مضمون سے وہ واقف ہو جائے.میرا کام.سب سے پہلے میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ گزشتہ ایام میں میرے سامنے یہ کام رہے ہیں.اول- شیخ محمد عبد اللہ صاحب اور ان کے ساتھیوں کو جو نہایت ظالمانہ طور پر گرم جگہ پر قید کیا گیا تھا.اس کے خلاف کوشش اور ان کو کسی ٹھنڈے مقام پر تبدیل کروانا.دوم.ان کی اور ان کے ساتھیوں کی آزادی کے لئے کوشش.سوم- گزشتہ دو ماہ سے جو افسران کشمیر کے عام رویہ میں تبدیلی واقع ہوئی ہے.اور وہی پر انا استبداد نظر آ رہا ہے اس کے خلاف کوشش.میں نے ان تین مقصدوں کے پورا کرنے کے لئے مندرجہ ذیل ذریعے اختیار کئے.اول میں نے سوچا کہ جب تک پبلک میں بیداری پیدا نہ کی جائے.اور ان کی محبت کو اپنے لیڈروں سے قائم نہ رکھا
تاریخ احمدیت جلده 605 تحریک آزادی کشمیر ا د ر جماعت احمدیه جائے.اس وقت تک اندرونی دباؤ ریاست پر نہیں پڑ سکتا.اس کے لئے میں نے اپنا پہلا خط شائع کیا.اور کشمیر کے کام کے متعلق جو لوگ سرگرم ہیں انہیں ہدایت کی کہ ریاست کے مختلف علاقوں میں بیداری پیدا کرنے کی کوشش کریں.چنانچہ خدا تعالٰی کے فضل سے اس میں بہت حد تک کامیابی ہوئی.اور میں اس بارہ میں صوبہ جاتی انجمنوں کا ممنون ہوں.کہ انہوں نے شیخ محمد عبد اللہ صاحب سے اظہار وفاداری کر کے میرے ہاتھوں کو بہت مضبوط کر دیا.دوسری بات میں نے یہ سوچی.کہ ریاست کے حکام کو توجہ دلاؤں.تاکہ وہ زور اور طاقت کے استعمال کو چھوڑ کر تحمل اور دلیل کی طرف توجہ کریں.مگر افسوس کہ اس بارہ میں مسٹر کالون کا رویہ اتنا ہمدردانہ ثابت نہیں ہوا.جس قدر کہ مجھے ان سے امید تھی.مجھے ان پر اب تک حسن ظنی ہے.لیکن میرے نزدیک انگریز جس قدرا انگریزی علاقہ میں مفید کام کر سکتے ہیں.ریاست میں نہیں کر سکتے.کیونکہ ریاستوں میں دیانتدار کارکنوں کا ملنا بہت دشوار ہوتا ہے.اور بغیر اچھے نائیوں کے انسان اچھا کام نہیں کر سکتا.میں سمجھتا ہوں کہ انگریز بھی اس خیال میں مجھ سے متفق ہیں.کیونکہ اگر وہ ہندوستانیوں کو حکومت کا پورا اہل سمجھتے.تو ہندوستان کو آزادی دینے میں اس قدر پس و پیش کیوں کرتے.اس بارہ میں میں نے جو کچھ کیا اس کی تفصیل یہ ہے کہ میں نے اس کام کے لئے سید زین العابدین صاحب کو مقرر کیا.کہ وہ مسٹر کالون اور مسٹر پیل سے جاکر ملیں.اور ان کے آگے تمام حالات رکھ کر انہیں موجودہ مظالم کے دور کرنے کی ترغیب دیں.ان کے ساتھ شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کو میں نے اس لئے بھجوایا.تاکہ وہ شیخ محمد عبد اللہ صاحب سے مل کر ان کی طرف سے قانونی طور پر کار روائی کریں اور اسی طرح گزشتہ فسادات میں جو میر واعظ صاحب ہمدانی اور ان کے معتقدوں کے خلاف بعض خلاف قانون کارروائیاں ہوئی ہیں یا مقدمات چلائے گئے ہیں.اس میں قانونی امداد دیں.آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ مہذب دنیا کے معروف دستور کے خلاف گورنرنے ان دونوں صاحبوں کو فورا ریاست سے نکلنے پر مجبور کیا.حکم کے الفاظ یہ تھے کہ آپ لوگوں کے گزشتہ اعمال سے یہ ثابت ہے کہ آپ سری نگر میں فساد کرانے کی نیت سے آئے ہیں.شیخ بشیر احمد صاحب تو وکیل ہیں.خود اپنی طرف سے ہائی کورٹ کو توجہ دلائیں گے مگر سید زین العابدین صاحب کے متعلق جو حکم دیا گیا تھا.اس کے متعلق میں نے حکام کو تو جہ دلائی.تو مجھے یہ جواب دیا گیا ہے.کہ سید زین العابدین کی ہتک منظور نہ تھی بلکہ مطلب صرف یہ تھا کہ ان کے آنے سے لوگوں میں جوش پیدا نہ ہو.لیکن حکم کے الفاظ واضح ہیں.تعلم میں صاف یہ لکھا ہے کہ "فساد کرانے کی نیت سے آپ آئے ہیں".اور یہ کہ آپ کا گزشتہ طریق عمل اس بد نیتی کی تصدیق کرتا ہے.پس حکام بالا کا یہ کہنا کہ ہمارا ہر گز یہ منشاء نہ تھا کہ شاہ
تاریخ احمدیت جلد ۵ 606 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ صاحب فساد کرانے کی نیت سے آئے ہیں صاف بتاتا ہے کہ ریاست کے بعض حکام انگریز افسروں کے احکام کی پوری تعمیل نہیں کرتے.بلکہ اپنے پاس سے خلاف واقع باتیں شامل کر دیتے ہیں.ریاست کے حکام کے پاس حکومت کی طاقت ہے.اور میرے پاس دلیل کی طاقت - ریاست نے حکومت کا زور آزما لیا ہے.اور اب اگر ریاست نے اصلاح نہ کی.تو میں دلیل کا زور آزماؤں گا.میں ایک طرف گورنر کے الفاظ کی نقل کروں گا.اور دوسری طرف حکام بالا کی تشریح کو اور اسے چھاپ کر تمام ممبران پارلیمینٹ اور انگریزی اخبارات اور ذمہ دار افسران کے پاس بھیجوں گا.اور پوچھوں گا کہ کیا یہ طریق حکومت کامیاب ہو سکتا ہے ؟ میں اس کے ساتھ انگریز افسروں کی وہ تحریرات درج کروں گا.جو انہوں نے سید زین العابدین کے نام ارسال کی ہیں.اور جن میں لکھا ہے کہ انہوں نے قیام امن میں ریاست کی پوری امداد کی ہے.پھر دنیا اس کو پڑھ کر خود اندازہ لگائے گی کہ گورنر کشمیر کا یہ حکم حکومت کے زور پر تھایا کہ دلیل اور انصاف کے زور پر.وہ اس امر کا اندازہ لگالے گی کہ انگریز حکام کی منشاء کو ماتحت حکام کس طرح پورا کر رہے ہیں.اور ان کی آمد سے غریب مسلمانوں کو کیا فائدہ پہنچ رہا ہے؟ میرا ہمیشہ سے یقین ہے کہ دلیل تلوار سے زیادہ زبر دست ہے اور باوجود حکومت کشمیر کی طاقت اور اس کے معاونوں کی قوت کے مجھے یقین ہے کہ جلد یا بدیر میری کمزوری کے باوجو د مظلوم کی مدد کی کوشش اور انصاف کی تائید آخر کامیاب ہو کر رہے گی.یہ دنیا لاوارث نہیں.اس کے اوپر ایک زبر دست خدا نگران ہے وہ ہمیشہ انصاف اور بیچ کی امداد کرتا ہے اور وہ یقیناً اب بھی ان غیر منصفانہ افعال کو جیتنے نہیں دے گا.تیسری کوشش میں نے یہ کی کہ اپنے انگلستان کے نمائندہ کو تار دی کہ وہ وہاں وزراء اور امراء اور ممبران پارلیمنٹ اور پریس کے سامنے سب حالات رکھیں.اور انصاف کی طرف توجہ دلائیں.اس بارہ میں جو کام ہوا ہے.وہ یہ ہے کہ ایک ذی اثر دوست نے اس بارہ میں وزیر ہند سے ملاقات اور گفتگو کی ہے.پارلیمنٹ کے بعض ممبروں نے پارلیمنٹ میں سوال کرنے کا وعدہ کیا ہے.اور بعض ذمہ دار امراء نے اس معاملہ کی طرف خود توجہ کرنے اور اس کی اہمیت کی طرف حکومت کو توجہ دلانے کا وعدہ بھی کیا ہے.سوامید ہے کہ انشاء اللہ جلد انگلستان کے لوگوں کی توجہ اس سوال کی طرف ہو جائے گی اور ان کی توجہ کا نیک اثر ہندوستان میں بھی پیدا ہو گا.چوتھی کوشش میں نے اس بارہ میں یہ کی ہے کہ اپنے ایک نمائندہ کو شملہ بھجوا دیا ہے.تاکہ وہ وہاں کے ذی اثر لوگوں اور حکام کو مل کر معاملات کشمیر کی طرف توجہ دلائیں.جنہوں نے یہ کام شروع کر دیا ہے.اور امید ہے کہ جلد اس کے نیک نتائج نکلنے شروع ہو جائیں گے.لیکن چونکہ میں اب کشمیر کمیٹی کا صدر نہیں ہوں.اس لئے یقینا اس کام میں میرے ہاتھ اور بھی مضبوط ہو جائیں گے.اگر کہے
ن جلده 607 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ کی ریاست کی مختلف انجمنیں ریزولیوشنوں کے ذریعہ سے اس امر کا فیصلہ کریں اور حکومت کو اطلاع دیں کہ میں ان کے حقوق کے لئے حکومت کو مخاطب کرنے کا حق رکھتا ہوں.میں تو یہ چاہتا ہوں کہ جو لوگ مجھ سے امداد چاہتے ہیں میں حسب وعدہ ان کی امداد کروں.اور ان کی قومی آزادی اور ان کے حقیقی لیڈر شیخ محمد عبد اللہ صاحب کی آزادی کے لئے کوشش کروں اور انہیں چاہئے کہ وہ اس طرح مجھے اپنی خدمت کا موقع دیں......موجودہ صورت حالات: اپنے کام کے اظہار کے بعد اب میں آپ لوگوں کو موجودہ صورت حال کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.آپ لوگ غالبا اس امر کو سمجھ چکے ہوں گے.کہ بعض افسران ریاست نے یہ دیکھ کر کہ ریاست کے بعض سابق افسران کے مظالم اس قدر طشت از بام ہو چکے ہیں کہ سیاسی عذرات کے ماتحت کشمیر کے حقیقی لیڈروں کو قید کرنا.ان کے لئے بالکل ناممکن ہے.قومی خدام کو فساد اور شورش کے الزام کے نیچے گرفتار کرنا شروع کر دیا ہے.میں اس امر کا یقین رکھتا ہوں کہ بعض افسران ریاست کی نیت درست نہیں اور اس یقین کی وجوہ یہ ہیں.-r میرے ایک نمائندہ سے ریاست کے ایک ہندو وزیر نے گزشتہ سال یہ الفاظ کہے تھے.کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہم آپ کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے.ہمیں بھی پارٹیاں بنانی آتی ہیں اور ہم بھی ریاست میں آپ کے خلاف پارٹیاں بنوا سکتے ہیں.بعض لوگ جو شیخ محمد عبد اللہ صاحب کے خلاف کوشش کر رہے ہیں.ان کی نسبت یقینی طور پر ثابت ہے کہ وہ اس وزیر سے خاص تعلقات رکھتے ہیں.باہمی مناقشات دیر سے شروع تھے.لیکن نہ حکومت نے ان پر سختی سے نوٹس لیا اور نہ شیخ محمد عبد اللہ صاحب کو اس کا ذمہ دار بنایا.لیکن آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے اس اجلاس کے بعد جس میں مسٹر مہتہ کے خلاف ریزولیوشن تھا.یکدم ریاست میں بھی ہل چل شروع ہو گئی.اور بعض ریاست کے افراد نے باہر آکر لوگوں کو اکسانا شروع کیا کہ کمیٹی کا احمد ی صدر نہیں ہونا چاہئے اور ان ایجنٹوں میں سے ایک نے اپنے ایک ہم خیال لیڈر سے لاہور میں کہا کہ اگر آپ چاہیں.تو میں پندرہ سولہ ہزار فورا مہیا کر سکتا ہوں.پھر اس نے کشمیر جاکر اپنے ایک دوست کو لکھا.کہ میں لاہور میں آگ لگا آیا ہوں.اب چاہئے کہ یہ آگ سلگتی رہے.اور مجھے نہیں.اس سے صاف ظاہر ہے کہ مسٹر متہ کے بعض ہوا خواہوں نے یہ کارروائی کی ہے.ورنہ واقعات کا یہ اجتماع کس طرح ہوا.آدمی وہی ہیں، حالات رہی ہیں ، کام وہی ہیں.پھر نتائج کیوں مختلف نکلنے
تاریخ احمدیت.جلد ۵ لگے ؟ 608 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ یہ سب واقعات اور ان کے علاوہ اور بہت سے واقعات بتاتے ہیں کہ حکومت میں ایک ایسا عصر موجود ہے.جس کی اصل غرض یہ ہے کہ کسی طرح لوگوں کی ہمدردی کو شیخ محمد عبد اللہ صاحب سے ہٹا کر دوسری پارٹی کی طرف کر دیا جائے.یا کم سے کم ان کی پارٹی کو کچل دیا جائے.مگر کیا نوجوانان کشمیر اس بے غرض خدمت کو بھول جائیں گے جو ان کے لیڈر شیخ محمد عبد اللہ صاحب نے نہایت مخالف حالات میں کی ہے؟ میں امید کرتا ہوں کہ کشمیر کے تمام غیور باشندے اس سوال کا جواب یک زبان ہو کر یہی دیں گے کہ ہر گز نہیں....آپ لوگوں کو چاہئے کہ ہر قسم کے فساد سے بچیں.وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ کشمیر آزاد نہ ہو.فساد ڈلوانے کی پوری کوشش کریں گے.مگر آپ کا فرض ہے کہ قانون شکنی نہ کریں.اور صرف اپنے کام سے کام رکھیں.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ باوجود قانون کا احترام اور ادب کرنے کے فتح حاصل ہو سکتی ہے اور ہوتی ہے.اور اگر آپ لوگ میری ہدایتوں پر عمل کریں تو مجھے یقین ہے کہ آپ کو بغیر کسی فساد کے کامیابی ہوگی.آپ پچھلے سال دیکھ چکے ہیں کہ میرے مشورے آپ کے لئے مفید ثابت ہوئے ہیں.اب پھر آپ لوگ تجربہ کرلیں.یہی راہ آپ کے لئے مفید ثابت ہو گی.کہ قانون نہ توڑیں اور غیر ضروری شور نہ مچائیں.خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے ایسے راستے کھولے ہیں کہ وہ بغیر قانون شکنی کے اپنے حقوق حاصل کر سکتے ہیں.اور اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر امن کی وہ طاقت رکھی ہے کہ شورش پسندی کو وہ طاقت ہرگز حاصل نہیں.میں امید کرتا ہوں کہ آپ پہلے بھی ایسا ہی کرتے چلے آئے ہیں.مگر میں آپ کو مزید ہو شیار کرنا چاہتا ہوں.آپ کو یاد رکھنا چاہئے کہ اگر آپ آپس میں لڑیں گے تو سب مسلمانوں کی ہمدردی آپ سے جاتی رہے گی.اور آپ اکیلے رہ جائیں گے.اور دشمنوں کا شکار ہو جائیں گے.آئندہ کے لئے دستور عمل: اب میں آپ کو آئندہ کام کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ جب حکومت سختی پر اتر آئے تو انجمنیں کام نہیں دے سکتیں.پس جب تک شیخ صاحب باہر نکلیں تو جوانوں کا فرض ہے کہ قومی زندگی کو قائم رکھنے کے لئے اپنی تنظیم کریں.اور اس کی بہترین صورت یہ ہے کہ سرینگر جیسے شہر میں تو محلہ دار قومی خدمت کا درد رکھنے والے لوگ آپس میں سے ایک ایک شخص کو اپنا لیڈر بنالیں.اس کا نام خواہ ڈکنٹینر رکھیں یا کچھ اور مگر بہر حال محلہ دار ایک ایک لیڈر ہونا چاہئے.اور اس کے بعد محلوں کے لیڈر اپنے میں سے ایک لیڈر تجویز کرلیں.جو سارے شہر
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 609 تحریک آزادی کشمیر ا د ر جماعت احمدیه کے حالات کا نگران رہے.جو چھوٹے شہر یا قصبات ہیں وہ اپنا ایک ایک لیڈر چن لیں.اس انتظام میں ہر ایک جماعت کو چاہئے کہ حلفیہ اس امر کا اقرار کرے کہ وہ اپنے لیڈروں کی تمام قومی امور میں فرمانبرداری کرے گی.میں یہ صرف اس خیال سے لکھ رہا ہوں.کہ شاید اس وقت تک اس قسم کا انتظام مکمل نہ ہوا ہو.لیکن اگر شیخ محمد عبد اللہ صاحب جیل میں جانے سے پہلے ایسا انتظام کر چکے ہیں تو جس جس جگہ یہ انتظام موجود ہے وہاں اس قسم کے انتظام کی ضرورت نہیں.البتہ جہاں کوئی لیڈر مقرر نہیں ہو چکا رہاں مقرر کر لیا جائے.میرا جہاں تک علم ہے ابھی ریاست کا اکثر حصہ اس انتظام سے خالی ہے.میں اس سے پونچھے اور بعض دیگر علاقوں کو مستثنیٰ کرتا ہوں.کیونکہ وہاں کی انجمنیں اب تک نہایت منظم صورت میں کام کر رہی ہیں.اور میں سمجھتا ہوں کہ انہیں کسی نئے انتظام کی ضرورت نہیں.لیکن سرینگر اور جموں کے شہروں سے باہر علاقہ کشمیر و جموں میں ابھی تک یہ انتظام مکمل نہیں.وہاں فورا اس قسم کا انتظام ہو جانا چاہئے.یہ آپ لوگوں کے لئے مصیبت کا زمانہ ہے.اور ایسے زمانوں میں بغیر ایک لیڈر کے جس کی اطاعت سب لوگ کریں کام نہیں چلتا.اور جس طرح سارے ملک کو ایک لیڈر کی ضرورت ہوتی ہے.اسی طرح علاقوں اور شہروں اور گاؤں کو بھی ضرورت ہوتی ہے.اس لئے میری پہلی نصیحت تو آپ لوگوں کو یہ ہے کہ جس جس جگہ کوئی ایسا شخص موجود نہیں کہ جس کی اطاعت کا آپ اقرار کر چکے ہیں اس اس جگہ فورا ایک لیڈر منتخب کر کے کام کو منظم کرنے کی کوشش کریں.اگر کسی وقت وہ لیڈر قید ہو جائے یا کام چھوڑ دے یا فوت ہو جائے تو اسی وقت دو سرا آدمی اس کی جگہ مقرر کر دیا جائے.جہاں جہاں ایسے آدمی پہلے سے مقرر ہیں.یا جہاں پہلے مقرر نہیں تھے.اور اب مقرر کئے جائیں.انہیں چاہئے کہ مجھے اپنے ناموں اور بچوں سے اطلاع دیں تاکہ میں انہیں ضروری حالات سے آگاہ رکھوں.اور تاکہ ان کی جو امداد مجھ سے ممکن ہو اس کا سامان کروں.میں آپ کو مشورہ دوں گا کہ اگر آپ کامیاب ہونا چاہتے ہیں.تو جو لوگ اس قومی تحریک میں شامل ہونا چاہیں.ان سب سے حلفیہ اقرار لیا جائے کہ وہ ہر قسم کی شورش اور فساد سے بچیں گے.کیونکہ بغیر حلف کے لوگ وقت پر اپنے فرائض کو بھول جاتے ہیں.لیکن جب وہ قسم اٹھالیں تو وہ قسم انہیں ان کے فرائض یاد دلاتی رہتی ہے.چاہئے کہ آپ کی مظلومیت ہمیشہ واضح رہے.جب تک آپ کی مظلومیت ثابت کی جاسکے گی اس وقت تک آپ غالب رہیں گے.جب یہ امر مشتبہ ہو جائے گا.اسی وقت لوگ آپ کا ساتھ چھوڑ دیں گے.اور آپ کی تحریک کی ساری طاقت زائل ہو جائے گی.جو لوگ لیڈر مقرر ہوں یا پہلے سے مقرر ہیں انہیں چاہئے کہ کامیابی کے لئے مندرجہ ذیل طریق
تاریخ احمدیت.جلد ۵ اختیار کریں.610 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ جب تک شیخ محمد عبد اللہ صاحب قید سے آزاد نہ ہوں.اس وقت تک تمام لوگوں کو نصیحت کریں کہ روزانہ گھروں میں ان کی آزادی کے لئے دعا کریں.اس سے ہر گھر میں شیخ صاحب کا ذکر بھی تازہ رہے گا.اور بچوں، بوڑھوں ، عورتوں، مردوں سب کو یہ یاد رہے گا کہ شیخ محمد عبد اللہ صاحب کو آزاد کرانا ان کا فرض ہے.اس طرح یہ دعا خود ان کے اندر بھی زندگی قائم رکھے گی.دوسرے ان کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ بغیر شور کرنے کے اپنے محلہ یا شہر کے لوگوں کو سیاسی حالات سے باخبر رکھیں.اور ان کے علاقہ میں جو ظلم ہوں.ان سے فورا اپنے مرکزی انتظام کو اور مجھے خبر دیں.تاکہ اس کے متعلق مناسب کارروائی کی جاسکے.چونکہ ان دنوں حکومت پر یہ اثر ڈالا جا رہا ہے.کہ لوگ شیخ محمد عبد اللہ کو چھوڑ بیٹھے ہیں.اور چونکہ پبلک مظاہرے اس وقت مناسب نہیں ہیں.اس لئے اس بات کو ظاہر کرنے کے لئے کہ ملک کلی طور پر شیخ محمد عبد اللہ صاحب کے ساتھ ہے.چاہئے کہ کوئی نشان ایسا مقرر کر لیا جائے.جس کو دیکھتے ہی ہر شخص یہ سمجھ لے کہ یہ لوگ شیخ محمد عبد اللہ صاحب کے ساتھ ہیں.میرے خیال میں اگر ایک سیاہ نشان ہر ایک شخص اس وقت تک کہ شیخ محمد عبد اللہ صاحب جیل سے نکلیں اپنے بازو پر باندھ لے تو یہ ایک عمدہ ذریعہ حکومت پر اس امر کے ظاہر کرنے کا ہو گا.کہ ملک سوائے چند ایک لوگوں کے کلی طور پر شیخ محمد عبد اللہ صاحب کے ساتھ ہے.اسی طرح بغیر جلوس نکالے کے ہر گلی اور کوچے میں چلتے ہوئے لوگ اس نشان کے ذریعہ سے حکومت پر واضح کر دیں گے کہ ہم شیخ محمد عبد اللہ صاحب کو اپنا لیڈر سمجھتے ہیں اور چونکہ اس طرح فردا فردا اپنے خیال کے ظاہر کرنے میں کسی فساد کا خطرہ نہیں ہو سکتا.حکومت بھی اس میں دخل نہ دے سکے گی.اور ایک طرف تو ملک منتظم ہو تا چلا جائے گا.اور دوسری طرف ملک کی رائے کا اظہار ایک پر امن طریق سے ہو تا رہے گا.مگر اس قسم کے انتظام کو با اثر بنانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ یہ انتظام وسیع ترین پیمانہ پر کیا جائے.اور حتی الوسع شیخ صاحب کے ساتھ تعلق رکھنے والا کوئی فرد اس سے باہر نہ رہے.آخر میں پھر آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مایوسی کی کوئی وجہ نہیں.میں یہ مضمون لکھ ہی رہا تھا کہ مجھے بعض نهایت خوش کن خبریں ملی ہیں.جن سے میں سمجھتا ہوں کہ خدا کے فضل سے آپ لوگوں کی بہتری کے سامان پیدا ہو رہے ہیں اور اللہ تعالٰی آپ لوگوں کے دکھوں کو جلد دور کرنے والا ہے.آپ
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 611 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ کو صرف تھوڑے سے حوصلہ کی ضرورت ہے اور اس امر کی ضرورت ہے.کہ ملک کے غداروں کے دھوکے میں نہ آئیں.میں پھر آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جب تک آپ لوگوں میں سے کوئی حصہ بھی میری مدد کی ضرورت کو سمجھے گا.میں انشاء اللہ ہر ممکن مدد آپ لوگوں کی ترقی کے بارہ میں کرتا رہوں گا والتوفيق من الله واخر دعوانا ان الحمد لله رب العلمين والسلام.خاکسار مرزا بشیر الدین محمود احمد - قادیان مورخہ ۱۱/ جولائی ۱۹۳۳ء بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم جس مسلم کو یہ مضمون پہنچے وہ اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں کو بھی ضرور پہنچاوے اعوذ بالله من الشيطان الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر کشمیر ایجی ٹیشن ۱۹۳۸ء کے متعلق چند خیالات اصلاحات کشمیر سے جو میرا تعلق رہا ہے اس کے یاد کرانے کی مجھے ضرورت نہیں.اس جدوجہد میں جو خدمت کرنے کی مجھے اللہ تعالٰی نے توفیق دی اس کے بیان کرنے کی بھی میں ضرورت محسوس نہیں کرتا.کیونکہ میرے نزدیک وہ بنیاد جو صرف ماضی پر رکھی جاتی ہے اس قدر مضبوط نہیں ہوتی.جس قدر وہ جو حال میں اپنی صداقت کا ثبوت رکھتی ہے.اس لئے میں یہ نہیں کہتا کہ میں نے فلاں وقت کوئی کام کیا تھا.اس لئے میری بات سنو.بلکہ اہل کشمیر سے صرف یہ کہتا ہوں کہ میں اب جو کچھ کہہ رہا ہوں اس پر غور کریں اور اگر اس میں سے کوئی بات آپ کو مفید نظر آئے تو اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں.جب میں نے کام شروع کیا تھا اس وقت کشمیر ایجی ٹیشن کو بظاہر فرقہ وارانہ تھا.مگر جو مطالبات پیش کئے جاتے تھے وہ فرقہ وارانہ نہ تھے.زمینوں کی واگزاری کا فائدہ صرف مسلمانوں کو نہ پہنچتا تھا.نہ پریس اور پلیٹ فارم کی آزادی کا تعلق صرف مسلمانوں سے تھا.نہ حکومت کے مشوروں میں شراکت
تاریخ احمدیت جلد ۵ 612 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ میں مسلمانوں کو کوئی خاص فائدہ تھا.ملازمتوں کا سوال ایک ایسا سوال تھا جس میں مسلمانوں کے لئے کچھ زائد حقوق کا مطالبہ کیا گیا تھا.لیکن اسی ۹۰ فی صدی آبادی کے لئے اس کے گم گشتہ حقوق میں سے صرف تھوڑے سے حق کا مطالبہ فرقہ وارانہ مطالبہ نہیں کہلا سکتا.اس تحریک کا نتیجہ کم نکلا یا زیادہ.مگر بہر حال کچھ نہ کچھ نکلا ضرور.اور کشمیر کے لوگ جو سب ریاستوں کے باشندوں میں سے کمزور سمجھے جاتے تھے اس ادنی مقام سے ترقی کر کے ایک ایسے مقام پر کھڑے ہو گئے کہ اب وہ دوسری ریاستوں کے باشندوں کے سامنے شرمندہ نہیں ہو سکتے.میں نے جو کچھ اسلام سے سیکھا ہے وہ یہ ہے کہ ہمارا ایک سمجھوتہ سچائی پر مبنی ہونا چاہئے.یہ نہیں کہ ہم ظاہر میں کچھ کہیں اور باطن میں کچھ ارادہ کریں.ایسے ارادوں میں جن میں سچائی پر بناء نہیں ہوتی.کبھی حقیقی کامیابی نہیں ہوتی اور کم سے کم یہ نقص ضرور ہوتا ہے کہ آنے والی نسلیں خود اپنے باپ دادوں کو گالیاں دیتی ہیں اور وہ تاریخ میں عزت کے ساتھ یاد نہیں کئے جاتے.پس میرے نزدیک کسی سمجھوتے سے پہلے ایسے سب امور کا جو اختلافی ہوں مناسب تصفیہ ہو جانا چاہئے تا بعد میں غلط فہمی اور غلط فہمی سے اختلاف اور جھگڑا پیدا نہ ہو.اس اصل کے ماتحت جب میں نے اس تحریک کا مطالعہ کیا تو مجھے اخباری بیانات سے کچھ معلوم نہیں ہو سکا کہ آیا مسلم و غیر مسلم کے سیاسی سمجھوتے کی مشکلات کو پوری طرح سمجھ لیا گیا ہے یا نہیں اور مسلم و غیر مسلم کے حقوق کے متعلق جو شکایات ہیں ان کو دور کرنے کی تدبیر کرلی گئی ہے یا نہیں.یہ ایک حقیقت ہے کہ قوموں کی جدوجہد دو غرضوں میں سے ایک کے لئے ہوتی ہے یا تو اس لئے کہ اس قوم نے کوئی پیغام دنیا تک پہنچانا ہوتا ہے.اس صورت میں وہ عواقب و نتائج کو نہیں دیکھا کرتی.نقصان ہو یا فائدہ وہ اپنا کام کئے جاتی ہے.جیسے اسلام کے نزول کے وقت غریب اور امیر سب نے قربانی کی اور اس کی پروا نہیں کی کہ کسے نقصان ہوتا ہے اور کیا ہوتا ہے.کیونکہ مادی نتیجہ مد نظر نہ تھا.بلکہ پیغام الہی کو دنیا تک پہنچانا مد نظر تھا.اس پیغام کے پہنچ جانے سے ان کا مقصد حاصل ہو جاتا تھا.خواہ دنیا میں انہیں کچھ بھی نہ ملتا.اور اس پیغام کے پہنچانے میں ناکامی کی صورت میں ان کو کوئی خوشی نہ تھی.خواہ ساری دنیا کی حکومت ان کو مل جاتی.یا پھر قومی جد و جہد اس لئے ہوتی ہے کہ کوئی قوم بعض دنیوی تکلیفوں کو دور کرنا چاہتی ہے وہ ہر قدم پر یہ دیکھنے پر مجبور ہوتی ہے کہ جن تکالیف کو دور کرنے کے لئے میں کھڑی ہوئی ہوں وہ اس جدو جہد سے دور ہو سکتی ہے یا نہیں.اس کی ہر ایک قربانی ایک مادی فائدے کے لئے ہوتی ہے.اور وہ اس مادی فائدے کے حصول کے لئے جد وجہد کرتی ہے.تمام سیاسی تحریکیں اس دوسری قسم کی جدو جہد سے تعلق رکھتی ہیں.اور مادی فوائد کو ان میں نظر انداز
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 613 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ نہیں کیا جا سکتا.جب یہ امر ظاہر ہو گیا تو ہمیں سوچنا چاہئے کہ کشمیر کی تحریک کوئی مذہبی تحریک ہے یا سیاسی- اگر سیاسی ہے تو ہمیں غور کرنا چاہئے کہ وہ کون سے فوائد ہیں جن کے لئے اہل کشمیر کو شاں ہیں خصوصاً مسلمان؟ اس سوال کا جواب میں سمجھتا ہوں با آرام ہر کشمیری یہ دے گا کہ اس کی جدوجہد صرف اس لئے ہے کہ اس کی بآرام اور خوش زندگی کا سامان کشمیر میں نہیں ہے.نہ اس کی تعلیم کا اچھا انتظام ہے نہ اس کی زمینوں کی ترقی کے لئے کوشش کی جاتی ہے نہ اسے حریت ضمیر حاصل ہے نہ اس کی اس آبادی کے اچھے گزارہ کے لئے کوئی صورت ہے.جس کا گزارہ زمین پر نہیں بلکہ مزدوری اور صنعت و حرفت پر ہے اور نہ اس کی تجارتوں اور کار خانوں کی ترقی کے لئے ضرورت کے مطابق جدوجہد ہو رہی ہے.نہ اسے اپنے حق کے مطابق سرکاری ملازمتوں میں حصہ دیا جا رہا ہے.اور ان لوگوں میں سے جن کے ذریعہ سے حکومت تاجروں ، ٹھیکہ داروں وغیرہ کو نفع پہنچایا کرتی ہے.اور نہ مجالس قانون ساز میں ان کی آواز کو سنا جاتا ہے.یہ مطالبات مسلمانان ریاست جموں و کشمیر کے ہیں.اور یہی مطالبات قریباً ہر افتادہ قوم کے ہوتے ہیں.یہ امر ظا ہر ہے کہ وہی سکیم مسلمانان کشمیر کے لئے مفید ہو سکتی ہے جو اوپر کی اغراض کو پورا کرے.اور دوسری کوئی سکیم انہیں نفع نہیں دے سکتی پس میرے دل میں یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ یہ نیا اتحاد جو مسلمانوں کے ایک طبقہ کا بعض دوسری اقوام سے ہوا ہے.کیا اس غرض کو پورا کرتا ہے؟ ہر ایک شخص جانتا ہے کہ مسلمانوں کو بہت بڑا نقصان ملازمتوں اور ٹھیکوں وغیرہ میں اور مجالس آئینی میں تناسب کے لحاظ سے حصہ نہ ملنے کی وجہ سے پہنچ رہا ہے اور یہ بھی ہر شخص جانتا ہے کہ ان ملازمتوں پر سوائے چند ایک بڑے افسروں کے ریاست ہی کے باشندے قابض ہیں.جو غیر مسلم اقوام سے تعلق رکھتے ہیں.اور یہی حال ٹھیکوں کا ہے.وہ بھی اکثر مقام میں غیر مسلم اصحاب کے ہاتھوں میں ہے.اسی طرح مجالس آئینی میں بھی مسلمانوں کا حق زیادہ تر ریاست کشمیر کے غیر مسلم باشندوں کے ہاتھ میں ہی ہے.ان حالات میں لازماًیہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان اقوام نے اپنے حاصل کردہ منافع مسلمانوں کے حق میں چھوڑ دینے کا فیصلہ کر دیا ہے.اگر نہیں تو یہ سمجھوتہ کس کام آئے گا.اگر اس تمام جدوجہد کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مہاراجہ صاحب بہادر کے ہاتھ سے اختیار نکل کر رعایا کے پاس اس صورت میں آجاتے ہیں کہ نہایت قلیل اقلیت نے نصف یا نصف کے قریب نمائندگی پر قابض رہنا ہے اور اسی طرح ملازمتوں اور ٹھیکوں وغیرہ میں بھی اسے یہی حصہ ملنا ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ پندرہ فیصدی باشندے پچاس فی صدی آمد پر قابض رہیں.اور پچاسی فیصدی باشندے بھی پچاس فیصدی آمد
تاریخ احمدیت جلده 614 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد ہے پر قابض رہیں.گویا ایک جماعت کے ہر فرد پر ۳۱/۳ فیصدی آمد خرچ ہو اور دوسری قوم کے ہر فرد پر ۱۰/۱۷ فیصدی آمد خرچ ہو یا دو سرے لفظوں میں ہمیشہ کے لئے کچھ مسلمان اتنا حصہ لیں جتنا کہ ایک غیر مسلم حصہ لے.یہ تقسیم تو بالبداہت باطل ہے.اگر سمجھو تہ اس اصول پر نہیں بلکہ اس اصول پر ہے کہ ہر قوم اپنے افراد اور لیاقت کے مطابق حصہ لے.خواہ مجالس آئین میں ہو خواہ ملازمتوں میں خواہ ٹھیکہ میں.گو اقلیت کو اس کے حق سے استمالت کے لئے کچھ زیادہ دے دیا جائے اور اس کے ساتھ یہ شرطیں ہوں کہ اقلیت کے مذہب اس کی تہذیب اور تمدن کی ہمیشہ حفاظت کی جائے گی.تو یہ ایک جائز اور درست اور منصفانہ معاہدہ ہو گا.مگر جہاں تک میں نے اخبارات سے پڑھا ہے ایسا کوئی معاہدہ مسلمانان کشمیر اور دیگر اقوام میں نہیں ہوا.اور نہ میں سمجھ سکا ہوں کہ موجودہ حالات میں وہ اقوام جو ملازمتوں اور ٹھیکوں اور دوسرے حقوق پر قابض ہیں وہ اس آسانی سے اپنے حاصل کردہ فوائد مسلمانوں کو واپس دینے کے لئے تیار ہو جائیں گی.اور اگر ایسا نہیں کیا گیا تو لا زمانیہ اتحاد بعد میں جا کر فسادات کے بڑھ جانے کا موجب ہو گا.اگر کوئی کامیابی ہوئی اور مسلمانوں نے اپنے حقوق کا مطالبہ کیا تو غیر مسلم اقوام کہیں گی کی جدوجہد تو صرف اختیارات پبلک کے ہاتھ میں لانے کے لئے تھی.سودہ آگئے ہیں.کسی قوم کو خاص حق دینے کے متعلق تو تھی ہی نہیں.ہم بھی کشمیری تم بھی کشمیری.ملازمت ہمارے پاس رہی تو کیا.تمہارے پاس رہی تو کیا.جو لوگ عہدوں پر ہیں وہ زیادہ لائق ہیں.اس لئے قوم کا کوئی سوال نہیں اٹھانا چاہئے.کہ اس میں ملک کا نقصان ہے اور اگر مسلمانوں کا زور چل گیا اور انہوں نے مسلمانوں کو ملازمتوں، ٹھیکوں وغیرہ میں زیادہ حصہ دینا شروع کیا تو دوسری اقوام کو رنج ہو گا اور وہ کہیں گی کہ پہلے ہم سے قربانی کروائی.اب ہمیں نقصان پہنچایا جارہا ہے.اور ایک دوسرے پر بدظنی اور بد گمانی شروع ہو جائے گی اور فتنہ بڑھے گا گھٹے گا نہیں.او ر اب تو صرف چند وزراء سے مقابلہ ہے پھر چند وزراء سے نہیں بلکہ لاکھوں آدمیوں پر مشتمل اقوام سے مقابلہ ہو گا.کیونکہ حقوق مل جانے کی صورت میں اس قوم کا زور ہو گا جو اس وقت ملازمتوں وغیرہ پر قائم ہے خواہ وہ تھوڑی ہو اور وہ قوم دست نگر ہو گی.جو ملازمتوں میں کم حصہ رکھتی ہے خواہ وہ زیادہ ہو.اور یہ ظاہر ہے کہ چند وزراء کو قائل کر لینا آسان ہے.مگر ایسی جماعت کو قائل کرنا مشکل ہے جس کی پشت پر لاکھوں اور آدمی موجود ہوں کیونکہ گو وہ قلیل التعداد ہو حکومت اور جتھا مل کر اسے کثیر التعداد لوگوں پر غلبہ دے دیتا ہے اور سیاسی ماہروں کا قول ہے کہ نہ مقید بادشاہ کی حکومت ایسی خطرناک ہوتی ہے نہ غیر ملکی قوم کی.جس قدر خطرناک کہ وہ حکومت ہوتی ہے جس میں قلیل التعداد لیکن متحد قوم اکثریت پر حکمرانی کر رہی ہو.کیونکہ اس کا نقصان ملک کے اکثر حصہ کو پہنچتا ہے.لیکن اس
تاریخ احمدیت جلده 615 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد یہ کا ازالہ کوئی نہیں ہو سکتا.دنیا کی تاریخ کو دیکھ لو کہ ایسی حکومتیں ہمیشہ دیر پا رہی ہیں اور انہوں نے اکثریت کو بالکل تباہ کر دیا ہے.ہندوستان میں ہی اچھوت اقوام کو دیکھ لو کہ ایک زبر دست اکثریت سے اب وہ اقلیت میں بدل گئی ہے.اور ان کے حالات جس قدر خراب ہیں وہ بھی ظاہر ہیں.پس میرے نزدیک بغیر ایک ایسے فیصلہ کے جسے پبلک پر ظاہر کر دیا جائے ایسا سمجھو تہ مفید نہیں ہو سکتا.کیونکہ نفع یا نقصان تو پبلک کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.ممکن ہے غیر مسلم لیڈر مسلمانوں کو بعض حق دینے کے لئے تیار ہو جائیں لیکن ان کی قومیں تسلیم نہ کریں.پھر ایسے سمجھوتے سے کیا فائدہ یا مسلمان لیڈر بعض حق چھوڑنے کا اقرار کر لیں.لیکن مسلمان پبلک اس کے لئے تیار نہ ہو اور ملک کی قربانیاں را نگاں جائیں اور فساد اور بھی بڑھ جائے.جہاں تک میں سمجھتا ہوں کوئی سمجھوتہ مسلمانوں کے لئے مفید نہیں ہو سکتا جب تک وہ لاکھوں مسلمانوں کی بدحالی اور بے کاری کا علاج تجویز نہ کرتا ہو یعنی ان کی تعداد کے قریب قریب انہیں ملازمتوں اور ٹھیکوں وغیرہ میں حق نہ دلاتا ہو.جو سمجھو تہ اس امر کو مد نظر نہیں رکھتا وہ نہ کامیاب ہو سکتا ہے اور نہ امن پیدا کر سکتا ہے.عوام لیڈروں کے لئے قربانی کرنے میں بے شک دلیر ہوتے ہیں لیکن جب ساری جنگ پیٹ کے لئے ہو اور پیٹ پھر بھی خالی کا خالی رہے تو عوام الناس زیادہ دیر تک صبر نہیں کر سکتے اور ان کے دلوں میں لیڈروں کے خلاف جذبہ نفرت پیدا ہو جاتا ہے.اور ایسے فتنہ کا سد باب کر دینا شروع میں ہی مفید ہو تا ہے.یہ میرا مختصر مشوره مسلمانان کشمیر کو ہے وہ اپنے مصالح کو خوب سمجھتے ہیں اور سمجھ سکتے ہیں میں تو اب کشمیر کمیٹی کا پریذیڈنٹ نہیں ہوں اور یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ آیا کشمیر کمیٹی کی رائے اس معاملہ میں کیا ہو گی.لیکن سابق تعلقات کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے مشورہ دینا مناسب سمجھا.عقلمند وہی ہے جو پہلے سے انجام دیکھ لے.میرے سامنے سمجھوتہ نہیں نہ صحیح معلوم ہے کہ کن حالات میں اور کن سے وہ سمجھوتہ کیا گیا ہے.میں تو اخبارات میں شائع شدہ حالات کو دیکھ کر یہ نتیجہ نکالتا ہوں کہ اس کا سمجھوتہ مسلمانوں اور غیر مسلموں میں ہوا ہے.اور اس کے مطابق اب دونوں قومیں مشترکہ قربانی پر تیار ہو رہی ہیں.پس میں اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ قربانی ایک مقدس شے ہے اور بہت بڑی ذمہ داریاں اپنے ساتھ رکھتی ہے.مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کو اچھی طرح سوچ لینا چاہئے کہ وہ کسی امر کے لئے قربانی کرنے لگے ہیں.اور یہ کہ وہ اس امر کو نباہنے کی طاقت رکھتے ہیں یا نہیں.اور کہیں ایسا تو نہیں کہ موجودہ سمجھو تہ بجائے پریشانیوں کے کم کرنے کے نئی پریشانیاں پیدا کر دے.انگریزی کی ایک مثل ہے کہ کڑاہی سے نکل کر آگ میں گرا.سو یہ دیکھ لینا چاہئے کہ جد وجہد کا نتیجہ یہ
تاریخ احمد بیت - جلد ۵ 616 تحریک آزادی کشمیر ا د ر جماعت احمدیه ہے کہ سب کڑاہی سے نکل آئیں گے یا یہ کہ بعض کڑاہی سے نکل کر باہر آجا ئیں گے اور بعض آگ میں گر کر بھونے جائیں گے.میں اس موقعہ پر حکومت کو بھی یہ نصیحت کروں گا کہ پبلک کے مفاد کا خیال رکھنا حکومت کا اصل فرض ہے.اسے چاہئے کہ اپنے زور اور طاقت کو نہ دیکھے بلکہ اس کو دیکھے کہ خدا نے اسے یہ طاقت کیوں دی ہے ؟ حاکم اور محکوم سب ایک ہی ملک کے رہنے والے ہیں.پس اگر وہ اپنی ہی رعایا کا سر کچلنے لگے تو یہ امر حکومت کی طاقت کے بڑھانے کا موجب نہیں ہو سکتا.جو ہاتھ دوسرے ہاتھ کو کاٹتا ہے وہ اپنی طاقت کا مظاہرہ نہیں کرتا بلکہ وہ اپنی جڑ پر تیر رکھتا ہے.یہ اہالیان کشمیری ہیں جو ہزہائی نس مہاراجہ کی عزت کا موجب ہیں ان کو اپنے ہم عصروں میں عزت اسی سبب سے ہے.کہ ان کی رعایا میں ۳۶ لاکھ افراد ہیں.اور اگر وہ افراد ذلیل ہیں تو یقیناً ان کی عزت اتنی بلند نہیں ہو سکتی جتنی بلند کہ اس صورت میں کہ وہ افراد معزز ہوں.پس ادنی ترین کشمیری ریاست کشمیر کی شوکت کو بڑھانے والا ہے.اور وہ حکام جو اس کی عزت پر ہاتھ ڈالتے ہیں اس کی عزت پر نہیں بلکہ ریاست کی عزت پر ہاتھ ڈالتے ہیں.اس نازک موقعہ پر انہیں صبر اور تحمل سے کام لینا چاہئے.اور رعایا کے صحیح جذبات سے ہزہائی نس کو آگاہ رکھنا چاہئے کہ وفاداری کا یہی تقاضا ہے اور خیر خواہی کا یہی مطالبہ.اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ ہز ہائی نس کو اپنی رعایا سے رحم اور انصاف کی اور حکام کو دیانتداری اور ہمدردی کی اور پالک کو سمجھ اور عقل کی توفیق دے تاکہ کشمیر جو جنت نظیر کہلاتا ہے.جنت نہیں تو اپنے ان باغوں جیسا تو دلکش ہو جائے.جن کی سیر کرنے کے لئے دور دور سے لوگ آتے ہیں.واخر دعونا ان الحمد لله رب العلمين خاکسار میرزا محمود امام جماعت احمدیہ - قادیان سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے بعض نہایت اہم غیر مطبوعہ مکتوبات متوب (۱) الفیض لاہور ۲۵۰ / اکتوبر ۱۹۳۱ء.مکرمی در دو غزنوی صاحب السلام علیکم و رحمتہ اللہ.آپ لوگوں کے کام سے نہایت خوش ہوں.اللہ تعالی کامیاب فرمائے.میں نے کل تار دیا تھا کہ بدھ تک کام بند کر دیں.جواب بھی مل گیا ہے.اس عرصہ میں احرار نے اعلان کیا ہے کہ جیون لال کی تار آئی ہے کہ میں آپ لوگوں سے ملنے کے لئے آ رہا
تاریخ احمدیت جلده 617 تحریک آزادی کشمیراد رجماعت احمد به ہوں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حکام دو طرفہ چال چل رہے ہیں.میں نے صاف کہہ دیا ہے کہ معاملہ کو صاف کریں.واللہ اعلم کیا بات ہے.ابھی ان کا پیغام آیا ہے کہ یہ بات بھی غلط ہے کہ جیون لال وہاں سے چلے ہیں.وہ اب تک وہیں ہیں.کل کی تار کا موجب وزیر اعظم کی تار تھی کہ تقریریں رکوائیں.رات کو یہ سمجھوتہ ہوا تھا کہ میں جاؤں اور میری موجودگی میں نمائندوں سے ریاست فیصلہ کرے اور ابتدائی حقوق کا اعلان کرے.اور کمشن میں مناسب تبدیلی کرے.لیکن جب میں صبح اس غرض سے آدمی بھیجنے والا تھا تو وہ دوست جن کی معرفت کام ہو رہا تھا آئے اور خواہش ظاہر کی کہ مہاراجہ صاحب سردی سے تکلیف میں ہیں.وقت لمبا کر دیا جائے وہ جموں تشریف لے آئیں تو آسانی ہوگی.میں نے کہا کہ بغیر اس کے کہ حقوق کا اعلان ہو اور میعاد بڑھانے کو تیار نہیں.جموں ہمارے لئے مضر ہے کہ وہاں ہندوؤں کا زور ہے انہوں نے کہا کہ وہ کون سے امور ہیں جن کا اعلان ضروری ہے.میں نے وہ امور لکھوا دیئے اس پر انہوں نے کہا کہ اگر وہ نہ مانیں.میں نے جواب دیا کہ پھر ریاست سے مقابلہ ہو گا.اور کہا ہاں وہ تبدیلیاں پیش کریں تو بے شک میں غور کرنے کو تیار ہوں.انہوں نے کہا کہ اگر مہاراجہ خود بلا کر نمائندوں سے کہیں کہ کچھ دن کی اور مہلت دے دو.میں نے کہا کہ اس میں ان کی فتح ہے.میں سفارش کروں گا کہ کچھ دن اور پڑھا دو باقی اپنی مصلحت وہ خود سمجھ سکتے ہیں.اس پر انہوں نے کہا کہ اگر یوں ہو کہ کچھ مہلت مل جائے اور اس عرصہ میں وقت مقرر ہو کر راجہ ہری کشن کول صاحب باہر آکر آپ سے ملیں.میں نے کہا کہ مجھے ان سے ملنے کا شوق نہیں.اصل سوال تو اہل کشمیر کے خوش ہونے کا ہے اگر وہ ساتھ ہوں اور خوش ہو جائیں تو مجھے کچھ اعتراض نہیں اس پر وہ تینوں تجویز میں لے کر گئے ہیں.لیکن جیون لال صاحب کی تار نے اور آپ کی تار نے شبہ ڈال دیا ہے اس لئے آپ لوگ بھی ہوشیار رہیں.کلنسی صاحب کے متعلق الگ ہدایات میں ذکر کروں گا.نہایت مخفی بات ہے.احرار باہر یہ مشہ کر رہے ہیں کہ قادیانی پرو پیگنڈا کی وجہ سے ہمیں آنا پڑا.لیڈروں نے روپیہ کھا لیا ہے اور مصنوعی تاریں دلوا رہے ہیں کہ نمائندوں پر ہمیں اعتبار نہیں آپ لوگ اس سے بھی ہوشیار رہیں.خاکسار مرزا محمود احمد - او پر جن تجاویز کا ذکر آیا ہے.ان کا مسودہ حضور کے قلم سے درج ذیل کیا جاتا ہے) عارضی معاہدہ کی شرائط بشهور میر پور کوٹلی ، راجوری کشمیر و پونچھ وغیرہ کے فسادات کے متعلق ایک کمیشن جس میں ایک حج
تاریخ احمدیت.جلد ۵ -11 618 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ مسلمان ایک ہندو اور ایک انگریز ہو مقرر کر دیا جائے.ایسے بج ہوں جن پر فریقین کو اعتماد ہو.ان علاقوں میں فورا کم سے کم پچاس فیصدی افسر یعنی وزیر وزارت ، سپرنٹنڈنٹ پولیس انسپکٹران پولیس ، مجسٹریٹ درجہ اول و دوم مسلمان مقرر کر دیئے جائیں اور موجودہ تمام افسر وہاں سے بدل دیے جائیں.گور نر کشمیر کو بھی وہاں سے فور ابدل دیا جائے.قانون ، پریس اور ایسوسی ایشن انگریزی اصول پر فورا جاری کر دئے جائیں، قانون، آزادی تقریر ابھی جاری ہو جائے.لیکن اگر اس کا اجرا دو تین ماہ کے لئے بعض قیود کے ماتحت ہو تو معقول قیود پر اعتراض نہ ہو گا.معاملہ وکاہ چرائی و ٹیکس درختاں وغیرہ کے متعلق ایک کمشن مقرر کر کے مزید کمی کی جائے اور جہاں مناسب چراہ گاہیں نہیں وہاں کاہ چرائی کا ٹیکس بالکل اڑادیا جائے جہاں چراگاہیں ہیں وہاں اس میں معقول تخفیف کی جائے.معاملہ کے لگانے میں جو زیادتیاں اور بے قاعدگیاں ہوئی ہیں اور مسلمانوں پر زائد بوجھ ڈالا گیا ہے اس کی اصلاح کی جائے.جن جن علاقوں کے لیڈر سول نافرمانی بند کرنے کا اعلان کریں اور جہاں لوگ معاملہ دینے لگ جائیں یا دے چکے ہوں وہاں سے آرڈنینس ہٹا دیا جائے.بعض افراد کے جرم قوم کی طرف منسوب نہ ہوں کثرت دیکھی جائے کہ کدھر ہے.چونکہ مسلمانوں کو واقع میں روپیہ نہیں ملتا.جن لوگوں کے پاس روپیہ نہیں معقول شرائط پر معاملہ کی ادائیگی کے لئے انہیں قرض دلوایا جائے.ورنہ جب ان کے پاس ہو ہی نہ تو انہیں مجرم قرار نہ دیا جائے.فیصلہ کر دیا جائے کہ دس سال کے عرصہ میں کم سے کم پچاس فیصدی افسر اور ماتحت عملہ قریباً مسلمانوں میں سے مقرر کیا جائے گا اور اس کے لئے ایسے قواعد تجویز ہو جا ئیں کہ اس فیصلہ پر عمل ہو نا یقینی ہو جائے.جو سیاسی قیدی اس سمجھوتہ پر دستخط کر دیں ان کو رہا کر دیا جائے اور جن ملزموں کے متعلق مسلمانوں کو شبہ ہو کہ ان کا اصل جرم سیاسی ہے صرف ظاہر میں کوئی اور الزام لگایا گیا ہے ان کے کیس پر غور کرنے کے لئے ایک ایسا حج جس پر مسلمانوں کو اعتماد ہو مقرر کیا جائے.جو مستقل مطالبات ۱۹ / اکتوبر ۱۹۳۱ء کو مسلمان نمائندوں کی طرف سے پیش کئے گئے ہیں.ان کے متعلق چھ ماہ کے اندر ریاست اپنا آخری فیصلہ شائع کر دے.
تاریخ احمد بیت - جلده 619 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ مکتوب نمبر ۲: مکرمی در د صاحب السلام علیکم ورحمتہ اللہ.ایک خط ابھی غزنوی صاحب کو لکھا ہے اس کے ضروری مطالب سے وہ آپ کو آگاہ کر دیں گے.جموں کے واقعات سخت قابل افسوس ہیں.بالا بالا کام سے سب کوشش کے تباہ ہونے کا اندیشہ ہے اللہ تعالیٰ رحم فرمائے.اگر اس طرح ایک جگہ کام شروع نہ کیا جاتا تو اس طرح بے دردی سے حملہ کرنے کی ریاست کے عمال کو جرات نہ ہوتی اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو نظام کی پابندی کی توفیق دے.سیاہ نشان کے پروگرام کے متعلق اطلاع نہیں ملی.اس طرح کشمیر کے لوگوں کی حقیقی تعداد کا جو اس تحریک سے دلچسپی لیتی ہے خوب پتہ لگ جاتا اور دلوں میں ہر وقت آزادی کی لہر دوڑتی رہتی نہ معلوم ابھی تک عمل شروع ہوا یا نہیں.یہ پروگرام بہترین تعمیری پروگرام ہے اور ایک رنگ میں مردم شماری.کیونکہ ہر سیاہ نشان لگانے والا بغیر ایک لفظ بولنے کے اپنے مقصد کی تبلیغ بھی کرتا اور دوسرے ایک نظر سے معلوم ہو سکتا کہ کس حد تک لوگ ہمدردی رکھتے ہیں.گویا دل بھی مضبوط ہوتے.پرو پیگنڈا ہو تا.اپنوں کو اپنے اثر کا علم ہوتا اور ریاست پر رعب پڑتا.اگر عمل نہیں ہوا تو اب توجہ ولا ئیں.ظاہری نشانات باطنی حالتوں پر خاص روشنی ڈالتے ہیں.کل آپ کی تار قانونی امداد کے متعلق ملی ہے.پہلے لکھ چکا ہوں کہ قانونی امداد تیار ہے.لیکن سوال تو یہ ہے.(۱) مقدمات کب شروع ہوں گے.(۲) کو شش ہو کہ ایک مجسٹریٹ متواتر سنے.(۳) کمشن کا اس وقت تک بائیکاٹ ہو جب تک پہلے کمشن کی رپورٹ رد نہ ہو اور نئے کمشن کو مسلمانوں کی مرضی کے مطابق نہ بنایا جائے.ورنہ دوسرا کمیشن بھی مضر ہو گا.اور جب تک مسلمانوں کی مظلومیت ثابت نہ ہو کانسٹی چیوشنل کمشن پر زور سفارش نہیں کر سکتا.اساسی کمیشن کا بھی اس وقت تک بائیکاٹ ہونا چاہئے جب تک اس کی ہیئت ترکیبی درست نہ ہو.پس بغیر ان امور کے تصفیہ کے آپ وکیل کیوں طلب کر رہے ہیں یہ سمجھ میں نہیں آیا بہر حال دوستوں کو یقین دلائیں کہ انشاء اللہ وکلاء پہنچ جائیں گے ( آپ وزیر اعظم سے مل کر یہ کوشش کریں کہ ایڈووکیٹ اور بیرسٹر کے بغیر بھی دوسرے وکلاء کو اجازت مل جائے.اس میں سہولت رہے گی........خاکسار مرزا محمود احمد مکتوب نمبر ۳ مکرمی و معظمی راجہ سرہری کشن صاحب کول- آپ کا خط مجھے ملا.اگر ہزہائی نس مہاراجہ صاحب جموں و کشمیر خیال فرماتے ہیں کہ میری ملاقات سے کوئی بہتر صورت پیدا ہو سکتی ہے
620 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد و اور امن کے قیام میں مدد مل سکتی ہے تو مجھے ان کی ملاقات کے لئے کسی مناسب مقام پر آنے پر کوئی اعتراض نہیں.میں بڑی خوشی سے اس کام کو کروں گا.حقیقت یہ ہے کہ ریاست کا فائدہ مہاراجہ صاحب کے منشاء پر منحصر ہے.کیونکہ فائدہ تب ہی ہو سکتا ہے اگر مہاراجہ صاحب مجھ سے اس امر پر گفتگو کرنے کو تیار ہوں کہ مسلمانوں کے مطالبات میں سے کون سے ایسے امور ہیں جن کے متعلق خود مہاراجہ صاحب اعلان کر سکتے ہیں اور کون سے ایسے امور ہیں جن کا اصولی تصفیہ اس وقت ہو سکتا ہے لیکن ان کی تفصیلات کو کلنسی کمیشن کی رپورٹ تک ملتوی رکھنا ضروری ہے اور کون سے ایسے امور ہیں کہ جن کے لئے کلی طور پر کنسی کمیشن کی رپورٹ کا انتظار کرنا چاہئے.اگر مہاراجہ صاحب اس قسم کی گفتگو کرنے پر تیار ہوں اور اس امر کو پسند فرمالیں کہ وہ کسی مناسب مقام پر جیسے چھاؤنی سیالکوٹ میں تشریف لے آئیں تو میں چند ممبران کشمیر کمیٹی کو ہمراہ لے کر وہاں آجاؤں گا تاکہ جو گفتگو ہو میں فورا اس کے متعلق ممبروں سے گفتگو کرلوں اور فیصلہ بغیر نار اجب دیر کے ہو سکے.مجھے یقین ہے کہ اگر ایسا انتظام ہو گیا تو یقینا ریاست اور مسلمانوں دونوں کے لئے مفید ہو گا.کیونکہ میرا یا میرے ساتھیوں کا ہرگز یہ منشاء نہیں کہ فساد پھیلے.ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کی صورت پیدا ہو جائے.اس صورت میں ہم پوری طرح امن کے قیام کے لئے کوشش کریں گے.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد مکتوب نمبر ۴: مکرمی راجہ سرہری کشن کول صاحب.آپ کا خط مورخہ ۳۱/ دسمبر ۱۹۳۱ء ملا.جس کا شکریہ ادا کرتا ہوں.چونکہ مقدم چیز یہ ہے کہ ہزہائی نس مہاراجہ صاحب سے میری ملاقات کوئی فید نتیجہ پیدا کرے.اس لئے سردست میں ملاقات کی جگہ کے سوال کو نظر انداز کرتا ہوں اور اصل سوال کو لیتا ہوں جو مسلمانوں کے حقوق کے تصفیہ کے متعلق ہے.اگر ان امور کے متعلق ہزہائی نس مہاراجہ صاحب ہمدردانہ طور پر غور فرمانا چاہیں تو میں انشاء اللہ پوری کوشش کروں گا کہ مناسب سمجھوتہ ہو کر ریاست میں امن قائم ہو جائے.مسلمانان کشمیر کے مطالبات کے جواب میں جو اعلان ہزہائی نس مہاراجہ بہادر نے ۱۲/ نومبر ۱۹۳۱ء کو فرمایا وہ بحیثیت مجموعی بہت قابل قدر تھا.اور اسی لئے مسلمانان کشمیر اور آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے اس کے متعلق قدردانی اور شکریہ کا اظہار کیا.مگر جیسا کہ آپ کو معلوم ہے جو مطالبات ریاست کے سامنے نمائندگان نے پیش کئے تھے ان میں نو امور ایسے تھے جن کے متعلق ان کا مطالبہ تھا کہ ان کا مناسب
تاریخ احمدیت جلد ۵ 621 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد به فیصلہ فورا کیا جائے.میں سمجھتا ہوں کہ ان کے متعلق فوری فیصلہ کرنے میں کوئی روک نہیں.اور وہ ہر گز کسی قسم کے کمشن کے قیام کے محتاج نہیں ہیں.مگر میں افسوس کرتا ہوں کہ اب تک ان مطالبات کے متعلق کوئی کارروائی اس رنگ میں نہیں ہوئی کہ مسلمانوں کی تسلی کا موجب ہو.سب سے پہلا مطالبہ یہ تھا کہ جن حکام نے مسلمانوں کے مذہبی احساسات کو صدمہ پہنچایا ہے انہیں مناسب سزا دی جائے دلال کمیشن حالا نکہ مسلمان اس پر خوش نہیں تسلیم کرتا ہے کہ ایک انسپکٹر پولیس نے خطبہ سے امام کو روک کر فساد کی آگ بھڑکائی لیکن اس وقت تک اسے کوئی سزا نہیں دی گئی اور نہ اس شخص کو جس نے قرآن کی بنک کی تھی کوئی سزادی گئی.اس کا ریٹائر ہو نا طبعی وقت پر ہوا ہے اور وہ کوئی سزا نہیں.دو سرا مطالبہ جو مقدس مقامات کے متعلق تھاوہ ایک حد تک پورا ہو رہا ہے.لیکن اول تو ابھی بہت سے مقدس مقامات واگزار ہونا باقی ہیں.علاوہ ازیں جو مسجد واگزار کی گئی ہے.یعنی پتھر مسجد وہ ایسی خراب حالت میں ہے کہ مسلمانوں پر اس کی مرمت کا بوجھ ڈالنا ایک سزا ہو گا.اس کے متعلق ضروری ہے کہ مسجد کے گرد کا علاقہ بھی اگر اب تک واگزار نہیں ہوا.واگزار کیا جائے.نیز ریاست کو چاہئے کہ مسجد کی مرمت کے لئے بھی ایک معقول رقم دے تاکہ مسجد کے احترام اور تقدس کے مطابق اس کی واجبی مرمت کروائی جاسکے.تیسرا مطالبہ بھی مکمل طور پر پورا نہیں کیا گیا.کیونکہ بعض ایسے ملازم ہیں کہ جن کو گواہیاں دینے یا مسلمانوں کی ہمدردی کے جرم میں دوریا خراب مقامات پر تبدیل کر دیا گیا ہے اور ابھی تک انہیں اپنے مقامات پر واپس نہیں لایا گیا.چوتھا مطالبہ تازہ فسادات میں مقتولوں کے وارثوں اور زخمیوں کو معارضہ اور گزارہ دینے کا تھا.جہاں تک مجھے بتایا گیا ہے اس کو بھی اب تک عملاً پورا نہیں کیا گیا اور اکثر غرباء اب تک فاقوں مرد ہے ہیں.حالانکہ یہ کام جس قدر جلد ہو تا خود ریاست کے حق میں مفید ہو تا اور رعایا کے دلوں میں محبت پیدا کرنے کا موجب.مطالبہ نمبرہ کے متعلق بھی مناسب کارروائی نہیں ہوئی اور اب تک بعض سیاسی قیدی جیسے میاں عبد القدیر قید ہیں.اگر ہنزہائیس ایسے قیدیوں کو چھوڑ دیں تو یقینا اچھی فضا پیدا ہو جائے گی.مطالبہ نمبر کے متعلق کمیشن بیٹھ چکا ہے اور اس کے لئے ہم ریاست کے ممنون ہیں.مطالبات نمبر سات آٹھ نو در حقیقت ایسے مطالبات ہیں کہ جن کا مسلمانوں کے حقیقی مفاد سے تعلق ہے.بلکہ سات اور نو کا ریاست کی تمام رعایا کو فائدہ پہنچتا ہے.ان میں سے نو کے سوا دو سرے
تاریخ احمدیت جلد ۵ 622 تحریک آزادی کشمیر اد ر جماعت احمدیه دونوں مطالبات کو ابھی عملاً پورا نہیں کیا گیا.حالانکہ ان کے فوری طور پر پورا ہونے میں کوئی مشکل نہ تھی.ریاست اور انگریزی علاقہ میں اس بارہ میں ایک سے حالات ہیں اور جو قانون انگریزی علاقہ میں ہے کوئی وجہ نہیں کہ ریاست میں وہ فورا جاری نہ ہو سکے.مطالبہ نمبرے کے متعلق سنا گیا ہے کہ مسٹر کنسی رپورٹ کر چکے ہیں کہ پرلین اور انجمنوں اور تقریر کی آزادی دی جائے.اگر یہ خبر صحیح ہے تو یہ امر اور بھی قابل افسوس ہے کہ اب تک اس کے متعلق فیصلہ نہ کر کے فضا کو خراب ہونے دیا گیا ہے.مطالبہ نمبر آٹھ بھی ایسا مطالبہ ہے کہ جس کے متعلق انگریزی حکومت کو جہاں ہندو آبادی کی اکثریت ہے ایک فیصلہ کر چکی ہے اگر اس قانون کو ریاست کشمیر میں کہ جہاں اکثریت مسلمانوں کی ہے جاری کر دیا جائے تو اس میں کوئی حرج نظر نہیں آتا.مطالبہ نمبر نو کے متعلق ہز ہا ئینیس نے مہربانی فرما کر یہ اعلان کیا ہے کہ وہ آئندہ اپنی رعایا کو زیادہ سے زیادہ حکومت میں حصہ لینے کا موقعہ دیں گے.لیکن یہ الفاظ اصل مطالبہ پر حاوی نہیں.ہز ہائینس کی رعایا کا مودبانہ مطالبہ یہ تھا کہ حکومت کے انتظام کی ترتیب ایسی ہو کہ آہستہ آہستہ حکومت نمائندہ ہو جائے.ہر ہائیس مہاراجہ صاحب بہادر کے وعدہ کے الفاظ ایسے ہیں کہ اگر صرف ملازمتیں مسلمانوں کو زیادہ دے دی جائیں تو ان الفاظ کا مفہوم ایک گونہ پورا ہو جائے گا.حالانکہ اصل مطالبہ اور ہے.پس اگر اس امر کی تسلی دلا دی جائے کہ " ON ,"INCREASING ASSOCIATION" سے مراد نمائندہ حکومت کے اصول پر حکومت کو قائم کرنا ہو گا.خواہ اس کی پہلی قسط آخری قسط کو پورا کرنے والی نہ ہو تو یہ امر یقینا رعایا کی تسلی کا موجب ہو گا.مطالبات کے متعلق اپنے خیالات ظاہر کرنے کے بعد میں یہ زائد کرنا چاہتا ہوں کہ بعض حالات ان مطالبات کے تیار ہونے کے بعد حوادث زمانہ کی وجہ سے یا ریاست کے بعض اعلانات کی وجہ سے نئے پیدا ہو گئے ہیں ان کے متعلق ہمدردانہ غور بھی ضروری ہے کیونکہ ان کے تصفیہ کے بغیر فساد کا منا مشکل ہے.سب سے پہلا سوال زمینداروں کی اقتصادی حالت تباہ ہو جاتا ہے.آپ جانتے ہیں کہ ریاست جموں کی سرحد اس حکومت سے ملتی ہے جس نے اس زمانہ میں جمہوریت کا ایک نیا مفہوم پیدا کیا ہے اور اس سے تمام دنیا میں ہیجان پیدا ہو گیا ہے.زمینداروں کی موجودہ تباہی نے ان خیالات کو رائج کرنے میں بے انتہا مدد دی ہے.انگریزی حکومت نے باوجود قیام امن کی خاطر کثیر رقوم خرچ کرنے کے اس وقت زمینداروں کا بوجھ کم کرنے کی ضرورت کو تسلیم کیا ہے.ریاست جموں نے بھی اپنے مالیہ میں
تاریخ احمدیت.جلده 623 تحریک آزادی کشمیر ا د ر جماعت احمد به تخفیف کی ہے.لیکن وہ تخفیف بہت کم ہے.زمیندار پر جو بار ریاست میں اس وقت ہے وہ انگریزی علاقہ کے زمیندار کے بار سے بہت زیادہ ہے.حالانکہ جو قیمت انگریزی علاقہ کے زمیندار کو اپنی پیداوار پر ملتی ہے اس سے بہت کم ریاست کے زمیندار کو اپنی پیداوار پر ملتی ہے.پس ان حالات کی طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے.اگر ریاست ایک سال کے لئے عارضی طور پر جب تک کہ گلنسی کمیشن کی رپورٹ پیش ہو کہ اس پر غور کیا جا سکے.ریاست کے زمینداروں کا بار تمام ٹیکسوں کو مد نظر رکھتے ہوئے انگریزی علاقہ کے بار کے مطابق کم کر دے تو نہ صرف یہ ایک انصاف کا کام ہو گا بلکہ اس سے رعایا اور رائی کے تعلقات کے درست ہونے میں یقیناً بہت کچھ مدد ملے گی.دوسرا تغیر جو بعد کے حالات سے پیدا ہوا ہے وہ جموں اور میر پور کے سیاسی قیدیوں کا سوال ہے.جب گاندھی اردن پیکٹ ہوا تھا تو تمام سیاسی قیدی حکومت برطانیہ نے بغیر کوئی معاہدہ لینے کے چھوڑ دیئے تھے.ریاست نے رعایا سے صلح تو کی لیکن قیدیوں کو نہیں چھوڑا اس کی وجہ سے ان قیدیوں کے دوستوں اور ساتھیوں کا دباؤ لیڈروں پر پڑ رہا ہے اور تعاون کی کارروائی پوری طرح نہیں ہو سکتی.میرے نزدیک یقینا ریاست کا اس میں فائدہ ہے کہ وہ ان قیدیوں کو چھوڑ دے.اگر وہ لوگ نئی فضا سے فائدہ نہ اٹھا ئیں تو انہیں پھر گرفتار کیا جا سکتا ہے.اور اس وقت یقینا رعایا کا سمجھدار طبقہ ریاست کے ساتھ ہوگا.ایک نیا تغیر گلنسی کمیشن کے قیام کی وجہ سے پیدا ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ مسلمان اس کی موجودہ ترکیب سے مطمئن نہیں لیکن جو کچھ پہلے ہو چکا وہ تو خیر ہو چکا آئندہ ایک نئی کمیشن قانون اساسی کے متعلق مقرر کی جائے گی.اس کی ترکیب سے پہلے مسلمانوں کے احساسات کو معلوم کر کے ان کا خیال رکھ لینا ضروری امر ہے.ولال کمیشن کے مسلمان مخالف تھے لیکن دلال کمیشن کی رپورٹ کا جو حصہ مفید تھا اب تک اس پر بھی عمل نہیں ہوا.یعنی (1) مسلمانوں کی ملازمتوں کے متعلق کوئی معین احکام جاری نہیں ہوئے.(۲) اس قسم کے غیر تعلیم یافتہ افسروں کو جن کے بے فائدہ ہونے کے متعلق کمیشن نے رائے ظاہر کی تھی اب تک ہٹایا نہیں گیا.یہ جملہ امور ایسے ہیں کہ جن پر گفتگو ہو کر کسی مفید نتیجہ کی امید ہو سکتی ہے اور اگر ہز ہائینس ان کے متعلق تبادلہ خیال کا مجھے موقع دیں تو میں ہز ہائینس کی ملاقات کو ایک مبارک بات سمجھوں گا جس سے لاکھوں آدمیوں کے فائدہ کی امید ہو گی.اور اگر کوئی مفید صورت نکلے تو آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے سامنے اس کا نتیجہ رکھ کر کوشش کروں گا کہ کوئی ایسی صورت نکلے جس سے جلد سے جلد امن 22
تاریخ احمد بیت - جلد ۵ 624 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ قائم ہو سکے.لیکن اگر ہز ہائیں کسی مصلحت کی وجہ سے ان امور پر غور کرنے کے لئے تیار نہیں تو محض ایک رسمی ملاقات باوجود اس ادب و احترام کے جو میرے دل میں ہز ہائینس کا ہے میں کہہ سکتا ہوں کہ کوئی مفید نتیجہ پیدا نہیں کر سکتی.میں خط ختم کرنے سے پہلے یہ بات بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ میرا یہ مطلب نہیں کہ ہر امر جس صورت میں نمائندوں نے پیش کیا ہے اسی صورت میں اس کے متعلق فیصلہ کیا جائے.وہ صرف ایک بنیاد ہے لیکن اگر کوئی ایسی راہ نکل آئے جو رعایا کے حقوق کی حفاظت کرتی ہو اور ساتھ ہی دالتی ملک کے احساسات اور ریاست کے حقیقی مفاد بھی اس میں ملحوظ رہتے ہوں تو ایسے تصفیہ پر مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا اور میں ایسے تغیرات کو ملک سے منوانے میں ہر طرح ہز ہائینیس کی حکومت کی امداد کروں گا.میں امید کرتا ہوں کہ آپ ہز ہائینس کو ایسا مشورہ دیں گے کہ کوئی راہ ملک میں قیام امن کی نکل آئے گی.ورنہ مجھے ڈر ہے کہ ایک لمبے عرصہ تک ایجی ٹیشن کے جاری رہنے کے بعد ایک طبقہ کو ایجی ٹیشن کی عادت ہی نہ پڑ جائے.جس کے بعد کوئی حق بھی ایسے لوگوں کو تسلی نہیں دے سکتا.یہ حالت ملک اور حکومت دونوں کے لئے نہایت خطرناک ہوتی ہے اور عظیم الشان انقلابات کے بغیر ایسی حالت نہیں بدلا کرتی.اللہ تعالیٰ ایسے ناگوار تغیرات سے مہاراجہ صاحب بہادر اور ان کی رعایا کو محفوظ رکھے.خاکسار مرزا محمو د احمد ۳۱/۱/۳۲ مکتوب نمبر ۵ مگر می ماسٹر محمد الدین صاحب السلام م علیکم و رحمتہ اللہ سید ولی اللہ شاہ صاحب بیمار ہیں اور درد صاحب وائسرائے کے ڈیپوٹیشن کے انتظام میں ہیں.یہ دونوں صاحب کشمیر کا کام کیا کرتے تھے اس لئے ایک ضروری امر کے لئے جس کا پیچھے ڈالنا مصلحت اور ضرورت کے خلاف ہے آپ کو تکلیف دیتا ہوں.....کاعلاقہ (نام پوری طرح حافظہ میں نہیں ہے) جموں کی ریاست کا حصہ ہے اور ٹھیکہ پر پونچھ کو لا ہوا ہے اس علاقہ کے لوگوں کی حالت ریاست کشمیر سے بھی خراب ہے.پونچھ کے لوگوں کو جو آزادیاں ہیں مثلاً بعض اقوام کو کاہ چرائی معاف ہے اس سے یہ لوگ محروم ہیں کہ تم جموں کے باشندے ہو.جموں میں درختوں وغیرہ کے متعلق جو میرپور کی تحصیل کو آزادی ہے...اس سے انہیں محروم رکھا جاتا ہے کہ تم پونچھ کے ماتحت ہو.
ار بن احمد بیت - جلده 625 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ پھر عجیب بات یہ ہے کہ پونچھ سے مال جموں میں لاتے وقت ریاست پونچھ ان سے کسٹمز و صول کرتی ہے.اور جب جموں میں آتے ہیں تو پھر در آمد کا ٹیکس انہیں دینا پڑتا ہے.اس طرح باہر سے لانے والے مال پر پہلے جموں والے اور پھر پونچھ والے کسٹمز لیتے ہیں حالانکہ یہ اصل میں جموں سے وابستہ ہیں اور کٹم کی چوکیاں پونچھ میں ہونی چاہئے تھیں.جموں کے علاقہ میں مال لانے یا وہاں سے لے جانے پر کوئی ڈیوٹی نہیں ہونی چاہئے تھی.اس تکلیف سے گھبرا کر ان لوگوں نے پروٹسٹ کیا اور حسب قواعد میرپور جس کے ساتھ اصولاً یہ وابستہ ہیں.بعض درخت کاٹے اور بوجہ جموں ریاست کے باشندے ہونے کے ڈیوٹی دینے سے انکار کیا تو موجودہ شورش سے فائدہ اٹھا کر ان لوگوں کے فعل کو پونچھ کی حکومت نے سول نافرمانی قرار دیا.حالا نکہ انہوں نے حکومت جموں کے جس کے یہ باشندے ہیں قانون نہیں توڑے.بلکہ ان پر اس کے مطابق عمل کیا.زیادہ سے زیادہ ان پر دیوانی ناشیں کر کے حکومت کو اپنا حق ثابت کرنا چاہئے تھا.پھر ان پر یہ ظلم ہے کہ یہ جموں کے باشندے ہیں وہیں ان کی رشتہ داریاں ہیں.لیکن باوجو د جموں کے ساتھ وابستہ ہونے کے ان کے مقدمات پونچھ میں سنے جاتے ہیں.حالانکہ زمینداری اگر ٹھیکے پر دے دی جائے تو یہ کسی حکومت کو حق نہیں کہ اپنی رعایا کے سول حقوق کسی اور حکومت کو دیدے.یہ بیل گائے نہیں ہیں کہ ان سے ایسا سلوک روارکھا جائے.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسٹر کالون نے ان لوگوں کو مسٹر جار ڈین کے پاس شکایات سنانے کو بھیجا تو انہوں نے انکار کر دیا.اس بناء پر کہ یہ علاقہ جموں میں نہیں پونچھ میں ہے حالانکہ حقیقتاً یہ جموں کا علاقہ ہے.آپ نے ان امور کو مسٹر کالون پر روشن کر کے یہ کوشش کرنی ہے کہ اس رد عمل کو دور کیا جائے.اگر پونچھ کو جموں نے امداد دینی ہے تو روپیہ دے لیں.یہ لوگ اپنے فروخت کئے جانے پر راضی نہیں.(1) ان کے مقدمات جموں کو رٹس میں ہوں.(۲) کسٹمز جموں اور اس کے علاقہ کے درمیان میں نہ ہوں بلکہ پونچھ کی کسٹمز کی چوکیاں ان کے علاقہ کے پرے پونچھ کے علاقہ میں ہوں انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے کہ پونچھ کے علاقہ سے ان کے علاقہ میں مال لانے یا وہاں لے جانے پر کسٹمز لی جائیں.(۳) اس وقت جو مقدمات خواہ مخواہ سول نافرمانی کے اٹھائے گئے ہیں.محض اس وجہ سے کہ پونچھ دربار اور جموں دربار میں جھگڑا ہے اور یہ لوگ جموں کے ساتھ ہیں.ان مقدمات کے سننے کے لئے عارضی طور پر جموں سے بج جائیں اور اپیل جموں کو رٹ میں ہو.(۴) کوئی انگریز افسر مسٹرا تھر یا مسٹر جار ڈین یا اور کوئی افسر ریاست کا خواہ انگریز نہ ہو ان امور کی تحقیق کے لئے جائے اور علاقہ کے لوگوں کو سب حالات اور ثبوت اس کے پاس پیش کرنے کی اجازت ہو.سرسری کارروائی نہ ہو.(۵) اس وقت تک مقدمات کی
تاریخ احمدیت جلد ۵ 626 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ کارروائی ملتوی رہے.مسٹر کالون کے علاوہ ریذیڈنٹ سے بھی ملیں اور اسے یہ وجہ بتا ئیں کہ چونکہ یہ جھگڑا دو درباروں میں ہے جو دونوں آپ کے ماتحت ہیں اس لئے ہم آپ کے پاس آئے ہیں آپ ان واقعات کو دیکھ لیں کہ نا قابل برداشت ہیں.اس علاقہ میں گویا کوئی بھی حکومت نہیں.یہ اپنے حق کسی سے بھی مانگ نہیں سکتے.نہ ملازمتوں کا راستہ ان کے لئے پوری طرح کھلا ہے.کوشش کر کے مسٹر کلینسی کو بھی نہیں اور انہیں بھی سب حالات بتا کر مشورہ لیں.وہ آئندہ وزیر ریاست ہائے حکومت ہند میں ہونے والے ہیں.(۲) دو سرا امر ایک اور ہے اس کی تشریح کے لئے ایک خط بھجوا رہا ہوں اسے پڑھ لیں.اس کے متعلق بھی مسٹر کالون وزیر اعظم ریاست جموں اور ریزیڈنٹ کو ملیں.اس بارہ میں اول بد عنوانی ہوئی ہے.کہ جموں کی رعایا پر پونچھ والوں نے چھاپہ مارا ہے اور پھر انہیں پکڑ کر لے گئے ہیں.دوم.ان لوگوں نے ہندوؤں کو پناہ دی اور فساد کے وقت انہیں بچایا.لیکن انٹا ان پر ظلم کیا جارہا ہے.کہیں کہ اس بارہ میں ہم بحیثیت جماعت پروٹسٹ کرتے ہیں ہمارا فرض ہے کہ اپنی جماعت کے لوگوں کی مدد کریں اور اگر اس قدر ظلم ریاست نے روا رکھا اور فورا تحقیق کر کے شریروں کو سزانہ دی تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ آئندہ ہماری جماعت بھی بجائے فسادات سے بچنے کے ان میں حصہ لے ظلم ہو رہا ہے اور ریاست کے اعلیٰ حکام کوئی خبر نہیں لیتے.اس بارہ میں بھی پریذیڈنٹ سے ذکر کریں.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد مکتوب نمبر 4 : مولوی جلال الدین صاحب السلام علیکم.گو ہر الر حمن صاحب کا جرمانہ اب تک ادا نہیں ہوا اس وجہ سے ان کی قید بڑھ جانے کا اندیشہ ہے اس کی طرف فوری توجہ کریں.قاضی صاحب کی مراد دو سو ہے ایک سو گھر کے لئے اور ایک سو جرمانہ کی معلوم ہوتی ہے.اس حساب سے روپیہ ارسال کر دیا جائے.مرزا محمود احمد ۲۵/۶/۳۲ خلیفتہ المسیح الثانی
یت ، جلد ۵ 627 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ (فصل ششم) و آل جموں و کشمیر مسلم پولٹیکل کانفرنس" کی بنیاد مسلم کانفرنس کے قیام کی تحریک ریاست میں سیاسی انجمنوں پر پابندی تھی مگر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے تحریک آزادی کشمیر کی باگ ڈور سنبھالتے ہی مسلمانان کشمیر کی اندرونی تنظیم کی طرف پوری توجہات مبذول کر دی تھیں اور جونہی ریاستی حالات میں کچھ سکون ہوا.اور (گلانسی کمیشن کی رپورٹ کے بعد) فضا سازگار ہوئی.آپ نے ایک مطبوعہ مکتوب (برادران کشمیر کے نام آٹھواں خط) میں اہل کشمیر کو خاص طور پر تحریک فرمائی کہ ایک ضروری بات میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کی کامیابی کو دیکھ کر ہندوؤں نے بھی ایجی ٹیشن شروع کیا ہے.اور وہ نہیں چاہتے کہ مسلمانوں کو جو تھوڑے بہت حقوق ملے ہیں.وہ بھی انہیں حاصل رہیں.اگر اس موقعہ پر مسلمانوں نے غفلت سے کام لیا.تو ہند و یقیناً اپنا د عا حاصل کرلیں گے پس اس وقت ضرورت ہے کہ مسٹر عبد اللہ کی عدم موجودگی میں ایک انجمن مسلمانوں کے سیاسی حقوق کی حفاظت میں بنائی جائے.اور وہ انجمن اپنی رائے سے حکومت کو اطلاع دیتی رہے.ینگ مین مسلم ایسوسی ایشن کے اصول پر اگر ایک انجمن تیار ہو تو یقیناً اس کے ذریعہ سے بہت سا کام کیا جا سکتا ہے.یہ مت خیال کریں کہ بغیر اجازت کے انجمن نہیں بن سکتی.انجمنوں کی ممانعت کا کوئی قانون دنیا کی کوئی حکومت نہیں بنا سکتی.آخر ہندو انجمنیں بنا رہے ہیں آپ کی انجمن نہ خفیہ ہو گی نہ باغیانہ.پھر حکومت اس بارہ میں کس طرح دخل دے گی.میں امید کرتا ہوں کہ نوجوان فورا اس طرف قدم اٹھائیں گے اور اس ضرورت کو پورا کریں گے ورنہ سخت نقصان کا خطرہ ہے.اور بعد میں پچھتانے سے کچھ نہ ہو گا".یہ زمانہ مسلمانان کشمیر کے لئے ہر لحاظ سے نہایت نازک زمانہ تھا چنانچہ جناب چوہدری غلام عباس صاحب کا اقرار ہے کہ اس وقت تک مسلمانوں نے جو کچھ کیا تھا.وہ بے سرو سامانی اور افراتفری کی حالت میں کیا تھا نہ مسلمانوں کا کوئی فنڈ (بیت المال) تھا اور نہ کوئی باقاعدہ ذریعہ آمدن کہ جس سے جماعتی اور قومی امور خوش اسلوبی اور بے فکری سے پورے ہو سکتے.قریباً قریباً تمام کارکن نو عمر تھے نہ ان کا کوئی ذاتی سرمایہ تھا اور نہ کوئی ذریعہ معاش " -
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 628 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ شیخ محمد عبد اللہ صاحب کی ایک درخواست اس ماحول میں "میر شیر شیخ حمد حمدالله صاحب ایم ایس سی مشورہ کرنے اور دوسرے کوائف ریاست بیان کرنے کے لئے لاہور میں حضور کی ملاقات کے لئے تشریف لائے اور واپس سرینگر پہنچ کر ۸ / جولائی ۱۹۳۲ء کو مندرجہ ذیل مکتوب حضور کے نام لکھا./ جولائی ۶۳۲ S.M.ABDULLAH.M.S.(ALIG) SRINAGAR جناب حضرت میاں صاحب دام اقبالہ ! السلام علیکم و رحمتہ اللہ میں حضور کی نوازشات کا تہ دل سے مشکور ہوں.آج میں لاہو ر ہوتے ہوئے جموں اور پھر کشمیر واپس جا رہا ہوں.جیسا کہ میں نے ظاہر کر دیا ہے کہ میں ستمبر کے پہلے ہفتے میں ایک پولٹیکل کانفرنس کشمیر میں بلوا رہا ہوں.اس کے بعد شملہ جانے کا خیال ہے جیسا کہ حضور کو بھی معلوم ہے اگر حضور اگست کے دو سرے ہفتہ میں کشمیر چند دن کے لئے تشریف لے آویں- تو کانفرنس کے کامیاب بنانے میں ہمیں بہت امداد مل سکتی ہے.بلکہ ضرورت بھی ہے کہ حضور ابھی سے مجھے شملہ جانے اور کانفرنس کے پروگرام کے متعلق تفصیلی ہدایات و تجاویز بھیج کر میری راہنمائی فرما دیں مشکور ہوں گا کانفرنس کی معین تاریخ کے متعلق میں حضور کو سرینگر سے مطلع کروں گا.مجھے امید ہے کہ حضور آج سے کانفرنس کے کامیاب بنانے میں سعی فرمائیں گے.والسلام آپ کا تابعدار عبد الله سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی خود تو تشریف نہ لے جاسکے.مگر آپ نے پہلے سید زین اور مولوی عبدالرحیم صاحب درد العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کو کانفرنس کے کے ہاتھوں کانفرنس کے انتظامات انتظام میں درد دینے کے لئے سرینگر بھجوا دیا اور کانفرنس کے پراپیگنڈا کے لئے میر پور کوٹلی کٹھوعہ ، بھیمہ ، راجوری اودھم پور اور ریاسی کو بھی نمائندہ کارکن روانہ کر دیئے.اور شیخ محمد عبد اللہ صاحب کو لکھا کہ میں جہاں تک ہو سکے گا آپ کی مدد کروں گا.مسٹر عبد اللہ کی حیثیت سے نہیں بلکہ اس خیال سے کہ اس وقت کشمیر میں آپ سے بہتر کوئی اور مخلص کارکن نظر نہیں آتا.(مکتوب محرره ۱۵/ ستمبر ۱۹۳۲ء) حضرت شاہ صاحب سرینگر پہنچے یہاں پہنچتے ہی سب سے پہلی اور بہت بڑی مشکل یہ آن پڑی کہ
تاریخ احمدیت - مبلده 629 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ حکومت کشمیر نے کانفرنس کے انعقاد کی منظوری دینے سے انکار کر دیا.حضرت شاہ صاحب مسٹر جارڈین ریاست کے پولٹیکل منسٹر سے ملے اور ان سے کہا.مجھے معلوم ہوا ہے کہ کو نسل نے شیخ محمد عبد اللہ صاحب کی درخواست رد کر دی ہے اور انہیں کانفرنس قائم کرنے کی اجازت نہیں دی کہنے لگے یہ درست ہے.شاہ صاحب نے کہا تعجب ہے کہ آپ جیسے مشیر سیاسی کی موجودگی میں یہ فیصلہ ہوا ہو پوچھا کیوں اس میں کیا غلطی ہے آپ نے فرمایا.کونسل نے بڑی غلطی کا ارتکاب کیا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ یہ لوگ سیالکوٹ جائیں گے.اور وہاں کا نفرنس قائم کریں گے.اور اس طرح یہ ان لوگوں کے ہاتھوں میں چلے جائیں گے.جو غیر آئینی سرگرمیاں کریں گے کہنے لگے آپ کو یقین ہے کہ وہ ایسا کریں گے شاہ صاحب نے جواب دیا مجھے قطعی یقین ہے.ملاقات سے فارغ ہو کر آپ شیخ محمد عبد اللہ صاحب کے پاس پہنچے جو ان دنوں بستر علالت پر پڑے ہوئے تھے.اور ان سے اور مولوی عبد الرحیم صاحب ایم.اے سے مشورہ کر کے شام کو پتھر مسجد میں ایک جلسہ کیا.جس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ جمع تھے.دو ایک تقاریر کے بعد شاہ صاحب نے نظام کی پابندی اور خدمت خلق وغیرہ پر اعتماد کرنے کی تلقین فرمائی.آخر میں عبدالرحیم صاحب ایم.اے (آف سرینگر) نے پبلک کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ حکومت نے انعقاد کا نفرنس سے متعلق درخواست ٹھکرا دی ہے.اور ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ سیالکوٹ میں ایک آفس قائم کیا جائے.اور وہیں کانفرنس کی بنیاد ڈالی جائے.چاروں طرف سے آوازیں آئیں ضرور ایسا کیا جائے.دوسرے روزگور نر سردار عطر سنگھ صاحب نے کشمیر کمیٹی کے دفتر واقع چنار باغ میں شاہ صاحب کو بلانے کے لئے اپنی کار بھیجی.شاہ صاحب ان سے ملے تو انہوں نے کہا کہ کل شام آپ نے بہت عمدہ تقریر کی جو رات ہی کو نسل میں پڑھی گئی ہے کو نسل اس شرط پر کانفرنس کی اجازت دیتی ہے کہ آپ تحریری ذمہ داری لیں.کہ کوئی فساد نہیں ہو گا.چنانچہ مسودہ کی عبارت لکھی گئی اور شاہ صاحب نے اس پر دستخط کر دیئے اور کانفرنس کی زور شور سے تیاریاں شروع کر دی گئیں اور ریاست کے چاروں طرف سے نمائندگان کی آمد شروع ہو گئی اس دوران میں ( کانفرنس سے دو ایک دن قبل) حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی کے حکم پر حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد (مع چوہدری ظہور احمد صاحب) بھی تشریف لے گئے.اور شاہ صاحب سے مل کر انتظامات کی نگرانی کے علاوہ مسودہ آئین کا نفرنس اور اس میں پیش ہونے والی قرار دادوں کی تیاری اور نظر ثانی میں مدد دینے لگے.آخر خدا کے فضل و کرم سے آل کشمیر مسلم کانفرنس مسلم کانفرنس کا پہلا تاریخی اجلاس کا پہلا تاریخی اجلاس پورے تزک و احتشام سے و (۱۵/ اکتوبر تا ۱۹/ اکتوبر ۱۹۳۲ء) برابر پانچ روز تک جاری رہا.مقام اجتماع پتھر مسجد تھا جہاں پندرہ
تاریخ احمدیت جلد ۵ 630 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ فٹ بلند چوبی پلیٹ فارم تعمیر کیا گیا تھا.جو دو سو نمائندوں اور ایک سو زائرین اور ممبران استقبالیہ کمیٹی کے لئے کافی تھا.پنڈال میں لاؤڈ اسپیکر بھی نصب تھا.مسلمانان ریاست کا یہ عظیم اجتماع بڑا شاندار اور کامیاب رہا.جس میں شیخ محمد عبد اللہ صاحب شیر کشمیر نے اپنا فاضلانہ خطبہ صدارت پڑھنے کے علاوہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا مندرجہ ذیل پیغام پڑھ کر سنایا."سب سے پہلے میں اپنی طرف سے اور آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی طرف سے آل کشمیر مسلم کانفرنس کے مندوبین کو ان قربانیوں پر جو انہوں نے اور ان کے اہل وطن نے کی ہیں.اور اس کامیابی پر جو انہوں نے آزادی کی تازہ جد وجہد میں حاصل کی ہے.مبارکباد دیتا ہوں.مجھے اس بات کا فخر ہے کہ بحیثیت صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی مجھے ان کے ملک کی خدمت کرنے کی خوشی حاصل ہوئی ہے جو ایک صدی سے زیادہ عرصہ تک خستہ حالت میں رہا ہے.برادران ! میں آپ کی کامیابی کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں.اور مجھے امید ہے کہ کانفرنس کی کارروائی میں کچی حب الوطنی کے جذبہ کے ماتحت جرأت میانہ روی ، رواداری، تشکر دانائی اور تدبر کے ذریعہ آپ ایسے نتائج پر پہنچیں گے جو آپ کے ملک کی ترقی میں بہت محمد ہوں گے اور اسلام کی شان کو دوبالا کرنے والے ہوں گے.برادران! میرا آپ کے لئے یہی پیغام ہے کہ جب تک انسان اپنی قوم کے مفاد کے لئے ذاتیات کو فنانہ کر دے وہ کامیاب خدمت نہیں کر سکتا.بلکہ نفاق اور اشتقاق پیدا کرتا ہے.پس اگر آپ کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو نفسانی خیالات کو ہمیشہ کے لئے ترک کر دو.اور اپنے قلوب کو صاف کر کے قطعی فیصلہ کردو کہ خالق ہدایت کے تحت آپ ہر چیز اپنے اس مقصد کے لئے قربان کر دیں گے جو آپ نے اپنے لئے مقرر کیا ہے.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم یعنی مسلمانان ہندوستان آپ کے مقصد کے لئے جو کچھ ہماری طاقت میں ہے سب کچھ کرنے کے لئے تیار ہیں.اور خدا کے فضل سے آپ ضرور کامیاب ہوں گے.اور امیدوں سے بڑھ کر ہوں گے.اور آپ کا ملک موجودہ مصیبت سے نکل کر پھر جنت نشان ہو جائے گا.اللہ تعالٰی آپ کے ساتھ ہو".اجلاس میں خوشی اور مسرت کی اس وقت ایک زبر دست لہر دوڑ گئی جب حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے یہ نہایت خوشکن اعلان کیا کہ راجہ صاحب پونچھ نے مسلمانوں کے بہت سے مطالبات منظور کرلئے ہیں.یہ سنتے ہی جلسہ گاہ تالیوں اور زین العابدین زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھا.اس موقعہ پر آپ نے مسلمانان پونچھ کی داستان مصیبت بیان کی اور انہیں دور کرنے کے لئے
حضرت امام جماعت احمدیہ کے نام شیخ محمد عبد اللہ کے بے شمار خطوط میں سے چند خطوط جو کشمیر کی تاریخ جد و جہد آزادی میں بہت اہمیت رکھتے ہیں.PHONK No S.M.Abdullah, M.Sc.(All) SRINAGAR 21 act 1932.انستم یک کوه و دشت لاله و در کارها امه جناب محترم سای کیک دهم و با ده ها نہ میری زبان بھی حالت ہے.اور نہ میرا تم میں زور اور نہ چھ سے پائی وہ الفاظ پہلی جیتنے کے تمام ما بدلہ جو کہ انتخاب نے ایک با کشی.اور مظلوم قوم کے نی مشتری ہو تم میں پورے " وری ہے جو خدا ن کریم والقاب کو زیادہ زیاده است به تار آنحضور کا وجود مشکور ہے کتوں کیسے سہارا ہو.شاید جناب محاضر تے ناراضی ہوں.جوہی نے جناب نو دارت است گرای این خواب و مینه می مشایی شئے کام کیا.میں مانتا ہوں.وقفہ یہ مریخ گشتانی ہے.مگر خدا کو مار جان کری جناب سے عرض کلیه و تعامل و موری کو ناگون پریش منوی نے مجھے مجبور کر لگاتا.ایک طرف و سفت شده در انگلی پائی.ایک طرف مولوی اور شامیانو تا افسوسناک نشاد - سالی سرشانی - استوں سے بنگانگی کا نفرنس کی تیاری ویزه وازه ، ان صعب مائوں نے مجھے سر لے کر رکھا تھا.ا یکی استارت ناب ای پاش مشهور من العاب من طلب دے سکتے ہیں.ان حالات اسم مقیم نے مجھے تامل رکھتی ہے.و جناب مجھے معاف فر مانگه دارد ریز دانه در کرمان صفت کو مد نظر رکھتے تھے یقین کر لینا چاہئے.جناب کاشی بخش جواب با ضریب چهری مدت موں کو جلد از عطر ارفع کر الگا - > حالات بلکل ٹھیک ہیں.جناب دوار والے اور شاه حجب و زنا کام ملی معروف ہیں.جو لوگ قومی کام میں و مخمل ہونا چاہتے ہیں.وصہ مثال نے اپنی نانی سزا دی ہے.احرار : دارد جالب حشم موثر تا روسه بل و حول موفا ہے بہت بات کی کانفرنش بخیر خوبی ختم ہوگئی.بجائے تین دن ۵ کانفرنش برابر پانچ دن ہوتی رہی.اور برمی شان شده دستورات سنی نے بڑا وقت کیا.تار اور گر پران کی پاره امام حمل ہو نا ای تی تی به میریم اما این افرادیات
> تقریباً آٹھ ہزار آئے ہیں.سینڈل پر ڈیٹر ہزار رویہ حصہ آیا.لوڈ شکر بجلی و برنا ما احیا انعام تھا.محقه : الراف سے رضاکار آئے ہوئے تھے.فرودگاه یا اعلام بیت الانتقال کالونی جناب شی روی شیشه با فاش نبایست تا سیلاب رہیں.تفضل ما روائی جناب دار در اب نہ آنحضور کو کھری ہوئی.سہرا بھی خیال ہے.مناسب آنه ما - ان اللہ شرفت قدم باش عامل کرونگا.ادواری منال ارمند افراد غلط پر گنڈہ کر رہے ہیں.امی کشر کشید با تو ز کیل ہوا ٹر ملتا ہے.مجھے امر ہے ، جناب کی دعائی ہمیشہ پر شامل حال ہونگی.آخر مجھے ان بچہ سمجھتے ہوئے مجھے حق حاصل ہونایا ہے.کبھی کبھی مجبوری تھی به شه جناب نے گشتانی کا بھی گر تک ہو جاؤں.اور تو معافی بھی طلب کروں.متعہ کرتا ہوں - حر ناب نا ارث دارال جلوس میں میری شکلی کر دیا.عبد الرم قلب اور حرکتی جب انیل ناران سے موثر بانه عروض دروشم جب
S.3.ABDULLA, M.Sc.(Alig.) WNBAR 10th 1932 الشهر پست کم وساعته الله - مکرم مولان ور و هاست تقع این نختم قادر کو ایک باش به منوجه دورانه ہونگے.کرتا ہوں.جہ وہ قبابکو یاد دلاتے رہے.وہ نمبر تب فارمز - رجرات رشید یک نه فرار رمز - پیش بینڈه متعلق انتظام مکمل ہے.باقی طالات وہ زبانی عرض کر نگاہ وشائی جب ریل جموں میں ہیں.آپ وقت بتاؤ گئے.جو کب ہم لاہور رینگے.میرا خیال ہے - 9 دستور اشانی مکمل ہوتا.تا کہ ہم کام کا شروع کرتے.باقی خیریت ہے.L مینه طراف نشه جناب حضرت حجاب کو دکشته بشته عینی شکم ملح ał اله
1 S.M.ABDULLAH, M.Sc.(Alig.) SRINAGAR 193 مکرم و معظم جناب حضرت میاں صاحب استیکی دایکم و رحمت اله مدیر گاه به اسلام سب سے پہلے میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ میں تہ دل سے آپکا شکریہ ادا کروں.اُس بے لوث اور بے غرضانہ کوشش اور جدوجہد کے لئے جو آپ نے کشمیر کے درماندہ مسی فون کے لئے کی.پھر آپ نے جس استقلال اور صحت کے ساتھ مسلہ کشمیر کو لتا اور میری غیر موجودگی میں جس قابلیت کے ساتھ ہمارے ملک کے سیاستی احساس کو قائیم اور زندہ رکھا.مجھے امید رکھنی چاہیئے کہ آپ نے جس ارادہ اور عزم کے ساتھ مسلمانان کشمیر کے حقوق کے حصول کے لئے جدو جہد فرمائی ہے آئندہ بھی اسے زیادہ کوششی اور توجہ سے جاری رکھینگے.اور الوقت تک اپنی مفید کوششوں کو بند نہ کرینگے جب تک کہ ہمارے تمام مطالبات صحیح معنوں نہیں ہمیں تین حاصل نہ ہو جا ئیں میں اسوقت مناسب خیال کرتا ہوں کہ مختصر طور پر دہ حالات عرض کردن جو میری اور دیگر کارکنوں کی گرفتاری کا باعث ہوئے.گذشت موسم سرما ہیں جب گلینسی کمیشن کا کام جاری تھا تو میں پوری طرح اسکے ساتھ تعاون کرتے ہوئے اس کے کام میں لگا ہوا تھا اور مسلمانوں کی مختلف شکایات بہم پہنچا ر ہ تھا.ملک کی فضاء بالکل صاف اور پرائی تھی اور کسی قسم کی بھی بد امنی کا خیال تک نہ تھا کہ اچانک بلاوہ آرڈیننس کا نفاذ صوبہ کشمیر میں کر دیا گیا اور سے تھے ہیں مفتی ضیاء الدین حلب کو یہاں سے جلا وطنی کا حکم دیا گیا.اسطرح باوجود اسکے کہ حکومت: ہے اشتعال دلانے کی کوشش کی.لیکن پھر بھی بہت نے مکمل رض رکھنا پسند کیا یر میں گرفتاری ایک تو حکومت کی زبردستی تھی اور کسی حد تک دے اپنے بعض کا کنون کی کمزوری ہیں ولوقت حکومتی پالیسی کے سستی ہی کچھ عرض کر رنگا.ابيه
حبوبہ کشمیر میں موجود کے تین نمائندوں کو بلا جو حکومت نے گرفتار کر لیا.اور جب میں نے انکے لئے کوشش کرنی چاہی تو حکومت کیلوف سے جواب ملا کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا اور نہ انکی اپیل ہو سکتی ہے.اسکے فوراً بعد ہی سختی ضیاء الدین جاب کو یہاں سے نکالا یا گیا.ہیں نے زور دیا کہ اسطرح سے انہیں نہ نگا رہ جاتا اور انکے ہے.ہر طعے کی ضمانت پیش کی یکیکی گورنر تھا کر کرتار سنگھ نے کسی بات کو نہ مانا.آخر بمشکل میں نے تین دن کی لت می تا کہ میں خود مفتی جب کو اپنے ہمراہ جموں ہجاؤں.اس عرصہ نہیں میں نے حقوم مہاری بہادر اور پرائم منتر کا کو تار دیئے جنکا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہوا.اس دوران میں ایک رات گیارہ بجے کے قریب گورنر نے تجھے فون پر مولوی محمد اسماعیل خاب غزنوی سے ملایا دوسرا دن صبح مفتی صاحب کا آخری دن تھا اور حکومت تو کسی معاہدہ کا نسلوں تھا.غزنوی حجاب جیون سل کے کہاں سے فون پر باتیں کر رہے تھے میں نے یہاں کے حالات اُن سے کہے تو انہوں نے یقین دلایا کہ وہ وزیر اعظم اب سے ملکہ دیگو شن کی واپسی - مفتی ضیا والدین کے متعلق احکام کی واپسی اور نمایندگان سوپور کی ڈائی کی کوشش میں کامیاب ہو جائینگے اور یہ علی کہا کہ ان باتوں کے متعلق جواب لینے کے لئے میں پھر اُن سے دوسرے دن صبح گور نواب کی کو ئی ہیں فون پر ملوں.میں نے الوقت یہ بھی پوچھا کہ جج مفتی ضیاء الدین کلب کا جانی کا آخری دن ہجر کیا ہیں ، نکو بھی ساتھ بتا آؤں.تو انہوں نے کہا کہ نہیں انکوں تھے لو نیکی ضرورت نہیں.اور پورا اطمینان دیدیا کہ مفتی صاحب کے متعلق احکام دریس سے لے جائینگے.بشر ہیکہ وہ حکومت کے قدرت سخت تقاریر نہ کریں.میں نے انہیں اسکا اطمیستان دیر یا اور واپس آیا دوست دن وقت مقررہ پر جب میں فون پر گیا تا کہ حالات منوں اور معلوم کردن که وزیر اعظم کے ساتھ غزنوی چاپ روژه نے کہا ہے کیا ہو.تو گورز جاب نے بلا وجہ مجھے انتظار میں رکھا کبھی کہا کہ وزیر اعلام حجاب کپڑے نہیں رہے میں اور کبھی کہا کہ چند منٹ انتظار کریں وزیر اعظم جاب ابھی ملتے غرض اس طرح مجھے دیر تک اپنے ہاں رو کے رکھا اور ہری غیر حاضری میں گور کرنے ہوس بوٹ کے باہر پولیس کا زبردست مظاہرہ کیا اور مفتی صاحب بغیر کستی سم کا بھی
سامان ساتھ لینے کی بجازت دے لے گئے.مجھے گورنر صاحب کی کو بھی پر ہی اسکا پتہ لگا تو میں نے گورنر جم سے کہا کہ اب میرا یہاں رکنا بے سود ہو.اور میں واپس چلا آیا واپس آکر بیٹھا ہی تھا کہ پولیس افسر ہوسی پوٹ میں داخل ہو گئے دور جمع نوٹ aane کیا کہ میں کسی جلسہ یا جلوس میں شریک نہ ہوں.اس طرح کے نوئی مورد نا میرک شاه جاب - مفتی جلال الدین باب اور مسٹر عدم محراب کو بھی دے گئے.آخر ہم حیران ہوئے کہ یہ کیا ہوتا ہے جبکہ ہمیں قطعاً کسی قانون کو توڑنے کا خیال نہ تھا اور ملک کی فضا بھی یا لکل صاف تھی.میں نے موموی چرک شاہ صاحب سے عرض کیا کہ آپ خانقاہ معلی کے بالائی طبقہ میں جا کر مذہبی رنگ میں دودھ کا دریا کے کریں اور مضارب طریق سے مفتی طاب کے متعلق بھی لوگوں کو تیا دیں اور تاکید کریں کہ لوگ بالکل پرامن ہیں.لیکن مولوی حباب نے اسوقت ایسا کرنا نہ چاہے.لوگ کثرت سے خانقاہ معلی میں مفتی جاب کے متعلق سننے کے لئے جمع ہو گئے تھے اور خانقاہ معلی کے خداموں نے جو اب تک ہمارے ساتھ تھے اسوقت بے رضی کرنی چاہی اور وہ اسطرح کہ خانقاہ معلی کے بایاتی طبقہ میں اس خوف سے کہ ہم آکر کوئی وعظ ہے لیکچر نہ کردیکی قفل کا رنگا رہا مجھے حیرت ہوئی کہ ایک طرف تو حکومت بے به سختی پر اترائی پر اور دوسری طرف وہ لو گے ہمارے ساتھ تھے تمہارے واللہ میں روڑا اٹکانے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ لوگ اسکے کا میاب ہو گئے اور ہمارے لئے جگہ بند کر دی تو یہ ایک قسم کی ہماری جماعت کی تو نہیں ہوگی.اسکا برا اثر ہم پر پڑیگا.آخر جب موسوی برک شاہ کا نے وعظ نہ کئے جانا پسند نہ تنہا اور حالات ایسے ہو گئے تو میں نے اپنی جماعت کے وقار کی خاطر وہاں جانا منظور کر لیا ا که خود جا کر وعظ کردی.اور لوگوں کو پر امن رہنے کی تلقین کروں چنانچہ رسا وعظ کا یہی موضوع تھا اور میں نے لوگوں کو نہیں کہا کہ وہ با مکمل پر امن رہیں.قانون کو بالکل نہ توئیں اور آپس میں اتحاد و اتفاق سے رہیں.لیکن میری پرانی اور صلح جویانہ پالیسی کو حکومت نے خلاف قانون قرار دیا اور تھے واپسی پر پانچ دیگر کارکنوں کے ساتھ گرفتار کر لیا.اور وے بعد حکومت نے بلا بھ گر فتاریوں کے تسلسلہ کو
ن ادم ہیں جاری رکھا.حتیٰ کہ تمام کارکنوں کو جیل میں ڈال دیا.اب جور عمائی ہوئی ہو وہ ساتھ کی در سال کرده شرایط کی بنا ہے عمل میں آئی ہو.میں تو اسکے لے بھی تیار نہ تھا اور بجائے شده ہو کا کی شرط پر نکلنے کے غیر مشروط طور پر نکلنا مناسب خیال کرتا تھا.جیل کے اندر مشورہ کے نی وہم کا رکنوں کو بند کر مشورہ لیا تو سب کی رائے سوائے ایک فرد واحد کے یہی تھی کہ موجودہ حالات میں دلی طرح نکلنا بہتر ہے.مجھے اُن سے اتفاق نہ تھا.لیکن وہ مجھ سے علیدہ ہوئے تو جمع سلام ہوا کہ بعض لوگوں نے ان شرایط پر دستخن الحر وتے ر ایسا کرنے والوں کی تعداد زیادہ تھی.اندریں حالات پرا یا کسی ایک شخص کا از جانا مناسب نه ها و سلے یا نے دوبارہ خواہش کی کہ شرایط کے الفاظ یہ لے جائیں چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور ہم سب رہا کر دیے گئے.مگر وہ لوگ جن پر جلوه یا حمله به ملوانان یا دیگر اسی قسم کے بنیادی مقدمات میں سزا ہوئی ہر وہ تا حال جیل میں ہی پڑاتے ہیں اور گئی ہوں یا لوٹ کے مقدمات ابھی جاری ہیں.میں یہاں کے مساعدت کا معائیہ کھو رہا ہوں اور اجودہ حالات کے متعلق گفتگو کرنے کے لئے وزیر اعظم صاحب نے پینچر کا تمام دن مجھے دیا ہے.زنکی گفت دشتیہ کے بعد میں انکے خیالات مجرم کر ننگا.ان کے جموں اور میر پور کے سحق بھی دریافت کر رنگا.حالات کے موافق ہو نیکی صورت مرت انشاء اللہ جموں کے قیدیوں سے بات چیت کرنے کے جاؤنگا.اور اسکے بعد ہر پور اس غرض سے بانی کا ارادہ رکھتا ہوں اور تمام حالات کو مکمل طور پر جانچے کر ہیں آپ سے سلونگا.اور آپکے یہاں تشریف لانیکے متعلق بھی مشورہ کرونگا.میرا خیال ہو کہ ایک اچھے اور اعلا پیمانہ پر یہاں ایک کانفرنس منعقد کیا ہے.جو آینده در حد عمل کی راہ نمائی میں مدد دے.یہ مختصر محور پر عرض کر رہا ہوں مفصل ملاقات کے موقع پر عرض کرونگا.میں خیریت سے ہوں اور امید ہر کہ آپ بھی اخیر میں میں پھر آپکا شکریہ ادا کرتے ہونے اس طریقہ بیا قیمت ہونگے.کو ختم کرتا ہوں.ر ہیں ہوں ایگا با تعدار
i 103 جوانی SRINAGAR S.M.ABDULLAH, M.Sc.(Alig.) المستمر شع ومحمد الله جناب خونت سان صاحب ودم اقبالی ها شہرول مشکور ہوں.تو میں لا مور مور کے مین حضور در نوازشات محاسبه ورا ہوئے محمول در روکش رو است یا رہا ہوں.جب کہ میں نے ظاہر کر دیا ہے کہ یہی شجرہ میرا رب و ہیکل کا نور 1 جانے کا بیان ہے.جنت کے منظور کامل معلوم ہے.اگر حضور داشت 2 دواتر به مفه رمانه دن سے تشریف نے آرکے.تو میانونش در کامیاب بنا میں ہمیں بہت امداد شکتی تھے.بلکہ ضرورت رہی ہے.و حضور ایل کے مجھے شملہ جاتے زور کا نفر نشه سر و گردم ۵ متعلق تفصیلی ہدایات و تجاویز بیجنگ میری راہنمائی فرار می شکور هم گاه ها نوش ۵ معنی تاریخ ۵ w متعلق می حضور کو سرسری مطلع کرونگا.مجھے اسیر ہے.کہ حضور تھے کے کانفرنش کے کاز جاب بنباند میں شفقی فر مانگے انکا تابعدار عبد الله
حضرت امام جماعت احمدیہ کے کشمیر کمیٹی سے استعفیٰ کے بعد حکومت کشمیر نے وسیع پیمانے پر گرفتاریاں شروع کر دیں.سرینگر و بوئی رستہ ہو.میان کتاب محترم میاد میری گرفتاری ها اسلام شکلی بمع کئے ہیں سینکی دات کو نمی گرفت رند ہو گا.کیونکہ میں گوہر نہیں تھا.یہ سب کچھ جہیہ کرتار سنگر اور وشف - > دویکو این حالات معلوم ہیں.ج ہی کرنے کوشف شاہ شادی کی پہر چاہتی ہے.حروف خود اور ابو محلة دور نہ ہو.ہجائے.اور رہنے کا رکن روانہ واسترے سر دباؤ ڈرائن - ہربانی آپ سب کچھ جانتے ہیں.مجھے اسہ ہے.آج آپ ایک وفادار برند دوست کو آمادہ مفید ہرگز نہیں چھوڑ گئے ا الله سے محمد حمد الله
حضور کے استعفیٰ کے بعد غلام محمد بخشی اور غلام نبی گلکار کا جیل جانے سے پہلے حضور کی خدمت میں خط نصور خونت و نام جانت نگویه هادیان اسلام میکنیم در لارا الله مصبر کا میاب دیم ولی حیثیت سے کہ کشمیر کے مظلوم ہیں.اور ہمارا جرم صرف اسلام ہے..بہا امام جماعت تعمد یہ نمونے کے طاہر کرنے ہم خود سے بہت امام حجات رویہ اولى اعاد فرماکر محمداللہ ماجور ہوں اعر او ہیں.حضور گویی اس امر کا از کار صدور که خور نے اپنا دیست شخصت بعض کم فہم احباب کی وجہ سے چہرے سر پر سے اٹھا لیا.مگر آپ کی ذارت ہیں پوری است که حضور اچھی آڑے وقت میں جاری راہنمائی فرما گر جمعی ممنون و مشکور و مادگی کے دور میا کے ساتھ ہی دعایم فرما دیں.آنکھیں فصل مطلات منفي محمد الاحر کا لف نو در کردگی میں جدت وقت و نو رشته ورا کی کہ کسی بھی شہر کی تعلی کو دو حالی کے فائدے دی.31.5.31.Ghalam 18/5/18 رهاد خاک ران Furth wil
حضرت امام جماعت احمدیہ کے نام چوہدری غلام عباس کا خط له الله الرد الرحمن از دفتر جموں و ستم پرمسلم کانفرنس وستان تشیع درسی کنیم در رحمت الله دبیرخانه و لو شراب ننده در میایی ترش اور شیر پایان آبی قاین یک فروش در بر خونی مسکنی میل ۴ اچه نویسی اخت ایران بخیریت حروف سے انہیں موصول مرامی قدرت دروازی اور بغیر میں کر و بار ترمیم - انتخاب کیا جو کچھ وقت تک مطوری تشہیر کیا کہ میر سے لیے کیا کی تشریح یر نیرو فیسر اور کی ترکے مارتی ہے نہیں، بنده که میدانی هم که آنجناب اپنی گذاشته دیار در پیش نظر پر نظام مهمانان کشوری حمایت کتنے کر کہ ہر جائنگے لود گیرد که ما عدت سخت نا ترک محمدت است کار اے سر اور کتاب و سالی فیلم از حد حالات نازک اختیا قسمت هر هذا رہے بر که به نام یه دشوار نیست ها ہے تو
شیخ عبداللہ کا اعتراف کہ مجلس احرار سے انہیں کوئی امداد نہیں پہنچی که امیر المومن اور ایم مکنده بعضی می رود دالکریم برا اور ان ملات ورود پیک کو اقتدار اور گارا خبری ما است میں سے کشمیر کے مسلمان اسی وقت گزار رہے ہیں وہ آپسے پوشیدہ نہیں ہیں.انکے سیاسی حقوق کی حفاظت اور انکی محمدنی اور تعلیمی مد رہیں ترقی کیلئے جد جد ایک طرف کثیر کو چاہتا ہے.اندریں حالات مینی بیرون کشمیر کے مسلمان بھائیوں سے پرزور اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس گاو میر مین بیماری ایدا د فرما دیں.آل زنده سے امداد کرنیکے علاوہ ہماری تا نونی اعداد بھی کی ہے اور مالی امداد بھی نہیں صرف انہیں ہے بولتی ہے.اس لئے ہم برادران ملت ہے پر زور اپیل اور کوسیدھا کرتے ہیں کہ وہ اس کے فنڈز کی مضبوط کرنیکی طری خوری توم فرما دیں تاکہ مالی تنگی کیوں ہے ضروری کاموں میں حرج واقعے نہ ہو.مجلس احرار نے جو تکالیف جسمانی مظلومان کشیر کی ہمدرد میں برداشت کی میں نکلے ہے نہ دیے مشکور ہیں مگر اسی است کار خسوس کئے بغیر آل انڈ یا کسی کی نیے اس وقت اپنے قیمتی مشوره یا کسے کیتے
.نہیں رہ سکتے کہ جماعت احرار کی طور سے نہیں مالی امداد ایک چیک کی بھی اس وقت تک یقین کو نیچی INDIAN POSTS AND TELEGRAPHS DEPARTMENT gonice کو Thas for mask sompany any inquiry macie rampeoting shig Rended în në |0fm sự Origtigt.B- TO Staying نم سیالک Lucy Kishan کی Richar 22 ए refertation ariand here Halsts should you bee cooperante jove defectation handly Leuted Phaullah
مولانا عبد الرحیم صاحب درد کے نام شیخ محمدعبد اللہ کا ایک کارڈ موقت شیخ عبدالحکم به وکیل بار کارت خوان فکر یه مولا نا در قاریان کرگئے ہوں گے بزرگ محمد ما عداش وصله ارکان ن پر حکومت رفته گرفتار کرنا جامی کی دو لوگوں می شود برهنگا تھا.محمر ور اب معاملہ رفع دفع ہو گیا تھے.- طلا الو کی - آ - مولوی لوتف شاه کا بھائی محمر ان احد الله - تمام جوں ہی ہیں.شانه خلقه تعداری کا بھی آجائنگے ان آوج کا صاف تھے.مولا تور هلنار بهار بشگاه اگر جناب میاں جھٹ سے بھی لا نور آنا ہو گا.تو مجھے تاریکی مطلع قرار میره تا که ی ما را به تاراج باله به Aludur Ratin Maulana Dand HA Radian برانا مقدمه والشر ww کے گناہ قرار دہائی ہے.اور مہارالے نے کڑ ت کا کو کوئی وقول نوٹ دیا جائے دور مرانی فرماکر ممبر شپ فارمز
پنجاب کے سیاسی لیڈر جناب احمد یار خان دولتانہ کا حضرت امام جماعت احمدیہ کے نام خط و کنوان دیپونزی 12.7.33.نکانہ و علیکم اسلام ورحمت اله ای یا نه واد نے اداب کے بعد گزارش مجھے نوارش نان فیضی شاہ حضور لر کی باعث سر عبدی سده هوا جند زند کریم کے کم و فضل در حضور کی وی سے عزیز ممتاز او نام کی اے زمیں کے امتی فی اچھے نمبروں سے باد حی اور نام میں اگر زمین ہیں.ا تمر کے آکسفو زبانے کا دعا لیا ہیں کہ خداوند کی پر اسے صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق اور بلا تب ہے سام ا تو شمیر سے آیا تھا اُسنے لله ایک لوٹ بیٹی ہوگیا کار موقت یک جنگ کے حضور کمپنی ہیں ساریہ کی آنکھوں سوشل نار کھٹکتی تھی اور و افقی رویات تواند یا در دریا بوست شمیر نہ کر سکتے تھے تو حضور کی
صد خود اتمی و اقبال کی دور ہستی سے بھی کیا ہونے تو پیر اکبر علی سب سے صاف سید یا تھا کہ کوئی باد کردن جنہاں است پر کان نجار میکنی پرکردان بجائے از بریان کر میاں کر فضل حسین نے بھی پر از بازی سر اقبال کو کہیں بھیجا کہ اسکے کرتوتوں سے مسلمانوں کے نقصان کے لا.اپنے ورتی طوریت کوئی فائدہ نہ ھوگا مگروہ شیر قالین مملو بات تو سینے سے کرکے میری رائے ناتصور میں میہ کالج پھر رہے تھے یہ تومور والا کو علم سب شعور کے بالاخ رضاع بعد اقبال پہلے اسلئے تلی تیل a): برای کترینہ کی بات بھی سکتور سیاست موقی تقتل مادہ پایا ہے ہیں پر قول میرے لئے دی ہے.سلطا نہیں اگرمی ت کے تا نور تو بار ہوا در وار کا حال زم لها و ساله
تاریخ احمدیت جلد ۵ 631 تحریک آزادی کشمیر او ر جماعت احمد به راجہ صاحب پونچھ سے اپنی سہ روزہ ملاقات کے حالات بیان کئے جو رو زپانچ اور سات گھنٹہ تک جاری رہتی تھی.مسلمانان کشمیر نے شاہ صاحب پر پھول نچھاور کئے.شاہ صاحب نے اختتام تقریر میں نمائندوں کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے اختلافات ختم کر کے ایک متحدہ محاذ قائم کریں تا کامیاب ہوں.حضرت شاہ صاحب کے بعد مفتی ضیاء الدین صاحب نے کشمیر کمیٹی اور بالخصوص اس کے واجب الاحترام صدر ( حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی) کی بیش قیمت خدمات کو خراج تحسین ادا کیا.مسلم کانفرنس کے اس پہلے اجلاس میں کانفرنس کا مفصل آئین و دستور مرتب کیا گیا.اور ریاست کے طول و عرض میں اس کی شاخوں کا قیام عمل میں آیا.اس کے اغراض و مقاصد میں خاص طور پر مسلمانان کشمیر کے حقوق و سیاسی مفاد کا تحفظ شامل کیا گیا.اور ایک سوارکان کی ایک جنرل کو نسل اور AM پچاس ارکان کی مجلس عاملہ مرتب کی گئی اور مندرجہ ذیل حضرات بحیثیت عہدیدار منتخب کئے گئے.شیخ محمد عبد الله صاحب (صدر)، چوہدری غلام عباس صاحب (جنرل سیکرٹری)، میاں احمد یار صاحب مظفر آباد مولوی عبدالرحیم صاحب سرینگر ، شیخ عبد الحمید صاحب جموں (سینٹر پریذیڈنٹ) عبدالحکیم صاحب ، غلام احمد صاحب I اس طرح مسلمانان کشمیر کی پہلی اور واحد نمائندہ تنظیم " آل کشمیر مسلم کانفرنس" کی بنیاد پڑی جس نے آئندہ چل کر تحریک آزادی کشمیر کو فروغ اور ترقی دینے میں عمدہ خدمات انجام دیں اس کے بل بوتے پر کشمیر اسمبلی کے لئے الیکشن لڑا گیا.شیر کشمیر شیخ محمد عبد اللہ صاحب کا مکتوب حضرت امام جماعت احمدیہ کے نام شیخ محمد عبد اللہ صاحب نے کانفرنس کے پہلے اجلاس کے بخیر و خوبی ختم ہونے پر ۲۲/ اکتوبر ۱۹۳۲ء کو مندرجہ ذیل مکتوب لکھا.S.M.ABDULLATH.M.S.c (ALIG) SRINAGAR 22.OCT.1932 جناب محترم میاں صاحب دام اقبالہ السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ.نہ میری زبان میں طاقت ہے اور نہ میرے قلم میں زور اور نہ میرے پاس وہ الفاظ ہیں جن سے میں جناب کا اور جناب کے بھیجے ہوئے کارکن مولانا درد سید زین العابدین صاحب وغیرہ کا شکریہ ادا کر سکوں.یقینا اس عظیم الشان کام کا بدلہ جو کہ آنجناب نے ایک بے کس اور مظلوم قوم کی بہتری کے لئے کیا ہے.صرف خدائے لا یزال سے ہی مل سکتا ہے.میری عاجزانہ دعا ہے کہ خداوند کریم آنجناب کو زیادہ زیادہ طاقت دے تاکہ آنحضور کا وجود مسعود بے کسوں کے لئے سہارا ہو.شاید جناب عاجز سے ناراض ہوں کہ میں نے جناب کے ارشادات گرامی کے جواب دینے میں
تاریخ احمد بیت - جلد ۵ 632 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ تساہل سے کام لیا.میں مانتا ہوں کہ یقینا یہ صریح گستاخی ہے مگر خدا کو حاضر جان کر میں جناب سے عرض کئے دیتا ہوں کہ میری گوناگوں پریشانیوں نے مجھے مجبور کر رکھا تھا.ایک طرف...اس کی پارٹی.ایک طرف پنڈتوں اور مسلمانوں کا افسوسناک فساد مالی پریشانی اپنوں سے بیگانگی ، کانفرنس کی تیاری وغیرہ وغیرہ.ان سب باتوں نے مجھے پریشان کر رکھا تھا.اس کی شہادت جناب کے پاس سید زین العابدین صاحب دے سکتے ہیں.ان حالات کے ہوتے ہوئے مجھے کامل یقین ہے.کہ جناب مجھے معاف فرما ئیں گے.اور بزرگانہ کریمانہ صفات کو مد نظر رکھتے ہوئے مجھے یقین کر لینا چاہئے کہ جناب کا تسلی بخش جواب با صواب میری پریشانیوں کو جلد از جلد رفع کر دے گا.حالات بالکل ٹھیک ہیں.جناب در و صاحب اور شاہ صاحب وغیرہ کام میں مصروف ہیں.جو لوگ قومی کام میں مخل ہونا چاہتے ہیں.اللہ میاں نے انہیں کافی سزا دی ہے.الحمد للہ.درد صاحب سے موٹر کا روپیہ بھی وصول ہو چکا ہے.بہت بہت شکریہ.کانفرنس بخیر و خوبی ختم ہوئی.بجائے تین دن کے کانفرنس برابر پانچ دن ہوتی رہی اور بڑی شان سے دستور اساسی نے بڑا وقت لیا.اخراجات تقریباً آٹھ ہزار آئے ہیں.پنڈال میں ڈیڑھ ہزار روپیہ خرچہ آیا.لاؤڈ اسپیکر بجلی وغیرہ کا اچھا انتظام تھا.مختلف اطراف سے رضا کار آئے ہوئے تھے.فرودگاہ کا انتظام بہت اچھا تھا.الغرض جناب کی دعا سے کانفرنس نہایت کامیاب رہی مفصل کارروائی جناب ورو صاحب نے آنحضور کو بھیج دی ہو گی.میرا بھی خیال ہے پنجاب آنے کا.انشاء اللہ شرف قدم بوسی حاصل کروں گا.احراری خیال کے چند افراد غلط پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ میں کشمیر کمیٹی کے ہاتھ کٹھ پتلی کا کھیل بنا ہوا ہوں کبھی کہتے ہیں کہ میرا عقیدہ بھی بدل گیا ہے مگر خداوند کریم بہتر جانتا ہے کہ میں کون ہوں اور کیا ہوں اس لئے ہمیشہ ان کو ذلیل ہونا پڑتا ہے.مجھے امید ہے کہ جناب کی دعائیں ہمیشہ میرے شامل حال ہوں گی.آخر مجھے اپنا بچہ سمجھتے ہوئے مجھے حق حاصل ہونا چاہئے کہ کبھی کبھی مجبوری کی وجہ سے جناب سے گستاخی کا بھی مرتکب ہو جاؤں اور پھر معافی بھی طلب کروں.امید کرتا ہوں کہ جناب کا ارشاد گرامی جلدی ہی میری تسلی کر دے گا.عبدالرحیم صاحب اور محمد سینی صاحب رفیقی کی طرف سے مودبانہ عرض و سلام- جناب کا تابعدار شیخ محمد عبد الله - مسلمانان کشمیر کی یہ نمائندہ کا نفرنس خالص مسلم مسلم کانفرنس کے دوسرے اجلاس تنظیم کی حیثیت سے ۱۹۳۸ء تک مصروف عمل رہی اور ۱۹۳۲ء کے بعد اس کا دوسرا سالانہ اجلاس ۱۵-۱۲-۱۷ / دسمبر ۱۹۳۳ء کو بمقام میرپور منعقد ہوا.تیسرا اجلاس سوپور میں ۱۱- ۱۲- ۱۳/ نومبر ۱۹۳۴ء کو ہوا جس میں جناب میاں احمد یار صاحب بی.
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 633 Ax- تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ اے ایل ایل بی صدر منتخب ہوئے.یہ اجلاس بہت کامیاب رہا.اور اس کے انتظامات کی تکمیل میں خواجہ غلام نبی صاحب گلکار نے بڑی محنت و جانفشانی سے کام لیا.مسلمانان سوپور نے ایک کھلے جلسہ میں یہ قرارداد پاس کی کہ " یہ اجلاس شیر کشمیر شیخ محمد عبد اللہ صاحب پریذیڈنٹ مسلم کانفرنس کا شکریہ ادا کرتا ہے.کہ انہوں نے مہربانی فرما کر کانفرنس کے اعلیٰ کارکن اور اپنے دست راست مسٹر غلام نبی صاحب گل کار کو سوپور کا نفرنس کے انتظامات کے لئے بھیجا ".چوتھا اجلاس بمقام سرینگر اکتوبر ۱۹۳۵ء میں ہوا جس میں صدارت کے فرائض قوم نے جناب چوہدری غلام عباس صاحب کو تفویض کئے.خواجہ غلام نبی صاحب گلکار اس چوتھے اجلاس کی استقبالیہ کمیٹی کے صدر تھے.اور آپ ہی کے اہتمام میں چوہدری صاحب کا ایسا شاندار جلوس نکالا گیا جو مہاراجہ صاحب کے تزک و احتشام کی جھلک نمایاں رکھتا تھا.اور اس کے لئے وردیاں قادیان سے بن.کر آئی تھیں.یہ جلوس پانچ کشتیوں میں نکالا گیا.پانچواں اجلاس ۱۴ مئی ۱۹۳۷ء کو پونچھ میں منعقد ہوا.اور صدارت دوبارہ شیخ محمد عبد الله صاحب کو سونپ دی گئی.مسلم کانفرنس کا سیاسی اثر خدا تعالی کے فضل اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی کی رہنمائی سے مسلم کانفرنس کی شاخیں ریاست کے طول و عرض میں قائم ہو گئیں اور مسلمان ایک ہی سلک میں پرو دیئے جانے لگے.اور اس تنظیم کی دھاک حکومت کشمیر اور کشمیر کے غیر مسلموں پر ایسی بیٹھ گئی کہ ایک موقع پر جبکہ اس تنظیم کی ورکنگ کمیٹی نے اپنا اجلاس راست اقدام کے لئے پچھوارہ (سرینگر) میں بلایا.تو وزیر اعظم مسٹر کالون فور ادیلی سے روانہ ہو کر سرینگر پہنچ گئے اور مسلمانان کشمیر کے زعماء سے درخواست کی کہ وہ اجلاس کو ملتوی کریں وہ ان کے مطالبات ماننے کے لئے تیار ہیں.چنانچہ ان کی درخواست پر اجلاس ملتوی کر دیا گیا.اور اکثر مطالبات منظور کر لئے گئے.کرنل کالون نے احکام جاری کئے اور تمام کے تمام اسٹنٹ سیکرٹری مسلمان مقرر ہوئے.اور کئی صوبائی آسامیاں بھی مسلمانوں کو دی گئیں.اور مسٹرو جاہت حسین صاحب منسٹر مقرر ہوئے.تحریک آزادی کشمیر کا پانچواں دور قیام کانفرنسی لیڈروں کی طرف سے اتحاد کی اپیل کانفرنس پر ختم ہوتا ہے.جس سے مسلمانوں کو ایک متحدہ سیاسی پلیٹ فارم حاصل ہوا اور ان کی تنظیمی کو ششیں نقطہ عروج تک پہنچ گئیں مگر افسوس اس کے ساتھ ہی مختلف اندرونی و بیرونی مخالف عناصر مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے
تاریخ احمدیت جلد ۵ 634 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ کے لئے پوری قوت سے سامنے آگئے اور انہوں نے فرقہ وارانہ سوال کھڑا کر دیا.اور تحریک کو نقصان پہنچانے کے لئے خود شیخ محمد عبد اللہ صاحب کو احمدی مشہور کرنے لگے.غرضکہ مسلم کانفرنس کی کشتی اپنے آغاز ہی میں طوفان حوادث میں گھر گئی.یہ نازک صورت حال دیکھ کر ۲۷/ دسمبر ۱۹۳۲ء کو سرینگر میں مسلمانان کشمیر کا ایک عظیم الشان اجتماع منعقد ہوا جس میں شیر کشمیر شیخ عبداللہ صاحب نے اپنی تقریر میں اور دوسرے زعماء کشمیر نے اپنے پیغامات میں مسلمانوں کو متحد العمل ہونے کی پر زور اپیل کی.چنانچہ شیخ محمد عبد اللہ صاحب نے فرمایا.مسلمانو! آپ پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ آپ اپنے نفع و نقصان کا امتیاز کرتے ہوئے مفاد اسلامی کے تحفظ کے مسئلہ پر خود غور کریں اور دیکھیں کہ آیا موجودہ وقت میں سنی شیعہ اہل حدیث اور احمدی وغیرہ کا سوال اٹھانے میں وہ کہاں تک حق بجانب ہیں.(یہ سن کر لوگوں نے بآواز بلند کہا کہ گزشتہ پر آشوب دنوں میں جب مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جارہا تھا اس وقت حکومت کشمیر یا ڈوگرہ درندے یہ امتیاز کرتے تھے کہ فلاں شیعہ ہے یا سنی یا احمدی ہے یا اہل حدیث ؟ بلکہ ان کے نیزوں اور گولی کا نشانہ بننے کے لئے صرف مسلمان ہونا کافی تھا) شیخ صاحب نے اپنی تقریر کے بعد کانفرنس کے دیگر معزز نمائندگان کے پیغامات پڑھ کر سنائے چنانچہ سید حسین شاہ جلالی (اہل تشیع کے نمائندہ) نے اپنے پیغام میں کہا.” جب انتخاب نمائندگان ہوا تھا.تو ہم تمام نمائندگان نے اسے اپنا اصول بنارکھا تھا.بلکہ ایک قسم کا حلف لیا تھا.کہ فرقہ وارانہ سوال کو کبھی عامتہ المسلمین میں نہیں اٹھانا چاہئے.اور تمام فرقوں کو خواہ وہ سنی ہوں یا شیعہ اہل حدیث ہوں یا احمدی مقلد ہوں یا غیر مقلد متحد اور متفق ہو کر ایک دوسرے کے ساتھ اس تحریک میں اشتراک عمل کرنا چاہئے".خواجہ غلام احمد صاحب اشائی نے پیغام دیا.”میں خود مرزائی نہیں ہوں اور نہ اہلحدیث مگر اس جدوجہد میں ہم فرقہ واری سے بالا تر ہو کر تمام اہل اسلام خواہ وہ کسی فرقے سے تعلق رکھتے ہوں متفق ہو کر کامیابی کی امید رکھتے تھے اس وقت کوئی تفرقہ کا فرقہ وارانہ سوال پیدا کر نا سخت مملک ہے “.چوہدری غلام عباس صاحب نے پیغام دیا.آپ صاحبان کو یہ جان لینا چاہئے.کہ اس وقت قوم کی زندگی اور موت کا سوال در پیش ہے.اور اگر ان حالات میں نمائندگان کی طرف سے ذرا ایسی لغزش بھی واقع ہوئی تو میں برملا یہ کہنے کی جرات کرتا ہوں کہ قوم کے خون ناحق کے ذمہ دار وہ ہوں گے.اس لئے میں نہایت ادب کے ساتھ
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 635 تحریک آزادی کشمیر ا د ر جماعت احمدیه نمائندگان کی خدمت میں عرض پرداز ہوں کہ قوم کی خاطر باہمی کشمکش سے احتراز کریں.اور احمدیت اور حنفیت کے زہریلے پراپیگنڈے سے بچیں.موجودہ سوال قوم کا من حیث القوم سوال ہے اور نہ حکومت نے گولی چلانے اگر فتاریاں عمل میں لانے اور تشدد کرتے وقت فرقہ وارانہ تمیز سے کام لیا.
تاریخ احمدیت جلده 636 حواشی حصہ دوم.چوتھا یاب تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ 4 انقلاب ۴/ دسمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۳.ا اخبار انقلاب ۹ / دسمبر ۱۹۳۱ء صفحه ۳ اس مشہور مقدمہ کا ذکر آگے آرہا ہے (مولف) اخبار الفضل ۲۴/ دسمبر ۱۹۳۱ء صفحه ۲- -2 - رسالہ لاہور ۱۴ جون ۱۹۷۵ء صفحه ۱۲- سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ایک غیر مطبوعہ مضمون سے ماخوذ بیان شیخ عبدالحمید صاحب (۲۳/ اکتوبر ۱۹۶۳ء) جناب قریشی محمد اسد اللہ صاحب فاضل کشمیری مربی سلسلہ احمدیہ کے ایک غیر مطبوعہ مقالہ سے ماخوذ لاہور کے / جون ۱۹۶۵ء صفحہ ۱۲-۱۳ اخبار سیاست (لاہور) ۴-۷-۹/ فروری ۱۹۳۲ء میں بھی اس کا مفصل تذکرہ ملتا ہے.کشمکش صفحه ۰ الفضل ۳ فروری ۱۹۵۲ء صفحہ ۴ کالم ۳.الفضل ۳ فروری ۱۹۵۲ء صفحه ۴ چنانچہ ڈلٹن نے لکھا.اگر حکام ضروری احتیاطی تدابیر اختیار کرتے اور مضبوطی سے صورت حالات کا مقابلہ کرتے تو معاملہ قابو سے باہر نہ ہو جاتا.پھر کہا محکمہ پولیس کی حالت بہت افسوس ناک ہے.ضرورت ہے کہ اس محکمہ کو نئے سرے سے با قاعدہ منتظم کیا جائے.ریاستی فوج کی نسبت یہ رائے قائم کی کہ فساد کے وقت فوج فور اموقع پر پہنچ گئی.جس نے مسلمانوں کو تو منتشر کر دیا.اور ہندوؤں کو کھلے بندوں چھوڑ دیا گیا.جنہوں نے جتھے بنا کر ا کے دکے مسلمانوں پر حملہ کرنا شروع کر دیا مسلمانوں کی دکانوں کو فوج کی موجودگی میں لوٹنا شروع کر دیا.ہندو مسلمانوں کو اس طرح تباہ و برباد کر رہے تھے لیکن فوجی سپاہی کھڑے دیکھتے رہے اگر چہ بعد میں فوج کو شہر کے مختلف حصوں میں تعینات کر دیا گیا لیکن ہندوؤں کی چیرہ دستیاں کئی دنوں تک بدستور جاری رہیں.(بحوالہ الفضل ۲۹/ مارچ ۱۹۳۲ء صفحه ۴۰۳) نما سلسلہ دوم کا میر احط صفحه ۵۰۴ اس خط کا مکمل متن دوسرے مطبوعہ خطوط کے ساتھ ضمیمہ میں شائع کر دیا گیا ہے.طلاب ۱۳/ اپریل ۱۹۳۲ء ( بحوالله الفضل ۷ ار اپریل ۱۹۳۲ء صفحه ۴) ارکان مینی سر مو جو د دلال (صدر) مسٹر ایل ڈبلیو جار ژین (نائب) خان بهادر عبد القیوم در کن اٹھاکر کر تار سنگھ (رکن) مسٹر رام ہاتھ شرما (سیکرٹری) متین کے لئے ملاحظہ ہو ضمیمہ (1) الفضل یکم مئی ۱۹۳۲ء صفحه ۳ کالم ۳.19- الفضل یکم مئی ۱۹۳۲ء صفحہ ۳ کالم ۲.۲۰ الموعود الیکچر سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود ایدہ اللہ تعالی صفحہ ہے.۲۲ بحواله الفضل قادیان مورخہ ۱۰/ جنوری ۱۹۳۲ء صفحہ ۴ کالم ۲۲ الفضل قادیان مورخہ ۳۱/ جنوری ۱۹۳۲ء صفحہ سے کالم
تاریخ احمدیت جلد ۵ ۲۳- الفضل ۱۳؍ فروری ۱۹۳۲ء صفحہ ۷.۲۴ مطبوعہ الفضل یکم مئی ۱۹۳۲ء صفحه ۸ -۲۵ مطبوعه الفضل ۲۵/ فروری ۱۹۳۲ء صفحه ۵-۲- -۲۶ مطبوعہ الفضل یکم ستمبر ۱۹۳۲ء صفحه ۵ تا ۱۰ 637 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیه ۲۷.مفتی ضیاء الدین صاحب نے ۱۹۳۴ء میں لاہور کے ایک پبلک جلسہ میں اپنی جلاوطنی کا پس منظر بیان کرتے ہوئے بتایا.جس وقت چند احراری لیڈروں کی انگیخت پر عامتہ المسلمین کے میں پچیس ہزار افراد جیلوں میں پہنچ گئے تو احرار یکن لیڈر کشمیر گئے اور اس وقت جبکہ ہزاروں مسلمانان پنجاب اور اہل کشمیر جیل کی تنگ و تاریک کوٹھڑیوں میں سختیاں جھیل رہے تھے.احرار کے یہ لیڈر حکومت کشمیر کی شاندار موٹروں اور مزین ہاؤس بوٹوں میں کشمیر کے پر فضا مقامات کی سیر میں مشغول تھے انہی پر کیف ایام کے دوران میں اتفاق سے میری ملاقات ان میں سے ایک لیڈر سے ہوئی اور میں نے انہیں مسلمانان کشمیر کی حالت زار کے بعض واقعات کی طرف متوجہ کرتے ہوئے امداد کے لئے آمادہ کرنے کی کوشش کی.انہوں نے جواب دیا آپ یہ تمام واقعات قلمبند کر کے میرے حوالہ کر دیں میں ان تکالیف کا ازالہ کرانے کی سعی کروں گا.لیکن بھائیو.آہ افسوس میں کس منہ سے کہوں ان احراری بزرگ نے جن پر ایک اسلامی اور دینی بھائی سمجھتے ہوئے اور ایک اسلامی تحریک کا لیڈر جانتے ہوئے میں نے بھروسہ کیا تھا.میری دستخطی تحریر جنہ مسٹر کالون کے حوالے کر دی.جس کے طفیل آج میں اپنے وطن سے دور اپنے عزیزوں سے الگ اپنے بال بچوں سے جدا غربت کی حالت میں در بدر مارا مارا پھر رہا ہوں".(اخبار اصلاح ۲۷/ نومبر ۱۹۳۴ء صفحه) -۲۸ مسٹر یوسف خان صاحب علیگ، نذیر احمد صاحب عبد القدوس صاحب اور غلام محمد صاحب عبد الرحیم ڈار (سوپور) عبد الغنی صاحب گنائی (سوپور) مولوی محمد یسین صاحب (سوپور) قاضی عبد الغنی صاحب ڈکٹیٹر (بارہ مولا) ۲۹- یاد رہے اس علاقہ میں اس قدر مالیہ لگا دیا گیا تھا جس کی ادائیگی کاشتکاروں کی طاقت سے باہر تھی اور مسلم و غیر مسلم زمیندار ریاست سے یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ موجودہ مالیہ نا قابل برداشت ہے.اسے کم کرے ملحقہ انگریزی علاقہ کے اضلاع جہلم راولپنڈی وغیرہ کے برابر کر دیا جائے.٣٠ الفضل ۲۱ جنوری ۱۹۳۲ء صفحه ۳-۴- الفضل ۳/ اپریل ۱۹۳۲ء صفحه ۲ کالم ۳ الفضل ۱۹/ جنوری ۱۹۳۲ء صفحہ اکالم ۲.۳۳ شیر کشمیر شیخ محمد عبد اللہ صاحب نے اخبار زمیندار میں لکھا."ما بہ الامتیاز کشمیر کمیٹی اور مجلس احرار کے درمیان یہ رہا کہ مجلس احرار نے بجائے مشیر بننے کے ہمیشہ ڈکٹیٹر بننے کی کوشش کی اور ہمار ابنیادی اصول ہی تھا کہ ہم بیرونی بھائیوں کی امداد اسی صورت میں لیں گے کہ اس کا تعلق صرف خیر خواہانہ مشوروں تک محدود ہو".(بحوالہ الفضل ۱۳۱ جولائی ۱۹۳۴ء صفحہ ۱۰ کالم ۲) ۳۴- کشمکش صفحه ۱۱۷ ۳۵ بحواله الفضل ۹ / مارچ ۱۹۳۲ء صفحہ ۹ ٣٦ الفضل قادیان مورخه ۳۱/ جنوری ۱۹۳۲ء صفحه ۲ کالم ۳۷ اخبار الفضل قادیان مورخہ ۳۱/ جنوری ۱۹۳۲ء صفحه ۲ کالم الفضل ۲۴ جنوری ۱۹۳۲ء صفحه ۸ ۳۹ الفضل ۱۷/ جنوری ۱۹۳۲ء صفحہ ۲ کالم ۳ الفضل ۲۶/ جنوری ۱۹۳۲ء صفحہ ۴.ام الموعود صفحه ۱۷۲ تا ۱۷۶ الفضل ۱۷ار اپریل ۱۹۳۲ء صفحہ ۲ کا لم.۴۳.اس جلد میں حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب کے جس قدر بیانات بغیر حوالہ درج ہیں وہ سب آپ کے غیر مطبوعہ خود نوشت حالات سے ماخوذ ہیں جو مولف کتاب کے پاس محفوظ ہے.
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 638 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ ۴۳- انقلاب ۱۳ ستمبر ۰۶۱۹۳۲ -۴۵ ارکان وفد مولوی عبد الرحیم صاحب درد سید محسن شاہ صاحب مولوی محمد یعقوب خان صاحب مسٹر مجید ملک صاحب مولوی سید میرک شاہ صاحب تھے اور نامہ نگار جناب چوہدری ظہور احمد صاحب ٢٦ الفضل ۲۶ / ابر مل ۱۹۳۲ء صفحه ۱ ۴۷ الفضل قادیان مورخہ یکم مئی ۱۹۳۲ء صفحہ ۴۲ کالم -۴۸- الفضل ۱۲ مئی ۱۹۳۳ء صفحه ۱- الفضل ۹/ جون ۱۹۳۲ء صفحہ ا کالم ۳.۵۰ - الفضل ۲۴/ دسمبر ۱۹۳۱ء (اس تار کا متن گزشتہ فصل میں درج ہو چکا ہے) ۵۱ انقلاب (لاہور) / اکتوبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۶ ۵۲.لاہور / جون ۱۹۶۵ء (بعنوان کشمیر کی کہانی) صفحہ ۱۳ کالم.۵۳- الفضل ۲۴/ اپریل ۶۱۹۳۳ -۵۴ اس سفر میں بڑی مشکلات پیش آئیں چنانچہ شیخ محمد احمد صاحب منظر کا بیان ہے." ہم دونوں قادیان سے رخصت ہوئے اور ہم نے یہ تجویز کی کہ چونکہ ابھی تک کشمیر داخل ہونے میں روک ٹوک جاری ہے اس لئے یوسف خان صاحب لاہور ٹھہر جائیں اور خاکسار اکیلا پہلے سرینگر پہنچنے کی کوشش کرے گا.چنانچہ میں راولپنڈی پہنچا.اور ڈاک کی لاری میں سوار ہو گیا.کوہالہ پہنچنے پر ایک سخت مشکل پیش آئی.کوہالہ کے پل پر ایک مسلمان سب انسپکٹر پولیس تعینات تھا.اس نے مجھ سے پوچھا آپ کہاں جاتے ہیں؟ اور کون ہیں؟ میں نے کہا میں وکیل ہوں اور مسلمانوں کے مقدمات کی پیروی کے لئے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی طرف سے بھیجا گیا ہوں.سب انسپکٹر ند کورنے کہا آپ نہیں جاسکتے جانے کی اجازت نہیں.میں نے کہا کہ ہائیکورٹ کا قانون ترمیم ہو چکا ہے اور بیرونی وکلاء کو پیروی مقدمات کی اجازت مل چکی ہے.میرے پاس موکلوں کی تاریں موجود ہیں.چنانچہ ایک شخص فتح محمد کے مقدمہ کی پیروی کل ہی میں نے شروع کر دیتی ہے.کیونکہ کل تاریخ مقدمہ ہے لیکن سب انسپکٹرن کو ربدستور مصر رہا کہ آپ نہیں جاسکتے میں نے کہا کہ پھر لکھ دو اور یہ آپ کی ذمہ داری ہوگی کہ کل کے مقدمات بلا پیروی رہ جائیں گے.اس پر سب انسپکٹر مذکور نے یہ تجویز پیش کی کہ وہ مجھے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ مظفر آباد کے روبرو پیش کرے گا.چنانچہ ہم دونوں اس لاری میں سوار ہو کر مظفر آباد ایک بجے دن کے قریب پہنچ گئے وہاں جا کر معلوم ہوا کہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ صاحب دورے پر گئے ہوئے ہیں اس پر سب انسپکڑ نے کہا آپ یہاں ٹھہر جائیں کیونکہ کل تک وہ آجائیں گے.میں نے اس سے انکار کیا.کہ میں بہر حال کل مقدمات کی پیروی سے رک نہیں سکتا.یا آپ مجھے لکھ کر دیں.حیص بیص میں دو بج گئے لاری اور اس کے مسافرر کے رہے.یہ ڈومیل کا واقعہ ہے میں لاری میں سوار ہونا چاہوں تو سب انسپکٹر ڈرائیور کو لاری چلانے سے روک دے اس کے بعد میرے ذہن میں ایک تجویز آئی اور میں نے کہا کہ سب انسپکٹر صاحب علیحدہ ہو کر میری بات سنتیں میں انہیں علیحدہ ایک طرف لے گیا.اور میں نے حسب ذیل کلمات ان سے کے چونکہ آپ مسلمان پولیس افسر ہیں اس لئے اپنی بے جانیک نامی اور ترقی کے لئے مسلمانوں کے جائز کام میں بھی رکاوٹ ڈالنا چاہتے ہیں تاکہ آپ کے افسر آپ سے خوش ہوں اور آپ کو ترقی ملے.اگر کوئی ہند و سب انسپکٹر ہو تا تو میرے کاغذات دیکھ کر ایک منٹ کے لئے مجھے نہ روکتا لیکن آپ اپنی قوم کے دشمن ہیں.اور مسلمانوں کی جائز مدد بھی آپ کو منظور نہیں.جب میں نے یہ باتیں کیں تو میں سچ کہتا ہوں کہ سب انسپکٹر پولیس کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں.اور وہ کہنے لگا کہ کیا مجھے آپ مسلمانوں کا ایسا دشمن سمجھتے ہیں؟ لوہا گرم ہو چکا تھا.میں نے شدت سے اپنی بات کو دہرایا اور کہا کہ آپ کے رویہ سے زیادہ مسلمانوں کی دشمنی کا آپ کے متعلق کیا ثبوت ہو سکتا ہے.یقیناً آپ مسلمانوں کے بد خواہ ہیں.اس پر سب انسپکٹرند کور نے مجھے بتایا.یہ خیال غلط ہے میں سرینگر میں تعینات تھا.بلا وجہ مجھ پر شبہ کیا گیا کہ میں ایجی ٹیشن میں حصہ لے رہا ہوں.اور سزا کے طور پر مجھے سرینگر سے کو ہالہ جیسی گرم جگہ تبدیل کر دیا گیا.مجھے خیال گزرا کہ مجھ پر یہ الزام نہ لگ جائے کہ میں نے باہر سے وکیل بلوالیا ہے اس لئے میں نے یہ احتیاط کرنی چاہی کہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی اجازت سے آپ سرینگر چلے
تاریخ احمدیت جلد ۵ 639 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیه جائیں اچھا جو کچھ بھی ہو آپ جاسکتے ہیں.میں خدا کا شکر کرتا ہوا دو بجے کے قریب ڈومیل سے روانہ ہو گیا.میں نے ابھی تک کھانا نہیں کھایا تھا.لیکن اس خوشی نے بھوک کا احساس کم کر دیا اور مغرب کے قریب ہماری لاری بارہ مولا پہنچ گئی.چونکہ رات کو لاری نے بارہ مولا ٹھہر نا تھا اور صبح کو روانہ ہونا تھا.اس لئے مجھے یہ خیال آیا کہ سرینگر داخل ہوتے وقت بھی شاید کوئی دقت پیش آئے.مارگزیدہ از ر سماں مے ترسد- میں نے اپنے چند ہمراہیوں سے (جن میں ایک پروفیسر صاحب بھی تھے) مشورہ کیا کہ اگر ہم اس وقت روانہ ہو کر سرینگر پہنچ جائیں تو رات کی بے آرامی سے بچ جائیں گے وہ اس سے متفق ہوئے.ایک لاری والا منچلا تھاد گنا کرایہ لے کر پہنچانے پر آمادہ ہو گیا.چنانچہ ہم و گنا کرایہ دے کر رات کے بارہ بجے کے قریب سرینگر کی چونگی پر پہنچ گئے." ۵۵ الفضل ۱۸/ نومبر ۱۹۳۲ ء صفحه ار سیاست ۱۹/ ستمبر ۱۹۳۲ء ٥- الفضل ۷ از مئی ۱۹۳۲ء صفحہ ۲ کالم.۵۷- لاہوری / جون ۱۹۶۵ء صفحہ ۱۳ کالم ۲ کشمیر کی کہانی.لاہورے ا/ مئی ۱۹۶۵ء صفحہ ۱۴ کالم ۳ (کشمیر کی کہانی) از جناب چوہدری ظہور احمد صاحب و الفضل ۲۶ / مئی ۱۹۳۲ء صفحہ کالم ۱-۲- ۶۰ - اخبار لاہور۷ / جون ۱۹۶۵ء صفحہ ۱۲- کشمیر کی کہانی از چوہدری ظہور احمد صاحب لاہوری / جون ۱۹۹۵ء صفحہ ۱۳ الفضل ۲۹/ مئی ۱۹۳۲ء صفحہ ۲ کالم ۲.الفضل ۲۱ جون ۱۹۳۲ء صفحہ ۱.الفضل ۲۶/ جنوری ۱۹۳۳ء صفحہ ۹ کالم ۳ ۶۵ لاہور (لاہور) سے / جون ۱۹۷۵ء صفحہ ۱۳ کالم ۳.الفضل ۲۵/ فروری ۱۹۳۲ء صفحه ۸ کالم ۲-۳- - الفضل ۲۶ جون ۱۹۳۲ء صفحہ اکالم ۲- لاہورے / جون ۱۹۶۵ء صفحہ ۱۲-۱۳- کشمیر کی کہانی از جناب چوہدری ظهور احمد صاحب بیان جناب اللہ رکھا صاحب ساغر سابق ایڈیٹر رہبر کشمیر مورخہ ۲۲/۱۲/۱۳- قریشی محمد اسد اللہ صاحب فاضل کا شمیری کے ایک غیر مطبوعہ مقالہ سے ماخوذ - الفضل ۳۱/ جولائی ۱۹۳۲ء صفحہ ۱۰ کالم ۱-۲- ا ماخوذ از مکتوب محمد امین صاحب قریشی (مورخه ۲۴/ اکتوبر ۱۹۳۳ء سرینگر کشمیر) ۷۲ انقلاب ۲۰ / اپریل ۱۹۳۲ء صفحہ ۶ - (عتیق اللہ کشمیری) ۷۳- اسی مشورہ کے مطابق آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کی بنیاد رکھی گئی.(ناقل) ۷۴.میرے پاس اس امر کے بادر کرنے کی کافی وجوہ ہیں کہ سید زین العابدین صاحب کے اخراج میں بعض نام نہاد لیڈروں کا ہاتھ ہے جنہوں نے اس امر سے ڈر کر کہ ان کے آنے سے حقیقت حال ظاہر ہو جائے گی بعض اپنے ہمد ردا فسروں کے ذریعہ سے ان کے نکالنے کی کوشش کی تاکہ ان کے لئے راستہ کھلا رہے.منہ.۷۵ نقل مطابق اصل ۷۶ نقل مطابق اصل.۷۷.سہو! رہ گیا ہے.(ناقل) ۷۸ متن کے لئے ملاحظہ ہو ضمیمہ کتاب.۷۹ کشمکش صفحه ۱۳۸-
تاریخ احمد بیت - جلد ۵ 640 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیه ۸۰ حضرت شاہ صاحب کا قیام ان دنوں قاضی صلاح الدین صاحب پشاوری کی کو بھی واقع چیکار میں تھا اور دن کے وقت آپ ہاؤس بوٹ چنار باغ میں اگر اپنے دفتر میں کام کرتے تھے شیخ بشیر احمد صاحب اور شیخ محمد احمد صاحب منظر بھی اسی ہاؤس بوٹ میں رہائش پذیر تھے.الفضل ۱۸ اکتوبر ۱۹۳۲ء صفحه ۲ کالم ۲-۳ و ۲۵/ اکتوبر ۱۹۳۲ء صفحه ۲ کالم ۱-۲- اس کا مکمل متن الفضل ۲۵/ اکتوبر ۱۹۳۲ء ۲۷ اکتوبر ۱۹۳۲ء میں شائع شدہ ہے.۸۳ الفضل قادیان مورخه ۲۵/ اکتوبر ۱۹۳۲ء صفحه او ۰۲ - الفضل ۲۳/ اکتوبر ۱۹۳۲ء صفحه ۲ کالم ۳ ۸۵ الفضل ۲۵/ اکتوبر ۱۹۳۲ء صفحه ۲- ۸۶- اختبار "اصلاح" (سرینگر) ۹/ نومبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۴.اخبار اصلاح ۲۰ نومبر ۱۹۳۴ء میں اجلاس سوپور کی روداد کے ضمن میں لکھا ہے.آخر مسلمانوں کا یہ ٹھاٹھیں مارتا ہو اسمندر مشهور قومی کارکن مسٹرجی این گلکار کی قیادت میں جلوس کی صورت میں مرتب ہوا جو اپنے محبوب رہنماؤں کو لئے مرکزی مقامات سے قومی ترانے گاتا ہوا دو بجے جلسہ گاہ میں پہنچا.(اصلاح ۲۰/ نومبر ۱۹۳۴ء صفحه (۲) - اخبار ہمدرد سرینگر ۳۱ / جولائی ۱۹۳۸ء.۸۸- اخبار اصلاح سرینگر ۱۹/ دسمبر ۱۹۴۶ء صفحه یم کالم ۳ ایک غیر جانبدار مقالہ نگار کے قلم سے) ( ۸۹- انقلاب ۴/ جنوری ۱۹۳۳ء صفحه ۳
تاریخ احمدیت.جلد ۵ پانچواں باب (فصل اول) 641 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ کشمیر کمیٹی کی صدارت سے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا استعفیٰ ، اس کا پس منظر اور رد عمل آل انڈیا ایسوسی ایشن کا قیام اخبار ”اصلاح" کا اجراء کشمیر اسمبلی کا قیام ۱۹۳۸ء کی کشمیر ایجی ٹیشن پر حضرت خلیفتہ المسیح کی راہنمائی نیشنل کانفرنس کے خلاف محاذ " کانفرنس کا احیاء شاہی تحقیقاتی کمیشن میں بیانات تحریک کشمیر چھوڑ دو".آزاد کشمیر حکومت کی بنیاد چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی ترجمانی اہل کشمیر کی طرف سے اور فرقان بٹالین کے کارنامے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا صدارت سے استعفی ، اس کا پس منظر اور رد عمل ( تحریک آزادی کے چھٹے دور کا آغاز )
تاریخ 642 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ مسلم کانفرنس میں تشتت و افتراق مسلمانان کشمیر کی قومی زندگی کے لئے سخت مسلک تھا اور ہر مخلص مسلمان کی دلی تمنا تھی کہ کشمیری مسلمانوں کی صفوں میں بیجہتی قائم رہے تاکہ تحریک آزادی کشمیر کی منزل اور زیادہ قریب ہو جائے.چنانچہ ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب نے بھی شیخ محمد عبد اللہ صاحب کو ایک مکتوب لکھا کہ ”مجھے یقین ہے کہ بزرگان، کشمیر بہت جلد اپنے معاملات سلجھا سکیں گے اس بات کے لئے میں ہر لخط وست بدعا ہوں...اور یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے آپ کی مساعی کو بار آور کر دیگا لیکن جو مختلف جماعتیں سنا ہے کہ بن گئی ہیں اور ان کا باہمی اختلاف آپ کے مقاصد کی تکمیل میں بہت بڑی رکاوٹ ہو گا ہم آہنگی ہی ایک ایسی چیز ہے جو تمام سیاسی و تمدنی مشکلات کا علاج ہے ہندی مسلمان کے کام اب تک محض اس وجہ سے بگڑے رہے کہ یہ قوم ہم آہنگ نہ ہو سکی.اور اس کے افراد اور بالخصوص علماء اوروں کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بنے رہے بلکہ اس وقت ہیں " - 1 بے شبہ یہ نهایت قیمتی نصیحت تھی مگر خود کشمیر کمیٹی کے بعض مقتدر اور معزز ممبر بالکل نظرانداز کر گئے اور خدا کے فضل و کرم سے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کی حیرت انگیز قیادت و صدارت کی بدولت ایک نہایت قلیل عرصہ کی جنگ کے بعد (جو قوموں کی زندگی میں ایک سانس کی بھی حیثیت نہیں رکھتا) نہ صرف ریاست بلکہ ایک طرح سے حکومت انگریزی نے بھی ہتھیار ڈال دیئے تھے اور کشمیر کا صدیوں کا غلام آنکھیں کھولکر آزادی کی ہوا کھانے لگا تھا اور قانوناً ابتدائی حقوق حاصل کرنے کے بعد ان سے عملاً استفادہ کرنے کی دوسری مہم کا آغاز ہو چکا تھا کہ عین اس وقت نیم سرکاری اخبار ” سول اینڈ ملٹری گزٹ " (۴/ مئی ۱۹۳۳ء) میں یہ بیان شائع ہوا.کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے بعض ارکان نے ایک درخواست بھیجی ہے کہ آئندہ کشمیر کمیٹی کا صدر غیر قادیانی ہوا کرے.اس اخباری بیان کے علاوہ ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب خان بهادر رحیم بخش صاحب، سید محسن شاہ صاحب وغیرہ لاہور کے گیارہ ارکان کے دستخطوں سے صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی (حضرت خلیفتہ المسیح الثانی) کی خدمت میں ایک مکتوب پہنچا جس میں لکھا تھا ہماری رائے میں پندرہ دن کے اندر اندر کمیٹی کا اجلاس عہدہ داران کے انتخاب کے لئے نہایت ضروری ہے اس کے چند روز بعد ۴ / مئی ۱۹۳۳ء دستخط کنندگان میں سے دو اصحاب کی طرف سے (جن میں پروفیسر سید عبد القادر صاحب بھی شامل تھے.) جناب عبدالرشید صاحب قسم (اسٹنٹ ایڈیٹر اخبار سیاست لاہور) کے ذریعہ سے یہ پیغام ملا کہ انفرادی طور پر کشمیر کمیٹی کے کسی رکن کو اس کمیٹی کی تنظیم کے متعلق کوئی شکایت نہیں اوروں کے متعلق ہم کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن ہم دونوں کا یقین ہی نہیں بلکہ ایمان ہے کہ اگر حضرت صاحب کے علاوہ کوئی اور صدر ہو تا تو کبھی یہ ہم سر نہ ہو سکتی اس تحریک میں احمد یہ جماعت نے جو قربانیاں کی ہیں)
تاریخ احمدیت.جلد ۵ پرو 643 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ وہ دنیائے اسلام کبھی فراموش نہیں کر سکتی لیکن کچھ عرصہ سے در پر وہ یہ کوشش جاری رہی ہے کہ کسی طرح موجودہ صدر کو علیحدہ کر دیا جائے.ہمیں ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس پروپیگنڈہ کا بانی کون ہے اور کس اصول پر یہ سوال اٹھایا گیا بہر کیف ہمیں اس وقت پتہ چلا ہے جب یہ پروپیگنڈہ کامیاب ہو چکا ہے ایک تحریر اس مضمون کی لکھی گئی ہے کہ کشمیر کمیٹی کا ایک خاص اجلاس منعقد کیا جائے جس میں عہدہ داروں کو دوبارہ منتخب کیا جائے یہ محض دھوکہ ہے حقیقت یہ ہے کہ وہ صرف صدارت ڈاکٹر اقبال کے سپرد کرنا چاہتے ہیں اور خود اقبال کی بھی یہی خواہش ہے سیکرٹری وہی رہے گا جو پہلے ہے اس تحریر پر انفرادی طور پر ہر ایک رکن سے علیحدگی میں دستخط کرالئے گئے ہیں اور تمام اراکین نے اس پر دستخط کر دیئے ہیں کہ واقعی عہدہ داروں کا انتخاب دوبارہ عمل میں آنا چاہئے صرف ہم دونوں یعنی عبد القادر اور علم الدین سالک نے تاحال اس پر دستخط نہیں کئے لیکن ہمارا دستخط نہ کرنا آئینی لحاظ سے غلط ہے لہذا ہم دونوں بھی دستخط کر دیں گے...سوائے اس کے چارہ نہیں ہے.رہا یہ معاملہ کہ آپ کو کیا کرنا چاہئے سو آپ کی خدمت میں کوئی رائے پیش کرنا ایک بہت بڑی گستاخی کے مترادف ہے.آپ بهترین مدبر ہیں تاہم یہ عرض کر دینا ضروری خیال کرتے ہیں کہ آپ....ابھی اجلاس منعقد نہ ہونے دیں تھوڑے عرصہ تک بہت سے اراکین پہاڑ پر چلے جائیں گے اس عرصہ میں ہمیں بھی کوشش کا موقعہ مل جائے گا.اور ہم پھر اراکین کی اکثریت اپنی طرف کرلیں گے.مگر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ تجویز قبول نہ فرمائی اور ۷ / مئی ۱۹۳۳ء کو سیسل ہوٹل لاہور میں ایک ہنگامی اجلاس بلوایا جس میں حسب ذیل ممبران شامل ہوئے ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب ، ملک برکت علی صاحب ، حاجی شمس الدین صاحب سید محسن شاہ صاحب خان بهادر حاجی رحیم بخش صاحب مولوی عبدالمجید صاحب سالک، مولوی غلام مصطفے صاحب، ڈاکٹر عبد الحق صاحب سید عبد القادر صاحب، پروفیسر علم الدین صاحب سالک.میاں فیروزالدین احمد صاحب.پیر اکبر علی صاحب.چوہدری اسد اللہ خان صاحب مولانا جلال الدین صاحب شمس.ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب چوہدری محمد شریف صاحب مولوی عصمت اللہ صاحب اور شیخ نیاز علی صاحب اس اجلاس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی نے مندرجہ ذیل تحریر سنائی : " مجھے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے تیرہ ممبروں کے دستخط سے ایک تحریر ملی ہے جس میں اس امر کی خواہش ظاہر کی گئی ہے کہ میں پندرہ دن کے اندر کشمیر کمیٹی کا ایک اجلاس اس غرض سے منعقد کروں کہ کمیٹی کے عہدہ داروں کا نیا انتخاب کیا جائے گو میں اپنے گذشتہ طریق عمل کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ میں نے کبھی کسی ایک ممبر کی خواہش کو بھی کمیٹی کے بارہ میں پس پشت نہیں ڈالا اس قدر دستخطوں کی
تاریخ احمدیت.نیت معدن 644 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ ضرورت کو نہیں سمجھا لیکن دیسے میں ان ممبروں کی خواہش سے متفق ہوں.اور وہ ممبران جو کمیٹی کے اجلاسوں میں شریک ہوتے رہتے ہیں ان میں سے بعض کو شاید یاد ہو کہ میں نے گذشتہ سال ایک اجلاس کے موقعہ پر خود یہ خواہش ظاہر کی تھی.کہ اب ایک سال گذر چکا.اس کے عہدہ داروں کا نیا انتخاب ہو جانا چاہئے.لیکن ان ہی ممبروں میں سے جن کے دستخط مذکورہ بالا تحریر پر ثبت ہیں بعض نے یہ خیال ظاہر کیا تھا جس کی کسی دوسرے ممبر نے تردید نہیں کی تھی کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کوئی مستقل کمیٹی نہیں بلکہ ایک عارضی کام کے لئے تھوڑے عرصہ کے لئے اس کا قیام ہوا ہے اس لئے اس کے عہدہ داروں کا سالانہ انتخاب ضروری نہیں.غرض میں ان احباب کی خواہش سے متفق ہوں اور آئندہ انتخاب کے لئے راستہ صاف کرنے کی غرض سے اور اس امر کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ اب کشمیر کمیٹی کے کام کی نوعیت بہت کچھ بدل گئی ہے میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی صدارت سے مستعفی ہوتا ہوں میں اس موقعہ پر یہ بھی اپنا فرض سمجھتا ہوں.کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے ممبروں کا شکریہ ادا کروں.انہوں نے باوجود قسم قسم کے مشکلات کے حتی الوسع تعاون سے کام لیا.اور کئی مواقع پر میری خواہش کی بناء پر اپنی آرا کو ایک ایسے دائرہ میں محدود کر دیا جو اتحاد کے لئے ضروری تھا.اس بیان کے پڑھے جانے کے بعد حسب ذیل قرار دادیں پاس کی گئیں.۲- آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا یہ جلسہ سول اینڈ ملٹری گزٹ" میں شائع شدہ بیان سے کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے متعدد ارکان نے ایک درخواست اس امر کی بھیجی ہے کہ آئندہ کمیٹی کا صدر غیر قادیانی ہوا کرے قطعی علیحدگی کا اظہار کرتا ہے نیز یہ جلسہ اپنا فرض سمجھتا ہے کہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے مسلمانان کشمیر کے لئے جو گراں بہا اور مخلصانہ خدمات انجام دی ہیں ان پر آپ کا دلی شکریہ ادا کرے..اس حقیقت کے پیش نظر کہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے بذات خود آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا استعفیٰ پیش کر دیا ہے کمیٹی افسوس کے ساتھ ان کا استعفیٰ قبول کرتی ہے.۴.یہ جلسہ ڈاکٹر سر محمد اقبال کو آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا قائم مقام صد ر اور ملک برکت علی صاحب ایڈووکیٹ لاہور کو آئندہ انتخابات تک قائم مقام سیکرٹری مقرر کرتا ہے.استعفی کا رد عمل کشمیر میں حضرت خلیفہ البیع الثانی ایدہ اللہ تعالی کے مستعفی ہونے کے بعد پھر مسلمانان کشمیر جبر و تشدد کا تختہ مشق بننے لگے.اور حکومت کشمیر نے چند ہفتے بعد وسیع پیمانے پر گر فتاریاں شروع کر دیں اس دوران میں شیخ محمد عبد اللہ صاحب کو
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 645 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ اپنی گرفتاری کے احکام کی خبر ہوئی تو انہوں نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت میں مندرجہ ذیل مکتوب لکھا:- سرینگر ۳۱ / مئی ۶۳۳ ZAY محترم میاں صاحب! السلام علیکم و رحمتہ اللہ کل شام کو میری گرفتاری کے احکام نکلے ہوئے ہیں لیکن رات کو میں گرفتار نہ ہو سکا کیونکہ میں گھر پر نہ تھا یہ سب کچھ مہتہ کرتار سنگھ اور...کی مہربانی ہے.لہذا میں مختصرا عرض کرتا ہوں کہ آپ خدارا ایک بار پھر مظلوم کشمیریوں کو بچائے.اور اپنے کارکن روانہ کریں...وائسرائے پر دباؤ ڈال دیجئے گا بہر حال آپ سب کچھ جانتے ہیں مجھے امید ہے کہ آپ ایک وفادار دوست کو امداد کے بغیر ہرگز نہیں چھوڑیں گے فقط آپ کا شیخ محمد عبد اللہ ".مکتوب لکھنے کے معابعد شیخ صاحب اور ان کے دو رفقاء غلام محمد بخشی اور خواجہ غلام نبی صاحب گل کار گرفتار کر لئے گئے.ان زعماء نے جیل خانہ کی طرف جاتے ہوئے اپنے دستخطوں سے مندرجہ ذیل تحریر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی کو لکھی جو مولوی عبد الاحد صاحب (ہزاروی) نے حضور کی خدمت میں پہنچادینے بحضور امام جماعت احمدیہ - قادیان السلام علیکم ورحمتہ وبر کاتہ.ہم اس حیثیت سے کہ کشمیر کے مظلوم ہیں اور ہمارا جرم صرف اسلام ہے ہم حضور سے بحیثیت امام جماعت احمدیہ ہونے کے طالب امداد ہیں.حضور ہماری امداد فرما کر عند اللہ ماجور ہوں.گو ہمیں اس امر کا از حد صدمہ ہے کہ حضور نے اپنا دست شفقت بعض کم فہم احباب کی وجہ سے ہمارے سر پر سے اٹھالیا.مگر آپ کی ذات سے ہمیں پوری امید ہے کہ حضور اس آڑے وقت میں ہماری راہنمائی فرما کر ہمیں ممنون و مشکور فرما دیں گے.اور ہمارے لئے ساتھ ہی دعا بھی فرما دیں.و السلام - مفصل حالات صوفی عبد الاحد صاحب تحریر کریں گے.جیل جاتے وقت عریضہ لکھا گیا.کسی بھی قسم کی غلطی ہو تو معافی کے خواستگار ہیں.خاکساران Ghulam Mohammad Bukhshi 31.5.33 S.M.Abdullah 31.5.33.Ghulam Nabi.31.5.33 شیخ عبد اللہ صاحب کی گرفتاری کے چند روز بعد چودھری غلام عباس صاحب اور عبد المجید صاحب قرشی قید کر دیئے گئے اور ان کی طرف سے بھی حضور کی خدمت میں ایک درخواست موصول ہوئی جو
تاریخ احمدیت.جلده 646 ۷ / جون ۱۹۳۳ء کو سپرد ڈاک کی گئی تھی اور اس کے لفافہ پر یہ پتہ درج تھا:- تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد یہ بخدمت اقدس حضرت مرزا بشیر الدین صاحب محمود امیر جماعت احمدیہ قادیان ضلع گورداسپور درخواست کے الفاظ یہ تھے :- بسم الله الرحمن الرحيم از دفتر جموں و کشمیر مسلم کانفرنس بخدمت حضرت صاحب قبلہ ! السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ مزاج شریف بنده معہ عبدالمجید قرشی ایڈیٹر ” پاسبان" آج غالبا ایک نوٹس کے بعد جو نوٹیفیکیشن ایل 19 کے ماتحت ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی طرف سے ہمیں موصول ہوا ہے خلاف ورزی کر کے جیل میں جا رہے ہیں آنجناب نے جو کچھ اس وقت تک مظلومان کشمیر کے لئے کیا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں اور کسی تشریح کا محتاج نہیں بندہ کو امید واثق ہے کہ آنجناب اپنے گذشتہ ایثار کے پیش نظر پھر مظلوم مسلمانان کشمیر کی حمایت کے لئے کمر بستہ ہو جائیں گے کیونکہ حالات سخت نازک صورت اختیار کر رہے ہیں اور آنجناب کی مساعی جمیلہ کی ازحد ضرورت ہے " بر کریماں کا رہ دشوار نیست " احقر غلام عباس- شیخ محمد عبد اللہ کی گرفتاری کے بعد نوجوان پارٹی میدان عمل میں آئی تو مسلمانان کشمیر کے ۹ ڈکٹیٹروں میں سے ۳ احمدی ڈکٹیٹر تحریک آزادی کا جھنڈا تھامے ہوئے آگے آئے اور گرفتار کر لئے گئے.انہیں دنوں سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی ہدایت پر وزیر اعظم کشمیر (مسٹر کالون) سے ملاقات کرنے کے لئے سرینگر پہنچے.مگر گور نر کشمیر نے سرینگر میں ٹھہرنے کی اجازت نہ دی آپ کو واپس آجانا پڑا.A حکومت کشمیر مسلمانوں کی آئینی امداد کا سلسلہ بھی بند کر دیتا چاہتی تھی اس لئے اس نے شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کو بھی ریاست سے چلے جانے کا نوٹس جاری کر دیا نیز میر واعظ مولانا احمد اللہ صاحب ہمدانی جلا وطن کر دیئے گئے.یہ تو حکومت کشمیر کا رد عمل تھا جہاں تک مسلمانان کشمیر کا تعلق ہے ان کو صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے استعفیٰ سے از حد صدمہ ہوا.اور ان میں انتہائی بے چینی اور اضطراب کے آثار پیدا ہو گئے.اور ہر حصہ کشمیر کے معززین نے محضر نامے بھیجکہ درخواست کی کہ آپ مسلمانان کشمیر کی پہلے کی طرح امداد فرماتے رہیں.چنانچہ جماعت احمدیہ کی طرف سے انہیں یقین دلایا گیا کہ حضرت امام جماعت احمد یہ اور دوسرے افراد جماعت اہل کشمیر کی ترقی و بہبود میں اپنے وعدہ کے مطابق ہمیشہ سرگرم عمل رہیں گے.جدید کشمیر کمیٹی کے ممبروں نے پنجاب میں یہ غلط فہمی پھیلا رکھی تھی کہ یہ احمدی وکلاء اور احمدی کار کن اس تحریک کو اپنی تبلیغ کے لئے آلہ کار بنا رہے تھے کشمیر کے مخلص مسلمانوں نے اس الزام کی پر
تاریخ احمدیت - جلد ۵ 647 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد یہ زور تردید کی اور اسے احسان فراموشی پر محمول کرتے ہوئے حضرت خلیفہ المسیح الثانی اللہ تعالی کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا.احمد اللہ صاحب ہمدانی میرواعظ سرینگر میراحم اللہ صاحب ہمدانی میر واعظ کشمیر نے لکھا.اگر چہ میں قادیانیت سے دور ہوں مگر سیاسی مصالح کے لحاظ سے متحدہ محاذ بنانے کے حق میں ہوں کشمیر کمیٹی اور جناب کی انتھک کوشش ہمارے دلی شکریہ کی مستحق ہے جس کی ہر وقت کی امداد اور قیمتی مشوروں نے مشکلات کے حل کرنے میں آسانیاں پیدا کیں.وائس پریذیڈنٹ انجمن اسلامیہ کو ٹلی نے لکھا.احرار کمیٹی نے مسلمانوں کو تحہ لحد میں پہنچادیا.ہم مسلمانان ریاست آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے تہ دل سے مشکور ہیں کہ جنہوں نے اس نازک موقعہ پر جانی و مالی و دماغی امداد دے کر ہمیں مشکور کیا.اگر کشمیر کمیٹی کا وجود نہ ہو تا تو مسلمانان ریاست ہی معدوم ہو گئے ہوتے ".مسلمانان سرینگر سرینگر کے مسلمانوں نے اعلان کیا:- ا ہم مسلمانان محله کلاش پورہ محلہ مخدوم منڈو اور محلہ باباندہ گنائی...جناب مرزا محمود احمد صاحب نے جو خدمات مسلمانان کشمیر کے لئے فرما ئیں ان کا تہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ حضرت امام جماعت احمدیہ آئندہ بھی مسلمانان کشمیر کی اعانت پہلے سے بھی زیادہ فرما ئیں گے.کیونکہ مسلمانان کشمیر کو ان کی ہمدردی اور مدد کی ہر وقت ضرورت ہے جملہ مسلمانان کشمیر کو جناب ممدوح پر بہت اعتماد اور بھروسہ ہے اور جناب ممدوح کے خلاف پراپیگنڈا کر نیوالے عصر کو کشمیری مسلمان قومی غدار خیال کرتے ہیں...جملہ مسلمانان محلہ جات بذریعہ پیر احسن شاہ صاحب پر سرینگر کشمیر - مسلمانان جموں نے لکھا:.ہم جملہ اسلامی فرقہ جات اہل سنت والجماعت مسلمانان جموں اہلحدیث نقشبندی و قادری اعلان کرتے ہیں کہ اکثر غداران قوم نے یہ غلط طور مشہور کیا.کہ وکلاء صاحبان مامورہ کشمیر کمیٹی نے ورثاء اہل مقدمات سے محنتانہ لیا اور یہ بھی غلط پرو پیگنڈا کیا گیا.کہ جماعت احمدیہ نے کشمیر کی آڑ میں اپنی جماعت کی تبلیغ کی انہوں نے قطعا کوئی تبلیغ نہ کی.بلکہ بنظر ہمدردی ہر گونہ امداد کی.اور سیاسی معاملات میں ہم کو اس تفریق کی ضرورت نہیں.کل مسلمان بھائی بھائی ہیں اور سیاسی میدان میں مکمل اتحاد ضروری ہے ہم جناب مرزا محمود احمد صاحب
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 648 حریک آزادی تعمیر اور جماعت احمدیہ امام جماعت احمدیہ کی اس کوشش اور تردد کے لئے جو انہوں نے سیاسی پہلو سے اہل کشمیر کے لئے فرمائی تہ دل سے مشکور ہیں.اور چاہتے ہیں کہ خواہ وہ صدارت کشمیر کمیٹی سے مستعفی ہو چکے ہیں پھر بھی بدستور اس کار خیر کو ذاتی کوشش سے سرانجام دے کر ثواب دارین حاصل کریں- اس درخواست پر جموں کے اکتیس معزز مسلمانوں کے دستخط تھے.علاقہ سماہنی (ریاست جموں) کے مقدر مسلمانوں مسلمانان علاقہ سماہنی ( ریاست جموں ( نے لکھا.گو جناب مصلحت وقتی کی بناء پر صدارت آل انڈیا کشمیر کمیٹی سے مستعفی ہو گئے ہیں لیکن آپ کی سابقہ عنایات کا نقش ہمارے دلوں سے کبھی مٹ نہیں سکتا.بلکہ آئے دن تازہ ہو تا نظر آ رہا ہے.آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے وکلاء نے بدوران شورش ہمارے مقدمات میں جس محنت اور تندہی سے کام کیا ہے اس کا ہمارے دلوں پر گہرا اثر ہے جو کبھی مٹنے والا نہیں.یہ تبلیغ احمدیت کا جو الزام وکلاء پر لگایا جاتا ہے.اسے ہم نہایت حقارت کی نظر سے دیکھتے ہوئے معترضوں کی لغو بیانی کو بہت بری طرح محسوس کرتے ہیں.کیونکہ اس وقت جبکہ ہم سخت مصیبتوں کا شکار ہو رہے تھے.آپ ہی کا کام تھا کہ بغیر کسی ذاتی مفاد کے ہمارے مقدمات کی پیروی کے لئے اپنے وکلاء کو بھیج کر ہماری مدد کی.اور محنتانہ کے عوض خالی شکریہ پر ہی اکتفا کرتے رہے.اور ہمیں تمام تکالیف سے نجات دلانے کے لئے خود مصائب برداشت کرتے رہے.صاحب دین صاحب نے مسلمانان میرپور کے خیالات کی ترجمانی کرتے ہوئے مسلمانان میرپور لکھا.مجھے یہ کامل یقین تھا کہ آنحضرت کی ذات اقدس اگر بد ستور پریذیڈنٹ شپ کے عہدے پر فائز رہی تو ہم مظلومان میرپور کی فلاح و بہبود کا موجب ہوگی مگر چند ایک نا عاقبت اندیشوں نے ایسا نہ ہونے دیا.جس کا نتیجہ لازمی طور پر بر عکس نکلا علی بیگ اور سکھ چین پور کے مقدمات میں اسیران کو جو طویل دستگین سزائیں دی گئی ہیں غالبا یہ اس امر کا روشن ثبوت ہے.سزاؤں کے متعلق جناب کے پاس اخبار پہنچ ہی چکے ہوں گے جناب کی خدمت اقدس میں اب میری یہی التجا ہے) جس طرح پیشتر آنحضور نے فی سبیل اللہ خود غرضوں کی طعن و تشنیع کو نظر انداز کرتے ہوئے مظلوموں کی حمایت میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا اسی طرح اسب بھی ان معصوم بچوں کی زاری پر جن کے باپ شاید ان سے ہمیشہ کے لئے چھن گئے ترس فرماتے ہوئے ان کی مدد کے لئے میدان عمل میں گامزن ہوا کر مسلمانان میرپور کی املاک قلوب پر قابض ہو جا ئیں مجھے دنیا میں آنحضرت اور جماعت احمدیہ کے بجز کوئی اور شخصیت یا سوسائٹی نظر نہیں آتی جو بے سپر مسلم قوم کی معاون
تاریخ احمدیت جلده 649 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ ومددگار ہو تمام باتونی لیڈران میرپور کو آپ جانتے ہیں اب موقع ہے کہ مسلمانان میرپور کے دلوں کو ہمیشہ کے لئے جیتا جائے....مجھے پوری پوری توقع ہے کہ ضرور کوئی ایسا قدم اٹھایا جائے گا جو میرے اور میرے ہم خیالوں کے لئے باعث فخر ہو گا....آپ کا خادم بقلم خود صاحب الدین زرگر پیشنر میرپور" مسلم ایسوسی ایشن پونچھ (۱) مسلم ایسوسی ایشن پونچھ نے ایک عام اجلاس میں جو ۲۳ / جون ۱۹۳۳ء کو منعقد ہوا.قرار داد پاس کی کہ گذشتہ فسادات کے موقعہ پر جو احمدی وکلاء یہاں کام کرتے رہے ہیں.ان پر عائد کردہ سب التزامات قطعاً غلط اور جھوٹے ہیں.انہوں نے نہایت شرافت، نہایت دیانتداری اور انتہائی بے نفسی سے ہماری مدد کی.اور اس کے معاوضہ میں سوائے مخلصانہ شکریہ اور ولی دعاؤں کے کچھ وصول نہیں کیا.ہم متفقہ طور پر انسانیت کے ان محسنوں کے خلاف ایسے غیر شریفانہ پراپیگنڈا کی پورے زور کے ساتھ مذمت کرتے ہیں اس کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس پر اظہار ملامت کرتے ہیں.-۲- ایسوسی ایشن ان احسانات اور نوازشات کی ممنون ہے جو کشمیر کمیٹی کے سابق صدر نے از راہ مہربانی بروقت امداد کر کے نہایت فیاضانہ طور پر ہم پر کی ہیں اور آئندہ کے لئے بھی ان سے ہمدردانہ امداد کی توقع رکھتے ہیں کوئی جھوٹا پراپیگنڈا نہ ان کو بد دل کر سکتا ہے اور نہ انہیں بد دل ہو نا چاہئے ہمیں تا حال ان کی مدد کی ضرورت ہے.احمدی وکلاء چوہدری عزیز احمد صاحب اور قاضی عبد الحمید صاحب کی مخلصانہ خدمات کی ہم یہ دل سے قدر کرتے ہیں.ہم مرزا بشیر الدین محمود احمد سابق صدر کا تہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آپ نے جناب سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کو ہماری درخواست پر پھر یہاں بھیج دیا.جن کی کوششیں ہمارے لئے بہت ہی مفید ثابت ہو رہی ہیں ".سر فراز خاں صاحب نمبردار تھکیالہ پونچھ رئیس کریلا نے لکھا حضور مسلمانان تھکیالہ پڑاوہ کے کمیٹی سے مستعفی ہونے پر ہر طرف شور برپا ہو رہا ہے لوگ حضور کے احسان سے تادم مرگ عہدہ بر آنہیں ہو سکتے.مسلمانان تھکیالہ نے ۲۳ / مئی ۳۳ ء کے ایک عظیم اجتماع میں مندرجہ ذیل ریزولیوشن پاس کیا کہ ہم آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی ڈیڑھ سالہ خدمات کا شکریہ ادا کرنے سے قاصر ہیں.کمیٹی نے اپنے وسیع ذرائع سے کام لے کر مسلمانان کشمیر کے مطالبات کی حمایت میں عالمگیر پراپیگنڈا کیا جس سے انگلستان
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 650 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد یہ تک کے جرائد و عمائد بلکہ ارباب حکومت تک متاثر ہوئے اس نے سب سے اہم خدمات خود کشمیر میں سرانجام دیں شہداء اور مجرد حین کی مالی امداد کی کارکنوں کی تنظیم کی.ماخوذین کے لئے قابل اور ایثار پیشہ ہیر سٹر بھیجے کشمیر کمیٹی کے صدر محترم صاحب کا استعفیٰ اہالیان کشمیر کے لئے انتہائی بد قسمتی ہے.ہم جناب مرزا صاحب سے پر زور اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنے استعفیٰ پر نظر ثانی فرما دیں".مسلمانان گلگت مسلمانان گلگت نے حضور کی خدمت میں لکھا.بحضور عالی جناب حضرت امام جماعت احمد یہ ایدہ اللہ بنصرہ العزیز السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ.گذارش ہے کہ جملہ مسلمانان گلگت تحریک کشمیر میں حضور والا کو اپنا نمائندہ تسلیم کرتے ہوئے نہایت ہی عاجزی اور انکساری سے التجا کرتے ہیں کہ اللہ حقوق طلبی میں مسلمانان کشمیر کو ہر ممکن امداد دیکر ممنون احسان بنایا جائے.(۲) اس وقت تک تحریک کشمیر میں جو امداد حضور والا دیتے رہے ہیں.اس کے لئے مسلمانان گلگت (کشمیر) کابچہ بچہ حضور کا شکر گزار ہے خداوند تعالٰی حضور کو اس احسان کے عوض جزائے خیر عطا فرمائے.(جملہ مسلمانان گلگت بذریعہ محمد اکبر خان) مسلم پریس کا تبصرہ حضرت خلیفتہ البیع الثانی کے صدارت کمیٹی سے استعفی پر اہل کشمیر پر کیا بیتی اس کا ذکر اوپر آچکا ہے اب یہ بتایا جاتا ہے کہ پنجاب کے مسلم پریس نے اس موقعہ پر کن خیالات کا اظہار کیا.جناب سید حبیب صاحب نے اپنے اخبار ” سیاست ۱۸/ مئی ۳۳ء میں لکھا.لاہور کے بعض ارکان کشمیر کمیٹی میں یہ تحریک جاری تھی کہ کمیٹی مذکور کے عہدہ داروں کا جدید انتخاب ہو مجھ سے بھی اس تحریک کی تائید کے لئے کہا گیا اور میں نے بھی متعلقہ کاغذ پر دستخط کئے لیکن افسوس ہے کہ معلومہ حارج کی وجہ سے میں جلسہ میں موجود نہ تھا معلوم ہوا ہے کہ اس جلسہ میں مرزا صاحب کا استعفیٰ منظور کر لیا گیا.یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مولانا چوہدری غلام رسول صاحب مرنے بھی سیکرٹری کے عہدہ سے استعفیٰ داخل کر دیا.اور ان کی جگہ ملک برکت علی صاحب کا تقرر عمل میں آیا.میں خوش ہوں کہ ایسا ہوا.اس لئے میری دانست میں اپنی اعلیٰ قابلیت کے باوجود ڈاکٹر اقبال اور ملک برکت علی صاحب دونوں اس کام کو چلا نہیں سکیں گے.اور یوں دنیا پر واضح ہو جائے گا.کہ جس زمانہ میں کشمیر کی حالت نازک تھی اس زمانہ میں جن لوگوں نے اختلاف عقائد کے باوجود مرزا صاحب کو صدر منتخب کیا تھا.انہوں نے کام کی کامیابی کو زیر نگاہ رکھ کر بہترین انتخاب کیا تھا.اس وقت اگر اختلافات عقائد کی وجہ سے مرزا صاحب کو منتخب نہ کیا جاتا تو تحریک بالکل ناکام رہتی.اور امت مرحومہ کو سخت نقصان پہنچتا.میری رائے میں مرزا صاحب کی علیحدگی کمیٹی کی موت کا مترادف ہے مختصر یہ کہ
تاریخ احمد میمت - جلد ۵ 651 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد به ہمارے انتخاب کی موزونیت اب دنیا پر واضح ہو جائے گی.والحمد للہ علی ذالک ".جناب سید حبیب ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کا استعفیٰ اور اخبار "سیاست" صاحب ایڈیٹر سیاست کا اندازہ آئندہ واقعات نے بالکل صحیح ثابت کر دیا چنانچہ ڈاکٹر سرا قبال صاحب نے ۲۰/ جون ۱۹۳۳ء کو ایک بیان میں کشمیر کمیٹی سے استعفیٰ دے دیا سید حبیب صاحب نے اس بیان او را استعفیٰ پر اخبار سیاست (۲۴/ جون ۱۹۳۳ء) میں مفصل تبصرہ شائع کیا جو بجنسہ درج ذیل ہے.سید صاحب نے لکھا:.ڈاکٹر سر محمد اقبال نے جو مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے بعد آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے صدر مقرر ہوئے تھے.عہدہ صدارت سے استعفیٰ دے دیا ہے آپ نے ایک بیان میں جو اخبارات کو برائے اشاعت دیا گیا ہے کشمیر کمیٹی کے قادیانی ممبروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنے مذہبی پیشوا کے علاوہ کسی شخص یا جماعت کی وفاداری نہیں کر سکتے.آپ اپنے ایک بیان میں فرماتے ہیں.” پبلک کو یاد ہو گا کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی بنا کشمیر کے مسلمانوں کی فوری ضرورت کو مد نظر رکھ کر ڈالی گئی تھی اس وقت یہ خیال نہ تھا کہ اس کمیٹی کی عمر بہت لمبی ہو گی اس لئے اس کے لئے کوئی آئین وضع نہ کیا گیا تھا.بلکہ صدر کو مطلق العنان اختیارات دیئے گئے تھے جب کشمیر کے حالات کی وجہ سے کشمیر کمیٹی ایک مستقل جماعت بن گئی تو بہت سے ممبروں کو یہ خیال ہوا کہ اس کے لئے ایک باضابطہ آئین بنایا جائے اور اس کے عمدہ داروں کا از سر نو انتخاب کیا جائے اس خیال کو تقویت دینے والا یہ امر بھی تھا کہ بہت سے ممبر کشمیر کمیٹی کی بناوٹ اور اس کے کام سے غیر مطمئن تھے چنانچہ اس مقصد کے لئے کشمیر کمیٹی کا ایک اجلاس منعقد کیا گیا جس میں اس کے صدر نے اپنا استعفیٰ پیش کر دیا جو منظور کر لیا گیا.اس کے بعد گزشتہ اتوار کو کشمیر کمیٹی کا ایک اجلاس برکت علی محمدن ہال میں منعقد ہوا.اور اس کے سامنے کشمیر کمیٹی کے آئین کا ایک مسودہ پیش کیا گیا.جس کی غرض یہ تھی کہ کشمیر کمیٹی کو صحیح معنوں میں نمائندہ جماعت بنا لیا جائے بعض ممبران اس مقصد کے مخالف تھے اور عہدوں کے مسئلے پر جو بحث ہوئی اس سے مجھے معلوم ہوا کہ یہ صاحبان کشمیر کمیٹی کو برائے نام ایک جماعت رکھتے ہوئے اصل میں دو جماعتوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں چنانچہ میں نے اسی وقت اس رائے کا اظہار بھی کر دیا.بد قسمتی سے کشمیر کمیٹی میں بعض ایسے ممبر بھی ہیں جو اپنے مذہبی پیشوا کے علاوہ کسی اور کی اطاعت تسلیم نہیں کرتے یہ امر اس بیان سے ظاہر ہو گیا تھا جو ایک احمدی وکیل نے جو میرپور کے مقدمات میں پیروی کر رہا تھا.چند روز ہوئے اخبارات میں شائع کر دیا تھا.اس نے اس امر کا اعتراف کیا تھا.کہ اس
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 652 تحریک آزادی کشمیراء ، جماعت احمد بیه نے یا اس کے ساتھیوں نے جو کچھ اب تک کیا تھا.وہ صرف اپنے مذہبی پیشوا کے حکم کی تعمیل میں کیا تھا.میں نے اس بیان کو احمدیوں کے عام نقطہ نگاہ کا اعلان خیال کیا تھا.اور مجھے اس وقت کشمیر کمیٹی کے مستقبل کے متعلق خطرات پیدا ہو گئے تھے.جہاں تک کشمیر کمیٹی کی عام پالیسی کا تعلق ہے میرے علم میں ممبروں میں کوئی اختلاف نہیں ہے اگر پالیسی میں عام اختلاف ہو تو کمیٹی کے اندریا کسی پارٹی کے بنے پر کوئی اعتراض نہیں رکھ سکتا لیکن کشمیر کمیٹی میں جو اختلاف رونما ہیں وہ ایسے وجوہات کی بناء پر ہیں جو میری رائے میں بالکل غیر متعلق ہیں مجھے یقین نہیں کہ کشمیر کمیٹی آئندہ سکون کے ساتھ کام کر سکے گی اور میں محسوس کرتا ہوں کہ تمام پارٹیوں کے مفاد میں یہی بات ہے کہ موجودہ کشمیر کمیٹی کو توڑ دیا جائے لیکن کشمیر کے مسلمانوں کو برطانوی ہند میں ایک کشمیر کمیٹی کی اعانت اور راہنمائی کی ضرورت ہے اگر برطانوی ہند کے مسلمان ان کی اعانت اور راہنمائی کرنا چاہیں تو وہ ایک پبلک جلسہ منعقد کر کے ایک نئی میر کمیٹی کی بنیاد رکھ سکتے ہیں میں نے ان وجوہ کو جنہوں نے مجھے استعفیٰ دینے پر مجبور کیا بلا کم و کاست بیان کر دیا ہے میں امید کرتا ہوں کہ میری صاف گوئی سے کوئی شخص ناراض نہ ہو گا کیونکہ یہ صاف گوئی کسی سے عداوت کی بناء پر نہیں ہے ".ا.علامہ صاحب نے دانشمندی سے بیان نہیں کیا کہ جس روز شملہ میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی بنیاد رکھی گئی مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کا بطور صد را انتخاب علامہ اقبال ہی کی تحریک پر عمل میں آیا تھا اور جن لوگوں نے ان کے عقائد کی وجہ سے ان کے انتخاب کو صحیح نہ سمجھا تھا.علامہ اقبال نے ان کے اندیشہ پر کمزوری کی پھبتی اڑائی تھی..ممکن ہے کہ حضرت علامہ کا یہ خیال صحیح ہو کہ کشمیر کمیٹی کے قادیانی ارکان تدبر و دانشمندی کی تدابیر کی بجائے اپنے امام کی تائید کرتے ہیں لیکن جس اجلاس میں علامہ اقبال مستعفی ہوئے اس میں کوئی ایسا مظاہرہ نہیں ہوا البتہ اگر کسی نے مجالس کے بنیادی اصول و دستور کو مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے اشارے پر قربان کیا تو وہ خود علامہ اقبال تھے.جس کی تفصیل آگے چل کر بیان کی جائے گی..جس جلسہ میں علامہ اقبال مستعفی ہوئے وہ ۱۸ جون کو ہوا تھا اس جلسہ میں پہلی قرار داد اتفاق رائے سے منظور ہوئی تھی..اس کے بعد آئین مجلس کا معاملہ پیش ہوا.پہلی دفعہ جو نام کے متعلق تھی بالاتفاق منظور ہوئی مقاصد کے دو حصے تھے دونوں لفظی ترمیم کے بعد اتفاق آراء سے پاس ہوئے.تیسری دفعہ میں خاکسار نے تین ترمیمیں پیش کیں.دو اتفاق رائے سے منظور ہوئیں.تیسری یہ تھی کہ ممبری کی درخواست پر کمیٹی کی منظوری حاصل کرنا لازمی ہوگی.یہ بہت بحث کے بعد ووٹ کے لئے پیش ہوئی.دس روٹ اس
تاریخ احمدیت.جلده 653 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ کے حق میں تھے اور پانچ مخالف لہذا میری ترمیم منظور ہو گئی.۵- علامہ اقبال اور مرزا محمود احمد صاحب امیر جماعت قادیان دونوں میرے خلاف تھے لہذا دونوں متحد ہو گئے مرزا صاحب نے میری ترمیم کے مقابلہ میں ترمیم پیش کی ہوئی تھی.جو میری ترمیم کے منظور ہو جانے کے بعد کسی قاعدہ کے رو سے پیش نہیں ہو سکتی تھی.مگر علامہ اقبال نے اصول مجالس کو مرزا صاحب کی خاطر بالائے طاق رکھ دیا.اور ان کی ترمیم مجلس کے رو برو پیش کر دی اور علامہ اقبال اور مرزا صاحب کے مریدوں کے ووٹوں سے وہ منظور ہو گئی.گویا مرزا صاحب کی بے جا حمایت اگر کسی نے کی تو علامہ اقبال تھے..اس کے بعد عہدیداروں کی تعداد زیر بحث آئی.صدر ایک بالاتفاق تجویز ہوا وائس پریذیڈنٹ دس تجویز کئے گئے تھے کثرت رائے یہ تھی کہ وائس پریذیڈنٹ بھی ایک ہی ہو.مگر علامہ اقبال مصر تھے کہ ایک سینئر وائس پریذیڈنٹ اور باقی صرف وائس پریذیڈنٹ کہلا ئیں.یہ بات منظور ہوئی اور قرار پایا کہ ایک سینئر پریذیڈنٹ ہوا کرے اور تین وائس پریذیڈنٹ.یہاں تک صلح و آشتی اور امن سے کار روائی ہوئی.ے.اس کے بعد تجویز کیا گیا تھا کہ ایک سیکرٹری ہوا کرے.اور ایک اسٹنٹ سیکرٹری.کثرت رائے یہ تھی کہ سیکرٹری روہوں مگر دونوں سیکرٹری کہلائیں کسی کو اسٹنٹ کہہ کر ذلیل نہ کیا جائے.اور نہ دوسروں کے ماتحت کیا جائے علامہ اقبال نے زور دیا کہ سیکرٹری اور اسٹنٹ سیکرٹری کی تجویز منظور کی جائے مرزا صاحب نے بھی اس موقع پر علامہ اقبال کی خاطر تجویز کیا کہ دو جائنٹ سیکرٹری رکھے جائیں.دوسری طرف سے عرض کیا گیا کہ دلائل سن لئے جائیں مناسب یہ تھا کہ علامہ اقبال دلائل سن کر مسئلہ کو روٹ پر چھوڑ دیتے مگر انہوں نے ایسا نہ کیا.اور کسی سے بات کئے بغیر اچانک یہ کہہ کر استعفیٰ دے دیا.کہ بعض ارکان کی روش ایسی ہے کہ میں آئندہ آپ کا صدر نہیں بن سکتا (حالانکہ یہ زیر بحث نہیں تھا کہ علامہ صاحب آئندہ صدر ہوں) اور میں عارضی صدارت بھی ترک کرتا ہوں".آپ یہ کہہ کر اٹھ کھڑے ہوئے سیکرٹری نے کہا آپ مستعفی ہوتے ہیں تو میں بھی استعفیٰ دیتا ہوں اور وہ بھی اٹھ کھڑے ہوئے لیکن آخر وکیل تھے.فورا پلٹا کھایا اور کہنے لگے کہ صاحب صدر جلسہ منتشر کرتے ہیں اور حالا نکہ صدر نے ایسا نہیں کیا تھا.اور وہ مستعفی ہونے کے بعد شاید کر بھی نہیں سکتے تھے پیراکبر علی صاحب نے اسی وقت کہدیا کہ صدر صاحب نے مستعفی ہونے سے پہلے جلسہ منتشر نہیں کیا اور اب وہ ایسا کر نہیں سکتے تھے.اس کے بعد افرا تفری کی پیدا ہو گئی اور سب چل دیئے.میری دانست میں علامہ اقبال کو غلط فہمی ہوئی کوئی شخص ان کی رائے یا صدارت کے خلاف
تاریخ احمد بیت - جلد ۵.654 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیه نہیں ہے لیکن یہ خوا نخواہ ملک برکت علی کی حمایت کرتے ہیں.انہوں نے تہیہ کر لیا ہے کہ وہ ملک صاحب کی قسم کے لوگوں کو عملاً بتا دیں گے کہ ان کی قوم کے حلقوں میں ان کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے کانگریسی حلقہ انہیں کمزور سمجھتا ہے یہ نہ ادھر کے ہیں نہ ادھر کے لہذا سراقبال کے لئے مناسب یہ ہے کہ وہ ملک صاحب کی حمایت سے ہاتھ اٹھا ئیں.- علامہ اقبال کی یہ تجویز فتنہ کی بنیاد ہے کہ مسلمان جلسہ کر کے کشمیر کمیٹی بنائیں.علامہ اقبال کے بغیر کشمیر کمیٹی نے کام کیا وہ اب بھی موجود ہے اور آئندہ بھی کام کرے گی.10 حق یہ ہے کہ کشمیر کمیٹی کا کام علامہ اقبال اور برکت علی صاحب کے بس کا نہیں تھا.لہذاوہ بہانہ بنا کر بھاگ گئے ورنہ جس وقت وہ مستعفی ہوئے اس وقت نہ کوئی جھگڑا ہوا نہ تو تو میں میں ہوئی اور نہ کوئی اختلاف رائے ہی بہت زیادہ موجود تھا".10 ڈاکٹر محمد اقبال قدیم کشمیر کمیٹی کے خاتمہ کا اعلان اور جدید کشمیر کمیٹی کی تشکیل صاحب نے اپنے بیان میں کشمیر کمیٹی کے وجود و بقا کے لئے ایک پبلک جلسہ کی تجویز پیش کی تھی.جو ان کے رفقاء کی طرف سے ۲ جولائی ۱۹۳۳ء کو لاہور میں منعقد کیا گیا اور اس میں قدیم کشمیر کمیٹی کے خاتمہ اور ایک جدید کمیٹی بنانے کا اعلان کیا گیا حالانکہ مدیر انقلاب کے الفاظ میں لاہور شہر کا کوئی نہایت ہی معمولی پبلک جلسہ نہ اس بات کا حقدار تھا کہ نئی کمیٹی بنا کر اسے آل انڈیا کشمیر کمیٹی قرار دیتا اور نہ اس امر کا مجاز تھا کہ پہلی کشمیر کمیٹی کو تو ڑ دیتا زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا تھا کہ کسی بنے والی کمیٹی پر اظہار اعتماد کر دیا جاتا اور پرانی کمیٹی پر بے اعتمادی کی قرار داد منظور کر دی جاتی اس حالت میں یہ سمجھاجاتا کہ لاہور شہر کے ان چند سو مسلمانوں کو جو ایک خاص تاریخ کو دہلی دروازے کے باہر جمع ہوئے تھے پرانی کمیٹی کے کام پر اعتماد نہیں اور بس لیکن وہ مسلمان اگر چند سو نہیں بلکہ چند ہزار بھی ہوتے تو سارے ہندوستان کے مسلمانوں کی نمائندگی دنیابت کا منصب سنبھال لینے کے حقدار نہ تھے.پنجاب کے مشہور مسلمان سیاسی لیڈر جناب احمد یار صاحب دولتانہ نے اس مرحلہ پر ۱۲ / جولائی ۱۹۳۳ء کو مندرجہ ذیل مکتوب لکھا:- دلنواز - ڈلہوزی ۱۲/۷/۳۳ قبلہ و کعبه مخدومی معظمی محترم مدظلہ - وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ وبرکاتہ و ادائے آداب کے بعد گزارش ہے نوازش نامه نیض شمامہ شرف صدور لا کر باعث سربلندی بندہ ہو اخداوند کریم کے فضل اور حضور کی دعا سے عزیز ممتاز محمد خاں بی.اے کے امتحان میں اچھے نمبروں سے پاس ہوا.اور تاریخ میں آنرز میں پنجاب بھر میں دوم رہا.وہ انشاء اللہ ۷ / ستمبر کو آکسفورڈ جائے گا.دعا فرمائیں کہ
یت - جلده 655 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ خداوند کریم اسے صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق اور ہدایت دے.حسام الدین جو کشمیر سے آیا تھا اس نے لاہور میں روپیہ خرچ کیا اسے ایک دوست نے کہا کہ کشمیر کمیٹی کا اس وقت تک خاتمہ نہیں ہو سکتا جب تک کہ حضور کمیٹی میں ہیں آپ کی ذات مہاراجہ کی آنکھوں میں مثل خار کھنکتی تھی.اور واقعی جو کام گورنمنٹ آف انڈیا اور ریاست کشمیر نہ کر سکتے تھے وہ حضور کی بلند حوصلگی اور اقبال کی دوں ہستی سے ہو گیا میں نے تو پیراکبر علی صاحب سے صاف کہہ دیا تھا کہ نکوئی پابدان کردن چنان است که بد کردن بجائے نیک مردان میاں سر فضل حسین نے بھی میری زبانی سرا قبال کو کہلا بھیجا کہ مسلمانوں کے نقصان کے علاوہ اسے ذاتی طور پر کوئی فائدہ نہ ہو گا مگر وہ شیر قالین ہے عملی بات تو سمجھنے سے قاصر ہے میری رائے ناقص میں تو حضور والا کو یہ کام پھر ہاتھ میں لینا چاہئے.ہم سب حضور کے جانثار خادم ہیں.اقبال سے نہ پہلے کچھ ہو سکا اور نہ اب ہو سکے گا اس کے متعلق جو احکام ہوں بسر و چشم تعمیل ہو گی.برادرم محمد عبد اللہ کی بابت بھائی سکندرحیات نے گو کل چند سے وعدہ لے لیا ہے میں پھر ان کو اور ڈاکٹر صاحب کو لکھ رہا ہوں میرے لئے دعائے خیر فرما ئیں.اگر کسی خدمت کے قابل ہوں تو خادم ہوں.حضور کا جان شار غلام - احمد یار دوستانه " جدید کشمیر کمیٹی کا انجام جدید کشمیر کمیٹی بڑے جوش و خروش سے ۲/ جولائی ۱۹۳۳ء کو معرض وجود میں آئی تھی.بالآخر مختصری مدت کے بعد ختم ہو گئی.اس کے زمانہ قیام میں اس نے اگر کوئی قابل ذکر کام کیا تو یہ کہ اس نے بعض وکلاء کو جن میں بہار کے ایک وکیل مسٹر نعیم الحق بھی تھے) کو دو ایک مقدمات کی پیروی کے لئے ریاست کشمیر میں بھجوایا جو چند روز بحث کرنے کے بعد چلے آئے ڈاکٹر صاحب ایک اور مقدمہ میں بھی سید نعیم الحق صاحب کو بھجوانا چاہتے تھے کہ شیخ عبد الحمید صاحب (صدر آل کشمیر مسلم کانفرنس کی طرف سے انہیں اطلاع پہنچی کہ اس کی پیروی چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کریں گے اس پر ڈاکٹر صاحب نے ۹/ فروری ۱۹۳۴ء کو سید نعیم الحق صاحب کو اس سے مطلع کرتے ہوئے لکھا.” چوہدری ظفر اللہ خان کیونکر اور کس کی دعوت پر وہاں جارہے ہیں مجھے معلوم نہیں شاید کشمیر کانفرنس کے بعض لوگ ابھی تک قادیانیوں سے خفیہ تعلقات رکھتے ہیں.ڈاکٹر صاحب کے مشہور سوانح نویس جناب عبد المجید صاحب سالک ذکر اقبال میں خط کا یہ حصہ درج کرنے کے بعد لکھتے ہیں حالانکہ شیخ محمد عبد اللہ (شیر کشمیر) اور دوسرے کارکنان کشمیر مرزا محمود احمد
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 656 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیه صاحب اور ان کے بعض کار پردازوں کے ساتھ خفیہ نہیں بلکہ علانیہ روابط رکھتے تھے اور ان روابط کا کوئی تعلق عقائد احمدیت سے نہ تھا بلکہ ان کی بناء محض یہ تھی کہ مرزا صاحب کثیر الوسائل ہونے کی نہ سے تحریک کشمیر کی امداد کئی پہلوؤں سے کر رہے تھے اور کارکنان کشمیر طبعاً ان کے ممنون تھے.چودھری ظفر اللہ خاں بھی یقیناً مرزا صاحب ہی کے اشارے سے مقدمے کی پیروی کے لئے گئے ہوں گے.14 دو اہم بیانات اس مقام پر جدید ید کشمیر کمیٹی کے آغاز و انجام سے متعلق دو ضروری بیانات کا درج کرنا ضروری ہے پہلا بیان جناب شیخ عبد الحمید صاحب ایڈووکیٹ سابق صدر آل کشمیر مسلم کانفرنس کا ہے اور دوسرا پر و فیسر علم الدین صاحب سالک کا.یہ بیانات اصل واقعات تک پہنچنے میں کافی راہنمائی کرتے ہیں.جناب شیخ عبد الحمید صاحب ایڈووکیٹ جموں کا بیان ہے کہ میرے نزدیک دیانتداری کا تقاضا یہ ہے کہ اس امر کا اظہار بلا خوف تردید کیا جائے کہ میاں بشیر الدین محمود صاحب امام جماعت احمدیہ اور ان کی تشکیل کردہ کشمیر کمیٹی اور ان کی جماعت کے افراد نے جو گراں بہا خدمات تحریک آزادی کشمیر کے سلسلہ میں انجام دیں.اس کا ہی یہ نتیجہ ہوا کہ مسلمانان ریاست اپنے حقوق حاصل کرنے میں بڑی حد تک کامیاب ہوئے ملازمتوں میں ان کی کمی پوری ہونی شروع ہوئی اسمبلی یعنی مجلس قانون ساز کا قیام عمل میں آیا.جس قدر مساجد و دیگر مقدس و متبرک مقامات سکھوں کے حمد سے ڈوگرہ حکومت کے زیر قبضہ و تصرف تھے سب واگزار ہو کر اہل اسلام کو مل گئے اور صوبہ کشمیرو میرپور جس کو ڈوگرہ حکمران اپنی ذاتی ملکیت اور زر خرید جانتے تھے اور زمینداروں سے حق مالکان وصول کرتے تھے بالآخر اس سے ان کو دست بردار ہونا پڑا.نہ صرف لوگوں کو حق ملکیت ہی مل گیا بلکہ رقم مالکانہ جو مالیہ اراضی میں تھی.وہ بھی منفی ہو گئی.جس سے مسلمانوں کو لاکھوں روپے سالانہ کی ادائیگی معاف ہو گئی اور جائیداد زرعی دیبی کے رہن ربیع وغیرہ پر جو پابندی عائد تھی دور ہو گئی یہ لوگ اپنی مقبوضہ جائیداد کے مالک کامل بن گئے پریس اور پلیٹ فارم کو بھی آزادی نصیب ہوئی تعصب مذہبی نے جب میاں بشیر الدین صاحب کو کشمیر کمیٹی کی صدارت سے علیحدگی پر مجبور کر دیا.تو ان کی جگہ علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال مرحوم و مغفور صدر چنے گئے علامہ مسلمانوں کے لحاظ سے بڑے محترم تھے مگر ان کے پاس ایسی کوئی منظم جماعت نہ تھی کہ جیسی جماعت احمد یہ میاں بشیر الدین صاحب کے تابع فرمان تھی اور نہ ہی علامہ کے پاس ایسا کوئی سرمایہ تھا کہ جس سے وہ ریاست کے اندر جماعت احمدیہ کی طرح اپنے خرچ پر دفاتر کھول دیتے.اس لئے ان کی صدارت کے ایام میں کوئی نمایاں کام نہ ہو سکا.کہاں میاں بشیر الدین محمود
تاریخ احمدیت جلد ۵ 657 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ را کے حکم سے سر ظفر اللہ اور شیخ بشیر احمد و چودھری اسد اللہ و غیرہ وکلاء مقدمات کی پیروی کے لئے آتے رہے بلکہ مستقل طور پر بعض سرینگر ، میرپور نو شہرہ و جموں میں رہ کر کام کرتے رہے ان کے طعام و قیام وغیرہ کے تمام اخراجات بھی میاں صاحب بھیجتے رہے.ان کے مستعفی ہونے کے بعد نہ دفتر ر ہے نه مستقل و کلاء ہی رہے ایک بار سرینگر کے ایک کیس میں جبکہ میں شیخ صاحب کی گرفتاری پر قائم مقام صدر مسلم کانفرنس تھا میرے لکھنے پر انہوں نے بہار کے وکیل سرکار انعام الحق صاحب کو سرینگر میں بحث کرنے کے لئے روانہ فرمایا چند دن رہے اور ہائیکورٹ میں بحث فرما کر واپس چلے گئے".جناب پروفیسر علم الدین صاحب سالک (پر وفیسر اسلامیہ کالج لاہور) کا بیان ہے:- حکومت کشمیر کی طرف سے ایک بااثر پیر صاحب آئے دن کشمیر سے آکر لاہور کی مسجد غوشیہ میں فروکش رہتے تھے وہ یہاں کشمیر کمیٹی کے خلاف سازش کرتے رہتے تھے اس نے احرار نیشلسٹ مسلمانوں سے مل کر اور دیگر اپنے کام کے آدمیوں کی معرفت کشمیر کمیٹی کے ممبروں تک راز داری کے ساتھ رسائی حاصل کر کے تفرقہ و انتشار کا بیج ہویا.اور ڈاکٹر محمد اقبال کو بھی بیچ میں گانٹھ لیا.اسی تفرقہ اندازی کاری نتیجہ تھا کہ فرقہ وارانہ جذبات کو بھڑکا کر احمدی اور غیر احمدی کا سوال بڑے زور سے اٹھایا گیا چنانچہ اندر ہی اندر یہ تحریک چلائی گئی کہ کشمیر کمیٹی کا صدر غیر قادیانی ہونا چاہئے تاکہ کمیٹی اطمینان کے ساتھ صحیح معنوں میں کام کر سکے.اس خفیہ تحریک کو اس طرح بروئے کار لایا گیا کہ کمیٹی کے ممبران سے یہ مطالبہ شروع کر دیا گیا کہ کمیٹی کا نیا انتخاب ہونا چاہئے امام جماعت احمدیہ کو اس ساری کارروائی کا پتہ چل گیا.اور اسی دوران میں بعض ممبران کی طرف سے وہ بیان سول اینڈ ملٹری گزٹ " میں شائع کرایا گیا جس کا حوالہ امام جماعت احمدیہ نے اپنے استعفیٰ میں دیا ہے نتیجہ یہ ہوا کہ امام جماعت احمدیہ نے استعفیٰ دے دیا اور اس طرح حکومت کشمیر اور ہندو قوم کے راستہ سے بزعم ان کے وہ کانٹا دور ہو گیا جس نے ہمالیہ کے پہاڑوں سے لیکر انگلستان و امریکہ کے درو دیوار تک ان کے ناک میں دم کر رکھا تھا جس نے حکومت کشمیر کو صدیوں کے جبرو استبداد کے راستہ میں چٹان بن کر تھوڑے عرصہ میں ہی ایسا انقلاب پیدا کر دیا تھا جس کے نتیجہ میں حکومت کشمیر مسلمانان کشمیر کے سامنے جھکنے پر مجبور ہو گئی تھی اور اسے عوام کو مطلوبہ حقوق دینے پڑے تھے.ادھر امام جماعت احمدیہ نے کشمیر کمیٹی کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا ادھر اندرون کشمیر جو کام چل رہا تھا اس میں یکا یک تعطل پیدا ہو گیا.اور ایک عام بے چینی پھیل گئی کیونکہ وہاں پکڑ دھکڑ جاری ا تھی اور اس سلسلہ میں ان کی مالی اور قانونی امداد جو صدر کشمیر کمیٹی کی طرف سے جاری تھی بند ہو گئی اور نئے عہدیداران اندرون کشمیر کام کرنے والے سابق وکلاء اور کارکنوں کو نہ نئے انتخاب اور نئے
تاریخ احمدیت.جلده 658 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ انتظام کی کوئی اطلاع بھیج سکے اور نہ ہی ان سابق کارکنوں کے خوردونوش اور رہائش اور کام کے لئے کوئی بندوبست کر سکے اور نہ اپنی طرف سے متبادل مالی اور قانونی امداد کشمیر میں بھیج سکے جس کا قدرتی نتیجہ یہ نکلا کہ سابق وکلاء اور کارکن کام سے واپس آنے پر مجبور ہو گئے.جب نئی کشمیر کمیٹی نے اپنی کمزوری محسوس کی تو اس کے عارضی سیکرٹری ملک برکت علی صاحب نے ایک بیان اخبارات میں شائع کرایا کہ شیخ بشیر احمد احمدی وکیل اور کارکنوں نے مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے استعفیٰ کے بعد کام کرنا چھوڑ دیا ہے اور یہ غلط فہمی بھی پھیلائی کہ مرزا صاحب نے وکلاء اور کارکنوں کی واپسی کی رایات بھجوادی ہیں جب یہ بیان اخبارات میں شائع ہو ا تو شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کی طرف سے مفصل تردیدی بیان شائع ہوا جس میں انہوں نے واضح کیا کہ یہ درست ہے کہ میں نے کشمیر میں جو خدمات کیں اپنے مقدس امام کی اطاعت میں کیس مگر یہ بالکل غلط ہے کہ ہمارے مقدس امام نے مجھے یا دیگر کارکنان کو واپس آنے کی ہدایات بھیجی تھیں بلکہ واقعہ یہ ہے کہ جب نئی کشمیر کمیٹی کی طرف سے ہمیں کوئی ہدایت موصول نہ ہوئی اور توجہ دلانے کے باوجود اس نے مکمل سکوت اختیار کر لیا.تو ہم نے ایک تار اپنے مقدس امام کو اپنے موجودہ کام کے بارے میں ہدایت طلب کرنے کی غرض سے بھیجا جس کا جواب آیا کہ ہم کام کو جاری رکھیں تا آنکہ نئے عہدیدار اپنے طریق کار کا فیصلہ نہ کرلیں.مقدمات کے ملزموں کو جب اندرون کشمیر نئے حالات کی اطلاع کر دی گئی تو انہوں نے نئی کشمیر کمیٹی اور علامہ اقبال کے نام خطوط اور تاریں بھیجیں لیکن وہ بے اعتنائی کی نذر ہو گئیں اور انہیں کوئی جواب نہ ملاشیخ بشیر احمد صاحب نے اپنے بیان میں یہ بھی واضح کیا تھا کہ جب میں واپس جانے پر مجبور ہوا.اور گوجر انوالہ پہنچاتو مجھے امام جماعت احمدیہ کی طرف سے یہ ہدایت موصول ہوئی کہ میں میر پور جاؤں مگر میں بوجہ لاہور میں ناگزیر.ذمہ داریوں کے تعمیل ارشاد سے قاصر رہا.یہ امر کہ میرے رفیق کار برادرم چوہدری یوسف خاں مقدمہ علی بیگ میں اب تک ملزمان کی طرف سے پیروی کر رہے ہیں اس احترام کے بطلان کے لئے کافی ہے کہ امام جماعت احمدیہ نے ہمیں مقدمات سے واپسی کا حکم دیا.اس بیان سے ظاہر ہے کہ استعفیٰ کے بعد بھی باوجود اس کے کہ استعفاء میں مبینہ حالات کے تحت آپ نے واضح کر دیا تھا کہ استعفیٰ کے بعد کمیٹی سے میرا کسی طرح تعاون کرنا بھی درست نہ ہو گا) امام جماعت احمدیہ نے حتی المقدور نئی کشمیر کمیٹی سے تعاون کیا مگر نئی کشمیر کمیٹی کام نہ چلا سکی علامہ اقبال ایک اجلاس کے بعد ہی مستعفی ہو گئے اور کمیٹی کو تو ڑ دیا " -
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 659 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد یہ فصل دوم کشمیر کمیٹی کا احیا " آل انڈیا کشمیر ایسوسی ایشن کی شکل میں چونکہ کشمیر کمیٹی کے عارضی صدر صاحب مستعفی ہو چکے تھے اور عارضی سیکرٹری صاحب نے استعفیٰ دیئے بغیرہی اپنے فرائض و واجبات کو اور جماعتی آداب و قواعد کو پس پشت ڈال کر نئی کمیٹی میں سیکرٹری شپ کا عہدہ قبول کر لیا تھا اس لئے پرانی کمیٹی عملاً معطل و مفلوج ہو کے رہ گئی لہذا چار ممبروں کے دستخطوں سے ایک گشتی مراسلہ مختلف ممبران کمیٹی کی خدمت میں بھیجا گیا کہ آیا ان حالات میں پرانی کمیٹی کو قائم رکھا جائے یا اسے توڑ دیا جائے کمیٹی کے کل تریسٹھ ممبر تھے جن میں سے گیارہ یا بارہ ممبر غیر جانبدار رہے باقی بادن میں سے انہیں نے اپنی رائے سے اطلاع نہ دی.اور ۳۲ ممبروں نے قدیم کشمیر کمیٹی پر اظہار اعتماد کیا.اور ۳ ستمبر ۱۹۳۳ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے زیر صدارت (لورینگ ہوٹل لاہور میں فیصلہ کیا گیا کہ اتحاد اتفاق قائم رکھنے کے لئے ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب اور خان بہادر حاجی رحیم بخش صاحب کو علی الترتیب (قدیم) آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی صدارت اور سیکرٹری شپ کے عہدے پیش کئے جائیں اور نئے عہدیداروں کے تقریر کا آخری فیصلہ ہونے تک حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب، مولانا سید حبیب صاحب ، مولانا غلام رسول صاحب مہر ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اور چوہدری غلام مصطفیٰ صاحب بیرسٹر گوجرانوالہ پر مشتمل ایک سب کمیٹی مقرر کر دی گئی اسی عرصہ میں چونکہ ڈاکٹر سر محمد اقبال اور خان بهادر رحیم بخش صاحب نے قدیم کشمیر کمیٹی میں شرکت سے صاف انکار کر دیا اس لئے ۲۵/ مارچ ۱۹۳۴ء کو آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے اجلاس لاہور میں قرار پایا کہ زعمائے کشمیر سے استصواب کیا جائے کہ کشمیر کمیٹی جن اصولوں پر پہلے کام کرتی رہی ہے انہی اصولوں پر دوبارہ کام کرنا ان کے لئے مفید ہو گا یا نہیں ؟ شیخ محمد عبد اللہ صاحب (شیر کشمیر) ا شیخ عبد الحمید صاحب (ایڈووکیٹ جموں) مولوی محمد سعید صاحب (مسعودی) اور مفتی ضیاء الدین صاحب آف پونچھ نے بالا تفاق یہ کہا کہ جو جماعت ہماری امداد کے لئے ہاتھ بڑھائے گی ہم اس سے امداد لینے کو تیار ہیں اور خصوصاً موجودہ حالات میں ہمیں مدد کی سخت ضرورت ہے اور مدد کی نوعیت یہ بتائی کہ اول گورنمنٹ انڈیا پر زور ڈالا جائے دو سرے ہماری مالی اعانت کی جائے تیسرے فرنچائز رپورٹ میں جو حق نمائندگی مسلمانوں کو دیا گیا ہے وہ بہت تھوڑا ہے اس کے لئے کوشش کی جائے کہ کم از کم ساٹھ فیصدی مسلمانوں کو حق نیابت دیا جائے.
تاریخ احمدیت جلد ۵ 660 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد یہ چوتھے جو لوگ کشمیر سے نکال دیئے گئے ہیں ان کی واپسی کے لئے بھی کوشش کی جائے زعمائے کشمیر نے اس کے ساتھ یہ رائے بھی پیش کی کہ اندرون کشمیر کام کو منظم کرنے کے لئے کشمیر کمیٹی کا کوئی صدر منتخب کیا جانا ضروری ہے چنانچہ ۲۸/ مارچ ۱۹۳۴ء کو کمیٹی نے با قاعدہ کام شروع کر دیا اور محض اس لئے کہ ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کی کشمیر کمیٹی میں امتیاز ہو سکے اس کمیٹی کا نام آل انڈیا کشمیر ایسوسی ایشن تجویز کیا گیا سید حبیب صاحب مدیر سیاست اس ادارہ کے صدر اور منشی محمد الدین صاحب فوق اس کے سیکرٹری مقرر کئے گئے.اس ایسوسی ایشن کا پہلا اجلاس ۱۴ اپریل ۱۹۳۴ء کو اور آخری ۱۵ / دسمبر ۱۹۳۷ کو منعقد ہوا.بالفاظ دیگر یہ ایسوسی ایشن قریباً پونے چار برس تک زعمائے کشمیر کی پشت پناہی کرتے ہوئے تحریک آزادی کشمیر کے لئے جدوجہد کرتی رہی اور حسب سابق اس تنظیم کی مالی ضروریات کا بار جماعت احمدیہ ہی نے اٹھایا اور ہر معاملہ میں اس کی پوری پوری سرپرستی کی.ایسوسی ایشن نے اپنے دور میں مظلومین کشمیر کی مالی اور قانونی امداد سیاسی قیدیوں کی رہائی اور جلا وطن کشمیریوں کی واپسی کے لئے گرانقدر مساعی کیں اس سلسلہ میں بعض واقعات کا تذکرہ کرنا ضروری ہے.-1 حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اپریل ۱۹۳۴ ء میں ایک وفد کے ساتھ مسلمانان کشمیر کے لئے آئینی جدوجہد کی غرض سے جموں تشریف لے گئے.-۲- چوہدری اسد اللہ خان صاحب بیرسٹرایٹ لاء میر غلام حسین صاحب کلو خانیاری اور جناب محمد عبداللہ صاحب سیاکھی کے مقدمات کی پیروی کے لئے ۲۳ / مئی ۱۹۳۴ء کو سرینگر تشریف لے گئے آپ کو مولوی محمد عبد اللہ صاحب کی نگرانی ہائی کورٹ میں داخل کرنا تھی.وہ داخل کر دی گئی اور سشن حج صاحب کی عدالت میں دو مقدمات کی اپیلیں تھیں جو میرکلو صاحب کے متعلق دائر تھیں ان مقدمات میں جناب چوہدری صاحب نے کورٹ فیس اپنے پاس سے حکومت کشمیر کو ادا کی.آپ نے میر غلام حسین صاحب کے مقدمہ میں عدالت میں ایسا قانونی نکتہ پیش کیا کہ وہ بری کر دیئے گئے.چوہدری صاحب موصوف نے اس سفر میں مقدمات سے فارغ ہونے کے بعد ۲۶ / مئی ۱۹۳۴ء کو وزیر اعظم کشمیر کر تل کالی اور ہوم منسٹر و جاہت حسین صاحب سے ملاقات کی اور کشمیر کے تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی جلا وطنوں کی واپسی اور ضبط شدہ جائداد کی بحالی اور طلبہ کے داخلہ کالج اور سکول کے متعلق گفتگو فرمائی.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالے بنصرہ العزیز نے کشمیری طلباء کی اعانت کے لئے
تاریخ احمدیت.جلده 661 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد بید ساڑھے چار سو روپے کمیٹی برائے امداد طلباء سرینگر کو بھجوائے جس پر صدرالدین صاحب سیکرٹری کمیٹی برائے امداد طلباء سرینگر نے شکریہ ادا کیا.-۵- سید صادق علی شاہ صاحب بھدرواہ کی جنہوں نے جدید کشمیر کمیٹی کے ممبروں سے ہمنوائی کی تھی ایسوسی ایشن کی طرف سے قانونی امداد کی گئی چنانچہ مولانا جلال الدین صاحب شمس نے ۲۳/ اگست ۱۹۳۴ء کو سید حبیب صاحب صدر ایسوسی ایشن کے نام ایک مکتوب بھی تحریر کیا.جس میں لکھا کہ ہم مظلوم کی مدد کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں - ۶ - سید صبح صادق شاہ صاحب علاقہ کھڑی کے بہت بڑے گدی نشین تھے آپ کو نظر بند کر دیا گیا تاریخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور ان کے مقدمہ کی پیروی اور آخری قانونی کوشش کرنے کے لئے مئی ۱۹۳۵ ء میں جموں تشریف لے گئے.حضرت امام جماعت احمدیہ کا شکریہ ۷- نور الدین صاحب ولد مفتی ضیاء الدین آف سرینگر کا بیان ہے کہ مس عشمی انچارج سوپور مشن نے مجھ پر دعویٰ کیا کہ میرے نابالغ بھائی شمس الدین اور میری ہمشیرہ عائشہ کی جواب بالغ ہو چکی ہے ) وہ میرے والد صاحب مرحوم کی کسی وصیت کی رو سے گارڈین ہے حالانکہ قبل از وفات میرے والد صاحب اس وصیت کو منسوخ کر چکے تھے میں چونکہ بے یارومددگار تھا رشتہ داروں نے امداد سے انکار کیا.میں علماء گدی نشینوں اور لیڈروں کے پاس امداد کے لئے کیا لیکن کسی نے میری مدد نہ کی.اور عیسائیوں نے بذریعہ عدالت میرے چھوٹے بھائی پر قبضہ حاصل کر لیا.اس کے بعد عیسائیوں نے میری ہمشیرہ کے حصول کے لئے کوشش کی جب میں نے سب طرف سے اپنے آپ کو بے یار و مددگار پایا تو میں نے اس کس مپرسی کی حالت میں حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب امام جماعت احمدیہ کے حضور امداد کے لئے درخواست کی گو میں سنی ہوں اور جماعت احمدیہ کے خیالات و عقائد سے متفق نہیں لیکن انہوں نے بروقت امداد فرمائی اور بذریعہ ایڈیٹر صاحب "اصلاح" مقدمہ کا خرچہ ارسال فرمایا چنانچہ سمیع پال صاحب کو وکیل مقرر کیا گیا اور انہوں نے بھی اسلامی ہمدردی کو مد نظر رکھ کر کم خرچہ پر میرے مقدمہ کی پیروی منظور کرلی چنانچہ خدائے تعالی کے فضل سے اس مقدمہ میں ہمیں کامیابی ہوئی عیسائیوں کی اپیل خارج ہو گئی.اس جگہ میں اسلامی تعلیم کے مطابق اپنے محسن امام جماعت احمدیہ کا شکریہ ادا کرنا ضروری خیال کرتا ہوں کہ انہوں نے ایک بے بس اور مظلوم کی بروقت ا امداد فرمائی.
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 662 تحریک آزادی کشمیر ا د ر جماعت احمدیہ میاں احمد یا ر صاحب وکیل صدر مسلم کانفرنس کا بیان ایسوسی ایشن کے کاموں کا سلسلہ تو وسیع ہے مگر اس جگہ صرف انہیں چند واقعات پر اکتفا کیا جاتا ہے میاں احمد یار صاحب صدر مسلم کانفرنس نے اجلاس سو پور کی صدارتی تقریر میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی اور آل انڈیا کشمیر ایسوسی ایشن کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا تھا:- "جب تحریک حریت کی ابتدا ہوئی ہندوستان کے سر بر آوردہ مسلمانوں نے شملہ میں ایک میٹنگ کر کے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی بنیاد رکھی.اس انجمن نے مالی اور جانی رنگ میں قربانی دے کر ہماری مدد کی ہماری تکالیف سے دنیا کے مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک آگاہ کیا یورپ اور امریکہ میں پرو پیگنڈا کیا تحریک کے حامیوں مظلومین اور شہداء کے پسماندگان کو بد ددی اور ہر حالت میں بے لوث اور ہمدردانہ خدمات انجام دیں جب تحریک کشمیر اور سنجیدہ ہو گئی تو ہندوستان کے ہزار ہا مسلمان جیلوں میں گئے اور جام شہادت پیا.اب آئینی رنگ میں کشمیر ایسوسی ایشن ہماری مدد کر رہی ہے.آل انڈیا کانفرنس نے تحریری رنگ میں مظلومین کشمیر کی امداد کی اس لئے یہ سب افراد اور جماعتیں دلی شکریہ کے مستحق ہیں.فهرست ممبران آل انڈیا کشمیر ایسوسی ایشن ا مولانا سید حبیب صاحب ایڈیٹر "سیاست" لاہور مولانا غلام رسول صاحب مرایڈ میٹر " انقلاب " لاہور مولانا محمد یعقوب صاحب ایڈیٹر لائٹ " لاہور و ایم محمد الدین صاحب فوق "ایڈیٹر کشمیری اخبار " م مولانا عبدالمجید صاحب سالک ایڈیٹر "انقلاب" سید عبد القادر صاحب ایم.اے پرو فیسر اسلامیہ کالج ے.میاں علم الدین صاحب سالک پروفیسر اسلامیہ کالج لاہور ۸- شیخ نیاز علی صاحب ایڈووکیٹ چوہدری اسد اللہ خان صاحب بار ایٹ لاء چوہدری غلام مصطفیٰ صاحب بار ایٹ لاء ۱۳- سید عبد الحفیظ صاحب لاہور ۱- ڈاکٹر عبد الحق صاحب ایم بی بی ایس گوجرانواله ۱۲ شیخ فضل الحق صاحب ایم ایل اے پریذیڈنٹ میونسپل کمیٹی لاہور لاہور لاہور لاہور لاہور بھیره ڈھاکہ ۱۴ ڈاکٹر ضیاء الدین احمد صاحب ایم ایل اے ایبٹ آباد ۱۵- ایس ایم عبد اللہ صاحب نائب صدر میونسپلٹی دیلی ۱۶- خواجہ حسن نظامی صاحب دیلی ہے.مولانا مظہر الدین صاحب ایڈیٹر الامان ریلی ۱۸ شاه مسعود احمد صاحب ایم ایل اے دیلی چوہدری محمد شریف صاحب بی.اے ایل ایل بی ایڈ و و کیٹ منٹگمری ۲۰ پیراکبر علی صاحب ایڈووکیٹ ایم ایل سی فیروزپور ،
تاریخ احمدیت جلد ۵ 663 تحریک آزادی کشمیر ادر جماعت احمدیه ۲۱- ایم احمد عبد الستار صاحب آنریری جائنٹ سیکرٹری دی کلکتہ کلکتہ ۲۲.مسٹر ایم ایس سهروردی بارایٹ لاء مجلس ۲۳ مولانا ابو ظفر وجیہ الدین صاحب ۲۵- سید ذاکر علی شاہ صاحب کلت ۲۴- مولانا کرم علی شاہ صاحب لکھو ۲۶- مولانا عقیل الرحمن صاحب ندوی کلت لکھنو سیار نور ۲۷.مولانا کشفی صاحب نظامی ۲۹- جناب مشیر حسین صاحب قدوائی ۳۱ رنگون ۲۸- جناب مولانا حسرت موہانی صاحب کانپور لکھنو ۳۰ نواب ابراہیم علی خان صاحب.نواب آف کرنال کنج پورہ ایم ایل اے.چوہدری عبدالمتین صاحب ایم ایل اے.علمت ( آسام) ۳۲ مولانامحمد شفیع صاحب داؤدی ایم.ایل.اے.ڈاکٹر سر شفاعت احمد خان صاحب ۳۵- مولانا محمد علی اللہ بخش صاحب سیکرٹری مسلم فیڈریشن الله آباد ۳۴- حاجی عبد اللہ ہارون صاحب بہتی ۳۶ ایم.اے.آرڈنشگر ۳۷.مولانا ابویوسف صاحب اصفهانی شمالی جمیعتی ۳۸- قاضی کبیر الدین صاحب ۳۹.مولانا میرک شاہ صاحب ۴۱- میاں سید جعفر شاہ صاحب ۴۳- سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ۴۵- شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ مراد آباد ۴۰ خواجہ محمد شفیع صاحب پند کراچی بیتی ہمتی دہلی شاه آباد ۴۲.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی امام جماعت احمدیہ قادیان قادیان ۴۴- مولانا جلال الدین صاحب شمس لاہور قادیان
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 664 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ فصل سوم اخبار ”اصلاح" کا اجراء ۴ / اگست ۱۹۳۴ء کا دن تحریک آزادی کشمیر کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رہے گا کیونکہ اس دن حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خاص ہدایت سے مسلمانان کشمیر کے حقوق و مفادات کے تحفظ اور ترجمانی کے لئے سرینگر سے سہ روزہ اخبار "اصلاح " جاری کیا گیا.20 اس اخبار کے مندرجہ ذیل اغراض و مقاصد تھے.(1) مسلمانان کشمیر کی مذہبی اخلاقی ترنی اور سیاسی راہ نمائی اور بیداری (۲) مسلمانوں میں تعلیم و صنعت کی اشاعت و ترویج (۳) مسلم حقوق کی حفاظت (۴) قانون شکن تحریکات کا مقابلہ (۵) اتحاد و اتفاق اور تنظیم (۶) بد رسومات کی اصلاح (۷) حکومت اور عوام کو مخلصانہ مشورے اور صحیح راہ نمائی.اخبار اصلاح اہل کشمیر کی نظر میں اخبار اصلاح کے اجراء پر شیر کشمیر شیخ محمد عبد اللہ صاحب مسٹر غلام محمد صاحب صادق بی.اے ایل ایل.بی.خواجہ عبدالسمیع صاحب پال ایم.اے.ایل ایل بی وکیل ہائیکورٹ جموں و کشمیر.مسٹر عبدالمجید صاحب قرشی مالک اخبار پاسبان (جموں وغیرہ حضرات نے پر جوش خیر مقدم کیا اور پیغامات دیئے.اور منشی محمد الدین صاحب فوق مورخ کشمیر نے مدیر اصلاح کو مکتوب لکھا.اصلاح جن نیک مقاصد کو لے کر عالم وجود میں آیا ہے ان کے لئے میرا دلی ہدیہ تبریک قبول فرمائیے.اصلاح کے دو پرچے میں نے دیکھے ہیں اصلاح کی اعتدال پسند پالیسی شاید سطحی خیال کے لوگوں کے لئے قابل قبول نہ ہو اور وہ ہنگامہ خیزیوں اور فرقہ بندیوں اور شعلہ افشانیوں ہی کو پسند کرتے ہوں.لیکن تھوڑے وقت میں بہت کچھ نشیب و فراز دیکھ چکنے کے بعد ایک جماعت اب ایسی بھی پیدا ہو رہی ہے بلکہ ہو چکی ہے جو ایک دوسرے کی پگڑیاں اتار نے اور باہمی فرقہ آرائیاں پیدا کرنے اور غیر ذمہ دارانہ مضامین لکھنے اور غیر آئینی روش پیدا کرنے والے اخبارات سے تنگ آچکی ہے اگر کار پردازان اصلاح" نے عزم صمیم اور قلب سلیم سے کام لیا تو انشاء اللہ اس جماعت میں روز بروز اضافہ ہوتا رہے گا اور یقین رکھئے ایسی ہی جماعتیں اور ایسے ہی اخبارات ملک کی صحیح ترجمانی اور صحیح خدمت کر سکتے ہیں.اسلامی پریس نے بھی اصلاح" جیسے اصلاحی پرچہ کی اشاعت پر بہت خوشی کا اظہار کیا چنانچہ
تاریخ احمد بیت جلد ۵ 665 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ روزنامہ " رہبرد کن " نے ۲/ ستمبر ۱۹۳۴ء کو مندرجہ ذیل نوٹ لکھا:- اس کا مقصد ملک کی پیدا شدہ نئی طاقتوں سے اس طرح کام لیتا ہے کہ وہ ملک کے لئے مفید ثابت ہوں وہ چاہتا ہے کہ اس وقت اہل کشمیر میں جو بیداری پیدا ہو گئی ہے اس کو صحیح راستے پر آگے بڑھائے اور سارے ملک کے مختلف فرقوں میں صلح و آشتی کی اسپرٹ کو ترقی دے یہ مقاصد بہت اچھے ہیں اور اداریے سے پتہ چلتا ہے کہ اس کی باگ قابل ہاتھوں میں ہے.روزنامه "طاقت" (سیالکوٹ) نے ۲۶/ اگست ۱۹۳۴ء کے شمارہ میں اخبار اصلاح پر یہ تبصرہ کیا.بغور مطالعہ کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ یہ اخبار مسلم کشمیری قوم کا حقیقی مصلح ثابت ہو گا اصلاح رسومات اور تنظیم ملت کا لائحہ عمل اس نے ترتیب دیا ہے کشمیر کے غریب و مفلس مسلمانوں کی نجات اور ان کی بیداری و ترقی کے لئے اعلیٰ و انسب ہے اصلاح کی سر پرستی لازمی ہے مسلمانان جموں و کشمیر کو اس کی اشاعت میں ہر ممکن اضافہ کی کوشش کرنی چاہئے.یه اخبار اگست ۱۹۳۴ء سے ۱۹۴۷ء تک جاری رہا اور اس نے لگاتار تیرہ برس تک مسلمانوں کی تنظیم و اصلاح کو مضبوط بنانے ان کے سیاسی و سماجی مطالبات کو حکومت تک پہنچانے اور ہراہم مرحلہ پر ان کی رہنمائی کرنے اور مسلم کشمیر کا نظریہ قائم کر کے اس کی ضروریات پر روشنی ڈالنے کا فرض اتنی جرأت اور بے خوفی سے ادا کیا کہ حکومت کشمیر نے اسے بلیک لسٹ کر دیا.جس پر آل جموں و کشمیر مسلم لیگ کا ایک اہم اجلاس زیر صدارت مسٹر اے.یو- رعنا (نمائندہ اخبار " جاوید" سرینگر) بمقام امیرا کدل منعقد ہوا اور اس میں اخبار رہبر " اصلاح" سرینگر کے بلیک لسٹ آنے پر اظہار افسوس کیا گیا اور حکومت کشمیر کی اس حرکت کو ملکی پریس کے لئے عموماً اور مسلم پریس کے لئے خصوصاً غیر منصفانہ اور متشددانہ کارروائی قرار دیا گیا.1 ۳۹ اخبار اصلاح کے مدلل اداریے اختبار اصلاح کو اپنے مدلل متین اور ٹھوس ادارتی مضامین کی وجہ سے بہت شہرت حاصل ہوئی اور اس نے مسائل حاضرہ میں مسلمانان کشمیر کی بر وقت رہنمائی کر کے اہم خدمات انجام دیں.بطور نمونہ چند عنوانات ملاحظہ ہوں.مسلم کشمیر کی ضروریات (۸/ اگست ۱۹۳۴ء) الیکشن اور مسلمان (۱۱/ اگست ۱۹۳۴ء) مسلمان اور ملازمتیں (۱۶ / اگست ۱۹۳۴ء) الیکشن اور ملت اسلامیہ کا فرض - (۳۱ / اگست ۱۹۳۴ء) باہمی مناقشات بند کر دو (۷ / ستمبر ۱۹۳۴ء) کشمیر میں اقتصادی بے چینی اور اس کا علاج (۱۸/ تمبر ۱۹۳۴ء) مسلمانان کشمیر کس طرح ترقی کر سکتے ہیں.(۲۵/ ستمبر ۱۹۳۴ء) جموں و کشمیر مسلم پولیٹیکل کانفرنس (۲۲ / اکتوبر ۱۹۳۴ء) برادران وطن مسلمانوں کی توہین کر رہے ہیں (۳۰ / اکتوبر ۱۹۳۴ء)
تاریخ احمدیت جلد ۵ 666 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ جموں و کشمیر مسلم کانفرنس اور مسلمانوں کا فرض (۹/ نومبر ۱۹۳۴ء) کیا مسلمانان کشمیر نا قابل ہیں.۱۱/ دسمبر ۱۹۳۴ ء مدارس میں مذہبی تعلیم کا فقدان (۲۵/ دسمبر ۱۹۳۴ء) تحریک حریت کشمیر کا مستقبل (۱۸/ جنوری ۱۹۳۵ء) دور حاضرہ کی ضروریات (۲۵/ جنوری ۱۹۳۵ء) شادی بیاہ کے متعلق اسلامی اصول (یکم فروری ۱۹۳۵ء) تحریک حریت مسلم کانفرنس اور آزاد کانفرنس (۸ / فروری ۱۹۳۵ء ) تحریک حریت کشمیر کی کامیابی کا راز اس کی استقامت میں مضمر ہے (۲۲ / مارچ ۱۹۳۵ء) اسلامیان کشمیر کی بے بی ۲۳ / مئی ۱۹۳۵ء) ریاست میں علوم شرقیہ کی بے قدری اور مسلمانوں کی شدید حق تلفی (۷/ اگست ۱۹۳۵ء) کامیابی کے لئے قومی اتحاد پہلا زینہ ہے.(۶/ جنوری ۱۹۳۷ء) مسلمانو ! مسلمانان چین کی تباہی سے سبق حاصل کرد - (۱۳ / جولائی ۱۹۳۷ء) اپنی بہتری کے لئے کسانوں کا منظم ہوتا ضروری ہے (۱/۱۲۹ اپریل ۱۹۳۸ء) ریاستوں میں تحریک آزادی اور ریاستی حکومتوں کا فرض (۲۴/ جون ۱۹۳۸ء) تحریک حریت کشمیر حکومت اور عوام کا فرض - (کیم اکتوبر ۱۹۳۸ء) رہنمایان قوم کی سب سے بڑی سیاسی غلطی مسلمانان کشمیر کی واحد عملی تنظیم کا خاتم 2 ۱۶ / جون ۱۹۳۹ء) فیڈریشن اور مسلمان (۲۸ / جولائی ۱۹۳۹ء) برادران وطن کے عزائم اور مسلمانوں کا فرض (دسمبر ۶۳۹) ) مسلمانوں کے تین اہم اور جائز مطالبات (۲۵/ جولائی ۱۹۴۰ء) مسلمانان کشمیر کی مصائب کا واحد علاج (۲۲/ اگست ۱۹۴۰ء) کیا مسلمانوں پر ہندی ٹھونسنا جائز ہے (۱۰ / اپریل ۱۹۴۱ء) آزاد ہندوستان کی اقلیتیں اور ریاستہائے ہند (۹/ اپریل ۱۹۴۲ء) پاکستان (۲۵/ نومبر ۱۹۴۲ء) هند د ریاست یا ( مسلم رہا ریاست (۱۲ / مارچ ۱۹۴۴ ریاستی وزراء اور ہماری شهری آزادی (۳۱/ جنوری ۱۹۴۶ء) ایل کشمیر کی حیات نو (۱۳/ جولائی ۱۹۴۶ء) بهترین معتدل پالیسی صلح کل روش مضامین کی متانت در لکشی ملک و ملت کی صحیح خدمت منصفانہ نمائندگی اور سلاست زبان اصلاح کی امتیازی خصوصیات تھیں جن پر اپنوں اور بیگانوں اعلیٰ و ادنیٰ غرضیکہ ہر خیال اور سوسائٹی کے لوگوں نے بارہا اظہار خوشنوری و مسرت کیا اس حقیقت کا اندازہ مندرجہ ذیل آراء سے بخوبی کیا جا سکتا ہے.مورخ کشمیر منشی محمد الدین صاحب فوق اپنی کتاب تاریخ اقوام کشمیر جلد ۲ صفحہ ۲۸۵ پر لکھتے ہیں " یہ اخبار (اصلاح - ناقل) ۱۹۳۴ء میں کشمیر ریلیف فنڈ قادیان کی طرف سے جاری کیا گیا کشمیر ریلیف کا صیغہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب امام جماعت احمدیہ قادیان کے زیر نگرانی کام کرتا ہے یہ اخبار مسلم حلقوں میں خاص طور پر پسندیدگی سے دیکھا اور پڑھا جاتا ہے اس میں بعض علمی سلسلہ ہائے مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں اس کی اشاعت کا دائرہ بہت وسیع ہے یہ اخبار گورنمنٹ آف انڈیا کی
في احمد يمد جلده 667 تحریک آزادی کشمیراور جماعت احمدیہ لسٹ پر بھی ہے کشمیر کے اخبارات میں سے اس وقت یہی ایک اخبار اس لسٹ پر ہے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے نہایت دلیری سے اس میں آواز اٹھائی جاتی ہے اسی وجہ سے یہ آئنگر حکومت کے زمانہ میں کئی بار عتاب کا شکار ہوا.فتح محمد خان صاحب سابق ممبر کشمیر اسمبلی و منظور الحق صاحب جاگیردار پونچھ نے یہ بیان دیا کہ :- " اخبار اصلاح " نے اپنی گزشتہ سات سالہ زندگی میں جسے اس کی آئندہ زندگی کا دیباچہ کہنا چاہئے وطن اور قوم کی مخلصانہ خدمات سرانجام دینے میں بھی کبھی بخل سے کام نہیں لیا اور اپنی ہر دلعزیزی اور با اصول صحافت سے ہرگز انحراف نہیں کیا بلکہ ادارہ نے اخبار کو تجارتی منفعت اور ذاتی اغراض سے بالا رکھ کر حتی المقدور ملک اور قوم کی بے لوث خدمات سرانجام دینے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا او راہل ملک کو ہمیشہ صحیح اور پاک رنگ میں اپنے قیمتی مشوروں اور رہنمائی سے متمتع کیا ہے".FA خواجہ غلام السیدین صاحب جب ریاست میں اہل کشمیر کی شاندار تعلیمی خدمات بجالانے کے بعد وزارت تعلیم سے ریٹائر ہوئے تو انہوں نے خواجہ عبد الغفار صاحب ڈار مدیر اصلاح کے نام مندرجہ ذیل مکتوب لکھا:- میرے قیام کشمیر کے دوران میں آپ نے تعلیمی معاملات میں جس خلوص اور بے غرضی کے ساتھ محکمہ تعلیم کے ساتھ تعاون کیا میں اس کا تہ دل سے شکریہ ادا کر تا ہوں اگر اخبار نویسوں میں آپ کے اور مولوی عبد الواحد صاحب کی قسم کے چند اور اصحاب ہوتے تو غالبا اس ریاست کی بہتری کی کوششیں زیادہ بار آور ہو تیں."اخبار اصلاح کی مقبولیت کا اس سے پتہ چلتا ہے سندھ کے ایک معزز چیئرمین نے ایڈیٹر اصلاح کو لکھا میں نے اخبار اصلاح کے چند پر چوں کا مطالعہ کیا آخر میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ اخبار اصلاح واقعی ان صفات کا حامل ہے جو ایک قومی اخبار کے لئے ضروری ہیں آپ کے اخبار کی مصالحانہ پالیسی مسلمانوں کے موجودہ تشتت میں آب بقا کا حکم رکھتی ہے میں کئی دفعہ کشمیر آیا ہوں اور اس خطہ میں بہت وقت گزارا ہے یہاں کا تمدن اور طرز معاشرت بہت حد تک قابل اصلاح ہے جس کا بیڑا آپ نے اٹھایا ہے اصلاح کے اصلاحی مضامین اس قابل ہیں کہ ان پر اہل کشمیر کو دل سے عمل کرنا چاہیئے اس طرح تجارتی مضامین کا مفید سلسلہ کشمیر ایسے ملک میں نہایت موزوں اور مفید ہے میں اصلاح" کے طرز عمل سے بہت خوش ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی اس مفید اخبار کو دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی دے ( شیخ عبدالرحیم و محمد اسمعیل سود اگر ان اسلحه مر(سندھ)
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 668 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ اخبار اصلاح کا عملہ یہ بلند پایہ اخبار محمد امین صاحب قریشی کی ادارت میں نکلنا شروع ہوا.۱۰/ ستمبر ۱۹۳۴ء سے مولوی غلام احمد صاحب میر مولوی فاضل اس کے مدیر اور قریشی صاحب مدیر معادن مقرر ہوئے ۱۵/ مارچ ۱۹۳۵ء سے دوبارہ قریشی صاحب مدیر کے فرائض بجالانے لگے.اپریل ۱۹۳۶ء میں جبکہ اخبار بند ہو چکا تھا چوہدری عبد الواحد صاحب نے مدیر اعلیٰ کی حیثیت سے زمام ادارت سنبھالی اور قریشی صاحب مدیر معاون بنائے گئے ۹/ دسمبر ۱۹۳۸ء سے خواجہ عبد الغفار صاحب ڈار مولوی فاضل اس کے ادارہ تحریر میں منسلک ہو گئے.اور چوہدری عبد الواحد صاحب مدیر اعلیٰ کی رفاقت میں مدیر اصلاح" کے فرائض ادا کرنے لگے.اور محمد امین صاحب قریشی اور خواجہ غلام رسول صاحب کا گہرا اور پر خلوص تعاون بھی اسے حاصل رہا.ادارہ اصلاح ملت و قوم کی ترجمانی کا حق خوش اسلوبی سے ادا کر رہا تھا کہ ۱۹۴۷ء میں شورش اٹھ کھڑی ہوئی اور دونوں اصحاب کو سرینگر سے ہجرت کر کے پاکستان آجانا پڑا تحریک آزادی کشمیر کی آواز کو بلند سے بلند تر کرنے میں چوہدری عبد الواحد صاحب نے جو غیر معمولی جدوجہد کی ہے اس کا مفصل تذکرہ اپنے مقام پر آرہا ہے تاہم اس جگہ یہ بتانا مناسب ہو گا کہ مورخ کشمیر نشی محمد الدین صاحب فوق نے اپنی کتاب " تاریخ اقوام کشمیر میں ادارہ اصلاح کا ایک گروپ فوٹو شائع کیا جس میں چوہدری عبد الواحد صاحب خواجہ عبد الغفار صاحب ڈار ، غلام محی الدین صاحب اور ایم عبد الرحمن صاحب موجود ہیں.فوق صاحب نے اس کتاب میں چوہدری صاحب کا ذکر مندرجہ ذیل الفاظ میں کیا ہے: اپریل ۱۹۳۶ء میں مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب امام جماعت احمد یہ قادیان نے آپ کو ایڈیٹر " اصلاح" مقرر کیا.جس وقت آپ ایڈیٹر مقرر ہوئے اخبار اصلاح کچھ عرصہ کے بعد بند ہو گیا تھا آپ کی محنت اور تگ و دو سے یہ اخبار ترقی کر کے کشمیر میں خاص حیثیت حاصل کر گیا آپ نے ریاست کشمیر کے مختلف حصوں اور دشوار ترین علاقوں کے پا پیادہ دورے کئے ہیں یہ تک کہ بداخ جیسے دور دراز علاقہ میں پہنچے ہیں.آپ کو ریاست کے اخبار نویسوں میں خاص حیثیت حاصل ہے آپ مسلسل اڑھائی سال کشمیر جر نلسٹس ایسوسی ایشن کے پریذیڈنٹ رہے ہیں.ar
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 669 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ فصل چهارم حضرت خلیفہ کشمیر کی پہلی اسمبلی کا قیام اور مسلم کانفرنس کی سو فیصدی کامیابی المسیح الثانی ایده ۵۳ اللہ تعالی نے وسط ۱۹۳۲ء میں جبکہ شیخ محمد عبد اللہ صاحب اور دوسرے زعماء کشمیر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے تھے اہل کشمیر کو ہو شیار کیا کہ :- " آپ لوگ تیار رہیں کہ اگر خدانخواستہ قومی کارکنوں کو جلدی آزادی نہ ملی اور ان کی آزادی سے پہلے اسمبلی کے انتخابات ہوئے (گو مجھے امید نہیں کہ ایسا ہو) تو ان کا فرض ہونا چاہئے کہ...قومی کام سے ہمدردی رکھنے والوں کو امید وار کر کے کھڑا کر دیں.اور یہ نہ کریں کہ کانگریس کی نقل میں بائیکاٹ کا سوال اٹھا دیں.بائیکاٹ سے کچھ فائدہ نہ ہو گا کیونکہ آخر کوئی نہ کوئی ممبر تو ہو ہی جائیگا.اور قومی خیر خواہوں کی جگہ قومی غداروں کو ممبر بننے کا موقعہ دینا ہرگز عظمندی نہ کہلائے گا.مسلمانان ریاست کے لئے اسمبلی کا کوئی تجربہ نہیں تھا جس کے لئے پوری ٹریننگ کی ضرورت تھی لہذا ریاست ٹراو کور کے چیف سیکرٹری (کے.جارج بی-اے) سے خط و کتابت کر کے اسکی لیجسلیٹور اسمبلی اور میونسپلٹی کے مطبوعہ انتخابی اصول و قواعد منگوائے اور ان کی روشنی میں مسلم کانفرنس کے کارکنوں کو الیکشن کے لئے تیار کرنے کا انتظام شروع کر دیا.اسی اثناء میں شیخ عبد اللہ صاحب رہا ہو گئے مگر چونکہ بہت سے مسلمان قیدی جیل میں پڑے ہوئے تھے اس لئے وہ انتخاب کے بارے میں ریاست سے تعاون کرنے پر رضامند تھے لیکن حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی نے زور دیا کہ مسلم کا نفرنس انتخاب میں ضرور حصہ لے.چنانچہ مسلم کانفرنس نے اپنے نمائندے کھڑے کر دیئے ۵ / ستمبر ۱۹۳۴ء کو امیدواران اسمبلی کے نتائج سنائے گئے.اور خدا کے فضل و کرم سے مسلم کانفرنس کو سو فیصدی کامیابی حاصل ہوئی.اور اس کے تمام نامزد ممبر جیت گئے کامیاب امیدواروں کے نام یہ ہیں:.مولوی محمد عبد اللہ صاحب وکیل - خواجہ علی محمد صاحب خواجہ احمد اللہ صاحب شہداد - غلام محمد صاحب صادق - سید حسین شاہ صاحب جلالی - DC ۱۵۳ شیخ محمد عبد اللہ صاحب کے اہم مکتوبات مسلم کانفرنس کی مشکلات اور اس کی شاندار کامیابی کا صحیح موازنہ شیخ محمد عبد اللہ صاحب شیر کشمیر کے ان خطوط سے با آسانی ہو سکتا ہے.جو انہوں نے انتخابات اسمبلی کے دوران حضرت خلیفتہ
تاریخ ا 670 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدید المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ اور مولانا جلال الدین صاحب شمس کے نام لکھے اس اہم خط و کتابت کی نقل ذیل میں درج کی جاتی ہے.پہلا مکتوب سرینگر کشمیر - ۱۸ مئی ۱۹۳۴ء ڈیٹر بشیر احمد صاحب السلام علیکم و رحمتہ اللہ امید ہے کہ میرا پہلا خط مل گیا ہو گا.اس کے بعد میں وزیر اعظم ، مشیر مال اور انسپکٹر جنرل پولیس سے ملا.مختصرا میں نے ان سے کہا کہ میں ذاتی طور پر موجودہ اسمبلی کی تین سال کے لئے آزمائش کرنی چاہتا ہوں اور خواہش میری یہی ہے کہ ملک کے بہترین نمائندے اسمبلی میں جائیں مگر حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ فضاء کو ساز گار بنائے تمام ایسے قوانین مثلاً ORDINANCES وغیرہ ضبطی جاگیرات رہائی قیدیان معافی تعزیری جرمانہ وغیرہ وغیرہ ان تمام سختیوں پر نظر ثانی کرے ورنہ میرے لئے تعاون کرنا مشکل ہو گا میں نے سول نافرمانی کو واپس لے لیا اور بغیر کسی شرط کے واپس لیا.یہ باتیں میں بطور شرائط کے پیش نہیں کرتا بلکہ ان کے بغیر میرا تعاون کرنا غداری کے مترادف ہوگا.دوم جن آدمیوں نے اسمبلی میں جاتا ہے یا جو کہ اس کے متعلق پرو پیگنڈا کر سکتے ہیں وہ سب قید خانہ میں ہیں.میں اکیلا کیا کر سکتا ہوں.تمام حکام میرے نظریہ کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں لیکن عملا ابھی کچھ ظہور میں نہیں آیا شاید اس لئے کہ مہاراجہ صاحب جموں میں تھے وہ بھی کل آگئے ہیں ٹھا کر کرتار سنگھ اور وجاہت حسین بھی سرینگر میں نہیں تھے باہر گئے تھے اس لئے درنگی ہوئی ورنہ ادھر یا ادھر فیصلہ ہوا ہو تا.امید ہے کہ چند دن کے اندر اندر فیصلہ کن بات طے ہوگی موجودہ وقت میں ہمارے پاس آدمی کوئی ایسا نہیں ہے جو کہ اسمبلی میں جاسکے.اگر حکومت سے فیصلہ ہو گیا تو امید ہے کہ توسیع میعاد ہو سکتی ہے اور حکومت ایسا کرنے پر آمادہ ہے غرض یہ ہے کہ اگر میں نے ابھی سے تعاون کا اعلان کر دیا پھر قیدیوں کا باہر آنا مشکل ہو گا.تعزیری جرمانہ کی واپسی کے لئے بھی میں کوشش کر رہا ہوں.میر مقبول کے لئے بھی کوشش ہو رہی ہے حضرت صاحب کے پرائیویٹ سیکرٹری سے مبلغ در صد روپیه بذریعه تار منی آرڈر مل گئے ہیں شکریہ.دوسرا مکتوب : بچھوارہ - سرینگر کشمیر سوموار ۱۵/ مئی ۶۳۴ جواب کا منتظر.شیخ محمد عبد اللہ فکر می جناب میاں صاحب السلام علیکم و رحمتہ اللہ
تاریخ احمد میمت - جلد ۵ 671 تحریک آزادی کشمیر ا د ر جماعت احمدیہ امید ہے کہ میرے مخطوط آپ کو مل گئے ہونگے.مزید حالات یہ ہیں کہ حکومت نے مجھ کو اخیر وقت تک دھو کہ میں رکھا.اور میں نے جو جو باتیں پیش کر دی تھیں.ان پر غور کرنے کا وعدہ کیا بہر حال جو حالات میرے پیش آئے ان کا ذکر میں نے ایک درخواست میں کر دیا ہے جو کہ میں آپ کو لفافہ ہذا میں ارسال کرتا ہوں اور جو....درخواست وزیر اعظم کو میں نے بھیجدی ہے دیکھئے نتیجہ کیا بر آمد ہوتا ہے ہم نے کوشش کی کہ اپنے آدمی ہر ایک علاقہ سے اسمبلی کے لئے کھڑے ہوں لیکن وقت کی تنگی نے اور حکومت کی دھوکہ دہی کی وجہ سے شاید تمام علاقوں سے اپنے خاص آدمی کھڑے نہ ہوئے ہوں.ابھی پورا معلوم نہیں سرینگر سے تو پانچ آدمی اپنے کھڑے کر دیئے ہیں بارہ مولہ اسلام آباد گولہ گام پلوامہ سے بالترتیب شیخ محمد اکبر محمد افضل بیگ.عبدالرحمن ڈار ، خواجہ اکبر ڈار ہمارے آدمی ہیں سرینگر سے غلام محمد صادق - سید حسین شاہ جلالی- مولوی محمد عبد الله وکیل خواجہ علی محمد خواجہ سعد اللہ صاحب شہداد کھڑے ہوئے ہیں.غلام نبی گلکار کو میں نے اس لئے روکا.کہ مخالف جماعت کا تمام زور صرف مسئلہ احمدیت پر ہو گا.اس لئے اگر ہم نے صرف مولوی عبد اللہ صاحب وکیل کو کامیاب کر دیا.تو یہ کافی شکست....کو ہوگی.اگر غلام نبی صاحب بھی دوسرے وارڈ سے کھڑا ہو تا تو ہماری طاقت تقسیم ہو جاتی.دوسری وجہ یہ ہے کہ مخالف پارٹی کا مد مقابل صرف مولوی عبداللہ صاحب ہیں.تیسری وجہ یہ ہے کہ غلام نبی صاحب کے مقابلہ میں خواجہ احمد اللہ صاحب شہداد تھے جو کہ جماعت اہلحدیث کے پریذیڈنٹ رہ چکے ہیں اور ایک اسکول بھی چلاتے تھے پیسہ والے بھی ہیں اور کافی رسوخ رکھتے ہیں.اگر غلام نبی کھڑا ہو تا تو ہمارے خلاف بہت شدید پرو پیگنڈا ہوتا ہے...میں اس اصول کا پابند ہوں کہ سیاست میں عقیدہ کو کوئی دخل نہ ہونا چاہئے مگر میرے مد نظر کامیابی اور نا کامیابی کا سوال ہے.اور صرف انہی وجوہات کی بناء پر میں نے غلام نبی کو مشورہ دیا...کہ اس کو کھڑا نہیں ہونا چاہئے جہاں تک اصول کا سوال ہے مولوی محمد عبد اللہ صاحب کا کامیاب ہونا کافی ہے...میں نے غلام نبی صاحب کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے آپکو آزاد رکھے...حکومت کے اشارہ پر ہمارے آدمی کے مقابل ممبری کے لئے کھڑے ہوئے مگر ان کو کامیابی کی امید نہیں ہے الغرض اسمبلی کیا ہے میرے لئے ایک اور مصیبت کا سامان ہے آگے ہی مخالفت کیا کم تھی کہ اب اور اضافہ ہو رہا ہے بہر حال خدا مددگار ہے اور دوستوں کا حوصلہ.سب سے اہم مشکل میرے سامنے جو ہے وہ مالی مشکلات ہیں ایجی ٹیشن کیا رہی ہے میرے لئے قرضہ کی مصیبت ہر طرف سے بل پیش ہو رہے ہیں.پٹرول کابل ، کرایہ کابل عملہ کی تنخواہ کابل اور ہماری حالت یہ ہے کہ کھانے کو میسر نہیں ہوتا ہے لوگ ایسے بے حس ہیں کہ وہ چاہتے ہیں کہ میں کام کروں مگر کیسے کام کروں اس کے متعلق خاموش شاید یہ ایجی ٹیشن اور تکالیف کا نتیجہ ہے اور شاید یہ اثر
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 672 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد یه آہستہ آہستہ دور ہو جائے گا اس وقت ضرورت ہے کہ آپ کسی صاحب کو کشمیر روانہ کریں.جو کہ مجھے مشورہ دے کہ ایسے حالات میں....کام کس طرح چلایا جا سکتا ہے اگر آپ نے مہربانی نہ کی ہوتی اور تھوڑی بہت مالی امداد روانہ نہ کی ہوتی تو میں ابتک پریشانیوں کی وجہ سے میدان سے ہٹ گیا ہو تا.میں کو شش کر رہا ہوں کہ کسی صاحب کو آپ کے پاس روانہ کر سکوں جو کہ تمام حالات آپ کو پہنچائے گا اور آپ سے مشورہ حاصل کرے گا.میں بھی حالات کو بہتر بنانے کی سعی میں لگا ہوا ہوں.امید ہے کہ بزرگوں کی دعا سے خداوند کریم ہم لوگوں کو کامیاب کرے گا فقط آپ کا خیر اندیش شیخ محمد عبد اللہ " - تیسرا مکتوب «بچهواره.سرینگر ۱۰/ستمبر مکر می جناب شمس صاحب السلام علیکم.آپ کا تار بلا شکریہ واقعی خداوند کریم نے فضل و کرم کیا اور کانفرنس کا وقار از سر نو قائم ہو گیا.مجھے سب سے زیادہ خوشی یہی ہے کہ کشمیر سے تمام ہمارے ہی آدمی کامیاب ہو گئے الحمد للہ.میری طرف سے حضرت میاں صاحب کی خدمت میں عرض و تسلیم پہنچادر بیجئے.مصروفیت کی وجہ سے میں اس سے قبل نہ لکھ سکا.شاہ صاحب معلوم نہیں کہاں چلے گئے ہیں پتہ نہیں ملتا تمہ سب خیریت ہے.آپ کا دوست شیخ محمد عبد الله - قادیان میں مجلس کشامرہ کی بنیاد ۱۹۳۶ء میں ” مجلس کشامرہ" کے نام سے ایک انجمن کا قیام ہوا جس کی غرض وغایت یہ تھی کہ ریاست جموں د کشمیر کے طلباء اور دیگر کشمیری احباب کے لئے (جو قادیان میں موجود تھے ) فلاح و بہبود کی تجاویز کر کے ان پر عمل کیا جائے یہ مجلس کچھ عرصہ با قائدہ کام کرتی رہی مگر بعض کارکنوں کے چلے جانے کے باعث معطل سی ہو گئی وسط ۱۹۴۶ء میں خواجہ غلام نبی صاحب گلکار کی تحریک پر اس کا احیاء ہوا اور اس کا نام." المجمن کشامرہ " رکھا گیا.۵۸
تاریخ احمدیت جلد ۵ فصل پنجم 673 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ چوہدری عبد الواحد صاحب کی قومی وملی خدمات اخبار "اصلاح" کے ضمن میں چوہدری عبد الواحد صاحب کا اجمالاً تذکرہ آچکا ہے اب ہم ذرا تفصیل سے بتاتے ہیں کہ اپریل ۱۹۳۶ء میں مدیر اعلیٰ بننے کے بعد انہوں نے کیسی شاندار خدمات انجام دیں.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالے بنصرہ العزیز نے آپ کو " اصلاح" کی ادارت سپرد کرتے ہوئے جو قیمتی نصائح فرما ئیں ان میں ایک نصیحت یہ تھی کہ کشمیر کے طول و عرض میں مختلف علاقوں کا سفر کریں اور کشمیر کے لوگوں میں بیداری پیدا کرنے کے علاوہ ان کے حالات اخبار میں شائع کرا ئیں 1+ چنانچہ آپ نے قیام کشمیر کے دوران ریاست کے چپہ چپہ کا (اکثر) پیدل سفر کر کے مسلمانان ریاست کے اندر ذہنی و اسلامی انقلاب برپا کیا اور ان کی مشکلات کا تفصیل سے جائزہ لے کر ان کو اخبار اصلاح" کے ذریعہ سے حکومت اور عوام دونوں تک پہنچایا.اس خدمت میں آپ کے رفقاء میں سے خواجہ عبد الغفار صاحب ڈار مولوی فاضل محمد امین صاحب قریشی اور خواجہ غلام رسول صاحب بھی ۱۹۴۷ء کے آخر تک برابر شریک رہے.ان سب مجاہدوں کی کوششوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ سرکاری ملازم جو عوام پر ظلم و تشدد کرنے کے خوگر تھے اخبار اصلاح سے لرزنے اور ان شکایات کے تدارک پر متوجہ ہونے لگے بر کیف حضور کی اس قیمتی ہدایت کا اہل کشمیر کو بے حد فائدہ پہنچا اور ریاست بھر میں اس امتیازی خصوصیت کے باعث اخبار ” اصلاح " کی دھوم مچ گئی.بعض دوستوں نے آپ کو مشورہ دیا کہ ایک کامیاب صحافی ہونے کی حیثیت سے آپ کو پیدل چلنے کی بجائے بڑے ٹھاٹھ باٹھ سے سفر کرنا چاہئے بلکہ سرینگر کے ایک اخبار کے مدیر نے کہا کہ جس رنگ میں آپ لوگ سفر کرتے ہیں یہ صحابہ اور مجاہدوں کے لئے تو درست تھا مگر ایک اخبار کے ایڈیٹر کے لئے یہ ٹھیک نہیں اخبار کے مدیر کو تھوڑی سی مکاری بھی کرنی پڑتی ہے تب جاکر کام چل سکتا ہے چنانچہ انہوں نے بعض واقعات بھی بیان کئے اور کہا کہ وقار کے خیال سے آپ لوگ یہ طریق چھوڑ دیں مگر چوہدری صاحب نے اخبار اصلاح" (۲۷ / جولائی ۱۹۴۲ء) میں خادم خلق کو کرسی نشینی زیب نہیں دیتی.کے عنوان سے نوٹ لکھا.کہ اگر ہم اس ساز و سامان سے سفر کریں تو ہم ان دور دراز علاقوں اور
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 674 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد ہے دیہاتوں میں پہنچ نہیں سکتے.جہاں کے لوگ سب سے زیادہ ہماری مدد کے محتاج ہیں اگر ہم نے بھی وقار کا خیال رکھا.تو پھر ہمارے اور سرکاری افسروں...کے درمیان کوئی فرق نہیں رہے گا...میری ذاتی رائے یہ ہے یا تو انسان خدمت خلق کا کام اپنے ذمہ نہ لے اور اگر لے تو پھر اپنے آرام اور وقار کو اس میں حائل نہ ہونے دے مزید بر آن یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اگر اس قسم کے سامانوں کے ساتھ سفر کیا جائے تو غریب دیہاتی ڈرتے ہیں...اور صحیح حالات بتلانے سے گریز کرتے ہیں گزشتہ دنوں میں اپنے دورہ کے دوران میں جب و نگام نزد بانڈی پورہ) پہنچا تو محترم خواجہ عبد الغنی صاحب ایک خواب بیان کر رہے تھے کہ مجھے اپنے آقا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ مصرع یاد آیا منه از بهر ما کری کہ ماموریم خدمت را) اپنے آقا کا فرمودہ یہ مصرعہ میں دل میں بار بار دہرا کر لذت لیتا رہا اس مصرعہ پر جس قدر زیادہ میں نے غور کیا اس نتیجہ پر پہنچا کہ جس نے خدمت کرنی ہوا سے آرام اور کرسی نشینی سے محبت نہیں ہونی چاہئے بلکہ اسے تمام لوازمات کو بالائے طاق رکھ کر خدمت کے جذبہ سے سرشار ہو کر عوام کے کام کو سر انجام دینا چاہئے.آپ بعض اوقات میں پنتیس میل تک سفر کر لیا کرتے تھے کشمیر میں اکثر سفر کرنے کی وجہ سے اپنے بعض احباب میں مرد آہن کے نام سے یاد کئے جاتے تھے ۱۹۴۴ میں جب ( قائد اعظم محمد علی جناح سرینگر تشریف لے گئے تو انہوں نے یہ خواہش ظاہر کی کہ مجھے ایسے آدمی سے ملنا ہے جو ریاست کے ہر حصہ سے واقف ہوا نہیں بتلایا گیا کہ ایک پنجابی نے تمام ریاست کا کئی بار سفر کیا ہے یہاں تک کہ گریز اور بلتستان وغیرہ علاقوں میں بھی پہنچا ہے قائد اعظم (مسٹر محمد علی جناح) نے چوہدری صاحب کو بلوایا اور مختلف مقامات کے حالات دریافت کرتے رہے اور ان طول طویل سفروں کی وجہ دریافت کی.آپ نے فرمایا کہ میں جماعت احمدیہ قادیان سے تعلق رکھتا ہوں اور حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ کی ہدایات کے مطابق کشمیریوں کی بہبود کے لئے میں نے یہ سفر کئے ہیں.اس پر قائد اعظم بہت خوش ہوئے.بالآخر اس سلسلہ میں کشمیر کے بعض مقتدر اصحاب اور عوامی حلقوں کی آراء تاثرات درج کئے جاتے ہیں.محمد خلیل صاحب کچلو ممبر اسمبلی ضلع اور ھم پور نے بیان دیا کہ ” مجھے اس بات کا اظہار کرنے میں مسرت ہے کہ مولوی عبد الواحد صاحب مدیر اعلیٰ اصلاح " جس جواں ہمتی اور بلند حوصلگی سے جموں و کشمیر کے دور افتادہ اور پہاڑی علاقوں کے حالات اپنی آنکھوں سے دیکھ کر ان مظلوموں اور مفلوک الحال انسانوں کی صحیح ترجمانی کرتے ہیں یہ ان کا ہی حصہ ہے.آپ نے جن دشوار گزار راستوں اور
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 675 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد یہ صعب انگیز ا د ر نا موافق حالات میں ڈوڈہ ، بھدرواہ، یو نجوہ کشتواڑ مردہ داروں کا پیدل سفر کر کے یہاں کے حالات کو حکومت کے کانوں تک پہنچایا ہے اس کے لئے میں اپنے تمام علاقہ کے لوگوں کی طرف سے مولوی صاحب موصوف کا شکریہ ادا کر تا ہوں".سردار فتح محمد خاں صاحب ممبر کشمیر اسمبلی پونچھ نے ادارہ "اصلاح " کی ان گراں بہا اور بے لوث اور جرأت آموز خدمات کا اقرار کرتے ہوئے لکھا.آپ کے پیر صاحب اعلیٰ کے موجودہ دورہ پونچھ کے حالات اخبار "اصلاح" میں پڑھے ان کی یہ محنت و جانفشانی قابل ستائش ہے کہ انہوں نے ہمارے علاقہ کے پہاڑی راستوں کے سفر کی صعوبتیں اٹھا کر ہمارے حالات اور جائز شکایات سے واقفیت حاصل کر کے ان کے ازالہ کے لئے ہر ممکن کوشش کی ہے پونچھ کے علاقہ کا ہر فرد بشر جو معمولی سمجھ بھی رکھتا ہے.ان کے اس جذبہ خدمت خلق کی داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا.بلکہ ہر عقل سلیم رکھنے والے انسان کا سر تشکر و امتنان کے جذبات کے بوجھ سے جھک جاتا ہے جب وہ غور کرتا ہے کہ ایک ایڈیٹر جس کا کام صرف اپنے دفتر میں بیٹھ کر سمند قلم کی باگ اٹھانا ہوتا ہے.محض مخلوق خدا کی ہمدردی کے پیش نظر اپنے گھر سے باہر نکلتا ہے.اور شہر بہ شہر قریہ یہ قریہ پیدل چل کر پہنچتا ہے.اور لوگوں سے ان کے حالات دریافت کرتا ہے.کسی جگہ اسے بھوکا پیاسا رہنا پڑتا ہے.کہیں اسے بارش میں بھیگنا پڑتا ہے.اور کہیں دھوپ کی سختی اس کے ایثار و استقلال کا امتحان لیتی ہے.بھوک اور پیاس اسے تنگ نہیں کرتیں کیونکہ وہ ان سے مانوس ہو چکا ہے.یہ بیچارہ دن کو بڑے بڑے خوفناک جنگلوں اور بے آب و گیاہ وادیوں میں سے سفر کرتا ہے اور چوتھائی شب گزرے جب کسی غریب کسان یا گو جر کے مکان پر پہنچتا ہے.تو گھاس پھوس کے فرش پر بیٹھ کر اپنے افلاس زدہ بے کس میزبان سے اس کے ذاتی اور گردو پیش کے حالات دریافت کرتا ہے لسی کا ایک گلاس پی کر کہ وہی اس کے نادار مگر متواضع میزبان سے میسر آسکا.یہ انتھک انسان اس علاقہ کے غریب دیہاتیوں کی داستان رنج و محن کا قلمی فوٹو صفحہ قرطاس پر کھینچنا شروع کرتا ہے اور ساتھ ہی بار بار حکومت کو اس کے خزانے بھرنے والے کی تکالیف کے سدباب کی طرف توجہ دلاتا جاتا ہے دعا ہے کہ خدا تعالی آپ کو اس سے بھی زیادہ خدمت خلق کی توفیق عطا فرمائے.(سردار فتح محمد خان ممبر کشمیر اسمبلی پونچھ) علاقہ بلتستان کے مسلمانوں نے مندرجہ ذیل الفاظ میں شکریہ ادا کیا.” بخدمت جناب مولانا صاحب مد ظلہ السلام علیکم.آپ نے اپنے دورہ اور اس کے بعد اپنے جریدہ کے ذریعہ اہل بلتستان کی جو گرانقدر خدمات سرانجام دی ہیں ان کے لئے اہل بلتستان ہمیشہ ہمیش کے لئے آپ کے ممنون ہو گئے
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 676 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد یہ ہیں عوام میں آپ کی ان خدمات کا اعتراف کیا جاتا ہے یہ مفلوک الحال قوم آپ کی ہمدردیوں کا اور کیا صلہ دے سکتی ہے اہل بلتستان کی یہ زبردست خواہش ہے کہ آپ پھر امسال اس طرف تشریف لائیں اور اپنے پہلے دورہ اور اخباری مضامین کے نیک نتائج اپنی آنکھوں سے دیکھیں ".کشمیر کے مسلم پریس کی تنظیم تنظم کشمیر میں مسلمان اخبار نویسوں کی باہمی آویزش اور کشمکش کے باعث اخبار نویسوں کی انجمن کے عہدوں پر ہندو قابض تھے.چوہدری عبد الواحد صاحب نے سرینگر آکر مسلم پریس منظم کیا اور مسلمانوں کا بھی اس میں اثر و نفوذ شروع ہوا.چوہدری صاحب مسلسل پانچ سال تک پریس کانفرنس کے صدر رہے.1 1A کشمیر ایسوسی ایشن کو خراج تحسین جموں و کشمیر مسلم پولیٹیکل کانفرنس ۱۹۳۳ء کے موقعہ پر شیر کشمیر شیخ محمد عبد اللہ صاحب نے صدارتی تقریر کے دوران فرمایا."جب تحریک حریت کی ابتداء ہوئی.ہندوستان کے سر بر آوردہ مسلمانوں نے شملہ میں ایک میٹنگ کر کے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی بنیاد رکھی.اس انجمن نے مالی اور جانی رنگ میں قربانی دے کر ہماری مدد کی.ہماری تکالیف سے دنیا کو مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک آگاہ کیا یورپ اور امریکہ میں پرو پیگنڈا کیا.تحریک کے حامیوں ، مظلومین اور شہداء کے پسماندگان کو مدددی اور ہر حالت میں بے لوث اور ہمدردانہ خدمات انجام دیں.جب تحریک کشمیر اور سنجیدہ ہو گئی تو ہندوستان کے ہزا رہا مسلمان جیلوں میں گئے اور جام شہادت پیا اب آئینی رنگ میں کشمیر ایسوسی ایشن ہماری مدد کر رہی ہے.آل انڈیا کا نفرنس نے تحریری رنگ میں مظلومین کشمیر کی امداد کی اس لئے یہ سب افراد اور جماعتیں دلی شکریہ کے مستحق ہیں".اخبار "اصلاح » کشمیر ۲۳/ نومبر ۱۹۳۴ء صفحه ۲-۳) شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ صاحب کے قابل سرینگر کے اخبار اصلاح (۴/ جولائی ۱۹۳۵ء) نے مندرجہ بالا عنوان کے تحت صفحہ اول پر قدر ارشادات اور اسلامیان کشمیر کا فرض حسب ذیل نوٹ سپر د اشاعت کیا.شیخ صاحب نے ایک پوسٹر کا جواب دیتے ہوئے 19 جون کو مسلمانوں کے ایک عظیم الشان اجتماع میں تقریر کرتے ہوئے جو کچھ کہا وہ اس قابل ہے کہ مسلمان اس کو اپنے دلوں پر لکھیں اور کوئی مسلم گھر ایسانہ رہ جائے جس میں یہ الفاظ آویزاں نہ ہوں.تعلیم یافتہ مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ شیخ صاحب کے بیان کردہ اصول پر تمام مسلمانوں کو عمل پیرا ہونے کی تلقین کریں اگر جمہور مسلمان اس ایک اصول پر کار بند ہو
تاریخ احمدیت.جلده 677 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ جائیں تو ان کا کوئی زبردست سے زبر دست دشمن بھی ان کو نیچا نہیں دکھا سکتا شیخ صاحب نے فرمایا.کوئی بھی شخص جو اپنے آپ کو مسلمان کہلائے اور لا اله الا الله محمد رسول اللہ کا کلمہ پڑھتا ہو وہ مسلمان ہے اور کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ اس کے مسلمان ہونے سے انکار کرے ہر وہ مسلمان جو اپنی قوم کے لئے خدمات پیش کرے گا.مسلم کانفرنس خوشی کے ساتھ قبول کرے گی.اگر کسی جماعت یا گروہ کا یہ مطالبہ ہو کہ احمدیوں کو کانفرنس یا قومی کاموں سے علیحدہ کیا جائے تو میری ان سے التماس ہے کہ خود ہی کانفرنس سے علیحدہ ہو جائیں کیونکہ مسلم کانفرنس کے اہل الرائے اصحاب کا قائم شدہ اصول یہی ہے کہ ہر ایک مسلمان بلا تمیز فرقہ بندی مسلم کانفرنس میں شامل اور قومی خدمات میں حصہ لینے کا حقدار ہے.جب تک میرا تعلق مسلم کانفرنس کے ساتھ ہے میں اس اصول پر سختی سے کاربند رہوں گا.میں حنفی اہلحدیث سنی شیعہ احمدی فرقوں کی کوئی تمیز نہیں کروں گا".
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 678 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ (فصل ششم) ۱۹۳۸ء کی ایجی ٹیشن میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی رہنمائی اور مسلم کانفرنس کا احیاء سرینگر میں مسلمانوں کے جلوس پر لاٹھی چارج سرینگر کے ہندو اخبار "مار تن " جون ۱۹۳۷ء) نے ایک پنڈت صاحب کی تقریر کا خلاصہ شائع کیا جس میں یہ فقرات بھی تھے کہ گائے کو ہندو اسی احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں جس طرح مسلمان حضرت محمد کو." ان الفاظ پر مسلمانان سرینگر نے ۲۷/ جون ۱۹۳۷ء کو میر واعظ محمد یوسف شاہ صاحب کی رہنمائی میں ایک احتجاجی جلوس نکالا.یہ جلوس جب نر پرستان پہنچا تو پولیس کی بھاری جمعیت نے اس پر لاٹھی چارج کر دیا جس سے پانچ سو کے قریب اشخاص زخمی اور بعض قریب المرگ ہو گئے.علاوہ ازیں میر واعظ محمد یوسف شاہ صاحب اور بعض دوسرے سر کردہ مسلمان گرفتار کرلئے گئے.اور میر واعظ صاحب ہمدانی اور مولوی غلام نبی صاحب کی زبان بندی کردی گئی.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی کو اس حادثہ کی اطلاع ہوئی تو حضور نے فی الفور بذریعہ تار کچھ رقم مجرد حین و مظلومین کی امداد کے لئے بھجوا دی اور حکم دیا کہ آپ کے نمائندے مجرد ھین و مظلومین کے پاس اسے پہنچا دیں.چنانچہ خواجہ غلام نبی صاحب گلکار اور مولوی عبد الواحد صاحب مدیر اعلیٰ اخبار ” اصلاح" نے احمدی نمائندوں کی حیثیت سے اسی روز شام کو مجروحین اور ان کے لواحقین سے ملاقات کر کے قولی و عملی رنگ میں اظہار ہمدردی کیا.اخبار "اصلاح" نے پولیس کے مظالم کی رپورٹ اور مہاشہ محمد عمر صاحب کے مضامین شائع کئے جن میں ثابت کیا گیا تھا.کہ دیدوں کی رو سے گائے کا گوشت کھانا جائز ہے.ریاست میں ابھی تک گائے کے ذبیحہ پر دس سال قید با مشقت کی سزا دی جاتی تھی.اس لئے ان مضامین کی اشاعت بغاوت کے مترادف قرار دے کر اخبار "اصلاح " بلیک لسٹ کر دیا گیا.اسی زمانہ میں سرینگر کے سناتنی اخبار "وکیل" نے تمام مسلم لیڈروں، مولویوں اور مذہبی
تاریخ احمدیت جلد ۵ 679 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ پیشواؤں کو پانچ سو روپیہ کا انعامی چیلنج دیا کہ قرآن مجید سے گائے کا ذبیحہ ثابت کر دکھا ئیں.جماعت احمدیہ سرینگر انے یہ چیلنج منظور کر لیا.اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے حکم پر مهاشہ محمد عمر صاحب سرینگر پہنچ گئے مگر سناتیوں نے انعامی چیلنج واپس لے لیا اور معافی مانگ لی.کشمیر ایجی ٹیشن کے متعلق چند خیالات چوہدری غلام عباس صاحب اپنی کتاب کشمکش " میں لکھتے ہیں کہ.۱۹۳۵ء میں حضرت قائد اعظم (مسٹر محمد علی جناح ناقل) سرینگر تشریف لائے تھے مسلم کانفرنس کی جانب سے ان کی خدمت میں سپاسنامہ پیش کیا گیا تھا اس وقت صدر میں ہی تھا.....سپاسنامہ کے جواب میں حضرت قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ ریاست میں مسلمانوں کی بھاری اکثریت کی وجہ سے مسلمانوں کے لیڈروں کا فرض ہے کہ وہ نہ صرف غیر مسلموں کی تالیف قلوب کریں بلکہ ان کو سیاسی گاڑی کا ایک پہیہ سمجھ کر ساتھ چلائیں " - BI قائد اعظم نے واقعی یہ مشورہ دیا یا نہیں اور دیا تھا تو کس رنگ میں ؟ اس امر سے قطع نظر ہمیں یہ بتانا ہے کہ اس مشورہ کا رد عمل ۱۹۳۸ء میں یہ ہوا کہ برطانوی ہند میں نئی اصلاحات کے نفاذ کے کچھ عرصہ بعد کشمیر کے مسلمان لیڈر دوسرے اقلیتی نمائندوں کے ساتھ ایک سیاسی پلیٹ فارم پر جمع ہو گئے اور اپنے مطالبات منوانے کے لئے ایجی ٹیشن شروع کر دی.سیاسیات کشمیر کے اس نازک موڑ پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کشمیر ایجی ٹیمیشن ۱۹۳۸ء کے متعلق چند خیالات" کے عنوان سے ایک پمفلٹ شائع فرمایا.جس میں خداداد بصیرت کی روشنی میں مسلمان لیڈروں پر یہ واضح فرمایا کہ فریقین کی طرف سے باہمی حقوق کے واضح تصفیہ کے بغیر اس سمجھوتہ کا انجام اچھا نہیں ہو گا.اور اس کے تلخ نتائج ظاہر ہوں گے.چنانچہ جموں کے اخبار ”دیش سیوک" نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا." مرزا محمود احمد صاحب امام جماعت احمدیہ کی طرف سے ایک پمفلٹ بعنوان "کشمیر ایجی ٹیشن ۱۹۳۸ ء کے متعلق چند خیالات " شائع کیا گیا ہے.جس میں آپ نے ایجی ٹیشن موجودہ کے متعلق اظہار فرماتے ہوئے تحریر فرمایا ہے کہ تاوقتیکہ آپس میں دونوں قوموں کا حقوق کے متعلق کوئی معاہدہ نہ ہو جائے ایجی ٹیشن کو چلانا بالکل فضول ہے.بلکہ ایسی ایجی ٹیشن بعد میں فساد اور بد امنی کا باعث ہوا کرتی ہے.اس لئے سب سے پہلے کوئی آپس میں معاہدہ ہونالازمی ہے.تب ایک مقصد کے لئے قربانیاں سود مند ثابت ہو سکیں گی".جماعت احمدیہ اور نیشنل کانفرنس افسوس زعماء کشمیر نے کشمیری مسلمانوں کے اس محسن اعظم کی آواز پر کان دھرنے کی بجائے ۱۰/ جون ۱۹۳۹ء کو اپنی واحد نمائندہ جماعت مسلم کانفرنس " نیشنل کانفرنس " میں بدل دی.اس تبدیلی کے
تاریخ احمدیت جلد ۵ 680 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ جواز میں ایک طرف "معاہدہ مدینہ " اور " صلح حدیبیہ پیش کی گئی اور دوسری طرف یہ نقطہ نگاہ رکھا " گیا کہ ”سیاسی دنیا میں مذاہب کو اس حد تک کھیر دیتا کہ وہ پھندا بن جائے صحیح طریق نہیں.اس ضمن میں جموں کے ایک مشہور مسلمان نے اپنی تقریر میں یہاں تک کہہ دیا کہ.۱۹۳۱ء سے لے کر آج تک جو کچھ ہم نے کیا وہ صرف فرقہ وارانہ پلیٹ فارم سے کیا.اور وہ عام حالات میں مسلمانوں کے مذہبی اور سیاسی حقوق کی بہبودی کے لئے کیا.کیونکہ ریاست کی اسی فیصدی مسلمان آبادی نهایت مظلومانہ زندگی بسر کر رہی تھی.آٹھ سال کا یہ عرصہ اپنی تکلیفوں کے رفع کرنے پر محدود رہا.خدا کا فضل ہے کہ آٹھ یا نو سال میں ہم ان تکالیف کو دور کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں.....زمانہ کے ساتھ حالات و خیالات بدلتے رہتے ہیں.آٹھ سال قبل جو ہم نے سیاسی قبا پہنی تھی.وہ صرف پرانی ہی نہیں ہو گئی بلکہ پھٹ کر تار تار بھی ہو چکی ہے اب ہم ایسا جامہ نہیں گے جو ہمارے لئے باعث فخر ہو اور دنیا کے سامنے بھی باعث فخر ہو".| AL│ اخبار ”اصلاح" نے اس موقعہ پر ر ہنمایان قوم کی سب سے بڑی سیاسی غلطی " کے عنوان سے ایک زور دار اور موثر اداریہ لکھا جو مسلسل پانچ قسطوں میں شائع ہوا.اس اداریہ میں بالتفصیل بتایا گیا کہ صلح کی خاطر آنحضرت ا یا صحابہ نے کبھی اپنی ملی تنظیم کا خاتمہ نہیں کیا اور نہ صلح کے لئے انفرادی تنظیم کو تباہ کرنا ضروری تھا.مگر عارضی ہیجان اور وقتی جوش میں ان گزارشات کی قدر نہ کی گئی.اور نیشنلٹ مسلمان لیڈروں نے اس کانفرنس کو ہندوؤں میں مقبول بنانے کے لئے آل انڈیا نیشنل کانگریس سے اپنا تعلق قائم کرنا ضروری سمجھا اور دیانتداری اور خلوص کے ساتھ حب الوطنی کے جذبہ سے سر شمار ہو کر ذمہ دار حکومت کے قیام کی جدوجہد کرنے لگے.اس کے بر عکس ریاستی ہندؤوں نے نیشنل کانفرنس میں شامل ہونے کی بجائے اپنی تنظیم کو مضبوط کرنا اور پیچھے ہٹنا شروع کر دیا.نیز حکومت کشمیر مسلمانوں کے انتشار و افتراق سے فائدہ اٹھا کر ان کے حقوق بالکل پامال کرنے پر کمر بستہ ہو گئی.اب مخلص رہنماؤں کی آنکھیں کھلیں اور وہ بھی ملت و قوم کے وجود و بقاء کو خطرہ میں دیکھ کر نیشنل کانفرنس سے مستعفی ہونے لگے.چنانچہ وہ لیڈر بھی جنہوں نے مسلم کانفرنس کے خاتمہ کی تائید میں یہ فرمایا تھا کہ ۱۹۳۱ء کی تحریک فرقہ وارانہ تھی اور اس کی قبااب تار تار ہو چکی ہے.بالآخر ۱۹۴۰ء میں نیشنل کانفرنس سے علیحدہ ہو گئے اور بیان دیا کہ آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کی بجائے نیشنل تحریک بہت بڑی غلطی ثابت ہوئی ہے.غیر مسلموں کی حمایت حاصل کئے بغیر نئی انجمن نے بتدریج عوام اور مسلمانوں کا اعتماد بھی کھو دیا ہے.جس کا نتیجہ بربادی کی صورت میں ظاہر ہوا پولیٹیکل ترقی رک گئی ہے.دفتری حکومت کی جڑیں زمین میں بہت زیادہ مستحکم ہو چکی ہیں جنہیں جنبش دینا مشکل ہو گیا ہے
تاریخ احمدیت جلد ۵ 681 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ بین الاقوامی تعلقات زیادہ کشیدہ ہیں اور اس میدان میں جدید خطرناک سوالات پیدا ہو گئے ہیں.مسلمانوں کا یہ مطالبہ کہ ان کو بھی جائز حقوق حاصل ہونے چاہئیں پامال ہو رہا ہے.ان کی زبان کلچر اور ہستی اس قدر معرض خطر میں ہیں جو پہلے کبھی نہ تھے.نیشنل کانفرنس نے کوئی ایسا اقدام نہیں کیا.جس سے ان کی خواہش استطاعت ظاہر ہو".مسلمانان کشمیر کو کشمیری پنڈتوں کے عزائم ۱۹۳۹ء میں ہندو اخبار "مار تنڈ " (سرینگر) نے حکومت کشمیر کے سامنے یہ مطالبات کئے کہ جو |AT سے چوکس اور ہوشیار کرنے کی مہم محکمہ جات لا اینڈ آرڈر سے تعلق رکھتے ہیں ان میں انہیں اس قدر نمائندگی مل جائے کہ اکثریت کی نمائندگی برائے نام رہ جائے اس کے علاوہ جہاں ہند و ۵ فیصدی ہوں وہاں ان کو آتشیں اسلحہ رکھنے کی اجازت دی جائے اخبار نز کو رنے بعد کو یہ بھی اعلان کیا کہ کشمیری پنڈت ایک ایسا کھلاڑی ہے کہ وہ کسی چاتر سے چاتر شخص کو مہروں کی طرح استعمال کر سکتا ہے.یہ مطالبات و بیانات مسلمانان کشمیر کے لئے خطرہ کا الارم تھے.مگر ریاستی مسلمان خواب غفلت میں سو رہے تھے ایسے نازک وقت میں ادارہ "اصلاح" نے برادران وطن کے عزائم اور مسلمانوں کا فرض " کے عنوان سے اکیس اقساط پر مشتمل ایک مدلل مضمون شائع کیا اور مسلمانان کشمیر کو بتایا کہ ہندو لوگ ہندوستان کی طرح ریاست کشمیر پر بھی ہندو راج کا جھنڈا لہرانا چاہتے ہیں.یہ سلسلہ مضامین بہت پسند کیا گیا.چنانچہ اخبار " ہدایت " (کشمیر) نے اپنے ۷ و ۳۱ / مئی ۱۹۳۹ء کے پرچوں میں اس کی سولہویں اور سترھویں قسط نقل کرتے ہوئے حسب ذیل تبصرہ کیا.” یہ مضامین نہایت ہی پر از معلومات اور مفید ثابت ہوئے اور انہیں ریاست کے گوشہ گوشہ میں نہایت ہی پسند کیا گیا.(۷/ مئی ۱۹۴۰ء) "اصلاح" سرینگر نے...اسلام اور اہل اسلام کی ایک قابل قدر خدمت انجام دی ہے جس کا اعتراف ریاست کے کونے کونے میں مسلمانوں کے فہمیدہ طبقہ نے کھلے بندوں کیا".(۳۱/ مئی ۱۹۴۰ء) هما یکم اکتوبر ۱۹۴۰ء کو منشی محمد الدین صاحب فوق کے زیر صدارت آل مسلم کانفرنس کا احیاء جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے ارکان خصوصی کا اجلاس ہوا.جس میں اد آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے احیاء کا فیصلہ کیا گیا.اور ساتھ ہی مندرجہ ذیل افراد پر مشتمل انتظامیہ تشکیل کی گئی سردار گوہر رحمان صاحب جموں (صدر) خواجہ محمد یوسف صاحب قریشی مدیر پیغام " سرینگر (سیکرٹری) سردار فتح محمد خان صاحب پونچھ ممبر کشمیر اسمبلی، مرزا عطاء اللہ خان صاحب
تاریخ احمدیت جلد ۵ 682 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد به راجوری ممبر اسمبلی ، غلام حیدر خان صاحب غوری جموں) مدیر " نوجوان") سید مرتضی حسن شاہ صاحب جلالی سرینگر.جناب اللہ رکھا صاحب ساغر مدیر معاون "رهبر" سرینگر - I جناب سردار گوہر رحمان صاحب کا بیان ہے کہ ”جب مسلم کانفرنس کا احیاء عمل میں آیا تو جموں میں میرے ہاں کئی روز تک مولوی ظفر علی خان صاحب اور چوہدری عبد الواحد صاحب مدیر اعلیٰ "اصلاح بھی مقیم رہے.انہی دنوں مولوی ظفر علی خان صاحب نے ایک بار مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ " خدا کی قسم عبد الواحد ہے تو مرزائی مگر بہت نیک انسان ہے".اس سلسلہ میں یہ بتانا ضروری ہے کہ ادارہ "اصلاح" نے مسلم کانفرنس کے احیاء کا گرم جوشی سے خیر مقدم کیا اور اس کے کالم کا نفرنس کی سرگرمیوں کی اشاعت کے لئے گویا وقف ہو گئے.مسلم ویلفیئر ایسوسی ایشن کا قیام حضرت امام جماعت احمدیہ کی ہدایت پر مسلمانوں کے سیاسی حقوق کی حفاظت کے لئے ۱۹۴۴ء میں "آل جموں و کشمیر مسلم ویلفیئر ایسوسی ایشن" کے نام سے ایک ادارہ قائم ہوا.جس کے صدر خواجہ غلام محمد صاحب ٹھیکہ دار ، جنرل سیکرٹری خواجہ غلام نبی صاحب گلمکار اور آفس سیکرٹری خواجہ غلام رسول صاحب تھے.یہ ادارہ مسلمانوں کو متحد کرنے اور ان کی آواز حکومت تک پہنچانے کی کوشش کرتا رہا.
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 683 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ (فصل ہفتم) "شاهی تحقیقاتی کمیشن اور کشمیر چھوڑ دو" کی تحریک شاہی ee تحقیقاتی کمیشن کے سامنے جون ۱۹۴۴ء میں حکومت کشمیر کی طرف سے سر گنگا ناتھ (چیف جسٹس کشمیر) کی زیر صدارت خواجہ غلام نبی صاحب گلکار چوہدری ایک شاہی تحقیقاتی کمیشن قائم کیا گیا.تا عبد الواحد صاحب اور خواجہ ریاست کا آئندہ آئین و نظام اس طرز پر ڈھالا عبدالرحمن صاحب ڈار کے بیانات جاسکے کہ ریاست کے مختلف فرقے یکساں طور پر زندگی کے مختلف شعبوں میں ترقی کر سکیں.اس کمیشن میں مسلمانان کشمیر کی نمائندگی خواجہ غلام نبی صاحب گل کار (جنرل سیکرٹری مسلم ویلفیئر ایوی ایشن ، چوہدری عبد الواحد صاحب (مدیر اعلیٰ اصلاح" و امیر جماعت ہائے احمدیہ کشمیر) اور خواجہ عبد الرحمان صاحب ڈار (سرپنچ پنچایت ناسنور) نے کی.اور خصوصاً چوہدری عبد الواحد صاحب نے اپنے مفصل و مبسوط بیان میں ریاستی عوام کا صحیح نقشہ کھینچ کر رکھ دیا.جس پر مسلمانوں کے علاوہ بعض ہری جنوں اور سکھوں نے بھی آپ کو مبارکباد دی - D اور مورخ کشمیر منشی محمد الدین صاحب فوق ایڈیٹر اخبار "کشمیری" نے لکھا.چوہدری عبد الواحد صاحب کا بیان شاہی کمیشن میں ریاست کی آزادی اقتصادی اور ہر قسم کی کیفیت پر ایک بے لاگ تبصرہ ہے ایسا مفصل، جامع اور مفید بیان کسی اور نے کب دیا ہو گا ".۲۹ جون ۱۹۴۴ء کو شاہی تحقیقاتی کمیشن - مولوی ناصر الدین عبداللہ صاحب کا بیان کے سامنے جماعت احمدیہ کے مبلغ مولوی ناصرالدین عبداللہ صاحب ، مولوی فاضل دید بھوشن کا ویہ تیر تھ کی اہم شہادت ہوئی جس میں آپ نے دید منتروں اور سمرتیوں کے شلوکوں سے ثابت کیا کہ قدیم زمانہ کے آریہ گائے کی قربانی کیا کرتے تھے.اور نہ صرف اسے برا نہیں سمجھتے تھے.بلکہ اسے باعث ثواب یقین کرتے تھے.آپ نے دیدوں
تاریخ احمدیت.جلدی 684 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ سے اس امر کا بھی ثبوت پیش کیا.کہ دھرم تبدیل کرنے پر کسی ہندو کو جائیداد سے محروم نہیں کرنا چاہئے.آپ کے دید منتر اور سمرتیوں کے شلوک سنسکرت میں پڑھنے سے حاضرین خاص طور پر متاثر ہوئے."e "کشمیر چھوڑ دو مارچ ۱۹۴۷ء میں بیع نامہ امرتسر پر پوری ایک صدی ہو چکی تھی.لہذا شیخ محمد عبد اللہ صاحب نے اپنے بعض دوستوں کے ساتھ مشورہ سے یہ آواز بلند کی کہ یہ معاہدہ منسوخ کر دیا جائے اس پر وہ اپنے بعض رفقاء سمیت ۲۱ / مئی ۱۹۴۶ء کو گرفتار کرلئے گئے اور سرینگر پر مٹری راج قائم کر دیا گیا.نیز عوام کو (امیرا کدل کے سوا) باقی پلوں پر چلتے ہوئے جبرا ہاتھ اٹھوا کر چلایا گیا اور مہاراجہ صاحب کے حق میں نعرے لگائے گئے.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان مظلومان کشمیر سے اظہار ہمدردی کیا.مگر ساتھ ہی ایجی ٹیشن کرنے والوں کو نصیحت فرمائی کہ موجودہ شورش میں ایک بہت بڑا نقص یہ ہے کہ اس کی ابتداء خود مہاراجہ صاحب اور ان کے خاندان کے خلاف الزامات لگانے سے کی گئی ہے ".دوسری طرف مہاراجہ صاحب کو بھی مشورہ دیا کہ وہ اپنی رعایا کی عزت قائم کریں اور ان پر ظلم کو روکیں کیونکہ بادشاہ وہی ہے جو اپنی رعایا کو بیٹوں کی طرح سمجھے.حضور کے اس ارشاد کے مطابق اخبار "اصلاح" نے بھی جہاں تحریک اٹھانے والوں کو تہذیب و شائستگی اختیار کرنے کی طرف توجہ دلائی وہاں ملٹری راج کے مظالم پر زبر دست احتجاج کیا اور لکھا.” یہ حکومت نہیں بلکہ اندھیر گردی ہے کہ اصل مجرم نہ مل سکا تو غیر مجرم کے گلے میں ہی پھندا ڈال دیا“.علاوہ ازیں جماعت احمد یہ کشمیر نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی ہدایات کے مطابق ایک حد تک اس تحریک میں دلچسپی لی اور چودھری عبد الواحد صاحب نے شیخ محمد عبد اللہ صاحب کے مقدمہ کے واقعات اپنی کتاب "کشمیر چھوڑ دو" میں لکھے.جسے پیر علی محمد صاحب کتب فروش حبہ کدل نے شائع کر دیا تھا.
تاریخ احمدیت جلد 685 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ (فصل هشتم) آزاد کشمیر حکومت کی بنیاد مجاہدین کشمیر کے لئے اعانت کی اپیل ، حضرت امام جماعت احمدیہ کی اقوام متحدہ سے متعلق ایک نصیحت انجمن مهاجرین جموں و کشمیر اور مسلم کانفرنس کا قیام آزادی کشمیر کا ساتواں دور ۴/ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو شروع ہوا جبکہ اسیروں کے رستگار " سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے مبارک ہاتھوں سے آزاد کشمیر حکومت کی بنیاد رکھی گئی.چنانچہ سردار گل احمد خاں صاحب کو ثر سابق چیف پلیٹی آفیسر جمہوریہ حکومت کشمیر کا بیان ہے کہ یکم اکتوبر ۱۹۴۷ء کو جونا گڑھ میں عارضی متوازی حکومت کا اعلان کیا گیا اور نواب جو نا گڑھ کو معزول کیا گیا.جناب مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب امام جماعت احمدیہ نے دیکھا کہ یہی وقت کشمیریوں کی آزادی کا ہے تو آپ نے کشمیری لیڈروں اور ورکروں کو بلایا.میٹنگ میں فیصلہ ہوا کہ مفتی اعظم ضیاء الدین صاحب ضیاء کو عارضی جمہوریہ کشمیر کا صدر بنایا جائے.مگر انہوں نے انکار کیا اس کے بعد ایک اور نوجوان قادری صاحب کو کہا گیا.اس نے بھی انکار کیا.آخر میں قرعہ خواجہ غلام نبی صاحب گلکار انور صاحب کے نام پڑا.دو اکتوبر ۱۹۴۷ء کو گجرات میں ایک اور میٹنگ ہوئی جس میں غضنفر علی خاں وغیرہ سے مشورہ ہوا.مشورہ ملک عبدالرحمن صاحب خادم گجراتی پلیڈ ر مسودہ تیار کیا گیا.اس کی نقل بذریعہ ماسٹر امیر عالم صاحب کو ٹلی اور چوہدری رحیم داد صاحب حال سب جج بھمبر آزاد کشمیر جناب مرزا صاحب کی خدمت میں لاہور بھیج دیا گیا.سیلاب کی وجہ سے راولپنڈی اور لاہور کی ریل بند تھی.مرزا صاحب نے خواجہ غلام نبی صاحب گلکار انور کو اپنے ذاتی ہوائی جہاز میں لاہور سے گوجرانوالہ بھیج دیا.
تاریخ احمدیت جلد ۵ 686 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو بمقام پیرس ہوٹل متصل ریلوے پل راولپنڈی کارکنوں کی کئی میشکیں 4A [44] ہو ئیں.آخر مسودہ پاس ہو کر خواجہ غلام نبی گلکار انور کے ہاتھ سے لکھ کر انور - بانی صدر " عارضی جمہوریہ حکومت کشمیر " کے نام سے ہری سنگھ کی معزولی کا اعلان ہوا.خواجہ غلام نبی گلکار انور صاحب نے یہ تار راولپنڈی صدر تار گھر سے غالباً چالیس روپیہ دے کر دے دیا.یہ پریس ٹیلیگرام ہندوستان اور پاکستان کے اخبارات کے علاوہ اے پی آئی کو دیا گیا.راولپنڈی میں اس وقت اے پی پی کا کوئی نمائندہ نہیں تھا مسٹر بشارت ”پاکستان ٹائمز کے نمائندے تھے.اعلان کے بعد ۵/ تاریخ کو راقم الحروف خواجہ غلام نبی گلکار انور اور بشارت صاحب نے باجازت باقی ممبران کیبنٹ سردار محمد ابراہیم خان صاحب پرائم منسٹر عارضی جمہوریہ حکومت کشمیر کا بیان تیار کر کے شائع کر دیا گیا جو اخبارات میں چھپ گیا.خواجہ غلام نبی گلکار انور صاحب بانی صدر عارضی جمہوریہ حکومت کشمیر کے بیان میں یہ واضح کر دیا گیا کہ ۴/ اکتوبر ۱۹۴۷ء ایک بجے رات کے بعد ہری سنگھ کی معزولی کے ساتھ عارضی جمہوریہ حکومت کشمیر" کا قیام بمقام مظفر آباد عمل میں لایا گیا.اور انور اس حکومت کا صدر ہے.۴/ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو بمقام پیرس ہوٹل راولپنڈی حسب ذیل وزیر اور عہدہ دار مقرر ہوئے چونکہ معاملہ عارضی تھا اور کسی کو کیا گمان تھا کہ یہ حقیقت بن کر رہے گا.مگر دل سے جو آواز نکلتی ہے اثر رکھتی ہے.صدر " عارضی جمهوریہ حکومت کشمیر " خواجہ غلام نبی صاحب گلکار انور - پرائم منسٹر سردار محمد ابراہیم خان صاحب مشوره مولوی غلام حیدر صاحب جنڈالوی (سردار ابراہیم خان صاحب میٹنگ میں موجود نہ تھے ) وزیر مالیات سید نذیر حسین شاه وزیر دفاع - مولوی غلام حیدر جنڈالوی، چیف پلیٹی آفیسر گل احمد خان کو ثر ( راقم الحروف) میٹنگ میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ خواجہ انور صاحب کو سرینگر فورا روانہ کر دیا جائے.اور انہیں مکمل اختیار دے دیا گیا کہ وہ جنہیں مناسب سمجھیں انڈر گراؤنڈ گور نمنٹ میں وزیر یا عہدیدار بنالیں.چنانچہ ریڈیو سے ۴-۵/ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو پے در پے " عارضی جمہوریہ حکومت کشمیر" کے قیام کا اعلان بمقام مظفر آباد ہو تا رہا.خواجہ انور بانی صدر ۶/ اکتوبر کو راولپنڈی سے روانہ ہوئے اسی روز انہیں مسٹر عبدالرحیم درائی دو میل پل کے پاس ملے تو انہیں ڈیفینس سیکرٹری مقرر کر کے کشمیر چھوڑنے کو کہا.خواجہ غلام دین صاحب دانی کو بھی مظفر آباد چھوڑنے کو کہا اور ان دونوں صاحبان کو فوری لاہور مرزا صاحب کے پاس جانے کو کہا گیا.۴/ اکتوبر ۱۹۴۷ء میں یہ فیصلہ بھی ہوا تھا.کہ وزیر مالیات سید نذیر حسین شاہ صاحب وزیر دفاع مولوی غلام حیدر صاحب ،جنڈالوی گل احمد خان کو ثر " راقم الحروف" اور دیگر لیڈران تحریک جناب مرزا صاحب کی خدمت میں لاہور پہنچ جائیں گے اور مشورہ کریں گے
تاریخ احمدیت - جلد ۵ 687 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ کیونکہ اس وقت حالت یہ تھی کہ مغربی پاکستان اور کشمیر کی آزادی دونوں خطرے میں نظر آرہی تھیں.اور عارضی حکومت کا اعلان اخبارات میں چھپ چکا تھا.مگران مذکورہ بالا آدمیوں کے سوا کسی کو علم نہ تھا کہ یہ اعلان کس نے کیا اور کیسے ہوا؟ خواجہ غلام نبی گلکار انور صاحب بانی صدر ۱۸ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو شیخ محمد عبد اللہ صاحب کے مکان واقع سوورہ سرینگر پر ملے ۲ گھنٹے باتیں ہوئیں.آخر میں یہ طے پایا کہ ان کے اور قائد اعظم کے درمیان ملاقات کا بندوبست کر دیا جائے.۷ اکتوبر ۱۹۴۷ء سے لے کر ۲۲ اکتوبر ۱۹۴۷ء تک گویا ۱۵ یوم کے عرصہ میں چھان بین کر کے حسب ذیل وزراء اور عہدیدار مقرر ہوئے.وزیر تعلیم مسٹر علیم (ڈاکٹر نذر الاسلام صاحب پی.ایچ.ڈی) وزیر صحت و صفائی مسٹر لقمان (ڈاکٹر وزیر احمد صاحب قریشی مرحوم.....سابق ملحقہ آفیسر سرینگر) وزارت زراعت مسٹر فیم (اندرون کشمیر ہیں) وزیر عدل و انصاف مسٹر انصاف (اندرون کشمیر ہیں) وزیر صنعت و حرفت مسٹر کار خانہ (اندرون کشمیر ہیں) گورنر کشمیر مسٹر شمس النهار (اندرون کشمیر ہیں) ڈائریکٹر ریشم خانہ مسٹر یشیم الدین- (اندرون کشمیر ہیں) ڈائریکٹر میڈیکل سروسز ڈاکٹر بشیر محمود صاحب وانی مرحوم آف پونچھ.چیف انجینئر مسٹر انعام (خلیفہ عبد المنان صاحب) انسپکٹر جنرل پولیس مسٹر حکیم صاحب، ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس مسٹر سٹیم (محمد اکبر کیانی صاحب) سیکرٹری فار ٹرانسپورٹ مسٹر رحمت اللہ صاحب آف چراغ دین اینڈ سنز- ڈپٹی پبلسٹی آفیسر منور (خواجہ عبد الغفار صاحب ڈار) انڈر گراؤنڈ گورنمنٹ کی تشکیل کے بعد فوجی رضا کاروں کو منظم کرنے کے لئے مسٹر جون (اندرون کشمیر ہیں) کو کمانڈر انچیف مقرر کیا گیا اور ہری سنگھ کی گرفتاری کی سکیم کی تعمیل پر غور ہو تا رہا اور سکیم کا بہت سا حصہ بھی پایہ تکمیل کو پہنچ چکا تھا.اس میں کمپٹن بدر الدین صاحب کیپٹن جمال الدین صاحب مرزا میاں عبدالرشید ایم.ایل.اے ، سجادہ نشین درگاہ کنیا شریف اور بہت سے دوست تھے جو اندرون کشمیر میں مقیم ہیں.اس شعبہ کے اجلاس کارو نیشن ہوٹل متصل لال چوک امیرا کدل ہوتے رہے " - 21 -1 سردار گل احمد خان صاحب کے مندرجہ بالا بیان کی تائید و تصدیق متعدد ذرائع سے ہوتی ہے.چنانچہ مسٹر ریڈی نے انہی دنوں پاکستان سے ہندوستان میں پہنچنے کے بعد پاکستان کا بھانڈا چوراہے پر " نامی ایک کتابچہ شائع کیا.جس میں لکھا کہ "آزاد کشمیر کا قیام مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ کے دماغ کا نتیجہ ہے جس کا پروگرام انہوں نے رتن باغ لاہور میں بنایا تھا.۴/ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو حکومت آزاد کشمیر کا قیام در اصل اس پروگرام کا ابتدائی اقدام تھا.
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 688 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ -۲ پروفیسر محمد اسحاق صاحب قریشی ایم.اے سابق قائم مقام جنرل سیکرٹری مسلم کانفرنس کا بیان ہے.۲۱ / ستمبر ۱۹۴۷ء میں جب مجھے تین سال کے لئے ریاست بد ر کر دیا گیا تو ہمقام لاہور وزیر اعظم پاکستان خان لیاقت علی خان مرحوم نے ایک سیاسی میٹنگ میں مجھے کہا کہ میں حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے ساتھ رابطہ قائم کروں کیونکہ کشمیر کے کام کے سلسلے میں میرے سپرد بحیثیت جنرل سیکرٹری مسلم کانفرنس ایک ڈیوٹی لگی ہوئی تھی.چنانچہ میں نے حضرت صاحب سے رابطہ قائم کیا.اور اس سلسلہ میں ان کے ساتھ ستمبر اکتوبر نومبر میں تین چار ملاقاتیں پریذیڈنٹ مسلم کانفرنس چودھری حمید اللہ خان کے ساتھ کیں.اور اس کے علاوہ تنہا ملاقاتیں بھی کیں.میں ذاتی علم کی بناء پر کہہ سکتا ہوں کہ امام جماعت احمد یہ کشمیر کی آزادی کے سلسلہ میں بہت اہم رول ادا کر رہے تھے.اور حکومت پاکستان کے وزیر اعظم کی بالواسطہ یا بلاواسطہ اس سلسلہ میں انہیں حمایت حاصل تھی.اور حضرت صاحب جو کچھ کہہ رہے تھے حکومت کے علم کے ساتھ کہہ رہے تھے.میں متعدد بار حضرت میاں بشیر الدین محمود احمد سے ملا ہوں.اور کشمیر کو آزاد کرنے کے سلسلے میں جو تڑپ میں نے ان کے دل میں دیکھی ہے.وہ دنیا کے بڑے بڑے محب وطنوں میں ہی پائی جاتی ہے.اس موضوع پر میں نے ان کے ساتھ بڑی طویل ملاقاتیں کی ہیں اور میں نے ان جیسی صاف سوچ اور ان جیسا تدبر بہت کم مدبروں میں دیکھا.میرا جماعت احمدیہ سے کوئی تعلق نہیں لیکن میں نے میاں بشیر الدین صاحب کا ان جذبات کے لئے ہمیشہ احترام کیا ہے.میں نے اب تک حضرت مرزا صاحب جیسا عالی دماغ مد بر اور آزادی کشمیر میں مخلص کسی کو نہیں دیکھا.تمبر اکتوبر کو میری ملاقاتوں میں اور اہم سیاسی میٹنگوں میں یہ طے پایا کہ جہاد کشمیر کے آغاز سے پہلے ایک مفصل منشور تیار کر لیا جائے.جس کا اعلان جنگی بنگل بجنے سے پہلے کر دیا جائے.یہ ایک قسم کا سیاسی منشور تھا جس میں جہاد کی غایت اور کشمیر کو فتح کرنے کے بعد نظم ونسق کی تشکیل اور اہل کشمیر کا حق خودارادیت وغیرہ شامل تھے.به مسوده فیض احمد فیض سابق ایڈیٹر پاکستان ٹائمز اور میں نے تیار کیا تھا.بعد میں یہ مسودہ میاں بشیر الدین محمود احمد صاحب کو دکھایا انہوں نے اس پر قومی نقطہ نظر سے بعض ترامیم کیں اس کے بعد یہ مسودہ ایک بڑی سیاسی کمیٹی نے منظور کر لیا اور اس کے اعلان کے لئے تاریخ اور وقت کے تعین کا کام اس کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا تھا.مگر بعد میں حالات خراب ہو جانے کی وجہ سے اس ترتیب سے جہاد کا کام نہیں ہوا.جس ترتیب سے اس منشور میں تجویز کیا گیا تھا.۱۰۴
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 689 مورخ کشمیر پریم ناتھ بزاز تاریخ جد و جهد حریت کشمیر تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ "HISTORY OF THE STRUGGLE FOR FREEDOMIN KASHMIR" میں لکھتے ہیں.انور غلام نبی گلکار کے سوا کوئی اور نہ تھا جو مسلم کانفرنس کی ورکنگ کمیٹی کے ایک ممبر اور تحریک آزادی کا ایک قدیم آزمودہ کار سپاہی ہے جس نے صوبائی انقلابی حکومت آف آزاد کشمیر کی سرکردگی کی.( ترجمہ ) پھر لکھتے ہیں.قبل اس کے کہ مسٹر گل کار مہاراجہ کشمیر کو دیکھ بھی سکتے..لڑائی پھوٹ پڑی اور صوبائی حکومت کے رئیس اپنے ہیڈ کوارٹرز کو واپس نہ آسکے اس کے بعد یہ نہایت خوشی کی بات ہے کہ وہ (گل کار صاحب.ناقل) دسمبر ۱۹۴۷ء میں گرفتار کرلئے گئے اور ڈوگرہ حکومت کی طرف سے جیل خانہ میں بھیج دیئے گئے لیکن بغیر یہ علم دیئے کہ وہ آزاد حکومت کا پہلا صدر ہے مسٹر گل کار سرینگر میں مسٹر عبد اللہ سے قید ہونے سے پہلے ملے اور ان کے ساتھ گفتگو کی.لیکن انہوں نے اس کی شناخت کو ظاہر نہ کیا.(ترجمہ) مغربی مورخ لارڈ برڈ وڈ اپنی کتاب "دو قومیں اور کشمیر" میں تحریر کرتے ہیں.حکومت آزاد کشمیر کی بنیاد ۴ اکتوبر۷ ۱۹۴ء کو پڑی تھی اور اس کے پہلے صدر خواجہ غلام نبی گل کار تھے اور سردار محمد ابراہیم خان اس حکومت کے پرائم منسٹر تھے جو خواجہ غلام نبی گلکار مظفر آباد سے اندرون کشمیر چلے گئے تو اس کے بعد ۲۴/ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو زمام حکومت سردار محمد ابراہیم کے ہاتھ میں آگئی.(ترجمہ) غازی کشمیر ڈاکٹر بشیر محمود وانی شہید جناب کلیم اختر صاحب لکھتے ہیں.کشمیر کی ڈوگرہ حکومت اور مفاد پرست عناصر نے کشمیری مسلمانوں کے متعلق یہ تاثر پیدا کر رکھا تھا کہ کشمیری قوم بزدل اور اذیت پسند ہے اور ان کی بزدلی ہی ان کی محکومی اور غلامی کی سب سے بڑی وجہ ہے مگر تحریک آزادی کشمیر کی پوری تاریخ شاہد ہے کہ کشمیری مسلمان ریاست کے کسی بھی حصہ کے میں کیوں نہ ہوں.ہر دور میں طاغوتی اور سامراجی قوتوں سے نبرد آزما رہے ہیں.انہوں نے اپنے خون سے بے مثال قربانیوں اور جذبہ ایثار سے جدوجہد آزادی کو آگے ہی بڑھایا ہے.ڈاکٹر بشیر محمود وانی شہید بھی اسی قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں حکومت آزاد کشمیر نے " غازی کشمیر کے اعزاز سے نوازا اور ان کی قومی وملی خدمات جلیلہ کا اعتراف کیا ہے.ڈاکٹر بشیر محمود کے والد ماجد کا نام ڈاکٹر محمد رمضان تھا.آپ اسلام آباد (کشمیر) کے رہنے والے
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 690 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ ایک نہایت متقی پرہیز گار اور با اصول انسان تھے.خدمت خلق کا جذبہ ان کی شخصیت میں کوٹ کوٹ کے بھرا ہوا تھا.جب کشمیر میں ہیضہ کی وبا پھوٹی تو انہوں نے شب و روز کام کیا اور مریضوں کی دیکھ بھال میں اس طرح مصروف رہے کہ خود اس موذی مرض کا شکار ہو گئے.اس وقت ڈاکٹر بشیر محمود کی عمر سات برس کی تھی.تعلیم حاصل کرنے کا جنون تھا مگر مالی مجبوریاں رکاوٹ بنی ہوئی تھیں.چھوٹی کلاسیں تو کسی نہ کسی طور پاس کر لیں لیکن کالج کی پڑھائی بہت مہنگی تھی.اس کا علاج انہوں نے یہ کیا کہ ایک ہوٹل میں ملازمت کرلی.رات کو ہوٹل میں کام کرتے اور صبح کالج جاتے.آخر ان کی یہ محنت رنگ لائی اور وہ ڈاکٹر بن کر برطانوی ہند کی حکومت سے منسلک ہو گئے.طبیعت چونکہ حریت پسند تھی اس لئے فرنگیوں کی ملازمت ذہنی طور پر قبول نہ کی اور جب انہیں پتہ چلا کہ پونچھ میں ملیریا کی وبا پھوٹ پڑی ہے تو ملازمت کو لات مار کر پونچھ میں آن بے اور خدمت اہل وطن میں لگ گئے.ان کے عمل کا یہ اثر ہوا کہ لوگوں کی نگاہوں میں قدر و منزلت پیدا ہو گئی اور دور دراز سے لوگ علاج معالجے کے لئے آنے لگے.ان کی مقبولیت اور شہرت غیر مسلموں کو ایک آنکھ نہ بھائی.نتیجہ یہ کہ ڈاکٹر صاحب کے ہم پیشہ لوگوں نے ان کے خلاف سازشیں شروع کر دیں.ڈاکٹر بشیر محمود کو اپنی قوم کی محکومی اور خفتہ بختی پر ہمیشہ ہی پریشانی رہی کیونکہ وہ جہاں ایک اچھے معالج تھے وہاں سیاسی معاملات پر بھی گہری نظر رکھتے تھے.ان کی خطر پسند طبیعت ہر وقت کچھ کر گزرنے کی تاک میں رہتی.چنانچہ عمر کے ساتھ ساتھ ان کا جذبہ حریت بھی بڑھتا چلا گیا.جب وہ پونچھ کے دور افتادہ علاقوں میں مریضوں کو دیکھنے کے لئے جاتے تھے تو سیاسی بیداری کا کام بھی کرتے تھے.انہیں اکثر مریضوں کو دیکھنے کے لئے رات کے وقت گھنے جنگلوں میں سے گزرنا پڑتا تھا جہاں درندے ہوتے تھے.درندوں کے علاوہ لوگ کہتے تھے کہ وہاں جن بھوت بھی رہتے ہیں.لوگ ڈاکٹر صاحب سے اکثر کہا کرتے تھے کہ یہ جنگل ” بھاری ہے یعنی وہاں شر شرار ہوتے ہیں.ڈاکٹر بشیر محمود جنس کر جواب دیا کرتے تھے." آپ فکر نہ کریں میں خود شر شرار ہوں".ڈاکٹر بشیر محمود خوبرو انسان تھے.قد چھ فٹ نو انچ سرخ و سپید رنگت حاضر جواب، خوش گفتار اور صاحب کردار تھے.صوم و صلوۃ کے پابند اور عاشق رسول تھے.ماہر تیراک اور اچھے اتھیلیٹ تھے.ایک بار ایک مریض کو دیکھنے جارہے تھے کہ راستے میں دریا طغیانی پر تھا.ساتھیوں نے دریا پار کرنے سے منع کیا مگر انہوں نے دریا میں چھلانگ لگادی اور دریا پار کر گئے اور جان بلب مریض کے لئے مسیحا ثابت ہوئے.حافظ یعقوب ہاشمی کا بیان ہے کہ واپسی پر جب وہ پانی سے شرابور لباس میں ایک محفل مشاعرہ میں شرکت کے لئے آئے تو ان سے تاخیر کی وجہ دریافت کی گئی.انہوں نے اپنے لباس کی
تاریخ احمد ممت احمد ست - جلد ۵ 691 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ طرف اشارہ کر کے غالب کا یہ شعر ذراسی تبدیلی کے ساتھ یوں پڑھا.ہوئے "جی" کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا نہ کہیں جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا ڈاکٹر بشیر محمود کو شعر و سخن سے خاص شغف تھا اور کبھی کبھار طبع آزمائی بھی کر لیتے تھے ایک طرحی مشاعرے میں جس میں طرح مصرع تھا.پر ایک شعر یوں کہا.ان کھڑکیوں سے جھانک رہی ہے فضا مجھے آئی نہ راس پونچھ کی آب و ہوا مجھے ان چوٹیوں سے جھانک رہی ہے قضا مجھے.ڈاکٹر مرحوم کے کردار کی بلندی کا یہ عالم تھا کہ پونچھ میں ان کے حریف ہندو ڈاکٹروں نے ایک سازش کی اور ڈاکٹر صاحب کے ہی کمپونڈر جمشید کے ہاتھ سے انہیں زہر پلا دیا.مگر ان کے صحت مند جسم میں زہر ملک اثر نہ کر سکا.انہیں یہ بھی پتہ چل گیا کہ انہیں زہر جمشید نے دیا ہے انہوں نے جمشید کو معاف کر دیا اور اسے نیک راہ پر چلنے کی تلقین کی.اس واقعہ کے چند مہینوں بعد وہ پونچھ سے سرینگر میں منتقل ہو گئے اور میرا کدال چوک میں جسے اب لال چوک کہا جاتا ہے کارو نیشن ہوٹل کی بلڈنگ میں " مسلم میڈیکل ہال" کے نام سے کلینک کھولا.یہ تشکیل پاکستان سے پہلے کی بات ہے.میں نے ڈاکٹر صاحب مرحوم کو اسی کلینک میں دیکھا تھا.ان کی رہائش گاہ ہمارے محلہ مائی سوماں میں تھی.یہ وہ مقام ہے جہاں پر سیاسی سرگرمیوں کا زور ہو تا تھا.پنجاب مسلم ہوٹل سیاست دانوں کی آماجگاہ تھا اور نیشنل کانفرنس کے صف اول کے رہنما اسی چوک کے ہوٹلوں اور ریستورانوں میں محفلیں جماتے تھے.میرا کدل چوک میں پلیڈیم سینما کے ساتھ ڈاکٹر بشیر محمود کا کلینک نظریہ پاکستان کے شیدائیوں کا ایک مرکز تھا جہاں ڈاکٹر صاحب مرحوم اپنے پاکستانی خیالات سے لوگوں کو آگاہ کرتے اور نظریہ پاکستان کی تبلیغ کرتے.نہ صرف تبلیغ کرتے بلکہ ان کا تعلق تحریک آزادی کشمیر کے ایک زمین دوز گروپ سے بھی قائم تھا.اس گروپ نے مہاراجہ ہری سنگھ کو گر فتار کرنے یا د سمرہ کے موقع پر ہلاک کرنے کا منصوبہ بنایا تھا.ڈاکٹر صاحب کا تعلق موجودہ آزاد کشمیر میں ان لوگوں سے تھا جو مسلح جد وجہد پر عمل پیرا تھے.چنانچہ پاکستان مسلم لیگ نیشنل گارڈ کے سالار میجر خورشید انور سے ان کا با قاعدہ رابطہ قائم تھا اور اس سلسلے میں مشہور کشمیری کارکن خواجہ اسد اللہ کا شمیری بھی سرینگر میں (۱۹۴۷ء) ان سے ملا تھا.سیاسی اعتبار سے ڈاکٹر بشیر محمود کی وفاداریاں خواجہ غلام نبی گلکار گروپ سے تھیں.چنانچہ جب
تاریخ احمد بیت - جلد ۵ 692 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ ۴ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو خواجہ غلام نبی گلکار نے آزاد کشمیر حکومت کے قیام کا اعلان کیا تو اس میں کا بینہ کے دیگر اراکین کے ناموں کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر بشیر محمود وانی کا نام بطور ڈائریکٹر میڈیکل سروسز کے شامل تھا.ڈوگرہ حکومت کو ڈاکٹر بشیر محمود کے مخفی منصوبوں کا پتہ چل گیا اور ان کے کئی ایسے ساتھیوں کو گرفتار کر لیا جو مقبوضہ کشمیر میں تھے مگر ڈاکٹر صاحب سرینگر سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے.حکومت نے ان کا سارا سامان ضبط کر کے نیلام کر دیا.ادھر آزاد کشمیر میں جنگ آزادی شروع ہو چکی تھی.انہوں نے محاذ جنگ پر طبی امداد کا سلسلہ جاری کیا.ڈسپنسریاں کھولیں اور ادویات کی ترسیل کا بند و بست کیا.وہ اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر اگلے مورچوں پر پہنچتے اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرتے.ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ بعض اوقات انہیں سواری نہ ملتی تو وہ پیدل ہی چل پڑتے.انہوں نے اپنی جنگی خدمات کا نہ تو کوئی معاوضہ لیا اور نہ ہی تنخواہ.ان کے بیوی بچے راولپنڈی میں تھے.مگروہ خود پونچھ کے محاذ پر سرگرم رہے.ان ایام میں انہوں نے اپنی اہلیہ محترمہ کو ایک خط میں لکھا.پونچھ شہر فتح ہونے والا ہے.ہماری آزاد فوج بڑھ چڑھ کر لڑ رہی ہے میں پونچھ سے چند میل کے نظریں جمائے منتظر ہوں اور ہاتھ میں ٹیلیفون لئے بیٹھا ہوں.جوں ہی شہر فتح ہونے کی خبر آئے گی میں گھوڑا دوڑا کر وہاں پہنچوں گا اور اپنے ہاتھ سے تیرہ ہندوستانیوں کو قتل کروں گا.جنہوں نے میرے خاندان کے تیرہ افراد کو شہید کیا ہے.مگر افسوس ڈاکٹر صاحب مرحوم کی یہ آرزو پوری نہ ہو سکی اور جنگ بندی نے پونچھ کی مکمل فتح میں رکاوٹ ڈال دی.سردار محمد ابراہیم خان کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر بشیر محمود ہوائی حملوں کی صورت میں بھی فاصلے اپنا کام جاری رکھتے اور شہیدان وطن کی لاشوں کو محاذ جنگ سے اٹھا کر لاتے اور سپرد خاک کرتے.آزاد کشمیر حکومت کی تشکیل کے موقع پر آپ کو ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز مقرر کیا گیا تھا.اس ہنگامی اور جنگی دور میں انہوں نے اپنی ذمہ داریوں کو کماحقہ سر انجام دیا مگر جوں ہی حالات اعتدال پر آئے حکومت پاکستان نے دیگر کلیدی اسامیوں کی طرح اس عہدے کے لئے بھی پاکستان سے ڈائریکٹر مقرر کر دیا.ڈاکٹر صاحب نے اپنے نئے آفیسر کا خندہ پیشانی سے استقبال کیا اور خود نہایت خاموشی سے ڈپٹی دائریکٹر کا عہدہ لے لیا.ڈاکٹر صاحب مرحوم کے اس جذبہ اور ایثار کو جنرل ہیڈ کوارٹر اور حکومت آزاد کشمیر نے بے حد سراہا اور غازی کشمیر کے خطاب سے نوازا.ڈاکٹر بشیر محمود قومی ضیاع کو برداشت نہ کر سکتے تھے.ہر کام کی خود نگرانی کرتے تھے اور اگر کسی وقت کوئی ماتحت حاضر نہیں تو اس کا کام بھی خوری سرانجام دیتے.یہی خوبی ان کی وفات کا موجب بنی.
تاریخ احمدیت جلد ۵ 693 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ وفات سے چند روز قبل وہ گلگت کے سرکاری دورے پر جانے کی تیاریاں کر رہے تھے اپنے ساتھ ادویات بھی لے جارہے تھے.چنانچہ وہ ادویات کے گودام میں جب داخل ہوئے تو معلوم ہوا کہ سپرٹ کا ایک بیرل ٹوٹ گیا ہے اور سپرٹ فضا میں پھیل رہی ہے.دراصل اندر آگ لگی ہوئی تھی.ڈاکٹر صاحب موم سے بیرل کو بند کرنے کی کوشش میں آگ کی لپیٹ میں آگئے.مگر وہاں سے بھاگنے کی بجائے گودام کی آگ بجھانے میں مصروف ہو گئے اور تن تنہا آگ پر قابو پانے میں کامیاب ہو گئے.لیکن ان کا پورا جسم جل گیا.پھر بھی حوصلہ نہ ہارا اور جھلسے ہوئے اپنے گھر جو شہزادہ کو ٹھی کے قریب تھا پہنچنے میں کامیاب ہو گئے اور بالآخری ایم ایچ راولپنڈی میں دو روز تک زندگی و موت کی کش مکش میں مبتلا رہنے کے بعد اپنی جان جاں آفرین کے سپرد کر دی.وفات کے وقت ان کی عمر ۳۶ برس تھی.ساتھیوں نے ان کی المناک وفات کو شہادت کا نام دیا ڈاکٹر صاحب کی وفات کے بعد ان کے اہل و عیال پر کیا گزری ؟ یہ ایک حسرت ناک داستان ہے ان کا بیٹا نصیر محمود وانی اس وقت دو برس کا تھا.اب عہد جوانی میں داخل ہو چکا ہے.اس کو اپنے نامور باپ کی طرح اپنی تعلیم و تدریس کے لئے بہت جدوجہد کرنی پڑی.وہ ہنوز ذریعہ معاش کے لئے سرگرداں ہے وہی قومی درد اس نوجوان کے دل میں موجزن ہے جو باپ کے دل میں تھا.چند سال پیشتر جب بھارتی طیارہ "گنگا کے اغوا کے سلسلے میں حکومت نے چند کشمیری حریت پسندوں کو گرفتار کیا تو ان میں نصیر محمود وانی بھی تھا".(رسالہ "حکایت " لا ہو ر د سمبر ۱۹۷۳ء صفحه ۹۰ تا ۹۲) کشمیر اور حیدر آباد کو فوری طور پر متوازی مہاراجہ صاحب کشمیر نے ابھی ہندوستان سے الحاق کا اعلان نہیں کیا تھا کہ حضرت خلیفہ امسیح سطح پر حل کرنے کا بروقت مشورہ الثانی ایدہ اللہ تعالٰی نے ۱۹ / اکتوبر ۱۹۴۷ء کو انکشاف فرمایا کہ "کشمیر مخفی سمجھوتہ ہندوستان سے کر چکا ہے.اور دنیا کو یہ دکھانے کے لئے کہ کشمیر نے جو فیصلہ کیا ہے ملک کی اکثریت کی رائے کے مطابق ہے.اس فیصلہ کو چھپایا جا رہا ہے اور یہ کو ششی کی جارہی ہے کہ مسلمانوں کا کچھ حصہ تو ڑ کر ملک کی اکثریت سے بھی اعلان کروا دیا جائے کہ وہ انڈین یونین میں ملنا چاہتے ہیں ".نیز تحریر فرمایا - "حیدر آباد اور کشمیر کے سوال متوازی ہیں.اور ایک کا فیصلہ دوسرے کے فیصلہ کے ساتھ بندھا ہوا ہے.....عقلی طور پر ان دونوں ریاستوں کے فیصلے دو اصول میں سے ایک پر مبنی ہو سکتے ہیں یا تو اس اصل پر کہ جدھر راجہ جانا چاہے اس کو اجازت و....دو سرے اس اصل پر فیصلہ ہو | I+A !
تاریخ احمد بیت - جلد ۵ 694 تحریک آزادی کشمیر ا د ر جماعت احمدیه سکتا ہے کہ ملک کی اکثریت جس امر کا فیصلہ کرے اس طرف ریاست جا سکتی ہے.اگر اس اصل کو تسلیم کر لیا جائے تو کشمیر پاکستان کے ساتھ ملنے پر مجبور ہو گا.اور حیدر آباد ہندوستان کے ساتھ ملنے پر مجبور ہو گا.اگر ایسا ہوا تو پاکستان کو یہ فائدہ حاصل ہو گا کہ بہتیں لاکھ مسلمان آبادی اس کی آبادی میں اور شامل ہو جائے گی.لکڑی کا بڑا ذخیرہ اس کو مل جائے گا بجلی کی پیداوار کے لئے آبشاروں سے مدد حاصل ہو جائے گی اور روس کے ساتھ اس کی سرحد کے مل جانے کی وجہ سے اسے سیاسی طور پر بڑی فوقیت حاصل ہو جائے گی...پاکستان کا فائدہ اسی میں ہے کہ کشمیر اس کے ساتھ شامل ہو حیدر آباد کی حفاظت کرنی اس کے لئے مشکل ہے...کشمیر کالمبا ساحل پاکستان سے ملتا ہے.کشمیر کی معدنی اور نباتاتی دولت ان اشیاء پر مشتمل ہے جن کی پاکستان کو اپنی زندگی کے لئے اشد ضرورت ہے اور کشمیر کا ایک ساحل پاکستان کو چین اور روس کی سرحدوں سے ملا دیتا ہے یہ فوائد اتنے عظیم الشان ہیں کہ ان کو کسی صورت میں بھی چھوڑنا درست نہیں........پس ملک کے ہر اخبار ہر انجمن ہر سیاسی ادارے اور ہر ذمہ دار آدمی کو پاکستان کی حکومت پر متواتر زور دینا چاہئے کہ حیدر آباد کے فیصلہ سے پہلے پہلے کشمیر کا فیصلہ کروالیا جائے.ورنہ حیدر آباد کے ہندوستان یونین سے مل جانے کے بعد کوئی دلیل ہمارے پاس کشمیر کو اپنے ساتھ شامل کرنے کے لئے باقی نہیں رہے گی.سوائے اس کے کہ کشمیر کے لوگ خود بغاوت کر کے آزادی حاصل کریں لیکن یہ کام بہت لمبا اور مشکل ہے اور اگر کشمیر گورنمنٹ ہندوستان یونین میں شامل ہو گئی.تو پھر یہ کام خطرناک بھی ہو جائے گا کیونکہ ہندوستان یونین اس صورت میں اپنی فوجیں کشمیر میں بھیج دے گی اور کشمیر کو فتح کرنے کا صرف یہی ذریعہ ہو گا کہ پاکستان اور ہندوستان یونین آپس میں جنگ کریں.....جو کام تھوڑی کی دور اندیشی اور تھوڑی سی عقلمندی سے اس وقت آسانی سے ہو سکتا ہے اسے تغافل اور سستی کی وجہ سے لٹکا دینا ہر گز عقلمندی نہیں کہلا سکتا.مجاہدین کشمیر کی اعانت کے لئے اپیل حضرت خلیفتہ المسیح الثانی شروع سے اس کوشش میں تھے کہ اہل ملک میں مجاہدین کشمیر کی موسمی ضروریات کو پورا کرنے کی طرف خاص توجہ پیدا ہو جائے.چنانچہ حضور نے اپنی تحریروں اور تقریروں میں اس کے لئے مسلسل اپلیں کیں اور پناہ گزینی کے عالم میں ہونے کے باوجود خود بھی اس کار خیر میں حصہ لیا.اور جماعت کو بھی اپنے ساتھ شامل کیا.اس سلسلہ میں حضور نے ۱۲/ نومبر۷ ۱۹۴ء کو ملک میں کشمیر فنڈ کے قیام کی بھی تحریک کی اور فرمایا.ہم تمام مسلمانوں کی توجہ اس طرف پھراتے ہیں کہ اس وقت بخل سے کام نہ لیں کیونکہ کشمیر کا
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 695 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ مستقبل پاکستان کے مستقبل سے وابستہ ہے آج اچھا کھانے اور اچھا پہننے کا سوال نہیں.پاکستان کے مسلمانوں کو خود فاقے رہ کر اور ننگے رہ کر بھی پاکستان کی مضبوطی کے لئے کوشش کرنی چاہئے اور جیسا کہ ہم اوپر بتا چکے ہیں پاکستان کی مضبوطی کشمیر کی آزادی کے ساتھ وابستہ ہے ".اس کے علاوہ ملک کے طول و عرض میں مختلف اہم شہروں میں پبلک لیکچر دیئے.جن میں خاص طور پر مسئلہ کشمیر کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے مسلمانوں کو مجاہدین کشمیر کی فراخ دلی سے امداد کرنے کی پر زور تحریک فرمائی اس ضمن میں حضور نے لاہور میں بھی ۲ دسمبر ۱۹۴۷ء کو ایک اہم لیکچر دیا جس کا خلاصہ اخبار "نظام " (لاہور) نے ۴ / دسمبر۷ ۱۹۴ء کی اشاعت میں بایں الفاظ شائع کیا." مسئلہ کشمیر پاکستان کی زندگی اور موت کا سوال ہے.کشمیر کا ہندوستان میں جانے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کو ہر سمت سے گھیر لیا جائے.اور اس کی طاقت کو ہمیشہ زیر رکھا جائے انہوں نے فرمایا کہ باشندگان پاکستان کو کشمیر کے جہاد حریت میں ہر قسم کی امداد کرنی چاہئے.مجاہدین کشمیر میں نہایت بہادرانہ جنگ لڑ رہے ہیں اور ان کو گرم کپڑوں کی فوری اشد ضرورت ہے جو ان کو فوراً پہنچائے جائیں".اخبار "سفینہ " لاہور (۴/ دسمبر ۱۶۱۹۴۷) نے حضور کے یہ الفاظ شائع کئے."پاکستان کے باشندوں کو کشمیر کی جنگ آزادی جیتنے کے لئے پوری پوری کوشش کرنی چاہئے اس میں پاکستان کی نوزائیدہ ریاست کے استحکام اور دفاع کا راز ہے کشمیر میں مجاہدین مشکل ترین حالات کے باوجود جنگ لڑرہے ہیں.انہیں گرم کپڑوں کی اشد ضرورت ہے".اخبار "زمیندار" (۴/ دسمبر ۱۹۴۷ء) نے اس تقریر کا ملخص یہ شائع کیا کہ "امام جماعت احمدیہ مرزا بشیر الدین محمود احمد نے ایک میٹنگ کو خطاب کرتے ہوئے باشندگان پاکستان سے اپیل کی کہ مجاہدین کشمیر کو جو پسماندہ عوام کی خاطر جنگ آزادی لڑرہے ہیں.ہر قسم کی امداد دی جائے مجاہدین کی فتح سے پاکستان کی دفاعی لائن بہت مضبوط ہو جائے گی".انجمن مهاجرین جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کا قیام حضرت خلیفتہ المسیح کی سرپرستی میں ۱۹۴۸ء میں "انجمن مہاجرین جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کا قیام ہوا.اس انجمن نے جس کے جملہ اخراجات کے کفیل حضور تھے اس دور میں کشمیر کے خستہ حال اور مصیبت زدہ پناہ گزینوں کی ہر ممکن خدمت کی.
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 696 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد سید فصل نهم اہل کشمیر کی طرف سے چوہدری کشمیر کے الحاق کامسئلہ پہلے پہل جنوری ۱۹۴۸ء میں سکیورٹی کونسل کے سامنے پیش ہوا تھا ظفر اللہ خان صاحب کی سلامتی میں.حکومت بھارت اس یقین کے ساتھ سلامتی کونسل میں نمائندگی کونسل میں گئی تھی کہ پاکستان کو حملہ آور قرار دے دیا جائے گا.اور اس کے لئے پوری ریاست پر قبضہ جمانے کی راہ ہمیشہ کے لئے ہموار ہو جائے گی.چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے وزیر خارجہ پاکستان کی حیثیت سے اہل کشمیر کے حق ارادیت اور تحریک آزادی کشمیر کی اس قابلیت اور عمدگی سے نمائندگی کی کہ دنیا پر بھارتی موقف کی غیر معقولیت ہی نہیں اس کی جارحانہ روش بھی واضح ہو گئی.رسالہ طلوع اسلام " کراچی مارچ ۱۹۴۸ ء نے اپنے ادارتی نوٹ میں لکھا.پراپیگنڈا یعنی وہ فن شریف جس کی بنیاد اس دعوے پر ہے کہ جھوٹ کو سو مرتبہ دہرائیے وہ سچ بن کر دکھائی دے گا.اقوام مغرب کا سب سے بڑا موثر حربہ یہیں ابلیسانہ فریب کاری ہے اور ان کے شاگردان رشید مملکت ہندیہ کے ارباب سیاست کے ترکش کا سب سے زیادہ کارگر تیری دروغ با خانه عیاری دجل و فریب اور کذب و فسوں سازی کے یہی وہ رسیوں کے سانپ تھے جن کی پٹاری یہ جادوگران عمد حاضر سرخیل غداران عبد اللہ کا شمیری کے سر پر رکھ کر اقوام متحدہ کی عدالت عالیہ میں بغرض نگاہ قریبی پہنچے.اس جزم و یقین کے ساتھ کہ حق و باطل کی ان غوغا آرائیوں اور جھوٹ کی ان طمع سازیوں کے نیچے دب کر رہ جائے گا اور وہ سرزمین کشمیر کی ڈگری لے کر فاتح و منصور واپس لوٹیں گے.لیکن حسن اتفاق سے پاکستان کو ایک ایسا قابل وکیل مل گیا جس نے حق و صداقت پر مبنی دعوے کو اس انداز سے پیش کیا کہ اس کے دلائل وبراہین عصائے موسوی بن کر رسیوں کے ان تمام سانپوں کو نگل گئے اور ایک دنیا نے دیکھ لیا کہ ان الباطل کان زھوقا باطل بنا ہی اس لئے ہوتا ہے کہ حق کے مقابلہ میں میدان چھوڑ کے بھاگ جائے.ہم پاکستان کو اس عدیم النظیر کامیابی پر مستحق ہزار تبریک و تہنیت سمجھتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ خدائے بر حق اسے حق و باطل کے ہر معرکہ میں کامیابی عطا کرے اور اس کے دشمن اس طرح خاسرو نامراد واپس لوٹا کریں کہ شریفوں کی مجلس میں پھر منہ دکھانے کے قابل نہ رہیں.
تاریخ احمدیت جلد ۵ 697 تحریک آزادی کشمیر ا د ر جماعت احمدیہ اس کے علاوہ پاکستانی پریس نے حضرت چوہدری صاحب کو جس والہانہ انداز میں خراج تحسین پیش کیا اس کے چند نمونے درج ذیل کئے جاتے ہیں.- چنانچہ اخبار "نوائے وقت " لاہور ۲۴ اگست ۱۹۴۸ء نے لکھا.ہندوستان نے کشمیر کا قضیہ یو این او میں پیش کر دیا چوہدری صاحب پھر نیویارک پہنچے.۱۶ / فروری ۱۹۴۸ء کو آپ نے یو این او میں دنیا بھر کے چوٹی کے دماغوں کے سامنے اپنے ملک وملت کی وکالت کرتے ہوئے مسلسل ساڑھے پانچ گھنٹے تقریر کی.ظفر اللہ کی تقریر ٹھوس دلائل اور حقائق سے لبریز تھی...کشمیر کمیشن کا تقرر ظفر اللہ کا ایک ایسا کارنامہ ہے جسے مسلمان کبھی نہ بھولیں گے.-۲- اخبار " سفینہ " ( ۲ جولائی ۱۹۴۹ء) نے تبصرہ کیا کہ :- سر محمد ظفر اللہ خان نے مسئلہ کشمیر اس خوبی اور جانفشانی سے پیش کیا کہ انہوں نے اپنے حریف آئنگر کو شکست فاش دیدی اور میدان سیاست میں آنے کا نہیں چھوڑا.اکیس ہفتوں کے قلمی اور عقلی معرکوں کے بعد سر ظفر اللہ اپنے وطن لوٹے...جس دن وادی کشمیر کا الحاق حکومت پاکستان سے اعلان کیا جائے گا تو سر ظفر اللہ خان کی عزت اور شہرت اور بھی بڑھ جائے گی ان کی شخصیت حکومت پاکستان کی تاریخ میں درخشندہ ستارہ رہے گی.۳ - اخبار " احسان لاہور (۲۱ / فروری ۱۹۵۰ء) نے لکھا:- یہ امر ہر لحاظ سے باعث مسرت ہے کہ کشمیر کے مسئلہ پر ہندوستانی مقدمہ کے تارو پود بکھیر کر پاکستانی وزیر خارجہ نے ساری دنیا پر واضح کر دیا ہے کہ ہندوستان کا کشمیرت کوئی تعلق نہیں اس کے برخلاف پاکستان کا کشمیر سے جغرافیائی اقتصادی مذہبی اور تمدنی اعتبار سے ہمیشہ کا قریب ترین تعلق ہے ویسے چھ گھنٹہ تقریر کرنا بھی دنیا کی سب سے بڑی انجمن میں کوئی آسان کام نہیں اس سے مقرر کی غیر معمولی قوت ، تقریر اور محنت ہی کا اندازہ نہیں ہوتا.بلکہ خود مسئلہ زیر بحث کی صداقت بھی آشکار ہوتی ہے کیونکہ معاملات کے واقف کار لوگ بخوبی جانتے ہیں جب تک موضوع میں جان نہ ہو محض لفظی جمع خرچ سے کام نہیں چلتا.چوہدری ظفر اللہ خاں نے اپنے دعوئی کے ثبوت میں ٹھوس حقائق اور واقعات پیش کئے.- اخبار " تنظیم " پشاور (۳۰ جولائی ۱۹۵۰ء) نے لکھا.حضرت مرزا بشیر محمود نے اپنی جماعت کو مسلمانوں کے سواد اعظم سے وابستگی کے لئے خطبات و بیانات ارشاد فرمائے کشمیر کے سلسلہ میں آپ کی جدوجہد عیاں ہے آپ کے والد کے ایک بہت بڑے چہیتے مرید خاں سر محمد ظفر اللہ خاں قادیانی نے جس قابلیت سے مجلس اقوام میں پاکستان...اور کشمیر کے مسائل پیش کئے ہیں وہ آتی دنیا کے لئے مشعل راہ اور تاریخ میں سنہری حروف سے نقش کرنے کے قابل ہیں.بھارتی پریس پر چوہدری صاحب کی تقریروں کا کیا رد عمل ہوا.اس کا اندازہ مندرجہ ذیل
تاریخ احمدیت جلده 698 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ اقتباسات سے بآسانی لگ سکتا ہے :- ا.ہندوستان کے مشہور اخبار "پر تاپ" نے اپنی ۲۳ اگست ۱۹۵۰ء کی اشاعت میں واضح لفظوں میں اقرار کیا:- یو این او سے پاکستان کے خلاف فریاد کرنا ہمالیہ جیسی بڑی غلطی تھی ہم وہاں گئے تھے مستغیث بن کر اور لوٹے وہاں سے ملزم بن کر.دوسری غلطی اس وقت ہوئی جب ہم نے یکم جنوری ۱۹۴۹ء کو اس کے کہنے پر جنگ بند کر دی.جنگ بند نہ کی ہوتی تو کشمیر کے سوال کا خود بخود حل ہو گیا ہوتا نهرو وزارت کا یہ عمل صحیح تھا کہ انہوں نے مہاراجہ کی درخواست پر اپنی فوجیں کشمیر کی رکھشا کے لئے بھیجیں اس کی یہ ذمہ داری لینا غلط تھا کہ جب ہم حملہ آوروں سے کشمیر کو پاک کر دیں گے تو ہم اس کے پر جاسے پوچھیں گے کہ تم ہمارے ساتھ رہنا چاہتے ہو یا پاکستان کے ساتھ ؟ اس کا یہ عمل بھی غلط تھا کہ وہ یو این او کے پاس مستغیث بن کر گئی.آج تک ہم یو - این.اومیں جانے کی سزا بھگت رہے ہیں.-۲- سردار گور بخش سنگھ صاحب بی.ایس سی نے اپنے رسالہ " پر بیت لڑکی " (جون ۱۹۴۹ء) میں لکھا ” مونٹ بیٹن نے پنڈت نہرو کو تلقین کر کے کشمیر کا معاملہ متحدہ قوموں کی انجمن میں امریکہ بھجوا دیا.وہاں ہمیں لینے کے دینے پڑ گئے اور ہم اس دلدل سے نکل نہیں سکے ".- ماسٹر تارا سنگھ صاحب نے اپنے رسالہ سنت سپاہی (ستمبر ۱۹۵۱ء) میں لکھا:- کشمیر کے معاملہ میں ان (ہندو لیڈروں) کی سیاست تباہی والی ہے اور انہوں نے یہ سوال متحدہ قوموں کی انجمن میں پیش کر کے ہمالیہ جتنی بڑی غلطی کی ہے ".یو - این - او- پر اعتماد نہ کرنے کی نصیحت حضرت خلیفہ المسی الثانی ایدہ اللہ تعالی نے ان دنوں جبکہ یو.این.اد میں مسئلہ کشمیر پر بحث ابھی ابتدائی مرحلہ پر تھی.اس رائے کا اظہار فرمایا کہ سیکیورٹی کو نسل اپنے دو سرے فیصلوں کی طرح کشمیر کا فیصلہ بھی حقائق اور واقعات کی روشنی میں تقاضائے انصاف کے مطابق نہیں کرے گی.بلکہ اس کا فیصلہ بین الا قوامی سیاست کے پیش نظر ہو گا.چنانچہ عملاً یہی ہوا کہ بڑی طاقتوں نے آزادانہ استصواب کی قرار داد منظور کر لینے کے باوجود یکم جنوری ۱۹۴۹ء کو جنگ بند کرا کے مسئلہ کشمیر کو لمبے عرصہ کے لئے کھٹائی میں ڈال دیا تاہم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی کوشش سے پاس ہو نیوالی (۱۳ اگست ۱۹۴۹ء کی قرار داد آجتک قائم ہے.اور تحریک آزادی کشمیر کی آئینی و قانونی جدوجہد کا کام دے رہی ہے.
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 699 تحریک آزادی کشمیر ا د ر جماعت احمد به فصل دهم فرقان بٹالین کے کار ہائے نمایاں از جون ۱۹۴۸ء تاجون ۱۹۵۰ء) حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ستمبر ۱۹۴۷ء میں جماعت احمدیہ پاکستان کے نمائندوں کی ایک مجلس شوری ہجرت قادیان کے بعد رتن باغ لاہور میں بلائی اور اس میں اعلان فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاد بالسیف کے التوا کا جو اعلان (ارشاد نبوی "فع الحرب" کی تعمیل میں ) فرمایا تھا اب اس کا زمانہ ختم ہو رہا ہے.اور جماعت کے افراد کو چاہئے کہ وہ جہاد بالسیف کے لئے تیاری کریں تاجب وقت جہاد آجائے تو سب اس میں شمولیت کے قابل ہوں.احمدی کمپنی معراجکے کے محاذ پر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جس زمانہ کی خبر دی تھی وہ جلد ہی آگیا جبکہ حکومت پاکستان کے بعض فوجی افسروں نے حضرت خلیفتہ ا فتہ المسیح الثانی سے محاذ جموں کے لئے ایک پلاٹون بھیجوانے کی خواہش کی جس پر حضور نے صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی کمان میں چالیس پچاس احمدی جوان بھجوائے جو ڈپٹی کمشنر صاحب سیالکوٹ کے ایماء پر جموں سرحد پر واقع گاؤں معراجکے میں متعین کئے گئے.جہاں بھارتی فوج کی بمباری اور گولہ باری اکثر اوقات جاری رہتی تھی اور پے درپے ہوائی حملے ہوتے رہتے تھے کمپنی کے بہادر سپاہی دن کو اپنے دفاعی مورچوں میں ڈٹے رہتے اور رات کو پڑولنگ کے ذریعہ سے دشمن کی سرگرمیوں کی دیکھ بھال کرتے تھے.اس محاذ پر دو احمدی نوجوانوں نے جام شہادت نوش فرمایا.(۱) برکت علی صاحب آف راستہ زید کا ضلع سیالکوٹ (۲) اللہ رکھا صاحب جسو کے ضلع گجرات.فرقان بٹالین کا قیام یہ کمپنی ابھی معراجکہ بنی میں نبرد آزما تھی کہ حکومت پاکستان کی طرف سے ایک رضا کار بٹالین کے قیام کا منشاء ظاہر ہوا.جس پر سیدنا المصلح الموعود نے جماعت احمدیہ میں شوق جہاد اور ذوق شہادت کی ایسی زبر دست روح پھونک دی کہ احمدی جوان ملک کے چاروں طرف سے لبیک کہتے ہوئے رتن باغ لاہور میں پہنچنے شروع ہو گئے.اور جون ۱۹۴۸ء میں فرقان بٹالین معرض وجود میں آگئی اور معراجکے میں متعین سپاہی اس بٹالین میں منتقل کر کے سرائے عالمگیر کے قریب سوہن گاؤں سے متصل بھجوا دیئے گئے جہاں نہر کے کنارے بٹالین کا
700 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ فوجی کیمپ قائم کیا گیا.حضور نے اس بٹالین میں رضا کار بھجوانے اور دوسرے ضروری انتظامات کرنے کا کام ایک کمیٹی کے سپرد فرمایا جو مندرجہ ذیل افراد پر مشتمل تھی حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب (صدر) آپ فرقان بٹالین کے اشارات میں ” فاتح الدین" سے موسوم ہوتے تھے.مولوی عبد الرحیم صاحب درد (سیکرٹری) سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب (ناظر امور عامه) مولوی عبد المغنی خاں صاحب ( ناظر دعوة و تبلیغ ) اس کمیٹی کا دفتر ” قیام امن کے نام سے موسوم تھا.فرقان بٹالین کے دو سالہ مجاہدانہ کارنامے فرقان بٹالین جون ۱۹۴۸ء سے جون ۱۹۵۰ء تک قائم رہی.جس کی قیادت کے فرائض شروع میں (کرنل) سردار محمد حیات صاحب قیصرانی نے بعد ازاں کرنل صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے انجام دیئے صاحبزادہ صاحب فرقان کی فوجی اصطلاح میں ” کلید" کے نام سے یاد کئے جاتے تھے.فرقان کیمپ اور محاذ جنگ دونوں کا انتظام براہ راست کلید کے ماتحت تھا فرقان کیمپ کا افسر زبیر اور محاذ جنگ کا امیر عالم کباب کہلاتا تھا.فرقان بٹالین کی تعداد اسلحہ اور دیگر سامان کی مقدار پر منحصر تھی جسے جنرل ہیڈ کوارٹر نے منظور کرنا تھا.اور وہاں سے صرف ایک بٹالین کی منظوری تھی کو اس امر کا ساتھ ہی فیصلہ کر لیا گیا تھا کہ ضرورت پڑنے پر اس فوج کا تین بٹالین تک اضافہ کیا جاسکے گا.فورس کی ٹریننگ اور اسلحہ بندی کے لئے صرف ایک ماہ کا عرصہ کافی سمجھا گیا.ٹریننگ پروگرام تیار کئے گئے اور رضاکاروں کو جلدی جلدی مثلاً ہتھیاروں کا استعمال - میدان جنگ کی سوجھ بوجھ (FIELD CRAFT) پٹرولنگ وغیرہ کی ٹریننگ دے دی گئی.بریگیڈیئر کے ایم شیخ محمود ما اس فورس کا معائنہ کرتے اور ہر بار اس کی ٹریننگ کی رفتار اور نوجوانوں کے شوق سے نہایت مطمئن ہو کر لوٹتے تھے.۱۰ جولائی ۱۹۴۸ء کو بٹالین محاذ جنگ باغسر (بربط) کی طرف روانہ ہوئی زبردست بارشوں کی وجہ سے راستے معدوم ہو کر بہہ گئے تھے ان حالات میں آگے بڑھنا بلا وجہ خطرات مول لینے کے مترادف تھا اس لئے بٹالین نے رات کو سیکٹر ہیڈ کواٹر پر قیام کیا.جو یہاں ہیڈ کوارٹر کے نام سے موسوم تھا آدھی رات کے بعد فضا توپ کے گولوں سے گونج اٹھی.اگلے روز اس امر کا انکشاف ہوا کہ ہندوستانیوں کو بٹالین کے آگے بڑھنے کی کسی طرح اطلاع مل گئی تھی.اور یہ گولہ باری انہیں کے آگے بڑھنے والے راستوں پر کی گئی تھی اس واقعہ سے ہر کمانڈر کو یقین ہو گیا کہ خبروں کے نکل جانے کے سلسلہ میں کڑے انتظامات کرنے چاہیں تاہندوستانیوں کو ہماری خبریں نہ مل سکیں.اگلی رات فرقان بٹالین نے اپنے مورچے سنبھال لئے اور بٹالین پانچ کمپنیوں میں تقسیم کر دی گئی.(۱) نصرت کمپنی (۲) برکت کمپنی
تاریخ احمدیت - جلد ۵ 701 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ (۳) تنویر کمپنی (۴) شوکت کمپنی (۵) عظمت کمپنی...صورت حال یہ تھی کہ ہندوستانی غیر مملوکہ علاقہ (NO MAN LAND) پر پورا تسلط جما چکے تھے اور ان کے شبانہ پٹرول فرقان بٹالین کے اگلے مورچوں تک بلا روک ٹوک پہنچتے تھے اور ان کے جاسوس ان مورچوں کے عقبی دیہات میں کثرت سے پھیلے ہوئے تھے اور مقامی باشندوں سے اہم خبریں ہندوستانیوں کو پہنچایا کرتے تھے فرقان فورس کے اپنی پوزیشن لے لینے پر ہندوستانی سپاہیوں نے مسلسل ہوائی اور بری حملے کئے تانئی بٹالین کو پسپا کر دیا جائے فرقان بٹالین کے جو ان اگر چہ آزمودہ کار نہ تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے ہندوستانی چوکیوں پر پے درپے حملے کئے اور ان کے جاسوسوں کا صفایا کر کے بھارتی سپاہیوں کو اپنے مورچوں میں محصور ہو جانے پر مجبور کر دیا.سیکٹر ہیڈ کوارٹر نے یہ خوشگوار تبدیلی دیکھتے ہوئے ہندوستانیوں کو ان کے محفوظ مقامات سے پیچھے دھکیلنے کے لئے ایک حملے کی تیاری شروع کردی جس کا مقصد یہ تھا کہ ہندوستانیوں میں ہر اس پیدا کر کے ان کے حوصلوں کو تو ڑ دیا جائے تاکہ ان کے لڑنے کا عزم ٹوٹ جائے اور جب وسیع حملہ شروع ہو اس وقت ہمارا کام زیادہ سہل ہو.فورس کے جوان نہ صرف دادی سعد آباد میں اپنی جنگی کارروائیاں آزادانہ کرتے تھے بلکہ وہ ہندوستانیوں کی حفاظتی چوکیوں کے عقب تک بھی چلے جایا کرتے تھے انہوں نے بھارتی سپاہیوں سے متعلق ضروری معلومات حاصل کرلیں.اب پوری فوج حملہ کے لئے بالکل تیار تھی.مگر افسوس یو این اد کی مداخلت کے نتیجے میں جنگ بند کر دی گئی لہذا فرقان فورس نے بدلے ہوئے حالات میں اپنی ذمہ داریوں کا نئے سرے سے جائزہ لیا اور ہندوستانی خطہ دفاع کے ساتھ ساتھ چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں پر اپنی مضبوط چوکیوں کا سلسلہ قائم کرنا شروع کر دیا بھارتی سپاہیوں پر اس کا شدید رد عمل ہوا انہوں نے فورس کی چوکیوں پر توپوں اور ہوائی جہازوں سے زبر دست بمباری شروع کردی مگر ہندوستانی اپنی تعداد اور طاقت کی برتری کے باوجود اپنا کھویا ہوا علاقہ واپس نہ لے سکے اور مجاہدوں نے دادی سعد آباد کو ہندوستانیوں پر بند کر دیا.اور اس ۵ میل لمبی ۲ میل چوڑی دادی پر قبضہ کر کے پاکستانی ملاقہ میں شامل کر لیا.یہ وادی اس علاقہ کی زرخیز ترین وادی ہے جس میں اب سینکڑوں مہاجر خاندان بس رہے ہیں.کے فرقان بٹالین کے لئے نقل و حمل کے وسائل درد سر بنے ہوئے تھے مسلسل ہوائی حملوں کی وجہ سے تمام رسید رات کے وقت پہنچائی جاتی تھی اندھیری راتیں، بارش کیچڑ تنگ پگڈنڈیاں فوج کے لئے مشکلات کا باعث بن رہی تھیں اور اس وجہ سے اکثر اوقات جوانوں کو بروقت راشن نہ پہنچنے کی وجہ
تاریخ احمدیت جلد ۵ 702 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ سے قلیل مقدار پر ہی گزارہ کرنا پڑتا تھا.مگر اس ماحول میں بھی جوانوں کا حوصلہ ہمیشہ بلند رہا.میدان جنگ میں حضرت سید نا المصلح الموعود ( اور فوجی اشارات میں امین الملک) بھی تشریف لے گئے حضور کی تشریف آوری سے احمدی جوانوں میں نیا جوش نئی امنگ اور نیا ولولہ پیدا ہو گیا.اور ان کے حوصلے غیر معمولی طور پر بڑھ گئے.فرقان بٹالین کی مزید تفصیلات تو دور پاکستان کی تاریخ میں آئیں گی.یہاں صرف ایک چھوٹا سا واقعہ بتایا جاتا ہے.جس سے جوانوں کی اس روح کا پتہ چلتا ہے جس کے ساتھ انہوں نے جنگ کشمیر لڑی.جنگی پوزیشن لینے کے دو دن کے بعد ہمارے سپاہیوں کو ہراساں کرنے کے لئے ایک شب طاقتور پٹرول بھیجی گئی جس کے نتیجہ میں دونوں طرف سے گولیاں چلنی شروع ہو گئیں ہندوستانیوں نے فرقان فورس کے مورچوں پر شدید گولہ باری شروع کر دی اور فرقان کے سپاہی سمجھے کہ شاید حملہ شروع ہو گیا ہے ایک مختصری جھڑپ کے بعد ہندوستانی پسپا ہو گئے اور گولیاں چلنی بند ہو گئیں.اس کے بعد حسب معمول جب پڑتال کی گئی تو معلوم ہوا کہ ہسپتال سے ایک بیمار سپاہی غائب ہے یہ بھی پتہ چلا کہ جب گولیاں چل رہی تھیں تو وہ چپکے سے اپنے بستر سے اٹھ کر اندھیرے میں پہاڑی پر چڑھ گیا اور اپنے دستہ میں شامل ہو گیا.جہاں اس نے مشین گن کے سپاہی کے ساتھ ڈیوٹی ادا کی.اس مشقت کی وجہ سے اس کی طبیعت اور بھی خراب ہو گئی اگلے روز ا سے جب کمان افسر کے سامنے جواب دہی کے لئے پیش کیا گیا تو اس نے اقبال جرم کر لیا، لیکن ساتھ ہی یہ بیان بھی دیا کہ جب اس کے سیکشن پر حملہ ہوا تو وہ یہ برداشت نہ کر سکا کہ اس کے ساتھیوں پر حملہ ہو چکا ہو اور وہ بستر میں پڑا رہے اسے گو اس " حرکت " پر تنبیہ تو کی گئی لیکن جس جذبہ کے ساتھ اس نے یہ کارنامہ انجام دیا تھاوہ ایک قابل تحسین اثر اپنے پیچھے چھوڑ گیا.فرقان بٹالین کے مجاہدوں پر ایک نظر فرمان مالین کے مجاہد عام طور پر چار اقسام پر مشتمل تھے.اول پاکستانی فوج کے اعلیٰ افسر جس میں کرنل سردار محمد حیات صاحب قیصرانی سب سے ممتاز ہیں.محاذ جنگ میں بٹالین کے سب سے پہلے کمانڈر آپ ہی تھے.اور اس کے تنظیمی اور دفاعی کارناموں میں آپ کی مجاہدانہ کوششوں کا بھاری دخل ہے آپ کے علاوہ میجر وقیع الزمان صاحب (سیکنڈ ان کمانڈ) میجر حمید احمد صاحب کلیم.میجر عبد الحمید صاحب، میجر عبد الله صار صاحب اور کپٹن نعمت اللہ صاحب شریف نے مختلف کمپنیوں کی خوش اسلوبی سے کمان کی.اور میجر وقیع الزمان صاحب فرقان کیمپ کے نوجوانوں کو ٹرینگ بھی دیتے رہے.
تاریخ احمدیت.جلده 703 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ دوم مستقل عملہ جس میں معر ا جگہ میں کام کرنے والے مجاہد بھی شامل تھے.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس طبقہ کے مجاہدین ہی کی نسبت ارشاد فرمایا تھا.جو لوگ فوجی خدمت دے رہے ہیں.ان میں سے سوا سو کے قریب تو ایسے ہیں جن کو ہم کچھ گزارہ دیتے ہیں لیکن بہت کم در حقیقت یہ لوگ بڑے نیک ہیں بڑی قربانیاں کرنے والے ہیں.بڑے اخلاص کے ساتھ کام کرنے والے ہیں اور سالہا سال سے اس فرض کو ادا کر رہے ہیں اور پھر اپنے عہدوں کے لحاظ سے بعض پانچواں بعض چھٹا اور بعض ساتواں حصہ گزارہ لے رہے ہیں میں نے خود گورنمنٹ کی ایک رپورٹ دیکھی ہے جس میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ احمدی لوگ جو یہاں کام کر رہے ہیں وہ صرف نام کا گزارہ لے رہے ہیں اسی طرح مثلا سپاہی ہیں ان میں سے بعض کو ہیں ہمیں روپے مل رہے ہیں آفیسر جو کمانڈ کرتا ہے اسے سو روپے ملتے ہیں حالانکہ اگر وہ فوج میں ہوتا تو اسے ہزار روپیہ ملتا غرض انتہائی قربانی کے ساتھ یہ لوگ کام کر رہے ہیں اور پھر فوجی ٹریننگ میں بھی یہ لوگ کسی سے پیچھے نہیں چنانچہ فوجی افسروں کی رپورٹ ہے کہ ان لوگوں کو عام سپاہیوں سے کسی طرح کم نہیں قرار دیا جا سکتا یہ چیزیں ایسی ہیں جو ہمارے لئے فخر کا بھی موجب ہیں ".سوم.بٹالین کا تیسرا طبقہ ان افسروں کا تھا جو رضا کار کی حیثیت سے جنگ کشمیر میں حصہ لے رہے تھے.et چہارم.چوتھے نمبر پر انگر تعداد کے لحاظ سے سب سے اول نمبر پر) ایثار پیشہ رضا کار تھے.جن کی مجموعی تعداد آخر میں قریباً تین ہزار تک پہنچ گئی تھی ان رضاکاروں میں خاندان حضرت مسیح موعود کے افراد مبلغین احمدیت ، جامعہ احمدیہ مدرسہ احمدیہ تعلیم الاسلام ہائی سکول تعلیم الاسلام کالج کے اساتذہ وطلبہ ڈاکٹر زمیندار دکاندار کلرک، غرضیکہ ہر حلقہ کے احمدی شامل تھے.فرقان بٹالین کے شہداء فرقان بٹالین کی تاریخ میں ان جانباز سپاہیوں اور قابل فخر رضا کاروں کا نام ہمیشہ یاد گار رہے گا جنہوں نے اپنے مقدس فرض کی ادائیگی میں جام شہادت نوش کیا اور اپنے خون سے تحریک آزادی کشمیر کی آبیاری کی ان خوش قسمت شہداء کے نام یہ ہیں :.- چوہدری نصیر احمد مرحوم ولد چوہدری عنایت اللہ مرحوم (چک ۳۵/s.b ضلع سرگودها) طالب علم ایف ایس سی زراعتی کالج لائلپور ( تاریخ شہادت ۱۲ / اگست ۱۹۴۸ء عمر ۱۸ سال بمقام بھمبر) چوہدری محمد اسلم مرحوم دلد چوہدری جهان خان صاحب مانگٹ اونچے تحصیل حافظ آباد ( تاریخ
تاریخ احمدیت جلد ۵ 704 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد یہ شهادت ۲۰ / اکتوبر ۱۹۴۸ء مقام شهادت باغسر ) چوہدری منظور احمد مرحوم ولد چوہدری دین محمد صاحب چک ۹۳ ڈا کھا نہ ہڑالہ آباد تحصیل فورٹ عباس ( تاریخ شہادت ۷ / دسمبر ۱۹۴۸ء مقام شهادت با خسر) - عبد الرزاق مرحوم ولد چوہدری محمد علی چک ۶۸ ٹھیکریوالہ ضلع لائلپور ( تاریخ شهادت ۲۱/ دسمبر (۶۴۸ - سخی جنگ مرحوم عرف منگا ولد امام بخش مرحوم موضع بھڑ تا نوالہ ضلع سیالکوٹ ( تاریخ شہادت ۱۶ ۱۷ جنوری ۱۹۴۹ء عمر ۳۸ سال مقام شهادت بھمبر) غلام یسین مرحوم ولد چوہدری غلام نبی صاحب اور حجمه ضلع سرگودها ( تاریخ شهادت یکم فروری ۱۹۴۹ء مقام شہادت بھمبر) محمد خان مرحوم دلد ابراہیم صاحب بھینی ضلع شیخو پوره ( تاریخ شهادت ۱۸/ مارچ ۶۱۹۴۹ ان کے صاحبزادے مکرم مولوی مبارک احمد نجیب صاحب مخلص مربی سلسلہ ہیں.آجکل نظارت اشاعت میں اچھا علمی کام کر رہے ہیں.(الفضل انٹر نیشنل لنڈن مطبوعہ 9 جولائی تا ۱۵ جولائی ۱۹۹۹ء).بشیر احمد ریاض مرحوم ولد دیوان صاحب ما نسر کیمپ ( تاریخ شهادت ۹ / اکتوبر ۱۹۴۹ء مقام شهادت باغسر) - عبد الرحمن مرحوم ولد ولی محمد صاحب واہ کیمپ ( تاریخ شهادت ۱۵/ جون ۱۹۵۰ء مقام شهادت فرقان کیمپ متصل سرائے عالمگیر).بنا کردند خوش رسے بخاک و خون غلطیدن خدا رحمت کند این عاشقان پاک طینت را فرقان بٹالین کی تقریب سبکدوشی حکومت پاکستان نے فوری تصفیے اور اقوام متحدہ کے نمائندوں کے کام میں مکمل تعاون کے پیش نظر بالآخر فیصلہ کیا کہ تمام رضا کار سپاہیوں کو آزاد کشمیر کے محاذ سے واپس بلا لیا جائے چنانچہ اس تعلق میں ۱۵/ جون ۱۹۵۰ء کو فرقان بٹالین کی سبکدوشی کے احکام جاری کئے گئے اور ۱۷/جون ۱۹۵۰ء کو فرقان کیمپ ( متصل سرائے عالمگیر) میں ایک خصوصی تقریب کے ذریعہ اس کی سبکدوشی عمل میں آئی پاکستانی فوج کے کمانڈر انچیف جنرل ڈگلس گریسی) چونکہ باہر دورہ پر تھے اس لئے انہوں نے ایک خاص پیغام بھیجوایا جسے پاکستانی فوج کے بریگیڈیر شیخ نے پریڈ کے معائنہ اور مارچ پاسٹ کے وقت سلامی لینے کے بعد پڑھ کر سنایا.اس موقعہ پر حکومت پاکستان اور آزاد کشمیر کے بعض اعلیٰ اور فوجی افسر بھی تشریف فرما تھے اس پیغام کی ڈرافٹنگ بریگیڈ میٹر کے ایم شیخ ہی نے کی تھی.
تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد به 705 تاریخ احمدیت - جلده MESSAGE FROM GENERAL SIR DOUGLAS GRACEY K.C.I.E., C.B..C.B.E., M.C., COMMANDER-IN-CHIEF ΤΟ FURQAN BATTALION Your offer to provide a volunteer force in the fight for liberation of Kashmir in June 1948 was gratefully accepted, and the Furqan Bn, came into being.After a short period of training during the summer of 1948, you were soon ready to take your place in the field.In September 1948 you were placed under Commander MALF.Your Bn was composed entirely of volunteers who came from all walks of life, young peasants, students, teachers, men in business; they were all embued with the spirit of service for Pakistan; you accepted no remuneration, and no publicity for the self sacrifice for which you all volunteered.Yours was a noble cause.You impressed us all with your keenness to learn, and the enthusiasm you brought with you.You and your officers soon got over the many difficulties that face a yong unit.In Kashmir you were allotted an important sector, and very soon you justified the reliance placed on you and your nobly acquitted yourself in battle against heavy enemy ground and air attacks, without losing a single inch of ground.Your conduct bothe individual and collective and your discipline have been of a very high order.As your mission is over and your Bn is under orders to disband, I wish to thank every one of you for the service you have rendered to your country.Khuda Hafizi 17th June, 1950 Sd.General Commander in Chief.Pakistan Army.
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 706 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ کمانڈر انچیف پاکستان کا پیغام کمانڈر انچیف پاکستان کے انگریزی پیغام کا ترجمہ یہ ہے:.آپ کی بٹالین خاص رضا کار بٹالین تھی جس میں زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے ان میں کسان بھی تھے اور مزدور پیشہ بھی کاروباری لوگ بھی تھے اور نوجوان طلباء و اساتذہ بھی.وہ سب کے سب خدمت پاکستان کے جذبہ میں سرشار تھے آپ نے اس قربانی کے بدلے میں جس کے لئے آپ میں سے ہر ایک نے اپنے آپ کو بخوشی پیش کیا کسی قسم کے معاوضہ اور شہرت و نمود کی توقع نہ کی.آپ جس جوش اور ولولے کے ساتھ آئے اور اپنے فرائض منصبی کی بجا آوری کے لئے تربیت حاصل کرنے میں جس ہمہ گیر اشتیاق کا اظہار کیا اس سے ہم سب بہت متاثر ہوئے ان تمام مشکل مراحل پر جو نئی پلٹن کو پیش آتے ہیں آپ کے افسروں نے بہت عبور حاصل کر لیا.کشمیر میں محاذ کا ایک اہم حصہ آپ کے سپرد کیا گیا اور آپ نے ان تمام توقعات کو پورا کر دکھایا جو اس ضمن میں آپ سے کئی گئی تھیں.دشمن نے ہوا پر سے اور زمین پر سے آپ پر شدید حملے کئے لیکن آپ نے ثابت قدمی اور اولوالعزمی سے اس کا مقابلہ کیا اور ایک انچ زمین بھی اپنے قبضہ سے نہ جانے دی آپ کے انفرادی اور مجموعی اخلاق کا معیار بہت بلند تھا اور تنظیم کا جذبہ بھی انتہائی قابل تعریف !! اب جبکہ آپ کا مشن مکمل ہو چکا ہے آپ کی بٹالین تخفیف میں لائی جارہی ہے میں اس قابل قدر خدمت کی بناء پر جو آپ نے اپنے وطن کی انجام دی ہے آپ میں سے ہر ایک کا شکریہ ادا کر تا ہوں خدا حافظ فرقان بٹالین کے جوان سبکدوشی کے بعد سرائے عالمگیر سے مجاہدین کا پُر جوش استقبال بذریعہ سپیشل ٹرین ۲۰ جون ۱۹۵۰ء کو ساڑھے نو بجے ربوہ پہنچے اسٹیشن پر ان کا پر جوش استقبال کیا گیا.اور کرنل صاحبزادہ مبارک احمد صاحب اور دوسرے تمام مجاہدوں کو پھولوں کے ہار پہنائے اور ان پر پھول نچھاور کئے گئے.بٹالین کے تمام مجاہد پلیٹ فارم پر ترتیب دار ایستادہ ہوئے ان کے ورد زبان وہی مسنون دعائیں تھی جو آنحضرت ا جہاد سے واپسی کے وقت پڑھا کرتے تھے چنانچہ سب مجاہد با آواز بلند یہ دعا پڑھنے میں مصروف تھے البون تائبون حامدون لربنا ساجدون انہوں نے صحابہ کرام کی اتباع میں نہایت جوش کے ساتھ یہ شعر بھی پڑھا.نحن الذين بايعوا محمدا على الجهاد ما بقينا ابدا
تاریخ احمدیت جلد ۵ 707 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ یعنی ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے آنحضرت ﷺ سے بیعت کی ہے کہ آخر دم تک جہاد کرتے رہیں گے.فائح الدین " حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر اسی روز شام کو بجے مجاہدین کے اعزاز میں ایک خاص تقریب منعقد کی گئی جس میں (حضرت احمد صاحب کا خطاب اور ایک اہم اعلان خلیفتہ المسیح الثانی کے ارشاد پر اور حضور کی نیابت میں (1) حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب ناظر اعلیٰ نے سلامی لی.مولوی عبد الرحیم صاحب درد نے کمانڈر انچیف پاکستان کا پیغام پڑھ کر سنایا ازاں بعد حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب فاتح الدین نے ایک مختصر لیکن پر معارف تقریر فرمائی جس میں فرقان بٹالین کی تاریخ مجاہدین کے کار ہائے نمایاں پر روشنی ڈالنے کے علاوہ خدائی تائید و نصرت کے ایمان افروز واقعات بھی بیان فرمائے جن سے نہ صرف بٹالین کے جوانوں نے بلکہ دوسرے لوگوں نے بھی یہ محسوس کیا کہ خداتعالی کے فرشتے ان کی مدد اور حفاظت پر مامور ہیں چنانچہ مجاہدین بعض انتہائی شدید قسم کے خطرات میں سے محفوظ بچ نکلتے رہے اور بعض اوقات دشمن کے گولے اور بم نشانے پر لگنے کے باوجود کوئی گزند نہ پہنچا سکے حضرت صاحبزادہ صاحب نے اپنی تقریر کے آخر میں یہ اعلان فرمایا."ہم نے کشمیر میں اپنے شہید چھوڑے ہیں جگہ جگہ ان کے خون کے دھبوں کے نشان چھوڑے ہیں ہمارے لئے کشمیر کی سرزمین اب مقدس جگہ بن چکی ہے ہمارا فرض ہے کہ جب تک ہم کشمیر کو پاکستان کا حصہ نہ بنائیں اپنی کوششوں میں کسی قسم کی کو تاہی نہ آنے دیں." اگرچہ کامیاب جدوجہد کے بعد فرقان کو سبکدوش کیا جا رہا ہے لیکن جس جہاد کا ہم نے خدا سے وعدہ کیا ہے اس میں سبکدوشی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.خدا تعالیٰ کا منشاء یہی معلوم ہوتا ہے کہ قربانیوں کا یہ دور چلتا جائے اور اس نیت کی ہر نئی قربانی سلسلہ کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کرنے کا موجب ثابت ہوتی رہے....اندریں حالات ہمارا فرض ہے کہ ہم ان قربانیوں کے لئے ہر وقت تیار رہیں تاوقت آنے پر ہم پیچھے رہنے والوں میں شمار نہ ہوں بلکہ اس طرح اپنی جانیں پیش کرتے چلے جائیں جس طرح ایک پر دانہ دیوانہ وار آگے بڑھتا ہے اور شمع پر اپنی جان نچھاور کر دیتا ہے شمع کی لو اس کی ہستی کو ختم کر دیتی ہے لیکن ہمارا محبوب تو خدا تعالیٰ ہے اس کے راستے میں اگر ہم اپنی جانیں قربان کریں گے تو پھر وہ ہمیشہ ہمیش کے لئے ہم پر اپنے انعامات کی بارش کرتا چلا جائے گا".فرقان بٹالین کے کارناموں پر غیروں کا خراج تحسین فرقان بٹالین کے جانباز مجاہدوں کو غیر از جماعت
تاریخ احمدیت جلده 708 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ حلقوں کی طرف سے بھی خراج تحسین ادا کیا گیا چنانچہ حکیم احمد الدین صاحب صدر جماعت "المشائخ " سیالکوٹ نے اپنے رسالہ قائد اعظم بابت ماہ جنوری ۱۹۴۹ ء میں لکھا:." اس وقت تمام مسلم جماعتوں میں سے احمدیوں کی قادیانی جماعت نمبر اول پر جاری ہے وہ قدیم سے منتظم ہے نماز روزہ وغیرہ امور کی پابند ہے یہاں کے علاوہ ممالک غیر میں بھی اس کے مبلغ احمدیت کی تبلیغ میں کامیاب ہیں.قیام پاکستان کے لئے مسلم لیگ کو کامیاب بنانے کے لئے اس کا ہاتھ بہت کام کرتا تھا جہاد کشمیر میں مجاہدین آزاد کشمیر کے دوش بدوش جس قدر احمدی جماعت نے خلوص اور درد دل سے حصہ لیا ہے اور قربانیاں کی ہیں ہمارے خیال میں مسلمانوں کی کسی دوسری جماعت نے ابھی تک ایسی جرات اور پیش قدمی نہیں کی ہم ان تمام امور میں احمدی بزرگوں کے مداح اور مشکور ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی انہیں ملک و ملت اور مذہب کی خدمت کر نیکی مزید توفیق بخشے".ای طرح گلزار احمد صاحب فدا ایڈیٹر اخبار "جہاد" سیالکوٹ نے اپنے اخبار مورخہ ۱۶ / جون ۱۹۵۰ء میں لکھا.” فرقان بٹالین نے مجاہدین کشمیر کے شانہ بشانہ ڈوگرہ فوجوں سے جنگ کی.اور اسلامیان کشمیر کے اختیار کردہ موقف کو مضبوط بنایا.فرقان بٹالین کے نظم و نسق پر ایک طائرانہ نظر بالآخر فرتان ٹائین کے نظم ونسق پر ایک طائرانہ نظر ڈالنا ضروری ہے.فرقان بٹالین کی نصرت کمپنی کے کمانڈر کیپٹن عبد المنان صاحب دہلوی (تمغہ " خدمت پاکستان") تحریر فرماتے ہیں.: دو بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم فرقان فورس کمانڈر : کمانڈنگ آفیسر :- لیفٹیننٹ کرنل شیر ولی صاحب سردار بہادر (او- بی.آئی) سیکنڈ ان کمان- میجر عبد الوہاب صاحب - ایڈجوٹینٹ میجر اسلم حیات صاحب قریشی فیروز محی الدین صاحب مولوی محمد صدیق صاحب فاضل کوارٹر ماسٹر صاحب.لیفٹیننٹ چوہدری فیروز الدین صاحب امرتسری میڈیکل آفیسر کیپٹین ڈاکٹر قاضی عبدالرحمن صاحب
حضرت خلیل مسیح الثانی محاذ پرتشریف لے جارہے ہیں حضرت خلیفہ اسیح الثانی چند مجاہدین سے محو گفتگو
حضرت خلیفہ اسیح الثانی محاذ پر
فاتح الدین حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب فرقان بٹالین کے فوجی افسروں کے ساتھ ( 17 جون 1950ء) ( کرسیوں پر دائیں سے بائیں ) ا.لیفٹینٹ کرنل شیر ولی صاحب ۲.میجر جنرل احیاء الدین صاحب ۳.صاحبزادہ کرنل مرز ا مبارک احمد صاحب ۴.بریگیڈیئر کے ایم شیخ صاحب ۵.فائح الدین حضرت مرزا ناصر احمد صاحب ۶.کرنل محمد حیات صاحب قیصرانی.میجر چوہدری مشتاق احمد صاحب ظہیر ( کھڑے دائیں سے بائیں ) الیفٹیننٹ شیر احمد خاں صاحب ۲.لیفٹینٹ فیروز الدین صاحب امرتسری ۳ کیپٹن محمد صد مشتاق احمد صاحب ۵.میجر عبدالوہاب صاحب ۶.کیپٹن ڈاکٹر قاضی عبد الرحمن صاحب ۷.کیپٹن عبد المنان صاحب دھلوی ۸ کیپٹن عطاء اللہ صاحب بنگوی ۹ صاحب فاضل ۱۰.لیفٹیننٹ چوہدری عبدالمالک صاحب فاضل ( پیچھے ) جمعدار حفیظ احمد صاحب (نیچے بیٹھنے والے) ا.میجر ملک محمود ۲.کیپٹن نوراحمد صاحب ۳.کیپٹن فقیر محمد صاحب ۴.لیفٹیننٹ عبد القدیر صاحب فاضل
فرقان بٹالین محاذ جنگ پر درمیان میں صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب بریگیڈیئر کے.ایم شیخ فرقان بٹالین کا معائنہ کر رہے ہیں
سرائے عالمگیر میں فرقان بٹالین کی سبکدوشی پر اختتامی تقریب 17 جون 1950 بریگیڈیئر کے ایم شیخ پاکستان کے کمانڈر انچیف کا پیغام سنا رہے ہیں پیچھے کرنل صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کھڑے ہیں
حضرت مرزا عزیز احمد صاحب ناظر اعلی فرقان بٹالین کی ربوہ واپسی پر سلامی لے رہے ہیں 20 جون 1950ء حضرت مرز اعزیز احمد صاحب ناظر اعلی سلامی کے موقع پر بٹالین کا معائنہ فرمارہے ہیں
کمانڈر انچیف جنرل سر ڈگلس گریسی کی طرف سے فرقان بٹالین کے نام پیغام MESSAGE FROM GENERAL SIR DOUGLAS GRACEY, K.C.I.E., C.B., C.B.E., M.C., COMMANDER-IN-CHIEF ΤΟ FURQAN BATTALION YOUR OUR offer to provide a volunteer force in the fight for liberation of Kashmir in June 1948 was gratefully accepted, and the Furqan Bn came into being.After a short period of training during the summer of 1948, you were soon ready to take your place in the field.In September 1948 you were placed under Commander MALF.Your Bn was composed entirely of volunteers who came from all walks of life, young peasants, students, teachers, men in business; they were all embued with the spirit of service for Pakistan; you accepted no remuneration, and no publicity for the self sacrifice for which you all volunteered.Yours was a noble cause.You impressed us all with your keenness to learn, and the enthusiasm you brought with you.You and your officers soon got over the many difficulties that face a young unit.In Kashmir you were allotted an important sector, and very soon you justified the reliance placed on you and you nobly acquitted yourself in battle against heavy enemy ground and air attacks, without losing a single inch of ground.Your conduct both individual and collective and your discipline have been of a very high order.As your mission is over and your Bn is under orders to disband, I wish to thank everyone of you for the service you have rendered to your country.Khuda Hafiz! 17th June, 1950.General Commander in Chief.Pakistan Army.
فرقان بٹالین میں دوران جنگ خدمات سر انجام دینے والے مجاہدین کے لئے KASHMIR 1948 *
تاریخ احمدیت جلد ۵ 709 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ بٹالین ٹریننگ آفیسر لیفٹیننٹ شیر احمد خان صاحب بٹالین فزیکل آفیسر کیپٹن عبد المنان دہلوی بٹالین ہیڈ کوارٹر چوہدری اعجاز احمد صاحب کلرک (1) عبد الواحد صاحب ٹیلیفون انچارج (۲) محمد اشرف صاحب (بعد میں 4 پنجاب میں صوبیدار ہو گئے) کمپنی کمانڈر نصرت کمپنی عبدالمنان دہلوی تمغہ خدمت پاکستان سیکنڈ ان کمان لیفٹیننٹ (مولوی) عبد اللطیف صاحب پریمی برکت کمپنی کیپٹن نور احمد صاحب سیکنڈ ان کمان- لیفٹیننٹ (مولوی) عبد المالک صاحب شوکت کمپنی کیپٹن مشتاق احمد صاحب سیکنڈ ان کمان.لیفٹیننٹ مولوی عبد القدیر صاحب معاون سیکنڈ ان کمان صوبیدار چوہدری محمد عبد اللہ صاحب تنویر کمپنی کیپٹن عطاء اللہ صاحب بنگہ.سیکنڈ ان کمان- مولوی سردار احمد صاحب ہیڈ کوارٹر کمپنی کیپٹن فقیر محمد خان صاحب نوٹ :- مندرجہ بالا عہدیداروں کو GHQ راولپنڈی سے ان کے ناموں کے سامنے لکھے ہوئے رینک پہنے کی اجازت دی گئی تھی.پلاٹون کمانڈر چوہدری عبد السلام صاحب محمد اقبال صاحب چوہدری عنایت اللہ صاحب چوہدری محبوب احمد صاحب محمد خان صاحب حوالدار میجر اور حوالدار کوارٹر ماسٹر مولوی خلیل الرحمن خان صاحب پشاوری بركات احمد منٹگمری بشیر احمد صاحب گجراتی.محمد شفیع صاحب زبیر مولوی محمد یوسف راجوری دیگر مجاہدین- مولوی محمد اسمعیل صاحب دیا لگڑھی.مولوی محمد احمد صاحب جلیل.حافظ شفیق احمد صاحب مدرس حافظ کلاس رانا ناصر احمد کا ٹھگڑھی.چوہدری صالح محمد سندھی.حوالدار را نا ناصر احمد - بشیر احمد سندھی.مارٹر ڈینیجمنٹ کمانڈر.رانا محمد دین صاحب اسٹنٹ رانا محمد دین صاحب مجاہدین کی حجامت کے لئے.محمد رمضان صاحبه خلوم مرحوم و گلزار احمد صاحب
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 710 تحریک آزادی کشمیر ا و ر جماعت احمدیہ ٹرینگ کشمیر محاذ جنگ پر آنے والے مجاہدین کو ان کے معینہ عرصہ قیام میں فوجی کرتب سے حتی الوسع پورے طور پر تربیت دے کر اس قابل بنا دیا جاتا تھا جس سے وہ دشمن کی حدود میں داخل ہو کر پیٹرولنگ کرتے ہوئے خبریں حاصل کر لاتے تھے.مثلاً انہیں- ڈرل پی ٹی روڈ مارچ - رائفل ٹرینگ - شین گن - 36.H.E گرنیڈ - ۲ مارٹر - سمارٹر.ویری لائٹ پسٹل ریوالوار - برین گن فائرنگ کی مشق کے علاوہ دشمن پر فائرنگ بھی کروائی جاتی تھی.اس کے علاوہ فیلڈ کرافٹ ایئر کرافٹ ٹیچر ٹینکر.نائٹ پریڈ - بینٹ فائٹنگ - ریک.ڈیفس- در ڈرال - یونیفارم کا استعمال.ملٹری کے عہدوں کی پہچان وغیرہ وغیرہ - ٹریننگ دے کر اس قابل بنا دیا جاتا تھا کہ مجاہد بخوبی پورے بھروسہ اور مستعدی دو ثوق کے ساتھ دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکے.ہمارے کئی ایک مجاہد دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے زخمی ہونے کے علاوہ شہید بھی ہوئے.جن کی قبریں باکسر - سوکھا تلا نمبر میں موجود احمدی مجاہد اسلام و فرقان بٹالین کی آج بھی علمبردار نظر آتی ہیں.دعا ہے اللہ تعالیٰ ان کی تربتوں پر اپنی بے پایاں رحمتیں.برکتیں نازل فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقامات سے نوازے.(آمین) مجاہد جب اپنا معینہ عرصہ مکمل کرنے کے بعد اپنے اپنے گھروں کو لوٹتے تو گھر جانے سے قبل ان کا با قاعدہ امتحان لے کر اس بات کی سند دی جاتی تھی کہ جو کچھ ٹرینگ کے دوران میں انہوں نے محاذ پر سیکھا ہے.واقعی یہ مجاہد اس سند اور شاباش کے مستحق ہیں.ساتھ کے ساتھ دینی مشاغل بھی لازمی حصہ تھے جنہیں نہایت عمدگی و احترام کے ساتھ باد قار طریق پر ادا کیا جاتا تھا.مثلاً نماز با جماعت تلاوت قرآن پاک درس و تدریس - تاریخ اسلام و مجاہدین اسلام کے کار ہائے نمایاں.اسلامی روایات پر عمل پیرا ہونے کا پورا پورا انتظام ہونے کے علاوہ قرآن پاک ناظره و با ترجمہ.نماز معہ ترجمہ سکھانے کا بھی انتظام کیا ہوا تھا اور یوں مجاہدین کو جہاد کی غرض و غایت سے پورے طور پر آگاہ کیا جاتا.جس سے پورے پورے اخلاص و محبت اور جوش و خروش کے ساتھ جذبہ حق کو قائم و دائم رکھنے کے لئے وہ خدا تعالیٰ کی حدود کی حفاظت میں اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کرتے ہوئے قوم کی عزت و ناموس اور ملک کی سرحدوں کی آخری سانس تک حفاظت کرنا اپنا اولین فرض سمجھتے اور کسی حالت میں بھی دشمن خدا اور شمن اسلام کے سامنے اپنے ہتھیار نہ گراتے اور اس طرح سے وقت آنے پر اپنی جان جان آفرین کے سپرد کرتے ہوئے اس کے دربار میں اپنے آپ کو پیش کر دیتے اور اسلام کا پرچم ہر قیمت پر سر بلند رکھتے.
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 711 تحریک آزادی کشمیر ا د ر جماعت احمدیہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ہمیشہ جب محاذ کشمیر پر فرقان فورس کے مجاہدین حضور کی محاذ یر آمد سے مل کر ان کی حوصلہ افزائی کے لئے بنفس نفیس تشریف لائے تو اس وقت آپ کے ہمراہ اخباری نمائندوں کی ایک جماعت بھی تھی.حضور نے ظہر عصر کی نمازیں جمع کر کے پڑھا ئیں.سب کے ساتھ بیٹھ کر دوپہر کا کھانا تناول فرمایا.اس موقعہ پر فوجی کرتب دکھائے جانے کا انتظام بھی کیا گیا تھا اور ایک رنگارنگ تقریب منعقد ہوئی.جس میں پاک آرمی کے بہت سے آفیسرز کے علاوہ بہت سے مختلف رینک کے عہدیدار اور سپاہی بھی مدعو کئے گئے تھے جنہوں نے احمد کی مجاہدین کے نہایت عمدہ اور صاف ستھرے فوجی کارنامے دیکھے جن سے بہت ہی لطف اندوز ہو کر انگشت بدنداں ہو کر رہ گئے.حضور نے قرآن پاک اور حضور اکرم ﷺ کے ارشادات کی روشنی میں اصحاب رسول اللہ و مجاہدین اسلام کے سنہری فوجی کارناموں اور فتوحات کی روشنی میں مجاہدین و حاضرین کو اپنے نہایت قیمتی و بیش بہا نصائح سے سرفراز فرمایا.نیز فرمایا شیر ولی جناب آپ رہیں.صلوۃ خوف بھی سکھا ئیں.حضور نے اپنے خطاب میں ان فوجی افسران سے دریافت فرمایا کہ اب آپ یہ فیصلہ کریں کہ آرمی اور ان مجاہدین کی تربیت میں کس کا کام بہتر ہے ؟ اس پر انہوں نے بیک زبان ہو کر کہا کہ مجاہدین کی کارکردگی آرمی کے جوانوں سے بدرجہا بہتر ہے.اس پر حضور نے ان سے اس کی وجہ دریافت فرمائی تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم تنخواہ لے کر دشمن کے مقابلے پر آئے ہیں اور یہ مجاہد جذبہ جہاد اسلام سے سرشار ہو کر دشمن کے مقابلہ پر آئے اور سینہ سپر ہیں.اس تقریب کے اختتام پر " نشان " یعنی بہترین انعام جو کہ انعامی جھنڈا تھا شوکت کمپنی کو دیا گیا جسے حضور نے اپنے دست شفقت سے پلاٹون کمانڈر چوہدری عنایت اللہ صاحب کے ہاتھوں میں پکڑا دیا.تمام حاضرین نے بارک اللہ لک کی صدا بلند کی اور یوں یہ مبارک تقریب سعید اختتام پذیر ہوئی.الحمد لله جناب شیر ولی صاحب کے وقت میں جو اہم واقعات رونما ہوئے.ان جناب شیر ولی صاحب میں سے چند ایک پیش خدمت ہیں.آپ نے با گسر محاذ پر پہنچ کر احمدی مجاہدین کشمیر کی فوجی تربیت کے ساتھ ساتھ دینی تربیت و اصلاح کی طرف بھی پوری توجہ مرکوز رکھی.آپ کے وقت میں ہر کمپنی کی حدود میں کمپنی کمانڈروں کی زیر نگرانی فوجی مشقیں کرانے کا باقاعدہ سلسلہ جاری ہوا.جناب شیر ولی صاحب نے با گسر سے سوکھے تلاؤ تک فرقان کا پہلا روڈ مارچ کروایا.آپ ہی کے وقت میں ڈاکٹر گراہم کے پاکستان آنے پر
تاریخ احمدیت جلد ۵ 712 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد آپ نے راتوں رات نو مینز لینڈ کو عبور کر کے دشمن کے منہ کے سامنے دشمن سے چند سو گز پر آؤٹ پوسٹ کے قیام کا انتظام فرما کر صبح کی اذان دلوادی.ایسی کارروائی دشمن بھی کر سکتا تھا مگر دشمن کو اتنی جرات نہ ہوئی کہ وہ پہاڑ سے نیچے اتر کر ایسا کر سکے.جس وقت ڈاکٹر گراہم نے موقعہ کا معائنہ کیا اس وقت حدود کی نشان بندی کی برجی ہماری پوسٹ سے آگے لینے ریچھ پیاری کے قدموں میں نصب کر دی گئی.اور اس طرح سے ۱-۲ میل چوڑی اور کئی میل لمبی دیلی جناب شیر ولی صاحب کی حسن بصیرت و جرأت مندی کے نتیجے میں آزاد کشمیر کی حدود کے قبضہ میں آگئی اس دیل سے نکالے ہوئے درجنوں دیہات کے ہزار ہا مسلم باشندے کئی سال تک پاکستان میں خانہ بدوشی کی زندگی گزارنے کے اپنے گھروں میں آکر آباد ہو گئے.بھمبر سے سوکھا تلا، با گر باغ.قلعہ امر گڑھ کے پاس سے گزرتی ہوئی لکڑ منڈی تک پختہ سڑک تعمیر ہوئی.سڑک کے مکمل ہونے پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی محاذ کشمیر پر تشریف فرما ہوئے.فرقان فورس نے آؤٹ پوسٹ پر اس وقت تک قبضہ جمائے رکھا تا وقتیکہ اس سے آزاد کشمیر فورس نے باقاعدہ پاکستان فوج کے کمانڈروں کے رو برو چارج نہ سنبھال لیا."
تاریخ احمد بیت ، جلده 713 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ فصل یازدهم جنوری ۱۹۴۹ء کی جنگ بندی کے بعد سلامتی کونسل کے فیصلہ کی تعمیل میں یکم جنوری ۱۹۴۹ء کو کشمیر کی جنگ بند کر دی گئی اور تحریک آزادی کا آٹھواں دور شروع ہوا.جو وسط ۱۹۶۵ء تک جاری رہا.اس درمیانی عرصہ میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسئلہ کشمیر کو ملک میں زندہ اور تازہ رکھنے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا.تحریک کشمیر کیلئے متحد العمل ہو نیکی دردمندانہ تحریک چنانچہ حضور ایدہ اللہ تعالے نے ۱۶ / اپریل ۱۹۴۹ء کو مسلمانان پاکستان کو آزادی کشمیر کے لئے متحد العمل ہونے کی دردمندانہ تحریک کرتے ہوئے ارشاد فرمایا." مجھے خصوصیت سے یہ تڑپ ہے کہ کشمیر کے مسلمان آزاد ہوں اور اپنے دوسرے بھائیوں سے مل کر اسلام کی ترقی کی جدوجہد میں نمایاں کام کریں اس مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے میں تمام ان لوگوں سے جو کشمیر کے کام سے دلچسپی رکھتے ہیں اپیل کرتا ہوں کہ اب جبکہ یہ آزادی کی تحریک آخری ادوار میں سے گذر رہی ہے اپنی سب طاقت اسکی کامیابی کے حصول کے لئے لگادیں اور ایسی تمام باتوں کو ترک کر دیں.جو اس مقصد کے حصول کے لئے روک ہو سکتی ہیں.20 جماعت احمدیہ کو جہاد کیلئے تیار رہنے کی ہدایت اگلے سال اپریل ۱۹۵۰ء میں مجلس شوری کا انعقاد ہوا تو حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایده از ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جماعت احمدیہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا.میں جماعت کے دوستوں پر یہ امر واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اگر تم اپنے ایمان کو سلامت لے جانا چاہتے ہو...تو تمہیں یہ امرا چھی طرح یاد رکھنا چاہئے کہ جن امور کو اسلام نے ایمان کا اہم ترین حصہ قرار دیا ہے ان میں سے ایک جہاد بھی ہے بلکہ یہاں تک فرمایا ہے کہ جو شخص جہاد کے موقعہ پر پیٹھ دکھاتا ہے وہ جہنمی ہو جاتا ہے اور جہاد میں کوئی شخص حصہ ہی کس طرح لے سکتا ہے جب تک وہ فوجی لنون کو سیکھنے کے لئے نہیں جاتا ہے".پھر فرمایا."اگر قرآن نے جو کچھ کہا وہ سچ ہے اور اگر احمدیت بھی کچی ہے تو لازماً اپنے ملک کی
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 714 ریک آزادی حمیرا د ر جماعت احمدیہ عزت کی حفاظت کے لئے اس وقت جو موقعہ پیدا ہوا ہے اس میں تمہیں حصہ لینا پڑے گا کیونکہ یہ تغیر اللہ تعالی نے اسلام کی ترقی کے لئے پیدا کیا ہے ہم نہیں جانتے کہ اسلام کی آئندہ ترقی کے لئے زیادہ قربانیاں ہم کو ہندوستان میں دینی ہونگی یا افریقہ میں لیکن فرض کرو کہ افریقہ میں پیش آتی ہیں تو وہاں کے احمدی ہمارا نمونہ دیکھیں گے.اگر ہم اس وقت اپنی جانوں کو قربان کرنے کے لئے آگے بڑھیں گے تو ہم ان سے کہہ سکیں گے کہ ہمارے ملک اور ہماری قوم پر جب حملہ ہوا تو ہم نے اس کی حفاظت کے لئے اپنی جانوں کو قربان کر دیا یہ نمونہ ہے جس سے وہ سبق سیکھیں گے اور اپنی جانوں کو قربان کرنے کے لئے آگے بڑھیں گے ".آزادی کشمیر کے لئے دعا کتاب "شیر کشمیر" کے مؤلف جناب کلیم اختر صاحب نے ۳.دسمبر ۱۹۵۵ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی سے ملاقات کی تو حضور نے فرمایا : میرا مسئلہ کشمیر سے گہرا تعلق ہے اور اس سانحہ کا زخم ابھی میرے دل پر قائم ہے میں ہر وقت کشمیریوں کی بے بسی پر خون کے آنسو روتا ہوں اور اللہ تعالٰی سے ان کی رستگاری کے لئے دعا گو ہوں.FA حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی نے مستقبل سے متعلق ایک آسمانی انکشاف مر دسمبر۱۹۵۶ء کو سالانہ جلسہ کے موقعہ ۲۸ به خدائی تصرف والقاء کے تحت ایک عظیم الشان آسمانی انکشاف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا.میں اپنی جماعت کو ایک تو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آج جب دعائیں ہوں گی تو کشمیر کے متعلق بھی دعائیں کریں.دوسرے میں ان کو یہ تسلی بھی دلانا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالٰی کے سامان نرالے ہوتے ہیں میں جب پارٹیشن کے بعد آیا تھا تو اس وقت بھی میں نے تقریروں میں اشارہ کیا تھا..اب نظر آرہا ہے کہ وہی باتیں جن کو میں نے ظاہر کیا تھا وہ پوری ہو رہی ہیں یعنی پاکستان کو جنوب اور مشرق کی طرف سے خطرہ ہے لیکن ایسے سامان پیدا ہو رہے ہیں کہ ہندوستان کو شمال اور مشرق کی طرف سے شدید خطرہ پیدا ہونے والا ہے اور وہ خطرہ ایسا ہو گا کہ باوجود طاقت اور قوت کے ہندوستان اس کا مقابلہ نہیں کر سکے گا.اور روس کی ہمدردی بھی اس سے جاتی رہے گی سو دعائیں کرو اور یہ نہ سمجھو کہ ہماری گورنمنٹ کمزور ہے یا ہم کمزور ہیں خدا کی انگلی اشارے کر رہی ہے اور میں اسے دیکھ رہا ہوں.اللہ تعالی ایسے سامان پیدا کرے گا کہ روس اور اس کے دوست ہندوستان سے الگ ہو جائیں گے...اور
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 715 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ اللہ تعالی ایسے سامان پیدا کرے گا کہ امریکہ یہ محسوس کرے گا کہ اگر میں نے جلدی قدم نہ اٹھایا تو میرے قدم نہ اٹھانے کی وجہ سے روس اور اس کے دوست بیچ میں گھس آئیں گے پس مایوس نہ ہوں اور خدا تعالیٰ پر توکل کرو.اللہ تعالٰی کچھ عرصہ کے اندر ایسے سامان پیدا کر دے گا آخر دیکھو یہودیوں نے تیرہ سو سال انتظار کیا اور پھر فلسطین میں آگئے مگر آپ لوگوں کو تیرہ سو سال انتظار نہیں کرنا پڑے گا ممکن ہے تیرہ بھی نہ کرنا پڑے ممکن ہے دس بھی نہ کرنا پڑے اور اللہ تعالٰی اپنی برکتوں کے نمونے تمہیں دکھائے گا ".اس آسمانی انکشاف کے بعد کس طرح تغیرات رونما ہوئے.اور احمدی نوجوانوں نے تحریک آزادی کو کامیابی کی منزل تک پہنچانے کے لئے کیا کیا خدمات انجام دیں ان پر مستقبل کا مورخ ہی روشنی ڈال سکے گا.آزادی کشمیر کے لئے دعاؤں کی تحریک خاص سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ۱۸ فروری ۱۹۵۷ء کو آزادی کشمیر کے لئے دعاؤں کی ایک خاص تحریک فرمائی جس کا تذکرہ حضور ہی کے مبارک و مقدس الفاظ میں کرنا ضروری ہے اور اسی پر تحریک آزادی کشمیر کے ساتویں دور کی تاریخ کا اختتام ہو تا ہے حضور نے ارشاد فرمایا :- "ہماری جماعت کے دوستوں کو دعائیں کرنی چاہئیں کہ کشمیر کے قریبا نصف کروڑ مسلمانوں کو اللہ تعالی اپنے منشاء کے مطابق فیصلہ کرنے اور اس پر کار بند رہنے کی توفیق دے اور ایسے سامان پیدا کرے کہ یہ لوگ جبری غلامی میں نہ رہیں.بلکہ اپنی مرضی سے جس ملک کے ساتھ چاہیں مل جائیں اور اگر کوئی تحریک اس بات میں روک بنتی ہو تو خداتعالی اسے کامیاب نہ کرے.پھر اللہ تعالے ہمارے اہل مملکت کو بھی ایسی سمجھ عطا فرمائے کہ وہ وقت پر ہوشیار ہو جا ئیں اور دیکھیں کہ کون شخص انہیں سیدھے رستہ سے ہٹا رہا ہے اور ہمیشہ وہ طریق اختیار کریں جو پاکستان کی عزت اور سرفرازی کا موجب ہو اور کشمیر کی عزت اور سرفرازی کا بھی موجب ہو....چونکہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اس لئے کشمیر بھی ہمیں بہت پیارا ہے پھر کشمیر ہمیں اس لئے بھی پیارا ہے کہ وہاں قریباً ۸۰ ہزار احمدی ہیں اور بعض ایسے علاقے ہیں جن کی رائے کے مطابق کشمیر یا ہندوستان میں جا سکتا ہے یا پاکستان میں جاسکتا ہے ان میں احمدیوں کی اکثریت ہے...پس ہمیں دعائیں کرتے رہنا چاہئے کہ اللہ تعالٰی ہمارے کشمیری بھائیوں کی مدد کرے.آخر کشمیر وہ ہے جس میں مسیح اول دفن ہیں اور مسیح ثانی کی بڑی بھاری جماعت اس میں موجود ہے....صبح اول نہ ہندو تھے اور نہ عیسائی تھے اور مسیح ثانی بھی نہ ہندو تھے نہ عیسائی تھے
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 716 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ بلکہ وہ محمد رسول اللہ ﷺ کے خادم تھے اور اسلام کی عزت ظاہر کرنے کے لئے اللہ تعالی نے انہیں مبعوث کیا تھا پس جس ملک میں دو مسیحوں کا دخل ہے وہ ملک بہر حال مسلمانوں کا ہے اور مسلمانوں کو ہی ملنا چاہئے اس لئے..ہمیں ہر وقت خدا تعالے سے دعائیں کرتے رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے مستقبل کے متعلق خود فیصلہ کرنے کی توفیق بخشے اور جس طرح کہتے ہیں جہاں کی مٹی تھی وہیں آگی".وہ جہاں کی مٹی ہیں وہیں آلگیں اور ان کے رستہ میں کوئی منصوبہ اور کوئی سازش روک نہ بے".سیدنا المصلح الموعود کا عہد اور دعائیہ کلمات چنانچہ حضور کے ارشاد مبارک کی تھیل میں پوری جماعت آج تک کشمیر کی آزادی کے لئے دعاؤں میں برابر مصروف ہے.اور سید نا المصلح الموعود کا رجود مقدس تو ہمیشہ فتح کشمیر اور واپسی قادیان کے لئے مجسم گریہ و زاری رہا ہے.جس کی ایک جھلک اس عہد صمیم اور ان دعائیہ کلمات سے بخوبی نمایاں ہوتی ہے.جو حضور انور نے صدر مملکت فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے نام اپنے ۶/ ستمبر ۱۹۶۵ء کے پیغام میں لکھوائے.چنانچہ حضور نے فرمایا.میں اپنی طرف سے اور جماعت احمدیہ کی طرف سے آپ کو دل و جان کے ساتھ مکمل تعاون اور مدد کا یقین دلاتا ہوں.اس نازک موقعہ پر ہم ہر مطلوبہ قربانی بجالانے کا عہد کرتے ہیں.میں اللہ تعالٰی سے دعا کرتا ہوں کہ وہ اپنے بے پایاں فضل کے نتیجہ میں اپنی خاص راہنمائی سے آپ کو نوازے اور ہم سب کو اپنے وطن عزیز کا دفاع کرنے کی طاقت و ہمت عطا فرمائے یہاں تک کہ اس کے فضل سے کلی طور پر فتح یاب ہوں اور ہمارے کشمیری بھائی آزادی سے ہمکنار ہوں.آمین " -
تاریخ احمد بیت - جلد ۵ 717 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ 叫 حواشی حصہ دوم (پانچواں باب) مکاتیب اقبال حصہ اول صفحہ ۳۹۶- (مکتوب ۱۲ اکتوبر ۱۹۳۳ء) شائع کرده شیخ محمد اشرف تاجر کتب کشمیری بازار لاہور.مجلس احرار اسلام کا رسالہ تبصرہ لاہور (اکتوبر ۱۹۶۵ء کی اشاعت میں لکھتا ہے.کشمیر کمیٹی کی بنیاد ۱ ۱۹۳ ء میں چند اعتدال پسند لوگوں نے رکھی تھی میاں سر محمد شفیع سر فضل حسین ، میاں امیر الدین اور شاعر مشرق ڈاکٹر سر محمد اقبال کے ساتھ قادیان کے خلیفہ بشیر الدین محمود بھی اس ادارہ میں شامل تھے اس کمیٹی کے انتخاب سے مرزا بشیر الدین محمود کو صدر اور عبدالرحیم درد (مرزائی) کو سیکرٹری منتخب کیا گیا.حضرت امیر شریعت (جناب سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری.ناقل ) ڈاکٹر اقبال کو مرشد اور ڈاکٹر اقبال حضرت شاہ صاحب کو پیر جی کہا کرتے تھے.کشمیر کمیٹی کے سلسلہ میں ان دونوں کے درمیان چودھری افضل حق کی معیت میں کئی ملاقاتیں ہوئیں.اور طے پایا کہ بشیر الدین محمود اور عبد الرحیم درد کو اگر ان کی موجودہ زمہ داری سے نہ ہٹایا گیا.تو کشمیر کے ۳۲ لاکھ مظلوم مسلمان کفر دار مداد کا شکار ہو جائیں گے انڈا بہتر ہے کہ تحریک آزادی کشمیر کی باگ ڈور مجلس احرار کے سپرد کر دی جائے.الفضل ۲۳/ مئی ۱۹۳۳ء صفحه ۲ الفضل ۱۳/ جولائی ۱۹۳۳ء صفحہ ۴.ه الفضل ۱۶/ جولائی ۱۹۳۳ء صفحہ ۲.الفضل ۱۳ جولائی ۱۹۳۳ء.اصل خط کشمیر کمیٹی کے ریکارڈ میں محفوظ ہے.- الفضل ۱۳/ اگست ۱۹۳۳ء صفحه ۱۰ کالم ۲ - الفضل ۱۳/ اگست ۱۹۳۳ء صفحه ۱۰ کالم ۳ الفضل ۱۳/ اگست ۱۹۳۳ء صفحه ۱۰ کالم - -1 الفضل ۲۷/ جون ۱۹۳۳ء صفحه ۲ الفضل ۱۷ اگست ۱۹۳۳ء صفحه ۲ کالم ۳ ۱۳ بحواله الفضل ۲۸/ مئی ۱۹۳۳ء صفحہ ۸ کالم ۳- الفضل ۲۵/ جون ۱۹۳۳ء صفحه ۱۲- ۱۵ بحواله الفضل قادیان مورخه ۲۹/ جون ۱۹۳۳ء صفحه ۱۴۱۰ انقلاب ۱۰ ستمبر ۱۹۳۳ء صلحہ سے بحوالہ الفضل ۱۹/ ستمبر ۱۹۳۳ء صلحه ۰۸۰۷ مکاتیب اقبال حصہ اول صفحه ۴۳۵ ۱۸ ذکر اقبال صفحه ۱۸۸) مولفہ عبد المجید صاحب سالک) 19 قریشی محمد اسد اللہ فاضل کا شمیری کے ایک غیر مطبوعہ مقالہ سے ماخوذ اسداللہ مقالہ سے انور ۲۰.سمو ہے اصل نام ہے نعیم الحق.۲۱ جناب قریشی محمد اسد اللہ صاحب فاضل مربی سلسلہ احمدیہ کے غیر مطبوعہ مقالہ سے ماخوذ ۲۲ انقلاب ۱۹/ ستمبر ۱۹۳۳ء د ریکارڈ کشمیر کمیٹی.شیخ محمد عبد اللہ صاحب کا محط - السلام علیکم.قبل بھی ایک عریضہ ارسال خدمت کر چکا ہوں اب پھر التماس ہے کہ میری رائے ناقص میں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ کام برابر جاری رکھا جائے اور جو کمیٹی پہلے بنی تھی وہ برابر کام کرے یہ مسلمانوں کی بد قسمتی ہے کہ اس کی ہر سیاسی جماعت کی خود غرضی باہمی اتفاق کو نقصان پہنچا کر ساری قوم کو نقصان پہنچانے کے لئے اور نیز اس انجمن کو
تاریخ احمدیت - جلد تا 718 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ ختم کر دینے کے لئے اسباب پیدا کر دیتی ہے.آل انڈیا کشمیر کمیٹی کو ضرور کام کرنا چاہئے.بابت انتخاب عہدیداران میری رائے میں مسٹر غلام رسول مہر کو سیکرٹری مقرر کیا جائے اور عہدہ صدارت کے لئے میں اپنی رائے مسٹر غلام رسول مہر کے حق میں دیتا ہوں جس کو وہ اپنی رائے دیں.میری رائے بھی اس کے ساتھ گئی جائے مجھ کو افسوس ہے کہ میرے مشاغل قطعی مانع ہیں کہ جلسہ میں شرکت کرسکوں".الفضل ۵/ اپریل ۱۹۳۳ء ۲۵ درمیانی اجلاسوں کی تاریخیں ۳۱/ مئی ۶۱۹۳۲-۷ / اکتوبر ۱۴۰۶۱۹۳۴/ اپریل ۲۹۰۶۱۹۳۵/ اپریل ۶۱۹۳۶-۲۵/ اپریل ۱۹۳۷ء- ایسوسی ایشن کے سب اجلاس لاہور میں ہوئے اور حضرت خلیفہ المسیح الثانی بھی گاہے بگا ہے ان اجلاسوں میں شمولیت فرماتے رہے.سید حبیب صاحب نے ایک موقعہ پر مولانا جلال الدین صاحب شمس کو جو اسٹنٹ سیکرٹری ایسوسی ایشن تھے بھی اپنا قائم مقام تجویز فرمایا.نیز عبد الرشید صاحب تبسم کو قائم مقام سیکرٹری کے فرائض انجام دینے کا موقعہ ملا.-۲۶ مثالی مفتی ضیاء الدین صاحب ضیاء مولوی احمد اللہ صاحب ہمدانی میر واعظ صدر الدین صاحب پونچھ.بینگ عبد اللہ صاحب سید مقبول صاحب بیہقی، مسٹر ایوب صاحب مولوی محمد سعید صاحب سید غلام محی الدین صاحب، مولوی غلام مصطفی صاحب الفضل ۱۴ جون ۱۹۳۴ء صفحہ ۹) اخبار اصلاح میں مولوی احمد اللہ صاحب ہمدانی کی نسبت لکھا ہے.۱۹۳۴ء میں جب نوجوانوں نے ایجی ٹیشن کی تو مولوی صاحب کفن پہن کر آگئے.اس پر حکومت نے آپ کو جلاوطن کر دیا سخت گرمیوں کے ایام میں آپ کو لاہور جانا پڑا.آپ کو سخت تکلیف ہوئی اس زمانہ میں حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ نے آپ کی ہر طرح مدد کی.(اصلاح ۲۷/ جنوری ۱۹۳۷ء صفحه ۶) ۲۷ اخبار اصلاح سرینگر ۱۸ / اپریل ۱۹۳۵ء صفحه ۵ الفضل ۱۴ / جون ۱۹۳۴ء صفحہ ۹ کالم ۳.۲۹ اصلاح سرینگر ۲۳/ مئی ۱۹۳۵ء صفحه ۲ ۳۰ اخبار اصلاح سرینگر / اکتوبر ۱۹۳۷ء صفحه ۴ کالم - اخبار اصلاح ۲۳/ نومبر ۱۹۳۴ء صفحه ۲-۳- ۳۲ اخبار کے پہلے پرچہ کا اداریہ بھی حضور ہی نے رقم فرمایا.۳۳- آخر ۱۹۳۵ء میں یہ ہفت روزہ بنا دیا گیا.اصلاح کے پہلے پرچہ میں یہ پیغامات شائع شدہ ہیں.۳۵- اخبار اصلاح ۱۶/ اگست ۱۹۳۴ء صفحه ۲ کالم ۱-۲- ۳۶ بحوالہ اخبار اصلاح سرینگر ۱۰/ ستمبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۷ کالم ۳- ن۳۷.نقل مطابق اصل ۳۸ بحوالہ اختبار اصلاح سرینگر ۱۰/ ستمبر ۱۹۳۴ء صفحه ۸ ۳۹ اخبار اصلاح سرینگر ۱۵/ اگست ۱۹۴۰ء صفحه ۵ کالم ۳ -۰ پید اداریہ جو مسلسل کئی اشاعتوں میں جاری رہا مندرجہ ذیل الفاظ سے شروع ہوا.کشمیر ایک خالص اسلامی علاقہ ہے.الخ.اداریہ کے آخری الفاظ یہ تھے ریاستی باشندے برطانوی ہند کے پہلو بہ پہلو رہتے ہیں ایسی حالت میں یہ ناممکن ہے کہ وہ برطانوی ہند کی تحریک حریت سے متاثر نہ ہوں.ایسی صورت میں حالات کا اقتضاء اور دانشمندی یہی ہے کہ ریاستی حکومتیں زیادہ سے زیادہ اختیارات عوام کے نمائندوں کے سپرد کریں اور کم از کم صوبجاتی خود مختاری کے پیمانہ پر اپنی اپنی ریاستی حکومتوں کو لے آئیں.-۴۲- یعنی مسلم کانفرنس جسے ۱۹۳۹ء میں نیشنل کانفرنس میں تبدیل کر دیا گیا.۴۳ ۲۱ اقساط میں شائع ہوا.۴۴ (۱) تبدیلی مذہب کی بناء پر ضبطی جائداد کے قانون کی تقسیمی (۲) گئو کشی کی سزا میں تخفیف (۳) ملازمتوں میں مسلم تناسب کے مطابق
تاریخ احمدیت.جلده 719 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ او ۴۵ اس اداریہ کا خلاصہ یہ تھا کہ جس طرح برطانوی ہند کے رہنے والے آزادی کا حق رکھتے ہیں.ریاستی باشندوں کو بھی وہی حق حاصل ہونا چاہئے.۴۶.مطالبہ پاکستان کی تائید میں.۴۷.بتایا ہے کہ ریاست کشمیر کی نسبت مسلمان یہ تخیل قبول نہیں کر سکتے کہ یہ ہند و ریاست ہے.-۴۸ اخبار اصلاح ۱۳ مارچ ۱۹۴۱ء صفحہ اکالم.۹ اخبار اصلاح ۱۵ / فروری ۱۹۴۵ء صفحہ ا کالم ۵۰ اخبار اصلاح سرینگر ۲ / اکتوبر ۱۹۳۴ء صفحه اکالم ۲- 2 ملاحظہ ہو تاریخ اقوام کشمیر جلد دوم صفحہ ۱۸۵ ۵۲- تاریخ اقوام کشمیر جلد ۲ صفحه ۲۸۵ ۵۴ ۵۳- مسلمانان ریاست جموں و کشمیر کے نام میرا ساتواں خط ( از سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایده الله تعالی صفحه ۳- ریاست کے وزراء نے یقین دلایا کہ اگر شیخ محمد عبد اللہ صاحب سول نافرمانی کی تحریک واپس لے لیں تو سیاسی قیدی آزاد کر دیے جائیں گے.مگر اس وعدہ کے باوجود ریاست نے ایفاء عہد نہ کیا تو اخبار اصلاح نے ۲۳/ اگست ۱۹۳۴ء کو حکومت سے دردمندانہ گزارش کی کہ سول نافرمانی کے قیدی رہا کر دیئے جائیں.(اصلاح ۲۳/ اگست ۱۹۳۴ء صفحہ ۳) ۵۵ اخبار اصلاح ۷ ستمبر ۱۹۳۴ء صفحہ سے کالم او صفحہ ۸ کالم ۳.۵۶ ۱۹۳۷ء میں میونسپل کمیٹی کے انتخابات ہوئے تو جماعت احمدیہ کشمیر نے مسلم کانفرنس کے نمائندوں کے حق میں ووٹ ڈالے اور خدا کے فضل سے اس بار بھی اس کے سب نمائندے منتخب ہو گئے.جن کے نام یہ ہیں احسن اللہ صاحب مینجر آرمی ایجنسی.غلام محمد صاحب ڈار مولوی محمد سعید صاحب مسعودی ایڈیٹر ہم رد- میر غلام حسین صاحب گیلانی - خواجہ عبد الاحد صاحب برزه- میر مقبول شاہ صاحب سجاده نشین قادریه - غلام رسول صاحب وڈیرا سید غلام مرتضی صاحب جلالی (اخبار اصلاح سرینگر / جنوری - ۱۹۳۷ء صفحہ ۲ کالم ۳۰۲.ایضا ۱۳ / جنوری ۱۹۳۷ء صفحه ۲) ۵۷- یعنی دو سو رو پید-مناقل ۵۸- اصلاح ۱۹/ مئی ۱۹۴۶ء صفحہ ہے.۵۹ محترم چوہدری صاحب ۱۵ / اپریل ۱۹۰۳ء کو میانوال ضلع جالندھر میں پیدا ہوئے آپ کے والد ماجد منشی احمد بخش صاحب ملازمت کے سلسلہ میں خانقاہ ڈوگراں (ضلع شیخو پورہ) میں چلے آئے تھے.اسی قصبہ میں مولوی صاحب نے آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کی.سالانہ جلسہ ۱۹۱۷ ء پر پہلی بار اپنے والدین کے ساتھ قادیان تشریف لائے اور تعلیم الاسلام ہائی سکول میں داخلہ لیا.۱۹۲۷ ء جے دی کا امتحان پاس کر کے مدرسہ احمدیہ قادیان میں انگلش نیچر مقرر کئے گئے اور تعلیم کے ساتھ سکاؤٹنگ کا کام بھی آپ کے سپرد ہوا.سالانہ ٹورنامنٹ کے موقعہ پر سکاؤٹ جو کھیلیں دکھاتے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ان کا ملاحظہ کرتے اور اظہار پسندیدگی فرماتے.مدرسہ احمدیہ کے سکاوٹوں نے آپ ہی کی نگرانی میں سالانہ جلسہ ۱۹۲۷ء کے پنڈال کی توسیع میں حصہ لیا.جس پر حضور نے خوشنودی کا اظہار فرمایا.۱۹۳۲ء سے ۱۹۳۴ء تک دہلی میں بطور ٹیچر کام کرتے رہے.۱۹۳۵ء میں ضلع سہارن پور میں محکمہ سکاؤٹنگ کے افسر رہے اپریل ۱۹۳۶ میں مدیر اصلاح مقرر کئے گئے ۱۹۴۷ء تک کامیابی سے یہ خدمت انجام دینے نیز الفضل کی مینجری کے فرائض ادا کرنے کے بعد قائد آباد سے متصل علاقہ تھل کے چک ۸ ایم پی ( تحصیل خوشاب ضلع سرگودها مستقل بود و باش اختیار کرلی.بالآخر ۸ / جولائی ۱۹۶۴ء کو آپ کا انتقال ہوا.(اصلاح ۲۹/ اگست ۱۹۴۰ء د الفضل ۱۸/ جولائی ۱۹۶۴ء) الفضل ۱۸/ جولائی ۱۹۶۴ء صفحہ ۵ کالم ۳ الله بعض دوروں میں خواجہ غلام نبی صاحب گلکار بھی مسفر رہے ( اخبار اصلاح سرینگر ۱۵ جون ۱۹۳۷ء صفحه ۲ کالم ۲).اخبار اصلاح ۲۷/ جولائی ۱۹۴۲ء صفحہ ۲.الفضل ۱۸/ جولائی ۱۹۶۴ء صفحہ ۵ کالم ۳ 1
تاریخ احمدیت جلد ۵ 720 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمد سید - اخبار اصلاح سرینگر ۱۳/ جون ۱۹۴۴ء صفحہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ چوہدری صاحب نے کشمیر پریس کانفرنس کے صدر کی حیثیت سے دوسرے صحافیوں کے ساتھ ۲۳/ مئی ۱۹۲۳ء کو ملاقات کی تھی.اس ملاقات میں قائد اعظم نے مسلمانوں کو بلا امتیاز فرقہ ایک پلیٹ فارم پر اور ایک جھنڈے تلے جمع ہونے کی تلقین فرمائی.۶۵ اخبار اصلاح ۱۳/ نومبر ۱۹۴۰ء صفحه ۱ ۲۲ اخبار اصلاح / مارچ ۱۹۴۱ء صفحہ ا کالم ۱-۲- اخبار اصلاح ۲ / جون ۱۹۴۴ء صفحه ۱ الفضل ۱۸؍ جولائی ۱۹۷۴ء صفحہ سے کالم.۱۹ بحواله اصلاح سرینگر ۱۵ / جون ۱۹۳۷ء صفحہ ۳ کالم ۳ ۷۰ زرپرستان کے علاقہ میں کشمیری پنڈتوں کی آبادی زیادہ تھی.ا اخبار اصلاح سرینگر ۲۹ / جون ۱۹۳۷ء صفحہ ۷۲ - اخبار اصلاح سرینگر ۱۳/ جولائی ۱۹۳۷ء صفحہ ۶ کالم ۳ ر اخبار اصلاح سرینگر ۳۹/ جون ۱۹۳۷ء.بی سر / او ۷۳- اختبار الفضل قادیان نے بھی احتجاج کیا تھا.۷۴- حضرت خلیفتہ البیع الثانی ایدہ اللہ تعالٰی نے ستمبر ۱۹۳۷ء میں مولوی عبد الرحیم صاحب نیر (سابق مبلغ انگلستان و افریقہ) کو سرینگر بھجوایا.حضرت نیر صاحب نے وہاں پہنچ کر کشمیر کے گورنر وزیر اعظم ،وزیر مال ، سیکرٹری سیاسیات سے مفصل ملاقاتیں کیں.اور ان پر مسئلہ گاؤ کشی کی حقیقت واضح کی اور جنگ میں سناتن دھرم ایسوسی ایشن کے پریذیڈنٹ و سیکرٹری اور ایڈیٹرمار تنڈ - ایڈیٹر ہم اردو غیرہ سے بھی ملے.۵- الفضل ۱۸/ جولائی ۱۹۷۴ء صفحہ ۵-۰۷ ۷۶ کشمکش صفحه ۲۱۴-۰۲۱۵ ۷۷ مکمل پمفلٹ ضمیمہ میں شامل کر دیا گیا ہے.۷۸ دیش سیوک ۲۰/ ستمبر ۶۱۹۳۸ یہ فیصلہ مسلم کانفرنس کے آخری اجلاسوں میں پتھر مسجد میں کیا گیا.یعنی مین اس جگہ جہاں سات سال قبل اس اسلامی ادارہ کی بنیاد رکھی گئی تھی.چوہدری حمید اللہ خاں صاحب، مولوی رفیع الدین صاحب اور غلام حیدر خان صاحب فوری اور عبد الستار صاحب پریزیڈنٹ انجمن شیر گوجراں سرینگر نے اس قرار داد کی مخالفت کی مگر بھاری اکثریت نے نیشنل کانفرنس کے حق میں فیصلہ رہا.۸۰ اخبار اصلاح ( سرینگر )۱۷/ جون ۱۹۳۹ء صفحه ۵ کالم ۰۲ ۱ اخبار اصلاح سرینگر // جون ۱۹۳۹ تا ۲۱ / جولائی ۶۱۹۳۹ ۰۸۲ اخبار اصلاح ۶ / فروری ۱۹۳۱ء صفحه ۳ کالم از بیان جناب چوہدری غلام عباس صاحب) ۰۸ اخبار مار تنڈے مئی ۱۹۳۹ ء بحوالہ اخبار اصلاح سرینگر ۲/ مئی ۱۹۴۰ء ۰۸۳ ملاحظہ ہو اخبار اصلاح سرینگر ۲۵ / دسمبر ۲۱۹۳۹ تا ۲۰/ جون ۱۹۴۰ء ۸۵ بحوالہ اخبار اصلاح ۲۶ / جون ۱۹۴۰ء صفحه ا کالم اخبار اصلاح ۱۰/ اکتوبر ۱۹۴۰ء صفحه اد ۱۳ ۸۷- اخبار اصلاح ۱۲۱ ستمبر ۱۹۴۴ء صفحه ۵ کالم ۰۲ ۰۸۸ وسط ۱۹۴۲ء میں مسٹر محمد علی جناح صاحب ( قائد اعظم) کشمیر میں قیام پذیر تھے ایسوسی ایشن کا ایک رند جو خواجہ غلام نبی صاحب گلکار اور خواجہ عبد الغفار صاحب ڈار مولوی فاضل مدیر اصلاح پر مشتمل تھا ۱۹ / مئی ۱۹۴۴ء کو آپ کی قیام گاہ پر ملا.اور سیاسیات کشمیر پر منفتگو کی.خواجہ غلام نبی صاحب گلکار کے بیان کے مطابق دوسرے روز چوہدری غلام عباس خان صاحب اور مسلم کانفرنس کے دوسرے کارکنوں نے بتایا کہ قائد اعظم آپ (یعنی خواجہ گلکار صاحب) کی بہت تعریف کرتے تھے اور ان کی نظر کشمیر
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 721 تحریک آزادی کشمیر ا د ر جماعت احمدیه کی لیڈر شپ کے لئے آپ پر لگی ہوئی ہے.۰۸۹ اصلاح ( سرینگر) ۱۳/ جون ۱۹۴۴ء صفحه ۱ اصلاح ۱۳/ جون ۱۹۴۴ء صفحہ ۶ کالم ۴ اختیار اصلاح سرینگر ۲۵/ جولائی ۱۹۴۴ء صفحہ اکالم ۲.۹۳ اخبار اصلاح ۶ / جولائی ۱۹۴۴ء صفحہ :- اصلاح ( سرینگر) ۲۳/مئی ۱۹۴۶ء صفحه ۴ ۹۴ اصلاح ۱۳۰ مئی ۱۹۴۹ء صفحه ۳- الفضل ۱۲۴ جون ۱۹۴۶ء صفحه ۲ کالم ۳-۴- ۹۶ اخبار اصلاح ۳۰ / مئی ۱۹۴۷ء صفحه ۳ کالم -۴ ۹۷- اخبار الفضل ۱۸ جولائی ۱۹۶۴ء صفحہ ۷ کالم ۲.-1+1 جناب عبد الوحید قاسمی صاحب اسلام آباد تحریر کرتے ہیں کہ ۴/اکتوبر ۱۹۴۷ء کو خواجہ غلام نبی گل کار آزاد کشمیر حکومت کے پہلے صدر بنے.(اخبار لولاک فیصل آباد ۱۵ / جنوری ۱۹۸۸ء صفحه ۱۳) یعنی مکمل احمد صاحب کو شرمدیر اخبار ہمارا کشمیر (مظفر آباد) ۱۰- اصلی نام مصلحت پوشیدہ رکھے گئے اور ان کی بجائے ان کے متبادل نام رکھے گئے تھے.تاکہ ان کو کام کرنے میں آسانی ہو.(مولف) خواجہ غلام محمد خان مرحوم المعروف عدم تشدد ۱۰۲ روزنامه همارا کشمیر مظفر آباد مورخه ۳/ اکتوبر ۱۹۵۳ء ( ایڈیٹر گل احمد خاں صاحب کوثر) ۱۰۳- میری یادداشت کا ایک ورق از منور کاشمیری خواجہ عبد الغفار صاحب ڈار - محررہ دسمبر ۱۹۹۳ء - -۱۰۴ بیان محرره ۱۸ اکتوبر ۱۹۷۳ ء ( قریشی محمد اسد اللہ صاحب فاضل کے ایک غیر مطبوعہ مقالہ سے ماخوذ) ۱۰۵ صفحه ۶۲۱ THIE KASHMIR OF SHEIKṆ MUHAMMED ABDULLAHI P.317 (BYC.BILQEES TASEER -|+1 ناشر فیروز سنز لاہور ۱۹۸۶ء.۱۰۷- دو قومیں اور کشمیر (مصنفہ لارڈ برڈوڈ) صفحہ الخص طبع اول ۱۹۵۶ء بحوالہ معمار آزادی کشمیر صفحه ۴۶-۴۷ از جناب قریشی محمد اسد اللہ صاحب فاضل کا شیری) ۱۰۸ الفضل اکتوبر۷ ۱۸۹۴) یہ اداریہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے قلم کالکھا ہوا ہے) ١٩ الفضل ۱۹ / اکتوبر ۱۹۴۷ء صفحه ۱-۲- 11 خان محمد رفیق صاحب مہاجر کشمیر مقیم سیالکوٹ اپنے کتابچہ سیاسیات کشمیر پر ایک نظر میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ جناب مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب اور میاں افتخار الدین صاحب محروٹ دلی شکریہ کے مستحق ہیں جنہوں نے حکومت کو کشمیری مہاجرین کی آباد کاری- ناقل) پر مائل و قائل کیا.صفحہ 4 پبلشرز ایم ایم شیخ اینڈ برادر زچوک پوریاں سیالکوٹ ممتاز برقی پریس شہر سیالکوٹ.-ur ا الفضل ۱۲/ نومبر۱۹۴۷ء صفحہ ۲ کالم ۳ ( یہ اداریہ حضور کے قلم سے لکھا ہوا ہے) اس انجمن کے عہدیدار اور مشہور نمبر حسب ذیل ہیں.خان محمد رفیق خان صاحب (صدر) خواجہ علی محمد صاحب بابا (نائب صدر) ڈاکٹر نیاز صاحب (جنرل سیکرٹری)، میر عبد المنان صاحب ایم اے ایل ایل بی (نائب سیکرٹری خواجہ عبد الغفار صاحب ڈار ) آفس سیکرٹری و سیکرٹری مال) خواجہ غلام نبی صاحب گلکار راجه زیر دست خان صاحب مرحوم محمد ایوب صاحب صابر مولوی عبد الرحیم صاحب چوہدری کریم بخش صاحب جنجوعہ غلام قادر صاحب سوپوری خواجہ منظور الحق صاحب ڈار، ڈاکٹر نظیر الاسلام صاحب شیخ عبد الحی صاحب ایڈووکیٹ مظفر آباد ، مفتی ضیاء الدین صاحب ضیاء قاضی حفیظ اللہ صاحب سالب خواجہ عبد العزیز صاحب ڈار، چوہدری اللہ رکھا صاحب چوہدری محمد اسمعیل صاحب ایڈووکیٹ، چوہدری احمد خان صاحب م الحوالہ ہندو سامراج اور کشمیر صفحہ ہے (مولفہ جناب گیانی عباد اللہ صاحب مینجر الفضل ربوہ.
ریت جلده -۵ اخبار رهنما راولپنڈی ۱۵ / اپریل ۱۹۴۸ء 722 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ احمدیہ پاکٹ بک صفحہ ۹۸۱-۱۹۸۲ مولفه ملک عبدالرحمن صاحب خادم گجراتی یه بار ششم مطبوعہ دسمبر ۱۹۵۲ء) جنگ بندی کے بعد ہندوستانی فوجی افسروں نے بین الاقوامی افسروں کے ساتھ مل کر خط متارکہ کی نشاندہی کے وقت میں دادی کے حصول کی کوشش کی.لیکن اس موقعہ پر بھی فرقان بٹالین کے افسران نے اپنی فرض شناسی کا ثبوت دیتے ہوئے دادی کے اگلے کناروں پر دشمن کی مقبوضہ پہاڑی کے دامن میں اپنی پوسٹ قائم کرلی اور اس پوسٹ کے آگے نشاندہی کے موقف پر قائم رہے اور اس طرح ہندو فوج کے افسران کی خواہش کو پورا نہ ہونے دیا.چنانچہ بین الاقوامی افسروں کو دو ہفتہ کے لئے یہ کام ملتوی رکھنا پڑا.آخر فرقان بالین ہی کو فتح ہوئی اور خطہ متارکہ کا نشان دادی کے آخری کنارہ سے ۵۰ اگر تک دشمن کے علاقہ میں لگایا گیا.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء صفحه ۱۲-۱۳ (شائع کردہ میاں محمد یوسف صاحب سیکرٹری مجلس مشاورت) یہاں ان مجاہدوں کا تذکرہ کرنا بھی ضروری ہے جو اپنے فرائض بجالاتے ہوئے حوادث کا شکار ہو کر عمر بھر ک لئے بیکار ہو گئے.() محمد اسمعیل صاحب ولد اللہ دتہ صاحب چک نمبر ۵۶۵ تحصیل جڑانوالہ ضلع لائلپور - (۲) محمد سلیمان صاحب گوالمنڈی لاہور - (۳) محمد خورشید صاحب ولد محمد دین صاحب گیانی (۴) محمد حسین صاحب ولد نور محمد صاحب چک شیر کا نمبر ۲۷۸ ج - ب ضلع لائلپور - (۵) بشیر احمد صاحب سندھی ۱۲۰ پاکستانی افواج کے افسران فرقان بٹالین کے سکیٹر کا مختلف اوقات میں معائنہ فرماتے رہے اور زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے جذبہ قربانی کو دیکھ کر نہایت اچھا اثر لیتے رہے صدر پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان صاحب ( جو اس وقت پاکستانی افواج کے ایڈ جو ٹینٹ جنرل تھے ) نے بھی اس بٹالین کا معائنہ فرمایا.یہ بات سید نا حضرت خلیفہ الثالث نے ۲۳ ۱ مارچ ۱۹۸۱ء کو ایک ملاقات کے دوران مولف کتاب ہذا کو خود بتلائی اور فر مایا کہ برگیڈیئر کے ایم شیخ کو فرقان کی عظیم الشان خدمات کا ذاتی طور پر علم تھا اور وہ اس کے غایت درجہ معترف اور متاثر تھے.۱۳۲- یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ حکومت پاکستان نے فرقان بٹالین کے ان ۹۱۷ مجاہدوں کو تمغات دفاع دیئے ہیں جو ۱۹۴۹ کی جنگ سے پیشتر کسی وقت ۴۵ روز تنگ اس بٹالین میں خدمات بجا لاتے رہے.۱۲۳ حضور ان دنوں کوئٹہ میں تشریف فرما تھے.الفضل ۲۳ جون ۱۹۵۰ء صفحه ۸ ۱۳۵ الفضل ۱۷ مئی ۱۹۴۹ء صفحه ۸ ۱۲.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء صفحہ ۱۴ ۱۲۷ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء صفحہ ۲۰- ۱۲۸- شیر کشمیر صفحه ۱۲۹ ١٣٩ الفضل ۱۵ مارچ ۱۹۵۷ء صفحه ۳-۴ -١٣٠ الفضل ۲۳/ فروری ۱۹۵۷ء صفحه ۳ کالم ۲-۴- - الفضل ۸/ ستمبر ۱۹۶۵ء صفحہ اکالم -
تاریخ احمدیت.جلد ۵ 723 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ مرزا صاحب نے آڑے وقت میں مسلمانوں کی صحیح راہنمائی فرمائی کتاب تاریخ احمدیت جلد پنجم کشمیر کی تحریک آزادی کا بہترین مرقع ہے (ہفت روزہ انصاف (۲۱- اپریل ۱۹۶۶) نے تاریخ احمدیت جلد ششم ( طبع اول) پر حسب ذیل تبصرہ کیا) "جماعت احمدیہ کے تیسرے سر براہ مرزا بشیر الدین محمود احمد جو پچھلے سال وفات پاگئے.مذہبی رہنما ہونے کے علاوہ عظیم سیاست دان بھی تھے.چنانچہ چوہدری غلام عباس خان سابق صدر جموں د کشمیر مسلم کانفرنس نے اپنی خود نوشتہ سوانح حیات کے ایک باب میں لکھا تھا کہ میں نے مذہب مولانا ابو الکلام آزاد سے سیکھا جن سے میرا سیاسی اختلاف ہے اور میں نے سیاست مرزا بشیر الدین محمود احمد سے سیکھی جن سے میراند ہی اختلاف ہے.تاریخ احمدیت جلد پنجم کے نام سے ظاہر ہے کہ یہ کتاب اس جماعت کی مذہبی سرگرمیوں کی تفصیل ہوگی لیکن اس کے اوراق الٹنے سے پتہ لگتا ہے کہ یہ مسلمانان غیر منقسم ہند اور پھر اسلامیان جموں و کشمیر کی تحریک آزادی کا بہترین مرقع ہے.مرزا صاحب نے آڑے وقت میں جب کہ بہت سے مسلمان لیڈروں کی آنکھیں کانگریس کے خوشنما بہروپ سے چکا چوند ہوتی تھیں.مسلمانان ہند کی صحیح رہنمائی اور ترجمانی کی.اور ان کو ہندوؤں کی نیت اور عزائم سے بروقت آگاہ کیا.اس کے بعد آپ نے تحریک آزادی کشمیر کی ۱۹۳۱ء سے قبل ہی داغ بیل ڈال دی.اس کتاب کا مطالعہ سیاسیات کشمیر کے ہر طالب علم کے لئے انتہائی ضروری ہے.اس کے مطالعہ سے بہت ہی دلچسپ اور اہم معلومات حاصل ہوتی ہیں.مثال کے طور پر ۱۹۳۵ء میں جب چوہدری عباس کو مسلم کانفرنس کا صدر بنایا گیا اور ان کا فقید المثال دریائی جلوس نکالا گیا تو مجلس استقبالیہ کے صدر خواجہ غلام نبی گلکار حال انور تھے اور رضا کاروں کی وردیاں قادیان سے بن کر آئی تھیں.۱۹۳۲ء میں شیر کشمیر شیخ محمد عبد اللہ نے گڑھی حبیب اللہ حال پاکستان میں مرزا صاحب موصوف سے ملاقات کرنی تھی تو شیخ صاحب کو یار لوگوں نے کار میں لٹا کر اور اوپر کپڑے ڈال کر ریاست کی حدود سے باہر سمگل کیا.کتاب میں علامہ اقبال مرحوم شیر کشمیر شیخ محمد عبد الله سردار گوہر رحمان عبد المجید قرشی اور چوہدری
جلده 724 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ غلام عباس وغیرہ زعماء کے بعض تاریخی اور علمی اہمیت کے خطوط بھی شامل ہیں.بعض تاریخی فوٹو گراف بھی دیئے گئے ہیں.غرضیکہ یہ کتاب کشمیر کی تحریک آزادی سے متعلق معلومات کا ایک بیش بہا خزینہ ہے اور ان معلومات کے بغیر کشمیر کی سیاسی تاریخ کا کوئی بھی طالب علم اپنے علم کو مکمل نہیں قرار دے سکتا.قیام پاکستان کے فورا بعد آزاد کشمیر حکومت کی ابتدائی تشکیل میں بھی مرزا صاحب کا ہاتھ تھا.جس کی تصدیق پروفیسر محمد اسحاق قریشی کے ایک بیان سے ہوتی ہے جو اس کتاب میں چھپا ہے.قریشی صاحب نے لکھا ہے کہ میں نے چوہدری حمید اللہ خان مرحوم سابق صدر مسلم کانفرنس کی معیت میں معاملات کشمیر کے بارے میں ۱۹۴۷ء میں مرحوم لیاقت علی خان سے ملاقاتیں کیں تو انہوں نے ہمیں مرزا صاحب سے ملنے کا مشورہ دیا.فرقان بٹالین جس نے ۴۸-۱۹۴۷ء کی جنگ آزادی میں جو نمایاں کارنامے سر انجام دئے ان کا بھی ذکر ہے اور اس کی توصیف میں اس وقت کے پاکستان آرمی کے کمانڈر انچیف جنرل گریسی کا ایک تو صیفی خط بھی شائع ہوا ہے." (بحوالہ الفضل ۳۰-اپریل ۱۹۷۶ء صفحہ ۵)
اشاریہ جلده مرتبہ:.ریاض محمود باجوہ شاہد اسماء:.مقامات :- صفحه 1 صفحه 21 کتابیات :.صفحہ 28
حضرت آدم علیہ السلام آر ای ہالینڈ آرتھر فردم پسر آرنلڈ ، پروفیسر آزاد سبحانی، مولوی آصفه مسعود و بیگم آغا خان ، سر ۲۹۵ ۲۱۵ 4 ۳۵۱ ۱۶۲ آفتاب احمد خان آکھ ، راجہ آهنگر مستر ۲۲۶۱۱۷ ،۸۲۸۰ ۴۲۲۲۵۰،۲۳۰ ۳۷۱ ۳۴۸ حضرت ابراہیم علیہ السلام ابراہیم رحمت اللہ ہر ابراہیم علی خان، نواب سنج پوره ۹۹۷ ،۱۹۲ ۳۳۷ 114 ۵۸۵۰۴۶۸،۴۵۴ ۴۱۵ ابراهیم مالا باری ، مولوی ۲۹۵ 1 اسماء ابوالمنیر نورالحق ، مولوی ابوالہاشم خاں ، چوہدری ابو بکر ایوب سماٹری ابوبکر بکنڈا ابو سعید احمدی ابو طاہر محمود احمد، حکیم ابو عامر اقبال احمد انصاری اجل سنگھ ، سردار اجمل خاں ، حکیم احمد اللہ ، مولوی.ناستور احسان اللہ خاں تاجور ۲۶ احمد شفیع ، مرزا ۱۹۰ | احمد علی سید ۲۵ ۲۴۲ احمد علی امرتسری ، مرزا ۳۱۳،۲۴۳ | احمد قریشی، شیخ ۱۹۴ احمد کشمیری ، ملا ۵۲ احمد نورالدین سماٹرکی ۳۱۲۸۲ احمد نور الدین ۲۳۰ ۲۲۳ احمد یار ، میاں احمد یار دولتانہ ۳۶۲ ادریس دا تو ساٹری ۲۶ 2 2 1 7 ۳۵۰ ۳۵ ۳۵۱ ۲۵ ۶۶۲۶۳۲۶۳۱ ۲۵۵،۲۵۴ ۱۶۴ ۳۵۱ ۴۲۳،۳۸۴ ادهم، بابا حاجی ۲۶۰،۲۵۹ ارادت حسین اور مینوی، سیدہ ۱۰۸،۲۳،۲۰ ،۱۹۴،۱۹۳۷ ٢٤٠٢٦٩٠٢١۳۲۰۵ احسن الله احسن شاه ، پیر ۱۹ء ارجمند خان ، مولوی ۶۴۷ ارون را برنس ، لارڈ احمد اللہ ، خواجہ سرینگر احمد اللہ ہمدانی، میر واعظ ۳۸۸، اسٹین ، مسٹر ۴۰۲،۴۰۱، اسد اللہ خان، چوہدری ابن سعود، سلطان ابوالاثر حفیظ جالندھری ابوالبشارت عبد الغفور ۱۳۹۳۵ ۲۵۱،۱۸۹ ۵۵۱۳۵۴۹،۵۴۰ ،۵۳۶،۴۳۸ ،۲۵۸ ۲۷۸،۶۴۷ ،۶۴۶۰۶۰۵ ،۵۹۶،۵۰۲ ۶۶۰۹۵۷ ،۶۴۳۵۸۷ L+A احمد الدین حکیم ۳۱۸،۲۴۴ احمد الدین گکھڑوی ابوالحسن قدسی، سید ۲۰، ۳۲۳،۱۰۸ احمد اندرابی ، سید ابو العطاء جالندھری ، مولانا ۲۰، ۳۴۲۷، احمد بھائی بیٹھ ۱۰۱ ۱۱،۱۰۹،۱۰۳، ۱۳۸ ، ۱۴۶،۱۳۵، احمد بخش منشی اسد اللہ سہارنپوری ۳۵۰ اسد اللہ کاشمیری خوابه HAI اسلم حیات، میجر اسماعیل آدم بیٹھ.ہمیں ۱۶۴ تا ۱۷۱،۱۶۷ ۱۸۰ ۲۴۶۳۲۴۳،۱۸۱، احمد حسین ، ملک نیروبی ۹۹ اسما ممبران آل اتلر یا کشمیر کمینی ۳۱۴۳۱۳۲۸۶، ۳۱۷، ۳۶۰،۳۱۸، احمد خان نسیم ابوالکلام آزاد، مولانا ۴۳۸ ۲۵ 101 4-A TARIAL احمد دین بی.اے پلیڈر ۳۲۲۳۷۰ اسماء ممبران آل انڈیا کشمیر ایسوی ایشن احمد شاہ ایم.اے هم ۴۹۹،۴۷۶،۴۵۴،۱۶۰۱۱۰۰۸۰
۸۵ 104 ۵۴۲۱۰ ۱۲۹۸ ۲۲۶۰۲۱۸ ۵۸۵ ۴۲،۳۷ ،۳۵ ۱۳۸ ۳۰۷ ١١٣ ۳۵ ۳۵ UGIAT ۲۶۰ ۲۱۵ ۴۲۴ ،۳۸۹ ۴۵۱ PIA TTA ۶۴ ۲۴۷ ۱۵۰ ۳۳۵ 중국 2 اعجاز احمد بنگالی ، سید اعجاز حسین ، بابو اعظم یار جنگ ، نواب افتخار الدین ممدوٹ ،میاں ۲۶ لستة الحفیظ بیگم نواب ۲۸۵،۴۲ | انوار حسین خان آف ہردوئی ۱۲۸۸۲ امتہ الحفیظ بیگم اہلیہ ڈاکٹر گو ہر الدین انور شاہ کاشمیری ۳۶۲ 11+ انورول، پروفیسر المتہ الحق بنت حافظ روشن علی صاحب اوصاف علی خاں، جنرل ۱۱۰ اے.اسی غزنوی.افضال احمد مولوی ' دا افضل حق ، چوہدری ۲۲ کلفته الحی حرم مصلح موعود ۹۷ ۱۵۷ تا ۱۵۹ ۴۰ ۲۴۳۲۰۱۷ ۴۸، ۵۰۱،۴۹۸، لمته الرشید بیگم ۷۱۷،۵۲۵،۵۰۲ امته السلام بیگم ۲۸۵،۱۶۳، ایچ سی کمار، پروفیسر ۳۲۱ ایچ ڈبلیو بی مانرو، ڈاکٹر ۲۵۸ ۲۹۹ ایس ایم عبد اللہ ، خاص اللہ العزیز بیگم ۳۲۱ ایس جین ۱۲۸ لمته القيوم بيگم ۳۲۱ ایس جے ہر دیال ناگ ۱۷۲ ایس کے بحثہ جارجی بھٹہ اقبال احمد ، چوہدری اکبر ڈار ، خواجہ اکبر علی مولوی اکبر علی وکیل، پیر ۱۴، ۴۹۹۸۸، لمتة النصیر بیگم ۶۵۵،۶۴۳ امجد علی، حاجی حکیم ۱۲۹، ۱۳۷ اے.کے غزنوی البرت هیما، پروفیسر ۳۳۳ ام داؤد صالحه بي ۹۷ ایگل لاج ، وائسرائے الطاف حسین حالی ۴۲۲۹۵ امداد علی شاه خواجه الف دین وکیل خواجه ۴۲۲ امر سنگھ الفشن ۳۲۹ ام رفیع ، سیده ۳۹۵ NNNNKALAPA ۴۳۱ ای گیٹ سر ایلین بیز گی ،سر اللہ بخش تسنیم، میر ۳۱۸ ۲۹۹،۲۷۳ ایلین ، کرنل آروی کے اللہ داد احمد کی، بابو ۳۱۸ امر ناتھ چوپڑہ، لالہ ۳۷۱۳۵ ایم.اے ، ڈاکٹر اللہ رکھا.جسو کے ۲۹۹ امیر احمد خان ، سردار A اللہ رکھا ساغر ۴۱۶ ، ۴۳۸ ۵۱۱،۴۴۳ | امیر الدین ، میاں ایمرسن مسٹر اے ایمرسی ، ایل.ایم ۶۸۲،۵۵۱۵۲۱ امیر حسین ، قاضی سید ۲۳۹،۱۰۷، ایم عبد الرحمان ۹۶ ۲۵۳ اینی مسٹر الہ دین ابراہیم، سیٹھ امام الدین ، مولوی ۲۵ امیر عالم ، ماسٹر کوٹلی ، ۴۴۱ ، ۲۸۵ | ابواب شاہ مردان امام الدین بنشی امام الدین قریشی ، ڈاکٹر ۳۱۹٬۸۸ | امیر مینائی ۴۳۸ انڈرسن ، مسٹر ۵۱ امام دین ، نواب ۳۹۴، ۳۹۵ اندر من بنشی امان اللہ خان ، امیر للہ الباری، صاحبزادی باید ۱۲۵ ۱۲۶ انصاری ، ڈاکٹر مختار احمد ۱۱۰،۸۰۶ بات کرتن ۹۷ است پرشاد، بابو ١١٢٠٣٦ یا سودیو
۳۷۳۵ ۳۵۱ ۵۰۷ ۲۵۹ ۲۲۳ 3 چین چندر پال، بایو ۳۵ ۳۷ بشیر احمد ۲۲۱ | بہاری لال انند، لاله بخت نصر ۳۳۶ | بشیر احمد سندھی ۷۰۹ بهاء الدین گنج بخش شیخ بدرالدین، حافظ ۳۲۴ بشیر احمد گجراتی بدر الدین کیسپین ۶۸۷ بشیر احمد امیر و مبلغ کلکتہ بدہن رانجھن لا ہری ۳۵ بشیر احمد میاں.لاہور هر جور د ولال سر ۷۰۹ بهشت بي بي صاحبه بیکانیر مسٹر ۵۳ بھگت رام لاله ۲۵۴۵۰۵۴۱ بشیر احمد ایڈووکیٹ ، شیخ ۳۴، ۲۷۸، بھوپال سنگھ ایم.اے ۶۳۶۰۵۸۷۰۵۴۷ ۴۳۷، ۵۳۷۲۵۳۵،۵۰۵،۴۳۸، بھو پندرناتھ متر ۴۲۸،۱۰۸.پر ڈوڈ ، لارڈ برکات احمد برکت اللہ ایم.اے برکت علی.شہید برکت علی ، چوہدری برکت علی خاں.شملہ ۶۸۹ 2+4 ، ۶۴۶۰۶۴۰۶۰۵ ۵۵۴ ۵۴۹،۵۴۳ ۲۶۱۶۵۸،۶۵۷ ۳۶۵ بشیر احمد ایم.اے ، صاحبزادہ مرزا پارس واس ، لاله ۱۲۹،۴۴،۲۵ ۹۲۸۹۸۷،۵۰،۴۹،۱۸،۱۱،۸، ۱۰۹، پرتاب سنگه - ۳۵۶، ۳۵۷، ۳۶۱، ۳۶۹ برکت علی خاں ، چوہدری.گڑ شنکر اسیح الثانی ۴۳۶ بشیر الدین، حافظ مولوی برکت علی لائق ۱۸۹،۱۱۰، بشیر علی شیخ جہلم برلس برنیئر ، ڈاکٹر بکسر ، کرنل ۵۳۴۴۳۳۳۳۳۳۳۳۲۰ پردھان ، مسٹر ۷۰۴ پر مانند، بھائی برکت علی ، ملک ۴۳۲ ۶۴۳ ، بشیر احمد ریاض شهید ۶۵۸۰۶۵۴۶۵۰،۶۴۴ | بشیر الدین محمود احمد ، صاحبزادہ مرزا خلیفہ پریم ناتھ بزاز ، پنڈت ۲۷۴ بشیر محمود وانی ، ڈاکٹر ۲۲۴ ۳۵۲،۳۳۷ ۲۷ پورن کرن ، راجه ۴۸ پولوس MAZ ۶۹۳۲ ۱۸۹ پی.ایچی دیدیگے پیٹرس جیروس ۵۲۶ | پیرین ، آنریل ٢٩٩٠٢٧٦٠٢٧ ۲۲۱۴،۱۸۹،۱۴۰،۱۳۸ 郭 ۱۳۹ ۲۹۵۰۳۷۷ ،۳۷ ۶۴ ۳۳۰،۱۴۸ صفحه ۱ تا آخر پطرس ۳۶۵ م MA ۳۵۳،۳۵۲ یروس منسٹر ۳۴۷ بگو امتیا ۳۴۳ پی سی رائے ، ہر بروکن ھیڈ مسٹر ۶۴ بیگم شاه نواز ۲۴۶ پی کے سین برہم ، حکیم گورکھپور ۱۹۲۱۱۰ بلال شاه پڑو، مسٹر ۵۳۴۵۳۰ بلد یو سجائے ، بابو ۳۴۹ پیل مسٹر ۳۵ لی مین ، راؤ بها در وی ۴۲۳۵ ۳۵ ۱۰۵،۵۹۶ ۳۵۲ بڑودہ ہسٹر ۵۰۷ بلکاک ، پنڈت بشارت، مسٹر ۷۸۶ لیکی مستر ۵۳۳۵۳۰ ppy بشارت احمد امروہی بدر امائیکا ۲۹۸ تاج الدین شیخ بشارت احمد بشیر ۲۷ بنکا چندرسین، بابو ۳۵۰ تاج الدین تارج
اج محمد خان تار استگی، سردار جسونت سنگھ ۱۴۸ جنگد مبا پر شاد لکھنوی نصدق احمد خاں شروانی ۶۵ ،۱۱۶ ۱۳۰ | جگن ناتھ ،لالہ تقی الدین ، ڈاکٹر خلیفہ ۱۲۴ جلال الدین - پلوامہ ۱۱۲ جهانگیر، بادشاه ۱۰۱ جهم بن سامه شامی ۱۳۸ جیا کار ، مسٹر تمیز الدین، مولوی ۷۵ جلال الدین، مفتی رنج بها در سیر و سر ۴۷۶۰۲۳۳ جلال الدین ، طلا تھا مس والکر آرنلڈ اسر ۲۳۴ | جلال الدین ، میاں تھوما.حواری ۳۶۵ ۴۴۰ جیالال و انچه ۵۷۰،۵۰۱ جے اندر، راجہ ۵۸۶ جی ایس کھپا رڈے، سر ۳۵۱ جی ایم صادق ۳۷۰ بجے سنگھ، راجہ جلال الدین شمس ۱۰۰، ۱۳۵، جیفری ڈی مانٹ مورنسی ، سر ۱۳۶۲۰۳۴۰۳۱٤٠٣١٣٠٣١٠٠١٤ بے کار ۶۶۱،۶۴۳،۶۲۶،۴۳۹۹،۴۳۶،۴۳۵ ، جیگر مسٹر نکه فتح جنگ ، سردار ā اه ۷۱۸،۶۷۰ جیمز آر.انز ، سر ٹمپل وڈ ، لارڈ ۲۵۰ جلال الدین قمر ۲۷ جیمز واکر سر نوس، بریگیڈیئر جنرل ۵۳ جمال احمد ، حافظ جیون بٹ امرتسری ، میاں ملیر، ڈبلیوکوک ۳۲۹ جمال الدین سید ۳۵۰ جیون محل ہسٹر ٹھا کر دت شرما، پنڈت ۱۳۸ جمال الدین، کیپٹن ث جمال الدین - گاگرن جمال الدین طلائی ،سید تب میرزاخانی بنواب ۱۷۲ جمال جانسن.سالٹ پاٹھ ثناء اللہ امرتسری ۱۰۳ جمشید، سلطان ۵۰۲٬۲۳۵،۱۵۹،۱۴۳۱۳۱۱۱۰ جمشید، کمپونڈر ۲۸۷ ۴۲۳ ٣٥٠ Fr ماریس و الثمن ۳۵۰ حموات الله مین ملیح ۱۹۱ چرائح الدین ، مولوی ج جان باز ولی سید جان کر ہمر جان کر ہسٹر جارج فارسٹر جارڈین ، ایل ڈبلیو جمشید علی خاں، حکیم ۴۸ چراغ حسن حسرت جنگ سنگھ، کرنل ۳۵۱ جواہر لال نہرو PIY ا جو شو عالم ڈرو ۳۳۷ جوشی ، مسٹر ۳۷۷ چراغ دین مولوی ۱۵۸،۱۵۶ چراغ دین ،میاں.لاہور ۳۵۲،۱۹۲ ،۴۲۳، ۱۹۸ چراغ دین ولد صدر الدین ۳۳۲ چراغ علی حکیم ۶۴ چراغ علی مولوی ۵۲۸تا۵۳۰، جوگندر سنگی، سردار ۱۳۸ | چرچل ، سر ونسٹن ۶۲۹،۶۲۵، ۶۳۶ جوند سنگھ ، سردار چر بھی لال پر یم، مہماشہ ۳۵۲ ۳۴۹ ۶۴ ۴۳۸ ۲۲۳ }} # = > ۲۳۹ ē ; e t ۲۱۰۱۸۲ AY Pro ۲۲۹۰۱۵۲ 1+F
امم ۲۵۸ 112.Ar ۵۸ ۳۳۵ ۲۵۸ ۵۰۲ ۱۱۰۳۵ 5 چونی لال چھا گلہ ہسٹر چھوٹو رام، رائے حبیب سید ،۵۰۰،۴۹۷ ،۴۸۰ ، ۴۷۳،۴۶۸۴۶۰ ۵۸۵،۴۲۸ ۵۳۴۵۳۳ 11.A+ ، حسین میرسید حسین احمد مدنی ح - خ حسین سمنائی ، میر د ڈ ذر.ز ۳۵۱ دانشمند خاں منشی 14+ و او د احمد ، مرزا ۳۵۰ داؤد صالح بھائی ۳۵، ۱۳۸، ۱۶،۳۶۲،۲۳۹ حسین شاہ جلالی ، آغا سید ۴۰۲،۳۸۳ ، داؤد احمد غزنوی، مولوی ،۶۵۱،۶۵۰،۵۸۵۰۵۴۳ ۴۷۴۴۳۳ ۶۵۹ ۶۶۱۲، ۷۱۸ حسین شاہ ذیلدار حبیب الرحمان خان شروانی حبیب الرحمن کپور تطوی ملعی }} • ۱۷۱۶۶۹۶۳۴۵۰۲ در بهور دهن ۳۷۷ درد، خواچه مهر حسین تی رضوی ، سید ۳۵۱ دل محمد ایم.اے، خواجہ حشمت اللہ خاں ، ڈاکٹر ۱۳۹،۱۲۰، دلیپ سنگھ ، سر ۲۴۹،۱۷۱،۱۶۹،۱۴۲، ۴۲۸ ، ۴۳۷ دنی چند ، لاله ۶۶۰ ، حق نواز ، میاں حبیب الرحمان لدھیانوی اد ۷۰۲ دولت احمد خان دھرم بھکشو، پنڈت ۳۱۰ دھیان سنگھ، مہاراجہ ۷۲۰ دیا کرن ، راجہ ۴۲۴ | حمید اللہ خان ، نواب مولوی ۳۷۱ دیانند، پنڈت ۱۵۸ ۱۵۹ | حمید احمد کلیم، میجر حبیب اللہ.بچہ سقہ ۱۲۵ ۱۲۶ حمید اللہ ، شیخ حبیب اللہ ، خواجہ ۲۱۲ حمید اللہ خان، چوہدری حبیب اللہ میر حبیب اللہ امرتسری ، حافظ حیات خان ، سردار حبیب اللہ خاں ، پر وفیسر حبیب الله لون مولوی ۴۲۲ خان میر افغان حسام الدین، شیخ حسام الدین کشمیری سید حسرت موہانی حسن ، امام دین محمد منشی ٢٣٣١٠٢١٠١ ۳۹۵ ۲۷۱ ۳۲۱ ۳۶۲۲۷۸ ۵۰۲ ، و حیدر، آغا.سیالکوٹ دین محمد ایڈووکیٹ ، شیخ ۲۵۷ ۱۵۸ خلیق الرماں ، چوہدری ۶۵، ۱۱۷ دیوان چمن لال ۶۵۷،۶۵۵ خلیل احمد مونگیری حکیم ۴۳۲۰۱۱۷ خلیل الرحمان ، مولوی ۱۲۹۸۲ ڈارلنگ ، لارڈ ۳۱۰ ڈبلیو.پی بارشن ، مسٹر ۳۴۴ خلیل الرحمن آف پنجیری ۴۲۳ ۴۴۱ ڈگلس گریسی ، جنرل کے ٢١٥ 6*0*6+M ذاکر حسین خاں ، ڈاکٹر 6.4 ۲۹۱ ذکاء اللہ خاں، چوہدری جہلم ۲۱۱۰۱۷۲۱۵۵،۱۳۸ ذوالفقار علی خاں ، مولانا ۲۲۵،۱۱۷ ذوالفقار علی خاں ، نواب سر ۴۶۸۰۳۵۴۴۵۳۴۱۶۰۴۱۵ ۲۷ ۳۷۷ **** لد ليه ليه حسن میرسید ۳۵۱ خلیل الرحمان خان پشاوری حسن دین ڈار، شیخ ۳۶۷ | خورشید انور، میجر حسن شاه خواجه ۳۷۷ خورشید احمد شاد حسن نظامی دہلوی ، خواجه ۳۵ ،۱۱۰، ۱۲۹، خوشی محمد، چوہدری ۱۳۶، ۱۳۸، ۲۴۷، ۳۹۶،۲۷۵ ، ۴۰۱، خیر، مولوی ۴۱۸۲۴۱۳، ۴۲۸ ۴۵۴۴۵۳،۴۳۲، خیر دین مولوی.نارووال
م ذوالقدر جنگ ، نواب ذینی دہلان.سماٹرا را برنس، اے اے لین رابرٹ گریور راجپال راج محمد، چوہدری راجہ، مسٹر ۳۵ رشید نیاز ۱۶۴،۲۵ رضا علی سید ۵۱۷ رضیه صاحبه ۳۳۲ رفیع احمد ، مرزا ۱۷۰،۱۵۳،۱۳۱، ۵۴۶ رفیع الدین، مولوی ۴۴۱ رفیع احمد میاں رکن الدین سید رام چند.پولیس افسر ۵۳۳۵۲۸، رمضان، علی مولوی رام چندر جی ، راجہ رام چند رو بلوی ۵۳۴ ۳۳۲ ۳۱۷،۱۶۵ رموزی ، ملا 140 لا 116 • ۱۴۳۳۸۳۴۳۳۴۳۱،۳۵۸،۲۵۶۰۲۴ ۵۲۷،۵۲۳۵۱۵،۵۱۲،۵۰۸ ،۴۹۸ ،۲۰۵،۵۹۶،۵۳،۵۳۳۲۵۳۱،۵۲۸ ، ۱۳۹،۶۳۷ ،۱۳۲۶۳۱۱۲۸۰۶۲۴ ۲۸ ۵۳ ۳۵۰ سیش ۲۶ سالسبری مسٹر ۱۳۸ رنبیر سنگھ، مہاراجہ ۳۵۶، ۱۳۵۷ | سائمن سرجان رام چند میچند ه لاله ۲۹۹،۱۳۸ | رنجیت سنگھ، مہاراجہ ۵۳۸ روشن دین، بابو ۵۳۴۵۲۹ ۳۹۵ روشن دین ، مولوی ۶۳۶ روشن علی ، حافظ ۳۶۲ ۳۶۹، سبط حسن بشمس العلماء ۳۹۴ سبھاش چندر بوس ۱۱۴۹، ۱۷۱، ست دیو، پنڈت ۱۷۵ ستیہ پال ، ڈاکٹر ۲۶ سمتی دیواید مشک سٹیفن گراہم ۳۴ ، ۱۴۳۱۰۷ تا ۱۷۲۱۶۱،۱۴۵، سدر لینڈ ۵۲۸۰۵۲۷ ۵۴۴۵۳۳ برام رتن پولیس افسر برام رتن، وزیر پونچھ رام سنگھ رام ناتھ شرما رجب دین خلیفه احمد شمیل ۳۶۰،۳۵۹ سٹڈ نہم ، لارڈ رحمت اللہ مسٹر ۲۸۷ رو میش چند روت ، بابو ۳۳۰ سجاد حسین بی.اے، خواجہ رحمت اللہ شاکر شیخ ۱۰۹ رئیس احمد جعفری ۷۹۷۷ نخی جنگ شهید رحمت علی مولوی رحیم بخش بی.اے، خواجہ ۲۴۱ ۳۱۳۲۴۳ ریاض خیر آبادی ۳۷۰ ریڈنگ ، لارڈ رحیم بخش شیخ ۴۵۳۳۱۶ ۴۵۴۰، ریڈی مسٹر ۵۸۵ ۶۴۲ ۶۴۳، ۶۵۹ ریچن ، راجه ۶۸۵ زین الدین، بابا سراج الحسن سراج لکھنوی ۱۳۸ سراج الحق نعمانی، پیر ۹۸۷ سراج الدین احمد خاں سائل ، نواب ۳۴۹ سراج دین مولوی ۳۵۱ سردار احمد ، مولوی ۹ زین العابدین، سلطان ۳۵ سردار شاه، سید ۱۱۴ زین العابدین ولی اللہ شاہ سید ۱۸ سردار محمد مولوی سرداری لعل ، لاله ۲۶ ۳۲۳ ۳۷ سراج الدین ، میاں رحیم داد، چوہدری رشید احمد، مرزا رشید احمد قریشی.میر ٹھ رشید احمد چغتائی ۳۵ ۶۴ ۱۶۵ ۱۹۲ ١٠٢ ۳۴۷ ۹۵،۳۵ com FIF ۱۶۶ 209
سرفراز خان نمبر دار ۶۴۹ سید احمد خان ، سر سعد الدین شال ، خواجه ۴۰۲۳۷۷، سیف الرحمان ، صاحبزاده سعد الله شهداد خواجه سکندر سلطان سکندرحیات خان ، سر سیکھے دیئے سكينة النساء بیگم ۵۹۰۵۰۲ سیف اللہ شاہ ، مولوی ۷۱ سیموئل ہور، سر ۳۵۱،۳۵۰ مین مسٹر ۲۴۹،۷، شمارب، مسٹر ۶۵۵،۵۲۵،۴۳۷ | شاستری ۵۲۹ شالبا ہن، راجہ 11⭑ سلطان احمد ، مرزا ۹۳۹۲۳، شانتی سروپ، پنڈت ۱۱۷، ۲۳۷ ۲۹۲۲۸۶،۲۳۹ | شاہ جہاں بی بی سلطان احمد ذیلدار، چوہدری سلطان محمود، مولوی سلیط بن عبد الله A ۲۴۴ ۳۴۹ شاہ محمد شاہ میر شاہنواز ، میاں سلیم اللہ خان نواب ۴۲۲۳۶۲ شبلی نعمانی ، علامه سلیم اللہ، صوبیدار میجر ۴۲۲ شفیق احمد ، حافظ شمس الحسن ،سید 1+6 ۵۴۲ شمس الدین، بابو 6+9 ۲۵۸ ۲۲۸ شمس الدین ، حاجی امیر ۳۷۰،۳۶۷ ۱۹۲ ۳۷۵ شمس الدین ، حاجی امیر ۲۲۳ شمس الدین ابن مفتی ضیاء الدین ۳۴۴۲۳۴۴، شمس الدین اندرابی ، علامہ سید ۳۳۵ ، ۳۶۵ شمس الدین عراقی ، میر ۲۴۳ شنکر داس، پنڈت ۲۶۱ شنکرن نائر سر ، ۸۶ شورش کاشمیری ۳۴۹ ،۳۵۰ شوکت علی خاں ، مولانا ۵۳ ۳۵۰ ۶۶۱ ۳۵۱ ۲۹۸ ง ፀረ ۰۸۳۷۷ ۴۵۸،۳۱۱،۲۴۰،۲۰۹ ۵۲ ۴۲۲۲۶۱ شہاب الدین سر چوہدری ۲۴۷ شجاع الدین خلیفہ ۵۰۳،۱۲۴ شہاب الدین ، سلطان ۳۵۰ حضرت سلیمان علیہ السلام ۳۳۶ شرف الدین ۱۱۷،۸۲ شہاب الدین بنشی سلیمان ، ڈاکٹر.سیلیون ۲۹۷ شریف احمد ، صاحبزادہ مرزا ۸،۷، شهامت خان سلیمان، شیخ ۳۵۰ سلیمان پھلواری شاه ۳۵ ،۲۴۶،۲۴۰۱۹۳۶۱۷۲۹۵۰۹۲۰۳۳ ۷۷۳۷۲۲۵۷ شیر احمد خان، جمعدار 20171 ۷۰۹۲۵۸ شیر علی ، مولانا ۱۰۹٬۹۲ ۱۴۳ ۲۱۴۱۴۴، سلیم بیگ، مرزا ۲۴۲ شریف احمد امینی سمیع پال وکیل ۶۶۱ | شریف حسین.شریف مکہ ۲۶ ۱۲۶ شیر محمد ، بابا.ہنگہ سنت سنگھ TAI سند رسین ، راجہ ٣٣١ سندھی متی سید یو، راجہ سی.آرداس شعیب قریشی ،مسٹر ۱۱۵،۶۴، شیر محمد ، کپتان ۴۳۴ شیر محمد ، میاں.نکہ بان ۳۴۳، ۳۴۵ | شفاعت احمد ، ڈاکٹر ۱۱۷،۸۲،۵۱، شیر ولی کیپٹن ۳۳۲ 111 شفیع احمد دہلوی ، ڈاکٹر سید احمد ، مولوی فاضل ۲۵۷ شفیع داودی ، مولوی ۵۸۵،۴۳۲۲۳۰۲۲ cll.Ar صیض صاحبدین میر پوری ۵۸۵ ۱۷۵ ۷۱۲ ۱۱ ،۷۰۸،۲۵۸ ۶۴۹ ۵۸۵،۴۵۸،۴۳۲۰۲۵۱ I+A سید احمد.فزیکل انسٹریکٹر
.صادق حسن امرتسری ، شیخ ام طالب مهدی خان ، میجر نواب ۴۷ عبد الاحد برزو، خواجه صادق علی شاہ سید ۶۶۱ ظفر الاسلام مولوی صالح محمد صوفی.قصور ۱۱۴۶۲۶۰ ظفر علی، سر مرزا صالح محمد سندھی ، چوہدری ۷۰۹ ظفر علی خاں ، مولانا صبح صادق شاه سید صبغت اللہ.فرنگی محل صبیحہ بیگم امیہ مرزا انور احمد صدر الدین ۶۶۱ ۳۵ ۶۰ ۵۸۱ عبدالاحمد کشمیری، مولوی ۱۰۴۶۷۰۶، عبد الجبار رشی مگر ۱۷: ۱۳۷ ۵۰۰،۴۳۳۱۷۴۱۷۱۰۱۶۰، عبد الجبار ، مولوی تا سنور ۲۸۳ عبد الحفیظ ، نواب.ڈھاکہ ۲۴۰ ظفر محمد ظفر، مولوی ۲۴،۲۰ ۲۴۷، عبد الحق ، پادری عبد الحق ، ڈاکٹر 4+MA ۴۲۳ 000 ۳۱۸,۱۰۱ ۶۴۳۴۹۹ صدر الدین خواجه ۳۷۱، ۴۴۱، ظل الرحمان بنگالی ۳۴، ۱۶۷، عبد الحق ایڈووکیٹ ، مرزا ۰ ۰۱۱۳۳۴ ۲۰۲ صدر الدین مخدوم.ملتان ۳۵ کل حسین خان بہادر صدرالدین ، مولوی ۱۱۰،۲۶، ۴۲۴ | ظہور احمد، چوہدری صدر یار جنگ ، نواب صفدر علی.جموں صفی لکھنوی صلاح الدین احمد صلاح الدین ایم.اے ملک صلاح الدین پیشاوری، قاضی ضمیر حسن خاں دل ، حکیم مولوی ضیاء الدین ، ڈاکٹر ضیاء الدین ضیاء ملتی ۳۵ ٣٨٩ ۱۳۸ ۳۱۸،۳۱۰ ۲۷۴ عبد الحق ، مولوی.بابائے اردو ۱۴۹،۱۱۳۲، عبد الحلیم ۴۱۶,۳۸۰,۳۷۶، ۴۱۷، ۴۲۸، ۴۳۵، عبد الحلیم، خلیفه ۴۳۶، ۳۸۸ ۳۹۶ ،۴۹۹، ۵۰۵، ۶۲۹ ، عبد الحکیم جان - نیروبی ۶۳۸ | عبد الحمید مولوی ۳۱۹ ظہور الحسن، مولوی ۴۳۵ ، ۵۲۷ | عبد الحمید، میجر ۵۵۴۵۲۸ | عبد الحمید، میجر ۱۷۲،۲۵،۲۰ ظہور حسین مجاہد بخارا ۲۰ ۱۰۲، عبد الحمید ایڈوکیٹ ، شیخ ۱۴۰ ۱۳۸ ۰۲۱۸،۱ PYMPIA.P\4\{\\\ ۱۸۹۱۲۲ F 44 1+4 ۵۰۳۳۹۱ ۶۵۹،۶۵۶۰۰ ۶۵۵۰۶۳۱۰۵۰۷ عبدالحمید امرتسری ، قاضی ع - غ ۴۳۲، عاشق حسین بٹالوی ۲۳۰، ۳۴۸ | عبد الحمید شملونی ، بابو ۴۰۱،۳۰۰، عالم ، ڈاکٹر ۵۶۲۰۵۳۲۵۲۰،۲۷۴۰۴۷۳/۲۳۸، عائشہ بنت مفتی ضیاء الدین طفظ ، طاہر احمد، مرزا.خلیفة المسیح الرابع طاہر سہروردی، مخدوم خواجه 42 ۳۵۱ ་།། ۱۳۰ عبد الحمید ظفر، مولوی عبد الحنان ہزاروی عائشہ صدیقہ ۲۳۱،۱۰ عبدالئی حکیم - سرینگر.عباداللہ امرتسری ، ڈاکٹر ۲۳۹ عبد الحئی عارف ، ڈاکٹر عباس احمد، چوہدری ۴۸۸ | عبد الخالق ، مولوی عبد الاحد خان افغان ۳۱۰،۲۵۷ | عبد الرحمن، حکیم ۶۴۵ عبدالرحمان ، غازی ۵۴۹۳۵۴۷ ۳۳۲ || ۴۷۳ ۳۱۰ I E
۷۰۹،۲۵۸ ۳۸۳۹ HMY 1+1.9A.FA ۶۶۴ 177.۳۹۹ Ar ۲۴۸ 9 1+6 ۳۱۷ عبدالستار سرینگر عبد الرحیم ایڈووکیٹ ، مولوی ۴۰۳، عبد السلام ، چوہدری ۴۰۵ ۴۲۳۰، ۴۳۸، ۴۴۰، ۶۲۹ تا ۶۳۲ | عبدالسلام، میر.سیالکوٹ عبد الرحیم درانی ۴۲۳،۳۷۴ عبد الرحیم درد ۱۳۹،۱۰۸،۱۰۰،۹۲،۱۸ ۴۲۳ ۶۸۶ | عبد السلام شملوی حافظ ۱۳) عبد السلام کا ھنگوی ، چوہدری ۳۸۶،۳۲۰، ۴۱۹ ، ۴۲۸، ۴۳۶۴۴۳۴، عبد السلام عمر ، میاں عبد الرحمن، کیپٹن ڈاکٹر قاضی عبد الرحمان، مستری عبد الرحمان ، مولوی.عبد الرحمان مولوی.احمد وره عبد الرحمان ، میاں.جمون عبد الرحمان، میر عبد الرحمان انور بوتالوی ۳۰۹،۱۸۲٬۲۵ ۳۴۶، ۴۳۴۸، ۴۶۲،۴۵۵ ، ۴۸۳،۴۶۷، عبد ا سمیع پال ، خواجه ۱۸۵۰۱۱۴ عبد الرحمان جٹ عبد الرحمان خادم، ملک سلام ۵۲۳،۵۱۲،۵۰۷۳۵۰۵،۴۹۱۲۴۸۸، عبد الشکور لکھنوی ۵۲۶ ، ۵۳۴٬۵۳۰،۵۲۷، ۵۸۵٬۵۳۷، عبد العزیز حکیم ۶۱۶ ۱۲۴۰ ، ۱۲۸ ،۶۲۹ ۱۳۲۰ ۱۳۸۰ ،۷۰۰ عبد العزیز ، خان بہادر ڈاکٹر ۱۷۲،۱۹۶۱۶۵،۱۲۲۱۱۴۱۰۳۳۱۰۱ ۷۱۷،۷۰ عبد العزیز ، میر عبد الرحمان ڈار ، خواجہ ۲۴۳، ۶۸۵،۳۶۰،۲۳۵ عبد الرحیم دہلوی ، ڈاکٹر ۱۳۷۹،۳۷۸ عبدالرحیم سود اگر.سندھ ۳۱۹ عبد العزیز پیشاوری عبد العزیز ڈار ، مولوی ۴۲۲،۳۸۶ ۴۴۳ ۴۴۱، ۶۸۳۰۶۷۱ عبد الرحیم شاہ ، مولوی ۳۱۸،۱۲۵ عبد الرحمان شاہد سیلیونی ۲۹۶ عبد الرحیم شاہ سید.پھگلہ ۳۱۵ تا ۳۱۷ عبد العزیز ملتانی عبد الرحمان شهید ولد ولی محمد ۷۰۴ عبدالرحیم خان عادل عبد الرحمان فرید کوئی ۲۴۵ عبد الرحیم عارف ۲۵ عبد الغفار خان عبد الغفار ڈار عبد الرحمان مبشر عبد الرحمان مصری، شیخ عبد الرحمان قادیانی ، بھائی ۸۵، ۹۸، عبدالرحیم قادیانی بھائی ۴۳۵ ، ۴۴۰ عبد الرحیم نیر ۲۶ ، 1+4 ۹۶،۳۴۱۰، ۱۶۲۹۹، عبد الغفور، شیخ ۳۱۰۱۷۱، ۷۲۰،۳۵۹ عبد الغفور صو بیدار ## ۲۵۸ ۲۰۱۸ عبد الرزاق.رشی نگر ۳۷۳ عبد الغفور جالندھری ۲۰۲۵ ۲۷۲،۱۸۹ عبد الرزاق، خواجه ۴۷۳ عبد الغفور شاہ ، سید عبد الرحمان ہارڈمی ۲۵۱ عبد الرزاق شهید ولد علی محمد ۷۰۴ عبد الغنی.پلواما الهام بهم عبد الرحیم، خلیفہ ۳۸۱،۳۸۰، عبدالرشید، شیخ ۱۸۲ عبد الغنی ، خواجہ.بانڈی پورہ ۶۷۴،۴۴۱ عبد الرحیم ، سر عبد الرشید بیلی ، میر عبد الرحیم، شیخ ۴۴۰ ۴۳۴۱ ۴۴۴ عبد الرشید ، مرز امیاں ۶۸۷ عبد الغنی ، قاضی ۳۱۰ - عبدالرشید تبسم اسٹمنٹ ایڈیٹر اخبار عبد القادر سر شیخ ۳۵۱ عبد الغنی بنگرد ۳۸۷ ۱۲۴۴۲۳۷ عبد الرحیم ، مولوی ۲۴۴، ۲۳۴۵، "سیاست" ۲۵۹،۲۲۰،۲۰۳:۲۵
10 عبد القادر، مولانا شیخ ۶۲،۳۹،۲۵ ، عبدالله بریلوی مسٹر ۱۹۹،۱۳، عبد اللہ خال ، چوہدری عبد القادر ایم.اے، پروفیسر کلکتہ عبد اللہ سکاٹ ۳۵، ۳۶، ۱۲۷ | عبد الله مالا باری عبد القادر، پروفیسرسید ۳۳۲،۱۵۵ ۶۴۲۵۰۲ ۱۴۳ عبد اللہ مہار، میجر عبد القادر بی.اے، پنڈت ۴۸ عبد الله وکیل ، مولوی عبد القادر دہلوی ، مولوی ٣١٩ عبد القادر ڈار ، خواجہ ۴۲۲ ۱۱۷ عبد المنان عمر مولوی ۲۲۱،۲۰۰ عبد الواحد ۲۷۷ عبد الواحد، چوہدری ۲۹۵،۱۷۲ 144 عبد الواحد، حکیم ۷۰۲ عبد الواحد، شیخ مولوی = ،۲۶۸ ٣١٠ ۲۵ ۴۰۲۳۸۸، عبد الواحد ، مولوی ناسنور ۴۲۳:۳۰۶۰۴۰۳ تا ۴۲۵، ۳۴۰،۳۳۸ ۳۱۰،۲۵ ۴۴۰۳۶۰ ۲۷۹،۶۰۲،۵۴۳، ۹۷۱ | عبد الواحد، مولوی (غیر احمدی) عبد القدوس مخدومی - سرینگر ۵۳۲۴۴۰ عبداللہ ہارون، حاجی ۱۱۷،۸، عبد الواحد ساری عبد القدوس ہاشمی ندوی رسید ۴۳۳۰۲۱۸ : ۴۵۸ عبد الوحید قاسمی ۲ عبد القدیر، مولوی ۷۰۹ عبد المساجد بھا بگوری ۲۸ عبد الوہاب، میجر 2-A عبد القدیر خاں امروہی ۴۲۶،۲۰۶،۴۰۵، ۴۹۹،۴۲۷ | عبد الماجد دریابادی عبد القدیر نیاز ، صوفی هم ۱۰۰۰۵ عبد المالک، مولوی ۴۰۳٫۴۰۲، عبد الماجد بدایونی ۱۱۷،۸۲ عبید الله سبل ، مولانا حکیم ◉ ۱۸ تحقیق اللہ مفتی.پونچھ ۷۰۹ تحقیق الله شهید اندرابی ۵۲۰٬۵۰۸٬۵۰۵،۴۳۸ ،۴۳۵ عبدالمالک خاں ،مولوی عبد القیوم، صاحبزادہ سر ، عبدالستین ، چوہدری.ڈھاکہ ۴۳۲ ۴۳۴ ۶۳۶ عبد المجيد ۲۶ عثمان گنائی ، بابا عزیز احمد مرزا ۲۹۲ عزیز احمد ملک.راولپنڈی ۵۵۴،۳۵۰ ۳۵۱ عبد الکریم، مولوی عبدالکریم ، مولوی حلالپوری عبد الکریم سیالکوٹی ۳۱۸ | عبدالمجید سالک ۱۱۷۸۲۶، عزیز احمد باجوہ ایڈووکیٹ 16 ۰۵۰۳۵۰۸ ۲۵۸ ١٣٣١٠ ،۴۳۳۲۴۷ ۲۴۶ ،۲۱۳۱۷۰۱۵۵ ۶۴۹:۵۵۴۵۴۷ ،۵۳۶۰۵۳۳،۵۲۹ عبد اللطیف، صاحبزادہ ثوبی ۶۵۵،۶۴۳۰۴۶۲۰۴۳۴ | عزیز الله سید ۳۶۲۱۷۲ عبدالمجید قرشی ۱۵۵٬۳۵، ۴۳۸، عصمت اللہ، مولوی ۱۶ عبد المجید خاں لدھیانوی، صاحبزاده ۹۶ عبد اللطیف احمدی، سید ۱۶۵ عبد المغنی خاں ، مولوی ۳۵۰ ۲۴۵ ۶۶۴۶۴۶۰۶۴۵ عصمت اللہ وکیل، چوہدری عبد اللطیف پریمی ٧٠٩ عبد اللہ ، مولوی.چونڈہ ۳۲۴ عبدالمنان ، خلیفه ۰۰:۴۳۳۲۷۲ MAZ ،۵۳۵،۵۰۸،۵۰۵،۴۸۸،۳۸۵ ،۳ ۲۴۲،۵۳۸ ۲۵ ،۲۰ عطاء الرحمان طالب عبد اللہ، مولوی نارووال ۲۴۴ عبد المنان دہلوی ، صوبیدار ۷۰۸،۲۵۸، عطاء اللہ امرتسری ۳۲۴ عبد اللہ الہ دین سیٹھ ۱۸۲۹۶۰۱۵ ۰۹ عطاء اللہ، کیپٹن.بنگہ 60"
۴۳۸ TYA ۱۲۸ ۴۲۲ لان ۲۷ ۱۰۵ ۳۸۷ ١٨٩ ۴۴ A 120 # 5 9 ۱۲۰ 7 ۴۵۸ ۴۲۲ MAY ۳۵۶ YAY ۳۸۹ ،۴۹۸ ،۴۴۱ 11 عطاء اللہ خان، راجہ.پاڑی پورہ ۴۲۲ علی میاں شاہجہانپوری، حافظ سید ۲۳۹ غلام احمد کلو، شیخ عطاء اللہ خاں، مرزا.۶۸۱ عمر ابن الخطاب عطاء اللہ شاہ بخاری ،سید ۱۵۸،۲۶، عمر بخش شیخ ۲۸۳۱۶۰، ۷۱۷ عمر بن عبد العزیز عطاء محمد شیخ ۳۷۱ عمر حیات ٹوانہ، نواب سر عطاء محمد ، مولوی عمر دین، بابو ۵۱۷ | غلام احمد لون ناسنور غلام احمد میر ۳۳۹ غلام احمد واعظ ۳۵ غلام احمد ہمدانی احمد 19 غلام الثقلین، خواجه عطر سنگی، سردار ۳۹۸ | عمر دین ، ڈاکٹر ۹۹ غلام السیدین خواجہ علم الدین ، غازی علم الدین سالک، پروفیسر ١٥٣،١٥٢١٣١ ۳۲ عنایت الله ۷۰۹ غلام باری سیف عنایت اللہ خاں ۱۲۶ غلام بھیک میر على نواب علی آشر لکھنوی علی احمد جان علمی ہمدانی رسید ۶۵۶،۴۴۳، ۶۵۷ عنایت اللہ خلیل مولوی ۲۶ غلام حسن ولد حبیب اللہ ۳۵۰ عنایت علی شاه ، سید ۳۱۹ غلام حسین، چوہدری ۳۰۷ حضرت عیسی علیہ السلام ۳۲۰۰۹ غلام حسین، چوہدری کرنال ۲۱۳،۱۳۸ ۳۶۴۴۳۸، ۳۶۵ غلام حسین ایاز ، مولوی ۱۳۶ غضنفر علی خان ، راجہ ۱۳۹ ۲۰۸، غلام حسین سفید پوش علی امام سر ۱۱۵،۸۰،۶۴ ۶۸۵ غلام حسین کلو، میر علی بخاری ، میر ۳۵۱ غلام احمد، پیر ۳۸۹ غلام حسین گیلانی، میر علی ریشم خانہ حکیم ۳۸۹ غلام احمد اختر ۱۷۲ غلام حسین لاہوری علی شاه خواجه ۳۸۹| غلام احمد بد و ملهوی ۳۴،۲۰ ،۶۰ ، غلام حسین لدھیانوی علی شاہ ، سید - رنگون ۳۱۰،۲۴۳،۱۷۱،۱۹۹،۱۹۵،۱۰۱ غلام حیدر، آغا علی شاہ سلطان ۳۵۱ غلام احمد خان ایڈووکیٹ ۱۰۲ غلام حیدر، راجہ - یاری پورہ علی محمد ، پیر علی محمد خواجه ۶۸۴ و غلام حیدر جنڈ الوی ۶۶۹ ۶۷۱ غلام احمد عشائی ۴۰۲٬۳۸۹، غلام حیدر چشتی علی محمد اجمیری ، مولوی ۴۲۵ ۵۹۰،۵۸۸،۵۱۵،۵۱۲،۵۰۳ ، غلام حیدر خان غوری علی محمد الحاج سیٹھ ۱۶،۱۵ غلام احمد فرخ ۶۳۴۶۳۱ | غلام دین وانی، خواجه ۲۶ غلام رسول ، پیر علی محمد بی.اے.بی ٹی ۱۱۲,۲۰ غلام احمد قادیانی حضرت مرزا مسیح موعود غلام رسول، خواجه غلام رسول را جنیکی ،۳۲۴،۳۰۹،۲۵۶۰۲۴۴۳۲۴۳۱۷۲،۱۳۸ ،٢١،٢٣٦،١٦۲،۱۴۳،۱۰۹ ،۹۵،۹۴:۴۵ A*26 ۲۸۷ ،۲۸۳۲۸۳ ۲۰۰ ۴۸۲،۴۲۱ غلام احمد کشفی علی محمد خان ، سر علی محمد ، ملک راجہ علی نقوی صفی لکھنوی ، سید
،۶۸۲۶۷۲۷۱۶۴۵۶۴۰۹۳۳ ۲۴۰ ۲۷۲ +11 I+A ۳۲۲ YAI ،،، 12 ۳۶۰ غلام محمد بانڈے غلام رسول شوق ، ملک ۱۹۰،۱۸۹ غلام محمد بی.اے غلام رسول شیخ غلام رسول محدث ۴۲۳ غلام محمد خادم - جموں الم ۲۴۴ غلام محمد، خواجہ سرینگر MARCER غلام رسول مهر ۱۱۷ ۴۳۲،۲۵۱، غلام محمد ڈار ۷۱۸،۶۵۹۴۶۱۴۳۳ غلام محمد صادق 619 ۷۱۹،۴۲۳ فاروق احمد ، مرزا ف ۶۶۴۴۹۶ فاضل بھائی ، سیٹھ.سکندر آباد ۶۶۹ ۷۷۱ فاطمه بیگم ۳۸۹ فتح محمد ، حافظ ٢٠ فتح محمد شیخ غلام رسول وڈیرا غلام صادق خان بهادر شیخ ۳۷۱ غلام محمد گلکار، خواجہ غلام عباس ، چوہدری ۳۶۰،۳۵۹، غلام محمد وکیل ۴۱۰،۳۹۱،۳۸۹، ۴۲۴، ۴۲۷، ۴۳۸، غلام محی الدین خواجه ۳۶۷، ۴۲۸، فتح محمد جالندھری ،۵۱۵،۵۱۲،۵۰۸ ،۵۰۳،۴۹۹ ، ۳۶۳ ،۶۴۵،۶۳۴۶۳۱،۶۲۷،۵۸۸۰۵۲۱ ۲۶۸ فتح محمد خان سردار ۵۰۲ فتح محمد سیال، چوہدری غلام محی الدین ، ڈاکٹر صوفی ۳۳۷،۳۲۹ ۷۲۰۶۷۹۶۶ غلام کی الدین ، مولوی ،۳۲۰،۲۵۶،۱۱۲۹۸ ،۵۶۰۴۳ ،۳۳۳۲ ۵۲۵،۴۵۷ ،۴۳۵۰۴۱۳ ۰۵۲۹،۴۳۸ ٣٥٠ ۴۹۶،۳۳۸ غلام علی، حکیم.سرینگر ۴۷۳ غلام کی الدین شاہ نمایام علی شاہ ، مولوی ۱۶۵ غلام محی الدین قره غلام علی واسطی بلگرامی ۲۹۵ غلام محی الدین قصوری غلام فرید ایم.اے ملک ۷۳ ۷۴ غلام مرتضی جلالی، سید ۱۲۵ فتح محمد کریلوی کوٹلی واء ۱۰۰ ۱۰۹، ۱۷، ۴۳۳۴۱۷ غلام مرتضی صاحب ، مرزا قادیان ۳۹۴ فخر الدین سید غلام قادر ، خواجه ۴۹۶،۴۳۸، غلام مرشد ، مولوی ۵۱۵ غلام سیح، پادری ۵۰۲ فرانس بینگ ہر بینڈ سر ۱۳۸ فرزند علی خاں ، خان غلام قادر، شیخ.جموں ۴۳۸، ۴۷۱ غلام مصطفی بیرسٹر، مولوی ۵۳۵،۵۰۸۰ All.0+9 غلام محمد بخشی : ۵۳۲۴۹۶ ۵۳۳، ۶۴۵ غلام نبی ، خواجه غلام محمد - ترال ۴۷۳ ۲۵۹،۶۴۳ ۵۶۸۴۶۲۴۶۱۰۴۳۷۰۲۵۱۰۲۴۱ فرید الدین قادری ، شاه ۹۸، ۱۰۹، فریڈرک ، مسٹر.جرمن سیاح غلام محمد ، حافظ صوفی ۱۲۰،۹۸، غلام نبی، خواجہ - شال مرچنٹ سرینگر غلام محمد ، کپتان.دوالمیال ۲۹۵:۱۲۸ A ۱۳۰، ۴۱۳۰۳۶۲۰۱۷۱ فشر - آرای میجر فضل ابراہیم رحمت الله ضل احمد ، چوہدری غلام نبی رفیقی - سرینگر ۴۴۰، ۶۷۸ فضل احمد صدیقی ایم.اے فضل ۳۵۱ ۸۰ ۳۵۳ 117 ZA.۴۲۳ غلام نبی گلکار ، خواجه ۴۲۲ ۳۸۸،۳۷۱، فضل الرحمان ، حافظ ۴۱۰،۳۸۹، ۴۱۱ ۴۲۴ تا ۴۲۸ ، ۶۰۲،۴۴۰، فضل الرحمان، حکیم ، غلام محمد میر کاگرن تعلام مجھے.ناستور
16170y +1 Σ ۳۱۹،۲۵۸ مسم ۱۰۳۱۰۲ 194 13 فضل الرحمان فهیم فضل الہی مولوی فضل الدین پلیڈر، مولوی فضل حسین سر میاں فضل حسین، مولوی حکیم سید ۲۳۱۱۷۹ ۴۳۵۰ | فیروز محی الدین قریشی ۱۳ فیض احمد ، میاں ۱۰۷ فیض احمد فیض ۱۶۳۹۸ ۲۲۸۲۲۶ ۶۵۵،۴۵۱،۴۱۶،۴۱۵، ۷۱۷ قاسم الدین ، بابو ۲۰۳ قاسم علی بیر ق فضل حسین ، ملک ۹۹،۴۳، ۱۱۱ قاسم علی رامپوری بنشی ۱۱۲، ۴۳۳،۴۲۲،۲۴۶،۲۴۵، ۴۹۹ ۵۱۰، قدرت اللہ، مرزا.لاہور ۷۰۸ کرتار سنگھ، مہتہ ۱۸۸ کرشن پرشاد، سر کرم الہی امرتسری ، ڈاکٹر کرم داده سردار ۱۹ کرم داده مولوی.دوالمیال ۱۸۵،۱۰۲۹۲،۳۴ کرم دین تھیں، مولوی if + کریم بخش، شیخ.کوئٹہ ۸۶ کریم بخش ، میاں کریمر ، پادری ڈاکٹر ☑ فضل محمد ہر سیاں والے، میاں ۳۱۹ قمر الدین، مولوی فقیر اللہ ، ڈپٹی قمر الدین دکل فقیر اللہ، ماسٹر ک مرگ فقیر سالک ہمدانی قدرت اللہ ، حافظ مولوی ۱۵۴ فضل حق شیخ بھیرہ ۵۸۵ قدرت اللہ سفوری منشی ۱۱۴ کریو ، لارڈ ۲۱۵ فضل على بابو ۲۴۷ قطب الدین، سلطان ۳۵۰ کشیب رشی فضل علی لکھنوی ، مولوی.۲۴۳ قطب الدین شرق ، مولوی فضل کریم.احمدی وکیل ۴۹۹،۷۳ قطب العالم Ei کنایت اله ، مولانا ۱۱۲۸۲۴۰ PIA ۴۰۱:۴۰ HMY لک، جنرل کلمن ، پنڈت کلیم اختر اه ۳۴۵ کمال الدین خواجه ،۱۴۲،۱۰۵ فقیر علی باہو Fot.Aub کارتالیس مسٹر or فقیر محمد کورٹ انسپکو کالون مسٹر ۵۳۰۵۱۳،۵۲۷،۵۳۳، کمال الدین اندر کالی سید ۳۵۰ فقیر محمد بھٹی.ٹاسنور ۴۲۲ «Y+O¥¥•f?8¢1.6PD.orm.om فقیر محمد خاں ، کیپٹن کٹھ ، مسٹر کنیک Fre فیروز ، سیر ۳۵۰ کالی چون چندت ١٠٣١٠٢ء ? ۱۹۵ فیروز الدین، چوہدری جہلم ۵۴۶ کے.ایم شیخ، بریگیڈیئر ۲۲ ۲۱۴ فیروز الدین میاں ۶۴۳۳۷۱ کبیر مولانا فیروز الدین امرتسری ۷۰۸ کبیر علی ہمدانی فیروز الدین ایڈووکیٹ ، خواجہ ۳۷۱ کیلو ڈاکٹر سیف الدین ۱۱۰۸۰ ۱۱۶ کے بییست ترکی راؤ 116 کز روی ۲۴۷ کرتار سنگھ، گیانی ۴۴ گھرکے منگی سردار فیروز خان نون ، ملک فیروز شاه
14 گاندھی جی ، مہاتما لاجیت رائے ، لالہ ۲۱۰،۱۹۱۰۱۵۶، ۲۵۲،۲۴۸ ،۲۸۳،۲۷۰، لال دین قیصر، ملک تم ۳۸۳:۲۸ ،۵۵۹ | لال شاه مولوی سید ۹۹ چمن نرائن سهتا منشی گراہم ، ڈاکٹر گرائرائیم اے گردھاری لال لاله ۳۵ للنادت ، راجہ گریگری ہی.آر گریم پوور سر ۳۶۴ للت موہن، بابو گستاؤلی بان ، ڈاکٹر ۳۳۷، ۳۲۹ لیاقت علی خاں، نوابزاده نگو، لارڈ ۱۰۴۷ محسن شاہ ایڈووکیٹ ،سید ۱۵۵ ۱۶۵ ۳۳۲ الله ،۱۳۸،۵۸۵۵۰۲۰۴۵۸،۴۳۲۰۴۱ irrum ۲۱۳،۱۳۸ حضرت محمد ۳۳۲ ۳۵ حضرت محمد ۳۲۳۲۹ ،۱۳۸،۱۳۵،۱۳۳۱۱۰،۸۳،۳۸۲۳۶ ۹۷۸۰۵۷۷۳۴۳۲۴۱ ۴۹۲،۴۹۱ ۲۲۹ محمد، با بو شیخ محمد ، حاجی محمد ، حافظ.میر پور گلاب سنگھ، مہاراجہ ۳۵۶،۳۵۵، لیٹر مسٹر گل احمد خان کوثر ۳۹۵،۳۶۹ ۶۸۷۲۶۸۵ محمد ، مولوی.مزنگ لاہور م محمد ابراہیم مولوی گلزار احمد ۷۰۹ مادھوکول، پنڈت ۵۳۷ محمد ابراہیم اندرابی اسید گلزار احمد فدا مانٹیگو، مسٹر وزیر هند ۳۵۰ ۴۳۸ 160.11 : ۳۵۰ گلینسی مسٹر ۴۹۳۴۴۹۱،۴۳۷، ۵۰۵، ماوس گواتر به سر ۱۵۵ محمد ابراہیم بقا پوری ۲۳۹ محمد ابراہیم بی.اے ، ماسٹر ۵۱۵۰۵۱۳۵۰۸،۵۰۶ ۵۶۳۵۲۴، مبارک احمد ، حافظ ۲۰، ۱۰۸، ۳۱۷ محمد ابراہیم خان ، سردار گنگا نا تھے اسر ۵۸۸،۵۷۶ ۶۲۲ ،۶۲۶ | مبارک احمد، شیخ Ar گوپانند ، راجه ۳۴۷، ۳۳۸ مبارک احمد ، مرزا ۳۴۳ گوتم بدھ گور بخش سنگی سردار ۶۹۸ مبارک احمد ، ملک گوکل چند گوہر رحمان، سردار سیدہ ،۴۳۸ ،۲۵ ۴۹۸ محمد ابراہیم سیالکوٹی میر ۳۲۱،۲۶، محمد ابراہیم قادیانی ۷۰۶،۷۰۰ محمد احسان ، ڈاکٹر محمد احسن ، مولوی ۲۷ ۴۲۳ محمد احمد ثاقب ٣٠٩ IAM 1477189 ۴۳۲ ۲۴ ۲۰۰ ۱۶۵ ۶۵۵ مبارک احمد ڈار ۳۹۱۷۳۸۹، مبارکه بیگم سید نواب ۴۱۰ ، ۳۳۸ ،۵۰۷،۵۰۳ تا ۵۱۰ ۵۳۱، مجید ملک مسٹر ۵۸۶ ۶۲۶،۵۹۰۰ ، ۶۸۱ محبوب احمد، چوہدری ۱۱۲ محبوب شاہ ۳۳ ، ۲۸۵ محمد احمد جلیل.I ۷۰۹:۲۵ ۱۳۸ محمد احمد مظہر ایڈووکیٹ ، شیخ ۲۰۱۶۳/۱۱۰ ۶۴۰۳۶۳۹۰۵۴۴۴۵۳۹٬۵۳ ۴۴۴ محمد اسحاق ، سید میر گیا فیندر دیو شرما، پنڈت ل ال تھر مستر محبوب عالم منشی محبوب عالم خالد، شیخ ۶۲۵،۵۳۴،۵۲۸،۵۲۴ | محسن الملک ، نواب ، ۲۲،۲۰۱۸ ، ۱۳۵،۱۳۳۱۱۹،۱۰۷ ۱۰۲۹۷ ،۹۵،۲۳ 1+9 ۲۷۶،۲۴۶،۱۹۰،۱۸۹،۱۸۲۲۱۷۱ ،۱۳۹ ۱۰۸،۲۵،۲۰ ۴۲۲ محمد اسحاق ،صوفی
15 محمد اسحاق الشعف ۵۰۸،۴۳۵، محمد افضل ، سید ۵۱۰ | محمد افضل قریشی محمد اسحاق ، ملک ۴۹۷ محمد الفضل بیگ حمد اسحاق قریشی، پروفیسر ۴۹۹،۴۴۴، محمد اقبال - کمانڈ ر فرقان بٹالین.۲۶ محمد امین مولوی.بھمبر ۶۷۱ محمد امین ، مولوی 201 ۶۸۸ | محمد اقبال، ڈاکٹر سر ، ۸۲،۶۷، محمد امین اویسی، میرسید محمد اسماعیل خواجہ شوپیاں ۴۴۱،۳۸۴ محمد اسماعیل سید محمد اسامیل، سید میر محمد اسماعیل شہید جموں ۲۹۹،۱۸۹،۱۳۸ Fr་་ ۱، ۱۱۷ ۲۱۸،۲۰۶،۱۳۸۰۱۲۹، ۳۲۵، محمد امین زبیری ۴۱۸۲۴۱۵،۳۷۰۳۶۲۳۵۱۲۲۴۸، محمد امین شاه ۴۵۴،۴۵۳،۳۳۲،۴۲۲، ۴۶۱،۴۵۸، محمد اندرابی ، سید ۵۸۵،۵۵۲،۴۹۸۰۴۶۸،۴۶۲ ۴۳۸ ،۲۳۵،۱۰۲ M16 ۲۵۱ 10 ۳۵۰ محمد ایوب خان، فیلڈ مارشل ۷۲۲٬۷۱۶ ۱۴۲ ۶۹۰۲۶۵۰۶۴۴۲، ۷ اے محمد ایوب صابر ۴۴۰،۴۲۳ ۱۱۴ محمد بخش ایڈووکیٹ ، میر ۵۳۶،۴۷۵ ۵۲۷ ۲۷۱ محمد بخش مسلم، مولوی ۵۵۰۲۵۴۸۰۵۳۸ ۲۹۹،۳۵ ۳۱۷ ۳۴۹ ۹۶ ۲۰ ۳۲۴ ۳۸ 44 Ft+P+1 176 ۴۹۷ TOA ۳۱۷ ،۲۴۵ ۳۲۴ محمد اسماعیل بیگ ، سر مرزا ۲۱۸ | محمد اقبال حسین سید محمد اسماعیل پانی چی محمد اکبر، راجہ جہلم محمد اسماعیل خاں بنواب ۱۷ محمد اکبر، شیخ محمد اسماعیل دیال گڑھی ۷۰۹،۲۶ محمد اکبر آفریدی محمد اسماعیل سود اگر.سندھ ۱۶۷ محمد اکبر خاں.گلگت محمد اسماعیل غزنوی ۴۳۲،۴۱۶، محمد اکبر کیانی ۴۵۴،۳۵۳ ۵۳۷،۵۰۷،۵۰۵،۴۹۰ | محمد اکرم خان مولوی محمد اسما عمل منیر محمد اسماعیل طلالپوری محمد اسماعیل یادگیری محمد اسد اللہ قریشی ۶۱۹،۶۱۶ | محمد الدین، ماسٹر ۲۹۷،۲۹۷ محمد الدین منشی.سابق مختار عام ۱۰۷ ،۲۰ ۱۳۹ ۱۷۲۱۴۲، ۲۳۹، ۴۷۸ | محمد الدین فوق بنفشی 14 ۱۷۶ | محمد بشیر، سید.پھگلہ ۲۵۰ محمد بن قاسم ۶۸۷ - محمد بیضاڈ و بری، امام ۳۸ محمد جی ہزاروی، مولوی ۶۲۴ محمد حسن کا سان ، ماسٹر ۸۸، محمد حسن موسیٰ خاں ، صوفی ۱۱۲ ۱۱۹ محمد حسین ، حافظ ۳۳۲۲۳۳۰، محمد حسین شیخ ۶۶۴،۶۶۰،۴۲۲،۳۷۴،۳۷۱،۳۶۳، محمد حسین ، ملک ۶۸۳۶۸۱،۲۷۲ | محمد حسین ، مولوی احمدی محمد اسلم ، قاضی پروفیسر ۱۹۰۰۱۸۹ محمد المغربي الطرابلسی شیخ : محمد اسلم شہید.مانگٹ اونچے محمد اشرف، صوبیدار محمد امیر، بابو ۷۰۹ محمد امین، خواجہ محمد اشرف، مرزا محاسب ۲۷۲ محمد امین ، خواجہ محمد اعظم خواجہ ۱۰۰ محمد حسین باجوہ، چوہدری ۶۰ محمد حسین بی کام ۲۵۸ محمد حسین چیمہ، کیپٹن ۲۵۸ | محمد حسین شاہ ، ڈاکٹر سید ۳۵۱ محمد امین سرینگر ۴۴۰ محمد حسین کو لوتار روی محمد اعظم خاں ، نواب خواجہ ۳۷۱ محمد امین ، قریشی
A محمد شفیق، قاضی ،۲۴،۲۳،۱۸ 16 محمد سر درشاه، سید ۳۳،۲۷ ۶۰ ۹۵،۹۲۰، ۱۰۷ ، ۱۱۴،۱۰۹، محمد صادق مفتی ۳۴۸،۷ ۱۳۹،۱۰۹ ،۸۸۸۳۲۸۱،۷۸،۷۱،۵۱ ۳۶۲۲۵۳۱۷۲ ۳۵۱ ۳۴ محمد حفیظ بقا پور کی محمد حمزه ، شیخ محمد حنیف قریشی محمد حنیف ندوی محمد حیات، مرزا.محمد حیات خان ۳۲۴ TOA محمد سعید، مولوی.ایڈیٹر ، ہر رو ۴۰۵ ۱۳۹ | محمد سعید مسعودی محمد حیات قیصرانی ، سردار ۷۰۲،۷۰۰ محمد سکندر، خواجه محمد خان شهید ، بھینی ۷۰۹٬۷۰۴ محمد سلیم ، مولوی محمد خان زمان خان، سر میجر کم محمد شاہ نواز ، ڈاکٹر محمد خلیل الرحمان بھیروی محمد خلیل کچلو محمد دہلوی، مرزا 1.4 ۴۲۶،۳۲۵ ،۳۳۰،۲۴۹۲۰۳،۱۹۳۱۸۵،۱۳۰،۱۲۹ ۷۱۹۶۵۹ محمد صادق چغتائی ، مولوی TAA ۱۶۹،۲۵ ۳۴۲۵ ۳۵۹،۲۳۱،۱۸۲۱۶۹ محمد صالح خاں شیروانی ۳۱۸،۲۴۷ محمد صدیق، چوہدری.لائھریرین ۵۲۴۳۷۰ محمد صدیق امرتسری ۱۱۷ محمد شریف چوہدری - مبلغ فلسطین ۲۵ محمد طاہر اندرابی ، سید ۲۰۰ 6+9 orm محمد شریف ،سید.گھڑیالہ محمد شریف، مولوی محمد دین ، ڈاکٹر محمد دین ، رانا محمد دین ، ملک محمد دین ، مولوی ۱۱۸،۱۰۶،۱۸، محمد شریف ، میاں.رئیس لاہور ۴۳۵۰۳۱۷،۱۸۹ محمد شریف باجوہ، چوہدری محمد دین ،میاں.تاجر جموں ۴۲۲ ۲۵۶۰۶ COA ۷۰۸،۲۵۸،۲۶ محمد طیب ، مولوی ۲۹۲ محمد ظفر اللہ خاں ، سر چوہدری ۲۶ ۳۵۰ ۴۵۸ ،، ،۱۹۰،۱۳۸ ،۱۲۵،۱۲۳۱۱۳۹۸ ،۸۲۳۴ ۱۵۵ 09192 ۱۲۰ ۹۴۳۴۹۹ ، ۲۸۷ ،۲۵۵،۲۵۰،۲۳۱ ۲۳۰ ۲۲۲۱۰۲۰۷ ،۴۶۴۳۴۶۲،۴۵۱، ۳۲۲۰۳۰۹۰۳۰۱ ۵۸۲،۵۸۱،۵۲۸۰۵۲۶۰۵۱۶۰۴۹۹ ،۶۵۷،۶۵۶،۵۹۶،۵۸۷۲۵۸۵ محمد دین با جوه، نواب ۱۷۷،۹۵، محمد شفیع ، حافظ مولوی محمد رشید ، با بو محمد رفیق، خاں محمد رفیق شیخ محمد رفیق ، ملک ۱۷۶،۱۶۸، محمد شفیع ، ڈاکٹر ۲۰۰ ۳۱۹ محمد شفیع ، سر ۱۱۶۰۸۲۸۰،۶۷،۶ ۱۱۷ محمد ظہور الدین اکمل ۲۳۷ ۲۳۰ ۲۲۵ ۲۲۳۱۷۰۱۳۰ ۱۲۹ ۲۱ ۲۵۸ محمد شفیع شیخ.لیڈر جملم ، محمد رمضان، حافظ مولویی ۳۱۹،۲۶ محمد شفیع ، مرزا محمد رمضان، خواجہ.رشی نگر ۴۴۱ محمد شفیع اسلم، ماسٹر ۶۹۰ | محمد شفیع داؤدی محمد شفیع زبیر محمد رمضان ، ڈاکٹر محمد رمضان خادم محمد زیدی، مولوی ۲۷ محمد شفیع سنکستر وی ٧٠٩ محمد عالم ، ڈاکٹر ۷۱۷۰۴ محمد عالی نخی سید MA محمد عبد الله ۲۷۶ محمد عبد اللہ، ڈاکٹر ۳۴ ۲۴۵ محمد عبد الله، شیخ (+4 ة: 0+1 ۳۵۱ 100 1+A PAPAL ،۲۵،۴۲۳،۴۱۱،۴۱۰،۴۰۵،۴۰۳۳۴۰۱ ۴۷۱۰۴۵۰۲۴۴۵ ، ۴۴۲ ۴۳۳ ۴۲۸ ،۵۰۲.۴۹۹،۴۸۸ ، ۴۸۵ ، ۴۸۲،۴۷
۳۵۰ ۱۰۲ ۱۰۱ ۱۰,۳۲۰ 17 ۲۳۰، ۲۴۸ ۲۵۰ ۷۲۰،۶۷۹،۶۹۷۴ محمد ہمدانی میرسید ۳۱۸،۳۱۷ ،۳۱۳ ، ۲۳۵ ،۲۴۴ محمد یار عارف ۵۲۳۲۵۲۰،۵۱۱۵۱۰،۵۰۷،۵۰۶ ۵۴۴،۵۴۳۵۴۱۰۵۳۷۰۵۳۳۲۵۳۰، محمد علی جوہ ، مولانا ۵۷۰۵۶۷۲۵۶۱۰۵۵۴۵۵۲۰۵۴۷ ۵۹۴،۵۹۳٬۵۹۰۰۵۸۶،۵۸۲،۵۷۱، محمد علی خاں ، نواب ۸۸،۸، محمد یعقوب منشی ۶۰۴ تا ۶۲۷،۶۱۰ ۶۲ ۶۳ ۳۶۴۴۰۶۴ محمد علی خاں افریقی ، ڈاکٹر ،۶۷۰۶۶۹۶۶۴۶۵۹۰۶۵۵۰۶۴۶ ۱۶۲،۱۴۳ محمد یعقوب ، سر مولوی ۲۴۶ 11.Ar ۳۲۲۳۰۸۱۳۰۷ : ۲۰۹،۱۳۸ ،۴۸۸،۹۸ ۶۳۸ ،۴۸۹ ۷۱۴۶۸۹۶۸۷،۶۸۴۶۷۲ محمد علی نوشہروی ، قاضی ۲۷۸ تا ۲۸۱ محمد یعقوب خان ، مولوی 2 +9 محمد عمر مہماشہ ۳۲۴۳۰۹،۱۰۲،۴۳/۲۵ ۳۶۰، ۴۳۸، ۶۷۹،۲۷۸ محمد یعقوب طاہر، مولوی محمد عمر ڈار ، حاجی - ناسنور ۳۷۸،۳۷۴ | محمد یوسف، حافظ قاری محمد عبد الله ، صوبیدار چوہدری محمد عبد اللہ ، قاضی ۴۳۹۷، محمد عنایت اندرابی، سید محمد عبد اللہ ، مولانا ۱۰۵ محمد فاضل.راولپنڈی ۳۵۰ | محمد یوسف شیخ ۲۷۲ محمد یوسف، قاضی محمد عبد اللہ بوتالوی ۲۷۲، ۳۱۵ محمد قریشی ، شیخ ۳۵۰ محمد یوسف ، میاں.پشاور محمد عبد اللہ خاں ، نواب ۳۵۰ محمد یوسف ، میر واعظ 1+6 ۱۳۹ ۳۴۰،۱۰۹ ۹۲، ۹۵ | محمد کاظم سید محمد عبد اللہ سیا کھوی ۲۶۰۰۵۹۶ محمد کاظم علی شائق ، سید محمد عبد اللہ شاہ مولوی ناسنور ۴۲۳ محمد کمال ، مولانا ۲۷ محمد عثمان ، مولوق محمد لطیف ، سید محمد عنان ، با بوقریشی ۱۱۸ محمد مبارک مولوی محمد عثمان بٹ.ترال ۲۷۳ محمد مدنی ، سید محمد عثمان یعقوب ، سیٹھ 99 محمد منظور سنبلی - مرآد آباد کی.محمد عرفان ، مولوی ۱۱۷ محمد منور مولوی محمد عظیم باجوہ، چوہدری ۴۳۵، ۵۰۸ | محمد منیر ، ڈاکٹر ۱۸۶ محمد میرک اندرابی ، سید محمد علی ، قاضی نوشہرہ محمد علی ایم.اے.تاجر بمبئی محمد علی ایم.اے محمد علی بد و ملمهوسی 1-0 مجھے میر و طلا ۲۰، ۹۴۰۴، محمد ناصر شاه سرور محمد یوسف، نواب ۶۵۸،۵۰۲ ۲۰۹،۱۱۷ ۳۵۱ محمد یوسف ابن مولوی قطب الدین صاحب محمد یوسف امرتسری ۳۵۱ محمد یوسف خان وکیل.صفا کدل N ۲۷ محمد یوسف را جوری محمد یوسف شاہ، سید مولوی ۳۵۰ محمد یوسف قریشی، خواجه ۳۲۹،۳۰۹ ام محمد یوسف گلکتی محمود، عالجها محمد نذیر باستانی قریشی ۳۴،۲۵، ۳۶۰ محمود، ڈاکٹر سید ۳۲۴ محمد نذیر لاکپوری ، قاضی ۳۲۰۲۰ ،۱۰۹ محمود احمد عرفانی ، شیخ محمود احمد ناصر ، سید میر محمد علی جناح.قائد اعظم ۴، ۶۹ ، محمد ہادی عزیز، مرزا ۱۳۸ OPA PIA ۴۳۸،۴۰۴.۴۰۲ 2-9 MAI ام ۱۵۸،۱۱۷ ۲۳۲۳۴ ۲۸ ۱۳۹ محمد ہاشم بخاری ، سید ۲۵۳ | محمود اللہ شاہ سید ۲۲۳،۱۷۰۱۳۰ ۱۲۹ ۱۱۷ ، ۱۱۹۰۸
۲۳۸،۵۱۱۰۵۰۵ ،۴۵۸۰۳۳۸ ۲۱۴ ۴۵۱ ۲۱۵ 18 مود سهروردی ۳۵، ۱۱۷ مظفر احمد ، مرزا محمودہ بیگم ۱۲۱ | مظہر علی اظہر ۴۳۲۱۵۸ میسٹن ،لارڈ محی الدین.بانڈی پودہ ۳۸۴ | معراج دین ،سید - نیروبی ۹۹ میکناٹن محی الدین ابن عربی محی الدین قصوری محی الدین قمر قمرازی.HLY معراج دین اوور ساگر ۱۰۵ معین الدین ، سید ۴۴۱ مقبول شاہ ، سید خانیاری ۸۹ ۳۵ ،۶۰۲۴۳۸ میلکم بیلی ، سر 214 40 نادری، طلا ۲۵۱،۳۴۷ ناصر ، اصر احمد، مرزا خلیفہ مسیح الثالث.اه ،۳۲۱،۲۸۵،۹۲،۱۴۲۱۱۹۰۲۸۰۲۷ ،۲۴ 4+1 ۳۵ ۶۵۴ - ناصر احمد کا تھلوی ، راج مختار احمد شاہجہانپوری، حافظ سید ۱۱۸، ۲۵۳۱۷۵،۱۳۸ | کمی راج، پروفیسر مدثر شاه میر ۱۷۶،۱۲۲، ۳۱۷ مکھن سنگھ ، سردار ڈلٹن ہسٹر ۵۱۳٬۵۰۸،۵۰۶، مکچار سینا بوش، بابو ممتاز محمد خان دولتانہ ۶۳۶۵۷۶۰۵۷۴،۵۷۳ مراد، سید ۳۵۰ منصور احمد ایڈیٹر ادبی دنیا‘ لاہور ۳۱۹ ناصر الدین عبد الله مولوی ۲۴،۲۰ ۶۸۳ مرتضی حسن شاه جلالی، سید ۷۸۲ منظور احمد شہید ولد دین محمد ، چوہدری ناصرہ بیگم صاحبہ مروین، مسٹر اه مرید احمد ، مولوی ۳۱۰، ۳۱۸ منظور الحق جاگیردار پونچھ ۳۴۰، ۳۶۵ | منگل سنگھ، سردار حضرت مریم علیہ السلام مریم بیگم، حضرت سیدہ (ام طاہر) ۴۵۷ منور احمد ، مرزا.شہید امریکہ مریم بیگی اہلیہ حضرت حافظ روشن علی ۱۱۰۰ منور احمد ، ڈاکٹر مرزا ۲۴۵ ۵۸۵ 6oF ۶۴ تانک ، بابا نائٹ، ای.ایف نائیڈو ۳۲۱ نحاس پاشا ۱۰۰ حضرت محميا و علیہ السلام ۲۴، ۷۸ نریندر راجہ ۱۹۲۱۵،۸۱ نذر الاسلام مڈاکٹر مسعود احمد ، مولوی مشير المصفى السيد.مسعود احمد، سید مهر ۲۸ موتی لال نبرد، چوت مسعود احمد شاہ، سید مشتاق احمد کیشین ۷۰۹ مولا بخش حضرت ھوئی مطابق احمد فاروق ایڈووکیٹ ۴۲۵ مونٹ بیٹن ، لارڈ ۱۹۸ نذر محمد ، ڈاکٹر.جہلم مشرف حسین دہلوی ۵۱۰۱۱ | مهربان علی ، نواب ۱۲۲ نذیر احمد، چوہدری مشیر حسین قدوائی ۴۳۲ مهر چند، پنڈت ۹۲ نذر حسین سردار 16198719 (A+ ۳۵۷ E 2 2 2 5 FEZ ۳۱۹،۲۵۸ ۴۸ HOME ۴۳۵ ۴۳۷ ۲۶۱ ۲۵ مصباح الدین سردار ۲۰۲۰ ۱۰۸۰ مهر شاہ گولڑوی، پیر مصباح الدین العابودی مصطفی کمال پاشا $ میتھیو آرنلڈ میر خان، خان ۱۴ نذیر احمد، خواجہ.لاہور ۱۵۹ نذیر احمد باجوہ، چوہدری ۲۶۰ نذیر احمد بھا گلپوری ،میاں ۴۳۷ نذیر احمد دالوی مطیع الرحمان بنگالی، صوفی ۱۰۰ میرک شاه مولوی ۴۳۲،۴۱۶، نذیر احمد بیشتر
۵۹۶ ۲۸۷ ۲۸ ٤٠٢ ۱۵۲ ،۴۳۸ ،۳۱۹ ارد ۴۵۲۴۱۱ ۳۳۷ ۲۵ ۳۴۹ F 114 19 نذیر احمد علی نذیر حسین شاه رسید ۱۹۴ نور احمد منیر، شیخ ۲۶ وزارت حسین ۶۸۶ نور الحق، مولوی ۴۱۶ وزیر احمد قریشی ، ڈاکٹر نسیم صاحبہ المیہ ڈاکٹر سید محمد حسین 11+ نور الحق انور ۲۶ وسیم احمد ، صاحبزادہ مرزا نصرت جنگ، خواجہ نواب ۳۶۷ نور الدین، حضرت الحاج حکیم مولانا خلیفہ وقیع الزمان، مینجر ولایت شاہ ، سید ۲۸۶،۲۸۵ ۳۹۵،۳۷۰،۳۶۹ ،۳۵۸،۳۵۶،۱۴۳۹ ۳۹۷ نصرت جہاں بیگم، سیدہ نصیر احمد ولد عنایت اللہ، چوہدری ۷۰۳ نورالدین جلال آبادی، حکیم نصیر الدین احمد شیخ نصیر محمود دانی نصیر و بیگم سیاره نظام الدین ، مستری.سیالکوٹ نظام الدین ، میاں نورالدین جونی، خلیفہ ۶۹۳ نورالدین دانی ، خواجہ ۲۳۱ نور الدین قاری ۳۷۰ نورالدین دلی، شیخ نظام الدین ، مولوی ۴۱۳۳۶۰ نور جہاں بیگم، ملکہ ہند نظام الدین اولیاء نظام الدین مستو نعمت اللہ خاں، چوہدری ۳۲۳ ۴۴۱،۴۲۲ ۴۴۱ ولنگڈن ، لارڈ ولی اللہ شاہ ہمدان ۴۴۱،۴۰۸ ، ولید ادخاں ، مولوی.شہید افغانستان ۶۶۱ ۳۵۱ ولید بن عبد المالک ۵۰۳ دلیم ایم لینگر ۲۷۴ نورحسین گرجا گھی ، مولوی ۱۰۱ ۱۰۲، ولی محمد ، با یو ۳۸۹ نورشاه خواجه ۲۳۴ ۲۴۵ ولی محمد ڈار ، خواجہ ۴۴۱ ۳۷۷ ولیم مور کی طرف ۳۵۳ نعمت اللہ شریف ۷۰۲ نورمحمد حافظ - جہلم MA ونسیف ،اے.سمتھ ایم.اے ۳۳۰ نعمت اللہ کشمیری شاه ۳۵ نیاز علی شیخ ۹۴۳،۴۳۲۱۲۵ نعمت خان، چوہدری ۱۲۸ | نیرا بھر د بھا چکر اور تی نعیم الحق وکیل سید بہار ۲۵۵ ، ۷ ۷۵ نیک محمد خاں غزنوی ۳۵ ویکفیلڈ مسٹر ۲۵۷ ہاجرہ بیگم اہلیہ خواجہ غلام نبی ۴۴۳۴۲۰:۴۰۶۴۰ If+ 0-9 ہاورڈ بری ، کرگل ۳۶۰ واحد حسین ، گیانی ۳۱۰، ۳۱۷، ہدایہ سے اللہ ، بابا نقود یمس ، حکیم نکولس نانو ورچ نواب خان، چوہدری نواب دین، ماسٹر IA نواب دین منشی ۴۲۷ والٹر لارنس ، سر نوراحمد، شیخ نوراحمد، کیپٹن 2+9 ۹۶ وجاہت حسین نوراحمد، مولوی ناستور ۴۲۳ وحید الدین فقیر سید Fyorre ہدایت حسین کا نپوری ۳۳۷ ہر بلاس شاردا، مسٹر ۴۶۲ #16.Ar 10- ۲۶۰۷۳۳ هری کی سر ۳۹۵،۳۶۲۳۶۱، ۴۲۷، ۶۷۰ ۱۳۸۸ هری کشن کول ، سر ،، ،۵۳۱،۵۲۶۳۵۲۴،۵۰۰،۴۹۰ ۴۸ ۲۹۰ نور احمد لدھیانوی ، حافظ ۹۶ ورڈس ورتھے.
20 یوسف علی، شن ۶۲۰۶۱۹،۵۹۳۵۸۱،۵۷۹ ۳۶۵ ۹۹ ۳۳۵ ۲۱۵ 궁금 ۲۶۰ ۲۱۷ ۲۲۳ ۳۳۴ ہف ، ایم.اے ہنری کا رائیم.اے ہوشک ہون اوطر ، سر ہیر الال منشی ہیگل بیلشم ، لارڈ ہیوبرٹ کار پسر بیون سانگ - چینی سیاح ی یکی خان، خان یسٹیمر مسٹر ۴۳۷ ۵۲۸ یعقوب بیگ، ڈاکٹر مرزا ۵۸۵،۴۴۱، یعقوب علی چھیکیدار ،۴۲۵،۴۲۴،۴۱٠،٣٩١،٣٨٥,٣٨١ ۵۰۷۰۵۰۳،۴۸۸۰۴۲۱۷۴۳۸ یعقوب علی عرفانی شیخ ۲۴۶،۲۰۲،۲۰۱۰۱۷۵،۱۵۶،۱۴۹ یعقوب ہاشمی ، حافظ 14+ یوحنا، پادری یوسف خان علیگ ۳۱۷ ۲۵۳۵۰۵۳۲ ۵۵۴۵۴۳،۵۳۱،۵۴۰،۵۳۸ یوسف شاه خان بها در خواجه یوسف شاہ، میر واعظ یوسف شاہ کاشمیری ، سید ۴۰۱ ۲۴۷
21 آره آسٹریلیا آگرو اجمیر ۲۴۵ بارونی اڑیسہ استنبول اسلام آباد (کشمیر) افریقہ افغانستان ۲۷۰،۲۶۴۲۳۳ 10014 ۴۳۹ ۴۵۸،۷۶ ۲۴۲ ،۹۷۱ ،۴۳۹ ۶۸۹ ۳۵۷ ،۱۷۹،۴۷ اورھ اور هم پور اوکاڑہ ایبٹ آباد ایڈنبرا ( سکاٹ لینڈ ) ایران الحيا ایگر افول مقامات ۲۰۷،۵۹۵ | برلن ۲۶۹ ۶۲۸،۴۳۹،،۳۵۹ ۲۰۲ بر آمن برید بڑوده ۲۴۲ ۲۹۷ ۷۴،۳۵ ۲۳۳ ۳۵۱۰۱۷۴۶۶۳۶ ۱۶۴ بر اوال بلیغ بلوچستان ہمیتی بناری بنگال ۳۱۷،۸۹۸۶ ۳۵۱ ۳۵۸،۲۰۸،۷۶۲۸ ۴۵۸۰۲۲۷،۱۸۱،۶ ۲۴ ۱۵۵،۸۲،۷۵۲۷۲،۵ ۱۲ تا ۳۳۳۱۷۳۱۲۷ اکھنور ۳۶۱۰۳۴۰۳۳۶ ۵۱۴۴۳۹ اکھوڑہ بارا مولا باغ بالا کوٹ مال تل کے ۵۲۰،۵۱۵۴۳٩٣٣٣ ۲۰۱۵۴۵ ۴۴۴۰ ۴۵۸،۳۱۲۳۱۰،۲۶۹ ،۳۶۷ ،۲۲۷ ،۳۰۸ ۳۱۵،۳۱۳۳۱ ۵۱۵ اللہ آباد ۵۴۶،۲۶۴،۲۰۶ بالتستان 127,160.010 امرال 1+F بالسو ۴۳۹ بنگلور بنگه بوٹاری بورینو بورے جال بوکن ۳۵۸:۳۶ ۲۵۶۹ HA.AZ ۲۹۷ امراوتی ۳۶ ۳۹ بانڈی پور ۵۳۱،۵۱۵،۴۵۸،۴۳۹ | بوگر 7 3 PIA امرتمر ۳۹، ۶۳،۴۱ ، ۱۰۲٬۹۲۳۹۰، | بانکی پور ۳۵ بوگرہ ۷۴ ١٩، ٣١،٣٠٩،١٩٩،١٨٦ بٹالہ ۹۲،۸۹۳۸۷،۸۵، ۱۱۹ پونجوه ۶۷۵ امریکہ امیرا کدل ۷۱۵،۴۶۱ ۶۹۱۶۶۵ انبالہ ۳۰۹،۱۳۷۳۵ انچولی اندوره انگلستان ۱۶۶ ۴۳۹،۳۷۳ ،۷۲۶۳۰۵۳۱۹،۵،۴ ۴۸۷ ،۲۱۳ ،۱۹۵،۱۹۲۱۵۲،۱۰۰ بتا دیا بچھوارہ بخارا بدو ملی برطانیہ ۲۳۵،۱۸۶،۱۸۵،۱۲۵، ۳۱۸،۲۸۳٬۲۷۸ | بوئے پلی ۴۴۸ بہاولپور ۳۵۱ بہاؤ نگر کاٹھیا واڑ ۳۱۷ بهری کدل AkJwkw بیٹ بیج بیاره بیکانیر ۱۳ بہار ۴۵۸،۲۶۴۸۲۷۶،۷۵ ۵۰۷ ۰۹ ۲۵۶ لدالة ۵۰۷
1 ٣٣٣ 22 ،۱۹۳۱۶۱۰۱۵۵۰۷۵ پنجاب ۳۵۴،۳۴۰،۳۳۱،۲۹۲۲١٩٦، ٦٢،٢٠٨ ۴۸۱،۴۵۱،۳۸۹،۳۶۹، ۵۲۸ ۵۳۴ جاپان ۴۳۹ ۳۶ I بھا بڑا بھاگلپور بھدرک پھر رواه ۶۷۵،۴۳۹ پنجیری بھڑ یار ۲۴۴ پوسول وا بھرت پور ۵۰۷ پولی ۳۶۰،۳۵۶۰،۳۳، ہونا ،۵۲۹،۵۴۰،۵۳۸۰۵۲۰،۵۱۴ ،۴۳۹ پونچھ ۴۳۹ ۲۹۶ ۴۳۹ جاگیر چینی جالندھر جاوا ۴۳۹ ۴۶۱۰۳۱۳،۱۵۴ بھوپال YPA ۵۰۷۳۷۸،۲۶۴ ۲۵۸ جتوئی ،۴۳۹،۳۹۳۳۶۰۳۵۶ جڑانوالہ ۵۴۷،۵۳۶٬۵۳۳٬۵۲۸،۵۲۰،۵۰۵، | جلها گوری ۵۸۶۰۵۳۸ ، ۲۲۴،۶۱۷ ،۶۳۰ ۶۳۳، جمشید پور ۲۴۴ *** ۷۴ ۶۳ ۶۹۱۶۹۰۶۷۵۰ ۱۳۹ جموں بھینی میلوان ۳۱۸،۲۵۶ پہلگام ۳۷۲ پینگ ۱۳۸۹،۳۸۳،۳۸۲،۳۸۰۳۳۷۸،۳۶۹ ۳۴۶۴۳۴۴۴ ۴۳۹ ،۳۹۵،۳۹۳۳۳۹۱ پھگلہ ۲۴۲ ۴۷۵،۴۷۰،۴۶۰،۴۵۹۰۰ ۴۵۴ ۴۵۱ ۳۱۷۳۳۱۴ ۵۲۱۵۲۰،۵۱۴۵۰۸،۵۰۵:۴۳۸۲ ت.ٹ ،۵۳۶،۵۳۳۵۲۸،۵۲۷،۵۲۴ ۰۵۷۹،۵۵۵،۵۵۰۲۵۳۷۰۵۴۱،۵۴۰ ۶۴۷۶۲۵۶۲۴،۶۲۲۵۸۰ MY جنجه PIX ۲۹۷ نهم ۵۸۳۵۲۷،۵۲ ۵۰۷ ۵۱۴ ۲۶۹ ۱۰۲ ۲۹۵ ، ۲۹۹ ۷۲۳۰۷۱۴ تاری گام ۲۹۷ ثبت ۲۹۷ ترا گریل ۳۹ ترال ۳۵۸،۱۷۴۷۷۷۵،۴۱ ترکستان ۳۴۹ ۵۳۱٬۵۱۵ ۴۳۹ جنوبی افریقہ ۳۴۹ جنوبی ہند پاڈانگ پاک پٹن پاکستان پالنی پانہ ڈرا یانی بیت پٹیالہ ۵۰۷ رگڑی IXY پٹھانکوٹ ۱۰۲ ترکی ۱۷۴ جوڑیاں جہلم پٹھاناں تیر پھڑا ۴۳۹ تکونڈی عنایت خان ۴۳۹ | تکمیل ۵۳۱ پشاور ۳۱، ۲۰۴،۱۹۶۱۶۳۱۳۷ تھکیالہ پڑاوا ۶۴۹،۵۴۷،۵۲۹ | جیر گڑھ پچھلی پلوامه ۳۳۱ ٹاٹا نگر ۶۷۱،۴۳۳۹ | ٹائیں مجر ۴۳۹ ۳۱۰ نوبي
۵۰۷۲۶۴۲۱۱ ۰۶۹۲۶۸۶۶۸۵،۴۳۴۰ ۴۳۶ ۱۷۳ ۴۳۹ ۳۱۸،۷۴،۳۵ 40 ۴۵۸،۱۹۶ ۷۱۴ 12+ ۶۲۸،۴۳۹ ۴۳۹ ۲۱۳ ۳۱۰ ۵۱۴ ،۱۹۵،۷۲،۲۸،۵ ٣١٠:٢٠٨ ۵۲۹،۴۳۹ MIA ،٢٣٦،١٦٦،١۴۴۱۴۲ رامپور ۴۴۲۰ 23 دره شیر خان مشق چانگام ۷۴ دیلی چارکوٹ ۴۳۹ ۳۴۲۳۶ راولپنڈی ،۵۱،۴۰،۴۰،۳۵،۱۸،۶ ۶۳ ، ۱۱۲،۸۴۸۲۸۱، ۲۰۴۱۳۰،۱۳۸، رائے کوٹ ۲۳۰۷،۲۷۴،۲۶۴۲۵۸،۲۳۳۲۰۷ ربوه ۴۵۸،۴۳۹،۳۰۹، ۵۲۶،۵۱۶٬۴۹۸ ریال 오는 ۴۳۹ دینا چڑ ۱۶۳ رشی نگر ۱۷۷ دینا نگر ۱۰۱، ۱۶۵ رنگپور ۶۳ دھرگ میانه ۳۹، ۳۱۷ رنگپوره ۳۹ رنگون روسی روم ریاسی زور و ما نلو زینت پوره ۴۳۹ I+F ۳۱۸ ۵۰،۴۹ ۱۶۵ ۶۷۵ ۲۴۵ دھرم کوٹ بگه ۹۴ دھوڑیاں ڈجکوٹ ۵۰۲ چاند پور چک ایمرچ چک ۵۲۵ ( فیصل آباد ) چکوال چندر کے جھولے چنگل نکیال چونده چوہڑکانہ ( فاروق آباد ) ۲۰۲ ڈگری ڈلہوزی ڈنڈوت روژه ٣٣٩،٣٣٣٢٣١ ۱۶۵ ۴۳۹ چیل جدید رو حصار ڈومہ کدل ح - خ ڈیرہ اسماعیل خاں II ڈیرہ دون حیدر آباد دکن ۳۶ ۳۳۲،۱۸۱،۱۸۰،۳۹، ڈیرہ غازیخان حيفا ۳۱۰،۲۶۴،۲۴۳، ۴۵۸، ۶۹۴،۵۰۷ | ڈیرہ بابا نانک خراسان داڑوں دنتال در از بایت دراس و.ڈ ٣١٣٠١٠٠٣٦ ڑھا کہ ۳۵۱ ڈھنگوار ۶۷۵ ۴۳۹ ۵۱۵ ۵۳۱ ۴۰۹ ۳۱۰ ساج ۲۷۴ سالٹ پانڈ ۳۵۸،۷۳ ۵۰۲ ۲۱۲۲۱۱ ٣٠٩ ۴۳۹ سال خله ساندهن سمانید چین سرحد أو ڈھرانہ رز سرن راجورو ۳۹۹ سری گوبند پور راجوری ۳۳۱، ۳۷۴،۳۵۶، ۴۳۹، سرینگر ۶۲۸،۶۱۷،۵۸۵۰۵۲۹،۵۳۶،۵۲۰
۶۳۹ فیض اللہ چک ق ۱۶۳ ۵۱ 24 شاہ جہانپور شکر گزه شمله ،۴۲،۱۸،۱۰،۹،۳ قادیان ،۱۳۷ ،۱۳۹،۱۳۷ ،۱۳۵ ،۹۵۲۸۵۰۶۳۲۰ ،۴۵۷ ، ۴۵۲،۴۴۵ ، ۴۴۴ ۴۳۶۰۴۱۵ ۴۹۸ ۱۸۰۱۷۵ ، ۱۷ ۲۰۱۶۴۱۵۸ ۱۵۵ ۱۵۴ شوپیاں ۵۲۷۵۳۶،۳۸۵ ،۲۵۸ ،۳۱۳،۳۱۲۲۸۰،۲۷۷ ، ۲۷۵ ،۲۵۶ ۴۳۹ ۴۵۹،۴۵۷، ۴۳۸ ،۴۱۵،۳۸۴،۳۷۳ ،۵۴۰،۵۳۴۵۲۹،۵۲۳،۴۹۹ ، ۳۸۵ ۲۴۲ ۲۲۶ ۲۴۹:۳۳۴،۲۸۰،۹۵ 44 ۳۱۸ ۵۰۷۱۸۰۱۷۹ ۵۳۰،۵۳۹،۵۳۶ قاہرہ تخطيه قلم پوره کابل کانونه کاغان کا کوره ۳۳۲ ۵۱۵ ۴۰۳۴۰۲ ۳۶ ۵۳۸،۵۳۷ ۹ ۳۵۸ کالشيما کالی کانپور ۳۴۰ کانسپور کا ہندواں کیا بیر کپورتھلہ کھوائی ۳۸۹،۳۸۸ ۱۳ 6.،۴۶۰،۴۴۸۲۴۳۹ ،۴۱۳۲۳۸۷،۲ ،۵۳۰،۵۲۹،۵۰۸۲۳۸۵،۴۸۲۰۴۷۳ ، ۶۴۷ ،۶۳۸،۶۲۸ ،۵۶۴،۵۴۱۲۵۳۵ ۶۹۲۶۹۱۶۷۸،۶۵۷ lar سکندرآباد سنوره سماٹرا ۲۴۲،۱۶۳,۹۹،۳ ۳۱۳،۴۶۱ شورت سانی شیخو پوره سنتو کراس سندمت مگر ۶۳ شیر دروں ۳۳۱ شیطان کنڈ سندھ صفاکدل ،۵۲۰،۵۱۵ ،۴۳۹،۴۴۱ ۶۴۱۶۳۳ سوناگلی ۴۳۹ سون مرگ ۵۱۵ ۶۹۹ سومین عراق سہارنپور ۹ عرب سیالکوٹ ۳۰۹،۲۲۱،۶۳،۱۰۹ ، علی بیگ علی پور ۵۲۸،۵۰۲۴۹۸،۳۸۵،۴۸۳ | علی گڑھ سید پور ( بنگال) سیرالیون سیکھواں سیلون شام ۳۵ ۱۶۴ فاری ۲۹۸۳۲۹۵،۳۶ فتح کدل فلسطین - ۲۷۰۲۴۲،۱۰۰،۵۳، فیروز پور ۴۶۱۳۱۴ فیض آباد
۳۷۴ کیمپول کینیاں 25 وم کٹھوعہ کراچی ۵۳۱ ۲۲۱۶۳ کرنا ملک ۲۶۹ کھاریاں ۳۹ لار کھول ۵۱۴ لالہ موسیٰ لاہور کرناہ کرولیاں ۴۵۸:۴۳۹ ۲۴۵ ۰۳ ،۳۵،۲۸۰۷ ،۱۳۷ ،۱۲۵ ۱۲۴ ۱۱۹ ،۹۱،۶۳۴۱،۳۹ کریلا کریم پور ۵۲۹ گاگرن ۲۴۴ گاندربل ،۲۸۵.۲۲۵،۲۰۴،۲۰۱ ،۱۹۹،۱۵۶۰۱۵۰ ،۴۵۸ ،۴۳۶۰۴۱۵ ،۳۷۱ ،۲۹۹،۲۹۰ ۴۳۹ ۵۱۵ ستوار ۶۷۵،۴۳۹،۳۵۶ گجرات ،۱۶۵،۱۶۴۱۰۳,۱۰۱ ۳۷۱ ،۲۳۳ ، ۶۵۷ ،۲۰۰ ، ۵۵۲۵۳۰۵۳۳۴۹۸ ۶۸۵ کشمیر ۲۳۶۰۲۲۵،۱۴۱ ۳۱۰،۲۵۵ تا ۷۱۶ گرسائی ۴۴۰ لائل پور (فیصل آباد ) ۲۰۲ ۳۱۰۰۲۴۵ ۵۳۱ گریز کلاین کلکتہ ۷۵،۷۴،۳۷،۳۵،۶، گڑھی حبیب اللہ ۴۴۶،۴۳۶ ، لداخ ۴۴۰،۳۴۶،۳۲۷ ،۲۳۱ ۴۵۸،۳۱۲۱۵۶۰۱۲۶۰۹۲۰ ۷۸ کند پوره کنشک پور ۴۳۹ گلگت ۳۳۴ گلمرگ کوٹ باجوہ هم هم کوٹ کیورہ ۲۴۵ گلہ مہاراں گوجرانوالہ کونلی ۵۲۰،۳۳۹,۳٩٠,٣٦٠ ۵۸۵،۵۶۹،۵۵۰،۵۴۸،۵۳۹،۵۳۸، گورداسپور ۶۱۷، ۲۲۸ گولڈ کوسٹ کوریل کوسمه کون گام کولمبو کو ہات کو ہالہ کوئٹے کیمبل پور ۴۳۹ گوئی ۲۵۲ گیا ۴۳۹، ۶۷۱ گھٹیالیاں ۲۹۶ گھر ہنڈا ΤΡΑ 144 گھرمالہ گھنڈی ۷۲۳ ۶۵۰،۴۴۰۳۵۷ ،۳۲۷ ۴۵۸ لدرون لدھیانہ لکھنو انڈن ۳۸۵،۲۷۵،۲۷ ۴۵۸،۳۱۰،۲۲۴۰۴۱ ۲۸۵،۵۴۹،۳۷۱،۲۹۰ | لیگوس م ۳۱۱،۲۳، ۴۸۷ ۹۹ ۵۴۱،۵۴۰،۲۸۰۱۱۸،۳۹ ليه ۴۵۸ مارسیلز ۱۳۹ ta ۲۹۲ ٤٣٩ ماریشس ماڑی بچیاں مالابار بالمرة مالیہ کوٹلہ مانسهره م ۲۲۵ ۲۹۵،۱۶۳۹۵، ۱۳۳۶ ۱۰۲ ۳۵۸،۲۹۶۱۱۹ ،۹۵ م نے نام
" ۵۳۴۴۳۹ ۲۵۷ ۲۲۲ ۳۴۴۳۳۲ ۳۱۸ ۱۵۴ ۱۰۲ ۴۳۹ و چار ناگ ۲۳۳۶۳۹ وزیر آباد 26 ۱۸۰ تا کرول مشوروٹا ۲۹۶ میرٹھ محبوب حمر ۱۶۳۶۳ میرزاپور 16+ وسط البيشيا محمود آباد - سرینگر ۱۴۴ Miro مینور ۲۶۹، ۵۰۷ دنجوان مدراس ميلي ۱۳ ویری ناگ 170.114 ويور Mr ۳۱۰ ویہلے دین ہاری باری گام ہاڑی مڑوٹ بانه ہالینڈ ہاتھی پوره بچی مرگ ہریال ہرانہ بلک پور ہمس ہموسان ہندواڑہ ۵۲۹ ۵۰۲۲۴۴ ۱۷۴ ۴۳۹ AGAT ۲۰۲ ۳۰۸ ۵۴۱۰۵۲۰،۴۳۹ ۵۵۰۲۵۴۸ ہندوستان ۴۱۳۳۹،۳۰،۱۹۱۶۰۶۲۴ ۴۳۹ ۰۱۵۴،۱۵۲۷۰۰۹۸ ،۶۷ ،۶۴،۶۳:۵۷ ۹۹ ۰۲۱۳،۲۰۸،۲۰۵،۱۹۵،۱۹۲۱۶۹ ،۱۹۲ ۲۵۸،۲۳۱۳۲۲۶،۲۱۸۲۲۱۹،۲۱۴ ۲۳۴ ۳۰۹،۲۹۷،۲۹۵،۲۸۳۲۷۲۳۲۶۹ ۳۵۶۳۴۶۰۴۴۲۳۳۳۳۳۰،۳۱۱ ۴۵۷ ،۴۵۳،۴۴۵ ،۴۳۱،۳۸۲،۳۶ میں مراکش ۱۷۹ مین پوری مردان ۳۹ مینڈ میر مری NY مروہ ۶۷۵ ۲۳۲۱۷۴۵۳، ۴۹۱ نارووال مظفر آباد HALPF4 مظفر گڑھ ۲۰۰ استور معراکے ۷۰۳۷۹۹ ناگڑیاں ملائیشیا ۲۹۷ نا پھیرنا ۲۹۷ نگیال ۶۳، ۳۱۰،۲۰۴،۱۳۷ نند گام میاسه ۳۶ نواں پنڈ هری ۲۰۲،۱۹۳ نواں شہر هند و جن ۱۳۹ | نواکدل منصوری ۲۷۳ ۲۷۴ | نوشهره مومیونوال ١٠٢ مونگیر ۳۹ نون منی موہریاں ۴۳۹ نیروبی مهاراج منی ۴۰۹ نگومبو میانویی ۱۶۵ نیویارک ۱۵۰۵:۴۳۹٬۳۵۶ ۵۳۳۵۲۷۰۵۲۴ ۵۲۰ ، ۵۱۴.۵۰۹ ۶۱۷،۵۶۹،۵۵۳،۵۵۰۵.۵۳۵ ، وٹو
27 ۷۱۴۶۹۴۰۵۸۳۴۸۱،۴۶۹،۴۶۲ ۳۵۲,۳۱۰ ۲۳۲۲۳۱۰۱۵۸۵۳،۴۷ یاری پوره ید علم علي یورپ
28 احمدیہ پاکٹ بک حدیث اسلام کا خلاصہ اسلامی قاعده كتابيات ۷۲۲ | مرکز احمدیت قادیان ۲۹۷ مسلمانان کشمیر اور ڈوگر وراج ۲۹۷ مسئلہ کشمیر اور ہندو مہا سبھائی A فتح السیاری کنز العمال ۳۲۵ اصحاب احمد ۱۷۲،۱۱۹،۱۱۴،۱۰۹ ،۱۰۷ اگر مسیح صلیب بر فوت نہیں ہوا کتب حضرت مسیح موعود الصلح خير اسلامی اصول کی فلاسفی ۲۹۸،۲۹۷ براہین احمدیہ تریاق القلوب تذکره مسیح ہندوستان میں مکتوبات احمد یہ ۱۶۴ کتب خلفاء سلسله اسلام میں اختلافات کا آغاز ۹۵ ۳۶۶ صحیح بلاد شرقیہ میں ۱۲۰،۹۳ مسیح کشمیر میں انجیل مرقس کا آخری ورق ۳۶۴ معمار آزادی کشمیر بخارول 101 نبیوں کا چاند HA برگزیدہ رسول غیروں میں مقبول ۱۱۸ بشارات رحمانیہ حصہ اول ۱۰۶ نیر صداقت ۱۰۱ نور ہدایت 1772 ۵۱۱،۵۰۱،۴۲۴۳۶۸ MY ۳۲۵ ۴۲۶،۴۲۴ 1+1 تجلیات رحمانیہ تحفه احصاری (حصہ اول) ۱۳۱۴ ہندوراج کے منصوبے ۲۴۶،۲۴۵ A تحقیق درباره قبر مسیح تمہیمات ربانیہ حضرت مریم کا سفر کشمیر اصل طبی بیاض (حصہ اول) الموعود 1•! حیات اسح ووفاته ۴۲۸، ۴۹۹،۴۹۸، حیات بشیر ۶۳۶٬۵۲۴۵۰۳، ۶۳۷ | درود شریف ۲۷۰۲۶۹ دنیا کا بادی اعظم غیروں کی نظر میں م السلام ۲۴۶،۲۴۵ ۳۶۴ ۱۱۳۴۹ 1+1 کتب غیر مهالعين تناقضات مابین اقوال حضرت صاحب و میاں صاحب دعوت معمل سیرت و تاریخ ۱۲۲ تحفہ لارڈارون فضائل القرآن مسلمانان ہند کے امتحان کا وقت ۱۲۰،۹۵ ربوه 117H 121 ۸۷ آب کوثر آتش چنار اقبال کے آخری دو سال ۴۲۸ سلسلہ احمدیہ ۲۵۲۰۲۵۰، ۲۴۸ مسلمانوں کے حقوق اور نہر ور پورٹ سیرت مسیح موعود ( از عرفانی صاحب ) کمال الدین فی اثبات الغيبة وكشف الخير و ہندوستان کے موجودہ سیاسی مسئلہ کا حل شری نش کلنک درشن یا ظهور کلکی اوتار ۲۲۰،۲۱۶،۲۱۴ ۲۱۳۱۷ کتب مصنفین سلسله قول سدید |+| الحسن ۲۵۲ ان سائڈ کشمیر کشمیر کے حالات ۳۶۷ ، ۴۲۷ اولدن برگ ۳۲۵ ۲۹۲ ۲۷۳۰۲ احسانات مسیح موعود 1•1 مجلس تعلیم ۳۳۸ پاکستان کا بھانڈا چورا ہے پر
،۴۲۳:۴۲۲۳۹۷ ۳۶۵ ۳۹۵،۳۴۴ ۳۶۳ 29 تاریخ اشاعت اسلام ۳۶۷۳۶۶ | دی ان نون لائف آف جیزس کرائسٹ شیر کشمیر تاریخ اقوام عالم تاریخ اقوام کشمیر تاریخ بائکول Fyr ۷۱۲۶۶۸ ،۴۲۶،۳۲۴۴۲۳۳۷ The unknown life of ) christ ۳۶۴ دی پر میچنگ آف اسلام تاریخ جد و جهد تربیت کشمیر ۲۸۹ دی کشمیر آف شیخ محمد عبد الله jesus) صحیفہ زرین م طبری ۲۳۴ طبقات كبير عرب دنیا ۱۱۵ فغان کشمیر تاریخ سیالکوٹ ۱۷۵ دی کیس آف دی مسلم ۴۲۳،۴۲۲ تاریخ قدیم تاریخ کلیسیا ۳۶۴ تاریخ بهند ۳۴۲ ذکر اقبال ۱۱۶،۱۰۳۸۲، ۱۱۸، قدیم تاریخ ہند ۲۵۰، ۷۱۲،۳۶۷ کاشمیر ۳۲۹ راج ترنگنی ۳۳۰۳۲۹ ۳۳۴، کامیاب زندگی کا تصور ۳۶۴،۳۶۳ تاریخ ہند و پاک تحریک آزادی ۱۱۵ ۱۱۶ رتناگر 11+ ،۴۹۹،۴۲۸ ،۴۲۴ ،۳۶۸ کشمکش ۳۶۳۳۴۵ ، ۱۳۹،۶۳۷ ،۶۳۶۰۵۲۱۵۰۸ ،۵۰۰ ۳۶۳ ،۳۳۰،۳۲۹ تمدن هستند تمدن عرب My ۴۹۷ pop جیزس ان بیون آن ارتھ ۳۶۳ روزگار فقیر ۴۲۲۳۶۴ روسین پلگر مز آف یروشلم ۳۴۷ کشمیر اور جونا گڑھ کی کہانی زاد المعاد ( Jesus in heaven on | سراج الملوک 一堆 a r t ۱۱۳ کشمیر کی تحریک آزادی ۳۶۴ گاندھی این آئی تو ہم نو E سرگزشت (۱۱۷،۱۰۵ ۱۷۳۱۷۰،۱۱۸، مختصر تاریخ بائییل ۳۶۶۰۳۶۴ ۱۷۴، ۴۹۷،۳۲۶،۲۳۷ مختصر تاریخ جموں و ریاستہائے مفتوحہ ۳۶۶،۳۲۹ سلطنت مغلیہ میں سیر و سیاحت حیات محمد علی جناح ۱۱۷۱۵ سوانح سید عطا اللہ شاہ بخاری ختائی نامه خدا کی سلطنت ۳۳۷ مہاراجہ گلاب سنگھ بہادر مختصر تاریخ کشمیر ۱۷۳۱۱۶ مسلمانان ہند کی حیات سیاسی ۳۶۶ سیاست کشمیر پر ایک نظر ۷۲۱،۴۹۸ ۲۴۸ ،۱۱۸ ،۱۱۷ ،۱۵،۱۰۷۸ خطبات ابوالکلام آزاد 110 سیاست ملیه خونها به کشمیر ۱۱۵ مسلمانان کشمیر اور ڈوگرہ راج ۳۵۳، ۳۶۷ سید عطاء اللہ شاہ بخاری ۱۷۴ مسلم ثقافت ہندوستان میں دو تو میں اور کشمیر ۷۸۹ ۷۲۱ سیرت النبی از علامه شیلی ۱۱۳ مقدمه تاریخ ہند قدیم ری انٹیگریشن آف دی انڈین سٹیٹس سیرت محمد علی ۱۱۶ ۳۲۳۱۱۷ معجم البلدان ( The integration of the | سیکرڈ آف دی الیسٹ states india | شاہنامہ اسلام ۳۵۲ شباب کشمیر ۳۶۵ | مکاتیب اقبال (حصہ اول) ۱۳۹ مکاتیب سفر از بنگال تا انگلستان م ۵۱۰ سم ۳۶۴۳۶۳ ١٣ 416 ۳۳۷
30 مکمل تاریخ کشمیر ۳۶۳۳۳۱، تعلیمات مرزا ۵۰۳،۳۲۷،۳۹۶ خطبات احرار مولانا محمد علی بحیثیت تاریخ اور تاریخ ساز فیصلہ مرزا میخانه درد میری زندگی ( از شهرو) نائن ٹر بلڈ پر 16+ ٣١٩ for ۲۵۰ شہر ور پورٹ - ۱۵۶٬۸۲۲۶۴ ۱۵۹،۱۵۷ ہند و سکھ لٹریچر آریہ یا ٹھیک لیکھرام بھوشیہ مہایران ۳۱۴ اخبار ا کالی.امرتسر ۱۷۴ اخبار الاستقلال.ارجنٹائن ۱۷۲ ۱۴ اختبار الامان - دیل - ۱۴۸ ۳۰۷ اخبار الانصار ۳۱۹ | اخبار الجمعیت.دیلی ۰۳۴۶،۳۴۴ اخبار القلیل - دیلی ۳۶۵ اخبار الضیاء.نہر بھائی رنگیلا رسول ۵۴۶،۱۳۱،۲۹ رساله الفرقان ( فضل عمر نمبر ) ہند و سامراج اور کشمیر هنگامه کشمیر ۳۶۷ ستیارتھ پرکاش یادگار در بار تا جوش ورتمان یسوع روم میں ۳۲۱ ۳۴۲ ۱۶۵ ۲۹ ۱۳۸۰۴۰ ۳۰۸ •A HAY اخبار الفضل (سیرت نمبر ) ۱۳۵،۳۳ اخبارات ورسائل اخبار الفضل قادیان عربی لغت اخبار ارید وی.لاہور مفردات امام راغب ۱۰۷ اخبار آزاد.لاہور ۱۰۷ اخبار آفتاب بیٹی رساله آواز حق مظفر آباد اخبار احسان لاہور لسان العرب تسهيل العربية انسائیکلو پیڈیا اسلامی سائیکلو پیڈیا انسائیکلوپیڈیا بریلی کا انسائیکلو پیڈیا تاریخ عالم ۱۰۹ رسالہ ادبی دنیا.لاہور ۳۲۸ ۳۳۴ اخبار اردو اخبار ناگپور ۳۶۴ اخبار الیاسمین کلکتہ بین الاقوامی معلومات اور حالات حاضرہ Fyr اخبار اسلامی دنیا.قاہرہ کتب مخالفین سلسله اخبار اصلاح سرینگر ۳۲۲۲۷۱ 0917.۱۷۵،۱۷۴ ۲۴۰ ۴۲۶،۴۲۵ 196.1+A ۲۶۱۲۲۵۹ FAY PY ١١١،٣٩ ۴۲۴ ،۳۸۱۰۷۵ ۲۴۲ ۱۳۸۸۰۲۵۲ ۳۶۶۴۰۶۴۱۰۶۴۰۰ ۴۲۷ ،۴۲۵ ، ۴۱ MAZ ارمغان قادیان تاریخ احرار ۵۰۲٬۵۰۱۰۱۷۴۱۵۹،۱۱۹ تحریک قادیان (حصہ اول) 0++ PALP12 ۱۳۹۷:۳۹۶,۳۹۲٬۳۸۵،۳۷۰۲۹۹ ۴۷۴۶۵ ،۴۶۵،۴۳۳۳۹۹ 1.A اخبار ام القری مکہ مکرمہ.اخبار انصاف راولپنڈی ۷۲۳۴۲۵ اخبار انقلاب لاجور ، ۱۰۸,۱۰۵، ۱ ۲۱۸،۲۰۹۱۹۹۰۱۷۳۱۴۸ ،۱۳۷ ،۱۱۲ ۱۳۹۱،۳۸۴۲۳۸۲،۳۷۰،۳۰۷ ،۲۲۸ ،۴۳۵،۴۳۴،۳۹۹۰۳۹۷،۳۹۶،۳۹۲ ،۵۰۰،۴۹۸،۴۷۴۲۴۷۱۴۶۳۴۶۱ ،۵۵۴،۵۳۸،۵۳۷،۵۳۲۵۳۱،۵۰۵ اخبار اہل حدیث.امرتسر اخبار پارس.لاہور اخبار پرتاپ.لاہور رسالہ پریت لڑی ۵۰۲۱۷۰،۱۳۸ ،۱۳۳ flld A 14A 4,79A
31 رسالہ پنجاب ریویو اخبار پیشوا.دہلی اخبار پیغام صلح ۳۵۷ ۱۱۱،۴۰.01.rm ۱۳۷، ۱۳۸ اخبار سرمور گزٹ رسالہ حکایت.لاہور اخبار سفینہ.لاہور ۳۵۸ 192/990 رسالہ حمایت اسلام.لاہور ۲۸۷ اخبار سلطان - کلکتہ ۱۱،۱۰۸،۵۷ ۱۲۱۱۳، ۱۴۳، ۴۳۳۱۴۸ | اخبار خادم المومنین اخبار سلطنت و ملی ۴۱۹ ،۴۶۵ اخبار پیغام عمل.فیروز پور اخبار تازیان لاہور رسالہ شہرہ.لاہور رسالہ حمید الاذہان.ربوہ میگزین تعلیم الاسلام IPA IPA 616 IAF ۳۷ اخبار خاور لاہور ۳۳۹،۲۰۷ اخبار سنڈے ٹائمنر لنڈن ۴۶۱ اخبار خلافت بھی اخبار دور جدید - لاہور ۱۴۹۱۸ میگزین تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان ۱۰۴ کن رائز.لاہور ۲۲۸ اخبار سوشل ریفارمر بمبئی ،٣٩٢،٣٤٠ اخبار وی امرت بازار پتر کا.کلکتہ اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ.لاہور 彎 ۶۵۷ ،۶۴۴۹۴۲،۵۷۳۱۱۶۱۰۸ Arzall ۲۰۱۱۱۵ اخبار سیاست - لاہور اخبار توحید - کراچی ۱۸۴،۱۸۳،۱۰۸ اخبار تعمیر.فیض آباد اخبار دی انگلش مین ۱۳۷ اخبار دیش سیوک - جمول 674964 اخبار تعظیم.امرتسر ۱۰۵۰۸ اخبار دی مسیح سیلون ۲۹۷۲۹۵ اخبار تعلیم پشاور ۶۹۷ اخبار ڈیلی ٹیلیگراف.لنڈن الانم 州 اخبار ڈیلی ٹیلی گراف انگلستان اخبار تیج والی ۵۹۵ | اخبار سیاست جدید کانپور ۱۳۷ اخبار شہاب.راولپنڈی ،۶۳۶،۵۳۳۵۴۱،۵۳۷ ،۵۲۱۷۵۰۱ ۶۵۱۶۵۰ ۴۳۳۲۸۸ ۱۴۸ PTA ۲۸۴،۱۳۷ IA 3 % ۶۶۵ ۲۳۰ اخبار ڈیلی نیوز شکاگو رسالہ تھودن.سیلون ۲۹۶۰۲۹۵ اخبار رشی.امرتسر اخبار ٹائمنر آف انڈیا اخبار تر ہون.لاہور ۱۹۹ تا ۲۰۳ ریاست دیلی ۱۸۳۳۱۸۲ رساله یو یو آف ریلیجنز (انگریزی) اخبار طاقت.سیالکوٹ ۱۷۰ اخبار شہباز.لاہور ۱۱۳ اخبار را ہنما.راولپنڈی ۷۳۲ اخبار صحیفه حیدر آباد دکن <+ ۱۷۲۱۰ اخبار صدق جدید لکھنو ۱۱۲ رساله طلوع اسلام.کراچی ۱۱۹ ۱۳۳۷ رساله یو یو آف ریلیجنز (اردو) اخبار عادل دیلی ۲۳۴۱۰۸ اخبار فاروق - قادیان Po Hy رسالہ جامعہ احمدیہ رساله جامعی احمد یہ (سالنامه) اخبار جسٹس - مدراس اخبار جواب مباہلہ رسالہ زمانہ کانپور اخبار چودھویں صدی.راولپنڈی.۳۲۲۳۷۰۳۵۸ اخبار زمیندار.لاہور ۳۴ ۵۶۰۴۰۰، رساله فرقان - قادیان ۱۱۶، ۱۳۷، ۱۴۸، ۱۷۴۱۵۹ ۳۳۰۰ ۴۳۳۰، رسالہ قائد اعظم.سیالکوٹ اخبار حق.اخبار حقیقت لکھنو اخبار سچ لکھنو ۱۳۷ ،۲۹۵ ، اخبار قدیم.گیا جنوبی ہند ۱۸ اخبار کشمیر میگرین ۶۹۶ ۳۲۰ 1+A‹l+O ۷۰۸ ۲۶۶ ٣٧٠
32 ۶۳۶،۴۸۲۲۴۸۰۴۱۱،۳۸۶,۳۶ ،۱۳۵۰۱۱۲،۱۱۱ ۴۳۴۳۲۰،۱۳۸،۱۳۹ IPA ۳۶۷۳۶۳ 140 ۴۲۵،۳۶۳ ۴۲۳ 792 ۴۹۷ I-A ۴۶۱ ،۱۱۱،۳۸ اخبار کشمیری گزٹ.لاہور ۱۳۹،۱۳۷ اخبار مت.لاہور - رساله کشمیری اخبار ۳۹۲۳۷۰ | اخبار منادی.دیالی اخبار کشمیری.لاہور اخبار کیپ ٹائمٹر.جنوبی افریقہ اخبار گورو گھنٹال.لاہور رسالہ لاہور ۵۰۰،۴۷۶ ۱۷۲ اخبار مونس.اٹاوہ اخبار نصرت.لاہور اخبار نظام.لاہور ۶۳۶۰۵۰۲۴۹۹، ۶۳۹،۶۳۸ رساله نقوش رساله لولاک (فیصل آباد ) ۷۲۱ اخبار نوائے کشمیر کوٹلی اخبار لائٹ.لاہور ۲۰۳ | اخبار نوائے وقت.لاہور اخبار مارتنڈ.سرینگر ۶۷۸ ، ۶۸۱ ، اخبار نور.قادیان ۷۲۰ | رسالہ نیرنگ خیال.لاہور ۴۶۱ اخبار نیئر ایسٹ لندن اخبار مارننگ پوسٹ - لندن اخبار مباہلہ ۱۸۶،۱۸۵،۱۷۲،۱۴۶ | اخبار وکیل.امرتسر اخبار محسن ملتان ۱۳۵، ۱۳۷ اخبار وکیل - سرینگر ۱۱۱،۳۷ اخبار ہدایت کشمیر اخبار مخیر.اودھ YZA ۱۳۷، ۱۴۸، اخبار ہمارا کشمیر مظفر آباد ۴۲۷۲۴۲۵ اخبار مدینہ بجنور ۰۲۱۴۶۲ I-A ۱۴۸،۱۳۷ ۴۳۴،۲۱۹،۱۷۱ ۶۴۰ ۴۹۷ رسالہ ہمایوں.لاہور اخبار ہمت لکھنو اخبار ہمدرد - سرینگر اخبار دم لکھنو اخبار سینگ انڈیا 12M ۲۳۰ ۱۴۸،۵۸ ٣٩٢,٣٩١،٣٧٠ ۱۷۳۱۵۴ Afflalled ،۴۹۷ ،۱۰۵ ۴۹۹ I+A ۳۲۲۱۷۲۶ اخبار مسلم آواز - کراچی اخبار مسلم آؤٹ لک اخبار مسلم را جیوت رسالہ مسلم ورلڈ اخبار مشرق.گورکھپور رساله مصباح - قادیان رسالہ معارف اعظم گڑھ اخبار ماپ.لاہور